Language: UR
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے تحریک جدید کے قیام، اغراض و مقاصد اور عالمگیر ترقیات متعلق خطبات، خطابات اور ارشادات پر مشتمل یہ کتاب وکالت الدیوان تحریک جدید انجمن احمدیہ کی مرتب کردہ ہے۔پہلی تین جلدوں میں خلافت ثانیہ کے دور کا مواد جمع کیا گیا ہے۔
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم ارشادات حضرت خلیفہ اسیح الثانی نوراللہ مرقدہ بابت تحریک جدید ۱۹۴۰ء تا ۱۹۴۷ء
بسم الله الرحمان الرحيم پیش لفظ خلافت احمدیہ کی بے شمار برکات میں سے ایک تحریک جدید بھی ہے.یہ حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ کے ان احسانات میں سے ہے، جو آپ نے جماعت پر کئے.اللہ تعالیٰ آپ پر اپنا خاص فضل فرمائے اور جماعت کو ہمیشہ خلافت کی برکت سے مستفیض فرماتا رہے.آمین یہ خالصہ ایک الہی تحریک ہے ، جو مشیت ایزدی سے جاری کی گئی.جیسا کہ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں:.وو میں نے کہا ہے کہ میں نے تحریک جدید جاری کی مگر یہ درست نہیں.میرے ذہن میں یہ تحریک بالکل نہیں تھی.اچانک میرے دل پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ تحریک نازل ہوئی.پس بغیر اس کے کہ میں کسی قسم کی غلط بیانی کا ارتکاب کروں میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ تحریک جدید جو خدا نے جاری کی.میرے ذہن میں یہ تحریک پہلے نہیں تھی ، میں بالکل خالی الذہن تھا.اچانک اللہ تعالیٰ نے یہ سکیم میرے دل پر نازل کی اور میں نے اسے جماعت کے سامنے پیش کر دیا.پس یہ میری تحریک نہیں بلکہ خدا تعالی کی نازل کردہ تحریک ہے.ایک اور موقع پر فرماتے ہیں:.وو خطبه جمعه فرموده 27 نومبر 1942 ء ) یہ اس کا کام ہے اور اسی کی رضا کے لئے میں نے یہ اعلان کیا ہے.زبان گومیری ہے مگر بلاوا اسی کا ہے.پس مبارک ہے وہ، جو خدا تعالی کی طرف سے بلاوا سمجھ کر ہمت اور دلیری کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اور خدا تعالی رحم کرے اس پر ، جس کا دل بزدلی کی وجہ سے پیچھے ہوتا ہے.(خطبہ جمعہ فرمودہ 24 نومبر 1944 ء)
تحریک جدید کی غرض وغایت بیان کرتے ہوئے فرمایا:- وو تحریک جدید کی غرض بھی یہی ہے کہ وہ لوگ جو اس کے چندہ میں حصہ لیں، خدا ان کے ہاتھ بن جائے ، خدا ان کے پاؤں بن جائے ، خدا ان کی آنکھیں بن جائے اور خدا ان کی زبان بن جائے اور وہ ان نوافل کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے ایسا اتصال پیدا کر لیں کہ ان کی مرضی ، خدا کی مرضی ، ان کی خواہشات ،خدا کی خواہشات ہو جائیں“.تحریک جدید کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.(خطبہ جمعہ فرمودہ 20 جون 1941ء) بیس تحریک جدید کسی ایک سال کے لئے نہیں ، دو سال کے لئے نہیں، دس سال کے لئے نہیں ہیں سال کے لئے نہیں ، سو سال کے لئے نہیں، ہزار سال کے لئے نہیں.تحریک جدید اس وقت تک کے لئے ہے، جب تک جماعت کی رگوں میں زندگی کا خون دوڑتا ہے.جب تک جماعت احمد یہ دنیا میں کوئی مفید کام کرنا چاہتی ہے.اور جب تک جماعت احمد یہ اپنے فرائض اور اپنے مقاصد کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھنا چاہتی ہے.تحریک جدید در حقیقت نام ہے، اس جدو جہد کا جو ہر احمد کی کو احمدیت اور اسلام کی اشاعت کے لئے کرنی چاہیے.تحریک جدید نام ہے، اس جد و جہد کا جو اسلام اور احمدیت کے احیاء کے لئے ہر احمدی پر واجب ہے.اور تحریک جدید نام ہے، اس کوشش اور سعی کا جو اسلامی شعار اور اسلامی اصول کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے ہماری جماعت کے ذمہ لگائی گئی ہے.روپیہ کا حصہ صرف ایک ظاہری نشانی ہے کیونکہ اس زمانہ میں کچھ نہ کچھ دولت خرچ کئے بغیر کام نہیں ہوسکتا.ورنہ در حقیقت تحریک جدید نام ہے، اس عملی کوشش کا جو ہر احمدی اپنی اصلاح اور دوسروں کی اصلاح کے لئے کرتا ہے.ہر وہ احمدی ، جس کے سامنے تحریک جدید کے مقاصد نہیں رہتے ، درحقیقت وہ اپنی موت کا ثبوت بہم پہنچاتا ہے یا اپنی زندگی کے لئے کوئی کوشش کرنا پسند نہیں کرتا.خدائی سلسلے در حقیقت انسانوں کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ انسان خدائی سلسلوں کے محتاج ہوتے ہیں.خطبہ جمعہ فرمودہ 28 نومبر 1947 ء )
وو تحریک جدید کے ذریعہ قرب الہی کے حصول کے متعلق فرمایا : - پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے قرب میں آگے بڑھنے کا تحریک جدید کے ذریعہ جو عظیم الشان موقع عطا فرمایا ہے، اس کو ضائع مت کرو.آگے بڑھو اور خدا تعالیٰ کے ان بہادر سپاہیوں کی طرح، جو جان اور مال کی پرواہ نہیں کیا کرتے ، اپنا سب کچھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دو اور دنیا کو یہ نظارہ دکھا دو کہ بیشک دنیا میں دنیوی کامیابیوں اور عزتوں کے لئے قربانی کرنے والے لوگ پائے جاتے ہیں.لیکن محض خدا کے لئے قربانی کرنے والی جماعت ، آج دنیا کے پردہ پر سوائے جماعت احمدیہ کے اور کوئی نہیں.اور وہ اس قربانی میں ایسا امتیازی رنگ رکھتی ہے، جس کی مثال دنیا کی کوئی اور قوم پیش نہیں کر سکتی.(مخطبہ جمعہ فرموده 26 نومبر 1943ء) مجاہدین تحریک جدید کے لئے دعاؤں کی تحریک کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.جولوگ اس کام میں حصہ لے رہے ہیں، وہ اشاعت دین کی ایک مستقل بنیاد قائم کر رہے ہیں.اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس میں کامیاب کر دیا تو وہ عملی طور پر اس بنیاد کو قائم کرنے والے ہوں گے اور اگر میری ان کوششوں میں اللہ تعالیٰ کی کسی حکمت کے ماتحت کامیابی نہ ہوئی ، تب بھی خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ ایسے ہی سمجھے جائیں گے جیسے مستقل بنیاد رکھنے والے.پس ایسی قربانی کرنے والے دوست اس بات کے مستحق ہیں کہ جماعت کے تمام لوگ ان کے لئے دعا کریں.جو لوگ تحریک جدید میں حصہ نہیں لے رہے، اپنی مجبوریوں کی وجہ سے یا اس وجہ سے کہ یہ طوعی تحریک ہے اور اس میں شمولیت انہوں نے ضروری نہیں سمجھی.ان کا کم سے کم فرض یہ ہے کہ وہ تحریک جدید میں حصہ لینے والوں کے لئے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کو قبول فرمائے ، ان کے قدم کو نیکیوں میں بڑھائے اور ان کا انجام بخیر کرئے.تحریک جدید کے غیر محدود ادوار کے متعلق فرمایا: - وو (خطبہ جمعہ فرموده 18 اکتوبر 1940ء) ہم امید رکھتے ہیں کہ تحریک جدید کے یہ دور غیر محدود ہوں گے اور جس طرح آسمان کے ستارے گنے نہیں جاتے ، اسی طرح تحریک جدید کے دور بھی گئے
نہیں جائیں گے.جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم سے کہا کہ تیری نسل گئی نہیں جائے گی اور حضرت ابراہیم کی نسل نے دین کا بہت کام کیا.یہی حال تحریک جدید کا ہے.تحریک جدید کا دور چونکہ آدمیوں کا نہیں بلکہ دین کے لئے قربانی کرنے کے سامانوں کا مجموعہ ہے.اس لیے اس کے دور بھی اگر نہ گنے جائیں تو یہ ایک عظیم الشان بنیا د اسلام اور احمدیت کی مضبوطی کی ہوگی“.جماعت کو خوشخبری دیتے ہوئے ، بانی تحریک جدید فرماتے ہیں:- وو خطبہ جمعہ فرموده 22 فروری 1946 ء ) تم سمجھ لو کہ یہ تحریک قیامت تک جاری رہے گی.اور اللہ تعالیٰ تمہیں اس کے ذریعہ ایسی قوت اور طاقت عطا کرے گا کہ دنیا کا تم کو تباہ کرنا تو الگ رہا تمہارے مقابل پر کھڑا ہونا بھی اس کے لئے ناممکن ہو جائے گا“.(خطبہ جمعہ فرمودہ 19 جولائی 1946ء ) تحریک جدید تبلیغ احمدیت کے لئے ایک بنیاد کے طور پر ہے، اس لئے ہمیں چاہیے کہ خود بھی تحریک جدید پر عمل پیرا ہوں اور دوسروں سے بھی اس پر عمل کرائیں.اور تحریک جدید میں صرف حصہ لینے والے نہ ہوں بلکہ اس نام کے پیچھے جو روح کام کر رہی ہے، کو زندہ رکھنے والے ہوں اور اس کے مطابق عمل کرنے والے ہوں.آمین محض اللہ تعالی کے فضل اور حضرت خلیفہ المسح الامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعاؤوں اور منظوری سے صد سالہ خلافت جوبلی کے موقع پر تحریک جدید سے متعلقہ خلفاء کرام کے خطبات ، خطابات اور ارشادات کو تحریک جدید.ایک الہی تحریک کے نام سے کتابی شکل میں شائع کرنے کی توفیق پارہی ہے.الحمد للہ علی ذالک.اس سلسلہ میں اس کتاب کی پہلی جلد، جو 1934ء تا 1939ء کے خطبات ، خطابات اور ارشادات پر مشتمل تھی، شائع ہو چکی ہے.یہ اس سلسلہ میں اس کتاب کی دوسری جلد ہے.جو 1940ء تا 1947ء کے خطبات، خطابات اور ارشادات پر مشتمل ہے.اسی طرح مجالس شورای کی رپورٹس سے بھی متعلقہ مواد شامل کیا گیا ہے.مجالس شوری کے علاوہ باقی مواد کو تاریخ وار رکھا گیا ہے.جبکہ مجالس شورای کی ر پورٹس سے متعلقہ مواد ہر سال کے آخر پر درج کیا گیا ہے.و
فرمایا.خصوصا خاکسار ان تمام احباب کا شکر گزار ہے جنہوں نے اس کتاب کے مختلف مراحل میں تعاون فرماتے ہوئے اپنی قیمتی ہدایات سے نوازا.کتاب کی ترتیب و تدوین بی خصوصی محنت کا نتیجہ ہے.اسی طرح جنہوں نے ہر مرحلہ پر رہنمائی کے کارکنان بھی مختلف مراحل میں شامل رہے، اللہ تعالیٰ ان سب کو بہترین جزا عطا فرمائے.آمین.فجزاهم الله تعالى احسن الجزاء.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کوشش کو با برکت کرے، اس کو قبول فرمائے ، اس کو نافع الناس بنائے اور ہم کو ان ارشادات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین
تاریخ فرموده صفحه نمبر i 01 05.01.1940 03 20.01.1940| 09 05.04.1940 19 26.04.1940 25 07.06.1940 29 02.08.1940 33 18.10.1940 37 08.11.1940 78 45 29.11.1940 63 27.12.1940 65 03.01.1941 67 24.01.1941 عناوین * 1940 احمد بیت ہی دنیا کی مشکلات کو دور کرنے کا واحد ذریعہ ہے اپنے بیٹوں کی قربانی کرو تا کہ تمہیں بھی حقیقی عید کا دن دیکھنا نصیب ہو ان قربانیوں کے بدلہ میں تو خدا ملتا ہے اس وقت تبلیغ کا جہاد ہر مومن پر فرض ہے تحریک جدید کے متعلق جلسے کروانے کا مقصد قربانی کے بغیر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہونا نا ممکن ہے تحریک جدید کے کاموں میں حصہ لینے والوں کے لئے دعا کی تحریک اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلے خدائی مدد پر چلتے ہیں کسی انسان کی وجہ سے نہیں ایمان کا دھواں عمل ہے تحریک جدید کے متفرق امور کا ذکر * 1941 چندہ تحریک جدید کے وعدہ جات روحانی جماعتوں کی ترقی محض خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتی ہے نمبر شمار 01 02 03 04 05 06 07 08 09 10 11 12
73 28.02.1941 81 20.06.1941 95 24.07.1941 99 25.07.1941 113 21.11.1941 117 28.11.1941 131 05.12.1941 137 19.12.1941 139 27.12.1941 145 13.04.1941 اخلاق فاضلہ کا پیالہ دلوں میں رکھو تحریک جدید کی غرض اسلام اور احمدیت کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کرو تمہاری خوشبو سارے ملک میں پھیل جائے آج دنیا کے پردہ پر صرف احمد یہ جماعت ہی اسلام کی تبلیغ کر رہی ہے ألم يأن الذين امنوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ جب بھی کوئی دینی تحریک ہو فور ادعاؤں میں لگ جائیں وقف زندگی چند اہم امور کے متعلق ارشادات یہ دن بہت نازک ہیں دوستوں کو چاہیے کہ وہ دن رات دعائیں کریں 147 09.01.1942 163 23.01.1942 169 30.01.1942 171 20.03.1942 173 15.05.1942 177 24.07.1942 179 28.08.1942 183 25.09.1942 187 02.10.1942 189 16.10.1942 197 27.11.1942 219 04.12.1942 225 03.04.1942 * 1942 اپنی نیتوں کو درست کرو، اپنے ارادوں کو نیک بناؤ اور اپنی کمروں کو کس لو تحریک جدید تبلیغ اسلام کے لئے ایک مستقل فنڈ کام کرنے والی قوموں کا ہر قدم پہلے کی نسبت آگے پڑتا ہے مبلغین نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر ہمارے بوجھ کو اٹھا لیا ہے تمہارے قلوب خشیت الہی سے بھر جانے چاہئیں قربانیاں قوموں کا سانس ہوتی ہیں تم خون کی ندیوں میں چلنے کے لئے تیار رہو 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 جماعت کا فرض ہے کہ مبلغین کی قدر کرے تبلیغ کے میدان جنگ کے لئے ذکر الہی آرسنل اور فیکٹری ہے ہماری جماعت کو اللہ تعالی نے ترقی کے لئے جو ہتھیار بخشا ہے، وہ تبلیغ ہے یہ میری تحریک نہیں بلکہ خدا تعالی کی نازل کردہ تحریک ہے سب قربانیاں دلوں کے بدلنے سے ہی ہوتی ہیں اپنے مبلغ بھائیوں کے لئے دعائیں کریں 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 ==
36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 * 1943 تحریک جدید کے چندوں میں زیادتی کریں تحریک جدید کے اختتام پر خاص ظہور اللہ تعالیٰ کے محبت کے جام کے مقابلہ میں کون سی قربانی اہم کہلا سکتی ہے؟ تحریک جدید در حقیقت اسلام کے احیاء کا نام ہے پہلی قوموں سے اچھا نمونہ دکھانے کی کوشش کریں وقف کے لئے نام پیش کرنے والے قیامت تک وقف ہیں اسلام کی فتح اور مسلمانوں کا غلبہ محض تبلیغ سے وابستہ ہے ایک ضروری اعلان تحریک جدید کے ذریعہ قرب الہی کے عظیم الشان موقع کو ضائع مت کرو $1944 دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ ہم اپنی ہر چیز اپنے رب کے پاؤں پر قربان کر دیں اللہ تعالیٰ کے نور پر فدا ہونے کے لئے تیار ہو جاؤ قربانی و ہی فائدہ دے سکتی ہے، جو بشاشت کے ساتھ کی جائے زندگی وہی ہے، جو خدا تعالی کی راہ میں خرچ ہو احباب جماعت اور واقفین زندگی کو ایک اہم نصیحت روز جزا قریب ہے اور رہ بعید ہے اسلام کی فتح کی جنگ اب قریب آرہی ہے واقف زندگی کا کوئی اپنا کام کرنا بغیر معاوضہ کے تبلیغ کریں چاہے درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کرنا پڑے تبلیغ کے مختلف ذرائع بے شک یہ لڑائی کا بنگل نہیں مگر پریڈ کا بگل ضرور ہے 227 01.01.1943 229 08.01.1943 231 22.01.1943 239 30.04.1943 253 10.09.1943 255 01.10.1943 261 12.11.1943 263 19.11.1943 265 26.11.1943 275 28.01.1944 277 10.03.1944 283 17.03.1944 287 24.03.1944 297 31.03.1944 325 10.04.1944 333 14.04.1944 339 28.04.1944 341 30.04.1944 343 01.05.1944 353 01.05.1944 361 05.05.1944 :=
367 07.05.1944 371 19.05.1944 375 26.05.1944 379 21.07.1944 381 04.08.1944 389 19.09.1944 391 20.09.1944 393 20.10.1944 407 27.10.1944 415 03.11.1944 425 10.11.1944 443 22.11.1944 449 24.11.1944 473 01.12.1944 485 08.12.1944 487 08.04.1944 491 09.04.1944 501 09.04.1944 509 05.01.1945 521 19.01.1945 533 18.02.1945 537 09.03.1945 543 05.05.1945 عراق میں تبلیغ کی اہمیت اور ضرورت آئندہ تحریک جدید میں شامل ہونے والوں کے لئے شرائط وقف کی حقیقت کو سمجھیں وقف جائیداد والی سکیم تو آخری سہارا ہے یہ زمانہ ٹھہرنے کا نہیں بلکہ دوڑنے اور کام کرنے کا ہے حقیقی قربانی واقف زندگی سلسلہ کی اولاد ہے تراجم قرآن کریم اور دوسر تبلیغی لٹریچر شائع کرنے کی سکیم دین کی جو عمارت بنے گی ، اس میں ہماری حیثیت روڑی کی ہے تراجم قرآن مجید اور لٹریچر کے خرچ کی علاقہ وار تقسیم تحریک جدید تبلیغ احمدیت کے لئے ایک بنیاد کی طرح ہے خود بھی تحریک جدید پر عمل پیرا ہوں اور دوسروں سے بھی اس پر عمل کرائیں زبان گومیری ہے مگر بلاوا اسی کا ہے بے انتہا جوش اور بے انتہا قربانیوں کے بغیر کامیابی ممکن نہیں مومن بات کی غرض و غایت کو دیکھتا ہے واقف زندگی کی وجہ سے اس کے خاندان کو رزق ملے گا اس تحریک کی بنیاد آدمیوں پر ہے، روپیہ پر نہیں وقت آگیا ہے کہ اپنی ہر چیز خدا تعالی کی راہ میں قربان کر دیں * 1945 واقفین زندگی ہی دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عترت ہیں ہر ضرورت کے موقع پر اپنا رو پید اور جانیں پیش کیے بغیر کامیابی نہیں ہو سکتی ساری دنیا پر نظر کر کے تبلیغ کے لئے مناسب علاقہ تلاش کریں جماعت کا ہر دوست اچھی طرح سمجھ لے کہ امتحان کا وقت آگیا ہے جنگ عظیم تحریک جدید کا ایک ظہور 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 76 77 78 79 iv
547 08.05.1945 551 08.05.1945 553 11.05.1945 561 01.06.1945 567 08.06.1945 571 22.06.1945 575 24.08.1945 585 07.09.1945 595 21.09.1945 597 05.10.1945 615 12.10.1945 629 02.11.1945 645 23.11.1945 653 30.03.1945 655 25.01.1946 677 01.02.1946 683 15.02.1946 691 22.02.1946 695 27.02.1946 697 08.03.1946 701 22.03.1946 711 12.04.1946 733 26.04.1946 V اس وقت ہر پہلو سے احمدی نو جوانوں کو قربانی کرنے کی ضرورت ہے دنیوی جنگ کے مقابلہ میں دینی جنگ کے لئے زیادہ قربانیاں کریں کمر ہمت باندھ لو اور مقصود تک پہنچنے کے لئے سارا زور لگا دو قربانی قوموں کی زندگی کا معیار ہے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو مزید قربانیوں کی طرف بلانا چاہتا ہے اللہ تعالٰی کے نشانات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قربانیوں میں آگے بڑھو جماعت ایک نازک ترین دور میں سے گزرنے والی ہے ہم نے اللہ تعالی کی بادشاہت کو دنیا میں قائم کرنا ہے اس وقت ہمیں ہستی باری تعالیٰ کو ثابت کرنا ہے صنعت اور تجارت کے لئے اپنی زندگی وقف کریں ہمیں اس وقت تجارت کرنے والے ہزاروں نوجوانوں کی ضرورت ہے مختلف علاقوں میں تبلیغ اور وقف تجارت سے متعلق چند باتیں اس وقت اسلام کا جھنڈا بلند کرنا ہماری جماعت کے سپرد کیا گیا ہے تبلیغ کی دو حصوں میں تقسیم * 1946 سلسلہ کے کاموں کو عظیم الشان طور پر چلانے کا وقت آگیا ہے عرش پر بیٹھا خدا تمہیں اپنے دین کی خاطر قربانی کرنے کے لئے بلاتا ہے اپنے اندر تبدیلی پیدا کر کے اپنے آپ کو اس کے فضلوں کے مستحق بنائیں آسمان کے ستاروں کی طرح تحریک جدید کے دور بھی غیر محدود ہوں گے مرکز اور جماعت کے پھیلاؤ میں تناسب نہایت ضروری ہے اللہ تعالیٰ نے ہمارے متعلق جو حسن خلنی کی ہے، اسے پورا کریں ضرورت ہے اس امر کی کہ جماعت کی تعداد کو جلد بڑھایا جائے قیامت کو سرخرو وہی ہوں گے، جو اپنے آپ کو یا اپنے بچوں کو وقف کریں گے اب وقت ہے کہ تم دنیا داری کی روح کو بالکل کچل دو 80 81 82 83 84 85 86 87 88 89 90 91 92 93 94 95 96 97 98 99 100 101 102
739 03.05.1946 757 31.05.1946 769 14.06.1946 777 19.07.1946 783 15.11.1946 785 29.11.1946 787 13.12.1946 803 19.04.1946 807 21.04.1946 813 21.04.1946 819 13.01.1947 821 14.01.1947 825 17.01.1947 833 31.01.1947 839 07.02.1947 841 13.02.1947 845 14.02.1947 851 02.05.1947 859 09.05.1947 865 16.05.1947 867 30.05.1947 873 26.09.1947 875 17.10.1947 تبلیغ رو پید کی نہیں بلکہ ایمان اور اخلاص کی محتاج ہوتی ہے وہی خدا کے محبوب ہیں جو اپنی ہر چیز اس کی راہ میں وقف کر دیتے ہیں تبلیغ رحم ہے، اپنے آپ پر بھی اور ان پر بھی جو ہدایت اور نور سے محروم ہیں اللہ تعالیٰ تمہیں اس تحریک کے ذریعہ قوت اور طاقت عطا کرے گا تبلیغ ہی احمد بیت کی جان ہے قربانی کے اس دور میں ہمیں اپنا سب کچھ ہی قربان کرنا پڑے گا تمہارے لئے دین کے رستے میں قربانیاں کرنے کا یہی موقع ہے حوصلہ اور دلیری کے ساتھ ہمیشہ اپنا قدم آگے بڑھانا چاہیے مال اور جان کی قربانی پیش کیے بغیر کوئی جماعت خدا کی جماعت نہیں کہلا سکتی جماعت سے چند مطالبات $1947 اپنی زندگیاں راہ خدا میں وقف کریں ساری دنیا کو چیلنج دے کر تم خود خواب خرگوش میں محو نہیں ہو سکتے تحریک جدید کا نام نہیں بلکہ اس کے پیچھے جو روح ہے، وہ قابل عزت ہے یہ امتحان کا وقت ہے، ہمارا ہر قدم آگے بڑھنا چاہیے ہمارے سب کام اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں ہم نے دنیا کی ذہنیت ، خیالات اور رسم و رواج کو بدلنا ہے اپنے جسم کی ضروریات کی طرح، اپنی روح کی ضروریات کا بھی خیال رکھو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ تمام نعمتوں سے اس کا حصہ ادا کرنا ضروری ہے اب تک اللہ تعالیٰ ہی سب کام کرتا آیا ہے اور آئندہ بھی اسی سے امید ہے ہماری قربانیاں گزشتہ انبیاء کی جماعتوں کے مقام تک پہنچنی چاہیں جب تک ما فوق العادت کام کرنے کی روح پیدا نہ ہو، ہم ترقی نہیں کر سکتے سمجھ لو کہ آئندہ کے لئے تمہارا مال تمہارا نہیں بلکہ خدا کا ہے پس اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو اور تبلیغ پر زوردو 103 104 105 106 107 108 109 110 111 112 113 114 115 116 117 118 119 120 121 122 123 124 125 vi
vii 879 28.11.1947 889 05.12.1947 897 899 901 933 941 949 تحریک جدید کے مقاصد کو سامنے نہ رکھنا ، اپنی موت کا ثبوت بہم پہنچانا ہے اخلاص اور صرف اخلاص ہی آج کام آسکتا ہے اشاریہ آیات قرآنیہ احادیث کلید مضامین اسماء مقامات کتابیات 126 127 128 129 130 131 132 133
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم وو وو اقتباس از خطبه جمعه فرموده 05 جنوری 1940ء احمدیت ہی دنیا کی مشکلات کو دور کرنے کا واحد ذریعہ ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 05 جنوری 1940ء سیکھ.....فَلْيُبَلّغ الشَّاهِدَ الْغَائِب شاہد غائب تک اسے پہنچا دے“.میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت اگر فریضہ تبلیغ کی ادائیگی کی طرف پورے طور پر توجہ کرے تو جماعت کی ساری مشکلات چند دنوں میں دور ہو سکتی ہیں بلکہ جماعت کیا ، ساری دنیا کی مشکلات دور ہو سکتی ہیں کیونکہ احمدیت ہی ہے جو دنیا کی مشکلات کو دور کرنے کا واحد ذریعہ ہے.اگر احمدیت آج دنیا میں پھیلی ہوئی ہوتی تو جرمنی اور برطانیہ اور روس اور فن لینڈ کے جھگڑے ہی کیوں ہوتے ؟ یہ سب جھگڑے اسی لئے ہیں کہ احمدیت کی تعلیم ابھی تک دنیا میں نہیں پھیلی.پس آج دنیا کے تمام جھگڑے انتظار کر رہے ہیں، احمدیت کے انتشار اور اس کی اشاعت کا.اور دنیا کے تمام جھگڑے انتظار کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کی حکومت قائم ہونے کا.اور اللہ تعالیٰ کی حکومت دنیا میں اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتی جب تک احمدیت پھیل نہیں جاتی.پس اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور وفاداری بھی یہی چاہتی ہے کہ احمدیت کو ہم دنیا میں جلد سے جلد پھیلائیں اور بنی نوع انسان کی محبت اور ان کی خیر خواہی بھی یہی چاہتی ہے کہ احمدیت کو ہم دنیا میں جلد سے جلد پھیلائیں تا کہ جھگڑے اور فساد دور ہوں اور دنیا میں امن قائم ہو جائے“.(مطبوعہ افضل 19 جنوری 1940ء)
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبه عید الاضحیہ فرمودہ 20 جنوری 1940ء اپنے بیٹوں کی قربانی کرو تا کہ تمہیں بھی حقیقی عید کا دن دیکھنا نصیب ہو خطبہ عیدالاضحیہ فرمودہ 20 جنوری 1940ء ی عیدو جو ج کے قریب رکھی گئی ہے اس میں در حقیقت اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب جب کسی قوم کو نصیب ہو جائے تو اس کا فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کی قربانی کرے.حج کیا ہے؟ خدا تعالیٰ کی رؤیت اور اس کا دیدار.چنانچہ خواب میں اگر کوئی شخص اپنے متعلق دیکھے کہ اس نے حج کیا ہے تو اس کی تعبیر یہ ہوتی ہے کہ اس کا مقصد پورا ہو جائے گا اور انسان کی زندگی کا بڑا مقصد خدا تعالیٰ کی عبادت اور اس کا قرب حاصل کرنا ہوتا ہے.جیسے وہ فرماتا ہے:.وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ کہ میں نے بنی نوع انسان کو اپنا مقرب بنانے کیلئے پیدا کیا ہے اور حج اس بات کی علامت ہے کہ جس غرض کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا تھا وہ اُس نے پوری کر لی اور وہ غرض جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ لقاء الہی ہے.پس حج کے ساتھ عیدالاضحیہ کی تقریب رکھ کر خدا تعالیٰ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جب کسی قوم کو لقاء الہی نصیب ہو جائے تو اس کا دوسرا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کی قربانی کرے تا کہ خدا تعالیٰ کا لقادنیا سے مٹ نہ جائے.لقاء الہی ایک نہایت ہی قیمتی چیز ہے اور دنیا میں قیمتی چیزوں کے متعلق یہ دستور ہے کہ اُن کی حفاظت کا زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے.چنانچہ دیکھ لو جب تمہارے پاس کوئی اچھی چیز ہوتی ہے تو تم اس کے متعلق کیا کرتے ہو؟ تم یہی کرتے ہو کہ اس کو حفاظت سے رکھنے کے لئے برتن تیار کرتے ہو.جن لوگوں کے گھر گائے یا بھینس ہوتی ہے، ان کے متعلق بالعموم یہ دیکھا جاتا ہے کہ جب بھینس بچہ جنے والی ہو تو وہ بچہ جننے سے پہلے ہی برتن تیار کرنے شروع کر دیتے ہیں.کوئی برتن دودھ رہنے کیلئے تیار کرتے ہیں، کوئی دودھ گرم کرنے کیلئے تیار کرتے ہیں، کوئی دودھ جمانے کے لئے تیار کرتے ہیں، کوئی لسی بنانے کے لئے تیار کرتے ہیں اور کوئی مکھن اور گھی رکھنے کیلئے تیار کرتے ہیں تا کہ گائے یا بھینس جب دودھ دے تو اس وقت وقت پیش نہ آئے.اسی طرح اگر کسی کو لقاء الہی میسر آتا ہے تو 3
اقتباس از خطبہ عیدالاضحیہ فرمودہ 20 جنوری 1940ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اس کا بھی فرض ہوتا ہے کہ وہ لقاء الہی کو محفوظ رکھنے کے لئے برتن تیار کرے اور لقاء الہی کو محفوظ رکھنے کا ذریعہ اولاد کی قربانی ہے.جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے دین کے لئے اپنی اولاد کی قربانی کرتا ہے تو وہ عرفان کا دودھ اپنی نسل کے لئے محفوظ کر دیتا ہے اور جب اس نسل کو عرفان ملتا ہے اور وہ بھی اپنی اولاد کی قربانی کرتی ہے تو عرفان کا دودھ اگلی نسل میں منتقل ہو جاتا ہے.اسی طرح جب تک لوگ اپنی اولاد کی قربانی کرتے چلے جاتے ہیں اللہ تعالی کا عرفان ان کے دلوں میں محفوظ رہتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ ہمیں یہ نسخہ بتایا ہے کہ جب تمہیں خدا ملے اور اس کا قرب حاصل ہو جائے تو اس کی رحمت اور برکت کو آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ کرنے کا ایک ہی ذریعہ ہوتا ہے اور وہ یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کے لئے اپنی اولا دوں کو قربان کر دو تب اُس کی رحمت کا دودھ بعد کی نسل کیلئے محفوظ ہو جاتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ اس اولا د کو عقل دیتا ہے اور وہ بھی اپنی اولا د کی قربانی پیش کر دیتی ہے تو اس سے انگلی نسل میں بھی یہ رحمت اور فضل کا دودھ محفوظ ہو جاتا ہے.غرض جب تک نسلیں اپنی اولاد کی قربانی کرتی رہیں گی دین اور عرفان ان میں محفوظ رہے گا.ی اولاد کی قربانی دو طرح ہوتی ہے : ظاہری رنگ میں تو اس طرح کہ اپنی اولاد کی اعلیٰ تربیت کی جائے ، ان میں دین کی محبت اور اس سے رغبت پیدا کی جائے اور انہیں علم دین سے واقف کیا جائے مگر اس کے علاوہ اولاد کی ایک خاص قربانی بھی ہوتی ہے اور وہ یہ کہ انسان اپنی اولاد کو اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے وقف کر دے تا کہ جب تک وہ زندہ رہے اسلام کی خدمت کرتی رہے.قربانی کے یہ دونوں رنگ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت میں پائے جاتے ہیں اور اس وقت ایک ہماری جماعت ہی ایسی ہے جس میں خدا تعالیٰ نے وقف زندگی کے سامان کئے ہوئے ہیں.اور ایک ہماری جماعت ہی ایسی ہے جسے اولاد کی اعلیٰ تربیت کے سامان میسر ہیں.مگر کتنے ہیں جوان سامانوں سے فائدہ اُٹھاتے ہیں؟ عید کے موقع پر خوشی منانے کے لئے تو بعض لوگ سب سے آگے آجاتے ہیں لیکن اگر وہ ابراہیم علیہ السلام کی طرح خدا تعالیٰ کے دین کیلئے اپنی اولاد کی قربانی نہیں کرتے اور اسے اسلام کی خدمت کے لئے وقف نہیں کر دیتے تو اُن کا کیا حق ہے کہ وہ اس خوشی میں شامل ہوں؟ جب کہ وہ ، وہ کام نہیں کرتے جو ابراہیم علیہ السلام نے کیا تھا؟ ابراہیم علیہ السلام کی خوشی میں شامل ہونے کا اسی کو حق ہے جو ابراہیم" جیسی قربانی بھی کرتا ہے.بے شک یہ خوشی منانے کا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حق حاصل تھا ، جس نے خدا کے لئے ہر قسم کی قربانی میں حصہ لیا.بے شک یہ خوشی منانے کا عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہ کوحق تھا، جنہوں نے 4
تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه عید الاضحیہ فرمودہ 20 جنوری 1940ء ہر قسم کی قربانی میں حصہ لیا.اور بے شک یہ خوشی منانے کا طلحہ زبیر عبدالرحمن بن عوف حمزہ، عباس اور عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ کو حق حاصل تھا، جنہوں نے اپنی جانوں، اپنے مالوں ، اپنی اولادوں ، اپنے رشتہ داروں اور اپنی عزیز سے عزیز چیزوں کو خدا کے لئے قربان کر دیا.مگر دوسروں کا کیا حق ہے کہ وہ اس خوشی میں شریک ہوں؟ ایک لطیفہ مشہور ہے، کہتے ہیں نظام الدین صاحب اولیاء (جن کی طرف خواجہ حسن نظامی صاحب بھی اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں ) ایک دفعہ اپنے مریدوں کے ساتھ بازار میں سے گزر رہے تھے کہ انہیں ایک خوبصورت لڑکا نظر آیا جسے آگے بڑھ کر انہوں نے چوم لیا.یہ دیکھ کر ان کے تمام مرید ایک ایک کر کے آگے بڑھے اور انہوں نے اس بچے کو چومنا شروع کر دیا مگر ان کے ایک مرید جو بعد میں ان کے خلیفہ بھی ہوئے ، خاموش کھڑے رہے اور انہوں نے اس بچے کو نہ چوما.یہ دیکھ کر باقی سب نے آپس میں چہ مگوئیاں شروع کر دیں اور کہا کہ پیر صاحب نے اس بچہ کو چو ما مگر اس نے نہیں چوما.معلوم ہوتا ہے اس کے اخلاص میں کوئی نقص ہے.حالانکہ اسے چاہئے تھا کہ یہ پیر صاحب کی نقل کرتا اور جس طرح پیر صاحب نے اس بچہ کو چوما تھا اسی طرح یہ بھی چومتا.اس نے ان باتوں کو سنا مگر کوئی جواب نہ دیا اور حضرت نظام الدین صاحب اولیاء پھر آگے چل پڑے.چلتے چلتے انہوں نے ایک بھٹیاری کو دیکھا کہ وہ دانے بھون رہی ہے اور بھٹی میں سے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں.حضرت نظام الدین صاحب اولیاء آگے بڑھے اور انہوں نے آگ کے ان شعلوں کو چوم لیا.یہ دیکھ کر اور تو کسی مرید نے آگے بڑھنے کی ہمت نہ کی مگر وہی مرید جس نے بچہ کو نہیں چوما تھا آگے بڑھا اور اس نے بھی شعلہ کو چوم لیا.پھر اس نے باقیوں سے کہا کہ اب شعلے کو کیوں نہیں چومتے ؟ ہمت ہے تو آگے بڑھو اور اسے چومو! مگر سب پیچھے ہٹ گئے اور کسی نے ان شعلوں کو چومنے کی جرات نہ کی.ان کو تو خدا نے محفوظ رکھا اور باوجو د شعلوں کو بوسہ دینے کے نہ ان کے سر کے بال جلے اور نہ داڑھی کا کوئی بال جلا لیکن اگر دوسرے بھی چومتے تو انہیں خطرہ تھا.کہ ان کے سر اور داڑھی کے بال جل جائیں گے اور وہ لنڈ منڈ ہو کر گھر پہنچیں گے.غرض جب کوئی بھی آگے نہ بڑھا تو وہ مرید جس نے شعلوں کو چوما تھا کہنے لگا: میں نے تمہارے اعتراض کو سن لیا تھا مگر بات یہ ہے کہ تم حقیقت کو نہیں پہنچے تھے.تم نے سمجھا کہ پیر صاحب نے اس لڑکے کو چوما ہے.حالانکہ پیر صاحب نے اس لڑکے کو نہیں چوما، اس کے اندر کوئی روحانی قابلیت نظر آئی ہوگی جس نے کسی آئندہ زمانہ میں ظاہر ہونا ہوگا اور اسی وجہ سے انہوں نے اسے چو ما مگر مجھے اس میں وہ الہی جلوہ نظر نہ آیا اس لئے میں نے پیر 5
اقتباس از خطبه عید الاضحیہ فرمود و 20 جنوری 1940ء تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد دوم صاحب کی نقل نہ کی اور اس لڑکے کو نہ چوما.پھر انہیں وہی جلوہ آگ میں نظر آیا اور مجھے بھی اس آگ میں خدا تعالیٰ کا جلوہ نظر آ گیا.پس انہوں نے بھی آگ کو چوما اور میں نے بھی آگ کو چو مالیکن میرا چومنا ایک حقیت پر مبنی ہے اور تم نے اس بچہ کو چو ما تو یہ محض ایک نقل تھی.تو در حقیقت خوشی میں شامل ہونا اسی کو نصیب ہوتا ہے جو آگ کے شعلوں کو چومنے کے لئے تیار ہوتا ہے اور اسی کا حق ہے کہ وہ عید منائے کیونکہ جب تک کوئی شخص آگ کے شعلوں میں سے نہیں گزرتا اس وقت تک وہ حقیقی خوشی بھی نہیں دیکھ سکتا.پس ابراہیم علیہ السلام کی طرح جس نے اپنے بیٹے کی قربانی کر دی خواہ تعلیم و تربیت کے رنگ میں اور خواہ وقف زندگی کے صورت میں، اسے حق ہے کہ وہ اس عید کی خوشی میں شریک ہو اور اگر وہ اپنی اولاد کو خدمت دین کے لئے وقف نہیں کرتا اور نہ ان کی اس رنگ میں تربیت کرتا ہے جس رنگ میں اسلام اس سے مطالبہ کرتا ہے تو یقیناً اس کا اس عید میں شامل ہونے کا کوئی حق نہیں.قرآن کریم میں آتا ہے کہ منافق لوگوں کو جب جہاد پر جانے کے لئے کہا جاتا ہے تو وہ بہانے بنا بنا کر پیچھے بیٹھے رہتے ہیں مگر مسلمان جب فتح پا کر اور مال غنیمت لے کر بکریوں اور اونٹوں کے گلے ہانکتے ہوئے واپس آتے ہیں تو وہ منافق بھی دوڑ کر ان کے پاس پہنچتے ہیں اور کہتے ہیں : ہم بھی تمہارے ساتھ ہیں، ہمیں بھی مال غنیمت میں سے حصہ دو اور ہمیں بھی ان گلوں اور ریوڑوں کی تقسیم میں شریک کرو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب اس قسم کے منافق تمہارے پاس پہنچیں تو تم انہیں دھتکار دو اور کہو کہ دور ہو جاؤ ہماری نظروں سے ! تم جب جہاد میں شامل نہیں ہوئے تو تمہارا کیا حق ہے کہ تم مال غنیمت میں شامل ہو؟ اسی طرح جس نے ابراہیم کے جہاد میں شمولیت کی اس کا حق ہے کہ وہ عید منائے مگر جس نے ابراہیم کے جہاد میں شمولیت نہیں کی، جس نے ابراہیم کی طرح اپنی اولا دکو خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے وقف نہیں کیا اور اس خوشی میں شریک ہونے کے لئے آ گیا ہے وہ منافق ہے اور جس وقت وہ ابراہیم کی خوشی میں شریک ہوتا ہے آسمان کے فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں اور کہتے ہیں : اے منافقو ! دور ہو جاؤ ہماری نظروں سے تمہارا کوئی حق نہیں کہ تم اس خوشی میں شریک ہو.تم نے وہ جہاد تو نہ کیا جو ابراہیم نے کیا تھا مگر تم بوٹیاں کھانے کیلئے آگئے.پس تمہاری عید کوئی عید نہیں ، عید اسی کی ہے جو ابراہیم کے نمونہ کو پنے سامنے رکھتا اور اپنی اولاد کو خدا تعالیٰ کے دین کے لئے قربان کرتا ہے.6
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه عید الاضحیہ فرمودہ 20 جنوری 1940ء اے دوستو ! اس سبق کو یا درکھو جو اس عید سے حاصل ہوتا ہے اور اپنے اندر سے نفاق کو دور کرو اور ابراہیم کی طرح اپنے بیٹوں کی قربانی کرو تا کہ تمہیں بھی حقیقی عید کا دن دیکھنا نصیب ہو.ورنہ وہ شخص جو خوشی میں تو شامل ہو جاتا مگر تکلیف میں شامل نہیں ہوتا ، وہ منافق ہوتا ہے.خدا اس نفاق سے ہر شخص کو اپنی پناہ میں رکھے.( مطبوع الفضل 09 مئی 1940ء) 7
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 105 اپریل 1940ء ان قربانیوں کے بدلہ میں تو خدا ملتا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 105 اپریل 1940ء سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں آج کے خطبہ میں جماعت کو تحریک جدید کے چندوں کی وصولی کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں.میں کئی بار اچھی طرح یہ امر واضح کر چکا ہوں کہ یہ چندے صرف وقتی تبلیغ پر ہی خرچ نہیں ہوتے بلکہ وہ تبلیغ کیلئے ایک مستقل بنیاد قائم کرنے پر بھی خرچ ہورہے ہیں.واقفین زندگی کی ایک جماعت جس میں بہت سے نوجوان علماء میں سے لئے گئے ہیں اور کچھ انگریزی خوان نو جوانوں میں سے تبلیغ اسلام کے کام لئے تیار کی جارہی ہے.علماء کو تیار کیا جارہا ہے کہ وہ انگریزی علوم سے واقفیت حاصل کریں اور اس کے ساتھ مذہبی علوم میں بھی زیادہ وسعت پیدا کریں اور انگریزی خوان نو جوانوں کے متعلق یہ کوشش کی جاتی ہے کہ انہوں نے جہاں علوم جدیدہ پڑھے ہیں وہاں وہ دینیات سے بھی اچھی طرح واقف ہو جائیں.اس کام کے علاوہ جو تحریک جدید کے چندوں سے تبلیغ کا دوسرے ذرائع سے ہو رہا ہے، یہ حصہ ایسا ہے جو جماعت کو نظر نہیں آتا اور ابھی نظر آ نہیں سکتا کیونکہ یہ حصہ ابھی تیاری میں ہے.شاید ایک دو سال کے اندر جب وہ نو جوان تیار ہوں اور ان ضرورتوں کو پورا کریں جو دیر سے محسوس ہو رہی تھیں مگر سامان نہ ہونے کی وجہ سے پوری نہ ہو سکتی تھیں اور بہت اہمیت رکھتی ہیں تو جماعت کو اس کام کا احساس ہو سکے گا.اس وقت تک جو مبلغ تیار کئے گئے، ان میں اس امر کو مد نظر نہیں رکھا گیا کہ ہم نے ساری دنیا میں تبلیغ کرنی ہے.اس میں شبہ نہیں کہ بہت سے کارآمد اور مخلص وجود نکلے ہیں.مگر مجھے افسوس ہے کہ باوجود میرے بار بار توجہ دلانے کے جامعہ احمدیہ ایسے طالب علم تیار نہیں کر سکا جو علاوہ مذہبی علوم کے ایسی زبانیں بھی جانتے ہوں جو دنیا میں تبلیغ کیلئے مفید ہو سکیں اور جن کے بغیر ساری دنیا میں تبلیغ نہیں کی جاسکتی.اس وقت تک جو مبلغ جامعہ تیار کرتا ہے وہ یا تو عرب میں کام کر سکتے ہیں اور یا پھر پنجاب اور یو - پی میں.کیونکہ یہی صوبے ہیں جن میں اردو اچھی طرح بولی اور سمجھی جاتی ہے.ان کے علاوہ ہندوستان کے دوسرے 9
خطبہ جمعہ فرمودہ 105 اپریل 1940ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم صوبوں میں بھی مثلاً مدراس، بنگال، بمبئی اور آسام وغیرہ میں وہ کام نہیں کر سکتے کیونکہ وہاں کے لوگ اردو بہت کم جانتے ہیں اس لئے وہاں ان مبلغوں کا حلقہ عمل بہت محدود ہوتا ہے.اتنی اردو تو وہ لوگ جانتے ہیں کہ چھوٹی موٹی باتیں سمجھ سکیں مگر اتنی نہیں کہ تقریریں سمجھ سکیں.سمندر کے سفر میں ، میں نے دیکھا ہے کہ بندرگاہوں پر آباد ہندو اور مقامی لوگ بھی ٹوٹی پھوٹی اردو بول اور سمجھ لیتے ہیں مگر اتنی نہیں جانتے کہ اردو میں تقریریں سمجھ لیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مدراس، بنگال، ہمبینی، مالا بار اور بمبئی کے دوسرے علاقوں کے لوگ جب لیکچرار مانگتے ہیں تو ساتھ یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ انگریزی خوان مبلغ بھیجے جائیں.مگر ہم ایسے مبلغ نہیں دے سکتے.اس وجہ سے ان علاقوں میں ہماری تبلیغ بہت محدودرہ گئی ہے اور صرف پنجاب اور اس کے ارد گرد کے علاقہ پر ہی زور ہے.حالانکہ جس طرح پنجاب میں ایسی روحیں ہیں جو صداقت کے لئے اپنے دل میں تڑپ رکھتی ہیں اسی طرح دوسرے ملکوں اور علاقوں میں بھی ضرور ہیں.لیکن ان علاقوں میں جب ہمارے مبلغ جاتے بھی ہیں تو تبلیغ کا دائرہ بہت محدود ہوتا ہے.ابھی ایک مبلغ برمامیں بھیجا گیا ہے، جو جامعہ احمدیہ کا فارغ التحصیل ہے اور وہ مفید کام بھی کر رہا ہے.مگر متواتر اپیل پر اپیل آرہی ہے کہ کوئی انگریزی دان مبلغ یہاں بھیجا جائے تو بہت اچھا ہو، کیونکہ یہاں ایک بہت بڑا طبقہ انگریزی دانوں کا ہے جن تک موجودہ مبلغ نہیں پہنچ سکتا.تو تحریک جدید کے ماتحت یہ ضروری کام بھی کیا جا رہا ہے کہ ایسے مبلغ تیار کئے جاتے ہیں جو ساری دنیا میں تبلیغ کا کام کر سکیں.بعض علماء ہیں جن کو انگریزی پڑھانے کے علاوہ دینی علوم میں بھی وسعت پیدا کی جارہی ہے اور بعض انگریزی خواں ہیں جن کو عربی پڑھائی جاتی اور دینی علوم سکھائے جاتے ہیں تا وہ دونوں باہم سموئے جائیں اور ہماری ضرورتوں کو پورا کر سکیں.اس میں شک نہیں کہ انگریزی کے علاوہ اور بھی بہت سی زبانیں ہیں جن کا سیکھنا تبلیغ کے لئے ضروری ہے.اور میری سکیم یہی ہے کہ مختلف زبانیں نو جوانوں کو سکھائی جائیں مگر سر دست انگریزی ہی سکھائی جاتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اسی کے ذریعہ ہمارے لئے تبلیغ کا ایک نیا دروازہ کھل جائے گا اور ایک نیا طبقہ تبلیغ کیلئے ہمارے قریب ہو جائے گا.فی الحال اس سکیم کے ماتحت پانچ چھ گریجوایٹ اور دس بارہ مولوی فاضل تیار کئے جارہے ہیں.مولوی فاضلوں کو فی الحال انٹرس کا امتحان دلوایا گیا ہے اور انگریزی میں اس سے زیادہ قابلیت ان کے اندر پیدا کرنے کے سامان بھی کئے جارہے ہیں.ان واقفین میں سے ایک کولنڈن بھیج کر میں نے انگریزی میں تعلیم دلوائی تھی اور اب اُسے افریقہ کے ایک علاقے میں کام کرنے کے لئے لگایا گیا ہے.بظاہر دیکھنے 10
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 105 اپریل 1940ء والوں کو تو یہی نظر آ رہا ہے کہ پچھلے دو تین سالوں میں نے مشن نہیں کھولے گئے مگر حقیقت یہی ہے کہ تبلیغ کیلئے ایسے نوجوانوں کا تیار کیا جانا اشد ضروری ہے.ابتدا میں ہم نے عارضی طور پر ایسے آدمی لگا لئے تھے جن کو دینی علوم کی واقفیت گہری نہ تھی.اور اس میں شک نہیں کہ انہوں نے اپنے اخلاص کی وجہ سے اور سلسلہ کے اردوٹر بچر کی مدد سے جتنی تبلیغ وہ کر سکتے تھے، اتنی کی.اور بعض جگہ اس کے عملی نتائج بھی ظاہر ہوئے مگر ان سے غلطیاں بھی ہوتی تھیں.مجھے چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے بتایا کہ ایک ایسے ہی مبلغ نے کسی مسئلہ میں قیاس کر کے جواب دے دیا جو در حقیقت غلط تھا.ان لوگوں سے عارضی کام لیا گیا مگر مستقل طور پر ایسے لوگوں سے کام نہیں لیا جا سکتا تھا.ورنہ مختلف مقامات پر ایسا دین پیدا ہو جاتا جو احمد بیت سے بالکل مختلف ہوتا.ان لوگوں سے صرف آواز پہنچانے کا کام لے لیا گیا.لیکن یہ ہمارا ضروری فرض ہے کہ ایسی جماعت تیار کریں جو دین سے واقف ہو اور باہر جا کر ایسی تعلیم پھیلائے جو احمدیت اور اسلام کی حقیقی تعلیم ہو.اور ظاہر ہے کہ ایسی جماعت تیار کرنے کے لئے وقت کی ضرورت ہے.عام لوگ گھبراتے ہیں کہ کام نہیں ہورہا، بعض لوگ جلد بازی کے عادی ہوتے ہیں.مگر انہیں یا درکھنا چاہئے کہ بعض کاموں میں جلد بازی انہیں رحمانی کی بجائے شیطانی بنادیا کرتی ہے.اسی جنگ میں دیکھ لو انگلستان دو سال سے والعشیر تیار کر رہا تھا مگر اب تک وہ دو دو، چار چار ہزار کر کے ہی میدان میں بھیجے جاتے ہیں اور اچھے افسروں کی ٹریننگ کیلئے تین تین، چار چار بلکہ پانچ پانچ سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے.پس اگر ہم بھی تین، چار یا پانچ سال لگا کر ایسے علماء کی ایک جماعت تیار کر سکیں جو تین ، چار یا پانچ سال میں عربی ، دینی اور انگریزی علوم سے واقفیت حاصل کر سکیں ، دین کے ماہر ہوں اور دین کی تفاصیل سے آگاہ ہوں تو نتیجہ یہ ہوگا کہ میں چھپیں سال کیلئے جماعت کی ضرورت پوری ہو جائے گی اور مبلغین کی ٹریننگ کے لئے ایک ایسی لائن تیار ہو سکے گی کہ جس پر چل کرنے مبلغ تیار کر نے آسان ہو جائیں گے.دوسرا حصہ تحریک جدید کے چندوں کا جیسا کہ میں کئی بار بیان کر چکا ہوں.مستقل جائیداد پیدا کرنے پر خرچ کیا گیا ہے.ایسی زمینیں خریدی گئی ہیں جن کی قیمت قسط وار ادا کی جا رہی ہے اور قسط ہمیں قریبا ستر ہزار روپیہ سالانہ دینی پڑتی ہے.ان جائیدادوں کے پیدا کرنے کی غرض یہ ہے کہ تحریک کے عارضی چندہ کو ہم مستقل نہیں کر سکتے اور مستقل طور پر ادا کیا جاسکتا ہے.بے شک مستقل کر دینے کی صورت میں بھی بعض مخلصین اسے ادا کرتے رہیں گے لیکن ساری جماعت نہیں کر سکتی.اگر ساری جماعت انہیں ادا کرے تو صدرانجمن احمدیہ کے چندوں 11
خطبہ جمعہ فرمودہ 105 اپریل 1940ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم پر برا اثر پڑے گا.گو محاسب صاحب اور ناظر صاحب بیت المال تو اب بھی کہہ رہے ہیں کہ انجمن کے چندوں پر اثر پڑ رہا ہے.مگر میں ان کی اس رائے سے متفق نہیں ہوں کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ انجمن کا چندہ اسی طرح بڑھ رہا ہے، جس طرح کہ پہلے بڑھتا تھا.لیکن اس میں شک نہیں کہ اگر ان عارضی چندوں کو مستقل کر دیا گیا تو اس کے نتیجہ میں ایک لمبے عرصہ کے بعد انجمن کے چندوں میں ترقی رک جائے گی.اور ادھر یہ کام ایسا ہے کہ اسے ہم چھوڑ بھی نہیں سکتے تبلیغ کو کسی وقت بھی بند نہیں کیا جاسکتا اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ کوئی ایسا انتظام کر دیا جائے کہ جس سے معمولی اخراجات پورے ہو سکیں اور بجٹ پورا ہوتا رہے.اس کے علاوہ اگر کوئی خاص ضرورت پیش آئی تو چندہ لے لیا ورنہ نہیں.کارکنوں کے گزاروں اور دفتری اخراجات کے لئے مستقل آمد سے کام ہوتا رہے.میرا اندازہ ہے کہ اگر خدا تعالیٰ چاہے تو اس سے پچاس ساٹھ ہزار روپیہ سالانہ کی آمد ہوتی رہے گی اور اس طرح دفتری اخراجات اور کارکنوں کے گزارہ کے لئے جماعت سے چندہ لینے کی ضرورت پیش نہ آئے گی.اس زمین کی اقساط ہیں سال میں ادا ہوں گی لیکن مجھے امید ہے کہ اگر حالات ایسے ہو جائیں کہ زمینداروں کی پیدا کردہ اشیاء کی قیمتیں بڑھ جائیں تو اس تحریک کے عرصہ کے اندراندر ہی ادا ہو سکتی ہیں.بہر حال یہ ایسی مستقل بنیاد یں ہیں کہ جن سے تبلیغ کا دروازہ بہت وسیع ہو سکتا ہے اور یہ ایسا مستقل فنڈ ہے کہ جو تبلیغ کے کام کو بڑھانے کے سامان اپنے اندر رکھتا ہے.مگر ہم اس کام کو آرام اور فراغت کے ساتھ اس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک کہ جماعت کے دوست اپنے وعدوں کو پورا نہ کریں اور وعدے پیش کرنے میں دلیری اور جرات سے کام نہ لیں.میں نے مجلس شورای میں یہ بات بیان کی تھی کہ اس سال کے وعدے گزشتہ سال سے کچھ کم ہیں مگر و 1938ء کی نسبت تو زیادہ ہیں مگر 1939ء کی نسبت سے کم ہیں.بے شک ابھی بیرون ہند کی جماعتوں کے سب وعدے نہیں آئے جو کئی ہزار کے ہوتے ہیں.مگر ان ہزاروں کو شامل کر کے بھی تین چار ہزار کی کمی رہ جائے گی اور یہ بہت نقص کی بات ہے.مومنوں کی جماعت کا ہر قدم آگے ہونا چاہئے ، پیچھے نہیں.مجھے اس بات سے خوشی ہے کہ مجلس شوری کے موقعہ پر میرے اس بیان کے بعد بعض دوست توجہ کر رہے ہیں.چنانچہ عزیزم مرزا مظفر احمد صاحب نے جو میرے بھتیجے اور داماد بھی ہیں خط لکھا ہے کہ آپ جب یہ ذکر کر رہے تھے کہ اس سال وعدوں میں کچھ کمی ہے تو میرے دل پر اس کا اتنا اثر ہوا کہ میں نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ میں اپنے وعدہ میں اضافہ کروں گا.چنانچہ میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ اپنا چندہ دوسو کی جگہ اڑھائی سوکرتا ہوں.12
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود و 05 اپریل 1940ء اس کے علاوہ وعدوں کی ادائیگی میں بھی کسی قدرستی پائی جاتی ہے.ہر سال کچھ نہ کچھ وعدے ادا ہونے سے رہ جاتے ہیں.حالانکہ یہ چندہ طوعی ہے، وعدہ کے بعد اس کے ادا نہ ہونے کے کوئی معنی ہی نہیں.سوائے اس کے کہ کسی شخص کے حالات ایسے بدل جائیں کہ وہ ادا کرنے کے قابل نہ رہے.ایسا شخص تو معذور ہے اور نادہند نہیں.ایسا شخص اگر اطلاع دے دے تو اس کا نام رجسٹر سے کاٹ دیا جائے گا.پھر میں نے یہ بھی بارہا کہا ہے کہ جو شخص نہ دے سکتا ہو ، وہ معافی لے لے تا نادہندگی کے گناہ سے بچ جائے.مگر باوجود اس کے جو نہ تو معافی لیتا ہے اور نہ ادا کرتا ہے، وہ خواہ مخواہ گنہگار بنتا ہے.دفتر تحریک جدید والے اب ہر ایک کے نام رجسٹری خطوط بھیج رہے ہیں گو میرے خطبہ کی تعمیل انہوں نے بہت دیر سے کی مگر اب یہ خطوط بھیجے جارہے ہیں تا ہر ایک پر حجت قائم ہو جائے اور بعد میں کوئی شخص یہ نہ کہہ سکے کہ مجھے اطلاع نہ تھی.اب بھی ان لوگوں کے لئے موقعہ ہے کہ جو ادا نہ کر سکتے ہوں، وہ معافی لے لیں.اس طرح ان کا نام رجسٹر سے کاٹ دیا جائے گا.لیکن جو نہ معافی لے اور نہ ادا کرے تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ وہ خدا تعالیٰ اور سلسلہ سے کھیل اور تمسخر کرنا چاہتا ہے، وہ جھوٹی بڑائی کا خواہشمند ہے، اس کے اندر غرور اور تکبر پایا جاتا ہے اور وہ محض جھوٹی عزت کے لئے اپنانام لکھوا دیتا ہے.ورنہ شروع دن سے ہی اس کا ارادہ ادا کرنے کا نہ تھا.ان کے سوا بھی بعض ایسے لوگ ہیں جو ادائیگی میں سستی کرتے ہیں ، وہ خیال کر لیتے ہیں کہ آخری دن ادا کر دیں گے.حالانکہ مومن کو چاہیے کہ پہلے ہی دن ادا کرے یا پھر ہر ماہ کرتا جائے.کیا پتہ ہے کہ وہ آخری دن تک زندہ بھی رہے یا نہ رہے؟ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ میں اگست میں ادا کر دوں گا ، اسے کیا علم کہ وہ اگست تک زندہ بھی رہے گا یا نہیں؟ لیکن جس نے نومبر میں وعدہ لکھوایا اور پھر کچھ دسمبر میں ادا کیا، کچھ جنوری میں، کچھ فروری میں اور بعد میں فوت ہو گیا تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ ادا کرنے والوں میں شمار ہو گا، نادہندوں میں نہیں.کیونکہ جب تک وہ زندہ رہا برابر ادا کرتا رہا.لیکن جو شخص ایک بھی قسط ادا نہیں کرتا وہ اگر فوت ہو جائے تو اللہ تعالٰی ضرور دریافت کرے گا کہ تم نے ادائیگی کے لئے کیا تیاری کی تھی؟ پس دوست تحریک جدید کے چندوں کی ادائیگی میں عجلت سے کام لیں اور جو یک مشت ادا نہیں کر سکتے ، وہ آہستہ آہستہ ادا کرتے جائیں.سارے ہی اگر آخری دن ادا کرنے پر رہیں تو ہم زمین کی قسط کہاں سے ادا کر سکتے ہیں؟ یہ قسط مئی میں ادا کرنی پڑتی ہے اور اگر دوست اپنے وعدے ادا نہ کریں تو یہ کہاں سے ادا ہو سکتی ہے؟ اگر وقت پر یہ قسط ادا نہ ہو تو دس روپیہ سینکڑہ جرمانہ ہو جاتا ہے.جو گویا بر وقت 13
خطبہ جمعہ فرمودہ 105 اپریل 1940ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم چندہ ادا نہ کرنے والے کی سستی سے ہوا.اور اس صورت میں اس کا سوروپیہ چندہ خدا تعالیٰ کے ہاں نوے روپیہ سمجھا جائے گا.کیونکہ دس روپیہ جرمانہ اس کی سستی سے ہوا ہے.پس دوست توجہ کریں اور اپنے وعدے جلد پورے کریں اور جو نہیں دے سکتے ، جیسا کہ میں نے پہلے بھی کئی بار بیان کیا ہے.اب بھی ان کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ معافی لے لیں.اور جو طاقت رکھتے ہیں مگر ادا نہیں کر سکے، وہ اپنی اس غلطی کا ازالہ کریں بلکہ کفارہ کے طور پر کچھ زیادہ دیں.جو دینے کا وعدہ کر چکے ہیں اور ارادہ رکھتے ہیں، انہیں چاہیے کہ ساتھ کے ساتھ کچھ نہ کچھ ادا کرتے جائیں تا سلسلہ کے کام میں نقص نہ واقع ہو.میں جانتا ہوں کہ احمدیوں پر بوجھ زیادہ ہیں.ان کی قربانیاں دوسروں سے بڑھی ہوئی ہیں.مگر اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ ان کے لئے جو انعامات مقدر ہیں، وہ بھی دوسروں کے لئے نہیں.بعض نادان کہتے ہیں کہ قربانیاں تو ہم کرتے ہیں مگر دنیوی انعام اور آرام و آسائش دوسروں کو حاصل ہیں.مگر وہ نہیں جانتے کہ ان قربانیوں کے بدلہ میں ان کو تو خدا املتا ہے، اور دوسروں کو بھیڑ بکریاں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب مکہ کو فتح کیا تو بہت سے نئے لوگ اسلام میں داخل ہو گئے اور اس کے بعد جو جنگ ہوئی اس میں کچھ اموال آئے تو آپ نے وہ مکہ کے نو مسلموں میں تقسیم کر دیئے.مدینہ کا ایک نوجوان انصاری اپنی ناسمجھی کی وجہ سے صبر نہ کر سکا اور اس نے کہ دیا کہ یہ مجیب بات ہے کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور فتح ہماری وجہ سے ہوئی ہے مگر اموال رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ والوں میں تقسیم کر دیئے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوبھی خبر پہنچی تو آپ نے انصار کو جمع کیا.ان کو بھی علم ہو چکا تھا کہ ایسی رپورٹ آپ کو پہنچ چکی ہے.وہ بہت گھبرائے ہوئے تھے انہوں نے کہا یا رسول اللہ! ہمیں علم ہے کہ آپ نے ہمیں کیوں بلوایا ہے ؟ مگر ہم سب اس نوجوان کی اس بات کو سخت نا پسند کرتے ہیں.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انصار! جو ہونا تھا، وہ ہو چکا.انصار تم یہ کہہ سکتے ہو کہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو اس کی قوم نے وطن سے نکال دیا، جب اپنے شہر میں اس پر زندگی تلخ کر دی، اس وقت ہم نے اس کے لئے اپنے شہر کے دروازے کھول دیئے اور اسے یہاں لے آئے ، پھر ہم اس کے دشمنوں کے ساتھ لڑے اور قربانیاں کرتے رہے، حتی کہ فتح حاصل کر لی.مگر جب فتح حاصل ہو گئی تو اس نے اموال اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کر دیئے اور ہم خالی ہاتھ رہ گئے.آپ نے فرمایا : اے انصار! بے شک تم یہ کہہ سکتے ہو.یہ بات سن کر انصار جو اخلاص و قربانی کا ایک ہی نمونہ تھے بلکہ بعض رنگ میں ان جیسی قربانی کرنے والی کوئی اور قوم ملتی ہی نہیں.بے شک مہاجرین نے 14
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 105 اپریل 1940ء بھی بڑی قربانیاں کی ہیں مگر وہ قربانی جس کا بدلہ دنیا میں نہیں ملا، وہ انصار ہی کی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ بات سن کر ان کے دلوں کی کیفیت کیا ہوگی؟ یہ ظاہر ہے.وہ بے اختیار رونے لگے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ ایک نوجوان کی غلطی ہے.آپ نے فرمایا کہ نہیں، یہ بات تم کہہ سکتے ہو.مگر ایک اور بات بھی کہہ سکتے ہو.اور وہ یہ کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) مکہ میں پیدا ہوا.اور اس کی پیدائش سے اللہ تعالٰی نے مکہ و عظمت عطا کی.مگر مکہ والوں نے اس نعمت کی ناشکری کی اور اس کی ناشکری کی سزا کے طور پر اللہ تعالیٰ اسے مکہ سے مدینہ لے گیا.اور اس پر اپنے فضلوں کی بارش کی اور وہ اور اس کے ساتھی اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے بڑھنے لگے.حتی کہ انہوں نے مکہ کو فتح کر لیا.پھر مکہ والوں نے یہ امید کی کہ شائداب ہمارا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہمیں دوبارہ مل جائے گا، مگر ہوا کیا؟ فتح مکہ کے بعد مکہ والے تو بھیڑ بکریاں اور اونٹ ہانک کر لے گئے اور انصار خدا تعالیٰ کے رسول کو اپنے ساتھ لے گئے.پس میں بھی وہی کہتا ہوں جو میرے آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ دوسرے لوگوں کو تو مال و دولت مل جاتا ہے.مگر تم جو قربانیاں کرتے ہو.ان کے نتیجہ میں تمہارا خدا تمہیں ملتا ہے اور یہ انعام کوئی معمولی انعام نہیں ہے.اپنا اپنا نقطہ نگاہ ہے.جو نادان اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ ان کی قربانیوں کے عوض ان کو دنیوی عزت اور مال و دولت حاصل ہو.ان کا کوئی علاج میرے پاس نہیں.جس کی روحانی نظر تیز ہے.اس کے لئے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں اور پھر اگر دیکھا جائے تو ظاہری لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل ہم پر زیادہ ہو رہے ہیں.پہلے سے بہت زیادہ مالدار لوگ اب ہم میں موجود ہیں، پہلے سے بہت بڑے عہدیدار ہم میں شامل ہیں اور پہلے سے بہت زیادہ عزت والے لوگ آج ہم میں موجود ہیں.پھر غریبوں اور مسکینوں کے لئے جو انتظام یہاں ہیں ، وہ دنیا میں اور کسی جگہ نہیں.اگر کسی کو کوئی شکایت ہے تو وہ محض حسد کی وجہ سے ہے.ایک شخص سمجھتا ہے مجھے دس روپے ملنے چاہئیں مگر ملتے صرف دو ہیں.وہ یہ نہیں سمجھتا کہ اگر وہ کسی اور جگہ ہوتا تو یہ دو بھی نہ مل سکتے.اور حسد کی وجہ سے شکایت کرنے لگتا ہے.میں کہتا ہوں دنیا کا کوئی اور ایسا شہر تو بتاؤ جہاں اس طرح لوگوں کے کھانے اور کپڑے کا انتظام ہوتا ہو، جیسا یہاں ہوتا ہے.کوئی مالدار سے مالدار قوم ایسی نہیں جو غریبوں کی اس طرح پرورش کرتی ہو، جیسی ہم کرتے ہیں.بے شک ہمارے ذرائع محدود ہیں، اس لئے ہم محدود امداد ہی کر سکتے ہیں.یہ صحیح ہے کہ اسلامی حکومت میں ہر شخص کے لئے کھانے پہنے اور مکان کا انتظام حکومت کے ذمہ ہوتا ہے اور اگر خدا تعالیٰ ہمیں فراخی عطا کرے تو ہم بھی ایسا کریں گے.مگر بہر حال دوسری قوموں کی نسبت ہماری موجودہ حالت 15
خطبہ جمعہ فرمودہ 105 اپریل 1940ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اچھی ہے.بعض لوگ نسبت نہیں دیکھتے بلکہ شان کا مقابلہ شان سے کرتے ہیں.اور یہ نہیں سوچتے کہ جس خص کو دس روپیہ میں آٹھ روپیہ کا مال ملے وہ اچھا ہے یا جسے ایک پیسہ میں دو پیسہ کا مال مل جائے.اس کے دس روپیہ میں ایسی نحوست ہے کہ اسے اس میں آٹھ روپیہ کا مال ملتا ہے اور ہمارے ایک پیسا میں اتنی برکت ہے کہ اس میں دو پیسہ کا مال ملتا ہے.بے شک اس کے پاس روپے زیادہ ہیں مگر برکت تو ہمارے مال میں زیادہ ہے.جن کی آنکھیں ہیں وہ دیکھتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل کے ماتحت ہر جہت سے ترقی کر رہے ہیں.ہمارے نظام میں بھی بہتری پیدا ہورہی ہے.اگر ہم قربانی اور ایثار میں ترقی کریں اور تبلیغ کو وسیع کریں تو وہ دن بھی دور نہیں جب حکومت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری ہوگی.کیونکہ حاکم لوگ بھی تو آخر ہدایت کے محتاج اور خواہش مند ہیں.لیکن اگر اس وقت ہمارے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت نہ ہوئی تو وہ دن برکت والے نہ ہوں گے اور ایک مومن تو اس بات کو پسند کرے گا کہ وہ مرجائے ، بہ نسبت اس کے کہ اس کے دل سے خدا تعالیٰ کی محبت کم ہو جائے.حضرت ابوذرغفاری ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک صحابی تھے.ان کو دنیوی مال و دولت سے اس قدر نفرت تھی کہ جب مسلمانوں کو مال بکثرت ملنے لگے تو وہ ہر ایک سے لڑتے تھے کہ تم مال کیوں رکھتے ہو؟ آخر حضرت عثمان نے ان سے کہا کہ آپ کسی گاؤں میں جا بیٹھیں تا نہ یہ چیزیں دیکھیں اور نہ لوگوں سے لڑیں.تو اللہ تعالیٰ کے بعض بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو ظاہری شان سے نفرت ہوتی ہے اور وہ صبر وقناعت میں ہی خوش رہتے ہیں.مگر کامل مومن کا اصل مقام یہی ہے کہ خدا تعالیٰ جس حال میں رکھے اس میں خوش رہے.اگر خدا تعالیٰ لاکھوں روپے دے دے تو اس میں خوش رہے اور اگر بھوکا رکھے تو اس حالت میں بھی خوش رہے.پس جماعت پر اللہ تعالیٰ کے جو فضل نازل ہو رہے ہیں اور جس مقام پر اس نے ہمیں کھڑا کیا ہے.ہم سے جو کام لے رہا ہے اور جو لے گا ، اس کے پیش نظر کسی بھی قربانی کو بڑا نہ سمجھو.ہماری قربانیاں اللہ تعالیٰ کے انعامات کے مقابلہ میں بالکل حقیر ہیں.پس جو دوست اب تک سستی کرتے رہے ہیں، وہ اب چست ہو جائیں اور جو چست ہیں، وہ اپنے اندر اور چستی پیدا کریں.ضمنا میں یہ بات بھی کہ دینا چاہتا ہوں کہ جن دوستوں نے اپنی طاقت اور حیثیت سے کم وعدے کیے ہیں، چونکہ چندوں میں کمی ہے، اس لئے وہ اگر بڑھا دیں تو زیادہ ثواب پائیں گے.عہدیداروں اور دوسرے کام کرنے والوں کو بھی میں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بھی چستی سے کام کریں.ممکن ہے یہ کی ان کی سستی کی 16
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 105 اپریل 1940ء وجہ سے ہو.میں یہ بات بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ چونکہ پچھلے دنوں میں ڈاک دفتر میں جاتی تھی اور میرے پاس خلاصے آتے تھے، اس لئے ممکن ہے بعض وعدے نظر انداز ہو گئے ہوں بلکہ میرا غالب گمان یہ ہے کہ بعض وعدے نظر انداز ہو گئے ہیں.اس لئے جن دوستوں کو ان کے وعدے پہنچ جانے کی اطلاع نہ ملی ہو وہ پھر بھیج دیں اور اس طرح ممکن ہے جو کمی ہے وہ ان وعدوں کے مل جانے پر پوری ہو جائے“.(مطبوعہ الفضل 11 اپریل 1940 ء ) 17
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اپریل 1940ء اس وقت تبلیغ کا جہاد ہر مومن پر فرض ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اپریل 1940ء سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں بیماری کی وجہ سے نہ تو زیادہ دیر کھڑا ہو سکتا ہوں اور نہ ہی اونچا بول سکتا ہوں.اس کے علاوہ آج لاؤڈ سپیکر بھی نہیں ہے.اور ابھی تک وہ درست ہو کر نہیں آسکا.کیونکہ اس کے بعض پرزے نہیں مل سکے.اس لئے دوستوں کو جس حد تک میری آواز پہنچ سکے اسی حد تک انہیں اکتفا کرنا پڑے گا.میں نے جماعت احمدیہ کو تحریک جدید کے ماتحت ایک یہ بھی تحریک کی تھی کہ دوست اپنی زندگیاں تبلیغ اسلام کے لئے وقف کریں.خواہ یہ وقف چند ہفتوں کے لئے ہو یا چند مہینوں کے لئے.اور ساری کی ساری جماعت ایک قانون اور نظام کے ماتحت تبلیغ احمدیت میں مصروف ہو جائے.مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت تک جماعت نے اس ہدایت پر پورے طور پر عمل نہیں کیا.اور شاید ابھی سو میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں، جس نے اس کے مطابق عمل کیا ہو.حالانکہ انسان کے ایمان کی آزمائش سب سے زیادہ جہاد فی سبیل اللہ میں ہوتی ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ دو طرح ہو تا ہے.کبھی تلوار کے ذریعہ سے اور کبھی تبلیغ اسلام اور اعلائے کلمتہ اللہ کے ذریعہ سے.موجودہ زمانہ میں چونکہ وہ حالات موجود نہیں جن میں تلوار کا جہاد ضروری ہوتا ہے.اس لئے اب تلوار کے جہاد کا وقت نہیں بلکہ تبلیغ اسلام کے جہاد کا وقت ہے.مگر ہماری جماعت نے ایک طرف تو یہ کہ دیا اور اس نے اپنے پاس سے نہیں کہا بلکہ خدا اور اس کے رسول کے حکم کے ماتحت کہا کہ وہ جہاد جو تلوار کا تھا، اس زمانہ میں منسوخ ہو چکا ہے.گویا اس جہاد سے ہم اس طرح سبکدوش ہو گئے ہیں کہ خدا اور اس کے رسول نے اس زمانہ میں یہ جہاد منسوخ کر دیا ہے.کیونکہ اس زمانہ میں وہ حالات موجود نہیں جن حالات کے ماتحت تلوار کا جہاد مومنوں پر فرض ہوا کرتا ہے.جب دوبارہ وہ حالات پیدا ہو گئے تو پھر نئے سرے سے یہ جہاد مسلمانوں پر فرض ہو جائے گا.کیونکہ وہ ایک شریعت کا مسئلہ ہے، جسے عارضی طور پر ملتوی تو کیا جا سکتا ہے 19
خطبہ جمعہ فرمود 26 اپریل 1940ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اور ایک زمانہ کے لئے وہ خدا اور اس کے رسول کے احکام کے ماتحت منسوخ تو ہو سکتا ہے مگر کی طور پر نہیں مٹ سکتا.کیونکہ قرآن کریم کی کوئی تعلیم ایسی نہیں ج ہمیشہ کے لیئے متروک اور نا قابل عمل قرار دی جاسکے.قرآن کریم نے ہمیں جس قدر تعلیمیں دی ہیں وہ دو قسم کی ہیں.بعض تعلیمیں تو ایسی ہیں جو ہر زمانہ میں قائم رہتی ہیں اور بعض تعلیمیں ایسی ہیں جو وقتا فوقتا جاری ہوتی ہیں.یہ تعلیم بھی جو تلوار کے جہاد کے ساتھ تعلق رکھتی ہے انہی تعلیموں میں سے ہے جو وقتا فوقتا جاری ہوتی ہیں اور اس کی ہماری شریعت میں اور بھی کئی ایک مثالیں موجود ہیں.بعض نادان یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس جہاد کے متعلق حرام کا لفظ کیوں استعمال فرمایا؟ چنانچہ حال ہی میں ایک شخص کا میں نے اعتراض دیکھا ہے کہ جب یہ جہاد حالات کے بدلنے پر جائز ہے تو پھر موجودہ زمانہ میں اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حرام کیوں قرار دیا؟ حرام تو وہی چیز ہوا کرتی ہے جو ہمیشہ کے لئے حرام ہو.مگر یہ بالکل بیہودہ اور لغو بات ہے.نماز حرام ہے جب سورج نکل رہا ہو، نماز حرام ہے جب سورج سر پر ہو، نماز حرام ہے جب سورج ڈوب رہا ہو.مگر کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ نماز بالکل حرام ہے اور ہمیشہ کے لئے اس کا پڑھنانا جائز ہے؟ اسی طرح روزہ حرام ہے عید کے دن مگر کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ روزہ ہمیشہ کے لئے حرام ہے؟ کیا دوسرے وقتوں میں اگر کوئی روزہ رکھے تو اسے کہا جا سکتا ہے کہ جب عید کے دن روزہ حرام تھا تو بعد میں تم نے کیوں رکھا ؟ تو ہماری شریعت میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض اوقات بعض باتیں نا جائز ہوتی ہیں مگر وہی باتیں دوسرے وقت میں جائز بلکہ بعض دفعہ فرض ہو جاتی ہیں.جیسے روزہ حرام ہے عید کے دن ، روزہ جائز ہے گیارہ مہینے اور روزہ فرض ہے رمضان میں.اسی طرح نماز حرام ہے جب سورج نکل رہا ہو، نماز حرام ہے جب سورج سر پر ہو ، نماز حرام ہے جب سورج ڈوب رہا ہو مگر نماز جائز ہے اشراق سے لے کر اس وقت تک کہ سورج نصف النہار تک پہنچنے والا ہو.نماز جائز ہے ظہر اور عصر کے درمیان ، نماز جائز ہے مغرب اور عشا کے درمیان، نماز جائز ہے عشا اور فجر کے درمیان اور نماز جائز ہے صبح صادق سے لے کر نماز صبح تک.لیکن یہی نماز فرض ہے صبح کے وقت ، نماز فرض ہے ظہر کے وقت، نماز فرض ہے عصر کے وقت ، نماز فرض ہے مغرب کے وقت اور نماز فرض ہے عشا کے وقت.ان دونوں مثالوں میں دیکھ لو بعض صورتوں میں ایک چیز جائز ہے، بعض صورتوں میں فرض ہے اور بعض صورتوں میں بالکل حرام ہے.اسی طرح تلوار کا جہاد حرام ہے جب اس کی شرائط نہ پائی جاتی ہوں.اور یقیناً ایسی صورت 20
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم خطہ جمعہ فرموده 126 میں ہم اس کے متعلق حرام کا لفظ ہی استعمال کریں گے.مگر جب پھر کسی زمانہ میں وہ شرائط پائی جائیں تو وہی حرام چیز نہ صرف حلال بلکہ فرض ہو جائے گی.تو تلوار کے جہاد کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس زمانہ کے حالات کے ماتحت شرعی احکام کے مطابق حرام قرار دیا ہے.پس یہ جہاد تو یوں حرام ہو گیا.اب رہ گیا دوسرا جہاد جو تبلیغ اسلام کا ہے.سو وہ یقیناً ایسا جہاد ہے جو ہماری جماعت کے ہر فرد پر فرض ہے.مگر سوال یہ ہے کہ یہ تبلیغی جہاد جس میں ہماری جماعت کے ہر فرد کا حصہ لینا ضروری ہے اس کو ہماری جماعت کس طرح سرانجام دے رہی ہے ؟ تم کہہ سکتے ہو کہ ہم چندہ دیتے ہیں، چندے سے کتابیں چھپتی ہیں اور کتابوں سے تبلیغ ہوتی ہے مگر اس طرح تو صحابہ بھی کہہ سکتے تھے کہ ہم روپیہ دیتے ہیں، روپے سے سپاہی تیار ہوتے ہیں اور سپاہی ہم سب کی طرف سے جہاد کرتے ہیں.مگر کیا ان میں سے ایک صحابی نے بھی کبھی ایسا کہا ؟ اور کیا اس جواب کے بعد وہ مومن سمجھا جا سکتا تھا؟ بے شک بعض حالات میں یہ جائز ہوتا ہے کہ انسان اپنی طرف سے دوسرے کو جہاد کے لئے بھیج دے.مگر یہ اسی وقت جائز ہوتا ہے جب شریعت اس کی اجازت دیتی ہو یا کسی کی معذوری ایسی واضح ہو جس کے علاج کی کوئی صورت نہ ہو.جیسے روپے دے کر اپنی طرف سے کسی کو تبلیغ کے لئے مقرر کر دینا صرف اس کیلئے جائز ہوگا جو گونگا ہو اور جس کے منہ میں زبان نہ ہو.اس کے لئے بے شک جائز ہوگا کہ وہ اپنی طرف سے کسی اور کو تبلیغ کے لئے مقرر کر دے اور اس کے اخراجات کو خود برداشت کرے.یہ ایسا ہی ہے جیسے اگر کوئی شخص اپنی کسی معذوری کی وجہ سے حج کے لئے نہیں جاسکتا تو وہ اپنی طرف سے کسی اور کو روپیہ دے کر حج کراسکتا ہے.مگر جو شخص حج کے لئے جاسکتا ہو اور اس کے لئے کسی قسم کی روک نہ ہو، اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی اور کو اپنی طرف سے حج کے لئے بھیج دے اور اگر وہ کسی کو روپیہ دے کر اپنی طرف سے حج کرواتا ہے تو اس کا حج ہر گز قبول نہیں ہوگا.پس جبکہ تبلیغ ایک جہاد ہے اور یہ جہاد ہر شخص پر فرض ہے تو جو شخص اتنے اہم فریضے کو ترک کرتا ہے اس کے گناہ گار ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے؟ اگر اس تبلیغ کی حیثیت محض نوافل کی سی ہوتی ، تب بھی اس میں شمولیت حصول ثواب کیلئے ضروری تھی.مگر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہ جہاد ہے اور جہاد فرض ہوا کرتا ہے نفل نہیں ہوتا.پس ہر احمدی جو اپنی زبان سے دوسروں کو تبلیغ کرنے کی طاقت رکھتا ہے مگر وہ اپنے اوقات میں سے تبلیغ کے لئے کوئی وقت نہیں دیتا.وہ یقینا ایک فریضہ کو ادا نہ کرنے کی وجہ سے ایسا گناہ گار ہے جیسے نماز کا تارک گناہ گار ہے، ایسا ہی گناہ گار ہے جیسے روزہ کا تارک گناہ گار ہے، ایسا ہی گناہ گار ہے جیسے حج کا تارک گناہ گار ہے، ایسا ہی گناہ گار ہے جیسا ز کوۃ کا تارک گناہ گار ہے.21
خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اپریل 1940ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم پس اس مسئلہ کی اہمیت جماعت کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے اور یہ امر ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ اس وقت تلوار کے جہاد کی بجائے تبلیغ اسلام کا جہاد ہر مومن پر فرض ہے اور اگر یہ بات غلط ہے کہ تلوار کا جہاد اس وقت حرام ہے تو ایسی صورت میں تمہارا فرض ہے کہ تلوار لو اور کفار کو مارنا شروع کر دوں لیکن اگر تلوار کا جہاد اس وقت حرام ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ایسے وقت میں تبلیغ کا جہاد شروع ہو جاتا ہے.اور یہ امر ظاہر ہے کہ جہاد میں اپنا قائم مقام دینے کی کسی کو اجازت نہیں ہوتی بلکہ ذاتی طور پر ہر شخص کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس جہاد میں شامل ہو.ہم نے تو جماعت کے دوستوں کے لئے اتنی سہولت پیدا کر دی ہے کہ ان پر پابندی ہی نہیں رکھی کہ وہ ضرور دو دو یا تین تین مہینے تبلیغ کے لئے وقف کریں بلکہ اجازت دی ہے کہ اگر کوئی شخص پندرہ دن تبلیغ کے لئے دے سکتا ہوتو پندرہ دن ہی دے دے، تین ہفتے دے سکتا ہو تو تین ہفتے دے، مہینہ دے سکتا ہو تو مہینہ دے، دو مہینے دے سکتا ہو تو دو مہینے دے.بہر حال ہم نے اپنی جماعت کے دوستوں کی سہولت کے لئے اس حکم کو بہت نرم کر دیا ہے بلکہ اب میں کہتا ہوں جو دو ہفتے دینے سے معذور ہو محکمہ ان کی طرف سے ایک ہفتہ ہی منظور کرے.پس چاہیے کہ ہر شخص اس سے فائدہ اٹھائے اور تبلیغ کے لئے سال میں سے پندرہ دن یا مہینہ یا دو مہینے وقف کرے.ورنہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہر شخص جو اس ذمہ داری کو ادا نہیں کرتا ، وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک فریضہ کا تارک ہے اور اس کا گناہ ویسا ہی ہے جیسے نماز کے ترک کرنے کا، جیسے روزہ کے ترک کرنے کا، جیسے حج اور زکوۃ کے ترک کرنے کا.پس میں جماعت کو آج پھر اس اہم امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں.آج میں نے اس مسئلہ کو زیادہ واضح کر دیا ہے تا کہ کسی کو اس کے سمجھنے میں دقت نہ ہو.تم خود ہی غور کرو اگر یہ جہاد ہے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا، یہ جہاد ہے.اور پھر جہاد میں قائمقام دینا جائز نہیں ہوتا بلکہ ہر شخص کا ذاتی طور پر فرض ہوتا ہے کہ وہ اس میں حصہ لے.اس لئے اگر کوئی شخص اس تبلیغ کے فریضہ کو ادا نہیں کرے گا تو وہ گنہگار ہوگا.پس ہر جگہ کی جماعت کو اس کے متعلق فوری طور پر انتظام کرنا چاہیے جو جماعت اس کے متعلق کوئی انتظام نہیں کرے گی ، وہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر مجھی جائے گی.خصوصاً قادیان کے دوستوں کو میں اس اہم امر کی طرف متوجہ کرتا ہوں.جو قادیان میں ہجرت کر کے آئے ہوئے ہیں اور 22
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اپریل 1940ء ہجرت کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے اپنا پورا وقت خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے دینے کا عہد کیا ہوا ہے.پس مہاجر ہونے کے لحاظ سے ان پر دوسروں سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے.جو شخص کہتا ہے کہ میں ہجرت کر کے آیا ہوں اور پھر ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ میں اپنا وقت خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے دینے کو تیار نہیں وہ مہاجر نہیں بلکہ تارک وطن ہے.جیسے انگریز بعض دفعہ اپنا وطن ترک کر کے امریکہ چلے جاتے ہیں یا آسٹریلیا چلے جاتے ہیں، اسی طرح وہ بھی مہاجر نہیں بلکہ تارک وطن ہیں.جنہوں نے اپنے وطن کی رہائش ترک کر کے قادیان کی رہائش اختیار کی ہوئی ہے.پس ہر شخص جو ہجرت کے مفہوم کو سمجھتا اور صحیح معنوں میں مہاجر کہلانا چاہتا ہے.اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے اوقات کو ایسے طور پر خرچ کرے کہ ان کا زیادہ سے زیادہ حصہ دین کی خدمت میں صرف ہو.یہی ہجرت کی غرض ہوتی ہے اور یہی غرض انہیں ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھنی چاہیے.پس قادیان کی جماعت کو میں خصوصیت سے اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے اوقات زیادہ سے زیادہ وقف کریں.میں نے بتایا ہے کہ ہم نے دوستوں کی سہولت کے لئے شرائط کو بہت سخت نہیں رکھا بلکہ ہفتہ ہفتہ بھی اگر مجبوری ہو تو محکمہ قبول کر سکتا ہے.البتہ میرے نزدیک تبلیغ کو زیادہ نتیجہ خیز اور مؤثر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ سوائے اشد مجبوری کے کم از کم دو ہفتے ہر شخص سے وقت لیا جائے گا.پس میرے نزدیک دوستوں کو دو ہفتہ سے لے کر دو تین مہینہ تک وقت دینا چاہیے اور یہ کوئی ایسا زیادہ وقت نہیں جس کا بارہ مہینوں میں سے نکالنا مشکل امر ہو.اگر کوئی شخص سال کے بارہ مہینوں میں سے کم از کم دو ہفتے بھی اس فریضہ کی ادائیگی کے لئے صرف نہیں کر سکتا تو وہ جہاد جیسے فریضہ کو بھلا دینے والا ہو گا.سوائے ان لوگوں کے جو مصنف ہیں یا مبلغ ہیں یا مقرر، واعظ اور خطیب ہیں.انہیں چونکہ اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں بھی جہاد کا موقعہ ملتا رہتا ہے اس لئے وہ اس فریضہ کے تارک نہیں سمجھے جائیں گے.مگر دوسرے لوگ جنہیں اس قسم کے مواقع نہیں ملتے ، وہ اگر تبلیغ میں حصہ نہیں لیتے تو وہ ایک اہم فریضہ کو ادا نہ کرنے والوں میں شمار ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور گناہ گار ٹھہرتے ہیں.میں سمجھتا ہوں خدا تعالیٰ کے فضل سے لوگوں پر اس قد را تمام حجت ہو چکی ہے کہ اگر ایک نظام کے ماتحت ہماری تمام جماعت تبلیغ میں لگ جائے تو پانچ سات سال کے اندر ہی کئی اضلاع کی اکثریت احمدی ہو سکتی ہے.جو نئے علاقے ہیں ان میں بے شک احمدیت کی تبلیغ کرتے وقت مشکلات پیش آتی ہیں مگر جو علاقے احمدیت کی تعلیم سے واقف ہو چکے ہیں.ان کے متعلق دیکھا گیا ہے کہ ذرا زور دینے سے ان میں 23
خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اپریل 1940ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم سے سینکڑوں لوگ احمدیت میں داخل ہونے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.پس ایسے موقعہ کو ہاتھ سے جانے دینا اور لوگوں کو اپنی پوری کوشش سے کلمہ حق نہ پہنچانا اسلام اور احمدیت پر بہت بڑا ظلم ہے.پس قادیان کی جماعت کو خصوصا اور بیرونی جماعتوں کو عموما میں اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ آپ لوگ اپنے اس فریضہ کو پہچانتے ہوئے جماعت کے نظام کے ماتحت اپنے اپنے علاقوں میں تبلیغ کو وسیع کریں تا اللہ تعالیٰ جلد سے جلد سلسلہ اور اسلام کی اشاعت کے سامان پیدا کرے اور اسلام ہماری آنکھوں کے سامنے جبکہ ہم میں صحابہ اور تابعین موجود ہیں ایسی صورت میں قائم ہو جائے کہ بعد میں اس میں کسی کو رخنہ اندازی کا موقعہ نہ ملے“.( مطبوع الفضل 3 مئی 1940 ء) 24
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 07 جون 1940ء وو تحریک جدید کے متعلق جلسے کروانے کا مقصد خطبہ جمعہ فرمودہ 07 جون 1940ء میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ تحریک جدید کے چندے اور دوسرے مطالبات جو ہیں ان کے متعلق ہر سال ایک جلسہ کرایا کرتا ہوں.جس میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ ایک تو اس سے پہلے پہلے جماعتیں اپنے تمام چندے یا ان کا اکثر حصہ ادا کر دیں اور دوسرے ان جلسوں میں تحریک جدید کے مطالبات کے متعلق تقریریں کی جاتی ہیں تا جماعت میں جو لوگ نئے جوان ہوتے ہیں ، وہ آگاہ ہو سکیں.اس میں شبہ نہیں کہ یہ باتیں کئی سال سے دہرائی جاتی ہیں.لیکن اس میں بھی شبہ نہیں کہ جو باتیں انسان پر بوجھ ہوتی ہیں وہ متواتر یاد دلانے سے ہی یا درہ سکتی ہیں.ورنہ اگر دس سال کے بعد بھی یاد نہ دلایا جائے تو بھول جاتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نماز کا حکم بار بار دیا ہے.لَا إِلَهَ إِلَّا الله اور اللہ اکبر کے کلمات دن میں کئی بار دہرانے کا حکم دیا ہے.جو ہمارے عقیدہ کا اعلان ہیں اور ان کو دن میں کئی کئی باردہرایا جاتا ہے تا کہ دنیا کو پتہ لگتا ہے اور علم ہوتا رہے کہ اب بھی ہماری دینی حالت وہی ہے جو صبح تھی.انسانی حالت ہمیشہ بدلتی رہتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانہ کے متعلق خصوصیت سے یہ پیشگوئی فرمائی ہے کہ انسان رات کو مومن سوئے گا اور صبح کو کا فر اُٹھے گا اور رات کو کا فر سوئے گا اور صبح مومن اُٹھے گا.پس اس زمانہ میں جبکہ ایسے ایسے جلد تغیرات کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے.بار بار یاد دہانی کی ضرورت واضح ہے.بعض لوگ کہتے ہیں سمجھ میں نہیں آتا کہ مصری صاحب پہلے تو ایسے اچھے تھے اب انہیں کیا ہو گیا ؟ اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ جو شخص پوشیدہ چالیں چلتا ہو اس کے حالات کا علم تو ایک عرصہ کے بعد ہی ہوا کرتا ہے.دوسرے انہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ تو پیش گوئی پوری ہو رہی ہے.اگر ایسے تغیرات نہ ہوں تو پیشگوئی کیسے پوری ہو؟ یہ پیشگوئی بھی تو ہمارے ہی ذریعہ پوری ہوئی تھی اگر ہم میں ایسے لوگ نہ ہوتے تو کیا یہ پیشگوئی عیسائیوں کے ذریعہ پوری ہوتی یا یہودیوں کے ذریعہ پوری ہوتی یا سکھوں اور ہندؤوں کے 25
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 07 جون 1940ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم ذریعہ پوری ہوتی یا زرتشتیوں اور بدھوں کے ذریعہ پوری ہوتی یا یہ ان مسلمانوں کے ذریعہ پوری ہوتی جو پہلے ہی ایک مامور کا انکار کر کے اپنے آپ کو اسلام کی صحیح تعریف سے خارج کر چکے ہیں؟ اس پیشگوئی کا مفہوم یہ ہے کہ یہ زمانہ اس قدر منافقت کا ہوگا اور شیطان کا ایسا غلبہ ہو گا کہ انسان رات کو مومن سوئے گا اور صبح کو کا فر اٹھے گا.مگر اس کے بالمقابل اللہ تعالیٰ نے ہدایت کا بھی ایسا جوش اس زمانہ کے لئے رکھا ہے کہ رات کو ایک شخص کا فرسوئے گا اور صبح کو مومن اُٹھے گا.گویا ایک طرف سے اگر پانی نکلے گا تو دوسری طرف سے ذخیرہ پورا بھی ہوتا رہے گا.اور جب خصوصیت سے اس زمانہ کے متعلق یہ پیشگوئی ہے تو اس امر کی کتنی ضرورت ہے کہ ہم ہر وقت یہ اعلان کریں کہ ہم کون ہیں؟ تا کسی کو ہمارے متعلق شبہ نہ رہے.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کے حکم سے دن میں پانچ بار اذان کا حکم دیا.(یادر ہے کہ اذان الہامی ہے جبکہ بعض صحابہ کو بھی رؤیا میں اس کے الفاظ سکھائے گئے تھے.) اور اس کے ذریعہ مسلمان دن میں پانچ مرتبہ اپنے عقائد کا اعلان کرتے ہیں.مؤذن ہر مرتبہ دنیا کو بتاتا ہے کہ اس رات سے اٹھنے کے بعد بھی میں مومن ہوں اور اب بھی میرا عقیدہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں.اس کے بعد وہ اپنے کام کاج میں لگ جاتا ہے اور قسم قسم کے ابتلا اس کے سامنے آتے ہیں.کئی لوگ اسے فریب دینا چاہتے ہیں اور غیر مذاہب کے لوگ بھی آ آکر طرح طرح کی باتیں اس سے کرتے ہیں اور اسے اپنے عقائد سے برگشتہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں.مگر جب ظہر کا وقت ہوتا ہے تو وہ پھر کھڑا ہو کر اعلان کرتا ہے کہ بے شک میرے سامنے کئی لالچ آئے ، لوگوں نے مجھے ورغلانا چاہا مگر پھر بھی میرا عقیدہ وہی ہے جو صبح تھا.پھر عصر کا وقت آتا ہے جب وہ کام کاج سے تھک جاتا ہے اور تکان سے چور ہو جاتا ہے.کاروبار کے گھاٹے اس کے سامنے آتے ہیں، کئی قسم کی مایوسیاں پیدا ہوتی ہیں اور اس وقت مسلمان کھڑا ہو کر پھر وہی فقرے دہراتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ گویا عصر کا وقت آ گیا مگر میرے ایمان میں کوئی کمی نہیں ہوئی.اس کے بعد اندھیرا ہو جاتا ہے اور دنیا میں ایک تغیر ہوتا ہے یعنی دن کے بعد رات شروع ہو جاتی ہے مگر وہ پھر اعلان کرتا ہے کہ گورات آگئی اور دنیا میں اندھیرا ہو گیا مگر اب بھی میرا وہی عقیدہ ہے جو صبح تھا، میرے ایمان اور عقائد میں کوئی تغیر نہیں آیا.پھر عشاء ہوتی ہے ، لوگ سونے لگتے ہیں، نئی نئی امیدیں باندھتے ہیں کہ آج کا روبار میں گوگھانا ہوا مگر صبح یوں کام کریں گے.اس کے ساتھ چور، ڈاکو اور قاتل اپنے دلوں میں برے منصوبے سوچنے میں مشغول ہوتے ہیں مگر اس وقت بھی مسلمان 26
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 07 جون 1940ء تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد دوم اعلان کرتا ہے کہ الله اكبر الله اكبر.میں اب بھی اللہ تعالیٰ کو بڑا سمجھتا ہوں اور محمد ( صلی اللہ علیہ ) وسلم) کو اللہ تعالیٰ کا رسول سمجھتا ہوں.اگر کوئی چوری، ڈاکہ یاقتل کی نیت کرتا ہے تو میں اس سے بری ہوں.میں اللہ تعالیٰ کا نام لے کر سونے لگا ہوں.غرض یہ اعلان مسلمانوں سے دن میں پانچ مرتبہ کرایا جاتا ہے.اس لئے کہ انسان کی نیت بدلتے دیر نہیں لگتی.پس اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ مسلمان دن میں پانچ مرتبہ اعلان کرے کہ میں اب بھی ویسا ہی ہوں جیسا صبح تھا.اسلام کوئی خفیہ مذہب نہیں.وہ علی الاعلان اپنے ماننے والے سے اس کے عقائد کا اعلان کراتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ مسجدوں میں کھڑے ہو کر شور کرو کہ ہم مسلمان ہیں.پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ اعلان ضروری تھا تو آج جس کے متعلق یہ بتایا گیا کہ اس زمانہ میں ایک شخص رات کو مومن سوئے گا اور صبح کا فراُٹھے گا اور رات کو کا فرسوئے گا اور صبح مومن اٹھے گا.اس بات کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ ہم دنیا کو بتا ئیں کہ ہم کیا ہیں اور ہمارے عقائد کیا ہیں؟ اسی لئے میں ہر سال تحریک جدید کے متعلق یہ جلسے کرایا کرتا ہوں تا ہم دنیا کو بتا سکیں کہ ہم آج بھی ان باتوں پر قائم ہیں اور تا ہمارے اپنے نفس بھی ان باتوں کو یاد کر لیں.پھر جو نئے بچے اس عرصہ میں جوان ہوئے ہیں وہ بھی ان باتوں کو ذہن نشین کر لیں.اس تحریک پر آج چھ سال گزر چکے ہیں کئی بچے جو اس وقت دس سال کے تھے اور اس وجہ سے ان باتوں کو نہ سمجھتے تھے ، آج سولہ سال کے جوان ہیں اور ان باتوں کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں.کئی بچے ذہین ہوتے ہیں اور دس سال کی عمر میں بات سمجھ سکتے ہیں، وہ اس وقت چار سال کے تھے اور نہ سمجھ سکتے تھے، مگر آج سمجھنے کے قابل ہو چکے ہیں.اس لئے ان کو آگاہ کرنا ضروری ہے.پھر بعض بچے غیر معمولی طور پر ذہین ہوتے ہیں اور چھ سال کی عمر میں ہی بات سمجھ لیتے ہیں.جب یہ تحریک شروع ہوئی وہ اس کے قریب میں ہی پیدا ہوئے تھے یا چند ماہ کے تھے، اب وہ چھ سال کے ہو گئے ہیں، وہ ان تقریروں کو سنیں گے تو یہ باتیں ان کے ذہن نشین ہو جائیں گی.پس میں اس سال کے ان جلسوں کے لئے گیارہ اگست کی تاریخ مقرر کرتا ہوں.(خطبہ میں، میں نے 28 جولائی کا اعلان کیا تھا مگر دفتر تحریک کی سفارش پر کہ وقت تھوڑا ہے، بیرون ہند کے لوگ تیاری نہ کر سکیں گے، میں گیارہ اگست کا اتوار اس دن کے لئے مقرر کرتا ہوں.اس روز جلسے کر کے تحریک جدید کے مطالبات کے متعلق تقریریں کی جائیں اور ان کی ضرورتیں اور فوائد بیان کئے جائیں.جنگ نے ان ضرورتوں کو آج بالکل واضح کر دیا ہے.27
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 07 جون 1940ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم میں امید کرتا ہوں کہ احباب بالخصوص عہدہ داران ان جلسوں کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں گے اور سلسلہ کے اخبارات بھی اس کی اہمیت کو متفرق پیرایوں میں جماعت کے سامنے پیش کرتے رہیں گے.میں یہ بھی ہدایت کرتا ہوں کہ اس جلسہ سے قبل جماعت مردوں، عورتوں اور بچوں کے علیحدہ علیحدہ جلسے کر کے بار بار یہ باتیں ان کے سامنے پیش کی جائیں.سیکرٹریان تحریک جدید ہفتہ وار رپورٹیں بھجواتے رہیں کہ اس کے لئے انہوں نے کس طرح چھوٹے چھوٹے جلسے منظم کئے ہیں؟ اس کے ساتھ یہ بھی کوشش کی جائے کہ اس وقت تک چندے بھی پورے کے پورے ادا ہو جائیں یا ان کا اکثر حصہ ادا ہو جائے اور جماعت کا اکثر حصہ ادا کر چکا ہو.اعداد کے لحاظ سے چونکہ یہ چھٹا سال ہے، یہ اتران کا سال ہے.یہ ستی کے سال بھی ہوتے ہیں اور چستی کے بھی.بعض لوگ تھک جاتے ہیں اور ان کا قدم ست پڑنے لگتا ہے.مگر کئی سمجھتے ہیں کہ اب کام ختم ہونے لگا ہے.تحریک اختتام کو پہنچنے والی ہے، اس لئے زیادہ (مطبوع الفضل 16 جون 1940ء) جوش سے حصہ لینا چاہئے.28
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 02 اگست 1940ء قربانی کے بغیر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہونا ناممکن ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 02 اگست 1940ء تحریک جدید کے اس سال کے اعلان پر آٹھ ماہ گزر چکے ہیں مگر مجھے افسوس ہے کہ ابھی اس سال کی نصف رقم وصول نہیں ہوئی.ابھی آتے وقت مجھے ایک فہرست دی گئی ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ بہت سی چھوٹی چھوٹی جماعتیں جن کے چندوں کی مجموعی تعداد چھ ، سات ہزار سے زیادہ نہ ہوگی.ستر کے قریب ایسی ہیں کہ جن کی طرف سے ابھی کوئی پیسہ بھی وصول نہیں ہوا.یہ جماعتیں بہت چھوٹی چھوٹی ہیں.بعض میں چھ سات سے زیادہ احمدی نہیں اور بعض دور دراز گوشوں میں ہیں.ان کی طرف سے ابھی ایک پیسہ بھی وصول نہیں ہوا.پھر ایک خاصی تعداد ایسی ہے جن کی وصولی تینتیس فیصدی سے زیادہ نہیں یعنی ان میں سے کسی کی وصولی دس فیصدی ہے، کسی کی بارہ فیصدی کسی کی ہیں، کسی کی تمہیں اور کسی کی تینتیس فیصدی.پھر بعض وہ ہیں جن کا تینتیس سے پچاس فیصدی کے درمیان چندہ وصول ہوا ہے.اور کچھ وہ ہیں جن کا پچاس سے ستر فیصدی تک.اور بہت تھوڑی جماعتیں ایسی ہیں جن کا قریباً سارا یا بہت سا حصہ وصول ہو چکا ہے.حالانکہ میں نے بار بار توجہ دلائی ہے کہ جو لوگ ادا نہیں کر سکتے ، وہ اپنے نام نہ لکھوائیں.ایسے لوگ جماعت کی ترقی کا موجب نہیں ہوتے بلکہ نقصان کا موجب ہوتے ہیں.مومن کے وعدے پر اعتبار کر لیا جاتا ہے اور وعدوں کی مجموعی رقم کے مطابق پروگرام بنا لیا جاتا ہے لیکن اگر ان میں سے کچھ وعدے پورے نہ ہوں تو نقصان لازمی ہے.فرض کرو دس آدمی وعدہ کرتے ہیں اور ان کے وعدے کے مطابق پروگرام بنا لیا جاتا ہے، اب اگر ان میں سے چار اپنا وعدہ پورا نہ کریں تو اس کام کو جو نقصان پہنچے گا اس کا گناہ انہی لوگوں پر ہو گا جنہوں نے دھوکا دیا.اگر وہ نام نہ لکھواتے تو سلسلہ مقروض نہ ہوتا.سلسلہ نے ان کو ایمان دار سمجھا اور ان کے وعدوں پر اعتبار کیا مگر دراصل وہ بے ایمان تھے اور دھوکا دینے والے تھے، اس لئے سلسلہ کو مقروض ہونا پڑا.میں نے بار بار کہا ہے کہ ثواب اس میں نہیں کہ آدمی اپنا نام لکھوا دے بلکہ یہ تو عذاب حاصل کرنے کا طریق ہے.اس سے جتنا بوجھ سلسلہ پر پڑے گا اس کا عذاب انہی لوگوں پر ہوگا.جو نام لکھوا دیتے ہیں مگر وعدہ پورا نہیں کرتے.اس میں شک نہیں 29
اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 02 اگست 1940ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم کہ ان کے وعدہ پورا نہ کرنے کی وجہ سے بدنامی ساری جماعت کی ہوتی ہے.مگر خدا تعالیٰ کے ہاں اس کا عذاب صرف ان لوگوں پر ہے جنہوں نے نام تو لکھوا لئے مگر وعدے پورے نہ کئے.انہوں نے لوگوں میں جھوٹی عزت تو حاصل کر لی مگر خدا تعالیٰ کی لعنت کے مورد ہو گئے.میں نے اس امر کی طرف بار بار توجہ دلائی ہے.مگر پھر بھی میں دیکھتا ہوں کہ ایک طبقہ ایسا ہے جو اس روش سے باز نہیں آتا ، وہ نام تو لکھوا دیتے ہیں مگر وعدوں کو پورا نہیں کرتے اور ادا کرنے میں غافل رہتے ہیں.ان کا یہ فعل ہرگز مستحسن نہیں بلکہ صریح خسران کا موجب ہے.اور یہ ایسی ہی بات ہے کہ کوئی انسان اپنے ہاتھ سے اپنی ناک کاٹ دے.دشمن اگر کسی کی ناک کاٹ دے تو یہ بھی بری بات ہے اور جب وہ گزرے تو لوگ کہتے ہیں کہ تک کٹا جارہا ہے مگر یہ لوگ تو ایسے ہیں کہ جیسے کوئی استرالے کر اپنے ہاتھ سے اپنی ناک کاٹ دے.اور ظاہر ہے کہ ایسا شخص بالکل دیوانہ یا فاتر اعقل ہی ہوسکتا ہے.اسی طرح جس چندہ میں پابندی کی کوئی شرط نہیں اس میں جوشخص اپنی مرضی سے پہلے نام لکھواتا ہے اور پھر عدم ادائیگی سے جماعت کو ذلیل کرتا ہے، وہ بھی ویسا ہی دیوانہ اور فاتر العقل ہے جیسے استرالے کر اپنی ناک خود کاٹنے والا.میں نے بارہا کہا ہے کہ اس چندہ میں وعدے صرف وہی لوگ لکھوائیں جو خدا تعالیٰ کے دربار میں سابِقُونَ میں شامل ہونا چاہتے ہیں.لوگوں میں جھوٹی عزت حاصل کرنے کے شائق نام نہ لکھوائیں.مگر میں نے دیکھا ہے پھر کئی لوگ یو نہی نام لکھوا دیتے ہیں.کوئی شخص یہ خیال کرے کہ اسے کوئی تکلیف بھی نہ پہنچے اور وہ خدا تعالیٰ کا مقرب بھی ہو جائے؟ یہ ناممکن ہے.قربانی کے بغیر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہونا ناممکن ہے.وو.پس میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس بات کو ہمیشہ مد نظر رکھیں کہ تحریک جدید کے چندے طوعی ہیں.اس لئے ان کو پورا کرنے کیلئے ان کو پوری کوشش کرنی چاہئے اور اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اگر انہیں اس قربانی کی توفیق نہیں ملتی تو اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ان کی پہلی قربانیوں کو بھی قبول نہیں کیا.ورنہ آج ان سے سستی سرزد نہ ہوتی.ستی کے معنی ہی یہ ہیں کہ پہلے عمل ضائع ہو چکے.پس میں پھر توجہ دلاتا ہوں کہ دوست سستی اور غفلت کو ترک کر دیں کیونکہ اس سے پہلے سالوں کی قربانیاں بھی ضائع ہو جائیں گی.یہ تو زمانہ اس قسم کا ہے کہ انسان کے سامنے سے ایک منٹ کے لئے بھی موت اوجھل نہیں ہونی چاہئے.میں ابھی لاہور سے آرہا ہوں وہاں ہوائی جہازوں کے لئے لوگوں میں چندہ کی تحریک کرنے کے 30
تحریک جدید - ایک البی تحریک.....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 02 اگست 1940ء لئے ہوائی جہازوں سے اشتہار پھینکے، جن میں لکھا تھا کہ ممکن تھا اس اشتہار کی جگہ جو تم اٹھا رہے ہو، ہم گرتا جو جرمن یا روسیوں کا ہوتا.غور کرو اگر ایسا ہوتا تو تمہاری کیا حالت ہوتی ؟ اس لئے اس وقت کی اہمیت کو پہچانیں اور جلد چندہ دیں تا اس سے ہوائی جہاز شہر کی حفاظت کے لئے خریدے جائیں.اب دنیا میں فاصلہ کا سوال بالکل مٹ چکا ہے.ہوائی جہاز دو دو، تین تین ہزار میل پر جا کر حملہ کرتے ہیں اور پھر واپس آجاتے ہیں اور دشمنوں کو ایسے مواقع حاصل ہیں کہ اگر چاہیں تو ہندوستان پر حملہ کر دیں.گوا بھی کیا نہیں مگر ہندوستان میں شدید خطرہ محسوس ہو رہا ہے.ادھر چین اور جاپان میں جنگ شروع ہے، امریکہ الگ کھڑا رہا ہے اور یورپ میں تو جنگ ہو ہی رہی ہے.ہر طرف خطرات ہی خطرات ہیں اور خطرات بھی ایسے کہ بہادری سے ان کا مقابلہ کرنے کا کوئی موقع نہیں اور کوئی سینہ تان کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ آئے کون میرے مقابلہ پر آتا ہے؟ ہوائی جہاز اوپر سے حملہ کرتے ہیں اور بعض اوقات نظر بھی نہیں آتے.وہ تمہیں تمہیں ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہے ہوتے ہیں.چیل نظر آتی ہے مگر جہاز نہیں ، صرف بم گرتے ہیں.جب موت اس قدر قریب ہو تو مومن اگر اپنی ذمہ واری کو نہ سمجھے تو بہت افسوس کا مقام ہے.پس میں احباب جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے فرائض کو سمجھیں اور موقع کی نزاکت کے لحاظ سے قربانیوں میں تیز ہوں نہ کہ ست.جو لوگ ایسے نازک وقت میں بھی خدا تعالیٰ کی طرف نہیں جھکتے ایسے سنگ دل لوگ گو بظاہر جماعت میں شامل ہوں مگر خدا کے نزدیک ان کا شمار مومنوں میں نہیں ہوتا اور کوئی وجہ نہیں کہ ایسے لوگوں کو خدا تعالیٰ کا فضل بچائے ایسے لوگ باوجو د مومنوں کی جماعت شامل ہونے کے خدا تعالیٰ کی گرفت سے نہیں بچ سکتے.جب ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا تو بغداد میں ایک بزرگ رہتے تھے.لوگ ان کے پاس آئے اور کہا کہ آپ دعا کریں، اللہ تعالیٰ بغداد کو ہلاکت سے بچائے.اس بزرگ نے کہا کہ میں کیا دعا کروں؟ میں جب بھی دعا کرنے لگتا ہوں مجھے فرشتوں کی یہ آواز میں آتی ہیں:.يَا أَيُّهَا الْكُفَّارُ اقْتُلُوا الْفُجَّارَ یعنی اے کا فرو! ان مسلمانوں کو جو بے دین ہو چکے اور دین سے بالکل غافل ہیں قتل کر دو.تو جب ایسے نازک اور خشیت کے موقع پر بھی کوئی شخص دین کی خدمت سے غافل رہتا ہے اور قربانی نہیں کرتا.اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کے باوجود کہ ان قربانیوں کے نتیجہ میں مرنے کے بعد اسے جنت ملے گی اور خدا تعالیٰ کے انعام اس پر ہوں گے.تو وہ کس منہ سے ایمان کا دعوی کر سکتا ہے؟ جنگ میں جو 31
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 02 اگست 1940ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم لوگ قربانیاں کرتے ہیں ، ان کو موت کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت یا کسی انعام کی امید نہیں.کوئی جرمنی کے لئے قربانی کرتا ہے، کوئی فرانس کے لئے اور کوئی انگلستان کے لئے لیکن جو بد قسمت خود و عدہ کرنے کے باوجود اور اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ سے انعامات کے وعدہ کے ہوتے ہوئے ، خدا تعالٰی کی راہ میں قربانی کرنے میں تامل کرتا ہے.وہ کس طرح امید کر سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا فضل اسے ڈھانپ لے گا؟ اللہ تعالیٰ بھی اسے کہے گا کہ تمہارے سامنے ایسے لوگ تھے جنہوں نے بغیر کسی انعام کے وعدہ کے محض دنیوی عزت اور چند روزہ آرام کے لئے قربانیاں کیں اور جانیں تک دے دیں.مگر تم نے دین کے لئے قربانی نہ کی پھر تم کس طرح امید رکھ سکتے ہو کہ میرے فضلوں کے وارث ہو؟ ہٹلر کس لئے لڑ رہا ہے؟ اس لئے کہ یورپ کو فتح کرے.مگر یورپ دنیا کا کتنا حصہ ہے؟ وہ آبادی، پیداوار اور علاقہ ہر لحاظ سے ادنیٰ ہے.تمام قیمتی پیداوار میں یا تو ایشیا میں پیدا ہوتی ہیں یا امریکہ اور افریقہ میں مگر اس ادنی سے ملک پر غلبہ کے لئے دیکھ لو جرمن کتنی قربانیاں کر رہے ہیں؟ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مومن کی جنت سارے زمین و آسمان کے برابر ہوگی.اور آج تک دنیا میں کوئی ایسا آدمی نہیں گزرا جس کی بڑی سے بڑی امنگ اور امیدادنی مومن کے ہزارویں حصہ کے بھی برابر ہو اور انعامات کے اس قد ر فرق کے باوجود اگر کوئی شخص قربانی سے دریغ کرتا ہے تو سوائے اس کے کیا کہا جاسکتا ہے کہ اس کا دل نور ایمان سے بالکل خالی ہے.(مطبوعہ الفضل 18 ستمبر 1940ء ) 32
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 اکتوبر 1940ء تحریک جدید کے کاموں میں حصہ لینے والوں کے لئے دعا کی تحریک " خطبہ جمعہ فرمودہ 18 اکتوبر 1940ء دوسری چیز جو ان دعاؤں میں یاد رکھنی چاہئے ، وہ تحریک جدید کے چندہ کے مطالبہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.دوستوں کو معلوم ہے کہ میں یہ کوشش کر رہا ہوں ( اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ میں اس کوشش میں کامیاب ہوتا ہوں یا نہیں.اور میری اس جدو جہد کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ ابھی تو اس میں بہت سی مشکلات اور روکیں حائل ہو رہی ہیں.) کہ تحریک جدید کے چندے سے ایک ایسا مستقل فنڈ قائم کر دیا جائے جس کے نتیجہ میں تبلیغ کا کام عام چندوں کے بڑھنے گھٹنے کے اثر سے آزاد ہو جائے.جو لوگ اس کام میں حصہ لے رہے ہیں، وہ اشاعت دین کی ایک مستقل بنیاد قائم کر رہے ہیں.اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس میں کامیاب کر دیا تو وہ عملی طور پر اس بنیاد کو قائم کرنے والے ہوں گے اور اگر میری ان کوششوں میں اللہ تعالیٰ کی کسی حکمت کے ماتحت کامیابی نہ ہوئی، تب بھی خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ ایسے ہی سمجھے جائیں گے جیسے مستقل بنیا درکھنے والے.پس ایسی قربانی کرنے والے دوست اس بات کے مستحق ہیں کہ جماعت کے تمام لوگ ان کے لئے دعا کریں.جو لوگ تحریک جدید میں حصہ نہیں لے رہے، اپنی مجبوریوں کی وجہ سے یا اس وجہ سے کہ یہ طلوعی تحریک ہے اور اس میں شمولیت انہوں نے ضروری نہیں مجھی.ان کا کم سے کم فرض یہ ہے کہ وہ تحریک جدید میں حصہ لینے والوں کے لئے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کو قبول فرمائے ، ان کے قدم کو نیکیوں میں بڑھائے اور ان کا انجام بخیر کرے.در حقیقت صحیح معنوں میں نیک وہی ہے جس کا انجام نیک ہو اور بد وہی ہے جس کا انجام برا ہو.قرآن کریم نے اسی امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت یعقوب علیہ السلام کی یہ وصیت بیان فرمائی ہے.جو انہوں نے اپنے بیٹوں کو کی کہ: فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ اس کا یہ مطلب نہیں کہ درمیانی زندگی میں تم بے شک بد معاش رہنا صرف مرتے وقت خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جانا بلکہ حضرت یعقوب یہ فرماتے ہیں کہ میں تو تمہارے انجام کو دیکھنا چاہتا ہوں، مجھے 33
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 اکتوبر 1940ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک......جلد دوم تمہاری درمیانی نیکیوں کی کوئی غرض نہیں.اگر تم بالفرض زندگی میں نیکیاں بھی کرتے رہے لیکن تمہارا انجام لَا إِلَهَ إِلَّا الله پرنہ ہوا تو پھر تم کسی اور طرف جاؤ گے اور میں کسی اور طرف جاؤں گا.دنیا میں کوئی باپ ایسا نہیں جو یہ خواہش نہ رکھتا ہو کہ اس کی اولا د اس کے پاس رہے.دنیا میں ہر انسان کے اندر یہ خواہش پائی جاتی ہے اور اگلے جہان میں بھی یہ خواہش موجود ہوگی.بلکہ یہاں تو کئی قسم کی مجبوریوں کی وجہ سے اولا د اپنے ماں باپ سے جدا بھی رہتی ہے لیکن اگلے جہان میں ایسا نہیں ہوگا.بلکہ وہاں اللہ تعالیٰ ماں باپ کی اس خواہش کا ایسا احترام کرے گا کہ اپنے عام قانون کو بھی بدل دے گا اور اولاد کو خواہ وہ ایمان کے کسی درجہ پر ہوں، ان کے ماں باپ کے پاس رکھے گا.فرض کرو، جنت کے ایک کروڑ در جے ہوں اور بچہ تو دسویں حصے کا مستحق ہو اور باپ کروڑ ویں حصے کا، تو اللہ تعالیٰ اس خواہش کے احترام میں دس والے سے اٹھا کر کروڑ والے کے مقام تک پہنچا دے گا.اور یہ برداشت نہیں کرے گا کہ باپ کو یہ صد مہر ہے کہ اس کا بچہ اس سے جدا ہے.پس وہاں ماں باپ کی اس محبت کا انتہائی احترام کیا جائے گا اور بچوں کو اپنے ماں باپ کے پاس رکھا جائے گا اور اگر کسی کے بچے جنت کے اعلیٰ مقام پر ہوئے اور ماں باپ اونی مقام پر تو اللہ تعالیٰ ماں باپ کو بلند کر کے ان کے بچے کے پاس لے جائے گا.بہر حال جذبات پدری اور جذبات مادری کا احترام وہاں انتہا تک پہنچا ہوا ہو گا.حضرت یعقوب علیہ السلام اسی امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ (البقرة:133) کہ اے میرے بیٹو! مرنے کے بعد ہم تو یہ امیدیں لگائے بیٹھے ہوں گے کہ ابھی ہمارے بیٹے ہمارے پاس آتے ہیں اور ہم اکٹھے جنت میں رہیں گے.لیکن اگر تمہارے اعمال اچھے نہ ہوئے تو ہماری یہ امیدیں دل ہی دل میں رہ جائیں گی اور تم تو کہیں جارہے ہو گے اور ہم کہیں جارہے ہوں گے.اس لئے اے میرے بیٹو! تم میری اس وصیت کو یا د رکھو کہ جب تمہاری موت کا وقت آئے تو اس وقت تمہارا خاتمہ لَا إِله إِلَّا اللہ پر ہی ہونا چاہئے تاکہ ہم اگلے جہان اکھٹے رہیں اور ہم میں کوئی جدائی واقع نہ ہو.تو انجام پر ہی سارا انحصار ہوتا ہے.اسی لئے دوسرے کے لئے بہترین دعا یہ ہوتی ہے کہ خدا اس کا انجام بخیر کرے.کیونکہ جس کی موت اچھی ہوگئی ، اس کی ساری زندگی اچھی ہوگی اور جس کی موت خراب ہو گئی ، اس کی ساری زندگی خراب ہو گئی.پس جو لوگ تحریک جدید میں حصہ نہیں لے سکے ، ان کا فرض ہے کہ وہ اس تحریک میں حصہ لینے والوں کے لئے دعائیں کریں کہ خدا ان کا انجام بخیر کرے اور ان کی نیتوں اور 34
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم جدید-..اقتباس از خطبه جمعه فرمود 18 اکتوبر 1940ء ارادوں کو احسن طور پر پورا کر ہے.تحریک جدید میں حصہ لینے والوں کو بھی چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کے لئے دعائیں کریں تا اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو اور وہ ہماری حقیر کوششوں میں برکت ڈالے اور ان کے مفید نتائج پیدا فرمائے.اسی طرح ان روکوں اور مشکلات کے دور ہونے کے لئے بھی دعائیں کی جائیں جو تبلیغ اسلام کے لئے ایک مستقل فنڈ قائم کرنے کی راہ میں حائل ہورہی ہیں.اور اللہ تعالیٰ سے التجا کی جائے کہ وہ ایسا مستقل فنڈ قائم کرنے میں ہماری مدد کرے جو دنیا کے کناروں تک اسلام اور احمدیت کی تبلیغ پہنچانے میں محمد ہو.اور پھر یہ بھی دعا کریں کہ وہ لوگ جنہوں نے تحریک جدید میں حصہ نہیں لیا یا حصہ تو لیا مگر اپنی طاقت سے کم لیا ہے یا حصہ تو اپنی طاقت کے مطابق لیا ہے مگر ابھی تک انہوں نے اپنے وعدوں کو پورا نہیں کیا.اللہ تعالیٰ ان کے قصوروں کو معاف کر کے ان کی ہمتوں کو بلند کرے اور انہیں ان لوگوں میں شامل نہ کرے جو چشمہ کے پاس پہنچ کر اپنی بدقسمتی سے پیا سے لوٹ جاتے ہیں“.(مطبوعہ الفضل 24 اکتوبر 1940ء) 35
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 08 نومبر 1940ء اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلے خدائی مدد پر چلتے ہیں کسی انسان کی وجہ سے نہیں وو خطبہ جمعہ فرمودہ 08 نومبر 1940ء.اس کے بعد میں تحریک جدید کے چندہ کی طرف جماعت کے دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.اس مہینہ میں اور اس سے پچھلے ڈیڑھ مہینہ میں جماعت نے اس چندہ کی طرف خاص توجہ کی ہے.جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اس سال نہ صرف گزشتہ سال کے برابر وصولی ہوگئی ہے بلکہ آمد میں خفیف سا اضافہ ہو گیا ہے.(اس خطبہ کے بعد کے ایام میں پھر کچھ کمی آگئی ہے.اڑھائی مہینے پہلے تو وصولی میں پچاس فیصدی تک کمی تھی مگر ان اڑھائی ماہ میں توجہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ چندہ تحریک جدید کی آمد خدا تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ سال سے دو چار سو روپیہ بڑھ گئی ہے.مگر اس کے یہ معنی بھی نہیں کہ چونکہ 31 اکتوبر کی تاریخ گزر چکی ہے اس لئے اب جماعت کو اس کی طرف سے اپنی توجہ ہٹا لینی چاہئے.بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ اس کے متعلق کافی زور دیا جا چکا ہے اس لئے اب مزید زور دینا مناسب نہیں.مگر جہاں تک میں نے سوچا ہے، یہ بات بالکل غلط ہے.کیونکہ جنہوں نے چندہ دے دیا ہے ان سے ہم نے دوبارہ چندہ نہیں لینا بلکہ جنہوں نے ابھی تک چندہ نہیں دیا صرف ان سے چندہ وصول کرنا ہے.بے شک گزشتہ اڑھائی مہینہ میں جماعت نے بہت قربانی سے کام لیا ہے.مگر یہ قربانیاں جنہوں نے کیں، انہوں نے ہی کی ہیں.سب نے نہیں کیں.اور ہمارا فرض ہے کہ جنہوں نے ابھی تک اس میں حصہ نہیں لیا، ان کو بھی حصہ لینے کی تحریک کریں.ممکن ہے بعض کا رکن یہ خیال کرتے ہوں کہ ہم نے اڑھائی مہینہ تو خوب محنت سے کام کیا ہے، اب مہینہ، دو مہینے ہمیں آرام کرنا چاہئے.مگر میں امید کرتا ہوں کہ وہ خالص ایمان جو مومن کی ہمت کو بڑھاتا ہے، اس سے کام لیتے ہوئے ، وہ اس وقت تک چین اور آرام نہیں کریں گے جب تک تمام لوگوں سے تحریک جدید کا چندہ وصول نہ کرلیں.ابھی تک تحریک جدید کے چندہ میں بنتیس ہزار روپے کی وصولی باقی ہے اور ہمیں بائیس ہزار گزشتہ سالوں کے چندہ میں سے رہتا ہے.اس تمام روپیہ کی وصولی کے لئے ان لوگوں پر زور دینا چاہئے جنہوں نے تاحال اپنے وعدہ کو پورا نہیں کیا.وہ مخلصین جنہوں نے گزشتہ اڑھائی ماہ میں اس چندہ کی ادائیگی کی 37
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 08 نومبر 1940ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم طرف توجہ کی اور جنہوں نے اپنے وعدوں کو پورا کر دیا ، ان کے لئے تو بے شک وقفہ ہو سکتا ہے.مگر اب جو تحریک جماعت کے کارکن کریں گے اس کا بوجھ ان لوگوں پر پڑے گا جنہوں نے گیارہ مہینے غفلت سے گزار دیئے اور انہوں نے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کا کوئی خیال نہ کیا.پس گیارہ مہینے دوسروں سے پیچھے رہ جانے کی وجہ سے وہ کسی آرام کے مستحق نہیں بلکہ اس بات کے مستحق ہیں کہ انہیں بیدار کیا جائے.مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تحریک جدید کے چندہ میں قادیان کی جماعت کی وصولی نہ صرف پچھلے سال سے کم ہے بلکہ باہر کی کئی جماعتوں سے بھی کم ہے.اور یہ پہلا سال ہے جس میں قادیان کی جماعت بعض دوسری جماعتوں سے پیچھے رہی.اس میں بہت سادخل میری ایک بیوی کی بیماری کا بھی ہے.جو لجنہ اماءاللہ کی سیکرٹری ہیں اور جو بیمار رہنے کی وجہ سے ہی چندہ کی وصولی کا اہتمام نہیں کر سکیں.مگر میں اس بات کا قائل نہیں کہ کوئی زندہ جماعت ایسی بھی ہو سکتی ہے جس کے کسی کام کا انحصار صرف ایک آدمی پر ہو.اور اگر وہ بیمار ہو جائے یا خدا نخواستہ فوت ہو جائے تو کام بند ہو جائے.اس وقت ہمیں جو کارکن میسر ہیں، کیا ان کے متعلق کوئی بھی شخص کہہ سکتا ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے؟ اور جب وہ ہمیشہ زندہ نہیں رہیں گے تو کیا اُن کی وفات کے بعد سلسلہ کا کام بند ہو جائے گا؟ زندہ سلسلہ کی علامت یہی ہوا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس میں کام کرنے والے آدمی پیدا کرتا چلا جاتا ہے اور اس کے سلسلہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا.یہی وجہ ہے اللہ تعالٰی، انبیاء کی وفات کے بعد ان کے سلسلہ کو زیادہ ترقی دیتا ہے تا دنیا کو یہ بتائے کہ میرے سلسلہ کا انحصار انبیاء کے وجود پر بھی نہیں.حالانکہ خدا تعالیٰ کے دین کے لئے سب سے زیادہ قربانی کرنے والے انبیاء ہی ہوتے ہیں.مگر خدا تعالیٰ یہ بتانے کے لئے کہ اس کے دین کی ترقی کا انحصار کسی شخص واحد کی ذات پر نہیں، انبیاء کی وفات کے بعد ان کے قائم کردہ سلسلہ کو اور زیادہ ترقیات دینی شروع کر دیتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے زمانہ میں بڑی کامیابی ہوئی مگر حضرت ابو بکر کے زمانہ خلافت میں اس سے بھی زیادہ کامیابی ہوئی اور حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں اس سے بھی زیادہ ، اس کے یہ معنی نہیں کہ ابوبکر اور عمر نعوذ باللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے مقرب تھے، ان کا قرب رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قرب کے مقابلہ میں بالکل کم ہے اور ان کی قربانیاں رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قربانیوں کے مقابلہ میں بالکل بیچ ہیں مگر پھر بھی اللہ تعالیٰ نے یہ بتانے کے لئے کہ یہ دین میرا ہے، کسی انسان کا قائم کردہ نہیں ، ان کی حقیر کوششوں میں برکت زیادہ ڈال دی.38
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 08 نومبر 1940ء جب حضرت مسیح موعود فوت ہوئے تو عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اب سلسلہ تباہ ہو جائے گا.اور دشمن خوش تھا کہ چندہ آنا اب بند ہو جائے گا اور جماعت کی ترقی رک جائے گی.مگر جب لوگوں نے ایک دو سال بعد دیکھا کہ جماعت افراد کی تعداد کے لحاظ سے بھی بڑھ گئی ہے، قربانی کے لحاظ سے بڑھ گئی ہے اور اشاعت دین کے لحاظ سے بھی بڑھ گئی ہے تو انہوں نے یہ نئی بات بنائی کہ اصل میں مولوی نورالدین صاحب جماعت میں ایک بہت بڑے عالم ہیں اور سلسلہ کی تمام ترقی کا انحصار انہی پر ہے.مرزا صاحب کی زندگی میں تمام کام مولوی صاحب ہی کرتے تھے ، گو ظاہر میں مرزا صاحب کا نام رہتا تھا.چنانچہ کئی مولوی طرز کے لوگ جو ظاہری علوم کی قدر زیادہ کیا کرتے ہیں ، وہ حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں ہی کہا کرتے تھے کہ اس سلسلہ کو مولوی نورالدین صاحب چلا رہے ہیں.انہوں نے جب حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد دیکھا کہ مولوی صاحب کے زمانہ میں سلسلہ پہلے سے بھی زیادہ ترقی کر رہا ہے تو انہوں نے خوش ہو کر کہنا شروع کر دیا کہ ہم نہ کہتے تھے، تمام کام مولوی نورالدین صاحب کا ہے.غرض حضرت خلیفہ اول کے وقت سلسلہ پہلے سے بھی زیادہ ترقی کر گیا اور مخالفوں نے یہ کہہ کر اپنے دل کو تسلی دینی شروع کر دی کہ یہ تمام کاروائی نورالدین کی ہے.اس کی وفات کے بعد یہ سلسلہ تباہ ہو جائے گا.حضرت خلیفہ اول جب وفات پاگئے تو ان کے بعد اگر جماعت کے وہ مشہور لوگ جو اثر اور رسوخ رکھتے تھے ، جیسے خواجہ کمال الدین صاحب یار یو یو آف ریچز کی ایڈیٹری کے لحاظ سے مولوی محمد علی صاحب، خلیفہ منتخب ہو جاتے تو انگریزی دان طبقہ یہ خیال کرتا کہ اب جماعت کی ترقی کی وجہ یہ ہے کہ کوئی انگریزی میں دسترس رکھنے والا خلیفہ ہو گیا ہے.کیونکہ یہ مغربی علوم کے غلبہ کا ہی زمانہ ہے.مولویوں اور ملانوں سے یہ کام نہیں ہو سکتا.جیسے حضرت خلیفہ اول البعض دفعہ فرمایا کرتے تھے کہ بعض لوگ ہمیں غصہ سے قُلْ اَعُوذُ تے مُلا کہہ دیا کرتے ہیں، تو اگر ان میں سے کوئی خلیفہ ہو جاتا تو انگریزی دان طبقہ پھر بھی یہ خیال کر سکتا تھا کہ ممکن ہے جماعت کی ترقی انہی کی وجہ سے ہو.مگر اللہ تعالیٰ نے اس الزام کو دور کرنے کے لئے کہ یہ سلسلہ انسانوں پر چل رہا ہے، اس انسان کو خلافت کے لئے چنا.جس کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ وہ نالائق ہے، نا تجربہ کار ہے، کم علم ہے اور وہ جماعت کو تباہ کر دے گا.تا دنیا پر یہ ظاہر کرے کہ یہ خدا کا سلسلہ ہے کسی انسان کا قائم کردہ سلسلہ نہیں.بے شک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا تعالیٰ کے مقرب تھے مگر اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ سلسلہ ان کا بھی نہیں بلکہ میرا تھا.اور بے شک حضرت مولوی نورالدین صاحب ایک بہت بڑے عالم تھے مگر ان کا علم بھی میرے فضل کا نتیجہ تھا.اورسلسلہ ان کا نہیں بلکہ میرا تھا.اور اس 39
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 08 نومبر 1940ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم کے بعد خدا تعالیٰ نے اس انسان کو خلافت کے لئے چنا، جس کے متعلق دنیا یہ حقارت سے کہتی تھی کہ وہ نہ بعد نے چنا کے دنیا سے ظاہری علوم سے آگاہ ہے نہ باطنی علوم جانتا ہے، نہ اس کی صحت اچھی ہے نہ اسے کوئی رعب اور دبدبہ حاصل ہے اور نہ ہی کسی اور رنگ میں وہ لوگوں میں مشہور ہے.اور اس طرح خدا نے ظاہر کر دیا کہ اس سلسلہ کوترقی دینا میرا کام ہے اور میں اگر چاہوں تو مٹی سے بھی بڑے بڑے کام لے سکتا ہوں.تو اللہ تعالیٰ کے قائم کر وہ سلسلے خدائی مدد پر چلتے ہیں کسی انسان کی وجہ سے نہیں چلتے.اور اگر ہماری جماعت کسی وقت یہ سمجھ لے کہ فلاں شخص کے بیمار ہونے یا چلے جانے یا وفات پا جانے سے سلسلہ کے کام میں خرابی پیدا ہو جائے گی تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اس نے تو کل کو چھوڑ دیا.جب تک ہماری جماعت میں یہ تو کل رہے گا ممکن ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نئے سے نئے آدمی کا م کر نے والے پیدا نہ کرے.آخر ہماری جماعت میں لوگ بیمار بھی ہوتے ہیں اور مر بھی جاتے ہیں.مگر کیا کبھی بھی ہمارے کاموں میں رخنہ پڑا ؟ ہم نے تو دیکھا ہے کہ جب بھی ایسا ہوتا ہے اللہ تعالٰی فوراً ایسے آدمی کھڑے کر دیتا ہے جو ان کے کام کو سنبھال لیتے ہیں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو علمی لحاظ سے دنیا میں خاص شہرت حاصل تھی.اسی طرح مولوی سید محمد احسن صاحب بھی بہت مشہور تھے، مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب اور قاضی سید امیر حسین صاحب بھی بڑے پایہ کے عالم تھے.گو باہر ان کی علمی شہرت نہیں تھی مگر حضرت خلیفہ اول کی وفات کی وجہ سے ایک عالم تو اس طرح ختم ہو گیا اور دوسرا عالم سلسلہ خلافت سے مرتد ہو گیا.تب وہی لوگ جو دس دن پہلے گمنام زندگی بسر کر رہے تھے، یکدم آگے آگئے.چنانچہ حافظ روشن علی صاحب مرحوم، میر محد الحق صاحب اور مولوی محمد اسماعیل صاحب مرحوم نمایاں ہونے شروع ہو گئے.ان میں سے ایک کتابوں کے حوالے یاد رکھنے کی وجہ سے اور باقی دو اپنے مباحثوں کی وجہ سے جماعت میں اتنے مقبول ہوئے کہ مجھے یاد ہے اس وقت ہمیشہ جماعتیں یہ لکھا کرتی تھیں کہ اگر حافظ روشن علی صاحب اور میر محمد اسحاق صاحب نہ آئے تو ہمارا کام نہیں چلے گا.حالانکہ چند مہینہ پہلے حضرت خلیفہ اول کی زندگی میں انہیں کوئی خاص عزت حاصل نہیں تھی.میر محمد اسحاق صاحب کو تو کوئی جانتا بھی نہیں تھا اور حافظ روشن علی صاحب گو جماعتوں کے جلسوں پر آنے جانے لگ گئے تھے مگر لوگ زیادہ تر یہی سمجھتے تھے کہ ایک نوجوان ہے جسے دین کا شوق ہے اور وہ تقریروں میں مشق پیدا کرنے کے لئے آجاتا ہے.مگر خلیفہ اول کی وفات کے بعد چند دنوں میں ہی انہیں خدا تعالیٰ نے وہ عزت اور رعب بخشا کہ جماعت نے یہ سمجھا کہ ان کے بغیر اب کوئی جلسہ کامیاب ہی نہیں 40
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 08 نومبر 1940ء ہوسکتا.پھر کچھ عرصہ کے بعد جب ادھر میر محمد اسحاق صاحب کو نظامی امور میں زیادہ مصروف رہنا پڑا اور ان کی صحت بھی خراب ہوگئی اور ادھر حافظ روشن علی صاحب وفات پاگئے تو کیا اس وقت بھی کوئی رخنہ پڑا؟ اس وقت اللہ تعالیٰ نے فوراً مولوی ابوالعطاء صاحب اور مولوی جلال الدین صاحب شمس کو کھڑا کر دیا اور جماعت نے محسوس کیا کہ یہ پہلوں کے علمی لحاظ سے قائم مقام ہیں.غرض کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ ہماری جماعت کے کسی آدمی کے ہٹنے یا اس کے مرجانے کی وجہ سے سلسلہ کے کاموں میں کوئی رخنہ پڑا ہو بلکہ جب بھی بعض لوگ ہے، بغیر ہماری کوشش اور سعی کے اللہ تعالی گمناموں میں سے بعض آدمیوں کو پکڑ پکڑ کر آگے لاتارہا.اسی طرح میں سمجھتا ہوں مولوی غلام رسول صاحب را نیکی کا اللہ تعالیٰ نے جو بحر کھولا ہے، وہ بھی زیادہ تر اسی زمانہ سے تعلق رکھتا ہے.پہلے ان کی علمی حالت ایسی نہیں تھی.مگر بعد میں جیسے یکدم کسی کو پستی سے اٹھا کر بلندی تک پہنچا دیا جاتا ہے، اسی طرح خدا نے ان کو مقبولیت عطا فرمائی اور ان کے علم میں ایسی وسعت پیدا کر دی کہ صوفی مزاج لوگوں کے لئے ان کی تقریر بہت ہی دلچسپ ، دلوں پر اثر کرنے والی اور شبہات و وساوس کو دور کرنے والی ہوتی ہے.گزشتہ دنوں میں شملہ گیا تو ایک دوست نے بتایا کہ مولوی غلام رسول صاحب را جیکی یہاں آئے اور انہوں نے ایک جلسہ میں تقریر کی جو رات گیارہ ، ساڑھے گیارہ بجے ختم ہوئی.تقریر کے بعد ایک ہندو ان کی منتیں کر کے انہیں اپنے گھر لے گیا اور کہنے لگا کہ آپ ہمارے گھر چلیں آپ کی وجہ سے ہمارے گھر میں برکت نازل ہوگی.تو اللہ تعالیٰ نے کب ہمارا ساتھ چھوڑا ہے جو اب ہم اس کے متعلق بدگمانی کریں اور یہ خیال کریں کہ اگر کوئی شخص بیمار ہو جائے یا وفات پا جائے تو سلسلہ کا کام رک جائے گا ؟ پس لجنہ اماءاللہ کو چاہئے تھا کہ جب سیکرٹری بیمار ہوئی تھی تو فوراً کسی اور کو سیکرٹری بنالیا جاتا اور محلہ وار چندہ کی وصولی پر زیادہ زور دیا جاتا.عورتوں کے اندر سلسلہ کے متعلق جو اخلاص پایا جاتا ہے اس کے لحاظ سے یہ کوئی بعید بات نہیں تھی کہ اگر وہ تن دہی سے کام شروع کر دیتیں تو تحریک جدید کے چندہ کی وصولی میں مردوں سے بڑھ کر نہ رہتیں.مگر انہوں نے تو کل سے کام نہ لیا اور سمجھ لیا کہ چونکہ ان کی سیکرٹری بیمار ہے اس لئے انہیں اس کام میں بھی التو اڈال دینا چاہئے.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ نیک نامی جو برابر پانچ سال سے ان کو حاصل ہو رہی تھی اس سال اس نیک نامی کے حصول سے وہ محروم رہیں.اسی طرح قادیان کے مردوں کو میں اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ان کی چندہ تحریک جدید کی ادائیگی میں سستی بھی زیادہ تر کمی تو کل کی وجہ سے ہے.اس دفعہ لڑائی شروع تھی اس لئے لوگوں نے یہ 41
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 08 نومبر 1940ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خیال کر لیا کہ ہمیں اکٹھی کھانے پینے کی چیزیں خرید لینی چاہیں تا کہ غلہ مہنگا نہ ہو جائے.مگر واقعات نے بتا دیا کہ ان کے خیالات غلط ثابت ہوئے اور حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب تک ہماری جماعت کی حفاظت کرنا چاہتا ہے، اس وقت تک ہمیں یقین ہے کہ وہ ان خطرات کو دور رکھے گا.اور کبھی ایسے حالات پیدا نہیں ہونے دے گا جو جماعت کو تباہ و برباد کرنے والے ہوں.اور اگر بالفرض کسی وقت ایسے خطرات پیدا ہو جائیں تو اس وقت ہمارے جمع کئے ہوئے غلے ہمارے کس کام آسکتے ہیں؟ وہ تو بہر حال دشمن کے ہی کام آئیں گے کیونکہ دشمن صرف روپیہ پر ہی نہیں غلہ پر بھی قبضہ کیا کرتا ہے.جرمنی کے لوگ اس وقت بھو کے مر رہے ہیں اگر وہ ہندوستان پر قبضہ کر لیں تو سب سے زیادہ حرص کے ساتھ وہ غلہ پر ہی قبضہ کریں گے.تو یہ امر بھی تو کل کے خلاف تھا.میں یہ نہیں کہتا کہ انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ اگر جماعت نے ایسا کیا تھا تو اسے چندہ کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ رکھنی چاہئے تھی اور اس میں کوئی کمی نہیں آنے دینی چاہئے تھی.پس وہ لوگ جنہوں نے ابھی تک چندہ تحریک جدید ادا نہیں کیا.میں انہیں خاص طور پر اس کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتا ہوں.اب تحریک جدید کے سال ششم میں قریباً ایک مہینہ باقی ہے.انہیں چاہئے کہ وہ اپنی سستی کا ازالہ کر کے چندہ کی کمی کو پورا کریں اور اللہ تعالیٰ پر توکل کریں کہ وہ ان پر فضل کرے گا اور انہیں دشمن کے ہاتھوں میں نہیں چھوڑے گا.اسی طرح میں باہر کی جماعتوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں.بالخصوص تحریک جدید کے کارکنوں اور امرا اور پریذیڈنٹوں کو کہ وہ تحریک جدید کے بقائے ادا کرنے اور وعدوں کے پورا کرنے کی طرف توجہ کریں.مجھے بعض بیرونی جماعتوں کے خطوط سے معلوم ہوا ہے کہ بعض امرا اور پریذیڈنٹ اس میں تساہل سے کام لے رہے ہیں.انہیں اپنی اس غفلت کو دور کرنا چاہئے اور پوری تن دہی اور جانفشانی سے اس میں حصہ لینا چاہئے.اب تحریک جدید کے چھ سال گزرنے والے ہیں اور صرف چار سال باقی رہتے ہیں.گویا ہماری منزل نصف سے زیادہ طے ہو چکی ہے.اس لئے اب ہماری کوششوں کی رفتار پہلے سے زیادہ تیز ہو جانی چاہئے تا کہ اگر پہلے سالوں میں ہم سے کوئی کوتاہی ہوئی ہے تو اللہ تعالیٰ ہمارے اچھے انجام کو دیکھ کر اسے دور کر دے.دیکھو! حضرت یعقوب نے اپنے بیٹوں کو جو نصیحتیں کیں ان میں سے ایک نصیحت آپ نے یہ بھی کی کہ: فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (البقرة:133) 42
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد دوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 08 نومبر 1940ء کہ تم پر موت ایسی حالت میں آنی چاہئے جبکہ تم خدا تعالیٰ کے کامل فرمانبردار ہو کیونکہ موت ہی انسان کی زندگی کی آئینہ دار ہوتی ہے اور کام کے انجام ہی اصل چیز ہوتے ہیں.کسی نے کیا کہا:.الْأُمُورُ بِخَوَاتِيمِهَا کہ کام اپنے انجام کے لحاظ سے ہوتے ہیں.یعنی کاموں کا اچھا یا برا ہونا، انجام پر منحصر ہوتا ہے.پس اب تحریک جدید کے چندہ کی ادائیگی میں زیادہ جوش، زیادہ اخلاص اور زیادہ مستعدی سے کام لینے کی ضرورت ہے.کیونکہ جو شخص ان آخری سالوں میں زیادہ اخلاص دکھلائے گا ، اگر بالفرض اس سے پہلے سالوں میں کوئی سنتی بھی ہوئی ہوگی ، تو خدا تعالیٰ کہے گا کہ جیسے موت کے وقت اخلاص کی میں قدر کیا کرتا ہوں اسی طرح میں اس اخلاص کی قدر کروں گا اور اس کی پچھلی تمام کو تا ہیوں کو معاف کر دوں گا.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن انسان کو اس کے بہترین اعمال کے لحاظ سے بدلہ دیا جائے گا.یعنی جب اسے نمازوں کا ثواب دیا جائے گا تو یوں نہیں ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کمزور نماز کا الگ ثواب دے اور اس نماز کا جو اس نے اخلاص سے پڑھی ہے الگ ثواب دے بلکہ اس نے اپنی زندگی میں جو بہتر سے بہتر نماز پڑھی ہوگی، اللہ تعالیٰ اس نماز کے مطابق اسے تمام نمازوں کا بدلہ دے گا.اسی طرح یہ نہیں ہو گا کہ روزوں کے اجر کی بنیاد اس کے کمزور روزوں پر رکھی جائے بلکہ اس نے اپنی زندگی میں جو بہتر سے بہتر روزہ رکھا ہوگا ، خدا تعالیٰ اس پر اس کے روزہ کے اجر کی بنیاد رکھتے ہوئے تمام روزوں کا ثواب اسی کے مطابق دے گا.اسی طرح اگر اس نے ایک سے زیادہ حج کئے ہیں اور بعض ان میں سے کمزور ہیں تو خدا تعالی یہ نہیں کہے گا کہ فلاں کمزور حج کا اسے اتنا ثواب دو اور فلاں اچھے حج کا اسے اتنا ثواب دو بلکہ اس نے اپنی زندگی میں جو بہتر سے بہتر حج کیا ہو گا ، خدا تعالیٰ حج کا سارا انعام اسی کے مطابق دے گا.غرض زندگی کے احسن اعمال پر اجر کی بنیاد رکھی جائے گی اور کمزور اعمال کا اجر بھی اچھے اعمال کا مطابق دیا جائے گا.تو آخری ایام میں کام کو زیادہ احسن رنگ میں سرانجام دینا، پہلی تمام کمزوریوں کو مٹا کر انسانی زندگی کے تمام اعمال کو احسن بنا دیتا ہے.پس میں جماعت کو ان دونوں امور کی طرف توجہ دلاتا ہوں : چندہ جلسہ سالانہ کی طرف بھی اور چندہ تحریک جدید کی ادائیگی کی طرف بھی.اور سب دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ان چندوں کی ادائیگی میں ہمہ تن مشغول ہو جائیں.تحریک جدید کے نئے سال کے اعلان سے پہلے پہلے تمام رقمیں پوری ہو جائیں.بالخصوص قادیان والوں کو اس امر کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہئے اور ان کی قربانیاں دوسروں سے نمایاں ہوتی 43
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 08 نومبر 1940ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم چاہئیں.ساتھ ہی ضمنی طور پر میں اس امر کی طرف بھی توجہ دلا چکا ہوں کہ ان چندوں میں زیادہ جوش سے حصہ لینے کا یہ تیجہ نہیں ہونا چاہئے کہ جلسہ سالانہ پر آنے میں لوگ ستی سے کام لیں.ہماری جماعت کا ہر قدم خدا تعالیٰ کے فضل سے ترقی کی طرف اٹھ رہا ہے اور جتنی جماعت بڑھتی چلی جاتی ہیں، اتنی ہی قادیان میں آنے والوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے بے شک یہ ایک بوجھ ہے.مگر آخر ہم نے ہی اس بوجھ کو اٹھانا ہے اور یہی وہ بوجھ ہیں جن کے اُٹھانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی برکات حاصل ہوا کرتی ہیں.دنیا میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب ہم کسی کا بوجھ اٹھا لیتے ہیں تو وہ ہم پر خوش ہوتا ہے.اسی طرح جب ہم خدا تعالیٰ کے دین کا بوجھ اُٹھائیں گے تو خدا اس جہان میں بھی اور اگلے جہان میں بھی ہمارے تمام بوجھ اٹھا لے گا.جب دنیا میں تمہارا کوئی بوجھ اٹھاتا ہے تو تم اسے مزدوری دیتے ہو پھر تم کس طرح خیال کر سکتے ہو کہ تم خدا کے لئے اس کے دین کا بوجھ اٹھاؤ اور وہ تمہیں کوئی مزدوری نہ دے؟ خدا تعالیٰ اس بوجھ کے اٹھانے کی ہمیشہ اپنی جماعتوں کو مزدوری دیتا چلا آیا اور دیتا چلا جائے گا.اور اس کی مزدوری یہی ہے کہ جب ہم اس جہان میں اس کے دین کے بوجھ کو اٹھاتے ہیں تو وہ اگلے جہان میں ہمارے بوجھ اٹھا لیتا ہے.جہاں دائمی اور ابدی زندگی ہمارا انتظار کر رہی ہوتی ہے.یہ کتنا ستا سودا ہے کہ ہم اپنی عمر کے تھیں یا چالیس سال یا پچاس یا ساٹھ سال اس کا بوجھ اُٹھا ئیں اور وہ لاکھوں، کروڑوں بلکہ اربوں ارب سال کی زندگی میں ہمارے تمام بوجھ خود اٹھا لے.اگر اتنے ستے سودے کی طرف بھی کسی کو توجہ نہیں ہوتی تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے دل پر زنگ لگ چکا ہے.اور اب اس کے لئے دعا کے سوا کوئی چارہ نہیں.اور خدا ہی ہے جو اس کے اس زنگ کو دور کرے.پس اگر کوئی شخص دین کے اس کام کے لئے بھی اپنے دل میں بشاشت نہیں پاتا تو اسے سب سے پہلا کام یہ کرنا چاہئے کہ وہ وضو کرے اور نفل پڑھنے کے لئے کھڑا ہو جائے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ اے خدا! دین کے کاموں کے متعلق میرے دل میں بشاشت پیدا نہیں ہوتی اور نہ دین کا بوجھ اٹھانے کی مجھے توفیق ملتی ہے، تو اپنے فضل سے میرے دل میں دین کے کاموں کے لئے رغبت پیدا کر اور مجھے ان بوجھوں کو اٹھانے کی توفیق عطا فرما تا کہ قیامت کے دن تو خود میرے تمام بوجھ اٹھائے.( مطبوعه الفضل 19 نومبر 1940ء) 44
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم ایمان کا دھواں عمل ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 29 نومبر 1940ء سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.خطبہ جمعہ فرمودہ 29 نومبر 1940ء میری طبیعت پیچش کی وجہ سے خراب ہے ، ساتھ ہی کچھ حرارت کی شکایت بھی ہے.جس کی وجہ سے میں زیادہ دیر تک بول نہیں سکتا.لیکن چونکہ نومبر کا آخر آ گیا ہے اور یہ وہی ایام ہیں جبکہ تحریک جدید کے نئے سال کے متعلق اعلان کیا جاتا ہے، اس لئے میں آج دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اب وہ ساتویں سال کی تحریک کے لئے اپنے وعدے لکھوانے شروع کر دیں.میں سمجھتا ہوں اس تحریک کے متعلق اتنی بار اور اتنے رنگ میں اور اتنے تو اتر سے تحریک ہو چکی اور اس کی تفصیلات بیان کی جا چکی ہیں کہ در حقیقت اب کسی لیے خطبے اور واضح بیان کی ضرورت نہیں ہے.جو لوگ اس قابل ہیں کہ اس تحریک میں حصہ لے سکیں یا جو لوگ اس قابل ہیں کہ اس تحریک کی و ضرورت اور اہمیت کو سمجھ سکیں وہ تو اس میں شامل ہو چکے ہیں.اور میں سمجھتا ہوں اس وعدہ کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ دس سال تک اس تحریک میں انشاء اللہ شامل رہیں گے.اور جولوگ اس قابل نہیں کہ اس تحریک میں شامل ہو سکیں یا قابل تو ہیں مگر اس تحریک کی ضرورت اور اہمیت سمجھنے کے قابل نہیں یا اللہ تعالیٰ نے ان کو کسی گناہ اور شامت اعمال کی وجہ سے اس میں حصہ لینے سے محروم کر رکھا ہے، ایسے لوگوں کو میری کوئی تقریر یا خطبہ یا کسی اور کی کوئی تقریر اور خطبہ کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جس وقت دعویٰ کیا اس وقت مکہ کے لوگ تو اس بات میں مشغول ہو گئے تھے کہ یہ ہمارے دین اور نظام میں رخنہ پیدا کر رہا ہے آؤ سے تباہ کر دیں! وہ نہ خود آپ کی باتیں سنتے اور نہ دوسروں کو سننے دیتے بلکہ اگر کسی مجلس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی باتیں سنانے جاتے تو قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار ایک دوسرے سے کہتے کہ سب مل کر شور مچا دو تا کہ اس کی باتیں کوئی شخص سننے نہ پائے.چنانچہ وہ شور مچاتے ، تالیاں پیٹتے، گالیاں دیتے اور برا بھلا کہتے اور اس طرح جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سننا چاہتے تھے ، وہ بھی شور کی وجہ سے کچھ نہ سن سکتے تھے.مگر جب مکہ کے لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے یہ سلوک کر رہے تھے.اس وقت دور میلوں میل دور، منزلوں 45
خطبہ جمعہ فرمودہ 29 نومبر 1940ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم دور غفار قبیلے کا ایک شخص ابوذر کسی سے سنتا ہے کہ مکہ میں ایک ایسا دیوانہ پیدا ہوا ہے ، جو کہتا ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں.انہیں خود ایک ضروری کام تھا.اس لئے انہوں نے اپنے بھائی کو بلایا اور کہا کہ اونٹ لو اور مکہ جاؤ.وہ کہنے لگا کہ ایسا کون سا ضروری کام پیش آ گیا ہے، جس کی وجہ سے میرا ابھی مکے جانا ضروری ہے؟ انہوں نے کہا: کہتے ہیں وہاں ایک دیوانہ پیدا ہوا ہے، جو کہتا ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں.اے میرے بھائی ! جو کوئی ایسی بات کہتا ہے وہ جھوٹا بھی ہو سکتا ہے اور سچا بھی ہو سکتا ہے.اگر تو وہ جھوٹا ہے تو تمہارا اس سے کوئی نقصان نہیں ہو گا تم مکہ سے پھر آؤ گے.اور اگر وہ سچا ہے اور ہم اپنی جگہ بیٹھے رہے تو ہم ثواب کے اس عظیم الشان موقع سے محروم رہیں گے.اس لئے تم فوراً مکہ جاؤ اور اس بات کا پتہ لگاؤ.چنانچہ ان کا بھائی مکہ چل پڑا.حسب دستور مکہ کے دروازوں پر قریش کے بڑے بڑے سردار ا سے ملے اور کہنے لگے کہ کچھ تم نے سنا؟ ہمارا ایک رشتہ دار پاگل ہو گیا ہے.کسی نے کہا پاگل تو نہیں بلکہ اس نے اپنی ایک دوکان کھول لی ہے.وہ کہنے لگا سنا تو میں نے بھی ہے.پھر انہوں نے کہا: بات یہ ہے کہ وہ ہمارا اپنا عزیز اور رشتہ دار ہے ہمیں اس سے کوئی دشمنی نہیں مگر چونکہ اب وہ پاگل ہو گیا ہے اس لئے ہم دوسروں کو یہی نصیحت کیا کرتے ہیں کہ وہ اس پاگل کے قریب نہ پھٹکیں.کسی نے کہہ دیا کہ پاگل نہیں محض شرارت کر رہا اور لوگوں میں فتنہ برپا کر رہا ہے.آخر انہوں نے روٹی لی اور اس کے کانوں میں ٹھونس دی اور کہا کہ اول تو تمہارا یہی فرض ہے کہ اس سے ملنے کے لئے نہ جاؤ لیکن چونکہ اس بات کا امکان ہے کہ وہ خود تم سے باتیں کرنے لگ جائے.اس لئے ہم نے تمہارے کانوں میں روئی ڈال دی ہے کہ تمہارے کانوں میں اس کی باتیں نہ پڑیں ورنہ تمہارا دین خراب ہو جائے گا اور تم بھی اسی کی طرح گمراہ ہو جاؤ گے.بھائی کے دل میں چونکہ وہ نور نہیں تھا جو ابوذر کے دل میں تھا اس لئے وہ مکہ میں آیا اور پھر پھرا کر واپس چلا گیا.ابوذر نے اس سے پوچھا کہ بتاؤ اس مدعی نبوت سے ملے تھے ؟ وہ کہنے لگا بھئی وہ تو پاگل ہے اس کا کیا پوچھتے ہو ؟ اسی طرح کوئی اسے شرارتی کہتا ہے اور کوئی دوکاندار ابوذر کہنے لگے: کیا تم خود اس کے پاس گئے تھے؟ وہ کہنے لگا میں تو گیا ہی نہیں ، جاتے ہی مجھے پتہ لگ گیا تھا کہ وہ پاگل ہے.انہوں نے کہا کہ لوگوں کی یہ باتیں تو ہمیں یہاں بھی پہنچ گئی تھیں تمہیں خود جانا چاہئے تھا اور اپنے کانوں سے اس کی باتیں سننی چاہیں تھیں.مگر خیر اب میں خود جاتا ہوں.چنانچہ وہ تیار ہوئے اور مکہ میں پہنچ گئے.جب قریش مکہ کو ان کی آمد کا علم ہوا تو وہ جمگھٹا کر کے ان کے پاس پہنچے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خلاف انہوں نے آپ کے کان بھرنے شروع کر دیئے.کسی نے کہا پاگل ہے، کسی نے کہا دوکان دار ہے، کسی نے کہا ہمارے معبودوں کی طرف سے اس پر لعنت پڑ گئی ہے.غرض کئی قسم کی باتیں 46
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرموده 29 نومبر 1940ء لوگ کرتے رہے.آخر ان کے کانوں میں بھی انہوں نے روئی ڈال دی اور کہا کہ اس کی باتیں نہ سننا.انہوں نے روئی ڈلوالی اور خیال کیا کہ مجھے خواہ مخواہ اس بات پر ان سے جھگڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ مگر جب وہ چلے گئے تو انہوں نے روئی نکال کر پھینک دی اور فیصلہ کیا کہ وہ خود تمام حالات معلوم کریں گے.مگر اس سے انہیں اتنی بات ضرور معلوم ہوگئی کہ سارا ملکہ اس شخص کا دشمن ہے اگر میں نے کسی سے کوئی بات پوچھی تو ممکن ہے وہ غلط جواب دے.اس لئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ میں پوچھوں گا کسی سے نہیں بلکہ آپ ہی تمام حالات دریافت کروں گا.چنانچہ وہ سارا دن چکر لگاتے رہے.بھی پھرتے پھراتے ایک طرف نکل جاتے اور کبھی دوسری طرف اور انہوں نے اندازہ لگا لیا کہ ہر انسان ڈرتا ہے آپ کا ذکر کرنے سے اور ہر انسان گھبراتا ہے آپ کا نام زبان پر لانے سے.خانہ کعبہ میں آنا تو آپ کے لئے ممنوع تھا ہی.اس لئے یہ صورت بھی نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ خانہ کعبہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کبھی دیکھ لیں.حضرت علی جو ابھی چھوٹے بچے ہی تھے اور جن کی تیرہ سال کی عمر تھی.انہوں نے جو بار بار آپ کو ادھر ادھر پھرتے دیکھا تو انہیں تعجب سا ہوا کہ اسے کوئی کام نہیں جو یو نہی بازار میں پھر رہا ہے؟ چنانچہ انہوں نے پوچھا کہ آپ کیوں پھر رہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں مکہ میں ایک کام کے لئے آیا ہوں.عربوں میں مہمان نوازی کا وصف خاص طور پر پایا جاتا ہے ، حضرت علی یہ سنتے ہی انہیں اپنے گھر لے گئے.یوں وہ خود تو رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس رہتے تھے مگر یا اس وقت وہ انہیں اپنے رلے گئے یا یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے گھر ان کی رہائش بعد میں شروع ہوئی ہے، بہر حال بعض روایات میں ہے کہ وہ انہیں گھر لے گئے ، کھانا کھلایا، دوسرے دن انہوں نے پھر چکر کاٹنے شروع کر دیئے.حضرت علی نے پھر ان سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ آپ یہاں کس طرح پھر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ابھی کام نہیں ہوا اس لئے ادھر ادھر پھر رہا ہوں.خیر حضرت علی پھر شام کو انہیں اپنے ہمراہ لے گئے اور کھانا کھلایا.تیسرے دن انہوں نے پھر دیکھا کہ وہ بدستور ادھر ادھر پھر رہے ہیں.آخر حضرت علیؓ نے ان سے کہا کہ میں آپ کا میزبان رہا ہوں اور میزبان کا بھی مہمان پر کسی قدر حق ہوتا ہے.آپ بتا ئیں آپ کو یہاں کیا کام ہے اور آپ کیوں ادھر ادھر پھر رہے ہیں ؟ انہوں نے کہا: بات تو مخفی ہے مگر آپ پر اعتبار کر کے بتا دیتا ہوں کہ میں نے سنا ہے یہاں کوئی شخص ہے جس نے رسول ہونے کا دعویٰ کیا ہے، لوگ اسے پاگل کہتے ہیں، میرے دل میں یہ بات سنتے ہی خیال آیا کہ جب تک اس بات کی تصدیق نہ کر لی جائے کہ وہ پاگل ہے یا نہیں ہے.اس وقت تک اسے جھوٹا کہنا جائز نہیں ! اس لئے میں چاہتا ہوں کہ میری اس سے ملاقات ہو جائے.حضرت علی نے کہا کہ تم نے پہلے دن ہی یہ کیوں نہ بتا دیا ؟ میں تو انہی کے 47
خطبہ جمعہ فرمودہ 29 نومبر 1940ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد دوم ساتھیوں میں سے ہوں.اب چلو میں تمہیں وہاں لے چلتا ہوں.مگر ان دنوں مکہ میں اس قدر شدید مخالفت تھی کہ حضرت علی نے سمجھا اگر لوگوں نے اسے میرے ساتھ دیکھ لیا تو انہیں ضرور شبہ گزرے گا اور وہ اسے تکلیف پہنچائیں گے.چنانچہ انہوں نے کہا کہ میں آگے آگے چلتا ہوں تم کچھ فاصلہ پر میرے پیچھے پیچھے رہنا.اگر رستہ میں مجھے کوئی شدید مخالف نظر آیا تو میں کسی اور کام میں مشغول ہو جاؤں گا اور تم کسی اور کام میں مشغول ہو جانا تا اسے خیال ہی نہ آئے کہ میں تمہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف لے جارہا ہوں.آخر وہ اس گھر میں پہنچے جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مقیم تھے اور جو تبلیغ اسلام کا ان دنوں مرکز تھا.ابوذر نے اپنے آنے کا سارا قصہ بیان کیا اور کہا کہ آپ اپنا دعوئی بتائیں ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مختصر اپنا دعوی بیان کیا اور قرآن کریم کی چند آیات سنائیں.انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! میری تسلی ہوگئی ہے اور یہ کہتے ہوئے وہ مسلمان ہو گئے.پھر انہوں نے عرض کیا کہ میرے علاقہ میں کوئی بھی مسلمان نہیں ، یہاں تو پھر بھی دس ہیں مسلمان ہیں مگر وہ تو بالکل بددی ہیں انہیں جب یہ معلوم ہوگا کہ میں نے اسلام قبول کر لیا ہے تو وہ ضرور شور مچائیں گے.اس لئے اگر اجازت ہو تو کچھ عرصہ کے لئے میں اپنے اسلام کو چھپالوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اچھا اجازت ہے.بیعت کرنے اور اسلام کو چھپانے کی اجازت لے کر وہ باہر آئے اور خانہ کعبہ کے طواف کے لئے گئے.وہاں انہوں نے ک دیکھا کہ صحن کعبہ میں رؤسائے قریش کی ایک مجلس لگی ہوئی ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بڑے بڑے تبرے اور گالیاں دی جارہی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ یہ بڑا عمند پیدا ہو گیا ہے جو کہتا ہے کہ ہمارے معبود جھوٹے ہیں.گویا ہمارے باپ داد اسب جھوٹے تھے اور یہ شخص سچا ہے.جب ان کے کان میں یہ آواز میں پڑیں تو باوجود اس کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے وہ یہ اجازت لے کر آئے تھے کہ میں اپنے قبولِ اسلام کا اعلان نہیں کروں گا بلکہ اس بات کو چھپائے رکھوں گا تا کہ لوگ مخالفت نہ کریں.جب انہوں نے اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تو ہین دیکھی تو ان کی برداشت کی طاقت جاتی رہی اور انہوں نے کھڑے ہو کر کہا کہ : اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.کفار یہ سنتے ہی آپے سے باہر ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ یہ کیسی خطر ناک گستاخی ہے کہ عین اس وقت جب ہم اس کی تردید کر رہے ہیں یہ باہر کا رہنے والا ہمارے خلاف کھڑا ہو گیا اور اس نے ہمارے شہر میں فساد پیدا کرنا چاہا ہے.اس پر کچھ نوجوان کھڑے ہو گئے اور انہوں نے انہیں پکڑ کر خوب مارا وہ ابھی مارہی رہے تھے کہ حضرت عباس آگئے.حضرت عباس ابھی اسلام نہیں لائے تھے اور ان کی عمر ابھی 48
خطبہ جمعہ فرمودہ 29 نومبر 1940ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم چھوٹی ہی تھی.گورسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ایک سال بڑے تھے یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عمر اس وقت بیالیس سال تھی اور آپ کی تینتالیس سال مگر ان کی عقل کا سکہ لوگوں کے قلوب پر بیٹھا ہوا تھا اور مکہ کے بڑے بڑے لوگ بھی یہ سمجھتے تھے کہ ان کی بات معقول ہوتی ہے.انہوں نے سمجھایا کہ تمہیں پتہ نہیں مکہ میں جتنا غلہ آتا ہے سب اس کے علاقہ میں سے گزر کر آتا ہے.اگر اس کے قبیلے والوں کو معلوم ہوا کہ مکہ کے آدمیوں نے اسے مارا ہے تو وہ اس ذلت کو برداشت نہیں کر سکیں گے اور غلے کو روک لیں گے.پھر تم کھاؤ گے کہاں سے؟ اس پر انہوں نے ابوذر کو چھوڑ دیا مگر دوسرے دن انہوں نے پھر قریش مکہ کو اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خلاف باتیں کرتے ہوئے دیکھا تو پھر بلند آواز سے کلمہ توحید پڑھ دیا اور پھر نو جوان انہیں مارنے کے لئے کھڑے ہو گئے.اس پر پھر حضرت عباس نے انہیں چھڑا دیا.غرض اسی طرح مسلسل تین دن ہوتا رہا.اس کے بعد اسلام کو چھپانے کا سوال ہی نہ رہا.ابوذر اسلام کے لئے ایک منگی تلوار بن گیا اور پھر یہ تلوار موت تک میان میں نہیں گئی.ان کی طبیعت بعد میں بھی ایسی جو خیلی رہی کہ ذراسی بات بھی اگر وہ نا پسند دیکھتے تو فورا شور مچادیا کرتے تھے.اب دیکھو ایک تو وہ شخص تھا جس نے منزلوں دور یہ اڑتی ہوئی خبر سنی کہ ایک پاگل ہے جس نے مکہ میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ خدا کا رسول ہے.اور وہ یہ سنتے ہی گھر سے نکل کھڑا ہوا اور اس نے سمجھا کہ خدا کی طرف اپنے دعوے کو منسوب کرنے والے کی بات ضرور سنی چاہئے.مگر خود مکہ میں رہنے والے محروم رہے.بہت تھے جو دو دو سال نہیں، چار چار سال نہیں، آٹھ آٹھ سال نہیں، بارہ بارہ سال نہیں ہیں ہیں، اکیس اکیس سال تک مخالف رہے اور پھر یا تو تباہ ہو گئے یا بہت بعد اسلام میں داخل ہوئے.تو متواتر ربع صدی یا شمس صدی کے قریب انہوں نے مخالفتیں کیں اور ان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قرب کا کوئی فائدہ نہ ہوا کیونکہ خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی تھی اور جن کے دلوں پر مہر لگ جائے خدا انہیں اپنی برکات سے حصہ نہیں دیتا.یہ مہر علی قدر مراتب لگتی ہے.یہ نہیں کہ کفر کی وجہ سے لگے بلکہ جس طرح کفر کی شدت کی وجہ سے انسانی قلب پر مہرلگتی ہے اسی طرح کبھی ایمان کی قلت کی وجہ سے انسانی قلب پر مہر لگ جاتی ہے اور یہ مہر انسان کو اعلی نیکی سے محروم کر دیتی ہے.تو جن لوگوں کو اس تحریک میں اب تک حصہ لینے کا موقع نہیں ملاخواہ کسی گناہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو اس میں حصہ لینے سے محروم رکھا ہے اور خواہ ستی اور غفلت کی وجہ سے با وجود توفیق کے انہوں نے اس میں حصہ لینا ضروری نہیں سمجھا ، انہیں بھی اس کے متعلق کچھ کہنا فضول ہے اور جن کو اس تحریک میں لینے کی توفیق ہی نہیں، وہ معذور ہیں اور انہیں بھی کچھ کہنا لا حاصل ہے.اگر وہ اس تحریک میں شامل 49
خطبہ جمعہ فرمودہ 29 نومبر 1940ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم ہونے کی سچی خواہش اور تڑپ رکھتے ہیں مگر غربت اور مالی تنگی کی وجہ سے حصہ نہیں لے سکتے تو خدا تعالیٰ کے حضور بھی اور اس کے سمجھ دار بندوں کے نزدیک بھی وہ انہی لوگوں میں شامل ہیں جو باقاعدہ چندہ دیتے ہیں کیونکہ گو انہیں توفیق نہیں کہ وہ اس میں حصہ لے سکیں مگر ان کے دل اپنی اس محرومی پر دکھتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ کاش! ان کے پاس روپیہ ہوتا اور وہ بھی اس تحریک میں شامل ہوتے.پس چونکہ خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ بہانہ نہیں بنارہے بلکہ محض غربت کی وجہ سے اس میں حصہ نہیں لے سکے اور ان کے دل اپنی محرومی پر دکھ رہے ہیں.اس لئے خدا انہیں انہی لوگوں میں شامل کرے گا، جنہوں نے اس میں حصہ لیا.وہ ایسا نہیں کہ محض اس وجہ سے کہ کسی شخص نے عملاً حصہ نہیں لیا، اسے ثواب سے محروم کر دے.خدا تعالیٰ کی طرف سے ثواب قلب کی حالت پر آتا ہے، ظاہری فعل پر نہیں آتا.ظاہری فعل تو محض ایک دلیل ہوتا ہے جیسے آگ جل رہی ہو تو اس میں سے دھواں نکلتا ہے.یہ دھواں اس بات کی دلیل ہوتا ہے کہ آگ جل رہی ہے اگر دھوئیں کے بغیر بھی آگ ہو سکتی تو ہم دھوئیں کو نہ دیکھتے بلکہ محض آگ کو دیکھتے.اسی طرح عمل بغیر ایمان کے نہیں ہو سکتا.ایمان کا دھواں عمل ہے اور جب یہ دھواں اٹھ رہا ہو تو ہم سمجھ لیتے ہیں کہ ایمان کی آگ فلاں شخص کے دل میں موجود ہے اور جب یہ دھواں نہیں اٹھتا تو ہم سمجھ لیتے ہیں کہ ایمان کی آگ فلاں شخص کے قلب میں نہیں.اسی کی طرف شاید قرآن کریم میں ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ: وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ که عمل صالح ایمان کو بلند کرتا ہے اور عمل صالح سے ہی کسی کے ایمان کا پتہ لگتا ہے.جس طرح دھوئیں سے آگ کا پتہ لگتا ہے.تو ایسے لوگ جن کو اس تحریک میں حصہ لینے کی توفیق نہیں مگر ان کے دل میں بار بار در داٹھتا ہے اور انہیں اس بات پر افسوس آتا ہے کہ دوسرے لوگ تو حصہ لے رہے ہیں مگر وہ اپنی غربت کی وجہ سے اس ثواب میں شریک نہیں ہو سکے اور کم از کم وہ دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے خدا ! گوتو نے ہمیں اس میں شامل ہونے کی توفیق نہیں بخشی مگر ہمارے دل اس درد سے بھرے ہوئے ہیں اور ہم دعا کرتے ہیں کہ تو اس تحریک میں برکت ڈال اور اس میں حصہ لینے والوں کو ان کے مقاصد میں کامیاب کر! تو ایسے لوگوں کو خدا علیحدہ نہیں رکھ سکتا بلکہ انہی لوگوں میں ان کو شامل کرے گا جنہوں نے اس تحریک میں حصہ لیا اور ہر شخص اپنے اپنے درد اور کرب کے درجہ کے مطابق اللہ تعالیٰ سے ثواب حاصل کرے گا مثلاً ایک شخص نے اس تحریک میں پانچ روپے دیئے ہیں، دوسرے نے دس، تیسرے نے ہیں اور چوتھے نے سو.پھر کسی نے 50
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرموده 29 نومبر 1940ء دوسو روپے دیئے ہیں اور کسی نے پانچ سو اور فرض کرو سب کی مالی حالت یکساں تھی تو ان سب کو اس چندہ کی نسبت سے ثواب ملے گا یعنی جس نے پانچ روپے دیئے ہیں اسے جو ثواب ملے گا اس سے دو گنا ثواب دس روپے دینے والے کو ملے گا اور دس روپے دینے والے کو جو ثواب ملے گا اس سے دو گنا ثواب ہیں روپے دینے والے کو ملے گا اور میں روپے دینے والے سے بہت زیادہ ثواب سو یا دو سو یا پانچ سو روپے دینے والے کو ملے گا.مگر وہ جو ظاہری طور پر چندہ میں حصہ نہ لینے کے باوجود اس لسٹ میں آجائیں گے جو چندہ میں حصہ لینے والوں کی خدا تعالیٰ کے حضور تیار ہوگی انہیں ان کا ثواب ان کے دکھ اور ان کے کرب کے مطابق ملے گا.جسے دکھ کم ہو گا ، اسے اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا مثلاً پانچ روپے دینے والے کو ملے گا اور جس کے دل میں اس سے زیادہ درد ہوا ، اسے وہ ثواب ملے گا جو مثلاً دس روپے دینے والے کو ملے گا اور جس کے دل میں اس سے بھی زیادہ درد ہوا اور اسے اس غم نے نڈھال کر دیا کہ کیوں وہ اس تحریک میں شامل نہیں ہو سکا؟ اسے مثلاً پچاس یا سوروپے چندہ دینے والے کے برابر ثواب مل جائے گا.اسی طرح بڑھتے بڑھتے جو انسان اپنے قلب میں بہت زیادہ سوزش اور جلن محسوس کرے گا اور اللہ تعالیٰ سے اس تحریک کی کامیابی کے متعلق متواتر دعائیں کرتا رہے گا خدا تعالیٰ اسے ان لوگوں میں شامل کرے گا جنہوں نے اس کے دین کے لئے اعلیٰ درجہ کی قربانیاں کیں.تو بندوں کی لسٹ اور ہے اور خدا تعالیٰ کی لسٹ اور.خدا تعالیٰ کی لسٹ میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے عملاً اس تحریک میں کوئی حصہ نہیں لیا.مگر ان کے دل اس درد سے بھرے ہوئے ہیں کہ کاش ان کے پاس روپیہ ہوتا اور کاش وہ بھی کچھ مالی قربانی کر سکتے.پس ایسے لوگوں کو بھی تحریک کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ نہ انہیں توفیق ہے کہ وہ اس میں حصہ لیں اور نہ ہی وہ عذر کر رہے ہیں.تیسرا گروہ وہ ہے جو چھ سال سے با قاعدہ چندے دے رہا ہے.اس گروہ میں شامل ہونے والوں کو بھی در حقیقت کسی خاص تحریک کی ضرورت نہیں کیونکہ چھ سال گزر چکے اور ساتواں سال شروع ہو گیا ہے.ایسی صورت میں کوئی نادان ہی ہو گا جو کمند کو اس وقت تو ڑ دے جب دو چار ہا تھ لب بام رہ جائے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْ لَهَا مِنْ بَعْدِقُوَّةٍ أَنْكَانَّا کہ تم اس عورت کی طرح مت بنو جوسوت کو کات کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا کرتی تھی.اس کا مطلب یہی ہے کہ تم ایسا نہ کرو کہ ایک نیک کام شروع کر دیگر پیشتر اس کے کہ وہ ختم ہو، اسے چھوڑ دو.پس ایسے لوگوں کو بھی میرے نزدیک چنداں تحریک کی ضرورت نہیں.وہ پہلے اس میں شامل ہو چکے ہیں اور میرے 51
خطبہ جمعہ فرمودہ 29 نومبر 1940ء.تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم کہنے سے زیادہ ان کے گزشتہ چھ سال انہیں دھکے دے کر اس تحریک میں شامل کرنے کے لئے کافی ہیں.اور جس کے دل میں کسی قسم کی قبض ہوگی ، اسے بھی اس کے پچھلے چھ سال تحریک کرنے کے لئے کافی ہوں گے.اور وہ کہیں گے کہ کیا اگلے چار سالوں کی خاطر تم ہمیں بھی برباد کر نے لگے ہو؟ وہ چھ سال اسے کہیں گے کہ تمہارے لئے رکنے کا موقع تھا پہلا سال تمہارے لئے رکنے کا موقع تھا دوسرا سال تمہارے لئے رکنے کا موقع تھا تیسرا سال تمہارے لئے رکنے کا موقع تھا چوتھا سال تمہارے لئے رکنے کا موقع تھا پانچواں سال مگر جب تم پانچویں سال میں آئے تو تم نے نصف منزل میں اپنا قدم رکھ دیا اور جب چھٹے میں شامل ہوئے تو تم اس منزل کے دوسرے نصف میں داخل ہو گئے.اب تمہارے لئے رکنے کا کون سا موقع ہے؟ اور اگر رکو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ تم اگلے چار سال کی خاطر ہمیں بھی برباد کرنا چاہتے ہو.تو مجھ سے زیادہ ان کے پچھلے سال انہیں تحریک کرنے کے لئے کافی ہیں.اس لئے وہ بھی اس بات کے زیادہ محتاج نہیں کہ انہیں اس کی تحریک کی جائے.البتہ ایک گروہ ایسا ہے جو تحریک کا محتاج ہے اور اس گروہ میں وہ بچے شامل ہیں جو پہلے نابالغ تھے مگر اب بلوغت کو پہنچ گئے ہیں ، وہ طالب علم شامل ہیں جو پہلے برسرکار نہیں تھے مگر اب تعلیم ختم کر کے کہیں ملازم ہو چکے یا کوئی اور کام شروع کر چکے ہیں یا وہ لوگ شامل ہیں جن کے پاس پہلے مال نہیں تھا مگر اب خدا نے انہیں مال دے دیا ہے یا وہ لوگ شامل ہیں جو پہلے مقروض ہونے کی وجہ سے اس تحریک میں حصہ نہیں لے سکے مگر اب قرض اتار چکے اور اس قابل ہو چکے ہیں کہ اس تحریک میں حصہ لے سکیں یا وہ لوگ ہیں جو پہلے احمدی نہ تھے مگر اب احمدی ہو گئے ہیں.غرض اس قسم کے لوگ جو پہلے معذور تھے مگر اب ان کی معذوری دور ہو چکی ہے یا پہلے بے سامان تھے مگر اب خدا تعالیٰ نے انہیں با سامان کر دیا ہے.صرف وہ کسی نئی تحریک کے محتاج ہیں اور میں آج انہی کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ وہ اب پچھلا سفر طے کر کے ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں.اگر اس وقت وہ شامل ہو جائیں تو گزشتہ چھ سال کا بقایا انہیں ادا کرنا پڑے گا.لیکن اگر اب بھی وہ اس میں شامل نہ ہوئے تو ان کے لئے اس میں شمولیت اور بھی کٹھن ہو جائے گی.پس وہ آج ہی اس تحریک میں شامل ہو جائیں تا پچھلے سفر کو بھی وہ طے کر سکیں.ورنہ جوں جوں وقت گزرتا جائے گا، ان کا بوجھ بڑھتا جائے گا اور پھر مجاہدین کے سفر میں ان کا شامل ہونا مشکل ہو جائے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جب تبوک کی طرف کوچ کیا تو بعض مسلمان اس خیال سے پیچھے رہ گئے تھے کہ بعد میں تیاری کر کے لشکر سے جاملیں گے.انہی لوگوں میں سے ایک ابو خیمہ نامی صحابی بھی تھے.یہ کہیں باہر گئے ہوئے تھے، ( بعض روایات میں ہے کہ مدینہ میں ہی تھے اور اس خیال میں 52
خطبہ جمعہ فرمودہ 29 نومبر 1940ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم تھے بعد میں جا کر مل جاؤں گا) جب واپس گھر پہنچے تو داخل ہوتے ہی اپنی بیوی سے پوچھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم چلے گئے ہیں یا ابھی نہیں گئے ؟ بعض دفعہ عورت کا دل مرد کی طرف زیادہ راغب ہوتا ہے اور اس کی محبت و موانست کے جذبات جوش میں ہوتے ہیں اور وہ چاہتی ہے کہ مرد اس کے پاس بیٹھے اور اس سے باتیں کرے اس نے بھی نہا دھو کر بناؤ سنگھار کیا ہوا تھا اور چاہتی تھی کہ ابوخیثمہ اس سے باتیں کریں.چنانچہ جب انہوں نے پوچھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جہاد کے لئے تشریف لے گئے ہیں یا نہیں؟ تو اس نے عورتوں والی چال چلنی شروع کر دی اور پاس بیٹھ کر محبت کا اظہار کرنے لگ گئی اور کہنے لگی پہلے کچھ باتیں تو کر لو.انہوں نے کہا کہ باتیں بعد میں دیکھی جائیں گی ، پہلے یہ بتاؤ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم چلے تو نہیں گئے ؟ وہ پھر باتوں میں مشغول کرنے لگی مگر انہوں نے اصرار کیا کہ پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حال بتاؤ.آخر اس نے بتایا کہ آپ کل لشکر سمیت چلے گئے ہیں.ابو خیثمہ نے جب یہ سنا تو کہا کہ ہمارے لئے شرم کا مقام ہے کہ خدا کا رسول تو دھوپ میں سفر کر رہا ہو اور میں اپنی بیوی کے پاس آرام سے بیٹھا باتیں کر رہا ہوں.یہ کہتے ہی انہوں نے گھوڑے پر زین ڈالی اور چل پڑے.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بھی اپنے ساتھیوں کے اخلاص اور ان کی محبت کا پتہ تھا.آپ کے دل میں بار بار یہ خیال آتا تھا کہ ابو خشتیمہ نہیں آیا ! وہ بڑا مخلص آدمی ہے، معلوم نہیں اس کے آنے میں کیا روک حائل ہو ہو گئی ہے؟ صحابہ کہتے ہیں کہ آپ تھوڑی دور تک چلتے اور پھر مڑ کر دیکھتے اور کہتے ابو خیثمہ نہیں آیا ! پھر کچھ سفر طے کرتے تو پیچھے کی طرف منہ موڑ کر دیکھتے اور ذرا بھی گرد غبار اڑتی نظر آتی تو فرماتے ابوخیثمہ نہیں آیا؟ اس جنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو قیصر جو عیسائی بادشاہ تھا اس کے مقابلہ میں جانا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جلد جلد منزلیں طے کرتے ہوئے جا رہے تھے تا عیسائی لشکر کو تیاری کرنے کا موقع نہ مل جائے.اور ابو خیثمہ چونکہ چوبیس گھنٹے پیچھے رہ گئے تھے اس لئے ان کا لشکر کے ساتھ جلد آملنا مشکل تھا.وہ اپنی سواری کو ایڑیاں مارتے ہوئے تیزی کے ساتھ سفر طے کر رہے تھے.آخر تیسرے دن اسلامی لشکر کو دور سے گر داڑتی دکھائی دی اور انہوں نے کہا کہ گر دار تی نظر آرہی ہے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی سوار آرہا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مڑ کر دیکھا اور فرمایا حسن آبا خيمة یعنی تو ابو خیمہ ہو جا.یہ عربی کا ایک محاورہ ہے جس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ کسی انسان کی شکل بدل جائے اور وہ ہو تو کوئی اور مگر اس کی شکل کسی اور انسان کی طرح ہو جائے بلکہ اس محاورہ کے معنی یہ تھے کہ کاش یہ آنے والا ابو خیثمہ ہوا اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ ابوخیثمہ دوڑے چلے آتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ابو خیمہ آخرتم آہی ملے.انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں پیچھے رہ سکتا تھا ؟ 53
خطبہ جمعہ فرمودہ 29 نومبر 1940ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم میں باہر گیا ہوا تھا جب واپس آیا اور مجھے پتہ لگا کہ آپ چلے گئے ہیں تو میں اسی وقت سوار ہو کر چل پڑا اور منزلیں مارتا ہوا یہاں پہنچ گیا.اس زمانے میں اکیلے سفر کرنا نہایت خطرناک ہوا کرتا تھا مگر انہوں نے اس بات کی کوئی پروا نہ کی اور اس عشق کی وجہ سے جو انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات سے تھا منزلیں طے کرتے ہوئے لشکر سے آملے.اسی طرح مدینہ میں کچھ اور لوگ بھی تھے جو اس خیال میں رہے کہ آج نہیں تو کل چل پڑیں گے اور کل خیال کر لیا کہ پرسوں روانہ ہو جائیں گے آخر جب تین دن گزر گئے تو انہوں نے خیال کیا کہ اب اتنا لمبا سفر ہم سے کہاں طے ہو سکتا ہے؟ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اس جہاد میں شامل ہونے سے محروم ہو گئے.تو وقت کو ضائع کرنا بہت بڑی حماقت ہوتی ہے.ہمارے سامنے بھی اس وقت تحریک جدید کا ایک جہاد ہے جس کا سفر دس منزلوں پر مشتمل ہے.ان دس منزلوں میں سے چھ منزلیں طے ہو چکی ہیں اور رف چار منزلیں باقی رہتی ہیں.جو لوگ اب تک اس میں شامل نہیں ہوئے ، ان کے لئے بے شک چھ منزلیں انھٹی طے کرنا مشکل ہیں.مگر سات منزلیں اکٹھی طے کرنا ان کے لئے اور بھی مشکل ہوگا اور آٹھ یا نو یا دس منزلیں اکٹھی طے کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہوگا.بے شک جنہوں نیہ سفر پہلے طے نہیں کیا، ان پر اب ان منزلوں کو یکدم طے کرنا گراں گزرے گا مگر انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ اگر اس وقت انہوں نے اس بوجھ کو برداشت نہ کیا تو یہ گرانی سال بہ سال بڑھتی چلی جائے گی.پس میں ان نو جوانوں کو جو اس سال کے دوران میں برسرکار ہوئے ہیں یا ان غربا کو جنہیں خدا تعالیٰ نے اب وسعت دے دی ہے یا ان لڑکوں کو جو پہلے بالکل چھوٹے تھے مگر اب وہ بڑے ہو گئے ہیں اور انہیں اس تحریک کی اہمیت کا علم ہو گیا ہے یا انہیں اپنے ماں باپ کی جائیداد میں سے کوئی حصہ مل گیا ہے یا ان لوگوں کو جو پہلے احمدی نہیں تھے مگر اس عرصہ میں وہ احمدی ہو گئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی انہیں اس تحریک میں شامل ہونے کی توفیق بھی ہے، توجہ دلاتا ہوں کہ منزل قریب آرہی ہے ،سفر خاتمہ کے قریب پہنچ گیا ہے اور چوٹی پر پہنچ کر اب مجاہدین کا لشکر نیچے اتر رہا ہے، ایسا نہ ہو کہ منزل ختم ہو جائے اور تمہارے لئے حسرت کے سوا کچھ باقی نہ رہے.میں اس امر کی طرف بھی جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی بارہا کہا ہے، ہر مومن اور مخلص کو چاہئے کہ وہ اپنی توفیق کے مطابق ہر سال پہلے سال سے زیادہ چندہ دے.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ پہلے سال سے بڑھ کر چندہ دینے کے یہ معنی نہیں کہ انسان پانچ یا دس یا ہیں یا سو روپے زیادہ دے بلکہ زیادتی ہر شخص کی مالی حیثیت پر منحصر ہے.اگر کوئی شخص اپنے سابقہ 54
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرموده 29 نومبر 1940ء چندے پر ایک پیسہ بھی بڑھاتا ہے تو خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ اضافہ ہی ہے.اس لئے اپنے چندے بڑھانے میں سستی سے کام نہیں لینا چاہئے.بلکہ ہر شخص کو کوشش کرنی چاہئے کہ اس کا چندہ پہلے سالوں سے بڑھ کر ر ہے.خدا تعالیٰ کو اس سے غرض نہیں کہ کسی کا اضافہ تھوڑا ہے یا بہت بلکہ جو بھی اپنے چندے میں اضافہ کرتا ہے خواہ وہ کیسا ہی قلیل کیوں نہ ہو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ سابقون کے زمرہ میں لکھا جاتا ہے.اور جبکہ یہ امتیاز اور فخر ایک پیسہ یا دھیلہ کی زیادتی سے بھی تمہیں حاصل ہو سکتا ہے تو کیسا نادان وہ شخص ہے جو اتنا اضافہ بھی نہ کرے اور اس طرح سابقون میں شامل ہونے سے محروم رہے؟ وہ شخص جو پانچ یا دس روپے چندہ دیتا ہے اس کے لئے ایک پیسہ کی زیادتی ایسی نہیں ہو سکتی جس کے متعلق وہ یہ کہہ سکے کہ وہ یہ اضافہ نہیں کر سکتا.غربا بھی اگر چاہیں تو ایک پیسہ دے کر سابقون میں شامل ہو سکتے ہیں.پس جماعت کے ہر دوست کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ تحریک جدید میں حصہ لے اور کوشش کرنی چاہئے کہ ہر سال کا چندہ پہلے سال سے بڑھ کر ہو.خواہ ایک پیسہ ہی کیوں نہ اضافہ کیا جائے تا کہ ہماری جماعت میں کوئی بھی شخص ایسا نہ رہے جو سباق سے محروم ہو.وہ غر با جو پانچ روپیہ چندہ دینے کی بھی طاقت نہیں رکھتے ان کے متعلق میں نے بتایا ہے کہ اگر ان کا دل دردمند ہے اور وہ یہ تڑپ رکھتے ہیں کہ کاش ان کے پاس روپیہ ہوتا اور وہ اس میں شریک ہو سکتے تو وہ خدا تعالیٰ کے حضور چندہ دہندگان میں ہی شامل ہیں.بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہم سے ایک روپیہ لے لیا جائے اور ہمیں اس تحریک میں شامل ہونے کی اجازت دی جائے، میں ان سے کہتا ہوں کہ اگر ان کے دل میں واقعہ میں یہ تڑپ موجود ہے تو خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ پہلے ہی اس تحریک میں شامل ہیں.انہیں چاہتے کہ وہ یہ روپیہ کسی اور نیک کام میں صرف کر دیں اور اپنے متعلق اللہ تعالیٰ سے یہ امید رکھیں کہ وہ انہیں ایسا ہی ثواب دے گا جیسے ان لوگوں کو دے گا جنہوں نے اس تحریک میں حصہ لیا.اگر بالفرض وہ ایک روپیہ دے کر اس تحریک میں شامل بھی ہو جائیں تو انہیں تو اب تو ایک روپیہ کا ہی ملے گا لیکن اگر وہ غربت کی وجہ سے اس تحریک میں حصہ نہیں لیں گے مگر ان کے دل تڑپ رہے ہوں گے کہ کاش! ان کے پاس روپیہ ہوتا اور وہ بھی اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح اس میں حصہ لیتے تو اس کے بدلہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے علی قدر مراتب انہیں ویسا ہی ثواب ملے گا جیسے تحریک جدید میں اور حصہ لینے والوں کو ملے گا.اور مزید برآں وہ اس ایک روپیہ کو نیکی کے کسی اور کام میں صرف کر کے اللہ تعالیٰ سے اور زیادہ ثواب حاصل کر سکیں گے.پس انہیں اس تحریک سے اپنے آپ کو مستقٹی سمجھنا چاہئے.باقی ہر ایک دوست کو 55
خطبہ جمعہ فرمودہ 29 نومبر 1940ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم چاہئے کہ وہ اضافہ کے ساتھ اپنا چندہ لکھوائے.یہ ضروری نہیں کہ جس نے گزشتہ سال پانچ روپیہ کا وعدہ کیا تھا وہ اب چھ روپے کا وعدہ لکھوائے بلکہ وہ ایک پیسہ اور ایک آنہ دے کر بھی سابقون میں شامل ہو سکتا ہے اور جبکہ میں نے سابقون میں شامل ہونے کا راستہ ہر ایک کے لئے کھول دیا ہے اور میں نے اجازت دی ہوئی ہے کہ قلیل سے قلیل ایزادی سے بھی انسان سابقون کا ثواب حاصل کر سکتا ہے تو اس اجازت کے بعد کوئی ایسا شخص ہی سابقون کے ثواب سے محروم رہ سکتا ہے جسے یا تو اس بات کا علم نہ ہو اور یا اس کے دل میں سابقون کے زمرہ میں شامل ہونے کی کوئی قدر نہ ہو.پس ہر مومن کو چاہئے کہ وہ اپنے پچھلے سال کے چندہ پر حسب توفیق دھیلہ، پیسہ، دو پیسے، آنہ، دو آنے یا اس سے زیادہ رقم بڑھادے تا کہ وہ سابقون میں شامل ہو جائے اور اس کی ہر منزل پہلی منزل سے زیادہ بہتر ہو.پھر ایک اور ذریعہ بھی سابقون میں شامل ہونے کا ہے اور وہ یہ کہ اسلامی تعلیم سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی زندگی دو حصوں میں منقسم ہے.ایک حصہ تو انفرادی زندگی کہلاتا ہے اور دوسرا حصہ جماعتی زندگی کہلاتا ہے.پس میرے نزدیک نہ صرف افراد کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ ان کا چندہ پہلے سال سے زیادہ ہو بلکہ جماعتوں کو بھی یہ احساس ہونا چاہئے کہ ان کے وعدوں کی لسٹیں افراد کے لحاظ سے بھی اور وعدوں کے لحاظ سے بھی پہلے سالوں سے بڑھ کر ہوں.در حقیت قومی عزت بھی عزت ہی ہوتی ہے بلکہ اگر ہم غور کریں تو وہ بعض دفعہ ذاتی عزت سے بڑھ کر ہوتی ہے مثلاً زید قادیان کا باشندہ اگر اپنے وعدہ کی تمام شرائط کو پورا کر دیتا اور سابقون کے زمرہ میں آجاتا ہے لیکن قادیان کی جماعت پھسڈی رہ جاتی ہے تو زید کو بھی اس داغ سے کچھ حصہ ملے گا.اسی طرح فرض کر و بکر لاہور میں چندہ دینے میں خوب چست ہے اور وہ ہمیشہ اضافہ کے ساتھ وعدہ کرتا اور وقت کے اندر اسے پورا کرتا ہے لیکن لاہور کی جماعت چندہ میں پیچھے رہ جاتی ہے تولا ہور کی جماعت کو جو داغ لگے گا وہ اس کو بھی لگے گا با وجود اس بات کے کہ ذاتی طور پر وہ چندہ میں سب سے آگے ہوگا.تو جماعتی لحاظ سے بھی سابقون میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے اس کے لئے ضروری ہے کہ وعدہ کرنے والے افراد کی تعداد پہلے سال سے زیادہ ہو اسی طرح ان کی موعودہ رقوم بھی گزشتہ سال سے اضافہ کے ساتھ ہوں.چھوٹی چھوٹی جماعتوں میں بے شک یہ مشکل پیش آسکتی ہے کہ افراد کے لحاظ سے ان میں کوئی خاص زیادتی نہیں ہو سکتی، کسی جگہ اگر ایک سال پانچ سات احمدی ہیں تو دوسرے سال بھی پانچ سات احمدی ہی ہوں گے مگر بڑی بڑی جماعتوں میں مقابلہ کا راستہ کھلا ہے.اس سے ان کی عزت بہت بڑھ سکتی ہے اور اس مقابلہ سے یہ بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ کون سی جماعتیں پیچھے رہی ہیں.56
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرموده 29 نومبر 1940ء جب یہ فہرستیں کتابی صورت میں شائع ہو جائیں گی تو اس وقت ہر ایک کے لئے تمام فہرست کا پڑھنا سخت مشکل ہو گا لیکن یہ بات آسانی سے دیکھی جاسکے گی کہ کون سی جماعت چندوں میں بڑھ کر رہی اور کون سی جماعت پیچھے رہی؟ اور چونکہ اس بات کا معلوم کرنا آسان ہو گا اس لئے جو جماعتیں چندہ میں بڑھ کر رہیں گی ان کے لئے سینکڑوں سال دعائیں ہوتی چلی جائیں گی اور خدا سے جو انہیں ثواب ملے گا وہ الگ ہوگا.گویا خدا کے ثواب کے بعد ایسی جماعتیں بندوں کی دعاؤں سے بھی سینکڑوں ہزاروں سال تک حصہ لیتی چلی جائیں گی.اس فہرست میں کم و بیش پانچ ہزار نام ہوں گے اور پانچ ہزار نام پڑھنا آسان کام نہیں لیکن اتنی بات ہر کوئی پڑھ لے گا کہ فلاں فلاں جماعتیں اس چندہ میں اول رہی ہیں.پس جماعتی لحاظ سے بھی کوشش کرنی چاہئے کہ افراد اور وعدوں کے لحاظ سے لسٹیں گزشتہ سال سے بڑھ کر رہیں تا کہ اس حصہ ثواب میں وہ دوسروں سے بڑھ جائیں.میں اس موقع پر ایک دفعہ پھر ان لوگوں کو جنہوں نے ادائیگی چندہ کا اقرار کیا ہوا ہے، توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بغیر کسی کی تحریک کے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی فکر کریں.مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس سال کے آغاز میں پہلے تین چار ماہ تو دوستوں کی توجہ اس چندہ کی طرف رہی مگر پھر ان پر غفلت طاری ہوگئی نتیجہ یہ ہوا کہ گزشتہ سال کے مقابلہ میں پچیس ہزار کے قریب چندہ میں کمی آگئی.اس کے بعد میں نے پھر توجہ دلائی تو دوستوں میں بیداری پیدا ہوئی مر ستمبر کا مہینہ ختم ہونے پر دس پندرہ دن کے اندر اندر پانچ سات ہزار کی پھر کی ہوگئی.اس کے بعد پھر توجہ دلائی گئی تو اب یہ حالت ہے کہ آمد قریباً قریباً گزشتہ سال کے برابر ہے.صرف کسی دن کی وصولی پچھلے سال سے کم ہو جاتی ہے اور کسی دن کی وصولی پچھلے سال سے بڑھ جاتی ہے.یہ طریق بھی انسان کے لئے ثواب کی کمی کا موجب ہوتا ہے اور یوں بھی یہ کوئی اچھی بات نہیں کہ انسان اپنے بیوی بچوں کا پیٹ کاٹ کر چندہ بھی دے اور پھر ذراسی غفلت سے اس کے ثواب میں کمی آجائے اور اس کی مستی سلسلہ کے لئے پریشانی کا موجب بن جائے.پس ہر شخص کو کوشش کرنی چاہئے کہ وعدہ کے بعد جلد سے جلد اپنے وعدے کو پورا کر دے.اسی طرح وہ لوگ جن کے ذمہ گزشتہ سالوں کا بقایا رہتا ہے انہیں بھی اپنے بقائے صاف کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہئے.میں نے بار بار کہا ہے کہ اگر وہ چندہ نہیں دے سکتے تو مجھ سے معافی لے لیں اور اگر دے سکتے ہیں تو جلد سے جلد دینے کا انتظام کریں.وہ شخص جو چندہ دینے کی طاقت تو نہیں رکھتا مگر معافی بھی نہیں مانگتا ، وہ متکبر ہے.کیونکہ وہ دنیا کو یہ دکھانا چاہتا ہے کہ اس نے چندہ دینے کا وعدہ کیا ہوا ہے اور وہ اسے ادا کر دے گا مگر حالت یہ ہے کہ وہ ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا یا ادا کرنا چاہتا نہیں اور 57
خطبہ جمعہ فرمودہ 29 نومبر 1940ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم پھر ریا اس پر اس قدر غالب ہے کہ معافی بھی نہیں مانگتا.پس وہ متکبر ہے اور وہ جو تو فیق کے باوجود ادا نہیں کرتا، نا دہند ہے، اسے کسی نے مجبور نہیں کیا تھا کہ وہ اس تحریک میں اپنا وعدہ لکھوائے.سوائے ایسی تحریک کے جیسے ایک مومن دوسرے مومن کو کرتا ہے.پس اس تحریک میں شامل ہونا اس کی خوشی پر منحصر تھا اور جبکہ اس نے طوعی طور پر چندہ لکھوایا تو یہ نہایت ہی قابل شرم بات ہے کہ ایک انسان وعدہ تو اپنی مرضی اور خوشی سے کرے مگر اسے پورا نہ کرے.پس میں ان تمام لوگوں کو جن کے ذمہ گزشتہ سالوں کے بقائے ہیں، توجہ دلا تا ہوں کہ وہ جلد سے جلد اپنے بقائے پورے کریں تا کہ ثواب کی جگہ انہیں عذاب نہ ملے.اس وقت ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کے بقائے ہیں.میرا خیال ہے کہ گزشتہ پانچ سال کے بقائے تمہیں ہزار کے قریب ہوں گے اور یہ وہ بقائے ہیں جن کی ادائیگی کا دوستوں نے وعدہ کیا ہوا ہے.پس اپنے وعدوں کو پورا کریں اور بقالوں کو جلد سے جلد صاف کریں.وعدہ بڑی قیمتی چیز ہوتا ہے اور پھر مومن کا وعدہ تو اور بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے لیکن اگر کوئی شخص مومن کہلا کر بھی اپنا وعدہ پورا نہ کرے تو اس کا ایمان اسے کیا فائدہ دے سکتا ہے؟ وعدہ تو ایسی چیز ہے کہ بسا اوقات کا فر بھی اسے پورا کرنے کا فکر رکھتا ہے اور جبکہ کا فر بھی وعدہ کو پورا کیا کرتا ہے تو مومن کو خیال رکھنا چاہئے کہ اس کا قدم کم سے کم کافر سے نیچے تو نہ پڑے.عرب میں وعدوں کا بہت خیال رکھا جاتا تھا، اس زمانہ میں تو مسلمان کہلانے والے چاہتے ہیں کہ جس طرح بھی ہو دوسروں کا نقصان ہو.انہیں نہ اپنے وعدوں کا خیال ہوتا ہے، نہ لین دین کا احساس ہوتا ہے.مگر اہل عرب میں وعدوں کو پورا کرنے کا اتنا احساس تھا کہ باوجود کفر کے وہ اپنے وعدوں کو پورا کر کے دکھا دیتے تھے.چنانچہ مکہ میں ایک دفعہ خبر پہنچی کہ ایرانی فوجوں سے رومی فوج شکست کھا گئی ہے.مکہ والے چونکہ مشرک تھے اور ایران والے بھی مشرک تھے اس لئے مکہ کے بت پرست اس سے بہت خوش ہوئے.مشرک تو عیسائی بھی تھے مگر وہ چونکہ مسلم اہل کتاب تھے اس لئے مکہ والوں نے شور مچادیا کہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) جو عیسی کو مانتا ہے ، اس کا تعلق عیسائیوں سے ہے اور ہمارا تعلق ایرانیوں سے ہے.اس جنگ میں چونکہ ایرانیوں کی فتح ہوئی ہے اور رومی شکست کھا گئے ہیں، اس لئے یہ ہمارے لئے ایک نیک فال ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہم بھی فتح پائیں گے اور مسلمان ہمارے مقابلہ میں شکست کھا جائیں گے.غرض مکہ میں ایک شور برپا ہو گیا کہ چونکہ ایرانیوں نے رومیوں کو شکست دے دی ہے اس لئے اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے مسلمانوں کو شکست دے دی ہے.جب کوئی رو چلتی ہے تو چلتی چلی جاتی ہے اور طبائع خود بخود اس سے متاثر ہوتی جاتی ہیں.یہ رو 58
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرموده 29 نومبر 1940ء بھی ایسی چلی کہ ہر جگہ اس کا تذکرہ رہنے لگا.مسلمانوں نے اس پر بخشیں کرنی شروع کر دیں کوئی کہتا کہ فال کوئی چیز ہی نہیں ہوتی کوئی کہتا کہ یہ محض وہم اور خیال ہے اور کوئی یہ کہتا کہ فال لینے کا یہ طریق غلط ہے.آخر اللہ تعالی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر وحی نازل کی کہ رومیوں کو گواب شکست ہو چکی ہے مگر بضع سنین میں وہ پھر غالب آجائیں گے اور ایرانی ان کے مقابلہ میں شکست کھا جائیں گے اور یہ خبر تم کو ایسے وقت میں پہنچے گی جب تم بھی ان دشمنوں کو ایک شکست دے چکے ہو گے.چنانچہ رومیوں کی فتح کی خبر مسلمانوں کو بدر کے موقع پر پہنچی.جب کفار کا لشکر مسلمانوں کے مقابلہ میں شکست فاش کھا چکا تھا.اللہ تعالی کی طرف سے جب یہ وحی نازل ہوئی تو حضرت ابو بکر، ابی بن خلف جو مکہ کا رئیس تھا، اس کے پاس پہنچے اور فرمانے لگے کہ کچھ تم نے سنا کہ ہمارے آقا کو الہام ہوا ہے کہ بضع سنین میں رومی ایرانیوں پر غالب آجائیں گے؟ اس نے کہا اگر یہ بات ہے تو آؤ اور کوئی شرط باندھ لو! حضرت ابو بکر نے کہا بہت اچھا.چنانچہ دس دس اونٹوں کی شرط ہو گئی.بضع سنین کے معنی تین سے دس سال کے ہوتے ہیں یعنی تین سال سے لے کر نویں سال کے اختتام تک مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس کا خیال نہ رہا اور انہوں نے تین سال کی مدت مقرر کر دی اور کہا کہ اگر تین سال میں ایرانیوں نے رومیوں کے ہاتھوں شکست نہ کھائی تو میں تمہیں دس اونٹ دوں گا اور اگر وہ شکست کھا گئے تو تمہیں دس اونٹ دینے ضروری ہوں گے.اس کے بعد وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ ! میں تو آپ کی وحی پر شرط باندھ آیا ہوں اور کہہ آیا ہوں کہ اگر ایرانیوں کو اب کی دفعہ شکست نہ ہوئی تو میں دس اونٹ دوں گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا مدت کیا مقرر کی ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ تین سال.آپ نے فرمایا کہ بضع سنین تو تین سے نو سال تک ہوتے ہیں یہ آپ نے غلطی کی جو تین سال کی مدت مقرر کر دی.پھر آپ نے فرمایا اچھا اب غلطی کی تلافی اس طرح کرو کہ ابی بن خلف کے پاس جاؤ اور کہو کہ ہم شرط اور زمانہ دونوں بڑھا دیتے ہیں.شرط سوسو اونٹ رکھ لو اور مدت نو سال کے اختتام تک بڑھا دو.چنانچہ وہ پھر ابی بن خلف کے پاس گئے اور یہی بات اس کے سامنے پیش کر دی اسے چونکہ یقین تھا کہ ایرانیوں کی طاقت بہت بڑی ہے اور ناممکن ہے کہ رومی انہیں شکست دے سکیں.اس لئے اس نے فورا خوشی سے اس بات کو قبول کر لیا اور کہا کہ بے شک زمانہ نو سال تک بڑھالو اور شرط سوسو اونٹ کی رکھ لو.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے رومیوں کی حالات میں تبدیلی پیدا کرنی شروع کر دی اور نو سال کے اندر اندر ان میں ایک با ہمت بادشاہ پیدا ہوا اور اس نے اپنے ملک کو متحد کر کے ایرانیوں پر ایسا شدید حملہ کیا کہ ان کے لئے بھاگنے 59
خطبہ جمعہ فرمودہ 29 نومبر 1940ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم کے سوا کوئی چارہ نہ رہا.ایرانی شکست کھا گئے اور رومیوں کو فتح حاصل ہوگئی.جب یہ خبر مسلمانوں کو پہنچی اس وقت ہجرت ہو چکی تھی.اُبی بن خلف مر چکا تھا اور کفار مکہ سے مسلمانوں کی لڑائیاں شروع ہو چکی تھیں.حضرت ابو بکر نے ان کے وارثوں کو کہلا بھیجا کہ تمہیں وہ شرط یاد ہے جو ابی بن خلف نے مجھ سے کی تھی؟ انہوں نے کہا یا د ہے اور اسی وقت سو اونٹ بھیجوا دیئے.تو کافر بھی اپنے وعدے کا پاس کیا کرتا ہے.کجا یہ کہ مومن ایک وعدہ کرے اور اسے اپنے وعدہ کو پورا کرنے کا کوئی خیال نہ آئے؟ کیا ہو سکتا ہے کہ ابی بن خلف جیسے شدید دشمن اسلام کی اولا دتو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کے متعلق اپنے وعدے کو پورا کر دے اور ایک احمدی سلسلہ کے ساتھ کئے گئے وعدہ کو پورا نہ کرے؟ اگر ایسا ہو تو یہ ایک نہایت ہی افسوسناک بات ہوگی.اس وقت تحریک جدید کے چھٹے سال کے وعدوں میں سے بھی چھبیس ستائیس ہزار کی رقم رہتی ہے.(اس وقت خطبہ کو دیکھتے وقت انیس بیس ہزار کی رقم باقی ہے.) دوستوں کو چاہئے کہ دسمبر کے مہینہ میں ہی اسے ادا کرنے کی کوشش کریں.نئے سال کے وعدوں کے متعلق میں یہ بھی اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ سات جنوری 1941 تک وعدوں کی لسٹیں مرکز میں پہنچ جانی چاہئیں اور آج سے ہی تحریک جدید کے کارکنوں کو اس کام میں مشغول ہو جانا چاہئے.ہو سکے تو جلسہ سالانہ سے پہلے پہلے لٹیں مکمل کر کے پہنچادی جائیں.ممکن ہے بعد میں یہ وقت بڑھانا پڑے مگر میں سمجھتا ہوں لمبا وقت اگر دے دیا جائے تو کارکنوں میں مستعدی پیدا نہیں ہو سکتی اور وہ خیال کر لیتے ہیں کہ ابھی کافی وقت پڑا ہے، اس کام کو بعد میں کر لیا جائے گا.پس میں چاہتا ہوں کہ دسمبر میں ہی لسٹیں تیار ہو جائیں اور زیادہ سے زیادہ سات جنوری تک یہاں پہنچا دی جائیں.بعض لوگ جلسہ سالانہ پر آکرلسٹیں تیار کیا کرتے ہیں کیونکہ یہاں ان دنوں تمام آدمی اکٹھے ہوتے ہیں، ایسے دوستوں کو بھی چاہئے کہ جلسہ سالانہ تک لسٹیں مکمل کر کے پہنچا دیں.اگر پھر بھی بعض لوگ رہ جائیں تو ان کا وعدہ سات جنوری تک پہنچا دیا جائے.بہر حال سات جنوری تک کا وعدہ ہی قبول کیا جائے گا.جیسا کہ میں نے بتایا ہے ممکن ہے اس وقت میں بعد میں زیادتی بھی کرنی پڑے مگر اصل میعاد یہی ہے اور مخلصین جو ثواب حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں اسی مدت میں کوشش کر کے ثواب حاصل کر سکتے ہیں.پس میں قادیان کی جماعت کو بھی اور باہر کی جماعتوں کو بھی تحریک کرتا ہوں کہ اس عرصہ میں وہ اپنی لسٹیں مکمل کر کے دفتر میں پہنچا دیں.افراد کو چاہئے کہ وہ اس چندہ میں پہلے سالوں سے زیادہ حصہ 60
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرموده 29 نومبر 1940ء لیں اور جماعتوں کو بھی چاہئے کہ نہ صرف افراد کے لحاظ سے ان کی لٹیں پہلے سالوں سے بڑھ کر ہوں بلکہ چندہ کے لحاظ سے بھی ان میں زیادتی ہو.آخر میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہوئے میں اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں کہ وہ ہمارے اس کام میں برکت ڈالے اور ہمیں اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے ایک ایسی بنیاد قائم کرنے میں مدد دے جو اسلام کو دوسرے تمام ادیان پر غالب کرنے والی ہو ، اسی طرح احمدیت پر جو دشمن اعتراضات کر رہے ہیں اللہ تعالی اس تحریک کے ذریعہ ان کے اعتراضات کو پاش پاش کر دے تا اسلام اور احمد بیت تمام قلوب پر چھا جائیں اور دنیا کی تمام قو میں دین کے جھنڈے کے نیچے ایک ہاتھ پر جمع ہو جا ئیں.( مطبوع الفضل 07 دسمبر 1940ء) 61
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خلاصہ تقریر فرمودہ 27 دسمبر 1940ء تحریک جدید کے متفرق امور کا ذکر تقریر فرموده 27 دسمبر 1940 ء بر موقع جلسہ سالانہ بیرونی مشنوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ : " خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر جگہ کامیابی ہورہی ہے.اس سال کے افسوسناک واقعات کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ : " چین کا دوسرا مبلغ فوت ہو گیا ہے.ان کا نام محمد رفیق تھا اور وہ تحریک جدید کے ماتحت تبلیغ کے لئے گئے تھے.حضور نے فرمایا کہ: ” بعض نئے مراکز کی بنیاد بھی رکھی جارہی ہے اور مجاہدین کو وہاں کام کرنے کے لئے تیار کیا جارہا ہے.اس غرض سے اور نو جوانوں کی ضرورت ہے جو خدمت دین کے لئے اپنی زندگی وقف کریں.حضور نے اس بات پر اظہار افسوس کیا کہ گزشتہ دو سال سے وقف زندگی کی تحریک کی طرف کم توجہ کی گئی ہے.اس کے بعد حضور نے تحدیث بالنعمت کے طور پر بعض اپنے الہامات اور ر و یا کشوف بیان فرمائے جو موجودہ جنگ کے سلسلے میں پورے ہو چکے ہیں اور جن میں سے بعض خطبات میں بیان ہو چکے ہیں.پھر حضور نے تحریک جدید کے طرف توجہ دلائی اور سادہ زندگی کی اہمیت بیان فرمائی.عورتوں کو خاص طور پر مخاطب کر کے فرمایا: ان کو یقین رکھنا چاہئے کہ وہ بھی دین کی خدمت کر سکتی ہیں اور انہیں مردوں کے ساتھ مل کر اس تحریک کو مضبوط کرنا چاہیئے“.پھر حضور نے سنیما دیکھنے کی ممانعت پر زور دیا اور چندہ تحریک جدید کے متعلق فرمایا کہ: ”اب کے جو تحریک کی گئی ہے اس کی طرف احباب نے بہت توجہ کی ہے جن کی طرف گزشتہ سالوں کے بقائے ہیں ان کو بھی ادا ئیگی کی فکر کرنی چاہئے.اس کے بعد حضور نے امانت فنڈ تحریک جدید میں حصہ لینے کا ارشاد فرمایا اس کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ : ہر شخص کو کچھ نہ کچھ اس میں جمع کرتے رہنا چاہئے.(مطبوعہ الفضل یکم جنوری 1941ء) 63
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم "" اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 03 جنوری 1941ء چندہ تحریک جدید کے وعدہ جات خطبہ جمعہ فرمودہ 03 جنوری 1941ء اس کے بعد میں احباب کو تحریک جدید کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.گو اس بات سے زیادہ تر فائدہ قادیان کے دوستوں کو ہی پہنچ سکے گا کیونکہ یہ بات ان تک آج ہی پہنچ جائے گی.میں نے تحریک جدید کے وعدوں کے لئے آخری تاریخ 7 جنوری 1941 ء مقرر کی تھی.آج 3 ہے اور اس لحاظ سے صرف چار روز باقی ہیں اور اس تنگ وقت میں یہ بات بیرونی جماعتوں کو پہنچنی مشکل ہے.بیرونی جماعتوں کے لئے حسب قاعدہ سابق 8 جنوری کی تاریخ آخری ہے، یعنی جن خطوط پر 8 جنوری کی مہر ہو گی ، وہ وعدے میعاد کے اندر سمجھے جائیں گے.آخری تاریخ تو سات ہے.مگر سات کی شام کو چونکہ ڈاک نہیں نکل سکتی.اس لئے 8 کی مہر والے خطوط میعاد کے اندر سمجھے جائیں گے.اس دفعہ چونکہ میں نے میعاد بہت کم مقرر کی تھی.اس لئے جو لوگ پوری طرح کام نہیں کر سکے اور جلسہ کی وجہ سے ان کو موقع بھی کم مل سکا ہے.دس دن تو کم از کم جلسے میں چلے گئے.اس لئے ایسے لوگوں کے لئے میں اس میعاد میں توسیع نہیں کرتا.البتہ جن کے لئے مجبوریاں تھیں، ان کیلئے 17 جنوری دوسری میعاد مقرر کرتا ہوں.یہ میعاد قادیان کے لوگوں کیلئے نہیں.کیونکہ ان کے حالات دوسروں سے مختلف ہیں.یہاں کے دوستوں کو اگر جلسہ میں کام کرنا پڑا ہے تو معا بعد ان کیلئے فراغت بھی ہوگی.انہوں نے کہیں آنا جانا نہ تھا.یہیں کام شروع کرنا تھا اور یہیں ختم کر دینا تھا.پس یہ دوسری میعاد قادیان اور قادیان کے ارد گرد کے لئے یعنی جو جماعتیں جماعت قادیان کے تابع ہیں نہیں.ان کے لئے میعاد 8 جنوری کو ختم ہو جائے گی.باہر کی جن جماعتوں کے لئے مشکلات تھیں اور جلسہ کی وجہ سے یا اور وجوہ سے جن کیلئے مجبوری تھی.ان کیلئے میں پہلی میعاد کو لمبا نہیں کرتا.البتہ دوسری میعاد مقرر کر دیتا ہوں.جو دوست اپنے خطوط 18 کو ڈاک میں ڈال دیں گے.ان کے وعدے میعاد کے اندر سمجھے جائیں گے.(چونکہ یہ خطبہ آٹھ دن تک شائع نہیں ہو سکا.اب یہ میعاد 31 جنوری 1941 ء تک بڑھائی جاتی ہے.امید ہے اس عرصہ تک سب دوست اور جماعتیں اپنے وعدے دفتر بھجوا دیں گے).65
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 03 جنوری 1941ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم ہندوستان سے باہر کی جماعتوں کے لئے حسب دستور سابق وعدوں کی آخری تاریخ آخر مارچ تک ہے اور یونانکڈ اسٹیٹس آف امریکہ یا امریکہ کے دوسرے ملکوں کیلئے اگر وہاں کوئی احمدی ہوں تو یہ میعاد جون تک ہے.میعاد کو مختصر کرنے کی وجہ سے دوستوں نے چستی سے کام کیا ہے مگر ابھی بہت بڑی مقدار وعدوں کی باقی ہے اور دوستوں کو چاہئے کہ باقی دنوں میں اس کمی کو پورا کریں تا یہ سال پہلے سالوں کی نسبت بہتر رہے اور ان سے پیچھے نہر ہے.66 ( مطبوع الفضل 14 جنوری 1941ء)
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرمود 240 جنوری 1941ء روحانی جماعتوں کی ترقی محض خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتی ہے وو خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جنوری 1941ء...پس ہماری جماعت کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس کی فتوحات اور کامیابیوں میں سے بھی وہی فتوحات اور کامیابیاں بابرکت ہیں جو بغیر ظاہری سامانوں کے ہوں.آج ہماری حالت بھی درحقیقت وہی ہے جو بدر اور احد کی جنگوں میں صحابہ کی تھی.ہمیں خدا تعالیٰ نے تلوار نہیں دی بلکہ روحانی ہتھیار دیئے ہیں اور انہی روحانی ہتھیاروں سے ہم قلوب پر فتح حاصل کر رہے ہیں.پس چونکہ ہماری لڑائی تلوار والی لڑائی نہیں، اس لئے ہماری بدر بھی یہی ہے اور ہماری احمد بھی یہی.جب کسی گاؤں میں مخالفت کے باوجود کچھ لوگ احمدی ہو جاتے ہیں تو وہی تبلیغی جنگ ہماری بدر کی جنگ کہلائے گی.کیونکہ ہماری ساری جنگیں تبلیغی اور روحانی ہیں.اس جنگ کے نتیجہ میں بھی کچھ لوگوں کو تو یمان نصیب ہو جاتا ہے، اور بہت سے ایمان لانے سے محروم رہتے ہیں.مولوی ثناء اللہ صاحب یہی اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ ابھی تو کروڑوں عیسائی اور کروڑوں غیر احمدی موجود ہیں.احمدیت کو کون سی فتح حاصل ہوئی ؟ مگر یہ ایسی بات ہے جیسے بدر یا احد کی فتح کے وقت کوئی شخص کہتا کہ ابھی تو لاکھوں عرب مخالف ہیں اور یہ بدر اور احد کی فتح کو ہی اپنا بہت بڑا کارنامہ قرار دے رہے ہیں.مگر جاننے والے جانتے ہیں، پہچانے والے پہنچانتے ہیں اور سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ جنگ بدر، بدر کی فتح نہیں بلکہ مکہ کی فتح تھی اور احد، احد کی فتح نہیں بلکہ مکہ کی فتح تھی.ویسے ہی جن کو خدا تعالیٰ نے آنکھیں دی ہیں، وہ جانتے ہیں کہ جب کسی پہاڑی دامن میں ایک چھوٹے سے گاؤں کے دو چار لوگوں کو ہم احمدی بنالیتے ہیں تو درحقیقت یہ اس گاؤں کی فتح نہیں ہوتی بلکہ خدا تعالیٰ کے دفتر میں تمام دنیا کی فتح ہوتی ہے.بے شک اس وقت وہ فتح بعض احمدیوں کے ایمان کی ترقی کا موجب بھی نہیں بنتی بلکہ بعض کہہ بھی دیتے ہیں کہ اگر فلاں جگہ دو چار احمدی ہو گئے ہیں تو کیا ہوا؟ مگر جب ان چھوٹی چھوٹی فتوحات کا مجموعی نتیجہ پیدا ہوگا تو ایک دم دنیا یوں گرنے لگے گی جیسے دریا کے کنارے کی زمین گرنے لگتی ہے.اور اس وقت کمزور ایمان والے گرد نہیں اٹھا اٹھا کر کہیں گے کہ ہم پہلے ہی اس بات پر ایمان رکھتے 67
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 جنوری 1941ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم تھے کہ احمدیت ایک دن ساری دنیا پر غالب آجائے گی.اور دوسرے لوگ بھی کہیں گے کہ آثار تو ہمیں بھی دیر سے نظر آرہے تھے.اس وقت کے آنے تک مخالف ہنسی کرے گا، دشمن ٹھیٹھے کرے گا اور کمزور ایمان والا طعنہ دے کر کہے گا کہ قربانیوں کا مطالبہ کر کے جماعت کو کمزور کیا جا رہا ہے.مگر مبارک ہیں وہ جن کے ایمان اس وقت تقویت پاتے ہیں جس وقت ابھی خدا تعالیٰ کی طرف سے آخری نتیجہ نہیں نکلتا.کیونکہ وہی ہیں جو خدا تعالی کی درگاہ میں بڑے سمجھے جانے والے ہیں.دیکھو ا جب مکہ فتح ہوا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ”لاهجرة بعد الفتح“.اب اس فتح مکہ کے بعد کوئی ہجرت نہیں.ہجرت تو لوگ پھر بھی کرتے رہے ہیں اور کئی لوگ بعد میں بھی مدینہ مہاجر بن کر گئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ وہ جو مہاجرین کے متعلق قرآن کریم نے خبر دی ہے کہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور بڑے بڑے انعام مقرر ہیں.وہ اب فتح مکہ کے بعد ایمان لانے والوں کو نہیں مل سکتے.اب کوئی نیا ابو بکر پیدا نہیں ہوسکتا، کوئی نیا عمرہ پیدا نہیں ہوسکتا، کوئی نیا عثمان پیدا نہیں ہوسکتا، کوئی نیا علی پیدا نہیں ہوسکتا، کوئی نیا طلحہ پیدا نہیں ہوسکتا، کوئی نیاز پیر پیدا نہیں ہوسکتا.غرض وہ لوگ جو اپنے ایمانوں کو پہلے تقویت دیتے اور اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کے لئے وقف کر دیتے ہیں.وہی ہیں جن پر برکات کے دروازے کھولے جاتے ہیں.میرا یہ مطلب نہیں کہ وہ تجارت نہیں کرتے ، صحابہ بھی تجارت کیا کرتے تھے.میرا یہ مطلب نہیں کہ وہ زراعت نہیں کرتے ، صحابہ بھی زراعت کیا کرتے تھے.میرا یہ مطلب نہیں کہ وہ کوئی اور دنیوی کام نہیں کرتے ،صحابہ بھی اور دنیوی کام کیا کرتے تھے.بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ وہ تجارتیں تو کرتے ہیں مگر ان کے دل خدا تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہوتے ہیں اور ان کے کان خدا تعالیٰ کی آواز سننے کے منتظر ہوتے ہیں.جو نہی ان کے کان میں موذن کی آواز آتی ہے.وہ اپنی تجارت کو چھوڑ کر، وہ اپنی زراعت کو چھوڑ کر، وہ اپنی صنعت کو چھوڑ کر دوڑتے ہوئے مسجد میں حاضر ہو جاتے ہیں.اسی طرح جب رات آتی ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ وہ اس خیال سے کہ دن کو ہم نے ہل چلانا ہے یا کوئی اور مشقت کا کام کرنا ہے، سوئے ہی رہیں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے نہ اٹھیں.بلکہ جب تہجد کا وقت آتا ہے تو وہ فورا بستر سے الگ ہو جاتے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی عبادت کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں.یہی وہ لوگ ہیں جو دین کیلئے اپنے آپ کو وقف کرنے والے ہیں.وقف کرنا اسی کو نہیں کہتے کہ انسان نوکری نہ کرے یا تجارت نہ کرے یا زراعت نہ کرے اور ہمہ تن دینی کاموں میں مشغول رہے.بلکہ وہ شخص بھی واقف زندگی ہی ہے جس کے تمام اوقات خدا تعالیٰ کے 68
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرمود 240 جنوری 1941ء منشاء کے ماتحت گزرتے ہیں اور وہ ہر آن اور ہر گھڑی خدا تعالیٰ کے حکم پر لبیک کہنے کے لئے تیار رہتا ہے.اگر وہ تجارت کرتا ہے تو اس لئے کہ خدا نے کہا ہے، تجارت کرو.اگر وہ زراعت کرتا ہے تو اس لئے کہ خدا نے کہا ہے ، زراعت کرو.اگر وہ کسی اور پیشہ کی طرف توجہ کرتا ہے تو اس لئے کہ خدا نے کہا ہے، تم پیشوں کی طرف بھی متوجہ ہو.پس اس کی تجارت ، اس کی زراعت اور اس کی صنعت لا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللهِ کی مصداق ہے جو خدا تعالیٰ کے ذکر سے اسے غافل نہیں کرتی.یہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آواز آئے اور وہ یہ کہنے لگ جائے کہ میں کیا کروں، میری تجارت کو نقصان پہنچے گا ؟ میری زراعت میں حرج واقع ہوگا ؟ بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہنے کے سوا اور کچھ سوجھتا ہی نہیں، وہ جانتا ہی نہیں کہ میں تاجر ہوں ، وہ جانتا ہی نہیں کہ میں زمیندار ہوں ، وہ جانتا ہی نہیں کہ میں صناع ہوں.بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ میں ساری عمر ہی خدا تعالیٰ کے سپاہیوں میں شامل رہا ہوں اور اس کی تنخواہ کھاتا رہا ہوں، اب وقت آگیا ہے کہ میں حاضر ہو جاؤں اور اپنی جان اس کی راہ میں قربان کردوں.پس با وجود تجارت کرنے کے وہ واقف زندگی ہے، باوجو د زراعت کرنے کے وہ واقف زندگی ہے اور باوجود کوئی اور پیشہ اختیار کرنے کے وہ واقف زندگی ہے.مگر وہ جو ایسا نہیں کرتا جس کے کانوں میں خدا تعالیٰ کی یا اس کے مقرر کردہ کسی نائب کی آواز آتی ہے اور بجائے اس کے وہ اپنے دل میں بشاشت محسوس کرے اور کہے کہ وہ وقت آگیا ہے جس کا میں منتظر تھا.وہ اپنے دل میں قبض محسوس کرتا ہے اور قربانی کیلئے ہچکچاتا ہے.اسے اپنے لئے ایک تکلیف اور دکھ سمجھتا ہے تو ایسا انسان در حقیقت خدا تعالیٰ کی فوج میں شامل نہیں اور نہ اسے ایمان حاصل ہے.اس کو اسی وقت ایمان میسر آسکتا ہے جب آخری نتیجہ ظاہر ہو.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں "لا هجرة بعد الفتح.اگر فتح آگئی تو اس کے بعد جو شخص ایمان لائے گا اسے اس ہجرت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے قرب کے اعلیٰ مراتب حاصل نہیں ہوسکیں گے.ہجرت صرف مدینہ کی ہجرت کا نام نہیں بلکہ ہجرت اپنے اندر اور مفہوم بھی رکھتی ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں "من كانت هجرته الى الله و رسوله فهجرته الى 69
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جنوری 1941ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک......جلد دوم الله وروسوله“ (مشکوۃ صفحه ۱۱) کہ کوئی انسان ایسا بھی ہوتا ہے جو خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرتا ہے.پس اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہی ہے.تو ہجرت صرف مدینہ کی ہجرت کا نام نہیں، ہجرت صرف قادیان کی ہجرت کا نام نہیں.بلکہ ہجرت نام ہے، تمام دنیوی علائق سے آزاد ہو کر اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے لئے وقف کر دینے کا.اس وقف کے یہ معنے نہیں کہ انسان تجارت چھوڑ دے یا زراعت چھوڑ دے یا ملازمت چھوڑ دے.ایک حصہ کے لئے یہ بھی ضروری ہے مگر باقیوں کے لئے نہیں.ان کا وقف وہی ہوگا جس کا اس آیت میں ذکر آتا ہے کہ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ کہ کوئی تو ایسے ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے دین کے لئے کلیے وقف کر دیا ہے اور انہوں نے تمام کام چھوڑ کر خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا ہے.اور کوئی ایسا بھی ہے جو من ينتظر کے ماتحت ہے.وہ سودا بج رہا ہوتا ہے اور کہتا ہے، اب آدھ سیر ہو گیا ہے.مگر اس کے کان اس طرف لگے ہوئے ہوتے ہیں کہ کب خدا کی آواز آتی ہے؟ وہ دال تول کر گاہک کی جھولی میں ڈال رہا ہوتا ہے اور اس کے کان اس بات کے منتظر ہوتے ہیں کہ کب خدا تعالیٰ کی آواز آتی ہے؟ تا میں اپنا مال اور اپنی جان اس کی راہ میں قربان کر دوں.تم میں سے کئی کہہ دیں گے کہ ہم ایسے ہی ہیں کیونکہ انسان کا نفس ایسے موقع پر ہمیشہ اسے دھوکا دیا کرتا ہے.مگر تم سمجھ لو کہ اسی حقیقت کو تم پر ظاہر کرنے کے لئے خدا نے پانچ نمازیں مقرر کی ہیں.ہر روز پانچ وقت خدا تمہارا امتحان لیتا اور پانچ وقت خدا تم پر تمہارے ایمان کی حقیقت آشکار کرتا ہے.پانچ وقت جب مکبر کھڑا ہوتا اور کہتا ہے حی علی الصلوۃ، حی علی الصلوۃ اے لوگو آؤ نماز کی طرف اے لوگو آؤ نماز کی طرف.تو اس وقت جب تمہارے کانوں میں یہ آواز آتی ہے اگر تمہارے ہاتھوں پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے، تمہارے جسم میں کپکپی پیدا ہو جاتی ہے اور تمہیں بھول جاتا ہے کہ تم تاجر ہو، تمہیں بھول جاتا ہے کہ تم زمیندار ہو، تمہیں بھول جاتا ہے کہ تم صناع ہو، تمہیں بھول جاتا ہے کہ تم ملازم ہو تمہیں بھول جاتا ہے کہ تم نجار ہو، تمہیں بھول جاتا ہے کہ تم معمار ہو، تمہیں بھول جاتا ہے کہ تم لوہار ہو تمہیں صرف ایک ہی بات یا درہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ تم خدا کے سپاہی ہو.تب اور صرف تب تم اپنے دعوی ایمان میں بچے سمجھے جاسکتے ہو.لیکن اگر تمہارے اندر یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی اور خدا تعالی کی آواز تو تمہیں یہ کہتی ہے کہ 70
ٹریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعہ فرمودہ 24 جنوری 1941ء حي على الصلوہ اے میرے بندو میری عبادت کے لئے آؤ.اور تمہارا نفس تمہیں کہ رہا ہوتا ہے کہ اور دوگا ہک دیکھ لوں، اور چند پیسے کمالوں.اور بعض دفعہ تو یہ بھی کہنے لگ جاتا ہے کہ مسجد میں جا کر نماز کیا پڑھنی ہے؟ اسی جگہ پڑھ لیں گے.بلکہ کئی دفعہ واقعہ میں تم مسجد میں نہیں آتے اور گھر پر یا دوکان پر ہی نماز پڑھ لیتے ہو تو تم سمجھ لو کہ پانچ وقت خدا نے تمہارا امتحان لیا اور پانچوں وقت تم فیل ہو گئے.مجھے خوشی ہے کہ جب سے خدام الاحمدیہ نے کام شروع کیا ہے، جماعت میں بہت حد تک نماز باجماعت ادا کرنے کی رغبت پیدا ہو چکی ہے.مگر ابھی ایک طبقہ ایسا ہے جس کے دل میں یہ رغبت پیدا نہیں ہوئی.اور ابھی ایک طبقہ ایسا ہے جو نمازیں باجماعت ادا کرنے میں، جو فوج کی حاضری کے برابر ہے، ستی اور غفلت سے کام لیتا ہے.جو لوگ صرف خدام الاحمدیہ کے نظام کے ماتحت باجماعت نمازیں ادا کرتے ہیں ، میں ان سے کہتا ہوں کہ تم اپنے اندر ایسا ایمان پیدا کرو کہ اگر دنیا کی سطح سے خدام الاحمدیہ کا وجود مٹ جائے ، تب بھی تم نماز با جماعت ادا کرنے میں کبھی غفلت سے کام نہ لو.اور جولوگ اس فریضہ کی ادا ئیگی میں کوتاہی سے کام لینے کے عادی ہیں.ان سے میں کہتا ہوں کہ روزانہ پانچ وقت خدا تعالیٰ تمہارا امتحان لیتا ہے.اگر تم بغیر کسی معقول عذر کے باجماعت نماز میں ادا کرنے میں سستی سے کام لیتے ہو اور اگر تمہارے دنیوی مشاغل اس فریضہ کی ادائیگی میں روک بنتے ہیں.تو تم سمجھ لو کہ کس طرح تم روزانہ پانچ وقت اپنی شکست اور ایمان کی کمزوری کا اقرار کرتے ہو.ہر مومن جو پانچ وقت تمہارے گھر کے دروازے یا دوکان کے قریب سے نماز کے لئے گزرتا ہے اور تمہیں نماز کے لئے اٹھتے نہیں دیکھتا.وہ اس یقین اور وثوق سے تمہارے گھر یا دوکان کے پاس سے گزرتا ہے کہ یہاں ایک منافق رہتا ہے.جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی منافق قرار دیا ہے.تم بعض دفعہ جب تمہیں کوئی منافق کہتا ہے تو اس سے لڑ پڑتے ہو.مگر تمہیں خود ہی سوچنا چاہیے کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منافق کہنے سے تم نہیں گھبراتے ، تو ہمارے منافق کہنے سے تم کیوں گھبراتے ہو؟ اس سے تو معلوم ہوا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر تمہارے دلوں میں کچھ نہیں مگر ہماری قدرتمہارے دلوں میں ہے.کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منافق کہنے کی تو تمہیں کوئی پروا نہیں ہوتی لیکن اگر کوئی اور معمولی حیثیت کا آدمی تمہیں منافق کہتا ہے تو تمہارے تن بدن میں ایک آگ سی لگ جاتی ہے اور کہنے لگ جاتے ہو کہ وہ بڑا جھوٹا ہے.دوسرے لفظوں میں اس کا یہ مطلب ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت تمہارے دلوں میں اس ادنی آدمی کی حیثیت سے بھی کم ہے.کیونکہ جس کی وقعت انسانی قلب میں ہوتی ہے، اسی کی ناراضگی 71
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 جنوری 1941ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم سے خوف کھاتا ہے.ایک چھوٹا بچہ گالی دے تو انسان مسکراتا ہوا گزر جاتا ہے.لیکن اگر کوئی بڑا آدمی گالی دے تو دوسرا شخص چلتے چلتے ٹھہر جاتا ہے.اور اس سے پوچھتا ہے کہ میں نے تمہارا کیا بگاڑا تھا کہ تم نے مجھے گالی دے دی ؟ پس میں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اور بھی زیادہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں.نہ صرف قادیان کے دوست ہی بلکہ باہر کی جماعتوں کے دوست بھی اور دعاؤں پر زور دیں.کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے.روحانی جماعتوں کی ترقی محض خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل دعاؤں سے نازل ہوتے ہیں.پس با جماعت نمازیں ادا کرنے کی عادت ڈالو.دعائیں مانگو اور اپنے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی خشیت پیدا کرو تا تمہارے قلب پر اللہ تعالیٰ کا عشق ایسا غالب آجائے کہ تم مجسم دعا بن جاؤ تم نماز پڑھ رہے ہو تو دعا مانگ رہے ہو ، کام کر رہے ہو تو دعا مانگ رہے ہو، سفر کر رہے ہو تو دعا مانگ رہے ہو، سفر سے واپس آرہے ہو تو دعا مانگ رہے ہو.غرض اس قدر دعائیں کرو کہ خدا اپنے فرشتوں سے کہے کہ میرا یہ بندہ تو مجسم سوال بن گیا ہے.اب ہمیں شرم آتی ہے کہ اس کے سوال کو رد کر دیں.اور وہ سوال جو خدا تعالی کی درگاہ سے بھی رد نہیں ہوتا، مجسم سوال بن جانے والے کا ہی سوال ہوتا ہے.اس کا اپنا وجود مٹ جاتا ہے اور وہ سوال ہی سوال بن جاتا ہے.پس دعائیں کرو اور اپنے اندر نیک تبدیلی پیدا کرو تا خدا ان بلاؤں اور ابتلاؤں سے جو درمیانی عرصہ میں آنے ضروری ہیں، ہماری جماعت کو محفوظ رکھے اور اپنے فضل اور رحم سے ایمان اور یقین کے ہم پر وہ دروازے کھول دے، جو انبیاء کے بھیجنے کا اصل مقصود ہوتے ہیں.مطبوعه الفضل 08 فروری 1941ء) 72
تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 28 فروری 1941ء اخلاق فاضلہ کا پیالہ دلوں میں رکھو خطبہ جمعہ فرمودہ 28 فروری 1941ء میں دیکھتا ہوں کہ مسلمانوں میں اخلاق کی طرف بہت کم توجہ ہے بلکہ ابھی احمدیوں نے بھی اخلاق کی اہمیت کو پوری طرح نہیں سمجھا.میرے سامنے اس وقت بچے بیٹھے ہیں جو تحریک جدید کے بورڈنگ میں رہتے ہیں.میں نے تحریک جدید کے مطالبات میں ایک شق اخلاق فاضلہ کی بھی رکھی ہوئی ہے.مگر میں نہیں سمجھتا کہ ان بچوں کے سپرنٹنڈنٹ اور اساتذہ وغیرہ اخلاق کی اہمیت کو ان پر پورے طور پر ظاہر کرتے ہوں.اس لئے تحریک جدید کے بورڈنگ سے نکل کر جو طالب علم باہر گئے ہیں ، ان کے متعلق کوئی زیادہ اچھی رپورٹیں نہیں آرہیں.حالانکہ ان کے ماں باپ کی اپنے بچوں کو تحریک جدید کے بورڈنگ میں داخل کرنے کی اصل غرض یہ تھی کہ تعلیم کی علاوہ ان کی اعلیٰ تربیت ہو، ان میں محنت کی عادت ہوتی ، ان میں اعلیٰ درجہ کی دیانت پائی جاتی، ان میں ہمدردی کا مادہ ہوتا ، ان میں سچ کا مادہ ہوتا، ان میں قربانی اور ایشیار کا مادہ ہوتا.اس طرح وہ ہر کام کے کرتے وقت عقل سے کام لیتے اور وقت کی پابندی کرتے.اور یہ تمام باتیں ایسی ہیں کہ جب تک ان کو بار بار دہرایا نہ جائے اور جب تک بچوں کو ان باتوں پر عمل نہ کرایا جائے.اس وقت تک وہ قوم اور دین کے لئے مفید ثابت نہیں ہو سکتے.یہ اخلاق ہی ہیں جو ان کو کہیں کا کہیں پہنچا دیتے ہیں.جن لوگوں کو محنت سے کام کرنے کی عادت ہوتی ہے، وہ خواہ کسی بھی ملک چلیں جائیں، انہیں کامیابی ہی کامیابی حاصل ہوتی چلی جاتی ہے.مگر جوست ہوتے ہیں، انہیں گھر بیٹھے بھی کوئی کام نظر نہیں آتا.میں نے دیکھا ہے بعض افسر سارا دن فارغ بیٹھے رہتے ہیں اور کہ دیتے ہیں کہ ہمارے محکمہ میں کوئی کام ہی نہیں.انہیں کبھی یہ سوچنے کی توفیق ہی نہیں ملتی کہ ہمارے سپر د جو کام ہوا ہے، اس کی کیا کیا شاخیں ہیں اور کس طرح وہ اپنے کام کو زیادہ وسیع طور پر پھیلا سکتے اور اس کے شاندار نتائج پیدا کر سکتے ہیں؟ وہ صرف اتنا ہی کام جانتے ہیں کہ رجسٹروں اور کاغذات پر دستخط کئے اور فارغ ہو کر بیٹھ رہے.لیکن اس جگہ اور اسی دفتر میں جب کوئی کام کرنے والا افسر آتا ہے تو وہ اپنے کام کی ہزاروں شاخیں نکالتا چلا جاتا ہے اور اسے ہر وقت نظر آتا رہتا ہے کہ میرے سامنے یہ کام بھی ہے، میرے سامنے وہ کام بھی ہے.73
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 فروری 1941ء تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد دوم یور بین قوموں کو دیکھ لو، یہ جہاں جاتی ہیں انہیں کام نظر آجاتا ہے.ہندوستانی کہتے ہیں کہ ہم بھوکے مر گئے مگر یورپین لوگوں کو ہندوستان میں بھی دولت نظر آرہی ہے اور وہ اس دولت کو سمیٹتے چلے جاتے ہیں.اسی طرح سیلونی کہتے ہیں کہ ہم بھوکے مر گئے مگر انگریزوں کو سیلون میں بھی دولت دکھائی دیتی ہے.افغانی کہتے ہیں کہ ہم بھوکے مر گئے مگر انگریزوں کو افغانستان میں بھی دولت دکھائی دیتی ہے.پھر عرب جیسے سنگلاخ خطہ اور اس کے جنگلوں میں بھی انگریزوں کو دولت دکھائی دیتی ہے.مصر جیسی وادی میں بھی انہیں دولت دکھائی دیتی ہے.چین جاتے ہیں تو وہاں بھی دولت کمانے لگ جاتے ہیں.مگر چینی کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں ملتا.تو یہ انگریزوں کی نظر کی تیزی کا ثبوت ہے کہ وہ جہاں جاتے ہیں انہیں دولت دکھائی دینے لگ جاتی ہے اور یہ نظر کی تیزی اخلاق فاضلہ سے ہی حاصل ہوتی ہے.اگر کسی قوم میں اخلاق فاضلہ پیدا ہو جائیں تو اس کے افراد کی نظر اسی طرح تیز ہو جاتی ہے.غرض قربانی اور ایثار کا مادہ ایسی چیز ہے جو انسان کی ہمت کو بڑھاتا ہے اور سچ بولنا ایک ایسا وصف ہے جو انسان کا اعتبار قائم کرتا ہے اور محنت کی عادت ایک ایسی چیز ہے جو کام کو وسعت دیتی ہے اور جب کسی شخص میں یہ اخلاق فاضلہ پیدا ہو جائیں تو ایسا آدمی ہر جگہ مفید کام کر سکتا ہے اور ہر شعبہ میں ترقی حاصل کر سکتا ہے.پس میں تحریک جدید کے کارکنوں کو خصوصیت سے اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ یہ امر طالب علموں کو ذہن نشین کراتے رہیں کہ انہیں ہمیشہ سچائی سے کام لینا چاہیے اور محنت کی عادت اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے اور اس امر کو ان کے انفاذ ہن نشین کریں کہ یہ امر ان کے دل کی گہرائیوں میں اتر جائے کہ ان باتوں کا چھوڑ نا ایسا ہی ہے جیسے طاعون میں گرفتار ہونا.آخر وجہ کیا ہے کہ ایک چورمل جاتا ہے تو وہ دوسرے کے دل میں چوری کی محبت پیدا کر دیتا ہے، ایک جھوٹا اور کذاب انسان مل جاتا ہے تو وہ دوسرے کو جھوٹ اور کذب بیانی کی عادت ڈال دیتا ہے،ایک سست اور غافل انسان کسی دوسرے کے پاس رہتا ہے تو اسے بھی اپنی طرح سست اور غافل بنا دیتا ہے؟ اگر ان بدیوں کے مرتکب اثر پیدا کر لیتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ کارکنوں کے دلوں میں سوز اور گداز پیدا ہو جائے اور وہ اخلاق کی اہمیت کو سمجھ جائیں تو بچوں میں سچ بولنے کی عادت پیدا نہ کر سکیں ، ان میں محنت کی عادت پیدا نہ کرسکیں اور کیوں بچے ان اخلاق فاضلہ سے دوری کو ایک عذاب نہ سمجھنے لگیں؟ اگر متواتر طالب علموں کو بتایا جائے کہ جھوٹ بولنا ایک عذاب ہے اور ایسا ہی ہے جیسے طاعون اور ہیضہ میں مبتلاء ہو جانا، اگر متواتر طالب علموں کو یہ بتایا جائے کہ ستی اور غفلت ایک عذاب ہے اور ایسا 74
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 فروری 1941ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم ہی ہے جیسے طاعون اور ہیضہ میں گرفتار ہونا یا بھڑکتی ہوئی آگ میں گر جانا.اسی طرح تمام اخلاق فاضلہ ان کو کے ذہن نشین کرائے جائیں تو کیا وجہ ہے کہ ان میں بیداری پیدا نہ ہو اور وہ صحیح اسلامی اخلاق کا نمونہ نہ بنیں؟ مگر اس کے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ طالب علموں کے سامنے متواتر لیکچر دیئے جائیں اور انہیں بتایا جائے کہ جھوٹ کیا ہوتا ہے؟ سچ کیا ہوتا ہے؟ سچ بولنے کے کیا فوائد ہیں اور جھوٹ بولنے کے کیا نقصانات ہیں؟ میرے نزدیک سو میں سے نوے انسان یہ سمجھتے ہی نہیں کہ سچ کیا ہوتا ہے؟ یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ جتنا زیادہ کسی بات کو دہرایا جائے.اتنا ہی لوگ اسے کم سمجھتے ہیں.تم کسی شخص سے پوچھو.حتی کہ کسی گاؤں کے رہنے والے شخص سے بھی دریافت کرو کہ سنیما کیا ہوتا ہے؟ تو وہ ضرور اس کی کچھ نہ کچھ تشریح کر دے گا.لیکن اگر تم اس سے پوچھو کہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ کی کیا تشریح ہے یا اسلام کو تم نے کیوں مانا ہے؟ تو وہ ہنس کر کہہ دے گا کہ یہ باتیں مولویوں سے دریافت کریں.آخر یہ فرق کیوں ہے اور کیوں وہ سنیما کی تشریح تو کسی قدر کر سکتا ہے مگر یہ نہیں بتا سکتا کہ اس نے اسلام کو کیوں قبول کیا؟ اس لئے کہ وہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ کو ہر وقت رہتا رہتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ مجھے اس کے سمجھنے کی ضرورت نہیں مگر سنیما کا لفظ جو کبھی کبھی سنتا ہے اور اس لئے لوگوں سے پوچھ لیتا ہے کہ یہ کیا چیز ہے؟ مگر لا اله الا اللہ کو چونکہ اس نے بچپن سے سنا ہوتا ہے.اس لئے وہ خیال کر لیتا ہے کہ مجھے اس کے متعلق کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں.تم میں سے کسی کے بچہ نے اگر ریل کو نہیں دیکھا اور کسی دن تمہیں اسے ریل دکھانے لے جاؤ تو وہ جاتے ہی تم پر سوالات کی بوچھاڑ کر دے گا.اگر پنچابی ہوگا تو اپنے باپ سے کہے گا با پوا یہ کس طرح چلدی ہے؟ کبھی کہے گا کہ کیا یہ دھوئیں کے ساتھ چلتی ہے؟ اور کبھی یہی خیال کرنے لگ جائے گا کہ اس کے اندر کوئی جن بیٹھا ہے جو اسے حرکت میں لاتا ہے.غرض وہ تھوڑے سے وقت میں تم سے بیسیوں سوالات کر دے گا.لیکن کیا اس نے کبھی تم سے یہ پوچھا کہ سورج کیوں بنا ہے؟ اس کی روشنی کہاں سے آتی ہے؟ اس کے اندر گرمی کسی طرح پیدا ہوتی ہے اور اس کی روشنی اور گرمی ختم کیوں نہیں ہو جاتی ؟ وہ بھی تم سے یہ سوالات نہیں کرے گا.لیکن انجن کے متعلق تم سے بیسیوں سوالات کر دے گا.اس لئے کہ انجن اس نے ایک نئی چیز کے طور پر دیکھا ہے اور سورج کو اپنی پیدائش ہی سے وہ دیکھتا چلا آیا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ مجھے اس کے متعلق کچھ پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں.پس جتنی زیادہ کوئی چیز انسان کے سامنے آتی ہے.اتنا ہی وہ اس کی حقیقت اور ماہیت سے نا واقف ہوتا ہے.یہ ایک قانون ہے جو فطرت انسانی میں داخل ہے کہ جو چیز کبھی کبھا رسامنے آئے گی ، 75
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 فروری 1941ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم اس کے متعلق وہ سوالات کی بوچھاڑ کر دے گا اور جو بار بار سامنے آتی رہے گی، اس کے متعلق وہ کبھی سوالات نہیں کرے گا.کیونکہ بار بار سامنے آنے سے دریافت کرنے کی حس ہی ماری جاتی ہے اور انسان یہ خیال کرنے لگ جاتا ہے کہ مجھے اس کا علم ہے.حالانکہ اسے علم نہیں ہوتا.چنانچہ تم کسی سے پوچھ کر دیکھ لو کہ سچ کیوں بولنا چاہیے؟ وہ کبھی تم کو اس سوال کا صحیح جواب نہیں دے سکے گا.تم اپنے محلہ میں ہی کسی دن لوگوں سے دریافت کر کے معلوم کر سکتے ہو کہ آیا وہ اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں یا نہیں.جب تم کسی سے پوچھو گے کہ سچ بولنا چاہئے یا نہیں ؟ تو وہ کہے گا کہ ضرور سچ بولنا چاہئے.مگر جب پوچھا جائے گا کہ بیچ کیوں بولنا چاہیے؟ تو وہ ہنس کر کہہ دے گا کہ یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ بیچ کا لفظ بار بار سن کر لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ یہ چیز کسی دلیل کی محتاج نہیں.حالانکہ یہ بھی ویسی ہی دلیل کی محتاج ہے جیسے اور باتیں دلیل کی محتاج ہیں تو لوگ سچ کی تعریف سے بھی واقف نہیں ہوتے ، وہ سچ کی ضرورت سے بھی واقف نہیں ہوتے ، وہ سچ کے فوائد سے بھی واقف نہیں ہوتے ، وہ سچ کو چھوڑنے اور جھوٹ بولنے کے نقصانات سے بھی واقف نہیں ہوتے ،مگر جب ان سے سچ کے بارہ میں پوچھا جائے تو کہہ دیں گے کہ یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے.میرے پاس کئی لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ احمدیت کی صداقت کا کیا ثبوت ہے؟ میں نے حضرت خلیفہ اول کو دیکھا کہ آپ سے جب بھی کوئی شخص یہ سوال کرتا ہے.آپ ہمیشہ اسے یہ جواب دیا کرتے کہ تم نے دنیا میں کسی سچائی کو قبول کیا ہوا ہے یا نہیں ؟ اگر کیا ہوا ہے تو جس دلیل کی بنا پر تم نے اس سچائی کو قبول کیا ہے، وہی دلیل احمدیت کی صداقت کا ثبوت ہے.اس کے جواب میں پوچھنے والا بسا اوقات یا تو ہنس کر خاموش ہو جاتا یا جو دلیل پیش کرتا ، اسی سے آپ اس کے سامنے احمدیت کی صداقت پیش فرما دیتے.میرا بھی یہی طریق ہے اور میں نے اپنے تجربہ میں اسے بہت مفید پایا ہے.چنانچہ مجھ سے بھی جب کبھی کوئی شخص یہ سوال کرتا ہے کہ احمدیت کی صداقت کا کیا ثبوت ہے؟ تو میں اسے یہی کہا کرتا ہوں کہ تم پہلے یہ بتاؤ کہتم محمدصلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کیوں مانتے ہو اور کن دلائل سے آپ کی صداقت کے قائل ہو ؟ جو دلائل رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صداقت کے تمہارے پاس ہیں.وہی دلائل حضرت مسیح موعود کے میں پیش کرنے کیلئے تیار ہوں.اس کے جواب میں کئی لوگ تو خاموش ہو جاتے ہیں اور کئی کہہ دیتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صداقت کے دلائل ہم کیا بتا ئیں وہ تو ظاہر ہی ہیں.پھر جب ان کے اس جواب پر جرح کی جاتی ہے تو صاف کھل جاتا ہے کہ انہیں پتہ ہی نہیں کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کیوں سچا سمجھتے ہیں؟ میرے پاس آج تک اس قسم کے جتنے لوگ آئے 76
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 فروری 1941ء ہیں ان میں سے نوے فی صدی کا میں نے یہی حال دیکھا ہے.سو میں سے دو چار ایسے بھی ہوتے ہیں، جنہوں نے کوئی جواب دیا ہے مگر ان کا وہ جواب بھی بہت ہی ادھورا تھا مثلاً یہی کہہ دیتے ہیں کہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیشگوئیاں پوری ہوئیں.اس لئے ہم اسے سچا سمجھتے ہیں اور اس طرح وہ خود ہی قابو میں آجاتے ہیں کیونکہ ہم کہہ دیتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کی بھی بہت سی پیشگوئیاں پوری ہو چکی ہیں تو جو سچائی ہر وقت انسان کی سامنے رہتی ہے، اسے وہ کریدنے کا عادی نہیں ہوتا اور نہ اسے اس کے دلائل معلوم ہوتے ہیں.اس لئے یہ کہنا کہ سچائی وغیرہ کے بارہ میں کسی کو سمجھانے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ عام باتیں ہیں جو تمام لوگ جانتے ہی ہیں، بہت بڑی غفلت ہے کیونکہ جو چیزیں زیادہ سامنے آتی ہیں وہی اس بات کا حق رکھتی ہے کہ ان کے متعلق بار بار سمجھا یا جائے اور بار بار ان کے دلائل بیان کئے جائیں.کیونکہ لوگ بار بار سامنے آنے والی چیزوں کے متعلق سوال نہیں کیا کرتے بلکہ وہ غیر معروف چیزوں کے متعلق زیادہ سوال کیا کرتے ہیں.قادیان میں قرآن کریم کا درس تو اکثر ہوتا ہی رہتا ہے.تم غور کر کے دیکھ لو کہ وہ لوگ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے متعلق سوالات کرنے والے ہوں، وہ بہت ہی تھوڑے ہوتے ہیں.حضرت عیسی کے متعلق اس سے زیادہ سوال کرتے ہیں اور حضرت موسیٰ" کے معجزوں کا ذکر آجائے تو اور زیادہ ہے سوالات کرتے ہیں.لیکن جب آدم کا قصہ آجائے تو بے تحاشہ سوالات کرنے لگ جاتے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا دل میں بے اختیار گدگدیاں ہونی شروع ہو گئی ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ آدم کا واقعہ بہت دور کا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے معجزات کا بار بار ذکر سن کر اعتراض کا خیال دل میں پیدا نہیں ہوتا.میرا یہ مطلب نہیں کہ ان باتوں کے دلائل موجود نہیں بلکہ یہ مطلب ہے کہ لوگوں کو دلائل سے ناواقفیت ہے اور اس کی وجہ کسی بات کا بار بار سامنے آتے رہنا ہے.لوگ اس چیز کے بار بار سامنے آنے کی وجہ سے دلائل پر غور نہیں کرتے اور اسکی حقیقت معلوم کرنے سے غافل رہتے ہیں.پس تم مت خیال کرو کہ جب تم کہتے ہو کہ سچ بولنا چاہئے تو تمہارا بچہ بھی جانتا ہے کہ سچ کیوں بولنا چاہئے ؟ وہ اس بات کو ہرگز نہیں جانتا کہ سچ کیوں بولنا چاہئے؟ بلکہ تم مجھے یہ کہنے میں معاف کرو کہ تم جو کہتے ہو کہ ہمارا بچہ جانتا ہے کہ اسے سچ کیوں بولنا چاہئیے ؟ تم خود بھی نہیں جانتے کہ سچ کیوں بولنا چاہئیے ؟ اسی طرح تم میں سے وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے بچوں کو یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ وہ محنت کریں؟ یہ بات تو سب جانتے ہیں.وہ مجھے یہ کہنے میں معاف کریں کہ ان کے بچے تو کیا وہ خود بھی نہیں جانتے کہ محنت کس قدر ضروری چیز ہے؟ 77
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 فروری 1941ء تحریک جدید - ایک انہی تحریک جلد دوم حقیقت یہ ہے کہ ان چیزوں کے متعلق بہت زیادہ زور دینے ، بار بار توجہ دلانے اور زیادہ سے زیادہ ان کی اہمیت لوگوں کے ذہن نشین کرانے کی ضرورت ہے.ماں باپ کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کے کانوں میں بار بار یہ باتیں ڈالیں.اسی طرح اساتذہ کا فرض ہے کہ وہ طالب علموں کے دماغوں میں ان چیزوں کو راسخ کر دیں اور ان باتوں کی کرید، تلاش اور جستجو کا مادہ ان میں پیدا کریں.کیونکہ لوگ سچائی کو نہیں جانتے کہ وہ کیا چیز ہوتی ہے؟ وہ صرف سچ کا لفظ جاننا کافی سمجھ لیتے ہیں.اسی طرح وہ نہیں جانتے کہ محنت کتنی ضروری چیز ہے؟ بلکہ وہ صرف محنت کے لفظ کورٹ لینا، اپنے لئے اور اپنے بچوں کے لئے کافی سمجھتے ہیں.اسی طرح لوگ جھوٹ سے بچنے کے الفاظ تو سنتے ہیں مگر جانتے نہیں کہ جھوٹ کیا ہوتا ہے؟ اسی طرح انہوں نے بنی نوع انسان کی محبت اور خیر خواہی کے الفاظ سنے ہوئے ہوتے ہیں مگر جانتے نہیں کہ محبت اور خیر خواہی کیا ہوتی ہے؟ اسی طرح انہوں نے غیبت کا لفظ سنا ہوا ہوتا ہے.مگر جانتے نہیں کہ غیبت کیا ہوتی ہے؟ یہ نہیں کہ ہماری شریعت میں ان چیزوں کا حل موجود نہیں ، حل موجود ہے.قرآن کریم نے ان امور کی وضاحت کر دی ہے.احادیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تمام باتوں کو کھول کر بیان کر دیا ہے.مگر لوگ ہیں کہ ان باتوں کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے.حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ غیبت نہیں کرنی چاہئے.اس پر ایک شخص نے کہا.یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اگر میں اپنے بھائی کا وہ عیب بیان کروں جو اس میں فی الواقعہ موجود ہو تو آیا یہ بھی غیبت ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ غیبت اس کا تو نام ہے کہ تم اپنے بھائی کا اس کی عدم موجودگی میں کوئی ایسا عیب بیان کرو جو فی الواقعہ اس میں پایا جاتا ہو اور اگر تم کوئی ایسی بات کہو جو اس میں نہ پائی جاتی ہو تو یہ غیبت نہیں بلکہ بہتان ہوگا.اب دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلہ کو حل کر دیا اور بتا دیا کہ غیبت اس بات کا نام نہیں کہ تم کسی کا وہ عیب بیان کرو، جو اس میں پایا ہی نہ جاتا ہو.اگر تم ایسا کرو تو تم مفتری اور تم جھوٹے ہو تم کذاب ہو، گر تم غیبت کرنے والے نہیں.غیبت یہ ہے کہ تم اپنے کسی بھائی کا کوئی سچا عیب اس کی عدم موجودگی میں بیان کرو.یہ بھی منع ہے اور اسلام نے اسے سختی سے روکا ہے.مگر باوجود اس کے کہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس بات کو ساڑھے تیرہ سو سال سے حل کر دیا اور قرآن میں اس کا ذکر موجود ہے اور اگر اب بھی کوئی غیبت کر رہا ہو اور اسے کہا جائے کہ تم غیبت مت کرو.تو وہ جھٹ کہہ دے گا کہ میں غیبت تو نہیں کر رہا.میں تو بالکل سچا واقعہ بیان کر رہا ہوں حالانکہ ساڑھے تیرہ سو سال گزرے، رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم 78
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم اقتباس از خطبهہ جمعہ فرمودہ 28 فروری 1941ء یہ سنا چکے ہیں اور علی لاعلان اس کا اظہار فرما چکے ہیں مگر اب بھی اگر کسی کو روکو تو وہ کہہ دے گا کہ یہ غیبت نہیں یہ تو بالکل سچی بات ہے.حالانکہ کسی کی عدم موجودگی میں سچا عیب بیان کرنا ہی غیبت ہے اور اگر وہ جھوٹ ہے تو تم غیبت کرنے والے نہیں بلکہ مفتری اور کذاب ہو.یہ چیزیں ہیں جن کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.مگر بوجہ اس کے کہ بار بار ان کے الفاظ کانوں میں پڑتے رہتے ہیں ، لوگ حقیقت معلوم کرنے کی جستجو نہیں کرتے.پس ان باتوں پر بار بارز وردو اور اس امر کو اچھی طرح سمجھ لو کہ جب تک یہ جسم مکمل نہیں ہو گا.اس وقت تک مذہب کی روح بھی قائم نہیں رہ سکتی.گویا ایمان ایک روح ہے اور اخلاق فاضلہ اس روح کا جسم ہیں.پس میں تحریک جدید کے تمام کارکنوں اور خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ نو جوانوں میں ان باتوں کو پیدا کرنے کی کوشش کریں.سپرنٹنڈنٹ کو چاہئے کہ وہ بچوں کے کانوں میں یہ باتیں بار بار ڈالیں اور ماں باپ کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کو ان باتوں پر پختگی کے ساتھ قائم کریں اور کوشش کریں کہ ان میں جھوٹ کی عادت نہ ہو، غیبت کی عادت نہ ہو، چغل خوری کی عادت نہ ہو ظلم کی عادت نہ ہو، دھو کہ اور فریب کی عادت نہ ہو.غرض جس قدر اخلاق ہیں وہ ان میں پیدا ہو جائیں اور جس قدر بدیاں ہیں ان سے وہ بچ جائیں تا کہ وہ قوم کا ایک مفید جسم بن سکیں.اگر ان میں یہ بات نہیں تو وفات مسیح پر لیکچر دینا یا منہ سے احمدیت زندہ باد کے نعرے لگاتے رہنا کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا.کیونکہ کوئی روح بغیر جسم کے نہیں رہ سکتی اور کوئی جسم بغیر روح کے مفید کام نہیں کر سکتا.جسم کی مثال ایک پیالے کی سی ہے اور روح کی مثال دودھ کی سی.جس طرح دودھ بغیر پیالے کے زمین پر گر جاتا ہے.اسی طرح اگر اخلاق فاضلہ کا جسم تیار نہیں ہو گا تو تمہارے لیکچر اور تمہاری تقریریں زمین پر گر کر مٹی میں جنس جائیں گی.لیکن اگر اخلاق فاضلہ کا پیالہ تم ان کے دلوں میں رکھ دو گے تو پھر وعظ بھی انہیں فائدہ دے گا اور تقریریں بھی ان میں نیک تغیر پیدا کر دیں گی.(مطبوعہ الفضل 14 مارچ 1941ء) 79
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم تحریک جدید کی غرض خطبہ جمعہ فرمودہ 20 جون 1941ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.خطبہ جمعہ فرمودہ 20 جون 1941ء تحریک جدید کے مالی سال میں سے بہت سے مہینے گزر چکے ہیں اور اب ساتویں سال کے قریباً پانچ مہینے باقی ہیں.سوائے ان مستثنیات کے کہ بعض لوگ مجبوریوں کی وجہ سے زیادہ مہلت لے لیتے ہیں یا دوسرے ممالک میں رہنے والے ہیں یا ہندوستان کے دوسرے صوبوں میں رہتے ہیں.باقی سب کے نومبر کے آخر تک بارہ مہینے پورے ہو جائیں گے..مجھے خوشی ہے کہ اس سال تحریک جدید میں چندہ لکھانے والوں میں سے ایک معتد بہ حصہ نے یہ کوشش کی ہے کہ ان کا وعدہ مئی میں پورا ہو جائے.چنانچہ اس سال گزشتہ سال کی نسبت مئی کے مہینہ تک پندرہ ہزار روپیہ کی آمد زیادہ ہوئی ہے.مگر سال کو مد نظر رکھتے ہوئے در حقیقت ابھی وعدوں کا نصف حصہ وصول ہوا ہے.حالانکہ سات مہینے گزر چکے ہیں اور پانچ مہینے باقی ہیں.پھر اس وصولی میں بیرونی جماعتوں کا بھی ایک حد تک چندہ شامل ہے.جن کی مہلت نومبر کے بعد بھی جاری رہتی ہے.ان کو اگر نکال دیا جائے تو ہندوستان کے چندہ میں سے ابھی نصف بھی وصول نہیں ہوا.مگر بہر حال بعض گزشتہ سالوں سے اس سال اچھی وصولی ہوئی ہے اور وقت پر ہوئی ہے.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے ابھی کثیر حصہ چندہ دینے والوں کا ایسا ہے جن کی رقوم وصول نہیں ہوئیں اور دن بہت تھوڑے رہ گئے ہیں.اس لئے میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس چندہ کو جلد سے جلد ادا کرنے کی کوشش کریں.یہ چندہ جیسا کہ میں نے بار بار توجہ دلائی ہے، طلوعی ہے.اس میں کسی پر جبر نہیں کیا جاتا، کوئی تعین نہیں ہوتی، کوئی زور نہیں دیا جاتا بلکہ ہر شخص اپنی مرضی، اپنی خواہش، اپنے ظرف اور اپنے ایمان کی وسعت کے مطابق چندہ لکھواتا ہے.ہزاروں ہزار ہماری جماعت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو تحریک جدید میں چندہ نہیں لکھواتے اور انہوں نے سات سالوں میں سے ایک سال میں بھی حصہ نہیں لیا مگر ان کو کوئی برا نہیں کہتا.اس لئے کہ یہ فرضی چندہ نہیں کہ اگر کوئی شخص اس میں اپنا وعدہ نہ لکھائے تو اسے کہا جائے کہ اس نے جماعت 81
خطبہ جمعہ فرمودہ 20 جون 1941ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم کے فرائض کو ادا نہیں کیا.بلکہ جو شخص بھی چندہ دیتایا چندہ ادا کرنے کا وعدہ کرتا ہے، وہ اپنی خوشی سے یہ ذمہ داری اپنے اوپر عائد کرتا ہے اور اس لئے کرتا ہے تا نوافل کے ثواب میں وہ شریک ہو جائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں کہ انسان نوافل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا جاتا ہے.یہاں تک کہ ہر حرکت جو وہ خدا تعالیٰ کی طرف کرتا ہے، اس کے جواب میں خدا اس سے زیادہ حرکت کرتا ہے.اگر وہ ایک قدم چلتا ہے تو خدا دو قدم چل کر آتا ہے اور اگر وہ تیز چلتا ہے تو خدا دوڑ کر اس کی طرف آتا ہے.پھر آپ نے فرمایا اس طرح بندہ خدا کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے.یہاں تک کہ خدا اس کے ہاتھ بن جاتا ہے، جن سے وہ پکڑتا ہے اور خدا اس کی آنکھیں بن جاتا ہے، جن سے وہ دیکھتا ہے اور خدا اس کے پاؤں بن جاتا ہے، جن سے وہ چلتا ہے.گویا ایسے بندے اور خدا کے درمیان ایسا اتصال اور اتحاد پیدا ہو جاتا ہے کہ اس کی خواہشات ، خدا تعالیٰ کی خواہشات ہو جاتی ہیں.کوئی بندہ، خدا نہیں بن سکتا.بندہ بندہ ہی ہے اور خدا خدا ہی.مگر الوہیت کی چادر اوڑھنے کا ذریعہ یہ ہے کہ انسان خدا کے ساتھ متصل ہو جائے اور اس کی روح خدا کی صفات میں ضم ہو جائے.حتی کہ اس کے ارادے وہی ہو جائیں، جو خدا کے ارادے ہیں، اس کی خواہشات وہی ہو جائیں، جو خدا کی خواہشات ہیں اور اس کے مقاصد وہی ہو جائیں، جو خدا کے مقاصد ہیں.تب بندہ ایک رنگ میں خدا ہی بن جاتا ہے اور جو کچھ وہ چاہتا ہے ، وہی کچھ ہو جاتا ہے.نادان لوگ اسے دیکھ کر بعض دفعہ یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ وہ بندہ اپنے اندر خدائی صفات رکھتا ہے.حالانکہ بات یہ نہیں ہوتی کہ اس کے اندر خدائی صفات آجاتی ہیں بلکہ بات یہ ہوتی ہے کہ اس نے اپنی مرضی کو قربان کر کے خدا کی مرضی کو اختیار کیا ہوا ہوتا ہے.اور گو بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ وہ جو چاہتا ہے ، وہی ہو جاتا ہے.مگر دراصل وہ اپنی ذات میں کچھ چاہتا ہی نہیں.وہ وہی کچھ چاہتا ہے، جو خدا چاہتا ہے اور چونکہ جو کچھ وہ چاہتا ہے ، وہ درحقیقت خدا کا ارادہ اور اس کا منشا ہوتا ہے.اس لئے لوگ یہ مجھتے ہیں کہ اس کی بات پوری ہوئی.حالانکہ اس کی بات نہیں بلکہ خدا کی بات پوری ہوتی ہے.لوگ تو صرف اتنا دیکھتے ہیں کہ فلاں شخص کی زبان سے بات نکلی اور وہ پوری ہوگی.اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس کی زبان میں بڑی تاثیر ہے.حالانکہ اس کی زبان میں کوئی تاثیر نہیں ہوتی بلکہ تاثیر اس لئے ہوتی ہے کہ اس نے اپنی زبان کاٹ دی ہوتی ہے، اس نے اپنے وجود کو مٹا دیا ہوتا ہے اور اس کی اپنی کوئی خواہش رہتی ہی نہیں.اس لئے جب وہ بولتا ہے تو اس کی زبان نہیں بولتی بلکہ خدا کی زبان بولتی ہے، اور جب اس کی بات پوری ہوتی ہے تو اس کی بات پوری نہیں ہوتی بلکہ خدا کی بات پوری ہوتی ہے.82
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 20 جون 1941ء یہی مطلب رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اس حدیث کا ہے کہ اس کے ہاتھ ، خدا کے ہاتھ ہو جاتے ہیں.یعنی وہ اپنے ہاتھوں کو معطل کر دیتا ہے اور انہیں ایک آلہ کی طرح خدا کے ہاتھ میں دے دیتا ہے.جس طرح قلم نہیں لکھتی بلکہ ہاتھ لکھتا ہے.اس طرح جو کچھ اس کے ہاتھ کرتے ہیں ، وہ اس ہاتھ کے نہیں بلکہ خدا کے ہاتھ کرتے ہیں.اس طرح اس کے پاؤں، خدا کے پاؤں ہو جاتے ہیں، اس کی آنکھیں ، خدا کی آنکھیں ہو جاتی ہیں اور اس کی زبان ، خدا کی زبان ہو جاتی ہے.ایسا انسان جب کس ملک میں جاتا ہے تو وہاں خدا تعالی کی برکتیں نازل ہونی شروع ہو جاتی ہیں.اور جب بات کرتا ہے تو زمین و آسمان میں تغیر پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے.اور جب ہاتھ اُٹھاتا ہے تو اس کے ساتھ ہی آفاق میں تغیر رونما ہو نے لگ جاتا ہے.اس لئے کہ اس نے اپنے ہاتھ معطل کئے ہوئے ہوتے ہیں، اس نے اپنے پاؤں معطل کئے ہوئے ہوتے ہیں اور اس نے اپنی زبان معطل کی ہوئی ہوتی ہے اور جو کچھ اس سے صادر ہوتا ہے ، وہی خدا تعالیٰ کا منشاء اور اسکا ارادہ ہوتا ہے.یہی وہ مقام ہے جس پر پہنچ کر انسان دنیا کے مصائب اور ابتلاء سے اس رنگ میں محفوظ ہو جاتا ہے کہ وہ اسے کچل نہیں سکتے.یہ نہیں کہ ایسے انسان پر مصبتیں نہیں آتیں یا بیماریاں نہیں آتیں یا دشمن اسے تکلیفیں نہیں پہنچاتے یا حکومتیں اسے گرفتار یا قید نہیں کر سکتیں.یہ سب کچھ ہوتا ہے بیماریاں بھی آتی ہیں، سبتیں بھی آتی ہیں، دشمن بھی ستاتے ہیں اور حکومتیں بھی گرفتار کرتی اور قید کرتی ہیں.چنانچہ دیکھ لو حضرت عیسی، اللہ تعالیٰ کے نبی تھے مگر گورنمنٹ نے اُن کو گرفتار کیا، قید میں رکھا اور پھر پھانسی پر لٹکا دیا.حضرت موسیٰ علیہ السلام، اللہ تعالیٰ کے رسول تھے مگر فرعون کے مقابلہ میں انہیں اپنا ملک چھوڑنا پڑا.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ، خدا تعالیٰ کے سب سے زیادہ مقرب اور رسول اور تمام نبیوں کے سردار تھے مگر آپ کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا.اس طرح آپ کو مارا گیا، آپ کو پیٹا گیا، آپ کو زخم بھی لگے، آپ کے دانت بھی شہید ہوئے اور آپ پر ایسا وقت بھی آیا کہ آپ ایک گڑھے میں گر گئے اور صحابہ کی لاشیں آپ پر آپڑیں اور کفار نے یہ خیال کر کے خوشیاں منائیں کہ آپ فوت ہو گئے ہیں.پھر آپ بیمار بھی ہوئے اور بعض دفعہ لمبے عرصے تک بیمار رہے.جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے.اسی طرح وفات کے وقت آپ کو اتنی شدید تکلیف ہوئی کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں.جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جان کنی کی تکلیف کو میں نے نہیں دیکھا.میں یہی سمجھتی تھی کہ جسے جان کنی کے وقت شدید تکلیف ہو اس کا ایمان کمزور ہوتا ہے.مگر جب میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جان کنی کی تکلیف دیکھی تو میں نے اپنے اس خیال سے توبہ کی اور میں نے سمجھا کہ جان کنی کی تکلیف کا ایمان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.83
خطبہ جمعہ فرمودہ 20 جون 1941ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم ہمارے ملک میں بھی عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جسے جان کنی کے وقت زیادہ تکلیف ہو ، وہ برا آدمی ہوتا ہے.حالانکہ یہ تکلیف جسمانی طاقت کے لحاظ سے ہوتی ہے.کوئی شخص بہت مضبوط اور قوی ہوتا ہے اور کوئی کمزور اور نحیف ہوتا ہے.اب یہ بات ظاہر ہے کہ قوی چیز میں کوئی چیز گری ہوئی ہو تو اس کا نکالنا مشکل ہوتا ہے اور کمزور میں سے اس کا نکالنا آسان ہوتا ہے.مثلاً کسی کے مسوڑھے کمزور اور گلے سڑے ہوں اور ان میں پیپ پڑی ہوئی ہو تو ایسے مسوڑھوں میں سے دانت آسانی سے نکل آئیں گے.لیکن جس شخص کے مسوڑھے مضبوط اور قوی ہوں اور اس کے دانتوں کی جڑیں مسوڑھوں کی عمدگی کی وجہ سے مضبوط ہوں تو ڈاکٹر بعض دفعہ کئی کئی منٹ زور لگا کر اس کے دانت نکالتے ہیں.اب اگر جس شخص کا آسانی سے دانت نکل آئے ، اس کے متعلق کوئی کہنا شروع کر دے کہ اس کا دانت اس لئے آسانی سے نکلا تھا کہ وہ نیک تھا.اور جس کا تکلیف سے دانت نکلے، اس کے متعلق کہنا شروع کر دے کہ اس کا دانت اس لئے تکلیف سے نکلا تھا کہ وہ برا تھا، تو یہ اس کی غلطی ہوگی.کیونکہ اس کا تعلق نیکی اور بدی کے ساتھ نہیں بلکہ مسوڑھوں کی مضبوطی یا کمزوری کے ساتھ ہے.وہ شخص جس کا دانت آسانی سے نکل آیا تھا، اس کے مسوڑھے گلے سڑے تھے اور وہ جس کا دانت تکلیف سے نکلا، اس کا جسم تندرست اور مسوڑھے مضبوط تھے.جب مضبوط مسوڑھوں سے دانت نکالا جائے گا تو ا ز ما زیادہ زور لگے گا اور جب کمزور مسوڑھوں سے دانت نکالا جائے گا تو زور کم لگے گا.جیسے کیچڑ میں اگر کیلا گڑا ہوا ہو تو ایک بچہ بھی آسانی سے اسے نکال سکتا ہے.لیکن اگر پتھر میں گڑا ہوا ہو تو ایک مضبوط جوان بھی اسے نہیں نکال سکتا.اسی طرح مضبوط جسم میں سے جب جان نکلتی ہے تو بڑی مشکل سے نکلتی ہے.جیسے پتھر میں سے کیلا نکالنا مشکل ہوتا ہے.لیکن کمزور جسم میں سے آسانی کے ساتھ نکل جاتی ہے.اسی حقیقت کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ وہ انسان جس کے دل میں دنیا کی محبت ہو، اس کی جان سخت تکلیف سے نکلتی ہے.لیکن دوسری طرف وہ لوگ جو دنیا کی خیر خواہی میں گھل رہے ہوتے ہیں ، ان کی جان بھی مشکل سے نکلتی ہے.جولوگ دنیا کی محبت میں گھل رہے ہوتے ہیں ، ان کی جان تو اس لئے مشکل سے نکلتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں ہمیں جو چیز سب سے زیادہ پیاری تھی ، اب وہ ہمارے ہاتھ سے چھٹ رہی ہے اور انبیاء کی جان اس لئے تکلیف سے نکلتی ہے، ان کے دل و دماغ پر اس وقت یہ خیال غالب ہوتا ہے کہ لوگ بغیر نگرانی کے رہ جائیں گے.معلوم نہیں بعد میں ان کا کیا حال ہو؟ اور وہ چاہتے ہیں کہ بنی نوع انسان میں کچھ اور مدت رہیں.اس لئے نہیں کہ وہ مزے اڑائیں بلکہ اس لئے کہ لوگ نیک 84
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 20 جون 1941ء بن جائیں.پس دنیا کو چھوڑنا دونوں کے لئے تکلیف دہ ہوتا ہے.مگر ایک کی روح تو اس لئے تکلیف محسوس کرتی ہے کہ وہ دنیا کہ عیش اور آرام سے حظ اٹھانا چاہتی ہے اور دوسرے کی روح اس لئے تکلیف محسوس کرتی ہے کہ لوگ بغیر نگرانی کے رہ جائیں گے.پس بظاہر دونوں کو ہی تکلیف ہوتی ہے.ایک نادان اور احمق انسان جو نہیں جانتا کہ یہ تکلیف کیوں ہوتی ہے؟ یا وہ جسے حقائق کا تجربہ نہیں ہوتا.خیال کرتا ہے کہ شاید ایمان کی کمی کی وجہ سے یہ تکلیف ہورہی ہے.مگر جب اس کی عقل تجربہ سے راہنمائی حاصل کر لیتی ہے تو وہ سمجھ لیتا ہے کہ جان کنی کی تکلیف کی کئی وجوہ ہوتی ہیں.کبھی ایک نیک شخص جان کنی کی تکلیف اٹھاتا ہے اور بد جان کنی کی تکلیف نہیں اٹھاتا ہے اور کبھی بد جان کنی کی تکلیف اٹھاتا ہے اور نیک جان کنی کی تکلیف نہیں اٹھاتا.اور اس کی وجہ وہی ہوتی ہے، جو میں بیان کر چکا ہوں کہ ایک کا جسم مضبوط ہوتا ہے اور دوسرے کا کمزور اور کمزور جسم میں سے آسانی کے ساتھ جان نکل جاتی ہے لیکن مضبوط جسم میں سے آسانی سے جان نہیں نکلتی.مثلاً ایک بوڑھا شخص جس کا جسم گھل چکا ہو، بعض دفعہ باتیں کرتے کرتے اس کی جان نکل جاتی ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ فلاں شخص کتنا نیک تھا کہ باتیں کرتے کرتے اس کی جان نکل گئی.حالانکہ باتیں کرتے کرتے اس کی جان اس لئے نہیں نکلی کہ وہ نیک تھا بلکہ اس لئے نکلی کہ اس کی جان پہلے ہی مری ہوئی تھی.حضرت مسیح موعود فرمایا کرتے تھے کہ ایک اندھے سے کسی نے کہا کہ سو جاؤ.تو وہ کہنے لگا ہمارا سونا کیا ہے، چپ ہو جانا یعنی سونا کس کو کہتے ہیں؟ اس کو کہ انسان آنکھیں بند کر لے اور خاموش ہو جائے.اب آنکھیں تو اس کی پہلے ہی بند تھیں.اس نے کہا کہ آپ جو کہتے ہیں کہ سوجاؤ تو میں نے اور کیا کرنا، خاموش ہو جاتا ہوں.تو کسی بوڑھے کی جان اگر آرام سے نکلتی ہے تو اس کے یہ معانی نہیں ہوتے کہ وہ بڑا نیک ہوتا ہے بلکہ یہ معنی ہوتے ہیں کہ اس کا جسم گھل چکا ہوتا ہے اور جان آسانی سے نکل جاتی ہے.جیسے بوسیدہ دانت گلے سڑے مسوڑھوں سے آسانی کے ساتھ الگ ہو جاتا ہے بلکہ بعض دفعہ روٹی کھاتے ہوئے لقمہ میں آجاتا ہے.اسی طرح وہ انسان جس کا جسم گھل چکا ہوتا ہے، جب عزرائیل اس کی جان نکالنے آتا ہے تو بوسیدہ اور ہلے ہوئے دانت کی طرح آسانی سے اسے الگ کر لیتا ہے.لیکن جس کا جسم مضبوط ہوتا ہے، اسے جان کنی کی سخت تکلیف ہوتی ہے اور دوسری وجہ تکلیف کی یہ ہے کہ دنیا سے شدید محبت ہویا دنیا میں اس کے سپر د کوئی ایسا اصلاح کا کام ہو، جس کو چھوڑنا اس پر اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ دوسروں کی اصلاح کے خیال سے شاق گزرتا ہے.85
خطبہ جمعہ فرمودہ 20 جون 1941ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم غرض حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں پہلے یہی بجھتی تھی.جیسے آج کل عوام میں خیال پایا جاتا ہے کہ جس کی جان تکلیف سے نکلتی ہے، وہ برا ہوتا ہے اور جس کی جان آرام سے نکلتی ہے، وہ نیک ہوتا ہے.مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جان کنی کی تکلیف کو میں نے دیکھا تو اس خیال سے تو بہ کی اور میں نے سمجھا کہ اس کا تعلق ایمان کے ساتھ نہیں.تو اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء کو دنیا میں تکالیف پہنچتی ہیں اور کوئی نبی اور ولی ایسا نہیں گذرا، جس پر مصیبتیں نہ آئی ہوں مگر جو چیز ان پر نہیں آتی اور جس میں انبیاء دوسروں سے مستثنیٰ ہوتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ان پر کوئی ایسی تکلیف نہیں آتی ، جو انہیں مایوس کر دے یا خدا کی رحمت سے انہیں محروم کر دے.ورنہ تکالیف ان پر بھی آتی ہیں اور بعض دفعہ تو بڑی بڑی تکلیفیں آتی ہیں.چنانچہ دیکھ لو ابو جہل بے شک مر گیا اور خدا نے اسے دنیا اور آخرت میں ذلیل کر دیا لیکن جسمانی زندگی اور دنیا کے آرام کو اگر دیکھا جائے تو ابو جہل کی زندگی رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی سے زیادہ آرام میں گذری ہے.بے شک اس کی زندگی کے آخری لمحات میں خدا تعالٰی نے یہ فیصلہ کر دیا کہ اس کی آرام کی زندگی خدا تعالیٰ کے کسی فضل کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ وہ ایسی ہی تھی جیسے شیطان کو ڈھیل دی گئی ہے.لیکن اس سے پہلے لوگ یہی سمجھتے تھے کہ ابو جہل آرام میں ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تکلیف میں ہیں.تو اللہ تعالیٰ کا انسان کے ہاتھ بن جانایا پاؤں بن جانا یا زبان بن جانا، یہ معنی نہیں رکھتا کہ ایسا انسان مصیبتوں سے محفوظ ہو جاتا ہے بلکہ اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ ایسا انسان ان مصائب سے محفوظ ہو جاتا ہے، جو تباہ کرنے والی ہوتی ہیں.ورنہ ظاہری تکلیف انبیاء کو بھی پہنچتی ہیں ، صدیقوں کو بھی پہنچتی ہیں، شہیدوں کو بھی پہنچتی ہیں اور صالحین کو بھی پہنچتی ہیں بلکہ شہید تو کہتے ہی اسے ہیں، جو خدا تعالیٰ کی راہ میں مارا جائے.پھر ہم شہید کو شہید کیوں کہتے ہیں؟ اور ان دشمنوں کے متعلق جو لڑائی میں مارے جاتے ہیں، یہ کیوں کہتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے عذاب سے مارے گئے ہیں؟ اسی لئے کہ شہید کی شہادت، خدا تعالیٰ کے فضلوں کے نیچے ہوتی ہے اور اس کے دشمنوں کی موت، خدا تعالی کی لعنت کے نیچے ہوتی ہے.پس دشمن کی موت کو ہم عذاب قرار دیتے ہیں مگر شہید کی موت کو انعام سمجھتے ہیں.چنانچہ بدر میں مارے جانے والے صحابہ کی ہم کتنی عزت کرتے ہیں لیکن بدر میں مارے جانے والے کفار کے متعلق کہتے ہیں کہ خدا نے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مخالفت کی وجہ سے ان پر عذاب نازل کیا.حالانکہ ایک ہی جگہ اور ایک ہی لڑائی میں دونوں مارے گئے تھے.کفار بھی اسی لڑائی میں ہلاک ہوئے 86
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 20 جون 1941ء اور صحابہ بھی اس لڑائی میں شہید ہوئے.مگر ایک کے متعلق تو ہم کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ان پر بڑا فضل کیا اور انہیں اپنے انعامات سے نوازا اور دوسروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ان پر غضب نازل ہوا.اس کی وجہ یہی ہے کہ ایک گروہ تو خدا تعالیٰ کے فضلوں کے نیچے مرا اور دوسراگر وہ اس کی لعنتوں کے نیچے مرا.تو اللہ تعالیٰ کا انسان کے ہاتھ ہو جانا یا پاؤں بن جانا، یہ معنی نہیں رکھتا کہ ایسے انسان تکلیفوں سے بچ جاتے ہیں بلکہ یہ معنی ہوتے ہیں کہ ایسے انسان اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نیچے آجاتے ہیں اور ان کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسا اتصال ہو جاتا ہے کہ ان کی خواہشات ، خدا کی خواہشات بن جاتی ہیں اور ان کی آرزوئیں ، خدا کی آرزوئیں بن جاتی ہیں.اس لئے وہ کبھی کوئی ایسی خواہش نہیں کر سکتے ، جس نے رد ہو جانا ہو.مگر اس کے یہ معانی بھی نہیں کہ گھروں میں روز مرہ پیش آنے والے امور کے متعلق بھی ان کی ہر خواہش پوری ہو جاتی ہے بلکہ اس سے مراد صرف وہ خواہشات ہیں، جو انسانی زندگی کے مقاصد کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں.مثلا یہ تو ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے ایک مقرب انسان کو پیچش کی شکایت ہو اور اس کی طبیعت خشکے کو چاہے تو وہ گھر میں تیار نہ ہو مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ اس کی وہ خواہشات پوری نہ ہوں جو اس کی زندگی کے مقاصد کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں.ورنہ بشریت کے ماتحت تو ایسا ہوتا ہی رہتا ہے کہ ایک انسان بعض دفعہ ایک چیز کی خواہش کرتا ہے اور وہ گھر میں موجود نہیں ہوتی یا چاہتا ہے کہ فلاں کام ہو جائے مگر حسب منشا نہیں ہوتا لیکن ایسی خواہشات اپنے اندر کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتیں.اور بعض دفعہ ایک گھنٹہ گزر جانے کے بعد انسان کو یاد بھی نہیں رہتا کہ اس کے دل میں کیا خواہش پیدا ہوئی تھی ؟ پس جو خواہشات ایسے انسان کی لازما پوری ہوتی ہیں، وہ وہی ہوتی ہیں جو اس کی زندگی کے مقاصد کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور جن کے پورا نہ ہونے سے اس کا آرام دکھ سے بدل جاتا ہے.عام خواہشات اس میں شامل نہیں اور نہ ہی وہ اتنی اہم ہوتی ہیں.بلکہ بعض دفعہ تو انسان ایسی خواہش کے پورا ہونے پر اسی وقت ہنس پڑتا اور ملال جاتا رہتا ہے.پس اس کے یہ معنی نہیں کہ ایسے انسان کی ہر خواہش پوری ہو جاتی ہے بلکہ صرف وہ خواہشیں پوری ہوتی ہیں، جو اس کی زندگی کے مقاصد کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں.تحریک جدید کی غرض بھی یہی ہے کہ وہ لوگ جو اس کے چندہ میں حصہ لیں ، خدا ان کے ہاتھ بن جائے ، خدا ان کے پاؤں بن جائے، خدا ان کی آنکھیں بن جائے اور خدا ان کی زبان بن جائے اور وہ ان نوافل کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے ایسا اتصال پیدا کر لیں کہ ان کی مرضی ، خدا کی مرضی ، ان کی خواہشات ، خدا کی خواہشات ہو جائیں.اس عظیم الشان مقصد کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے تم غور کرو کہ جب تمہارا اس 87
خطبہ جمعہ فرمودہ 20 جون 1941ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد دوم تحریک میں حصہ لینے سے مقصد یہ ہے کہ خدا تمہارے ہاتھ بن جائے ، خدا تمہارے پاؤں بن جائے ، خدا تمہاری آنکھیں بن جائے اور خدا تمہاری زبان بن جائے تو کیا خدا کبھی ست ہوتا ہے؟ اگر نہیں تو تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ اگر تمہارے اندرستی پیدا ہوگئی تو تمہارا افضل کوئی اچھا نفل نہیں اور اس میں ضرور کوئی نہ کوئی نقص رہ گیا ہے.ورنہ یہ کس طرح ممکن تھا کہ نوافل کے ذریعہ خدا تمہارے ہاتھ بن جاتا اور پھر بھی تمہارے ہاتھوں میں کوئی تیزی پیدا نہ ہوتی ؟ خدا کا طریق تو یہی ہے کہ وہ اپنے کاموں میں جلدی کرتا ہے اور جس کام کے کرنے کا ارادہ کرتا ہے، وہ فور ہو جاتا ہے.پس جو شخص تحریک جدید کے چندہ میں حصہ تو لیتا ہے مگر اس چندہ کی جلد ادائیگی کا فکرنہیں کرتا، اسے سمجھنا چاہئے کہ اس کا فعل ناقص ہے.ورنہ یہ کس طرح ہوسکتا تھا کہ خدا اس کے ہاتھ اور پاؤں بن جاتا اور پھر بھی وہ نیکی میں پیچھے رہ جاتا؟ کیا یہ ممکن ہے کہ خدا کسی کے ہاتھ بن جائے اور وہ نیکی میں پیچھے رہ جائے یا خدا کسی کے پاؤں بن جائے اور وہ پھر بھی ثواب کے کاموں کے لئے حرکت نہ کرے اور خدا اس کی زبان بن جائے اور وہ پھر بھی جھوٹا وعدہ کرے؟ جس شخص کے ہاتھ اور پاؤں خدا بن جاتا ہے، وہ کبھی نیکی میں پیچھے نہیں رہ سکتا اور جس شخص کی زبان خدا بن جاتا ہے، وہ کبھی جھوٹا وعدہ نہیں کر سکتا.پھر یہ کس طرح تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ ایک شخص کی زبان تو خدا کی زبان ہو گئی مگر وہ سارا سال اپنی زبان سے جھوٹا وعدہ کرتا رہا یا اس کے ہاتھ تو خدا کے ہاتھ بن گئے مگر وہ ہمیشہ شل اور مفلوج رہے اور کبھی انہیں توفیق نہ ملی کہ وہ اپنے وعدے کو پورا کرنے کے لئے آگے بڑھتے ؟ یہ ناممکن اور قطعی طور پر ناممکن ہے اور اگر کسی شخص کے اندر یہ بات پائی جاتی ہے تو اس کے متعلق سوائے اس کے اور کیا سمجھا جاسکتا ہے کہ اس کا یہ دعویٰ کہ اس کی زبان، خدا کی زبان ہے، اس کے ہاتھ ، خدا کے ہاتھ ہیں اور اس کے پاؤں، خدا کے پاؤں ہیں محض جھوٹ ہے.اگر اس کی زبان، خدا کی زبان ہوتی تو وہ کوشش کرتا کہ اپنے وعدہ کو وقت پر پورا کرے کیونکہ خدا کی زبان جھوٹی نہیں ہو سکتی اور اگر اس کے ہاتھ ، خدا کے ہاتھ ہوتے تو وہ بھی دین کے کاموں میں حصہ لینے کے موقعہ پر شل نہ ہو جاتے کیونکہ خدا کے ہاتھ مغلول نہیں ہوتے.قرآن کریم میں آتا ہے کہ یہود نفسی کے طور پر کہا کرتے تھے کہ کیا خدا کے ہاتھ شل ہیں اور وہ مغلول ہے کہ ہم سے چندہ طلب کرتا ہے؟ قرآن کریم اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ خدا کے ہاتھ شل نہیں بلکہ تمہارے اپنے ہاتھ شل ہیں.کیونکہ اگر تم سمجھتے کہ ہمارا دینا ، خدا کا دینا ہے تو تم خوشی سے چندہ دیتے.لیکن جب تم اپنے دل میں انقباض محسوس کرتے ہو تو معلوم ہوا کہ تمہارا ہاتھ ، خدا کا ہاتھ نہیں اور جب تمہارا ہاتھ ، خدا کا ہاتھ نہیں تو تمہارے ہاتھ مفلوج ہوئے ، نہ کہ خدا کے ہاتھ.88
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 20 جون 1941 ء پس میں ان تمام دوستوں کو جنہوں نے تحریک جدید کا چندہ ادا کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے، توجہ دلاتا ہوں کہ اگر وہ اپنے چندہ کومٹی میں ادا نہیں کر سکے تو اب اس کی ادائیگی کا فکر کریں.کیونکہ انسان کی نیکی اور تقویٰ کا معیار یہ ہوتا ہے کہ جب اس سے کوئی غفلت یا ستی ہو جائے یا بعض مجبوریوں کی وجہ سے کسی نیک تحریک میں جلد حصہ نہ لے سکے تو وہ نیکی کو اور بڑھا کر کرتا ہے تا کہ اس کی غلطی اور ستی کا کفارہ ہو جائے.دنیا میں کئی مجبوریاں بھی گناہ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اور بسا اوقات دل پر گناہوں کا زنگ لگ جانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ظاہر میں مجبوریاں پیدا کر دیتا ہے تا وہ ثواب کے اعلیٰ مقام کو حاصل نہ کر سکے.پس وہ دوست جو مئی تک اپنے وعدے کو پورا نہیں کر سکے ، انہیں کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اپنے وعدوں کو جون یا جولائی میں پورا کر دیں تاکہ ان کی پچھلی غفلت کا کفارہ ہو سکے.اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ اکتوبر میں اپنا چندہ ادا کر سکتا ہے لیکن اس وجہ سے کہ وہ مئی میں چندہ ادا کر کے سابقون میں شامل نہ ہو سکا.اب کفارہ کے طور پر اگست میں ادا کر دیتا ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حضور ویسا ہی ثواب کا مستحق ہے، جیسے مئی میں ادا کرنے والے اور اگر کوئی شخص جولائی میں چندہ ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہے لیکن وہ اپنی غفلت کے کفارہ کے طور پر اور اپنے نفس پر تکلیف برداشت کر کے جون میں چندہ ادا کر دیتا ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حضور ویسا ہی سمجھا جائے گا، جیسے مئی میں ادا کرنے والے.کیونکہ جب کسی سے غفلت ہو جائے تو بعد میں خواہ مقدار کے لحاظ سے زیادہ قربانی کرے اور خواہ تکلیف اٹھا کر میعاد سے قبل اپنے وعدے کو پورا کر دے.دونوں صورتوں میں اس کی کوتاہی کا کفارہ ہو جاتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا مستحق بن جاتا ہے.مجھے افسوس ہے کہ بعض لوگ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ چونکہ اب مقررہ وقت گزر گیا ہے.اس لئے جلدی کی کیا ضرورت ہے؟ ایسے لوگ وقت کے گزر جانے کی وجہ سے اور بھی سست ہو جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب انہیں جلدی کی کوئی ضرورت نہیں.مگر میرے نزدیک اس سے زیادہ بدقسمتی کی اور کوئی بات نہیں ہو سکتی کہ انسان پہلے تو کسی مجبوری کی وجہ سے نیکی سے محروم رہے اور بعد میں بے ایمانی کی وجہ سے نیک کام میں حصہ نہ لے سکے.حالانکہ جو لوگ مجبوری کی وجہ سے کسی نیک کام میں شریک ہونے سے ایک وقت محروم رہتے ہیں.وہ بعد میں اگر اپنی کوتاہی کا ازالہ کر دیں تو بہت کچھ ثواب حاصل کر لیتے ہیں لیکن اپنی کوتا ہی کا ازالہ نہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حصہ نہیں لے سکتے.مثلاً وہ لوگ جنہوں نے مئی میں چندہ ادا کیا ہے، بالکل ممکن ہے ان میں کوئی شخص ایسا ہو جو دس ہزار روپیہ دینے کی تو فیق رکھتا ہو مگر اس نے دیئے صرف دس روپے ہوں.اب ہمارے نزدیک تو وہ مئی میں چندہ ادا کرنے کی وجہ سے 89
خطبہ جمعہ فرمودہ 20 جون 1941ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم سابقون میں سمجھا جائے گا مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک اس کی کوئی قیمیت نہیں ہوگی.کیونکہ وہ دس ہزار روپیہ دینے کی طاقت رکھتا تھا مگر اس نے صرف دس روپے دیئے.دوسری طرف ممکن ہے کہ ایک شخص اکتوبر میں چندہ دے سکتا ہے مگر وہ اپنے نفس پر تکلیف برداشت کر کے جون یا جولائی میں چندہ ادا کر دیتا ہے.اب ہمارے نزدیک تو وہ مئی میں چندہ ادا کرنے والوں سے باہر سمجھا جائے گا لیکن خدا کے نزدیک ممکن ہے وہ مئی کے مہینہ میں چندہ ادا کرنے والے کئی لوگوں سے بہتر ہو کیونکہ اس نے اپنی طاقت سے زیادہ قربانی کی.پس کسی کا اس ابتلاء میں مبتلا ہونا کہ جب مئی میں وعدہ پورا نہیں کر سکا تو اب جلدی کی کیا ضرورت ہے؟ اس کی بہت بڑی بد قسمتی کی علامت ہے اور اس کے یہ معنی ہیں کہ اس کا پہلا کام جو بندوں کی نظر میں برا لیکن خدا کی نظر میں اچھا تھا.اب وہ خدا کی نگاہ میں بھی برا بن گیا ہے.پس اس قسم کا خیال اگر کسی کے دل میں پیدا ہو تو اسے جلد سے جلد دور کر دینا چاہئے اور جہاں تک ہو سکے، تکلیف اٹھا کر وقت سے پہلے اپنا چندہ ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.میں نے بار بار بتایا ہے کہ یہ روپیہ سلسلہ کے لئے جائیداد پیدا کرنے پر لگایا جاتا ہے اور اس روپیہ سے جو زمینیں خریدی گئی ہیں اگر وقت پر ہم اس کی قسط ادا نہ کریں تو دس فیصدی جرمانہ پڑ جاتا ہے.پس جتنی جتنی کوئی شخص چندہ ادا کرنے میں دیر لگاتا ہے، اتنی ہی وہ اپنے ثواب میں کمی کرتا اور سلسلہ پر دس فیصدی جرمانہ ڈالنے کا باعث بنتا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ جو دوست اب تک تحریک جدید کا چندہ ادا نہیں کر سکے ، وہ اب جلد سے جلد ادا کرنے کی کوشش کریں گے.اول تو وہ کوشش کریں کہ جون میں ہی ان کا چندہ ادا ہو جائے.اور اگر جون میں ادا نہ کر سکیں تو جولائی میں ادا کرنے کوشش کریں.اور اگر جولائی میں ادا نہ کر سکیں تو اگست میں ادا کرنے کوشش کریں تا خدا تعالیٰ کے حضور وہ ان لوگوں میں شامل ہو جائیں جو سباق کی روح اپنے اندر رکھتے ہیں اور نیکیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں.ہمارے نزدیک وہ اب مئی میں ادا کرنے والوں کی لسٹ میں نہیں آسکتے.مگر خدا کے نزدیک ممکن ہے کہ وہ اپنے اخلاص کی وجہ سے مئی میں چندہ ادا کرنے والوں کی فہرست میں آجائیں.بلکہ ممکن ہے ایک شخص جون یا جولائی یا اگست میں چندہ ادا کر کے خدا کے حضور اپریل بلکہ مارچ میں ادا کرنے والوں کی لسٹ میں آجائے.اس کے بعد میں زمینداروں کو بھی اس تحریک کی طرف توجہ دلاتا ہوں.دفتر کی غلطی کی وجہ سے اس دفعہ زمیندار دوستوں کے لئے بھی مئی کے آخر میں چندہ ادا کرنے کی تاریخ مقرر کر دی گئی تھی.حالانکہ 90
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 20 جون 1941ء زمیندار مئی کے مہینہ میں کوئی چندہ نہیں دے سکتے.کیونکہ مئی میں ان کی کوئی فصل نہیں نکلتی.وہ خریف کی فصل کا کی وجہ سے یا تو جنوری اور فروری میں ادا کر سکتے ہیں یا پھر ربیع کی فصل کی وجہ سے جون اور جولائی میں چندہ ادا کر سکتے ہیں.پس دفتر کو چاہئے تھا کہ زمینداروں کے لئے تھیں جون یا پندرہ جولائی کی تاریخ مقرر کرتا.مگر اس نے غلطی سے زمینداروں کیلئے بھی 31 مئی تک کی تاریخ مقرر کر دی.لیکن پھر بھی بعض مخلص زمینداروں نے اپنا چندہ ادا کر دیا ہے.خواہ انہیں کہیں سے قرض لے کر ہی ادا کرنا پڑا ہے.بہر حال چونکہ زمینداروں کے لئے یہ تاریخ موزوں نہیں تھی.جس کی وجہ سے اکثر زمیندار دوست چندہ ادا نہیں کر سکے.اسلئے باقی زمیندار دوست کوشش کریں کہ جون کی تمہیں تاریخ یا جولائی کی پندرہ تاریخ تک اپنا چندہ ادا کر دیں.اس عرصہ میں ان کی فصل فروخت ہو جائے گی اور انہیں اپنی رقم کے ادا کرنے کا موقع مل جائے گا.اس کے ساتھ ہی جو لوگ تحریک جدید کے بقایا دار ہیں، انہیں بھی میں بقایوں کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتا ہوں.اس وقت تک گذشتہ سالوں کے چھپیں ہمیں ہزار کے قریب روپیہ وصولی کے قابل رہتا ہے مگر ان بقایا داروں میں سے بعض کچھ دوست ایسے مستقل مزاج واقع ہوئے ہیں کہ باوجود اس کے اب تحریک جدید کا ساتواں سال گزر رہا ہے، انہوں نے وعدہ کے باوجود کسی ایک سال کا چندہ بھی ادا نہیں کیا یا صرف ایک یا دو سال میں چندہ ادا کیا ہے اور باقی سالوں میں کوئی رقم ادا نہیں کی.فرض کرو انہوں نے تیسرے سال چندہ لکھوایا تھا تو وہ سال گزر گیا اور انہوں نے چندہ میں ایک پیسہ بھی ادا نہ کیا.پھر چوتھا سال شروع ہوا تو انہوں نے اصرار کر کے چوتھے سال میں اپنا چندہ لکھوایا اور کہا کہ اب وہ تیسرے سال کا بھی چندہ ادا کریں گے اور چوتھے سال کا بھی.مگر چوتھا سال بھی گزر گیا اور انہوں نے نہ تیسرے سال چندہ ادا کیا نہ چوتھے سال کا.پھر پانچواں سال شروع ہوا اور انہوں نے اصرار کر کے کہا کہ پانچویں سال میں ہمارا اتنا وعدہ لکھ لیا جائے ، ہم پچھلے سالوں کا چندہ بھی ادا کریں گے اور اس سال کا بھی.مگر نہ انہوں نے تیسرے سال کا چندہ دیا، نہ چوتھے سال کا چندہ دیا اور نہ پانچویں سال کا چندہ دیا.پھر چھٹا سال شروع ہوا تو انہوں نے پھر اپنا چندہ لکھوا دیا.مگر چھٹے سال میں بھی، نہ انہوں نے تیسرے سال کا چندہ دیا ، نہ چوتھے سال کا چندہ دیا، نہ پانچویں سال کا چندہ دیا اور نہ چھٹے سال کا چندہ دیا.اب ساتواں سال شروع ہوا تو انہوں نے پھر اصرار کر کے اپنا وعدہ لکھوایا.مگر ان کی حالت اب بھی وہی ہے کہ نہ تیسرے سال کا انہوں نے چندہ دیا ہے، نہ چوتھے سال کا چندہ دیا ہے، نہ پانچویں سال کا چندہ دیا ہے، نہ چھٹے سال کا چندہ دیا ہے، نہ ساتویں سال کا چندہ دیا ہے.ایسے لوگ چونکہ متواتر اور مسلسل ایک لمبے عرصہ تک جھوٹ کے 91
خطبہ جمعہ فرمودہ 20 جون 1941ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد دوم مرتکب ہوئے ہیں اور چونکہ انہوں نے دین سے تمسخر اور استہزاء کیا ہے.اس لئے میں دفتر کو ہدایت کرتا ہوں کہ ایسے لوگوں کی لسٹ بھی وہ شائع کر دے تا کہ اگر ایک طرف ان لوگوں کے نام یادگارر ہیں، جنہوں نے سچائی اور دیانت کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کیا تو دوسری طرف ان لوگوں کے نام بھی بطور یادگار محفوظ رہیں.جنہوں نے جان بوجھ کر سلسلہ سے دھو کہ کیا اور ایک جھوٹی عزت حاصل کرنے کے لئے وہ سالہا سال تک جھوٹ بوتے رہے.میرے نزدیک اگر ایک طرف مخلصین کا اخلاص ایسا ہے، جو یادرکھنے کے قابل ہے تو دوسری طرف یہ دھو کہ بازی بھی ایسی ہے، جو عبرت کے طور پر یا در رکھنے کے قابل ہے.اگر کسی چیز کے متعلق لوگوں کو مجبور کیا جائے اور کہا جائے کہ وہ ضرور اس میں حصہ لیں تو اگر ان میں سے کوئی ستی کرے تو وہ درگزر کے قابل سمجھی جاسکتی ہے اور خیال کیا جا سکتا ہے کہ اس کی اپنی مرضی شامل ہونے کی نہیں تھی.اسے چونکہ مجبور کیا گیا تھا، اس لیے اس نے بستی دکھائی.مگر جس قربانی کے متعلق بار بار کہا جاتا ہے کہ وہ طوعی اور نفلی ہے اور اس میں شمولیت جبری نہیں بلکہ ہر شخص کی مرضی اور رضا و رغبت پر منحصر ہے.اس میں اگر کوئی شخص اپنا نام پیش کر دیتا ہے اور پھر عملی رنگ میں کوئی قربانی نہیں کرتا اور نہ اپنے وعدے کو پورا کرتا ہے تو اس کے متعلق سوائے اس کے اور کیا سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ ایک جھوٹی عزت کا دلدادہ ہے اور چاہتا ہے کہ وہ کام بھی نہ کرے اور اس کا نام بھی ان لوگوں میں آجائے ، جومخلصین ہیں ؟ پس چونکہ ایسے لوگوں نے ایک جھوٹی عزت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی، اس لئے میرے نزدیک یہ لوگ تعزیری طور پر اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کے نام شائع کر دیئے جائیں تا کہ دوسروں کے لئے یہ نام عبرت کا موجب ہوں اور وہ کبھی اپنے آپ کو تطوع کے طور پر اس کام کے لئے پیش نہ کریں، جس کے کرنے کیلئے وہ دل سے تیار نہ ہوں اور اگر وہ خوشی سے کسی قربانی کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں تو پھر چاہے جان چلی جائے، انہیں اپنے عہد کو مرتے دم تک نا ہنا چاہئے اور کسی قسم کی مستی میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے.ہاں ایسے لوگ جن کے ذمہ صرف ایک یا دو سال کی رقم ہو ان کے نام شائع نہ کئے جائیں.ان کو بھی اور مہلت دی جائے تا کہ اگر مجبوری سے ایسا انہوں نے کیا ہے تو معافی لے لیں اور اگر جان بوجھ کر غفلت کی ہے تو اصلاح کرلیں.میں امید کرتا ہوں کہ اب جبکہ تحریک جدید کے بہت سے سال گزر چکے ہیں.دوست اس چندہ کو جلد ادا کرنے کی کوشش کریں گے.اب ساتواں سال گزر رہا ہے اور اگلے سال دو تہائی سے زیادہ سفر طے ہو جائیگا اور ایک تہائی باقی رہ جائے گا.اب بھی ساٹھ فی صدی حصہ گزر چکا ہے اور ساتواں دھا کہ 92
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 20 جون 1941ء شروع ہے ایسے وقت میں بہت زیادہ ہوشیاری اور بیداری کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسے وقت کا کام بہت زیادہ ثواب کا موجب ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ تہجد کی عبادت بڑی مقبول ہوتی ہے کیونکہ اس وقت انسان تھک کر چور ہو چکا ہوتا ہے اور جب ایسی حالت میں انسان عبادت کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو خدا کے حضور اس کی عزت بڑھ جاتی ہے.تحریک جدید کے یہ دن بھی ایسے ہی ہیں جیسے بارہ بجے رات کے بعد کا وقت شروع ہوتا ہے.ایسے اوقات میں جو شخص بشاشت کے ساتھ دین کے کاموں میں حصہ لیتا اور مسلسل قربانی کرتا چلا جاتا ہے اس کی قربانی خدا تعالیٰ کے حضور بہت زیادہ مقبول ہوتی کیونکہ وہ قربانی کر کے چور ہو چکا ہوتا ہے.پہلے سالوں میں ابھی اس کے ذخیرے خرچ نہیں ہوئے مگر آخر میں وہ چندہ دے دے کر تھک چکا ہوتا ہے.اس لئے آخری سالوں میں وہ پہلے سالوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ ثواب حاصل کر لیتا ہے.پس اس سال اور اگلے سال ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ اپنے چندوں کو جلد سے جلد ادا کریں تا کہ اس کے نتیجہ میں وہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کر سکیں“.( مطبوعه الفضل 27 جون 1941ء) 93
تحریک جدید- ایک الہی تحریک.....جلد دوم خلاصہ خطاب فرمودہ 24 جولائی 1941ء اسلام اور احمدیت کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کرو خطاب فرمودہ 24 جولائی 1941ء طلباء بور ڈ نگ تحریک جدید سے خطاب کا خلاصہ جو الفضل میں شائع ہوا) حضور نے فرمایا کہ: ” مومن کے ارادے سے اسکا عمل بڑھ جاتا ہے اور اس کے عمل سے اس کا ارادہ بڑھ جاتا ہے، یہی تسلسل ہے جو قوموں کی کامیابی کا ذریعہ ہوتا ہے.جب اس بورڈنگ ہاؤس کو بنایا گیا تو اس میں ایک سو ساٹھ یا ایک سواسی بورڈ رز کے رہنے کی گنجائش رکھی گئی.لیکن ابھی تک اس میں زیادہ سے زیادہ ایک سو پچاس لڑکے داخل ہو سکے ہیں.گویا ابھی اور گنجائش ہے.اس بورڈ نگ کو بنے 27/28 سال ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک ہم اسے بھرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے.میں سمجھتا ہوں اگر اس میں داخل ہونے والے بچے ایسا نمونہ بن کر باہر جا ئیں جسے دیکھ کر دوسروں کو اپنے بچے قادیان میں تعلیم پانے کیلئے بھیجنے کی حرص، لالچ اور خواہش پیدا ہو اور وہ ایسے رنگ میں رنگین ہو کر یہاں سے نکلیں.جس میں تحریک جدید ان کو رنگنا چاہتی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ایک سال کیا، ایک مہینہ کیا، دو ہفتوں میں ہی یہ بورڈنگ بھر سکتا ہے.اس کے بعد حضور نے فرمایا: ” جب میں نے بورڈنگ تحریک جدید کی تحریک کی ، اس وقت بورڈنگ میں 37 کے قریب لڑکے تھے اور وہ بھی کم ہوتے جارہے تھے.پھر تحریک جدید کے ماتحت جماعت نے توجہ کی.ادھر بورڈنگ میں رہنے والوں نے ایک حد تک نمونہ اچھا دکھایا اور آج مجھے بتایا گیا ہے کہ 137 بور ڈرز ہیں.مگر یہ ترقی ہمارے لئے خوشی کا موجب نہیں ہو سکتی جب تک تعداد کی ترقی کے ساتھ عملی ترقی نہ ہو.عملی ترقی کی تشریح میں حضور نے فرمایا: ”جو غرض تحریک جدید کی ہے اور جو باہر سے آکر یہاں پڑھنے والوں کی ہے.وہ معمولی نہیں بلکہ بہت بڑی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم ایسے سپاہی تیار کریں جو اسلام کیلئے ہر وقت کمر بستہ رہیں اور ہر میدان 95
خلاصہ خطاب فرمودہ 24 جولائی 1941ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم میں اسلام کی طرف سے لڑیں.مخالفین اسلام کے پر خچے اڑا دینے اور دشمن کو ریزہ ریزہ کر دینے والے الفاظ کافی نہیں ہو سکتے.اگر کافی ہو سکتے ہیں تو ایسے زندہ انسان جن کے جسم کے ذرہ ذرہ میں وہ لہریں پیدا ہورہی ہوں.جو انہیں اسلام کی جنگ کی طرف لے جارہی ہوں اور اسلام کو غلبہ دلانے کیلئے بے تاب کر رہی ہوں.اس موقع پر حضور نے فرمایا: و تم یہ مت خیال کرو ہم طالب علم ہیں ہم کیا کر سکتے ہیں؟ دراصل یہی وہ زمانہ ہے جس میں کی ہوئی تیاری بعد کی زندگی میں مفید ثابت ہوتی ہے اور یہی وہ زندگی ہے جس میں آئندہ کام کرنے کیلئے جوش اور ولولہ پیدا کیا جاتا ہے.تم میں چھوٹے بھی ہیں اور بڑے بھی.وہ عمر جو چھوٹوں کی ہے ، وہ بھی ہم پر گزری ہے اور وہ عمر جو بڑوں کی ہے، وہ بھی ہم پر گزری ہے.اس عمر میں اسلام کی خدمت کا ہم میں ایسا جوش پایا جاتا تھا کہ اس وقت ہم بڑوں کی امداد کے محتاج نہ ہوتے تھے.اس کے بعد حضور نے بتایا کہ کس طرح 16 سال کی عمر میں حضور نے مع چند اور ساتھیوں کے خدمت اسلام کیلئے ایک رسالہ جاری کیا اور کس طرح خود ہی کوشش کر کے بغیر بڑوں کی کسی قسم کی امداد کے اس میں کامیابی حاصل کی اور رسالہ کو نہایت مفید بنایا.پھر حضور نے فرمایا: ہم اس عمر میں بھی آزاد رائے رکھنے والے لوگ تھے.اس کے یہ معنی نہیں کہ بڑوں کی باتیں نہ مانتے تھے.بلکہ یہ کہ جب ایک دفعہ سن لیتے کہ دین کی خدمت کے لئے فلاں کام کرنا چاہئے تو پھر دوبارہ پوچھنے کی ضرورت نہ ہوتی تھی کہ وہ کام کس طرح کریں؟ آزادی کی روح اور دلیری سے کام کرتے تھے اور کام کرنا چاہتے تھے.آخر میں حضور نے فرمایا: میں تم سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ خیال اپنے دلوں سے نکال دو کہ ہم بچے ہیں، ہم اس عمر میں کیا کر سکتے ہیں؟ ہم حضرت مسیح موعود سے جب یہ سنتے کہ اللہ تعالی اسلام اور احمدیت کو ترقی دے گا تو ہم سمجھتے کہ یہ ترقی ہمارے ذریعہ سے ہوگی اور پھر کام کرنے لگ جاتے اور خدا تعالیٰ اس میں برکت دیتا.تم یہ مت خیال کرو کہ تم کوئی بڑا کام نہیں کر سکتے.اس عمر میں سب سے ضروری چیز زبان سیکھنا ہے تمہیں اردو سیکھنے کی کوشش کرنی چاہئے.اس کے بعد مضامین لکھنے خود بخود آجائیں گے.پھر تمہیں یہ یقین 96
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خلاصہ خطاب فرمودہ 24 جولائی 1941ء کھنا چاہیے کہ تم بہت بڑے مقصد کیلئے پیدا کئے گئے ہو، تمہارے اندر اسلام اور احمدیت کو دنیا میں پھیلانے کیلئے ایک آگ لگی ہونی چاہئے.یہ آگ ہر عمر کے بچہ کے دل میں پیدا ہوسکتی اور اس سے بڑے بڑے کام کر سکتی ہے.کیونکہ جب یہ آگ پیدا ہو جائے تو کوئی چیز مقابلہ نہیں کر سکتی.پس اسلام اور احمدیت کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کرو اور اسلام کو دنیا میں غالب کرنے کے مقصد کو اپنے سامنے رکھو.(مطبوعہ الفضل 26 جولائی 1941ء) 97
- تحریک ہو یہ ایک المی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جولائی 1941ء تمہاری خوشبو سارے ملک میں پھیل جائے خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جولائی 1941ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.ایک ہفتہ تک قادیان کے سکولوں اور کالجوں میں چھٹیاں ہونے والی ہیں.کل اسی تقریب پر میں تحریک جدید کے بورڈنگ ہاؤس میں گیا تھا.مگر تحریک جدید کے طالب علم اس تعداد کے مقابلہ میں جو قادیان کے مدارس میں تعلیم پاتے ہیں، بہت کم ہیں.اس لئے وہاں میں طالب علموں اور استادوں کے ایک حصہ کو ہی مخاطب کر سکا تھا.اس وقت قادیان کی مختلف درسگاہوں میں قریباً ڈیڑھ ہزار لٹر کے یا اس سے کچھ زیادہ تعلیم پاتے ہیں.اسی طرح پانچ چھ سو یا اس سے کچھ زیادہ لڑکیاں پڑھتی ہیں.گویا قریباً دو ہزار طالب علم پڑھتے ہیں.چھٹیاں طالب علموں کیلئے کچھ ایسی خوش کن ہوتی ہیں کہ آپ ہی آپ دل میں مسرت کے جذبات کھیلنے لگتے ہیں.یہاں کثیر حصہ ایسے طالب علموں کا ہے جن کے ماں باپ دوسرے علاقوں کے رہنے والے ہیں.ماں باپ کی محبت اور ان سے ملنے کی خواہش کی وجہ سے ان کو چھٹیوں کا انتظار رہتا ہے اور جب چھٹیاں آتی ہیں تو ان کے دل خوشی سے بھر جاتے ہیں.ایک اور حصہ طالب علموں کا وہ ہے.جن کے ماں باپ قادیان میں ہی رہتے ہیں.مگر ان کے دل بھی چھٹیوں کی وجہ سے خوشی سے کچھ کم نہیں بھرتے.وہ بھی اپنے دلوں میں ایسی ہی خوشی محسوس کرتے ہیں جتنی وہ جنہوں نے ماں باپ کی ملاقات کیلئے واپس جانا ہوتا.ایسے طالب علموں میں سے کچھ تو اس لئے خوش ہوتے ہیں کہ پڑھائی سے فراغت ہو جائے گی اور خوب کھیلیں گے.کچھ اس لئے خوش ہوتے ہیں کہ جب دوسرے بچے باہر جائیں گے تو ہمارے ماں باپ بھی ہمیں کہیں باہر بھیج دیں گے.چونکہ چھٹیوں کے موقعہ پر طالب علموں کیلئے ریلوے کنسیشن وغیرہ ملتے ہیں،اس لئے ایسے بچوں کو بھی ان کے ماں باپ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے پاس کہیں باہر بھیج دیتے ہیں تا چھٹیوں میں سیر کر آئیں.پھر کچھ طالب علم ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے نا تو پڑھائی سے غافل ہونا ہوتا ہے اور نہ انہیں باہر جانے کی کوئی امید ہوتی ہے.مگر وہ چھٹی کے لفظ سے ہی خوش ہوتے ہیں جیسے 99
خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جولائی 1941ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم عید کے دن سینکڑوں وہ لوگ بھی خوش ہوتے ہیں جن کے لئے بظاہر خوشی کی کوئی وجہ نہیں ہوتی.وہ غریب ہوتے ہیں، اس لئے نہ تو ان کے ہاں کوئی اچھا کھانا پک سکتا ہے اور نہ انہیں نئے کپڑے مل سکتے ہیں.وہ اسی لئے خوش ہوتے ہیں کہ ان کے ہمسائے خوش ہیں.اسی طرح کئی طالب علم خوش ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھی خوش ہیں.بہر حال یہ طالب علموں کیلئے خوشی کے ایام ہوتے ہیں.اگر وہ غور کریں تو انہیں معلوم ہو کہ خوشی کیا چیز ہے؟ حقیقی خوشی ہی کامیابی کا موجب ہو سکتی ہے.مصنوعی خوشیاں بسا اوقات دوسرے کے دل میں رقت پیدا کر دیتی ہیں.کہتے ہیں کسی بیوہ عورت کا ایک ہی بچہ تھا.جو دودھ پیتا تھا.مگر ایسی عمرکو پہنچ چکا تھا جب بچہ کچھ کچھ بولنے لگتا اور حرکت کرنے اور چلنے پھرنے لگتا ہے اور اسکا دودھ چھڑانے لگتے ہیں.اس کی ماں بیمار تھی اور رات کو مر گئی.جب صبح دروازہ نہ کھلا تو ہمسائے آئے اور جب دروازہ کھولاتو دیکھا کہ ماں مری پڑی ہے اور بچہ کبھی اس کے پستان منہ میں ڈالتا ہے، کبھی اس کے ماتھے پر پیار سے تھپڑ مارتا ہے اور جب وہ اس پر بھی نہیں بولتی تو کھلکھلا کر ہنے لگتا ہے.وہ سمجھتا ہے کہ میری ماں میرے ساتھ مذاق کرتی ہے، اس لئے نہیں بولتی اور میرے ہننے سے وہ بھی ہنس پڑے گی.لوگ اگر صرف اس ماں کو مردہ دیکھتے تو شاید ان کو اتنا رونا نہ آتا، جتنا کہ اس حالت میں اس کے بچہ کو ہنستا دیکھ کر انہیں آیا ہوگا.تو کئی خوشیاں ایسی ہوتی ہیں جو دراصل رونے کا موجب ہوتی ہیں.وہ جہالت نادانی اور نا واقفی کی خوشیاں ہوتی ہیں.ان میں حصہ لینے والا جانتا نہیں کہ دنیا مجھ پر رو رہی ہے اور میں مصیبتوں میں مبتلا ہوں.آج مسلمانوں کی خوشیاں دیکھ لو.کیا آج مسلمان خوش نہیں ہوتے ؟ کیا آج مسلمان قہقہے نہیں لگاتے ؟ وہ خوش بھی ہوتے ہیں، قہقہے بھی لگاتے ہیں اور ہر وہ کام جو کامیاب قوموں کو زیب دیتا ہے، کرتے ہیں.وہ میلوں اور تماشوں میں بھی جاتے ہیں.ان سب جلسوں وغیرہ میں جو خوشیوں کے اظہار کیلئے ہوتے ہیں،شامل ہوتے ہیں.وہ شعر و شاعری کا مذاق بھی رکھتے ہیں.شعر کہتے اور ایک دوسرے کے شعر سن کر سر دھنتے اور داد دیتے ہیں.خوب قہقہے لگاتے ہیں بلکہ ہندؤں ،سکھوں اور عیسائیوں سے زیادہ ہنستے ہیں اور ہنستے ہوئے ان کی باچھیں ان قوموں کے لوگوں کی نسبت زیادہ کھلتی ہیں، جو حکمران ہیں.مگر کیا مسلمانوں کی یہ نفسی ، یہ قہقہے اور یہ مسکراہٹیں حقیقی خوشی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں؟ کہاں وہ زمانہ تھا کہ مسلمانوں کا سر دین اور دنیا دونوں لحاظ سے سب سے اونچا تھا.ایک مسلمان کے قول کو سب سے زیادہ معتبر سمجھا جاتا تھا.دوسرے بادشاہوں کی بات پر اتنا اعتبار نہ کیا جاتا تھا.جتنا ایک عامی مسلمان کی مسلمان اگر کوئی بات کہہ دیتا تو لوگ سمجھتے تھے ، یہ ضرور ہو کر رہے گی.100
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جولائی 1941ء ایک مرتبہ اسلامی لشکر شام میں آرمینا کے کنارے پر عیسائیوں سے سخت جنگ لڑ رہا تھا.بڑی لمبی جنگ کے بعد مسلمانوں کو یہ معلوم ہوا کہ کل ہم فتح حاصل کر لیں گے.عیسائیوں کو بھی جو محصور تھے یہ سمجھ آگئی کہ اب مقابلہ نہیں کر سکتے.ان کی مقابلہ و مقاومت کی آخری کوشش بھی نا کام ہو چکی ہے اور اب مسلمانوں کی فتح کے راستہ میں کوئی روک نہیں اور وہ کل تک ضرور فتح پالیں گے.ایک مسلمان حبشی غلام چشمہ سے پانی بھر رہا تھا.عیسائیوں کا ایک افسر اس کے پاس آیا اور کہا کہ لو، میاں! اگر ہم قلعہ چھوڑ دیں تو بتاؤ کن شرطوں پر صلح کر لو گے؟ اگر تم یہ یہ باتیں مان لو تو ہم ہتھیار ڈال دیتے ہیں.بتاؤ کیا یہ شرائط منظور ہیں؟ وہ بیچارہ ان پڑھ آدمی تھا.اس نے سمجھا کہ یہ باتیں منظور ہی ہوں گی.جب لڑائی ختم ہو رہی ہے تو ان کے ماننے میں کیا حرج ہے؟ اور اس لئے اس نے کہ دیا، ہاں منظور ہیں.اس پر عیسائیوں نے اعلان کر دیا کہ مسلمانوں کے ساتھ صلح ہوگئی ہے اور دروازے کھول دیئے.جب اسلامی جرنیل پہنچے تو انہوں نے کہا کہ ہم نے تو کوئی صلح کی نہیں.تم لوگوں نے کس کے ساتھ صلح کی ہے؟ عیسائیوں نے جواب دیا کہ فلاں حبشی نے ہم سے معاہدہ کیا ہے.مسلمان افسروں نے کہا کہ وہ کوئی افسر نہ تھا اور اسے صلح کی شرائط طے کرنے کا کوئی اختیار نہ تھا.عیسائیوں نے جواب دیا کہ ہمیں کیا علم تمہارا کون افسر ہے اور کون نہیں؟ ہم سے معاہدہ ہو چکا ہے اور اب تم لوگوں کو اس کی پابندی کرنی چاہئے.اسلامی سپہ سالار نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سارے واقعہ کی اطلاع دے دی اور لکھا کہ یہ عجیب واقعہ ہوا ہے.عیسائیوں نے ہمارے ساتھ چالا کی کی ہے اور ایک حبشی سے بات چیت کر کے دروازے کھول دیئے ہیں.اب ہم حیران ہیں.نہ ان کی شرطوں کو مان سکتے ہیں، نہ لڑائی کر سکتے ہیں.شرطیں ایسی ہیں جو ہمارے لئے قابل تسلیم نہیں.سارا معاملہ آپ کو پیش کیا جاتا ہے.آپ اجازت دیں کہ ہم اس ملک پر اسی طرح قبضہ کریں.جس طرح ایک فاتح قبضہ کرتا ہے.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ آپ نے جو کچھ لکھا، درست ہے.بیشک مسلمانوں نے سخت جنگ کی اور اس ملک کو فتح کیا اور بے شک عیسائیوں نے دھو کہ کیا.مگر میں تمہاری رائے کو تسلیم کر کے اسی طرح ملک پر قبضہ کرنے کی اجازت دے دوں جس طرح فاتح قبضہ کرتا ہے تو لوگ کہیں گے کہ مسلمانوں کے قول کا کوئی اعتبار نہیں.وہ حبشی بہر حال مسلمان ہے اور میں اس کی بات کو جھوٹا نہیں کر سکتا.اس کے منظور کردہ شرائط کے مطابق ہی عیسائیوں سے صلح کی جائے.اگر حضرت عمر چاہتے تو اس معاہدہ کو رد کر سکتے تھے اور اس صورت میں دنیا کی کوئی قوم آپ پر اعتراض نہ کر سکتی تھی.کیونکہ عیسائیوں نے جو کچھ کیا وہ سراسر دھو کہ تھا مگر پھر بھی آپ نے اسے قبول کر لیا فرمایا میں نہیں چاہتا کہ لوگ کہیں کہ مسلمان کی بات جھوٹی ہوگئی اور کہ مسلمانوں میں ایک حبشی کی بات قابل اعتبار نہیں اور عرب کی ہے.101
خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جولائی 1941ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم کوئی فلسفی کہہ سکتا ہے کہ پھر ایسی مثالیں تو روز پیش آسکتی ہیں اور حکومت کی تباہی کا موجب ہوسکتی.ہیں.مگر یہ درست نہیں اس قسم کی بات ایک ہی دفعہ ہوسکتی ہے.اسے اصول کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک دفعہ مجلس میں تشریف فرما تھے اور جنت کے نعماء کا ذکر فرمارہے تھے اور بتا رہے تھے کہ وہاں اس طرح روحانی ترقیات عطا ہوں گی ، یوں علوم کی ترقی ہوگی ، یوں فرشتے نازل ہوں گے اور یہ فلاں فلاں انعامات اللہ تعالیٰ نے میرے لئے مقدر فرمائے ہیں.معا ایک صحابی کھڑے ہوئے اور کہا یا رسول اللہ دعا فرمائیں کہ جنت میں اللہ تعالیٰ مجھے بھی آپ کے ساتھ رکھے.آپ نے دعا فرمائی اور فرمایا اللہ تعالی تمہیں بھی ساتھ رکھے گا.اب خدا جانے اس صحابی کا درجہ کیا تھا.اس کے اعمال رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اعمال کا لا کھواں، کروڑواں حصہ بھی نہ ہوں گے.وہ کبھی نہ ایسے اعمال بجالایا ، جو رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم بجالائے اور نہ وہ عبادتیں کی ، جو آپ کرتے تھے.صرف ایک فقرہ کہا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی خواہش کو قبول فرما لیا.اب کوئی معترض کہہ سکتا ہے کہ یہ تو بڑا آسان کام ہے.جو اٹھا اس نے یہ فقرہ کہ دیا.مگر یہ بات نہیں.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس صحابی کی بات سن کر دعا فرمائی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی خواہش کو قبول فرمالیا ہے تو ایک اور صحابی اٹھے اور کہا یا رسول اللہ میں بھی چاہتا ہوں کہ جنت میں آپ کا ساتھ حاصل ہو.مگر آپ نے فرمایا کہ نہیں.وہ پہلی بات تھی، جو پوری ہو گئی.اب اس کی نقل میں بات کرنے والوں کو یہ مقام حاصل نہیں ہو سکتا.غرض ایسے امور میں جو فیصلہ ہو وہ بطور سبق کے ہوتا ہے، نہ کہ بطور دوامی دستور کے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس حبشی مسلمان کی بات صرف اس لئے مان لی کہ اس سے پہلے کوئی اصل قائم نہ ہوا تھا اور آپ ڈرے کہ ایک مسلمان کا قول بے وقعت نہ ہو.مگر اس کے یہ معنی نہ تھے کہ آئندہ بھی ایسا فیصلہ تسلیم کیا جایا کرے.بہر حال حضرت عمرؓ نے ایک مسلمان کی بات کی اتنی قیمت قرار دے دی، جس کی مثال نہیں مل سکتی.کجا تو وہ زمانہ تھا، کجا آج یہ زمانہ ہے کہ مسلمان کی بات کو مانے کو کوئی تیار نہیں ہوتا.مسلمان کوئی بات کہے تو لوگ کہتے ہیں یہ مسلمان نے کہی ہے.معلوم نہیں پوری ہو یا نہ ہو.میں ایک دفعہ کشمیر گیا.حضرت خلیفہ اول کا زمانہ تھا.کشمیر میں لوئیوں کے ٹکڑے رنگ رنگ کر فرش پر بچھانے کے لئے ایک کپڑا بناتے ہیں، جسے گبا کہتے ہیں.اسلام آباد میں ایک مشہور گبا ساز تھا.ہم نے بھی اسے ایک گبا بنانے کا آرڈر دیا اور سائز وغیرہ اچھی طرح بتا دیا.جب ہم سیر کرتے کراتے واپس اس شہر میں آئے تو پتہ کیا کہ گبا تیار ہوا ہے یا نہیں؟ اس نے کہا تیار ہے.مگر جب سائز میں دیکھا تو 102
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جولائی 1941ء 25% کا فرق تھا.مگر وہ کہے کہ سائز وہی ہے جو آپ نے بتایا تھا.غالباً اس کے ساتھ تحریر بھی ہو چکی تھی، جس میں سائز درج تھا.مگر وہ پھر بھی یہی کہتا جاتا تھا کہ یہ آپ کے بتائے ہوئے سائز کے مطابق تیار ہوا ہے.محلہ کے لوگ بھی وہاں جمع ہو گئے اور سب نے کہا کہ سائز وہ نہیں، جو انہوں نے بتایا تھا.مگر ان سب باتوں کے جواب ، اس کا ایک ہی جواب تھا کہ میں مسلمان ہندی.کشمیری مرد کو مونث کے طور پر بولتے ہیں.وہ مذکر کو مونث اور مؤنث کو مذکر بولتے ہیں.مثلاً کہیں گے چور آئی ، میں آئی ، مری بیوی آیا.تو وہ صرف یہی جواب دیتا تھا کہ میں مسلمان ہندی یعنی میں مسلمان ہوں.مجھے اس کی یہ بات سن کر بہت غصہ آیا اور میں نے کہا تم یہ کیوں کہتے ہو میں مسلمان ہوں، اس لئے یہ بد دیانتی میرے لئے جائز ہے؟ تم صاف کہو مجھ سے غلطی ہوئی ہے یا میں نے دھوکا کیا ہے.تم اپنے فعل کو مسلمان ہونے کی طرف کیوں منسوب کرتے ہو؟ تو آج یہ حالت ہے کہ نہ مسلمانوں کے کسی معاہدہ کا اعتبار ہے اور نہ ان کے کسی معاملہ کا.لین دین ان کا خراب ہو چکا ہے.کسی سے قرض لیں گے تو واپس نہ کریں گے.مصیبت زدہ لوگوں کے ساتھ ان کا سلوک ہمدردانہ نہیں.ہمسائیوں سے سلوک اچھا نہیں.جوش میں آجائیں تو بے شک قربانی کریں گے.مگر یہ صرف ایک دو دن یا ایک دو گھنٹہ تک ہی ہوگی ، اس سے زیادہ نہیں.آج سے تھوڑا ہی عرصہ ہوا شہید گنج کے گوردوارہ کے متعلق ان میں کتنا جوش پایا جاتا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اب یہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجا کر ہی دم لیں گے اور جب تک اس جگہ پر قبضہ نہ کر لیں گے، چین سے نہ بیٹھیں گے.مگر آج وہی شہید گنج موجود ہے.وہی سکھوں کا اس پر قبضہ ہے اور حرام ہے مسلمانوں میں اتنی بھی حرکت ہوتی ہو، جتنی چیونٹی کے چلنے سے ہوتی ہے.بس بات ختم ہوگئی تو آج دیکھو مسلمانوں کی حالت کہاں سے کہاں جا پہنچی ہے.وہ زمانہ جو اسلامی تاریخ کا گرا ہوا زمانہ سمجھا جاتا ہے.آج مسلمانوں میں اس زمانہ کے مسلمانوں جیسے اخلاق بھی نہیں ہیں.خلافت عباسیہ کا آخری زمانہ بڑا دردناک اور بہت تنزل کا زمانہ سمجھا جاتا ہے.اس وقت خلفائے عباسیہ کی حیثیت قیدیوں کی سی تھی.کبھی ترک کبھی سلجوقی اور کبھی کرد اصل حاکم ہوتے تھے.جس طرح ایک زمانہ میں دہلی کے بادشاہ انگریزوں کے ماتحت ہوتے تھے.یہ ترک سلجوقی یا کر د حاکم جو چاہتے حکم دے دیتے اور کہہ دیتے کہ خلیفہ نے یوں فرمایا ہے.جس طرح دہلی کے بادشاہوں کو وظائف ملتے تھے، اسی طرح خلفائے عباسیہ کو بغداد میں وظائف ملتے تھے.مگر اس زمانہ میں بھی اسلامی غیرت باقی تھی کیونکہ محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو تمام خوبیوں اور محاسن کے منبع ہیں زمانہ قریب تھا.103
خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جولائی 1941ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد دوم اس زمانہ میں عیسائیوں نے شام پر حملہ کر کے کچھ علاقہ فتح کر لیا.عکہ اور اس کے گردونواح پر قابض ہو گئے.اس علاقہ میں مسلمان بھی آباد تھے بلکہ سارا علاقہ مسلمان ہو چکا تھا.سوائے ان برطانی، اطالوی ، جرمن اور آسٹرین فوجوں کے، جو وہاں تھیں.انہوں نے پاس کے اسلامی علاقہ پر حملہ کیا.وہاں کوئی مسلمان عورت تھی، کسی عیسائی سے اس کا جھگڑا ہوا اور عیسائی نے اس کی بے حرمتی کی ، اس کا برقعہ یا نقاب اتارا گیا اور مارا گیا.جب اس کی ہتک کی گئی تو اس عورت نے جو بالکل ناواقف تھی اور جسے کچھ پتہ نہ تھا کہ خلیفہ عباسی کون سا ہے اور کس حالت میں ہے؟ اس نے اپنے کسی رشتہ دار سے اتنا سنا ہوگا کہ مسلمانوں کا کوئی خلیفہ ہے، جو بغداد میں رہتا ہے.یہ کہ اس کی حالت کیا ہے؟ وہ محض ایک قیدی ہے اور اس کی کوئی طاقت نہیں ، یہ اسے علم نہ تھا.مار پیٹ کے وقت وہ چلائی.مسلمانوں میں رواج تھا کہ جب نعرہ لگاتے تویا للمسلمین! کہتے، یعنی اے مسلمانوں ہم تمہیں پکارتے ہیں.اسی طرح اس عورت نے کہا کہاے مسلمانو! اے بغداد کے خلیفہ ! میں تم کو پکارتی ہوں.جب اس نے یہ نعرہ لگا یا مسلمان تاجروں کا کوئی قافلہ اپنے رستہ پر گزر رہا تھا.اسے یہ آواز عجیب معلوم ہوئی کہ کہاں بغداد کا خلیفہ، جو بالکل کمزور اور ایک قیدی کا طرح ہے اور کہاں شام کا یہ علاقہ ؟ خلیفہ یہاں اس عورت کی کیا مدد کر سکتا ہے ؟ مگر اہل قافلہ کے دل پر ایک چوٹ لگی.قافلہ جب بغداد میں پہنچا تو بازار میں اپنا اسباب وغیرہ اتارنے لگا.اس زمانہ میں تجارت چونکہ قافلوں کے ذریعہ سے ہوتی تھی.جب کوئی قافلہ سامان تجارت لے کر آتا تو سب امیر و غریب تجارتی چیزوں کو دیکھنے کیلئے بازار میں جمع ہو جاتے تھے ، وہیں چیزیں دیکھتے اور قافلہ والوں سے سفر کے حالات سنتے تھے.قافلہ والوں میں سے کسی نے یہ بات بھی بیان کی کہ اس طرح شام میں ہم نے ایک مسلمان عورت کی آواز سنی، جسے کسی عیسائی نے مارا اور اس کی بے حرمتی کی تھی.اس نے خلیفہ کو پکارا اور کہا میں تجھے مدد کے لئے پکارتی ہوں.جس طرح دہلی کے بادشاہوں کے دربار لگتے تھے باوجود کہ وہ برائے نام بادشاہ ہوتے تھے، اسی طرح عباسی خلفاء بھی دربار میں بیٹھتے تھے.اس زمانہ میں جو خلیفہ تھا، وہ اپنے دربار میں بیٹھا تھا کہ کسی درباری نے بازار سے یہ بات سن کر اس کے سامنے بھی بیان کر دی اور کہا حضور ! یہ عجیب بات اہل قافلہ سے معلوم ہوئی ہے.عیسائیوں نے آگے بڑھ کر چھاپہ مارا، کسی عیسائی نے ایک مسلمان عورت کی بے حرمتی کی اور اس عورت نے اس طرح دہائی دی.باوجود کہ اس وقت اس خلیفہ کی حالت شطر نج کے بادشاہ کی تھی.اس نے یہ بات سنی تو یہ اسے کھا گئی.وہ فورا تخت سے نیچے اُتر کر ینگے پاؤں چل پڑا اور کہا کہ میں اب واپس نہیں لوٹوں گا ، جب تک کہ اس عورت کا بدلہ نہ لے لوں.اس نے شہر 104
تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جولائی 1941ء سے باہر آ کر خیمے لگا دیئے.شہر میں اور علاقہ میں یہ بات آگ کی طرح پھیل گئی اور مسلمان نوجوان اس کو جھنڈے تلے جمع ہونے لگے.آخر یہ لشکر شام کی طرف چلا.عیسائیوں پر حملہ کیا اور عیسائیوں نے مسلمانوں سے جو علاقے نئے نئے لئے تھے، وہ ان سے واپس لئے اور اس طرح اس عورت کی داد رسی کر کے خلیفہ عباسی واپس آیا.یہی در داسلامی تھا.جس نے سینکڑوں سال اسلام کے نام کو اونچا کئے رکھا.یہ گرے ہوئے زمانہ کا حال ہے، جب عیسائیت پھر سر نکال رہی تھی، جب اسلامی نظام ٹوٹ چکا تھا بلکہ پارہ پارہ ہو چکا تھا.مگر آج کیا ہے؟ نہ بادشاہوں کے دل میں یہ اسلامی درد پایا جاتا ہے اور نہ رعایا کے دل میں.ایک اسلامی حکومت بھی تو ایسی نہیں، جس نے کبھی اسلامی جذبہ کے ماتحت کسی دوسری اسلامی حکومت کا ساتھ دیا و.یہ کبھی نہیں ہوا کہ ترکوں پر کسی دشمن نے چڑھائی کی تو ایران اور افغانستان نے اس کا ساتھ دیا ہویا یران پر حملہ ہوا ہو اور افغانستان اور ترکوں نے اس کی مد کی ہو.یورپ کی عیسائی حکومتوں میں یہ بات نظر آتی ہے مگر اسلامی حکومتوں میں نہیں.پولینڈ پر حملہ ہوا تو برطانیہ اور فرانس اس کی طرف سے لڑے، چیکو سلواکیہ پر حملہ ہونے لگا تھا تو برطانیہ، فرانس اور روس اس کی طرف سے لڑنے کو تیار ہو گئے تھے، جرمنی پر حملہ ہوا تو اٹلی اس کی طرف سے لڑنے کو تیار ہو گیا.تو دوسری قوموں میں تو یہ بات ہے مگر مسلمانوں میں نظر نہیں آتی.انہوں نے کبھی بھی وہ ہمدردی نہیں دکھائی ، جو مسلمانوں کے لئے ایک دوسرے سے رکھنی ضروری ہے.حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مسلمان آپس میں ایک جسم کی طرح ہیں.جب ایک عضو میں تکلیف ہو تو سارا جسم درد کرنے لگتا ہے.ہاتھ کی انگلی میں درد ہو ، منہ کے کسی حصہ میں تکلیف ہو یا پنڈلی پر بھڑ کاٹ جائے تو کیا باقی جم در محوس نہیں کرتا دیکھو آدم کو نزلہ تو ہوا ہے ناک میں بمگر کس طرح سارا جسیم بے چین ہو جاتا ہے.کھانسی سینہ میں ہوتی ہے، مگر کیا لاتوں اور پیروں کو اس سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی ؟ جسم کے کسی حصہ پر پھوڑا ہوتو کیا باقی جسم آرام میں ہوتا ہے؟ اگر مسلمان اس چیز کو پیش نظر رکھتے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جو مثال دی تھی، اسے صحیح تسلیم کرتے اور جس طرح جسم کے کسی حصہ پر پھوڑا نکلنے سے تمام جسم بے چین ہوتا ہے یا نزلہ ہونے کی حالت میں سارا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے.مسلمان سارے عالم اسلامی کی تکلیف کو اپنی تکلیف محسوس کرتے تو مسلمان کو آج یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا.مگر میں کہتا ہوں چھوڑ دو پرانے قصوں کو چھوڑ دو ان لوگوں کو جنہوں نے مرکز اسلام سے منہ موڑ لیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت دل سے نکال دی.تم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے نیا تعلق 105
خطبہ جمعہ فرمود 250 جولائی 1941ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم پیدا کر رہے ہو، جو خدا تعالیٰ سے نیا رشتہ جوڑ رہے ہو.تم سوچو کہ کیا تمہارے دلوں کی یہی کفیت ہے، جو رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمائی تھی ؟ تم میں سے کتنے ہیں جن کے دل اپنے بھائی کی تکلیف پر اس طرح دکھ محسوس کرتے ہیں جس طرح جسم کے ایک حصہ پر پھوڑا ہونے سے تمام جسم محسوس کرتا ہے؟ آج میں ساری جماعت کو مخاطب نہیں کرتا بلکہ صرف طالب علموں کو مخاطب کرتا ہوں.جو چھٹیاں منانے والے ہیں اور ان سے کہتا ہوں کہ تم قوم کی آئندہ اساس بنے والے ہو تم وہ بنیادی پتھر ہو جس پر قوم کی نئی عمارت بننے والی ہے.ہمارے مکانات کتنے وسیع ہیں ؟ مگر باوجود اس کے کہ کئی بچوں کی شادیاں ہو چکی ہیں اور وہ علیحدہ مکانوں میں چلے گئے ہیں اور اپنے گھر بنائے ہیں، پھر بھی بعض اوقات صحن میں سب کے سونے کے لئے جگہ نہیں ہوتی.اور یہ بچے جواب چھوٹے ہیں، جب ان کی شادیاں ہو جائیںگی تو پھر تو شاید بیھنے کی جگہ نہ ہوگی.یہی حالت قوموں کی ہوتی ہے.آنے والی نسلیں اپنے لئے اور گھر بناتی ہیں.وہ پہلوں کے ایمان پر ہی اکتفا نہیں کرتیں بلکہ ایمان کی نئی عمارت تعمیر کرتی ہیں.اگر تو ان کے ایمان کی عمارت پہلوں سے اچھی ہو تو قوم کی عزت بڑھتی ہے نہیں تو کم ہو جاتی ہے.کل بورڈنگ تحریک جدید میں، میں نے جو تقریر کی، اس میں بتایا تھا کہ ہم سات طالب علم تھے، جنہوں نے مل کر رسالہ تشحید الاذہان جاری کیا.کسی سے کوئی مدد ہم نے نہیں لی ، ایک پیسہ بھی چندہ کسی سے نہیں مانگا، اپنے پاس سے ہی سب رقوم دیں.ہاں بعد میں اگر بعض دوستوں نے اپنے طور پر کوئی مدددی تو وہ لے لی ، ورنہ سب بوجھ خود ہی اٹھایا.کسی سے مضمون بھی نہیں مانگا، خود ہی رسالہ کو ایڈٹ کرتے اور خودہی چھاپتے اور خود ہی بھیجتے تھے، سب کام خود کرتے تھے.اور اگر اس زمانہ میں سات طالب علم مل کر یہ کام کر سکتے تھے تو اب ہمارے سکولوں کے 1500لڑ کے مل کر ان سے دواڑھائی سو گنا زیادہ کیوں نہیں کر سکتے ؟ یقینا کر سکتے ہیں، بشرطیکہ ان کے دلوں میں وہی جوش ہو بلکہ ان میں پہلوں سے زیادہ جوش ہونا چاہئے ، کیونکہ جسے بنا بنایا کا مل جائے ، اسے اس کو آگے چلانے میں بہت سی سہولتیں اور آسانیاں ہوتی ہیں.پس میں آج طالب علموں اور استادوں سے بھی کہ ان کی ذمہ داریاں بھی بہت زیادہ ہیں، کہتا ہوں کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں.جو خدا تعالیٰ کی طرف سے سلسلہ کی طرف سے صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے اور خلیفہ وقت کی طرف سے ان پر عائد ہوتی ہیں.اب جو تم چھٹیوں پر جاؤ تو وہ ایمان اور جوش لے کر جاؤ کہ جہاں بھی تم جاؤ، جب وہاں سے واپس آؤ تو وہاں کی جماعت میں ایک بیداری پیدا ہو چکی ہو.تمہارے اس جانے اور آنے کی مثال چھوٹی سی پیدائش اور انتقال کی ہو.انتقال کے معنی مرنا ہی نہیں 106
تحریک جدید- ایک الی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جولائی 1941ء ہوتے بلکہ جگہ بدلنے کے بھی ہوتے ہیں.اور جب کوئی کسی نئی جگہ جاتا ہے تو گویا اس کی نئی ولادت ہوتی.مثلاً جب کوئی طالب علم چھٹیوں پر یہاں سے لاہور پہنچے گا تو ان چند ہفتوں کیلئے لاہور میں وہ گویا نیا جنم لے گا اور جب وہاں سے واپس آئے گا تو گویا وہاں سے انتقال کرے گا اور دنیا کی ولادت بھی ایسی ہی ہوتی ہے.جب اللہ تعالیٰ دنیا میں ایک روح کو منتقل کر دیتا ہے تو یہ اس کی پیدائش ہوتی ہے اور پھر جب وہ روح اگلے جہان کو جاتی ہے تو اس جہاں سے اس کا انتقال ہوتا ہے اور ایک بڑی پیدائش بھی ہوتی ہے.ایک عرب شاعر نے کہا کہ :.انت الذي ولدتک ایک باکیا والناس حولك يضحكون سرورا فاحرص على عمل تكون اذا بكوا فی وقت موتک ضا حکامسرورا یعنی اے انسان تو وہی تو ہے جب تو پیدا ہوا تو تو روتا تھا.پیدائش کے وقت چونکہ بچہ کے سینہ پر دباؤ پڑتا ہے اور وہ روتا ہے اور یہ امر اس کے سانس چلنے کا موجب ہو جاتا ہے.اور جو بچہ پیدائش کے وقت نہ روئے ، اس پر پانی کے چھینٹے دینے پڑتے ہیں تا کہ وہ چکی لے اور سانس چلنے لگے.شاعر کہتا ہے جب تو پیدا ہوا تو رورہا تھا اور لوگ تیرے ارد گرد خوشی سے ہنس رہے تھے.بچہ کی پیدائش کے وقت لوگ خوشی کرتے ہی ہیں، مبارک بادیں دیتے ہیں کہ لڑکا ہو گیا.اسی کی طرف شاعر اشارہ کر کے انسان کی غیرت کو اکساتا ہے کہ تو جب روتا تھا تو یہ لوگ تیرے ارد گرد ہنس رہے تھے.پس تجھے چاہئے کہ ان سے اس کا بدلہ لے.وہ کس طرح ، اس کا جواب یوں دیتا ہے.فاحرص على عمل تكون اذا بكوا فی وقت موتک ضا حکامسرورا اب تو ایسے عمل کر اور اس کا بدلہ اس طرح لے کہ جب تیری موت کا وقت آئے تو سب لوگ تیرے ارد گر درور ہے ہوں کہ ہمارا حسن اور ہمارا ہمدرد دنیا سے چلا جا رہا ہے.اب ہمارے کام کون کرے گا؟ اور تو ہنس رہا ہو کہ میں اپنے رب کے پاس چلا ہوں، جہاں مجھے بڑے بڑے انعام ملیں گے.تو میں طالب علموں اور استادوں کو کہتا ہوں کہ یہ نمونہ دکھاؤ یعنی جب تم کسی جگہ جاؤ تو لوگ تمہارے آنے پر ہنسیں مگر جب تم واپس جاؤ تو تمہارے ہمجولی اور ملنے والے روئیں.اس لئے نہیں کہ انہیں تمہارے ساتھ 107
خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جولائی 1941ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک......جلد دوم جسمانی محبت ہے بلکہ اس لئے کہ یہ ہمارے لئے نیک نمونہ تھا اور اس کی وجہ سے ہمیں نیکیوں کی توفیق ملتی تھی اور اب یہ ہمارے پاس سے جارہا ہے.پس جہاں جاؤ نیک نمونہ دکھا کر وہاں کی جماعت میں ایسی بیداری پیدا کر و کہ جب تم وہاں سے آنے لگو تو اس شہر یا قصبہ کے لوگ سمجھیں کہ ہمارے اندر سے روحانیت کینچی چلی جارہی ہے.اگر تم ان چھٹیوں میں یہ نمونہ دکھا کر واپس آؤ تو اللہ تعالی تمہیں تو فیق دے گا کہ آئندہ بھی قادیان کی رہائش سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکو.بورڈ نگ تحریک جدید میں بچوں کو نماز کی باقاعدگی سکھائی جاتی ہے.اور نماز ایک ایسی نیکی ہے جو ایک بھی چھوڑے، وہ مسلمان نہیں رہ سکتا.اور اگر ان بچوں میں سے باہر جا کر کوئی ایک بھی نماز چھوڑے تو گویا وہ تحریک جدید کی ہتک کرنے والا ہوگا.جس کا وقار قائم رکھنا تم میں سے ہر ایک کا فرض ہے.پس یہاں جو بھی نیک عادات تم کو ڈالی جاتی ہیں، ان پر باہر جا کر اچھی طرح قائم رہو.جو بور ڈ ر ہیں وہ بھی اور جو نہیں وہ بھی ، ہر بات میں باہر جا کر نیک نمونہ دکھا ئیں.نمازیں با قاعدگی سے ادا کرو اور ہو سکے تو تہجد بھی پڑھو اور اپنے اردگرد نیک اثرات چھوڑو.پھر یا درکھو اس وقت کی مسلمانوں کی تباہی میں چار باتوں کا بڑا دخل ہے.1.معاملات کی خرابی 2 - سچ نہ بولنا ہمدردی کا پایا نہ جانا اور ایک دوسرے سے تعاون نہ ہونا 4.قوت عملیہ کی کمزوری یہ چار امور مسلمانوں کی تباہی کا بڑا موجب ہیں اور تحریک جدید کی غرض انہی نقائص کو دور کرنا ہے.آج صبح ہی جو مٹی ڈالی گئی ہے، وہ بھی اسی لیے ہے کہ کام کی عادت ڈالی جائے.مسلمانوں میں کام کرنے کی عادت بھی نہیں رہی.اور ان کے امراء ایسی جھوٹی عزت کے خیال میں پڑ گئے ہیں کہ اٹھ کر پانی پینا بھی دوبھر معلوم ہوتا ہے.اسی لئے تحریک جدید میں یہ بات میں نے رکھی ہے کہ کوشش کی جائے کہ دوستوں میں ہاتھ سے کام کرنے کی عادت پیدا ہو.معاملات کی صفائی بھی بہت ضروری ہے اور اسکی آزمائش کا بھی یہ ایک موقع آیا ہے.بعض لوگ بغیر کرایہ ادا کئے اور ٹکٹ لئے ریل میں سفر کر لیتے ہیں.یادرکھنا چاہئے کہ یہ بات ایمان کے سراسر خلاف ہے.مومن کبھی بد معاملہ نہیں ہوتا.یہ خیال کرنا کہ انگریزوں کی چوری کرنے میں کوئی حرج نہیں، بالکل غلط 108
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جولائی 1941ء ہے.انگریز چھوڑ، کالے چور کا مال کھانا بھی جائز نہیں.مومن کو معاملات کا بہت کھر ا ہونا چاہئے.ہم لوگ اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب کرتے ہیں.آپ کا عملی نمونہ ہمارے سامنے ہے.جس سے انسان کو زیادہ محبت ہو اس کی طرف سے زیادہ نصیحت کا وہ محتاج نہیں ہوتا بلکہ اس کے نمونہ کو دیکھتا ہے.حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں جماعت کے بعض دوست داڑھی منڈواتے تھے.کسی نے حضور سے شکایت کی کہ فلاں شخص داڑھی منڈواتا ہے.آپ نے فرمایا اگر تو ان میں اخلاص نہیں تو ہماری نصیحت کا ان پر کیا اثر ہو سکتا ہے اور اگر اخلاص ہے تو ہماری داڑھی کو دیکھ کر خود ہی رکھ لیں گے.تو اصل بات یہی ہے کہ جس سے محبت ہو اس کا نمونہ ہی کافی ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود کے پاس کوئی احمدی آیا کسی نے آپ کو بتایا کہ یہ بغیر ٹکٹ کے آگئے ہیں.یہ ہمارے ملک میں ایک عام رواج ہے بغیر ٹکٹ کے سفر کرنا، ایک کارنامہ سمجھا جاتا ہے.جیسے چیتے کا شکار کر لیا، اسی طرح بغیر ٹکٹ کے سفر کر لیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے جب یہ بات سنی تو جیب سے ایک روپیہ نکال کر اسے دیا اور فرمایا کسی کا مال استعمال کرنا گناہ ہے.آپ اب واپس جائیں تو اس روپیہ سے ٹکٹ خرید لیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ طریق ہے جس سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہئے.مجھے ایک احمدی دوست کی بات بہت پیاری معلوم ہوئی.اگر چہ انہوں نے کی تو غلطی ہی تھی اور مجھ پر بدظنی کی.جب عزیزم ناصر احمدہ یورپ سے آخری بار واپس آنے سے پہلے ایک بار چھٹیوں میں یہاں آئے تو اتفاقاً یا شاید ارادہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بھی ملاقات کے خیال سے قادیان آر ہے تھے.یہاں سے میں موٹر پر استقبال کے لئے امرتسر گیا تھا.وہاں میں نے کسی دوست سے کہا کہ ٹکٹ نے آؤ.چودھری صاحب نے کہا کہ میرے سیلون میں ہی بیٹھ جائیں.میں نے کہا کہ ہمارے لئے اس میں بیٹھنا کس طرح جائز ہو سکتا ہے؟ انہوں نے غالبا یہ جواب دیا کہ قانون یہ ہے کہ اگر کوئی ہمارا مہمان ہو تو اس کے لئے فرسٹ کلاس ٹکٹ خرید کر اسے سیلون میں بیٹھایا جاسکتا ہے.خیر ہم سیلون میں بیٹھ گئے.جب میں قادیان پہنچا اور گھر جانے لگا تو امرتسر کے ایک دوست نے کہا کہ میں ایک بات کرنا چاہتا ہوں اور الگ ہو کر کہنے لگے کہ میں نے یہ دو ٹکٹ خرید لئے تھے، ایک میرے لئے اور ایک پرائیویٹ سیکر میری کے لئے.اس خیال سے کہ شاید آپ کو ٹکٹ خریدنے کا خیال نہیں رہا.آپ سیلون میں بیٹھ گئے تھے اور میں نے سمجھا کہ اس میں بغیر ٹکٹ کے بیٹھنا آپ کے لئے جائز نہیں اور ٹکٹ خریدنے کا آپ کو خیال 109
خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جولائی 1941ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم نہیں رہا، اس لئے میں نے یہ دو ٹکٹ خرید لئے تھے.ان کے خریدے ہوئے ٹکٹ ضائع ہی ہو گئے ، کیونکہ چوہدری صاحب نے ہمارا کرایہ ادا کر دیا تھا.مگر اس دوست کی یہ بات مجھے بہت پسند آئی کہ انہوں نے یہ بھی گوارہ نہ کیا کہ مجھ سے بھولے سے بھی بغیر ٹکٹ کے سفر کرنے کی غلطی ہو.یہ احمدیت کا سچا نمونہ ہے اور یہی نمونہ ہمارے نو جوانوں کو پیش کرنا چاہئے.پس اچھی طرح یا درکھو کہ کبھی بغیر ٹکٹ کے سفر نہ کرو اور کبھی کسی کو بغیر ٹکٹ کے سفر کرتا دیکھ کر خاموش نہ رہو بلکہ اسے نصیحت کرو اور اگر وہ نصیحت پر بھی عمل نہ کرے تو سمجھ لو کہ وہ بیمار ہے اور متعدی بیماری ہے، ایسے لڑکے کی محبت سے الگ رہو.اگر تم اسے دوست کہتے ہو تو گویا اپنی بھی بنک کرتے ہو اور اس کے معنی یہ ہیں کہ تم اس کے فعل کو پسند کرتے ہو.پھر آپس میں ہمدردی کرو اور دوسروں سے بھی ہمدردی کرو.اگر گاڑی میں کوئی بوڑھا آجائے تو اس کیلئے قربانی کا نمونہ دکھاؤ، خود کھڑے ہو جاؤ اور اسے بیٹھنے دو، اگر اسے پانی کی ضرورت ہو تو لا دو، بیمار ہو تو اسے دبا وہ ممکن ہو تو دوائی بھی لا دو.غرضیکہ ایسا نمونہ دکھاتے جاؤ اور دکھاتے آؤ کہ سب دیکھنے والے کہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے ہاتھوں میں اگر طاقت آجائے تو دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے.خوب یا درکھو یہ دنیا میں امن قربانی سے قائم ہوتا ہے، زور اور طاقت سے نہیں.پس جتنی زیادہ قربانی تم کرو گے، اتنی ہی جلدی خدا تعالیٰ تمہارے ہاتھوں میں دنیا کی باگ دے گا اور اتنی ہی جلدی تم دنیا میں امن قائم کر سکو گے.ستی کی عادت نہ ڈالو اور کبھی یہ نہ سمجھو کہ اب چھٹیاں ہوئی ہیں ، خوب سوئیں گے.چھٹیاں سونے کیلئے نہیں ہوتیں بلکہ اس لئے ہوتی ہیں کہ استاد نیا سبق نہ پڑھائے اور طالب علم پچھلا پڑھا ہوا یا د کر لیں.پس یہ نہ کہو کہ چھٹیوں میں سوئیں گے بلکہ یہ کہو کہ پہلے جو غفلت ہوتی رہی ہے، اب چھٹیوں میں اس کا ازالہ کریں گے اور سبق اچھی طرح یاد کریں گے.سکول میں تو مدرس روز نیا سبق دے دیتا ہے اور اسے یاد کرنا ہوتا ہے، اس لئے اگر کوئی سبق یاد کرنے سے رہ جائے تو کمزوری رہ جاتی ہے اور چھٹیاں ان کمزوریوں کو دور کرنے کا بہترین موقع ہوتی ہیں.سچائی کا بھی اعلیٰ نمونہ دکھاؤ.جو کہو، سچ کہو.یہ ضروری نہیں کہ ہر بات ضرور کہو.مثلا کوئی کہے کہ میں نے فلاں شخص کو کھانا کہا تھا، کیونکہ یہ سچی بات ہے اور بیچ بولنے کا حکم ہے تو یہ درست نہ ہوگا.ہر کچی بات کا کہنا ضروری نہیں ہوتا.حکم یہ ہے کہ جو کہو، سچ کہو.شریعت تمہیں یہ نہیں کہتی کہ ہر کچھی بات ضرور 110
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود 25 جولائی 1941ء کہو.شریعت کا حکم یہی ہے کہ جب ضرورت نہ ہو، چپ رہو.مگر جب بولوتو سچ بولو سینکڑوں باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ انسان ان کو بیان نہیں کر سکتا اور شریعت ان کے بیان پر مجبور نہیں کرتی.اگر کوئی ایسا عیب کسی میں دیکھو کہ جس کے متعلق شریعت کہتی ہے کہ اسے بیان نہ کر وہ تو اسے مت بیان کرو.مگر کوئی بات کرو اور جھوٹ بولو، یہ جائز نہیں.سچ بولنے کے یہ معنی نہیں کہ ہر بات جو تم کو معلوم ہے، ضرور بیان کر دو.تمہیں یہ حق ہے کہ بعض باتوں کے متعلق کہہ دو کہ میں بیان کرنا نہیں چاہتا.بعض باتیں خواہ وہ سچ ہوں، بیان کرنے سے قانون نے بھی روکا ہے.مثلاً قانون یہی ہے کہ جو بات دوسرے کو بری لگے ، اس کی بناء پر بھی ہتک عزت کا مقدمہ ہوسکتا ہے.پس یہ ضروری نہیں کہ ہر سچی بات ضرور بیان کرو.ہاں جو بیان کرو، وہ بیچ سچ بیان کرو.پس یہ باتیں ضرور اپنے اندر پیدا کر و.خدمت خلق ، چستی سچائی اور معاملات کی درستی.اگر ایک پیسہ بھی کسی سے لیا ہے تو جب تک اسے واپس نہ کر وہ تمہیں چین نہ آئے محنت کی عادت ڈالو، اپنا سبق اچھی طرح یاد کرو، رستہ میں مسافروں سے اچھا سلوک کرو، ماں باپ کی خدمت کرو اور ایسا نمونہ دکھاؤ کہ جس طرح پھول لے کر کوئی شخص ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا ہے تو تمام رستہ میں ان کی خوشبو پھیل جاتی ہے، اسی طرح اب جو تم اپنے اپنے گھروں کو جو ہندوستان کے ہر گوشہ میں ہیں، جاؤ تو تمام ہندوستان تمہاری خوشبوں سے مہک اٹھے.اور جس طرح پھولوں کی خوشبو پھیلتی ہے، تمہاری خوشبو بھی سارے ملک میں پھیل جائے اور تمام ملک تمہاری خوشبو سے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک مہک اٹھے.اگر تم ان باتوں پر عمل کرو گے تو واقعی تمام ملک تمہاری خوشبو سے مہک اٹھے گا اور لوگ کہیں گے کہ کیا خوش قسمت ہے ہمارا ملک کہ جس میں ایسے بچے پیدا ہوئے ہیں اور ملک کی کتنی خوش قسمتی ہے کہ اس کی باگیں اب ان کے ہاتھوں میں آنے والی ہیں.مطبوع الفضل 30 جولائی 1941ء) 111
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 21 نومبر 1941ء آج دنیا کے پردہ پر صرف احمد یہ جماعت ہی اسلام کی تبلیغ کر رہی ہے وو خطبہ جمعہ فرمودہ 21 نومبر 1941ء آخر یہ صابر ا کے حکم پر عمل کرنے کی برکت ہی ہے، جو تبلیغ کی صورت میں ہمیں اس وقت دکھائی دیتی ہے.ہماری جماعت کتنی چھوٹی سی ہے.مگر باوجود اس کے کہ ہماری جماعت کی تعداد نہایت قلیل ہے اور باوجود اس کے کہ ہماری جماعت نے ابھی وہ اعلیٰ نمونہ پیش نہیں کیا، جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے.پھر بھی ساری دنیا میں ہماری جماعت تبلیغ کر رہی ہے اور دنیا کے لوگ اس بات کے معترف ہیں کہ اگر آج دنیا کے پردہ پر کوئی جماعت اسلام کی تبلیغ کر رہی ہے تو وہ احمد یہ جماعت ہی ہے.حالانکہ ہماری جماعت کی تعداد کتنی ہے؟ کہتے ہیں ” کیا پدی اور کیا پدی کا شور با “.سارے ہندوستان میں اتنے احمدی بھی تو نہیں، جتنی ضلع گورداسپور کی آبادی ہے.مگر باوجود اس کے ہماری جماعت کی تعداد ہندوستان میں اتنی بھی نہیں جتنی ضلع گورداسپور کی آبادی ہے، پھر بھی ہماری جماعت وہ کام کر رہی ہے، جو سارے ہندوستان کے مسلمان مل کر بھی نہیں کر رہے.امریکہ میں ہمارا مشن قائم ہے، انگلستان میں ہمارا مشن قائم ہے، گولڈ کوسٹ میں ہمارا مشن قائم ہے، نائیجیریا میں ہمارا مشن قائم ہے، سیرالیونمیں ہمارا مشن قائم ہے.اسی طرح ملایا، سنگا پور ، چین، سماٹرا، جاوا اور دوسرے ممالک میں ہمارے مشن قائم ہیں.اس کے مقابلہ میں مسلمان، کروڑوں کی تعداد میں ہیں، بلکہ اب بھی کئی مسلمان بادشاہ موجود ہیں.چنانچہ ایران کا بادشاہ مسلمان ہے، افغانستان کا بادشاہ مسلمان ہے، عرب کا بادشاہ مسلمان ہے، اسی طرح مصر اور عراق کے بادشاہ مسلمان ہیں، پھر ترکوں کی حکومت ہے اور یہ تمام حکومتیں اربوں ارب روپیہ سالانہ آمد رکھتی ہیں.مگر بتاؤ، کیا ان میں سے کوئی سلطنت بھی اسلام کی تبلیغ کر رہی ہے؟ اور کیا ان کی جدو جہد سے کبھی ایک شخص بھی مسلمان ہوا ؟ مسلمان کرنا تو درکنار، ان کی طرف سے ہمیشہ یہ اعلان ہوتا رہتا ہے کہ ہماری حکومتوں کو مذہب سے کوئی واسطہ نہیں.حالانکہ حکومت عیسائیوں کو بھی حاصل ہے، مگر انہوں نے اپنے مذہب کی تبلیغ کو بھی نظر انداز نہیں کیا.انگریزی حکومت یوں آزادی مذاہب کی بڑی حامی ہے، مگر ہمیشہ اپنے مشنریوں کی مدد کرتی رہتی ہے.ظاہر بھی اور مخفی بھی، کھلے طور پر بھی اور پوشیدہ بھی.ہندوستان میں بھی پادریوں کی تنخواہوں کے لئے 113
اقتباس از خطبه جمعه فرمود ه 21 نومبر 1941ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم بجٹ میں گنجائش رکھی گئی ہے اور اس کا یہ حصہ وائسرائے کے قبضہ میں ہے اور اس میں کوئی دوسرا داخل نہیں دے سکتا.تو انگریزی حکومت اپنے مذہب کی تبلیغ کے لئے ہمیشہ روپیہ خرچ کرتی رہتی ہے مگر مسلمان بادشاہ یہی کہتے رہیں گے کہ ہم بادشاہ ہیں، ہمارا مذہب کی تبلیغ سے کیا تعلق؟ اس کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ نے ہماری چھوٹی سی جماعت کو تبلیغ کی ایسی توفیق بخشی ہے کہ سوائے پیغامی گروہ کے اور سب اس بات کے معترف ہیں کہ ہماری جماعت سے بڑھ کر اور کوئی تبلیغ نہیں کر رہا.ایک پیغامی گروہ ہی ہے، جو کہتا ہے کہ جماعت احمدیہ کا قادیانی حصہ تبلیغ اسلام نہیں کرتا.مگر ان کے اس اعتراض کی اگر تشریح کی جائے تو یہ ہوگی کہ انگلستان میں قادیانیوں کا مشن ہے، ہمارا کوئی مشن نہیں.مگر انگلستان میں تبلیغ قادیانی نہیں بلکہ ہم کرتے ہیں.امریکہ میں ہمارا کوئی مشن نہیں ، صرف قادیانیوں کا مشن ہے اور میں چھپیں ان کے مقامی مبلغ بھی ہیں.مگر امریکہ میں تبلیغ ہم کرتے ہیں، قادیانی نہیں کرتے.پھر ان کے اس اعتراض کی تشریح یہ ہوگی کہ گولڈ کوسٹ میں قادیانیوں نے مبلغ رکھا ہوا ہے.ہمارا کوئی مبلغ نہیں.مگر وہاں بھی تبلیغ ہم کرتے ہیں، قادیانی نہیں کرتے.نائیجیریا میں قادیانی کوئی تبلیغ نہیں کرتے کیونکہ انہوں نے وہاں اپنا مبلغ بھجوایا ہوا ہے.صرف ہم کرتے ہیں، گو ہمارا وہاں کوئی مبلغ نہیں.اسی طرح سیرالیون میں قادیانی مبلغ موجود ہے اور ہمارا کوئی مبلغ نہیں مگر سیرالیون میں تبلیغ ہم ہی کرنا رہے ہیں، قادیانی نہیں کر رہے.غرض اسی طرح پھیلاتے چلے جاؤ اور دیکھو مصر میں، فلسطین میں ، شام میں ،سماٹرا میں، جاوا میں، ملایا میں.غرض جہاں جہاں ہمارے مشن قائم ہیں، وہاں ان کے اس اعتراض کی یہی تشریح ہو گی کہ قادیانی بالکل تبلیغ نہیں کرتے.جس کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے مشنری ان ملکوں میں بھیجے ہوئے ہیں.مگر پیغامی تبلیغ کرتے ہیں کیونکہ ان کا ان ملکوں میں کوئی مبلغ نہیں.اور کچی بات تو یہ ہے کہ پیغامیوں کا بیرونی ممالک میں کہیں مشن ہے ہی نہیں.ایک مشن جرمنی میں تھا مگر وہ بند ہو چکا ہے.پھر انہوں نے سیرالیون میں اپنا مشنری بھیجا مگر وہ ہمارے مشنری کے مقابلہ کی تاب نہ لا کر وہاں سے بھاگ آیا.یہاں تک کہ اسے کرایہ بھی ہمارے مشنری نے ہی لوگوں سے چندہ کر کے دیا.اگر ہمارا مشنری اس کی مدد نہ کرتا تو وہ واپس بھی نہ آ سکتا.مگر باوجود اس کے پیغامی ہمیشہ یہی کہتے رہتے ہیں کہ تبلیغ وہی کر رہے ہیں، قادیانی جماعت کو ئی تبلیغ نہیں کر رہی.غرض پیغامیوں کے سوا باقی ساری دنیا تسلیم کر رہی ہے کہ اس وقت احمدی جماعت ہی تبلیغ اسلام کام کر رہی ہے.بلکہ بعض مسلمان اخبارات نے یہاں تک لکھا ہے کہ جس کام کی بڑے بڑے 114
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 21 نومبر 1941ء بادشاہوں کا توفیق نہیں ملی.وہ آج یہ چھوٹی سی جماعت بڑی عمدگی سے کر رہی ہے.تو یہ صابروا پر عمل کرنے کا ہی نتیجہ ہے.اگر احمدی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کرتے ، اگر ان میں اتحاد نہ ہوتا ، اگران میں نظام نہ ہوتا اور اگر دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے وہ ایک جتھہ کی شکل میں نہ ہوتے تو وہ صورت کبھی پیدا نہ ہو سکتی جو آج نظر آ رہی ہے“.(مطبوعہ الفضل 28 نومبر 1941ء) 115
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 نومبر 1941ء المُيَانِ لِلَّذِينَ امَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ خطبہ جمعہ فرمودہ 28 نومبر 1941ء پس ایسے وقت میں جب خدا دنیا کی اصلاح کے لئے کسی نبی کو بھیجتا ہے، ترقی کے دروازے بہت کھلے ہوتے ہیں اور جو لوگ تھوڑی سی خدمت بھی کرتے ہیں، ان کی خدمت کو وہ خوب بڑھاتا اور انہیں مدارج پر مدارج عطا کرتا ہے.مگر ساتھ ہی سزا کے دروازے بھی بہت کھلے ہوتے ہیں کیونکہ اس وقت جو شخص سستی کرتا ہے، وہ خدا تعالیٰ کے ارادہ کے رستہ میں روک بنتا ہے اور وہ اس کچھی دیوار کے مشابہ ہوتا ہے، جو دریا کے بہاؤ کے منہ پر بنائی جائے.تم جانتے ہو کہ دریا کے مقابلہ اس کا کیا حال ہوگا؟ اس کا تو کیچڑ بھی نظر نہیں آئے گا اور کوئی چیز اسے برباد ہونے سے بچا نہیں سکتی.پس ایسے زمانہ میں جہاں اللہ تعالیٰ کے انعامات کے دروازے کھلے ہوتے ہیں.وہاں اگر کوئی ایسے کام کرتا ہے، جن سے ترقی میں روک واقع ہوتی ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی گرفت میں آجاتا ہے.اس وقت بھی خدا تعالیٰ کا ایک خاص ارادہ ظاہر ہوا ہے اور اس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ احمدیت کے ذریعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکومت کو پھر دنیا میں قائم کرے.پس آج اسلام کے مئے ہوئے نقشوں کو پھر تازہ کرنے کا خدا تعالیٰ نے تہیہ کر لیا ہے.پھر اس کی گری ہوئی دیواروں کو فرشتے نئے سرے سے کھڑا کر رہے ہیں.چنانچہ یا تو یہ حالت تھی کہ دشمن کا ہر حملہ جو اسلام کی دیواروں پر ہوتا تھا ، کامیاب ہوتا نظر آتا تھا اور خیال ہوتا تھا کہ اگر وہ ایک طرف سے دھکا دے گا تو دیوار کی دوسری طرف کو بھی نقصان پہنچ جائے گا اور اب یہ حالت ہے کہ اسلام کی دیوار میں پھر مضبوط ہو رہی ہیں اور پھر اس میں ایسی طاقت پیدا ہو گئی ہے کہ دنیا کے سر اس سے ٹکر اٹکرا کر ٹوٹ جائیں گے مگر اس کو نقصان نہیں پہنچاسکیں گے.بے شک اس وقت کی نشو و نما ایک کو نیل کی طرح ہے مگر وہ چٹان بھی جس کو توڑنے کے لئے انجن لگا دیئے جائیں، خطرہ میں ہوتی ہے اور وہ کو نیل جس کی حفاظت کے لئے خدا تعالیٰ کے فرشتے پہرہ دے رہے ہوں ، خطرہ میں نہیں ہوتی.پس بے شک اسلام اس وقت ایک کونپل کی شکل میں ہے اور دشمن کی طاقت چٹانوں کی طرح ہے مگر ان چٹانوں کو فرشتے توڑ رہے ہیں اور اس کو نپل کی وہ ٹنگی تلواروں سے حفاظت کر رہے ہیں.117
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 نومبر 1941ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم پس اب اسلام روز بروز بڑھتا چلا جائے گا اور کیا عیسائیت اور کیا یہودیت اور کیا ہندومت اور کیا بدھ مت سب اس سے ٹکر انکر اکر پاش پاش ہو جائیں گے اور روحانی طور پر پھر اس کے نفوذ کو دنیا کے کناروں تک پہنچایا جائے گا اور پھر تمام ادیان پر دین غالب آئے گا اور پہلے سے زیادہ شان اور زیادہ عظمت کے ساتھ غالب آئے گا کیونکہ یہی وہ زمانہ ہے جس کی نسبت قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ ( الصف : ١٠) یعنی خدا نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لئے مبعوث کیا ہے تا اس کے لائے ہوئے دین کو تمام دنیا کے مذاہب پر غالب کرے اور دلائل و براہین کی رو سے اسلام کی برتری اور فوقیت تمام مذاہب پر ثابت کر دے.اب دیکھو اس آیت میں بھی کیا ہی لطیف طور پر اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ یہ غلبہ اس زمانہ میں ہوگا.جب مسلمانوں کے ہاتھ میں صرف تبلیغ کا ہتھیار ہوگا ،تلوار نہیں ہوگی.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسلمانوں کی ظاہری فتوحات، مذہبی فتوحات سے پہلے ہوا کرتی تھیں.مکہ کو مسلمانوں نے پہلے فتح کیا اور بعد میں مکہ کے لوگوں نے اسلام قبول کیا.نجد کو پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح کیا.مگر نجد کے رہنے والے بعد میں مسلمان ہوئے.اسی طرح شام کو مسلمانوں نے پہلے فتح کیا اور شام کے رہنے والے بعد میں مسلمان ہوئے.عراق کو مسلمانوں نے پہلے فتح کیا اور عراق کے رہنے والے بعد میں مسلمان ہوئے.مگر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ وعدہ کیا تھا کہ اسلام کی یہ فتح دینوں پر ہوگی اور دینوں پر فتح تبلیغ سے ہوتی ہے، تلوار سے نہیں ہوتی ہے.پس اس آیت میں ایسے ہی زمانہ کا ذکر تھا جس میں تبلیغ سے کام لیا جانے والا تھا اور وہ زمانہ یہی ہے جس میں سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں.میں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں اس پیشگوئی کو پورا کرنے میں مدد دینے کے لئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ جو خدائی وعدہ ہے کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.( تذکرہ ص 305) اس کو پورا کرنے کے لئے تحریک جدید کا اجراء آج سے سات سال پہلے کیا اور میں نے اپنی طرف سے بغیر کسی ملونی کے وہ تمام باتیں جن کو میں نے قرآن کریم ، احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کی روشنی میں اسلام کے لئے مفید اور مد سمجھتا تھا ، چن کر جماعت کے سامنے پیش کر دیں.118
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 نومبر 1941ء اب یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے کہ وہ اس تحریک کو پہلے تمہارے اندر اور پھر باقی تمام دنیا میں کامیاب کرے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ راستہ کٹھن ہے اور اس پر چلنا ہمت طلب کام ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض دوستوں نے پہلے جوش کا اظہار کیا مگر بعد میں اپنے جوش اور قربانی کی روح کو انہوں نے قائم نہیں رکھا.گویا ایسے بھی ہیں جو صداقت اور راستی سے اس راستہ پر چلتے چلے جاتے ہیں، جس کو انہوں نے اختیار کیا.مگر بعض ایسے بھی ہیں جن سے اس راستہ میں کوتاہیاں سرزد ہوئیں.مگر بہر حال ہمارا فرض یہی ہے کہ جس کام کی ذمہ داری خدا نے ہم پر ڈالی ہے، ہم اسے کئے جائیں اور راستہ کی مشکلات اور صعوبتوں سے نہ گھبرائیں.سپاہی کا کام یہ نہیں ہوتا کہ وہ فتح پا کر لوٹے ، فتح خدا کے اختیار میں ہوتی ہے.سپاہی کا کام لڑنا ہوتا ہے.چاہے لڑائی میں اسے فتح حاصل ہو یا لڑتا لڑتا مارا جائے.پس فتح میرے اختیار میں نہیں.جس چیز کی میرے خدا نے مجھے مقدرت دی ہے، وہ یہ ہے کہ میں اس کے فضل سے اس لڑائی کو جاری رکھوں، یہاں تک کہ موت آجائے یا اس لڑائی کے نتیجہ میں فتح حاصل ہو جائے.عواقب کا مجھے خیال نہیں، نتیجہ کی مجھے پروا نہیں.یہ خدا کی چیز ہے اور اس کا ذمہ دار وہ آپ ہے.مجھے صرف اس امر کا خیال ہے کہ میں اور دوسرے لوگ جنہوں نے اس لڑائی میں حصہ لیا ہے، ایسی دیانتداری کے ساتھ اپنے فرض کو ادا کریں کہ ہم خدا سے یہ کہہ سکیں کہ اے خدا! ہم تیرے جلال کے اظہار اور تیرے دین کے غلبہ کے لئے اپنی ہر ممکن کوشش صرف کرتے رہیں ہیں.اب ہماری کوششوں کا انجام تیرے ہاتھوں میں ہے تو اپنے فضل سے ہمارے غلبہ کے سامان پیدا فرما دے.میرا یہ مطلب نہیں ا کر ممکن ہے ہمیں کبھی شکست ہو جائے.یہ قطعی طور پر ناممکن ہے.مگر پھر بھی یہ میں کہتا ہوں کہ ہمارے دل کے کسی گوشہ میں بھی یہ خیال نہیں آنا چاہئے کہ ہم فتح حاصل کرنے کے لئے لڑ رہے ہیں.ہم صرف اس لئے لڑ رہے ہیں کہ اپنا حق ادا کر دیں اور اس عہد کو پورا کر دیں، جو ہم نے اپنے خدا سے کیا ہے.باقی اس ا کے نتائج اگر ہماری زندگی میں نکلیں تو ہم اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھ لیں گے اور اگر زندگی میں نہ نکلے تو ہماری موت کے بعد خدا کا منشاء پورا ہو جائے گا.اور مجاہد ہونے کا جو ثواب ہمیں خدا نے عطا کرنا ہے ، وہ اس کی بارگاہ سے ہمیں آخرت میں مل جائے گا.بہر حال آج اس تحریک کے مالی مطالبات کا آٹھواں سال شروع ہوتا ہے اور میں اس خطبہ کے ذریعہ اس کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں.سات سال تحریک جدید پر گزر چکے ہیں اور اب آٹھواں سال شروع ہوتا ہے.میں نے اس تحریک کا دس سال تک اعلان کیا تھا.جس میں سے سات سال گزر چکے 119
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 نومبر 1941ء تحریک جدید - ایک انہی تحریک جلد دوم ہیں.گویا دو تہائی سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے اور اب ایک تہائی سے بھی کم وقت باقی رہ گیا ہے.پس اب اس حصہ عمل کی منزل خدا تعالیٰ کے فضل سے قریب آگئی ہے.گو مومن کا عمل دنیا میں کبھی ختم نہیں ہوتا.وہ لوگ جو اپنے آگے نکل جانے والے بھائیوں سے سات سال پیچھے رہ گئے ہیں.اگر ان کے دلوں میں ایمان پایا جاتا ہے تو آج وہ کس حسرت سے یہ دیکھ رہے ہوں گے کہ قافلہ سات سال آگے نکل گیا اور ہم پیچھے رہ گئے.آج انہیں خیال آتا ہو گا کہ ان سات سالہ قربانیوں کے نتیجہ میں یہ لوگ مرے تو نہیں، یہ لوگ تباہ اور بر باد تو نہیں ہوئے ، دنیوی لحاظ سے بھی ان کے گزارہ میں کوئی خاص مشکلات تو پید انہیں ہوئیں.پس آج ان کے دلوں میں کس قدر حسرت پیدا ہو رہی ہوگی کہ ہم قافلہ میں شامل نہیں ہوئے اور وہ سات سال آگے نکل گیا.مگر وہ لوگ جو اس تحریک میں شامل ہوئے ، آج خوش ہیں کیونکہ ان کی منزل ان کے قریب تر ہو گئی ہے.لیکن ان لوگوں کی اس حسرت کا علاج میرے پاس کوئی نہیں.ہاں ! ان لوگوں پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، جو ابتدا سے اس تحریک میں شامل رہے ہیں کیونکہ اگر وہ اپنی غفلت اور کوتاہی سے سرے پر پہنچ کر گرے جائیں گے تو یہ بہت بڑے افسوس کا مقام ہوگا.کسی شاعر نے کہا ہے:.قسمت میری دیکھیے ٹوٹی کہاں کمند دو چار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا پس بے شک ان لوگوں کو بھی بڑی حسرت ہوگی جو اس سفر میں شریک نہیں ہوئے اور پیچھے رہ گئے ہیں.وہ آج اپنے ارد گرد نظر ڈالتے ہوں گے تو خیال کرتے ہوں گے کہ اس تحریک میں شامل ہونا کون سی بڑی بات تھی ؟ مگر اس سے بھی زیادہ حسرت اس شخص کو ہوتی ہے جو لب بام پہنچ کر گر جائے.وہ تو یہ خیال کر رہا ہو کہ اب میں صرف ہاتھ اوپر کروں گا تو چھت پر پہنچ جاؤں گا مگر عین اس وقت رسی ٹوٹے اور وہ نیچے گر جائے اور پھر نا کامی کا منہ دیکھنے لگ جائے.اس پیاسے کو بھی بڑی تکلیف ہوتی ہے جسے پانی نہ ملے مگر اس شخص کو تو بہت ہی تکلیف ہوتی ہے جو پانی پینے کے لئے آبخورا اپنے منہ سے لگالے اور اچانک کوئی دوسرا اس سے آبخورا چھین کر لے جائے.پس وہ لوگ جنہوں نے اس میدان میں اپنا قدم آگے بڑھایا ہوا ہے اور جو گذشتہ سات سال سے قربانی کرتے چلے آرہے ہیں، میں ان کو بتاتا ہوں کہ ان کے لئے یہ بہت نازک ایام ہیں.اب ایک لمبے عرصے کا بھیانک خیال کہ ہمیں دس سال مسلسل قربانی کرنی پڑے گی ، ان کے دلوں سے جاتا رہا ہے اور اب وہ زمانہ آ گیا ہے جس کے متعلق ان کے ذہن میں 120
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 نومبر 1941ء یہی آسکتا ہے کہ اب اکثر حصہ گزر چکا ہے اور منزل قریب آگئی ہے.آج اس منزل میں تین سال کا عرصہ باقی رہتا ہے.پھر جن کو خدا تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی اور زندگی دی، انہیں ایک سال گزرنے کے بعد دو سال باقی نظر آئیں گے اور جنہوں نے دو سال گزار لئے ، انہیں صرف ایک سال جو آخری سال ہوگا ، دکھائی دے گا اور پھر اس ایک سال کے بعد وہ دن آئے گا جب تمام سال گزر چکے ہوں گے.تب ان کا دل خوشیوں سے معمور ہو گا اور وہ اس بات پر خدا تعالیٰ کا شکر بجالائیں گے کہ اس نے اپنے فضل سے انہیں اس لمبی قربانی میں شمولیت کی توفیق عطا فرمائی مگر وہ لوگ ، جنہوں نے دس سال پہلے اس تحریک میں شمولیت کے لئے قدم نہیں اٹھایا ہو گا، ان کے دل حسرت و اندوہ سے بھر جائیں گے.اس تحریک کے پہلے تین سالوں میں جماعت نے بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا.اس کے بعد جب اسے دس سال میں پھیلا دیا گیا تو میں نے اس قدر زور نہ دیا اور نہ جماعت نے اس تیز گامی کو قائم رکھا، جو پہلے سالوں میں تھی.میں نے یہ سمجھا کر کہ ہر تحریک میں قبض و بسط کا زمانہ ہوتا ہے.ان درمیانی چار سالوں کو قبض کا زمانہ ہی سمجھ لو.چنانچہ میں نے ایسے قانون بنا دیئے جن کے نتیجہ میں ہر سال چندہ میں معمولی زیادتی کر کے بھی انسان سابقون میں شامل ہو سکتا ہے.مثلاً میں نے کہا کہ اگر کسی نے پہلے سال روپے دیئے ہوں تو دوسرے سال وہ پانچ روپے ایک پیسہ، تیسرے سال پانچ روپے تین پیسے دے سکتا ہے اور میں نے چندہ میں خاص طور پر زیادتی کرنے کا متعلق زور نہ دیا لیکن اب جب کہ 2/3 حصہ سے زیادہ گزر چکا ہے، میں آٹھویں سال کی تحریک کا اعلان کرنے کے ساتھ پھر جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اب تین سالوں میں پھر سابقون کی سی تیز گامی اختیار کریں.اب منزل قریب آرہی ہے اور قربانی کے ان با برکت ایام کا دوبارہ میسر آنا ان کے لئے بہت مشکل ہوگا کیونکہ اس قسم کی تحریک بہت کم ہوتی ہے اور بہت ہی نازک دوروں میں ہو سکتی ہے.شاید اللہ تعالیٰ اس عرصہ میں جنگ کا خاتمہ کر دے اور اسی عرصہ میں ایسے حالات پیدا کر دے جو اسلام اور احمدیت کے لئے مفید ہوں اور پھر ہمیں اس قسم کے چندوں کی ضرورت نہ رہے.اس وقت خواہ کوئی شخص کتنی بڑی مالی قربانی کرے گا اور خواہ دس لاکھ سلسلہ کے سامنے لا کر رکھ دے گا.اس روپے کا وہ ثواب اسے نہیں ملے گا، جو آج چند روپے دینے والوں کومل سکتا ہے.پس میں ان آخری تین سالوں کی تحریک میں سے پہلے سال کی تحریک کرتے ہوئے، پھر دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ بیدار ہو جائیں اور سمجھ لیں کہ ان کی منزل قریب آگئی ہے.اب کسی لمبی قربانی کا سوال نہیں بلکہ صرف تین سال قربانی کرنے کا مطالبہ ہے.اس لئے وہ صرف اتنی کوششیں نہ 121
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 نومبر 1941ء تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد دوم کریں، جو انہیں قربانی کے کم سے کم معیار پر رکھیں بلکہ تین سال کا عرصہ چونکہ نہایت محدود عرصہ ہے اور جلدی ختم ہو جانے والا ہے.اس لئے ان کو چاہئے کہ وہ زیادہ زور اور زیادہ ہمت سے کام لیں اور اس سال پھر وہ اپنی قربانی کی رفتار کو بڑھاویں.جیسے دن ڈوبتے وقت گھر کا کام کرنے والا مزدور زیادہ محنت سے کام کرتا ہے.اجرت پر کام کرنے والا مزدور تو سارا دن ہی سستی سے کرتا ہے.مگر جن کے اپنے گھر کا کام ہو، وہ جب دیکھتے ہیں کہ سورج غروب ہونے والا ہے تو زیادہ تن دہی اور زیادہ محنت سے کام کرنے لگ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب تو دن ڈوبنے والا ہے.اب ہمیں زیادہ محنت سے کام کر کے اسے جلدی ختم کر دینا چاہئے.اس طرح اب تحریک کا دن بھی ڈوبنے والا ہے یعنی وہ کام ختم ہونے والا ہے، جس میں شمولیت کی جماعت کے دوستوں کو تحریک کی جا رہی تھی.ورنہ یوں قربانیاں کبھی ختم نہیں ہوسکتیں، وہ جاری رہیں گی اور کسی نہ کسی صورت میں جماعت سے ان قربانیوں کا مطالبہ ہمیشہ ہو تا رہے گا.اس وقت سوال ایک معین قربانی کا ہے اور یہ قربانی تین سال کے بعد ختم ہو جائے گی.پس جس طرح دن ڈوبتے وقت مزدور زیادہ محنت سے کام کرنے لگ جاتا ہے، اسی طرح چونکہ تحریک کے مالی قربانی کے حصہ کا دن اب ڈوبنے والا ہے.اس لئے پہلے سے بھی زیادہ زور سے کام کرو تا کہ شام سے پہلے کام ختم ہو جائے.دنیا میں جب یہ انسان سمجھتا ہے کہ وہ اب اپنی زندگی کے آخری لمحات میں سے گذر رہا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کی زیادہ کوشش کیا کرتا ہے.اسی طرح ان تین سالوں میں خدا تعالیٰ کو جس قدر خوش کرنا چاہتے ہو، خوش کر لو کہ نا معلوم پھر ایسا موقع میسر آئے یا نہ آئے.میں نے جماعت کے دوستوں کو بار ہا بتایا ہے کہ اس سرمایہ سے ایک بہت بڑی جائیداد پیدا کی جارہی ہے، جس کی آمد تحریک جدید کے اغراض اور اشاعت دین پر صرف کی جارہی ہے.پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ تحریک جدید کی میعاد ختم ہوتے ہی یہ جائیداد کی طور پر آزاد ہو جائے.اس جائیداد کو ہم نے اقساط پر خریدا ہوا ہے اور تمام اقساط کی ادائیگی اسی صورت میں ہوسکتی ہے ، جب پھر ہماری جماعت کے تمام دوست کمر ہمت کس کر کھڑے ہو جائیں اور ان تین سالوں میں زیادہ سے زیادہ مالی قربانی کا نمونہ پیش کریں.وعدوں کے لحاظ سے بھی اور پھر ان کو بروقت پورا کرنے کے لحاظ سے بھی.میں نے اس تحریک میں جیسا کہ میں نے بتایا ہے، بعض قواعد مقرر کئے تھے اور میں نے کہا تھا کہ جو چندہ کوئی شخص پہلے سال دے، اس پر ہر سال اگر معمولی زیادتی بھی کرتا چلا جائے تو وہ سابقون میں شامل ہو جائے گا.میں سمجھتا ہوں میری اس تحریک پر قریباً ہر احمدی نے اپنے چندے کو اس رنگ میں بدل دیا ہے کہ وہ اپنے چندہ 122
تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 نومبر 1941ء میں ہر سال کچھ نہ کچھ اضافہ کرتا ہے گو وہ اضافہ کیسا ہی معمولی کیوں نہ ہو.اور اگر بعض نے ابھی تک اس کو رنگ میں اپنے چندوں کو نہیں بدلا تو میں خیال کرتا ہوں کہ وہ اب بدل دیں گے اور انہی لوگوں کی لسٹ میں آنے کی کوشش کریں گے جو ہر سال پہلے سال سے اضافہ کے ساتھ چندہ پیش کرتے ہیں.مگر بعض لوگوں نے اس کے مفہوم کے سمجھنے میں سخت غلطی کی ہے اور انہوں نے اس قانون سے ایسے رنگ میں فائدہ اٹھانا چاہا ہے جو سیج نہیں.یعنی انہوں نے اتنے الفاظ کو تو لے لیا کہ ہر دفعہ چندہ بڑھا دیا جائے مگر انہوں نے اس امر کو مد نظر نہیں رکھا کہ ان کا چندہ قربانی والا چندہ ہے یا نہیں.مثلاً ہماری جماعت میں بعض ایسے لوگ پائے جاتے ہیں، جن کی آمد سویا ڈیڑھ سوروپے ماہوار ہے مگر انہوں نے پہلے سال کا چندہ پانچ روپے دیا ہے، دوسرے سال انہوں نے پانچ روپے ایک آنہ دے دیا، تیسرے سال انہوں نے پانچ روپے دو آنے دے دیئے اور چوتھے سال انہوں نے پانچ روپے تین آنے دے دیئے.اب بظاہر تو وہ بھی سابقون میں شامل ہیں اور دسویں سال پانچ روپے نو آنے چندہ دے کر سابقون کی لسٹ میں شامل ہو جائیں گے، جو ہم تیار کریں گے.مگر اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ان کی قربانی کی کیا حقیقت ہے؟ یہ لوگ بظاہر بڑھا کر چندہ دینے والے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی نگاہ میں بڑھا کر دینے والے نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ اپنی سالانہ آمد کا ایک فیصدی چندہ میں دیتے ہیں، جو ایک نہایت ہی ادنیٰ قربانی ہے.اب تو ہم نے سینما دیکھنے کی ممانعت کی ہوئی ہے.لیکن اس سے پہلے یہی سواور ڈیڑھ سوروپے ماہوار آمد رکھنے والے سال بھر میں پانچ دس روپے سینمادیکھنے پر ہی خرچ کر دیا کرتے تھے.پھر کئی چھوٹی چھوٹی چیزیں ہوتی ہیں جن پر وہ اس سے بہت زیادہ روپے خرچ کر دیا کرتے ہیں.مگر جب اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کا سوال آتا ہے تو وہ پانچ یا دس روپے سے زیادہ قربانی نہیں کر سکتے.ایسے لوگوں کو میں بے شک قاعدہ کی رو سے کچھ نہیں کہہ سکتا مگر ان کے تقویٰ کی طرف ان کو توجہ دلاتا ہوں.بیشک ظاہری طور پر وہ اپنا چندہ زیادہ کرنے والے تو ہیں لیکن وہ سوچیں کہ کیا خدا تعالیٰ کی نگاہ میں بھی اعلیٰ درجہ میں شامل ہیں؟ جب وہ سینما پر اس سے زیادہ خرچ کر دیا کرتے تھے ، جب وہ گھر کی اور بیسیوں چھوٹی چھوٹی ضروریات پر اس سے بہت زیادہ روپیہ خرچ کر دیا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے حضور ان کی یہ قربانی کس طرح قبول کی جاسکتی ہے، جو ادنیٰ سے ادنی قربانی ہے؟ درحقیقت وہی لوگ قربانی کرنے والے ہیں، جو قربانی کے بوجھ کو محسوس کریں لیکن اگر کوئی شخص سو یا ڈیڑھ سوروپے ماہوار آمد رکھتا ہو اور وہ پانچ روپے خدا تعالیٰ کے رستہ میں دے دے تو کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اس نے ایسی مالی قربانی کی ہے جس کے بوجھ کو اس نے محسوس کیا ہے؟ اس کے 123
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 نومبر 1941ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم معنی تو یہ ہیں کہ وہ سو یا ڈیڑھ سوروپیہ ماہوار لے کر سات آنے ماہوار کی قربانی کرتا ہے، حالانکہ اس سے زیادہ وہ اپنی چوڑھی کو دے دیتا ہے مگر باوجود اس کے کہ وہ خدا تعالیٰ کے سامنے وہ چیز پیش کرتا ہے، جو اس کا چوڑھا بھی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا.وہ خدا تعالیٰ کے سامنے وہ چیز پیش کرتا ہے، جو اس کا دھوبی بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہوسکتا.پھر بھی وہ سمجھتا ہے کہ اس کا نام خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں ان لوگوں میں لکھا ہونا چاہئے ، جنہوں نے اس کا قرب حاصل کیا اور جن پر اس کے غیر معمولی فضل نازل ہوں گے.تو یہ ایک بڑی بھاری غلطی ہے، جو بعض دوستوں کو لگی ہوئی ہے کہ انہوں نے پہلے سال کا چندہ اپنی استطاعت سے بہت کم دے کر اسے بڑھانا شروع کر دیا.حالانکہ یہ رعایت صرف ان لوگوں کے لئے تھی جنہوں نے پہلے تین سالوں میں بہت زیادہ چندہ دے دیا تھا اور اب ان کے لئے اسی نسبت سے مسلسل دس سال تک قربانی کرتے چلے جانا مشکل تھا.پس ایسے لوگ جنہوں نے اپنی تمام کی تمام پونچی پہلے سال یا ابتدائی تین سالوں میں دے دی تھی ی وہ لوگ جنہوں نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر چندہ دے دیا تھا.ان کو آئندہ اس تحریک میں شامل رکھنے کے لئے ضروری تھا کہ ان سے رعایتیں کی جاتیں تا کہ وہ لوگ جنہوں نے قربانی کا نہایت اعلیٰ نمونہ دکھایا تھا، وہ اپنی مجبوری کی وجہ سے دوسروں سے پیچھے نہ رہ جائیں.مگر اس سے ان لوگوں کا فائدہ اٹھا لینا جو اپنی حیثیت اور مالی وسعت کے مقابلہ میں بہت کم قربانی کر رہے ہیں، یہ انسانوں کی نگاہ میں تو بے شک اچھا بن جانے والی بات ہے مگر خدا تعالیٰ کی نگاہ میں انہیں اچھا نہیں بنا سکتی.جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس چندہ میں حصہ لینے والے وہ لوگ بھی تھے، جنہوں نے ایک سال میں دو دو ماہ کی آمد دے دی تھی.اسی طرح اس میں ایسے بھی لوگ شامل تھے، جنہوں نے اپنا تمام اندوختہ دے دیا تھا.ان لوگوں کے ساتھ میں نے یہ رعایت کر دی تھی کہ چونکہ وہ اپنا سارا اندوختہ دے چکے ہیں یا اپنی حیثیت سے بڑھ کر مالی قربانی کر چکے ہیں،اس لئے ان کے چندوں کو یا تو باقی سالوں میں پھیلا لیا جائے یا پھر پہلے سال انہوں نے جس قدر چندہ دیا تھا، اسی قدر چوتھے سال دے دیں اور پھر ہر سال اس میں زیادتی کرتیں چلے جائیں.مگر ان کے علاوہ ہماری جماعت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی ایک ماہ کی آمد سے زیادہ کا چندہ دیتے ہیں بلکہ ایسے بھی ہیں جو قریباً دو ماہ کی آمد کے برابر اس میں چندہ دیتے ہیں.اسی طرح بعض اپنی ماہوار آمد کا نوے فیصدی چندہ دیتے ہیں، بعض اپنی آمد کا اسی فیصدی چندہ دیتے ہیں، بعض اپنی ماہوار آمد کا ستر فیصدی چندہ دیتے ہیں اور بعض اپنی آمد کا ساٹھ فیصدی چندہ دیتے ہیں اور بعض اپنی ماہوار آمد 124
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم رو.اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 نومبر 1941ء کا پچاس فیصدی چندہ دیتے ہیں.مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے بعض لوگ ایسے ہیں، جنہوں نے صرف پانچ وپے چندہ دے کر اسے بڑھانا شروع کر دیا اور سمجھ لیا کہ وہ سابقون میں شامل ہو گئے ہیں.ایسے لوگوں کی اگر سور و پیہ ماہوار آمد ہے اور وہ پانچ روپیہ چندہ دیتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ بارہ سور و پیہ سالانہ آمد پر صرف پانچ روپے چندہ دیتے ہیں.اگر وہ فی سینکڑہ صرف آٹھ آنے چندہ دیتے تب بھی چھ روپے بنتے مگر وہ پانچ روپے دیتے ہیں ، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک سور و پی آمد کے مقابلہ میں آٹھ آنے کی بھی قربانی نہیں کرتے اور اگر کسی کی ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار آمد ہے اور وہ صرف پانچ روپے چندہ دیتا ہے تو اس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ وہ ڈیڑھ سو لے کر صرف تین چار آنے خدا تعالیٰ کو دیتا اور پھر اس کا نام قربانی رکھتا ہے.حالانکہ ادنیٰ سے ادنی کاموں پر بھی اگر کوئی شخص تین چار آنے خرچ کر دے تو وہ اسے قربانی نہیں کہتا.عام انسانی ضروریات پر ہی ہر شخص اس سے بہت زیادہ خرچ کر دیا کرتا ہے.اسی طرح صدقہ خیرات کے طور پر انسان ماہوار اس سے بھی زیادہ خرچ کر دیتا ہے مگر کبھی اس کا نام قربانی نہیں رکھتا.کجا یہ کہ وہ عظیم الشان قربانی جس سے اشاعت دین کے لئے ایک مستقل بنیا د رکھی جانے والی ہے.اس میں ایک شخص سو یاڈیڑھ سوروپیہ ماہوار آمد رکھتے ہوئے اتنا قلیل حصہ لے اور پھر یہ خیال کرے کہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور سابقون میں شمار کیا جائے گا.ایسے لوگوں میں بالعموم وہ ہیں، جو بعد میں شامل ہوئے.اگر وہ اس طرح نام کی قربانی کرنے کی بجائے یہ خیال کرتے کہ ہم بعد میں شامل ہوئے ہیں ہمیں زیادہ زور دینا چاہئے تاکہ پہلوں کے برابر ہو سکیں تو یہ ان کے لئے اچھا ہوتا.بے شک اکٹھا چندہ دینا ان کے لئے مشکل امر تھا.مگر وہ یہ کر سکتے تھے کہ اپنے گذشتہ چندہ کو اگلے سالوں میں پھیلا کر ادا کرتے اور اگر پھر بھی بوجھ ان کی طاقت سے بالا ہوتا تو تحریک کے سالوں کے بعد ایک دو سال میں اسے ادا کر دیتے کیونکہ آخر وہ بعد میں شامل ہوئے تھے اور یہ حق ان کو مل سکتا تھا کہ گذشتہ چندہ کو بعد کے سالوں میں پھیلا دیتے.بہر حال قربانی وہی کہلا سکتی ہے، جو واقعہ میں قربانی ہو.اب جب کہ صرف تین سال تحریک جدید کے رہ گئے ہیں، میں ایسے لوگوں کو بھی ان کی غلطی کی اصلاح کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اب بھی اپنے چندوں کو درست کر لیں.جس کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ وہ گذشتہ چندے آئندہ سالوں میں پھیلا کر ادا کر دیں.تحریک جدید کی میعاد کے اختتام پر ان کے ذمہ جو بقایا رہ جائے گا، اسے وہ بعد کے دو تین سالوں میں ادا کر سکتے ہیں.بہر حال انہیں اپنی اصلاح کرنی چاہئے اور اس غلطی کی تلافی کی کوشش کرنی چاہئے.125
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 نومبر 1941ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم میں ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں ، جواب تک اس تحریک میں شامل نہیں ہوئے اور ان سے کہتا ہوں، خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.الَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ (الحدید: ۱۷) یعنی کیا مومنوں کے لئے وہ وقت نہیں آیا کہ خدا کے ذکر کے لئے ان کے دل جھک جائیں؟ صوفیاء نے لکھا ہے کہ ایک بزرگ تھے، جن کے ہمسایہ میں ایک سخت او باش اور آوارہ مزاج امیر آدمی رہتا تھا.اس کی مجلس میں ہر وقت ناچ اور گانا بجانا ہوتا رہتا تھا.شراب نوشی کا دور بھی چلتا رہتا.چونکہ لوگوں کے اخلاق پر اس کا بہت برا اثر پڑ رہا تھا ، اسلئے انہوں نے اس امیر آدمی کو بار ہا رو کا مگر وہ اپنے فعل سے باز نہ آیا.ایک دن وہ کہتے ہیں.میں مکہ کا حج کر رہا تھا، میں نے سامنے سے اس امیر شخص کو آتے دیکھا اور اس کے چہرے سے اس قدر انکسار اور فروتنی ظاہر ہورہی تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ روحانیت سے گداز ہو چکا ہے.چونکہ انہیں اس شخص سے جدا ہوئے مدت ہو چکی تھی.اسلئے وہ اس سے ملے اور کہنے لگے میں تم میں یہ کیا تبدیلی دیکھتا ہوں؟ تم کو تو گانے والی لڑکیوں ، شراب نوشی کے دور اور رقص وسرور کی محفلوں میں بیٹھا ہوا ہونا چاہئے تھا اور میں تو سمجھتا تھا کہ تمہاری ہدایت بالکل ناممکن ہے کیونکہ میں نے تم کو بڑے بڑے وعظ کئے تھے.تمہیں خدا نے کس طرح ہدایت دے دی؟ وہ کہنے لگا.آپ بالکل سچ کہتے ہیں.مجھے آپ نے بھی وعظ کئے اور دوسرے واعظوں نے بھی مجھے بہت سمجھایا مگر کسی وعظ کا مجھ پر اثر نہ ہوا، یہاں تک کہ وہ سمجھا سمجھا کر تھک گئے.ایک دن میں اپنے کوٹھے پر بیٹھا تھا، بزم طرب لگی ہوئی تھی، خوبصورت حسین عورتیں گانا گا رہی تھیں اور شراب کا دور چل رہا تھا کہ نہ معلوم خدا کا کون سا بندہ میرے لئے فرشتہ رحمت بن گیا.وہ میرے مکان کی قریب کی گلی میں سے گزر رہا تھا اور یہ آیت پڑھتا جاتا تھا کہ اَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ (الحدید: ۱۷) ارے مومنوں ! کیا وہ وقت نہیں آیا کہ تمہارے دل خدا کے ذکر کے لئے جھک جائیں؟ جس وقت اس نے یہ آیت پڑھی، مجھے یوں محسوس ہوا کہ یہ آیت ابھی نئے سرے سے نازل ہوئی ہے.ایک دم میری چیخ نکل گئی ، شراب کا گلاس میرے ہاتھوں سے گر گیا اور میں تو بہ کر کے نیک اعمال بجالانے کی طرف متوجہ ہو گیا.126
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 نومبر 1941ء اس آیت میں جو ذکر اللہ کا لفظ آیا ہے، اس کے معنی صرف منہ سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کا نہیں بلکہ وہ خالی ذکر جس کے ساتھ عمل نہ ہو، انسان کے لئے عذاب کا موجب ہو جاتا ہے.اصل ذکر اللہ یہی ہے کہ انسان منہ کے ساتھ عملاً بھی ذکر الہی کرے اور دین کی ترقی کے لئے وہ قربانیاں کرے، جن کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا ذکر بلند ہو.ایک شخص جو منہ سے ذکر الہی کرتا ہے مگر اپنے عمل سے خدا تعالیٰ کے ذکر کو بلند کرنے کے لئے کوئی قربانی نہیں کرتا ، وہ ہرگز ذکر الہی کرنے والا قرار نہیں پاسکتا.پس جو لوگ اس تحریک میں اب تک شامل نہیں ہوئے ، میں ان سے بھی کہتا ہوں کہ الَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ (الحدید: ۱۷) کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل خدا تعالیٰ کے ذکر کو بلند کرنے کی اہمیت محسوس کریں اور اس ذکر اللہ کی طرف جلدی سے اپنا قدم بڑھائیں ؟ قافلہ اب منزل کے قریب پہنچ رہا ہے، کیا اب بھی ان کے دلوں میں حسرت پیدا نہیں ہوتی ، کیا اب بھی ان کے دلوں میں جوش پیدا نہیں ہوتا اور کیا اب بھی ان کے دلوں میں یہ خواہش پیدا نہیں ہوتی کہ وہ اپنی گذشتہ کوتاہیوں کا ازالہ کر کے اپنے آگے بڑھنے والے بھائیوں کیساتھ شامل ہو جا ئیں؟ میں ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں، جو گو پہلے چندہ دیتے رہے ہیں لیکن انہوں نے اس قدر قربانی نہیں کی جس قدر کے ان کہ دوسرے بھائی کرتے رہے ہیں کہ وہ ان تین سالوں سے فائدہ اٹھا کر معمولی زیادتی کی جگہ خاص زیادتی کے ساتھ ان تین سالوں میں حصہ لیں تا کہ ان کا انجام اعلیٰ درجہ کے لوگوں والا ہواور خواتیم اعمال کے مطابق ہی انسان کا درجہ ہوتا ہے.پس اب بھی وقت ہے کہ جو دوست پہلے کم چندہ دیتے رہے ہیں یا انہوں نے قربانی کے مقام کو صیح طور پر نہیں سمجھایا ان دوستوں کی قربانی اور عمل کو دیکھ کر جن کے حالات ان سے زیادہ اچھے نہیں مگر قربانی انہوں نے ان سے زیادہ کی ہے، اب ان کے اندر بھی یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ انہیں زیادہ قربانی کرنی چاہئے تھی ، وہ اپنی اصلاح کی طرف توجہ کریں اور آئندہ ان تین سالوں میں زیادہ قربانیاں کر کے اس آخری دور میں اپنے آپ کو آگے نکالنے کی کوشش کریں.میں ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں، جو اخلاص کے ساتھ اس میں حصہ لیتے رہے ہیں کہ اب یہ دور ختم ہونے والا ہے، وہ تھکیں نہیں اور جو مقام اللہ تعالیٰ نے ان کو سات سال تک دیا ہے، اسے قائم رکھنے کی کوشش کریں اور اسے مضبوطی سے پکڑ لیں.تم اپنے ماں باپ کی جائیداد کسی کو چھینے نہیں دیتے تم اپنا مال 127
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 نومبر 1941ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم کو چھینے نہیں دیتے تم اپنا عہد کسی کو چھینے نہیں دیتے ، پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایمان کے ہوتے ہوئے تم اپنا اعلیٰ روحانی مقام دوسرے کو چھینے دو گے؟ میں ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں، جواب احمدیت میں داخل ہوئے ہیں کہ وہ بھی اس تحریک میں شامل ہو کر اپنے بھائیوں سے آملیں.جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں وہ اپنے سابق سالوں کا چندہ نئے سالوں کے ساتھ ادا کر دیں بلکہ اگر ان پر زیادہ بوجھ ہو تو تحریک کے ایک دو سال بعد ادا کر سکتے ہیں.میں ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں ، جن کو خدا تعالیٰ نے نوکریاں دی ہیں.سینکڑوں اور ہزاروں ایسے لوگ ہیں جن کو فوجی کاموں کی وجہ سے ملازمتیں ملی ہیں اور اس طرح خدا تعالیٰ نے ان کے لئے دنیوی فضل کا دروازہ کھولا ہے.وہ اس روحانی دنیا کے لئے بھی کھولنے کی کوشش کریں اور اس کے شکریے میں ایسی قربانیاں کریں، جو انہیں روحانی فضلوں کا وارث کر دیں.وہ جلد سے جلد ان کو پورا کرنے کی کوشش کریں تا کہ ان کی قربانی سے سلسلہ کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے.چاہئے کہ جو دوست سابقون میں شامل ہونا چاہیں، وہ مارچ تک اپنے چندے ادا کر دیں.جن سے یہ نہ ہو سکے، ان کے لئے دوسرا دور جولائی کے آخر تک ہے.وہ جولائی کے آخر تک اپنے چندے ادا کر دیں اور جن سے یہ بھی نہ ہو سکے ، وہ اگلے سال کے نومبر کے آخر تک اپنے چندے ادا کر دیں.میں ان کو بھی جواب تک سابق سال کا چندہ ادا نہیں کر سکے توجہ دلاتا ہوں کہ ان سے جو کوتاہی ہو چکی ہے.اس کا دسمبر اور جنوری کے مہینہ میں ازالہ کرنے کی کوشش کریں اور دسمبر اور جنوری میں اپنا چندہ ادا کر دیں تا کہ نیا سال انہیں وعدہ کے ایفاء میں اور بھی پیچھے نہ ڈال دے.میں ان کارکنوں کو بھی ، جنہوں نے تحریک جدید کے کاموں کو اپنے ذمہ لیا ہوا ہے، توجہ دلاتا ہوں کہ ان کو خدا تعالیٰ نے بہت بڑے ثواب کا موقع دیا ہے.وہ بھی بیدار ہوں اور اپنے مقام کی عظمت کو سمجھیں.انہیں خدا تعالیٰ نے دوہرے بلکہ تہرے ثواب کا موقع عطا کیا ہوا ہے کیونکہ وہ اس چندہ میں خود بھی شامل ہوتے ہیں اور دوسروں سے بھی چندہ وصول کرتے ہیں.پس انہیں صرف اپنے چندے کا ہی ثواب نہیں ملتا بلکہ دوسروں سے چندہ وصول کرنے کا بھی ثواب ملتا ہے.اور یہ وہ امر ہے جس کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ فرما چکے ہیں.چنانچہ آپ نے فرمایا:.شخص نیکی کرتا ہے، اسے بھی ثواب ملتا ہے اور جو دوسرے کو نیکی کی تحریک کرے، اسے دو ہرا ثواب ملتا ہے.ایک خود نیکی کرنے کا اور دوسرائیکی کی تحریک کرنے کا.128
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 نومبر 1941ء اسی طرح تحریک جدید کا جو کارکن اپنا چندہ ادا کرنے کے علاوہ دس آدمیوں سے چندہ وصول کر کے بھجواتا ہے.اسے ان دس آدمیوں کا ثواب ملتا ہے.جب اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے دروازوں کو اس طرح کھول رکھا ہے تو جو شخص اب بھی ستی سے کام لیتا ہے.اس کی حالت کس قدر افسوسناک ہے.پس میں تحریک جدید کے کارکنوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ دسمبر کی ہیں تاریخ تک اپنی چندوں کی فہرستیں مرتب کر کے بھجواد میں اور جو کام باقی رہ جائے ، اس کی تاریخ 31 جنوری تک ہوگی.کیونکہ جلسہ سالانہ کے بعد اپنے گھروں کو جا کر لوگ 15-10 جنوری سے کام شروع کرتے ہیں.پس پنجاب اور دوسرے علاقوں کے لئے جہاں اردو بولی اور سبھی جاتی ہے.وعدے بھیجنے کی آخری تاریخ 31 جنوری ہے.مگر وہ لوگ یقیناً ہمارے کام میں سہولت پیدا کرنے والے ہوں گے، جن کے وعدے ہیں دسمبر تک آجائیں گے.جن علاقوں میں اردو زبان نہیں بولی جاتی.مثلاً بنگال ہے یا مدارس ہے یا اسی طرح غیر زبان بولنے والے اور صوبہ جات ہیں، ان کے وعدوں کی آخری معیاد 30 اپریل ہے.اسی طرح ہندوستان کے باہر دوسرے ممالک میں رہنے والے ہندستانیوں کے لئے بھی 30 اپریل آخری تاریخ ہے.البتہ غیر ملکی لوگوں کے لئے جیسے امریکہ وغیرہ کے رہنے والے ہیں ، 30 جون تک وعدوں کی معیاد ہے.میں امید کرتا ہوں کہ جماعت کے دوست اس تحریک کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ، اس میں حصہ لیں گے.یادرکھو، دنیا میں وہی تو میں ترقی کیا کرتی ہیں، جو اپنا قدم ہمیشہ آگے بڑھاتی ہیں.اگر گندم کو ترقی دے کر اسے آگے بڑھایا جاسکتا ہے، اگر سبزیوں اور ترکاریوں کو ترقی دے کر انہیں بڑھایا جا سکتا ہے، اگر آموں کو ترقی دے کر انہیں بڑھایا جاسکتا ہے، اگر گھوڑوں ، گدھوں ، بیلوں اور بکریوں کو ترقی دے کر انہیں بڑھایا جاسکتا ہے تو سوچو کہ خدا تعالیٰ کی اشرف المخلوق کو ترقی دے کر کیوں بڑھایا نہیں جا سکتا ؟ یقینا جس طرح اور چیزیں ترقی کر رہی ہیں، اسی طرح بنی نوع انسان بھی ترقی کر سکتے ہیں اور وہ اپنے روحانی کمالات سے دنیا کو موحیرت کر سکتے ہیں.بالخصوص ہماری جماعت تو وہ ہے، جسے خدا نے ترقی کے لئے ہی پیدا کیا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ تمام دنیا پر ہماری جماعت کو غالب کرے.پس ہماری جماعت کو اپنے اندر ایسا تغیر پیدا کرنا چاہئے کہ جس طرح اچھے پیج قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں.اسی طرح ہماری جماعت کو دیکھ کرلوگ اس کی قدر کرنے لگ جائیں اور وہ کہہ اٹھیں کہ دنیا ایسی قیمتی جماعت کو دیکھنے سے آج تک محروم ہے.(مطبوعہ الفضل 7 دسمبر 1941ء) 129
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 05 دسمبر 1941ء جب بھی کوئی دینی تحریک ہو فورا دعاؤں میں لگ جائیں خطبہ جمعہ فرمودہ 05 دسمبر 1941ء پہلے تو میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ہماری جماعت کو اس بات کی توفیق عطا فرمائی کہ دوست تحریک جدید کے سلسلہ میں چندے ادا کرنے والے یا اس کے لئے وعدہ کرنے والے بنیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے اب تک 25 ہزار روپیہ تک کے وعدے آچکے ہیں.(خطبہ کی صحت کے وقت تک اثر میں ہزار روپے کے وعدے آچکے ہیں.ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں ، جنہوں نے خطبہ کو سن کر اپنے چندوں میں زیادتیاں کی ہیں اور ایسے بھی سعید ہیں ، جن کو خطبہ ابھی تک نہیں پہنچا مگر باوجود اس کے انہوں نے اپنے پہلے چندہ سے کافی زیادتی کی ہے اور بہت سے ایسے ہیں، جنہوں نے خطبہ پڑھنے سے پہلے ہی اپنے چندے لکھوا دیئے ہیں اور خطبہ کے مضمون سے ناواقف ہونے کی وجہ سے اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکے اور حسب دستور سابق تھوڑی سی زیادتی کے ساتھ وعدے لکھوا دیئے ہیں.حالانکہ اگر وہ قربانی کی کوشش کرتے تو اور بھی کر سکتے تھے.پھر ایسے بھی ہیں، جو پہلے کوتا ہی کر رہے تھے اور اپنی حیثیت سے کم چندے لکھوا رہے تھے اور انہوں نے میرا خطبہ پڑھنے کا انتظار نہ کیا اور اس سال بھی حسب سابق ہی چندہ لکھوا دیا، جو ان کے لئے قربانی نہیں کہلا سکتی.مجھے امید ہے کہ خطبہ کی اشاعت کے بعد دوست اس کے مضمون کو اچھی طرح ذہن میں رکھ لیں گے.قادیان کے دوستوں کو یہ فضلیت حاصل ہے کہ وہ ہر تحریک کو پہلے سن لیتے ہیں اور باہر والے جب خطبہ اخبار میں چھپ کر جاتا ہے تو اسے پڑھتے ہیں.خطبہ کل شائع ہو جائے گا کیونکہ میں نے گذشتہ خطبہ کل ہی دیکھ کر دیا ہے.چاہئے تو یہ تھا کہ پہلے شائع ہو جا تا مگر مجھے بعض ضروری کام تھے.الفضل والوں نے یاد دہانی نہ کرائی اور پرسوں میں نے اتفاقاً ایک جگہ پڑا دیکھا تو خیال آیا کہ اسے دیکھ دوں.ایسے خطبات کے متعلق جلدی جلدی یاد دہانی کرائی جانی چاہئے تا وہ جلد از جلد چھپ سکیں.بہر حال تحریک شائع ہو چکی ہے اور جماعت کا ایک حصہ وعدے لکھوا بھی چکا ہے.ان میں سے کثیر حصہ تو ایسا ہے، جو قربانی کرنے والا ہے اور ایک قلیل حصہ ایسا ہے، جس کے چندے یا وعدے قربانی نہیں کہلا سکتے.میں ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ صحیح معنوں میں قربانی کرنے کی کوشش کریں.131
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 05 دسمبر 1941ء تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد دوم یہ دینی کام ہے اور ہمارے تمام کام در اصل دعاؤں سے ہی تعلق رکھتے ہیں.مگر دوست واقف نہ ہونے کی وجہ سے بہت بڑے ثواب سے محروم رہ جاتے ہیں.انہیں یا درکھنا چاہئے کہ جب بھی کوئی دینی تحریک ہو، انہیں فوراً دعائیں کرنے میں لگ جانا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اسے زیادہ سے زیادہ کامیاب بنائے.انفرادی طور پر بھی اور اجتمائی طور پر بھی اس کے دو فائدے ہوتے ہیں.ایک تو یہ کہ دعا ئیں اللہ تعالی کے فضل کو کھینچتی ہیں اور جماعت کے کمزور اور طاقتور دونوں کو قربانی کا موقع مل جاتا ہے اور انفرادی طور پر یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ایسے دوستوں پر بھی اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہے، جو دینی تحریکات کی کامیابی کیلئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہیں.جب تم خدا تعالیٰ کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہو ، اس لئے کہ وہ کسی دینی کام کو پورا کرے ( دینی کام در اصل خدا تعالیٰ کا اپنا کام ہے.تو تم گویا اس سے دعا کرتے ہو کہ وہ اپنا کام کرے اور جب تم خدا تعالیٰ کیلئے کام کرتے ہو تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میرا بندہ میرا کام کر رہا ہے، لاؤ میں بھی اس کا کام کروں.اللہ تعالیٰ کے بہترین فضلوں کو جذب کرنے والی دعاؤں میں سے ایک یہ بات بھی ہے کہ جب بھی کوئی دینی تحریک ہو ، مومن دعاؤں میں لگ جائے کہ اللہ تعالیٰ اسے کامیاب کرے.اور اگر کوئی مومن کسی دینی تحریک کی کامیابی کیلئے دعا کرتا ہے اور رقت وزاری کے ساتھ کرتا ہے اور اس کے نتیجہ میں کسی کو اس میں حصہ لینے کی توفیق مل جاتی ہے تو خواہ وہ دنیا کے کسی کنارے پر رہنے والا ہو، اس کا ثواب اسے بھی ملے گا.جب کوئی مومن کسی دینی تحریک کی کامیابی کیلئے بڑی دعا کرتا ہے تو اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اس بندے نے بڑی دعا کی ہے، اس کے نتیجہ میں اسے کچھ ضرور دینا ہے اور وہ کسی دور مقام پر رہنے والے کسی شخص کے دل میں یہ جوش پیدا کر دیتا ہے کہ وہ اس میں زیادہ حصہ لے اور اس کا ثواب اس کے نام بھی لکھا جاتا ہے کیونکہ اس کی روحانی تحریک سے اسے خدمت دین کا موقع ملا.مگر اس کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کہے گا کہ ہمارے بندے نے ہمارے کام کی خاطر دعا کی ہے اور ہمارے پاس آیا ہے کہ ہم اپنا کام کریں، اس نے ہمارے کام کی فکر کی ہے، ہم اس کے کاموں کی فکر کیوں نہ کریں ؟ تو اس دعا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ خود اس کے کاموں کا بھی متکفل ہو جائے گا اور اس کے کام خود کرنے لگے گا.اگر کوئی سچے دل سے یہ گر آزمائے تو اسے ولایت کا مقام حاصل ہو جائے گا.ولایت اسی کا نام ہے.اولیاء اور صلحاء کے کاموں کے خدا تعالیٰ کے متکفل ہو جانے کی کیا وجہ ہے؟ یہی کہ وہ خدا تعالیٰ کے کاموں میں لگ جاتے ہیں، اس لئے خدا تعالیٰ ان کے کاموں کا متکفل ہو جاتا ہے اور اسی کا نام ولایت ہے.وہ خدا تعالیٰ کے کام کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ ان کے کرتا ہے.اور جو انسان خدا تعالیٰ کا کام تو نہ کر سکے 132
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 05 دسمبر 1941ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم مگر اس کے مکمل ہو جانے کی دعا کرتا رہے تو اس کا مطلب بھی کام کرنے کا ہی ہے اور اس کے نتیجہ میں بھی خدا تعالیٰ اس انسان کے کام کرنے لگ جاتا ہے.غرض جو بندہ خدا تعالیٰ کے کاموں کو اپنا لیتا ہے، وہ گویا خدا تعالیٰ کا ولی بن جاتا ہے اور اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ اس کے کاموں کو اپنا لیتا اور اس کا ولی بن جاتا ہے.خدا تعالیٰ کی ولایت کے یہ معنی نہیں، جس طرح دو شخص باہم فیصلہ کرتے ہیں کہ آؤ ایک دوسرے کے دوست بن جائیں اور پھر دعوت کرتے ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی ولایت اسی طرح ہوتی ہے کہ بعض بندے خدا تعالیٰ کے کاموں میں لگ جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ ان کے کاموں کا کفیل ہو جاتا ہے، اسی کا نام ولایت ہے.پس دوستوں کو اس موقع پر بھی دعائیں کرنی چاہیں اور ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب کوئی نئی تحریک ہو تو خواہ کوئی کہے یا نہ کہے، وہ خدا تعالیٰ سے دعائیں کرنے میں لگ جائیں کہ اللہ تعالیٰ اسے زیادہ سے زیادہ کامیاب کرے.پھر وہ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح ان کے مصائب اور مشکلات دور کرتا ہے.یہ نہیں کہ پھر ان پر کوئی مشکل یا مصیبت آئے گی نہیں، مصائب اور مشکلات دنیا میں آتی تو ضرور ہیں.اللہ تعالیٰ کے انبیاء پر بھی مشکلات آتی ہیں.حتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر بھی مصائب اور مشکلات آئیں تو پھر یہ کسی طرح ہو سکتا ہے کہ تم پر نہ آئیں؟ مگر یہ مصائب اور مشکلات کوئی چیز نہیں ہیں.اصل مصیبت وہ ہوتی ہے جو انسان کو تباہ کردے اور ایسی مشکلات تم پر بھی نہ آئیں گی.ایک دفعہ مجھے حضرت مسیح موعود کا ایک نوٹ ملا، جو شاید میں تشہیذ الاذہان میں شائع بھی کروا چکا ہوں.اس میں آپ نے لکھا ہے کہ خواہ ساری دنیا میری مخالف ہو، مجھے اس کی کیا پرواہ ہوسکتی ہے، جبکہ اللہ تعالی کا مجھ پر اتنا فضل ہے کہ جب دنیا سو جاتی ہے، وہ آسمان سے اتر کر مجھے تسلی دیتا ہے کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور جس شخص کو خدا تعالی یہ تسلی دے کہ میں تیرے ساتھ ہوں ، اس کے دل میں غم کہاں آ سکتا ہے؟ دنیا کا سب سے زیادہ مظلوم وجودمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا تھا مگر سب سے زیادہ خوش وجود بھی آپ ہی کا تھا.سب سے زیادہ مشکلات میں گھرا ہوا وجود آپ کا تھا، مگر قیامت تک آپ سے زیادہ خوش وجود بھی اور کوئی نہیں ہو سکتا.پس میں یہ نہیں کہتا کہ آپ لوگوں پر مشکلات نہ آئیں گی.بعض نادان ایسے ہوتے ہیں کہ دو تین روز نمازیں پڑھیں یا چند روز دعائیں کیں تو کہنے لگ جاتے ہیں کہ جی بڑی نمازیں پڑھیں، بڑی دعائیں کیں، مگر کچھ نہیں بنتا، پھر بھی مشکلات دور نہیں ہوئیں.حالانکہ مشکلات تو انبیاء پر بھی آتی ہیں اور مومنوں پر بھی ضرور آتی ہیں.پس میں یہ نہیں کہتا کہ آپ پر مشکلات یا مصائب نہ آئیں گی بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو تباہ نہیں کرے گا.133
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 05 دسمبر 1941ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک واقعہ ہے، جو گورداسپور میں ہوا.میں تو اس مجلس میں نہ تھا، گو اس وقت گورداسپور میں موجود تھا.مجھ سے ایک اس مجلس میں موجود راوی نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے اور دوست پاس دری پر بیٹھے تھے.خواجہ کمال الدین صاحب اور دوسرے دوست جو مقدمہ کی پیروی کر رہے تھے، بہت گھبرائے ہوئے آئے اور کہا کہ حضور بہت خطر ناک خبر سنی ہے.ہم لاہور گئے ہوئے تھے ، وہاں سے معلوم ہوا کہ وہاں آریوں کی خاص مجلس منعقد ہوئی اور مجسٹریٹ، جس کے پاس مقدمہ ہے، یہ بھی اس میں شامل تھا.آریوں نے اس پر بہت زور دیا ہے کہ مرزا صاحب ہمارے مذہب کے سخت مخالف ہیں ، انہیں ضرور سزا دے دو.خواہ ایک دن کیلئے ہی کیوں نہ ہو، انہیں جیل میں ضرور بھیج دو؟ یہ تمہاری ایک قومی خدمت ہوگی.اور وہ وہاں یہ وعدہ بھی کر آیا ہے کہ میں ضرور ایسا کروں گا.مجھ سے راوی نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود پہلے لیٹے ہوئے تھے، پھر کہنی پر ٹیک لگا کر پہلو کے بل ہو گئے.آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ نے فرمایا.خواجہ صاحب آپ کیا کہتے ہیں؟ خدا تعالیٰ کے شیر پر بھی کوئی ہاتھ ڈال سکتا ہے؟ تو مومن کو مشکلات تو آتی ہیں مگر یہ مشکلات ایسی تو نہیں ہوتیں کہ اسے تباہ کر دیں.بری مشکل وہ ہوتی ہے، جو انسان کو تباہ کر دے ورنہ دنیا میں مشکلات آتی ہی ہیں.زمیندار کو دیکھو اسخت سردی میں ہل چلاتا ہے، کھیتوں کو پانی لگاتا ہے مگر وہ اسے مشکل نہیں سمجھتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے بدلہ میں اسے فائدہ ہوگا.مشکل انسان اسے سمجھتا ہے، جس کے بدلہ میں وہ سمجھے کہ اس پر تباہی آجائے گی.عورت کو دیکھو! اپنے بچہ کو کس طرح پالتی ہے؟ کتنی مصیبتیں اس کے لئے جھیلتی ہے؟ مگر ایک بچہ ابھی اس کی گود سے اتر تا نہیں کہ دعائیں کرنے لگ جاتی ہے کہ خدا پھر میری گود ہری کرے اور اس کی اس دعا کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ خدایا! میں پھر پیشاب سے بھیگوں، پھر میرا خون چوسنے والا کوئی پیدا ہو.اسی طرح ایک باپ اگر ایسی دعا کرے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ایک اور روٹی کھانے والا پیدا ہو جائے ، ایک اور کمرہ سنبھالنے والا پیدا ہو، ایک اور تعلیم پر خرچ کرانے والا ہو ، ایک اور رورو کر اس کے آرام میں خلل ڈالنے والا ہو تو ماں باپ کیلئے اولاد کا ہونا بظاہر تکلیف کا موجب ہوتا ہے مگر کیا ان مشکلات کو کوئی مشکل کہتا ہے؟ اگر کوئی اسے مشکل کہے تو ہر شخص کہے گا کہ اس بیچارے کا دماغ خراب ہو گیا ہے.تو ان باتوں کا نام مشکل مشکل اسے کہتے ہیں، جس کے نتیجہ میں انسان کو تباہی کا ڈر ہو.جس کے بدلہ میں انعام ملنے والا ہو، اسے کوئی مشکل نہیں کہتا اور اسے مشکل کہنے والے کو کوئی باہوش انسان نہیں سمجھتا.134
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 05 دسمبر 1941ء غرض میری بات سے یہ دھوکا نہ کھاؤ کہ کوئی مشکل آئے گی ہی نہیں.ایسا نہ ہو کہ چند روز دعا ئیں کرو اور پھر کہو، جی دیکھ لیا بڑے بڑے خطبے پڑھتے تھے کہ مشکلات دور ہو جائیں گی مگر وہ بدستور ہیں.بعض لوگ چند دن نمازیں پڑھ لیں تو کہنے لگ جاتے ہیں کہ بہت نمازیں پڑھیں ، بڑے روزے رکھے مگر ملا ملا یا کچھ بھی نہیں.دراصل ”کچھ“ کے معنے ان کے نزدیک اور ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک کچھ اور ان کی مثال اس میراثی کی سی ہوتی ہے، جس کی نسبت کہتے ہیں کہ اس نے کسی مولوی کا وعظ سنا کہ نمازیں پڑھنے میں بڑے فائدے ہیں.دیہاتیوں کے نزدیک تو فائدہ اسی کو کہتے ہیں، جو فو ر امل جائے.اس نے مولوی صاحب سے پوچھا کہ نماز سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟ وہ کچھ اور تو نہ بتا سکا، صرف یہ کہا کہ منہ پر نور برسنے لگتا ہے.اس نے سوچا چلونو رہی سہی اور نماز شروع کر دی.صبح کی نماز کا وقت آیا تو سردی بہت تھی ، اس نے مولوی سے سنا تھا کہ تیم سے نماز ہو جاتی ہے.اس نے اندھیرے میں ہی تیم کر کے نماز پڑھ لی اور جب ذرا روشنی ہوئی تو بیوی سے کہا کہ دیکھو تو سہی میرے چہرہ پر کوئی نور ہے.اس نے کہا کہ مجھے تو پتہ نہیں نور کیا ہوتا ہے؟ لیکن تمہارے منہ پر سیاہی آگے سے زیادہ ہے.اصل بات یہ تھی کہ اس نے اندھیرے میں تمیم کرنے کے لئے جو ہاتھ مارے تو وہ توے پر پڑے اور ہاتھوں پر بھی اور منہ پر بھی سیا ہی لگ گئی.جب بیوی نے کہا کہ منہ پر سیاہی زیادہ ہے تو اس نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا اور کہا کہ اگر نور کالا ہوتا ہے تو پھر تو گٹھا باندھ کر آیا ہے، دیکھ لو میرے ہاتھ بھی کالے ہیں.تو دنیا میں ایک طبقہ ایسا بھی ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کی باتوں کو بھی جسمانیات کی طرف لے جاتا ہے اور ایسے لوگوں کو میں متنبہ کرتا ہوں کہ میری اس بات سے وہ دھوکا میں نہ پڑیں.مصائب اور مشکلا انبیاء کا خاصہ ہے.حدیث میں آتا ہے کہ جتنا کوئی شخص خدا تعالیٰ کا پیارا ہوتا ہے، اتنا ہی وہ زیادہ مشکلات میں گھرا ہوا ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے برکات کے وعدہ سے میرا مطلب وہ ہے، جو خدا تعالیٰ کیلئے برکت دینے کا رنگ ہے.( مطبوع الفضل 12 دسمبر 1941ء) 135
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 19 دسمبر 941 وقف زندگی اقتباس از خطبه جمعه فرموده 19 دسمبر 1941ء اگر کوئی شخص اپنی زندگی کو خدا تعالیٰ کیلئے وقف کر دیتا ہے اور جو کام بھی کرتا ہے، خدا کیلئے کرتا ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی ناقہ بن جاتا ہے.جس طرح وہ اونٹنی دوسری اونٹنیوں سے ممتاز ہو گئی تھی ، اسی طرح وہ دوسرے لوگوں سے ممتاز ہو جاتا ہے اور جس طرح اس اونٹنی پر حملہ، خدا تعالیٰ کی تلوار کے سامنے کھڑے ہونے کے مترادف تھا، اسی طرح اس انسان پر حملہ کرنے والا بھی خدا تعالیٰ کی تلوار کے سامنے ہوتا ہے.جو اس پر حملہ کرتا ہے، وہ گویا خدا تعالیٰ پر حملہ کرتا ہے.تو دیکھو چھوٹی سی نیت کے ساتھ کتنا بڑا فرق پڑ جاتا ہے.( مطبوع الفضل 24 دسمبر 1941ء) 137
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از تقریر فرموده 27 دسمبر 1941ء چنداہم امور کے متعلق ارشادات تقریر فرموده 27 دسمبر 1941ء بر موقع جلسہ سالانہ تحریک جدید کا چندہ اس تیاری کے لئے (یعنی جنگ کے ختم ہونے پر وسیع پیمانہ پر تبلیغ کرنے کے لئے ) پہلی ضروری بات یہ ہے کہ دوست تحریک جدید میں چندہ دینے میں ہمت سے کام لیں.گذشتہ سال کی وصولی گذشتہ تین چار سال کی وصولی سے اچھی رہی ہے اور اس سال کے وعدے بھی زیادہ ہیں.(افسوس کہ اس کے بعد وعدوں میں نمایاں کمی آگئی اور اس وقت وعدے گذشتہ سال سے بہت کم ہیں.اللہ تعالیٰ دوستوں کو توفیق دے کہ بقیہ دنوں میں اس کی تلافی کر سکیں).گو یہ زیادتی کوئی نمایاں نہیں لیکن اگر دوست کوشش کر کے اس زیادتی کو وصولی میں بھی قائم رکھیں تو امید ہے کہ آمد میں پچھلے سال کی نسبت دس پندرہ فیصدی کی زیادتی ہوگی اور اس طرح اگر وصولی بھی اچھی ہو جائے تو تحریک جدید کا یہ آٹھواں سال بنیاد کے مضبوط کرنے کا موجب ہو سکے گا.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کئی بار بتایا ہے میں اس روپیہ سے مستقل جائیداد پیدا کر رہا ہوں.نہری زمین آٹھ ہزار ایکڑ خریدی جا رہی ہے تا اس سے چالیس پچاس ہزار روپیہ سالانہ کی آمد ہو سکے اور س سلسلہ کے مستقل اخراجات کے لئے ہمیں جماعت سے چندہ مانگنا نہ پڑے.دراصل کاموں میں جو روک پیدا ہوتی ہے، وہ مستقل اخراجات کی وجہ سے ہی پیدا ہوتی ہے.اور میں چاہتا ہوں کہ اتنی آمد پیدا کرنے والی جائیداد خریدی جاسکے، جس سے عملہ دفاتر وغیرہ کا خرچ چل سکے اور ایسے مستقل اخراجات کے لئے جماعت سے چندہ نہ لینا پڑے اور جو وقتی چندے لئے جائیں، وہ تبلیغ پر خرچ ہوں اور یہ بڑا اہم کام ہے.میں چاہتا ہوں کہ دس بارہ ہزا را یکٹر زمین حاصل کی جاسکے اور جب تک جماعت عمدگی کے ساتھ اور پوری توجہ سے تحریک جدید کے چندوں کی ادائیگی میں کوشش نہ کرے، یہ پورا نہیں ہوسکتا.جو زمین خریدی جاچکی ہے، اس میں سے بعض رقبے تو تین چار سال کے بعد ہی آزاد ہو جائیں گے یعنی ان کی قیمت ادا ہو جائے گی اور بعض کی اقساط اگر ہم چندہ سے زمین کو پہلے ہی آزاد نہ کروالیں تو چودہ پندرہ سال تک ادا ہوتی رہیں گی.139
اقتباس از تقریر فرموده 27 دسمبر 1941ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم پس یہاں سے جانے کے بعد جماعت کے دوست کوشش کریں کہ ہر شخص چندہ تحریک جدید میں اپنا وعدہ لکھوائے اور پھر اسے پورا بھی کرے.تحریک ہر ایک احمدی کو کی جائے مگر جبر نہ کیا جائے.جو شخص چاہے، حصہ لے اور جو نہ چاہے، نہ لے“.امانت فنڈ دوسری صورت یہ ہے کہ امانت فنڈ کو مضبوط کیا جائے.اس کی طرف بہت کم توجہ کی گئی ہے.پہلے اس میں صرف دس بارہ ہزار روپیہ سالانہ آتا تھا.پچھلے سال میں نے تحریک کی تو اٹھارہ میں ہزار آیا مگر یہ بھی کم ہے.اگر دوست توجہ کریں تو کم سے کم لاکھ دولاکھ روپیہ سالانہ آمد ہوسکتی ہے.ہر شخص کو چاہئے کہ جنگ کے خطرات کے پیش نظر یا مکان بنانے کی نیت سے یا بچوں کی تعلیم اور ان کی شادیوں وغیرہ کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور پس انداز کرتا رہے اور پھر اسے امانت فنڈ میں جمع کراتا رہے تا مصیبت یا ضرورت کے وقت کسی کے سامنے دست سوال نہ دراز کرنا پڑے.مجھے تو بیسیوں لوگوں نے کہا ہے کہ آپ کی اس تحریک نے ہمیں بہت فائدہ پہنچایا ہے.ہمارے لئے کوئی صورت مکان بنانے کی نہ تھی اور اس طرح بنالیا تو اس طرف دوستوں کو خاص توجہ کرنی چاہئے“.سادہ زندگی تیسری چیز سادہ زندگی ہے.میں دیر سے اس طرف دوستوں کو توجہ دلا رہا ہوں اور اب تو خدا تعالی دنیا کو کھینچ کر سادہ زندگی کی طرف لا رہا ہے.اب یہ تمام مشکلات پیدا ہو رہی ہیں کہ کپڑا نہیں ملتا، جرا ہیں نہیں ملتیں، بنیانیں نہیں ملتیں اور جو چیز ملتی ہے، وہ ایسی گراں ہے کہ اسے خریدنا مشکل ہے اور اگر جنگ لمبی ہوگئی تو شاید چند کروڑ پتی ایسے ہوں گے، جو ان چیزوں کو خرید سکیں.ورنہ باقی سب کو مجبوراً اپنی زندگی میں سادگی اختیار کرنی پڑے گی.آج ہزاروں لوگ ہیں، جو مجبور ہو کر اسے اختیار کر رہے ہیں اور جن احمدیوں نے میرے کہنے پر اسے اختیار کیا، وہ کتنے فائدے میں رہے کہ اس سے انہیں ثواب بھی حاصل ہو گیا ؟ میری طرف سے اس تحریک کے بعد مختلف ممالک میں حکماً وہی باتیں جاری کی گئیں.مسولینی نے حکم دیا کہ گوشت کی صرف ایک ہی پلیٹ استعمال کی جائے.جرمنی میں بھی ایسے احکام دیئے گئے ہیں اور ڈاکٹر گوئبلز نے کہا ہے کہ جب تک تمام لوگ اپنے اخراجات میں بچت نہ کریں گے، کام نہ چل سکے گا.امریکہ میں مسٹر رینڈل ولکی نے ، جو انتخابات صدر کے موقع پر مسٹر روز ویلٹ کے مدمقابل تھے ، کہا ہے کہ ہمیں اپنے کھانے پینے اور پہنے میں پوری پوری سادگی سے کام لینا چاہئے.انگلستان میں بھی خود بخود اپنے کھانے اور پہنے پر قیود عائد کر لی گئی ہیں.140
ید- ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از تقریر فرموده 27 دسمبر 1941ء پس وہی تحریک جدید جو میں نے جاری کی تھی ، اسے اللہ تعالیٰ نے سب ممالک کے لئے جبری قرار دے دیا ہے اور شاید ہندوستان میں بھی ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ لوگ مجبور ہو کر اسے اختیار کریں.بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ایسے دن آرہے ہیں کہ روٹی روتے ہوئے گلے سے اتر سکے گی.مگر احمدی مطمئن ہوں گے کہ ہم نے اپنے خلیفہ کی بات مان لی اور اس طرح تو اب بھی حاصل کر لیا.جو چیز دوسرے لوگوں نے مجبور ہوکر کی ، وہ ہمارے لئے ثواب کا موجب ہو گئی.اللہ تعالیٰ نے یہ زندگی ہمیں خدمت خلق کے لئے دی ہے اور اگر کھانے پینے ، بیٹھنے اٹھنے میں تکلف ہو تو ایسے اثرات پیدا ہوں گے کہ یہ مقصد پورا نہ ہو سکے گا اور امیر وغریب اکٹھے نہ ہو سکیں گے.ہمارے ملک میں امیروں اور غریبوں کے درمیان ایک دیوار حائل ہے.وہ ایک دوسرے سے میل جول اور کھانے پینے سے پر ہیز کرتے ہیں.پیروں نے بھی ان کو غلط راستے پر لگا دیا ہے.میں نے دیکھا ہے کہ ابھی تک بعض لوگ مجھے ملنے آتے ہیں تو وہ پیروں کو ہاتھ لگانے کی کوشش کرتے ہیں.ان کو ہزا ر منع کرو، وہ سمجھتے ہیں کہ بطور انکسار منع کرتے ہیں ورنہ ہمیں ضرور ایسا ہی کرنا چاہئے.ان پیروں نے کس طرح انسانیت کو ذلیل کر دیا ہے؟ میں تو کہتا ہوں کہ اگر کوئی حکومت آئے تو سب سے پہلے ان کو پکڑے.ان سب کو کنسٹر ریشن (consentration) کیمپوں میں بھیج دینا چاہئے.احمدیت کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے قائم کیا ہے کہ انسانیت کو بلند کیا جائے.لیکن ابھی تک احمدیوں میں بھی بعض ایسے لوگ ہیں جو ان باتوں میں پھنسے ہوئے ہیں.ہم منع کرتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ انکسار کرتے ہیں حالانکہ مجھے ان باتوں سے سخت تکلیف ہوتی ہے.میرے سامنے جب کوئی ہاتھ جوڑتا ہے تو مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مجھے مار رہا ہے.اور دراصل کسی کے ایسا کرنے کے معنیٰ یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مار پڑ رہی ہے کہ احمدی جماعت ابھی تک قوم کی اصلاح میں کامیاب نہیں ہوئی.پس امیر و غریب کا امتیاز نہایت خطرناک چیز ہے اور اسے جلد از جلد مٹانا ہمارا فرض ہے.میرا ایک عزیز تھا.میرے منہ سے تھا نکلا ہے حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے زندہ ہے.مجھے اس سے محبت نہیں عشق تھا.مگر ایک دفعہ اس کے منہ سے یہ فقرہ نکلا کہ فلاں علاقہ کے احمدی بھی عجیب ہیں، نہ موقعہ دیکھتے ہیں اور نہ وقت ، اور ملنے آجاتے ہیں.پس اس دن کے بعد سے میں اپنے اور اس کے درمیان ایک دیوار حائل پاتا ہوں.یہ ذہنیت نہایت خطرناک ہے اور جب تک ہم اس سانپ کا سر نہیں چل دیتے ، اس وقت تک اسلام کو دنیا میں غالب نہیں کر سکتے.جب تک یہ ذہنیت موجود رہے گی کہ تم اور ہو اور میں اور 141
اقتباس از تقریر فرموده 27 دسمبر 1941ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد دوم ہوں.اور اگر ہم میں تو نہیں مگر ہماری اولادوں میں یہ ذہنیت موجود رہے گی تو کوئی کامیابی نہیں ہوسکتی.مسلمان کی زندگی تکلفات سے پاک ہونی چاہئے." ہماری جماعت کے دوستوں کو بھی چاہئے کہ اپنی زندگی ایسی بنائیں کہ امیر وغریب کا کوئی فرق نظر نہ آئے.میں نے ہمیشہ دیکھا ہے، جب بھی میں کسی دعوت وغیرہ پر جاتا ہوں تو وہاں ایک جگہ نمایاں طور پر گاؤ تکیہ وغیرہ لگا ہوتا ہے.میں نے ہمیشہ منع کیا ہے مگر پھر بھی دوست ان باتوں کو چھوڑتے نہیں“.وقف زندگی و تبلیغ کے لئے تیاری کے ضمن میں ایک اور ضروری تحریک وقف زندگی کی ہے.پہلے پہل جب یہ تحریک کی گئی تو بہت سے نوجوانوں نے اپنے نام پیش کئے تھے مگر اب اتنے نہیں کرتے.اس لئے میں پھر دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ تبلیغ کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں.آج وہ دن ہیں کہ انسان چنوں کی طرح بھونے جارہے ہیں.کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ خود ہی اپنی جانوں کو خدا تعالیٰ کے لئے دے دیں؟ آج جب ہر چیز پر وبال آرہا ہے.تو کیا اسے خدا تعالیٰ کی راہ میں صرف کر دینا بہتر نہیں ؟ پس گریجوایٹ یا انٹرنس پاس مولوی فاضل نوجوان اپنی زندگیوں کو وقف کریں.جلد از جلد ضرورت ہے کہ نوجوان اپنے نام پیش کریں.جونو جوان آج اپنے آپ کو پیش کر یں، وہ چھ سال میں تیار ہوسکیں گے.شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ اس وقت جو استاد ہمیں ملے ہیں، وہ بوڑھے ہیں.ممکن ہے جب موجودہ نو جوان تیار ہو جائیں تو یہی کورس چار سال میں ختم کروایا جاسکے.بہر حال آج زندگی وقف کرنے والے نو جوانوں کی ضرورت ہے تا ابھی سے ان کی تیاری کا کام شروع کر دیا جائے.اس وقت گو ہندوستان سے باہر مبلغ نہیں بھیجے جا سکتے مگر جنگ کے بعد بہت ضرورت ہوگی.فی الحال ہمیں ہندوستان میں ہی تبلیغ کے کام کو بڑھانا چاہئے اور باہر کا جو رستہ بند ہو چکا ہے، اس کا کفارہ یہاں ادا کرنا ضروری ہے.پس کیوں نہ ہم یہاں اتنا زور لگائیں کہ جماعت میں ترقی کی رفتار سوائی یا ڈیوڑھی ہو جائے اور دو تین سال میں ہی جماعت دوگنی ہو جائے ؟ جب تک ترقی کی یہ رفتار نہ ہو، کامیابی نہیں ہو سکتی.ہمارے سامنے بہت بڑا کام ہے.پونے دو ارب مخلوق ہے، جسے ہم نے صداقت کو منوانا ہے اور جب تک باہر کے راستے بند ہیں، ہندوستان میں ہی کیوں نہ کوشش زیادہ کی جائے ؟ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم تبلیغ کا کام نہیں کر سکتے کیونکہ ہم عالم نہیں ہیں.مجھے تو یہ کبھی سمجھ نہیں آئی کہ ایک احمدی یہ خیال کس طرح کر سکتا ہے کہ وہ کچھ نہیں جانتا؟ احمدی سے زیادہ عالم اور کون ہو سکتا ہے؟ دوسرے 142
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد دوم اقتباس از تقریر فرموده 27 دسمبر 1941ء لوگ تو اگر جہالت کی بات بھی جانیں تو سمجھتے ہیں کہ وہ عالم ہو گئے ہیں مگر بعض احمدی اس قدر دینی امور سے واقفیت رکھنے کے باوجود سمجھتے ہیں کہ وہ علم نہیں رکھتے اور اس وجہ سے تبلیغ نہیں کر سکتے“.کون سا علم ہے، جو قرآن میں نہیں.تم تو علم النفس اور دوسرے علوم کے وہ مسائل، جو تمہیں سکھائے گئے ہیں، دوسروں کو سناؤ تو بڑے بڑے عالم حیران رہ جائیں.میں تو حیران ہوا کرتا ہوں کہ ایک احمدی کس طرح یہ سمجھ سکتا ہے کہ اسے کچھ نہیں آتا؟ کیا یہ ضروری ہے کہ ہر انسان پر فرشتے نازل ہوں اور ہر انسان اسی صورت میں سمجھ سکتا ہے کہ اسے فرشتے سمجھانے کے لئے آئیں؟ جو علم نہیں رکھتے ، وہ دوسروں کے علوم سے کیوں فائدہ نہیں اٹھاتے ؟ سلسلہ کی کتب اور اخبارات ورسائل کیوں نہیں پڑھتے اور اس طرح علم حاصل نہیں کرتے“.تبلیغ یا درکھو کہ ہمارے ذمہ دنیا کی فتح کا کام ڈالا گیا ہے اور یہ کام بہت اہم ہے.اس کے لئے ایک بہت بڑی جماعت کی ضرورت ہے اور اس واسطے ہندوستان میں جماعت کا بڑھانا بہت ضروری ہے.اور تبلیغ کرتے ہوئے غیر قوموں کی طرف خصوصیت سے توجہ کی ضرورت ہے.اس ملک میں ہندوؤں کی تعداد، مسلمانوں کی نسبت تین گنا ہے.صرف برطانوی ہندوستان کی آبادی 33-32 کروڑ ہے اور اس میں سے صرف تین چار ہزار کا سال بھر میں احمدی ہونا، کوئی کام نہیں.اس لئے تبلیغ کی طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے.بالخصوص ہمسایہ اقوام کے سامنے محبت اور پیار سے اسلام کو پیش کرنا چاہیے.ان سے کہو کہ تم ہمیں تبلیغ کرو، اپنی باتیں سناؤ اور ہماری سنو.بعض علماء کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ بات چیت کرنی ہو تو اپنا کوئی پنڈت یا گیانی لاؤ، یہ ٹھیک نہیں.ایسی باتوں کی وجہ سے ہی وہ گھبراتے ہیں اور بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے.کھلے دل سے ان کی باتیں سنو، اس میں گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں.کیونکہ آخر کار وہ تمہارے ساتھ شامل ہوں گے.پانی ہمیشہ نیچے کی طرف ہی بہتا ہے.تم بہت اونچے ہو، اس لئے پانی انہی کی طرف جائے گا.اللہ تعالیٰ نے ہندوستان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا، اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ ہندو قوم کو ترقی دینا چاہتا ہے.وہ تو چاہتا ہے کہ ان بنیوں کو دین کی حکومت عطا کرے، مگر یہ لوگ سواراج کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اور اس عزت سے بے پروا ہیں، جو اللہ تعالیٰ ان کو دینا چاہتا ہے اور جو اسلام کو قبول کرنے سے ہی حاصل ہو سکتی ہے.احمدیت کی ترقی کے ساتھ ساتھ تمام ہندوستانیوں کی عزت بڑھے گی.عربوں نے ایک زمانہ میں اسلام کی خدمت کی تھی 143
اقتباس از تقریر فرموده 27 دسمبر 1941ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اور اس وجہ سے آج گو وہ ہر لحاظ سے گر چکے ہیں، پھر بھی مسلمان ان کی خدمت کرتے ہیں.جہاں کوئی عرب نظر آئے ، اسے خوش آمدید کہتے ہیں اور یہ کہتے ہیں، آیئے عرب صاحب ، آئیے عرب صاحب.تو جہاں جہاں احمدیت پھیلے گی ، وہاں جو ہندوستانی جائے گا، وہاں کے احمدی اس کی عزت کریں گے اور کہیں گے کہ یہ ہمارے سردار ہیں، اس ملک سے آئے ہیں، جس میں قادیان واقعہ ہے.انہیں عزت سے بٹھائیں گے اور ان کے لئے کھانے پینے کا انتظام کریں گے.تو اسلام اور احمدیت کی ترقی کے ساتھ ہندوستانیوں کی عزت بھی بڑھے گی اور ہر جگہ احمدی ان کی عزت کریں گے.یہاں سے چونکہ انہیں ہدایت حاصل ہوئی ہوگی ، اس لئے اس ملک کے ہر باشندہ کو خواہ وہ ہندو ہو یا سکھ، عیسائی یا کسی اور مذہب کا ، دیار محبوب کا باشندہ سمجھ کر اس کی عزت کریں گے.اب دیکھو اس عزت کے مقابل میں سواراج کی حقیقت ہی کیا ہے؟ مگر افسوس کہ ہندوؤں نے اس سوال کو اس نقطہ نظر سے نہیں دیکھا.پہلے جو نبی آتے تھے ، وہ مخصوص قوموں اور مخصوص ملکوں کے لئے ہوتے تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کی ہدایت کے لئے مامور فرمایا ہے اور احمدیت نے دنیا کے کناروں تک پھیلنا ہے اور اس کے یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دنیا کے کناروں تک ہندوستانیوں کا روحانی ادب اور رعب قائم کرے گا“.( مطبوعه الفضل 10 فروری 1942ء) 144
تحریک جدید - ایک الہی تحریک ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از تقریر فرموده 13 اپریل 1941ء یہ دن بہت نازک ہیں دوستوں کو چاہیے کہ وہ دن رات دعائیں کریں وو تقریرفرمودہ 13 اپریل 1941 ء بر موقع مجلس شوری میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر اس جنگ میں جرمنی کو شکست ہوئی تو اس کے بعد تبلیغ کا بہترین مقام جرمنی ہوگا.جرمن قوم تین سو سال سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس غرض کے لئے اس نے بڑی بڑی قربانیاں کی ہیں.مگر ابھی تک وہ اپنے ارادہ میں کامیاب نہیں ہو سکی.اگر اس جنگ میں بھی اسے کامیابی حاصل نہ ہوئی تو ہم اسے بتا سکیں گے کہ خدا نے تمہاری ترقی کا کوئی اور ذریعہ مقرر کیا ہوا ہے.جو سوائے اس کے کچھ نہیں کہ تم خدا کے دین میں داخل ہو جاؤ اور بحبل من اللہ ترقی کر جاؤ.پھر تمہیں دنیا میں کوئی مغلوب نہیں کر سکے گا.پس میں سمجھتا ہوں جرمن قوم کا اس شکست میں دینی لحاظ سے بہت بڑا فائدہ ہے.اور عنقریب تبلیغ کے لئے ہمیں ایک ایسا میدان میسر آنے والا ہے، جہاں کے رہنے والے باتیں نہیں کرتے بلکہ کام کرتے ہیں اور زبانی دعوے نہیں کرتے بلکہ عملی رنگ میں قربانیاں کر کے دکھاتے ہیں.بہر حال یہ دن بہت نازک ہیں.دوستوں کو چاہیے کہ وہ دن رات دعائیں کریں.اور نہ صرف خود دعائیں کریں بلکہ دوسروں کو بھی دعاؤں کی تحریک کریں.یہاں تک کہ ہر شخص دعائے مجسم بن جائے.اگر ایسا ہو جائے تو دنیا کی کسی طاقت سے تمہیں خطرہ نہیں ہو سکتا.اگر خدانخواستہ کسی وقت اسلام اور احمدیت کے لئے خطرہ پیدا ہوا تو اس کی وجہ صرف یہی ہوگی کہ ہماری طرف سے دعاؤں میں کوتاہی ہوئی ہوگی.یہ وجہ نہیں ہوگی کہ جرمن طاقتور ہیں یا کوئی اور قوم زیادہ ساز و سامان رکھتی ہے.پس اپنے آپ کو بدنامی سے بچانے اور اسلام اور احمدیت کو ہر قسم کے خطرات سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ صرف یہی ہے کہ ہم دن رات دعاؤں میں لگے رہیں.ور نہ ہم ننگے ہو جائیں گے اور دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ ہم نے دعائیں نہیں کی تھیں.اس کے بعد میں مجلس شوری کو ختم کرتا ہوں.سب دوست میرے ساتھ دعا میں شامل ہو جائیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں کو دور فرمائے اور ہمارے دلوں میں اپنے بھائیوں کے متعلق رافت اور محبت کے جذبات پیدا کرے.اور ایسا سوز اور گداز ہمارے دلوں میں بھر دے کہ ہم ان کے غم کو اپنا غم اور ان کے دکھ کو اپنا کھ قرارد یں.اسی طرح ہمیں دعائیں کرنی چاہیے کہ وہ عظیم الشان ذمہ داری، جو خدا تعالیٰ نے ہم 145
اقتباس از تقریر فرموده 13 اپریل 1941ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم پر عائد کی ہے، جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سپرد کی ہے، اور جو حضرت مسیح موعود نے ہم پر ڈالی ہے، ہم اس کو عمدگی سے ادا کرنے والے ہوں اور ہم میں سے ہر شخص کے دل میں ایسا ایمان بھرا ہوا ہو کہ جب اس کی موت کا وقت آئے تو وہ اس خوشی سے دنیا کو چھوڑے کہ میں اب خدا کی گود میں جا رہا ہوں رپورٹ مجلس شوری منعقد ہ 11 تا 13 اپریل 1941 ء ) اور درمیان میں دوزخ کا مجھے کوئی خطرہ نہیں.146
تحریک جدید - ایک الہی تحریک نی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 09 جنوری 1942ء اپنی نیتوں کو درست کرو، اپنے ارادوں کو نیک بناؤ اور اپنی کمروں کوکس لو خطبہ جمعہ فرمودہ 09 جنوری 1942ء تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.” میں نے نومبر کے آخر میں تحریک جدید، سال ہشتم کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے دوستوں کو اس میں شمولیت کی تحریک کی تھی.اور ہندوستان کے لئے اس کے وعدوں کی آخری تاریخ 31 جنوری مقرر کی تھی.یعنی وعدوں کے جن آخری خطوط پر ڈاکخانہ کی 31 جنوری کی مہر ہوگی یا یکم فروری کی مہر لگی ہوئی ہوگی، ان کو تو درج کر لیا جائے گا مگر اس کے بعد آنے والے وعدوں کو قبول نہیں کیا جائے گا.سوائے ہندوستان کے ان علاقوں کے وعدوں کے جہاں اردو زبان نہیں بولی جاتی مثلاً بنگال یا مدراس وغیرہ اور سوائے ان ہندوستانی افراد اور ہندوستانی جماعتوں کے وعدوں کے جو ہندوستان سے باہر ہیں.ان کے وعدے 30 اپریل تک قبول کئے جاسکتے ہیں اور 30 جون میں نے ان وعدوں کی تاریخ مقرر کی تھی ، جوان غیر ممالک سے آتے ہیں جہاں کی جماعتیں ان ممالک کے باشندوں سے ہی بنی ہوئی ہیں یا ان کی اکثریت ان ممالک کے باشندوں پر مشتمل ہے.ہندوستانیوں کی ان میں کثرت نہیں جیسے انگلینڈ ہے، سماٹرا ہے، جاوا ہے، ویسٹ افریقہ ہے یا امریکہ وغیرہ ہیں، ان ممالک کے احمدیوں کے لئے وعدے بھجوانے کی آخری تاریخ 30 جون ہے.20 دسمبر سے چونکہ دوست اور احباب قادیان آنے کی فکر میں لگ جاتے ہیں اور کئی لوگ تو اس سے پہلے ہی قادیان آجاتے ہیں اور چونکہ قریباً تمام جماعتوں کے کارکن جلسہ سالانہ پر آئے ہوئے ہوتے ہیں.اس لئے لازمی طور پر دسمبر کا آخری ہفتہ اور جنوری کا پہلا ہفتہ اس کام کے لحاظ سے بالکل خالی ہوتا ہے، کیونکہ واپس جانے والے دوست متفرق اوقات میں واپس جاتے ہیں اور پھر کچھ دن آرام میں گزر جاتے ہیں.اس طرح سات آٹھ جنوری تک وہ صحیح رنگ میں کوئی کام کرنے کے قابل ہوتے ہیں.بہر حال اب چونکہ وہ آرام کا وقت گزر گیا ہے اور صرف تین ہفتے ہندوستان کے دوستوں کے وعدوں کی میعاد میں باقی رہ گئے ہیں.جن میں کارکنوں نے اپنی اپنی جماعت کے ہر فرد تک پہنچنا ہے، ان.147
خطبہ جمعہ فرمودہ 09 جنوری 1942ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم وعدے لکھوانے ہیں.جو لوگ فوری طور پر چندہ ادا کر سکتے ہوں ، ان سے چندے وصول کرنے ہیں اور اس امر کو بھی مدنظر رکھنا ہے کہ دوستوں نے گزشتہ سالوں کے مقابلہ میں نمایاں اضافے کے ساتھ وعدے کئے ہیں یا نہیں.اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ آج پھر احباب جماعت کو اس چندہ میں شمولیت اور اس تحریک کی اہمیت کی طرف توجہ دلا دوں.تحریک جدید کے چندہ کی اہمیت کے متعلق میں نے جلسہ سالانہ پر بھی جماعت کے دوستوں کو توجہ دلائی تھی اور اس سے پہلے جب میں نے اس سال کی تحریک کا اعلان کیا تھا تو اس وقت بھی دوستوں کو اس کی طرف توجہ دلائی تھی اور میں سمجھتا ہوں کہ اب مجھے اس چندہ کی اہمیت کے متعلق کچھ مزید کہنے کی ضرورت نہیں.تاہم میں اس قدر کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میرے متواتر خطبات سے جماعت کے دوست اچھی طرح سمجھ چکے ہوں گے کہ یہ تحریک کس نیت سے کی گئی ہے اور ہمارا ارادہ اس سے کتنا عظیم الشان کام لینے کا ہے؟ نتائج اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں اور وہی بہتر جانتا ہے کہ اس تحریک کے کیا نتائج رونما ہوں گے؟ لیکن بہر حال ہم نے اس تحریک سے اشاعت دین کے لئے ایک عظیم الشان بنیا د ر کھنے کی نیت کی ہے اور اس میں کیا شبہ ہے کہ مومن صرف نیت تک ہی اپنے کام کی حفاظت کر سکتا ہے؟ نیت کے بعد جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کی نصرت سے ہوتا ہے.گو اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ نیت صالح بھی اللہ تعالٰی کے فضل سے ہی پیدا ہوتی ہے.مگر پھر بھی صرف نیت اور ارادہ ہی ایک ایسی چیز ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد بنایا ہے، ورنہ اعمال حالات کے لحاظ سے بالکل بدلتے چلے جاتے ہیں.اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے کہ الاعمال بالنیات یعنی اعمال نیتوں کے تابع سمجھے جاتے ہیں، نیست عمل کے تابع نہیں سمجھی جاتی.اس حدیث میں جہاں مومنوں کے لئے ایک عظیم الشان بشارت ہے، وہاں منافقوں کے لئے تہدید بھی ہے.مومنوں کے لئے اس میں بشارت اس طرح ہے کہ بعض اوقات مومن خدا تعالیٰ کی راہ میں پوری طرح اپنے دل کے حوصلے نہیں نکال سکتا.وہ چاہتا ہے کہ میں دین کی راہ میں قربان ہو جاؤں مگر قربانی کا کوئی موقع ہی نہیں آتا اور اس کی خواہش دل میں ہی رہتی ہے کیونکہ محض قربانی کی خواہش کرنے سے کوئی شخص قربان نہیں ہوسکتا.بلکہ اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ کوئی دشمن ہو اور وہ بھی محض دینی مخالفت کی بناء پر اس کو قتل کرے.اور یہ چیز ایسی ہے جو کسی انسان کے اپنے اختیار میں نہیں.اور اگر کوئی شخص بجائے اس رنگ میں اپنی قربانی پیش کرنے کے کسی دوسرے شخص کے پاس جائے اور کہے کہ میری گردن پر کلہاڑی 148
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 09 جنوری 1942ء مار دو تا کہ میں خدا تعالیٰ کے رستہ میں قربان ہو جاؤں تو یہ قربانی نہیں کہلائے گی بلکہ خود کشی کہلائے گی.ایسا شخص اگر نادان ہے تو اپنی نادانی کے مطابق خدا تعالیٰ سے سزا پائے گا اور اگر عالم ہے اور اس نے دین کا علم رکھتے ہوئے ، اس فعل کا ارتکاب کیا ہے تو وہ اپنے علم کے مطابق خدا تعالیٰ سے سزا پائے گا.بہر حال اس رنگ میں مرنے والا خود کشی کرنے والا ہی سمجھا جائے گا، یہ نہیں کہا جائے گا کہ اسے دین کے ساتھ بڑا عشق تھا اور اس نے خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان دے دی.ہاں اگر کوئی شخص دین سے بغض رکھتے ہوئے اسے اسلام سے پھر انا چاہتا ہے اور جب وہ اسلام چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتا تو اپنے اندرونی خبث کے نتیجہ میں اس پر حملہ کر دیتا ہے اور مومن جان سے مارا جاتا ہے ، تب اس کے متعلق کہا جائے گا کہ وہ شہید ہوا ہے، اس کے بغیر نہیں.تو شہادت کسی انسان کے اپنے اختیار میں نہیں بلکہ دوسرے کے اختیار میں ہوتی ہے اور دوسرا بھی کوئی دوست نہیں ہوتا ، جس کے اختیار میں یہ بات ہو بلکہ دشمن کے اختیار میں یہ بات ہوتی ہے.جو کام دوستوں کے ساتھ تعلق رکھتا ہو، اس کے متعلق تو انسان خیال کر سکتا ہے کہ میں وہ کام کرانے کے لئے اپنے دوستوں سے درخواست کروں گا، ان سے التجا کروں گا اور اصرار کروں گا کہ وہ میری خواہش پوری کر دیں.مگر یہ چیز اس کے دوستوں کے اختیار میں بھی نہیں ہوتی مثلاً مہمان نوازی بڑے ثواب کا کام ہے مگر یہ انسان کے اپنے اختیار میں ہے.اسی طرح کسی دوست کی دعوت کرنا، یہ بھی انسان کے اختیار میں ہوتا ہے.وہ اپنے دوست کے پاس جا کر کہ سکتا ہے کہ میری خواہش ہے آپ آج کا کھانا ہمارے ہاں کھائیں اور وہ اس بات کو مان لیتا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس کو ہم کھانے کے لئے بلانا چاہتے ہیں ، وہ بزرگ ہوتا ہے.اس صورت میں ہم اس بزرگ کے پاس جا کر اس سے التجا کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں کھانا کھایا جائے اور اصرار کے ساتھ اس کی عنایت کے طلبگار ہوتے ہیں.تب اگر اس بزرگ کے پاس وقت ہوتا ہے اور وہ دعوت میں شامل ہونے میں کوئی حرج نہیں دیکھتا تو ہماری بات مان لیتا ہے.اسی طرح ہم اپنے خورد کے پاس جا کر پیار اور محبت سے چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے گھر آئے اور کھانا کھائے اور وہ ہماری بات مان لیتا ہے.پس یہ چیز ایسی ہے، جو ہمارے دوستوں کے قبضہ میں ہے.مگر شہادت دوست کے قبضہ میں نہیں بلکہ دشمن کے قبضہ میں ہوتی ہے اور اس میں درخواست، التجا یا اصرار کا کوئی سوال ہی نہیں ہوتا.یہ بات اس کی اپنی مرضی پر منحصر ہوتی ہے کہ چاہے تو وہ مارے اور چاہے تو نہ مارے.پھر یہ شہادت ان افعال میں سے ہے جن کو خدا نے گو بہت بڑے ثواب کا موجب قرار دیا ہے مگر ساتھ ہی اس قسم کے افعال کو اس نے روکنے کا حکم دیا ہے.اس نے یہ تو بے شک کہا ہے کہ شہادت ایک بہت بلند مقام ہے اور 149
خطبہ جمعہ فرمودہ 09 جنوری 1942ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم جو شخص شہید ہوتا ہے ، وہ بہت بڑے ثواب کا مستحق ہوتا ہے مگر اس نے یہ نہیں کہا کہ دشمن اگر تم پر حملہ کرے تو تم اس کا مقابلہ نہ کرو.بلکہ اس نے یہی حکم دیا ہے کہ جب دشمن تم پر حملہ کرے تو تم اس کا خوب مقابلہ کرو.پس ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے شہادت کو نعمت قرار دیا ہے مگر دوسری طرف اسلام کی حفاظت کے خیال سے اس نعمت کی طرف دوڑ کر جانے سے منع کیا ہے اور مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی جان کی حفاظت کیا کریں تا کہ اسلام کی حفاظت ہوتی رہے.پس اول تو شہادت کی نعمت دشمن کے قبضہ میں ہوتی ہے.پھر جس کے سامنے شہادت کا موقعہ آتا ہے، اسے بھی یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ اسے فوراً قبول کر لے بلکہ اسے یہی حکم ہوتا ہے کہ دشمن کے حملہ کو اپنی پوری طاقت کے ساتھ روکو اور اگر پھر بھی دشمن کامیاب ہو جائے تو شہادت کا انعام پاؤ.تو شہادت ان نعمتوں میں سے ہے، جو انسان کے اپنے اختیار میں نہیں.مگر کسی کو دعوت پر مدعو کرنا، یہ انسان کے اپنے اختیار میں ہوتا ہے.پس بعض نعمتیں دنیا میں ایسی ہوتی ہیں جن کو انسان اپنے اختیار سے حاصل کر سکتا ہے اور بعض نعمتیں دنیا میں ایسی ہوتی ہیں جو انسان کے اختیار سے باہر ہوتی ہیں.جو نعمتیں انسان کے اختیار سے باہر ہوتی ہیں، ان کامل جانا انسان کے نصیبے کی بات ہوتی ہے.ورنہ کئی لوگ با وجود خواہش اور کوشش کے ایسی نعمتوں سے محروم رہتے ہیں.صحابہ کو ہم دیکھتے ہیں، ان کی خواہش تھی کہ وہ خدا تعالیٰ کے رستہ میں شہید ہو جائیں اور انہوں نے مرتبہ شہادت حاصل کرنے کے لئے بڑی بڑی کوششیں کیں.مگر باوجود شدید خواہش رکھنے کے بعض شہید ہوئے اور بعض نہ ہوئے.چنانچہ بعض کو فوراً ہی شہادت کا مقام حاصل ہو گیا اور بعض ساری عمر لڑائیوں میں شامل ہونے کے باوجود شہید نہ ہوئے.امیر حمزہ جب جنگ کے لئے نکلے تو انہوں نے ابھی کوئی کام بھی نہیں کیا تھا کہ شہید ہو گئے.حالانکہ وہ اسلام کے بہترین جرنیلوں میں سے تھے اور ابتدائے زمانہ اسلام میں صرف 2 (دو) مسلمانوں میں بہادر سمجھے جاتے تھے.ایک حضرت عمر اور دوسرے امیر حمزہ.جب یہ دونوں اسلام میں داخل ہوئے تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے درخواست کی کہ ہم یہ پسند نہیں کرتے کہ ہم گھروں میں چھپ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کریں.جب کعبہ پر ہمارا بھی حق ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنے اس حق کو حاصل نہ کریں اور کھلے بندوں اللہ تعالیٰ کی عبادت نہ کریں.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جو کفار کو فساد کے جرم سے بچانے کے لئے گھر میں نماز ادا کر لیا کرتے تھے ، خانہ کعبہ میں عبادت کے لئے تشریف لے گئے اور اس وقت آپ کے ایک طرف حضرت عمر تلوار کھینچ کر چلے جارہے تھے اور دوسری طرف امیر حمزہ.اور اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خانہ کعبہ میں علی الاعلان نماز ادا 150
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 09 جنوری 1942ء کی.مگر باوجود اس کے کہ وہ اسلام کے بہترین جرنیلوں میں سے تھے، ملکہ کے رئیس تھے اور دشمنان اسلام ان سے ڈرتے تھے.جب وہ پہلی مرتبہ لڑائی میں شامل ہوئے تو بغیر اس کے کہ وہ اپنی بہادری کے کوئی جو ہر دکھاتے ہیں تھیں منٹ کے اندر اندر مارے گئے.وہ ایک دشمن کو زیر کرنے کے بعد واپس آرہے تھے کہ پیچھے سے ایک شخص نے خنجر مار دیا اور وہ بہادر جو اسلام کے ابتدائی ایام کے زبر دست جرنیلوں میں سے تھا اور جسے لڑائی میں شامل ہوئے ابھی بمشکل نصف گھنٹہ گزرا تھا، شہید ہو گیا.اس کے مقابلہ میں کئی لوگ بعد میں آئے اور وہ بارہ بارہ، تیرہ تیرہ جنگوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل رہے اور آپ کی وفات کے بعد بھی بیسیوں جنگوں میں شامل ہوئے مگر اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت انہیں شہید ہونے کا موقع نہ ملا.حضرت خالد بن ولید ، جنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سیف من سيوف الله قرار دیا تھا یعنی اللہ تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار.ان کے دل میں اسلام کو پھیلانے کا جو جوش تھا.وہ تاریخ سے واقفیت رکھنے والے لوگ خوب جانتے ہیں.وہ سالہا سال اسلامی فوج کے کمانڈر رہے اور اسلامی فوج کا کمانڈر گھر میں نہیں بیٹھ رہتا تھا بلکہ وہ لڑائی میں فوج کے ساتھ شامل ہوا کرتا تھا.حضرت خالد بن ولید بھی لڑائی میں شامل ہوتے اور ہر موقعہ پر جہاں جنگ کا زور ہوتا ، اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کر دیتے تھے.گو جرنیل ہونے کے لحاظ سے ان کے لئے یہ بات نامناسب تھی اور بڑے بڑے صحابہ ان کو کہا بھی کرتے تھے کہ یہ طریق آپ کے منصب کے خلاف ہے.آپ کا کام فوج کو صحیح طور پر لڑانا ہے، نہ کہ اپنے آپ کو ہر خطرہ کے مقام میں ڈال دینا.مگر جوش شہادت میں وہ اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرتے تھے اور ہمیشہ خطرناک مواقع پر اپنی جان قربان کرنے کے لئے میدان جنگ میں کود پڑتے تھے.مگر مشیت ایزدی کے ماتحت وہ شہید نہ ہوئے.بلکہ ایک لمبی بیماری کے بعد انہوں نے گھر میں وفات پائی.حالانکہ بیسیوں لوگ جنہوں نے ان کے بعد اسلام قبول کیا تھا اور جنہیں ان خطرات میں شامل ہونے کا موقع نہیں ملا تھا، جن خطرات میں شامل ہونے کا حضرت خالد بن ولید کو موقع ملا، وہ آپ سے پہلے شہادت پاگئے.تاریخوں میں آتا ہے کہ جب حضرت خالد وفات پانے لگے تو ایک دوست ان کے ملنے کے لئے آیا اور اس نے دیکھا کہ حضرت خالد حسرت کے ساتھ کراہ رہے ہیں.وہ کہنے لگا خالد کیوں کراہتے ہو؟ اللہ تعالیٰ کی جنت تمہارا انتظار کر رہی ہے.حضرت خالد نے یہ سنا تو بے اختیار رو پڑے اور کہنے لگے، میں نے اپنی ساری عمر اس انتظار اور امید میں گزار دی کہ شاید خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہونے کا مجھے بھی موقع میسر 151
خطبہ جمعہ فرمودہ 09 جنوری 1942ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم آجائے.مگر افسوس میں شہید نہ ہوا اور آج میں اپنے بستر پر جان دے رہا ہوں.حالانکہ خدا جانتا ہے میں نے اپنی طرف سے اس پیالہ کے پینے میں کوئی کوتاہی نہیں کی اور میں نے پور از ور لگایا کہ کسی طرح شہادت کا مرتبہ مجھے نصیب ہو جائے مگر افسوس! میں اس سے محروم رہا.پھر اسے کہنے لگے میرے سینہ پر سے کر نہ تو اٹھاؤ.اس نے اٹھایا تو کہنے لگے میرے سینہ کو دیکھو اور بتاؤ کہ کیا کوئی ایسی جگہ ہے جہاں تلوار کے زخموں کے نشانات نہ ہوں ؟ اس نے کہا کوئی جگہ نہیں ، سب جگہ تلوار کے زخموں کے نشانات پائے جاتے ہیں.پھر کہنے لگے اچھا اب میری پیٹھ پر سے کرتہ اٹھاؤ اور دیکھو کہ کیا میری پیٹھ پر بھی کوئی ایسی جگہ ہے جہاں تلوار کے زخموں کے نشانات نہ ہوں؟ اس نے پیٹھ پر سے کر نہ اٹھایا اور دیکھ کر کہنے لگا کہ پیٹھ پر بھی ہر جگہ تلوار کے زخموں کے نشانات پائے جاتے ہیں.پھر انہوں نے کہا اب میرے پانچے اٹھا کر دیکھو کہ کیا میری لاتوں پر کوئی ایسی جگہ ہے جہاں تلوار کے زخموں کے نشانات نہ ہوں؟ اس نے دیکھا اور کہا کہ کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں تلوار کے زخموں کے نشانات نہ ہوں.یہ نشانات دکھانے کے بعد حضرت خالد کہنے لگے تم دیکھ سکتے ہو کہ میں نے کس طرح اپنے آپ کو بے پرواہ ہو کر جنگ میں ڈالا کہ آج میرے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں جس پر تلوار کے زخموں کے نشانات نہ ہوں مگر وہ لوگ جو میرے پیچھے آئے تھے ، وہ تو جام شہادت پی کر پنے رب کے پاس چلے گئے اور میں بستر پر تڑپ تڑپ کر جان دے رہا ہوں.تو دیکھو ایک قربانیاں وہ ہوتی ہیں، جو انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتیں بلکہ دشمن کے قبضہ میں ہوتی ہیں.مگر ایک قربانیاں وہ ہوتی ہیں، جو انسان کے اپنے اختیار میں ہوتی ہیں.جو قربانیاں انسان کے اپنے اختیار میں ہوتی ہیں در حقیقت انہی کے ذریعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انسان وہ قربانیاں بھی کر سکتا ہے یا نہیں ، جو اس کے اختیار سے باہر ہیں.ورنہ انسان اپنے دل میں خواہشیں تو کیا ہی کرتا ہے؟ تو انما الاعمال بالنيات.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا انسانی عمل نیتوں کے مطابق ہوتا ہے.دیکھو خالد کی نیت یہ تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو جا ئیں مگر عمل نیت کے مطابق نہ ہو سکا یعنی وہ شہید نہ ہوئے.مگر کیا تم سمجھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جس وقت ارواح پیش ہوں گی ، اس وقت وہ لوگ جو خالد سے سالہا سال پیچھے آئے اور جنہوں نے خالد سے سینکڑوں گنا کم قربانیاں کی تھیں.وہ تو شہیدوں کی صف میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے اور حضرت خالد پچھلی صف میں محض صلحاء کے زمرہ میں پیش ہوں گے؟ یہ کبھی نہیں ہوسکتا.بلکہ حق یہ ہے کہ اگر ان شہداء کی ارواح صرف ایک ایک شہید کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گی تو حضرت خالد کی روح ہزاروں شہیدوں کی صورت میں خدا تعالیٰ کے 152
.خطبہ جمعہ فرموده 09 جنوری 1942ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد دوم سامنے پیش کی جائے گی.کیونکہ انما الاعمال بالنیات اعمال نیت کے تابع ہوتے ہیں، نہ کہ نیست اعمال کے تابع ہوتی ہے.اگر ان لوگوں نے صرف ایک دفعہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہونے کا ارادہ کیا اور وہ شہید ہو گئے تو خالد نے سینکڑوں دفعہ خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہونے کا ارادہ کیا.گو حکمت الہی نے انہیں ظاہر میں شہید نہ ہونے دیا.اگر عمل پر خدا تعالیٰ جزا دیتا تو وہ ہزاروں لوگ جن کے دلوں میں بہت زیادہ قربانی کا جذبہ ہوتا ہے مگر حالات کی وجہ سے وہ اپنے دل کے حوصلے نہیں نکال سکتے اور قربانیاں اپنے دل کے ارادہ کے مطابق نہیں کر سکتے ، وہ تو محروم رہ جاتے اور جن کو کسی قربانی میں شریک ہونے کا موقع مل جاتا گوان کا دل بہت زیادہ قربانی پر آمادہ نہ ہوتا، وہ زیادہ ثواب لے جاتے.مگر اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرے گا.پھر اگر انسانی اعمال پر ہی اللہ تعالیٰ کی جزا کا انحصار ہوتا تو جتنے امراء ہیں، وہ دنیا میں بھی آرام سے رہیں اور اگلے جہان بھی زیادہ انعامات لے جائیں.مگر ایسا نہیں ہوگا.ایک کروڑ پتی آدمی اگر چاہے تو آسانی سے دس لاکھ روپیہ چندہ دے سکتا ہے.مگر ایک غریب آدمی جس کے پاس صرف ایک مٹھی بھر آتا ہے ، وہ اس سے ایک دانہ زیادہ بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں نہیں دے سکتا.اب اگر خدا تعالیٰ کے حضور محض یہی بات دیکھی جاتی کہ ایک شخص نے دس لاکھ روپے دیئے ہیں اور دوسرے نے صرف مٹھی بھر آٹا.تو کہا جا سکتا تھا کہ خدا تعالیٰ انسانی عمل کو دیکھتا ہے، اس کی نیت کو نہیں دیکھتا اور اس صورت میں صرف وہی لوگ انعامات حاصل کر سکتے ، جو امراء ہوتے یا جنہیں کسی قربانی میں شامل ہونے کا موقع ملا ہوتا.مگر اللہ تعالیٰ ان باتوں کو نہیں دیکھتا اور نہ اس کی نظر ظاہر پر ہوتی ہے.بلکہ وہ انسان کی نیت اور اس کے ارادہ کو دیکھتا اور اسی کے مطابق اس سے سلوک کرتا ہے.ایک ایسا شخص جس کے پاس ایک کروڑ روپیہ موجود ہے، وہ اگر دس لاکھ روپیہ چندہ دے دیتا ہے تو گو یہ بھی ایک نیکی ہے مگر اس کے مقابلہ میں وہ شخص جس کے پاس صرف مٹھی بھر جو تھے اور اس نے وہ تمام کے تمام جو خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دیئے اور اپنے لئے یا اپنی بیوی اور بچوں کے لئے اس نے کچھ نہیں رکھا.وہ یقیناً ان دس لاکھ روپے دینے والے سے خدا تعالیٰ کے حضور زیادہ عزت کا مستحق ہے.کیونکہ دس لاکھ روپے دینے والے کی نیت یہ تھی کہ میں اپنی جائیداد کا دسواں حصہ خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دوں اور مٹھی بھر جو دینے والے کی نیت یہ تھی کہ میرے پاس جو کچھ ہے، وہ میں خدا تعالیٰ کے رستہ میں قربان کر دوں.بے شک اس کے پاس صرف مٹھی بھر جو تھے ، جو اس نے دے دیئے.لیکن اس نیت کے مطابق اگر اس کے پاس ایک کروڑ روپیہ ہوتا تو وہ اس ایک کروڑ روپیہ میں سے دس لاکھ نہ دیتا، ہیں لاکھ نہ دیتا، 153
خطبہ جمعہ فرمودہ 09 جنوری 1942ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم تمیں لاکھ نہ دیتا بلکہ جس طرح اس نے سالم مٹھی جو کی خدا تعالیٰ کی راہ میں پیش کر دی تھی ، اسی طرح وہ سب کو طرح وہ کا سب روپیہ خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دیتا اور اپنے پاس ایک پیسہ بھی نہ رکھتا.تو رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں الاعمال بالنيات.سیمت خیال کرو کہ تمہارے اعمال ظاہری صورت میں خدا تعالیٰ کے پاس جاتے ہیں، وہ ظاہری صورت میں نہیں جاتے بلکہ جس قسم کی نیت کے تابع ہوتے ہیں، اسی قسم کی نیت کے ساتھ خدا تعالیٰ تک پہنچتے ہیں.ایک ایسا شخص جو اچھی طرح بول بھی نہیں سکتا، وہ اگر ٹوٹی پھوٹی زبان میں کسی کو تبلیغ کرتا ہے تو کیا تم سمجھتے ہو کہ خدا تعالیٰ کے حضور اس کا مقام اونی ہوگا اور وہ شخص جو بڑالسان ہو، بڑا مشہور لیکچرار ہو اور اپنی تقریر سے لوگوں کو گرویدہ بنا لیتا ہو، اس کا مقام زیادہ ہوگا ؟ ایسا ہر گز نہیں ہوگا.بلکہ خدا تعالیٰ کے حضور دونوں کی نیت دیکھی جائے گی.بسا اوقات ایسا ہوگا کہ جو شخص نہایت عمدہ تقریر کرنے والا ہے، اس کی نیت خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول نہیں ہوگی بلکہ وہ اس لئے تقریریں کرتا ہوگا تا کہ لوگ واہ واہ کریں اور اس کی تعریف کریں.پھر یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی نیت تو خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول اور اس کی مخلوق کو فائدہ پہنچانا ہی ہو مگر اس کے دل میں وہ سوز اور گداز نہ ہو، جس کے بغیر قلوب کی اصلاح نہیں ہوسکتی.پھر بعض دفعہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ایک شخص نہایت عمدہ تقریر کرنے والا ہو، اس کے دل میں سوز اور گداز بھی ہو مگر اس کے اندر یہ آگ نہ ہو کہ جب تک دنیا کے کونہ کونہ میں میں خدا تعالیٰ کا پیغام نہ پہنچا لوں گا، آرام کا سانس نہیں لوں گا.اس کے مقابلہ میں وہ شخص جو بہت تھوڑی باتیں کر سکتا ہے، جو لمبی تقریریں نہیں کر سکتا مگر اس کے دل میں ہر وقت یہ آگ سلگتی رہتی ہے کہ میں خدا تعالیٰ کا پیغام اس کی بھولی بھٹکی مخلوق تک پہنچاؤں اور وہ رات اور دن ، کرب اور بے اطمینانی کے ساتھ گزارتا ہے اور کہتا ہے کہ جب تک میں اپنے بھائیوں کو خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے وصال کی طرف نہ لے آؤں گا، مجھے امن اور چین حاصل نہیں ہوگا ، یقیناً خدا تعالیٰ کے حضور زیادہ بلند مقام رکھے گا اور یقیناً اس کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ ، خدا تعالیٰ کو دوسرے کی اعلیٰ درجہ کی تقریروں سے زیادہ پسند آئیں گے.کیونکہ انما الاعمال بالنیات.پہلے شخص کی تقریر کے پیچھے جونیت تھی، وہ ایسی اعلیٰ نہیں تھی.مگر اس کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کے پیچھے جو نیت تھی ، وہ بہت اعلی تھی.اسی طرح قربانی کے متعلق قرآن کریم نے یہ اصول بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ خون اور گوشت کو نہیں دیکھتا بلکہ قربانی کرنے والے کی نیت کو دیکھتا ہے.ایک امیر آدمی آسانی کے ساتھ سو اونٹ یا سوڈ نے خدا تعالیٰ کی راہ میں ذبح کر سکتا ہے.لیکن ایک غریب آدمی جو سال بھر قربانی کے لئے پیسے جمع کرتا رہتا ہے 154
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرموده 09 جنوری 1942ء اور جس کا ایک ایک دن اس حسرت میں گزرتا ہے کہ کاش میرے پاس اتنی رقم جمع ہو جائے کہ میں ایک دفعہ عید کے موقع پر قربانی کر کے اس کا کچھ گوشت خدا کی راہ میں تقسیم کر دوں اور کچھ گوشت اپنے دوستوں کو تحفہ پیش کروں.وہ اگر سال بھر کی محنت اور تگ و دو کے بعد ایک معمولی سی بکری یا چھوٹی سی دنبی قربانی کرتا ہے تو کیا تم سمجھتے ہو کہ خدا تعالیٰ اس کی معمولی سی بکری یا چھوٹی سی دنبی کو رد کر دے گا اور اس امیر کے موٹے تازے دنبوں کو قبول کر لے گا؟ اگر خدا تعالیٰ انسانی عمل پر فیصلہ کرتا تو یقیناً اس امیر کے موٹے تازے دنبے قبول کر لئے جاتے اور اس غریب کی معمولی سی بکری یا چھوٹی سی دنبی رد کر دی جاتی.مگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ انسانی اعمال پر نہیں ہوگا بلکہ وہ فرماتا ہے:.يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ (الحج:38 ) خدا تعالیٰ کے حضور قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا.اگر اس کے پاس گوشت اور خون پہنچا کرتا تو وہ اچھا گوشت پسند کر لیتا اور تب وہ ان قربانیوں کو قبول کر لیتا ، جن میں بہت زیادہ خون بہایا گیا ہو.مگر وہ فرماتا ہے.ہمارے پاس ان چیزوں میں سے کوئی چیز نہیں پہنچتی.ہمارے پاس تو يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ (الحج : 38) قربانی کے پیچھے جو نیت ہوتی ہے، وہ پہنچا کرتی ہے.اگر ایک چھوٹی سی دنبی ذبح کرنے والے کی نیت بہت اعلی تھی اور دوسو بڑے بڑے دنبے ذبح کرنے والے کی نیت ایسی اعلیٰ نہیں تھی اور اگر اگلے جہان میں تمام قربانیوں نے متمثل ہونا ہے.جیسا کہ قرآن کریم سے اس کا پتہ چلتا ہے تو قیامت کے دن جس نے دو سود نے ذبح کئے ہوں گے.اگر اس کے ساتھ اعلیٰ اخلاص نہ ہوگا تو اس کے ساتھ دوسود نے نہیں ہوں گے بلکہ ایک مریل سی دنبی ہوگی اور جس نے ایک چھوٹی سی دنبی ذبح کی تھی.اگر اس نے اعلیٰ اخلاص اور محبت کے ساتھ یہ قربانی کی تھی تو قیامت کے دن اس کے ساتھ ایک چھوٹی سی دنبی نہیں ہوگی بلکہ ہزار ہا موٹے تازے دنبے ہوں گے.کیونکہ اس جہان میں چیزیں بدل جاتی ہیں اور وہ سب کی سب نیست کے تابع ہو جاتی ہیں.تو یا درکھو اعمال نیتوں کے تابع ہیں، نیتیں اعمال کے تابع نہیں ہیں.پس اپنی نیت کے مطابق ہر انسان خدا تعالیٰ کے رستہ میں جو قربانی کرتا ہے، خدا تعالیٰ اس سے ویسا ہی سلوک کرتا ہے.جیسے اس کی نیت ہوتی ہے اور جبکہ نیت ہر انسان کے اختیار میں ہے مگر عمل اس کے اختیار میں نہیں.تو کتنے افسوس کی 155
خطبہ جمعہ فرمودہ 09 جنوری 1942ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم - بات ہوگی اگر کوئی شخص اپنی نیت کی درستی کی طرف بھی توجہ نہ کرے.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر ہماری جماعت کے تمام افراد اپنی نیتوں کی درستی کی طرف توجہ کریں تو یہ نہیں کہ قربانی کم ہو جائے گی بلکہ قربانی کا درجہ بہت زیادہ بلند ہو جائے گا.کیونکہ نیتوں کی درستی کے ساتھ انسان کے کاموں میں برکتیں پیدا ہو جاتی ہیں اور چھوٹی چھوٹی قربانیاں عظیم الشان نتائج پیدا کر دیا کرتی ہیں.ہم نے بھی تحریک جدید سے ایک عظیم الشان کام سرانجام دینے کی نیت کی ہے اور ہمارا ارادہ اس روپیہ سے ایک بہت بڑے اور اہم کام کی داغ بیل ڈالنے کا ہے.اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہم سے کتنا کام ہوگا اور ہم اپنے مقصد میں کہاں تک کامیاب ہوں گے؟ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر ہماری جماعت کے تمام افراد اپنی نیتوں کو درست کرلیں اور نیتوں کو درست کرنے کے بعد تحریک جدید کی قربانیوں میں حصہ لیں تو افراد کی نیتوں کی درستی، ہماری جماعتی نیت میں بھی عظیم الشان برکت پیدا کرسکتی اور ہماری حقیر کوششوں کے بہت بڑے نتائج پیدا کرسکتی ہے.جماعت کیا ہے؟ جماعت افراد کے مجموعہ کا نام ہے اور جماعتی لحاظ سے ہم نے یہ نیت کی ہوئی ہے کہ ہم تحریک جدید کے چندہ سے تبلیغ اسلام کا ایک مرکزی فنڈ قائم کریں گے.جس کے نتیجہ میں ایک دن ہماری تبلیغ خدا تعالیٰ کے فضل سے ساری دنیا تک پہنچ جائے گی اور احمدیت تمام عالم پر چھا جائے گی.یہ نیت ہے، جو تحریک جدید کے چندہ کے متعلق جماعتی رنگ میں ہم رکھتے ہیں.اگر اس تحریک میں حصہ لینے والے دوست بھی اپنی اپنی نیتوں کو درست کر لیں تو چونکہ جماعت افراد کے مجموعہ کا ہی نام ہوتا ہے، اس لئے افراد کی نیت کی درستی ہماری جماعتی نیست کو بھی درست کر دے گی اور اس میں ایسی برکت پیدا ہو جائے گی کہ جلد سے جلد اس کے شیریں ثمرات پیدا ہونے شروع ہو جائیں گے.پس میں جماعت کے دوستوں کو پھر نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی نیتوں کو درست کرو، اپنے ارادوں کو نیک بناؤ اور اپنی کمروں کو کس لو.کیونکہ اب تحریک جدید کا ایک لمبا دور گزر چکا ہے اور بہت تھوڑا باقی ہے.جو جماعتیں اپنے چندوں کی لٹیں بھجوا چکی ہیں، ان کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی لسٹوں پر نظر ثانی کریں اور جن دوستوں نے اپنی طاقت سے کم قربانی کی ہے، ان کے پاس ایک دفعہ پھر جائیں اور ان کے سامنے ان کی آمد اور ان کی قربانی کا نقشہ پیش کر کے کوشش کریں کہ وہ پھر اپنے وعدوں پر غور کریں اور اپنے چندوں میں اضافہ کریں.اسی طرح ہماری جماعت کے سینکڑوں افراد ایسے ہیں جو براہ راست چندہ بھجواتے ہیں، ان کو بھی میں نصیحت کرتا ہوں کہ جن افراد نے اپنی حیثیت کے مطابق قربانی نہیں کی یا کچھ چندہ تو دے دیا ہے مگر وہ کسی صورت میں ان کی قربانی نہیں کہلا سکتا، وہ بھی اپنے وعدوں پر نظر ثانی کریں 156
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرموده 09 جنوری 1942ء اور مطالبہ کے مطابق قربانی کریں.پھر جن جماعتوں کی طرف سے ابھی تک چندوں کی فہرستیں نہیں آئیں یا وہ افراد جنہوں نے ابھی تک اپنے وعدے نہیں لکھائے اور ایسے لوگ ہماری جماعت میں سینکڑوں کی تعداد میں ہیں.ان کو بھی میں توجہ دلاتا ہوں اور 31 جنوری آخری تاریخ ہے اور چونکہ 31 جنوری کی شام تک کا وعدہ ہم قبول کر لیا کرتے ہیں اور کئی مقامات ایسے ہیں، جہاں سے شام کو ڈاک روانہ نہیں ہوتی ، اس لئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جس خط پر یکم فروری کی مہر ہوگی ، اسے بھی 31 جنوری تک کے وعدوں کے اندر شمار کیا جائے گا.پس اس قسم کی تمام جماعتیں جنہوں نے ابھی تک اپنی لسٹیں مکمل کر کے نہیں بھجوائیں، انہیں چاہئے کہ وہ جلد سے جلد اپنی فہرستیں مکمل کر کے مرکز میں بھجوا دیں.اسی طرح جن افراد نے ابھی تک اس طرف توجہ نہیں کی ، انہیں چاہئے کہ بہت جلد اپنے وعدوں کی فہرستیں مکمل کر کے مرکز میں بھجوا دیں تا کہ خدا تعالیٰ کے حضور وہ سابقون میں شامل ہوں، پیچھے رہنے والوں میں شامل نہ ہوں.یا درکھو جو لوگ آخری تاریخ کا انتظار کرتے رہتے ہیں، وہ بعض دفعہ اپنی غفلت کی وجہ سے آخری تاریخ کو بھی وعدہ نہیں کر سکتے اور ان کا وعدہ ہمارے پاس ایسے وقت میں پہنچتا ہے جبکہ اسے قبول نہیں کیا جاسکتا.پس یہ مت خیال کرو کہ 31 جنوری آخری تاریخ ہے.اس تاریخ کو تم اپنا وعدہ لکھا دو گے.اس لئے کہ اگر تم نے 31 جنوری کو اپنا وعدہ لکھایا تو تم وعدہ کرنے والوں میں آخری آدمی ہو گے اور یہ کوئی خوشی کی بات نہیں ہو سکتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں کہ جنت میں جانے والا آخری شخص وہ ہوگا، جو دوزخ میں سے سب کے بعد نکلے گا.پس اگر تم بھی وعدہ کرنے والوں میں آخری آدمی بنتے ہو تو یہ تمہارے لئے کوئی خوشی کا مقام نہیں ہو سکتا تمہیں تو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ تم نیکی میں سب سے پہلے حصہ لینے والے بنو اور اگر تم کسی وجہ سے پہلے حصہ لینے والوں میں نہیں آسکتے تو کوشش کرو کہ درمیانی درجہ تمہیں میسر آجائے اور اگر تم درمیان میں بھی شامل نہیں ہو سکے تو اس کے بعد جس قدر جلد نیکی میں حصہ لے سکتے ہو لے لو اور کم سے کم تم یہ کوشش کرو کہ تم آخری آدمیوں میں سے مت بنو.پس میں اس خطبہ کے ذریعہ ایک دفعہ پھر جماعتوں اور افراد کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلد سے جلد اپنے وعدوں کی فہرستیں مکمل کر کے مرکز میں بھجواد میں اور جو جماعتیں اپنی لسٹیں بھجوا چکی ہیں، اسی طرح جو افراد اپنے وعدے ایک دفعہ لکھا چکے ہیں، وہ تمام جماعتیں اور افراد اپنے اپنے وعدوں پر نظر ثانی کریں اور تحریک جدید کے ماتحت زیادہ سے زیادہ قربانیاں کریں.اس تحریک کے دس سالوں میں سے سات سال گزر چکے ہیں اور اب صرف تین سال باقی رہ گئے ہیں.خدا ہی جانتا ہے کہ ہماری آئندہ نسلوں کو اس 157
خطبہ جمعہ فرمودہ 09 جنوری 1942ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم تحریک کے ماتحت کام کرنے کا کس حد تک موقع ملے گا؟ لیکن یہ تو ظاہر ہی ہے کہ ہماری نیست اس روپیہ سے ایک ایسا فنڈ قائم کرنے کی ہے جس سے قیامت تک اسلام اور احمدیت کی تبلیغ ہوتی رہے اور قیامت تک مسلمان ہونے والوں اور احمدیت میں داخل ہونے کا ثواب، اس تحریک جدید میں شامل ہونے والے دوستوں کو ملتا ر ہے.کیونکہ یہ روپیہ ایک مرکزی تبلیغی فنڈ پر خرچ ہوگا اور اس فنڈ کے قیام میں جن لوگوں کا حصہ ہو گا ، یقیناً ان سب کو اللہ تعالیٰ قیامت تک ثواب عطا فرماتا رہے گا.یہ اتنے بڑے فخر کی بات ہے کہ اگر ہماری جماعت کے احباب اس نقطہ کو اچھی طرح سمجھ لیں تو اپنی قربانیاں ان کو حقیر نظر آنے لگیں.تم اپنے ایک لڑکے پر خوش ہوتے ہو اور اگر تمہارے دولڑ کے ہوں تو تم اور بھی زیادہ خوش ہوتے ہو، اگر تمہارے تین لڑکے ہو جائیں تو تم اور زیادہ خوش ہوتے ہو اور اگر تمہارے پانچ یا دس لڑکے ہو جائیں تو تم خوشی سے اپنے جامہ میں پھولے نہیں سماتے اور تم فخر سے اپنے دوستوں کے پاس ان کا ذکر کرتے ہو اور کہتے ہو کہ میرے پانچ یا دس لڑکے ہو گئے ہیں.اب میری نسل خوب چلے گی.حالانکہ بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ ایک شخص کے دس لڑکے ہوئے مگر وہ دس کے دس بے اولا در ہے اور اس کی نسل کا خاتمہ ہو گیا.اسی طرح ہم نے دیکھا ہے کہ ایک شخص کے دس لڑکے ہوئے ، ان دس لڑکوں میں سے ہر ایک کے آگے پانچ پانچ ، سات سات آٹھ آٹھ لڑکے ہوئے.پھر ان لڑکوں کے لڑکے ہوئے اور اسی طرح نسل چلتی گئی مگر سات آٹھ پشتوں کے بعد کوئی ایسی و با پڑی یا ایسی تباہی آئی کہ اس قوم کا نام و نشان تک مٹ گیا لیکن ہم نے ان لوگوں کے نام کو کبھی ملتے نہیں دیکھا، جنہوں نے خدا تعالیٰ کے نام پر قربانیاں کی ہیں.دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں کی نسلیں آج تلاش کرنے کے باوجود نہیں مل سکتیں.ممکن ہے وہ بالکل مٹ گئی ہوں اور بالکل ممکن ہے کہ ان فاتح بادشاہوں کی نسلیں آج چوڑھوں اور سائنسیوں کی شکلوں میں موجود ہوں لیکن ہم انہیں پہچان نہ سکتے ہوں کہ یہ فلاں بادشاہ کی نسل میں سے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ کے بندے جو اس کی راہ میں قربانیاں کرتے ہیں، ان کو ہم نے آج تک کبھی مٹتے نہیں دیکھا بلکہ جب ان کی قربانیاں انتہا کو پہنچ جاتی ہیں تو بسا اوقات خدا تعالیٰ ان کی جسمانی نسلوں کی بھی حفاظت کرتا ہے.چنانچہ دیکھ لو، حضرت ابراہیم نے جو قربانیاں کیں ان کا تعلق دین سے ہی ہے.ان قربانیوں کے بدلہ میں اگر خدا تعالیٰ حضرت ابراہیم کے نام کو دنیا میں ہمیشہ قائم رکھتا اور آپ پر قیامت تک درود اور سلام بھیجا جاتا تو یہی انعام کافی تھا.مگر خدا تعالیٰ نے انہیں صرف روحانی انعام ہی نہیں دیا بلکہ یہ بھی کہا کہ 158
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 09 جنوری 1942ء میں تیری نسل کو بھی بڑھاؤں گا اور اسے ہمیشہ سرسبز و شاداب رکھوں گا.یہ ایک مادی انعام ہے جو روحانی انعام کے ساتھ آپ کو حاصل ہوا اور جس سے خدا تعالیٰ کی غرض یہ ہوتی ہے کہ جو لوگ روحانی انعام سے سبق حاصل نہیں کرتے ، وہ مادی انعام سے ہی سبق حاصل کر لیں.کیونکہ دنیا میں ایک طبقہ ایسے لوگوں کا بھی ہے جو اللہ تعالیٰ کے روحانی انعامات کو نہیں دیکھتا بلکہ اس کے مادی انعامات کو دیکھتا ہے.اسی طرح بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے روحانی عذاب سے فائدہ نہیں اٹھاتے البتہ کسی پر جسمانی عذاب نازل ہو تو اس سے ان کو بڑی عبرت ہوتی ہے.ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ بعض دفعہ جسمانی عذاب کا نظارہ بھی دکھا دیتا ہے.جیسے فرعون اس وقت ایک روحانی عذاب میں بھی مبتلا ہے مگر کئی لوگ ہیں جو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہمیں اگلے جہان کا کیا پتہ ، معلوم نہیں اسے عذاب ہورہا ہے یا نہیں ہو رہا؟ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے جسمانی عذاب کا نظارہ دکھانے کے لیے فرعون کی لاش کی حفاظت کی ، جو آج تک موجود ہے.اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ جو فرعون کی لاش کی حفاظت کے متعلق تھا، ایک دنیوی عذاب تھا جوفرعون کو ملا.چنانچہ آج ہر شخص جو موسی کو ماننے والا ہے، ہر شخص جو عیسی کو ماننے والا ہے، ہر شخص جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ماننے والا ہے، جب بھی فرعون کی لاش کو دیکھتا ہے، اس پر لعنت ڈالتا ہے.یہ کتنا بڑا عذاب ہے جو فرعون کو مل رہا ہے.پھر اس عذاب کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے.جب ہم دیکھتے ہیں کہ فرعون ان بادشا ہوں میں سے تھا جو اپنے منہ پر ہمیشہ نقاب اوڑھے رہتے تھے اور انہوں نے لوگوں میں یہ مشہور کر رکھا تھا کہ جو شخص بادشاہ کی شکل دیکھ لے، وہ کوڑھی ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اس کی ہتک کرتا ہے.اسی لیے وہ ہمیشہ اپنے منہ پر نقاب رکھتے تھے، یہ بتانے کے لئے کہ ہم ایسے عالی شان انسان ہیں کہ ہماری شکل دیکھنا بھی ہر کس و ناکس کا کام نہیں.اور اگر کسی شخص کے لئے بادشاہ اپنا نقاب اٹھا دیتا تھا تو وہ بہت بڑا مقرب سمجھا جاتا تھا اور وہ اپنی قوم کا سردار بن جاتا تھا.مگر آج اس کی لاش عجائب گھر میں پڑی ہوئی ہے اور دو دو آنے کا ٹکٹ لے کر ہر چوڑھا اور بھنگی بھی اسے دیکھ سکتا ہے اور جس طرح بندر کا تماشہ دیکھا جاتا اسی طرح فرعون کی لاش دیکھی جاتی ہے.پھر دیکھنے والا کن جذبات کے ماتحت اسے دیکھتا ہے، اچھے جذبات کے ماتحت نہیں بلکہ ہر دیکھنے والا اس پر لعنت ڈالتا ہے اور کہتا ہے خبیث تو تھا، موسی" کو دکھ دینے والا تو اللہ تعالی کبھی کبھی روحانی عذابوں کے ساتھ جسمانی عذاب کا سلسلہ بھی جاری کر دیا کرتا ہے اور کبھی کبھی روحانی انعاموں کے علاوہ جسمانی انعام بھی قربانی کرنے والوں پر نازل کر دیتا ہے.159
خطبہ جمعہ فرمودہ 09 جنوری 1942ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم پس بالکل ممکن ہے کہ جو لوگ تحریک جدید میں حصہ لے رہے ہیں، ان میں سے اعلیٰ درجہ کی قربانی کرنے والے لوگوں کو اللہ تعالیٰ صرف اپنے روحانی انعامات ہی نہ دے بلکہ اپنے جسمانی انعامات سے بھی انہیں حصہ عطا فرمائے.کیونکہ جس طرح ہم نے قربانی کے مختلف درجے مقرر کیے ہوئے ہیں، اسی طرح خدا تعالیٰ کے حضور قربانیوں کے مختلف مدارج ہیں.پس بالکل ممکن ہے کہ جو لوگ اعلیٰ درجہ کی نیت کے ساتھ قربانی کرنے والے ہیں.خدا تعالیٰ ان کے متعلق یہ فیصلہ فرمادے کہ ان کے جسمانی نام کو بھی قائم رکھا جائے گا اور ان کے روحانی نام کو بھی قائم رکھا جائے گا.مگر اس کا تعلق روپیہ سے نہیں بلکہ نیت کے ساتھ ہے.اگر ایک شخص تحریک جدید میں سو روپیہ چندہ دیتا ہے مگر در حقیقت وہ ایک ہزار روپیہ دینے کی توفیق رکھتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کے سو روپیہ چندہ کو کبھی اعلی قربانی قرار نہیں دے گا.اسی طرح اگر کوئی شخص دس ہزار روپیہ دینے کی توفیق رکھتا ہے مگر وہ صرف ایک ہزار روپیہ چندہ دیتا ہے تو اس کا ایک ہزار روپیہ دینا خدا تعالیٰ کے نزدیک ہرگز اعلی قربانی نہیں کہلا سکتا.کیونکہ اللہ تعالیٰ انسان کی نیت کو دیکھتا ہے اور اس کے مطابق اس سے سلوک کرتا ہے.پس اپنی نیتوں کو درست کرو اور ان نیتوں کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرو.تا کہ اس دس سالہ جہاد کا اختتام تمہیں اس دس سالہ جہاد کے آغاز سے بہت زیادہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث کرے.اور تا کہ تمہارے بیعت میں داخل ہونے والے دن سے، تمہاری موت کا دن تمہارے لئے زیادہ شاندار ہو.بالعموم انسان جب کسی صداقت کو قبول کرتا ہے تو ابتداء میں اس کے اندر بڑا ولولہ اور جوش ہوتا ہے مگر آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہو جاتا ہے لیکن مومن وہ ہے، جس کی موت کا دن، اس کی بیعت کے دن سے زیادہ با برکت ہو.بیعت کیا ہے؟ بیعت ایک انسان کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کا نام ہے مگر تم جانتے ہو، زندگی کی بیعت تو کسی بندے کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے کر کی جاتی ہے مگر موت کی بیعت خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے کر کی جاتی ہے.زندگی میں چونکہ انسان خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دے سکتا کیونکہ وہ کوئی جسمانی وجود نہیں، اس لئے خدا تعالیٰ کے نمائندوں کے ہاتھ پر بیعت کی جاتی ہے، جو جسمانی زندگی کی بیعت کہلاتی ہے.مگر ایک بیعت وہ ہے جو خدا تعالیٰ کے ہاتھ پر کی جاتی ہے اور وہ بیعت وہی ہے، جوموت کے وقت مومن اپنے خدا کے ہاتھ پر کرتا ہے.اس میں کیا شبہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ پر بیعت اس بیعت سے بہت زیادہ شاندار ہونی چاہئے جو اس کے کسی نمائندہ کے ہاتھ پر کی جائے.پس کامل 160
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 09 جنوری 1942ء مومن وہی ہے، جس کی زندگی کی بیعت کے دن سے اس کی موت کا دن زیادہ شاندار ہو اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ مومن اپنی نیت اور اپنے اعمال کو بڑھاتا چلا جائے ، بڑھاتا چلا جائے اور بڑھاتا چلا جائے، یہاں تک کہ وہ وفات پا کر اپنے رب کے حضور حاضر ہو جائے.میں امید کرتا ہوں کہ جماعتیں جلد سے جلد اپنے فرائض کی ادائیگی کی طرف توجہ کریں گی اور اسی میعاد کے اندر جو تجویز کی گئی ہے، اپنی قربانیوں کا اعلیٰ نمونہ دکھا ئیں گی یعنی ہندوستان کی جماعتیں اپنے وقت مقررہ کے اندر اس تحریک میں اپنی طاقت کے مطابق حصہ لیں اور بیرونی ممالک کی جماعتیں اس تاریخ کے اندر اندر حصہ لیں جو ان کے لئے مقرر کی گئی ہے اور اس طرح سب جماعتیں اور افرا دل کر اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لیے اس مستقل بنیاد کو مضبوط کرنے میں مدد دیں، جو تحریک جدید کے ذریعہ قائم کی جارہی ہے.تا کہ اللہ تعالیٰ ہماری ناچیز کوششوں کو بار آور کرے اور دنیا میں اسلام کا درخت ایسی مضبوطی کے ساتھ قائم ہو جائے کہ اس کو کوئی دشمن اکھاڑ نہ سکے اور اس کے سایہ سے کوئی شخص بھاگ نہ سکے.اس کے ساتھ ہی ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعائیں بھی کرنی چاہئیں کہ وہ اپنے فضل سے ایسا درخت قائم کر دے اور اس کی جڑیں ایسی مضبوط کر دے کہ نہ اسے کوئی شخص اکھاڑ سکے اور نہ اس کے سایہ سے کوئی شخص باہر جا سکے.(مطبوعہ افضل 14 جنوری 1942 ء) 161
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 1942ء تحریک جدید تبلیغ اسلام کے لئے ایک مستقل فنڈ خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 1942ء تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں کھانسی کی تکلیف کی وجہ سے آج زیادہ نہیں بول سکتا.لیکن چونکہ تحریک جدید سال ہشتم کے وعدوں کی میعاد میں اب صرف ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے یعنی 31 جنوری کے ختم ہونے تک ہی ہندوستان کے دوستوں کے وعدے قبول کیے جاسکتے ہیں.سوائے ان علاقوں سے آنے والے وعدوں کے جن کا استثنیٰ پہلے کیا جا چکا ہے.اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ ایک دفعہ پھر جماعت کے دوستوں کو اس چندہ کی اہمیت اور اس میں شمولیت کی طرف اختصار کے ساتھ توجہ دلاؤں.میں کہہ چکا ہوں کہ اب یہ تحریک موجودہ شکل میں اپنے اختتام کے ایام کے قریب پہنچ رہی ہے اور اس کے ختم ہو جانے کے بعد پھر اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے کہ اس میں حصہ لینے کی پھر کوئی اور صورت پیدا ہوگی یا نہیں.اور جیسا کہ میں بتا چکا ہوں، ہماری نیست یہ ہے کہ اس چندہ سے تبلیغ اسلام کے لئے ایک مستقل فنڈ کھولا جائے ، جس کے ذریعے مبلغین کے گزارہ کی صورت پیدا کی جائے.تاکہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو آئندہ ہمارے چندے مبلغوں کے گزارہ کا انتظام کرنے کے لئے نہ ہوں بلکہ صرف تبلیغ واشاعت کے کاموں کے لئے ان کی ضرورت باقی رہ جائے.جیسے اشتہارات ہیں یا کتا بیں ہیں یا تبلیغ پر جانے والوں کے لئے کرائے ہیں یا مختلف ممالک میں مساجد کی تعمیر وغیرہ ہے.غرض جو عارضی یا وقتی کام ہیں، ان کے لئے تو چندے کی ضرورت رہ جائے لیکن کارکنوں کے گزارہ کے لئے کسی چندہ کی تحریک نہ ہو بلکہ اسی تحریک جدید کے فنڈ سے ان کے گزارہ کا انتظام ہوتا رہے.اسی طرح ہمارا ارادہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے اور ہمارے کام میں برکت ڈالے تو اس فنڈ سے زیادہ سے زیادہ مبلغ پیدا کرنے کی کوشش کی جائے.دنیا میں سینکڑوں ممالک ہیں اور ان ممالک میں سینکڑوں زبانیں بولی جاتی ہیں.ان تمام ممالک میں رہنے والے لوگوں تک خدا تعالیٰ کا کلام پہنچانے اور اس پیغام کو پہنچانے کے لئے ، جو اس آخری زمانہ میں اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ بھیجا اور 163
خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 1942ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم اسلام کو دنیا کے کونہ کونہ میں پھیلانے کیلئے ہمیں سینکڑوں مبلغوں کی ضرورت ہے اور پھر ان سینکڑوں زبانوں کو سیکھنے کی ضرورت ہے، جن کو سیکھنے کے بغیر ہم اپنے تبلیغی فرض کو ادا نہیں کر سکتے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض زبانیں ایسی ہیں جن کے جان لینے کی وجہ سے انسان تعلیم یافتہ گروہ تک اپنے خیالات دنیا بھر میں پہنچا سکتا ہے.مثلاً عربی ہے، انگریزی ہے، جرمن ہے، سپینش ہے، پرتگیزی ہے، فرانسیسی ہے، یہ چند زبانیں ایسی ہیں جن کو سیکھ کر انسان قریباً قریباً ساری دنیا میں تبلیغ کر سکتا ہے.لیکن یہ تبلیغ صرف تعلیم یافتہ طبقہ تک محمد ودر ہے گی.عوام کا گروہ جو بہت بڑی اکثریت رکھتا ہے اس کے کانوں تک خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کے لئے صرف ان زبانوں کا جاننا کافی نہیں بلکہ مقامی زبانوں کا جاننا بھی ضروری ہے.مثلاً افغانستان میں چلے جاؤ.وہاں بھی تمہیں ایک ایسا تعلیم یافتہ گروہ مل جائے گا جو عربی اور فارسی جانتا ہوگا.خصوصاً کابل اور اس کے اردگرد جو علاقہ ہے وہاں کے رہنے والے لوگ فارسی ہی میں کلام کرتے ہیں اور انہیں فارسی زبان میں آسانی کے ساتھ تبلیغ کی جاسکتی ہے لیکن خوست کے علاقہ میں سوائے پشتو زبان جاننے والے کے اور کوئی تبلیغ نہیں کر سکتا.اسی طرح افغانستان کے بعض اور علاقے ایسے ہیں جہاں صرف پشتو زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے.پھر ہندوستان اور کابل کے درمیان بعض ایسے قبائل ہیں، جن میں تبلیغ کرنے کے لئے صرف پشتو جاننا کافی نہیں بلکہ مقامی زبانیں جاننا بھی ضروری ہے.یہ قبائل چالیس چالیس، پچاس پچاس ہزار کی تعداد میں ہیں اور صرف اپنی زبان میں ہی بات کو سمجھ سکتے ہیں کسی اور زبان میں ان سے بات کی جائے تو وہ نہیں سمجھ سکتے.اسی طرح ہندوستان کے شمالی پہاڑوں پر چلے جاؤ تو تمہیں ان پہاڑی لوگوں میں نہ کوئی عربی جاننے والا ملے گا، نہ کوئی فارسی جانے والا ملے گا، نہ کوئی جرمن زبان جاننے والا ملے گا، نہ کوئی فرانسیسی زبان جانے والا ملے گا، نہ کوئی اردو جاننے والا ملے گا، نہ کوئی پنجابی جاننے والا ملے گا اور نہ کوئی ہندی جاننے والا ملے گا.یہ لوگ کسی جگہ دس ہزار کی تعداد میں رہتے ہیں، کسی جگہ میں ہزار کی تعداد میں رہتے ہیں، کسی جگہ میں ہزار کی تعداد میں رہتے ہیں، کسی جگہ چالیس ہزار کی تعداد میں رہتے ہیں اور کسی جگہ پچاس ہزار کی تعداد میں رہتے ہیں اور ان سب کی اپنی اپنی مقامی زبا نہیں ہیں و دنیا بھر میں بلیغ اسلام پہنچانے کے لئے ہمیں سینکڑوں زبانیں جاننے والوں کی ضرورت ہے.آخر جس طرح انگریزی جاننے والے اس بات کے مستحق ہیں کہ خدا تعالیٰ کا پیغام ان کو پہنچایا جائے ، جس طرح جر من اس بات کے مستحق ہیں کہ خدا تعالیٰ کا پیغام ان کو پہنچایا جائے ، جس طرح فرانسیسی اس بات کے مستحق ہیں کہ خدا تعالی کا پیغام ان کو پہنچایا جائے ، جس طرح عربی جاننے والے اس بات کے 164
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 1942ء مستحق ہیں کہ خدا تعالیٰ کا پیغام ان کو پہنچایا جائے ، جس طرح فارسی جاننے والے اس بات کے مستحق ہیں کہ خدا تعالیٰ کا پیغام ان کو پہنچایا جائے ، اسی طرح جو لوگ اپنی اپنی لوکل اور مقامی زبانیں بولتے ہیں ، وہ بھی اس بات کے مستحق ہیں کہ خدا تعالیٰ کا پیغام ان کو پہنچایا جائے اور یہ کوئی معمولی کام نہیں.جب تک ہم بیسیوں سے شروع کر کے سینکڑوں اور ہزاروں تک اپنے مبلغین کی تعداد کو نہ پہنچا دیں اور جب تک ہر ملک، ہر علاقہ اور ہر حصہ کی زبانیں جاننے والے لوگ ہم میں موجود نہ ہوں.اس وقت تک اس کام کو ہم صحیح طور پر سرانجام نہیں دے سکتے.پس یہ کوئی معمولی کام نہیں اور نہ ہی یہ کام اس چندہ سے پورے طور پر ہو سکتا ہے، جو تحریک جدید کے ذریعہ جمع کیا جارہا ہے.ہاں اس روپیہ کو بیج کے طور پر استعمال کر کے اگر ہم اس کام کو بڑھانا شروع کر دیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسا وقت آ سکتا ہے، جب ہر زبان جاننے والے مبلغ ہمارے پاس موجود ہوں اور ہر علاقہ میں تبلیغ کرنے کے لئے ہم اپنے افراد کو بھیج سکتے ہوں.خواہ وہ علاقہ ایسا ہو جس میں صرف دس ہزار افراد ایک زبان کے جاننے والے ہوں اور خواہ اس سے بھی چھوٹا علاقہ ہو.بہر حال یہ معمولی کام نہیں بلکہ اس کے لئے بیسیوں سال کی محنت درکار ہے اور اس کے لئے متواتر بیداری اور مسلسل ہوشیاری اور قربانی کے ساتھ جماعت کو مبلغ تیار کرنے کی ضرورت ہے.تب ایک لمبے عرصہ کے بعد ہماری جماعت یہ دعوی کر سکے گی کہ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں، جس میں ہم نے خدا اور اس کے رسول کا پیغام نہ پہنچا دیا ہو اور یہی غرض ہے، جس کے لئے تحریک جدید کا یہ فنڈ قائم کیا گیا ہے.ا میں نے اس سال خصوصیت کے ساتھ جماعت کے دوستوں کو توجہ دلائی تھی کہ وہ اس سال پہلے سالوں سے نمایاں اضافہ کے ساتھ وعدے کریں اور قربانی کے میدان میں گزشتہ سالوں سے آگے قدم رکھیں.چنانچہ اس سال کی تحریک کے ابتداء میں جماعت نے جس جوش کے ساتھ اس میں حصہ لیا تھا، اس کو دیکھتے ہوئے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اس سال کی تحریک کا چندہ خدا تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ سال سے بہت بڑھ جائے گا.مگر میں دیکھتا ہوں کہ جلسہ سالانہ کے بعد جماعتوں میں سستی پیدا ہوگئی ہے ، جو نہایت ہی افسوسناک امر ہے.ممکن ہے یہ میری ہی غلطی ہو اور جماعتیں چندوں کی فہرستیں تیار کر رہی ہوں اور ان کا یہ خیال ہو کہ آخری تاریخ تک ہم اپنی لسٹیں بھیجوا دیں گی لیکن بہر حال اس وقت تک وعدوں کے جو اندازے یہاں پہنچ چکے ہیں، وہ نہ صرف زیادہ نہیں بلکہ پچھلے سال کے وعدوں سے کم ہیں.دسمبر کے شروع حصہ میں اس سال کے وعدوں کی رقم پچھلے سال سے دس بارہ ہزار روپیہ زیادہ تھی لیکن اب آکر گزشتہ سال کے مقابلہ 165
خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 1942ء تحریک جدید- یک الی تحریک....جلد دوم میں پانچ چھ ہزار کی کمی ہو گئی ہے.ممکن ہے اس ماہ کے آخر تک یہ کمی پوری ہو جائے بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو پچھلے سال سے موجودہ سال کے وعدوں کی رقم زیادہ ہو جائے لیکن سردست ہم اپنی جماعت کے دوستوں کے موجودہ وعدوں سے ہی اندازہ لگا سکتے ہیں اور اگر خدانخواستہ یہی حقیقی اندازہ ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ جماعت کے ایک طبقہ میں خطر ناک ستی پیدا ہو گئی ہے.پس میں آج پھر جبکہ وعدوں کی میعاد کا وقت ختم ہو رہا ہے، جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جہاں جہاں تحریک جدید کے کارکن موجود ہوں، وہ فوراً اس کام میں مشغول ہو جائیں اور اپنی اپنی جماعتوں کی لسٹیں مکمل کر کے بہت جلد مرکز میں بھیجوا دیں.اسی طرح وہ افراد، جواب تک تحریک جدید کے چندہ کے متعلق کوئی وعدہ نہیں لکھا سکے ، ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلد سے جلد اپنے وعدے لکھا دیں.قادیان کی جماعت باوجود دشمنوں اور منافقوں کے اعتراضات کے ہمیشہ قربانیوں کے میدان میں دوسروں سے آگے رہی ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ اس سال بھی قادیان کی جماعت پچھلے سال سے بڑھ کر رہے گی اور اپنی قربانی کے معیار کو بلند کر کے نہ صرف اپنا مقام قائم رکھنے کی کوشش کرے گی بلکہ اسے پہلے سے بھی بڑھا کر دکھا دے گی.پھر ہمارے ہزاروں بھائی ایسے ہیں، جو میدان جنگ میں گئے ہوئے ہیں، ان تک اخبار نہیں پہنچ سکتا کہ اس ذریعہ سے انہیں اس تحریک کا علم ہو اور دفتر کے پاس ان کے پتے نہیں ہیں کہ براہ راست ان کو تحریک کی جاسکے اور چونکہ ان ہندوستانی افراد اور ہندوستانی جماعتوں کے لئے جو ہندوستان سے باہر ہیں، وعدوں کی آخری تاریخ 30 اپریل ہے اور ان جنگ پر جانے والے احمدیوں میں سے کسی کا باپ ہندوستان میں موجود ہے، کسی کا بیٹا موجود ہے، کسی کا بھائی موجود ہے اور کسی کا کوئی اور عزیز اور دوست موجود ہے اور انہیں اپنے اپنے عزیزوں اور دوستوں کے پتے معلوم ہیں.اس لئے میں ایسے تمام دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ چونکہ باہر اخبارات نہیں پہنچ سکتے ، اس لئے وہ خطوط کے ذریعہ اپنے اپنے عزیزوں، رشتہ داروں اور دوستوں کو اطلاع دے دیں کہ تحریک جدید کے آٹھویں سال کے آغاز کا اعلان ہو چکا ہے.انہیں چاہئے کہ وہ جلد سے جلد اپنے وعدوں کی اطلاع یہاں بھجوا دیں.میں اس موقعہ پر اس امر پر خوشی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ میری تحریک پر بعض لوگوں نے اپنے چندوں میں نمایاں طور پر اضافہ کیا ہے.چنانچہ تین چار دن ہوئے ایک دوست کی طرف سے خط آیا کہ پہلے انہوں نے 108 روپے کا وعدہ کیا تھا مگر پھر میری تحریک پر کہ وعدوں میں اضافہ کرنا چاہئے.انہوں 166
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 23 جنوری 1942ء نے108 کی بجائے 337 روپے کا وعدہ کر دیا.جو پہلے وعدہ سے تین گنے سے بھی زیادہ ہے.اسی طرح اور بھی کئی دوست ہیں، جنہوں نے نمایاں اضافوں کے ساتھ وعدے کئے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی یہ ایک عجیب قدرت ہے کہ غربا میں قربانی کی مثالیں زیادہ پائی جاتی ہیں.حالانکہ قحط کی وجہ سے غر باسخت تنگی سے گزارہ کر رہے ہیں اور ان کی مالی حالت کمزور ہے.شاید اس میں حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ چونکہ جانتا ہے کہ اس کے غریب بندے دنیا میں تکالیف سے دن گزار رہے ہیں، اس لئے وہ چاہتا ہے کہ آخرت میں ان کے گھر کو بہتر بنادے اور اسی لئے وہ ان کے دل میں دین کے لئے ہر قسم کی قربانیاں کرنے کا جوش پیدا کر دیتا ہے تا کہ ان کی دنیوی تکالیف کا آخرت میں ازالہ ہو جائے اور وہ اللہ تعالی کی زیادہ سے زیادہ نعماء کے مستحق ہو جائیں.بہر حال اب ہندوستان کی جماعتوں اور افراد کے لئے تحریک جدید کے وعدوں میں صرف سات دن باقی رہ گئے ہیں.پس میں اس سال کی تحریک کے وعدوں کے لئے آج آخری اعلان کرتا ہوں.اس کے بعد میں کوئی اور اعلان نہیں کر سکوں گا کیونکہ اگلا جمعہ 31 تاریخ کو ہے، جس کے بعد وعدوں کے بارہ میں کوئی تحریک نہیں کی جاسکے گی.پس میں مقامی جماعت کے دوستوں اور بیرونی جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ فوراً اس کام میں لگ جائیں اور وقت ختم ہونے سے پہلے پہلے تمام جماعتیں اور افراد اپنے اپنے وعدوں کی اطلاع مرکز میں پہنچادیں اور ایسا نیک نمونہ دکھائیں کہ جس طرح پہلے سال کی تحریک گزشتہ سالوں سے بڑھ کر رہی ہے، اسی طرح اس سال کی تحریک گزشتہ سال کے مقابلہ میں زیادہ کامیاب رہے بلکہ گزشتہ تمام سالوں سے اس سال کی تحریک بڑھ کر رہے تا کہ وعدوں میں زیادتی کی جو تحریک میں نے اس دفعہ کی ہے، اس کا عملی نمونہ بھی ہماری جماعت پیش کر سکے.مطبوع الفضل 25 جنوری 1942ء) 167
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 30 جنوری 1942ء کام کرنے والی قوموں کا ہر قدم پہلے کی نسبت آگے پڑتا ہے وو خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 1942ء میں نے گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں اس خوف کا اظہار کیا تھا کہ اس سال کے چندہ تحریک جدید کے جو وعدے ہیں، وہ بجائے گزشتہ سال سے زیادہ ہونے کے اس وقت کمی پر جا رہے ہیں اور جماعت کے دوستوں کو تحریک کی تھی کہ جلد سے جلد اپنے وعدے بھجوا کر اس کمی کو پورا کر دیں.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے جماعت کو اس بات کی توفیق دی کہ پیشتر اس کے کہ دوسرا جمعہ آئے ، اس نے گزشتہ کی بھی پوری کر دی اور گزشتہ سال سے وعدے بھی بڑھ گئے.کام کرنے والی قوموں کیلئے یہ اصل مد نظر رکھنا نہایت ضروری ہوتا ہے کہ اس کا ہر قدم پہلے کی نسبت آگے پڑے اور ان کے کام بڑھتے چلے جائیں.کام کے لحاظ سے دنیا میں کوئی ایسی قوم نہیں ، جو کچھ نہ کچھ نہ کرتی ہو.لیکن فرق کام کرنے اور نہ کرنے والی قوموں میں یہی ہوتا ہے کہ یکمی قوم ایک جگہ پر کھڑی رہتی ہے یا اس کا قدم پیچھے پڑنے لگتا ہے اور جن کو خدا تعالیٰ نے بڑھانا ہوتا ہے اور جو کام کرنے والی ہوتی ہیں، ان کا ہر قدم پہلے سے آگے پڑتا ہے اور اس لئے سلسلہ کے کاموں کے متعلق مجھے ہمیشہ یہ خیال رہتا ہے کہ ہمارا ہر قدم پہلے سے آگے پڑے اور اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت ترقی کی طرف جارہی ہے کیا بلحاظ تعداد کے اور کیا بلحاظ قربانیوں کے“.مطبوعه الفضل 7 فروری 1942ء) 169
جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 20 مارچ 1942ء مبلغین نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر ہمارے بوجھ کو اٹھا لیا ہے وو خطبہ جمعہ فرمودہ 20 مارچ 1942ء جب کوئی شخص اپنے وطن اور اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر تبلیغ کے لئے جاتا ہے تو درحقیقت وہ ہمارا فرض ادا کرنے کے لئے جاتا ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تبلیغ ویسی ہی میرے اور تمہارے ذمہ ہے جیسے اس کے ذمہ.مگر اس نے ہمارے بوجھ کو آپ اٹھا لیا اور ہمارے کام کو پورا کرنے کے لئے اس نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈالا اور اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر غیر ملک میں تبلیغ اسلام کے لئے چلا گیا یا اگر اس ملک کا ہی باشندہ تھا، تب بھی اس نے مبلغ ہو کر ہزاروں لاکھوں کی دشمنیاں مول لے لیں.اگر وہ جماعت کا ایک عام فرد ہوتا تو اس کی زیادہ دشمنی نہ ہوتی مگر چونکہ وہ مبلغ بن گیا، اس لئے مبلغ ہونے کی وجہ سے سب لوگوں نے اس کو اپنی مخالفت کا مرکز بنا لیا.پس جو مبلغ وہاں کے رہنے والے ہیں، وہ بھی ہمارا ہی فرض ادا کرتے ہیں جیسے سماٹرا اور جاوا میں ہمارے کئی مبلغ ایسے ہیں، جو وہاں کے ہی رہنے والے ہیں.وہ پہلے یہاں پڑھنے کے لئے آئے اور جب تعلیم حاصل کر کے اپنے ملک کو واپس چلے گئے تو بعض کو ہم نے مبلغ مقرر کر دیا اور بعض کو وہاں کی جماعتوں نے مبلغ مقرر کر دیا.ان لوگوں نے جماعت کی خاطر اور ہم میں سے ہر ایک کی خاطر اپنے آپ کو آگ کے سامنے کھڑا کر دیا تا کہ خدا کے سامنے ہم بری ہو جائیں اور اللہ تعالی کہے کہ اس جماعت نے تبلیغ کے کام کو جاری رکھا تھا.اگر وہ لوگ اپنے آپ کو تبلیغ کے لئے پیش نہ کرتے ، اگر وہ لوگ اپنا وطن چھوڑ کر غیر ممالک میں تبلیغ کے لئے نہ جاتے ، اگر وہ لوگ اپنے بیوی اور اپنے بچوں کی قربانی نہ کرتے یا اگر وہ لوگ اپنے آپ کو تبلیغ کے لئے پیش کر کے دنیا کی دشمنی مول نہ لیتے تو خدا تعالیٰ کے حضور وہی مجرم نہ ہوتے بلکہ ہم بھی ہوتے.اور خدا تعالیٰ کہتا کہ جماعتی طور پر تم نے تبلیغ میں کوتاہی سے کام لیا ہے مگر ان کے تبلیغ پر چلے جانے کی وجہ سے وہی بری الذمہ نہیں ہو گئے بلکہ ہم بھی بری الذمہ ہو گئے ہیں اور اس تبلیغ کا ثواب صرف انہیں ہی نہیں ملتا بلکہ ہمیں بھی ملتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ سمجھتا ہے کہ تمام جماعت تبلیغ کا فرض ادا کر رہی ہے.گویا جب خدا کے حضور خوشنودی کا وقت آیا تو تم آگے بڑھے اور تم نے کہا کہ خدایا! یہ ہمارا بھائی تھا اور خدا نے تمہارے اس عذر کو قبول کر لیا اور اس نے فیصلہ کیا کہ جس جس جگہ 171
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 20 مارچ 1942ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم مبلغ گیا ہے، اس جگہ کے متعلق یہ نہیں سمجھا جائے گا کہ وہاں صرف ایک مبلغ گیا ہے بلکہ یہ سمجھا جائے گا کہ وہاں ساری جماعت گئی ہے اور صرف اسے ہی تو اب نہیں ملے گا بلکہ ساری جماعت کو تبلیغ کا ثواب دیا جائے گا.لیکن جب وہ مبلغ مصیبتوں میں مبتلا ہوئے ، قید و بند کی تکلیفوں میں ڈالے گئے اور انہیں جانی اور مالی نقصان پہنچا تو اگر ان مصیبتوں میں تمہاری بھی کسی بے پروائی کا دخل ہوا تو تم کس طرح سمجھ سکتے ہو کہ انعام کے لئے تو ان مبلغوں کے ساتھ تمہارا نام لکھ دیا جائے گا مگر سزا کے لئے تمہارا نام نہیں لکھا جائے گا؟ یا تو تمہیں یہ پوزیشن قبول کرنی چاہئے کہ ہم خدا کے مجرم ہیں ، ہم نے تبلیغ نہیں کی.اور اگر تم اس پوزیشن کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں اور تم سمجھتے ہو کہ جب کوئی مبلغ تبلیغ کرتا ہے تو درحقیقت وہ تمہارا کام کرتا ہے اور تم اس کے ثواب میں شریک ہو تو تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ جب وہ مبلغ تمہاری کسی غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے قید و بند کی تکالیف میں مبتلا ہوتا ہے اور اس طرح تبلیغ کے راستہ میں روک پیدا ہو جاتی ہے تو سزا کے بھی تم ہی مستحق ہو.الفضل مورخہ 29 مارچ 1942ء) 172
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 مئی 1942ء تمہارے قلوب خشیت الہی سے بھر جانے چاہئیں خطبہ جمعہ فرمودہ 15 مئی 1942ء میں آج جماعت کو پھر ایک دفعہ تحریک جدید کے چندوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.نئے سال کی تحریک پر چھ ماہ کے قریب گزر گئے ہیں اور گویا وعدوں کی تاریخ کے لحاظ سے میعاد میں سے صرف چھ ماہ باقی ہیں.مجھے اس بات سے مسرت ہے کہ اس دفعہ دوستوں نے پہلے بعض سالوں کی نسبت زیادہ مستعدی سے اپنے چندے ادا کرنے کی کوشش کی ہے اور پچھلے سال کی نسبت اس سال انہوں نے پچاس فیصدی زیادہ جلدی سے چندے ادا کئے ہیں.گویا گزشتہ سال اگر آج کی تاریخ تک جماعت نے سور و پیداد کیا تھا تو اس سال ڈیڑھ سو ادا کیا ہے.مگر پھر بھی پہلے چھ ماہ میں کہ یہی درحقیقت زیادہ زور کے ساتھ کام کرنے کے مہینے ہوتے ہیں، ابھی تک نصف وعدے ادا نہیں ہوئے.گویا باوجود پچاس فیصدی ادائیگی میں زیادتی کے وعدوں کا نصف ابھی تک ادا نہیں ہوا بلکہ قریب چالیس فیصدی کے ادا ہوا ہے.پس جہاں یہ بات موجب مسرت ہے کہ گزشتہ سالوں کی نسبت کہ جن کا گزشتہ سال بھی مستعدی کا سال تھا کیونکہ اس سال اس سے گزشتہ سالوں کی نسبت دوستوں نے زیادہ مستعدی اور چستی سے کام لیا تھا.اس سال اس مستعدی اور چستی کے سال سے بھی پچاس فیصدی زیادہ دوستوں نے ہمت دکھائی ہے مگر وعدوں کے لحاظ سے ابھی کمی ہے.چونکہ وعدہ کی غرض اسے جلد سے جلد پورا کرنا ہوتی ہے.اس لئے پہلے چھ ماہ میں کم سے کم وعدوں کا ساٹھ پینسٹھ فیصدی ادا ہو جانا چاہئے مگر ادائیگی اب تک ہوئی ہے 42 فیصدی کے قریب.جیسا کہ میں نے کئی بار دوستوں کو توجہ دلائی ہے، اس روپیہ سے ہماری جماعت کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت بڑی جائیداد خریدی جا رہی ہے.جس کی قسطیں ادا کی جارہی ہیں اور ایک لاکھ روپیہ سالانہ کے قریب اس پر خرچ آتا ہے.اگر ہم یہ قسطیں ادا کر کے اس جائیداد کو چھڑانے کے قابل ہو جا ئیں تو عام قیمتوں کے لحاظ سے بھی یہ پندرہ سولہ لاکھ روپیہ کی جائیداد ہو جاتی ہے اور اگر صحیح طور پر آباد کی جاسکے تو یہ میں بائیں لاکھ روپیہ کی جائیداد ہوگی اور یہ جائیداد گویا ایک ایسار نیز روفنڈ ہو جائے گا کہ جس سے تحریک جدید کے مستقل اخراجات پورے کئے جاسکیں گے اور مبلغوں کو دنیا میں پھیلایا جا سکے گا.لیکن اگر دوست اس وقت چستی اور 173
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمود : 15 مئی 1942ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم ہمت سے کام نہ لیں تو یہ بوجھ بالکل بے کار اور بے سود ثابت ہوگا کیونکہ وقت پر اگر قسطیں ادا نہ ہوں تو و گورنمنٹ زمین کو ضبط کر سکتی ہے اور بعض دفعہ بڑے بڑے تاوان ڈال دیتی ہے.پس چونکہ یہ اقساط مئی میں ادا کی جاتی ہیں.میں پچھلے سالوں میں بھی دوستوں کو یہ تحریک کرتا رہا ہوں کہ وہ 31 مئی تک اپنے وعدے ادا کرنے کی کوشش کریں اور اب تو مئی سے ختم ہونے میں بہت ہی تھوڑے دن رہ گئے ہیں.پھر بھی جن کو خدا تعالیٰ نے عزم اور ہمت دی ہے، وہ ان تھوڑے دنوں میں بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں.زمیندار احباب کے لئے جون کے آخر تک مدت مقرر ہے اور اگر وہ بھی ہمت کریں تو اپنے وعدوں کا بہت سا حصہ ادا کر سکتے ہیں.اس میں شبہ نہیں کہ اس زمانہ میں قحط کی وجہ سے بوجھ بہت ہیں مگر اس میں بھی شک نہیں کہ جس وقت انسان کو تباہی کے آثار نظر آتے ہیں تو قربانی کی روح بھی بہت بڑھ جاتی ہے.ذلیل ترین وجود بھی ایسے وقت میں بڑی بڑی قربانیاں کر دیتے ہیں.ہمارے ملک میں ہر سال یہ سوال علماء، فقہاء کے سامنے پیش ہوتا ہے کہ کوئی کنچنی مسجد کی تعمیر کے لئے روپیہ دینا چاہتی ہے.اسے قبول کیا جائے یا نہ کیا جائے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے سامنے بھی یہ سوال بار بار پیش ہوتا رہتا تھا.اس کی وجہ یہی ہے کہ ہر سال ہی کچھ کچنیاں مرتے وقت دین کے لئے اپنی جائیداد یا روپیہ وقف کرنا چاہتی ہیں.دیکھو انہوں نے یہ روپیہ کتنی بے حیائی سے کمایا ہوتا ہے، وہ عصمت فروشی روپیہ کے لئے ہی کرتی ہیں.مگر جب موت سامنے آتی ہے تو وہی روپیہ جس کی خاطر انہوں نے خاندان کی ناک کٹوائی، جس کی وجہ سے وہ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے سامنے آتے ہوئے شرماتی ہیں اور جس کی وجہ سے وہ شرفا میں منہ دکھانے کے قابل نہیں ہوتیں، ان میں سے بعض جب مرنے لگتی ہیں تو منتیں کرتی ہیں کہ یہ روپیہ لے لو اور کسی دینی کام پر خرچ کر دو تو اگر کنچنی بھی مرتے وقت خشیت اللہ سے اتنی متاثر ہو جاتی ہے تو مومنوں پر کتنا اثر ہونا چاہئے.جتنا جتنا قرب کسی کو اللہ تعالیٰ کا حاصل ہوتا ہے، اتنا ہی ایسے موقعہ پر اس کے دل میں خشیت زیادہ پیدا ہوتی ہے.سول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تعلق آتا ہے کہ جب بادل آتا تو آپ گھبرا کر کبھی کمرہ کے اندر جاتے کبھی باہر آتے.ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیابات ہے، آخر یہ بادل ہی ہیں، ان سے گھبرانے کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا بے شک یہ بادل ہیں مگر تم سے پہلی قوموں پر بھی ایسے بادل آتے تھے اور وہ ان کو دیکھ کر خوش ہوتی تھیں مگر بعض بادل ہی ان کے لئے عذاب ثابت ہوئے اور ان کو تباہ کر گئے.ہمارے ملک میں دیکھو جب گرمیوں میں بادل آئیں تو لوگ کس طرح خوش ہوتے 174
تحریک جدید- ایک ابھی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 مئی 1942 ء ہیں اور بعض لوگ خوشی سے گاتے ہیں، بچے خوش ہو ہو کر اچھلتے اور کودتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کا رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) جس نے خدا کے کلام میں یہ پڑھا تھا کہ کبھی ان بادلوں سے پتھر بھی برسنے لگتے ہیں اور یہی بادل کبھی عذاب کا موجب بھی بن جایا کرتے ہیں، بادلوں کو دیکھ کر گھبراہٹ میں کبھی باہر آتا کبھی کمرہ کے اندر جاتا اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتا کہ اس کے غضب کا بادل نہ آئے اور رحمت کی بارش ہو.پس اگر ہمارے آقا و سردار کو بادل دیکھ کر اس قدر گھبراہٹ ہوتی تھی تو ہمیں ان عظیم الشان فوجوں کے بادلوں کو دیکھ کر جو ہماری جانب بڑھتے چلے آرہے ہیں، کتنی گھبراہٹ ہونی چاہئے؟ جن کا مقصد وحید ہی یہ ہے کہ اپنے گولوں اور بموں سے جس قدر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فنا کے گھاٹ اتارسکیں، اتار دیں.بادل دنیا میں اکثر رحمت کا اور کبھی کبھی عذاب کا موجب ہوا کرتے ہیں.ایک لاکھ میں سے شاید کوئی ایک بادل تکلیف کا موجب ہوتا ہو مگر فوج اور لشکر کوئی بھی رحمت کا موجب نہیں ہوتا.وہ جب بھی آتے ہیں ، تباہیاں ساتھ لاتے ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوْا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةً یعنی جب بھی کوئی نئے بادشاہ کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں وہ ان کو خراب کر دیتے ہیں اور اس ملک کے معزز لوگوں کو ذلیل کر کے چھوڑتے ہیں.دنیا کی تمام تاریخ میں کوئی ایک مثال بھی تو کسی بادشاہ کی نہیں ملتی کہ جو کسی ملک میں داخل ہوا ہو اور اس نے وہاں کے نظام کا تختہ نہ الٹ دیا ہو." پس میں ان دوستوں کو جو متبع رسول کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں ، توجہ دلاتا ہوں کہ تمہارا آقا بادل کو دیکھ کر خشیت اللہ سے بھر جاتا تھا تو تمہارے قلوب اتنے بڑے طوفان کو دیکھ کر کیوں خشیت اللہ سے بھر نہ جانے چاہئیں اور کیوں تمہاری قربانیاں پہلے سے بہت بڑھ نہ جانی چاہئیں؟ جن لوگوں سے اب تک کو تا ہی ہوئی ہے، میں ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ زیادہ ہمت اور زیادہ مستعدی سے کام لیں اور جو کوئی رکاوٹ ان کے رستہ میں ہو، اسے دور کریں تا اللہ تعالیٰ ان طوفانوں میں سے ان کے لئے اور ان کی اولادوں کے لئے بہتری کے سامان پیدا کرے اور تا ایسا نہ ہو کہ یہ طوفان ان کے لئے عذاب کا موجب بن جائیں“.(مطبوع الفضل 19 مئی 1942 ء ) 175
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم وو اقتباس از خطبہ جمعہ فرمود 24 جولائی 1942ء قربانیاں قوموں کا سانس ہوتی ہیں خطبہ جمعہ فرمودہ 24 جولائی 1942ء پس میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس جنگ سے سبق حاصل کرے اور فائدہ اٹھائے.اس کا ہر پہلو برا ہے مگر برا بھی ہمارے لئے مفید ہو سکتا ہے.پہلی لڑائی کے 25 سال بعد ہی جرمنی نے پھر لڑائی شروع کر دی اور یہ بہت بڑی بات ہے مگر اس سے ہمیں یہ سبق حاصل ہو سکتا ہے کہ دشمن کی شکست پر تسلی نہیں پانی چاہئے.کیونکہ کچھ عرصہ کے بعد وہ پھر بھی سر اٹھا سکتا ہے.پھر لڑنے والی قوموں کے افراد قربانیاں کر رہے اور تکالیف اٹھا رہے ہیں.ہمیں بھی اس سے یہ سبق حاصل کرنا چاہئے کہ ہم بھی دین کیلئے قربانیاں کریں.جرمن مائیں اپنے بچوں کو قربان کر رہی ہیں، جرمن تاجر اپنی تجارتوں کو تباہ کر رہے ہیں اور عوام طرح طرح کی تکالیف اٹھا رہے ہیں اور ہم اگر ان سے زیادہ قربانیاں کریں تبھی خدا تعالیٰ کی فوج میں شامل ہو سکتے ہیں.اگر ان کے برابر ہی کریں تو ہم میں اور ان میں کیا فرق ہوا ؟ اور اگر ان سے کم کریں تو نہایت ہی شرمناک بات ہو گی.پس ہمیں ان سے بہت زیادہ قربانیوں کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہئے.میں نے دیکھا ہے کہ کئی لوگ جماعت میں ایسے ہیں جو کسی تحریک پر کہہ دیتے ہیں کہ ہمیشہ چندے ہی مانگے جاتے ہیں.کیا ان کا مطلب یہ ہے کہ دس یا پندرہ سال تک چندہ دینے کے بعد پھر ان سے نہ مانگا جائے ، وہ اس کو بڑی قربانی سمجھتے ہیں کہ چند سال تک چندہ دے دیا ؟ مگر ہم کہتے ہیں کہ دس یا پندرہ سال تو کیا ، اگر تم اس اصول پر قائم رہو تو پندرہ سو سال تک بھی چندے دینے پڑیں گے.پندرہ سال کے بعد چندوں کا سلسلہ ختم سمجھنے کے یہ معنے ہیں کہ ایسا شخص زندگی کے پندرہ سال ہی سمجھتا ہے.حالانکہ اگر احمدیت دس ہزار سال تک رہنی ہے تو ہر ایک دن قربانی کا مطالبہ ہوتا رہے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کسی صوفی کا یہ مقولہ سنایا کرتے تھے کہ جو دم غافل سو دم کا فر“.غفلت تو انسان کو کفر کے گڑھے میں گرا دیتی ہے.پس یہ خیال کرنا کہ فلاں قربانی کے بعد اور قربانی نہ کرنی پڑے گی ، بالکل غلط ہے.کیا معلوم کہ اگلا مطالبہ اس سے بھی سخت ہو، اگر آج رو پی کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو کل ممکن ہے جائیداد کا کرنا پڑے اور 177
اقتباس از خطبه جمعه فرمود 24 جولائی 1942ء تحریک جدید می تحریک جلد و پرسوں ممکن ہے اپنی اور اپنے عزیزوں کی جان کی قربانی دینی پڑے؟ جو شخص مومین کہلاتا ہے، وہ یہ خیال بھی کیسے کر سکتا ہے کہ کوئی دن ایسا آئے گا کہ قربانی کا دروازہ بند ہو جائے گا؟ جو شخص ایسا خیال کرتا ہے، وہ احمق ہے.کیا نماز، زکوۃ، صدقہ اور دوسرے احکام کا دروازہ کبھی بند ہوتا ہے، جو قربانی کا بند ہو جائے ؟ خدا تعالیٰ کے احکام میں سے کسی حکم کا دروازہ بند نہیں ہوتا.کیا کبھی اللہ تعالیٰ نے کسی کو حکم دیا ہے کہ تم نے دس سال تک بیچ بولا ، اب دو چار سال جھوٹ بول سکتے ہو.پندرہ سال تک تم نے لوگوں کے اموال کی حفاظت کی ، اب تمہیں اجازت ہے کہ کچھ عرصہ ڈا کے مار لو اور لوگوں کے اموال لوٹ لو؟ پس کوئی شخص یہ خیال بھی کیسے کر سکتا ہے کہ قربانیاں دس پندرہ سال تک ہیں، اس کے بعد یہ بند ہو جائیں گی؟ یاد رکھو کہ قربانیاں ہمیشہ رہیں گی، ہاں ان کی شکلیں بدلتی رہیں گی.جس دن قوم کے افراد کی کثرت قربانی کی روح سے محروم ہو جائے گی ، وہ دن اس قوم کی موت کا دن ہو گا اور جو شخص اس دن کا منتظر ہے جس دن قربانیوں کا سلسلہ بند ہو جائے ، وہ گویا اس دن کا منتظر ہے جس دن احمدیت مر جائے.پہلی قومیں اسی طرح مری ہیں اور ہماری موت بھی اگر ہوئی تو اسی وجہ سے ہوگی.قربانیاں قوموں کا سانس ہوتی ہیں.جس طرح سانس جب تک چلتا ہے، تب تک انسان زندہ رہتا ہے.اسی طرح جب تک کسی قوم میں قربانیوں کی روح زندہ رہتی ہے ، تب تک وہ قوم بھی زندہ رہتی ہے.پس لڑائی سے سبق حاصل کرو اور ایسے خیالات کو ہرگز پاس نہ آنے دو کہ کسی وقت قربانیوں کا مطالبہ ختم ہو جائے گا بلکہ ہمیشہ یہ خیال رکھو کہ کل آج سے زیادہ قربانی کرنی پڑے گی.اسی لئے میں نے تحریک جدید میں یہ بات رکھی تھی کہ چاہے کوئی شخص ایک پیسہ ہی بڑھائے، گزشتہ سال سے زیادہ ضرور دے تا اس کے ہر سال کی قربانی گزشتہ سال کی نسبت زیادہ ہو.پس یہ بھی خیال نہ کرو کہ یہ قربانیاں بوجھ ہیں جوتم کو کچل دیں گی بلکہ یاد رکھو کہ یہ قوم کی زندگی کا سانس ہیں.اس لئے ان کو جاری رہنے دو تا قوم کی زندگی باقی رہے.جو شخص قربانیوں کا سلسلہ بند کرنا چاہتا ہے، وہ گویا احمدیت کا گلا گھونٹنا چاہتا ہے.جس دن قربانیوں کا سلسلہ بند ہوا اسی دن احمدیت کا خاتمہ سمجھو.اللہ تعالیٰ ہم کو اور ہماری نسلوں کو اس دن سے بچائے“.178 ( مطبوع الفضل 31 جولائی 1942ء)
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اگست 1942ء وو تم خون کی ندیوں میں چلنے کے لئے تیار رہو خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اگست 1942ء بسا اوقات انسان ایک چیز کو چھوٹی سمجھتا ہے اور اسے کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے، بسا اوقات انسان ایک وقتی قربانی کے لئے تیار ہو جاتا اور اسے دینے پر آمادہ ہو جاتا ہے لیکن ایک لمبی اور بظاہر نسبتا چھوٹی قربانی کرنی اس کے لئے بہت مشکل ہوتی ہے مثلاً تحریک جدید ہی ہے.میں ہمیشہ خیال کیا کرتا ہوں کہ اگر جان دینے کا سوال ہوتا تو صرف پانچ ہزار مرد و عورت اپنے آپ کو پیش نہ کرتے ، جیسے تحریک جدید میں تقریبا اتنے ہی لوگوں نے حصہ لیا ہے بلکہ پندرہ ، میں تمہیں بلکہ چالیس ہزار آدمی اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتے.مگر یہ قربانی چونکہ لبھی اور متواتر دس سال کے لئے تھی، اس لئے بہت سے ایسے لوگ جو ہمیشہ اپنی جان اور مال قربان کرنے کے دعوے کرتے رہتے تھے، پیچھے رہ گئے اور جو شامل ہوئے ، ان میں سے بھی ایک معتد بہ حصہ ایسا ہے جس نے قانون سے فائدہ اٹھا کر اپنے آپ کو تحریک جدید میں شامل کر لیا ہے، ورنہ در حقیقت وہ شامل نہیں.کیونکہ ان کی آمد نیوں کے مقابلہ میں ان کی قربانیاں بہت ہی حقیر اور معمولی ہیں.بے شک انسانی قانون کو انہوں نے پورا کر دیا ہے لیکن خدائی قانون کے ماتحت انہوں نے آنے کی کوشش نہیں کی.پس یہ بہت بڑا فرق ہے جو ہمیں قربانی کے میدان میں دکھائی دیتا ہے کہ بہت سے لوگ وقتی قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.کیونکہ انسان سمجھتا ہے میں نے ایک دفعہ قربانی کی تو معاملہ ختم ہو جائے گا.چنانچہ لاکھوں نہیں کروڑوں لوگ اس غرض کے لئے تیار ہو جائیں گے کہ ان کی گردنوں پر خنجر پھیر دیا جائے.لیکن اگر انہی کو قید خانوں میں ڈال کر ان سے لمبی قربانیاں لی جائیں ، لوہے کی چٹکیوں سے ان کے گوشت نوچے جائیں، ان کی آنکھیں نکال لی جائیں اور ان کے ناک اور کان کاٹ لئے جائیں تو گووہ مریں گے نہیں مگر ان میں سے بہت سے لوگ جو جان دینے کے لئے تیار تھے ، واویلا کرنے لگ جائیں گے اور معافی کے خواستگار ہو جائیں گے.کیونکہ چھوٹی اور لمبی قربانی، وقتی قربانی سے زیادہ ہیبت ناک اور خطر ناک ہوتی ہے.179
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 اگست 1942ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم پس میں نہیں کہہ سکتا کہ جن لوگوں نے قربانی کے وعدے کئے ہیں، ان میں سے کتنے اس وعدے پر قائم رہ سکتے ہیں؟ میں ان سب کو دیانتدار سمجھتا ہوں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ انہوں نے یہ وعدے سچائی کے ساتھ کئے ہیں مگر پھر بھی میں نہیں کہہ سکتا کہ وقت پر کتنے لوگ ہوں گے جو واقعہ میں قربانی کرنے کے لئے تیار ہوں گے؟“ " میں نے تمہیں بارہا سمجھایا ہے کہ تم یہ مت سمجھو کہ ہم چونکہ تبلیغی جماعت ہیں، اس لئے کوئی دشمن ہماری گردنوں کو نہیں کاٹے گا.ایسا خیال کرنا، اول درجہ کی نادانی اور حماقت ہے.میں نے بار بار تمہارے ذہنوں سے اس بات کو نکالا ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ جب بھی کوئی ایسا ذ کر آئے ، ہماری جماعت کے بعض لوگ فورا کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ کیسی بے وقوفی کی بات ہے، ہم تبلیغ کرنے والے ہیں، لڑنے والے کہاں ہیں کہ ہماری گردنیں کاٹنے کے لئے قو میں آگے بڑھیں گی ؟ مگر یہ خیال بالکل غلط اور باطل ہے.دنیا میں ہمیشہ مبلغوں کی گردنیں کائی جاتی ہیں.مسیحیوں کی تین سو سال تک گردنیں کاٹی گئیں.حالانکہ مسیحی جنگ سے جتنے متنفر تھے، اتنے ہم نہیں.ہمیں تو اسلام وقت پر لڑائی کی اجازت دیتا ہے مگر مسیحیوں کو لڑائی کی کسی صورت میں اجازت نہیں تھی.لیکن باوجود اس کے ان کی گردنیں کاٹی گئیں اور سینکڑوں سال تک کائی گئیں.اسی طرح جب ہم بھی صحیح معنوں میں تبلیغ کریں گے تو دنیا اس بات پر مجبور ہوگی کہ ہماری گردنوں کو کائے.ابھی تک تو ہم نے تبلیغ کو اس رنگ میں جاری ہی نہیں کیا کہ ہماری جماعت کے آدمیوں کی گردنیں کاٹی جائیں.تمہارا مبلغ امریکہ میں گیا اور اسے وہاں کی حکومت نے نکال دیا مگر تم نے کیا کیا ؟ تم انسا الله وانا اليه راجعون پڑھ کر بیٹھ گئے.مگر جب حقیقی تبلیغ کا وقت آئے گا، اس وقت یہ طریق اختیار نہیں کیا جائے گا.فرض کر وہ تمہارا مبلغ امریکہ میں جاتا ہے اور اسے وہاں کی حکومت نکال دیتی ہے تو اس وقت یہ نہیں ہوگا کہ تم خاموشی سے گھروں میں بیٹھ رہو بلکہ تمہارا دوسرا مبلغ اس جگہ جائے گا، اس کو نکال دیا جائے گا تو تیسرا مبلغ جائے گا، اس کو نکال دیا جائے گا تو چوتھا مبلغ جائے گا، اس طرح ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے اور تیسرے کے بعد چوتھے شخص کو وہاں جانا پڑے گا اور جب اس طرح بھی کوئی اثر نہیں ہوگا تو ہزاروں شخصوں سے کہا جائے گا کہ وہ اپنے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوں اور خواہ انہیں بھوکا رہنا پڑے، خواہ پیاس کی تکلیف برداشت کرنی پڑے، خواہ پیدل سفر کرنا پڑے، وہ جائیں اور اس ملک میں داخل ہو کر 180
تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 28 اگست 1942ء تبلیغ کریں جس ملک میں داخل ہونے سے حکومت نے روک رکھا ہے.ایسی صورت میں کیا تم سمجھتے ہو امریکہ والے تمہیں قتل نہیں کریں گے؟ وہ ہر اس شخص کو جو ان کے ہاتھ آئے گا قتل کریں گے اور کوشش کریں گے کہ ان کے ملک میں ہمارا کوئی مبلغ داخل نہ ہو.لیکن اس کے باوجود جو مبلغ داخل ہونے میں کامیاب ہو جائے گا ، وہ ایسی شان کا مبلغ ہوگا کہ امریکہ کے لوگ خود بخود اس کی باتیں سننے پر مجبور ہوں گے.مگر اب تو یہ ہوتا ہے کہ سیکنڈ یا تھرڈ کلاس میں ایک شخص سفر کرتا ہوا جاتا ہے، اسے ہر قسم کی سہولتیں میسر ہوتی ہیں اور وہ کسی غیر ملک میں جا کر تبلیغ کرنے لگ جاتا ہے.ایسا شخص مبلغ نہیں ، سیاح ہے.مبلغ قومیں وہی ہیں کہ جب حکومتیں انہیں اپنے ملک میں داخل ہونے سے روکتی ہیں تو وہ خاموش نہیں بیٹھ جاتیں بلکہ اپنی تجارت، اپنی زراعت، اپنی ملازمت اور اپنے گھر بار کو چھوڑ کر نکل کھڑی ہوتی ہیں اور ان میں سے ہر شخص یہ تہیہ کئے ہوئے ہوتا ہے کہ اب میں اس ملک میں داخل ہو کر رہوں گا اور تبلیغ کروں گا.ایسی صورت میں دوہی باتیں ہو سکتی ہیں یا تو حکومت رستہ دے اور مبلغوں کو اپنے ملک میں داخل ہونے دے یا انہیں داخل نہ ہونے دے اور ان سب کو اپنے حکم سے مروا ڈالے.اور یہ دونوں باتیں ایسی ہیں جو قر بانیوں کا مطالبہ کرتی ہیں.اگر حکومت رستہ دے گی تو تم تبلیغ میں کامیاب ہو جاؤ گے اور اگر حکومت تمہیں مارے گی تو تم خون کی ندی میں بہہ کر اپنی منزل مقصود کو پہنچو گے.پس یہ مت خیال کرو کہ مبلغوں کے لئے قربانیاں نہیں ہوتیں.وہ تبلیغ جو ملکوں کو ہلا دیتی ہے، ابھی تک ہم نے شروع ہی نہیں کی.لیکن اب اس جنگ کے بعد غالباً زیادہ انتظار نہیں کیا جائے گا اور تمہیں ان قربانیوں کے لئے اپنے گھروں سے باہر نکلنا پڑے گا.مگر تم میں سے کتنے ہیں جو یہ قربانیاں کر سکتے ہیں؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ سلسلہ کا خزانہ ان سب کے اخراجات برداشت کرے گا اور اگر دو چار لاکھ آدمی ہماری جماعت میں سے نکل کھڑے ہوں تو سلسلہ کے خزانہ سے ان کو مدد دی جائے گی ؟ سلسلہ کا خزانہ تو ان کے دسویں، سویں، ہزارویں بلکہ دس ہزارویں حصہ کو خالی روٹی بھی مہیا نہیں کر سکتا، کجا یہ کہ ان کے دوسرے اخراجات برداشت کرے.تب کیا ہوگا؟ یہی ہوگا کہ تمہیں کہا جائے گا، تم کچکول ہاتھ میں لے کر نکل کھڑے ہو اور فیصلہ کر لو کہ جب تک اس ملک کی تبلیغ کا راستہ نہیں کھلتا تم واپس نہیں آؤ گے.جولوگ آج قربانیوں کے وعدے کرتے ہیں، کیا وہ سمجھتے ہیں کہ کل اگر ان سے اس رنگ میں قربانیوں کا مطالبہ کیا گیا تو وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے نکل کھڑے ہوں گے؟ میں سمجھتا ہوں کہ قربانیوں کا دعوئی کرنا آسان ہوتا ہے اور شاید اگر موت کا سوال ہوتا تو ہم میں سے ہر شخص اپنی جان دینے کے لئے آگے 181
اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 28 است 1942ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم آجاتا.لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ اس بات کے لئے تیار ہیں کہ اگر انہیں سلسلہ کی طرف سے تبلیغ کے لئے غیر ممالک میں نکل جانے کا حکم ملے تو وہ گھر میں آئیں ہوئی ہاتھ میں پکڑیں اور اپنی بیوی سے کہیں یہ سب گھر کی چیزیں تمہارے پاس ہیں، تم چکی پیسو اور اپنا اور اپنے بچوں کا گزارہ کرو.میں امریکہ یا جرمنی یا روس جارہا ہوں کیونکہ وہاں کی حکومت نے ہمارے مبلغ کو نکال دیا ہے؟ اسی طرح ہر احمدی اپنے اپنے گھر کے دروازے بند کر کے اور سوئی ہاتھ میں لے کر نکل کھڑا ہو اور اس کے دل میں ذرا بھی یہ احساس نہ ہو کہ اس کی بیوی اور بچوں کا کیا بنے گا اور وہ کس طرح گزارہ کریں گے؟ اگر یہ زمانہ آ جائے تو تم خود ہی غور کر لو کہ تم میں سے کتنے ہیں جو اپنے نفس کو اس قسم کی قربانی پر تیار پاتے ہیں؟ تم مت سمجھو کہ یہ وقت دور ہے.اب وہ دن ، جن میں جماعت کو اس رنگ میں قربانیاں کرنی پڑیں گی ، دور نہیں معلوم ہوتے بلکہ بہت ہی قریب آپہنچے ہیں اور جنگ کے بعد کے قریب ترین عرصہ میں ہمیں ان قربانیوں کو پیش کرنا ہوگا.تیاری کا وقت ختم ہو رہا ہے، کام کا وقت نزدیک آ گیا ہے.اس لئے یہ خیال اپنے ذہنوں میں سے نکال دو کہ ہم لڑنے والی قوم نہیں ہیں.تم خون کی ندیوں میں چلنے کے لئے تیار رہو، اپنی گردنیں دشمنوں کے ہاتھوں کٹوانے کے لئے آمادہ رہو اور اس بات کو سمجھ لو کہ اس قسم کی قربانیوں کے بغیر جماعتی ترقی ناممکن ہے.یہ خیال اپنے دلوں میں کبھی مت آنے دو کہ چونکہ تم امن سے رہتے ہو، فتنہ و فساد میں حصہ نہیں لیتے ، اس لئے دنیا تمہارا خون نہیں بہائے گی.با امن قوموں کو بھی دنیا میں مارا جاتا ہے اور ان پر بھی ایسا وقت آتا ہے جب انہیں کہا جاتا ہے کہ مرتے جاؤ اور بڑھتے جاؤ.مگر میرے لئے ابھی جماعت کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ اس میں سے ہر شخص اس رنگ میں قربانی کرنے کے لئے تیار ہو گا ؟“ ( مطبوع الفضل مورخہ 05 ستمبر 1942ء) 182
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 25 ستمبر 1942ء جماعت کا فرض ہے کہ مبلغین کی قدر کرے خطبہ جمعہ فرمودہ 25 ستمبر 1942ء اللہ تعالیٰ نے بعض دعائیں ایسی رکھی ہیں جو ہر شخص مانگ سکتا ہے اور نہ صرف مانگ سکتا ہے بلکہ اسے مانگنی چاہئیں مثلاً اسلام اور احمدیت کی ترقی کی دعا، تقوی اللہ کے حصول کی دعا، سلسلہ کی اشاعت اور اس کے نظام کے استحکام کی دعا، یہ دعا کہ ہم سب کو اللہ تعالیٰ کے منشاء اور اس کی مرضی کے مطابق کام کرنے کی توفیق ملے اور ہمارا کوئی قدم اس کے احکام کے خلاف نہ اٹھے، اسی طرح جو لوگ سلسلہ کی خدمت کر رہے ہیں، ان کے لئے دعا، یہ دعا ئیں ہیں جو ہم میں سے ہر شخص کو ہر روز کرنی چاہئیں اور کبھی بھی ان سے غافل نہیں ہونا چاہیے.ہمارے کئی مبلغ قید ہیں یا قید نما حالت میں ہیں.ان میں سے دس بارہ تو مشرقی ایشیا میں ہی ہیں مثلاً مولوی رحمت علی صاحب مولوی شاہ محمد صاحب، ملک عزیز احمد صاحب، مولوی محمد صادق صاحب، مولوی غلام حسین صاحب.ان کے علاوہ کچھ لوکل مبلغ ہیں، جو پانچ سات ہیں.جن میں سے بعض کو یہاں سے مقرر کیا گیا تھا اور بعض کو وہاں کی جماعتوں نے اپنا مبلغ بنا لیا تھا.ان تمام مبلغین کے متعلق نہ ہمیں کوئی خبر ہے، نہ اطلاع.اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم ان سب کو اپنی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.کیونکہ وہ ہماری طرف سے ان ممالک میں تبلیغ اسلام کے لئے گئے تھے.اللہ تعالیٰ نے بعض باتوں کو فرض کفایہ قرار دیا ہے اور تبلیغ بھی انہی میں سے ایک ہے.یعنی اگر قوم میں سے کوئی شخص بھی تبلیغ نہ کرے تو ساری قوم گناہگار اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کی مورد ہوگی.لیکن اگر کچھ لوگ تبلیغ کے لئے کھڑے ہو جائیں تو باقی قوم گناہگار نہیں ہوگی.پس اگر یہ لوگ تبلیغ کے لئے غیر ممالک میں نہ جاتے تو احمد یہ جماعت اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں گناہگار ٹھہرتی اور وہ اس کے عذاب کی مورد بن جاتی.کیونکہ وہ کہتا کہ اس قوم نے تبلیغ کو بالکل ترک کر دیا ہے.جیسے مسلمانوں کی حالت ہے کہ جب انہوں نے فریضہ تبلیغ کی ادائیگی میں کوتاہی سے کام لیا اور ان میں ایسے لوگ نہ رہے جو اپنے وطنوں کو چھوڑ کر، اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر اور اپنے آرام و آسائش کے سامانوں کو چھوڑ کر غیر ممالک میں جائیں اور لوگوں کو داخل اسلام کریں تو وہ مورد عذاب بن گئے.183
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 25 ستمبر 1942ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم پس جن لوگوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کو اپنی خاص رحمتوں کا مورد بنایا ہوا ہے یقینا ان کا حق ہے کہ ہم انہیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.ان کے لئے دعا کرنا، اپنی ذاتی دعاؤں پر مقدم سمجھیں اور متواتر الحاح اور عاجزی سے ان کی صحت اور سلامتی اور ان کے رشتہ داروں کی صحت اور سلامتی کے لئے دعائیں کریں.اسی طرح اور بہت سے مبلغ ہیں، جن کی قربانیوں کا صحیح اندازہ ہماری جماعت کے دوست نہیں لگا سکتے.بالخصوص دو مبلغ تو ایسے ہیں جو شادی کے بہت تھوڑا عرصہ بعد ہی تبلیغ کے لئے چلے گئے اور اب تک باہر ہیں.ان میں سے ایک دوست تو نو سال سے تبلیغ کے لئے گئے ہوئے ہیں.حکیم فضل الرحمن صاحب ان کا نام ہے.انہوں نے شادی کی اور شادی کے تھوڑے عرصہ کے بعد ہی انہیں تبلیغ کے لئے بھجوا دیا گیا.وہ ایک نو جوان اور چھوٹی عمر کی بیوی کو چھوڑ کر گئے تھے مگر اب وہ آئیں گے تو انہیں ادھیڑ عمر کی بیوی ملے گی.یہ قربانی کوئی معمولی قربانی نہیں.میرے نزدیک تو کوئی نہایت ہی بے شرم اور بے حیا ہی ہو سکتا ہے جو اس قسم کی قربانیوں کی قیمت کو نہ سمجھے اور انہیں نظر انداز کر دے.اسی طرح مولوی جلال الدین صاحب شمس ہیں، انہوں نے بڑی عمر میں شادی کی اور دو تین سال بعد ہی انہیں تبلیغ کے لئے بھیج دیا گیا.ان کے ایک بچے نے اپنے باپ کو نہیں دیکھا اور باپ نہیں جانتا کہ میرا بچہ کیسا ہے؟ سوائے اس کے کہ تصویروں سے انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا ہو.وہ بھی کئی سال سے باہر ہیں اور اب تو لڑائی کی وجہ سے ان کا آنا اور بھی مشکل ہے.قائمقام ہم بھیج نہیں سکتے اور خود وہ آنہیں سکتے.کیونکہ راستے مخدوش ہیں.اس لئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ کب واپس آئیں گے ؟ لڑائی ختم ہو اور حالات اعتدال پر آئیں تو اس کے بعد ان کا آنا ممکن ہے اور نہ معلوم اس میں ابھی اور کتنے سال لگ جائیں ؟ ان لوگوں کی ان قربانیوں کا کم سے کم بدلہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کا ہر فرد دعائیں کرے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھے اور ان کے اعزہ اور اقربا پر بھی رحم فرمائے.میں تو سمجھتا ہوں کہ جو احمدی ان مبلغوں کو اپنی دعاؤں میں یاد نہیں رکھتا، اس کے ایمان میں ضرور کوئی نقص ہے اور مجھے شبہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے ایمان میں خلل واقعہ ہو چکا ہے.اسی طرح اور بھی کئی مبلغین ہیں جن کی قربانی گو اس حد تک نہیں مگر پھر بھی وہ سالہا سال سے اپنے اعزہ اور رشتہ داروں سے دور ہیں اور تم قسم کی تکالیف برداشت کر رہے ہیں.ان مبلغین میں سے مغربی افریقہ کے دو مبلغ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں.ایک مولوی نذیر احمد (ابن بابو فقیر علی صاحب) اور دوسرے مولوی محمد صدیق 184
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 25 ستمبر 1942ء صاحب.یہ لوگ ایسے علاقوں میں ہیں جہاں سواریاں مشکل سے ملتی ہیں، کھانے پینے کی چیزیں بھی آسانی سے میسر نہیں آتیں، راستہ میں کبھی ستو پھانک کر گزارہ کر لیتے ہیں اور کبھی کوئی پھل کھا لیتے ہیں.پھر انہیں سینکڑوں میل کے دورے کرنے پڑتے ہیں اور ان دوروں کا اکثر حصہ وہ پیدل طے کرتے ہیں.یہ قربانیاں ہیں جو سالہا سال سے یہ لوگ کر رہے ہیں، چیف اور رؤسا ان کا مقابلہ کرتے ہیں.بعض دفعہ گو ہمیشہ نہیں ) گورنمنٹ بھی ان کے راستے میں روڑے اٹکاتی ہے، عام پبلک اور مولوی بھی مقابلہ کرتے رہتے ہیں.لیکن ان تمام روکوں کے باوجود وہ مختلف علاقوں میں جماعتیں قائم کرتے اور خانہ بدوشوں کی طرح دین کی اشاعت کے لئے پھرتے رہتے ہیں.یہ لوگ ایسے نہیں کہ جماعت ان کی قربانیوں کے واقعات کو تسلیم کرنے سے انکار کر سکے.میں قربانیوں کے واقعات کو تسلیم کرنے کی بجائے ان کے احسانات کو تسلیم کرنے“ کے الفاظ استعمال کرنے لگا تھا.مگر پھر میں نے لفظ احسان اپنی زبان سے نہیں نکالا.کیونکہ دین کیلئے قربانی کرنا ہر مومن کا فرض ہے.اس لئے میں نے کہا ہے کہ جماعت ، ان لوگوں کی قربانیوں کو تسلیم کرنے سے انکار نہیں کرسکتی.لیکن بہر حال اس میں کیا شبہ ہے کہ جو کام یہ لوگ کر رہے ہیں، وہ ساری جماعت کا ہے اور اس لحاظ سے جماعت کے ہر فرد کو اپنی دعاؤں میں ان مبلغین کو یا درکھنا چاہئے.اسی طرح اور مبلغ دوسرے مختلف ممالک میں اخلاص اور قربانی سے کام کر رہے ہیں.صوفی مطبع الرحمان صاحب امریکہ میں کام کر رہے ہیں اور بعض مشکلات میں ہیں.مولوی مبارک احمد صاحب مشرقی افریقہ میں کام کر رہے ہیں.مولوی رمضان علی صاحب ساؤتھ امریکہ میں کام کر رہے ہیں.چوہدری محمد شریف صاحب فلسطین اور مصر میں کام کر رہے ہیں.حکیم فضل الرحمن صاحب کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں ان کے علاوہ مولوی نذیر احمد صاحب مبشر سیالکوئی آج کل گولڈ کوسٹ میں کام کر رہے ہیں.یہاں گو جماعتیں پہلے سے قائم ہیں مگر وہ اکیلے کئی ہزار کی جماعت کو سنبھالے ہوئے ہیں.پھر ان کی قربانی اس لحاظ سے بھی خصوصیت رکھتی ہے کہ وہ آنریری طور پر کام کر رہے ہیں ، جماعت ان کی کوئی مدد نہیں کرتی.وہ بھی سات آٹھ سال سے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے جدا ہیں بلکہ تبلیغ پر جانے کی وجہ سے بیوی کا رخصتانہ بھی نہیں کرا سکے.ہمارے دوست بعض دفعہ مختلف لوگوں کے اعتراضات سے ڈر کر اور بعض دفعہ پیغامیوں کے اس اعتراض سے گھبرا کر کہ جماعت احمد یہ قادیان تبلیغ نہیں کرتی، خیال کرنے لگ جاتے ہیں کہ شاید یہ 185
اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 25 ستمبر 1942 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم اعتراض درست ہے.حالانکہ ہماری جماعت کے مبلغین کی قربانیوں کو اگر دیکھا جائے تو ان کی مثال سوائے قرون اولیٰ کے اور کہیں دکھائی نہیں دے سکتی.پیغامیوں کی تبلیغ تو اس کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے سورج کے مقابلہ میں ذرہ.میں نے جو مثالیں پیش کی ہیں، ان کے مقابلہ میں پیغامی کوئی ایک ہی مثال پیش کر کے دکھا ئیں.ان میں کہاں جرات ہے کہ وہ ہندوستان سے بغیر خرچ کے غیر ممالک میں تبلیغ کے لئے جائیں اور اپنا گزارہ تجارت وغیرہ کے ذریعہ کریں؟ اسی طرح ان میں کوئی ایسی مثال نہیں مل سکتی کہ کسی شخص کی نئی نئی شادی ہوئی ہو اور وہ اپنی بیوی کو چھوڑ کر اعلائے کلمہ اسلام کے لئے نکل گیا ہو اور پھر اسے واپس آنے کا اس وقت موقع ملا ہو جب اس کی بیوی ادھیڑ عمر کے قریب پہنچ چکی ہو.اس قسم کی قربانیوں کا موقع اللہ تعالیٰ نے صرف ہماری جماعت کو ہی دیا ہے.پس نہایت ہی بے شرم وہ لوگ ہیں، جو ہماری جماعت پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم تبلیغ نہیں کرتے اور نہایت ہی بیوقوف وہ لوگ ہیں، جو اس اعتراض سے ڈر کر اپنے مبلغوں کی قربانیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں، جن سے سلسلہ کی عزت ہے.یہ وہ لوگ ہیں، جو حقیقی ایمان کا مظاہرہ کرنے والے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں، جن کے متعلق جماعت کا فرض ہے کہ ان کی قدر کرے.میں یہ نہیں کہتا کہ آپ لوگوں میں اور ایسے نہیں ہیں.ممکن ہے آپ لوگوں میں سے بھی سینکڑوں ایسے ہوں ، جو اسی رنگ میں اپنے ایمان کا مظاہرہ کرنے کے لئے تیار ہوں اور وقت آنے پر وہ لوگ ثابت کر دیں کہ وہ بھی اپنے بھائیوں سے اخلاص اور قربانی میں کم نہیں.مگر اپنے ایمان اور اخلاص کا نمونہ دکھانے کا ان کو موقعہ ملا ہے، آپ کو نہیں.اس لئے دنیا کے سامنے آپ کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی، انہی لوگوں کی پیش کی جاسکتی ہے.پس ان ایام میں ان لوگوں کے لئے خصوصیت سے دعا ئیں کرنی چاہئیں.اسی طرح احمدیت کی عظمت اور ترقی اور جماعت کے اندر سے ہر قسم کی منافقت کے دور ہونے کے متعلق دعائیں کرنی چاہئیں.( مطبوعه الفضل مورخہ یکم اکتوبر 1942ء) 186
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 02 اکتوبر 1942ء تبلیغ کے میدان جنگ کے لئے ذکر الہی آرسنل اور فیکٹری ہے " خطبہ جمعہ فرمودہ 02اکتوبر 1942ء حقیقت یہی ہے کہ اس قوم کے دن زندہ ہوتے ہیں جس کی راتیں زندہ ہوں.جولوگ ذکر الہی کی قدر و قیمت کو نہیں سمجھتے، ان کا مذہب کے ساتھ وابستگی کا دعوی ، محض ایک رسمی چیز ہے.کئی نوجوان ایسے ہوتے ہیں جو تبلیغ بڑے جوش سے کرتے ہیں، چندوں میں بھی شوق سے حصہ لیتے ہیں، مگر ذکر الہی کے لئے مساجد میں بیٹھنا اور اخلاق کی درستی کے لئے خاموش بیٹھنا ، ان پر گراں ہوتا ہے اور جو وقت اس طرح گزرے، اسے وہ سمجھتے ہیں کہ ضائع گیا، اسے تبلیغ پر صرف کرنا چاہیے تھا.ایسے لوگ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ تلوار اور سامان جنگ کے بغیر لڑائی نہیں جیتی جا سکتی.جس طرح لڑائی کے لئے اسلحہ اور سامان جنگ کی ضرورت ہے، اسی طرح تبلیغ بھی بغیر سامانوں کے نہیں ہوسکتی.تبلیغ کے میدان جنگ کے لئے ذکر الہی آرسنل اور فیکٹری ہے اور جو مبلغ ذکر الہی نہیں کرتا ، وہ گویا ایک ایسا سپاہی ہے جس کے پاس تلوار، نیزہ یا کوئی اور اسلحہ نہیں.ایسا مبلغ جس چیز کو تلوار یا اپنا ہتھیار سمجھتا ہے، وہ کرم خوردہ لکڑی کی کوئی چیز ہے جو اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی.آخر یہ کیا بات ہے کہ وہی دلیل محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم دیتے تھے اور وہ دل پر اثر کرتی تھی لیکن وہی دلیل دوسرا پیش کرتا ہے لیکن سننے والا ہنس کر گزر جاتا ہے اور کہتا ہے کیا بیہودہ باتیں کر رہا ہے؟ یہ فرق کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس شخص کے پاس جو ہتھیار ہے، وہ لکڑی کا کرم خوردہ ہتھیار ہے.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوہے کی ایسی تیز تلوار تھی جوذ کر الہی کے کارخانے سے تازہ ہی بن کر نکلی تھی.کیا وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باتوں میں جواثر تھا، وہ دوسروں کی باتوں میں نہیں ، ہمارے مبلغوں کی تقریروں میں وہ اثر نہیں؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ مبلغ کی تقریر کو ذکر الہی نے تلوار نہیں بنایا ہوتا، اس کے ہاتھ میں لکڑی کا کرم خوردہ ہتھیار ہے، جسے گھن لگا ہوا ہے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ہاتھ میں جو تلوار تھی، وہ ذکر الہی کے کارخانہ سے نئی نئی بن کر آئی تھی، جسے نہ کوئی زنگ لگا تھا، نہ چربی وغیرہ کوئی چیز لگی تھی.مبلغ جو تلوار استعمال کرتا ہے وہ کسی پرانی فیکٹری میں بنی 187
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 02 اکتوبر 1942 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم ہوئی ہے، جسے دندانے اور نشان وغیرہ پڑ چکے ہیں اور جو پہلے استعمال ہو چکنے کی وجہ سے خراب ہو چکی ہے اور پرانی ہونے کی وجہ سے اس کے ہینڈل کو کیڑا لگا ہوا ہے.یہا سے مارتا ہے تو بجائے دوسروں کو نقصان پہنچانے کے خود ہی ٹوٹ کر گر جاتی ہے.دوسرے پر اثر تبلیغ اور دلیل سے ہی نہیں پڑتا بلکہ اس کے پیچھے جو جذ بہ ہوتا ہے، اس کا اثر ہوتا ہے." دیکھو قرآن کریم وہی تھا مگر مسلمان اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے تھے.اس لئے کہ ان کے دلوں میں حقیقی ایمان نہ تھا مگر وہی قرآن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ میں آکر کس طرح اسلام کے دشمنوں کو تہس نہس کر رہا ہے اور چاروں طرف مردے ہی مردے نظر آتے ہیں.یہ اس لئے ہوا کہ حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ذکر الہی کی طاقت تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وفات مسیح کے جو دلائل پیش فرمائے ہیں، ان میں ہیں تھیں بلکہ اور سو کا اضافہ بھی بے شک کر لو لیکن اگر ذکر الہی نہیں تو ان تمام دلائل اور انہیں بیان کرنے والے مبلغوں کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا.اثر زبان نہیں بلکہ دل کا جذبہ کرتا ہے.خالی زبانی باتوں سے کچھ نہیں بنتا.اس میں شبہ نہیں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے عقل دی ہے اور وہ معقول بات کو ہی قبول کرتا ہے.لیکن صرف بات کا معقول ہونا ہی اثر نہیں کر سکتا ، جب تک کہ اس کے ساتھ محبت اور سنجیدگی نہ ہو.بات معقول بھی ہو اور پھر اس کے ساتھ محبت اور سنجید گی بھی ہو، تب اثر ہوتا ہے.اخلاص اور محبت کے بغیر کوئی اثر نہیں ہو سکتا.اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے کہ الدین النصح ، یعنی دین اور اخلاص ایک چیز ہے.جب تک اخلاص نہیں، دین بھی نہیں اور جب اخلاص مٹے گا، دین بھی مٹ جائے گا“.( مطبوعه الفضل 06 اکتوبر 1942ء) 188
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 16 اکتوبر 1942ء ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ نے ترقی کے لئے جو ہتھیار بخشا ہے، وہ تبلیغ ہے وو خطبہ جمعہ فرمودہ 16 اکتوبر 1942ء ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ نے اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے جو ہتھیار بخشا ہے، وہ تبلیغ ہے.تلوار کا جہاد ہمارے لئے کم سے کم اس زمانے میں مقرر نہیں ہے.کم سے کم اس زمانہ میں ہمارے لئے مقرر نہیں ہے، میں نے اس لئے کہا ہے کہ جہاد کے متعلق جو پیشگوئیاں اور احکام ہیں ، وہ وقتی ہیں.جہادسیف بھی خدا تعالیٰ کے دائی احکام میں سے ایک حکم ہے اور خدا تعالیٰ کے دائمی احکام منسوخ نہیں ہوا کرتے ، ملتوی ہو سکتے ہیں.اسی طرح جہاد کا حکم حالات کے مطابق ملتوی ہو سکتا ہے، منسوخ نہیں ہو سکتا.جس قسم کے حالات میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام گزرے یا آپ کے قریب کے زمانہ کے لوگ گزررہے ہیں ، ضروری نہیں کہ یہ حالات ہمیشہ اسی طرح رہیں.آج اگر تلوار کے ساتھ احمد یوں کو مجبور نہیں کیا جاتا کہ وہ اپنے دین کو چھوڑ دیں تو کون کہہ سکتا ہے کہ کل ایسے حالات پیدا نہ ہوں گے کہ کسی ملک میں اسے مٹانے کے لئے تلوار نہ اٹھائی جائے گی ؟ اور پھر وہاں احمدیت ہوگی بھی ایسے زور کی کہ وہ مخالفت علمی نہ کہلا سکے گی بلکہ حقیقی مخالفت کہلائے گی اور اس وقت مقابلہ تلوار کے ساتھ ہی ضروری ہوگا.پس آج ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کل احمدیت کے لئے کیا حالات ظاہر ہوں گے اور کیسی مشکلات اسے پیش آئیں گی ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا ہے کہ عیسی مسیح کر دے گا جنگوں کا التواء آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ قیامت تک کے لئے جنگوں کو منسوخ کر دے گا.التواء، ایک عرصہ تک ہوتا ہے اور احمدیت کو بھی ایسے حالات میں سے گزرنا پڑ سکتا ہے کہ دشمن اسے تلوار سے مٹانے کی کوشش کریں اور اس لئے احمدیوں کو بھی تلوار کا جواب تلوار سے دینا پڑے.آج دشمن دلائل سے حملہ کرتا ہے، اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی دلائل سے مقابلہ کیا اور آپ کی جماعت بھی دلائل سے مقابلہ کر رہی ہے.پس ہمارے لئے اشاعت اسلام کا ذریعہ تبلیغ کے سوا کوئی نہیں.پہلے انبیاء کے زمانہ میں بھی ترقی کا ذریعہ تبلیغ ہی رہی ہے.مگر ایسا بھی ہوتا رہا ہے، ان کے دشمن خود ہی دوسرے ذرائع بھی مہیا کر دیتے رہے.اس کی کوئی ایک مثال بھی پیش نہیں کی جاسکتی کہ کبھی کسی نبی 189
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 16 اکتوبر 1942ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم نے جبر سے کام لیا ہو اور تلوار اٹھائی ہو اور کسی کے سر پر تلوار رکھ کر کہا ہو کہ مانو ورنہ قتل کر دیئے جاؤ گے.یہ بات خدا تعالیٰ کی صفات کے خلاف ہے اور انبیا ء خدا تعالیٰ کی صفات کے خلاف کبھی کوئی کام نہیں کرتے.جب بھی کسی نبی نے تلوار اٹھائی ہے اور لڑائی کی ہے، دفاع کے طور پر ہی کی ہے.گویا جس حد تک تبلیغ میں جنگ کے مواقع پیدا ہوئے ہیں، وہ دشمن نے ہی بہم پہنچائے ہیں، انبیاء نے خود پیدا نہیں کئے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسلام کی حکومت عرب پر قائم ہو گئی تھی ، اس لئے لوگوں نے مان لیا.مگر سوال یہ ہے کہ حکومت قائم ہونے کے سامان کس نے پیدا کئے؟ پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تلوار اٹھائی یا کافروں نے؟ اور جب اسلام کی حکومت قائم ہونے کے سامان خود کافروں نے مہیا کئے تو الزام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کس طرح آسکتا ہے؟ اگر کوئی شخص خود آ کر کہے کہ مجھے کلمہ پڑھاؤ تو اسے کلمہ پڑھا دینا جبر نہیں کہلا سکتا.اور اگر عرب پر اسلام کی حکومت قائم ہونا اعتراض کی بات ہے تو کسی کے کہنے پر اسے کلمہ پڑھانے کو بھی جبری کہنا پڑے گا.عرب پر اسلام کی حکومت قائم ہونے کا دروازہ خود کافروں نے کھولا اور جو دروازہ دوسرا کھولے، وہ جبر نہیں کہلا سکتا.ہاں اگر انسان خود جا کر لالچ یا حرص دلا کر کسی کو منا لے تو یہ مالی جبر کہلائے گا یا اگر تلوار دکھا کر منا لے تو یہ تلوار کا جبر ہو گا.لیکن عرب پر اسلام کی حکومت کا رستہ خود کافروں نے کھولا اس لئے یہ جبر نہیں.جس طرح اگر کوئی خود آکر اطاعت قبول کرے تو یہ جبر نہیں کہلا سکتا.ایک شخص اگر خود تحقیق کرے اور پھر تصدیق کر کے خواہش کرے کہ مجھے کلمہ پڑھاؤ تو کوئی معظمند سے جبر نہیں کہ سکتا.پس جب لڑائی کا سامان خود دشمن کرے اور اس کے نتیجہ میں صداقت پھیلے تو یہ جبر نہیں کہلا سکتا کیونکہ اس کے پھیلنے کے سامان خود دوسرے نے کئے ہیں.ہاں اگر ماننے والا جھوٹے طور پر مانتا ہے تو یہ بھی اس کی منافقت ہوگی.کیونکہ اسی نے پہلے سامان پیدا کیا اور پھر خود ہی منافقت کے طور پر مان لیا.پس منافقت بھی اسی کے ذمہ ہوگی اور اخلاص بھی اسی کے ذمہ ہوگا.بہر حال کبھی کسی نبی نے جبر سے کام نہیں لیا اور دوسروں پر جبر کر کے اسلام نہیں پھیلایا.ہاں یہ ہوتا رہا ہے کہ دشمنوں کی طرف سے ایسے سامان پیدا کر دئیے جاتے تھے کہ صداقت کو ظاہری شان و شوکت حاصل ہو جاتی تھی اور اس سے بھی بعض لوگ متاثر ہو جاتے تھے.مگر ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ نے اس ظاہری شان و شوکت سے بھی محروم رکھا ہے اور فرمایا ہے کہ اس کی ترقی تبلیغ سے ہی ہوگی.گو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، ضروری نہیں کہ ہمیشہ ہی ایسا ہو.ہو سکتا ہے کسی زمانہ میں دشمن احمدیت کے خلاف تلوار اٹھائے اور خدا تعالیٰ احمد یوں کو بھی حکم دے دے کہ تم بھی تلوار کا مقابلہ تلوار سے کرو کیونکہ اب تم پر مظالم حد سے زیادہ ہو گئے ہیں.لیکن بہر حال ہمارے سلسلہ کی ابتدائی ترقی تبلیغ سے ہی ہوتی ہے، ہوتی رہی ہے، ہورہی ہے اور آئندہ بھی ہوگی.190
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 16 اکتوبر 1942ء اس وقت تک ہم جس رنگ میں تبلیغ کرتے رہے ہیں، وہ انفرادی تبلیغ کا رنگ ہے.یہ تبلیغ انفرادی تبلیغ کہلا سکتی ہے، اجتماعی تبلیغ نہیں کہلا سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں اجتماعی تبلیغ کا رنگ تھا.دشمن پر ایسے حملے ہوتے تھے کہ وہ مجبور ہو جاتا تھا کہ یا لڑے اور یا مان لے.اشتہار پر اشتہار شائع ہوتے رہتے تھے اور دنیا کومخالفت کی دعوت دی جاتی تھی اور مجبور کیا جاتا تھا کہ لوگ مقابلہ کریں.مجھے اچھی طرح یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ انبیاء کولوگوں نے جو مجنون کہا ہے تو اس کی بھی وجہ ہے.وہ جس رنگ میں تبلیغ کرتے ہیں، اسے دیکھتے ہوئے لوگ ان کو مجنون کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں.ہم اشتہار پر اشتہار دیتے ہیں ، لوگ مخالفت کرتے ہیں.جماعت کے لوگ مخالفت پر برا بھی مناتے ہیں، چڑتے بھی ہیں مگر ہم خود کب مخالفوں کو چپ رہنے دیتے ہیں اور اگر وہ چپ ہو جا ئیں تو ہم اور اشتہار دے دیتے ہیں.انبیاء کی مثال تو اس بڑھیا کی سی ہے.جسے بچے گالیاں دیتے اور دق کیا کرتے تھے کہ یہاں تک کہ وہ تنگ آکر ان کو بددعائیں دیتی کہ مجھے خواہ مخواہ دق کرتے ہیں.ان بددعاؤں کی وجہ سے بعض دفعہ ماں باپ اپنے بچوں کو گھروں میں روک لیتے اور دروازوں کو قفل لگا دیتے کہ تم باہر جا کر صبح صبح بددعائیں لیتے ہو.لیکن جب وہ بڑھیا دیکھتی کہ آج اسے کوئی بچہ دق نہیں کرتا تو وہ ہر دروازہ پر جاتی اور کہتی کہ کیا آج تمہارا مکان گر گیا؟ کیا سب بچے آج مر گئے ؟ اور یہ دیکھ کر ماں ہے باپ دروازے کھول دیتے اور بچوں سے کہتے کہ جاؤ جو مرضی ہے کرو.آپ فرمایا کرتے تھے کہ انبیاء کی بھی یہی مثال ہوتی ہے.دشمن انہیں دق کرتا ہے اور مخالفت کرتا ہے لیکن اگر وہ کسی وقت مخالفت نہ کرے.پھر بھی انہوں نے تو اپنی بات اسے ضرور سنانی ہے اور جب وہ سنائیں گے، وہ پھر مخالفت کرے گا.ان کے دشمن صداقت پر صبر سے کام نہیں لے سکتے اور انبیاء تبلیغ سے باز نہیں رہ سکتے اور دونوں کی یہ حالت مل کر لڑائی کو جاری رکھتی ہے.دشمن مخالفت کرتے ہیں، انبیاء ان کو اس پر ڈراتے بھی ہیں کہ تم پر ہماری مخالفت کی وجہ سے عذاب آئے گا.لیکن اگر وہ کسی وقت چپ ہو جا ئیں تو یہ پھر اپنی تبلیغ شروع کر دیتے ہیں اور اس پر دوسرا فریق پھر گالی گلوچ شروع کر دیتا ہے.کیونکہ گالی کے سوا اس کے پاس کچھ ہوتا نہیں.یہ ضرور تبلیغ کرتے ہیں اور اس کے پاس اس کا ایک ہی جواب ہوتا ہے یعنی گالیاں.چنانچہ وہ ضرور گالیاں دیتا ہے تو یه اجتماعی تبلیغ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں تھی.مگر بعد میں اس میں سستی پیدا ہوگئی.بے شک جماعت بڑھ رہی ہے، ترقی بھی کر رہی ہے ، رسائل بھی زیادہ ہیں، اخبار بھی اب زیادہ ہیں مگر وہ جو رنگ تھا کہ دشمن کو چھیڑنا اور مجبور کرنا کہ وہ سچائی کی طرف توجہ کرے، اب آگے سے کم ہے.اب کچھ لوگ جماعت میں ایسے پیدا ہوگئے ہیں جو پیغامیوں کی طرح کہتے ہیں کہ ہمیں ایسی تقریر میں کرنی 191
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 16 اکتوبر 1942ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد دوم چاہئیں کہ لوگ سنیں اور کہیں کہ واہ واہ احمدی خوب تقریریں کرتے ہیں.مخالفوں کو دق کر کے تبلیغ کی طرف متوجہ کرنا اب نہیں.بلکہ اس طرف مائل ہیں کہ لوگ کہیں احمدی اچھا کام کر رہے ہیں.لیکن یا درکھنا چاہیے کہ ایسے لوگ صداقت کو قبول نہیں کرتے.صداقت وہی قبول کرتے ہیں جو لڑتے ہیں، مقابلہ کرتے ہیں اور یہ لڑائی اور مقابلہ دو طریق سے ہوتا ہے یا تو کوئی فطرتا مخالف ہو اور یا پھر دلائل کا اصرار اور تکرار کر کے اسے توجہ کرنے پر مجبور کر دیا جائے اور چونکہ وہ ماننا نہیں چاہتا.اس کی ظاہری شرافت جاتی رہے اور یا پھر اس کے اندر اتنی شرافت ہو کہ وہ تحقیق کی طرف مائل ہو جائے.اصرار اور تکرار کے دو ہی نتائج ہو سکتے ہیں یا برے اخلاق ظاہر ہو جائیں اور وہ لڑ پڑے اور یا پھر ستی کو چھوڑ کر صداقت کی طرف مائل ہو.لیکن اب ہماری تبلیغ کا عام طور پر یہ رنگ نہیں ہے اور در حقیقت آج اس کی پہلے کی نسبت بہت زیادہ ضرورت ہے.ہمیں اس کی ضرورت نہیں کہ لوگ ہماری تعریف کریں.اگر لوگ ہماری تعریف کریں گے تو ہمیں کیا دیں گے؟ ہمیں تو خدا تعالیٰ نے دنیا کے نظام کو توڑنے کے لئے کھڑا کیا ہے اور ہم نے ان لوگوں کے جھوٹے خیالات کے گھر کو بھی توڑنا ہے ، جو ہماری تعریف کریں.کیونکہ جب تک پرانی عمارت گرانہ دی جائے ، ہماری نئی عمارت تعمیر نہیں ہو سکتی اور اس وقت تک ہماری اور ان کے خیالات میں صلح نہیں ہے ہو سکتی جب تک کہ ان کے خیالات کی عمارت کو توڑ کر اس کی جگہ ہم اپنے خیالات کی عمارت کھڑی نہ کر دیں، اس وقت تک ہم ان میں مل کر بیٹھیں گے بھی، ان کی مجالس میں بھی جائیں گے ، اکٹھے بھی ہوں گے مگر وحدت خیال جو مذہب کا خاصہ ہے، اس وقت تک پیدا نہ ہو سکے گی.مذہب مل بیٹھنے پر خوش نہیں ہوتا بلکہ مل جانے پر خوش ہوتا ہے.و پس ظاہری تعریف سے ہمیں ہرگز خوش نہ ہونا چاہئے جب تک کہ تعریف کرنے والوں کے اور ہمارے خیالات ایک نہ ہوں، جب تک وہ اسلام اور احمد بیت کو ان معنوں میں نہ مان لیں ، جن معنوں میں ہم مانتے ہیں.اور یہ کس طرح ہو سکتا ہے جب تک کہ ہم ان کو اپنے اخلاص سے مجبور نہ کر دیں؟ ایک جبر محبت کا بھی ہوتا ہے.بچہ رو رو کر ماں سے چیز لے لیتا ہے.یہ ہے تو جبر مگر کیا ماں اسے نا پسند کرتی ہے؟ تم نے دیکھا ہوگا، اگر بچہ کچھ دن نہ مانگے تو ماں کہتی ہے میرا بچہ مجھ سے خفا ہو گیا ہے.جب وہ مانگتا ہے تو بعض دفعہ اس پر بھی خفا ہوتی ہے.بعض جاہل مائیں دفع ہو جا، مرجا بھی کہتی ہیں لیکن جب بچہ نہیں مانگتا اور روٹھ جاتا ہے تو پھر بھی کہتی ہے کہ میرا بچہ کیوں چیز نہیں مانگتا؟ بچہ ماں پر جبر تو کرتا ہے لیکن اگر وہ چپ ہو جائے تو بھی وہ پسند نہیں کرتی.اسی طرح تبلیغ کا جبر ہے.جب ہم لوگوں کو اس طرف 192
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 16 اکتوبر 1942ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم توجہ کرنے پر مجبور کریں گے تو وہ بگڑیں گے، ناراض ہوں گے ، بعض کہیں گے یہ تو پیچھے ہی پڑ گئے، کیسے ذلیل لوگ ہیں؟ کتنے عجیب لوگ ہیں؟ مگر روح کی آواز کہے گی یہ چیز ہے تو کچھ میٹھی.اگر یہ جبر ہوتا رہے تو شاید حق کھل ہی جائے تو جب تک یہ جبر نہ کیا جائے، بار بار سنا کر ان کو مجبور نہ کر دیا جائے کہ یالڑیں اور یا سوچیں حقیقی تبلیغ نہیں ہوسکتی.میں نے ایک گزشتہ خطبہ میں کہا تھا کہ وہ زمانہ آنے والا ہے اور قریب ہے کہ جب تبلیغ کے یہ رستے ہمیں چھوڑنے پڑیں گے اور وہ اختیار کرنے پڑیں گے جو دین کی سلطنت کے رستے ہیں، جیسے دریا اپنا راستہ بناتا ہے.اب تک تو ہماری تبلیغ کی مثال پانی کی اس بار یک دھار کی ہے جو گلی میں سے گزرتا ہے مگر جب اس کی راہ میں کوئی پتھر آجاتا ہے تو مڑ جاتا ہے.مگر حقیقی تبلیغ کی مثال اس سیلاب کی ہے، جو مکانوں اور ہر اس چیز کو جو اس کے آگے آئے بہا لے جاتا ہے، وہ اپنا راستہ بناتا ہے، بدلتا نہیں.دیکھو جب دریائے سندھ جوش میں آتا ہے، جب خدا تعالیٰ اسے حکم دیتا ہے کہ تو اپنے رنگ میں تبلیغ کر ، تو وہ گاؤں کے گاؤں ،تحصیلوں کی تحصیلیں اور اضلاع کے اضلاع کو اجاڑتا ہوا چلا جاتا ہے.اسی طرح انبیاء کی جماعتیں جب حقیقی تبلیغ کے لئے اٹھتی ہیں تو دیوانگی کا رنگ رکھتی ہیں.لوگ کہتے ہیں یہ لوگ پاگل ہیں.وہ بھی کہتے ہیں کہ ہاں ہم پاگل ہیں مگر اس جنون سے پیاری چیز ہمیں اور کچھ نہیں.مگر اس دن کو کے آنے سے پہلے تبلیغ میں تیزی کی ضرورت ہے.سمندر کو ایک دن میں کوئی شخص پار نہیں کر سکتا.جو اسے ار کرنا چاہے، پہلے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس کے قریب کرے.ایک چھلانگ میں ہی کوئی اس تک نہیں پہنچ سکتا.پس پہلے اس کے لئے تیاری کی ضرورت ہے.اس سلسلہ میں میں نے تجویز کی ہے کہ سر دست ضرورت ہے کہ ایک حد تک اس طبقہ میں جو علماء رؤسا اور امراء یا پیروں اور گدی نشینوں کا طبقہ ہے، اس تک با قاعدہ سلسلہ کا لٹریچر بھیجا جائے.”الفضل“ کا خطبہ نمبر یا انگریزی دان طبقہ تک سن رائز ، جس میں میرے خطبہ کا انگریزی ترجمہ چھپتا ہے با قاعدہ پہنچایا جائے.تمام ایسے لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے ، جو عالم ہوں یا امراء، رؤسا یا مشائخ میں سے ہیں اور جن کا دوسروں پر اثر ورسوخ ہے.اور اس کثرت سے ان کو بھیجیں کہ وہ تنگ آکر یا تو اس طرف توجہ کریں اور یا مخالفت کا بیڑہ اٹھائیں اور اس طرح تبلیغ کے اس طریق کی طرف آئیں ، جسے آخر ہم نے اختیار کرنا ہے.لٹریچر اور ” الفضل“ کا خطبہ نمبر یا سن رائز بھیجنے کے علاوہ ایسے لوگوں کو خطوط کے ذریعہ بھی تبلیغ کی جائے اور بار بار ایسے ذرائع اختیار کر کے ان کو مجبور کر دیں کہ یا وہ صداقت کی طرف توجہ کریں اور تحقیق 193
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 16 اکتوبر 1942ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم کرنے لگیں اور یا پھر مخالفت شروع کر دیں.مثلاً ایک چٹھی بھیج دی، پھر کچھ دنوں کے بعد اور بیجی، پھر کچھ انتظار کے بعد اور بھیج دی.جس طرح کوئی شخص کسی حاکم کے پاس فریاد کرنے کے لئے اسے چٹھی لکھتا ہے مگر جواب نہیں آتا تو اور لکھتا ہے، پھر وہ توجہ نہیں کرتا تو ایک اور لکھتا ہے.حتی کہ وہ افسر توجہ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے.پس تکرار کے ساتھ علماء، امراء، رؤسا، مشائخ نیز راجوں، مہاراجوں، نوابوں اور بیرونی ممالک کے بادشاہوں کو بھی چٹھیاں لکھی جائیں.اگر کوئی شکر یہ ادا کرے تو اس پر خوش نہ ہو جائیں اور پھر لکھیں کہ ہمارا مطلب یہ ہے کہ آپ اس کی طرف توجہ کریں.جواب نہ آئے تو پھر چند روز کے بعد اور لکھیں کہ اس طرح آپ کو خط بھیجا گیا تھا مگر آپ کی طرف سے اس کا کوئی جواب نہیں آیا.پھر کچھ دنوں تک انتظار کے بعد اور لکھیں.حتی کہ یا تو بالکل وہ ایسا ڈھیٹ ہو کہ اس کے دل پر مہر لگی ہوئی ہے اور اس کی طرف سے اس کے سیکرٹری کا جواب آئے کہ تم لوگوں کو کچھ تہذیب نہیں، بار بار دق کرتے ہو.راجہ صاحب نے یا پیر صاحب نے خط پڑھ لیا اور وہ جواب دینا نہیں چاہتے اور یا پھر اس کی طرف سے یہ جواب آئے کہ آؤ جو سنانا چاہتے ہو، سنا لو.اس رنگ میں تبلیغ کے نتیجہ میں کچھ لوگ غور کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے.مگر اس وقت تو یہ حالت ہے کہ غور کرتے ہی نہیں.27 پس اب اس رنگ میں کام شروع کرنا چاہئے.اس کے لئے ضرورت ہے ایسے مخلص کارکنوں کی جو اپنا وقت اس کام کے لیے دے سکیں.بہت سی چٹھیاں لکھنی ہوں گی.چٹھیاں چھپی ہوئی بھی ہوسکتی ہیں.مگر پھر بھی ان کو بھیجنے کا کام ہوگا.اگر جواب آئے تو ان کا پڑھنا اور پھر ان کے جواب میں بعض چٹھیاں دستی بھی لکھنی پڑیں گی.بعض چٹھیوں کے مختلف زبانوں میں تراجم کرنے ہوں گے اور یہ کافی کام ہوگا.اس کے لئے جن دوستوں کو اللہ تعالیٰ توفیق دے، وہ اس کام میں مدد دیں.پھر جو دوست ” الفضل“ کا خطبہ نمبر اور سن رائز، دوسروں کے نام جاری کرا سکیں ، وہ اس رنگ میں مدد دیں.اگر ” الفضل“ کا خطبہ نمبر اور سن رائز ہزار ہزار بھی فی الحال بھجوانا شروع کریں تو اس پر چھ ہزار روپیہ خرچ کا اندازہ ہے.اور یہ کوئی ایسا خرچ نہیں.جماعت کے افراد خدا تعالیٰ کے فضل سے اسے آسانی سے برداشت کر سکتے ہیں.اگر جوش اور اخلاص کے ساتھ کام کیا جائے تو بہت فائدہ ہو سکتا ہے اور اس تبلیغ کے زمانہ میں اس طرح کام کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں.میں اس کے متعلق کوئی خاص تحریک نہیں کر رہا، جیسے تحریک جدید ہے.صرف یہ کہتا ہوں کہ جن کو اللہ تعالیٰ توفیق دے، وہ اس رنگ میں مدد کریں اور اگر وہ اس میں حصہ لیں تو یقینا اللہ تعالیٰ کی خوشنودی وو 194
تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 16 اکتوبر 1942ء حاصل کر سکتے ہیں.تحریک جدید کے نو جوانوں کو بھی اگر ضرورت ہو تو اس کام میں لگایا جاسکتا ہے.گو یہ ان کی تعلیم کا زمانہ ہے، اس لئے دوسرا کوئی زیادہ کام ان کو نہ کرنا چاہئے.باقی دوستوں میں سے جن کو توفیق ہو ، وہ چٹھیاں لکھنے ، ان کے تراجم کرنے ، جوابات کو پڑھنے اور دوسری دفتری کام کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں.اس سلسلہ میں دفتری کام کافی ہوگا.جن کی طرف سے جواب نہ آئے ، ان کو یاد دہانی کرنی ہوگی اور بار بار کرنی ہوگی.پس میں دوستوں کو عام رنگ میں اس کی تحریک کرتا ہوں.شاید اللہ تعالیٰ ایسا دن لے آئے کہ تحریک جدید کو اسی سلسلہ میں لگایا جاسکے.خلافت جو بلی فنڈ میں سے میں نے ابھی تبلیغ پر خرچ کرنا شروع نہیں کیا.میرا ارادہ ہے کہ اس سے آمد شروع ہو جائے تو پھر کیا جائے.تعلیمی وظائف اگر چہ شروع کر دیے ہیں مگر تبلیغی اخراجات ابھی اس سے شروع نہیں کئے اور چاہتا ہوں کہ آمد کی صورت پیدا ہو جائے تو پھر یہ اخراجات اس سے کئے جائیں.سردست میں یہی تحریک کرتا ہوں کہ جو دوست خواہش رکھتے ہیں کہ تبلیغ کے کام میں اور زیادہ حصہ لیں ، وہ اس طرف توجہ کریں اور الفضل خطبہ نمبر یا سن رائز“ کے جتنے پر چے جاری کرا سکتے ہوں، کرائیں.امداد دینے والے دوست اپنے نام میرے پیش کریں.میں خود تجویز کروں گا کہ کن لوگوں کے نام یہ پرچے جاری کرائے جائیں؟ پھر اس سلسلہ میں اور جو دوست خدمت کے لئے اپنے نام پیش کرنا چاہیں، وہ بھی کر دیں.ان کے ذمہ کام لگا دیئے جائیں گے.مثلاً یہ کہ فلاں قسم کے خطوط فلاں کے پاس جائیں اور ان کے جواب بھی وہ لکھیں.اس کام کی ابتداء کرنے کے لئے میں نے ایک خط لکھا ہے.جو پہلے اردو اور انگریزی میں اور اگر ضروت ہوئی تو دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ کرا کے دنیا کے بادشاہوں اور ہندوستان کے راجوں ، مہاراجوں کی طرف بھیجا جائے گا.اس قسم کے خطوط بھی وقتا فوقتا جاتے رہیں.مگر اصل چیز «الفضل“ کا خطبہ نمبر یا سن رائز“ ہے.جو ہر ہفتہ ان کو پہنچتا ہے اور چونکہ خطبہ کے متعلق مسنون طریق یہی ہے کہ وہ اہم امور پر مشتمل ہو.اس لئے اس میں سب مسائل پر بخشیں آجاتی ہیں.اس میں سلسلہ کے مسائل بھی ہوتے ہیں، جماعت کو قربانی کی طرف بھی توجہ دلائی جاتی ہے اور مخالفتوں کا ذکر بھی ہوتا ہے اور اس طرح جس شخص کو ہر ہفتہ یہ خط پہنچتا ہے، احمدیت گویانگی ہو کر اس کے سامنے آتی رہے گی اور وہ بخوبی اندازہ کر سکتا ہے کہ اس جماعت کی امنگیں اور آرزوئیں کیا ہیں؟ کیا ارادے ہیں؟ یہ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ دشمن کیا کہتا ہے اور یہ کس رنگ میں اس کا مقابلہ کرتے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں؟ 195
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 16 اکتوبر 1942ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اگر اس رنگ میں کام شروع کیا جائے تو ایک شور مچ سکتا ہے.اگر دو ہزار آدمی بھی ایسے ہوں جن کے پاس ہر ہفتہ سلسلہ کا لٹریچر پہنچتا ہے تو بہت اچھے نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے.ان لوگوں کو چٹھیاں بھی جاتی رہیں اور ان سے پوچھا جائے کہ آپ ہمارا لٹریچر مطالعہ کرتے ہیں یا نہیں ؟ اگر کوئی کہے نہیں تو اس سے پوچھا جائے کیوں نہیں؟ یہ پوچھنے پر بعض لوگ لڑیں گے اور یہی ہماری غرض ہے کہ وہ لڑیں یا سوچیں.جب کسی سے پوچھا جائے گا کہ کیوں نہیں پڑھتے؟ تو وہ کہے گا کہ یہ پوچھنے سے تمہارا کیا مطلب ہے؟ تو ہم کہیں گے کہ یہ پوچھنا ضروری ہے کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کی آواز ہے، جو آپ تک پہنچائی جارہی ہے.اس پر وہ یا تو کہے گا سنا لو اور یا پھر کہے گا کہ میں نہیں مانتا اور جس دن کوئی کہے گا کہ جاؤ میں نہیں مانتا.اسی دن سے وہ خدا تعالیٰ کا مد مقابل بن جائے گا اور ہمارے رستہ سے اٹھا لیا جائے گا.جن لوگوں تک یہ آواز ہم پہنچائیں گے، ان کے لئے دو ہی صورتیں ہوں گی یا تو ہماری جو رحمت کے فرشتے ہیں سنیں اور یا پھر ہماری طرف سے منہ موڑ کر خدا تعالیٰ کے عذاب کے فرشتوں کی تلوار کے آگے کھڑے ہو جائیں.مگر اب تو یہ صورت ہے کہ نہ وہ ہمارے سامنے ہیں اور نہ ملائکہ عذاب کی تلوار کے سامنے.بلکہ آرام سے اپنے گھروں میں بیٹھے ہیں.نہ تو وہ اللہ تعالیٰ کی تلوار کے سامنے آتے ہیں کہ وہ انہیں فنا کر دے اور نہ اس کی محبت کی آواز کو سنتے ہیں کہ ہدایت پا جائیں.اب تو وہ ایک ایسی چیز ہیں جو اپنے مقام پر کھڑی ہے اور وہاں سے بہتی نہیں.لیکن نئی تعمیر کے لئے ضروری ہے کہ اسے وہاں سے ہلایا جائے یا تو وہ ہماری طرف آئے اور یا اپنی جگہ سے ہٹ جائے.یہ کام تحریک جدید کے پروگرام کا ایک حصہ ہے.تحریک جدید کی موجودہ شکل کے اب دو سال باقی رہ گئے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ان دو سالوں میں اس کام کی بنیاد شروع کی جاسکتی ہے تا جس وقت تک تحریک جدید کے مبلغ کام کے لئے تیار ہوسکیں.ہمیں پتہ لگ جائے کہ ہم نے دنیا سے کس طرح معاملہ کرنا ہے اور اس نے ہم سے کس طرح کرنا ہے؟ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ جماعت کے مخلصین کو توفیق دے کہ وہ اس آواز پر لبیک کہ سکیں اور پھر ان کو استقلال کے ساتھ کام کرنے کی توفیق بخشے اور ایسی طرز پر اپنی باتیں لوگوں تک پہنچانے کی توفیق دے کہ وہ ہدایت کا زیادہ موجب ہوں اور ٹھوکر کا موجب صرف انہی لوگوں کے لئے ہوں جن کے لئے ازل سے ٹھوکر مقدر ہے.آمین یا رب العالمین“.( مطبوعه الفضل 22 اکتوبر 1942ء) 196
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم وو اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 27 نومبر 1942ء یہ میری تحریک نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی نازل کردہ تحریک ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 27 نومبر 1942ء احباب کو معلوم ہے کہ مجھے قریبا بیس دنوں سے نقرس کا پاؤں میں شدید دورہ ہے.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ تین چار دنوں سے اس میں بہت کچھ تخفیف ہو چکی ہے اور کل سے کسی قدر پاؤں بھی زمین پر رکھا جانے لگا تھا.لیکن بہر حال چونکہ میں چل نہیں سکتا تھا اور چلنا تو کجا، بیٹھنا بھی میرے لئے کچھ دن قریبا ناممکن تھا سوائے اس کے کہ تکیہ لگا کر اور سہارا لے کر بیٹھوں.اس لئے پہلے تو میں نے یہ ارادہ کیا کہ اب جو تحریک جدید سال نہم کے اعلان کا وقت آیا ہے تو میں ایک مضمون لکھ کر اس کا اعلان کر دوں لیکن پھر میرے ذہن میں بعض تاریخی واقعات اس قسم کے آئے کہ بعض جرنیلوں نے میدان جنگ میں نقرس کے درد کی حالت میں فوجوں کی کمان کی ہے اور پالکیوں میں لیٹے لیٹے لوگوں کو احکام دیئے اور فتوحات حاصل کی ہیں.پس میرے دل نے کہا کہ گو یہ ایک تکلیف دہ امر ہے کہ انسان دوسروں کے کندھوں پر چڑھ کر آئے اور بظاہر یہ ایک معیوب سافعل معلوم ہوتا ہے لیکن بہر حال جبکہ ہمارا مقابلہ بھی دشمن سے ایک جنگ کے رنگ میں ہی ہے، اگر چہ یہ جسمانی نہیں بلکہ روحانی جنگ ہے اور پہلے انبیاء نے بھی کہا ہے کہ آخری زمانہ میں خدا تعالیٰ کے فرشتوں اور شیطان کی آخری جنگ ہوگی.تو کوئی وجہ نہیں کہ اگر دنیوی جنگیں نقرس کے حملہ میں پالکیوں میں بیٹھ کر لڑی گئی ہیں تو میں بھی اسی رنگ میں شامل نہ ہوں.چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ اس تکلیف کے باوجود میں خود جمعہ کے لئے جاؤں اور تحریک جدید کے نئے سال کے لئے اسی رنگ میں تحریک کروں جیسے گزشتہ سالوں میں میں ہمیشہ تحریک کرتا چلا آیا ہوں“.وو.اس کے بعد میں تمام دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ سال ہشتم کی تحریک کے اعلان پر ایک سال گزرگیا اور اب سال نہم کی تحریک کا وقت آگیا ہے، اس لئے میں ان تمام احباب کو جو قادیان میں موجود ہیں یا قادیان سے باہر ہیں، ہندوستان میں ہیں یا ہندوستان سے باہر ہیں، ہر اس شخص کو جو احمدی کہلاتا ہے یا ابھی اس کو علی الاعلان جماعت میں شامل ہونے کی توفیق تو نہیں ملی مگر اس کے دل میں احمدیت کی سچائی گھر کر چکی ہے، توجہ دلاتا ہوں کہ اب نواں سال تحریک جدید کا شروع ہو گیا 197
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 نومبر 1942ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم ہے.پس تمام ایسے لوگ جن کو اللہ تعالٰی نے اس امر کی توفیق عطا فرمائی ہے کہ وہ مقررہ شرائط کے مطابق حصہ لے سکیں ، میں انہیں اس تحریک میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہوں“.22 ایسے لوگ جو لاکھوں کی تعداد میں ہوں گے، جن کے دلوں میں خدا تعالیٰ تک پہنچنے کی خواہش تو ہوگی مگر انہوں نے یہ فیصلہ نہیں کیا ہوگا کہ وہ کون سے مذہب کو اختیار کریں؟ وہ بھی ہمارے لئے بہت مفید ثابت ہوں گے.غرض ان تمام لوگوں تک پہنچنے کے لئے ہمیں آدمیوں کی ضرورت ہے، ہمیں روپیہ کی ضرورت ہے، ہمیں عزم اور استقلال کی ضرورت ہے اور ہمیں ان دعاؤں کی ضرورت ہے، جو خدا تعالیٰ کے عرش کو ہلا دیں اور انہی چیزوں کے مجموعہ کا نام تحریک جدید ہے.تحریک جدید کو اس لئے جاری کیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ ہمارے پاس ایسی رقم جمع ہو جائے ، جس سے خدا تعالیٰ کے نام کو دنیا کے کناروں تک آسانی اور سہولت سے پہنچا دیا جائے.تحریک جدید کو اس لئے جاری کیا گیا ہے تا کہ کچھ افراد ایسے میسر آجائیں ، جو اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لئے وقف کر دیں اور اپنی عمریں اس کام میں لگا دیں.تحریک جدید کو اس لئے جاری کیا گیا ہے تاکہ وہ عزم اور استقلال ہماری جماعت میں پیدا ہو، جو کام کرنے والی جماعتوں کے اندر پایا جانا ضروری ہوتا ہے.چنانچہ ہاتھ سے کام کرنے کی نصیحت، سینما سے بچنے کی نصیحت اور سادہ زندگی اختیار کرنے کی نصیحت اسی لئے کی گئی ہے کہ کوئی شخص بڑے کام نہیں کرسکتا ، جب تک بڑے کاموں کی صلاحیت اس میں پیدا نہ ہو اور بڑے کاموں کی صلاحیت اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتی ، جب تک انسان تکلیفیں برداشت کرنے کا عادی نہ بن جائے.جب تک جماعت کے افراد ایک حد تک تکلیفیں برداشت کرنے کے عادی نہیں ہوں گے ، اس وقت تک وہ کسی بڑی قربانی کے لئے تیار نہیں ہو سکتے.ہر اونچی سیڑھی پر چڑھنے کے لئے پہلے نیچی کی سیڑھی پر قدم رکھنا ضروری ہوتا ہے اور جب تک کوئی شخص نیچے کی سیڑھی پر قدم نہیں رکھتا، اس وقت تک وہ بلندی پر نہیں پہنچ سکتا.میں یہ نہیں کہتا کہ تم میں سے ہر شخص کو یورپ جانا پڑے گا.میں یہ نہیں کہتا کہ تم میں سے ہر شخص کو امریکہ جانا پڑے گا.میں یہ نہیں کہتا کہ تم میں سے ہر شخص کو جاپان جانا پڑے گا.میں یہ نہیں کہتا کہ میں تم میں سے ہر شخص کو کہوں گا کہ وہ ایسا کرے مگر آخر یورپ اور امریکہ اور جاپان کچھ نہ کچھ آدمی ضرور بھیجنے پڑیں گے اور انہیں اپنی ساری زندگی اس غرض کے لئے وقف کرنی پڑے گی مگر وہ اپنے ماحول کو نہیں بدل سکتے.تم یہ تو کر سکتے ہو کہ سنگترے کی شاخ پر مالٹے کا پیوند لگا دو یا کھنٹے کی شاخ پر مالٹے کا پیوند لگا دومگر تم 198
تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 27 نومبر 1942ء یہ نہیں کر سکتے کہ تم آم کی شاخ پر مالٹے کا پیوند لگا دو یا مالٹے کی شاخ پر آم کا پیوند لگا دو.اسی طرح تم یہ تو و کر سکتے ہو کہ باقی ساری جماعت تھوڑی قربانی کر رہی ہو اور کچھ لوگ ایسے ہوں ، جو زیادہ قربانی کر رہے ہوں.مگر تم یہ نہیں کر سکتے کہ باقی ساری جماعت عیش کر رہی ہو اور چند لوگ انتہا درجے کی قربانی کر رہے ہوں.اگر تم ایسا خیال کرو تو یہ ایسی ہی بات ہوگی جیسے کوئی کھٹے پر آم کا پیوند لگا دے یا آم پر مالٹے کا پیوند لگا دے.اگر ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ دنیا میں کچھ لوگ ایسے پیدا ہوں، جو ہمارے حکم پر آگ میں کودنے کے لئے تیار ہوں تو ہمیں اپنی تمام جماعت کو تنور کے پاس لا کر بٹھا دینا پڑے گا.اگر ساری جماعت تنور کے پاس بیٹھی ہوئی ہو اور اس کی گرمی اسے جھلس رہی ہو تو چند لوگ ایسے بھی پیدا ہو سکتے ہیں جو اس تنور میں کود پڑیں اور حکم ملنے پر آگ میں چھلانگ لگا دیں.مگر تم یہ نہیں کر سکتے کہ باقی ساری جماعت تو باغ میں آرام کر رہی ہو اور کچھ لوگ آگ میں کود جانے کے لئے تیار ہوں.میں یہ مانتا ہوں کہ تم سب کو یہ نہیں کہا جائے گا کہ وہ آگ میں کود جائیں.مگر تم میں سے بعض کو آگ میں کودنے پر تیار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تم سب کو تنور کے ارد گر دلا کر بٹھا دیا جائے.کیونکہ اگر ہم نے بعض سے تنور میں چھلانگ لگوانی ہے، اگر ہم بعض سے یہ امید رکھتے ہوں کہ وہ ہمارے حکم پر آگ میں کود جائیں گے تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم سب کو تنور کے پاس لا کر بٹھا دیں اور اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہ کریں کہ تنور کی گرمی ان کے جسم کو پہنچتی ہے.پس جہاں تحریک جدید کی غرض جماعت کے اندر سادہ زندگی کی روح پیدا کرنا اور اسلامی تمدن کا صحیح شعور پیدا کرنا ہے، وہاں تحریک جدید کی ایک اہم ترین غرض یہ بھی ہے کہ سب لوگوں کو تنور کے پاس لا کر بٹھا دیا جائے تا کہ ضرورت پر اس میں ایسے لوگ پیدا ہوتے چلے جائیں، جو حکم کے ملتے ہی اس تنور میں کود جائیں اور اپنی جان کو سلسلہ اور اسلام کے لئے قربان کر دیں.اگر سب لوگ تنور کے ارد گرد نہیں بیٹھیں گے تو چند لوگ بھی تنور میں کودنے کے لئے میسر نہیں آسکیں گے.یہ خدائی قانون ہے، جو قوم کی ترقی کی حالت میں بھی جاری رہتا ہے اور اس کے زوال کی حالت میں بھی جاری رہتا ہے، خوشی میں بھی جاری رہتا ہے اور نفی میں بھی جاری رہتا ہے کہ جب لوگ کسی کو کوئی بڑا کام کرتے دیکھتے ہیں تو انہیں اس سے انس پیدا ہو جاتا ہے اور اس وقت ان کے دلوں میں ایسا جوش پیدا ہوتا ہے کہ ان کی کمزوریاں چھپ جاتی ہیں، ان کی بے استقلالی جاتی رہتی ہے اور وہ بھی بڑے سے بڑے کام کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.تم اگر گھروں پر جاؤ اور لوگوں کو ان کے مکانوں سے نکال کر کہو کہ فلاں 199
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 نومبر 1942ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد دوم جگہ ایک شخص ڈوب رہا ہے، اسے چل کر بچاؤ تو تم کئی تیر نے والوں کو بھی اس کی جان بچانے کے لئے آمادہ نہیں کر سکو گے لیکن تالاب یا نہر یا دریا پر جولوگ کھڑے ہوں اور اپنی آنکھوں سے کسی کو ڈوبتا دیکھ رہے ہوں، ان میں سے ایسے لوگ بھی دوسرے کو بچانے کے لئے دریا میں چھلانگ لگا دیتے ہیں جو خود تیر نا نہیں جانتے.ہم نے اپنی آنکھوں سے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے، جو تیر نا نہیں جانتے تھے مگر جب انہوں نے دیکھا کہ کوئی شخص ڈوبنے لگا ہے تو یکدم ان کی طبیعت میں ایسا جوش پیدا ہوا کہ وہ بھی کود گئے اور انہوں نے اپنی جان کی کوئی پرواہ نہ کی.کیونکہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے ایک نظارہ دیکھا اور ان کے لئے یہ برداشت کرنا مشکل ہو گیا کہ وہ تو کنارے پر کھڑے رہیں اور کوئی اور شخص ان کے دیکھتے دیکھتے ڈوب جائے.میں سمجھتا ہوں تم میں سے بھی ہر شخص نے اس قسم نظارے دیکھے ہوں گے.اسی طرح میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ ایک جگہ آگ لگی ہوئی ہوتی ہے مگر ایک اور شخص اس آگ میں بے دھڑک کو د جاتا ہے اور یہ خیال کرتا ہے کہ میں کچھ نہ کچھ سامان نکال کر لے آؤں گا حالانکہ اگر کسی دوسرے گاؤں سے لوگوں کو مدد کے لئے بلایا جائے اور یہ کہا جائے کہ فلاں جگہ آگ لگی ہوئی ہے، اسے چل کر بجھاؤ تو کئی لوگ بہانے بنانے لگ جائیں گے.کوئی کہے گا میرے سر میں درد ہے اور کوئی کہے گا میرے پیٹ میں درد ہے.لیکن جو لوگ آگ کے کنارے کھڑے ہوں ، وہ برداشت نہیں کر سکتے اور ان میں سے کئی آگ میں کود جاتے ہیں.تو تحریک جدید سے میری غرض جماعت میں صرف سادہ زندگی کی عادت پیدا کرنا نہیں.بلکہ میری غرض انہیں قربانیوں کے تنور کے پاس کھڑا کرنا ہے.تا کہ جب ان کی آنکھوں کے سامنے بعض لوگ اس آگ میں کود جائیں تو ان کے دلوں میں بھی آگ میں کودنے کے لئے جوش پیدا ہو اور وہ بھی اس جوش سے کام لے کر آگ میں کو دجائیں اور اپنی جانوں کو اسلام اور احمدیت کے لئے قربان کر دیں.اگر ہم اپنی جماعت کے لوگوں کو اس بات کی اجازت دے دیتے کہ وہ باغوں میں آرام سے بیٹھے رہیں تو وہ گرمی میں کام کرنے پر آمادہ نہ ہو سکتے اور بزدلوں کی طرح پیچھے ہٹ کر بیٹھ جاتے.مگر اب جماعت کے تمام افراد کو قربانیوں کے تنور کے قریب کھڑا کر دیا گیا ہے تا کہ جب ان سے قربانیوں کا مطالبہ کیا جائے تو وہ اپنی جان کو قربان کرتے ہوئے آگ میں کو دجا ئیں.چنانچہ جب قربانی کا وقت آئے گا، اس وقت یہ سوال نہیں رہے گا کہ کوئی مبلغ کب واپس آئے گا.اس وقت واپسی کا سوال بالکل عبث ہوگا.دیکھ لو عیسائیوں نے جب تبلیغ کی تو اسی رنگ میں کی.تاریخوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی حواری یا کوئی اور شخص کسی علاقہ میں تبلیغ کے لئے گیا نہ 200
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 نومبر 1942ء پھر یہ نہیں ہوا کہ وہ واپس آ گیا ہو.بلکہ ہم تاریخوں میں یہی پڑھتے ہیں کہ فلاں مبلغ کو فلاں جگہ پھانسی دے دی گئی اور فلاں مبلغ کو فلاں جگہ قید کر دیا گیا.ہمارے دوست اس بات پر خوش ہوا کرتے ہیں کہ صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید نے سلسلہ کے لئے اپنی جان کو قربان کر دیا.حالانکہ ایک عبد اللطیف نہیں ، جماعت کو زندہ کرنے کے لئے سینکڑوں عبد اللطیف درکار ہیں.جو مختلف ملکوں میں جائیں اور اپنی اپنی جانیں اسلام اور احمدیت کے لئے قربان کر دیں.جب تک ہر ملک اور ہر علاقہ میں عبد اللطیف پیدا نہیں ہو جاتے اس وقت تک احمدیت کا رعب قائم نہیں ہوسکتا.احمد بیت کا رعب اسی وقت قائم ہو سکتا ہے جب سب لوگوں کو گھروں سے نکال کر ایک میدان میں قربانی کی آگ کے قریب کھڑا کر دیا جائے تاجب پہلی قربانی دینے والے قربانی دیں تو ان کو دیکھ کر خود بخود آگ میں کودنا شروع کر دیں اور اسی ماحول کو پیدا کرنے کے لئے میں نے تحریک جدید جاری کی ہے.میں نے کہا ہے کہ میں نے تحریک جدید جاری کی مگر یہ درست نہیں.میرے ذہن میں یہ تحریک بالکل نہیں تھی.اچانک میرے دل پر اللہ تعالی کی طرف سے یہ تحر یک نازل ہوئی.پس بغیر اس کے کہ میں کسی قسم کی غلط بیانی کا ارتکاب کروں میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ تحریک جدید جو خدا نے جاری کی.میرے ذہن میں یہ تحریک پہلے نہیں تھی، میں بالکل خالی الذہن تھا.اچانک اللہ تعالیٰ نے یہ سکیم میرے دل پر نازل کی اور میں نے اسے جماعت کے سامنے پیش کر دیا.پس یہ میری تحریک نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی نازل کردہ تحریک ہے.اس تحریک کی غرض میں نے بتا دی ہے اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ اس کے لئے مسلسل قربانی اور ایثار کی ضرورت ہے.اسی طرح اس تحریک کے لئے قربانی کرنے والوں کا وجود ضروری ہے، قربانی کے لئے مناسب ماحول ضروری ہے اور کاموں کی سرانجام دہی کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے.اسی طرح چوتھی چیز دعا ہے.یہ بھی اس تحریک کی تکمیل کے لئے ضروری ہے.چنانچہ جماعت کے کچھ حصہ کے ذمہ روپیہ جمع کرنا لگا دیا گیا ہے اور کچھ حصہ کے لئے دعائیں کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے.بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ اس تحریک میں کم سے کم پانچ روپیہ دینے کی شرط رکھ کر باقی جماعت کو الگ کر دیا گیا ہے.وہ یہ نہیں جانتے کہ اس میں ایک عظیم الشان فائدہ مخفی تھا.اگر پانچ ، دس، سویا ہزار کی رقم مقرر نہ کی جاتی تو مالدار کبھی اتنی قربانی نہ کرتے، جتنی آج کر رہے ہیں.جو لوگ آج تحریک جدید میں پانچ روپیہ چندہ دے رہے ہیں وہ ایک ایک اور دو دوروپے دے کر دل میں اس بات پر خوش ہو جاتے 201
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 نومبر 1942ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم کہ انہوں نے تحریک جدید میں حصہ لے لیا ہے اور وہ لوگ جو آج دس دس روپے دے رہے ہیں ، چھ چھ وپے دے کر سمجھ لیتے کہ وہ تحریک جدید میں شامل ہو گئے ہیں اور ایک ایک ہزار دینے والے سوسو دے کر سمجھ لیتے کہ وہ اس ثواب میں شریک ہو گئے ہیں.چنانچہ اس کا ثبوت اسی سے ملتا ہے کہ ابھی چند دن ہوئے میں نے تبلیغ خاص“ کے نام سے ایک تحریک کی ہے اور میں نے کہا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک پیسہ بھی دینا چاہے تو دے سکتا ہے.اس تحریک کے متعلق میرے پاس شکایت آئی ہے کہ اس میں لوگوں کی طرف سے چندہ کم آرہا ہے.اگر کوئی رقم معین کردی جاتی تو اس قدر کم چندہ نہ آتا.حالانکہ وہ یہ نہیں جانتے کہ اس تحریک سے میری غرض اور ہے اور تحریک جدید سے میری غرض اور ہے.یہاں میری غرض صرف اتنی تھی کہ ہر شخص اپنے اپنے اخلاص کے مطابق اس تحریک میں حصہ لے.چنانچہ اس عام اجازت سے مجھے ایک اندازہ ہو گیا، میں نے دیکھا ہے کہ اس چندہ میں تعداد کے لحاظ سے یوپی، بہار اور حیدر آباد نے بہت زیادہ حصہ لیا ہے.مگر پنجاب نے بہت کم حصہ لیا ہے.بعض بڑے بڑے شہروں نے تو بالکل حصہ لیا ہی نہیں مثلاً لاہور ہے، اس کے گیارہ حلقوں میں سے صرف دو حلقوں نے اس میں حصہ لیا ہے.امرتسر میں سے غالباً کسی نے بھی حصہ نہیں لیا.اسی طرح پنجاب کے اور بعض شہر ایسے ہیں جن کی طرف سے کوئی وعدہ نہیں آیا.اس کے مقابلہ میں یوپی میں وہ آدمی جو صرف چار یا پانچ روپیہ چندہ دیا کرتے تھے، ان میں سے کسی نے سور و پیہ چندہ دیا ہے، کسی نے ڈیڑھ سوروپیہ چندہ دیا ہے اور کسی نے اڑھائی سوروپیہ چندہ دیا ہے.اس سے مجھے یہ اندازہ لگانے کا موقع مل گیا ہے کہ وہ لوگ کس قسم کی تکلیفوں میں مبتلا ہیں اور ان علاقوں کے لوگوں کے اندر کس قدر یہ احساس پایا جاتا ہے کہ جماعت ترقی کرے.پس اس تحریک کے ذریعہ ان علاقوں کے لوگوں کی تکالیف کا مجھے احساس ہو گیا.پنجاب میں چونکہ ہماری جماعت کثرت سے ہے، اس لئے تبلیغ کا جوش لوگوں میں کم ہے.جماعتیں بالعموم بڑی بڑی ہیں اور پھر قریب قریب ہیں.اس لئے انہیں کوئی دکھ نہیں دیتا اور وہ اپنے آپ کو امن میں خیال کر کے تبلیغ سے غافل ہو گئے ہیں.پس اس تحریک کا یہ فائدہ ہوا کہ مجھے بعض علاقوں کے لوگوں کی تکالیف کا احساس ہو گیا.اگر میں اس تحریک میں مثلاً سوروپیہ کی رقم معین کر دیتا اور کہتا کہ اس سے کم رقم دینے کی کسی کو اجازت نہیں تو مجھے کس طرح پتہ لگتا کہ کون کون سے علاقوں میں لوگوں کو زیادہ تکلیف ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کی جماعتوں میں ترقی ہو؟ اب اس طریق سے ایک طرف تو مجھے یہ معلوم ہو گیا کہ پنجاب میں تبلیغ کا جوش کم ہے.سوائے چند جماعتوں کے اور دوسری طرف یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یوپی، بہار اور حیدر آباد کی احمدی جماعتیں تکلیف میں ہیں اور انہیں اس بات کا احساس ہے کہ جماعت ترقی کرے.202
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 نومبر 1942ء اس کے مقابلہ میں تحریک جدید سے میری غرض یہ تھی کہ اس میں مالدار لوگ زیادہ حصہ لیں اور جو مالدار نہیں، وہ اس میں مالی حصہ نہ لیں.ہاں میں نے یہ کہہ دیا کہ جس کے پاس اس قدر روپیہ نہیں کہ وہ اس تحریک میں حصہ لے سکے، وہ بھی اس تحریک میں حصہ لے سکتا ہے، بشرطیکہ وہ تحریک جدید کی کامیابی اور احمدیت کی ترقی کے لئے باقاعدہ دعائیں کرے.اگر میں یہ شرط نہ کرتا تو ایک غریب آدمی دھیلہ یا پیسہ دے کر بھی تحریک جدید میں شامل ہو جاتا.مگر اب وہ مجبور ہے کہ باقاعدہ دعائیں کرے تا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور وہ بھی تحریک جدید میں حصہ لینے والوں میں سے سمجھا جائے.اور میں جانتا ہوں ہماری جماعت میں سینکڑوں لوگ ایسے ہیں کہ جب میں دعا کی تحریک کرتا ہوں تو وہ اس کے بعد مہینوں با قاعدہ دعا میں مشغول ہو جاتے ہیں.ان کا اس دعا میں شامل ہونا کیا روپیہ دینے سے کم ہے ؟ اگر یہ اجازت دے دی جاتی کہ جس قدر جی چاہے دے دو تو کوئی پیسہ دے کر اور کوئی آنہ دے کر سمجھ لیتا کہ وہ بھی تحریک جدید میں شامل ہو گیا ہے.مگر اب وہ سب اس بات پر مجبور ہیں کہ دعائیں کریں.کیونکہ وہ سمجھتے ہیں روپیہ دے کر وہ اس تحریک میں شامل نہیں ہو سکے.اب ان کے لئے اس تحریک میں شامل ہونے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ وہ کثرت سے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں.گویا اس طریق سے کام لے کر روپیہ بھی زیادہ مل گیا اور دعائیں بھی زیادہ مل گئیں.اس سے زیادہ نفع بخش کام اور کون سا ہو سکتا ہے؟ پس میں نے ایک حد بندی مقرر کر کے جماعت کے ایک حصہ کو شمولیت سے محروم نہیں کیا بلکہ میں نے اپنے دعاؤں کے خانہ کو بھی بھر لیا اور اپنے روپے کے خانہ کو بھی بھر لیا.گویا ایک تحریک سے دونوں کام ہو گئے اور اس طرح چوتھی چیز جو اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے ساتھ تعلق رکھتی ہے، وہ بھی ہماری جماعت کو میسر آگئی.غرض جماعت کے اندر وہ روح پیدا کرنا، جس کی قربانیوں کے لئے ضرورت ہوتی ہے، قربانی کرنے والے وجودوں کو مہیا کرنا اور خدا تعالیٰ کے فضل کو کھینچنے کے سامان ہونا، یہ ساری چیز میں تحریک جدید میں شامل ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا ہی فضل اور اس کا مخفی الہام تھا، جس نے ایسی مکمل تحریک نازل کی.ورنہ میرے علم اور میرے ارادہ میں اس قسم کی کوئی مکمل تحریک نہیں تھی.اللہ تعالیٰ نے ہی ہمارے لئے ہر قسم کے سامان بہم پہنچائے اور دوسری طرف سے اس کے فضل سے دنیا میں ایسے تغیرات پیدا ہوئے اور ہورہے ہیں، جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ دنیا میں ایک عظیم الشان انقلاب پیدا کرنے کا ہے.پس پیشتر اس کے کہ جنگ ختم ہو، ہمیں جلد سے جلد اشاعت دین کے لئے ایک مستقل بنیاد قائم کر دینی چاہئے.عام طور پر لوگوں کے اندر یہ خیال پایا جاتا ہے کہ دو سال کے اندر اندر جنگ ختم ہو جائے 203
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 نومبر 1942 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم گی.میرا اپنا خیال بھی بعض پیشگوئیوں کے مطابق یہی ہے کہ 44ء میں جنگ ختم ہو جائے گی اور شاء میں ہی تحریک جدید ختم ہوتی ہے اور چونکہ بعض دفعہ جزو بھی ساتھ ہی شامل ہوتا ہے، اس لئے یہ بھی ممکن ہے کہ 45ء میں بھی چند ماہ تک یہ جنگ چلی جائے.بہر حال اب یہ جنگ بظاہر دو تین سال میں ختم ہونے والی ہے.اگر ہماری جماعت کے دوست اس تحریک میں پورے زور سے حصہ لیں تو یہ سکیم کہ اس روپیہ سے ایک ایسی جائیداد پیدا کی جائے ، جس سے اشاعت اسلام کے مستقل خرچ ہم پورے کر سکیں، اس عرصہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے مکمل ہو جائے گی اور در حقیقت پھر بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہے، جو اسے نتیجہ خیز بنا سکتا ہے.ورنہ کیا جائیدادیں دنیا میں تباہ نہیں ہو جاتیں؟ قادیان میں ہی دیکھ لو قادیان کے اردگرد گاؤں کے گاؤں ہمارے باپ دادا کی ملکیت تھے مگر اب ملکیت چھوڑ سکھ ہمارے سخت دشمن ہیں اور گو اب حالات خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھے ہو گئے ہیں مگر ایک زمانہ ایسا گزرا ہے کہ ان گاؤں میں ملکیت چھوڑ ہمارے لئے پانی پینا بھی مشکل تھا.تو اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو تو بڑی بڑی جائیداد میں تباہ ہو جاتی ہیں.بہر حال ہمارا فرض یہی ہے کہ جس قدر کام کر سکتے ہوں، کریں اور باقی کے متعلق اللہ تعالیٰ پر تو کل کریں.مگر میں نے دیکھا ہے کئی لوگ ایسے ہیں، جن کو سارا تو کل اللہ تعالیٰ کے کاموں کے متعلق ہی سوجھتا ہے، گھر کے کاموں کے متعلق نہیں سوجھتا.جب خدا تعالیٰ کے دین کے لئے کسی جائیداد کا سوال آجائے تو کہہ دیں گے، پتہ نہیں کل کیا ہو جانا ہے، جائیداد بنا کر کیا کرنا ہے؟ مگر ان کی اپنی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ کہتے ہیں یہ کوٹھڑی بھی بن جائے ، وہ پاخانہ بھی تیار ہو جائے.گویا انہیں سارا تو کل اللہ تعالیٰ کے لئے ہی سوجھتا ہے، گھر کے لئے نہیں سوجھتا.گھر کے لئے اس شدید گرانی کے ایام میں بھی چیزیں تیار ہوتی چلی جاتی ہیں.یہاں آج کل جنگ کی وجہ سے کوئی احمدی بھٹے والا نہیں اور ضرورت کے وقت ہندو بھٹے والے سے اینٹیں خریدی جاتی ہیں.میں نے دیکھا ہے باوجود شد ید گرانی کے عموماً درخواستیں آتی رہتی ہیں کہ شدید ضرورت کے لئے دس ہزار اینٹوں کی ضرورت ہے، خریدنے کی اجازت دی جائے.کوئی لکھتا ہے شدید ضرورت کے لئے چالیس ہزار اینٹوں کی ضرورت ہے.حالانکہ آجکل 21 22 روپے ہزارا سینٹ ملتی ہے مگر پھر بھی لوگ خرید تے چلے جاتے ہیں.لیکن جہاں خدا اور اس کے دین کا سوال آجائے ، وہاں کہنے لگ جاتے ہیں کہ اس کو جانے دو خبر نہیں کل کیا ہو جائے گا؟ یہ ستوں کی علامت ہے، مومنوں کی نہیں.مومن تو کہتا ہے کہ خدا کا کام ہونا چاہئے، میرا کام اگر رہتا ہے تو بیشک رہ جائے اور اگر یہ مقام کسی کو حاصل نہیں تو کم سے کم اتنا تو ہونا چاہئے کہ اللہ کا کام بھی انسان کرتا رہے اور اپنا کام بھی کرتا رہے.204
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 27 نومبر 1942ء بہر حال اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کے مخلصین کو اس امر کی تو فیق عطا فرمائی ہے کہ وہ مشکلات کے باوجود اس تحریک میں حصہ لیں اور میں دیکھتا ہوں کہ اس تحریک کی برکت کی وجہ سے جماعت کا قدم قربانیوں کے میدان میں پہلے سے بہت زیادہ تیز ہو گیا ہے.جب میں نے تحریک جدید کو جاری کیا ہے.اس وقت متواتر صدر انجمن احمدیہ کے ممبروں نے مجھے کہا کہ یہ تحریک جاری کر کے انجمن کے قرضہ کی ادائیگی کا راستہ بالکل بند کر دیا گیا ہے اور انجمن دیوالیہ ہو جائے گی.اب میں صدر انجمن احمدیہ کے انہی ممبروں سے پوچھتا ہوں کہ بتاؤ انجمن دیوالیہ ہوئی ہے یا اس کے خزانہ میں پہلے سے زیادہ مال آیا ہے؟ جب میں نے یہ تحریک جاری کی ہے، اس وقت انجمن پر اڑھائی لاکھ روپیہ قرض تھا مگر اب صرف پینتیس ہزار کے قریب قرض رہ گیا ہے، دولاکھ کے قریب قرض اتر چکا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اب ایسے سامان پیدا ہو چکے ہیں کہ قرض اتار کر ( کیونکہ کچھ جائیداد کے بھی قرضے ہیں ) انجمن کے خزانہ میں بھی کچھ رقم ہو جائے گی.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس تحریک کے بعد جماعت نے اپنے ایمان اور اخلاص میں ایسی ترقی کی ہے کہ جب بھی کوئی تحریک کرو، جماعت کے لوگ روپیہ کو یوں پھینکنا شروع کر دیتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دلوں میں روپیہ سے کوئی محبت رہی ہی نہیں.اس وقت جماعت پر تحریک جدید کا بھی بوجھ ہے مگر اس کے باوجود جماعتوں کا جو سالانہ چندہ ہے، اس میں قریباً ستر اسی ہزار روپیہ سالانہ کی زیادتی ہوئی ہے.پھر ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا میں نے غربا کے لئے غلہ کی تحریک کی تھی.اس پر جماعت نے آٹھ ہزار روپیہ اکٹھا کر دیا اور اب تبلیغ خاص" کی تحریک پر ساڑھے چھ ہزار سے اوپر روپیہ آچکا ہے اور بعض جماعتیں ابھی باقی ہیں.ممکن ہے ان کی فہرستیں آرہی ہوں اور اب خطبہ کے بعد دفتر میں جاکر میں ڈاک دیکھوں تو اس میں ان کے وعدے بھی آجائیں.اگر میں ان سب جماعتوں کو شامل کرلوں ، جنہوں نے ابھی تک وعدہ نہیں کیا تو میرا اندازہ ہے کہ بارہ تیرہ ہزار رو پیدا کٹھا ہو جانا چاہئے.میں نے اعلان کیا تھا کہ میرا ارادہ ریویو آف ریلیجنز اردو پر بھی کچھ حصہ خرچ کرنے کا ہے.چنانچہ مجھے امید ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ ارادہ بھی پورا ہو جائے گا اور اس قدر رقم آجائے گی کہ ریویو آف ریلیجنز کو بھی لوگوں کے نام جاری کرایا جا سکے گا.غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوئی تحریک ایسی نہیں ، جس میں جماعت نے بڑھ چڑھ کر حصہ نہ لیا ہو.میں نے اگر ایک روپیہ مانگا تو جماعت نے چار روپے دیئے.میں نے پانچ سو من غلہ مانگا تھا، 205
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 نومبر 1942ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم جماعت نے پندرہ سو من غلہ اکٹھا کر دیا.خدا تعالیٰ کی قدرت ہے میرا اندازہ بالکل غلط نکلا اور خرچ بھی پندرہ سومن کے قریب قریب ہو گیا.بلکہ اب تک بعض غربا کی طرف سے درخواستیں آرہی ہیں.ہم نے سو ڈیڑھ سومن غلہ محفوظ رکھا تھا.کیونکہ بعض دفعہ نئے آدمی آجاتے ہیں اور بعض دفعہ اچانک کوئی ایسی مصیبت پیش آجاتی ہے، جس کا فوری طور پر تدارک کرنا ضروری ہوتا ہے.ایسی ضروریات کے لئے میں نے سو ڈیڑھ سومن غلہ محفوظ رکھوایا ہوا تھا.مگر میں دیکھتا ہوں اب تک برابر درخواستوں کا سلسلہ جاری ہے.تو میں نے پانچ سومن غلہ مانگا اور جماعت نے پندرہ سومن غلہ مہیا کر دیا.اب میں نے ”الفضل“ اور ”سن رائز“ کے ایک ایک ہزار پر چوں کے لئے اعلان کیا تھا.خدا تعالیٰ کے فضل سے "الفضل“ اور ”سن رائز کے ایک ایک ہزار پرچے جاری کرانے کے لئے جس قدر روپیہ کی ضرورت تھی ، وہ اکٹھا ہو چکا ہے اور ا بھی اور روپیہ آرہا ہے.جس سے امید ہے کہ ریویو آف ریچز “ اردو کے پرچے بھی جاری کرائے جاسکیں گے.پہلے میرا انشاء یہ تھا کہ ” الفضل اور سن رائز بجائے ایک ایک ہزار جاری کرانے کے آٹھ آٹھ سو جاری کر دیئے جائیں اور جو تم باقی بچے اس سے ریویو آف ریلیجن اردو جاری کر دیا جائے.مگر اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ الفضل اور سن رائز“ کے بعد اب ریویو اردو کے لئے بھی رو پیدا اکٹھا ہورہا ہے اور ابھی غیر ممالک سے اس کے متعلق کوئی وعدے نہیں آئے.ہندوستان کی بہت سی جماعتوں نے بھی ابھی تک اس میں حصہ نہیں لیا.اس سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ریویو آف ریلیجنز اردو کا ایک ہزار پر چہ بھی ہم آسانی سے تبلیغ کے لئے جاری کر سکیں گے.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے تحریک جدید کے بعد، وہ لوگ جنہوں نے اس میں حصہ لیا تھا، ان کے ایمانوں میں ایسی ترقی ہوئی کہ انہوں نے اور تحریکوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کر دیا اور وہ لوگ، جنہوں نے اس تحریک میں حصہ نہیں لیا تھا، انہوں نے اس ندامت سے کہ وہ تحریک جدید میں حصہ نہیں لے سکے، بعد میں دوسری تحریکوں میں حصہ لینا شروع کر دیا.گویا جنہوں نے تحریک جدید میں حصہ لیا تھا، انہوں نے پہلے سے بھی زیادہ قربانیاں کرنی شروع کر دیں اور جنہوں نے حصہ نہیں لیا تھا، انہوں نے اس ندامت اور شرمندگی کی وجہ سے کہ وہ تحریک جدید میں حصہ نہیں لے سکے، دوسری تحریکوں میں حصہ لینا شروع کر دیا اور اس طرح ساری جماعت کا قدم ترقی کی طرف بڑھنا شروع ہو گیا.علاوہ ممبران صدر انجمن احمدیہ کے جن کو طبعا فکر ہونی چاہئے تھی ، بعض نادان لوگوں نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اب جماعت میں تحریک جدید جاری کر دی گئی ہے، نہ معلوم کیا ہوگا؟ جماعت کی کمر ہمت ٹوٹ جائے گی ، اس کی مالی حالت خراب 206
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 نومبر 1942ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم ہو جائے گی، اس میں قربانی اور ایثار کی روح کم ہو جائے گی ، وہ اس تحریک میں حصہ لے گی تو اور تحریکوں میں حصہ نہیں لے سکے گی.مگر خدا تعالیٰ نے اس تحریک کے بعد جماعت کو ہر نئی تحریک میں پورے جوش اور اخلاص کے ساتھ حصہ لینے کی توفیق عطا فرما کر بتا دیا کہ ہماری کمریں پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگئی ہیں، ہمارے ہاتھ پہلے سے زیادہ لمبے ہو گئے ہیں، ہمارا ایثار پہلے سے زیادہ بڑھ گیا ہے، ہمارا خدا ہم سے پہلے سے زیادہ قریب آگیا ہے اور ہم پہلے سے بھی اونچے نظر آتے ہیں.گویا وہی بات ہماری جماعت پر صادق آرہی ہے کہ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پاتے.خدا تعالیٰ کے فضل سے چکنے چکنے پات نکل رہے ہیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ اس کو بہت بڑا درخت بنانے کا ارادہ رکھتا ہے.ورنہ یہ چکنائی، یہ سرسبزی اور یہ شادابی کس طرح پیدا ہوتی ؟ غرض جس چیز کو لوگوں نے تباہی سمجھا تھا، وہی ہماری ترقی کا ذریعہ بن گئی.لوگ مجھے کہتے تھے کہ تم نے جماعت پر ایسا بوجھ ڈالا ہے کہ اس کی کمر توڑ ڈالی ہے.مگر جماعت نے اپنی قربانیوں سے بتادیا کہ اس کی کمر ٹوٹی نہیں بلکہ پہلے سے بہت زیادہ مضبوط ہوگئی ہے.چنانچہ انجمن کے قرضوں کا بہت حد تک اتر جانا، نئی تحریکات کا جماعت میں قبولیت حاصل کرنا اور لوگوں کا اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا اور اس تحریک میں لینے والوں کا اپنے چندوں کو ہر سال پہلے سال سے بڑھاتے چلے جانا، اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری جماعت اپنے ایمان اور اپنی قربانیوں میں پہلے سے کئی گنا ترقی کر گئی ہے.اب اگر ہمیں اپنے اندر کچھ کمزوریاں نظر آتی ہیں تو وہ ایمان کی ترقی کی وجہ سے نظر آتی ہیں اور ان کمزوریوں کا دکھائی دینا، اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے ایمان پہلے سے بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں.اب ہمیں ایک کھانا کھانا بھی کمزوری دکھائی دیتا ہے.حالانکہ پہلے ہمارے لئے دو کھانوں کا چھوڑ نا سخت مشکل تھا.اب ہم چاہتے ہیں کہ اگر ہو سکے تو اس سے بھی زیادہ سادگی اختیار کریں اور اب اگر کسی ضرورت کے موقع پر ہمارے دستر خوان پر دو کھانے آجاتے ہیں تو ہمیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا کھانا حلال کا نہیں رہا بلکہ حرام کا ہو گیا ہے.پس یہ کمزوری جو دکھائی دیتی ہے، محض اس لئے ہے کہ ہمارے دوستوں کے ایمان اتنے پختہ اور مضبوط ہو چکے ہیں کہ جن باتوں کو وہ پہلے قربانی سمجھا کرتے تھے، ان کو وہ اب اپنی کمزوری نظر آتی ہے.پس یہ خوبی کی بات ہے اور اس بات کا ثبوت کہ ہم ترقی کے میدان میں نیا قدم بڑھانے کے لئے تیار ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض حصوں میں جماعت نے کمزوری بھی دکھائی ہے مثلا سینما د یکھنے کی ممانعت کے متعلق جو حکم میں نے دیا تھا، اس سلسلہ میں بعض نوجوانوں کے متعلق میرے پاس شکایتیں 207
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 نومبر 1942ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم پہنچتی رہی ہیں کہ وہ ممانعت کے باوجود سینما دیکھنے کے لئے چلے جاتے ہیں.یہ ایک بہت بڑی کمزوری ہے، جس سے ہماری جماعت کے نوجوانوں کو بیچنے کی کوشش کرنی چاہیے.در حقیقت سنیما نے ہمارے ملک کی طبائع پر ایسا برا اثر ڈالا ہے کہ لوگ اسے دیکھنے کے لئے بیتاب رہتے ہیں.اور میرے پاس تو جس وقت بعض نوجوان سینما دیکھنے کی خواہش کا اظہار کرتے اور اس کے متعلق لجاجت اور خوشامد کرتے ہیں تو مجھے یوں معلوم ہوتا ہے ، وہ یہ لجاجت کر رہے ہیں کہ ہمارا باپ ڈوب رہا ہے، اسے بچانے کی اجازت دی جائے.زمانہ کی ایک رو ہے جو طبائع پر اثر کر رہی ہے.لیکن اس زبردست خواہش کے باوجود ہماری جماعت میں ایسے نوجوان ہیں، جنہوں نے اپنے نفسوں کو روکا اور باوجود اس کے کہ انہیں سنیما دیکھنے پر مجبور کیا گیا، انہوں نے سنیما نہیں دیکھا.ایک دوست نے ایک دفعہ لکھا کہ اسے بعض دوست پکڑ کر سنیما دکھانے لے گئے.اس نے جانے سے انکار کیا تو انہوں نے بہانہ بنایا اور کہا کہ ہم سنیما کونہیں بلکہ سیر کو چلتے ہیں.پھر انہی میں سے ایک شخص جا کر ٹکٹ لے آیا اور کہا کہ اب تو ہمارے پیسے بھی خرچ ہو گئے ہیں.اب تو تمہیں ضرور سنیما دیکھنا چاہیے مگر اس نے پھر بھی انکار کیا.آخر وہ اس کے ہاتھ پاؤں پکڑ کر سنیما کی طرف لے گئے اور جبر اہال میں بٹھا دیا.جب سنیما شروع ہوا اور اس کے ہاتھ پاؤں ڈھیلے ہوئے تو معاً اس نے چھلانگ لگائی اور دوڑ کر باہر نکل گیا.سنیما والے بھی حیران ہو گئے کہ اسے کیا ہو گیا ہے؟ آخر اس کا یہ اثر ہوا کہ اس کے دوستوں نے اقرار کیا کہ ہم آئندہ سنیما نہیں دیکھیں گے.تو ہماری جماعت میں ایسے ایسے نمونے بھی پائے جاتے ہیں.مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض نوجوانوں نے کمزوری دکھائی ہے.میں آج ان کو پھر توجہ دلاتے ہوئے کہتا ہوں کہ تم سے تو ہماری آئندہ بہت سی امیدیں وابستہ ہیں.جب تمہارے باپ دادا اور دوسرے رشتہ دار مر جائیں گے، اس وقت تم نے ہی اس امانت کو سنبھالنا ہے.اگر تم پہلوں سے زیادہ مضبوط نہیں ہو تو ہمارے لئے کوئی خوشی نہیں ہو سکتی.ہماری خوشی تو اس بات میں ہے کہ ہم اگر ایک قدم چلیں تو تم دو قدم چلو.ہم تین قدم چلیں تو تم چار قدم چلو.جب تک تم ہم سے زیادہ قربانی کرنے والے، ہم سے زیادہ جرات رکھنے والے اور ہم سے زیادہ دلیری دکھانے والے نہیں بنتے ، اس وقت تک سلسلہ کی امانت محفوظ ہاتھوں میں نہیں رہ سکتی.پس میں تمہیں کہتا ہوں کہ تم بہادر بنو اور اپنے نفسوں کے غلام مت بنو.تمہارے قبضہ میں آئندہ دنیا کی حکومتیں آنے والی ہیں اور تمہارا فرض ہے کہ آئندہ زمانہ میں جب خدا تعالیٰ تمہیں حکومت اور سلطنت عطا فرمائے تو جس طرح محمود غزنوی نے مندر توڑ ڈالے تھے.اسی طرح تم ریڈیو کے وہ ٹرانسمیٹر توڑ ڈالو، 208
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 27 نومبر 1942ء جہاں سے گانے بجانے نشر کئے جاتے ہیں.یہ ریڈیو کے سیٹ خبریں سننے اور علمی تقاریر اور دوسرے مفید معلومات کے لئے بے شک اچھی چیز ہیں، مگر آج کل ریڈیو نے ناچ اور گانے کو اتنا قریب کر دیا ہے کہ ہر خاندان کو اس نے ڈوم اور میراثی بنا دیا ہے.میں نے دیکھا ہے، بعض دفعہ منتیں پڑھنے لگتا ہوں اور اس خیال سے کہ اب خبریں آنے والی ہیں، ریڈیو میں گرمی پیدا کرنے کے لئے اسے چلا دیتا ہوں کیونکہ ریڈیو کچھ گرمی کے بعد کام شروع کرتا ہے.مگر کھولتے وقت تو کوئی تقریر ہو رہی ہوتی ہے مگر نماز پڑھ کر اسے اونچا کرو تو کوئی گانا شروع ہوتا ہے اور قریباً جب بھی اسے کھولو، زور سے باجے اور گانے کی آوازیں آنی شروع ہو جاتی ہیں.اس وقت میں خیال کرتا ہوں کہ اگر گلی میں سے گزرتے ہوئے کوئی شخص سن لے تو وہ یہی خیال کرے گا کہ ہمیں تو گانا سننے سے روکا جاتا ہے مگر خود ریڈیو پر گانا سن لیا جاتا ہے.اسی طرح کئی دفعہ پاخانے کی حاجت ہوتی ہے، خبریں ہو رہی ہوتی ہیں اور میں اسی طرح ریڈیو کو چھوڑ غسل خانہ کو چلا جاتا ہوں کہ اتنے میں زور زور سے باجے کی یا گانے کی آواز آنے لگتی ہے.کیونکہ خبر میں ختم ہوتے ہی کوئی گویا یا ڈوم گانے یا باجے کا شغل شروع کر دیتا ہے.ایسے وقت میں کئی دفعہ جلد جلد غسل خانے سے فارغ ہو کر آنا پڑتا ہے، محض اس وہم سے کہ گلی میں سے گزرتے ہوئے لوگ سنیں گے تو کہیں گے ، آپ تو با جاسن رہے ہیں اور ہمیں اس سے روکا جاتا ہے.غرض ریڈیو ایک ایسی چیز ہے جس نے ہر گھر کو ڈوم بنا دیا ہے.اس میں گندے گانے ہوتے ہیں ، جن کا طبائع پر بہت برا اثر پڑتا ہے.بیشک اور پروگرام بھی ہوتے ہیں مگر میں نے دیکھا ہے کہ کوئی معقول چیز بھی لمبے عرصہ تک نہیں چلتی.دیہاتیوں کا پروگرام بڑی مفید چیز ہے اور زمینداروں کو بڑی بڑی اچھی باتیں بتائی جاتی ہیں اور اگر ریڈیو میں صرف زمیندارہ پروگرام ہوتا تو شاید میں یہ حکم دے دیتا کہ ہر جگہ جماعت کے چندے سے ایک ایک ریڈیو سیٹ خریدا جائے اور دیہاتی پروگرام سنا جائے.مگر اب کیا ہوتا ہے؟ پہلے بتایا جاتا ہے کہ ہل اس اس قسم کا ہونا چاہئے ، زمین کو اس طرح ہونا چاہئے اور یہ ہدایتیں مدنظر رکھنی چاہئیں.اس کے بعد کہا جاتا ہے اب فلاں بائی آپ کو گانا سنائے گی.وہ گا ناختم ہوتا ہے تو پھر ایک زراعتی مضمون شروع کر دیا جاتا ہے کہ بیلوں کو یوں رکھنا چاہئے ، ان کی پرورش میں فلاں فلاں باتیں مدنظر رکھنی چاہئیں اور چند منٹ کے بعد کہہ دیا جاتا ہے کہ اب فلاں بھانڈ آپ کو گیت سنائیں گے.وہ ختم ہوتا ہے تو پھر بتانا شروع کر دیا جاتا ہے کہ اچھے پیج کی کیا علامت ہے اور وہ کہاں سے مل سکتا ہے؟ اور یہ سبق دینے کے بعد کہ دیا جاتا ہے کہ اب فلاں پنچنی آپ کو گیت سنائے گی.گویا پانچ منٹ مضمون سنایا جاتا ہے اور پانچ منٹ گانا سنایا جاتا ہے.یہ سلسلہ آخر تک قائم رہتا ہے اور یوں معلوم ہوتا 209
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 نومبر 1942ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم ہے کہ اصل چیز گانا ہی ہے، باقی چیزیں یونہی شامل کر لی گئی ہیں.تمہارا یہ کام ہے کہ جس دن خدا تعالیٰ تمہیں حکومت دے، تم ریڈیو کے ان گندے انتظاموں کو بدل دو اور سب ڈوموں اور میراثیوں اور کنچنیوں کو رخصت کر دو اور ان کی بجائے علمی چیزیں ریڈیو کے ذریعہ نشر کرو.دنیا کے مذاق کو بنانا ہمارا کام ہے، اس کے مذاق کو بگاڑنا ہمارا کام نہیں.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص لوگوں کو غریبوں کی مدد کرنے کی تحریک کرنا چاہے تو وہ اس کا طریق یہ نکالے کہ اپنی بیوی اور بیٹیوں کو ننگا کر کے باہر لے جائے اور جب لوگ اکٹھے ہو جائیں تو وہ انہیں کہے کہ غریبوں کی مدد کیا کرو.بے شک غریبوں کی مدد کرنا اچھا کام ہے مگر اس کے لئے غلط طریق اختیار کرنا کس طرح جائز ہو سکتا ہے؟ اسی طرح بے شک ریڈیو کے ذریعہ بعض اچھی چیزیں بھی نشر کی جاتی ہیں مگر ناچ اور گانا ایسی گندی چیزیں ہیں ، جس نے ہر گھر کو ڈوم اور میراثی بنادیا ہے اور ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور باقی دنیا کو اس ضرر سے بچائے اور اس کا صرف مفید پہلو قائم رکھے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمُ ( المائدة 106) جب تم ہدایت پر ہو تو تمہیں دوسرے کی گمراہی کی پرواہ بھی نہیں کرنی چاہئے.اگر تم صحیح راستے پر چل رہے ہو اور دوسرا شخص تمہارے ساتھ یہ شرط کرنا چاہتا ہے کہ تم صحیح راستے کو چھوڑ کر غلط راستے کو اختیار کرلوں تو فرماتا ہے ایسے شخص کو تم بے شک گمراہ ہونے دو مگر صحیح راستے کو ترک نہ کرو.تو ان چیزوں کو دنیا سے تم نے مٹانا ہے اور تمہارا فرض ہے کہ خدا تعالیٰ تمہیں جب حکومت اور طاقت عطا فرمائے تو جس قدر ڈوم اور میراثی ہیں، ان سب کو رخصت کر دو اور کہو کہ جا کر حلال کمائی کماؤ.ہاں جغرافیہ یا تاریخ یا مذہب یا اخلاق کا جو حصہ ہے، اس کو بے شک رہنے دو اور اعلان کر دو ، جس کی مرضی ہے، ریڈیو سنے اور جس کی مرضی ہے، نہ سنے.اس وقت ریڈیو والوں نے ایک ہی وقت میں دو نہریں جاری کی ہوئی ہیں.ایک نہر میٹھے پانی کی ہے اور دوسری نہر کڑوے پانی کی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بھی دو نہروں کا ذکر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ ایک نہر میں تو میٹھا پانی ہے مگر دوسری نہر میں کڑوا پانی ہے.میں جب بھی ریڈیوسنتا ہوں تو مجھ پر یہی اثر ہوتا ہے کہ یہی دو نہریں ہیں، جن کا قرآن کریم نے ذکر کیا ہے.اس سے ایک طرف میٹھا پانی جاری ہوتا ہے اور دوسری طرف کڑوا پانی جاری رہتا ہے.اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے ، ان کا کوئی نتیجہ نہیں 210
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 27 نومبر 1942ء نکل سکتا اور یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ کڑوی نالی کے ہوتے ہوئے میٹھا پانی غالب آ جائے.میٹھا پانی اس صورت میں غالب آ سکتا ہے، جب کڑوے پانی کی نالی کو بالکل بند کر دیا جائے.پس میں نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ ان میں سے بعض سے صرف اس مطالبہ کو پورا کرنے میں کو تا ہی ہوئی ہے.مگر میں امید کرتا ہوں کہ آئندہ وہ اپنی اصلاح کریں گے اور اس نقص کو دور کرنے کی کوشش کریں گے.اس وقت میرے سامنے بورڈ نگ تحریک جدید کے لڑکے بیٹھے ہوئے ہیں.مجھے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض بے ٹکٹ گاڑی پر سوار ہو کر اور اس طرح گورنمنٹ کے روپیہ کو چرا کر بٹالے جاتے اور وہاں سی نماد یکھتے ہیں اور پھر بے ٹکٹ ہی واپس آتے ہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ سارے ایسے ہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ بہت سے ایسے ہیں.میں یہ بھی نہیں کہتا کہ معتد بہ ایسے ہیں.ہاں میں یہ ضرور کہتا ہوں اور تحقیق سے کہتا ہوں کہ کچھ لڑکے ایسے ہیں، جو اس قسم کی حرکت کرتے ہیں.گویا وہ تین حرام خوریاں کرتے ہیں.وہ گورنمنٹ کی چوری کر کے بٹالے جاتے ہیں، وہ سلسلہ کی چوری کر کے سینما دیکھتے ہیں اور پھر گورنمنٹ کی چوری کر کے واپس آتے ہیں.شاید تم سمجھتے ہو کہ گورنمنٹ کی دو چوریوں میں سلسلہ کی ایک چوری حلال ہو جاتی ہے، مگر یہ بالکل غلط ہے.دو چوریوں میں ایک اور چوری حلال نہیں ہو جاتی بلکہ وہ اور بھی گندی ہو جاتی ہے.جیسے اور چوریاں بری ہیں، ویسے ہی گورنمنٹ کی چوری بھی بری ہے.پس تم میں سے بعض نوجوانوں کا یہ خیال کہ گورنمنٹ کی چوری، چوری نہیں ہوسکتی ، بالکل غلط ہے.چوری چوری ہی ہے.خواہ وہ رسول کی ہو، نبی کی ہو، گورنمنٹ کی ہو، دوست کی ہو، دشمن کی ہو.اسی طرح ایک کنچنی کی چوری بھی چوری ہے.اگر تم کسی ڈاکو کا مال اٹھا لیتے ہو تو یہ بھی ویسی ہی چوری ہے جیسے کسی اور کی چوری.لوگوں کے دلوں میں یہ غلط خیال بیٹھا ہوا ہے کہ گورنمنٹ کی چوری، چوری نہیں ہوتی.حالانکہ وہ بھی ویسی ہی چوری ہوتی ہے جیسے کوئی اور چوری.جب تم چھپ کر ریل کے خانے میں جا کر بیٹھ جاتے ہو اور دل میں سمجھتے ہو کہ یہ ناجائز صورت کہاں ہے؟ گارڈ ہمارا واقف ہے.وہ ہم پر کوئی گرفت نہیں کرے گا تو اس وقت بھی تم گناہ کے مرتکب ہوتے ہو.کیونکہ وہ گورنمنٹ کا مال ہے، گارڈ کے باپ کا مال نہیں.اگر گارڈ تم کو مفت لے جانا چاہتا ہے تو تم اسے کہو کہ چل کر ایجنٹ کے سامنے کہہ دو کہ میں اسے بلا ٹکٹ لے جانا چاہتا ہوں.پھر اگر اس کی نوکری رہ جائے تو بے شک تم مفت چلے جاؤ اور اگر وہ ملازمت سے برطرف کر دیا جائے تو تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ گارڈ کی واقفیت کی بناء پر بلائنٹ سفر کرنا بھی ویسا ہی جرم ہے جیسے کسی اور صورت میں بلا ٹکٹ سفر کرنا.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کسی کے مکان پر پہرہ لگا ہو تو وہ کہے کہ میں پہرہ دار 211
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 نومبر 1942 ء تحریک جدید - ایک الپی تحریک....جلد دوم کی اجازت سے مالک مکان کی کرسی اٹھالا یا تھا یا میز اٹھالایا تھا.اس کی اجازت سے وہ چوری جائز تو نہیں ہو جائے گی.اس کے معنی تو صرف یہ ہوں گے کہ تم بھی چور ہو اور وہ بھی چور ہے.پس تمہارا کسی گارڈ کے کہنے پر یاسٹیشن ماسٹر کے کہنے پر بلا ٹکٹ چلے جانا، یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ بھی چور ہے اور تم بھی چور ہو.تم اگر چار آنے نہیں ایک پیسہ بھی ریلوے ایجنٹ کی جیب سے نکال لیتے ہو تو تم اپنے دل میں ضرور شرمندہ ہو گے کہ میں نے چوری کی ہے.پھر تمہیں کیوں خیال نہیں آتا کہ تم ایک پیسہ نہیں بلکہ بعض دفعہ چار یا چھ آنے بلا ٹکٹ سفر کر کے گورنمنٹ کے خزانہ سے چرا لیتے ہو اور تم سمجھتے ہو کہ تم نے کوئی برافعل نہیں کیا.اگر کوئی گارڈ یا سٹیشن ماسٹر تمہیں کہتا ہے کہ تم بلا ٹکٹ سفر کر لو تو اس کا یہ کہنا بھی تمہارے فعل کو جائز قرار نہیں دے سکتا.بلکہ اس کے معنی صرف یہ ہوں گے کہ تم بھی چور ہو اور وہ بھی چور ہے.پس بلا ٹکٹ سفر کرنا کوئی خوبی کی بات نہیں بلکہ یہ بھی ویسی ہی چوری ہے جیسے کسی اور چیز کی چوری ہوتی ہے.سوچو تو سہی کہ اگر تمہاری الماری میں مصری پڑی ہوئی ہو اور کوئی دوسرا شخص اس میں سے ایک تولہ بھی چرالے تو باوجود اس کے کہ مصری تین آنے کی آدھ سیر آجاتی ہے، تم ایک تولہ مصری چرانے والے کو ملامت کرنے لگ جاتے ہو اور کہتے ہو بے شرم بے حیا تیرے باپ کا مال تھا کہ تو نے بلا اجازت لے لیا.پھر تم سوچو کہ تم ایک تولہ مصری اٹھالے جانے والے کو تو بے شرم کہتے ہو اور تم گورنمنٹ کے اتنے آنے چرا کر لے آتے ہو اور تمہیں کوئی ندامت کے محسوس نہیں ہوتی.اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر چھ آنے کا ٹکٹ ہو اور تم بلا ٹکٹ سفر کرو تو تم نے گورنمنٹ کی ایک سیر مصری چرالی یا تین سیر گندم اڈالی.پس بلا ٹکٹ سفر کرنا بھی بہت بڑا گناہ ہے اور تمہیں ان عیوب سے محفوظ رہنا چاہئے بلکہ اگر تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں ، تب بھی تم کہو کہ ہمیں موت منظور ہے مگر بے ایمانی منظور نہیں.تو یہ چیزیں اس قسم کی ہیں کہ اس میں ہم تم سے بہت اچھی امید رکھتے ہیں اور تمہارا فرض ہے کہ بجائے اس کے کہ خود ان گناہوں کا ارتکاب کرو، اگر کوئی اور شخص اس قسم کی غلطی کرے تو اسے سمجھاؤ اور اگر سمجھانے کے بعد بھی نہ مانے تو اس کی شکایت کرو اور اس بات کو یاد رکھو کہ جیسے غلہ میں کیڑا لگ جاتا ہے، اسی طرح یہ گناہ تمہاری روحانیت کے لئے موت کے کیڑے ہیں.اگر تمہارے پاس سال بھر کا غلہ ہو اور تمہاری غفلت سے اسے کیڑا لگ جائے اور دوسری طرف ملک میں بھی غلہ ختم ہو جائے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ جب تم غلہ کو کوٹھی سے نکالو گے تو وہ کرم خوردہ ہو گا اور تمہارے کسی کام نہیں آئے گا.اسی طرح اگر اس قسم کی ٹھکیوں کی عادت پیدا ہو جائے تو جماعت کو گھن کھا جائے گا اور جب دین کے لئے لڑائی کا وقت آئے گا اور 212
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 27 نومبر 1942ء ہم اپنے سپاہیوں کے مخزن کو دیکھیں گے تو بجائے اس کے کہ اس میں سے زندہ اور دین دار سپاہی نکلیں، مردہ اور بے دین آدمی نکلیں گے اور وہ اسلام کو فائدہ پہنچانے کی بجائے اس کے ضعف اور تنزل کا باعث بن جائیں گے.یہ تو ایک ضمنی بات تھی، اس کے بعد میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ آج تحریک جدید کا نواں سال شروع ہے.جس کے معنے یہ ہیں کہ چار حصے سفر کے طے ہو چکے ہیں اور اب صرف پانچواں حصہ باقی رہ گیا ہے.میں ہر سال دوستوں کو یہ تحریک کرتا چلا آیا ہوں کہ انہیں اس میں پہلے سالوں سے زیادہ حصہ لینا چاہئے مگر اس سال میں دوستوں سے یہ کہتا ہوں کہ ان کو اس تحریک میں گذشتہ سالوں سے بہت زیادہ حصہ لینا چاہئے اور چونکہ یہ تحریک اب خاتمہ کے قریب ہے، اس لئے انہیں اس سال پہلے سالوں سے نمایاں اضافہ کے ساتھ وعدے کرنے چاہئیں.خاتمہ سے میری مراد یہ نہیں کہ اس کے بعد کوئی تحریک نہیں کی جائے گی.در حقیقت کوئی جماعت پے در پے تحریکات کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی اور ہماری جماعت کے سامنے وقتا فوقتا نئی سے نئی تحریکات انشاء اللہ ہوتی چلی جائیں گی.مگر بہر حال دس سال گزرنے کے بعد اس تحریک کی موجودہ شکل قائم نہیں رہے گی.اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اس کے بعد کیا صورت پیدا ہو؟ میں بھی دعا کر رہا ہوں، تم بھی دعائیں کرو کہ ان دس سالوں کے بعد اس درخت کو زندہ اور سرسبز و شاداب رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ میری صحیح راہنمائی فرمائے اور اپنی طرف سے ترقی کی تدابیر بتائے.مگر بہر حال جیسا کہ میں اعلان کر چکا ہوں، دس سال کے بعد اس تحریک کی موجودہ شکل ختم ہو جائے گی اور چونکہ اب سفر خاتمہ کے قریب ہے.اس لئے اس وقت بہت زیادہ ہمت اور بہت زیادہ کوشش اور بہت زیادہ سعی اور بہت زیادہ قربانی کی ضرورت ہے.میں جانتا ہوں کہ بعض لوگ ایسے ہیں، جنہوں نے شروع سے اس تحریک میں نمایاں قربانی کے ساتھ حصہ لیا ہے مگر ایسے لوگ بھی بہت ہیں، جنہوں نے اپنے معیار سے کم قربانیاں کی ہیں.پس وہ لوگ ، جنہوں نے ابھی تک نمایاں قربانی نہیں کی، میں ان سب سے کہتا ہوں کہ سفر اب خاتمہ کے قریب ہے، منزل نظر آرہی ہے.اگلا سال تحریک جدید کا آخری سال ہوگا.پس تمہیں کنارے پر پہنچ کر اپنا سارا زور لگا دینا چاہئے تا کہ اللہ تعالی اس تحریک کے ذریعہ اسلام اور سلسلہ کے مفاد کے لئے ایک ایسی مستقل بنیاد قائم کر دے جو آئندہ آنے والے دنوں میں اسلام اور شیطان کی جنگ میں ایک مفید اور بابرکت عنصر ثابت ہو.213
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 نومبر 1942ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم اسی غرض کے لئے آج میں خود چل کر آیا ہوں باوجود اس کے کہ بیماری کی حالت میں نکلنا میرے لئے مشکل تھا اور باوجود اس کے کہ لکڑی کے سہارے بھی اگر چلنے کی کوشش کروں تو درد عود کر آتا ہے اور باوجود اس کے کہ کرسی پر بیٹھ کر اور لوگوں کے کندھوں پر سوار ہو کر آنا میری طبیعت کے خلاف ہے اور مجھے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی گھٹتا ہوا آرہا ہو.پھر بھی میں نے اپنے مزاج کے خلاف اور اپنی صحت کے خلاف یہ کام محض اس لئے کیا ہے تاکہ میں دوستوں کو توجہ دلاؤں کہ اب غفلت اور کوتاہی سے کام لینے کا وقت نہیں رہا.جس نے آج غفلت اور کوتا ہی سے کام لیا، اس کے لیے دوبارہ منزل کو پہنچنا اور ریل کو پکڑنا مشکل ہوگا.یا درکھو خدا تعالیٰ کے قرب کی طرف جانے والی ریل اب چلنے ہی والی ہے ، آخری گھنٹیاں بیچ رہی ہیں، اس کے بعد جورہ گیا، وہ ہمیشہ کے لئے رہ گیا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نیکیوں کے مواقع ہمیشہ ملتے رہتے ہیں.مگر نیکیوں کے مدارج میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے.صحابہ کو دیکھ لو، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں بیٹھنے کی وجہ سے وہ صحابیت کا مقام حاصل کر گئے اور دنیا آج تک ان کی عزت کرنے پر مجبور ہے.ہمارا ایمان ہے کہ بعد میں بھی اگر کوئی شخص صحابہ کے مقام تک پہنچنا چاہے اور اس کے لئے صحیح جد و جہد کرے تو وہ اس مقام تک پہنچ سکتا ہے.مگر سوال یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کروڑہا کروڑ لوگوں میں سے کتنے ہیں، جنہیں صحابیت کا مقام حاصل ہوا؟ ہر زمانہ میں کروڑوں لوگ امت محمدیہ میں ہوئے مگر کسی زمانہ میں دو اور کسی زمانہ میں تین صحابہ کے مقام کو حاصل کر سکے اور باقی لوگوں میں سے کوئی شخص اس مقام تک نہ پہنچ سکا.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عبداللہ بن ابی بن سلول جیسا منافق انسان بھی صحابی کہلاتا تھا.تو ایک زمانہ ایسا ہوتا ہے، جب خدا تعالیٰ کے قرب کے دروازے کھلے ہوتے ہیں اور انسان معمولی معمولی قربانیوں.بڑے بڑے انعامات حاصل کر سکتا ہے.دیکھ اور سول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عبد اللہ بن ابی بن سلول بھی صحابی تھا مگر بعد میں بڑے بڑے لوگ بھی صحابیت کا مقام حاصل نہیں کر سکے.کسی بہت بڑے مجاہدہ کرنے والے انسان نے صحابہ کے درجہ کو پایا ہو تو اور بات ہے.مگر سوال یہ ہے کہ کتنے لوگ ہیں، جن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ملے ہوں اور اس طرح انہیں صحابیت کا شرف حاصل ہوا ہو؟ ہاں اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے تم کو صحابی بنے کا موقعہ دے دیا.کیونکہ تم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا اور مسیح موعود وہ شخص ہے، جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اور وہ ایک ہی ہیں.اس کا نام میرے نام کے مطابق اور اس کے باپ کا نام میرے باپ کے نام کے مطابق ہوگا.گویا 214
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 27 نومبر 1942ء من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی والا معاملہ ہوگا.تو سینکڑوں سال بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ مقام عطا فرمایا.آپ میں ایسے لوگ موجود ہیں، جو صرف دو آنہ چندہ دیا کرتے تھے مگر صحابی وہ بھی کہلاتے ہیں.اسی طرح آپ لوگوں میں وہ بھی ہیں، جو پانچوں نمازیں مسجد میں پڑھ سکتے ہیں لیکن پڑھتے مسجد میں چار ہیں.خدا تعالیٰ کے حضور ایسے لوگ بے شک کمزور یا گناہگار سمجھے جائیں گے.مگر جب وہ مر جائیں گے تو خدا تعالیٰ کے حضور تو وہ کمزور مومنوں میں شمار ہوں گے لیکن دنیا میں ان کی اولادوں کو بڑے بڑے بادشاہ بلا کر عزت و تکریم کی جگہ پر بٹھائیں گے اور کہیں گے یہ فلاں صحابی کی اولاد ہیں.صحابیت کے مقام کے لحاظ سے بے شک تمہارے اندر بعض کمزوریاں پائی جاتی ہیں.مگر تم نے صحابی بن کر اپنی اولادوں کے لئے جائیداد میں پیدا کر دی ہیں.بڑے بڑے بادشاہ آئیں گے اور وہ تمہاری اولادوں کی عزت کرنے پر مجبور ہوں گے.وہ کہیں گے یہ صحابی کی اولاد ہیں.حالانکہ ممکن ہے، وہ صحابی کہلانے والا منافق ہو یا کمزور اور خطا کار مومن ہو.چنانچہ دیکھ لو، خدا تعالیٰ نے عبد اللہ بن ابی بن سلول کو تو ظاہر کر دیا اور بتا دیا کہ وہ منافق ہے مگر اور منافقوں کو ظاہر نہیں کیا.حالانکہ بیسیوں منافق تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا علم تھا.حضرت حذیفہ ایک صحابی تھے، وہ ہمیشہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پڑ کر اصرار سے دریافت کیا کرتے تھے کہ کون کون منافق ہے؟ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں بتا دیا کرتے تھے.صحابہ کہتے ہیں ہمیں معلوم نہیں تھا کہ کون کون منافق ہے؟ مگر حذیفہ ہمیشہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پڑے رہتے تھے کہ یا رسول اللہ! مجھے منافقوں کے نام بتا دیجئے ، ایسا نہ ہو کہ میں کسی منافق کے پیچھے نماز پڑھ بیٹھوں اور میری نماز خراب ہو جائے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اصرار کو دیکھ کر انہیں منافقوں کے نام بتا دیا کرتے تھے.صحابہ کہتے ہیں چونکہ حذیفہ کو منافقوں کا علم تھا، اس لئے ہم ہمیشہ تاڑتے رہتے تھے کہ حذیفہ " کس کا جنازہ نہیں پڑھتے؟ جس کا جنازہ موجود ہونے کے باوجود حضرت حذیفہ نہیں پڑھا کرتے تھے اس کا جنازہ ہم بھی نہیں پڑھتے تھے اور سمجھ جاتے تھے کہ وہ منافق تھا.اب دیکھو ہمیں معلوم نہیں کہ کون کون منافق تھا ؟ حضرت حذیفہ کو بے شک معلوم تھا مگر انہوں نے کسی کو بتایا نہیں.اب حدیثوں میں جب ان صحابہ کا نام آتا ہے تو ہم کیا کہتے ہیں؟ ہم یہی کہتے ہیں رضی الله عنهم، رضی ! عنہم اور نہ معلوم ہماری ان دعاؤں سے کتنے بخشے جاچکے ہوں؟ کیونکہ جب سارے مسلمان ان کا نام آنے پر رضی اللہ عنھم کہتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو تو غالبا خدا تعالیٰ الله 215
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 نومبر 1942ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم ان میں کئی کے قصوروں کو معاف کر چکا ہو گا.مگر بہر حال باوجود اس کے کہ بعض لوگ منافق تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا علم تھا ، آج تک سارے مسلمان ان کا نام آنے پر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں.حالانکہ یہ بھی ممکن ہے کہ خدا نے اب تک انہیں نہ بخشا ہو.بہر حال صحابیت کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے ان کی دنیا میں عزت قائم کر دی اور سینکڑوں سال تک ان کی اولادوں نے اپنے باپ دادا کی صحابیت کی وجہ سے شاہی درباروں میں بڑے بڑے انعامات حاصل کئے.ایک شخص آتا اور کہتا میں فلاں صحابی کا بیٹا ہوں، دوسرا شخص آتا اور کہتا میں فلاں صحابی کا بیٹا ہوں اور بادشاہ فوراً آواز دیتا کہ لانا اس کو میرے پاس اور جب وہ اس کے پاس لایا جاتا تو بادشاہ اسے بہت بڑا انعام دیتا.اس وجہ سے کہ وہ ایک صحابی کی اولاد میں سے ہے.مگر خدا تعالیٰ کے فرشتے کہتے ہیں رضی اللہ عنہ کہاں؟ وہ تو منافق اور مردود تھا.غرض تمہیں وہ چیز مفت میں حاصل ہو گئی ہے، جو تمہارے لئے اور تمہاری اولادوں کے لئے بہت بڑی عزت اور خیر و برکت کا ذریعہ ہے.اگر یہ نعمت تمہیں باطن میں بھی میسر آگئی اور ظاہر میں بھی تو تمہارے لئے دونوں جہانوں میں فائدہ ہے اور اگر یہ نعمت تم نے صرف ظاہر میں حاصل کی ہے، باطن میں حاصل نہیں کی.تو اس صورت میں بھی گوتم نے فائدہ نہیں اٹھایا مگر تمہاری اولادیں مجاوروں کی طرح اس سے فائدہ اٹھا ئیں گی.تحریک جدید بھی نیکی کے ایسے ہی عظیم الشان موقعوں میں سے ایک بہت بڑا موقعہ ہے.اور امید نہیں کہ آئندہ ایسی شان کے ساتھ ایسی آسان اور سہل تحریک جس میں کثرت سے لوگ شامل ہو سکیں ، پھر جماعت میں جاری ہو اور اگر آئندہ کوئی تحریک جاری کی گئی تو وہ ایسی سہل نہیں ہوگی بلکہ اسے سخت مشکل بنا دیا جائے گا اور اس میں تلخیاں کثرت سے پیدا کر دی جائیں گی تا کہ ان تلخیوں اور مشکلات کو اٹھا کر ہی بعد میں آنے والوں کو تمہارے برابر ثواب حاصل ہو سکے.بہر حال آج جس سہولت اور آسانی سے اس عظیم الشان تحریک میں حصہ لے کر اپنے رب کو راضی کر سکتے ہیں.اس سہولت اور آسانی سے وہ کسی اور تحریک میں شامل نہیں ہو سکیں گے.اب گاڑی چھوٹنے والی ہے، تم جلدی اس میں سوار ہو جاؤ.ایسا نہ ہو کہ رہ جاؤ اور بعد میں اپنی غفلت اور محرومی پر پچھتاؤ.وہ لوگ جنہوں نے ابھی تک اس تحریک میں حصہ نہیں لیا، وہ اب بھی اس تحریک میں حصہ لے سکتے ہیں اور جیسا کہ میں بتا چکا ہوں ، وہ کچھ چندہ اس تحریک کے ختم ہونے کے بعد بھی ادا کر سکتے ہیں.اسی طرح وہ لوگ جنہوں نے اس تحریک میں حصہ تو لیا مگر اپنی طاقت سے کم حصہ لیا ہے، میں ھی یاد دلاتا ہوں وہ ان کی پار کر اور ان چنے رت دیکھ گشتہ سالوں کی کی کو ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی کمی کو پورا کر لیں اور اپنے چندے کی فہرست کو دیکھ کر گزشتہ سالوں کی کمی کو 216
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 27 نومبر 1942ء نمایاں اضافوں کے ساتھ پورا کریں.مجھے معلوم ہے کہ کئی لوگ ایسے ہیں، جن کی صرف پچاس ساٹھ روپے تنخواہ ہے مگر انہوں نے اس تحریک میں ہر سال سوسورو پہیہ چندہ دیا ہے اور کئی لوگ ایسے بھی ہیں ، جن کی دو دو سو روپیہ تنخواہ ہے مگر انہوں نے صرف دس یا ہیں روپے چندہ دیا ہے.ایسے لوگوں کے لئے بھی وقت ہے کہ وہ اپنی کمی کو پورا کر لیں.یاد رکھو چھلکا کام نہیں آسکتا مغز کام آتا ہے، اسی طرح نام کام نہیں آسکتا، حقیقت کام آیا کرتی ہے.بے شک ایسے لوگوں نے ظاہری قواعد کو پورا کرتے ہوئے تحریک جدید میں اپنا نام لکھوالیا ہے مگر ثواب ہم نے نہیں دینا بلکہ خدا نے دینا ہے اور خدا جانتا ہے کہ چندہ اپنی طاقت کے مطابق دیا گیا ہے یا طاقت اور توفیق سے کم دیا گیا ہے.پس وہ لوگ ، جنہوں نے اس تحریک میں کم حصہ لیا ہے، انہیں چاہئے کہ وہ اب اپنی کمی کو پورا کر لیں تا کہ جب خدا تعالیٰ کے دین کے گھر کی بنیاد رکھی جائے ، اس وقت تمہارے لئے بھی ایک نیک خاندان کی بنیاد رکھ دی جائے اور اس دنیا اور آخرت میں تمہاری جڑیں ایسی مضبوطی سے قائم ہو جائیں جیسے ایک بہت بڑے شاندار اور پھل لانے والے درخت کی جڑیں ہوتی ہیں.مطبوعہ الفضل 02 دسمبر 1942 ء ) 217
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم وو اقتباس از خطبه جمعه فرموده 04 دسمبر 1942ء سب قربانیاں دلوں کے بدلنے سے ہی ہوتی ہیں خطبہ جمعہ فرمودہ 04 دسمبر 1942ء اس کے بعد میں احباب کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ تحریک جدید کے نئے سال کے متعلق گزشتہ خطبہ میں میں نے جو اعلان کیا تھا، اس میں بعض باتیں بیان کرنے سے رہ گئی تھیں مثلاً وعدوں کے وقت کی تعیین کے متعلق گزشتہ خطبہ میں کوئی اعلان نہیں کیا جاسکا.اب اس خطبہ کے ذریعہ میں یہ اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ ہندوستان کے دوستوں کی طرف سے 31 جنوری تک بھیجے ہوئے وعدے قبول کئے جائیں گے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ دوست 31 جنوری تک وعدے بھجوانے میں تاخیر سے کام لیں.یہ صرف لوگوں کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے تاریخ مقرر کی گئی ہے.ورنہ دوستوں کو چاہئے کہ جلسہ سالانہ سے پہلے پہلے تحریک جدید کے متعلق اپنے وعدے بھجوا دیں تا کہ آئندہ سال کا پروگرام تیار کرنے میں ہمیں کوئی دقت اور پریشانی پیدا نہ ہو.اگر وقت کے اندر اندر وعدے آجائیں تو ہمیں اس امر کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ آئندہ سال دوستوں کی طرف سے اس قدر رقم آئے گی اور پھر اس رقم کے اندر اپنے اخراجات رکھے جاسکتے ہیں.اس لئے جہاں تک ہو سکے دوستوں کو 24 25 دسمبر تک اپنے وعدے بھجوا دینے چاہئیں یا جلسہ سالانہ پر آئیں تو جماعتوں اور افراد کے وعدوں کی فہرستیں مرتب کر کے اپنے ہمراہ لیتے آئیں.پھر جو لوگ رہ جائیں گے، چونکہ انہیں واپس جانے میں کچھ دیر لگ جاتی ہے اور پھر واپس پہنچ کر انہیں پہلے اپنے کئی کام سنوارنے پڑتے ہیں اور پھر دوستوں سے وعدوں کے لئے ملنا ہوتا ہے، اس لئے ایسے لوگوں کے لئے 31 جنوری کی تاریخ مقرر کی گئی ہے یعنی وہ خطوط جو 31 جنوری کو چلیں گے یا یکم فروری کی ان پر مہر ہوگی، ان کے وعدوں کو منظور کر لیا جائے گا.یکم فروری کی مہر کی شرط اس لئے زائد کی گئی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص 31 جنوری کی شام کو خط لکھے اور چونکہ ڈاک اگلے دن ہی نکل سکتی ہے.اس لئے خط پر یکم فروری کی مہر لگے گی.پس جس خط پر یکم فروری کی مہر ہوگی ، اس کے وعدہ کو بھی میعاد کے اندر سمجھا جائے گا.اسی طرح بعض جگہ ہفتہ میں صرف ایک دفعہ ڈاک نکلتی ہے، ایسے مقامات کے متعلق یہ دستور ہوگا کہ وہاں کے جو دوست 31 جنوری کو خط لکھ دیں گے، وہ ہمیں خواہ کسی تاریخ کو پہنچیں ، ہم ان 219
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 04 دسمبر 1942ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم کے وعدہ کو قبول کرلیں گے کیونکہ وہ 1 3 جنوری کے بعد پہلی ڈاک میں آئے ہوں گے.لیکن اس تاریخ کے بعد کوئی وعدہ قبول نہیں کیا جائے گا.ہاں اگر کوئی شخص اپنے وعدہ میں زیادتی کرنا چاہے تو وہ ہر وقت کر سکتا ہے.مثلاً پہلے اس نے دس روپوں کا وعدہ کیا تھا، پھر وہ پندرہ روپے دینا چاہے تو اسے اختیار ہے کہ جب چاہے، اپنے وعدہ میں اضافہ کر لے.اضافہ کرنے میں کوئی روک نہیں.البتہ نیا وعدہ ہندوستان کے کسی دوست کی طرف سے 31 جنوری کے بعد قبول نہیں کیا جائے گا.سوائے بنگال وغیرہ کے کہ ان کے وعدوں کے لئے اپریل کی آخری تاریخ مقرر ہے اور سوائے باہر کے ممالک کے کہ ان کے وعدوں کی آخری تاریخ 30 جون ہے یا سوائے ان لوگوں کے جو اس وقت برسر کا ر نہیں یا غریب ہیں اور دوران سال میں برسرکار ہو جائیں یا خدا تعالیٰ انہیں مال دے دے.ان تاریخوں پر تمام دوستوں کو اپنے اپنے وعدے بھجوانے کی کوشش کرنی چاہئے.اس کے بعد میں پھر اس امر پر زور دینا چاہتا ہوں کہ جماعت کو چاہئے ، وہ خصوصیت سے تحریک جدید کے ان آخری سالوں میں زیادہ سے زیادہ قربانی کرے.میں جانتا ہوں کہ بعض دوست ایسے ہیں، جنہوں نے تحریک جدید کے چندہ میں زیادہ سے زیادہ قربانی کرنے کی کوشش کی ہے.لیکن ابھی بہت سے دوست ایسے ہیں، جنہوں نے اس رنگ میں نمایاں قربانی نہیں کی.میں سمجھتا ہوں کہ دوستوں کی ایک ایسی شمار میں آنے والی مقدار ہے جن کے وعدے ان کی آمدنیوں کے مطابق نہیں.ان دوستوں کو میں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی آمد نیوں کے مطابق یا قربانی کی حد تک وعدے کریں.اس کے ساتھ ہی میں اس امر کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ابھی پندرہ میں ہزار روپیہ کے وعدے سال ہشتم کے وعدوں میں سے پورے ہونے باقی ہیں.ان میں سے بعض مہلتیں لے رہے ہیں اور جن کو حقیقی مشکلات درپیش ہیں، انہیں مہلتیں دی جارہی ہیں.لیکن باقی دوست جنہوں نے ابھی تک نہ اپنا وعدہ پورا کیا ہے اور نہ چندے کی ادائیگی کے لئے کوئی مہلت لی ہے.انہیں میں یہ کہتا ہوں کہ وہ اب نئے سال کے وعدے کی خوشی میں نہ بیٹھ جائیں بلکہ کوشش کریں کہ ان کا گزشتہ سال کا وعدہ جلد سے جلد پورا ہو جائے.اگر وہ 30 نومبر تک اپنے وعدوں کو پورا نہیں کر سکے تھے تو اب کم سے کم جلسہ سالانہ تک اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے یا زیادہ سے زیادہ 31 جنوری تک اپنے وعدے پورے کر دیں.اگر وہ گزشتہ سال کے وعدوں کو 31 جنوری تک پورا کر دیں تو سال رواں کے بجٹ پر اچھا اثر پڑے گا اور ان رقوم کے ذریعہ اس سال کے اخراجات پورے ہو سکیں گے اور ہم ابھی سے اگلے سال کے روپیہ میں سے خرچ کرنے پر مجبور نہیں ہوں گے.220
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک......جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 04 دسمبر 1942ء پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے تحریک جدید کے دوسرے حصوں کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے اور خصوصیت سے دعاؤں پر زور دینا چاہئے.میں نے پچھلی دفعہ بھی توجہ دلائی تھی کہ جو لوگ اس تحریک کے مالی مطالبہ میں حصہ نہیں لے سکتے ، وہ دعاؤں پر زور دے کر اس تحریک میں حصہ لے سکتے ہیں.انہیں چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور اخلاص سے اور بار بار دعا ئیں کریں کہ اللہ تعالٰی اس تحریک میں ان لوگوں کو زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے، جن کو اس نے اپنے فضل سے مالی وسعت عطا فرمائی ہوئی ہے.اس غرض کے لئے وہ جتنی زیادہ دعائیں کریں گے اور جتنا جوش ان کی دعاؤں کی وجہ سے لوگوں کے قلوب میں پیدا ہوگا اور جس قدر زیادہ وہ اس تحریک میں حصہ لیں گے، اس قدر ان کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب ملے گا.پھر وہ یہ بھی دعا کریں کہ جن لوگوں نے وعدے کئے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو بھی جلد سے جلد اپنے وعدے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے.وعدہ کرنا آسان ہوتا ہے لیکن اسے پورا کرنا مشکل ہوتا ہے.پس ان لوگوں کے لئے بھی دعا ئیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے وعدے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے.میں اس موقعہ پر اس خوشی کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ میں نے پچھلے سے پچھلے سال سے اس بات پر زور دینا شروع کیا تھا کہ دوستوں کو اپنے وعدے جلد پورے کرنے چاہئیں.سو اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے پچھلے سال بھی وصولی اچھی رہی تھی اور اس سال تو وصولی کی رفتار گزشتہ سال سے بھی بہتر رہی ہے اور دوستوں نے اپنے وعدوں کو بر وقت پورا کرنے کی کوشش کی ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ انہیں اس خلوص اور ایثار کی زیادہ سے زیادہ بہتر جزا دے.میں امید کرتا ہوں کہ اس سال بھی جہاں دوست اس بات کی کوشش کریں گے کہ ان کے وعدے گزشتہ سالوں سے اضافہ کے ساتھ ہوں، وہاں وہ اس بات کی بھی کوشش کریں گے کہ ان وعدوں کو جلد سے جلد پورا کریں اور اس بارہ میں دعا کرنے والے ہماری بہت بڑی مدد کر سکتے ہیں.در حقیقت دل اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہیں اور اگر وہ قربانیوں کے لئے لوگوں کے دل پھیر دے تو پھر قربانی کے راستہ میں کوئی چیز روک نہیں بن سکتی.آخر ابو بکر اور عمر کا دل ہی تھا، جو زیادہ سے زیادہ قربانیوں پر تیار رہتا تھا اور جب بھی رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کوئی تحریک فرماتے ، وہ کوشش کرتے کہ قربانیوں میں دوسروں سے بڑھ کر ر ہیں.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑی بھاری تحریک فرمائی.حضرت عمر نے فیصلہ کیا کہ میں آج سب سے بڑھ کر قربانی کروں گا.چنانچہ وہ اپنے گھر میں آئے اور اپنا آدھا مال اٹھا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں پہنچے، وہ دل میں یہ خیال کرتے جارہے تھے کہ کوئی اپنے مال کا 221
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 04 دسمبر 1942 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم بیسواں حصہ لائے گا، کوئی دسواں حصہ لائے گا، کوئی آٹھواں حصہ لائے گا، کوئی پانچواں حصہ لائے گا مگر میں تو اپنا آدھا مال لے آیا ہوں اور کسی نے میرے برابر کیا قربانی کرنی ہے؟ جب وہ مال سے لدے پھندے اور بوجھ سے دبے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں پہنچے تو دیکھا کہ حضرت ابوبکر پہلے ہی پہنچے ہوئے 2 ہیں.ان کے دل میں یہ بھی خیال تھا کہ میں سب سے پہلے بھی پہنچوں اور قربانی بھی میری ہی سب سے زیادہ ہو.جب انہوں نے حضرت ابوبکر کو پہلے پہنچا ہوا دیکھا تو کہنے لگے آج بھی یہ بڑھا سبقت لے گیا.مگر خیر قربانی میں تو میرا مقابلہ نہیں کر سکے گا.جب وہ اور زیاہ قریب پہنچے تو انہوں نے سنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر سے کہہ رہے تھے کہ ابو بکر تم سب کچھ لے آئے.گھر میں کیا چھوڑ ؟؟ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ حضور! اللہ اور رسول کا نام چھوڑا ہے.اس وقت حضرت عمر کو معلوم ہوا کہ وہ جو سمجھتے تھے کہ آج میں قربانی میں سب سے بڑھ جاؤں گا، ان کا یہ خیال درست نہ نکلا اور آج بھی ابوبکر سب سے بڑھ گیا.تو دلوں کے بدلنے سے ہی سب قربانیاں ہوتی ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ دل نہ بدلے تو کوئی قربانی نہیں ہو سکتی.ہماری جماعت کو ہی دیکھ لو چونکہ ہماری جماعت کے دل بدلے ہوئے ہیں، اس لئے باوجود اس کے کہ ہماری جماعت چھوٹی سی ہے، قربانیوں کے میدان میں وہ دوسروں سے بہت بڑھی ہوئی ہے.اس کے مقابلہ میں مسلمانوں میں آج اس گرمی ہوئی حالت میں بھی ایسے ایسے مالدار موجود ہیں کہ ہماری ساری جماعت کی جائیدادیں ان میں سے اگر صرف ایک شخص خریدنا چاہے تو خرید سکتا ہے مگر باوجود اس قدر مالدار ہونے کے انہیں اسلام کے لئے اتنا چندہ دینے کی توفیق نہیں ملتی، جتنی ان کے نوکروں کے نوکروں سے بھی کم حیثیت رکھنے والے ہماری جماعت کے افراد ایک مہینہ میں دے دیتے ہیں.یہ دلوں کے تغیر کی بات ہے.ورنہ مال دوسروں کے پاس زیادہ ہے.لیکن اس کے باوجود ہماری جماعت کے افراد ہر تحریک میں نمایاں حصہ لیتے ہیں، ماہوار چندے دیتے ہیں اور اپنی قربانی کو ہر سال اس قدر بڑھاتے چلے جاتے ہیں کہ تعجب آتا ہے.ہمارے ہاں سوسو روپیہ کی رقمیں چندہ میں نہایت کثرت سے آتی ہیں.لیکن دوسروں کے ہاں اس قدر چندہ دینے والے بہت شاذ ہوتے ہیں اور اگر کبھی کوئی سور و پیہ چندہ دے دے تو اعلان کئے جاتے ہیں کہ فلاں نے سو روپیہ کی رقم خطیر دے دی ہے.لیکن ہم اپنے ہاں یہ دکھا سکتے ہیں کہ ہماری جماعت کے چالیس چالیس، پچاس پچاس اور ساٹھ ساٹھ روپے تنخواہ لینے والے سوسور و پیہ چندہ دے دیتے ہیں اور ایسی ایک دو نہیں سینکڑوں مثالیں پائی جاتی ہیں.لیکن ان کو حس بھی نہیں ہوتی کہ انہوں 222
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 04 دسمبر 1942ء نے کوئی احسان کیا ہے.کیونکہ دینے والے سمجھتے ہیں کہ ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ روپوں کو کھاتے میں درج کریں اور انہیں خدا کے حکم کے مطابق خرچ کریں، اجر تو خدا تعالیٰ ہی دینے والا ہے.یہ دلوں کا تغیر ہی ہے، جس کے نتیجہ میں ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے قربانیوں سے شاندار حصہ لے رہی ہے اور جب دلوں میں تغیر پیدا ہو جائے تو بڑی سے بڑی قربانی بھی حقیر معلوم ہونے لگتی ہے.پس جو شخص اس غرض کے لئے دعائیں کرتا ہے، وہ تحریک جدید کے مقاصد کے پورا ہونے میں بہت بڑی امداد دیتا ہے.دوستوں کو چاہئے کہ وہ کثرت سے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو قربانی کے معیار کے مطابق تحریک جدید میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے.اگر خود ان میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ اس تحریک لے سکیں تو وہ دوسروں کے لئے دعائیں کر کے اس تحریک میں حصہ لے سکتے ہیں.ان کی دعاؤں سے دوستوں کو جتنی زیادہ مالی قربانی کرنے کی توفیق ملے گی، اسی قدر ان کو زیادہ ثواب ملے گا.پس دعا ئیں کرو اور کرتے چلے جاؤ، یہاں تک کہ وعدوں کی آخری تاریخ آجائے اور خدا تعالیٰ ان کی دعاؤں کی قبولیت کا یہ نمونہ دکھائے کہ اس سال کے وعدے گزشتہ تمام سالوں سے زیادہ ہوں اور دوستوں نے اپنے وعدوں میں زیادہ سے زیادہ قربانی سے کام لیا ہو.پھر وہ یہ بھی دعا کریں کہ جن لوگوں نے اس تحریک میں مالی حصہ لینے کا وعدہ کیا ہے، اللہ تعالیٰ ان کو اپنے وعدوں کے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور وہ خوشی سے اور سہولت سے اور ایمان کو بڑھاتے ہوئے اپنے وعدوں کو پورا کریں.پھر وہ اس بات کے لئے بھی دعائیں کریں کہ وہ لوگ جن کے ہاتھوں سے یہ روپیہ خرچ ہوتا ہے.خواہ میں ہوں یا میرے ماتحت اور لوگ ہوں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو زیادہ سے زیادہ صحیح مصرف پر روپیہ خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور سلسلہ کا ایک پیسہ بھی ضائع نہ ہو ، تا کہ ہم اس امانت کو عمدگی سے ادا کرسکیں، جو خدا تعالیٰ نے اس جہت سے ہم پر عائد کی ہے.یہ کام دعاؤں کے بغیر نہیں ہو سکتے.پس دوستوں کو اس بارہ میں اہتمام سے دعائیں کرنی چاہئیں.( مطبوعه الفضل 10 دسمبر 1942 ء ) 223
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم وو اقتباس از تقریر فرموده 103اپریل 1942ء اپنے مبلغ بھائیوں کے لئے دعائیں کریں تقریر فرمودہ 103 اپریل 1942ء بر موقع مجلس شوری پیشتر اس کے کہ مجلس شوری کی کارروائی شروع ہو.میں چاہتا ہوں کہ سب دوست مل کر دعا کر لیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری صحیح راہنمائی فرمائے ، ہمارے دماغوں کو روشن کرے، ہماری عقلوں کو تیز کرے اور ہماری نصرت اور تائید فرمائے تا کہ ہم قربانی کے صحیح جذبات کے ماتحت اس کے نام کی بلندی اور اس کے جلال کے اظہار کے لئے ایسی کوشش کریں، جو اس کے علم میں ہمارے لئے اور اسلام کی ترقی اور اس کی اشاعت کے لئے مفید ہو اور ان ذمہ داریوں کو اٹھانے سے ہم ہاریں نہیں ، جن ذمہ داریوں کا اٹھانا ہمارے لئے ضروری ہو.پھر اس موقعہ پر ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ ہم اپنے ان بھائیوں کے لئے بھی دعا کریں، جو تبلیغ کے لئے غیر ممالک میں گئے ہوئے ہیں اور جن میں سے شاید آج بہت سے قید و بند کی تکالیف میں مبتلا ہیں.بالخصوص تحریک جدید کے اکثر مبلغ ایسے ہی ممالک اور ایسے ہی حالات میں ہیں کہ جہاں تک ہمارا علم کام کرتا ہے، ہم یہی سمجھتے ہیں کہ وہ قید ہوں گے یا قیدیوں اور نظر بندوں کی سی زندگی بسر کر رہے ہوں گے.سماٹرا اور جاوا میں علاوہ اور مبلغین کے دو تحریک جدید کے مبلغ ہیں.اسی طرح ملایا میں تحریک جدید کا ایک مبلغ ہے.چین میں تحریک جدید کی طرف سے جو مبلغ مقرر تھا، اسے انگریزوں نے آج کل نظر بند کر رکھا ہے.اس طرح تحریک جدید کے چار مبلغ ایسے ہیں، جو اس وقت یا تو قید ہیں یا ان کے متعلق نظر بندی کی حالت کا ہم امکان سمجھتے ہیں.پھر خطرات جنگ کے لحاظ سے ہم یقینی طور پر یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ان کی جانیں بھی محفوظ ہیں یا نہیں.پس ان تمام مبلغین کو اپنی دعاؤں میں یادرکھو.اسی طرح ہمیں اپنی دعاؤں میں ان لوگوں کو بھی یادرکھنا چاہئے ، جنہوں نے ہمارے مبلغین کی آواز پر احمدیت کو قبول کیا اور اپنے آپ کو اس جماعت میں شامل کر دیا.ایسے لوگ ان ممالک میں سینکڑوں کی تعداد میں ہیں اور ان میں سے کئی ایسے ہیں، جنہوں نے دین کی خدمت اور اس کی اشاعت کے لئے اپنی زندگیاں وقف کی ہوئی ہیں.225
اقتباس از تقریر فرموده 103 اپریل 1942ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم پس آؤ ہم سب مل کر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب پر اپنا فضل نازل فرمائے اور وہ اپنی تائید اور نصرت ہمارے شامل حال رکھے.پھر ہمیں یہ بھی دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے صرف ہم ہی وارث نہ ہوں بلکہ ہمارے وہ بھائی بھی وارث ہوں جو آج کل سماٹرا، جاوا اور ملایا وغیرہ میں ہیں.اسی طرح ہمیں ان کے رشتہ داروں اور دوستوں کے متعلق بھی دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو مضبوط کرے اور انہیں مومنانہ ثبات و استقلال عطا کرے، جو مصیبت اور تکلیف کی گھڑیوں میں اس کے بندوں کو حاصل ہوتا ہے.رپورٹ مجلس شوری منعقدہ 103 تا 105 اپریل 1942ء) 226
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده یکم جنوری 1943ء " تحریک جدید کے چندوں میں زیادتی کریں خطبہ جمعہ فرموده یکم جنوری 1943ء.....1943ء میں ہی تحریک جدید کا آخری سال شروع ہوگا اور دوستوں کو چاہئے کہ اس میں بھی پہلے سے زیادہ جوش کے ساتھ حصہ لیں." پس ہر احمدی اپنی جد و جہد کو بڑھا دے اور ہر جگہ کے دوست تبلیغ پر خاص زور دیں.عام چندوں میں بھی اور تحریک جدید کے چندوں میں بھی زیادتی کریں تا کام میں روک نہ پیدا ہو اور ترقی کی طرف جلد قدم اٹھایا جا سکے.(مطبوع الفضل 14 فروری 1943ء) 227
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم وو اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 08 جنوری 1943ء تحریک جدید کے اختتام پر خاص ظہور خطبہ جمعہ فرمودہ 08 جنوری 1943ء غالب 1945 ء اسلام اور احمدیت کے لئے کسی خاص ظہور کا سال ہو گا اور 1943 ء اس ظہور کی بنیاد کا موقعہ ہوگا.لیکن ابھی میں اس مضمون پر غور کر کے صحیح طور پر نتائج اخذ نہیں کر سکا.اگر یہ نتیجہ صحیح نکل آیا تو تحریک جدید کا اختتام اس خاص ظہور والے سال سے انشاء اللہ مل جائے گا.اب تحریک جدید کا نواں سال ہے، 44 تحریک جدید کا دسواں سال ہوگا اور 45 ء اس کا خاتمہ ہے.جو ایسا ہی ہو گا جیسے رمضان کے بعد عید آتی ہے.پس میں سمجھتا ہوں کہ 45ء اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک خاص سال ہوگا اور اس میں اسلام اور احمدیت کے غلبہ کا ظہور شروع ہو جائے گا“.( مطبوع الفضل 07 فروری 1943ء) | 229
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود و 22 جنوری 1943ء اللہ تعالیٰ کے محبت کے جام کے مقابلہ میں کون سی قربانی اہم کہلا سکتی ہے؟ خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جنوری 1943ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں نے تحریک جدید سال نہم کا اعلان کرتے ہوئے ہندوستان کے ان علاقوں کیلئے جہاں اردو بولی یا سمجھی جاتی ہے، 31 جنوری آخری تاریخ مقرر کی تھی.جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے، جو ہمیشہ سابقون الاولون میں شامل ہونے کی کوشش کیا کرتے ہیں، اس سال جماعت کے بہت سے حصہ نے جلسہ سالانہ سے پہلے ہی اپنے وعدے بھجوانے کی کوشش کی تھی اور گذشتہ سالوں کی نسبت جلسہ سالانہ تک وعدوں کی جو آمد تھی ، وہ پہلے سے بہت زیادہ تھی.لیکن جلسہ سالانہ کے بعد جو لوگ باقی رہ گئے تھے، ان کے وعدوں کی آمد کی رفتار نہایت ہی مست ہو چکی ہے اور اب صرف نو دن وعدوں کی روانگی میں باقی رہ گئے ہیں.اس لئے میں ایک دفعہ پھر جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں، خصوصا کارکنوں کو کہ وہ اپنی ذمہ واری کو سمجھتے ہوئے اپنی اپنی جماعت کی لسٹوں کو جلد سے جلد مکمل کر کے بھجوا دیں.مجھے اطلاع ملی ہے کہ قریبا پانچ سو پچاس افراد اور چھیاسٹھ جماعتیں ایسی ہیں، جن کے وعدے ابھی تک مرکز میں نہیں پہنچے.گو یہ جماعتیں بالعموم گاؤں کی ہیں، جن کے چندے بہت کم ہوتے ہیں اور جن کیلئے لسٹوں کا فوری طور پر پر کرنا مشکل ہوتا ہے.کیونکہ زمیندار آخری وقت تک اپنی آمد کی مقدار کا صحیح اندازہ لگانے کے انتظار میں رہتا ہے تا کہ اسے علم ہو سکے کہ وہ قربانی میں کتنا حصہ لے سکتا ہے ؟ مگر بہر حال جو مدت اس غرض کے لئے مقرر ہے، اس میں وعدوں کی لسٹوں کا آجانا ضروری ہے.پس میں ان تمام جماعتوں کو، جن کی طرف سے وعدوں کی لسٹیں ابھی تک نہیں پہنچیں ، توجہ دلاتا ہوں کہ وہ 31 جنوری تک اپنی لسٹیں مکمل کر کے کیکم فروری کو وعدے پوسٹ کر دیں.اسی طرح جو افراد باقی رہ گئے ہیں اور جنہوں نے اب تک تحریک جدید کے چندہ کے سلسلہ میں اپنا کوئی وعدہ نہیں لکھوایا، ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ اب وعدے لکھوانے کی میعاد میں بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں.ممکن ہے ان میں سے کسی نے اپنا وعدہ تو بھجوا دیا ہومگر مرکز میں نہ پہنچا ہو.اس لئے وہ دیکھ لیں کہ انہیں وعدوں کی وصولی کی رسید پہنچ گئی ہے یا نہیں.اگر انہیں رسید نہ پہنچی ہو تو وہ دوبارہ اپنے وعدے بھجوا دیں تا کہ وہ دوسروں سے پیچھے نہ رہ جائیں.231
خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جنوری 1943ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم اس کے علاوہ جن جماعتوں نے شروع میں ہی اپنے وعدوں کی لسٹیں فوری طور پر مرتب کر کے بھجوادی تھیں اور جن کی جماعتوں کے سارے افراد اس میں حصہ لے چکے ہیں، ان کو بھی میں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ان لسٹوں پر دوبارہ نظر ڈال لیں اور جو دوست اس میں پہلے حصہ لے چکے ہیں مگر انہوں نے اپنی طاقت اور وسعت سے کم حصہ لیا ہے، ان کو دوبارہ تحریک کریں.اسی طرح اگر کوئی دوست رہ گیا ہو تو اسے بھی تحریک کریں اور اس طرح وہ بھی اپنی لسٹیں ہر لحاظ سے مکمل کر کے 31 جنوری تک مرکز پہنچادیں.ان کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں ہماری جماعت میں ایسے لوگ ہیں، جنہیں جنگ کی وجہ سے نئی ملازمتیں ملی ہیں یا ان کے عہدوں میں ترقی ہوئی ہے.جس حد تک لٹیں یہاں آچکی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے اس تحریک میں حصہ لیا ہے، ان میں سے ایک اچھی تعداد نے خدا تعالیٰ کے فضل سے کوشش کی ہے کہ وہ اپنی زیادہ آمدنیوں کے مطابق چندہ لکھوائے.مگر کچھ لوگ اب بھی ایسے ہیں، جنہوں نے اپنی آمدنی کے مطابق چندے نہیں لکھوائے.ان کو بھی میں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے وعدے اپنی آمدنیوں کے مطابق کر لیں.میں نے اس کے متعلق کوئی حد بندی نہیں کی کیونکہ ہر شخص کی آمدن اس کے حالات کے ماتحت مختلف ہوتی ہے.کسی شخص کی آمد تھوڑی ہوتی ہے مگر اس کے اخراجات اس تھوڑی آمد سے بھی کم ہوتے ہیں.کسی شخص کی آمد بظاہر زیادہ ہوتی ہے مگر اس کے اخراجات اس آمد سے بہت زیادہ ہوتے ہیں.پس ہم نہیں کہ سکتے کہ کوئی شخص کس حد تک قربانی کر سکتا ہے؟ اس بارہ میں ہرا ں اپنے ایمان اور اپنے اخلاص کے مطابق خود ہی فیصلہ کر سکتا ہے اور اسی پر اس فیصلہ کا چھوڑ دینا زیادہ مناسب ہوتا ہے.پس میں ان تمام احمدیوں کو جن کی آمدن جنگ کی وجہ سے بڑھ گئی ہے، توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس تحریک میں اپنی اپنی آمدن کے مطابق حصہ لیں، ایسا نہ ہو کہ آمدن میں زیادتی کے باوجود وہ ثواب میں دوسروں سے پیچھے رہ جائیں مثلاً آج کل تاجروں کا کام بڑھ جانے کی وجہ سے ان کی آمد نیوں میں غیر معمولی زیادتی ہو رہی ہے.سینکڑوں تاجر ہماری جماعت میں ایسے ہیں، جن کی آمدنی آج کل کے حالات کی وجہ سے سینکڑوں سے اٹھ کر ہزاروں تک پہنچ گئی ہے.پس وہ اگر اپنے گذشتہ سالوں کے چندہ کے مقابلہ میں زیادتی کریں تو وہ بہت تھوڑی ہوگی لیکن اگر اپنی گذشتہ اور موجودہ آمدنی کا مقابلہ کرتے ہوئے اس نسبت سے چندہ میں اضافہ کریں تو یہ اضافہ بالکل اور ہوگا.میں جانتا ہوں ہماری جماعت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسے مخلصین موجود ہیں، جو اپنی ماہوار آمد سے بھی زیادہ چندہ تحریک جدید میں دے رہے ہیں بلکہ بعض ایسے بھی ہیں، جن کی قربانی ان کی ماہوار 232
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جنوری 1943ء آمد سے دو دو، تین تین گنا زیادہ ہے اور وہ خوشی سے قربانی کر رہے ہیں.مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تاجروں میں بالعموم وہ اخلاص نہیں پایا جاتا جو ملا زمت پیشہ لوگوں میں پایا جاتا ہے.شاید اس لئے کہ ملازمت پیشہ لوگوں میں تعلیم زیادہ ہے یا شاید اس لئے کہ ان کی مقررہ آمد نیاں ہوتی ہیں اور ان کے دلوں میں گھبراہٹ پیدا نہیں ہوتی کہ آج کیا ہوگا اور کل کیا ہوگا ؟ مگر بہر حال تجربہ یہی بتاتا ہے کہ ملازمت پیشہ لوگ قربانی میں بہت بڑھے ہوئے ہیں.اسی طرح زمیندار دوست بھی تاجر پیشہ لوگوں سے زیادہ قربانی کرتے ہیں.سب سے کم قربانی کرنے والی تاجر پیشہ لوگوں کی جماعت ہے.ان میں سے بعض کی سالانہ آمد پچھیں چھپیں ہیں تھیں، چالیس چالیس ہزار روپیہ ہے.مگر ان کا چندہ دیکھا جائے تو کسی کا پچاس روپیہ ہوتا ہے، کسی کا ساٹھ کسی کا سو اور کسی کا دوسو.گویا وہ اپنی ایک مہینہ کی آمد کا دسواں حصہ بلکہ بعض دفعہ پچاسواں حصہ خدا تعالیٰ کی راہ میں دیتے ہیں.جو در حقیقت ان لوگوں کے چندہ کی نسبت جو ملازم پیشہ ہیں، قربانی کے لحاظ سے سواں حصہ ہوتا ہے.یعنی ایک ملازم جس رغبت اور اخلاص اور محبت سے قربانی میں حصہ لیتا ہے، تاجر اس کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کے رجسٹر میں سواں بلکہ دوسواں حصہ لیتا ہے.بے شک ہماری جماعت میں ایسے تاجر بھی ہیں، جو اپنی آمدنیوں کے مطابق بلکہ بعض دفعہ اپنی آمدنی سے بہت زیادہ قربانی کرتے ہیں مگر وہ مستثنی ہیں.زیادہ تر ہماری جماعت میں ایسے ہی تاجر ہیں، جو اپنی ذمہ داری کو محسوس نہیں کرتے اور تو کل کی کمی کی وجہ سے وہ اسی خیال میں رہتے ہیں کہ اگر آج خدا تعالیٰ کی راہ میں کچھ دے دیا تو کل کیا ہو گا؟ حالانکہ جو شخص خدا تعالیٰ کے لئے قربانی کرتا ہے، اس کی قربانی کبھی رائیگاں نہیں جاتی اور اسے خدا تعالیٰ دین اور دنیا دونوں میں بدلہ دیتا ہے.پس جو لوگ تاجر ہیں یا نئے ملازم ہوئے ہیں مگر اب تک انہوں نے اس تحریک میں حصہ نہیں لیا، ان کو میں پھر توجہ دلاتا ہوں کہ اب دن بہت تھوڑے رہ گئے ہیں.تحریک جدید کا یہ دور اب اپنے آخری مقام تک پہنچنے والا ہے.یہ نواں سال ہے، اگلا سال تحریک جدید کا دسواں اور آخری سال ہوگا.اس کے بعد یہ تحریک اپنی موجودہ شکل میں ختم ہو جائے گی اور ہم خدا تعالیٰ سے کسی اور رستہ کے امیدوار ہوں گے.جو قربانی اور اخلاص اور ایمان کا رستہ ہو گا اور جس پر چل کر ہر مومن اپنے رب کی رضا حاصل کر سکے گا.مگر بہر حال اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ اس قسم کی تحریک صدیوں میں کوئی ایک تحریک ہی ہوا کرتی ہے اور اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دور ایک یادگار زمانہ دور ہے.جس کی تمام انبیاء و مرسلین نے حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک خبر 233
خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جنوری 1943ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم دی ہے اور اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ آپ کے کام کو مضبوط کرنے اور اشاعت اسلام اور اشاعت کا احمدیت کی بنیادوں کو پختہ کرنے میں جو شخص حصہ لیتا ہے، وہ اپنے آپ کو اس تاریخی دور میں شامل کرتا ہے.جو قیامت کے دن بہت سی جماعتوں پر ، جو آج نظر آ رہی ہیں، ہماری جماعت کو زیادہ اہمیت دینے اور زیادہ عزت کا مستحق بنانے والا ہے.ہر شخص کا فرض ہے ، وہ اس تحریک میں حصہ لے اور اس طرح اسلام اور احمدیت کی جڑوں کو مضبوط کر دے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یونہی نہیں فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے یہودیوں سے ظہر تک کا کام لیا اور انہیں ایک بدلہ دے دیا.اس کے بعد عیسائیوں سے عصر تک کام لیا اور انہیں ایک بدلہ دے دیا.پھر مسلمانوں سے شام تک کا کام لیا اور انہی یہودیوں اور عیسائیوں کے دل میں حسد پیدا ہوا کہ انہوں نے کام تو تھوڑا کیا لیکن بدلہ زیادہ لیا.حقیقت یہ ہے کہ زمانہ کی نزاکت کے لحاظ سے کام کی قیمت بڑھ جاتی ہے.یہودیوں نے بے شک کام کیا مگر ان کے کام کا اثر بنی اسرائیل تک ہی جا سکتا تھا.اسی طرح عیسائیوں نے بے شک کام کیا مگر ان کے کام کا اثر بھی بنی اسرائیل تک ہی جا سکتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے اپنے مذہب کو غیر قوموں میں بھی پھیلایا.مگر انہوں نے جو کچھ کیا ، اپنے مذہب کے خلاف کیا.اپنی مذہبی تعلیم کے مطابق وہ ایسا نہیں کر سکتے تھے.اس کے بعد محمدصلی اللہ علیہ وسلم معبوث ہوئے اور آپ کے سپر اللہ تعالیٰ نے اشاعت دین کا کام کیا مگر ساتھ ہی کہا ، اب تمہارا کام کسی ایک قوم یا کسی ایک نسل کو خدا تعالیٰ کے آستانہ پر جھکانا نہیں.بلکہ تمہارا یہ کام ہے کہ ساری دنیا کو وحدت کی رسی میں پروکر اسے اللہ تعالیٰ کے آستانہ کی طرف کھینچ لاؤ.یہ وہ کام ہے جو آپ سے پہلے کسی نبی نے نہیں کیا بلکہ کسی نبی کے واہمہ میں بھی وہ عظیم الشان کام نہیں آسکتا تھا جومحمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا.پس اس کام کی عظمت کے لحاظ سے ہر شخص جو اس میں حصہ لیتا ہے، وہ بہت بڑے ثواب کا مستحق بنتا ہے.دیکھ لو، ڈاکوؤں اور چوروں سے جب لڑائی کی جاتی ہے تو اس لڑائی میں بھی کئی قسم کے خطرے ہوتے ہیں.جب کہیں آگ لگ جاتی ہے تو اس آگ کو بجھانے میں کئی قسم کے خطرے ہوتے ہیں.پرانے مکانات گرائے جاتے ہیں تو ان مکانات کے گراتے وقت بھی کئی قسم کے خطرے ہوتے ہیں اور بعض مزدور ہلاک ہو جاتے ہیں.اسی طرح انسان جب لڑائی میں شریک ہونے کیلئے جاتا ہے تو اس وقت بھی اسے کئی قسم کے خطرے ہوتے ہیں.کیا تم سمجھتے ہو دنیا کی عظیم الشان لڑائیوں میں حصہ لینے والوں کی عزت اور شہرت ویسی ہی ہوتی ہے ، جیسے چوروں اور ڈاکوؤں کا مقابلہ کرنے والوں کی ہوتی ہے یا آگ 234
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود و 22 جنوری 1943ء بجھانے والوں کی ہوتی ہے؟ حالانکہ خطرہ دونوں مول لیتے ہیں مگر ایک کا کام چونکہ اپنے نتائج کے لحاظ سے زیادہ اہم ہوتا ہے ، اس لئے اسے زیادہ عزت حاصل ہوتی ہے اور دوسرے کا کام چونکہ اپنے نتائج کے لحاظ سے زیادہ اہم نہیں ہوتا ، اس لئے اسے زیادہ عزت حاصل نہیں ہوتی.پس عظیم الشان نتائج کو اپنے ذہن میں رکھنا اور ان کے مطابق قربانی کرنا، خود اپنی ذات میں ایک بہت بڑا کام ہوتا ہے اور جو شخص اس کام میں حصہ لیتا ہے، وہ تھوڑا کام کرنے کے باوجود بہت بڑے اجر کا مستحق ہوتا ہے.لیکن وہ لوگ جو تنگ ظرف ہوتے ہیں ، جن کی نظر نہایت محدود ہوتی ہے، جو چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف دیکھتے اور عظیم الشان نتائج کو نظر انداز کر دیتے ہیں ، اتنے ثواب کے مستحق نہیں ہوتے جتنے ثواب کے مستحق وہ لوگ ہوتے ہیں ، جن کی نظر بہت دور تک چلی جاتی ہے.میں سمجھتا ہوں ہمارے ملک میں کروڑوں لوگ ایسے ہیں ، جن کے دلوں میں موجودہ لڑائی کی کوئی اہمیت نہیں.لیکن اگر ان کے گاؤں پر چند ڈا کو حملہ کر دیں تو وہ ان سے لڑنے کیلئے تیار ہو جائیں گے.حالانکہ جانتے ہوں گے کہ اگر ہم لڑے تو جان ضائع ہو جانے کا خطرہ ہے.اسی طرح اگر ایک کھیت کی منڈیر پر جھگڑا ہو جائے تو وہ کٹ مرنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں.حالانکہ وہ بہت ہی معمولی بات ہوتی ہے.لیکن باوجود اس کے کہ ایک منڈیر کا جھگڑا کوئی زیادہ اہم نہیں ہوتا ، ہمارے ملک میں ہر سال سینکڑوں آدمی ان جھگڑوں میں مارے جاتے ہیں اور پھر جو لوگ مارنے والے ہوتے ہیں، ان کو گورنمنٹ پھانسی دے دیتی ہے.اب دیکھ لو، جان کا خطرہ یہاں بھی موجود ہے.ایک شخص کلہاڑی سے مرتا ہے اور دوسرا پھانسی کے تختہ پر جان دے دیتا ہے.مگر زمیندار اس کے لئے فوراً تیار ہو جائے گا کیونکہ اس کی نظر محدود ہوتی ہے، وہ ساری دنیا کو اپنے کھیت کی منڈیر میں محدود کرنا چاہتا ہے.اس کے مقابلہ میں ایک اور شخص ہوتا ہے، جولڑائی کیلئے جاتا ہے مگر اس لئے نہیں کہ اسے پندرہ یا بیس یا پینسٹھ روپے تنخواہ ملے گی بلکہ اس لئے کہ دنیا پر اس وقت ایک بہت برا ابتلا آیا ہوا ہے اور میرے ملک کی عزت خطرہ میں ہے.میرا فرض ہے کہ میں فوج میں شامل ہو جاؤں اور اپنے ملک کو دشمن کے حملہ سے بچاؤں.اب یہ بھی اپنی جان خطرہ میں ڈالتا ہے بلکہ دوسروں کے مقابلہ میں کم خطرے میں ڈالتا ہے.کیونکہ کھیت کی منڈیر پر جب کلہاڑی سے لڑائی ہوتی ہے تو پانچ پانچ ، سات سات آدمیوں میں سے دو تین آدمی ضرور مر جاتے ہیں.گویا چالیس فیصدی موت ان میں واقع ہوتی ہے لیکن فوج میں اتنی موت نہیں ہوتی.مگر باوجود اس کے کہ اسے کم خطرہ ہوتا ہے، اس کی عزت بہت زیادہ کی جاتی ہے.اس لئے کہ اس نے صرف ایک نیک کام ہی نہیں کیا بلکہ 235
خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جنوری 1943ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اپنی نظر کو دور تک پھیلایا.اس نے صرف اپنے رشتہ داروں یا عزیزوں یا دوستوں کے لئے کام نہیں کیا بلکہ ملک اور قوم کی عزت بچانے کیلئے آگے بڑھا.اس لئے وہ ان لوگوں سے بہت زیادہ عزت کا مستحق ہوتا ہے، جو ڈاکوؤں سے لڑائی کرتے ہوئے یا کھیت کی منڈیر پر لڑتے ہوئے یا آگ بجھاتے ہوئے اپنی جانیں دے دیتے ہیں.موجودہ دور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دور ہے.یہ بھی ایک عظیم الشان دور ہے اور اس کے کاموں کا اثر قیامت تک باقی رہنے والا ہے.اس لئے جو شخص آج اس دور کے کسی اہم کام میں حصہ لیتا اور اپنی طاقت اور وسعت کے مطابق قربانی کرتا ہے، وہ خدا تعالیٰ سے بہت بڑا اجر پانے کا مستحق ہے.پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلد سے جلد اپنے وعدوں کی لسٹیں مکمل کر کے بجھوادیں.میں اس موقع پر قادیان والوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ اگر ان سے اب تک اس بارہ میں کوئی کوتاہی ہوئی ہو تو وہ اس کو تاہی کا اب جلد ازالہ کر لیں اور ہر محلہ والے اپنے اپنے وعدوں کی لسٹوں کو اچھی طرح دیکھ لیں اور اس امر کا جائزہ لیں کہ کوئی شخص اس میں حصہ لینے سے محروم تو نہیں رہا.جس طرح عورتیں لکھی کر کے اپنے بالوں کو صاف کرتی اور ان میں سے جوئیں نکالتی ہیں.اسی طرح تمہارا فرض ہے کہ تم بار بار اپنی لسٹوں کو دیکھو اور اگر کوئی کوتاہی ہو چکی ہو تو اس کو دور کر کے اپنی لسٹوں کو مکمل کرو.کئی لوگ بار بار کی تحریک کے محتاج ہوتے ہیں،اس لئے ایسے لوگوں کے پاس بار بار جاؤ اور اپنی لسٹوں کو زیادہ سے زیادہ مکمل کرو.کیا بلحاظ اس کے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں نے اس میں حصہ لیا ہو اور کیا بلحاظ اس کے کہ انہوں نے پہلے سے زیادہ چندہ لکھوایا ہو اور کسی نے اپنی طاقت سے کم حصہ نہ لیا ہو.مگر جیسا کہ میں نے بار بار بتایا ہے، کسی کو مجبور مت کرو کہ وہ اس تحریک میں ضرور حصہ لے.تم اس سے درخواست کرو کہ وہ اس میں حصہ لے ہم اس تحریک کی اہمیت اس پر واضح کرو اور اسے سمجھاؤ کہ خدمت دین کے یہ مواقع بار بار میسر نہیں آیا کرتے نسلیں مٹ جاتی ہیں مگر وہ لوگ جنہوں نے خدا تعالیٰ کے دین کیلئے قربانیاں کی ہوئی ہوتی ہیں ، ان کے نام کو زمانہ نہیں مٹا سکتا اور نہ اس ثواب کو مٹا سکتا ہے، جو انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والا ہوتا ہے.آج کتنے صحابی ہیں، جن کی نسلوں کا بھی ہمیں پتہ نہیں کہ وہ کہاں گئیں ؟ اور تو اور حضرت ابو بکر کی نسل کا پورا پتہ میں نہیں ملتا، حضرت عمر کی نسل کا پورا پتہ میں نہیں ملتا.کرید کرید کر خاندان نکالے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ خاندان حضرت ابو بکر کی نسل میں سے ہے، یہ خاندان حضرت عمر کی نسل میں سے ہے.مگر ابو بکر اور عمر نے جو قربانیاں رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ میں کی تھیں، وہ آج بھی 236
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جنوری 1943ء ظاہر ہیں اور زمانہ ان کو لوگوں کی نگاہ سے مخفی نہیں کر سکا.گویا ان کی جسمانی نسل مخفی ہو گئی مگر ان کی روحانی نسل یعنی ان کے وہ کارنامے، جو انہوں نے کئے ، آج بھی ظاہر ہیں اور قیامت تک ظاہر رہیں گے اور آخرت میں ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ثواب ملنا ہے، اس کا تو ہم اندازہ اور قیاس بھی نہیں کر سکتے.کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی شان اور اس کی عظمت اور اس کے قرب کا اندازہ لگا سکے؟ معمولی معمولی مٹھائی کی دوکانیں ہوتی ہیں.مگر لوگ ان مٹھائیوں کے مزے میں بھی فرق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں حلوائی سے مٹھائی کی جائے کیونکہ اس کا مزہ اچھا ہوتا ہے.لوگ دتی جاتے ہیں تو اپنے دوستوں سے پوچھ لیتے ہیں کہ انہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دیں؟ اور وہ کہتے ہیں کہ اگر دتی گئے تو فلاں مٹھائی والے سے مٹھائی لے آنا کیونکہ اس کی مٹھائی کا مزہ نہایت اعلیٰ ہوتا ہے.اگر یہ گندی تہبند باندھنے والے حلوائی، جو مٹھائی بناتے بناتے باہر پیشاب کرنے چلے جاتے ہیں اور پھر بغیر ہاتھ دھوئے اور طہارت کئے مٹھائی بنانے لگ جاتے ہیں.ان کی تیار کی ہوئی مٹھائیوں کے مزہ میں فرق ہوتا ہے تو خود ہی سوچ کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ سے محبت کا جام جن لوگوں کو ملے گا، وہ کیسا لذید ہو گا اور کون سی قربانی ہے، جو اس کے مقابلہ میں اہم کہلا سکتی ہے؟“ (مطبوعہ الفضل 26 جنوری 1943ء) 237
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 30 اسیر یار تحریک جدید در حقیقت اسلام کے احیاء کا نام ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 30 اپریل 1943ء " پس انسان کو چاہئے کہ وہ ایسی عادتیں نہ ڈالے اور ایسی غذائیں اپنے لئے تجویز نہ کر لیا کرے، جن کے نہ ملنے کی وجہ سے اسے اپنے علاقے میں یا کسی اور علاقے میں دکھ اور تکلیف محسوس ہو.میں نے تحریک جدید کو جاری کرتے وقت اسی اصل کو مدنظر رکھا تھا اور میں نے کہا تھا کہ ہمیشہ ایک کھانا کھاؤ.میرا یہ مطلب تھا کہ جب انسان ایک کھانا کھائے گا تو لازمی طور پر وہ ایسا ہی کھانا کھائے گا جس سے اس کا پیٹ بھرے.یہ تو نہیں کر سکتا کہ وہ ایک کھانا بھی کھائے اور پھر وہ کھانا ایسا ہو جو صرف زبان کے ذائقہ کے لئے ہو، پیٹ بھرنے کے لئے کافی نہ ہو مثلاً چٹنیاں اور مربے ایسی چیزیں ہیں، جن پر انسان گزارہ نہیں کر سکتا، یہ صرف زبان کے ذائقے کے لئے ہوتی ہیں.پس میری غرض یہ تھی کہ جب ہماری جماعت کے لوگ ایک کھانا کھانے پر آجائیں گے تولا ز مادہ ایسا ہی کھانا کھائیں گے، جو ان کا پیٹ بھرے.ان کھانوں کو چھوڑتے چلے جائیں گے جو محض ذائقہ کی درستی کے لئے ہوتے ہیں.جو لوگ کئی کھانوں کے عادی ہوتے ہیں، وہ بعض ایسے کھانے بھی اپنے دستر خوان پر لے آتے ہیں، جن کا پیٹ بھرنے سے تعلق نہیں ہوتا، صرف زبان کے چسکا سے تعلق ہوتا.ا ہے.ور نہ ایک کھانا کھانے والے ہمیشہ ایسا ہی کھانا کھاتے ہیں، جن سے ان کا پیٹ بھر جائے ، زبان کے ذائقے کے لئے وہ کسی اور کھانے کی طرف نہیں جاتے.صرف ملا لوگوں کے متعلق میں نے سنا ہے کہ وہ بعض دفعہ خالی فرنی پر گزارہ کر لیتے ہیں اور اتنا کھا جاتے ہیں کہ انہیں کسی اور کھانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی.لیکن عام طور پر خالی فرنی پر لوگ گزارہ نہیں کر سکتے.اس لئے لازمی طور پر انہیں روٹی سالن یا چاول سالن تیار کرنا پڑتا ہے اور بقیہ کھانوں سے وہ بچ جاتے ہیں.کیونکہ روٹی ایک ایسی چیز ہے جو انسان کا پیٹ بھرنے کے لئے کافی ہے.خواہ گیہوں کی روٹی ہو یا جو کی ، باجرے کی ہو یا مکی کی.بہر حال روٹی پیٹ بھرنے کے لئے کافی ہوتی ہے اور اس طرح ایک کھانا کھانے کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان ان کھانوں کو چھوڑ دیتا ہے، جو محض زبان کے ذائقہ کے لئے اتے ہیں، پیٹ بھرنے کے لئے نہیں ہوتے.اور ان کھانوں کو اختیار کرتا ہے، جو پیٹ بھر دیتے ہیں.239
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 30 اپریل 1943ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم ہم دیکھتے ہیں کہ آج کل یورپ میں بڑا شور اس بات پر ہے کہ لوگوں کو ہوٹلوں میں دو دو، تین تین کھانوں سے زیادہ کھانے نہیں ملتے اور ان کے لئے یہ امر بڑی تکلیف کا موجب ہے.لیکن ہمیں خدا تعالیٰ کے فضل سے تحریک جدید کے ماتحت، جو در حقیقت احیاء تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیم کا ، ایک کھانا کھانے میں ذرا بھی گھبراہٹ اور تکلیف محسوس نہیں ہوتی.کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک کھانا کھانے سے ہماری ضرورت پوری ہو جاتی ہے تعیش کے سامان ہم نے اپنے لئے پیدا ہی نہیں کئے کہ ان کے نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں تکلیف محسوس ہو.غرض اللہ تعالیٰ نے اس ذریعہ سے ہمارے لئے ایسی آسانی پیدا کر دی ہے کہ جو بات ان کے لئے تکلیف کا موجب ہے، وہ ہمارے نزدیک نہ صرف تکلیف کا موجب نہیں بلکہ ہم اسے بھی تعیش قرار دیتے ہیں.آج کل اخبارات میں بڑے بڑے لوگوں کی دعوتوں کا ذکر چھپتا ہے اور لکھا ہوتا ہے کہ یہ دعوت اتنی سادہ تھی، اتنی سادہ تھی کہ حد ہوگئی.صرف شور ہا تھا، پنیر تھا، کچھ کباب تھے اور کچھ سیلڈ تھا.اس طرح وہ تین چار کھانے گن دیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ سادگی کی حد ہوگئی.فلاں بادشاہ یا فلاں پریذیڈنٹ کے ہاں دعوت ہوئی اور اس دعوت میں صرف تین چار کھانے تیار ہوئے.حالانکہ اگر ہم اسلامی طریق پر چلیں تو اتنے کھانے ہمارے نزدیک زمانہ امن کی بڑی بھاری دعوتوں میں سے ہونے چاہئیں.روزانہ استعمال کے لئے اتنا ہی کافی ہوتا ہے کہ دال روٹی یا سالن روٹی یا دال یا سالن کے ساتھ چاول ہوں اور وہ کھانے کے لئے مل جائیں.بلکہ ہمارے ملک میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو اس سے بھی محروم رہتے ہیں، انہیں نہ دال میسر آتی ہے نہ گوشت ، وہ صرف اچار سے روٹی کھا لیتے ہیں یا کسی کے ساتھ روٹی کھا لیتے ہیں.چنانچہ جن جن علاقوں میں اسلامی تمدن زیادہ عرصہ تک جاری رہا ہے، وہاں یہی پرانا طریق اب تک جاری ہے.سندھ میں چونکہ ایک لمبے عرصے تک اسلامی حکومت رہی ہے، اس لئے وہاں اب تک یہ دستور ہے کہ غربا السی کے ساتھ باجرے کی روٹی کھا لیتے ہیں اور امراء دودھ کے ساتھ باجرے کی روٹی کھا لیتے ہیں“.وو.اس کی وجہ یہی ہے کہ سندھ میں دیر تک اسلامی حکومت رہی ہے اور چونکہ سندھ ایک اسلامی ملک تھا، اس لئے کھانے پینے کے معاملہ میں مسلمان اس قدر اسراف سے کام نہیں لیتے تھے، جس قدر اسراف سے وہ لوگ کام لیا کرتے تھے، جو غیر ممالک میں تھے.یہی وجہ ہے کہ وہاں کے لوگ بڑے مہمان نواز ہیں اور ان میں مہمان نوازی کی عادت بہت حد تک پائی جاتی ہے اور یہ صرف سندھ پر ہی منحصر نہیں.جس جس ملک میں مسلمان زیادہ ہیں ، وہاں مہمان نوازی کی عادت لوگوں میں پائی جاتی ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اسراف نہیں کرتے.مہمان گھر پر آجائے تو انہیں ذرا بھی گھبراہٹ محسوس نہیں ہوگی 240
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 30 اپریل 1943ء اور جو کچھ گھر میں پکا ہو وہ اس کے سامنے لا کر رکھ دیتے ہیں.ہمارے ملک میں غیر مذاہب کے اثر کے نیچے مہمان نوازی کا جذبہ بہت کم ہو گیا ہے اور ہر شخص خواہ اسے کتنی بڑی تنخواہ ملتی ہو، یہ سمجھتا ہے کہ میرا گزارہ اس تنخواہ میں نہیں ہوسکتا.کسی کو اگر ہزار روپیہ تنخواہ ملتی ہے تو وہ فورا حساب لگا لیتا ہے کہ ڈیڑھ سو روپیہ کوٹھی پر خرچ آئے گا.ڈیڑھ دو سوملازموں کی تنخواہوں پر صرف ہو جائے گا.پھر اپنا دھوبی رکھنا پڑے گا ، جو کپڑے دھوئے گا.اپنا نائی رکھنا پڑے گا، جو روزانہ ڈاڑھی مونڈے گا.پھر اتنا روپیہ بیوی کے عطروں اور پوڈروں اور فیتوں پر خرچ آئے گا اور اس قدر روپیہ فرنیچر پر صرف ہو گا.غرض اسی طرح وہ حساب لگا تا چلا جاتا ہے اور آخر میں اسے معلوم ہوتا ہے کہ آمد تو ہزار روپیہ ہے مگر میرا خرچ گیارہ بارہ سو روپیہ ہے یا آمد پانچ سو روپیہ ہے تو خرچ سات سو روپیہ ہے.نتیجہ یہ ہوتا کہ اس کے ہاں جب کوئی مہمان آجاتا ہے، اسے دیکھتے ہی اس کی جان نکل جاتی ہے کہ میں تو آگے ہی مقروض ہوں، اسے کھانا کہاں سے کھلاؤں ؟ اسی وجہ سے F خصوصاً شہر بہت ہی بدنام ہیں.لاہور کے متعلق تو عام لطیفہ مشہور ہے کہ جب کسی کے ہاں مہمان آتا ہے تو وہ پہلے اس سے یہ دریافت کرتا ہے کہ آپ کس گاڑی سے واپس جائیں گے؟ اور جب ریل کا وقت قریب آتا ہے تو میزبان کھانا لانے میں عمد اوبیر کر دیتا ہے اور جب بہت ہی تھوڑا وقت رہ جاتا ہے تو وہ آکر کہتا ہے کہ صاحب کھانا بھی تیار ہے اور ریل بھی تیار ہے.مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ ریل کا وقت سن کر کھانا کہاں کھائے گا.یہی کہے گا کہ اگر ریل کا وقت ہو گیا ہے تو پھر میں کھانا نہیں کھاتا، ایسانہ ہو میں رہ جاؤں.غرض لاہور کے متعلق یہ لطیفہ عام طور پر مشہور ہے مگر اس سے مراد لاہور کے اصلی باشندے ہیں، باہر سے آنے جانے والے جو وہاں ٹھہرتے ہیں، ان میں کچھ مدت تک مہمان نوازی کی عادت قائم رہتی ہے.ایسے موقعوں پر بعض لوگ ڈھیٹ بن کر کہہ دیا کرتے ہیں کہ بہت اچھا آپ کھانا لے آئیں، ہم کسی اور گاڑی پر روانہ ہو جائیں گے.یہ سن کر وہ اس کھانے کے انتظام کے لئے دوڑتے ہیں.کیونکہ در حقیقت انہوں نے پہلے کھانا تیار نہیں کیا ہوتا.گو اس لطیفہ میں مبالغہ ہوگا اور یقینا ہے.کیونکہ کسی ملک یا کسی شہر کے تمام افراد کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ جذ بہ مہمان نوازی سے عاری ہیں.مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شہریوں نے اپنی ضرورتیں اتنی بڑھالی ہیں، اتنی بڑھالی ہیں کہ نیک کاموں میں خرچ کرنے کے لئے انہیں اپنی تنخواہوں میں گنجائش ہی نظر نہیں آتی.مگر جن لوگوں نے تحریک جدید کے مطالبات پر عمل کیا ہے، انہیں جنگ کے باوجود خدا تعالیٰ کے فضل سے کوئی تکلیف نہیں.میں لوگوں سے کئی دفعہ سنتا ہوں کہ سونا اب سور و پیر تولہ ہو گیا ہے، اب ہم زیورات کسی طرح بنوا سکیں؟ مگر میں نے آج تک کسی احمدی کو اس رنگ میں افسوس کا اظہار کرتے نہیں 241
اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 30 اپریل 1943ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم دیکھا.وہ اس بات پر تو افسوس کا اظہار کر دیتے ہیں کہ جب سونا ساٹھ روپیہ تو لہ تھا، اس وقت ہم نے فلاں زیور کیوں فروخت کیا ؟ اب فروخت کرتے تو زیادہ رو پیدل جاتا.مگر میں نے کسی احمدی کے منہ سے یہ نہیں سنا کہ اب سونا سخت مہنگا ہو گیا ہے، نئے زیورات کس طرح بنوائیں؟ می اسی لئے ہے کہ تحریک جدید کے تحت ہماری جماعت کے قلوب سے اسراف کی عادت خدا تعالیٰ کے فضل سے نکل گئی ہے.مگر آج جس مضمون کی طرف میں خصوصیت کے ساتھ توجہ دلانا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ پہلے تو جماعت نے اس تحریک کو محض میری اطاعت کے طور پر مانا تھا مگر اب میں چاہتا ہوں کہ دوست اس بات کو دیکھیں کہ کس طرح خدا نے تحریک جدید کے زمانہ میں ہی ایسے حالات پیدا کر دیئے ہیں، جن کے نتیجہ میں لوگ اس بات پر مجبور ہورہے ہیں کہ اپنے حالات زندگی میں تغیر پیدا کریں اور کھانے اور پینے کی چیزوں میں کمی کریں؟ پس انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ دنیا میں اس قسم کے زمانے بھی آتے رہتے ہیں، اس لئے انہیں نہ عارضی طور پر بلکہ مستقل طور پر اپنی عادتوں میں ایسا تغیر پیدا کرنا چاہئے اور اپنے حالات زندگی میں ایسی سادگی اختیار کرنی چاہئے کہ زمانہ کا رنگ کیسا ہی بدل جائے ، انہیں کوئی دکھ اور تکلیف محسوس نہ ہو.میں نے بتایا ہے کہ جن حالات میں ہم روزانہ اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں اور ہمیں ذرہ بھی تکلیف محسوس نہیں ہوتی ، وہ یورپین لوگوں کے لئے شدید مشکلات کا باعث بنے ہوئے ہیں.بلکہ آج کل بھی جن حالات میں سے وہ گذر رہے ہیں، وہ ہمارے نزدیک تعیش کے سامان اپنے اندر رکھتے ہیں.پس دنیا کے حوادث ایک سچے مومن کے لئے کسی تکلیف کا موجب نہیں ہو سکتے.آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بڑھ کر دنیا میں اور کون ہے، جو اس بات کا مستحق ہو سکتا ہے کہ ایسے آرام اور راحت پہنچے؟ اگر کوئی چیز فائدہ کا موجب ہوسکتی ہے، اگر کوئی چیز ہماری زندگی کے لئے ضروری سمجھی جاسکتی ہے، اگر کوئی چیز ایسی ہے، جس سے ہم راحت اور آرام محسوس کر سکتے ہیں تو ہر مومن جس کے دل میں ایک ذرہ بھر بھی ایمان ہو، وہ ہر راحت اور آرام کی چیز کو استعمال کرتے وقت اس امر کی خواہش کرے گا کہ کاش اسے اس امر کی توفیق ہوتی کہ وہ اس راحت اور آرام کی چیز کو رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ذات کے لئے مہیا کر سکتا.ہم دیکھتے ہیں، جن لوگوں کے دل میں کچی محبت تھی ، انہوں نے عملی طور پر اس کا ثبوت دے دیا.حضرت عائشہ کے متعلق تاریخ میں آتا ہے کہ جس وقت سب سے پہلے ہوائی چکیاں آئیں اور مدینہ میں ان چکیوں کے ذریعہ میدہ کی طرح نہایت باریک آٹا تیار ہونے لگا تو حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ 242
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 30 اپریل 1943ء سب سے پہلا آنا حضرت عائشہ کی خدمت میں بھیجا جائے تاکہ سب سے پہلے وہ اس آئے کو استعمال کریں، پھر کسی اور کو استعمال کرنے کے لئے دیا جائے.وہ میدے کی طرز کا بار یک آنا حضرت عائشہ کی خدمت میں تحفہ بھیجا گیا اور عرض کیا گیا کہ سب سے پہلے آپ اس کی روٹی پکا کر کھائیں ، اس کے بعد اور لوگوں کو کھانے کی اجازت دی جائے گی.حضرت عائشہ نے آٹا پکوایا اور اس کی روٹی کھانے لگیں.اردگرد کی عورتیں یہ سن کر کہ ایک نئی قسم کا آٹا آیا ہے اور وہ نہایت ہی باریک ہے، حضرت عائشہ کے گھر میں جمع ہو گئیں.ہم اس بات کو اچھی طرح نہیں سمجھ سکتے کہ عورتیں کیوں جمع ہوئیں؟ کیونکہ ہم مدتوں سے باریک آٹا استعمال کرتے چلے آرہے ہیں اور ہمارے لئے اس میں کوئی حیرت اور تعجب کی بات نہیں رہی.مگر شروع شروع میں گاؤں کے لوگ بھی بڑے حیران ہوئے تھے اور جب مشینوں سے آٹا پس کر جاتا تو وہ ارد گرد سے اس کو دیکھنے کے لئے اکھٹے ہو جاتے تھے.اسی طرح کا ایک مجمع حضرت عائشہ کے گھر میں جمع ہو گیا اور محلہ کی سب عورتیں اکٹھی ہو گئیں.وہ پھلکوں کو ہاتھ لگا تیں اور کہتیں واہ واہ کیسے نرم پھلکے ہیں ؟ آخر وہ خادمہ جس نے پھلکے پکائے تھے، اس نے ایک دو پھلکے حضرت عائشہ کے سامنے رکھ دیئے اور حضرت عائشہ نے ایک لقمہ لیا اور منہ میں ڈالا.مگر منہ میں لقمہ ڈالتے ہی آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے.خادمہ کو شبہ ہوا کہ کہیں روٹی میں کوئی نقص نہ رہ گیا ہو، وہ کہنے لگی، بی بی روٹی تو بڑی نرم ہے اور بغیر سالن کے آپ ہی گلے سے اترتی جاتی ہے مگر آپ کی حالت سے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ لقمہ آپ کے گلے میں پھنس گیا ہے.کیا روٹی میں کوئی نقص تو نہیں رہ گیا ؟ حضرت عائشہ نے فرمایا تمہارا اس میں کوئی قصور نہیں، روٹی بڑی نرم ہے.مگر یہ واقعی میرے گلے میں پھنس گئی ہے.کیونکہ منہ میں روٹی کا لقمہ ڈالتے ہی مجھے خیال آیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ میں چکیاں نہیں ہوا کرتی تھیں اور ہم بعض دفعہ پتھر پر پتھر رکھ کر گیہوں نہیں لیتے اور بسا اوقات رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے میں ایسے ہی موٹے اور بے چھنے آٹے کی روٹی رکھا کرتی تھی.آج اس روٹی کا نرم نرم لقمہ مرے منہ میں جاتے ہی مجھے خیال آیا کہ اگر یہ چکیاں اس وقت ہوتیں تو میں اس آٹے کی روٹی پکا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کھلایا کرتی.یہی خیال ہے جس کے آنے سے میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور یہ لقمہ میرے گلے میں پھنس گیا.اب دیکھ لو یہ بچے عشق کا نتیجہ ہے.روٹی کی نرمی میں کوئی شبہ نہیں، آٹے کے اچھے ہونے میں کوئی شبہ نہیں.مگر جب اس نعمت کے استعمال کا وقت آیا تو جو محبوب ترین وجود تھا، اس کی طرف خیال چلا گیا کہ کاش یہ نعمت ہم اس کے سامنے رکھ سکتے.243
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمود و 30 اپریل 1943ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم میں نے کئی دفعہ اس زمانہ کے عاشق کا قصہ بھی سنایا ہے.منشی اروڑے صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عشاق میں سے تھے.ان کی عادت تھی کہ وہ کوشش کرتے کہ ہر جمعہ یا اتوار کو قادیان پہنچ جایا کریں.چنانچہ انہیں جب بھی چھٹی ملتی ، یہاں آجاتے اور کوشش کرتے ، اپنے سفر کا ایک حصہ پیدل طے کریں تا کہ کچھ رقم بچ جائے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں پیش کر سکیں.ان کی تنخواہ اس وقت بہت تھوڑی تھی غالباً پندرہ بیس روپے تھی اور اس میں نہ صرف وہ گزارہ کرتے بلکہ سفر کا خرچ بھی نکالتے اور حضرت مسیح موعود کی خدمت میں بھی نذرانہ پیش کرتے.میں نے ان کا ہمیشہ ایک ہی کوٹ دیکھا ہے.دوسرا کوٹ پہنتے ہوئے میں نے ان کو ساری عمر نہیں دیکھا.انہوں نے تہہ بند باندھا ہوا ہوتا تھا اور معمولی سا کرتا ہوتا تھا.ان کی بڑی خواہش یہ ہوتی تھی کہ وہ آہستہ آہستہ کچھ رقم جمع کرتے رہیں اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں نذرانہ عقیدت کے طور پر پیش کر دیں.رفتہ رفتہ وہ اپنی دیانت سے ترقی کرتے گئے اور تحصیلدار ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے کچھ مہینوں یا ایک سال کے بعد وہ قادیان میں آئے اور مجھے اندر کسی نے آکر کہا کہ منشی اروڑے صاحب دروازے پر آپ کو ملنے کے لئے آئے ہیں.میں باہر آیا.انہوں نے جلدی سے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور جیب میں سے ( مجھے اچھی طرح یاد نہیں) تین یا چار پونڈ سونے کے نکالے اور نکال کر میرے سامنے کئے.جو نہی انہوں نے پونڈ دینے کے لئے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا.ان پر اتنی رقت طاری ہوئی کہ وہ چیخیں مار کر رونے لگ گئے اور انہوں نے اس طرح تڑپنا شروع کر دیا، جس طرح ذبح کیا ہوا بکر اتر پتا ہے.میری عمر اس وقت چھوٹی تھی.انیس سال عمر تھی.میں انہیں اس حالت میں دیکھ کر گھبرا گیا کہ نہ معلوم انہیں کیا ہو گیا ہے؟ مگر میں چپکا کھڑا رہا اور وہ روتے رہے، روتے رہے اور روتے رہے.کئی منٹ کے رونے کے بعد جب وہ اپنے نفس پر قابو کر سکے یعنی اتنا قابو کہ ان کے گلے میں سے آواز نکل سکے تو نہایت ہی کرب اور اندوہ سے انہوں نے مجھے کہا کہ میری بدقسمتی دیکھو کہ ساری عمر مرے دل میں یہ خواہش رہی کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے سونا تحفہ کے طور پر پیش کروں مگر اس کی توفیق نہ ملی.مگر اب جو میں سونا پیش کرنے کے قابل ہوا تو وہ اس دنیا میں نہیں ہیں.یہ کہہ کر ان پر پھر وہی حالت طاری ہو گئی اور ذبح کئے ہوئے بکرے کی طرح تڑپنے لگے اور میں جو اب ان کے جذبات سے واقف ہو چکا تھا، اپنے جذبات کو بصد مشکل دبا کر ان کے سامنے کھڑا رہا.تو اگر واقعہ میں دنیا کی یہ عمتیں، کوئی نعمتیں ہیں اور اگر واقعہ میں ان سے ہمیں کوئی حقیقی آرام پہنچ سکتا ہے تو ایک مومن کا دل ان کو استعمال کرتے وقت ضرور دیکھتا ہے.اگر یہ نعمتیں ہیں تو پھر اس قابل تھیں 244
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 30 اپریل 1943ء کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کومتیں اور پھر آپ کے بعد آپ کے ظل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ملتیں.میں چھوٹا ہی تھا کہ حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں مجھے شکار کا شوق پیدا ہو گیا.ایک ہوائی بندوق میرے پاس تھی، جس سے میں شکار مار کر گھر لایا کرتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام چونکہ کھانا کم کھایا کرتے تھے اور آپ کو دماغی کام زیادہ کرنا پڑتا تھا اور میں نے خود آپ سے یا کسی اور طبیب سے سنا ہوا تھا کہ شکار کا گوشت دماغی کام کرنے والوں کے لئے مفید ہوتا ہے.اس لئے میں ہمیشہ شکار آپ کی خدمت میں پیش کر دیا کرتا تھا.مجھے یاد ہی نہیں کہ اس زمانہ میں، میں نے خود کبھی شکار کا گوشت اپنے لئے پکوایا ہو.ہمیشہ میں شکار مار کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دے دیا کرتا تھا.تو جب انسان کو اپنے محبوب سے محبت کامل ہوتی ہے تو پھر یا تو وہ کسی چیز کو راحت ہی نہیں سمجھتا اور یا اگر راحت سمجھتا ہے تو کہتا ہے، یہ اس کے محبوب کا حق ہے.اللہ تعالیٰ نے مجھ پر قرآنی علوم کے بڑے بڑے معارف اپنے فضل سے کھولے ہیں.مگر بیسیوں مواقع مجھ پر ایسے آئے ہیں جبکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی نکتہ مجھ پر کھولا گیا تو میرے دل میں اس وقت بڑی تمنا اور آرزو پیدا ہوئی کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام يا حضرت خليفة المسيح اول کے زمانہ میں یہ نکتہ مجھ پر کھلتا تو میں ان کے سامنے پیش کرتا اور مجھے ان کی خوشنودی حاصل ہوتی.اصل مقام تو حضرت مسیح موعود کا ہی ہے.حضرت خلیفہ اول کا خیال مجھے اس لئے آیا کرتا ہے کہ انہوں نے مجھے قرآن شریف پڑھایا اور انہیں مجھ سے بے حد محبت تھی اور ان کی یہ خواہش ہوا کرتی تھی کہ میں قرآن پر غور کروں اور اس کے مطالب نکالوں.تو یہ چیزیں جو ہمارے لئے حقیقی راحت کا موجب نہیں ہو سکتیں بلکہ اگر ہمارے عشق وابستہ ہیں، بعض ایسی ہستیوں سے جواب دنیا میں موجود نہیں ہیں.تو یہ نعمتیں بجائے راحت کے ہمارے لئے تکلیف کا موجب ہو جاتی ہیں.جب بھی جلسہ ہوتا ہے اور لوگ دور دور سے جمع ہوتے ہیں، میرے قلب پر اس وقت رقت طاری ہو جاتی ہے.اس خیال سے کہ سلسلہ کی یہ عظمت اور یہ شان اور اس کی یہ ترقی ہم لوگ جن کا اس ترقی میں کوئی بھی ہاتھ نہیں، وہ تو دیکھ رہے ہیں.مگر وہ شخص جس کے ذریعہ سے سب کام ہوا اور جس نے اس کی خاطر سب دنیا سے تکلیفیں سہیں ، وہ انہیں نہیں دیکھ رہا.تو سچی بات یہ ہے کہ محبت اور عشق کے ہوتے ہوئے یہ چیزیں کہیں تعیش کا سامان ہیں، کہیں دینوی سامانوں کی بہتات ہے.انسان کے لئے راحت کا موجب نہیں ہوسکتیں اور اس وجہ سے ان کا 245
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 30 اپریل 1943ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم چھوڑنا بھی انسان کے لئے زیادہ تکلیف کا موجب نہیں ہو سکتا.پس اگر ہم ان چیزوں کو چھوڑ دیں تو و ہمارے لئے ان کا چھوڑ نا ذرہ بھی تکلیف کا موجب نہیں ہوسکتا.لیکن اگر ہم ان کو چھوڑ دیں تو دنیا کے لئے جنت کی کیفیت پیدا کرنے میں محمد ہو سکتے ہیں.آخر یہ غربتیں اور تکلیفیں اسی وجہ سے ہیں کہ کچھ لوگ زیادہ عیاشی میں مبتلاء ہوتے ہیں اور وہ کروڑوں من غلہ اور کروڑوں من انگور شرابوں کے بنانے میں صرف کر دیتے ہیں.اگر وہ لوگ بھی پانی پر کفایت کرتے تو کروڑوں من غلہ اور انگور لوگوں کے پیٹوں میں جاتا.اور اس طرح ان کو مقوی غذا بھی ملتی ، ان کے دل کو بھی طاقت حاصل ہوتی اور ان کے دماغ کو بھی تروتازگی حاصل ہوتی.مگر انہوں نے ایک ایسی ضرورت پیدا کر لی ہے، جو حقیقی ضرورت نہیں اور اس کی وجہ سے وہ دنیا کے معتد بہ حصہ کو غلہ سے اور پھلوں سے محروم کر رہے ہیں.ورنہ وہی غلہ اور وہی پھل کروڑوں لوگوں کی صحت اور ان کی راحت کا موجب ہوتا.یہی حال باقی اشیاء کا ہے.جتنا جتنا انسان زیادہ تکلفات اختیار کرتا ہے، اتنا اتنا خود اس کی زندگی قربانی سے محروم ہوتی جاتی ہے اور دوسرے انسانوں کو بلا وجہ اس کے لئے قربانی کرنی پڑتی ہے.اس میں کیا شبہ ہے کہ جس کے پاس روپیہ زیادہ ہوتا ہے، وہ اپنے روپے کے زور سے دوسروں کا حق چھینے کی کوشش کیا کرتا ہے؟ مثلاً گندم اور چاول ہیں.یہ عام ملنے والی چیزیں ہیں.لیکن اگر کوئی شخص ایک سیر گندم کو چھٹانک نشاستہ کی شکل میں تبدیل کر دیتا اور وہ نشاستہ اپنے استعمال میں لاتا ہے یا کسی اور طرز پر اس کمیت کو کم کر دیتا ہے تو دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس نے پندرہ چھٹا نک غلہ سے دنیا کومحروم کر دیا.اسی طرح وہ شخص جس نے ایک سیر جو کی شراب بنا کر ایک گلاس پی لیا ، اس نے ایک آدمی کو صبح اور شام کے کھانے سے محروم کر دیا.پس تحریک جدید در حقیقت اسلام کے احیاء کا نام ہے.جدید ، وہ صرف ان معنوں میں ہے کہ دنیا اس سے ناواقف ہو گئی تھی.ورنہ در حقیقت وہ تحریک قدیم ہی ہے.میں ایک دفعہ ایک دعوت میں شامل ہوا، جو ایک انگریز افسر کے اعزاز میں دی گئی تھی.میں عموماً ایسی دعوتوں میں نہیں جایا کرتا.مگر لوگوں نے مجھے مجبور کیا کہ میں اس دعوت میں ضرور شریک ہوں.میں نے کہا میں نہیں جاتا عموماً ایسی دعوتوں میں عورتیں بھی شامل ہوتی ہیں اور انگریز عورتیں مصافحہ کرنے کی کوشش کیا کرتی ہیں اور میں چونکہ اسلامی تعلیم کے ماتحت عورتوں سے مصافحہ کرنا، ناجائز سمجھتا ہوں، اس لئے انہیں تکلیف محسوس ہوتی ہے.اور وہ اس بات میں اپنی پتک محسوس کرتی ہیں.مگر لوگوں نے کہا کہ آپ ضرور چلیں، ہم آپ کو الگ بٹھا دیں گے.خیر میں چلا گیا.یہ دعوت ایک جرنیل کی تھی.جب اس جرنیل کو معلوم ہوا کہ میں بھی وہاں آیا ہوا ہوں تو وہ 246
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 30 اپریل 1943ء تحریک جدید- ایک الی تحریک...جلد دوم بڑے شوق سے مجھے ملنے کے لئے آیا اور اپنے ساتھ اپنی بیوی بھی لے آیا.آتے ہی اس کی عورت نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا اور میں نے اپنا ہاتھ پیچھے پیچ لیا.اس سے طبعی طور پر اسے تکلیف ہوئی کیونکہ انگریز عورتیں اسے اپنی بڑی بہتک سمجھتی ہیں.اس کے خاوند کو بھی تکلیف ہوئی اور اس نے مجھے کہا کہ میں تو آپ کی جماعت کے متعلق یہ سمجھتا تھا کہ یہ ایک نئی تحریک ہے، اسی لئے میں اپنی بیوی کو بھی اپنے ساتھ لایا تھا.میں نے کہا کہ یہ آپ کی غلطی ہے یا ہماری غلطی ہے کہ ہم آپ کو صحیح طور پر سمجھا نہیں سکے.ہماری تحریک تو در حقیقت پرانی ہے اور ہم تعلیم کے لحاظ سے تیرہ سو سال پیچھے جاتے ہیں.تو تحریک جدید اس کا نام صرف اس لئے ہے کہ دنیا اس سے نا واقف ہو چکی تھی اور یہ ہماری بد قسمتی تھی کہ ہمیں ایک پرانی چیز کونئی کہنا پڑا.کیونکہ لوگ اس سے ناواقف ہو چکے تھے.اور وہ جدید نہیں بلکہ قدیم ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے جس طرز پر زندگی بسر کی، ہم تحریک جدید کے ذریعہ اس کے قریب قریب لوگوں کو لانے کی کوشش کرتے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آج کل دنیا کے حالات ایسے رنگ میں بدل چکے ہیں کہ ہم اپنی طرز زندگی کی بالکل وہی شکل نہیں بنا سکتے ، جو رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے طرز زندگی کی شکل تھی.مگر اس کے قریب قریب جس حد تک زمانہ کے حالات ہم کو اجازت دیتے ہیں، ہم لوگوں کو لیجانے کی کوشش کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے اور یہی تحریک جدید کی غرض ہے.پس ان ایام میں جبکہ خدا تعالیٰ نے جبر آساری دنیا میں تحریک جدید کو جاری کر دیا ہے.میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ حالات جو رونما ہورہے ہیں.ان کو دیکھو، غور کرو اور سمجھو کہ اسلام کی تعلیم کس قدر رحمت کا موجب ہے؟ اگر ہمیشہ ہم اپنی زندگی رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے احکام کے مطابق سادہ رکھیں تو اس قسم کے حوادث ہمیں ذرہ بھی تکلیف نہ پہنچا سکیں.آج یورپ اور امریکہ کے لوگ چلا چلا کر کہہ رہے ہیں کہ ہم مر گئے.مگر وہ جو اپنے متعلق یہ سمجھتے ہیں کہ وہ مر گئے ، ہم پہلے بھی ان سے کم کھا رہے تھے.مگر باوجود اس کے ہمیں کوئی تکلیف نہ تھی اور آج بھی ان سے کم کھا رہے ہیں اور ہمیں کوئی تکلیف نہیں.پس اگر ایسے واقعات ہم پر آجائیں تو ہمارے لئے کیا تکلیف کا موجب ہو سکتے ہیں؟ حضرت مسیح موعودؓ فرمایا کرتے تھے کہ کوئی اندھا تھا، جو رات کے وقت کسی دوسرے سے باتیں کر رہا تھا.ایک اور شخص کی نیند خراب ہو رہی تھی.وہ کہنے لگا حافظ جی سو جاؤ.حافظ صاحب کہنے لگے ، ہمارا سونا کیا ہے؟ چپ ہی ہو جانا ہے.مطلب یہ کہ سونا آنکھیں بند کرنے اور خاموش ہو جانے کا نام ہوتا ہے.میری آنکھیں تو پہلے 247
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 30 اپریل 1943ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم ہی بند ہیں ، اب خاموش ہی ہو جاتا ہے.اور کیا ہے؟ تو مومن کے لئے یہ حالات تکلیف کا موجب نہیں ہو سکتے.کیونکہ وہ کہتا ہے کہ میں تو پہلے ہی ان حالات کا عادی ہوں جیسے مومن کو دنیا مارنا چاہتی ہے تو وہ کہتا ہے، مجھے مار کر کیا لو گے؟ میں تو پہلے ہی خدا کے لئے مرا ہوا ہوں.دنیا موت سے گھبراتی ہے مگر ایک مومن کو جب دنیا مارنا چاہتی ہے تو وہ کچھ بھی نہیں گھبراتا.اور کہتا ہے کہ میں تو اسی دن مر گیا تھا ، جس دن میں نے اسلام قبول کیا تھا.فرق صرف یہ ہے کہ آگے میں چلتا پھر تا مردہ تھا اور اب تم مجھے زمین میں دفن کر دو گے.میرے لئے کوئی زیادہ فرق پیدا نہیں ہوگا.پس اگر لوگ اسلام کے احکام کے ماتحت اپنی زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں تو وہ یقینا اس قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے پہلے سے تیار رہیں.اول تو تکلیفیں آتیں ہی نہیں.کیونکہ تکلیفیں اسی لئے آتی ہیں کہ لوگ دوسروں کا حق غصب کر لیتے ہیں.اگر دنیا میں کوئی شخص دوسرے کا حق غصب نہ کرے تو اس قسم کی تکلیفیں کبھی نہ آئیں.پس اول تو ایسے حالات میں تکالیف آئیں ہی نہ اور اگر آجائیں تو سادہ زندگی کی وجہ سے لوگ اس بات کے عادی ہوں گے کہ تکالیف کو برداشت کر سکیں اور اس وجہ سے باوجود تکلیف دہ ایام کے ان کو تکلیف کا کوئی احساس نہ ہوگا.جیسے آج کل ہم دیکھ رہے ہیں کہ یورپ کے لوگوں کے نزدیک جو مشکلات ہیں، وہ ہمارے لئے روز مرہ زندگی کا مشغلہ ہیں اور جن کو وہ آفتیں اور مصیبتیں خیال کرتے ہیں، وہ ہمارے نزدیک راحت اور آرام ہیں.اس لئے ان تکلیفوں کا ہمیں پتہ تک نہیں لگتا.آخر لوگ آج کل کیا کہہ رہے ہیں؟ یہی کہہ رہے ہیں کہ بڑی مصیبت آگئی، پہنے کے لئے اچھے کپڑے نہیں ملتے.مگر ایک مومن کے لئے یہ چیز ذرہ بھی پریشانی کا باعث نہیں ہوسکتی.تھوڑے ہی دن ہوئے ، بعض نے مجھ سے کہا کہ اب کپڑوں کا ملنا بھی مشکل ہورہا ہے.میں نے کہا پھر کیا ہوا؟ مومن کی تو یہ حالت ہوتی ہے کہ اگر کپڑ مل جائے تو وہ پہن لیتا ہے، نہ ملے تو نہ سہی.پرانے کپڑوں سے ہی پیوند لگا کر گزارہ کر لیتا ہے.پھر میں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے کپڑوں کو پیوند لگے ہوا کرتے تھے.کیا ہم ان سے بڑے ہیں کہ اپنے کپڑوں پر پیوند نہ لگا سکیں ؟ بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایسے لوگ بھی تھے، جن کے پاس کپڑے بہت کم ہوا کرتے تھے قمیض ہوتی تھی تو پاجامہ نہیں ہوتا تھا، پاجامہ ہوتا تھا تو قمیض نہیں ہوتی تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ میں ایک لڑکا تھا، جس نے قرآن کریم کا بہت سا حصہ حفظ کیا ہوا تھا.ایک دفعہ بعض لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ فلاں جگہ پر نماز پڑھانے کے لئے امام کی 248
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 30 اپریل 1943ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم ضرورت ہے؟ آپ نے اس لڑکے کو ہی امام مقرر کر دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ میں انگلیا صفوں پر مرد ہوا کرتے تھے اور پچھلی صفوں پر عورتیں ہوا کرتی تھیں.ایک دفعہ اس نے جماعت کراتے ہوئے سجدہ سے سر اٹھاتے وقت اللہ اکبر کہا تو ایک عورت نے اپنا سر پہلے اٹھا لیا.اس لڑکے کا کرتا چھوٹا تھا اور پاجامہ کوئی تھا نہیں.اس عورت کی اتفاقاً نظر جاپڑی اور اس نے دیکھا کہ وہ نگا ہو رہا ہے.شروع شروع کا زمانہ تھا، اس نے شور مچانا شروع کر دیا کہ ارے لوگو اپنے امام کا ستر تو ڈھانکو.آخر لوگوں نے چندہ کر کے اس کو تہبند بنوا کر دیا.اب کیا تم سمجھتے ہو کہ اس لڑکے کی عزت تہبند نہ ہونے کی وجہ سے کم تھی ؟ آج جو دنیا میں بڑے بڑے مالدار اور معزز لوگ دکھائی دیتے ہیں، ان سے یقیناً اس لڑکے کی عزت زیادہ تھی.بلکہ خدا کے نزدیک وہ ہر ایسے مالدار سے جو تقویٰ میں اس سے کم درجہ پر تھا، زیادہ معزز تھا.ہم کسی بڑے سے بڑے مالدار کو رضی اللہ عنہ نہیں کہتے بلکہ اگر کوئی ہمیں رضی اللہ عنہ کہنے پر مجبور بھی کرے تو ہم نہیں کہیں گے.مگر اس لڑکے کے نام پر ہم سب رضی اللہ عنہ کہنے پر مجبور ہیں.اگر آج کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کو کوئی گالی دے تو ایک مومن کا دل نہیں رکھتا لیکن اگر اس لڑکے کو کوئی شخص گالی دے تو ایک مومن کا دل زخمی ہو جاتا ہے.کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ لڑکا ہمارے محبوب آقا کا صحابی تھا.اس لئے ہمارے نزدیک دنیا کے کسی بادشاہ کی بھی وہ عزت نہیں ، جو اس لڑکے کی ہے.پس میں نے ان دوستوں کو جواب دیا کہ تم کپڑے نہ ملنے کا افسوس نہ کرو.صرف اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے رہو کہ ہمارے ملک میں غلہ کم نہ ہو.اگر غلہ لوگوں کو میسر آتا ر ہے تو اسلام جو زندگی پیش کرتا ہے، اس کے لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم پر کوئی آفت نہیں آتی.روٹی ایسی چیز ہے، جو انسان کی زندگی کے قیام کے لئے ضروری ہے، اس میں کمی نہ آئے تو کوئی تکلیف انسان کو نہیں ہوسکتی.باقی جس قدر چیزیں ہیں ، وہ سب زوائد ہیں ملیں یا نہ ملیں، کوئی بات نہیں.آج کل ولایت میں ایک کالی روٹی کہلاتی ہے، جس میں کچھ غلہ اور کچھ دوسری چیزیں ملی ہوئی ہوتی ہیں اور وہ بڑا شور مچاتے ہیں کہ ہمیں کھانے کے لئے کالی روٹی ملتی ہے.حالانکہ ہمارے ہاں لوگ باجرے کی خالص روٹی کھاتے ہیں اور انہیں ذرہ بھی احساس نہیں ہوتا کہ وہ کسی تکلیف میں مبتلاء ہیں.ان کے ہاں آئے میں اگر ذرہ سی بھی ملاوٹ ہو جائے تو شور مچادیتے ہیں کہ ہم پر آفت آگئی ہے، ہم مر گئے ہمیں کالی روٹی کھانے کے لئے مل رہی ہے.لیکن ہمارے ملک میں کروڑوں کروڑ لوگ ایسے ہیں، جو باجرہ اور جوار کھاتے ہیں بلکہ بعض علاقوں میں پھل کی روٹی کھائی جاتی ہے.میں نے خود نڈھل کی روٹی استعمال کی ہے، بڑی سخت ہوتی 249
اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 30 اپریل 1943ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم ہے.اس کا دانہ اتفاقاً پیدا ہو جاتا ہے اور قحط کے زمانہ میں لوگ اسے استعمال کیا کرتے ہیں.مگر ہمارے ہاں باجرہ یا جوار یا مڈھل کھا کر لوگ شور نہیں مچاتے کہ ان کے لئے کس قدر مصیبت کا سامان پیدا ہو گیا ہے.لیکن یورپ کے لوگوں کی یہ حالت ہے کہ وہ آج بھی ہم سے بہتر کھانے کھاتے ہیں مگر شور یہ مچار ہے ہیں کہ سخت مصیبت آگئی.یہ تکلیف ان کو اسی وجہ سے ہے کہ انہوں نے اسلام کی تعلیم پر عمل نہیں کیا.اگر وہ عمل کرتے تو اپنی روٹی کو زیادہ سے زیادہ سادہ بناتے ، اپنے لباس کو زیادہ سے زیادہ سادہ بناتے اور انہیں کسی قسم کی تکلیف محسوس نہ ہوتی.بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ لڑائی بھی نہ ہوتی.کیونکہ لڑائی اس لئے ہو رہی ہے کہ بعض قو میں دوسروں کا مال چھیننا چاہتی ہیں.پس تحریک جدید کی غرض کو سمجھو اور اپنی زندگیوں کو اور بھی سادہ بنانے کی کوشش کرو اور اس امر کو اچھی طرح سمجھ لو کہ تعیش کے سامان خواہ کس قدر کم ہوں، یقینی طور پر وہ امیر اور غریب میں دوری پیدا کر دیتے ہیں.ہمارے ہاں عام طور پر زیادہ قیمتی قالین استعمال نہیں کئے جاتے.امراء کے ہاں ہوتے ہیں لیکن ایسے امراء بہت تھوڑے ہوتے ہیں.عام طور پر لوگ فرش پر دریاں یا چادریں وغیرہ بچھا دیتے ہیں.لیکن باوجود اس کے ان کے ہاں قیمتی قالین نہیں ہوتے ، اگر گاؤں کی کوئی عورت آجائے اور وہ اس فرش پر بیٹھ جائے تو وہ برا مناتے ہیں کہ اس کے بیٹھنے کی وجہ سے ہمارا فرش میلا ہو گیا.اب دیکھو یہ ایک بعد ہے، جو اس معمولی سے سامان کی وجہ سے امیر اور غریب میں پیدا ہو گیا ہے.اگر یہ فرش نہ ہوتا تو اس غریب عورت کی تحقیر دل میں پیدا نہ ہوتی.پس ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہم اس بعد کو دنیا سے مٹادیں اور ایسے رنگ میں منائیں کہ جب کوئی غریب آدمی کسی امیر کے کمرے میں داخل ہو تو اس غریب کا وہاں آنا اس پر گراں نہ گزرے بلکہ اس کا دل خوش ہو کہ وہ اپنے ایک بھائی سے مل رہا ہے.لیکن اگر اس بعد کو دور ہی نہیں کیا جائے گا، اگر امیر اور غریب میں امیتاز قائم رہے گا تو جب تمہارے گھر میں پندرہ سو، دو ہزار یا تین ہزار کے قیمتی قالین بچھے ہوئے ہوں گے اور ایک غریب تم سے ملنے کے لئے آئے گا تو گو تم اسے تکلف سے کہہ دو گے کہ وہ قالین پر بیٹھ جائے.مگر اس کا دل اندر سے دھڑک رہا ہوگا کہ کہیں میرے بیٹھنے کی وجہ سے قالین میلا نہ ہو جائے اور یہ امیر دل میں ناراض نہ ہو جائے اور تم اپنے دل میں اس پر اور سب غرباء پر لعنتیں کر رہے ہو گے کہ یہ بد تہذیب ، اس امر کا بھی خیال نہیں کرتے کہ اپنے میلے کپڑوں اور میلے پاؤں ہمارے گھروں میں آداخل ہوتے ہیں اور خدا کے فرشتے یہ کہہ رہے ہوں گے کہ لعنت ہو ایسے قالینوں پر اور لعنت ہوان قالین والوں پر جو خدا کے بندوں میں دوئی ڈال رہے ہیں.250
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 30 اپریل 1943ء پس تعیش کے سامانوں کو مٹاؤ ، اپنی زندگیوں کو سادہ بناؤ اور اس امر کو سمجھ لو کہ سادہ زندگی دلوں میں محبت پیدا کرتی اور فسادوں اور لڑائیوں کو دنیا سے دور کرتی ہے.میں پھر کہتا ہوں ، اپنی زندگیوں کو سادہ بناؤ اور اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرو تا کہ دنیا تمہارے لئے بھی جنت بن جائے اور تمہارے دوسرے بھائیوں کے لئے بھی جنت بن جائے.اے میرے رب تو ہمیں اس کی توفیق دے“.( مطبوعه الفضل 23 مئی 1943 ء ) 251
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 10 میر پہلی قوموں سے اچھا نمونہ دکھانے کی کوشش کریں خطبہ جمعہ فرمودہ 10 ستمبر 1943ء........پس جماعت کی ذمہ داریاں بڑھ رہی ہیں.نوجوانوں کو چاہئے کہ اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے وقف کریں.تحریک جدید میں جنہوں نے حصہ لیا ہے، وہ اور بڑھ کر حصہ لیں.اس سال جن کے بقائے ہیں ، وہ ادا کریں.اب نیا سال آنے والا ہے اور وہ اس دور کا آخری سال ہے، اس کے لئے کیا ذمہ داریوں کے لحاظ سے اور کیا آخری منزل کے لحاظ سے، زیادہ زور لگا نا چاہئے.پھر نہ معلوم نئی تحریک کسی قسم کی ہوگی ؟ بہر حال اسے تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، وہ آپ بہتر سمجھا دے گا.مگر ہمیں ابھی سے کیا مالی لحاظ سے اور کیا وقتی لحاظ سے تیاری شروع کر دینی چاہئے.نوجوانوں میں دین کا شوق پیدا کیا جائے اور پہلے سے تیاری کر لیں تا کہ جب سلسلہ کے پھیلانے کے دن آئیں، یہ تیاری ہمارے کام آسکے اور جس جس قربانی کی بھی اشاعت اسلام کے لئے ضرورت ہو، ہم اس سے دریغ نہ کریں اور ہم پہلی قوموں سے اچھا نمونہ دکھانے کی کوشش کریں“.مطبوعه الفضل 31 اکتوبر 1943 ء ) 253
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبه جمعه فرموده یکم اکتوبر 3 وقف کے لئے نام پیش کرنے والے قیامت تک وقف ہیں خطبه جمعه فرموده یکم اکتوبر 1943ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.” میں نے آج عید کے خطبہ میں اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ موجودہ جنگ اللہ تعالٰی کی طرف سے اس بات کا قطعی فیصلہ ہے کہ موجودہ زمانہ کی دنیوی طاقتوں کو جو اسلام سے اختلاف رکھتی ہیں، تلوار سے مٹانا ظاہری سامانوں کے لحاظ سے ناممکن ہے.لیکن تبلیغ اور روحانیت سے مٹانا ، نہ صرف ممکن ہی ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے موعود بھی ہے.اس زمانہ میں اسلحہ جنگ کی کثرت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ تلوار جہاں تک اسلام کی ترقی اور غلبہ کا تعلق ہے قطعی طور پر ناکام رہے گی اور تبلیغ کامیاب ہوگی.اور ہم دیکھتے ہیں کہ ظاہر علامتیں بھی ایسی ہیں، جو اسی بات پر دلالت کرتی ہیں کیونکہ دشمنان اسلام جہاں ظاہری ہتھیاروں اور مادی طاقتوں پر زیادہ سے زیادہ بھروسہ کر رہے ہیں، وہاں ان میں مذہبی یقین کم سے کم ہوتا ہے چلا جاتا ہے.اگر ایک طرف مادی طاقت پر بھروسہ بڑھتا جاتا ہے تو دوسری طرف روحانی طاقت پر بھروسہ کم ہوتا جاتا ہے اور ہوشیار مخالف کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ مخالف کے قلعہ پر اس جگہ سے حملہ کرتا ہے، جہاں دیوار سب سے زیادہ کمزور ہو.اس وقت اسلام کے دشمنوں کے قلعہ کی مادی دیواریں زیادہ سے زیادہ مضبوط ہیں.البتہ روحانی دیوار میں خطر ناک رخنے ہیں اور کسی نادان کا ہی یہ کام ہوسکتا ہے کہ مضبوط چٹانوں اور دیواروں کے ساتھ سر پھوڑ تار ہے اور جہاں سے دیوار گری ہو، وہاں سے اندر داخل نہ ہو.آج دشمن کا قلعہ مذہبی نقطہ نگاہ سے گر رہا ہے اور اس جہت سے بہت کمزور ہو چکا ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ الہی منشاء ازل سے یہی تھا کہ اس زمانہ میں دونوں طاقتوں کو جمع کر کے ایک ایسا مضبوط قلعہ تیار کرنے کہ جو ہر طرح مکمل ہو.دنیوی طاقت تو خودان قوموں نے قائم کر لی ہے اور روحانی طاقت احمدیت کے ذریعہ ان کومل جائے اور اس طرح ایک ایسا قلعہ تیار ہو جائے ، جس کی کوئی بھی دیوار کمزور نہ ہو.اس کے لئے جہاں یہ ضروری ہے کہ جماعت کا ہر فر د تبلیغ کرے، وہاں ایک خاص جماعت کا ہونا بھی ضروری ہے، جو اسلام کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف کر دے.اس کی طرف میں نے جماعت کو متواتر توجہ دلائی ہے، کچھ نو جوان آگے بھی آئے ہیں مگر جس حد تک ضروری ہے، اس حد تک نہیں.255
خطبه جمعه فرموده یکم اکتوبر 1943ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم پچھلے سالوں میں مالی قربانی کے لحاظ سے جماعت نے نہایت اعلی نمونہ پیش کیا ہے.ایسا نمونہ کہ جس پر فخر کیا جاسکتا ہے اور پورے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں اور کوئی قوم ایسی نہیں ، جو دلی جوش اور ارادہ کے ساتھ ایسی قربانی کرے.بغیر کسی جبر یا قانون کے اور بغیر کسی ایسے محکمہ کے جولوگوں کی آمد نیوں کو حساب کر کے ان پر ٹیکس لگائے.محض اپنے ارادہ سے اتنی قربانی کرنے والی اور کوئی قوم دنیا میں نہیں.جنگ کے زمانہ میں چونکہ ایک جوش پیدا ہو جاتا ہے، اس لئے لوگ زیادہ قربانی کرتے ہیں.مگر جو قربانی اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کرتی ہے، ویسی جنگ کے زمانہ میں بھی دوسری قومیں بہت کم کرتی ہیں.ہماری جماعت کو کوئی ظاہری جنگ در پیش نہ تھی.روحانی جنگ تھی اور وہ جاری ہے اور جاری رہے گی.مگر ظاہری جنگ کے نہ ہونے کے باوجود جماعت کے بڑے حصہ نے قربانی کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے.اس سے زیادہ لوگ اس لئے شامل نہیں ہو سکے کہ تحریک جدید میں شامل ہونے کیلئے یہ شرط لگا دی گئی تھی کہ کم سے کم اتنی رقم دے کر اس میں شمولیت اختیار کی جاسکتی ہے.اس لئے باقی لوگ مجبور اشریک نہ ہو سکے.ان کا شامل نہ ہو سکنا، اس وجہ سے نہ تھا کہ ان کے دل میں شوق نہ تھا.بلکہ یہ وجہ تھی کہ ان میں شامل ہو سکنے کی طاقت نہ تھی.پس جن میں شامل ہونے کی طاقت تھی ، ان کا اندازہ کرتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسی نوے فیصدی دوستوں نے مالی قربانی کا قابل یادگار نمونہ پیش کیا ہے.لیکن تبلیغ کے لئے وقف زندگی کا نمونہ ایسا شاندار نہیں، جو جماعت نے مالی قربانی کے لحاظ سے دکھایا ہے.ابھی بہت سے نو جوانوں کی ضرورت ہے، جو اپنے اوقات کو کلی طور پر دین کی خدمت میں لگانے کے لئے تیار ہوں.پھر میں نے ایک اور نقص دیکھا ہے کہ دوستوں میں کام کرنے میں سستی کی عادت ہے، جسے کسی کام پر مقرر کیا جائے ، وہ غفلت کرتا ہے.یہ عادت اہم مہمات کے سر کرنے کیلئے سخت مضر ہے اور فتح کے وقت کو پیچھے ڈال دینے والی عادت ہے.اس کی اصلاح بھی اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ اپنی زندگیوں کو وقف کرنے والوں کی ایک ایسی جماعت ہو، جو ایک خاص پروگرام کے تحت تعلیم و تربیت حاصل کرے اور پھر وہی روح دوسروں میں پیدا کرنے کی کوشش کرے.اس لئے زیادہ سے زیادہ نو جوانوں کی ضرورت ہے، جو اپنی زندگیوں کو دین کیلئے وقف کریں.اس سلسلہ میں میں جماعت کے دوستوں کو ایک اور امر کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں.جس کی طرف پہلے توجہ نہیں اور پہلے میں نے اسے بیان بھی نہیں کیا.ہر شخص جو اپنی زندگی وقف کرتا ہے، اس کے وقف کرنے کے یہ معنی نہیں کہ اس کا وقف ضرور قبول کر لیا جائے.پیش کرنے والوں میں سے جو 256
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبه جمعه فرموده یکم اکتوبر 1943ء کام کے لئے موزوں سمجھے جاتے ہیں، ان کو لے لیا جاتا ہے اور باقی کو چھوڑ دیا جاتا ہے.لیکن جو شخص ایک دفعہ اپنی زندگی وقف کرتا ہے، وہ خدا کے ہاں ہمیشہ ہی واقف سمجھا جاتا ہے.میرے اسے رد کرنے کے یہ معنی نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے ہاں بھی رد ہو گیا.چاہے ہم اسے قبول نہ کریں ، وہ خدا تعالیٰ کے ہاں واقف ہے.چاہے وہ باہر جا کر کوئی اور نوکری ہی کر رہا ہو، جب بھی وقف زندگی کیلئے جماعت سے مطالبہ کیا جائے.اس کا فرض ہے کہ پھر اپنے آپ کو پیش کرے خواہ پھر رد کر دیا جائے اور رد کرنے کی صورت میں اگر وہ کوئی اور کام بھی کرتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ زیادہ سے زیادہ وقت وہ دین کی خدمت میں صرف کرے.در نہ وہ شدید وعدہ خلافی کا مرتکب سمجھا جائے گا.جب ایک شخص خدا تعالیٰ کے ساتھ وعدہ کرتا ہے کہ وہ دین کیلئے اپنی زندگی وقف کرتا ہے اور پھر امام جماعت بلکہ نبی کے رد کر دینے پر بھی وہ سمجھتا ہے کہ مجھے چونکہ قبول نہیں کیا گیا، اس لئے میں آزاد ہوں.تو وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ وعدہ خلافی کا مرتکب سمجھا جائے گا.بلکہ اپنے آپ کو پیش کر دینا تو درکنار شخص اپنے دل میں بھی یہ فیصلہ کرتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کے لئے وقف ہوں تو پھر کسی وقت بھی اس کا اپنے آپ کو وقف کی ذمہ داریوں سے آزاد سمجھنا، شدید وعدہ خلافی ہے.کسی کا اسے قبول کرنے سے انکار، اس کے وقف کو نہیں بدل سکتا.اس کے رد کرنے کے معنی تو صرف یہ ہیں کہ وہ اس خاص جماعت میں شامل نہیں ہوسکتا، جس سے اس وقت کوئی کام لیا جاتا ہے اور یہ عدم شمولیت اس کے وقف کو بدل نہیں سکتی.بلکہ جس دن سے کوئی وقف کا ارادہ کرتا ہے، وہ چاہے اس ارادہ کا اظہار بھی کسی کے سامنے نہ کرے، وہ خدا تعالیٰ کے ہاں واقف ہے.اور اس سے کسی صورت میں بھی اپنے آپ کو آزاد سمجھنا، وعدہ خلافی ہے.کامل مومن وہ ہے، جو دل کے ارادہ پر بھی پختہ رہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص صدقہ کا ارادہ کرے، اس کے لئے صدقہ کرنا ضروری ہو جاتا ہے.جو شخص نفل پڑھنے کا ارادہ کرے، اس کے لئے پڑھنا ضروری ہو جاتا ہے.پس کامل مومن کا ارادہ بھی اسے باندھ دیتا اور پابند کر دیتا ہے.لیکن اگر کوئی ادنی مومن ہے تو جب وہ ایک بار اپنے آپ کو وقف کر چکا تو خواہ اسے قبول نہ بھی کیا جائے، وہ آزاد نہیں ہو سکتا.دینی خدمت کے لئے قبول نہ کئے جانے کی صورت میں اگر وہ مثلاً ڈاکٹری کرتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ ڈاکٹری کے کام کو کم سے کم وقت میں محدود کرے اور باقی وقت دین کی خدمت میں لگائے.اگر کوئی انجینئر ہے تو چاہئے کہ کم سے کم وقت انجینئر نگ کے کام پر صرف کرے اور زیادہ سے زیادہ دین کی خدمت پر.اگر وہ کوئی ملازمت اختیار کرتا ہے تو چاہئے کہ ملازمت کیلئے جتنا وقت 257
خطبه جمعه فرموده یکم اکتوبر 1943ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم دینا اس کے لئے لازمی ہے، اس کے سوا باقی وقت کا کثیر حصہ دینی خدمت میں گزارے اور پھر اس تاک میں رہے کہ کب دینی خدمت کیلئے آگے بڑھنے کا مطالبہ ہوتا ہے اور جب بھی ایسی آواز اس کے کان میں پڑے.اسے چاہئے کہ پھر اپنے آپ کو پیش کرے اور کہے کہ میں واقف ہوں.پہلے فلاں وقت مجھے نہیں لیا گیا تھا ، اب میں پھر پیش کرتا ہوں اور خواہ وہ ساری عمر بھی نہ لیا جائے.مگر اس کا یہ فرض ہے کہ ہمیشہ اپنے آپ کو واقف ہی سمجھے.اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ وعدہ خلاف اور غدار سمجھا جائے گا.پس جس نے کسی وقت بھی اپنے آپ کو وقف کیلئے پیش کیا ، وہ اس سے کبھی آزاد نہیں ہو سکتا.میرا یا کسی اور کا اسے کسی وقت قبول نہ کرنا، اسے وقف کی ذمہ داریوں سے آزاد نہیں کر سکتا.کیونکہ وقف تو ایک عہد ہے، خدا تعالیٰ اور بندے کے درمیان ، اور کوئی قبول کرے، نہ کرے، یہ عہد ہر گز نہیں ٹوٹ سکتا.بلکہ اگر صرف دل میں ہی وقف کا ارادہ کیا جائے ، چاہے اظہار نہ ہو تو بھی نہیں ٹوٹ سکتا.پس وقف کے قبول کئے جانے یا نہ کئے جانے کا کوئی سوال نہیں.جو شخص وقف کرتا ہے، اس کا وقف ہمیشہ قائم رہتا ہے اور خدمت دین کی ایک صورت کے لئے قبول نہ کئے جانے کے یہ معنی نہیں کہ وہ دین کی کسی اور رنگ میں خدمت کرنے کی ذمہ داری سے بھی سبکدوش ہو گیا.اگر ایک شخص کی آنکھیں خراب ہیں اور اسے فوج میں بھرتی نہیں کیا جاتا تو اس کے یہ معنی نہیں کہ اب وہ ہمیشہ کیلئے ملک کی خدمت کا کے فرض سے آزاد ہو گیا.کیونکہ اگر وہ با قاعدہ لڑنے والی فوج میں شامل نہیں کیا گیا تو کئی اور صورتوں میں وہ خدمت ملک کر سکتا ہے.کلرک بن سکتا ہے، زخمیوں کے لئے پٹیاں بنانے کا کام کر سکتا ہے، ایسی تحریکیں کر سکتا ہے، جن سے فوجی بھرتی میں امداد مل سکے.اور نہیں تو عوام میں بے چینی پیدا کر نے والی غلط افواہوں کی تردید کر کے ایک اہم خدمت سر انجام دے سکتا ہے.غرض جو شخص کسی خاص وقف کی تحریک میں نہ لیا جانے کی صورت میں یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ اب وقف کی ذمہ داری سے وہ آزاد ہو گیا ہے، وہ ایسا ہی احمق ہے، جیساوہ والنٹیر احمق ہے، جو فوج میں بھرتی ہونے کے لئے گیا اور اسے فوج کے قابل نہ سمجھ کر آزاد کر دیا اور اس نے ملک کی خدمت کی ذمہ داری سے اپنے آپ کو آزاد سمجھ لیا.اگر وہ کامل مومن ہے تو صرف دل میں ارادہ کرنے سے اور اگر ادنی مومن ہے تو اپنے آپ کو پیش کر دینے کے بعد وہ ہمیشہ کے لئے خدا تعالیٰ کے ہاں وقف ہے.خواہ اسے کوئی قبول کرے یا نہ کرے.پس جو نوجوان اپنے آپ کو پیش کر چکے ہیں، وہ یاد رکھیں کہ وہ قیامت تک وقف ہیں.اور جواب میری اس تحریک پر یا کبھی آئندہ اپنے آپ کو پیش کریں، وہ بھی اس بات کو یا درکھیں کہ وقف کی بڑی اہمیت ہے.اس لئے جو اپنے آپ کو پیش کرے، اچھی طرح سوچ سمجھ کر کرے.258
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبه جمعه فرموده یکم اکتوبر 1943ء یہ بات اب تک میں نے واضح نہ کی تھی اور اب ایک واقف کی ایک تحریر سے مجھے یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ مضمون میں نے پہلے بیان نہیں کیا.اس لئے اب اسے بیان کر دیا ہے تا جو لوگ اپنے آپ کو پیش کر چکے ہیں، وہ گنہگار نہ ہوں اور جو آئندہ پیش کریں سوچ سمجھ کر کریں.لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ جب اسلام کو سپاہیوں کو ضرورت ہو تو جو شخص طاقت اور اہلیت رکھنے کے باوجود آگے نہیں آتا، وہ گنہگار ہے.اس لئے جو نو جوان اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہوں اور اس ذمہ داری کو نباہ سکتے ہوں ، وہ پیش کریں.ایسے نوجوانوں کیلئے خدمت دین اور ثواب حاصل کرنے کا یہ نادر موقعہ ہے.ایسا نا در موقعہ کہ جو شاید آئندہ نہ مل سکے.انبیاء کے قریب کے زمانہ میں ایسے مواقع مل سکتے ہیں مگر جب ترقیات حاصل ہو جائیں تو پھر ایسے مواقع نہیں مل سکتے“.( مطبوع الفضل 19 اکتوبر 1943ء) 259
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم " اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 12 لومبین اسلام کی فتح اور مسلمانوں کا غلبہ محض تبلیغ سے وابستہ ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 12 نومبر 1943ء میں اس وقت دنیا کی حالت پر جتنا بھی غور کرتا ہوں، مجھے زیادہ سے زیادہ اس بات پر یقین ہوتا چلا جاتا ہے کہ اس زمانہ میں اسلام کی فتح اور مسلمانوں کا غلبہ محض تبلیغ سے وابستہ ہے.تبلیغ کے بغیر اسلام اور مسلمانوں کے غلبہ کی کوئی صورت نہیں.آج صرف ایک چیز ہے جو مسلمانوں کو کامیاب بنا سکتی ہے.اور وہ وہی چیز ہوسکتی ہے، جو دلوں کو مسخر کرلے اور دلوں کو مسخر کرنے کیلئے سوائے تبلیغ کے اور کوئی ہتھیار نہیں.یہی تبلیغ کا ہتھیار ہے، جو خدا نے ہمیں دیا ہے.جتنی جلدی مسلمان اس ہتھیار کو استعمال کریں گے ، اتنی ہی جلدی انہیں غیر اقوام سے آزادی حاصل ہوگی اور جتنی دیر وہ اس ہتھیار کے استعمال کرنے میں لگائیں گے، اتنی ہی ان کی غلامی کی زنجیریں لمبی اور ممتد ہوتی چلی جائیں گی.العیاذ باللہ.( مطبوع الفضل 20 نومبر 1943ء) 261
تحریک جدید - ایک الہی تحریک تحریک جلد دوم اعلان فرموده 19 نومبر 1943ء قادیان 19 نومبر : ایک ضروری اعلان اعلان فرمودہ 19 نومبر 1943ء حضرت امیرالمومنین خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ احباب جماعت تحریک جدید کے سال دہم کے چندہ کے وعدے اس وقت تک نہ لکھا ئیں، جب تک حضور آئندہ سال کے چندہ کے متعلق اعلان نہ فرمائیں.بلکہ اس بارے میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے اعلان کا انتظار کیا جائے.نیز فرمایا کہ سنا گیا ہے ” الفضل میں ایسا اعلان ہوا ہے.اگر ہوا ہے تو وہ گستاخی اور نادانی سے ہے.( مطبوعه الفضل 21 نومبر 1943ء) 263
تحریک جدید - ایک ابی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1943ء تحریک جدید کے ذریعہ قرب الہی کے عظیم الشان موقع کو ضائع مت کرو خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1943ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.گذشتہ چند دنوں سے مجھ پر پھر اسی قسم کے مرض کا حملہ ہو گیا ہے، جس قسم کا مرض مجھے مئی کے مہینہ میں ہوا تھا اور گویہ حملہ اتنا شدید نہیں ہے مگر پھر بھی نہایت سخت اور تکلیف دہ کھانسی کی شکایت پیدا ہوگئی ہے.پچھلی دفعہ جب مرض کا آغاز ہور ہا تھا، مجھے بجٹ کی مجلس میں شامل ہونا پڑا.جس کے بعد میری بیماری لمبی اور تکلیف دہ صورت اختیار کر گئی اور آج بھی بیماری کے شروع میں ہی جمعہ کا دن آگیا ہے.مگر چونکہ اب وقت آ گیا تھا کہ نئے سال کے چندہ تحریک جدید کے متعلق جماعت کے سامنے اعلان کر دیا جائے.اس لئے گوگذشتہ تجربہ کی بنا پر مجھے خطرہ معلوم ہوتا تھا کہ میری بیماری پھر خدانخواستہ لمبی شکل اختیار نہ کر لے مگر میرے دل نے برداشت نہ کیا، جس دس سالہ تحریک کی ابتداء میں نے کی تھی، اس کے آخری سال کی تحریک کرنے کے فخر سے میں محروم رہوں.نتائج سب اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہوتے ہیں اور مستقبل کا علم بھی اسی کو ہے.بہت کوششیں دنیا میں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر انسان کو مستقبل کا علم ہو تو وہ ان کو ترک کرنے پر مجبور ہو جائے اور بہت کوششیں دنیا میں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر انسان کو مستقبل کا علم ہو تو وہ کسی صورت میں بھی ان کو چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہو.ہزاروں افعال انسان آئندہ کی بہتری کیلئے کرتا ہے مگر ان کا نتیجہ نہایت خراب نکلتا اور اس کی تمام ششیں رائیگاں چلی جاتی ہیں.اس کے مقابلہ میں ہزاروں کا میابیاں جو اس کو ، اس کے خاندان کو اور اس کی قوم کو چار چاند لگا دینے والی ہوتی ہیں اور تھوڑی سی کوشش سے حاصل ہو سکتی ہے.مستقبل کا علم نہ رکھنے کی وجہ سے انسان ان کو ضائع ہونے دیتا ہے اور محض تھوڑی سی کوشش نہ کرنے کی وجہ سے اس کی آئندہ نسلیں سینکڑوں سال تک ان عزتوں اور کامیابیوں سے محروم ہو جاتی ہیں، جو تھوڑی سی کوشش تھوڑی سی جد و جہد اور تھوڑی سی قربانی سے اس کو یا اس کے خاندان کو یا اس کی قوم کو حاصل ہو سکتی تھیں.ہم نے بھی ایک کوشش کی ہے، خدائی اشاروں کے ماتحت کی ہے، خدائی حکمتوں کو سمجھتے ہوئے کی ہے اور خدائی پیشگوئیوں کو پورا کرنے کیلئے کی ہے.ہماری یہ کوشش نہایت حقیر ، نہایت معمولی اور 265
خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1943ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم نہایت ہی محدود ہے.مگر ہمارے ارادے بہت بڑے ہیں ہنتیں وسیع ہیں اور ہماری امنگیں کوئی انتہا نہیں رکھتیں.مگر نتائج کو پیدا کرنا ہمارے اختیار میں نہیں ، صرف خدا کے اختیار میں ہے.وہ اگر چاہے تو ان ارادوں، ان نیتوں اور ان امنگوں سے بھی زیادہ برکت پیدا فرما دے، جو ہمارے دل میں ہیں اور اگر چا ہے تو ہماری کسی غفلت کسی نادانی کسی بے وقوفی اور کسی حماقت کی وجہ سے ہماری قربانیوں کے اس حقیر ہدیہ کو ٹھکرا دے.جیسے ایک ہیرا لاکھوں روپے کی مالیت کا ہوتا ہے.مگر جب ایک ماہر فن اس ہیرے کو ششیے کا ایک معمولی ٹکڑا قرار دے دیتا ہے تو اس کی لاکھوں کی قیمت کوڑیوں تک آجاتی ہے اور ایک معمولی چیز سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں رہتی.وہ لوگ جنہوں نے اس تحریک میں حصہ لیا ہے، وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس پیشگوئی کو پورا کرنے والے ہیں، جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو پانچ ہزار سپاہی دیئے جانے کی خبر دی گئی تھی اور واقعات بھی اس کی تصدیق کر رہے ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس طرح کشف میں دیکھا تھا کہ آپ کو پانچ ہزار سپاہی دیا گیا ہے.یہی نظارہ ہمیں اس تحریک میں نظر آتا ہے.ہماری جماعت خدا کے فضل سے لاکھوں کی جماعت ہے.مگر تحریک جدید میں حصہ لینے والوں کی تعداد شروع سے پانچ ہزار کے ارد گرد گھوم رہی ہے.کبھی یہ تعداد ساڑھے چار ہزار ہو جاتی ہے، کبھی ساڑھے پانچ ہزار ہو جاتی ہے اور کبھی پانچ ہزار ہو جاتی ہے.جو لوگ اس تحریک میں حصہ لینے کا وعدہ کرتے ہیں.چونکہ سال کے آخر تک ان میں سے کچھ پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور اپنے وعدوں کو پورا نہیں کر سکتے، اس لئے جب وعدوں کا وقت آتا ہے تو یہ تعداد پانچ ہزار سے اوپر چلی جاتی ہے.لیکن جب ادائیگی کا وقت آتا ہے تو یہ تعداد بھی پانچ ہزار ہو جاتی ہے اور کبھی پانچ ہزار سے بھی نیچے چلی جاتی ہے.اس وقت تک وہ لوگ جنہوں نے اس تحریک میں حصہ لیا اور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق خدا تعالیٰ کے سپاہی کہلانے کے مستحق ہیں، وہ پنتالیس سو اور پانچ ہزار کے درمیان ہیں.شاید وہ جو ابھی تک اپنے وعدے پورے نہیں کر سکے یا وہ جواب تک اپنی سستی اور غفلت کی وجہ سے اس میں حصہ نہیں لے سکے مگر اب وہ اس میں شامل ہونے کا ارادہ رکھتے ہوں یا وہ جو نئے سال سے اس تحریک میں شامل ہو جائیں ، ان سب کو ملحوظ رکھتے ہوئے شاید یہ تعداد پوری ہو جائے بلکہ شاید نہیں، اللہ تعالیٰ کے فضل سے یقیناً یہ سب مل کر اس تعداد کو پورا کر دیں گے، جو اللہ کی طرف سے پیشگوئی میں معین کی گئی ہے.اور اس طرح ایک اور ثبوت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا مل جائے گا کہ کس شان اور عظمت کے ساتھ آپ کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی.آخر یہ کس بندے کی طاقت میں تھا کہ وہ اسلام کی 266
خطبہ جمعہ فرمود 26 نومبر 1943ء تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد دوم خدمت کے لئے جماعت میں سے پانچ ہزار نفوس کھڑا کر دیتا ؟ اگر ہمیں دس ہزار آدمی چندہ دیتے تو ہم نے ان کے چندوں کو اس بنا پر ر نہیں کر دینا تھا کہ پیشگوئی میں صرف پانچ ہزار آدمیوں کا ذکر آتا ہے اور اگر میری اس تحریک کے نتیجہ میں جماعت کے دلوں میں ایسا جوش اور اخلاص پیدا نہ ہوتا کہ پانچ ہزار آدمی چندہ دینے کیلئے کھڑے ہو جاتے بلکہ صرف دو یا تین ہزار آدمی اس تحریک میں حصہ لیتے تو ہمارے پاس اس تعداد کو پانچ ہزار تک پہنچانے کا کیا ذریعہ تھا ؟ ہم نے یہ تحریک طوعی رنگ میں کی تھی اور اس میں شامل ہونا ہر شخص کی اپنی خوشی اور مرضی پر منحصر رکھا تھا.مارکر ، پیٹ کر اور سزا دے کر اس میں کسی کو شامل نہیں کرنا تھا.پس اگر یہ خدائی ہاتھ نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک دس سالہ تحریک کا آغاز کیا جاتا ہے اور اعلان کیا جاتا ہے کہ جو شخص اپنی مرضی اور خوشی سے اس میں شامل ہونا چاہے، وہی شامل ہو.کسی پر جبر اور اکراہ نہیں.مگر باوجود اس کے کہ جماعت بہت زیادہ ہے.دس سالہ طویل تحریک میں اس میں شامل ہونے والوں کی تعداد پانچ ہزار کے ارد گر دہی چکر لگاتی رہتی ہے؟ جس طرح گھڑی کا پنڈولم ایک خاص مقام پر حرکت کرتا ہے اور مرکز کے ارد گرد چکر لگا تا رہتا ہے.اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اس تحریک میں حصہ لینے والوں کی تعداد بھی پانچ ہزار سے اوپر چلی جاتی ہےاور کبھی پانچ ہزار سے نیچے چلی جاتی ہے.گویا چکر پانچ ہزار کے ارد گر دہی لگاتی رہتی ہے.بھلا کس انسان کی طاقت میں تھا کہ وہ ایسا کر سکے اور کون شخص اپنی تدبیر سے تعداد کو اسی محور پر رکھ سکتا تھا ؟ یہ محض خدا کی قدرت کا کرشمہ ہے اور اس واقعہ نے نہایت صفائی اور وضاحت کے ساتھ اس امر کو ثابت کر دیا ہے کہ در حقیقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس پیشگوئی کے مطابق اسلام کی فتح کی بنیاد، احمدیت کے غلبہ کی بنیاد محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نام کو دوبارہ زندہ کرنے کی بنیا د ازل سے تحریک جدید کے ساتھ وابستہ قرار دے دی گئی ہے.ان پانچ ہزار سپاہیوں کی قربانیاں آئندہ دنیا میں کیا انقلاب پیدا کریں گی یا آئندہ یہ تحریک کیا شکل اختیار کرے گی اور اس تحریک کے کیا کیا نتائج رونما ہوں گے؟ ان سب باتوں کو اللہ ہی جانتا ہے.ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ اخلاص سے، محبت سے، انابت سے اطاعت کا کامل نمونہ دکھاتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی طرف پورے تضرع اور ابتہال کے ساتھ جھکتے ہوئے ، قربانیاں کرتے چلے جائیں.اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہم نے اس فرض کو ادا کر دیا ہے، جو اس کی طرف سے ہم پر عائد کیا گیا تھایا اپنے فرض کو ادا کرنے کی بجائے خدانخواستہ اپنی غفلت اور نادانی سے اس کے عذاب کے مستحق ہو گئے ہیں.ان سب باتوں کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے.ہم اس کی رحمت اور فضل کے امیدوار ہیں اور ہم اس سے یہی دعا کرتے ہیں 267
خطبہ جمعہ فرموده 26 نومبر 1943ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم کہ اب جبکہ یہ تحریک اپنے پہلے دور میں ختم ہونے والی ہے، وہ ہماری ان کو تا ہیوں کو معاف فرما دے، جو اس تحریک کے دوران میں ہم سے سرزد ہوتی ہیں.حضرت عمر سے ان کی وفات کے وقت کسی شخص نے کہا کہ آپ کو تو بہت بڑے بڑے اجر ملیں گے کیونکہ آپ نے اسلام کے لئے بڑی بھاری قربانیاں کی ہیں.اس وقت حضرت عمرؓ نے کہا " اللَّهُم لَا عَلَى وَلَا لِی“.اے میرے خدا میں اپنے اعمال کی کمزوریوں کی بنا پر تجھ سے کسی ثواب کا طلب گار نہیں.میں تجھ سے صرف یہ التجا کرتا ہوں کہ تو میری کوتاہیوں کو معاف کر کے مجھے اپنی سزاؤں سے بچالے.اللہ تعالیٰ کے جو احسانات ہم پر ہیں، اس کے جو بے انتہا فضل ہم پر ہیں، ان کو دیکھتے ہوئے ، ان کی قدر کرنے کا دعویٰ ہم نہیں کر سکتے.در حقیقت ہم میں سے بہتوں نے ابھی تک تحریک احمدیت کو سمجھا ہی نہیں، جو خدا کی طرف سے دنیا کی کایا پلٹنے کے لئے جاری کئی گئی ہے.ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں، جو ا بھی نام کے احمدی ہیں.احمدیت کی روح کو انہوں نے نہیں سمجھا.بہت سے ایسے ہیں ، جو اخلاص تو رکھتے ہیں مگر ان کے دلوں میں یہ تڑپ نہیں کہ وہ باریکیوں کو سوچتے رہیں اور احمدیت کی طرف سے جوان پر ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں، انہیں ادا کریں.بہت ایسے ہیں، جو اخلاص بھی رکھتے ہیں ، سوچتے بھی ہیں مگر ان کے دماغوں کی قابلیت ایسی نہیں کہ وہ اس کی اہمیت کو سمجھ سکیں.بہت ایسے ہیں، جن کے دلوں میں اخلاص بھی ہے غور اور فکر کا مادہ بھی اپنے اندر رکھتے ہیں ، ان کے دماغ بھی اچھے ہیں سوچنے اور غورو فکر سے بھی کام لیتے ہیں اور پھر سوچنے اور غور فکر سے کام لینے کے بعد ذمہ داریوں کو سمجھتے بھی ہیں مگر پھر بھی ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی پوری طاقت نہیں رکھتے.پھر بہت سے ایسے ہیں، جن کو خدا تعالیٰ نے اخلاص بھی عطا فرمایا ہے، جو سوچنے کی توفیق بھی رکھتے ہیں، جن کے دماغوں میں سمجھنے کا مادہ بھی پایا جاتا ہے، جو اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی توفیق بھی رکھتے ہیں اور جو ہر وقت اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے مستعد اور تیار کھڑے رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی ان پر برکتیں ہیں، برکتیں رہیں گی ، اس جہان میں بھی اور اگلے جہان میں بھی.اس دنیا میں بھی خدا ان کے ساتھ ہو گا اور اگلے جہان میں بھی.یہی وہ لوگ ہیں، جو جماعت احمد یہ کیلئے ستون کا کام دے رہے ہیں، یہی وہ دیواریں ہیں، جن پر وہ چھت قائم ہے، جسے حضرت مسیح موعود کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے امن کے لئے قائم فرمایا ہے اور میں سمجھتا ہوں وہ لوگ جنہوں نے دیانتداری اور پورے تقویٰ کے ساتھ اس تحریک میں حصہ لیا ہے، ان میں سے اکثر ایسے ہی لوگ ہیں اور وہ خدا کے حضور انہیں لوگوں میں شامل کئے جائیں گے.268
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1943ء میری آواز ، میری صحت، میرا ساتھ نہیں دیتی.اس لئے میں اس مختصر تمہید کے ساتھ دسویں سال کے چندہ تحریک جدید کا اعلان کرتا ہوں کہ اے مرے عزیز و! میرے بھائیو ! مرے رفیقو! اور مرے ساتھیو! اسلام کی ترقی کی وہ بنیاد جو آج سے دس سال پہلے نہایت نیک ارادوں اور پاکیزہ خواہشات کے ساتھ رکھی گئی تھی.اس بنیاد کی بھرتی کا اب آخری سال آرہا ہے.تم نے نو سال تک خدا تعالیٰ کے دین کیلئے بڑی بڑی قربانیاں کیں بلکہ شاید بعض نے قربانیاں بھی نہیں کیں ، صرف لہوں گا کو شہیدوں میں شامل ہو گئے ہیں.مگر بہر حال ہر شخص کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے.آج اس تحریک کا دسواں سال شروع ہو رہا ہے.جو پہلے دور کی آخری تحریک ہے، جسے اسلامی بنیادوں کی بھرتی سمجھنا چاہئے.تم میں سے وہ، جن کو خدا تعالیٰ نے قربانی کی توفیق عطا فرمائی ہے.میں ان سب سے کہتا ہوں کہ آج پھر تمہارے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے قربانی کا موقع پیدا کیا گیا ہے اور اس تحریک کا دسواں سال شروع ہو رہا ہے.تم قربانی کا نمونہ پیش کر کے اپنے اعمال کو زیادہ سے زیادہ سنوار لو اور اللہ تعالیٰ کے قرب میں بڑھنے کی کوشش کرو.وہ لوگ جنہیں گذشتہ سالوں میں اس تحریک میں شامل ہونے کا موقع نہیں ملا مگر اب ان کی مالی حالت ایسی ہوگئی ہے کہ وہ اس تحریک میں حصہ لے سکتے ہیں.میں ان سے بھی کہتا ہوں کہ یہ تحریک جدید کے آخری سال کے ایام ہیں.ان دنوں میں وہ اس تحریک میں حصہ لے کر خدا تعالیٰ کے بہادر سپاہیوں میں شامل ہو سکتے ہیں.اسی طرح وہ لوگ جن کو اس تحریک میں حصہ لینے کی توفیق تو تھی مگر بوجہ کمزوری ایمان یا صحبت بد کی وجہ سے انہیں اس میں شامل ہونے کا موقع نہیں ملا تھا.ان کے لئے بھی یہ ایک آخری موقع پیدا ہو گیا ہے.جس میں وہ اپنے دلوں کو ان گندوں اور ان رنگوں سے صاف کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں ، جو کمزوری ایمان یا بری صحبت کی وجہ سے ان کے دلوں پر لگ چکے ہیں اور خدا تعالیٰ کے حضور اس کے سپاہیوں میں شامل ہونے کی درخواست کر سکتے ہیں.غرض میں ان سب کو جو اس تحریک میں حصہ لے رہے ہیں یا حصہ لے سکتے ہیں یا اگر پہلے انہوں نے حصہ نہیں لیا تو اب وہ اپنی گذشتہ کوتاہیوں کے ازالہ کا ارادہ رکھتے ہیں، خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے بلاتا ہوں اور مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اس سال کی تحریک میں پہلے تمام سالوں سے بڑھ کر حصہ لینے کی کوشش کریں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جماعت کے مخلصین اللہ تعالیٰ کے فضل سے چندوں میں ہمیشہ 269
خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1943ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم نمایاں حصہ لیا کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کا قدم ہمیشہ آگے بڑھے.مگر یہ سال چونکہ تحریک جدید کے پہلے دور کا آخری سال ہے، اس لئے میری خواہش ہے کہ وہ لوگ ، جو اپنے دلوں میں اخلاص رکھتے اور خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کا شوق رکھتے ہیں.وہ اس سال ایسی نمایاں قربانی کریں، جو اس سے پہلے انہوں نے سلسلہ اور اسلام کے لئے کبھی نہ کی ہو.میں کسی کو کوئی ایسا بوجھ اٹھانے کیلئے نہیں کہتا، جسے وہ اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا.میں صرف یہ کہتا ہوں کہ وہ لوگ جنہوں نے اب تک پورا بوجھ نہیں اٹھایا اور قربانی کو اس کے صحیح اور حقیقی معیار تک نہیں پہنچایا.وہ اس سال ایسے رنگ میں قربانی کریں ، جس کی مثال پہلے کسی سال میں نہ مل سکے.میں اپنے متعلق یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ چونکہ یہ تحریک جدید کا آخری سال ہے اور میرا جماعت کے مخلصین سے یہ مطالبہ ہے کہ وہ اس سال پہلے تمام سالوں کے مقابلہ میں زیادہ قربانی کریں.اس لئے میں نے بھی اپنے پچھلے سال کے چندہ سے ساڑھے تین گنا زیادہ چندہ لکھوا دیا ہے.میں چاہتا ہوں کہ یہ تحریک جس طرح اپنے دور میں ایسا نرالا رنگ رکھتی ہے، جس کی مثال جماعت کے پہلے دوروں میں نہیں ملتی.اس لئے کہ یہ تحریک ان چندوں کے علاوہ ہے، جو جماعت کو علیحدہ طور پر دینے پڑتے ہیں اور کوتحریک جدید کے چندہ کی مقدار جماعت کے دوسرے سال بھر کے چندوں سے کم دیتی ہے.مگر یہ چندہ دوسرے چندوں کے ساتھ مل کر جماعت کی مالی قربانی کی ایسی شاندار مثال پیش کرتا ہے، جس کی نظیر اور کہیں نظر نہیں آتی.اسی طرح میں چاہتا ہوں کہ تحریک جدید کا یہ آخری سال جماعت کی قربانی کے لحاظ سے ایک غیر معمولی سال ہو اور جس طرح تحریک جدید کی مثال اور کسی تحریک میں نہیں ملتی ، اسی طرح تحریک جدید کے آخری سال کی مالی قربانی کی مثال جماعت کی سابقہ قربانیوں کے لحاظ سے کسی اور سال میں نظر نہ آئے.بے شک آج کل لوگوں کو مالی تنگیاں ہیں، قحط پڑا ہوا ہے اور ضروریات زندگی نہایت گراں ہوگئی ہیں.مگر ہماری جماعت کا اسی فیصد حصہ زمینداروں پر مشتمل ہے اور آج کل قحط کے ایام سے زمیندار متاثر نہیں ہوئے بلکہ ان کے پاس پہلے سے زیادہ روپیہ موجود ہے.اس لئے زمینداروں کا وہ طبقہ، جو پہلے اس تحریک میں حصہ نہیں لے سکایا پہلے اس تحریک میں نمایاں حصہ نہیں لے سکا ، اس کے لئے موقع ہے کہ وہ آج اپنے اخلاص اور ایمان کا ثبوت دے کر ایسا مقام حاصل کرلے، جو ایمان اور سلوک کے راستہ میں اسے پہلے حاصل نہیں ہوا.270
تحریک جدید.ایک البی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1943ء مجھے بہت کم ایسے مواقع دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے، جیسے میلوں وغیرہ کے مواقع ہوتے ہیں.مگر بہر حال مجھے اپنی عمر میں ایک دو موقعے ابتدائی ایام میں ایسے ضرور ملے ہیں، جبکہ میں نے بعض مواقع دیکھے اور میں جانتا ہوں کہ ایسے موقع پر کس کس قسم کی کوششیں لوگ ایک ایک انچ آگے بڑھنے کے لئے کیا کرتے ہیں، کبھی وہ بڑھے زور سے اپنا گھٹنا آگے کھڑے ہونے والوں کے درمیان داخل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ جب انہیں گھٹنا داخل کرنے کا موقع مل جائے تو وہ ایک دو انچ پہلوانوں کی کشتی یا میچ کا نظارہ دیکھنے کیلئے اور آگے بڑھ جائیں کبھی وہ پاؤں کی انگلیاں آگے گھسیڑتے ہیں کبھی کہنیوں سے رستہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی کمزورں کو دھکا دے کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور یہ ساری کوششیں صرف اس غرض کیلئے ہوتی ہیں کہ وہ چند منٹ کا کھیل دیکھنے کیلئے دوسروں سے ایک دو انچ آگے بڑھ جائیں.جب دنیوی کھیلوں میں لوگ ایک ایک انچ آگے بڑھنے کیلئے اس قدر کوششیں کرتے ہیں تو ایک مومن کو غور کرنا چاہئے کہ اسے روحانی میدان میں دوسروں سے آگے نکل جانے کیلئے کس قسم کی کوششیں کرنی چاہئیں.آج وہ دن ہے کہ ہمارا خدا اپنے جاہ وجلال کے ساتھ آسمان پر پھر دنیا کو اپنا دیدار کرانے کیلئے جلوہ فرما ہے، آج اس کا حسن دنیا پر ظاہر ہونا چاہتا ہے، اس کی طاقتیں دنیا کو اپنا جلوہ دکھانا چاہتی ہیں.پس آج اس خدا کا دیدار کرنے اور دوسروں کو اس کا دیدار کرانے کیلئے ہمیں جس قدر کوشش، جس قدر سعی اور جس قدر جد و جہد کرنی چاہئے ، اس کے مقابلے میں وہ دنیوی میلے حیثیت ہی کیا رکھتے ہیں.جن میں لوگ پہلوانوں کی کشتی دیکھنے کیلئے یا کرکٹ وغیرہ کا میچ دیکھنے کے لئے ایک ایک یا دو دو انچ دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش کیا کرتے ہیں.دنیا کی وہ کونسی چیز ہے، جو خدا تعالیٰ کے قرب سے زیادہ قیمتی ہو؟ دنیا میں بڑی سے بڑی چیز بادشاہت ہے، دولت ہے، لوگوں پر غلبہ اور اقتدار ہے، طاقت اور قوت ہے.مگر ان میں سے کون سی چیز ہے، جس کو قربان کر کے اگر ہمیں خدا تعالیٰ کے قرب میں ایک انچ نہیں ایک انچ کا ہزارواں حصہ بھی آگے بڑھنے کا موقع مل سکے اور ہمیں اس کی محبت حاصل ہو جائے تو ہم یہ سمجھیں کہ ہم نے کوئی قربانی کی ہے یا ہم یہ خیال کریں کہ ہم نے کسی اعلیٰ چیز کو اپنے ہاتھ سے کھو دیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی محبت، اللہ تعالی کا پیار اور اللہ تعالی کا تعلق ایسی قیمتی چیزیں ہیں کہ دنیا کی کوئی چیز خواہ وہ کتنی بڑی ہو، اس کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور دنیا کی کوئی چیز خواہ بظاہر کتنی قیمتی ہو ، خدا تعالیٰ کے قرب کے ادنیٰ سے ادنی درجہ کے مقابلہ میں بھی بالکل پیچ اور بے حقیقت ہے.پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے قرب میں آگے بڑھنے کا تحریک جدید کے ذریعہ جو عظیم الشان موقع عطا فرمایا ہے، اس کو ضائع مت کرو.آگے بڑھو اور خدا تعالیٰ کے ان بہادر سپاہیوں کی طرح ، جو جان 271
خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1943ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم اور مال کی پرواہ نہیں کیا کرتے ، اپنا سب کچھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دو اور دنیا کو یہ نظارہ دکھا دو کہ بیشک دنیا میں دنیوی کامیابیوں اور عزتوں کے لئے قربانی کرنے والے لوگ پائے جاتے ہیں.لیکن محض خدا کے لئے قربانی کرنے والی جماعت ، آج دنیا کے پردہ پر سوائے جماعت احمدیہ کے اور کوئی نہیں.اور وہ اس قربانی میں ایسا امتیازی رنگ رکھتی ہے، جس کی مثال دنیا کی کوئی اور قوم پیش نہیں کر سکتی.جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ موقع ہے، ان لوگوں کے لئے ، جنہیں اس تحریک میں پہلے شامل ہونے کی توفیق نہیں تھی مگر اب اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں شمولیت کی توفیق مل چکی ہے.اسی طرح یہ موقع ہے، ان لوگوں کے لئے ، جو گو اس تحریک میں پہلے شامل ہو سکتے تھے مگر کسی بداثر کے ماتحت وہ اس میں شامل ہونے سے محروم رہے.آج وہ بھی اپنے میلے کپڑے دھو لیں اور خدا تعالیٰ کی اس صاف ستھری جماعت میں شامل ہو جائیں، جس صاف ستھری جماعت میں شامل ہوئے بغیر وہ خدا تعالیٰ کے قرب میں نہیں بڑھ سکتے.میں اپنی بیماری کی وجہ سے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا اور میں اللہ تعالیٰ کے حضور اس دعا سے نئے سال کی تحریک کا آغاز کرتا ہوں کہ اے خدا! تو ہماری جماعت کے قلوب میں آپ قربانی کی تحریک پیدا فرما.اے خدا ! تو اپنے فرشتوں کو نازل فرما، جو لوگوں کو زیادہ سے زیادہ قربانیاں کرنے پر آمادہ کریں اور اے ہمارے خدا! اس آمادگی کے بعد پھر تو اپنے فرشتوں کو اس بات پر مامور فرما کہ جو لوگ قربانیوں کے وعدے کریں، وہ اپنے ان وعدوں کو جلد سے جلد پورا کر دیں.اے میرے رب! تو ہمیں توفیق عطا فرما کہ اس ذریعہ سے جو مال ہمارے پاس جمع ہو، اسے ہم نیک نیتی اور اخلاص سے خرچ کریں.ہم اپنی کسی بدی ،غفلت اور نادانی کی وجہ سے اس مال کا استعمال کرنے میں کوئی خرابی پیدا نہ کریں اور اے ہمارے رب! ہم نے تیری محبت اور تیرے قرب کو حاصل کرنے کے لئے اسلام کی عمارت کی جو بنیا د رکھی ہے، تو اپنے فضل سے اس بنیاد پر ہمیں ایک ایسی عظیم الشان عمارت بنانے کی توفیق عطا فرما، جس کی بنیادیں تو زمین میں ہوں مگر اس کی چھت عرش بریں کے پائے کو بوسہ دے رہی ہو.تا کہ دنیا کے دکھیا اور مصیبت زدہ اس عمارت میں آرام کا سانس لیں اور تیرے رسول، تیرے محبوب، تیرے پیارے، خاتم النبیین کے نام پر درود بھیجیں کہ اسی کی تحریکوں کے ذریعہ دنیا نے امن کا پیغام سنا.وہی ایک رسول ہے، جس کی تعلیم پر عمل کر کے انسان اور نفس کی لڑائی ، انسان اور ہمسایہ کی لڑائی، جو ہمیشہ دنیا کے امن کو برباد کرنے کا موجب رہی ہے، ختم ہو سکتی اور دنیا راحت اور آرام کا سانس لے سکتی ہے.پس اے خدا! تو ہمیں اس پاک رسول 272
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود 26 نومبر 1943ء کے نام کو بلند کرنے اور اس کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کی توفیق عطا فرما تا بندے اور اس کے ہمسایہ کی لڑائی ، بندے اور اس کے نفس کی لڑائی ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے اور بندے اور خدا کے درمیان دائمی صلح ہو جائے.جس صلح میں دائمی خوشی اور جس تعلق میں دائی راحت ہے اور اس طرح دنیا کی تمام غلاظتیں اور دنیا کے تمام گناہ مٹ جائیں اور تیرا نور چاروں طرف پھیلتا ہوا نظر آئے.میں یہ بھی اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ وہ مخلصین ، جو دوسروں سے آگے رہنے کے خواہش مند ہوا کرتے ہیں، انہیں چاہئے کہ وہ دسمبر کے مہینہ کے اندر اندر اپنے وعدے لکھوا دیں.اسی طرح جو جماعتیں اچھا نمونہ دکھانا چاہتی ہیں، انہیں بھی چاہئے کہ وہ اپنی فہرستیں مکمل کر کے 31 دسمبر تک بلکہ ہو سکے تو جلسہ سالانہ سے پہلے ہی مرکزی دفتر تحریک جدید میں بھجواد ہیں.یہ میعاد صرف ان مخلصین کے لئے ہے، جو نیکی کے میدان میں آگے رہنے کے خواہش مند ہوتے ہیں.ورنہ یوں وعدوں کے لحاظ سے 7 فروری آخری تاریخ ہوگی یعنی جو وعدے 7 فروری تک یہاں پہنچ جائیں گے یا اپنے اپنے مقام سے 31 جنوری کو روانہ ہوں گے، وہی قبول کئے جائیں گے ، باقی نہیں.سوائے ہندوستان کے ان علاقوں کے کہ جہاں اردو زبان بولی یا سمجھی نہیں جاتی اور سوائے بیرونی ممالک کے کہ ان کے لئے اپریل اور جون کی وہی تاریخیں مقرر ہیں، جو پہلے مقرر ہوا کرتی تھیں.میں امید کرتا ہوں کہ انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ یہ دونوں اپنے وقت کی قربانی کر کے زیادہ سے زیادہ کانوں تک اس آواز کو پہنچانے کی کوشش کریں گے اور اس غرض کے لئے خاص طور پر جلسے منعقد کر کے لوگوں کو تحریک کریں گے کہ وہ اس چندہ میں حصہ لیں.اس طرح وہ ہر جگہ ایسے آدمی مقرر کر دیں، جو ہر احمدی تک یہ آواز پہنچا دیں اور اسے دین کی اس خدمت میں حصہ لینے کی تحریک کریں مگر جبر سے نہیں ، زور سے نہیں ،محبت اور اخلاص سے تحریک کرو اور کسی کو اس میں شامل ہونے کے لئے مجبور مت کرو.جو شخص محبت اور اخلاص سے اس تحریک میں حصہ لیتا ہے، وہ خود بھی بابرکت ہے اور اس کے روپیہ میں بھی برکت ہوگی لیکن وہ، جو مجبوری سے اور کسی کے زور دینے پر اس تحریک میں حصہ لیتا ہے، اس کے دیئے ہوئے روپے میں کبھی برکت نہیں ہوسکتی.پس کسی کو جبرا اس تحریک میں شامل کر کے اس برکت کو کم مت کرو بلکہ اگر تمہیں ایسا روپیہ ملتا بھی ہے تو اسے دور پھینک دو کہ وہ ہمارے لئے نہیں، شیطان کے لئے ہے.ہمارے لئے وہی روپیہ ہو سکتا ہے، جو خدا کے لئے دیا جائے اور جسے ہم خدا کے سامنے پیش کرنے میں فخر محسوس کر سکیں“.( مطبوع الفضل یکم دسمبر 1943ء) 273
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1944ء خطبہ جمعہ فرمودہ 28 جنوری 1944ء خدا تعالیٰ مبارک دوشنبہ اب ایک ایسے ذریعہ سے بھی لانے والا ہے جو میرے اختیار میں نہیں تھا اور کوئی انسان نہیں کہہ سکتا کہ میں نے اپنے ارادہ سے اور جان بوجھ کر اس کا اجراء کیا.میں نے 1934ء میں تحریک جدید کو ایسے حالات میں جاری کیا، جو ہرگز میرے اختیار میں نہیں تھے.گورنمنٹ کے ایک فعل اور احرار کی فتنہ انگیزی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اس تحریک کا القا فرمایا اور اس تحریک کے پہلے دور کی تکمیل کے لئے میں نے دس سال میعاد مقرر کی.ہر انسان جب کوئی قربانی کرتا ہے تو اس قربانی کے بعد اس پر ایک عید کا دن آتا ہے.چنانچہ دیکھ لو، رمضان کے مہینہ میں لوگ روزے رکھتے اور تکلیف برداشت کرتے ہیں.مگر جب رمضان گزر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ مومنوں کے لئے ایک عید کا دن لاتا ہے.اسی طرح ہماری دس سالہ تحریک جدید جب ختم ہوگی تو اس سے اگلا سال ہمارے لئے عید کا سال ہوگا.دوست جانتے ہیں تحریک جدید کا پہلا دس سالہ دور اسی سال یعنی 1944ء میں ختم ہوتا ہے اور عجیب بات ہے کہ سن 1945ء جو ہمارے لئے عید کا سال ہے، پیر کے دن سے شروع ہوتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں یہ خبر بھی دی تھی کہ ایک زمانہ میں اسلام کی نہایت کمزور حالت میں اس کی اشاعت کے لئے ایک اہم تبلیغی ادارہ کی بنیا د رکھی جائے گی اور جب اس کا پہلا کامیابی سے دور ختم ہوگا تو یہ جماعت کے لئے ایک مبارک وقت ہو گا.اس لئے وہ سال جب مومن اس عہد و قربانی کو پورا کر چکیں گے، جو وہ اپنے ذمہ لیں گے تو ایک مبارک بنیاد ہوگی اور اس سے اگلے سال سے خدا تعالیٰ ان کے لئے برکت کا بیج بوئے گا اور خوشی کا دن ان کو دکھائے گا اور جس سال میں یہ وقوع میں آئے گا، اس کا پہلا دن پیر یا دوشنبہ ہو گا.پس وہ سال بھی مبارک اور وہ دن بھی مبارک.پس " دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ خدا تعالیٰ نے ایک ایسی بنیاد تحریک جدید کے ذریعہ سے رکھ دی ہے، جس کے نتیجہ میں حضرت مسیح ناصری کی وہ پیشگوئی کہ کنواریاں دولہا کے ساتھ قلعہ میں داخل ہوں گی ، ایک دن بہت 275
اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 28 جنوری 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم بڑی شان اور عظمت کت ساتھ پوری ہوگی.مثیل مسیح ان کنواریوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور لے جائے گا اور وہ قومیں، جو اس سے برکت پائیں گی ، خوشی سے پکار اٹھیں گی کہ هوشعنا، هو شعنا.اس وقت انہیں محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ایمان لانا نصیب ہو گا اور اسی وقت انہیں حقیقی رنگ میں مسیح اول پر سچا ایمان نصیب ہوگا.اب تو وہ قو میں انہیں خدا تعالیٰ کا بیٹا قرار دے کر در حقیقت گالیاں دے رہی ہیں لیکن مقدر یہی ہے کہ میرے بوئے ہوئے بیچ سے ایک دن ایسا درخت پیدا ہوگا کہ یہی عیسائی اقوام مثیل مسیح سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کے نیچے بسیرا کریں گی اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل ہو جائیں گی اور جیسے خدا کی بادشاہت آسمان پر ہے ویسے ہی زمین پر آجائے گی.( مطبوعه الفضل یکم فروری 1944ء) 276
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 10 مارچ 1944ء ہم اپنی ہر چیز اپنے رب کے پاؤں پر قربان کر دیں خطبہ جمعہ فرمودہ 10 مارچ 1944ء میں اس مقام پر سب سے پہلے اپنے خاندان کو نصیحت کرتا ہوں کہ دیکھو ہمارے اوپر اللہ تعالیٰ کے اس قدر احسانات ہیں کہ اگر سجدوں میں ہمارے ناک گھس جائیں، ہمارے ہاتھوں کی ہڈیاں گھس جائیں ، تب بھی ہم اس کے احسانات کا شکر ادا نہیں کر سکتے.اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری موعود کی نسل میں ہمیں پیدا کیا اور اس فخر کے لئے اس نے اپنے فضل سے ہمیں چن لیا ہے.پس ہم پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہے.دنیا کے لوگوں کے لئے دنیا کے اور بہت سے کام پڑے ہوئے ہیں مگر ہماری زندگی تو کلیۂ دین کی خدمت اور اسلام کے احیاء کے لئے وقف ہونی چاہئے.مگر میں دیکھتا ہوں ہمارے خاندان کے کچھ افراد دنیا کے کام میں مشغول ہو گئے ہیں.بے شک وہ چندے بھی دیتے ہیں، بے شک وہ نمازیں بھی پڑھتے ہیں، بے شک وہ اور دینی کاموں میں بھی حصہ لیتے ہیں مگر یہ وہ چیز ہے، جس کی اللہ تعالیٰ ہر مومن سے امید کرتا ہے.ہر مومن سے وہ توقع کرتا ہے کہ وہ جہاں دنیا کے کام کرے، وہاں چندے بھی دے، وہاں نمازیں بھی پڑھے ، وہاں دین کے اور کاموں میں بھی حصہ لے.پس اس لحاظ سے ان میں اور عام مومنوں میں کوئی امتیاز نہیں ہو سکتا.حالانکہ خدا ہم سے دوسروں کی نسبت زیادہ امید کرتا ہے.خدا ہم سے یہ نہیں چاہتا کہ ہم کچھ وقت دین کو دیں اور باقی وقت دنیا پر صرف کریں.بلکہ خدا ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم اپنی تمام زندگی خدا تعالیٰ کے دین کے لئے وقف کر دیں.حضرت داؤ د فرماتے ہیں.میں نے آج تک کسی بزرگ کی سات پشتوں تک کو بھیک مانگتے اور فاقے کرتے نہیں دیکھا.اس کے معنے یہی ہیں کہ سات پشتوں تک اللہ تعالیٰ خود اس خاندان کا محافظ ہو جاتا ہے اور پھر اس کے یہ بھی معنی ہیں کہ جب سات پشتوں تک خدا خود اس خاندان کا محافظ ہو جاتا ہے تو اس خاندان کے افراد کا بھی فرض ہوتا ہے کہ وہ کم سے کم سات پشتوں تک سوائے دین کی خدمت کے اور کوئی کام نہ کریں.اگر وہ دنیا کے کام چھوڑ دیں تو اس کے نتیجہ میں فرض کرو ان کو فاقے آنے لگ جاتے ہیں تو پھر کیا ہوا ؟ سب کچھ خدا کی مشیت کے ماتحت ہوتا ہے.اگر اس رنگ میں ہی کسی وقت اللہ تعالیٰ ان 277
اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 10 مارچ 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم کا امتحان لینا چاہے اور انہیں فاقے آنے شروع ہو جا ئیں.تب بھی اس میں کون سی بڑی بات ہے؟ کیا لوگ دنیا میں فاقے نہیں کیا کرتے؟ اگر دنیا کے اور لوگ فاقے کر لیتے ہیں تو فاقہ کے ڈر سے ہمارے لئے دین کی خدمت کو چھوڑ نا کس طرح جائز ہو سکتا ہے؟“ " بہر حال یاد رکھو! خدا اپنے بندوں کو دیتا ہے اور ایسے طور پر دیتا ہے کہ بندہ لیتے لیتے تھک جاتا ہے.پھر کیوں وہ خدا پر یقین اور توکل نہیں کرتے اور دنیوی کاموں میں مشغول رہتے ہیں.وہ خدا تعالیٰ پر توکل کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان میں ہونے کی وجہ سے جس طرح ہم تینوں بھائیوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق دی ہے کہ ہم نے اپنی زندگیاں دین کے لئے وقف کر دی ہیں، اسی طرح وہ اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کے لئے وقف کر دیں، اپنی اولادوں کو خدا تعالیٰ کے لئے وقف کر دیں اور دنیوی کاموں کی بجائے دین کے کاموں اور اسلام کی احیاء میں حصہ لیں.اگر وہ ایسا کریں گے تو اول تو میں انہیں بتاتا ہوں ، خدا انہیں فاقہ نہیں دے گا.لیکن میں کہتا ہوں اگر خدائی مشیت کے ماتحت کسی وقت انہیں فاقہ بھی کرنا پڑے تو یہ فاقہ ہزاروں کھانوں سے زیادہ بہتر ہوگا.اس وقت دین پر ایک آفت آئی ہوئی ہے.اسلام یک مصیبت میں مبتلا ہے.اس کا وہی نقشہ ہے، جو حضرت مسیح موعود نے ان الفاظ میں کھینچا ہے.بے کسے شد دین احمد پیچ خویش و یار نیست ہر کسے درکار خود با دین احمد کار نیست پس اے ابنائے فارس ! تم کو یا درکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا بیٹا قرار دیا ہے اور بیٹا اسی وجہ سے قرار دیا گیا ہے تا آپ کے خاندان کو معلوم ہو کہ وہ خویشوں میں سے ہیں اور ان سے زیادہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ دین کی خدمت کریں گے.پس تم رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خویشوں میں سے ہو.تمہیں اوروں سے زیادہ دین کی خدمت کرنی چاہئے.ہوتے مجھے تو اس بات کی کبھی سمجھ ہی نہیں آسکتی کہ اگر خدا نے دین کی خدمت کا کام کرتے ہوئے دنیوی لحاظ سے مجھے اپنے فضلوں سے حصہ دیا ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میری اولاد یا اولاد در اولاد دین کی خدمت کا کام کرے اور وہ فاقہ سے مرتی رہے؟ اگر وہ مومنانہ رنگ اختیار کریں تو تھوڑے روپیہ میں بھی آسانی سے گزارہ کر سکتے ہیں اور اگر حرص بڑھالیں تو پانچ یا دس ہزار روپیہ کمانے کی کیا شرط ہے؟ انسان کہتا ہے، مجھے ہیں ہزار روپیہ ملے.جب میں ہزار روپیہ اکٹھا کر لیتا ہے تو کہتا ہے کہ میرے پاس پچاس ہزار روپیہ ہو جائے.جب پچاس ہزار روپیہ ہو جاتا ہے تو چاہتا ہے کہ اس کے پاس ایک لاکھ روپیہ 278
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 10 مارچ 1944ء ہو جائے.پس اگر اس حرص کو بڑھاتے چلے جائیں تو بڑھتی چلی جاتی ہے اور اس کا کہیں خاتمہ نہیں ہوتا.دنیا میں ایسے ایسے لوگ موجود ہیں، جن کی ماہوار آمد پچاس پچاس، ساٹھ ساٹھ لاکھ روپیہ ہے.مگر پھر بھی وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کے پاس اور روپیہ آ جائے.پس اللہ پر توکل کرو، دنیوی کا موں کو چھوڑ دو اور دین کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف کردو.اسلام اس وقت قربانی کا محتاج ہے اور سب سے پہلا حق اس قربانی کو ادا کرنے کا ہم پر ہے." اب میں ایک آخری اور ضروری بات کہہ کر اس خطبہ کوختم کرتا ہوں.وہ بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اب اسلام کی فتح کی ایک نئی بنیا درکھ دی ہے تو یقینا اس کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے ہم سے نئی قربانیوں کا مطالبہ کرنے والا ہے.میں نہیں جانتا کہ یہ آواز میرے منہ سے نکلے گی یا کسی اور شخص کے منہ سے نکلے گی.میں یہ بھی نہیں جانتا کہ یہ آواز کس رنگ میں نکلے گی؟ لیکن بہر حال یہ آواز بلند ہونے والی ہے.ہماری جماعت بے شک چندے دیتی ہے اور بہت دیتی ہے، قربانیاں کرتی ہے اور بہت کرتی ہے مگر یہ قربانیاں اسلام کی اشاعت کے لئے کافی نہیں.پس میں تجویز کرتا ہوں اور اس تجویز کے مطابق سب سے پہلے میں اپنے وجود کو پیش کرتا ہوں کہ ہم میں سے کچھ لوگ جن کو خدا تعالیٰ توفیق دے، اپنی جائیدادوں کو اس صورت میں دین کے لئے وقف کر دیں کہ جب سلسلہ کی طرف سے ان سے مطالبہ کیا جائے گا ، انہیں وہ جائیداد اسلام کی اشاعت کے لئے پیش کرنے میں قطعا کوئی غور نہیں ہوگا.میں سب سے پہلے اس غرض کے لئے اپنی جائیداد وقف کرتا ہوں.دوسرے چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب ہیں.انہوں نے بھی اپنی جائیداد میری اس تحریک پر دین کی خدمت کے لئے وقف کر دی ہے.بلکہ انہوں نے مجھے کہا، آپ جانتے ہیں، آپ کی پہلے بھی یہی خواہش تھی اور ایک دفعہ آپ نے اپنی اس خواہش کا مجھ سے اظہار بھی کیا تھا اور میں نے کہا تھا کہ میری جائیداد اس غرض کے لئے لے لی جائے.اب دوبارہ میں اس مقصد کے لئے اپنی جائیداد پیش کرتا ہوں.تیسرے نمبر پر میرے بھانجے مسعود احمد خان صاحب ہیں.انہوں نے کل سنا کہ میری یہ خواہش ہے تو فورا مجھے لکھا کہ میری جس قدر جائیداد ہے، اسے میں بھی اسلام کی اشاعت کے لئے وقف کرتا ہوں.اس وقف کی صورت یہ ہوگی کہ ایک کمیٹی بنادی جائے گی اور جب وہ فیصلہ کرے گی کہ اس وقت اسلام کی ضرورت کے لئے وقف کرنے والوں کی جائیدادوں سے اس اس قدر رقم لے لی جائے ، اس 279
اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 10 مارچ 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم وقت پہلے عام چندے کی تحریک کی جائے گی، اس کے بعد چندہ میں جو کی رہ جائے گی ، اس کی کو یہ کمیٹی ان لوگوں پر نسبتی طور پر تقسیم کر دے گی، جنہوں نے اپنی جائیدادیں وقف کی ہوں گی اور ان کا اختیار ہوگا کہ وہ چاہیں تو نقد روپیہ دے دیں اور چاہیں تو اپنی جائیداد کو فروخت کر کے یا گرور کھ کر اتار و پیہ دے دیں.گویا اسلام کی اشاعت کے لئے آئندہ یہ نہیں ہو گا کہ کہا جائے، ہمارے پاس اتنار و پیہ نہیں ، جماعت میں پہلے ایک عام تحریک کی جائے گی اور اس کے بعد جو کمی رہ جائے گی ، اس بار کو ہم لوگ اپنے اوپر لے لیں گے، جنہوں نے دین کے لئے اپنی جائیدادوں کو وقف کر دیا ہوگا.اور جو کمیٹی مقرر ہوگی ، وہ جائیدادوں کے مطابق ہر ایک کا حصہ اسے بتادے گی.مثلاً فرض کرو.ایک شخص کی جائیداد ایک لاکھ روپے کی ہے اور دوسرے کی دس ہزار روپیہ کی.تولاکھ روپے کی جائید ادرکھنے والے کے ذمے مثلاً کمیٹی دس حصے مقرر کر دے گی اور دس ہزار روپیہ کے ذمہ ایک حصہ.اور ان کا اختیار ہوگا کہ وہ چاہیں تو اپنی جائیداد کو فر وخت کر کے یا گرور کھ کر ادا کر دیں.بہر حال اس معاہدہ کے بعد ان کا کوئی حق نہیں ہوگا کہ وہ کہہ سکیں کہ ہم اپنی جائیداد کا اتنا حصہ دے سکتے ہیں، اتنا نہیں دے سکتے.یہ کمیٹی کا اختیار ہوگا کہ ان سے جس قد رضرورت سمجھے مطالبہ کرے.ان کا حق نہیں ہو گا کہ وہ انکار کریں.اس اقرار کے بعد اگر کوئی شخص اس جائیداد کو فروخت کرنا چاہے تو چونکہ اس سے پہلے وہ اپنی جائیداد سلسلہ کو دے چکا ہوگا، اس لئے اس کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ جائیداد فر وخت کرتے وقت کمیٹی کو اطلاع دے کہ اس اس رنگ میں میں اپنی جائیداد کو بدلنے لگا ہوں تا کہ کمیٹی کو تمام جائیدادوں کے متعلق صحیح علم حاصل ہوتا رہے.اور چونکہ کچھ لوگ اس قسم کے بھی ہوتے ہیں کہ ان کے پاس جائیداد میں نہیں ہوتیں لیکن ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بھی کسی طرح ثواب میں شامل ہوں ، اس لئے وہ اگر چاہیں تو اس رنگ میں اپنا نام پیش کر سکتے ہیں کہ علاوہ دوسرے چندوں کو ادا کرنے کے جب کبھی اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے خاص قربانیوں کا مطالبہ ہوا، میں اپنی ایک مہینہ کی یاد و مہینہ کی یا تین مہینہ کی آمد دے دوں گا اور مجھے اور میرے بیوی بچوں کو خواہ کیسی ہی تنگی سے گزارہ کرنا پڑے، میں اس کی پروا نہیں کروں گا.اس معاہدہ کے مطابق جب قربانیوں کا وقت آیا تو ان لوگوں سے ان کے وعدے کے مطابق ایک یا دو یا تین مہینہ کی آمد وصول کر لی جائے گی.اور ان کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ اس میں کسی قسم کا پس و پیش نہ کریں.یہ دوصورتیں ہیں، جو اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے ضروری ہیں.جو لوگ صاحب جائیداد ہیں، ان کو چاہیے کہ وہ اپنی جائیدادیں دین کے لئے وقف کر دیں اور ہمارے پاس نوٹ کرا دیں 280
تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 10 مارچ 1944ء کہ ہماری جائیدادیں آج سے خدا کے دین کی اشاعت کے لئے خرچ ہوسکتی ہیں، ہمارا انپر کوئی اختیار نہیں ہوگا.یہ جائیدادیں گو ان کے پاس ہی رہیں گی مگر وقت آنے پر ان سے فائدہ اٹھایا جا سکے گا.اس دوران میں اگر وہ اپنی جائیداد میں کوئی تغیر وتبدل کریں تو ان کا فرض ہوگا کہ وہ ہمیں اس تبدیلی سے اطلاع دیں.جب اسلام کی طرف سے قربانی کی آواز بلند ہوگی ، اس وقت اگر نصف کی ضرورت ہوگی تو نصف جائیداد لے لی جائے گی، ثلث کی ضرورت ہوگی تو ثلث جائیداد لے لی جائے گی ، پانچویں، ساتویں یا دسویں حصہ کی ضرورت ہوگی تو اس قدر حصہ کا مطالبہ کر لیا جائے گا.مگر بہر حال یہ طوعی تحریک ہے.میر احکم نہیں ہے کہ ہر شخص اس تحریک میں ضرور شامل ہو.جو شخص ثواب کی خاطر اس تحریک میں شامل ہونا چاہے، اسے چاہیے کہ وہ اس میں جلد شامل ہو جائے اور اپنے نام سے ہمیں اطلاع دے تاکہ دین کے کاموں میں آئندہ کسی قسم کا رخنہ پیدا نہ ہو اور ہم دلیری اور جرات سے تبلیغ واشاعت کے کام میں ہر وقت حصہ لے سکیں.پس آج اس خطبہ کے ذریعہ میں یہ اعلان کرتا ہوں تاکہ ساری جماعت میں یہ بات پھیل جائے اور اللہ تعالیٰ جس جس کو تو فیق عطا فرمائے ، وہ اس تحریک میں شامل ہوتا چلا جائے.میں نے ابھی اس غرض کے لئے چونکہ کوئی کمیٹی مقرر نہیں کی ، اس لئے جو دوست اس تحریک میں شامل ہونا چاہیں، وہ اپنے اپنے ناموں سے مجھے اطلاع دے دیں اور اس امر سے بھی کہ ان کی کتنی جائیداد ہے جو اسلام کی اشاعت کے لئے وہ وقف کرنا چاہتے ہیں؟ جو دوست اطلاع دیں گے ، ان کا نام رجسٹر میں نوٹ کر لیا جائے گا.اسی طرح تنخواہوں کے متعلق بھی براہ راست مجھے اطلاع دے دی جائے بعد میں جب رجسٹر بن جائیں گے تو ان کے نام وہاں درج کر دیئے جائیں گے.اس اعلان کے بعد چند گھنٹوں میں چالیس لاکھ کے قریب کی قیمت کی جائیدادیں دوستوں نے وقف کر دیں.فالحمد لله.باہر کے دوستوں اور قادیان کے اور دوستوں کی درخواستوں کے بعد تعجب نہیں کہ کئی کروڑ روپیہ کاریز روفنڈ اس غرض کے لئے قائم ہو جائے.اللہ تعالیٰ کا رحم ان پر نازل ہو ، جو آگے بڑھ کر اس تحریک میں حصہ لیں.اللهم امین) اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم نہایت خوشی سے نہایت فرحت سے ، نہایت بشاشت اور دل کی ٹھنڈک سے اپنی ہر چیز ، اپنی جان بھی، اپنا مال بھی ، اپنی اولاد بھی، اپنی بیویاں بھی، اپنے عزیز اور رشتہ دار بھی ، اپنے جذبات اور احساسات بھی اور اپنے خیالات اور افکار بھی ، اپنے رب کے پاؤں پر قربان ا کر دیں اور اس راہ میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ اور تنگ دلی سے کام نہ لیں.اللهم امین مطبوع الفضل 14 مارچ 1944ء) 281
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اقتباس از تقریر فرمود : 17 مارچ 1944ء اللہ تعالیٰ کے نور پر فدا ہونے کے لئے تیار ہو جاؤ تقریر فرمودہ 17 مارچ 1944ء بر وفات حضرت میر محمد اسحاق صاحب وو اکثر لوگ خدا تعالیٰ کے لئے زندگی وقف کرنا اور کام کرنا نہیں جانتے.یہی وجہ ہے کہ دنیا پر حزن و غم کی چادر پڑی رہتی ہے.اگر سب کے سب لوگ دین کی خدمت کرتے اور اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی میں لگے ہوتے تو دنیا کا عرفان اور علم ایسے بلند معیار پر آجا تا کہ کسی قابل قدر خادم اسلام کی "" وفات پر جو یہ احساس پیدا ہوتا ہے اور یہ فکر لاحق ہوتا ہے کہ اب ہم کیا کریں گے؟ یہ کبھی نہ ہوتا...اگر ہماری جماعت کا ہر شخص ویسا ہی بنے کی کوشش کرتا تو آج یہ احساس نہ پیدا ہوتا جب ہر شخص اپنی ذمہ داری کو سمجھتا ہوتو کسی کارکن کی وفات پر یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ اب ہم کیا کریں گے؟ بلکہ ہر شخص جانتا ہے کہ ہم سب یہی کر رہے ہیں.عزیز اور دوست کی جدائی کا غم تو ضرور ہوتا ہے مگر یہ احساس نہیں ہوتا کہ اب اس کا کام کون سنبھالے گا ؟“ اگر اور لوگ بھی ایسے ہوتے تو بے شک ان کی وفات کا صدمہ ہوتا.ویسا ہی صدمہ جیسا ایک عزیز کی وفات کا ہوتا ہے مگر جماعتی پہلو حفوظ ہوتا.اور یہ دیکھ کر کہ اگر ایک آدمی فوت ہو گیا ہے تو خواہ وہ کسی رنگ کا تھا، اس کی جگہ لینے والے کئی اور موجود ہیں، جماعت کے لوگ مایوس نہ ہوتے اور وہ سمجھتے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت نے ایک آدمی ہم سے لے لیا ہے تو اس کے کئی قائمقام موجود ہیں.مگر قحط الرجال ایسی چیز ہے کہ جو لوگوں کے دلوں میں مایوسی پیدا کر دیتی ہے اور جب کام کا ایک آدمی فوت ہوتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ اب کیا ہوگا ؟ اور دشمن بھی کہتا ہے کہ اب یہ جماعت تباہ ہو جائے گی ، اب اس کا کام چلانے والا کوئی نہیں.لیکن اگر ایک کے بعد کام کرنے والے کئی موجود ہوں تو پھر نہ اپنوں میں مایوسی پیدا ہوتی ہے اور نہ دشمن کو خوش ہونے کا موقع مل سکتا ہے.پس اگر جماعت کے دوست اپنی اپنی ذمہ داری کو سمجھتے تو آج جو یہ گھبراہٹ پائی جاتی ہے، نہ ہوتی.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے بر وقت سمجھ دی اور میں نے نوجوانوں کو زندگیاں وقف کرنے کی تحریک کی ، جس کے ماتحت آج نوجوان تعلیم حاصل کر رہے ہیں.لیکن ہمارا کام بہت وسیع ہے.ہم نے 283
اقتباس از تقریر فرموده 17 مارچ 1944ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم دنیا کو صحیح علوم سے آگاہ کرنا ہے اور اس کے لئے ہزار ہا علماء درکار ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب جماعت اتنی بڑھ رہی ہے کہ آٹھ دس علماء تو ہر وقت ایسے چاہئیں ، جو مرکز میں رہیں اور مختلف مساجد میں قرآن وحدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درس با قاعدہ جاری رہے اور اس طرح نظر آئے کہ گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم میں زندہ موجود ہیں.اب کام اتنا بڑھ گیا ہے کہ خود خلیفہ اسے سنبھال نہیں سکتا.اگر قرآن کریم کا درس ہم میں جاری رہے تو گویا زندہ خدا ہم میں موجود ہوگا ، اگر حدیث کا درس جاری رہے تو گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں زندہ ہوں گے، اگر کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا درس جاری رہے تو گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم میں زندہ ہوں گے.سو یہ کتنی بڑی غفلت ہے ، جو جماعت سے ہوئی.میں تو اس کا خیال کر کے بھی کانپ جاتا ہوں.کتنے تھوڑے لوگ تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یاد گار تھے اور اب تو وہ اور بھی بہت کم رہ گئے ہیں.اگر ان کے مرنے سے پہلے پہلے جماعت نے اس کمی کو پورا نہ کیا تو اس نقصان کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا، جو جماعت کو پہنچے گا.ذرا غور کرو ہمارے سامنے کتنا بڑا کام ہے اور کتنی بڑی کوتاہی ہے، جو جماعت سے ہوئی.پس اب بھی سنبھلو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یادگار لوگ اب بہت تھوڑے رہ گئے ہیں اور شاید تھوڑے ہی دن ہیں.پھر میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کا کوئی وعدہ نہیں کہ میری عمر کتنی ہوگی ؟ اور کتا ن مصلح موعود کی پیشگوئی پورے ہونے کے بعد بھی ہوسکتا ہے، ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے مجھ سے جتنا کام لینا ہو، لے لیا ہو.پس یہ بڑے خطرات کے دن ہیں، اس لئے سنبھلو اور اپنے نفسوں سے دنیا کی محبت کو سرد کر دو اور اپنے دین کی خدمت کے لئے آگے آؤ اور ان لوگوں کے علوم کے وارث بنو، جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت پائی تا تم آئندہ نسلوں کو سنبھال سکو تم لوگ تھوڑے تھے اور تمہارے لئے تھوڑے مدرس کافی تھے مگر آئندہ آنے والی نسلوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگی اور ان کے لئے بہت زیادہ مدرس درکار ہیں.پس اپنے آپ کو دین کے لئے وقف کر دو اور یہ نہ دیکھو کہ اس کے عوض تمہیں کیا ملتا ہے.جو شخص ید دیکھتا ہے کہ اسے کتنے پیسے ملتے ہیں؟ وہ کبھی خدا تعالیٰ کی نصرت حاصل نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ کی نصرت اسی کو ملتی ہے ، جو اس کا نام لے کر سمندر میں کود پڑتا ہے.چاہے موتی اس کے ہاتھ میں آجائے اور چاہیے وہ مچھلیوں کی غذا بن جائے.پس مومن کا کام عرفان کے سمندر میں غوطہ لگا دینا ہے، وہ اس بات سے بے پر واہ ہوتا ہے کہ اسے موتی ملتے ہیں یا وہ مچھلیوں کی غذا بنتا ہے“.284
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم "" اقتباس از تقریر فرموده 17 مارچ 1944ء " یہ دین کی فتح کے دن ہیں اور ان دنوں میں افسردگی نہیں ہونی چاہیے بلکہ دلوں میں ایسا عزم صمیم ہونا چاہیے کہ جس کے ماتحت دوست بڑھ بڑھ کر قربانیاں کر سکیں.پس خوب دعا ئیں کرو کہ اللہ تعالی کمزور لوگوں کو ٹھوکر سے بچائے اور ایسی بشارات دے کہ جو دلوں کو مضبوط کر دیں اور اطمینان پیدا کریں، ایسا اطمینان کہ جو پھر کبھی نہ چھینا جائے اور جماعت کو کوئی ایسا نقصان نہ ہو، جو ارادوں کو پست کرنے اور ہمتوں کو توڑنے والا ہو اور اللہ تعالیٰ دلوں میں ایسی تبدیلی پیدا کرے کہ نوجوان خدمت دین کے لئے آگے آئیں اور اس بوجھ کو اٹھانے کے لئے بڑھیں اور ایسی روح پیدا ہو کہ ہم اور ہماری اولادیں اللہ تعالیٰ کے نور پر اس طرح فدا ہونے کے لئے تیار ہو جائیں کہ جس طرح برسات کی رات پروانے شمع پر قربان ہوتے ہیں.( مطبوع الفضل یکم اپریل 1944ء) 285
تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 مارچ 1944ء قربانی وہی فائدہ دے سکتی ہے، جو بشاشت کے ساتھ کی جائے خطبہ جمعہ فرمودہ 24 مارچ 1944ء کام بہت ہے اور وقت تھوڑا ہے، ہماری ذمہ واریاں بے انتہا ہیں اور مشکلات کا کوئی اندازہ نہیں اور آخر جس طرح بھی ہو، گرتے پڑتے ہمت سے کام کرنا ہے.اور اللہ تعالیٰ نے ہی چونکہ وہ کام کرنا ہے، اس لئے ہماری کوشش کتنی کم کیوں نہ ہو، یہ یقین ہے کہ آخر اللہ تعالیٰ ہمیں اس کام کو پورا کرنے کی توفیق دے دے گا.دو یا تین ہفتے ہوئے ، میں نے بیان کیا تھا کہ مجھے سلسلہ کی آئندہ ترقی کے متعلق بہت سی باتیں کہنی ہیں مگر چونکہ ایک ہی خطبہ میں ان سب کا بیان کرنا ممکن نہیں، اس لئے آہستہ آہستہ مختلف خطبات میں ، میں انہیں بیان کروں گا.اور حقیقت یہ ہے کہ ہر ایک دن، جو دو جمعوں کے درمیان گزرتا ہے، ہمارے لئے مشکلات بڑھاتا جاتا ہے اور ضرورت ہے کہ ہم اپنے آپ کو جلد سے جلد ایسے رنگ میں منظم کرلیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسی بنیاد دین کی اشاعت کے لئے قائم ہو جائے کہ جس پر آئندہ سہولت کے ساتھ عمارت بنائی جاسکے.میں جس سکیم کی طرف سب سے پہلے توجہ دلانا چاہتا تھا، وہ جماعت میں علماء کے پیدا کرنے کے متعلق تھی.میرا دل کانپ جاتا ہے، اس خیال سے کہ اس بارہ میں اس وقت تک ہم سے بہت بڑی کوتاہی ہوئی ہے.چنانچہ میں نے کچھ عرصہ ہوا، یہ محسوس کیا کہ تحریک جدید کے واقفین کی تعلیم جس رنگ میں ہورہی ہے، اس طرح مکمل نہیں ہو سکتی.اور میں نے اسے اپنے ہاتھ میں لیا تا ایسے اصول پر ان کی تعلیم ہو سکے کہ وہ چوٹی کے علماء بن سکیں اور میں نے ان سے کہا کہ پہلے وہ صرف ونحو کی تعلیم حاصل کریں اور اس میں کامل بنیں کیونکہ یہ علم ہر دوسرے علم کے حاصل کرنے میں مددگار ہوتا ہے.اب ان میں سے بعض طالب علم ایسے مقام پر ہیں کہ دو تین ماہ میں اسے مکمل کر سکیں گے اور پھر سے دوسروں کو پڑھانے اور سکھانے کی قابلیت ان میں پیدا ہو جائے گی.اب اللہ تعالیٰ نے جو انکشاف مجھ پر فرمایا ہے، وہ یہ ہے کہ جب یہ لوگ صرف و نحو کی تعلیم مکمل کر لیں تو ان کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر دیا جائے.بعض کو فقہ کی اعلیٰ تعلیم دلائی جائے، بعض کو حدیث کی، بعض کو تفسیر کی اعلیٰ تعلیم دلائی جائے اور اس طرح تین تین، چار چار کو مختلف علوم کی تکمیل کرائی جائے اور پھر پانچ چھ ماہ یا سال کے بعد وہ ایک دوسرے کو اپنے حاصل کردہ علوم کی تکمیل کرا دیں.اور جو جو علم کسی نے سیکھا ہو، وہ دوسروں کو سکھا دیں اور اس طرح ان میں سے ہر ایک دوسرے کا شاگرد اور وو 287
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 مارچ 1944 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم استاد بن جائے اور سب کے سب مختلف علوم میں کمال حاصل کر سکیں.کیونکہ ان میں سے ہر ایک کو اگر باری ری سارے علوم سکھائے جائیں تو ہو سکتا ہے کہ سب کے کامل ہونے تک وہ لوگ جماعت میں سے اٹھ جائیں ، جوان نو جوانوں کو تعلیم دیتے ہیں.اس لئے ان کو گروہوں میں تقسیم کر دیا جائے.تین چار تفسیر قرآن سیکھنے میں لگ جائیں، تین چار حدیث سیکھنے میں ، تین چار تصوف سیکھنے میں، تین چار علم کلام کے سیکھنے میں اور تین چار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے سیکھنے میں اور چونکہ ان سب کو ان سب علوم کا سکھانا ضروری ہے.اس لئے ان میں سے ہر ایک، ایک علم میں کمال حاصل کرنے کے بعد دوسرے کو سکھائے.فقہ کے علماء ، حدیث کے علماء کو فقہ کی اعلی تعلیم دیں اور حدیث کے علماء ، فقہ کے علماء کو حدیث کی اعلی تعلیم دیں اور اس طرح باہم استاد شاگرد ہو کر مکمل علوم کے ماہر بن جائیں.لیکن یہ سکیم پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکتی، جب تک ایسے افراد زیادہ تعداد میں نہ ہوں، جو دین کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں.جسمانی کام ایک ایک آدمی سے بھی چل سکتے ہیں کیونکہ جسم کا فتح کرنا آسان ہے مگر روحانی کاموں کے لئے بہت آدمیوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے کیونکہ دلوں کا فتح کرنا بہت مشکل کام ہے.اس لئے ضرورت ہے کہ ہمارے پاس اتنے معلم ہوں کہ ہم انہیں تمام جماعت میں پھیلا سکیں“.و عملی قربانی کے لئے نو جوان آگے آئیں.زمیندار طبقہ ہمارے ملک کی جان ہے، ان میں سے اور ان قوموں میں سے جو باہر سے ہندوستان میں آئی ہیں.مثلاً پٹھان، قریشی ، سید مغل اور راجپوت وغیرہ اقوام میں سے بہت کم نوجوانوں نے زندگیاں وقف کی ہیں.زیادہ تر ایسے نوجوانوں نے زندگیاں وقف کی ہیں، جن کا پشت پناہ جماعتی طور پر کوئی نہیں.ایسی صورت میں بعض اوقات دشمن اعتراض کر سکتا ہے کہ جن لوگوں کے گزارہ کی کوئی صورت نہ تھی، انہوں نے اپنی زندگیاں وقف کر دی.گو یہ بات ہے تو جھوٹ.خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ روح ہماری جماعت میں نہیں مگر کم سے کم دشمن کے لئے اعتراض کا موقع تو ضرور ہے.اس لئے وہ اقوام ، جن کو اللہ تعالیٰ نے سیاسی عزت دی ہے، اگر اپنے فرائض کو ادا کریں تو ان کی عزت قائم رہ سکتی ہے.اگر ان کے اندر قربانی کا مادہ پیدانہ ہوا تو ان کی عزت چھن جائے گی.اس وقت دنیا میں ایسے انقلاب اور تغیرات ہونے والے ہیں کہ اگر ان قوموں نے ، جو اس وقت سیاسی طور پر معزز مجھی جاتی ہیں، اپنا حصہ قربانیوں کا ادا نہ کیا تو وہ گر جائیں گی اور وہ عزت پا جائیں گی ، جو اس وقت سیاسی طور پر معزز نہیں کبھی جاتیں“.وپس میں تحریک کرتا ہوں کہ سیاسی طور پر معزز سمجھی جانے والی اقوام کے لوگ اپنے کو ، اپنی اولادوں کو دین کے لئے وقف کریں.وقت بہت تھوڑا ہے اور کام بہت زیادہ ہے.خدا تعالیٰ اب زیادہ 288
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 مارچ 1944ء انتظار نہیں کر سکتا.اگر ہم سنتی سے کام لیں گے تو خدا تعالیٰ اپنے کام کے لئے کوئی اور انتظام کرے گا اور ہماری بدقسمتی پر مہر ہو جائے گی.کاش ہمارے دل اس فرض کو پورے طور پر محسوس کریں ، اے عزیز و ! کاش ہمارے ایمان آج ہم کو شرمندگی سے بچالیں، کاش ہمارے جسم، ہماری روحوں کے تابع ہو کر ہمیں اپنا فرض ادا کرنے دیں، کاش ہمارے آج کے افعال قیامت کے دن ہم کو شرمساری اور روسیاہی سے بچالیں.چاہئے تو یہ تھا کہ ہر فرد آگے بڑھتا اور اپنی زندگی وقف کرتا مگر کم سے کم ایک حصہ تو آگے بڑھنا چاہئے.میں مانتا ہوں کہ دوست چندہ میں قربانی کرتے ہیں مگر زندگی وقف کرنے کے لئے بہت کم لوگ آگے آئے ہیں.ضرورت ہے کہ آئندہ مدرسہ احمدیہ میں زیادہ بچے داخل کرائے جائیں اور میں انجمن کو توجہ دلاتا ہوں کہ ایسے رنگ میں ان کی تعلیم کا انتظام کیا جائے کہ چاہے مولوی فاضل وہ نہ ہو سکیں مگر دینی علوم کے ماہر بن جائیں.ہمیں مولوی فاضلوں کی ضرورت نہیں بلکہ ضرورت یہ ہے کہ مبلغ مل سکیں.مالی کمزوری کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ہر سال تین نئے مبلغ رکھے جائیں مگر کئی سالوں سے ایک بھی نہیں رکھا گیا اور اب کئی سال کے بعد ایک رکھا گیا ہے.حالانکہ کام کی وسعت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر سال ایک سو نہیں بلکہ دوسو مبلغ رکھے جائیں.پس میں ایک تحریک تو یہ کرتا ہوں کہ دوست مدرسہ احمدیہ میں اپنے بچوں کو بھیجیں تا انہیں خدمت دین کے لیے تیار کیا جا سکے.دوسری تحریک انجمن کو یہ کرتا ہوں کہ پڑھائی کی سکیم ایسی ہو کہ تھوڑے سے تھوڑے عرصہ میں زیادہ سے زیادہ دینی تعلیم حاصل ہو سکے اور اس رستہ میں جو چیز حائل ہو، اسے نکال دیا جائے.مولوی فاضل بنانا ضروری نہیں ، جس نے ڈگری حاصل کرنی ہو ، وہ باہر چلا جائے.اس دوغلا پن کو دور کرنا ضروری ہے.دوکشتیوں میں پاؤں رکھنے والا کبھی ساحل پر نہیں پہنچا کرتا.پس تعلیم کا انتظام ایسے رنگ میں کیا جائے کہ جلد سے جلد علماء نہیں مل سکیں.فقہ تفسیر، حدیث ، تصوف اور کلام وغیرہ علوم میں ایسی دسترس حاصل کر سکیں کہ چوٹی کے علماء میں ان کا شمار ہو.بلکہ دنیا میں صرف وہی علماء سمجھے جائیں اور اسلام کے ہر فرقہ اور ہر ملک کے لوگ اختلاف عقائد کے باوجود یہ تسلیم کریں کہ اگر ہم نے ان علوم کو سیکھنا ہے تو احمدی علماء سے ہی سیکھنا چاہئے.خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کا ایک حصہ تبلیغ میں حصہ لیتا ہے مگر ضرور ہے کہ اس طرف اور زیادہ توجہ کی جائے.اب کے جو میں نے اعلان کیا تو دسویں جماعت کے پانچ طلباء نے بھی اپنے نام پیش کئے.(اس کے بعد اور نو جوان میٹرک پاس نے وقف کیا اور بعض اعلی تعلیم یافتہ والوں نے بھی).دنیوی علوم حاصل کرنے والے نوجوان بھی اگر اپنے نام پیش کریں تو ان کو بھی ایسی تعلیم دی جاسکتی ہے کہ 289
اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 24 مارچ 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم دین کا کام ان سے لیا جا سکے اور دین کے ان حصوں میں ، جن میں دنیوی تعلیم ممد ہوتی ہے، ان سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے.مثلاً ڈاکٹروں کی ضرورت ہے.ادنی اقوام میں تبلیغ کے لئے ڈاکٹر بہت زیادہ مفید ہو سکتے ہیں بلکہ ان کے لئے ان سے بہتر مبلغ اور کوئی نہیں ہوسکتا.عیسائیوں نے ہسپتال کھول کر ہی چالیس لاکھ افراد کو عیسائی بنا لیا ہے.مدراس میں، جو قریباً ایک ہزار سال تک مسلمانوں کے زیرنگین رہا ہے، مسلمانوں کا تناسب کل آبادی کا چھ فیصدی ہے مگر عیسائی بارہ فیصدی ہیں.گویا ایک مسلمان کے مقابلہ میں دو عیسائی ہیں.اور یہ ترقی انہوں نے صرف ایک صدی میں کی ہے کیونکہ ان کے ڈاکٹر اپنی زندگی کو خطرہ میں ڈال کر ان میں جا کر ہسپتال جاری کرتے اور ان کا علاج کرتے ہیں.اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ جو ہم سے ہمدردی کرتے ہیں، ہم بھی ان کی باتیں سنیں.اور چونکہ عیسائیت کی دینی تعلیم نور نبوت سے متمتع ہے، اس لئے مشرکانہ تعلیم کی نسبت اچھی ہے.اور وہ لوگ جب اسے سنتے ہیں تو اس پر ایمان لے آتے ہیں.لیکن ان کی بجائے اگر اسلامی ڈاکٹر ان کا علاج کریں اور ساتھ اسلام کی سادہ اور مساوات کی تعلیم ان کے گوش گزار کریں تو بہت جلد کامیابی ہو سکتی ہے.عیسائی مشنریوں نے ان کو عیسائی تو بنا لیا مگر ان میں مساوات قائم نہیں کر سکے.وہی چھوت چھات کے اثرات ابھی تک ہیں اور دوسری اقوام ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتی ہیں.مگر چونکہ اسلام میں جب ایک آدمی داخل ہوتا ہے تو ایسا پکا مسلمان بن جاتا ہے کہ پہلی قومیت بالکل مٹ جاتی ہے اور کوئی مسلمان اس کے ساتھ کھانے پینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا.اسلامی تعلیم میں جو خوبیاں ہیں، اگر ڈاکٹر سے ادنی اقوام کے لوگوں کے سامنے پیش کریں تو لاکھوں کی تعداد میں ان کو داخل اسلام کیا جا سکتا ہے.پس ایسے نو جوان بھی اپنی زندگیاں وقف کریں، جنہوں نے سائنس میں میٹرک پاس کیا ہو یا اس سال پاس ہونے کی امید ہو.اسی طرح گریجوایٹ وغیرہ تا جو ڈاکٹری کے لئے مناسب ہوں ، انہیں ڈاکٹری کی تعلیم دلوا کر ادنی اقوام میں، جن تک ابھی تک اسلام کا نور نہیں پہنچا تبلیغ کے لئے بھیجا جا سکے اور جو دوسرے کاموں کے مناسب ہوں، انہیں دوسرے کاموں کے لئے تعلیم دلائی جائے.ہندو ان لوگوں کو ابھی تک ذلیل سمجھتے ہیں، ان سے چھوت چھات کرتے ہیں، ان غریبوں کو غلام قرار دے رکھا ہے.اس لئے جب ہمدردی سے ان کی خدمت کی جائے اور احسن رنگ میں اسلامی تعلیم ان کے سامنے پیش کی جائے تو عیسائیوں کی نسبت کئی گنا زیادہ کامیابی ہوسکتی ہے.پس یہ رستہ بھی بند نہیں.دنیوی تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان بھی اپنے آپ کو وقف کر سکتے ہیں اور ان سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے.290
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 مارچ 1944ء مگر یہ یادر ہے کہ تعلیم اور کام کے متعلق ان کا کوئی دخل نہ ہوگا.یہ کام ہمارا ہوگا کہ ہم فیصلہ کریں کہ کس سے کیا کام لیا جائے گا؟ بعض لوگ حماقت سے یہ سمجھتے ہیں کہ جو تقریر اور تحریر کرے، وہی مبلغ ہے.حالانکہ اسلام تو ایک محیط کل مذہب ہے.اس کے احکام کی تکمیل کے لئے ہمیں ہر قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہے.وہی مبلغ نہیں، جو تبلیغ کے لئے باہر جاتا ہے.جو سلسلہ کی جائیدادوں کا انتظام تندہی اور اخلاص سے کرتا ہے اور باہر جانے والے مبلغوں کے لئے اور سلسلہ کے لٹریچر کے لئے روپیہ زیادہ سے زیادہ مقدار میں کماتا ہے ، وہ اس سے کم نہیں اور خدا تعالیٰ کے نزدیک مبلغوں میں شامل ہے.جو سلسلہ کی عمارتوں کی اخلاص سے نگرانی کرتا ہے، وہ بھی مبلغ ہے.جو سلسلہ کے لئے تجارت کرتا ہے ، وہ بھی مبلغ ہے.جو سلسلہ کا کارخانہ چلاتا ہے، وہ بھی مبلغ ہے.جو زندگی وقف کرتا ہے اور اسے سلسلہ کے خزانہ کا پہرہ دار مقرر کیا جاتا ہے، وہ بھی مبلغ ہے.کسی کام کی نوعیت کا خیال دل سے نکال دو اور اپنے آپ کو سلسلہ کے ہاتھ میں دے دو.پھر جہاں تم کو مقر ر کیا جائے گا، وہی مقام تمہاری نجات اور برکت کا مقام ہوگا“.غرض میں ایک تو اس امر کی طرف جماعت کو توجہ دلاتا ہوں اور دوسرا حصہ اخراجات کا ہے، جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں.میں نے جائیداد وقف کرنے کی تحریک کی تھی.قادیان کے دوستوں نے اس کے جواب میں شاندار نمونہ دکھایا ہے اور اس تحریک کا استقبال کیا ہے.بہت سے دوستوں نے اپنی جائیداد میں وقف کر دی ہیں مگر بیرونی جماعتوں کی طرف سے اس تحریک کا جواب ایسا شاندار نہیں بلکہ قادیان کی نسبت نصف بھی نہیں.( بعد میں یہ بات درست ثابت نہیں ہوئی کئی دن کی ڈاک پڑی ہوئی تھی، جب اسے پڑھا گیا تو سینکڑوں وعدے اس سے نکلے ہیں مگر بھی بہت توجہ کی ضرورت ہے ).پس میں بیرونی جماعتوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ دوست جائیدادیں وقف کریں.یہ وقف جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا، اس صورت میں ہوگا کہ ان کی جائیداد ان ہی کے پاس رہے گی اور آمد بھی مالک کی ہی ہوگی اور وہی اس کا انتظام بھی کرے گا.ہاں جب سلسلہ کے لئے ضرورت ہوگی، ایسی ضرورت، جو عام چندہ سے پوری نہ ہو سکے تو جتنی رقم کی ضرورت ہوگی، اسے ان جائیدادوں پر بحصہ رسدی تقسیم کر دیا جائے گا.میں پہلے بھی اس تجویز کو بیان کر چکا ہوں لیکن اب پھر اسے بیان کر دیتا ہوں.فرض کرو، ایک شخص کی جائیداد ایک ہزار کی ہے، دوسرے کی دس ہزار کی اور تیسرے کی ایک لاکھ کی ہے.ایک کمیٹی مقرر کر دی جائے گی جو کسی ضرورت کے لئے اخراجات کا اندازہ کرے گی.فرض کر وہ کمیٹی کا اندازہ یہ ہے کہ ایک لاکھ روپیہ کی ضرورت ہے اور یہ رقم اتنی ہے کہ اگر ایک ایک فیصدی حصہ وقف شدہ جائیدادوں 291
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 مارچ 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم کا لے لیا جائے تو پوری ہو سکتی ہے.تو جس نے ایک ہزار کی جائیداد وقف کی ہے، اس سے دس روپیہ کا مطالبہ کیا جائے گا اور جس کی دس ہزار کی جائیداد ہے، اس سے ایک سوکا اور جس کی ایک لاکھ کی ہے، اس سے ایک ہزار اور جس نے دس لاکھ کی جائیداد وقف کی ہے، اس سے دس ہزار کا مطالبہ کیا جائے گا.اور کہا جائے گا کہ اتنے عرصہ میں یہ روپیہ داخل کر دو.جس کے پاس روپیہ ہو، وہ اپنے حصہ کا روپیہ ادا کر دے لیکن جس کے پاس نہ ہو، اس کی جائیداد کو رہن کر کے اس کے حصہ کا روپیہ وصول کر لیا جائے گا اور اس طرح مطلو به خرچ چلایا جائے گا.پس جائیداد میں وقف کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنی جائیداد میں انجمن کو دے دیں.صرف یہ اقرار کریں کہ جو چندہ ان کے ذمہ ڈالا جائے گا، اسے ادا کریں گے.اگر کمیٹی فیصلہ کرے گی کہ مثلاً ایک کروڑ روپیہ کی ضرورت ہے اور وقف شدہ جائیداد میں دو کروڑ روپیہ کی مالیت کی ہیں تو پچاس فیصدی کا مطالبہ کر لیا جائے گا.جس کی جائیداد دس لاکھ کی ہوگی ، اسے پانچ لاکھ اور جس کی دس ہزار کی ہوگی ، اسے پانچ ہزار دینا ہو گا.مگر یہ ابھی دور کی بات ہے.فی الحال میرا خیال ہے کہ ایک سے دس فیصدی تک کی ہی چند سالوں تک ضرورت پیش آسکتی ہے.جن کی جائیداد میں نہیں ہیں ، ان کے دل میں اگر خواہش ہو کہ وہ بھی اس تحریک میں شامل ہوں تو وہ اپنی آمدنیاں وقف کر سکتے ہیں.اور ایسے بھی بعض دوست ہیں، جنہوں نے آمدنیاں وقف کی ہیں.کسی نے کا ایک ماہ کی کسی نے دو کی کسی نے تین کی اور بعض تو ایسے ہیں، جنہوں نے سال بھر کی آمد نیاں ہی وقف کی ہیں اور لکھا ہے کہ جب سلسلہ کو ضرورت ہو تو ہم سارے سال کی آمد دینے کو تیار ہیں خواہ ہمیں بھیک مانگ کر ہی گزارہ کرنا پڑے.جب ہم سے مطالبہ کیا جائے گا، ہم سارے سال کی آمد پیش کر دیں گے.اگر دوست اس تحریک کی طرف پوری توجہ کرتے تو تین چار کروڑ روپیہ کی جائیداد میں وقف ہونا مشکل نہ تھا.پس دوست اس طرف توجہ کریں.مگر اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ عام چندوں پر اس کا اثر نہ ہو.یہ تحریک طوعی ہے اور ہر شخص کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ چاہے تو اس میں حصہ لے تا زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کر سکے.جب کوئی چیز جماعت کے نظام میں داخل ہو جائے تو ہر شخص کو اس میں حصہ لینے پر مجبور کیا جا سکتا ہے اور وہ ہو بھی جاتے ہیں مگر ان کا ثواب اس قدر نہیں ہوتا.اس لئے میں نے یہ تحریک محض طوعی رکھی ہے، کسی پر جبر نہیں کہ اس میں حصہ لے.اب میں پھر قادیان کے ان دوستوں کو ، جنہوں نے ابھی تک اس تحریک میں حصہ نہیں لیا مگر حصہ لینے کی خواہش رکھتے ہیں تحریک کرتا ہوں کہ اس میں شامل ہوں اور بیرونی جماعت کے دوستوں کو بھی توجہ 292
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 مارچ 1944ء دلاتا ہوں، وقت بہت تھوڑا اور کام بہت زیادہ ہے.پس دوست جلد اس تحریک میں اپنے نام پیش کریں تا ہم اندازہ کرسکیں کہ ضرورت کے وقت علاوہ انجمن اور تحریک جدید کے بجٹ کے کتنا و پی میں مل سکتا ہے؟ میرا اندازہ ہے کہ جماعت کے دوستوں کی آمد ماہوار پچاس ساٹھ لاکھ روپیہ ہے اور اگر دوست توجہ کریں تو کافی روپیہ ملنے کی امید ہو سکتی ہے.یہ کام ابھی آہستہ آہستہ شروع ہوگا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ربانی کام وہی ہے، جو تھوڑا شروع ہو کر ترقی کرتا ہے.غالبا ہم ابھی اس تحریک کے ماتحت اشد ضرورت کے وقت ایک فیصدی تک حصہ لینا شروع کریں گے.مگر مومن کی نیت یہی ہونی چاہیے کہ اگر ساری جائیداد کی بھی دین کے لئے ضرورت ہو تو اسے دینے میں کوئی عذر نہ ہوگا.مجھے ایک رویا میں اس تحریک کی طرف توجہ دلائی گئی تھی.میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک عورت ہے، جس کا خاوند نیک ہے مگر وہ خود نیک نہیں.اس کا ایک بیٹا ہے، وہ اس سے کہتی ہے کہ تیرا باپ اسراف بہت کرتا ہے.اگر اس سے کوئی ایک پیسہ مانگے تو پیسہ دے دیتا ہے، اگر وہ دو آنے مانگے تو دو آنے دے دیتا ہے اور وہ اس قسم کا ہے کہ اگر کوئی اس سے سارا مال مانگے تو وہ سارا دے دے گا.اور وہ اپنے بیٹے سے کہتی ہے کہ آؤ ، ہم اس سے سارا مال مانگ لیں.وہ ہمیں دے دے گا تو پھر وہ دین کی راہ میں اس مال کو لٹا نہ سکے گا.میں نے رویا میں دیکھا کہ میں جماعت کے دوستوں کے سامنے عربی میں تقریر کر رہا ہوں اور یہ مثال دیتا ہوں کہ اس طرح ایک نیک آدمی تھا مگر اس کی بیوی نیک نہ تھی.اس کا ایک بیٹا تھا، جو میں نہیں کہ سکتا کہ خود نیک تھا یا برا.مگر اس کی ماں یہ ضرور بجھتی تھی کہ وہ اسے اپنا آلہ کار بنا سکے گی.وہ اسے کہتی ہے کہ تیرے باپ سے کوئی جو کچھ مانگے ، وہ اسے دے دیتا ہے اور ڈر ہے کہ اگر اس سے کوئی سارا مال دین کے لئے مانگے تو وہ سارا مال دے دے گا.اس لئے آؤ، ہم اس سے سارا مال مانگ لیں.اس طرح وہ خدا کی راہ میں اسے خرچ نہ کر سکے گا اور ہمیں نقصان نہ ہوگا.یہ مثال دے کر میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ ایسے فتنے بھی آدمی کو پیش آسکتے ہیں، ان سے ہشیار رہو.میں یہ کہہ ہی رہا تھا کہ میری آنکھ کھل گئی اور میں نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے بھی ہیں، جو دین کی راہ میں اپنا سارا مال خرچ کرنے کو تیار ہیں.مگر یہ بھی خطرہ ہے کہ ان کی بیویاں اور بچے ان کے لئے فتنہ بن جائیں.پس پیشتر اس کے کہ وہ فتنہ بنیں، کیوں نہ ہم ہی ان سے دین کے لئے ان کی جائیدادیں طلب کریں؟ حقیقت یہ ہے کہ جب تک انسان ایمان کے اس درجہ پر قائم نہ ہو، اس وقت تک وہ صحیح معنوں میں دین کو دنیا پر مقدم کرنے والا نہیں ہو سکتا.اس رؤیا نے مجھے اس طرف توجہ دلائی کہ جب مومن دین کے لئے سب کچھ خرچ کرنے کو تیار ہے 293
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 مارچ 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم تو اگر ہم اس سے ایسا مطالبہ نہ کریں گے تو ہو سکتا ہے کہ اس کے بیٹے اور اولادیں لے لیں.پس پیشتر اس کے کہ اس طرح مومنوں کے مال ضائع ہوں، کیوں نہ دین کے لئے انہیں لے لیا جائے؟ پس اسی رؤیا کے ماتحت میں نے اس وقف کی تحریک کی اور دوستوں کو چاہیے کہ اس تحریک میں حصہ لیں.یہ وقف ایسا ہے کہ ہم یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ ہمیں جائیداد میں دے دو.صرف پابند کرتے ہیں کہ جب اور جتنا مطالبہ کیا جائے گا؟ وہ پیش کر دیں گے.یہ ادنیٰ سے ادنی قربانی ہے.یہ اقرار تو دراصل وہ ہے، جو ہر شخص احمدیت میں داخل ہوتے وقت کرتا ہے.اور اب ایسا کرنا گویا اس اقرار کود ہرانا ہے، جو ہر احمدی نے جماعت میں داخل ہوتے وقت کیا تھا اور اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اس کا بیعت کے وقت کا اقرار مصنوعی نہ تھا.بلکہ وہ جماعت کو اختیار دیتا ہے کہ جب اس کے اموال کی ضرورت ہو ، وہ لے سکتی ہے.پس میں جماعت کو اس کی طرف پھر توجہ دلاتا ہوں کیونکہ ابھی بہت ساحصہ جماعت کا ایسا ہے، جس نے ابھی اس پر غور نہیں کیا.یہ میں نہیں کہتا کہ ہر شخص ایسا کرے، ہاں جسے خدا تعالی بشاشت قلب عطا کرے اور توفیق دے، وہ ضرور اس میں حصہ لے.ہاں جو بوجھ محسوس کرے اور جو سمجھتا ہے کہ اگر اس نے ایسا کیا اور اس کے بیوی بچے اس پر معترض ہوئے تو اسے پچھتانا پڑے گا، وہ نہ حصہ لے.صرف وہی حصہ لیں، جو سمجھتے ہیں کہ خواہ بیوی بچے یا عزیز ترین رشتہ دار بھی اس پر ناراض ہوں ، اسے کوئی پروا نہیں اور جسے اس قربانی کے بعد افسوس نہیں ہوگا بلکہ بشاشت حاصل ہوگی اور جسے یہ خیال نہ آئے گا کہ اس سے ایسا مطالبہ کیوں کیا گیا ؟ بلکہ اسے یہ افسوس ہوگا کہ اس سے سارا مال کیوں نہیں لے لیا گیا؟ قربانی وہی فائدہ دے سکتی ہے، جو بشاشت کے ساتھ کی جائے اور یہ بشاشت میں نے دیکھا ہے، زیادہ تر غریبوں کو حاصل ہوتی ہے.میری تحریک کے بعد بعض غریب عورتیں میرے پاس آئیں اور اپنے زیور پیش کئے کہ یہ لے لیں ، ایسا نہ ہو کہ ہم خرچ کرلیں اور پھر حصہ نہ لے سکیں.میں نے کہا کہ ابھی ہم اس طرح نہیں لے رہے.ایک عورت نے تو ایک اور عورت کے پاس اپنے زیور رکھ دیئے کہ جب ضرورت ہو ، دے دیئے جائیں.ایسا نہ ہو کہ اس کے پاس ہوں تو خرچ ہو جائیں.ایمان کی علامت یہی ہوتی ہے کہ انسان اپنی جان، مال، سب کچھ دین کی راہ میں قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہی فرمایا ہے کہ اِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے اموال اور ان کی جانیں جنت کے عوض ان سے خرید لی ہیں.پس جنت کا ملنا اس امر پر موقوف ہے کہ ہم اپنی جانیں اور اپنے مال دین کی راہ میں وقف کر دیں.294
تحریک جدید- ایک الہی تحریک.....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 24 مارچ 1944ء.اس کے علاوہ گریجوایٹوں اور ایم.اے پاس نو جوانوں کی بھی ضرورت ہے تا پروفیسر وغیرہ تیار کئے جاسکیں.ایسے ہی واقفین میں سے آئندہ ناظروں کے قائم مقام بھی تیار کئے جاسکیں گے.آگے ایسے لوگ نظر نہیں آتے، جنہیں ناظروں کا قائم مقام بنایا جا سکے.میری تجویز ہے کہ واقفین نو جوانوں کو ایسے کاموں پر بھی لگایا جائے اور ایسے رنگ میں ان کی تربیت کی جائے کہ وہ آئندہ موجودہ ناظروں کے قائم مقام بھی ہوسکیں.پس ایم.اے پاس نو جوانوں کی ہمیں ضرورت ہے، جو کوئی خاص علم پڑھانے کا ملکہ رکھتے ہوں.اگر گریجوایٹ بھی ہوں تو ایسے رنگ میں ان کی تربیت کی جاسکتی ہے کہ وہ کام دے سکیں.مگر بہتر یہی ہے کہ وہ ایم.اے پاس ہوں“.مطبوع الفضل 31 مارچ 1944ء) 295
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 31 مارچ 1944ء زندگی وہی ہے، جو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ ہو خطبہ جمعہ فرمودہ 31 مارچ 1944ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا." مجھے اتر سوں شدید پیچش کی شکایت ہوگئی تھی جس سے خون کے دست بھی آتے رہے اور گوگل سے اس میں افاقہ ہے لیکن ابھی بخار روزانہ ہو جاتا ہے بلکہ اب بھی ہے.چنانچہ ابھی آتے ہوئے تھرما میٹر لگا کر میں نے دیکھا تھا.اس کے علاوہ آج مجھے گردے کے مقام پر درد بھی ہو گیا.ان وجوہ کے ماتحت میں آ تو نہیں سکتا تھا لیکن میرے دل نے گوارا نہ کیا اور یہی فیصلہ کیا کہ چاہے بیٹھ کر مجھے خطبہ دینا پڑے اور خواہ بعد میں تکلیف بڑھ جائے ، پھر بھی خود جا کر مجھے خطبہ پڑھنا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپر د جو کام کیا ہے، وہ اتنا اہم اور اتنا عظیم الشان ہے کہ اس کے لئے جتنی بھی قربانی جماعت کو کرنی پڑے، درحقیقت وہ کام اس کا مستحق ہوگا اور جتنی بھی قربانی ہم کریں ، در حقیقت وہ قربانی اس فضل سے کم ہی رہے گی، جو اللہ تعالیٰ نے یہ کام ہمارے سپرد کر کے ہم پر کیا ہے.میں تو حیران رہ جاتا ہوں اور میری عقل دنگ ہو جاتی ہے.جب میں سوچتا ہوں کہ آخر اللہ تعالیٰ نے یہ کام ہمارے سپرد کیوں کیا ؟ ہم سے زیادہ صحت مند لوگ دنیا میں موجود تھے، ہم سے زیادہ مال رکھنے والے لوگ دنیا میں موجود تھے ، ہم سے زیادہ بظاہر نمازیں پڑھنے والے لوگ دنیا میں موجود تھے، ہم سے زیادہ بظا ہر روزے رکھنے والے لوگ دنیا میں موجود تھے، ہم سے زیادہ تسبیحیں پھیرنے والے اور اپنی زندگی کوخلوت کی حالت میں، خدا تعالیٰ کی یاد میں گزار دینے والے لوگ دنیا میں موجود تھے.آخر خدا نے ہم کو جو اس کام کے لئے چنا تو کوئی خوبی اللہ نے ہی دیکھی ہوگی ورنہ ہمیں تو وہ نظر نہیں آتی.میں تو سمجھتا ہوں کہ یہ محض اس کا احسان ہے کہ اس نے یہ عظیم الشان کام ہمارے سپرد کیا.یعنی ایسا کام جو دنیا کی مختلف اقوام گزشتہ کے کاموں سے بڑھ کر ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کی اتباع اور مماثلت کا ہے.ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کی قربانیاں دیکھتے ہیں تو حیرت آجاتی ہے کہ کس طرح وہ پیدل چلتے ہوئے، ایشیا سے لے کر یورپ تک تبلیغ کے لئے نکل گئے.وہ پھانسیوں پر چڑھ گئے اور انہوں نے ہر قسم کے دکھ، نہایت خوشی 297
خطبه جمعه فرمودہ 31 مارچ 1944ء تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد دوم اور بشاشت سے برداشت کئے.بغیر اس کے کہ کوئی انجمن ہو، بغیر اس کے کہ ان میں تنظیم ہو ، بغیر اس کے کہ انہیں روپیہ کی سہولت حاصل ہو.وہ بھیک مانگتے اور لوگوں کو تبلیغ کرتے چلے گئے.یہاں تک کہ دنیا میں عیسائیت کے نام کو پھیلا دیا.ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کو دیکھتے ہیں، ایک زبردست بادشاہ کا انہوں نے مقابلہ کیا اور گو انہوں نے کمزوریاں بھی دکھائیں مگر پھر بھی ان کا نمونہ نہایت شاندار ہے.فرعون جیسا طاقتور بادشاہ ، جس نے ارد گرد کی تمام حکومتوں کو زیرنگین کر لیا تھا ، جس سے ایران تک ڈرتا تھا ، جس سے یورپ تک خائف تھا.ایسے بادشاہ کے مقابلہ میں وہ ہمت سے کھڑے ہوئے.انہوں نے اپنا وطن چھوڑ دیا اور غیر معین وعدوں پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ چل پڑے اور چالیس سال تک جنگلوں میں پھرتے رہے.ہم تو دیکھتے ہیں ہم نے صرف چالیس دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے مزار پر غلبہ اسلام کے لئے لوگوں کو دعا کرنے کی تحریک کی.پھر بھی قادیان میں سے کتنے تھوڑے لوگ ہیں ، جو التزام کے ساتھ وہاں دعا کرنے کے لئے جاتے ہیں؟ چالیس دن کی دعا اور چالیس سال تک جنگلوں میں بھٹکتے پھرنا ، کیا ان دونوں میں کوئی بھی نسبت ہے؟ لیکن ان لوگوں نے ایسا کر کے دکھا دیا.پھر ہم دیکھتے ہیں اور انبیاء، جو بنی اسرائیل میں ہوئے یا اور ممالک میں پیدا ہوئے ان کے ساتھیوں نے بھی حیرت انگیز قربانیاں کیں.ہندوستان میں ہی حضرت کرشن علیہ السلام کے ساتھیوں نے ایک بھاری جنگ میں دشمن کے مقابلہ میں متواتر قربانی کی اور اپنی جانیں حضرت کرشن علیہ السلام کے حکم پر نثار کر دیں.حالانکہ اس میں ان کا کوئی ذاتی فائدہ نہیں تھا بلکہ ان کے لئے ایک ابتلا اور ٹھوکر کا مقام تھا.کیونکہ حضرت کرشن جس شخص کی تائید کے لئے کھڑے ہوئے تھے، وہ ان کا ایک رشتہ دار تھا.پس وہ کہہ سکتے تھے کہ یہ لڑائی اپنے ایک رشتہ دار کے لئے کی جارہی ہے، ہم اس میں کیوں حصہ لیں ؟ مگر انہوں نے اس بات کی کوئی پروانہ کی.ہندوستان کے مختلف علاقوں سے لوگ جمع ہوئے اور ان کے ساتھ مل کر دشمن سے جنگ کرتے رہے.دشمن زبر دست تھا ، وہ اپنی طاقت اور تعداد میں زیادہ تھا مگر پھر بھی ایک لمبے عرصہ تک وہ اپنی جانوں کو ان کے حکم پر قربان کرتے رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے پانسہ پلٹ دیا اور حضرت کرشن اور ان کے ساتھیوں کو فتح ہوئی.ہم حضرت زرتشت اور ان کے ساتھیوں کو دیکھتے ہیں تو انہوں نے بھی اس قدر قربانیاں کی ہیں کہ دیکھ کر حیرت آتی ہے.حالانکہ اس زمانہ میں لوگوں کو وہ سہولتیں میسر نہیں تھیں، جو اس زمانہ میں میسر ہیں.اب نہ جان دینے کا مطالبہ ہوتا ہے، نہ وطن چھوڑنے کا مطالبہ ہوتا ہے، صرف چند سالوں کے لئے ایک مبلغ باہر جاتا ہے اور ان چند سالوں کے لئے بھی اسے اس قدر سہولتیں میسر 298
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 31 مارچ 1944ء ہوتی ہیں کہ ڈاک جاری ہوتی ہے، ہوائی جہازوں سے خط آتے جاتے ہیں ، تاریں آجاتی ہیں، وہ بیمار ہو تو چند گھنٹوں کے اندر اندر اطلاع پہنچ جاتی ہے، اس کے بیوی بچے بیمار ہوں تو چند گھنٹوں میں اسے اطلاع ہو جاتی ہے، کوئی موت ہو تو اس کی فوراً اطلاع بھجوا دی جاتی ہے، اس کے گھر میں کوئی مصیبت آئے تو سلسلہ ایک حد تک اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لئے روپیہ بھی خرچ کرتا ہے، کوئی بیمار ہو تو جماعت کے ڈاکٹر علاج کے لئے موجود ہوتے ہیں.غرض اس زمانہ میں کئی قسم کے آرام اور کئی قسم کی سہولتیں لوگوں کو میسر ہیں مگر وہ زمانہ جب پہلے انبیاء کی امتوں نے قربانیاں کیں، ایسا زمانہ تھا کہ اس وقت ان سہولتوں میں سے کوئی سہولت بھی میسر نہ تھی.نہ ڈاک کا انتظام تھا، نہ تار کا انتظام تھا، نہ شفا خانوں کا انتظام تھا ، نہ خرچ کا انتظام تھا.بس ان کے دل میں تبلیغ کا خیال آتا اور وہ اسی وقت اٹھ بیٹھتے اور سینکڑوں ہزاروں میل پیدل سفر طے کرتے ہوئے غیر ملکوں میں تبلیغ کے لئے نکل جاتے.یہ قربانیوں کا نمونہ ایسا شاندار ہے کہ ہم جب اس نمونہ کو دیکھتے اور اس کے مقابلہ میں اپنی قربانیوں کو رکھتے ہیں تو ہماری سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کا قائمقام اللہ تعالیٰ نے ہمیں کیوں بنا دیا؟ در حقیقت ہمیں صحابہ کا قائمقام بنات ہی ہمیں اپنے نفس میں شرمندہ کرنے کے لئے کافی ہے.بعض دفعہ کسی شخص کو شرمندہ کیا جاتا ہے تو کوئی بھاری کام اس کے سپرد کر دیا جاتا ہے.اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ وہ شخص بڑا ہو گیا ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ تم اپنے آپ کو بڑا سمجھا کرتے تھے ، لواب ایک بڑا کام ہم تمہارے سپرد کرتے ہیں، ہم اس کو کر کے دکھاؤ.ایسے آدمی میں اگر چہ شرافت ہوتی ہے، ایسے آدمی میں اگر ایمان ہوتا ہے تو وہ اسی وقت اللہ تعالیٰ کے حضور سجدے میں گر جاتا اور اس سے عاجزانہ دعا کرتا ہے کہ الہی تو نے مجھے اس ابتلا میں تو ڈال دیا، اب اپنے فضل سے میری عزت رکھ لے اور میرے ہاتھوں سے یہ ماسے کام کرا دے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وعدوں کو دیکھتے ہوئے اور اللہ تعالی کے اس سلوک کو دیکھتے ہوئے ، جو ہمارے ساتھ ہے، ہمیں یقین ہے کہ یہ ابتلا ٹھو کر والا ابتلا نہیں بلکہ اس کے ذریعہ ہمارے لئے کوئی بہت بڑی فضلیت مقدر ہے.کیوں مقدر ہے؟ شاید اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا ہے کہ پہلی قو میں ایسی تھیں، جنہوں نے قربانیاں کر کے فتح حاصل کی.باوجود اس کے کہ ان کے بانی شروع میں کمزور تھے، دنیا ان کی مخالف تھی اور سخت سے سخت تکلیفیں اور مصیبتیں ان کو پیش آئیں مگر چونکہ ان کی جماعتوں نے بڑی بڑی قربانیاں کیں.اس لئے دنیا نے کہا بے شک وہ نبی کمزور تھے ، فتح کے سامان ان کے پاس نہیں تھے مگر چونکہ انہیں ایسی جماعتیں مل گئیں، جو قربانیاں کرنے والی تھیں، اس لئے انہیں فتح حاصل ہو گئی.اگر ایسی قربانی کرنے والی جماعتیں ان کو میسر نہ آتیں تو ان کو فتح اور کامیابی بھی حاصل نہ ہوتی.299
خطبه جمعه فرموده 31 مارچ 1944ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد دوم پس چونکہ دنیا نے یہ اعتراض کیا اس لئے شاید اللہ تعالیٰ اپنے آخری موعود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں دنیا کو یہ دکھانا چاہتا ہے کہ لو بغیر جماعت کی خاص قربانیوں کے اور بغیر ترقی کے خاص سامانوں کے ہم اپنی طاقت اور قدرت سے ہی کام کر کے دکھا دیتے ہیں.لیکن بہر حال خواہ جماعت کی قربانیوں کے بغیر یہ کام ہو چونکہ یہ کام ہمارے ہاتھوں سے ہو گا ، اس لئے ہمیں عزت ضرور مل جائے گی اور مفت میں ہمیں ثواب ہو جائے گا.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ایک تنکے سے خدا تعالیٰ کشتیوں کا کام لے لے.بے شک ایک تنکا اپنی ذات میں کچھ حقیقت نہیں رکھتا لیکن جس تنکے میں خدا تعالیٰ یہ طاقت پیدا کر دے کہ وہ سہارا دے کر لوگوں کو دریا سے گزار دے، اس میں بھی ایک خوبی پیدا ہو جاتی ہے، اس میں بھی ایک حرکت پیدا ہو جاتی ہے.اگر وہ تنکا دنیا میں محفوظ ہو تو یقیناً ہزاروں میل سے لوگ اس کی زیارت کرنے کے لئے آئیں.اس طرح ہمارے ہاتھ سے اگر یہ کام ہو جائے تو ہماری مثال گو ایک تنکے کی سی ہوگی لیکن چونکہ خدا کا کام ہمارے ہاتھ سے ہوا ہوگا، اس لئے ہمارا وجود خدا اتعالیٰ کی کرامت اور اس کی قدرت اور اس کی رحمت کا ایک مورد اور ذریعہ ہونے کی وجہ سے دنیا میں ایک نشان بن جائے گا.جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا وہ کر نہ نشان تھا ، جس پر سرخی کے چھینٹے پڑے اور جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وہ بقیہ کپڑے نشان ہیں، جن کے متعلق خدا تعالی نے فرمایا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے“.یہ صاف بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کر نہ قربانی نہیں کر رہا تھا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پاجامہ قربانی نہیں کر رہا تھا بلکہ قربانی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کر رہے تھے.وہ سوز وگداز سے بھری ہوئی دعائیں، جو عرش سے ٹکرار ہیں تھیں.وہ خدا کے نام کی اشاعت اور اس کی بلندی کے لئے دن رات کی کوششیں، جو دنیا میں ہو رہی تھیں.وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار کو پھیلانے اور آپ کی عظمت سے دنیا کو روشناس کرانے کے لئے جد و جہد ، جو اس عالم میں جاری تھی.وہ تمام جد و جہد، وہ تمام کوشش اور وہ تمام قربانی کرتہ نہیں کر رہا تھا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود کر رہے تھے.وہ رات دن کی کوفت، جو مختلف علمی کتب لکھنے سے آپ کو ہوتی.وہ مخفی علوم، جو آپ دنیا پر ظاہر کر رہے تھے.وہ چھپے ہوئے خزانے ، جن کو آپ زمین سے باہر نکال رہے تھے.وہ دولتیں، جن پر لوگوں کے بخل کی وجہ سے زنگ لگ گیا تھا اور وہ سکے ، جن پر اس قدر میل جم چکی تھی کہ وہ پہچانے تک نہیں جاتے تھے، ان کو صاف کرنے اور دنیا میں پھیلانے اور لوگوں کے گھروں میں وہ مال و دولت پہنچانے 300
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد دوم - خطبہ جمعہ فرمودہ 31 مارچ 1944ء اور ان کی روحانی غربت و افلاس کو دور کرنے اور انہیں ایمان کی دولت سے مالا مال کرنے کا کام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کر رہے تھے ، آپ کا کرتہ یا پاجامہ یہ کام نہیں کر رہا تھا.مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گئے.گویا جس نے یہ کام کیا، اس کے جسم کے ساتھ لگا ہوا کرتہ، اس کی ٹانگوں کے ساتھ لپٹا ہوا یا جامہ، اس کے سر پر رکھا ہوا عمامہ، اس کی جیب میں پڑا ہوا ر و مال اور اس کے پاؤں میں پڑی ہوئی جوتی بھی برکت والی ہوگئی.کیونکہ جس شخص سے خدا نے کام لیا، یہ چیزیں اس کے ساتھ ملی ہوئی تھیں.پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم اس کام کے مستحق نہیں، ہم اس کام کے اہل نہیں، ہم میں وہ خوبیاں نہیں، جو اعلیٰ جماعتوں میں پائی جانی چاہئیں مگر چونکہ خدا نے ہمیں ایک درجہ دے دیا ہے، اس لئے اس کام کے ہونے کی وجہ سے ہمیں وہ برکات ملنی ضروری ہیں، جو برکات ایسے کاموں سے وابستہ ہوتی ہیں.لیکن بہر حال ہمارے لئے ان برکات کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وابستہ ہونا ضروری ہے.دیکھو ! وہی کرتہ برکت پا گیا، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جسم سے جاملا، اسی پاجامہ نے برکت حاصل کی ، جو آپ کی ٹانگوں میں لپٹا رہا، اسی پگڑی نے برکت حاصل کی ، جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پہنا، وہی کلا عزت کا مستحق ہوا، جو آپ کے سر پر رہا، اسی ٹوپی نے عزت حاصل کی ، جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے سر پر رکھا ، وہی رومال برکت حاصل کر گیا ، جو آپ کی جیب میں پڑا رہا اور وہی جوتی برکت والی قرار پائی، جو آپ کے پاؤں میں رہی.پس برکت حاصل کرنے کے لئے کم سے کم اتنا لگاؤ کا ہونا تو ہمارے لئے ضروری ہے ، جس طرح کر تہ آپ کے جسم سے چھٹا رہا، جس طرح پاجامہ آپ کی ٹانگوں سے لپٹا رہا، جس طرح رومال آپ کی جیب میں پڑا رہا، جس طرح عمامہ آپ کے سر پر دھرارہا، جس طرح جوتی آپ کے پاؤں میں پڑی رہی.اسی طرح ہمارا فرض ہے کہ اگر ہم الہی برکات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہم دھونی رما کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گرد بیٹھ جائیں.اگر ہم اپنے آپ میں کرتے جیسی وابستگی پیدا کر لیں ، اگر ہم اپنے آپ میں پاجامے جیسی وابستگی پیدا کر لیں ، اگر ہم اپنے آپ میں ٹوپی جیسی وابستگی پیدا کر لیں ، اگر ہم اپنے آپ میں کل جیسی وابستگی پیدا کر لیں ، اگر ہم اپنے آپ میں عمامہ جیسی وابستگی پیدا کر لیں ، اگر ہم اپنے آپ میں رومال جیسی وابستگی پیدا کر لیں ، اگر ہم اپنے آپ میں جوتی جیسی وابستگی پیدا کر لیں تبھی ہم برکتوں کے مستحق ہو سکتے ہیں، ورنہ نہیں.بے شک ایک کر نہ میں ذاتی طور پر کوئی برکت نہیں ہو سکتی مگر چونکہ وہ کرتہ آپ کے جسم سے لپٹا رہا، اس لئے برکت 301
خطبہ جمعہ فرمودہ 31 مارچ 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم حاصل کر گیا.اسی طرح خواہ ہماری جماعت میں کس قدر کمزوریاں پائی جاتی ہوں ، جو لوگ مجازی طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ لیٹے رہیں گے، وہ برکت حاصل کر لیں گے اور جولوگ آپ کے ساتھ نہیں لپیٹیں گے، وہ برکت حاصل نہیں کر سکیں گے.اوّل تو ہر شخص کو اپنے اندر ایسی خوبی پیدا کرنی چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی برکات اور اس کے انوار کو حاصل کر سکے اور خود اس کا وجود اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی رحمت کا ایک نشان بن جائے لیکن جو شخص یہ خوبی اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتا، اسے کم سے کم کرتہ اور پاجامہ اور رومال اور عمامہ کی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ لپٹا تو رہنا چاہئے ورنہ وہ ان برکات کو کس طرح حاصل کر سکتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر ہیں؟ میں نے بتایا ہے کہ ہمارے سپر د جو کام کیا گیا ہے، وہ نہایت ہی اہم ہے.اور ایسے زمانہ میں یہ کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے، جب دہریت اور عیش پرستی انتہا کو پہنچ چکی ہے، سائنس کے ذریعہ اسلام پر نئے نئے حملے کئے جارہے ہیں اور ایمان کے خلاف دنیا میں ایک شدید زہریلی ہوا جاری ہے.دوسری طرف ظلم یہ ہورہا ہے کہ آدھی دنیا دوسری آدھی دنیا پر حکومت کر رہی ہے اور لوگ مجبور ہیں کہ غلامی کی زندگی بسر کریں.پہلے زمانوں میں دس ہیں یا پچاس غلاموں پر حکومت کی جاتی تھی مگر آج وہ زمانہ ہے، جب آدھی سے زیادہ دنیا غلام ہے.یورپ اور امریکہ اور دوسری فاتح قو میں ، جن کے ماتحت اور ممالک ہیں، چالیس پچاس کروڑ سے زیادہ نہیں ہیں بلکہ اس سے کچھ کم ہی ہیں.لیکن باقی دنیا کی آبادی ڈیڑھ ارب لوگوں پر مشتمل ہے.جس کے معنی یہ ہیں کہ ہر بچہ ، ہر عورت اور ہر بوڑھا تین تین آدمیوں کو غلام بنائے بیٹھا ہے.تمام ایشیا، تمام افریقہ الا ماشاء اللہ، تمام جزائر الا ما شاء اللہ سارے کے سارے غلامی اور ماتحتی میں اپنی زندگی کے دن گزار رہے ہیں.ان سارے حالات کو بدلنا اور محبت سے، پیار سے، نیکی.رافت سے اور شفقت سے لوگوں کی اصلاح کرنا ہمارا کام ہے.کیا یہ کوئی معمولی کام ہے، جو ہمارے سپرد کیا گیا ہے؟ دنیا میں کون سی قوم ہے، جس نے ایسا کام کیا ہو؟ کوئی قوم ایسی نہیں، جس کے سپر د اتنا بڑا کام کیا گیا ہو، جو ہمارے سپرد کیا گیا ہے.پس جو کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے، وہ دنیا کی سب قوموں کے کاموں سے بڑا ہے اور جو طاقت ہمارے اندر ہے، وہ دنیا کی سب قوموں سے کم ہے.پس یہ کام سوائے اس کے کس طرح ہو سکتا ہے کہ خدا کی طرف سے کوئی نشان ظاہر ہو اور وہ ہمارے کمزور ہاتھوں سے یہ عظیم الشان عمارت کھڑی کر دے؟ پس ہماری ذمہ داریاں بہت وسیع ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جو کام ہمارے سپرد کیا ہے، وہ ایسی اہمیت رکھتا ہے اور اتنا بڑا ہے کہ اگر ہم اپنے اندر کمزوری محسوس کرتے ہیں تو ساتھ ہی ہمارا سے، 302
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 31 مارچ 1944ء فرض ہے کہ ہم اور زیادہ قربانیاں کریں اور زیادہ جدو جہد سے کام لیں تاکہ ہماری جو اندرونی اور باطنی کمزوریاں ہیں ، ان کا کچھ کفارہ ہماری ظاہری کوششیں کر دیں.میں دیکھتا ہوں ، ہماری جماعت میں کچھ لوگ ایسے ہیں، جن کو ہندوؤں کی طرح ہر وقت سودے کا خیال رہتا ہے.جس طرح ہند و سودا کرنے کے بعد یہ سوچنے لگ جاتے ہیں کہ انہیں کیا نفع ہوا ؟ اسی طرح وہ چند دن روزے رکھتے ہیں اور پھر پوچھتے ہیں، اس کا کیا نتیجہ نکلا ؟ کچھ دن تضرع اور ابتہال سے نمازیں پڑھتے ہیں اور پھر دیکھنے لگ جاتے ہیں کہ ان نمازوں سے انہیں کیا فائدہ حاصل ہوا ؟ بے شک غیر احمدی یہ کہنے کا حق رکھتے ہیں کہ اگر ہم نمازیں پڑھتے ہیں تو انکا کیا نتیجہ نکلا ؟ کیونکہ انہیں کہیں بھی نتیجہ نظر نہیں آتا.لیکن ہماری جماعت تو وہ ہے، جس نے اپنی آنکھوں سے خدا تعالیٰ کے ایک مامور کو دیکھا اور اس کی زندگی میں خدا تعالیٰ کے ہزاروں نشانات کو آسمان سے اترتے مشاہدہ کیا.پھر اب بھی ہماری جماعت میں وہ لوگ موجود ہیں، جن کو ان کی نمازوں اور ان کے روزوں اور ان کے چندوں کا نتیجہ مل گیا.کیا وہ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ ان سے کلام کرتا ہے، ان کی تائید میں اپنے نشانات ظاہر کرتا ہے، ان کے دشمنوں کو مارتا اور تباہ کرتا ہے، ان کے دوستوں کو برکت دیتا ہے، انہیں ہر میدان میں فتح عظیم عطا کرتا ہے، انہیں روحانی علوم سے سرفراز کرتا ہے، قرآن کریم کے معارف ان پر کھولتا ہے، انہیں غیب کی خبروں سے اطلاع دیتا ہے؟ اور کون سا نتیجہ ہے، جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں؟ اور اگر ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ابھی ظاہر نہیں ہوا تو انہیں کم سے کم یہ تو یقین ہونا چاہئے کہ وہ جس راستہ پر چل رہے ہیں ، وہ صحیح ہے.اگر اس راستہ پر چلنے کے باوجود ان کے اعمال کا نتیجہ ظاہر نہیں ہوا تو بجائے اس کے کہ وہ یہ کہیں کہ ان اعمال کا نتیجہ کیا نکلا؟ انہیں اپنے نفس سے سوال کرنا چاہئے کہ اے نفس ! تم نے کیا کمزوری دکھائی کہ ہمارے اعمال نیک کا کوئی نتیجہ ظاہر نہیں ہوا؟ یہ تو نہیں مانا جاسکتا کہ وہ اعمال اپنا نتیجہ ظاہر نہیں کرتے.تم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہو کہ تمہارے سامنے بعض وجودوں میں وہ نتائج ظاہر ہو گئے.پس اگر تمہاری ذات میں وہ نتائج ظاہر نہیں ہوئے تو تمہیں یقین کر لینا چاہئے کہ اس میں تمہارا اپناہی قصور ہے.کیا تم نہیں دیکھتے کہ پانی میں پیاس بجھانے کی طاقت ہے.جو شخص بھی اسے پیتا ہے، اس کی پیاس بجھ جاتی اور اس کی روح تروتازہ ہو جاتی ہے لیکن بخار کا مریض پانی پینے کے باوجود اپنی پیاس کو بجھتا ہوا محسوس نہیں کرتا.وہ پانی پیتا ہے اور دو منٹ کے بعد پھر کہتا ہے پانی دو.پھر پانی دیا جاتا ہے تو دو منٹ کے بعد پھر کہتا ہے پانی دو تم اسے پانی پلائے جاتے ہومگر اس کی حالت یہ ہوتی ہے کہ ادھر وہ پانی پیتا ہے 303
خطبه جمعه فرمودہ 31 مارچ 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم - اور ادھر اس کے ہونٹ خشک ہو جاتے ہیں اور وہ پھر کہتا ہے اور پانی دو.یہاں تک کہ پانی پیتے پیتے بعض دفعہ اس کا پیٹ پھول جاتا ہے، اس کے پیٹ میں پانی کے لئے گنجائش تک نہیں رہتی مگر وہ یہی کہتا جاتا ہے کہ پیاس لگی ہے اور پانی دو ؟ اب کیا تم ایسے نظارہ کو دیکھ کر یہ سمجھنے لگتے ہو کہ پانی میں پیاس بجھانے کی طاقت نہیں رہی یا تم خود اس شخص کو مریض تصور کرتے ہو؟ تم کبھی یہ نہیں کہتے کہ پانی میں پیاس بجھانے کی طاقت نہیں رہی.یہ پانی پیتا ہے اور پھر اسے پیاس لگ جاتی ہے بلکہ تم کہتے ہو یہ پینے والے کا قصور ہے، اس کے اندر کوئی نقص پیدا ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے پانی اس پر اثر نہیں کرتا.پس جس قوم میں نمونہ موجود ہوا اور اس نمونہ سے یہ ظاہر ہورہا ہو کہ خدا کی طرف توجہ کرنے اور اس کے لئے اپنے نفس کی قربانی کرنے سے آسمان سے برکات نازل ہوتی ہیں.اس قوم کے بعض افراد اگر اسی راستہ پر چلتے ہوئے برکات وانوار کا مشاہدہ نہ کریں تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ رستہ ہی غلط ہے بلکہ یہی کہا جائے گا کہ خود اس کی قربانیوں میں کوئی نقص ہے ورنہ رستہ صحیح ہے اور وہی ایک طریق ہے، جس پر چل کر برکت حاصل ہو سکتی ہے.مگر میں کہتا ہوں اگر نتیجہ نہ بھی نکلے تو بھی ایک مومن کا یہ کام نہیں کہ وہ قربانی کو ترک کر دے.خدا تعالیٰ کے بعض کام ایسے ہوتے ہے، جن کے نتائج سالوں بعد ظاہر ہوتے ہیں.حضرت مسیح ناصری نے قربانی کی اور وہ صلیب پر چڑھ گئے.مسیح کے بعد پطرس، جو آپ کا خلیفہ ہوا اور جو آپ کا بڑا مقرب حواری تھا.یہاں تک کہ آپ نے ایک دفعہ کہا میری جماعت کے لئے یہ ایک پہاڑ کی طرح ہے.وہ روم میں گیا اور اسے پھانسی پر لٹکا دیا گیا.اسی طرح اور بہت سے لوگ آپ کی جماعت میں سے مارے گئے.مگر جو دنیوی ترقیات ہیں وہ تین سو سال کے بعد مسیحی قوم کو حاصل ہوئیں.اب کیا مسیح نے صلیب پر لٹکنے سے اس لئے انکار کر دیا کہ میرے زمانہ میں تو حکومتیں نہیں آئیں گی، میں نے صلیب پر لٹک کر کیا لینا ہے؟ یا کیا پطرس نے اس وجہ سے اپنی جان قربان کرنے سے انکار کر دیا کہ جب مجھے حکومت میں حصہ نہیں ملے گا تو میں اپنی جان کیوں قربان کروں؟ نہیں بلکہ مسیح نے بھی صلیب کا مزہ چکھا اور پطرس نے بھی اپنی جان قربان کر دی اور اس طرح یکے بعد دیگرے اور ہزاروں لوگ قربانیاں کرتے چلے گئے.کیونکہ وہ جانتے تھے ہماری ترقیاں شخصی نہیں، قومی ہیں اور قومی ترقیاں قربانیوں کے بعد بعض دفعہ دودو بلکہ تین تین سو سال کے بعد حاصل ہوتی ہیں.دیکھو ! خدا تعالیٰ کی قدرت کا دنیا میں ہمیں ایک عجیب نظارہ نظر آتا ہے.قدرت نے کئی جاندار چیزیں ایسی پیدا کی ہیں، جو دنیا کے لئے قربانی کر رہی ہیں مگر خود ان کو ان قربانیوں کے کوئی نتائج حاصل 304
خطبہ جمعہ فرمودہ 31 مارچ 1944ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم نہیں ہوتے.مثلاً مونگا ایک کیڑا ہے، جس کے نام پر کٹی جزائر آباد ہیں.مونگے میں عادت پائی جاتی ہے کہ زمینیں پیدا کرنے کے لئے ایک مونگا دوسرے مونگے پر چڑھ کر جان دے دیتا ہے.سمندر کی تہہ میں لاکھوں مونگے ہوتے ہیں.دس میں ہزار مونگے ایک دوسرے پر چڑھ کر مر جاتے ہیں.پھر ان پر دس ہیں ہزار اور مونگے چڑھ کر مر جاتے ہیں.ان پر دس بیس ہزار اور مونگے چڑھ کر جان دے دیتے ہیں.یہاں تک کہ ہوتے ہوتے سمندر کی تہہ، جو بعض دفعہ دو دو، تین تین میل گہری ہوتی ہے، ان مونگوں سے بھر جاتی اور وہاں زمین پیدا ہو جاتی ہے.چنانچہ ایک دن انہی مونگوں کے مرنے سے وہاں ایک جزیرہ آباد ہو جاتا ہے.جہاں درخت اگتے ہیں، کھیتیاں ہوتی ہیں، مکانات بنتے ہیں اور ہزاروں لوگ رہائش رکھتے ہیں.اس قسم کے بیسیوں جزائر ہیں، جو دنیا میں پائے جاتے ہیں.کورل آئی لینڈز (Coral Islands) انہی کو کہتے ہیں اور وہ اسی طرح بنتے ہیں کہ ایک کثیر تعداد کو رلز کی مرکز جان دے دیتی ہے.جن پر اور لاکھوں کروڑوں کو رلز چڑھ کر جان دے دیتے ہیں اور رفتہ رفتہ ان کی قربانی سے ایک زمین آباد ہو جاتی ہے.پس تعجب کی بات ہے کہ ہمارے اندر ایک کو رل جتنی قربانی کا مادہ بھی نہ ہو اور ہم یہ خیال کریں کہ جب تک ہماری قربانیوں کا ہماری ذات کو فائدہ نہ ہو اس وقت تک قربانیاں کرنا بے معنی ہے.تمہیں اس مثال کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ اگر تم مر جاتے ہو اور تمہاری قربانیوں سے دوسویا چار سو سال کے بعد جماعت کو فائدہ پہنچتا ہے تو تمہاری قربانی رانگاں نہیں گی بلکہ اللہ تعالی کے حضور مقبول ہوگئی.پھر ہمارے لئے تو ایک زائد بات یہ بھی ہے کہ جو شخص مرجاتا ہے، اسے اپنی قربانیوں کا مرتے ہی انعام ملنا شروع ہو جاتا ہے.پھر قربانیوں کی ایک اور مثال ہمارے سامنے موجود ہے.برسات کا موسم ہو اور تم لیمپ روشن کرو تو تم دیکھتے ہو کہ کس طرح پروانے اس پر گر گر کر مرتے چلے جاتے ہیں؟ ہمارے شاعروں نے تو شمع اور پروانے کا اپنے اشعار میں اس قدر ذ کر کیا ہے کہ کوئی شاعر ایسا نہیں ، جس کے کلام میں شمع اور پروانے کا قصہ نہ آتا ہو.پھر تمہیں سوچنا چاہئے کہ کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دین کا حسن ہماری نظروں میں ایک شمع جیسا بھی نہیں ، جو چھ پیسے کو مل جاتی ہے؟ اور کیا ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دین اسلام سے اتنی محبت بھی نہیں، جتنی ایک پروانے کو شمع سے ہوتی ہے؟ اگر محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا حسن ہم کو شمع جیسا بھی نظر نہیں آتا اور اگر اپنا عشق ہم کو پروانے جیسا بھی نظر نہیں آتا تو سچی بات یہی ہے کہ ہم نے اس حسن کو دیکھا ہی نہیں اور ہم نے اپنے عشق کو سمجھاہی نہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن تو کروڑوں شمعوں سے زیادہ ہے.اسی لئے قرآن کریم نے آپ کو سِراجاً منیر اقرار دیا ہے اور سراج منیر قرار دینے میں جہاں اور حکمتیں ہیں، وہاں ایک 305
خطبہ جمعہ فرمودہ 31 مارچ 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم عظیم الشان حکمت ان الفاظ میں یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ہمیشہ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے، جو پروانوں کی طرح آپ پر جانیں قربان کرتے رہیں گے.جس طرح لیمپ روشن ہو تو پروانے اس پر گرنے لگ جاتے ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ ہمیشہ امت محمدیہ میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے، جو پروانوں کی طرح شمع محمدی پر قربان ہوتے رہیں گے.مگر پروانے اس زمانہ میں ہوتے ہیں، جب برسات کا موسم ہو.یہ نہیں ہوتا کہ موسم خواہ کوئی ہو، جب بھی لیمپ جلایا جائے، پروانے اس پر گرنے لگیں.پروانوں کے نکلنے کا موسم برسات ہے.اسی طرح عالم روحانی میں جب بھی برسات کا موسم ہوگا، جب آسمان سے الہام الہی کی تازہ بارش نازل ہوگی ، اس زمانہ میں ایسی جماعت پیدا ہو گی، جو پروانوں کی طرح محمد صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنی جانیں قربان کر دے گی.دیکھو! ہر زمانہ میں پروانے شمع پر نہیں گرتے بلکہ برسات کے موسم میں گرتے ہیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سِراجاً منیرا کہہ کر اس امر کی طرف اشارہ فرمایا تھا کہ جب نور نبوت ظاہر ہو گا، جب الہام کی بارش آسمان سے اترے گی ، جب عالم روحانی میں برسات کا موسم ہوگا، اس وقت ایسے لوگ پیدا ہوں گے ، جو پروانے بن بن کر محمد صلی الہ علیہ وآلہ وسلم کی شمع پر قربان ہو جائیں گے.اس سے پہلے زمانوں میں قرآن بے شک موجود تھا، لا اله إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کہنے والے مسلمان بے شک موجود تھے ، دعائیں اور عبادتیں کرنے والے لوگ بے شک پائے جاتے تھے مگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چراغ پر پروانے نہیں گر رہے تھے.لیکن ادھر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا اور ادھرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم پر پروانے گرنے لگ گئے.کیونکہ یہ الہام اور وحی کی بارش کا وقت تھا.پس سِراجاً منبرا کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ جب بھی بارش وحی اور بارش الہام نازل ہوگی، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پروانے گرنے شروع ہو جائیں گے.جو آپ کی صداقت اور راستبازی کا ایک ثبوت ہوگا کہ الہام ہوتا ہے ”ب“ پر اور پروانے گرنے لگ جاتے ہیں ”الف“ پر.گویا یہ ثبوت ہوگا آپ کی صداقت کا اور یہ ثبوت ہوگا اس بات کا کہ آنے والا آپ کے شاگردوں اور آپ کے متبعین میں سے ہی ہے.وہ اس چمپنی کی طرح ہوگا، جو روشنی کے ارد گرد ہوتی ہے.بے شک چمنی روشنی کو پھیلا رہی ہوتی ہے مگر پروانوں کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ چمنی کو چیر کر روشنی تک پہنچ جائیں اور ا گرسنگی روشنی ہو تو وہاں وہ پہنچ جاتے اور شمع پر گر کر اپنی جان قربان کر دیتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے ہماری ترقی کے سامان تو پیدا کئے ہیں مگر ہماری جماعت نے ابھی اپنے کام کی اہمیت کو پورے طور پر سمجھا نہیں.مثلاً میں نے اعلان کیا تھا کہ ہمیں تبلیغ کے لئے ایسے نو جوانوں کی ضرورت ہے، جو اپنی زندگی اس غرض کے لئے وقف کر دیں.یہ کام اپنی ذات میں اس قدر اہم ہے کہ ہم اس پر جتنا 306
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 31 مارچ 1944ء بھی غور کریں اس کی اہمیت بڑھتی چلی جاتی ہے.سینکڑوں ملک ہیں، جن میں ہم نے تبلیغ کرنی ہے.سینکڑوں زبانیں ہیں، جو ہم نے سیکھنی ہیں.سینکڑوں کتابیں ہیں، جو ان ممالک میں تبلیغ اسلام کے لئے ہم نے شائع کرنی ہیں.پس اس غرض کے لئے ہمیں سینکڑوں مبلغوں کی ضرورت ہوگی سینکڑوں ترجمہ کرنے والوں کی ضرورت ہوگی اور پھر ان مبلغوں اور سلسلہ کے لٹریچر اور دیگر اخراجات کے لئے جس قدر روپیہ کی ضرورت ہوگی، اس کا کچھ اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ میں نے ایک دن حساب کیا کہ اگر ہم پانچ ہزار مبلغ رکھیں ، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک کشف کو ایک دوسرے رنگ میں پورا کرنے کا ذریعہ ہے تو کس قدر خرچ ہوگا؟ میں نے اندازہ کیا کہ اگر ہم پانچ ہزار مبلغ رکھیں تو ان کا ایک سال کا کم سے کم خرچ دو کروڑ روپیہ ہو گا.امریکہ میں صرف روٹی کھانے کے لئے تین سور و پیہ ماہوار کی ضرورت ہوتی ہے.یورپ میں کم سے کم پونے دوسور و پیہ ماہوار میں گزارہ ہوتا ہے اور زیادہ تر یہی ممالک ہیں، جن میں ہم نے تبلیغ کرنی ہے.ہندوستان سے باہر مشرقی ممالک میں سو ڈیڑھ سوروپیہ ماہوار میں بھی گزارہ ہوسکتا ہے.پھر جو آدمی تبلیغ کے لئے جائیں گے، ان کا کرایہ بھی برداشت کرنا پڑے گا اور پھر چند سال کے بعد جب پہلے مبلغ واپس آئیں گے اور دوسرے مبلغ ان کی جگہ بھیجے جائیں گے تو ان کی آمد ورفت پر بھی بہت سا روپیہ خرچ ہو گا.اسی طرح ان کے بیوی بچوں کا ہمیں گزارہ مقرر کرنا پڑے گا.پھر وہاں ملک کے مختلف حصوں میں دورے کرنے کے لئے روپیہ ضروری ہوگا.مساجد کے لئے روپیہ ضروری ہوگا.اس ملک کی مختلف زبانوں میں ہر قسم کے لٹریچر شائع کرنے کے لئے روپیہ ضروری ہوگا.ان تمام اخراجات کو اگر ہم کھلے دل کے ساتھ برداشت کریں تو در حقیقت اسی صورت میں صحیح طور پر تبلیغ ہوسکتی ہے.لیکن اگر ہم ان اخراجات کا کم اندازہ بھی کریں تو میرے نزدیک ہر مبلغ کے لئے اگر ہم پانچ سوروپیہ ماہوار کا خرچ رکھیں.تب ادنی طور پر ہم تبلیغ کا فرض ادا کر سکتے ہیں.اس میں سے دوسورو پی تبلیغ پر خرچ ہوگا اور باقی رو پیدا اس کے ماہوار کھانے پینے کے اخراجات پر صرف ہوگا.لیکن اگر ہم خالی گزارے کا اندازہ لگائیں تب بھی تین سور و پید فی کس خرچ ہوگا اور چونکہ پانچ ہزار مبلغ ہم نے رکھنے ہیں، اس کے لئے پندرہ لاکھ روپیہ ایک مہینہ کا خرچ ہوگا اور سال میں ایک کروڑ 80 لاکھ روپیہ خرچ ہو گا.ہمیں لاکھ روپیہ آنے جانے کے کرائے ، سلسلہ کے لٹریچر کی اشاعت، مساجد کی تعمیر، کتابوں کی تصنیف اور دوسرے ضروری کاموں کے لئے رکھ لیں تو دو کروڑ روپیہ سالانہ خرچ ہوسکتا ہے.لیکن یہ 20 لاکھ روپیہ پانچ ہزار مبلغین کے لئے بہت ہی کم ہے اور اس قدر قلیل روپیہ سے صحیح طور پر بلغ نہیں ہو سکتی.در حقیقت ہمارے پاس ساڑھے تین کروڑ روپیہ سالانہ 307
خطبہ جمعہ فرمودہ 31 مارچ 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم ہونا چاہئے ، تب ہم پانچ ہزار مبلغ رکھ کر انہیں دنیا میں پھیلا سکتے ہیں.لیکن ابھی تو ہماری یہ حالت ہے کہ اگر ہم اپنی ساری جائیداد میں بیچ دیں، تب بھی ساری عمر میں ایک دفعہ بھی اتنا روپیہ خرچ نہیں کر سکتے.اگر ان مبلغوں کی تعداد کو کم کر دیا جائے اور ہم سر دست صرف دو سو مبلغ رکھیں ، تب بھی تم سمجھ لو کہ ساٹھ ہزار روپیہ ماہوار ان کے کھانے پینے پر خرچ آئے گا.جس کے معنی یہ ہیں کہ دوسو مبلغین کا سالانہ خرچ سات لاکھ میں ہزار ہوگا.دواڑھائی لاکھ روپیدا گر لٹریچر کی اشاعت اور دوسرے ضروری اخراجات کے لئے رکھ لیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہمارے پاس دس لاکھ روپیہ سالا نہ ہو تو ہم دوسو مبلغ رکھ سکتے ہیں.لیکن ابھی تو ہمارے سارے بجٹ ملا کر یعنی تحریک جدید کی آمد اور صدر انجمن احمدیہ کی آمد اور دوسری آمد ملا کر دس بارہ لاکھ روپیہ کی رقم بنتی ہے اور اگر ہم اس وقت دو سو مبلغ رکھ لیں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ہم باقی سارے کام بند کر دیں.حالانکہ ہمارا کام صرف تبلیغ کرنا نہیں بلکہ جماعت کی تربیت کرنا بھی ہے.پس ضروری ہے کہ اس کے لئے علاوہ چندوں کے ہمارے پاس مستقل جائیدادیں ہوں ، جن کی آمد سے اس قسم کے اخراجات کو پورا کیا جا سکے.اسی لئے میں نے تحریک جدید جاری کی تھی اور اسی لئے میں نے تحریک جدید کے چندہ کے ذریعہ جائیدادیں بنائی ہیں.مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جائیداد میں تو بن گئیں لیکن جتنا حصہ جماعت میں سے کام کرنے والے آدمیوں کا تھا، وہ مجھے نہیں ملا.چنانچہ اس وقت تک جتنے آدمی میں نے سندھ کی زمینوں پر کام کرنے کے لئے بھجوائے ہیں، وہ سارے کے سارے ناکام رہے ہیں.در حقیقت آج کل جو ایک عام زمیندار کو آمد ہو رہی ہے، اس سے بھی ہماری زمینوں کی آمد کم ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمیں ابھی تک کام کرنے والے آدمی نہیں ملے.میں سمجھتا ہوں اگر ایک شخص عام زمیندار کی حیثیت سے کام کرے ، تب بھی پندرہ بیس من فی ایکڑ کپاس ہو سکتی ہے اور اگر سلسلہ کا کام سمجھ کر کوئی شخص محنت سے کام کرے تو 30-25 من فی ایکڑ بھی ہوسکتی ہے.مصر میں 25 من فی ایکڑ کی اوسط نکالی گئی تھی مگر ایسا اسی صورت میں ہو سکتا ہے، جب کام کرنے والے محنتی ہوں، دیانتدار ہوں ، سلسلہ کے اموال کی اہمیت کو سمجھتے ہوں اور تقویٰ اور اخلاص سے کام کرنے والے ہوں.محمود آباد میں جہاں میری زمین ہے ، وہاں ایک دفعہ ایک کھیت میں سے پچاس من فی ایکڑ کپاس نکلی کیونکہ کام کرنے والے نے محنت اور دیانتداری سے کام کیا.پس محنت سے فصل کو بڑھایا جا سکتا ہے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ سلسلہ کے کاموں پر اس وقت تک جو لوگ گئے ہیں، وہ ایسے ست اور غافل اور بد دیانت ثابت ہوئے ہیں کہ وہاں اوسط پیداوار پانچ من کی ہوئی ہے کیونکہ محنت سے کام نہیں لیا گیا تھا.میں نے 308
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 31 مارچ 1944ء آخر ملازموں سے تنگ آکر بعض واقفین زندگی کو وہاں بھیجوا دیا مگران کی حالت بھی ایسی اچھی نہ تھی بلکہ ایک کے متعلق تو ایسی شکائتیں آرہی ہیں کہ شاید مجھے اس کے متعلق کوئی کمیشن بٹھانا پڑے اور سخت ایکشن لینا پڑے کیونکہ شکایت ہے کہ اس نے علاوہ ستی اور ظلم کے بددیانتی سے بھی کام لیا ہے.پس ہمیں روپیہ کی ہی ضرورت نہیں بلکہ آدمیوں کی بھی ضرورت ہے.دنیا میں کوئی ترقی آدمیوں کے بغیر نہیں ہو سکتی.میں نے تحریک جدید کے شروع میں ہی ایک خطبہ پڑھا تھا.وہ خطبہ چھپا ہوا موجود ہے اور اسے نکال کر دیکھا جا سکتا ہے.میں نے اس میں کہا تھا کہ دنیا میں روپیہ کے ذریعہ بھی تبلیغ نہیں ہوئی اور جو قوم یہ بجھتی ہے کہ روپیہ کے ذریعہ اکناف عالم تک اپنی تبلیغ کو پہنچا دے گی ، اس سے زیادہ فریب خوردہ ، اس سے زیادہ احمق اور اس سے زیادہ دیوانی قوم دنیا میں اور کوئی نہیں.جس چیز کے ساتھ مذہبی جماعتیں دنیا میں ترقی کیا کرتی ہیں، وہ ذات کی قربانی ہوتی ہے، نہ کہ روپیہ کی.تم اگر دنیا میں فتحیاب ہونا چاہتے ہو تو جان دے کر ہو گے.جس دن تم یہ سمجھ لو گے کہ تمہاری زندگیاں تمہاری نہیں بلکہ اسلام کے لئے ہیں، جس دن سے تم نے محض دل میں ہی یہ نہ سمجھ لیا بلکہ عملاً اس کے مطابق کام بھی شروع کر دیا، اس دن تم کہہ سکتے ہو کہ تم زندہ جماعت ہو.(الفضل 24 جنوری 1935ء) پس اس تحریک کے ابتداء میں ہی میں نے اس کی بنیاد چندہ پر نہیں رکھی بلکہ میں نے اس کی بنیاد آدمیوں پر رکھی تھی اور میں نے کہا تھا کہ مجھے وہ آدمی چاہئیں، جو اپنے دلوں میں اخلاص رکھتے ہوں ، جو اپنی جانیں خلیفہ وقت کے حکم پر قربان کرنے کے لئے تیار ہوں، جو رات اور دن کام کرنے والے ہوں اور جو مجھتے ہوں کہ ہم نے جب اپنے آپ کو پیش کر دیا تو اس کے بعد موت ہی ہمیں اس کام سے الگ کر سکتی ہے.زندگی کے آخری لمحوں تک ہم یہی کام کریں گے اور پورے اخلاص اور پوری ہمت اور پوری دیانت سے کریں گے.جو شخص سمجھتا ہے کہ مجھے جب تبلیغ کے لئے باہر بھجوایا جائے گا، اس وقت میں دیانتداری سے کام لے لوں گا.اس سے پہلے اگر سلسلہ کے کسی اور کام پر مجھے مقرر کیا جاتا ہے تو میرے لئے دیانتداری کی ضرورت نہیں.وہ اول درجہ کا احمق اور نادان ہے اور یا پھر دوسروں کو دھوکا اور فریب دینے کے لئے ایسا کہتا ہے.جو شخص سمجھتا ہے کہ صرف تبلیغ میں دیانتداری کی ضرورت ہے لیکن سلسلہ کے اموال میں وہ دیانتداری سے کام نہیں لیتا، سلسلہ کی زمینوں پر وہ محنت سے کام نہیں کرتا ، سلسلہ کی مالی ترقی کے لئے اپنے آرام و آسائش کو قربان نہیں کرتا، وہ سجھتا ہی نہیں کہ دین کیا چیز ہے؟ وہ یقینا فریب خوردہ ہے یا دوسروں کو فریب دینے کی کوشش کرتا ہے.309
خطبہ جمعہ فرمودہ 31 مارچ 1944ء تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد دوم دین تو ایک مجموعہ نظام کا نام ہے، جس میں زمینیں بھی شامل ہیں، جس میں جائیداد میں بھی شامل کی ہیں ، جس میں مکانات بھی شامل ہیں، جس میں تجارتیں بھی شامل ہیں، جس میں کارخانے بھی شامل ہیں صرف تبلیغ کرنا دین نہیں.اگر صرف تبلیغ کرنا دین ہو تو سوال یہ ہے کہ پھر دکانیں کون چلائے گا ؟ کارخانے کون جاری کرے گا؟ زمینوں کی کون نگرانی کرے گا؟ صنعت و حرفت کی طرف کون توجہ کرے گا ؟ علوم کون پھیلائے گا؟ پس یہ میچ نہیں کہ صرف تبلیغ کرنا دین ہے.دین اسلامی نظام کے ہر شعبہ کا نام ہے اور اس نظام کا ہر شعبہ ویسا ہی اہم ہے جیسے تبلیغ کرنا.مثلاً جب بعض لوگ تبلیغ کے لئے جاتے ہیں تو ضروری ہے کہ ان کے پیچھے ایسے لوگ ہوں ، جو لٹریچر تیار کر کے ان کو بھیجیں.کہیں قرآن کی تفسیر ہو رہی ہو، کہیں حدیثوں کے ترجمے شائع ہو رہے ہوں، کہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے تراجم ہورہے ہوں، کہیں اور لٹریچر تیار ہورہا ہو.اگر ان کے پاس کثرت سے لڑ پچر نہیں ہوگا، اگر ان کے پاس کتا بیں نہیں ہوں گی ، اگر ان کے پاس روپیہ نہیں ہوگا تو وہ تبلیغ کو وسیع کرنے کا کام کس طرح کر سکیں گے ؟ پس سلسلہ کا ہر کام تبلیغ سے وابستہ ہے.جو شخص زمین میں ہل چلاتا ہے، وہ بھی تبلیغ کرتا ہے.جو شخص کارخانہ چلاتا ہے، وہ بھی تبلیغ کرتا ہے.جو شخص زمینوں کی نگرانی کرتا ہے، وہ بھی تبلیغ کرتا ہے.جو شخص لٹریچر شائع کرتا ہے، وہ بھی تبلیغ کرتا ہے.جو شخص سلسلہ کا کوئی اور کام کرتا ہے، وہ بھی تبلیغ کرتا ہے.آخر یہ تمام کام ہوں گے تبھی روپیہ آئے گا اور بھی اس کے ذریعہ مبلغوں کو پھیلایا جا سکے گا.ہم پر خدا تعالیٰ نے فضل کیا اور تحریک جدید کے چندہ کے ذریعہ کئی سو مربع زمین ہمیں مل گئی.پنجاب میں ایک مربع چھپیں تمہیں ہزار روپیہ کو ملتا ہے.گورنمنٹ کی نیلام میں بھی ہیں سے پچیس ہزار تک مربع ملتا ہے اور اگر پبلک میں سے کوئی فروخت کرے تو تمیں سے چالیس ہزار روپیہ تک ایک مربع فروخت ہوتا ہے.مگر ہم نے سندھ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے قریباً چار سومربع زمین تحریک جدید کی لے لی ہے.اگر پنجاب میں اتنی ہی زمین خریدی جاتی تو ایک کروڑ بیس لاکھ روپیہ خرچ ہوتا مگر ہم کو وہاں اوسطاً مختلف اخراجات شامل کر کے ایک مربع پانچ ہزار روپیہ میں ملا ہے اور وہاں ہماری ساری جائیداد میں لاکھ روپیہ کی ہے.گویا میں لاکھ روپیہ میں ہمیں وہ چیز مل گئی، جو پنجاب میں ایک کروڑ بیس لاکھ روپیہ میں مل سکتی تھی.پس یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ سلسلہ کے لئے ہمیں اس قدر زمین مل گئی.اگر جماعت کے دوست اس کام کو دین کا کام سمجھ کر محنت اور دیانتداری سے سرانجام دیتے اور تمام زمین کو اس طرح کھود کر رکھ دیتے کہ وہ اپنے خزانے اگلنے لگ جاتی تو پھر چاہے ایک سال کے بعد ہی وہ مرجاتے ، انہیں سمجھنا 310
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 31 مارچ 1944ء چاہئے تھا کہ اگر انہیں سو سال کی زندگی ملتی تب بھی اس سو سال کی زندگی میں انہیں اتنا ثواب نہ ملتا، جتنا ثواب وہ ایک سال میں حاصل کر گئے.مگر بجائے اس کے کہ محنت اور اخلاص اور دیانتداری کے ساتھ کام کیا جاتا ، وہاں جو لوگ کام کرنے کے لئے بھیجے گئے ، انہوں نے محنت اور توجہ سے کام نہیں کیا.بے شک ہم نے اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ آدمی وہاں نہیں بھجوائے ، ہم نے اب تک انہی لوگوں کو بھیجا ہے، جن کی تعلیم ادنی تھی مگر بہر حال ایمان اور اخلاص تعلیم پر مخصر نہیں.صحابہ میں کون سی تعلیم تھی ؟ مثلاً حضرت ابو ہریرہ کہاں تک پڑھے ہوئے تھے؟ انہوں نے تعلیم نہ ہونے کے باوجود کام کیا اور ایسے اخلاص سے کام کیا کہ آج تک ان کے نام زندہ ہیں اور ان کے لئے دعائیں کرنے والے لوگ دنیا میں پائے جاتے ہیں.اسی طرح ان لوگوں کو سمجھ لینا چاہیے تھا کہ اگر سلسلہ کے لئے چوبیس گھنٹوں میں سے بائیس گھنٹے انہیں کام کرنا پڑتا ہے، تب بھی انہیں کام کرنا چاہئے.وہ اپنے لئے موت پسند کر لیتے مگر چو ہیں گھنٹوں میں سے بائیس گھنٹے ہی سلسلہ کے لئے وقف کر دیتے اور سمجھتے کہ جو بنیاد آج ہم اپنے ہاتھوں سے رکھ رہے ہیں ، اسی پر وہ عمارت تیار ہونے والی ہے، جو اسلام کی اشاعت کے لئے ضروری ہے.سینکڑوں مبلغ اس کی آمد سے رکھے جائیں گے اور ہر مبلغ جودنیا میں اسلام کی تبلیغ کرے گا، اس کا ثواب ہمیں ملے گا.ایک مبلغ کو صرف اس کوشش کا ثواب مل سکتا ہے، جو وہ کرے.لیکن سلسلہ کی زمینوں پر اگر لوگ محنت کی سے کام کریں تو انہیں سینکڑوں مبلغوں کا ثواب حاصل ہو سکتا ہے.کیونکہ انہی کی محنت کے نتیجہ میں تبلیغ کو وسیع کیا جارہا ہوگا.یہ وہ احساس ہے، جس کے ماتحت انہیں کام کرنا چاہئے تھا.مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہاں جس قدر کام کرنے کے لئے بھجوائے گئے ، ان میں سے کسی نے اس حقیقت کو نہیں سمجھا اور بجائے اس کے کہ ان کے ذریعہ سلسلہ کے اموال میں برکت ہوتی ، وہ اس طرف مشغول ہو گئے کہ کہیں اپنی بھینسوں کے لئے چارہ کا انہیں فکر ہے، کہیں انہیں اپنی گھوڑیوں کا فکر ہے، کہیں دوسروں کو ڈانٹنے اور ان پر جرمانہ کرنے کا انہیں ہر وقت خیال رہتا ہے.گویا جو اصل کام تھا ، وہ ان کی نظروں سے اوجھل ہو گیا اور دنیا داری میں ملوث ہو گئے اور یہی حال احمدی باریوں کا ہے.انہوں نے وہاں کوفہ کے بدفطرت لوگوں کا نمونہ دکھایا ہے اور نیک احمدیوں کا نمونہ نہیں دکھایا.مگر وہ خوش نہ ہوں کہ انہوں نے کچھ کمالیا ہے، زیادہ دن نہ گزریں گے کہ وہ خدا کی گرفت میں آئیں گے.میں ان کا جو انجام دیکھتا ہوں ، خوش کن نہیں ہے.میری بھی چونکہ وہاں زمین ہے، اس لئے میں نے اپنے ایک عزیز کو وہاں بھجوا دیا کہ شاید وہ شوق سے کام کرے مگر وہ بھی ناکام ثابت ہوا اور اس نے قطعاً اعلیٰ مخلصوں والی قربانی پیش نہیں کی.311
خطبہ جمعہ فرمودہ 31 مارچ 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم غرض اس وقت تک جتنی کوفت اور تکلیف مجھے اس کام کی وجہ سے اٹھانی پڑی ہے، اتنی کوفت اور تکلیف مجھے اور کسی کام سے نہیں ہوئی.دوسرے تمام کاموں میں مجھے اچھے آدمی مل گئے ہیں مگر یہاں شاید دنیا کی لالچ اور حرص آجاتی ہے، اس لئے صحیح طور پر کام کرنے والے ابھی تک نہیں ملے یا شاید وہ کام بھی نہیں کر سکتے تھے اور شاید میں بھی ابھی تک ایسے لوگوں کو نہیں چن سکا، جو اس کام کو پوری محنت اور دیانتداری سے کریں.بہر حال ہمیں ایسے مخلص آدمیوں کی ضرورت ہے، جو زمینوں کا تجربہ رکھتے ہوں اور جو دیانتداری اور محنت کے ساتھ سلسلہ کا یہ کام کرنے کے لئے تیار ہوں تا کہ ہمارا مالی پہلو مضبوط ہو اور ہم جلد سے جلد تبلیغ کی اس سیکم کو جاری کر سکیں ، جو میرے مد نظر ہے.میں علاوہ سندھ کی زمینوں کے سلسلہ کے اموال بڑھانے کے لئے بعض اور ذرائع سے بھی کام لے رہا ہوں اور اس کام کو شروع بھی کر دیا گیا ہے مگر میں ابھی اس کا اظہار نہیں کرتا.مجھے یقین ہے کہ اس کے نتیجہ میں ہندوستان میں ہماری جماعت کو ایسی فضیلت حاصل ہو جائے گی کہ دنیا کے لوگ تسلیم کریں گے کہ یہ جماعت دینی طور پر ہی قابل نہیں بلکہ دنیوی طور پر بھی خدا تعالیٰ نے اس جماعت کو ایسی عزت بخشی ہے، جو دوسری قوموں اور جماعتوں کو حاصل نہیں.اگر یہ سکیم کامیاب ہو جائے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمیں لاکھوں بلکہ کروڑوں روپیہ بڑی آسانی سے میسر آسکتا ہے.میں چار پانچ سال سے اس کے متعلق کوشش کر رہا تھا، لمبا کام تھا اور تعلیم سے تعلق رکھتا تھا اور تھوڑے عرصہ میں نہیں بلکہ چھ سات سال میں یہ کام ہو سکتا تھا.اب یہ عرصہ چونکہ ختم ہونے کے قریب ہے، اس لئے اس کام کی داغ بیل رکھ دی گئی ہے اور امید ہے کہ سال ڈیڑھ سال تک کام ایک معین صورت اختیار کر لے گا.غرض یہ نئی سکیم اور ہماری سندھ کی زمینیں ایسی چیزیں ہیں، جن سے سلسلہ کا مالی پہلو خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت مضبوط ہو سکتا ہے اور جماعت کی موجودہ حالت کے لحاظ سے تبلیغ کے لئے دس بارہ لاکھ روپیہ سالانہ کا بوجھ آسانی سے برداشت کیا جاسکتا ہے.سندھ کی زمینوں کے متعلق مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک رویا بھی دکھایا تھا اور اسی رویاء کی بناء پر میں نے صدر انجمن احمدیہ کو وہاں کی زمینیں خریدنے کی ہدایت کی.بہت عرصہ کی بات ہے، میں نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک نہر پر کھڑا ہوں، اس کا پانی نہایت ٹھنڈا اور اس کے چاروں طرف سبزہ ہے کہ اسی حالت میں ایک دم شور کی آواز آئی.میں نے اوپر کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ نہر ٹوٹ کر اس کا پانی تمام علاقہ میں پھیل گیا ہے اور سرعت سے بڑھتا جارہا ہے.میں نے چاہا کہ واپس لوٹوں تا کہ پانی میرے قریب نہ پہنچ جائے.مگر ابھی میں یہ خیال ہی کر رہا تھا کہ میں نے دیکھا ، میرے چاروں طرف پانی آگیا 312
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 31 مارچ 1944ء ہے.پھر میں نے دیکھا کہ نہر کا بند ٹوٹ گیا اور میں بھی نہر کے اندر جا پڑا.جب میں نہر کے اندر گر گیا تو میں نے تیرنا شروع کیا، یہاں تک کہ میلوں میل میں تیرتا چلا گیا مگر میرا پاؤں کہیں نہ لگا، یہاں تک کہ میں نے سمجھا، میں تیرتے تیرتے فیروز پور تک پہنچ گیا ہوں.تب گھبراہٹ کی حالت میں ہی میں دعا کرتا ہوں کہ یا اللہ سندھ میں تو پیر لگ جائیں اور جب میں نے یہ دعا کی تو مجھے معلوم ہوا کہ سندھ آگیا ہے.پھر جو میں نے کوشش کی تو پیر ٹک گیا اور پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے سب پانی غائب ہو گیا.یہ رویا 15 ء میں میں نے دیکھا تھا.اس وقت سندھ میں نہروں کا نام ونشان بھی نہ تھا.اس کے ایک لمبے عرصہ کے بعد وہاں نہریں نکلیں اور ہم نے یہ زمین خریدنی شروع کر دی.تو اللہ تعالیٰ نے سندھ میں ہمیں اتنی بڑی زمین دے دی ہے کہ اگر پنجاب میں اتنی ہی زمین کسی زمیندار کول جاتی تو اس کے لئے شادی مرگ ثابت ہوتی.ساری عمر لوگ گورنمنٹ کی خوشامد میں کرتے رہتے ہیں اور پھر انہیں اگر پانچ یا دس مربعے مل جائیں تو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گورنمنٹ نے ان کی سات پشتوں کی قدر افزائی کر دی.لیکن اللہ تعالیٰ نے گھر بیٹھے ہمیں قریبا چار سو مربع زمین دے دیا.چار سو میں پندرہ میں مربع کی کمی ہے مگر وہ انشاءاللہ جلدی پوری ہو جائے گی.میری نیت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ کی ہزاروں مربع زمین بن جائے.اسی طرح اور کئی کام میرے ذہن میں ہیں اور میں چاہتا ہوں ، ان کاموں میں اس قدر وسعت ہو اور ان ذرائع سے ہمیں اس قدرآمد ہو کہ سلسلہ کے وہ تمام کام ، جو میں نے کرنے ہیں، آسانی اور سہولت سے ہو جائیں.مگر اس کے لئے مخلص آدمیوں کی ضرورت ہے.لیکن یا درکھو کہ آمد کی زیادتی کے ہرگز یہ معنی نہیں ہیں کہ کسی وقت تم اپنے چندوں سے آزاد ہو جاؤ گے یا کوئی وقت جماعت پر ایسا بھی آجائے گا، جب تم سے قربانی کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا.میں ایک انسان ہوں اور آخر ایک دن ایسا آئے گا، جب میں مرجاؤں گا اور پھر اور لوگ اس جماعت کے خلفاء ہوں گے.میں نہیں جانتا اس وقت کیا حالات ہوں؟ اس لئے میں ابھی سے تم کو نصیحت کرتا ہوں تا کہ تمہیں اور تمہاری اولادوں کو ٹھوکر نہ لگے کہ اگر کوئی خلیفہ ایسا آیا، جس نے یہ سمجھ لیا کہ جب جماعت کو زمینوں سے اس قد رآمدنی ہو رہی ہے، تجارتوں سے اس قدر آمدنی ہو رہی ہے، صنعت و حرفت سے اس قدر آمدنی ہو رہی ہے تو پھر اب جماعت سے کسی اور قربانی کا مطالبہ کی کیا ضرورت ہے؟ اس قدر روپیہ آنے کے بعد ضروری ہے کہ جماعت کی مالی قربانیوں میں کمی کر دی جائے تو تم یہ سمجھ لو وہ خلیفہ خلیفہ نہیں ہوگا بلکہ اس کے یہ عنی ہوں گے کہ خلافت ختم ہوگئی اور اب کوئی اسلام کا دشمن پیدا ہو گیا ہے.اور جس دن تمہاری تسلی اس 313
خطبہ جمعہ فرموده 31 مارچ 1944ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد دوم بات پر ہو جائے گی کہ روپیہ آنے لگ گیا ہے، اب قربانی کی کیا ضرورت ہے؟ اس دن تم سمجھ لو کہ جماعت کی ترقی بھی ختم ہو گئی ہے.میں نے بتایا ہے کہ جماعت روپے سے نہیں بنتی بلکہ آدمیوں سے بنتی ہے اور آدمی بغیر قربانی کے تیار نہیں ہو سکتے.اگر دس ہزار ارب روپیہ آنا شروع ہو جائے ، تب بھی ضروری ہوگا کہ ہر زمانہ میں جماعت سے اسی طرح قربانیوں کا مطالبہ کیا جائے، جس طرح آج کیا جاتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ مطالبہ کیا جائے کیونکہ ابھی بڑی بڑی قربانیاں جماعت کے سامنے نہیں آئیں.پس چاہے ایک ارب پونڈ خزانہ میں آجائے ،تب بھی خلیفہ وقت کا فرض ہوگا، وہ ایک غریب کی جیب سے، جس میں ایک پیسہ موجود ہے، دین کے لئے پیسہ نکال لے اور ایک امیر کی جیب سے، جس میں دس ہزار روپیہ موجود ہے، دین کے لئے دس ہزار روپیہ نکال لے.کیونکہ اس کے بغیر دل صاف نہیں ہو سکتے اور بغیر دل صاف ہونے کے جماعت نہیں بن سکتی اور بغیر جماعت بننے کے خدا تعالیٰ کی رحمت اور برکت نازل نہیں ہوتی.وہ روپیہ جو بغیر دل صاف ہونے کے آئے ، وہ انسان کے لئے رحمت نہیں بلکہ لعنت کا موجب ہوتا ہے.وہی روپیہ انسان کے لئے رحمت کا موجب ہو سکتا ہے، جس کے ساتھ ہی انسان کا دل بھی پاک ہو اور دنیوی آلائشوں سے مبرا ہو.پس مت سمجھو کہ اگر کثرت سے روپیہ آنے لگا تو تم قربانیوں سے آزاد ہو جاؤ گے.اگر کثرت سے روپیہ آ گیا تو ہمارے ذمہ کام بھی تو بہت بڑا ہے.ہم نے اسلام کی حکومت دنیا میں قائم کرنی ہے، ہم نے دنیا میں وہ نظام قائم کرنا ہے، جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے، ہم نے ہر شخص کے لئے کھانا مہیا کرنا ہے، ہم نے ہر شخص کے لئے کپڑا مہیا کرنا ہے، ہم نے ہر شخص کے لئے مکان مہیا کرنا ہے، ہم نے ہر بیمار کے لئے علاج مہیا کرنا ہے، ہم نے ہر انسان کے لئے تعلیم کا سامان مہیا کرنا ہے.کیا یہ ساری چیزیں آسانی سے ہو سکتی ہیں؟ ان کے لئے تو اربوں ارب روپیہ کی ضرورت ہے بلکہ اگر اربوں ارب روپیہ آجائے تو پھر بھی یہ کام ختم نہیں ہو سکتا.روپیہ ختم ہوسکتا ہے مگر یہ کام ہمیشہ بڑھتا چلا جائے گا.پس کسی وقت جماعت میں اس احساس کا پیدا ہونا کہ اب روپیہ کثرت سے آنا شروع ہو گیا ہے، قربانیوں کی کیا ضرورت ہے؟ اب چندے کم کر دیئے جائیں.اس سے زیادہ کسی جماعت کی موت کی اور کوئی علامت نہیں ہو سکتی.یہ ایسا ہی ہے، جیسے کوئی شخص اپنی موت کے فتویٰ پر دستخط کر دے.پس مت سمجھو کہ ان زمینوں اور جائیدادوں وغیرہ کی آمد کے بعد چندے کم ہو جائیں گے.اگر یہ روپیہ ہماری ضروریات کے لئے کافی ہو جائے ، تب بھی تمہارے اندر ایمان پیدا کرنے کے لئے ، 314
خطبہ جمعہ فرمودہ 31 مارچ 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم تمہارے اندر اخلاص پیدا کرنے کے لئے ، تمہارے اندر زندگی پیدا کرنے کے لئے ، تمہارے اندر روحانیت پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تم سے قربانیوں کا مطالبہ کیا جائے اور ہمیشہ اور ہر آن کیا جائے.اگر قربانیوں کا مطالبہ ترک کر دیا جائے تو یہ تمپر ظلم ہوگا، یہ سلسلہ پر ظلم ہوگا، یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر ظلم ہوگا، یہ تقویٰ اور ایمان پر ظلم ہوگا.جب مسلمانوں نے ترقی کی اور کثرت سے اموال آنے شروع ہوئے ، اس وقت اگر ایک مسلمان بادشاہ کھڑا ہو کر اسی طرح بھیک مانگتا، جس طرح خدا کے دین کے لئے ہم بھیک مانگتے ہیں، ہم بھیک تو نہیں مانگتے ، دینے والا سمجھتا ہے کہ ہم اس پر احسان کر رہے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ خدا نے ہم پر یہ احسان کیا کہ ہمیں ایسے مقام پر کھڑا کیا لیکن بہر حال طریق بھیک مانگنے کا ہی ہے تو اس کو بھی یہ خیال رہتا کہ میں نے دین کی خدمت کرنی ہے اور لوگوں کے دلوں میں بھی یہ احساس رہتا کہ وہ اس وقت ترقی کر سکتے ہیں، جب تک وہ دین کے لئے اپنے اموال خرچ کرتے رہیں.اگر بادشاہ لوگوں سے دین کے لئے چندے مانگتے تو میں سمجھتا ہوں لوگوں میں یہ احساس ہمیشہ قائم رہتا کہ ہماری سلطنتیں، دنیوی سلطنتیں نہیں بلکہ اسلامی کانسٹی ٹیوشنز ہیں.اسلام کے مختلف محکمے ہیں، جو قائم کئے گئے ہیں اور ان کے ایمان بھی قائم رہتے.مگر افسوس کہ لوگوں نے اس حکمت کو نہ سمجھا اور انہوں نے قربانیوں کا دروازہ بند کر دیا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کی ترقی معدوم ہو گئی.پس طوعی چندے ہمیشہ قائم رہیں گے اور قائم رہنے چاہئیں.جب یہ چیز ختم ہو جائے گی ، اس وقت سمجھ لینا کہ ایمان بھی ختم ہو گیا.یہ چیز چلتی چلی جائے گئی اور خواہ سلسلہ کو کس قدر روپیہ آنا شروع ہو جائے ، طوعی چندوں کا سلسلہ بند نہیں ہوگا اور نہیں ہوسکتا.پس میں جماعت کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ ہمیں سندھ کی زمینوں کے لئے ایسے کارکنوں کی ضرورت ہے، جو مضبوط ہوں ، ہمت والے ہوں، باصحت ہوں اور دیانتداری اور محنت کے ساتھ کام کرنے والے ہوں.میں یہ نہیں چاہتا کہ کوئی شخص اپنے آپ کو وقف کرے اور ساتھ ہی یہ کہے کہ میں فلاں قسم کے کام کے لئے اپنے آپ کو وقف کرتا ہوں.جو شخص اپنے آپ کو وقف کرے، وہ اس نیت اور اس ارادہ کے ساتھ کرے کہ میں یہ نہیں دیکھوں گا کہ مجھے کہاں مقرر کیا جاتا ہے؟ میرے سپر د جو کام بھی کیا جائے گا، میں اسے کروں گا اور وہی کام کرنا، اپنے لئے باعث سعادت تصور کروں گا.اگر ایک شخص کو سلسلہ کی ضروریات کے لئے چوہڑے کے کام پر مقرر کیا جاتا ہے تو وہ ہر گز اس مبلغ سے کم نہیں ہے، جو 315
خطبہ جمعہ فرمودہ 31 مارچ 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم نیو یارک اور لنڈن میں تبلیغ کر رہا ہے.آخر سلسلہ کو چوڑھے کی ضرورت ہوگی تو وہ کہاں سے پوری کی جائے گی؟ وہ تم میں سے کسی شخص کے ذریعہ پوری کی جائے گی یا اگر دھوبی کی ضرورت ہو تو سلسلہ اس ضرورت کو کس طرح پورا کر سکتا ہے؟ اسی طرح پورا کر سکتا ہے کہ تم میں سے کسی شخص کو دھوبی کے کام پر مقرر کر دیا جائے اور یقینا اگر کوئی شخص سلسلہ کے لئے دھوبی کا کام کرتا ہے تو وہ ویساہی ہے، جیسے تبلیغ کرنے والا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دفعہ ایک جنگ میں تشریف لے گئے اور آپ نے دیکھا کہ مسلمان عورتیں مشکیں بھر بھر کر زخمیوں کو پانی پلا رہی ہیں.جب جنگ ختم ہوئی غنیمت کے اموال آئے تو آپ نے فرمایا: ان عورتوں کو بھی حصہ دو کیونکہ یہ بھی جنگ میں شریک ہوئی ہیں.اب دیکھو انہوں نے جنگ میں صرف پانی پلایا تھا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ویسا ہی حصہ دیا، جیسے میدان جنگ میں لڑنے والے سپاہیوں کو دیا.تو یہ ایک خطر ناک غلطی ہے ، جو بعض لوگوں میں پائی جاتی ہے کہ وہ کہتے ہیں، ہم وہ کام کریں گے، جو ہماری مرضی کے مطابق ہوگا.یہ تمہارا کام نہیں کہ تم فیصلہ کرو کہ تمہیں کس کام پر لگایا جائے ؟ جو شخص تمہارا امام ہے، جس کے ہاتھ میں تم نے اپنا ہاتھ دیا ہے، جس کی اطاعت کا تم نے اقرار کیا ہے، جس کا فرض ہے کہ وہ تمہیں بتائے کہ تمہیں کس کام پر مقرر کیا جاتا ہے؟ تم اس میں دخل نہیں دے سکتے.نہ تمہارا کوئی حق ہے کہ تم اس میں دخل دو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: الإِمَامُ جُنَّةٌ يُقْتَلُ مِنْ ورَائِهِ امام ایک ڈھال کی طرح ہوتا ہے اور لوگوں کا فرض ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے ہو کر دشمن سے جنگ کریں.پس جہاں امام تمہیں کھڑا کرتا ہے، وہیں تم کھڑے ہو جاؤ.اگر امام تمہیں سونے کا حکم دیتا ہے تو تمہارا فرض ہے، تم سو جاؤ.اگر امام تم کو جاگنے کا حکم دیتا ہے تو تمہارا فرض ہے، تم جاگ پڑو.اگر امام تم کو اچھا لباس پہنے کا حکم دیتا ہے تو تمہاری نیکی ، تمہارا تقویٰ اور تمہار از بد یہی ہے کہ اعلیٰ سے اعلیٰ لباس پہنو.اور اگر امام تم کو پھٹے پرانے کپڑے پہنے کا حکم دیتا ہے تو تمہاری نیکی تمہارا تقولی اور تمہارا دینی عیش یہی ہے کہ تم پھٹے پرانے کپڑے پہنو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ کشفی حالت میں ایک شخص کے ہاتھ میں کسری کے سونے کے کنگن دیکھے.جب حضرت عمرؓ کا زمانہ آیا اور اسلامی فوجوں کے مقابلہ میں کسری کو شکست ہوئی تو غنیمت کے اموال میں کسری کے سونے کے کنگن بھی آئے.حضرت عمر نے اس شخص کو بلایا اور فرمایا تمہیں یاد ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ تمہیں کہا تھا کہ میں تمہارے ہاتھ میں کسری کے سونے کے 316
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبه جمعه فرموده 31 مارچ 1944ء کنگن دیکھ رہا ہوں.اس نے عرض کیا ، ہاں یاد ہے.آپ نے فرمایا تو لو، یہ کسری کے سونے کے کنگن اور انہیں اپنے ہاتھوں میں پہنو.اس نے اپنے ہاتھ پیچھے کر لیے اور کہا عمر آپ مجھے اس بات کا حکم دیتے ہیں، جس سے شریعت نے منع کیا ہے؟ شریعت کہتی ہے کہ مردوں کے لئے سونا پہنا جائز نہیں اور آپ مجھے یہ حکم دے رہے ہیں کہ میں کسری کے سونے کے کنگن اپنے ہاتھوں میں پہنوں.حضرت عمر جس طبیعت کے تھے، وہ سب کو معلوم ہے، آپ اسی وقت کھڑے ہو گئے کوڑا اپنے ہاتھ میں لے لیا اور فرمایا: خدا کی قسم ! اگر تم یہ سونے کے کنگن نہیں پہنو گے تو میں کوڑے مار مار کر تمہاری کمر ادھیڑ دوں گا.محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ کہا تھا ، وہی میں پورا کروں گا اور تمہارے ہاتھوں میں میں سونے سے کنگن پہنا کر رہوں گا.تو در حقیقت یہی نیکی اور یہی حقیقی ایمان ہے کہ انسان وہی طریق اختیار کرے، جس طریق کے اختیار کرنے کا امام اسے حکم دے.وہ اگر اسے کھڑا ہونے کے لئے کہے تو کھڑا ہو جائے اور اگر ساری رات بیٹھنے کے لئے کہے، وہ بیٹھ جائے.اور یہی سمجھے کہ میری ساری نیکی یہی ہے کہ میں امام کے حکم کے ماتحت بیٹھا ہوں.پس جماعت میں یہ احساس پیدا ہونا چاہئے کہ نیکی کا معیار یہی ہے کہ امام کی کامل اطاعت کی جائے.امام اگر کسی کو مدرس مقرر کرتا ہے تو اس کی تبلیغ ہی ہے کہ وہ لڑکوں کو عمدگی سے تعلیم دے، امام اگر کسی کو ڈاکٹر مقرر کر کے بھیجتا ہے تو اس کی تبلیغ یہی ہے کہ وہ لوگوں کا عمدگی سے علاج کرے، امام اگر کسی کو زراعت کے لئے بھیج دیتا ہے تو اس کی تبلیغ یہی ہے کہ وہ زمین کی عمدگی سے نگرانی کرے اور امام اگر کسی کو صفائی کے کام پر مقرر کر دیتا ہے تو اس کی تبلیغ یہی ہے کہ وہ عمدگی سے صفائی کرے.وہ بظاہر جھاڑو دیتا نظر آئے گا، وہ بظاہر صفائی کرتا دکھائی دے گا مگر چونکہ اس نے امام کے حکم کی تعمیل میں ایسا کیا ہوگا ، اس لئے اس کا جھاڑو دینا، ثواب میں اس مبلغ سے کم نہیں ہوگا، جو دلوں کی صفائی کے لئے بھیجا جاتا ہے.وہ زمین پر جھاڑو دے رہا ہو گا لیکن فرشتے اس کی جگہ تبلیغ کر رہے ہوں گے.کیونکہ وہ کہیں گے، یہ وہ شخص ہے، جس نے نظام میں اپنے لئے ایک چھوٹی سے چھوٹی جگہ پسند کر لی اور امام کے حکم کی اطاعت کی.پس ایک نظام کے اندر رہ کر کام کرو اور تمہارا امام، جس کام کے لئے تمہیں مقرر کرتا ہے، اس کو کرو کہ تمہارے لئے وہی ثواب کا موجب ہوگا تمہارے لئے وہی کام تمہاری نجات اور تمہاری ترقی کا باعث ہوگا.میں دیکھتا ہوں کہ اب خدا تعالی تبلیغ کے لئے نئے نئے رستے کھول رہا ہے.ادھر مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ اب کفر پر حملے کا وقت آگیا ہے اور ادھر چاروں طرف ایسے حالات پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء اب اسلام اور احمدیت کو جلد سے جلد دنیا میں پھیلانے کا 317
خطبہ جمعہ فرمودہ 31 مارچ 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم ہے.ایک ملک کا میں نے خاص طور پر ذکر کیا تھا کہ وہاں کے ایک ایسے آدمی نے بیعت کر لی ہے، جو بہت بڑا رسوخ اور اثر رکھنے والا ہے.میں نے مصلحتنا کہ دیا تھا کہ اس ملک کا نام شائع نہ کیا جائے.اس کے بعد اب افریقہ سے ہمارے مبلغ مولوی نذیر احمد صاحب کی ایک تازہ چٹھی آئی ہے، جس میں وہ لکھتے ہیں کہ یہاں عیسائیت کے خلاف اور اسلام کی تائید میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک زبردست رو چل پڑی ہے.کئی نواب اور رؤساء ہمیں چٹھیاں لکھ رہے ہیں کہ ہمارے پاس جلدی پہنچو اور ہمیں اسلام کی حقیقت بتاؤ.مگر ہم صرف دو آدمی ہیں، ہر جگہ پہنچ نہیں سکتے لیکن لوگوں کا اصرار روز بروز بڑھتا جارہا ہے اور بعض تو ایک لمبے عرصے سے ہمیں بلا رہے ہیں مگر پھر بھی ہم آدمیوں کی قلت کی وجہ سے ان تک نہیں پہنچ سکے.انہوں نے لکھا کہ ڈیڑھ سال سے ایک چیف ہمیں خط لکھ رہا تھا کہ جلدی آؤ اور مجھے آکر اسلام کی حقیقت سمجھاؤ مگر ہم نہ جا سکے اور اب خبر آئی ہے کہ وہ مر گیا ہے.اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس کی ذمہ داری ہم پر ہے کہ وہ اسلام کی تبلیغ کے لئے ہم کو بلاتا رہا مگر ہم نہ جاسکے.انہوں نے لکھا ہے کہ یہ رواس تیزی کے ساتھ چل رہی ہے کہ اب ضروری ہے کہ ہندوستان سے بارہ مبلغ اس ملک میں روانہ کئے جائیں.بہت سے نواب، رؤساء اور ہزاروں کی تعداد میں عوام اس بات کے منتظر ہیں کہ ہمارے مبلغ ان کے پاس پہنچیں اور انہیں اسلام کی تبلیغ کریں.پس انہوں نے تبلیغ کے لئے بارہ آدمیوں کا مطالبہ کیا ہے.وہ واقفین زندگی، جن کو تیار کیا جارہا ہے، ان کے متعلق میں بتا چکا ہوں کہ ان کی علمی میدان میں جماعت کا رعب قائم رکھنے کے لئے ضرورت ہے.پس انہیں اس تعلیم سے فارغ کر کے وہاں تبلیغ کے لئے نہیں بھجوایا جا سکتا.لیکن میں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور جلد سے جلد اپنی تعلیم مکمل کرنے کی کوشش کریں.یہ سوال قطعاً سنا نہیں جاسکتا کہ تعلیم کا پانچ یا چھ یا سات گھنٹے وقت ہے.اگر وہ مسلسل چوبیس گھنٹے پڑھ کر بھی اپنی تعلیم کو جلد سے جلد مکمل کر لیتے ہیں، تب بھی انہیں سمجھنا چاہیئے کہ انہوں نے پوری قربانی ادا نہیں کی.پس ان سے تو میں یہ کہتا ہوں کہ وہ جلد سے جلد اپنی تعلیم کو مکمل کرنے کی کوشش کریں اور جماعت سے میں یہ کہتا ہوں کہ ان کو اس کام سے چونکہ فارغ نہیں کیا جاسکتا، اس لئے ضروری ہے کہ جماعت کے اور نوجوان آگے بڑھیں اور ان اغراض کے لئے اپنے نام پیش کریں.اگر زمیندار گریجوایٹ ہمیں مل جائیں تو انہیں زمینوں کی نگرانی کے لئے بھیجا جا سکتا ہے یا ایسے مضبوط نوجوان، جو زراعت میں گریجوایٹ تو نہ ہوں لیکن تعلیم یافتہ ہوں اور زمیندارہ کام سے دلچسپی رکھتے ہوں، وہ بھی اپنے نام پیش کر سکتے ہیں.ان میں سے کسی کو اکا ؤنٹنٹ بنا دیا جائے گا، کسی کو نشی بنا دیا جائے گا اور کسی کو اور کام سپر د کر دیا جائے گا.318
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 31 مارچ 1944 ء مگر یاد رکھو! زندگی وقف کرنے کے بعد انسان پیچھے نہیں ہٹ سکتا.صرف مرتد ہو کر ہی وہ واپس لوٹ سکتا ہے، اس کے بغیر اس کے لئے کوئی صورت نہیں ہوگی.یہاں پچھلے دنوں ایک شخص نے غفلت کی ، اس نے اپنی زندگی وقف کی ہوئی تھی مگر وقف کے بعد اس نے بد عہدی سے کام لیا.جس پر میں نے اسے قادیان سے خارج کر دیا اور میں نے کہہ دیا کہ صرف جلسہ سالانہ اور مجلس شوری کے دنوں میں دس دن کے لئے وہ قادیان آسکتا ہے، ان ایام کے علاوہ اسے قادیان آنے کی اجازت نہیں.یہ بھی درحقیقت اس سے نرمی ہی کی گئی ہے ورنہ اصل سزا یہی تھی کہ اسے جماعت سے خارج کر دیا جاتا.پس جو شخص بھی آئے، اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا رویہ ایسا قربانی والا ہو کہ وہ سمجھ لے، اب میں مرکر ہی اس کام سے ہٹوں گا ، اس کے علاوہ میرے لئے اور کوئی صورت نہیں.جب تک کوئی شخص اس رنگ میں اپنے آپ کو وقف نہیں کرتا ، اس وقت تک اس کا وقف اپنے اندر کوئی حقیقت نہیں رکھتا.بہر حال جماعت میں ایسے ہمت والے لوگ موجود ہیں اور جب کہ خدا نے یہ کام ہمارے سپرد کیا ہے تو میں یقین رکھتا ہوں کہ سو میں سے نانوے ایسے ہی لوگ ہوں گے، جو اپنی زندگی وقف کرنے کے لئے تیار ہوں گے.پس وہ لوگ اپنے آپ کو پیش کریں، جو مضبوط جسم والے ہوں، زمیندارہ کام سے دلچسپی رکھتے ہوں اور محنت اور شوق سے کام کرنے کے لئے تیار ہوں.اس غرض کے لئے اگر ہمیں ایسے گریجوایٹ مل جائیں جنہوں نے زراعت کا امتحان پاس کیا ہو تو ان کو منیجر اور بعض کو نائب منیجر بنایا جاسکتا ہے اور جو کم تعلیم یافتہ ہوں ان کو اکا ؤنٹنٹ یا نشی وغیرہ بنایا جا سکتا ہے.بہر حال ایسے لوگوں کی ہمیں ضرورت ہے.کیونکہ یہی وہ سال ہیں، جب اجناس کی قیمتیں زیادہ ہیں اور سلسلہ کو مالی لحاظ سے نفع حاصل ہوسکتا ہے.اس طرح ان زمینوں کی آمد سے ایک بھاری ریز روفنڈ قائم کیا جاسکتا ہے.میرا دل چاہتا تھا کہ ہم اپنی ساری زمینیں آزاد کر لیں مگر ابھی تک ساری زمینوں کو آزاد نہیں کرایا جاسکا، بہت سی آزاد کرائی گئی ہیں مگر اس میں تین چار لاکھ روپیہا ایسا ہے، جو قرض لیا گیا ہے.میرا منشاء ہے کہ نہ صرف ہم اپنی تمام زمینیں آزاد کرالیں بلکہ انہی کی آمد سے چار پانچ سال کے عرصہ میں کم سے کم 25 لاکھ روپیہ کا ایک اور ریز روفنڈ قائم کر لیں اور یہ کوئی بڑی بات نہیں.اگر کام کرنے والے محنت سے کام کریں ، دیانتداری سے کام کریں، اخلاص سے کام کریں تو پچیس لاکھ روپیہ کا مزید ریز روفنڈ قائم ہونا کوئی مشکل بات نہیں.پھر اس پھپیں لاکھ روپیہ کو نفع پر لگایا جائے تو اس کی آمد سے بعض اور کام کئے جاسکتے ہیں.معمولی تجارت پر بھی اگر اس قدر روپیہ لگا دیا جائے تو 25 لاکھ پر 75 ہزار روپیہ نفع ہو سکتا ہے اور اگر 319
خطبہ جمعہ فرمودہ 31 مارچ 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم روپے کو کسی اعلیٰ کام پر لگایا جائے تو ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالانہ آمد ہوسکتی ہے.اس طرح ایک ریز روفنڈ سے آہستہ آہستہ دوسرا ریز رو فنڈ قائم ہو سکتا ہے اور دوسرے ریز رو فنڈ کی آمد سے تیسرار بیز روفنڈ قائم ہو سکتا ہے.یہاں تک کہ دو تین کروڑ بلکہ دو تین ارب تک یہ رقم پہنچ سکتی ہے.پھر پانچ ہزارہی نہیں، پانچ لاکھ مبلغ اگر ہم رکھنا چاہیں گے تو وہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے رکھ سکیں گے کیونکہ پانچ ہزار مبلغ کافی نہیں.چونکہ ہمارا کام جماعت کی تربیت کرنا بھی ہے.اس لئے ہمارے مبلغ پانچ لاکھ ہونے چاہئیں.جن کا ایک حصہ تبلیغ کرے اور دوسراحصہ تربیت کی طرف توجہ کرے.پس ایک تو یہ بات ہے، جس کی طرف میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں، دوسرے میں نے بتایا ہے کہ افریقہ سے مطالبہ آیا ہے کہ وہاں بارہ مبلغوں کی ضرورت ہے.یہ مطالبہ بھی ایسا ہے، جسے پورا کرنا ہمارے لئے ضروری ہے.خدا تعالیٰ کے لاکھوں بندے، جو افریقہ کے مختلف حصوں میں رہتے ہیں، اس وقت غلامی میں مبتلا ہیں اور مصلح موعود کے متعلق اللہ تعالیٰ کی جو پیشگوئی ہے، اس میں ایک خبر یہ بھی دی گئی ہے کہ وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا.یہ وہ تو میں ہیں، جو حقیقی معنوں میں اسیر ہیں.ہزاروں سال سے ان اقوام کو حکومت نہیں ملی اور دوسروں کی غلامی اور ماتحتی میں ہی اپنی زندگی کے دن گزارتی چلی آ رہی ہیں.آج یہ تو میں ہمیں پکار پکار کہہ رہی ہیں کہ آؤ اور ہمیں اسلام سکھاؤ، آؤ اور ہمیں حریت کا سبق دو.خدا نے ہمیں اس کام کے لئے مقرر کیا ہے کہ ہم ان قوموں کو رستگاری بخشیں ، ہم ان کی غلامی کی زنجیروں کو کاٹ دیں اور نہ صرف انہیں ضمیر کی حریت کا سبق دیں بلکہ ان کی جسمانی ذلت اور ظاہری نکبت کو بھی دور کریں.وہ تو میں تعلیم سے عاری ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان میں تعلیم کا سلسلہ جاری کریں، ان میں عقل اور شعور پیدا کریں ، انہیں تمدن اور تہذیب سے رہنا سکھائیں، ان میں تنظیم پیدا کریں اور پھر دین کی محبت اور خدا تعالیٰ کی اطاعت کا مادہ ان میں پیدا کریں.دیکھو! وہ کس قدر قربانی کرنے والی قومیں ہیں؟ وہ اتنے جاہل اور تعلیم سے نا آشنا ہونے کے با وجود تمام مشنوں کا خرچ خود برداشت کر رہے ہیں، آپ ہی مدر سے چلاتے ہیں، آپ ہی مسجد میں بناتے ہیں ، آپ ہی مبلغوں کو مختلف علاقوں میں مقرر کرتے اور ان کے گزارہ کا بندوبست کرتے ہیں.ابھی ان کی تعلیم ایسی نہیں کہ وہ اعلیٰ درجہ کے مبلغ پیدا کر سکیں، جو تعلیم یافتہ لوگوں کو مذہب کے متعلق اطمینان دلا سکیں لیکن بہر حال وہ بڑے اخلاص سے تمام کام کر رہے ہیں اور اپنے اخراجات خود برداشت کر رہے ہیں.اس علاقہ میں کام کرنے کے لئے کچھ عربی اور کچھ انگریزی کا جانا ضروری ہے.ان کو تین چار مہینہ کی ٹرینگ 320
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 31 مارچ 1944ء دے کر اس ملک میں تبلیغ کے لئے بھجوادیا جائے گا.وہاں انگریزی میں تبلیغ کرنی ضروری ہوتی ہے.گو اعلی درجہ کی انگریزی نہ آئے مگر ٹوٹی پھوٹی انگریزی ضرور آنی چاہئے.اسی طرح کسی قدر عربی کا آنا ضروری ہوتا ہے تا کہ اسلامی مسائل ان کو سمجھائے جاسکیں.پس وہ لوگ جن کو کچھ کچھ عربی اور کچھ کچھ انگریزی آتی ہو ، وہ اس غرض کے لئے اپنے نام پیش کریں تا کہ ان کو فوراً افریقہ میں بھجوایا جا سکے.دیکھو! وہ لوگ خرچ بھی کس قدر کفایت سے کرتے ہیں؟ ہمارے مبلغ نے لکھا ہے کہ یہاں چالیس روپیہ میں ایک شخص کا گزارہ ہو جاتا ہے اور لکھا ہے کہ اگر چھ مہینے تک جماعت ان بارہ مبلغین کا خرچ برداشت کر لے تو اس کے بعد مقامی جماعتیں خود اس بوجھ کو اٹھا لیں گی.میں خدا تعالیٰ کے فضل سے چھ مہینے نہیں سال بلکہ دو سال تک بھی ان کے گزارہ کا انتظام کر سکتا ہوں.اس کے بعد وہاں کی جماعتیں ان کے اخراجات کا بوجھ خود برداشت کر سکتی ہیں.بہر حال افریقہ کے ہزاروں لوگ ہمیں پکار رہے ہیں کہ ہم اسلام کی تبلیغ کے لئے ان کے پاس پہنچیں.سیرالیون، جس کا صدر مقام فری ٹاؤن ہے.ایک نہایت ہی اہم مقام ہے.اگر اسلام وہاں سرعت کے ساتھ پھیل جائے تو تمام افریقہ پر اس کا اثر ہوسکتا ہے.اسی طرح گولڈ کوسٹ اور نائجیر یا میں اسلام پھیل جائے تو قریبا تمام مغربی افریقہ فتح ہو جاتا ہے.وہاں کی ساری آبادی ایک کروڑ ہے اور یہ ایک کروڑ افراد اگر خدا چاہے تو چند سالوں میں ہی احمدی ہو سکتے ہیں اور یہ اتنی بڑی تعداد ہے، جو ہماری موجودہ حالت کے لحاظ سے ایک غیر معمولی تعداد ہوگی.پس میں آج کے خطبہ میں جماعت کے دوستوں کے سامنے یہ دو تحریکیں پیش کرتا ہوں.میں زیادہ تر وقف زندگی کی تحریک کرنے کے لئے ہی آیا تھا اور یہی وہ امر تھا، جس کے لئے میں بیماری کی حالت میں اٹھ کر چلا آیا.میں کہہ نہیں سکتا کہ اس وقت مجھے بخار ہے یا نہیں کیونکہ بولنے کی وجہ سے مجھے اس کی حس نہیں رہی لیکن منہ کا ذائقہ خراب ہے، جس سے میں سمجھتا ہوں کہ شاید بخار ہو.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری جماعت کے افراد کو ایسی توفیق عطا فرمائے کہ وہ اخلاص کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں اور ان میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ زندگی وہی ہے کہ جو دین کے لئے قربان ہو جائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ صحابہ سے پوچھا کہ تم کو وہ مال پسند ہے، جو تمہارے کسی رشتہ دار کے ہاتھ میں ہو یا تم کو وہ مال پسند ہے، جو تمہارے اپنے ہاتھ میں ہو ؟ صحابہ نے عرض کیا.یا رسول اللہ! کون ایسا شخص ہو سکتا ہے، جو اس بات کو پسند نہ کرے کہ مال اس کے اپنے ہاتھ میں ہو؟ ہر شخص یہی 321
خطبه جمعه فرمودہ 31 مارچ 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم چاہتا ہے کہ اس کا مال اس کے قبضہ میں ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھرسن لو، وہ مال ، جو تم خدا کے لئے خرچ کرتے ہو، وہ تمہارا ہے اور وہ مال ، جو تم خدا کے لئے خرچ نہیں کرتے ، وہ تمہارے رشتہ داروں کا ہے.تم مرجاؤ گے تو تمہارے رشتہ دار آئیں گے اور اس مال پر قبضہ کر کے لے جائیں گے.پس یا درکھو! وہ زندگی ، جو تم خدا کے لئے خرچ کرتے ہو، وہی تمہاری زندگی ہے.لیکن وہ زندگی، جو تم اپنے نفس کے لئے خرچ کرتے ہو، وہ ضائع چلی گئی.جو شخص خدا کے لئے اپنی زندگی قربان کرتا ہے، وہ چاہے کتنی ہی گمنامی کی زندگی بسر کرے، چاہے دنیا میں اسے کوئی شخص نہ جانتا ہو، آسمان پر خدا اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا اور اس کو اپنے قرب میں عزت و احترام کی جگہ دیتا ہے.پس مت خیال کرو کہ دین کے لئے اپنی زندگی قربان کرنا ، زندگی کو ضائع کرنا ہے.یہ زندگی کو ضائع کرنا نہیں بلکہ اسے ایک قیمتی اور ہمیشہ کے لئے قائم رہنے والی چیز بنانا ہے.صحابہ کو دیکھو! انہوں نے اپنی زندگیاں دین کے لئے قربان کر دیں مگر پھر ایک وقت ایسا آیا جب اسلام یورپ سے ایشیا تک پھیل گیا.اس وقت امراء ہی نہیں ، اسلام کے علماء بھی کروڑ پتی بن چکے تھے.مگر پھر انہی امراء اور انہی علماء نے مل کر ایک ایک صحابی کا پتہ لگایا اور اس کے حالات کو کتابوں میں ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا.یہاں تک کہ وہ عورت، جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ کی مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی، اس کا بھی انہوں نے پتہ لگایا اور اس کے حالات زندگی انہوں نے کتابوں میں درج کر دیئے.کیا تم سمجھتے ہو ، اگر وہ عورت مدینہ کی بڑی بھاری تاجر ہوتی اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحابیت کا شرف اسے حاصل نہ ہوتا تو یہ عزت اسے حاصل ہو سکتی ؟ اگر وہ کروڑ پتی ہوتی تب بھی کوئی شخص اس کے حالات سے دلچسپی نہ رکھتا اور آج کسی کو معلوم تک نہ ہوتا کہ مدینہ میں کوئی کروڑ پتی عورت تھی.لیکن تیرہ سو سال کے بعد آج بھی اس جھاڑو دینے والی عورت کے حالات ہمیں کتابوں میں نظر آرہے ہیں.جب وہ مرگئی تو ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حال لوگوں سے پوچھا.انہوں نے جواب دیا، یارسول اللہ فلاں عورت تو مرگئی اور ہم نے اسے دفن کر دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، تم نے مجھے کیوں نہ بتایا؟ تمہیں چاہئے تھا کہ تم مجھے بتاتے تاکہ میں اس کے جنازہ میں شریک ہو سکتا.تو وہ لوگ جو دین کی خدمت کرتے ہیں، دنیا میں ہمیشہ کے لئے ان کی عزتیں قائم کر دی جاتی ہیں.بیشک یہ کہنا کہ مجھے عزت ملنی چاہئے شرم کی بات ہے.مومن ایسا مطالبہ نہیں کیا کرتا لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں ہ اللہ تعالی کی طرف سے ان کی عزت دنیا میں ضرور قائم کی جاتی ہے.322
خطبہ جمعہ فرمودہ 31 مارچ 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم مومن کی حالت تو یہ ہوتی ہے کہ شبلی سے کسی نے پوچھا.آپ اپنی عاقبت کے متعلق اللہ تعالی سے کیا امید رکھتے ہیں؟ انہوں نے کہا میں تو خدا سے یہی کہوں گا کہ خدا یا تو بے شک مجھے دوزخ میں ڈال دے مگر مجھ سے راضی ہو جا.حضرت جنید کہنے لگے شیلی ابھی بچہ ہے.اگر خدا مجھے کہے کہ جنید تم کیا چاہتے ہو؟ تو میں اسے یہ کہوں کہ خدایا! جس میں تیری رضا ہے اگر تو جنت میں لے جانا چاہتا ہے تو جنت میں لے جا اور اگر تو دوزخ میں داخل کرنا چاہتا ہے تو دوزخ میں داخل کر دے.اب دیکھو دوزخ کا خیال کر کے بھی انسان کانپ اٹھتا ہے اور ایک منٹ کے لئے بھی دوزخ کے عذاب کو برداشت نہیں کر سکتا.لیکن اللہ تعالیٰ کے بزرگ بندے بڑی بڑی قربانیاں کرنے کے بعد بھی یہی کہتے ہیں کہ خدایا! اگر تو اسی طرح راضی ہونا چاہتا ہے تو بے شک دوزخ میں ڈال دے.حالانکہ دوزخ وہ چیز ہے، جس کا خیال کر کے بھی انسان کانپ جاتا ہے.تو دنیا کا دوزخ کچھ چیز نہیں اور کوئی قربانی ایسی نہیں، جس کا کرنا خدا اور اس کے دین کے لئے ایک مومن انسان کے لئے دو بھر ہو.ایک بزرگ تھے، ان سے ایک دفعہ کسی علاقہ کے پانچ سو آدمی ملنے کے لئے گئے ، جب زیارت کر چکے تو انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ آپ ہمیں کوئی ہدایت دیں تا کہ ہم اس پر عمل کریں؟ وہ بزرگ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا میں نے سنا ہے، ہندوستان میں ابھی اسلام پورے طور پر نہیں پھیلا اور وہ لوگ اس بات کے لئے بے تاب ہیں کہ مسلمان آئیں اور انہیں اپنے مذہب کی تعلیم سے آگاہ کریں.میری خواہش ہے کہ آپ لوگ ہندوستان چلے جائیں اور وہاں اسلام کی تبلیغ کریں.وہ پانچ سو آدمی اسی وقت وہاں سے اٹھے اور ہندوستان کی طرف روانہ ہو گئے.وہ اپنے گھر بھی نہیں گئے اور سیدھے ہندوستان میں تبلیغ کرنے کے لئے چل کھڑے ہوئے.یہی وہ قربانیاں تھیں، جن کی وجہ سے آج ہمیں اپنے اندر اسلام نظر آ رہا ہے.اگر ہمارے باپ دادا سست ہوتے اور وہ اسلام کی تبلیغ کے لئے بڑی سے بڑی قربانیاں دلیری سے کرنے کے لئے تیار نہ رہتے تو کبھی اسلام ہم تک نہ پہنچتا.انہوں نے قربانی کی اور ہم تک اسلام پہنچا.اب ہم قربانی کریں گے تو باقی دنیا تک اسلام پہنچ جائے گا.پس یہ ہمارا کام ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کام کو کریں اور چونکہ یہ کام در حقیقت خدا کا ہی ہے، اس لئے ہم امید رکھتے ہیں کہ خدا ہمیں توفیق دے گا کہ ہم ایسا کریں.قادیان کے دوستوں کو اس خطبہ کے ذریعہ یہ تحریک پہنچ گئی ہے اور باہر کے دوستوں کو جب خطبہ اخبار میں شائع ہوگا تو پہنچ جائے گی.میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلد سے جلدان 323
خطبہ جمعہ فرمود ه 31 مارچ 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم تحریکوں کے لئے اپنے نام پیش کریں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوں.اے خدا! جب تو نے مجھے اس کام پر مقرر کیا ہے تو میرے الفاظ میں برکت بھی دے اور میرے ہر کام کے لئے اپنی وحی کے ساتھ آدمی بھیجوا اور پھر ان کی دنیا اور عاقبت کا محافظ ہو جا.آمین.324 (مطبوعہ الفضل 107اپریل 1944ء)
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم وو اقتباس از خطبہ نکاح فرموده 10 اپریل 1944ء احباب جماعت اور واقفین زندگی کو ایک اہم نصیحت خطبہ نکاح فرمودہ 10 اپریل 1944ء اس نکاح کی نسبت جس کے اعلان کے لئے میں کھڑا ہوا ہوں ، دوضروری باتیں میں اس وقت کہنا چاہتا ہوں.ایک تو جماعت کے لحاظ سے اور ایک ان لوگوں کے لحاظ سے جن کی وجہ سے مجھے اس بات کے کہنے کی ضرورت پیش آئی.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ حکما فرما تا ہے کہ وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ تم میں سے ایک جماعت حتمی طور پر ایسی ہونی چاہئے کہ وہ دعوت الی الخیر کرتی رہے.یہ جماعت جو کلی طور پر اپنے آپ کو دعوت الی الخیر کے ساتھ وابستہ کر دے گی.یہ لازمی بات ہے کہ وہ اس قسم کے دنیوی فوائد حاصل نہیں کر سکے گی ، جس قسم کے دنیوی فوائد دوسرے لوگ حاصل کرتے ہیں.یا اس قسم کی تعلیم حاصل نہیں کر سکتی ، جس قسم کی تعلیم آج کل دولت لایا کرتی ہے.وہ دین کی ت خاطر اپنے آپ کو وقف کرنے کے لئے اور دینی خدمات کرنے کے لئے لازماً ان ذرائع کو اپنے ہاتھ سے کھو بیٹھیں گے جو دولت لاتے ہیں یا آج کل کے معیار کے لحاظ سے عزت لاتے ہیں.کیونکہ آج کل ساری عزت، دولت سے وابستہ ہے اور جب وہ اس معیار کو کھو بیٹھیں گے، جس کے ذریعہ دولت کمائی جاتی ہے تو اس کے دوسرے معنے یہ ہوں گے کہ وہ دولتمند نہیں ہوں گے کیونکہ وہ اپنی زندگی دین کے لئے وقف کر چکے ہوں گے.بلکہ اگر انہیں وہ ذرائع معلوم بھی ہوتے ، جن سے دولت کمائی جاسکتی ہے، تب بھی وہ دولت کما نہ سکتے.الا ماشاء اللہ.کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ تم میں ہمیشہ ایک جماعت ایسی موجود ہونی چاہیے جو دعوت الی الخیر کا کام کرتی رہے.تو یہ لازمی بات ہے کہ ایسا کام کرنے والی جماعت دولت نہیں کما سکے گی.الامن يفتح الله له ابواب رحمته بيده الكريمة.کیونکہ ان کے پاس وقت ہی نہیں ہوگا یا دوسروں کے مقابلہ میں نہایت قلیل اور تھوڑا وقت ہوگا تو چونکہ اس زمانہ میں ساری عزت، ساری ترقی اور سارا وقار دولت کے ساتھ 325
اقتباس از خطبہ نکاح فرموده 10 اپریل 1944ء تحریک جدید- ایک البی تحریک....جلد دوم وابستہ ہے.اس لئے قدرتی طور پر لوگوں میں اس قسم کے آدمی تحقیر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اور لوگ ہے خیال کرتے ہیں کہ ایسے آدمیوں کو اپنی بیٹیاں دینا ، ان کی زندگیوں کو خراب کرنا ہے.وو چنانچہ جب بھی رشتہ کا سوال آتا ہے، انہیں رشتہ دینا، ان کی طبائع پر سخت گراں گزرتا ہے.اسی طرح وہ جب کبھی ایسی مجلس میں جاتے ہیں، جہاں بڑے آدمی بیٹھے ہوں تو اول تو وہ ان کی طرف رغبت ہی نہیں کرتے اور اگر کریں تو ان کی رغبت ایسی ہی ہوتی ہے جیسے انگریز مرد اور عورت اپنے کتے سے رغبت کا اظہار کرتے ہیں.اور پھر جو لوگ ان کا بظاہر ادب اور لحاظ کرتے ہیں، ان کے طریق عمل سے بھی یہ بات صاف طور پر ظاہر ہوتی ہے کہ وہ تذلیل اختیار کر کے یا صدقہ اور خیرات کے طور پر یا پبلک سے ڈرکران کی طرف توجہ کرتے ہیں ورنہ ان کے دلوں میں ان کا احترام نہیں ہوتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یا اس سے پہلے زمانوں میں یہ بات کم تھی کیونکہ اس وقت دولت کی اتنی قدر نہ تھی جتنی آج کل ہے.آج کل تمام باتوں میں اہمیت دولت کو ہی حاصل ہے.پہلے زمانوں میں بھی تھی لیکن ایک حد تک“.دنیا میں رواج یہی ہے کہ روپیہ کی عزت کی جاتی ہے.علم کی عزت نہیں کی جاتی ، دین کی عزت نہیں کی جاتی ، شرافت کی عزت نہیں کی جاتی ، تقویٰ اور طہارت کی عزت نہیں کی جاتی.سوائے اس تقویٰ اور طہارت کے جہاں حان ان تعان وتعرف بين الناس کا حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے صادر ہو جاتا ہے مگر وہ عزت بھی لوگ فرشتوں کی مارکھا کر کرتے ہیں، اپنے طور پر نہیں کرتے.میں دیکھتا ہوں کہ یہ مرض ہماری جماعت میں بھی پایا جاتا ہے.جب کبھی وقف زندگی کی تحریک کی جائے اور نو جوانوں سے کہا جائے کہ وہ اپنے آپ کو خدمت دین کے لئے وقف کریں تو اول تو کھاتے پیتے لوگوں کی اولاد وقف زندگی کی طرف آتی ہی نہیں اور پھر جو لوگ آتے ہیں امراء ان کی طرف تحقیر کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان سے بات کرنا یا ان کے ساتھ چلنا پھرنا ، ہماری طرف سے ایک قسم کا تذلیل ہے ورنہ خود یہ اس بات کے مستحق نہیں ہیں.اسی طرح ان کی شادیوں اور بیاہوں میں بڑی وقتیں پیش آتی ہیں اور میرے نزدیک یہ امر بہت بڑے قومی تنزل کی ایک علامت ہے.اگر واقع میں یہ درست ہے کہ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَيكُمُ تو خدا تعالیٰ کے حضور جس کو عزت حاصل ہو، ہمیں اسی کو عزت دینی چاہئے.یا تو ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ جو شخص بڑا دیندار ہو، وہ خدا کے حضور معزز ہوتا ہے اور اگر یہ بات درست نہیں تو پھر اللہ تعالیٰ 326
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد دوم اقتباس از خطبہ نکاح فرموده 10 اپریل 1944ء جن کو عزت دیتا ہے، یقینا ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم انہی کو عزت دیں اور ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے دربار میں عزت پانے والے کے مقابلہ میں دنیا کا بڑے سے بڑا بادشاہ بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتا.نہ قیصر اس کے مقابلہ میں کوئی حقیقت رکھتا ہے، نہ کسری اس کے مقابلہ میں کوئی حقیقت رکھتا ہے، نہ کوئی اور بادشاہ یا پریذیڈنٹ اس کے مقابل پر کوئی عزت رکھتا ہے.بے شک دنیوی بادشاہ بھی عزتیں رکھتے ہیں مگر انہیں دنیا کی عزتیں ہی حاصل ہیں.اللہ تعالیٰ کے حضور ان کی کوئی عزت نہیں."" پس یہ ایک غلط بات ہے، جو ہماری جماعت میں پیدا ہوگئی ہے.جس کا بدلہ نفسیاتی طور پر انہیں ضرور ملے گا.اگر وہ سلسلہ کی خدمت کرنے والوں کی عزت نہیں کریں گے، میں یہ تو نہیں کہتا کہ آئندہ لوگ دین کے لئے اپنی زندگیاں وقف نہیں کریں گے.کیونکہ یہ سلسلہ روحانی ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے لوگ ہمیشہ پیدا کرتا رہے گا، جو دین کے لیے اپنی زندگیاں وقف کریں مگر یہ ضرور ہو گا کہ جو لوگ معزز سمجھے جاتے ہیں، خدا تعالیٰ ان کو ذلیل کر دے گا“.میں واقفین سے کہتا ہوں کہ ان کو بھی غور کرنا چاہیے کہ کیوں ان کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے؟ بے شک وہ واقفین زندگی ہیں مگر میں ان میں بھی دنیا داری دیکھتا ہوں.فرض کرو ہماری جماعت میں سے بعض دنیا دار یہ کہتے ہیں کہ ہم ایسے شخص کو اپنی لڑکی کیوں دیں جس کے پاس دنیا نہیں ؟ اور ان کی یہ بات سن کر وہ واقف زندگی یا اس کے رشتے دار برا مناتے ہیں تو سوال یہ کہ وہ واقف کیوں اوپر کی طرف نگاہ رکھتا ہے؟ جب کسی نے اپنے آپ کو دین کے لیے وقف کر دیا تو اس کے لیے یہ سوال جاتا رہا کہ اس کی شادی کسی امیرلڑکی سے ہوتی ہے یا اس کی شادی کسی غریب لڑکی سے ہوتی ہے؟ مگر جب وہ چاہتا ہے کہ جس شخص کی آمد مجھ سے زیادہ ہو، جس کی مالی حالت مجھ سے بہتر ہو، جو شخص دولت اپنے پاس رکھتا ہو اس کی لڑکی سے میں شادی کروں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ گو اس نے اپنے آپ کو وقف کیا ہوا ہے مگر پو جاوہ دنیا کی ہی کرتا ہے اور وہ بھی اسی مندر میں جا کر ماتھا ٹیکتا ہے، جس میں دوسرا دنیا دار اپنا ماتھا ٹھیک رہا ہوتا ہے بھی تو وہ ایسے گھرانوں میں اپنی شادی کا خواہشمند ہوتا ہے، جو مال دار ہوں اور جو دولت اور ثروت رکھتے ہوں.اگر وہ دنیا کو چھوڑ چکا ہے تو کیوں وہ چھوٹی جگہ اپنے لیے پسند نہیں کرتا؟ اس کے دل میں یہ احساس ہونا کہ میری شادی کسی کھاتے پیتے شخص کی لڑکی سے ہو، کسی غریب کے ہاں میری شادی نہ ہو، بتا تا ہے کہ دنیا کا بہت اس نے اپنے دل سے نکالا نہیں، صرف اس کی جگہ بدل لی ہے ، ایک کمرہ سے اس بت کو نکال کر اس نے دوسرے کمرے میں رکھ لیا ہے ورنہ سجدہ وہ بھی بت کو کرتا ہے.مگر پرستش اس بت کی کر رہا ہے.اگر دنیا کو وہ چھوڑ چکا 327
اقتباس از خطبہ نکاح فرموده 10 اپریل 1944ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم ہوتا ، اگر خدا کے لیے وہ حقیقی معنوں میں اپنی زندگی کو وقف کر چکا ہوتا تو پھر اسے یہ کوئی خیال نہیں آنا چاہیے تھا کہ اس کی شادی کسی امیر کے ہاں ہوتی ہے یا چوہڑوں اور چماروں کے ہاں ہو جاتی ہے؟ اگر اس نے دنیا چھوڑ دی ہے تو دنیا چھوڑنے کی علامت بھی تو اس میں نظر آنی چاہیئے.وو د...پس میں ان میں بھی دنیا داری دیکھتا ہوں اور ان میں بھی دنیا داری دیکھتا ہوں.وہ شخص جو کہتا ہے کہ جس نے دین کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی ہے، میں اسے اپنی لڑکی کیوں دوں؟ اور وہ اسے تحقیر و تذلیل کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ جب یہ اپنے آپ کو دین کے لیے وقف کر چکا تو روٹی کہاں سے کھائے گا؟ اس کے نقطہ نگاہ کے معنی یہ بنتے ہیں کہ جو شخص خدا کے لیے اپنی زندگی وقف کرتا ہے وہ حقیر ہے مگر جو انگریز کو اپنی زندگی دے دیتا ہے، وہ معزز ہے.جو شخص انگریز کو اپنی زندگی دے دیتا ہے اور صوبے دار یا تحصیل دار یا ای.اے ہی بن جاتا ہے وہ تو بڑا معزز ہے مگر وہ جو خدا کے لیے اپنی زندگی وقف کرتا ہے، وہ نعوذ باللہ بڑا ذلیل ہے.گویا دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس سے زیادہ معزز کون ہے، جو انگریزوں کا غلام بن جائے ؟ اور اسے زیادہ ذلیل کون ہے ، جو بندوں کی نوکری چھوڑ کر خدا کی نوکری لگ جائے؟ اس کے مقابلہ میں جب ایک واقف زندگی کے دل میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ میری شادی فلاں مالدار کے گھر میں ہو جائے یا میری شادی فلاں کھاتے پیتے شخص کی لڑکی سے ہو جائے اور اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ منہ سے تو کہتا ہے کہ اس نے دنیا کو چھوڑ دیا مگر عملی طور پر وہ دنیا کا ہی پرستار ہے.اگر واقعہ میں اس نے دنیا کو چھوڑ دیا ہوتا، اگر واقعہ میں وہ اپنے تمام ارادوں اور اپنی تمام نیتوں کو خدا کے تابع کر چکا ہوتا تو اس صورت میں اگر ایک چوہڑی سے بھی اسے شادی کرنی پڑتی تو وہ خوشی سے شادی کے لیے تیار ہو جاتا اور کہتا کہ اگر خدا میرے لیے ایک چوہڑی پسند کرتا ہے تو مجھے وہ چوہڑی منظور ہے.اگر اللہ تعالیٰ میرے لیے ایک چمارن کا فیصلہ کر دیتا ہے تو مجھے اپنے لیے وہ چہارن منظور ہے.جس چیز کی اسے ضرورت ہو سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ ایسی بیوی ہو، جو تعلیم یافتہ ہو اور اس تہذیب و تمدن کی حامل ہو، جس تہذیب و تمدن کا وہ خود حامل ہے.پس اگر کسی لڑکی میں یہ تمام باتیں پائی جاتی ہیں، وہ دین سے واقفیت رکھتی ہے، وہ تعلیم یافتہ ہے، وہ اسلامی تہذیب و تمدن کی حامل ہے اور یہ سب چیزیں اس میں پائی جاتی ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اس رشتہ کے متعلق نا پسندیدگی کا اظہار کرے اور کہے کہ مجھے وہ منظور نہیں کیونکہ وہ غریب ہے.بے شک شریعت نے پسندیدگی کی شرط رکھی ہے.بے شک شریعت نے اس امر کو جائز قرار دیا ہے کہ تم اپنی رغبت کو بھی دیکھ لو اور پھر فیصلہ کرو کہ تمہیں کہاں رشتہ منظور ہے؟ یہ شرط نبی کے لیے بھی ہے اور 328
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم اقتباس از : غیر نبی کے لیے بھی اگر کسی کو پندرہ رشتے ملتے ہوں تو خواہ وہ کسر میاں از خط اپریل ہوں ، وہ پندرہ میں سے ایک کو انتخاب کرنے کا ضرور حق رکھتا ہے.اور میرے نزدیک وہ لوگ بھی نادان ہیں، جو دوسرے کو مجبور کرتے ہیں کہ ضرور فلاں رشتہ لو.جب شریعت کا فیصلہ یہ ہے کہ فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ تو بہر حال شادی کرنے والے کی مرضی کو مقدم رکھا جائے گا اور یہ صورت اسی وقت ہوگی ، جب اسے نسا مل رہی ہوں گی اور جب اسے نسا مل سکتی ہوں تو ایسی صورت میں ماطاب لکم کو حوظ رکھنا بھی ضروری ہوگا.پس وہ شخص جو کسی کو مجبور کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ضرور فلاں جگہ رشتہ کرو یا ضرور میری لڑکی لو وہ بھی نادان ہے.جب خدا نے یہ کہہ دیا ہے کہ فانکحو اما طاب لکم تو تم کون ہو، جو مجبور کرو؟ نہ لڑکے والوں کو اس بات پر مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ ضرور فلاں جگہ رشتہ کریں، نہ لڑکی والوں کو مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ ضرور فلاں جگہ رشتہ کریں.دونوں کے لیے ماطاب لکم کے الفاظ ہیں.جس طرح مردوں کو اس بات میں آزادی حاصل ہے کہ وہ وہیں رشتہ کریں، جہاں ان کی پسندیدگی کو دخل ہے.اسی طرح لڑکی والوں کو بھی اس بات میں آزادی حاصل ہے کہ وہ وہیں رشتہ کریں، جہاں وہ پسند کرتے ہوں.قرآن کریم میں صاف کہا ہے کہ جیسے مردوں کو ہم نے حقوق دیئے ہیں، ویسے ہی عورتوں کو حقوق حاصل ہیں.پس ما طاب لکم کا حکم مرد کے لیے بھی ہے اور عورت کے لیے بھی ہے.لیکن جہاں تک تمدنی درجہ کا سوال ہے، اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہونی چاہئے کہ لڑکی غریب ہے یا امیر.اور اگر وہ ہمیشہ اپنے سے اوپر درجہ والے کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے، اگر وہ چاہتا ہے کہ اس کی شادی کسی امیر کے ہاں ہو، کسی کھاتے پیتے اور معزز آدمی کے ہاں ہو.غریب کے ہاں اگر اس کی شادی کی تجویز کی جائے تو وہ برا مناتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ابھی اس کے دل میں شرک باقی ہے اور وہ دنیا ہی کا پرستار ہے.فرق صرف یہ ہوگا کہ دوسرا شخص دنیا کی زیادہ پرستش کرتا ہے اور یہ کچھ کم کرتا ہے مگر ہوگا دنیا دار ہی.حالانکہ انسان کو جو رشتے مل سکتے ہوں، اس کا فرض ہے کہ وہ ان میں سے ایک کو منتخب کر لے اور بجائے یہ دیکھنے کے کہ امیر کون ہے اور غریب کون؟ وہ صرف یہ دیکھے کہ میری ضرورتیں کیا ہیں؟ اور کس قسم کا رشتہ میری ان ضرورتوں کو پورا کر سکتا ہے؟ مثلاً اگر کسی لڑکی میں دینی تعلیم پائی جاتی ہے یا وہ تقوی اور طہارت اپنے اندر رکھتی ہے تو اس قدر خوبیوں کا پایا جانا کافی ہے.ہاں اگر اس قسم کے دس ہیں رشتے اس کے سامنے ہوں تو پھر بے شک اسے مجبور نہیں کیا جا سکتا اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فلاں رشتہ لو.یہ اس کا اپنا اختیار ہے کہ ان میں سے جس کو چاہے، پسند کر لے.329
اقتباس از خطبه نکاح فرموده 10 اپریل 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم میں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ اپنی حماقت کی وجہ سے اس بات پر ناراض ہو جاتے ہیں کہ ہماری لڑکی کا رشتہ فلاں نے کیوں نہیں لیا ؟ حالانکہ یہ اس کا حق تھا کہ وہ جس کو چاہے، لے اور جس کو چاہے، رد کر دے.اسی طرح لڑکی والوں کا حق ہے کہ وہ جس کو چاہیں، رشتہ دیں اور جس کو چاہیں، رد کر دیں.سوائے اس کے کہ رشتہ سے انکار کرنے کی بنیاد یہ نہ ہو کہ چونکہ اس نے دین کے لئے اپنی زندگی وقف کی ہوئی ہے، اس لئے ہم اسے رشتہ نہیں دیتے.اگر وہ ایسا کہے تو اس کے معانی یہ ہوں گے کہ وہ شخص جو دین کے لئے قربانی نہیں کرتا، وہ شخص جو دین کے لئے اپنے اوقات کو صرف نہیں کرتا ، وہ شخص جو اس بارہ میں کوشش اور جدو جہد سے کام نہیں لیتا وہ تو اس کے نزدیک معزز ہے اور وہ شخص جو دین کے لئے قربانی کرتا ہے، وہ ذلیل ہے.اور یہ ایک ایسی بات ہے جسے کوئی منظمند قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا.اسی طرح وہ واقف جس کے سامنے غریب لڑکیوں کے رشتے پیش کئے جاتے ہیں تو وہ انکار کر دیتا ہے اور امیروں پر چھاپا مارنے کے لئے تیار رہتا ہے، اس کا طریق عمل بھی صریحا غلط ہے.اور اس کو صحیح تسلیم کرنے کے معنی یہ ہوں گے کہ نیکی اور تقوی مالداروں میں ہی ہوتا ہے، غربا میں نہیں ہوتا.آخر جب وہ کہے گا کہ میں فلاں غریب لڑکی کا رشتہ نہیں لیتا تو کیا کہے گا؟ یہی دلیل دے گا کہ اس میں نیکی کم ہے.تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ غربا نیک نہیں ہوتے صرف امراء ہی نیک ہوتے ہیں.اور یہ بات بھی بالبداہت باطل ہے.اور اگر غربا میں بھی نیکی ہوتی ہے، ان میں بھی تقوی ہوتا ہے، ان میں بھی تعلیم ہوتی ہے، ان میں بھی دیانت ہوتی ہے تو اس کا غریب رشتہ لینے سے انکار کرنا سوائے اس کے کوئی مفہوم نہیں رکھتا کہ یہ بھی دنیادارانہ خیالات اپنے اندر رکھتا ہے.پس دونوں فریق کا یہ طریق عمل عقل اور حقیقت کے بالکل خلاف ہے.اگر کوئی امیر اپنا پیچھا چھوڑانے کے لئے یہ کہتا ہے کہ شریعت نے بے شک دین اور نیکی کو مقدم قرار دیا ہے مگر مجھے دین ان دینداروں میں نظر نہیں آتا، مجھے تو دنیا داروں میں دین نظر آتا ہے تو تم خود ہی سوچ لو کہ اس کا یہ فقرہ کتنا غیر معقول اور حقیقت سے کتنا دور ہوگا ؟ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ مجھے دینداروں میں دیندار نظر نہیں آتا تو اس کی یہ بات ایسی ہی ہوگی جیسے کوئی کہے کہ سفید تا گوں میں مجھے کوئی سفید تا گا نظر نہیں آتا یا سیاہ تاگوں میں مجھے کوئی سیاہ تا گا نظر نہیں آتا یا یہ بات ایسی ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ ہندؤوں میں مجھے کوئی ہندو نظر نہیں آتا، مسلمانوں میں مجھے کوئی مسلمان نظر نہیں آتا.اگر کوئی ایسا کہتا ہے تو یہ اس کے جنون کی علامت ہوگی ، اس کی عقل کا ثبوت نہیں ہوگا کہ دینداروں میں مجھے کوئی دیندار نظر نہیں آتا لیکن دنیا داروں میں مجھے دیندار 330
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبه نکاح فرمود و 10 اپریل 1944ء نظر آتے ہیں.اسی طرح کسی واقف زندگی کا یہ طریق عمل اختیار کرنا کہ جب غریب لڑکیوں کے رشتے اس کے سامنے پیش ہوں تو وہ کہہ دے کہ ان میں نیکی اور تقویٰ کم ہے، بتاتا ہے کہ اس کے نزدیک امراء میں تو نیکی ہوتی ہے غرباء میں نیکی نہیں ہوتی.پس ان الفاظ سے یہ دونوں اپنے جھوٹے ہونے ،اپنے غیر متقی ہونے اور اپنے مشرک ہونے کا اقرار کرتے ہیں اور دونوں دنیا پر نگاہ رکھتے ہوئے نظر آتے ہیں.یہ چیز ہے، جس کی اصلاح نہایت ضروری ہے.ہماری جماعت میں لاکھ پتی یا کروڑ پتی تو کوئی ہے نہیں.صرف چند لوگ ایسے ہیں، جو اچھے کھاتے پیتے اور امراء میں شامل ہیں.لیکن ان لوگوں کی ذہنیت یہی ہے کہ اگر کوئی واقف زندگی اپنی حماقت اور بے وقوفی سے ان کے سامنے رشتہ کی درخواست پیش کر دے تو وہ یوں سمجھتے ہیں کہ گویا انہیں بازار میں کھڑا کر کے جوتیاں ماری گئی ہیں.اس کے مقابلہ میں جو واقف ہیں ، ان کی یہ حالت ہے کہ جب غریب لڑکیوں کے رشتے ان کے سامنے پیش کئے جائیں تو وہ ان میں کئی کئی نقص نکالیں گے.کبھی کہیں گے تقویٰ اعلیٰ درجہ کا نہیں کبھی کہیں گے تعلیم زیادہ اعلیٰ نہیں، کبھی کہیں گے سلسلہ سے انہیں محبت کم ہے.لیکن جہاں کسی کھاتے پیتے آدمی کا رشتہ ان کے سامنے آجائے وہ فورا کہہ دیں گے، ہاں ، یہ ٹھیک ہے.یہ لڑکی نیک اور دیندار ہے.اس وقت انہیں نیکی بھی نظر آنے لگ جائے گی ، اتقاء بھی نظر آنے لگے جائے گا تعلیم بھی نظر آنے لگ جائے گی اور وہ اس رشتہ پر رضامند ہو جائیں گے.پس دونوں کا طریق عمل بالکل غلط، ناجائز اور خلاف اصول ہے.جب تک دونوں فریق اپنی اپنی اصلاح نہیں کریں گے، اس وقت تک اس نقص کا ازالہ نہیں ہو سکے گا.یاد رکھو، دنیا انہی لوگوں کے پیچھے پھرا کرتی ہے جو دنیا کو کلی طور پر چھوڑ دیتے ہیں.وہ خدا کے لئے دنیا چھوڑتے ہیں اور دنیا کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ ان کے پیچھے پیچھے بھاگتی پھرتی ہے اور انسان حیران ہوتا ہے کہ اب میں جاؤں کہاں؟ لیکن جب تک دنیا پر نگاہ رکھی جائے، دنیا آگے آگے بھاگتی ہے اور انسان اس کے پیچھے پیچھے دوڑتا ہے مگر پھر بھی دنیا اسے حاصل نہیں ہوتی.یہ تقریب چونکہ ایک واقف زندگی کے نکاح کا اعلان کرنے کی غرض سے تھی ، اس لئے میں نے یہ باتیں کہہ دی ہیں تا کہ جماعت کی اصلاح اور اس کے حالات کی درستی کا موجب ہوں.میں نے اعلان کیا ہوا ہے کہ میں سوائے اپنے عزیزوں کے اور کسی کا نکاح نہیں پڑھاؤں گا مگر چونکہ یہ واقف زندگی ہیں اور اس وجہ سے یہ میرے عزیزوں میں ہی شامل ہیں، اس لئے میں اس نکاح کا اعلان کر رہا ہوں“.مطبوع الفضل 22 جون 1944ء) 331
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد دوم وو روز جزا قریب ہے اور رہ بعید ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 14 اپریل 1944ء اقتباس از خطبه جمعه 14 اپریل 1944ء اللہ تعالیٰ بھی اس الہام میں اسی امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم نے تو ابھی اس راستے کو طے ہی نہیں کیا، جس پر چل کر ان انعامات کے تم مستحق بن سکتے ہو.مگر ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اس دن کو ، جو تمہاری فتح اور کامیابی کا دن ہے تمہارے قریب لا چکے ہیں.پس روز جزا قریب ہے اور رہ بعید ہے میری طرف سے جو کچھ ظاہر ہوتا تھا، اس کی تیاریاں آسمان پر مکمل ہو چکی ہیں مگر تم نے جو کچھ کرنا تھا ، اس کے لئے بھی کئی منزلیں طے کرنی باقی ہیں.مجھے جب یہ الہام ہوا تو میں نے اس وقت سوچا کہ گو میں جماعت کو جلدی جلدی آگے کی طرف اپنا قدم بڑھانے کی تحریکات کر رہا ہوں.جس پر بعض لوگ ابھی سے گھبرا اٹھے ہیں کہ کتنی جلدی جلدی نئی سے نئی تحریکیں کی جارہی ہیں، کبھی وقف جائداد کی تحریک کی جاتی ہے ہے، کبھی وقف زندگی کی تحریک کی جاتی ہے، کبھی کالج کی تعمیر کے لئے چندہ کی تحریک کی جاتی ہے.مگر اللہ تعالی اس کو بھی ناکافی قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے، تمہارارہ بعید ہے.یعنی ابھی تم نے کچھ بھی نہیں کیا.سفر ابھی بہت باقی ہے اور تمہارا اقدم خطر ناک طور پرست ہے.حالانکہ میں نے جو کام کرنا تھا، وہ کر لیا، میرا ٹھیکہ پورا ہو گیا اور جو چیز میں نے تم کو دینی تھی ، وہ دے دی مگر تم ابھی اپنے کام کے لئے تیار نظر نہیں آتے.اس مفہوم کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے اس الہام کا ایک اور امر کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے، گونزول الہام کے وقت میں نے اس کے وہی معنی سمجھے تھے، جو میں نے ابھی بیان کئے ہیں.لیکن پھر بھی اس الہام کا ایک اور مطلب بھی ہو سکتا ہے لیکن وہ بھی اپنی ذات میں کوئی خوش کن نہیں.یعنی اس الہام کا ایک مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ہر شخص جو تم میں سے اسلام کو اور احمدیت کی ترقی کے لئے کوشش کر رہا ہے ، اس کی یہ کوشش اتنی تھوڑی اور اس قدر کم ہے کہ اس کی اس کوشش اور جدو جہد کے مقابلہ میں اس کی زندگی کے جس قدر ایام ہیں، ان میں ان کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا.گویا تم میں سے ہر شخص جو کوشش آج اسلام اور احمدیت کے غلبہ کے لئے کر رہا ہے، اگر مرتے دم تک وہ اسی رنگ میں کوشش اور جدو جہد کرتا رہے اور اپنا قدم تیز نہ کرے تو یہ کوششیں اس قدر کم ہیں کہ تمہارا یہ خیال کرنا کہ ان کا 333
اقتباس از خطبه جمعه 14 اپریل 1944ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد دوم کوششوں کے نتیجہ میں تم اسلام کا غلبہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکو گے، یہ ناممکن ہے.اگر تمہاری کوشش اور جدوجہد کی یہی رفتار رہی تو تم اپنی زندگی میں یوم جزا کو نہیں دیکھ سکو گے.یہ معنی اگر لئے جائیں تو یہ بھی کوئی خوش کن معنی نہیں.مگر جو معنی اس وقت میں نے سمجھے ، وہ یہی تھے کہ روز جزا قریب ہے، مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے تم سے اسلام اور احمدیت کے غلبہ کے متعلق ، جو وعدے فرمائے ہیں، ان کے پورا ہونے کا وقت آگیا.آسمان پر فرشتوں کی فوجیں اس دن کو لانے کے لئے تیار کھڑی ہیں مگر جو کوشش تم کر رہے ہو، وہ بہت ہی حقیر اور بہت ہی ادنی اور معمولی ہے.جب ہم نے پنے فضل کا دروازہ کھول دیا، جب آسمان سے فرشتوں کی فوجیں زمین میں تغیر پیدا کرنے کے لئے نازل ہو گئیں، جب کفر کی بربادی کا وقت آپہنچا، جب اسلام کے غلبہ کی گھڑی قریب آگئی تو اس وقت تم اگر پوری طرح تیار نہیں ہو گے، تم نے اپنے اندر کامل تغیر پیدا نہیں کیا ہو گا تم نے اپنی اصلاح کی طرف پوری توجہ نہیں کی ہوگی تو نتیجہ یہ ہوگا کہ تم اس دن سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہ جاؤ گے اور اسلام کی دائمی ترقی میں روک بن جاؤ گے.کیا تم نہیں دیکھتے کہ جس پانی کو سنبھالا نہ جائے ، وہ بجائے فائدہ پہنچانے کے لوگوں کو تباہ کر دیتا ہے؟ جس دودھ کو محفوظ نہ رکھا جائے ، وہ پھٹ جاتا ہے؟ وہی پانی فائدہ پہنچاتا ہے، جس کو سنبھالا جائے اور وہی دودھ انسان کو طاقت بخشتا ہے ، جس کو پھٹنے سے محفوظ رکھا جائے.پھٹا ہوا دودھ کس کام آسکتا ہے؟ گرا ہوا سالن کون استعمال کرتا ہے؟ کتے کے آگے پڑی ہوئی روٹی کون کھا سکتا ہے؟ اسی طرح اگر ہم نے اس دودھ کو محفوظ نہ رکھا، جو خدا نے ہمارے لئے نازل کیا ہے.اگر ہم نے اس کھانے کی حفاظت نہ کی ، جو خدا نے ہمیں دیا ہے.اگر ہم نے اس پانی کو نہ سنبھالا، جو خدا نے آسمان سے اتارا ہے تو یہ پانی اور یہ دودھ اور یہ کھانا ہمارے لئے ایک طعنہ کا موجب بن جائے گا.کیونکہ ہمیں چیز تو ملی مگر ہم نے اس کی قدر نہ کی.پس میں آج پھر خدا تعالیٰ کے اس پیغام کو جماعت تک پہنچا تا ہوں.پہلے میری طرف سے ہی گھبراہٹ تھی اور میں جماعت کو بار بار کہتا تھا کہ جلد جلد بڑھو، جلد جلد اپنا قدم آگے کی طرف بڑھاؤ مگر اب خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی یہ گھبرا دینے والا پیغام آگیا ہے کہ روز جزا قریب ہے اور رہ بعید ہے جزا کا دن بہت قریب ہے مگر تمہاری راہ بہت بعید ہے.اب چاہے اس کے یہ معنی سمجھ لو کہ ہر شخص کی موت کا دن اس سے زیادہ قریب ہے، جتنا قریب اس کے اعمال کے نتیجہ میں اسلام کی فتح آسکتی ہے.اگر وہ اسی چال پر چلتے رہے تو ان کا یہ خیال کرنا کہ اسلام کی فتح کا دن ان کی آنکھوں کے سامنے آ 334
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه 14 اپریل 1944ء جائے گا، ناممکن ہے.رفتار بہت ست ہے، کوششیں بہت محدود ہیں مگر زندگی کے ایام تھوڑے ہیں.اور اگر چاہو تو اس الہام کے یہ معنی سمجھ لو کہ میں نے تم سے اسلام کی ترقی اور احمدیت کا غلبہ کے متعلق جس قدر وعدے کئے تھے، ان تمام وعدوں کو پورا کرنے کے سامان میں مہیا کر چکا ہوں.وہ وعدے اب عنقریب ظہور پذیر ہونے والے ہیں.مگر اے مومنو! اگر قریب ترین عرصہ میں تم نے اس آنے والے دن کے لئے کوئی تیاری نہ کی تو تم ان نعمتوں کو سنبھال نہیں سکو گے.نعمتیں تو آئیں گی مگر بجائے اس کے کہ تم ان پر قابض رہو، وہ تمہارے ہاتھ سے نکل جائیں گی ، وہ زمین پر بکھر جائیں گی ، وہ تباہ و برباد ہو جائیں گی.پھر خدا ایک نیا نظام قائم کرے گا اور اس نئے نظام کے ذریعہ اپنی ان نعمتوں کو دوبارہ واپس لانے کے سامان مہیا کرے گا.کیونکہ جو نعمتیں ایک دفعہ کسی قوم کے ہاتھ سے نکل جائیں ، وہی قوم ان نعمتوں کو دوبارہ کبھی حاصل نہیں کر سکتی.دنیا کی تاریخ میں یہ کہیں بھی نظر نہیں آتا کہ ایک قوم کے ہاتھ سے جب کوئی نعمت نکل گئی ہو تو پھر وہی قوم اس نعمت کو سمیٹ سکی ہو.اس وقت بحیثیت قوم ان نعمتوں کو سمیٹا نہیں جاسکتا.ہاں افراد ایک ایک دانہ چنتے اور استعمال کرتے رہتے ہیں.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بھی امت محمدیہ میں بعض بڑے بڑے بزرگ ہوئے.مثلاً حضرت سید عبد القادر صاحب جیلانی ، حضرت معین الدین صاحب چشتی ، حضرت سید احمد صاحب سرہندی، حضرت ولی اللہ شاہ صاحب دہلوی، حضرت شہاب الدین ، صاحب سہروردی اور اسی طرح اور ہزاروں اولیاء امت محمدیہ میں ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی روحانی نعماء فائدہ اٹھاتے رہے.مگران کی مثال ایسی ہی تھی جیسے مرغاز مین پر سے ایک ایک دانہ چن کر کھاتا ہے.انہوں نے بھی نعمتوں کے ایک ایک دانے زمین سے چنے اور استعمال کئے مگر سونے سے بھری ہوئی کانیں، موتیوں سے بھرے سمندر اور لعل و جواہرات اور ہیروں کے انبار ان کے زمانہ میں نہ رہے.انہوں نے جس قدر انعامات حاصل کئے ، انفرادی انعامات تھے، قومی انعامات نہیں تھے.لیکن انبیاء کے زمانہ میں تمام قوم کو انعامات میں سے حصہ دیا جاتا ہے.پس اگر یہ معنی اس الہام کے ہیں تو یہ بھی تکلیف دہ ہیں.دنیا نے بڑا انتظار کیا ایک ایسی ہدایت کا ، جو اسے نور سے بھر دے.دنیا نے بڑا انتظار کیا اس جنگ کا ، جو شیطان کو ہمیشہ کے لئے آخری شکست دے دے.لیکن اگر اس جنگ میں شیطان کو فرشتے شکست بھی دے دیں اور مومن آگے نہ بڑھیں تو شیطان پھر واپس لوٹ آئے گا اور پھر اسلام کے قلعہ پر قبضہ کر لے گا.اسی قلعہ میں دشمن واپس نہیں آیا کرتا، جس کے متعلق وہ جانتا ہو کہ اس میں غنیم کی فوجیں جمع ہیں.لیکن اگر فرشتوں نے شیطان کا قلعہ سر کر لیا اور 335
اقتباس از خطبه جمعه 14 اپریل 1944ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم مؤمن آگے نہ بڑھے تو ہزاروں سال کی پیشگوئیاں اور وہ ایک لمبی لڑائی، جو شیطان سے لڑی گئی تھی، رائیگاں چلی جائے گی.میں جانتا ہوں کہ پیشگوئیاں کلی طور پر یوں ہی نہیں چلی جاتیں.مگر جب کوشش اور جدو جہد کا پہلوکمزور ہو تو اس کے نتائج ضرور تلخ ہوتے ہیں.پس میں جماعت کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ دیکھو راستہ دور کا ہے، وقت تھوڑا ہے، تمہاری کوششیں نامکمل ہیں اور فتح کا دن نزدیک آرہا ہے.تم جلد جلد اپنے قدم بڑھاؤ اور ہر میدان میں اسلام کے جانباز سپاہی بنے کی کوشش کرو.اگر تم میں سے ہر شخص اسلام کی فتح کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیتا ہے، اگر تم میں سے ہر شخص اپنے جس کا ذرہ ذرہ اسلام کی فتح کے لئے اس طرح اڑادیتا ہے، جس طرح روئی دھنکنے والا روٹی کے ذرات کو ہوا میں اڑاتا ہے تو تمہاری اس سے زیادہ خوش قسمتی اور کوئی نہیں ہوسکتی.تمہارا فرض ہے کہ تم باہر نکل جاؤ اور جو لوگ ہماری جماعت میں سے جاہل ہیں ، ان کو مجبور کرو کہ وہ اسلام کی تعلیم کو سیکھیں اور قرآن کریم کے احکام پر عمل کریں.اسی طرح جماعت کے افراد کا فرض ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور اسلام کی خدمت کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف کر دیں.ضرورت ہے کہ ہمارے پاس ہزاروں ایسے لوگ ہوں ، جو دین کو پوری طرح سیکھے ہوئے ہوں.تا کہ جب بھی کوئی ملک اسلام کے لئے فتح ہو اور اللہ تعالی اس میں نیک تغیر پیدا کرے تو ہمارے پاس اس ملک کو سنبھالنے والی جماعت بھی موجود ہو اور ہم یہ نہ کہہ سکیں کہ ملک تو اسلام کے لئے فتح ہو گیا ہے مگر جماعت اس کو سنبھالنے کے لئے تیار نظر نہیں آتی.ہمارے پاس وہ آدمی موجود ہونے چاہئیں، جن کو اس ملک میں پھیلایا جا سکے.ہمارے پاس وہ لٹریچر موجود ہونا چاہئے ، جو اس ملک میں شائع کیا جا سکے.ہمارے پاس وہ کتابیں موجود ہونی چاہئیں، جو اس ملک کے کونے کونے میں پھیلائی جاسکیں.ہمارے پاس روپیہ موجود ہونا چاہئے ، جس سے مبلغین کے سفر خرچ اور دیگر اخراجات کا انتظام کیا جا سکے.اسی طرح ضروری ہے کہ اسلام کی جائیدادیں، ہماری اپنی جائیدادوں سے لاکھوں بلکہ کروڑوں گنا زیادہ ہوں اور ہماری مالی قربانیاں اسلام کے فنڈ کو اس قدر مضبوط کر دیں کہ جب کسی ملک میں اسلامی لشکر بھجوانے کی ضرورت محسوس ہو ، جب سپاہیوں کے لئے روحانی گولہ بارود کی ضرورت ہو ، جب لوگوں کو پیاس بجھانے کے لئے لٹریچر فراہم کرنا ضروری ہو تو ہمارے پاس اس قدرسامان موجود ہو کہ ہم بغیر کسی قسم کے فکر کے اور بغیر اس کے کہ ہمارے سپاہیوں کو کسی قسم کی تشویش ہو، اسلام کی ان ضروریات کو پورا کر سکیں.اسی طرح ضروری ہے کہ ہماری جماعت کے نوجوانوں کو انگریزی یا دنیوی تعلیم ایسے رنگ میں دلائی جائے کہ بجائے اس کے کہ وہ تعلیم انہیں اسلام اور ایمان سے 336
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه 14 اپریل 1944ء بے بہرہ کرنے والی ہو، وہ ان کے دلوں میں اسلام کی صداقت پر زیادہ سے زیادہ یقین اور وثوق پیدا کرنے والی ہو.بجائے اس کے کہ آئندہ سائنس اسلام پر کفر کو غالب قرار دے سکے ، سائنس کفر کو کھا جانے والی اور اسلام کو غالب و برتر ثابت کرنے والی ہو اور اس کی توپوں کا منہ اسلام کے قلعہ کی بجائے کفر کی طرف ہو اور اس کے گولے کفر کی دیواروں کو گرا رہے ہوں“.(مطبوعہ افضل 27 اپریل 1944ء) 337
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اپریل 1944ء اسلام کی فتح کی جنگ اب قریب آرہی ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اپریل 1944ء ” میں نے جماعت کو اس امر کی طرف پچھلے چند ہفتوں سے توجہ دلائی ہے کہ اسلام کی فتح اور اس کی کامیابی کے لئے جو جنگ ہونے والی ہے، وہ اب قریب آرہی ہے اور ہمیں اس کی خاطر قربانیاں کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے.اسی غرض کے لئے میں نے بعض مالی تحریکیں کی ہیں ، بعض وقف زندگی کی تحریکیں ہیں“." پس میں نے جو مختلف تحریکات کی ہیں، وہ اسی لئے ہیں کہ جماعت کو آئندہ جنگ کے لئے تیار کیا جائے.میں جانتا ہوں کہ کئی لوگ ایسے ہیں، جو کچھ عرصہ کے بعد کہیں گے کہ کچھ بھی نہیں ہوا، ان کے دل بیٹھنے شروع ہو جائیں گے اور وہ سمجھیں گے کہ وہ دن ، جس کے لئے ہم تیاری کر رہے تھے، نہ معلوم آتا بھی ہے یا نہیں آتا.مگر جب وقت آئے گا، ایسے لوگ پیچھے گر جائیں گے.اسی طرح وہ لوگ، جو اس وقت اس آواز کا جواب نہیں دیتے اور سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے مخلص ہیں ، ہم بڑی قربانی کرنے والے ہیں، ہم بڑا ایثار کرنے والے ہیں، جب خدا کی طرف سے آواز آئے گی، ہم فوز اقربانی کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے، وہ بھی جب وقت آئے گا، پیچھے ہٹ جائیں گے اور اسلام کے بہادر سپاہیوں کے ساتھ اپنے قدم ملا نہیں سکیں گے.صرف وہ منزل مقصود پر پہنچیں گے، صرف وہ کامیابی کا منہ دیکھیں گے اور صرف وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوں گے ، جو اس دن کے آنے سے پہلے اس کے لئے تیاری کریں گے اور کرتے چلے جائیں گے.زمانہ کا بعد یا زمانہ کا چھوٹا ہونا ، ان کی تیاری میں روک نہیں بنتا“."پس جو تحریکیں میں نے جماعت میں کی ہیں، ان کی طرف میں ایک دفعہ پھر دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں.کوئی شخص میری ان تحریکات کو اس رنگ میں نہ سمجھے کہ شاید کل ہی وہ دن آنے والا ہے، جب اسلام کی ترقی کے لئے جماعت سے انتہائی قربانیوں کا مطالبہ کیا جائے گا.ہم تو کہتے ہیں اس دن کے آنے میں ابھی اور دیر ہوتا کہ ہمارے کمزور بھی تیاری کر لیں اور ہم میں سے ہر شخص کے اندر ایسا مادہ پیدا ہو جائے کہ وقت آنے پر ہم اپنے اموال، اپنے اوقات، اپنی جانیں ، اپنی اولادیں، اپنی بیویاں اور اپنے دوست سب کچھ خدا کی خاطر قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائیں.339
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اپریل 1944ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم جس طرح سفر پر جانے سے پہلے لوگ اپنی پوٹلیوں اور اپنے ٹرنکوں میں اسباب بند کر کے بیٹھو جاتے ہیں اور وہ اس بات کے منتظر ہوتے ہیں کہ گاڑی کی سٹی بجے تو وہ اپنا اسباب اٹھا کر ڈبے میں بیٹھا جائیں.اسی طرح ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ دین کے لئے اپنی تمام چیزیں تیار رکھے تا کہ جب خدا کی طرف سے آنے والے انجن کی آواز سنائی دے تو وہ دو چار منٹ کے اندر اندر سٹیشن پر پہنچ جائے اور پھر جتنے منٹ اس گاڑی نے سٹیشن پر ٹھہرنا ہو اس وقت کے اندر اندر اس کا اسباب گاڑی پر لد جائے.اگر اس طرح ہم اس دن کے لئے تیار نہیں ہیں تو پھر ہم کسی خوش بختی یا ساعت سعید کا بھی انتظار نہیں کر سکتے.ہماری امیدیں محض ایک سراب کی حیثیت رکھیں گی ، جن سی آنکھیں تو چکا چوند ہوسکتی ہیں، جن سے مایوسی تو پیدا ہوسکتی ہے مگر تشنگی دور نہیں ہو سکتی.( مطبوع الفضل 09 مئی 1944ء) 340
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم اقتباس از ملفوظات فرموده 30 اپریل 1944ء واقف زندگی کا کوئی اپنا کام کرنا ملفوظات فرمودہ 30اپریل1944ء کسی نے سوال کیا ہے کہ واقف زندگی اپنا کام کرسکتا ہے یا نہیں؟ یہ سوال مکمل نہیں ، اس لیے اسے پورے طور پر سمجھ نہیں سکا.اگر کوئی واقف زندگی ایسا ہے، جسے سلسلہ نے اپنے کام کے لیے لے لیا ہے تو وہ بہر حال سلسلہ کا ہی کام کرے گا اور اگر اس کے پاس کوئی زائد وقت بچ گیا ہو تو اس صورت میں بھی اگر سلسلہ اسے کوئی کام کرنے کی اجازت دے گا تو وہ کر سکتا ہے ورنہ نہیں.اور اگر اس سے مراد کوئی ایسا وقف زندگی ہے، جس نے اپنا نام تو دے دیا مگر سلسلہ نے اسے قبول نہیں کیا تو ایسا آدمی فارغ ہے.بجائے اس کے کہ وہ اپنے اوقات کو ضائع کرے، اس کے لیے یہ سینکڑوں گنا زیادہ بہتر ہے کہ وہ اپنے گزارہ یا اپنے رشتہ داروں کے گزارہ کے لیے کوئی کام کرے.پس سوال چونکہ واضح نہیں، اس لیے میں نے دونوں پہلو واضح کر دیئے ہیں.اگر سلسلہ نے اسے لے لیا ہے تو وہ سلسلہ کی اجازت سے کام کر سکتا ہے بغیر اجازت نہیں.اگر سلسلہ سمجھے گا کہ اسے کام کرنے کی اجازت دینے میں کوئی حرج نہیں تو وہ اجازت دے گا اور اگر سلسلہ نے اسے قبول نہیں کیا تو یقیناً وہ کام کرنے کا مجاز ہے بلکہ اس کا کام کرنا اس کے لیے زیادہ بہتر ہے.سوال کیا گیا ہے کہ واقف، جو کمائی کرے گاوہ اس کی اپنی ہوگی یا سلسلہ کی ہوگی ؟ یہ سوال بھی پہلے سوال سے ہی تعلق رکھتا ہے.اگر سلسلہ نے اسے قبول کر لیا ہے اور اگر سلسلہ نے اسے اپنا کام کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے تو اس کی کمائی یقینا اس کی اپنی ہوگی اور اگر سلسلہ نے اسے قبول تو کر لیا ہے مگر سلسلہ نے اسے کسی اپنے کام پر مقرر کیا ہے تو اس کی کمائی سلسلہ کی ہوگی اور اگر سلسلہ نے اسے قبول ہی نہیں کیا تو چونکہ اسے قبول نہیں کیا گیا، اس لئے اس کی کمائی کے متعلق کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.تیسرا سوال یہ کیا گیا ہے کہ اگر کوئی واقف زندگی آمدنی اپنی مرضی سے خرچ کر سکتا ہے تو پھر وقف زندگی کے کیا معنی ہوئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر سلسلہ نے اس کو نہیں لیا تو اس کا وقف صرف ایک وعدہ ہے اور اس صورت میں اس کی آمدنی، جو کچھ بھی ہے، اس کی اپنی ہے.اور اگر سلسلہ اسے قبول کر لیتا ہے مگر کام کرنے 341
اقتباس از ملفوظات فرمودہ 30 اپریل 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم کی اجازت نہیں دیتا تو اس صورت میں وہ کوئی اور کام کرہی نہیں سکتا اور اگر کرے گا تو گنہگار ہوگا اور اگر سلسلہ کی اجازت سے اس نے کوئی کام شروع کیا ہے تو اس کی آمدنی استعمال کرنا، اس کے وقف میں کوئی روک نہیں بن سکتا.(مطبوعہ الفضل 02 دسمبر 1944ء) 342
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم ملفوظات فرموده یکم مئی 1944ء بغیر معاوضہ کے تبلیغ کریں چاہے درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کرنا پڑے فرمایا:.ملفوظات فرموده یکم مئی 1944ء ”میری تحریک پر ہماری جماعت کے بہت سے دوستوں نے اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کی ہیں.میں سمجھتا ہوں، شاید قادیان میں سے ہی ساٹھ ستر بلکہ اس سے بھی زیادہ نو جوانوں نے اپنی زندگی وقف کی ہے.وقف کا جو مفہوم اس وقت تک عمل میں آرہا ہے، اس کے لحاظ سے میں نے تبلیغی اخراجات کا ایک معمولی سا اندازہ لگایا ہے اور غور کیا ہے کہ اگر دنیا کے ایک معتد بہ حصہ میں ، جس طرح پانی کا ایک چھینٹا دے دیا جاتا ہے، اسی طرح اگر ہم چھینٹے کے طور پر ہی تبلیغ کریں تو جماعت پر مالی لحاظ سے کتنا بار پڑ جاتا ہے؟ اخراجات کا وہ معمولی اندازہ بھی ایسا ہے، جو در حقیقت ہماری جماعت کی موجودہ حالت کے لحاظ سے ایک اچھا خاصہ بوجھ ہے.مثلاً سب سے پہلے تبلیغی نقطہ نگاہ سے ہمارے سامنے ہندوستان ہے.ہندوستان ، جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے مامور کی بعثت کے لئے منتخب فرمایا ہے، اس میں اس وقت گیارہ صوبے ہیں.سندھ ، سرحد، پنجاب، یوپی، بہار، اڑیسہ، بنگال ہی پی، بمبئی ، مدراس، آسام.یہ وہ صوبے ہیں، جو گورنروں کے صوبے ہیں.ان کے علاوہ بلوچستان ہے، وہ بھی ایک مستقل ملک ہے.اگر اس کو ملا لیا جائے تو بارہ بن جاتے ہیں.پھر بعض بڑی بڑی ریاستیں ہیں، جو کہ در حقیقت صوبوں کی قائمقام ہیں.جیسے کشمیر، حیدر آباد، میسور، بڑودہ ، گوالیار اور ٹرانکور ہیں.بارہ وہ اور چھ یہ اٹھارہ ہو گئے.اس کے بعد درمیانی درجہ کی ریاستوں میں سے بیکانیر ہے، جے پور ہے، جودھ پور ہے.یہ سب ریاستیں مل کر کئی صوبوں کے برابر ہو جاتی ہیں.اگر ان میں چار مرکز بھی مقرر کئے جائیں تو بائیں مقامات ہو گئے ، جہاں ہمیں اپنے تبلیغی مراکز قائم کرنے چاہئیں.اگر ایک ایک مبلغ فی صوبہ مقرر کیا جائے تو میں مبلغ رکھنے پڑتے ہیں.مگر ان میں سے کئی صوبے ایسے ہیں، جو خاص توجہ کے محتاج ہیں اور کسی نہ کسی وجہ سے ان میں تبلیغ کرنا بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے.مثلاً 343
ملفوظات فرموده یکم مئی 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم پنجاب مرکز ہے احمدیت کا اور اس وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ لاہور، راولپنڈی اور ملتان خاص اہمیت رکھتے ہیں اور اس لئے کہ وہاں سے کہ بیعت شروع ہوئی تھی ، لدھیانہ ہے، لدھیانہ بھی اہم مقام ہے اور اس وجہ سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پہلے زیادہ تر سیالکوٹ میں رہے ہیں ، سیالکوٹ بھی خاص توجہ چاہتا ہے، اسی طرح امرتسر پنجاب میں مشہور شہر ہے.یہ چھ جگہیں ایسی ہے ، جہاں ہمیں چھ مبلغ رکھنے چاہئیں.ایک مبلغ چونکہ صوبہ کے لحاظ سے آ گیا تھا، اس لئے اس کو نکال کر چھپیں مبلغ ہو گئے.اس کے بعد یوپی لے لیا جائے.یوپی اس لحاظ سے کہ کسی زمانہ میں مسلمانوں کا مرکز رہا ہے، زیادہ توجہ کا محتاج ہے.گو وہاں مسلمان اب کم ہیں مگر پھر بھی لکھنو، الہ آباد کا نپور اور بنارس خاص جگہیں ہیں، اگر صوبہ کا ایک مبلغ نکال دیا جائے تو تین مبلغ اور بڑھ گئے گویا چھپیں اور تین اٹھائیس ہو گئے.بنگال میں ڈھا کہ اور کلکتہ کے علاوہ میمن سنگھ ایک اہم جگہ ہے اور مسلمانوں کا مرکز ہے، وہاں مولوی کثرت سے پائے جاتے ہیں.ان مقامات میں کم سے کم ہمیں دو مرکز قائم کرنے چاہئیں.اٹھا ئیں پہلے تھے دو یہ ہو گئے گویا میں مبلغ ہو گئے.سندھ میں حیدر آباد ایسا شہر ہے، جہاں مستقل مرکز کی ضرورت ہے کیونکہ وہاں سے تاجر ساری دنیا میں پھیل جاتے ہیں.اس طرح اکتیس مبلغ ہو گئے.بمبئی میں احمد آباد اور پونہ خاص مقام ہیں.اگر ان کو بھی شامل کر لیا جائے تو تینتیس ہو گئے.مدراس میں مالا باروہ جگہ ہے، جہاں احمدیت کی ابتدا ہوئی.دوسرا اہم شہر مدراس میں مڈورا ہے ، جو پانچ لاکھ کی آبادی رکھتا ہے.ان دو کو شامل کر کے پینتیس مبلغ ہو گئے.ان میں سے بعض شہر ایسے ہیں، جن میں ایک ایک مبلغ کافی نہیں ہو سکتا.جیسے کلکتہ ہے یا بمبئی ہے یا اسی طرح کے بعض دوسرے شہر ہیں.اگر ان شہروں کے لئے ، جن میں دلی بھی شامل ہے، پانچ اور مبلغ رکھے جائیں تو چالیس مبلغ ہو گئے.چالیس مبلغوں کے لئے اگر ان شہروں کے اخراجات کو مد نظر رکھا جائے.مکانات کا کرایہ دیکھا جائے اور ادھر ادھر پھرنے پر جو اخراجات ہوتے ہیں، ان کو محوظ رکھا جائے تو در حقیقت دو سو روپیہ فی مبلغ خرچ کا اندازہ ہے.پھر خالی مبلغ رکھنا کافی نہیں ہو سکتا بلکہ تبلیغ کے لئے ٹریکٹوں وغیرہ کی اشاعت بھی ضروری ہوتی ہے.ایسے کاموں کے لئے اگر سور و پیہ ماہوار رکھا جائے تو تین سور و پیہ ماہوار ایک مبلغ پر خرچ آسکتا ہے.چالیس کو تین سو سے ضرب دی جائے تو بارہ ہزار روپیہ ماہوار یا ایک لاکھ چوالیس ہزار روپیہ سالانہ خرچ ہوتا ہے.اگر چھ ہزار روپیہ بعض اور تبلیغی ضروریات کے لئے رکھ لیا جائے کیونکہ بعض دفعہ فوری طور پر ایسے اخراجات آپڑتے ہیں، جن کا خیال تک نہیں ہوتا تو ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالانہ خرچ کے 344
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد دوم ملفوظات فرموده یکم مئی 1944ء بعد ہم ادنیٰ سے ادنی تبلیغی مرکز ہندوستان میں کھول سکتے ہیں.اور یہ ابھی صرف شہر ہیں، دیہات کا حساب نہیں کیا گیا.حالانکہ دیہات کی طرف ہمارا توجہ کرنا اور بھی ضروری ہے.اس سے کم توجہ کے کوئی معنی ہی نہیں ہو سکتے اور اگر ہم کم توجہ کریں تو دنیا کی آبادی کے مقابلہ میں یہ ایسا ہی ہوگا جیسے کوئی شخص شہر کی ایک تنگ گلی کے ایک چھوٹے سے مکان میں ایک تنگ کو ٹھری میں دروازے بند کر کے شور مچانا شروع کر دے.ابتداء میں جب ہم نے احمدیت کا اعلان کرنا تھا، یہ صورت ہمارے لئے کافی ہو سکتی تھی.مگر موجودہ صورت میں چالیس مبلغوں اور ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالانہ خرچ سے کم میں ہندوستان کے شہروں میں تبلیغ کرنے کے کوئی معنی ہی نہیں بنتے.پھر جہاں چالیس مبلغ ہوں گے، وہاں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بعض دفعہ کوئی بیمار ہو جائے یا ان میں سے کوئی چھٹی پر چلا جائے.ان امور کو دیکھتے ہوئے ، در حقیقت دس مبلغ ہمیں زائد ر کھنے پڑیں گے تا کہ جو لوگ چھٹی پر آئیں ، ان کی جگہ وہ اس عرصہ میں تبلیغ کر سکیں.بلکہ چالیس مبلغوں کے لحاظ سے دس مبلغ ریز اور کھنے بھی کم ہی ہیں.اصل میں ہیں مبلغ ہونے چاہئیں.بہر حال دس ہی سمجھ لوتو پچاس ہو گئے.دس مبلغوں کو ان اچانک پیش آنے والی ضروریات کے لئے اگر مرکز میں رکھا جائے تو چونکہ ان کے اخراجات اتنے نہیں ہو سکتے ، جتنے ان مبلغوں کے اخراجات ہو سکتے ہیں، جو باہر رہتے ہیں، اس لئے میں سمجھتا ہوں ان کے لیے بیس ہزار روپیہ میں زائد رکھنا چاہئے.گویا ایک لاکھ ستر ہزار روپیہ ہو گیا.یہ کم سے کم وہ تبلیغی اخراجات ہیں، جو ہندوستان کے بعض شہروں پر ہو سکتے ہیں.لیکن اس رقم میں لٹریچر کے اخراجات صرف نام کے طور پر رکھے گئے ہیں.ان اخراجات سے ایسا لٹریچر شائع نہیں کیا جا سکتا ، جو سارے ہندوستان میں شور مچادینے والا ہو.اگر اس کو بھی مدنظر رکھ لیا جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ اڑھائی ہزار روپیہ ماہوارزائد طور پر ایسے لٹریچر کے لئے رکھنا چاہیے تو میں ہزار روپیہ سالانہ ہو گیا اور ایک لاکھ ستر ہزار میں شامل کر کے پورا دولاکھ روپیہ بن گیا.یہ تو صرف ہندوستان کے شہروں کی تبلیغ کا اندازہ ہے.گاؤں کی تبلیغ اس کے علاوہ ہے.گاؤں کی آبادی شہروں سے نو گنے زیادہ ہے مگر چونکہ وہاں خرچ شہروں سے کم ہوتا ہے.اگر پانچ گنے زیادہ خرچ گاؤں کی تبلیغ کا رکھا جائے تو ہندوستان کی تبلیغ کے لئے ، جو معمولی ہوگی.پچاس شہری مبلغ اور ساڑھے سات سو گاؤں کے مبلغ اور بارہ لاکھ روپیہ سالانہ کی ضرورت ہوگی.اب رہی باہر کی تبلیغ ، میں نے سوچا ہے کہ بیرونی ممالک میں سے انگلستان سب سے مقدم ہے.اسی ملک کے لوگ ہندوستان میں آئے اور انہوں نے ہمارے ملک کو فتح کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بھی انگلستان کے متعلق بڑی بڑی پیشگوئیاں ہیں اور ان پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جلد یا.345
ملفوظات فرموده تیم مئی 1944ء تحریک جدید - ایک البی تحریک.....جلد دوم بدیر انگلستان کے لئے اسلام لا نا مقدر ہے.اس وقت وہاں ہمارا صرف ایک مبلغ رہتا ہے اور ساڑھے چار کروڑ کی آبادی ہے.ایک مبلغ چار کروڑ کی آبادی والے ملک میں رکھنا کوئی معنی ہی نہیں رکھتا اور پھر اس ایک مبلغ کے لئے بھی ہم صحیح طور پر تبلیغی سامان ہم نہیں پہنچار ہے.اگر وہ مبلغ سال میں صرف ایک دفعہ دو صفحے کا اشتہار شائع کرے تو چار کروڑ کی آبادی میں ایک کروڑ اشتہار شائع ہونا چاہئیں.اگر ایک صفحہ کے ایک ہزار اشتہار کی صرف ایک روپیہ قیمت سمجھی جائے تو دو صفحہ کا اشتہار دوردوپیہ میں ہزار چھپے گا اور چونکہ ہم نے ایک کروڑ اشتہار شائع کرنا ہے، اس لئے ایک کروڑ کے لئے ہیں ہزار روپیہ ضروری ہوگا.گویا اگر ہم ن مبلغ کو بیس ہزار روپیہ دیں تو وہ اس کے ذریعہ سال میں صرف ایک دفعہ انگلستان کے ہر آدمی تک پہنچ سکتا ہے بشرطیکہ بچوں وغیرہ کو نکال دیا جائے.میں نے سوا دو کروڑ بچوں وغیرہ کو نکال کر بقیہ آبادی کے نصف پر اندازہ لگایا ہے.مگر سال میں ایک دفعہ اشتہار پہنچنے پر کسی کو کوئی خاص توجہ نہیں ہو سکتی.ضروری ہے کہ بار بار اشتہارات شائع کئے جائیں.اس نقص کے ازالہ کے لئے اگر ہم صرف میں لاکھ آدمیوں تک اپنی آواز پہنچا ئیں اور یہ فرض کر لیں کہ ان میں سے ہر شخص آگے پانچ پانچ آدمیوں کو وہ اشتہار پہنچا دے گا اور اس طرح ایک کروڑ آدمیوں تک ہماری آواز پہنچ جائے گی تو سال میں میں لاکھ اشتہار ہم پانچ دفعہ شائع کر سکتے ہیں.بجائے اس کے کہ یکدم ایک کروڑ اشتہار شائع ہو، اس صورت میں ہیں ہزار روپیہ کے ذریعہ ہم ملک کی چوتھائی آبادی تک اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں.بلکہ در حقیقت ہم صرف بیسیویں حصہ تک آواز پہنچائیں گے.آگے یہ امید کرلیں گے کہ وہ اور لوگوں کو بھی یہ پیغام پہنچا دیں گے.گویا اگر ہم انگلستان کے مبلغ کو بیس ہزار روپیہ لٹریچر کے لئے دیں ، تب وہ مبلغ تھوڑا بہت کام کرتا ہوا نظر آسکتا ہے.مگر واقعہ یہ ہے کہ ہم اسے ہیں ہزار تو کجا دو سوروپیہ بھی نہیں دیتے.گویا وہ وہاں بیٹھا صرف روٹی کھا رہا ہے.پھر تبلیغ کے لئے صرف اشتہار ہی کافی نہیں ہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ لوگوں سے ملا جائے ، ان سے ذاتی طور پر واقفیت پیدا کر کے انہیں تبلیغ کی جائے مگر اتنا بڑا ملک، جو ایک لمبے عرصہ سے دنیا کی آلائشوں میں ملوث چلا آرہا ہے اور دنیا کی محبت اس پر غالب ہے ، ان کے پاس ایک آدمی کس طرح پہنچ سکتا ہے؟ پس میں نے یہ سوچا ہے کہ وہاں ہمارے کم سے کم پانچ مبلغ ہونے چاہئیں.دو مبلغ ہر وقت لنڈن میں رہیں اور دو مبلغ مختلف شہروں میں دورہ کرتے رہیں اور جولٹر بچر وغیرہ شائع ہو، اسے لوگوں میں تقسیم ہیں تا کہ بار بار کے دوروں سے لوگوں کے دلوں میں یہ تحریک پیدا ہو کہ فلاں اشتہار ، جو ہمیں ملا تھا، اس کا لکھنے والا مولوی بھی آج یہاں آیا ہوا ہے، اس سے ہم ذاتی طور پر بھی مل لیں اور پوچھیں کہ وہ کیا کہتا 346
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم ملفوظات فرمودہ یکم مئی 1944ء ہے؟ اس طرح لوگوں کو احمد بیت کی طرف توجہ ہوگی اور ایک مبلغ بطور سیکر یٹری کے ہو، جولر بچر وغیرہ کی اشاعت و فروحت اور دوسرے ایسے ہی کاموں کی نگرانی کرے.پس پانچ مبلغ صرف انگلستان میں ہونے چاہئیں.انگلستان کے علاوہ یورپ میں یوں تو دس پندرہ ملک ہیں لیکن اگر مرکزی ممالک ہی لئے جائیں تو وہ جرمنی، اٹلی اور فرانس ہیں، ان ممالک میں ابتدائی طور پر کم سے کم چھ مبلغ ہونے چاہئیں.ورنہ میرے نزدیک تو پندرہ مبلغوں کی ضرورت ہے.چھ مبلغ ایک ایک جگہ رہیں اور چھ مبلغ دورہ کرتے رہیں.مثلاً ہمارے کچھ مبلغ جرمنی، اٹلی اور فرانس کے بڑے بڑے شہروں میں بیٹھ جائیں اور کچھ مبلغ ان ممالک میں تبلیغی دورے کرتے رہیں.کبھی کسی ملک میں جائیں اور کبھی کسی ملک میں.اور تین مبلغ مراکز میں بطور سیکریٹری کام کریں.پس پانچ انگلستان کے مبلغ اور چھ یہ گویا گیارہ مبلغ یورپ کے لئے ایک اقل ترین چیز ہیں.اصل میں تو وہاں ہیں مبلغ ہونے چاہئیں، تب ہم اپنی آواز ایک محدودحلقہ تک پہنچا سکتے ہیں.پھر یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ ہے.وہاں کی آبادی بارہ کروڑ ہے اور ہندوستان سے دو گنا ملک ہے مگر ہم نے وہاں صرف ایک مبلغ رکھا ہوا ہے.اگر سارے ہندوستان میں ہم ایک مبلغ رکھنے کی تجویز پیش کریں تو ساری مجلس قہقہہ لگا کر ہنس پڑے گے کہ یہ عجیب تبلیغ ہے کہ سارا ہندوستان سامنے ہے اور مبلغ ایک رکھا جا رہا ہے.مگر ہم نے امریکہ میں، جو ہندوستان سے دو گنا ملک ہے، اپنا ایک ہی مبلغ رکھا ہوا ہے.اگر امریکہ کو ہم چار حصوں میں تقسیم کریں تو وہاں بھی چار مبلغ ہونے چاہئیں اور یہ بھی اقل ترین تعداد ہے.گیارہ وہ اور چار یہ پندرہ ہو گئے.پھر جنوبی امریکہ میں مبلغوں کی ضرورت ہے.اسی طرح کینیڈا میں مبلغوں کی ضرورت ہے.ان مقامات کے لئے اگر پانچ مبلغ اور تجویز کریں تو اکیس ہو گئے.پھر عربی ممالک بھی توجہ کے محتاج ہیں.ان میں مصر ہے ، شام ہے، فلسطین ہے، عراق ہے.ان میں بھی اگر وہی بات مدنظر رکھی جائے ، جو یورپین ممالک میں مد نظر رکھی گئی ہے اور ہم ان ممالک کے لئے دو جگہ سنٹر قائم کریں تو دونوں جگہ تین تین مبلغ ہونے چاہئیں.ایک ایک مبلغ تو سنٹر میں رہے اور رسالے وغیرہ کی ایڈیٹری کرے اور دو مبلغ ہر وقت گشت لگاتے رہیں.گویا کم سے کم یہ چھ مبلغ اور ہمیں چاہئیں 6 اور 27-21 ہو گئے.پھراگر سماٹر اور جادو وغیرہ جزائر کومدنظر رکھا جائے تو کم سے کم چھ اور مبلغوں کا ہمیں شمار کرنا چاہئے.27 پہلے اور 6 یہ 33 مبلغ ہو گئے.بیرونی ممالک کی تبلیغ اور اشاعت لٹریچر کے لحاظ سے اوپر کے سولہ مشنوں پر کم سے کم چھ سو روپیہ ماہوار فی مشن خرچ کی ہم کو گنجائش رکھنی چاہیے.یہ خرچ انداز ا ایک لاکھ 347
ملفوظات فرموده کیم مئی 1944ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد دوم سولہ ہزار کا ہوتا ہے.اس کے علاوہ مبلغوں کے آنے جانے کے اخراجات کے لئے روپیہ کی ضرورت ہوگی یا جو مبلغ آئیں گے ، ان کی جگہ دوسروں کو بھیجنے کی ضرورت ہوگی.بہر حال تینتیس بیرونی مبلغین کے سالانہ ذاتی اخراجات کو اور تینتیس مبلغ، جو مرکزی پہلے مبلغوں کے قائم مقام ہو کر جانے کے لئے رکھے جائیں گے.ان کے اخراجات کو محفوظ رکھ کر ایک لاکھ چھیانوے ہزار روپیہ خرچ کا اندازہ ہے.افریقہ کے مختلف مشوں کا خرچ بھی کم سے کم ساٹھ ہزار روپیہ سالانہ رکھا جانا چاہئے.گویا تین لاکھ بہتر ہزار روپیہ سے بیرونی ممالک میں ہم اقل ترین تبلیغ کر سکتے ہیں.اگر ان میں بارہ لاکھ روپیہ ہندوستان کی تبلیغ کا بھی شامل کر لیا جائے تو پندرہ لاکھ بہتر ہزار اور مرکز کے اخراجات کو شامل کر کے پونے سترہ لاکھ روپیہ سالانہ اگر ہم تبلیغ پر خرچ کریں تو ہندوستان اور یورپ میں اقل ترین تبلیغ کی جاسکتی ہے.لیکن تحریک جدید کی تو دس سالہ آمد ملا کر بھی اتنی نہیں کہ ان اخراجات کو صرف ایک سال کے لئے برداشت کر سکے.یہ سال گزشتہ تمام سالوں سے اچھا رہا ہے مگر اس سال بھی جماعت کی طرف سے صرف سوا تین لاکھ روپیہ کے وعدے آئے ہیں اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ ان وعدوں میں سے پورے کتنے ہوں گے؟ ( خدا تعالی کے فصل سے تین لاکھ اٹھارہ ہزار سے زائد وصول ہو چکا ہے).ابھی پچھلے سالوں کے وعدوں میں سے بھی پچاس ہزار روپیہ کی وصولی باقی ہے.گویا اگر ہم تحریک جدید کی ایک سال کی ساری آمد بھی تبلیغ پر خرچ کر دیں تو ہم ہندوستان اور بیرون ہند میں اقل ترین تبلیغ بھی نہیں کر سکتے.ابھی ہماری زمینوں سے اتنی آمد شروع نہیں ہوئی کہ یہ کمی پوری ہو سکے بلکہ ہمیں اپنی زمینوں کے لئے ابھی اچھے کارکن بھی میسر نہیں آ سکے.اگر ان زمینوں کی اچھی پیداوار ہو تو ایک لاکھ روپیہ سالانہ کی اس ذریعہ سے بھی امید ہو سکتی ہے.لیکن اگر ہم اس آمد کو تبلیغ کے جاری اخراجات پر خرچ کر دیں تو پھر ریز روفنڈ قائم نہیں ہو سکتا بلکہ اگر ہم تحریک جدید کا چندہ آئندہ سالوں میں جاری رکھیں ، تب بھی ہم نے تبلیغی اخراجات کا جواقل ترین اندازہ لگایا ہے، بمشکل اس کانواں حصہ پورا ہوسکتا ہے.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یورپ جیسا براعظم جس کی تمیں کروڑ سے زیادہ آبادی ہے، وہاں ایک لاکھ آدمیوں پر ایک مبلغ ہو تب صحیح طور پر تبلیغ ہوسکتی ہے.گویا تیں کی بجائے ہمیں وہاں تین سو مبلغ رکھنے چاہئیں اور اگر امریکہ کو بھی شامل کر لیا جائے تو ان مبلغوں کی تعداد چھ سوتک بڑھانی پڑتی ہے.ہندوستان، جو ہمارا مرکز ہے، یہاں در حقیقت ہمارا کم سے کم دو ہزار مبلغ ہونا چاہئے.لیکن اگر ان باتوں کو دور کی باتیں سمجھ ہوتو بھی پانچ لاکھ روپیہ سالانہ خرچ کا اندازہ تو ایک معمولی بات ہے.مگر ابھی ہماری جماعت میں اتنی وسعت نہیں کہ ان اخراجات کو پورا کر سکے یا ابھی اتنا قربانی کا مادہ نہیں کہ اس خرچ کو 348
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد دوم ملفوظات فرموده یکم مئی 1944ء برداشت کر سکے.میں سمجھتا ہوں اگر ہماری جماعت یہ فیصلہ کرلے کہ جیسے حضرت مسیح ناصری کی جماعت کے لوگ فقیر کہلانے لگ گئے تھے ، اسی طرح وہ خدا کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائیں تو یہ پانچ لاکھ روپیہ سالانہ کی رقم بڑی آسانی سے مہیا ہو سکتی ہے.مگر یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ہر شخص کے دل میں اعلیٰ درجہ کا ایمان ہو، کچھ لوگ ایمان کے لحاظ سے اعلیٰ درجہ رکھتے ہیں، کچھ ادنی درجہ رکھتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں، جو درمیانی مقام پر ہوتے ہیں.یہ حالات مد نظر رکھتے ہوئے جبکہ ابھی ہماری جماعت کو وہ مالی وسعت حاصل نہیں کہ ان اخراجات کو برداشت کر سکے، یہی صورت نظر آتی ہے کہ لوگ اپنے اپنے اخراجات پر باہر نکل جائیں اور خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کریں.مثلاً مغربی افریقہ ہے.میں نے اور ممالک کا ذکر کرتے ہوئے ، اس کو چھوڑ دیا تھا.یہاں ہماری جماعت کے لئے ایک بہت بڑا تبلیغی میدان پڑا ہے اور پرانی اقوام دین کی باتیں سننے کے لئے پیاسی بیٹھی ہیں.یہاں اخراجات بھی بہت کم ہیں.پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ روپیہ میں آسانی سے گزارہ ہو سکتا ہے.اور پھر ان لوگوں میں بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ قربانی کرنے والے ہیں، باوجود جاہل ہونے کے، باوجود دینی تعلیم سے کورے ہونے کے اور باوجود موجودہ تہذیب و تمدن کی روشنی سے نا آشنا ہونے کہ وہ اتنی جلدی اپنے تبلیغی اخراجات برداشت کرنے لگ جاتے ہیں کہ ہندوستان میں بھی لوگ اتنی جلدی تبلیغی اخراجات برداشت نہیں کرتے.وہ فورا مدر سے قائم کر لیتے ہیں، مسجدیں بنا لیتے ہیں اور اخراجات کا بوجھ خود اٹھانے لگ جاتے ہیں.پس بہت بڑی بیداری ہے، جو ان لوگوں میں پائی جاتی ہے اور قربانی کی روح ہے، جو ان میں نظر آتی ہے.یہ علاقہ ہماری تبلیغ کے لئے بہت ہی مبارک ہے.ہمیں وہاں روپیہ بھجوانے کی بہت کم ضرورت پیش آتی ہے کیونکہ وہاں کی جماعتیں خود اپنے اخراجات برداشت کر لیتی ہیں.ابھی ہمارے مبلغ نے لکھا ہے کہ اگر وہاں تبلیغ کے لئے جماعت کے دوستوں کو بھجوایا جائے تو چھ مہینہ کے بعد مقامی جماعتیں ان کے اخراجات برداشت کر لیں گی.یہ لوگ ایسے ہیں، جیسے کوئی سخت پیاسا ہوتا ہے اور پانی کے لئے چاروں طرف دیکھ رہا ہوتا ہے.دنیا نے ان لوگوں پر اس قدر مظالم کئے ہیں کہ اب وہ اس بات کی امید لگائے بیٹھے ہیں کہ کوئی آئے اور ان کی تعلیم وتربیت کا انتظام کر کے انہیں عزت و آبرو کے مقام تک پہنچائے.اور یہ بات اسلام اور احمدیت کے سوا انہیں اور کسی جگہ میسر نہیں آسکتی.افریقہ کے مغربی اور مشرقی، یہ دو علاقے ایسے ہیں، جن میں میرے نزدیک ہمیں اس وقت ایک سو مبلغ کی ضرورت ہے.وہاں کا گزارہ 50 روپیہ ماہوار میں ہو جاتا ہے.کچھ گزارہ ہمیں مبلغین کے اہل و عیال کو بھی دینا پڑتا 349
ملفوظات فرمودہ یکم مئی 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم ہے.اسی طرح لٹریچر کے اخراجات اور آمد و رفت کے کرایہ وغیرہ کو شامل کر کے ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالانہ خرچ ہوسکتا ہے.لیکن مبلغین کے اخراجات چونکہ بالعموم وہ لوگ خود برداشت کر لیتے ہیں، اس لئے اگر سو مبلغ ہوں تو ساٹھ ہزار روپیہ سال کے خرچ سے ہم وسیع طور پر وہاں تبلیغ کر سکتے ہیں.اگر ہم وہاں سو مبلغ مقرر کریں تو میرا اندازہ یہ ہے کہ ایک ایک سال میں ہی لاکھ دولاکھ احمدی ہو جائیں اور دس بارہ سال میں خدا تعالی کے فضل سے افریقہ کا اکثر حصہ احمدی ہو جائے.کیونکہ تبلیغی لحاظ سے وہ اس قسم کا علاقہ ہے، جیسے کسی کو کوئی کان مل جاتی ہے یا خزانہ اس کے ہاتھ آجاتا ہے.اب ہمارا کام ہے کہ اس کان کو کھو دیں اور اس خزانہ سے فائدہ اٹھا ئیں.اگر ہم افریقہ میں صحیح طور پر تبلیغ کریں تو جیسے نبیوں کی جماعتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ ایک دن یدخلون فی دین اللہ افواجا کا نظارہ انہیں نظر آنے لگتا ہے، اسی طرح ہم یدخلون فی دین اللہ افواجا کا نظارہ افریقہ میں دیکھ سکتے ہیں.وہاں بعض دفعہ ایک ایک دن میں سوسو، دو دوسو بلکہ ہزار ہزار احمدی ہوئے ہیں.ہمارے ہاں تو جماعت کو اگر کہیں کامیابی ہو تو دوسری جگہ کے لوگ لٹھ لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں کہ تمہیں وہاں تو کامیابی ہوگئی تھی ، اب ہمارے ہاں آکر دیکھو ہم کس طرح تمہاری خبر لیتے ہیں؟ مگر وہاں یہ بات نہیں.وہاں الٹا دوسرے لوگ شکوہ کرتے ہیں کہ آپ لوگ ہمیں کیوں بھول گئے ؟ کیا دوسرے زیادہ حق رکھتے تھے کہ آپ ان کے پاس گئے اور ہمارے پاس نہیں آئے ؟ پس در حقیقت وہ سب سے زیادہ مستحق ہیں، اس بات کے کہ ان کی طرف توجہ کی جائے.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ گوان اخراجات کو برداشت کرنے کی بھی ہماری جماعت میں طاقت نہیں لیکن فرض کرو، جماعت ان اخراجات کو برداشت کرلے تو پھر بھی کیا ہوسکتا ہے؟ میں نے بتایا ہے کہ یہ تبلیغ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں.میں نے سردست صرف 80 مبلغین کا اندازہ کیا ہے.پچاس ہندوستان کے لئے اور 30 بیرون ہند کے لئے اور اگر ان مبلغین کو بھی شامل کر لیا جائے ، جو بیرونی ممالک کے مبلغین کی جگہ بھجوانے کے لئے تیار کئے جائیں گے تو یہ تعداد ایک سو دس تک پہنچ جاتی ہے.لیکن اگر ہماری جماعت اس کو اہم کام قرار دے کر مطمئن ہو جائے اور اس کا دل اس تبلیغ پر تسلی پا جائے تو میں اس کو جنون سے کم نہیں سمجھوں گا.حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا میں تبلیغ کرنے کے لئے ہمیں ہزاروں مبلغوں کی ضرورت ہے.مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ مبلغ کہاں سے آئیں اور ان کے اخراجات کون برداشت کرے؟ میں نے بہت سوچا ہے مگر بڑے غور فکر کے بعد سوائے اس کے اور کسی نتیجہ پر نہیں پہنچا کہ جب تک وہی طریق اختیار نہیں کیا جائے گا، جو پہلے زمانوں میں اختیار کیا گیا ، اس وقت تک ہم بھی کامیاب نہیں ہو سکتے.350
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد دوم ملفوظات فرموده یکم مئی 1944ء حضرت بدھ کے متعلق آتا ہے کہ ایک دفعہ پھرتے پھراتے جب اپنے باپ کے علاقہ میں آئے تو چونکہ انہوں نے تاج و تخت چھوڑ دیا تھا ، وہ جیسے ہماری شریعت میں قانون ہے کہ یتیم بیٹے کو ورثہ نہیں ملتا سوائے اس کے کہ اگر والد چاہے تو اپنی جائداد کے اس حصہ میں سے، جس کی وصیت اس کے لئے جائز ہے، کچھ حصہ ہبہ کردے.اسی طرح اس ریاست میں یہ قانون تھا کہ اگر بیٹا بادشاہ نہ بنتا تو پوتا تاج و تخت کا وارث نہیں ہوسکتا تھا.حضرت بدھ کے باپ کو بڑا فکر تھا کہ میرے بیٹے نے تو تخت کو چھوڑ ہی دیا تھا، اس لئے میرے پوتے کے ہاتھ سے بھی بادشاہت نکل جائے گی.ایک دفعہ اتفاقاً حضرت بدھ اسی علاقے میں آئے تو ان کے باپ نے اپنے پوتے کو، جو دس گیارہ سال کا تھا، ایک پیالہ دے کر کہا جاؤ اور اپنے باپ سے بھیک مانگ لا.مطلب یہ تھا کہ آپ نے تو گدی پر بیٹھنے سے انکار کر دیا ہے.اب اپنے اس حق کو میری طرف ہی منتقل کر دیں.کیونکہ اس ملک میں یہ دستور تھا کہ گوایسی حالت میں ہوتا بادشاہ نہیں بن سکتا لیکن اگر باپ اس کی طرف بادشاہت منتقل کر دے تو وہ منتقل ہو جاتی تھی.چنانچہ حضرت بدھ جہاں تعلیم دے رہے تھے، وہاں ان کا بیٹا جا پہنچا اور ان کے سامنے ہاتھ چھوڑ کر کہنے لگا: مہاراج میں اپنا حق لینے آیا ہوں.بدھوں میں دستور ہے کہ جب وہ کسی کو بھکشو بناتے ہیں تو اس کا سرمنڈوا دیتے ہیں، جیسے عیسائی بپتسمہ دیتے ہیں، وہ بھکشو بنانے کے لئے سرمنڈوانا ضروری سمجھتے ہیں.جب اس نے کہا مہاراج میں آپ کو سے اپنا حق لینے آیا ہوں تو حضرت بدھ نے نائی بلایا اور اس کا سرمنڈوا دیا.گویا وہ تو گدی لینے گیا تھا مگر انہوں نے اس کو بھی بھکشو بنالیا.ان کے باپ کو جب معلوم ہوا کہ بدھ نے میرے پوتے کو بھی بھکشو بنا دیا ہے تو وہ ان پر ناراض ہوا کہ تم نے آپ تو گدی چھوڑی تھی ، اپنے بیٹے کو بھکشو بنا کر تو تم نے اپنے خاندان کی جڑ ہی کاٹ دی اور ہماری نسل کو ہی تباہ کر دیا.( بدھ بھکشو شادی نہیں کر سکتا، اس لئے آئندہ اولاد کا چلنا ناممکن ہو گیا.انہوں نے کہا میں کیا کرتا ، جب میرا بیٹا مجھ سے خیرات لینے کے لئے آیا تو میں اسے کیا دیتا؟ میرے پاس سب سے بڑی دولت یہی تھی.اس لئے میں نے اسے یہی چیز دے دی.دنیا میرے پاس تھی نہیں کہ میں اسے دیتا.میرے پاس تو یہی ایک چیز تھی ، سو میں نے اسے دے دی.باپ کہنے لگا.اب تو جو کچھ ہو چکا ، سو ہو چکا.آئندہ کے لئے کسی نابالغ کو بھکشونہ بنانا.حضرت بدھ نے وعدہ کر لیا.چنانچہ اب تک بدھ مذہب کے احکام میں یہ شامل ہے کہ کسی نابالغ کو بھکشو نہ بنایا جائے.یہی طریق عیسائیوں کی تبلیغ کا تھا.حضرت مسیح ناصری نے اپنے حواریوں سے کہا کہ تم دنیا میں نکل جاؤ اور تبلیغ کرو.جب رات کا وقت آئے تو جس بستی میں تمہیں ٹھہر نا پڑے، اسی بستی کے رہنے والوں سے کھانا کھاؤ اور پھر آگے چل دو.351
ملفوظات فرموده یکم مئی 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی حکمت سے یہ بات اپنی امت کو سکھائی ہے.آپ نے فرمایا: ہر بستی پر باہر سے آنے والے کی مہمان نوازی تین دن تک فرض ہے.ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! اگر بستی والے کھانا نہ کھلا ئیں تو کیا کیا جائے؟ آپ نے فرمایا تم زبردستی ان سے لے لو.گویا ہمارا حق ہے کہ ہم تین دن ٹھہریں اور بستی والوں کا فرض ہے کہ وہ تین دن کھانا کھلائے.میں سمجھتا ہوں، اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبلیغ کے طریق کی طرف اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر تم کسی بستی سے تین دن کھانا کھاتے ہو تو یہ بھیک نہیں.ہاں اگر تین دن سے زائد ٹھہر کر تم ان سے کھانا مانگتے ہو تو یہ بھیک ہوگی.اگر ہماری جماعت کے دوست بھی اسی طرح کریں کہ وہ گھروں سے تبلیغ کے لئے نکل کھڑے ہوں، ایک ایک گاؤں اور ایک ایک بستی اور ایک ایک شہر میں تین تین دن ٹھہرتے جائیں اور تبلیغ کرتے جائیں اگر کسی گاؤں والے لڑیں تو جیسے حضرت مسیح ناصری نے کہا تھا، وہ اپنے پاؤں سے خاک جھاڑ کر آگے نکل جائیں تو میں سمجھتا ہوں تبلیغ کا سوال ایک دن میں حل ہو جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی جب وقف زندگی کا اعلان کیا تو گو وقف زندگی کی شرائط آپ نے خود نہیں لکھیں بلکہ میر حامد شاہ صاحب مرحوم سے لکھوائیں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کو دیکھا اور کچھ اصلاح کے ساتھ پسند فرمایا.مجھے خوب یاد ہے، ان میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ میں کوئی معاوضہ نہیں لوں گا.چاہے مجھے درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کرنا پڑے، میں گزارہ کروں گا اور تبلیغ کروں گا.یہی وہ طریق ہے جس سے صحیح طور پر تبلیغ ہوسکتی ہے.جب ہم اعداد و شمار سے کام لینے لگتے ہیں تو اخراجات کا اندازہ اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ ہمارے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا کہ یہ اخراجات کس طرح پورے ہو سکیں گے ؟ پس اصل تبلیغ ہم اسی طرح کر سکتے ہیں، اس کے بغیر اگر ہم تبلیغ کرنا چاہیں تو مجھے اس میں کامیابی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا.( مطبوع الفضل 21 دسمبر 1944ء) 352
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم تبلیغ کے مختلف ذرائع ملفوظات فرموده یکم مئی 1944ء ملفوظات فرموده یکم مئی 1944ء چونکہ سب دوستوں نے میرے اعلان پر اپنی زندگیوں کو سلسلہ کے لئے وقف کیا ہے، اس لئے میں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ قربانی کا ارادہ اور عزم اپنے اندر پیدا کریں، ورنہ سلسلہ بھی کامیاب تبلیغ نہیں کر سکتا.اگر ایسے مبلغ آئیں، جو بغیر کسی معاوضہ کے تبلیغ کے لئے نکل کھڑے ہوں تو ہمیں ان کے متعلق کوئی فکر نہیں ہوگا.مگر اب تو لوگ ادھر زندگی وقف کرتے ہیں اور ادھر ہمیں فکر پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ ہمارے پاس انتار و پیہ بھی ہے یا نہیں کہ ہم ان کا وقف قبول کریں.لیکن اگر وہ ہم سے معاوضہ لئے بغیر باہر نکل جائیں، سادہ لباس پہنیں اور سادہ خوراک استعمال کریں، اخلاص اور تقویٰ سے کام لیں تو نہ سلسلہ پر بار پڑ سکتا ہے اور نہ ان کو کوئی خاص پریشانی لاحق ہو سکتی ہے.کیونکہ جب وہ اخلاص سے کام کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے کام میں برکت ڈالے گا اور ان کے اردگرد ایک جماعت پیدا کر دے گا.پھر وہ یہ بھی کر سکتے ہیں کہ کسی موزوں مقام کا انتخاب کر کے وہاں بیٹھ جائیں اور لوگوں کو درس دینا شروع کر دیں.پس اس تحریک کے ماتحت یہ نہیں ہوگا کہ وہ ہمیشہ پھرتے رہیں گے بلکہ اگر کسی علاقہ میں زیادہ لوگ احمدی ہو جائیں تو وہ ایسا بھی کر سکتے ہیں کہ وہ اسی جگہ بیٹھ جائیں اور لوگوں کو درس دینا شروع کر دیں.درس سے ان کی کمائی کی صورت بھی پیدا ہو جائے گی اور تبلیغ کا دائرہ بھی وسیع ہو جائے گا.ہندوستان میں بہت بڑا اثر حضرت شاہ ولی اللہ صاحب اور حضرت سید احمد صاحب بریلوی کے طریق تبلیغ کا ہوا ہے.حضرت سید احمد صاحب در حقیقت حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی کے علمی طور پر شاگر دہی تھے.ان دونوں بزرگوں نے جس طریق سے کامیابی حاصل کی ، وہ یہی تھا کہ انہوں نے درس جاری کر دیئے، جن میں جوق در جوق لوگوں نے شامل ہونا شروع کر دیا.اس طرح سارے ہندوستان میں ان کے شاگرد پھیل گئے.پہلے ایک شخص ان سے تعلیم لے کر نکلا، پھر دوسرا شخص نکلا، پھر تیسر مشخص نکلا ، یہاں تک کہ انہوں نے درسوں کے ذریعہ سب جگہ اپنے عقائد پھیلا دیئے مگر یہ تبلیغ کا دوسرا ذریعہ ہے.پہلا ذریعہ یہی ہے کہ انسان خود علم سیکھے اور دوسروں کو تبلیغ کرے.جب تبلیغ کرتے کرتے اسے کوئی 353
ملفوظات فرموده یکم مئی 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم مرکز نظر آجائے اور وہ سمجھ لے کہ اب دس پندرہ آدمی میری باتوں میں دلچسپی لینے لگ گئے ہیں تو وہ اسی جگہ بیٹھ جائے اور مدرسہ جاری کر دے، جس میں لوگوں کو دین کی باتیں سکھائے.جوں جوں لوگ اس سے پڑھیں گے، وہ ارد گرد کے گاؤں اور دیہات میں ان اثرات کو پھیلائیں گے ، آگے وہ اور لوگوں تک ان باتوں کو پہنچائیں گے، یہاں تک کہ اس کے ذریعہ ہزار ہا معلم اور ہزار ہا مدرس پیدا ہو جائیں گے، جو لاکھوں اور کروڑوں کی ہدایت کا موجب ہوں گے.یہ وہ روح ہے، جس کو پیدا کئے بغیر تبلیغ میں کبھی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی.پھر تبلیغ کے لئے لٹریچر کی اشاعت بھی بڑی ضروری چیز ہے.اور چونکہ دنیا میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ ہمارے پاس مختلف زبانوں میں لٹریچر موجود ہو.اب تو یہ حالت ہے کہ جامعہ احمدیہ سے ایک طالب علم نکلتا ہے تو دعوۃ و تبلیغ والے کہتے ہیں، اسے تبلیغ کے لئے لے لو.پھر وہ اسے دفتر میں بٹھا لیتے ہیں اور جب گجرات یا جہلم سے کوئی چٹھی آتی ہے تو اسے تقریر کے لئے وہاں بھیجوا دیتے ہیں.انہوں نے کبھی اس بات کو مد نظر ہی نہیں رکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام صرف قادیان یا پنجاب کے لئے نہیں آئے تھے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ساری دنیا کے لئے آئے تھے، جس میں سینکڑوں زبانیں بولی جاتی ہیں.پس ان کا فرض تھا کہ وہ دنیا کی ہر زبان کے لئے مبلغ تیار کرتے اور ہر زبان میں لٹریچر تیار کراتے.مگر پچاس سال گزر گئے انہوں نے اس بات کی طرف توجہ ہی نہیں کی بلکہ ساری دنیا کو جانے دو، سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان میں ہی صرف اردو زبان بولی جاتی ہے کوئی اور زبان نہیں بولی جاتی؟ جب ہندوستان میں ہی کئی زبانیں بولی جاتی ہیں تو محکمہ دعوت وتبلیغ نے یہ کس طرح سمجھ لیا کہ وہ اردو میں بولنے والے مبلغ رکھ کر اپنے فرض سے سبکدوش ہو گیا ہے؟ پنجاب میں بے شک اردو بولی جاتی ہے مگر بنگال میں اردو زبان کام نہیں دے سکتی بلکہ بنگالی کام آتی ہے.اڑیسہ میں ار یہ زبان کام آتی ہے.بمبئی میں مرہٹی یا گجراتی کام آتی ہے.سی پی میں بھی گجراتی کام آتی ہے.مدراس میں تامل تلنگو اور مالا باری کام دیتی ہے.صوبہ سرحد میں پشتو اور فارسی کام دیتی ہیں.پھر بڑے بڑے شہروں مثلاً کلکتہ ، بمبئی ، ڈھا کہ مدراس، اور کراچی وغیرہ میں بھی اردو کام نہیں آتی بلکہ انگریزی زبان کام آتی ہے.سندھ میں سندھی زبان بولی جاتی ہے.مگر انہوں نے اس بات کو کبھی مد نظر ہی نہیں رکھا.بس اپنا کام صرف اتنا ہی سمجھ لیا کہ مبلغوں کو دفتر میں بٹھالیا اور جب گجرات یا جہلم یا کسی اور جگہ سے کوئی چٹھی آئی تو وہاں دو دن کے لئے مبلغ بھجوا دیا اور پھر دو دو مہینے اسے آرام کرنے کے لئے اپنے گھر بٹھا دیا.پھر کسی جگہ چٹھی آئی تو پھر چند دنوں کے لئے انہیں تقریر کرنے کے لئے بھجوا دیا.354
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم ملفوظات فرموده یکم مئی 1944ء اب میں نے بڑی مشکل سے ان مبلغوں کو باہر نکالا ہے.مگر ان میں سے اکثر ایسے مبلغ ہیں، جو پنجاب کے باہر اور کہیں کام نہیں کر سکتے.حالانکہ سرحد میں تبلیغ کا خدا نے ایک بہترین ذریعہ یہ پیدا کر رکھا ہے کہ وہاں ہمارے شہداء نے اپنے خون سے سلسلہ کی صداقت کی وہ تحریر لکھ رکھی ہے ، جو ہزاروں لوگوں کی ہدایت کا موجب ہو سکتی ہے.مگر افسوس اس زبان میں تبلیغ کی طرف توجہ ہی نہیں کی گئی.اسی طرح سندھ میں تبلیغ کا بڑا میدان ہے مگر ہمارے پاس سندھی زبان کا ماہر کوئی مبلغ موجود نہیں.اسی طرح گجراتی ، مرہٹی، تامل، تلنگو ، بنگالی، ہندی اور اڑیہ وغیرہ زبانیں جاننے والے ہمارے پاس کوئی مبلغ نہیں.اگر دعوت و تبلیغ والے سوچتے کہ ہم یہ کیا کر رہے ہیں؟ تو وہ کب سے بیدار ہو چکے ہوتے اور انہیں محسوس ہوتا کہ وہ ایک غلط قدم اٹھارہے ہیں.مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ انہوں نے نہ صرف اور زبانوں کی طرف توجہ نہیں کی بلکہ کوئی ایسا مبلغ بھی تیار نہیں کیا، جو انگریزی میں عمدگی سے تقریریں وغیرہ کر سکے.اس وقت دنیا میں ایک شور مچ رہا ہے اور بمبئی ، کلکتہ اور مدراس وغیرہ سے چٹھیاں آ رہی ہیں کہ ہماری طرف مبلغ بھیجے جائیں، جو انگریزی میں تقریریں کر سکیں.مگر دعوت و تبلیغ والے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی انگریزی بولنے والا مبلغ نہیں.پچاس سال سے کفر کے ساتھ جنگ لڑی جارہی ہے اور ابھی تک انہیں خیال ہی پیدا نہیں ہوا کہ ہم اپنے مبلغوں کو کس کس رنگ میں تیار کریں؟ سوتے ہوئے دیوؤں کے متعلق بھی مشہور ہے کہ انہیں چھ مہینے کے بعد ہوش آ جاتی ہے.مگر یہاں پچاس سال گذر گئے اور ابھی تک آنکھ نہیں کھلی.اب وقت آگیا ہے کہ اس رنگ میں کام کیا جائے.چنانچہ میں جن واقفین زندگی کو تیار کر رہا ہوں ، ان کے متعلق میری ہی سکیم ہے کہ انہیں دنیا کی ایک ایک زبان کا ماہر بنادیا جائے تاکہ ہر زبان میں کام کرنے والے تحریک جدید کے مبلغ ہمارے پاس موجود ہوں اور ہم انہیں دنیا میں پھیلا کر اسلام کی اشاعت کا کام سرانجام دے سکیں.ان واقفین کی تعلیم پر بہت سا وقت ضائع بھی ہوا ہے کیونکہ ہر چیز تجربہ سے حاصل ہوتی ہے.لیکن اب چونکہ ایک تجربہ ہو چکا ہے، اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ جتنا وقت ان پر صرف ہوا ہے، آئندہ اس سے آدھے عرصہ میں نئے مبلغ تیار ہو جایا کریں گے.اور وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسے ہوں گے کہ ان میں سے کوئی جرمن زبان کا ماہر ہوگا، کوئی فرانسیسی زبان کا ماہر ہوگا، کوئی ڈچ زبان کا ماہر ہوگا، کوئی اٹالین زبان کا ماہر ہوگا، کوئی روسی زبان کا ماہر ہوگا، کوئی سپینش زبان کا ماہر ہوگا اور کوئی پرتگیزی زبان کا ماہر ہو گا.اسی طرح ہندوستان کی زبانوں میں سے کسی کو اڑیہ زبان سکھائی جائے گی، کسی کو بنگالی زبان سکھائی جائے گی، کسی مرہٹی زبان سکھائی جائے گی، کسی کو تامل زبان سکھائی جائے گی، کسی کو تلنگو 355
ملفوظات فرموده یکم مئی 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم زبان سکھائی جائے گی کسی کو سندھی زبان سکھائی جائے گی کسی کو پشتو زبان سکھائی جائے گی تا کہ وہ ہر زبان میں کام کر سکیں اور ہر زبان کے جاننے والوں کو اسلام میں داخل کر سکیں.پس تبلیغ کا ایک ذریعہ تو یہ ہے کہ دنیا کی ہر زبان میں مہارت پیدا کی جائے اور پھر تبلیغ کی طرف توجہ دی جائے.ہے.دوسرا ذریعہ تبلیغ کا طلب ہے.یہی وجہ ہے کہ میں نے ایک طالب علم کو خاص طور پر دہلی میں طب کی تعلیم دلوائی ہے.طب کی موٹی موٹی باتیں انسان چھ ماہ میں سیکھ کر ہزاروں لوگوں کو فائدہ پہنچا سکتا ہے ہمارے ملک میں کئی علاقے ایسے ہیں، جہاں ڈاکٹری کی بجائے دیسی طب کا علاج ہے اور انسان اگر معمولی سی کوشش سے بھی کام لے تو وہ طب میں مہارت پیدا کر کے ہر قسم کی بیماریوں کا علاج کر سکتا ہے.مثلاً داڑھ درد ہے یا بخار ہے یا متلی ہے یا سر درد ہے یا قبض ہو یا کھانسی ہے ، ان امراض کے متعلق ایسی ایسی ستی دوائیں موجود ہیں، جو چند پیسوں میں تیار ہو سکتی ہیں اور بیسیوں لوگ ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.اگر گولیاں بنائی جائیں تو وہ بھی چند آنوں میں دو دو، تین تین سو تیار ہوسکتی ہیں.جب کسی بیمار کو ایسا شخص دوائی دے گا تو یہ لازمی بات ہے کہ فائدہ محسوس ہونے پر دوسرا شخص خدمت کرنے کی کوشش کرے گا.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ مجھے ایک دفعہ علاج کے لئے بمبئی بلایا گیا.آپ نے یہ سفر جہاز میں کیا تھا.آپ فرماتے تھے کہ دوستوں نے مجھے کہا کہ آپ سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ خرید لیں مگر میں نے کا کہا میں تو ڈیک کا ٹکٹ لوں گا.جب جہاز میں سوار ہوئے تو آپ نے دیکھا کہ تمام جگہ لوگوں سے بھری ہوئی ہے.آپ نے ایک جگہ اپنا بستر بچھایا تو لوگوں نے اسے اٹھا کر پرے پھینک دیا.وہ گجراتی طرز کے لوگ تھے.آپ کو اللہ تعالیٰ نے قیافہ شناسی میں بڑا ملکہ عطافرمایا ہوا تھا اور طب میں تو ماہر ہی تھے.آپ نے ان میں سے ایک شخص کے چہرہ کی طرف غور سے دیکھا اور چونکہ سمندری کنارہ کے رہنے والوں میں قوت باہ کی کمی ہوتی ہے، اس لئے آپ نے اسے کہا مجھے تمہاری شکل سے معلوم ہو گیا ہے کہ تم میں قوت باہ کی کمزوری ہے.وہ کہنے لگا آپ کو کس طرح پتہ لگا؟ آپ نے کہا میں تمہارے چہرہ سے تاڑ گیا ہوں کیونکہ میں طبیب ہوں.اس نے کہا آپ بالکل درست فرماتے ہیں.مہربانی فرما کر کوئی نسخہ لکھ دیں.آپ نے ایک نسخہ لکھ دیا.فرماتے تھے، اس ایک نسخے کا لکھنا تھا کہ یوں معلوم ہوا جیسے سب جہاز والے قوت باہ کے مریض ہیں.ہر ایک نے اپنا اپنا حال آپ سے بیان کرنا شروع کر دیا.کچھ اور امراض کے مریض بھی نکل آئے اور آپ نے ہر ایک کو علاج بتایا.اس کا ایسا اثر ہوا کہ یا تو انہوں نے آپ کا بستر اٹھا کر پھینکا تھا اور یا درمیان میں ایک بڑی سی جگہ بنا کر بڑی عزت سے انہوں نے آپ کا بستر بچھا دیا.پھر کوئی کھانا پکا کر دیتا، کوئی پاخانہ ا 356
تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد دوم ملفوظات فرموده یکم مئی 1944ء میں لوٹا رکھ دیتا، کوئی پانی پلانے کے لئے موجود ہوتا، کوئی دبانے کے لئے پاس بیٹھارہتا.اس طرح آپ فرماتے کہ میں ڈیک میں اتنے آرام سے پہنچا کہ سیکنڈ کلاس میں بھی اتنا آرام میسر نہیں آسکتا تھا.تو طب بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے.اگر کوئی شخص با قاعدہ طب حاصل نہیں کر سکتا تو وہ چھوٹی موٹی باتیں تو یا درکھ سکتا ہے.عربی میں مثل ہے.مالا یدرک کله لایترک کله جو چیز ساری حاصل نہیں کی جاسکتی ، وہ ساری چھوڑنی بھی تو نہیں چاہیے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ طب میں سرجری نہیں.اسی طرح بعض اور تحقیقاتوں میں وہ ڈاکٹری سے بہت پیچھے ہے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ مخلوق کو ابھی طب سے جس قدر فائدہ پہنایا جا سکتا ہے، وہ فائدہ ابھی تک نہیں پہنچایا گیا.اگر ہمارے مبلغ طب سیکھ لیں تو انہیں روٹی مانگنے کی ضرورت نہیں رہے گی.وہ جہاں جائیں گے ، لوگ انہیں عزت و احترام کی نگاہوں سے دیکھیں گے اور ان کی خدمت کر کے خوش ہوں گے.پس یہ بھی ایک ذریعہ ہے جس سے ہماری جماعت کے دوست تبلیغ کر سکتے ہیں.اسی طرح تبلیغ کا ایک یہ بھی ذریعہ ہے کہ کھاتے پیتے لوگ اپنی اولادوں کو خود خرچ دیں اور ان کے ذریعہ تبلیغ کرا ئیں.حقیقت یہ ہے کہ قوم اسی وقت تبلیغ میں کامیاب ہو سکتی ہے ، جب وہ اپنے گھروں سے اسی طرح نکل کھڑی ہو، جس طرح بارش کے بعد زمین میں سے کیڑے مکوڑے نکلنے شروع ہو جاتے ہیں.تب کوئی قوم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.وہ ایک عجیب نظارہ ہوتا ہے، جب بارش کے بعد کیڑے مکوڑے نکلنے شروع ہوتے ہیں.درحقیقت وہ بھی ایک چھوٹا سا حشر ہوتا ہے، جب زمین پر پانی کا چھینٹا پڑتا ہے تو کوئی دولاتوں کا نڈا، کوئی چارلاتوں کا نڈا، کوئی موٹا، کوئی چھوٹا سب زمین میں سے نکل آتے ہیں.یہی خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ جب دنیا پر نبوت کی بارش نازل ہو تو اس کے بعد عالم بھی اور جاہل بھی، تھوڑے علم والے بھی اور زیادہ علم والے بھی، لائق بھی اور نالائق بھی سب اپنے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوں.جب وہ ایسا کرتے ہیں تو چونکہ سچائی میں ایک طاقت ہوتی ہے، اس لئے لوگ خود بخود ہتھیار ڈال دیتے ہیں.اسی طرح اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ پرانے علماء کی طرف توجہ کی جائے اور انہیں احمدیت کی طرف مائل کیا جائے.اگر دس پندرہ بڑے بڑے صاحب رسوخ مولوی ہماری جماعت میں داخل ہو جائیں تو ان کے اثر کی وجہ سے ایک ایک کے ساتھ ہزار ہزار ، دو دو ہزار آدمی آ سکتے ہیں.پس ہمیں اپنی جماعت میں مولویوں کو کھینچ کھینچ کر لانا چاہیے بلکہ اگر ہمیں ان کو قادیان آنے اور یہاں کے حالات کا 357
ملفوظات فرموده یکم مئی 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم مطالعہ کرنے لئے ان کی منتیں بھی کرنی پڑیں تو کوئی حرج نہیں.مولوی قوم کے راجہ ہوتے ہیں، جس طرح راجہ کے پیچھے اس کی رعایا چلتی ہے، اسی طرح جب کوئی صاحب اثر مولوی احمدیت قبول کرلے تو اس کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کا بیعت میں شامل ہو جانا بالکل آسان ہوتا ہے.ہماری جماعت میں مولوی برہان الدین صاحب جہلمی کے اثر کے ماتحت بہت لوگ داخل ہوئے تھے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جہلم سے مقدمہ کی پیروی کے بعد واپس تشریف لائے تو آپ بہت ہی متاثر تھے.کیونکہ مولوی برہان الدین صاحب کا وہاں بڑا اثر تھا اور آپ جہاں جاتے ، یہی وعظ کرتے تھے کہ مرزا صاحب آرہے ہیں، جاؤ اور ان کو دیکھو.پھر ان کے وعظ کا رنگ بھی عجیب تھا کہ بار بار کہتے ، سبحان اللہ، ایہ نعمتاں کتھوں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب جہلم تشریف لے گئے تو ان کے ساتھ تعلق رکھنے والے سینکڑوں لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ سٹیشن سے کچہری تک لوگوں کے اثر دھام کی وجہ سے یہ حالت تھی کہ اگر تھالی پھینکی جاتی تو ان کے سروں پر اڑتی چلی جاتی.ایک علاقہ کے علاقہ میں اتنی بڑی ہلچل کا پیدا ہو جانا محض مولوی برہان الدین صاحب کے اثر کا نتیجہ تھا.اسی طرح اگر اب علماء کی طرف توجہ کی جائے تو ہزاروں لوگ ان کے ذریعہ احمدیت میں داخل ہو سکتے ہیں“.ایک دوست نے علاقہ سرگودہا کے حالات بیان کر کے عرض کیا کہ یہ علاقہ بھی تبلیغی نقطہ نگاہ سے حضور کی توجہ کا محتاج ہے.حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.سرگودھا بے شک تبلیغ کے لحاظ سے ہم پر حق رکھتا ہے کیونکہ خلیفہ اول اسی علاقہ کے تھے.فرمایا:.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنایا کرتے تھے، جب سکھوں نے قادیان فتح کر لیا تو ہمارے خاندان کے افراد کپورتھلہ میں چلے گئے اور وہاں کی ریاست نے ان کو گزارہ کے لئے دو گاؤں دے دیئے.کپورتھلہ میں ہی ہمارے پردادا صاحب فوت ہو گئے تھے.ہمارے دادا کی عمر اس وقت سولہ سال تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے پردادا اپنے والد کے برخلاف جو بہت بڑے پارسا اور عزم کے مالک تھے، کم ہمت تھے.اور اسی وجہ سے ہمارے خاندان کو یہ ذلت پہنچی.لیکن ہمارے دادا ہمت والے تھے.اس وقت جب ہمارے پر دادا فوت ہوئے ، وہ صرف 358
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم ملفوظات فرموده یکم مئی 1944ء سولہ سال کے تھے.لیکن انہوں نے کہا، میں اپنے باپ کو قادیان میں ہی دفن کروں گا.چنانچہ وہ ان کی لاش یہاں لائے.سکھوں نے ان کا مقابلہ کرنا چاہا.مگر کچھ تو ان کی دلیری کی وجہ سے اور کچھ اس وجہ سے کہ ہمارے آباء اس علاقہ پر حکمران رہ چکے تھے ، سارے علاقہ میں شورش ہوگئی اور لوگوں نے کہا ہم اس بات کو برداشت نہیں کر سکتے کہ ان کو اب یہاں دفن ہونے کے لئے بھی جگہ نہ دی جائے.چنانچہ سکھوں نے اجازت دے دی اور وہ انہیں قادیان میں دفن کر گئے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے دادا نے جب یہ سلوک دیکھا تو انہوں نے کہا چونکہ اس زمانہ میں ساری عزت علم سے ہے، اس لئے میں اب علم حاصل کر کے رہوں گا تاکہ ہمارے خاندان کو عزت حاصل ہو.چنانچہ انہوں نے گھر کو چھوڑ دیا اور دتی.گئے.ان کے ساتھ اس زمانہ کے طریق کے مطابق ایک میراثی بھی چل پڑا.انہوں نے سنا ہوا تھا کہ مساجد میں تعلیم کا انتظام ہوتا ہے، جہاں لڑکے پڑھتے ہیں.وہ بھی گئے اور ایک مسجد میں جا کر بیٹھ گئے.مگر کسی نے ان کو پوچھا تک نہیں، یہاں تک کہ تین چار دن فاقہ سے گزر گئے.تیسرے چوتھے دن کسی غریب کو خیال آیا اور وہ رات کے وقت انہیں ایک روٹی دے گیا.مگر معلوم ہوتا ہے ، وہ کوئی بہت ہی غریب شخص تھا.کیونکہ روٹی سات آٹھ دن کی تھی اور ایسی سوکھی ہوئی تھی، جسے لوہے کی تھالی ہوتی ہے.وہ اپنے ہاتھ میں روٹی لے کر انتہائی افسردگی کے عالم میں بیٹھ گئے اور حیرت سے منہ میں انگلی ڈال کر اپنی حالت پر ا غور کرنے لگے کہ کس حد تک ہماری حالت گر چکی ہے.میراثی ان کے چہرے کے رنگ کو دیکھ کر سمجھ گیا کہ اس وقت یہ سخت غم کی حالت میں ہیں اور اس نے خیال کیا کہ ایسا نہ ہو کہ یہ صدمے سے بیمار ہو جائیں.میراثیوں کی چونکہ ہنسی کی عادت ہوتی ہے، اس لئے اس نے سمجھا کہ اب مجھے کوئی مذاق کر کے ان کی طبیعت کا رخ کسی اور طرف بدلنا چاہیے.چنانچہ وہ مذاقاً کہنے لگا " مرزا جی میرا حصہ وہ جانتا تھا کہ یہ کوئی حصے والی چیز نہیں.مگر چونکہ وہ چاہتا تھا کہ ان کا صدمہ کسی طرح دور ہو، اس لئے اس نے مذاق کر دیا.انہیں یہ سن کر سخت غصہ آیا اور انہوں نے زور سے روٹی اس کی طرف پھینکی ، جو اس کی ناک پر لگی اور خون بہنے لگ گیا.یہ دیکھ کر وہ اٹھے اور میراثی سے ہمدردی کرنے لگے.اس طرح ان کی دماغی حالت جو صدمہ سے غیر متوازن ہو گئی تھی ، درست ہو گئی.ورنہ خطرہ تھا کہ وہ اس غم سے کہیں پاگل نہ ہو جائیں.پھر خدا نے ان کے لئے ایسے سامان پیدا فرمائے کہ وہ وہاں سے خوب علم پڑھ کر واپس ہوئے.ا توجب انسان کسی بات کا پختہ ارادہ کر لیتا ہے.اللہ تعالیٰ اس کے لئے سامان بھی پیدا کر دیتا ہے.اصل میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے دل میں یہ مادہ رکھا ہے کہ وہ قربانی کی قدر کرتا ہے.اگر لوگ دیکھیں کہ 359
ملفوظات فرموده یکم مئی 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم واقعہ میں کوئی شخص تکلیف اٹھارہا اور دوسروں کے فائدہ کے لئے اپنے نفس کو مشقت میں ڈال رہا ہے تو ان کے دلوں میں ضرور جوش پیدا ہوتا ہے کہ ہم بھی اس سے کوئی نیک سلوک کر کے ثواب میں شامل ہو جائیں“.عشاء کی نماز کے بعد فرمایا:.میں نے جو تبلیغ کی سکیم بتائی ہے، اس سے میری غرض یہ ہے کہ دوست اس کی اہمیت کو سمجھیں اور یہ بھی جان لیں کہ ان تبلیغی اخراجات کو برداشت کرنا، ہمارے بس سے باہر ہے.ایسے حالات میں ہمارے لئے سوائے اس کے اور کوئی راہ نہیں کہ ہم دعاؤں میں مشغول ہو جائیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے اپنے فضل سے ایسے راستے کھول دے، جن سے تبلیغ میں آسانی پیدا ہو.ایسی وسیع دنیا میں ستر مبلغ اور چالیس ان کے قائم مقام گویا صرف ایک سو دس آدمی میں نے تجویز کئے ہیں.مگر پھر بھی سالانہ خرچ کا اندازہ پانچ لاکھ روپیہ تک بن جاتا ہے.پس یہ ایسی چیز ہے، جس کے لئے بہت بڑی دعاؤں ، گریہ وزاری اور نفس کی اصلاح کی ضرورت ہے.تاکہ اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو اور وہ ان مشکلات کو دور فرمادے.روپیہ تو ہاتھ کی میل ہوتی ہے اور وہ پانچ کروڑ بھی اکٹھا ہو سکتا ہے.مگر صرف روپیہ تبلیغ کے لئے کافی نہیں ہوتا.اس کے لئے دلوں کی اصلاح کی بھی ضرورت ہوتی ہے.پس جماعت کے دوستوں کو خاص طور پر دعاؤں سے کام لینا چاہیے تا کہ ان مشکلات میں اللہ تعالیٰ ہماری مددفرمائے اور ہماری جماعت اپنے قلوب کی اصلاح کر کے اس کے فضلوں کی وارث ہو جائے.اللهم آمین.مطبوعه الفضل 22 دسمبر 1944ء) 360
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم " اقتباس از خطبه جمعه فرموده 05 مئی 1944ء بے شک یہ لڑائی کا بگل نہیں مگر پریڈ کا بگل ضرور ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 05 مئی 1944ء میں نے بعض تحریکات چند روز سے شروع کی ہیں.انہیں خیال نہیں کہا جاسکتا کہ وہ خیال سے بالا ہیں، انہیں ارادہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اس سے بھی بالا ہیں تفصیلی تشکیل کا نام بھی انہیں نہیں دیا.جا سکتا کہ وہ اس سے کچھ زیادہ ہیں بلکہ سامان ذریعہ حاصل کرنے کے مرحلہ پر ہیں ، ہم ایسے مقام پر کھڑے ہیں کہ حقیقی سامان جمع کرنے کا سامان جمع کر رہے ہیں اور اب ہمارے سامنے یہ مرحلہ ہے کہ حقیقی سامان فراہم کرنے کا انتظام کریں.اس کی بیسیوں شاخیں ہیں اور ایک بڑی شاخ علماء کی جماعت کا پیدا کرنا ہے.جب اللہ تعالیٰ نے اس بات کا مجھ پر انکشاف فرمایا تو ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی انکشاف فرمایا کہ علماء کی کثرت اسلام کے قیام کے لئے نہایت ضروری ہے.وو..اب جیسا کہ میں نے بتایا ہے، ہم بعض تحریکات کے لحاظ سے ایسے مقام پر کھڑے ہیں کہ حقیقی سامان مہیا کرنے کے سامان جمع کر رہے ہیں.اس لئے میں نے چندوں کا اعلان کیا تھا اور تحریک کی تھی کہ دوست اپنی جائیداد میں اسلام کے لئے وقف کریں.ہزاروں دوستوں نے اس طرف توجہ کی ہے اور ایک کثیر تعداد جائیدادوں کی وقف کی ہے.مگر ابھی بہت سے دوست ہیں، جنہوں نے اس طرف توجہ نہیں کی.اور وہ ایک عظیم الشان موقع کھورہے ہیں، جس کے بعد یقینا انہیں پچھتانا پڑے گا مگر پھر یہ پچھتانا لا حاصل ہوگا.یہ تحریک تو لہوں گا کر شہیدوں میں شامل ہونے سے بھی کم ہے.لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے کے لئے بھی خون کا قطرہ بہانا پڑتا ہے.مگر اس تحریک میں تو بغیر ایک پیسہ دیئے شامل ہوا جا سکتا ہے.صرف اس غیر معین عبد کو جو ہر شخص بیعت کے وقت کرتا ہے، ایک معین شکل میں پیش کرتا ہے.یعنی یہ وعدہ کرتا ہے کہ جب سلسلہ کو ضرورت ہوگی، ان کی جائیدادوں پر جتنا ٹیکس لگے گا ، وہ اسے ادا کر دیں گے.اور یہ بوجھ ان پر غیر معمولی حالات میں ہی ڈالا جائے گا، ورنہ زیادہ تر خرچ طوعی چندوں سے پورا کرنے کی کوشش کی جائے گی.کیونکہ اسی میں زیادہ برکت ہوتی ہے.تو ہزاروں لوگوں نے اپنی جائیدادیں وقف کی ہیں مگر ہزاروں ہیں، جنہوں نے ابھی توجہ نہیں کی.361
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 05 مئی 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم بہر حال میں نے اپنا فرض ادا کر دیا اور آوازان تک پہنچادی ہے، اب بھی اگر وہ یا ان کی اولادیں ان نعمتوں سے محروم رہیں، جو اللہ تعالیٰ ان کو دینا چاہتا ہے تو خود اپنے آپ کو یا اپنے والدین کو الزام دیں، میں اللہ تعالیٰ کے حضور بری ہوں کیونکہ میں نے خدا تعالی کی آواز کو ان تک پہنچا دیا.خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں وہی شخص داخل ہوسکتا ہے، جو ہر قربانی کے لئے تیار ہو.ایسا شخص جو ان تمام سامانوں کو جو اس کے پاس ہیں، خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دینے کے لئے تیار نہیں ، وہ وقت آنے پر کچا دھاگہ ثابت ہوگا اور اسلام کی جنگ میں فاتح سپاہی کی حیثیت ہرگز حاصل نہ کر سکے گا.بہر حال ہم نے جدو جہد شروع کر دی ہے اور بعض مراحل طے بھی کر لئے ہیں.اب پانچویں مرحلہ کا کام شروع ہے.علماء پیدا کرنے کے لئے میں نے جامعہ احمدیہ کی شکل بدل دی ہے اور اب اسے ایسی صورت میں چلایا جائے گا کہ جلد سے جلدا چھے علماء پیدا ہو سکیں.اس راہ میں مولوی فاضل کلاس ایک روک تھی، جسے اب اڑا دیا گیا ہے اور ایسے رنگ میں اس کا نصاب بدل دیا گیا ہے اور اپنی ہدایات کے ماتحت اس میں ایسی تبدیلی کرائی ہے کہ جس سے جلد از جلد علماء پیدا ہو سکیں.مدرسہ احمدیہ کا نصاب بھی ایسے رنگ میں تبدیل کیا جارہا ہے کہ اس میں تعلیم پانے والے جلد از جلد کسی نہ کسی علم کے عالم بن سکیں.بے شک یہ لڑائی کا بگل نہیں مگر پریڈ کا بگل ضرور ہے اور جو شخص پریڈ کا بگل سن کر پریڈ میں شامل نہیں ہوتا، وہ لڑائی میں شامل نہیں ہوسکتا.پس جن لوگوں کے دلوں میں اسلام کا درد ہے، یہ بنگل سن کر ان کے دل اچھلنے لگ جانے چاہیں.جب لڑائی کا بگل بجتا ہے تو رسالہ کے گھوڑوں میں بھی ایک جوش پیدا ہو جاتا ہے اور وہ ہنہنانے لگتے ہیں، وہ بھی سمجھ جاتے ہیں کہ اب میدان جنگ میں اپنی گردنیں کٹوا کر سرخرو ہونے کا وقت آپہنچا ہے.لڑائی کا بگل تو جب اللہ تعالیٰ چاہے گا، بجے گا.پریڈ کا بگل بجادیا گیا ہے اور چاہیے کہ اسلام کا دردر کھنے والے دلوں میں یہ جنگل ایک غیر معمولی جوش پیدا کرنے کا موجب ہو.وقت آگیا ہے کہ جن نو جوانوں نے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں، وہ جلد سے جلد علم حاصل کر کے اس قابل ہو جائیں کہ انہیں اسلام کی جنگ میں اسی طرح جھونکا جا سکے، جس طرح تنور میں لکڑیاں جھونکی جاتی ہیں.اس جنگ میں وہی جرنیل کامیاب ہو سکتا ہے، جو اس لڑائی کی آگ میں نو جوانوں کو جھونکنے میں ذرا رحم نہ محسوس کرے اور جس طرح ایک بھڑ بھونجا چنے بھونتے وقت آموں اور دوسرے درختوں کے خشک پنے اپنے بھاڑ میں جھونکتا چلا جاتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے اس کے دل میں ذرا بھی رحم پیدا نہیں ہوتا ، اسی طرح نو جوانوں کو اس جنگ میں جھونکتا چلا جائے.اگر بھاڑ میں پتے جھونکنے کے بغیر چنے بھی نہیں بھن میں 362
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 05 مئی 1944ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد دوم سکتے تو اس قسم کی قربانی کے بغیر اسلام کی فتح کیسے ہو سکتی ہے؟ پس اس جنگ میں وہی جرنیل کامیابی کا منہ دیکھ سکے گا، جو یہ خیال کئے بغیر کہ کس طرح ماؤں کے دلوں پر چھریاں چلتی ہیں؟ باپوں اور بھائیوں، بہنوں کے دلوں پر چھریاں چل رہی ہیں؟ نو جوانوں کو قربانی کے لئے پیش کرتا جائے.موت اس کے دل میں کوئی رحم اور درد پیدا نہ کرے.اس کے سامنے ایک ہی مقصد ہو اور وہ یہ کہ اسلام کا جھنڈا اس نے دنیا میں گاڑنا ہے اور سنگدل ہو کر اپنے کام کو کرتا جائے.جس دن مائیں یہ سمجھیں گی کہ اگر ہمارا بچہ دین کی راہ میں مارا جائے تو ہمارا خاندان زندہ ہو جائے گا، جس دن آپ یہ سمجھنے لگیں گے کہ اگر ہمارا بچہ شہید ہو گیا تو وہ حقیقی زندگی حاصل کر جائے گا اور ہم بھی حقیقی زندگی پالیں گے.وہ دن ہوگا ، جب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو زندگی ملے گی.جن نو جوانوں نے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں، ان کو بلانا شروع کر دیا گیا ہے.بعض کو بلایا گیا ہے اور بعض کو بلانے کی تیاری کی جارہی ہے اور جب مدرسہ کھلے گا، ان کو بلا لیا جائے گا.لیکن جو نو جوان آئیں ، وہ عزم صمیم لے کر آئیں کہ وہ ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار ہیں.وہ خوب یاد رکھیں کہ دین کی خدمت لیتے وقت کسی رحم سے کام نہیں لیا جائے گا.اسلام کی جنگ جیتنے کا سوال وہی لوگ حل کر سکتے ہیں، جو ایسے سنگدل ہوں جیسے شاعروں کے معشوق سنگدل سمجھے جاتے ہیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ اس سکیم کے ماتحت اگر اساتذہ اور طالب علم اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں تو جلد ہی علماء کی ایک ایسی جماعت تیار ہو سکتی ہے، جو اسلام کا جھنڈا بیرونی ممالک میں گاڑ سکے اور اسلام اور احمدیت کی تعلیم دلوں میں قائم کرنے میں کامیاب ہو سکے.اس کے علاوہ ایک اور بات بھی ہے.ہمار ا صرف یہی کام نہیں کہ علماء پیدا کریں بلکہ یہ بھی ہے کہ غیر احمدی علماء میں سے بھی ایک تعداد کو اپنے ساتھ شامل کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بعض علماء جماعت میں شامل ہوئے اور ان کے ساتھ ہزاروں لوگ جماعت میں شامل ہوئے.مگر اس کے بعد غیر احمدی علماء کو اپنی طرف کھینچنے میں ہماری طرف سے بہت کو تا ہی ہوئی ہے.اب میں نے اس بارہ میں بھی ہدایات دی ہیں اور ابھی بعض اور ہدایات دوں گا.کوئی وجہ نہیں کہ اگر عوام احمدیت کو قبول کر سکتے ہیں تو علماء نہ کریں.کوتا ہی ہماری طرف سے ہے.کہتے ہیں العلم حجاب الاكبر.بات یہ ہے کہ علماء اس طریق خطاب کو پسند نہیں کرتے ، جس سے عوام کو خطاب کیا جاتا ہے.وہ ذراذراسی بات پر اپنی ہتک محسوس کرتے ہیں.جب تک ان کو اس طرح خطاب نہ کیا جائے کہ وہ محسوس کریں کہ ہمیں رسوا نہیں کیا 363
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 05 مئی 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم جار ہا بلکہ نجات کی طرف بلایا جاتا ہے، وہ توجہ نہیں کر سکتے.پس ضروری ہے کہ ہمارے دوست علماء سے ملیں اور ان کو مناسب رنگ میں تبلیغ کریں.ایک دوست نے اطلاع دی ہے کہ مولوی محمد شریف صاحب نے فلسطین سے لکھا ہے کہ جامعہ از ہر کا ایک بڑا عالم احمدی ہو گیا ہے.مجھے مولوی صاحب کا ایسا کوئی خط نہیں ملا.ممکن ہے رستہ میں کہیں گم ہو گیا ہو.بہر حال اگر یہ خبر مسیح ہے (بعد میں میں نے خط پڑھ لیا ہے، خر صحیح ہے.) تو بہت خوش کن ہے.از ہر یونیورسٹی دنیا میں ایک ہی یونیورسٹی ہے، جہاں اسلام اور عربی زبان کی اعلی تعلیم کا انتظام ہے اور اگر اس کا ایک بڑا عالم احمدی ہو گیا ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کا دروازہ اس رنگ میں بھی کھلنا شروع ہو گیا ہے اور اس یونیورسٹی کے علماء میں سے بھی احمدی ہونے شروع ہو گئے ہیں، جو اسلام کا گہوارہ سجھی جاتی ہے....اس کے علاوہ میں دوستوں کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ تبلیغ نہایت ہی ضروری ہے، اس کے بغیر ہم آگے قدم نہیں اٹھا سکتے.اس وقت ہماری تعداد اتنی تھوڑی ہے کہ ایک صوبہ کو بھی سہار نہیں سکتی.جب تک جماعت میں تھیں بلکہ سو گنا نہیں بڑھ جاتی ، ہم کوئی ایسا کام نہیں کر سکتے ، جس سے دنیا میں تہلکہ مچ جائے.اس وقت ہماری تعداد 4.5 لاکھ ہے.جب تک یہ سو گنا نہ ہو جائے ، کوئی عظیم الشان کام مشکل ہے.اگر تعداد 4.5 یا چھ کروڑ ہوتو پھر ہم ایسے کام کر سکتے ہیں، جن سے دنیا میں تہلکہ مچ جائے.اگر چہ اتنی تعداد بھی بہت کم ہے مگر جس ارادہ اور عزم کو لے کر ہم کھڑے ہوئے ہیں، جو آگ ہمارے دلوں میں لگی ہوئی ہے، جو چنگاریاں ہمارے سینوں میں چمک رہی ہیں، اگر اس قسم کے -5-4 یا 6 کروڑ افراد ہوں تو دنیا کو جلا کر راکھ کر سکتے ہیں.گو ہمیں یقین ہے کہ اگر اتنے نہ ہوں، چند مخلصین ہی ہوں ، جن کے دلوں میں ویسا ہی درد ہو، جو ہمارے دلوں میں ہے تو ہم اربوں ارب دنیا پر غالب آ سکتے ہیں.مگر اتنے زبر دست ایمان کے لوگ زیادہ پیدا نہیں ہوتے.پس ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ تبلیغ کے لئے باہر نکلے.اگر جماعتیں تبلیغ میں ستی نہ کرتیں تو کوئی شخص کا فرض ہے وجہ نہ تھی کہ ہر سال جماعت کی تعداد دگنی نہ ہو جاتی.یہ امتحان اور آزمائش کا وقت ہے.ہر شخص کہ اپنے کام کاج سے فارغ ہو کر باہر نکل جائے اور تبلیغ کرے.ہر گاؤں پستی ، شہر، محلہ، ہر مرد عورت اور بچے، بوڑھے کے لئے امتحان کا وقت ہے.اگر وہ دین کو پھیلانے میں کوتاہی کرتا ہے تو وہ گنہگار ہے.اور جو شخص چند ماہ بلکہ چند ہفتوں میں ہی اپنا قائم مقام پیدا نہیں کر سکتا، وہ سمجھ لے کہ اسے خدا تعالیٰ کی تائید حاصل نہیں.اور جو وعدہ اس نے اللہ تعالیٰ سے کیا تھا، اسے پورا کرنے کے سامان اسے میسر نہیں ہیں.364
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 05 مئی 1944ء یہ ممکن نہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کی آواز کو لے کر جائیں اور لوگ اس کی طرف توجہ نہ کریں.ضرور ہے کہ وہ موافقت کریں یا مخالفت.وہ یا تو پھر برسائیں گے یا عقیدت کے پھول، درمیانی رستہ کوئی نہیں.یہ کبھی نہیں ہوا کہ دنیا میں کوئی نبی آیا ہو یا کوئی مصلح کھڑا ہوا ہو اور دنیا نے اس سے اغماض کیا ہو.یا تو اسے پتھر مارے جاتے ہیں یا عقیدت کے پھول برسائے جاتے ہیں.بات صرف یہ ہے کہ حقیقت کو کھول کر لوگوں کے سامنے پیش نہیں کیا جاتا.ایک شخص نے مجھے ایک دفعہ لکھا کہ میں اتنی مدت سے آپ کو خط لکھ رہا ہوں ، آپ میری طرف توجہ کیوں نہیں کرتے ؟ کم سے کم میری مخالفت ہی کریں.یہ خط دیکھ کر میرے دل میں یہ لالچ پیدا ہوا کہ میں اس کا جواب دوں.چنانچہ میں نے لکھوایا کہ مخالفت بھی اللہ تعالیٰ کے انعاموں میں سے ایک انعام ہے.جو اللہ تعالیٰ کے ماموروں کو ملتا ہے، آپ اس سے محروم ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اب عزت دو ہی طریقوں سے حاصل ہو سکتی ہے، میری بیعت میں شامل ہو کر یا میری مخالفت کر کے، درمیانی طبقہ یعنی خاموش رہنے والے لوگ کوئی عزت نہیں پاسکتے.اور چونکہ عام طور پر لوگوں میں عزت حاصل کرنے کی خواہش ہوتی ہے، اس لئے ان دونوں صورتوں میں سے ایک نہ ایک ضرور اختیار کرتے ہیں.یا بیعت میں شامل ہو جاتے ہیں اور یا مخالفت کرنے لگتے ہیں.صداقت کو کھلے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے.اگر سننے والے نہ مانتے ہیں اور نہ ہی مخالفت کرتے ہیں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ تم صداقت کو پیش کرنے میں مداہنت سے کام لیتے ہو.میں جب پچھلے دنوں دہلی گیا تو وہاں ایک بہت بڑے سرکاری عہدیدار جو مسلمانوں کے لیڈر بھی ہیں، مجھ سے ملنے آئے اور کہا کہ لنڈن میں آپ کے مولوی شمس صاحب ہیں.وہ ہیں تو بہت اچھے آدمی مگر آخر مولوی ہی ہیں نا.وہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مل کر نماز نہیں پڑھتے.وہ گویا مجھے تحریک کر رہے تھے کہ آپ بڑے آدمی ہیں، آپ کو اس نقص کی اصلاح کرنی چاہیے.ان کی بات سن کر پہلے تو میں نے ان کو امامکم منکم والی حدیث سنائی اور اس کا مطلب سمجھایا.پھران سے کہا کہ آخر آپ لوگ فیصلہ کیوں نہیں کرتے کہ آپ کے لئے احمدیت کو ماننا ضروری ہے یا نہیں؟ پھر میں نے انہیں کہا کہ آپ لوگوں کے پاس کھٹی لسی ہے اور میرے پاس خالص دودھ.جو خدا تعالیٰ نے مجھے دیا ہے.اگر میں آپ کی دس ہزار سیر کھٹی لسی میں اپنا ایک سیر خالص دودھ ڈال دوں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں خالص دودھ کا ایک قطرہ بھی نہ رہے.آپ کو تو چاہیے تھا کہ آپ اگر کسی احمدی کو غیر احمدیوں میں ملتا ہوا دیکھتے تو گھبرائے ہوئے آتے اور میرے پاس شکایت کرتے 365
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 05 مئی 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم اور کہتے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جائیداد تباہ ہونے لگی ہے، ہمارے جیسے لوگوں سے ملنے سے اسے بچائیے تو میں نے صفائی کے ساتھ ان کو جواب دیا اگر میں مداہنت سے کام لیتا اور کہتا یہ مجبوریاں ہیں، وہ معذوریاں ہیں تو بات ایسی اچھی طرح ان کے ذہن میں نہ آسکتی.پس ضرورت ہے اس امر کی کہ صفائی اور دلیری کے ساتھ صداقت کو پیش کیا جائے.پھر ضرور یا تو لوگ موافقت کریں گے یا مخالفت.پس تبلیغ کے لئے اپنے گھروں سے نکلو، جب اللہ تعالیٰ نے گھروں سے نکلنے کا حکم دیا تو جو نہیں نکلتا، اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے، اس کا ایمان کمزور ، اس کا دین ناقص اور اس کی امید میں جھوٹی ہیں.( مطبوعه الفضل 20 مئی 1944 ء) 366
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم ملفوظات فرموده 07 مئی 1944ء فرمایا:.عراق میں تبلیغ کی اہمیت اور ضرورت ملفوظات فرمودہ 07 مئی 1944ء ” ہماری طرف سے اس وقت تک شام، فلسطین اور مصر میں تو تبلیغ جاری ہے لیکن میں سوچ رہا تھا، عراق میں ابھی تک ہماری طرف سے تبلیغ شروع نہیں کی گئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام ہے کہ يدعون لک ابدال الشام (تذکره صفحه 131) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ شام کی طرف ہماری جماعت کی ترقی کی کوئی صورت پیدا کرنے والا ہے.لیکن آج مجھے خیال آیا کہ عراق کا بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام میں ذکر آتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہامی نام اللہ تعالیٰ نے ”عبد القادر “ رکھا ہے.تذکرہ صفحہ 91، صفحہ 507 ، صفحہ 657) اور سید عبدالقادر صاحب جیلانی بغداد میں رہتے تھے.گویا اگر شام کے متعلق یہ الہام ہے کہ يدعون لك ابدال الشام شام کے ابدال تیرے لئے دعائیں کرتے ہیں تو عراق کے متعلق یہ الہام ہے کہ تم ابدال العراق میں سے ہو یعنی جو کام عبد القادر جیلانی نے کیا تھا وہی کام اس علاقہ میں ہم تم سے لیں گے.کیونکہ سید عبد القادر صاحب جیلانی ساری دنیا کے لئے نہیں تھے بلکہ ایک مخصوص علاقہ کی ہدایت کے لئے بھیجے گئے تھے.اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو عبد القادر قرار دے کر اس امر کی طرف اشارہ فرما دیا کہ جیسے عبد القادر صاحب عراق کے لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ ہوتے تھے، ویسے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ عراق کے لوگ احمدیت کو قبول کریں گے.پھر میں نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہندوستان میں پیدا کیا ہے اور ہندوستان میں جہاں مغلوں کی جسمانی حکومت رہ چکی تھی ، اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ پھر ایک روحانی حکومت مغلوں کی قائم کر دی ہے.دنیوی بادشاہ جب دین سے غافل ہو جاتے ہیں تو کئی قسم کے 367
ملفوظات فرموده 07 مئی 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم مظالم پر اتر آتے ہیں لیکن مغلوں کو یہ ایک بہت بڑی خوبی نصیب رہی ہے کہ انہوں نے فاتح ہو کر بڑی جلدی اسلام قبول کر لیا اور اس کی اشاعت میں مشغول ہو گئے.جب کسی قوم میں کوئی نیکی ہوتی ہے تو اللہ تعالی کسی نہ کسی رنگ میں اسے بدلہ دے دیتا ہے.ہندوستان میں عام طور پر یہ بخشیں ہوتی رہتی ہیں کہ مغل بادشاہوں میں سے کون سا بادشاہ زیادہ عادل اور منصف تھا ؟ لیکن بہر حال دنیوی بادشاہ کچھ نہ کچھ ظلم کر ہی لیتے ہیں.پھر بھی اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مغلوں نے اسلام کو بہت جلد قبول کیا اور پھر ان کے ذریعہ اسلام بڑی سرعت سے دنیا میں پھیلنا شروع ہو گیا.میں سمجھتا ہوں شاید ان کی اس نیکی کی وجہ سے ہی اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں اپنا مامور مغلوں میں سے بھیجا ہے اور تاریخ سے یہ امر ثابت ہے کہ مغلوں کا پہلا خروج بغداد پر ہوا.جس کو انہوں نے تباہ و برباد کر دیا تھا.پس جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ لکھا ہے کہ پہلا آدم آیا اور اسے جنت سے نکالا گیا مگر یہ دوسرا آدم اس لئے آیا ہے تا کہ شیطان کو جنت سے نکال دے اور خود اس میں داخل ہو جائے.پہلا مسیح آیا اور اسے دشمنوں نے صلیب پر لٹکا دیا لیکن یہ دوسرا صیح اس لئے آیا ہے تا کہ صلیب کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے.پہلا یوسف آیا اور اسے لوگوں نے زندان میں ڈالا لیکن یہ دوسرا یوسف اس لئے آیا ہے کہ لوگوں کو زندان میں سے نکالے.اسی طرح ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ پہلے زمانہ میں مغلوں کو ( گو وہ مسلمان نہیں تھے اللہ تعالیٰ نے اس بات پر مامور کیا کہ وہ سزا کے طور پر بغداد میں داخل ہوں مگر اس زمانہ میں مغلوں کے لئے خدا تعالیٰ نے یہ مقدر کر دیا ہے کہ وہ انعام کے طور پر بغداد میں داخل ہوں اور اس کے لئے ایک نئی زندگی کا موجب ہوں.ان دونوں نسبتوں سے میں نے یہ سمجھا کہ عراق بھی خدائی سکیم سے باہر نہیں بلکہ اس میں شامل ہے.اگر ہمیں شام کے متعلق بعض الہامات نظر آتے ہیں تو عراق کے متعلق بھی ایسے الہامات پائے جاتے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ احمدیت کا وہاں پھیلنا مقدر ہے.حقیقت یہ ہے کہ عرب پر غلبہ حاصل کرنے کی پہلی سیڑھی عراق ہے.اور ضروری ہے کہ اس علاقہ میں احمدیت کی اشاعت کی طرف توجہ کی جائے.اگر عراق میں احمدیت کا غلبہ ہو جائے تو بحرین کے جزائر جو اس کے قرب میں ہی ہیں، وہاں اثر پہنچ سکتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ سارے عرب میں احمدیت پھیل سکتی ہے.پھر اگر عراق میں احمدیت پھیل جائے تو افغانستان اور ایران دونوں گھر جاتے ہیں اور ان دونوں ممالک پر ایک طرف ہندوستان سے اور دوسری طرف عراق سے ایسا تبلیغی اثر ڈالا جا سکتا ہے کہ ان ممالک کے لئے احمدیت میں داخل ہونے کے سوا کوئی چارہ ہی نہ رہے.ہٹلر کے متعلق مشہور ہے کہ اس کی 368
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم ملفوظات فرموده 07 مئی 1944ء بڑی کوشش یہی رہی ہے کہ دوسرا فرنٹ قائم نہ ہو.کیونکہ ایسی صورت میں گھر جانے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے.اگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے عراق میں احمدیت مضبوط ہو جائے تو پنجاب سے افغانستان کی طرف اور عراق سے ایران کی طرف قدم بڑھایا جا سکتا ہے اور اس طرح دونوں ممالک احمدیت کے اثر کے نیچے آ سکتے ہیں.اس لحاظ سے بھی کہ جب دونوں طرف سے دباؤ بڑھ جائے تو مقابلہ مشکل ہو جاتا ہے اور اس لحاظ سے بھی کہ ایرانی اور افغانی دونوں متحد ہیں.ایران میں فارسی زبان بولی جاتی ہے اور گو وہ زیادہ تر شیعہ ہیں مگر فارسی زبان چونکہ ان کی مادری زبان ہے، اس لئے افغانستان سے انہیں خاص تعلق ہے.کیونکہ افغانستان کے اوپر کے علاقہ میں جو افغان قبائل رہتے ہیں، وہ بھی فارسی النسل ہیں اور گو افغانستان کے مشرق میں پشتو زبان بولی جاتی ہے مگر شمال مغربی علاقہ میں فارسی زبان ہی بولی جاتی ہے اور یوں بھی اکثر افغان فارسی جانتے ہیں.اس لحاظ سے ایران اور افغانستان آپس میں اتحاد ر کھتے ہیں.پس ادھر پنجاب سے احمدیت کا زور بڑھتا جائے اور ادھر عراق میں احمدیت پھیلنی شروع ہو جائے تو افغانستان اور ایران دونوں کا احمدیت کو قبول کرنا بہت زیادہ آسان ہو جاتا ہے.پھر ان دونوں ممالک کے اتصال کی ایک یہ بھی وجہ ہے کہ عراق میں بھی کر دی قبائل ہیں اور ایران میں بھی کر دی قبائل ہیں.اگر عراق کے کر دی قبائل احمدیت کی آغوش میں آجائیں تو نسلی اتحاد کی وجہ ایران کے کردی قبائل کے لئے احمدیت قبول کرنا کوئی مشکل امر نہیں رہے گا.پس عراق اور ایران دونوں میں نسلی اتحاد ایسا پایا جاتا ہے کہ اگر ایک نسل میں احمدیت پھیل جائے تو قریب کی دوسری نسل کا بھی اس سے متاثر ہونا ایک یقینی امر بن جاتا ہے.اسی طرح اگر صوبہ سرحد میں احمدیت پھیل جائے تو چونکہ ان لوگوں کی رشتہ داریاں افغانستان میں ہیں، اس لئے افغانستان بھی احمدیت کے اثر کے نیچے آجائے گا.اس طرح ہمیں احمدیت کی اشاعت کے لئے ایک بہت بڑا مرکز مل سکتا ہے اور عراق میں احمدیت کا پھیلنا، ایران اور افغانستان دونوں کے لئے ہدایت کا موجب بن سکتا ہے.پس ضروری ہے کہ عراق کی طرف بھی توجہ کی جائے.اس وقت تک عراق میں احمدیت کی اشاعت کے متعلق کوئی کوشش نہیں کی گئی.حالانکہ شام اور فلسطین کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے.وہاں سال ڈیڑھ سال کام کرنے کے نتیجہ میں ہی خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھی جماعت قائم ہوگئی تھی.اگر عراق میں بھی مبلغ بھیجے جائیں تو وہاں جلد ہی ایک مضبوط جماعت قائم ہوسکتی ہے.اب عراق میں احمدی تو ہیں مگر وہ ہندی ہیں اور ان کا عراق والوں پر اتنا اثر نہیں ہو سکتا، جتنا خود اہل ملک کا اثر ہوتا ہے.اگر وہاں 369
ملفوظات فرموده 07 مئی 1944ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم کے کچھ باشندے احمدی ہو جائیں تو وہ اپنے اثر کی وجہ سے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو بھی احمدیت کی طرف کھینچنا شروع کر دیں گے اور اس طرح احمدیت کی ترقی کے لئے وہاں ہمیں ایک نیا میدان حاصل ہو جائے گا.(مطبوعہ الفضل 15 جنوری 1945ء) 370
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 19 مئی 1944ء آئندہ تحریک جدید میں شامل ہونے والوں کے لئے شرائط خطبہ جمعہ فرمودہ 19 مئی 1944ء یہ تحریک جدید کا دسواں سال ہے اور پہلی سکیم کے مطابق یہ گویا اس کے پہلے دور کا آخری سال ہے.جس کے معنے یہ بنتے ہے کہ آئندہ تحریک جدید میں اگر کوئی حصہ لینا چاہیے تو اس کے لیے کوئی معین صورت ہونی چاہیے اور قواعد ہونے چاہئیں تا اگر کوئی آئندہ اس میں شامل ہونا چاہیے تو معلوم کر سکے کہ وہ کس طرح شامل ہوسکتا ہے؟ کیونکہ اس کا پہلا دور تو ختم ہو چکا ہے.میں نے اس تحریک میں چندوں کے وعدوں کی آخری تاریخ 30 اپریل رکھی ہوئی تھی، ہندوستان کے ان علاقوں کے لئے ، جہاں کی زبان اردو نہیں ہے.اور فروری کا پہلا ہفتہ آخری تاریخ تھی ، ہندوستان کے ان علاقوں کے لئے ، جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے.اس لیے اب کوئی شخص اس میں ان قواعد کے لحاظ سے تو شامل نہیں ہو سکتا.اور ان لوگوں کے لیے جن کے دلوں میں آئندہ اس میں شامل ہونے کی خواہش پیدا ہو ہو، ایک سکیم کا فیصلہ کیا ہے.اور آج میں اس کا اعلان کرتا ہوں تا وہ لوگ جواب تک شامل نہیں ہو سکے ، اگر اب ان کے دلوں میں شوق پیدا ہو تو وہ اس میں حصہ لے سکیں.شروع زمانہ میں یہ ایک اکٹھا کام تھا، اس لیے ایک وقت مقرر کر دیا جاتا تھا کہ جو لوگ اس شامل ہونا چاہیں، وہ فلاں وقت سے فلاں وقت تک وعدے کر سکتے ہیں.لیکن اب سوال یہ کہ اگر کوئی شخص انفرادی طور پر اس میں حصہ لینا چاہے تو کس طرح لے سکتا ہے؟ اس میں شک نہیں کہ سلسلہ کی اشاعت کے لیے ایک ستقل فنڈ کا قیام ، ایک ایسی بات ہے کہ جس میں حصہ لینے کی خواہش ہمیشہ ہی دلوں میں پیدا ہوتی رہے گی.اس لیے ایسے لوگوں کے شامل ہونے کی بھی کوئی صورت ضرور ہونی چاہیے، جو لوگ اس تحریک کی ابتداء میں اس میں شامل ہوئے ، جبکہ اس کی ایسی شکل نہ تھی، جو لوگوں کے لیے دلکشی کا موجب ہو اور اس وقت شامل ہوئے جب ذہنوں میں یہ بات نہ تھی کہ اس تحریک کو خدا تعالی اسلام کی اشاعت و ترقی کے لیے ایک مستقل فنڈ کی صورت دے دے گا.اور جب یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اس میں شامل ہو کر انہیں کتنی قربانیاں کرنی پڑیں گی ؟ اور اس وقت اس میں شامل ہوئے ، جب جماعت نازک دور میں سے گذر رہی تھی اور دشمن حملہ کر کے اس سلسلہ کو ہمیشہ کے لیے مٹا دینا چاہتا تھا.وہ دوسروں سے ممتاز ہیں اور ممتاز ہونے کا حق رکھتے ہیں.371
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 19 مئی 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم مگر بعد میں آنے والی نسلیں اور بعد میں حصہ لینے کے قابل ہونے والے لوگ بھی اگر اپنے دل میں شوق محسوس کریں تو ان کے لئے بھی کوئی صورت ضرور ہونی چاہیے.پہلے کوئی پابندی نہ تھی ، صرف یہ شرط تھی کہ پانچ روپیہ سے کم چندہ نہ دیا جائے اور تاریخ مقررہ کے اندراندر وعدے کر دیئے جائیں.بعض لوگ ایسے بھی تھے کہ ان کی آمد زائد تھی مگر چندہ وہ صرف پانچ روپیہ لکھواتے تھے مگر ہم ان پر فرض نہ کر سکتے تھے کیونکہ ان کا ایسا کرنا، اعلان کردہ شرائط کے مطابق تھا.جہاں بعض لوگ ایسے بھی تھے کہ جن کی تنخواہیں سو سوا سو سے زیادہ نہ تھیں مگر وہ ہر سال دواڑھائی سورو پسیہ چندہ دے دیتے تھے ، وہاں ایسے بھی تھے کہ جن کی تنخواہیں تو پانچ سو یا ہزار روپیہ ماہوار تھیں مگر چندہ وہ کم دیتے تھے یا تاجر وغیرہ تھے، جن کی آمد تو کئی سور و پیہ ماہوار تھی مگر چندہ کم ہوتا تھا.اور یہ دونوں قسم کے لوگ اس تحریک میں شامل تھے اور چونکہ کوئی معیار نہ تھا، اس لئے اپنی آمد کی نسبت سے بہت ہی کم چندہ دینے والوں پر بھی ہم کوئی اعتراض نہ کر سکتے تھے کیونکہ ان کا ایسا کرنا، قواعد کے مطابق تھا.کیونکہ قاعدہ یہی تھا کہ ہر شخص پانچ روپیہ یا اس سے زیادہ دے کر شامل ہوسکتا ہے اور سابقون میں وہ لوگ شمار ہوتے تھے، جو ہر سال پہلے سال سے بڑھا کر دیتے خواہ زیادتی ایک پیسہ یا ایک آنہ کی ہی ہو.مگروہ زمانہ گزر گیا اور سابقون نے اپنا حق قائم کرلیا.آئندہ اگر کوئی شخص شامل ہونا چاہے تو اس کو کے لئے ضروری ہوگا کہ اس کا ایک سال کا چندہ ایک ماہ کی آمد کے برابر ہو.یعنی اگر کسی شخص کی تنخواہ سور و پیر ماہوار ہے تو جب تک وہ ایک سال میں ایک سورو پہیہ چندہ نہ دے ، وہ شامل نہ ہو سکے گا.اسی طرح جس کی آمد ایک ہزار روپیہ ماہوار ہے، وہ اگر شامل ہونا چاہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ایک سال میں ایک ہزار روپیہ چندہ دے.دوسری شرط یہ ہوگی کہ آئندہ شامل ہونے والوں کو بجائے دس سال کے انیس سال چندہ دینا ہو گا اور ہر سال پہلے سال سے اتنی زیادتی کرنی ہوگی جتنی کہ آمد میں زیادتی ہوگی.مثلاً ایک شخص کی آمد سوروپیہ ماہوار ہے اور اس نے پہلے سال سوروپیہ دے دیا.اگلے سال اس کی آمد ڈیڑھ سوروپیہ ہو گئی تو اسے دوسرے سال ڈیڑھ سو روپیہ چندہ دینا ہوگا.ہاں اگر اس کی آمد میں کوئی بھی ترقی نہ ہو تو پھر دوسرے سال اسے کچھ نہ کچھ زیادتی کرنی ہوگی.اضافہ بہر حال کرنا ضروری ہوگا.اور وہ اضافہ اتنا ہوگا، جتنا وہ پسند کرے.اس نے پہلے سال سو روپیہ دیا ہے اور اگلے سال اس کی آمد میں اضافہ نہیں ہوا تو وہ خواہ سور و پیرا ایک آنہ یا سور و پیر ایک پیسہ دے دے یا جتنی زیادتی چاہے، کرتا جائے.اس صورت میں زیادتی اس کی اپنی مرضی سے ہوگی.لیکن اگر آمد میں زیادتی ہو تو اس سال کے چندہ میں زیادتی آمد میں زیادتی کے برابر ہوگی اور اس طرح دس سال 372
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 19 مئی 1944ء تک زیادتی کرنی ہوگی.گیارھویں سال میں وہ پھر نویں سال کے برابر چندہ دے گا، بارہویں سال میں آٹھویں سال کے برابر، تیرھویں سال میں ساتویں سال کے برابر، چودھویں سال میں چھٹے سال کے برابر، سترھویں سال تیسرے اور اٹھارویں سال دوسرے سال کے برابر اور انیسویں سال پہلے سال کے برابر چندہ دینا ضروری ہوگا.سوائے اس کے کہ کوئی فوت ہو جائے.جس طرح پہلے دور میں یہ شرط تھی کہ اگر کوئی پہلے سال میں شامل ہوا اور پھر فوت ہو گیا تو اسے آخر تک شامل ہی سمجھا جائے گا.کیونکہ وہ اسی نیت سے شامل ہوا تھا کہ آخر تک شامل رہے گا.اسی طرح اس دور میں ہوگا کہ جو شخص ایک سال یا چند سال شامل ہونے کے بعد فوت ہو جائے تو اس کا شمار آخر تک شامل ہونے والوں میں ہوگا.اسی طرح اگر کسی کی پنشن ہو جائے تو اس کی آمد کے لحاظ سے ہی اس سے چندہ لیا جائے گا.جس کی آمد سور و پیہ ماہوار تھی اور اس سے سور و پیہ چندہ لیا جاتا تھا.پنشن ہونے کی صورت میں کیونکہ اس کی آمد پچاس روپیہ ماہوار ہو جائے گی ، اس لئے اس سے چندہ بھی اتنا ہی لیا جائے گا اور یہ کی کمی شمار نہ ہوگی بلکہ قواعد کے مطابق ہی سمجھی جائے گی.تیسری شرط یہ ہوگی کہ اگر کسی کی آمد کا ذریعہ بند ہو جائے یا ملازمت سے کوئی علیحدہ ہو جائے تو اس کو کا فرض ہو گا کہ اپنا معاملہ فردی طور پر تحریک جدید کے دفتر کے سامنے پیش کرے اور دفتر اس کے متعلق فیصلہ کرے گا.پس اگر کسی کی ملازمت جاتی رہے یا تجارت میں نقصان ہو جائے یا کسی کے پاس پہلے زمین تھی اور بعد میں وہ اس کے قبضہ میں نہ رہے تو وہ اپنا معاملہ دفتر تحریک جدید میں پیش کرے گا.پھر اس کی موجودہ حالت کے مطابق اس کے لئے چندہ مقرر کر دیا جائے گا.یہ وہ شرائط ہیں، جن کی پابندی آئندہ شامل ہونے والوں کے لئے ضروری ہوگی.پس اب اگر کوئی شخص اس تحریک میں حصہ لینے کی خواہش کرے تو دفتر اسے لکھ دے کہ ان شرائط کی پابندی لازمی ہوگی.سوائے اس کے کہ کوئی فوت ہو جائے یا بیمار ہو جائے مثلاً مفلوج ہو جائے یا دماغ میں نقص پیدا ہو جائے اور اس کی آمد بالکل جاتی رہے.ایسے لوگوں کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ وہ قواعد کے مطابق اس تحریک میں حصہ لینے والے ہیں.خواہ یہ حالت ایک ہی سال کے بعد پیدا ہو جائے یا چند سال کے بعد.( مطبوع الفضل 28 مئی 1944ء) 373
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم ,, وقف کی حقیقت کو سمجھیں اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 26 مئی 1944ء خطبہ جمعہ فرمودہ 26 مئی 1944ء د...سب سے پہلی بات جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں ، وہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے زندگیاں وقف کی ہیں، ان میں سے بعض کے متعلق یہ اعلان کر دیا گیا تھا کہ وہ پچیس مئی تک انٹرویو کے لیے قادیان پہنچ جائیں تا کہ ان کے متعلق یہ فیصلہ کیا جاسکے کہ سلسلہ ان کا وقف قبول کرنے کے لیے تیار ہے یا نہیں یا سلسلہ انہیں کس کام پر مقرر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے؟ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس سلسلے میں بعض لوگ جنہوں نے اپنے آپ کو وقف کیا تھا، وقت پر حاضر نہیں ہوئے.میں تحقیقات کروں گا کہ ان کے وقت پر حاضر نہ ہونے کی ذمہ داری تحریک جدید کے دفتر پر ہے یا ان پر ہے.اگر تحقیقات کے بعد یہ ثابت ہوا کہ اس کی ذمہ داری دفتر تحریک جدید پر ہے اور اس نے میرے کہنے کے باوجود ان لوگوں کو اطلاع نہیں دی تو اس صورت میں اس کی سرزنش اور پرسش کا مستحق دفتر تحریک جدید ہوگا.لیکن اگر یہ ثابت کی ہوا کہ ان لوگوں کو اطلاع تو مل گئی تھی مگر باوجود اطلاع مل جانے کے وہ نہیں آئے اور کم سے کم انہوں نے یہ اطلاع بھی نہیں دی کہ ہم وقت پر فلاں مجبوریوں کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکتے.تو ایسے احمدی، جنہوں نے اپنے آپ کو وقف کیا تھا، انہیں یا درہنا چاہیے کہ اب ان کو انٹرویو کے لیے نہیں بلایا جائے گا بلکہ ان کو اس لیے بلایا جائے گا کہ کیوں نہ ان کو اس جرم کی بناء پر سلسلہ سے خارج کر دیا جائے؟ میں بار ہابتا چکا ہوں کہ وقف جہاد کا ایک حصہ ہے.ہر وہ شخص ، جو وقف کو کھیل سمجھتا ہے، وہ بے ایمانی پر مہر لگاتا ہے.وہ اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ اس کو در حقیقت سلسلہ سے کوئی تعلق نہیں.وہ ایک کھیل تماشہ سمجھ کر اس جماعت میں داخل ہوا تھا.قرآن کریم میں نہایت وضاحت سے فرمایا گیا ہے ؟ میں حصہ لینے والے شخص کے لیے جہاد میں مرجانا یا فتح حاصل کر کے واپس لوٹنا، یہ دو ہی چیزیں ہیں.اگر کوئی شخص موقعہ سے پیچھے بجتا ہے تو اللہتعالیٰ فرماتا ہے کہ دوزخ کے سوا اس کا کہیں ٹھکانا نہیں.حقیقت یہ ہے کہ آج اسلام ایسی مصیبت میں مبتلا ہے، جس کا اندازہ لگانا بھی انسانی قیاس اور واہمہ سے باہر ہے.آج دنیا میں ہر شخص کے لئے ٹھکانہ ہے.لیکن اگر ٹھکانہ نہیں تو محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے دین کے لئے“.375
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 26 مئی 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم....ایسے نازک وقت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اسلام کو ایک نئی زندگی اور نئی حیات بخشنے کا فیصلہ کیا ہے.پس چاہے اس کو کوئی شکل دے دو، چاہے اس کا کوئی نام رکھ لو.بہر حال یہ ایک جہاد ہے، جو اسلام کے احیاء کے لیے جاری ہے اور ہر شخص کا فرض ہے کہ اس جہاد میں شامل ہو.اگر کسی وقت نظام سلسلہ کی طرف سے کسی شخص کو اس جہاد میں شامل ہونے کے لیے نہیں بلایا جاتا تو وہ گنہگار نہیں.لیکن اگر کسی شخص کو بلایا جاتا ہے اور بلایا بھی ایسی صورت میں جاتا ہے، جب وہ طوعی طور پر اپنا نام پیش کر چکا ہوتا ہے، اسے کہا جاتا ہے کہ فلاں وقت حاضر ہو جاؤ تو اس کے بعد وہ اگر مقررہ وقت پر پہنچنے میں ایک منٹ کی بھی دیر کر دیتا ہے تو وہ باغی ہے.اور وہ اس قابل ہے کہ اسے جماعت سے خارج کر دیا جائے.اس وقت وقف زندگی کے عہد میں ان کی سنجیدگی سمجھی جاسکتی ہے، جب فرض کرو ، قادیان ایک پہاڑی مقام پر ہوتا اور اس کے چاروں طرف برف جمی ہوئی ہوتی ، جس پر چلنا مشکل ہوتا مگر پھر بھی مرکز کی طرف سے اعلان ہونے پر اپنی زندگی وقف کرنے والے پیٹوں کے بل گھسٹتے دئے ، اپنے ناخن زمین میں گاڑتے ہوئے ، یہاں تک پہنچ جاتے.تب بے شک ان کو مومن سمجھا جا سکتا تھا.تب بے شک کہا جا سکتا تھا کہ انہوں نے اپنے عہد کو پورا کر دیا.مگر موجودہ صورت ایسی ہے، جو کسی حالت میں بھی قابل عفو نہیں.ہو 55 میں دفتر تحریک جدید کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ فورا ایسے لوگوں کے نام میرے سامنے پیش کرے اور پھر اپنے ڈاک کے رجسٹروں سے یہ ثابت کرے کہ اس نے ان سب کے نام چٹھیاں بھجوادی تھیں.اس کے بعد وہ مجھ سے ایک تاریخ مقرر کروا کر الفضل میں اعلان شائع کرا دے کہ یہ لوگ فلاں تاریخ کو میرے سامنے ایک مجرم کی حیثیت میں پیش ہوں اور جواب دیں کہ کیوں نہ ان کو اس جرم کی وجہ سے جماعت سے خارج کر دیا جائے؟ میں اس موقعہ پر ان لوگوں کو ، جنہوں نے اپنی زندگیاں دین کے لئے وقف کی ہوئی ہیں ، ایک بار پھر یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ دیکھو زندگی وقف کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تم نے اپنی جان دین کے لئے دے دی.میں نے متواتر سمجھایا ہے کہ جب کوئی شخص اپنے آپ کو وقف کر دیتا ہے تو اس کے بعد اس کا کوئی باپ نہیں ہوتا سوائے سلسلہ کے، کوئی ماں نہیں ہوتی سوائے سلسلہ کے کوئی بہن نہیں ہوتی سوائے سلسلہ کے، کوئی بھائی نہیں ہوتا سوائے سلسلہ کے، کوئی بیوی نہیں ہوتی سوائے سلسلہ کے، کوئی بچے نہیں ہوتے سوائے سلسلہ کے.اس وقف کے معنی یہ ہیں کہ وہ دنیا سے کٹ گیا ہے.376
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 26 مئی 1944ء مگر میں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک برابر مائیں اس قسم کے رفقعے لکھتی رہتی ہیں کہ ہمارے بچوں کا خیال رکھا جائے ، باپ رقعے لکھتے رہتے ہیں کہ ہمارے بیٹوں کا خیال رکھا جائے بلکہ ابھی ایک واقف زندگی کے باپ نے مجھے لکھا کہ میرے بیٹے نے چونکہ فلاں وقت اپنی زندگی وقف کی تھی ، اس لئے اسے فلاں جگہ رکھا جائے.وہ اپنے آپ کو باپ سمجھتا ہو گا مگر ہم تو اسے اس لڑکے کا باپ سمجھتے ہی نہیں.جس دن اس نے اپنے بیٹے کو دین کے لئے وقف کر دیا، اس کے بعد اس کا کوئی حق نہیں رہا کہ وہ اپنے بیٹے کے متعلق ہم سے کوئی بات کہے.اگر کوئی باپ ایسا رقعہ بھیجتا ہے تو ہم اسے پھاڑ کر پھینک دیتے ہیں اور پر واہ بھی نہیں کرتے کہ اس میں کیا لکھا ہے.لڑکا اگر کچھ کہنا چاہتا ہے تو بے شک کہے.اگر لڑ کا کوئی ایسی بات کہے گا ، جو اس کے حقوق سے تعلق رکھتی ہوگی اور ہم سمجھیں گے کہ وہ چیز اس کے وقف میں روک نہیں تو اس کا مطالبہ پورا کر دیا جائے گا اور اگر کوئی ایسی بات کہے گا، جو اس کے وقف کے خلاف ہوگی تو اسے مجرم سمجھا جائے گا.بہر حال کسی واقف زندگی کے باپ یا ماں یا بھائی یا بہن یا بیوی یا بچے کا کوئی حق نہیں کہ وہ وقف کے متعلق ہم سے کوئی بات کرے.اگر کوئی ایسا رقعہ لکھے گا تو ہم اسے پھاڑ دیں گے اور اگر وہ کوئی بات کرے گا تو ہم اسے سننے کے لئے قطعا تیار نہیں ہوں گے.ہاں اگر کوئی باپ اپنے بچے کی شادی کے متعلق کوئی بات کہنا چاہتا ہے تو گو اس صورت میں بھی سلسلہ ہی اس کا باپ ہے اور سلسلہ ہی اس کی ماں ،مگر چونکہ جسمانی رشتہ ٹوٹ نہیں سکتا، اس لئے ایسے امور ، جو وقف سے تعلق نہیں رکھتے ، ان کے متعلق ہم ان کی بات سن بھی سکتے ہیں.مثلاً وہ کہہ سکتا ہے کہ لڑکا جوان ہے، اس کی شادی کا انتظام کیا جائے.لیکن اگر وہ کوئی ایسی بات کہے گا، جو وقف سے تعلق رکھتی ہوگی.مثلاً وہ یہ لکھے گا کہ اسے فلاں جگہ مقرر کیا جائے یا اس کی تعلیم کے متعلق کوئی بات لکھے گایا اس کے کام کے متعلق کوئی بات لکھے گا یا جس ملک میں تبلیغ کے لئے اسے بھجوانے کا ارادہ ہو، اس کے متعلق وہ کوئی بات لکھے گایا اس کے گزارہ کے متعلق کوئی بات لکھے گا تو ہمارا ایک ہی جواب ہوگا کہ ہم اس کے رقعہ کو پھاڑ کر پھینک دیں گے.چاہے اس کے نزدیک اس رقعہ میں کتنی ہی اہم باتیں کیوں نہ لکھی ہوں؟ کیونکہ ہم یہ سمجھتے ہی نہیں کہ ان معاملات میں وہ باپ رہ گیا ہے یا ماں رہ گئی ہے یا بھائی رہ گیا ہے یا بہن رہ گئی ہے.ان کا باپ بھی سلسلہ ہے، ان کی ماں بھی سلسلہ ہے ، ان کی بہن بھی سلسلہ ہے اور ان کا بھائی بھی سلسلہ ہے.بلکہ اگر ان کے لڑکے کو یہ پتہ لگ جائے کہ میری ماں یا میرا باپ میرے کام کے متعلق یا ان ذمہ داریوں کے متعلق ، جو تحریک جدید کی طرف سے مجھ پر عائد کی گئی ہیں، کوئی رقعہ لکھنے والے ہیں تو ایسی صورت میں اگر وہ لڑکا اپنے باپ یا اپنی ماں پر ناراضگی کا اظہار نہ کرے 377
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 26 مئی 1944ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم تو ہم اس کے متعلق بھی یہی سمجھیں گے کہ وہ اپنے وقف میں ثابت قدم نہیں.اسے صاف طور پر کہہ دینا چاہیے کہ تم میرے ماں باپ نہیں ہو.جب تم نے مجھے وقف کر دیا، جب تم نے مجھے سلسلہ کے سپر د کر دیا تو اب صرف میری شخصیت کا سوال رہ سکتا ہے.ورنہ جہاں تک کام کا تعلق ہے، جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے، جہاں تک تقرر کا تعلق ہے، میرا باپ بھی سلسلہ ہے ، میری ماں بھی سلسلہ ہے، میری بہن بھی سلسلہ ہے، اور میرا بھائی بھی سلسلہ ہے“.پس میں جماعت کے دوستوں کو ایک بار پھر ہوشیار کر دیتا ہوں کہ وہ وقف کی حقیقت سمجھیں.ممکن ہے وہ کہہ دیں کہ ایسی باتوں کا نتیجہ یہ ہو گا کہ لوگ قربانی کے لئے آگے نہیں آئیں گے.مگر میں کہتا ہوں ، وہ لوگ جو اپنی ذمہ داریوں کو نہیں سمجھتے ، وہ لوگ جو وقف کی حقیقت سے غافل ہیں، وہ لوگ جو نام پیش کرتے وقت تو سب سے آگے آجاتے ہیں مگر جب قربانیوں کے لئے بلایا جاتا ہے تو ان کا قدم پیچھے ہٹ جاتا ہے، ایسے لوگوں کی مجھے قطعا ضرورت نہیں.وہ ایک شکست خوردہ اور ماری ہوئی قوم ہیں.مجھے ایسے لوگوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.اگر جماعت میں ایسے ہی لوگ ہیں، جو اپنے نام پیش کرنے کے لئے تو تیار ہو جاتے ہیں لیکن اگر سلسلہ ان سے کام لیتا ہے یا سلسلہ ان کو ڈانٹتا ہے تو وہ اپنے قدم پیچھے ہٹا لیتے ہیں تو میں ایسے لوگوں سے کہتا ہوں تمھیں سات سلام ، تم مردہ ہو تم کسی کام کے اہل نہیں تم اپنے گھر بیٹھو، میں اپنے گھر خوش ہوں.وہی جماعتیں دنیا میں کام کرسکتی ہیں، جو اپنی ذمہ داریوں کو بجھتی ہیں اور اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی وجہ سے وہ جان دینے کے لئے بھی تیار رہتی ہیں.(مطبوعہ الفضل 31 مئی 1944 ء ) 378
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 21 جولائی 1944ء وقف جائیداد والی سکیم تو آخری سہارا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 21 جولائی 1944ء حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے ہندوستان کے سات مقامات پشاور، کراچی، مدراس ، بمبئی، کلکتہ، دہلی اور لاہور میں مساجد اور جماعتی تبلیغی مراکز کے قیام کی اہمیت و ضرورت بیان کرنے کے بعد فرمایا: "" اس وقت میں کوئی چندہ کی تحریک نہیں کر رہا.میں یہ اعلان صرف اس لئے کر رہا ہوں تا کہ جماعت آمادہ رہے کہ آئندہ ہمارے پروگرام میں سات ایسے مقامات ہیں، جہاں پر ہمارا مرکز ہونا نہایت ضروری ہے.پس جماعت کو تیار کرنے کے لئے میں یہ اعلان کر رہا ہوں تا کہ وقت پر اس کام کے لئے احباب پورا پورا حصہ لے سکیں.میں نے وقف جائیداد کی تحریک کی تھی اور اس وقت تک اندازہ ہے کہ ایک کروڑ یا اس سے زیادہ کی جائیداد میں وقف ہو چکی ہیں.پس اگر اس تحریک میں کچھ کمی رہ جائے گی تو وقف کی تحریک سے پوری ہو سکتی ہے.مثلاً اگر تین چار لاکھ روپیہ چندہ جمع ہو جائے تو باقی تین لاکھ رہ جاتا ہے، جو اگر وقف جائیداد سے پورا کر لیا جائے تو واقفین کو صرف تین فیصدی اپنی جائیداد کا دینا پڑے گا، جو کچھ زیادہ نہیں.لیکن جیسا کہ میں نے اعلان کیا ہوا ہے، وقف جائیداد والی سکیم تو آخری سہارا ہے.جس طرح فوج اپنے لئے ایک آخری خندق بناتی ہے کہ اگر فلاں جگہ سے پیچھے ہٹنا پڑا اور فلاں جگہ سے بھی پیچھے ہٹنا پڑا تو اس آخری خندق کو استعمال کریں گے.اسی طرح وقف جائیداد میں سے اس کمی کو پورا کرنا بھی آخری خندق ہے.جو اسی وقت استعمال ہو سکتی ہے، جب کوئی اور صورت نہ ہو.اس لئے پہلی کوشش یہی ہوگی کہ طوعی تحریک کے ذریعہ سے اس رقم کو پورا کیا جائے.میں سمجھتا ہوں جس قسم کی بیداری ہماری جماعت کے قلوب میں پیدا ہورہی ہے، اس کے سامنے یہ کوئی بڑی بات نہیں.خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فرمایا تھا:.ینصرک رجال نوحى اليهم من السماء.کہ تیری مدد ایسی جماعت کرے گی، جس پر ہم آسمان سے وحی نازل کریں گے.379
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 21 جولائی 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ جماعت کے اندر، جو مالی قربانی کا مادہ پیدا ہورہا ہے، یہ اس الہی وحی کا نتیجہ ہے ، جو آسمان سے خدا تعالیٰ ان کے دلوں پر نازل کر رہا ہے.کوئی تحریک ہو، وہ خدا کے فضل سے بہت کامیاب ہو جاتی ہے.خصوصاً ان دو تین سالوں میں جماعت نے اس نصرت الہی کا بہت اچھا نمونہ دکھایا ہے.اس سال تین لاکھ سے اوپر تحریک جدید کا چندہ ہوا اور ڈیڑھ لاکھ کے قریب کالج کا چندہ ہوا اور دوسرے طوعی چندے ملا کر چھ سات لاکھ کے قریب بن جاتا ہے.جن میں سے چار پانچ لاکھ وصول ہو چکا ہے.یہ ایسی قربانی ہے کہ دو تین سال میں بھی جماعت نے اتنی قربانی نہیں کی جتنی کہ اس سال کی ہے.پس اس کام کے لئے پہلے طومی تحریک کے ذریعہ چندہ کیا جائے گا اور اگر یہ رقم پوری نہ ہوئی تو پھر وقف جائیداد والی چیز تو بہر حال ہمارے پاس موجود ہی ہے.لیکن میر انشایہ نہیں کہ ابھی سے اس سکیم کو شروع کر دیا جائے کیونکہ اگر یک دم شروع کر دیا جائے تو ہمارے پاس اتنے مبلغ کہاں سے آئیں گے؟ ابھی تو ان کے تیار ہونے میں بھی تین چار سال لگ جائیں گے.( مطبوعه الفضل 04 اگست 1944ء) 380
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبه جمعه فرموده 04) اگست 1944ء یہ زمانہ ٹھہرنے کا نہیں بلکہ دوڑنے اور کام کرنے کا ہے به جمعه فرمود ه 04 اگست 1944ء خطبه سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.چند ماہ کا عرصہ ہوا، مجھے ایک الہام ہوا تھا ، جس کو میں نے ایک خطبہ میں بیان بھی کیا تھا کہ وو روز جزا قریب ہے اور رہ بعید ہے 66 اس وقت میں نے اس کا جو مطلب سمجھا تھا، وہ یہ تھا کہ اسلامی فتوحات کا زمانہ قریب ہے لیکن ابھی ہماری تیاری مکمل نہیں اور جو راستہ ہم نے طے کرنا ہے، وہ ابھی بہت دور ہے.اس الہام کے بیان کرنے کے بعد، جو حالات ظاہر ہوئے ہیں، ان سے میرا خیال اس طرف جاتا ہے کہ ان معنوں کے علاوہ جو میں پہلے بیان کر چکا ہوں، اس الہام کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ موجودہ جنگ عظیم کا خاتمہ شاید قریب ہے اور ہماری جماعت کو تبلیغ کے لئے ابھی بہت بڑی تیاری کی ضرورت ہے.میں دیکھتا ہوں، اس عرصہ میں اتحادیوں کو اس طرح متواتر فتوحات نصیب ہوئی ہیں اور محور یوں کو اس طرح متواتر شکستیں ہوتی جارہی ہیں کہ جن کو دیکھ کر بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنگ کچھ دنوں میں ختم ہونے والی ہے.آج سے وہ تین سال پہلے جبکہ جنگ کا پہلو انگریزوں کے خلاف تھا، اسی وقت میں نے اس بات کا اظہار کیا تھا اور بتایا تھا کہ میری رائے میں جنگ 1944ء کے آخر یا 1945ء کے شروع میں ختم ہو جائے گی.میں نے جو یہ بات کہی تھی ، اس کی بنیاد کسی الہام پر نہیں تھی بلکہ اس بات پر تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات اور میرے الہامات اور جماعت کے بعض اور لوگوں کے الہامات سے معلوم ہوتا تھا کہ تحریک جدید کا اجر اخاص الہبی تصرف کے ماتحت ہوا ہے.چونکہ تحریک جدید کے پہلے دور کی میعاد 4 4ء کے آخر میں ختم ہو جاتی ہے، اس لئے میرا خیال تھا کہ اس خدائی فعل کا خاتمہ ضرور کسی اہم مقصد کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.اور جس وقت میں نے تحریک جدید شروع کی تھی ، اس وقت میں نے بتایا تھا کہ چونکہ حکومت کے بعض افسروں نے ہم پر ظلم کئے ہیں، اس لئے ان کو ضرور اس ظلم کی سزا ملے گی اور میں نے بیان کیا تھا کہ 381
خطبه جمعه فرموده 04 اگست 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم ہمارے پاس تو ایسے سامان نہیں کہ ہم ان کو سزا دے سکیں لیکن خدا کے پاس ہر قسم کے سامان ہیں.وہ ضرور ان کو ان کے ظلم کی سزادے گا.یہ بات میرے4 3 ء اور اس کے بعد کے خطبات میں موجود ہے.جس کے ماتحت انگریزوں کا جنگ میں حصہ لینا مقدر تھا.میں نے قبل از وقت کہہ دیا تھا کہ گو آخر میں فتح انگریزوں کے لئے مقدر ہے مگر حکومت کی طرف سے ہمارے ساتھ انصاف کرنے میں جو کوتاہیاں ہوئی ہیں ، ان کی سزا ان کو ضرور ملے گی.چنانچہ جنگ میں بے شک ان کی فتح تو ہو جائے گی لیکن ان کے لاکھوں آدمی مارے گئے ہیں اور کروڑوں کروڑ روپیہ خرچ ہو گیا ہے.پس انگریزوں کو فتح کو حاصل ہو جائے گی مگر مالی لحاظ سے وہ کچلے جائیں گے اور ان کے لئے جنگ کے بعد سر اٹھا نا مشکل ہو گا.دراصل جنگ کے بعد مالی لحاظ سے انگریز امریکنوں کے ہاتھ میں ہیں اور ان کی حالت اقتصادی طور پر جنگ کے بعد کے چند سالوں تک امریکہ کے مقابل ایک ماتحت کی سی رہ جائے گی.یعنی اگر امریکن ان پر کوئی دباؤ ڈالنا چاہیں تو انگریز انکار نہیں کر سکیں گے.اس کے مقابلہ میں جہاں تک فوجی طاقت کا سوال ہے، یہ طاقت روس کی بہت بڑھ گئی ہے.روس نے فوجی لحاظ سے اتنی عظیم الشان طاقت پیدا کر لی ہے کہ جنگ کے بعد جہاں امریکہ مالی لحاظ سے سب سے آگے نکل جائے گا، وہاں فوجی طاقت کے لحاظ سے روس بہت آگے نکل جائے گا.بہر حال تحریک جدید کا اجراء، جن اغراض کے ماتحت الہی تصرف سے ہوا تھا، ان کی وجہ سے ہے میں سمجھتا تھا کہ تحریک جدید کا پہلا دور جب ختم ہوگا تو خدا تعالیٰ ایسے سامان بہم پہنچائے گا کہ تحریک جدید کی اغراض کو پورا کرنے میں جو روکیں اور موانع ہیں، خدا تعالیٰ ان کو دور کر دے گا اور تبلیغ کو وسیع کرنے کے سامان بہم پہنچا دے گا.اور چونکہ تبلیغ کے لئے یہ سامان بغیر جنگ کے خاتمہ کے میسر نہیں آسکتے ، اس لئے میں سمجھتا تھا کہ 44ء کے آخری43ء کے شروع تک یہ جنگ ختم ہو جائے گی اور ہمیں تبلیغ کے لئے آسانی سے سامان میسر آسکیں گے.چنانچہ اب اس قسم کے آثار پیدا ہور ہے ہیں.مستقبل کے متعلق یقینی طور پر تو نہیں کہا جا سکتا لیکن ” ہو نہار بروا کے چکنے چکنے پات.آثار سے پتہ لگتا ہے کہ میرا وہ خیال درست تھا.اب ایسے تغیرات پیدا ہور ہے ہیں کہ جنگ اس سال کے آخر یا اگلے سال کی پہلی ششماہی میں ختم ہو جائے گی.چنانچہ آج انگلستان کے وزیر اعظم کی اخبارات میں تقریر شائع ہوئی ہے کہ عنقریب ہم جرمنی کو شکست دیں گے، جس کے بعد جاپان بھی ہتھیار ڈال دے گا.اس کے ساتھ ہی انگلستان کے وزیر خارجہ نے پارلیمنٹ کے اجلاس کو ختم کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کا موجودہ اجلاس ختم ہوتا ہے، اب 20 ستمبر کو پارلیمنٹ کھلے گی.اگر اس عرصہ میں دشمن نے ہتھیار ڈال دیئے تو 20 ستمبر سے پہلے ہی پارلیمنٹ کا اجلاس بلا لیا جائے 382
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبه جمعه فرموده 04 اگست 1944ء گا.اس اعلان سے معلوم ہوتا ہے کہ گورنمنٹ کو امید ہے کہ شاید دشمن 20 ستمبر سے پہلے ہی ہتھیار ڈال | دے گا.یہ حالات بتا رہے ہیں کہ جنگ اس سال کے آخری 5 4ء کے شروع میں ختم ہو جائے گی.جنگ کے ختم ہو جانے کے معابعد تبلیغ کے لئے تمام سہولتیں میسر نہیں آسکتیں.مگر بہت سی تنگیاں ضرور دور ہو جائیں گی.اگر پہلے گورنمنٹ پاسپورٹ دینے میں بخل سے کام لیتی تھی تو جنگ کے بعد بخل تو کرے گی، مگر اتنا نہیں.پہلے اگر دس ہیں آدمیوں کو پاسپورٹ ملتا تھا تو پھر پچاس ساٹھ آدمیوں کو ملنے لگ جائے گا.غرض کچھ نہ کچھ سہولتیں جنگ کے خاتمہ پر ضرور میسر آجائیں گی.اور جنگ کے خاتمہ کے بعد ایک سال کے اندراندر تو انشاء اللہ حالات بالکل پلٹا کھا جائیں گے.فوجوں کے اپنے اپنے ملکوں میں واپس چلے جانے کے سبب بہت سے جہاز فارغ ہو جائیں گے، جنگی سامان بھی ادھر ادھر لے جانے کی ضرورت نہیں رہے گی ، سپاہی واپس آجائیں گے، چھ سات ماہ یا آٹھ نو ماہ تک تو جہازوں پر سے جنگ کا بوجھ بالکل اٹھ جائے گا اور کثرت سے جہاز فارغ ہو جانے کی وجہ سے پھر جہازران کمپنیوں کا آپس میں مقابلہ شروع ہو جائے گا.جب مقابلہ ہو گا تو جہاز سواریوں کے محتاج ہوں گے اور جب سواریوں کے محتاج ہوں گے تو لا زما زیادہ جگہ ملے گی.گورنمنٹ تجارت کو فروغ دینے کے لئے جہازی انتظام کو ترقی دیتی ہے.جب جہازی انتظام وسیع ہوگا اور اس میں ترقی ہوگی تو لازما پاسپورٹوں کے حاصل کرنے میں زیادہ سہولتیں دی کو جائیں گی کیونکہ اگر پاسپورٹ زیادہ نہیں ملیں گے تو سواریاں کم ہوں گی اور اگر سواریاں کم ہوں گی تو جہازی کمپنیوں کی مالی حالت کمزور ہو جائے گی اور اگر جہازی کمپنیوں کی مالی حالت کمزور ہوگی تو ملک کی تجارت بھی لازما کمزور ہو جائے گی.اس لئے لازما گورنمنٹ جہازوں کے انتظام کو ترقی دینے کے لئے زیادہ پاسپورٹ دے گی تاکہ جہازی کمپنیوں کے کام میں ترقی ہو.پس جہاز رانی کی ترقی کے ساتھ جب سفر میں سہولت ہو جائے گی ، جب گورنمنٹ جہاز رانی کی ترقی اور تجارت کو فروغ دینے کے لئے زیادہ پاسپورٹ دے گی تو ہم آسانی سے جہاں چاہیں گے، مبلغ بھیج سکیں گے.تحریک جدید کے واقفین کو تین تین، چار چار سال پڑھائی کرتے ہو گئے ہیں.مگر ابھی بہت فاصلہ باقی ہے، جس کو انہوں نے طے کرنا ہے.واقفین کے اس گروپ کی پڑھائی کی تکمیل کا اندازہ ایک سال کا ہے.یہ ایک سال بھی دنیاوی علوم کے لئے ہے، اس کے بعد علم کلام ، بائبل اور غیر مذاہب کے لٹریچر کے مطالعہ اور سلسلہ کے لٹریچر کے مطالعہ پر بھی کچھ عرصہ لگے گا.گویا قریب ترین میعاد دو سال کی اگر واقفین دیانتداری اور محنت سے تعلیم حاصل کریں تو دو سال میں وہ تیار ہوں گے اور جنگ کے خاتمہ 383
خطبہ جمعہ فرمود :04 اگست 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک......جلد دوم پر جوتغیرات پیدا ہوں گے، ان سے ہم پورے طور پر فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے.اس وجہ سے میں نے واقفین تحریک جدید پر زور ڈالا تھا کہ وہ اپنی تعلیم کو جلدی مکمل کریں.مگر افسوس ہے کہ جتنی پڑھائی انہوں نے اس عرصہ میں کی ہے، میرے نزدیک اگر دیانت داری اور محنت سے کام لیا جاتا تو اس سے آدھے وقت میں اتنی پڑھائی ہو سکتی تھی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ باری باری ایک سیڑھی سے دوسری سیڑھی پر اور دوسری سے تیسری سیڑھی پر چڑھا جاتا ہے.ممکن ہے، واقفین کا دوسرا پیچ ، پہلے پیج کی پڑھائی کے تجربہ سے فائدہ اٹھاتا ہوا زیادہ سہولت کے ساتھ اور زیادہ تفصیلی علم حاصل کرے مگر اس سے پہلے پیج کی قدرضرور کم ہو جائے گی.پس میں واقفین کو توجہ دلاتا ہوں کہ اگر انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو نہ سمجھا اور محنت سے کام نہ لیا تو ان کے لئے پہلی صف میں لڑنے کا موقعہ کھویا جائے گا.جتنی جلدی پڑھائی مکمل کریں گے، اتنی ہی جلدی ان کو بطور مبل باہر بھیجا جا سکے گا.اور جتنی وہ پڑھائی میں دیر کریں گے، اتنا ہی ان کو باہر بھیجنے میں دیر لگے گی یا اگر جلدی بھیج دیا گیا تو وہ مبلغ بے تیاری کے باہر جائے گا.نتیجہ یہ ہو گا کہ ان کے بعد میں آنے والا گروہ کامل علم والا ہو گا اور آخر عمر تک فوقیت رکھنے والا ہو گا.کیونکہ پہلے گروہ میں سے جب کسی کو ایک جگہ تبلیغ کا انچارج مقرر کر دیا جائے گا تو پھر اس سے یہ امید رکھنا مشکل ہے کہ وہ اپنی پڑھائی مکمل کر سکے گا.لیکن دوسرا گروہ زیادہ علم حاصل کر لے گا اور لازمی بات ہے کہ جو علم میں بڑھ کر ہو گا ، اس کو پہلی صف میں کام کرنے کا موقع زیادہ ملے گا اور یہ پہلا گر وہ پہلی صف کی جگہ دوسری صف میں کھڑا ہونے پر مجبور ہوگا.پس ایک تو میں واقفین کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ زیادہ محنت اور دیانت داری سے پڑھائی کریں.دوسرے میں جماعت کو تحریک کرتا ہوں کہ واقفین کی تحریک کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنایا جائے.اس وقت تک جتنے آدمیوں نے اپنے آپ کو وقف کے لیے پیش کیا ہے، ان میں سے کئی ایسے ہیں، جو سوتے ہوئے اپنے آپ کو وقف کے لیے پیش کر دیتے ہیں اور ان کو علم نہیں ہوتا کہ وقف کیا چیز ہے؟ اس کے بعد کون کون سی ذمہ داریاں ہم پر عائد ہوتی ہیں؟ کئی ایسے ہیں کہ جو اپنے آپ کو وقف کے لیے پیش کرتے ہیں مگر جب ان کو بلایا جاتا ہے تو پھر آتے نہیں.کئی ایسے ہیں ، جنہوں نے اپنے آپ کو اخلاص سے وقف کے لیے پیش کیا لیکن در حقیقت ان کی قربانی وقت کے لحاظ سے مفید نہیں کیونکہ ان میں سے یا تو اچھے اچھے پیشوں پر لگے ہوئے ہیں یا اچھی اچھی کمائیاں کر رہے ہیں.مثلاً بعض وکیل ہیں، بعض ڈاکٹر ہیں، بعض اور اچھے اچھے کاموں پر لگے ہوئے ہیں اور ان کی عمر کا کافی حصہ گزر چکا ہے.اس قسم کے لوگ اگر پنشن لے کر اور اپنے کام سے فارغ ہو کر مرکز میں آکر کام کریں تو سلسلہ کے لیے مفید ہو سکتے ہیں لیکن اگر ان کو ولایت اور و 384
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم خطبه جمعه فرموده 04 اگست 1944ء امریکہ، باہر کسی جگہ پر تبلیغ کے لیے بھیج دیا جائے تو وہ مفید نہیں ہو سکتے.کیونکہ اول تو ان کی عمر کا وہ حصہ گزر چکا ہے، جس میں ان کو مبلغ بننے کے لیے ٹرینڈ کیا جائے اور دوسرے وہ خود اور ان کے بیوی بچے پانچ پانچ یا چھ چھ سو یا ہزار روپے میں گزارہ کرنے کے عادی ہو چکے ہیں.اب اگر ان کو میں چھپیں روپے دیئے جائیں تو اس میں وہ گزارہ نہیں کر سکتے.یہ ایسی چیز ہے کہ ہم ڈرتے ہیں کہ ایسے موقعہ پر اپنے آپ کو وقف کرنے والے لوگ کہیں اپنا پہلا ایمان بھی کھو نہ بیٹھیں ؟ اگر اس قسم کے واقفین کو نکال دیا جائے تو باقی واقفین کی تعداد سو ڈیڑھ سورہ جاتی ہے.باقی یا تو وہ ہیں، جنہوں نے اپنے آپ کو بغیر سوچے سمجھے پیش کر دیا ہے اور ان ا.کو وقف کی حقیقت کا بالکل علم نہیں.اس قسم کے واقفین میں سے ایک شخص کی چٹھی آئی کہ میں اپنے آپ کو وقف کرتا ہوں مگر یہ بتائیے کہ تنخواہ کیا ملے گی؟ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ ایک لڑائی کے موقعہ پر انگریزوں نے کشمیر کے راجہ سے کہا کہ تم بھی ہماری مدد کے لئے فوج بھیجو.چنانچہ راجہ نے افسروں کو حکم دیا کہ فوج تیار کرو.افسروں نے فوج سے جا کر کہا کہ تم سرکار کا نمک کھاتے رہے ہو، اب لڑائی کا موقعہ ملا ہے، تمہارا فرض ہے کہ حق نمک ادا کرو.تمہیں انعام ملیں گے اور عزت بھی بڑھ جائے گی.اس کے بعد پھر افسروں نے راجہ سے درخواست کی کہ ہم ایک ضروری بات عرض کرنا چاہتے ہیں.راجہ نے اجازت دی اور ان کشمیری فوجی افسروں نے آکر عرض کیا کہ حضور فوج تیار ہے اور فوج کے سب لوگ خوش ہیں کہ انہیں لڑنے کا موقعہ ملا ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ پٹھانوں سے لڑائی ہے اور وہ بہت سخت ہوتے ہیں، اس لئے ہمارے ساتھ مضبوط پہرہ کا انتظام کیا جائے.اسی طرح ان واقفین کا حال ہے کہ بار بار خطبے سنتے اور پڑھتے ہیں، وقف کی شرائط اور فارم چھپے ہوئے ہیں، ان میں لکھا ہوا ہے کہ وقف کرنے والا یہ عہد کرے کہ میں بغیر کسی معاوضہ کے دین کا کام کروں گا.اگر سلسلہ کی طرف سے مجھے کچھ دیا جائے گا تو میں اس کو خدا کا احسان سمجھوں گا لیکن بعض واقف ایسے ہیں کہ اپنے آپ کو وقف کے لیے پیش تو کرتے ہیں لیکن جب ان کو بلایا جائے تو کہتے ہیں یہ بتائیے تنخواہ کیا ملے گی؟ معلوم ہوتا ہے ایسے لوگ کانوں میں روئی ٹھونس کر خطبہ سنتے ہیں اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر شرائط پڑھتے ہیں.اس قسم کے لوگوں سے دین کی خدمت کی کیا امید ہوسکتی ہے؟ ایسا انسان سوتا ہی پیدا ہوتا ہے، سوتا ہی زندگی بسر کرتا ہے اور سوتا ہی مرجاتا ہے اور سلسلہ کو اس سے کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.وہ سمجھتا.شاید صرف نام پیش کر دینے سے ہی عزت مل جائے گی.حالانکہ نام پیش کر کے پیچھے ہٹ جانا ، خدا تعالیٰ کے عذاب کو بلانے کا موجب ہے.تا ہے 385
خطبه جمعه فرموده 04 اگست 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم پس واقفین میں سے ایک طبقہ تو اس قسم کا ہے کہ اس کو وقف کی حقیقت کا علم نہیں.دوسرا طبقہ اس کا قسم کا ہے کہ انہوں نے اخلاص سے اپنے نام پیش کیے ہیں لیکن ان کے حالات ایسے نہیں کہ ان کا وقف مفید ہو سکے کیونکہ یا تو وہ مفید کاموں پر لگے ہوئے ہیں یا ان کا اس جگہ سے ہٹانا ، ان کے لیے اور ان کے خاندان کے لیے ٹھوکر کا موجب ہو گا.اور طاقت اور قوت اور عمر کے لحاظ سے ان کو کام سپر د کرنا، ایسا ہی ہے، جیسے لنگڑے آدمی کو دوڑنے کے لیے کہا جائے.اس دوڑ میں تو ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے، جن کی دونوں ٹانگیں سلامت ہوں.اگر ہم ایسے آدمی کو دوڑنے کا حکم دیں، جس کی دونوں ٹانگیں ماری ہوئی ہوں یا ایک ٹانگ ماری ہوئی ہو، یہ چیز ہماری کم عقلی پر دلالت کرے گی کہ ہم نے صحیح انتخاب نہیں کیا.پس اگر اس قسم کے آدمیوں کو نکال دیا جائے تو چار پانچ سو میں سے صرف چالیس پچاس یا ساٹھ ستر واقفین ایسے رہ جاتے ہیں، جو تمام شرائط کے مطابق اتریں گے.لیکن جو کام ہمارے سامنے ہے، اس کے لیے سینکڑوں بلکہ ہزاروں آدمیوں کی ضرورت ہے.پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وقف کے لیے ایسے نوجوانوں کو تیار کریں کہ ایک تو ان کی عمر تمہیں سال سے کم ہو اور دوسرے جسم کے لحاظ سے ایسے مضبوط ہوں کہ علم حاصل کر سکتے ہوں.تیسرے یہ کہ عربی یا انگریزی کے گریجوایٹ ہوں تا ان کو جلدی ٹریننگ دے کر تیار کیا جاسکے.ہم نے اس سال انٹرنس پاس بھی لیے ہیں اور مدرسہ احمدیہ کے ساتویں پاس بھی لیے ہیں، کیونکہ فوری ضرورت ہے.اب کیونکہ تہیں چالیس نو جوان پڑھائی کرنے والے ہو گئے ہیں، اس لیے آئندہ وقف کے لیے شرط یہ ہے کہ یا عربی کا گریجوایٹ ہو ( ہمارے نقطہ نگاہ سے عربی گریجوایٹ سے مراد مولوی فاضل نہیں.مولوی فاضل کو ہم نے اس سال سے اڑا دیا ہے بلکہ گریجوایٹ سے اپنی یونیورسٹی کا گریجوایٹ مراد ہے یعنی جو جامعہ کی چار جماعتیں پاس ہو یا پھر پنجاب یونیورسٹی کا گریجوایٹ ہو.ہاں اگر کوئی ایسا طالب علم اپنا نام پیش کرے، جو بھی تعلیم حاصل کر رہا ہے تو تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس کو بھی لے لیا جائے گا.لیکن اس کا فرض ہوگا کہ وہ اپنے طور پر تعلیم مکمل کرے اور تعلیم کا خرچ خود برداشت کرے.سلسلہ اس کی تعلیم کا بوجھ نہیں اٹھائے گا کیونکہ اگر اس طرح اس پر روپیہ خرچ ہوتا رہے تو آئندہ تبلیغ کے رستہ پر چلنا مشکل ہو جائے گا.تیسرے میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ تحریک جدید کے پہلے دور کی قربانی ابھی ابتدائی قربانی ہے، جس میں زیادتی کی گنجائش ہے.تحریک جدید کے دوسرے دور کا اعلان تو میں انشاء اللہ نومبر میں کروں گا.جس میں دوسرے دور کے قواعد وغیرہ بیان کروں گا.اس وقت میں جماعت کے کارکنوں اور 386
خطبہ جمعہ فرمود 040 اگست 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم تحریک جدید کے سیکرٹریوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جماعت کو دوسرے دور میں حصہ لینے کے لیے آمادہ کریں.جنہوں نے پہلے دور میں حصہ نہیں لیا، وہ دوسرے دور میں حصہ لینے کے لیے تیار ہو جا ئیں اور جنہوں نے پہلے دور میں حصہ لیا ہے، وہ دوسرے دور میں پہلے سے بھی بڑھ کر حصہ لیں تاکہ تحریک جدید کے دوسرے دور میں پہلے دور سے زیادہ ریز روفنڈ قائم ہو جائے.جو تبلیغ کو وسیع کرنے میں ممد ہو.ابھی جماعت میں اس تحریک کا بہت موقعہ اور گنجائش ہے.ہماری لاکھوں کی جماعت ہے مگر صرف پانچ ہزار آدمی ہیں، جنہوں نے تحریک جدید کے پہلے دور میں حصہ لیا ہے.اگر اس تحریک کو زیادہ وسیع کیا جائے تو دو تین لاکھ آدمی حصہ لے سکتے ہیں.اگر اس تعداد میں سے آدھے بچے نکال دیئے جائیں تو ڈیڑھ لاکھ اور اگر عورتوں کو بھی نکال دیں تو پچھتر ہزار آدمی تحریک میں حصہ لینے والے ہونے چاہیں.جن میں سے پہلے دور میں صرف پانچ ہزار نے حصہ لیا ہے اور ستر ہزار باقی ہیں.اگر تحریک جدید کا محکمہ مضبوط خط و کتابت کرے اور جماعت کے لوگ بھی کوشش کریں تو دوسرے دور میں پہلے دور سے بھی زیادہ ریز روفنڈ قائم ہوسکتا ہے.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ یہ زمانہ ٹھہر نے کا نہیں بلکہ دوڑنے اور کام کرنے کا زمانہ ہے.دشمن جتنا آگے دوڑتا جارہا ہے، اس کو پکڑنے کے لئے اس سے زیادہ رفتار کے ساتھ ہم کو اس کے پیچھے بھاگنا چاہیے.جو آگے دوڑنے والے سے کم دوڑتا ہے یا اس کے برابر دوڑتا ہے، وہ آگے دوڑنے والے کو بھی نہیں پکڑ سکتا.وہی پکڑے گا، جو آگے دوڑنے والے سے زیادہ تیز رفتار ہو.پس جب تک ہم یورپ کے لوگوں سے زیادہ تیز رفتاری اختیار نہیں کرتے ، جب تک ہم یورپ کے لوگوں سے زیادہ قربانیاں نہیں کرتے ، جب تک ہم یورپ کے لوگوں سے زیادہ محنت نہیں کرتے ، جب تک ہم یورپ کے لوگوں سے زیادہ سلسلہ کے کاموں پر وقت خرچ نہیں کرتے ، اس وقت تک یہ امید رکھنا غلطی ہے کہ دین کی فتح کا کام ہمارے ہاتھوں سے ہوگا اور خدا تعالیٰ ہماری جگہ کسی اور کو کھڑا نہیں کرے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جس وقت اپنی طرف سے پوری کوشش اور طاقت خرچ کر دی جائے تو بقیہ کی خدا اپنے پاس سے پوری کر دیتا ہے.لیکن جب تک مومن کا فر سے زیادہ محنت نہیں کرتا ، جب تک مومن کا فر سے زیادہ قربانی نہیں کرتا، جب تک مومن کا فر سے زیادہ تیز رفتار نہیں ہوتا، جب تک مومن کا فر سے زیادہ اپنا وقت دین کے کاموں پر خرچ نہیں کرتا، اس وقت تک یہ امید رکھنا کہ خدا تعالیٰ اپنے فضل سے کمی کو پورا کر دے گا، یہ خدا تعالیٰ سے تمسخر ہے اور یا درکھو! بادشاہوں سے تمسخر بھی اچھے پھل نہیں لایا کرتا.( مطبوعه الفضل 29 اگست1944ء) 387
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم "2 حقیقی قربانی اقتباس از خطبه عید الفطر فرمودہ 19 ستمبر 1944ء خطبہ عید الفطر فرمودہ 19 ستمبر 1944ء اپنے علم کو اپنے مالوں کو اور اپنے اوقات کو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو.اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ سو آدمی اپنے گلوں پر بنجر پھیر لیں تو اس سے اسلام کو طاقت حاصل ہو جائے گی تو یہ ایک پاگل پن کی بات ہے اور بے دینی ہے.دین کے لئے قربانی کے یہ معنی نہیں کہ اپنے گلے کاٹ لئے جائیں.بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دین کے لئے موت کی جورا ہیں اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے تجویز کی ہیں، اسے اختیار کیا جائے اور ان راہوں میں سے ایک یہ ہے کہ اپنے اموال دین کے لئے خرچ کئے ا جائیں.مگر دیکھ لو، ابھی جماعت میں کتنے لوگ ہیں، جو اس راہ میں کوتاہی کرتے ہیں اور بہانے بنا کر پیچھے ہنا چاہتے ہیں؟ اس زمانہ میں اگر کوئی شخص مالی قربانی کرنے سے گریز کرتا ہے تو اس کا خنجر سے اپنا گلا کاٹ لینا اسلام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا.اسی طرح ایک اور راہ قربانی کی تبلیغ ہے.ایک انسان اپنے آپ کو ہمہ تن تبلیغ میں لگا کر بھی دین کے لئے موت قبول کر سکتا ہے.دن میں یا رات میں اپنی ڈیوٹی سے تھکا ہوا جب فارغ ہو کر آتا ہے تو اسے خدا تعالی کا حکم ملتا ہے کہ دین اسلام بے کس ہے ، مشکلات میں ہے ، اس لئے تبلیغ کرو.اگر تو وہ کہتا ہے کہ میں تو اب تھکا ہوا آیا ہوں، اس وقت مجھے اپنے بیوی بچوں میں گزارنا لازمی ہے، مجھے آرام بھی کرنا چاہئے اور اس واسطے وہ تبلیغ نہیں کرتا تو اس کے معانی یہ ہیں کہ وہ جان کی قربانی کرنے سے گریز کرتا ہے.مثلاً غیر ممالک میں تبلیغ کرنے کے لئے نوجوانوں کی ضرورت ہے اور مطالبہ کیا جاتا ہے کہ نوجوان آگے آئیں تو اگر تو جماعت سو، دوسو یا ہزار دو ہزار جتنے بھی نو جوانوں کی ضرورت ہے، پیش کر دیتی ہے تو گویا اس نے قربانی کا حق ادا کر دیا.لیکن اگر ضرورت پوری نہیں ہوتی تو ساری جماعت گناہ گار ہوگی.کیونکہ اس کے معانی یہ ہوں گے کہ جماعت قربانی کے لئے تیار نہیں.اسی طرح اور بھی بیسیوں صورتیں جائز رنگ میں دین کے لئے موت قبول کرنے کی ہیں.اسی طرح جو نو جوان اپنے آپ کو مروجہ مغربی فیشن کا شکار ہونے سے بچاتے ہیں، ٹائی اور سوٹ کے یک رنگ ہونے کی فکر میں وقت ضائع نہیں کرتے اور سادگی اختیار کرتے ہیں تا نمازوں میں آسانی 389
اقتباس از خطبه عید الفطر فرموده 19 ستمبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم پیدا ہو سکے اور تا وہ غریبوں کے ساتھ آسانی سے مل سکیں اور اس طرح جماعت کے غریب طبقہ کو ابھارنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ بھی دین کے لئے اپنی جان کو قربان کرنے والے ہیں.یا جو شخص امیر ہونے کے با وجود سادہ کھانا کھاتا ہے تا وہ دین کے لئے روپیہ بچا سکے تا غریبوں کے لئے اس کا دستر خوان وسیع ہو اور تا جماعت میں غریب اور امیر کے بے تکلفانہ میل جول کی روح پیدا ہو اور غریب طبقہ میں حرص و آز کے پیدا ہونے کا موجب نہیں بنتا، وہ گو اپنے گلے پر خنجر نہیں پھیرتا مگر پھر بھی وہ دین کے لئے اپنی جان کو قربان کرنے والا ہے“.وو اس زمانہ میں حقیقی قربانی یہی ہے کہ انسان اسلام کے لئے اپنا مال ، اپنا وقت اور اپنے جذبات کو قربان کر دے.اور جب ساری جماعت میں یہ حالت پیدا ہو جائے اور ہر چھوٹا بڑا، ہرا میر غریب اس قربانی کے لیے تیار ہو جائے جیسے رمضان سب امیروں اور غریبوں ، چھوٹوں اور بڑوں کے لیے یکساں ہوتا ہے تو پھر حقیقی عید آ سکتی ہے.( مطبوع الفضل 23 ستمبر 1944ء) 390
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم وو اقتباس از خطبہ نکاح فرمودہ 20 ستمبر 1944ء واقف زندگی سلسلہ کی اولا د ہے خطبہ نکاح فرمودہ 20 ستمبر 1944ء میں نے یہ اعلان کیا ہوا ہے کہ سوائے اپنے عزیزوں کے یا ایسے لوگوں کے، جن کے تعلقات دینی یا تمدنی لحاظ سے اس قسم کے ہوں کہ جن کی وجہ سے وہ گویا کا لاقرباء ہی سمجھے جانے کے قابل ہیں، جب تک میری صحت اچھی نہیں ہوتی ، میں کوئی نکاح نہیں پڑھایا کروں گا.اس اعلان کے مطابق میں نے بعض واقفین تحریک جدید کے نکاح پڑھتے ہیں کیونکہ جو شخص زندگی وقف کرتا ہے، وہ ایک ایسا تعلق دین اور اسلام سے پیدا کر لیتا ہے کہ گویا وہ سلسلہ کی اولاد ہے.اور جو سلسلہ کی اولاد بن جائے ، وہ کسی صورت میں ہمیں اپنی اولادوں سے کم نہیں ہو سکتا.کیونکہ اس کا تعلق دینی لحاظ سے ہے اور رشتہ داروں کا تعلق دنیوی لحاظ سے.گورشتہ داروں کا دینی لحاظ سے بھی تعلق ہوتا ہے مگر ظاہری اور ابتدائی تعلق ان کا دنیوی لحاظ سے ہی ہوتا ہے.( مطبوعه الفضل 14 اکتوبر 1944ء) 391
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود و 20 اکتوبر 1944ء تراجم قرآن کریم اور دوسرا تبلیغی لٹریچر شائع کرنے کی سکیم.خطبہ جمعہ فرمودہ 20 اکتوبر 1944 ء سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اسلحہ کی جنگوں میں بعض وقت جبری تعطل کے آتے ہیں اور بعض وقت عارضی صلح کے ذریعہ ضرورة تعطل قائم کیا جاتا ہے.عارضی صلح کے ذریعہ جو تعطل پیدا کیا جاتا ہے، اس کی ایک غرض تو یہ ہوتی ہے کہ طرفین اپنے اپنے مردوں کو دفن کر لیں اور زخمیوں کو اٹھا لیں.اور جبری تعطل کہ وجہ یہ ہوتی ہے کہ طرفین اپنی اپنی طاقتوں کو جمع کر لیں اور ہمتوں کو استوار کر لیں.پس عارضی صلح کے ذریعہ جو تعطل پیدا کیا جاتا ہے، اس کی غرض تو یہ ہوتی ہے کہ طرفین اپنے اپنے مردوں کو دفن کر لیں اور زخمیوں کو متشقی میں پہنچا سکیں.اور جو تعطل جبری طریق سے پیدا ہوتا ہے، وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے طاقتوں کے مجتمع کرنے کے لئے ہوتا ہے.خدا تعالیٰ نے دن اور رات بنائے ہیں.دن کو لوگ لڑتے ہیں اور رات کے وقت تاریکی کی جہ سے آپ ہی آپ لڑائی کا بیشتر حصہ ختم ہو جاتا ہے.آج کل بے شک ایسے ذرائع نکل آئے ہیں، جس سے مصنوعی روشنی پیدا کر کے حملے کئے جاتے ہیں مگر یہ مصنوعی روشنی ہر رات استعمال نہیں کی جاسکتی ہے اور نہ ہر جگہ استعمال کی جاسکتی ہے اور باوجودان ذرائع کے رات کو پھر بھی ہر ایک فریق غنیمت سمجھتا ہے تا کہ فریقین آرام کر سکیں اور اپنی اپنی طاقتوں کو بحال کر لیں.خاص خاص ایام میں اور خاص خاص حملوں کے موقع پر جبکہ ایک فریق بھی تیاری کے بعد حملہ آور ہوتا ہے.اس وقت بے شک رات کو بھی جنگ جاری رہتی ہے.ورنہ عام طور پر صرف دن کو ہی لڑائی لڑی جاتی ہے ، رات کے وقت تھوڑے تھوڑے سپاہی خبر رسانی کے طور پر کام کرتے ہیں تا کہ اگلے پچھلے حالات کا علم ہوتار ہے یا بعض دفعہ چھا پہ بھی مارا جاتا ہے مگر فوج کے پیشتر حصہ کو آرام کا موقعہ دیا جاتا ہے تا کہ وہ اپنی طاقت کو بحال کر کے دن کی لڑائی کے لئے تیار ہو جائے.اگر اللہ تعالیٰ رات کو پیدا نہ فرما تا تو بعض مجنون دشمن دن اور رات لڑائی جاری رکھ کر خود بھی زیادہ تکان اور زیادہ کوفت کر لیتے اور مد مقابل کو بھی زیادہ تکان اور زیادہ کوفت کرا دیتے.جس طرح یہ اسلحہ کی جنگ میں ہوتا ہے، اسی طرح خدا تعالی تبلیغی جنگوں میں بھی وقفوں کے سامان پیدا فرما دیتا ہے.مثلاً یہی جنگ عظیم جو ہو رہی ہے، یہ 1939ء میں شروع ہوئی تھی اور اس وقت 393
خطبه جمعه فرموده 20 اکتوبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم تک اس کو شروع ہوئے پانچ سال گزر گئے ہیں.اس جنگ کی وجہ سے تبلیغ کے رستے رکے ہوئے ہیں.سوائے لڑائی کے کاموں کے عام سفر کے لئے جہاز بند ہیں، حکومتیں پاسپورٹ دینے میں بخل سے کام لیتی ہیں.کیونکہ وہ ڈرتی ہیں کہ ہمارے ملک کا آدمی باہر جا کر کہیں نقصان کا موجب نہ ہو.اس وجہ سے ہماری تبلیغ پانچ سال سے بیرونی ممالک میں رکی پڑی ہے.بعض جگہ جہاں جنگ سے پہلے کے مبلغ موجود ہیں، وہ پھیل نہیں سکتے اور لٹریچر نہ پہنچا سکنے کی وجہ سے ہم بھی ان کی زیادہ مدد نہیں کر سکتے کیونکہ پارسلوں کا جانا آنا بند ہے، بہت ہی تھوڑی تعداد میں پارسل جاسکتے ہیں.گویا خدا تعالیٰ نے پانچ سال کی رات ہم پر نازل فرمائی ہے تاکہ تحریک جدید کی تیاری میں موقع مل سکے.اگر لڑائی کی وجہ سے یہ وقفہ پیدا نہ ہوتا تو جماعت کے بعض ایسے احباب جو نچلا بیٹھنا نہیں جانتے ، شور مچانا شروع کر دیتے کہ تحریک جدید کو شروع ہوئے اتنے سال گزر گئے اور کام شروع نہیں ہوا.مگر اللہ تعالیٰ نے ان کا منہ بند کرنے کے لئے ایسا سلسلہ شروع کر دیا کہ وہ لوگ بھی کہتے ہیں کہ ہاں جی حالات ہی ایسے ہیں کہ ان حالات میں کام ہو ہی نہیں سکتا.پس یہ اتنا لمبا عرصہ خدا تعالیٰ نے ہمیں تیاری کے لئے دیا ہے تا کہ ہم اپنی طاقت کو جمع کر لیں.لیکن اب یہ عرصہ ختم ہوتا نظر آ رہا ہے اور آثار ظاہر کر رہے ہیں کہ جنگ ایسے مقام پر پہنچ گئی ہے کہ کوئی نہ کوئی فریق بلکہ انشاء اللہ محوری طاقتیں ہتھیار ڈالنے اور اتحادیوں کی اطاعت قبول کر لینے پر مجبور ہو جائیں.گی.اس کے بعد چھ سات ماہ یا سال تک رستے کھل جائیں گے اور عام آمد و رفت جاری ہو جائے گی.اس عرصہ میں ہم نے مبلغ تیار کرنے اور ریز روفنڈ قائم کرنے کی کوشش کی ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ مادی کوششوں کے لحاظ سے ہماری یہ کوشش بہت محدود ہے.عیسائیوں کی کروڑ کر وڑ ، دو دو کروڑ روپے کی ایک ایک انجمن ہوتی ہے.ان کے مقابلہ میں ہمارا دس پندرہ لاکھ روپے کا ریز روفنڈ کوئی حقیقت نہیں رکھتا بلکہ اس میں مشنوں کے سامانوں کو دیکھتے ہوئے ساری دنیا تو الگ رہی، ایک ایک ملک میں بھی دس پندرہ لاکھ کی کوئی حقیقت نہیں.مگر بہر حال جس خدا نے ہمیں اتنی طاقت دی ہے کہ دس پندرہ لاکھ ریز روفنڈ اکٹھا کریں ، وہ اس سے زیادہ کی بھی طاقت دے گا.مگر جس طرح دنیا کی جنگ کے لئے تیاری اور ٹریننگ کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح دین کی جنگ کے لئے بھی تیاری اور ٹریننگ کی ضرورت ہوتی ہے.ہر شخص اس بات کا اہل نہیں ہوتا کہ مبلغ بن سکے، جب تک وہ اسلامی مسائل اور علوم دینیہ سے اچھی طرح واقف نہ ہو.جو ان باتوں سے ناواقف ہوگا ، وہ خود بھی گمراہ ہوگا اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مسلمانوں کی تباہی جن وجوہ کی وجہ سے ہوگی ، ان میں سے سب سے بڑی وجہ یہ ہو گی کہ ایسے لوگ غالب ہوں گے، جو علوم دین سے ناواقف ہونے کی وجہ سے خود بھی گمراہ ہوں گے اور و 394
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 20 اکتوبر 1944ء دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے.اگر ہم بھی اسی قسم کے مبلغ باہر بھیج دیتے جو دینی علوم سے واقف نہ ہوتے تو وہ اصلاح کرنے کی بجائے خرابی پیدا کرنے کا موجب ہوتے.اس لئے ضروری تھا کہ جن کو تبلیغ کے لئے باہر بھیجا جائے ، ان کو علوم دینیہ پر عبور حاصل ہو.یہ ہماری نئی کوشش تھی ، سامان تھوڑے تھے ، ذرائع کم تھے اور تجربہ کو تہ تھا.اس میں ہم نے شروع شروع میں غلطیاں بھی کیں.جن کی وجہ سے جو کام دو سال میں ہو سکتا تھا، اس پر چار سال صرف ہوئے.مگر بہر حال خدا کے فضل اور کرم سے ایک جماعت تیار ہوگئی ہے اور ہو رہی ہے، جو علوم دینیہ سے واقف ہے اور انشاء اللہ ایک دو سال تک اس جماعت کے طلباء پورے عالم ہو جائیں گے اور ہم ان کو باہر تبلیغ کے لئے بھیج سکیں گے.مگر جتنے مبلغ تیار ہوں گے ان کا اور ان کے لئے تبلیغ کے سامان مہیا کرنے کا تمام بوجھ ہمارا موجودہ ریز روفنڈ نہیں اٹھا سکتا.لیکن جس خدا نے آج تک ہماری مددفرمائی ہے، اس پر ہمیں وثوق ہے کہ وہ آئندہ بھی ہماری مدد فرمائے گا اور جو کمیاں اور خامیاں ہمارے کام میں رہ جائیں گی ، ان کو اپنے فضل سے پورا کر دے گا اور جماعت کو بھی اخلاص کے ساتھ زیادہ سے زیادہ قربانی کرنے کی توفیق بخشے گا.جوں جوں وہ دن نزدیک آتا جارہا ہے کہ اسلحہ کی جنگ ختم ہو اور تبلیغ کی جنگ شروع ہو جائے ہمارے لئے فکر کا موقعہ بھی بڑھ رہا ہے کیونکہ ابھی ہم نے بہت سارستہ طے کرنا ہے.ایسی زبانیں جو دنیا میں کثرت سے رائج ہیں اور ان ممالک کے علاوہ جن کی وہ مادری زبانیں ہیں، دوسرے مختلف ممالک میں بھی بولی اور کبھی جاتی ہیں، نو زبانیں ہیں.ان میں سے ایک زبان عربی ہے، جو سب سے زیادہ غیر ممالک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے.بعض ممالک ایسے ہیں ، جن کی مادری زبان عربی نہیں تھی مگر اب وہاں پر عربی ہی مادری زبان کے طور پر رائج ہے اور یہ زبان اپنے ملک سے نکل کر غیر ممالک میں پھیل گئی ہے اور کثرت سے ان ممالک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے.اس قسم کی دوسری زبان انگریزی ہے.یہ زبان بھی اس ملک کے علاوہ ، جس کی یہ مادری زبان ہے، دوسرے ممالک میں رائج ہے اور کروڑوں کروڑ انسان یہ زبان بولتے اور سمجھتے ہیں.اس قسم کی تیسری وسیع زبان روسی ہے.روس کی سلطنت بہت وسیع ہے، جو ایشیا کے مشرقی کنارے سے لے کر یورپ کے مغربی کنارے تک پھیلی ہوئی ہے.اس کی حکومت کے کنارے سمندر کے واسطہ سے ایک طرف جاپان سے ملتے ہیں اور دوسری طرف چین کی سرحد کے ساتھ ساتھ بڑھتے چلے گئے ہیں.چین کا ملک بہت وسیع ملک ہے مگر باوجود اس کی وسعت کے، روس کی سرحد اس کے ساتھ ساتھ چلتی 395
خطبہ جمعہ فرمودہ 20 اکتوبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم چلی جاتی ہے.یہاں تک کہ چین کا ملک ختم ہو جاتا ہے.اس سے آگے پھر روس کی سرحد افغانستان اور ہندوستان کی سرحدوں سے ٹکراتی ہوئی ان دونوں ملکوں کو بھی ختم کر دیتی ہے.پھر ایران کی سرحد شروع ہوتی ہے اور وہ بھی ختم ہو جاتی ہے.پھرڑ کی کا ملک شروع ہوتا ہے اور روس کی سرحد اس کے ساتھ ساتھ بھی چلتی ہے.اس کے بعد اصلی روس ملک کے ایک طرف فن لینڈ ہے، پھر پولینڈ ہے، زیکو سلوا کیہ اور رومانیہ سے بھی اس کی سرحد میں فکراتی ہیں.غرض یہ اتنا وسیع ملک ہے کہ دنیا کی آٹھ حکومتوں کے ساتھ اس کی سرحدیں ملتی ہیں.صرف تھوڑی تھوڑی جگہ سے نہیں بلکہ بڑی لمبائی تک ان کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں.اتنے بڑے وسیع ملک کی زبان بھی نظر انداز کرنے کے قابل نہیں.اس قسم کی چوتھی زبان جرمن ہے.اس زبان کی اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ جرمن بڑے علمی لوگ ہیں.ہم ان کے کتنے ہی عیوب بیان کریں مگر اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ جرمن لوگ علوم کو علوم کی خاطر حاصل کرتے ہیں.علوم کی خاطر جو جد و جہد جرمنوں نے کی ہے، اس کی مثال دوسری قوموں میں نہیں ملتی.دوسری قو میں رسوخ اور اثر پیدا کرنے کی خاطر علمی جدو جہد کرتی ہیں مگر جرمن لوگ علم کو علم کی خاطر حاصل کرتے ہیں.اس لئے اعلیٰ علوم کی خاطر جرمن زبان کا جاننا ضروری ہے.مثلاً سائنس کے علم میں جرمنوں نے دوسرے ممالک کی نسبت بہت زیادہ جد و جہد اور بہت زیادہ ترقی کی ہے.اس لئے جب تک جرمن زبان نہ سیکھی جائے، سائنس کے اعلیٰ علوم سے استفادہ نہیں کیا جاسکتا.اس لحاظ سے یہ زبان بھی بہت اہمیت رکھنے والی ہے.پانچویں زبان فرانسیسی ہے.یہ زبان اس لئے اہمیت رکھتی ہے کہ پرانے زمانہ میں یورپ کی عام زبان فرانسیسی تھی ، جس طرح ہندوستان میں اردو ہے.ہندوستان میں جہاں تامل زبان بولی جاتی ہے، وہاں اردو بھی سمجھی جاتی ہے.جہاں اڑیہ زبان بولی جاتی ہے، وہاں اردو بھی کبھی جاتی ہے.جہاں مرہٹی زبان بولی جاتی ہے، وہاں اردو بھی کبھی جاتی ہے.جہاں گجراتی زبان بولی جاتی ہے، وہاں اردو بھی سمجھی جاتی ہے.اسی طرح یورپ کے تمام ممالک انگلستان، اٹلی اور پین وغیرہ میں جہاں اپنی اپنی زبانیں بولی جاتی ہیں، وہاں ساتھ ساتھ فرانسیسی زبان بھی کبھی جاتی ہے اور اس زبان کے ذریعہ کئی معاملات طے کئے جاتے ہیں.یورپ کے ملکی تعلقات اور معاملات میں بھی یہ زبان استعمال ہوتی ہے.اس کے علاوہ انگریزوں کے بعد فرانس ہی ایک ایسا ملک ہے، جس کا دوسرے کئی ممالک پر اثر ہے اور اس کی نو آبادیات کثرت سے باہر پھیلی ہوئی ہیں.شمالی افریقہ اور مغربی افریقہ کا ایک حصہ اس کی نو آبادیات میں شامل 396
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود 200 اکتوبر 1944ء ہے.پھر بحر ہند کے کئی جزائر پر فرانس کا قبضہ ہے.چین تک اس کی نو آبادیات پھیلی ہوئی ہیں.امریکہ کے پاس بھی بعض جزائر پر فرانس کا قبضہ ہے.پس پانچویں وسیع اثر رکھنے والی زبان فرانسیسی ہے.اس قسم کی چٹھی زبان اطالوی ہے.اس زبان کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ یورپ کی علمی اصطلاحات لاطینی سے تیار کی جاتی ہیں اور لاطینی زبان ماں ہے اطالوی زبان کی.بیٹی اپنی ماں سے الگ نہیں ہوتی بلکہ ماں کا اثر ضرور اپنے اندر رکھتی ہے.اس لئے لاطینی اصطلاحات کے لئے اطالوی زبان کا جاننا ضروری ہے.اسی طرح مسیحیت کا مرکز ہونے کی وجہ سے پادریوں کے ذریعہ سے اطالوی زبان ہر ملک میں پھیلی ہوئی ہے.مزید برآں اطالوی نسل بڑی جلدی جلدی بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ سے کئی کروڑ اطالوی نسل کے آدمی امریکہ میں جابسے ہیں.اسی طرح اٹلی کی نو آبادیات جن پر جنگ سے پہلے اٹلی کا قبضہ تھا، ان میں بھی اس زبان کو سمجھا جاتا ہے.پھر مصر اور مشرق بعید کے علاقوں پر بھی اٹلی زبان کا اثر ہے کیونکہ وہاں بھی اٹلی کے لوگ تجارتوں اور دوسرے کاموں کی وجہ سے بہت پھیلے ہوئے ہیں.پس یہ چیٹھی زبان ہے، جو نہایت اہمیت رکھنے والی ہے اور مختلف ممالک میں اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے.ساتویں زبان ڈچ ہے، جو ہالینڈ کی زبان ہے.سماٹرا جاوا وغیرہ کے جزائر ، جن میں کئی کروڑ کی مسلمان آبادی ہے، یہ لوگ ڈچ حکومت کے ماتحت ہیں.ان میں تبلیغ کرنے کے لئے ڈچ زبان کا جاننا ضروری ہے.ان جزائر میں جتنے تعلیم یافتہ لوگ ہیں ، وہ سب ڈچ زبان جانتے ہیں.اور اس زبان کو سماٹرا، جاو او غیرہ میں وہی اہمیت حاصل ہے، جو ہندوستان میں انگریزی کو حاصل ہے.ہندوستان میں کئی تعلیم یافتہ لوگ ایسے ہیں، جن کو اگر اردو رسالہ پڑھنے کو دیا جائے تو کہیں گے، اگر کوئی انگریزی رسالہ ہو تو دیجئے.اپنی زبان اردو ہے مگر ما نگیں گے انگریزی.اس طرح لمبی حکومت کی وجہ سے سماٹرا، جاوا کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں ڈچ زبان کو پسند کیا جاتا ہے اور مقامی زبان کو اس کے مقابلہ میں کم پسند کیا جاتا ہے.ان علاقوں میں تبلیغ کرنے کے لئے اس زبان کا جاننا بھی نہایت ضروری ہے.آٹھویں زبان ہسپانوی ہے.ہسپانیہ تین چار کروڑ کا ملک ہے.افریقہ کی بہت سی آبادی کا اسلامی حصہ خصوصاً وہ مورش قوم ، جنہوں نے سپین پر حکومت کی ہے اور ایک لمبے عرصہ تک سپین میں اسلامی حکومت کے علمبر دار ر ہے ہیں، اس کا بڑا حصہ ہسپانیہ کے ماتحت ہے اور وہاں کے علمی لوگ ملازمت وغیرہ حاصل کرنے کے لئے اور حکام کے ساتھ تعلقات رکھنے کے لئے ہسپانوی زبان سیکھتے ہیں.اسی طرح جنوبی امریکہ کا ایک حصہ بھی ہسپانیہ کے ماتحت تھا، اب وہ آزاد ہے.مگر چونکہ ہسپانوی نسل وہاں آباد ہے، 397
خطبہ جمعہ فرمودہ 20 اکتوبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم ں لئے ہسپانوی زبان وہاں بولی جاتی ہے.پس سپینش زبان جاننے کا نہ صرف ہسپانیہ میں تبلیغ کرنے لئے فائدہ ہو سکتا ہے بلکہ افریقہ کے بعض اسلامی ممالک میں بھی اور جنوبی امریکہ کے بیشتر حصہ میں بھی اس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے.نویس زبان پرتگیزی ہے.پرتگیزی قوم کی باہر تو تھوڑی سی نو آبادیات ہیں لیکن جنوبی امریکہ کی بعض حکومتوں کے ماتحت کثرت سے پرتگیزی نسل آباد ہے.علاوہ ازیں پرتگیزی قوم کی بھی نو آبادیاں دنیا کے مختلف حصوں میں ہیں، اس لئے اصل ملک کے علاوہ وہاں پر تبلیغ کرنے کے لئے بھی پرتگیزی زبان کا جاننا ضروری ہے.پس یہ نو زبانیں ہیں، جو نہ صرف اپنے اپنے ملک میں بلکہ غیر ممالک میں جا کر بھی کام دیتی ہیں.اگر ہم دنیا میں تبلیغ کرنا چاہیں تو ہمارے لئے ان نو زبانوں کا جاننا اور ان نو زبانوں میں لٹریچر مہیا کرنا ضروری ہے.عربی، انگریزی، روسی، جرمن، ڈچ، فرانسیسی ، اطالین ، ہسپانوی اور پرتگیزی.اگر ہم اپنے مبلغ ان ممالک میں بھیجیں یا ان ممالک میں بھیجیں، جہاں یہ زبانیں بولی یا کبھی جاتی ہیں یا وہاں کی علمی زبان ہیں تو لازمی بات ہے کہ ہمارے مبلغ کے پاس جب تک اس زبان میں لٹریچر نہیں ہوگا، وہ مبلغ آسانی کے ساتھ وہاں تبلیغ نہیں کر سکے گا اور جلدی کامیاب نہیں ہو سکے گا.ایک دن میں ایک مبلغ یہی کر سکے گا کہ دو یا تین آدمیوں کو تبلیغ کرلے گا.مگر تین یا چار یا دس کروڑ کی آبادی والے ملک میں روزانہ دو تین آدمیوں کو تبلیغ کرنے سے کیا بنے گا؟ پھر سال کے تمام دن کام کرانا مشکل ہے.کسی دن آدمی بیمار ہوتا ہے، کسی دن کسی اور وجہ سے ناغہ ہو جاتا ہے.حسابی لوگوں نے سال میں اڑھائی سو دن کام کی اوسط لگائی ہے.اگر اس کو بڑھا کر تین سو دن بھی کام کا شمار کر لیا جائے اور ایک مبلغ دو آدمیوں کو روزانہ تبلیغ کرے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ تین مبلغ سال بھر میں اٹھارہ سو آدمیوں کو تبلیغ کریں گے اور ایک سو سال میں ایک لاکھ اسی ہزار آدمیوں کو تبلیغ کریں گے اور وہ بھی اس طریق سے کہ ایک ایک آدمی کو صرف ایک ایک گھنٹہ تبلیغ ہوگی اور ہر روز نئے آدمی کو تبلیغ کی جائے ، تب اتنی تعداد بنے گی.حالانکہ ایک گھنٹہ تبلیغ کرنے سے کیا بنتا ہے؟ ایک ایک آدمی کو سوسوسو گھنے تبلیغ کی جائے ، تب جا کر کہیں کامیابی ہوتی ہے.پس اگر صرف مبلغ کے ذریعہ تبلیغ پر اکتفا کیا جائے تو تین مبلغ اوسطاً دو دو آدمیوں کو روزانہ تبلیغ کر کے سال بھر میں صرف 1800 آدمیوں کو تبلیغ کر سکیں گے.لیکن اگر ان کے پاس اس زبان کا لٹریچر ہوتو ایک مبلغ ایک دن میں ہزار آدمیوں کو تبلیغ کر سکتا ہے.وہ اس لٹریچر کو لائبریریوں میں رکھے گا، لوگوں میں تقسیم کرے گا، پھر مشہور کتا بیں بک بھی جاتیں ہیں، وہ ان کو ایجنٹوں کی معرفت فروحت بھی کرے گا.پس اگر ملکی زبان کا لٹریچر پاس ہو تو مبلغ کامیاب 398
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 20 اکتوبر 1944ء طور پر تبلیغ کر سکتا ہے اور یہ طریقہ ایسا ہے، جس کے ذریعہ سے دو تین یا چار مبلغ پانچ کروڑ کی آبادی کے ملک میں سال بھر میں کئی لاکھ آدمیوں کو کامیاب طور پر تبلیغ کر سکتے ہیں.گو پوری تبلیغ پھر بھی نہیں کہلا سکے گی کیونکہ اتنی آبادی والے ملک کے لئے تو تین چار سو مبلغ کی ضرورت ہے.مگر بہر حال اس طریق سے ایسی تبلیغ ہو سکے گی، جسے نظر انداز نہ کیا جاسکے اور جو با اثر ہو.تین چار کروڑ کی آبادی والے ملک میں ہمارے مبلغ ایک سال میں چار پانچ لاکھ آدمیوں تک لٹریچر پہنچاسکیں گے اور ہزاروں کے پاس فروخت کر سکیں گے اور اس طریق سے ہماری تبلیغ اس ملک میں پھیل جائے گی.پس اگر ہم تبلیغ کرنا چاہتے ہیں اور اس کا اچھا نتیجہ دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ایسے سامان پیدا کریں کہ جہاں ہمارے مبلغ جائیں، ان کے پاس اس ملک کی مروجہ زبان میں ایسا لٹریچر ہو، جس کے ذریعہ اس ملک کے تعلیم یافتہ لوگوں اور عوام کے اندر ہیجان پیدا کیا جاسکے.اس غرض کو پورا کرنے کے لئے سب سے پہلے قرآن مجید کے ترجمہ کی ضرورت ہے.کیونکہ یہ جامع کتاب ہے، جس میں تمام علوم اور سارے مضامین جمع ہیں.باقی کتابوں میں ایک ایک مضمون ہوتا ہے مگر یہ تمام مضامین کا مجموعہ ہے.پھر دوسری کتابوں کی طرف توجہ دلانے کے لئے ہمیں زور لگانے کی ضرورت ہوتی ہے مگر قرآن مجید اپنا زور آپ لگاتا ہے.ہر ملک کی زبان میں اگر اس کا ترجمہ کر دیا جائے تو جس زبان میں بھی اس کا ترجمہ ہو گا.اس زبان کے جاننے والے لوگ بڑے شوق سے اسے لیں گے اور پڑھیں گے.دوسری کتابوں کے لئے ہمیں پرو پیگنڈا کرنا پڑتا ہے مگر قرآن مجید کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس کا پرو پیگنڈا ہو چکا ہے اور تیرہ سو سال سے ہوتا چلا آرہا ہے، اس لئے بڑی سہولت کے ساتھ یہ تمام دنیا میں پھیل سکتا ہے.پس سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ قرآن مجید کا ترجمہ آٹھ زبانوں میں کر دیا جائے.عربی میں تو وہ پہلے ہی ہے، باقی آٹھ زبانوں میں اس کا ترجمہ ہونا ضروری ہے.انگریزی، روسی، جرمن، فرانسیسی ، اطالین ، ڈچ، سپینش اور پرتگیزی.ان آٹھ زبانوں میں اگر قرآن مجید کا ترجمہ ہو جائے تو دنیا کے ہر گوشہ میں قرآن مجید پہنچ سکتا ہے اور ساری دنیا میں تبلیغ ہوسکتی ہے.سوائے چین اور جاپان کے مگر یہ دنوں محدودز با نیں ہیں.چین میں چونکہ آٹھ کروڑ مسلمانوں کی آبادی ہے، اس لئے وہاں عربی کام دے سکتی ہے.البتہ جاپان ایسا ملک ہے، جو باہر رہ جائے گا مگر وہ دنیا کا ہزارواں حصہ ہے.فی الحال اگر اس کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تو کوئی حرج نہیں.فوری طور پر ان آٹھ زبانوں میں تراجم شائع کرنی کی ضرورت 399
خطبه جمعه فرموده 20 اکتوبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم ہے.اگر ان زبانوں میں ہمارے نقطۂ نگاہ سے صحیح تراجم شائع ہو جائیں تو مبلغین آسانی سے اس ملک یا اس زبان کے جاننے والے علمی طبقہ تک پہنچ سکیں گے اور کہ سکیں گے کہ آپ کی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ چھپ چکا ہے، خرید کر یا فلاں لائبریری سے لے کر پڑھ لیں.انگریزی کا ترجمہ ہمارے ہاں دیر سے ہو رہا ہے.گو افسوس ہے کہ کسی نہ کسی غلطی کی وجہ سے ، جو تراجم کے مراکز سے دور ہونے کی وجہ سے ہو جاتی ہے، اس پھرتی سے کام نہیں ہو رہا، جس پھرتی سے ہونا چاہئے تھا.مگر بہر حال اس کی پہلی جلد شائع ہو رہی ہے اور پریس والوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ مارچ اپریل تک اس کو مکمل کر کے دیں گے.ترجمہ سارے قرآن مجید کا ہو چکا ہے، ضروری نوٹ بھی قریباً سارے ہو چکے تھے مگر ان میں کچھ نقص رہ گیا تھا، اس لئے اب میں دوبارہ اپنی ہدایات کے مطابق ان کی اصلاح کروا رہا ہوں.اور وہ اصلاح پندرہ سولہ پاروں تک ہو چکی ہے.چنانچہ پہلی جلد کا کام ختم ہو چکا ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے ، پریس والوں کا وعدہ ہے کہ مارچ اپریل تک چھاپ کر دے دیں گے.اب باقی سات زبانیں رہ جاتی ہے.انگریزی زبان چونکہ بہت پھیلی ہوئی ہے اور اس میں بعض سہولتیں بھی میسر ہیں، جو دوسری زبانوں میں میسر نہیں، اس لئے انگریزی ترجمہ کے ساتھ تغیر بھی ہے مگر باقی زبانوں میں اس لمبے کام کی ضرورت نہیں.چھوٹے حجم کا قرآن مجید مختصر نوٹوں اور ترجمہ کے ساتھ شائع ہو جائے تو کثرت سے لوگ خرید سکتے ہیں.انگریزی میں تو ہو چکا ہے، باقی سات زبانوں میں بھی اگر ترجمہ ہو جائے تو ساری دنیا میں قرآن مجید کی اشاعت ہو سکتی ہے.سوائے جاپان کے، جس کو سر دست اگر نظر انداز کر دیا جائے تو کوئی حرج کی بات نہیں.وہاں مبلغ بھیجے جائیں گے تو ترجمہ کروالیں گے.میری اس سکیم کے ماتحت ساتوں زبانوں میں ترجمہ شروع کرا دیا گیا ہے.امید کی جاتی ہے کہ 1945ء کے نصف یا اس کے آخر یک انشاء اللہ ساتوں زبانوں کا ترجمہ مکمل ہو جائے گا.پچھلے دنوں تار آیا تھا کہ ساتوں زبانوں میں تین تین پاروں کا ترجمہ ہو چکا ہے، اس کے بعد دو تین ہفتے گزر چکے ہیں، اس لئے چار یا پانچ پاروں تک ہو چکا ہوگا.اس کے خرچ کا میں نے اندازہ کروایا ہے.چونکہ انگریزی ترجمہ کی نسبت سے یہ چھوٹا کام ہے کیونکہ لمبی تفسیر نہ ہوگی ، اس لئے ایک ایک زبان میں قرآن مجید کے ترجمہ پر چھ چھ ہزار روپیہ اوسطاً خرچ آئے گا اور سات ترجموں پر 42 ہزار روپیہ لگے گا.میں جماعت میں تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ایک ایسا مستقل کام ہے، جو صدیوں تک دنیا کی ہدایت کا موجب بنے والا ہے.پس اگر ان سات تراجم کا خرچ 400
تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد دوم خطبه جمعه فرمود و 20 اکتوبر 1944ء مختلف افراد یا جماعتیں اپنے ذمہ لے لیں تو یہ چیز دائگی ثواب کا ذریعہ ہے.روسی ، جرمن، فرانسیسی، اطالین ، ڈچ ، ہسپانوی اور پرتگیزی، یہ سات زبانیں ہیں.میں یہ اعلان کر دیتا ہوں کہ اپنی طرف سے اور اپنے بیوی بچوں کی طرف سے ایک زبان کے ترجمہ کی رقم میں ادا کروں گا.(جمعہ کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد حضور نے اعلان فرمایا کہ نماز شروع کرتے وقت خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ چونکہ پہلے مسیح کا خلیفہ کہلانے والا اٹلی میں رہتا ہے.اس مناسبت سے قرآن مجید کا جو ترجمہ اطالوی زبان میں شائع ہو، وہ مسیح محمدی کے خلیفہ کی طرف سے ہونا چاہیے.اس لئے میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اطالین زبان میں قرآن مجید کے ترجمہ کا خرچ میں ادا کروں گا.) باقی چھ ترجمے رہ جاتے ہیں.ان چھ میں سے ایک ترجمہ کے لئے میں نے تجویز کیا ہے کہ سارے ہندوستان کی لجنہ مل کر ایک ترجمہ کا خرچ ادا کرے.اور یہ ترجمہ جرمن زبان کا ہو کیونکہ جرمنی میں مسجد کی تعمیر کا ارادہ بھی لجنہ ہی نے کیا تھا.باقی رہ گئیں پانچ زبا نہیں.میں سمجھتا ہوں خدا تعالیٰ کے فضل سے قادیان کی آبادی اتنی ہے کہ یہاں کی جماعت آسانی سے ایک ترجمہ کا خرج ادا کرسکتی ہے.یہاں کی جماعت ہمیشہ اخلاص دکھانے میں آگے قدم رکھا کرتی ہے.قادیان میں مسجد مبارک کی توسیع کے لئے ایک دن میں 24 ہزار روپیہ جمع ہو گیا تھا.اس لئے چھ ہزار روپیہ جمع کرنا ان کے لئے کوئی مشکل کام نہیں.پس میں ایک ترجمہ کی رقم قادیان کی جماعت کے ذمہ لگاتا ہوں.باقی چار رہ گئے.میرے نزدیک باقی چارتر جموں کی رقم چار شہروں کی جماعتیں یا افراد اپنے ذمہ لے لیں.( خطبہ کے بعد ایک ترجمہ کا خرچ چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب اور ان کے چند اور دوستوں نے اپنے ذمہ لیا اس طرح صرف تین تراجم باقی رہ گئے ہیں.) میں ان جماعتوں کے نام نہیں لیتا بلکہ جماعتوں پر چھوڑتا ہوں کہ وہ خود آگے بڑھیں.جو فرد اکیلا ایک ترجمہ کی رقم اٹھانا چا ہے، وہ اکیلا اٹھا لے.جو چند دوستوں کی ساتھ مل کر یہ بوجھ اٹھانا چاہتا ہوں، وہ ایسا کرلے.جو جماعت مل کر ایک ترجمہ کی رقم دینا چاہے، وہ جماعت اس کا وعدہ کر لے.جوصو بہ ایک ترجمہ کی رقم دینا چاہے، وہ صوبہ اس کا وعدہ کرلے.میں اگر چاہتا تو سہولت سے بعض جماعتوں کے نام لے سکتا تھا.مگر میں نہیں چاہتا کہ جماعتوں کا یا افراد کا ثواب ضائع کروں.ہاں اپنا حق میں مقدم سمجھتا ہوں کیونکہ تمام ذمہ داری مجھ پر ہے.اس لئے ایک ترجمہ کی رقم میں نے اپنے ذمہ لے لی ہے.قادیان کا 401
خطبه جمعه فرموده 20 اکتوبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم بھی حق ہے کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کے مرسل کا مرکز ہے.اس لئے میں نے اس کا نام چنا ہے.چنا نہیں بلکہ اس کے ثواب کو بچانے کے لئے کہ اس کی جگہ کوئی اور نہ لے لے، میں نے قادیان کا نام لے دیا ہے.عورتیں بھی چونکہ بے زبان ہوتی ہے اور ان تک آواز پہنچے میں دیر لگ جاتی ہے، اس لئے میں نے ان کا بھی نام لے دیا ہے.میرا حق تھا کہ اس کام میں میرا حصہ ہو، اس لئے میں نے اپنا نام لے دیا ہے.قادیان کا حق تھا کہ اس کام میں ان کا حصہ ہو، اس لئے میں نے قادیان کا نام لے دیا ہے.عورتوں کا حق تھا کہ اس کام میں ان کا حصہ ہو، اس لئے میں نے عورتوں کا نام لے دیا ہے.جن کے حقوق ظاہر تھے ، ان کے نام میں نے لے دیئے ہیں اور باقی چار (چوہدری صاحب کے وعدے کے بعد تین ) ترجموں کی رقم میں نے جماعتوں پر چھوڑ دی ہے.مختلف شہر یا صوبے یا افراد اپنے ذمہ ایک ایک ترجمہ کی رقم لے لیں اور یہ چندہ مارچ 1945ء کے آخر تک پہنچ جانا چاہیے.اس وقت تک ہم نے تحریک جدید کے فنڈ سے رقم خرچ کی ہے، جو تراجم کی رقوم وصول ہونے پر تحریک جدید کو واپس کر دی جائے گی.اس لئے چندے اور وعدے بھی تحریک جدید کے نام آنے چاہئیں.( یعنی اس کے فنانشل سیکریٹری کے نام.) اس کے بعد چھپوائی کا سوال رہ جاتا ہے.میرا اندازہ ہے کہ ان سات تراجم کی پانچ پانچ ہزار کا پیاں ، پندرہ پندرہ ہزار روپیہ میں چھپ سکیں گی.اور جماعت کے جوش اور اخلاص کو دیکھا جائے تو اس کے لحاظ سے یہ کوئی بڑی رقم نہیں.میں سمجھتا ہوں جس وقت تراجم مکمل ہو جائیں گے ، اس وقت اس پندرہ پندرہ ہزار روپیہ کی رقم کا ادا کرنا جماعت کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہوگا.اس کے بعد ہمارے مبلغوں کے پاس قرآن کے علاوہ کچھ اور لٹریچر ہونا بھی ضروری ہے، جو مخصوص اور ضروری مسائل پر مشتمل ہو.میں سمجھتا ہوں کہ بارہ بارہ کتابوں کا سیٹ ہمارے مبلغوں کے پاس ہونا چاہیے، جسے وہ فروخت کر سکیں یا تحفہ دے سکیں.اس سیٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا ہونا ضروری ہے.تبرک کے طور پر بھی اور اس لحاظ سے بھی کہ حضور علیہ السلام کی کتب میں اس زمانہ کی ضرورت کے مطابق تمام قسم کے علوم اور مسائل آگئے ہیں.ان میں سے ایک اسلامی اصول کی فلاسفی اور دوسری مسیح ہندوستان میں ہونی چاہیے.باقی دس رہ جاتی ہیں.ایک میری کتاب ”احمدیت یعنی حقیقی اسلام رکھ لی جائے کیونکہ اس میں بھی موجودہ ضروریات کے مطابق بہت سے مسائل آگئے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح عمری اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سوانح عمری یہ دو کتابیں بھی ضروری ہیں.ایک کتاب ترجمہ احادیث رکھی جائے.اسی طرح پرانے اور نئے عہد نامے میں سے 402
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبه جمعه فرموده 20 اکتوبر 1944ء مشتمل ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پیشگوئیاں ، یہ مضمون بھی عیسائی ممالک میں اثر پیدا کر نیوالا ہے.اس لئے ایک کتاب اس مضمون پر مشتمل ہونی چاہیے.اسی طرح پرانے اور نئے عہد نامہ کی روشنی میں توحید پر بھی ایک کتاب ہونی ضروری ہے، جو تثلیث کی تردید کرے.الہامی لحاظ سے بھی اور پرانے اور نئے عہد نامہ کے حوالوں کی رو سے بھی.نظام نو پر بھی ایک کتاب ہونی چاہیے.آج کل کے لحاظ سے یہ مضمون بھی نہایت ضروری ہے.یہ نو کتا بیں بن جاتی ہیں.باقی تین کتابوں کے متعلق بعد میں تصفیہ کر لیا جائے گا.یا تو پرانی کتابوں میں سے انتخاب کر کے سیٹ میں رکھ دی جائیں گی یا نئے مضامین مقرر کر کے ان پر کتابیں لکھوالی جائیں گی.میں سوچ رہا ہوں کہ کس قسم کے مضامین ہونے چاہئیں، جو اثر انداز ہوں.باقی دوست بھی اس کے متعلق مشورہ دیں.پس ان بارہ کتابوں کا سیٹ آٹھ زبانوں میں تیار کرنا بہت ضروری ہے.یہ سیٹ عیسائی ممالک کے لئے ہے.عربی ممالک کے لئے اور قسم کی کتابوں کا سیٹ تجویز ہونا چاہیے، جو ان کی ضرورت کے مطابق اور ان کے مناسب حال مضامین والی کتابوں پر اس کے علاوہ چونکہ ہر شخص یہ کتابیں خرید کر نہیں پڑھ سکتا اور نہ ہی ہر ایک کو مفت دی جاسکتی ہے.ضروری ہے کہ ان نو زبانوں میں چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ اور اشتہار چھپوائے جائیں، جو 44 صفحے سے لے کر 16-16 صفحے تک کے ہوں تا کہ کثرت کے ساتھ ان کی اشاعت ہو سکے اور ہر آدمی کے ہاتھ میں پہنچائے جاسکیں.ہمارے ملک میں چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ نہیں بکتے لیکن عیسائی ممالک میں اس قسم کے ٹریکٹ بک بھی جاتے ہیں.مبلغ کو اجازت ہو کہ وہ ان ٹریکٹوں اور اشتہاروں کو جس قدر چاہے، مفت تقسیم کرے اور جس قدر بک سکیں بیچ دے.پس اس قسم کے ٹریکٹ اور اشتہار بھی کثرت سے ان نو زبانوں میں تیار کئے جائیں.کثرت سے چھپوانے پر کم خرچ ہوتا ہے.اگر ہم اوسطاً فی اشتہار آٹھ صفحہ کا سمجھیں اور چھپوائی کا اندازہ فی صفحہ دو روپے فی ہزار لگالیں تو 16 سوروپے میں آٹھ صفحے کا ایک لاکھ اشتہار ایک زبان میں چھپ سکتا ہے.جس کے معنی یہ ہیں کہ نو زبانوں میں ایک ایک لاکھ اشتہار چھپوانے پر ساڑھے چودہ ہزار روپیہ خرچ آئے گا.ممکن ہے یہ خرچ اور بھی کم ہو کر دس ہزار تک آ جائے اور چالیس ہزار روپیہ میں ہم ہر ایک زبان کا چار چار لاکھ اشتہار شائع کر سکیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ سال بھر میں اتنے اشتہارات شائع کر کے ہم ایک سال میں چھتیں لاکھ انسانوں تک اپنا پیغام پہنچا دیں گے.بعض دفعہ ایک ایک اشتہار کو کئی کئی آدمی پڑھتے ہیں، اس طرح یہ تعداد اور بھی بڑھ جائے گی لیکن اگر سال میں چھتیں لاکھ انسانوں تک بھی ہمارا پیغام پہنچ جائے تو 403
خطبه جمعه فرموده 20 اکتوبر 1944ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک.....جلد دوم اس کے یہ معنی ہیں کہ ایک ایک روپیہ میں نوے نوے یا سوسو آدمیوں تک ہمارا پیغام پہنچ جائے گا.گو یا اتنی تبلیغ پر فی آدمی ایک پیسہ بھی خرچ نہ آئے گا.پس یہ تین چیزیں ضروی ہیں:.اول: آٹھ زبانوں میں قرآن مجید کا ترجمہ دوسرے نو زبانوں میں بارہ کتابوں کا سیٹ تیسرے نو زبانوں میں مختلف چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ اور اشتہارات شروع شروع میں ٹریکٹ تھوڑے تھوڑے چھپوا لئے جائیں اور پھر آہستہ آہستہ ان کی اشاعت کو بڑھاتے چلے جائیں.جب اشاعت بڑھ جائے گی تو یہ ٹریکٹ اپنا خرچ خود نکالنے لگ جائیں گے.چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ بڑی کتاب کی نسبت زیادہ سکتے ہیں.اگر ایک ٹریکٹ ایک پیسہ میں بھی فروخت ہو جائے تو کافی خرچ نکل سکتا ہے.مگر پیسہ کا رواج صرف ہمارے ملک میں ہے، انگریزی ممالک میں کم از کم سکہ ایک آنہ ہوتا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک ایک ٹریکٹ ایک ایک آنہ میں فروخت کیا جائے تو ہزاروں کی آمدنی ہو سکتی ہے اور اس آمدنی سے اور اشتہارات چھپوائے جاسکتے ہیں.پس یہ ایک ایسی سکیم ہے، جو تبلیغ کو کامیاب بنانے کے لئے نہایت ضروری ہے.ایک تو قرآن مجید کا سات زبانوں میں ترجمہ ہے.اس پر فوری طور پر عمل کرنے لئے چندہ کی ضرورت ہے.ایک ترجمہ کا خرچ تو میں نے اپنے ذمہ لے لیا ہے.ایک ترجمہ کا خرچ قادیان کی جماعت کے ذمہ لگایا ہے اور ایک کا سارے ہندوستان کی لجنہ اماءاللہ کے ذمہ لگایا ہے.ایک ترجمہ کا خرچ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے اور ان کے چند دوستوں نے اپنے ذمہ لیا ہے.باقی تین ترجموں کا خرچ مختلف افراد یا جماعتیں اپنے ذمہ لے لیں اور امید ہے کہ جماعتیں جلدی اپنے اپنے ذمہ ایک ترجمہ کا خرچ لے لیں گی.( مجھے بتایا گیا ہے کہ قادیان کی جماعت غالبا دو تراجم کا بوجھ اٹھائے گی اور اسی طرح لجنہ اماءاللہ بھی دو تراجم کا خرچ دے گی.اگر ایسا ہوا تو صرف ایک ترجمہ بیرونجات کی جماعت کے حصہ میں آتا ہے.بہت ساری جماعتیں ایسی ہیں، جن کے لئے یہ معمولی بات ہے.ممکن ہے خدا تعالیٰ بعض افراد کو بھی توفیق دے دے.چونکہ اس سکیم پر عمل کرنے لئے چندہ کی فوری ضرورت ہے ، اس لئے میں نے اس کے متعلق اعلان کر دیا ہے کہ جماعتیں اپنے اپنے ذمہ ایک ایک ترجمہ کی رقم لے کر جلدی اطلاع دیں.باقی دو یعنی کتابوں کا سیٹ اور ٹریکٹوں کے متعلق میں نے اس لئے اعلان کیا ہے تا کہ جماعتیں مفید مشورہ دے سکیں کہ کون کون سی 404
خطبہ جمعہ فرمود و 20 اکتوبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم کتابیں سیٹ میں رکھنی چاہئیں؟ اور ٹریکٹ اور اشتہارات کسی قسم کے ہونے چاہئیں؟ تاکہ جب کام کا وقت آئے تو ہم سہولت کے ساتھ کتابوں اور ٹریکٹوں کے متعلق فیصلہ کر سکیں کہ کس قسم کی کتا بیں اور ٹریکٹ ہونے ضروری ہیں؟ اس کام کے پورا ہو جانے کے بعد میں سمجھتا ہوں، جہاں ہمارا مبلغ جائے گا، وہ اکیلا نہیں ہوگا بلکہ اس کے پاس جتنے ٹریکٹ ہوں گے، اس کے ساتھ اتنے رسالے جنگ کے ہوں گے.(ہمارے ہاں ٹریکٹ کو رسالہ کہتے ہیں.اگر اس کے پاس پچاس ٹریکٹ ہوں گے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے ساتھ پچاس رسالے فوج ہوگی.اگر اس کے پاس بارہ کتابیں ہوں گی تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے ساتھ بارہ تجربہ کار جرنیل ہوں گے.اگر اس کے پاس قرآن مجید ہوگا تو اس کے یہ معنی ہیں کہ اس کے ساتھ ایک عظیم الشان کمانڈر انچیف ہوگا، جس نے تیرہ سو سال تک کامیابی سے حکومت کی ہے.اس کے بعد پھر وہ مبلغ اکیلا ہونے کی وجہ نا کام نہیں ہوگا بلکہ خدا کے فضل سے چند مہینوں کے اندر تہلکہ مچاسکتا ہے.پس میں امید کرتا ہوں کہ جماعت کے باہمت افراد اور جماعتیں خدا کے فضل کو جذب کرنے کے لئے قرآن مجید کے تراجم میں حصہ لینے کے لئے آگے بڑھیں گی اور امید ہے کہ جماعت کے علماء اور بیرونی ممالک کے مبلغ اپنے تجربہ کی بنا پر کتابوں اور ٹریکٹوں کے متعلق ٹھوس مشورہ دیں گے کہ کس قسم کی کتابیں اور کس قسم کے ٹریکٹ باہر مفید ہو سکتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ جنگ کے خاتمہ کے بعد جب آمد وقت کے لئے رستے کھلیں تو سینکڑوں قوموں میں ہماری تبلیغ شروع ہو جائے.اسلحہ کی جنگ کے خاتمہ پر ادھر سے صلح کا بگل بجے اور ادھر ہماری طرف سے تبلیغی جنگ کا بگل بجا دیا جائے“.( مطبوع الفضل 27 اکتوبر 1944 ء ) 405
تحریک جدید - ایک الہی تحریک......جلد دوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 27 اکتوبر 1944ء دین کی جو عمارت بنے گی ، اس میں ہماری حیثیت روڑی کی ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 27 اکتوبر 1944ء میں نے گزشتہ خطبہ میں بیان کیا تھا کہ اب چونکہ جنگ ختم ہونے والی ہے اور ایسے آثار ظاہر ہورہے ہیں کہ چھ ماہ یا سال کے اندر اندر یا سال سے کچھ کم یعنی سات آٹھ ماہ کے اندر جنگ ختم ہو جائے گی اور پھر اس کے بعد چھ ماہ یا سال تک گویا آج سے ڈیڑھ سال یا دو سال کے عرصہ تک آمد و رفت کے رستے کھل جائیں گے اور مبلغین باہر جاسکیں گے.اس لیے ہمیں آج ہی سے تیاری کرنا چاہیے.کچھ تیاری تو پچھلے پانچ سال میں ہم نے کی ہے اور ایسے مبلغ تیار کئے ہیں، جو خدا کے فضل اور کرم سے غیر ممالک میں جا کر تبلیغ کر سکتے ہیں.اس سے میری مراد یہ ہے کہ اکثر عربی اور بعض انگریزی میں اچھے ماہر ہیں اور ان دونوں زبانوں والے ممالک میں وہ اچھی طرح کام کر سکتے ہیں.عربی کے ذریعہ اسلامی ممالک میں تبلیغ ہو سکتی ہے اور بہت سے ممالک میں انگریزی کے ذریعہ تبلیغ ہوسکتی ہے.کیونکہ یہ زبان اکثر یورپین ممالک میں پھیلی ہوئی ہے اور لوگ اس کو بولتے اور سمجھتے ہیں.باقی سات زبانوں کے جاننے والے ابھی ہماری جماعت میں پیدا نہیں ہوئے.اگر کوئی ہیں تو بہت کم یا ایسے ماہر نہیں کہ ان زبانوں میں پوری طرح قابل ہوں اور اپنے لٹریچر کا ان زبانوں میں ترجمہ کرسکیں ، سوائے دو چار کے.مثلاً ملک محمد شریف صاحب اٹلی میں ہیں، انہوں نے وہاں شادی بھی کر لی ہے.اگر ان کی شادی ہمارے پروگرام میں روک نہ بن سکے یعنی مزید تعلیم حاصل کرنے میں حارج نہ ہو.کیونکہ ان کی عربی تعلیم ابھی کم ہے تو اس صورت میں وہ اٹالین زبان کو جاننے والے ہوں گے.دوسرے مولوی رمضان علی صاحب ساؤتھ امریکہ میں ہیں.ممکن ہے اس وقت تک پرتگیزی یا سپینش زبان انہوں نے سیکھ لی ہو اور وہ اس قابل ہو چکے ہوں کہ ان زبانوں میں تبلیغ کا کام کر سکیں.تیسرے صوفی عبد القدیر صاحب جاپان میں رہ آئے ہیں، مزید کوشش کے بعد وہ جاپانی زبان میں مہارت پیدا کر سکتے ہیں.باقی زبانوں کے جاننے والے ہماری جماعت میں کوئی نہیں.ہماری جماعت میں بعض جرمن زبان جانتے ہیں لیکن صرف اتنی کہ کتابیں پڑھ سکیں.یہ نہیں کہ اس زبان میں کتابیں لکھ سکیں یا ترجمہ کر سکیں یا اس زبان میں تقریریں کر یہ کہ میں کا یاترجمہ 407
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 27 اکتوبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم سکیں.مگر بہر حال خدا کے فضل سے گزارہ کے لیے ہمارے پاس ایسے آدمی تیار ہو گئے ہیں اور ہور ہے ہیں، جو عربی اور انگریزی جاننے والے ممالک میں تبلیغ کا کام کرسکیں.انگریزی زبان یورپ کے قریبا ہر ملک میں استعمال ہوتی ہے اور ہر ملک میں لاکھوں آدمی یہ زبان بولتے اور جانتے ہیں.اس زبان کے ذریعہ یورپین ممالک میں کام شروع ہو سکتا ہے.اسی طرح اسلامی ممالک میں عربی اور فارسی جاننے والے مبلغ کام کر سکتے ہیں.باوجود وہاں کی لوکل زبان نہ جاننے کے وہاں کام شروع ہو سکتا ہے کیونکہ اسلامی ممالک کا بیشتر حصہ عربی اور فارسی سمجھتا اور جانتا ہے.پھر دو تین سال وہاں رہنے سے مبلغین وہاں کی لوکل زبان بھی سیکھ لیں گے.پس جہاں تک مبلغوں کی تیاری کا سوال ہے، ہم نے خدا کے فضل سے ابتدائی تیاری کرلی ہے.اس وقت تک جو واقفین ہم نے لئے ہیں، وہ ساٹھ کے قریب ہیں.جن میں سے کچھ تو دفاتر میں کام کرنے کے لئے ہیں اور کچھ باہر تبلیغ کی خاطر بھیجنے کے لئے.گو یہ تعداد کافی نہیں.ہمیں بہت زیادہ مبلغین کی ضرورت ہے.مگر بہر حال اس سے کام شروع کیا جاسکتا ہے.روپیہ کا سوال اس حد تک حل ہو چکا ہے کہ وہ روپیہ مرکزی اور دفتری کاموں کا بوجھ اٹھا سکے لیکن مبلغین کے لئے لٹریچر مہیا کرنے اور دوسری تبلیغی ضروریات پورا کرنے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا.تحریک جدید کے گذشتہ دور میں دس پندرہ لاکھ کاریز روفنڈ قائم ہوا ہے.یہ فنڈ ایسا ہے، جس میں وہ روپیہ بھی شامل ہے، جو جائیداد کی صورت میں ہے بلکہ یہ تمام ریز روفنڈ جائیداد کی صورت میں ہی ہے.پس یہ فنڈ اس حد تک تعاون کر سکتا ہے کہ دفتری اور مرکزی کام کا بوجھ اٹھا سکے اور یہ بوجھ جماعت پر نہ پڑے.لیکن مبلغین کی دوسری تمام ضروریات کا متحمل نہیں ہو سکتا.ممکن ہے، تحریک جدید کے آئندہ دوروں کے ذریعہ یہ فنڈ اس حد تک بھی ہو جائے کہ تبلیغ کے لئے لٹریچر مہیا کرنے اور مبلغوں کے اخراجات بھی برداشت کر سکے مگر اس وقت تک جور نیز روفنڈ قائم ہوا ہے، وہ اس کی برداشت نہیں کر سکتا.البتہ اس کے ذریعہ غیر ممالک میں تبلیغ کی ابتدا کی جاسکتی ہے.وسیع پیمانہ پر تبلیغ کے لئے بھاری فنڈ کی ضرورت ہے، جو مبلغین کی تبلیغی ضروریات پورا کر سکے اور کتب، رسالے وغیرہ کثرت سے لٹریچر شائع کرنے کا بوجھ اٹھا سکے.پچھلے جمعہ میں نے جو خطبہ دیا تھا، اس میں، میں نے جماعت کے سامنے ایک سکیم یہ پیش کی تھی کہ ہمیں فوری طور پر آٹھ زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم کی ضرورت ہے.اور میں نے بتایا تھا کہ خدا کے فضل سے یہ کام شروع ہو چکا ہے.انگریزی ترجمہ تو کمل ہو گیا ہے.جو دو جلدوں میں انشاء اللہ تعالٰی شائع ہوگا.پہلی جلد چھپ رہی ہے، جس کے مجلس شوری تک شائع کر دینے کا پریس والوں نے وعدہ کیا ہے.408
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 27 اکتوبر 1944ء دوسری جلد کے تفسیری نوٹوں کی میں اپنی ہدایات کے مطابق اصلاح کرارہا ہوں، وہ بھی انشاء اللہ جلدی مکمل ہو جائے گی.باقی سات اور زبانوں میں تراجم کی ضرورت ہے.اور میں نے بتایا تھا کہ ان ساتوں زبانوں میں تراجم شروع ہو چکے ہیں یعنی روی ، جرمن، فرانسیسی ، اطالین ، ڈچ، پرتگیزی اور سپینش زبانوں میں ہمیں یقین دلایا گیا ہے کہ یہ تراجم غالبا جون یا جولائی 45 ء تک مکمل ہو جائیں گے.اس کے بعد کچھ وقت نظر ثانی پر لگے گا.اس لئے جنگ کے خاتمہ تک تراجم انشاء اللہ بالکل تیار ہو جائیں گے.پھر چھپوائی پر بھی کچھ وقت لگے گا.میں نے تراجم کے خرچ کا اندازہ بتایا تھا کہ فی ترجمہ اگر چھ ہزار روپیہ اوسط لگالیں تو سات تراجم کے لئے بیالیس ہزار روپیہ کا اندازہ ہے.(اس بارہ میں یا درکھنا چاہئے کہ تراجم کے کرنے کا وعدہ سات جماعتوں یا سات افراد کی طرف سے آچکا ہے.1.میری طرف سے.2,3.لجنہ اماءاللہ کی طرف سے.4,5.قادیان و کارکنان صدر انجمن کی طرف سے.6.سر محمد ظفر اللہ خان صاحب اور ان کے بعض دوستوں کی طرف سے.7.میاں غلام محمد صاحب اختر اور ان کے دوستوں کی طرف سے یالاھور کی جماعت کی طرف سے.ان دو امیدواروں کی نسبت بعد میں فیصلہ ہوگا کہ کسے حق دیا جائے؟ اس کے علاوہ کلکتہ کی جماعت کی طرف سے اور میاں محمد صدیق اور محمد یوسف صاحبان تاجران کلکتہ کی طرف سے.بعدۂ ملک عبدالرحمان مل اونر قصور اور سیٹھ عبداللہ بھائی صاحب سکندر آباد کی طرف سے بھی ایک ایک ترجمے کا خرچ کا وعدہ آچکا ہے.جزاهم الله احسن الجزاء.لیکن اب یہ مدختم ہو چکی ہے، اس وجہ سے پانچ وعدے شکریہ کے ساتھ واپس کرنے ہوں گے ) اس کے بعد چھپوائی کا سوال ہے.میں نے بتایا تھا کہ اگر ایک ترجمہ کی چھپوائی کا اندازہ پندرہ ہزار روپیہ اوسطا لگا لیں تو سات تراجم کی چھپوائی پر ایک لاکھ پانچ ہزار روپیہ خرچ آئے گا.گویا تراجم کا خرچ شامل کر کے ساتوں کی مکمل اشاعت پر ایک لاکھ سنتالیس ہزار روپیہ خرچ آئے گا اور اگر جلد بندی وغیرہ کا خرچ بھی تیرہ چودہ ہزار روپیہ شمار کر لیا جائے تو ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپیہ بنتا ہے.409
اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 27 اکتوبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم قرآن مجید کے تراجم کے علاوہ میں نے بتایا تھا کہ مختلف مسائل کی کتابوں کا ایک سیٹ ہونا چاہئے.اور یہ سیٹ میں نے بارہ بارہ کتابوں کا تجویز کیا تھا.پس ساتوں زبانوں کی چوراسی کتابیں بنتی ہیں.آج میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان پر کتنا خرچ ہوگا ؟ انگریزی اور عربی کے لئے ترجمہ کے خرچ کی ضرورت نہیں.صرف سات زبانوں میں ترجمہ کے خرچ کی ضرورت ہے.پس ان چوراسی کتابوں کا اگر ایک ہزار روپیہ اوسطاًفی کتاب ترجمہ کا خرچ لگالیں تو چوراسی ہزار روپیہ بنتا ہے.اور اگر ایک ایک روپیہ اوسطا فی کتاب جلد بندی سمیت لاگت شمار کر لیں تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ ایک زبان میں ایک کتاب کی پانچ ہزار کا پیاں چھپوانے پر پانچ ہزار روپیہ خرچ ہوگا اور ایک زبان میں بارہ کتابیں پانچ پانچ ہزار چھپوانے پر ساٹھ ہزار روپیہ لگے گا اور ساتوں زبانوں میں بارہ بارہ کتابوں کا سیٹ چھپوانے پر چار لاکھ بیس ہزار روپیہ خرچ آئے گا.انگریزی اور عربی زبانوں میں بارہ بارہ کتب کے سیٹ کے چھپوانے پر مزید ایک لاکھ ہیں ہزار روپیہ خرچ آئے گا.اس میں چوراسی ہزار روپیہ کتابوں کے تراجم کا خرچ شامل کیا جائے تو کل خرچ کتب کے ترجمہ اور چھپوائی پر چھ لاکھ چوبیس ہزار ہوتا ہے.اس میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپیہ قرآن مجید کے تراجم کا بھی شمار کر لیا جائے تو سات لاکھ اٹھاسی ہزار روپیہ کی رقم بنتی ہے.اور جیسا کہ میں نے بتایا تھا مختلف قسم کے ٹریکٹوں اور اشتہارات کی بھی ان زبانوں میں ضرورت ہے.اگر چالیس ہزار روپیہ اشتہارات کا خرچ بھی شامل کر لیا جائے تو یہ آٹھ لاکھ چوبیس ہزا رو پسیہ کا اندازہ ہو جاتا ہے.اور اگر خط و کتابت، تاریں اور دوسرے فوری اخراجات کو شامل کر لیا جائے تو یوں سمجھنا چاہیے کہ اس سارے کام کے لئے ساڑھے آٹھ لاکھ روپیہ کی ضرورت ہے.اتنی رقم ہمارے پاس ہونی چاہیے تا کہ ہم کام کی ابتداء کر سکیں.جس طرح نوجوانوں کے لئے میگزین مہیا کیا جاتا ہے، اسی طرح ہمارے لئے بھی دنیا میں تبلیغ کی ابتداء کرنے کے لئے اس میگزین کی ضرورت ہے.پس ہمیں یہ روپیہ مہیا کرنا ہوگا تا کہ جنگ کے خاتمہ پر ہم تیار ہوں اور مبلغین کو باہر بھیج سکیں“.میں نے وقف جائیداد کی تحریک کی تھی.اس وقت تک جو جائیداد میں وقف ہو چکی ہیں، وہ ساٹھ لاکھ روپیہ کی ہیں.ابھی پانچ چھ سو آدمی ایسے بھی ہیں، جنہوں نے وقف جائیداد کے فارم نہیں بھجوائے.ان کو شامل کر کے ایک کروڑ روپیہ کی جائیدادیں وقف ہو چکی ہیں اور صحیح حسابی نقطہ نگاہ سے سوا کروڑ روپیہ کی.کیونکہ کچھ آمد نیاں بھی وقف ہیں اور ہم نے ان کو اتنا ہی شمار کیا ہے، جتنی کہ آمدنی ہے.حالانکہ جائیداد اور آمدنی میں فرق ہے.جائیداد سے اس کی مالیت کا بیسواں حصہ آمدنی ہوتی ہے.سو روپیہ وو 410
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 اکتوبر 1944ء کی جائیداد ہو تو اس سے پانچ روپیہ کی آمد درست سمجھی جاتی ہے.پس اس کے برخلاف اگر پانچ روپیہ کی آمد وقف ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک سو روپیہ کی جائیداد وقف ہو گئی.چونکہ ایک لاکھ میں ہزار روپیہ کی آمد وقف ہو چکی ہے، اس لئے حسابی لحاظ سے ہم کہیں گے کہ چھبیس لاکھ روپیہ کی جائیداد وقف ہوگئی ہے.اس حساب سے بجائے نوے لاکھ کے، ایک کروڑ سترہ لاکھ کی جائیداد وقف ہو چکی ہے.ابھی جماعت میں بہت سا حصہ باقی ہے.اگر وہ بھی اس امر کو سمجھیں کہ یہ چیز بہت ضروری ہے تو یہ وقف جائیداد کا فنڈ بہت زیادہ بڑھ سکتا ہے.زمیندار طبقہ نے اس طرف بہت کم توجہ کی ہے.اس وقت تک جس قسم کے لوگوں نے سوا کروڑ روپیہ کی جائیداد میں وقف کی ہیں، ان کے مقابلہ میں صرف سرگودھا، لائل پور اور منٹگمری کے علاقوں میں ایک کروڑ روپیہ کی جائیدادیں وقف ہو سکتی ہیں.بہر حال اس وقت تک ایک کروڑ سترہ لاکھ روپیہ کی جائیدادیں وقف ہو چکی ہیں.اگر کسی وقت ہم اس کے پانچ فیصدی کا مطالبہ کریں تو اس کے معنی ہیں، ہو اچھ لاکھ یا اس سے زیادہ روپیہ ہم ضرورت کے وقت مہیا کر سکتے ہیں اور اگر وقف جائیداد کی تحریک مکمل ہو جائے اور جن لوگوں نے ابھی تک اس میں حصہ نہیں لیا، وہ بھی حصہ لیں تو پھر اس روپیہ کی مقدار جسے ہم ضرورت کے وقت مہیا کر سکتے ہیں اور بھی بڑھ جائے گی.لیکن جیسا کہ میں پہلے بھی کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں، یہ آخری حد اور ہماری آخری خندق ہوگی.اس سے پہلے ہم اپنا سا راز ور ر لگا دیں گے کہ طوعی چندہ سے سلسلہ کی ضرورتیں پوری ہوں.وقف جائیداد کی سکیم ہماری آخری خندق ہے.مگر یہ ایسی چیز ہے اور ایسی شاندار خندق ہے کہ اس کی وجہ سے کام کرنے والوں کی ہمتیں بڑھ جاتی ہیں اور حوصلے بلند ہو جاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں ، جب کوئی صورت نہ رہے گی تو ہمارے پاس ایک ایسی چیز موجود ہے، جس سے کام کی ضرورت کے مطابق ہم روپیہ لے سکتے ہیں.اس وقت تک ساری جماعت نے اس کی اہمیت کو نہیں سمجھا.اس وقت تک صرف سولہ سو کے قریب آدمیوں نے وقف جائیداد کی تحریک میں حصہ لیا ہے اور یہ قریباً سوا کروڑ روپیہ کا وقف صرف سولہ سو آدمیوں کی جائیدادوں اور آمد نیوں کے وقف سے قائم ہوا ہے.اگر جماعت کے باقی افراد بھی اس کی اہمیت کو سمجھیں اور اس تحریک میں حصہ لیں بلکہ اگر صرف پانچ ہزار آدمی ہی اس تحریک میں حصہ لیں تو یہ تحریک بہت مضبوط ہوسکتی ہے.اور اس وقت تک جتنی جائیدادیں وقف ہو چکی ہیں، اگر ہم ان وقف کرنے والوں کی جائیدادوں کی قیمت موجودہ واقفین کی جائیداد کی قیمت سے نصف بھی لگالیں تو بھی موجودہ وقف شدہ جائیدادیں ملا کر اڑھائی کروڑ روپیہ کا وقت ہو جائے گا بلکہ اس سے بھی زیادہ.جس کے یہ معنی ہیں کہ اگر 411
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 27 اکتوبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم ہم اڑھائی کروڑ روپیہ کی وقف شدہ جائیدادوں پر صرف پانچ فیصدی کا مطالبہ کریں تو بارہ تیرہ لاکھ روپیہ کی آمدنی چند ماہ میں ہو سکتی ہے.پس اگر ہم دنیا میں وسیع پیمانہ پر حملہ کرنا چاہتے ہیں اور ایسے رنگ میں تبلیغ کرنا چاہتے ہیں، جو دنیا میں ہیجان پیدا کر دے تو اس کے لئے نہایت ضروری ہے کہ ہمارے پاس کوئی ایسی چیز ہو، جس کے ذریعہ ہم فوری ضرورت کو پورا کر سکیں.ممکن ہے کسی ملک میں ایسا جوش پیدا ہو جائے کہ وہاں پر بہت سے مبلغین بھیجنے پڑیں اور ہمیں مبلغین کی تعداد اور خرچ کو بڑھانا پڑے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ایک موقعہ پر اکٹھے چالیس مبلغ ایک قبیلہ کے لئے بھیجنے پڑے.حالانکہ اس وقت صرف ہزاروں کی جماعت تھی اور محمد ود سلسلہ تھا مگر ایک قبیلہ کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چالیس مبلغ بھیجے.ایک دوسرے موقعہ پر آپ نے ایک جگہ ستر مبلغ بھیجے.اسی طرح ممکن ہے، ہمیں بھی زیادہ مبلغین بھیجنے کی ضرورت پڑے.ممکن ہے، روس میں ہماری تبلیغ سننے کا جوش پیدا ہو جائے یا امریکہ میں جوش پیدا ہو جائے یا جرمنی میں جوش پیدا ہو جائے یا چین میں جوش پیدا ہو جائے.اگر ہم وقت پر ان کے جوشوں کو نہیں سنبھالیں گے تو وہ ٹھنڈے ہو جائیں گے.اور اگر سنبھالیں گے تو کسے معلوم ہے کہ دو ہزار مبلغوں تک کی ضرورت یک دم پیش نہ آجائے؟ اگر ایسا ہوا تو ہمیں ان کے اخراجات کے لئے بہت سے روپیہ کی ضرورت پڑے گی اگر ہم لٹریچر وغیرہ ملا کر ایک مبلغ کا خرچ تین ہزار روپیہ اوسطا لگالیں تو ہمیں دو ہزار مبلغین کے لئے ساٹھ لاکھ روپیہ کی ضرورت پڑے گی.پس جماعت کو اپنے اندر بیداری پیدا کرنا چاہیے اور آنے والی ضرورت کو آج ہی محسوس کر کے اس کے لئے سامان مہیا کرنے کی کوشش کرنا چاہیے.دوسری طرف تبلیغ پر بھی ہمیں زور دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت ہماری تعداد بہت کم ہے اور جتنا وسیع ہمارا کام ہے، اتنی بنیاد نہیں.عمارت بنانے میں سب سے زیادہ جس چیز کا خیال رکھا جاتا ہے، وہ بنیاد ہے.بنیاد جتنی مضبوط ہوگی اور اس میں جتنی روڑی کوئی جائے گی ، عمارت بھی اتنی مضبوط ہوگی اور بلند جاسکے گی.دین کی جو عمارت بنے گی، اس میں ہماری حیثیت روڑی کی ہے اور ہمارا مقام روڑی کا ہے.اس لئے ہماری جتنی کو ٹائی ہوگی ، ہم پر بننے والی عمارت اتنی ہی مضبوط ہوگی." اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بڑی سے بڑی عمارت کا قیمتی حصہ وہ روڑی ہوتی ہے، جو اس کی بنیادوں میں کوئی جاتی ہے.صحابہ ” کی روڑی اور اس کی کو ٹائی اتنی مضبوط تھی کی تیرہ سو سال تک کام دیتی رہی اور اس پر مضبوط عمارت قائم ہوئی.پس جتنی زیادہ گہری بنیاد ہوگی اور اس میں جتنی زیادہ روڑی 412
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 27 اکتوبر 1944ء کوئی جائے گی ، اتنی ہی وہ عمارت مضبوط بنے گی لیکن اگر اس عمارت کی بنیاد کے لئے دس ہزار بورے روڑی کی ضرورت ہو اور ہم اس میں ڈالیں ایک ہزار بورا تو عمارت کی بنیاد کبھی مضبوط نہیں ہوگی.جب تک اس کے لئے ہم دس ہزار بورے مہیا نہ کریں.اس زمانہ میں ہم نے اسلام کی عمارت کے لئے اس کی ضرورت کے مطابق روڑی بھی مہیا نہیں کی، جس کا سب سے پہلے مہیا کرنا ضروری ہے.اگر ہم نے اس روڑی کو مہیا نہ کیا تو ہمارا کامیابی حاصل کرنے کا زمانہ پانچ دس گنا اور لمبا ہو جائے گا اور اس وقت تک ہم کامیاب نہیں ہوں گے، جب تک زیادہ کو ٹائی نہ ہولے اور مضبوط بنیاد کا کام دینے والی بنیاد تیار نہ ہو.پس ایک تو اس بات کی ضرورت ہے کہ جماعت پورے زور کے ساتھ تبلیغ کی طرف توجہ کرے اور اپنی تعداد کو بڑھائے اور دوسرے اس بات کی ضرورت ہے کہ وقف جائیداد کی تحریک میں زیادہ سے زیادہ آدمی حصہ لیں اور وقف کے فنڈ کو بڑھائیں“.وو.اس کے بعد میں جماعت کو ایک اور بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.مفصل طور پر تو میں انشاء اللہ اگلے خطبہ میں بیان کروں گا، اس وقت صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ تبلیغی نبہ کو مکمل کرنے کے لئے ہماری جماعت کے مختلف پیشہ وروں کے ادارے ہوں ، جن کے ذریعہ تبلیغ کے شعبه نظام کو مکمل کیا جائے.اب ضرورت ہے کہ ہماری جماعت کے تاجروں کی ایک انجمن ہو ، صناعوں کی ایک انجمن ہو، مزدوروں کی ایک انجمن ہو، محکمہ تعلیم کے کارکنوں کی انجمن ہو، وکیلوں کی انجمن ہو، ڈاکٹروں کی انجمن ہو تا کہ اس طریق سے یہ تمام ادارے وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ کے اصول کے مطابق اپنے اپنے حلقہ میں اپنے اثر و رسوخ کو کام میں لا کر تبلیغ کر سکیں.وکیل وکالت کے ذریعہ اپنے اثر و رسوخ کو وسیع کر کے تبلیغ کا کام کرے.ڈاکٹر اپنی ڈاکٹری کے ذریعہ جہاں جائے، اسلام کی تعلیم کو پھیلانے کا موجب بنے.تاجر اپنی تجارت کے ذریعہ اپنا اثر ورسوخ بڑھا کر تبلیغ کا میدان پیدا کرے.صناع اپنی کاریگری کے ذریعہ اثر و رسوخ پیدا کر کے تبلیغ کا ذریعہ بنے.ان سب پیشہ وروں کی انجمنیں ہونی چاہئیں، جو اس کام کو چلائیں.جب تک تاجر اپنی تجارت کو اس رنگ میں بدل نہیں لیتے کہ ان کی تجارت سے انہی کو فائدہ نہ ہو بلکہ اسلام اور احمدیت کی ترقی میں بھی وہ محد ہو، 413
اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 27 اکتوبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم جب تک صناع اپنے آپ کو اس رنگ میں نہیں ڈھال لیتے کہ اپنی کاریگری کے ذریعہ تبلیغ کا موجب ہوں ، جب تک ڈاکٹر اور وکیل اپنے آپ کو اس رنگ میں منظم نہیں کر لیتے کہ اپنے اپنے حلقہ میں اپنے کام کے لحاظ سے اس قسم کا اثر و رسوخ پیدا کریں، جو نہ صرف ان کے لئے مفید ہو بلکہ احمدیت کی مضبوطی کا بھی موجب ہو، اس وقت تک غیروں میں ہماری تبلیغ کبھی کامیاب اور وسیع نہیں ہوسکتی.ایک تبلیغ عقلی اور علمی ہے اور ایک تبلیغ یہ ہے کہ عقلی دلائل کو عمل میں لا کر تبلیغ کی جائے.جب تک ہم علمی اور عملی دونوں کو مل کر تبلیغ نہ کریں، اس وقت تک ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.اس کے متعلق پوری تفصیل میں انشاء اللہ آئندہ خطبہ میں بیان کروں گا.فی الحال میں نے جماعت کے ان لوگوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے تا کہ آنے والے کام کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کر لیں ، اپنے ایمانوں کو پختہ کر لیں اور اپنے کمزوروں کو چست کرلیں.پس وقف جائیداد کے حصہ کو مضبوط بنایا جائے تاکہ ضرورت کے وقت کارکنوں کو تسلی ہو کہ دشمن اگر ہمیں پیچھے دھکیل دے گا تو ہمارے پیچھے ایک خندق اور ایک مضبوط امورچہ موجود ہے.اس پر جا کر ہم پھر دشمن کا مقابلہ کر سکتے ہیں.اس وقت اس تحریک کے صرف یہ معنی ہیں کہ جب ہمارے سارے ذرائع ختم ہو جائیں تو اس وقت اسلام کی ضرورت کے لئے مطالبہ کرنے پر کسی اشتباہ یا دغدغہ کا سوال باقی نہ رہے بلکہ اس وقت ہمارے پاس وقف جائیداد کا سہارا موجود ہو اور ہم وقف کرنے والوں سے مطالبہ کر سکیں کہ آپ کا وعدہ ہے کہ یہ جائیداد اسلام کی ضرورت کے لئے وقف ہے.آج اسلام کو اس کی ضرورت ہے اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ہم آپ سے اس کا مطالبہ کرتے ہیں، آپ اس میں سے ہمیں اتنا حصہ دے دیں.چونکہ ہر مومن جب وعدہ کرتا ہے تو اسے پورا کرتا ہے.اس لئے ہم یقین رکھیں گے کہ وہ اپنا وعدہ پورا کرے گا اور اسلام کی ضرورت پوری ہو جائے گی.میں نے اندازہ لگایا ہے کہ ایک کروڑ روپیہ کی جائیدادیں قادیان میں ہی وقف ہو سکتی ہیں.ایک کروڑ نہ سہی پچاس ساٹھ لاکھ روپے کی جائیدادیں تو ضرور قادیان میں وقف ہو سکتی ہے.پس اگر ساری جماعت اس کی اہمیت کو سمجھے تو وقف جائیداد کا اتنا بڑا فنڈ قائم ہو سکتا ہے، جو بغیر فوری بوجھ کے جماعت کو مضبوط کر دے اور یہ فنڈ اسلام کے مجاہدین کے لئے تسلی کا موجب ہوگا اور وہ اس اطمینان کے ساتھ آگے بڑھیں گے کہ ہمارے پیچھے گولہ بارود بھیجنے والا ذخیرہ محفوظ ہے 66 مطبوع الفضل 03 نومبر 1944ء) 414
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 03 نومبر 1944ء تراجم قرآن مجید اور لٹریچر کے خرچ کی علاقہ وار تقسیم خطبہ جمعہ فرمودہ 03 نومبر 1944ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.دو تین دن سے مجھے پھر نقرس کی تکلیف ہوئی ہے.پہلے یہ تکلیف ایک ایک پاؤں میں ہوا کرتی تھی ، اب دونوں میں ہوتی ہے.اس وجہ سے خطبہ دینا مشکل تھا.یہاں تک کہ مسجد میں آنا بھی مشکل تھا کیونکہ اس وقت بھی درد ہورہا ہے.جوتی میں پاؤں ڈالنا بھی مشکل ہے مگر میں اس لئے چلا آیا ہوں کہ قرآن کریم کے تراجم کے لئے چندہ کی تحریک میں جونئی بات پیدا ہوگئی ہے، اس کے لحاظ سے بعض امور بیان کروں.میں نے پچھلے خطبہ سے پہلے خطبہ میں (120اکتوبر کو ) قرآن مجید کے سات تراجم کے متعلق تحریک کی تھی.جہاں تک اس کی کامیابی کا سوال تھا، مجھے اس میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ اس وقت تک خدا تعالیٰ کا میرے ساتھ ہمیشہ یہ معاملہ رہا ہے کہ وہ جب کبھی میرے منہ سے کوئی بات نکلواتا ہے تو اس کی کامیابی کے سامان بھی کر دیتا ہے.لیکن اس میں ایک نئی بات پیدا ہو گئی ہے کہ اس تحریک کے بعد جو درخواستیں آئی ہیں، وہ ہمارے مطالبہ سے بہت زیادہ ہیں.ہمارا مطالبہ تھا،سات تراجم کے اخراجات کا اور درخواستیں آئی ہیں بارہ تراجم کے اخراجات کے لئے.اور ابھی بیر ونجات سے چٹھیاں آرہی ہیں کہ وہ اس چندہ میں حصہ لینا چاہتے ہیں.جہاں تک وسیع علاقوں کا تعلق ہے اور جہاں جماعتیں پھیلی ہوئی ہیں، وہ علاقے چونکہ سب کے مشورہ کے بغیر کوئی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتے ، اس لئے ان درخواستوں میں وہ شامل نہیں.کیونکہ وہ جلدی مشورہ کر کے اتنے وقت کے اندر اطلاع نہیں دے سکتیں تھیں.یہ درخواستیں صرف ان جماعتوں کی طرف سے ہیں، جو اپنی ذمہ داری پر اس بوجھ کو اٹھاسکتی تھیں یا افراد کی طرف سے ہیں.مثلاً چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور ان کے بعض دوستوں کی طرف سے ، میاں غلام محمد صاحب اختر اور ان کے دوستوں کی طرف سے لاہور کی جماعت کی طرف سے، کلکتہ کی جماعت کی طرف سے، اور میاں محمد صدیق صاحب اور محمد یوسف صاحبان تاجران کلکتہ کی طرف سے ، ملک عبد الرحمان صاحب مل اونر قصور کی طرف سے اور سیٹھ عبداللہ بھائی سکندرآباد کی طرف سے.یہ سب درخواستیں ان جماعتوں کی ہیں، جہاں یا یا 415
خطبہ جمعہ فرمودہ 03 نومبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم افراد زیادہ ہیں اور وہ اس ذمہ داری کا بوجھ بغیر دوسری جماعتوں سے مشورہ کرنے کے خود اٹھا سکتی ہیں یا ان افراد کی طرف سے ہیں، جو صاحب توفیق ہیں اور یہ بوجھ اٹھا سکتے ہیں.قادیان کی جماعت کے متعلق مجھے یقین دلایا گیا ہے کہ ایک ترجمہ کی جگہ وہ دو کا خرچ اپنے ذمہ لے گی اور لجنہ کا بھی جس رنگ میں چندہ ہو رہا ہے، اس رنگ میں دو کا بھی سوال نہیں بلکہ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا چندہ دو سے بھی بہت زیادہ ہوگا کیونکہ اس وقت تک لجنہ قادیان کی طرف چھ ہزار تین سو روپے کے وعدے آچکے ہیں اور ابھی ہزار بارہ سو روپیہ کے وعدوں کی اور امید ہے.(خطبہ صاف کرتے وقت تک آٹھ ہزار سے زائد کے وعدے ہو چکے ہیں.گو میں نے سارے ہندوستان کی لجنہ کے ذمہ جو ایک ترجمہ کا خرچ لگایا تھا، اس سے زیادہ کے وعدے قادیان سے ہی ہو چکے ہیں اور ابھی باہر کی ساری لجنا ئیں باقی ہیں.اسی طرح قادیان کی جماعت کے علاوہ صدر انجمن کے کارکنوں نے بھی ایک ترجمہ کا خرچ اپنے ذمہ لیا ہے.کارکنوں کے علاوہ دوسروں کے چندہ کا وعدہ ایک ترجمہ سے زیادہ کا ہو چکا ہے اور ابھی اور ہو رہا ہے.اب ان جماعتوں یا افراد کی طرف سے، جن کا حصہ نہیں لیا جا سکا ، الحاح کی چٹھیاں آرہی ہیں اور وہ اصرار کے ساتھ لکھ رہی ہیں کہ ہمیں بھی اس چندہ میں حصہ لینے کا موقع دیجئے.لیکن میں سات تراجم میں سے بارہ حصہ لینے والوں کو کس طرح موقع دے سکتا ہوں؟ میں یہ بھی نہیں کر سکتا کہ جو پہلے ہوں ، ان کو پیچھے کردوں، اس لئے کہ صرف وہی حصہ لے سکے گا.جو قرب میں رہتا ہے، اس میں دخل نہیں دے سکتا.اور کوئی صورت انسانی ذہن میں ایسی نہیں آسکتی کہ قرب میں رہنے والوں اور باہر رہنے والوں کو قربانی کا ایک سا موقع دیا جا سکے اور نہ ہی کوئی ایسی شرط لگائی جاسکتی ہے، جس سے دونوں برابر ہو جائیں.فرض کرو، ہم یہ شرط لگا دیں کہ فلاں وقت کے بعد آ کر اپنے وعدے دے دیئے جائیں تو اس وقت بھی جو قرب میں رہتا ہوگا ، وہ دروازہ پر آ کر کھڑا رہے گا اور جب بھی وہ وقت ہوگا، اپنا وعدہ دے جائے گا.پس ایسا کوئی ذریعہ نہیں، جس سے یہ خدائی فرق مٹ جائے.اس کا مٹانا ناممکن ہے.صرف بے وقوف یا خشک فلسفی، جنہوں نے روحانیت اور ایمان میں قدم نہیں رکھا، وہی اس قسم کی مساوات کا قائل ہو سکتا ہے، جس میں کوئی امتیاز باقی نہ رہے.تعلیم کو ہی لے لیا جائے تو کیا سارے تعلیم حاصل کرنے والے ایک جیسی قابلیت اور ایک جیسے دماغ کے ہوتے ہیں؟ اور کیا سکول میں پڑھنے والوں میں سے سارے انٹرنس پاس کر لیتے ہیں؟ سارے لڑکے ایک ہی وقت میں ایک ہی استاد سے ایک ہی کتاب پڑھتے ہیں مگر ان میں 416
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 03 نومبر 1944ء سے ایک کا دماغ نہایت اعلیٰ ہوتا ہے اور اس کے اندر زیادہ قابلیت پیدا ہو جاتی ہے اور دوسرے کے اندروہ قابلیت پیدا نہیں ہوتی.یہی انٹرنس پاس تھے یا ان سے کم تعلیم یافتہ لوگ تھے، جن میں سے ایڈیسن اور ایسے ہی اور مشہور لوگ پیدا ہوئے کہ بڑے بڑے انٹرنس پاس اور بڑے بڑے سائنسدان ان کے سامنے طفل مکتب کی بھی حیثیت نہیں رکھتے.ایک طرف وہ بھی تھے اور دوسری طرف بعض انٹرنس پاس بھی ہوتے ہیں کہ اگر ان کو ایک فقرہ لکھایا جائے تو صحیح نہیں لکھ سکیں گے.پس اس قسم کی مساوات انسانی طاقت سے بالا ہے.ایسے موقع پر یہی کیا جائے گا کہ جنہوں نے قرب میں رہنے کے لئے قربانی کی ہوگی، ان کی وہ قربانی کام آجائے گی اور وہ دوسروں سے پہلے دین کے کاموں میں حصہ لے سکیں گے.پس ان حالات میں نہ تو میں یہ کر سکتا ہوں کہ جو پہلے ہیں، ان کو پیچھے کردوں اور نہ ہی یہ کر سکتا ہوں کہ سات تراجم کے لئے بارہ کے وعدے لے لوں.آخر سوچ کر میں نے فیصلہ کیا کہ چونکہ سینکڑوں کے دل میں اس موقع سے محروم رہنے سے خلش پیدا ہورہی ہے ، اس لئے چاہئے کہ ان کو بھی فائدہ اٹھانے کا موقع دیا جائے.اور ایسے حالات میں نے مناسب سمجھا کہ گزشتہ جمعہ میں جس امر کے متعلق خطبہ دینے کا اعلان میں نے کیا تھا، اسے ملتوی کر کے آج کے خطبہ میں اس بات کے متعلق بیان کر دوں.تا کہ جو حصہ لینے کے لئے بیتاب ہیں، ان کو بھی موقع دیا جائے اور ان کے لئے بھی اس تحریک میں حصہ لینے کا رستہ کھل جائے.جیسا کہ میں نے اعلان کیا تھا ، سات زبانوں میں بارہ بارہ کتابوں کے سیٹ کی مکمل اشاعت کے خرج کا اندازہ پانچ لاکھ چار ہزار روپیہ ہے.( عربی اور انگریزی میں بارہ بارہ کتب کا سیٹ چھپوانے پر ایک لاکھ بیس ہزار و پیہ خرچ کا اندازہ اس کے علاوہ ہے.) اور قرآن مجید کے تراجم کی چھپوائی کا اندازہ ایک لاکھ پانچ ہزا روپیہ اور جلد بندی کا خرچ مل کر ایک لاکھ بائیس ہزار وپیہ کا اندازہ ہے.تراجم کا بیالیس ہزار کا وعدہ تو آچکا ہے، اب چھپوائی کا خرچ باقی ہے.میں چاہتا ہوں کہ اس خرچ کے حصے کر دوں تا کہ سب کو حصہ لینے کا موقع مل سکے اور ان پر کوئی ایسا بوجھ نہ پڑے کہ وہ دوسرے اہم چندوں میں پیچھے رہ جائیں.اس لئے میں نے تجویز کی ہے کہ قرآن مجید کے سات تراجم کی اشاعت کا خرچ اور سات زبانوں میں بارہ بارہ کتابوں کے سیٹ کی مکمل اشاعت کا خرچ ( یعنی پانچ ہزار روپیہ ایک کتاب کا جلد بندی سمیت چھپوائی کا خرچ اور ایک ہزار رو پیدا ایک کتاب کا ایک زبان میں ترجمہ کا خرچ.میں خود جماعتوں پر تقسیم کر دوں.قرآن مجید کے ایک زبان کے ترجمہ کی اشاعت کا پندرہ ہزا رو پہیہ اور ایک زبان میں ایک کتاب کی مکمل اشاعت کا چھ ہزار روپیہ، یہ اکیس ہزار روپیہ بنتا ہے.اگر خدا تعالیٰ توفیق دے تو چند افرادمل کر یا ایک ایک 417
خطبہ جمعہ فرمودہ 03 نومبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم جماعت ہی یہ اکیس ہزارو پی کر و سکتی ہے مگر اس قسم کی ساری جماعتیں نہیں ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے، کلکتہ کی جماعت نے ایک ترجمہ کا خرچ اور ایک ترجمہ کی اشاعت کا خرچ ، جس کے معنی ہیں، اکیس ہزار روپیہ اپنے ذمہ لیا ہے.کلکتہ کی جماعت نے ابھی ابھی بغیر دوسرے لازمی چندوں میں کوئی کمی کرنے کے پچاس ہزا روپیہ وہاں کی مسجد کے لئے جمع کیا تھا.اتنی بڑی قربانی کے بعد وہ بھی زیادہ روپیہ نہیں دے سکتے تھے مگر خدا تعالیٰ نے ان کو توفیق دی اور انہوں نے اکیس ہزار و پیدا اپنے ذمہ لیا ہے.مگر عام طور پر وہ حلقے ، جو ایک قرآن کریم کے ترجمہ کی اشاعت اور ایک کتاب کے ترجمہ اور اس کی اشاعت کا بوجھ اٹھا سکیں، اتنے وسیع ہیں کہ اپنے علاقہ سے مشورہ کرنا ان کے لئے بہت وقت چاہتا ہے.سوائے قادیان کے حلقہ کے کہ یہ جماعت ایسی ہے کہ وہ اکیلی یہ بوجھ اٹھا سکتی ہے اور بوجہ ایک شہر کی جماعت ہونے کے فورا مشورہ کر سکتی ہے.باقی جماعتیں ایسی ہیں، جو اگر حصہ لینا چاہیں تو تین تین، چار چار یا پانچ پانچ ضلعے مل کر اس رقم کو پورا کر سکتی ہیں اور اس وجہ سے ان کا جلدی مشورہ کر کے اس تحریک میں حصہ لینے کی اطلاع دینا مشکل بلکہ ناممکن ہے.لیکن جن کے دلوں میں جوش اور اخلاص ہے، ان کو اس موقعہ سے محروم کر دینا بھی ظلم ہے.مومن ہی سمجھ سکتا ہے کہ قربانی کا موقعہ نہ ملنے سے اسے کتنی تکلیف ہوتی ہے؟ منافق تو موقعہ نکل جانے پر سمجھتا ہے چلو چھٹی ہوئی.مگر مومن کی اس چھ ہزار یا پانچ ہزار یا دس ہزار روپیہ کی قربانی کو اگر قبول نہ کیا جائے تو اس کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اس کو دس ہزار روپیہ واپس کر دیا گیا ہے یا پانچ ہزار روپیہ واپس کر دیا گیا ہے یا چھ ہزار روپیہ واپس کر دیا گیا ہے بلکہ اسے یوں معلوم ہوتا ہے کہ چھ ہزار تنخر اس کے سینہ میں گھونپ دیا گیا ہے.اس تکلیف کو وہی سمجھ سکتا ہے، جس کی روحانی آنکھیں ہوں.دوسری دنیا اس تکلیف کو نہیں سمجھتی.پس ان حالات کو مد نظر رکھ کر میں نے تجویز کیا ہے کہ قرآن مجید کے تراجم کی اشاعت کا خرچ اور سات زبانوں میں ایک ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ میں خود ہی علاقوں پر تقسیم کر دوں تا کہ سب کو اس تحریک میں حصہ لینے کا موقعہ مل سکے اور اس ثواب سے وہ محروم نہ رہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کلکتہ کی جماعت نے خود اپنے ذمہ اکیس ہزار روپیہ لیا ہے.اس کے علاوہ وہاں کے ایک خاندان کے دو بھائیوں نے چھ ہزار روپیہ جماعت سے علیحدہ اپنے ذمہ لیا ہے.پس وہاں سے یہ رقم آسانی سے جمع ہو سکتی ہے کیونکہ انہوں نے خود ہی یہ بوجھ اٹھانے پر آمادگی ظاہر کی ہے.پاس ان سات حصوں میں سے پہلے حصے کا بوجھ اٹھانے کا حق کلکتہ کو ملتا ہے.یعنی قرآن مجید کے ایک ترجمہ کی چھپوائی اور ایک کتاب کی مکمل اشاعت کا خرچ اور یہ حق میں ان کو دیتا ہوں.اگر وہ چاہیں تو ہماری طرف سے اجازت ہے کہ وہ بنگال کی دوسری جماعتوں کو بھی اس میں شامل کر لیں.418
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 03 نومبر 1944ء اس کے علاوہ قرآن مجید کے ایک ترجمہ کی اشاعت اور ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ قادیان کی جماعت کے ذمہ لگا تا ہوں.یہ دو تراجم کے خرچ کے علاوہ ہوگا.اگر میری اور میرے خاندان کی حالت اس وقت ایسی ہوتی کہ ہم اپنے ذمہ ایک ترجمہ کی اشاعت کا خرچ علیحدہ لے سکتے تو میں اپنا حصہ الگ لے لیتا.لیکن سر دست میں اس کا فیصلہ نہیں کر سکتا، اس لئے سردست ہم بھی باقی جماعت قادیان کے ساتھ شامل ہو کر ایک ترجمہ کی اشاعت میں حصہ لیں گے.قرآن مجید کے ایک ترجمہ کی چھپوائی کا خرچ اور ایک کتاب کی ایک زبان میں مکمل اشاعت کا خرچ میں لجنہ اماء اللہ کے ذمہ لگاتا ہوں.لجنہ کی طرف سے بارہ ہزار کا وعدہ پہلے آچکا ہے، یعنی دو تراجم کرانے کا خرچ.اس بارہ ہزار کو اس نئی ذمہ داری کے ساتھ ملایا جائے تو کل تینتیس ہزار و پیہ بنتا ہے.اس رقم کا جمع کرنا ان کے لئے مشکل نہیں.میں سمجھتا ہوں اگر وہ اچھی طرح کوشش کریں تو تینتیس ہزار روپیہ سے بھی زیادہ جمع کر سکتی ہیں.مسجد جرمن کے لئے ستر ہزار سے زیادہ روپیہ انہوں نے جمع کر لیا تھا اور اب اس وقت سے جماعت بھی زیادہ ہے اور مالی حیثیت کے لحاظ سے بھی پہلے کی نسبت اچھی حالت ہے.اس لئے بغیر اس کے کہ دوسرے چندوں پر کوئی اثر پڑے، وہ یہ بوجھ آسانی سے اٹھا سکتی ہیں.بلکہ حق یہ ہے کہ وہ اس سے زیادہ بوجھ اٹھاسکتی ہیں.اگر لجنہ کی تنظیم اچھی ہو اور اچھا کام کرنے والیاں ہوں، جو پراپیگنڈا کریں اور چھٹیاں لکھیں تو وہ ایک لاکھ روپیہ بغیر کسی مشکل کے بڑی آسانی سے ادا کرسکتی ہیں.ہماری جماعت میں دو تین سو آدمیوں کی بیویاں ایسی ہیں ، جو 100 100 روپیہ آسانی سے دے سکتی ہیں.یہ سو، سور و پسیہ میں نے کم سے کم بتایا ہے ورنہ بعض ایسی بھی ہیں، جو تین تین، چار چار سو دے سکتی ہیں.بعض ایسی ہیں، جو ہزار ہزار دے سکتی ہیں.بہر حال ایسی مالدار عور تیں آسانی سے نہیں چالیس ہزار دے سکتی ہیں اور باقی متوسط طبقہ اور غرباء کو ملا کر آسانی سے ایک لاکھ روپیہ جمع ہو سکتا ہے کیونکہ مالدار طبقہ سے زیادہ چندہ غرباء کا ہوتا ہے.غرباء کی تعداد زیادہ ہوتی ہے.پس اگر ہماری جماعت کی غریب مستورات سے اٹھنی اٹھنی بھی جمع کی جائے تو پچاس ہزار روپیہ بن جائے گا.پس عورتوں کے ذمہ ایک لاکھ روپیہ بھی لگا دیا جائے تو آسانی سے دے سکتی ہیں.مگر چونکہ تحریک جدید بھی اور دوسری بھی بعض مدیں ہیں.اس لئے فی الحال 21 ہزار روپیہ کی رقم ان کے ذمہ اور لگاتا ہوں.12 ہزار کا ان کا پہلا وعدہ ہے، 21 ہزار روپیہ یہ ملاکر تینتیس ہزا رو پے ہو جائیں گے.چوتھا حصہ حیدر آباد دکن، صوبہ مدراس اور بمبئی اور میسور کی جماعتوں کو دیتا ہوں.گویا بمبئی، مدراس اور ان صوبوں سے ملحقہ ریاستیں یہ سب مل کر اکیس ہزار رو پیدا اپنے ذمہ لے لیں.اگر یہ جماعتیں 419
خطبہ جمعہ فرمودہ 03 نومبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اخلاص سے چندہ دیں تو میں سجھتا ہوں کہ یہ رقم دے سکتی ہیں.گوان علاقوں میں جماعتیں کم ہیں مگر آسودہ حال لوگ خاصی تعداد میں ہیں.باقی تین حصے رہ گئے.چونکہ ایک ترجمہ کے خرچ کا وعدہ لاہور کی جماعت نے اور ایک ترجمہ کے خرچ کا وعدہ قصور کے عبدالرحمن صاحب مل اونر نے کیا ہوا ہے اور یہ بارہ ہزار روپیہ کی رقم بنتی ہے اور صرف نو ہزار کی زائد ضرورت رہتی ہے، پس اس حصہ کی رقم کو پورا کرنے کی ذمہ داری میں اضلاع لا ہور، فیروز پور شیخو پورہ، گوجرانوالہ اور امرتسر پر مقرر کرتا ہوں.یہ پانچ اضلاع مل کر اکیس ہزار روپیہ آسانی سے دے سکتے ہیں.اگر جماعتوں کے کارکن اپنی ذمہ داری کو سمجھیں تو ان پانچ ضلعوں کے لئے یہ کوئی بڑی رقم نہیں.ایک ترجمہ قرآن مجید کی چھپوائی کا خرچ اور ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ، اکیس ہزار روپیہ صوبہ سرحد اور صوبہ سند ھ مل کر اٹھا سکتے ہیں.ان صوبوں میں جماعتیں بے شک کم ہیں لیکن اگر وہاں کے کارکن صحیح طور پر کوشش کریں تو اتنا چندہ کوئی مشکل نہیں.پھر اس کی ادائیگی کی مدت بھی ایک سال تک چلے گی.اس لئے اس عرصہ میں ایسی کوشش کی جاسکتی ہے کہ بغیر دوسرے چندوں پر اثر ہونے کہ یہ رقم آسانی سے جمع ہو سکے.31 اکتوبر 1945 ء تک اس وعدہ کی ادائیگی کی میعاد ہے.اس کے متعلق مجھے پوری واقفیت نہیں کہ ان صوبوں میں جماعتوں کی تعداد کتنی ہے؟ اگر بعد میں معلوم ہوا کہ ان کی تعداد تھوڑی ہے اور اس لحاظ سے اکتیں ہزاروپیہ کی رقم زیادہ ہوئی تو پھر پنجاب کے بعض اضلاع مثلاً ملتان، ڈیرہ غازی خان مظفر گڑھ 600.راولپنڈی کیمل پور وغیرہ بھی ان کے ساتھ شامل کر دئے جائیں گے.یہ چھ حصوں کی تقسیم ہوئی.ساتویں ترجمہ قرآن مجید کی چھپوائی اور ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ میں ضلع لدھیانہ ضلع انبالہ، ریاست پٹیالہ، دہلی، یوپی اور بہار کے علاقوں کے ذمہ لگا تا ہوں.یہ تین صوبے اور کچھ حصہ پنجاب کا ، ہندوستان کا یہ وسطی علاقہ قرآن مجید کے ایک ترجمہ کی چھپوائی کا خرچ اور ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ اکیس ہزار و پی میرے نزدیک آسانی سے جمع کر سکتا ہے.ان سات جگہوں پر ایک ایک ترجمہ قرآن مجید کی چھپوائی اور ایک ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ میں نے خود تقسیم کر دیا ہے.لیکن ایسا میں نے حکما نہیں کیا بلکہ ان کی آسانی اور سہولت کے لئے ایسا کیا ہے.لاہور کے علاقہ کی ذمہ داری میں لاہور کی جماعت پر ڈالتا ہوں کہ وہ شیخو پورہ، گوجرانوالہ، فیروز پور اور امرتسر کے اضلاع سے مشورہ کریں اور اگر اس مشورہ کے بعد وہ ایک حصہ کی ذمہ داری اٹھا سکتے ہوں تو ایک حصہ اس حلقہ کے لئے لے لیں.اگر معلوم ہوا کہ یہ حلقہ اس رقم کو پورا نہیں کر سکتا اور کچھ کسر رہا جاتی ہے تو کچھ اور اضلاع اس حلقہ میں ملا دیئے جائیں گے.لیکن اگر فرق زیادہ ہوا تو پھر یہ حصہ کسی اور ا 420
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک......جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 03 نومبر 1944ء جماعت اور حلقہ کو دے دیا جائے گا یا یوں کہنا چاہیے کہ اگر وہ یہ انعام نہ لینا چاہیں تو پھر یہ انعام اور علاقوں کو دے دیا جائے گا.اسی طرح صوبہ سرحد اور صوبہ سندھ کے امراء اپنے اپنے صوبہ کی جماعتوں سے مشورہ کر کے اطلاع دیں کہ ان کا صوبہ کس حد تک یہ بوجھ اٹھا سکتا ہے؟ جب ان دونوں کی طرف سے اطلاع آ جائے گی تو پھر ہم اندازہ کرسکیں گے کہ آیا دونوں صوبے مل کر اکیس ہزار پیہ کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں یانہیں.اگر اس اندازہ سے کچھ کمی ہوئی تو پھر اور علاقہ ان کے ساتھ ملا دیں گے لیکن اگر یہ معلوم ہوا کہ یہ رقم اندازہ سے بہت کم ہے تو پھر یہ انعام ہم کسی اور علاقہ کو دے دیں گے.اسی طرح دہلی کے حلقہ کے لئے دہلی مرکز ہے.دہلی کی جماعت اپنے حلقہ کے لئے ضلع لدھیانہ ضلع انبالہ، ریاست پٹیالہ، یوپی اور بہار کی جماعتوں سے مشورہ کر کے اطلاع دے کہ آیا یہ صوبہ اکیس ہزار روپیہ کا بوجھ بغیر اس کے کہ دوسرے چندوں پر اس کا اثر پڑے، اپنے ذمہ لے سکتا ہے یا نہیں.اگر ان کا جواب آیا کہ ہاں ہم آسانی سے لے سکتے ہیں تو پھر یہ انعام ان کو دے دیا جائے گاور نہ یہ انعام ہم کسی اور علاقہ کو دے دیں گے.کلکتہ والوں نے خود ہی وعدہ کیا ہے، اس لئے ان کی طرف سے کسی اطلاع کی ضرورت نہیں.البتہ ہماری طرف سے اجازت ہے کہ اگر وہ چاہیں تو بنگال کی جماعتوں کو ساتھ ملالیں.حیدرآباد کے حلقہ کے لئے میں سکندر آباد اور حیدر آباد کی جماعتوں کے امراء اور سیکریٹریوں کو ذمہ دار بناتا ہوں کہ وہ میسور بمبئی اور مدراس کی جماعتوں کے امراء اور کارکنوں سے مشورہ کر کے اطلاع دیں.اگر ان جماعتوں نے کہا کہ ہم یہ بوجھ اٹھا سکیں گے تو یہ انعام ان کے پاس رہنے دیں گے.یا اگر انہوں نے کہا کہ فلاں حد تک اٹھا سکتے ہیں تو پھر اور قریب قریب کے علاقوں کو ان کے ساتھ ملا دیا جائے گا.اور اگر انہوں نے کہا کہ ہم یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتے یاوہ اندازہ سے بہت کم اٹھا سکتے ہوں کیونکہ اس طرف جماعتیں بہت کم ہیں تو پھر ہم یہ انعام کسی اور علاقہ کو دے دیں گے.پس ان سات جگہوں پر میں نے یہ انعام اپنی طرف سے تقسیم کر دیا ہے.حکم کے طور پر نہیں بلکہ ان کی سہولت اور آسانی کے لئے کیونکہ خود حلقے مقرر کرنا ، جماعتوں کے لئے ناممکن تھا، تا کہ وہ اس انعام سے محروم نہ رہ جائیں.ابھی بہت سے علاقے باقی ہیں، سیالکوٹ، گجرات ، جہلم، سرگودھا، لائل پور، ملتان، منٹگمری ، جالندھر، ہوشیار پور وغیرہ.یہ سب اضلاع ابھی تک ریز رو کے طور پر رکھے ہیں تا کہ اگر دوسرے حلقوں میں سے بعض یہ پورا بوجھ نہ اٹھا سکیں اور ان کے چندوں میں کچھ کمی رہ جائے تو ان علاقوں میں سے کچھ حصہ ان کے ساتھ ملا دیا جائے یا اگر کوئی علاقہ یہ بوجھ نہ اٹھانا چاہے تو پھر وہ انعام ریز رو اضلاع کو دے دیا جائے.متذکرہ علاقوں کے سوا اور بھی کئی علاقے ہیں، جن کو میں نے ریزرو کے طور پر رکھ لیا ہے.پس یہ اعلان میں نے اس لئے کر دیا ہے تا کہ جن لوگوں کے دلوں میں اس تحریک میں حصہ لینے اور اس موقع سے فائدہ اٹھانے کا جوش ہے ، وہ مایوس نہ ہوں.تراجم کا خرچ پورا ہو چکا ہے مگر خالی ترجمہ 421
خطبہ جمعہ فرمودہ 03 نومبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں دے سکتا، جب تک چھپ کر اس کی اشاعت نہ ہو.اس لئے ان تراجم کا چھپوانا بھی ترجمہ ہی کا حصہ ہے اور جن کو تراجم میں حصہ لینے کا موقعہ نہیں ملا، وہ ان کی چھپوائی میں حصہ لے کر ثواب میں شریک ہو سکتے ہیں.کیونکہ ترجمہ جب تک چھپ نہ جائے بالکل ایسا ہی ہے، جس طرح ایک آدمی گونگا ہو اور بات نہ کر سکے اور بہرا ہو، کسی دوسرے کی بات بھی نہ سن سکے.ایسے ہی ترجمہ بھی اس وقت تک بے کار ہے ، جب تک اسے شائع نہ کیا جائے.پس تراجم کی اشاعت میں حصہ لینے والے تراجم کرانے میں حصہ لینے والوں سے کم نہیں.انہوں نے ترجمہ کروانے میں حصہ لے کر ثواب حاصل کیا ، یہ اس ترجمہ کو چھپوا کر اسی ثواب میں شامل ہو سکتے ہیں.جنہوں نے تراجم میں حصہ لے لیا ہے، انہوں نے اس لئے حصہ نہیں لیا کہ وہ دوسروں سے اخلاص میں زیادہ تھے بلکہ اس لئے کہ قرب میں رہنے کی وجہ سے ان کو حصہ لینے کا پہلے موقعہ دیا گیا.ہماری شریعت کا فیصلہ ہے کہ جس کے اندر جوش اور اخلاص ہو ، خدا تعالیٰ اس کو ثواب میں حصہ دے دیتا ہے.مگر چونکہ ظاہر طور پر حصہ نہ لے سکنے کا دل کو صدمہ ہوتا ہے، اس لئے میں نے ظاہر میں بھی موقعہ مہیا کر دیا ہے تا کہ مومنوں کے دلوں کو صدمہ نہ ہو اور وہ ظاہر و باطن میں ثواب کے کام میں شریک ہوں اور اسی غرض کے لئے میں نے ایک ایک ترجمہ قرآن کریم کی اشاعت اور ایک ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ ان سات حصوں پر تقسیم کر دیا ہے.ایک ترجمہ قرآن مجید اور ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ سارے ہندوستان کی لجنہ اماءاللہ کے ذمہ لگایا ہے، ایک ترجمہ قرآن مجید کی اشاعت اور ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ قادیان کی جماعت کے ذمہ ڈالا ہے، ایک ترجمہ قرآن مجید کی اشاعت اور ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ لاہور ، امرتسر، شیخو پورہ، گوجرانوالہ اور فیروز پور کی جماعتوں پر ڈالا ہے، ایک قرآن مجید کے ترجمہ کی اشاعت اور ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ دہلی، بہار، یوپی اور ضلع لدھیانہ ضلع انبالہ اور ریاست پٹیالہ کے ذمہ لگایا ہے، ایک ترجمہ کی اشاعت اور ایک کتاب کی اشاعت کا بوجھ پہلے ہی کلکتہ کی جماعت نے اپنے ذمہ لیا ہوا ہے، ایک ترجمہ قرآن مجید کی اشاعت اور ایک کتاب کی اشاعت کا بوجھ حیدر آباد دکن، میسور، بمبئی ، مدراس اور اس کے ساتھ ملحقہ ریاستوں کے ذمہ لگایا ہے اور ایک ترجمہ قرآن مجید کی اشاعت اور ایک کتاب کی اشاعت کا بوجھ صوبہ سرحد اور صوبہ سندھ کی جماعتوں کے ذمہ لگایا ہے.یہ سات تراجم قرآن کی اشاعت اور سات کتب کی اشاعت کا خرچ ہے مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے، یہ ذمہ داری اختیاری ہے، جبری نہیں.جو حلقہ اس بوجھ کو نہ اٹھا سکے، وہ اطلاع دے، اس کا حصہ کسی دوسرے حلقہ کو دے دیا جائے گا.پس جب ان علاقوں کی طرف سے اطلاع آجائے گی کہ انہوں نے یہ 422
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 03 نومبر 1944ء بوجھ اپنے ذمہ لے لیا ہے.اس وقت سے یہ چندہ ان کے ذمہ سمجھا جائے گا.میں نے صرف ان کو مشورہ دیا ہے اور اس لئے ان کے نام لے دیئے ہیں تا کہ وہ اس موقعہ سے محروم نہ رہ جائیں ورنہ ضروری نہیں کہ وہ یہ بوجھ اپنے ذمہ لیں.میں نے صرف اس لئے نام لے دیئے تا کہ مشورہ کر کے ہمیں جلدی اطلاع دے سکیں.اور اگر وہ حصہ نہ لینا چاہیں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ابھی ہمارے پاس جماعت کے ایسے حصے ریز رو ہیں، جو اس بوجھ کو اٹھا لیں گے یا یوں کہو کہ اس انعام کو اچک لیں گے.پس میں نے جماعتوں کے نام بھی بتا دیئے ہیں اور ہر جگہ کا مرکز بھی مقرر کر دیا ہے.ہر علاقہ کے مراکز کو چاہیے کہ مجھے ایک مہینہ کے اندر اندر یعنی 30 نومبر تک اپنے حلقہ کی جماعتوں سے مشورہ کر کے اطلاع دے کہ کس حد تک ان کا علاقہ بوجھ اٹھا سکتا ہے؟ ان وعدوں کی ادائیگی کے لئے ایک سال کی میعاد ہے، آخری میعاد 1 13 اکتوبر 1945ء ہے.پس مجھے ایک مہینہ کے اندر اندر یعنی 30 نومبر تک بلکہ 25 نومبر تک یہ اطلاع پہنچ جانی چاہیے کہ آیا وہ علاقے ، جن کے میں نے نام لئے ہیں، یہ بوجھ اٹھانے کا ذمہ لینے کے لئے تیار ہیں یا نہیں.تا کہ اگر وہ تیار نہ ہوں تو ہم یہ انعام دوسروں کو دے سکیں.ابھی پنجاب کے کئی ضلعے باقی ہیں اور ابھی ہندوستان کے بھی کئی علاقے باقی ہیں ، جن پر ہم یہ انعام تقسیم کر سکتے ہیں.اسی طرح ہندوستان کے باہر کے علاقے باقی ہیں اور ابھی بعض افراد کے گروپ بھی باقی ہیں، جو آسانی سے یہ بوجھ اپنے ذمہ لے سکتے ہیں.اس لئے جن علاقوں کے میں نے نام لئے ہیں، ان پر کوئی جبر نہیں بلکہ ان کی سہولت کے لئے نام لئے ہیں چاہیں تو یہ بوجھ اپنے ذمہ لے لیں اور نہ چاہیں تو معذوری ظاہر کر دیں.ہم بغیر کسی شکوہ کے یہ بوجھ کسی اور علاقہ کے سپرد کر دیں گئے.( مطبوع الفضل 8 نومبر 1944ء) 423
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 10 نومبر 1944ء تحریک جدید تبلیغ احمدیت کے لئے ایک بنیاد کی طرح ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 10 نومبر 1944ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.مجھے بعض حالات کی وجہ سے اس دفعہ پھر گذشتہ خطبات کے تسلسل میں ہی جمعہ کا خطبہ پڑھنا پڑا ہے اور وہ حالات یہ ہیں کہ جماعت کے مختلف افراد کی طرف سے، ان کی طرف سے بھی، جنہوں نے چندہ کی پیش کش کی تھی اور ان کی طرف سے بھی، جو اس چندہ میں شمولیت کا ارادہ رکھتے تھے، متواتر اور مسلسل اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ انہیں اس تحریک میں شامل ہونے کا موقعہ ملنا چاہئے.جن لوگوں نے قرآن کریم کے تراجم کے متعلق پوری رقم کا وعدہ کیا تھا، انہوں نے تو گوہ مختلف جگہوں کے ہیں، یہ سوال اٹھایا ہے، جس کا ایک رنگ میں میں پچھلے جمعہ میں جواب دے بھی چکا ہوں کہ جس وقت ہم نے خطبہ پڑھا ہے، اسی وقت ہم نے اپنی درخواست بھیجوا دی تھی، اس لئے ہم میں اور ان لوگوں میں امتیاز نہیں ہونا چاہیے، جنہوں نے کہ خطبہ کے بعد اسی عرصہ میں اپنی درخواستیں بھجوائی ہیں.ان میں سے بعض نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ جوتراجم آپ نے جماعت پر تقسیم کئے ہیں، ان میں سے بعض ایسے ہیں، جو ان لوگوں نے خود نہیں مانگے ، جن کے سپر داس ترجمہ کے اخراجات کا مہیا کرنا کیا گیا ہے.مثلاً لجنہ اماءاللہ کے سپر د جو دو تراجم کئے گئے ہیں، وہ دونوں ایسے ہیں، جو لجنہ نے خود نہیں مانگے.اسی طرح قادیان کے رہنے والوں کو جن تراجم کا حق دیا گیا ہے، ان میں سے ایک ایسا ہے، جس کا انہوں نے خود مطالبہ نہیں کیا.اس طرح تین تراجم ایسے ہیں یا اگر ایک کو اس وجہ سے الگ کر لیا جائے کہ عورتیں بھی اس تحریک میں شامل ہونے کا حق رکھتی ہیں تو دوتراجم ایسے ہیں، جو بجائے ان لوگوں کو ملنے کے جنہیں زائد طور پر یہ حصہ دے دیا گیا ہے، ان دوسرے لوگوں کو ملنے چاہیں، جن کا حق مارا گیا ہے اور جو اگر پورے ترجمہ کے خرچ میں حصہ نہیں لے سکے تو وہ اپنی طاقت اور توفیق کے مطابق اس تحریک میں شامل ہو کر ثواب حاصل کرنے کی انتہائی آرزور کھتے ہیں.بعض لوگوں نے اپنے خطوط میں یہ بھی لکھا ہے کہ ہم تو پورے ترجمہ کا حصہ لینا چاہتے تھے لیکن پیشتر اس کے کہ ہم رقم کا انتظام کر سکتے ، یہ اعلان ہو گیا کہ تمام حصے ختم ہو گئے ہیں.425
خطبہ جمعہ فرموده 10 نومبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اسی طرح وہ لوگ ، جو انفرادی طور پر اس تحریک میں حصہ لینا چاہتے تھے، انہوں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ آپ کی طرف سے جو تقسیم کی گئی ہے، اس میں ہمارا کوئی حصہ نہیں رکھا گیا.مثلاً ہماری جماعت کے وہ دوست جو فوج میں بھرتی ہو کر گئے ہیں، ان میں سے بعض کے مجھے خطوط آئے ہیں کہ ہمیں کسی گروہ میں بھی شامل نہیں کیا گیا.حالانکہ ہم بھی اس تحریک میں شامل ہونا چاہتے ہیں.اسی طرح بعض اضلاع ایسے ہیں، جن کو ریز رو کے طور پر رکھا گیا تھا.ممکن ہے ان کے دلوں میں بھی اس تقسیم کے متعلق کوئی اعتراض پیدا ہو.انہی اعتراضات میں سے ایک اعتراض ان افراد کی طرف سے بھی آیا ہے، جو براہ راست مرکز میں اپنا چندہ بھجوایا کرتے ہیں کہ اس تحریک میں بڑی بڑی جماعتیں تو شامل کر لی گئیں ہیں لیکن وہ افراد جو براہ راست اپنا چندہ قادیان بھیجا کرتے تھے، رہ گئے ہیں اور ان کو اس تحریک میں شمولیت کا کوئی حق نہیں دیا گیا.غرض مختلف جماعتوں اور مختلف افراد کی طرف سے اس بارہ میں مجھے خطوط پہنچ رہے ہیں اور بعض خطوط میں تو اس قسم کے اضطراب کا اظہار کیا گیا ہے اور اس قدرقلق اور گھبراہٹ کا ان خطوط سے پتہ چلتا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے ہماری جماعت کے ان دوستوں کو جنہیں اس ثواب میں شامل ہونے کا موقع نہیں ملا، سخت تکلیف ہو رہی ہے اور ان کے لئے یہ امر انتہائی کرب اور دکھ کا موجب ہوا ہے.جس دوست نے یہ لکھا ہے کہ بعض حصے بلا طلب کرنے کے بعض کو زائد طور پر دے دیئے گئے ہیں.جیسے لجنہ اماءاللہ ہے کہ اسے بجائے ایک حصہ کے دو حصے دے دیئے گئے ہیں.میں نے اس دوست کے اس سوال پر غور کیا ہے اور مجھے اس کی یہ بات معقول معلوم ہوئی ہے.یعنی جہاں تک مطالبہ کرنے والوں کا سوال ہے، اسے نظر انداز کر کے بھی بعض جماعتوں کو ان کے حق سے زائد حصہ دے دیا گیا ہے.مثل الجنہ اماء اللہ کو پہلے ایک حصہ دیا گیا تھا اور اس کی وجہ جیسا کہ میں نے بیان بھی کی تھی، یہ تھی کہ عورتیں ایک بے زبان گروہ ہیں، جو ابھی پورے طور پر منظم نہیں ہوئیں اور ان کے لئے اکٹھا ہونے اور باقاعدہ طور پر اس تحریک میں اپنی شمولیت کا اعلان کرنے میں بہت سی مشکلات پیش آسکتی تھیں ، اس لئے میں نے ان کو ایک ترجمہ قرآن کے خرچ کا حق اپنے طور پر دے دیا تھا.لیکن بعد میں ان کو جو دوسرا حصہ دیا گیا ، وہ یقیناً ایک زائد چیز ہے.اسی طرح قادیان والوں کا ایک حصہ تو ان کا حق کہلا سکتا ہے لیکن دوسرا حصہ جو ان کو دیا گیا ، وہ ان کا حق نہیں کہلا سکتا بلکہ یہی کہنا پڑتا ہے کہ ایک جگہ اور ایک مقام میں رہنے والوں کو بجائے ایک کے دو حصے دے دیئے گئے ہیں.پس اس حصہ کے متعلق بھی جو اعتراض دوستوں کی طرف سے کیا گیا ہے، 426
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم خطبه جمعه فرموده 10 نومبر 1944ء وہ ایک حد تک وزنی ہے اور میرے نزدیک وہ اس سوال کے اٹھانے میں حق بجانب ہیں کہ جب وہ اس کا بوجھ کو اٹھانے کے لئے تیار ہیں تو پھر جن کو زائد از حق ملا ہے، ان سے وہ حصہ انہیں واپس دلایا جائے.ہماری جماعت کے وہ چندہ دہندگان، جو براہ راست اپنا چندہ مرکز میں بھجوایا کرتے ہیں اور جنہوں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ ہمیں اس تحریک میں شامل ہونے کا موقع نہیں ملا.ان کا اعتراض بھی ایک حد تک وزنی ہے.گو میں نے ایسے تمام دوستوں کو ریز رو کے طور پر رکھا ہوا تھا اور میرا منشاء یہ تھا کہ اگر چندہ میں کمی رہی یا بعض اضلاع اپنی ذمہ داری کو پوری طرح ادا کرنے سے قاصر رہے تو ایسے دوستوں کو اس ثواب میں شامل ہونے کا موقع دے دیا جائے گا.مگر جو لوگ ریز رو کے طور پر علیحدہ رکھے گئے ہوں ضروری نہیں ہوتا کہ ان تک حصہ پہنچے.اس کی ایسی ہی مثال ہے، جیسے کسی کو کہا جائے کہ بچا ہوا کھانا ہم تمہیں دیں گے.جب کسی کو یہ کہا جائے تو ضروری نہیں ہوتا کہ اسے کھانا ملے.بلکہ اسے کھانا ملنا اس شرط کے ساتھ مشروط ہوتا ہے کہ ضرورت سے زائد اگر کچھ بچا تو دیا جائے گا ورنہ نہیں.اسی طرح ضروری نہیں تھا کہ ریزرو میں جن اضلاع یا جن افراد جماعت کو رکھا گیا تھا، ان کو اس تحریک میں شامل ہونے کا ضرور موقعہ ملتا.بالکل ممکن تھا کہ یہ تحریک دوسرے دوستوں کے ذریعہ ہی پوری ہو جاتی.اسی وجہ سے ان کے دلوں میں یہ اعتراض پیدا ہوا ہے اور میں سمجھتا ہوں ان کا یہ اعتراض درست ہے.جیسے میں نے بتایا ہے کہ ہماری جماعت کے وہ دوست ، جو فوج میں ملازم ہیں، ان کی طرف سے یہ سوال پیش ہوا ہے کہ ہم ایک ایسے مقام پر ہیں، جہاں ہماری جان جانے کا ہر وقت خطرہ ہے اور ہم اس مقام پر محض آپ کے ارشاد اور آپ کے حکم کی تعمیل میں آئے ہیں.آپ نے ہمیں کہا کہ ہم جنگ میں بھرتی ہوں اور آپ نے ہمیں کہا کہ اس جنگ میں شامل ہونا انصاف کے قیام اور اسلام کی ترقی کے لئے محد ہے.آپ کے اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ، ہم جنگ میں شامل ہوئے اور اب ہر وقت اپنی جان کو قربان کرنے کے لئے ہم تیار کھڑے ہیں.مگر ہمارا اس تحریک میں کوئی حصہ نہیں رکھا گیا.جب ہم آپ کے حکم سے فوج میں بھرتی ہوئے ہیں اور مرکز سے دور چلے گئے ہیں تو قرآن کریم کے ترجمہ میں حصہ لینے سے اس لئے محروم رہ جانا کہ ہم دور ہیں اور ہم تک فوراً آواز نہیں پہنچ سکتی ، درست نہیں.ان کی یہ بات بھی میرے نزدیک بہت معقول ہے اور اس قابل ہے کہ اس کی طرف توجہ کی جائے.اسی طرح پنجاب کے بہت سے اضلاع ایسے ہیں، جنہیں اس تحریک میں شامل نہیں کیا گیا.مجھے ان اضلاع کی طرف سے ابھی تک اجتماعی رنگ میں کوئی خطوط موصول نہیں ہوئے.میرے پاس یا تو 427
خطبہ جمعہ فرموده 10 نومبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم ان افراد کی طرف سے خطوط آئے ہیں، جنہوں نے ایک ایک ترجمہ کا پورا خرچ چندہ کے طور پر پیش کیا تھا مگر ان کا وعدہ اس لئے قبول نہ کیا گیا کہ اس وقت تک بعض اور دوست مطلوبہ رقم کو پورا کر چکے تھے یا جو اس طرح حصہ لینا چاہتے تھے مگر اطلاع دینے سے پہلے ہی حصے ختم ہو گئے یا ان لوگوں کی طرف سے خطوط آئے ہیں، جو سپاہی وغیرہ ہیں اور فوج میں بھرتی ہو چکے ہیں اور یا پھر ان افراد کی طرف سے خطوط پہنچے ہیں، جو جماعتوں میں شامل نہیں، انفرادی طور پر الگ الگ مرکز میں اپنا چندہ بھجواتے ہیں.ممکن ہے وہ جماعتیں، جن کو اس تحریک میں ابھی تک شامل نہیں کیا گیا، وہ بھی موقعہ پر احتجاج کرتیں.جیسے سیالکوٹ ہے، سرگودھا ہے، لائل پور ہے، ہنگری ہے، گجرات ہے، جہلم ہے، جالندھر ہے، ہوشیار پور ہے.مگر ابھی تک ان کی طرف سے مجھے اس قسم کے کوئی خطوط موصول نہیں ہوئے.صرف تین گروہ ہیں ، جن کی طرف سے مجھے اعتراضات پہنچے ہیں.اول وہ، جنہوں نے پورے ترجمہ کا خرچ برداشت کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر اس وجہ سے کہ اس وقت تک تمام تراجم کے حصے پورے ہو چکے تھے، ان کا وعدہ قبول نہ کیا گیا.ان کا یہ اعتراض ہے کہ جماعت میں سے ترجمة القرآن کے سلسلہ میں بعض کو چندہ دینے کا دہرا حق دے دیا گیا ہے اور پھر بعض صورتوں میں یہ دہر ا حق ان کو دیا گیا ہے، جنہوں نے اس حق کو مانگا نہیں تھا.وہ کہتے ہیں کہ اول تو اگر کوئی مانگے بھی تو اسے دہر احق نہیں ملنا چاہئے لیکن بغیر مانگنے اور بغیر تقاضا کرنے کے تو کسی کو اس کے حق سے زائد کوئی چیز دے دینا بالخصوص ایسی صورت میں جب کہ بعض اور لوگوں کے حقوق پر اس کا اثر پڑتا ہو، درست نہیں ہوسکتا.اور میں نے جیسا کہ بیان کیا ہے میرے نزدیک ان کا یہ اعتراض معقول ہے.دوسرے وہ ہیں، جو براہ راست چندہ بھیجا کرتے ہیں.انہوں نے یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ ہمارے لئے اس تحریک میں شامل ہونے کا کوئی حق نہیں رکھا گیا.تیسرے وہ ، جو میدان جنگ میں گئے ہوئے ہیں یا فوج میں مختلف عہدوں پر کام کر رہے ہیں.ان کی طرف سے یہ شکایت پہنچی ہے کہ جب ہم آپ کے حکم کے مطابق فوج میں بھرتی ہوئے ہیں تو ہمارا بھی اس تحریک میں حصہ ہونا چاہئے.در حقیقت ہندوستان میں تین قسم کے سپاہی کام کر رہے ہیں.ایک وہ، جو محض تنخواہ اور روپیہ کے لئے فوج میں بھرتی ہوئے ہیں.ان کا مقصد صرف دنیا کمانا ہوتا ہے، کوئی اور مقصد ان کے سامنے نہیں ہوتا.428
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرموده 10 نومبر 1944ء دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں، جن کا پیشہ سپاہ گری ہوتا ہے اور وہ فوج میں بھرتی ہو کر اپنی جنگی سپرٹ کو قائم رکھنا چاہتے ہیں.گو ان لوگوں کے دلوں میں بھی حب الوطنی کا جذبہ موجود ہوتا ہے مگر بہر حال فوج میں شامل ہونے سے ان کی اصل غرض اپنی فوجی روح اور جنگی سپرٹ قائم رکھنا ہوتی ہے.تیسرے وہ لوگ ہوتے ہیں، جو کسی بلند مقصد کے لئے فوج میں بھرتی ہوتے ہیں.جیسے ہماری جماعت کے افراد، جو فوج میں بھرتی ہوئے ، انہوں نے میری ہدایات اور میرے احکام کے مطابق اپنے آپ کو بھرتی کے لئے پیش کیا.بلکہ ہماری جماعت میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں، جو اپنی معقول ملازمتیں ترک کر کے محض میرے حکم کی اطاعت کے لئے فوج میں بھرتی ہو گئے تا کہ وہ اس جنگ میں حصہ لے سکیں، جس کے متعلق میں نے انہیں یہ کہا تھا کہ یہ ملک کی خدمت اور دنیا سے ظلم اور تعدی کو مٹانے کا ذریعہ ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ ہماری جماعت میں سے جس قدر لوگ فوج میں بھرتی ہوئے ہیں، وہ سب کے ، بلا استثناء اسی مقصد کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے فوج میں بھرتی ہوئے ہیں.ممکن ہے بعض احمدی بھی روپیہ کمانے کے لئے فوج میں بھرتی ہوئے ہوں.اسی طرح ممکن ہے بعض احمدی بھی جنگی روح اور اپنی خاندانی روایات کو قائم رکھنے کے لئے فوج میں شامل ہوئے ہوں.لیکن بہر حال ہماری جماعت کے وہ دوست ، جو محض میرے حکم کی تعمیل کے لئے اس جنگ میں شامل ہوئے ہیں، جو اس لئے فوج میں بھرتی نہیں ہوئے کہ دنیا کمائیں یا اپنی جنگی سپرٹ کو قائم رکھیں بلکہ اس لئے گئے ہیں کہ یہ جنگ دنیا سے ظلم مٹانے کے لئے لڑی جارہی ہے اور مومن کا کام ہے کہ وہ جو ر اور ظلم کو مٹائے اور اپنے ملک کی خدمت کرے وہ یقیناً دنیا کمانے کے لئے نہیں گئے بلکہ ثواب کمانے کے لئے گئے ہیں اور ایسے آدمی اگر اس جنگ میں مارے جائیں گے تو وہ یقیناً جیسا کہ گذشتہ دنوں الفضل میں ایک بحث چھپی تھی ، ایک رنگ کے شہید قرار پائیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے شہادت کا دائرہ محدود نہیں رکھا بلکہ اس کے دائرہ کو آپ نے بہت وسیع قرار دیا ہے.ایک شہادت وہ ہوتی ہے، جو خالص دینی جنگ میں شامل ہونے پر انسان کو حاصل ہوتی ہے.جب اسلام پر اس کو مٹانے کے لئے دشمن کی طرف سے حملہ ہو تو اس وقت خطرات بہت زیادہ ہوتے ہیں اور اس وقت جان جانے کا بہت زیادہ امکان ہوتا ہے، اس لئے جو شخص اس قسم کی مذہبی جنگ میں شامل ہوتا اور اپنی جان اسلام کے لئے قربان کر دیتا ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے شہید قرار دیا ہے.لیکن شہادت صرف یہی نہیں بلکہ اور بھی کئی قسم کی شہادتیں ہیں، جنہیں اسلام نے تسلیم کیا 429
خطبہ جمعہ فرموده 10 نومبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم ہے.انہی شہادتوں میں سے ایک یہ بھی شہادت ہے.یعنی اگر ہماری جماعت کا کوئی شخص اس جنگ میں مارا جاتا ہے تو وہ یقیناً شہید ہے.بشرطیکہ اس کی نیت درست ہو اور وہ محض اسی ارادہ سے اس جنگ میں شامل ہوا ہو کہ مجھے اپنے امام کی طرف سے یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا سے ظلم اور تعدی کو مٹانے اور اسلام کے راستہ سے مختلف قسم کی روکوں کو دور کرنے کے لئے اس جنگ میں شمولیت ضروری ہے.پس وہ لوگ ، جو میرے حکم کے مطابق فوج میں بھرتی ہوئے ہیں، ان کا حق یقینا ہم نظر انداز نہیں کر سکتے.اسی طرح وہ لوگ جن کو اس چندہ میں بالکل شامل نہیں کیا گیا اور انہیں اس ثواب میں شامل ہونے کا موقع نہیں ملا، ان کا اعتراض بھی وزنی ہے.ان حالات میں میں نے غور کیا کہ کیا میں کوئی ایسی تدبیر اختیار کر سکتا ہوں، جس سے یہ تمام اعتراضات مٹ جائیں؟ آخر غور کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ سب سے پہلے میں اپنی قربانی پیش کروں اور اس ذریعہ سے دوسرے دوستوں کے لئے اس تحریک میں شامل ہونے کا راستہ صاف کر دوں.چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ میں نے جو ایک ترجمة القرآن اپنے اور اپنے خاندان کے لئے مخصوص کیا ہوا تھا، میں اس ترجمہ کی رقم کو قادیان کے چندہ میں ہی جمع کرا دوں اور اپنا حق چھوڑ دوں.میں نے جس رقم کا وعدہ کیا تھا، وہ بہر حال قائم رہے گی لیکن اب بجائے اس کے کہ وہ ترجمة القرآن میری طرف سے شائع ہو، قادیان کی جماعت کی طرف سے شائع ہوگا اور میرا چندہ بھی قادیان کے چندہ میں ہی شامل ہوگا.لجنہ اماءاللہ کو جو حصہ حق کے طور پر مل سکتا ہے، وہ در حقیقت ایک ہی ہے.دوسرا حصہ ان کو زائد طور پر اس امید پر دیا گیا تھا کہ وہ اس حصے کا بوجھ بھی اٹھاسکیں گی اور زائد طور پر اس قدر چندہ اکٹھا کر لیں گی.خود لجنہ کی طرف سے اس قسم کی درخواست نہیں آئی تھی.پس وہ دوسرا حصہ جولجنہ اماءالہ کو دیا گیا تھا، اس سے بھی میں لجنہ اماءاللہ کو فارغ کرتا ہوں.ان دو حصوں کو فارغ کرنے کے بعد، میں نے فیصلہ کیا کہ میرے پاس اس سلسلہ میں جو دو درخواستیں آئی ہوئی ہیں، میں یہ فارغ کر دہ حصے ان میں تقسیم کر دوں.مثلاً حلقہ لاہور کی طرف سے ہی میرے پاس دو درخواستیں آئی ہوئی ہیں.مگر دو حصے کسی ایک حلقہ کو نہیں دئے جا سکتے کیونکہ اس طرح پھر وہی اعتراض پیدا ہو جائے گا، جو پہلی تقسیم پر کیا جا چکا ہے اور چونکہ یہ اعتراض خود دوسرے دوستوں نے ہی اٹھایا ہے، اس لئے اب دوبارہ کسی کو دو حصے دینا کوئی معنی نہیں رکھتا.بہر حال حلقہ لا ہور کو ایک حصہ ہی مل سکتا ہے، دو حصے نہیں مل سکتے.430
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرموده 10 نومبر 1944ء پس دوحصے، جو فارغ ہوئے ہیں، ان میں سے ایک حصہ میں حلقہ لاہور کے دوستوں کو دیتا ہوں اور اعلان کرتا ہوں کہ قرآن کریم کے ایک ترجمہ کا خرچ اور قرآن کریم کے ایک ترجمہ کی اشاعت اور اس کی چھپوائی کا خرچ، اسی طرح بارہ کتابوں میں سے کسی ایک کتاب کے ترجمہ کا خرچ اور کسی ایک کتاب کے ترجمہ کی اشاعت اور اس کی چھپوائی کا خرچ ، جو ستائیس ہزار روپیہ ہوگا، حلقہ لاہور برداشت کرے.ملک عبد الرحمان صاحب قصور والوں نے ایک ترجمہ کا خرچ برداشت کرنے کے متعلق جو اطلاع دی ہوئی ہے، وہ بھی اس میں شامل ہوگی.چونکہ ایک ترجمہ کے خرچ کا وعدہ لاہور کی جماعت کر چکی ہے اور ایک ترجمہ کے خرچ کا وعدہ ملک عبدالرحمان قصور والوں کی طرف سے ہے، اس لئے یہ دونوں رقمیں مل کر بارہ ہزار روپیہ بن گیا.باقی صرف پندرہ ہزار روپہی رہ جاتا ہے، جو ان پانچ اضلاع کے لئے پورا کرنا کچھ مشکل نہیں ، جو حلقہ لاہور میں شامل کیے گئے ہیں.یعنی اضلاع لاہور، فیروز پور، شیخو پورہ، گوجرانوالہ اور امرتسر.اب میں چھٹا ضلع سیالکوٹ بھی ان کے ساتھ شامل کر دیتا ہوں.سیالکوٹ وہ مقام ہے، جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی زندگی کے ابتدائی ایام گزارے اس لحاظ سے سیالکوٹ کو خاص اہمیت حاصل ہے.پس میں سیالکوٹ کو بھی حلقہ لاہور میں ہی شامل کرتا ہوں تا کہ وہ اس ثواب میں شامل ہونے سے محروم نہ رہے.دوسرا بچا ہوا حصہ میں کلکتہ والوں کو دیتا ہوں.ان کی طرف سے بھی دو تراجم کے خرچ کو برداشت کرنے کا وعدہ آیا ہوا ہے.پس میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ قرآن کریم کے ایک ترجمہ کا خرچ اور قرآن کریم کے ایک ترجمہ کی اشاعت کا خرچ اور اسلامی کتب میں سے کسی ایک کتاب کے ترجمہ کا خرچ اور اسلامی کتب میں سے کسی ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ بحیثیت جماعت کلکتہ کے ذمہ ہوگا.کلکتہ کی جماعت کے علاوہ جس نے ایک ترجمہ قرآن اور اس کی چھپوائی کا خرچ برداشت کرنے کا وعدہ کیا ہے، ایک اور درخواست ترجمہ قرآن کا خرچ دینے کی شیخ محمد صدیق اور شیخ محمد یوسف صاحبان کی طرف سے بھی ہے.یہ دونوں بھائی ہیں اور اکھٹا ہی تجارت کا کام کرتے ہیں.انہوں نے تو یہاں تک اپنے اخلاص کا نمونہ دکھایا ہے کہ ان کی طرف سے مجھے چٹھی آئی ہے کہ اگر آپ قرآن کریم کا ایک ترجمہ ہمیں نہیں دیتے تو کم از کم قرآن کریم کے ایک ترجمہ کی چھپوائی کا سارا خرچ ، جو پندرہ ہزار روپیہ ہے، ہمارے ذمہ ڈال دیا جائے.اس جماعت کے ذمہ بھی ستائیس ہزار رو پیدا اکٹھا کرنا ہو گا مگر چونکہ انگلستان سے اطلاع آئی ہے کہ تراجم کا خرچ زیادہ ہوگا، اس لئے میں بجائے ستائیس ستائیس ہزار روپیہ کے اٹھائیس ہزار روپیہ فی 431
خطبہ جمعہ فرموده 10 نومبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم حصہ مقرر کرتا ہوں.جس کے اندر ایک زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ کا خرچ اور ایک زبان میں قرآن کریم کو چھپوانے کا خرچ ، اسی طرح ایک زبان میں سلسلہ کی کسی کتاب کو چھپوانے کا خرچ شامل ہوگا.قتسم کے لحاظ سے دو لیکن حصوں کے لحاظ سے یہ چار کتابیں بن جاتی ہیں.یعنی دوتر جموں اور دو کتابوں کی اشاعت ایک ایک حلقہ کے ذمہ ہوگی.یہ دونوں مل کر چار کتابیں بن جاتی ہیں لیکن چونکہ ایک ترجمہ قرآن اور ایک اس ترجمہ قرآن کی اشاعت کا خرچ ہوگا اور یہ ایک ہی چیز ہے.اسی طرح کسی ایک کتاب کا ترجمہ اور اس کتاب کی اشاعت کا خرچ علیحدہ ہوگا اور یہ بھی ایک ہی چیز ہے.اس لئے اقسام کے لحاظ سے تو یہ چار اقسام چندہ کی ہیں لیکن کام کے لحاظ سے دو ہی ہیں.پس اس حصہ کا خرچ میں کلکتہ والوں پر ڈالتا ہوں.مگر چونکہ دوسری جماعتیں بھی اس چندہ میں شامل ہونے کا حق رکھتی ہیں، اس لئے بنگال اور اڑیسہ اور آسام اور بر ما فرنٹ کی طرف کے تمام فوجیوں کو میں اس جماعت کے چندہ میں حصہ لینے کا حق دیتا ہوں.یہ تمام جماعتیں اور افراد اگر اس میں حصہ لینا چاہیں تو وہ بڑے شوق سے لے لیں اور قادیان میں اپنا چندہ بھجوادیں.تحریک جدید کا سیکرٹری چونکہ اس تحریک کا سیکرٹری بھی مقرر کیا گیا ہے، اس لئے جب ان جماعتوں کی طرف سے چندہ آئے گا تو فنانشل سیکرٹری ان جماعتوں کا چندہ کلکتہ کے حلقہ میں درج کرے گا.اسی طرح بنگال کے اگر کوئی اور دوست اس میں حصہ لینا چاہیں تو وہ بھی لے سکتے ہیں.آسام کی طرف کے جس قد ر فوجی ہیں اور جو اس چندہ میں حصہ لینے کی خواہش رکھتے ہیں، وہ بھی بڑے شوق سے حصہ لے سکتے ہیں.ان کو میری طرف سے اس تحریک میں شامل ہونے کی اجازت ہے.گویا یہ چندہ خالص کلکتہ کی جماعت کی طرف سے نہیں ہوگا بلکہ کلکتہ اور اس کے نواحی کی تمام جماعتوں اور افراد کو یہ حصہ دیا جائے گا.ایک حصہ جیسا کہ پہلے اعلان ہو چکا ہے، میں سارے ہندوستان کی لجنہ اماءاللہ کو دیتا ہوں.پہلے لجنہ اماءاللہ کے سپر د تینتیس ہزار روپیہ جمع کرنا تھا مگر اس لئے کہ اب لجنہ اماء اللہ کو صرف ایک حصہ دیا جائے گا، اٹھائیس ہزار روپیہ اس کے ذمہ ڈالا جاتا ہے.جو سارے ہندوستان کی عورتوں کی طرف سے ہوگا.میں اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ جو جو حلقے مقرر کئے گئے ہیں، ان حلقوں کی عورتوں کا چندہ ان کے حلقوں میں شمار نہیں ہوگا بلکہ لجنہ اماء اللہ کے چندہ میں اس کو شامل کیا جائے گا.مثلاً لاہور کے حلقہ میں عورتوں کی طرف سے جو چندہ جمع ہوگا، وہ لاہور کے حلقہ میں شامل نہیں ہوگا بلکہ لجنہ اماء اللہ کے چندہ میں اس روپے کو شامل کیا جائے گا.اسی طرح کلکتہ یا دوسرے حلقوں کی عورتیں جو چندہ جمع کریں گی ، وہ چندہ ان حلقوں میں شمار نہیں ہوگا.پس قرآن کریم کے ایک ترجمہ کا خرچ اور قرآن کریم کے ایک ترجمہ 432
خطبہ جمعہ فرمودہ 10 نومبر 1944ء تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد دوم کی اشاعت اور اس کی چھپوائی کا خرچ ، اسی طرح سلسلہ احمدیہ کی کتابوں یا اسلامی کتب میں سے کسی ایک کتاب کے ترجمہ کا خرچ اور اس کتاب کی چھپوائی اور اس کی اشاعت کا خرچ لجنہ اماءاللہ کے ذمہ ہو گا.یہ تین حصے ہوئے.اس کے علاوہ ایک ترجمہ قرآن کا خرچ اور ایک ترجمہ قرآن کی چھپوائی کا خرچ ، اسی طرح ایک کتاب کے ترجمے کا خرچ اور ایک کتاب کی چھپوائی کا خرچ خلیفہ قادیان کے ذمہ ہو گا.یہ چار حصے ہوئے.اب صرف تین حصے اور رہ گئے ہیں.میں اپنے حق کی قربانی کا اعلان کر چکا ہوں اور میں نے بتایا ہے کہ دوستوں کی خواہشوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ، وہ حق جو میں نے اپنے لئے رکھ لیا تھا، اسے میں نے ترک کر دیا ہے.پس میں اپنا چندہ جو چھ ہزار روپیہ ہے، قادیان کی جماعت کے چندہ میں انشاء اللہ جمع کرا دوں گا.لجنہ اماءاللہ نے چونکہ خود مطالبہ نہیں کیا تھا بلکہ انہیں زائد طور پر ایک حق دے دیا گیا تھا، اس لئے میں نے ان کا وہ حصہ باہر کی جماعتوں کو دے دیا ہے.میں اس نمونہ کو پیش کرتے ہوئے ، قادیان کی جماعت کے دوستوں سے بھی کہتا ہوں کہ ان کو دو تراجم کا حق نہیں بلکہ صرف ایک ترجمے کا حق حاصل ہے مگر چونکہ وہ دوسرے ترجمے کے متعلق مجھ سے اجازت لے چکے ہیں، اس لئے میں یہ معاملہ ان پر چھوڑتا ہوں کہ اگر وہ اپنے باہر کے بھائیوں کے جذبات اور ان کے احساسات کو مد نظر رکھتے ہوئے ، اپنے ایک حق کو چھوڑنا چاہیں تو جس طرح میں نے اپنے حق کو دوسروں کی خاطر چھوڑ دیا ہے ، اسی طرح وہ بھی اپنے ایک حق کو جو انہیں زائد طور پر دیا گیا تھا، دوسرے بھائیوں کی خاطر چھوڑ دیں.اگر کارکنان صدرا مجمن احمد یہ، جنہوں نے بعد میں ایک ترجمہ قرآن کا چندہ اپنے ذمہ لے لیا تھا، اپنے دوسرے بھائیوں کے جذبات کا پاس کرتے ہوئے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ اپنا حصہ قادیان کے ہی چندہ میں منتقل کر دیں گے، جس کا حق قادیان والے پہلے حاصل کر چکے ہیں، اس دوسرے حصے سے دست بردار ہو جائیں تو اس طرح ایک اور ترجمہ فارغ ہو جائے گا، جو باہر کی جماعتوں کو دیا جائے گا.میں سمجھتا ہوں اگر صدرانجمن احمدیہ کے کارکنان یہ قربانی کریں اور اس طرح ایک ترجمہ اور فارغ ہو جائے تو یہ حصہ ہم صوبہ سرحد والوں کو دے دیں گے.اس صورت میں صوبہ سرحد والوں کا فرض ہوگا کہ وہ ایک ترجمہ قرآن کا خرچ اور ایک ترجمہ قرآن کی چھپوائی کا خرچ ، اسی طرح اسلامی کتب میں سے کسی ایک کتاب کے ترجمہ کا خرچ اور کسی ایک کتاب کی چھپوائی کا خرچ اپنے اوپر برداشت کریں.یہ حصہ تمام شمال مغربی اسلامی حلقہ میں تقسیم ہو جائے 433
خطبہ جمعہ فرموده 10 نومبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم گا اور چونکہ میں اس چندہ میں ساروں کو شامل کرنا چاہتا ہوں، اس لئے صوبہ سرحد میں صرف صوبہ سرحد اور اس کی جماعتیں شامل نہیں ہوں گی بلکہ صوبہ سندھ بھی شامل ہوگا.اسی طرح بلوچستان کا علاقہ بھی اس میں شامل ہوگا.پھر نہ صرف سندھ اور بلوچستان، صوبہ سرحد کے ساتھ شامل ہوں گے بلکہ جس قدر شمال مغربی اضلاع حلقہ لاہور میں شامل نہیں کئے جاسکے، وہ سب کے سب اس میں شامل ہوں گے.چنانچہ جہلم ، گجرات، راولپنڈی، میانوالی کیمل پور، مظفر گڑھ، ڈیرہ غازی خان ، ملتان ، منٹگمری ، جھنگ، سرگودھا اور لائل پور تمام اضلاع اسی حلقہ میں شامل ہوں گے.اسی طرح ریاست کشمیر بھی.اسی طرح جس قدر اسلامی ممالک اس تحریک میں حصہ لینا چاہیں ان کا چندہ بھی اسی حلقہ میں شمار ہوگا.مثلاً ایران، افغانستان، عراق، شام فلسطین اور مصر وغیرہ اسلامی ممالک کی طرف سے اگر چند آیا تو وہ بھی اسی حلقہ میں شمار کیا جائے گا.اب گویا ایک قرآن قادیان والوں کے حصہ میں آگیا، ایک قرآن لجنہ اماءاللہ کے حصہ میں آ گیا، ایک قرآن حلقہ لاہور کے حصہ میں آ گیا، ایک قرآن حلقہ کلکتہ کے حصہ میں آگیا اور ایک قرآن صوبہ سرحد کے حصہ میں آگیا.اب ربا دبلی ، دہلی میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے ایک ترجمة القرآن کے متعلق اپنا حصہ لیا ہوا ہے.اگر اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے اور وہ بھی جماعت کے لئے اپنے اس حق کو چھوڑ دیں اور جو چندہ انہوں نے دینا ہے، وہ اس حلقے والوں کو دے دیں اور اس طرح قرآن کریم کے ایک ترجمہ کا خرچ اور قرآن کریم کے ایک ترجمہ کی چھپوائی کا خرچ، اسی طرح اسلامی کتب میں سے ایک کتاب کے ترجمے کا خرج اور ایک کتاب کی چھپوائی کا خرج دہلی والوں کے حصہ میں آ جاتا ہے.اس حلقہ میں بعض ان اضلاع کو بھی شامل کرتا ہوں جو دوسرے حلقوں میں نہیں آسکے.جیسے جالندھر، ہوشیار پور، لدھیانہ، انبالہ، ریاست ہائے پٹیالہ، نا بھ، مالیر کوٹلہ وغیرہ ہیں.میں اس علاقے کو دہلی کے حلقہ میں ہی شامل کرتا ہوں.اسی طرح یوپی اور بہار وغیرہ کا چندہ بھی حلقہ دہلی میں شامل سمجھا جائے گا.گویا ہندوستان کا تمام شمالی اور مشرقی اور مغربی حصہ اس تحریک میں شامل ہو گیا.اب صرف ایک ترجمہ رہ جاتا ہے، جس کے اخراجات کو پورا کرنا میں حیدرآباد کے حلقہ کے سپر د کرتا ہوں.ایک ترجمہ قرآن کا خرچ زیر بحث تھا، وہ اب میں اس حلقہ کو دیتا ہوں.گویا (1) ایک ترجمہ قادیان کی جماعت کی طرف سے ہوگا.(2) ایک لجنہ اماءاللہ کی طرف سے.434
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم (3) ایک حلقہ لاہور کی طرف سے.(4) ایک حلقہ صوبہ سرحد کی طرف سے.(5) ایک حلقہ کلکتہ کی طرف سے.(6) ایک حلقہ دہلی کی طرف سے.(7) ایک حلقہ حیدرآباد کی طرف سے.خطبہ جمعہ فرموده 10 نومبر 1944ء حیدرآباد، سکندرآباد کے حلقہ میں ناگپور، میسور، بہار، مدراس، بمبئی اور ان صوبوں سے ملحقہ ریاستیں سب شامل ہوں گی.اسی طرح سیلون بھی حیدر آباد کے حلقہ میں شامل ہوگا اور افریقہ کے مشرقی اور مغربی علاقے جو اس تحریک میں حصہ لینا چاہیں، وہ بھی حیدرآباد کن کے ساتھ شامل ہوں گے.اگر ان کی طرف سے کوئی چندہ آیا تو وہ اس حلقہ میں شامل ہوگا.میں سمجھتا ہوں یورپین لوگوں میں خواہش ہو سکتی ہے کہ وہ قرآن کریم کے ان تراجم کے اخراجات میں حصہ لیں اور ہم ان کی خواہش کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے.انگلستان میں تو چھوٹی جماعت ہے مگر امریکہ میں خدا کے فضل سے ہزاروں نو مسلم ہماری جماعت میں شامل ہیں اور بالکل ممکن ہے کہ ب ان کے پاس یہ تحریک پہنچے تو ان کے دلوں میں بھی یہ خواہش پیدا ہو کہ انہیں اس تحریک میں حصہ لینے کا موقع ملنا چاہیے.اس لیے میں یورپین ممالک کو قادیان کے حلقہ میں شامل کرتا ہوں تا کہ دنیا کا کوئی حصہ بھی ایسا باقی نہ رہے، جس کو اس تحریک میں شامل ہونے کا موقع نہ ملا ہو.جاوا ، سماٹرا وغیرہ علاقے اس وقت جنگ کی آگ سے گھرے ہوئے ہیں، ان کی طرف سے کچھ رقم بطور ثواب کلکتہ کے حلقہ میں شامل کر دی جائے گی تا یہ لوگ بھی اس تحریک میں شامل ہو جائیں.اطالین زبان کے ترجمہ کے متعلق چونکہ میں نے یہ اعلان کیا تھا کہ قرآن کریم کا ترجمہ میری طرف سے شائع ہوگا اور اب میں نے اپنے حق کی قربانی کر کے اس چندہ کو جماعت قادیان کے چندہ میں منتقل کر دینے کا اعلان کیا ہے، اس لیے میں یہ بھی تصریح کر دینا چاہتا ہوں کہ چونکہ میرا چندہ اب قادیان کے چندہ میں جمع ہوگا اور میں نے اطالین زبان کا ترجمہ اپنے لیے مخصوص کیا ہوا تھا، اس لیے اب اطالین زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ اور اطالین زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ کی چھپوائی ، اسی طرح اطالین زبان میں سلسلہ کی کسی ایک کتاب کا ترجمہ اور اطالین زبان میں سلسلہ کی کسی ایک کتاب کی چھپوائی قادیان کی جماعت کے چندہ سے ہوگی.435
خطبہ جمعہ فرموده 10 نومبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم دوسری زبان جرمنی ہے.جرمنی میں مسجد قائم کرنے میں چونکہ ہماری جماعت کی عورتوں نے حصہ لیا تھا، اس لیے میں ان کی اس نیکی کی یادگار کے طور پر اعلان کرتا ہوں کہ جرمن زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ اور جرمن زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ کی چھپوائی ، اسی طرح جرمن زبان میں کسی ایک کتاب کا ترجمہ اور جرمن زبان میں کسی ایک کتاب کی چھپوائی لجنہ اماءاللہ کے چندے سے ہوگی.تیسری زبان ڈچ ہے، جس پر کلکتہ کے حلقہ کی طرف سے جمع شدہ روپیہ خرچ کیا جائے گا.گویا ڈچ زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ اور ڈچ زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ کی اشاعت ، اسی طرح ڈچ زبان میں کسی ایک کتاب کا ترجمہ اور ڈچ زبان میں کسی ایک کتاب کی چھپوائی حلقہ کلکتہ کے چندے کے ذریعہ ہوگی.کیونکہ جاوا اور سماٹرا کا ان علاقوں کے ساتھ تعلق ہے، جن میں کئی کروڑ مسلمان آبادی ہے اور وہ ڈچ حکومت کے ماتحت رہتے ہیں، ان میں تبلیغ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کلکتہ کی طرف سے جو ترجمة القرآن شائع ہو، وہ ڈچ زبان میں ہو.دہلی کی زبان اردو ہے، جو ہندوستان کی لینگو افرنیکا کہلاتی ہے.دوسری طرف یورپ کی لینگو افریکا فرانسیسی زبان کہلاتی ہے.اس مناسبت کی بناء پر میں اعلان کرتا ہوں کہ فرانسیسی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ اور فرانسیسی زبان میں قرآن کریم کے ترجمے کی چھپوائی ، اسی طرح فرانسیسی زبان میں اسلامی کتب میں سے کسی ایک کتاب کا ترجمہ اور فرانسیسی زبان میں اسلامی کتب میں سے کسی ایک کتاب کی چھپوائی ، حلقہ دہلی کے چندہ سے ہوگی.اور چونکہ میں نے اسلامی ممالک کو صوبہ سرحد والے علاقہ میں شامل کیا ہے اور ان علاقوں میں رہنے والوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی اس ذمہ داری کو ادا کریں، جو ان پر اپنے ان آباؤ اجداد کی طرف سے عائد ہوتی ہے، جنہوں نے مدتوں تک سپین پر حکومت کی اور پھر بزدلی سے اس ملک کو چھوڑ دیا.اس لیے میں ہسپانوی زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ کا خرچ اور ہسپانوی زبان میں قرآن کریم کے ترجمے کی اشاعت کا خرچ ، اسی طرح ہسپانوی زبان میں کسی ایک کتاب کا ترجمہ اور ہسپانوی زبان میں کسی ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ صوبہ سرحد کے حلقہ پر ڈالتا ہوں اور فیصلہ کرتا ہوں کہ یہ ترجمہ ان کے جمع کردہ چندہ سے شائع کیا جائے.پرتگیزی زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ اور اس کی اشاعت کا خرچ، اسی طرح اسلامی کتب میں سے کسی ایک کتاب کا پرتگیزی زبان میں ترجمہ اور اس کی اشاعت کا خرچ میں حیدرآباد دکن کے سپرد کرتا 436
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرموده 10 نومبر 1944ء ہوں.یہ ترجمہ اس حلقہ کے چندہ سے شائع کیا جائے گا کیونکہ پرتگیزی ہندوستان میں اسی علاقہ سے آئے تھے اور اب تک ان کی نو آبادیاں اس علاقہ میں موجود ہیں.اسی طرح بمبئی اور مدراس وغیرہ سے ان علاقوں کی طرف جہاز جاتے رہتے ہیں، جہاں پرتگیزی زبان بولی جاتی ہے.اسی طرح روسی زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ اور اس کی چھپوائی اور ایک اسلامی کتاب کے ترجمہ اور اس کی چھپوائی کا خرچ میں لاہور کے حلقہ کے ذمہ لگاتا ہوں کہ یہ علاقہ اس وقت کیمونسٹ تحریک کا مصنوعی یا حقیقی مرکز بنا ہوا ہے.غرض سات زبانوں میں تراجم قرآن سات حلقوں کی طرف سے ہو گئے.ایک حلقہ کی طرف سے صرف ایک زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ اور اس کی اشاعت کا خرچ ، اسی طرح ایک زبان میں کسی ایک کتاب کے ترجمہ اور اس کی اشاعت کا خرچ لیا جائے گا.میں سمجھتا ہوں اگر وہ لوگ جنہیں زائد حصہ دیا گیا تھا، قربانی اور ایثار سے کام لیتے ہوئے اس موقعہ پر اپنے حق کو ترک کردیں تو یہ دوسرے لوگوں کی دلجوئی اور ان کی خوشی کا موجب ہوگا.انہیں اللہ کی طرف سے جو ثواب ملنا تھا ، وہ تو مل گیا.کیونکہ جب انہوں نے میری طرف سے ایک آواز کے بلند ہونے پر اپنا وعدہ لکھوادیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ثواب دے دیا.پس اگر وہ اس موقعہ پر اپنے حق ترک کر دیں گے تو ہو اس سے ان کے ثواب میں کوئی فرق نہیں آسکتا اور نہ ان کے اخلاص میں اس سے کوئی کمی آئے گی.انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے جو وعدہ کیا تھا، اس کا ثواب خدا نے ان کو دے دیا.اب اگر وہ چاہیں تو قربانی کر کے اپنے اس حق کو اوروں کے لئے ترک کر دیں تاکہ ان کے وہ بھائی، جواب تک اس ثواب میں شامل نہیں ہو سکے اور جن کے دل اس شوق سے تڑپ رہے ہیں کہ انہیں بھی اس تحریک میں شمولیت کا موقعہ ملے ، وہ بھی اس میں شامل ہو جائیں اور ان کے دل بھی اطمینان اور سکون حاصل کریں.لیکن اگر وہ اپنے حق کو ترک کرنا نہ چاہیں تو پھر دوسرے لوگوں کو چاہیے کہ وہ صبر سے کام لیں اور قرآن کریم کے کسی ترجمہ کی چھپوائی اور ایک کتاب کے ترجمہ اور چھپوائی پر کفایت کریں.اللہ تعالیٰ ان کے لئے نیکیوں میں حصہ لینے کے کئی اور راستے کھول دے گا.بہر حال میں نے اپنا حق چھوڑ دیا ہے اور لجنہ اماءاللہ کو جو ایک زائد حق دے دیا گیا تھا، وہ بھی میں نے اس سے واپس لے لیا ہے.باقی دوستوں کی طرف سے بعض درخواستیں آئی تھیں جن کو قبول کر لیا گیا اور چونکہ میں نے ان کے وعدوں کو منظور کر لیا تھا، اس لئے میں انہیں حکما تو نہیں کہہ سکتا کہ وہ اپنے حق کو چھوڑ دیں لیکن میں نے اپنی مثال ان کے سامنے پیش کر دی ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ 437
خطبہ جمعہ فرموده 10 نومبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم وہ میری اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے خود بھی دوسروں کے لئے نمونہ پیش کریں گے اور اپنے حصہ کو بعض دوسری جماعتوں اور افراد کے لئے چھوڑ دیں گے اور اپنا موعودہ چندہ ان جماعتوں کے چندہ میں شامل کر دیں گے تا کہ انہیں بھی اس ثواب میں شامل ہونے کا موقعہ مل سکے.اس تقسیم کے مطابق اٹھائیں اٹھائیس ہزار روپیہ کے ساتھ وعدے بن جاتے ہیں.گو میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعض حلقے ایسے ہیں، جن کی طرف سے اس سے بھی زیادہ چندہ وصول ہونے کی امید ہے.گورداسپور کے ضلع کے متعلق میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اس کا چندہ قادیان میں ہی شامل ہوگا.پس گورداسپور کے ضلع میں سے جو دوست خواہش رکھتے ہوں کہ انہیں اس تحریک میں شامل ہونے کا موقعہ ملے، وہ اپنا چندہ مرکز میں بھجوا دیں، ان کا چندہ قادیان کے چندہ میں شامل کر لیا جائے گا.میں نے بتایا ہے کہ بعض اضلاع سے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال ہوا تو مطلوبہ رقم سے بھی زیادہ رقم ان کی طرف سے جمع ہو جائے گی.اور اس بات کی ضرورت بھی ہے کیونکہ تراجم کے خرچ کے متعلق میرا پہلے جو اندازہ تھا، وہ غلط ثابت ہوا ہے.میں نے فی کتاب ایک ہزار روپیہ ترجمہ کے خرچ کا اندازہ لگایا تھا اور میں نے سمجھا تھا کہ چونکہ کتا میں چھوٹی بڑی ہوں گی ، اس لئے کسی کتاب کے ترجمہ پر پانچ چھ سو روپیہ خرچ آئے گا اور کسی پر ہزار یا اس سے زائد.اور اس طرح مل کر ایک ہزار روپیہ فی کتاب ترجمہ کے خرچ کی اوسط نکل آئے گی.لیکن میرا یہ اندازہ صحیح ثابت نہیں ہوا.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب ”اسلامی اصول کی فلاسفی کے متعلق میرا اندازہ تھا کہ چونکہ یہ چھوٹی سی کتاب ہے، اس لئے پانچ چھ سوروپیہ میں اس کا ترجمہ ہو جائے گا.مگر میرے اندازہ سے اس کے حروف زیادہ نکلے اور اس طرح اس کے ترجمہ کا خرچ بڑھ گیا.غرض تراجم کے متعلق جو انتظام کیا گیا ہے، اس کے متعلق اخراجات کا جو پہلا اندازہ تھا، اس زیادہ کا مطالبہ کیا جارہا ہے.اسی طرح ” احمدیت کے متعلق میرا خیال تھا کہ اس کا ڈیڑھ ہزار روپیہ میں ترجمہ ہو جائے گا.اور چھوٹی بڑی کتاب مل کر ایک ہزار روپیہ فی کتاب ترجمہ پر خرچ آجائے گا.لیکن احمدیت کے ترجمہ کے متعلق مجھے ولایت سے یہ اطلاع آئی ہے کہ سات زبانوں میں اس کا ترجمہ اڑھائی سو پونڈ میں ہوگا.جس کے معنی یہ ہیں کہ پانچ ہزار روپیہ محض احمدیت کے ایک زبان میں ترجمہ کرنے پر خرچ ہو گا.پس میرا اندازہ جوڈیڑھ ہزار روپیہ کا تھا، وہ غلط ثابت ہوا.میں سمجھتا ہوں کہ گو ہماری طرف سے اٹھائیس اٹھائیس ہزار روپیہ کا ہی مطالبہ کیا گیا ہے لیکن * امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعض حلقوں کی رقوم اس سے بڑھ جائیں گی اور اس طرح اندازہ سے 438
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 10 نومبر 1944ء زائد جو اخراجات ہوں گے ، وہ انشاء اللہ پورے ہو جائیں گے.لیکن اگر روپیہ خدانخواستہ کم اکٹھا ہوا تو پھر یو قرآن کریم کے تراجم کو مقدم رکھا جائے گا.اگر قرآن کریم کے تراجم اور ان کی اشاعت کے اخراجات کے بعد روپیہ بیچا تو وہ دوسری کتب کے ترجمہ اور ان کی اشاعت پر خرچ کیا جائے گا ورنہ جس قدر رو پیہ باقی بچا، اسی کے مطابق کتابیں شائع کی جائیں گی.یعنی جس قدر زبانوں میں اس وقت ترجمہ کرایا جائے گا، جب ان کے لئے روپیہ ہمارے پاس جمع ہو گا، بہر حال مقدم قرآن کریم کا ترجمہ اور اس کی اشاعت ہوگی.اور چونکہ یہ کام اپنے اندر بہت بڑی وسعت رکھتا ہے اور ہر جماعت اپنے اپنے حلقہ کی خود نگرانی نہیں کر سکتی ، اس لئے میں ایک دفعہ پھر دفتر تحریک جدید کوتوجہ دلاتا ہوں کہ اس تحریک کی نگرانی کرنا ، اس کی کامیابی کے لئے متواتر جد و جہد کرنا، لوگوں سے چندہ وصول کرنا، ان کا با قاعدہ حساب رکھنا اور وعدہ کرنے والوں کو اپنے وعدوں کی ادائیگی کی طرف بار بار توجہ دلاتے رہنا، یہ تحریک جدید کے مرکزی کارکنوں کا فرض ہے.صرف مقامی جماعتوں پر ہی اس کی ذمہ داری نہیں.بے شک وہ جماعتیں بھی ذمہ دار ہوں گی کہ اس بوجھ کو اٹھا ئیں مگر مرکز اپنی نگرانی کے فرض سے سبکدوش نہیں ہو سکتا.میں اس موقعہ پر پھر یہ کہ دینا چاہتا ہوں کہ میری طرف سے وہ شرط برابر قائم ہے، جس کا میں ایک دفعہ پہلے بھی اعلان کر چکا ہوں کہ اگر کوئی جماعت اس بوجھ کو نہیں اٹھا سکتی تو وہ بیشک ہمیں اطلاع دے دے.ہم یہ انعام اس کی بجائے کسی اور کو دے دیں گے.لیکن اگر وہ جماعتیں خوشی سے اس بوجھ کو اٹھا لیتی ہیں تو اس کے بعد گو اصل ذمہ داری ان جماعتوں پر بھی عائد ہوگی اور ان کا یہ ذاتی فرض ہوگا کہ وہ اپنے وعدہ کو پورا کریں اور چندوں کی ادائیگی کی کوشش کریں.لیکن مرکز اپنی ذمہ داری سے فارغ نہیں ہوگا بلکہ مرکز کی ذمہ داری ان کے ساتھ شامل ہو گی.مرکز کو اس تحریک کے متعلق اس طرح کوشش کرنی چاہیے کہ گویا ان علاقوں پر کوئی ذمہ داری نہیں اور ان علاقوں میں رہنے والوں کو اس تحریک کے متعلق اس طرح کوشش کرنی چاہیے کہ گویا مرکز پر کوئی ذمہ داری نہیں.یہ ذمہ داری، جو مرکز پر عائد کی جارہی ہے، میری طرف سے ہے.جماعتوں کا یہ حق نہیں ہوگا کہ وہ بعد میں یہ کہیں کہ چونکہ مرکز نے ہماری مدد نہیں کی تھی ، اس لئے ہم اپنے وعدوں کو پورا نہیں کر سکے.وہ اپنی اپنی جگہ اس بات کے ذمہ وار ہوں گے کہ جو اخراجات ان کے حلقہ کے سپرد کئے گئے ہیں، ان کو وہ جلد سے جلد پورا کریں، وہ اس تحریک کو اپنے علاقوں میں پھیلائیں ، لوگوں کو اس سے واقف کریں، ان سے جلد سے جلد وعدے لیں اور پھر وہ وعدے دفتر فنانشل سیکرٹری تحریک جدید میں بھجوادیں کیونکہ چندہ کی وصولی براہ راست مرکز کی طرف سے ہوگی، وصولی کرنا ان کا کام نہیں.مگر ان کا یہ فرض ضرور ہے کہ وہ اپنے اپنے حصہ کی رقم جلد سے جلد پوری کریں، وعدے مرکز کو بھجوائیں اور پھر ان وعدوں کی ادائیگی کا فکر کریر 439
خطبہ جمعہ فرمودہ 10 نومبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم دفتر تحریک جدید والوں کو چاہیے کہ وہ ان حلقوں کے متعلق الگ الگ کھاتے اور رجسٹر تیار کر لیں.ایک حلقہ وسطی ہے، جس میں لاہور اور اس سے تعلق رکھنے والے اضلاع شامل ہیں.ایک حلقہ مغربی ہے.ایک حلقہ قادیان کا ہے.ایک حلقہ لجنہ اماءاللہ کا ہے.ایک حلقہ وسطی ہند کا ہے.ایک حلقہ مشرقی ہند کا ہے اور ایک حلقہ جنوب مغربی ہے.یہ حلقے ہیں، جو مقرر کئے گئے ہیں اور ان حلقوں کے نام پر الگ الگ چندے جمع ہوں گے.پس تحریک جدید والے بھی سات الگ الگ کھاتے کھول لیں اور پھر خط و کتابت کے ذریعہ ہر ضلع کی جماعتوں اور ان کے پریذیڈنٹوں اور سیکریٹریوں کو اس تحریک کی طرف توجہ دلائیں.اس غرض کے لئے اگر انہیں زائد عملہ کی ضرورت ہو تو وہ فوراً مجھ سے اس کی منظوری لے کر اپنے عملہ میں اضافہ کر لیں.لیکن بہر حال میں تحریک جدید والوں سے یہ نہیں سنوں گا کہ اس کی ذمہ داری ان پر نہیں تھی بلکہ جماعتوں پر تھی ، جس طرح میں جماعتوں سے یہ نہیں سنوں گا کہ اس کی ذمہ داری مرکز پر تھی جماعتوں پر نہیں تھی.ان جماعتوں کا یہ حق ہے کہ اگر وہ اس بوجھ کو برداشت کرنے کی اپنے اندر طاقت نہیں رکھتیں تو اسی وقت انکار کر دیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت میں اور بہت سے افراد ایسے ہیں، جو اس بوجھ کو خوشی سے اٹھا لیں گے.لیکن اگر وہ انکار نہیں کرتے بلکہ خوشی سے اس ذمہ داری کو قبول کرتے ہیں تو اس کے بعد ان کی طرف سے کوئی عذر نہیں سنا جائے گا اور ان کا فرض ہو گا کہ وہ اس روپیہ کو پورا کریں.خواہ و چند افراد سے لے کر پورا کریں اور خواہ ساری جماعتوں سے لے کر پورا کریں.گومناسب یہی ہے کہ اس تحریک کو وسیع سے وسیع تر کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس میں شامل ہونے کا موقع دیا جائے.دوسرے اس امر کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ دو تین ہفتہ تک میری طرف سے تحریک جدید کے نئے دور کا اعلان ہونے والا ہے.تحریک جدید تبلیغ احمدیت کے لئے ایک بنیاد کے طور پر ہے اور کتا بیں اور لٹریچر وغیرہ ہتھیار کے طور پر ہیں.بیشک ہتھیار بھی نہایت ضروری ہوتے ہیں لیکن جس طرح ہتھیار کے بغیر سپاہی کسی کام کا نہیں ہوتا ، اسی طرح اگر سپاہی نہ ہوں تو وہ ہتھیار بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے.اچھے سپاہی کے لئے اچھے ہتھیاروں کا ہونا ضروری ہے اور اچھے ہتھیاروں کے لئے اچھے سپاہی کی موجودگی ضروری ہے.پس میں دوستوں کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ انہوں نے صرف ایک تحریک میں حصہ نہیں لینا بلکہ عنقریب تحریک جدید کا بار بھی ان پر پڑنے والا ہے.میں جماعت کے مخلصین سے امید رکھتا ہوں کہ وہ خدا تعالیٰ کی رضا اور اس کے دین کی خدمت کے لئے ہر بوجھ کو خوشی سے برداشت کریں گے اور اپنے ثبات و استقلال کو قائم رکھتے ہوئے قربانیوں کے 440
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 10 نومبر 1944ء میدان میں بڑھتے چلے جائیں گے.کیونکہ ہمارا کام بہت وسیع ہے، ہماری ذمہ داریاں بہت اہم ہیں اور ہمارے فرائض اتنے نازک ہیں کہ ہماری ذراسی غفلت اور ذراسی کو تاہی بھی بہت بڑے نقصان کا موجب بن سکتی ہے.میں ابھی اس کے متعلق کچھ کہنا نہیں چاہتا کہ یہ تحریک کس رنگ میں اور کس شکل میں جماعت کے سامنے آنے والی ہے؟ لیکن بہر حال میں امید رکھتا ہوں کہ مومن کا اخلاص ہر مصیبت اور ہر مشکل کے وقت اس کے کام آتا ہے اور وہ کسی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتا.خواہ وہ اس کے سامنے کسی شکل میں ہی کیوں نہ پیش ہو.میں سمجھتا ہوں ہماری جماعت کا وہ طبقہ، جو اپنے دلوں میں نور ایمان رکھتا ہے، جو اپنے قلوب میں اخلاص اور محبت کی آگ رکھتا ہے، جس کا ایمان صرف زبانوں پر نہیں بلکہ اس کے قلوب ایمان کی روشنی سے منور ہیں، وہ اس بوجھ کو بھی اٹھائے گا اور آنے والے بوجھ کو اٹھانے کے لئے بھی پوری ہمت کے ساتھ تیار ہوگا اور جب اس کے سامنے اس قربانی کو پیش کیا جائے گا تو وہ انتہائی جوش کے ساتھ اس میں حصہ لیتے ہوئے خدا تعالی کے سامنے سرخرو ہو جائے گا اور اپنے نفس کے لئے دائمی ثواب حاصل کر لے گا.لیکن وہ جو کمزور ہیں ، جو قربانیوں کے میدان میں قدم رکھتے ہوئے ہچکچاتے ہیں، جن کے پاؤں میں ثبات نہیں اور جن کے ارادوں میں مضبوطی نہیں ، ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اخلاص سے حصہ عطا فرمائے ، ان کے دلوں میں دین کے لئے قربانی اور اس کی رضا کے لئے مر مٹنے کا جوش ہے انتہا طور پر پیدا فرمائے ، ان کی غفلتوں کو دور فرمائے اور ان کی کمزوریوں کو نیکیوں سے بدل دے تاکہ وہ ہر قسم کی قربانی پر آمادہ ہو جائیں اور خدا تعالی کی آواز سن کر آگے کی طرف بڑھیں، پیچھے کی طرف ہٹنے والوں میں سے نہ ہوں.ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے سپر د جو کام کیا گیا ہے، وہ خدا تعالیٰ کا ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ یہ کام خدا تعالیٰ نے ہی کرنا ہے ، ہم نے نہیں کرنا اور ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ جس بات کے کرنے کا خدا تعالیٰ ارادہ کر لے، وہ ہو کر رہتا ہے.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور ٹکتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے یہ ملنے والی بات نہیں.خدا تعالیٰ کا فیصلہ ہے، جو آخر ہوکر رہے گا.ہماری غفلتیں اس فیصلہ کو روک نہیں سکتیں.ہاں اگر ہم کوشش کریں تو ہمارے لئے یہ ایک ثواب کی بات ہوگی اور ہم بھی لہولگا کر شہیدوں میں شامل ہونے والے قرار پا جائیں گے.ہماری خواہش تو یہ ہے کہ اللہ تعالی ہمیں حقیقی شہداء 441
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرموده 10 نومبر 1944ء میں شامل فرمائے.وہ شہداء ، جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے جلال اور اس کے جمال کا جھنڈا دنیا میں بلند کیا جاتا ہے، جو اس کے عشق اور محبت کی ایک غیر فانی یادگار ہوتے ہیں اور جن پر ابد تک خدا تعالی کی رحمتیں برستی رہتی ہیں.لیکن جب تک ہمیں ان حقیقی شہداء میں شامل ہونے کا موقع میسر نہیں آتا، ہمیں کم سے کم اتنی کوشش تو کرنی چاہئے کہ ہم لہو گا کر ہی شہیدوں میں شامل ہو جائیں.اگر آج ہم لہوں گا کر شہیدوں میں شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو ہماری یہی قربانی آئندہ بہت بڑی قربانیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوگی.کیونکہ وہ وقت آنے والا ہے، جب خدا تعالی کی طرف سے ایک آواز بلند ہوگی اور مومنوں کو اپنی جانیں اسلام اور احمدیت کی حفاظت کے لئے اس کے آستانہ پر قربان کر دینی پڑیں گی.جس طرح ایک چڑیا کا خون بہاتے وقت کسی انسان کے دل میں درد پیدا نہیں ہوتا ، اس طرح اس وقت کسی قربانی میں رحم سے کام نہیں لیا جائے گا.اور مومنوں کا فرض ہوگا کہ وہ آگے بڑھیں اور اپنی جانیں ایک بے حقیقت شے کی طرح اس کے آستانہ پر قربان کر دیں.لیکن جب تک وہ وقت نہیں آتا، جو حقیقی ایمان کے مظاہرہ کا وقت ہوگا، اس وقت تک ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم لہوں گا کر ہی شہیدوں میں شامل ہونے کی کوشش کریں تاکہ ایمان اور اخلاص اور محبت کا کوئی نہ کوئی رنگ ہم اپنے ساتھ رکھتے ہوں اور خدا تعالیٰ کے سامنے ہم ننگے، اندھے، بہرے اور گونگے ہونے کی حالت میں نہ کھڑے ہوں.العیاذ بالله.(مطبوع الفضل 14 نومبر 1944ء) 442
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم تقریر فرمود و 22 نومبر 1944ء خود بھی تحریک جدید پر عمل پیرا ہوں اور دوسروں سے بھی اس پر عمل کرائیں تقریر فرمودہ 22 نومبر 1944ء افریقہ جانے والے مبلغین مولوی عبد الخالق صاحب، ملک احسان اللہ صاحب اور مولوی نذیر احمد صاحب کے اعزاز میں 22 نومبر کو بورڈنگ تحریک جدید کے سٹاف اور طلبا کی طرف سے دعوت چائے دی گئی اور ایڈریس پیش کیا گیا.اس تقریب پر حضرت امیر المومین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حسب ذیل تقریر فرمائی.فرمایا:.”جہاں تک مجھے معلوم ہے، یہ واقفین جن کو الوداع کہنے کے لئے یہ اجتماع کیا گیا ہے، کل روانہ ہورہے ہیں اور آج صبح سیرالیون سے تار آیا ہے کہ پہلے جو واقف وہاں بھیجے گئے تھے، وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بخیریت سیرالیون پہنچ گئے ہیں.اب یہ دوسرا گر وہ جا رہا ہے.جس کے ایک یا دو ماہ بعد انشاء اللہ تیسر ا گر وہ جائے گا.جس ملک میں تبلیغ کے لئے یہ لوگ جارہے ہیں، وہاں کی حالت اس قسم کی ہے کہ ہندوستانی جو اپنے کو غلام کہتے ہیں اور ایک غیر ملکی حکومت کے ماتحت ہیں، اگر اس ملک کو دیکھ لیں تو اپنی حالت پر رشک کریں.اس ملک کی حالت ایسی گری ہوئی ہے کہ وہاں بعض علاقے ایسے ہیں کہ جہاں لوگ اب تک ننگے پھرتے ہیں، ستر کو ڈھانکنے کے لئے صرف کھال وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں، مکئی کا دلیا یا جنگلی درختوں کے پھل یا ایسی ہی دوسری چیزیں ان کو کھانے کے لیے میسر آتی ہیں.کھانے پینے کی اشیاء کی جو کثرت یہاں ہے ، وہاں نہیں ہے.اس کے علاوہ ملیر یا وہاں اس کثرت سے ہوتا ہے کہ شائد یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ وہ ملک ملیریا کا گھر ہے.پھر سینکڑوں میل کے کئی علاقے وہاں ایسے ہیں کہ جہاں سڑک وغیرہ کا نام تک نہیں اور جہاں سواری کا ملنا مشکل ہوتا ہے.آج ہی مجھے وہاں کے ایک مدرس کا خط ملا ہے.اس نے دعا کے لیے لکھا ہے اور اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ یہاں جو مبلغ تبلیغ کا کام کرتے ہیں، وہ ایسی قربانی کر رہے ہیں کہ مقامی لوگوں کو ان کی طرف 443
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم تقریر فرموده 22 نومبر 1944ء دیکھ کر اپنی حالت پر افسوس آتا اور حسرت ہوتی ہے.ان کو سینکڑوں میل ایسے جنگلوں میں سفر کرنا پڑتا ہے.کہ جہاں رستہ بھی نہیں ملتا اور ایسی غذا کھانی پڑتی ہے، جس کا کھانا بہت مشکل ہوتا ہے.اس نے مجھے لکھا ہے کہ آپ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.یہ عجیب بات ہے کہ آج ہی یہ دونوں چیزیں مجھے ملی ہیں.یعنی پہلے مبلغ کے بخیریت پہنچنے کی اطلاع اور ایک مقامی مدرس کا خط جبکہ نئے جانے والے مبلغوں کو یہ آخری پارٹی دی جارہی ہے اور وہ کل روانہ ہورہے ہیں.احمدیت کے آج بہت مخالف ہیں اور یہ مخالف ہر جگہ پائے جاتے ہیں.یہ مخالف ہمارے ہر کام میں نقائص نکالتے ہیں اور وہ اس بات کو نہیں دیکھتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل آج دنیا میں ایک ایسی جماعت پیدا ہوگئی ہے، جو اسلام کی خاطر وہ تمام مصائب برداشت کر رہی ہے، جو صحابہ نے کیں.مگر ابھی جماعت میں بھی ایک ایسا طبقہ ہے، جو قربانی کرنے میں سست ہے.اگر ایسے مصائب جو بیرونی ممالک کے مبلغین برداشت کر رہے ہیں، ساری جماعت اٹھانے کے لیے تیار ہو جائے تو ہم دلیری سے کہہ سکتے ہیں کہ ہماری جماعت صحابہ کے نقش قدم پر چلنے والی ہے.اگر جماعت کے سب دوست دین کے لیے ویسی ہی قربانیاں کرنے اور ویسی ہی تکالیف برداشت کرنے کے لیے تیار ہو جائیں جیسے بیرونی ممالک کے مبلغین کرتے ہیں تو بہت جلد ساری جماعت میں صحابہ کا رنگ پیدا ہو سکتا ہے اور ہم مخالفین کو چیلنج کر سکتے ہیں کہ ہماری جماعت صحابہ کے رنگ میں رنگین ہے.لیکن ابھی بعض دوستوں میں ایسے نقائص ہیں کہ اگر ہم یہ بات پیش کریں تو مخالف وہ نقائص پیش کر کے ہمیں ساکت کر دے گا.ہماری جماعت کے نوجوانوں، بچوں، بوڑھوں، مردوں اور عورتوں سب کو چاہیے کہ خود بھی تحریک جدید پر عمل پیرا ہوں اور دوسروں سے بھی اس پر عمل کرائیں.اپنی زندگیوں کو زیادہ سے زیادہ سادہ بنا ئیں.کھانے پینے ، پہننے میں سادگی پیدا کریں.اپنے ماحول کو سادہ بنا ئیں.اپنی گفتگو میں سادگی اختیار کریں.جب تک زندگی کے ہر شعبہ میں سادگی نہ اختیار کی جائے گی تبلیغ کماحقہ نہیں کی جاسکے گی.جس شخص کی زندگی سادہ نہ ہو، وہ سادہ تمدن رکھنے والے لوگوں سے خطاب بھی نہیں کر سکتا ، وہ ان کو اپنی بات سمجھا بھی نہیں سکتا اور ان تک اپنی آواز نہیں پہنچا سکتا اور اس طرح ان کی ہدایت کا موجب نہیں بن سکتا.پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھا ہوا آدمی میدان میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے کس طرح خطاب کر سکتا ہے؟ آدمی انہی لوگوں سے بات چیت کر سکتا ہے جو اس کے سامنے ہوں.جو پہاڑ پر بیٹھا ہوا ہو، اس کو نیچے کا گاؤں نظر تو آسکتا ہے مگر وہ گاؤں کے 444
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم تقریر فرمود : 22 نومبر 1944ء لوگوں سے بات چیت نہیں کر سکتا.اسی طرح جن لوگوں کا تمدن بلند ہو ، سادہ تمدن کے لوگوں کے ساتھ ایسا تعلق نہیں رکھ سکتے، جو تبلیغ کے لیے ضروری ہے.اور یہ تعلق قائم نہیں ہو سکتا ، جب تک کے دوسروں کا تمدن بھی ویسا ہی بلند نہ ہو جائے یا اونچا تمدن رکھنے والے سادگی اختیار کر کے نیچے نہ آجائیں.اور جب تک ہم تمدنی لحاظ سے دوسروں کو اوپر نہیں لے جاسکتے ، اس وقت تک ہمیں چاہیے کہ خود نیچے آجائیں.ہاں جب سب لوگ اوپر آجائیں تو ہم بھی اوپر آسکتے ہیں.اسلام مساوات چاہتا ہے اور اس کی یہی صورت ہے کہ یا سادہ تمدن رکھنے والوں کو اوپر لایا جائے اور اگر یہ نہ ہو سکے تو دوسرے اور زیادہ سادگی اختیار کریں.اگر کوئی جماعت چاہتی ہے کہ معیار زندگی کو بلند کرے تو اسے کوشش کرنی چاہیے کہ دوسروں کا معیار زندگی بھی بلند ہو.اور جب تک یہ نہ ہو، اپنا معیار بھی نیچے رکھے تا مساوات قائم ہو سکے اور باہم میل جول میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو.جب تک دنیا میں ایسی اقوام موجود ہیں، جواد نی حالت میں ہیں، اس وقت تک ہمارے لیے کسی اونچی جگہ کا خواب دیکھنا بھی ممکن نہیں.اس وقت تک ہمارے لیے ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالی جو کچھ دے لے لیں اور پھر اسے دوسروں کی بہتری اور بھلائی کے لیے خرچ کریں اور دوسرں کو اوپر لے جانے کے لئے اسے کام میں لائیں اور جب دوسرے بھی اوپر آجائیں تو پھر خود بھی آئیں.صحابہ کرام نے بے شک دولتیں بھی کمائیں مگر انہیں اپنے آرام و آسائش پر خرچ نہیں کیا بلکہ دین کی راہ میں خرچ کرتے رہے.ابھی دنیا میں اربوں انسان ایسے ہیں کہ جن کے جسم بھی اور جن کی روحیں بھی انتہائی غربت کی حالت میں ہیں اور ان سب کی اصلاح ہمارے ذمہ ہے.جب تک ان کی اصلاح نہ ہو جائے ہمیں اپنے آرام کا خیال تک بھی نہ کرنا چاہئے.اور اپنی زندگیوں کو ایسا سادہ بنانا چاہئے کہ غرباء کے ساتھ بآسانی مل سکیں اور اپنی باتیں انہیں سنا سکیں.وہ ہمیں دیکھ کر دور نہ بھا گیں بلکہ قریب آئیں اور ہماری باتوں کو سنیں.اگر ہمارے نوجوان اسی طرح غیر ممالک میں تبلیغ کے لئے جاتے رہیں، جس طرح اب یہ نوجوان جارہے ہیں تو یہ ایک ایسی خوش کن بات ہو گی، جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام ناز اور فخر کر سکتے ہیں اور ہم اس کام کی ابتداء کر سکتے ہیں کہ جو ہمارے سپرد ہے.اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ دوسرے نوجوانوں میں بھی یہ احساس پیدا ہو، وہ اپنے آپ کو پیش کریں، اسلام کی تبلیغ کے لئے بیرونی ممالک میں جانے پر خوشی کا اظہار کریں اور ان لوگوں کے پیچھے ایک لمبی اور کبھی نہ ٹوٹنے والی زنجیر بنائی جاسکے.ایک کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا جانے کے لئے اپنے آپ کو پیش 445
تقریر فرمود و 22 نومبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم کرتا جائے کیونکہ کروڑوں افراد کی آبادی رکھنے والے ممالک کے لئے ہزاروں مبلغین کی ضرورت ہے.افریقہ کے بعض علاقے ایسے ہیں کہ وہاں عمریں کم ہو جاتی ہیں.ہندوستان میں بھی گو عمر کی اوسط بہت کم ہے مگر وہاں اس سے بھی کم ہے.ایسے علاقوں کے مبلغین سے اتنا عرصہ کام نہیں لیا جاسکتا، جتنا یہاں یا بعض اور علاقوں میں لیا جا سکتا ہے.ملیر یا وہاں بہت عام ہے.پھر غذا وہاں خراب ملتی ہے.اس لئے وہاں کام کا عرصہ زیادہ لمبا نہیں کیا جا سکتا اور وہاں کام کرنے والے مبلغین کو ایک معین وقت کے بعد واپس بلا نا ضروری ہو گا.ورنہ آب وہوا کے زیراثر ان کی صحت پر بہت برا اثر ہوگا اور ان کی زندگی بھی خطرہ میں پڑ جائے گی.اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ ہمیں کافی تعداد میں مبلغین ملتے جائیں اور ایک کے بعد دوسرا جانے کے لئے تیار ہوتا جائے.میں خوش ہوں کہ ہمارے نوجوان زندگیاں وقف کر رہے ہیں اور ہائی سکول نے بھی اس بارہ میں اچھا نمونہ دکھایا ہے.میں کالج کے نوجوانوں کو بھی تحریک کرتا ہوں کہ وہ بھی اس طرف توجہ کریں.اگر کالج کے افسر یہاں موجود ہوں تو میں ان کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ طلبا میں اس کی تحریک کریں.بعض نوجوان جو ہائی سکول میں تعلیم پاتے وقت اگر چھوٹی عمر ہونے کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے اپنے آپ کو پیش نہیں کر سکے تو وہ اب کریں.تا کچھ عرصہ کے بعد ہمارے پاس مبلیغین کی تعداد کافی ہو جائے اور ہم سہولت اور دلیری کے ساتھ انہیں دنیا میں تبلیغ کے لئے پھیلا سکیں.یہ موقع تفاصیل بیان کرنے کا نہیں.اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو پھر کسی وقت بیان کروں گا کہ کم سے کم تبلیغ کے لئے ہمارے پاس کتنا سامان ہونا چاہئے اور کس کس رنگ میں کام شروع کرنا چاہئے؟ اس موقع پر میں صرف یہی نصیحت کرتا ہوں کہ جن نوجوانوں کو خدا تعالی توفیق دے، وہ اپنے والدین اور سر پرستوں سے مشورہ کرنے کے بعد اپنے آپ کو وقف کریں.کالج کے افسروں کو چاہئے کہ وہ اپنے طلبا میں اس کے لئے تحریک کریں.بعض نوجوان باہر سے نئے آرہے ہیں.بعض ایسے بھی ہو سکتے ہیں کہ جنہیں سکول میں تو اس کی توفیق نہیں ملی مگر اب بڑے ہونے کی وجہ سے ان میں یہ احساس پیدا ہو چکا ہو اور وہ اپنے آپ کو پیش کر دیں.اس کے بعد میں دعا کرتا ہوں.جو مبلغ جارہے ہیں، وہ واقف سے مجاہد بن رہے ہیں.واقف دہ ہوتا ہے، جس نے زندگی وقف کر دی ہو مگر ابھی جہاد میں شرکت کا موقع اسے نہ ملا ہو.اور مجاہد وہ ہوتا ہے، جو عملی طور پر جہاد میں شریک ہو.جو نو جوان اس وقت تبلیغ کی تیاری کر رہے ہیں اور تعلیم حاصل وہ 446
تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد دوم تقریر فرمود : 22 نومبر 1944ء کرتے ہیں، وہ واقف ہیں ، وہ واقف کہلانے کے مستحق ہیں.مجاہد کہلانے کے نہیں.ہاں جب کوئی واقف جہاد کے لیے روانہ ہو جائے تو چونکہ وہ عملی طور پر جہاد میں شریک ہو جاتا ہے، اس لیے وہ واقف ہی نہیں رہتا بلکہ مجاہد بھی بن جاتا ہے.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جانے والے مبلغین کے ساتھ ہو اور ہمیں توفیق دے کہ ہم ان کے بعد جلدی جلدی اور مبلغین بھیج سکیں.یہاں تک کہ اسلام کو غلبہ حاصل ہو جائے اور دنیا کی پسماندہ اور گری ہوئی اقوام میں نہ صرف دینی تبلیغ ہو جائے بلکہ دینوی بھی.ان میں نہ صرف مذہبی تبلیغ ہو سکے بلکہ انہیں تمدنی ترقی بھی حاصل ہو سکے اور ان کا شمار دنیا کی اعلیٰ تعلیم یافتہ ترقی یافتہ اور متمدن اقوام میں ہونے لگئے.( مطبوعه الفضل 14 دسمبر 1944ء) 447
تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد دوم زبان گومیری ہے مگر بلاوا اسی کا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 24 نومبر 1944ء سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- خطبہ جمعہ فرمود 24 نومبر 1944ء " آج سے دس سال قبل اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور اپنے کرم سے ایک فتنہ جماعت کے خلاف اٹھوایا تھا.تھا تو وہ فتنہ مگر الہی منشاء اس کے اٹھائے جانے میں یہ تھی کہ اس کے ذریعہ سے جماعت میں بیداری اور ہشیاری پیدا ہو.مولانا روم فرماتے ہیں.ہر بلائیں قوم را حق داده اند اند زیر آن گنج کرم بنهاده یعنی مسلمانوں کے لئے جو بلا بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے، اس بلا کے نیچے اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور احسان سے ایک بڑا خزانہ مخفی کر دیتا ہے.اس وقت بیٹھے بٹھائے بغیر اس کے کہ ہماری طرف سے کوئی انگیخت ہو، احرار نے تمام پنجاب میں پرو پیگنڈا کر کے قادیان میں ایک بہت بڑا جلسہ کرنے کی تیاری کی اور بڑے زور شور سے اعلان کیا کہ وہ قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے.بلکہ بعض نے یہاں تک کہا کہ وہ مقبرہ بہشتی اور ہمارے دوسرے مقدس مقامات پر حملہ کریں گے.ایسے موقعہ پر قدرتی طور پر جماعت کو خود حفاظتی کی ضرورت تھی اور نظارت امور عامہ نے جماعت کے دوستوں کو اطلاع دی کہ وہ اس موقعہ پر قادیان جمع ہوں اور اپنے مقدس مقامات کی حفاظت کا فرض ادا کریں.یہ ایک جائز بات تھی.قادیان ہمارا مقدس مقام ہے نہ کہ احرار کا.قادیان ہمارا مرکز ہے نہ کہ احرار کا.اور اس لئے اگر کسی شخص کو قادیان آنے کا حق ہے تو وہ احمدی ہے، کسی دوسرے شخص کا یہ مذہبی حق نہیں.مگر اس وقت کی پنجاب گورنمنٹ نے یہ نرالا طریق اختیار کیا کہ باوجود اس کے کہ وہ اطلاع جو نظارت کی طرف سے احمدیوں کو قادیان میں جمع ہونے کی دی گئی تھی ، حکومت کی طرف سے یہ یقین دلائے جانے پر کہ وہ حفاظت کا انتظام پوری طرح کرے گی ہمنسوخ کر دی گئی تھی اور جماعتوں کو لکھ دیا گیا تھا کہ ان کے یہاں آنے کی ضرورت نہیں.اچانک کریمنل لا امنڈ منٹ ایکٹ 449
خطبہ جمعہ فرموده 24 نومبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم کے ماتحت حکوت کی طرف سے مجھے یہ نوٹس دیا گیا کہ قادیان میں جماعت کے آدمیوں کو بلانے کی آپ کو اجازت نہیں.یہ بالکل نئی قسم کی چیز تھی.یہ بالکل ایسی ہی بات تھی جیسے کسی کے ماں باپ کو یا بچے کولوگ مار رہے ہوں اور گورنمنٹ مارنے والوں کو تو کچھ نہ کہے مگر جسے مارا جا رہا ہے، اس کے رشتہ داروں کو حکم دے دے کہ تم اپنے گھروں سے باہر مت نکلو.غرض اس وقت پنجاب بلکہ سارے ہندوستان میں ہمارے خلاف فضا مکدر ہو چکی تھی اور گورنمنٹ اور رعایامل کر احمدیت کو کچلنا چاہتے تھے.پیہ حالات دیکھ کر مجھے اس امر کا احساس ہوا کہ یہ نتیجہ ہے، اس امر کا کہ ہم نے تبلیغ میں کوتا ہی کی ہے اور ہمیں قلیل التعداد اور تھوڑے سمجھ کر جو چاہتا ہے، ہم پر ظلم کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے.تب خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ تبلیغ کے کام کو وسیع کرنا چاہیے اور جماعت کی قوت اور شوکت کو بڑھانے کے لیے ہر قسم کے سامان جمع کرنے چاہئیں.اس خیال کے ماتحت دس سال پہلے میں نے ایک تحریک جاری کی، جس کا نام اب تحریک جدید مشہور ہو چکا ہے.اس تحریک کے کرنے کے وقت خود میرے دل میں اس کی پوری اہمیت نہ تھی اور نہ ہی کام کی وسعت کا اندازہ تھا.میں نے نو جوانوں کو پکارا کہ وہ آگے آئیں، بغیر اس کے کہ کوئی خاص تعداد میرے ذہن میں مستحضر ہو.جماعت کے نوجوانوں نے دلیری سے آگے بڑھ کر میری اس آواز پر لبیک کہا.پھر میں نے جماعت کے آسودہ حال لوگوں کو پکارا کہ وہ اپنے رویوں کو پیش کریں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے باوجود اس کے کہ میں نے کل 27 ہزار کا مطالبہ کیا تھا اور وہ بھی تین سال میں مگر جماعت نے پہلے ہی سال ایک لاکھ سے زیادہ روپیہ پیش کر دیا اور تین سال میں بجائے 27 ہزار کے چار لاکھ کے قریب جمع کر دیا اور جوں جوں یہ کام وسیع ہوتا جاتا ہے، اس کی اہمیت بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ظاہر ہوتی جاتی ہے.اس تحریک کے پہلے دور کی میعاد دس سال تھی اور یہ اس دور کا آخری مہینہ ہے اور اس کے ساتھ پہلے دور کی میعاد پوری ہو جائے گی.اس دور میں اللہ تعالیٰ نے جماعت کو جس قربانی کی توفیق دی ہے، اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ اس نے اس عرصہ میں جو چندہ اس تحریک میں دیا ، و 140-13لاکھ روپیہ بنتا ہے اور اس روپیہ سے جہاں ہم نے اس دس سال کے عرصہ میں ضروری اخراجات کئے ہیں، وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک ریز روفنڈ بھی قائم کیا ہے اور اس ریز روفنڈ کی مقدار 280 مربع زمین ہے.اس کے علاوہ ابھی ایک سو مربع زمین ایسی ہے، جس میں سے کچھ حصہ کے خریدنے کا ابھی وقت نہیں آیا.کچھ حصہ گوخریدا تو گیا ہے مگر اس پر ابھی قرض ہے.اسے اگر شامل کر لیا جائے تو کل رقبہ 380 مربع ہو جاتا ہے.450
تحریک جدید- ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرموده 24 نومبر 1944ء اگر پنجاب کی زمینوں کی قیمتوں پر قیاس کیا جائے تو یہ تمام زمین قریبا ستر اسی لاکھ روپیہ کی ہوتی ہے.مگر آج کل سندھ میں زمین کی جو قیمتیں ہیں، ان کے لحاظ سے بھی یہ جائیداد 26-25 لاکھ روپیہ کی ہے، جو ہمارے قبضہ میں آچکی ہے یا خریدی گئی ہے یا جس کے بیعانے دیئے جاچکے ہیں.سو اللہ تعالیٰ نے اس عرصہ میں جہاں ہمیں کام کے جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائی ، وہاں ریزروفنڈ کے قائم کرنے کی بھی توفیق بخشی مگر جو کام ہمارے سامنے ہے، اس کے لحاظ سے یہ ریز روفنڈ ابھی اتنا بھی نہیں جیسے سمندر کے مقابلہ میں قطرہ ہوتا ہے.بہت بڑا کام ہمارے سامنے ہے اور ہم پر بہت بڑی بڑی ذمہ داریاں ہیں.اس دوران میں تحریک جدید کے ماتحت ہمارے مبلغ جاپان میں گئے، تحریک جدید کے ماتحت چین میں مبلغ گئے تحریک جدید کے ماتحت سماٹرا اور جاوا میں مبلغ گئے ، سنگا پور میں گئے اور اس تحریک کے ماتحت خدا تعالیٰ کے فضل سے پین، اٹلی ، ہنگری، پولینڈ، البانیہ، یوگوسلاویہ اور امریکہ میں بھی مبلغ گئے اور افریقہ کے بعض ساحلوں پر بھی اسی تحریک کے ماتحت مبلغ گئے اور ان مبلغین کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہزاروں لوگ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور سلسلہ سے لاکھوں لوگ روشناس ہوئے اور دنیا کے دور دراز کناروں تک اس تحریک کے ماتحت احمدیت کا نام اور اس کی شہرت پہنچی.تحریک کے شروع میں جو مبلغ لیے گئے ، وہ ہنگامی طور پر لیے گئے تھے.ان کی تبلیغی تعلیم پوری نہ تھی الا ماشاء اللہ اور ان مبلغین میں سے بعض اس وقت لا پتہ ہیں، مثلاً مولوی محمد الدین صاحب یہاں سے افریقہ بھیجے گئے تھے، راستہ میں وہ جہاز ، جس میں وہ سفر کر رہے تھے، فرق ہو گیا اور اب ہمیں پتہ نہیں کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں اور اگر زندہ ہیں تو اس وقت کہاں ہیں؟ تحریک جدید کے بعض مبلغین اس وقت دشمن کے ہاتھوں میں قیدی ہیں.سٹریٹ سیٹلمنٹس میں ہمارے مبلغ مولوی غلام حسین صاحب ایاز تھے.جاوا، سماٹرا میں مولوی شاہ محمد صاحب اور ملک عزیز احمد صاحب گئے تھے اور یہ تینوں اس وقت جاپانیوں کی قید میں ہیں تو گویا یہ تین قید ہیں اور ایک اس وقت تک لا پتہ ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس دس سال کے عرصہ میں سلسلہ کو خاص ترقی دی اور احمد بیت کا نام اور اس کی شہرت کو دنیا کے کناروں تک پہنچادیا اور یہ ایک ایسی غیر معمولی کامیابی ہے کہ جس کی مثال ہمارے سلسلہ کے دور خلافت میں نہیں ملتی.مگر یہ کام اس قسم کا نہیں کہ آج ہی ہم اسے ختم کر دیں.بے شک ہم نے ایک ریز روفنڈ تو قائم کیا ہے مگر کام کی وسعت کے مقابلہ میں یہ بہت ہی کم ہے.سندھ میں زمینداری کا کام ابھی نیا نیا ہے اور یہ کام کرانے والے بھی ابھی نئے ہیں اور زمیندارہ کام سے ناواقف ہیں بلکہ کام کرنے 451
خطبه جمعه فرموده 24 نومبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم والے بھی ابھی ناواقف ہیں.اس لیے وہاں زمین کی آمد بھی پنجاب کی زمینوں کی آمد کی نسبت دسواں کا بیسواں حصہ بھی نہیں اور اس وقت کل آمد پچاس ساٹھ ہزار روپیہ سے زیادہ نہیں.اور جیسا کہ میں بتا چکا ہوں زمین کا کچھ حصہ ابھی ایسا ہے، جس کی قیمت بھی ابھی ادا کرنی ہے، کچھ قرضے بھی ہیں.اور اندازہ ہے کہ جب ساری زمین پوری طرح آزاد ہو جائے گی اور قرضے وغیرہ اتر جائیں گے تو لاکھ سوالاکھ روپیہ تک آمد ہو سکے گی.ابھی چار لاکھ روپیہ کے قریب بار اس زمین پر ہے گو کچھ روپیہ ہمارے پاس محفوظ بھی ہے مگر اسے نکال کر بھی دو اڑھائی لاکھ روپیہ کے قریب رقم قرضہ کی ہے اور ہم نے ادا کرنا ہے اور اس عرصہ میں جو اخراجات ہوں گے، وہ علاوہ ہیں.جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں ہمارے سامنے جو کام ہے، وہ بہت بڑا ہے اور ہماری ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں.ابھی تک ہم ہندوستان سے باہر تبلیغ کی طرف بہت تھوڑی توجہ دے سکے ہیں کیونکہ اس کے لیے ابھی مبلغ تیار نہیں ہو سکے مگر پھر بھی اس وقت تحریک کا ستر اسی ہزار روپیہ سالانہ خرچ ہے.اس کے علاوہ ب بعض نئے کام بھی جاری کئے گئے ہیں، ان کے اخراجات علاوہ ہیں اور یہ سب ملا کر سوالاکھ کے قریب کل خرچ ہے اور پھر اس کام کو چلانے کے لیے الگ روپیہ کی ضرورت ہے اور وہ قرضے جو ا بھی ادا کرنے ہیں، وہ اس کے علاوہ ہیں اور انہیں ادا کر کے ہی زمین کو آزاد کرایا جا سکتا ہے.پھر ریز روفنڈ کو بڑھانے اور اسے مضبوط کرنے کی بھی ضرورت ہے اور یہ سب کام ایسے ہیں کہ ان کے لیے روپیہ کی سخت ضرورت ہے.اس عرصہ میں ہم نے تبلیغ کو وسیع کرنے کے لیے جو تیاری کی ہے، اس کے سلسلہ میں چالیس کے قریب نوجوان ہیں، جو تیار کئے جار ہے ہیں.ان میں سے ہیں کے قریب تو ایسے ہیں کہ جو اپنی تعلیم کو جلد ہی ختم کرنے والے ہیں اور بیس کے قریب ابھی ابتدائی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ تین چار سال میں اپنی تعلیم کو مکمل کر سکیں گے اور کام کے قابل ہوسکیں گے.اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی حکمت کے ماتحت یہ بات بھی سمجھا دی کہ تحریک جدید کے ماتحت علماء کی تیاری کا کام کس قدر اہم ہے اور وہ اس طرح کہ اس عرصہ میں علمی لحاظ سے بعض ایسے صدمے پہنچے کہ میں نے محسوس کیا کہ اگر ہماری غفلت اسی طرح جاری رہی تو جماعت علماء سے محروم ہو جائے گی.مولوی محمد اسماعیل صاحب کی وفات بھی اسی عرصہ میں ہوئی اور پھر میر محمد اسحاق صاحب فوت ہو گئے اور اس طرح پرانی طرز کے علماء میں سے صرف مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب باقی رہ گئے.پہلے علماء میں سے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب، مولوی برہان الدین صاحب، مولوی غلام حسین صاحب، مولوی برہان الملک صاحب مشہور صرفی عالم ، حضرت خلیفہ اول رضی 452
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود 240 نومبر 1944ء اللہ عنہ اور مولوی عبد القادر صاحب لدھیانوی تھے.ان میں سے چار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے لے کر خلافت اولی تک وفات پاگئے.ان کے بعد مولوی عبد القادر صاحب، مولوی برہان الملک صاحب، قاضی امیر حسین صاحب ، مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب، مولوی محمد اسماعیل صاحب، حافظ روشن علی صاحب اور میر محمد اسحاق صاحب باقی رہ گئے اور اس عرصہ میں جماعت کی توجہ ایسے کاموں کی طرف رہی کہ اسے علماء پیدا کرنے کا خیال ہی نہ آیا اور اس نے ایسے علماء پیدا کرنے کا کوئی انتظام نہ کیا، جو ہر قسم کے دینی علوم کی تعلیم دے سکتے ہوں.اور اس وقت یہ حالت ہے کہ اس قسم کے علماء میں سے صرف ایک باقی ہیں یعنی سید محمد سرور شاہ صاحب اور وہ بھی اب نہایت ضعیف العمر ہو چکے ہیں.اس وقت ان کی عمر ستر سال کے قریب ہے.جس طرح حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اور مولوی برہان الدین صاحب کی وفات کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی توجہ اس طرح مبذول ہوئی کہ ایک مدرسہ قائم کیا جانا چاہئے ، جہاں ان علماء کے جانشین تیار ہو سکیں اور آپ نے مدرسہ احمد یہ جاری کرایا.اسی طرح میر محمد اسحاق صاحب کی وفات کے مد مجھے یہ احساس ہوا کہ جماعت میں علماء کی تیاری کا کام بہت تیزی سے ہونا چاہیے.اگر چہ جامعہ احمدیہ موجود ہے اور اس میں بہت سے نوجوان مولوی فاضل کا امتحان بھی پاس کرتے تھے مگر اس زمانہ کے مولوی فاضل پاس اور پرانی طرز کے علماء میں بہت بڑا فرق ہے.مولوی فاضل کا امتحان ایک خاص قسم کا نصاب کا پڑھ کر دیا جا سکتا ہے مگر اسے پاس کر کے کوئی شخص ایسا عالم نہیں ہوسکتا کہ ہرقسم کی علمی مشکل کوحل کرنے کے قابل ہو.بہت سی علمی کتابیں ایسی ہیں کہ جنہیں نہ وہ پڑھتے ہیں اور نہ ہی ان کے پڑھنے کا ان کو موقعہ مل سکتا ہے اور اس لئے جو علماء تیار ہورہے تھے وہ درمیانی قسم کے تھے.مگر کسی قوم کے دیگر اقوام پر غالب آنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس میں ایسے چوٹی کے علماء ہوں، جو ہر علم وفن کے ہر گوشہ میں مخالفین کو شکست دے سکیں.مثلاً فقہ کاعلم ہے.اس کے ایسے علماء ہوں، جو فقہی لحاظ سے بھی احمدیت کے نقطہ نگاہ کی فضیلت ثابت کر سکیں.پھر احادیث کا علم ہے، پرانی تفاسیر ہیں ، فلسفہ ہے.تو ہر فن کے ایسے علماء کا جماعت میں ہونا ضروری ہے، جو احمدیت کے نقطہ نگاہ کی فضیلت ثابت کر سکیں اور اس کے لئے ضروری ہے کہ احادیث ، تفسیر اور فلسفہ وغیرہ علوم کے اعلیٰ درجہ کے ماہر علماء ہم میں موجود ہوں.قرآن کریم کی ادبی شان اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ادبی شان کو ظاہر کرنے کے لئے ضروری ہے کہ صرف و نحو اور ادب میں اعلیٰ درجہ کا کمال رکھنے والے علماء ہم میں پائے جاتے ہوں اور اس لیئے ان علوم کی تکمیل کرانا انتہائی طور پر ضروری ہے.اس کے بغیر علمی لحاظ سے احمدیت کو دنیا میں غالب کرنا ممکن نہیں.453
خطبہ جمعہ فرمودہ 24 نومبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم فرض کرو ہمارا ایک مبلغ مصر جاتا ہے، وہاں جامعہ ازہر ہے، جو نہ صرف مصر بلکہ تمام دنیا میں علمی لحاظ سے ایک چوٹی کی جگہ ہے.وہاں ہمارا ایک مبلغ جائے اور ان علوم میں، جو وہاں پڑھائے جاتے ہیں، وہاں کے علماء کا مقابلہ نہ کر سکے تو گو یہ تو صحیح ہے کہ ہمیں مذہبی شکست تو نہ ہوگی مگر مخالفین کو شور مچانے کا موقعہ تو ضرور مل جائے گا اور یہ بات بہت سے لوگوں کے لئے ہدایت سے محروم ہو جانے کا ذریعہ ہو جائے گی.اسی طرح ہندوستان میں دیو بند ہے ، جو علمی لحاظ سے کافی شہرت رکھتا ہے.اگر ہمارے علماء وہاں کے علوم سے واقف نہ ہوں اور وہاں کے علماء کو ساکت نہ کرسکیں تو وہاں کے علماء اپنے علمی غرور میں سچائی کو ماننے سے محروم رہ جائیں گے اور ان کے ماننے والے بھی ہدایت نہ پاسکیں گے.بہت کم لوگ ہوتے ہیں، جو صداقت کو اس کے اصلی معیار پر پر کھتے ہیں.ایسے لوگ اسی قسم کے ہوتے ہیں، جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تھے.وہ لوگ نہ صرف و نحو سے واقف تھے اور نہ دیگر ایسے علوم سے.حدیث کے قواعد تو مدون ہی بعد میں ہوئے.وہ تو صرف اتنا جانتے تھے کہ ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی اور اسے آگے سنانا ہے.اس وقت تک اسناد و غیرہ کے متعلق پیچیدگیاں پیدا ہی نہ ہوئی تھیں.یہ تو سود و سو سال بعد میں ہوئی ہیں.تو اصل صداقت معلوم کرنے کے لئے ان باتوں کی ضرورت نہیں.مگر جن لوگوں سے ہمارا مقابلہ ہے، ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ان کی ضرورت ہے اور پھر وسعت نظر کے لئے بھی یہ بات نہایت ضروری ہے کہ ہر قسم کے علوم سے مزین علماء اور چوٹی کے علماء جماعت میں موجود ہوں اور میر محمد اسحاق صاحب کی وفات نے میری زیادہ توجہ اس طرف پھیری کہ جماعت میں چوٹی کے علماء پیدا کرنے کے لئے زیادہ تیزی سے کام ہونا چاہئے.گو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ میں ایک سال پہلے سے ہی اس طرف توجہ کر رہا تھا.تعلیم کے طریق میں تبدیلی کر چکا تھا مگر میر صاحب کی وفات پر اس طرف اور زیادہ توجہ ہوئی اور دو درجن کے قریب طلباء کو میں نے اعلیٰ علوم کی تکمیل کے لئے مقرر کر دیا ہے.غرض اب جبکہ تحریک جدید کے پہلے دس سال کا دور ختم ہونے کو ہے، کام کی اہمیت بہت زیادہ ہوگئی ہے، اس کی مشکلات آگے سے بہت زیادہ واضح ہو چکی ہیں.چنانچہ جماعت کو بھی اس کا احساس ہورہا ہے اور بعض دوست مجھے لکھ رہے ہیں کہ اس عرصہ میں ہمیں قربانی کی عادت ہوگئی ہے ، اب یہ دور ختم ہونے والا ہے، ایسانہ ہو کہ آئندہ ہم اس نیکی سے محروم ہو جائیں کسی نہ کسی صورت میں اس قربانی کا دروازہ جماعت کے لئے کھلا رہنا چاہئے.مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے، جو اپنے دلوں میں کہتے ہوں گے کہ الحمد للہ ہمیں اس تحریک میں حصہ لینے کا موقع مل گیا، اب دس سال پورے ہو رہے ہیں اور یہ تحریک ختم ہو جائے گی اور ہمیں آرام کرنے 454
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 24 نومبر 1944ء کا موقعہ مل جائے گا.اور عجیب بات ہے کہ مین اس موقعہ پر جب تحریک جدید کے دس سال پورے ہونے کو ہیں، اللہ تعالیٰ نے جماعت کے خلاف بعض فتنے پیدا کر دیئے ہیں، جو ظاہر کرتے ہیں کہ جماعت کے بعض دوستوں کے دلوں میں سستی کے خیالات پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں.ان فتن میں سے ایک تو یہ ہے کہ احرار نے پھر قادیان میں جلسہ منعقد کرنے کی کوشش کی اور اس کی بنیاد اس امر پر رکھی کہ میں نے دہلی میں کہا تھا، احراری قادیان میں آئیں اور جلسہ کریں.حالانکہ یہ بات بالکل غلط تھی.اصل بات یہ تھی کہ جب دہلی میں جلسہ ہوا اور میں وہاں گیا تو وہاں بعض لوگوں نے ہمارے خلاف سخت فتنہ اٹھایا ، بہت سے پتھر مارے اور حملہ کر دیا اور اس طرح کوشش کی کہ جلسہ نہ ہو سکے اور لوگ ہماری باتیں نہ سن سکیں.اس پر میں نے کہا کہ یہ طریق بالکل غلط اور اسلام کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے.ہماری باتیں سننے میں ان لوگوں کا کیا حرج ہے؟ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ حق ان کے پاس ہے تو پھر ہماری باتیں سننے سے ان کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟ اور پھر میں نے یہ بھی کہا کہ اگر یہ خیال کرتے ہیں کہ جو لوگ احمد کی ہوئے ہیں، وہ اس وجہ سے ہوئے ہیں کہ ان لوگوں کی باتیں سننے کا ان کو موقعہ نہیں مل سکا تو بے شک اپنے نقطہ نگاہ کو احمدیوں کے سامنے پیش کرنے کے لئے ان کا کوئی عالم قادیان آئے.میں اس کا خرچ بھی خود دوں گا اور جماعت کے دوستوں کو جمع بھی کرادوں گا تا وہ انہیں اپنی باتیں سنا سکے.اب ظاہر ہے کہ اس کا بات کا کہ جو آئے گا اس کا خرچ میں دوں گا اور اس کی تقریر سننے کے لئے احمدیوں کو جمع کرادوں گا، یہی مطلب ہو سکتا ہے کہ جو آئے گا، وہ مجھے پوچھ کر آئے گا اور مجھ سے دریافت کر کے کہ آپ میری تقریر سننے کے لئے کب احمد یوں کو جمع کر سکیں گے ، آئے گا؟ میری بات کے یہ معنی تو کسی صورت میں بھی نہیں ہو سکتے کہ تمام ملک میں سے غیر احمدیوں کو قادیان پر یورش کرنے کی میں نے دعوت دی ہے.میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ غیر احمدی اکٹھے ہو کر قادیان آئیں اور اپنے مولویوں کی تقریریں سنیں.بلکہ میں نے تو یہ کہا تھا کہ غیر احمدیوں کے کوئی بڑے مولوی اگر احمدیوں کو اپنی باتیں سنانے کے لئے آنا چاہیں تو میں ان کا خرچ بھی برداشت کروں گا اور ان کی باتیں سننے کے لئے احمدیوں کو جمع بھی کرادوں گا.غیر احمد یوں کو اپنے مولویوں کی باتیں سننے کے لئے قادیان آنے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ تو ان کی باتیں دہلی میں بھی سن سکتے ہیں، لاہور میں بھی سن سکتے ہیں، امرتسر میں بھی سن سکتے ہیں، ان کو یہاں آکر سننے کی کیا ضرورت ہے؟ میری غرض تو یہ تھی کہ غیر احمدی علماء کا اگر یہ خیال ہو کہ جو لوگ احمدی ہوئے ، وہ اس وجہ سے ہوئے ہیں کہ ہماری باتیں سنے کا انہیں موقعہ نہیں مل سکا تو وہ بے شک قادیان آکر اپنی باتیں احمدیوں کو سنائیں، میں ان باتیں سنے کا وہ بےشک قادیان آکر اپنی لوں میں، میں ان 455
خطبہ جمعہ فرمودہ 24 نومبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم کا خرچ بھی خود دوں گا اور یہ بات میں اب بھی کہتا ہوں کہ اگر ان کے کوئی بڑے عالم مثلا مفتی کفایت اللہ صاحب یا مولوی شبیر حسین صاحب دیو بندی مجھے لکھیں کہ وہ قادیان میں آکر احمدیوں کو اپنی باتیں سنانا چاہتے ہیں اور ان کے آنے پر غیر احمدیوں کا کوئی مظاہرہ یا جلسہ نہ ہوگا تو میں اس کا انتظام کر دوں گا اور ان کا خرچ بھی ادا کروں گا اور میں خود گورنمنٹ سے بھی یہ کہوں گا کہ اس میں کوئی حرج نہیں اور اس میں کوئی خطرہ کی بات نہیں.اجتماع احمدیوں کا ہوگا، صرف ایک دو مولوی صاحبان تقریر کرنے والے باہر سے آئیں گے اور اس صورت میں فتنہ کا کوئی خوف نہیں.مگر میں نے تو کہا تھا کہ اگر کوئی غیر احمدی عالم احمد یوں کو اپنی باتیں سنانے کے لئے قادیان آنا چاہے تو بے شک آئے ، میں اس کا خرچ بھی دوں گا مگر ان لوگوں نے سارے ہندوستان میں اعلان کیا کہ غیر احمدی کثرت سے قادیان پہنچیں اور وہاں ہماری باتیں سنیں.حالانکہ غیر احمد یوں کو اپنے علماء کی باتیں سننے کے لئے قادیان آنے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ یہ باتیں تو ہر جگہ سن سکتے ہیں.کسی غیر احمدی عالم کے یہاں آنے کی غرض تو یہی ہو سکتی ہے کہ احمدیوں کو وہ باتیں سنائی جائیں.پس میں اب بھی وہ بات کہتا ہوں، جو د ہلی میں کہی تھی کہ اگر کوئی غیر احمدیوں کا بڑا عالم یہاں آکر اپنی باتیں احمدیوں کو سنانا چاہے تو اس کا انتظام کر دوں گا اور اس کا خرچ بھی دوں گا اور گورنمنٹ سے بھی یہ کہہ دوں گا کہ اس کے یہاں آنے اور تقریر کرنے میں کوئی حرج نہیں اور وہ احمدیوں کے سامنے تقریر کرے تا اسے تسلی ہو سکے کہ جن لوگوں نے احمدیت کو قبول کیا ہے، نا واقفیت کی وجہ سے نہیں کیا بلکہ سوچ سمجھ کر کیا ہے اور اچھی طرح موازنہ کر کے کیا ہے.اور اگر اس کا یہ خیال درست ہوگا کہ جو لوگ احمدی ہوئے ہیں، وہ دھو کہ کا شکار ہوئے ہیں تو اس کی تقریر سننے والے احمدی خود بخود اس کے ساتھ ہو جائیں گے.لیکن اگر ایسا نہیں تو اس تقریر کو سن کر ان کے ایمان اور زیادہ مضبوط ہوں گے.غرض ان دونوں باتوں میں یعنی جو کچھ میں نے دہلی میں کہا اور جو کچھ احرار نے میری طرف منسوب کیا زمین و آسمان کا فرق ہے.میں نے تو کہا تھا کہ ان کے علماء قادیان میں آکر احمدیوں کو اپنی باتیں سنانا چاہیں تو میں اس کا انتظام کر دوں گا.مگر انہوں نے سارے ہندوستان میں یہ ڈھنڈورا پیٹ دیا کہ غیر احمدی جمع ہو کر قادیان چلیں.میں نے تو کہا تھا کہ ان کی تقریر کے لئے انتظام میں کردوں گا مگر انہوں نے خود ہی لوگوں کو جمع کر کے قادیان میں لانے کی کوشش شروع کر دی.قادیان ایک چھوٹی سی بستی ہے.اس کی آبادی تیرہ چودہ ہزار سے زیادہ نہیں اور اس میں احمدیوں کی آبادی قریبا دس ہزار ہوگی تو ایک ایسی چھوٹی سی بستی میں چاروں طرف سے مخالفین کو اکٹھا کر کے لانا ، 456
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرموده 24 نومبر 1944ء ایک ایسی بات ہے کہ کون امید کر سکتا ہے کہ یہ فتنہ کا موجب نہ ہوگی ؟ پھر ان لوگوں کی طرف سے اشتعال بھی دلا یا جا رہا تھا.جس کے نتیجہ میں بعض لوگ اس بات پر آمادہ ہو جاتے کہ ہمارے مقدس مقامات پر حملہ کردیں، جیسا کہ پہلے ان کی طرف سے اس ارادہ کا اظہار بھی ہو چکا ہے.پس ان لوگوں نے جو کچھ کرنا چاہا، وہ میری تجویز ہر گز نہ تھی.میں نے جو بات پیش کی تھی ، اس کے مطابق اگر یہ لوگ چاہیں تو اب بھی انتظام ہو سکتا ہے.وہ ایسی بات ہے کہ جس پر گورنمنٹ کو بھی اعتراض کرنے کی ضرورت نہیں ہوسکتی.اگر قادیان میں احمدی جمع ہوں اور اس مجمع میں کوئی غیر احمدی مولوی تقریر کرے تو گورنمنٹ کو فساد کا کوئی خطرہ نہیں ہوسکتا اور ایسے اجتماع کے انعقاد کے لئے میں بھی ان کے ساتھ مل کر گورنمنٹ سے اجازت لینے کی کوشش کروں گا.کیونکہ اس میں فتنہ کا کوئی خدشہ نہیں.مگر ان لوگوں نے ایک نرالا ڈھونگ رچایا اور لوگوں کو اکٹھا کر کے قادیان پر یورش کرنا چاہی اور جب گورنمنٹ نے انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہ دی تو شور مچادیا کہ احمدیوں نے ہمارا جلسہ بند کرا دیا.یہ میچ ہے کہ سلسلہ کے ایک افسر نے اس بارہ میں ذمہ وار سرکاری افسر سے ملاقات کی تھی.مگر جب وہ ملا تو اس سرکاری افسر نے کہا کہ میں تو دوروز ہوئے ، اس جلسہ کے بند کئے جانے کا حکم دے چکا ہوں.پس یہ بات غلط ہے کہ ان کے جلسہ میں روک جو پیدا ہوئی ، وہ ہماری وجہ سے ہوئی اور اس طرح یہ بات بھی غلط ہے کہ ہمارے بعض جلسوں پر انہوں نے جو حملے کئے، پھر پھینکے اور احمدیوں کو زخمی کیا ، اس کی وجہ قادیان میں ان کے جلسہ کا بند کیا جانا ہے.کیونکہ دہلی میں تو ہمارا جلسہ قادیان میں ان کے جلسہ کے اعلان سے بھی بہت پہلے منعقد ہوا تھا اور وہاں ہمارے جلسے پر ان لوگوں نے پتھر پھینکے اور حملے کئے تھے.پس ان کا یہ کہنا کہ لاہور اور امرتسر وغیرہ مقامات پر سیرت النبی کے جلسوں کے موقعہ پر ان لوگوں نے جو حملے کئے ہیں، وہ قادیان میں ان کے جلسہ کو بند کرانے کا انتقام لیا ہے، بالکل غلط ہے.وہلی میں ہمارے جلسہ پر اس قدر سخت پتھراؤ کے بعد یہ کہنا کہ یہ قادیان میں ان کا جلسہ نہ ہونے دیئے جانے کا انتقام ہے، صریح جھوٹ ہے.پہلے ان لوگوں نے لدھیانہ میں ہمارے جلسہ کے موقعہ پر گالیاں دیں، پتھر پھینکے اور سوانگ نکالے.پھر دہلی میں ہمارے جلسے پر پتھراؤ کیا.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی ، جب آپ دہلی تشریف لے گئے تو مخالفین نے سخت شور وشر کیا.پھر امرتسر میں جلسہ کو روکا اور پتھر پھینکے.لاہور میں بھی اس طرح کیا.یہ سب کچھ نصف صدی پہلے ان کے قادیان میں کون سے جلسہ کو روکے جانے کے انتقام کے طور پر کیا گیا تھا؟ اب بھی ان کے جلسہ کو اگر روکا تو حکومت نے روکا اور وہ اس لئے کہ اس سے فتنہ وفساد کی بو آتی تھی.مگر یہ لوگ تو ہمیشہ سے ہمارے جلسوں پر پتھراؤ کرتے آئے 457
خطبہ جمعہ فرموده 24 نومبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم ہیں.31ء میں جب میں سیالکوٹ گیا تو میری تقریر کے وقت انہی مولوی عطاء اللہ صاحب کی انگیخت پر قریباً بیس ہزار کا مجمع پورا ایک گھنٹہ اور پانچ منٹ ہم پر پتھراؤ کرتا رہا اور پھر ان پتھراؤ کرنے والوں کی بہادری یہ تھی کہ جب مسٹر یوسٹس نے ، جو اس وقت وہاں ڈپٹی کمشنر تھے حکم دیا کہ اگر پانچ منٹ تک یہ مجمع منتشر نہ ہوا تو وہ پولیس کو حملہ کرنے کا حکم دیں گے تو پانچ منٹ کے اندر اندر ہی یہ لوگ اس طرح جلسہ گاہ سے غائب ہو گئے، جیسے گدھے کے سر سے سینگ.پس ان لوگوں کا ہمارے جلسوں پر حملے کرنا کوئی نئی بات نہیں.ان فتنوں کے اس وقت اٹھنے میں اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ جماعت کو متنبہ کرے کہ اپنے آپ کو امن میں نہ سمجھنا، فتنے ابھی موجود ہیں اور دشمن احمدیت کو مٹانے کے لئے کھڑا ہے.اگر ان حالات سے جماعت آنکھیں بند کر لے تو اس کی مثال وہی ہوگی کہ جیسے کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے اور وہ کسی بہتر نتیجہ کی امید نہیں کرسکتی.پس یہ سامان اللہ تعالیٰ نے خود اس لئے پیدا کیا ہے کہ تادلوں سے غفلت کو دور کرے اور ہماری بستیوں کے ازالہ کا سامان فرمائے اور جیسا کہ اس سال کے شروع میں اس نے مجھے رویاء میں دکھایا تھا کہ اسلام کے لئے جنگ کرنے میں مجھے دنیا میں دوڑ نا ہوگا اور جب میں دوڑ وں گا تو ان لوگوں کے لئے ، جنہوں نے میرے ہاتھ میں ہاتھ دے رکھا ہے، دوڑنا لازمی ہوگا.بیعت کرتے وقت ہاتھ میں ہاتھ دینے کے ایک معنے یہ بھی ہوتے ہیں کہ جس طرح ماں باپ جب تیز چلنے لگتے ہیں تو بچہ کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں تا وہ ساتھ ساتھ چل سکے.اسی طرح بیعت کرنے والا بھی ہاتھ میں ہاتھ دے کر ساتھ چلنے کا اقرار کرتا ہے.پس میں جب دوڑوں گا تو جن لوگوں نے میرے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کی ہے، ان کے لئے بھی لازمی ہوگا کہ یا تو میرے ساتھ دوڑیں اور یا پھر اپنا ہاتھ کھینچ لیں.اور جو شخص میرے ساتھ دوڑنے میں کوتا ہی کرتا ہے وہ گویا اپنی بیعت کے ناقص ہونے کا اقرار کرتا ہے.یا درکھو کہ آج اسلام سے زیادہ کوئی مذہب حقیر اور کمزور نہیں.وہی طاقتیں جو کسی زمانہ میں اس کی قوت کا موجب تھیں مثلاً ایران، افغانستان، بخارا، مصر و غیرہ وہ ایسی چھوٹی چھوٹی ہیں کہ ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں سمجھی جاتی.اگر مصر، مرا کو، الجیریا، سوڈان ، عرب، شام، فلسطین،ترکی ، بخارا، البانیہ، ایران، افغانستان سب ایک حکومت کے ماتحت ہوتے تو دس بارہ کروڑ کی آبادی ، اس کی ہوتی.جیسے امریکہ کی ہے اور اس صورت میں اس کی کوئی آواز بھی ہوتی.مگر اب تو ایسا وقت ہے کہ شاید ان کی بات سننے کے لئے بھی کوئی تیار نہ ہوگا.نام کو تو یہ کئی حکومتیں ہیں مگر چھوٹی چھوٹی اور ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی وجہ سے ان کی کوئی 458
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 24 نومبر 1944ء آواز نہیں.وہی حکومتیں جو آزادی کے نام پر جنگ کر رہی ہیں، ان میں سے ایک نے ایران کو نوٹس دیا ہے کہ اپنے تیل کے ذخائر ہمارے حوالے کر دو.کیا یہی نوٹس کوئی انگلستان، امریکہ یا روس کو دے سکتا ہے؟ جس چیز کا ہزارواں حصہ اپنے بارہ میں مداخلت سمجھا جاتا ہے، اس بات کو دوسرے کمزور ہمسایوں کے بارہ میں حق اور جائز سمجھا جاتا ہے.یہ صرف کمزوری کا نتیجہ ہے.غرض آج مسلمانوں کا کوئی وقار دنیا میں نہیں.پھر علمی لحاظ سے بھی ان کا وجود مٹتا جا رہا ہے.ہندوستان کے پرانے علماء کی بھی یہی رائے ہے کہ پرانے علوم اب مٹتے جارہے ہیں اور اب مسلمانوں میں ان کے حصول کا شوق باقی نہیں رہا.مصر کی ازہر یونیورسٹی ، جو ان علوم کی سب سے بڑی یو نیورسٹی ہے، اس سے لوگوں کی دلچسپی بھی کم ہو رہی ہے.مصر میں بھی نئے علوم کی یونیورسٹیاں قائم ہورہی ہیں اور ہوشیار طلباء زیادہ تر ان ہی میں داخل ہورہے ہیں.مسلمانوں میں اب تصوف بھی باقی نہیں رہا.پہلے تو تصوف کے یہ معنے تھے کہ تصوف کی گدی پر بیٹھنے اور اس رستہ پر چلنے والا اللہ تعالیٰ کی ڈیوڑ ہی کا دربان ہوتا تھا مگر آج صوفی کے معنے دنیا کے پیسوں کا رکھوالا کے ہیں.خدا تعالی کی مدد اور نصرت اب ان کے ساتھ نہیں رہی اور صوفی کہلانے والے تو کل کے مقام سے بہت دور ہیں اور اب صوفیوں میں عام دنیا داروں والی باتیں پائی جاتی ہیں.مولوی امام الدین صاحب مرحوم ، جو قاضی اکمل صاحب کے والد تھے، ان کو تصوف کی باتوں کا بہت خیال رہتا تھا اور وہ ہمیشہ مجھ سے سوال کیا کرتے تھے کہ پرانے صوفیاء کی مجالس میں جو باتیں ہوتی تھیں، وہ یہاں نہیں ہیں؟ کبھی عرش پر سجد سے اور کبھی عرش پر خدا تعالیٰ سے باتیں ہوتی تھیں، یہ کمالات یہاں بھی دکھائے جائیں؟ میں ان کو جواب دیا کرتا تھا مگر ان کی تسلی نہیں ہوتی تھی.ایک دن خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا اور میں نے ان سے کہا کہ آپ یہ بتائیں کہ بادشاہ کے نوکر کو کبھی یہ بھی فکر ہو سکتا ہے کہ اسے کھانا کہاں سے ملے گا؟ وہ تو جانتا ہے کہ جہاں سے بادشاہ کے لئے آئے گا، اس کے لئے بھی آجائے گا.اگر ان صوفیاء میں جن کی مجالس کے قصے آپ بیان کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ پر حقیقی تو کل ہو تو انہیں کوئی ذاتی ہوں نہ ہو اور دنیا کی محبت ان کے قلوب سے سرد ہو جائے.آپ جن صوفیاء کا ذکر کرتے ہیں، کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان میں حقیقی تو کل پایا جاتا ہے؟ اور کیا انہیں اللہ تعالیٰ پر ایسا ایمان ہے کہ وہ خودان کا کفیل ہوگا اور کہ انہیں بندوں کی مدد کی ضرورت نہیں ؟ اس پر ان کی سمجھ میں بات آگئی اور انہوں نے کہا کہ بس اب میں سمجھ گیا.انہوں نے کہا کہ میرے ایک استاد تھے اور جب بھی میں اس قسم کے سوالات کرتا تھا تو مجھے انہی کا خیال آیا کرتا تھا مگر ان کی عادت یہ تھی کہ جب غلہ نکنے کا موسم آتا تو وہ زمینداروں سے کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھی خیال رکھنا.تو آج 459
خطبہ جمعہ فرمودہ 24 نومبر 1944ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد دوم صوفیاء میں حقیقی تو کل نام کو باقی نہیں رہا.کئی ایسے ہیں، جو تصوف کی آڑ میں ٹھگ بنے پھرتے ہیں اور لوگوں کے زیورات اور نقدی و غیرہ کسی نہ کسی بہانہ سے ٹھگ کر لے جاتے ہیں.آج مسلمانوں میں نہ ظاہری شان و شوکت ہے ، نہ علوم ظاہری ہیں اور نہ تصوف.ہر لحاظ سے ان پر ایک جمود کی حالت طاری ہے.دیکھو عیسائیت کتنا جھوٹا مذہب ہے؟ وہ ایک بندے کو خدا بنا تا ہے.مگر ان کے پادری کس جوش سے کام کرتے ہیں؟ کہیں وہ لوگوں کو علوم سیکھنے کی تحریک کرتے ہیں، کہیں لوگوں کو علوم سکھاتے ہیں، کہیں غرباء کی خدمت کرتے ہیں، کہیں بیماروں کا علاج کرتے ہیں ، مصیبت زدہ لوگوں کی مصائب اور مشکلات میں مدد کرتے ہیں اور ان میں ایک استغناء کا رنگ نظر آتا ہے، ایک وقار پایا جاتا ہے.مگر ان کے مقابل مسلمان مولویوں کی کیا حالت ہے ؟ الا ماشاء اللہ ان میں سے چند ایک کو چھوڑ کر باقی سب میں بددیانتی پائی جاتی ہے.میں نے بچپن میں ایک دفعہ دیکھا کہ رام باغ امرتسر میں ایک مولوی صاحب جا رہے تھے اور پیچھے پیچھے ایک غریب آدمی ان کی منتیں کرتا جاتا تھا اور وہ مولوی صاحب اسے جھڑ کتے اور گالیاں دیتے جاتے تھے.آخر مولوی صاحب آگے نکل گئے اور وہ بیچارہ پیچھے رہ گیا اور میں نے اس سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ اس نے بتایا کہ میں مزدوری کرتا ہوں، مزدوری سے ہی تھوڑے تھوڑے پیسے بچا کر ان مولوی صاحب کے پاس جمع کراتا گیا کہ شادی پر خرچ کروں گا.اب سویا و سور و پیہ جمع ہو گئے تو میں نے ان سے واپس مانگے مگر اس پر یہ مجھے گالیاں دیتے اور جھڑ کتے جاتے ہیں اور میری رقم دینے سے انکار کرتے ہیں.تو ان لوگوں میں سے دیانت اور امانت بالکل مٹ گئی ہے اور ایسے حالات میں آج اسلام جس مددکا محتاج ہے، وہ ظاہر ہے.جس قدر درد کا محتاج آج اسلام ہے اور کوئی مذہب نہیں.فرض کرو اگر عیسائیت دنیا میں غالب آجائے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ خدا تعالیٰ کا نام دنیا سے مٹ گیا.بدر کے موقع پر جب مسلمانوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی ، یعنی وہ تین سو کے قریب تھے اور کفار کا لشکر بہت زیادہ تھا اور بظاہر مسلمانوں کے غلبہ کی کوئی صورت نہ تھی.اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی کہ اے اللہ ! اگر آج یہ مسلمانوں کا چھوٹا سا گروہ مٹ گیا تو دنیا میں تیری عبادت کرنے والا کوئی باقی نہ رہے گا.وہی حال آج احمدیت کا ہے.اگر یہ غالب نہ آئے ، اگر احمدیت کا درخت مرجھا کر رہ گیا تو دنیا میں خدا تعالیٰ کا نام لینے والا کوئی باقی نہ رہے گا.پس چاہئے کہ ہمارے سامنے خواہ کس قدر مشکلات ہوں، ہم اپنے خون کے آخری قطرہ تک کو خدا تعالٰی اور اسلام کی راہ میں بہا دیں اور اگر ہم اس کے لئے تیار نہیں ہیں، اگر ہم اس قربانی سے ہچکچاتے 460
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود 240 نومبر 1944ء ہیں، اگر ہمیں ایسا کرنے میں کوئی تامل ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ہمارا سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونا محض ایک دکھاوا ہے، فریب ہے، مکاری ہے اور دغا بازی ہے.دنیا میں لوگ انسانوں سے دھوکا کرتے ہیں، ایک دوسرے سے فریب کرتے ہیں اور دغا بازی سے کام لیتے ہیں اور شریف لوگ ایسے لوگوں کو ادنی اخلاق کا اور بہت گرا ہوا سمجھتے ہیں.لیکن اگر ہم اس وقت خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک نہ کہیں گے، اگر اسلام کے لئے قربانی کرنے سے ہچکچائیں گے تو ہم ان لوگوں سے بھی گئے گزرے سمجھے جائیں گے، جو ایک دوسرے سے دھو کا کرتے ہیں.کیونکہ یہ لوگ باوجود اپنے گرے ہوئے اخلاق کے اپنے لیڈروں کی آواز پر لبیک کہتے ہیں.ہم اگر خدا تعالی کی آواز پر بھی لبیک نہ کہیں تو ہم سے وہ دنیا دار لوگ ہی اچھے ہوں گے اور یہ ایک ایسا بدترین مظاہرہ ہوگا، جو ہمیں انسانیت کے درجہ سے گرا کر حیوانیت کے درجہ پر پہنچا دے گا.بے شک قربانیوں کا رستہ لمبا ہوتا جاتا ہے مگر اچھی طرح یا د رکھو کہ جب تک کوئی قوم زندہ رہنا چاہتی ہے، اسے قربانیاں کرنی پڑیں گی.قربانی کے بغیر زندگی ممکن ہی نہیں اور جس دن کوئی قوم یہ چاہیے کہ خدا تعالیٰ اس سے قربانی کا مطالبہ نہ کرے، اس کو ابتلاء میں نہ ڈالے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ چاہتی ہے کہ خدا تعالیٰ اسے چھوڑ دے.قربانی کے مطالبہ کے معنی یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ اسے یاد کر رہا ہے اور جو شخص قربانی کے دروازہ کے بند کئے جانے کا خیال بھی دل میں لاتا ہے، وہ ایمان کی حقیقت سے واقف نہیں.جو امید رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قربانی کے دروازہ کو بند کر دے، وہ گویا دعا کرتا ہے کہ اے خدا مجھے چھوڑ دے، اے خدا مجھے بھول جا، اے خدا مجھے کبھی یاد نہ کر اور ظاہر ہے کہ ایسی دعا کرنے والا مومن نہیں ہو سکتا.مومن کا جواب تو قربانی کے ہر مطالبہ پر وہی ہوتا ہے اور وہی ہونا چاہئے ، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک شعر میں بیان فرمایا ہے.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:.در کوئے تو اگر عشاق را زنند اول کے کہ لاف تعشق زند منم یعنی اگر یہ فیصلہ ہو جائے کہ یار کے کوچہ میں ہر عاشق کا سرکاٹ دیا جائے گا تو اس فیصلہ کو سننے کے بعد جو سب سے پہلے یہ کہے گا کہ میں عاشق ہوں ، وہ میں ہوں گا.خوب یا درکھو کہ موت ہی میں دراصل زندگی ہے اور قربانی زندگی کے لئے نہایت ضروری ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کے لئے پیش کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے - 461
خطبہ جمعہ فرموده 24 نومبر 1944 ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد دوم فرمایا کہ میں تیری نسل کو اتنا بڑھاؤں گا کہ اسے شمار کرنا مشکل ہوگا.آپ نے خدا تعالیٰ کی خاطر اپنی نسل کو تباہ کر دینا چاہا.جب اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں تو اپنے بیٹے کو میری راہ میں قربان کر دے تو آپ نے کہا اے میرے رب ! میں اس کے لئے تیار ہوں.اس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ میں تیری نسل کو کبھی نہ مرنے دوں گا.بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام تو سب نبیوں سے بلند تر ہے، پھر یہ دعا کیوں سکھائی گئی کہ اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ.اس کے ہم اور معنے بھی کرتے ہیں.مگر ایک معنے اس کے یہ بھی ہیں کہ خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ میں تیری نسل کو کبھی فنا نہ ہونے دوں گا.سو درود میں آپ کا نام شامل کر کے اللہ تعالیٰ اس وعدہ کو یاد دلا رہا ہے کہ جو اس کا ہو جاتا ہے، وہ کس طرح اسے ہمیشہ کے لئے قائم کر دیتا ہے.انگریزی میں ایک ضرب المثل ہے کہ ایک دفعہ تو تم نے بے چکھے چکھا تھا مگر اب کہ تم اسے چکھ چکے ہو.اسے چکھنے کے بعد ایک بار پھر چکھو.ایک مٹھائی کو تم نے پہلے بغیر چکھنے کے چکھا تھا.مگر اب کہ تم اس کے مزے سے آشنا ہو چکے ہو.ایک دفعہ اسے اور چکھو.اسی طرح میں کہتا ہوں کہ تحریک جدید کا پہلا دور تو ایسا ہی تھا جیسے بغیر پہلے چکھنے کے کسی مٹھائی وغیرہ کو چکھنا.اس وقت تو کوئی علم نہ تھا کہ یہ پیج، جو ہم بور ہے ہیں، یہ کتنا بڑا درخت پیدا کرے گا؟ مگر اب کہ تم دیکھ چکے ہو کہ اس کے نتیجہ میں کتنا بڑا ریز روفنڈ قائم ہو چکا ہے، اتنا بڑا کہ گو وہ اپنی ذات میں کتنا ہی حقیر ہومگر ہماری جماعت کی مالی حالت کے لحاظ سے اس کا ہم کبھی خیال بھی نہ کر سکتے تھے.پھر اس کے نتیجہ میں احمدیت کی تبلیغ اور اس کی شہرت دنیا کے چاروں طرف پھیل چکی ہے.ہماری تنظیم اس سے بہت زیادہ مضبوط ہو چکی ہے، جتنی دس سال قبل تھی اور آج ہماری جماعت ہر لحاظ سے دس سال قبل کی نسبت اللہ تعالی کے فضل سے کئی گنا اچھی ہے.تو میں کہتا ہوں کہ جو کام کو پہلے دور میں آپ لوگوں نے چکھے بغیر کیا تھا.وہی اب کہ اس کی لذت سے آپ لوگ آشنا ہو چکے ہیں.آپ کو چاہیے کہ اور بھی زیادہ جوش کے ساتھ کریں اور چونکہ کسی کام میں حصہ لینے کی طرف رغبت دلانے کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کام کی اہمیت بیان کر دی جائے.اس لئے میں مختصر طور پر اب بتاتا ہوں کہ وہ کام کیا ہے، جس سے ہم دنیا میں حرکت پیدا کر سکتے ہیں؟ تحریک جدید کا کام تبلیغ کو منظم کرنا اور زیادہ وسیع کرنا ہے.میرے نزدیک تبلیغ کا کام تین حصوں میں قسیم ہونا چاہیے.462
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد دوم 1 تبلیغ بیرون ہند 2 تبلیغ اندرون ہند 3 مبلغ تیار کرنے والا نظام خطبہ جمعہ فرمود 240 نومبر 1944ء تبلیغ بیرون ہند کے کئی حلقے ہیں.ایک حلقہ ان میں سے اسلامی ممالک کا ہے.یہ ممالک اس بات کے حقدار ہیں کہ ہدایت ان تک پہنچانے کا انتظام کیا جائے کہ انہی ممالک کے لوگوں کے ذریعہ اسلام پھیلا اور ہم تک پہنچا.ان ممالک میں آج جو لوگ بستے ہیں، ان کے آباؤ اجداد کا یہ احسان تھا کہ انہوں نے اسلام کو پھیلا یا اور اس طرح وہ ہم تک پہنچا اور اس لئے ہمارا فرض ہے کہ آج جب ان کی اولادیں اسلام سے غافل ہو چکی ہیں، ہم پھر انہیں اسلام کی طرف لائیں.اس حلقہ میں عراق، شام، فلسطین، مصر، ایران، لبنان ( گو اس ملک میں عیسائی زیادہ آباد ہیں مگر پھر بھی یہ اسلامی تحریک کا مرکز ہے) وغیرہ ممالک ہیں.ان ممالک میں کم سے کم دو دو مبلغ ہونے چاہیں.ایک ایک ملک کے لئے دو دو مبلغ بہت ہی کم ہیں.دو مبلغ تو ضلع گورداسپور کیلئے بھی کافی نہیں ہو سکتے.مگر فی الحال اگر ہم ان ممالک کے لئے دود و مبلغ بھی رکھیں تا کم سے کم وہاں اسلام کی آواز اٹھتی رہے تو بھی یہ بارہ مبلغ ہوئے.اس کے بعد ایک حلقہ افریقن ممالک کا ہے، ان میں سے اکثر میں اسلامی آبادی ہی زیادہ ہے اور ان میں مسلمان بکثرت آباد ہیں.مثلاً سوڈان، نائیجریا، گولڈ کوسٹ، سیرالیون، آزاد علاقہ یعنی لائبیریا، پانچ فرانسیسی علاقے بجین ، کانگو اور پرتگیزی علاقہ ہے.کل بارہ علاقے ہیں.ان میں سے ہر ایک کے لیے اگر تین تین مبلغ بھی رکھے جائیں تو اس کے یہ معنے ہیں کہ 36 مبلغ ان علاقوں کے لیے درکار ہیں.پھر یورپین ممالک ہیں.انگلینڈ، جرمنی ، فرانس، اٹلی ، ہالینڈ اور سپین تو بڑے ملک ہیں.ان کے علاوہ مشرقی اور شمالی یورپ کے ممالک کا اگر ایک ایک دائرہ شمار کیا جائے تو یہ کل آٹھ علاقے ہوتے ہیں.ان میں سے ہر ایک کے لیے اگر تین تین مبلغ رکھے جائیں تو ان ممالک کے لیے کل 24 مبلغین کی ضرورت ہے.اس کے بعد امریکہ ہے.جس میں کینیڈا، یونائیٹڈ سٹیٹس اور جنوبی امریکہ کی ریاستیں ہیں.ان کے لیے ضرورت تو بہت زیادہ مبلغین کی ہے لیکن اگر ان کے پانچ حلقے مقرر کر کے ہر ایک کے لیے تین تین مبلغ رکھے جائیں تو پندرہ مبلغ یہ ہوئے.اس کے بعد مشرقی ممالک ہیں.چین ،سماٹرا، جاوا ،سٹریٹ سیٹلمنٹ اور جاپان ہیں.اگر جاپان اور چین کے لیے چھ مبلغ ہوں ، جاوا، سماٹرا وغیرہ میں احمدیت خدا کے فضل سے ایک حد تک پھیل چکی ہے مگر پھر بھی ان کے لیے دس مبلغ کم سے کم ہونے چاہئیں اور سٹریٹ سیٹلمنٹ کے لیے تین.یہ گویا 463
خطبہ جمعہ فرمودہ 24 نومبر 1944 ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم کل 19 ہوئے.یہ قلیل سے قلیل تعداد مبلغین کی ہے، جس سے دنیا میں ایک حرکت پیدا کی جاسکتی ہے.یوں تو ہر ایک ملک میں اس سے بہت زیادہ مبلغین کی ضرورت ہے.مثلاً انگلستان ، جرمنی، فرانس وغیرہ ممالک کے لیے تین مبلغ کافی نہیں ہو سکتے.لیکن فی الحال اگر تین تین بھی بھیجے جاسکیں تو کام شروع کیا جا سکتا ہے.ایک ان میں سے کوئی رسالہ وغیرہ نکال لے، ایک دورے وغیرہ کرتار ہے اور ایک ہیڈ کوارٹر میں رہے، کتب وغیرہ فروخت کرے اور چھوٹے پیمانہ پر کوئی لائبریری وغیرہ جاری کرلے.یہ صرف کام شروع کرنے کے لیے ہے ورنہ تین تین مبلغین بہت تھوڑے ہیں.قادیان ایک چھوٹی سے بستی ہے اور پندرہ میں علماء یہاں ہر وقت موجود رہتے ہیں، پھر بھی شور رہتا ہے کہ آدمی کافی نہیں ہیں.اس لحاظ سے جن ممالک کی آبادی پانچ چھ کروڑ ہو ، وہاں تین مبلغین کی مثال ایسی بھی نہیں جیسے آٹے میں نمک کی.ان کی حیثیت اتنی بھی نہیں جتنی جسم انسانی کے ایک بال کی جو نسبت جسم میں ہے، پانچ چھ کروڑ آبادی کے ملک میں تین مبلغین کی نسبت اتنی بھی نہیں بنتی.اور یہ تعداد صرف اتنی ہی ہے، جو جھنڈا بلند رکھے، اس سے زیادہ نہیں.اور پھر یہ بات بھی ہے کہ یہ مبلغ ساری عمر وہاں نہیں رہ سکتے کیونکہ ان کے بیوی بچے یہاں ہوں گے، ان سے ملنے نیز دین کی تعلیم کو تازہ کرنے کے لیے ان کو تین چار سال کے بعد واپس بلا نالازمی ہوگا.اس لیے کم سے کم دگنی تعداد ہی کام دے سکتی ہے.یہ حلقہ وار مبلغین کی تقسیم جو میں نے بیان کی ہے، اس کی مجموعی تعداد 106 بنتی ہے.پس اتنے ہی مبلغ ہمیں یہاں رکھنے پڑیں گے تا تین تین یا چار چار سال کے بعد ان کا آپس میں تبادلہ ہوتا رہے.غیر ممالک میں کام کرنے والے تین چار سال کے بعد قادیان آ جائیں اور یہاں جو ہوں ، وہ ان کی جگہ جا کر کام کریں.ورنہ غیر ممالک میں کام کرنے والے مبلغین کی مثال ویسی ہی ہوگی ، جو اس وقت ہمارے امریکہ کے مبلغ کی ہے.ان کو کچھ مشکلات درپیش ہیں اور وہ واپس آنا چاہتے ہیں اور وہ لکھ رہے ہیں کہ مجھے واپس آنے دیا جائے.میں نے صدر انجمن احمدیہ سے کہا بھی ہے کہ ان کو بعض خاندانی مشکلات ہیں، ان کو واپس بلایا جائے.مگر اس نے ابھی تک کوئی انتظام نہیں کیا.صدرانجمن احمدیہ نے بعض نام امریکہ میں بطور مبلغ بھیجنے کے لئے میرے سامنے پیش کئے ہیں مگران میں ایک صاحب ایسے ہیں کہ جو 24 سال سے قادیان نہیں آئے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ گھر سے نکلوں تو نزلہ کی تکلیف ہو جاتی ہے.ایک صاحب ایسے ہیں، جو اس وقت موتیا بند کی مرض میں مبتلا ہیں.ایک ان میں سے انٹرفیس فیل یا شاید انٹرنس پاس ہیں اور اس طرح بہت سے ایسے نام میرے پیش کر دیئے گئے ہیں کہ جن کو نہ دینی تعلیم ہے اور نہ دنیاوی.یہ نتیجہ آدمی تیار نہ کرنے کا ہوتا ہے.464
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم خطبه جمعه فرموده 24 نومبر 1944ء مجھے حیرت ہے کہ صدر انجمن احمدیہ کو یہ نام پیش کرنے کی جرات کیسے ہوئی ؟ انجمن میں پانچ سات تعلیم یافتہ اور ذمہ دار آدمی ہیں.جب وہ یہ رپورٹ میرے پاس بھجوانے کے لئے لکھ رہے تھے ، ان کے ہاتھ کیوں نہ کانپ گئے؟ یہ تمسخر ہے، جو خدا، رسول اور اس کے خلیفہ سے کیا گیا.امریکہ میں جو علمی لحاظ سے چوٹی کا ملک ہے، کسی انٹریس فیل یا انٹریس پاس کو بطور مبلغ بھیج دینا ، جو دینی علوم سے بھی کورا ہے یا ایک ایسے شخص کو بھیجنا ، جو 24 سال سے قادیان اس واسطے نہ آئے ہوں کہ گھر سے نکلیں تو بیمار ہو جاتے ہیں، جگ ہنسائی کی بات ہے.در حقیقت یہ نتیجہ ہے، آدمی تیار نہ کرنے کا.مگر ہم ایسی غلطی انشاء اللہ نہ کریں گے.ہم اگر 106 مبلغ بیرونی ممالک میں بھیجیں گے تو اتنے ہی یہاں رکھیں گے تا پہلے مبلغ تین چار سال کے بعد واپس آسکیں اور دوسرے ان کی جگہ لے سکیں.اس انتظام کے بغیر کوئی تبلیغی مرکز کھولنا ہنسی اور مذاق ہوگا.ان تبلیغی مراکز کے علاوہ یہاں ایک تعلیمی ادارہ کا ہونا بھی ضروری ہے، جس میں علماء تیار ہوتے رہیں.کیونکہ کسی جماعت کی زندگی کا انحصار اس کے علماء پر ہوتا ہے.اس لئے علاوہ مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کے اساتذہ کے چھ ایسے علماء کا مرکز میں موجود رہنا ضروری ہے، جو چوٹی کے علماء تیار کر سکیں اور جو ہر وقت مرکز میں موجود ہوں.پھر اسی طرح ہندوستان میں دوسرے مقامات پر بھی مرکز کھولنے چاہئیں.اس کے بغیر تعلیمی تنظیم مکمل نہیں ہو سکتی.بنگال، بہار اور یو پی وغیرہ کے طالب علم قادیان میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے بکثرت نہیں آسکتے کیونکہ ایک تو یہاں آکر تعلیم حاصل کرنے میں خرچ زیادہ ہوتا ہے، دوسرے بعض اپنے اپنے علاقہ کے رسم ورواج کی مشکلات ہوتی ہیں اور پھر بعض والدین بھی بچوں کو اپنے سے جدا کر کے کسی اور جگہ پر بھیجنے سے کتراتے ہیں اور اس لئے جب تک مختلف مقامات پر تعلیمی مراکز قائم نہ کئے جائیں، فائدہ نہیں ہو سکتا.اس لئے میرے نزدیک ایک مدرسہ دینیہ بنگال اور بہار کے لئے ہونا چاہئے ، ایک سندھ کے لئے ، ایک صوبہ بمبئی کے لئے ، ایک مدر اس کے لئے اور ایک صوبہ سرحد کے لئے اور ایک یوپی کے لئے.ان مراکز کے قائم کرنے کا ایک لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ان علاقوں کے طلباء ان میں حاصل کریں گے.بنگال کا ایک لڑکا اگر قادیان میں تعلیم حاصل کرنے آتا ہے تو اس سے باقی بنگالیوں میں اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے قادیان بھیجنے کا زیادہ شوق پیدا نہیں ہوسکتا.لیکن اگر ان کے لئے بنگال میں ہی ایک تعلیمی مرکز کھول دیا جائے تو ضرور دینی تعلیم حاصل کرنے کا شوق ان میں پیدا ہوگا اور یہی حال دوسرے صوبوں کا ہے.اگر ہم صوبہ مدراس کے لئے دو چوٹی کے عالم مقرر کر دیں ، دو 465
خطبہ جمعہ فرموده 24 نومبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم بنگال کے لئے ، دو بمبئی کے لئے ، دوسندھ کے لئے ، دو صوبہ سرحد کے لئے اور دو یوپی اور بہار کے لئے تو اس سے ان علاقوں میں دینی تعلیمی کے حصول کا شوق بہت جلد پیدا ہو جائے گا اور ہر علاقہ میں ایسے علماء پیدا ہو جائیں گے، جو علم حاصل کرنے کے بعد اپنے اپنے علاقوں کو سنبھال سکیں گے.اس طرح بارہ مدرس ان مراکز کے لئے درکار ہوں گے.ان کے علاوہ دو عالم زائد رکھنے ہوں گے تا ان میں سے اگر کسی کو رخصت وغیرہ پر آنا پڑے یا کوئی بیمار ہو جائے تو کام بند نہ ہو.اس طرح یہ میں علماء رکھنے ضروری ہیں.اس انتظام کے بغیر ہم علم دین کو عام نہیں کر سکتے اور جب تک علماء عام نہ ہوں ، تربیت کا کام ناقص رہے گا.اب بھی یہ شکایت عام ہو رہی ہے کہ جماعتیں تو قائم ہورہی ہیں مگر انہیں سنبھالنے والے آدمی بہت تھوڑے ہیں اور اس طرح جماعت کی ترقی میں بھی روک پیدا ہو رہی ہے اور تربیت میں بھی نقص رہتا ا ہے.لیکن اگر اس طرح مختلف صوبوں میں ہم مدارس قائم کر دیں تو بیسیوں علماء پیدا ہوسکیں گے اور جماعت بھی ان کے ذریعہ بہت ترقی کرے گی.ایک ایک عالم کے ذریعہ بعض اوقات سینکڑوں ہزاروں لوگ احمدیت میں داخل ہوئے ہیں.بنگال میں ایک عالم مولوی عبدالواحد صاحب گزرے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ان کی خط و کتابت بھی براہین احمدیہ حصہ پنجم میں شائع شدہ ہے.ان کے ذریعہ بنگال میں ہزاروں لوگوں نے بیعت کی تو جہاں جہاں بھی کوئی بڑا عالم ہوا ہے سینکڑوں ہزاروں نے اس کے ذریعہ بیعت کی ہے.پس اگر اس طرح ہم علماء تیار کر سکیں تو تبلیغ کے کام میں بھی بہت ترقی ہو سکتی ہے اور لوگوں میں دینی ذوق پیدا ہونے کا سامان بھی پیدا ہو سکتا ہے.اگر مختلف صوبوں میں قائم شدہ مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے چھ چھ طلباء کو بھی وظائف دیئے جائیں تو کم سے کم 36 طلباء کا مزید بوجھ سلسلے پر پڑے گا.اس سلسلہ میں تیسری چیز دیہاتی سکیم کی ہے.کچھ عرصہ ہوا میری توجہ اس طرف منعطف ہوئی کہ ہمارے موجودہ مبلغ چونکہ اعلی تعلیم پاتے ہیں اور شہری تمدن رکھتے ہیں، اس لئے وہ دیہات میں اور زمینداروں میں تبلیغ کا کام کماحقہ نہیں کر سکتے.دیہاتیوں میں تبلیغ وہی کر سکتا ہے، جو ان میں رہے.ان جیسا ہی تمدن رکھتا ہو.چنانچہ دیہات میں جہاں جہاں بھی جماعتیں قائم ہوئی ہیں، وہ عام طور پر پٹواریوں، دیہاتی مدرسوں، اور نمبرداروں وغیرہ کے ذریعہ سے ہوئی ہیں اور اب بھی جہاں کوئی پٹواری یا مدرس احمدی ہو تھوڑی بہت جماعت بڑھتی رہتی ہے اور خدا تعالیٰ نے سامان بھی ایسے کر دیے کہ بہت سے پٹواری ، دیہاتی مدرس اور نمبر دار وغیرہ جماعت میں داخل ہو گئے.یہ لوگ چونکہ دیہاتیوں میں ہی رہتے 466
تحریک جدید - ایک البی تحریک......جلد دوم خطبه جمعه فرموده 24 نومبر 1944ء اور ان سے ملتے جلتے رہتے ہیں، اس لئے زیادہ کامیابی کے ساتھ ان کو تبلیغ کر سکتے ہیں.اس لئے میں نے خیال کیا کہ دیہات کی تبلیغی ضرورت کو پورا کرنے والے علماء تیار کئے جائیں.چنانچہ میں نے دیہاتی مبلغین کی سکیم تیار کی.دیہات میں تبلیغ کرنے والوں کو زیادہ منطق اور فلسفہ وغیرہ علوم کی ضرورت نہیں بلکہ قرآن کریم کا ترجمہ تفسیر، کچھ حدیث کا علم اور کچھ فقہی مسائل کا علم ہونا کافی ہے اور کچھ طب کا جاننا ضروری ہے تا وہ تکلیف کے وقت دیہاتیوں کی مدد کر سکیں اور خود بھی کچھ کما سکیں.دیہاتی مبلغین کی ہمیں کس قدر ضرورت ہے؟ اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں انداز اتین سو اضلاع ہیں.ہر ضلع میں اوسطاً چار تحصیلیں ہیں اور ہر تحصیل میں کم و بیش پانچ سود یہات ہیں.گویا ایک ضلع میں دو ہزار کے قریب دیہات ہیں اور اس طرح ہندوستان بھر میں دیہات کی تعداد قریباً چھ لاکھ ہے اور ریاستی علاقہ برطانی ہند کے 1/3 کے قریب ہے.اس لئے قریباً دولاکھ گاؤں ریاستوں کے ہیں اور انہیں شامل کر کے ہندوستان کے کل دیہات کی تعداد کم و بیش آٹھ لاکھ ہو جاتی ہے اور اس لحاظ سے ابھی ہر جگہ مبلغ رکھنے کا تو ہم واہمہ بھی نہیں کر سکتے.سوائے اس کے کہ ہم میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ یہ توفیق دے دے کہ وہ تبلیغ کے لئے باہر نکل جائے.موجودہ صورت میں تو اگر ایک ایک مبلغ کے سپرد پچاس پچاس گاؤں بھی کئے جائیں تو بھی کم سے کم سولہ ہزار مبلغ درکار ہوں گے اور ہم تو یہ بھی فی الحال نہیں کر سکتے.حالانکہ ایک آدمی کا پچاس دیہات میں تبلیغی کام کرنا بہت مشکل ہے.ایک آدمی زیادہ سے زیادہ پندرہ سولہ دیہات میں کام کر سکتا ہے.لیکن اگر ہم اعلی پیمانہ پر کام نہ کرسکیں تو اس کے یہ معنے نہیں کہ بالکل ہی نہ کریں.اس لئے فی الحال ہم سود یہاتی مبلغوں سے بھی کام شروع کر سکیں تو بھی بڑی بات ہے.ان کے ذریعہ اور جماعتیں پیدا ہوں گی اور وہ اور بوجھ اٹھا ئیں گی اور ان کے ذریعہ اور ہوں گی اور آگے وہ بھی اور بوجھ اٹھائیں گی اور اس طرح یہ سلسلہ خدا تعالیٰ چاہے تو ترقی کرتا جائے گا اور جوں جوں جماعت ترقی کرتی جائے گی، یہ بنیاد مضبوط ہوتی چلی جائے گی اور جتنی جتنی بنیاد مضبوط ہوتی جائے گی، اتنی اتنی ہی عمارت اونچی ہوتی جائے گی.اب ان کاموں کے اخراجات کا اندازہ سن لیں ، جو قلیل ترین اخراجات کا ہے.بیرونی ممالک کے لئے جو 106 مبلغ ہوں گے، ان میں سے ہر ایک کے لئے اگر سات سور و پیہ ماہوار سفر خرچ اور لٹریچر کے خرچ کو شامل کر کے رکھا جائے ، جو بہت ہی تھوڑا ہے تو یہ خرچ 74 ہزار دوسور و پیہ ماہوار ہوگا اور سال کا یہ خرچ آٹھ لاکھ نوے ہزار دو سو روپیہ ہوگا.اور 106 مبلغ ، جو ریز رور ہیں گے اور جن سے پہلے گروپ کا تبادلہ ہوتا رہے گا، ہندوستان میں چونکہ خرچ تھوڑا ہوتا ہے اور انہیں سفر بھی کم کرنا پڑے گا، گوان سے بھی 467
خطبہ جمعہ فرموده 24 نومبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم ہندوستان میں کام لیا جائے گا، ان میں سے ہر ایک کے لئے اگر دوسور و پپیہ ماہوار خرچ رکھا جائے تو ان پر کل خرچ 24200 روپیہ ماہوار ہو گا.گویا ان پر سالانہ خرچ دولاکھ 54 ہزار چار سو روپیہ ہو گا.مدرسین میں سے ہر ایک کا خرچ بھی اگر دو سو روپیہ ماہوار رکھا جائے تو ہیں مدرسین کا ماہوار خرچ چار ہزار اور سالانہ 48 ہزار ہوگا.36 طلباء میں سے ہر ایک کو اگر ہمیں روپیہ وظیفہ دیا جائے تو ان وظائف پر سال بھر میں 8640 روپیہ صرف ہوگا.اس کے علاوہ دفتری اخراجات ہیں، نگرانی کے اخراجات ہیں، عملہ کے اخراجات ہیں، ڈاک تار وغیرہ کے اخراجات ہیں اور یہ سب ملا کر میرا اندازہ ہے کہ ان پر ساٹھ ہزار روپیہ سالانہ خرچ آئے گا اور اس طرح گویا کل خرچ 13,998,700 روپیہ ہوگا اور اتنے اخراجات سے ہم جو کام شروع کریں گے، اس کی حیثیت آٹے میں نمک کی ہوگی.ہم نے یہ جو اندازہ کیا ہے، یہ قریباً ساڑھے تین سو مبلغین کا ، دیہاتی مبلغین اور مدرسین کو ملا کر ہے.مگر عیسائیوں کی ایک ایک سوسائٹی کے دس دس ہزار مناد اس وقت کام کر رہے ہیں اور ان کے کل مبلغین کی تعداد 75 ہزار ہے.جن کے دو لاکھ کے قریب مددگار بھی ہیں اور ہم نے ان سب کا مقابلہ کرنا ہے اور دنیا بھر میں عیسائی مشنریوں کی کل تعداد کا اندازہ بیس لاکھ کے قریب ہے.ان کا ہی نہیں ، حکومت کا اندازہ ہے کہ ہندوستان میں چھ لاکھ کے قریب ہندو سادھو ہیں، جو ملک میں پھرتے رہتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنے مذہب کا مبلغ ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ اگر اتنی بڑی تعداد کے مقابلہ میں ہم ساڑھے تین سو مبلغ بھیج بھی دیں تو اتنی بڑی تعداد سے ان کی نسبت ہی کیا ہوسکتی ہے؟ لیکن یہ ساڑھے تین سو مبلغ بھیجنے کے لئے بھی ہمیں قریباً ساڑھے تیرہ لاکھ روپیہ کا بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے اور بظاہر ہماری جماعت یہ بوجھ اٹھانے کے بھی قابل نہیں ہے اور اگر ہم اس کام کا فی الحال چوتھا حصہ بھی شروع کریں تو بھی اسے شروع کرنے کے لئے 3,42,475 روپیہ کی ضرورت ہے.مشرقی ممالک میں اور افریقہ کے بعض ممالک ایسے ہیں، جن میں اخراجات یوروپین ممالک کی نسبت کم ہوتے ہیں.پھر افریقہ کے بعض علاقے ایسے ہیں کہ جہاں کے احمدی کچھ عرصہ کے بعد تبلیغ کا کچھ خرچ خود بھی برداشت کر سکیں گے.اسے مدنظر رکھتے ہوئے اگر ساڑھے تین لاکھ روپیہ کل اخراجات کی رقم سے کم بھی کر دیا جائے تو بھی 10,09,900 روپیہ کی ضرورت ہوگی اور اگر اس کا بھی نصف کیا جائے پھر بھی قریب پانچ لاکھ روپیہ سالانہ چاہئے.اس سلسلہ میں ایک اور سوال ہے کہ ابھی ہمارے پاس اتنے علماء تیار بھی نہیں ہیں.اس وقت ساڑھے تین سو میں سے صرف چالیس آدمی ہمارے پاس ہیں اور وہ بھی ابھی تیار ہور ہے ہیں.زیادہ مبلغ 468
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 24 نومبر 1944ء تیار ہونے میں ابھی تین چار سال اور لگیں گے اور اس کے بعد اسی چھوٹی سکیم پر کام شروع کیا جاسکے گا، جس کا اوپر ذکر ہوا ہے.پس جب تک پورے مبلغ تیار ہوں، اس وقت تک دو لاکھ روپیہ سالانہ خرچ ہو گا.اس وقت تک ہم نے جو ریز روفنڈ قائم کیا ہے، اس کی آمد اگر ایک لاکھ روپیہ سالانہ تک بڑھ جائے تو پانچ سال میں کہیں جا کر وہ سابق قرض کو اتار سکے گی.پس اس کی آمد پر ہم ابھی کسی کام کا بوجھ نہیں رکھ سکتے.اس لئے میں تحریک کرتا ہوں کہ دوست آگے آئیں اور جس طرح تحریک جدید کے دس سالہ دور میں وہ ہر سال اپنے چندوں کو بڑھاتے گئے ہیں، اسی طرح آئندہ 9 سالوں میں ہر پہلے سال کے چندہ کے برابر چندہ دیتے جائیں یعنی گیارہویں سال میں اپنے نویں سال کے چندہ کے برابر دیں، بارہویں سال میں آٹھویں سال کے برابر ، تیرھویں سال میں ساتویں سال کے برابر ، چودھویں میں چھٹے سال کے برابر، پندرہویں میں پانچویں سال کے برابر، سولہویں میں چوتھے سال کے برابر، سترہویں میں تیسرے سال کے برابر، اٹھارہویں میں دوسرے سال کے برابر اور انیسویں سال میں پہلے سال کے برابر چندہ دیں.(اس کے بعد موقعہ کے لحاظ سے پھر حالات پر غور کر کے فیصلہ کیا جائے گا).اس طرح ان کے چندہ کی رقم ہر سال بڑھنے کی بجائے کم ہوتی جائے گی.ہو سکتا ہے کہ اس نئے دور میں بعض لوگ حصہ نہ لے سکیں.بعض پنشنوں پر آگئے ہوں، کچھ دوست وفات پاگئے ہوں گے.اس لیے ہو سکتا ہے کہ پہلے دور کی نسبت اب چندہ کم ہو مگر ایسے بھی ہو سکتے ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے مالی وسعت دی ہو اور جو بڑھ کر حصہ لیں، وہ دسویں سال کے برابر ہی دیں یا اس سے بھی بڑھا دیں.بہر حال ہر دوست، جس سال کا چندہ دے، کم سے کم اس کے مقابل کے سال کے چندہ کی رقم کے برابر دے.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ریز روفنڈ پر کوئی بار نہ پڑے گا اور وہ زیادہ مضبوط ہوتا جائے گا.دوسری تحریک میں یہ کرتا ہوں کہ پانچ ہزار دوستوں کی ایک نئی جماعت آگے آئے ، جو اس تحریک میں حصہ لے.جس طرح پہلے دور کے حصہ لینے والوں کے چندہ کی رقم ہر سال کم ہوتی جائے گی، ان کے چندہ کی رقم ہر سال بڑھتی جائے گی.مگر ان نئے شامل ہونے والوں کے لیے ضروری شرط یہ ہے کہ وہ ہر سال کم از کم ایک ماہ کی آمد کے برابر چندہ دیں اور پھر ہر سال اس میں اضافہ کرتے جائیں.اضافہ خواہ ایک آنہ بلکہ ایک پیسہ کا ہی ہو مگر وہ اضافہ کرتے ضرور جائیں.پس آج میں یہ دو تحریکیں کرتا ہوں، دوست ان میں حصہ لیں اور جب تک ہما را ریز روفنڈ مضبوط نہ ہو جائے ، اس طرح اس بوجھ کو اٹھا ئیں.امید ہے کہ سال ڈیڑھ سال میں اب جنگ ختم 469
خطبه جمعه فرمود 24 نومبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم ہو جائے گی.چھ سات ماہ تک یورپ کی جنگ ختم ہو جانے کی امید ہے اور اگر جرمنی کی طاقت کا خاتمہ ہو جائے تو جاپان زیادہ دیر تک مقابلہ نہ کر سکے گا اور اس طرح رستے کھل جائیں گے اور ہمیں چاہئے کہ اگلی جنگ، جس کے سامان دنیا پیدا کر رہی ہے اور جس کی خبر مجھے اللہ تعالیٰ نے دو سال ہوئے دے دی تھی اور جو میں یہاں بیان بھی کر چکا ہوں کو نام ظاہر نہیں کیے گئے اور چھپی ہوئی موجود ہے، اس کے شروع ہونے تک درمیانی وقفہ سے فائدہ اٹھا ئیں اور جتنا فائدہ اٹھایا جاسکے اٹھائیں.اس کے علاوہ میں نے قرآن کریم کے تراجم کی تحریک بھی کی ہے، ان سے تبلیغ کو بہت مدد ملے گی.مختلف زبانوں میں لٹریچر کا نہ ہونا تبلیغ کے رستہ میں بڑی روک تھی ، جو خدا تعالیٰ نے چاہا تو اب دور ہو جائے گی.ایک اور روک یہ بھی رہی ہے کہ ہم مبلغین کو صرف اتنا ہی خرچ دیتے ہیں کہ وہ کھانا کھا سکیں.انگلینڈ کے مبلغ کو خرچ ، اتنا ہی ملتا ہے کہ وہ روٹی کھا سکے یا مکان کی معمولی مرمت وغیرہ کرا سکے.کرایوں وغیرہ کے لئے کافی رقم نہیں دی جاسکتی کہ سفر کرے اور اس طرح تبلیغ کے کام کو وسیع کرے اور جب کوئی مبلغ دورہ نہ کر سکے تو جانے کا فائدہ ہی کیا؟ پھر تبلیغ کے لئے کافی لٹریچر چاہئے اور ہم اب تک وہ بھی مہیا نہیں کر سکے.اب تک تو یہ حالت ہے کہ ہم صرف مبلغ بھیج دیتے رہے ہیں مگر تبلیغ کیلئے کافی سامان مہیا نہیں کرتے.گویا ہم صرف اسے اس لئے کسی بیرونی ملک میں بھیج دیتے ہیں کہ وہاں جا کر روٹی کھاؤ، یہاں کی ہو روٹی تمہیں ہضم نہیں ہو سکتی ، اس لئے انگلستان میں جا کر کھاؤ یا امریکہ میں جا کر کھاؤ.گوامریکہ میں یہ حالت نہیں ، وہاں کی جماعت مبلغ کے دورہ کے اخراجات برداشت کر لیتی ہے مگر انگلینڈ میں ایسا نہیں.پس ضروری ہے کہ جو مبلغ بیرونی ممالک میں جائیں، ان کے لئے کافی رقم سفر خرچ کے لئے مہیا کی جائے، کافی لٹریچر مہیا کیا جائے اور پھر سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ان کی واپسی کا انتظام کیا جائے.ہر تیسرے سال مبلغ کو واپس بھی بلانا چاہئے اور پرانے مبلغوں کو بلانے اور نئے بھیجنے کے لئے کافی روپیہ مہیا کر نا ضروری ہے.ابھی ہم نے تین نو جوانوں کو افریقہ بھیجا ہے ، وہ ریل کے تھرڈ کلاس میں اور لاریوں میں سفر کریں گے مگر پھر بھی 18،17 سورو پید ان کے سفر خرچ کا اندازہ ہے.اگر ہم یہ اندازہ کریں کہ ہر سال 33 فی صدی مبلغ واپس بلائے جائیں گے اور 33 فیصدی ان کی جگہ بھیجے جائیں گے اور ہر ایک کے سفر خرچ کا تخمینہ پندرہ سو روپیہ رکھیں تو صرف یہی خرچ ایک لاکھ روپیہ سالانہ کا ہو گا اور یہ صرف سفر خرچ ہے اور اگر مبلغین کو چار چار سال کے بعد بلائیں تو یہ خرچ پھر بھی 75 ہزار روپیہ ہو گا اور کم سے کم اتنے عرصہ کے بعد ان کو بلانا نہایت ضروری ہے تا ان کا اپنا ایمان بھی تازہ ہوتا رہے.ان کے بیوی بچوں کو اور خود ان کو بھی آرام ملے.470
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم خطبه جمعه فرموده 24 نومبر 1944ء اب تو یہ حالت ہے کہ حکیم فضل الرحمن صاحب کو باہر گئے ایک لمبا عرصہ گذر چکا ہے اور انہوں نے اپنے بچوں کی شکل بھی نہیں دیکھی.جب وہ گئے تو ان کی بیوی حاملہ تھیں، بعد میں لڑکا پیدا ہوا اوران کے بچے پوچھتے ہیں کہ اماں ہمارے ابا کی شکل کیسی ہے؟ اسی طرح مولوی جلال الدین صاحب شمس انگلستان گئے ہوئے ہیں اور صدرانجمن احمد یہ اس ڈر کے مارے ان کو واپس نہیں بلاتی کہ ان کا قائم مقام کہاں سے لائیں؟ اور کچھ خیال نہیں کرتی کہ ان کے بھی بیوی بچے ہیں، جو ان کے منتظر ہیں.ان کا بچہ کبھی کبھی میرے پاس آتا اور آنکھوں میں آنسو بھر کر کہتا ہے کہ میرے ابا کو واپس بلا دیں.پھر اتنا عرصہ خاوندوں کے باہر رہنے کا نتیجہ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ عورتیں بانجھ ہو جاتی ہیں اور آئندہ نسل کا چلنا بند ہو جاتا ہے.ایک اور مبلغ باہر گئے ہوئے ہیں.ان کے بچہ نے ، جو خاصا بڑا ہے، نہایت ہی درد ناک بات اپنی والدہ سے کہی.اس نے کہا ، اماں دیکھو! ہمارا فلاں رشتہ دار بیمار ہوا تو اس کا بیٹا اسے پوچھنے کے لئے آیا.تم نے ابا سے کیوں شادی کی، جو کبھی ہمیں پوچھنے بھی نہیں آیا ؟ اس نے بچپن کی وجہ سے یہ تو نہ سمجھا کہ اگر یہ شادی نہ ہوتی تو وہ پیدا کہاں سے ہوتا؟ اور اس طرح ہنسی کی بات بن گئی.مگر حقیقت پر غور کرو تو یہ بہت ہی دردناک ہے.اس کے والد عرصہ سے باہر گئے ہوئے ہیں اور ہم ان کو واپس نہیں بلا سکے.پس یہ بہت ضروری ہے کہ مبلغین کو تین چار سال کے بعد واپس بلایا جائے اور ایک مبلغ کو واپس بلانے پر اگر وہ تھرڈ کلاس میں سفر کرے، دک پر یعنی کھلے میدان میں سوئے ، ہزاروں میل لاریوں میں سفر کرے تو بھی اس کا خرچ کم سے کم پندرہ سو روپیہ ہو گا اور اس کے قائم مقام کے جانے کا خرچ بھی اتنا ہی ہوگا.اگر چھوٹی سے چھوٹی سکیم بھی جاری کی جائے اور ہر چار سال کے بعد مبلغین کو تبدیل کیا جائے تو بھی 75 ہزار روپیہ اس پر خرچ ہوگا اور اگر اس سے کم عرصہ کے بعد تبدیلی ہو تو اس سے بھی زیادہ خرچ ہوگا اور اس طرح اخراجات اس قدر زیادہ ہیں کہ اگر جماعت خوشی اور ہمت کے ساتھ قربانی کے لئے تیار نہ ہو تو انہیں پورا نہیں کیا جاسکتا.پس آج میں خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے تحریک جدید کے دور ثانی کا اعلان کرتا ہوں اور پھر یہ بھی اعلان کرتا ہوں کہ علاوہ پرانے انصار کے نئے پانچ ہزار دوست اور آگے آئیں، جنہوں نے پہلے دور میں حصہ نہیں لیا اور ان میں سے ہر ایک کم سے کم ایک ماہ کی آمد کے برابر حصہ لے.471
خطبہ جمعہ فرمود 24 نومبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم پھر میں یہ بھی کہتا ہوں کہ دوست دعا ئیں بھی کریں.ریز روفنڈ کی مضبوطی کی کچھ مزید تجاویز، جن میں سے بعض زرعی اور بعض صنعتی ہیں، میرے ذہن میں ہیں.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں کامیاب کرے اور خدا تعالیٰ اپنے سلسلہ کو ایسے خادم دے، جو دیانتداری اور محنت سے کام کرنے والے ہوں اور ہمارے کاموں میں برکت دے تا بجائے اس کے کہ وہ سونے میں ہاتھ ڈالیں تو وہ مٹی ہو جائے ، وہ مٹی میں بھی اگر ہاتھ ڈالیں تو وہ سونا بن جائے اور خدا تعالی اپنے دین کو غلبہ عطا کرے.میں اللہ تعالیٰ سے امید کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل و کرم سے جماعت کے دوستوں میں ہمت پیدا کرے گا اور پھر جو کوتا ہی رہ جائے گی ، اسے وہ اپنے فضل سے پورا کر دے گا.یہ اسی کا کام ہے اور اسی کی رضا کے لئے میں نے یہ اعلان کیا ہے.زبان گومیری ہے مگر بلاوا اسی کا ہے.پس مبارک ہے وہ، جو خدا تعالی کی طرف سے بلا و سمجھ کر ہمت اور دلیری کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اور خدا تعالی رحم کرے اس پر، جس کا دل بزدلی کی وجہ سے پیچھے ہٹتا ہے.آمین.(مطبوع الفضل 28 نومبر 1944ء) 472
تحریک جدید- ایک ابی تحریک...جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ یکم دسمبر 1944ء بے انتہا جوش اور بے انتہا قربانیوں کے بغیر کامیابی ممکن نہیں خطبہ جمعہ فرمودہ یکم دسمبر 1944ء و میں نے گزشتہ ایام میں دو تحریکیں جماعت کے سامنے پیش کی تھیں.ایک تحریک قرآن کریم کے تراجم کے متعلق تھی ، جو سات مغربی زبانوں میں کئے جائیں گے یایوں کہنا چاہیے کہ کئے جارہے ہیں اور ان تراجم کی اشاعت کے اخراجات کے متعلق اور اس کے ساتھ ہی ایک ایک کتاب اسلام کے متعلق ، جو سات زبانوں میں تراجم کی جائے گی.میں نے اس تحریک کو سات حصوں میں تقسیم کر دیا تھا.ایک حصہ کا بوجھ لجنہ اماءاللہ پر ڈالا تھا، ایک حصہ کی ذمہ داری قادیان اور ضلع گورداسپور میں جماعت پر ،جس میں یورپین ممالک بھی شامل ہیں، ایک حصہ کی ذمہ داری لاہور اور اس کے متعلقات پر، ایک حصہ کی ذمہ داری دہلی اور اس کے متعلقات پر، ایک حصہ کی ذمہ داری کلکتہ اور اس کے متعلقات پر، ایک حصہ کی ذمہ داری جنوبی ہند اور اس کے متعلقات پر اور ایک حصہ کی ذمہ داری صوبہ سندھ اور صوبہ سرحد اور اس کے متعلقات پر.یہ ساری تحریک ایک لاکھ چھیانوے ہزار روپیہ کی تھی.جہاں تک میں ان وعدوں سے اندازہ کرتا ہوں ، جو اس وقت تک دفتر میں پہنچ چکے ہیں، میرا اندازہ ہے کہ غالبا اس تحریک کی مد میں جو رقم مانگی گئی ہے، اس سے زیادہ انشاء اللہ وصولی ہو جائے گی.کیونکہ اس وقت تک دفتر تحریک جدید میں جو وعدے آ چکے ہیں، وہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپیہ کے ہیں اور بقیہ کمی کو پورا کرنے کی ذمہ داری بھی جماعتوں کی طرف سے اٹھالی گئی ہے.بعض حلقوں کی رقم مقرر کردہ اٹھائیس ہزار سے زائد ہے.بعض حلقوں کی رقم قریب قریب اتنی ہے اور بعض حلقوں کی رقم میں ابھی فرق ہے.مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے ، جماعتوں جن کے ذمہ حصہ مقرر کیا گیا تھا، ہر ایک نے اپنے اپنے حصہ کو پورا کرنے کا اقرار کر لیا ہے.چونکہ وصولی میں بعض رقمیں رہ جاتی ہیں.مثلاً بعض وعدہ کرنے والے فوت ہو جاتے ہیں، بعض وعدہ کرنے والوں کو کوئی مالی ابتلا ء پیش آ جاتا ہے یا کوئی ٹھوکر لگ جاتی ہے.اس وجہ سے اگر وصولی میں ایک دو فیصدی کا فرق پڑ جائے تو جو زائد وصولی ہوگی، اس کے ذریعہ کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے.پس اگر وعدوں کی وصولی برابر رہی تو پھر اسی 473
اقتباس از خطبه جمعه فرموده یکم دسمبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم حساب سے تراجم شائع کیے جائیں گے، جو پہلے بتایا گیا ہے اور اگر وصولی بڑھ گئی تو پھر جتنی وصولی بڑھ جائے گی ، اس حساب سے اتنے ہی اور کتابوں کے تراجم بڑھا دئیے جائیں گے.دوسری تحریک میں نے گیارہویں سال کے لیے تحریک جدید کے متعلق کی تھی.گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں ، میں نے اس کا اعلان کیا تھا اور اس وقت تک اس تحریک میں گیارہ ہزار روپیہ کے وعدے آچکے ہیں.جس بنیاد پر اس کا اعلان کیا گیا تھا، اس کے لحاظ سے گیارہویں سال کے کم از کم ایک لاکھ نوے ہزار کے وعدے آنے چاہیں.اس بارے میں بعض باتیں گزشتہ خطبہ جمعہ میں بیان کرنے سے رہ گئی تھیں.وہ باتیں اس خطبہ میں بیان کر دیتا ہوں.ایک بات تو یہ ہے کہ بعض دوست اس غلطی میں پڑے ہیں یا ان کو یہ غلطی لگ سکتی ہے کہ چونکہ یہ اعلان کر دیا گیا ہے کہ گیارہویں سال کے وعدے کم از کم نویں سال کی رقم کے برابر ہوں.گوجن کو خدا تعالیٰ توفیق دے وہ زیادہ بھی دے سکتے ہیں.وہ جتنا زیادہ دیں گے، اتنا ہی ان کے لیے زیادہ برکت کا موجب ہوگا.مگر گیارہویں سال کا وعدہ کم از کم نویں سال کے وعدہ کے برابر ہونا چاہیے.اس سے بعض دوستوں کو یہ دھو کہ لگا ہے کہ گویا ہم نے حکماً گیارہویں سال کے لیے وہ رقم مقرر کر دی ہے، جو انہوں نے نویں سال میں دی تھی اور اب ان کو گیارہویں سال کا وعدہ لکھوانے کی ضرورت نہیں.آپ ہی آپ دفتر والے سال نہم کے مطابق ان کا وعدہ لکھ لیں گے.لیکن یہ بات غلط ہے.تحریک جدید کی بنیاد شروع سے ہی طوعی چندوں پر رکھی گئی ہے.ہم اس میں کوئی چندہ حکماً مقرر نہیں کرتے.اور جیسا کہ میں نے تحریک جدید کو جماعت کے سامنے پیش کرتے وقت بیان کیا تھا، اس کی وجہ یہ ہے کہ حکما قربانی کرنے میں گو ثواب تو مل جاتا ہے لیکن اس قدر نفس کی صفائی نہیں ہوتی ، جس قدر انسان کو اس کے نتیجہ میں نفس کی صفائی حاصل ہوتی ہے کہ اپنی مرضی سے اپنے ذمہ کوئی رقم مقرر کر لیے.اس لیے میں یہ اعلان کر دینا چاہتا ہوں اور جماعت پر واضح کر دیتا ہوں کہ کسی کے ذمہ خود بخود کوئی رقم مقرر نہیں کی جائے گی.جو نہیں لکھوائیں گے ، ان کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ وہ نہیں لکھوانا چاہتے.یہ نہیں ہوگا کہ دفتر والے آپ ہی آپ نویں سال کے مطابق وعدہ لکھ لیں.بے شک ایک رنگ اخلاص کا یہ ا ہے کہ دوست یہ کہیں کہ جب ہماری جان اور ہمارا مال سب کچھ خدا کی راہ میں اسلام کی خاطر وقف ہے تو جور تم بھی ہمارے ذمہ مقرر کی جائے گی، ہم اس کو ادا کر دیں گے.مگر اس سے وہ غرض فوت ہو جاتی ہے، جو تحریک جدید میں رکھی گئی ہے.یہ تحریک شروع سے آخر تک طوعی رہی ہے اور طوعی رہے گی.جس کی 474
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده یکم دسمبر 1944ء مرضی ہوگی ، اپنا وعدہ لکھوائے گا اور جس کی مرضی نہیں ہوگی ، وہ نہیں لکھوائے گا.اور جو اپنا وعدہ نہیں لکھوائے گا، دفتر والے آپ ہی آپ اس کا وعدہ نہیں لکھیں گے.پس قادیان کی جماعت پر بھی اور باہر کی جماعتوں پر بھی میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جب تک کوئی شخص گیارہویں سال کے لیے خود اپنا وعدہ نہیں لکھوائے گا، اس وقت تک اس کے نام کوئی رقم نہیں لکھی جائے گی.دوسری بات جو گزشتہ خطبہ میں بیان کرنے سے رہ گئی تھی ، وہ یہ ہے کہ میں نے وقت نہیں بتایا تھا.اب میں یہ اعلان کر دیتا ہوں، جیسا کہ گزشتہ سالوں میں قاعدہ رہا ہے، اس سال بھی وعدے بھجوانے کا اصل وقت تو 31 دسمبر تک ہے.جماعت کے جو دوست پہلے دس سالوں میں حصہ لے چکے ہیں اور آئندہ اپنا حصہ جاری رکھنا چاہتے ہیں، ان کو چاہیے کہ 31 دسمبر تک انفرادی طور پر یا جماعتی رنگ میں اپنے وعدے تحریک جدید میں بھجوادیں.لیکن چونکہ جلسہ سالانہ پر آنے کی وجہ سے بعض جماعتوں کے وعدوں کی فہرستیں جلدی مکمل نہیں ہو سکتیں اور بعض علاقے ذرا دور کے بھی ہیں.اس لیے اجازت ہوگی کہ سات فروری 1945ء تک جو وعدے قادیان پہنچ جائیں گے یا اس تاریخ تک اپنے شہر سے روانہ ہو جائیں گے، ان کو رجسٹر میں درج کر لیا جائے گا.گو بہتر یہی ہوگا کہ 31 دسمبر تک وعدے آجائیں.لیکن ہندوستان کے وہ علاقے ، جہاں اردو بھی جاتی ہے، ان علاقوں کی جماعتوں یا افراد کو سات فروری تک وعدے بھجوانے کی مہلت ہوگی.سیات ضروری آخری میعاد ہے، اس کے بعد کوئی وعدہ ہندوستان کی ان جماعتوں کی طرف سے، جہاں اردو سمجھی جاتی ہے، قبول نہیں کیا جائے گا.ہر سال یہ اعلان کیا جاتا ہے اور ہر سال ہی میں نے یہ دیکھا ہے کہ سات فروری کے بعد بعض درخواستیں آجاتی ہیں کہ ہم میعاد کے اندر وعدہ بھجوانے سے رہ گئے تھے، ہمیں بھی شامل کر لیا جائے اور ہر سال ہی سوائے کسی استثنائی صورت کے ہمیں ایسے وعدوں کو رد کرنا پڑتا ہے.کیونکہ جہاں چندہ لینے سے ہماری یہ غرض ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں دوست اپنے اموال خرچ کریں اور اس سے اسلام کی تائید ہو، وہاں ساتھ ہی ساتھ ہماری یہ بھی خواہش ہے کہ جماعت کو تربیت کی صحیح لائن پر لایا جائے اور جماعت کے اندر یہ احساس پیدا کیا جائے کہ جب کوئی وقت مقرر کیا جائے تو اس وقت کے اندر اندر وہ اپنی قربانی پیش کرے.پس اگر وقت کے بعد آنے والے وعدوں کو ہم رد کر دیتے ہیں تو وعدہ کرنے والوں کو جود کھ اس سے پہنچتا ہے ، اس کی ذمہ داری ہم پر نہیں بلکہ ان پر ہے.اگر وقت کے بعد آنے والے وعدوں کو ہم بلا وجہ قبول کر لیں تو اس کے یہ معنی ہیں کہ ہم اور لوگوں کو بھی سنتی کی تحریک کرتے ہیں..475
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده یکم دسمبر 1944ء پس میں اس امر کی وضاحت کئے دیتا ہوں کہ بہتر تو یہی ہے کہ 31 دسمبر تک تحریک جدید کے گیارہویں سال کے وعدے مرکز میں پہنچ جائیں لیکن اگر کوئی روک پیدا ہو جائے تو 7 فروری 1945 ء تک وعدے بھجوانے کی اجازت ہے.اور جیسا کہ گزشتہ سالوں میں ہوا کرتا تھا ،سات فروری آخری میعاد ہے، اس کے بعد آنے والے وعدے قبول نہیں کئے جائیں گے ، سوائے کسی ایسی صورت کے کہ وعدے کرنے والے کی معذوری روز روشن کی طرح واضح ہو.اسی طرح جن علاقوں میں اردو نہیں کبھی جاتی ، مثلاً بنگال ہے یا مدراس کا علاقہ ہے، وہاں اردو بہت کم سمجھی جاتی ہے اور ان تک بات کا جلدی پہنچنا مشکل ہوتا ہے یسے علاقوں کے لیے پہلے بھی 30 اپریل تک کی میعاد مقرر ہوتی ہے.اب بھی ان کے لیے آخری میعاد 30 اپریل 45ء ہوگی.وہ اپنے گیارہویں سال کے وعدے اس میعاد کے اندر اندر بھجوا دیں.اور چونکہ جنگ کی وجہ سے ہندوستان سے باہر کی جماعتوں تک آواز پہنچنے میں دو تین ماہ کی دیر ہو جاتی ہے اور پھر دو تین ماہ تیاری پر لگ جاتے ہیں، کیونکہ بعض علاقے ایسے ہیں کہ سارے علاقے میں بات کا جلدی پہنچنا مشکل ہوتا ہے.جیسے یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ ہے.وہ ملک ہمارے ہندوستان سے چار گنا ہے اور صرف ایک مبلغ وہاں کام کرتا ہے، جو ہر ایک جماعت تک جلدی میں پہنچ نہیں سکتا اور ان جماعتوں تک پہنچنے میں دیر لگ جاتی ہے.اس لیے ان باتوں کی وجہ سے اور ان مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے ، ہندوستان سے باہر کی جماعتوں کے لیے ہمیشہ جون کی آخری تاریخ وعدہ کی آخری میعاد مقرر ہوتی ہے.چنانچہ اب بھی میں جون کی آخری تاریخ ہندوستان سے باہر کی جماعتوں کے وعدوں کی آخری میعاد مقرر کرتا ہوں.یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ کی جماعتوں کے دسویں سال کے تحریک جدید کے وعدے جون کے چلے ہوئے ، اب نومبر کے شروع میں آ کر ہمیں ملے ہیں.اسی طرح اب تو جاوا اور سماٹرا جاپان کے قبضہ میں ہیں اور ہمارے ساتھ ان کے تعلقات قائم نہیں.جب تعلقات قائم تھے ، اس وقت سماٹرا اور جاوا کے وعدے بھی جلدی نہیں پہنچ سکتے تھے.خدا تعالیٰ کا ہم پر یہ فضل اور احسان ہے کہ ہندوستان میں کوئی اسلامی جماعت ایسی نہیں بلکہ کوئی غیر اسلامی مذہبی جماعت بھی ایسی نہیں ، جس کو خدا تعالیٰ نے ان اقوام سے مدددلائی ہو ، جو اس وقت اسلام کے مد مقابل ہیں بلکہ میں کہتا ہوں ، سارے ایشیاء بلکہ سارے مشرق میں کوئی ایسی مذہبی جماعت نہیں، جس کے مذہبی چندوں کی تحریک میں مغربی لوگوں نے حصہ لیا ہو.صرف ہماری جماعت کو یہ استثنائی حیثیت حاصل ہے کہ ہمارے مذہبی چندوں کی تحریک میں ہر سال انگلستان کے لوگ بھی حصہ لیتے ہیں اور امریکہ کے لوگ بھی حصہ لیتے ہیں.چنانچہ اس سال بھی امریکہ کی جماعت نے اڑھائی ہزار روپیہ کے وعدے بھجوائے ہیں.پس وقتوں کے متعلق بھی میں نے تشریح کر دی ہے اور وعدوں کے متعلق بھی میں نے تشریح کر دی ہے.476
تحریک جدید- ایک ابی تحریک...جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده کیم دسمبر 1944ء اس کے بعد میں جماعت کے اس طبقہ کو توجہ دلاتا ہوں، جنہوں نے پہلے دس سالوں میں حصہ نہیں لیا.کئی ایسے لوگ ہیں، جن کو اس وقت مالی کشائش حاصل نہیں تھی ، جب تحریک جدید شروع کی گئی اور اب حاصل ہے.کئی ایسے ہیں، جو اس وقت نابالغ تھے اور اب بالغ ہو چکے ہیں.دس سال کی بات ہے، جب میں نے یہ تحریک شروع کی تھی.کئی لڑکے ایسے تھے، جن کی عمر نو یا دس سال کی تھی اور اب ان کی عمر انہیں یا بیس سال کی ہو چکی ہے.کئی ایسے تھے ، جن کی عمر اس وقت بارہ یا تیرہ سال کی تھی اور اب ان کی عمر بائیس یا تئیس سال کی ہو چکی ہے اور اب ان کو ملازمتیں یا کام مل گئے ہیں اور وہ برسر روزگار ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ وہ بھی اس تحریک میں حصہ لیں.ایسے لوگوں کے لیے میں نے اجازت دی ہے کہ ایک نیا رجسٹر کھولا جائے، جس میں ایسے نئے شامل ہونے والوں کے نام درج کئے جائیں.مگر جہاں گزشتہ سالوں میں حصہ لینے والوں کے لیے یہ شرط تھی کہ پہلے سال پانچ یا دس یا پندرہ یا پانچ کے عدد کے لحاظ سے بڑھا کر کوئی رقم دیں، وہاں اب نئے شامل ہونے والوں کے لیے یہ شرط ہوگی کہ پہلے سال کے لیے کم از کم اپنی ایک ماہ کی آمد کے برابر چندہ دیں اور پھر ہر سال کچھ نہ کچھ اضافہ کرتے جائیں.ایسے کچھ لوگوں کی طرف سے درخواستیں آنا شروع ہو گئی ہیں.ہمیں کوشش کرنا چاہیے کہ جس طرح پہلے دس سالوں میں پانچ ہزار آدمیوں نے اس تحریک میں حصہ لیا ہے، اسی طرح نئے شامل ہونے والے بھی پانچ ہزار آدمی ہونے چاہیں، جو اس تحریک میں حصہ لینے کے لیے آگے بڑھیں تا کہ اس تحریک کے ذریعہ سے اسلام کی تبلیغ اور تائید کے لیے مضبوط ریز روفنڈ قائم ہو.چونکہ دور ثانی کا لفظ، جو آج کل استعمال کیا جا رہا ہے، یہ مشتبہ ہے.یعنی یہ شبہ پڑتا ہے کہ ان کا بھی دور ثانی ہے، جو دس سالوں کے بعد حصہ لے رہے ہیں.اس لیے میرے نزدیک تحریک جدید کا دوسرا حصہ یعنی جس میں نئے حصہ لینے والے شامل ہوں، اس کے لیے الگ رجسٹر کھولا جائے ، جس کا نام ” دفتر خانی“ رکھ دیا جائے.پہلے دس سالوں سے جو لوگ حصہ لیتے چلے آرہے ہیں، ان کے نام جس رجسٹر میں درج ہوں ، اس کا نام دفتر اول رکھ دیا جائے.اس طرح تحریک جدید میں پہلے دس سالوں سے حصہ لینے والوں اور اب نئے شامل ہونے والوں کے درمیان امتیاز ہو جائے گا.پہلے دس سالوں سے حصہ لینے والوں یعنی جو دفتر اول والے ہیں، ان کا یہ دور کم از کم انیس سال کا ہوگا.جو آج سے نو سال بعد جا کر پورا ہو گا.اور دفتر ثانی والوں کے لیے یعنی جو نئے شامل ہونے والے ہیں ، ان کے لیے بھی کم از کم انیس سال کا دور مقرر ہوگا ، جو اس سال سے شروع ہو کر آج سے انیس سال بعد جا کر پورا ہوگا.پہلے دفتر والوں کے لیے 477
اقتباس از خطبه جمعه فرموده یکم دسمبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم یہ شرط نہیں تھی لیکن دوسرے دفتر والوں کے لیے یہ ضروری شرط ہے کہ پہلے سال کے لیے کم از کم اپنی ایک ماہ کی آمد کے برابر اس تحریک میں چندہ دیں اور پھر ہر سال اس میں کچھ نہ کچھ اضافہ کرتے چلے جائیں.تیسری بات میں ان لوگوں کے متعلق کہنا چاہتا ہوں ، جو دفتر اول میں بعد میں چندہ دے کر شامل ہوئے.مثلاً اس تحریک کے شروع میں وہ اس لیے شامل نہ ہو سکے کہ اس وقت وہ نابالغ تھے ، ان کی عمر چودہ یا پندرہ سال کی تھی.بعد میں جب وہ جوان ہوئے اور ان کو ملازمتیں مل گئیں تو انہوں نے پچھلے سالوں کا چندہ دے کر دفتر اول میں نام لکھوالیا یا بعض ایسے تھے، جو اس تحریک کے شروع میں بریکار تھے، بعد میں ان کو کام مل گیا اور وہ برسر روزگار ہو گئے تو انہوں نے پچھلے سالوں کا چندہ دے کر دفتر اول میں اپنا نام لکھوایا.چونکہ انہوں نے آٹھ یا نو یا دس سالوں کا اکٹھا چندہ دینا تھا، اس لیے انہوں نے اس رعایت سے فائدہ اٹھایا کہ پہلے سالوں میں تھوڑا تھوڑا چندہ دے کر اور آخری سال میں زیادہ چندہ دے کر دفتر اول میں اپنا نام لکھوالیا.مثلاً بعض ایسے ہیں، جو پانچ سوروپیہ یا چھ سوروپیہ ماہوار تنخواہ لیتے ہیں.ان کو چونکہ اکٹھا چندہ دینا پڑا، اس لئے وہ پہلے سالوں میں دس یا پندرہ یا بیس روپیہ کے حساب سے چندہ دے کر اور آخری سال میں پانچ سوروپیہ چندہ دے کر دفتر اول میں شامل ہو گئے.اب اگر گیارھویں سال میں وہ نویں سال کے برابر چندہ دیں یا بارھویں سال میں آٹھویں سال کے برابر چندہ دیں یا تیرھویں سال میں ساتویں سال کے برابر چندہ دیں تو ان کی موجودہ آمد کے لحاظ سے یہ چندہ بہت حقیر اور ان کی قربانیوں کو گرانے والی چیز ہے.ان کو پہلے سالوں میں کم چندہ دینے کی اجازت تو اس لئے دی گئی تھی کہ انہوں نے ایک سال یا دو سال یا تین سال میں پچھلے سالوں کا چندہ اکٹھا دینا تھا.اس لئے ان کے لئے یہ رعایت رکھی گئی تھی کہ گزشتہ تمام سالوں کا اکٹھا چندہ ادا کرنے کی وجہ سے ان پر بار تھا.اب چونکہ وہ بار ان سے اتر چکا ہے اور واپسی کی طرف اس طرز پر لوٹنا ہے کہ گیارھویں سال کا چندہ کم از کم نویں سال کے برابر ہو تو ایسے لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنی موجودہ حیثیت کے مطابق گیارہویں سال کا چندہ دیں ، نہ کہ نویں سال کے برابر، جوان کی موجودہ حیثیت کے معیار سے بہت گری ہوئی چیز ہے.میں دیکھتا ہوں کہ جماعت کے اندر خدا کے فضل سے اخلاص پایا جاتا ہے.خطبہ شائع ہوئے ابھی چار یا پانچ روز ہی ہوئے ہیں کہ جماعت نے اپنے اخلاص کا نمونہ دکھانا شروع کر دیا ہے.میرے پاس بالعموم ایسی چٹھیاں آئی ہیں کہ خطبہ پڑھنے کے بعد پہلے ہم نے گیارہویں سال کا وعدہ نویں سال کے برابر لکھا دیا مگر دوسرے دن سخت شرم آئی کہ پیچھے کی طرف جانے کی بجائے ہم اپنا قدم خدا تعالیٰ کی راہ 478
اقتباس از خطبه جمعه فرموده یکم دسمبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک......جلد دوم میں آگے کیوں نہ رکھیں؟ اس لیے ہم نویں سال کے برابر چندہ دینے کی بجائے گیارہویں سال کا چندہ دسویں سال سے بڑھا کر پیش کرتے ہیں.اور بعض ایسے ہیں، جنہوں نے خطبہ پڑھنے کے بعد ہی گیارہویں سال کا چندہ دسویں سال سے بڑھا کر پیش کر دیا اور انہوں نے لکھا کہ ہم تو زیادہ ثواب حاصل کرنے کے لیے آگے ہی بڑھیں گے، پیچھے کی طرف بھاگ کر ہم اپنا ثواب کیوں کم کریں؟ یہ وہ لوگ ہیں، جن کے متعلق تھوڑی سی عقل رکھنے والا انسان بھی سوچ سکتا ہے کہ ان کی قربانی کو اللہ تعالیٰ بھی ضائع نہیں کرے گا بلکہ قدر کی نگاہ سے دیکھے گا اور یہی وہ لوگ ہیں، جو دین اور دنیا میں خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوں گے، جو ہر قربانی کے موقعہ پر نہ صرف یہ کہ ثابت قدم رہتے ہیں بلکہ ہر قربانی کے موقعہ پر دوسرا قدم پہلے قدم سے بڑھا کر رکھتے ہیں اور دین کے راستہ میں ہر قربانی کو خدا تعالیٰ کا فضل سمجھتے ہیں اور جس طرح انسان خدا تعالیٰ کے فضل کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، اسی طرح وہ ہر قربانی کو زیادہ سے زیادہ کر کے پیش کرتے ہیں.پس میں سمجھتا ہوں کہ عام طور پر تو جماعت میں یہی احساس پایا جاتا ہے کہ وہ اپنی قربانی کوگھٹا کر پیش کرنے کی بجائے پہلے سے بڑھا کر پیش کریں تا کہ وہ زیادہ ثواب حاصل کریں.لیکن سینکڑوں لوگ ایسے ہیں، جو آٹھویں یا نویں یا دسویں سال میں آکر اس تحریک میں شامل ہوئے ، میں ان کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس غفلت میں اپنے ثواب کو کم نہ کریں کہ اب ہمیں پیچھے کی طرف جانے کی اجازت مل گئی ہے.اور وہ گیارہویں سال کا چندہ نویں سال کے مطابق لکھوا کر اپنی قربانی کو حقیر نہ بنائیں ، وہ بے شک کمی کریں مگر اپنی موجودہ حیثیت کے مطابق.نویں سال انہوں نے مثلاً چالیس یا پچاس روپے چندہ دیا تھا اور دسویں سال ان کا چندہ پانچ سو روپیہ تھا تو اب گیارہویں سال کے لیے اگر وہ کمی کریں تو دسویں سال کی حیثیت سے کریں ، نہ کہ نویں سال کے مطابق.کیونکہ نویں سال کا چندہ ان کی حیثیت سے بہت کم تھا اور اس وقت کمی کی رعایت ان کو اس لیے دی گئی تھی کہ انہوں نے گزشتہ تمام سالوں کا چندہ اکٹھا ادا کرنا تھا.اب جب وہ اس بار کو اتار چکے ہیں تو ان کو گیارہویں سال کا چندہ لکھواتے وقت اپنی موجودہ حیثیت کو مدنظر رکھنا چاہیے، نہ کہ نویں یا آٹھویں یا ساتویں سال کے معیار کو، جو ان کی حیثیت سے بہت گرا ہوا ہے.ہماری جماعت کو یہ بات یادرکھنا چاہیے کہ ہم جس کام کے لیے کھڑے کئے گئے ہیں، وہ کام بے دریغ قربانی چاہتا ہے.جب تک ہم بے دریغ قربانی کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ، اسلام اپنے حق کو واپس نہیں لے سکتا، جو غیروں کے پاس جاچکا ہے.رسول کریم کا ورثہ عیسائیت کے قبضہ میں جاچکا ہے، اس کو واپس 479
اقتباس از خطبه جمعه فرموده کیم دسمبر 1944ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک جلد دوم لانا آسان نہیں.اگر ساری دنیا کے مسلمان ہمارے ساتھ متفق ہوتے تو نسبتا یہ کام آسان ہوتا مگر مسلمانوں کا ہمارے ساتھ متفق ہونا تو الگ رہا، وہ تو اجتماع کر کے اور انفرادی طور پر پور از در لگا رہے ہیں کہ اس جماعت کو ہے لگارہے تباہ کر دیں، جو اسلام کو اس کا حق دلانے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ورثہ کو غیروں سے واپس لانے کی کوشش کر رہی ہے.بجائے اس کے کہ وہ ہماری مدد کرتے ، وہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ورثہ کو واپس لانے والی قلیل جماعت، جو انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے.اس کو نقصان پہنچائیں تا کہ وہ بھی آسانی سے یہ کام نہ کر سکے.پس ہم تھوڑے سے لوگ، جواتنے بڑے کام کے لئے کھڑے ہوئے ہیں، جب تک اپنی تمام طاقتوں کو مجنونوں کی طرح نہ لگادیں اور دیوانوں کی طرح ہر ایک قربانی کے لئے تیار نہ ہوں ، اس وقت تک یہ کام ہمارے ہاتھوں سے ہونا مشکل ہے“." پنجاب میں ہماری مردم شماری لاکھ سوالا کھ ہے.آج سے دس سال پہلے ستر ہزار تھی تو اب لا کھ سوالاکھ ہوگی.لیکن یوں ہماری تعداد اس سے زیادہ ہے کیونکہ مردم شماری میں کام کرنے والے لوگ متعصب تھے، اس لئے انہوں نے ہماری تعداد کم درج کی.میرا اپنا اندازہ ہے کہ پنجاب میں ہماری تعداد اڑھائی لاکھ ہے اور سارے ہندوستان میں ساڑھے تین لاکھ ہے اور ہندوستان سے باہر ڈیڑھ لاکھ ہے.اس طرح ساری دنیا میں ہماری تعداد کوئی پانچ چھ لاکھ کے قریب ہے، جو ہمیں معلوم ہے.یوں تو میں سمجھتا ہوں کہ بہت سارے ایسے احمدی بھی ہیں، جن کا ہمیں پتہ نہیں یا ایسے ہیں، جو اپنے آپ کو چھپاتے ہیں.ان کو ملا کر کوئی دس بارہ لاکھ کے قریب ہماری تعداد بنتی ہے.مگر جو اپنے آپ کو چھپاتے ہیں، ان سے ہم فائدہ نہیں اٹھا سکتے.ہم صرف انہیں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، جن کا ہمیں علم ہے اور جو منظم ہیں.ایسی جماعت، جو منتظم ہے، وہ پانچ چھ لاکھ سے زیادہ نہیں.یہ بات ظاہر ہے کہ قربانی کا بوجھ ہندوستان کی جماعت پر ہے.ہندوستان سے باہر جو جماعتیں ہیں، ان میں بہت ساری ایسی ہیں، جو نو مسلموں کی جماعتیں ہیں، بہت ساری ایسی جماعتیں ہیں، جو غیر تعلیم یافتہ ہیں.مغربی افریقہ میں ساٹھ ستر ہزار کے قریب احمدی ہیں اور ان میں سے ایک تعداد وہ ہے، جو احمدیت میں داخل ہونے سے پہلے ننگے پھرا کرتے تھے، اب اسلام میں داخل ہونے کی وجہ سے انہوں نے کپڑے پہننا شروع کئے ہیں.بہت سارے ایسے ہیں، جو جنگلوں میں رہتے ہیں اور ان کی کوئی آمدنی نہیں.ان کی خوراک یہ ہے کہ سارا سال مکئی کا آٹا بھون کر پانی میں بھگو کر استعمال کرتے ہیں.ایسے لوگوں کی آمد کیا ہوگی؟ اور وہ ہماری کیا مدد کر سکتے ہیں؟ بہت سی بیرونی جماعتیں ایسی بھی ہیں، جو بوجھ اٹھا رہی ہے مگر ان کا بوجھ اٹھا نا محض اخلاص کے اظہار تک محدود ہے.480
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده کیم دسمبر 1944ء پس اصل بوجھ ہندوستان پر ہے.جس میں ہماری تعداد ساڑھے تین لاکھ ہے تو ساڑھے تین لاکھ میں سے کمانے والا چالیس پچاس ہزار آدمی ہے، جس کا مقابلہ ساری دنیا کی دوا رب آبادی سے ہے.اور یہ آبادی ایسی نہیں ، جو ہمارے کام کو محبت کی نگاہ سے دیکھتی ہے.ایسی آبادی نہیں ، جو ہمارے کام کو بے تو جہی سے دیکھتی ہے بلکہ یہ دوارب آبادی ایسی ہے، جس کا اکثر حصہ جتنی ہمیں مٹانے کی کوشس کرتا ہے، اتنی ہی اسے راحت محسوس ہوتی ہے.پس اتنے بڑے دشمن کے مقابلہ میں اتنی تھوڑی سی جماعت جب تک اپنی قربانیوں کو انتہا تک نہ پہنچا دے، اس وقت تک کامیابی کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی.اور اپنی قربانیوں کو انتہا تک پہنچا دینے پر بھی کامیابی اس لئے نہیں ہوگی کہ ہم نے اس کام کے برابر قربانی کر دی ہے بلکہ اس لئے ہوگی کہ جب ہم اپنی قربانیوں کو انتہا تک پہنچادیں گے تو آسمان سے فرشتے نازل ہوں گے، جو یہ کام کریں گے اور پھر بھی کامیابی ہمارے ہاتھ نہیں ہوگی بلکہ خدا کے ہاتھ سے ہوگی.پھر بھی کامیابی ان تدبیروں کی وجہ سے نہیں ہوگی ، جو ہم زمین پر کریں گے بلکہ ان تدبیروں سے ہوگی ، جو ہمارا خدا عرش پر کرے گا.اور اگر ایک دن نہیں، ایک گھنٹہ نہیں ، ایک منٹ نہیں بلکہ ایک سیکنڈ بھی ہمارے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنی کوششوں اور اپنی تدبیروں سے کامیاب ہو سکتے ہیں تو ہمارے مجنون ہونے میں کوئی شبہ نہیں.صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہی ہم کامیاب ہو سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مدد کے حصول کے لئے جب تک ہم اپنے آپ کو مردوں کی طرح اس کے دروازہ پر نہ ڈال دیں، اس وقت تک اس کا فضل کھینچنے میں ہم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.پرسوں ہی انگلستان کی قربانیوں کی فہرست شائع ہوئی ہے، جو اس نے جنگ کے دوران میں کیں.ان کو پڑھ کر حیرت آجاتی ہے.جتنی قربانیاں انہوں نے اپنے ملک کو بچانے کے لئے کی ہیں، وہ ہمارے لئے قابل غور ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کی جنگ چند سال کے لئے ہے اور ہماری جنگ ہمیشہ کے لئے ہے.مگر پھر بھی یہ تو مد نظر رکھنا چاہیے کہ ہماری قربانیوں کو ان کی قربانیوں سے کوئی نسبت تو ہو.انگلستان سکاٹ لینڈ اور ویلز کی آبادی ساڑھے چار کروڑ ہے اور اس پانچ سال کے عرصہ میں ساڑھے پانچ کروڑ کی آبادی میں سے پینتالیس لاکھ سپاہی انہوں نے تیار کیا ہے.یعنی ہر دس آدمیوں میں سے ایک آدمی سپاہی بنایا گیا ہے.ان کے ہاں کی جنگ میں جو مقام سپاہی کا ہے، وہی مقام ہمارے ہاں دینی جنگ میں مبلغ کا ہے.اگر اسی لحاظ سے ہماری جماعت مبلغ تیار کرے تو ہندوستان کی ساڑھے تین لاکھ کی آبادی میں سے پینتیس ہزار مبلغ ہونے چاہئیں.کجا پینتیس ہزار مبلغ اور کجا مبلغوں کی موجودہ تعداد اس وقت 481
اقتباس از خطبه جمعه فرموده یکم دسمبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم ساری کی ساری مبلغوں کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب ہے.پس جب اس چھوٹے سے ملک نے جس کی و زمین پر دشمن نے حملہ کیا، جس کے جسم پر حملہ کیا تو اس حملہ کے دفاع کے لئے اس ملک نے اپنی قربانیوں کو انتہا تک پہنچادیا.اور ساڑھے چار کروڑ کی آبادی میں سے پینتالیس لاکھ سپاہی گویا کل آبادی کا دسواں حصہ سپاہی تیار کئے.اگر ہماری جماعت کو بھی خدا تعالیٰ توفیق دے اور دین کی جنگ کے لئے ہم پینتیس ہزار مبلغ تیار کر لیں تو میں سمجھتا ہوں کہ پانچ دس سال میں ہی ہندوستان کی کایا پلٹ جائے اور پھر لاکھوں ہزاروں کا سوال ہی نہ رہے بلکہ ایک معقول عرصہ میں ہندوستان میں احمدیوں کی اکثریت ہو جائے.پھر انگلستان پر جو تباہی اور بربادی آئی ہے، اسے پڑھ کر حیرت ہوتی ہے.یوں معلوم ہوتا ہے، جیسے انگلستان کا کچھ بھی نہیں رہا.انگلستان میں کل ڈیڑھ کروڑ مکان ہیں.ان ڈیڑھ کروڑ مکانوں میں ساڑھے چار کروڑ آدمی رہتا ہے.اس پانچ سال کے عرصہ میں یہ راز انگلستان کی حکومت نے چھپائے رکھا، جسے اب ظاہر کیا گیا ہے کہ پانچ سال کی جنگ میں انگلستان کے مکانوں کا ایک تہائی حصہ جرمنی کی بمباری سے تباہ ہوا یعنی پنتالیس لاکھ مکان برباد ہو گئے ہیں.پھر ان لوگوں کی مالی قربانیوں کی فہرست ، جو شائع ہوئی ہے، وہ بھی ہمارے لئے قابل غور ہے.جنگ سے پہلے انگلستان کے سینکڑوں آدمی کروڑ پتی تھے اور کروڑ کروڑ ڈیڑھ ڈیڑھ کروڑ رو پید ان کی سالانہ آمدنی تھی.اور اب یہ حالت ہے کہ جنگ میں ٹیکسوں کے ادا کرنے کے بعد صرف دو تین درجن آدمی ایسے رہ گئے ہیں، جن کی سالانہ آمدنی پچھتر ہزار روپیہ ہے.اور اب انہوں نے پچاس فیصدی تک جنگ کے لئے ٹیکس لینے کا فیصلہ کر لیا ہے.گویا جس کو سور و پیر آمد ہوگی ، وہ پچاس روپیہ جنگ کے لئے ٹیکس ادا کرے گا.جس کی پچیس روپیہ آمد ہوگی ، وہ ساڑھے بارہ روپے ٹیکس ادا کرے گا.پس ایسی ہی قربانی ہوا کرتی ہے، جس کے ذریعہ سے کامیابی اور فتح حاصل ہوتی ہے.ہماری جماعت بھی جب تک اس عظیم الشان کام کے لیے ، جو اس کے سپر د کیا گیا ہے اور اس اعلیٰ درجہ کے مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے ، جو اس کے سامنے ہے، اپنی قربانیوں کو انتہا تک نہ پہنچا دے گی ، اس وقت تک اس کام میں کامیاب ہونا مشکل ہے.پس جہاں میں دفتر اول کو لمبا کرنے اور دفتر ثانی کوکھولنے کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ پانچ ہزار آدمی اور آگے آئیں اور اپنے اموال اسلام کی خاطر پیش کریں ، وہاں میں جماعتوں کو یہ بھی توجہ دلاتا ہوں کہ ہماری معمولی قربانیوں سے دین کو فتح حاصل نہیں ہو سکتی.ہمیں ہر قسم کے لوگوں کی ضرورت ہے.جب تک ہماری جماعت کے نوجوانوں میں بے انتہا جوش نہ ہو کہ وہ آگے بڑھیں اور دین کے لیے اپنے آپ کو 482
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده یکم دسمبر 1944ء وقف کریں اور جب تک ہماری جماعت میں بے انتہا جوش نہ ہو کہ وہ بڑھ بڑھ کر اپنے اموال خدا کی راہ میں پیش کریں ، اس وقت تک کامیابی حاصل کرنا مشکل ہے.یا درکھو! یہ اموال ہمیشہ نہیں رہیں گے اور یہ زندگیاں بھی ہمیشہ نہیں رہیں گی.کوئی انسان زندہ نہیں رہتا.ہم بھی اپنی زندگیاں بسر کر کے خدا کے پاس جانے والے ہیں.یہ تنگیاں ہمارے ساتھ نہیں جائیں گی بلکہ ہمارے چندے اور ہماری قربانیاں ہمارے ساتھ جائیں گی.یہاں کا کھایا ہوا ہمارے کام نہیں آئے گا بلکہ جو خدا کے رستہ میں خرچ کیا ہوا ہوگا، وہی ہمارے کام آئے گا.پس ابدی اور دائمی زندگی حاصل کرنے کے لیے آگے بڑھو.آپ لوگوں کا دعوی ہے کہ آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صحابہ کے مثیل ہیں.مگر منہ کے کہنے سے کچھ نہیں بنتا.وہ قربانیاں پیش کرو، جو صحابہ نے پیش کیں.اسی طرح اپنی جانیں خدا کی راہ میں پیش کرو، جس طرح صحابہ نے پیش کیں.اسی طرح اپنے اموال دین کے رستہ میں خرچ کرو، جس طرح صحابہ نے خرچ کیے.اسی طرح اپنے وطنوں کو قربان کرو، جس طرح صحابہ نے اپنے وطنوں کو قربان کیا اور دین کی خدمت کے لیے ہر وقت کمر بستہ رہو، جس طرح صحابہ ہر وقت کمر بستہ رہتے تھے.اور ہر طریق سے اپنی قربانیوں کو خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرو اور جس طرح تم زبان سے کہتے ہو کہ ہمیں صحابہ کا مثیل بننے کا موقعہ ملا، خدا کرے کہ وہ دن آئے کہ جب تم خدا کے حضور پیش ہو تو تمہارا خدا اور اس کا رسول یہ کہے کہ یہ ہیں میرے صحابہ ثا جو بعد میں آئے مگر ان کی قربانیوں نے ان کو صحابہ میں شامل کر دیا اور یہ ہیں وہ لوگ، جنہوں نے اپنی جانیں اور اپنے اموال اور اپنی عزتیں اور اپنے وطن اور اپنی ہر چیز کوخدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دیا.مطبوعه الفضل 06 دسمبر 1944ء) 483
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 08 دسمبر 1944ء وو مومن بات کی غرض وغایت کو دیکھتا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 08 دسمبر 1944ء اس کے بعد میں تحریک جدید کی طرف دوستوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں ، جہاں اس کا ایک پہلو مالی تھا، وہاں کچھ اور قیود بھی تھیں.مثلاً سادہ زندگی اختیار کرنا اور کھیل تماشوں وغیرہ سے اجتناب.ا جہاں تک مجھے علم ہے ، جماعت کی اکثریت نے اس پر عمل کیا ہے.مگر پھر بھی ایک طبقہ ایسا ہے، جس نے پورے طور پر اس پر عمل نہیں کیا.چنانچہ تھوڑے ہی دن ہوئے، دہلی سے ایک نوجوان کا خط مجھے ملا کہ یہاں بعض نوجوان سینما جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسے نہ دیکھنے کا کوئی حکم نہیں ہے.اس میں شبہ نہیں کہ جہاں تک قانون کا سوال ہے، جبڑا روکنے کا اختیار حکومت کو ہی ہو سکتا ہے، ہمیں یہ اختیار نہیں.مگر رو کنا بھی کئی قسم کا ہوتا ہے.ایک روکنا محبت اور پیار کے ذریعہ ہوتا ہے.بچے اگر ماں باپ کی بات مانتے ہیں تو محبت اور پیار کی وجہ سے ہی مانتے ہیں ورنہ کون سا ایسا قانون یا قاعدہ ہے کہ جس سے ماں باپ بچوں کو مجبور کر کے حکم منوا سکتے ہیں؟ بسا اوقات بچے جوان ہوتے ہیں، خود کماتے ہیں اور ماں باپ کی بھی پرورش کرتے ہیں مگر پھر بھی ماں باپ ان کو کوئی ہدایت کریں تو وہ اسے مانتے ہیں.اس لئے نہیں کہ اگر وہ نہ مانیں تو ماں باپ مجبور کر کے منوا سکتے ہیں بلکہ اس لئے کہ ماں باپ کے ساتھ ان کا تعلق محبت اور پیار کا ہوتا ہے.اسی طرح ہمارا نظام بھی محبت اور پیار کا ہے.کوئی قانون ہمارے ہاتھ میں نہیں کہ جس کے ذریعہ ہم اپنے احکام منوا سکیں“.تو مومن یہ نہیں دیکھا کرتا کہ حکم کیا ہے؟ بلکہ یہ دیکھتا ہے کہ بات کی غرض وغایت کیا " ہے؟ اور پھر اس پر عمل کرتا ہے اور اس غرض کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے.سینما کے متعلق میرا خیال ہے کہ اس زمانہ کی بدترین لعنت ہے.اس نے سینکڑوں شریف گھرانے کے لوگوں کو گویا اور سینکڑوں شریف خاندانوں کی عورتوں کو ناچنے والی بنا دیا ہے.میں ادبی رسالے وغیرہ دیکھتا رہتا ہوں اور میں نے دیکھا ہے کہ سینما کے شوقین اور اس سے تعلق رکھنے والے نو جوانوں کے مضامین میں ایسا تمسخر ہوتا ہے اور ان کے اخلاق اور ان کا مذاق ایسا گندا ہوتا ہے کہ حیرت 485
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 08 دسمبر 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم ہوتی ہے.سینما والوں کی غرض تو روپیہ کمانا ہے نہ کہ اخلاق سکھانا.اور وہ روپیہ کمانے کے لئے ایسے لغو اور بے ہودہ فسانے اور گانے پیش کرتے ہیں کہ جو اخلاق کو سخت خراب کرنے والے ہوتے ہیں اور شرفاء جب ان میں جاتے ہیں تو ان کا مذاق بھی بگڑ جاتا ہے اور ان کے بچوں اور عورتوں کا بھی ، جن کو وہ سینما دیکھنے کے لئے ساتھ لے جاتے ہیں.اور سینما ملک کے اخلاق پر ایسا تباہ کن اثر ڈال رہے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں میرا منع کرنا تو الگ رہا، اگر میں ممانعت نہ کروں تو بھی مومن کی روح کو خود بخود اس سے بغاوت کرنی چاہیے.اسی طرح سادہ زندگی اختیار کرنے کی تحریک ہے.گو یہ بھی حکم نہیں بلکہ بعض حالات میں قرآن کریم کا حکم ہے کہ وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدَّثُ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی نعمت ملے تو انسان کے بدن پر بھی اس کا اثر ظاہر ہونا چاہیے.مگر آج اسلام کے لیے قربانیوں کا زمانہ ہے اور ایسا زمانہ ہے کہ ہمیں چاہیے، اسلام کی خاطر قربانی کرنے کی غرض سے جائز خواہشات کو بھی جہاں تک چھوڑ سکیں ، چھوڑ دیں.جب تک ایسا نہ کیا جائے ، اسلام کو ترقی حاصل نہیں ہو سکتی.آج ہمیں جائز خواہشات کو بھی اسلام کے لیے ترک کر دینا چاہئے“." میں تو صرف بات پہنچاتا ہوں، جن کے دل میں عشق اور محبت ہے، ان کو خود بخو داس پر عمل کرنا چاہیے.لیکن جس کے دل میں محبت اور عشق نہیں، ان کو اگر ہزار حکم بھی دیئے جائیں تو بھی وہ عمل نہیں کریں گے.اثر تو عشق اور محبت کے نتیجہ میں ہوتا ہے، کسی کے حکم دینے یا زور دینے سے نہیں ہو سکتا.پس جن لوگوں کے قلوب میں محبت ہے، اسلام کی خدمت کا احساس ہے ، ان کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگیوں کو سادہ بنائیں اور ایسا بنائیں کہ زیادہ سے زیادہ خدمت اسلام کرنے کے قابل ہو سکیں اور دنیا میں حقیقی مساوات قائم کرسکیں ، جس کے بغیر دنیا میں کبھی امن قائم نہیں ہوسکتا اور جب تک حقیقی مساوات قائم نہیں ہوتی ، دنیا سے مفاسد ، تفرقے اور عیاشی کا خاتمہ نہیں ہوسکتا.پس جن لوگوں کے دلوں میں محبت ہے، وہ الفاظ کو نہیں دیکھتے.یہ نہیں دیکھتے کہ کیا حکم دیا گیا ہے یا حکم نہیں دیا گیا؟ بلکہ وہ بات کی غرض و غایت کو سمجھتے اور اسے پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.وہ اپنے اس اقرار کو دیکھتے ہیں، جو انہوں نے بیعت کے وقت کیا تھا“.486 ( مطبوع الفضل 12 دسمبر 1944ء)
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم دو اقتباس از تقریر فرموده 108 اپریل 1944ء واقف زندگی کی وجہ سے اس کے خاندان کو رزق ملے گا تقریر فرموده 108اپریل 1944 ء بر موقع مجلس شوری کئی سال ہوئے، میں نے وقف اولاد کی تحریک کی تھی.اگر آپ لوگ اس پر توجہ کرتے تو آج یہ حالت نہ ہوتی.جب آپ لوگ ہنس رہے تھے کہ ناظر صاحب پھنس گئے.تو فرشتے آسمان پر ہنسے کہ آپ لوگوں نے خود اپنے خلاف ڈگری دے دی.کوئی ایک انسان اس ضرورت کو کبھی پورا نہیں کر سکتا.ہر ایک پر ذمہ داری ہے اور ہر ایک اپنی ذمہ داری کے لئے خدا تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہے.آپ بھی جوابدہ ہیں اور میں بھی ہوں.مگر میں نہیں بھی ہوں، اس لئے کہ میں نے اپنا ہر ایک بچہ خدا تعالیٰ کے دین کے لئے وقف کر رکھا ہے.میاں ناصر احمد وقف ہیں اور دین کا کام کر رہے ہیں.چھوٹا بھی وقف ہے اور میں سوچ رہا ہوں کہ اسے کس طرح دین کے کام پر لگایا جائے؟ اس سے چھوٹا ڈا کٹر ہے، وہ امتحان پاس کر چکا ہے اور اب ٹریننگ حاصل کر رہا ہے تا سلسلہ کی خدمت کر سکے.( اس عرصہ میں دوسرے دونوں سلسلہ کے کام پر لگے چکے ہیں.الحمد لله) باقی چھوٹے پڑھ رہے ہیں اور وہ سب بھی دین کے لئے پڑھ رہے ہیں.میرے تیرہ لڑ کے ہیں اور تیرہ کے تیرہ دین کے لئے وقف ہیں.مگر آپ لوگ سوچیں کہ آپ نے کیا کیا ہے؟ دوست خوش ہیں کہ ہماری جماعت ، ایک تبلیغی جماعت ہے.مگر ایک تبلیغی جماعت کے لئے تمیں مبلغین کا بھی پیدا نہ کر سکنا، کتنے افسوس کی بات ہے.ہمارے ذمہ تمام دنیا میں تبلیغ کرنا ہے اور اس کام کے لئے تمہیں کیا ہمیں ہزار مبلغ بھی کافی نہیں.کیا جوں جوں ضرورت پڑے گی ، ہر قدم پر میں ناظر سے پوچھا کروں گا کہ کون سے آدمی آپ کے پاس ہیں اور وہ اس طرح جواب میں خاموش ہو جایا کرے گا؟ یا درکھیں کہ ہر دفعہ ناظر کا خاموش ہونا، آپ کے لئے تازیانہ غیرت ہے.مبلغ ناظر نے نہیں بلکہ آپ نے پیدا کرنے ہیں.یہ اس کا کام نہیں بلکہ آپ کا ہے.چاہیے کہ ہر وقت دو، تین ہزار مبلغ تیار کھڑے ہوں تا جب بھی آواز آئے ، فوراً بھیجے جاسکیں.مگر یہ نہیں ہو سکتا ، جب تک آپ لوگ اپنے فرض کو ادا نہ کریں.آپ لوگ سوچیں کہ کتنے کھاتے پیتے لوگ ہیں، جو اپنے بچوں کو مدرسہ احمدیہ میں پڑھاتے ہیں؟ اس سکول میں پڑھنے والے اکثر طالب علم وہ ہیں، جو اگر یہاں نہ پڑھتے تو بھیک مانگتے.ان کا اس سکول میں 487
اقتباس از تقریر فرموده 108 اپریل 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم پڑھنے کے لئے آنا سلسلہ پر احسان نہیں بلکہ ان کو پڑھانا سلسلہ کا احسان ہے، ان پر اور ان کے ماں باپ پر کہ ان کے بچے بھیک مانگنے کے بجائے تعلیم پاتے ہیں.کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ میرا بچہ بھیک مانگنے کے لئے تیار تھا یا چپر اسی بننے کے لئے تیار تھا مگر میں نے اسے مدرسہ احمدیہ میں داخل کرا دیا کہ وہ دین کی خدمت کر سکے؟ غرض یہ بہت بڑا حرف جماعت پر ہے کہ آج وہ تیں مبلغ بھی پیش نہیں کر سکتی.میں نے بار بار دوستوں کو توجہ دلائی ہے کہ وہ اپنی زندگیوں کو وقف کریں.جماعت اخلاص اور جوش تو دین کے لئے بہت ظاہر کرتی ہے مگر عملی حالت جو ہے، اس سے ظاہر ہے کہ ہمارے پاس تمھیں مبلغ بھی نہیں، جن کو کام پر لگایا جا سکے.یہ تو وہی بات ہے کہ سو گز واروں ، ایک گز نہ پھاڑوں.میں جانتا ہوں کہ دوسری کوئی قربانی نہیں ، جس سے جماعت نے دریغ کیا ہو.مالی لحاظ سے جماعت کی قربانیاں شاندار ہیں.اور اگر اب بھی میں اس تیس ہزار کی منظوری دے دیتا تو مجھے یقین ہے کہ جماعت یہ بھی پورا کر دیتی.مگر جب مصرف ہی نہیں تو میں کیوں لوں ؟ بعض مخالف کہتے ہیں کہ میں چندوں کا روپیہ کھالیتا ہوں.مگر میں تو جب تک سلسلہ کو ضرورت نہ ہو، انجمن کو چندہ اجازت دینے کو تیار نہیں ہوں.ہاں اگر مبلغ ہوں ، وہ باہر جائیں تو ان کے لئے اور ان کے بیوی بچوں کے لئے روپیہ کی ضرورت ہو سکتی ہے.مگر جب ہمارے پاس مبلغ ہی نہیں ہیں تو روپیہ کی کیا ضرورت ہے؟ پس میں دوستوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کافی مہلت دی ہے، اب وہ ترقی کا فیصلہ کر چکا ہے.اب وہ شاید زیادہ مہلت نہیں دے گا.اس لئے جماعت کو چاہیے کہ فرض شناسی سے کام کرے.ضلعوں کے ضلعے ایسے ہیں کہ جہاں سے کسی کھاتے پیتے زمیندار، تاجر یا دوسرے ایسے لوگوں کے لڑکے، جو اپنے دو، تین یا زیادہ بچوں میں سے ایک کو بڑی آسانی سے دین کے لئے وقف کر سکتے ہیں ، احمد یہ سکول میں داخل نہیں.میرا اندازہ ہے کہ تین ، ساڑھے تین لاکھ جماعت ہندوستان میں ہے.عورتیں، بچے اور نا کارہ کو اگر نکال دیا جائے تو چالیس، پچاس ہزار کی تعد ادرہ جاتی ہے.ان میں سے اگر پانچ ہزار بھی کھاتے پیتے سمجھ لئے جائیں اور وہ اپنا ایک ایک لڑکا بھی دین کے لئے پیش کریں تو پانچ ہزار مبلغ مل سکتا ہے.ایک بچہ کو دین کے لئے وقف کرنے میں کوئی مشکل نہیں.دوسروں کو کہا جا سکتا ہے کہ ہم نے تمہیں اعلی تعلیم دلوائی یا دوسرے اچھے کاموں پر لگایا، اب یہ گویا ایک ٹیکس تمہارے ذمہ ہے کہ اپنے اس بھائی کو خرچ دیتے رہو.اس طرح ان کے اپنے رزق میں بھی برکت ہوگی.حضرت ابو ہریرہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور دھرنا مار کر بیٹھ گئے.حتی کہ مسجد سے نکلنا بھی بند کر دیا.ان کا ایک 488
تحریک جدید- ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از تقریر فرموده 108 اپریل 1944ء اور بھائی تھا، جس کے کام میں یہ پہلے مدددیا کرتے تھے.ایک دفعہ ان کا بھائی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ ! میرا بھائی تو اب میرے لئے گویا ایک چٹی ہے.دو، چار ماہ بعد آتا ہوں تو اسے کچھ خرچ دے جاتا ہوں.اور یہ پہلے کام میں جو مجھے مدددیتا تھا ، اس سے محروم ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کیا معلوم ہے کہ اللہ تمہیں بھی رزق اس کے طفیل دیتا ہے؟ میر محمد اسحاق صاحب مرحوم کو جب حضرت خلیفہ اول نے دینی علوم کی تعلیم دینی شروع کی تو ایک دن حضرت نانا جان مرحوم نے کہا کہ میرے دل پر یہ بوجھ ہے کہ یہ کھائے گا کیا؟ اسے کوئی فن بھی سکھا دیا جائے.اس پر حضرت خلیفہ اول نے فرمایا.اس کے بڑے بھائی کو اللہ تعالیٰ اسی کے لئے تو رزق دے گا تا وہ اس کی خدمت کرے اور دین کے ثواب میں شریک ہو تو دین کے لئے بیٹوں کو وقف کرنا اہم ذمہ داری ہے.جس میں اب تک جماعت نے اپنی ذمہ داری کو ادا کیا ہوتا تو آج ناظر صاحب سے جب پوچھا گیا تھا کہ میں مبلغوں کے نام بتائیں؟ وہ کھسیانے ہو کر یہ نہ کہتے کہ میں نے سوچا نہیں.واقعہ یہ ہے کہ مبلغ ہیں ہی نہیں.ناظر صاحب کے نام نہ پیش کرنے پر بعض لوگ ہنسے.لیکن جن لوگوں نے خود اپنی ذمہ داری کو ادا نہ کیا ، انہیں ہنے کا کیا حق ہے؟ ہاں جس نے اپنے بیٹوں میں سے کم سے کم ایک کو اچھی تعلیم دلا کر دین کے لئے وقف کر دیا اور باقی بیٹوں پر فرض کر دیا کہ وہ اسے خرچ دیں، وہ بے شک ہنسے.مگر ایسا تو شاید سو، دوسو میں سے ایک ہوگا.باقی سب وہ ہیں، جنہوں نے اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کیا.ایسے لوگوں کے لئے یہ استغفار کا موقع تھا اور انہیں اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہیے تھی.پس میں بار بار جماعت کو توجہ دلا چکا ہوں اور اب پھر توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے بچوں کو دین کے لئے وقف کرو.اگر کسی کے زیادہ بچے ہیں تو وہ ایک کو وقف کرے اور اس کے بھائیوں کے ذمہ لگائے کہ اسے خرچ دیتے رہیں.اور انہیں کہے کہ یہ دین کا کام کرتا ہے، اس لئے تمہارا فرض ہے کہ اپنی آمد کا اتنا حصہ اس کو دیتے رہو.اور پھر وہ اپنی جائیداد کا کچھ حصہ اس کے لئے وقف کر سکتا ہے.وصیت تو زیادہ سے زیادہ تیسرے حصہ کی جائز ہے اور یہ اسی لئے ہے کہ تا انسان چاہے تو دوسرے کاموں کے لئے بھی وقف کر سکے.پس چاہیے کہ جائیداد کا کچھ حصہ اس رنگ میں وقف کر دیا جائے کہ جو تبلیغ کرے گا، یہا سے ملے گا.پس وہ قربانی کرو، جو سچے مومن کے شایان شان ہے.اور اپنے بچوں کو مدرسہ احمدیہ میں تعلیم کے لئے بھیجو بالخصوص کھاتے پیتے لوگوں کو اس طرف توجہ کرنی چاہیے.رپورٹ مجلس شوری منعقدہ 07 تا 109 اپریل 1944ء) 489
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم وو اقتباس از تقریر فرموده 109 اپریل 1944ء اس تحریک کی بنیاد آدمیوں پر ہے، روپیہ پر نہیں تقریر فرموده 09 اپریل 1944ء بر موقع مجلس شوری میں نے اندازہ لگایا ہے کہ ہمیں اپنی تبلیغی ضروریات کے لئے پانچ ہزار مبلغ رکھنے چاہیں.اور یہ بھی پہلا قدم ہے، جو تبلیغ کے لئے ہمیں اٹھانا چاہیے.یہ پانچ ہزار مبلغ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس رویا کے مطابق ہوں گے، جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو بتایا گیا تھا کہ تمہیں پانچ ہزار سپاہی دیا جائے گا.میں سمجھتا ہوں، اس سے ایک یہ بھی مراد ہے کہ سلسلہ کی تبلیغی ضروریات پوری نہیں ہوسکتیں، جب تک پانچ ہزار مبلغ نہ رکھا جائے.مگر یہ بھی ابتدائی قدم ہے.کیونکہ جب کوئی نبی کام شروع کرتا ہے، اسے ابتداء میں کام کے مناسب حال فوج دی جاتی ہے.پھر جوں جوں کام وسیع ہوتا ہے، فوج میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے.پس در حقیقت یہ پانچ ہزار سپاہی ابتداء کے لئے ہیں ورنہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کشفی حالت میں خود مطالبہ کیا، ایک لاکھ سپاہیوں کی ہمیں ضرورت ہے.پس ہم اپنی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کا ابتدائی کام صحیح پیمانہ پر اس وقت تک شروع نہیں کر سکتے ، جب تک ہم پانچ ہزار مبلغ نہیں رکھتے.مگر ابھی چونکہ ہم میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ ہم پانچ ہزار مبلغ رکھ سکیں.میں نے اس رویا کو پورا کرنے کے لئے تحریک جدید کا اجراء کیا.جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے پانچ ہزار چندہ دینے والے سپاہی مہیا فرما دیئے اور انہوں نے ہر سال اپنی قربانی کا شاندار مظاہرہ کیا.مگر بہر حال یہ اس رویاء کے پورا ہونے کا پہلا قدم ہے.دوسرا قدم یہ ہوگا کہ ہم پانچ ہزار مبلغ رکھیں گے، جن کے خرچ کا اندازہ دو کروڑ روپیہ سالانہ ہے.ہمیں اپنی موجودہ حالت کے لحاظ سے یہ کام بہت بڑا دکھائی دیتا ہے.لیکن اگر ہم 25 لاکھ روپیہ کا پہلا ریز روفنڈ قائم کر دیں.اس کے بعد دوسرا ریز روفنڈ 50 لاکھ روپیہ کا قائم کر دیں.پھر تیسرا ریز روفنڈ 75لاکھ کا قائم کر دیں تو چوتھا ریز روفنڈ ایک کروڑ روپیہ کا قائم ہو جائے گا.اس کے ساتھ ہی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مالی وسعت کے بعض اور سامان بھی پیدا کر دے گا اور اس طرح جلد ہی یہ آمد دو کروڑ روپیہ تک پہنچ جائے گی اور ہم پانچ ہزار مبلغ رکھ کر ان کے اخراجات کو آسانی سے پورا کر سکیں گے.491
اقتباس از تقریر فرموده 109 اپریل 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم عیسائیوں کو دیکھو، وہ شرک کی اشاعت کے لئے پانچ کروڑ پونڈ سالانہ مشنری سوسائٹیوں پر خرچ ) کرتے ہیں.پانچ کروڑ پونڈ کے معنی ہیں 75 کروڑ روپیہ سالانہ.اگر وہ جھوٹے خدا کو منوانے کے لئے 75 کروڑ روپیہ سالانہ خرچ کر سکتے ہیں تو کیا ہم بچے خدا کے نام کو بلند کرنے اور اس کے دین کو پھیلانے کے لئے دو کروڑ روپیہ سے پہلا تبلیغی قدم نہیں اٹھا سکتے ؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عیسائی بہت مالدار ہیں اور حکومتیں ان کے قبضہ میں ہیں.لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ روپیہ سے زیادہ نفس کی قربانی کام دیا کرتی ہے.مال تو کوئی چیز ہی نہیں.جب انسان اپنے نفس کی قربانی خوشی سے پیش کرنے کے لئے تیار ہو جائے تو مال کی قربانی اس پر ذرا بھی گراں نہیں گزرتی.لیکن وہ جو نفس کی قربانی میں کمزور ہوتے ہیں، قربانی کا وقت آنے پر کچا دھا گا ثابت ہوتے ہیں، خدا تعالیٰ کی ناراضگی کے مورد بن جاتے ہیں.دیکھو میں نے پانچ ہزار مبلغین کا خرچ دو کروڑ روپیہ سالانہ بتایا ہے.اور یہ اتنا بڑا خرج ہے، جو ہماری موجودہ حالت کے لحاظ سے بالکل ناقابل برداشت ہے.لیکن ایک اور نکتہ نگاہ سے اگر دیکھو تو ہماری جماعت اس وقت چار، پانچ لاکھ کے قریب ہے.اس میں سے ہندوستان کی جماعت اڑھائی ، تین لاکھ سے کسی طرح کم نہیں.اگر اس اندازہ کو صحیح سمجھ لیا جائے تو کم از کم بیس ہزار بالغ مرد ہماری ہندوستان کی جماعت میں ہی موجود ہیں.ان میں ہزار میں سے پانچ ہزار مبلغین کا ملنا کون سی مشکل بات ہے؟ اگر ہر شخص دین کی اہمیت کو سمجھ جائے، اگر ہر شخص خدا تعالیٰ کے لئے قربانی کرنا اپنی سب سے بڑی سعادت اور کامیابی سمجھے اور اگر وہ سلسلہ سے ایک پیسہ لئے بغیر خدا تعالیٰ کے جلال اور اس کے کلمہ کو بلند کرنے کے لئے دنیا میں نکل کھڑا ہو تو پانچ ہزار مبلغین، جن کا اس وقت مہیا ہونا ہمیں سخت مشکل دکھائی دیتا ہے، نہایت آسانی اور سہولت کے ساتھ میدان میں نکل آئیں اور دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیل جائیں.اور کفر پر اس طرح چھا جائیں کہ اسلام کے مقابلہ میں اسے سراٹھانے کی تاب نہ رہے.ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر شخص اپنے ایمان کا جائزہ لے اور دیکھے کہ کیا وہ صیح معنوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ اپنے اندر لئے ہوئے ہے؟ اور کیا وہ کہہ سکتا ہے کہ جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی اشاعت کی ، اسی طرح میں اسلام کی اشاعت کرنے کے لئے تیار ہوں؟ اگر یہ ایمان جماعت کے ہر فرد میں پیدا ہو جائے تو یہ سوال ہی باقی نہ رہے کہ روپیہ کہاں سے آئے گا؟ آخر یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیا تنخواہ لے کر کام کیا کرتے تھے؟ یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کسی انجمن سے روپیہ لے کر تبلیغ کا کام شروع کیا تھا؟ آپ کو کسی انجمن کی 492
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد دوم اقتباس از تقریر فرمود 09 اپریل 1944ء طرف سے وظیفہ نہیں ملتا تھا، کوئی ماہوار تنخواہ مقرر نہیں تھی.لیکن پھر بھی آپ دین کی خدمت کے لئے کھڑے ہو گئے اور آپ نے فیصلہ کیا کہ اب دین کی خدمت کرنا ہی میرا کام ہوگا.میں دن کو بھی خدمت کروں گا اور رات کو بھی.اور اس وقت تک آرام نہیں کروں گا ، جب تک اس تاریک دنیا کو خدا تعالیٰ کے نور سے منور نہ کرلوں.یہ روح ہے، جو ہم میں سے ہر فرد کو اپنے اندر پیدا کرنی چاہیے.اور یہی وہ روح ہے، جس کے پیدا ہونے کے بعد یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ ہمیں اپنے کاموں کے لئے ایک کروڑ روپیہ کی ضرورت ہے یا دو کروڑ روپیہ کی ؟ صرف نیت اور ارادہ کی دیر ہے.اگر نیت درست ہو ، اگر ارادگی میں پختگی ہو، اگر ایمان میں مضبوطی ہو تو کوئی روک مقابل میں نہیں آسکتی.ہاں اگر ایمان ہی نہ ہو یا ارادے ہی کو تاہ ہوں تو پھر بے شک کروڑوں روپیہ کی ضرورت ہوگی.مگر سچی بات یہ ہے کہ کروڑوں روپیہ بھی اس وقت تک کام نہیں دے سکتا، جب تک ایمان کی چنگاری انسانی روح کو گر مانہ رہی ہو.اور جب تک ایمان کی حرارت اس کے قلب کو زندہ نہ رکھ رہی ہو.میں سمجھتا ہوں، پانچ ہزار مبلغین کا رکھنا گو بظاہر بڑا مشکل نظر آتا ہے.لیکن میرے نزدیک ہمارے پاس پانچ ہزار مبلغین سے بھی زیادہ مبلغ رکھنے کے سامان موجود ہیں.صرف نیت اور ارادہ کی ضرورت ہے.اگر سچی نیت کر لی جائے اور خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے ، اس کے دین کی خدمت کا کام شروع کیا جائے تو اللہ تعالیٰ غیب سے برکتوں کے دروازے کھول دیتا ہے.اور ایسی ایسی جگہوں سے کامیابی کے سامان مہیا کرتا ہے، جو انسانی واہمہ اور خیال میں بھی نہیں ہوتیں.یہ ہماری کمزوری ہوتی ہے کہ ہم قربانی کرنے سے پہلے سوچتے ہیں کہ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ گویا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کام ہماری کوششوں سے ہوگا.حالانکہ جو کچھ کرنا ہے، خدا نے کرنا ہے.بندوں کو تو وہ محض ثواب دینے کے لئے شمولیت کا موقع عطا فرما دیتا ہے..پس اصل بات یہ ہے کہ پانچ ہزار مبلغین کا مہیا ہونا ہمارے لئے ہر گز کوئی مشکل امر نہیں.مگر اس کے لئے جماعت کو وہی راستہ اختیار کرنا چاہیے، جس راستہ کو اختیار کرنے کی ہدایت حضرت سیح موعود علیہ السلام دے چکے ہیں.اگر اسی قسم کے لوگ ہمارے سلسلہ میں پیدا ہو جائیں، جن کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ:.وو وو اگر ہماری جماعت میں چالیس آدمی بھی ایسے مضبوط رشتہ کے ہوں، جو رنج و راحت عسرویسر میں خدا تعالیٰ کی رضا کو مقدم کریں.تو ہم جان لیں کہ ہم جس مقصد کے لئے آئے تھے، وہ پورا ہو چکا اور جو کچھ کرنا تھا، وہ کر لیا.(الحکم 30 جون 1903 ء صفحہ 10) 493
اقتباس از تقریر فرموده 109 اپریل 1944ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد دوم تو ہماری فتح یقینی اور قطعی ہے.کیونکہ اس وقت یہ سوال ہی نہیں ہوگا کہ ان کو سلسلہ کی طرف سے ملتا کیا ہے؟ بلکہ وہ خدا کے دین کی اشاعت کے لئے دیوانہ وار نکل کھڑے ہوں گے اور ہر قربانی کے لئے شرح صدر سے تیار ہوں گے.انہیں اگر پہاڑوں کی چوٹی سے اپنے آپ کو گرانے کے لئے کہا جائے گا تو وہ ہر پہاڑ سے گرنے کے لئے تیار ہوں گے.انہیں اگر سمندر میں چھلانگ لگانے کے لئے کہا جائے گا تو وہ سمندر میں چھلانگ لگانے کے لئے تیار ہوں گے.انہیں اگر اپنے آپ کو جلتی ہوئی آگ میں جھونکنے کے لئے کہا جائے گا تو وہ ہر جلتی آگ میں اپنے آپ کو بھسم کرنے کے لئے تیار ہوں گے.ایسے لوگ اگر پانچ ہزار ہماری جماعت میں پیدا ہو جائیں تو فتح کا سوال ایک آن میں حل ہو جائے اور کفر کی شوکت دیکھتے ہی دیکھتے خاک میں مل جائے.مگر چونکہ ابھی تک جماعت کے لوگ اس بلند معیار تک نہیں آئے ، اس لئے واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں کہنا چاہیے کہ پانچ ہزار سپاہی اگر ان سامانوں کے ساتھ آگے آئیں، جن سے ادنی درجہ کی تبلیغ ساری دنیا میں کی جاسکتی ہے تو اس کے لئے دو کروڑ روپیہ سالانہ کی ضرورت ہو گی.مگر یہ اتنی بڑی مالی قربانی ہے، جو جماعت کی موجودہ حالت کے لحاظ سے ایک لمبے وقت کا مطالبہ کرتی ہے.لیکن وقت کے لمبا ہونے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اس کام کو شروع بھی نہ کیا جائے.اگر ہم اعلی پیمانہ پر اس کام کو جاری نہیں رکھ سکتے تو ادنی پیمانہ پر تو اس کام کو شروع کر سکتے ہیں.اگر ہم اس کام کو شروع کر دیں اور ادنی ادنیٰ قربانیوں میں دلی شوق کے ساتھ حصہ لیں تو یقینا اللہ تعالی ایک دن ہمیں بڑی قربانیوں میں حصہ لینے کی بھی توفیق عطا فرمادے گا.میں بار بار بتا چکا ہوں کہ ایک قربانی دوسری قربانی کی محرک ہوتی ہے.یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے، جس کے خلاف تم کبھی کوئی مثال پیش نہیں کر سکتے کہ جب ایک نیکی کی جاتی ہے تو وہ دوسری نیکی کی محرک بن جاتی ہے.پس اگر ہم سچے دل کے ساتھ ادنی درجہ کی مالی قربانیوں میں حصہ لیں گے تو اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو توفیق عطا فر مادے گا کہ وہ اعلیٰ درجہ کی مالی قربانیوں میں بھی حصہ لے اور ان ذمہ داریوں کو پورا کرے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر عائد ہوتی ہیں.ہمارا کام یہ ہے کہ ہم قربانی کے لئے جماعت کو بلاتے چلے جائیں.تاکہ ہر قربانی کے بعد اس سے بڑی قربانی کی ہماری جماعت کو توفیق ملے.بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اگر انتہائی قربانی سے کام لیا گیا تو جماعت کی کمر ہمت ٹوٹ جائے گی.مگر میں سمجھتا ہوں، یہ بات بالکل غلط ہے.جب بھی ٹوٹے گا، منافق ہی ٹوٹے گا.مومن کبھی قربانیوں سے ٹوٹ نہیں سکتا.جو شخص قربانیاں کرتے وقت اپنے دائیں 494
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اقتباس از تقریر فرموده 09 اپریل 1944ء اور بائیں دیکھتا ہے اور سوچتا ہے کہ آیا فلاں بھی قربانی کر رہا ہے یا نہیں ؟ فلاں نے بھی حصہ لیا ہے یا میں ہی حصہ لے رہا ہوں؟ وہ کبھی قربانیوں کے میدان میں ثابت قدم نہیں رہ سکتا.لیکن وہ جو خدا کے لئے محض اس کی رضا کے لئے ، دنیا کے لئے نہیں بلکہ دین کے لئے اپنا انتہائی زور بغیر دائیں بائیں دیکھنے کے صرف کر دیتا ہے، وہ ٹوٹا نہیں کرتا بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جایا کرتا ہے.گارڈر کے او پر جب لکڑیاں ڈالی جاتی ہیں تو وہ ٹوٹا نہیں کرتیں ، خواہ ان پر چھت کی مٹی کا کس قدر بوجھ ہو؟ کیونکہ شہتیر ان کو سنبھالنے کے لئے موجود ہوتا ہے.اسی طرح مومن کی کمر ہمت ہمیشہ مضبوط رہتی ہے.کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میرا خدا میرے ساتھ ہے.یہ ہو نہیں سکتا کہ میں اس کے دین کے لئے قربانی کروں اور تباہ و برباد ہو جاؤں.صحابہ نے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! جہاد فی سبیل اللہ کے کیا معنی ہیں؟ آپ نے فرمایا.جہاد مختلف نیتوں سے کئے جاتے ہیں.کوئی شخص دوسری قوم کے بغض کی وجہ سے، جو اس کے دل میں مخفی ہوتا ہے، جنگ میں شامل ہوتا ہے اور کوئی حمية الجاهلية کی وجہ سے جنگ کرتا ہے، کوئی محض نام ونمود اور شہرت کے لئے جنگ کرتا ہے.لیکن اصل مجاہد وہی ہے، جو صرف خدا تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے جہاد میں شامل ہوتا ہے.پس قربانی وہی ہے، جو خدا تعالیٰ کے لئے کی جائے.اور جو شخص خدا تعالیٰ کے لئے قربانی کرتا ہے، وہ کبھی ٹوٹ نہیں سکتا.پس ہمیں اس وقت کے آنے سے پہلے جبکہ وہ پانچ ہزار مبلغ آویں، جنہیں ہم تبلیغ کے لئے دنیا میں پھیلا سکیں، بغیر کسی اور طرف نظر ڈالنے کے قربانیوں کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دینا چاہیے.تا کہ خدا تعالیٰ ان حقیر قربانیوں کو قبول فرماتے ہوئے ہمیں توفیق عطا کرے کہ جب بڑی قربانیوں کا مطالبہ ہو تو اس وقت ہم خوشی سے اپنی ہر چیز خدا تعالیٰ کے آستانہ پر قربان کرنے کے لئے پیش کر دیں.ہماری مثال اس وقت بالکل اسی شخص کی سی ہے، جو اپنے مکان کی چھت کے لئے گارڈر کی تلاش کرتا ہے اور جب اسے گارڈر نہیں ملتا تو وہ بانس کے چھوٹے چھوٹے ٹکروں سے ہی کام لیتا ہے.اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ اب اسے گارڈروں کی ضرورت نہیں رہی.وہ گارڈروں کی ضرورت کو اس وقت بھی تسلیم کرتا ہے، جب اس کے مکان کی چھت پر بانس کی لکڑیاں پڑی ہوتی ہیں.مگر چونکہ گارڈرا سے ملتے ہیں، اس لئے وہ معمولی اور ادنی درجہ کی چیزوں سے کام لینے کی کوشش کرتا ہے.اسی طرح جب تک ہمیں وہ پانچ ہزار مبلغ نہیں ملتے، جو دنیا کے ایک معتد بہ حصہ میں تبلیغ اسلام کا فرض سرانجام دیں، اس وقت تک ضروری ہے کہ ہم تبلیغ اسلام کے لئے ادنی اور معمولی درجہ کے ان سامانوں کو اختیار کریں، جواس وقت 495
اقتباس از تقریر فرموده 109 اپریل 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم ہمارے امکان میں ہیں.اور اگر پانچ ہزار مبلغ نہیں ملتے تو پانچ ، دس، پچاس یا سو مبلغوں سے ہی اس کام کی ابتدا کر دیں لیکن بہر حال یہ ایک عارضی عمارت ہوگی.اس عمارت پر ہم اسلام کی آئندہ تعمیر کا کلیہ انحصار نہیں رکھ سکتے.کیونکہ عمارت جس قدر بلند ہو، اسی قدر اس عمارت کی بنیادوں کا مضبوط ہونا ضروری ہوتا ہے.جب ہمارا مقصد ساری دنیا میں اسلام اور قرآن اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی اشاعت ہے تو اس کے لئے ہمارا یہ خیال کر لینا کہ ہم اپنی موجودہ کوششوں سے ہی کامیاب ہوسکیں گے، اول درجہ کی غلطی اور نادانی ہے.55.ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے کاموں کو بڑھاتے چلے جائیں.یہاں تک کہ وہ وقت آ جائے، جب ہم انتہائی قربانیوں سے کام لیتے ہوئے، پانچ ہزار مبلغین کے اخراجات آسانی سے برداشت کر سکیں اور ان کو ساری دنیا میں احمدیت کی اشاعت کے لئے پھیلا دیں.دیکھو، ہم سے پہلے جو تو میں دنیا میں گزر چکی ہیں، انہوں نے دین کے لئے ایسی عظیم الشان قربانیاں کی ہیں کہ ان کے واقعات پڑھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے.وہ واقعات ایسے ہیں کہ آج بھی ہمارے لئے اپنے اندر بیسیوں سبق پنہاں رکھتے ہیں.اور ہمیں اس حقیقت کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ خدا کے لئے قربانی کرنے والے دنیا میں کبھی ضائع نہیں کئے جاتے“.جس شہر یا گاؤں میں جاؤ، وہاں کے رہنے والوں سے اپنے لئے روٹی مانگو، اگر وہ دے دیں تو خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کھالو اور اگر وہ انکار کریں تو اپنے پاؤں کی گرد جھاڑ کر وہاں سے نکل جاؤ اور اپنی زبان پر شکوہ کا کوئی حرف مت لاؤ.اگر اس طرح کام کرنے والے ہمیں بھی میسر آجائیں تو پھر پانچ ہزار مبلغوں کا بھی سوال نہیں.دولاکھ مبلغ اس وقت ہمیں اپنی جماعت میں سے حاصل ہو سکتا ہے.ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اندروہی روح پیدا کریں، جو پہلے لوگوں نے پیدا کی.اگر ہماری جماعت کا ہر فرد قربانی اور ایثار کے اس معیار پر آجائے ، جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے تو پھر اس امر کا بھی کوئی سوال نہیں رہے گا کہ کوئی شخص بی.اے یا ایم.اے پاس ہے یا نہیں؟ یا مولوی فاضل ہے یا نہیں ؟ کیونکہ اس وقت ڈگریوں کی کوئی ضرورت نہیں ہو گی.وہ مانگتے اور تبلیغ کرتے چلے جائیں گے.ایک مدرس ہو گا تو وہ بھی یہی طریق اختیار کرے گا.ایک پروفیسر ہوگا تو وہ بھی ایسا ہی کرے گا.پھر ہماری تمام مشکلات حل ہو سکتی ہیں اور تبلیغ کا سوال، جو روپیہ کے نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے بعض دفعہ پریشان کن صورت اختیار کر لیتا ہے، وہ دیکھتے ہی دیکھتے حل ہو سکتا ہے.496
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم اقتباس از تقریر فرموده 09 اپریل 1944ء در حقیقت بلند کاموں کی سرانجام دہی کے لئے ایک مستقل عزم اور ارادہ کی ضرورت ہوا کرتی ہے.اور مستقل ارادہ اور عزم کے لئے ایسے آدمیوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے، جو اپنے دلوں میں اخلاص اور ایمان رکھتے ہوں.اگر ایسے آدمی میسر آجائیں تو پھر روپیہ کی بھی ضرورت نہیں رہتی ، اخلاص خود بخود کام کے رستے تلاش کر لیا کرتا ہے.یہی وہ بات ہے، جو تحریک جدید کے شروع میں ، میں نے کہی کہ اس تحریک کی بنیاد آدمیوں پر ہے، روپیہ پر نہیں.روپیہ اگر لیا جاتا ہے تو اس لئے کہ درمیانی وقفہ میں اس روپیہ سے کام لیا جا سکے.ورنہ در حقیقت ہمیں ضرورت ان اخلاص و ایمان رکھنے والے مبلغین کی ہے، جو دنیا میں نکل جائیں اور خدائے قدوس کا نام بلند کرنے کے لئے اپنی تمام عمریں صرف کر دیں.یہ وہ مبلغ ہیں، جن کی ہمیں ضرورت ہے اور یہی وہ مبلغ ہیں، جو صحیح رنگ میں اسلام کے سپاہی کہلا سکتے ہیں“.33 در حقیقت تبلیغ کا سوال ایک مستقل عزم اور ارادہ کے بغیر حل ہی نہیں ہوسکتا.ایسا مستقل عزم، جو ہر قسم کی روکوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا دے اور ہر قربانی خواہ وہ کتنی بڑی ہو، انسان کو آسان اور سہل نظر آنے لگے.لیکن جب تک یہ وقت نہیں آتا، ہماری جماعت کے افراد کے لئے ضروری ہے کہ وہ چھوٹے پیمانہ پر اپنی جان کو قربان کرنے کے لئے تیار رہیں، اپنے مال کو قربان کرنے کے لئے تیار رہیں.تا کہ جن کاموں کی بنیا درکھ دی گئی ہے، ان کو ہم زیادہ سے زیادہ وسیع کرسکیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تبلیغ کے لئے ہمیں موجودہ تعداد سے بہت زیادہ مبلغین کی ضرورت ہے.لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ روپیہ کا موجود ہونا بھی اپنی ذات میں نہایت ضروری ہے.کیونکہ روپیہ سے تبلیغ کو زیادہ سے زیادہ وسیع کیا جا سکتا ہے.اگر ہم صرف پانچ ہزار مبلغ رکھیں تو وہ ایک وقت میں پانچ ہزار افراد کوہی تبلیغ کر سکتے ہیں.لیکن اگر ہم کافی تعداد میں ان کولٹر بچر اور اشتہارات وغیرہ مہیا کر دیں تو ایک ایک آدمی کی آواز ملک کے لاکھوں لوگوں تک پہنچ سکتی ہے.پس تبلیغ کو وسیع کرنے اور دنیا کے اکثر حصوں میں اسلام اور احمدیت کے نام کو پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے پاس روپیہ ہو اور ضروری ہے کہ ہمارے پاس آدمی ہوں تا کہ ہم ایک وقت میں ان دونوں چیزوں سے کام لے کر کفر کے مقابلہ کے لئے نکل سکیں.میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں سے کئی مخلصین ہیں، جنہوں نے اپنی زندگیاں اسلام کی خدمت کے لئے وقف کی ہیں.لیکن ان کی تیاری اور پھر ان کا بیرونی ممالک میں تبلیغ کے لئے بھجوایا جانا ، ابھی دور کی بات ہے.میں تو جب ان حالات کو دیکھتا ہوں تو مجھے بعض دفعہ یہ شل یاد آجاتی ہے " کتنا تریاق 497
اقتباس از تقریر فرموده 109 اپریل 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم از عراق آورده شود مارگزیدہ مردہ شود.جنگ نہ معلوم کب ختم ہو.پھر اگر جنگ ختم ہو جائے اور ہماری تیاری ابھی نامکمل ہو تو پیشتر اس کے کہ ہم کوئی نئی عمارت کھڑی کریں، کفر اس کی جگہ ایک اور عمارت کھڑی کر دے گا.اول تو پرانی عمارت کو توڑنا ہی آسان کام نہیں.تین، چار سو سال سے عیسائیوں نے مسلمانوں کو سیاسی اور صنعتی اور اقتصادی میدانوں میں شکست دے کر ان کو اتنا کمزور کر دیا ہے اور عیسائیت دنیا پر اس قدر غالب آچکی ہے، نہ صرف مذہب کے لحاظ سے بلکہ تمدن اور سیاست اور اقتصاد کے لحاظ سے بھی، کہ کفر کی مضبوط اور پرانی عمارت کو توڑنا، ہمارے لئے کوئی آسان بات نہیں.پھر ہمارا کام صرف یہی نہیں کہ ہم کفر کی عمارت کو توڑ دیں.بلکہ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اس کی جگہ اسلام کی بلند و بالا عمارت کو اپنی پوری شان اور عظمت کے ساتھ کھڑا کریں.اگر جنگ کے بعد جبکہ پرانی عمارت الہی ہاتھوں سے ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی ہوگی ، ہم نے جلد سے جلد اسلام کی عمارت کھڑی نہ کی تو دشمن اس وقفہ سے فائدہ اٹھا کر پھر کفر کی ایک عمارت کھڑی کر دے گا.اور پھر ہمار از ور اس عمارت کو توڑنے پر صرف ہونے لگ جائے گا اور اسلام کی عمارت کو ازسرنو تعمیر کرنے کا کام اور زیادہ التوا میں پڑ جائے گا.اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس عزم مصمم کو لے کر کھڑے ہو جائیں کہ ہم کفر کی قائم کردہ عمارت کو منہدم کر کے رکھ دیں گے، ہم اسلام کی مضبوط ترین عمارت دوبارہ دنیا میں کھڑی کریں گے اور اس غرض کے لئے ہمیں جس قربانی سے بھی کام کا لینا پڑا، اس سے دریغ نہیں کریں گے.اگر جانی قربانی کا سوال آیا تو ہم اپنی جان قربان کر دیں گے.اگر مالی قربانی کا سوال آیا تو ہم اپنا مال قربان کر دیں گے.اور اس بات کی ذرا بھی پروا نہیں کریں گے کہ ہم پر اور ہمارے عیال پر کیا گزررہی ہے؟ مگر چونکہ جماعت کے تمام افراد میں یکساں جوش اور اخلاص نہیں ہوتا بلکہ کوئی اپنے اخلاص کے لحاظ سے اول درجہ کے ہوتے ہیں تو کوئی دوسرے درجہ کے اور کوئی تیسرے درجہ کے ، اس لئے ضروری ہے کہ جماعت کے ہر فرد پر جانی اور مالی قربانی کی اہمیت کو پوری طرح واضح کیا جائے اور جب اکثریت اپنے اندر ایک تغیر پیدا کرلے تو ہر شخص اپنے ہمسایہ کی اصلاح کرے.ہر شخص جماعت کے ست اور غافل لوگوں کے پاس جائے اور خودا سے کہے، اے میرے بھائی ! اسلام پر ایک نازک وقت آیا ہوا ہے.ہمیں تو اس غرض کے لئے غیر سے بھی بھیک مانگنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے مگر تم تو ہمارے بھائی ہو تم سے نہ کہیں تو اور کس سے کہیں ؟ تم چندہ میں کوتاہی کرتے ہو تم مالی مطالبات میں دلیری سے حصہ نہیں لیتے ، جس کا نتیجہ یہ ہورہا ہے کہ سلسلہ کے کاموں کو نقصان پہنچ رہا ہے.498
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم 23 اقتباس از تقریر فرموده 09 اپریل 1944ء پس ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب حاصل کرنے کے عظیم الشان مواقع ہیں.اگران عظیم الشان مواقع کے ہوتے ہوئے، پھر بھی ہم غفلت سے کام لیں اور کوتاہی کا ارتکاب کریں تو یہ ہماری انتہائی بدقسمتی ہوگی.ورنہ خدا نے ہمارے لئے ثواب کے مواقع بہم پہنچانے میں قطعا بخل سے کام نہیں لیا.مگر یہ یا درکھنا چاہیے، یہ پچیس لاکھ روپی کاریز رونڈ صرف ہمارا ابتدائی قدم ہے.ورنہ ہماری خواہش تو یہ ہونی چاہیے کہ ہمارے پاس پچیس کروڑ روپیہ کاریز روفنڈ ہو.پس کمریں کس لو اور اشاعت اسلام کی خاطر ایک مضبوط بنیاد قائم کرنے کی کوشش کرو.جب یہ پہلا قدم اٹھا لو گے اور پچیس لاکھ روپیہ کاریز روفنڈ قائم کرلو گے تب تم میں سے کئی لوگوں کو اللہ تعالیٰ اس بات کی بھی توفیق عطا فر مادے گا کہ وہ مرنے سے پہلے اپنی جانوں کو بھی خدا تعالی کی راہ میں قربان کر دیں اور اس کی ابدی رضا اور دائمی جنت کے مستحق ہو جائیں.رپورٹ مجلس شور می منعقد : 09:07 اپریل 1944ء) 499
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم اقتباس از تقریر فرموده 109 اپریل 1944ء وقت آ گیا ہے کہ اپنی ہر چیز خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دیں تقریر فرموده 09 اپریل 1944ء بر موقع مجلس شوری ”سب سے پہلے میں دوستوں کو پھر دوبارہ وقف جائیداد کی تحریک کی طرف توجہ دلاتا ہوں.کی طرف میں اپنے دو گذشتہ خطبوں میں بھی توجہ دلا چکا ہوں.جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں، میری تحریک پر خدا تعالیٰ کے فضل سے قادیان کی بہت بڑی اکثریت نے اپنی جائیدادوں کو دین کے لئے وقف کر دیا ہے.اسی طرح بیرونجات میں سے بھی سینکڑوں کی تعداد ایسے لوگوں کی ہے، جنہوں نے اپنی جائیدادوں اور آمد نیوں کو اس غرض کے لئے وقف کیا ہے.لیکن لاکھوں کی جماعت میں سے سینکڑوں کا وقف قربانی کا وہ شاندار مظاہرہ نہیں، جس کی جماعت سے توقع کی جاتی تھی.ابھی علاقوں کے علاقے ، گاؤں کے گاؤں تحصیلوں کی تحصیلیں اور ضلعوں کے ضلعے ایسے ہیں ، جن میں رہنے والے ہزاروں احمدیوں میں سے کسی ایک نے بھی اپنی جائیداد کو وقف نہیں کیا.یا بڑے بڑے وسیع علاقوں میں سے صرف ایک، دو نے تحریک وقف میں حصہ لیا ہے، باقی لوگوں نے ابھی تک کوئی حصہ نہیں لیا.اس وقت تمام جماعتوں کے نمائندے یہاں موجود ہیں، اس لئے میں ایک بار پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ ہمارا وعدہ جس کو ہم بار بار اپنی زبان سے دہراتے رہتے ہیں ، یہ ہے کہ ہماری ہر چیز خدا تعالیٰ کے لئے قربان ہے.ہمیں اپنی جانوں کی پرواہ نہیں، ہمیں اپنے مالوں کی پرواہ نہیں ، ہم مٹ جائیں گے مگر یہ برداشت نہیں کریں گے کہ دین کو کوئی ضعف پہنچے.یہ وعدہ ہے، جو ہم منہ سے بار ہاد ہراتے رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی اسی وعدہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن مجید میں فرماتا ہے:.إنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانیں بھی لے لیں اور ان کے مال بھی لے لئے ، اس بات کے بدلہ میں کہ انہیں جنت عطا کی جائے گی.جب ہماری جانیں اور ہمارے اموال خدا نے ہم سے لے لئے اور ہم نے اس معاہدہ کو قبول کر لیا تو اس کے بعد ہمارا یہ کہنا کہ ہم جان کیوں قربان کریں؟ یا مال کا قلیل حصہ تو قربان کر سکتے ہیں مگر کثیر نہیں قطعی طور پر قرآن کریم کی اس آیت کے خلاف ہے.کیونکہ ہم سے اگر 501
اقتباس از تقریر فرموده 109 اپریل 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم جانیں لی گئیں، ہم سے اگر مال لئے گئے تو اس لئے کہ ہمیں جنت ملے گی.اور جنت وہ چیز ہے، جس کا ہم میں سے ہر شخص خواہش مند ہے.میں نہیں سمجھ سکتا کہ ہم میں سے کوئی ایک شخص بھی ایسا ہو جو کھڑا ہو کر کہے کہ میں یہ خواہش نہیں رکھتا کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت عطا فرمائے.اگر کوئی شخص ایسا ہوتو وہ کہہ سکتا ہے کہ نہ میں نے جنت کا کبھی مطالبہ کیا، نہ مجھے جنت ملنے کی کوئی امید ہے.اس لئے میرے لئے جان و مال کو قربان کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.اگر اس وقت میں آپ لوگوں سے یہ سوال کروں کہ وہ لوگ کھڑے ہو جائیں، جو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں جنت کی کوئی ضرورت نہیں، بے شک مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ ہمیں دوزخ میں ڈال دے.تو میں سمجھتا ہوں آپ لوگوں میں سے ایک شخص بھی کھڑا نہ ہوگا.بلکہ ہر شخص یہی کہے گا کہ میں تو چاہتا ہوں اللہ تعالے مجھے جنت عطا کرے.اور جب آپ لوگ جنت کے طلب گار ہیں اور آپ لوگوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو یہ کہہ سکے کہ اسے جنت کی ضرورت نہیں تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ آپ لوگوں نے اس سودے کو منظور کر لیا ہے، جس کا قرآن مجید میں ذکر آتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ ایک سودا ہے.مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ہر شخص کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ چاہے تو اس کو رد کر دے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے کہ ہدایت اور گمراہی کی راہوں کو اختیار کرنا، انسان کی اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق ہوتا ہے.خدا کسی کو مجبور نہیں کرتا کہ وہ ضرور ہدایت کا راستہ اختیار کرے اور خدا کسی کو مجبور نہیں کرتا کہ وہ ضرور گمراہی کا راستہ اختیار کرے.اسی طرح اللہ تعالیٰ مجبور نہیں کرتا کہ لوگ ضرور اپنی جانیں اور اپنے مال قربان کریں.وہ جنت پیش کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر تم چاہو، دنیا اپنے پاس رہنے دو اور ہمارے پاس آکر دوزخ قبول کر لو اور اگر چاہو تو اپنی جانیں اور اپنے اموال مجھے دے دو اور میرے پاس آ کر مجھ سے جنت لے لو.یہ سودا ہے، جو خدا اور اس کے مومن بندوں کے درمیان ہوتا ہے.جو شخص اس سودے کو قبول کر لیتا ہے، اس کے لئے یہ سوال قطعاً باقی نہیں رہ سکتا کہ اب جان ، اس کی جان ہے یا مال، اس کا مال ہے.اگر اس اقرار کے با وجود کسی شخص کے دل میں یہ خیال موجود ہو کہ میری جان، میری ہے، میر امال، میرا ہے تو یقینا وہ ایک ایسی بات کا ارتکاب کرنے والا قرار پائے گا، جسے کوئی مجنون ہی اپنے دل اور اپنے دماغ میں لاسکتا ہے.پھر میں کہتا ہوں احمدیوں کو بھی جانے دو.غیر احمد یوں، ہندوؤں ،سکھوں ، عیسائیوں ، یہودیوں اور پارسیوں وغیرہ میں سے کسی سے سوال کر کے پوچھو کہ آیا تم یہ پسند کرو گے کہ جنت میں داخل کیے جاؤ اور تمہارا ہر قدم ترقی کے میدان میں بڑھتا چلا جائے اور تم پر متواتر خدا تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی رہیں یا تم 502
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم اقتباس از تقریر فرمود : 109 اپریل 1944ء یہ پسند کرو گے کہ تمہیں کسی دن جنت میں داخل کر دیا جائے کسی دن دور زخ میں جھونک دیا جائے.چند دن سایہ دار درختوں میں رکھا جائے اور چند دن کڑکتی دھوپ میں ، ویران اور سنسان جنگلوں میں پھینک دیا جائے؟ تو میں یقینا سمجھتا ہوں کہ ان میں سے ہر شخص یہی کہے گا کہ میں تو جنت کی آرزو رکھتا ہوں اور اسی لئے دنیا کی مشکلات مجھے بے حقیقت معلوم ہوتی ہیں.لیکن میں دیکھتا ہوں باوجود اس خواہش کے، جو فطری طور پر انسان کے اندر پائی جاتی ہے، پھر بھی اکثر لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ ایک دن تو انہیں قربانیوں کا بے انتہا جوش ہوتا ہے مگر دوسرے دن ان کی طبیعت پر مردنی چھائی ہوئی ہوتی ہے اور انہیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ قربانیوں میں حصہ لینا اپنے اموال کو ضائع کرنا ہے.گویا وہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بھی اس کے مقابلہ میں ان سے ایسا ہی سلوک کرے کہ کسی دن ان کو جنت میں داخل کر دے اور کسی دن دور زخ کی گہرائیوں میں پھینک دے.ایک دن ان کو سایہ دار درختوں اور ٹھنڈے اور شیریں پانیوں میں جگہ دی جائے اور دوسرے دن ان کو جلتی ریت پر لٹایا جائے.جنت دوزخ تو ایک تصویر ہے، دنیا کے اعمال کی.اگر ہم ایسا کرتے ہیں کہ ایک وقت تو کہتے ہیں، ہماری جان بھی قربان، ہمارا مال بھی قربان.نماز پڑھتے ہیں تو بڑی گریہ وزاری ہے.چندہ دیتے ہیں تو ایک ایک پیسہ دینے پر ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری روح بلندیوں میں اڑتی ہوئی آستانہ الوہیت پر سجدہ شکرانہ بجالا رہی ہے کہ اس نے اپنے فضل سے دین کی خدمت کی توفیق دی.مگر چنددنوں کے بعد جب کوئی چندہ مانگنے کے لئے آتا ہے تو ہم کہتے ہیں، یہ کیسی مصیبت ہے کہ ہر وقت ہم سے چندہ مانگا جاتا ہے؟ اگر ہم چندے ہی دیتے رہیں تو اپنے اخراجات کا کیا انتظام کریں؟ اپنے بچوں اور اپنے عیال کا کس طرح گزارہ کریں ؟ اگر ہم اسی طرح اپنے رنگ بدلتے چلے جاتے ہیں، ایک دن سست ہوتے ہیں، دوسرے دن ہوشیار ہوتے ہیں، تیسرے دن پھر غافل ہو جاتے ہیں، چوتھے دن طاقت سے بڑھ کر چندہ دے دیتے ہیں، پانچویں دن چندہ مانگنے والوں پر اعتراض شروع کر دیتے ہیں.یا اگر اتنا نمایاں تغیر ہمارے اندر نہیں ہوتا تو کم سے کم یہ نظارہ ضرور نظر آتا ہے کہ ایک وقت چندے کی طرف دلی رغبت پائی جاتی ہے اور دوسرے وقت چندے کی طرف کوئی رغبت محسوس نہیں ہوتی.ایک دن نماز پڑھتے ہیں تو خوب گریہ زاری سے کام لیتے ہیں مگر دوسرے دن نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں تو خیالات پراگندہ ہوتے ہیں.نہ نماز کے الفاظ کی طرف توجہ ہوتی ہے، نہ اس کی روح کی طرف توجہ ہوتی ہے.ایک دن ہمارے اندر قربانیوں پر بشاشت پیدا ہوتی ہے تو دوسرے دن انقباض اور بوجھ سا محسوس ہوتا ہے.اگر ہم اسی طرح اپنی زندگی بسر کر دیتے ہیں اور ساٹھ یا ستر سال کی زندگی ایک لیول پر 503
اقتباس از تقریر فرموده 109 اپریل 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم بسر کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے تو ہم کس طرح یہ امید کر سکتے ہیں کہ خدا ہمیں ابدی حیات میں اپنی دائمی رضا اور دائمی جنت کا وارث بنائے؟ اگر ہم اپنی زندگی کے چالیس یا پچاس سالوں میں ، جو کام کے سال ہوتے ہیں، اپنی ایک حالت نہیں رکھتے.کبھی خدا کے دین سے محبت کرتے ہیں تو کبھی اس سے اپنا منہ پھیر لیتے ہیں.کبھی اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار کھڑے ہوتے ہیں اور کبھی خیال کرنے لگتے ہیں کہ جان کون قربان کرے؟ جان قربان کرنا تو بڑی مشکل بات ہے.کبھی ہمارے اعمال میں نیکیوں کا زور ہوتا ہے اور کبھی یوں معلوم ہوتا ہے کہ نیکی ہمارے قریب بھی نہیں پھٹی.کبھی ہم خدا کو یاد کرتے ہیں اور کبھی اس کو بھول جاتے ہیں.اگر ہم اپنی ساٹھ یا ستر یا اسی سالہ زندگی میں خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے متواتر اپنا قدم آگے بڑھانے کے لئے تیار نہیں تو ہم کس طرح یہ امید کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالٰی ہم سے وہ سلوک کرے، جس میں متواتر انعامات اور متواتر برکات کا نزول ہو؟ اگر ہم صحیح رنگ میں کوشش نہیں کرتے ، اگر ہم ہمیشہ ترقی کی طرف اپنا قدم نہیں بڑھاتے تو ہمیں اللہ تعالیٰ سے بھی یہ امید نہیں رکھنی چاہیے کہ جنت کے اعلی ترین انعامات یکے بعد دیگرے ہمیں حاصل ہوتے چلے جائیں گے.جنت ہمارے اعمال کے مطابق تیار ہوگی.تم اگر اپنے اعمال میں کبھی ست اور غافل ہو جاتے ہو اور کبھی ہوشیار.تو تم اس بات کو ظاہر کرتے ہو کہ تمہارا منشا یہی ہے کہ خدا بھی کبھی تم پر انعام نازل کرے اور کبھی نازل نہ کرے کبھی جنت کے انعامات دے اور کبھی ان انعامات سے محروم کر دے.پس یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ تم سے اللہ تعالیٰ کا ویسا ہی معاملہ ہوگا ، جیسا تم اس سے معاملہ کرو گے.میں نے تم سے مطالبہ کیا کہ تم اپنی جائیدادیں خدا تعالیٰ کے دین کے لئے وقف کر دو.اس میں یہ کوئی شرط نہیں تھی کہ تم ابھی اپنی تمام جائیدادیں فروخت کر کے ہمیں دے دو.یہ بھی کوئی شرط نہیں تھی کہ اس کا نصف یا اس کا چوتھائی ہمیں دے دو.صرف اتنا مطالبہ تھا کہ تم دین کے لئے اپنی جائیدادوں کو اب وقف کر دو.مگر یہ جائیدادیں تمہارے پاس ہی رہیں گی.جب سلسلہ کے لئے ایسی قربانیوں کا وقت آیا ، جن کا بوجھ بیت المال برداشت نہ کر سکا یا جو ضروریات ہنگامی چندوں سے بھی پوری نہ ہوئیں تو اس وقت بحصہ رسدی ہر صاحب جائیداد سے مطالبہ ہوگا کہ وہ اس کے مطابق اپنی جائیداد دے یا اتنی رقم سلسلہ کو مبیا کرے.ظاہر ہے کہ اس میں سر دست کوئی بوجھ جماعت پر نہیں ڈالا گیا تھا اور جس قربانی کا ان سے مطالبہ کیا گیا تھا ، وہ وہی تھی ، جس کا وہ خدا سے اقرار کر چکے تھے.مگر ابھی ایک فیصدی جائیدادیں بھی ہماری جماعت نے وقف نہیں کیں.اور بہت بڑی اکثریت ایسی رہتی ہے، جس نے اس تحریک کی طرف توجہ نہیں 504
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اقتباس از تقریر فرموده 109 اپریل 1944ء کی.منہ سے تو ہر شخص کہتا ہے کہ میں نے اپنی جان اور اپنا مال قربان کر دیا.مگر جب مال مانگا گیا تو ایک فیصدی لوگ بھی ایسے کھڑے نہ ہوئے ، جو اپنی جائیدادیں وقف کرنے کے لئے تیار ہوں.اس نمونہ کے بعد ہم اپنی ترقی کی کیا امید کر سکتے ہیں؟ حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ہم میں ایک شخص بھی ایسا نظر نہ آتا ، جس نے اپنی جائیداد یا اپنی آمد کو خدا تعالیٰ کے دین کے لئے وقف نہ کر دیا ہو.مگر مجھے افسوس ہے کہ بہت سے لوگوں کی حالت بالکل ویسی ہی ثابت ہوئی، جیسے مشہور ہے کہ ایک پٹھان رئیس سے کسی بیٹے کی دوستی ہو گئی.ایک دن اسے بہت ہی جوش پیدا ہوا اور اس نے خاں صاحب سے یہ کہنا چاہا کہ خان صاحب ہمارا مال ، آپ کا مال اور آپ کا مال، ہمارا مال.ہم اب دو نہیں رہے بلکہ ایک ہی ہو گئے ہیں.لیکن جب اس نے اپنی زبان سے یہ بات کہنی چاہی تو اس کے منہ سے صرف یہ نکلا ، خان صاحب تمہارا مال سو ہمار المال اور ہمارا مال سو ہیں، ہیں، ہیں، ہیں.گویا اپنا مال دوسرے کو دینا تو الگ رہا، وہ اپنے منہ یہ بھی نہ کہہ سکا کہ ہمارا مال تمہارا مال.بلکہ ہمارا مال کہنے کے ساتھ ہی ہیں، ہیں، ہیں، ہیں اس کی زبان سے نکل گیا.اسی قسم کا نمونہ ہماری جماعت کے بہت سے لوگوں کے دکھایا کہ تمہارا مال ، ہمارا مال اور ہمارا مال ہیں، ہیں، ہیں ، ہیں.جب اپنے مال کا سوال آیا تو وہ خاموش ہو گئے.حالانکہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک امتحان تھا، جو ہماری جماعت کا ہوا.مگر اس امتحان پر بہت سے لوگوں کے دل گھبرا گئے اور انہوں نے سمجھا کہ معلوم نہیں اب کیا ہو جائے گا ؟ میں یہ نہیں کہتا کہ ساروں نے ایسا نمونہ دکھایا ہے.بہت سے مخلص ایسے بھی ہیں، جنہوں نے اس آواز کے سنتے ہی اپنی جائیدادیں وقف کر دیں.بلکہ بعض عورتیں میرے پاس آئیں اور انہوں نے اصرار کیا کہ ہم سے زیورات لے لئے جائیں.میں نے کہا، ابھی ہم ایک پیسہ لینے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں.اس وقت صرف اس بات کا مطالبہ ہے کہ اپنی جائیدادوں کو وقف کرنے کا اقرار کیا جائے.یہ مطالبہ نہیں کہ اپنی جائیدادیں فروخت کر کے دے دی جائیں.بعض عورتوں نے یہ بھی کہا کہ ممکن ہے، کسی اور ضرورت پر ہم سے یہ زیور فروخت ہو جائے ، اس لئے ابھی ہم سے لے لیا جائے.مگر میں نے کہا، اب ہم کسی سے کوئی روپیہ نہیں لے رہے.ایک اور عورت کا ذکر ہے، وہ آئی اور اس نے کہا میراز یورلے لیا جائے مگر جب اسے یہ جواب دیا گیا تو وہ میری ایک بیوی سے کہنے لگی، آپ میر از یورا اپنے پاس امانتا رکھیں اور جب مطالبہ ہو، اس وقت دے دیں.میں اپنے پاس نہیں رکھتی ہممکن ہے کسی اور ضرورت پر خرچ ہو جائے.تو کئی مردوں اور عورتوں نے اپنے اخلاص کا نہایت ہی اعلیٰ نمونہ دکھایا ہے اور جہاں تک میں سمجھتا 505
اقتباس از تقریر فرموده 109 اپریل 1944ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم ہوں ، ایسے لوگوں کی تعداد سینکڑوں سے کم نہیں ہے.مگر ہزاروں لوگ ایسے بھی ہیں، جنہوں نے ابھی تک اپنی جائیدادوں کو پیش نہیں کیا.میں سمجھتا ہوں، اب وقت آگیا ہے کہ جماعت اپنی ہر چیز خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائے اور اس وسوسہ کو اپنے دل سے نکال دے کہ اگر میں نے اس میں حصہ لیا تو پتہ نہیں کیا ہو جائے گا؟ دنیا میں بہت سی قربانیوں میں حصہ لینے سے انسان اس لئے محروم رہتا ہے کہ وہ ڈرتا ہے، اگر میں نے حصہ لیا تو معلوم نہیں کیا ہو جائے گا؟ لیکن اگر انسان اپنے دل میں یہ فیصلہ کر لے کہ کچھ بھی ہو، میں اپنا مال سب کا سب قربان کردوں گا تو پھر قربانی خواہ کسی مشکل میں اس کے سامنے آئے ، امتحان خواہ کوئی رنگ بدل کر آئے ، اس کا جواب ہر صورت اور ہر حالت میں ایک ہی ہوتا ہے کہ میرا مال حاضر ہے، اسے لے لیا جائے.پس ایک تو میں جماعت کو وقف جائیداد اور وقف آمد کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور تحریک کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کے دوست اپنے دلوں میں یہ فیصلہ کرلیں کہ وہ سو فیصدی قربانی کرنے کے لئے تیار رہیں گے اور ہر قدم پر اپنے اخلاص کا پہلے سے زیادہ شاندار مظاہرہ کریں گے.مگر میری ان باتوں سے تم یہ مت سمجھو کہ میں صرف نام کے طور پر تمہاری جائیدادوں کا وقف چاہتا ہوں.میں نہیں کہہ سکتا کہ شاید کل ہی وہ دن آ جائے ، جب خدا کی آواز میرے ذریعہ سے یہ بلند ہو کہ آؤ اور اپنی ساری جائیدادیں دین کے لئے قربان کر دو.اگر خدا نے میرے دل میں یہی ڈالا کہ جماعت سے ساری جائیدادوں کا مطالبہ کیا جائے تو اس وقت میں یقینا ساری جائیدادوں کا مطالبہ کروں گا.اور ہر وہ شخص جو اس مطالبہ پر اپنی جائیدادوں کو قربان نہیں کرے گا ، وہ منافق ہوگا.بالکل ممکن ہے کہ کل ہی اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کر دے، جن میں مجھے یہ اعلان کرنا پڑے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک عرصہ تک اس بارہ میں کوئی بھی اعلان نہ ہو.یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کل میں تم سے صرف ایک فیصدی حصہ جائیداد کا مطالبہ کروں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ایک الہی تدبیر ہو ، آج وہ میری زبان سے یہ کہلوار ہا ہو اور کل وہ یہ کہلوانا چاہتا ہو کہ اپنی جائیداد میں سب کی سب دین کے لئے قربان کر دو.یہ تمہارا اختیار ہے کہ تم اسے، جو چاہو مجھو.چاہو تو اسے خدا کی ایک تدبیر سمجھ لو اور چاہو تو یہ سمجھ لو کہ ابھی تم سے کوئی مطالبہ جائیداد کے بارہ میں نہیں ہو گا.بہر حال میں یہ جانتا ہوں کہ میں اس وقت صرف اپنے موجودہ خیالات کو ظاہر کر رہا ہوں.میں نہیں جانتا کہ کل کیا ہوگا ؟ اگر کل خدا تعالیٰ کی طرف سے میری زبان پر یہ جاری ہوا کہ جماعت سے ساری جائیدادیں لے لو تو میں یقینا ساری جائیدادوں کا مطالبہ کروں گا اور یقیناً جو شخص پیچھے رہے گا، وہ اپنے ایمان کا ثبوت دینے والا نہیں ہوگا.506
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم اقتباس از تقریر فرموده 109 اپریل 1944ء پھر میں دوستوں کو اس بات کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں صرف جائیدادوں کے وقف میں ہی حصہ نہیں لینا چاہیے بلکہ اپنی آمدنیوں کو بھی اس غرض کے لئے وقف کرنا چاہیے.جو لوگ چاہیں ، وہ اپنی جائیداد اور اپنی آمد دونوں وقف کر سکتے ہیں اور جو لوگ چاہیں، ان میں کسی ایک کو بھی وقف کر سکتے ہیں.لیکن وہ جن کے پاس جائیدادیں نہیں ہیں، انہیں بہر حال اپنی آمدنیوں کو وقف کر کے اس تحریک میں 66 شامل ہونا چاہیے.رپورٹ مجلس شوری منعقد ہ 07 تا 109 اپریل 1944ء) 507
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 05 جنوری 1945ء واقفین زندگی ہی در اصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عترت ہیں " خطبہ جمعہ فرمودہ 05 جنوری 1945ء....ہماری جماعت کے سپر د جو کام ہے اس کے متعلق بھی ایک چیز ہے، جو ایسی واضح ہے کہ اس کے بارہ میں کوئی شبہ نہیں.مگر ابھی تک جماعت میں اس کا احساس پیدا نہیں ہوا.اور وہ ہے تبلیغی جد و جہد.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے نبی اشاعت قرار دیا ہے.اسلام کی اشاعت اور اظهار على الادیان کے آپ ہی کے زمانہ میں ہونے کے متعلق پیشگوئیاں ہیں.پھر آپ کا نام اللہ تعالیٰ نے سلطان القلم رکھا ہے.گویا کام کی دوہی چیزیں ہیں یعنی دعوۃ اور قلم.انہی دو سے اسلام کو دوسرے مذاہب پر غلبہ حاصل ہوگا.اللہ تعالیٰ نے بیان اور تحریر دونوں چیزیں آپ کو دی ہیں اور ان دونوں سے ہی اسلام دوسرے مذاہب پر غالب ہوگا.اور اس کا مطلب یہ ہے کہ انہی دو سے آپ کی جماعت نے کام لینا ہے اور انہی ذرائع سے آپ کی جماعت کو ترقی حاصل ہوگی.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی ترقی کے متعلق تحریر فرمایا ہے کہ وو ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسی کے انتظار کرنے والے، کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں.سو میرے ہاتھ سے وہ تختم بویا گیا.اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.( تذكرة الشهادتين صفحه 67) اور یہ بات ظاہر ہے کہ اتنا بڑا کام سوائے اس کے نہیں ہو سکتا کہ وسیع پیمانہ پرتبلیغ کی جائے.اور پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ وسیع پیمانہ پر تبلیغ مبلغوں کے بغیر نہیں ہو سکتی.اور پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ جولوگ نئے جماعت میں شامل ہوں گے ، ان کو دین سکھانے والوں کی بھی ضرورت ہے.یہ تو ہو نہیں سکتا کہ رات کو فرشتے آسمان سے اتریں اور ان کو دین سکھا جائیں.یہ کام آدمی ہی کر سکتے ہیں اور آدمیوں نے ہی کرنا ہے.509
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 05 جنوری 1945ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم پس جہاں تبلیغ کے لئے آدمیوں کی ضرورت ہے، وہاں نئے داخل ہونے والوں کو دین سکھانے کے لئے بھی آدمیوں کی ضرورت ہے.کوئی شخص پورے طور پر کسی مذہب کو سیکھ کر اسے اختیار نہیں کیا کرتا.ہر وہ شخص جو مسلمان ہوتا ہے یا عیسائیت یا یہودیت کو اختیار کرتا ہے، وہ ان مذاہب کو پوری طرح سیکھ کر نہیں کرتا.دیگ میں سے چاولوں کے چند دانے ہی دیکھے جاتے ہیں اور پھر قیاس کر لیا جاتا ہے کہ تمام چاول پک چکے ہیں.اسی طرح کسی مذہب کو اختیار کرنے والا بھی اس کی پوری جزئیات سمجھ کر اختیار نہیں کرتا.جو لوگ حضرت نوح علیہ السلام پر ایمان لائے، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لائے ، جو حضرت موسی علیہ السلام پر ایمان لائے، جو حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان لائے یا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ایمان لائے ، وہ ان کی تعلیمات کی پوری پوری جزئیات اور تفاصیل کو سمجھ کر ایمان نہ لائے تھے بلکہ بعض اصولی باتوں کو دیکھ کر لائے تھے.انہیں باتوں کو دیکھ کر انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ یہ دین سچا ہے“." پس ہمارے پاس کافی مبلغ ہونے ضروری ہیں.جو احمدیت کو دنیا کے کناروں تک پھیلا سکیں.اور جو نئے آنے والوں کو اسلام اور احمدیت کی صحیح تعلیم دے سکیں.مگر اس کے لئے ہم نے کون سے سامان کئے ہیں؟ ایک مدرسہ احمدیہ جاری ہے.اور یہ امر ظاہر ہے کہ کوئی ایک مدرسہ ساری دنیا میں تبلیغ کے لئے مبلغ مہیا نہیں کر سکتا“." ہم نے جو سکول تعلیم دین کے لئے جاری کر رکھا ہے، اس کی یہ حالت ہے کہ سارے سال میں اس میں صرف آٹھ طالب علم داخل ہوئے ہیں.اور یہ وہ پہلی جماعت ہے، جو آٹھ سال کے بعد آخری جماعت بنے گی.اور اس سال تو پھر بھی آٹھ طالب علم داخل ہوئے ہیں، پچھلے سال صرف تین ہوئے تھے.اور آٹھ کے معنی ہیں چار، کیونکہ کسی سکول میں جتنے لڑ کے شروع میں داخل ہوتے ہوں، ان میں سے نصف کے قریب بالعموم گر جایا کرتے ہیں.کچھ تو ہمت ہار کر خود ہی پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں، کچھ اور ہوتے ہیں، جو پڑھائی کی طرف توجہ نہیں کرتے اور مدرسہ والے ان کو خود نکال دیتے ہیں.کچھ پڑھائی تو ختم کر لیتے ہیں مگر وہ دینی کام کرنے کی بجائے دنیوی کاموں میں لگ جاتے ہیں.اس لئے آٹھ کے معنی چار ہی سمجھنے چاہئیں.تو اب جو آٹھ طالب علم مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے ہیں، ان میں سے چار ہمیں آٹھ سال کے بعد مل سکیں گے.حالانکہ ہمیں تمام دنیا میں تبلیغ اور دینی تعلیم و تربیت کے لئے لاکھوں آدمیوں کی ضرورت ہے.اور اگر مبلغین کی تیاری کی رفتار یہی رہی تو اس کے معنی یہ ہیں کہ دس ہزار سال میں ہمیں کام کرنے والے آدمی پوری تعداد میں مل سکیں گے.اور وہ بھی اس صورت میں کہ اللہ تعالیٰ یہ 510
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 05 جنوری 1945ء قانون بنا دے کہ ان میں سے کوئی مرے گا نہیں اور بوڑھا بھی نہیں ہوگا.اگر اللہ تعالیٰ کا کوئی ایسا قانون ہو تب دس ہزار سال کے بعد ہمیں پورے مبلغ مل سکتے ہیں.اور دنیا کی کوئی قوم دس ہزار سال تک زندہ نہیں رہ سکتی.کسی قوم کی زندگی تین سو سال سے آگے نہیں بڑھ سکتی.اس عرصہ میں وہ یا تو غالب آکر دوسری طرف متوجہ ہو جاتی ہے اور یا پھر مٹ جاتی ہے اور اس کا نام ونشان بھی باقی نہیں رہتا.اس کے بعد کہیں کہیں صوفیاء وغیر ہ رہ جاتے ہیں، جو اپنی اپنی جگہ اور اپنے اپنے حلقہ میں اپنے سلسلہ کو جاری رکھتے ہیں.ور نہ اس مذہب کی طرف منسوب ہونے والے تو باقی رہتے ہیں لیکن مذہب باقی نہیں رہتا.پس کوئی ایسی سکیم کہ دس ہزار سال میں قومی ترقی کے سامان کئے جائیں گے، کسی پاگل کے نزدیک ہی قابل توجہ ہو سکتی ہے.بلکہ ایسی بات کو تو پاگل بھی نہیں مان سکتا.اور جو ایسی بات پر یقین رکھتا ہے اس سے زیادہ پاگل کوئی نہیں ہو سکتا.یہ ایک ایسی واضح بات ہے کہ جو دنیا کی واضح ترین باتوں میں سے ہے.مگر میں حیران ہوا کرتا ہوں کہ ہماری جماعت میں ہزاروں اعلی تعلیم یافتہ بی.اے اور ایم.اے لوگ ہیں، ان کی سمجھ میں یہ واضح بات کیوں نہیں آتی کہ ہماری جماعت تبلیغ کے فریضہ کو کس طرح ادا کرے گی؟ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ اس کام کے لئے آسمان سے فرشتے اتریں گے؟ کیا پہلے انبیاء کے زمانہ میں فرشتوں نے آسمان سے اتر کر یہ کام کیا تھا ، جواب وہ اتر کر کریں گے؟ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں فرشتے یہ کام کرنے کے لیے نہیں اترے تو اب کیا اتریں گے.حقیقت یہی ہے کہ پہلے بھی آدمیوں نے ہی یہ کام کیا تھا اور اب بھی آدمی ہی کریں گے.پہلے بھی بعد میں آنے والوں کو تعلیم آدمیوں نے ہی دی تھی اور اب بھی آدمی ہی دیں گے.اور ایک انسان اتنے ہی لوگوں کو تعلیم دے سکتا ہے اور تبلیغ کر سکتا ہے، جتنے لوگوں کو تعلیم دینے اور تبلیغ کرنے کی طاقت اس کے اندر ہے.یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک انسان لاکھوں کی تعلیم و تبلیغ کا بوجھ اٹھا سکے.لیکن ہمارے پاس مبلغوں کی تعداد بہت ہی کم ہے.دنیا کی دوارب کی آبادی کے لئے اگر دس ہزار مبلغ بھی ہوں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ دولاکھ افراد کے لئے ایک مبلغ.اور یہ تعداد بالکل ناکافی ہے.قادیان کی آبادی دس ہزار ہے، اگر اس دس ہزار آبادی کے لئے ایک آدمی ہو تو کیا اسے کافی سمجھا جاسکتا ہے اور کام چل سکتا ہے؟ ہر گز نہیں.لیکن ہمارے پاس تو ابھی اتنے بھی نہیں ہیں.ایک آدمی کے کام کا وقت 25 سال عام طور پر ہوتا ہے یا اگر 25 سال کی عمر میں تعلیم ختم کر لی جائے تو تمیں سال کام کا زمانہ سمجھا جا سکتا ہے.مگر چونکہ بعض کام کرنے والے اتنا عرصہ کام کرنے سے پہلے ہی فوت ہو جاتے ہیں، اس لئے کام کرنے کی اوسط میں سال سمجھنی 511
اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 05 جنوری 1945ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد دوم چاہیے.اور اگر موجودہ رفتار کے لحاظ سے ہمیں چار آدمی ہر سال ملیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ بیس سال کے میں ہمارے پاس صرف اسی 80 آدمی ہوں گے.اور یہ اتنی واضح بات ہے کہ اس رفتار سے وہ عظیم الشان کام نہیں ہو سکتا ، جواللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے.اس کے لئے بہت زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہے.مگر مدرسہ احمدیہ میں دوست اپنے بچوں کو داخل کرانے کی طرف توجہ نہیں کرتے.ہر خاندان یہی سمجھتا ہے کہ دوسرے خاندانوں سے لڑکے آجائیں گے، اسے بھیجنے کی ضرورت نہیں.اور چونکہ ہر گھر یہی سمجھ لیتا ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سارے ہی گھر خالی رہ جاتے ہیں.حالانکہ ایمان کی کم سے کم علامت یہ ہونی چاہئے کہ ہر خاندان ایک لڑکا دے اور جو یہ بھی نہیں کرتا ، وہ گوشرم و حیا کی وجہ سے منہ سے تو نہیں کہتا مگر عملی طور پر وہ یہی کہتا ہے کہ فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هُهُنَا قُعِدُونَ اے موسیٰ تو اور تیرا رب جاؤ اور دونوں جا کر دشمنان دین سے جنگ کرو.ہم تو اسی جگہ بیٹھے رہیں گے.گو وہ منہ سے یہ الفاظ نہ کہے مگر اپنے عمل سے یہی کہتا ہے اور اس کے دل میں یہی ہے اور جس کے دل میں یہ بات ہو وہ بھی مومن نہیں ہو سکتا.وو میں نے تحریک جدید کے پہلے دور میں بھی یہ بات بیان کی تھی کہ کام آدمیوں سے چل سکتا ہے، روپے سے نہیں.روپیہ تو ایک ضمنی چیز ہے اور پھر روپیہ کے لحاظ سے تو ہم دنیا کا مقابلہ کر بھی نہیں سکتے.ہم خوش ہیں کہ ہم نے تحریک جدید کے پہلے دور کے دس سالوں میں 14 لاکھ روپیہ جمع کر لیا مگر دوسروں کے مقابلہ میں 14لاکھ روپیہ کی کوئی حیثیت نہیں.ہندوستان ایک گھٹیا قسم کا ملک سمجھا جاتا ہے اور صوبہ پنجاب ہندوستان کے گھٹیا صوبوں میں شمار ہوتا ہے.گویا پنجاب دولت کے لحاظ سے بہت گھٹیا درجہ کا ہے لیکن اس صوبہ کے ایک ہند وسر گنگارام نے ایک کروڑ روپیہ وقف کر دیا تھا.اور جب ایک گھٹیا ملک کے گھٹیا صوبہ کے ایک فرد نے ایک کروڑ روپیہ وقف کر دیا تو ہمار 14 لاکھ روپیہ دس سالوں میں جمع کر دینا، روپیہ کے لحاظ سے کون سی بڑی بات ہے؟ ہم اس قربانی پر خوش ہیں تو اس لئے کہ یہ ایک غریب جماعت کی جیبوں سے نکلا.اور یہ ہماری جماعت کے اخلاص کا ثبوت ہے.ورنہ دنیا کے روپیہ کے مقابلہ میں 14 لاکھ روپیہ کہ کوئی حقیقت نہیں.میں سمجھتا ہوں اگر ہندوستان کے ہندو اخلاص سے کوئی رقم جمع کرنا چاہیں تو چودہ ارب جمع کر سکتے ہیں.صرف ایک ہندو نے اعلان کیا ہے کہ میں نے پچاس کروڑ روپیہ جنگ کے بعد موٹروں کا کارخانہ جاری کرنے کے لئے الگ کر دیا ہے.میں نے کمپنی نہیں بنائی ، اس لئے کہ اگر نقصان 512
اقتباس از خطبه جمعہ فرمودہ 05 جنوری 1945ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد دوم ہوا تو کم سرمایہ والے لوگوں کا نقصان نہ ہو.اس نے اپنی جائیداد کا صرف ایک حصہ الگ کیا ہے، جو پچاس کروڑ ہے.جس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے پاس دو تین ارب روپیہ ہوگا.اور یہ تو صرف ایک ہندو کی دولت کا حال ہے، ایسے اور بھی کئی ہیں.اور میں سمجھتا ہوں صرف سود و سو بڑے بڑے ہند واگر چاہیں تو 14 ارب روپیہ جمع کر سکتے ہیں.یا زیادہ سے زیادہ ہزار آدمی مل کر دے سکتے ہیں.تو جہاں تک روپیہ کا سوال ہے، چودہ لاکھ کی رقم اتنی حقیر رقم ہے کہ دوسروں کے روپیہ کے سامنے اس کا نام بھی نہیں لیا جا سکتا.یورپ اور امریکہ میں اگر کوئی احمدی اپنی چودہ لاکھ روپیہ کی رقم کو اپنی قربانی کی مثال کے طور پر پیش کرے تو سننے والے ہنسیں گے کیونکہ وہاں تو دوستوں کی تفریح کے لئے کوئی فلم وغیرہ بنانے پر لوگ لاکھوں روپیہ خرچ کر دیتے ہیں.پس ہماری اس قربانی کی عظمت چودہ لاکھ روپیہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ یہ روپیہ غریبوں کی جیبوں سے آیا ہے.اور دوسرے اس لئے کہ یہ خدا تعالیٰ کی خاطر جمع کیا گیا ہے.پس جہاں تک روپیہ کے مقابلہ کا سوال ہے، ہم دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے.دنیا اس سے بہت بڑھ کر یہ چیز پیش کر سکتی ہے.لیکن ایک ایسی چیز ہے کہ دنیا اس سے بڑھ کر پیش نہیں کر سکتی اور وہ جان ہے.جان دینے میں وہ ہم سے بڑھ نہیں سکتی.زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا ہے کہ جان کے مقابلہ میں جان پیش کر دے ، اس سے زیادہ نہیں کر سکتی.ہمارے ایک روپیہ کے مقابلہ میں تو بے شک امریکہ کا کوئی کروڑ پتی یا ہندوستان کا کوئی کروڑ پنی ایک کروڑ روپیہ دے سکتا ہے مگر جان کے مقابلہ میں وہ زیادہ سے زیادہ جان ہی دے سکے گا.ہم سے آگے نہیں بڑھ سکتا.پس یہ وہ چیز ہے جس میں جماعت نمونہ دکھا سکتی تھی مگر افسوس ہے کہ اس کی طرف پوری توجہ نہیں کی گئی.تبلیغ کے کام کے لئے ہزاروں آدمیوں کی ضرورت ہے.اگر کم سے کم تعدا د کھی جائے اور ایک ہزار مبلغ سے کام چلانے کی سکیم سامنے رکھی جائے تو بھی موجودہ رفتار کے لحاظ سے اتنے آدمی اڑھائی سو سال میں ہمیں مل سکتے ہیں.تحریک جدید کے پہلے دور میں ، میں نے صرف اس کا اعلان کیا تھا مگر اب میں جماعت کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اپنے اخلاص کا ثبوت دے اور نوجوان زندگیاں وقف کریں.ہر احمدی گھر سے ایک نو جوان ضرور اس کام کے لئے پیش کیا جائے.مگر ہمارے مشورہ سے پیش کیا جائے.کیونکہ سب کو فوراً استعمال نہیں کیا جاسکتا.ہم باری باری لیں گے.اس سال دیہاتی مبلغ لئے جائیں گے.یوں تو صرف پنجاب کے لئے موجودہ حالات میں کم سے کم دو سود یہاتی مبلغین کی ضرورت ہے مگر اس سال صرف پچاس لئے جائیں گے.میں سے تمہیں سال تک عمر کے دوست، جو کم سے کم مڈل تک تعلیم رکھتے ہوں ، اپنے نام پیش 513
اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 05 جنوری 1945ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم کریں.چالیس سال عمر کے موزوں آدمی بھی لئے جاسکتے ہیں.انہیں سال ڈیڑھ سال ضروری تعلیم دینے کے بعد مختلف دیہات میں مقرر کر دیا جائے گا.اور اسی طرح مدرسہ میں بھی داخلہ کے لئے ہر سال کم سے کم پاس طالب علم آنے چاہئیں، سو ہوں تو بہت بہتر ہے.ان کی تعلیم آٹھ سال میں ختم ہوگی.اگر پچاس ب علم ہر سال داخل ہوں تو اس کے معنی ہوں گے کہ آٹھ سال کے بعد ہمیں 25 آدمی تبلیغ کے لئے مل سکیں گے.گویا اٹھارہ سال کے بعد 250 آدمی مل سکیں گے اور اگر ہر سال طالب علم داخل ہوں تو 18 سال کے بعد سوسو حاصل ہوں گے.یہ کتنا لمبا عرصہ ہے؟ پھر لمبے عرصہ کے بعد بھی جو آدمی ملیں گے، وہ نا کافی ہوں گے کیونکہ دنیا میں تبلیغ کے علاوہ نئے آنے والوں کی تعلیم و تربیت کے لئے بھی آدمیوں کی ضرورت ہے.پس اپنے لڑکوں کو اس تحریک کے ماتحت پیش کرو اور جن کے ہاں اولاد نہ ہو یا ہومگر بڑی عمر کی ہو یا جن کے ہاں لڑکیاں ہی ہوں لڑ کے نہ ہوں تو وہ ایک دیہاتی مبلغ کا یا مدرسہ احمدیہ کے ایک طالب علم کا ماہوار خرچ یا چند دوست مل کر ایک طالب علم کا خرچ برداشت کریں، اس خطبہ کے بعد تین وظائف تین ماہ کے لئے میرے پاس آچکے ہیں.) جو آج کل کے لحاظ سے نہیں روپیہ ماہوار سے کم نہیں ہوگا تا غرباء کے بچوں کو تعلیم دلائی جاسکے.لیکن اصل قربانی تو جان کی ہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام اللہ تعالیٰ نے ابراہیم بھی رکھا ہے.جس کے معنی یہ ہیں کہ دوستوں کو اسماعیل جیسی قربانی کرنی ہوگی.ہر سال عید آتی ہے اور ہمیں یہی سبق دیتی ہے.آپ لوگ عید کے موقع پر بکرے ذبح کرتے ہیں مگر یہ اصل قربانی نہیں.یہ تو صرف علامت ہوتی ہے، اس بات کی جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاوا آئے گا، آپ اپنی جانیں پیش کرنے کے لئے تیار ہیں.مگر اب جانی قربانی کا وقت آگیا ہے لیکن دوست ابھی بکرے ہی پیش کرتے ہیں، جانیں پیش نہیں کرتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو آپ نے فرمایا :.تَرَكْتُ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنَ كِتَابَ اللهِ وَعِتْرَتِي.میں تم میں دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں یعنی قرآن کریم اور عترت.شیعہ لوگ عترت سے مراد حضرت علیؓ لیتے ہیں مگر یہ میچ نہیں.عترت کے معنی ہیں، وہ مخلص لوگ جو دین کی خاطر اپنے آپ کو ذبح کر دینے کے لئے تیار ہوں.العتيرة اس قربانی کا نام ہے، جو بتوں کے آگے پیش کی جاتی تھی.عربی میں 514
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 05 جنوری 1945ء تحریک جدید- ایک ابی تحریک...جلد دوم محاورہ ہے عتر العتيرة.اس نے بت کے سامنے بکری کی قربانی پیش کی.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قول کا یہ مطلب ہے کہ میں دو چیزیں چھوڑتا ہوں، ایک قرآن کریم اور دوسرے ایسے لوگ جو اپنی زندگیاں قربان کرنے کے لئے تیار ہوں.جب تک یہ دونوں چیزیں باقی رہیں گی ، اسلام مٹ نہیں سکتا.شیعوں نے عترتی کے معنی حضرت علی اور اہل بیت کے کئے ہیں اور وہ اس سے ان کی فضیلت ثابت کرتے ہیں.اس میں شک نہیں کہ حضرت علی بھی عترت تھے.مگر دنیوی رشتہ داری کے لحاظ سے نہیں بلکہ اس لئے کہ انہوں نے خدا کی راہ میں جان قربان کر دی.ہم ان کی عترت ہونے کا انکار نہیں کرتے.صرف اس وجہ کا انکار کرتے ہیں ، جو شیعہ پیش کرتے ہیں.وہ ضرور عترت تھے مگر اس لئے تھے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خاطر اپنی جان قربانی کے لئے پیش کر دی.وو پس ہر وہ شخص جو دنیا پر لات مار کر دین کی خاطر اپنی زندگی وقف کرتا ہے اور ہر باپ جو اپنی اولاد کوتعلیم دلا کر دین کے لئے وقف کرتا ہے، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عترت ہے.جس سے اسلام زندہ رہ سکتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دو چیزیں چھوڑیں ، ایک قرآن اور ایک عترت.قرآن تو ہمیشہ رہے گا مگر عترت بدلتی رہے گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ میں حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ ، حضرت زیبر ، حضرت سعد، حضرت سعید حضرت عبد الرحمن بن عوف اور دوسرے ایسے ہی صحابہ عترت تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک موقع پر یہ بھی فرمایا کہ سَلْمَانُ مِنَّا اَهْلُ الْبَيْتِ کہ سلمان ہم اہل بیت میں سے ہے اور یہ کہ کر بتا دیا کہ میری عترت سے مراد صرف وہ لوگ نہیں ، جو صلب سے ہیں بلکہ وہ ہیں، جو دین کے لئے اپنی زندگیاں وو وقف کرتے ہیں اور خدا کی راہ میں اپنی جانیں ذبح کئے جانے کے لئے پیش کر دیتے ہیں“.جولوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے کام کے چلانے والے ہیں، وہی آپ کی عترت ہیں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میں دو چیزیں اپنے پیچھے چھوڑ رہا ہوں جو ثقلان یعنی بوجھ ہیں.ایسے بوجھ کہ جب تک وہ رہیں گے، دین آسمان پر نہ جائے گا.یہ دو بوجھ ہوں گے جو دین کو زمین پر رکھیں گے.جب یہ دونوں بوجھ اٹھ جائیں گے، اسلام بھی آسمان پر چلا جائے گا.جیسا مسلمانوں میں سے قرآن کریم کا مفہوم اڑ گیا اور جب عترت اڑ گئی تو اسلام اڑ کر آسمان پر چلا گیا اور مسیح موعود علیہ السلام اسے دوبارہ دنیا میں لائے.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا بِالقُرَيَالَنَالَهُ رِجَالُ مِنْ هؤلاء اس کا مطلب بھی یہی تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا، جب مسلمانوں کو 515
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 05 جنوری 1945ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد دوم میں نہ قرآن رہے گا اور نہ میری عترت.یہ دونوں ایسے بوجھ ہیں، جن کی وجہ سے ایمان زمین پر رہ سکتا ہے در نہ ایمان ایسی ہلکی چیز ہے کہ جب یہ بوجھ نہ رہیں گے تو وہ بھی نہ رہ سکے گا.جب یہ بوجھ اٹھ جائیں گے، اسلام بھی اٹھ جائے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام دوبارہ اسے دنیا میں لائے ہیں.مگر جو پہلے اڑ کر آسمان پر چلا گیا تھا ، اب بھی جاسکتا ہے.اور جن دو چیزوں نے پہلے اسے دبایا تھا، وہی اب بھی دبا کر رکھ سکتی ہیں اور وہ دو چیزیں قرآن کریم اور عترت ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کا مفہوم دوبارہ سمجھایا ہے اور اس کی تفسیر بیان فرما دی ہے مگر قرآن کریم عترت کے دل میں ہی رہ سکتا ہے.اگر باہر رہ سکتا تو پہلے اڑ کیوں جاتا؟ اصل قرآن وہ نہیں ، جو اوراق پر لکھا ہوتا ہے بلکہ وہ ہے، جو عترت کے دل میں ہوتا ہے اور جب عترت اڑے گی تو وہ بھی اڑ جائے گا.پس ہر وہ خاندان جو خدمت سلسلہ کے لئے کسی کو وقف نہیں کرتا ، وہ قرآن کریم کے دنیا سے اڑنے میں مدد دیتا ہے اور وہ ایمان کے دنیا سے اٹھ جانے میں مدد دیتا ہے.کیونکہ جب تک قرآن کریم اور عترت دنیا میں قائم نہ ہوگی ، ایمان قائم نہیں رہ سکتا.پس میں جماعت کے دوستوں کو اس نہایت ہی ضروری امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں.تحریک جدید کے پہلے دور میں، میں نے اس کی تمہید باندھی تھی مگر اب دوسری تحریک کے موقع پر میں مستقل طور پر دعوت دیتا ہوں کہ جس طرح ہر احمدی اپنے اوپر چندہ لازم کرتا ہے، اسی طرح ہر احمدی خاندان اپنے لئے لازم کرے کہ وہ کسی نہ کسی کو دین کے لئے وقف کرے گا.اور میں امید کرتا ہوں کہ سب دوست جلد سے جلد اس بلاوا پر لبیک کہیں گے تا احمدیت کی تبلیغ ہماری زندگیوں میں ہی دور دور تک پہنچ سکے.اگر ہم نے زیادہ سے زیادہ آدمی دین کے سکھانے کے لئے جلد از جلد پیدانہ کر دیئے تو دین کے قیام میں خطرہ پیدا ہو جائے گا.ہمیں آدمیوں کا فکر نہیں بلکہ یہ فکر ہے کہ دین اپنی اصلی شکل میں دنیا میں قائم ہو جائے.اس وقت دو قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہے.ایک تو دیہاتی مبلغ ان کی تعلیم کم سے کم مڈل تک ہونی چاہئے اور انہیں سال ڈیڑھ سال تک تعلیم دے کر دیہات میں لگادیا جائے گا.دوسرے ایسے مڈل پاس طالب علم جو مدرسہ احمدیہ میں داخل ہو کر تعلیم حاصل کریں.ابھی داخلہ میں تین ماہ کا عرصہ ہے، اس لئے ابھی سے اس کے لئے دوست تیاری کریں.زیادہ نہیں تو فی الحال ہر ضلع سے چار پانچ طالب علم ضرور آنے چاہئیں.اور بنگال اور بہار وغیرہ صوبوں سے جہاں جماعتیں کم ہیں، صوبہ بھر میں سے ہی چار پانچ 516
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 05 جنوری 1945ء آنے چاہئیں.ہم انشاء اللہ جلد تبلیغ کے کام کو وسیع کرنے والے ہیں، جس کے لئے مبلغ درکار ہیں اور معلم بھی جو نئے آنے والوں کو دین سکھائیں.کل ہی میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں کا بل گیا ہوں.جس کے یہی معنی ہو سکتے ہیں کہ وہاں بھی انشاء اللہ احمدیت کی اشاعت کی کوئی صورت پیدا ہوگی.میں نے دیکھا کہ میں وہاں گیا ہوں اور وہاں بادشاہ ، وزراء اور بڑے سرکاری حکام اور بڑے بڑے آدمیوں سے مل چکا ہوں.مجھے وہاں گئے دو تین روز ہو چکے ہیں اور اب میں واپس آنا چاہتا ہوں اور موٹر میں یہ سفر میں نے کیا ہے.جب میں واپسی کا ارادہ کر رہا ہوں تو کسی نے مجھے کہا کہ یہاں دو طرح سے پیٹرول ملتا ہے.ایک تو ڈبوں میں ملتا ہے اور ایک پیٹرول پمپ پر.پمپ پر زیادہ مل سکتا ہے مگر قیمت زیادہ ادا کرنی پڑتی ہے اور میں کہتا ہوں کہ بطور احتیاط پیٹرول زیادہ ہی ہونا چاہئے ، ہمیں پچیس روپے زیادہ خرچ ہو جائیں تو کوئی حرج نہیں.اور اس خواب سے میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ وہاں بھی تبلیغ کا رستہ کھولے گا اور ان علاقوں میں تبلیغ کے لئے فارسی اور پشتو زبا نہیں جانے والوں کی ضرورت ہے.پس صوبہ سرحد کو بھی توجہ کرنی چاہئے اور وہاں سے بھی نو جوان آنے چاہئیں.اب تک اس صوبہ سے بہت کم آئے ہیں اور جو آئے بھی ہیں، وہ تعلیم پانے کے بعد دوسرے کاموں میں لگ گئے ہیں.سوائے ایک کہ وہ مبلغ بنے ہیں.اور اگر اس صوبہ کی جماعتوں میں تحریک کر کے نوجوانوں کو تعلیم کے لئے یہاں بھجوائیں تو میں سمجھتا ہوں ان کا یہی کام بڑا کام ہوگا.خوب یا درکھو کہ اللہ تعالیٰ احمدیت کی تبلیغ کے نئے رستے جلد کھولنے والا ہے اور ہمیں ہزاروں مبلغوں کی ضرورت ہوگی.اور اگر آج تیاری شروع کی جائے تو آٹھ سال کے بعد پہلا پھل مل سکے گا اور اس وقت تک ہم تبلیغ وسیع پیمانے پر نہ کر سکیں گے.اس لئے میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ گریجوایٹ اور مولوی فاضل نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں تا انہیں جلد سے جلد کام پر لگایا جا سکے.ایسے نوجوان دو سے چار سال تک کے عرصہ میں کام کے قابل ہوسکیں گے اور ان سے وقتی ضرورت کو پورا کیا جاسکے گا.مگر اصل چیز تو یہ ہے کہ ہر سال مدرسہ احمدیہ میں سو دو سو طالب علم داخل ہوتے رہیں.اس کا دوسرا قدم یہ ہوگا کہ ہندوستان کے مختلف صوبوں میں ہم ایسے ہی مدر سے جاری کریں گے اور پھر مختلف ملکوں میں عرب مصر، فلسطین، شام اور دیگر ممالک میں اسی طرز پر اور اس کو رس پر مدر سے جاری کئے جائیں گے.یہاں سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد آدمی جائیں گے اور وہاں ایسے مدرے چلائیں گے تا ان ممالک کی تبلیغی اور تعلیمی ضرورت کے لئے آدمی 517
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 05 جنوری 1945ء شروع کیا جاسکے.پس دوست جلد سے جلد اس طرف توجہ کریں تا ہمیں ایسے مبلغ مل سکیں ، جو دنیا کے کناروں تک احمدیت کو پھیلا دیں اور سلسلہ میں داخل ہونے والے نئے لوگوں کو دینی تعلیم دے سکیں.اے میرے رب تو لوگوں کے دل کھول دے کہ وہ اس بات کی اہمیت کو سمجھ سکیں اور پھر ان کے اندر قربانی کی روح پیدا کر کہ وہ آگے بڑھ کر دین کے لئے اپنی جانیں فدا کریں.آمین.( مطبوع افضل 10 جنوری 1945ء) 519
تحریک جدید- ایک ابی تحریک.....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 19 جنوری 1945ء ہر ضرورت کے موقع پر اپناروپیہ اور جانیں پیش کیے بغیر کامیابی نہیں ہو سکتی خطبہ جمعہ فرمودہ 19 جنوری 1945ء میں نے گزشتہ خطبہ جمعہ میں اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ سیاسی حالات کے لحاظ سے یہ وقت ایسا ہے کہ ہندوستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کو بھی آپس میں صلح کر لینی چاہیے اور ہندوستان اور انگلستان کو بھی باہمی سمجھوتہ کر لینا چاہیے.اور میں نے بتایا تھا کہ ہماری جماعت کو چونکہ سیاسیات سے کوئی تعلق نہیں، اس لئے جہاں میں یہ مشورہ دیتا ہوں کہ ہندوستان کی سیاسی پارٹیاں آپس میں سمجھوتہ کرنے کی کوئی صورت نکالیں، وہاں میں ان سیاسی پارٹیوں سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کو دہ سیاسیات سے الگ رہنے دیں کیونکہ ہمارا کام مذہبی ہے اور ہم اپنی زندگیاں اس مطمع نظر کے لئے وقف کر چکے ہیں، جو طمع نظر ہمارے ایمان اور ہمارے یقین کے مطابق خدا تعالیٰ نے ہمارے سامنے رکھا ہے.دشمن ہمارے عقیدہ اور ہمارے خیال کو تسلیم کرے یا نہ کرے، لوگ ہماری باتوں کو مانیں یا نہ مانیں.بہر حال اس بات کو تو وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہر انسان اپنے عقیدہ کے مطابق عمل کرتا ہے.پس جبکہ ہمارا عقیدہ یہی ہے کہ اللہ تعالٰی نے دنیا کی روحانی اور اخلاقی زندگی کا کام ہمارے سپرد کیا ہے تو سیاسی پارٹیوں کو ہماری جماعت پر زور نہیں ڈالنا چاہیے کہ ہم اپنے اس مقصد کو بھلا کر جو خدا تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے، اپنی توجہ کسی اور طرف پھیر دیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری جماعت کے لوگ ملازمتیں بھی کرتے ہیں ، ہماری جماعت کے لوگ تجارتیں بھی کرتے ہیں، ہماری جماعت کے لوگ صنعت و حرفت بھی کرتے ہیں، ہماری جماعت کے لوگ زمینداریاں بھی کرتے ہیں اور ہماری جماعت کے لوگ مزدوریاں بھی کرتے ہیں ، سب کچھ کرتے ہیں.لیکن دنیا میں اگر ایک کام مجبوری کے طور پر اور گزارے کے لئے کیا جائے تو اس کے یہ معنی نہیں کہ چونکہ اصل مقصد کے سوا تم اپنے گزارے کے لئے کام کرتے ہو، اس لئے کوئی اور کام بھی کرو.انسان صرف ایک حد تک ہی اپنے اوقات اور اپنی قوتیں خرچ کر سکتا ہے.ایک شخص اگر اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے گزارہ کے لئے اپنے اوقات کا ایک حصہ دنیا کمانے پر صرف کرتا ہے تو اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ دنیا کے اور بھی تمام کام کر سکتا ہے.یہ بات غلط ہے کہ ہر انسان 521
اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 19 جنوری 1945ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم ہر ڈاکٹر ، ہر طبیب ، ہر صناع ، ہر تاجر، ہر زمیندار اور ہر مزدور اپنے گزارہ کے لئے کام کرنے کے علاوہ دوسرے سیارے کام بھی کر سکتا ہے.پس کسی ایک کام کو معیشت کمانے کے لئے اختیار کرنا اور بات ہے لیکن یہ کہ ہر شخص دنیا کے سارے کاموں میں حصہ لے، یہ بالکل اور بات ہے.پس ہماری جماعت کے سامنے جو مقصد ہے ، اس کو پورا کرنے کے لئے اسے سیاسیات اور اس قسم کے دوسرے تمام کاموں سے الگ رہنا چاہیے، جو کام انسان کے اوقات کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور اسے اہم کام کے قابل نہیں رہنے دیتے.سیاسی لوگ سیاسیات میں ہی حصہ لے سکتے ہیں تعلیم والے تعلیم دینے پر ہی اپنے اوقات صرف کر سکتے ہیں اور ہمیشہ وہ اپنے پیشہ میں ہی وقت لگا سکتے ہیں اور کسی دوسرے کام کے لئے وقت نکالنا ان کے لئے ممکن نہیں ہوتا.اگر ممکن ہو سکتا تو ہماری جماعت کو پورے طور پر دین کے کاموں میں لگ جانا چاہیے تھا.لیکن چونکہ یہ ناممکن ہے اور ہمارے پاس ایسے ذرائع نہیں کہ ہر انسان کے کھانے پینے اور اس کے گزارہ کا ہم انتظام کر سکیں.اور اپنی اس کمزوری کا ہمیں اقرار ہے کہ ہماری جماعت میں ابھی وہ ایمان پیدا نہیں ہوا کہ ہر شخص کھانے پینے اور اپنی دوسری دنیوی ضروریات سے بے نیاز ہو کر دین کے کاموں میں لگ جائے.اس لئے مجبور ہماری جماعت کے لوگوں کو کچھ اس کمزوری کی وجہ سے اور کچھ خدائی قانون کے ماتحت اپنے گزارہ کے لئے کام کرنا پڑتا ہے.لیکن اگر اس کے علاوہ وہ سارے کے سارے اور کاموں میں بھی لگ جائیں تو اتنی وسیع دنیا میں تبلیغ کا کام کس طرح ہو سکے گا ؟ اگر ہم ایمان میں پختہ ہیں، اگر ہمارے اندر یقین اور وثوق ہے، اگر ہم نے دین کا کام کرنا ہے، جس کا ہم منہ سے دعوی کرتے ہیں تو لازمی بات ہے کہ جب تک ہم اپنے اوقات دین کی خدمت کے لئے نہ لگائیں گے اس وقت تک ہمارے منہ کے کہنے سے کچھ نہیں بن سکتا اور ہم اس کام سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتے.پس کسی شخص کا ہماری جماعت سے یہ خواہش کرنا کہ ہم سیاسیات میں دخل دیں اور کسی احمدی کا یہ خیال کرنا کہ علاوہ اپنی روزی کمانے کے اور دین کے کام کرنے کے، وہ سیاسیات اور دوسرے کاموں کے لئے بھی وقت نکال سکتا ہے، یہ بالکل غلط ہے.اگر واقعہ میں ایک احمدی سنجیدگی سے غور کرے تو اس کو اپنے تمام اوقات ضرورت کے مطابق اپنی روزی کمانے کے لئے اور باقی دین کے کاموں کے لئے صرف کرنے چاہئیں.آج کل تو کام اتنے ہیں کہ انسان اپنے دنیوی کامیوں سے ہی فارغ نہیں ہوتا اور اسے اپنے کام میں اتنی محنت نہیں کرنی پڑتی ہے کہ اس کی جان نکل رہی ہوتی ہے.پہلے زمانہ میں اتنی محنت نہیں کرنی پڑتی تھی.لیکن اس زمانہ میں ہر کام میں مقابلہ ہے.پہلے زمانہ میں دکاندار دکان پر بیٹھے مکھیاں مارتے تھے لیکن 522
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 19 جنوری 1945ء اس زمانہ میں دکاندار کو اتنی محنت سے کام کرنا پڑتا ہے کہ شام کو جب وہ اپنے کام سے واپس آتا ہے تو تھک کر نڈھال ہو چکا ہوتا ہے.اسی طرح پہلے زمانہ میں ملازمین دفتروں میں بیٹھے قلمیں گھڑتے رہتے تھے لیکن اب یہ بات نہیں.بلکہ اب ایک ملازم کو مسلسل چھ سات گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے اور جب وہ واپس آتا ہے تو کام کی وجہ سے اتنا چور ہو چکا ہوتا ہے کہ اسے کچھ دیر آرام کی ضرورت ہوتی ہے اور کچھ وقت اسے گھر کے لئے سودا سلف لانے پر بھی صرف کرنا پڑتا ہے.پھر اگر دین کے لئے کوئی کام کرنے کی بجائے وہ کسی اور کام کے لئے چلا جاتا ہے تو وہ اپنے آپ کو احمدی کہتا کیوں ہے؟ آخر اس نے دین کو کیا فائدہ پہنچایا ہے کہ وہ اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے؟ اگر یہ نوکری کرتا ہے تو اس کی طاقت تو اس کی نوکری نے سلب کر لی.اگر یہ پیشہ ور ہے تو اس کی طاقت تو اس کے پیشہ نے سلب کر لی.اگر یہ مزدور ہے تو اس کی طاقت تو اس کی مزدوری نے سلب کرلی اور اگر یہ زمیندار ہے تو اس کی طاقت تو اس کی زمینداری اور اس کے ہل چلانے نے سلب کر لی.اور یہ اپنے کام سے چور ہو کر تھکا ماندہ گھر آتا ہے.اب اگر کھانے پینے آرام کرنے اور سونے کے بعد اس کے پاس گھنٹہ دو گھنٹے نہایت قلیل وقت بچتا ہے، جس میں یہ دین کا کوئی کام کر سکے.لیکن یہ اس وقت کو بھی کسی اور کام میں صرف کر دیتا ہے تو پھر اس کا اپنے آپ کو احمدی کہنا کیا معنی رکھتا ہے؟ جب اس کے اوقات میں خدا تعالیٰ کا کوئی خانہ ہی خالی نہیں تو پھر اس کو خدا کے سپاہیوں میں داخل ہونے کی ضرورت کیا ہے؟ میں دیکھتا ہوں کہ احمدیوں میں ابھی کئی ہیں، جن کا ایمان راسخ نہیں کہ وہ اپنے اوقات دین کے لئے صرف کریں.اگر ان سے پوچھا جائے کہ آپ نے دین کا کیا کام کیا ہے؟ تو ان میں سے بمشکل پانچ فیصدی یا دو فیصدی ایسے ہوں گے، جو یہ کہیں کہ ہم نے دین کا فلاں کام کیا ہے.باقی سارے کے سارے ایسے ہوں گے، جو یہ کہیں گے کہ جی فرصت ہی نہیں ملتی کہ کوئی کام کریں.پس اول تو یہی حالت نہایت خطرناک ہے کہ جماعت کے اکثر افراد ایسے ہیں، جو دین کی خدمت کے لئے وقت نہیں نکال رہے لیکن جو اپنا کچھ وقت دین کی خدمت کے لئے نکال رہے ہیں، وہ بھی اگر اپنی توجہ اور کاموں کی طرف پھیر دیں تو اس کے یہ معنی ہو گئے کہ جماعت میں دین کا کام کرنے والا کوئی نہ رہے اور اس کام کے لئے صرف مبلغ رہ جائیں.اور جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ دین کا کام صرف مبلغوں کے ذریعہ سے ہوسکتا ہے، اس کا یہ خیال بالکل غلط ہے.مبلغ تبلیغ نہیں کرتا، تبلیغ کے لئے رستہ صاف کرتا ہے.مبلغ تبلیغ نہیں کرتا، تبلیغ کے لئے مصالحہ بہم پہنچاتا ہے.تبلیغ کرنے والا جماعت کا ہر فرد ہے.رشتہ دار اپنے رشتہ دار کو تبلیغ کر سکتا ہے، ہمسایہ 523
اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 19 جنوری 1945ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد دوم اپنے ہمسایہ کو تبلیغ کر سکتا ہے، دوست اپنے دوست کو تبلیغ کر سکتا لیکن ایک اجنبی دوسرے اجنبی کو کیا تبلیغ کرے گا؟ میں نے بار ہا جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ اپنے رشتہ داروں کے پاس جا کر بیٹھ جائیں اور ان سے جا کر کہیں کہ ہم یہاں سے اس وقت تک نہیں اٹھیں گے، جب تک ہم آپ کو اپنی جماعت میں داخل نہ کر لیں اور آپ کو ہدایت نصیب نہ ہو جائے اور یا آپ ہم پر ثابت نہ کر دیں کہ ہم غلط راستہ پر جارہے ہیں.اور وہ اپنے اوپر کھانا پینا حرام کر لیتے اور اپنے رشتہ داروں سے جا کر کہتے کہ یا ہم مر جائیں گے یا آپ کو ہدایت منوا کر رہیں گے.مگر جماعت میں کتنے افراد ہیں، جنہوں نے یہ کام کیا ہے؟ بہت ہی کم ہیں، جنہوں نے اس طرف توجہ کی ہے.اگر وہ اس طرف توجہ کرتے اور اس طریق پر عمل کرتے تو بہت اچھے نتائج پیدا ہو سکتے تھے.".دوسری چیز جس کے متعلق میں نے اس جلسہ پر بھی اعلان کیا تھا اور بعد میں خطبہ جمعہ میں بھی جماعت کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ علماء پیدا کرنے کے لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ کثرت کے ساتھ طالب علم مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوں.اور میں نے بتایا تھا کہ یہ کام بہت اہم ہے، بہت لمبا ہے.اگر ایک مڈل پاس طالب علم مدرسہ میں داخل ہوتا ہے تو دس سال میں اس کی تعلیم مکمل ہوگی.گو یا اگر ہم آج درخت لگا ئیں تو دس سال کے بعد ہمیں پہلا پھل ملے گا.اگر آج تین طالب علم مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوں تو اس کے معنی ہیں کہ دس سال کے بعد ہمیں تین مبلغ ملنے کی امید ہو سکتی ہے.یہ کتنا ڈرنے کا مقام ہے.ایک قوم جو دس سال کے بعد تین مبلغ پیدا کرے، وہ قوم تبلیغ نہیں کرتی بلکہ سنتی کر کے اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھودتی ہے.اگر آج دس طالب علم مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوں تو دس سال کے بعد دس مبلغوں کے تیار ہونے کی امید ہوسکتی ہے اور آج سے بیس سال بعد 100 مبلغوں کے تیار ہونے کی امید ہو سکتی ہے.مگر ہمیں تو ہزاروں مبلغوں کی ضرورت ہے.میں سال کے بعد 100 مبلغوں سے کام کس طرح ہو سکتا ہے؟ ہماری تو جماعتیں ہی کئی ہزار ہیں.ہندوستان میں آٹھ سو سے اوپر تو ہماری انجمنیں ہیں اور ایک ایک انجمن میں کئی کئی گاؤں شامل ہیں.بعض انجمنیں ایسی ہیں، جن میں پندرہ پندرہ ہیں ہیں گاؤں شامل ہیں.تو اگر ہم صرف احمدی گاؤں میں ہی مبلغ رکھیں تو ہزار ہا گاؤں میں احمدی ہیں.جن کے لئے ہمارے پاس ہزاروں مبلغ ہونے چاہئیں اور پھر اس تعداد سے بہت زیادہ علاقے ہماری تبلیغ سے باہر رہ جائیں گے، جہاں کوئی احمدی نہیں.تو یہ ہزاروں مبلغ بھی پیدا ہو سکتے ہیں، اگر ہم سو یا دوسو طالب علم ہر سال مدرسہ احمدیہ میں داخل کریں.اگر ایک سو طالب علم ہر سال مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوں اور ان میں 524
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 19 جنوری 1945ء سے کوئی فیل نہ ہو، کوئی بیمار نہ ہو، کوئی تعلیم نہ چھوڑے اور سارے کے سارے پاس ہو جائیں تو پھر دس سال کے بعد سو مبلغ ملنے کی امید ہو سکتی ہے اور بیس سال کے بعد ایک ہزار مبلغوں کی امید ہو سکتی ہے.میرا دل تو یہ خیال کر کے بھی کانپ جاتا ہے کہ میں سال کے بعد صرف ایک ہزار مبلغ تیار ہوں.کیونکہ ہیں سال میں تو دنیا تہ و بالا ہو جانے والی ہے اور ایسے ایسے عظیم الشان تغیرات پیدا ہونے والے ہیں کہ ہم میں سے جو اس وقت زندہ ہوں گے، وہ دیکھیں گے کہ آج سے ہیں سال بعد دنیا بالکل بدلی ہوئی ہو گی.خدا اور خدا کے فرشتے ایک طرف اور شیطان اور شیطان کے لشکر دوسری طرف ہوں گے اور ان کے درمیان جنگ ہورہی ہے.اور آج سے ہیں سال بعد یا اسلام کی داغ بیل ڈالی جاچکی ہوگی (انشاء) اللہ ) اور یا کفر اسلام کی جڑوں کو اکھاڑ کر پھینک چکا ہوگا ( العیاذ باللہ ).دہر بیت دوڑتی ہوئی دنیا میں پھیلتی جارہی ہے اور اس کے مقابلہ میں جس طرح ربڑ کو بینچ کر چھوڑ دیں تو وہ سمٹ جاتی ہے، اسلام پیچھے ہٹ رہا ہے.یہ درست ہے کہ اصل چیز تو آخری فیصلہ ہے اور آخری فیصلہ کے لئے لمبے عرصہ کی ضرورت ہوتی ہے.مگر جب کسی انسان پر غرغرہ اور نزع کی حالت طاری ہو جائے اور وہ اشاروں سے باتیں کرنے پر آ جائے تو پھر اس کی زندگی قابل اعتبار نہیں ہوتی.پھر تو وہ آگے موت کی طرف ہی جاتا ہے.پس آخری فیصلہ کو جانے دو.اس وقت تو تمام امیدیں ختم ہو جاتی ہیں اور تمام کوششیں بیکار ہوتی ہیں.انسان کی کوششیں تو اسی حالت میں کارآمد ہو سکتی ہیں، جب اسے حیات کی امید ہو اور وہ یہ سمجھ کر کام کرے کہ یا تو میں زندگی حاصل کر کے رہوں گا یا پھر مجھ پر موت آجائے گی.پس موت وحیات کی کشمکش میں کی ہوئی کوششیں ہی کارآمد ہوسکتی ہیں اور وہ یہی چند سال ہیں.اور ان چند سالوں کے اندر ایسے ایسے عظیم الشان تغیرات ہونے والے ہیں کہ اگر اس عرصہ کے اندراندر ہماری طرف سے اسلام کو دنیا پر غالب کرنے کی پوری پوری کوشش نہ کی گئی تو اس کا نتیجہ ہمارے حق میں بہت خطرناک ہوگا اور ہم آپ اپنی موت کو بلانے والے ہوں گے.پس اگر ہر سال ایک سو طالب علم مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوں تو بیس سال کے بعد ہمیں ایک ہزار مبلغ ملنے کی امید ہوسکتی ہے، جو قلیل ترین تعداد ہے.کیونکہ ساری دنیا میں تبلیغ کرنے کے لئے ہمیں ہزاروں مبلغوں کی ضرورت ہے.اور پھر یہ اندازے بھی تو صرف خیالی ہیں، واقعہ میں تو ہمارے پاس ایک سو مبلغ بھی موجود نہیں.پچھلے سے پچھلے سال صرف تین طالب علم مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے تھے اور پچھلے سال سات داخل ہوئے تھے.ان تین تین اور سات سات لڑکوں کے داخل ہونے سے کیا بن سکتا 525
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 19 جنوری 1945ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم ہے؟ اور تین تین اور سات سات کے تیار ہونے سے ہم اس دنیا میں کیا تبلیغ کریں گے؟ تو معلوم ہوتا ہے کہ ہماری جماعت کا بیشتر حصہ تبلیغ کو بھک منگوں اور نکموں کا کام سمجھتا ہے، جن کو اور کوئی کام نہ ہو.اگر یہی سستی رہی اور اگر ایسی غفلت رہی، اگر یہی افکار رہے کہ دین کے کام کرنا غریبوں کا کام ہے اور امراء دین کے کاموں سے غافل رہے تو یہ پھر خدا تعالیٰ کے عذاب کو بلانے کا موجب ہوگی.اور دنیاختم نہیں ہوگی کہ کفار کو مارنے کی بجائے خدا تعالیٰ کے فرشتے پہلے ایسے لوگوں کو چن چن کر ماریں گے، جو دین میں داخل ہوئے مگر پھر دین کی کوئی پروانہ کی اور دین کی خدمت کے لئے کوئی کام نہ کیا.آخر تم کیا سمجھتے ہو کہ دین کی خدمت کا کام کس نے کرنا ہے؟ اگر تم اپنی آمدنی کا سولہواں حصہ دے کر یا دسواں حصہ دے کر یا پانچواں حصہ دے کر یہ سمجھتے ہو کہ تم نے دین کی خدمت کر لی تو یہ غلط خیال ہے.دین کے لئے تمہیں یہ چیز بھی دینی ہوگی اور اپنی جانیں بھی دینی ہوں گی اور جانیں دینے کا بہترین طریق یہ ہے کہ اپنی اولادوں کو دین کی خدمت کے لئے پیش کرو.کیا یہ خدا سے مذاق نہیں کہ تم اس کے دین میں داخل ہو کر پھر دین کی خدمت سے جی چراتے ہو اور پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے ہو؟ کیا تم خدا سے مذاق کر کے اس کے عذاب سے محفوظ رہ سکتے ہو؟ جب تم دنیا کے کسی بادشاہ سے مذاق کر کے اس کی سزا سے محفوظ نہیں رہ سکتے تو خدا تعالیٰ سے مذاق کر کے پھر تم اس کے عذاب سے کس طرح محفوظ رہ سکتے ہو؟ مگر یہ کتنا مذاق ہے کہ تم خدا کے دین میں داخل ہوتے ہو اور اس کے بعد دین کی خدمت سے پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے ہو؟ میں دیکھتا ہوں کہ تم میں سے کئی ایسے ہیں، جو پہلے اپنے آپ کو وقف کرتے ہیں اور پھر بھاگ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جی ہم نے غلط سمجھا تھا، ہمیں پتہ نہیں تھا کہ وقف کیا ہے؟ رات کو میرے پاس ایک شخص کا خط آیا ، جس میں اس نے لکھا ہے کہ مجھے پتہ نہیں تھا کہ وقف کرنے میں اتنی تنگی ہوگی ؟ میں نے اس کا غلط مفہوم سمجھا تھا، میں اپنا وقف واپس لیتا ہوں.حالانکہ وقف کرتے وقت جس فارم پر دستخط کئے جاتے ہیں، اس میں یہ سب باتیں لکھی ہوتی ہیں کہ میں ہر قسم کی تنگی اور ہر قسم کی تکلیف برداشت کروں گا اور گزارہ کے لئے جو کچھ مجھے دیا جائے گا، اسے میں انعام سمجھوں گا اور اسی میں گزارہ کروں گا.اور گزارہ نہ بھی ملے ، تب بھی اپنا پیٹ پالنے کے لئے خود کوئی انتظام کروں گا.اب یہ ایمان ہے یا بے ایمانی اور کفر پہلے ایک شخص اپنے آپ کو وقف کرتا ہے اور یہ عہد کرتا ہے کہ میں دین کی خاطر ہر طرح کی تکلیف برداشت کروں گا مگر پھر پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے.اور پھر یہ بھی کتنے ہیں، جنہوں نے اپنے آپ کو وقف کیا ہے؟ ان کی تعداد بھی تو تسلی بخش نہیں.ظفر کا ایک شعر ہے.526
تحریک جدید - ایک البی تحر یک...جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 19 جنوری 1945ء عجب طرح کی ہوئی تسلی جو بار اپنا گدھوں پہ ڈالا میں تو سمجھتا ہوں کہ یہی حال ہماری جماعت کے ایک حصہ کا ہے کہ وہ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ تبلیغ کرنا مبلغوں کا کام ہے، ہم اس کام سے آزاد ہیں.حالانکہ یہ بالکل غلط ہے.خدا تعالیٰ تم سے تمہاری جانوں کا مطالبہ کرتا ہے اور وہ اس صورت میں کہ اپنی اولادیں دین کی خاطر وقف کرو.اگر تم دین کے لئے اپنی اولا دیں دینے کے لئے تیار نہیں ہو گے تو خدا تعالیٰ تمہاری اولادیں شیطان کو دے دے گا.یادرکھو دنیا میں کسی کی اولاد اس کے پاس نہیں رہتی.اگر تمہاری اولاد خدا کی ہو کر نہیں رہے گی تو وہ شیطان کی ہو جائے گی.اگر تمہاری اولادمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے رستہ میں اپنی جانیں نہیں دے گی تو وہ ابلیس کے رستہ میں مرے گی ( العیاذ باللہ ) مگر موت بہر حال ہر ایک پر آتی ہے.پس اب وقت آگیا ہے کہ ہماری جماعت کا ہر فرد حالات پر غور کرے اور اس بات کی طرف توجہ کرے کہ ان میں سے جو بڑی عمر کے لوگ ہیں اور وہ نئے سرے سے تعلیم حاصل نہیں کر سکتے.وہ کمائیں، ان کے لئے جو پڑھتے ہیں.دوسرے جو پڑھے ہوئے ہیں ، وہ آگے آئیں اور اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے وقف کریں اور دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ہر سال کم از کم ایک سو طالب علم مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوں تا کہ ہمیں ہزاروں کی تعداد میں مبلغ مل سکیں.میں نے اپنے خطبات میں بتایا ہے کہ ہمیں کئی قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہے.ہمیں ضرورت ہے عربی یا انگریزی کے گریجوایٹوں کی ، جو اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لیے وقف کریں اور دو تین سال میں ہم انہیں سلسلہ کے کاموں یا بیرونی تبلیغ کے لئے تیار کر سکیں.ہمیں ضرورت ہے مڈل پاس یا انٹرنس پاس طالب علموں کی ، جو فورا سینکڑوں کی تعداد میں آکر مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوں اور پھر آٹھ نو سال تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد بطور مبلغ کام کرسکیں.ہمیں ضرورت ہے ایسے نو جوانوں کی ، جو پرائمری پاس یا مڈل پاس ہوں اور ہم انہیں ایک دو سال میں موٹی موٹی تعلیم دے کر بطور دیہاتی مبلغ گاؤں میں مقرر کر سکیں.پس تین قسم کے آدمیوں کی ہمیں ضرورت ہے.ایک مڈل پاس طالب علموں کی ، جو کثرت سے آ کر مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوں.جن کا کام یہ ہوگا کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے عربی ممالک میں جا کر تبلیغ کریں گے یا جہاں علمی لوگوں سے مقابلہ ہوگا وہاں جائیں گے یا قادیان میں درس دیں گے اور نئی پود تیار کرنے کا کام کریں گے.دوسرے مڈل یا پرائمری پاس نو جوانوں کی ضرورت ہے.جو ایک دو سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد بطور دیہاتی مبلغ کام کریں.اور تیسرے بعض جگہوں پر فوری طور پر مشن کھولنے کے 527
اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 19 جنوری 1945ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد دوم لئے عربی اور انگریزی گریجوایٹوں کی ضرورت ہے.کیونکہ اس وقت لوگوں کے دل مصائب اور مشکلات کی وجہ سے غمزدہ ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کی باتیں سننے اور خدا کے دین کی طرف متوجہ ہونے کے لئے تیار ہیں، اس لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ ان جگہوں پر ہم فوری طور پر مشن کھولیں اور ان کی اس غم اور مصیبت کی حالت سے فائدہ اٹھائیں.اگر ہم نے اس موقعہ سے فائدہ نہ اٹھایا تو ہم خدا تعالیٰ کے جاں نثار سپاہی نہیں کہلا سکتے“.وو پس ضروری ہے کہ ہمارے پاس کافی آدمی تیار ہوں ، جن کے ذریعے ہم غیر ممالک میں فور تبلیغ پھیلا سکیں.اس کے لئے مولوی فاضلوں کی ضرورت ہے تاکہ ہم انہیں فوراً باہر بھجواسکیں.اور پھر ہماری جماعت کا سب سے مقدم فرض تو یہ ہے کہ اپنے ہمسائیوں سے ہمدردی کریں اور اپنے ملک میں تبلیغ کو وسیع کریں.اس کے لئے بڑی تعداد میں مبلغین کی ضرورت ہے اور پھر اس بات کی ضرورت ہے کہ جماعت ہر سال ایک سو طالب علم مدرسہ احمدیہ کے لئے دے اور جماعت کا فرض ہے کہ اس خیال کو زندہ رکھے.میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں یہ کمزوری پائی جاتی ہے کہ روپیہ کے معاملہ میں بھی اگر تعہد نہ کیا جائے تو ہماری جماعت کے لوگ مستی کر جاتے ہیں.مثلاً تحریک جدید کے دس سالوں میں چندہ دینے کے بعد بعض تو ایسے ہیں، جنہوں نے پہلے سالوں سے بھی زیادہ چندہ دینے کے وعدے کئے ہیں اور کئی ایسے ہیں، جو دس سال چندہ دینے کے بعد اب تھک کر حصہ لینا چھوڑ چکے ہیں.اور وہ سمجھتے ہیں کہ دراصل تو دس سالوں میں حصہ لینا ضروری تھا، اب ضروری نہیں.حالانکہ خدا کے ہاں تو دس کا سوال ہی نہیں وہاں تو ضرورت کا سوال ہے.اگر ضرورت باقی ہے تو تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ دیکھتے سرکار اس میں شرط یہ لکھی نہیں اگر کوئی شخص خدا کے ساتھ شرطیں باندھتا ہے تو وہ عقل سے کام لیتا ہے عشق سے کام نہیں لیتا“.دیکھو جہاں عشق ہوتا ہے، وہاں اس بات کو نہیں دیکھا جاتا کہ ہم نے کیا شرط کی تھی؟ بلکہ اس بات کو دیکھا جاتا ہے کہ ہم نے وہ کام کر لیا ہے یا نہیں، جو ہمارے سپر دکیا گیا تھا.پس کیا ان دس سالوں میں ہم نے روپیہ کے لحاظ سے یا آدمیوں کے لحاظ سے کام کر لیا ہے؟ ہم نے معمولی سی تبلیغ کے لئے جس میں چند سو مبلغ ہوں، تیرہ لاکھ روپیہ سالانہ خرچ کا اندازہ بتایا تھا.اور ان دس سالوں میں کل تیرہ چودہ لاکھ روپیہ چندہ جمع کیا ہے، جس میں کچھ ساتھ کے ساتھ خرچ ہو چکا ہے.تو جہاں چند لاکھ روپیہ کا کل ریز روفنڈ ہو، وہاں تبلیغ کی معمولی سے معمولی سکیم پر عمل کرنے کے لئے تیرہ لاکھ روپیہ سالانہ کہاں سے آ.528
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 19 جنوری 1945ء گا؟ اگر پانچ فی صدی منافع کا اندازہ لگا لیا جائے، جو زیادہ سے زیادہ اندازہ ہے.گورنمنٹ تو اپنے کاموں میں عام طور پر اڑھائی فی صدی منافع کا اندازہ لگایا کرتی ہے.لیکن اگر پانچ فیصدی منافع کا ہی اندازہ لگا لیا جائے تو عام کا روباری اندازہ کے مطابق تیرہ لاکھ روپیہ سالانہ خرچ کے لئے پانچ کروڑ بیس لاکھ روپیہ کاریز روفنڈ ہو تو اس سے تیرہ لاکھ روپیہ سالانہ آمدنی ہو سکتی ہے.اور پانچ فی صدی آمد رکھی جائے ،تب بھی اڑھائی کروڑ روپیہ سے یہ آمد پیدا ہوسکتی ہے.پس جب تک ہماری جماعت دین کی ہر ضرورت کے موقعہ پر اپنارو پیر اور اپنی جانیں پیش نہیں کرتی، اس وقت تک اس کو کبھی کامیابی نہیں ہوسکتی.خدا تعالیٰ کا کام تو ہو جائے گالیکن ہم دین کی خدمت کا ثواب حاصل کرنے اور اپنے ایمانوں کا ثبوت دینے سے قاصر رہیں گے.پس ہماری جماعت کو چاہیے کہ اپنی ذمہ داریوں اور اپنے فرائض کو سمجھے اور دین کے لئے جہاں مالی ضرورتوں کو پورا کرنے کا سوال ہو، وہاں آگے بڑھ بڑھ کر اپنے اموال پیش کریں اور جہاں جانی قربانی کا سوال ہو ، وہاں آگے بڑھ بڑھ کر اپنی جانیں اور اپنی اولادیں دین کے لئے پیش کریں.میں نے گذشتہ سے گذشتہ جمعہ کے خطبہ (05 جنوری 45ء) میں یہ تحریک کی تھی کہ جن کے ہاں کوئی اولاد نہ ہو یا ان کی اولاد چھوٹی ہو یا صرف لڑکیاں ہی ہوں لڑ کے نہ ہوں ، وہ کم از کم اتنا ہی کریں کہ تعلیم حاصل کرنے والوں کے لئے وظائف مقرر کریں.اس تحریک میں اس وقت تک تین وظائف کے وعدے آ چکے ہیں.بعض لوگوں نے دریافت کیا ہے کہ اگر کوئی غریب ہو اور وہ اکیلا وظیفہ کے لئے رقم نہ دے سکے تو کیا وہ اور لوگوں کے ساتھ مل کر دے سکتا ہے؟ تو اس کے متعلق بھی میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ ہاں اس طرح بھی ہو سکتا ہے کہ جو شخص اکیلا وظیفہ مقرر کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو، وہ دوسروں کے ساتھ مل کر اس میں حصہ لے سکتا ہے.اس وقت تک تین وظائف کے وعدے آچکے ہیں.ایک تو میاں محمد احمد خاں صاحب، جو میرے بھانجے ہیں، انہوں نے ایک وظیفہ کے لئے نقد رقم جمع کرادی ہے اور ایک وظیفہ دینے کے لئے چودھری ظفر اللہ خاں صاحب نے وعدہ کیا ہے اور انہوں نے دفتر محاسب کو لکھ دیا ہے کہ میری امانت میں سے یہ رقم ادا کر دی جائے اور ایک میری بیٹی اور ان کے خاوند نے وعدہ کیا ہے.وہ مجھے کہتے تھے کہ ہم اس میں حصہ لینا چاہتے ہیں اور میں نے انہیں کہا تھا کہ دفتر میں لکھوا دو.غالبا انہوں نے لکھوا دیا ہوگا.میں نے یہ نیت کی ہے کہ اگر خدا تعالی زیادہ کی توفیق دے گا تو اس سے زیادہ دوں گا لیکن انشاء اللہ دس سال تک کم از کم پانچ طالب علموں کو میں سالانہ وظیفہ دوں گا.اور میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ اگر میں زندہ رہوں تو میں اس وعدہ کو پورا کرنے کا خود پابند رہوں گا اور اگر میں مرجاؤں تو میری جائیداد میں سے 529
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 19 جنوری 1945ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم پہلے اس رقم کو پورا کر لیا جائے اور بعد میں پھر دوسرے ورثاء میں تقسیم ہو.میر انشاء ہے کہ ہر سال چھ ہزار روپیہ میں داخل کرتا چلا جاؤں تا پہلے سالوں کی تعلیم پر جو کم رقم خرچ ہوگی اور بعد میں زیادہ خرچ ہوگی تا پہلے وقت کا بچا ہوا روپیہ دوسرے وقت میں کام دے.یہ وعدہ دس سال میں پچاس طالبعلموں کو تعلیم دلانے کا ہوتا ہے، جس پر قریبا ایک لاکھ روپیہ خرچ ہوگا.باقی میں نے اپنی اولاد اپنی طرف سے دین کی لئے وقف کی ہوئی ہے.آگے کام کا ثواب تو انہوں نے خدا سے ہی لینا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کو دین کی خدمت کا موقع ملے اور کس کو نہ ملے؟ میں نے اپنی طرف سے انہیں دین کے لئے وقف کیا ہوا ہے اور ان کو تعلیم دلانے میں بھی میں نے کلیه اس چیز کو مدنظر رکھا ہے.میں نے اپنی اولاد میں سے کبھی ایک بیٹے کو بھی خالصہ اپنے لئے رکھنے کی خدا تعالی سے درخواست نہیں کی کہ خدا ہی کے دیئے ہوئے ہیں اور اسی کی چیز ہیں.اس کی مہربانی اور اس کا احسان ہوگا تو ان کو اپنے دین کی خدمت کے لئے قبول فرمائے گا لیکن اگر وہ کسی کو اس کی غفلت کی وجہ سے رد کر دے تو میں بری الذمہ ہوں.میں نے اپنے لئے ان کو لینے کی کبھی ضرورت نہیں سمجھی.سوائے اس کے کہ اپنے گزارہ کے لئے باری باری کچھ عرصہ وہ جائیداد کا انتظام کریں تا دوسرے دین کا کام کر سکیں اور وہ بھی دوسرے وقت میں دین کا کام کر سکیں.میرا تو عقیدہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باقی اولاد بھی اگر اس پر غور کرے تو اسے سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے اتنے بڑے احسان کے کہ اس شدید ترین گمراہی کے وقت میں اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہمارے خاندان میں سے مبعوث فرمایا.اس احسان کے بعد بھی اگر ہمارے اندر دنیا طلبی اور دین سے بے رغبتی پائی جائے تو ہم سے زیادہ بد قسمت اور کون ہو سکتا ہے؟ اس ایک احسان کے بدلہ اگر ہمارا سر قیامت تک خدا تعالیٰ کے آگے جھکا رہے تو ہم اس احسان کا بدلہ نہیں اتار سکتے.یہ خدا تعالیٰ کا انتنا بڑا احسان ہے کہ اس سے بڑھ کر احسان ممکن نہیں.میں سمجھتا ہوں اس احسان کو دیکھ کر اگر ہمارے خاندان کے لوگ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں تو چونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ فرمایا ہے کہ تری نَسُلاً بَعِید یعنی تیری نسل دور دور تک پھیل جائے گی اور جس طرح ہم نے ابراہیم سے وعدہ کیا تھا، اسی طرح تیری نسل بھی اتنی زیادہ ہوگی کہ وہ گئی نہیں جائے گی.پس اگر ہمارے خاندان کے افراد دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیں تو تبلیغ اور مبلغوں کا سوال حل ہو جاتا ہے.مگر بہر حال کسی ایک شخص کے اپنے آپ کو پیش کر دینے سے دوسرے لوگ بری الذمہ نہیں ہو سکتے.جب تک ساری جماعت اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے پیش نہیں کرتی ، اس وقت تک 530
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 19 جنوری 1945ء جماعت بری الذمہ نہیں ہو سکتی.اور جب تک کوئی فردا اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے پیش نہیں کرتا ، اس وقت تک وہ فرد ہونے کے لحاظ سے بری الذمہ نہیں ہوسکتا.اگر جماعت کی اکثریت اپنی ذمہ داریاں اور اپنے فرائض ادا کرنے میں کو تا ہی کرتی ہے تو وہ بلحاظ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب نہیں کر سکتی.اور اگر ایک فردا اپنی ذمہ داریاں اور اپنے فرائض نہیں سمجھتا تو وہ منفر دطور پر سزا کا مستحق ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے دلوں کو کھول دے اور ہمارے ایمانوں کو مضبوط کر دے اور ہمیں اس مقام پر کھڑا نہ کرے، جہاں مجرم کو سزا دینے کے لئے کھڑا کیا جاتا ہے.بلکہ خدا تعالیٰ ہمیں اس مقام پر کھڑا کرے، جہاں خدمت گذار اور وفا دار غلام کو انعام کے لئے کھڑا کیا جاتا ہے.آمین.( مطبوع الفضل 23 جنوری 1945 ء) 531
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطاب فرموده 18 فروری 1945ء ساری دنیا پر نظر کر کے تبلیغ کے لئے مناسب علاقہ تلاش کریں خطاب فرمودہ 18 فروری 1945ء طلبہ و اساتذہ جامعہ احمدیہ کی جانب سے مکرم مولوی نذیر احمد صاحب مبلغ سیرالیون کے اعزاز میں دی گئی دعوت چائے کے موقعہ پر خطاب رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب عربوں میں مبعوث ہوئے تو اس وقت عربوں کے جذبات بہت دبے ہوئے تھے.وہ سمجھتے تھے کہ باقی دنیا کے لوگ تو دنیا میں ترقی کے متعلق اپنا حصہ لے چکے ہیں مگر ہم محروم ہیں.اس پر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف سے آواز آئی تو وہ لوگ کھڑے ہو گئے.انہوں نے سمجھا، اب ترقی کرنے کا ہمارا وقت آ گیا ہے.چنانچہ وہ دیوانہ وار اٹھ کھڑے ہوئے اور آنافا نا ساری زمین میں پھیل گئے.مگر ہمارا یہ زمانہ، مہذب زمانہ ہے.دنیا کے بہت بڑے حصہ کے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم ترقی کے اعلیٰ معیار پر پہنچے ہوئے ہیں.اور ان کے مقابلہ میں ہماری یہ حالت ہے کہ ہم دنیا کے ساز وسامان کے لحاظ سے بہت پیچھے ہیں.ایسی صورت میں ہمارا کامیابی حاصل کرنا، ایک ایسی چیز ہے جیسا کہ ایک سخت چٹان کو کاٹ کر اس کا ذرا سا ٹکڑا علیحدہ کرنا.اور ہم بڑی کوشش اور بڑی مدت کے بعد اس کا ایک ذرا کاٹ سکتے ہیں.مگر خدا تعالیٰ نے ہمارے حوصلے بڑھانے کے لئے ایسے علاقے رکھ چھوڑے ہیں کہ اگر ہم ان میں تبلیغ کریں تو اتنی بڑی تعداد میں وہاں کے لوگ احمدیت میں داخل ہو سکتے ہیں.متمدن علاقوں میں لاکھوں مبلغ جا کر ہزاروں سالوں تک کام کریں تو کچھ کامیابی ہو سکتی ہے.مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ کچھ عرصہ کے بعد تو میں اپنی طاقت کھو بیٹھتی ہیں.محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قوم نے ایک عرصہ کے بعد اپنی طاقت کھوئی ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام کی قوم نے بھی کھوئی اور ہم پر بھی یہ وقت آئے گا.پھر دنیا کو روحانی طور پر فتح کرنا ہمارے لیے ناممکن ہو جائے گا.جس قسم کے متمدن زمانہ میں ہم پیدا ہوئے ہیں، اس کی وجہ سے ہمارا کام اتنا مشکل ہے کہ کسی قوم کو ایسا مشکل کام پیش نہیں آیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ کے جو لوگ تبلیغ کرنے کے لئے جاتے ، وہ علوم میں ان لوگوں سے بہت اعلیٰ ہوتے تھے، جنہیں تبلیغ کرتے تھے.مگر ہم جن لوگوں کی طرف جاتے ہیں ، وہ 533
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطاب فرموده 18 فروری 1945ء ہمیں بہت حقیر سمجھتے ہیں.ان حالات میں ہمارے لئے ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ ساری دنیا پر نظر کریں اور دیکھیں کہ کوئی ایسا حصہ ہے، جہاں کے لوگوں کے دلوں میں اس طرح کی آگ لگی ہوئی ہے، جیسی محمدصلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وقت عرب کے لوگوں کے دلوں میں لگی ہوئی تھی.اور پھر ان کو اپنے ساتھ ملاکر معروف اور کثیر التعداد قوم کی شکل میں دنیا کے سامنے آجا ئیں.تب دنیا سیاسی لحاظ سے بھی ہمیں وقعت دینے لگ جائے گی.اس وقت دنیا میں کروڑوں انسان ایسے پڑے ہیں کہ ہم انہیں تھوڑی سی کوشش سے حاصل کر سکتے ہیں.بنگال میں کئی سال کی محنت اور کوشش کرنے کے بعد اس وقت تک چند ہزار احمدی ہوئے ہیں.لیکن افریقہ میں تھوڑے عرصہ میں بہت تھوڑے مبلغوں کے ذریعہ ساٹھ ہزار کے قریب افراد احمدی ہو چکے ہیں.اگر ہمارے مبلغ وہاں زیادہ ہوں تو اور بھی زیادہ کامیابی ہوسکتی ہے“.پھر حضور نے فرمایا:.یا درکھو، جب کوئی ایک ملک بھی ایسا پیدا ہو گیا، جس کے متعلق دنیا کو معلوم ہو گیا کہ یہاں احمدی غالب ہیں اور اس ملک کی اکثریت احمدیت میں داخل ہو چکی ہے تو پھر نقشہ ہی بدل جائے گا.کیونکہ دنیا کو ہر ملک کی ضرورت ہے ، چھوٹے سے ملک کی بھی.اس وقت افریقہ میں دس پندرہ کروڑ افراد کی آبادی ایسی ہے، جو ان حالات میں سے گزرہی ہے، جن میں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بعثت کے وقت عرب گز ر ہا تھا.وہ سوکھی ہوئی لکڑیاں ہیں یا سوکھے ہوئے پتے، جنہیں دیا سلائی لگانے کی دیر ہے تا کہ وہ جل کر راکھ ہو جائیں.ایسی راکھ ، جو دنیا کی نظر میں تو راکھ ہوگی لیکن خدا تعالیٰ کی نظر میں تریاق.جونہ صرف ان لوگوں کی زندگی کا باعث ہوگا بلکہ ساری دنیا کو زندہ کرنے کا ذریعہ بن جائے گا.دراصل خدا تعالٰی نے عین وقت پر مجھے اس طرف توجہ دلائی اور پھر خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے غیر محدود ترقی کے دروازے کھولے ہیں.اس وقت وہاں چار مبلغ جاچکے ہیں اور چار پانچ جانے کے لئے تیار ہیں“.پھر فرمایا:.یا درکھنا چاہئے کہ یہ ایک ہی کھیت ہے، جو ہمارے لئے خالی پڑا ہے.اس کے سوا دنیا میں اور کوئی کھیت خالی نہیں.باوجود اس کے کہ یہ کھیت اس وقت تک خالی پڑا ہے ، ہمارا بھائی، جس نے دنیا کے باقی کھیتوں پر قبضہ کر رکھا ہے، یہ نہ کہے گا کہ اسے تم لے لو.بلکہ وہ ہمارے رستے میں روڑے اٹکانے کی کوشش کرے گا کیونکہ حضرت مسیح کی قوم ہمیں اپنے بھائی نہیں بلکہ حریف سمجھتی ہے.وہ قدم قدم پر ہمارا مقابلہ کرے گی اور مقابلہ کر رہی ہے.یہ مت خیال کرو کہ یہ بجر کھیت یونہی پڑے رہیں گے، ان پر قبضہ 534
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد دوم خطاب فرموده 18 فروری 1945ء کرنے کے لئے ہمارے حریف تیار کھڑے ہیں.اگر تم خالی کھیتوں پر قبضہ نہ کرو گے تو دوسرے لے جائیں گے.لیکن اگر ہم کچھ بھی کوشش کریں تو حق چونکہ ہمارے ساتھ ہے اور افریقن فطرت بھی ہماری تائید کرے گی ، اس لئے وہ تو میں ہماری طرف آئیں گی.پس اگر اس وقت ہم کچھ بھی طاقت اور زور بڑھائیں گے تو ہماری فتح یقینی ہے.ضرورت اس بات کی ہے کہ افریقہ کی فطرت اور ہماری طاقت مل کر دشمن کا مقابلہ کرے.پس جلد سے جلد یہ کام کرنے کی ضرورت ہے.مہینوں اور سالوں کے اندرتا کہ ہم کامیابی حاصل کرسکیں“.آخر میں حضور نے دعا کرتے ہوئے فرمایا:.میں اپنی جماعت کے نوجوانوں کے لئے دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان میں بیداری پیدا کرے تا وہ اس جھنڈے کو، جسے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ کھڑا کیا ہے، ہمیشہ قائم رکھے اور کبھی گرنے نہ دے“.( مطبوعہ الفضل 19 فروری 1945ء) 535
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 09 مارچ 1945ء جماعت کا ہر دوست اچھی طرح سمجھ لے کہ امتحان کا وقت آ گیا ہے وو خطبہ جمعہ 09 مارچ 1945ء معاندین کی گالیاں سن کر اگر واقعی کسی کو اشتعال آتا ہے، اگر غیرت آتی ہے، اگر واقعی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قدر دل میں ہے تو اس کے اظہار کا یہ طریق درست نہیں بلکہ اس کا طریق دوسرا ہے.جب کسی کے بیٹے کو ٹائیفائیڈ ہو جاتا ہے تو وہ کس طرح ہیں ہیں دن، مہینہ مہینہ دکان کو بند کر کے اور کاروبار ترک کر کے اس کی تیمارداری میں لگ جاتا ہے؟ اسی طرح جسے گالیاں سن کر غصہ آتا ہے، اشتعال پیدا ہوتا ہے، اگر غیرت جوش میں آتی ہے تو چاہئے کہ وہ دفتر تبلیغ میں جائے اور کہے کہ میں نے قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں مالتی سنی ہیں، جس سے مجھے بہت غصہ آیا ہے.اس لئے میں پندرہ دن یا ہمیں دن تبلیغ کے لئے دیتا ہوں.اگر قادیان کے احمدی یہ طریق اختیار کریں تو اس سے بہت فائدہ ہو سکتا ہے.قادیان میں دس ہزار احمدی ہیں، اگر ان میں سے دو ہزار بھی تبلیغ کے لئے پندرہ پندرہ دن دیں تو یہ میں ہزار بنتے ہیں.سال کے 360 دن ہوتے ہیں اور اس کے یہ معنی ہوں گے کہ گویا دس آدمی روزانہ تبلیغ کے لئے لگے رہیں گے.دس نہیں تو تو سہی اور اس طرح سلسلہ کو مفت کے نو مبلغ مل سکتے ہیں.اور ایسے نو آدمی، جن کے دلوں پر زخم ہوں، جن کی غیرت جوش میں آئی ہو، وہ تو پہاڑوں کو گرا سکتے ہیں.پس یہ طریق درست نہیں کہ مسجد میں جمع ہوئے اور اللہ اکبر، اللہ اکبر کے نعرے لگاتے رہے.اللہ اکبر اللہ اکبر تو روزانہ اذان دیتے ہوئے پانچ بار مسلمان کرتے ہیں.پھر اس سے کتنے لوگ مسلمان ہو جاتے ہیں؟ پس مسجد میں جمع ہو کر اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعرے لگانا اور زندہ باد کا شور مچانا کوئی فائدہ نہیں دے سکتا.یہ تو عورتوں کی گریہ وزاری سا طریق ہے.جب تم اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہو تو ان کے پیچھے کوئی طاقت نہیں ہوتی اور یہ بالکل ایسی ہی بات ہوتی ہے جیسے بچے جمع ہو کر ہا ہو کرتے اور شور مچاتے پھرتے ہیں.صحیح طریق یہی ہے کہ ارد گرد کے علاقہ کو احمدی کر لو.وو " (ج) تیسری بات اس سلسلہ میں یہ ہے کہ اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ کے نئے نئے راستے خود بخود کھل رہے ہیں.مثلاً ان دو ماہ میں سلسلہ کی تبلیغ اتنی او پر پہنچ گئی ہے کہ پچھلے سارے 537
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 09 مارچ 1945ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم سال میں جتنے احمدی ہوئے تھے ، اس سال جنوری فروری، صرف دو مہینوں میں اس کے نصف سے زیادہ ہو چکے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہی حالت قائم رہے تو پچھلے سال کی نسبت چار گنے سے بھی زیادہ کامیابی کی امید کی جاسکتی ہے.(1) پھر ان دو ماہ میں ایک عجیب بات یہ ہوئی ہے کہ عورتوں کے طبقہ میں حیرت انگیز طور پر تبلیغی رستہ کھلا ہے اور ان دو ماہ میں مسلمانوں کے ایک چوٹی کے خاندان کی، جسے تمام ہندوستان میں علمی اور تجارتی رعب حاصل ہے، ایک خاتون احمدی ہوئیں ہیں.پھر ایک اور خاتون ، جو انگریز ہیں اور انگلستان کے ایک ڈیوک کی رشتہ دار اور ہندوستان کے ایک بہت بڑے انگریز افسر کی بیوی ہیں، مسلمان ہوئی ہیں اور بیعت کی ہے.جو ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مثال ہے.(ہ) انہی دوماہ میں دو نواب خاندانوں کے افراد نے بیعت قبول کی ہے.(و) ہماری تبلیغ کا رخ زیادہ تر اسلامی ممالک کی طرف ہے.گو ہم مغربی ممالک میں بھی تبلیغ کرتے ہیں مگر زیادہ خیال ہمیں اسلامی ممالک کا ہی ہے کیونکہ ان کا حق ہم پر بہت زیادہ ہے.ان ممالک میں احمدیت کی ترقی کے سامان اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہونے لگے ہیں.اٹلی کی حکومت میں لیبیا کا ایک علاقہ تھا جسے تھوڑا عرصہ ہوا، اتحادیوں نے فتح کر لیا ہے.یہ علاقہ مصر کے ساتھ لگتا ہے اور وہاں بہت عرصہ تک اسی طرح لڑائی ہوتی رہی ہے، جیسا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے رویاء میں دکھایا تھا.اس علاقہ کا ایک مشہور شہر بن غازی ہے، جس کا ذکر بار بار خبروں میں آتا رہا ہے.اس علاقہ کے ایک حصہ کا صدر مقام طبروق اور دوسرے حصہ کا بن غازی ہے.اور یہ شہرلڑائی کا گویا ایک ہیں (Basc) تھا.بن غازی اس لئے بھی زیادہ مشہور ہے کہ دینی تحریک یہاں طبروق کی نسبت زیادہ زبردست ہے.جیسے مثلاً ہندوستان میں دیو بند و غیرہ مقام ہیں.بن غازی کے چیف امام جو عرب ممالک کی آزادی کی تحریک کے ایک لیڈر بھی تھے اور اس وجہ سے اٹلی کی حکومت ان کی مخالف تھی اور انہیں اطالوی حکام نے اٹلی کے کسی مقام پر قید کر رکھا تھا.اطالوی حکومت نے ان کو جنگ کا تمام عرصہ قید رکھا اور واپس اپنے ملک میں نہ آنے دیا.کیونکہ وہ ڈرتی تھی کہ وہ ملک کو آزادی کی تحریک کی طرف لائیں گے.امریکنوں اور انگریزوں کے داخلہ پر وہ آزاد ہوئے ہیں.چند روز ہوئے ان کی بیعت کا خط اٹلی سے آیا ہے.یہ بیعت گو ہے تو جلسہ سالانہ سے پہلے کی مگر چونکہ خط ملا بعد میں ہے، اس لئے انہیں دوماہ میں اس کا شمار ہوگا.گویا اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان علاقوں میں تبلیغ کا ایک نیا رستہ کھول دیا ہے.538
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 09مارچ 1945ء عجیب بات یہ ہے کہ میری ہمشیرہ مبارکہ بیگم صاحبہ ان دنوں بیمار ہیں.کل میں ان سے ملنے گیا تو ان کو اس بات کو کوئی علم نہ تھا.میرے وہاں پہنچتے ہی انہوں نے کہا کہ جب سے نواب صاحب فوت ہوئے ہیں، میں نے ان کو خواب میں نہ دیکھا تھا.آج رات پہلی دفعہ میں نے انہیں خواب میں دیکھا ہے اور انہوں نے جو خواب سنایا، وہ بھی اسی واقعہ کی طرف اشارہ کر رہا ہے.انہوں نے دیکھا کہ نواب صاحب مرحوم اپنے خاندان کا ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب میں بیمار تھا تو بیماری کی حالت میں بھی ان کو تبلیغ کرتارہا اور جب میری زبان بند ہوگئی تو میں اشاروں سے ان کو تبلیغ کرتا رہا.یہ بات کہتے کہتے آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور کہا کہ بڑی خوشی کی خبر آئی ہے، بڑی خوشی کی خبر آئی ہے.مصر اور لیبی وغیرہ عربی ممالک میں احمدیت خوب پھیل گئی ہے.یہاں تک کہ اب الفضل کا ایک عربی ایڈیشن بھی شائع ہونے لگا ہے اور عربی ممالک کے بادشاہ اور بڑے بڑے لوگوں کو اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک کہ وہ اسے پڑھ نہ لیں.تو ایک ایسے سیاسی لیڈر کو جس سے اطالوی حکومت ڈرتی تھی اور قید کر کے اٹلی لے گئی تھی ، اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ احمدیت کو قبول کرے.اور انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ میں اپنے وطن میں واپس جا کر احمدیت کی اشاعت کی کوشش کروں گا.اسی سلسلہ میں ایک اور نوجوان کا ذکر کر دینا بھی ضروری ہے، جو مرد نیہ منورہ سے حال میں یہاں اتفاق سے آئے ہیں اور ممکن ہے، اللہ تعالیٰ چاہے تو وہی نوجوان ان علاقوں میں احمدیت کی اشاعت کا موجب بن جائے.وہ طالب علم ہیں، ان کو تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہے.وہ کہتے ہیں کہ میں حج کے لئے مکہ میں آیا، میرا ارادہ تھا کہ میں مزید تعلیم بھی حاصل کروں گا.مگر وہاں مجھے خیال آیا کہ میں حنفی ہوں، اس لئے اہل حدیث علماء سے نہ پڑھنا چاہیے اور میں نے ہندوستان آکر تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ کیا.وہ جدہ پہنچے اور وہاں کے برطانی قونصل سے کہا کہ ہندوستان پہنچنے کا کوئی انتظام کر دے.چنانچہ اس نے اپنے پاس سے بمبئی تک کا ٹکٹ لے دیا.بمبئی سے انہیں کسی نے مشورہ دیا کہ علم پڑھنا ہے تو لا ہور جاؤ.وہ لاہور آئے تو وہاں کسی نے انہیں پیر جماعت علی شاہ صاحب کے پاس علی پور سیداں جانے کا مشورہ دیا.چنانچہ وہ وہاں گئے مگر پیر صاحب وہاں نہ تھے.وہ حیران تھے کہ اب کیا کریں اور اس افسردگی کی حالت میں وہ ریلوے سٹیشن پر بیٹھے تھے کہ کوئی احمدی دوست وہاں آگئے.ان سے بات چیت ہوئی تو انہوں نے ا حاصل کرنا ہے تو میرے ساتھ قادیان چلو اور وہ ان کو قادیان لے آئے.ان کو احمدیت کا کوئی علم نہ تھا.جب علم ہوا تو انہوں نے کہا مجھے یاد آیا ، میرے والد کے نام ایک عربی رسالہ البشریٰ آیا کرتا تھا اور وہ 539
اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 09 مارچ 1945ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اسے مطالعہ کیا کرتے تھے اور ان کی خواہش تھی کہ ہندوستان جا کر اس تحریک کے متعلق علم حاصل کروں مگر وہ فوت ہو گئے اور یہاں نہ آسکے.اب شاید اللہ تعالیٰ ان کی خواہش کو ہی پورا کرنے کے لئے مجھے یہاں لے آیا ہے.وہ کل مجھ سے ملے اور بیعت بھی کرنا چاہتے تھے مگر میں نے کہا اس طرح بیعت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں.بیعت تو اس وقت کرنی چاہیے جب اپنے نفس کو ہر قسم کی قربانیوں کے لئے تیار کر لیا جائے.(ز) پھر انہیں دنوں اٹلی سے اطلاع ملی ہے کہ البانیہ کے چودہ پندرہ طلباء احمد بیت کی طرف متوجہ ہیں اور لٹریچر کا مطالعہ کر رہے ہیں اور تحقیقات کر رہے ہیں.ادھر اٹلی سے یہ اطلاع ملی اور ادھر شملہ سے ریڈ کر اس سوسائٹی نے اطلاع دی ہے کہ البانیہ کا ایک فوجی لفٹینٹ جو جرمن قید میں ہے.اس نے لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کی کتاب اسے بھجوائی جائے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ البانیہ میں احمدیت کی روچلنے والی ہے.اس کے ساتھ جب یہ بات ملائی جائے کہ بادشاہ البانیہ کنگ زونغو نے شمس صاحب سے خواہش کی ہے کہ ان کی واپسی پر وہ وہاں آئیں اور ان کے مہمان ٹھہریں تو اس تحریک کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے.(ح) انگلستان میں بھی ان دوماہ میں چار انگریزوں نے اسلام قبول کیا ہے.جو تعلیم یافتہ طبقہ ے تعلق رکھتے ہیں.( ط ) ان دو ماہ میں فوج سے بھی کافی بیعت کے خطوط موصول ہوئے ہیں.جن میں سے بعض کنگز کمیشنڈ آفیسر ہیں اور بعض دوسرے عہد یدار ہیں.(ی) اسی طرح کی بعض اور تحریکات بھی ہیں، جن کو میں اس وقت بیان کرنا مناسب نہیں سمجھتا.تھوڑے دنوں میں جب وہ باتیں پختہ ہو جائیں گی تو ان کا اظہار کیا جا سکے گا.اسی سلسلہ میں ایک اور بات یہ ہے کہ انہی دنوں ہمارے چار مبلغ ہندوستان سے باہر جاچکے ہیں اور 26 اور مبلغ با ہر مختلف ممالک میں جانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں.جس کے معنی یہ ہیں کہ تبلیغی حملہ ہونے والا ہے.جوں جوں پاسپورٹ ملتے جائیں گے، یہ لوگ روانہ ہوتے جائیں گے اور اس طرح انشاء اللہ کئی ہزار میلوں میں تبلیغ کا میدان وسیع ہو جائے گا.گویا ایسے آثار ظاہر ہورہے ہیں کہ فوجی محاورہ کے مطابق ہمارے لئے Zoro hour باکل قریب ہے.جبکہ ہم لوگوں کے دلوں پر وسیع پیمانہ پر ایک تبلیغی حملہ کرنے والے ہیں.اسی لئے میں نے جماعت کو نصیحت کی ہے کہ وہ اپنی طاقتوں کو ضائع نہ کرے اور انہیں سمیٹ کر رکھے تا وہ زیادہ سے زیادہ کار آمد ہو سکے.جیسا کہ گذشتہ سال اللہ تعالیٰ نے مجھے الہام کیا تھا کہ روز جزا قریب ہے اور رہ بعید ہے.یہ 540
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 09 مارچ1945ء تغیرات ایسے ہیں کہ پہلے بعض سال، سال میں بھی نہ ہوتے تھے اور بعض تو دودو، چار چار سال میں نہ ہوتے تھے مگر اب اللہ تعالیٰ نے دوماہ میں وہ تکمیل تک پہنچا دیئے ہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے غیر معمولی تغیرات پیدا کئے جارہے ہیں.پس ہمارا بھی فرض ہے کہ غیر معمولی قربانیوں کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں.ایک دن تھا جب ہم تحریک جدید کی قربانیوں کو بڑا کہتے تھے مگر اب وہ وقت آنے والا ہے جب یہ قربانیاں بیچ نظر آئیں گی.پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ایک طرف تو تحریک جدید کے دفتر دوئم کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کریں.اس وقت تک صرف چالیس ہزار روپیہ سالانہ کے وعدے آئے ہیں حالانکہ ضرورت اڑھائی لاکھ کی ہے.پس دوست زیادہ سے زیادہ اس دفتر میں شامل ہوں.بعض لوگ چھوٹے بچوں کی طرف سے دو دو، چار چار آنے یا آٹھ آنہ یا روپیہ دے کر ان کو شامل کرتے ہیں.مگر میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ بارہ سال سے کم عمر کے بچہ کو اس میں شامل نہیں کیا جائے گا.کیونکہ اس سے کم عمر کے بچوں کو شامل کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ پورے انیس سال میں ان کی طرف سے اس کے والدین معمولی سی رقم داخل کرتے رہیں گے اور اسے خود آخر تک قربانی کرنے کا موقع نہ مل سکے گا.اگر بارہ سال کے کسی لڑکے کو والدین شامل کریں تو پھر اگر وہ 21 سال کی عمر کا ہو کر بھی خود کمانے لگے تو دس سال تک خود بھی حصہ لینے کا موقع پاسکے گا.پس میں نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ 12 سال سے کم عمر کے کسی بچہ کو شامل نہ کیا جائے.ہاں ثواب کے طور پر والدین چاہیں تو اپنے بچوں کی طرف سے چندہ دے سکتے ہیں مگر تحریک جدید کے سپاہیوں میں ان کا شمار نہ ہو سکے گا.ہاں بارہ سال سے زیادہ عمر کے بچوں کو با قاعدہ شامل کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ اس سال کا عرصہ خود قربانی کرنے کا پاسکتے ہیں.اگر چھوٹے چھوٹے بچوں کو ہی چند آنے لے کر شامل کر لیا جائے اور پانچ ہزار میں سے دو تین ہزار ایسے بچے ہو جائیں تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ یہ تحریک بالکل بے حیثیت ہو جائے گی.اور ان بچوں کی طرف سے دو دو، چار چار آنہ چندہ دوسروں کی قربانیوں کو بھی چھپا دے گا.تحریک جدید کے بعد وقف فنڈ کی تحریک ہے.اس میں اب تک ایک کروڑ 14 لاکھ روپے کے وعدے آچکے ہیں.چار سو کے قریب اور وعدے بھی ہیں، جن کی تفصیلات اب تک نہیں ملیں.ان کو ملا کر شاید ڈیڑھ کروڑ کے وعدے ہو جائیں.مگر میں چاہتا ہوں کہ اس تحریک کو کم سے کم پانچ کروڑ تک پہنچایا جائے تا اگر کسی وقت دو فیصدی کا بھی مطالبہ کیا جائے تو 10-8لاکھ روپیہ وصول ہو سکے.541
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 09 مارچ 1945ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم بہر حال جماعت کے ہر دوست کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ امتحان کا وقت آگیا ہے.اس لئے کہ اپنے کو تیار رکھو.خدا ہی جانتا ہے کہ کب تم میں سے ہر ایک کو بلایا جائے گا؟ خواہ کوئی وقف ہو یا نہ ہو.جو وقف نہ ہوں گے، انہیں ان کی بیعت کی وجہ سے بلایا جائے گا کہ آگے آؤ.پس اپنے آپ کو اس وقت کے لئے تیار کرلو تا ایسا نہ ہو کہ جب آواز بلند ہو تو کوئی شخص ایسا بھی ہو کہ امتحان میں پورا نہ اتر سکے اور ارتداد یا منافقت کے گڑھے میں جا گرے.پس اچھی طرح سن لو کہ بلاوے کا وقت آ رہا ہے بلکہ شاید آچکا ہے.گو قطعی طور پر تو میں نہیں کہہ سکتا کہ آچکا ہے مگر ایسے سامان ظاہر ہورہے ہیں کہ جن سے یہ گمان غالب ہے کہ وہ وقت آچکا ہے یا بالکل قریب آرہا ہے، جب تمام مذاہب پر اسلام اور احمدیت کی طرف سے عام دھاوا بول دیا جائے گا اور شیطان اور خدا تعالیٰ کے فرشتوں میں آخری فیصلہ کن لڑائی ہوگی.خوش قسمت ہوں گے وہ جن کو اس لڑائی میں اپنی جان اور اپنا مال قربان کرنے کا موقع ملے اور وہ خدا تعالیٰ کے حضور قرب کے اعلیٰ مقام حاصل کر سکیں.اور بد قسمت ہے وہ ، جو اس نایاب اور نادر موقعہ کو کھودے اور اعلی درجہ کے قرب کا مقام پانے سے محروم رہے، جس کے انتظار میں اس دنیا کے صلحاء ہزاروں سال سے بیتاب تھے.(مطبوعہ الفضل 14 مارچ1945ء) 542
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم ملفوظات فرمودہ 05 مئی 1945ء فرمایا:.جنگ عظیم تحریک جدید کا ایک ظہور ملفوظات فرمودہ 05 مئی 1945ء بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں، جو بظاہر الہامی نہیں ہوتیں لیکن انسان ان کے متعلق محسوس کر لیتا ہے کہ وہ خدائی فیصلہ اور خدائی قانون کے ساتھ ایسی وابستہ ہیں کہ وہ بمنزلہ الہام کے ہیں.میں نے جب تحریک جدید جاری کی تو ابتداء میں اس کے متعلق یہ احساس نہ تھا کہ یہ الہی تحریک ایسے رنگ میں ہے کہ اسے الہامی سمجھا جائے.مجھے یہ معلوم ہوتا تھا کہ خدا تعالیٰ مجھے مجبور کر کے کسی کام کے لئے تیار کرنا چاہتا ہے.مگر تیسرے سال پر پہنچ کر یہ احساس شروع ہوا کہ اس کے اندر خدائی تدبیر کام کر رہی ہے اور اس کی تفصیل بھی الہی منشاء اور اس کی تقدیر کے ماتحت ہے.چنانچہ جب یہ جنگ شروع ہوئی تو میرے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات ڈالی کہ یہ جنگ تحریک جدید کا ایک ظہور ہے اور اس کے خاتمہ سے تعلق رکھتی ہے.اور یہ خیال ایسا میخ کی طرح گڑا ہوا تھا کہ متعدد دفعہ میں اس کے متعلق بیان کر چکا ہوں.مجھے خیال پڑتا ہے کہ 1942ء کے آخر میں ایک خطبہ جمعہ میں میں نے بیان کیا تھا کہ اس جنگ کا اختتام تحریک جدید کے خاتمہ کے ساتھ ہوگا.اسی طرح مجھے خوب یاد ہے کہ 1943ء میں جب میں گھر کی بعض مریضہ عورتوں کے علاج کے لئے دہلی گیا تو وہاں چوہدری بشیر احمد صاحب نے ایک رات دعوت دی.اس دعوت میں بہت سے غیر احمدی افسر بھی مدعو تھے اور بعض ایسے تھے، جو سلسلہ کے متعلق تنقیدی نگاہ رکھتے تھے.اس وقت میرے دائیں پہلو پر چیز (Purchase) کے بڑے افسر غلام مرشد صاحب.I.C.S بیٹھے ہوئے تھے اور میرے بائیں طرف فنانس کے تین افسر تھے.جن میں سے ایک مرکزی سپلائی کے دفتر کے ایڈوائزر مسٹر ز بیری تھے اور باقی دو دوسرے دفاتر کے تھے.ان میں سے ایک دوست شاید مسٹر اظہر تھے.اب وہ پنجاب میں ایڈوائزر کے طور پر لگے ہوئے ہیں اور دوسرے غالباً مسٹر ممتاز حسین صاحب تھے ، جو پنجاب ہی کے رہنے والے ہیں اور ڈاکٹر اقبال صاحب کے بارہ میں کئی مضامین لکھ چکے ہیں.شروع میں مذہب کے متعلق 543
ملفوظات فرمودہ 05 مئی 1945ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم مختلف باتیں ہوتی رہیں.آخر سلسلہ کلام جنگ کی طرف پھرا.اس وقت ایک صاحب نے سوال کیا کہ جنگ کا خاتمہ کب ہوگا ؟ میں نے ان کو بتایا کہ میرے نزدیک اپریل 1945 ء کے آخر یا زیادہ سے زیادہ جون 1945 ء تک ہو جائے گا.یہی وہ بات تھی، جو میں پہلے بھی قادیان میں بیان کر چکا تھا.لیکن اس وقت بالعموم ایسے غیر احمدی لوگ تھے، جو دنیاوی لحاظ سے وجاہت رکھنے والے ہیں اور ان میں سے کسی کو یاد ہوتو وہ گواہی دے سکتا ہے.انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ کو اس بارہ میں کوئی الہام ہوا ہے؟ میں نے کہا الہام تو نہیں ہوا لیکن مجھے یقین ہے کہ میں نے جو تحریک جدید جاری کی ہے، اس کا جنگ کے ساتھ تعلق ہے.اس کا دس سالہ تسلسل ہندوستان کے لحاظ سے اپریل 1945ء میں ختم ہوتا ہے اور بیرونی ممالک کے لحاظ سے جون 1945ء میں.کیونکہ چندہ کے وعدوں کی میعاد ہندوستان کے لئے بنگال وغیرہ کو ملا کر اپریل کا آخر ہوتی ہے اور بیرونی ممالک کے لئے جون کے آخر تک کی میعاد ہے.اللہ تعالیٰ کی جو قدرتیں ظاہر ہو رہی ہیں، ان کے لحاظ سے مجھے یقین ہے کہ تحریک جدید کے ساتھ جنگ گہراتعلق ہے اور دیر سے میں اس کو محسوس کر رہا ہوں.اس بناء پر مجھے یقین ہے کہ اس جنگ کا خاتمہ اس دور کے خاتمہ کے ساتھ اپریل یا جون تک ہو جائے گا.اس پر ایک صاحب نے سوال کیا کہ جنگ محور یوں کے حق میں ختم ہوگی یا انگریزوں کے حق میں؟ اس پر میں نے جواب دیا کہ میر اعلم یہی ہے کہ انگریزوں کے حق میں ختم ہوگی.اور اگر وہ مجھ سے دعا کی درخواست کریں تو یقینا انہیں کے حق میں ختم ہوگی.وہ وقت ایسا تھا کہ ابھی جنگ کے متعلق یوروپین ماہر، جو جنگ کا انتظام کرنے والے تھے، وہ بھی نہ کہ سکتے تھے کہ جنگ کا خاتمہ کب ہوگا اور کس کے حق میں ہوگا ؟1942ء میں جرمنی کا پلہ بھاری تھا.1943ء میں آکر کمزوری شروع ہوئی.لیکن اس وقت بھی نہیں کہا جاسکتا تھا کہ جرمنی شکست کھا جائے گا.ہاں عوام الناس بے شک تک بندیاں کرتے تھے.بات اب بظاہر یہ ایک قیاس تھا، جو ایک انسان نے اپنے ایک فعل کے متعلق کیا.تحریک جدید کسی الہام کے ماتحت جاری نہیں کی گئی تھی.میں نے اسے جاری کیا تھا.بظاہر ایک بات بندے کے منہ سے نکلی لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور اللہ تعالیٰ کے فعل نے بتا دیا کہ وہ بات بندے نے خود نہیں کہی تھی بلکہ اللہ تعالیٰ نے کہلوائی تھی.جب اس بندے پر ظاہر ہو گیا کہ وہ فعل میں نے نہیں کیا تھا بلکہ خدا تعالیٰ نے کرایا تھا.تو یہ بھی صاف ہو گیا کہ جوں جوں تحریک جدید چلتی جائے گی، اللہ تعالیٰ کی تقدیر بھی ساتھ ساتھ چلتی جائے گی.اس بندے نے قیاس کیا کہ تحریک جدید کے پہلے دور کا خاتمہ اپریل 1945 ء یا جون میں ہوتا ہے، اس لئے لڑائی بھی اپریل 45ء یا جون تک ختم ہو جائے گی اور یہ اسی طرح پورا ہو گیا ہے.آج نئے.544
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم ملفوظات فرمودہ 05 مئی 1945ء جرمن وزیر نے اعلان کیا ہے کہ لڑنے کا نتیجہ ہمارے حق میں اچھا نہیں، اس لئے ہمیں اب مقابلہ نہیں کرنا چاہئے.جس طرح بھی ہو، اب اتحادیوں سے مل کر اپنے ملک کی آبادی کی فکر کرنی چاہیے.اس اعلان کی وجہ سے لوگوں میں چہ مگوئیاں ہورہی ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ خفیہ طور پر معاہدہ پر دستخط ہو گئے ہیں.اگر معاہدہ پر دستخط نہ ہوتے تو جرمن وزیر یہ اعلان نہ کرتا.اس کا یہ اعلان کرنا کہ اب ہم ان کے رحم پر ہیں اور ہمیں اب اپنے ملک کی درستی اور آبادی کی فکر کرنی چاہیے تا ہمارے بھوکوں کو روٹی مل سکے.ظاہر کرتا ہے کہ مخفی طور پر دستخط ہو چکے ہیں یا مخفی طور پر فیصلہ ہو چکا ہے، صرف اعلان باقی ہے.28 یا 29 اپریل کو ہٹلر مارا گیا، در حقیقت ہٹلر کی موت اور جنگ کا خاتمہ ایک ہی تھے.اور وہ جنگ جس کے ساتھ تحریک جدید کا تعلق تھا، اس کے پہلے دور کے خاتمے کے ساتھ ختم ہو گئی.باقی رہی جاپان کی جنگ ، وہ اس جنگ کا تتمہ ہے.جب بڑا دشمن مارا گیا تو یہ بہت معمولی چیز ہے اور نسبتی طور پر کمزور ہے اور اس کو مٹانا کچھ مشکل نہیں.اب عالمگیر جنگ نہ رہی.اگر جرمن اور اٹلی فتح ہو جائیں تو باقی جنگ کا قریب میں ہی خاتمہ سمجھنا چاہیے.جاپان کی جنگ کی صورت لوکل جنگ کی ہے اور وہ بمشکل دنیا کے 1/10 حصہ میں رہ جائے گی.باقی کا9/10 دنیا میں جنگ ختم ہو جائے گی.تو اللہ تعالیٰ کی عجیب قدرت ہے کہ بغیر اس کے نہ کوئی رؤیا ہو، بغیر اس کے کہ کوئی الہام ہو، یہ بات میخ کی طرح میرے دل میں گڑی ہوئی تھی ، پھر وہ لفظا پوری ہوئی“.( مطبوعہ افضل 24 مئی 1945ء) 545
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خلاصہ خطاب فرمودہ 08 مئی 1945ء اس وقت ہر پہلو سے احمدی نوجوانوں کو قربانی کرنے کی ضرورت ہے حضور نے فرمایا:.خطاب فرمودہ 08 مئی 1945ء میں احمدی نوجوانوں کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ حیرت انگیز تغیر خدا تعالیٰ نے ظاہر کر دیا ہے، جس کی بنیاد آج سے دس سال قبل میں نے تحریک جدید سے رکھی تھی.اب ہمارے نوجوان ان جانی اور مالی قربانیوں کا بنظر غائر مطالعہ کریں، جو اس جنگ میں متحارب قوموں نے پیش کی ہیں اور کوشش کریں کہ ان کو دین کے لیے ان قوموں سے بڑھ کر قربانیاں پیش کرنے کا موقعہ ملے.دنیا کے لئے جو قربانیاں کی جاتی ہیں، ان کے لئے ضروری نہیں ہوتا کہ قربانی کرنے والوں کو ان کا نتیجہ بھی حاصل ہو.مگر خدا تعالیٰ کے ایک مامور اور نبی کے آنے پر جو لوگ اسے قبول کرتے ہیں اور قبول کرنے کے بعد دین کے لئے قربانیاں کرتے ہیں، ان کو نتیجہ پہلے سے ہی بتا دیا جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت جب صحابہ کرام سخت مشکلات میں پھنسے ہوئے تھے ، اسلام ابتدائی حالت میں تھا، ہر طرف سے دشمن حملے کر رہا تھا، صحابہ کو خدا تعالیٰ کا یہ ارشاد سنایا کہ اِنْ تَكُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُوْنَ كَمَا تَأْ لَمُوْنَ وَتَرْجُوْنَ مِنَ اللَّهِ مَا لَا يَرْجُوْنَ جہاں تک دکھ اور تکلیف کا سوال ہے، یہ ان (کفار) کو بھی پہنچتا ہے اور تم کو بھی.لیکن فرماتا ہے.تم میں اور ان میں ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ ان کے سامنے کوئی یقینی نتیجہ نہیں.مگر جب تم جنگ کے لئے نکلتے ہو تو تمہارے سامنے یہ یقینی نتیجہ ہوتا ہے کہ ہم ہی جیتیں گے.گویا تمہارے دشمن مایوسی کی لڑائی لڑتے ہیں مگر تم امید کی لڑائی لڑتے ہو.یہی فرق اس زمانہ میں ہم میں اور دنیا کے لئے لڑائی لڑنے والوں میں ہے.جرمن لڑائی لڑے اور آخری چھ ماہ میں ان کی لڑائی نہایت مایوسی کی لڑائی تھی.مگر جتنی جانیں اس عرصہ میں انہوں نے قربان کیں ، اتنی پہلے اس قدر عرصہ میں نہیں کیں.لاکھوں جرمن مارے گئے.اندازہ ہے کہ دس لاکھ کے قریب مارے گئے اور بے تحاشا جانیں دیتے رہے.انہوں نے کہا کہ کیا ہوا ، اگر ہمیں فتح اور کامیابی نہیں ہوسکتی تو 547
خلاصہ خطاب فرمود: 08 مئی 1945ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم ہم ایسی حالت میں جینا بھی نہیں چاہتے.اس وجہ سے ایک ایک دن میں اور ایک ایک فرنٹ پر 50،50 اور 60 ، 60 ہزار جرمن مارے گئے.غرض اس شدت کے ساتھ وہ مایوسی کی حالت میں لڑے.اب اگر مومن کہلانے والوں میں غیرت ہو تو خواہ وہ اس حد تک بھی سمجھیں کہ انہیں کوئی امید نہیں دلائی گئی کہ وہ جیتیں گے تو بھی انہیں دین کے لئے اس قدر تو قربانی کرنی چاہیے، جتنی مایوسی میں جرمنوں نے دنیا کے لئے کی.اور دین کے لئے کم از کم اس قدر قربانیوں سے پیچھے نہ رہنا چاہیے.مگر مومنین کے لئے خدا تعالیٰ زائد چیز بھی پیش کرتا ہے.فرماتا ہے.تم قربانیاں کرو تمہاری قربانیاں رائیگاں نہ جائیں گی ، دین اسلام کو غلبہ حاصل ہو گا.غرض بڑی سے بڑی قربانیاں پیش کرنے کے لئے دوسروں کے مقابلہ میں ہمارے سامنے موجبات بھی بہت زیادہ ہیں.کیونکہ ہمارا مقصد بہت اعلیٰ ہے اور محرکات بھی بہت زیادہ ہیں.کیونکہ جو امید ہم کو دلائی جاتی ہے، وہ کسی اور کو نہیں ہو سکتی.خدا تعالیٰ کا مومنین سے وعدہ ہے کہ اسلام کی خاطر جنگ کرتے ہوئے اگر تم زندہ رہو گے تو فتح یاب ہو گے اور اگر مر جاؤ گے تو جنت میں جاؤ گے.غرض ہمارے لئے ہر حالت میں جیت ہی جیت ہے.آج ہم سے جان کی قربانی اس طرح نہیں طلب کی جارہی ، جس طرح جنگوں میں پیش کی جاتی ہے.مگر دین کی اشاعت کے لئے گھر بار چھوڑنے ، بال بچوں سے علیحدہ ہونے اور مسافرت کی تکلیفیں اٹھانے کا موقع تو ہے.ہمارے سامنے بہت بڑا کام پڑا ہے اور اس کے لئے بہت کثرت سے آدمیوں کی ضرورت ہے.ابھی تک ہمیں کوئی ایسی کامیابی نہیں ہوئی، جس کے متعلق کہا جاسکے کہ پوری تیاری اور کافی کام کرنے والوں کے ذریعہ حاصل ہوئی ہے.اور حقیقت یہ ہے کہ کام کے لحاظ سے جتنی قربانیاں کرنے کی ہمیں ضرورت ہے اور جتنا سرمایہ جمع کرنے کی ہمیں ضرورت ہے، اس کا عشر عشیر بھی ہم نے نہیں کیا.ایک چھوٹی سے چھوٹی تبلیغی سکیم کے متعلق میں نے بتایا تھا کہ 15 لاکھ روپیہ سالانہ کا خرچ ہے.پھر اس وقت بیسیوں ایسے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ضرورت ہے کہ جو کام ان کے سپرد کیا جائے ، اسے عقل اور سمجھ سے کریں اور علمیت سے ترقی دیں.تھوڑا سا سرمایہ ہم ان کے لئے مہیا کر دیں اور وہ عقل کے ساتھ اسے بڑھا سکیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پانچ ہزار سپاہی ملنے کے متعلق جور و یا دکھایا گیا، اس کے پورے ہونے کی پہلی اور ادنی صورت یہ ہے کہ پانچ ہزار افراد تحریک جدید کا چندہ دینے والے ہوں، جو 19 سال تک مسلسل چندہ دیتے جائیں.مگر یہ کوئی ایسی شاندار صورت اس رؤیا کے پورے ہونے کی نہیں.اصل شان اس کی یہ ہے کہ پانچ ہزار احمدی مبلغ ہوں، جو ساری دنیا میں اشاعت اور حفاظت اسلام کا کام کر 548
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد دوم خلاصہ خطاب فرمودہ 08 مئی 1945ء رہے ہوں.اور ان کے لئے کم از کم خرچ 4 کروڑ سالانہ بنتا ہے.اس قدر سالانہ رقم مہیا کرنے کی جب تک ہم کوشش نہ کریں، اس وقت تک ہماری سکیم محض خیالی اور قیاسی ہوگی.پس اس وقت ہر پہلو سے احمدی نوجوانوں کو قربانی کرنے کی ضرورت ہے.1.اول یہ کہ تبلیغ کو وسیع کریں.اتنا وسیع کہ کوئی ملک ایسا نہ ہو، جہاں کافی مبلغ نہ ہوں.تاکہ جو ملک بھی سارے کا سارا حق کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو جائے ، اس کے لئے کوئی دقت نہ ہو.2 ہر قسم کے علوم حاصل کریں اور اپنی علمیت کے لحاظ سے ایسی پوزیشن بنا ئیں کہ دنیا سمجھے، ان کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں.3:.اقتصادی لحاظ سے اس قدر ترقی کریں کہ دنیا سمجھے کہ اس جماعت نے اپنے ہر فرد کی حالت بدل دی ہے.(مطبوعہ الفضل 10 مئی 1945ء) 549
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 08 مئی 1945ء دنیوی جنگ کے مقابلہ میں دینی جنگ کے لئے زیادہ قربانیاں کریں ملفوظات فرمودہ 08 مئی 1945ء ”یہاں ہمارے نوجوان کا لجوں کے بھی اور سکولوں کے بھی بیٹھے ہیں.میں ان کو توجہ دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے وہ حیرت انگیز تغیر ظاہر فرما دیا ہے، جس کی بنیاد آج سے دس سال پہلے تحریک جدید کے ذریعہ رکھی گئی تھی.دنیا کی لڑائی کا اب خاتمہ ہو چکا ہے اور خدا تعالیٰ نے دین کی لڑائی کا راستہ کھول دیا ہے.ہمارے نو جوانوں کو چاہئے کہ جو قربانیاں دنیا والوں نے اس جنگ میں کی ہیں ، ان کا بغور مطالعہ کریں اور اپنے آپ کو دین کی بڑائی کے لئے اس سے زیادہ قربانیاں کرنے کے لئے تیار کریں.دنیوی جنگ کو دیکھ لو، یہ کس رنگ میں اچانک ختم ہوئی ہے؟ دنیوی جنگ میں انسان کو بسا اوقات فتح کی امید نہیں ہوتی مگر پھر بھی وہ قربانی کرتا ہے.مگر دین کی جنگ کے بارے میں مومنوں کو اپنی فتح اور کامیابی کا یقین ہوتا ہے.قرآن مجید میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومنوں کو بعض دفعہ تکلیف پہنچتی ہے تو بعض مومن گھبرا جاتے ہیں اور منافق طبع لوگ شور مچانا شروع کر دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَلَا تَهِنُوا فِى ابْتِغَاءِ الْقَوْمِ اِنْ تَكُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُوْنَ كَمَا تَأْلَمُوْنَ وَتَرْجُونَ مِنَ اللهِ مَا لَا يَرْجُونَ وَكَانَ اللهُ عَلِيمًا حَكِيمًان (نساء رکوع 15) تم دیکھو جو تکلیف تم کو پہنچ رہی ہے، یہ صرف تمہیں ہی نہیں بلکہ تمہارے دشمنوں کو بھی پہنچ رہی ہے.یہ نہیں کہ تمہارا مال خرچ ہوتا ہے اور ان کا نہیں ہوتا یا تمہارے آدمی مرتے ہیں اور ان کے نہیں مرتے.بلکہ مال ان کا بھی خرچ ہوتا ہے اور تمہارا بھی.آدمی ان کے بھی مرتے ہیں اور تمہارے بھی.پس جہاں تک دنیوی تکلیف کا سوال ہے، اس میں تم دونوں برابر ہو.مگر ایک چیز میں فرق ہے اور وہ یہ کہ تمہارے دشمنوں کے اندر شک ہے اور انہیں اپنی فتح کا یقین نہیں مگر تمہیں یقین ہے کہ فتح تمہاری ہوگی.تو جب باوجود شک کے وہ قربانیاں کرتے ہیں تو تم اپنی کامیابی کے متعلق یقین رکھتے ہوئے قربانیوں سے کیوں گھبراتے ہو ؟ پس تم دونوں میں یہ امتیاز ہے کہ وہ لڑتے ہیں مایوسی کے ساتھ اور تم لڑتے ہو یقین کے ساتھ کہ ہم نے بہر حال جیتنا ہے.اور تمہارے اندر وہ امید ہے، جوان کے اندر نہیں.551
اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 08 مئی 1945ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم موجودہ زمانہ میں یہی فرق ہمارے اور دوسرے لوگوں کے اندر ہے کہ ہمیں خدا تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اپنی فتح کے متعلق یقین ہے.مگر ان لوگوں کے اندر مایوسی ہے.لیکن باوجود مایوسی کے وہ لوگ قربانیاں کرتے ہیں.جرمنوں کو ہی دیکھ لو.ان کی پچھلے چھ ماہ کی لڑائی مایوسی والی تھی.مگر جتنی قربانی انہوں نے اس چھ ماہ میں کی ہے، اتنی قربانی انہوں نے پہلی ساری جنگ میں بھی نہیں کی.وہ جانتے تھے کہ اس لڑائی کا نتیجہ ہمارے حق میں نہیں ہوگا.مگر پھر بھی انہوں نے کہا کہ اگر جنگ کا نتیجہ ہمارے حق میں نہ ہوا تو کیا ہے؟ ہم دشمن کی قید میں رہ کر ذلت کی زندگی گزارنے سے جنگ میں مرجانا بہتر سمجھتے ہیں.چنانچہ کہا جاتا ہے، پچھلے چند ہفتوں میں دس لاکھ جرمن مارے گئے اور بعض اس سے بھی زیادہ کہتے ہیں.بعض دفعہ ایک ایک محاذ پر ایک ایک دن میں پچاس پچاس، ساٹھ ساٹھ ہزار آدمی مارا گیا.مگر ان حالات میں بھی وہ لڑتے گئے کہ اگر ہم مارے گئے تو کیا ہوا؟ ہم مر جانا بہتر سمجھتے ہیں مگر دشمن کے ماتحت رہنا پسند نہیں کرتے.پس میں سمجھتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے امید نہ بھی دلائی گئی ہو کہ تم نے جیتنا ہے تو قربانی کے لئے صرف یہی چیز کافی ہے کہ انسان دشمن کی قید اور ماتحتی میں رہنا پسند نہ کرے.مگر ہمارے لئے تو ایک زائد چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم دین کے لئے قربانیاں کرو گے تو تمہاری وہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی بلکہ ان کے بدلہ میں خدا تعالیٰ اسلام کو دنیا میں پھیلا دے گا.پس ہمارے لئے تو قربانی کے محرکات اور موجبات بہت زیادہ ہیں اور ہمارا مقصد بہت اعلیٰ ہے اور ہمیں اپنی کامیابی اور فتح کے متعلق یقین ہے.پھر کیا وجہ ہے کہ ہم دنیا والوں سے زیادہ یا کم از کم اتنی قربانیاں نہ کریں.خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ احدی الحسنین کا وعدہ فرماتا ہے کہ اگر تم جیت گئے تو پھر تو تمہاری فتح ہے ہی لیکن اگر تم دین کی لڑائی میں مارے گئے تو سیدھے جنت میں جاؤ گے.گویا دونوں صورتوں میں ہمارے سامنے بہت بڑا مقصد اور دونوں صورتوں میں ہمیں امید اور یقین ہے، غالب ہونے کی صورت میں بھی اور مرنے کی صورت میں بھی.پس ہمارے نوجوانوں کو چاہئے کہ اس دنیوی جنگ میں لوگوں نے جو قربانیاں کی ہیں، ان کا بغور مطالعہ کریں اور پھر اپنے آپ کو دین کی جنگ کے لئے اس سے بھی زیادہ قربانیاں کرنے کیلئے تیار کریں“.مطبوع الفضل 06 جون 1945ء) 552
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرموده 11 مئی 1945ء کمر ہمت باندھ لواور مقصود تک پہنچنے کے لئے سارا زور لگا دو خطبہ جمعہ فرمودہ 11 مئی 1945ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.رات سے مجھے نقرس کا دورہ ہے اور درد کی وجہ سے میرا پاؤں سو جا ہوا ہے.جس کی وجہ سے جمعہ کے لئے آنا بھی مشکل تھا لیکن میں آتو گیا ہوں مگر کھڑا ہو کر خطبہ نہیں پڑھ سکتا.اس ہفتے خدا تعالیٰ نے اپنے فضل اور اپنی رحمت کا نشان اس رنگ میں دکھایا ہے کہ یورپ کی جو ابتدائی اور اصلی جنگ تھی ، وہ ختم ہو چکی ہے.اس جنگ کے متعلق میں نے بارہا بیان کیا تھا کہ قرآن مجید سے اور خدا تعالیٰ کے فعل سے جہاں تک میں سمجھتا ہوں، یہ جنگ 1945 ء کے شروع میں ختم ہو جائے گی.یعنی اپریل 1945 ء یا جون 1945 ء تک.یہ بات خدا تعالیٰ نے ایسے عجیب رنگ میں پوری کی ہے کہ اس پر حیرت آتی ہے.آج ہی لاہور سے ایک طالب علم نے لکھا ہے کہ گزشتہ سال میڈیکل کالج لاہور کے کچھ طالب علم جب آپ سے ملنے آئے تھے تو ان میں سے ایک نے آپ سے سوال کیا تھا کہ جنگ کب ختم ہوگی ؟ اور آپ نے اسے یہ جواب دیا تھا کہ جو کچھ میں قرآن مجید سے اور خدا تعالیٰ کے کلام اور اس کے فعل سے سمجھتا ہوں، یہ جنگ اپریل 1945ء میں ختم ہو جائے گی.وہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ بات اسی وقت نوٹ کر لی تھی اور اب میں نے وہ تحریر اس لڑکے کو، جس نے یہ سوال کیا تھا، دکھا دی ہے کہ تمہارے ساتھ یہ گفتگو ہوئی تھی.دیکھ لواب وہ بات پوری ہوگئی ہے.عجیب بات یہ ہے، جو نہایت حیرت انگیز ہے.گزشتہ الہامات تو الگ رہے، میرے اس استدلال کی بنیاد کہ جنگ اپریل 1945ء میں ختم ہو جائے گی ، اس بات پر تھی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحریک جدید کے بواعث کے نتیجہ میں یہ جنگ پیدا کی گئی ہے.چنانچہ اس مضمون کے متعلق کثرت سے میرے خطبات موجود ہیں کہ گورنمنٹ کی طرف سے ہماری جماعت کو جو تکالیف دی گئی ہیں، ان کے نتیجہ میں اسے یہ ابتلا پیش آیا ہے اور تحریک جدید کے ساتھ اس کی وابستگی ہے.چنانچہ میں نے جو یہ کہا تھا کہ جنگ اپریل 1945ء کے آخر میں ختم ہو جائے گی.یہ اس بناء پر کہا تھا کہ تحریک جدید کا آخری سال وعدوں 553
خطبہ جمعہ فرموده ۱۱ مئی 1945ء تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد دوم کے لحاظ سے تو 1944ء میں ختم ہوتا ہے لیکن جہاں تک سارے ہندوستان کے لئے چندوں کی ادائیگی کا تعلق ہے، اس لحاظ سے یہ مدت اپریل 1945ء میں ختم ہوتی ہے.اور جون یا جولائی اس لحاظ سے کہا تھا کہ بیرون جات کے چندوں کی ادائیگی کی آخری میعاد جون یا جولائی میں جا کر ختم ہوتی ہے.اب یہ عجیب بات ہے کہ چندوں کی ادائیگی کی آخری تاریخ جو مقرر ہے ، وہ سات ہوتی ہے.یعنی اگر ہندوستان کے ان علاقوں کے لئے جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے، 31 جنوری مقرر ہے تو یہ میعاد 7 فروری کو جا کر ختم ہوتی ہے اور اگر ہندوستان کے ان علاقوں کے لئے جہاں اردو بولی اور مجھی نہیں جاتی ، 30 اپریل مقرر ہے تو یہ میعادسات مئی کو جا کرختم ہوتی ہے.کیونکہ یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اگر وعدہ لکھوانے کی تاریخ 30 اپریل تک رکھی جائے تو چونکہ بعض جگہ ہفتہ میں ایک دفعہ ڈاک آتی ہے، اس وعدہ کے روانہ ہونے کی آخری تاریخ اگلے مہینے کی سات ہونی چاہئے.اس اصل کے مطابق ہندوستان کے ان علاقوں کے لئے جہاں اردو بولی اور کبھی جاتی ہے، آخری میعاد سات فروری مقرر ہے.اور ہندوستان کے ان علاقوں کے لئے جہاں اردو بولی اور سمجھی نہیں جاتی ، وعدوں کی ادائیگی کی آخری میعاد 7 مئی مقرر ہے.اب یہ عجیب بات ہے کہ جس دلیل پر میری بنیاد تھی کہ تحریک جدید کے آخری سال کے اختتام یہ جنگ ختم ہوگی.میری وہ بات اسی رنگ میں پوری ہوئی کہ جنگ نہ صرف اسی سال اور اسی مہینہ میں ختم کر ہوئی، جو میں نے بتایا تھا بلکہ عین سات مئی کو آکر سپردگی کے کاغذات پر دستخط ہوئے.چونکہ وعدوں کی ادائیگی کے لئے ایک سال مقرر ہے، اس لئے دس سالہ دور تحریک کے چندوں کی ادائیگی کی آخری تاریخ حسب قاعدہ 7 مئی 1945ء ہوتی ہے.اور اسی تاریخ کو سپردگی کے کاغذات پر جرمنی کے نمائندوں نے دستخط کئے.گویا قانونی طور پر معین اسی تاریخ آکر جنگ ختم ہوئی ، جوتحریک جدید کے چندوں کی ادائیگی کے لحاظ سے سارے ہندوستان کے لئے آخری تاریخ ہے اور جس کے بارہ میں، میں بار بار اور متواتر اڑھائی سال سے اعلان کر رہا تھا.خدا تعالیٰ کی قدرت کا یہ کتنا بڑا انشان ہے؟ صوفیاء لکھتے ہیں کہ بعض دفعہ بندہ کی زبان اور ہاتھ خدا تعالیٰ کے ہو جاتے ہیں.قرآن مجید میں بھی خدا تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلكِنَّ اللهَ رَبِّي کہ اے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم بدر کے موقع پر جب تو نے مٹھی بھر کنکر پھینکے تھے.بظاہر تو وہ تو نے ہی دعائیہ رنگ میں پھینکے تھے لیکن ہم نے تیرے ہاتھ کو اپنا ہاتھ بنالیا اور اسے کفار کی تباہی کا موجب بنا دیا.تو اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں سے یہ سلوک رہا ہے کہ وہ ان کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ اور ان کی زبان کو اپنی زبان بنا لیتا ہے.554
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود ها | مئی 1945ء میں نے متواتر بیان کیا تھا کہ میں جو کہتا ہوں کہ جنگ 1945 ء کے شروع میں ختم ہو جائے گی.میں یہ کسی الہام کی بناء پر نہیں کہتا بلکہ میرے استدلال کی بنیاد اس بات پر ہے کہ چونکہ تحریک جدید کا آخری سال چندوں کی ادائیگی کے لحاظ سے 1945ء کے شروع میں یعنی اپریل میں جا کر ختم ہوتا ہے.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ جنگ 1945 ء کے شروع یعنی اپریل میں ختم ہو جائے گی.خدا تعالیٰ نے میری اس بات کو لفظاً لفظاً پورا کیا اور نہ صرف سال اور مہینہ کے لحاظ سے بلکہ تاریخ اور دن کے لحاظ سے بھی یہ بات لفظاً لفظاً پوری ہوئی.(الحمد لله).یہ ایک ایسا عظیم الشان نشان ہے، جو نہ صرف احمد یوں بلکہ غیر احمدیوں کی مجلسوں میں بھی میں نے اس کو متواتر بیان کیا تھا.1943ء میں دہلی میں جب مجھ سے ایک مجلس میں جس میں کئی غیر احمدی معززین موجود تھے ، یہ پو چھا گیا کہ جنگ کب ختم ہوگی ؟ تو میں نے بتایا تھا کہ اپریل 1945 ء سے جون 1945 ء تک ختم ہو جائے گی.اور اب ایک دوست نے یاد کرایا ہے کہ 1944 ء کے شروع میں جب میڈیکل کالج کے غیر احمدی طلباء آپ سے ملنے کے لئے آئے تھے، ان میں سے ایک نے آپ سے سوال کیا تھا کہ جنگ کب ختم ہو گی؟ تو آپ نے تعین کر دی تھی کہ جنگ اپریل 1945ء میں ختم ہو جائے گی.اور وہ لکھتے ہیں کہ میں نے آپ کی یہ بات اسی وقت لکھ لی تھی.چنانچہ وہی ہوا اور جنگ ٹھیک اسی وقت پر آکر ختم ہوئی.اپریل کی میعاد اس لحاظ سے درست ثابت ہوئی کہ کہا جاتا ہے کہ ہٹلر 28 اپریل کو مارا گیا اور آخری تاریخ تحریک کے لحاظ سے، اس لحاظ سے یہ بات پوری ہوئی کہ قانونی طور پر جنگ 7 مئی کو ختم ہوئی.اور سات مئی ہی تحریک جدید کے چندوں کی ادائیگی کی آخری تاریخ تھی.پس یہ اللہ تعالیٰ کا عظیم الشان نشان ہے کہ وہ نہ صرف اپنے الہام کے ذریعہ رحمت کا نشان دکھاتا ہے بلکہ بعض دفعہ اپنے بندہ کے منہ سے نکلی ہوئی بات ایسے عجیب رنگ میں پوری کر دیتا ہے کہ وہ بات نہ صرف سالوں اور مہینوں کے لحاظ سے پوری ہوتی ہے بلکہ دنوں کے لحاظ سے بھی پوری ہو جاتی ہے.جیسا کہ اس نے یہ نشان دکھایا ہے کہ نہ صرف اسی سال اور اسی مہینہ میں جنگ ختم ہوئی بلکہ عین اسی تاریخ اور اسی دن جنگ ختم ہوئی، جو تحریک جدید کے آخری سال کا بالحاظ چندوں کی ادائیگی کے آخری دن تھا.اور میں بار ہا بیان کر چکا ہوں کہ تحریک جدید کے ساتھ اس جنگ کی وابستگی ہے.جب تحریک جدید کا آخری سال ختم ہوگا ، جنگ بھی اسی وقت ختم ہوگی.پس یہ خدا تعالیٰ کا عظیم الشان نشان ہے کہ عین اسی تاریخ اور اسی دن جنگ ختم ہوئی.حالانکہ ابھی ستمبر یا اکتو بر1944ء میں مسٹر چرچل کی تقریر شائع ہوئی تھی کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جنگ جلدی ختم ) 555
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبه جمعه فرموده 11 مئی 1945ء ہو جائے گی لیکن میں وعدہ نہیں کرتا کہ جنگ جلد ختم ہو جائے گی.ہو سکتا ہے جنگ 1945 ء کے آخر تک چلی جائے.پس مین سرے پر پہنچ کر بھی وہ لوگ جن کے ہاتھوں میں اس جنگ کی باگ ڈور تھی، ان کا تو یہ حال تھا کہ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ہم وعدہ نہیں کرتے کہ جنگ جلدی ختم ہو جائے گی.( یہ بات اس تقریب پر کہی گئی تھی کہ بعض لوگ کہ رہے تھے کہ دسمبر 1944ء میں برلن فتح ہو جائے گا).لیکن خدا تعالیٰ نے 1942ء سے ہی میرے منہ سے یہ بات کہلوانی شروع کر دی تھی کہ جنگ 1945ء کے شروع میں ختم ہو جائے گی.مجھے افسوس ہے کہ 1942ء کا یہ خطبہ لکھنے والے نے میرا خطبہ عمدگی سے نہیں لکھا ورنہ یہ بات اور بھی زیادہ شاندار ہو جاتی کیونکہ میں نے مہینہ تک بتا دیا تھا کہ 1944ء کے آخر میں یا اپریل 1945 ء یا جولائی 1945ء میں جنگ ختم ہوگی.مگر خطبہ نویس نے مہینوں کا حوالہ اڑا دیا.اسی طرح 1942 ء کے جلسہ سالانہ پر میں نے جماعت کے تمام دوستوں کے سامنے بیان کیا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں نے کھدر کی قمیض پہنی ہوئی ہے اور خواب میں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ کھدر کی قمیض پہنا کسی کانگریسی قسم کی تحریک کے ماتحت نہیں بلکہ اقتصادی حالات کے نتیجہ میں ہے.اب جبکہ کپڑے کی تنگی ہوئی اور اس خواب کی تلاش کئی گئی تو مجھے حیرت ہوئی کہ وہ خواب ملتا نہیں.آخر مولوی محمد یعقوب صاحب نے بتایا کہ 1942 ء کے جلسہ سالانہ کی تقریر تو چھپی ہے مگر تقریر نویس صاحب نے درمیان میں سے وہ خواب اڑا دیا ہے.حالانکہ سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو یاد ہو گا کہ میں نے یہ خواب اس موقعہ پر بیان کیا تھا کہ میں نے کھدر کی قمیض پہنی ہوئی ہے.اور میں خواب میں سمجھتا ہوں کہ یہ کسی کانگریسی قسم کی تحریک کے ماتحت نہیں بلکہ اقتصادی حالات کے نتیجہ میں ہے.اور اس کے بعد میں نے تحریک کی تھی کہ دوست اپنے گھروں میں سوت کاتنے اور کپڑے بنوانے شروع کریں کیونکہ کپڑے کے متعلق وقت پیدا ہونے والی ہے.تقریر نویس نے اس مضمون کو تو لے لیا مگر درمیان میں سے خواب کو اڑا دیا.اسی طرح مجھے خوب یاد ہے کہ میں نے 4 ستمبر 1942 ء کے خطبہ جمعہ میں جو 12 ستمبر 1942 ء کے الفضل میں چھپا.یہی بیان کیا تھا کہ جنگ تحریک جدید کے آخری سال کے ختم ہونے پر یعنی اپریل 1945ء میں ختم ہو جائے گی.مگر وہاں بھی خطبہ نویس نے اتنا ہی لکھ دیا کہ جنگ 1944ء یا 1945ء میں ختم ہو جائے گی اور مہینہ درمیان میں سے اڑا دیا.گو خطبات میں دیکھتا ہوں اور میرے دیکھنے کے بعد ہی وہ شائع ہوتے ہیں مگر چونکہ دیکھتے وقت جلدی جلدی گزرنا پڑتا ہے، اس لئے میری نظر سے بھی وہ بات رہ گئی.حالانکہ مجھے خوب یاد ہے کہ میں نے اس خطبہ میں اپریل کا مہینہ بتایا تھا کہ اس مہینہ میں جنگ ختم ہو 556
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرموده 11 مئی 1945ء گی.اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، دہلی میں بھی ایک مجلس میں جب مجھ سے سوال کیا گیا کہ جنگ کب ختم ہوگی؟ تو وہاں بھی میں نے اپریل 1945 ء یا جون 1945ء کا وقت بتایا تھا.اپریل 1945 ء اس لحاظ سے کہ ہندوستان کے لئے تحریک جدید کے آخری سال کے چندوں کی ادائیگی کی آخری میعاد پریل 1945ء مقرر ہے اور جون 1945 ء اس لحاظ سے کہ بیرون جات کے چندوں کی ادائیگی کے لئے آخری میعاد جون 1945ء مقرر ہے.اور اب لاہور سے گواہی ملی ہے کہ معین طور پر میں نے اپریل 1945 ء کا مہینہ بتایا تھا کہ اس مہینہ میں جنگ ختم ہو جائے گی.تو جہاں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عظیم الشان نشان ظاہر ہوا ہے، وہاں میں جماعت کو بھی توجہ دلا نا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے فرائض کی طرف توجہ کرے اور اس بات کو سمجھے کہ یہ عظیم الشان نشان پیش خیمہ ہے، آنے والی اور بڑی بڑی خبروں کا.جب کوئی بہت بڑا امر ظا ہر ہونے والا ہو تو خدا تعالیٰ کا یہ طریق ہے کہ پہلے وہ گزشتہ انبیاء کے ذریعہ اس کے متعلق پیشگوئیاں کراتا ہے اور پھر جب وہ زمانہ قریب آجاتا ہے تو اس زمانہ کے مامور کے ذریعہ سے زیادہ تفصیلات اس کی دیتا ہے.اور بعض دفعہ عین موقعہ پر پہنچ کر وہ اپنے کسی بندہ کے ذریعہ سے سہ بارہ اس کی خبر دیتا ہے.اس زمانہ کے مفاسد کے متعلق پہلے خدا تعالیٰ نے گزشتہ انبیاء سے مجملاً پیشگوئیاں کرائیں.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تفصیلا پیشگوئیاں کرائیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے وقت کی تعین کرائی.اور پھر جب وہ وقت اور زیادہ قریب آگیا تو خدا تعالیٰ نے کثرت سے نشانات ظاہر کر کے مجھے بتایا.میں سمجھتا ہوں اس جنگ کے متعلق دو درجن سے اوپر نشانات خدا تعالیٰ نے میرے ذریعہ ظاہر فرمائے ہیں.جن کو میں نے قبل از وقت بیان کر دیا تھا اور پھر وہ نشانات اسی رنگ میں پورے ہوئے.مثلاً یہ کہ خدا تعالیٰ نے مجھے خواب میں بتایا کہ امریکہ کی فوجیں ہندوستان میں آئیں گی.پھر بتایا گیا تھا کہ یونان لڑائی میں شامل ہوگا.پھر یہ کہ فرانس کچلا جائے گا اور انگلستان والے اس کے سامنے متحدہ قومیت کی تجویز پیش کریں گے.پھر یہ کہ اس واقعہ کے چھ ماہ بعد حالات نسبتاً خوشکن ہو جائیں گے.پھر یہ کہ امریکہ اٹھائیس ہوائی جہاز انگلستان کو دے گا.اور یہ بات لفظاً لفظ اسی طرح پوری ہوئی ، جس طرح میں نے بیان کی تھی.پھر یہ بتایا گیا تھا کہ پٹیان گورنمنٹ نازیوں کا ساتھ دینا شروع کر دے گی اور اس کی اس شرارت کے ایک سال کے اندر اندر اس کے ضرر کو مٹا دیا جائے گا.چنانچہ پٹیان حکومت نے جب جرمنی کا کھلے بندوں ساتھ دینا شروع کیا تھا، اس لئے ایک سال کے اندر حکومت برطانیہ کو شام میں کامیابی حاصل ہوئی 557
خطبہ جمعہ فرمودہ 11 مئی 1945ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اور پٹیان حکومت کی شرارت سے نجات مل گئی.اسی طرح یہ بھی بتایا گیا تھا کہ لیبیا میں کئی دفعہ انگریزی فو جیں آگے بڑھیں گی اور کئی دفعہ پیچھے ہٹیں گی مگر آخری دفعہ دشمن کی فوجوں کو شکست ہوگی.پھر یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اٹلی میں انگریزی فوجیں اتریں گی.پھر یہ بھی بتایا گیا تھا، جو اسی وقت اخبار میں شائع بھی ہو گیا تھا کہ یہ جنگ جلد ختم نہ ہوگی بلکہ بہت سخت ہوگی.چنانچہ باوجود اس کے کہ جن کے ہاتھ میں لڑائی کی باگ ڈورتھی وہ تو یہ سمجھ رہے تھے کہ اٹلی جلد فتح ہو جائے گا، یہ لڑائی لمبی ہوگئی اور اٹلی اب آکر اپریل کے آخر میں فتح ہوا ہے.اسی طرح جنگ کے متعلق اور بہت سارے واقعات کی خبریں خدا تعالیٰ نے مجھے قبل از وقت بتا ئیں اور اسی طرح وہ واقعات رونما ہوئے.مثلاً ہر جیس کا انگلستان میں اترنا اور جاپان کا حملہ کرنا اور جاپانی فوجوں کا ہندوستان میں داخل ہو جانا.جاپان کے حملہ کے متعلق ابھی کوئی خبر نہیں آئی تھی کہ اسی رات مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا اور اگلے دن صبح ریڈیو پر خبر آئی کہ جاپان نے حملہ کر دیا ہے.میں سمجھتا ہوں اس جنگ کے متعلق دو درجن سے بھی زیادہ واقعات ہیں، جن کی خبر خدا تعالیٰ نے قبل از وقت مجھے دے دی تھی.پس کثرت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو یہ خبریں بتائی گئیں، اس کے معنی یہ ہیں کہ فیصلہ کا وقت اب قریب ہے.مگر جیسا کہ اور بہت ساری پیشگوئیوں اور الہامات سے معلوم ہوتا ہے، اس زمانہ کے فیصلہ کن حالات اس لڑائی سے ختم نہیں ہوتے بلکہ وہ فیصلہ کن حالات اور ہیں، جو تھوڑے دنوں تک رونما ہونے والے ہیں.تھوڑے عرصہ سے مراد یہ ضروری نہیں کہ ایک دو سال تک بلکہ ممکن ہے، دس پندرہ یا بیس سال تک وہ واقعات ظاہر ہوں.بہر حال دنیا میں ایک عظیم الشان تغیر اور آنے والا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہو تو شاید وہ لڑائی جھگڑے دنیا کے لئے تباہی اور بربادی کا موجب ہو جائیں.اس لئے ہمیں اس خطرے کے وقت سے پہلے اپنی جماعت کو انتہائی طور پر مضبوط کر لینا چاہئے.اور اس وقت سے پہلے اپنے اعمال کو اور اپنے نوجوانوں کے اخلاق کو درست کر لینا چاہیے.اور اس وقت سے پہلے ہمارے تبلیغی مشن ، جو پہلے قائم ہیں اور جو نئے قائم ہوں، وہ مضبوط اور تنظیم میں جکڑے ہوئے ہوں.اور اس وقت سے پہلے ہندوستان میں ہماری جماعت اتنی پھیل جائے کہ وہ ایک مینارٹی نہ کہلائے بلکہ ایک میجارٹی ہو اور اگر میجارٹی نہیں تو کم از کم ایک زبر دست مینارٹی ہو.اور ان مصائب اور اس خطرہ کے وقت سے پہلے ہماری جماعت یورپ کے تمام ممالک انگلستان، فرانس، جرمنی، اٹلی اور سپین وغیرہ میں اور افریقہ اور امریکہ کے تمام ممالک میں اتنا اثر و نفوذ پیدا کر لے کہ آنے والی مصیبت اور خطرہ میں ہماری آواز بیکار نہ ہو.بلکہ وہ ایسی وزنی ہو کہ تو میں اسے سنے پر مجبور ہوں.اگر ہم یہ کام کر لیں تو آنے 558
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود ه ۱۱ مئی 1945ء والے فتنے ہمارے لئے بشارتوں اور خوشخبریوں کا موجب ہوں گے.اور اگر ہم اس میں ناکام رہے تو آنے والے فتنے ہمارے لئے نہ معلوم کتنے تاریک سال پیدا کر دیں گے اور کتنی مشکلات اور مصائب ہمارے رستہ میں حائل کر دیں گے؟ رستہ تو طے ہونا ہی ہے اور فتح تو ہمارے لئے مقدر ہے ہی.مگر ایک راستہ ایسا ہوتا ہے، جو آسانی سے طے ہو جاتا ہے اور ایک راستہ ایسا ہوتا ہے، جو مصائب اور مشکلات کے بعد طے ہوتا ہے.اور ہر عقلمند آدمی دنیوی لحاظ سے بھی اور دینی لحاظ سے بھی یہ کوشش کرتا ہے کہ جو کام اللہ تعالیٰ نے اس کے سپرد کیا ہے ، وہ آسان طریق سے اور سہل اور قریب طریق سے اور جلدی حاصل ہو جائے.پس جو جماعت اس کام کو، جو خدا تعالیٰ نے اس کے سپرد کیا ہے، جلدی اور آسان طریق سے کرنے کی کوشش کرتی ہے ، وہ زیادہ سے زیادہ انعامات کی مستحق ہوتی ہے.اور جو جماعت اس کام کو جلدی اور آسان طریق سے نہیں کرتی یا تو اس کا انعام کم ہو جاتا ہے اور یا وہ ملامت کی مستحق ٹھہرتی ہے.پس چونکہ یہ اہم موقعہ تھا، اس لئے باوجود اس کے کہ میں زیادہ بول نہیں سکتا اور باوجود اس کے کہ پاؤں میں درد کی وجہ سے میرے لئے چلنا بھی مشکل تھا، یہاں تک کہ راستہ میں جب میں نے زیادہ تکلیف محسوس کی تو میں نے خیال کیا کہ میں واپس ہی چلا جاؤں مگر بوجہ اس موقع کی اہمیت کے میں آ گیا.پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ اب وقت غفلتوں اور سستیوں کا نہیں.کمر ہمت باندھ لو اور مقصود تک پہنچنے کے لئے سارا زور لگا دو.جن اخلاق کے بغیر فتوحات حاصل نہیں ہو سکتیں، جس تنظیم کے بغیر فتوحات حاصل نہیں ہوسکتیں ، جس علم کے بغیر فتوحات حاصل نہیں ہو سکتیں، جس عرفان کے بغیر فتوحات حاصل نہیں ہوسکتیں، جس دعا اور جس التجا کے بغیر فتوحات حاصل نہیں ہو سکتیں، ان سب کو حاصل کرنے کی کوشش کرو تا کہ جلد سے جلد خدا تعالیٰ کا فضل ہماری دستگیری فرمائے اور جلد سے جلد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کا جھنڈا دنیا پر لہرانے لگے.آمین.( مطبوع الفضل 14 مئی 1945ء) 559
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم وو اقتباس از خطبه جمعه فرموده یکم جون 1945ء قربانی قوموں کی زندگی کا معیار ہے خطبه جمعه فرموده یکم جون 1945ء آج میں خصوصیت سے اس غرض کے لئے جمعہ پر آیا ہوں کہ میں دیکھتا ہوں.ایک طرف تو ہمارے لئے کام کے دروازے کھل رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر رہا ہے کہ جن سامانوں کی موجودگی میں ہمیں تبلیغ اسلام اور تبلیغ احمدیت کی سہولتیں میسر آنے کے امکانات ہیں.لیکن دوسری طرف مجھے یہ بھی نظر آرہا ہے کہ جماعت میں نہ معلوم ان سہولتوں کے پیدا ہو جانے کی وجہ سے یا نہ معلوم ایک لمبے عرصہ کی قربانی کی وجہ سے کسی قدرستی کے آثار بھی پائے جاتے ہیں.بجائے اس کے کہ اس موقعہ پر جبکہ روحانی جنگ شروع ہونے والی تھی ، ہمارے حوصلے آگے سے زیادہ بڑھ جاتے اور ہماری قربانیاں آگے سے زیادہ ترقی کر جاتیں، ہمارا جوش آگے سے بہت اونچا چلا جاتا ہے، ہمارے لئے وہ اطمینان اور سکون ، جو غافلوں اور جاہلوں کو حاصل ہوتا ہے، ناممکن ہوجاتا اور جیسے کام کرنے والوں کے دلوں میں ایک بے کلی سی پائی جاتی ہے، وہ حالت ہماری ہو جاتی.جماعت میں ایک رنگ میں سستی کے آثار پائے جاتے ہیں.جیسے بخار دیکھنے کے لئے تھرما میٹر ہوتا ہے اور تھرما میٹر سے پتہ لگ جاتا ہے کہ انسانی خون کے دوران میں کتنی تیزی یا کمی ہے؟ اسی طرح جماعت کے قلوب کی حالت کا اندازہ اس کے چندوں کی ادائیگی سے لگایا جاتا ہے.تحریک جدید کے گزشتہ سالوں کے حالات اس بات پر شاہد ہیں کہ بالعموم مئی کے آخر تک 65-60 بلکہ ستر فیصدی تک رقوم وصول ہو جایا کرتی تھیں.لیکن اس دفعہ بجائے 60-65 یا 70 فیصدی کے بمشکل 40 فیصدی چندہ اس وقت تک ادا ہوا ہے.حالانکہ چھ مہینے گزر چکے ہیں اور زیادہ تر چھ مہینوں میں ہی رقمیں زیادہ آیا کرتی ہیں.جس کی وجہ یہ ہے کہ جلدی چندہ دینے والے وہی ہوتے ہیں، جن کے اندر اخلاص زیادہ ہوتا ہے اور جن کے اندرا خلاص زیادہ ہوتا ہے ، وہی قربانی زیادہ کیا کرتے ہیں اور جو قربانی زیادہ کرتے ہیں، وہی وقت پر اپنے فرائض کو ادا کیا کرتے ہیں.تو پہلے چھ مہینوں میں چندہ ادا کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہوا کرتی تھی.کیونکہ ہماری جماعت میں سابق رہنے والوں کی خواہش کرنے والوں 561
اقتباس از خطبه جمعه فرموده یکم جون 1945ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم کی تعداد زیادہ ہے.اسی طرح پہلے چھ مہینوں میں ادا شدہ رقوم بھی زیادہ ہوتی تھیں.اس لئے کہ وہ لوگ جن کے اندرا خلاص ہوتا ہے، وہ زیادہ سے زیادہ رقوم قلیل سے قلیل عرصہ میں ادا کرنے کے عادی ہوتے ہیں.لیکن اس سال بجائے اس کے کہ اس نئے دور میں ایک نئی زندگی پائی جاتی ، بجائے اس کے کہ اب جبکہ ملی تبلیغ کا دروازہ کھل رہا ہے اور جبکہ کچھ مبلغ بیرون ہند میں جا بھی چکے ہیں اور دوسرے پاسپورٹ لینے کی فکر میں ہیں اور جلد ہی غیر ممالک میں چلے جائیں گے اور اس طرح تبلیغی بار اور بوجھ پہلے سے کئی گنے زیادہ ہو جائے گا، ہماری جماعت بجائے اس کے کہ 60-65 فیصدی کو 70-80 فیصدی بنا دیتی ، اس سال ابھی تک صرف 40 فیصدی رقوم اس نے ادا کی ہیں.اور چونکہ عام طور پر پیچھے رہ جانے والے ست یا کمزور ہوتے ہیں یا ان کے ذرائع محدود ہوتے ہیں.اگر اسی اندازہ کے مطابق جس طرح پہلے رقوم وصول ہوتی تھیں ، اندازہ لگایا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اس سال بجائے 100 فیصدی وصول ہونے کے 65-60 فیصدی چندہ وصول ہوگا.اسی طرح قرآن شریف کے چندہ کے متعلق بھی میں دیکھتا ہوں کہ جماعت پورے جوش کے ساتھ کام نہیں کر رہی.جہاں تک چندہ لکھوانے کا سوال تھا، یہ چندہ مطلوبہ رقم سے زیادہ آگیا ہے.یعنی بجائے دولاکھ کے، دولاکھ پچاس ہزار سے کچھ زیادہ ہے.یہ وعدے خدا تعالی کی حکمت کے ماتحت ہوئے ہیں.کیونکہ اس عرصہ میں یورپین تبلیغ ، جس کے ساتھ قرآن شریف کے تراجم کا زیادہ تر تعلق ہے، وسیع ہو گئی ہے اور اس کی وسعت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں ضرورت تھی کہ ہم انگلستان میں اپنے دار التبلیغ کو بڑھاتے.چنانچہ اس کے لئے ہمیں اکتیس ہزار روپے میں ایک مکان مسجد کے پاس ہی مل گیا ہے.جس کی مرمت پر نو دس ہزار روپیہ خرچ ہوگا.اس طرح چالیس ہزار روپے کا ایک اور خرچ تبلیغ یورپ کے لئے پیدا ہو گیا ہے.پس یہ وعدے جو زیادہ ہوئے ، خدا تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ہیں، جو قریب عرصہ میں تبلیغ اور اس کی وسعت کے لئے پیدا ہونے والی ہیں.جہاں تک وصولی کا سوال ہے، یہ چندہ بھی آٹھ مہینے کے اندرا تنا وصول نہیں ہوا، جتنا وصول ہو جانا چاہئے تھا.اس وقت تک اس چندہ میں سے صرف ساٹھ فی صدی وصول ہوا ہے.ابھی تین مہینے باقی ہیں اور اس عرصہ میں چالیس فیصدی چندہ وصول ہونا ضروری ہے.پس میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے ، اپنے وعدے جلد سے جلد پورا کرنے کی کوشش کرے.تحریک جدید دفتر دوم کے وعدے بھی بہت کم ہیں.562
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده یکم جون 1945ء ہمارے خرچ کا سالانہ اندازہ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا تھا، تین لاکھ کے قریب ہے لیکن تحریک جدید دفتر دوم کے وعدے اس وقت تک پچاس ہزار ہوئے ہیں.گویا ہماری آئندہ نسل بجائے سارا بوجھ اٹھانے کے صرف 1/6 حصہ اٹھانے کے قابل ہوسکی ہے.اس کے متعلق بھی میں جماعت کو تحریک کرتا ہوں کہ جو لوگ ، پہلے دور میں شامل نہیں ہوئے ، ان کو اپنی اپنی جگہ پر دوست تحریک کریں.میں نے اس کی میعاد تو بڑھادی ہے اور اگر ضرورت ہوئی تو میعاد اور بھی بڑھادی جائے گی.کیونکہ سال دو سال کے اندر ہمیں اس تعداد کو اتنا بڑھا دینا چاہئے کہ پہلے انیس سالہ دور کے خاتمہ پر نئی پود اس بوجھ کو پوری طرح اٹھا سکے.اگر ہماری جماعت کی ترقی اولاد کی وسعت کے لحاظ سے، اگر ہماری جماعت کی ترقی بریکاروں کے کام پر لگ جانے کے لحاظ سے اور اگر ہماری جماعت کی ترقی تبلیغ کی وسعت کے لحاظ سے اتنی نہیں ہوتی کہ ہر دس سال کے بعد ہم کو ایک نیا دور جاری کرنے کے لئے اتنی جماعت مہیا ہو سکے، جو اپنی قربانی سے اس دور کے اخراجات کو اٹھا سکے تو یقینا یہ بات ہماری کمزوری پر دلالت کرنے والی اور ہماری کامیابی کو پیچھے ڈالنے والی ہوگی.پس ہمارا فرض ہے کہ جس طرح بھی ہو سکے، ہم آئندہ نسل اور آئندہ آنے والے نئے احمدیوں کے ذریعہ سے ہمیشہ ایک جماعت پانچ ہزاری فوج کی ہر دفعہ کھڑی کرتے رہیں، جو پہلے دور کے بعد دوسرے دور کے بوجھ کو اٹھانے والی ہو اور دوسرے دور کے بعد تیسرے دور کے بوجھ کو اٹھانے والی ہو اور تیسرے دور کے بعد چوتھے دور کے بوجھ کو اٹھانے والی ہو.کیونکہ تبلیغ ایسا کام نہیں ، جو ایک دو دن میں ختم ہو جانے والا ہو.میں نے بار با جماعت کو بتایا ہے کہ کوئی قوم قربانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی.اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ یہ قربانی کب ختم ہونے والی ہے؟ دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہماری قوم کو مارنے کا فیصلہ کس دن کرے گا؟ جو شخص قربانی کے متعلق یہ امید رکھتا ہے کہ وہ ختم ہو جائے گی یا ختم ہو جانی چاہئے ، وہ دشمن ہے اپنا ، وہ دشمن ہے اپنے خاندان کا ، وہ دشمن ہے اپنی قوم کا.کیونکہ قربانی قوموں کی زندگی کا معیار ہے اور جس دن کسی قوم میں سے قربانی مٹ جاتی ہے، اسی دن اس دنیا سے اس قوم کا خاتمہ ہو جاتا ہے.گو اس قوم کے وجود اس دنیا میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں لیکن حقیقت وہ بیکار وجود ہوتے ہیں ، غلام اور محکوم اور ذلیل اور نا کام وجود، اگر دنیا میں آرام سے زندگی گزارتے ہیں تو یہ ان کے لئے انعام نہیں ہوتا بلکہ ایک سزا ہوتی ہے.ایسے لوگوں کے لئے بہتر ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو زندہ دفن کر دیں اور مٹ جائیں.کیونکہ ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے.....بر شریف انسان کو ذلت اور نا کامی کی زندگی سے موت ہزار درجے بہتر معلوم ہوتی ہے.مسلمان کہلانے والا اگر احمدی نہیں ، تب بھی اگر وہ اپنی سابق عزت و عظمت اور شوکت کو دیکھتے ہوئے " 563
اقتباس از خطبه جمعه فرموده یکم جون 1945ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اس قربانی کے لئے تیار نہیں ، جو قوم کونئی زندگی بخشنے والی ہو تو یقینا وہ نہایت ہی بے حیا اور نہایت ہی بے شرم انسان ہے اور اس کی زندگی سے اس کی موت ہزار درجے بہتر ہے.ہمیں غور کرنا چاہیے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کے ذریعہ سے اسلام نے وہ شوکت حاصل کی تھی کہ یہ بڑی بڑی حکومتیں اور طاقتیں ، جو آج نظر آتی ہیں ، غلاموں کی طرح ہاتھ باندھے ان کے سامنے کھڑی رہتی تھیں.لیکن آج مسلمانوں کی اولا دیور پین لوگوں کی جوتیوں کی مار کھانے پر بھی اف نہیں کر سکتی اور کوئی احتجاج نہیں کر سکتی.اس حالت کو دیکھنے کے بعد اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس دنیا میں نہ آئے ہوتے ، اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نئی امیدیں اور نئی ترقی کی راہیں نہ دکھلا گئے ہوتے ، تب بھی میں سمجھتا ہوں، ایک غیرت مند انسان جب تک ان حالات کو بدل نہ لیتا، ایک منٹ کے لئے بھی آرام نہ کر سکتا.مگر اب تو ہماری ذمہ داریاں بہت زیادہ ہوگئی ہیں.ایک طرف ہمارے اسلاف کے کارناموں کے متعلق ہماری غیرت مطالبہ کرتی ہے اور دوسری طرف پیارے خدا کی آواز ہم سے مطالبہ کرتی ہے.گویا دور سیاں ہیں، جو ہمیں آگے کھینچ رہی ہیں.ہمارے اسلاف بھی پکارتے ہیں کہ کوئی ہماری ذلت اور بدنامی کے دھبے دھوئے اور ہمارا خدا بھی بلاتا ہے کہ آؤ اور دین کی خدمت کر کے انعام پاؤ.اگر ان کششوں کے باوجود ہمارے اندر قربانی کی روح پیدا نہیں ہوتی ، اگر ان دو کششوں کے باوجود ہمارے قدم آگے نہیں بڑھتے ، اگر ان دو کششوں کے باوجود ہم اپنی موت کو شیر میں خیال نہیں کرتے اور اپنی موت کو سب سے میٹھا پھل نہیں سمجھتے تو یقینا ہم اس دنیا میں اور اگلے جہان میں رہنے کے قابل نہیں اور ذلت اور رسوائی ہی ہماری حقیقی جزا کہلا سکتی ہے.پس چاہیے کہ جماعت اپنی حالت پر غور کرے اور اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کا فیصلہ کرے.اب زمانہ خاموشی کا نہیں، اب زمانہ ٹھہرنے کا نہیں.جو شخص کھڑا ہو گا وہ مارا جائے گا اور تباہ اور برباد کر دیا جائے گا.یہ زمانہ ایسا ہے، جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں کو پل صراط پر چلنا پڑے گا.ان کے دائیں بھی جہنم ہوگا اور ان کے بائیں بھی جہنم ہوگا.وہ ذرا ادھر ادھر ہوں گے تو تباہ ہو جائیں گے.یہی ہماری حالت ہے.اگر ہم اپنے قدموں کو روک کر کھڑے ہوں گے تو گریں گے.دائیں طرف گریں گے تو جہنم ہوگا، بائیں طرف گریں گے تو جہنم ہوگا.ہمارے لئے ایک ہی راستہ ہے اور وہی سیدھا راستہ ہے کہ ہم آفات کی پروانہ کرتے ہوئے، سیدھے چلے جائیں اور ہمارے سامنے ہر وقت ہماری منزل مقصود ہو.اگر ہم منزل مقصود پر پہنچ جاتے ہیں تو وہاں ہمارا سب سے بڑا انعام اللہ وہاں کھڑا ہو گا.564
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده یکم جون 1945ء اور اگر ہم ٹھہرتے ہیں اور گرتے ہیں تو دائیں طرف بھی شیطان کی گود میں گرتے ہیں اور بائیں طرف بھی شیطان کی گود میں گرتے ہیں.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری جماعت کے دلوں کو تقویت دے اور اللہ تعالیٰ کے راستہ میں موت ان کو سب سے پیاری چیز نظر آنے لگے اور وہ چیزیں ، جن کے لئے دنیا دوڑتی ہے اور ان کی خواہش رکھتی ہے، اللہ تعالیٰ کے لئے وہ انہیں بری نظر آنے لگیں.تا کہ ہمارا اصل بدلہ اور ہماری حقیقی جزا ہمیں اس دنیا میں بھی ملے اور اگلے جہان میں بھی مل جائے“.( مطبوعه الفضل 4 جون 1945ء) 565
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود 08 جون 1945ء معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو مزید قربانیوں کی طرف بلانا چاہتا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 08 جون 1945ء سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں نے جماعت کو بارہا اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جنگ کے بعد جہاں مذہبی جنگ شروع ہونے والی ہے، وہاں ہمارے لئے اسلام کی تبلیغ اور احمدیت کی ترقی کے راستے بھی کھلنے والے ہیں.اور یہ بھی بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس جنگ کے بعد ایک اور جنگ آنے والی ہے.میرا خیال تھا کہ موجودہ جنگ اور آئندہ آنے والی جنگ میں کچھ وقفہ ہوگا.لیکن حالات اتنی سرعت سے تبدیل ہورہے ہیں کہ تیسری جنگ کے خطرہ کے آثار ابھی سے نظر آرہے ہیں.ہمیں موجودہ جنگ کے ختم ہونے کی خوشی تبھی ہو سکتی تھی ، جب اس جنگ اور آئندہ آنے والی جنگ میں اتنا وقفہ ہوتا کہ ہم اپنے تبلیغی پروگرام کو مکمل کر سکتے.اگر کچھ وقفہ ہمیں میسر آجاتا تو ہمیں امید تھی کہ ہم مختلف ممالک میں اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کے مراکز قائم کر لیتے.لیکن آنے والے خطرات سے مزید مشکلات پیدا ہوتی نظر آتی ہیں.اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ حالات ، جو خراب نظر آ رہے ہیں، عارضی ہیں یا مستقل طور پر لمبے عرصہ تک چلے جائیں گے؟ بہر حال ان حالات کا جلدی سدھرنا بہت مشکل نظر آتا ہے.مجھے خدشہ ہے کہ اگر اس جنگ کے خاتمہ اور اگلی جنگ کے ابتداء میں لمبا فاصلہ نہ ہوا تو ہم اپنی تبلیغی سکیموں میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے.ہماری تبلیغی سکیمیں اس وقت تک بار آور نہیں ہوسکتیں، جب تک ان مشکلات کا خاتمہ نہ ہو جائے ، جو اس وقت نظر آرہی ہیں.ابھی تک مختلف ممالک کے راستے نہیں کھلے.گو ہمارے مبلغین تیار ہیں اور بعض کے پاسپورٹ بھی بن چکے ہیں.لیکن سفر کے لئے Passage priority منظور نہیں ہوئے اور بعض کے ابھی تک پاسپورٹ بھی تیار نہیں ہوئے.جس کے معنی یہ ہیں کہ جب تک پاسپورٹ نہیں ملیں گے، ہمارے مبلغ مختلف ممالک میں تبلیغ کے لئے نہیں جاسکیں گے.اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ یہ حالات کب سازگار ہوں گے اور یہ نئی پیچیدگیاں کب دور ہوں گی؟ بہر حال ہماری طرف سے انشاء اللہ پہلا تبلیغی جتھہ تیار ہے اور اگر پاسپورٹ اور اجازت سفرسل جائے تو مبلغین جانے کو بالکل تیار بیٹھے ہیں.اپنے کام کو مد نظر رکھتے ہوئے ، ہمارے لئے ضروری تھا کہ ہم 567
خطبہ جمعہ فرمودہ 08 جون 1945ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم تبلیغ کے لئے پوری طرح تیاری کرتے اور مبلغین کو بھی تیار کر لیتے.چنانچہ جہاں تک ہماری کوششوں کا سوال تھا ، ہم نے اس کے لئے پوری جدوجہد کی.اس وقت مغربی ممالک میں سے آٹھ ملک ہمارے مدنظر ہیں، جہاں ہم اپنے مبلغین بھیجنے والے ہیں.یعنی انگلستان ، شمالی امریکہ، جنوبی امریکہ، فرانس، ہسپانیہ جرمنی، ہالینڈ اور اٹلی.مغربی ممالک میں سے فی الحال انہیں ممالک میں مبلغ بھیجنے کا ارادہ ہے.مشرقی ممالک میں سے ایران، شام، فلسطین، مصر اور افریقہ کے مختلف ممالک ہیں، جہاں ہم نے مبلغ بھجوانے ہیں.ہماری طاقتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ، یہ بہت بڑی سکیم ہے.ایک ہی وقت میں ہیں، پچیس ممالک میں پچاس، ساٹھ مشنریوں کا بھیجنا آسان کام نہیں.ان کو بیرون ہند بھیجنے کے لئے بہت سے اخراجات درکار ہوں گے.اگر باقی سب اخراجات کو چھوڑ دیا جائے اور صرف کرایہ کا اندازہ لگایا جائے ، جوان مبلغوں کے جانے اور واپس آنے اور آنے جانے کی تیاری پر خرچ ہوگا تو وہی تقریباً تین لاکھ روپیہ بن جاتا ہے.اگر ان مبلغوں کے جانے اور واپس آنے میں چار سال لگ جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ہر سال پچھتر ہزار روپیہ خرچ کرنا پڑے گا.تبلیغ اور لٹریچر کی اشاعت کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں.میں سمجھتا ہوں مخلصین جماعت نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنی طاقت سے بڑھ کر قربانیاں پیش کی ہیں.اس لحاظ سے جو چیز ہماری طاقت میں تھی ، اس کے لئے ہم نے پوری تیاری کر لی ہے.مگر جو چیز ہماری طاقت سے باہر ہے، اس کے لئے ہم مجبور ہیں.حکومتیں ہماری طاقت سے باہر ہیں، غیر ممالک میں داخلے کی اجازت ہمارے اختیار میں نہیں بلکہ ان حکومتوں کے اختیار میں ہے، جن سے ہماری روحانی جنگ جاری ہے.اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہمارے راستے میں مشکلات پیش آئیں.اب جنگ کے خاتمہ کے ساتھ مزید سیاسی پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں.ادھر جنگ یورپ کا خاتمہ ہوا، ادھر سیاسی حالات خراب ہو گئے ہیں.اس سے قبل ہم نے متواتر پانچ چھ سال غیر ممالک کے راستوں کے کھلنے کا انتظار کیا لیکن اب دوبارہ ایسے حالات پیدا ہور رہے ہیں، جن کی وجہ سے تبلیغ میں رکاوٹیں ہوتی نظر آتی ہیں.ہمارے دلوں کی حالت بالکل ویسی ہی ہے، جیسے کسی شاعر نے کہا ہے..قسمت تو دیکھئے کہ کہاں ٹوٹی ہے کمند دو چار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا پانچ چھ سال کا لمبا عرصہ ہم نے انتظار کرتے کرتے گزارد یا اور اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل و حسان سے ہم نے ایک مضبوط تبلیغی فنڈ قائم کر لیا.اس فنڈ کو قائم کرنے کے لئے جماعت نے بڑھ چڑھ کر 568
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 08 جون 1945ء قربانیاں کیں.انتظار کے یہ سال ہمارے لئے نہایت تلخ اور تکلیف دہ سال تھے.لیکن اگر پھر سیاسی پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مزید پانچ چھ سال تک ہمیں اپنی تبلیغی سکیموں کو جاری کرنے کے لئے انتظار کرنا پڑے گا.جہاں جماعت کے سامنے یہ مشکلات اور خطرات ہیں، وہاں اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کو مزید قربانیوں کی طرف بلائے.ہماری مشکلات کی زیادتی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا جتھہ کم ہے.دنیا آج جتھہ کو دیکھتی ہے اور اس سے مرعوب ہوتی ہے.اگر ہمارے مبلغین کے پاسپورٹوں کا سوال ہو تو گورنمنٹ کہہ دیتی ہے ابھی راستے نہیں کھلے، بہت مشکلات ہیں.لیکن پادری ساری دنیا میں تبلیغ کر رہے ہیں.گورنمنٹ کے انتظام کے ماتحت ان کو دوران جنگ بھی اٹلی ، روس، فرانس، سپین، چین، آسٹریلیا اور دوسرے ملکوں میں بھیجا گیا اور ان کے لئے پاسپورٹ مہیا کئے گئے.ہم نہیں سمجھ سکتے کہ کیا جاپان والے دوسرے جہازوں پر تو گولہ باری کرتے ہیں اور ان جہازوں پر گولہ باری نہیں کرتے ، جن میں پادری سفر کر رہے ہوں؟ پس اصل بات یہ نہیں کہ جنگ کی وجہ سے ہمیں تو مشکلات پیش آتی ہیں لیکن پادریوں کو مشکلات پیش نہیں آتیں.بلکہ اصل بات یہ ہے کہ پادریوں کا ایک ایسی قوم کے ساتھ تعلق ہے، جو اپنی طاقت اور حکومت کی وجہ سے ان کو راجوں مہاراجوں کی طرح لئے پھرتی ہے.چونکہ ہماری جماعت سیاسی لحاظ سے ان کی نظر میں کچھ وقعت نہیں رکھتی، اس لئے ہمارے مبلغین کی ضروریات کو اتنی بھی وقعت نہیں دی جاتی جتنی ان گورنمنٹ کے چپڑاسیوں کو وقعت دی جاتی ہے اور ان کے لئے ہر قسم کی سہولتیں ہم پہنچائی جاتی ہیں.ان مشکلات کو دیکھ کر ہمیں اپنی کوششوں اور قربانیوں کو پہلے سے بہت زیادہ بڑھا دینا چاہئے کیونکہ ان مشکلات کا ایک حصہ ہماری کمزوریوں کی وجہ سے ہے.جہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس قسم کے حالات پیدا ہورہے ہیں، جن کی وجہ سے ہمارا کام بڑھ رہا ہے ، وہاں ہماری یہ کمزوری کہ سیاسی لحاظ سے ہماری جمعیت اور جتھہ کم ہے، ہماری مشکلات کو اور بھی بڑھادیتی ہے.اگر ہماری جماعت ہیں پچپیس گنا زیادہ ہو جائے تو جس قسم کی تنظیم ہماری جماعت کی ہے اور جس قسم کی قربانیاں ہماری جماعت کرتی ہے، ان کے لحاظ سے اس قسم کی مشکلات آپ ہی آپ دور ہو جائیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت ایسی قربانیاں کرتی ہے کہ دوسری قو میں اس رنگ میں قربانیاں نہیں کر سکتیں.اور در حقیقت قوم کی عزت اس کی قربانیوں کی وجہ سے اس کی تعداد سے کئی گنے زیادہ ہو جاتی ہے.پس ایک طرف میں جماعت کے افراد کو مزید قربانیوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور دوسری طرف یہ نصیحت کرتا ہوں کہ دوستوں کو دعاؤں پر خاص طور سے زور دینا چاہئے تا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں اتنا 569
خطبہ جمعہ فرمودہ 08 جون 1945ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم وقفہ مل جائے کہ ہم قرآن مجید کے تراجم شائع کر سکیں اور بیرونی ممالک میں اپنے مبلغین بھیج سکیں.اس کے بعد اگر جنگ شروع بھی ہو جائے تو ہمارے مبلغین اپنی اپنی جگہوں پر ، جہاں بھی وہ ہوں گے تبلیغی کام کرتے رہیں گے اور ہماری روحانی جنگ جاری رہے گی.اور ہم مطمئن ہوں گے کہ ہمارا روحانی گولہ و با رودان کے پاس موجود ہے.اگر ہمیں اپنے مبلغین کو باہر بھیجنے کے لئے وقفہ نہ ملا تو یہ بات ہم سب کو خصوصیت کے ساتھ غمگین کرنے والی ہوگی.اگر حالات سازگار نہ ہوئے اور پیشتر اس کے ہمارے مبلغین غیر ممالک میں پہنچ جائیں، جنگ شروع ہو گئی تو ہم میں سے کئی ایسے ہیں، جن کی طاقت صبر جواب دے جائے گی.کیونکہ بعض ہم میں سے ایسے ہیں، جو دنیوی لحاظ سے کام کرنے کی عمر سے نکل چکے ہوں گے اور ان کے لئے یہ بات نہایت تلخ اور تکلیف دہ ہوگی کہ وہ اس کامیابی کی سکیم کا نتیجہ با وجود تیاری میں پورا حصہ لینے کے، نہ دیکھ سکے.پس حالات سخت نازک ہیں، زمانہ انتہائی سرعت کے ساتھ بدل رہا ہے.دوست دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ کا فضل جلد از جلد نازل ہو.کیونکہ اس کے فضل کا دیر سے آنا، ہمارے لئے مہلک اور خطرناک ہے.اللہ تعالیٰ ہم کو ہماری کوششوں اور قربانیوں کے رائیگاں جانے سے بچائے اور ہماری حقیر کوششوں کو اعلیٰ نتائج پیدا کرنے کا موجب بنائے.اللهم آمین.570 مطبوع الفضل 14 جوان 1945ء)
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمود و 22 جون 1945ء اللہ تعالیٰ کے نشانات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قربانیوں میں آگے بڑھو وو خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جون 1945ء میں نے گزشتہ خطبہ میں بیان کیا تھا کہ بے شک جماعت مالی قربانی کر رہی ہے مگر جہاں تک تحریک جدید کا تعلق ہے، اس میں جماعت نے ستی سے کام لیا ہے.اب بھی باوجود میرے خطبہ کے جماعت میں شائع ہونے کے جماعت میں سستی کے آثار نظر آتے ہیں.سات مہینے تحریک جدید کے گیارھویں سال پر گزر چکے ہیں لیکن ابھی چالیس فیصدی چندہ بھی وصول نہیں ہوا.میں سمجھتا ہوں اس میں زیادہ تر جماعت کی سستی نہیں.کیونکہ انجمن کے چندے با قاعدہ وصول ہورہے ہیں.اس میں زیادہ تر غفلت تحریک جدید کے دفتر کی ہے.اگر لوگوں کے اخلاص اور ان کی قربانی میں کمی آجاتی تو چاہئے تھا کہ دوسرے چندوں میں بھی کمی آجاتی.لیکن صدر انجمن احمدیہ کے چندوں میں کمی نہیں آئی بلکہ زیادتی ہو رہی ہے.ایک دو ہفتوں میں مجھے کی نظر آئی تھی مگر انہوں نے ثابت کیا ہے کہ بعد کے ہفتوں میں یہ کمی پوری ہو کر پہلے سے بھی زیادہ چندہ وصول ہو گیا ہے.پس میں سمجھتا ہوں کہ یا تو جو میں نے کہا تھا کہ ہر انجمن میں اس غرض کے لئے ایک سیکرٹری تحریک جدید ہونا چاہئے ، دفتر نے اس نشہ میں کہ میرے خطبات کی وجہ سے جماعت میں ایک عام بیداری پیدا تھی ، جماعتوں میں سیکرٹریوں کے مقرر کرنے میں کوتاہی سے کام لیا ہے اور یا پھر جو سیکرٹری مقرر ہیں، وہ سست ہیں.دفتر نے ان کی نگرانی نہیں کی اور ان کو ہوشیار اور بیدار کرنے کے لئے کوئی جد جہد نہیں کی.بجائے اس کے کہ وہ سیکرٹریوں کو چست کرتے ، وہ ہمیشہ اخبار میں یہ اعلان کرتے رہتے ہیں کہ سابقون الاولون میں شامل ہونے کا وقت آگیا.یہ ایک فقرہ ہے، جو انہوں نے سیکھا ہوا ہے اور اسی ایک فقرہ کو وہ بار باردہراتے چلے جاتے ہیں.حالانکہ کوئی ایک فقرہ خواہ کتنا ہی بیدار کرنے والا ہو، ہمیشہ کے لئے کام نہیں آسکتا.تیز سے تیز چھری بھی کچھ دیر چلنے کے بعد کند ہو جاتی ہے اور ضرورت ہوتی ہے کہ اسے تیز کیا جائے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرما یا کرتے تھے کہ بھوپال میں ایک بزرگ تھے، جن سے میں عموماً ملنے کے لئے جاتا رہتا تھا.ایک دفعہ کچھ دیر کے بعد ملا تو آپ نے فرمایا.میاں کبھی قصاب کی دکان 571
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جون 1945ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم پر بھی گئے ہو؟ میں نے کہا ہاں جناب کئی دفعہ جاتا ہوں.کہنے لگے کیا تم نے دیکھا کہ قصاب کچھ دیر گوشت کاٹنے کے بعد چھریوں کو آپس میں رگڑ لیتا ہے؟ آپ فرماتے تھے، میں نے کہا، میں نے ایسا کئی بار دیکھا ہے.انہوں نے کہا جانتے ہو وہ چھریاں آپس میں کیوں رگڑتا ہے؟ اس لئے رگڑتا ہے کہ چربی میں جب بار بار چھری جاتی ہے تو کند ہو جاتی ہے اور ضرورت ہوتی ہے کہ اسے تیز کیا جائے.چنانچہ جب دو چھریاں آپس میں رگڑی جاتی ہیں تو وہ دونوں تیز ہو جاتی ہیں.یہ مثال دے کر فرمانے لگے، ہمارا دماغ بھی دنیوی کاموں میں مشغول رہنے کی وجہ سے کند ہو جاتا ہے اور تمہارا دماغ بھی کند ہو جاتا ہے.کبھی کبھی آجایا کرو تا کہ ہم بھی اپنی چھریاں آپس میں رگڑ لیا کریں اور میرا اور تمہارا ذ ہن دونوں تیز ہوتے رہیں.تو متواتر سابقون الاولون کے الفاظ کو اخبار میں دہراتے رہنا اثر کو کم کر دیتا ہے اور آخر کثرت استعمال کی وجہ سے سابقون الاولون کے معنی جاتے رہتے ہیں.کام کرنے کا طریق یہ ہوتا ہے کہ تنظیم کی جائے.مگر انہوں نے جماعتوں میں اپنے سیکرٹری مقرر نہیں کئے اور اگر گئے ہیں تو وہ ست ہیں.چاہئے تھا کہ ان کو ہوشیار کیا جا تایا بدلوایا جاتا مگران کو بدلوانے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی گئی.آٹھ سو جماعتوں میں صدرانجمن احمدیہ کے آدمی کام کرتے ہیں اور وہ اپنے چندوں میں برابر ترقی کر رہے ہیں.بے شک ان کے انسپکٹر بھی ہیں لیکن سیکر ٹریان تحریک جدید کو بھی انسپکٹروں کے ذریعہ چست کیا جا سکتا تھا.مگر دفتر والوں نے اس بارہ میں اپنی ذمہ داری کو قطعا محسوس نہیں کیا.پس اس چندہ کی عدم وصولی میں زیادہ تر دفتر والوں کی کوتاہی ہے.اگر جماعت کی کوتاہی ہوتی تو صدرانجمن احمد یہ کے چندوں پر بھی اس کا اثر پڑتا مگر ان کے چندوں پر اس کا اثر نہیں پڑا.پس میں اس کا الزام دفتر والوں کو دیتا ہوں.مگر میں سمجھتا ہوں جماعت بھی اپنی ذمہ داری سے پوری طرح بری نہیں.میں نے بتایا تھا کہ کام کرنے کا وقت اب آیا ہے اور یہی وہ سال ہے، جس میں اخراجات پہلے سے کئی گنا بڑھ گئے ہیں.کچھ مبلغ باہر جاچکے ہیں اور کچھ مبلغ تیار ہیں، جو عنقریب تبلیغ کے لئے غیر ممالک میں روانہ ہونے والے ہیں.اگر ایسے وقت میں جماعت اپنی ذمہ داری کو پوری طرح نہ سمجھے تو کس قدر افسوس کا مقام ہو گا.یہ بالکل ویسی ہی بات ہوگی جیسے کوئی شخص اپنے معشوق سے ملنے کے لئے ایک لمبے فاصلہ سے دوڑتا چلا آئے مگر جب اس کے دروازہ پر پہنچ جائے تو ڈیوڑھی میں ہی بیٹھ جائے اور اندر داخل ہونے کی کوشش نہ کرے.جو افسوس ایسے شخص کو ہوگا، وہی حال ان لوگوں کا ہے، جنہوں نے دس سال قربانی کی مگر جب عملی طور پر کام کرنے کا وقت آیا اور خدا تعالیٰ کے سپاہی میدان جنگ میں کام کرنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے تو وہ ہمت ہار کر بیٹھ گئے.572
تحریک جدید- ایک ابی تحریک...جلد دوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 22 جون 1945ء کیا خدا تعالیٰ کے نشانات ، اس کے تازہ بتازہ معجزات اور اس کی تائید اور نصرت کے متواتر واقعات سے مومنوں کو اسی طرح فائدہ اٹھانا چاہئیے ؟ یاد رکھو خدا تعالیٰ کے نشانات جہاں بہت بڑی رحمت کا موجب ہوتے ہیں، وہاں بہت بڑے ابتلاء کا بھی موجب ہوتے ہیں.اگر انسان ان نشانات کی قدر کرے تو اس کا ایمان زمین سے آسمان پر پہنچ جاتا ہے اور اگروہ ان نشانات کی قدرنہ کرے اور ان سے فائدہ نہ اٹھائے تو اس کا ایمان آسمان سے زمین پر آ گرتا ہے.پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ان نشانات سے فائدہ اٹھائے ، اپنے ایمانوں کو مضبوط بنائے اور پہلے سے زیادہ قربانیاں کرنے کی کوشش کرے.کیونکہ اب اس کی ذمہ داریاں پہلے سے بہت بڑھ گئی ہیں اور خدا نے اس پر حجت تمام کر دی ہے.اگر اب بھی کوئی شخص توجہ نہیں کرے گا تو وہ گھڑا گھڑایا اور بنابنایا مجرم خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہو گا.وہ لوگ جنہوں نے خدا تعالیٰ کے نشانات نہیں دیکھے، وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم کیا کریں؟ ہم نے تو اپنی آنکھ سے خدا تعالیٰ کا کوئی نشان نہیں دیکھا.وہ لوگ جن پر ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے اور گوکسی پہلے زمانہ میں انہوں نے خدا تعالیٰ کے نشانات کو دیکھا ہومگر اب ایک لمبے زمانہ سے انہوں نے کسی نشان کو نہیں دیکھا ، وہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نشان پر ایک عرصہ دراز گزر چکا ہے.اب ہمارے دلوں پر زنگ لگ گیا ہے اور ہم میں قربانی کرنے کی روح نہیں رہی.لیکن وہ جماعت، جس کے سامنے خدا تعالیٰ نے اپنے تازہ بتازہ نشانات دکھائے ہیں اور اب بھی دکھا رہا ہے ، وہ خدا تعالیٰ کو کیا جواب دے سکتی ہے؟ اس کے ایمان میں تو اتنی تیزی اور شدت ہونی چاہئے کہ کوئی بات اس کو سست کرنے والی نہ ہو.ہر قدم اس کا آگے بڑھے اور اس طرح دیوانہ وار وہ خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے کھڑی ہو جائے کہ اسے اپنی زندگی اور اپنی موت دونوں یکساں معلوم ہوں بلکہ موت اسے زندگی سے زیادہ شیریں اور لذیذ معلوم ہو کیونکہ موت میں مومن اپنے یار کے دیدار کو دیکھتا ہے.صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف دیکھو، انہوں نے دین کے لئے کیسی کیسی قربانیاں کیں؟ حضرت ضرار بن اسود ایک مخالف جرنیل کے مقابلہ میں اس سے لڑنے کے لئے نکلے، وہ کئی مسلمانوں کو ید کر چکا تھا.جب یہ اس کے سامنے ہوئے تو فوراً بھاگے اور دوڑتے ہوئے اپنے خیمہ کی طرف چلے گئے.یہ دیکھ کر صحابہ میں سخت بے کلی اور بے چینی کی لہر دوڑ گئی کہ اب عیسائیوں کے سامنے ہماری کیا عزت رہ جائے گی ؟ کمانڈر انچیف نے فوراً ان کے پیچھے اپنا آدمی دوڑایا اور کہا کہ پتہ لوضرار کیوں بھاگے ہیں؟ ہ گیا تو اس وقت ضرار اپنے خیمہ سے باہر نکل رہے تھے.اس شخص نے کہا ضرار آج تم نے کیا کیا ؟ وہ 573
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جون 1945ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم تمہارے اس فعل کے نتیجہ میں آج سارے اسلامی لشکر کی گردنیں جھکی ہوئیں ہیں کہ اسلام کا سپاہی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا صحابی میدان جنگ سے بھاگ گیا.حضرت ضرار نے کہا ہاں تم نے یہی سمجھا ہوگا.مگر بات یہ ہے کہ جب کئی مسلمان یکے بعد دیگرے اس جرنیل کے ہاتھ سے مارے گئے تو میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں اس کے مقابلہ میں نکلوں گا.مگر جب میں اس کے سامنے کھڑا ہوا تو مجھے یاد آ گیا کہ میں نے کرتے کے نیچے لوہے کی زرہ پہنی ہوئی ہے.اس وقت میرے دل نے مجھے کہا کہ ضرار کیا یہ زرہ تو نے اس لئے پہن رکھی ہے کہ یہ بڑا بھاری جرنیل ہے، ایسا نہ ہو کہ تو اس کے ہاتھ سے مارا جائے؟ کیا خدا کے ملنے سے تو ڈرتا ہے کہ زرہ پہن کر لڑنے کے لئے آیا ہے؟ جب میرے دل نے مجھ سے یہ کہا تو میں نے سمجھا اگر میں اس وقت مارا گیا تو میں جہنم میں جاؤں گا کیونکہ اللہ تعالیٰ مجھے کہے گا کہ معلوم ہوتا ہے کہ تجھے ہم سے ملنے کی خواہش نہیں تھی.چنانچہ میں دوڑتا ہوا واپس چلا گیا تا کہ میں زرہ اتار آؤں اور اس کے بغیر اس کا مقابلہ کروں.چنانچہ انہوں نے اپنا کر نہ اٹھا کر بتایا کہ دیکھ لو میں زرہ اتار کر آیا ہوں.اس کے بعد وہ اس کے مقابلہ کے لئے نکلے اور اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ انہوں نے اسے مارلیا تو مومن موت کو اپنی زندگی سے بھی پیارا سمجھتا ہے.جس چیز کو لوگ ہلاکت سمجھتے ہیں ، مومن اسے اپنے لئے برکت کا باعث سمجھتے ہیں اور جس چیز کو لوگ تباہی کا موجب سمجھتے ہیں، مومن اسے اپنی ترقی کا موجب سمجھتے ہیں.پس جہاں میں مرکز کے کارکنوں کو توجہ دلاتا ہوں اور ان کی غفلت اور کوتا ہی پرانہیں ملامت کرتے ہوئے ، انہیں صحیح طور پر کام کرنے کی نصیحت کرتا ہوں ، وہاں میں جماعتوں کو بھی ملامت کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ انہوں نے اپنے فرائض کو صحیح طور پر ادا نہیں کیا اور عین اس موقعہ پر جبکہ ہم لڑائی کے لئے تیاری کر رہے تھے، انہوں نے ہماری طبیعتوں کو مشوش کر دیا اور ہمارے وقتوں کو اس عظیم الشان کام کی بجائے اور کاموں کے لئے خرچ کروانے لگی.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو تو فیق عطا فرمائے کہ وہ اپنی کوتاہیوں اور غفلتوں کو دور کرے اور خدا تعالیٰ کے تازہ نشانات ، جو اس کے سامنے ظاہر ہو رہے ہیں، ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، وہ اپنے ایمان اور اپنے اخلاص کو بڑھاتی چلی جائے.اسی طرح اللہ تعالیٰ ہمارے کارکنوں کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ وہ سستی اور غفلت کو چھوڑ کر صحیح طریقوں پر عمل کرتے ہوئے اسلام کو اس کی صحیح بنیادوں پر قائم کر دیں.تا کہ دونوں گروہ اس کے حضور سر خرو ہوں اور دونوں گروہ اس کے حضور ثواب کے مستحق ہوں.(مطبوعہ الفضل 25 جون 1945ء) 574
تحریک جدید - ایک البی تحر یک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود 24 اگست 1945ء جماعت ایک نازک ترین دور میں سے گزرنے والی ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 24 اگست 1945ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.قوموں کی پیدائش کے مختلف دور ہوتے ہیں اور ہر دور اپنی اپنی جگہ پر اہمیت رکھتا ہے.جس طرح بچے کی پیدائش ہوتی ہے، اسی طرح قوموں کی پیدائش عمل میں آتی ہے.یہ امر ہر شخص جانتا ہے کہ بچہ کی پیدائش پر مختلف دور آتے ہیں.پہلے اس کی حالت ایک نطفہ کی ہوتی ہے.لیکن نطفہ اس وقت تک کوئی نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا، جب تک حمل کی صورت میں اس کا استقرار نہ ہو جائے.گویا پہلا مرحلہ انسانی پیدائش کے سلسلہ میں استقرار حمل کا ہے.جب تک حمل کا استقرار نہ ہو جائے ، اس وقت تک کوئی پیدائش معرض وجود میں نہیں آسکتی.چنانچہ دیکھ لو دنیا میں کتنے ہی لوگ ہیں ، جن کی شادیاں ہوئے دس دس بیس بیس سال گزر چکے ہیں یا جن کی شادیوں پر دس دس ہیں میں سال گزرتے چلے آئے ہیں اور وہ طبیبوں سے علاج بھی کراتے ہیں اور شدید خواہش رکھتے ہیں کہ ان کی شادی کسی بچے کی صورت میں نتیجہ پیدا کرے لیکن ان کی کوششیں رائیگاں جاتی ہیں اور کوئی بچہ پیدا نہیں ہوتا؟ پس سب سے پہلا مرحلہ جو قیام زندگی اور نسل انسانی کے تسلسل میں پیش آتا ہے، وہ استقرار حمل کا ہے.اسی طرح جب کوئی بندہ خدا تعالیٰ کی طرف رغبت کرتا ہے اور اس سے محبت اور پیار کا اظہار کرتا ہے اور اس وقت دنیا کسی مصلح کی محتاج ہوتی ہے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس بندے پر الہام نازل کیا جاتا ہے اور وہ الہام دنیا میں ایک نئی روحانی پیدائش کے لئے بطور استقرار حمل کے ہوتا ہے.اور اپنی جگہ پر یہ مرحلہ ایسا ضروری ہوتا ہے کہ اگر ہم اس کو اہم ترین مرحلہ قرار دیں تو یہ بالکل صحیح ہوگا.کیونکہ تمام آئندہ ہونے والے واقعات اور حالات اس پر منتج ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ کا وہ الہام جو بندے پر پہلی دفعہ نازل ہوتا ہے کہ میں تجھے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے کھڑا کرتا ہوں ، بطور استقرار حمل کے ہوتا ہے.مگر اس الہام کے ساتھ ہی دنیا میں کوئی فوری تغیر پیدا نہیں ہوتا.ہاں اس الہام کے بعد کامیابی کے رستے کھلنے شروع ہو جاتے ہیں.جس طرح بچے کی پیدائش میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ نطفہ سے خون کا لوتھڑا بنتا ہے، پھر اس میں زیادہ گرانی پیدا ہوتی ہے اور وہ گوشت کی شکل اختیار کرتا ہے.پھر اس کی 575
خطبه جمعه فرموده 24 اگست 1945ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم ہڈیاں بنتی ہیں اور پھر اس پر چھڑا چڑھتا ہے.پھر آنکھ ، کان اور ناک وغیرہ اعضاء نمایاں شکل اختیار کرتے ہیں.پھر بچے کو غذا لینے کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ ناف کے ذریعہ اس کو حاصل کرتا ہے.یہی مختلف حالات ہوتے ہیں، جن میں سے قومیں گزرتی ہیں.اور یہی مختلف مراحل ہیں ، جن میں سے ہماری جماعت کو بھی گزرنا ہے.بعض لوگ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ جماعتیں یکساں طور پر ایک ہی حالت میں چلتی چلی جاتی ہیں.ان کا یہ خیال حقیقت کے بالکل خلاف ہے.کیونکہ جماعتیں یکساں طور پر بھی ایک حالت پر نہیں رہتیں بلکہ ان کی حالات ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں.جیسے بچے کی حالت بدلتی رہتی ہے.ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ بچہ ابتدا سے اسی طرح بنا بنایا آتا ہے اور بڑھانا شروع کر دیتا ہے بلکہ اس کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں.یہاں تک کہ علم حیات کے ماہرین یہ کہتے ہیں کہ ماں کے رحم میں بچہ اتنی شکلیں بدلتا ہے کہ دنیا کے تمام جانوروں کی شکلیں اختیار کرتا ہوا گزرتا ہے.ایک وقت اسے خوردبین سے دیکھا گیا تو اس کی شکل مچھلی کی سی تھی ، دوسرے وقت اسے خوردبین سے دیکھا گیا تو اس کی شکل خرگوش کی سی تھی.پھر کسی اور وقت اسے خورد بین سے دیکھا گیا تو اس کی شکل بندر کی سی تھی.غرض ارتقاء کے مختلف دور جنین پر وارد ہوتے ہیں اور وہ یکے بعد دیگرے مختلف جانوروں کی شکلوں میں سے گزرتا ہوا آخر انسانی شکل میں ظاہر ہوتا ہے.اسی طرح قوموں کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ وہ یکساں طور پر چلتی چلی جاتی ہیں، ایک بے معنی خیال ہے.ان کی شکلیں بدلتی چلی جاتی ہیں اور مختلف حالتوں میں گزرتی ہوئی ، وہ اپنے کمال کو پہنچتی ہیں.اور آخر کار وہ وقت آجاتا ہے، جو اس قوم کی پیدائش کے لئے مقدر ہوتا ہے.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کی پیدائش کا زمانہ وہ تھا، جب جنگ بدر ہوئی اور مسلمانوں کے مقابلہ میں عرب کے بڑے بڑے سردار مارے گئے.گویا بدر کی جنگ کے موقع پر وہ جماعتی حیثیت سے دنیا کے سامنے آگئے اور لوگ یہ سمجھنے لگ گئے تھے کہ اب مسلمانوں کا مقابلہ کرنا آسان کام نہیں.بہر حال جماعتیں پہلے اسی رنگ میں ترقی کرتی ہیں، جس رنگ میں جنین رحم مادر میں ترقی کرتا ہے.اور پھر جس طرح ایک دن جنین کی پیدائش عمل میں آجاتی ہے، اسی طرح قوموں پر ایک دن ایسا آتا ہے جب تدریجی رنگ میں ارتقائی مقامات کو طے کرتے ہوئے ، ان کی پیدائش معرض وجود میں آجاتی ہے.یہ امر یا درکھنا چاہئے کہ ہماری جماعت ابھی اس مقام پر نہیں پہنچی، جس کو پیدائش کا مقام کہا جا سکے، یعنی دنیا ہمارے وجود کو تسلیم کرلے.اور تو اور ابھی پنجاب میں بھی ہمارے وجود کو پوری طور پر تسلیم نہیں کیا گیا.گو ایک حد تک پنجاب میں ہمارے وجود کو تسلیم کیا گیا ہے لیکن ایسے طور پر نہیں کہ لوگ علی الاعلان 576
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 24 اگست 1945ء اقرار کر لیں.ابھی لوگ کہہ دیتے ہیں کہ یہ چھوٹی سی جماعت ہے، اس کا کیا ہے؟ اور ہندوستان میں تو ہماری کوئی ایسی نمایاں حیثیت ہی نہیں کہ ہم لوگوں کے سامنے بحیثیت جماعت آسکیں.ہاں جیسے بعض بجو بہ پسند کسی عجیب چیز کا ذکر اپنی کتاب میں کر دیتے ہیں، اسی طرح بعض لوگ ہم کو عجوبہ سمجھتے ہوئے اپنی کتابوں میں ہمارا بھی ذکر دیتے ہیں.اور ہندوستان سے باہر تو صرف چند ممالک ایسے ہیں جن میں ہلکے طور پر ہمارے وجود کو تسلیم کیا جاتا ہے، ورنہ باقی دنیا ہماری کوئی اہمیت تسلیم نہیں کرتی.جس طرح جنگل میں سے گزرنے والے شخص کی نظر بعض دفعہ جھاڑیوں اور بوٹیوں پر بھی پڑ جاتی ہے لیکن وہ ان کے وجود پر اتنی توجہ نہیں دیتا، جتنی توجہ وہ باغ میں اگے ہوئے مختلف پھولوں پر دیتا ہے.باغ میں جانے والا شخص یاسمین کے پودے کے پاس جاتا ، اس سے لطف اٹھاتا اور اس کے متعلق اپنی رائے قائم کرتا ہے.گلاب کے پھول کے پاس جاتا، اس سے لطف اٹھا تا اور اس کے متعلق اپنی رائے قائم کرتا ہے.پھر کسی پھل دار درخت کے پاس پہنچتا ہے تو اس کی تعریف کرتا ہے.لیکن جنگل میں سے گزرنے والا شخص درختوں اور جھاڑیوں کے پاس سے گزرتا چلا جاتا ہے، نہ ان پر اس کی نظر پڑتی ہے ، نہ وہ ان کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور نہ وہ ان کا اس طرح جائزہ لیتا ہے جس طرح باغ میں جانے والا شخص باغ کے پھولوں کا جائزہ لیتا ہے.جنگل میں سے گزرنے والا شخص لاکھوں کروڑوں جھاڑیوں کے پاس سے بے توجہی سے گزرجاتا ہے.لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی نئی چیز کی کشش کی وجہ سے وہ کسی جھاڑی یا پھول کو کچھ دیر کے لئے توجہ سے دیکھتا اور اس کے متعلق اپنی رائے بھی قائم کر لیتا ہے.لیکن وہ چیز دیر تک اس کے حافظہ میں نہیں رہتی اور اگلا قدم ہی اسے وہ جھاڑی بھلا دیتا اور کسی نئی جھاڑی کی طرف متوجہ کر دیتا ہے.یہی دنیا میں ہماری حالت ہے کہ لوگ ہماری طرف اپنی توجہ بھی مبذول نہیں کرتے اور اگر کرتے ہیں تو وہ ایسی ہی ہوتی ہے ، جیسے جنگل میں سے گزرنے والا کبھی کسی جھاڑی کی طرف وقتی طور پر متوجہ ہو جاتا ہے.لیکن وقت آرہا ہے، جب کہ ہمیں وہ پوزیشن حاصل ہو جائے، جو بچے کو حاصل ہوتی ہے.ہمارے لئے ابھی جوانی کا وقت دور ہے.اور دور سے میری مراد یہ ہے کہ وہ بلحاظ مدارج اور مراحل کے دور ہے، ورنہ خدا تعالیٰ چاہے تو وہ ایک دن میں بھی لاسکتا ہے.اور اس کی قدرت سے بعید نہیں کہ ہم جو اندازے کرتے ہوں، وہ انہیں پانچ یا دس سال میں پورا کر دے.مگر مراحل کے لحاظ سے ابھی جوانی کا زمانہ دور نظر آتا ہے.جیسے بچے کو جوان ہونے میں کافی وقت کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح ہماری جماعت کو اپنی جوانی تک پہنچے میں ابھی کافی وقت کی ضرورت ہے.بلکہ ابھی تو ہماری جماعت کی پیدائش بھی نہیں ہوئی.پیدائش 577
خطبه جمعه فرموده 24 اگست 1945ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم کے بعد بچہ گونا کارہ ہوتا ہے اور وہ اٹھ کر نہ چل سکتا ہے، نہ باتیں کرسکتا ہے، نہ خیالات ظاہر کر سکتا ہے، نہ خیالات کو سن کر نتائج اخذ کر سکتا ہے.لیکن پھر بھی دنیا اس بات کو مانے پر مجبور ہوتی ہے کہ وہ بھی ایک علیحدہ اور مستقل وجود رکھتا ہے.خواہ وہ بے کا روجود ہو، خواہ دنیا اس کے متعلق یہ نہ بجھتی ہو کہ وہ بڑا ہوکر ہمارے اندر تغیر پیدا کر سکتا ہے یا ہمارا مقابلہ کر سکتا ہے یا ہمیں مشورہ دے سکتا ہے.لیکن اس کے علیحدہ وجود ہونے سے انکار نہیں کر سکتی.اسی طرح جب دنیا میں کسی قوم کی پیدائش ہوتی ہے تو لوگ اس کے وجود کا اقرار کر لیتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ یہ قوم بھی دنیا کی اقوام میں گنے جانے کے قابل ہے.گو اس کی اہمیت کو لوگ نہ سمجھتے ہوں یا اس کے متعلق وہ یہ نہ بجھتے ہوں کہ وہ دنیا میں عظیم الشان تغیر کا موجب ہوسکتی ہے.ابھی دنیا کی اقوام میں ہماری قومی شخصیت اور فردیت تسلیم نہیں کی گئی اور جوانی تو ابھی دور ہے.میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے پچھلے دس سال میں جو باتیں اپنی جماعت کی ترقی اور دنیا کے تغیرات کے متعلق بتائی تھیں، ان کا نتیجہ دنیا کے سامنے آگیا ہے اور دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ وہ کس طرح لفظ بلفظ پوری ہوئی ہیں.اور ان کی تفاصیل اسی طرح وقوع میں آئی ہیں ، جس طرح میں نے بیان کی تھیں.اب میرے دل میں یہ بات میخ کی طرح گڑ گئی ہے کہ آئندہ انداز میں سالوں میں ہماری جماعت کی پیدائش ہوگی.بچوں کی تکمیل نوماہ میں ہو جاتی ہے اور نو ماہ کے عرصہ میں وہ پیدا ہو جاتے ہیں.لیکن بچے کی پیدائش اور قوم کی پیدائش میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے.ایک فرد کی پیدائش بے شک نو ماہ میں ہو جاتی ہے لیکن قوموں کی پیدائش کے لئے ایک لمبے عرصہ کی ضرورت ہوتی ہے.اور میں سمجھتا ہوں آئندہ بیس سال کا عرصہ ہماری جماعت کے لئے نازک ترین زمانہ ہے.جیسے بچہ کی پیدائش کا وقت نازک ترین وقت ہوتا ہے.کیونکہ بسا اوقات وقت کے پورا ہونے کے باوجود پیدائش کے وقت کسی وجہ سے بچہ کا سانس رک جاتا اور وہ مردہ وجود کے طور پر دنیا میں آتا ہے.پس جہاں تک ہماری قومی پیدائش کا تعلق ہے، میں اس بات کو شیخ کے طور پر گڑا ہوا اپنے دل میں پاتا ہوں کہ یہ بیس سال کا عرصہ ہماری جماعت کے لئے نازک ترین مرحلہ ہے.اب یہ ہماری قربانی اور ایثارہی ہوں گے، جن کے نتیجہ میں ہم قومی طور پر زندہ پیدا ہوں گے یا مردہ.اگر ہم نے قربانی کرنے سے دریغ نہ کیا اور ایثار سے کام لیا اور تقوی کی راہوں پر قدم مارا ، محنت اور کوشش کو اپنا شعار بنایا تو خدا تعالیٰ ہمیں زندہ قوم کی صورت میں پیدا ہونے کی توفیق دے گا اور اگلے مراحل ہمارے لئے آسان کر دے گا.بچے کی پیدائش کا مرحلہ ہی سب سے مشکل مرحلہ ہوتا ہے، پھر اس کا بڑا ہونا پھولنا پھلنا، یہ یہ سب ایک ہی دائرہ اور ایک ہی چکر کی چیزیں ہیں اور وہ غیر معمولی حادثات نہیں کہلا سکتے.لیکن بچے کا ماں کے 578
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود 240 اگست 1945ء پیٹ سے باہر آنا ، ایک غیر معمولی حادثہ سمجھا جاتا ہے.گو جوان آدمی کی طاقتوں اور بچے کی طاقتوں میں بہت کا بڑا فرق ہوتا ہے اور جوان اور بچے کی آپس میں کوئی نسبت ہی نہیں ہوتی.بچہ ایک انگلی بھی نہیں ہلا سکتا اور جوان آدمی پہاڑ بھی کاٹ سکتا ہے.پس گو یہ ایک بہت بڑا فرق ہے لیکن بچپن سے جوانی کی طرف جانا نسبتا ایک سہل اور نرم راستہ پر چلنے کے مترادف ہے، جو یکساں طور پر چلتا چلا جاتا ہے.مگر بچے کا پیدائش کے ذریعہ اس دنیا کی زندگی میں آنا، ایک مشکل ترین مرحلہ ہے.بچہ جب اس دنیا میں آتا ہے، اس کے لئے یہ دنیا نئی ہوتی ہے، یہ منزل نئی ہوتی ہے اور اس کی مثال ایسی ہی ہے، جیسے انسان دنیا میں مشکل سے مشکل حالات میں سے گزرتا ہے لیکن ان سے اتنا خائف نہیں ہوتا ، جتنا موت سے ڈرتا ہے.حالانکہ موت بھی تو ایک تبدیلی کا نام ہے.انسان کی زندگی ختم نہیں ہوتی بلکہ وہ اس دنیا سے دوسری دنیا میں چلا جاتا ہے.لیکن موت سے ہر انسان خائف ہوتا ہے.اور اس لئے خائف ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسے مقام کی طرف جارہا ہوتا ہے، جس کے متعلق اسے کچھ علم نہیں ہوتا.اس لئے اسے یہ تبدیلی ہیبت ناک معلوم ہوتی ہے.بہر حال جس طرح استقرار حمل ایک نئی تبدیلی ہے، جس طرح بچے کی پیدائش ایک نئی تبدیلی ہے ، اسی طرح موت کے بعد انسان کا اس دنیا سے دوسری دنیا میں چلے جانا بھی ایک نئی تبدیلی ہے.اور یہ تینوں مرحلے ہر قوم کو پیش آتے ہیں.اللہ تعالیٰ کا الہام بطور استقرار حمل کے ہوتا ہے.جس طرح حمل کا استقرار کسی انسان کے اختیار میں ہے نہیں ہوتا ، اسی طرح الہام کا نازل ہونا کسی بندے کے اختیار میں نہیں ہوتا.جب اللہ تعالیٰ کا الہام آتا ہے تو دنیا میں بڑے بڑے تغیرات کا موجب بنتا ہے.گمنام اور غیر معروف قوم الہام الہی پر ایمان لانے کی وجہ سے غیر معمولی طور پر اپنا وجود ظاہر کرتی ہے.اور اپنی پیدائش کے وقت تمام دنیا سے اپنے وجود کا اقرار کرا لیتی ہے.غرض استقرار حمل سے وجود قائم ہوتا ہے اور پیدائش سے وہ وجود دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے.پس میں سمجھتا ہوں یہ بیس سال کا عرصہ ہمارے لئے اہم ترین زمانہ ہے.کئی ہم میں سے ایسے ہوں گے، جو اس میں سال کے عرصہ میں دنیا سے گزر جائیں گے.مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا گزر جانا کوئی نئی چیز ہے؟ کیا پہلی قوموں میں سے لوگ مرتے نہیں رہے؟ کیا کسی ترقی کرنے والی قوم یا کسی قربانی کرنے والے انسان نے کبھی کہا ہے کہ ہماری زندگی میں یہ کام ہو گیا تو ہم اسے کر دیں گے اور اگر ہماری زندگی میں نہ ہوا تو ہم نہیں کریں گے؟ صرف مردہ دل لوگ ہی ایسے ہوتے ہیں، جو یہ کہتے ہیں کہ پہلے ہمیں انجام دکھاؤ، پھر ہم قدم اٹھائیں گے.زندہ قومیں یا زندہ افراد اس بات کو دل میں بھی نہیں لاتے.وہ کہتے ہیں ہم اس کام کو شروع کرتے ہیں، اگر ہم مر گئے تو دوسرے لوگ ہماری جگہ سنبھال لیں گے اور اس کام کو جاری رکھیں گے.وہ سمجھتے ہیں کہ اس کام کی بنیاد قائم کرنا ہی ہمارے لئے عزت کا موجب ہے.مثلاً شاہ جہان نے 579
خطبه جمعه فرمود : 24 اگست 1945ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم تاج محل بنوایا ، میں سمجھتا ہوں کہ اس نے روپے کا اسراف کیا اور ایسی چیز پر روپیہ خرچ کیا، جس سے ملک کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا.لیکن جہاں تک عمارت بنانے کا سوال ہے، اس نے عظیم الشان نشان دنیا میں چھوڑا.فرض کروشاہ جہان کو یہ یقین ہوتا کہ میرے مرنے کے بعد صرف سو سال یا دو سو سال تک تاج محل قائم رہے گا ، اس سے زیادہ اس کا نشان دنیا میں قائم نہ رہے گا تو بھی وہ کہتا کہ سو یا دو سو سال تک جلوہ دکھا جانا بھی کوئی چھوٹی بات نہیں.لیکن اس کے مقابل پر مومن کے لئے غیر محدودزندگی اور غیر محدود انعام ہیں اور مومن کا اندازہ دنیا کے اندازے سے نرالا ہوتا ہے.غیر مومن لوگ اپنے کاموں کا اندازہ میں چھپیں یا پچاس یا سو سال تک لگاتے ہیں، کچھ لوگ اور زیادہ اندازہ لگاتے ہیں تو ہزار سال تک اپنی ترقی کی امید رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس کے لئے انہیں کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہئے.ہٹلر کی امنگوں اور اس کے جذبات اور اس کی بیداری کا انکار نہیں کیا جاسکتا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ اس زمانہ کا ایک غیر معمولی انسان تھا، جس کے اندر ایک ایسی آگ تھی، جو اپنے گردو پیش کی سینکڑوں میل تک کی چیزوں کو بھسم کرتی چلی جاتی تھی.وہ آگ نہ تھی بلکہ کہنا چاہئے کہ وہ ایک آتش فشاں پہاڑ تھا، جس نے اپنے سارے ملک کو ہلا دیا.لیکن باوجود ان تمام باتوں کے اس کا اندازہ یہ تھا کہ وہ اپنے ملک اور اپنی قوم کو ایک ہزار سال کے لئے محفوظ کر جائے اور اپنے ملک اور قوم کو ایک ہزار سال تک محفوظ کرنے کے لئے اس نے اور اس کی قوم نے جوقربانیاں کیں ہیں، وہ کتنی حیرت انگیز ہیں.یہ اور بات ہے کہ اس کے مقابل پر جو طاقتیں تھیں، وہ اس سے زیادہ زبر دست تھیں اور اس وجہ سے وہ شکست کھا گیا یا یہ سمجھ لو کہ اس نے خدا تعالیٰ کے غضب کو اپنے اوپر بھڑ کا لیا.لیکن جہاں تک دنیوی لحاظ سے قربانیوں کا تعلق ہے، اس نے حیرت انگیز کام کیا.اسی طرح نپولین اور تیمور بھی دنیا کے غیر معمولی انسانوں میں سے ہیں.اور یہ لوگ انسانوں میں سے عجیب قسم کی مثالیں ہیں.ان کے کاموں سے پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر کتنی عظیم الشان طاقتیں محفوظ رکھی تھیں؟ ہٹلر کا سب سے بڑا اندازہ جو تھا، وہ ایک ہزار سال کا تھا.لیکن ہٹلر کے علاوہ جو دوسرے بڑے بڑے لیڈر گزرے ہیں، ان کا اندازہ صرف سو سال یا دو سو سال کا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ سو سال کے لئے یا دو سو سال کے لئے اپنی قوم کو بلند کر جائیں.اتنے تھوڑے عرصہ کے لئے انہوں نے ایسی ایسی قربانیاں کی ہیں، جو انسان کومحو حیرت بنادیتی ہیں.مثلا تیمور کو ہی دیکھو کہا جاتا ہے کہ بعض جگہ اس کے مردوں کی لاشیں جمع کی گئیں تو وہ ایک ٹیلہ بن گیا.یہ قربانیاں اس نے کس لئے کہیں ؟ صرف اس لئے کہ اس کی قوم کچھ عرصہ کے لئے دنیا میں بلند ہو جائے اور اس کی قوم کو عزت کی نظر سے دیکھا جائے.580
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم خطبہ جمعہ فرموده 24 اگست 1945ء لطیفہ مشہور ہے کہ تیمور ایران کو فتح کرتا ہوا جب شیر از پہنچا تو اس نے خواجہ حافظ کو بلا کر پوچھا کہ کیا یہ شعر آپ کا ہے کہ اگر آں ترک شیرازی بدست آور دل ما را بخال هندوش بخشم سمرقند و بخارا را حافظ نے کہاہاں، میرا ہے.تیمور نے کہا تم بھی عجیب آدمی ہو، میں نے تو دنیا میں قتل وغارت کر کے لاشوں کے ڈھیر لگا دیئے ہیں محض اس لئے کہ سمرقند و بخارا کو عزت ملے اور تم ہو کہ اپنے معشوق کے ایک خال پر سمرقند و بخارا دینے کو تیار ہو گئے ہو.تو سمرقند و بخارا کو عزت دینے اور اس کا نام بلند کرنے لئے تیمور نے لاشوں کے ڈھیر لگادیئے.اس نے اپنی جان کی پرواہ نہ کی ، اس نے اپنی قوم کی جان کی پروا نہ کی.اور یہ سب کچھ اس لئے کیا کہ کچھ عرصہ کے لئے اس کی قوم کو عزت حاصل ہو جائے.مگر کتنے عرصے تک اس کی قوم کے پاس یہ عزت رہی؟ بمشکل چالیس سال تک تیمور کی قوم کے پاس یہ عزت رہی.اسی طرح نپولین کی قوم بھی زیادہ دیر تک برسراقتدار نہ رہ سکی اور جلد ہی ختم ہوگئی اور ہٹلر کا تو کچھ بنا ہی نہیں.وہ اپنی زندگی میں ہی ملک کی عزت کو ختم ہوتا دیکھ گیا.لیکن اس کے باوجود انہوں نے جو قربانیاں کیں، وہ حیرت انگیز ہیں.ان مثالوں کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے ، ہماری جماعت کو غور کرنا چاہئے کہ اسے اللہ تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لئے کتنی بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے؟ ہمارے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ ہم ساری دنیا کی اصلاح کریں، ساری دنیا میں اسلام کا جھنڈا قائم کریں ، ساری دنیا کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی غلامی میں داخل کریں.اس کام کے لئے ہمیں دن رات محنت کی ضرورت ہے، دن رات قربانیوں سے کام لینے کی ضرورت ہے اور دن رات اپنے اعمال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے.اگر ہم اس کام کو کرلیں، جو ہمارے سپرد کیا گیا ہے.یعنی ہم دنیا سے دہریت اور لامذہبیت کو مٹانے میں کامیاب ہو جائیں اور پھر دوبارہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قائم کر دیں تو ہمارے جیسا خوش قسمت اور کون ہو سکتا ہے؟ اس کام کے نتیجے میں ہم ابد الآباد زندگی اور ابد الآباد انعامات کے وارث ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا ہمارے شامل حال ہوگی.لیکن ضرورت ہے اس بات کی کہ ہم ایمان میں ترقی کریں ، ضرورت ہے اس بات کی کہ ہم اخلاص میں ترقی کریں، ضرورت ہے اس بات کی کہ ہم قربانیوں میں ترقی کریں.بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو رسمی طور پر جماعت میں داخل ہو جاتے ہیں.یعنی عقلی طور پر انہوں نے جماعت کے عقائد کو مجھ لیا ہوتا ہے لیکن ان کے دل میں ایمان داخل نہیں ہوتا.جیسے بعض لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے 581
خطبه جمعه فرموده 24 اگست 1945ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم کہ یہ لوگ مسلمان تو ہیں لیکن ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا.اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ منافق تھے.بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے دماغوں میں اسلام کا مفہوم تو آ گیا تھا اور دماغی طور پر تو انہوں نے اسلام کو سمجھ لیا تھا لیکن ان کے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا تھا.حقیقی ایمان اسی وقت حاصل ہوتا ہے، جب ایمان دماغ سے اتر کر دل میں داخل ہو جائے.جیسے ایک شخص اللہ تعالیٰ کی ہستی کے دلائل سنے اور عقلی طور پر اس بات کا قائل ہو جائے کہ خدا موجود ہے اور اس کی یہ صفات ہیں.تو یہ اور بات ہے اور یہ کہ خدا تعالیٰ کی محبت انسان کے دل میں داخل ہو جائے اور خدا تعالیٰ کی محبت اس کی حیات کا جزو بن جائے ، یہ اور بات ہے.فرض کرو، لیلی مجنوں کا وجود دنیا میں کوئی وجود تھا.تو پھر لیلی کو دنیا میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں آدمیوں نے دیکھا ہوگا.اب جہاں تک اس کی آنکھوں کا سوال ہے کہ وہ چھوٹی تھیں یا بڑی ؟ جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ اس کی آنکھوں میں سفیدی کتنی تھی اور سیاہی کتنی؟ جہاں تک اس کی گردن کا سوال ہے کہ بھی تھی یا چھوٹی ؟ جہاں تک اس کے جسم کی مناسبت کا سوال ہے کہ اس کے اعضاء میں تناسب تھایا نہیں ؟ اس کے ہاتھ پاؤں لمبے تھے یا چھوٹے ؟ اس کا رنگ سیاہ تھا یا سفید ؟ یہ چیزیں دیکھنے والوں کے لئے برابر تھیں.لیکن دوسرے لوگوں کے دیکھنے اور مجنوں کے دیکھنے میں بڑا فرق تھا.دوسرے لوگ لیلی کو دیکھتے تو وہ ان کے دماغ تک ہی رہ جاتی.لیکن مجنوں نے دیکھا اور دیکھتے ہی وہ اس کے دل میں اتر گئی.لوگوں نے لیلی کو دیکھا تو کہا اچھی ہے اور آگے چل دیئے.لیکن مجنوں نے اسے دیکھا تو اس نے سب کچھ چھوڑ کر ساری عمر کے لئے لیلی کے دروازے پر گزاردی.یہی فرق ان اشخاص میں ہوتا ہے جود مارغ یا دل سے کسی بات کو مانتے ہیں.سینکڑوں آدمی ایسے ہوتے ہیں، جو دماغ سے تو ایک بات کو مانتے ہیں لیکن دل سے اس کو نہیں مانتے.یہی وجہ ہے کہ وہ اس کے لئے کوئی قربانی اور ایثار نہیں کر سکتے.جیسے لوگ بعض شاعروں کے شعروں کو پڑھتے اور ان کی تعریف کرنے لگتے ہیں مگر ان کے دل میں ان شعروں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی.اس کے مقابل میں ایک ماں بھی اپنے اکلوتے بیٹے کی تعریف کرتی ہے مگر دونوں کی تعریف میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے.کجا ایک آدمی کا شاعر کے شعر کو پسند کرنا اور کجا ماں کا اپنے بچے کو پسند کرنا.اگر غالب کے شعروں کو پسند کرنے والے اور اس کے شعروں کی تعریف کرنے والے ایک آدمی کو دو تھپڑ مار کر پوچھا جائے کہ بتاؤ غالب کے شعر کیسے ہیں؟ تو وہ فورا کہہ دے گا کہ بہت برے ہیں.لیکن اگر ماں کو قتل بھی کر دیا جائے تو بھی وہ اپنے بچے کی تعریف کرے گی.دنیا میں ہزاروں مائیں مرتی ہیں اور بچے ان کی گود میں ہوتے ہیں.دنیا ان کو مار سکتی ہے مگر بچے کی گردن 582
تحریک جدید- ایک الی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرموده 24 اگست 1945ء میں حمائل ہونے والے ہاتھوں کو نہیں چھڑا اسکتی.تو دل اور دماغ کی کیفیت میں بڑا فرق ہے.اور وہی ایمان انسان کی نجات کا موجب ہوتا ہے، جو دماغ سے اتر کر دل میں بھی داخل ہو جائے.پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ وقت بہت نازک ہے، اپنے ایمانوں کی فکر کرو اور اپنی اصلاح کرو، ہستیوں اور غفلتوں کو ترک کرو.میں نے تحریک جدید کے دس سالہ دور میں کئی بار بتایا تھا کہ یہ قربانی صرف دس سال کے لئے نہیں ہوگی بلکہ آئندہ بھی جاری رہے گی.خواہ کسی صورت میں جاری رہے.مگر افسوس کے بہتوں نے اس بات کو سنا اور دوسرے کان سے نکال دیا.خوب یا درکھو جس دن کسی قوم میں قربانی بند ہوئی، وہی دن اس قوم کی موت کا ہے.قوم کی زندگی کی علامت یہی ہوتی ہے کہ وہ قربانیوں میں ترقی کرتی چلی جائے اور قربانیوں سے جی نہ چرائے.اگر ہم ساری دنیا کو بھی فتح کر لیں ، پھر بھی ہمیں اپنے ایمان کو سلامت رکھنے اور اپنے ایمان کو ترقی دینے کے لئے قربانیاں کرتے رہنا ہوگا.پس میں جماعت کے دوستوں کو آگاہ کر دینا چاہتا ہوں کہ جماعت ایک نازک ترین دور میں.گزرنے والی ہے.اس لئے اپنے ایمانوں کی فکر کرو.کسی شخص کا یہ سمجھ لینا کہ دس پندرہ سال کی قربانی نے اس کے ایمان کو محفوظ کر دیا ہے، اس کے نفس کا دھوکا ہے.جب تک عزرائیل ایمان والی جان لے کر نہیں جاتا ، جب تک ایمان والی جان ایمان کی حالت میں ہی عزرائیل کے ہاتھ میں نہیں چلی جاتی ، اس وقت تک کے ہم کسی کو محفوظ نہیں کہہ سکتے.خواہ وہ شخص کتنی بڑی قربانیاں کر چکا ہو؟ اگر وہ اس مرحلہ میں پیچھے رہ گیا تو اس کی ساری قربانیاں باطل ہو جائیں گی اور وہ سب سے زیادہ ذلیل انسان ہوگا.کیونکہ چھت پر چڑھ کر گرنے والا انسان دوسروں سے زیادہ ذلت کا مستحق ہوتا ہے“.( مطبوع الفضل ) ( ستمبر 1945ء) 583
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد دوم خطبه جمعه فرموده 07 ستمبر 1945ء ہم نے اللہ تعالیٰ کی بادشاہت کو دنیا میں قائم کرنا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 07 ستمبر 1945ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں پچھلے دو خطبات سے جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلا رہا ہوں کہ اسلام اور احمدیت کے لئے ایک نیا تغیر آئندہ میں سال میں مقدر ہے.اور وہی لوگ اس دور میں اللہ تعالیٰ کے حضور سرخرو ہو سکیں گے، جو اس دور کے امتحانوں میں کامیاب ہوں گے.میں نے پہلے بھی توجہ دلائی تھی کہ کسی قوم کی ایک ہی قربانی اس کے ہمیشہ کام نہیں آسکتی.ہم میں سے ہر ایک آدمی جانتا ہے کہ دن میں ایک یا دو یا تین دفعہ کھانا ضروری ہوتا ہے.جیسا بھی کسی کے ہاں رواج ہو.اگر انسان ہر روز کھانا نہ کھائے تو اس کی وہ قوتیں جو تحلیل ہوتی رہتی ہیں ، ان کا بدل پیدا نہیں ہو سکتا.اسی طرح اگر ایک انسان ہیں سال تک ناک، کان، آنکھوں اور ہاتھ پیر سے کام لیتا ر ہے اور بعد میں کچھ عرصہ کے لئے اپنے ان اعضاء سے کام لینا چھوڑ دے.مثلاً کانوں میں روئی ٹھونس کر ان کو بند کر دے یا آنکھوں پر پٹی باندھ کر انہیں بیکار کر دے یا ایسے ہی دوسرے اعضاء سے کام نہ لے تو یہ دلیل اس کے ہرگز کام نہ آئے گی کہ میں پہلے میں سال ان اعضاء سے کام لیتا رہا ہوں، اگر اب کام نہ لیا تو کیا نقصان ہوگا ؟ اگر وہ ان اعضاء سے کام نہ لے گا تو یقیناً کچھ دنوں بعد اس کی طاقتیں معطل ہو جائیں گی.یہی حال روحانی طاقتوں کا ہوتا ہے.کئی نادان سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے پہلے بہت سی قربانیاں کر دی ہیں، وہی ہمارے لئے کافی ہیں.ہمیں آئندہ کے لئے قربانیاں کرنے کی ضرورت نہیں.حالانکہ وہ ہر روز کھانا کھاتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ کل، پرسوں یا ترسوں کا کھایا ہوا کھانا ہمارے لئے کافی ہوگا اور بغیر کسی کے کہنے کے ہر روز کھانا کھا لیتے ہیں.سوائے بچوں کے کہ والدین ان کو کہہ کر کھانا کھلاتے ہیں کہ کھانا کھا لو نہیں تو معدہ خراب ہو جائے گا اور پانچ دس دن کی تاکید کے بعد وہ بھی اس نصیحت کے محتاج نہیں رہتے.تو ہر وہ انسان جو یہ سمجھتا ہے کہ پچھلی قربانیاں اس کے لئے کافی ہیں، وہ سخت غلطی پر ہے.جس طرح کل کا کھایا ہوا، اس کے آج کام نہیں آ سکتا، اسی طرح پچھلی قربانیاں انسان کو آئندہ کے لئے مستغنی نہیں کر سکتیں بلکه روحانی زندگی کو برقرار رکھنے کے لئے ہمیشہ نئی نئی قربانیوں کی ضرورت رہتی ہے.585
خطبہ جمعہ فرمودہ 07 ستمبر 1945ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم پھر قربانیاں بھی اوقات کے بدلنے کے ساتھ بدلتی چلی جاتی ہیں.ایک وقت مالی قربانی کی ضرورت ہوتی ہے تو دوسرے وقت جانی قربانی کی ضروت ہوتی ہے.یہ کبھی نہیں ہوا کہ ہمیشہ ایک ہی قسم کی قربانی کی کسی قوم کو ضرورت رہے.پہلی قربانیاں اس موت سے بچانے کے لئے تھیں، جو گزشتہ زمانہ میں یش آسکتی تھی اور آئندہ کی قربانیاں آئندہ کی ہلاکت سے بچنے کے لئے ہیں.جس نے دو سال پہلے کھانا کھایا تھا، اس نے اس کھانے سے اسی فاقہ کی موت سے نجات حاصل کی تھی ، جو دو سال پہلے آسکتی تھی.اس کھانے سے وہ دو سال بعد والی موت سے نہیں بچ سکتا.میں پہلے بھی کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں کہ مومن کبھی بھی اپنی پچھلی قربانیوں کی وجہ مطمئن نہیں ہوتے بلکہ اپنے ایمان کی زیادتی کے لئے قربانیوں میں ترقی کرتے چلے جاتے ہیں.اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک جان ایمان کی حالت میں عزرائیل کے سپرد نہ کر دی جائے ، اس سے پہلے کسی شخص کا مطمئن ہو جانا حد درجے کی حماقت ہے.گورنمنٹ کے ٹیکسوں کے ادا کرنے میں کبھی ہمارے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہوا کہ ہم نے پچھلے سال ٹیکس ادا کر دیا تھا، اس سال ادا کرنے کی ضرورت نہیں.بلکہ ساری عمر ٹیکس ادا کرتے چلے جاتے ہیں.لیکن خدا تعالیٰ کے معاملہ میں ہم سمجھ لیتے ہیں کہ کچھ عرصہ قربانی کر دی تو ہماری ذمہ داری ختم ہوگئی.ہم پانچ وقتوں میں اللہ اکبر کی آواز بلند کرتے ہیں اور دنیا کے سامنے بآواز بلند اس بات کو پیش کرتے ہیں کہ اللہ ہی سب سے بڑا ہے.لیکن مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے دل میں خیال پیدا نہیں ہوتا کہ اصل کام تو ہم نے کیا ہی نہیں.کیا واقع میں کوئی جگہ ایسی ہے یا کوئی مقام ایسا ہے، جہاں اللہ تعالیٰ کو اکبر سمجھا جاتا ہے؟ اس دنیا میں مجھے تو کوئی جگہ ایسی نظر نہیں آتی.اگر اللہ اکبر کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ دنیا کے تمام بادشاہوں، دنیا کے تمام ڈکٹیٹروں، دنیا کے تمام پریذیڈنٹوں سے بڑا ہے اور اس سے بڑا کسی کو نہ سمجھا جائے تو آج دنیا میں یہ ہو نہیں رہا.لوگ سٹالن کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی کچھ بھی حیثیت نہیں سمجھتے ، ٹرومین کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی کچھ بھی حیثیت نہیں سمجھتے ، میکاڈو کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی کچھ بھی حیثیت نہیں سمجھتے اور ائیلے کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی کچھ بھی حیثیت نہیں سمجھتے.اللہ تعالیٰ کی آواز سٹالن کی آواز کے مقابلے میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی ، ٹرومین کی آواز کے مقابلے میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی ، میکاڈو کی آواز کے مقابلے میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی اور اٹیلے کی آواز کے مقابلے میں کچھ حیثیت نہیں رکھتی.یہ بات تو درست ہے کہ ٹرومین ایک آواز بلند کرے تو سارا یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ 586
تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبه جمعه فرموده 07 ستمبر 1945ء اس کی آواز کے پیچھے چل پڑے گا.لیکن اس کے مقابل پر تم مجھے ایک گاؤں ہی بتا دو ، جہاں اللہ تعالی کی و آواز کی لوگ پوری طرح پیروی کرتے ہوں.تم ٹرومین کو بھی چھوڑ دو، تم سٹالن کو بھی چھوڑ دو، تم انیلے اور میکا ڈو کو بھی جانے دو.تم مجھے اللہ تعالی کی آواز کی اتنی وقعت ہی دکھا دو، جتنی وائسرائے ہند لارڈ ویول کی آواز کی یا جتنی سرکیسی کی آواز کی یا جتنی ملک خضر حیات خان کی آواز کی وقعت سمجھی جاتی ہے.تم ان بڑے آدمیوں کو بھی چھوڑ دو تم مجھے خدا کی آواز کی اتنی وقعت ہی بتا دوں جتنی چوہڑوں کے پہنچ کی آواز کو دی جاتی ہے.چوہڑے اس کی آواز پر سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہو جاتے ہیں.لیکن آج بندے خدا کی آواز کی طرف توجہ بھی نہیں کرتے.کیا ہمارے لئے شرم کی بات نہیں کہ جب دنیا اللہ تعالیٰ سے بیگانہ ہے اور جب دنیا کے دلوں میں اللہ تعالی کی آواز کی کوئی بھی وقعت نہیں رہی، اس وقت ہم اپنے آرام کی فکر کریں اور اس اہم کام کی طرف توجہ نہ کریں، جو ہمارے سامنے ہے؟ ہم پانچ وقت دنیا کے سامنے ایک پروگرام پیش کرتے ہیں کہ اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ ہی سب سے بڑا ہے، اللہ ہی سب سے بڑا ہے.لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی ذات کی اپنے نفسوں کے مقابل میں اپنی حاجات کے مقابل میں، اپنی اولادوں کے مقابل میں، اپنے مالوں کے مقابل میں کیا نسبت قائم کرتے ہیں؟ اگر ہم اللہ تعالیٰ کی ذات کو اپنے نفسوں پر ترجیح دیتے ہیں، اپنے مالوں پر ترجیح دیتے ہیں، اپنی اولادوں پر ترجیح دیتے ہیں تو ہم یقیناً خوش ت ہیں.لیکن اگر ہم اللہ تعالیٰ کی ذات کو اپنے نفسوں پر ، اپنے مالوں پر، اپنی اولادوں پر ترجیح نہیں دیتے تو ہمارے جیسا بد قسمت روئے زمین پر کوئی نہیں ہوسکتا اور ہمیں اپنے انجام کی فکر کرنی چاہئے.پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے ہماری کمزوریوں کو دیکھ کر 1/3 حصہ سے زیادہ وصیت کرنے سے منع فرمایا ہے.گویا 7/10 حصہ ہمارے لئے رکھا ہے اور 3/10 حصہ اپنے لئے.مگر کتنے ہیں جو اس حصہ کو بھی دینے کے لئے تیار ہیں؟ ہماری جماعت وہ ہے، جو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہر قربانی کرنے کے لئے تیار ہے.اور ایک حد تک وہ اس دعوئی کے مطابق عمل بھی کرتی ہے.لیکن ہماری جماعت میں سے بھی تھوڑے ہیں، جو 3/10 حصہ کی قربانی کرتے ہیں.میرے نزدیک ایسے لوگ مشکل سے دس فیصدی ہوں گے.باقی لوگوں میں سے کچھ حصہ ایسا ہے، جو 1/10 اور 3/10 کے درمیان چکر لگاتا رہتا ہے.اور کچھ حصہ ایسا ہے، جو 1/10 کی بھی پورے طور پر قربانی نہیں کرتا.اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی اپنا حصہ تھوڑا رکھا ہے.لیکن اس تھوڑے حصے کو بھی ادا کرنے میں بعض لوگ کوتا ہی سے کام لیتے ہیں.پھر اوپر کا حکم تو وصیت سے متعلق ہے.اپنی زندگی میں تو انسان اپنی جائیداد ساری کی ساری بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں دے سکتا ہے، اپنی زندگی توانسان اپنی جائیدادساری راہ 587
خطبہ جمعہ فرمودہ 07 ستمبر 1945ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم جیسے حضرت ابو بکر نے کیا.مگر لوگ بجائے اس کے 3/10 حصہ کو 4/10 حصہ یا 5/10 حصہ کی طرف لے جائیں.1/10 حصہ کی قربانی کے لئے بھی تیار نہیں ہوتے اور اپنے اموال کو اپنے آرام و آسائش پر یا اپنی اولادوں یا دوسری ادنی ادنی ضروریات پر خرچ کر دیتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے دین کے لئے ان کے مالوں میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی.جب ہماری جماعت میں سے بعض افراد کا یہ حال ہے، جو دن رات اللہ تعالیٰ کے نشانات کا مشاہدہ کرتی ہے کہ وہ اپنے مالوں میں سے 1/10 حصہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں.تو باقی قو میں، جو اللہ تعالیٰ سے بالکل بریگانہ ہیں، ان کے متعلق تم خود ہی قیاس کرلو کہ وہ کس قدر اللہ تعالیٰ کے لئے قربانی کرتی ہوں گی؟ تو اللہ اکبر کا خانہ خالی پڑا ہے.اور وہ کام جو ہم نے کرنا ہے، بہت دور ہے.پہلے دنیا میں اللہ اکبر کا اعلان کیا جاتا ہے.پھر اس کے بعد اشهد ان لا الہ الا اللہ کا اعلان کیا جاتا ہے.پھر اشھدان محمدرسول اللہ کا اعلان کیا جاتا ہے.پھر حی علی الصلوۃ کا اعلان کیا جاتا ہے.پھر حی علی الفلاح کا اعلان کیا جاتا ہے.اس کے بعد پھر اقامت پر قد قامت الصلوة کا اعلان کیا جاتا ہے.اقامت صلوۃ ہونے کے بعد دنیا ایک نیا پروگرام بناتی ہے اور توحید کے حقیقی معنی سیکھتی ہے.صرف تکبیر بیان کرنے میں اور کامل توحید میں بہت بڑا فرق ہے.تکبیر سے صرف اللہ تعالیٰ کی بڑائی ظاہر ہوتی ہے.لیکن تو حید کامل انسان کے تمام اعمال پر اثر انداز ہو کر اسے ادنیٰ مقام سے اعلیٰ مقام تک لے جاتی ہے اور اس کی قوتوں میں ایک نئی تبدیلی پیدا کر دیتی ہے.کامل توحید کی آگے کئی شاخیں ہیں.لیکن جب تک دنیا اشهد ان لا اله الا اللہ پر قائم نہ ہو جائے ، جب تک اشهدان محمد رسول اللہ پر قائم نہ ہو جائے ، جب تک حى على الصلوۃ پر عمل نہ کیا جائے ، جب تک حی علی الفلاح اپنی پوری شان نہ دکھائے، جب تک اسلام کے سارے احکام کا پورے طور پر قیام نہ ہو جائے ، اس وقت تک اقامت صلوۃ نہیں ہو سکتی.جماعت کا فرض ہے کہ وہ اقامت صلوۃ کے لئے پورے طور پر کوشش کرے.لیکن ہم تو ابھی تک اللہ اکبر کا پروگرام بھی پورا نہیں کر سکے.اگر ہم اسی جدو جہد پر ٹھہر جائیں تو ہماری مثال اس شیر گدوانے والے جیسی ہوگی کہ جب اسے دو چار سوئیاں چبھتیں تو وہ کہتا ، اس عضو کو چھوڑ و آگے چلو.آخر گودنے والے نے سوئی رکھ دی اور کہا کہ اب تو شیر کا کچھ بھی باقی نہیں رہا.ہماری جماعت کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اسے ابھی قربانیوں کے میدان میں صرف سوئیاں چھنے لگی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.میں تمہارے پاس کوئی جنتر منترلے کر نہیں آیا کہ تمہیں بغیر کسی تکلیف کے کامیابی حاصل ہو جائے.بلکہ تمہیں وہ ساری قربانیاں کرنی ہوں گی، جو پہلی 588
خطبہ جمعہ فرمودہ 07 ستمبر 1945ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم قوموں نے کیں.اور تمہارے لئے وہی راستہ مقدر ہے، جس پر پہلے انبیاء کی جماعتیں تم سے پہلے چلیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ تم سے پہلے لوگوں کے سروں پر آرے رکھ کر ان کو چیر دیا گیا لیکن وہ اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے.اور یہ ادنی بشاشت ایمان ہے.جب ادنی بشاشت ایمان ا یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان تک بھی قربان کرنے سے دریغ نہ کرے تو اعلیٰ بشاشت ایمان کے متعلق اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ وہ کیا کیا قربانیاں کرنے کے بعد حاصل ہوتی ہے؟ بہر حال ہمارے لئے ابھی ان ادنی بشاشت ایمان والی قربانیوں کا کرنا ضروری ہے.لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جماعت ابھی اس قابل نہیں ہوئی، اس لئے ابھی جانی قربانی کا مطالبہ نہیں کیا گیا.جیسے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ اصل میں تو ایک مومن دس کافروں پر بھاری ہے لیکن چونکہ تم میں ابھی کمزوری اور ضعف ہے، اس لئے اب تم میں سے ایک مومن کو کم سے کم دو کافروں کے مقابلہ سے نہیں بھاگنا چاہئے.تو ہر ایک کام کے لئے اللہ کی طرف سے ایک وقت مقدر ہوتا ہے، جب وہ وقت آ جاتا ہے تو اس کام کے کرنے کا اللہ تعالیٰ حکم دے دیتا ہے.جماعت کے بعض لوگوں سے یہ بات سن کر کہ ہمارے لئے یہی رستہ مقدر ہے، جس پر ہم چل رہے ہیں، میں حیران ہوتا ہوں کہ میں ان کی اس سمجھ پر روؤں یا ہنسوں؟ کیونکہ حماقت کی بات پر بعض دفعہ انسان کو ہنسی بھی آجاتی ہے اور بعض دفعہ رونا بھی.میری بھی یہی کیفیت ہوتی ہے.جب میں جماعت کے بعض لوگوں کی یہ ذہنیت دیکھتا ہوں کہ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم اسی رستہ پر چلتے چلتے ایک دن ساری دنیا پر غالب آجائیں گے تو میں حیران ہوتا ہوں کہ یہ کیسی حماقت کی بات ہے؟ آج تک کوئی قوم اس رستہ پر چل کر کامیاب نہیں ہوئی، جس پر ہم چل رہے ہیں.صرف ایک مثال افغانستان کی قربانی کی ہمیں کامیاب نہیں کر سکتی، جب تک کہ ہر ملک اور ہر قوم میں افغانستان جیسی قربانیاں پیش نہ کی جائیں گی.اس وقت تک ہم کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتے، جس طرح بارش برستی ہے اور بے تحا شا ہر طرف پانی بہنا شروع ہو جاتا ہے اور کوئی آدمی اس پانی کے بہنے پر تعجب نہیں کرتا اور اسے کوئی انوکھی چیز نہیں بجھتا، اس طرح ہمیں اپنے مال اور اپنی جانیں بے دریغ اللہ تعالی کی راہ میں بہانی پڑیں گی.اور ہر وہ شخص، جو اس رستے پر چلنا نہیں چاہتا اور کامیابی کو اس راستہ سے حاصل نہیں کرنا چاہتا، میں اسے بتادیتا ہوں کہ وہ ہمارے ساتھ نہیں چل سکتا.وہ دشمن ہے احمدیت کا ، وہ دشمن ہے احمدیت کی ترقیات کا.ہمارے لئے پہلی قوموں کی مثالیں موجود ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہ کو اس لئے کامیابی حاصل ہوئی کہ انہوں نے اللہ تعالٰی کی راہ میں بے دریغ جان ومال کی قربانی کی.589
خطبہ جمعہ فرمودہ 07 ستمبر 1945ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم کو اس لئے کامیابی حاصل ہوئی کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان و مال کے کی بے دریغ قربانی کی.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو اس لئے کامیابی حاصل ہوئی کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان و مال کی بے دریغ قربانی کی.کرشن اور زرتشت کی جماعتوں کو اس لئے کامیابی حاصل ہوئی کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان و مال کی بے دریغ قربانی کی.ہمیں کوئی مثال ایسی نظر نہیں آتی کہ بغیر جانی و مالی قربانیوں کے کسی قوم کو کامیابی حاصل ہوئی ہو.ہماری جماعت کے سامنے ابھی جانی قربانی کا مطالبہ پیش نہیں کیا گیا.ہاں تحریک جدید میں وقف زندگی کا مطالبہ جماعت کے نوجوانوں کے سامنے پیش کیا گیا اور یہ پہلا قدم ہے، جو جانی قربانی کی طرف لے جانے کے لئے اٹھایا گیا ہے.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ابتداء میں چندے کے متعلق فرمایا کہ ہر احمدی کے لئے ضروری ہے کہ کچھ نہ کچھ چندہ ضرور دے.خواہ تین ماہ میں ایک دھیلہ ہی دے.آہستہ آہستہ یہ مطالبہ ترقی کرتے کرتے 1/10 حصہ تک پہنچ گیا.جولوگ موصی نہیں ہیں اور اپنے اندر اخلاص رکھتے ہیں ، ان کے تمام قسم کے چندے اگر ملالئے جائیں تو وہ 1/10 تک پہنچ جائیں گے.اور جنہوں نے وصیت کی ہوئی ہے، اگر ان کے سارے چندے جمع کر لئے جائیں تو 0 2/1 تک پہنچ جائیں گے اور بعض کے 3/10 تک.اور بعض انگلیوں پر گنے جانے والے ایسے بھی ہیں، جن کے تمام قسم کے چندے جمع کئے جائیں تو وہ 4/10 تک یا 5/10 تک پہنچ جائیں گے.یہ مالی قربانی تین ماہ میں ایک دھیلہ سے شروع ہو کر موجودہ حالت پر پہنچ گئی ہے.کیونکہ انسان کو ایک قربانی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دوسری قربانی کی توفیق ملتی ہے.اسی طرح میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کی موجودہ قربانیاں آئندہ قربانیوں کا راستہ کھولنے والی ہوں گی.اور جس کے دل میں آئندہ قربانیوں کے لئے انقباض پیدا نہ ہو، اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی قربانیوں کو قبول کر لیا ہے اور آئندہ قربانیوں کے لئے بھی اسے اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے گا.لیکن جس شخص کے دل میں آئندہ قربانیوں کے لئے انقباض پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنے آپ کو تھکا ہوا پاتا ہے، اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اس کی نیت کی خرابی کی وجہ سے یا اور کسی گناہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کی قربانیوں کو قبول نہیں کیا اور اس کی قربانیاں ضائع ہوگئی ہیں.کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ اچھا بیج بویا جائے اور وہ اچھا پھل نہ لائے.اگر کسی شخص کو ان قربانیوں کے نتیجہ میں مزید چندے دینے اور خدا کی راہ میں مزید تکلیفیں برداشت کرنے کی توفیق نہیں ملتی تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ اس سے کوئی ایسا گناہ سرزد ہوا ہے، جو اس کے 590
خطبہ جمعہ فرمودہ 07 ستمبر 1945ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد دوم قربانی کے بیج کو جس نے پھل دینا تھا، بہا کر لے گیا ہے.ایسے آدمی کو اللہ تعالیٰ کے حضور بہت توبہ استغفار کرنا چاہئے اور بہت دعائیں کرنی چاہئیں تا اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمائے اور اسے مزید قربانیوں کی تو فیق عطا کرے.جس طرح تین ماہ میں ایک دھیلہ چندہ نے بڑھتے بڑھتے موجودہ مالی قربانیوں کی صورت اختیار کر لی ہے، اسی طرح جانی قربانی کا وقت بھی آنے والا ہے.اور وہ وقت آنے والا ہے جبکہ دشمنان اسلام تمہارے سینوں میں خنجر گاڑ دیں گے.کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ تمہارے دشمن تمہارے متعلق یہ جان لیں کہ تم ان کو کھا جانے والے ہو اور وہ تم کو قتل نہ کریں.ابھی تک تو دنیا تم کو ایک کھلونا بجھتی ہے.اس سے زیادہ تمہیں کوئی وقعت نہیں دیتی.اگر کسی کے جسم پر مچھر بیٹھے تو وہ آہستہ سے اس کو اڑانے کے لئے ہاتھ ہلا دیتا ہے اور اس کی طرف توجہ بھی نہیں کرتا لیکن جس شخص کے گھر میں چور گھس آئے ، کیا وہ اس کا اسی طرح مقابلہ کرتا ہے، جس طرح مچھر کو اپنے جسم سے ہٹاتا ہے؟ نہیں وہ اس کا پوری طرح مقابلہ کرتا ہے اور ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ اس کو پکڑے اور چور باوجود اس بات کے جاننے کے کہ گھر والاحق پر ہے اور میں نا حق پر ہوں اور میں ظالم ہوں اور گھر والا مظلوم ہے، پھر بھی گھر والوں کا مقابلہ کرتا بلکہ کوشش کرتا ہے کہ ان کو زخمی کر کے بھاگ جائے.اسی طرح کفر بھی یہ خیال نہیں کرتا کہ وہ باطل پر ہے.بلکہ اپنے آپ کو حق پر ہی سمجھتا ہے اور ایمان کا سختی سے مقابلہ کرتا ہے.جس دن کفر کو یہ معلوم ہو گیا کہ تم اسے دنیا سے مٹا دینے والے ہو، وہ یقینا سختی سے تمہارا مقابلہ کرے گا اور تمہاری گردنوں میں تمہارے سینوں میں تمہارے جگر میں خنجر گاڑ دے گا.اور کفر اپنا سارا زور لگائے گا کہ اسلام کو قتل کر دے اور اسلامی عمارت کو منہدم کر دے.گوا بھی وہ دن دور ہیں لیکن آہستہ آہستہ قریب آتے جاتے ہیں.اب بھی کئی ممالک ایسے ہیں، جس میں احمدیت کا داخلہ بند ہے اور ہمارے مبلغین کو وہاں جانے سے روکا جاتا ہے.غرض مالی لحاظ سے تو جماعت کئی سال سے قربانیاں کرتی آرہی ہے.گوا علے میعار تک ابھی تک نہیں پہنچی مگر جانی قربانی کے لحاظ سے ابھی ابتداء نہیں ہوئی.البتہ وقف زندگی کے مطالبہ کے ذریعہ بنیاد کا ایک نشان لگا دیا گیا ہے.جیسے بنیاد کھودتے وقت کسی سے ٹک لگایا جاتا ہے.پھر بنیاد کھودی جاتی ہے.جب بنیاد کی کھدائی ہو جاتی ہے تو اس پر دیوار میں کھڑی کرتے ہیں.جب دیوار میں بن جاتی ہیں تو ان دیواروں پر چھتیں ڈالی جاتی ہیں.اس کے بعد پلستر کیا جاتا ہے، دروازے اور کواڑ لگائے جاتے ہیں تب کہیں جا کر مکان تیار ہوتا ہے.جس طرح مکان آہستہ آہستہ کچھ عرصہ کے بعد جا کر تیار ہوتا ہے، اس طرح جان دینے کی عمارت کے تیار ہونے میں کچھ دیر باقی ہے.کوئی عمارت بھی ایک دن میں تیار نہیں 591
خطبہ جمعہ فرمودہ 07 ستمبر 1945ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم ہوتی ، ایسے ہی یہ نہیں ہو سکتا کہ لوگ جمع ہو کر آئیں اور وہ کہیں کہ اگر تم میں سے پانچ ہزار آدمی اپنی گردنوں پر چھری پھیر دیں تو ہم اسلام قبول کر لیں گے.بلکہ یہ قربانیاں آہستہ آہستہ دینی پڑیں گی.پہلے ایک دو پھر آٹھ دس پھر پندرہ ہیں، اسی طرح آہستہ آہستہ یہ تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے.آخر وہ دن آجاتا ہے کہ اللہ اپنے بندوں کو غلبہ عطا کرتا ہے اور کفر ہتھیار ڈال دیتا ہے اور یہ کام ایک لمبے عرصہ میں جا کر ہوتا ہے.آج دنیا میں اللہ تعالیٰ کی حالت بالکل ایسی ہے جیسے حضرت خلیفہ اول ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) اپنے ایک استاد کا خواب سنایا کرتے تھے.( گو حضرت خلیفہ اول ان سے پڑھے تو نہیں تھے لیکن آپ ان کے پاس بیٹھتے اور ان سے روحانی باتیں کرتے رہتے تھے، اس لئے ان کو استاد ہی کہتے تھے.انہوں نے خواب میں دیکھا کہ میں شہر سے باہر گیا ہوں اور ایک کوڑھی شخص بھوپال سے باہر پل پر پڑا ہے.اس کا جسم نہایت گندا ہے، جسم پر کھیاں بھنک رہی ہیں، آنکھوں سے اندھا ہے، دوسرے سب اعضاء شل ہیں.میں نے اس وجود سے پوچھا تم کون ہو؟ اس نے کہا میں اللہ میاں ہوں.یہ سن کر میرا جسم کانپ گیا اور میں نے کہا تم اللہ میاں کیسے ہو؟ تمہارا تو اپنا برا حال ہے.تم خود کوڑھی ہو ، ہاتھ پاؤں ہلا نہیں سکتے ، آنکھوں سے تم اندھے ہو.ہمارا خدا تو وہ ہے، جو ان تمام عیوب سے پاک ہے، اس کی طاقتیں غیر محدود ہیں.تو اس وجود نے جواب دیا کہ میں بھو پال والوں کا اللہ ہوں یعنی بھوپال والوں کے دلوں میر ا تصور ایسا ہی ہے.اسی طرح آج اللہ تعالیٰ کی عظمت لوگوں کے دلوں میں باقی نہیں رہی.اور حضرت مسیح علیہ السلام کا یہ فقرہ اس وقت بالکل صادق آتا ہے کہ اے خدا جس طرح تیری آسمان پر بادشاہت ہے، زمین پر بھی آوئے.اس سے یہ مراد نہیں کہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت زمین پر نہیں یا خدا تعالیٰ کا قانون قدرت آسمان پر تو چلتا ہے لیکن زمین پر نہیں چلتا.جس طرح خدا تعالیٰ کا قانون قدرت آسمان پر چلتا ہے، اسی طرح زمین پر بھی چلتا ہے.دنیا میں دہر یہ موجود ہیں لیکن وہ بھی اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ قوانین کے ماتحت چلتے ہیں.کوئی دہر یہ یہ نہیں کر سکتا کہ زبان کی بجائے ماتھے سے چکھے یا ناک سے سونگھنے کی بجائے کسی اور عضو سے سونگھے.تو خدا تعالیٰ کا قانون قدرت تو ویسا ہی زمین پر ہے، جیسا آسمان پر ہے.اس فقرہ کا مطلب یہ ہے کہ زمین پر لوگوں کے دلوں میں تیری ویسی ہی عظمت قائم ہو جائے ، جیسی آسمان پر ہے.یہ مقصد ہر وقت جماعت کے سامنے رہنا چاہئے کہ ہم نے خدا تعالیٰ کی بادشاہت کو دنیا میں قائم کرنا ہے اور خدا تعالیٰ کی عظمت کو تمام دنیا کے دلوں میں قائم کرنا ہے.اگر ساری دنیا نیک ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو جو اپنی گردنوں پر رکھ لے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بادشاہت قائم ہوگئی 592
خطبہ جمعہ فرموده 07 ستمبر 1945ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اور ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا.ورنہ دو چار لاکھ جماعت کی دو تین ارب سے کیا نسبت ہے؟ ایسی بھی تو و نسبت نہیں جیسے آٹے میں نمک کی ہوتی ہے.ان کے اموال، ان کی شان و شوکت اور ان کے رسوخ کے مقابل میں ہماری کوئی حیثیت ہی نہیں.پس ہمارے دوستوں کو اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنی چاہیے اور آئندہ مزید مالی اور جانی قربانیوں کے لئے تیار ہو جانا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہم پر اپنا رحم اور فضل نازل فرمائے، ہماری دماغی طاقتوں میں ترقی دے، ہماری عقلوں کو تیز کرے اور ہماری علمی حالت درست کرے تاکہ ہم اس مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں ، جو ہمارے سامنے ہے.امين.اللهم امين.( مطبوع الفضل 18 ستمبر 1945ء) 593
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم "" اقتباس از خطبه جمعه فرموده 21 ستمبر 1945ء اس وقت ہمیں ہستی باری تعالیٰ کو ثابت کرنا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 21 ستمبر 1945ء ایسے حالات میں میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت کو اپنی ذمہ داریوں کی طرف بہت زیادہ توجہ کرنی چاہیے اور قربانیوں میں پہلے کی نسبت بہت زیادہ ترقی کرنی چاہیے.ہماری جماعت کا ہر شخص جو دین کیلئے قربانی نہیں کرتا اور پوری جدو جہد سے کام نہیں لیتا ، دشمن کے مقابلے کیلئے تیاری نہیں کرتا اور ستی سے کام لیتا ہے، اس کا اللہ تعالیٰ پر پختہ ایمان نہیں.یادرکھو اللہ تعالیٰ جو وعدے کرتا ہے، وہ "" آپ ہی آپ پورے نہیں ہو جایا کرتے بلکہ بندوں کی ہمت اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے.پس ہماری جماعت کو غور کرنا چاہئے کہ ان کے اعمال حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کے قول کے مصداق تو نہیں.ہر وہ شخص جو ایمان میں کمزوری دکھاتا ہے اور اپنا دن رات اسلام کے پھیلانے کیلئے وقف نہیں کرتا، رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم کی اشاعت کا اسے احساس نہیں، قربانی کے نام سے اس کا دل دھڑکنے لگتا ہے، چندہ دیتے ہوئے اس کے ہاتھ کا نپتے ہیں اور دل میں انقباض پیدا ہوتا ہے، اگر وقف زندگی کا مطالبہ ہو تو خوف سے کانپنے لگتا ہے.یا وہ لوگ جن کی اولا د وقف کے قابل ہے لیکن وہ ان کو وقف کی تحریک نہیں کرتے.یا اگر لڑ کا زندگی وقف کرتا ہے تو مائیں اور بہنیں رونا شروع کر دیتی ہیں اور باپ کہتا ہے کہ کیا میں نے تجھے اسی دن کے لئے پڑھایا تھا کہ زندگی وقف کر دے ؟ ایسے انسانوں کا کوئی حق نہیں کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کے متعلق کہیں کہ وہ نا فرمان اور غدار تھے.بلکہ چاہتے کہ اپنے آپ کو بھی انہی میں شمار کریں.حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی علیہم السلام کی جماعتوں کا کام اتنا مشکل نہ تھا، جتنا ہمارا کام ہے.اس وقت صرف یہ سوال تھا کہ تخت پر خدا تعالیٰ کو بٹھایا جائے یا فرعون کو؟ لیکن آج تو خدا تعالیٰ کے وجود کا ہی سرے سے انکار کیا جا رہا ہے اور بجائے لا الہ الا اللہ ثابت کرنے کے اور بجائے اللہ تعالیٰ کی طاقتوں کو ثابت کرنے کے ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے کہ وہ موجود ہے کیونکہ دنیا اس کی ذات کا انکار کر رہی ہے“.( مطبوع الفضل 29 ستمبر 1945ء) 595
تحریک جدید- ایک البی تحر یک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 05اکتوبر 1945ء صنعت اور تجارت کے لئے اپنی زندگی وقف کریں خطبہ جمعہ فرمودہ 105اکتوبر 1945ء سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.مجھے تو ڈاکٹروں نے بولنے سے منع کیا ہوا ہے لیکن میرے ذہن میں سلسلہ کی ترقی کے لئے بعض تجاویز ہیں ، جنہیں جلدی بیان کرنا ضروری ہے.اس لئے باوجود اس ہدایت کے کہ مجھے بولنا نہیں چاہیے، جب تک کہ دانتوں کو نکلوانہ لیا جائے ، میں یہاں پر آ گیا ہوں.میں ابھی دانت نکلوانے کے لئے بھی گیا تا کچھ نہ کچھ اپنی سکیم کو ظاہر کرنے کا مجھے موقع مل جائے.لیکن مجھے یہاں آکر افسوس ہوا کہ بجلی بند ہونے کہ وجہ سے لاؤڈ سپیکر بند ہے اور اس وجہ سے میں آسانی کے ساتھ اپنی آواز سب تک نہیں پہنچا سکتا.لاؤڈ سپیکر کے ساتھ بہت زیادہ آسانی ہو جاتی ہے اور بولنے والے کی طبیعت پر بوجھ نہیں ہوتا.وہ سمجھتا ہے کہ میں خواہ کتنی ہی آہستہ آواز سے بولوں ، میری آواز زیادہ بلند ہو کر سب تک پہنچ جائے گی.اگر میں زور لگا کر اس سے زیادہ اونچا بولنے کی کوشش کروں تو میرے لئے یہ بھی مشکل ہے کیونکہ ملاقاتوں کے بعد حالانکہ اونچا بولنے کی ضرورت نہیں ہوتی ، درد ہو جاتی ہے.اور پچھلے چار دنوں میں ملاقاتوں کے بعد شدید درد کا دورہ ہوتا رہا.اتنا شدید کہ بعض دفعہ اس درد کی شدت کی وجہ سے میں محسوس کرتا تھا کہ ایک ہی صورت اس وقت اس تکلیف سے محفوظ رہنے کی ہے کہ کوئی تیز نیند آور دوائی پچکاری کردی جائے.اب بھی دوائی لگانے سے اتنا افاقہ ہے کہ میں نہیں اٹھتی لیکن اپنی جگہ پر ہلکی ہلکی درد محسوس ہوتی ہے.اور کہا جاتا ہے کہ غالباً دائیں طرف کے دو دانت نکل جانے کے بعد اس درد میں افاقہ کی صورت پیدا ہو جائے گی.میں جس مضمون کو آج بیان کرنا چاہتا ہوں ظاہری لحاظ سے وہ دنیوی نظر آتا ہے اور ہماری جماعت کی تربیت ابھی ایسی نہیں کہ وہ اپنے نظام بلکہ خلیفہ وقت کی زبان سے بھی دنیوی امورسن کر متاثر ہو.دینی امور میں تو ہر قسم کی قربانی کے لئے ہماری جماعت تیار ہو جاتی ہے مگر جہاں کسی دنیوی امر کا سوال پیدا ہوتا ہے، باوجود اس لمبے تجربہ کے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے جب کبھی بھی مجھے خدا تعالیٰ نے دنیوی امور کے متعلق بولنے کی توفیق عطا فرمائی ہے، ہزار ہا تجربہ کاروں کی رائے کے مقابلہ میں میری ہی رائے 597
خطبہ جمعہ فرمودہ 105اکتوبر 1945ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم زیادہ صحیح نکلی ہے.پھر بھی ہم میں سے ہر ایک میں ابھی یہ مادہ پیدا نہیں ہوا ہے کہ وہ اس قسم کی مثالوں کی موجودگی میں بھی میری ہدایات کی پوری قدر کر سکیں.بالعموم وہ ان امور کے متعلق اپنے دل میں کہہ دیتے ہیں کہ یہ دنیوی مشورہ ہے، ہم ان امور کے متعلق خود اچھی طرح سوچ سمجھ سکتے ہیں، اس لئے ان باتوں کی زیادہ قدر کرنے کی ضرورت نہیں.مثلاً میں نے وقت پر خدا تعالیٰ سے خبر پا کر جماعت کو دو، تین سال ہوئے ،1942ء کے آخر میں یا 1943ء کے شروع میں اطلاع دی تھی اور جلسہ سالانہ کے موقعہ پر اس خواب کو بیان بھی کر دیا تھا اور ہدایت کی تھی کہ ہماری جماعت کے لوگوں کو خود اپنے گھروں میں کپڑے بنانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس دستکاری کو جاری کرنا چاہئے کیونکہ آئندہ کپڑے کے قحط کا امکان ہے.جس وقت میں نے یہ بات کہی تھی اس وقت بازاروں میں ہر قسم کا کپڑا ملتا تھا گو مہنگا تھا مگر جہاں تک میرا خیال ہے، ساری جماعت میں سے درجن، دو درجن آدمیوں کے سوا کسی نے اس امر کی طرف توجہ نہ کی.پھر وہ دن آگئے جب کپڑے کی اس قدرنگی ہوئی کہ ابھی تھوڑے دن ہوئے کہ ایک غریب احمدی نے مجھے لکھا کہ میرے پاس ایک ہی کرتا ہے اور وہ بھی جگہ جگہ سے پھٹ گیا ہے، اس کی باہیں بھی پھٹ گئی ہیں اور پیچھے سے بھی پھٹ گیا ہے.نئے کرتے کا تو سوال ہی نہیں، اس پھٹے ہوئے کرتے پر پیوند لگانے کے لئے بھی مجھے کپڑا نہیں ملتا.اب یہ حال ہماری جماعت کا ہے.اگر ہماری جماعت کے لوگ اس رویا کی بنا پر توجہ کرتے اور دل میں یہ خیال نہ کر لیتے کہ یہ ایک دنیوی امر ہے، اس کا دین کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اور گھروں میں سوت کا تا جانے لگتا اور کپڑا بنوایا جانے لگتا تو تم دیکھ لیتے کہ دنیوی تکالیف کا دور ہو جاتا تو الگ رہا، ہمارے سلسلے کی طرف سے ایک عظیم الشان پراپیگنڈا ہوتا اور تبلیغ بھی خوب ہوتی.ہزار ہا احمدی شہروں میں جب باوجود کانگریس کی مخالفت کے کھدر پہنے ہوئے نظر آتے.سارے نہ سہی ، ان لوگوں کو نکال کر جن کے پاس پہلے سے کافی کپڑے موجود تھے، باقی جن کے پاس کپڑے نہیں تھے اور جنہوں نے بڑی بڑی تکالیف اٹھا کر بلیک مارکیٹ سے کپڑ ا خریدا، اگر ایسے لوگ کھدر پہنتے تو کتنا پراپیگنڈا ہوتا اور ہماری جماعت کے لئے کتنا مفید ہوتا؟ مثلاً ایک بیرسٹر کورٹ میں کھدر کے کپڑے پہن کر جاتا تو بیسیوں بیرسٹر پوچھتے کیا آپ کا نگریسی ہو گئے ہیں؟ آپ تو کانگریس کی مخالفت کیا کرتے تھے اور کھد کا کپڑا پہنے کا تو گاندھی جی کا حکم تھا، آپ نے کھدر کیوں پہننا شروع کر دیا ؟ اور وہ کہتے ہمارے امام نے خواب دیکھی ہے کہ کپڑے کی قلت ہونے والی ہے.اس لئے انہوں نے کہا ہے کہ ان غریبوں کے لئے قربانی کر کے آسودہ حال لوگ کھدر پہننا شروع کر دیں تو ایک 598
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود : 05 اکتوبر 1945ء سال کے اندر اندر دس بیس لاکھ آدمی اس خواب کے گواہ ہو جاتے.اور 1943 ء کے آخر پر اور 1944ء کے شروع میں جب کپڑے کی قلت ہوتی.تو لکھوکھا آدمی ایک دوسرے سے کہتے ، دیکھو! وہ خواب پوری ہوگئی ، دیکھو! وہ خواب پوری ہوگئی.تو بظاہر کھدرجسمانی چیز ہے اور کھدر پہنا دین کا جزو نہیں.ہم اس بارہ میں کانگریس کی سخت مخالفت کرتے رہے ہیں.اگر دینی جزو ہوتا اس کی مخالفت کیوں کرتے ؟ مگر اس خواب کی بناء پر اس کا پہننا، اشاعت اسلام کا موجب ہو جاتا اور اشاعت دین کا موجب ہو جاتا.لاکھوں انسان کہتے ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے احمدیوں کو کھدر پہنے ہوئے دیکھا تھا اور جب اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے یہ خواب سنائی تھی.دیکھو! قبل از وقت شائع کی ہوئی خواب بعض اوقات نسبتی طور پر ادنی ہوتی ہے لیکن اس کا اثر زیادہ ہو جاتا ہے.مثلاً میں نے جنگ کے شروع ہونے سے بھی پہلے رویاء دیکھا تھا اور اسی دن چند آدمیوں کو سنا دیا تھا.گو اخبار میں نہیں دیا تھا کہ جرمنی طاقت پکڑ گیا ہے اور اس کے غلبہ سے متاثر ہو کر حکومت انگلستان نے حکومت فرانس سے درخواست کی ہے کہ ہم اور تم ایک ہو جائیں اور اپنی قومیتوں کو متحد کر دیں.یہ اس قسم کا واقعہ تھا کہ اس کی ایک بھی مثال تاریخ میں نہیں پائی جاتی.ایسے خبیث بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں، جنہوں نے آب زمزم میں پیشاب کرنے کی کوشش کی.ایسے بھی پائے جاتے ہیں، جنہوں نے نبیوں کو قتل کرنے کی کوشش کی.ایسے بھی تھے ، جنہوں نے خانہ کعبہ کو گرانے کی کوشش کی.ایسے بھی پائے جاتے ہیں، جنہوں نے ظلم سے دوسری چھوٹی قوموں کو اپنے قبضہ میں لانے کی کوشش کی.ہر قسم کی برائیوں والے پائے جاتے ہیں اور ہر قسم کی خوبیوں والے بھی پائے جاتے ہیں لیکن آج تک ایسا نہیں ہوا کہ برابر کی دو قوموں میں سے کسی ایک نے دوسری کو متحدہ قومیت کی دعوت دی ہو.یہ دنیا میں پہلی مثال تھی.اس لئے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ خیال اور قیاس تھا.کیونکہ خیال اور قیاس سے اخذ کی ہوئی بات ایسی ہوتی ہے جو دس سال میں ایک دفعہ وقوع میں آچکی ہو ، ہیں سال میں ایک دفعہ وقوع میں آچکی ہو.یا سو سال میں ایک دفعہ وقوع میں آچکی ہو.یا ہزار سال میں ایک دفعہ وقوع میں آچکی ہو.یا دس ہزار سال میں ایک دفعہ وقوع میں آچکی ہو.یا لاکھ، دس لاکھ کروڑ سال میں ایک دفعہ وقوع میں آچکی ہو.یا جب کہ نسل انسانی جاری ہوئی ہے، اس وقت سے لے کر اس وقت تک ایک دفعہ ہی وقوع میں آچکی ہو.ایسی بات کے متعلق لوگ کہہ سکتے ہیں کہ خواب شاید خیال کا اثر ہو، پچھلے بیس سال کے عرصہ میں ایک ایسا واقعہ ہو گیا تھا.اگر سو سال کے عرصہ میں ایسا ہو جاتا تو کہہ سکتے تھے کہ سو سال کی بات ہے، اب خیال میں آگئی.اگر ہزار 599
خطبہ جمعہ فرمودہ 05اکتوبر 1945ء تحریک جدید - ایک البی تحریک.....جلد دوم سال کے عرصہ میں ایسا ہو جاتا تب بھی کہہ سکتے تھے کہ پچھلے ہزار سال میں ایک دفعہ ایسا ہوگزرا ہے، کہیں پڑھا ہوگا ، خیال میں آگیا.پر آدم کی پیدائش سے لے کر اب تک چھ ہزار سال ہمارے مذہب کی رو سے اور لکھوکھا سال سائنسدان لوگوں کی رو سے ہو گئے.لیکن ان لکھوکھا سالوں یا چھ ہزار سال میں کروڑہا آدمی جو ہر زمانہ میں ہوتے چلے آئے ہیں اور سینکڑوں حکومتیں ہوتی چلی آئی ، ان میں سے کسی پر بھی ایسا واقع نہیں گزرا.گویا آدم سے لیکر 1940 ء تک دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال کہیں نہیں پائی جاتی.مگر چونکہ اس خواب کی اشاعت واقعہ سے پہلے نہیں ہوئی.اس لئے جنہوں نے اس کو سنا تھا، وہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہم دنیا کو اس کا ثبوت کس طرح دیں گے؟ کیونکہ یہ خواب قبل از وقت اخبارات میں نہیں چھپی.اس کے مقابلہ میں مسٹر ماریسن کے متعلق جو پیشگوئی ہوئی ، باوجود یکہ وہ اہمیت کے لحاظ سے اس پہلی خواب کا سینکڑواں حصہ بھی نہیں لیکن اس کا اثر بے انداز ہوا ہے.جماعت کے دوست بھی اس کا خوب پرا پیگینڈا کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ خبر قبل از وقت اخبار میں چھپی ہے، اب دشمنوں پر اس کا اثر ہوگا اور غیر بھی اس کا اثر قبول کر رہے ہیں.چنانچہ آج ہی اس بارے میں شمس صاحب کی تار آئی ہے.جو تر جمہ کر کے اخبار میں شائع کر دی جائے گی.جس سے پیغامیوں کے جھوٹے پروپیگنڈا کا بھی رد ہو جائے گا.اس تار میں لکھا ہے کہ دو اخباروں نے مسٹر ماریسن کی پیشگوئی کے متعلق مضمون شائع کئے ہیں.جن میں سے ایک اخبار ڈیلی میل ہے.( جو میں چالیس لاکھ تک روزانہ شائع ہوتا ہے اور دنیا کا سب سے بڑا اخبار سمجھا جاتا ہے.) اس میں پارلیمنٹ کے ایک ممبر نے لکھا ہے کہ مسٹر مارلین آج لیبر پارٹی کا سب سے طاقتور انسان ہے اور اس کا مستقبل اور بھی یقینی ہے کیونکہ ہندوستان کے ایک شخص نے خواب کے ذریعہ پہلے بتا دیا ہے کہ انگلستان میں چالیس سال تک ایسا آدمی پیدا نہیں ہوگا.اور پھر آگے چل کر کہتا ہے کہ ہمیں خوشی ہے کیونکہ اس پیشگوئی سے معلوم ہوتا ہے کہ انگلستان پر جو آئندہ مصیبتیں آنے والی ہیں، انگلستان ان سے پیشگوئی کے ماتحت فاتح کی حیثیت سے عہدہ برآ ہو گا.اور پھر اس کے آگے لکھا ہے کہ مسٹر مارین انگلستان کا سٹالن ہے.اسی طرح گزٹ اینڈ برونیوز نے اس خواب کا ذکر کیا ہے.اور وہ اس علاقہ کا اخبار ہے، جس میں ہماری مسجد ہے.اس نے چھ سطری موٹے ہینڈنگز کے ساتھ جو ایک غیر معمولی بات ہے، شائع کیا ہے کہ ہندوستان کا پیشگوئی کرنے والا الہم ایک خواب کی بنا پر کہتا ہے کہ مسٹر مارلین برطانیہ کا بہت بڑ آدمی ثابت ہوگا.لیکن مولوی محمد علی صاحب اور مولوی ثناء اللہ صاحب اور ایڈیٹر پیغام صلح کہتے ہیں کہ یہ تو ہر ایک کو معلوم تھا.جس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ دنیا کے پردہ پر کسی کو معلوم نہ تھا لیکن اہل حدیث کے دفتر اور 600
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود : 105 اکتوبر 1945ء مولوی محمد علی صاحب کے گھر میں سب کو معلوم تھا.یہ کتنا ظلم ہے کہ باوجود انہیں اس امر کے معلوم ہونے کے کہ جو خواب میں نے بتائی ہے، اس کا مضمون سب کو معلوم ہے، اس وقت یہ لوگ خاموش رہے اور اس کی تردید نہ کی؟ چاہیے تھا کہ اس وقت کہتے کہ یہ لغو بات ہے، یہ تو ہو کر ہی رہے گی کیونکہ اس کا علم پہلے سے ہر اک کو ہے.لیکن اس وقت تو خاموش رہے اب بعد میں کہہ رہے ہیں ، سب کو معلوم تھا.تو بعض دفعہ ایک خبر شائع ہوکر ، چاہے چھوٹی ہو، بھاری ہو جاتی ہے.اگر ہماری جماعت کے لوگ میری بات کی قدر کرتے اور کھدر پہننا شروع کر دیتے اور یہ نہ سمجھتے کہ یہ دنیوی بات ہے، کیا ہوا اگر دو روپے کی بجائے تین روپے کا لٹھا لے لیا ؟ اس میں دین کا کیا نقصان ہے؟ ہم نے اپنی ذات پر ہی روپیہ خرچ کرنا ہے، دوروپے کی بجائے تین روپے کپڑے پر خرچ کر لئے اور ایک روپیہ جو خوراک پر خرچ کرنا تھا، خوراک پر خرچ نہ کیا، کپڑے پر کر لیا تو کیا ہوا ؟ اگر وہ ایسا نہ کرتے اور ہزار ہا آدمی کھدر پہنے پھرتے تو آج دنیا پر اس کا اتنا اثر ہوتا کہ جس کی کوئی حد ہی نہیں.تو بعض اوقات لوگ دنیوی بات سمجھ کر اسے رد کر دیتے ہیں اور اس کی اہمیت کو نہیں سمجھتے.اسی قسم کی وہ بات بھی ہے جو میں آج بیان کرنا چاہتا ہوں.اگر مجھے اس کے متعلق بولنے کی توفیق ملی کیونکہ اتنا بولنے کے ساتھ ہی میرے دانت میں درد شروع ہو گئی ہے.جماعتی ترقیاں جہاں اس بات کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں کہ سچائی اس قوم میں موجود ہو، جہاں اس بات کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں کہ دلائل اس قوم میں موجود ہوں، جہاں اس بات کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں کہ تبلیغ اس قوم میں موجود ہو اور جہاں اس بات کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں کہ عمل اس قوم میں موجود ہو، وہاں دنیا اس کے علاوہ کچھ اور بھی چاہتی ہے.صرف یہی کافی نہیں ہوتا کہ سچائی ہو، ضروری نہیں کہ سچائی دنیا میں ہمیشہ جیت جائے.ہزارہا دفعہ سچائی مٹ جاتی ہے.قرآن کریم سچا تھا جھوٹا نہیں تھا مگر کس طرح گزشتہ دوصدیوں میں عیسائیت کے مقابلہ میں ہر میدان میں اسے شکست ہوئی اور عیسائیت غالب ہو گئی.اس لئے کہ قرآن مجید میں سچائی تو موجود تھی لیکن اسے سمجھ کر اس سے دلائل نکالنے کا کام مسلمانوں نے چھوڑ دیا تھا.اور جو تھوڑے بہت دلائل تھے چونکہ موجودہ زمانے کے اعتراضات کے رد کے لئے کافی نہ تھے، اس لئے اسلام عیسائیت جیسے کمزور مذہب کے مقابل میں شکست کھا گیا.اور اگر دلائل بھی مہیا ہو جاتے اور بعض نے مہیا کئے بھی تو دوسری چیز مبلغ ہوتے ہیں اور مبلغین سے اسلام خالی تھا.پھر اگر چند مبلغ تھے تو یہ بے عمل تھے.دنیا کی نگاہ دلائل کو ہی نہیں دیکھا کرتی بلکہ عمل کو بھی دیکھتی ہے.601
خطبہ جمعہ فرمودہ 05اکتوبر 1945ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم یہ درست ہے کہ دین خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کے لئے آتا ہے.یہ بھی درست ہے کہ دین کا تعلق انسان کی روحانی اصلاح کے ساتھ ہوتا ہے.مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ انبیاء جب کبھی دنیا میں پیدا ہوئے ہیں تو دین کو ماننے والے لوگوں کے حالات دینی طور پر ہی درست نہیں ہوئے بلکہ دنیوی طور پر بھی درست ہو گئے.ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت نوح دین کو قائم کرنے کے لئے آئے اور ایک نیا نظام قائم ہوا.جب حضرت موسی آئے تو ان کے ذریعہ ایک نیا نظام قائم ہوا.جب حضرت داؤد آئے تو ان کے ذریعہ ایک نیا نظام قائم ہوا.جب حضرت عیسی آئے تو ان کے ذریعہ ایک نیا نظام قائم ہوا.جب حضرت زرتشت آئے تو ان کے ذریعہ ایک نیا نظام قائم ہوا.حضرت کرشن آئے تو ان کے ذریعہ ایک نیا نظام قائم ہوا اور سب سے آخر سب نبیوں کے سردار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو ان کے ذریعہ ایک نیا نظام قائم ہوا.انہوں نے بنی نوع انسان کو خدا تعالیٰ سے ہی نہیں ملایا اور روحانیت کو ہی درست نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ لازمی نتیجہ کے طور پر طبعی نتیجہ کے طور پر اور عقلی نتیجہ کے طور پر آپ کی جماعت دنیا میں بھی ترقی کر گئی.دنیا میں نبی آتے ہیں تو دنیوی نظام کی ترقی کے لئے کیا کہتے ہیں؟ یہی کہ اپنے کھانے پینے کی طرف زیادہ توجہ نہ کرو، اپنے وقتوں کو ضائع نہ کرو، اپنے دماغوں کو ضائع نہ کرو، لہو و لعب میں اپنا وقت نہ لگاؤ، جہالت اور تاریکی سے دور بھا گو.اور یہی چیزیں دنیوی ترقی کے لئے بھی ضروری ہیں.جس قوم میں یہ چیزیں پیدا ہو جائیں، وہ لازمی طور پر دنیا میں ہی ترقی کر جاتی ہے.جو نبی کہے گا سستی نہ کرو، جہاد کا موقعہ آئے تو اپنے آپ کو آگے پیش کرو.جہاد تو ہر وقت نہیں ہوتا مگر طالب علم کے لئے پڑھائی کا موقع ہر وقت ہوتا ہے.جو جہاد کے موقعہ پر اپنے آپ کو پیش کرے گا، وہ پڑھائی کے وقت بھی کسی سے پیچھے نہیں ہو گا.جب نبی کہے گا تم جہالت سے دور ہو ، محنت کرو.تو لازمی بات ہے کہ وہ جہاد کے وقت بھی جہاد میں آگے بڑھے گا اور جنگ کا ہنر اچھی طرح سیکھے گا لیکن اس عادت کے ہوتے ہوئے جہاد سے فارغ ہو کر ہل چلاتے وقت بھی تو یہ نصیحت کام آئے گی.وہ کھیتی باڑی کا ہنر بھی سیکھے گا اور محنت سے کام کرے گا.اسی طرح تجارت میں چستی اور ہمت سے کام لے گا.جس کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ علم حاصل کرو، قرآن کریم کو پڑھو.وہ قرآن کو بھی پڑھے گا لیکن آخر اس نے سارا وقت تو قرآن کریم نہیں پڑھنا، اس میں جو لکھا ہے کہ تم جغرافیہ پر غور کرو، تاریخ پر غور کرو، آسمان پر غور کرو، زمین پر غور کرو، اقتصادیات پر غور کرو.وہ ان سب پر غور کرے گا.تو لازمی بات ہے کہ وہ صرف قرآن شریف ہی نہیں پڑھے گا بلکہ ساتھ ہی تاریخ اور گا جغرافیہ بھی پڑھے گا.تو گو براہ راست یہ چیزیں متصور نہیں ہوتیں مگر دین کے ساتھ ان کو وابستگی ضرور ہے.602
تحریک جدید ایک ابی تحریک....جلد دوم خطبه جمعه فرموده 05 اکتوبر 1945ء دین کی اشاعت کے لئے روپے کی ضرورت ہوتی ہے.قرآن شریف میں صریح طور پر آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت یہ خواہشات لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتی تھیں کہ خدا تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے تاہم دین کے لئے جو روپے کی ضرورت ہو اس کو پورا کریں.اس باب میں بعض منافقین کا ذکر آتا ہے.منافقین کا ذکر اس لئے آتا ہے کہ انہوں نے وہ باتیں، جو انہوں نے کہی تھیں، پوری نہ کیں.وہ یہ خواہش کرتے تھے کہ خدا تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم دین کے لئے روپیہ خرچ کریں.مگر جب توفیق ملتی تھی تو کوتاہی کرتے تھے.حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ میرے لئے دعا کریں کہ مجھے مال مل جائے تا میں دین کی راہ میں خرچ کروں.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس پر ناراض نہیں ہوئے بلکہ دعا فرمائی.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خواہش کرنا منع نہیں بلکہ بہتر ہے.کہتے ہیں کہ اس کا مال اتنا زیادہ ہو گیا کہ جس میدان میں اس کا گلہ کھڑا ہوتا تھا، معلوم ہوتا تھا کہ یہاں کسی کے لئے جگہ نہیں.اس کے بعد جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زکوۃ کے لئے اس کے پاس آدمی بھیجا تو اس نے جواب میں کہا کہ ہر وقت چندے کی فکر رہتی ہے، میرے پاس جتنا مال ہے، گلے کو کھلانے کے لئے اور ان کے نگرانوں پر خرچ ہو جاتا ہے، چندہ کہاں سے دوں؟ چونکہ دعا کے ذریعہ اس کو یہ مال ملا تھا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے لئے یہ سزا تجویز فرمائی کہ آئندہ اس سے زکوۃ نہ لی جائے.بعد میں اس کو نیکی کا خیال آیا مگر اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت ہو چکے تھے.وہ حضرت ابو بکر کے پاس آیا اور کہا کہ مجھ سے زکوۃ لے لیں.حضرت ابو بکر نے کہا جس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زکوۃ نہیں لی ، اس سے زکوۃ میں نہیں لے سکتا.حالانکہ زکواۃ خدا تعالیٰ کا حکم ہے مگر باوجود اس کے کہ وہ دیتا تھا، آپ نہیں لیتے تھے.تاریخ میں آتا ہے کہ وہ ہر سال زکوۃ میں ایک بہت بڑا گلہ لاتا تھا اور کہتا تھا مجھ سے زکوۃ نے لیں مگر حضرت ابو بکر ہر بار یہ کہتے کہ میں تمہاری زکوۃ نہیں لے سکتا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہاری زکو نہیں لی.اور وہ یہ سن کر روتا ہوا چلا جاتا تھا.سو یہ خواہش صحابہ کے دل میں بھی ہوتی تھی اور ہر ایک کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے.جب کسی کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ میں دین کی فلاں تحریک میں حصہ لوں اور دین کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے روپیہ دوں اور اس کے پاس روپیہ نہیں ہوتا تو اس کے دل میں ابال اٹھتا ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ کاش میرے پاس روپیہ ہوتا تا میں بھی خرچ کرتا.میں نے کئی دفعہ یہ مثال سنائی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات پر ایک دفعہ منشی اروڑ ا صاحب تشریف لائے اور کہلا بھیجا کہ وہ مجھ سے ملنا چاہتے ہیں.میں باہر گیا تو انہوں نے مجھے پانچ یا دس پوند صحیح تعداد میں کسی اور وقت بتا چکا ہوں، اس وقت یاد نہیں ، مجھے دیئے اور کچھ کہنا چاہا مگر کہنے سے پہلے چھٹیں مار کر رو پڑے.اتنا رونا یاد اور کچھ چاہامگر شروع کیا کہ ہچکی بند نہ ہوتی تھی.میں پریشان کھڑا تھا کہ کیوں رو ر ہے ہیں؟ اگر پتہ ہو تو انسان خودان جذبات میں شامل ہو جاتا ہے.مگر مجھے پتہ ہی نہیں تھا کہ کیوں رورہے ہیں؟ پانچ دس پاؤنڈ میرے ہاتھ پر رکھ کر رونے 603
خطبہ جمعہ فرمودہ 05اکتوبر 1945ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم لگ پڑے.کچھ دیر بعد میں نے یہ سمجھ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کی وجہ سے رور ہے ہیں، کہنا شروع کیا منشی صاحب صبر کریں، اللہ تعالیٰ کی مرضی یہی تھی.میرے منع کرنے پر بجائے ہچکی بند ہونے کے، وہ زیادہ زور سے رونے اور چیخنے لگے اور روتے چلے گئے.کچھ دیر بعد آخر چپ ہو گئے اور کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریکات کے مواقع پر دل میں خیال ہوتا تھا کہ میں کافی مقدار میں سونا لے کر حضور کی خدمت میں حاضر کروں.لیکن جب بھی میرے پاس پانچ سات روپے جمع ہو جاتے ، مجھ سے رہا نہ جاتا اور میں قادیان چل پڑتا.قادیان آکر حضور سے مل کر نذرانہ پیش کر دیتا.اسی طرح دن گزرتے گئے.ہمیشہ خواہش ہوئی کہ سونا پیش کروں مگر ہمیشہ ہی جب پانچ ، چھ روپے جمع ہو جاتے تو برداشت نہ ہوتا تھا اور میں قادیان آجا تا تھا.ان کی تنخواہ شروع میں دس، پندرہ روپے ہوتی تھی.کتنا بھی کم خرچ کرو، اتی تنخواہ میں سے ایک دورو پے ہی بچائے جا سکتے ہیں.پس پانچ ، چھ روپے جمع ہونے میں کئی ماہ لگ جاتے تھے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے قریب وہ تحصیلدار ہو گئے.اس وقت انہوں نے روپیہ جمع کرنا شروع کیا اور ان کو پاؤنڈوں میں تبدیل کرنا شروع کیا.چنانچہ انہوں نے بتایا کہ جب میں نے کچھ پاؤنڈ جمع کئے تو حضرت صاحب فوت ہو گئے.اتنا کہہ کہ وہ پھر رونے لگ گئے پھر کئی منٹ تک روتے رہے.آخر اپنے نفس پر قابو پایا اور یہ فقرہ کہا.جب تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام زندہ تھے تو میرے پاس سونا نہ آیا اور جب میرے پاس سونا آیا تو وہ فوت ہو گئے.یہ کہہ کر پھر رونا شروع کر دیا اور ان سب باتوں میں تقریباً نصف گھنٹہ لگ گیا.پھر انہوں نے آخر میں کہا.اب میری طرف سے یہ حضرت ام المومنین کو دے دیں.اب میں یہ رقم ان کی خدمت میں پیش کرتا ہوں.تو مومن کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے.اور یہ لازمی اور کی میں کرتا دل میں یہ یہ اور قدرتی بات ہے، جب ہمیں یہ نظر آرہا ہے کہ دین کی تکہ بوٹی اڑائی جارہی ہے، جب ہمیں یہ نظر آرہا ہے کہ دین کی بے عزتی کی جارہی ہے، جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا ہے تو اس کے بعد کسی انسان کا دل کس طرح تراپ سے خالی رہ سکتا ہے کہ خدا تعالی مجھے توفیق دے تو میں دین کی خوب خدمت کروں؟ پس ہمیں چاہئے کہ جہاں ہم دین کی ترقی کے لئے کوشش کریں، وہاں دنیوی ترقی کے لئے بھی سامان مہیا کریں اور ان سامانوں کو مہیا کرنے کے لئے ہماری جماعت کی طرف سے کوشش ہوتی رہتی ہے.اس کے لئے ایک محکمہ بنا ہوا ہے.جہاں کہیں کوئی نوکری خالی ہوتی ہے اور اسے اس کا پتہ لگتا ہے تو محکمہ کوشش کرتا ہے کہ کوئی احمدی وہ جگہ لے لے.بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ یہ خود غرضی کے ماتحت کیا گیا ہے.اگر ہمیں پندرہ کی بجائے ہیں ملے ہیں تو جماعت کے چندے میں بھی تو اضافہ ہوا ہے.اگر کوئی شخص اسے خود غرضی قرار دیتا ہے تو دوسرے الفاظ میں وہ یہ کہتا ہے کہ مجھے دین سے محبت نہیں تمہیں دین.محبت ہے.اس میں ہماری عزت ہے نہ کہ بے عزتی لیکن اگر وہ یہ کہتا ہے کہ خود غرضی نہیں کی گئی بلکہ یہ کام 604
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود : 05 اکتوبر 1945ء دین کی خاطر کیا گیا ہے اور اس سے مجھے بھی فائدہ پہنچا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو دین میں شامل کیا.اور اس میں بھی ہماری ہی عزت ہے.بہر حال ہماری یہ کوشش رہتی ہے کہ احمدیہ جماعت کے لوگ ایسے کام اختیار کریں، جن کی وجہ سے جماعت کی اقتصادی حالت ترقی کرے.میں نے پچھلے سال اس بات پر بڑا زور دیا تھا کہ جماعتوں کی ترقی کے لئے تجارت کی ترقی بڑی ضروری ہوتی ہے.کیونکہ زمیندار اپنی زمینوں کو نہیں چھوڑ سکتے.اگر ایک جماعت کے پاس اتنی زمین ہے کہ فرض کرو، دس کروڑ روپیہ سالانہ اس کو آمدنی ہوتی ہے.لیکن سیاسی حالات ایسے ہو جاتے ہیں کہ اس کو اپنا ملک چھوڑنا پڑتا ہے تو دس کروڑ والی جماعت دس پیسے کی حیثیت کی بھی نہیں رہے گی.کیونکہ وہ زمین اٹھا کر ساتھ نہیں لے جاسکتی.لیکن اگر کسی تاجر کے پاس دس لاکھ روپیہ ہے اور اسے ملک چھوڑنا پڑتا ہے تو وہ دس لاکھ نہیں تو آٹھ ، نو لاکھ روپیہ ضرور ساتھ لے جائے گا.کیونکہ اس کا روپیہ حرکت کرنے والا ہے اور زمیندار کا روپیہ حرکت کرنے والا نہیں.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس قوم میں ہل آگیا ، وہ ذلیل ہو گئی.اس کا یہ مطلب نہیں کہ زمین میں ہل چلانے کی وجہ سے لوگ ذلیل ہو جاتے ہیں.مطلب یہ ہے کہ جب اس پر کوئی دوسری قوم قابو پالیتی ہے تو پھر وہ بے بس ہو جاتی ہے.کیونکہ وہ زمین اپنے ساتھ لے کر نہیں جا سکتی ، جو اس کی کمائی کا ذریعہ ہوتی ہے.لیکن جو تاجر اور صناع ہوتے ہیں، ان کی یہ حالت نہیں ہوتی.مثلاً ایک انگریز ہے.اس کو اس کے ملک سے باہر نکال دو اور کہیں پھینک دو؟ وہ اپنی آمدنی ] اپنے ساتھ لے جائے گا کیونکہ اس کا مال اس کے دماغ میں ہے.وہ جاپان جا کر بھی اپنا کام کرے گا ، وہ چین جا کر بھی اپنا کام کرلے گا، وہ امریکہ جا کر بھی اپنا کام کرے گا.آخر ساری دنیا میں ایک حکومت نہیں ہوتی.اگر آدھی دنیا بھی اس کی مخالف ہوگی تو آدھی اس کے حق میں سمجھ لو.اگر 9/10 بھی اس کی مخالف ہو گی تو 1/10 تو ضرور اس کے حق میں ہوگی ، وہ وہاں جا کر اپنا کام کرے گا.یہودی فلسطین میں زمیندار بنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر یہ ان کے لئے سخت نقصان دہ ہے.ان کی شہرت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے ہاتھ میں تجارت ہے.یہی تجارت ان کو امریکہ میں لے جاتی ہے، فرانس میں لے جاتی ہے، جرمنی میں لے جاتی ہے، روس میں لے جاتی ہے.اور جہاں جاتے ہیں، اپنے مال کو ساتھ لے جاتے ہیں.اور جہاں چاہتے ہیں، رسوخ بڑھا لیتے ہیں.میں نے پچھلے سال توجہ دلائی تھی کہ جماعت کے تاجروں کے لئے ضروری ہے کہ وہ متحد ہو جائیں.مگر باوجود میرے بار بار توجہ دلانے کے تاجروں نے سمجھ لیا کہ ہمیں بھلا کیا ضرورت ہے کہ ہم اس قسم کے اعلانات کی طرف توجہ کریں؟ ہم کامیاب تاجر ہیں، ہمیں ان کے مشوروں کی کیا ضرورت ہے اور ان محکموں سے کیا غرض ؟ حالانکہ تنظیم اس قدر ضروری چیز ہے کہ مجھے ایک دفعہ سر آغا خان کے ایک مرید 605
خطبہ جمعہ فرموده 05 اکتوبر 1945ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک......جلد دوم نے ، جو بڑی پوزیشن رکھنے والے ہیں، سنایا.میں نے ایک دفعہ سر آغا خان سے کہا کہ اگر ہماری اولاد سے کسی کا ایمان آپ پر نہ رہے تو کیا کریں؟ سر آغا خان نے جواب میں کہا، بے شک وہ جو عقیدہ چاہے رکھیں مگر ان سے کہو کہ اپنے جتھے کو قائم رکھیں.صرف مجھ کو تم سے فائدہ نہیں بلکہ تم کو بھی مجھ سے فائدہ ہے.تم میں سے اگر کسی کو وائسرائے کے پاس کسی غرض کے لئے جانا ہو تو ضروری نہیں کہ ہر ایک وائسرائے کے پاس جا سکے.اور نہ ہر ایک جاسکتا ہے.ہاں میں اس کے پاس جا سکتا ہوں.اس لئے سیاسی لحاظ سے جتھے کو قائم رکھو اور ایمان کے لحاظ سے خواہ تمہاری کوئی حالت ہو.پھر اسی تاجر نے کہا کہ اس وقت دو بیٹے آپ کے سامنے بیٹھے ہیں.ان میں سے ایک احمدی خیال کا ہے اور ایک سنی خیال کا ہے.میں ان دونوں سے کہتا ہوں کہ بیشک تم احمدی ہو جاؤ یا بے شک تم سنی ہو جاؤ.مگر بظاہر لوگوں سے کہا کرو کہ ہم سر آغا خان کے مرید ہیں.کیونکہ سر آغا خان کی مدد بھی ہمیں کام دے جاتی ہے.مذہب کے لحاظ سے خواہ یہ بات کس قدر نازیبا ہو مگر اس میں کیا شک ہے کہ جن اقوام کے جتے ہیں، وہ بڑی طاقت پکڑ جاتی ہیں.اگر دین سے آزاد ہو کر لوگ جماعت بندی سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو ظاہر ہے کہ دین کے ساتھ جتھہ بندی اور بھی زیادہ مفید ہوگی.پس اگر ہماری جماعت کے تاجر بھی منتظم ہو جائیں تو ان کی ترقی کے لئے بہت بڑے بڑے اور نئے نئے راستے کھل جائیں گے.اگر منتظم صورت میں نہ رہو گے تو اکیلا انسان کوئی حقیقت نہیں رکھتا ، چاہے کروڑ پتی کیوں نہ ہو ؟ ہندوستان میں بعض کروڑ پتی ایسے ہیں، جو امریکہ کے کروڑ پتیوں سے کم نہیں.مگر امریکہ کے کروڑ پتیوں کے مقابلہ میں ان کی کوئی حیثیت نہیں.اس لئے کہ امریکہ کے کروڑ پتی کے ساتھ ہزار ہالا کھ پتی بھی ہوتے ہیں.مگر ہندوستان کے کروڑ پتی کے دائیں بائیں کوئی بڑا آدمی نہیں ہوتا.اس لئے اس کی سنی جاتی ہے اور اس کو کوئی نہیں پوچھتا.تو تنظیم بڑی چیز ہے.افسوس ہے کہ ایک سال گزر گیا مگر جماعت نے اس کی طرف توجہ نہیں کی.شاید یہ وجہ ہے کہ ان میں سے جو کامیاب تاجر ہیں، انہوں نے یہ سمجھا کہ کیا ہم ان سے سیکھیں گے یا ان کو سکھائیں گے؟ ہم تو خود کامیاب تاجر ہیں، محکمہ ہمیں کیا سکھلائے گا ؟ محکمہ کا انچارج دس روپے تو کمانے کے قابل نہیں.ان کو اس بات کا علم ہو جانا چاہئے کہ تنظیم کمانے کے قابل نہیں ہوا کرتی.وہ کون سی چیمبرز آف کامرس ہے، جس نے آپ روپیہ کمایا ہو؟ اور وہ کون سی ٹریڈ ایسوسی ایشن ہے، جس نے خود پیسہ کمایا ہو؟ چیمبرز آف کامرس اور ٹریڈ ایسوسی ایشن روپیہ نہیں کمایا کرتی ، وہ تنظیم کر کے تاجروں کو ایک نئی طاقت دیتی ہے.اس لئے یہ خیال کر لینا کہ اس کے چلانے والے اپنی ذات میں ماہر نہیں، ایسی ہی بات ہے، جیسے لیبر پارٹی اپنے افسر مزدور مقرر کر دے.اب سر کر پس مزدوری کیا جانیں؟ مگر لیبر پارٹی سمجھتی 606
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 105اکتوبر 1945ء ہے کہ اپنی پارٹی کو مضبوط کرنے کے لئے ایسے لوگوں کے دماغوں کی ضرورت ہے، جو تنظیم کرنے کے اہل ہوں، خواہ وہ ہمارے پیشے کے نہ ہوں.تو مرکز چاہے تجارت سے ناواقف ہو گر تنظیم بغیر مرکز کے کوئی نہیں کر سکتا.لاہور اور دہلی کے تاجر ہمارے سارے ہندوستان کے تاجروں کی تنظیم کس طرح کر سکتے ہیں؟ ان کی سنے گا کون؟ لیکن مرکز کو یہ فضلیت حاصل ہوتی ہے اور اس کو یہ طاقت حاصل ہوتی ہے کہ وہ ہرتا جرکو حکماً اس تنظیم میں شامل ہونے کو کہے اور اس حکم پر کوئی تاجر احمدی رہتے ہوئے ، اس تنظیم سے باہر نہیں رہ سکتا.لیکن ابھی ہم جبر نہیں کرتے ، ہم اخلاص سے سب کو اس میں شامل کرنا چاہتے ہیں.لیکن اگر جبر کرنا ہو تو کر سکتے ہیں.لیکن لاہور، دہلی ، کلکتہ یا سکندرآباد کے تاجر جبر نہیں کر سکتے.تو جس قدر جبر و محکم کا پہلو ہے ، وہ مرکز ہی کر سکتا ہے.اس کے علاوہ ایک اور چیز کی طرف بھی میں نے توجہ دلائی تھی اور اب اس کا موقعہ ہے.ہمارے جنگ میں تقریباً سولہ ہزار احمدی گئے ہیں، جو واپس آئیں گے.جن کا چندہ تقریباً ایک لاکھ روپیہ ہے.جہاں تک میرا خیال ہے.پانچ ، چھ ہزار کے قریب ایسے ہیں، جنہیں فوج میں رکھ لیا جائے گا.پانچ ، چھ ہزار ایسے ہیں، جو واپس آکر زمیندارہ کے کام میں لگ جائیں گے ، ان کے گھر میں کھانے پینے کو ہوگا ، وہ پسند نہیں کریں گے کہ اور کام کریں.ان کے باپ انہیں کہیں گے کہ پانچ ، چھ سال نوکری کرلی اور کافی کماں لیا.جتنا قرضہ تھا، اتر گیا.تمہاری ماں تمہارے گھر میں اداس بیٹھی ہے.تم اب یہیں رہو.ہل پکڑو اور میرے ساتھ کام میں شامل ہو جاؤ.پانچ ، چھ ہزار اس طرح لگ جائیں گے.باقی پانچ چھ ہزار ایسے ہوں گے، جن کے لئے گزارے کی کوئی صورت نہیں ہوگی.وہ تعلیم یافتہ تو ہوں گے لیکن گورنمنٹ کے دفاتر میں ان کو کوئی جگہ نہیں ملے گی.زمیندار ہوں گے لیکن ان کی زمینداریاں اتنی چھوٹی ہوں گی کہ اگر وہ گھر میں آگئے تو بجائے آرام کا موجب بننے کے دوسرے بہن بھائیوں اور والدین کے لئے تکلیف کا موجب بنیں گے.بھائی کہیں گے کہ پہلے ہمیں اگر آدھی روٹی مل جاتی تھی تو اب اس کے آجانے کی وجہ سے ایک پاؤ ملا کرے گی.کھانے کے لئے گھر میں آ گیا ہے، کوئی کام تلاش نہیں کرتا.اس کا گھر میں آنا محبت کا موجب نہیں ہوگا.اس کے گھر آنے پر وہ ظاہری اسے خوش آمدید کہیں گے اور تپاک سے ملیں گے لیکن دل میں کہیں گے ، مرا بھی نہیں وہاں.یہ حالت ان کی ہوگی.ایسے لوگوں کی شرافت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے لئے اور کام تلاش کریں بجائے اس کے کہ گھروں میں آکر بیٹھ جائیں.وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں، جوان کے لئے خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے.وہ بجائے گھر میں بھو کا مرنے کے اس میدان میں مریں، جہاں دین کی خدمت بھی ہوتی چلی جائے اور ان کی اپنے مستقبل کے متعلق بھی امید بڑھتی چلی جائے.کوئی مستقبل 607
خطبہ جمعہ فرمودہ 05اکتوبر 1945ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم ایسا نہیں جو سو فی صدی کامیاب ہو.ہر جگہ کامیابی کی امید پچاس فی صدی سمجھی جاتی ہے.بعض لوگ ایسے ہیں، جو دو فی صدی امید پر اپنی جانیں دے دیتے ہیں.پچاس فی صدی امید تو بہت بڑی چیز ہے.ہماری تنظیم کے ماتحت میں یہ سمجھتا ہوں کہ دین اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے پانچ ہزار مبلغین کا ملنا بڑا ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خواب میں پانچ ہزار سپاہی ملے تھے.پہلی تشریح تو پانچ ہزار آدمیوں کی تحریک جدید میں شامل ہونے والوں کی ہم نے کی.وہ چندہ دیتے ہیں اور دیتے چلے جائیں گے.مگر یہ ایک شق بھی ہے کہ پانچ ہزار احمدی اس طرح دنیوی کام کریں کہ دین کے مبلغ بھی ہوں.بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں، جو اپنے اندر کئی شقیں رکھتی ہیں.جہاں پانچ ہزار سے مراد ہوسکتی تھی کہ پانچ ہزار آدمی چندہ دے اور نسلاً بعد نسل پانچ ہزار آدمی متواتر چندہ دیتا چلا جائے اور قیامت تک یہ سلسلہ چلا جائے ، وہاں اس کے اور کئی معنی بھی ہیں.اس وقت سینکڑوں آدمیوں نے فوج میں سے چندہ لکھوایا ہے.جب وہ واپس آئیں گے تو ان کا چندہ بھی بند ہو جائے گا.جس کو فوج میں پانچ سوروپے ملتے تھے، وہ پانچ سو چندہ دیتا تھا مگر نوکری چھوڑنے کے ساتھ پانچ کواڑ اکر اس کا چندہ صفر رہ جائے گا.جس کو دوست نخواہ ملی تھی ، جب وہ نوکری سے علیحدہ ہو جائے گا تو نوکری کی علیحدگی کے ساتھ دو کو اڑا کر اس کا چندہ بھی صفر رہ جائے گا اور ان کی بے کاری کے ساتھ ہی تحریک جدید کے تسلسل کا جو خیال تھا، ٹوٹ جائے گا.یہ اسی صورت میں قائم رہ سکتا ہے کہ پانچ ہزار آدمی چندہ دینے والے نئے پیدا ہوں.اور یہ نیا چندہ دینے والے اسی صورت میں پیدا ہو سکتے ہیں، جب پانچ ہزار آدمیوں کے لئے نیا کام مل جائے.پس یہ جو بے کار ہو کر آنے والے آدمی ہیں، میں ان کو نصیحت کرتا ہوں کہ بجائے اس کے کہ گھر پر رہ کر فاقہ کریں، وہ تجارت کی کوشش کریں.ایسی تجارت کی ، جو دین اسلام کے لئے بھی مفید ہو.ہندوستان میں پانچ سو ایسے شہر ہیں جہاں تجارت کی منڈیاں ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ.کیونکہ ہر ایک ضلع میں آٹھ ، دس یا پندرہ ایسے قصبے ہوتے ہیں جن میں دس پندرہ ہزار سے زیادہ آبادی ہوتی ہے.اس طرح پر اگر ان کو بھی ملا لیا جائے تو یہ بجائے پانچ سو کے دو، تین ہزار کے قریب قصبے نکل آئیں گے.ان میں سے بعض شہر ایسے ہیں ، جیسے کلکتہ ہے، مدراس ہے، کراچی ہے، دہلی ہے، پشاور ہے، الہ آباد ہے، حیدر آباد ہے، ٹرادنکور ہے، ڈھا کہ ہے.جہاں پر بیک وقت تمہیں تھیں، چالیس چالیس آدمیوں سے ہم تجارت کی ابتدا کر سکتے ہیں.بعض ایسی جگہیں ہیں، جہاں صرف ایک آدمی کی شروع میں گنجائش ہو سکتی ہے.لیکن اگر ان دو ہزار شہروں کی فی شہر اوسط دس آدمی بھی لگائی جائے تو اس کے مطابق ہیں ہزار آدمیوں کی گنجائش 608
تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود 1050اکتوبر 1945ء ہے.اور یہ ابتدا ہے.قادیان میں دیکھو! اس وقت پانچ سو آدمی تجارت کر رہے ہیں، کئی کھلی جگہوں پر اور کئی گھروں پر.تو ہمارے لئے یہ ایک بہت کامیاب راستہ ہے، جس سے دین و دنیا دونوں کی بہتری کی صورت پیدا کی جاسکتی ہے.یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ ہم اپنی آواز کو بلند کرنے کے لئے ان دو ہزار جگہوں پر مبلغین نہیں رکھ سکتے.ان ساری جگہوں پر یہ بھی نہیں کہ ہمارے احمدی موجود ہوں.دو ہزار شہروں میں سے ڈیڑھ دوسو شہر ایسے ملیں گے، جہاں ہمارے احمدی ہیں، باقی اٹھارہ سو شہر ایسے ہیں، جہاں کوئی احمدی نہیں.کچھ اس سے چھوٹے چھوٹے قصبے بھی تجارت کے قابل ہیں.یہ سات، آٹھ ہزار کے قریب ہو جاتے ہیں.ان سات آٹھ ہزار قصبوں میں سے ڈھائی تین سو قصبے ایسے ہیں، جہاں احمدی جماعتیں قائم ہیں.باقی پونے سات ہزار یا پونے آٹھ ہزار جگہیں ایسی ہیں، جہاں کوئی احمدی نہیں.اگر ہم پونے سات یا پونے آٹھ ہزار آدمی تبلیغ کے لئے ان جگہوں پر بھیجیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان پر پونے سات یا پونے آٹھ لاکھ روپیہ ماہوار خرچ ہوگا اور تقریبا ایک کروڑ روپیہ سالانہ خرچ ہوگا.یہ تو ایک صورت ہے.دوسری صورت یہ ہے کہ اگر ہمیں محنت کرنے والے اور قربانی کرنے والے نوجوان مل جاویں.جو ان جگہوں پر جا کر سلسلہ کی ہدایت کے مطابق تجارت کریں اور اس کام میں کامیاب ہو جائیں تو ان کی دس پندرہ لاکھ ماہوار آمدنی ہوگی اور دس پندرہ لاکھ سالانہ کا چندہ ان سے آئے گا.اب دیکھو کہ ایک صورت میں تو ایک کروڑ روپیہ خرچ ہوتا ہے اور دوسری صورت میں پندرہ لاکھ روپیہ آمد ہوتی ہے اور یہ لازمی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کی خوشنودی اسی میں ہوگی کہ تبلیغ بھی ہو اور بجائے اس کے کہ خزانہ خالی ہو، خزانہ بھرا ر ہے.اس کے لئے کئی لائنیں مرکز نے سوچی ہیں اور ان کے ذریعہ سے ایسے تاجروں کی ایک حد تک ہم بھی مدد کر سکتے ہیں.اگر ہمارے پرانے تاجر بھی اس بات کی اہمیت کو سمجھیں کہ جو نئے تاجر ہیں، ہم نے ان کو کام سکھلانا ہے تو اس سے ان کا اپنا بھی فائدہ ہوگا.احمدی تاجروں کے بڑھنے سے منڈی میں ان کی جڑیں مضبوط ہو جائیں گی.تجارت کو رقابت ہی تباہ کرتی ہے.جس کا جتھہ مضبوط ہو وہ بچ جاتا ہے اور جو کمزور ہو وہ اس رقابت میں تباہ ہو جاتا ہے.جس طرح زمینداروں میں ہوتا ہے.کوئی تاجر کامیاب تجارت نہیں کر سکتا ، جب تک اس کا جتھہ مضبوط نہ ہو.دوسروں کے بینکوں کو توڑنے کے لئے بینک آپس میں سمجھوتہ کر لیتے ہیں اور تاجر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مقابل کے تاجروں کو تباہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اگر مقابل والے کا جتھہ مضبوط ہو تو وہ بچ جاتا ہے اور اگر وہ جتھے والا نہ ہو تو مقابل کے تاجر اس کا مقابلہ کر کے اسے تباہ کر دیتے ہیں.آج احمدی تاجر انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں.زیادہ سے زیادہ دو چار سو تاجر ہیں.اس 609
خطبہ جمعہ فرمودہ 105اکتوبر 1945ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم کے مقابلہ پر مسلمانوں کے تاجر پچاس، ساٹھ ہزار ہوں گے مگر اس کے باوجود وہ ہندوؤں کے مقابلہ میں نہیں پنپ سکتے.کیونکہ ہندوؤں کے مقابلے میں ان کا جتھہ کمزور ہے.جہاں کہیں منڈی کا سوال آتا ہے یا ایجنسی کا سوال آتا ہے، ہندو ہندوؤں کو دے دیتے ہیں اور مسلمان منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں.کوئی پچپیس سال کی بات ہے.فوج میں سے ایک احمدی کو احمدیت کی وجہ سے نکالا گیا.میں نے چودھری ظفر اللہ خان صاحب کو بھیجا کہ وہ اس بارے میں افسران بالا سے ملیں.وہ کمانڈر انچیف سے ملے تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں، بیج ہے.لیکن میں بھی مجبور ہوں، ہمیں تین لاکھ فوج کی ضرورت ہے، کیا آپ ہمیں تین لاکھ نو جوان دے سکتے ہیں؟ اگر نہیں دے سکتے تو احمدی اگر چہ مظلوم ہے ، ہمیں احمدی کو ہی نکالنا پڑے گا کیونکہ کثرت کو ہم ناراض نہیں کر سکتے.چودھری صاحب خفا ہو کر آگئے اور مجھے یہ بات بتائی.میں نے کہا جو کچھ انہوں نے کہا ہے، ٹھیک ہے، حکومت مجبور ہے.میں اس صورت حالات کو تسلیم کرتا ہوں.یہی حالت تجارت میں بھی ہے.اگر کسی بیرونی ملک میں بعض دردمند مسلمان، مسلمان اخباروں میں اشتہار دلانے کی تحریک کرتے ہیں اور وہاں کے تاجروں سے کہتے ہیں، کیوں تم مسلمان اخباروں میں اشتہار نہیں دیتے تو وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے اخباروں کو پڑھنے والے کوئی تاجر بھی ہیں؟ اگر نہیں تو انہیں اشتہار دے کر کیا فائدہ؟ ہند و اگر چہ ہمیں گالیاں دیتے ہیں.ہمارے مال کے بائیکاٹ کی تلقین کرتے ہیں مگر ہر ہندو اخبار کے پڑھنے والے سو ، دوسو تاجر ہوتے ہیں.اگر سو بائیکاٹ کے دلدادہ ہوں گے تو سو ایسے بھی ہوں گے، جو غیر ملکی مال لینے والے ہوں گے.اس طرح جب کسی جگہ پر ایجنسی لینی ہو تو جو بڑے بڑے کارخانے والے ہیں، وہ سوال کرتے ہیں کہ کہاں کہاں پر ہمارا مال پھیلا سکتے ہو؟ اگر وہ کہے کہ جناب اپنی دوکان میں تو تاجر کہے گا کہ اس کو مال دینے کی کیا ضرورت ہے؟ جس کی تجارت کا کوئی پھیلاؤ نہیں.یہ جو دوسرا آدمی ایجنسی لینے آیا ہے، اس کی دوکان کی دوسو شاخیں ہیں یا پچاس یا سو شاخیں.وہ سارے ہندوستان میں اس کام کو پھیلا سکتا ہے، ہم اس کو دیں گے ہم کو نہیں دیں گے.تو یہ ساری بات معقول ہے، ہم ان کو رد نہیں کر سکتے.اگر ہم آرگنا ئز بیشن کریں گے تو تجارت کے ایسے راستے کھل جائیں گے کہ جن کی وجہ سے ہم بیشتر قسم کی تجارت پر قابو پاسکیں گے اور ہمیں اس کے لئے نو جوانوں کی ضرورت ہے.وہ نو جوان ، جو فوج سے فارغ ہوں گے اور وہ نوجوان، جو نئے جوان ہوئے ہیں اور ابھی کوئی کام شروع نہیں کیا.میں ان سے کہتا ہوں کہ اپنی زندگی وقف کریں.ایسے رنگ میں نہیں کہ ہمیں دین کے لئے جہاں چاہیں بھیج دیں، ہم چلے جائیں گے بلکہ ایسے رنگ میں کہ ہمیں جہاں بھجوایا جائے ، ہم وہاں 610
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 05اکتوبر 1945ء چلے جائیں گے اور وہاں سلسلے کی ہدایت کے ماتحت تجارت کریں گے.اس رنگ میں ہمارے مبلغ سارے ہندوستان میں پھیل جائیں گے.وہ تجارت بھی کریں گے اور تبلیغ بھی ہمیں بعض باتوں کی وجہ سے امید ہے کہ ایسے کام نکل سکیں گے، جن کی وجہ سے ہم نئے کام کرنے والوں کو بہت سی امداد دے سکیں گے، اخلاقی لحاظ سے بھی اور مالی لحاظ سے بھی تنظیم کی وجہ سے ہم اخلاقی طور پر جو کامیاب تاجر ہیں، ان پر زور ڈالیں گے کہ وہ اپنے بھائیوں کو کھڑا کرنے کی کوشش کریں کیونکہ ان کے کھڑے ہونے سے وہ خود کھڑے ہوں گے.اس وقت آگے آنے والے نوجوانوں کے لئے ترقی کا بہت سا امکان ہوگا.یہ چھ ، سات ہزار نو جوان تجارت کا کام کریں گے اور ساتھ تبلیغ بھی کریں گے اور اس طرح یہ چھ سات ہزار مبلغ ہمیں مفت میں مل جائیں گے.یہ کتنی بڑی بات ہے.ہم اس دن کے امیدوار ہیں کہ ہمیں پانچ ہزار ساری زندگی وقف کرنے والے مبلغ مل جائیں بلکہ لاکھ یا اس سے بھی زیادہ آدمی مل جائیں.مگر جب تک وہ دن نہیں آتے، ہمیں اپنی تبلیغ کو وسیع کرنے کے لئے جو ذرائع میسر ہیں، ان کو تو استعمال کرنا چاہئے اور تاجروں کو باہر بھیجنا چاہئے.ہم زمینداروں سے تو نہیں کہہ سکتے کہ تم فلاں جگہ پر چلے جاؤ کیونکہ وہ زمین کو ساتھ نہیں لے جاسکتے لیکن تاجر دنیا میں ہر جگہ پہنچ سکتے ہیں.زمیندار کے لئے جب تک دوسری جگہ پر اتفاقاً کوئی زمین کا ٹکڑا نہ بک رہا ہو، کسی جگہ کی کوئی گنجائش نہیں.مگر کوئی شہر ایسا نہیں ، جہاں تاجروں کے لئے ایک، دو کی گنجائش نہ ہو.کوئی چھوٹے سے چھوٹا قصبہ نہیں ہو سکتا، جہاں ایک مزید تا جر کی جگہ نہ ہو.ہر ایک گاؤں اور قصبے میں ایک، دو، چار، پانچ ، دس تاجروں کے لئے جگہ ہوتی ہے.مگر ہر گاؤں میں زمیندار کے لئے مزید گنجائش نہیں بلکہ بعض گاؤں ایسے ہیں، جہاں سے بعض زمینداروں کو نکالنا چاہئے کیونکہ وہاں پر دودو، چار چار گھماؤں زمین زمینداروں کے پاس رہ گئی ہے، جس پر گزارہ نہیں ہوسکتا.مگر تاجروں کے لئے ہر جگہ کھپت کی گنجائش ہے یا صنعت و حرفت کا دروازہ کھلا ہے.یہ دونوں ملتی جلتی چیزیں ہیں.کوئی سائیکلوں کی مرمت کا کام شروع کر دے، کوئی موٹروں کی مرمت کا کام شروع کر دے یا اسی قسم کا اور کام شروع کر دے اور اس طرح ہمارے نوجوان مختلف شہروں میں پھیل جائیں.کیونکہ ہر ایک جگہ ان کاموں کی گنجائش موجود ہے.اگر چار پانچ لاکھ بھی آدمی ہوں تاہم ان کو دنیا میں کہیں نہ کہیں لگا سکتے ہیں.لیکن ایک زمیندار کو اس کی جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ نہیں بھیج سکتے.اگر زمیندار کو کہیں باہر بھیج دیں گے تو وہ دو کوڑی کا بھی نہیں رہے گا.مگر تا جر دنیا کے ہر گوشہ میں کام نکال لیتے ہیں.انگلستان میں ہندوستانی کتنے ذلیل سمجھے جاتے ہیں مگر پندرہ ہیں ہزار آبادی وہاں بھی تجارت سے گزارہ کر رہے ہیں.سارے انگلستان میں قریباً دولاکھ کے قریب ایشیائی رہتے ہیں، جنہیں انگلستان کے لوگ حقارت سے دیکھتے ہیں.مگر وہ اپنے پیشوں کی وجہ سے کامیاب ہورہے ہیں.لیکن انگلستان میں جا کر دیکھو! کتنے ہندوستانی زمیندار ہیں؟ تو تم کو 611
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 05 اکتوبر 1945ء ایک بھی زمیندار نہیں ملے گا.کیونکہ نئی جگہوں پر زمین کا کام نہیں کیا جاسکتا.ہاں نئی جگہ پر تجارت و صنعت کا کام کیا جا سکتا ہے.یہی ہر ملک کا حال ہے.جاپان میں چلے جاؤ، جاپان میں چھپیں ہمیں ہزار ہندوستانی کام کر رہے ہیں ، وہ سارے کے سارے تاجر ہیں، ان میں سے کوئی بھی زمیندار نہیں.اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ ہل جس قوم میں آجائے ، وہ ذلیل ہو گئی.اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ زیادہ ترقی نہیں کر سکتی.ذلیل سے مراد یہ ہے کہ دوسری قوموں کے مقابلے میں اس کی ترقی محدود ہے.کیونکہ زمینداری ایک ملک کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.دوسرے ملک میں نہیں جاسکتی مگر صنعت و تجارت دوسرے ملکوں میں جاسکتی ہے.مسلمانوں کا یہودی باوجود تھوڑا ہونے کے مقابلہ کرتے ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ یہودیوں کے ہاتھ میں تجارت ہے.جس کی وجہ سے ہر قوم پر اپنا اثر ڈال لیتے ہیں.لیکن مسلمانوں کے ہاتھ میں تجارت نہیں، اس لئے ان کی کوئی نہیں سنتا.پس اس نظام تجارت کے ذریعے سے ہم نہ صرف اپنی جماعت کو مضبوط بنا سکتے ہیں بلکہ دوسرے مسلمانوں اور غیر قوموں کو بھی مضبوط بنا سکتے ہیں.ایک دفعہ محکمہ تجارت والوں نے مجھ سے پوچھا کہ بعض غیر احمدی اور ہندو ہم سے مدد چاہتے ہیں.کیا ہم ان کی مدد کر دیں؟ میں نے ان سے کہا کہ ہاں خواہ کسی قوم سے تعلق رکھتا ہو، اس کی مدد کرنی چاہئے.ہمارا کام تو ہے ہی یہی کہ ہم ہر قوم کی مدد کریں.لیکن پہلے احمدیوں کے لئے کوشش کرنی چاہئے ، اس کے بعد دوسروں کے لئے.خواہ کوئی ہندو ہو سکھ ہو، مسلمان ہو، عیسائی ہو ، ہم اس کی مدد کرنے کے لئے تیار ہیں ، مدد کرتے ہیں اور کرتے چلے جائیں گے.میں سمجھتا ہوں یہ عظیم الشان موقعہ ہے.اس قسم کی تجارت کا موقعہ، جو شاید آئندہ بیس سال تک پیدا نہ ہو.اس لئے جو سپاہی، افسر ڈسچارج ہوتے ہیں، ان کو چاہئے کہ اپنی زندگی مذکورہ بالا طریق پر وقف کریں.اس رنگ میں نہیں کہ سارے کا سارا وقت دین کے لئے پیش کریں بلکہ اس رنگ میں کہ ہم نے کوئی کام کرنا ہے بجائے اس کے کہ ہم خود کام کریں تحریک جدید کی ہدایات کے ماتحت جس مقام پر ہمیں جا کر کام کرنے کے لئے کہا جائے گا اور جو کام ہمارے لئے تجویز کیا جائے گا، ہم اس جگہ جائیں گے اور اس کام کو کرنے کے لئے تیار رہیں گے.باقی مال ان کا ہوگا، کوشش ان کی ہوگی.اخلاقی مردان کو سلسلہ دے گا اور مادی بھی ، جس حد تک توفیق ہو گی.اگر اس رنگ میں پانچ، چھ ہزار آدمی مل جائیں اور مل جانے چاہئیں.تو ایک عظیم الشان تغیر پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے.اگر ہم اتنے آدمی ایک سال میں کھڑے کر دیں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ ہم نے اپنی تبلیغ کو سو گنا بڑھا دیا.اس وقت ہمارے پچاس مبلغ ہندوستان میں کام کر رہے ہیں.اگر پانچ ہزار نو جوان اس طرح کام کرنے لگ گئے ، جو میں نے بتایا 612
تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 05اکتوبر 1945ء ہے تو گویا ہم اپنی تبلیغ کو سوگنا بڑھا دیں گے.بعض جگہیں ایسی ہیں، جہاں پہلے ہی جماعتیں ہیں اور وہاں کی کی سعید روحیں پہلے ہی ایمان لا چکی ہیں.ایسی جگہوں میں تبلیغ کا اثر آہستہ آہستہ ہوتا ہے مگر بہت سی جگہیں ایسی ہیں، جہاں پر کوئی احمدی نہیں ہے.ایسی جگہوں کی سعید روحیں جب اس پیغام کو سنیں گی تو فوراً ایمان لے آئیں گی.پس ان جگہوں میں ان جوانوں کا کام کرنا دہرے طرز پر فائدہ مند ہوگا اور جماعت ہزار مقامات پر تیزی کے ساتھ بڑھنا شروع ہو جائے گی.کیونکہ ممکن ہے شروع شروع میں ہی کئی جگہوں پر چھیں چھپیں، پچاس پچاس، سو سو آدمی احمدی ہو جائیں اور اس طرح تھوڑے ہی عرصے میں پانچ ، چھ لاکھ احمدی ہندوستان میں نئے پیدا ہو جائیں.بعض جگہوں پر جہاں ہمارے مبلغ نئے نئے جاتے ہیں.ایک سال میں پانچ ، پانچ سو آدمی احمد ی ہو جاتے ہیں مگر بعد میں ایک ایک، دو دو آدمی احمدی ہوتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت تک سعید طبیعتیں ایمان لا چکی ہوتی ہیں.تو نئی جگہوں پر کام کرنا بعض لحاظ سے زیادہ با برکت ہوتا ہے.پس اب وقت ہے کہ ہمارے نوجوان اپنے آپ کو تجارت کے لئے وقف کریں اور یہ وقف، وقف نمبر دو کہلائے گا.اس طرح نہیں کہ ہم اپنے آپ کو وقف کرتے ہیں، ہم کو پڑھا کر مبلغ بنا کر بھیجو.بلکہ اس طرح کہ ہم اپنے آپ کو وقف کرتے ہیں، ہم کو جہاں چاہیں بھیج دیں اور جو تجارتی یا صنعتی کام چاہیں، ہمارے لئے تجویز کریں، ہم وہ کریں گے اور اس کو بڑھانے کی کوشش کریں گے اور ساتھ ساتھ تبلیغ احمدیت کی بھی کوشش کریں گے.اس طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کی ترقی کے لئے ایک نیا باب کھل جائے گا اور لاکھوں لاکھ آدمی احمدیت میں شامل ہوں گے.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہماری جماعت کے دلوں کو کھول دے تاہر ایک نو جوان تبلیغ اسلام کے لئے نکل جائے اور دنیا میں ایسی نادر مثال قربانی اور ایثار کی پیدا کر دے کہ دشمن بھی دیکھ کر اس بات کا اقرار کئے بغیر نہ رہ سکے کہ واقعی یہ جماعت قربانی کرنے والی ہے.(مطبوعہ الفضل 11 اکتوبر 1945ء) 613
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اکتوبر 1945ء ہمیں اس وقت تجارت کرنے والے ہزاروں نوجوانوں کی ضرورت ہے خطبہ جمعہ فرموده 12 اکتوبر 1945ء سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں آج پھر گزشتہ خطبہ جمعہ کے سلسلہ میں اپنے بعض خیالات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں.میں نے بتایا تھا کہ دنیا میں محض صداقت کا پایا جانا اس بات کی علامت نہیں کہ دنیا میں صداقت قائم بھی ہو جائے.صداقت کو قائم کرنے کے لئے بہت بڑی کوششوں کی ضرورت ہوتی ہے.بعض زمانوں میں تو صداقت دنیا سے بالکل مٹ جاتی ہے اور خدا تعالیٰ صداقت کو دنیا میں پہنچانے والا انسان اپنی طرف سے بھجواتا ہے.اور بعض زمانوں میں صداقت تو موجود ہوتی ہے مگر وہ ایسی مخفی ہوتی ہے کہ اس کے دلائل لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہو جاتے ہیں.اور بعض زمانے ایسے آتے ہیں کہ صداقت بھی ہوتی ہے، دلائل بھی ہوتے ہیں مگر صداقت کو دنیا میں پہنچانے والے باقی نہیں رہتے.لوگوں میں نفسی نفسی پائی جاتی.ہے اور خدا اور اس کے سلسلہ کو لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں.پھر بعض زمانے ایسے آتے ہیں کہ صداقت بھی ہوتی ہے، صداقت کے دلائل بھی ہوتے ہیں اور صداقت کو دنیا میں پہنچانے والے لوگ بھی ہوتے ہیں مگر ان میں سے قوت عملیہ جاتی رہتی ہے.لوگ محسوس کرتے اور دیکھتے ہیں کہ ان کی زبانیں کچھ کہہ رہی ہیں لیکن ان کی نگاہیں کچھ اور کہہ رہی ہیں اور ان کے اعمال کچھ اور ہی کہہ رہے ہیں.اس لئے ان کے دلوں میں شبہ اور شک پیدا ہوتا ہے.اور ان شکوک و شبہات کی وجہ سے لوگ ان کی باتوں کو قبول کرنے سے احتراز کرتے ہیں.جب تک یہ ساری چیزیں بیک وقت جمع نہ ہو جائیں اس وقت تک صداقت کو غلبہ ملنا یقینی نہیں ہوتا.پس ہم اگر صداقت کو دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں.اور اگر ہماری جماعت کے دلوں میں یہ یقین ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں زبردست دلائل عطا فرمائے ہیں تو جب تک ان دلائل کو ہم لوگوں کے سامنے پیش نہ کریں اور جب تک ان دلائل کے ساتھ ہمارے اعمال اور پھر ہمارے اعمال کے ساتھ خدا تعالیٰ کا فعل بھی شامل نہ ہو، اس وقت تک دنیا اس سے مستفیض نہیں ہوسکتی.میں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں اختصار کے ساتھ اس امر کی طرف اشارہ کیا تھا کہ جب کبھی دنیا میں خدا تعالیٰ کے نبی آئے ہیں تو لوگوں کی روحانی اصلاح کے ساتھ ان کی دنیوی ترقی بھی ہوئی ہے.میں 615
خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اکتوبر 1945ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم گزشتہ خطبہ جمعہ میں اس مضمون کو تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کر سکا.لیکن یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ اس کو کے انکار کی ہمیں گنجائش نظر نہیں آتی.جب ہم دنیا کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام پیش کرتے ہیں تو ہم سے اختلاف رکھنے والے مسلمان سوال کرتے ہیں کہ آخر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے دنیا میں آکر اپنی جماعت کی عملی زندگی میں کیا تغیر پیدا کیا ؟ وہ ہم سے یہ سوال کرتے ہیں اور جائز طور پر کرتے ہیں کہ جہاں تک دلائل کا سوال ہے، تم خود مانتے ہو کہ مرزا صاحب قرآن شریف سے باہر کوئی چیز نہیں لائے اور تم خود مانتے ہو کہ قرآن شریف ایک زندہ کتاب ہے.جب قرآن شریف ایک زندہ کتاب ہے اور ساری صداقتوں کی جامع ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس سے باہر کوئی چیز نہیں لائے اور جو کچھ دلائل تم سناتے ہو، وہ قرآن کریم میں موجود ہیں.یہ الگ بات ہے کہ ہم ان کو نہیں سمجھ سکے اور تم سمجھ گئے ہو.مگر بہر حال وہ اس میں موجود ہیں، جسے ہم اور تم مانتے ہیں تو اس سے زائد کوئی چیز مرزا صاحب کو لانی چاہیے تھی.اور وہ یہی ہوسکتی ہے کہ قرآن کریم کے ساتھ تمہاری جماعت کا ایسا تعلق ہو کہ اس تعلق کی وجہ سے تمہارے لئے وہ نتائج پیدا ہو جاتے ہوں، جو ہمارے لئے نہ ہوتے ہوں.چنانچہ جب ہم قرآن کریم غیر قوموں کے سامنے پیش کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ قرآن کریم میں سچائیاں موجود ہیں، ہم یہ بھی مان لیتے ہیں کہ ہماری کتب جھوٹی ہیں یا سچائی اور جھوٹ دونوں پر مشتمل ہیں.مگر تم یہ بتاؤ کہ اگر ہماری کتب جھوٹ اور سچائی یا ساری کی ساری جھوٹ پر مشتمل ہیں اور تمہای کتب ساری کی ساری سچائی پر مشتمل ہے تو ہمارے اندر اپنی جھوٹی کتب کے ساتھ تعلق رکھنے سے کیا خرابی پیدا ہوئی ؟ اور تمہارا قرآن کریم کے ساتھ تعلق رکھنا کون سے اچھے نتائج پیدا کرنے کا موجب ہوا؟ آخر اچھی چیز کسی فائدہ کے لئے آیا کرتی ہے.پھر تمہیں قرآن کریم سے کیا فائدہ پہنچا؟ یہ واقعی ایسا سوال ہے، جو معقول ہے اور جس کا جواب دیا جانا ضروری ہے.ہماری طرف سے اس کا روحانی جواب دیا جاتا ہے.مگر بتاؤ دنیا میں کتنے انسان ایسے ہیں، جو روحانی نگاہ سے صداقت کو دیکھا کرتے ہیں؟ ان لوگوں کا ، جنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو روحانی نگاہ سے مانا، ان لوگوں سے مقابلہ کرو، جنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دنیوی نگاہ سے مانا.روحانی نگاہ سے ماننے والے تو اتنی تھوڑی تعداد میں تھے کہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کہہ دیا فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هُهُنَا قُعِدُونَ اے موسیٰ جاؤ تم اور تمہارا خدا دشمن سے لڑتے پھر وہ ہم تو یہاں بیٹھے ہیں.مگر جب لڑائی کے بعد خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تعلیم پر چلنے والوں کو فتح دی اور روحانی علامات کے علاوہ جسمانی 616
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اکتوبر 1945ء علامات بھی پیدا ہو گئیں، جب موسیٰ علیہ السلام کے پیرو فلسطین کے چپہ چپہ زمین پر قابض ہو گئے تو ہر ایک نے کہا حضرت موسیٰ علیہ السلام سچے تھے.جب فلسطین کے دریاؤں اور اسمعل کے پہاڑوں نے کہا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سچائی کا یہ ثبوت ہے کہ آپ کے پیرو ہم پر قابض ہیں تو پھر دنیا بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئی اور ان کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی.بلکہ اب تو کروڑوں تک پہنچ چکی ہے.حضرت مسیح ناصری علیہ السلام جب دنیا میں تشریف لائے تو ان کو جو دلائل خدا تعالیٰ نے اپنی طرف سے صداقت کے دیئے تھے، آیا وہ بہتر دلائل تھے یا وہ جو تین سو سال کے بعد روم میں پیدا کئے گئے؟ کون کہ سکتا ہے کہ حضرت مسیح ناصری کو ان کی زندگی میں جو دلائل ملے تھے، وہ تین سو سال کے بعد بگڑے ہوئے عیسائیوں کو مل سکتے تھے؟ مگر ان روحانی دلائل سے صرف بارہ آدمی ایمان لائے.اور ان میں سے بھی ایک نے آپ پر لعنت کی اور ایک نے یہ کیا کہ میں درہم یعنی سات روپے لے کر اپنے استاد کو یہودیوں کے پاس فروخت کر دیا.مگر جب خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت نمائی کے ذریعہ حضرت مسیح ناصری کو دنیا میں غلبہ دینا شروع کیا تو اس غلبہ کی جسمانی علامات کو دیکھ کر کروڑوں کروڑ انسان آپ پر ایمان لے آئے.چنانچہ اس وقت حضرت مسیح ناصری کو ماننے والے کروڑوں کروڑ انسان موجود ہیں، جنہیں حضرت مسیح ناصری کی روحانی زندگی کا کچھ علم نہیں.جو شخص خدا تعالی کی توحید قائم کرنے آیا تھا، اگر اسے ماننے والے اس کو خدا قرار دیتے ہیں.تو ہم کس طرح مان سکتے ہیں کہ اس کے مذہب کا کوئی حصہ بھی باقی رہ گیا ہے؟ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ سال مکہ میں رہے.آپ نے معجزات دکھائے ، اپنی صداقت کے دلائل پیش کئے مگر کتوں نے ان معجزات اور دلائل کو دیکھ کر آپ کو مانا ؟ بعد میں سات سال تک آپ مدینے میں بھی رہے اور اپنی صداقت کے دلائل پیش کرتے رہے، منجزات بھی دکھلائے اور قرآن شریف کا اکثر حصہ آپ پر یہیں نازل ہوا.مگر کتنی روحانی نگاہیں تھیں ، جنہوں نے آپ کو پہنچانا ؟ مگر مکہ کا فتح ہونا تھا کہ عرب کے لوگوں کی آنکھیں کھل گئیں اور کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچے ہیں.تو دنیا کے اکثر انسان ایسے ہوتے ہیں، جو خدا تعالیٰ کے روحانی نشانوں سے نہیں بلکہ مادی نشانوں سے ہدایت پاتے ہیں.نشان تو وہ بھی خدائی تھا ، جس نے حضرت مسیح ناصری کو غلبہ دیا.نشان تو وہ بھی خدائی تھا، جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو فتح دی.نشان تو وہ بھی خدائی تھا، جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غلبہ دیا.مگر فرق یہ ہے کہ وہ روحانی نشان تھے اور یہ مادی نشان تھے.مادی نشان سے لوگ زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور روحانی نشانات سے کم.617
خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اکتوبر 1945ء تحریک جدید - ایک البی تحریک.....جلد دوم اب تو خیر جاپان مغلوب ہو گیا ہے.پہلے زمانہ کا ایک لطیفہ مجھے یاد ہے.جو کئی دفعہ میں نے بیان بھی کیا ہے.ایک جاپانی مصنف نے اپنی کسی کتاب میں لکھا ہے.ہماری قوم نے جب دیکھا کہ مغربی اقوام ہمارے ملک پر قبضہ کر رہی ہیں اور ہر طرح ہمیں ذلیل اور رسوا کرتی ہیں تو ہم نے سمجھا ہمیں بھی عزت نفس کو قائم کرنا چاہیے.ہم نے سمجھا، یورپین لوگوں میں یہ خوبی ہے کہ ان کے ہاں مدارس میں اور ان کے چھوٹے بڑے تعلیم حاصل کرتے.یہ دیکھ کر ہم نے بھی اپنے ملک میں تعلیم جاری کی اور ہم نے سمجھا کہ اس طرح یہ ہمیں مہذب سمجھنے لگ جائیں گے.مگر باوجود اس کے ہم نے گاؤں گاؤں میں سکول کھول دیئے اور ہر جگہ تعلیم رائج کر دی.یورپین لوگ آئے ، ہماری تعلیم کو دیکھتے مگر سر ہلاتے ہوئے ، یہ کہتے ہوئے گزر جاتے کہ یہ غیر مہذب قوم ہے.اس پر ہم نے خیال کیا تعلیم نہیں کوئی اور چیز ہے، جس سے تہذیب حاصل ہوتی ہے.پھر ہم نے سمجھا تجارت اس قوم میں بڑی ہے، ہم بھی اپنی قوم میں تجارت رائج کرتے ہیں.پھر ہم نے لوگوں کی توجہ تجارت کی طرف مبذول کی اور اتنی تجارت کی کہ ہمارا ملک کہیں کا کہیں پہنچ گیا.لیکن یورپین آتے اور سر ہلا کر کہتے ، یہ غیر مہذب قوم ہے.پھر ہم نے خیال کیا ،تجارت نہیں کوئی اور چیز ہے، جس سے تہذیب حاصل ہوتی ہے.پھر ہم نے سمجھا شاید صنعت و حرفت سے تہذیب حاصل ہوتی ہے.ہم نے بڑے بڑے کارخانے جاری کئے اور باہر سے کسی قسم کا مال منگوانا بند کر دیا.لیکن پھر بھی یورپین آتے اور سر ہلا کر کہتے ، یہ غیر مہذب قوم ہے.جب ہم نے دیکھا کہ اس پر بھی ہم غیر مہذب ہی کہلاتے ہیں تو ہم نے خیال کیا یہ لوگ غیر ملکوں میں مال بھیجتے ہیں ، شاید اس لئے مہذب ہیں.اس پر ہم نے بھی اپنا مال غیر ملکوں میں بھیجنا شروع کر دیا اور خیال کیا کہ اس طرح غیر ملکوں میں مال بھیجنے سے ہم مہذب کہلا سکیں گے.مگر پھر بھی انہوں نے سر ہلا کر کہا، یہ غیر مہذب قوم ہے.پھر ہم نے سمجھا شاید اس وجہ سے یہ ہمیں غیر مہذب کہتے ہیں کہ یہ اپنے جہازوں میں اپنی تجارت کا سامان لا دتے اور دوسرے ملکوں میں لے جاتے ہیں لیکن ہم ان کے جہازوں میں لے جاتے ہیں.اس خیال کے آنے پر ہم نے بھی اپنے جہاز بنائے اور ان کے ذریعہ اپنا مال دوسرے ملکوں میں بھیجنا شروع کیا.مگر پھر بھی انہوں نے کہا یہ غیر مہذب قوم ہے.پھر ہم نے سمجھا، شاید فوج کا پاس ہونا تہذیب کی علامت ہوتی ہے.ہم نے بھی فوج بنائی اور جہاز وغیرہ تیار کئے.پھر بھی یورپین ہمیں غیر مہذب کہتے ہیں.جب ہم نے ساری باتیں کرلیں اور اپنا نام نہ بدلوا سکے.تو ہم نے سمجھا، یہ چیزیں ہمارے لئے بے کار ہیں.ہم نے منچوریا کے میدان میں سفید چمڑی والے تین لاکھ آدمی چند دنوں میں قتل کر دیئے.ان کا قتل ہونا تھا کہ ساری دنیا میں تاریں اڑ گئیں کہ جاپانی مہذب ہو گئے ہیں، جاپانی مہذب ہو گئے ہیں.618
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اکتوبر 1945ء غرض مادی طاقت ایک ایسی چیز ہے، جو بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھول دیتی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جہاں تک علم کا سوال ہے، ہزار ہا ہندوستانی علم میں یورپین لوگوں سے زیادہ ہیں.جہاں تک صنعت و حرفت کا تعلق ہے، ہندوستانی ان سے پیچھے نہیں.جہاں تک تجارت کا تعلق ہے، ان سے پیچھے نہیں.مگر چونکہ ابھی مادی غلبہ ہندوستانیوں کو حاصل نہیں ہوا، اس لئے غیر مہذب کہلاتے ہیں.پس مادیت ایک ایسی چیز ہے، جس کے ذریعہ وہ لوگ بھی حقیقت کو سمجھ لیتے ہیں، جو اس کے بغیر نہیں سمجھ سکتے.لیکن اگر مادی بیداری کی ابتداء ہی نہیں ہوئی تو سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا کی آنکھیں کھولنا کتنا مشکل کام ہے؟ یہ امر یا در رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے نشانوں میں سے وہ نشان لوگوں کی ہدایت کا زیادہ موجب ہوتا ہے، جو مادی غلبہ بھی اپنے ساتھ رکھتا ہے.مگر مادی غلبہ کے مختلف زمانے ہوتے ہیں.جو موسوی سلسلہ کے بروز ہوتے ہیں، ان کو مادی غلبہ جلد حاصل ہو جاتا ہے.کیونکہ انہوں نے شریعت کو قائم کرنا ہوتا ہے.مگر مسیحی سلسلہ کے بروزوں کا غلبہ آہستہ آہستہ محنتوں ، کوششوں اور تدابیر سے ہوتا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام گھر سے نکلے اور اپنی زندگی میں ہی ( گو اصل اور آخری نتیجہ ان کی زندگی کے بعد نکلا جس کی وجہ یہودیوں کی ایک غلطی تھی فتح کی بنیادیں رکھ گئے.اور آپ کی وفات کے چند سالوں کے بعد آپ کے پیروؤں کے ذریعہ فلسطین فتح ہو گیا.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں ہی ہے عرب پر غالب آئے اور مسلمانوں نے اسلامی حکومت قائم کر لی.مگر حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کو یہ موقعہ نہیں ملا.ان کی قوم کو کہیں تین سو سال میں جا کر غلبہ حاصل ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی مسیح ناصری کے بروز ہیں.اس لئے آپ کے کام کو بھی ایک لمبے عرصہ کے بعد، جس میں اسے کئی قسم کی قربانیاں کرنی پڑیں گی اور ہر قدم پر کوشش اور جدو جہد سے کام لینا پڑے گا اور ایسے نازک حالات میں سے گزرنا پڑے گا کہ کمزور ایمان والے مرتد ہونے کے لئے تیار ہو جائیں گے ، غلبہ حاصل ہوگا.ہم کو جو جد و جہد کرنی ہے، اس جدو جہد میں ایک یہ ہے کہ ہماری تبلیغ وسیع ہو.لیکن موجودہ جدوجہد حالات ایسے نہیں کہ ہم دنیا میں تبلیغ کو وسیع کرسکیں.ہاں دنیا میں تبلیغ کو وسیع کرنے کا ایک اور ذریعہ ہے، جس کا قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے.قرآن شریف میں حج کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ حج ایک عبادت ہے لیکن اس کے ساتھ تمہیں یہ بھی اجازت ہے کہ حج کے دنوں میں تم تجارت بھی کر لیا کرو.کیونکہ اکثر لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو اپنا کام کاج چھوڑ کر حج کے لئے جائیں تو ان کو بہت سی مالی مشکلات پیش آ جاتی ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حج گو عبادت ہے لیکن اگر اس کے ساتھ تم تجارت بھی کر لو تو ہماری طرف سے کوئی روک نہیں.بے شک اپنے پاس سامان تجارت رکھو ، اسے راستے میں بیچتے چلے جاؤ.619
خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اکتوبر 1945ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد دوم حضرت خلیفہ اول ایک ہندوستانی کے متعلق بیان فرمایا کرتے تھے کہ وہ حج کے لئے گیا تو اس کو کے پاس روپیہ کافی تھا لیکن اس نے بخل کی وجہ سے یا خدا تعالیٰ کا کوئی نشان دیکھنے کی غرض سے ارادہ کیا کہ میں حج کے لئے جاتے ہوئے راستے میں کماتا جاؤں گا اور اس کمائی سے حج کروں گا.چنانچہ وہ جہاز میں سوار ہو گیا.کچھ مدت کے بعد چونکہ جہاز میں کوئی نائی نہیں تھا.جب لوگوں کے بال بڑے ہوئے تو انہیں پریشانی لاحق ہوئی کہ اب کیا کیا جائے؟ ایک دن انہوں نے قیچی لی اور ایک آدمی ، جو انہی کے پاس بیٹھا سر کھجلا رہا تھا، اس کے سر کے بال کاٹنے شروع کر دیئے.ایسے سفر میں کون دیکھتا ہے کہ حجامت اچھی بنی ہے یا خراب؟ ان کا قیچی پکڑنا تھا کہ لوگوں نے انہیں نائی سمجھ کر پیسے دینے شروع کر دیئے اور ساتھ ساتھ حجامت بھی بنواتے چلے گئے.وہ حجامتیں بناتے گئے اور پیسے جمع کرتے گئے.تو حج کے دنوں میں محنت مزدوری کر نا منع نہیں.کیونکہ غیر ملکوں میں جانے کے لئے روپے کی ضرورت ہوتی ہے.اسی طرح اگر ہم نے وسیع طور پر تبلیغ کرنی ہے تو ضروری بات یہ ہے کہ ہم ایسے کام کریں، جن کے ذریعہ بغیر پیسے کے تبلیغ کر سکیں.میں نے پچھلے خطبہ میں بتلایا تھا کہ ہندوستان کے ہزار ہا شہروں میں صرف دوسو جگہیں ایسی ہیں، جہاں احمدیہ جماعت کے ایک ایک یا دو دو تاجر پائے جاتے ہیں.ابھی تھوڑے دن ہوئے ، ایک شخص کا خط آیا ، اس نے لکھا تھا، جس علاقہ سے میں آیا ہوں ، اس میں میلوں میں تک کسی کو احمدیت کا علم بھی نہیں.جس سے بھی ذکر کیا جائے ، وہ احمدیت سے کلی طور پر نا آشنا معلوم ہوتا ہے.ابھی ایک عیسائی مدر اس سے مسلمان ہو کر آیا ہے.اسے اتفاقا ایک دوست مل گئے اور اس کے ذریعہ اس کو احمدیت کا پتہ لگا.احمدی ہونے کے بعد اس نے کہا ہے کہ ہمارے ہاں ہزار ہا عیسائی ہیں اور وہ اس بات کے متلاشی ہیں کہ ان کو سچامذہب ملے.آپ وہاں اپنا مبلغ بھیجیں.مگر سوال یہ ہے کہ ہم کہاں کہاں مبلغ بھیجیں ؟ بعض دفعہ جماعتیں مجھے لکھتی ہیں کہ ہم نے ناظر صاحب دعوة وتبلیغ کولکھا تھا کہ مبلغ بھیجیں لیکن انہوں نے اس کی پروا نہیں کی.میں ان کو یہی جواب دیا کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کے چالیس مبلغ ہیں اور آٹھ سو ہماری منظم جماعتیں ہیں ، جن میں سے بعض جماعتوں میں ہیں ہیں تمہیں تھیں گاؤں شامل ہیں.اس کے علاوہ وہ افراد، جو مختلف جگہوں پر پھیلے ہوئے ہیں، اگر ان کو بھی ملا لیا جائے تو پانچ سات ہزار جگہیں ایسی ہیں، جہاں جماعت پھیلی ہوئی ہے.اب بتاؤ، ہم چالیس مبلغ کہاں کہاں بھجوائیں ؟ ایسے حالات میں سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ اگر آپ کے اندر دین حاصل کرنے کی خواہش ہے تو اپنی جماعت کے نوجوانوں کو قادیان بھجوائیں.ہم انہیں قرآن کریم اور حدیث وغیرہ پڑھا دیں گے اور سلسلہ 620
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اکتوبر 1945ء کے ضروری مسائل سے ان کو واقف کر دیں گے تاکہ واپس جا کر وہ اپنے علاقوں میں تبلیغ کا کام کر سکیں.لیکن اگر ایسا بھی ہو جائے تو صرف پانچ ، چھ ہزار گاؤں ایسے ہوں گے ، جہاں ہماری تبلیغ پہنچ سکے گی.حالانکہ ہندوستان میں آٹھ لاکھ گاؤں ہیں.اگر پانچ ، چھ ہزار آدمیوں کو قرآن شریف پڑھا بھی دیا تو اس سے صرف پانچ ، چھ ہزار گاؤں میں تبلیغ ہوگی.گویا سو میں سے صرف ایک جگہ ایسی ہوگی ، جہاں تبلیغ پہنچے گی.لیکن اگر چار، پانچ ہزار آدمی ایسے نکل آئیں ، جو چار، پانچ ہزار جگہوں میں جا کر بیٹھ جائیں اور تجارت کریں تو چونکہ آٹھ ، دس گاؤں کو ایک آدمی سنبھال سکتا ہے.اگر چار، پانچ ہزار گاؤں یا قصبوں میں اتنے آدمی بیٹھ جائیں تو چالیس، پچاس ہزار گاؤں تک ہم اپنی تبلیغ کو وسیع کر سکتے ہیں.اگر ہماری جماعت کے نو جوان اس طرف توجہ کریں تو میں سمجھتا ہوں ، پچیس ہزار شہروں اور قصبات میں ہیں، پچیس ہزار تاجروں کا بٹھلا دینا کوئی مشکل بات نہیں.ہیں، پچیس ہزار جگہوں پر ہیں، پچیس ہزار تاجروں کے بیٹھ جانے کے معنی یہ ہوں گے کہ قریباً سارے ہندوستان میں ہم اپنی تبلیغ کو پھیلا سکیں گے.کیونکہ ہر آدمی آٹھ ، دس میل کے علاقہ تک اپنی تبلیغ آسانی سے پہنچا سکے گا.احمدیت ایک ایسی چیز ہے، جسے کوئی شخص اپنی ذات تک محدود نہیں رکھ سکتا.جیسے مشک کی خوشبو رو کی نہیں جاسکتی ، جس طرح گلاب کے عطر کی خوشبو چھپائی نہیں جا سکتی، اسی طرح احمدیت بھی ایک ایسی چیز ہے کہ جہاں چلی جائے ، اس کی خوشبو صرف اس جگہ تک محدود نہیں رہتی بلکہ اردگرد بھی پھیل جاتی ہے.مگر ہر چیز کے پھیلنے کی ایک حد ہوتی ہے.لوگ کہتے ہیں، مشک کی خوشبو کو چھپایا نہیں جاسکتا ، گلاب کی خوشبو کوروکا نہیں جا سکتا مگر ایک حد تک.ہم عطر کی خوشبو یا مشک کی خوشبو کو پندرہ ، ہیں یا تمیں گز تک تو نہیں چھپا سکتے.لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مشک اگر یہاں پڑی ہے تو امریکہ کے لوگ اس کی خوشبو سونگھ سکتے ہیں.بہترین سے بہترین ہرن کی مشک لا کر اور کسی جگہ رکھ کر یہ امید کرنا کہ چار پانچ میل سے اس کی خوشبو سوکھی جائے ، ایک غلط امید ہوگی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ نے احمدیت کو ایک ایسی طاقت بخشی ہے کہ میلوں میل تک اس کی آواز پہنچ جاتی ہے.اگر ایک گاؤں میں ایک احمدی ہو تو ارد گرد کے پانچ سات میل تک لوگ احمدیت سے واقف ہو جاتے ہیں.وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نہیں جانتے ، احمدیت کیا چیز ہے؟ لیکن اگر کسی جگہ ایک احمدی ہو اور اردگرد ہیں ہمیں میل تک کوئی احمدی نہ ہو تو اکثر لوگ کہہ سکیں گے کہ ہمیں پتہ نہیں ، احمدیت کیا چیز ہے؟ اگر ہم ہیں، پچیس ہزار مبلغ اس طرح پھیلا دیں کہ ہر سات آٹھ میں کے دائرے میں ایک احمدی تاجر ہو تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہندوستان کا کوئی فرد یہ نہیں کہہ سکے گا کہ 621
خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اکتوبر 1945ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم میں نے احمدیت کے متعلق کچھ نہیں سنا.بہت سے ایسے ہوں گے، جنہوں نے احمدیت کے دلائل سنے ہوں گے اور ان میں جو سعید روحیں صداقت کی متلاشی ہوں گی ، وہ اس کو تسلیم بھی کر لیں گی.پس یہ ایک ایسی تحریک ہے، جو ہمارے لئے کامیابی کا بہت بڑا راستہ کھولنے والی ہے.موجودہ حالات میں ہمارے لئے ہیں ہزار مبلغ رکھنا بالکل ناممکن ہے.کیونکہ میں ہزار مبلغ رکھنے کے لئے کئی کروڑ کی آمدن ہونی چاہیے اور ابھی ہماری آمدن چند لاکھ سے زیادہ نہیں.ہاں میں ہزار تاجر بٹھا دینا کوئی مشکل نہیں کیونکہ ہر ایک نے اپنی جدو جہد سے کمائی کرنی ہے.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے.ایک بہت بڑا تاجر میر اواقف تھا.اس کا لڑکا مجھے ملنے کے لئے آیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ تمہارے باپ نے تم کو الگ کر دیا ہے، وہ تو بڑا مالدار آدمی ہے تمہیں اس نے اپنے ساتھ شریک کیوں نہیں کیا ؟ کہنے لگا، حکیم صاحب جب میں جوان ہوا تو میرے والد نے مجھے کہا، دیکھو بیٹا میں غریب کنگال تھا، میں نے کمانا شروع کیا اور اب میرے پاس لاکھوں روپیہ ہے.میں چاہتا ہوں کہ تم بھی اسی طرح کماؤ تا تمہیں مال کی قدر معلوم ہو.ایسا نہ ہو کہ تم میرے مرنے کے بعد روپیہ برباد کر دو اور میری محنت ضائع ہو جائے.میں نے چند پیسوں سے تجارت شروع کی تھی مگر اب تمہارا باپ بہت امیر ہے، اس لئے میں تجارت کے لئے تمہیں چند روپے دے دیتا ہوں، اس سے تم تجارت شروع کرو اور ترقی کرو.اب دیکھو، وہ نوجوان اس بات پر ناراض نہیں تھا کہ اسے کیوں الگ کر دیا گیا ہے؟ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ مجھے میرے والد نے اس لئے علیحدہ کیا ہے تا میرے اخلاق درست ہو جائیں.قادیان میں ایسے تاجر ہیں، جنہوں نے ہمیں بعض ضروریات کے مواقع پر سینکڑوں روپیہ چندہ دیا.لیکن ہماری آنکھوں دیکھی بات ہے کہ ان میں سے کسی نے چار آنے سے کسی نے روپے سے تجارت شروع کی تھی.حکیم عبدالرحمن صاحب کا غانی کا ایک لطیفہ مجھے یاد ہے.اب تو وہ فوت ہو گئے ہیں.ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول نے چالیس یا پچاس روپے ان کے ہاتھ میں دیئے اور کہا یہ لے جاؤ اور کسی کا نام لے کر کہا اس کو دے دو.انہوں نے اپنے ہاتھ پھیلا کر آگے گئے اور روپے لے لئے.اس وقت ان کے ہاتھ کانپ رہے تھے لیکن میں نے اس کا خیال نہیں کیا.حضرت خلیفہ اول چونکہ تجربہ کار تھے.اس کے ہاتھ کو کا پتا دیکھ کر مجھے کہنے لگے، میاں اس کا ہاتھ دیکھو، کیا اس کے ہاتھ کانپا کرتے ہیں؟ میں نے کہا نہیں.کہنے لگے تو اب کیوں کانپ رہے ہیں؟ میں نے کہا مجھے تو معلوم نہیں.فرمانے لگے، یہ ہمارے مسلمانوں کی بد بختی کی علامت ہے.کسی ہندو کے ہاتھ میں دس ہزار روپیہ دے دو تو وہ بڑے آرام سے اپنے نیفے میں ڈال 622
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اکتوبر 1945ء کر چلا جائے گا لیکن یہ ڈر رہا ہے اور اس کے ہاتھ اس لئے کانپ رہے ہیں کہ اگر روپیہ گر کر ضائع ہو گیا تو کہاں سے ادا کروں گا ؟ مگر وہ ہمت والے آدمی تھے ، انہوں نے چند پیسوں سے تجارت شروع کی اور ان کی تجارت اتنی بڑھی کہ ایک تحریک کے موقعہ پر انہوں نے ڈیڑھ سو سے زیادہ چندہ دیا.جب انہوں نے یہ چندہ دیا تو مجھے وہ بات یاد آ گئی.میں نے کہا دیکھو چالیس روپے حضرت خلیفہ اول کے ہاتھ سے لے کر اس شخص کے ہاتھ کانپ رہے تھے کہ کتناروپیہ میرے سپرد کیا جا رہا ہے؟ مگر اب خدا تعالیٰ نے انہیں سینکڑوں روپیہ چندہ دینے کی توفیق عطا فرمائی ہے.تو انسان بہت تھوڑے پیسوں سے تجارت شروع کر سکتا ہے بشرطیکہ اس میں قربانی کی عادت ہو.قادیان میں بیسیوں آدمی ایسے ہیں، جو شاید شرما کر اپنی پہلی حالت بیان نہ کریں.لیکن واقعہ یہ ہے کہ گو وہ اب سات سات، آٹھ آٹھ ہزار روپیہ کی جائیداد میں اپنے پاس رکھتے ہیں لیکن انہوں نے چند آنوں سے کام شروع کیا تھا.ایک دوست ہیں، جن کی اب ہیں، پچیس ہزار کی جائیداد ہوگی ، ان کا مکان بھی ہے، زمین بھی.انہوں نے چھ آنوں سے میرے سامنے کام شروع کیا تھا.پس یہ کام اس طرح کا ہے کہ اس میں بغیر روپے اور بہت تھوڑی محنت کے ساتھ انسان بڑی کمائی کر سکتا ہے.جو آدمی تجارت شروع کرتا ہے، پہلے وہ اپنی مزدوری کا کمایا ہوا کھاتا ہے.پھر تجارت کی سمائی کھاتا ہے.پھر تجارت کا کمایا ہوا جمع کرتا چلا جاتا ہے اور اسے نفع ہی نفع رہتا ہے.غرض ہیں ہزار تاجر ہندوستان کے مختلف حصوں میں بھجوانا کوئی مشکل کام نہیں.اگر انگریزوں کی لڑائی میں ہمارے پندرہ سولہ ہزار نو جوان چلے گئے ہیں تو کیا خدا تعالی کی لڑائی میں پانچ ہزار نو جوانوں کا جانا مشکل ہے؟ ( کیونکہ ابھی میرا پانچ ہزار کا مطالبہ ہے ) اور پھر ایسے رنگ میں جبکہ تم اپنی جماعت کا مستقبل شاندار بنانے کی کوشش کرو گے.تم خود کھاؤ گے ، دین کے لئے چندہ دو گے اور اپنے رشتہ داروں کو بھی کھلاؤ گے.پس ہماری جماعت کے لئے موجودہ زمانہ کے حالات کے لحاظ سے پچاس سال تک بھی ہیں ہزار مبلغ کا خیال کرنا ناممکن ہے لیکن ہیں ہزار تاجر بھیجنا کوئی مشکل کام نہیں.میں نے بتایا تھا کہ ہندوستان سے باہر اگر ہم تبلیغ کو مد نظر رکھیں تو اس کے لئے کم سے کم پانچ سوروپے ماہوار فی مبلغ ہمیں خرچ کرنا پڑے گا.بلکہ در حقیقت اگر ہزار روپیہ ہو تو کام اچھی طرح چل سکتا ہے.کیونکہ صرف مکان کا کرایہ ہی وہاں تقریبا تین چارسور و پیہ دینا پڑتا ہے.اگر پانچ سو روپیہ فی کس ہی رکھیں تو ہمیں ہزار مبلغوں کے رکھنے کے معنی یہ ہوں گے کہ ایک کروڑ روپیہ ماہوار اور بارہ کروڑ روپیہ سالانہ خرچ ہو گا.یہ کم سے کم اندازہ ہے.پھر ان کے آنے جانے کا خرچ بھی ہوگا.اس طرح میں ہزار مبلغوں کے لئے در حقیقت چوبیس کروڑ روپیہ سالانہ 623
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اکتوبر 1945ء یعنی ہماری موجودہ آمدن سے دو سو گنے زیادہ آمدن ہو تو یہ طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے.ہم نے پچھلے تمہیں سال میں قریباً پندرہ ، ہیں گنا اپنی آمدن کو بڑھایا ہے.فرض کرو ہم اس کو بہت زیادہ کریں تو پچاس یا سوسال میں جا کر ہم چو بیس کروڑ کی مرکزی آمدن پیدا کر سکیں گے.(کیونکہ قریباً نصف کے قریب آمد بلا دو ممالک میں خرچ ہو جاتی ہے ) اور سو سال تک اتنے مبلغین کے لئے ہمیں انتظار کرنا پڑے گا.لیکن اگر ہیں ہزار کنگال بھی اس تحریک پر کھڑے ہو جائیں یا کم سے کم پانچ ہزار آدمی کھڑے ہو جائیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جو کام ہم سو سال میں کر سکتے تھے، اسے انشاء اللہ دو تین سالوں میں کر لیں گے.یہ کتنی بڑی بات ہے؟ اگر ایسا ہو اور ہم میں سے ہر فرد اس کی اہمیت کو سمجھ تو چند سالوں میں حیرت انگیز تغیر پیدا ہوسکتا ہے.جو پہلے سے تجارت کرنے والے ہیں، وہ یہ نہ سمجھیں کہ ان کے لئے چندہ دے دینا کافی ہے.بلکہ انہیں چاہیے کہ پندرہ ، ہمیں نئے تاجروں کو اپنا پیشہ سکھائیں اور ان کی اخلاقی امداد کریں.اور اگر ضرورت ہو اور ہو سکے تو مادی امداد بھی کریں.اس طرح صدقہ جاریہ کے طور پر وہ ثواب حاصل کر سکتے ہیں.میں حیران ہوں کہ ہمارے ہندوستان کے تاجروں میں یہ روح نہیں ، حالانکہ بیرونی ممالک میں یہ روح نمایاں طور پر پائی جاتی ہے.افریقہ میں ایک شامی تاجر کو تحریک کی گئی.ہم چاہتے ہیں کہ تجارت کا سلسلہ وہاں شروع کریں.مغربی افریقہ میں وہ ایک ہی احمدی تاجر ہیں.انہوں نے تار کے ذریعہ اسی وقت جواب دیا کہ آدمی فوراً بھیج دیں، میں اپنی جائیداد میں اس کو حصہ دار بنانے کو تیار ہوں اور اس کو اپنا حصہ دار بنانے کے لئے بھی آمادہ ہوں.یہی روح ہے، جو قوموں کو ترقی کی طرف لے جاتی ہے اور یہی روح ہے، جو ہماری جماعت کے تاجروں میں ہونی چاہیے.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت ہوئی کہ آپ نے فلاں مہاجر کو فلاں انصاری کے سپر د کیا تھا، وہ اس سے کہتا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو میرا بھائی بنا دیا ہے تو اب تم ہر چیز میں میرے شریک ہو.میری دو بیویاں ہیں، تم ان میں سے جس کو چاہو، پسند کر لو.میں اس کو طلاق دیتا ہوں.جائیداد بھی نصف نصف بانٹنے کے لیے تیار ہوں مگر وہ مانتا ہی نہیں.کجا یہ اخلاق کا نمونہ کہ صحابہ اپنے دین، اپنے تقویٰ اور اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کے لئے اپنی بیویوں کو بھی طلاق دے کر اپنے بھائیوں کے سپرد کرنے کے لئے تیار تھے اور کج ہماری حالت ہے کہ ہم کسی بھائی کو تجارت کا ہنر سکھانے یا اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بنانے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتے.حالانکہ یہ ایک بہت مشکل کام ہے، جو ہمارے سپرد کیا گیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ پیشگوئی تھی کہ آپ کو 624
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اکتوبر 1945ء کو آپ کی زندگی میں ہی غلبہ دے دیا جائے گا.مگر ہمارے لئے یہ پیشگوئی ہے کہ ایک لمبے عرصہ کے بعد جا کر یہ چیز ہمیں ملے گی.پس آج اس سے زیادہ قربانیوں کی ضرورت ہے جتنی پہلے زمانہ میں صحابہ نے کیں.ہمیں اس وقت تجارت کرنے والے ہزاروں نوجوانوں کی ضرورت ہے.چاہیے کہ وہ آگے آئیں اور اپنی زندگیاں وقف کریں.جو تجربہ کارلوگ ہیں ، ان کے لئے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ ان لوگوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کریں.باہر کی ایک جماعت نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ ایک غیر احمدی ہمارے ہاں آ کر احمدی ہو گیا.جماعت نے چندسور و پیدا کٹھا کر کے اسے دیا تا کہ وہ اس سے تجارت کرے.پچھلے سال اس نے ایک ہزار روپے سے زیادہ چندہ دیا ہے.پس یہ ایسی چیز ہے، جس میں کامیابی یقینی ہوتی ہے.اس میں شبہ نہیں کہ کم ہمت اور بے وقوف انسان اس میں نا کام بھی ہوتا ہے لیکن باہمت اور عقلمند انسان تجارت آسانی سے چلا لیتا ہے.چاہے گزارے والی تجارت ہو، چاہے لاکھوں روپے والی ہو اور چاہے کروڑوں روپے والی ہو.بہر حال جہاں احمدی بیٹھ جائے گا، وہاں خدا تعالیٰ کے دین کا ایک مبلغ بیٹھ جائے گا.تجارت اس کی کامیاب ہو یا نہ ہو مگر تبلیغ اس کی کامیاب ہو جائے گی.کیونکہ احمدیت کبھی چھپ نہیں سکتی.مثلاً پہلا سوال نماز کا آئے گا.اس کے پاس لوگ آئیں گے اور کہیں گے آپ کے آنے پر ہمیں بڑی خوشی ہوئی.مسلمان یہاں بہت کم تھے مگر ہم نے آپ کو مسجد میں کبھی نہیں دیکھا.دیکھو یہاں سے تبلیغ شروع ہو جائے گی.وہ کہے گا، میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے والا ہوں اور آپ ان کو نہیں مانتے.اس لئے میں آپ کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتا.وہ پوچھیں گے مسیح موعود کیا ہوتا ہے؟ اس پر وہ بتائے گا، حضرت مسیح موعود کا یہ دعوی تھا.وہ اس کا ثبوت پوچھیں گے اور اسے کہیں گے، ہمارے ساتھ چل کر ہمارے مولوی صاحب سے بات کرو کیونکہ ہم اس کے متعلق کچھ نہیں جانتے.بس یہیں سے بحث شروع ہو جائے گی.پھر جنازے کا سوال آجائے گا.اس پر مذہبی بحث شروع ہو جائے گی.اگر تا جر نو جوان ہوئے اور ان کے بیوی بچے نہ ہوئے تو ان میں سے کوئی کہے گا، آپ نے ابھی تک شادی نہیں کی ، ہم میں شادی کر لیں.وہ کہے گا ، احمد بیت ہمارا مذہب ہے اور ہم تو شادی احمد یوں میں ہی کریں گے.اور پھر بحث شروع ہو جائے گی.پس یہ دو تین سوال ایسے ہیں کہ جن کی وجہ سے احمدیت کو چھپایا ہی نہیں جا سکتا.جب کبھی نماز کا موقعہ آئے گا اور ہم ان کے ساتھ نماز نہیں پڑھیں گے یا اگر جنازہ کا موقع آئے گا اور ہم ان کے جنازے میں شامل نہیں ہوں گے یا شادی بیاہ کا معاملہ ہوگا اور ہم انکار کریں گے تو احمدیت کی بات شروع ہو جائے گی.625
خطبہ جمعہ فرمودہ 12اکتوبر 1945ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم لوگ کہتے ہیں کہ ان مسائل سے ہم نے اسلام میں تفرقہ پیدا کر دیا ہے.مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ بغیر ان مسائل کے تبلیغ ہوہی نہیں سکتی.کتنا ہی گونگا احمدی کیوں نہ ہو، ان مسائل کی وجہ سے تبلیغ پر مجبور ہو جاتا ہے.مولوی مبارک علی صاحب، جو جرمنی میں تبلیغ کے لئے گئے تھے، ان کے دل میں ہمیشہ مسئلہ کفر و اسلام کے متعلق شبہ رہتا تھا اور وہ خطوں میں اس کا ذکر کیا کرتے تھے.میں انہیں جواب دیتا کہ ابھی ٹھہر جائیں ، جب ہندوستان میں آئیں گے تو دیکھا جائے گا.ایک دفعہ ان کا خط آیا کہ اب مجھ کو کفر و اسلام کا سمجھ آ گیا ہے.اور وہ اس طرح کہ یہاں قانون کے ایک بہت بڑے پروفیسر ہیں، اتنے بڑے کہ آسٹریلیا اور امریکہ کی یونیورسٹیاں بھی انہیں تقریروں کے لئے بلاتی ہیں.میں نے ان کو مختلف مسائل بتائے ، جو ہمارے اور غیر مبائعین کے درمیان ما بہ النزاع ہیں مگر مسئلہ کفر و اسلام کا ذکر نہ کیا.جو مسئلہ میں بیان کرتا ، وہ کہہ دیتے یہ تو معمولی بات ہے.تمہاری چھوٹی سی جماعت ہے لیکن بڑی ایڈوانسڈ جماعت ہے تمہیں چاہیے کہ آپس میں مل کر تبلیغ کرو.جب سارے مسائل ختم ہو گئے اور پھر بھی وہ یہی کہتے رہے.آخر میں نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ ایک اور مسئلہ بھی ہے، جس میں ان کا اور ہمارا اختلاف ہے.اور وہ یہ ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود کے نہ ماننے والوں کو مسلمان سمجھتے ہیں اور ہم لوگ حضرت مسیح موعود کے نہ ماننے والوں کو کافر سمجھتے ہیں.اس پر وہ بڑے جوش میں آکر کہنے لگے، آپ نے یہ مسئلہ پہلے کیوں نہ بتایا؟ اس مسئلہ کی موجودگی میں اختلاف صحیح اور جائز ہے.پھر کہنے لگے تمہارے پاس وہ چیز ہے، جس سے تم ترقی کر جاؤ گے اور پیغامی نہیں کریں گے.تو حقیقت یہ ہے کہ یہ تبلیغ کے اعلیٰ درجہ کے گر ہیں.اگر تم ان کے ساتھ مل کر نماز پڑھتے رہو گے تو کوئی یہ سوال نہیں کرے گا کہ تم کون ہو؟ اگر ان کے ساتھ مل کر جنازہ پڑھو گے تو کوئی یہ سوال نہیں کرے گا کہ تم کون ہو؟ لیکن اگر تم ان سے علیحدہ ہو کر نماز پڑھو گے، اگر ان کے جنازہ پر نہیں جاؤ گے تو وہ خود بخود پوچھیں گے کہ تم ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھتے ؟ اس صورت میں خواہ کوئی کتنا کمزور سے کمزور انسان کیوں نہ ہو، اسے بتانا پڑے گا کہ میں کون ہوں؟ میرا عقیدہ کیا ہے؟ اور میں کس لیے تمہارے پیچھے نماز اور جنازہ نہیں پڑتا.اور اگر شادی بیاہ کا معاملہ ہوگا تو وہ بتلائے گا کہ یہاں شادی نہ کرنے کی یہ وجہ ہے کہ ہم احمدیوں میں شادی کو ترجیح دیتے ہیں یا یہ کہ میں اپنی لڑکی کا بیاہ غیر احمدیوں میں نہیں کر سکتا.پس یہ ایسی چیزیں ہیں، جو کمزور سے کمزور ایمان والے احمدی کو بھی مجبور کر دیتی ہیں کہ وہ اپنے پوشیدہ خیالات کو ظاہر کر دے.غرض ہمارے مسائل ایسے ہیں، جس سے تبلیغ کبھی رک نہیں سکتی.تجارت فیل ہو سکتی ہے لیکن تبلیغ فیل نہیں ہوسکتی.626
تحریک جدید- ایک ابی تحریک.....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اکتوبر 1945ء میں بتا چکا ہوں، یہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم تاجروں کو تبلیغ کے لیے باہر بھیج دیں لیکن تنخواہ دار مبلغ بھیجنا، ہمارے اختیار کی بات نہیں.اس تجویز کے سامنے آجانے کے بعد ہم خدا تعالیٰ کو یہ جواب نہیں دے سکتے کہ ہمارے پاس چونکہ روپیہ نہ تھا، اس لئے ہم تبلیغ نہیں کر سکے.خدا تعالیٰ کہے گا کہ میں نے حج سے متعلق جو مسئلہ بیان کیا تھا تمہیں اس پر عمل کرنا چاہیے تھا.جیسے پنجابی میں کہتے ہیں نالے حج نالے بیوپار.اس طرح خدا تعالیٰ کہے گا ، جب یہ صورت تمہیں بتلا دی گئی تھی تو اس صورت پر تم نے باہر اپنے مبلغ کیوں نہ بھیجے؟ اب بتاؤ، ہم کیا جواب دیں گے ؟ کیا یہ کہ ہماری طاقت سے باہر تھا ؟ خدا تعالیٰ کہے گا ، اگر جماعت کے نوجوان 17 روپے لے کر آسام اور عراق میں اپنی جانوں کو قربان کر سکتے تھے تو کیا وہ نجاری کا کام کر کے، موٹر کی مرمت کا کام کر کے، سائیکلوں کی مرمت کا کام کر کے، ڈرائیوری کا کام کر کے ، درزی کا کام کر کے یا کسی اور قسم کی تجارت کر کے احمدیت کی تبلیغ کا کام نہیں کر سکتے تھے؟ کیا کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ جو شخص سترہ روپے کے لئے جان دے سکتا ہے، وہ خدا تعالیٰ کے لئے تجارت نہیں کر سکتا ؟ اگر اس میں ایمان کا ایک ذرہ بھی باقی ہے تو خدا تعالیٰ کو وہ کس منہ سے کہے گا کہ میں تجھ پر ایمان رکھتا ہوں ؟ غرض اب تم پر حجت قائم ہو چکی ہے.جب تک یہ راستہ تمہارے سامنے نہیں آیا تھا تم کہہ سکتے تھے ہمیں اس کا خیال نہیں آیا لیکن اب تمہارا یہ عذر بھی ٹوٹ گیا ہے.اب خدا تعالیٰ تم سے کہے گا، میں نے اپنے ایک بندے کے دل میں یہ خیال پیدا کر دیا تھا اور اس نے تم کو اس سے آگاہ بھی کر دیا تھا.غرض اب تمہارے لئے کوئی عذر باقی نہیں رہا.حقیقت کھل گئی ہے اور باطل کو کچلنے کے راستے خدا تعالیٰ نے ظاہر کر دیے ہیں.اگر اب بھی کوئی آگے نہیں بڑھے گا تو وہ بزدل اور غدار ہو گا.چاہیے کہ تم میں سے ہر شخص آگے آئے اور اپنے اپنے رنگ میں اس بوجھ کو اٹھانے کے لئے تیار ہو جائے ، جس کے اٹھائے بغیر اسلام دوبارہ سرسبز و شاداب نہیں ہوسکتا.مطبوعه الفضل 20 اکتوبر 1945 ء ) 627
تحریک جدید- ایک ابی تحریک...جلد دوم - خطبہ جمعہ فرمودہ 02 نومبر 1945ء مختلف علاقوں میں تبلیغ اور وقف تجارت سے متعلق چند باتیں خطبہ جمعہ فرمودہ 02 نومبر 1945ء سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.”ہمارا ملک ایک براعظم کی حیثیت رکھتا ہے.جس میں 40 کروڑ کے قریب آدمی بستے ہیں اور آٹھ دس ایسی زبانیں بولی جاتیں ہیں ، جو کروڑوں آدمیوں میں استعمال ہوتی ہیں.مثلاً پنجابی ، اردو، انگریزی، ہندی، بنگالی، تامل، مرہٹی، گجراتی.یہ آٹھ زبانیں ہیں.پہلے بر ماہندوستان میں شامل تھا لیکن اب اسے الگ کر دیا گیا ہے.اگر برمی زبان کو بھی شامل کر لیا جائے تو نو زبانیں ایسی ہیں جو کروڑوں لوگوں میں بولی جاتی ہیں.اس کے علاوہ ایسی زبانیں، جو پچاس پچاس، ساٹھ ساٹھ ستر ستر ، اسی اسی لاکھ تک کی تعد ادرکھنے والے آدمیوں میں بولی جاتی ہیں، ان کے علاوہ ہیں.مثلاً سرحد میں پشتو ، سندھ میں سندھی، اڑیسہ اڑیہ، اسی طرح تلنگو وغیرہ زبانیں، جو مدراس ، حیدر آباد اور اس کے ملحقہ علاقوں میں بولی جاتی ہیں، ایسی ہیں جو چالیس، پچاس لاکھ سے لے کر ستر ، اسی لاکھ تک کی تعدا در کھنے والے لوگوں میں بولی جاتی ہیں.اور دنیا کی کئی آزاد حکومتیں ایسی ہیں، جن کی آبادی اتنی ہی ہے.پس ہمارا ملک ایک براعظم ہے اور جہاں باقی دنیا میں تبلیغ کرنا ہمارے ذمہ ہے، وہاں ہندوستان میں تبلیغ کے سلسلہ کو وسیع کرنا بھی ہمارے اہم فرائض میں شامل ہے.اردو زبان میں ہم ایک محدود دائرہ میں تبلیغ کر سکتے ہیں.انگریزی زبان میں بھی صرف تعلیم یافتہ طبقہ میں ، جو کروڑ ، دو کروڑ ہے، ہم تبلیغ کر سکتے ہیں.اس طرح بنگالی ، ہندی ، مرہٹی، گجراتی اور تامل وغیرہ زبانوں میں سے کسی زبان میں بھی ہم سارے ہندوستان کو خطاب نہیں کر سکتے.کیونکہ یہ زبانیں ایک ایک یادو د وصوبوں میں بولی جاتی ہیں.یا پھر ان زبانوں کے ذریعہ چند ریاستوں میں ہم تبلیغ کر سکتے ہیں.ورنہ ان میں سے کوئی ایک زبان بھی ایسی نہیں جو تبلیغ کے لحاظ سے سارے ہندوستان میں کام آسکے.یوں اردو زبان قریباً ہر جگہ اس حد تک سمجھی جاتی ہے کہ انسان اس کے ذریعہ سے گزارہ کر سکتا ہے.مثلاً کسی نے تھوڑا بہت سودا خریدنا ہو یا راستہ ا پوچھنا ہو تو ایسے کاموں میں وہ ہر جگہ کام آسکتی ہے.اسی طرح ایسے کاموں میں انگریزی زبان بھی تھوڑی 629
خطبہ جمعہ فرمودہ 02 نومبر 1945ء تحریک جدید - ایک البی تحریک.....جلد دوم بہت ہر جگہ کام آ جاتی ہے.جہاں بھی چلے جاؤ، سرکاری ملازم اور پولیس کے آدمی مل جائیں گے، جو تھوڑی بہت انگریزی جانتے ہوں گے.مگر تبلیغ میں تو لمبے اور وسیع اور بار یک مضامین بیان کرنے ہوتے ہیں.کسی سے یہ کہہ دینا کہ مہربانی کر کے راستہ بتادو یا یہ پوچھنا کہ تمہارے پاس ڈاک خانے کے ٹکٹ ہیں یا نہیں ، یا یہ کہنا کہ میر الفافہ رجسٹری کردو؟ یہ اور چیز ہے.لیکن کسی کے سامنے ہستی باری تعالیٰ پر مضمون پیش کرنا، ملائکہ کے وجود پر دلائل دینا، انبیاء کی آمد کے متعلق لوگوں کے سامنے معلومات رکھنا، قرآن شریف کی خوبیوں اور اس کے محاسن کو پیش کرنا ، یہ بالکل اور بات ہے.ڈاک خانہ کا ہر با بواتنی انگریزی جانتا ہے کہ جس میں وہ بتادے کہ اس کے پاس ٹکٹیں ہیں یا نہیں ، لفافہ پر کتنے کے ٹکٹ لگانے چاہئیں، ڈاک کس وقت جاتی ہے، ایسی چھوٹی موٹی باتیں وہ انگریزی زبان میں کر سکتا ہے.لیکن اسے انگریزی میں تبلیغ کر کے مذہب نہیں سکھایا جا سکتا.انگریزی میں تبلیغ کر کے مذہب کی باتیں اسی شخص کو سمجھائی جاسکتی ہیں، جو انگریزی کا اچھا عالم ہو.مثلاً گریجوایٹ ہو یا ایف.اے ہی ہو.لیکن وہ ایسی صحبت میں رہا ہو، جہاں انگریزی زبان بولی جاتی ہو.اور اگر کوئی شخص انگریزی اور اردو نہ جانتا ہو تو پھر اس کی زبان میں ہی بات سمجھانی پڑے گی.اس لئے ہندوستان کا کوئی علاقہ بھی ایسا نہیں جس کی زبان کو ہم نظر انداز کر سکیں.ار یہ زبان بڑی زبان نہیں مگر پھر بھی چالیس، پچاس لاکھ آدمیوں کی زبان ہے.وہاں نہ اردو میں تبلیغ کی جان سکتی ہے، نہ انگریزی میں ، نہ بنگالی میں اور نہ کسی اور زبان میں.اگر کی جاسکتی ہے تو صرف اریہ میں.اس علاقہ میں کچھ انگریزی جاننے والے بھی نکل آئیں گے، کچھ اور زبانیں جاننے والے بھی نکل آئیں گے لیکن بہت تھوڑے.سارا ملک اڑیہ ہی جانتا ہوگا اور انگریزی سے بہت کم لوگوں کو مس ہو گی.اس لئے ان کو باتیں سمجھانے کے لئے اڑیہ زبان ہی میں گفتگو کرنی ضروری ہوگی.اسی طرح پنجاب کے شہروں میں چلے جاؤ، انگریزی میں تقریر کرو تو امرتسر میں مقبول ہو جائے گی، لاہور میں مقبول ہو جائے گی.اسی طرح اور بڑے بڑے شہروں میں مقبول ہو جائے گی.اردو میں تقریر کرو تو اسے بھی شہروں کے لوگ پسند کریں گے لیکن اگر گاؤں میں چلے جاؤ تو بہت سے گاؤں ایسے ہوں گے ، جہاں اردو کی تقریر کامیاب نہیں ہوگی.سب سے زیادہ اردو سے وابستگی رکھنے والی ہماری جماعت ہے.وہ ہمیشہ ہماری باتیں اردو میں ہی سننے کی عادی ہے.مگر قریبا ہر جلسہ پر میرے پاس گاؤں کے رہنے والے دوست شکایت کیا کرتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی تقریر پنجابی میں بھی ہونی چاہئے تا اچھی طرح مسائل سمجھ میں آسکیں.اردو میں تقریر وہ سمجھ تو لیتے ہیں.مگر اسی طرح سمجھتے ہیں، جس طرح بنگالی آدمی کا معدہ روٹی بچا سکتا ہے.وہ روٹی کو ہضم تو کر لے گا 630
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 02 نومبر 1945ء لیکن وہ اس کے لئے چاول کا قائم مقام نہیں ہوگی.جیسے ہمارے ملک میں کہتے ہیں کہ انگ نہیں لگتی.اسی طرح وہ اسے انگ نہیں لگتی.وہ ان چیزوں سے فائدہ تو اٹھا لے گا لیکن چونکہ وہ ایک خاص چیز کا عادی ہوتا ہے، اس لئے وہ اسی میں حقیقی لطف اٹھا سکتا ہے، کسی دوسری چیز میں نہیں.مثلاً وہ آدمی جو پنجابی سننے کے عادی ہوتے ہیں ، اردو کی بات اس طرح ان کے دل میں گڑتی نہیں جس طرح پنجابی ان کے دل میں گڑ جاتی ہے.پنجاب کی جو مستورات ہمارے جلسہ سالانہ پر آتی ہیں.ان کی ہمیشہ یہ درخواست ہوتی ہے کہ رات کے وقت جہاں جہاں وہ ہوں، وہاں کوئی پنجابی مولوی تقریر کے لئے بھیجا جائے.اور اگر کوئی شخص جاکر انہیں پنجابی میں ڈھولے سنا دیتا ہے یا تقریر کر دیتا ہے تو کہتی ہیں ، اب بات اچھی طرح سمجھ میں آگئی ہے.اس کے بغیر ان کا پیٹ نہیں بھرتا.پس تمہاری زبان جاننے والا آدمی تمہاری زبان جاننے کی وجہ سے تمہاری بات تو سمجھ لے گا لیکن اس کی پوری تسلی اپنی زبان کے سوا کسی دوسری زبان میں نہیں ہوسکتی.ایک دفعہ ہم کشمیر گئے.وہاں خواجہ کمال الدین صاحب کے بھائی، خواجہ جمال الدین صاحب تعلیم کے انسپکٹر تھے، انہوں نے ہماری دعوت کی اور ہمارے پنجابی ہونے کی وجہ سے کھانا وہ پکایا، جو پنجاب میں پکتا ہے.جب ہم کھانا کھا رہے تھے تو آہستہ سے دروازہ ہلا اور کسی نے اندر کی طرف جھانکا.جب دو چار دفعہ اسی طرح ہوا تو خواجہ صاحب نے ادھر توجہ کی اور انہیں معلوم ہوا کہ ایک آنکھ جھانک رہی ہے.وہ اٹھ کر دیکھنے گئے کہ کون جھانک رہا ہے؟ تو جس طرح کوئی بڑا آدمی آجائے تو بڑے تپاک سے ملا جاتا ہے، خواجہ صاحب بھی باہر کھڑے ہوئے شخص سے بڑے تپاک سے کہنے لگے، اندر تشریف لائیے.پہلے تو ان صاحب نے کچھ پس و پیش کیا لیکن پھر مان گئے اور اندر آگئے ( غالباً وہ موجودہ واعظ صاحب کے بڑے بھائی تھے.انہوں نے میرے متعلق سنا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد میں سے کوئی یہاں آیا ہوا ہے.اس پر باوجود اس کے کہ وہ احمدی نہیں تھے، مجھے دیکھنے کے لئے آگئے.( موجودہ میر واعظ تو ہمارے سخت مخالف ہیں لیکن ان کے بڑے بھائی کا رویہ ہمارے ساتھ اچھا تھا.لیکن اس خوف سے کہ لوگوں کو پتہ نہ لگ جائے ، انہوں نے اپنے ملازم کو پہلے اندر جھانکنے کے لئے کہا تا معلوم ہو جائے کہ غیر لوگ تو اندر نہیں بیٹھے.ان کی خواہش تھی کہ کھڑے کھڑے بات کر کے چلے جائیں، جس سے لوگوں کو کچھ خیال نہ ہو اور وہ خیال کریں کہ شاید خواجہ جمال الدین صاحب سے کوئی بات کرنی ہوگی.لیکن خواجہ جمال الدین صاحب کے اصرار پر انہیں اندر آنا پڑا.جب وہ بیٹھ گئے تو خواجہ صاحب نے انہیں کہا کہ کھانا کھائیں.انہوں نے کہا میں تو کھانا کھا آیا 631
خطبہ جمعہ فرمودہ 02 نومبر 1945ء تحریک جدید - ایک البی تحریک.....جلد دوم ہوں.اس پر خواجہ صاحب نے کہا یہ تو سٹھ ہے.سٹھ کے معنی کشمیری زبان میں روٹی کے ہوتے ہیں.اور یہ لفظ پہلی دفعہ میں نے اسی وقت سنا تھا.ان کا مطلب یہ تھا کہ کھانا تو ہے ہی نہیں ، روٹی ہے.کیونکہ کشمیر میں چاول اصل کھانا سمجھا جاتا ہے.اس پر وہ نو وار د صاحب کھانے میں شامل ہو گئے.اس کے بالمقابل پنجاب کی اصل غذا روٹی ہے.اس وجہ سے جب کسی گاؤں میں کسی زمیندار کے ہاں چاول پکے ہوں اور کوئی ملنے آجائے اور وہ اسے کھانے کی دعوت دے تو بعض دفعہ آنے والا کہتا ہے کہ میں کھانا کھا آیا ہوں تو گھر والا کہتا ہے کہ چاول ہیں، کوئی لقمہ کھالو تو وہ شامل ہو جاتا ہے اور اکثر گھر والوں سے کم کھا کر نہیں اٹھتا.کیونکہ وہ خیال کرتا ہے کہ یہ تو کھانا نہیں، چاول ہیں.اس لئے ان کے کھانے سے معدہ پر کوئی خاص بوجھ نہ پڑے گا.یہی حالت زبانوں کی ہوتی ہے.غیر زبان ناشتہ کے طور پر تو کام دے جاتی ہے لیکن اس سے پیٹ نہیں بھرتا.جس طرح چاول کھانے والے کا روٹی سے پیٹ نہیں بھرتا اور روٹی کھانے والے کا چاول سے نہیں بھرتا، اسی طرح ہر زبان والا جب تک اپنی زبان میں باتیں نہ سن لے اسے مزہ نہیں آتا.تبلیغ کے معنی یہ ہیں کہ بات دل میں رچ جائے.لیکن بات تو اسی وقت دل میں رچتی ہے، جب کہ اس کا مزہ آئے.اور جب تک مزہ نہ آئے ، اس وقت تک بات دل میں رچے گی نہیں.اور بات کا مزہ اسی وقت آ سکتا ہے ، جب کہ گفتگو اپنی زبان میں ہو.اس لئے ضروری ہے کہ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں تبلیغ وسیع کرنے کے لئے لوگوں کی زبانوں ہی میں تبلیغ کی جائے.مگر جب تک کہ ہمیں ایسے آدمی میسر نہ آئیں، جو ان زبانوں سے واقف ہوں، اس وقت تک کم از کم اتنا تو ضرور ہونا چاہیے کہ ہم ان زبانوں میں ان لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کریں، جن کو کچھ لوگ وہاں کے سمجھ لیتے ہیں.بنگال میں ہمارے مبلغ ہیں، جو بنگالی زبان جانتے ہیں.سرحد میں ہمارے ایسے آدمی ہیں، جو پشتو میں بڑی اچھی طرح تقریر کر سکتے ہیں.سندھ میں بھی ہیں.لیکن گجراتی ، مرہٹی اور تامل بولنے والے لوگ ابھی ہمارے پاس نہیں.اسی طرح اڑ یہ بولنے والے مبلغ بھی ہمارے پاس نہیں.ہندی جاننے والے مبلغ ہمارے پاس ہیں لیکن وہ ایسی ہندی نہیں جانتے کہ ان سے تقریروں کی امید کی جاسکے.ان علاقوں میں تبلیغ کے لئے انگریزی اور اردو ایک حد تک کام دے سکتی ہیں لیکن سب تک نہیں.سب تک تبلیغ کے لئے ضروری ہے کہ ایسے لوگ ہوں ، جو ان زبانوں میں تقریریں کر سکتے ہوں.اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں سارے ہندوستان میں تبلیغ کرنے کے لئے ہر زبان کو جاننے والے لوگ پیدا کرنے چاہئیں.مگر پنجاب میں بیٹھے ہوئے ہم ان علاقوں کے آدمیوں سے واقف نہیں ہو سکتے.اس لئے سب سے پہلے 632
تحریک جدید- ایک ابی تحریک...جلد دوم.خطبہ جمعہ فرمودہ 02 نومبر 1945ء ضروری ہے کہ ہماری مختلف صوبوں کی جماعتیں اپنے اپنے علاقہ سے کچھ لوگوں کو منتخب کریں ، جو اپنی زندگیاں اس غرض کے لئے وقف کریں.کچھ تامل جاننے والے ہوں، کچھ گجراتی جاننے والے، کچھ مرہٹی جاننے والے، کچھ کٹڑی جانے والے، کچھ اڑ یہ جاننے والے، کچھ لنگی جاننے والے.اور ضروری نہیں کہ یہ سب لوگ عالم ہوں.کام شروع کرنے کے لئے جو سامان بھی میسر ہو، اسے استعمال کیا جاسکتا ہے.ایسے آدمیوں سے کام لیا جا سکتا ہے، جو تھوڑا بہت اپنی زبان کا علم رکھتے ہوں.جیسا کہ ہم نے دیہاتی مبلغین کی سکیم بتائی ہے.اسی طرح ان لوگوں کو جو معمولی نوشت خواندہ ہیں، تیار کیا جاسکتا ہے.پہلا قدم ایسا ہی ہوا کرتا ہے.شروع میں عالموں کامل جانا بڑا مشکل کام ہے.پس اگر معمولی لکھے پڑھے مل جائیں تو بھی کام چل سکتا ہے.لیکن اگر لکھے پڑھے بھی نہ ملیں تو ان پڑھوں کو بھی زبانی باتیں سکھائی جاسکتی ہیں.بنگہ کے ایک دوست میاں شیر محمد صاحب، وہ ان پڑھ آدمی تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے صحابہ میں سے تھے.وہ فنافی الدین قسم کے لوگوں میں سے تھے.ا کہ چلاتے تھے.غالباً پھلور سے سواریاں لے کر بنگہ جاتے تھے.ان کا طریق تھا کہ سواری کوا کہ میں بٹھاتے اورا کہ چلاتے جاتے اور سواریوں سے گفتگو شروع کر دیتے.اخبار الحکم لگواتے تھے.جیب سے اخبار نکال لیتے سواریوں سے پوچھتے آپ میں سے کوئی پڑھا ہوا ہے.اگر کوئی پڑھا ہوا ہوتا ، اسے کہتے کہ یہ اخبار میرے نام آئی ہے، ذرا اس کو سنا تو دیجیے.اکہ میں بیٹھا ہوا آدمی جھٹکے کھاتا ہے اور چاہتا ہے کہ اسے کوئی شغل مل جائے ، وہ خوشی سے پڑھ کر سنانا شروع کر دیتا ہے.وہ اخبار پڑھنا شروع کرتا تو وہ جرح شروع کر دیتے کہ یہ کیا لکھا ہے؟ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس طرح جرح کرتے کہ اس کے ذہن کو سوچ کر جواب دینا پڑتا اور بات اچھی طرح اس کے ذہن نشین ہو جاتی.جب انہوں نے مجھے یہ واقعہ سنایا تھا تو اس وقت ان کے ذریعہ سے درجن سے زیادہ احمدی ہو چکے تھے.اس کے بعد بھی وہ کئی سال زندہ رہے ہیں، نہ معلوم کتنے آدمی ان کے ذریعہ اور اسی طریق پر احمدیت میں داخل ہوئے.غرض ضروری نہیں کہ ہمیں کام شروع کرنے کے لئے بڑے بڑے عالم آدمیوں کی ضرورت ہو.بلکہ ایسے علاقوں میں جہاں کوئی پڑھا ہوا آدمی نہیں مل سکتا ، اگر ان پڑھ احمدی مل جائے تو ان پڑھ ہی ہمارے پاس بھجوا دیا جائے.اس کو زبانی مسائل سمجھائے جاسکتے ہیں تا کام شروع ہو جائے.اگر ہم اس انتظار میں رہے کہ عالم آدمی ملیں تو نہ معلوم ان کے آنے تک کتنا زمانہ گزر جائے گا؟ کیونکہ علماء کو مذہب کی باریکیوں میں جانا پڑتا ہے، اس لئے ان کو علم حاصل کرنے میں کافی عرصہ لگ جاتا ہے.لیکن باوجود اس کے کہ مذہب میں باریکیاں ہوتی ہیں، جن 633
خطبہ جمعہ فرمودہ 02 نومبر 1945ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم کے سیکھنے کے لئے ایک لمبے عرصہ کی ضرورت ہوتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسلام کے متعلق فرماتے ہیں کہ الدین یسر یہ دین بڑا آسان بنایا گیا ہے.اگر چہ اس میں بڑی بڑی باریکیاں بھی ہیں لیکن یہ اتنا سیدھا سادہ اور آسان ہے کہ ہر آدمی اس کو آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے اور اتنا مؤثر ہے کہ سننے والوں کے دلوں کو موہتا چلا جاتا ہے.اصل میں اب جن کے پاس دین رہ گیا ہے، وہ غریب ہی ہیں.کیونکہ امیروں نے غریبوں کو لوٹ لیا ہے اور ان میں سے اکثر ایسے ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس اب اللہ ہی اللہ رہ گیا ہے.وہ اسے لینے کے لئے دوڑتے ہیں اور ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ بھی ہاتھ سے نہ چلا جائے.پہلے غریب ہی صداقت کی طرف آیا کرتے ہیں اور تعلیم سے محروم بھی غریب ہی ہوتے ہیں.اس لئے مختلف جگہوں پر کام کرنے کے لئے اگر ان پڑھ مل سکیں تو پروا نہیں کرنی چاہئے.مگر ان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ جوش رکھنے والے ہوں اور ان میں اخلاص اور تقوی ہو.ایک دو کو بلا کر انہیں زبانی تعلیم دلائی جائے اور اگر ہو سکے تو انہیں اردو لکھنا پڑھنا سکھا دیا جائے تاکہ مسائل سیکھنے کے لئے اخبارات اور دوسرے رسالے پڑھ سکیں اور اس طرح اپنا کام چلا لیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تبلیغ کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ عالم ہوں.مگر سوال یہ ہے کہ جو چیز پوری نہ مل سکتی ہو، وہ تمام کی تمام چھوڑ دینی بھی تو ٹھیک نہیں؟ عربی میں محاورہ ہے مالا یدرک کله لا یترک کله.جب ساری چیز ندیل سکتی ہو تو ساری چیز چھوڑ بھی نہیں دینی چاہیے.ہمارے ملک کے پنجابیوں نے تو اس سے بھی زیادہ کہہ دیا ہے کہ " جاندے چور دی لنگوٹی ہی سہی.یعنی اگر چور بھاگ جاتا ہے اور تم مسروقہ مال میں سے اس سے کچھ نہیں چھین سکتے تو اگر تم نے اس کی لنگوٹی ہی چھین لی ہے تو کچھ نہ کچھ تو حاصل ہو گیا.پس ضروری نہیں کہ جب تک بڑے بڑے عالم نہ ہوں تبلیغ کا کام شروع نہ کیا جائے.تھوڑے سے مسائل سکھا کر ایک رو چلا دینی چاہئے.ہاں یاد آ گیا کہ چھوٹی زبانوں میں سے ایک زبان کشمیری رہ گئی تھی.کشمیری زبان بھی چالیس، پچاس لاکھ کے قریب لوگوں میں سمجھی جاتی ہے.گوکشمیر میں ہمارے ایک، دو مبلغ موجود ہیں مگر اس علاقہ میں بھی اور بہت سے مبلغوں کی ضرورت ہے.دفتر دعوت کو چاہئے کہ وہ مختلف زبانوں کے مراکز سے خط و کتابت کرے اور احمدی جماعتوں کو تحریک کرے کہ وہ ہر زبان بولنے والے ایک یا دو آدمی دیں ، خواہ وہ ان پڑھ ہی ہوں.تا کہ اس کام کو شروع کیا جاسکے.پس ایک تو یہ کام نہایت ضروری ہے.دوسرے یہ بھی ضروری ہے کہ تمام ہندوستان میں ایک نظام کے ماتحت جلسے کرائے جائیں اور ان میں مختلف مضامین پر لیکچر دلائے جائیں.میں نے دیکھا ہے 634
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود ه 02 نومبر 1945ء اس وقت تک جتنی تقریریں ہوتی ہیں ، سب بے نظام ہوتی ہیں.آئندہ ہمیں چاہیے کہ کچھ ایسے آدمی تیار کریں، جو عربی دان ہوں اور کچھ ایسے آدمی تیار کریں، جو انگریزی دان ہوں.ہم خود انہیں لیکچرز لکھوائیں.جس کے بعد وہ ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں دورہ کریں اور وہی لیکچر لوگوں کے سامنے بیان کریں.یہ لیکچر اسلامی مضامین کے متعلق بھی ہوں، عام علمی مضامین کے متعلق بھی اور ہندؤں، سکھوں اور مسیحیوں وغیرہ کے متعلق بھی.اسی طرح بعض مبلغ ہندوؤں سکھوں کے متعلق تیار کئے جائیں، جوان کے مضامین سے واقف ہوں.پچھلے دنوں مبلغین کا ایک دورہ ہوا اور وہ بڑے خوش خوش واپس آئے کہ بڑی کامیابی ہوئی ہے.اور کامیابی سے مراد ان کی یہ تھی کہ ہم نے اس موضوع پر خوب تقاریر کیں کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو آپس میں مل کر رہنا چاہئے اور لوگوں نے خوب تعریف کی.حالانکہ یہ کامیابی تو خواجہ کمال الدین صاحب والی کامیابی ہے.مضمون تو وہ ہونا چاہیے، جن سے ان پر اختلافی مسائل کی حقیقت واضح ہو.میں یہ نہیں کہتا کہ دوسرے مضامین نہ ہوں ، وہ بھی ہوں.لیکن ہمارا جو اصل میدان ہے، اول توجہ ادھر ہونی چاہئے.پس میں میں تجویز کرتا ہوں کہ لیکچروں کے نوٹ ان کو یہاں لکھوائے جائیں اور انہیں لیکچروں کو وہ سارے ہندوستان میں مختلف مقامات پر بیان کرتے پھریں.بے شک اس طرح جو لیکچر امرتسر میں دیا جائے گا ، وہی لاہور میں دیا جائے گا اور وہی جالندھر وغیرہ میں دیا جائے گا.مگر اس میں کوئی حرج نہیں.کیونکہ جو امرتسر والوں نے سنا، وہ لاہور والوں کے لئے پرانا نہیں.ان کے لئے وہ نیا ہی ہوگا.اسی طرح لاہور والے جو سن چکے ہوں گے، جالندھر اور راولپنڈی کے لئے وہ مضمون پرانا نہیں ہوا.اس جگہ کے لئے وہ مضمون نیا ہوگا.خواجہ کمال الدین صاحب کی کامیابی کی بڑی وجہ یہی تھی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی کتب کا مطالعہ کر کے ایک لیکچر تیار کرتے تھے.پھر قادیان آ کر کچھ حضرت خلیفہ اول سے پوچھتے اور کچھ دوسرے لوگوں سے اور اس طرح ایک لیکچر مکمل کر لیتے.پھر اسے لے کر ہندوستان کے مختلف شہروں کا دورہ کرتے اور خوب کامیاب ہوتے.وہ کہا کرتے تھے کہ اگر بارہ لیکچر آدمی کے پاس تیار ہو جائیں تو اس کی غیر معمولی شہرت ہوسکتی ہے.انہوں نے ابھی سات لیکچر تیار کئے تھے کہ ولایت چلے گئے.لیکن وہ ان سات لیکچروں سے ہی بہت مقبول ہو چکے تھے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایک لیکچر بھی اچھی طرح تیار کر لیا جائے تو چونکہ وہ خوب یاد ہوتا ہے، اس لئے لوگوں پر اس کا اچھا اثر ہو سکتا ہے.پہلے زمانہ میں اسی طرح ہوتا تھا کہ صرف میر کا الگ استاد ہوتا تھا.نحومیر کا الگ استاد ہوتا تھا.کچی روٹی کا الگ استاد ہوتا تھا.635
خطبہ جمعہ فرمودہ 02 نومبر 1945ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اور کچھ روٹی کا الگ استاد ہوتا تھا.اور چاہیے بھی اس طرح کہ جو لیکچرار ہوں ، ان کو مضامین خوب تیار کر کے دیئے جائیں اور وہ باہر جا کر وہی لیکچر دیں.جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ سلسلہ کے مقصد کے مطابق تقریریں ہوں گی.اور ہمیں یہاں بیٹھے بیٹھے پتہ ہوگا کہ انہوں نے کیا بولنا ہے؟ اصل لیکچر وہی ہوں گے.اس کے علاوہ اگر مقامی طور پر ضرورت ہو تو تائیدی لیکچروں کے طور پر وہ اور کسی مضمون پر بھی بول سکتے ہیں.مضمون تیار کرنے کا طریقہ یہ ہو کہ وہ خود بھی تحقیق کریں اور دوسرے علماء بھی اس کے متعلق نوٹ لکھوائیں اور اس طرح ایک مجموعی نظر اس مضمون پر پڑ جائے.اسی طرح ہر دورہ کے بعد ایک اور لیکچر تیار ہو جائے.اس طرح مرکز کی نگرانی کے ماتحت سلسلہ کی آواز سارے ہندوستان میں پھیل جائے گی.میں سمجھتا ہوں کہ اگر موجودہ صورت میں فی الحال تین چار آدمیوں کا ایک گروپ بنادیا جائے تو بھی کام چل سکتا ہے.ان میں سے ایک عربی دان ہو، ایک انگریزی دان ہو، جو سیاسیات اور اقتصادیات کے متعلق لیکچر دے سکے.اور ایک لیکچرار ایسا ہو، جومختلف مذہبی جماعتوں کے متعلق واقفیت رکھتا ہو.مثلاً سکھوں کے متعلق یا بر ہمو سماجیوں کے متعلق یا مسز اینی پینٹ کی تھیو سافیکل سوسائٹی والوں کے متعلق.اس طرح اگر ہمیں مناسب حال لیکچرار مل جائیں جو سارے ہندوستان کا دورہ کرتے پھریں.دو، تین ماہ دورہ کریں، پھر ایک دو قادیان آکر آرام کریں اور پھر دورہ شروع کر دیں.تو میں سمجھتا ہوں ، اگر چوبیں چھپیں لیکچرار آہستہ آہستہ تیار ہو جائیں تو اس سال میں بڑی بڑی تمام جگہوں پر تین تین، چار چار دفعہ تقریریں ہو جائیں گی.اگر ایک جلسہ اور دوسرے جلسہ کے درمیان کا فاصلہ ایک ہفتہ رکھا جائے اور پھر چھٹیاں بھی ڈال دی جائیں تو ہر انسان چالیس لیکچر دے سکے گا.اگر میں لیکچر بھی سمجھ لئے جائیں اور جو میں آدمی ہوں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ سال بھر میں سات سو بیس لیکچر ہو جائیں گے.اگر سو بڑے بڑے شہروں میں لیکچر دیئے جائیں تو سات لیکچر ایک شہر میں ہو جائیں گے.یہ کتنا عظیم الشان کام ہوگا.سات لیکچر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ لوگوں کو ہر دوسرے مہینے لیکچر سننے کا موقع مل جائے گا.اس کے لئے نظارة دعوة وتبلیغ کو چاہیے فوراً ایک ایک انگریزی دان، عربی دان ، ہندو، سکھ مذاہب سے واقفیت رکھنے والے آدمی تیار کرے.ان کا کام یہ ہوگا کہ وہ تمام ہندوستان میں دورہ کر کے تقریریں کریں.ان کے لئے تقاریر کا پروگرام مرکز تجویز کرے گا.ہاں اگر ضرورت کے موقع پر وہ کوئی اور لیکچر بھی کسی جگہ دے دیں تو اس میں حرج نہیں ہوگا.اس کے ساتھ ہی جماعت میں تحریک کی جائے کہ بڑے بڑے شہروں کی جماعتیں اپنے ہاں مشورہ کر کے ہمیں بتائیں کہ وہ کس وقت جلسہ کرانا چاہتی ہیں؟ میرے نزدیک اگر پنجاب میں جنوری، فروری اور مارچ کے 636
خطبہ جمعہ فرمود و 02 نومبر 1945ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم مہینوں میں دورے کئے جائیں اور اپریل کا مہینہ چھٹی کر دی جائے.کیونکہ یوپی میں اپریل مئی کے مہینوں میں شدید گرمی ہوتی ہے، اس لئے کام نہیں ہو سکتا.پھر جون، جولائی اگست میں یوپی اور بہار کا دورہ کیا جائے اور ستمبر، اکتوبر نومبر اور دسمبر میں بنگال، آسام کا دورہ ہو تو دوسال میں سارے ہندوستان کا دورہ ہو جائے گا.لیکن اگلے سال تک اگر دوسری پارٹی تیار ہو جائے تو ان دو پارٹیوں میں سے ایک پارٹی شمالی ہند کا دورہ کر سکتی ہے اور دوسری جنوبی ہند کا.اس طرح ایک ہی وقت میں سارے ملک میں آوازیں بلند کی جا سکتی ہیں.ان دوروں کے وقت جو اعتراضات ان مبلغین پر ہوں، وہ ان کو جمع کرتے چلے جائیں.اور جب وہ ایک مہینہ کی چھٹی پر قادیان آئیں تو ان کی روزانہ مجلس ہو، جس میں ان سوالوں کے جواب تیار کئے جائیں اور جو مشکلات ان کو پیش آئیں ، ان کو مد نظر رکھ کر آئندہ پروگرام بنایا جائے.اس طریق سے ایک ہی وقت میں بہت سے مقامات میں احمدیت کی آواز بلند کی جاسکتی ہے.اگر ہمارے پاس کافی تعداد میں آدمی تیار ہو جا ئیں تو سارے ہندوستان میں منظم طور پر یہ تبلیغی سکیم جاری کی جاسکتی ہے.اگر ہمیں انگریزی میں تقریر کرنے والے چھ سات آدمی مل جائیں اور ان کے ساتھ عربی دانوں اور ہندی دانوں کو ملا کر چھ گروپ بنادیے جائیں تو بار بار سارے ہندوستان میں تقریریں ہو سکتی ہیں اور تھوڑے وقت میں بہت زیادہ کام سرانجام دیا جاسکتا ہے.اور ہم ہندوستان کے ہر گوشہ میں اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں.اس طرح ہندوستان کے ہر بڑے شہر میں ہمارے مبلغین کو مجموعی طور پر سال میں قریبا تین ہفتے ٹھہرنے کا موقع ملا جایا کرے گا.پس جہاں میں نظارت دعوۃ و تبلیغ کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اس قسم کی تبلیغ کا انتظام کریں.وہاں میں نوجوانوں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ اپنی زندگیاں اس کام کے لئے وقف کریں اور خدمت دین کر کے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے مورد بنیں.کسی کا یہ خیال کر لینا کہ موجودہ مبلغوں میں سے کسی مبلغ کو فارغ کر لیا جائے گا، درست نہیں.کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے موجودہ مبلغوں میں سے کوئی بھی اس کام کے لئے فارغ نہیں کیا جاسکتا.پہلے ہی مبلغین کے پاس اتنا کام ہے جوان کی طاقت سے بیسیوں گنا زیادہ ہے.پھر پہلے مبلغین کا کام اور قسم کا ہے اور یہ کام اور قسم کا ہوگا.بہر حال ہم پہلے مبلغین میں سے کسی کو فارغ نہیں کر سکتے.پس میں نوجوانوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی زندگیاں دین کی اشاعت کے لئے وقف کر کے رضائے الہی کے مستحق بنیں.اس کے بعد میں ایک چھوٹی سی بات تجارت کے حصہ کے متعلق کہنا چاہتا ہوں.وقف تجارت کے متعلق دفتر تحریک جدید میں سو کے قریب درخواستیں آچکی ہیں اور ان میں سے بعض لوگ گھبرا گئے ہیں سوکے اوران 637
خطبہ جمعہ فرمودہ 02 نومبر 1945ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد دوم کہ ہمیں درخواست دیئے ہوئے اتنی دیر ہو گئی ہے لیکن ابھی تک ہمیں بلایا نہیں گیا اور وہ بار بار اس کے متعلق خط لکھ رہے ہیں.حالانکہ ایسے کام کے لئے بہت لمبے وقت کی ضرورت ہوتی ہے.آخر ان لوگوں کو ایسے علاقوں میں بھجوادینا، جن کے متعلق ہمیں کچھ بھی علم نہیں کہ وہاں کے حالات کیسے ہیں؟ کس طرح درست ہو سکتا ہے؟ بیشک وقف کرنے والے اپنی زندگی وقف کر دیتے ہیں لیکن ہمیں بھی تو عقل سے کام لینا چاہئے.جس جگہ کے حالات کے متعلق نہ ہمیں خبر ہو، نہ پستہ اور نہ ہم وہاں کے حالات کا اندازہ لگا سکتے ہوں، ایسی جگہ کسی آدمی کو بھیجنا گویا اس کو ایسی مصیبت میں ڈالنا ہے کہ ممکن ہے ، وہ اس مصیبت کو برداشت نہ کر سکے.پس ہمیں جب تک ان علاقوں کے حالات کے متعلق پوری واقفیت نہ ہو جائے ، ہم کیوں کسی کو مصیبت میں ڈالیں؟ تجارت کی اس سکیم کے لئے ابتدائی کاروائی شروع کر دی گئی ہے اور یہ تجویز کیا گیا ہے کہ بمبئی میں تحریک جدید کی طرف سے ایک ایجنسی جاری کی جائے اور ہمارے دو تین آدمی کمیشن ایجنسی کا بمبئی میں تجربہ حاصل کریں.کیونکہ ایسے آدمیوں کا ملنا مشکل ہے، جو اس کام کے متعلق پہلے ہی تجربہ رکھتے ہوں.جب یہ اس کام کو سیکھ لیں گے تو ان کو مدراس، کراچی یا دوسری جگہوں میں پھیلا دیا جائے گا اور ان کے ساتھ کچھ اور آدمی لگا دئیے جائیں گے، جن کو یہ لوگ کام سکھائیں گے.اس طرح تھوڑے تھوڑے آدمی کام سیکھتے چلے جائیں اور کام پر لگتے چلے جائیں گے.ابتدا میں ہر علم کو سیکھنا پڑتا ہے.کیونکہ بغیر سیکھے کوئی علم حاصل نہیں ہو سکتا.اسی طرح تجارت کا علم بھی سیکھنے سے ہی آتا ہے.بیرونی ممالک میں سے بعض ملکوں میں ہمارے آدمی پہنچ چکے ہیں اور ان کی طرف سے خط و کتابت جاری ہے اور امید ہے کہ جلدی ہی ان بیرونی ممالک اور ہندوستان میں تجارت کا کام شروع ہو جائے گا.مجھے محکمہ تجارت کی طرف سے یہ شکایت پہنچی ہے کہ احمدی صناع ان کے ساتھ تعاون نہیں کرتے.اس کے برعکس غیر احمدی صناع ان سے ہر قسم کا تعاون کر رہے ہیں.بعض احمد ی صناعوں سے کہا گیا کہ جو چیزیں وہ تیار کرتے ہیں، ان کا نمونہ دیں لیکن ان میں سے کسی نے بھی نمونہ نہ دیا.اس کے مقابلہ میں سیالکوٹ کے ایک صناع نے ، جو غیر احمدی ہے، محکمہ تجارت والوں کو لکھا کہ میں اس کے لئے تیار ہوں اور جب محکمہ والوں کی طرف سے اسے جلد جواب نہ پہنچا تو وہ خود قادیان آیا اور کہا کہ میں واپس جاتے ہی اپنے مال کے نمونے بھجوادوں گا.جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے گذشتہ خطبات میں بیان کیا تھا کہ ہماری غرض تجارت کے ذریعہ تبلیغی سنٹر قائم کرنا ہے.اگر بڑے بڑے شہروں میں ہمارے تجارتی مرکز قائم ہو جائیں تو ان مرکزوں کے ذریعہ تبلیغ بہت آسانی سے وسیع کی جاسکتی ہے اور جماعت پر کسی قسم کا مالی 638
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود ه 02 نومبر 1945ء بوجھ بھی نہیں پڑے گا.دوسری غرض یہ ہے کہ جماعت میں صنعت و حرفت اور تجارت کو ترقی دی جائے اور صناعوں اور تاجروں میں ایک نظام قائم کر دیا جائے اور ان کی ایک جماعت اور جتھہ بن جائے اور وہ منتظم طور پر دنیا میں ایسے پھیل جائیں جیسے کیکڑے کے پاؤں چاروں طرف پھیلے ہوئے ہوتے ہیں.اور احمدی تاجروں کو تجارت میں اتنی طاقت حاصل ہو جائے کہ ہر قوم ان سے مل کر تجارت کرنے پر مجبور ہو جائے.دنیا میں بعض تو میں بعض خاص قسم کی چیزوں کی تجارت کرتی ہیں اور ان چیزوں پر ان کا قبضہ ہوتا ہے.گو عام طور پر وہ دوسری چیزوں کی بھی تجارت کر لیتی ہیں لیکن وہ خاص چیز ، جس کی وہ تجارت کرتی ہیں، ان کی تجارت کا محور اور ستون ہوتا ہے.اور کوئی شخص اس کی تجارت میں ان کے مقابل پر آکر جیت نہیں سکتا.مثلاً بعض تو میں کپڑے کی تجارت کرتی ہیں.لوگ عام طور پر ان کے ساتھ مل کر کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں.میرے مد نظر یہ دو بڑی بڑی اغراض تھیں.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کے بعض افراد میں ابھی اس چیز کی اہمیت کا احساس پیدا نہیں ہوا.میں نے اعلان کیا تھا کہ صناع اور تاجر محکمہ تجارت سے تعلق قائم کریں اور ہر رنگ میں ان سے تعاون کریں.لیکن میرے اس اعلان کے باوجود جولوگ تعاون نہیں کرنا چاہتے ، محکمہ تجارت کو چاہئے کہ ان کی پروانہ کرے.ہماری غرض تجارت سے تبلیغ کو پھیلانا ہے.چاہے تبلیغ احمدیوں کے مال سے ہو یا ہندوؤں اور سکھوں کے مال سے ہو یا عیسائیوں کے مال سے ہو.یعنی ہم کمیشن ایجنسیاں قائم کر رہے ہیں.خواہ ہمیں کسی احمدی کے مال کی ایجنسی مل جائے یا ہندو یا سکھ یا عیسائی فرم کی ایجنسی مل جائے.ہماری پہلی غرض ہر رنگ میں پوری ہو جائے گی.یعنی ہم اپنی تبلیغ کو دنیا کے ہر حصہ میں پھیلا سکیں گے.اگر ایک شخص کے پاس سکھ فرم کی ایجنسی ہے اور اسے تبلیغ میں ہر قسم کی آسانی ہے اور وہاں اس کے حالات ایسے ہیں کہ وہ خود بھی تبلیغ کر سکتا ہے، دوسروں سے بھی تبلیغ کر سکتا ہے.اگر کوئی مبلغ اس کے پاس جائے تو وہ اس کی تقریر کا انتظام کر اسکتا ہے اور اس کے رستے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں تو ہماری پہلی اور اصل غرض پوری ہوگئی.ہمارا اس میں کیا حرج ہے کہ تبلیغ سکھ کے مال سے ہو یا کسی اور قوم کے مال سے؟ پس اگر جماعت کے صناع اور تاجر تعاون نہ کریں تو بھی ہمارا پہلا نقطہ نگاہ پورا ہو جائے گا اور دوسرے نقطہ نگاہ کے لحاظ سے بھی تحریک جدید کوکوئی نقصان نہیں.اگر ہماری تجارتی سکیم کامیاب ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی نصرت سے تجارت کے کچھ حصہ پر ہم قابض ہو جائیں اور ہماری تجارت ہندوستان اور بیرونی ممالک میں شروع ہو جائے اور فرض کرو کہ ہماری ہزار ایجنسیاں ہندوستان اور بیرونی ممالک میں قائم ہو جائیں تو پھر حسرت انہی لوگوں کو ہوگی ، جنہوں نے محکمہ تجارت سے تعاون نہ کیا.کیونکہ 639
خطبہ جمعہ فرمودہ 02 نومبر 1945ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم اگر وہ تعاون کرتے تو ان کی چیزیں ہزار جگہ بکنے لگ جاتیں.پس محکمہ کو کسی طرح بھی نقصان نہیں لیکن اگر فرض کیا جائے کہ محکمہ کو اس کام میں اس کی نادانی اور ناواقفی کی وجہ سے کامیابی نہ ہو.پھر بھی ہمارا فائدہ ہے کہ ایک احمدی تاجر یا صناع کے چار پانچ روپے کے نمونے بچ گئے.گو عام طور پر کمیشن ایجنسی.نقصان نہیں ہوا کرتا.پس اس بات کی پروا نہیں کرنی چاہئے کہ کوئی تعاون کرتا ہے یا نہیں کرتا بلکہ بار بار تحریک کرتے رہنا چاہئے.کیونکہ یہ ایک نیا کام ہے اور ہرنئی چیز سے لوگ گھبراتے ہیں اور جب بار بار وہی چیز ان کے سامنے آتی ہے تو پھر اس سے مانوس ہو جاتے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ یہ محکمے کی نا تجربہ کاری ہے کہ وہ اتنی جلدی گھبرا گئے ہیں.یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ایک آواز اٹھائی جائے تو سب لوگ فوراً اس کی طرف بھاگ پڑیں.بلکہ دنیا کا یہ قاعدہ ہے کہ جب ایک کام کے متعلق کہا جائے کہ یہ مفید ہے تو وہ لوگ ، جو اصل حالات سے واقف نہیں ہوتے ، وہ اپنے علم اور کہنے والے کے علم کا مقابلہ کرتے ہیں اور چونکہ ہر ایک کا علم الگ الگ ہوتا ہے.اس لئے وہ لوگ اس کام کے کرنے میں تاخیر کرتے ہیں اور جب ان پر واضح ہو جاتا ہے کہ یہ کام واقعی مفید ہے تو خود بخود اس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں.صنعت و حرفت کرنا اور چیز ہے اور صنعت و حرفت کو منظم کرنا اور چیز ہے.تجارت کرنا اور چیز ہے اور تجارت کو منظم طور پر چلانا اور چیز ہے.یہ ضروری نہیں کہ جو شخص تجارت کی تنظیم کرسکتا ہو ، وہ تجارت بھی اعلی درجے کی کر سکتا ہو.یا جو شخص صنعت و حرفت میں کامیاب ہو ، وہ اس کی تنظیم میں بھی کامیاب ہو.یا جو شخص تجارت میں کامیاب ہو، وہ اس کی تنظیم میں بھی کامیاب ہو.یا جو شخص صنعت و حرفت کی تنظیم میں کامیاب ہو، وہ صنعت وحرفت بھی اعلیٰ درجے کی جانتا ہو.یہ دونوں الگ الگ راستے ہیں.اس لئے ضروری نہیں کہ تمام صنائع یا تا جر سیکرٹری تجارت کی بات فورا مان لیں.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے سیکرٹری تجارت کسی کو کہے کہ دوروپے جو ہر میں ڈال دو تو وہ کبھی بھی اس کے لئے تیار نہیں ہوگا.اسی طرح اگر سیکرٹری تجارت کسی کو کہے کہ دوروپے کا نمونہ جو ہر میں پھینک دو تو وہ بھی بھی پھینکنے کے لئے تیار نہیں ہوگا اور وہ نہ پھینکنے میں حق بجانب ہوگا.اسی طرح اس وقت عام لوگوں کے نزدیک سیکرٹری تجارت کو نمونہ دینا گویا جو ہر میں ڈالنے کے مترادف ہے، اس لئے وہ تعاون نہیں کرتے.پس گھبرانے کی ضرورت نہیں بلکہ بار بار مختلف رنگوں میں تحریک کرتے رہنا چاہئے.ابتدا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ جماعت کے لوگوں کو چندہ ضرور دینا چاہئے خواہ تین مہینے میں ایک دھیلہ ہی دیں.لیکن آہستہ آہستہ تین ماہ میں ایک دھیلہ سے بڑھتے بڑھتے 640
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 02 نومبر 1945ء ہر ماہ ایک آنہ فی روپیہ تک پہنچ گیا ہے.بلکہ اگر دوسری تحریکوں کے چندوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ دس فیصدی تک پہنچ جاتا ہے.اس میں شک نہیں کہ بعض لوگ جو نکھے اور بے اثر ہیں ، وہ ایک آنہ فی روپیہ بھی چندہ نہیں دیتے.لیکن ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے.اکثر ایسے ہیں، جو بہت زیادہ چندہ دیتے ہیں.حالانکہ اس کی ابتدا تین ماہ میں ایک دھیلہ سے ہوئی تھی.پھر جن لوگوں کی وصیت ہے، ان میں سے بعض پندرہ فی صدی تک دیتے ہیں ، بعض ایسے ہیں، جو تینتیس فیصدی تک دیتے ہیں اور بعض ایسے ہیں، جو پچاس فی صدی تک.بلکہ اس سے بھی زیادہ دیتے ہیں اور ابھی ہم خوش نہیں.بلکہ سمجھتے ہیں کہ انہیں اس سے بھی زیادہ قربانی کرنی چاہئے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تین ماہ میں ایک دھیلے سے کام شروع کیا تھا تو سیکر ٹری صاحب تجارت کون ہیں کہ ان کا کام پہلے دن ہی روپیہ سے شروع ہو.پس لوگوں کو بار بار تحریک کرتے رہنا چاہئے.جو آج قاتل نہیں ، وہ کل ہو جائیں گے.جو کل قائل نہ ہوں گے، وہ پرسوں قائل ہو جائیں گے.جو پرسوں قائل نہ ہوں گے، وہ ترسوں قائل ہو جائیں گے.اس کے بالمقابل میں احمدی صناعوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ وقت کی ضرورت کو پہچانیں اور جو بھی ان کی صنعت ہو مثلاً کوئی بٹن بنارہا ہے، کوئی سیاہی بنا رہا ہے، کوئی پالش بنارہا ہے، وہ اپنے اپنے نمونے محکمہ تجارت کو بھجوادیں.کیونکہ جہاں جہاں محکمہ کی ایجنسیاں قائم ہوگئی ہیں، وہاں کے لوگ نمونے مانگتے ہیں اور محکمہ کے پاس نمونے نہ ہوں تو اسے بہت دقت پیش آتی ہے.مجھے حیرت ہوتی ہے کہ تاجروں اور صناعوں کا عجیب قسم کا مطالبہ ہے کہ سلسلہ ان کی چیزوں کی ایڈور ٹائز منٹ بھی کرے اور جب باہر سے ان چیزوں کے نمونے مانگے جائیں تو قیمت خرید کر بھیجے.جو لوگ نمو نے مفت دیں ، ان کا مطالبہ تو کسی قدر صحیح تسلیم کیا جاسکتا ہے لیکن جن لوگوں نے نمونے مفت نہیں دیئے ، ان کا یہ مطالبہ کسی طرح درست نہیں کہ ہماری چیزوں کے اشتہار بھی تم دو.اور اگر باہر سے ان چیزوں کے نمونے مانگے جائیں تو خرید کر بھیج دو.آج کل تجارت میں کامیابی کا سب سے بڑا راز یہی سمجھا جاتا ہے کہ اشتہار سے کام لیا جائے اور اپنی چیز کو ملک میں زیادہ سے زیادہ شہرت دی جائے.انگلستان میں اس بات کا اس قدر خیال رکھا جاتا ہے کہ ویمبلے ایگزیبیشن میں ایک تین آنے کی نب کے لئے اس کے مالک نے بائیس ہزار روپیہ دے کر ایک میز کی جگہ لی.میں نے اس سے پوچھا کہ تین آنے کی نب کے لئے آپ نے بائیس ہزار روپیہ خرچ کیا ہے.اس سے آپ کو کیا فائدہ ہوگا؟ اس نے کہا کہ یہ رقم تو کچھ بھی نہیں.ہمارا ڈیلی میل میں روزانہ اشتہار چھپتا ہے.اس کے لئے ہم پندرہ ہزار پونڈ سالانہ ڈیلی میل والوں کو دیتے ہیں.گویا سوا دولاکھ روپے وہ اشتہار کے لئے ڈیلی میل والوں کو دیتے تھے.حالانکہ ان کو کوئی خاص کامیابی بھی نہ ہوئی.کیونکہ بعد میں، میں نے 641
خطبہ جمعہ فرمودہ 02 نومبر 1945ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم وہ نب کسی کے پاس نہیں دیکھا.لیکن باوجود اس کے وہ لوگ اشتہارات پر بہت سارو پیہ خرچ کر دیتے ہیں تا کہ ان کے نام کی شہرت ہو جائے.اور دنیا کا یہ قاعدہ ہے کہ جس فرم یا جس کمپنی کا نام لوگوں نے سنا ہوا ہو، اس کی چیز خریدلیں گے.قطع نظر اس کے کہ وہ چیز کسی کام کی ہے یا نہیں؟ پس اپنی چیز کو شہرت دینا، اس زمانے میں تجارت کا ایک ایسا حصہ ہے، جس کے بغیر تجارت میں کامیابی نہیں ہو سکتی.فرض کرو ایک شخص جس چیز کی شہرت نہیں ، وہ بازار میں اپنی چیز لے کر آیا اور سارے بازار میں پھر گیا لیکن اس سے کسی نے نہ خریدی.تو اس کا بازار میں پھر نا بے فائدہ اور بے کار نہیں ہوگا.بلکہ دوسری دفعہ جب وہ آئے تو اس کو نئی واقفیت پیدا کرنے یا واقفیت کرانے کی ضرورت نہ ہوگی.کیونکہ بازار کے لوگ اس کے متعلق جانتے ہوں گے کہ ان کا فلاں چیز کا کارخانہ ہے اور جس کو ضرورت ہوگی ، وہ اسے آرڈر دے کر اس سے لے لے گا.اور اس کا پہلی دفعہ آنا، اسے نئی تحقیقات سے بچالے گا.اور ایک دفعہ جب واقفیت ہو جائے تو پھر لوگ ہمیشہ تحقیقات نہیں کیا کرتے.میں حیران ہوں کہ تاجر لوگ ان باتوں کو ہم سے زیادہ جانتے ہیں لیکن پھر بھی انہیں اس طرف توجہ دلانے کی ضرورت پیش آتی ہے.بہر حال ہمارے محکمہ تجارت کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے.بلکہ اسے صناعوں سے تحریک کرتے رہنا چاہئے اور بار بار لوگوں کو کہنا چاہئے کہ جو لوگ انہیں نمونے بھیجیں، ان کو وہ بنیاد کے طور پر استعمال کریں اور اپنی عمارت کی اس پر بنیا د رکھیں.اور میں جماعت کے تاجروں اور صناعوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ محکمہ تجارت سے تعاون کریں اور اپنی چیزوں کے نمونے اسے بھیج دیں.جن لوگوں کے نمونے آئیں گے ، ہم ان کے لئے کوشش کریں گے کہ ہندوستانی اور بیرونی ممالک میں جہاں جہاں ہمارے آدمی موجود ہیں، وہاں ان کے نمونے بھجوا دیں.پھر جس جس ملک سے مانگ آئے گی ، اس کو مہیا کرتے چلے جائیں گے.پس جن لوگوں نے تجارت کے لئے زندگیاں وقف کیں ہیں، ان کو گھبرانا نہیں چاہئے اور جلدی نہیں کرنی چاہئے.جوں جوں ان کے لئے کام نکلتا آئے گا، ہم ان کو بلاتے جائیں گے.میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت تینوں کی گھبراہٹ فضول ہے.یعنی زندگیاں وقف کرنے والوں کی جلدی کرنا اور گھبرانا فضول ہے، ہم ان کو بلانے کے لئے آہستہ آہستہ انتظام کر رہے ہیں.اور تاجروں اور صناعوں کا بخل بھی غلط ہے، انہیں اپنے نمونے بھیجنے میں بخل سے کام نہیں لینا چاہئے.اور محکمہ تجارت والوں کو بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں ، اگر احمدی تاجر اور صناع ان کے ساتھ تعاون نہیں کرتے تو کوئی حرج نہیں.ہندوؤں، سکھوں اور عیسائیوں کے پاس بہت کام ہے اور تمام تجارت انہیں کے ہاتھوں میں ہے، ان سے مل کر اپنے 642
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 02 نومبر 1945ء لئے تجارت کا میدان تیار کرنا چاہئے.احمدیوں کے پاس تجارت کا ایک فی صدی بھی نہیں بلکہ ایک فی صدی تو کیا، احمدیوں کے پاس تو تجارت کا کروڑواں حصہ بھی نہیں.بلکہ میں کہتا ہوں کہ کروڑ ویں حصے کا دسواں حصہ بھی احمدیوں کے پاس نہیں.پس ان کے تعاون نہ کرنے سے گھبرانا خلاف عقل ہے.(مطبوعہ الفضل 07 نومبر 1945ء) 643
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 23 نومبر 1945ء اس وقت اسلام کا جھنڈ ابلند کرنا ہماری جماعت کے سپرد کیا گیا ہے وو خطبہ جمعہ فرمودہ 23 نومبر 1945ء اسلام کی جنگ کا زمانہ قریب سے قریب تر آتا جارہا ہے اور ہم ابھی صرف پینترے بدل رہے ہیں.جیسے پینترے بدلنا اصل چیز نہیں ہوتی بلکہ وہ جسم کو گرم کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں، اسی طرح ہمارا مختلف قسم کی تحریکات جاری کرنا اور جماعت کو مالی قربانیوں میں حصہ لینے کی دعوت دینا، پینترے بدلنے والی بات ہے ورنہ اصل کام اور ہے.ہم نے دنیا کو فتح کرنا ہے، ہم نے دنیا کے دلوں اور دماغوں کو فتح کرنا ہے اور اس کے لئے ہمیں جن سامانوں کی ضرورت ہے ، ان کا اندازہ بھی ہم آج نہیں لگا سکتے.میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک حد تک قربانی کی روح ترقی کر رہی ہے.مگر دیکھنا یہ ہے کہ جماعت کی تعداد میں جو ترقی ہو رہی ہے، وہی اس کا اصل باعث تو نہیں.اگر تعداد کے بڑھنے کی وجہ سے قربانی میں ترقی معلوم ہوتی ہے تو پھر یقینا ہم نے کوئی کام نہیں کیا.قربانی میں ترقی کرنے کا مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ ہماری ذاتی قربانی بڑھ جائے.اگر ہم خود کوئی قربانی نہ کریں اور تعداد کے بڑھنے کی وجہ سے کچھ ترقی ہو جائے تو اس ترقی کا ہمارے وجود سے کوئی تعلق نہیں ہو گا.فرض کرو، پہلے پانچ احمدی تھے اور وہ ڈیڑھ روپے کے حساب سے ساڑھے سات روپیہ چندہ دیتے تھے.پھر خدا تعالیٰ نے پانچ نئے احمدی بنا دیے اور وہ دس روپے مزید چندہ دینے لگ گئے.تو یہ لازمی بات ہے کہ اگر پہلے پانچوں کا چندہ ساڑھے سات روپے تھا تو اب ساڑھے سترہ روپے ہو جائے گا.لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہوں گے کہ پہلے پانچ آدمیوں نے قربانیوں میں ترقی کی اور وہ ساڑھے سات روپے سے ساڑھے سترہ روپے پر آ گئے.بلکہ یہ زیادتی ان نئے آنے والوں کی وجہ سے ہوگی.پس وہ نئے احمدی، جو اس دوران میں اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں اگر ان کی وجہ سے ہمیں مالی ترقی ہوئی ہے تو یہ جماعت کی قربانی کا ثبوت نہیں ہوگا.اللہ تعالی کا کام تھا کہ اس نے ان کو ہدایت دے دی.لیکن سوال تو یہ ہے کہ ہمارے ایمانوں میں کون سا تغییر پیدا ہوا اور ہم نے کس قربانی کا ثبوت دیا؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ ، جو قربانیوں میں سستی سے کام لے رہے ہیں، خدا تعالیٰ کے قرب سے دور ہو جاتے ہیں اور اس سطح کے قریب آرہے ہیں، جو انسان کو اللہ تعالیٰ 645
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 23 نومبر 1945ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم کے غضب کا مورد بنادیتی ہے.پس یہ بات سوچنے کے قابل ہے کہ آیا نئے آنے والوں کی وجہ سے ہماری قربانیوں میں ترقی ہوتی ہے یا در حقیقت ہماری جماعت کے لوگ قربانیوں میں ترقی کر رہے ہیں.اس وقت تحریک جدید کے ماتحت بہت سے کام شروع کئے جاچکے ہیں.مگر ان کاموں کو صحیح طور پر چلانے کے لئے مزید قربانیوں کی ضرورت ہے.جس رنگ میں وہ کام ہونے چاہئیں، ابھی تک اس رنگ میں نہیں ہورہے.جس کی بڑی وجہ جماعت کی قربانی کی کمی ہے.اگر ان کاموں کو صحیح طور پر چلایا جائے تو جماعت بہت بڑی ترقی کر سکتی ہے اور اپنے منزل مقصود کو زیادہ سرعت کے ساتھ حاصل کر سکتی ہے.مگر اپنی منزل مقصود کے قریب پہنچا تو در کنار ہماری جماعت کی حالت ویسی ہی ہے، جیسے اس شخص کی ہوگی ، جسے اللہ تعالیٰ دوزخ سے نکال کر باہر کھڑا کر دے گا.ہم بھی اس وقت ایک درخت کے نیچے کھڑے ہیں لیکن جنت کا دروازہ ابھی تک ہم سے بہت دور ہے.بڑی بڑی حکومتوں یا بادشاہتوں کی مخالفتوں کا مقابلہ کرنا تو الگ رہا، ابھی تو تمہاری حالت یہ ہے کہ اگر ضلع کی پولیس تم پر مسلط کر دی جائے تو وہ تم سب کو باندھ کر لے جاسکتی ہے بلکہ ضلع کی پولیس تو الگ رہی ، ایک تھانیدار بھی تم پر رعب جما سکتا ہے.اسلام اور احمدیت کی حکومت تو اس دن قائم ہوگی، جس دن تمہارے ایک ادنیٰ سے ادنی سپاہی کے سامنے بھی بڑے سے بڑے بادشاہ کی گردن جھک جائے اور وہ اس کے سامنے کوئی حرکت نہ کر سکے.مگر بہر حال جس طرح دوزخ سے باہر آیا ہوا انسان، درخت کے نیچے آکر خوش ہوتا ہے، اسی طرح ہم بھی پہلے درخت کے نیچے پہنچ گئے ہیں لیکن جنت ابھی دور ہے.ہاں ہر ترقی جو انسان کو حاصل ہوتی ہے، اس پر اسے خوشی ضرور محسوس ہوتی ہے.جس طرح جب کسی کا بچہ ایک سال کا ہو جاتا ہے اور اس کے دانت نکلنے شروع ہوتے ہیں تو ماں باپ خوش ہوتے ہیں کہ بچے نے دانت نکالنے شروع کر دیئے ہیں.مگر اس خوشی کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ بچہ جوان ہو گیا ہے یا اس کی آئندہ نسل پیدا ہونی شروع ہو گئی ہے.اسی طرح اگر مجھے کوئی کہے کہ آپ نے پچھلے سال بھی جماعت کی ترقی پر خوشی کا اظہار کیا تھا اور اس سے پچھلے سال بھی تو میں اسے یہی کہوں گا کہ تمہارے بچے کے دانت نکلتے ہیں تو تم خوش ہوتے ہو یا نہیں ؟ تمہارا بچہ گھٹنوں چلتا ہے تو تم خوش ہوتے ہو یا نہیں؟ مگر کیا بچے کا دانت نکالنایا اس کا گھٹنوں چلنا اس کا منتہائے مقصود ہوتا ہے؟ اس کا منتہائے مقصود یہ نہیں ہوتا بلکہ اس کا منتہائے مقصود یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک قوی البنیان، کامل فراست اور کامل فہم رکھنے والا انسان بن جائے اور اس کے ذریعے بنی نوع انسان کی ایک اچھی اور نیک بنیاد قائم کی جائے.اگر تم اپنے بیٹے کے دانت نکالنے یا گھٹنوں چلنے پر خوش ہو سکتے ہو تو ہماری یہ خوشیاں کیوں نا واجب ہوسکتی ہیں؟ ہم 646
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 23 نومبر 1945ء پہلے سال بھی خوش تھے ، دوسرے سال بھی خوش تھے، تیسرے سال بھی خوش تھے اور درمیان میں کچھ ایسے سال بھی آئے جن میں ہم پورے طور پر خوش نہیں ہوئے مثلاً گیارھویں سال کی تحریک جو دفتر دوم سے تعلق رکھتی ہے، اس میں جماعت نے اتنا حصہ نہیں لیا، جتنا اسے لینا چاہئے تھا.آخر اس دس سال کے عرصہ میں بچے جوان ہوئے ہیں اور بہت بے کار کام پر لگ گئے ہیں.جو اس وقت آٹھ سال کے تھے ، وہ اب اٹھارہ سال کے ہو گئے ہیں.جو اس وقت نو سال کے تھے ، وہ اب انہیں سال کے ہو گئے ہیں.جو دس سال کے تھے ، وہ اب بیس سال کے ہو گئے ہیں.جو گیارہ سال کے تھے ، وہ اب اکیس سال کے ہو گئے ہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ ان میں سے ڈیڑھ ہزار آدمی ہر سال کمانے والا ہو گیا تو اس عرصہ میں پندرہ ہزار آدمی کمانے والے ہو گئے.لیکن اس کے باوجود مجھے افسوس ہے کہ دفتر دوم میں صرف پچاس ہزار کے وعدے آئے.حالانکہ اس وقت ہمارا تحریک جدید کا سالانہ خرچ تین چار لاکھ کے قریب ہے.اس سے کم کسی صورت بھی گزارہ نہیں ہوسکتا.میں اس کے متعلق ایک گزشتہ خطبہ میں حساب لگا کر بتا چکا ہوں کہ یہ کم سے کم خرچ ہے، جس کے بغیر ہم اپنی تبلیغی کاموں کو وسیع نہیں کر سکتے.ان میں کچھ کام ابھی ابتدائی حالت میں ہیں.بعض سکیمیں ایسی ہیں، جو ابھی تک جاری ہی نہیں ہو سکیں اور بعض جاری تو کی گئی ہیں مگر لوگوں نے ان کی طرف توجہ نہیں کی.حالانکہ کل ان کو افسوس ہوگا کہ ہم نے کیوں اس میں حصہ نہ لیا ؟ چونکہ خدا تعالیٰ کے تمام کام آہستگی سے ہوتے ہیں، اس لئے جماعت کو بھی قدم بقدم چلانا پڑتا ہے اور جوں جوں کسی سکیم کے سامان پیدا ہوتے چلے جائیں گے، اس کو ہم جاری کرتے جائیں گے.یہاں تک کہ ایک دن آئے گا، جب ساری دنیا میں اسلام کا غلبہ ہو جائے گا اور دنیا میں احمدیت ہی احمدیت ہوگی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب بھی دنیا ہمیں تباہ نہیں کر سکتی لیکن ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ جو درخت میں نے لگایا ہے ، اس کا کوئی نہ کوئی پھل بھی دیکھ لوں.خواہ وہ پھل کسی صورت میں ہو مثلاً جو شخص آم لگاتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ اور کچھ نہیں تو میں اپنے آم کی کیری ہی دیکھ لوں.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی اور میں نے تحریک جدید جاری کی.تحریک جدید کے ماتحت تبلیغ اسلام کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا ہے اور سلسلہ کی ترقی پہلے کی نسبت بہت زیادہ ہو رہی ہے.لیکن قدرتی طور پر میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ یہ کام اور بھی ترقی کرے اور میں بھی اس درخت کے پھلوں کو دیکھ لوں اور اسے اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کر سکوں.اللہ تعالیٰ کے کام تو چلتے ہی چلے جاتے ہیں اور ان میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہو سکتی.اگر ہم چلے جائیں گے تو اللہ تعالٰی دوسروں کو لے آئے گا، جو اس کام کو سنبھال لیں گے اور جب وہ 647
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 23 نومبر 1945ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم چلے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی جگہ کچھ اور لوگ کھڑے کر دے گا.لیکن اسے انسانی کمزوری کہ لو یا فطری عمل کہہ لو.یہ بہر حال انسان کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ جس کام کی داغ بیل میں نے ڈالی ہے، اس کے ثمرات کو بھی دیکھ لوں.اس لئے اب جب کہ تحریک جدید کا بارھواں سال شروع ہو رہا ہے ، میں جماعت کے دوستوں سے کہتا ہوں کہ وہ گیارھویں سال کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کریں اور اس طرح اپنے رب کی رضا حاصل کریں.اسی طرح تحریک جدید دفتر دوم کی طرف جماعت کو خاص توجہ سے کام لینا چاہئے.جن دوستوں نے پہلے حصہ نہیں لیا ، وہ اب حصہ لیں اور جن لوگوں نے پہلے حصہ لیا ہے، وہ اپنی رقوم کو بڑھانے کی کوشش کریں.اس وقت تک دفتر دوم میں جن لوگوں نے اپنے وعدے لکھوائے ہیں ، ان کی تعداد بہت کم ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے تحریک جدید کے لئے ہمیں کم از کم تین لاکھ روپیہ سالانہ کی ضرورت ہے.اور ریز روفنڈ کی ضرورت اس کے علاوہ ہے.لیکن وعدے کل پچاس ہزار کے ہیں.جس کے معنی یہ ہیں کہ پہلے دفتر کے وعدوں کی معیاد ختم ہونے پر سب کام اسی طرح ختم ہو جائے گا، جس طرح ایک اونچی عمارت زلزلہ کے دھکے سے گر جاتی ہے.میں نے غور کر کے محسوس کیا ہے کہ شاید دفتر دوم کے وعدوں کے زیادہ سخت شرائط ہیں یا یہ کہ ابھی اس دور کے آدمی ایمان کے اعلیٰ مقام پر نہیں پہنچے.اس لئے بڑی کمی ہے.دفتر دوم کے لئے میں کچھ آسانی کر دیتا ہوں.پہلے میں نے ایک مہینے کی تنخواہ کی شرط رکھی تھی لیکن اب میں نصف اور تین چوتھائی تنخواہ کی بھی اجازت دیتا ہوں.یعنی تینوں طرح چندہ دیا جا سکتا ہے، پورے مہینے کی تنخواہ دے کر بھی اور اگر کوئی پورے مہینے کی تنخواہ نہ دے سکتا ہو تو وہ اپنی تنخواہ کا پچھتر فی صد دے کر بھی اس میں شامل ہو سکتا ہے اور اگر پچھتر فی صدی کا حصہ نہیں دے سکتا تو پچاس فی صدی حصہ دے کر بھی شامل ہو سکتا ہے.لیکن بہر حال ضروری ہوگا کہ انہیں سال تک متواتر قربانی کی جائے اور کچھ نہ کچھ پہلے کی نسبت اپنے چندہ کو بڑھایا جائے.اب چونکہ بہت سے لوگ فوج سے واپس آگئے ہیں اور ان کی تنخواہیں پہلے سے کم ہوگئی ہیں، اس لئے میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہمارا یہ قاعدہ اسی سال کی تنخواہ کے حساب سے ہو گا.خواہ اسے تھوڑی تنخواہ ملتی ہو یا بہت.مثلاً ایک شخص کو فوج میں اڑھائی سو روپیہ ماہوار تنخواہ ملا کرتی تھی لیکن اب اسے پچاس روپے ملتی ہے تو اب اس کا چندہ پچاس روپے ہو جائے گا نہ کہ اڑھائی سور و پیر.ہاں اس کا فرض ہوگا کہ وہ اپنی موجودہ تنخواہ کے لحاظ سے ہر سال کچھ نہ کچھ اضافہ کرتا چلا جائے.آج میری صحت خراب تھی اور میری بیماری مجھے یہاں آنے کی اجازت نہ دیتی تھی لیکن اس کے باوجود میں آگیا ہوں.یہ سمجھتے ہوئے کہ کیا پتہ ہے کہ اگلے سال کی تحریک کے اعلان کرنے کا مجھے موقع 648
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 23 نومبر 1945ء ملے یا نہ ملے؟ اس لئے جتنا حصہ بھی اس تحریک کے ثواب کا اپنی زندگی میں لے سکتا ہوں، لے لوں.چنانچہ میں آج تحریک جدید کے بارھویں سال کا اعلان کرتا ہوں اور وہ دوست ، جنہوں نے اب تک اس میں حصہ نہیں لیا، ان سے بھی کہتا ہوں کہ وہ بھی دفتر دوم میں اپنا وعدہ جلد سے جلد لکھوا دیں اور جو دوست اول یا دفتر دوم میں پہلے سے حصہ لے رہے ہیں، وہ پہلے سے بڑھ کر حصہ لیں.کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے.ایسا موقع نہ سینکڑوں سال میں پہلے کسی جماعت کو ملا ہے اور نہ آئندہ ملے گا.اس وقت اسلام کا جھنڈا بلند کرنا ہماری جماعت کے سپر د کیا گیا ہے.اور اسلام کا جھنڈا تمام دنیا میں بلند نہیں کیا جا سکتا جب تک دوبارہ اس کے سپاہیوں میں وہی روح پیدا نہ ہو جائے ، جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں میں پائی جاتی تھی اور جس کی مثالیں میں اوپر بیان کر چکا ہوں.اسی طرح جو لوگ پہلے بے کار تھے لیکن اب ملازم ہو چکے ہیں یا انہوں نے کوئی اور کاروبار شروع کیا ہوا ہے، ان کو بھی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے ، دفتر دوم میں حصہ لیں.ساتھ ہی میں دفتر والوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ دفتر دوم کو مکمل کرنے اور اس کے وعدوں کو دو تین لاکھ تک پہنچانے کی کوشش کریں.جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ یہ ہمارا کم سے کم خرچ ہے، جوممکن ہے دو تین سال میں پانچ چھ لاکھ تک پہنچ جائے.اگر دفتر دوم کے وعدے کم از کم تین لاکھ تک پہنچ جائیں تو پھر ہم سہولت کے ساتھ اپنی سکیموں کو جاری کر سکتے ہیں.اب جنگ ختم ہو گئی ہے اور غیر ممالک میں جانے کے لئے لوگوں کو سہولتیں مل رہی ہیں.ہمارے نو مبلغ اس وقت تک باہر جاچکے ہیں اور پندرہ سولہ کے قریب تیار بیٹھے ہیں، جو عنقریب مختلف ممالک میں تبلیغ کے لئے جانے والے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں جو مصائب اور تکالیف کا زمانہ ہے، مجھے بہت سی اخبار غیبیہ بتائی ہیں.جن کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی برکات کا سلسلہ شاندار طریق پر دنیا میں ظاہر ہونے والا ہے.اگر ہم اس وقت کام کریں گے تو ویسا ہی ہوگا ، جیسے کہتے ہیں کہ لہو گا کر شہیدوں میں داخل ہوتا.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہماری نصرت کے سامان پیدا ہورہے ہیں اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسلام کی اشاعت کے غیر معمولی سامان پیدا فرمائے گا.تین چار دن ہوئے ، میں نے ایک رویاء میں دیکھا کہ میں عربی بلاد میں ہوں اور ایک موٹر میں سوار ہوں.ساتھ ہی ایک اور موٹر ہے جو غالباً میاں شریف احمد صاحب کی ہے.پہاڑی علاقہ ہے اور اس میں کچھ ٹیلے سے ہیں.جیسے پہل گام، کشمیر یا پالم پور میں ہوتے ہیں.ایک جگہ جا کر دوسری موٹر جو میں سمجھتا ہوں میاں شریف احمد صاحب کی ہے، کسی اور طرف چلی گئی ہے اور میری موٹر اور طرف.ایسا معلوم 649
اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 23 نومبر 1945ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم ہوتا ہے کہ میری موٹر ڈاک بنگلے کی طرف جارہی ہے.بنگلہ کے پاس جب میں موٹر سے اترا تو میں نے دیکھا کہ بہت سے عرب جن میں کچھ سیاہ رنگ کے ہیں اور کچھ سفید رنگ کے، میرے پاس آئے ہیں.میں اس وقت اپنے دوسرے ساتھیوں کی طرف جانا چاہتا ہوں لیکن ان عربوں کے آجانے کی وجہ سے ٹھہر گیا ہوں.انہوں نے آتے ہی کہا:.السلام عليكم ياسيدى.میں ان سے پوچھتا ہوں.من این جئتم؟ کہ آپ لوگ کہاں سے آئے ہیں؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ جئنا من بلاد العرب وذهبنا الى قادیان و علمنا انک سافرت فاتبعناک علمنا انک جئت الى هذا المقام.یعنی ہم قادیان گئے اور وہاں معلوم ہوا کہ آپ باہر گئے ہیں اور ہم آپ کے پیچھے چلے.یہاں تک کہ ہمیں معلوم ہوا کہ آپ یہاں ہیں.اس پر میں نے ان سے پوچھا کہ لای مقصد جئتم؟ کس غرض سے آپ تشریف لائے ہو ؟ تو ان میں سے لیڈر نے جواب دیا کہ جئنا لنستشيرك فى الامور الاقتصادية والتعليمية.اور غالبا سیاسی اور ایک اور لفظ بھی کہا.اس پر میں ڈاک بنگلہ کی طرف مڑا اور ان سے کہا کہ اس مکان میں آجائے ، وہاں مشورہ کریں گے.جب میں کمرہ میں داخل ہوا تو دیکھا کہ میز پر کھانا چنا ہوا ہے اور کرسیاں لگی ہیں اور میں نے خیال کیا کہ شاید کوئی انگریز مسافر ہوں.ان کے لئے یہ انتظام ہو اور میں آگے دوسرے کمرے کی طرف بڑھا.وہاں فرش پر کچھ پھل اور مٹھائیاں رکھی ہیں اور اردگرد اس طرح بیٹھنے کی جگہ ہے جیسے کہ عرب گھروں میں ہوتی ہے.میں نے ان کو وہاں بیٹھنے کو کہا اور دل میں سمجھا کہ یہ انتظام ہمارے لئے ہے.ان لوگوں نے وہاں بیٹھ کر پھلوں کی طرف ہاتھ بڑھایا کہ میری آنکھ کھل گئی.اس رویاء سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اللہ کے فضل سے بلاد عرب میں احمدیت کی ترقی کے دروازے کھلنے والے ہیں.اسی طرح میں نے ایک اور رویاء دیکھا کہ میر قاسم علی مرحوم آئے ہیں.انہوں نے گرم کوٹ اور گرم پاجامہ پہنا ہواہے اور وہ مضبوط جوان معلوم ہوتے ہیں.قاسم علی میں بھی عرب کی طرف اشارہ معلوم 650
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 23 نومبر 1945ء ہوتا ہے.قاسم کے معنی تقسیم کرنے والے کے ہیں اور علی کے معنی بڑی شان والے کے.پھر میر قاسم علی صاحب سید بھی تھے.پس وہ وقت آ گیا ہے کہ لوگ کثرت سے احمدیت کی طرف رجوع کریں گے اور ان کے رجوع کرنے کے سامان خدا تعالیٰ کے فضل سے روز بروز زیادہ سے زیادہ پیدا ہور ہے ہیں.اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کہاں کہاں پہلے احمدیت کے پھیلنے کے رستے کھلیں گے؟ ابھی افریقہ سے ایک علاقہ کے مبلغوں کی اطلاع آئی ہے کہ اگر ہمیں بارہ مبلغ مل جائیں تو ہم دس سال کے اندر اس سارے علاقے کو احمدی بنا سکتے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کی ترقی کے رستے کھل رہے ہیں.صرف ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے قدم کو تیز تر کر دیں اور ہر قسم کی قربانیوں میں خوشی سے حصہ لیں.پس میں آج تحریک جدید کے بارھویں سال کا اعلان کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے رحم سے استمد ادکرتے اور اس کے حضور دعا کرتے ہوئے ، جماعت کے مخلصین سے کہتا ہوں کہ وہ اپنے اخلاص کا اعلیٰ سے اعلیٰ نمونہ پیش کرتے ہوئے ، بارھویں سال میں اپنی حیثیت سے بڑھ کر وعدے لکھوائیں.اور جنہوں نے پہلے حصہ نہیں لیا، وہ دفتر دوم میں حصہ لیں اور انیس سال تک قربانی جاری رکھیں.میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت کے دوست صحیح طور پر قربانی کریں تو دفتر دوم میں تین چار لاکھ تک وعدوں کا پہنچ جانا کوئی مشکل امر نہیں.صرف دوستوں کی توجہ اور ہمت کی ضرورت ہے.پس میں اللہ تعالیٰ پر تو کل کرتے ہوئے تحریک جدید کے بارھویں سال کا اعلان کرتا ہوں اور دوستوں سے کہتا ہوں کہ آگے بڑھو اور احمد بیت اور اسلام کے لئے اپنے مالوں کو قربان کرو.تا کہ جب ہماری موت کا وقت آئے تو ہم خوش ہوں کہ جس کام کو ہم نے شروع کیا تھا، وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور اس کے رحم سے اپنی تکمیل کو پہنچ گیا ہے.وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العلمين (مطبوعہ افضل 17 دسمبر 1945ء) 651
تحریک جدید- ایک الہی تحریک.....جلد دوم وو تبلیغ کی دوحصوں میں تقسیم اقتباس از تقریر فرموده 30 مارچ 1945ء تقریر فرمودہ 30 مارچ 1945ء برموقع مجلس شوریٰ میں یہ بھی بتادینا چاہتا ہوں کہ آئندہ تبلیغ کو میں نے دو حصوں میں منقسم کر دیا ہے.ہندوستان کی تبلیغ کو صدر انجمن احمدیہ کے ماتحت کر دیا ہے اور بیرون ہند کی تبلیغ کو تحریک جدید کے ماتحت کر دیا ہے.اور میں نے ہدایت دے دی ہے کہ صدر انجمن احمد یہ اپنے موجودہ بیرون ہند کے بجٹ تحریک جدید کے سپر د کر دے اور تحریک جدید اپنے ہندوستانی مبلغین اور ان کے بجٹ کو صدرانجمن احمدیہ کے سپرد کر دے.ساتھ ہی میں نے فیصلہ کیا ہے کہ بیرونی جماعتوں کے بجٹ سوائے ہندوستانی جماعتوں کے، جیسے نیروبی ہے، فارن مشنوں کو مضبوط کرنے کے لئے ہی استعمال کئے جائیں.اور ہر ملک کا روپیہ اسی ملک کی تبلیغ پر خرچ ہو، یہاں تک کہ بیرونی مشن خوب مضبوط ہو جائیں.مگر تحریک جدید کے ماتحت وہاں کے مقامی لوگوں کو خود خرچ کر لینے کا اختیار نہ ہو.اگر وہ روپیہ ان کی ضروریات سے بڑھ جائے گا تو بیشک صدرانجمن احمد یہ کو مل جائے گا.مگر جب تک وہ مشن مضبوط نہیں ہوتے ، میرا فیصلہ یہی ہے کہ ان کا چندہ انہی مشنوں پر خرچ ہوتا رہے.یہ چندے بہت تھوڑے ہیں اور غیر ملکی جماعتیں بھی زیادہ نہیں ہیں.صرف عرب، مصر، انگلستان، یونائیڈ سٹیٹس امریکہ اور ویسٹ افریقہ یہی غیر ملکی جماعتیں کہلاتی ہیں اور ان کا چندہ بہت تھوڑا ہوتا ہے.ان غیر ملکی جماعتوں کی طرف سے چندہ نہ آنے سے صدر انجمن احمدیہ کے بجٹ پر کوئی غیر معمولی اثر نہیں پڑ سکتا.لیکن اس کے مقابلہ میں اگر یہ رو پیدا نہی مشنوں پر خرچ کیا جائے تو اس سے ان کی ترقی میں بہت کچھ مددل سکتی ہے.اور ان لوگوں کے اندر یہ احساس پیدا کیا جا سکتا ہے کہ تمہارا روپیہ تمہارے ملک میں ہی تبلیغ اسلام پر خرچ کیا جا رہا ہے تمہیں چاہئے کہ اپنے مشن کو اور زیادہ مضبوط کرنے کی کوشش کرو.میں امید کرتا ہوں کہ چند سالوں میں ہی اس طریق کے ماتحت بیرونی ممالک کے مشن انشاء اللہ مضبوط ہو جائیں گے.اور جب ان کی ضروریات سے چندہ بڑھ گیا تو وہ روپیہ پھر صدرانجمن احمدیہ کو ہی ملنا شروع ہو جائے گا“.وو خدا تعالیٰ بھی ہمارے لئے خوشی کی ہوائیں چلا رہا ہے اور مختلف ملکوں سے اسلام کی ترقی کی خبریں آرہی ہیں.مگر اس کے ساتھ ہی بعض ایسی خبریں بھی آرہی ہیں، جن سے اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنے قدم کو اور زیادہ تیز کر دیں اور تبلیغ کو زیادہ زور اور سرگرمی کے ساتھ پھیلائیں.چنانچہ 653
اقتباس از تقریر فرموده 30 مارچ 1945ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم سیرالیون سے خبر آئی ہے کہ احمدیت کی ترقی کی وجہ سے وہاں عیسائیوں نے منظم طور پر حملہ شروع کر دیا ہے.اس ملک میں زیادہ تر تبلیغ مدرسوں اور سکولوں کے ذریعہ ہوتی ہے اور مدرس چونکہ مسلمان نہیں ملتے ، اس لئے عیسائیوں کو ملازم رکھ لیا جاتا ہے.اب عیسائیوں نے آپس میں مشورہ کر کے عیسائی مدرسین کو ہدایت کی ہے کہ وہ احمدی مدارس میں یہ مطالبہ کریں کہ انہیں اتوار کی چھٹی دی جائے تا کہ وہ گر جائیں شامل ہو سکیں.ان کی پالیسی یہ ہے کہ سرکاری گرانٹ کسی ایسے سکول کو نہیں مل سکتی، جو ہفتہ میں چھ دن سے کم کھلا رہے.ہمارے مدارس میں چونکہ جمعہ کو چھٹی ہوتی ہے اور اسلامی احکام کے لحاظ سے ہونا بھی ایسا ہی چاہئے.اس لئے انہوں نے یہ مطالبہ شروع کر دیا ہے کہ ہمیں اتوار کو چھٹی دی جائے.اس سے ان کا مقصد یہ ہے کہ اگر اتوار کو بھی چھٹی دے دی گئی اور جمعہ کو پہلے ہی چھٹی ہوتی ہے تو ہفتہ میں صرف پانچ دن پڑھائی ہوگی اور سر کاری گرانٹ بند ہو جائے گی.عیسائیوں نے اپنے مدرسین سے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اگر احمد یہ مدارس سے اس مطالبہ کی بناء پر تمہیں علیحدہ کر دیا جائے تو ہم تمہارے لئے نئے سکول کھول دیں گے.وہ جانتے ہیں کہ اگر ان کو ہٹا دیا گیا تو انہیں اپنے سکول بند کرنے پڑیں گے اور اگر ان کا مطالبہ مان لیا تو سرکاری گرانٹ سے محروم رہنا پڑے گا.یہ ایک نیا حملہ ہے، جو سیرالیون میں عیسائیوں کی طرف سے ہماری جماعت پر کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ دشمن کی ان شرارتوں کے بداثرات کو دور فرمائے اور اسے اپنے ارادوں میں نا کام کرے.اس مخالفت کا حقیقی علاج تو یہی ہے کہ ایسے مبلغ ہمارے پاس کثرت سے تیار ہوں، جو اس ملک میں مدرسوں کا کام کریں اور عیسائی مدرسین کی ہمیں ضرورت نہ رہے.لیکن اس کے ساتھ ہی دوسری تجویز میں نے یہ کی ہے کہ ایک نوجوان کو انگلستان بھجوانے کا فیصلہ کر دیا ہے.وہ وہاں سے ایم.اے کی ڈگری حاصل کر کے ویسٹ افریقہ جائے گا اور لنڈن میٹرک کے اصول کے مطابق وہاں ایک سکول جاری کرے گا.جس میں پڑھے ہوئے نو جوانوں کو گورنمنٹ کے قانون کے مطابق بطور مدرس رکھا جا سکے گا.اس موقع پر میں پھر جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہمیں فوری طور پر ایسے نو جوانوں کی ضرورت ہے، جو اپنی زندگیاں وقف کریں تا کہ انہیں افریقہ میں تبلیغ کے لئے بھجوایا جا سکے.اگر ایک سو نو جوان ہمیں ایسے مل جائیں تو ہم مغربی افریقہ کی ضرورت کو ایک حد تک پورا کر سکتے ہیں.ابتداء میں بے شک کچھ خرچ ہو گا لیکن وہاں کی جماعتیں بہت جلد ان کے اخراجات کو برداشت کرنے کا وعدہ کرتی ہیں، اس صورت میں مرکز پر ان کا کوئی بوجھ نہیں رہے گا اور وہ مقامی جماعتوں کے خرچ پر مغربی افریقہ میں تبلیغ کو وسیع کر سکیں گئے.رپورٹ مجلس شوری منعقد ہ 30 مارچ تا یکم اپریل 1945ء) 654
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 1946ء سلسلہ کے کاموں کو عظیم الشان طور پر چلانے کا وقت آگیا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 1946ء سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے آج پھر مجھے خطبہ دینے کی توفیق عطا فرمائی ہے.گوا بھی صحت ایسی اچھی تو نہیں کہ میں بیٹھ کر سجدہ کر سکوں بلکہ تکیوں پر ہی سجدہ کرتا ہوں.سجدہ کرنے کے لئے اگر بیٹھوں تو کھڑا نہیں ہو سکتا اور اگر کھڑا ہوں تو بیٹھنا مشکل ہو جاتا ہے.تین چار دن سے میں بغیر کر چز کے چلتا ہوں، جس کی وجہ سے گھٹنوں میں درد محسوس ہوتا ہے.لیکن ڈاکٹری مشورہ یہی تھا کہ جب اس درد سے آرام آجائے تو مجھے تھوڑا تھوڑا چلنا چاہئے ، تا کہ جوڑ اپنی جگہ پر رک نہ جائیں.میں نے سمجھا کہ اس حالت میں جبکہ میں چلنے لگ گیا ہوں، مجھے خطبہ کے لئے ضرور جانا چاہیے.سیڑھیاں کر چز کے سہارے چڑھ لوں گا اور ممبر تک بغیر کسی سہارے کے چلا جاؤں گا.اگر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور خطبہ سے مجھے کوئی خاص تکلیف پھر دوبارہ نہ ہو جائے اور اپنے فضل سے موجودہ تکلیف کو برداشت کرنے کی طاقت عطا فرمائے تو میں امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ جلد ہی باہر کے کاموں کی دیکھ بھال شروع کر دوں گا.میری یہ بیماری نہ صرف اس لئے تکلیف دہ تھی کہ بیماری تکلیف دہ ہوتی ہے بلکہ یہ اس لئے بھی بہت زیادہ تکلیف کا باعث ہوئی کہ یہ ایسے موقعہ پر آئی جبکہ ہمارے مبلغین کے وفود غیر ممالک کو جانے والے تھے اور جلسہ سالانہ بھی قریب تھا.وفود کا باہر بھیجنا کوئی معمولی کام نہیں.ایک نادان اور کوتاہ بین انسان کے نزدیک کسی وفد کا بھیجنا کوئی اہم کام نہیں.لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے موقع پر بے انتہا کوشش اور متواتر سرعت کے ساتھ تیاری کی ضرورت ہوتی ہے.ہم نے گزشتہ ایام میں چھپیس مبلغ غیر ممالک میں بھیجے ہیں اور آٹھ نو کے قریب تیار ہیں، جو جلد ہی باہر جانے والے ہیں.لیکن ان کے چلے جانے پر ہمارا کام پورا نہیں ہو جائے گا.بلکہ ان پچھپیس مبلغوں کے جانے کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے اپنے گھر کے چھپیں نئے دروازے کھولے ہیں اور جولوگ ان دروازوں میں سے داخل ہوں گے ، وہ اپنی ضروریات کو ہمارے سامنے پیش کریں گے.چنانچہ ایک ملک.سے مبلغین 655
خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 1946ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد دوم کی طرف سے دو تاریں آئی ہیں.ایک تار میں انہوں نے لکھا ہے کہ ہمیں دس مبلغ بہت جلد بھیجے جائیں، کرایہ اور دیگر اخراجات کا انتظام ہم کریں گے.اور دوسری تار میں انہوں نے یہ اطلاع دی ہے کہ جماعت نے مطلوبہ مبلغین کے لئے کرایہ اور دوسرے اخراجات کے لئے کئی ہزار روپیہ جمع کر لیا ہے، اب ہمیں فوراً مبلغین بھیج دیئے جائیں.اسی طرح ایک اور جماعت سے اطلاع آئی ہے، جو ہے تو اس جماعت کی قدرت اور طاقت سے باہر لیکن رپورٹ آئی ہے کہ اس ملک کی جماعت میں ایک جوش پیدا ہو گیا ہے اور آپس میں انہوں نے تجویز کی ہے کہ ڈیڑھ لاکھ یا اس سے زیادہ روپیہ جمع کیا جائے اور پھر خلیفہ وقت کو اپنے ملک میں آنے کی دعوت دی جائے تاکہ مصلح موعود والی خواب میں وہ بھی شریک ہو جا ئیں.کیونکہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میں دوسرے ملکوں کی طرف جا رہا ہوں.وہ چاہتے ہیں کہ اس خواب میں ان کے ملک کا بھی حصہ ہو اور وہ بھی اس میں شریک ہو جائیں.ایک اور جگہ سے تار آئی ہے کہ وہاں انگریزی پڑھانے والے مدرسین کی بہت ضرورت ہے.اور بی.اے، بی.ٹی پاس لوگوں کی وہاں بہت کھپت ہے.گو یہ تبلیغ کا حصہ نہیں لیکن اشاعت اسلام اور تبلیغ احمدیت میں یہ لوگ بہت ممد و معاون ہو سکتے ہیں.یہ سب امور ایسے ہیں، جو فوری طور پر کام کی طرف توجہ چاہتے ہیں.بہر حال ہم ان کی اس مانگ کو پیچھے نہیں ڈال سکتے.اور اس وقت ہمارے پاس ایسے مبلغ موجود نہیں ، جن کو ہم فوری طور پر ان کے پاس بھیج دیں.نئے مبلغ اس صورت میں ان کے پاس بھیجے جا سکتے ہیں کہ وہ لوگ جنہوں نے اپنے آپ کو وقف کیا ہوا ہے اور ان کو ابھی تک بلایا نہیں گیا، ان میں سے کچھ مولوی فاضل ہوں یا بعض انگریزی اعلیٰ تعلیم رکھتے ہوں.مثلاً بی.اے یا ایم اے ہوں.اگر ایف.اے یا انٹرنس پاس ہوں تو انہیں بھی کام پر لگایا جا سکتا ہے.ایسے لوگوں کو وہاں بھیج دیا جائے اور وہاں کے مبلغین ان کو خود تیار کر لیں.لیکن یہ کہ ہم ان کو تیار شدہ مبلغ دیں، یہ ہمارے لئے فی الحال مشکل ہے.مجھے اس بیماری میں دل کو کمزور کرنے والی دوائیاں دی گئی ہیں.کیونکہ اس مرض کا علاج ایسی ہی دوائیوں سے ہوتا ہے.اور چونکہ مجھے دن میں ہر چار چار گھنٹے کے بعد دوائی دی جاتی تھی ، اس لئے طبعی طور پر میرے حافظے پر ان دوائیوں کا اثر پڑا.اور میں بعض دفعہ بات کرتا کرتا بھول جاتا کہ کیا کہنے لگا تھا اور بعض دفعہ دومنٹ کے بعد بات بالکل بھول جاتی تھی.اور اس کی وجہ یہی ہے کہ اس بیماری میں ایسی دوائیاں پلائی جاتی تھیں، جو مجھے ایک قسم کے نشے میں رکھتی تھیں.گودوائی تو نشہ آور نہیں تھی لیکن اس دوائی سے دل کی کمزوری ، ضعف اور نقاہت اتنی ہو جاتی تھی کہ میں مدہوش سارہتا تھا.شاید ہمیں اللہ تعالیٰ اس بیماری سے بھی کوئی سبق دینا چاہتا ہے، اگر ہم اس سے فائدہ اٹھائیں.656
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود و 25 جنوری 1946ء اب میں اس پہلی تقریب پر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں (جلسہ سالانہ پر تو اللہ تعالی کے فضل.جماعت کو خطاب کرنے کی توفیق مل گئی تھی.اس کے بعد کوئی خطبہ یا تقریر نہیں کر سکا.اس لحاظ سے یہ پہلی تقریب ہے.کہ سترہ اٹھارہ ممالک میں ہمارے مبلغین اب گئے ہیں.اور ان میں سے ایک ملک میں ان کے پہنچتے ہی وہاں سے تار آئی ہے کہ ہمیں دس مبلغین کی فوری ضرورت ہے.ان مبلغین کے اخراجات اور کرایہ کے ذمہ دار ہم ہوں گے.میں تمام ایسے واقفین کو جن کو بلایا نہیں گیا، گو وہ اعلیٰ تعلیم نہ رکھتے ہوں لیکن وہ سمجھتے ہوں کہ وہ مبلغ کا کام سنبھال لیں گے، اس غرض کے لئے بلاتا ہوں.اور چاہتا ہوں کہ وہ اپنے ناموں سے ہمیں اطلاع دیں.ہم عموماً اس وقت تک اعلی تعلیم کے لوگوں کو لیتے رہے ہیں.یعنی عربی کے لحاظ سے مولوی فاضل اور انگریزی کے لحاظ سے بی.اے یا ایم.اے ، بعض ایف.اے بھی تھے لیکن دینی لحاظ سے وہ اچھا علم رکھتے تھے.ایسے لوگوں کو ہم لے لیتے ہیں کیونکہ یہ لوگ دنیوی علم تو خود پڑھ سکتے ہیں اور دینی تعلیم ، قرآن کریم کا ترجمہ اور حدیثیں ہم ان کو پڑھا دیتے ہیں.اگر کوئی ایسے نوجوان ہوں، جو انٹرنس یا ایف.اے پاس ہوں لیکن وہ قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہوں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی کتب کا مطالعہ رکھتے ہوں، دینی امور سے واقفیت رکھتے ہوں تو ایسے نو جوانوں کو بھی جلدی باہر بھیجا جا سکتا ہے.پس یہ وقت ہے کہ جماعت کے نوجوان اپنی زندگیاں وقف کر کے اس کامیابی اور کامرانی کو حاصل کر سکتے ہیں، جو اس زمانہ میں احمدیت کے لئے مقدر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک حوالہ آج ہی خدام الاحمدیہ نے شائع کیا ہے.جس سے پتہ لگتا ہے کہ آپ کو کتنی حسرت تھی ، اس بات کی کہ مسلمان اسلام کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں؟ آپ فرماتے ہیں.میں نے بعض اخبارات میں پڑھا ہے کہ فلاں آریہ نے اپنی زندگی آریہ سماج کے لئے وقف کر دی ہے اور فلاں پادری نے اپنی عمر مشن کو دے دی ہے.مجھے حیرت آتی ہے کہ کیوں مسلمان اسلام کی خدمت کے لئے اور خدا کی راہ میں اپنی زندگی کو وقف نہیں کرتے ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مبارک زمانہ پر نظر کر کے دیکھیں تو ان کو معلوم ہو کہ کس طرح اسلام کی زندگی کے لئے اپنی زندگیاں وقف کی جاتیں ہیں ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی اس سے مراد بھی درحقیقت وہی صحابہ کا نمونہ ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ میں زندگی وقف کرنے کا سوال ہی نہیں تھا کیونکہ اس زمانہ میں ہجرت فرض تھی.خواہ کسی حصہ میں کوئی شخص ایمان لاتا ، اس کے لئے حکم تھا کہ فورا ہجرت کر کے مدینہ پہنچو اور خدمت اسلام کے لئے اپنی جان اور اپنا 657
خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 1946ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم مال لگا دو.ہمارے وقف اور صحابہ کے وقف میں فرق صرف اتنا ہے کہ ہم واقفین اپنے ملک سے باہر بھیجتے ہیں.لیکن صحابہ دوسرے ملک سے اپنے ملک میں بلائے جاتے تھے.اس زمانہ میں وقف کی یہ صورت تھی کہ ہجرت کر کے مدینہ پہنچ جاؤ، ہمارے زمانہ میں وقف کی یہ صورت ہے کہ اپنا وطن اور اپنا گھر بار چھوڑ کر غیر ممالک میں اشاعت اسلام کے لئے چلے جاؤ.دونوں صورتوں میں گھر بار چھوڑنا پڑتا ہے، وطن سے بے وطن ہونا پڑتا ہے اور باہر جا کر دشمنوں سے جہاد کرنا پڑتا ہے.پس ہمارے واقف جو حقیقی طور پر اپنے آپ کو وقف کرتے ہیں، وہ بھی مہاجر ہیں.کیونکہ انہوں نے اپنے وطن اور اپنے گھر بار چھوڑ دیئے اور دنیا کے گوشے گوشے میں اللہ تعالیٰ کا نام بلند کرنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے.ہماری جماعت میں ابھی بہت سے نوجوان ایسے ہیں، جنہوں نے اپنی زندگیاں وقف نہیں کیں.اگر وہ اپنی زندگیاں وقف کریں تو میرے نزدیک وہ سلسلہ کے لئے مفید وجود ثابت ہو سکتے ہیں.کتنے افسوس کی بات ہوگی کہ تبلیغ اسلام کے لئے دس آدمیوں کی ضرورت ہو اور وہ بھی پوری نہ ہو اور دوسری طرف جنگ یورپ میں اپنی قوموں کی عزت کو برقرار رکھنے کے لئے لکھوکھا آدمیوں نے اپنے آپ کو پیش کر دیا ہو؟ اب جبکہ اسلامی جنگ شروع ہوئی ہے تو قدرتی بات ہے کہ باہر سے مانگ پر مانگ آئے گی.ابھی پیچھے ہی ایک ملک کے مبلغین نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اگر ہمیں بارہ مبلغ اور مل جائیں تو دس سال کے اندراندر ملک کی اکثریت احمدیت میں داخل ہو جائے گی.وہ تمام قسم کے اخراجات خود برداشت کرنے کا وعدہ کرتے ہیں ، صرف ہم سے کام کرنے والے آدمی مانگتے ہیں.اسی کا نتیجہ ہے کہ افریقہ میں ایک لاکھ شلنگ کا ایک فنڈ قائم کیا گیا ہے کہ جس کی آمد سے ہمارے وہاں کے مبلغ لٹریچر وغیرہ شائع کریں گے.یہ کتنی بیداری اور کتنا جوش ہے، جو ان ممالک میں احمدیت کے لئے نظر آتا ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کے جوش اور اخلاص میں ترقی دے.آمین.دوسری سکیم میں نے وقف تجارت کی جماعت کے سامنے پیش کی تھی.ابھی تک اس تحریک میں ساٹھ ستر نو جوانوں نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے.میرے نزدیک اس میں کمی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوان ابھی تک فوجوں سے فارغ نہیں ہوئے.لیکن اس کے باوجود یہ تعداد کم ہے.اگر یہاں کے لوگ جو فارغ ہیں، وہی اپنے آپ کو پیش کرتے تو یہ تعداد سینکڑوں تک پہنچ جاتی.انہیں دینی فائدہ بھی ہوتا اور وہ دنیوی فائدہ بھی اٹھاتے.تجارت ایک ایسی چیز ہے، جس سے یہ دونوں چیزیں حاصل ہوسکتی ہیں.جس جگہ پر لاکھوں لاکھ روپیہ ہمارا سالانہ خرچ ہونا تھا، اس کی بجائے ہمیں کئی لاکھ روپیہ اس طرح سے مل جائے گا اور تبلیغ بھی 658
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود : 25 جنوری 1946ء ہوتی رہے گی.تجارت کے لئے رستے کھل رہے ہیں اور دوسرے ممالک کے لوگ ہمیں لکھ رہے ہیں کہ آپ آدمی بھیجیں، ہم ان کی ہر قسم کی امداد کریں گے.اسی طرح ہندوستان کے متعلق بھی ارادہ ہے کہ تجارت کے ذریعہ تبلیغ کے دائرہ کو وسیع کیا جائے.اگر ہماری یہ سکیم کامیاب ہو جائے اور انشاء اللہ تعالیٰ ضرور کامیاب ہوگی تو ہمیں مفت میں پانچ ہزار مبلغ مل جائیں گے.بجائے اس کے کہ ہم پانچ ہزار مبلغین پر لاکھوں لاکھ روپیہ خرچ کریں، ان کے ذریعہ ہمیں لاکھوں روپیہ کی آمد شروع ہو جائے گی.فرض کرونی مبلغ ہمیں سور و پی دینا پڑے تو ایک سال کے لئے ہمیں ساٹھ لاکھ روپیہ کی ضرورت ہے.حالانکہ بعض شہر ایسے ہیں، جہاں ایک سو میں گزارہ نہیں ہو سکتا.جیسے بمبئی یا کلکتہ ہے.ایسے شہروں میں تین یا چار سور و پیر ماہوار خرچ دینا پڑے گا.لیکن اگر یہی فرض کریں کہ فی مبلغ ایک سو روپیہ ماہوار دیں تو ایک مہینہ کا خرچ پانچ لاکھ روپیہ بنتا ہے اور ایک سال کا خرچ ساٹھ لاکھ روپیہ بنتا ہے.لیکن اگر ہمارے پانچ ہزار نو جوان تجارتی اصول پر اپنی زندگیاں وقف کریں تو ہمیں یہ ساٹھ لاکھ روپیہ خرچ کرنے کی بجائے پندرہ یا بیس لاکھ روپیہ سالا نہ وہ نوجوان بھجوائیں گے.گویا ایک صورت میں ہمیں پندرہ بیس لاکھ روپیہ کی سالانہ آمد ہوتی ہے اور دوسری صورت میں ہمیں ساٹھ لاکھ روپیہ سالانہ خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے.کتنی مفید اور جماعت کی مالی حالت کو درست کرنے والی یہ سکیم ہے.لیکن اس سکیم کی طرف جماعت نے ابھی تک پوری توجہ نہیں کی.تیسری چیز ، جس کے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، وہ تعلیم ہے.میرا تجربہ ہے کہ جب میں کسی چیز کے متعلق تحریک کروں تو اس کے معا بعد اس چیز کی ضرورت محسوس ہونی شروع ہو جاتی ہے.اب تعلیم کے لحاظ سے اعلیٰ تعلیم والوں کا مطالبہ ہم سے بے انتہا طور پر شروع ہو گیا ہے.دو ملک والوں نے لکھا ہے کہ ہمیں بائیس مبلغین دیئے جائیں اور ابھی ان کے علاوہ سترہ اٹھارہ ملک ایسے ہیں، جہاں ہمارے مبلغین اب گئے ہیں اور ابھی ان کے مطالبے باقی ہیں.اس لحاظ سے ہمیں چار پانچ سو مبلغین کی ضرورت ہے.اور یہ علاقے ایسے ہیں، جن میں ایسے مبلغین کی ضرورت ہے، جو بی.اے یا ایم.اے ہوں.پھر ہمارے محکمے اتنے وسیع ہو گئے ہیں کہ تین سال کے اندر اندر کارکنوں کی تعداد گئی ہوگئی ہے.لیکن اس کے باوجود ہمیں بہت سے کارکنوں کی ضرورت ہے.تحریک جدید نے ابھی اپنے آپ کو منظم نہیں کیا.وقف زندگی کرنے والے نوجوان اس میں اکثر کام کرتے ہیں.اگر ان کو انہیں کاموں پر روک رکھا جائے تو بیرونجات کے مبلغین میں کمی آجائے گی.اس لئے میں نے بار بار تعلیم پر زور دیا ہے.کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ جماعت کو دن بدن تعلیم یافتہ آدمیوں کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے.غیر تعلیم یافتہ آدمی باہر نہیں 659
خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 1946ء تحریک جدید - ایک البی تحریک.....جلد دوم بھیجے جاسکتے ، نہ ہی ان کے سپر د کوئی ذمہ داری کا کام کیا جاسکتا ہے.اسی طرح سلسلہ کی بعض اور سکیمیں جاری ہیں، ان کے لئے بھی ہمیں اعلیٰ تعلیم یافتہ آدمیوں کی ضرورت ہے.اسی طرح سلسلہ کے دفاتر کے لئے بہت سے کارکنوں کی ضرورت ہے.اور ہمارے بعض دفاتر کے کام اسی لئے پوری طرح نہیں ہور ہے کہ ان میں کارکنوں کی کمی ہے.اور نئے آدمی ہمیں اس لئے نہیں مل رہے کہ ہمارے اندر تعلیم کی کمی ہے.ہندوؤں کے اندر اس زمانہ میں بھی پندرہ پندرہ ہیں ہیں روپے کے کلرک مل رہے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اندر تعلیم اتنی زیادہ ہے کہ وہ تمام کے تمام عمدہ نوکریاں حاصل نہیں کر سکتے.اور جو فارغ رہ جاتے ہیں، وہ پندرہ پندرہ ، ہمیں ہیں روپے کی ملازمت اختیار کر لیتے ہیں.ہماری جماعت میں ہندوؤں سے تعلیم نسبتا کم ہے.گو دوسرے مسلمانوں کی نسبت زیادہ ہے.اس لئے ہماری ضرورت پوری نہیں ہوتی.ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری جماعت کے نوجوانوں میں دوسری قوموں کی نسبت زیادہ بیداری ہے اور ہماری جماعت کے نوجوان دوسری مسلم جماعتوں کے نوجوانوں سے محنتی زیادہ ہیں، اس لئے گورنمنٹ کے محکموں میں ان کو عزت کی ملازمت مل جاتی ہے.جس محکمہ میں ایک احمدی افسر ہو ، اس کو کہتے ہیں کہ اور احمدی بلاؤ.ایک محکمہ کے افسر نے مجھ سے ذکر کیا کہ میں اپنے محکمہ میں احمدیوں کو تلاش کر کر کے رکھتا ہوں.حالانکہ میں احمدی نہیں ہوں اور نہ احمدیت سے مجھے کوئی دلچسپی ہے.لیکن میں نے دیکھا ہے کہ احمدی محنتی اور دیانتدار ہوتے ہیں، اس لئے میں احمدیوں کو دوسروں پر ترجیح دیتا ہوں.پس اس قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں، جو احمدیوں کو ان کے محنتی اور دیانتدار ہونے کی وجہ سے بڑی محبت سے ملازم رکھتے ہیں.تو کچھ تعلیم یافتہ طبقہ تو ملازمت میں چلا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دوسری قوموں کی نسبت ہماری جماعت میں ملازمت پیشہ لوگ زیادہ ہیں.اور کچھ حصہ ایسا ہے، جو تجارت میں لگا ہوا ہے اور وہ تجارت کو پسند کرتے ہیں کیونکہ وہ آزاد کام کرنے کے عادی ہیں.پس ان دو چیزوں کی وجہ سے ہمیں تعلیم یافتہ آدمی کم ملتے ہیں.یعنی ایک تو ملازمت اور دوسرے تجارت یا صنعت و حرفت.ان دونوں سے جو بچتے ہیں ، وہ اتنے تھوڑے رہ جاتے ہیں کہ سلسلہ کی ضرورت ان سے پوری نہیں ہوتی.اور ہماری جماعت میں ابھی تعلیم کی اتنی کمی ہے کہ جب کسی علاقہ سے کسی واقف کو قادیان میں باہر بھیجنے کے لئے بلایا جاتا ہے تو علاقے کا علاقہ شور مچانا شروع کر دیتا ہے کہ آپ یہیں اس کو وقف سمجھ لیں ، اس کے علاوہ کوئی شخص اس علاقہ میں کام کرنے والا نہیں ہے.اگر ہماری جماعت میں تعلیم زیادہ ہو تو یہ وقتیں پیش نہ آئیں.اگر ہماری جماعت میں زیادہ مولوی فاضل ہوں تو ہماری مشکلات بہت حد تک دور ہو جائیں.اب تو جامعہ احمدیہ میں طلباء کی 660
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود : 25 جنوری 1946ء تعداد کم ہو گئی ہے.لیکن پھر بھی ایک طرف سارے پنجاب کے مولوی فاضل ہوں اور دوسری طرف ہمارے تو پھر بھی ہمارے مولوی فاضل ان سے کئی گنا زیادہ ہوں گے.لیکن باوجود اس کے پھر بھی ہمارے کاموں کے لئے کم ہیں.آج کل آٹھ ، نو طالب علم مولوی فاضل کا امتحان دیتے ہیں.لیکن غیر احمدی امتحان دینے والے، جو پہلے کم ہوتے تھے ، اب بڑھ گئے ہیں.اسی لئے میں نے تحریک کی ہے کہ دوستوں کو اپنے بچوں کو اعلئے دینی تعلیم کے لئے انہیں مدرسہ احمد یہ میں داخل کرانا چاہیے.اس پر تھیں، پینتیس لڑکے مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے.جن میں سے کچھ داخل ہونے کے بعد کھسکنے شروع ہو گئے.لیکن پھر بھی چھپیں، چھبیس باقی ہیں.لیکن ان چھپیں سے ہمارا کام نہیں بنتا، پچاس سے بھی کام نہیں بنتا، سو سے بھی کام نہیں بنتا.بلکہ ہمیں ہزاروں آدمیوں کی ضرورت ہے.میں نے اس سے پیشتر جماعت کو بتایا تھا کہ اگر سولڑ کا ہر سال جامعہ احمدیہ سے تحصیل علم کے بعد فارغ ہو تو دس سال میں جا کر ہم ہزار مبلغ تیار کر سکتے ہیں.لیکن اگر ہر سال بمشکل پچپیں طلباء جامعہ سے فارغ ہوں تو اس لحاظ سے تو ہم دنیا کی مانگ کو کسی صورت میں پورا کر ہی نہیں سکتے.دنیا کے چاروں طرف سے مبلغین کی مانگ آنے والی ہے اور مبلغین کا کام بہت وسیع ہونے والا ہے.ابھی ابھی ایک جگہ سے دس مبلغین کی اور دوسری جگہ سے بارہ مبلغین کی مانگ آئی ہے.لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کو اس سے زیادہ کی ضرورت ہے.کیونکہ مانگنے والا ڈرتا ہے کہ کہیں زیادہ مطالبہ سے کام بگڑ نہ جائے.بے شک انہوں نے اس وقت بارہ مبلغوں کا مطالبہ کیا ہے.لیکن جب ہم ان کو بارہ مبلغ دے دیں گے تو وہ کہیں گے ، اصل بات یہ ہے کہ اگر آپ چوہیں مبلغ دے دیں تو پھر کام ہو جائے گا.جب چوبیس مبلغ دے دیئے جائیں گے تو پھر کہیں گے کہ ٹھیک اندازہ نہیں ہو سکا اور اندازہ کرنے میں غلطی ہوئی ہے، اگر آپ چھتیس مبلغ ہمیں دے دیں تو کام ہو جائے گا.جب ان کو چھتیں مبلغ دے دیئے جائیں گے تو وہ نہیں گے کہ ہم سے غلطی ہو گئی تھی ، اصل میں تو سو مبلغوں کی ضرورت ہے، اگر آپ سو مبلغ دے دیں تو پھر یہ کام ضرور ہو جائے گا.آخر ملکوں میں تغیر پیدا کرنا اور ان کے مذہب کو بدلنا کوئی آسان کام نہیں.اس کے لئے بہت بڑی جدو جہد اور بہت بڑی قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے.اور غیر ممالک کی جماعتوں کا تو ہمیں یہ بھی فائدہ ہے کہ وہ تبلیغ کا خرچ خود اٹھاتی ہیں اور ہم پر بار نہیں بنتیں.اور بعض ملک مبلغین کا کرایہ وغیرہ بھی خود برداشت کرتے ہیں.ہمارا کام صرف ایسے آدمی بھیجنا ہوتا ہے، جو وہاں جا کر کام کریں.شام فلسطین اور مصر سے جو آمد ہوتی ہے، وہ ہماری اس رقم سے، جو ہم ان کے لئے خرچ کرتے ہیں، کم نہیں ہوتی اور ہمیں کچھ اپنے پاس سے ادا نہیں کرنا پڑتا.گویا وہ حقیقت میں آپ ہی اپنی رقم خرچ کرتے ہیں.661
خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 1946ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم پس اس وقت ایسے تعلیم یافتہ آدمیوں کی ضرورت ہے، جو غیر ممالک میں تبلیغ اسلام کے لئے بھیجے جاسکیں.جیسا کہ میں نے تحریک جدید کے شروع میں کہا تھا کہ اس کے کاموں کو چلانے کے لئے بہت سے آدمیوں کی ضرورت ہوگی.روپیہ پیدا کرنے کے لئے بھی آدمیوں کی ضرورت ہے، تبلیغ کرنے کے لئے بھی آدمیوں کی ضرورت ہے ، صنعت و حرفت کے لئے بھی آدمیوں کی ضرورت ہے، تجارت کے کاموں کو چلانے کے لئے بھی آدمیوں کی ضرورت ہے.پس آج آدمیوں کی ہمیں سخت ضرورت ہے.لیکن ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے، جو خلص اور تعلیم یافتہ ہوں.تعلیم کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے میرے نزدیک سکولوں اور کالجوں میں لڑکوں کی تعداد آٹھ دس گنے بڑھ جانی چاہیے تھی.اس میں شک نہیں کہ ہمارے سکول نے پہلے سے ترقی کی ہے.آج سے چھ، سات سال پہلے ہمارے تعلیم الاسلام سکول میں چھ سات سو کے قریب طالب علم تھے اور اب اس میں سولہ سو سے کچھ او پر طالب علم ہے.لیکن در حقیقت جماعت کی ضرورتوں کے مطابق یہ ترقی کچھ بھی ترقی نہیں ہے.مجھے یہ سن کر بہت افسوس ہوا کہ ہمارے کالج میں جو احمدی لڑکے داخل ہوئے ہیں، ان میں سے اکثر ایسے ہیں، جو تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوئے ہیں.کل کو احمدی والدین کالج کے پروفیسروں پر الزام لگا ئیں گے کہ انہوں نے ہمارے بچوں کو کچھ پڑھایا نہیں.لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے لڑکے خود تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوئے ہیں.ان لکھ ڈویژن کے پاس شدہ لڑکوں کے فیل ہونے پر پروفیسروں پر کیا الزام آ سکتا ہے؟ میں نے جماعت کے دوستوں کو بار بار توجہ دلائی ہے کہ والدین کو بچپن میں بچوں کی پوری نگرانی کرنی چاہیے.جو والدین بچوں کی نگرانی نہیں کرتے اور ان کی تعلیم کی فکر نہیں کرتے ، وہ قتل اولاد نہیں کرتے تو اور کیا کرتے ہیں؟ یہ قتل اولاد نہیں تو اور کیا ہے کہ انسان بچوں کی محبت کی وجہ سے ان کو تعلیم سے غافل رکھے؟ صرف کامیابی ہی مقصود نہیں ہوتی.جنت میں جانے والا انسان ادنی درجہ میں جائے تو اس پر اسے خوش ہونا نہیں چاہیے.جو بچوں کی روحانی تربیت مکمل نہیں کرتے ، ان کی اولا د جنت میں گئی تو ادنی درجہ کی جنت میں جائے گی.اور جو تعلیم میں غفلت کرتے ہیں، ان کی اولاد کے لئے دنیا وی جنت میں سوائے چپڑاسیوں کی جنت کے اور کوئی جگہ نہیں ہے.پس ایسے لوگوں کے لئے نہ دنیا میں عزت ہے اور نہ آخرت میں.ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول نے درس کے دوران میں بیان فرمایا کہ دوزخ عارضی چیز ہے اور کچھ مدت کے بعد دوزخیوں کو دوزخ سے نکال لیا جائے گا اور انہیں اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کر دے گا.(جیسا کہ جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے.) ایک امیر آدمی بھی اس درس میں شامل تھا.کہنے لگا، مولوی 662
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود : 25 جنوری 1946ء صاحب جزاک اللہ پہلے اس بات کا علم نہ تھا اور ڈر رہتا تھا کہ ہمیشہ کی دوزخ میں پڑیں گے.اب یہ بات سن کر سر سے بوجھ اتر گیا ہے کہ آخر تو سب جنت میں اکٹھے ہو جائیں گے.اس پر حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ میں تمہیں چھپیں روپے دیتا ہوں، تم باہر نکل کر پانچ جو تیاں کھا لو.اس پر وہ بہت سٹ پٹایا اور کہنے لگا مولوی صاحب شرم کی بات ہے ، آپ نے عالم ہو کر ان طالب علموں کے سامنے میری بڑی بے عزتی کر دی.آپ نے فرمایا کہ اگر تمہیں ان طالب علموں کے سامنے اتنی بات پر اعتراض ہے تو جہاں تمہارے باپ، دادے، پڑدادے سب جمع ہوں گے اور دوزخ میں تمہیں سب کے سامنے پچاس ہزار سال تک جو تیاں پڑیں گی کہ تم دوزخ کے عارضی ہونے پر خوش ہو گئے ہو، وہاں تمہیں شرم نہ آئے گی.لیکن ہمارے لوگ کہتے ہیں، شکر ہے لڑ کا پاس تو ہو گیا ہے.ان کو یہ علم نہیں کہ جوں جوں تعلیم آگے چلتی ہے ، مشکل ہوتی چلی جاتی ہے.سکولوں کا نتیجہ عام طور پر ستر یا پچھتر فیصدی ہوتا ہے لیکن کالج میں جا کر وہی نتیجہ پنتالیس فیصدی ہو جاتا ہے.حالانکہ کالج میں پڑھنے والے تو وہی طلباء ہوتے ہیں، جو ان سکولوں سے جاتے ہیں، جہاں ان کا نتیجہ ستر یا پچھتر فیصدی ہوتا ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ طالب علم کالج میں جا کر کند ذہن ہو جاتے ہیں.بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ معیار تعلیم بلند ہو جاتا ہے.پس جولڑ کا پہلے ہی سکول میں تھرڈ ڈویژن میں پاس ہونے کا عادی ہو ، وہ کالج میں جا کر کیا ترقی حاصل کر سکتا ہے؟ ایف.اے اور بی.اے میں تو بعض لڑکے پھر بھی فرسٹ ڈویژن حاصل کرتے ہیں.لیکن ایم اے میں جا کر فسٹ ڈویژن حاصل کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے.بعض یونیورسٹیاں ایسی ہیں کہ جن میں آج تک کوئی طالب علم ایم.اے کا فرسٹ ڈویژن میں پاس نہیں ہوا.ہمارا ایک احمدی لڑکا ہے، اس نے انٹرنس میں بھی ریکارڈ قائم کیا ، ایف.اے میں بھی ریکارڈ قائم کیا ، بی.اے میں بھی ریکارڈ قائم کیا.سنا گیا ہے کہ جب وہ لڑکا ایم.اے میں آیا تو ہندو پروفیسروں نے غصے سے اسے کہا کہ دیکھو ہم تمہاری خبر لیں گے.وہ شاید کوئی الزام لگا کر خبر لیں گے.لیکن اس سال خبر آئی ہے کہ ایک ہندولڑکے کو انہوں نے سو فیصدی نمبر دے دیئے ہیں تا کہ آئندہ کوئی لڑکا یہ نہ کہہ سکے کہ اس نے ریکارڈ قائم کیا ہے.اگر سو فیصدی نمبر بھی حاصل کر لے گا تو اتنے نمبر لینے والا ایک لڑکا پہلے موجود ہو گا.اگر یہ بات درست ہے تو اس طرح انہوں نے اس احمدی لڑکے کا رستہ بند کر دیا ہے.بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ جوں جوں طالب علم کالج کی اوپر کی کلاسوں میں جاتا ہے تعلیم سخت ہوتی جاتی ہے.اگر انٹرنس سے ہی طلباء تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوں تو وہ ایف.اے میں جا کر فیل ہو جائیں گے اور اگر کچھ طالب علم پاس بھی ہو جا ئیں تو وہ بی اے میں جا کر فیل ہو جائیں گے.وہ شخص جو اپنے لڑکے کے تھرڈ ڈویژن میں پاس ہونے پر خوش ہوتا ہے، اس کی مثال ایسی 663
خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 1946ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد دوم ہی ہے، جیسے گنا پہلیں تو رس تو ہمارا دشمن لے جائے اور چھل کا ہم لے آئیں.جس کا کچھ حصہ ہم جلا دیں اور کچھ حصہ سے کچھی وغیرہ بنالیں.تم خود ہی بتاؤ کہ کون فائدہ میں رہاہم یا ہمارا دشمن ہم دشمن کا مقابلہ اسی صورت میں کر سکتے ہیں جبکہ ہم اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلائیں.خالی تھرڈ ڈویژن میں کسی بچے کا پاس ہو جانا کوئی خوشی کی بات نہیں بلکہ اس بات پر خوش ہونا بھی بہت شرم کی بات ہے.تعلیم کی کمی کی ذمہ داری صرف والدین اور جماعت پر ہی نہیں بلکہ سکول والوں پر بھی ہے.کیونکہ لڑکے دن کا اکثر حصہ سکول میں گزارتے ہیں.سکول والے کیوں ان کی نگرانی نہیں کرتے اور کیوں ان کو محنت سے کام کرنے کی تاکید نہیں کرتے ؟ والدین تو ان اوقات میں اپنے بچوں کی نگرانی نہیں کر سکتے.پس میرے نزدیک بہت حد تک اس معاملہ میں سکول پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس نے کیوں نگرانی نہیں کی؟ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ ننانوے فیصدی ذمہ داری اس کی اساتذہ پر ہے.کیا وجہ ہے کہ ہمارے سکول کے طالب علم لکھے ہوتے ہیں لیکن آریہ سکولوں کے طالب علم ہوشیار ہوتے ہیں؟ کیا احمدی گھر میں پیدا ہونے کی وجہ سے نعوذ باللہ ان پر نحوست چھا جاتی ہے؟ کیا احمدی گھر میں پیدا ہونے کی وجہ سے ان کا دماغ خراب ہو جاتا ہے؟ میں اس بات کو کبھی مان نہیں سکتا کہ بچوں کے دماغ اچھے نہیں.بلکہ میں کہتا ہوں تمہارے دس سال کی پڑھائی نے اس کا دماغ خراب کر دیا ہے.جب وہ لڑکا قادیان میں رہتا ہے، اس کے والدین بھی قادیان میں رہتے ہیں تو جب وہ لڑکا سکول سے غیر حاضر ہوتا ہے، استاد کیوں سورہتے ہیں؟ کیوں اس کے والدین کو نہیں کہتے کہ تمہارے لڑکے میں فلاں خرابی ہے، اس کو دور کرو؟ کیوں استادوں پر افیون کھانے والے کی سی حالت طاری رہتی ہے؟ اور کیوں نہیں وہ پانچویں چھٹے دن بولتے کہ ان لڑکوں میں یہ خرابی ہے؟ اور کیوں مقامی لڑکوں کے والدین کے سامنے اس بات کا ذکر نہیں کرتے ؟ اور جولڑ کے بورڈر ہیں، ان کے تو وہ خود ذمہ دار ہیں.ان کے والدین نے انہیں ان کے سپرد کیا ہے.وہ ان کی تعلیم اور ان کے اخلاق کے ذمہ دار ہیں.پس بورڈروں کے لئے ان کے پاس کیا بہانہ ہے؟ کیونکہ وہ تو چوبیس گھنٹے انہیں کے پاس رہتے ہیں.ایسے بہانے کرنے سے تو بہتر ہے کہ زمین پھٹ جائے اور یہ بہانے کرنے والے اس میں سما جائیں.اگر بے حیائی سے کام لیا جائے تو اور بات ہے.لیکن اگر یہ استادلڑکوں کی نگرانی کرنا چاہتے ، کیا وہ ایسا نہیں کر سکتے تھے ؟ اور جولڑ کے باوجود ان کے سمجھانے کے اپنی اصلاح نہ کرتے ، وہ ان کے والدین سے کہتے.اگر وہ بھی اصلاح کیلئے کوشش نہ کرتے تو مقامی انجمن سے کہتے ، بار بار جلسے کرتے اور ان کے والدین کو توجہ دلاتے.ہٹلر نے دس سال میں اپنی وام کے خیالات بدل ڈالے اور ان میں ایک ایسی روح بھر دی کہ وہ اس کے لئے جان پر کھیلنے کو تیار ہو 664
خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 1946ء تحریک جدید- ایک الجی تحر یک...جلد دوم گئے.ہر ایک بات کا انتظام خلیفہ یا انجمن کرے، یہ نہیں ہو سکتا.آخر یہ اساتذہ کس مرض کی دوا ہیں؟ ان کی ایسی ہی مثال ہے.جیسے کہتے ہیں کہ دو پوستی ایک بیری کے درخت کے نیچے لیٹے ہوئے تھے.ان کے پاس سے ایک سپاہی گزرا تو ان میں سے ایک نے اس سپاہی کو آواز دی.میاں سپاہی خدا کے واسطے میری بات سننا.سپاہی سمجھا کہ بے چارہ کوئی مصیبت میں مبتلا ہو گا.جب وہاں گیا تو دیکھا کہ دو آدمی لیٹے ہوئے ہیں.سپاہی نے ان سے پوچھا کیوں بھئی تم نے کیس لئے مجھے بلایا ہے؟ ان میں سے ایک نے کہا، میاں سپاہی تمہیں اس لئے بلایا ہے کہ یہ بیر جو میری چھاتی پر پڑا ہے ، ذرا تکلیف کر کے میرے منہ میں ڈال دینا سپاہی کو بہت غصہ آیا.ایک تو بات ہی غیر معقول تھی اور دوسرے وہ تھا بھی سپاہی.اس نے اسے گالیاں دینی شروع کیں.خبیث، بدمعاش تو نے مجھے سو گز سے بلایا.کمبخت تیرے ہاتھ موجود نہیں کہ تو چھاتی سے بیر اٹھا کر منہ میں ڈال لے.اس کا ساتھی بولا ، میاں سپاہی یہ ایسا کمبخت ہے کہ اس کی بات کچھ نہ پوچھ.ساری رات کتامیر امنہ چاہتا رہا ہے، اس نے ہشت تک نہیں کی.یہی حال ہمارے ان اساتذہ کا ہے.ہر کام میں کہتے ہیں کہ انجمن کچھ نہیں کرتی ، خلیفہ ہماری مدد نہیں کرتا.ان سے کوئی پوچھے کہ پڑھانا تم نے ہے یا ہم نے ؟ کیا ہمارے پاس کوئی اور کام نہیں ہے؟ ہم اپنے محکموں کا کام کریں یا تمہارا کریں؟ یہ تمہارا فرض تھا کہ اگر لڑ کے کام نہیں کرتے تھے تو تم ان کے ماں باپ کو بلاتے اور ان کو ان کے حالات سے آگاہ کرتے ،محلوں میں جلسے کرتے اور ان کو اس کی طرف متوجہ کرتے ، آخر محبت اور پیار کے ساتھ ہزاروں باتیں ہو جاتی ہیں.پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ تم ان کو محبت اور پیار سے بار بار کہتے ، ان کے والدین کو توجہ دلاتے تو وہ لڑکے سدھر نہ جاتے ؟ اگر بفرض محال بار بار توجہ دلانے کے بعد بھی کچھ رہ جاتے جو اس طرف متوجہ نہ ہوتے تو پھر تم ان کو قواعد کے مطابق سزائیں دیتے.یہ سب کچھ ہو سکتا ہے.لیکن وہ چاہتے ہیں کہ آرام سے بیٹھے رہیں اور ان کا کام کوئی اور کر دے.پس میرے نزدیک اس کی کلی طور پر ذمہ داری سکول کے عملہ پر ہے اور کالج کے لڑکوں کی ذمہ داری کالج کے عملہ پر ہے.اگر سکول یا کالج کا نتیجہ خراب ہو اور کالج یا سکول کا عملہ اس پر عذر کرے تو میں تو کہوں گا ، یہ منافقانہ بات ہے.اگر لڑ کے ہوشیار نہیں تھے، اگر لڑکے محنت نہ کرتے تھے اور اگر لڑ کے پڑھائی کی طرف متوجہ نہ ہوتے تھے تو ان کا کام تھا کہ وہ ایک ایک کے پاس جاتے اور ان کی اصلاح کرتے.اگر وہ متوجہ نہ ہوتے تو ان کے والدین کو اس طرف متوجہ کرتے اور ان کو مجبور کرتے کہ وہ تعلیم کو اچھی طرح حاصل کریں.ہماری جماعت کے لئے اعلی تعلیم کا حصول اب نہایت ضروری ہے.اگر ہم میں اعلی تعلیم یافتہ نہ ہوں گے تو ساری سکیم فیل ہو جائے گی کیونکہ کام پر کام نکل رہے ہیں.جس کی وجہ سے مانگ پر مانگ آرہی 665
خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 1946ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم ہے.صنعت و حرفت کا محکمہ ہے، اس کے ماتحت محکمہ والے نئی نئی سکیمیں بنا کر لاتے ہیں.میں کہتا ہوں، اس کے لئے آدمی لاؤ مگر چونکہ آدمی نہیں ہوتے ، اس لئے سکیم رہ جاتی ہے.اگر پچاس سکیموں کے چلانے کا اس وقت موقع ہوتا ہے تو آدمیوں کی قلت کی وجہ سے بمشکل ایک یا دو سکیمیں چلتی ہیں.اور اس طرح ایک دن کا کام نہیں، چھپیس دن میں ہوتا ہے.پس ہمیں آدمیوں کی ضرورت ہے اور آدمیوں کی ضرورت کا ایک حصہ ماں باپ پورا کر سکتے ہیں اور دوسرا حصہ سکول اور کالج کے لوگ پورا کر سکتے ہیں.جامعہ احمدیہ، مدرسہ احمدیہ اور دوسرے باہر کے احمد یہ مدارس اس حصہ کو پورا کر سکتے ہیں، بشرطیکہ وہ صحیح رنگ میں کوشش کریں اور اپنی ذمہ داری کو سمجھیں.ہمیں سوچنا چاہیے کہ اگر آدمی نہ ملے تو لڑائی کس طرح لڑی جاسکتی ہے؟ آخر یہ تو بات نہیں کہ پھونکیں مارنے سے کام ہو جائے گا.ہماری جماعت کی موجودہ حالت میں آدمیوں کے نہ ملنے کی وجہ سے ویسی ہی مثال ہے، جیسے بخارا میں مولویوں نے کہا.جب روس نے بخارا پر حملہ کیا تو مولویوں نے یہ فتویٰ دے دیا کہ آگ سے عذاب دینا منع ہے اور چونکہ تو پوں میں آگ استعمال ہوتی ہے اور بندوقوں میں بھی.اس لئے جو شخص توپ اور بندوق استعمال کرے گا، وہ کافر ہو جائے گا.اس وجہ سے بخارا والوں نے ان کے مقابل پر تو ہیں اور بندوقیں نہ بنا ئیں.جب روس نے حملہ کر دیا تو چونکہ بخارا والے تو پہیں اور بندوقیں نہیں چلا سکتے تھے ، اس لئے وہ تلواریں اور نیزے لے کر میدان جنگ میں ان کے مقابل پر آئے.ان کے میدان جنگ میں آنے پر تو بچوں نے گولے برسانے شروع کر دیئے.بھلا توپ کے آگے تلوار کا کیا کام؟ دو تین گولوں سے ہی کئی آدمی مارے گئے اور باقی سب ڈر کر بھاگ آئے.اور انہوں نے علماء کو کہا کہ وہ تو قابو نہیں آتے ، بہت سخت ہیں.علماء نے کہا، اچھا ہم وہ آلے لے کر جن سے بکریوں کے لئے پتے چھاڑے جاتے ہیں، جائیں گے اور کافروں کے پاؤں میں ڈال ڈال کر ان کو ھینچیں گے.چنانچہ وہ گئے اور انہوں نے قرآن کریم کی آیتیں پڑھ پڑھ کر ان کی طرف پھونکیں مارنی شروع کر دیں.ابھی دو، چار گولے ہی پڑے تھے کہ مولوی بھاگ نکلے اور میدان صاف ہو گیا.واپس آکر کہنے لگے کہ بہت خبیث شیطان معلوم ہوتے ہیں، جن پر قرآن بھی اثر نہیں کرتا.ہماری جماعت کو ہر ایک عقلمند تسلیم کرتا ہے اور سب کو یہ اعتراف ہے کہ عقلمندوں کی جماعت ہے.پھر بھی عقل و شعور رکھتے ہوئے معلوم نہیں کیوں جماعت ان مولویوں کی طرح اپنی جہالت کا ثبوت مہیا کر رہی ہے؟ آخر جماعت کو عقلمندی سے کام لینا چاہیے.جہاں روپے کی ضرورت ہے، وہاں ہماری جماعت کو روپیہ دینا پڑے گا.جہاں آدمیوں کی رورت ہے، وہاں ہماری جماعت کو آدمی پیدا کرنے ہوں گے.666
تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود : 25 جنوری 1946ء روس کو دیکھو ، انہیں آدمیوں کی ضرورت تھی.جنگ سے پہلے روس کی آبادی سترہ کروڑ تھی.اڑھائی کروڑ کی آبادی انہوں نے لکھی چیز خدادی، نہ دھیلے دی، نہ پادی“ کے مطابق مختلف علاقوں پر قبضہ کر کے بڑھالی، یہ بیس کروڑ ہو گئے.جنگ میں اس کے ایک کروڑ کے قریب لوگ مر گئے لیکن پانچ کروڑ کی نسل انہوں نے پیدا کر لی ہے.اور اب روس کی آبادی کا اندازہ 25-24 کروڑ کا ہے.گویا ایک کروڑ آدمی کے مرنے کے باوجود بھی انہوں نے اپنے ملک کی آبادی بڑھالی ہے.یہ زندہ قوموں کی علامت ہے.بعض لوگ یہ کوشش کرتے ہیں کہ زیادہ بچے ہوں تو خرچ کس طرح چلے گا؟ اس لئے نسل کم کی جائے.لیکن زندہ قومیں اس کی پروا نہیں کرتیں.وہ کہتے ہیں ، ہمیں آدمیوں کی ضرورت ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کمی کو پورا کر ہیں.اسی طرح اگر تعلیم یافتہ آدمیوں کی ضرورت ہو تو پھر وہ اس کمی کو پورا کرتی ہیں.اگر تجارت اور صنعت و حرفت کی ضرورت ہو تو اس طرف متوجہ ہو جاتی ہیں.غرض جس چیز کی بھی ضرورت ہو، زندہ قومیں فورا اس طرف متوجہ ہو کر اس کمی کو پورا کر لیتی ہیں.اور در حقیقت بیداری کے معنی یہی ہیں کہ جہاں کہیں سوراخ ہو ، اس کو بند کر دیا جائے.مگر یہاں یہ حالت ہے کہ استاد کہتے ہیں، والدین اس طرف متوجہ نہیں ہوتے اور والدین کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے لڑکے ان کو سونپ دیئے ہیں ، اب ان کا فرض ہے کہ وہ ان کی اصلاح کریں.اور ان والدین کا کہنا ایک حد تک صحیح بھی ہے.کیونکہ انہوں نے اپنی اولاد ان کے سپرد کر دی ہے.اب استادوں کا کام ہے کہ ان کی طرف متوجہ ہوں اور ان کی اصلاح کریں.اگر ان کی اصلاح نہیں ہوئی اور اگر وہ اپنا کام صحیح طور پر نہیں کرتے اور نالائق ثابت ہوتے ہیں تو یہ ان اساتذہ کی نالائقی کا ثبوت ہوگا.اساتذہ کو تو چاہیے تھا کہ وہ لڑکوں اور ان کے والدین کو بار بار سمجھاتے، کبھی کسی محلے میں جلسے کرتے اور کبھی کسی محلہ میں.جس محلہ میں جلسہ کرتے ، اس محلہ کے طالب علموں کے والدین کو بلاتے اور انہیں بتلاتے کہ آپ کا لڑکا اتنے دن سکول سے غیر حاضر رہا ہے، اس میں یہ کمزوری اور خامی ہے.اس طرح والدین کو بھی ان کی کمزوری اور خامی کا علم ہوتا.اگر تم اس طرح نہیں کرتے تو والدین کو کیا پتہ کہ وہ روزانہ سکول کا کام کرتا ہے یا نہیں ؟ یا جو کام اس کو اسکول سے ملا ہے، اس نے کیا ہے یا نہیں ؟ اگر والدین کو ان کی ان خامیوں کا علم ہو تو وہ پھر اس کی طرف متوجہ ہوں گے.شروع میں شاید نہ بھی ہوں لیکن تم انہیں اس بات پر مجبور کر دو کہ یا تو ہمیں اجازت دو کہ ہم مار پیٹ کر ان کی اصلاح کریں اور یا پھر خودان کو با قاعدہ بناؤ.اس طرح یقینا لڑکے سدھر جائیں گے.دیکھو جب چندے کی تحریک شروع ہوئی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے ایک پیسہ سے شروع کیا تھا.مگر اب کم ہی ایسے ہوں گے، جو چندہ نہ دیتے ہوں یا جو چندوں میں سستی کرتے 667
خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 1946ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد دوم ہوں.ورنہ اکثریت ہماری جماعت میں ایسے ہی لوگوں کی ہے، جو دو آنے فی روپیہ یا تین آنے فی روپیہ یا چار آنے فی روپیہ بلکہ پانچ آنے فی روپیہ تک چندہ دے دیتے ہیں.( یعنی چندہ عام اور دوسرے چندے تحریک جدید وغیرہ کے ملا کر.) یہ سب ترقی آہستہ آہستہ ہوئی ہے.میں مانتا ہوں کہ یکدم کوئی تغیر نہیں ہو سکتا لیکن یہ تمہارا کام تھا کہ تم جلسے کرتے ، والدین کو توجہ دلاتے ، بار بار محلوں میں جاتے اور لوگوں کو بتاتے کہ ہمارے سکول کا نتیجہ خراب ہوتا ہے، ہمیں شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے.آپ لوگ کیوں اپنے بچوں کی نگرانی نہیں کرتے ؟ کیوں ان کی پڑھائی کی طرف توجہ نہیں رکھتے ؟ کیوں وہ آوارگی کی طرف مائل رہتے ہیں؟ یا تو آپ اس کا انتظام کریں یا ہمیں سزا کی اجازت دیں؟ اگر وہ ایسا کریں تو اساتذہ کے لئے کوئی نہ کوئی رستہ ضرور نکل آئے گا.یا تو والدین اس کی خود اصلاح کریں گے یا ان کو سزا کی اجازت دے دیں گے.لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسے وقت میں جبکہ ہمیں تعلیم یافتہ آدمیوں کی ضرورت ہے، سکول والے ہمارے ساتھ تعاون کرنے کی بجائے عدم تعاون کر رہے ہیں.اور ہماری امداد کرنے کی بجائے انہوں نے سٹرائیک کی ہوئی ہے.جو نکھے اور نکھد لڑکے ہوتے ہیں، وہ ہمیں دیتے ہیں.نہ وہ تعلیمی لحاظ سے اچھے ہوتے ہیں ، نہ ان کو محنت کی عادت ہوتی ہے.جب ان کو کسی کام پر لگایا جاتا ہے تو وہ بھاگنا شروع کر دیتے ہیں.معاہدے پر دستخط کرتے ہیں، پیاسا رہوں گا ، ایک پیسہ تک سلسلہ سے نہ لوں گا ، جنگلوں میں جاؤں گا، پہاڑوں میں جاؤں گا، جہاں جانا پڑے، مجھے کوئی عذر نہ ہوگا ، اپنی جان ومال اور عزت کی قربانی کروں گا.لیکن جب اس کو کسی جگہ مقرر کیا جاتا ہے تو وہاں سے بھاگ جاتا ہے اور ساتھ ہی خط بھی لکھ دیتا ہے کہ چالیس روپے میں گزار نہیں ہو سکتا، اس لئے میں اس کام کو چھوڑنے پر مجبور ہوں ، مجھے معاف کیا جائے اور مجھے واقفین میں ہی سمجھا جائے.کجاوہ وعدہ جو اس نے ہمارے ساتھ کیا تھا اور کجا اس کا یہ فعل.ایک واقف نے لکھا کہ میں اداس ہو گیا تھا اور وہاں میرا دل نہیں لگتا تھا ، اس لئے میں وہاں سے گھر آگیا ہوں، مجھے معاف کیا جائے.امید ہے کہ میرے وقف کو توڑا نہیں جائے گا.مجھے حیرت آتی ہے کہ ایسے شخص کا وقف کس طرح قائم رہ سکتا ہے؟ میدان سے بھاگ کر اپنے ماں باپ کی بغل میں بیٹھا رہے یا بیوی کے پاس وقت گزارے اور اس کا وقف بھی قائم رہے، یہ تو عقل کے بالکل خلاف ہے.ہر واقف مجاہد ہے اور مجاہد پر اللہ تعالیٰ نے بہت بڑی ذمہ داریاں ڈالی ہوئی ہیں.ان کو پورا کرنے والا ہی مجاہد کہلانے کا مستحق ہوسکتا ہے.میرے نزدیک نوجوانوں میں محنت سے کام نہ کرنے کی عادت کی ذمہ داری استادوں اور والدین پر عائد ہوتی ہے کہ کیوں انہوں نے بچوں کو محنت اور مشقت کا عادی نہیں بنایا ؟ 668
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 1946ء ہمارا مقابلہ تو ان قوموں سے ہے، جن کے نوجوانوں نے چالیس، چالیس سال تک شادی نہیں کی اور اپنی عمریں لیبارٹریوں میں گزار دیں اور کام کرتے کرتے میز پر ہی مرگئے اور جاتے ہوئے بعض نہایت مفید ایجاد میں اپنی قوم کو دے گئے.مقابلہ تو ایسے لوگوں سے ہے کہ جن کے پاس گولہ بارود اور دوسرے لڑائی کے ہتھیار نہ رہے تو انہوں نے امریکہ سے ردی شدہ بندوقیں منگوائیں اور انہیں سے اپنے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو گئے.انگلستان والوں نے کہا کہ بے شک جرمن آجائے ، ہم اس سے سمندر میں لڑیں گے.اگر سمندر میں لڑنے کے قابل نہ رہے تو پھر اس سے سمندر کے کناروں پر لڑیں گے.اور اگر سمندر کے کناروں پر لڑنے کے قابل نہ رہے تو ہم اس سے شہروں کی گلیوں میں لڑیں گے.اور اگر گلیوں میں لڑنے کے قابل نہ رہے تو ہم گھروں کے دروازوں تک مقابلہ کریں گے.اور اگر پھر بھی مقابلہ نہ کر سکے تو کشتیوں میں بیٹھ کر امریکہ چلے جائیں گے.مگر اس سے جنگ کرنا ترک نہیں کریں گے.ہمارا مقابلہ تو ایسے لوگوں سے ہے اور ہمیں ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ایسے نو جوان دیئے جاتے ہیں، جو کہتے تو یہ ہیں کہ ہم بھو کے رہیں گے، کہتے تو یہ ہیں کہ ہم جنگلوں اور پہاڑوں اور ویرانوں میں جائیں گے، کہتے تو یہ ہیں کہ ہم وطن سے بے وطن ہوں گے، کہتے تو یہ ہیں کہ ہم اپنی ہر ایک عزیز چیز کو قربان کرنے کے لئے تیار رہیں گے.لیکن جب ان کو کام پر لگایا جاتا ہے تو کوئی کہہ دیتا ہے کہ میرا چالیس روپے میں گزارہ نہیں ہو سکتا ، اس لئے بھاگ آیا ہوں.کوئی کہہ دیتا ہے کہ میرا وہاں دل نہیں لگتا تھا، اس لئے میں کام چھوڑنے پر مجبور ہوا اور ساتھ ہی لکھ دیتا ہے کہ سلسلہ میرے اس فعل پر برا نہ منائے اور میرا وقف قائم رکھا جائے.جاتا تو وہ اپنے ماں باپ یا بیوی کی معیت میں وقت گزارنے کے لئے ہے کیونکہ وہ اداس ہو گیا تھا.لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی کہتا جاتا ہے کہ میرا وقف قائم رکھا جائے.ایسے نوجوان ہیں، جو ہمیں دیئے جاتے ہیں.ان سے کسی نے کام کیا لینا ہے؟ ہمیں تو ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے کہ جہاں ان کو کھڑا کیا جائے ، وہ وہاں سے ایک قدم بھی نہ ہیں.سوائے اس کے کہ ان کی لاش ایک فٹ ہماری طرف گرے تو گرے.لیکن زندہ انسان کا قدم ایک فٹ آگے پڑے، پیچھے نہ آئے.ہمیں تو ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے اور یہی لوگ ہیں ، جو قوموں کی بنیاد کا کام دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے متعلق فرماتا ہے کہ ان میں سے ہر آدمی کفن بر دوش ہے.فَمِنْهُم مَّن قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يُنْتَظِرُ کہ ان میں سے کچھ لوگوں نے اسلام کی راہ میں اپنی جانیں دے دی ہیں اور کچھ انتظار کر رہے ہیں.یہ وقف ہے، جو دنیا میں تغیر پیدا کیا کرتا ہے.669
خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 1946ء تحریک جدید - ایک البی تحریک.....جلد دوم پس اساتذہ اور والدین کا فرض ہے کہ وہ بچوں کی پورے طور پر نگرانی کریں اور انہیں محنت کا عادی بنا ئیں نماز، روزہ اور دیگر اسلامی احکام کا ان کو پابند کریں ، دین کے کاموں کے متعلق ان کے اندر دلچسپی پیدا کریں.اساتذہ طالب علموں کے ماں باپ کو انگیخت کریں کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم کا پورا پورا خیال رکھیں.اور حقیقت یہ ہے کہ مائیں ہی اپنے بچوں کے آئندہ اچھے یا برے مستقبل کی ذمہ دار ہوتی ہیں کیونکہ بچہ اکثر اخلاق چھوٹی عمر میں سیکھتا ہے.اگر مائیں کڑی نگرانی کریں اور ان کے اندر کوئی بری عادت پیدا نہ ہونے دیں تو وہ بڑے ہو کر بہت حد تک بری عادات سے محفوظ رہتے ہیں.لیکن اگر بچپن میں ہی بچے کو چوری کی یا جھوٹ بولنے کی یا کوئی اور بری عادت پڑ جائے اور والدین پیار کی وجہ سے اسے اس عادت سے باز نہ رکھیں تو وہ بڑا ہو کر اس عادت کو نہیں چھوڑ سکتا.ہمارے ملک میں مشہور ہے، کہتے ہیں کہ کوئی ماں تھی.اس کا لڑ کا چور ہو گیا.پھر چور سے ڈا کو بنا.ایک دفعہ ڈا کہ میں اس سے قتل ہو گیا اور اس قتل کی وجہ سے اسے پھانسی کی سزا ملی.جب اسے پھانسی دینے لگے تو اس نے کہا کہ مجھے اجازت دی جائے کہ میں اپنی ماں سے ایک بات کرلوں.اس پر ماں کو بلایا گیا.جب وہ آئی تو اس نے کہا کہ میں اس سے کان میں بات کرنا چاہتا ہوں.انہوں نے کہا اسی طرح کر لو.اس نے اپنا منہ ماں کے قریب لے جا کر زور سے اس کے کلے کو کاٹا.ماں چیچنیں مارتی ہوئی پیچھے کو بھاگی.لوگوں نے اس کو لعنت ملامت کی کہ تم بڑے بد کردار آدمی ہو.تمہیں پھانسی مل رہی ہے اور پھر بھی تم نے اس سے عبرت حاصل نہیں کی اور تمہارا دل نرم نہیں ہوا.اب تم نے ماں کے کلے پر کاٹ کھایا ہے.اس نے کہا، آپ لوگوں کو علم نہیں کہ مجھ کو یہ پھانسی میری ماں کی وجہ سے مل رہی ہے.میراکلہ کا نما پھانسی کے مقابلہ میں کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتا.اصل بات یہ ہے کہ میری ماں کو میری جگہ پھانسی ملنی چاہیے تھی.پھر اس نے بتایا کہ میں چھوٹا بچہ تھا لیکن آوارہ پھرا کرتا تھا.اگر کوئی شخص میری ماں سے میرے متعلق کوئی شکایت کرتا تو میری ماں اس سے لڑتی تھی کہ میرا بچہ تو ایسا نہیں.یہ لوگ دشمنی سے ایسا کہتے ہیں.پتہ نہیں کیوں ان کو میرے بچے سے دشمنی ہوگئی ہے؟ میرا بچہ تو نالائق نہیں.میں مدرسے سے پنسل، کاغذ قلم دوات وغیرہ چرا کر لاتا تو میری ماں مجھے کہتی ، یہاں نہ رکھو کوئی دیکھ لے گا، وہاں پر رکھو.اگر کوئی شخص میری چوری کے متعلق شکایت کرتا تو میری ماں اسے گالیاں دیتی کہ ناحق میرے بچے کو بدنام کر رکھا ہے.ان باتوں سے میں چور بنا اور پھر چور سے ڈاکو بنا.پھر ڈا کہ میں مجھ سے قتل ہوا، جس کی وجہ سے مجھے پھانی پر لٹکایا جار ہا ہے.اس قتل کی ساری ذمہ داری میری ماں پر ہے.اس لئے اس کا کلہ کا نا جانے کی بجائے در حقیقت پھانسی کی سزا اسے ملنی چاہیے تھی نہ کہ مجھے.اس 670
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود : 25 جنوری 1946ء طرح بعض لڑکے اپنے آپ کو وقف کرنا چاہتے ہیں اور ماں باپ روکتے ہیں کہ زندگی وقف نہ کرو.بلکہ کسی دوسری جگہ ملازمت کرلو، چندہ سے دین کی خدمت کرتے رہنا.حالانکہ جہاں آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں چندہ سے کام نہیں بنتا.میرے نزدیک اس کی ایک حد تک ذمہ داری لجنہ اماءاللہ پر بھی ہے.اگر لجنہ اماء اللہ دین کی ضرورتوں اور وقف کی اہمیت کو اچھی طرح عورتوں کے ذہن نشین کرا دے تو سال کے اندراندر جس طرح کہتے ہیں کہ زمین نے اپنا کلیجہ نکال کر باہر رکھ دیا، اسی طرح عورتیں بھی اپنا کلیجہ نکال کر باہر رکھ دیں.عورتوں کا کلیجہ اولا د ہوتی ہے، اگر مائیں اپنے لڑکوں کو زندگی وقف کرنے اور دوسرے دینی کاموں میں حصہ لینے کی تحریک کریں تو میں سمجھتا ہوں کہ بہت زیادہ نوجوان اپنے آپ کو وقف کرنے لگ جائیں.اسلامی تاریخ میں ایک واقعہ آتا ہے کہ اسلامی لشکر کو ایک جگہ کچھ شکست ہوئی.حضرت عمر نے تمام آدمی، جو مہیا کئے جاسکتے تھے، اس لشکر کی مدد کے لئے بھیج دیئے.مگر لشکر پھر بھی کم تھا.ایرانی لشکر کی تعداد ایک لاکھ تھی اور مسلمانوں کی تعداد میں ہزار تھی.اور جس مقام پر یہ جنگ ہورہی تھی ، اس مقام کے درمیان اور مدینے کے درمیان کوئی روک نہ تھی.اسلامی جرنیل نے اس وقت ایک تقریر کی کہ تم آج اسلام کے احیاء اور بقاء کے ذمہ دار ہو.اگر تم آج شکست کھا گئے تو تمہارے اور مدینے کے درمیان کوئی فوج نہیں ، جو اس لشکر کو روک سکے.اگر دشمن یہاں سے نکل گیا تو سیدھا مدینے پر جا کر حملہ کرے گا.اس وقت خنسا نامی ایک مشہور شاعرہ عورت نے اپنے تینوں لڑکوں کو بلایا اور کہا تمہارا باپ بد کار تھا.میں اپنے بھائی سے قرض لا لا کر اسے دیتی رہی.آخر وہ مر گیا.تم چھوٹے چھوٹے رہ گئے.میں نے محنت مزدوری کر کے تمہیں پالا اور اپنی ساری زندگی پاکیزگی اور پاکدامنی سے گزاری اور تم ان تمام باتوں کے گواہ ہو.انہوں نے کہا ، ہاں.پھر خنساء نے کہا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تمہیں بہت محنت مشقت سے پالا ہے اور اس کے بدلے میں نے تم سے کوئی خدمت نہیں لی.انہوں نے کہا، ہاں ٹھیک ہے.پھر ماں نے کہا تم میرے تین بچے ہو اور تمہارے بغیر میرا دنیا میں کوئی نہیں اور میری محبت تمہاری خدمت سے ظاہر ہے.دیکھو آج اسلام پر ایسا وقت ہے کہ اسے لڑائی کے لئے آدمیوں کی ضرورت ہے.اس لئے تم لڑائی میں جاؤ.اگر شام کو فتح پا کر لوٹے تو زندہ لوٹنا نہیں تو تمہاری لاشیں میدان جنگ میں پڑی ہوئی نظر آئیں.اگر تم نے میرا یہ حکم نہ مانا تو میں قیامت کے دن تمہیں دودھ نہیں بخشوں گی.لڑکوں نے کہا، ہاں اماں ہمیں منظور ہے.یہ کہہ کر وہ روانہ ہو گئے.سب سے بڑی مصیبت جو مسلمانوں کو اس جنگ میں پیش آئی، وہ یہ تھی کہ ایرانی 671
خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 1946ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم اس جنگ میں لڑائی کے سدھائے ہوئے ہاتھی مقابلہ پر لے آئے تھے.جب کوئی گھوڑایا اونٹ ہاتھیوں کے سامنے آتا تھا تو بھاگ جاتا تھا.ایک مسلمان جرنیل آیا اور اس نے ان تینوں میں سے دو بھائیوں کو کہا کہ تم میرے ساتھ مل کر چلو.ہم سامنے سے ہاتھیوں پر حملہ کر دیں.گوموت یقینی ہے لیکن امید ہے کہ اس طرح باقی مسلمان بچ جائیں گے.انہوں نے کہا، ہمیں منظور ہے.ہاتھی پر سامنے سے حملہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے.کیونکہ جولڑائی کے لئے سدھائے ہوئے ہاتھی ہوتے ہیں، وہ آدمی کو سونڈ میں لپیٹ کر زمین سے اٹھا کر دے مارتے ہیں.انہوں نے جاتے ہی سردار لشکر کے ہاتھی پر حملہ کر دیا.دونوں بھائیوں میں سے ایک ہاتھی کے دائیں طرف ہو گیا اور دوسرا بائیں طرف اور وہ جرنیل خود سامنے کھڑا ہو گیا.جب سامنے سے جرنیل حملہ کرتا تو ہاتھی دائیں بائیں منہ پھیر تا.جب ہاتھی دائیں طرف منہ کرتا تو دائیں طرف والا اس کی سونڈ پر تلوار مارنے کی کوشش کرتا.ہاتھی اسے اپنی سونڈ سے اٹھا کر زمین پر دے مارتا.پھر جب ہاتھی بائیں طرف منہ کرتا تو دوسرا بھائی اس کی سونڈ پر تلوار مارنے کی کوشش کرتا.ہاتھی اسے بھی اپنی سونڈ سے اٹھا کر زمین پر دے مارتا لیکن وہ دونوں بھائی اس کے پہلوؤوں سے نہ ہے.حتی کہ انہوں نے اسے بری طرح زخمی کر دیا.آخر ہاتھی گھبرا کر پیچھے بھاگا.اس ہاتھی کا بھا گنا تھا کہ دوسرے اس کے ساتھ کے ہاتھی بھی بھاگ نکلے.اور ہاتھیوں کے بھاگنے سے دوسرے لشکر میں کھلبلی مچ گئی اور سارا ایرانی لشکر بھاگ نکلا.اور اسلامی لشکر نے فتح پائی.پس یہ بھی عورتیں تھیں، جنہوں نے اپنے بچوں کا میدان جنگ میں شہید ہونا پسند کیا اور نا کامی کی صورت میں ان کا منہ دیکھنا پسند نہ کیا.اور آج وہ عورتیں ہیں کہ بچوں کو زندگی قربان کرنے کی تعلیم دینا تو الگ رہا.انہیں زندگی وقف کرنے سے روکتی ہیں.اصل بات یہ ہے کہ عورتوں میں جذباتی رنگ بہت غالب ہوتا ہے.اگر ان کے جذبات سے اپیل کی جائے تو وہ نیکی میں کہیں کی کہیں نکل جاتی ہیں.ایک جنگ میں حضرت سعد کمانڈر تھے.ان کو ایک نو مسلم سپاہی کے متعلق شکایت پہنچی کہ اس نے شراب پی ہے.حضرت سعد نے اسے قید کر دیا.حضرت سعدؓ کے سرین میں گھنیر تھا، اس لئے سواری پر نہ بیٹھ سکتے تھے.آخر عرشہ بنوایا گیا اور عرشے پر نیم دراز ہو کر حضرت سعد احکام جاری فرماتے رہے.جہاں حضرت سعد کا خیمہ تھا ، اس کے پاس ہی وہ سپاہی قید تھا.جس وقت لڑائی کے نعرے بلند ہوتے یا لڑائی کے میدان سے کوئی افسوسناک آواز آتی تو یہ نو مسلم غصے کی وجہ سے زنجیر کو کھینچتا اور کہتا اے کاش! میں آج جنگ میں شریک ہوتا.کوئی مسلمان ایسا ہے، جو مجھے آزاد کر دے.گو میں گنہ گار تو ہوں لیکن اسلام کا درد میرے 672
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود : 25 جنوری 1946ء سینے میں دوسرے سے کم نہیں.مگر مسلمان سپاہی اس کو آزاد کرنے کی جرات نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ حضرت سعد کی ناراضگی سے ڈرتے تھے.آخر ان کی بیوی نے کہا کہ خواہ کچھ ہو جائے ، میں اس کی زنجیر کھول دیتی ہوں، مجھ سے اس کی یہ حالت نہیں دیکھی جاتی.انہوں نے اس کی زنجیر کھول دی اور اسے آزاد کر دیا.وہ منہ پر نقاب ڈال کر مسلمانوں میں شامل ہو گیا.مسلمان لشکر کے ساتھ مل کر وہ جس جگہ بھی حملہ کرتا باقی لشکر کے دل بھی بڑھ جاتے تھے.جب شام کولڑائی بند ہوئی تو وہ بھاگ کر اپنی جگہ پر آ گیا اور حضرت سعد کی بیوی نے اس کو پھر زنجیر لگادی.حضرت سعہؓ کو شک پڑتا تھا کہ آج حملہ کے وقت فلاں آدمی معلوم ہوتا تھا کیونکہ حملہ تو اسی طرح کرتا تھا.پھر کہتے وہ تو قید ہے، وہ نہیں کوئی اور ہوگا.اگلے دن پھر جب لڑائی شروع ہوئی تو حضرت سعد کی بیوی نے اسے کھول دیا اور وہ پھر مسلمانوں کے لشکر میں جا ملا اور نہایت شجاعت اور بہادری سے دشمن کے لشکر پر حملہ کرتارہا.آخر شام کو جب مسلمانوں کو فتح ہوئی اور حضرت سعد ” کوشک پڑ گیا کہ حملہ کے وقت مجھے وہی سپاہی معلوم ہوتا تھا ، جسے میں نے قید کیا ہوا ہے.بیوی سے کہا تمہاری شرارت معلوم ہوتی ہے.معلوم ہوتا ہے تم نے اسے کھول دیا تھا.میں تمہیں قانون شکنی کی سزا دوں گا.بیوی نے کہا آپ جو سزا چاہیں، مجھے دیں.لیکن میری غیرت نے یہ برداشت نہ کیا کہ میرا خاوند تو محض لڑائی کا نظارہ دیکھتار ہے اور جس شخص کو اسلام کا اس قدر درد ہو کہ وہ لڑائی کی آوازوں پر زنجیر توڑنے کی کوشش کرے، اسے اس طرح قید رکھا جائے.بیوی کی یہ دلیرانہ بات سن کر حضرت سعد کا رض غصہ جاتا رہا اور انہوں نے اس نو مسلم کو معاف کر دیا.پس عورتوں میں جذباتی رنگ غالب ہوتا ہے.لجنہ اماءاللہ کا فرض تھا کہ وہ عورتوں کے سامنے بیان کرتی کہ آج اسلام کو ان کے نوجوان لڑکوں کی ضرورت ہے.آج اسلام کو ان کے خاوندوں کی ضرورت ہے.آج اسلام کو مالوں کی ضرورت ہے.اور ان کا فرض ہے کہ وہ ہر چیز بلا در یخ پیش کر دیں.اگر یہ طریق اختیار کیا جاتا تو مجھے یقین ہے کہ وہ لوگ، جو ایمان میں کمزور تھے ، وہ بھی اعلیٰ اخلاص کا نمونہ پیش کرتے.ایک شخص نے مجھے بتایا کہ مجھے تو میری بیوی نے پختہ احمدی بنایا ہے.جب میں تنخواہ لے کر آتا تو وہ مجھے کہتی ہے کہ کیا آپ چندہ دے آئے ہیں؟ میں کہتا ہوں کہ کل دے دوں گا تو وہ کہتی ہے کہ میں اس مال سے کھانا نہیں پکاؤں گی.اس پر بسا اوقات مجھے آدھی آدھی رات کو جا کر چندہ دینا پڑا.اور جب میں رسید دکھاتا تب وہ کھانا پکاتی نہیں تو کہہ دیتی کہ میں حرام روپیہ سے کھانا نہیں پکاؤں گی.پس اگر عورتیں ہمارا ساتھ دیں اور وہ بچوں سے کہیں کہ اگر تم زندگی وقف نہ کرو گے، اگر تم اپنے اندرد بیداری پیدا نہ کرو گے تو میں تمہیں اپنا دودھ نہیں بخشوں گی.اور میں خدا تعالیٰ سے کہوں گی کہ اس نے 673
خطبہ جمعہ فرمودہ 25 جنوری 1946ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد دوم میرا حق ادا نہیں کیا.میرا بیٹا، میرا عاق ہے، اس نے میرا کہا نہیں مانا.تو تھوڑے ہی عرصے میں کا یا پلٹ سکتی ہے.اگر مائیں یہ طریق اختیار کریں تو نانوے فیصدی لڑکوں کی اصلاح ہو جائے اور نانوے فیصدی لڑ کے تعلیم میں تیز ہو جائیں اور ان کے اندر بیداری اور قربانی کی روح پیدا ہو جائے.میں اس موقع پر جماعت کی عورتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے لڑکوں کو تحریک کریں کہ وہ دین کے لئے اپنی زندگی وقف کریں.اور جن لڑکوں کو سلسلہ قبول نہیں کرتا ، ان کو تحریک کریں کہ وہ اپنے خرچ سے بچا ہوا رو پید اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے دیں.اگر ان کے لڑکے اس کام کے لئے تیار نہ ہوں تو ہر ماں کا فرض ہے کہ وہ اپنے بیٹے سے کہہ دے کہ تم نے میرا حق ادا نہیں کیا اور میں قیامت کے دن خدا کے سامنے تمہارے متعلق کہہ دوں گی کہ یہ میرا نا فرمان بیٹا ہے، اس نے میرا کہا نہیں مانا.میں دیکھتا ہوں کہ سلسلہ کے کاموں کو عظیم الشان طور پر چلانے کا وقت آگیا ہے.لیکن ہم اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے ، جب تک عورتیں ہمارے ساتھ تعاون نہ کریں.جس دن عورتیں یہ طریق اختیار کریں گی ، تم سمجھ لو کہ لڑکوں کی اصلاح کرنا بہت آسان ہو جائے گا.اور وہ زندگی کے ہر شعبہ میں بیداری سے کام کرنے لگیں گے.پس تعلیم کی ترقی ہماری جماعت کے لئے از حد ضروری ہے.تعلیم انسان کو صحیح راستہ تلاش کرنے اور حقیقت کے سمجھنے میں بہت مدددیتی ہے.اور جو کام بھی انسان کرے، اس کے لئے اس میں آسانیاں پیدا کرتی ہے.ایک دوست نے ذکر کیا کہ میرا دادا احمدی تھا لیکن باپ غیر احمدی.میں نے خیال کیا کہ میرا دا دا بزرگ آدمی تھا، وہ ناحق پر نہیں ہو سکتا.کوئی صداقت ضرور ہوگی، جس کی وجہ سے اس نے احمدیت کو قبول کیا.چنانچہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا اور میں احمدی ہو گیا.اب یہ نتیجہ اس کی تعلیم کا نکلا.اگر غیر تعلیم یافتہ ہوتا تو اسے ایسا خیال بھی نہ آتا.خیال آتا تو ان پڑھ ہونے کے سبب سے کتب نہ پڑھ سکتا.کواس وقت کی پس جماعت کو اس وقت سینکڑوں نہیں ، ہزاروں تعلیم یافتہ آدمیوں کی ضرورت ہے.صدر انجمن احمدیہ کے لئے بہت سے کارکنوں کی ضرورت ہے.تحریک جدید کے لئے بہت سے کارکنوں کی ضرورت ہے.علاوہ ان کے پانچ ہزار واقفین تجارت کی ضرورت ہے.اور ہماری یہ ضرورت پوری نہیں ہو سکتی ، جب تک جماعت تعلیم کو زیادہ سے زیادہ مضبوط نہ کرے.ہماری جماعت میں اس قدر بی.اے اور ایم.اے ہونے چاہئیں کہ ہم پہلے اپنی ضرورت کو پورا کریں اور جو ہماری ضرورت سے بچیں، وہ ہم 674
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم جدید-ایک خطبه جمعه فرمود : 25 جنوری 1946ء گورنمنٹ کو دے سکیں.میں دیکھتا ہوں کہ بہت سرعت کے ساتھ جماعت کی ترقی کے دروازے کھل رہے ہیں.اور وہ چیز جو ہمیں دور نظر آتی تھی، بہت جلد آنیوالی ہے.جس رنگ میں لوگوں میں بیداری اور توجہ پیدا ہورہی ہے، وہ بتاتی ہے کہ یوسف گم گشتہ کی خوشبواب آ رہی ہے.وہ ہماری ہی کوتاہی اور غفلت ہوگی کہ ہم قافلہ نہ لے جائیں اور وہاں سے یوسف کو اپنے گھر نہ لے آئیں.( مطبوع افضل 30 جنوری 1946ء) 675
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرموده یکم فروری 1946ء عرش پر بیٹھا خدا تمہیں اپنے دین کی خاطر قربانی کرنے کے لئے بلاتا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ یکم فروری 1946ء سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.چونکہ یہ دن دوائی کی باری کے ہیں اور ان دواؤں سے مجھے ضعف کی شکایت ہو جاتی ہے، اس لئے میں زیادہ بول نہیں سکتا.صرف اختصار ا جماعت کو میں پھر اس مضمون کی طرف توجہ دلاتا ہوں ، جس کی طرف میں نے گزشتہ جمعہ میں بھی توجہ دلائی تھی.بالخصوص اس امر کی طرف میں جماعت کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اس وقت متواتر مبلغین کی مانگیں آرہی ہیں.بیرون ہند سے ہی نہیں بلکہ ہندوستان سے بھی.اور بعض لوگ اپنے خرچ پر بھی مبلغ رکھنے کے لئے تیار ہیں.مگر ہمارا مبلغین کا خزانہ بالکل خالی ہو چکا ہے.وہ مبلغ، جو باہر گئے ہیں، ابھی ان کے قائم مقام بھی ہمارے پاس پورے نہیں.قریبا 25 مبلغ باہر جاچکے ہیں لیکن ان کے قائم مقام ہمارے پاس صرف دس ہیں، جواس وقت تعلیم پارہے ہیں اور ان میں سے بعض ایک لمبے عرصہ کے بعد تعلیم سے فارغ ہوں گے.چنانچہ جو طالب علم آئندہ نکلنے والے ہیں، ان میں سے اکثر ایسے ہیں، جو تین سال کے اندر بھی فارغ نہیں ہو سکتے.کچھ چار سالوں میں فارغ ہوں گے اور کچھ پانچ سالوں میں.پس جماعت کے وہ نوجوان ، جن کے دلوں میں باہر جانیوالے لوگوں کے کارنامے پڑھ پڑھ کر گدگدیاں پیدا ہوتی ہیں اور انہیں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش ہم بھی یہ کام کر سکتے ، ان کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ نیک تحریکیں بھی دور کے طور پر آیا کرتی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، جب کوئی شخص نیکی کا کام کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سفید نقطہ لگ جاتا ہے اور جب کوئی برا کام کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے.اسی طرح سیاہ اور سفید نقطے بڑھتے چلے جاتے ہیں.یہاں تک کہ اگر کسی کی نیکیاں غالب آجاتی ہیں تو اس کا سارا دل سفید ہو جاتا ہے اور اگر کسی کی بدیاں غالب آجاتی ہیں تو اس کا سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے.پس جب کسی شخص کے دل میں نیکی کی تحریک پیدا ہو، اس کو چاہئے کہ جلد اس کی طرف قدم اٹھائے.ورنہ اگر بار بار تحریک کے باوجود اس کا قدم نہ اٹھا تو نتیجہ یہ ہوگا کہ رسول کریم صلی اللہ ) 677
خطبه جمعه فرموده یکم فروری 1946ء تحریک جدید - ایک البی تحریک.....جلد دوم علیہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق ایک دن اس کا دل پورے کا پورا سیاہ ہو جائے گا.ہماری جماعت کے لئے یہ خطرہ بہت زیادہ ہے.اس لئے کہ متواتر اور متواتر اور متواتر ہر جمعہ اور ہر تقریب پر ان کو خدا تعالیٰ کے دین کی طرف بلائے جانے کے لئے آواز بلند کی جاتی اور دین اسلام کے لئے قربانی کرنے کے لئے تحریک کی جاتی ہے.ہر ذریعہ کو استعمال کر کے اسلامی اور قرآنی شواہد کو استعمال کر کے صحابہ کی بے نظیر قربانیوں کا نمونہ بنا کر ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہشات کو بیان کر کے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات کو پیش کر کے، آپ کے زمانہ کے صحابہ کی قربانیں پیش کر کے عقل کے ساتھ زمانہ کے حالات اور زمانہ کے مفاسد دکھا دکھا کر ، غرض ہر رنگ میں تحریک کی جاتی ہے.اور جب بھی وہ تحریک ہوتی ہے، نو جوانوں کے دلوں میں ہمیشہ خیال پیدا ہوتا ہوگا کہ ہم بھی اس پر عمل کریں.لیکن پھر ارد گرد کی مشغولیتیں، دوستوں کی مجلسیں اور اپنے عزیزوں اور ماں باپ کی حاجتیں حائل ہو جاتی ہوں گی.ان کے دل کا سفید نقطہ مرجھانا شروع ہو جاتا ہوگا اور اس کی جگہ سیاہ نقطہ لگ جاتا ہوگا.اور ہر دفعہ جب یہ تحریک ہوتی ہوگی ، بجائے ان کو نیکی کی طرف توجہ دلانے کے ان کے سفید نقطہ کو آہستہ آہستہ سیاہ نقطہ میں تبدیل کر دیتی ہوگی.پس جہاں یہ بار بار کی تحریکیں جماعت کے ایک حصہ میں بیداری پیدا کرنے کا موجب ہیں، وہاں دوسرے حصہ کے لئے خطرناک بھی ہیں.کیونکہ وہ انہیں نظر انداز کرنے کے بعد اپنے دل پر سیاہ نقطہ لگانے کا موجب ہو جاتے ہیں.پس جماعت کے دوستوں کو جن کے دلوں میں ان تحریکوں سے کوئی نیکی کا ارادہ پیدا ہوتا ہے، چاہئے کہ جلد از جلد اپنے مقصود اور نیک ارادوں کو پورا کرنے کے لئے قدم اٹھا ئیں.دنیا میں انسان پیدا بھی ہوتے ہیں اور مرتے بھی ہیں، دنیا میں مغلوب بھی ہوتے ہیں اور غالب بھی ہوتے ہیں مگر سب سے زیادہ خوش قسمت وہ لوگ ہوتے ہیں، جو نبی کے زمانہ میں پیدا ہوتے ہیں اور سب سے زیادہ خوش قسمت وہ قوم ہوتی ہے، جو اس کے ابتدائی زمانہ میں ایمان لاکر خدا تعالیٰ کے نبی کے ساتھ ہر قسم کی قربانی میں شریک ہو جائے.اس کے مقابلہ میں سب سے زیادہ بد قسمت لوگ وہ ہوتے ہیں، جنہوں نے نبی کا زمانہ پایا لیکن اس کو نہ مانا.پھر سب سے زیادہ بد قسمت وہ شخص ہوتا ہے، جس نے نبی کا زمانہ پایا اور خدمت کے مواقع بھی آئے لیکن اس نے خدمت نہ کی اور آسمانی تحریک اور آسمانی آواز کو کمزور کرنے کا موجب ہو گیا.پس میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ یہ کام کا وقت ہے، باتیں بنانے کا وقت نہیں.خدا تعالیٰ تمہارے دلوں پر نگاہ کئے بیٹھا ہے، دنیا کے بادشاہ نہیں.بعض دفعہ ایک معمولی انسان بھی خداتعالی دلوں پر بیٹا ہے،دنیا دفعہ 678
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد دوم - خطبه جمعه فرموده یکم فروری 1946ء آواز بلند کرتا ہے تو لوگ اپنے جوابوں کے ذریعہ فضا میں گونج پیدا کر دیتے ہیں.کسی جگہ گاندھی جی کی آواز اٹھتی ہے تو لوگ پروانہ وار اس کی طرف بھاگتے ہیں کسی مجلس میں مسٹر جناح کی آواز اٹھتی ہے تو لوگ پروانہ وار اس کی طرف دوڑتے ہیں.مگر تم جانتے ہو تمہیں کس کی آواز بلا رہی ہے؟ میری نہیں کسی اور انسان کی نہیں، کسی اور بشر کی نہیں بلکہ عرش پر بیٹھے ہوئے خدا نے ایک آواز بلند کی ہے.تمہیں پیدا کرنے والا رب تمہیں اپنے دین کے لئے قربانی کرنے کے لئے بلاتا ہے.دنیوی لیڈروں کی آواز پر لبیک کہنے والوں کی لبیک کا نتیجہ موت یا فتح ہو سکتی ہے اور دائی موت بھی نتیجہ ہوسکتی ہے.مگر خدا تعالی کی آواز کا جواب دینے والوں کے لئے سوائے زندگی کے کچھ نہیں.اس کو کوئی شیطانی طاقت مار نہیں سکتی.کیونکہ جو پیدا کرنے کے لئے مارا جاتا ہے، وہ ہمیشہ ہی زندہ کیا جاتا ہے.ہے تو یہ ایک کہانی اور تمسخر کی بات مگر ہندو بزرگوں نے لوگوں کو نیکی کی ترغیب دلانے کے لئے حقیقت کو ایسے واقعات میں بیان کیا ہے.ان میں ایک کہانی مشہور ہے کہ ایک راجہ تھا، اس کی اولاد نہیں ہوتی تھی.کسی نے اسے بتایا کہ برہما، جو اصل خدا کا نام ہے اور جو سب سے بڑا خدا ہے اور جو اولا د دینے والا ہے، اس کی پرستش کرو.(ہندوؤں میں خدا تعالیٰ کے جس قدر نام ہیں، وہ سب اس کی طاقتوں یا ملائکہ کے نام ہیں.لیکن آہستہ آہستہ ان کو خدا کا درجہ دے دیا گیا اور ان کی پرستش شروع کر دی گئی اور برہما کو چھوڑ دیا گیا.اب شاید صرف ایک جگہ برہما کا معبد ہے اور کہیں بھی نہیں.چنانچہ اس نے برہما کی پرستش شروع کر دی.کچھ عرصہ کے بعد اس کے گھر لڑکا پیدا ہوا.جب لڑکے نے ہوش سنبھالا تو باپ کے دل میں خیال آیا کہ بر ہما نے جو کام کرنا تھا، کر لیا، اب مارنا تو شوجی نے ہے، اس لئے اب بر ہما کو چھوڑ کر شوجی کی پرستش شروع کر دینی چاہیے.چنانچہ اسی خیال سے اس نے برہما کو چھوڑ کر شوجی کی پرستش شروع کر دی.جب لڑکا بڑا ہوا اور اس نے یہ باتیں سنیں کہ میری پیدائش اس رنگ میں ہوئی تھی تو اس نے برہما کی پرستش شروع کر دی.باپ نے بہت منع کیا.لیکن اس نے باپ کی بات کو نہ مانا اور کہا جس نے احسان کیا ہے، میں تو اس کی پرستش کو نہیں چھوڑ سکتا.آخر باپ بیٹے میں لڑائی شروع ہوئی اور اس نے اتنا طول پکڑا کہ باپ کے دل میں ضد اور غصہ پیدا ہو گیا اور اس نے بیٹے کے خلاف شوجی سے دعا مانگی کہ یہ میرا بیٹا باغی ہو گیا ہے اور باوجود منع کرنے کے آپ کی پرستش نہیں کرتا بلکہ برہما کی پرستش کرتا ہے.آپ اس کی جان نکال لیں.چنانچہ شوجی نے اس کی جان نکال لی.جب بر ہما کو معلوم ہوا کہ وہ، جو میری پرستش کرتا تھا، اس کو میری وجہ سے مارا گیا ہے تو اس نے کہا کہ میں اسے دوبارہ زندہ کروں گا.چنانچہ اس نے اسے دوبارہ 679
خطبه جمعه فرموده یکم فروری 1946ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم زندہ کر دیا.شوجی نے غصے میں آکر اسے پھر مار دیا.برہما نے اسے پھر زندہ کیا.شوجی نے اسے پھر ماردیا اور برہما نے اسے پھر زندہ کر دیا اور غالبا یہ سلسلہ اس وقت سے لے کر اب تک جاری ہے اور آسمان پر بر ہما جی اسے زندہ کرتے ہیں اور شوجی اسے مارتے ہیں.یہ ہے تو ایک کہانی ، مگر اس میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص خدا کی راہ میں مارا جائے تو خدا اس کو دوبارہ دنیا میں زندہ کر دیا کرتا ہے.یہ ایک بہت ہی قیمتی حقیقت ہے کہ خدا کے پرستار مرا نہیں کرتے.وہ مرتے ہیں تو پھر زندہ کر دیئے جاتے ہیں.کئی لوگ ہیں ، جنہوں نے خدا کے لئے جانیں دیں اور وہ بے نسل تھے، جوان تھے ، ابھی ان کی شادیاں بھی نہیں ہوئی تھیں کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو گئے.مگر ان کا نام آج تک زندہ ہے اور قیامت تک زندہ رہے گا.ایسے ہی لوگوں میں سے ایک حضرت عثمان بن مظعون بھی تھے.جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرب صحابی تھے.وہ ابھی نوجوان تھے ، پندرہ سولہ سال کی عمر تھی کہ اسلام لائے اور انہوں نے خدا تعالیٰ کے راستہ میں اس قدر تکالیف برداشت کیں کہ کسی نے جوش میں آکر آپ کی ایک آنکھ نکال دی.انہوں نے ہجرت کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد میں شامل ہوئے اور جنگ احد کے موقعہ پر شہید ہو گئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ نہایت ہی پیارے تھے.اس قدر پیارے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے حضرت ابراہیم جب فوت ہوئے تو آپ نے ان کو نسل دے کر قبر میں ڈالتے ہوئے ، یہ الفاظ فرمائے کہ جا، اپنے بھائی عثمان بن مظعون کے پاس.گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن مظعون کو اپنا بیٹا قرار دیا.عثمان بن مظعون غالباً بغیر شادی کے اور بغیر اولاد کے فوت ہوئے تھے.لیکن آج اگر اس زمانہ میں دنیا کی سطح پر نوے فیصدی آبادی عثمان بن مظعون کی اولاد ہوتی.ایسے عثمان بن مظعون کی ، جس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب نہ ہوئی ہوتی.ایسے عثمان بن مطعون کی ، جس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسلام کی قربانیوں کی توفیق نہ ملی ہوتی.ایسے عثمان بن مظعون کی ، جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جان قربان کرنے کی توفیق نہ ملی ہوتی تو یقینی اور قطعی طور پر وہ نوے فیصدی آبادی دنیا کی نہ جانتی کہ آج سے تیرہ سو سال پہلے ہمارا ایک دادا تھا، جس کا نام عثمان بن مظعون تھا.اگر کسی نہ کسی رنگ میں وہ عثمان بن مظعون کا نام بھی سنتے تو ان کے دلوں میں کوئی پیدا نہ ہوتا اور نہ کوئی تحریک ہوتی کہ وہ اس کے لئے دعا کریں.لیکن آج جبکہ تیرہ سو سال گزر چکے ہیں، جبکہ عثمان بن مظعون کے جسمانی تعلق کو دنیا سے ختم ہوئے تیرہ سوسال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے.صرف اس قربانی کی وجہ سے جو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کی ، اس قربانی کہ وجہ.680
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد دوم خطبه جمعه فرموده یکم فروری 1946ء جو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کے لئے کی ، جب بھی ایک مومن عثمان بن مطعون کا نام لیتا ہے تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں.بہر حال مرنے والے مرتے ہیں.بعض بغیر نسل کے مرجاتے ہیں اور بعض اولاد چھوڑ کر مر جاتے ہیں.مگر باوجود اس کے دنیا میں ان کی اولا دزندہ ہوتی ہے.آخر وہ بے نسل ہی ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کی اولا دان کے ناموں سے واقف نہیں ہوتی.مگر جو خدا تعالیٰ کے لیے مارے جاتے ہیں، بے نسل ہوتے ہوئے بھی ان کی نسل دنیا میں باقی رہتی ہے اور ہر مومن اپنے آپ کو ان کی اولاد میں سے سمجھتا ہے.اور ہر مومن کے دل سے ان کے لئے دعائیں بلند ہوتی ہیں، جو ان کے درجات کو بڑھاتی رہتی ہیں.پس وہ لوگ جو خدائے واحد کے لئے اپنی زندگی دیتے ہیں، وہ موت قبول نہیں کرتے بلکہ زندگی قبول کرتے ہیں.اور جو خدا تعالیٰ کے دین کے لیے جان دینے سے گریز کرتے ہیں، وہ زندگی حاصل نہیں کرتے بلکہ موت کو قبول کرتے ہیں.پس تمہارے سامنے دونوں راہیں ہیں.زندگی کی بھی اور موت کی بھی.تم میں سے ہر عقلمند اپنے لئے خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ کیا وہ موت کو پسند کرتا ہے یا زندگی کو؟ کیا وہ خدا تعالیٰ کے حضور اس کے دین کے لئے اپنی جان پیش کر کے اس کی محبت اور ابدی زندگی کو حاصل کرنا چاہتا ہے یا بظاہر اپنی جان بچا کر لعنت کی موت اور گمنامی کی ذلت حاصل کرنا چاہتا ہے؟“ ( مطبوعه الفضل 05 فروری 1946ء) 681
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 فروری 1946ء اپنے اندر تبدیلی پیدا کر کے اپنے آپ کو اس کے فضلوں کے مستحق بنا ئیں خطبہ جمعہ فرمودہ 15 فروری 1946ء تحریک جدید کے ذریعہ ہم نے دنیا بھر کی تبلیغ کے لئے ایک نقشہ بنایا ہے.بیسیوں نوجوان اسی غرض کے لئے تیار کئے ہیں کہ وہ بیرونی ممالک میں جائیں اور ایسے رنگ میں تبلیغ کریں کہ اشاعت اسلام بھی ہو، ان کے گزارے کی صورت بھی نکل آئے اور علمی طور پر بھی ان ممالک پر احمدیت کا رعب چھا جائے.لیکن ہمارا یہ دور اب تک صرف تمہیدی دور گزرا ہے.جماعت نے چندے دیئے، نو جوانوں نے زندگیاں وقف کیں، پڑھنے والوں نے پڑھا، لٹریچر لکھنے والوں نے لٹریچر تیار کیا اور بعض نوجوانوں کو غیر ممالک میں تبلیغ اسلام کے لئے روانہ کیا گیا.لیکن اس کے بعد ابھی یہ مرحلہ باقی ہے کہ باہر جانے والے ایسے طور پر کام کرنے میں کامیاب ثابت ہوں کہ ان کے ذریعہ غیر ممالک میں ایسی آواز پیدا ہو جائے کہ لوگوں کے قلوب ہل جائیں اور ان کی طرف متوجہ ہو جائیں.پھر یہ بھی سوال ہے کہ وہ اپنے ہا گزاروں کے لئے ایسے راستے نکال سکیں کہ جن سے تبلیغ کو وسیع سے وسیع تر کیا جا سکے.میں نے جو قدم اٹھایا ہے، وہ دنیا کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی معنی ہی نہیں رکھتا.دنیا میں دوارب کے قریب آدمی ہے.اگر ایک ہزار آدمیوں کے لئے ایک مبلغ رکھا جائے تو یہ سمجھ لو کہ دولاکھ مبلغین کی ہمیں ضرورت ہے.لیکن ہم نے اس وقت تک جو مبلغین بھیجے ہیں ، اگر ان میں پرانوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو چالیس کے قریب تعداد بنتی ہے.جہاں دولاکھ کی ضرورت ہو ، وہاں چالیس مبلغ بھلا کیا کام دے سکتے ہیں.ہمارے ملک کے زمیندار کی اوسط خوراک پانچ چھٹانک سمجھی جاتی ہے.پانچ چھٹانک کے معنی ہوئے 25 تولے، رتیوں کے لحاظ سے تقریباً چو میں سورتی بنی اور چاولوں کے لحاظ سے یہ قریباً 19 ہزار چاول بنے.شہری لوگوں کی خوراک تو کم ہوتی ہے.یہاں تک کہ بعض لوگ ایک یا ڈیڑھ چھٹانک پر ہی گزارہ کر لیتے ہیں.لیکن ایک محنت کش مزدور کی عام خوراک 19 ہزار چاول ہوتی ہے.اب 33 مبلغین کو دولاکھ کے مقابل میں رکھ کر دیکھ لو کہ کیا نسبت بنتی ہے؟ اگر ہزار مبلغ ہوں تو دو سواں حصہ ہوگا.اگر سو مبلغ ہوں تو دو ہزارواں حصہ ہوگا اور اگر 33 مبلغ ہوں تو وہ دولاکھ کا چھ ہزارواں حصہ بنیں گے.دوسرے لفظوں میں ایک عام آدمی کی خوراک کے 683
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمود : 15 فروری 1946ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم مقابل پر ہم دنیا کو روحانی خوراک کے تین چاول پیش کرتے ہیں.کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ ایک محنت کش اور مزدور پیشہ زمیندار کو تم تین چاول صبح اور تین چاول شام دے کر زندہ رکھ سکتے ہو؟ اگر ایک محنت کش مزدور کو تم تین چاول صبح اور تین چاول شام دے کر زندہ نہیں رکھ سکتے تو تم دنیا کو بھی 33 مبلغین کے ساتھ کسی صورت میں زندہ نہیں رکھ سکتے.مگر یہاں تو سوال زندہ رکھنے کا نہیں بلکہ سوال زندہ کرنے کا ہے.زندہ رکھنے کے لئے تو بے شک پانچ چھٹانک غذا کافی ہو جائے گی.لیکن مردہ نہ سہی، نیم مردہ کو بھی زندہ کرنے کے لئے یہ غذا کافی نہیں ہوسکتی.بلکہ اس کے لئے کئی سیر غذا کے خلاصہ کی ضرورت ہے.چنانچہ ایسی حالت میں جو Stimulant استعمال کئے جاتے ہیں، وہ سیروں خوراک کا نچوڑ ہوتے ہیں.پس زندہ کرنے اور زندہ رکھنے میں فرق ہے.ہماری جماعت کے مبلغ اس لئے نہیں گئے کہ وہ لوگوں کو زندہ رکھیں بلکہ اس لئے گئے ہیں کہ وہ لوگوں کو زندہ کریں.اس لئے ان کی مثال دنیا کے مقابلہ میں ایسی بھی نہیں جیسی تین چاولوں کی ہوتی ہے.بلکہ ان کی مثال تو ایک چاول کے ہزارویں حصہ کی بھی نہیں رہ جاتی.جس طرح ایک شخص کا روٹی کی بجائے صرف سانس لے لینا اسے زندہ نہیں رکھ سکتا ، اسی طرح یہ مبلغ دنیا کی ضروریات کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے.یہ ایک پیج ہے، جو زمین میں بویا گیا مگر وہ بیچ نہیں ، جو کسی ملک کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے بویا جاتا ہے.گورنمنٹ بیج ہوتی ہے تو وہ یہ امر مد نظر رکھتی ہے کہ اتنا بیج ہو، جو آٹھ ، دس یا پندرہ میں سال میں سارے ملک کی ضروریات کو پورا کر سکے.لیکن ہمارا یہ پیج اس قسم کا بھی نہیں.بلکہ ہمارا پیج اس قسم کا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے آدم کی پیدائش کے وقت دنیا میں بویا اور وہ لاکھوں لاکھ سال میں ترقی کو پہنچا.اگر اس تدریجی ترقی کے ساتھ یہ بیج بڑھا تو اس کے لئے لاکھوں یا ہزاروں سال کی ضرورت ہوگی.لیکن دنیا میں کوئی مذہب بھی آج تک ہزار سال تک زندہ نہیں رہا.موجود تو رہا ہے مگر زندہ نہیں رہا.ہندو مذہب ہندؤوں کے مقولہ کے مطابق لاکھوں سال سے ہے اور یوروپین لوگوں کی تحقیقات کے مطابق یہ مذہب اڑھائی تین ہزار سال سے ہے.مگر مذہب کا موجود ہونا اور چیز ہے اور مذہب کا زندہ ہونا اور چیز ہے.وہ حقیقتیں جو رشی لائے تھے ، وہ حقیقتیں جو کرشن اور رام چندر لائے تھے، وہ اب کہاں ہیں؟ وہ زندگی کا ثبوت، جو حضرت کرشن اور حضرت رام چندر پیش کیا کرتے تھے، وہ اب کہاں ہے؟ وہ ان کا خدا سے مکالمہ مخاطبہ اب کہاں ہے؟ اور کن لوگوں کے ساتھ ہے؟ یہ نہ سہی وہ کون سے ہندو ہیں، جو ویدوں پر عمل کرتے ہیں.حقیقت تو یہ ہے کہ آج ساری ہند ود نیا میں ایک انسان بھی ایسا نہیں جو کہ سکے 684
تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 فروری 1946ء کہ وہ ویدوں کے مطابق باطنی طور پر تو الگ رہا ظاہر طور پر ہی عمل کر رہا ہے.عیسائی مذہب انیس سو سال سے موجود ہے.لیکن موجود ہونا اور چیز ہے اور زندہ ہونا اور چیز ہے.حضرت مسیح تو دنیا کوللکار کر چیلنج دیتے ہیں کہ اگر تم میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان ہوگا تو تم ہواؤں کو کہو گے تم جاؤ تو وہ تھم جائیں گی.تم دریاؤں کو کہو گے کہ ٹھہر جاؤ تو وہ ٹھہر جائیں گے.تم پہاڑوں کو کہو گے چلو تو وہ چلنے لگ جائیں گے.ہم مانتے ہیں کہ یہ استعارے کا کلام ہے.پہاڑ سے مراد ہمالیہ نہیں، دریاؤں سے مراد گنگا جمنا یا انڈدس نہیں اور ہواؤں سے مراد وہ ہوا ئیں نہیں، جو درختوں کو ہلاتی ہیں بلکہ یہ سب استعارے کا کلام ہے.مگر استعارہ کی رو سے جو معنی ہواؤں کے ہیں، جو معنی دریاؤں کے ہیں، جو معنی پہاڑوں کے ہیں، وہ معنی بھی تو آج پورے نہیں ہورہے.وہ کون سا تغیر ہے، جو عیسائیت کے ذریعہ دنیا میں ہورہا ہے؟ عیسائیت نے تو یہ کہہ کر کہ شریعت ایک لعنت ہے، ساری شریعت کو بے کار قرار دے دیا ہے.صرف دس احکام بتلائے ہیں.مگر کیا ان دس احکام پر بھی عیسائی عمل کر رہے ہیں؟ ہم مان لیتے ہیں کہ ایک حصہ کمزور ہوتا ہے، جو شرعی احکام پر عمل نہیں کرتا.لیکن آخر کچھ حصہ تو اس پر عمل کرتا ہے.مگر عیسائیوں میں تو وہ حصہ بھی نہیں ملتا.اول تو وہ ہیں ہی دس احکام اور پھر ان پر بھی وہ عمل نہیں کر سکتے.اس کے مقابل پر ایک کمزور سے کمزور مسلمان بھی دن بھر میں پچاس احکام پر عمل کر لیتا ہے.حالانکہ بڑے سے بڑا عیسائی حضرت مسیح کے دس احکام پر بھی عمل نہیں کرتا.پس عیسائیت ہے تو سہی لیکن عیسائیت زندہ نہیں.اس کی لاش پڑی ہوئی ہے.اسی طرح حضرت موسیٰ ، حضرت زرتشت اور دوسرے انبیاء کی تعلیم پر عمل بالکل مفقود ہے.پس ہزار ہا سال تک کوئی قوم اور کوئی مذہب زندہ نہیں رہ سکتا.چھلکا رہ جاتا ہے، فضلہ رہ جاتا ہے مگر حقیقت باقی نہیں رہتی.میں جب بھی دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے کوئی مذہب بھی تین، چار سو سال سے زیادہ زندگی والا نظر نہیں آتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی فرمایا ہے کہ خیر القرون قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم فيج الاعوج کہ اسلام کی سب سے اچھی صدی پہلی ہوگی ، اس کے بعد دوسری ہوگی اور پھر تیسری صدی ہوگی.اس کے بعد بد اخلاق جماعت ہوگی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر شان والا اور کون آدمی ہو گا ؟ مگر آپ کی تعلیم بھی تین، چار سو سال تک ہی چلی آگے نہیں.پس جو قوم کامیاب بنا چاہتی ہو، اس کو اس خیال میں نہیں پڑنا چاہئے کہ اس کے لیے ہزار ہا سال کام کرنے کے لیے پڑے ہیں.کیونکہ آج تک ہزار سال تک ایک قوم بھی زندہ نہیں رہ سکی.اور ہمارے اندر کوئی ایسی خصوصیت نظر نہیں آتی کہ ہم ہزار ہا سال تک مذہب کو زندہ رکھنے کی قابلیت رکھتے 685
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمود : 15 فروری 1946ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم ہوں.ابھی تو مزید تربیت کی ضرورت ہے تا کہ جماعت صحابہ کے مقام تک پہنچے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایسے آدمی ہم کو ملے ہیں ، جو صحابہ کے مقام تک پہنچے.لیکن ہماری جماعت ابھی جماعتی لحاظ سے صحابہ کے مقام تک نہیں پہنچی.اور ابھی جماعت کو اس مقام تک پہنچنے کے لئے بہت بڑی جدو جہد اور قربانی کی ضرورت ہے.مگر صحابہ کی قربانیاں بھی اسلام کو تین سو سال تک ہی زندہ رکھ سکیں.پھر فیج اعوج آ گیا.اگر ہم صحابہ " کہ مقام پر بھی پہنچ جائیں ، تب بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم تین سو سال تک زندہ رہ سکیں گے.حضرت مسیح ناصری کی تعلیم میں تو ڈیڑھ سو سال بعد ہی شرک پیدا ہونا شروع ہو گیا تھا.پس ہمارے لیے ایک تھوڑ اسا وقت مقدر ہے.اس تھوڑے سے وقت میں کیا 33 مبلغ، دولاکھ مبلغوں کا کام کر سکتے ہیں؟ یقینا جب تک غیر معمولی کوشش ہماری طرف سے نہ ہو، جب تک غیر معمولی فضل اللہ کی طرف سے نازل نہ ہو، اس وقت تک یہ کام کبھی نہیں ہو سکتا.وو.اس غرض کے لئے جو آدمی ہم نے تیار کر کے باہر بھیجے ہیں ، جیسا کہ میں نے بتایا ہے وہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں.بلکہ آٹے میں جتنا نمک ہوتا ہے، اس سے یقینا بہت کم ہیں.اور دراصل اسے تبلیغی جدو جہد کہنا بھی غلط ہے.پھر نہ معلوم جب انہوں نے عملی زندگی میں قدم رکھا تو کس طرح کام کریں گے؟ ان کے دماغ کتنے روشن ہوں گے؟ ان کے اندر عرفان کس حد تک پیدا ہوگا ؟ ان کا ایمان انہیں کتنی قربانی پر آمادہ کرے گا؟ اور پھر ان کی آواز میں کتنا اثر ہوگا کہ لوگ ان کی طرف متوجہ ہوں، ان کے قلوب ان کی طرف کھینچ جائیں اور وہ ایمان کی طرف قدم اٹھانے کے لیے تیار ہو جائیں؟ یہ سارا کام ایسا ہے، جو ہمارے قبضہ میں نہیں.بلکہ اس میں سے کچھ حصہ ہمارے مبلغین کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور کچھ حصہ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.ہماری مثال تو ایسی ہی ہے، جیسے کسی نے کاغذ کی ناؤ بنائی اور دریا میں چھوڑ دی.اب یہ کاغذ کس حد تک پانی کے حملہ سے بچارہتا ہے اور کس طرح خدا تعالٰی ہلکی ہلکی ہواؤں کو چلاتا اور کاغذ کی ناؤ کو پارا تار دیتا ہے؟ یہ سارا کام اسی کا ہے، ہمارے بس کی بات نہیں.یہ محض اس کے فضل سے ہی ہو سکتا ہے.ہماری کوششوں سے نہیں.پس ہمیں خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں اور التجائیں کرنی چاہئیں کہ وہ اس ناؤ کو سلامتی کے ساتھ دوسرے کنارے پر پہنچا دے.جہاں تک انسانی تدابیر اور کوششوں کا سوال ہے، کاغذ کی ناؤ کا دوسرے کنارے پر جانا تو الگ رہا، وہ اپنے کنارے سے چلے بغیر ہی ڈوب جایا کرتی ہے.ایک بہت بڑا کام ہمارے سپر د ہے اور ہمیں کبھی بھی اس سے غافل نہیں ہونا چاہئے.دنیا بھر کے دلوں کو بدل ڈالنا معمولی بات نہیں.در حقیقت زمین و آسمان کو پیدا کرنا آسان ہے.مگر دنیا کے قلوب کو بدل ڈالنا، آسان بات نہیں“.686
رید- ایک الہی تحریک جلد دوم "" " اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 15 فروری 1946ء واقعہ یہی ہے کہ قلوب کو بدلنا کوئی معمولی بات نہیں.ہمارے چند پیسے چندوں میں دے دینا، ہمارے چند نو جوانوں کا زندگی وقف کر دینا محض ایسا ہی ہے، جیسے لہو گا کر شہیدوں میں داخل ہو جانا.قلوب جب بھی بدلتے ہیں، آسمانی تقدیر کے ساتھ بدلتے ہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ بعض معقول باتیں ہوتی ہیں لیکن ضدی طبائع کے ساتھ ملکر اٹکرا کر پاش پاش ہو جاتی ہیں.اور بعض غیر معقول باتیں ہوتی ہیں لیکن وہ اس طرح اثر کرتی چلی جاتی ہیں، جس طرح موافق ہوا کے باعث بادبانی کشتی اڑتی چلی جاتی ہے.پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ آج کل خدا تعالیٰ کے حضور خاص طور پر دعائیں کریں.مگر دعائیں اس رنگ میں نہیں ہونی چاہیں، جس رنگ میں عام طور پر لوگ کرتے ہیں.بلکہ حقیقی رنگ میں دعا کرنی چاہیے.اور حقیقی دعاوہ ہوتی کہ جب قلوب پر اثر ہوتا ہے تو آپ ہی آپ دل اور زبان سے دعا نکلتی چلی جاتی ہے.انسان کام بھی کرتا جاتا ہے اور دعا بھی نکلتی جاتی ہے.تم سجدہ چوبیس گھنٹے نہیں کر سکتے تم رکوع چوبیس گھنٹے نہیں کر سکتے تم قیام چوبیس گھنٹے نہیں کر سکتے تم قعدہ چوبیس گھنٹے نہیں کر سکتے لیکن چوبیس گھنٹے تمہارے دل میں ایک جوش رہ سکتا ہے.اور اس کی وجہ سے دعا تمہارے دل پر جاری رہ سکتی ہے.سوال صرف اس قدر ہے کہ ہم اس کے آلہ کار بن جائیں.تا کہ ہمارے ذریعہ وہ مقصد پورا ہو جائے، جس لئے ہمیں اس کے حضور جھک کر ایک نَعْبُدُ کے ماتحت اپنی زندگیاں وقف کر دینی چاہیں اور اِيَّاكَ نَسْتَعِینَ کے ماتحت اپنی دعاؤں کو وقف کر دینا چاہئے.اگر ہم ایسا کر دیں تو یقینا اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ ایسا صراط مستقیم پیدا فرمادے گا، جس سے احمدیت دنیا میں غالب آجائے گی، رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نام دنیا میں پھر روشن ہو جائے گا، قرآن کریم پھر بولنے والی کتاب بن جائے گا، جولوگوں سے باتیں کرے گی ، ان کی اصلاح کرے گی اور ان کے اندرونی نقائص کو دور کر دے گی.مگر ضرورت ہے کہ ہم اپنے اندر تبدیلی پیدا کر کے اپنے آپ کو اس کے فضلوں کے مستحق بنائیں اور خدا تعالیٰ کے حضور گڑ گڑا کر دعائیں کریں کہ وہ ہمیں اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے اپنا آلہ کار بنالے، وہ ہماری زبانوں میں اثر پیدا کرے، وہ ہماری آنکھوں میں اثر پیدا کرے، وہ ہمارے ہاتھوں میں اثر پیدا کرے تا کہ اگر ہم کچھ لکھیں تو وہ لوگوں کے دلوں میں اتر جائے ، کسی طرف آنکھ اٹھا ئیں تو اس کے دل میں نرمی پیدا ہو جائے، کوئی بات کریں تو لوگ اس کے ماننے پر آمادہ ہو جائیں اور پھر وہ ہمارے قلوب کی ایسی حالت کر دے کہ جب ہم خواہش کریں کہ فلاں علاقہ اسلام میں داخل ہو جائے تو خدا تعالیٰ کے فرشتے فوراً آمین کہیں اور خدا تعالیٰ عرش سے حکم نازل کرے کہ ایسا ہو جائے.ہم تو اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ ہدایت پا 687
اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 15 فروری 1946ء تحریک جدید - ایک ابی تحریک....جلد دوم جائیں لیکن اللہ تعالیٰ ہی ہے، جو اس خواہش کو ہدایت پا جائیں“ کی بجائے ہدایت پاگئے کی صورت میں بدل سکتا ہے.اگر ہماری یہ خواہش اخلاص پر مبنی ہے اور ہمارا اسلام کی ترقی کے لیے مبلغین کو باہر بھیجنا، تقومی پرچنی ہے.تو اس صورت میں خدا تعالیٰ جس بات کا پہلے سے ارادہ کر چکا ہے، اس کا ظہور میں آجانا کوئی مشکل امر نہیں.پس دوستوں کو ان دنوں میں خصوصیت کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کرنی چاہیں اور اپنی ذات کی بھی اصلاح کرنی چاہئے.ہم نے اپنے نو جوانوں کو اگر وہ ہم میں سے کسی کے بیٹے نہیں تو بہر حال وہ کسی ماں اور کسی باپ کے بیٹے ہیں، دنیا میں بھیجا ہے تن تنہا، بغیر سامانوں کے، بغیر ہتھیاروں کے، بغیر تجربہ کے اور بغیر ان علوم کے، جن کو پیش کئے بغیر یورپین لوگ بات ہی نہیں مانتے.میں نے جیسا کہ پہلے بھی مثال دی ہے ، ہم نے ان کو ایسی صورت میں بھیجا ہے، جیسے کاغذ کی ناؤ کو دریا میں بہا دیا جاتا ہے.اب ہمارا فرض ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے حضور گر جائیں اور اس کی مدد مانگیں.میں نے ایک گزشتہ جمعہ خطبہ میں خنساء کا ایک قصہ سنایا تھا.اس وقت جو حصہ سنایا تھا، وہ اس مضمون کے ساتھ تعلق رکھتا تھا کہ جب ایک جنگ میں مسلمانوں کے لئے ایک خطرناک صورت پیدا ہوگئی تو خنساء نے اپنے تینوں بیٹوں کو بلایا اور کہا میں نے تمہیں بیوگی کی حالت میں بڑی بڑی مصیبتوں میں رہ کر پالا اور تمہاری پرورش کی.میں اپنا دودھ قیامت کے دن تک معاف نہیں کروں گی ، جب تک تم فتح پا کر نہ لوٹو گے یا مارے نہ جاؤ گے.لیکن دوسرا حصہ وہ ہے، جو آج کے مضمون سے تعلق رکھتا ہے.خنساء نے اپنے بیٹوں کو بھی تو دیا لیکن انہیں بھیج کر وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہوگئی.اس نے بیٹوں کو موت کے لئے بھیجا اور اس پر جوذ مہ داری تھی، اسے ادا کر دیا.اس کے بعد جو دوسری ذمہ داری تھی ، یعنی مامتا کی ، اس نے اسے ادا کیا.وہ ان کو موت کے منہ میں بھیج کر خود خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ میں گر گئی.اور کہا اے میرے اللہ ! میں نے اپنی جوانی دکھ میں گزاری کیونکہ میرا خاوند بد معاش آدمی تھا.پھر میں نے اپنا بڑھا پادکھ میں گزارا کیونکہ تین بچوں کی پرورش کوئی معمولی بات نہیں تھی.اب اے میرے رب ! جب مجھے آرام ملنے کا موقع تھا، میں نے اپنے تینوں بچوں کو جو میری ساری عمر کی کمائی ہیں، تیرے دین کی خدمت کے لئے بھیج دیا ہے کہ جاؤ یا تو فتح پا کر واپس آنا یاد ہیں مر جانا.لیکن اے میرے رب ! اب میری مامتا تیرے عرش کے آگے اپیل کرتی ہے کہ ان کو زندہ ہی واپس لانا.چنانچہ وہ زندہ ہی واپس آئے اور فتح پا کر آئے.اب بھی جبکہ بعض ماؤں نے اپنے بچوں کو گھر سے نکال کر باہر پھینک دیا ہے.جب نو جوانوں نے اپنی زندگیاں 688
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 فروری 1946ء دین اسلام کے لیے وقف کر دی ہیں اور باپوں نے اپنی نسلیں خدا تعالیٰ کے لیے دے دی ہیں اور جتنی اسلام کے لیے قربانی کی ذمہ داری تھی ، وہ بعضوں نے پوری کر دی اور بعض پوری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.تو ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے سامنے جھک کر کہیں کہ اے ہمارے رب! ہم نے اپنی عمر کی کمائی تیرے دین کے لیے دے دی ہے، اب تو خود ہی ان کی حفاظت کر اور ان کو بامراد واپس لا کہ ہمارے دل بھی خوش ہوں اور تیرے دین کو بھی ترقی ہو.یہی وہ ذمہ داری ہے، جو ہم پر عائد ہے.اسی طرح جس طرح خنساء پرتھی.بلکہ دین کا رشتہ دنیا کے رشتہ سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے.اگر خنساء اپنے جسمانی بچوں کی بقاء اور ان کی حفاظت کے لیے اس قدر بیتاب ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور جھک گئی تھی تو پھر ہمارا تو یہ فرض اولین ہے کہ ہمارے دلوں میں ایک جوش پیدا ہو اور ہم ان نوجوانوں کے لیے، جو دین کے لیے باہر چلے گئے ہیں یا باہر جانے والے ہیں، خدا تعالیٰ کے حضور التجا کریں کہ اے ہمارے رب! تو ان کو صحیح راستہ دکھلا ، ان کے کاموں میں برکت دے، ان کو کامیابی عطا فرما اور ان کو فاتح بنا کر واپس لا.اگر خدا تعالی کی طرف سے مدد نہ آئی تو ہمارے کام کی مثال ایسی ہی ہوگی ، جیسے کوئی صبح سارا دن مزدوری کرے اور شام کو اپنی مزدوری دریا میں ڈال دے.اگر ہم اخلاص کے ساتھ یہ کام کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں ایسی کیفیت پیدا کر دے گا کہ ہمارے دل بولنے لگ جائیں گے اور رات اور دن وہی خیالات ہمارے دلوں میں جاری رہیں گے.ہم دنیا کے کام کر رہے ہوں گے اور دعا میں ہمارے دلوں سے نکلتی چلی جائیں گی.ایک بڑھئی اپنی لکڑی چیر رہا ہو گا اور ساتھ ہی اس کے دل سے آواز نکل رہی ہوگی ، کلہاڑی کھٹ کھٹ کر رہی ہوگی اور ساتھ ہی اس کے دل کی آہٹ خدا تعالیٰ کے سامنے پکار پکار کر یہ کہ رہی ہوگی کہ اے خدا! ہمارے مبلغین کو آرام سے رکھیو اور ان کی مدد اور نصرت فرمائیو.اور جب ایک طبقہ کی حالت ایسی ہو جائے گی کہ ان کے دل بولنے لگ جائیں گے ، جیسے صوفیاء کہا کرتے تھے کہ فلاں کا دل بولنے لگ گیا ہے تو ہماری کامیابی یقینی ہے.بعض لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ دل باتیں کرنے لگ جاتا اور کلمہ پڑھنے لگ جاتا ہے.حالانکہ دل بولنے کے یہ معنی نہیں ہوتے.بلکہ دل بولنے کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ دل میں سے دعا ئیں خود بخود پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں اور ارادے کا سوال ہی نہیں رہتا.رات اور دن دل میں ایک فکر پیدا ہو جاتا ہے اور رات اور دن دل دعا میں لگا رہتا ہے.جب یہ صورت پیدا ہو جائے تو خدا تعالیٰ بندے کے قریب ہو جاتا ہے اور اسی کا نام صوفیا نے دل کا بولنا رکھا ہے.نادانوں نے دل بولنے کے معنی یہ سمجھ لئے ہیں کہ زبان سے جس طرح آدمی کلام کرتا ہے، اسی طرح دل بھی بولنے لگ جاتا ہے.مگر یہ معنی نہیں.689
اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 15 فروری 1946ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم جب یہ صورت پیدا ہو جائے گی ، اس وقت ہمارے لئے کامیابی بالکل یقینی ہو جائے گی.مگر ایسی صورت پیدا کرنے کے لئے پہلے زبان سے دعائیں کرنی چاہئیں.جو کامیابی کا پہلا قدم ہے.غرض دوستوں کو اس طرف خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس مشکل کام کو ہمارے لئے آسان کر دے اور ہم سر خرو ہو کر اس کی خدمت میں حاضر ہوں“.( مطبوعه الفضل 20 فروری 1946ء ) 690
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 22 فروری 1946ء آسمان کے ستاروں کی طرح تحریک جدید کے دور بھی غیر محدود ہوں گے " خطبہ جمعہ فرمودہ 22 فروری 1946ء پہلے تو میں جماعتوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اس دفعہ الیکشن کی وجہ سے تحریک جدید کے چندوں کی آخری تاریخ لمبی کر دی گئی تھی.مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جو تاریخ مقرر کی گئی تھی اس میں بھی لوگوں کے لیے کام کا ختم کرنا مشکل ہو گا.کیونکہ بعض جگہوں پر پندرہ تاریخ کو الیکشن ختم ہوئے ہیں، بعض جگہوں پر سترہ اٹھارہ تاریخ کو اور بعض جگہ پر نہیں تاریخ کو.پھر لوگ الیکشن ختم کر کے اپنے روں کو واپس گئے ہوں گے اور کچھ دن اپنی تھکائیں دور کی ہوں گی.اس لئے بجائے اٹھائیس فروری کے میں تحریک جدید کے وعدوں کی آخری تاریخ دس مارچ مقرر کرتا ہوں.جو وعدے دس مارچ تک ہمیں پہنچ جائیں گے یا وہ وعدے اور خطوط، جن پر ڈاک خانہ کی دس مارچ کی مہریں لگی ہوئی ہوں گی ، ان تمام وعدوں کو قبول کر لیا جائے گا.سوائے ہندوستان کے ان علاقوں کے، جہاں اردو نہیں بولی جاتی کہ ان کا علاقوں میں حسب قاعدہ اپریل تک کے وعدے قبول کئے جائیں گے اور ہندوستان سے باہر کے وعدے جون کے آخر تک قبول کئے جائیں گے.میں امید کرتا ہوں کہ جماعت کے دوست اپنے اس نازک فرض کو پہچانتے ہوئے ، اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح ادا کریں گے.اور جن لوگوں نے پہلی تحریک میں حصہ لیا ہے، جہاں تک ممکن ہو سکے، پہلے سے زیادہ حصہ لینے کی کوشش کریں گے.اسی طرح جنہوں نے پہلی تحریک میں حصہ نہیں لیا اور وہ دفتر دوم میں پچھلے سال شامل ہوئے تھے ، وہ اپنے وعدے اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ ان کے وعدے انیس سال کے لیے ہیں ، جلد از جلد اپنے وعدوں کو لکھوا دیں گے.اور وہ، جو ابھی تک اس نئی تحریک میں شامل نہیں ہوئے ، وہ بھی اس میں شامل ہونے کی کوشش کریں گے.ہماری جماعت کے دوستوں کو یا درکھنا چاہئے کہ ہمارے سامنے ایک بہت بڑا کام ہے.ہمارے مبلغ بیرون جات میں گئے ہیں اور اب وہاں خرچ کا سلسلہ باوجود انسانی قربانی کے زیادہ سے زیادہ بڑھتا چلا جائے گا.پھر کئی ممالک میں ہمارے لیے تبلیغ کے نئے راستے کھل رہے ہیں.مثلاً ملایا میں 691
اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 22 فروری 1946ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم ہمارے مبلغ پہلے قید تھے، جاوا میں قید تھے، سماٹرا میں قید تھے اور راستے بند تھے، جس کی وجہ سے ان کو خرچ نہیں بھیجا جا سکتا تھا.لیکن اب راستے کھل گئے ہیں اور اب پھر ان کو خرچ بھیجنا شروع کیا جائے گا.تحریک جدید کے جو مبلغ گذشتہ عرصہ میں قید رہے ہیں، ان کا ماہوار خرچ ، جب سے کہ وہ قید ہوئے ہیں، ہماری طرف سے خزانہ میں الگ جمع کر دیا جاتا تھا تا کہ وہ جب بھی آزاد ہوں، ان کی رقوم ادا کی جاسکیں.لیکن صدر انجمن احمدیہ سے غفلت ہوئی اور شروع میں اس نے اس طرف توجہ نہیں کی.بعد میں میرے کہنے پر صدر انجمن احمدیہ کے مبلغین کا بھی اسی طرح انتظام کیا گیا.یہ میں نہیں جانتا کہ انہوں نے صرف اسی دن سے ان کا روپیہ جمع کیا ہے، جس دن میں نے حکم دیا تھایا جب سے کہ وہ قید ہوئے.بہر حال انہوں نے بھی اپنے مبلغین کا خرچ علیحدہ جمع کرنا شروع کر دیا تھا.جہاں تک تحریک جدید کے مبلغین کا سوال ہے، ان کی رقوم ہمارے خزانے میں الگ ان کے نام سے جمع ہوتی رہی ہیں.اس لئے جو نہی روپیہ بھیجنے کی اجازت ہو گئی ، ہم ان کے نام پر جمع کی ہوئی رقوم میں سے ان کا خرچ انہیں بھیج دیں گے.لیکن گذشتہ تبلیغ اور اس تبلیغ میں ایک فرق ہے.اب ہم زیادہ زور سے تبلیغ کرنا چاہتے ہیں.پہلے ہم نے صرف مختلف جگہوں پر مبلغ بٹھائے ہوئے تھے لیکن اب ہمارا منشاء یہ ہے کہ ہر جگہ لوگوں کے لیے لٹریچر بھی مہیا کریں تا کہ اس کے ذریعہ لاکھوں آدمیوں تک سلسلہ کا پیغام پہنچ سکے.پس یہ عظیم الشان ذمہ داری کا کام، جو ہمارے سامنے آنے والا ہے، اس کے لیے ہمیں تیار رہنا چاہئے.بعض تبلیغ کے نئے راستے کھلے ہیں، بعض کھل رہے ہیں اور بعض کھلنے والے ہیں.امریکہ کی طرف ہمارا مبلغ روانہ ہو گیا ہے یاکل پرسوں انشاء اللہ روانہ ہو جائے گا.کیونکہ جہاز والوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ بائیس سے چھپیں تک، جو جہاز جائے گا، اس میں خلیل احمد صاحب ناصر کو جگہ دے دی جائے گی.پس یا تو ان کو آج جگہ مل گئی ہوگی یا کل، پرسوں اور ترسوں تک مل جائے گی اور اس طرح امریکہ کی طرف ہمارا تحریک جدید کا پہلا مبلغ روانہ ہو جائے گا.گو تبلیغ کا کام ابھی شروع نہیں ہوگا کیونکہ خلیل احمد صاحب ناصر کو پاسپورٹ طالبعلم کی حیثیت سے ملا ہے.وہ وہاں کسی یونیورسٹی میں داخل ہوں گے اور اس کے بعد اگر گورنمنٹ نے اجازت دی تو وہ وہاں رہ سکیں گے، ورنہ پھر کسی دوسرے ملک میں واپس آکر انہیں دوبارہ پاسپورٹ لے کر جانا ہوگا.دو اور مبلغ بھی تیار ہیں، جن کے متعلق محکمہ کی طرف سے سستی برتی گئی اور اب تک ان کے پاسپورٹ مکمل نہیں کئے گئے.ان سے جب پوچھا گیا کہ کیوں ابھی تک ان کے پاسپورٹ مکمل نہیں ہوئے؟ تو منتظم صاحب نے جواب دیا کہ ابھی ان دونوں کے متعلق غور کیا جارہا ہے کہ آیا وہ 692
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 22 فروری 1946ء پاسپورٹ کے لیے درخواست دیں یا نہ دیں؟ گویا انہوں نے ایک سال درخواست دینے کے لیے غور کرنے پر لگا دیا.جس کی وجہ سے ان دونوں کو پاسپورٹ نہیں مل سکے.اور چونکہ مبلغ کی حیثیت میں پاسپورٹ حاصل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، اس لیے اب وہاں ہمیں کسی اور ذریعہ سے جانا ہوگا.اور چونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے، اس لیے خدا تعالیٰ ہمیں کوئی نہ کوئی تدبیر ضرور سمجھا دے گا یا کسی نہ کسی رنگ میں ان کے افسروں کی عقلوں پر پتھر ڈال دے گا.جس کی وجہ سے ہمارے آدمی با وجود مخالفت کے ان ملکوں میں گھس ہی جائیں گے.پس ایک وسیع کام ہمارے سامنے ہے.اس لیے ہمیں اب ہر قدم آگے کی طرف ہی بڑھانا چاہئے اور تحریک جدید کا دور اول ہمیں شاندار طور پر ختم کرنا چاہئے.اس سال کو ملا کر آٹھ سال باقی رہ جاتے ہیں.ہمیں چاہئے کہ اس عرصہ میں ہم دور دوم کو اتنا مکمل کر لیں کہ اس کی آمد دور اول سے بڑھ جائے.ابھی تو دور دوم کے وعدے بہت کم ہیں.پچھلے سال 55 یا 60 ہزار کے وعدے ہوئے تھے، جن میں سے صرف 43 ہزار وصول ہوا.ضرورت یہ ہے کہ اس دور کو ہم پہلے سے بھی زیادہ شاندار بنانے کی کوشش کریں.اس دفعہ دفتر چونکہ کوشش کر رہا ہے، اس لئے امید ہے کہ پچھلے سال سے وعدے زیادہ ہوں گے.اس کے بعد تحریک جدید کے دور سوم اور دور چہارم اور دور پنجم آئیں گے اور ہم دین کے لیے قربانیاں کرتے چلے جائیں گے.جس دن ہم نے دین کے لیے جدو جہد چھوڑ دی اور جس دن ہم میں وہ لوگ پیدا ہو گئے ، جنہوں نے کہا کہ دور اول بھی گزر گیا، دور دوم بھی گزر گیا، دور سوم بھی گزر گیا ، دور چہارم بھی گزر گیا، دور پنجم بھی گزر گیا، دور ششم بھی گزر گیا، دور هفتم بھی گزر گیا، اب ہم کب تک اس قسم کی قربانیاں کرتے چلے جائیں گے؟ آخر کہیں نہ کہیں اس کو ختم بھی تو کرنا چاہئے.وہ اقرار ہوگا، ان لوگوں کا کہ اب ہماری روحانیت سرد ہو چکی ہے اور ہمارے ایمان کمزور ہو گئے ہیں.ہم امید رکھتے ہیں کہ تحریک جدید کے یہ دور غیر محدود ہوں گے اور جس طرح آسمان کے ستارے گنے نہیں جاتے ، اسی طرح تحریک جدید کے دور بھی گنے نہیں جائیں گے.جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم سے کہا کہ تیری نسل گئی نہیں جائے گی اور حضرت ابرا ہیم کی نسل نے دین کا بہت کام کیا.یہی حال تحریک جدید کا ہے.تحریک جدید کا دور چونکہ آدمیوں کا نہیں بلکہ دین کے لئے قربانی کرنے کے سامانوں کا مجموعہ ہے.اس لیے اس کے دور بھی اگر نہ گنے جائیں تو یہ ایک عظیم الشان بنیا د اسلام اور احمدیت کی مضبوطی کی ہوگی.(مطبوعہ الفضل یکم مارچ 1946ء ) ) 693
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطاب فرموده 27 فروری 1946ء مرکز اور جماعت کے پھیلاؤ میں تناسب نہایت ضروری ہے خطاب فرمودہ 27 فروری 1946ء یس اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کرو کہ اپنی قوم کے لئے مفید بن سکو تم میں سے جنہیں توفیق مل سکے، ان کو یہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ وہ اعلی تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کریں.(مدرسے کی تعلیم کے متعلق میں نے بتایا ہے کہ یہ ابتدائی تعلیم ہے.) ہمارے بعض نوجوان تعلیم سے بچنے کے لئے کہ دیتے ہیں کہ ہم نے تو نوکریاں کرنی ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نو جوانوں کا فرض ہے کہ اپنے ماں باپ کی ذمہ داریوں کو اٹھا ئیں اور ان کے بوجھ کو ہلکا کریں.لیکن اگر ان کے ماں باپ اس بوجھ کو اٹھا سکیں تو پھر ہر ایک نو جوان کا فرض ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرے.تا وہ اپنے مذہب اور اپنی قوم کے لئے زیادہ سے زیادہ مفید وجود بن سکے.اوّل تو یہ کوشش کریں کہ اچھے سے اچھے نمبروں پر زیادہ سے زیادہ تعداد میں پاس ہوسکیں.پھر جو پاس ہوں، وہ کوشش کریں کہ زیادہ سے زیادہ کالج میں داخل ہو کر کالج کی تعلیم حاصل کریں.اور پھر دوسری چیز جو زیادہ اہم ہے، وہ یہ ہے کہ تم میں زیادہ سے زیادہ ایسے لوگ پیدا ہوں، جو اپنے آپ کو قوم کی خدمت کے لئے پیش کریں.اس وقت ہماری جماعت ایسے مقام پر ہے کہ اس کا نظام پہلے سے بہت زیادہ وسیع ہونا چاہتا ہے اور ہو رہا ہے.” ہونا چاہتا ہے" سے مراد یہ ہے کہ اس وقت اس نظام پر پھیلنے کے لئے اندرونی دباؤ بڑھ رہا ہے.اگر ہم اس کو روکیں تو یقیناً ہمارا نظام ٹوٹ کر رہ جائے گا.لیکن اس کے لئے ہمیں آدمی کم مل رہے ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ ہماری جماعت میں اتنی تعلیم نہیں، جتنا ہماری جماعت میں پھیلاؤ ہے.جب پھیلاؤ کے مطابق تعلیم نہیں ہوتی تو قوم ٹوٹ جاتی ہے یا اس قوم کا قدم ترقی کی دوڑ میں رک جاتا ہے.اگر ہم نے ساری دنیا میں تبلیغ کرنی ہے تو ہمارے مبلغ بھی زیادہ ہوں گے اور ہمارے دفتر بھی بڑھیں گے.اور جتنے مبلغ زیادہ ہوں گے، اتناہی مرکز کا عملہ بھی بڑھ جائے گا.لیکن اگر تعلیم زیادہ نہ ہوگی ، اگر تعلیم حاصل کرنے والے اپنی زندگی دین کے لئے وقف نہ کریں گے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ یا مبلغین کم رہ جائیں گے، جس سے اسلام کو نقصان پہنچے گا یا اگر مبلغین پورے ہوں گے اور وہ تبلیغ کے لئے باہر چلے جائیں گے تو آدمیوں کی کمی کی وجہ سے مرکز میں کم آدمی رہ جائیں گے اور مرکز کو نقصان پہنچے گا.695
اقتباس از خطاب فرموده 27 فروری 1946ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم پس تم میں سے زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگیاں وقف کریں تا ہماری جماعت کا پھیلاؤ آئندہ مرکز کے ساتھ ساتھ اپنے رشتہ کو قائم رکھ سکے.اگر بیر ونجات میں پھیلا ؤ زیادہ ہے اور مرکز چھوٹا ہے یا مرکز پھیلتا چلا جارہا ہے لیکن بیر ونجات میں تبلیغ کا دائرہ وسیع نہیں تو دونوں صورتوں میں جماعت ٹوٹ جاتی ہے.وہ آدمی عقلمند نہیں ہوتا، جس کا جسم کامل انسان جیسا ہو لیکن سر چھوٹا ہو.جیسے شاہ دولے کا چوہا ہوتا ہے.تم میں سے بہتوں نے اسے دیکھا ہوگا.اسی طرح وہ بھی احمق ہوتا ہے، جس کا سر بہت بڑا ہوتا ہے اور جسم چھوٹا ہوتا ہے.اس کا سر اس لئے بڑا نہیں ہوتا کہ وہ بڑا عقلمند ہے.بلکہ ہڈیوں کے بڑھ جانے کی وجہ سے ہوتا ہے اور ہڈیوں کا بڑھ جانا بھی نقص کی وجہ سے اور صحت کی خرابی کی وجہ سے ہوتا ہے.اس لئے دونوں نسبتیں قائم رہنی چاہئیں.اگر سر جسم کی نسبت سے بہت چھوٹا ہو جائے تو بھی انسان بے وقوف ہوگا اور اگر جسم کی نسبت سے سر بہت بڑا ہو گا تو بھی بہت بے وقوف ہوگا.دنیا میں سب سے بڑے سر ہا ئنٹسٹ افریقن قبیلہ کے ہوتے ہیں.یہ کوئی زبان اچھی طرح سیکھ لینے کے بعد بھی اسے چار، پانچ سال میں بالکل بھول جاتے ہیں.پس مرکز کا چھوٹا ہونا اور شاخوں کا پھیل جانا بھی خطرناک ہے اور شاخوں کا چھوٹا ہونا اور مرکز کا پھیل جانا بھی خطرناک ہے.ہمیں چاہیے کہ ہم ان دونوں چیزوں کا توازن قائم رکھیں.اگر ان دونوں چیزوں کا توازن قائم نہ رکھ سکے تو ہم کامیاب نہ ہوسکیں گے.اس کے بعد میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہماری جماعت کے نو جوانوں کو صحیح طور پر اسلام کی خدمت میں اپنی زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اور ان کے اندر وہ صحیح جذبات پیدا کرے، جو زندہ قوموں کی کامیابی کے لئے ضروری ہوتے ہیں اور جن کے بغیر کوئی قوم زندہ نہیں رہ سکتی.اسی طرح اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اپنی ذمہ داریوں کے ادا کرنے اور علم کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے اور اس کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.( مطبوع الفضل 08 مارچ 1946ء) 696
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 08 مارچ 1946ء اللہ تعالیٰ نے ہمارے متعلق جو حسن ظنی کی ہے، اسے پورا کریں " خطبہ جمعہ فرمودہ 08 مارچ 1946ء چوتھی بات میں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ غیب سے ہمارے سلسلہ کی ترقی کے سامان پیدا کر رہا ہے.چنانچہ انہی دنوں خدا تعالیٰ نے بعض ایسے سامان پیدا کئے ہیں، جو انسان کو تعجب میں ڈالتے ہیں.دنیا میں بعض علاقے ایسے ہیں، جہاں ہم لوگوں کا جانا، خصوصاً ہندوستانیوں کا جانا، قریباً ناممکن ہے.اور جو ہندوستانی پہلے سے وہاں گئے ہوئے ہیں، وہ بھی کئی قسم کی تکالیف اٹھاتے رہتے ہیں.جیسے ساؤتھ افریقہ ہے.ساؤتھ افریقہ والے نئے ہندوستانیوں کو وہاں نہیں آنے دیتے اور پرانے ہندوستانی باشندوں پر اتنی سختی کرتے ہیں کہ ریستوران اور ہوٹلوں میں ہر جگہ یہ لکھا ہوتا ہے کہ ہندوستانی یہاں نہیں آسکتے.ریل گاڑیوں پر لکھا ہوتا ہے کہ ہندوستانیوں کو یہاں داخل ہونے کی اجازت نہیں.ان کے لئے بعض مختص ڈبے ہوتے ہیں، جن پر یہ لکھا ہوتا ہے کہ یہ ہندوستانیوں کے لئے ہیں.ہوٹلوں کے باہر لکھا ہوتا ہے کہ ہندوستانیوں کو ان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں یا لکھا ہوتا ہے کہ فلاں کمرے میں ہندوستانی بیٹھ کر کھانا کھا سکتے ہیں.ایسی جگہ پر ہمارے کسی آدمی کا پہنچنا بالکل ناممکن تھا.سالہا سال سے ہم حسرت کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے کہ کوئی ذریعہ وہاں آدمی بھجوانے کا نکل آئے تو ہم وہاں اپنا مبلغ بھیج دیں لیکن کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا تھا.پیر کے دن اچانک مجھے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر یوسف سلیمان صاحب، جنہوں نے انگلستان میں ڈاکٹری پاس کی اور وہیں اپنی جوانی کے ایام میں رہے ہیں، اچانک قادیان میں آ پہنچے ہیں.مجھے اس سے پہلے نیر صاحب کا خط آیا تھا کہ ڈاکٹر سلیمان صاحب قادیان آرہے ہیں اور میں حیران تھا کہ ڈاکٹر سلیمان صاحب کے آنے کی نہ شمس صاحب نے اطلاع دی ہے اور نہ کسی اور نے.یہ بات کیا ہے؟ مگر ابھی نیر صاحب کو اس بارے میں کوئی خط نہیں لکھا گیا تھا کہ ڈاکٹر صاحب اچانک قادیان پہنچ گئے.ڈاکٹر صاحب نے اپنی ساری عمر انگلستان میں گزاری ہے.انہوں نے ڈاکٹری پاس تو کی تھی لیکن ڈاکٹری پیشہ اختیار نہیں کیا.ان کے والد صاحب امیر آدمی تھے اور اتنی جائیداد انہوں نے چھوڑی ہے کہ وہ اسی پر گزارہ کرتے 697
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 08 مارچ 1946ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم ہیں.ان کے والد کیپ ٹاؤن کے علاقہ کے ویسے ہی لیڈر تھے جیسے مسٹر گاندھی شال کے.اور دونوں مل کر کام کیا کرتے تھے.جب ڈاکٹر صاحب مجھے ملے تو انہوں نے بتایا کہ مسٹر گاندھی کئی دفعہ ہمارے گھر آکر ٹھہرتے اور کئی دفعہ ہم ان کے گھر جا کر ٹھہرتے.ان کے دوسرے بھائی بھی احمدی ہیں لیکن ہمشیرہ احمدی نہیں.امیر آدمی ہونے کی وجہ سے گزارے سے بے فکر ہیں کیونکہ جائیداد کے کرایہ کی آمد انہیں کافی ہو جاتی ہے.ڈاکٹر صاحب بہت دیر سے احمدی ہیں.جب میں ولایت گیا تھا تو یہ کچھ دنوں کے لئے اتفاقاً وطن گئے ہوئے تھے، اس لئے ان سے ملاقات نہ ہو سکی.اب پہلی دفعہ میں نے ان کی شکل دیکھی ہے.انہوں نے کہا کہ میں اصل میں ساؤتھ افریقہ جارہا تھا اور میں نے وہیں کا پاسپورٹ لیا ہوا تھا.جب کلکتہ پہنچا تو ارادہ ہوا کہ ہندوستان میں ٹھہر جاؤں.کیونکہ کلکتہ کی غلاظت دیکھ کر مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ میں نے ارادہ کیا کہ کوئی علاقہ تجویز کر کے ہندوستان کے لوگوں کو صفائی کے ساتھ رہنے کی عادت ڈالوں اور ساتھ ہی تبلیغ بھی کروں.وہ چونکہ پہلی دفعہ یہاں آئے تھے، اس لئے ان کو بات آہستگی سے سمجھانی پڑتی تھی.میں نے کہا اس قسم کے نیک ارادے لے کر یہاں بڑے بڑے پادری آئے لیکن ہم لوگوں کو صفائی سکھاتے سکھاتے وہ خود تھک گئے.سینکڑوں سال کی عادتیں آہستہ آہستہ ہی ہٹتی ہیں.ایک آدمی کس طرح اتنا بڑا کام کر سکتا ہے؟ پھر یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ آپ جن لوگوں کو صفائی سکھانا چاہتے ہیں، کیا کبھی ان کی معذوریاں بھی آپ نے سوچی ہیں؟ آپ کا ملک مالدار ہے.جہاں آپ نے عمر گزاری ہے ، وہ ملک بھی مالدار ہے.لیکن ہمارے ملک کا یہ حال ہے کہ فی آدمی ڈیڑھ آئنہ روزانہ آمد ہوتی ہے.کسی کے پاس چار کنال زمین ہے کسی کے پاس گھماؤں کسی کے پاس دو گھماؤں اور کسی کے پاس پانچ ، چھ، سات یا آٹھ گھماؤں.اور کثرت ایسے لوگوں کی ہے، جن کے پاس سات، آٹھ گھماؤں سے بھی کم زمین ہے اور وہ بھی پھیلی ہوئی.کسان بیچارہ صبح چار بجے اٹھتا ہے، سات، آٹھ گھنٹے ہل چلاتا ہے، پھر بھینسوں کو نہلاتا ہے، جانوروں کو چارہ ڈالتا ہے اور چونکہ اکثروں کے پاس اتنی زمین نہیں ہوتی کہ اس سے چارہ نکال سکیں ، اس لئے کھر پالے کر نکل جاتے ہیں.کچھ گھاس سڑک کے اس کنارے سے کاٹا اور کچھ ادھر سے کاٹا اور پھر کچھ تیسری جگہ سے کاٹا.اور کئی گھنٹہ کی محنت کے بعد کچھ گھاس اپنے بیلوں کو لا کر ڈالتے ہیں.تب ان کے بیل زندہ رہتے ہیں اور ان کے بچوں کو روٹی ملتی ہے.اور وہ بھی دو وقت کی نہیں کبھی ایک وقت کی ملتی ہے اور کبھی دو وقت کی.اب بتائیں جس کو سارا دن کام کرنے کے بعد پیٹ بھر کر کھانے کے لئے روٹی بھی نہ ملے ، اس کو کپڑا کہاں سے ملے گا؟ جس بیچارے کے پاس صرف ایک تہہ بند ہے، اس کے پاس ہمت 698
تحریک جدید- ایک البی تحر یک...جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 08 مارچ 1946ء کہاں کہ وہ کپڑوں کو صاف رکھے؟ وہ تو کام سے تھک کر اور چور ہو کر لیٹتا ہے اور اسے چار بجے تک ہوش ہی نہیں آتا.چار بجے اٹھتے ہی وہ پھر باہر چلا جاتا ہے.کبھی آپ نے اس کا بھی خیال کیا ہے؟ انہوں نے کہا ، ہاں ٹھیک ہے.پھر انہوں نے کہا، یہاں کی گورنمنٹ مجھے بوجہ ساؤتھ افریقن ہونے کے ملک میں رہنے کی اجازت نہیں دیتی.میں بھی چاہتا ہوں کہ وہیں اپنے وطن میں رہوں اور سلسلہ کی تبلیغ کروں.میں نے کہا ، کیا کسی طرح ہم اپنا مبلغ وہاں بھیج سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا، ہاں.وہاں انہیں استاد کر کے بھیج سکتے ہیں.میں کہوں گا کہ مجھے اپنے لئے دین کے استاد کی ضرورت ہے، اس طرح وہ میرے استاد بن کر جا سکتے ہیں.میں نے کہا کہ آپ جائیں اور استاد کے لئے درخواست دے دیں.اجازت ملنے پر ہم وہاں اپنا مبلغ انشاء اللہ بھیج دیں گے.انہوں نے کہا کہ میری جائیداد کافی ہے.وہ مبلغ ہمارے مکانات میں رہے گا اور اس کے سارے اخراجات بھی وہیں سے چل جائیں گے.یہاں سے کسی قسم کی مدد کی ضرورت نہ ہوگی.اور تبلیغ کے لئے وہاں انشاء اللہ اچھا موقع نکل آئے گا.انہوں نے بتایا کہ ساؤتھ افریقہ میں اچھی حیثیت والے، جاوا کے لوگ ہیں، جو کسی وقت جاوا سے جلا وطن کئے گئے تھے.ان کے حقوق ہندوستانیوں سے زیادہ ہیں.اس پر میں نے تجویز کی کہ ہو سکا تو ہم ایک جاوی احمدی کو مبلغ بنا کر بھجوائیں گے.جسے انہوں نے پسند کیا.پرسوں پھر میں نے ان سے ذکر کیا کہ کیا آپ وہاں پر پریکٹس کریں گے یا کوئی اور کام کریں گے؟ انہوں نے کہا کہ میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں اپنی زندگی تبلیغ کے لئے صرف کروں گا.کھانے کی مجھے فکر نہیں.کھانے کے لئے خدا تعالیٰ نے کافی دیا ہوا ہے.ہاں ، غریبوں کے لئے مفت پریکٹس کروں گا اور اپنی قوم میں احمدیت کو پھیلانے کے لئے تبلیغ میں لگ جاؤں گا اور یہ مفت پریکٹس بھی تبلیغ میں مد ثابت ہوگی.ایک تو میں خود مبلغ ہوں گا اور دوسرے مبلغ کو بھی وہاں منگوانے کی کوشش کروں گا.اور مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ اجازت مل جائے گی جیسا کہ پادریوں کوملتی ہے.کوئی وجہ نہیں کہ ان کو بلانے کی اجازت ہو اور ہمیں نہ ہو.پھر مجھ سے انہوں نے کہا کہ میں خود بھی بخوبی تبلیغ کر سکتا ہوں لیکن چونکہ میں نے یہاں سے مکمل تعلیم حاصل نہیں کی اور میرے دماغ پر بائبل چھائی ہوئی ہے اور میں نے اپنی ساری عمر انگریزوں کے ساتھ ہی بسر کی ہے، اس لئے ڈرتا ہوں کہ ایسانہ ہو ، کوئی بات ایسی میرے منہ سے نکل جائے جو احمدیت کے خلاف ہو اور پھر اس کو بعد میں مٹانا مشکل ہو جائے.اور لوگ کہیں کہ پہلے مبلغ نے ہمیں یہ بات سکھائی تھی، اب اس کے خلاف کیوں کہتے ہو؟ اس لئے مناسب ہے کہ ایک مبلغ ہو ، جو ان لوگوں کو صحیح تعلیم پہنچائے.میں اس کی ہر طرح مدد کروں گا اور پھر اس کے ذریعہ مجھے بھی علم حاصل ہو جائے گا.699
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 08 مارچ 1946ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم اب دیکھو یہ خدائی سامان ہیں.نہ ارادہ ، نہ خیال.مجھے تو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ وہ آرہے ہیں.اچانک ان کا یہاں آنا معلوم ہوا اور اچانک خدا تعالیٰ کی طرف سے ساؤتھ افریقہ میں تبلیغ احمدیت کے سامان پیدا ہو گئے.اسی طرح ایک دوست کا امریکہ سے خط آیا ہے.وہ ایک مخلص نوجوان ہے.اس خط میں اس نے ایک سکیم لکھی ہے، اگر اس کو ہم جاری کر سکے تو ہمارے مبلغین کا امریکہ پہنچنا بہت آسان ہو جائے گا.اور ان کا وہاں کا خرچ بھی ہمارے ذمہ نہ ہوگا.اگر اس سکیم کے متعلق ہماری ہر طرح تسلی ہو گی تو ہم اس کو جاری کرنے کا انشاء اللہ جلد انتظام کریں گے.غرض اللہ تعالیٰ غیب سے ہمارے لئے ترقی کے سامان پیدا کر رہا ہے.اب ہمارا فرض ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ جوش کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے کاموں میں لگ جائیں.ہمارے مبلغوں کے لئے زیادہ سے زیادہ جگہیں اور زیادہ سے زیادہ مقامات اپنی گودیں کھولتے جا رہے ہیں.اور ہمارا کام دن رات بڑھتا چلا جارہا ہے.ان تمام مقامات کے لئے مبلغ مہیا کرنا ہمارا کام ہے.کیونکہ فی الحال بیرونی ممالک کے لوگ مبلغ تیار نہیں کر سکتے.مبلغ کے لئے تمام دینی علوم کا جاننا اور اپنی جماعت کے تمام مسائل سے آگاہ ہونا ضروری ہے.اور یہ بات فی الحال باہر کسی جگہ پیدا نہیں ہوئی.پس ابھی سو یا دو سو سال تک قادیان سے ہی مبلغ باہر بھیجے جائیں گے.پھر جب احمدیت بیرونی ممالک میں کثرت کے ساتھ پھیل جائے گی اور احمدیت کو اللہ تعالیٰ غلبہ دے گا تو باہر والے بھی مبلغ تیار کر لیں گے.جب تک وہ زمانہ نہیں آتا، ہمیں اپنے بچے اشاعت دین کے لئے قربان کرنے ہوں گے.آخر اللہ تعالیٰ نے ہمارے اندر کوئی قربانی کی روح دیکھی ہی تھی تبھی تو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہمارے درمیان بھیجا.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم پنے جگر گوشوں کو دین کی اشاعت کے لئے قربان کرتے چلے جائیں اور اللہ تعالیٰ کی اس حسن ظنی کو پورا کریں، جو اس نے ہمارے متعلق کی.اور اپنے آقا کی بات کو جھٹلا ئیں نہیں.اللہ تعالٰی ہمیں اس امتحان میں پورا اتارے.☑ مطبوع الفضل 20 مارچ 1946ء) 700
جدید تحریک ہو ی.ایک المی تحریک جلد دوم خطبه جمعه فرمود ه 22 مارچ 1946ء ضرورت ہے اس امر کی کہ جماعت کی تعداد کو جلد بڑھایا جائے خطبہ جمعہ فرمودہ 22 مارچ 1946ء سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.جو کام اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کے سپرد کیا ہے، وہ اتنا بڑا ہے کہ اس کے لئے جن سامانوں کی ضرورت ہے ، ان کا مہیا کرنا، ہماری طاقت سے باہر ہے.ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت بڑی قربانی کرتی ہے.اتنی بڑی قربانی کہ اس کی مثال دنیا کی کسی جماعت میں نہیں پائی جاتی.ہندوستان میں ہماری تعداد پانچ چھ لاکھ ہے.اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کی تعداد دس کروڑ ہے.یعنی ہم فی دوسو دوسرے مسلمانوں کے مقابلے میں ایک ہیں.لیکن جتنی قربانی ہماری جماعت کرتی ہے، اس کا سواں حصہ بھی دوسرے مسلمان نہیں کرتے.ہماری صدر انجمن کا سالانہ چندہ آٹھ لاکھ ہے.اور تین لاکھ تحریک جدید کا چندہ ہے.اس کے علاوہ دوسرے چندے جیسے کالج سکول اور مساجد وغیرہ کے بھی لاکھ ڈیڑھ لاکھ سالانہ ہو جاتے ہیں بلکہ اس سے زیادہ یہ ساڑھے بارہ لاکھ ہو گیا.اس کے علاوہ بہت سے چندے ایسے ہیں، جو مرکز میں بھیجے نہیں جاتے بلکہ مقامی طور پر خرچ کر لئے جاتے ہیں.مثلاً افریقہ کے ایک علاقہ کا چندہ گزشتہ سال 30 ہزار سے زائد تھا.وہ چندہ مرکز میں نہیں بھیجا جاتا بلکہ وہیں کے سکولوں، مدارس اور تبلیغی کاموں میں خرچ ہوتا ہے.اسی طرح ہماری جماعتیں بڑے بڑے شہروں میں مساجد بنواتی ہیں تو اس کا خرچ بھی وہ خود برداشت کرتی ہیں.مثلاً کلکتہ کی جماعت نے 80 ہزار روپیہ مسجد کے لئے جمع کیا ہے.اگر ان چندوں کو بھی ملا لیا جائے تو پندرہ لاکھ سے اوپر ہماری جماعت کے سالانہ چندے ہو جاتے ہیں.لیکن ہمارے مقابلے میں دوسرے مسلمانوں کی تعداد دس کروڑ ہے.اگر وہ بھی اسی طرح قربانی کریں، جس طرح ہماری جماعت قربانی کرتی ہے تو وہ کئی ارب روپیہ جمع کر سکتے ہیں.غیر احمد یوں میں بعض آدمی ایسے ہیں کہ اگر وہ ہمت کریں تو وہ ایک ایک آدمی اپنی دولت کی زیادتی کی وجہ سے ہماری جماعت سے زیادہ چندہ دے سکتا ہے.لیکن اگر اس بات کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تو بہر حال چونکہ وہ ہم سے دوسو گنے زیادہ ہیں، اس لئے ان کا چندہ بھی ہم سے دوسو گنا ہونا چاہئے.جس کے معنی یہ ہوئے کہ ان 701
خطبہ جمعہ فرمودہ 22 مارچ 1946ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم کی آمد 30 کروڑ روپیہ سالانہ ہونی چاہئے.لیکن ہندوستان میں پچھلے پچاس سال میں کسی ایک سال میں بھی ایک کروڑ مسلمانوں نے جمع نہیں کیا ہوگا.اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں وہ اخلاص نہیں، جو اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کو عطا کیا ہے.اگر ان کے اندر بھی وہی اخلاص پیدا ہو جائے تو ان کا چندہ یقینا گورنمنٹ آف انڈیا کے بجٹ سے بڑھ جائے.گورنمنٹ آف انڈیا کی آمد ایک ارب روپیہ سالانہ ہے.مسلمانوں کی تعدادس کروڑ ہے.اور اگر پانچ روپے سالانہ چندہ فی آدمی رکھ لیا جائے تو پچاس کروڑ روپیہ بن جاتا ہے.لیکن چونکہ ان میں کئی آدمی بڑے بڑے مالدار بھی ہیں، اس لئے بغیر تکلیف کے ایک ارب روپیہ سالانہ جمع کر سکتے ہیں.اور ایک ارب روپیہ سالانہ گورنمنٹ آف انڈیا کی آمد ہے.گورنمنٹ ٹیکسوں کے ذریعہ حکومت کے دباؤ سے یہ روپیہ وصول کرتی ہے لیکن ہمارے سب چندے طوعی ہوتے ہیں.نہ ہمیں جبر کرنے کی طاقت ہے، نہ ہم نے جبر کرنا ہے.روپیہ دو ہی طرح جمع ہو سکتا ہے یا تو حکومت کے دباؤ سے یا پھر لوگوں کا ایمان اتنا اعلیٰ ہو کہ وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر چیز قربان کرنا اپنی سعادت سمجھیں.پس احمدیوں کا دوسروں سے چندوں سے بڑھ جانے کی وجہ یہی ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے حلاوت ایمان بخشی ہے.ہمارا ایک احمدی، جو بھوکوں مر رہا ہو، وہ اپنے ایمان کی وجہ سے بیوی بچوں کا پیٹ کاٹ کر رو پید، دور و پیہ ماہوار چندہ دے دیتا ہے.لیکن ایک غیر احمدی کے لئے ، جو مالی لحاظ سے بہت اچھا ہو، روپیہ، دور و پیہ ماہوار دینا بہت مشکل ہوتا ہے.اگر ان میں سے کوئی شخص قومی کام کے لئے ایک سو روپیہ دے دے تو اخباروں میں شور مچ جاتا ہے کہ فلاں رئیس نے ایک سو روپیہ قومی کام کے لئے دیا ہے.حالانکہ جو شخص 100 مربعے کا مالک ہے، اس کے لئے 100 روپیہ دینا کون سی قربانی ہے؟ ہمارے ہاں ایک غریب آدمی بھی کئی سور و پیر چندہ دے دیتا ہے، جو اس کی حیثیت سے بہت بڑھ کر ہوتا ہے لیکن اس کا نام کسی اخبار میں نہیں چھپتا اور اگر وہ دے کر اس روپے کا دوبارہ نام بھی لے تو ساری جماعت بر امناتی ہے کہ تم نے خدا تعالی کو دیا ہے، کسی پر احسان نہیں کیا.لیکن باوجود اتنی قربانیوں کے ہمارے ذمہ، جو کام ہے، وہ اتنا بڑا ہے کہ اس کے مقابل میں ہمارے سامان بہت تھوڑے ہیں اور وہ کام صرف اس روپے سے نہیں چل سکتا.اس سال تحریک جدید دفتر دوم میں ستر ہزار کے وعدے آئے ہیں.اور دفتر اول میں دولاکھ پنتالیس ہزار کے وعدے آئے ہیں.اور دونوں دفتروں کے وعدے تین لاکھ پندرہ ہزار بنتے ہیں اور ابھی ہندوستان سے باہر کی جماعتوں کے وعدے باقی ہیں.اگر وہ شامل کر لیے جائیں تو یہ پونے چار لاکھ کے وعدے ہو جائیں گے.لیکن کیا تحریک جدید اس روپے سے تمام غیر ممالک میں تبلیغی مراکز قائم کرانے میں 702
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرموده 22 مارچ 1946ء کامیاب ہو سکتی ہے؟ ہمیں اس وقت ہزاروں بلکہ لاکھوں مبلغوں کی ضرورت ہے، جن کو ہم غیر ممالک میں تبلیغ اسلام کے لیے مقرر کریں.لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں اس بات کو بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ ہم ان ممالک کے اخراجات اس چندے سے پورے کر سکتے ہیں یا نہیں.کیونکہ غیر ممالک کے اخراجات ہمارے ملک کی نسبت پانچ یا چھ گنے ہیں.ہمارے مبلغ یہاں ایک سو روپیہ میں گزارہ کر لیتے ہیں لیکن چین اور دوسرے ممالک میں ایک مبلغ کا پانچ سو میں بھی گزارہ ہونا مشکل ہے.یہی حال ایران کا ہے.وہاں بھی چیزیں بہت زیادہ مہنگی ہیں.یہاں روپے کی دوسیر کھانڈ بکتی ہے لیکن وہاں دس روپے سیر کھانڈماتی ہے.یہاں ہمارا مبلغ دال روٹی کھا کر پچاس روپے میں بھی گزارہ کر لیتا ہے لیکن وہاں دال روٹی کھا کر بھی پانچ سو میں بھی گزارہ نہیں ہو سکتا.لیکن چونکہ ہم نے ان ممالک میں تبلیغ کرنی ہے، اس لیے وہاں کے اخراجات بھی برداشت کرنے ہوں گے.اگر ہم ایک ہزار مبلغ فی الحال رکھیں تو ہمیں پانچ لاکھ روپیہ ماہوار یا ساٹھ لاکھ روپیہ سالانہ کی ضرورت ہے.دفتر اول کے ابھی آٹھ سال باقی ہیں اور دفتر اول کا چندہ دفتر دوم سے بہت زیادہ آرہا ہے.جب یہ آٹھ سال ختم ہوں گے تو سارا بوجھ دفتر دوم پر ہوگا.مگر وہ ابھی بہت کم ہے، اتنا کم کہ سب ضرورت کا چھٹا حصہ بھی اس سے پورا نہیں ہوسکتا.حالانکہ ہماری یہ سکیم ہے کہ دفتر اول کے بعد دفتر دوم آئندہ ان تمام اخراجات کا متحمل ہو.تحریک جدید کے روپیہ سے جو زمین خریدی گئی ہے، اس سے ابھی کوئی خاص آمد نہیں ہو رہی.اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ابھی تک زمین کی درستی اور زمینوں کے پچھلے قرضہ کے ادا کرنے میں مشغول ہیں اور ابھی ایک دو سال تک یہی سلسلہ جاری رہے گا.اس کے بعد ہمیں انشاء اللہ معقول آمدنی ان زمینوں سے شروع ہو جائے گی.لیکن شرط یہ ہے کہ ہمارے کارکن اخلاص اور رغبت سے کام کریں اور پوری احتیاط سے فصلوں کے بونے اور کاٹنے کا خیال رکھیں.مگر یہ رقم جیسا کہ میں بار بار بتا چکا ہوں، ابھی ایک مضبوط ریز روفنڈ بنانے میں جمع ہوگی.منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کا پانچ کروڑ کاریز روفنڈ بیرونی مشنوں کو مضبوط کرنے کے لئے ضروری ہے.جس کے لیے میں تیاری میں لگا ہوا ہوں.غرض ان زمینوں کی آمد سے ہمیں بیرونی مشنوں کے قائم رکھنے میں بہت مدد ملے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تمام دنیا کی طرف آئے ہیں اور ہم نے ساری دنیا کو آپ کا پیغام پہنچانا ہے اور ہمیں ساری دنیا میں اس آواز کو بلند کرنے کے لئے کم از کم بیس ہزار مبلغ چاہیں اور نہیں ہزار مبلغ کے لئے کم از کم پچاس کروڑ روپے کی سالانہ ضرورت ہے.کیونکہ جب ہم میں ہزار مبلغ باہر تبلیغ 703
خطبه جمعه فرمودہ 22 مارچ 1946ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم کے لیے روانہ کریں گے تو ہمیں ان کو واپس بلانے کے لیے بھی ہیں ہزار مبلغ کی ضرورت ہے.کیونکہ ایک مبلغ کو متواتر کئی سال تک اس کے رشتہ داروں اور اس کے بیوی بچوں سے جدا رکھنا بہت تکلیف دہ امر ہے.اس لئے ہمیں یہ بھی انتظام کرنا ہوگا کہ پہلے مبلغ تین سال کے بعد واپس آجائیں اور ان کی جگہ اور چلے جائیں.پس بیس ہزار مبلغین کا مختلف علاقوں میں پھیلانا ، ایک ایسا کام ہے، جو صرف چندے کی رقوم سے نہیں ہو سکتا.اگر ہماری جماعت بہت زیادہ قربانی کرے اور چندہ کے فراہم کرنے میں کوئی کسر اٹھانہ رکھے تو پھر بھی وہ رقم ہیں تمہیں لاکھ سے زیادہ نہ ہوگی.لیکن جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کروڑوں کروڑ روپیہ کی ضرورت ہے.اگر ہماری جماعت تجارت کی طرف متوجہ ہو جائے اور تجارت کے ایک حصہ پر ہماری جماعت قابض ہو جائے تو اس کی مالی حالت بھی اچھی ہو جائے اور غیر ممالک میں تبلیغ کا کام، جو اسے مشکل نظر آتا ہے، وہ بھی بہت آسان ہو جائے.میں دیکھتا ہوں کہ دوسری اقوام کے لوگ تجارت سے کمایا ہوار و پیا اپنی عیاشیوں، کچنوں کے ناچ گانے میں خرچ کر رہے ہیں.ہزاروں بلکہ لاکھوں رو پیدان کی جیبوں سے ان کاموں کے لیے نکل آتا ہے.لیکن خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لئے ان کی جیبیں خالی ہیں اور ان سے ایک پیسہ بھی نہیں نکل سکتا.پس ضروری ہے کہ کچھ روپیہ تجارت سے بھی آئے ، جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ ہو.آخر کیا وجہ ہے کہ اس میدان پر صرف شیطان کا قبضہ ہو ؟ ہم نے تجارت اور صنعت کو فروغ دینے کے لیے قادیان میں بعض کارخانے بھی جاری کئے ہیں اور ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بھی کھولی ہے.تاجروں کے بعد زمینداروں کا بھی یہی حال ہے.ان کے مال کا اکثر حصہ بھی عیاشیوں میں خرچ ہوتا ہے.اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ کچھ بوجھ خدا تعالیٰ کے دین کو پھیلانے کے لئے زمینداروں پر بھی پڑے، میں نے تحریک جدید کے لیے یہاں زمینیں خریدی تھیں.ان کی قیمت اس وقت تک قریباً پندرہ لاکھ روپیہ ادا کی جا چکی ہے.اگر ہم یہی روپیہ مختلف تجارتوں پر لگاتے اور اگر ہمیں پندرہ فی صدی نفع ہوتا تو بھی ہمیں سوا دو لاکھ روپیہ سالانہ آمدنی ہوتی.لیکن ہمیں ابھی تک صرف ایک لاکھ کی سالانہ آمد ہورہی ہے.اس کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کارکن ستی اور غفلت سے کام کرتے ہیں اور اپنے فرائض پوری تن دہی سے سرانجام نہیں دیتے.اس دفعہ محمد آباد میں یہ پہلا سال ہے کہ مجھے محمد آباد کے کارکنوں کے کام سے خوشی ہوئی ہے اور مجھے ان کے کام میں ترقی نظر آئی ہے.اس سال محمد آباد کے کارکنوں نے 25 فیصدی اپنے کام میں ترقی کی ہے.لیکن جہاں ہم ان لوگوں سے سو فیصدی ترقی کی امید رکھتے ہیں، وہاں 704
خطبه جمعه فرمود 22 مارچ 1946ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم 25 فیصدی ترقی ہمارے دل کو تسلی نہیں دے سکتی.ہاں اس ترقی پر اظہار خوشنودی بھی ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ کا شکر بھی کہ اس نے ہمارا قدم درستی کی طرف اٹھایا.پنجاب کی زمین سندھ کی زمین کے مقابلہ میں بے انتہا آمدنی پیدا کرتی ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب کے لوگ سندھی لوگوں کی نسبت زیادہ محنتی ہیں.ایک دوست جو کہ زراعت کے محکمہ میں افسر ہیں، انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کے لائل پور میں دو مر بعے ہیں اور انہوں نے دونوں 6400 روپے سالانہ ٹھیکے پر دیئے ہوئے ہیں.یعنی انہیں فی مربعہ 3200 روپیہ ملتا ہے.اگر ہمیں بھی 3200 روپیہ فی مربعہ آمد ہوتو تحریک جدید کے 400 مربعوں سے ہمیں بارہ ، تیرہ لاکھ روپیہ سالانہ کی آمد ہو جائے.لیکن ہمیں ابھی تک ایک لاکھ روپیہ کی آمدان زمینوں سے ہوتی ہے.اور یہ ایام قیمتوں کی زیادتی کے ہیں، اگر قیمتیں گر جائیں اور پیدوار کی یہی حالت رہے تو پھر تو پچاس، ساٹھ ہزار کی آمد کا اندازہ رہ جاتا ہے.لیکن تحریک کے واقفین اور دوسرے کارکن عقل اور قربانی اور محنت سے کام لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ پنجاب کے برابر آمد یہاں سے پیدا نہ کر سکیں.بہر حال اس سال میں کارکنوں کے کام پر خوش ہوں اور ان کے اچھے کام کی تعریف کرتا ہوں.پہلے تمام سالوں سے اس سال فصلیں اچھی ہیں اور آئندہ فصلوں کی تیاری بھی اچھی ہے.اب ایک بات کی نگرانی باقی ہے کہ جس طرح انہوں نے پہلے محنت اور کوشش سے کام کیا ہے، اسی طرح اب فصلوں کے کاٹنے میں بھی حفاظت سے کام لیں اور پوری پوری نگرانی کریں کہ فصل کا کوئی حصہ بھی ضائع نہ ہو.اگر کارکنوں نے پوری طرح نگرانی کی تو مجھے امید ہے محمد آباد کی فصل تمام اسٹیوں سے بڑھ جائے گی اور اگر ان اسٹیوں کی فصل بھی اس کے برابر ہوگئی یا اس سے بڑھ گئی تو میں سمجھوں گا کہ محد آباد کے کارکنوں نے فصل کی پوری طرح حفاظت نہیں کی.اگر آج ہم زراعت کی طرف متوجہ ہیں تو محض اس لیے کہ ان جائیدادوں کے ذریعہ قرآن کریم اور حدیث اور اسلام کی تائید کے لیے کتابیں پھیل سکیں.اگر ہم تجارت کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو محض اس لئے کہ ہماری اتنی آمد ہو جائے کہ اس سے ہم اسلام اور احمدیت کی تمام دنیا میں اشاعت کر سکیں.پس ہمارا زراعت اور تجارت کی طرف متوجہ ہونا، دنیوی معاملہ نہیں بلکہ دینی ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ہم ہندوستان میں دوسرے مسلمانوں کے مقابلہ میں دوسو کے مقابلہ میں ایک ہیں.اور دنیا کی آبادی دوارب ہے، اس لئے ہم دنیا کے مقابلے میں چار ہزار کے مقابلہ میں ایک ہوئے.اور چونکہ ہماری اس تعداد میں سب عورتیں اور بچے وغیرہ شامل ہیں اور اگر ہر گھر کے پانچ فرد سمجھے جائیں اور ان میں سے صرف ایک مرد بالغ عاقل سمجھا جائے تو ہمیں ہزار کے مقابلہ میں ہم ایک ہوئے.اور چونکہ بعض ایسے بھی ہوتے ہیں، جن 705
خطبه جمعه فرمودہ 22 مارچ 1946ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم کی عقل تیز نہیں ہوتی یا تبلیغ کرنے میں ست ہوتے ہیں یا جاہل ہوتے ہیں، تبلیغ کر نہیں سکتے تو اس لحاظ سے ہم دو لاکھ کے مقابلہ میں ایک ہوئے.اب دو لاکھ کے مقابلہ میں ایک آدمی کیا کر سکتا ہے؟ پس ضرورت ہے اس امر کی کہ جماعت کی تعداد کو جلدی جلدی بڑھایا جائے.جب تک تعداد زیادہ نہیں ہوتی تبلیغ کا عام ہونا بہت مشکل ہے.اس دفعہ تبلیغ میں بھی محمد آباد سب سے بڑھ گیا ہے.سندھیوں میں سب سے زیادہ محمد آباد کے لوگوں نے تبلیغ کی ہے اور تیرہ چودہ آدمی بیعت بھی کر چکے ہیں اور سرعت کے ساتھ ترقی کی طرف قدم اٹھتا نظر آ رہا ہے.اس دفعہ محمد آباد باقی اسٹیٹیوں سے دولحاظ سے اول نمبر پر رہا ہے.اول فصلوں کے لحاظ سے، جیسی فصل اس دفعہ محمد آباد میں ہے، ایسی فصل ہماری کسی اور سٹیٹ میں نہیں ہے.یہاں یہ سوال نہیں کہ محمد آباد ایک دنیوی کام میں سب سے بڑھ گیا ہے.بلکہ ہم اس کامیابی کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ محمد آباد نے خدا کے نام کی جائیداد کو باقی اسٹیوں سے زیادہ کامیاب بنانے کی کوشش کی ہے.حقیقت یہ ہے جو شخص خدا کے کام آنے والی جائیداد کی آمدنی میں ایک پیسہ کی بھی زیادتی کرتا ہے، گویاوہ ایک پیسہ اپنی آمدنی سے خدا تعالی کی راہ میں خرچ کرتا ہے.اور جو شخص خدا تعالیٰ کی فصل کو زیادہ کرتا ہے تو جو آمدن اس زائد فصل سے ہوتی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے دفتر میں اسی کے نام لکھی جاتی ہے، گویا اس نے اپنے پاس سے خدا کی راہ میں خرچ کی.پس اس اسٹیٹ کے لوگوں کا فصل کو بڑھانا دنیوی لحاظ سے بھی گو فائدہ مند ہے لیکن دینی لحاظ سے بھی کارکنوں کے لیے ثواب کا موجب ہے.اللہ تعالیٰ ہمارے نوجوانوں کو ہمت دے اور ان کی محنت میں برکت دے.دوسرے تبلیغی لحاظ سے محمد آباد اول نمبر پر ہے.اللہ تعالیٰ کرے کہ ان کے ذریعہ دین کی اشاعت اور تبلیغ اسلام کی خوشبو دور دور تک پھیلے.ہمارے لیے تبلیغی لحاظ سے سندھ بہت اعلیٰ جگہ ہے.سندھ وہ ملک ہے، جہاں اسلام ہندوستان میں سب سے پہلے آیا.جہاں مقامی روایات کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ تشریف لائے اور جہاں آپ کے صحابہ فوت ہوئے.ناصر آباد کے پاس ایک گاؤں ہے، جس کا نام دیہہ صحابو" ہے.یعنی صحابی کا گاؤں وہاں ایک صحابی " کی قبر بھی ہے اور عین میری زمین میں ہے.اسی طرح ہمبئی کے پاس ایک جگہ تھا نہ ہے، وہاں بھی صحابہ کی قبریں بیان کی جاتی ہیں.اہل عرب میں تبلیغ کرنے کا سب سے اچھا رستہ سندھ ہے.ہم پنجاب سے عرب میں تبلیغ نہیں کر سکتے ، ہم بنگال سے بھی عرب میں تبلیغ نہیں کر سکتے ، ہم یو.پی سے بھی عرب میں تبلیغ نہیں کر سکتے ، ہم افغانستان سے بھی عرب میں تبلیغ نہیں کر سکتے.اگر ہم عرب میں تبلیغ کر سکتے ہیں تو سندھ کے رستے سے ہی کر سکتے ہیں.کیونکہ.706
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم خطبه جمعه فرمود و 22 مارچ 1946ء ہندوستان کی تمام تجارت عرب سے سندھ کے ذریعہ ہوتی ہے.عرب کی کھجوریں، چٹائیاں ، رسیاں اور اسی قسم کی دوسری چیزیں کراچی آکر اترتی ہیں.کراچی سے غلہ کھانڈ اور باقی اشیاء تجارت عرب کو جاتی ہیں.یہ تجارت زیادہ تر کشتیوں کے ذریعہ ہوتی ہے.عربوں کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے کہ انہوں نے جہالت کے زمانہ میں آکر ہم کو ظلمت سے نکالا، ہمیں اللہ تعالیٰ سے ملایا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روشناس کرایا.یہ ان کی اتنی بڑی نیکی ہے کہ جس کا کسی طرح بدلہ نہیں دیا جا سکتا.اور اب جبکہ عرب خدا تعالیٰ سے دور جاچکے ہیں، ہمارا فرض ہے کہ ان کو خدا تعالیٰ سے ملائیں.اور عربوں کو تبلیغ کرنے کا سب سے اچھا ذریعہ یہی ہے کہ ہم سندھیوں کو احمدی بنائیں.اگر سندھی لوگ کثرت سے احمدی ہو جائیں تو ہماری آواز بہت ہی آسانی کے ساتھ عربی ممالک میں پہنچ سکتی ہے.کیونکہ عرب کا اور سندھ کا سمندر ملا ہوا ہے.عرب سے سندھ کو اور سندھ سے عرب کو کثرت سے کشتیاں آتی جاتی رہتی ہیں.اگر کشتیاں چلانے والے یا کشتیوں کے مالک احمدی ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ عربی ممالک میں احمدیت کی آواز نہ پہنچے.اگر ہم کشتیوں کی تجارت پر قابض ہو جائیں تو ہم بہت مؤثر پیرائے میں عرب میں تبلیغ کر سکتے ہیں.خواہ عربی ممالک میں ہمارے مبلغوں کو داخلہ کی اجازت نہ بھی ہو.کیونکہ دوسرے رستوں سے تو ہمارے مبلغوں کو حکومت روک سکتی ہے لیکن تجار کے رنگ میں کام کرنے والوں کو حکومت کس طرح روک سکتی ہے؟ اگر حکومت ان کشتیوں کی آمد ورفت روک دے تو اسے وہ چیزیں نہ مل سکیں گی ، جوان کو ہندوستان سے پہنچتی ہیں.اور حکومت مجبور ہوگی کہ ان کشتیوں کو اپنے ساحل پر آنے دے.پس یہ عربی ممالک میں تبلیغ کا بہترین ذریعہ ہے.ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کشتیوں کی تجارت میں احمدیوں کا ہاتھ ہو.ہماری جماعت کو اس علاقہ کی اہمیت کو جاننا چاہئے.صرف یہی نہیں کہ سندھ عرب کا دروازہ ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے سلسلہ کو سندھ میں جائیداد میں عطا کی ہیں اور یہ بات بھی بلا وجہ نہیں.جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہندوستان میں بلاوجہ نہیں بھیجا، اسی طرح اللہ تعالیٰ کا سندھ میں ہمیں جائیداد عطا کرنا ، بلا وجہ نہیں.کیوں نہ اللہ تعالیٰ نے پنجاب میں یا یوپی میں ہمارے لیے زمین خریدنے کے سامان کر دیئے؟ پنجاب میں بھی زمینیں بکتی ہیں اور یوپی میں بھی اچھی اچھی زمینیں مل سکتی تھیں.پھر یہاں سندھ میں لانے کی کوئی وجہ تو ضرور ہے.اصل بات یہ ہے کہ یہ زمینیں ایک خواب کی بناء پر خریدی گئی ہیں.جب میں نے وہ خواب دیکھا تھا، اس وقت ابھی سکھر بیراج نہیں بنا تھا اور نہ اس قسم کی کوئی خاص سکیم تھی.میں نے خواب 707
خطبہ جمعہ فرمود : 22 مارچ 1946ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم میں دیکھا کہ میں ایک نہر کے کنارے ایک بند پر کھڑا ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ اس علاقے میں طغیانی آ گئی ہے اور گاؤں کے گاؤں غرق ہونے شروع ہو گئے ہیں اور میں حیرت کے ساتھ یہ نظارہ دیکھ رہا ہوں کہ اتنے میں میرے ساتھیوں میں سے کسی نے مجھے آواز دی کہ پیچھے پانی بہت قریب آگیا ہے.میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو دیکھا کہ تمام قصبے اور گاؤں زیر آب ہو رہے ہیں اور پانی بہت قریب آگیا ہے.جس کنارے پر میں کھڑا ہوں، وہاں کچھ اور اشخاص بھی میرے ساتھ کھڑے تھے.تھوڑی دیر میں پانی اور بھی زیادہ قریب آگیا ہے اور اس نے وہ کنارا بھی اکھاڑ پھینکا ، جس پر میں کھڑا تھا.اور میں نہر میں تیرنے لگ گیا ہوں.یہ نہر دور تک چلی جاتی ہے اور اب ایک دریا کی شکل میں تبدیل ہوگئی ہے.میں کوشش کرتا ہوں کہ کسی جگہ میرے پیر لگ جائیں.آخر میں تیر تا تیر تا فیروز پور کے آگے نکل کیا اور بار بارکوشش کے باوجود میرے پاؤں کہیں نہیں لگے.اس وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ نہر تسلیح سے جاملی ہے اور اب یہ دریا، سندھ دریا میں ملنے کے لئے جارہا ہے.تب میں بہت گھبرایا اور میں نے دعا شروع کی کہ یا اللہ سندھ میں تو میرے پیر لگ جائیں، یا اللہ سندھ میں تو میرے پیر لگ جائیں.اس دعا کے بعد میں دیکھتا ہوں کہ یکدم ایک اونچی جگہ پر میرے پیر لگ گئے ہیں.جب سندھ کا علاقہ آباد ہونا شروع ہوا تو یہ خواب مجھے یاد آ گئی اور اس خواب کی بنا پر میں نے یہاں زمینیں خرید لیں.جس وقت میں نے یہ خواب دیکھی تھی ، اس وقت کے سندھ کے آباد ہونے کے کوئی آثار نہ تھے اور جتنے بڑے بڑے انجینئر تھے، وہ سب سکھر سے نہریں نکالنے کے خلاف تھے.آخر لارڈ لائڈ نے جو کہ بمبئی کا گورنر تھا، چند انجینئروں کو اپنے ساتھ متفق کیا اور سکھر بیراج کی سکیم منظور کروالی اور اسی کے نام سے اس بیراج کا نام لائڈ ز بیراج“ ہے.غرض یہ جائیداد ایک معجزہ اور ایک نشان ہے.اس کا ہرایکڑ خدا تعالیٰ کے کلام کی تصدیق کر رہا ہے اور بتارہا ہے کہ اس جگہ جائیداد کا پیدا ہونا، ایک الہی سکیم کے مطابق ہے.اور ہمیں چاہئے کہ اس جائیداد کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی کوشش کریں.پس اگر کسی دوست کو معلوم ہو کہ کسی جگہ اس علاقہ میں اور زمین ملتی ہے تو اسے ہمیں اطلاع دینی چاہیے.اس وقت ہماری زمینیں ضلع میر پور خاص اور ضلع حیدر آباد میں ہی ہیں.لیکن میں چاہتا ہوں کہ سندھ کے تمام علاقوں میں ہماری زمینیں پھیل جائیں.کیونکہ جہاں ہماری زمینیں ہوں گی، وہاں ہمارے کارکن بھی رہیں گے اور ان کے ذریعہ سندھیوں میں احمدیت پھیلے گی.پس دوستوں کو اس بات کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے کہ جہاں کہیں کسی جائیداد کا پتہ لگے کہ وہ سلسلہ کے لئے فائدہ بخش ہو سکتی ہے، فورا مجھے یا تحریک جدید کو اطلاع دیں.708
تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد دوم 66 خطبہ جمعہ فرمودہ 22 مارچ 1946ء اس کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ سلسلہ کے لئے قربانی کرنے والوں کی یاد گار کو تازہ رکھنے کے لئے میں نے سلسلہ کی جائداد کے مختلف گاؤں کے نام بزرگوں کے ناموں پر رکھنا تجویز کیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہیں، اس لئے آپ کے نام پر اس گاؤں کا نام جو تحریک کی جائیداد کا مرکز ہے، محمد آباؤ رکھا گیا ہے.صدر انجمن احمدیہ کی جائیداد کے مرکز کا نام احمد آباد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نام پر رکھا گیا ہے.محمد آباد آٹھ ہزا را یکٹر کا رقبہ ہے.اس لحاظ سے میرا خیال ہے، اس میں چھ سات گاؤں اور آباد ہو سکتے ہیں.اگر بارہ سو ایکڑ کا ایک گاؤں بنایا جائے تو سات گاؤں اس رقبہ میں آباد ہو سکتے ہیں.اس وقت جو آبادیاں یہاں قائم ہو چکی ہیں، ان میں سے ایک کا نام پہلے سے حضرت خلیفہ اول کے نام پر نو رنگ ہے.اب شمالی حلقہ کی ایک آبادی، جو شیشن کے پاس ہے، اس کا نام کریم نگر رکھا گیا ہے.اور مغربی طرف کی دو آبادیوں میں سے ایک کا نام لطیف نگر صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی یاد میں اور ایک کا نام روشن نگر حافظ روشن علی صاحب کی یادگار میں رکھا گیا ہے.پہلے میں نے ان ناموں کے ساتھ آباد لگایا تھا مگر پھر اسے نگر میں تبدیل کر دیا تا کہ محمد آباد نام کے لحاظ سے بھی اپنے حلقہ میں ممتاز ہو.جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سورج ہیں اور یہ لوگ ستارے ہیں ، اسی طرح محمد آباد بطور سورج کے ہو اور اس کے ارد گرد باقی گاؤں بطور ستاروں کے ہوں.میرا ارادہ بعض اور نام بھی رکھنے کا ہے.مثلاً ” برہان نگر مولوی برہان الدین صاحب کے نام پر اور اسحاق نگر میر محمد اسحاق صاحب مرحوم کے نام پر.اسی طرح ایک دو گاؤں احمد آباد کی زمین میں بھی آباد ہو سکتے ہیں.ان کے ساتھ بھی نگر لگایا جائے گا اور جو گاؤں احمد آباد میں آباد ہوں گے، ان کے نام بھی سلسلہ کے لئے قربانی کرنے والوں کے نام پر رکھے جائیں گے.ان گاؤں کے نام بھی اللہ تعالیٰ کا ایک نشان ہوں گے.کیونکہ ایک وہ دن تھا کہ قادیان میں اگر تین، چار سو روپیہ چندہ آجا تا تھا تو بڑی ترقی سمجھی جاتی تھی اور آج یہ دن آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے سلسلہ کو لاکھوں لاکھ کی جائیدادیں دی ہیں اور قربانی کرنے والوں کے نام پر گاؤں آباد ہو رہے ہیں.اسی طرح میرا خیال ہے کہ ایک گاؤں کا نام "تحریک نگر“ رکھا جائے، جو تحریک جدید میں حصہ لینے والوں کی یاد گار ہو.پس اگر کسی دوست کو اضلاع حیدرآباد، نواب شاہ، سکھر، دادو، کراچی یا میر پور خاص میں کسی اچھی زمین کا علم ہو تو وہ ہمیں فوراً اطلاع دے.خواہ وہ قیمتا ملتی ہو یا مقاطعہ پر ملتی ہو.اگر ہمارے قریب ہو تو تھوڑی زمین بھی خریدی جاسکتی ہے.لیکن اگر دور ہو تو پندرہ سو یا دو ہزارا یکٹر سے کم نہ ہو.کیونکہ اس سے تھوڑی زمین کا انتظام بہت مہنگا پڑتا ہے.لیکن اگر ہماری اسٹیوں کے قریب تھوڑی زمین بھی ہو تو وہ خریدی جاسکتی ہے.اور پھر تبادلوں کے ذریعہ اسے ساتھ ملایا جاسکتا ہے.وو 709
خطبہ جمعہ فرمود 22 مارچ 1946ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم زمین کے علاوہ میرا ارادہ ہے کہ حیدر آباد اور ایسے ہی دوسرے علاقوں میں کارخانے جاری کئے جائیں.تحقیقات کے لئے کہ کہاں کہاں کارخانے مفید ہوں گے ، ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے ایک کارکن کو مقرر کیا ہے.اب واپس جاکر اس کی رپورٹ دیکھ کر فیصلہ ہو سکے گا کہ کس کس جگہ کس کس قسم کے کارخانے کامیاب ہو سکتے ہیں.سندھ کو اللہ تعالیٰ نے سلسلہ کی جائیدادوں کے لیے انتخاب کیا ہے.ہمیں اللہ تعالیٰ کے اس انتخاب کی قدر کرنی چاہئے اور محنت اور قربانی سے سلسلہ کی آمد کو بڑھانا چاہئے.پس میں تمام کارکنوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے فرائض کو سمجھیں اور انہیں کما حقہ ادا کریں اور سستی اور غفلت سے سلسلہ کی جائیداد کوکسی رنگ میں نقصان کی طرف نہ لے جائیں.اسلام کو دوبارہ تمام ادیان پر غالب کرنے کی اللہ تعالیٰ نے جو داغ بیل ڈالی ہے، اس میں وہ مد ہوں اور روک نہ بنیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اسلام سے باغی تو میں ہمارے ذریعہ اسلام میں داخل ہوں اور اسلام کی بنیاد ایسی مضبوط اور شاندار طور پر قائم ہو کہ غیر مسلموں کی فوقیت کلی طور پر مٹ جائے اور وہ ایسے نظر آئیں جیسے سورج کے مقابلہ میں ایک جگنو ہوتا ہے.( مطبوع الفضل 102 پریل 1946 ء ) 710
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اپریل 1946ء قیامت کو سرخرو و ہی ہوں گے جو اپنے آپ کو یا اپنے بچوں کو وقف کریں گے خطبہ جمعہ فرمود و 12 اپریل 1946ء سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.قادیان کے اور باہر کے سکولوں کے امتحانات یا تو ہو چکے ہیں یا عنقریب ختم ہونے والے ہیں.ہم نے یہ قانون پاس کیا ہوا ہے کہ مدرسہ احمدیہ میں مڈل پاس لڑکے لیے جائیں اور چار سال میں وہ مدرسہ احمدیہ کا ابتدائی کورس پاس کر کے پھر جامعہ احمدیہ میں داخل ہوں.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ ہماری جماعت جس حد تک پہنچ چکی ہے ، وہ ایک ایسا مقام ہے، جس میں در حقیقت ہمیں ہندوستان اور اس سے باہر تبلیغ کرنے کے لیے ایک سو مبلغ سالانہ کی ضرورت ہے.ایک سو مبلغ سالانہ کے معنی یہ ہیں کہ اگر آج سے ایک سو مبلغ ہمیں حاصل ہوں تو دس سال کے بعد ایک ہزار مبلغ ہم کو میسر آ سکتے ہیں.حالانکہ دنیا کی آبادی اور اس کی وسعت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ تعداد کچھ بھی چیز نہیں.در حقیقت دنیا میں صحیح طور پر تبلیغ کرنے کے لیے ہمیں اس سے بہت زیادہ مبلغین کی ضرورت ہے.مگر کم سے کم ہمارا پہلا قدم اتنا تو ہونا چاہئے کہ ہم ہندوستان اور اس سے باہر تبلیغ کے لیے ایک ہزار مبلغین کا اندازہ رکھیں.اس وقت ہمارے ہندوستانی اور غیر ہندوستانی مبلغ ، جہاں تک میں سمجھتا ہوں 60,70 کے قریب تو افریقہ میں ہیں اور 25 کے قریب افریقہ کے علاوہ دوسرے ممالک میں ہیں.غیر ممالک میں جو مقامی مبلغ مقرر کر لیے جاتے ہیں، ان کی تعداد کا سوائے افریقہ کے کوئی صحیح اندازہ نہیں.بہر حال یہ 85 کے قریب مبلغ تو باہر کے ہو گئے.ستر ، اسی کے قریب ہندوستان میں بھی ہمارے مبلغ موجود ہیں اور پچاس کے قریب دیہاتی مبلغ تیار ہو رہے ہیں.ان سب کو اگر شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد دوسو کے قریب بن جاتی ہے.مگر ان دوسو مبلغین میں سے بھی اعلی تعلیم یافتہ مبلغ بہت کم ہیں.وہ مولوی فاضل یا گریجوایٹ ، جن کو ہم نے با قاعدہ تعلیم دلوائی ہے، اگر ان سب کا اندازہ کیا جائے تو وہ ساٹھ ستر سے زیادہ نہیں نکلیں گے.باقی سب ایسے ہی ہیں، جنہیں وقتی ضرورت کے ماتحت تبلیغ کے کام پر لگایا گیا ہے.جہاں تک تبلیغ کے کام کا سوال ہے، وہ اس کام کو بخوبی کر سکتے ہیں.مگر جہاں تک سلسلہ کے مسائل کو کما حقہ سمجھنے کا سوال ہے ، وہ خود بھی ان مسائل کو کما حقہ نہیں سمجھ سکتے، کجا یہ کہ دوسروں کو سمجھانے کی قابلیت اپنے اندر رکھتے ہوں.711
خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اپریل 1946ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد دوم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا میں کوئی بھی جماعت ایسی نہیں ہوسکتی، جس کے تمام افراد لمی لحاظ سے ایک ہی سطح پر ہوں.ضرور ان میں سے کچھ زیادہ علم رکھنے والے ہوتے ہیں اور کچھ کم علم رکھنے والے ہوتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صحابہ میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں حضرت ابوبکر بھی تھے، حضرت علی " بھی تھے، حضرت عمر جیسے انسان بھی تھے.مگر ساتھ ہی بعض اس قسم کے بھی صحابہ تھے، جو مسائل اسلامیہ کو کما حقہ سمجھنے کی استعداد اپنے اندر نہیں رکھتے تھے.چند موٹے موٹے مسائل سمجھ لیتے اور اسی پر وہ اکتفا کرتے تھے ، جیسے حضرت بلال تھے.یا فقہی مسائل کو سمجھنے کا مادہ اپنے اندر نہیں رکھتے تھے، گو ظاہری علم ان کا زیادہ تھا جیسے حضرت ابو ہریرہ تھے.بہر حال کسی جماعت میں بھی سارے افراد یکساں طور پر ترقی یافتہ نہیں ہوتے.ہمارے ملک میں مثل مشہور ہے کہ خدا پنج انگشت یکساں نہ کرد یعنی خدا تعالیٰ نے انسان کی پانچ انگلیوں کو بھی برابر نہیں بنایا.ان میں بھی کوئی چھوٹی ہے اور کوئی بڑی.مگر جہاں یہ حقیقت ہے کہ کسی جماعت کے تمام افراد علمی لحاظ سے ایک ہی سطح پر نہیں ہوتے ، وہاں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کچھ نہ کچھ سطح کا برابر ہونا ضروری ہوتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ نے انسان کی پانچوں انگلیوں کو برابر نہیں بنایا.لیکن اگر ایک انگلی بغل کے پاس ہوتی اور ایک انگلی ہاتھ کے سرے پر، تو کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ اس فلسفہ کے ماتحت کہ خدا نے پانچ انگلیوں کو برابر نہیں بنایا، بغل والی انگلی ہتھیلی کے ساتھ والی انگلی سے مل کر کوئی کام کر سکتی؟ یقینا وہ کوئی کام نہیں کر سکتی تھی.کیونکہ پہلی صورت میں انگلیوں میں فرق تو ہے مگر زیادہ فرق نہیں اور دوسری صورت میں دونوں انگلیوں کے درمیان اتنا بڑا فرق پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ کسی صورت میں بھی آپس میں مل کر کام نہیں کر سکتیں.پس دو چیزوں میں فرق تو بے شک ہوتا ہے مگر وہ فرق ایسا ہی ہونا چاہیے کہ بڑی چیز اپنے آپ کو نیچا کر سکے اور نیچے والی چیز اپنے آپ کو اونچا کر سکے.چنانچہ دیکھ لو خدا تعالیٰ نے پانچوں انگلیاں بے شک برابر نہیں بنائیں مگر لقمہ اٹھاتے اور منہ میں ڈالتے وقت وہ پانچوں انگلیاں برابر ہو جاتی ہیں.بڑی انگلی نیچے جھک جاتی ہے اور چھوٹی انگلی اونچا ہونے کی کوشش کرتی ہے.اور اس طرح ساری انگلیاں باوجود آپس میں فرق رکھنے کے برابر ہو جاتی ہیں.اسی طرح جماعتوں کے افراد میں اگر باہمی فرق اتنا زیادہ ہو کہ وہ آپس میں مل ہی نہ سکیں.ایک زمین کی کہتا ہو اور دوسرا آسمان کی.تو ایسی جماعت کبھی عمدگی سے کام نہیں کر سکتی.ہاں اگر فرق تو ہو لیکن وقت آنے پر اوپر کے درجہ والا نیچے جھک جائے اور چھوٹے درجے والا اوپر اٹھنے کی کوشش پراٹھنے 712
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود : 12 اپریل 1946ء کرے تو وہ جماعت یقیناً کامیاب ہو جاتی ہے.جیسے ایک بچہ کو جب باپ پیار کرنے لگتا ہے تو ایک طرف بچہ اپنی ایڑیوں کے بل کھڑا ہو جاتا ہے اور دوسری طرف باپ اس کو پیار کرنے کے لئے نیچے کی طرف جھکتا ہے.لیکن اگر بچے کا قد چیونٹی کے برابر ہوتا تو تم سمجھ سکتے ہو کہ نہ باپ اس قدر نیچے جھک سکتا اور نہ بچہ اس قدر اونچا ہوسکتا کہ وہ اپنے باپ کے پیار کو حاصل کر سکتا.اتنا بڑا فرق جب بھی پیدا ہو جائے، قومی ہلاکت اور تباہی کا موجب بن جاتا ہے.اور جب کسی جماعت کے افراد کے اندر اتنا بڑا فرق سخت مضر ہوتا ہے تو مبلغین کے اندرا گر اسی قسم کا تفاوت پیدا ہو جائے تو وہ کیوں مصر نہیں ہوگا ؟ بہر حال جب تک ہماری ساری جماعت علمی معیار کے لحاظ سے بلندی تک نہیں پہنچ جاتی اور جب تک ہماری جماعت موجودہ علمی حالت سے کئی گنا زیادہ ترقی حاصل نہیں کر لیتی ، اس وقت تک ہمیں اور بھی زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ بڑے بڑے علماء ہماری جماعت میں ہر وقت تیار رہیں.اور اتنی بڑی تعداد میں رہیں کہ جماعت کو ضرورت کے وقت وہ آسانی کے ساتھ سنبھال سکیں.اگر ہم ایسا نہیں کریں گے یا اتنی بڑی تعداد میں اپنی جماعت میں علماء پیدا نہیں کریں گے کہ وہ ضرورت کے وقت جماعت کو سنبھال سکیں ، اس وقت تک ہر ٹھوکر کے وقت جماعت کے گرنے کا خطرہ ہوگا اور علمی لحاظ سے بھی جماعت کبھی اتنی ترقی نہیں کر سکے گی کہ ضرورت کے وقت اس کے افراد آپ آگے بڑھیں اور جماعتی بوجھ کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیں.پس ضروری ہے کہ جماعت کے بڑھنے کے ساتھ ہی علماء کی تعداد بھی ہماری جماعت میں بڑھتی چلی جائے.اس وقت ہماری جماعت میں علماء پیدا کرنے کا ذریعہ مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک زمانہ ایسا بھی آنے والا ہے، جب ہماری ضروریات کے لئے صرف مرکزی مدارس ہی نہیں ، ہندوستان کے کالج اور سکول بھی کافی نہیں ہوں گے.اور ہمیں دنیا کے گوشہ گوشہ میں مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ قائم کرنے پڑیں گے.بلکہ ہر براعظم میں ہمیں ایک بہت بڑی یو نیورسٹی قائم کرنی پڑے گی، جود مینیات کی تعلیم دینے والی ہو اور جس سے تبلیغ کو زیادہ سے زیادہ وسیع کیا جا سکے.مگر جب تک ہمارا یہ خواب پورا نہیں ہوتا اور جب تک ہمیں ایسے سامان میسر نہیں آتے ، اس وقت تک ہمیں کم سے کم اتنا تو کرنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں اس جگہ جو مدرسہ عطا فرمایا ہے اور جو جماعت میں علماء پیدا کرنے کا واحد ذریعہ ہے، اس کی ترقی کے زیادہ سے زیادہ سامان مہیا کریں.مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جماعت نے اس مدرسہ کی طرف ابھی تک پوری توجہ نہیں کی.میں نے پچھلے سال جماعت کو مدرسہ احمدیہ کی 713
خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اپریل 1946ء تحریک جدید - ایک البی تحریک.....جلد دوم طرف توجہ دلائی تھی ، جس کے نتیجہ میں جماعت میں بیداری پیدا ہوئی اور 32-30 کے قریب لڑکے مدرسہ احمدیہ کی پہلی جماعت میں شامل ہوئے.گو دوران سال میں یہ تعداد کچھ کم ہو گئی.کیونکہ بعض لڑکے ایسے تھے، جنہیں ماں باپ نے واپس بلا لیا اور بعض لڑکے ایسے تھے ، جو خود ہی بھاگ گئے.اس طرح 10-8 کے قریب تعداد میں کمی واقع ہو گئی.مگر پھر بھی جو تعداد باقی رہی، وہ پہلے سالوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ تھی.پہلے ہر سال صرف تین، چارٹر کے مدرسے میں داخل ہوتے تھے مگر اس تحریک کے نتیجہ میں قریباً تیں بنتیں ہو گئے.ان میں سے اگر 26-25 لڑکے بھی پاس ہو جائیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں آج سے چند سال کے بعد 26-25- مبلغ ملنے شروع ہو جائیں گے.یہ حالت پہلی حالت سے یقینا بہتر ہے.کیونکہ پہلے یہ تعداد دو، تین پر آکر رک چکی تھی مگر اب پھر یہ تعداد بڑھتے بڑھتے 26-25 تک پہنچ گئی ہے.لیکن مصیبت یہ ہے کہ گو باقی تمام پنجاب کی نسبت ہمارے علماء بہت زیادہ ہیں، پھر بھی ہماری ضروریات کے لحاظ سے یہ تعداد بہت کم ہے.سارے پنجاب میں جس قدر مولوی فاضل پاس ہوتے ہیں، ان میں سے چالیس فی صدی احمدی ہوتے ہیں.مگر یہ نسبت بھی ایسی ہے، جس میں ہم پہلے مقام سے اب گر گے ہیں.پہلے یہ حالت ہوا کرتی تھی کہ احمدی اگر 80 فی صدی ہوتے تھے تو غیر احمدی 20 فی صدی ہوتے تھے.آہستہ آہستہ ہماری تعداد گرتی گئی اور ان کی تعداد بڑھتی چلی گئی.گویا دونوں طرف سے فرق پیدا ہونا شروع ہو گیا.ہماری طرف سے مولوی فاضل کا امتحان دینے والے کم ہوتے چلے گئے اور ان کی طرف سے مولوی فاضل کا امتحان دینے والے بڑھتے چلے گئے.یہاں تک کہ ہم 80 فی صدی سے گر کر 22 فی صدی پر آگئے.اب میری طرف سے جو تحریک کی جارہی ہے کہ دوستوں کو اپنے بچے مدرسہ احمدیہ میں داخل کرانے چاہیں ، اگر یہ تحریک کامیاب طور پر جاری رہے تو امید کی جاسکتی ہے کہ چند سالوں میں ہی ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے 50,60 بلکہ 70 فیصد تک پہنچ سکتے ہیں.بہر حال گو تعداد ہماری زیادہ ہے مگر کام کرنے والوں کے لحاظ سے یہ تعداد زیادہ نہیں.ہماری جماعت میں سے 50,60 طلباء مولوی فاضل کے امتحان میں ہر سال ضرور کامیاب ہونے چاہیں.بلکہ 50,60 مولوی فاضل بھی بہت کم ہیں، کیونکہ ہماری ضروریات اس سے زیادہ ہیں.پھر ہمارے سامنے ترقی کا جو وسیع پروگرام ہے، اس کے لحاظ سے قطعی طور پر علم کا وہ معیار کافی نہیں سمجھا جاسکتا، جو اس وقت ہماری جماعت میں پایا جاتا ہے.جب تک صرف احمدیت کو سمجھنے کا سوال تھا، جب تک احمدیت کو سمجھ کر لوگوں کے کانوں تک اس کی آواز کو پہنچانے کو سوال تھا، اس وقت تک ہمیں 714
تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود و 12 اپریل 1946ء اور قسم کے علوم کی ضرورت تھی.اگر ہم قرآن کریم کو سمجھ سکتے اور دوسروں کو سمجھا سکتے تھے، اگر ہم احمدیت کو سمجھ سکتے اور دوسروں کو سمجھا سکتے تھے تو یہ بات ہمارے لئے کافی تھی.کیونکہ احمدیت کی غرض اس سے پوری ہو جاتی تھی.لیکن اگر ہم نے دنیا میں باہر نکلنا ہے، اگر ہم نے عرب علماء سے بھی ٹکر لینی ہے اور اگر مروجہ علوم کے بڑے بڑے ماہرین کا ہم نے مقابلہ کرنا ہے تو پھر لازمی طور پر ہمیں اپنے ظاہری علوم کا میعار بھی بڑھانا پڑے گا.ہم جس قسم کے علماء تیار کرتے ہیں یا تیار کر سکتے تھے، وہ ایسے ہی تھے کہ جہاں علمی لحاظ سے وہ قرآن کریم اور احادیث کو علماء از ہر سے بہتر سمجھتے تھے ، وہاں اگر عربی زبان میں گفتگو کرنے کا سوال آجا تا تھا یا بعض خاص قسم کی اصطلاحات کا سوال آجا تا تھا تو دوسرے لوگ ہمارے علماء سے بہت بڑھے ہوئے تھے.اور چونکہ عام طور پر لوگ ظاہر کی طرف دیکھتے ہیں، مغز کی طرف ان کی نظر نہیں ہوتی اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ظاہر ایک بیرونی چیز ہے، جس کی طرف ہر شخص کی نگاہ فورا اٹھنے لگتی ہے اور مغز اندر کی طرف ہوتا ہے، جسے ظاہر بین نگاہ نہیں دیکھتی ، اس لئے وہ لوگ جو ظاہری علوم کے دلدادہ تھے، ہمارے مبلغین سے پوری طرح متاثر نہیں ہوتے تھے.اب چونکہ ہم نے ان علاقوں میں بھی اشاعت احمدیت کے لیے اپنی کوششوں کو تیز کرنا ہے، اس لئے ہمیں پہلے سے بہت زیادہ علماء کی ضرورت ہے اور ہمیں اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ ہم اپنی جماعت کے ایک طبقہ کو زیادہ اعلیٰ درجہ کے علمی معیار پر پہنچ سکیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ باطنی طور پر ان کو اعلی معیار پر پہنچانا، ہمارے قبضہ میں ہے لیکن ظاہری طور پر انہیں اعلیٰ معیار پر پہنچانا، اس وقت دوسروں کے قبضہ میں ہے.اور ہم اس وقت تک اس رو کا مقابلہ نہیں کر سکتے، جب تک ہماری جماعت میں بھی ایسا طبقہ موجود نہ ہو، جو ظاہری علوم کے لحاظ سے اعلیٰ درجہ کے معیار کو حاصل کئے ہوئے ہو.پس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس معیار پر جلد سے جلد پہنچیں اور ہماری جماعت میں اعلیٰ درجہ کے علوم کے ماہرین کی ایک کافی تعداد پیدا ہو جائے.تاکہ ہماری جماعت میں نئے علماء کی ضرورت کا سوال بہت حد تک حل ہو جائے.مجھے معلوم نہیں کہ اس وقت تک کے جماعت کے لوگوں نے میری تحریک پر کیا توجہ کی ہے؟ اصل طریق یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی تحریک کی جائے تو اس کے نتائج سے امام کو آگاہ رکھا جائے کیونکہ تمام کام امام کی آواز پر ہوا کرتا ہے.میں نے اخبارات میں مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر اور جامعہ احمدیہ کے پرنسپل کی طرف سے اس قسم کے اعلانات تو دیکھے ہیں کہ دوستوں کو اپنے لڑکے یہاں تعلیم کے لئے بھیجوانے چاہئیں.مگر مجھے کسی نے بتایا نہیں کہ اس بارہ میں لڑکوں کی طرف سے کچھ درخواستیں آئی 44 715
خطبہ جمعہ فرمود : 12 اپریل 1946ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم ہیں یا نہیں؟ اور اگر آئی ہیں تو کتنی ہیں؟ اگر مجھے بتایا جاتا تو میں اندازہ لگا سکتا کہ حالات امید افزا ہیں یا مایوس کن ؟ بہر حال میرا فرض یہ ہے کہ میں چند سال تک متواتر جماعت میں بیداری پیدا کرتا چلا جاؤں.یہاں تک کہ لوگوں پر اس کی اہمیت واضح ہو جائے اور وہ خود بخود اس طرف توجہ کرنا شروع کر دیں.اس سال پھر میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو دین کی خدمت کے لیے پیش کریں.میں نے بتایا تھا کہ ان کے دو ہی مالک ہیں.ایک سچا مالک ہے اور ایک جھوٹا مالک ہے.ایک خدا ان کا مالک ہے اور ایک شیطان ان کا مالک ہے.تم مجبور ہو اس بات پر کہ بہر حال ان دو میں سے ایک کے سپر دا پنی اولاد کو کر دو.اگر تم کسی کے سپرد نہیں کرو گے تو بہر حال تمہاری اولا دیا خدا کی طرف چلی جائے گی یا شیطان کی طرف چلی جائے گی.اگر تم اپنی اولادوں کو خدا کے سپرد نہیں کرو گے تو یقینا وہ شیطان کے قبضہ میں چلی جائیں گی.اور اپنی اولادوں کو خدا کے سپرد کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے پاس ہر وقت اتنے علماء موجودر ہیں، جو خدا تعالیٰ کی آواز کو ہر احمدی اور غیر احمدی کے کان میں ڈالتے رہیں.جب تک ہماری آواز دنیا میں چاروں طرف پھیل نہیں جاتی اور جب تک ایسا ماحول پیدا نہیں ہو جاتا کہ احمدیت اس میں زندہ رہ سکے، اس وقت تک ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے.ہمارا پیج بودینا کافی نہیں.بلکہ اس پیج کے لیے مناسب ماحول کی بھی ضرورت ہے.دنیا میں خالی پیج کافی نہیں ہوتا بلکہ پیج کے نشو و نما کے لئے زمین کی بھی ضرورت ہوتی ہے، ہوا کی بھی ضرورت ہوتی ہے، پانی کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ساری چیزیں مل کر نتیجہ پیدا کرتی ہیں.صرف اتنا کافی نہیں ہوتا کہ بیج بود یا اور اٹھ کر گھر چلے گئے.اسی طرح ایک احمدی کا جب تک ماحول بھی احمدی نہ ہو، اس کی احمد بیت دائمی طور پر زندہ نہیں رہ سکتی.احمد بیت کی زندگی کی یہی صورت ہے کہ ایک احمدی بچہ جن بچوں کے ساتھ کھیلتا ہے، وہ یا تو احمدیت قبول کرنے والے ہوں یا احمدیت کی آواز سے متاثر ہوں.جن استادوں سے وہ تعلیم حاصل کرتا ہے ، وہ یا تو احمدی ہوں یا احمدیت کی آواز سے مرعوب ہوں.جن دفاتر میں وہ کام کرنے کے لئے جاتا ہے، ان میں کام کرنے والے اور اس کے دائیں بائیں اور ارد گرد بیٹھنے والے یا تو احمدی ہوں یا احمدیت کی آواز سے مرعوب ہوں.جن بازاروں میں وہ سودا سلف لینے کے لئے جاتا ہے، ان بازاروں میں تاجر اور دکاندار یا تو احمدی ہوں یا احمدیت کی آواز سے مرعوب ہوں.اسی طرح وہ اہل حرفہ اور اہل پیشہ، جو اس کے گھر پر کام کرنے کے لئے آتے ہیں یا یہ ان کے گھر پر کام کرانے کے لئے جاتا ہے، وہ سب کے سب یا تو احمدی ہوں یا احمدیت کی آواز سے متاثر ہوں.اگر ایک مزدور اس کے گھر پر مزدوری کے لئے آتا ہے یا یہ اس کے 716
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود : 12 اپریل 1946ء پاس کسی کام کے سلسلہ میں جاتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ مزدور احمدی ہو یا احمدیت سے متاثر ہو.اگر ایک سقہ اس کے مکان پر پانی ڈالنے کے لئے آتا ہے یا یہ کہ اس کے مکان پر یہ کہنے کے لئے جاتا ہے کہ میرے گھر میں پانی ڈال دیا کرو تو وہ یا تو احمدی ہو یا احمدیت کی آواز سے متاثر ہو.اسی طرح ایک نائی اس کے پاس حجامت بنانے کے لئے آتا ہے یا یہ اس کے پاس حجامت بنوانے کے لئے جاتا ہے.یا ایک درزی اس کے پاس کپڑوں کی سلائی لینے کے لئے آتا ہے یا یہ اس درزی کے پاس کپڑوں کو سلانے کے لئے جاتا ہے.یا ایک دھوبی اس کے لئے کپڑے دینے کے لئے آتا ہے یا یہ دھوبی کے پاس کپڑے دینے کے لئے جاتا ہے.تو ضروری ہے کہ وہ نائی اور وہ درزی اور وہ دھوبی یا تو احمدی ہوں یا احمدیت کی آواز سے متاثر ہوں.یا مثلاً ایک لوہار کسی کام کے لئے اس کے پاس آتا ہے یا یہ اس لوہار کے پاس جاتا ہے.یا ایک ترکھان اس کے مکان کی مرمت کے لئے آتا ہے یا یہ اس ترکھان کے مکان پر جاتا ہے.تو ضروری ہے کہ وہ لوہار اور ترکھان یا تو احمدی ہوں یا احمدیت کی آواز سے مرعوب ہوں.جب تک ہم اپنے ارد گرد کے ماحول کو بھی احمدی نہیں بنا لیتے ، جب تک ہمارے دائیں اور ہمارے بائیں کام کرنے والے احمدی نہیں بن جاتے یا احمدیت کی آواز سے مرعوب نہیں ہو جاتے ، اس وقت تک لازماً کان میں دو قسم کی آواز میں پڑتی رہیں گی.اور دو قسم کی آوازیں ہمیشہ انسان کو یا تو گمراہ کر دیتی ہیں اور یا اس میں ہسٹریا کا مرض پیدا کر دیا کرتی ہیں.پرانے زمانہ میں لوگ کہا کرتے تھے کہ دو کشتیوں میں قدم رکھنے والا سلامت نہیں رہ سکتا.یہ بھی صحیح ہے.لیکن اس سے بھی زیادہ صحیح وہ حقیقت ہے، جو موجودہ زمانہ میں علم النفس کے ماہرین نے ثابت کی ہے.اور وہ حقیقت یہ ہے کہ دو قسم کی آوازوں کا کان میں پڑنا، دوکشتیوں میں قدم رکھنے سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے.کشتیاں ادھر ادھر ہوں تو زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا ہے کہ انسان کی ٹانگیں چر جائیں.لیکن جس شخص کے کان میں ہمیشہ دوستم کی آوازیں آتی رہیں گی ، وہ یقینا پاگل ہو جائے گا اور کسی شخص کا مرجانا، اس سے ہزار درجہ بہتر ہوتا ہے کہ وہ پاگل ہو کر زندہ رہے.پس جب تک ہم اپنے ماحول کو درست نہیں کر لیتے، اس وقت تک ہماری اولادیں شیطانی حملوں سے بھی محفوظ نہیں رہ سکتیں.ہم خود انہیں دھکے دے کر شیطان کی گود میں ڈالنے والے ہوں گے.پس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری جماعت میں اس کا احساس پیدا ہو اور جن لوگوں کو خدا تعالیٰ توفیق عطا فرمائے ، وہ اپنی اولادوں کو دین کی خدمت کے لئے وقف کریں.اس وقت تک امراء اس تحریک میں حصہ لینے سے بہت حد تک محروم چلے آرہے ہیں اور انہوں نے بہت ہی کم بچے دین کی خدمت کے لیے 717
خطبہ جمعہ فرموده 12 اپریل 1946ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم وقف کئے ہیں.اگر ہم شمار کریں تو غربا تو درجنوں کی مقدار میں ایسے نکل آئیں گے، جنہوں نے اپنے بچوں کو خدمت دین کے لئے اس رنگ میں وقف کیا لیکن اگر امراء کو گننے لگیں تو وہ دو، چار سے زیادہ نہیں نکل سکیں گے.یہ ایک ایسا نمونہ ہے، جسے دشمن کے سامنے پیش کر کے ہم اس پر اپنی فوقیت یا اپنی قربانیوں کی عظمت ثابت نہیں کر سکتے.غربا کا نمونہ اگر ہم پیش بھی کریں تو وہ کہہ دے گا کہ یہ بھوکے مرتے تھے، ان کے پاس اپنی تعلیم کا اور کوئی ذریعہ نہیں تھا، جماعت نے وظائف مقرر کر دیئے اور وہ پڑھتے چلے گئے.اس میں انہوں نے قربانی کون سی کی ہے؟ اس وقت ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم غلط کہتے ہو.انہوں نے جو کچھ کیا ہے، اخلاص اور ایمان کے ماتحت کیا ہے.کیونکہ اخلاص اور ایمان ایک ایسی چیز ہے، جو ہم کسی کو دکھا نہیں سکتے.اگر وہ سارے کے سارے اخلاص سے کام لینے والے ہوں ، سارے کے سارے ایمان کا اعلیٰ مقام رکھنے والے ہوں، تب بھی دشمن کے مقابلہ میں کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بے شک ہم نے ان کے لئے اپنا روپیہ خرچ کیا ہے.لیکن اگر ہم روپیہ خرچ نہ کرتے تب بھی ان لوگوں میں ایسا اخلاص تھا کہ وہ ضرور قربانی کرتے اور اپنے بچوں کو بہر حال اس مدرسہ میں داخل کرتے ؟ یہ ایک دل کی بات ہوگی ، جسے ہم ثابت نہیں کر سکیں گے اور ہمیں اپنے دشمن کے مقابلہ میں ضرور خاموش ہونا پڑے گا.اور یا پھر یہ ماننا پڑے گا کہ احمدیت نے غریبوں میں تو اخلاص پیدا کیا ہے لیکن امیروں میں پیدا نہیں کیا.وہ کہے گا تم میں کھاتے پیتے لوگ بھی تھے، اگر احمدیت نے لوگوں کے دلوں میں واقعہ میں اخلاص پیدا کیا تھا تو وجہ کیا ہے کہ جو لوگ کھاتے پیتے ہیں، انہوں نے اپنی اولادیں دین کی خدمت کے لئے وقف نہیں کیں ؟ میں جانتا ہوں کہ ہم اس کا جواب دے سکتے ہیں.مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ہم اس کا جواب دے کر دشمن کو ساکت نہیں کر سکتے ، ہم سرخرو ہو کر اس کے سامنے سے نہیں اٹھ سکتے ہمیں ضرور شرمندگی اٹھانی پڑے گی، ہمارے جسم پر ضرور پسینہ آجائے گا، ہماری زبان ضرور لڑ کھڑانے لگ جائے گی اور ہمارا دل ضرور دھڑ کنے لگ جائے گا.کیونکہ یہ وہ بات ہے، جس کے متعلق ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہم اس کا سوفی صدی درست جواب دے سکتے ہیں.آخر جماعت اس کے معنی تو نہیں کہ اس کے غریب اچھے ہوں یا جماعت اس کے معنی تو نہیں کہ اس کے امیر ا چھے ہوں یا جماعت اس کے معنی تو نہیں کہ اس کے مرداچھے ہوں یا جماعت اس کے معنی تو نہیں کہ اس کی عورتیں اچھی ہوں یا جماعت اس کے معنی تو نہیں کہ اس کے بچے اچھے ہوں یا جماعت اس کے معنی تو نہیں کہ اس کے متوسط الحال لوگ اچھے ہوں یا جماعت اس کے معنی تو نہیں کہ اس کے علماء اچھے ہوں یا جماعت اس کے معنی تو نہیں کہ اس کے جہلاء اچھے ہوں.بلکہ جماعت اس کے معنی ہیں کہ اس کا ہر گروہ 718
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود : 12 اپریل 1946ء بحیثیت جماعت اچھا ہو.وہ جماعت اچھی کہلاسکتی ہے، جس کے امراء بھی بحیثیت جماعت اچھے ہوں.شاذ و نادر کے طور پر اگر ان میں سے کوئی بگڑا ہوا ہو تو یہ اور بات ہے.ورنہ صحیح معنوں میں جماعت وہی کہلا سکتی ہے، جس کے عام طور پر امراء بھی اچھے ہوں اور جس کے عام طور پر غرباء بھی اچھے ہوں.جس کے عام طور پر علماء بھی اچھے ہوں اور جس کے عام طور پر جہلاء بھی اچھے ہوں.جس کے عام طور پر مرد بھی اچھے ہوں اور جس کی عام طور پر عورتیں بھی اچھی ہوں.جس کے عام طور پر بچے بھی اچھے ہوں اور جس کے عام طور پر بوڑھے بھی اچھے ہوں.اگر کسی جماعت کا کسی ایک گروہ پر اثر پڑتا ہے، دوسروں پر نہیں تو وہ یقینا آسمانی جماعت نہیں کہلاسکتی.اس لئے کہ وہ محدوداثر رکھنے والی ہوگی.وہ قومی جماعت تو کہلا سکتی ہے مگر خدائی نہیں.خدائی جماعت وہ ہوتی ہے، جو ہر گروہ کو مخاطب ہوتی ہے اور اپنے ہر مخالف کو اپیل کرتی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انبیاء کی جماعت غربا کی جماعت ہوتی ہے.مگر اس کے صرف یہ معنی ہوتے ہیں کہ انبیاء کی جماعتوں میں غرباء کثرت سے شامل ہوتے ہیں.یہ معنی نہیں ہوتے کہ امراء ان میں شامل ہی نہیں ہوتے.چنانچہ دیکھ لو، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو لوگ ایمان لائے ، وہ محض غربا میں سے نہیں آئے بلکہ امراء سے بھی آئے.چنانچہ حضرت ابو بکر بھی آئے ، حضرت عثمان " بھی آئے اور دونوں مالدار تھے.اسی طرح حضرت عمرؓ بھی مالداروں میں سے تھے.یہی حال حضرت طلحہ اور زبیر کا تھا کہ وہ بھی اچھے مالدار خاندانوں میں سے تھے.اسی طرح غرباء بھی آئے ، عورتیں بھی آئیں، بچے بھی آئے ، بوڑھے بھی آئے، جوان بھی آئے.غرض سب کے سب آئے.جو ثبوت تھا، اس بات کا کہ یہ کوئی خاص قسم کی پولیٹیکل باڈی نہیں تھی.اگر پولیٹیکل باڈی ہوتی تو انہی کی ہمدردی کھینچتی ، جن کو فائدہ پہنچانے کے لئے وہ کھڑی ہوئی تھی.مگر چونکہ یہ مذہب تھا اور مذہب کا تعلق ہر شخص کے ساتھ ہوتا ہے، اس لئے اس میں مرد بھی شامل ہوتے ہیں اور عورتیں بھی.امیر بھی شامل ہوتے ہیں اور غریب بھی.عالم بھی شامل ہوتے ہیں اور جاہل بھی.آزاد بھی شامل ہوتے ہیں اور غلام بھی.کیونکہ مذہب کا تعلق نہ امیر سے ہوتا ہے نہ غریب سے.نہ بوڑھے سے ہوتا ہے نہ جو ان سے نہ آزاد سے ہوتا ہے نہ غلام سے.نہ عالم سے ہوتا ہے نہ جاہل سے.بلکہ سب سے اس کا تعلق ہوتا ہے اور ہر شخص خواہش رکھتا ہے کہ میں اس میں داخل ہو کر نجات حاصل کروں.مگر جو قومی جماعت ہوتی ہے، وہ چونکہ مخصوص لوگوں سے تعلق رکھتی ہے، اس لئے سب لوگ اس میں شامل نہیں ہو سکتے.احمدیت بھی اس وقت اپنا رعب اور اثر پیدا کر سکتی ہے، جب اس کا ہر طبقہ اپنے ایمان اور اخلاص کا ثبوت دے.بعض غریبوں کا اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے پیش کر دینا یا ان کا اپنی اولادوں کو 719
خطبہ جمعہ فرموده 12 اپریل 1946ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اسلام کی اشاعت کے لئے وقف کر دینا، یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہو سکتا کہ احمدیت نے ہر طبقہ پر اپنا اثر ڈال لیا ہے.لازماً اس کے یہ معنی ہوں گے کہ ہماری جماعت کے امراء احمد یہ نظام کی خوبی کے پوری طرح قائل نہیں.وہ اپنے پرانے نظام کے ہی دلداد ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کے پلاؤ کھاتے بیٹے ہمیشہ پلاؤ ہی کھاتے رہیں اور ان کے مخمل پہننے والے بچے ہمیشہ مخمل ہی پہنتے رہیں.چونکہ وہ احمد یہ نظام کو اس کے خلاف پاتے ہیں، اس لئے وہ اسلام کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو پیش کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.پس آج میں ایک دفعہ پھر جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اگر احمدیت ایک اچھی چیز ہے، اگر احمدیت کی اتباع فائدہ بخش ہے اور اگر احمدیت کی اتباع انسان کو دین اور دنیا میں سرخرو کرنے والی ہے تو امراء اور درمیانی طبقہ کے لوگ مجھے بتائیں کہ وہ اپنے بچوں کو اس عظیم الشان خدمت سے محروم کر کے ان کے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں یا دوستی ؟ اور کیا وہ اپنے بچوں کو اس طرف نہ بھیج کر اپنے ساتھ اور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ محبت کر رہے ہیں یا ان پر خطر ناک ظلم کر رہے ہیں؟ اگر احمدیت ایک اچھی چیز ہے اور اگر احمدیت کی اشاعت کے لیے اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو وقف کرنا خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے تو یقینا قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے حضور وہ لوگ سرخرو ہوں گے، جنہوں نے اپنے بچے خدمت دین کے لیے پیش کئے ہوں گے اور یقینا وہ بچے بھی سرخرو ہوں گے ، جنہوں نے اپنی زندگیاں اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لیے وقف کی ہوں گی.اس کے مقابلہ میں وہ لوگ ، جنہوں نے اپنی زندگیاں وقف کرنے میں کوتاہی سے کام لیا ہوگا ، وہ خدا تعالیٰ کے حضور شرمندہ ہوں گے.اسی طرح وہ لوگ بھی شرمندہ ہوں گے، جنہوں نے نہ خود دین سمجھنے کی کوشش کی اور نہ اپنی اولادوں کو دین کی خدمت کے لیے وقف کیا.میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر امراء اس طرف توجہ کریں تو انہیں بہت کچھ سہولت بھی ہے.وہ اپنی جائیداد کا کچھ حصہ ایسی اولاد کے لئے وقف کر سکتے ہیں.کلکتہ کے ایک احمدی دوست ہیں، جنہوں نے مجھے سے ذکر کیا کہ میرا ایک بچہ جس کو میں نے خدمت دین کے لئے پیش کیا ہے، میں چاہتا ہوں کہ اس کے لئے اپنی پچھتر ہزار کی ایک جائیداد وقف کر دوں تا کہ اس کی آمد اس کے کام آتی رہے.میں نے کہا یہ بہت عمدہ بات ہے، آپ ایسا ضرور کریں.لیکن میرے نزدیک زیادہ بہتر یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ آپ یوں کریں کہ اپنی اس جائیداد کو ایک بچہ کے لئے وقف کر دیں، آپ اس جائیداد کو اس رنگ میں وقف کریں کہ آئندہ میری اولاد میں سے جو بھی اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے پیش کرے گا، اس جائیداد کی آمد 720
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اپریل 1946ء اس کے لئے وقف رہے گی.اگر آپ اس طرح جائیداد کو وقف کریں گے تو اس کا فائدہ صرف ایک نسل تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ آپ کی آئندہ آنے والی نسلیں بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں گی.اب دیکھو یہ کیسا اچھا طریق ہے، جو اس دوست نے اختیار کیا.اور اگر ایک شخص ایسا کر سکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ دوسرے لوگ بھی ایسا نہ کریں.میں نے دیکھا ہے، حضرت خلیفہ اول بار ہا فرمایا کرتے تھے کہ آخر وجہ کیا ہے کہ اگر کسی کے دو بیٹے ہوں اور ان میں سے ایک دنیا کمائے تو وہ اپنی کمائی کا ایک حصہ اپنے اس دوسرے بھائی کو نہ دے، جس نے دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا ہوا ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اس کی بڑی کثرت سے مثالیں ملتی ہیں.یہاں تک کہ سب انصار نے یک دم اپنی ساری جائیداد میں مہاجرین کو پیش کر دیں اور انہیں اپنے ساتھ شریک کرلیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لے گئے تو آپ نے انصار سے فرمایا کہ اے انصار! مہاجرین یہاں اجنبی ہیں، باہر سے آئے ہوئے ہیں اور یہاں ان کے کوئی رشتہ دار نہیں.میں چاہتا ہوں کہ تمہیں آپس میں بھائی بھائی بنادوں.چنانچہ آپ نے ایک ایک انصاری کو لیا اور اسے ایک ایک مہاجر کے ساتھ وابستہ کر دیا اور کہا کہ لواب تم بھائی بھائی بن گئے ہو.انہوں نے بھی اس اخوت کو اتنی اہمیت دی کہ بعض نے اصرار کرنا شروع کر دیا کہ آؤ ہم اپنی جائیدادیں آپس میں تقسیم کر لیں.کیونکہ جب ہم آپس میں بھائی بھائی بن چکے ہیں تو اب ان جائیدادوں میں صرف ہمارا ہی حصہ نہیں بلکہ تمہارا حصہ بھی ہے.ایک شخص نے تو حد کر دی.وہ اپنے مہاجر بھائی کو گھر لے گیا اور کہا میری دو بیویاں ہیں اور تم ابھی کنوارے ہو.(اس وقت تک پردہ کا حکم ابھی نازل نہیں ہوا تھا.( ان دونوں میں سے جو بھی تمہیں پسند ہو، میں اس کو طلاق دینے کے لئے تیار ہوں، تم اس سے شادی کر لو.یہ الگ بات ہے کہ اس شخص کا یہ جوش انتہائی حد تک پہنچا ہوا تھا.نہ مہاجر نے ایسا کیا، نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے کے لیے اسے کہا.مگر یہ بات ان کے اخلاص پر دلالت کرتی ہے.یہ بات بتاتی ہے کہ وہ کس طرح آپس میں بھائی بھائی بن گئے تھے.اور پھر کس طرح انہوں نے اپنی جائیدادوں میں دوسروں کو شریک بنالیا.اگر بغیر کسی جسمانی رشتے کے انصار اپنے مہاجر بھائیوں کو آدھا آدھا مال دینے کے لئے تیار تھے تو کیا ایک ماں باپ سے پیدا ہونے والے بیٹے ایسا نہیں کر سکتے کہ ان میں سے جو شخص دنیا کمارہا ہو، وہ اپنی کمائی کا آدھا حصہ اپنے اس بھائی کو دے دیا کرے، جس نے اسلام کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا ہوا ہے؟ وہاں تو صرف ایک ہی رشتہ تھا یعنی انصار اور مہاجرین کے درمیان صرف روحانی رشتہ تھا، 721
خطبہ جمعہ فرموده 12 اپریل 1946ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم جسمانی نہیں.پھر جہاں جسمانی اور روحانی دونوں رشتے ہوں ، وہاں ایک دوسرے کے لئے کس قدر قربانی کرنی چاہئے؟ میں تو سمجھتا ہوں اگر کسی باپ کے دو بیٹے ہوں تو ان دونوں کا فرض ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور اپنے باپ سے کہیں کہ اے ہمارے باپ آپ ہم میں سے جس کو چاہیں، دین کی طرف بھیج دیں اور جس کو چاہیں دنیا کمانے پر لگالیں.ہم میں سے جو شخص دنیا کمائے گا، وہ اپنی کمائی کا آدھا حصہ ہمیشہ اس بھائی کو دے دیا کرے گا، جس نے دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا ہوگا؟ تا کہ اگر وہ کسی اور طرح دین کی خدمت نہیں کر سکتا تو اسی رنگ میں حصہ لے کر اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرے.اگر قربانی اور ایثار سے کام لیا جائے تو میں سمجھتا ہوں، اس قسم کا عزم کر لینا کوئی مشکل بات نہیں اور اس کی مثالیں ہمیں اور قوموں میں بھی مل سکتی ہیں.چنانچہ ہندوؤں میں اس کی ایک موٹی مثال موجود ہے.لالہ ہنس راج پرنسپل ڈی.اے.وی کالج لاہور، جن کا ہندوؤں کی تعلیم میں سب سے زیادہ حصہ ہے.وہ غریب ماں باپ کے بیٹے تھے.ایسے غریب ماں باپ کے کہ ان کا تعلیم پانا بھی مشکل تھا.ان کا ایک بھائی ڈاک خانہ میں ملازم تھا اور وہی ان کو تعلیمی اخراجات دیتا تھا.چنانچہ اسی کی مدد سے انہوں نے کالج کی تعلیم حاصل کی.اسی دوران میں پنڈت دیانند صاحب کی یادگار میں ڈی.اے.وی کالج قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور انہوں نے اپنے آپ کو قوم کی خدمت کے لئے وقف کر دیا.چونکہ انہوں نے قومی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا تھا، ان کے بھائی نے کہا کہ میں ہمیشہ ان کو اپنی آدھی تنخواہ دیتا ہوں گا تا کہ یہ قوم پر بوجھ نہ بنیں.چنانچہ لالہ ہنس راج صاحب ساری عمر ڈی.اے.وی کالج کے پرنسپل رہے اور انہوں نے اسے ادنیٰ حالت سے بہت بڑی ترقی تک پہنچا دیا.مگر قوم سے وہ کوئی روپیہ نہیں لیتے تھے.ہمیشہ ان کا بھائی اپنی تنخواہ میں سے نصف رو پیدان کو بھجوا دیا کرتا تھا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعد میں اس کی تنخواہ زیادہ ہوگئی تھی.مگر بہر حال ایک ڈاکخانہ کے ملازم کی تنخواہ چار، پانچ سو سے زیادہ نہیں ہوسکتی.اس تنخواہ کا آدھا حصہ وہ برابر ان کو دیتارہا اور اسی پر ان کا گزارہ رہا.یہ درست ہے کہ ہندوؤں کے پاس روپیہ حاصل کرنے کے اور بھی ذرائع ہوتے ہیں.چونکہ ہند و مالدار قوم ہے، اس لئے اگر کسی کے پاس تھوڑ اسا روپیہ بھی ہو تو قومی احساس رکھنے والے بینکروں کو وہ روپیہ دے کر ہزاروں روپے کی جائیدادیں پیدا کر لیتے ہیں.مسلمان ایسا نہیں کر سکتے.لیکن بہر حال ہندوؤں میں سے ایک شخص نے یہ مثال پیش کر دی کہ وہ اپنے دوسرے بھائی کو ، جس نے قوم کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا ہوا تھا ، ساری عمر اپنی آدھی تنخواہ دیتا رہا.722
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم.خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اپریل 1946ء یہ وہ نمونہ ہے، جو سب سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے مدینہ میں پیش کیا.جبکہ سارے شہر کے انصار نے اپنے اپنے مہاجر بھائیوں کے لئے آدھی آدھی جائیدادیں پیش کر دی تھیں.اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ یہ نمونہ دکھا سکتے ہیں تو کیا وہی مثال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ " کا مثیل کہلانے والے احمدی اپنے نمونہ سے پیش نہیں کر سکتے ؟ اور کیا آج ہر بھائی اپنے دوسرے بھائی کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ بھائی اگر تجھے دین کی خدمت کا شوق ہے تو بے شک خوشی سے جا اور یہ کام کر میں ہمیشہ اپنی تنخواہ کا آدھا حصہ تجھے دیتا رہوں گا تا کہ قوم پر تو بوجھ نہ بنے اور اپنا کام عمدگی کے ساتھ کرتا رہے؟ میں سمجھتا ہوں ایک طرف ماں باپ کے دلوں میں یہ تحریک پیدا ہونی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو اسلام کی خدمت کے لئے ادھر بھیجیں اور دوسری طرف خود بچوں کے دلوں میں یہ تحریک پیدا ہونی چاہیے کہ وہ اسلام کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں.اور اپنے ماں باپ کو مجبور کریں کہ وہ انہیں اس طرف بھیجیں.یہ ایمان کا معاملہ ہے اور ایمان میں چھوٹے اور بڑے کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دعوی نبوت فرمایا اور آپ نے تبلیغ شروع کی تو لوگوں نے ہچکچانا اور بھا گنا اور اعراض کرنا شروع کر دیا.آپ نے سوچ و بچار اور غور وفکر کے بعد ایک دن لوگوں کی دعوت کی اور ارادہ فرمایا کہ جب یہ لوگ کھانا کھا چکیں گے تو میں انہیں اسلام کی تبلیغ کروں گا.چنانچہ وہ لوگ آئے اور انہوں نے کھانا کھایا مگر جب کھانے سے فارغ ہونے کے بعد آپ تقریر کرنے لگے تو لوگ اٹھ کر چلے گئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ہی افسوس ہوا کہ لوگوں کو سمجھانے کے لئے جوتد بیر اختیار کی گئی تھی، وہ کار گر ثابت نہ ہوئی.حضرت علی کی عمر اس وقت گیارہ سال تھی.انہوں نے کہا یا رسول اللہ آپ نے ان کو پہلے کھانا کھلا دیا اور تقریر بعد میں کی.اگر آپ پہلے تقریر کرتے اور انہیں کھانا بعد میں کھلاتے تو وہ کھانے کے انتظار میں ضرور بیٹھے رہتے اور آپ کی باتیں بھی سن لیتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ہے تو بچہ مگر اس کی بات معقول ہے.چنانچہ آپ نے ان کی پھر دعوت کی.جب وہ جمع ہو گئے تو آپ نے کھانا تقسیم کرنے سے پہلے ان کو اسلام کا پیغام پہنچانا شروع کر دیا.روٹی کی خاطر وہ مجبورا بیٹھے رہے اور انہیں آپ کی باتیں سننی پڑیں.آپ نے بڑے زور سے تقریر کرنے کے بعد فرمایا دیکھو، اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس وقت بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود اور ان کی ترقی کے لئے ایک عظیم الشان دروازہ کھولا گیا ہے.اب تمہارے لئے موقع ہے کہ تم آگے بڑھو اور خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے اعلیٰ مدارج حاصل کرو.آج باقی ساری دنیا سے 723
خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اپریل 1946ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم زیادہ تمہارے لئے ترقی کے دروازے کھلے ہیں اور خدا نے تمہیں اپنے فضل سے ایک بہت بڑا قیمتی موقع عطا فرمایا ہے.اب تمہارا فرض ہے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاؤ اور ترقی کے سامانوں سے کام لیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرو.پھر آپ نے فرمایا میں اللہ تعالیٰ کا پیغام تم کو پہنچا چکا ہوں.کیا تم میں سے کوئی سعید روح ہے، جو آپ آگے بڑھے اور اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہے.وہ لوگ جو اپنے دلوں میں یہی سوچ رہے تھے، کھانا کب تقسیم ہوتا ہے، بلاوجہ ہمارا وقت کیوں ضائع کیا جا رہا ہے؟ وہ اس بات کا کیا جواب دے سکتے تھے؟ وہ خاموش رہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دو دفعہ پھر پوچھا.مگر جب کسی نے جواب نہ دیا تو حضرت علی، جو اس وقت گیارہ برس کے بچے تھے، کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ میں حاضر ہوں.تو حقیقت یہ ہے کہ ایمان بچے اور بڑے میں کوئی فرق نہیں کیا کرتا.بہت سے نوجوان صحابہ میں ایسے پائے جاتے ہیں، جن کے ماں باپ ان کے شدید ترین مخالف تھے.وہ بارہ بارہ، چودہ چودہ اور پندرہ پندرہ سالوں کی عمر کے تھے کہ انہوں نے اسلام قبول کیا اور جب انہوں نے دیکھا کہ ہمارے ماں باپ ہمیں اس مذہب میں شامل ہونے سے روک رہے ہیں تو انہوں نے اپنی ماؤں کو چھوڑ دیا ، اپنے باپوں کو چھوڑ دیا اور غریب الوطنی کی زندگی بسر کی.اس کے بعد بھی جب انہوں نے دیکھا کہ ابھی تک ہمارے ماں باپ کی اس دشمنی میں کوئی کمی نہیں آئی، جو وہ اسلام سے رکھتے ہیں تو انہوں نے اپنے ماں باپ کی شکلیں تک دیکھنا گوارا نہ کیا.وہ گئے اور انہوں نے اسلام کے لئے اپنی جانیں قربان کر دیں.پس یہ تحریک صرف بڑوں کے لئے نہیں، بچے بھی اس تحریک کے مخاطب ہیں.اگر ماں باپ اپنے بچوں کو دین کی خدمت کے لئے وقف کرنے کو تیار نہیں اور بچوں کے دلوں میں ذاتی طور پر یہ جذبہ پایا جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے قربان کر دیں تو ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کے پاس جائیں اور ان سے کہیں کہ اے ہمارے باپ ! اے ہماری ماں ! آپ ہمیں دین کی تعلیم کے لئے آزاد کر دیں.ہمیں دنیوی کاموں پر لگانے کا ارادہ آپ ترک کر دیں اور دین کی خدمت کے لئے وقف کر دیں.اور اگر بچوں میں یہ تحریک پیدا نہ ہو تو ماں باپ کا فرض ہے کہ وہ خود اپنے بچوں پر زور ڈالیں اور انہیں کہیں کہ دنیوی تعلیم کو چھوڑو اور خدا کے دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرو.کیا پستہ کہ تم اپنی تعلیم کے مکمل ہونے تک زندہ بھی رہتے ہو یا نہیں ؟ مگر یہ وہ تعلیم ہے کہ اگر اس تعلیم کے حصول کے دوران میں بھی تم مرگئے تو تم مجاہد کہلاؤ گے.ایک شخص جو مدرسہ ہائی یاتعلیم الاسلام کالج میں پڑھتا ہے، 724
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود و 12 اپریل 1946ء بغیر اس نیت اور ارادہ کے کہ وہ اس تعلیم کے نتیجہ میں دین کی خدمت کرے گا، وہ اگر مر جاتا ہے، پیشتر اس کو کے کہ اپنی تعلیم کومکمل کرے تو وہ ایک ایسا بیج ہے، جو ضائع گیا.مگر وہ جو دین کی خدمت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس نیت سے تعلیم حاصل کر رہا ہے.وہ اگر تعلیم کے دوران میں ہی مرجاتا ہے تو وہ ایسا بیج نہیں، جو ضائع چلا گیا.بلکہ ایک گٹھلی ہے، جو یہاں سے نکالی گئی اور اگلے جہان میں بودی گئی.جیسے حضرت مسیح موعود کو صاحبزادہ عبدالطیف صاحب شہید کے متعلق الہام ہوا کہ ” کابل سے کاٹا گیا اور سیدھا ہماری طرف آیا.جب دنیا نے کابل کی سرزمین میں ان کی زندگی کو پورا کاٹ کر پھینک دیا تو اللہ تعالیٰ ان کی روح کو لے کر اپنی جنت میں لے گیا اور اس نے قادیان کے باغ جنت میں ان کو داخل کر دیا.پس میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں.بڑے بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور چھوٹے بھی.اگر ماں باپ اپنے بچوں کو دین کی خدمت کے لئے وقف کرنے کو تیار نہ ہوں تو بچوں کو چاہیے کہ وہ ان سے روٹھ کر بیٹھ جائیں اور کہیں کہ پہلے ہماری بات مانی جائے ، پھر ہم راضی ہوں گے.اگر بچے اپنے ماں باپ سے کپڑوں کے لئے روٹھ سکتے ہیں ، اگر بچے اپنے ماں باپ سے کھانے پینے کی چیزوں کے لئے روٹھ سکتے ہیں، اگر بچے اپنے ماں باپ سے جوتی اور بوٹ کے لئے روٹھ سکتے ہیں، اگر بچے اپنے ماں باپ سے روٹھ کر انہیں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ابا جب تک آپ فلاں کپڑا مجھے خرید کر نہیں دیں گے تو میں کھانا نہیں کھاؤں گایا اماں جب تک مجھے فلاں چیز نہ دی گئی، میں کھانا نہیں کھاؤں گا تو کیا وہ خدا اور اس کے رسول اور اس کے دین کے لئے اپنے ماں باپ سے روٹھ نہیں سکتے ؟ کیا وہ اپنے ماں باپ سے یہ نہیں کہ سکتے کہ ہمیں خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کرنے کا موقع دیا جائے ورنہ ہم روٹھے رہیں گے اور کوئی چیز نہ کھائیں گے ، نہ پئیں گے؟ ستیہ گرہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ گاندھی جی کی ایجاد ہے.حالانکہ ستیہ گرہ وہ چیز ہے، جو بچوں نے آدم کے وقت سے ایجاد کی ہوئی ہے.گاندھی جی کی ستیہ گرہ تو ہم نے 18 ء یا 19ء میں سنی ہے.مگر ہم تو خود اپنے بچپن کے زمانہ میں کئی دفعہ ستیہ گرہ کیا کرتے تھے.بسا اوقات کسی بات پر خفا ہر کر ہم کھانا کھانا چھوڑ دیتے تھے اور گھر والے ہمیں منانے کی کوشش کرتے تھے.اس ستیہ گرہ میں کئی دفعہ ہم اپنی بات ماں باپ سے منوالیا کرتے تھے اور کئی دفعہ گاندھی جی کی طرح ہم شکست کھا کر روزہ توڑ دیا کرتے تھے.بہر حال یہ ایک ایسی چیز ہے کہ دنیا میں ہمیشہ سے ہوتی چلی آئی ہے.پس اگر ماں باپ کے دلوں میں یہ رغبت نہیں پائی جاتی کہ وہ اپنے بچوں کو دین کی خدمت کے لئے پیش کریں تو کیوں بچے خود صحن میں ستیہ 725
خطبہ جمعہ فرموده 12 اپریل 1946ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم گرہ کر کے نہیں بیٹھ جاتے ؟ اور کیوں اپنے ماں باپ سے نہیں کہتے کہ آپ ہماری زندگیوں کو کیوں تباہ کرتے ہیں؟ اور کیوں ہمیں خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے جانے نہیں دیتے ؟ آخر کام تو سامانوں سے ہی ہوا کرتے ہیں، روحانی کام ہوں یا جسمانی.سب میں اسباب اور سامان ضروری ہوتے ہیں.اس قانون کے مطابق ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ روحانی ترقی کے اللہ تعالیٰ نے جو سامان پیدا کئے ہیں، ان سے فائدہ اٹھائیں اور ان کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کریں.اگر ہم ان سامانوں کو حاصل نہیں کرتے تو یقیناً ہم اپنی کامیابی کو دور پھینکتے چلے جاتے ہیں.خدائی کام تو بہر حال ہو کر رہیں گے اور اسلام دوسرے ادیان پر ضرور غلبہ حاصل کرے گا.یہ وہ خدائی تقدیر ہے، جو کبھی ٹل نہیں سکتی.لیکن اگر ہم اسلام کے غلبہ اور اس کی فتح کے دن کو ہر قسم کے اسباب سے کام لے کر اپنے قریب نہیں کر سکتے تو کم از کم ہمیں اس دن کو اور زیادہ دور تو نہیں کرنا چاہئے.اس وقت ساری دنیا سے ہمیں آواز میں آرہی ہیں اور لوگ پکار پکار کر ہم سے اپنی ضروریات کا مطالبہ کر رہے ہیں اور یہ آوازیں اتنی کثرت اور اس قدر تو اتر کے ساتھ آرہی ہیں کہ ہم ان کا جواب دیتے دیتے تھک گئے ہیں.آدمی ہمارے پاس نہیں کہ ہم مختلف ممالک کو مہیا کر سکیں اور مطالبات ہیں کہ وہ روز بروز بڑھتے چلے جاتے ہیں.درجنوں آدمیوں کا افریقہ سے مطالبہ ہورہا ہے اور درجنوں آدمیوں کی دوسرے غیر ممالک میں ضرورت ہے.ابھی سماٹرا اور جاوا کے راستے کھلنے والے ہیں اور وہاں ہمیں درجنوں آدمی بھیجوانے کی ضرورت ہوگی.ان علاقوں سے جو خطوط آئے ہیں، ان میں دوستوں نے لکھا ہے کہ ہم نے اس جنگ میں اپنی آنکھوں سے وہ نظارے دیکھے ہیں، جن کا قیامت کے متعلق پہلے ہم خیال کیا کرتے تھے.ان نظاروں کو دیکھنے کے بعد اب ہم سمجھتے ہیں کہ احمدیت کی اشاعت کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنا، ہمارے لئے آسان ہے.پہلے ہمیں پتہ نہں تھا کہ دنیا کن کن حالات میں سے گزرنے والی ہے؟ لیکن اب جبکہ ان حالات کو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے ہمیں اپنی زندگیاں بالکل حقیر معلوم ہوتی ہیں اور دنیا کا عیش اور آرام ہماری نگاہ میں بالکل بے حقیقت ہو گیا ہے.کیونکہ ہم چار سال تک ایک دوزخ میں رہے ہیں اور ہم نے وہ نظارے دیکھے ہیں، جنہوں نے دنیا کی محبت ہم پر سرد کر دی ہے.یہ وہ ممالک ہیں ، جن میں رہنے والوں کے دل بالکل ہے ہوئے ہیں اور وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ انہیں زیادہ زور کے ساتھ اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کی جائے.چنانچہ اب جوں جوں رستے کھلتے چلے جائیں گے ہمیں ان ممالک کی طرف زیادہ سے زیادہ لوگ بھجوانے پڑیں گے.اسی طرح یورپ اور دوسرے ممالک کے لئے بھی ہمیں درجنوں آدمیوں کی ضرورت ہے.726
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود ه 12 اپریل 1946ء ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں خود بخود دایسے سامان پیدا کر رہا ہے، جو اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے نہایت خوش کن ہیں اور آسمان سے ایک ایسی ہوا چل رہی ہے، جو لوگوں کے قلوب کو صداقت کی طرف مائل کر رہی ہے.ایک طرف افریقہ کے حبشیوں میں سے زیادہ سے زیادہ لوگ اسلام کے متعلق اپنی رغبت کا اظہار کر رہے ہیں تو دوسری طرف عربوں میں باوجود ان کی شدید مخالفت اور تکبر کے ایک طبقہ ایسا پیدا ہورہا ہے، جو احمدیت کے اصول کو درست سمجھتا اور اس کی تعلیم سے رغبت رکھتا ہے.ابھی گزشتہ دنوں ہماری جماعت کے ایک دوست مصر گئے تو انہوں نے ادھر یو نیورسٹی کے ایک بہت بڑے عالم سے، جو وہاں کے وائس پریذیڈنٹ اور مفتیوں کی مجلس کے صدر ہیں، سوال کیا کہ بعض لوگ کہتے ہیں حضرت عیسی زندہ ہیں اور بعض لوگ کہتے ہیں حضرت عیسی فوت ہو چکے ہیں.جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت عیسی فوت ہو چکے ہیں، وہ یہ دلائل دیتے ہیں.آپ بتائیں کہ اصل حقیقت کیا ہے ، حضرت عیسی زندہ ہیں یا فوت ہو چکے ہیں؟ اس عالم نے بڑی دلیری سے جواب دیا کہ قرآن کریم سے تو یہی پتہ لگتا ہے کہ حضرت عیسی فوت ہو چکے ہیں.نیز انہوں نے متوفیک کے معنوں کے متعلق لکھا کہ جہاں تک ہم عرب لوگ اس لفظ کی حقیقت کو سمجھتے ہیں توفی کے معنی قبض روح کے ہی ہیں.ان سے یہ بھی سوال کیا گیا تھا کہ اگر توفی کے معنی موت کئے جائیں اور کہا جائے کہ قرآن کریم سے حضرت عیسی کی وفات ثابت ہے تو اس سے احمد یہ جماعت کو تقویت پہنچے گی ؟ انہوں نے بڑی دلیری سے اس کے جواب میں لکھا کہ مجھے احمدیت کے پھیلنے یا نہ پھیلنے سے کوئی غرض نہیں.اگر احمدیت پھیلتی ہے تو بے شک پھیل جائے.قرآن کریم سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسی فوت ہو چکے ہیں.اب دیکھو یہ کتنا دلیرانہ بیان ہے کہ ہر قسم کی ملامت سے بے خوف ہو کر انہوں نے کہہ دیا کہ دنیا خواہ کچھ کہے حقیقت یہی ہے کہ حضرت عیسی فوت ہو چکے ہیں کیونکہ قرآن کریم سے یہی ثابت ہوتا ہے.غرض ایک عظیم الشان تغیر جود نیا میں پیدا ہورہا ہے اور ایک رو ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے چلائی جارہی ہے.پچھلے سال الا ز ہر یونیورسٹی کے ایک بہت بڑے عالم نے بیعت کی تھی.اب تازہ اطلاع یہ آئی ہے کہ از ہر ہونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے چار طلباء احمد کی ہو گئے ہیں.مگر انہوں نے کہا ہے کہ ہمارے نام ابھی ظاہر نہ کئے جائیں.ایسا نہ ہو کہ ہمیں یہاں سے نکال دیا جائے.ایک انگریز نو مسلم کی اطلاع ہے کہ چار نہیں چھ، سات کے قریب طالب علم احمدی ہو چکے ہیں.غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک عظیم الشان رو احمدیت کی تائید میں چل رہی ہے.از ہر وہ یونیورسٹی ہے، جہاں تعلیم حاصل کرنے والے یہ 727
خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اپریل 1946ء تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد دوم سمجھتے ہیں کہ دنیا میں کوئی شخص ان کو سکھانے والا نہیں ہو سکتا.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ پچھلے سال سے ایک عجیب تغیر پیدا ہورہا ہے.گزشتہ سال ایک شخص نے بیعت کی تھی اور اس سال چار طلباء نے بیعت کی ہے.بلکہ انگریز نو مسلم کی روایت کے مطابق چھ ، سات طلباء احمدی ہو چکے ہیں.ممکن ہے اصل حقیقت یہ ہو کہ چار نے بیعت کی ہو اور دو، تین بیعت کرنے کے لئے تیار ہوں.بہر حال یہ بڑھتی ہوئی رفتار بتارہی ہے کہ علم کا وہ منبع ، جو دنیا میں چوٹی کی حیثیت رکھتا ہے، اس کے طلباء میں بھی یہ احساس پیدا ہورہا ہے کہ اگر ہمیں اپنی روح کی تسکین کی ضرورت ہے، اگر ہم نے دین کا علم صیح طور پر حاصل کرنا ہے اور اگر ہمارا مقصد خدا تعالیٰ کا قرب اور اس کی رضا کا حصول ہے تو یہ مقصد احمدیت کے سوا اور کہیں حاصل نہیں ہوسکتا.یہ رو، جو اللہ تعالٰی کی طرف سے دنیا میں پیدا کی جارہی ہے اور جس کے نتیجہ میں لوگوں کی توجہ ہماری طرف پھر رہی ہے، اس کی وجہ سے ہماری ذمہ داریوں میں اور بھی اضافہ ہو گیا ہے.اور ہمارا فرض ہے کہ ہم آنے والے حالات کے لئے اپنے آپ کو پوری طرح تیار کریں اور اپنے پاس علماء کی ایسی جماعت تیار رکھیں، جو ضرورت کے وقت ہم ان کی طرف روانہ کر سکیں.آخر یہ لازمی بات ہے کہ جب یہ آواز زیادہ ممالک میں پھیلے گی ، جب از ہر کے طلباء باہر نکلیں گے اور وہ لوگوں کو بتائیں گے کہ ہم احمدی ہیں تو لوگوں کی پیاس اور زیادہ بڑھنی شروع ہو جائے گی اور ان میں کرید اور جستجو کا مادہ پہلے سے زیادہ ترقی کر جائے گا.وہ جو پہلے احمدیت کو تنفر کی نگاہوں سے دیکھا کرتے تھے ، اب محبت اور پیار سے دیکھنے لگ جائیں گے اور ان کے دلوں میں یہ احساس پیدا ہونا شروع ہوگا کہ آؤ ہم بھی دیکھیں ، احمدیت کیا چیز ہے؟ پھر جیسا کہ ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کی سنت چلی آتی ہے، یہ پیج انشاء اللہ ترقی کرے گا اور زیادہ سے زیادہ بڑھتا چلا جائے گا.آج اگر چار یا سات از ہر کے تعلیم یافتہ آدمی احمدی ہیں تو کل یہ تعداد دس تک پہنچ جائے گی.پھر دس سے بیس تک پہنچ جائے گی.پھر میں سے پچاس تک پہنچ جائے گے اور پھر پچاس سے سینکڑوں تک پہنچ جائے گی.اور اتنی بڑی تعداد میں ازہر کے تعلیم یافتہ احباب کا احمدیت میں شامل ہونا ، یقینا مصر میں ایک زلزلہ کے مترادف ہوگا.کیونکہ مصر ہمیشہ دعوی کرتا ہے کہ جامعہ از ہر دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے اور جامعہ از ہر دنیا کے تمام مسلمانوں کی حفاظت کا کام سرانجام دے رہی ہے.اس دعوی کے ساتھ جب لوگوں میں یہ بات پھیلنی شروع ہوئی کہ ازہر کے طلباء اور علماء سب احمدی ہوتے چلے جارہے ہیں تو یہ اتنا بڑا زلزلہ ہوگا کہ میں سمجھتا ہوں مصر میں اتنا بڑا زلزلہ پچھلے ہزار سال میں بھی نہیں آیا ہوگا.لوگ حیران ہوں گے کہ احمدیت کیا چیز ہے؟ اور کیوں لوگوں میں اس کی قبولیت زیادہ سے زیادہ بڑھتی چلی جارہی ہے؟ ایسے 728
تحریک جدید- ایک البی تحر یک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود و 12 اپریل 1946ء حالات میں یہ لازمی بات ہے کہ جب احمدیت کی آواز ارد گرد کے علاقوں میں پھیلے گی اور لوگوں میں یہ بات مشہور ہوگی کہ جامعہ ازہر میں پڑھنے والے احمدی بن رہے ہیں تو اور ہزاروں لوگوں اور اردگرد کے تمام علاقوں میں بھی جستجو پیدا ہوگی کہ آؤ ہم بھی دیکھیں وہ کون سی چیز ہے، جس نے از ہر پر بھی غلبہ پانا شروع کر دیا ہے؟ ہم بھی اس کی تحقیق کریں اور معلوم کریں کہ اصل حقیقت کیا ہے؟ اس وقت جب لوگ ہم سے مطالبہ کریں گے کہ آپ اپنے آدمی بھجوائیں ، جو ہمیں احمدیت کی حقیقت سمجھائیں.کیا چیز ہے، جو ہم ان کو پیش کریں گے؟ کیا ہم ان کو یہ کہلا کر بھیجیں گے کہ ابھی ہم اپنے امراء میں جوش پیدا کر رہے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو دینی تعلیم کے لئے مدرسہ احمدی میں داخل کریں؟ جس امراء کی اصلاح ہو جائے گی اور وہ اپنے لڑکوں کو مدرسہ احمدیہ میں بھجوانا شروع کر دیں گے تو ہم پہلے چار سال ان کو مدرسہ احمدیہ میں تعلیم دلوائیں گے، پھر جامعہ احمدیہ میں تعلیم دلوائیں گے اور پھر ایک عرصہ کے بعد جب ہمارے پاس علماء تیار ہو جائیں گے تو ہم انہیں تمہارے پاس بھجوا دیں گے؟ اگر ہم ان کو یہ جواب دیں گے تو ہمارا یہ جواب ایسا ہی ہوگا ، جیسے کہتے ہیں کہ ایک امیر کے پاس کوئی فقیر آیا اور اس نے کچھ صدقہ مانگا.وہ امیر تھا بھیل.اس نے اپنے نوکر کو آواز دی اور پھر اپنی عظمت اور جلال کے اظہار کے لئے بڑے بڑے نام لینے شروع کر دیے اور کہا کہ اے ہیرے ! تو موتی سے کہہ اور اے موتی ! تو زمرد سے کہہ اور اے زمرد! تو سونے سے کہہ اور اے سونے ! تو چاندی سے کہہ اور اے چاندی! تو اس فقیر کو کہہ کہ جاچلا جا، میرے پاس کچھ نہیں.نام تو اس نے کتنے ہی لئے مگر آخر میں کہہ دیا کہ میرے پاس کچھ نہیں.یہی ہم کریں گے کہ جس جس ملک سے مبلغین کا مطالبہ ہوگا ، ہم اس بخیل امیر کی طرح انہیں یہی کہ سکیں گے کہ ابھی ہم اپنی جماعت کے دوستوں کو تیار کر رہے ہیں اور ان کے دلوں میں ایمان پیدا کر رہے ہیں.جس دن ان کے دلوں میں ایمان پیدا ہوگیا اور انہوں نے ہماری تحریک پر لبیک کہا ہم تمہاری ضروریات کو پورا کرنے کا انتظام شروع کر دیں گے.کیا وہ ہمیں یہ جواب نہیں دیں گے کہ اگر تم ابھی اپنی جماعت میں ایمان ہی پیدا کر رہے ہو تو ہم نے کیوں بے وقوفی کی تمہارے پاس آئے ؟ ہم نے تو سمجھا تھا کہ تمہارے پاس ایمان ہے.ایسی صورت میں دنیا ہمارے ان فقرات کا وہی جواب دے گی ، جو اس فقیر نے امیر کو دیا تھا.جب امیر نے اپنے نوکروں کے بڑے بڑے نام لے کر کہا کہ میرے پاس کچھ نہیں تو وہ فقیر کہنے لگا اے خدا! تو جبرائیل سے کہہ اور اے جبرائیل! تو اسرافیل سے کہہ اور اے اسرافیل ! تو میکائیل سے کہہ اور اے میکائیل ! تو عزرائیل سے کہ وہ اس بخیل امیر کی جان نکال لے.ہم کو بھی دنیا کی طرف سے ایسا ہی جواب ملے گا اور ہم شرمندہ ہوں گے کہ ہم نے ان کے مطالبہ کو پورا نہ کیا.729
خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اپریل 1946ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم پس ہمیں ہر وقت تیار رہنا چاہیے تا جب بھی غیر ممالک کی طرف سے کوئی مطالبہ آئے ہم فورا اس مطالبہ کو پورا کر سکیں.یاد رکھو مومن جماعت وہ ہوا کرتی ہے، جس کے سپاہی ہر وقت تیار کھڑے رہتے ہیں ، صرف دروازہ کھلنے کی دیر ہوتی ہے.دروازہ کھلتا ہے تو وہ اندر پہنچ جاتے ہیں.مگر ہماری حالت یہ ہے کہ دروازے کھل رہے ہیں اور ہم سپاہیوں کو بھرتی کرنے کی فکر میں ادھر ادھر پھر رہے ہیں.میں جماعت کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ ایسے نازک موقع پر مومنوں کو غداری سے کام نہیں لینا چاہیے.آج ہر شخص کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھے اور اسلام کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دے.مگر چونکہ ہر شخص پہلے دن ہی اسلام کی خدمت نہیں کر سکتا بلکہ یہ ضروری ہوتا ہے کہ اسے کچھ مدت تک تعلیم دلائی جائے ، اس لئے ہم پہلے کچھ عرصہ تک انہیں دینی تعلیم دلائیں گے اور پھر اصل کام پر مقرر کر دیں گے.بہر حال ماں باپ کر فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ، جو میٹرک پاس ہوں یا مڈل پاس، دین کی خدمت کے لئے ہمارے سامنے پیش کریں.ان میں سے بعض کو مدرسہ احمدیہ میں اور بعض کو جامعہ احمدیہ کی سپیشل کلاس میں داخل کیا جائے گا تا کہ ان کو جلد سے جلد دین کی خدمت کے لئے تیار کیا جاسکے.جب یہ نو جوان تعلیم حاصل کر لیں گے تو ہم اس دن کا انتظار کریں گے ، جب باہر سے مطالبات آئیں اور ہم ان کو بیرونی ممالک میں اعلائے کلمہ اسلام کے لئے بھجوا سکیں.لیکن اس کے علاوہ ہمیں فوری طور پر بھی ایسے گریجوایٹوں اور مولوی فاضلوں کی ضرورت ہے، جن کو قلیل سے قلیل عرصہ میں کاموں پر لگایا جا سکے.اس وقت ہمیں کئی قسم کے کارکنان کی ضرورت ہے.مگر آدمیوں کی قلت کی وجہ سے ہمارے بہت سے کام ادھورے پڑے ہوئے ہیں.اگر مولوی فاضل یا گریجوایٹ ہمیں مل جائیں تو ہم اس قسم کی ضروریات کو آسانی کے ساتھ پورا کر سکتے ہیں.پس میں آج کے خطبہ کے ذریعہ ایک دفعہ پھر جماعت کو اس اہم امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں.اس وقت ہماری بیچارگی حد سے بڑھی ہوئی ہے اور ہماری حالت احد کے ان مردوں کی طرح ہو رہی ہے، جن کے کفن کے لئے اتنا تھوڑا کپڑا تھا کہ اگر ان کے سرڈھانکتے تھے تو پیر ننگے ہو جاتے تھے اور اگر پیر ڈھانکتے تھے تو سر ننگے ہو جاتے تھے.ہم ایک جگہ اپنا مبلغ بھجواتے ہیں تو دوسری جگہ کی مانگ کو پورا نہیں کر سکتے ، دوسری جگہ کی مانگ کو پورا کرتے ہیں تو پہلی طرف سے ہمیں غافل رہنا پڑتا ہے.پس آج انتہائی ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ نو جوان، جو مولوی فاضل یا گریجوایٹ ہیں، اپنے آپ کو خدمت سلسلہ کے لئے پیش کریں اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بہت سے مولوی فاضل اور گریجوایٹ اپنی زندگیاں وقف کر چکے ہیں.لیکن ہو سکتا ہے کہ پھر بھی ابھی بعض مولوی فاضل اور گریجوایٹ چھپے بیٹھے ہوں اور انہوں نے اسلام کی خدمت کے لئے 730
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اپریل 1946ء اپنے آپ کو پیش نہ کیا ہو.کہتے ہیں جب مرتبان میں سے دوائی ختم ہو جاتی ہے تو تلاش کرنے سے اس کے کونوں میں سے کچھ نہ کچھ نکل آیا کرتی ہے.پس بے شک بہت سے گریجوایٹ اور مولوی فاضل، جو ہماری جماعت میں پائے جاتے تھے اور جو اس کام کے لئے فارغ ہو سکتے تھے ختم ہو چکے ہیں اور اب ایک دو سال تک ہمیں نئے گریجوایٹوں اور مولوی فاضلوں کا انتظار کرنا ہوگا.لیکن پھر بھی ممکن ہے کہ ابھی بعض گریجوایٹ اور مولوی فاضل رہتے ہوں ، جنہوں نے دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش نہ کیا ہو.اور کچھ ایسے گریجوایٹ اور مولوی فاضل بھی ہو سکتے ہیں، جو اس سال امتحان دینے والے ہوں.بہر حال جو بچے کھچے مولوی فاضل اور گریجوایٹ ہوں، اسی طرح وہ گریجوایٹ اور مولوی فاضل، جو اس سال امتحان دینے والے ہوں، ان سب کو چاہئے کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اسلام کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں.اگر پچھلے سالوں کے مولوی فاضل اور گریجوایٹ اور کچھ ایسے مولوی فاضل اور گریجوایٹ ہمیں مل جائیں، جو اس سال امتحان دینے والے ہوں تو ہم ان سب کو تیار کر کے اس دن کا انتظار کر سکتے ہیں، جس دن ہمیں زیادہ شان اور زیادہ زور کے ساتھ دشمن پر دھاوا بولنا پڑے گا.آخر یہ کام نہ چند روپوں کا ہے، نہ چند افراد کا ہے.جس طرح جرمنوں اور انگریزوں کی جنگ میں کئی کروڑ فوجی شامل ہوئے تھے ، اسی طرح اس روحانی جنگ میں بھی ہمیں کروڑوں افراد دھکیلنے پڑیں گے.بے شک ہماری موجودہ حالت ایسی نہیں کہ ہم اس جنگ میں کروڑوں افراد دھکیل سکیں.لیکن ہمیں کام تو ایسے رنگ میں کرنا چاہیے کہ ایک دن کروڑوں تک پہنچ جانے کی امید کی جا سکے.بہر حال جب تک وہ دن نہیں آتا ، ہمارا فرض ہے کہ ہمارے پاس موجودہ وقت میں جو انتہائی طاقت ہے، اسے صرف کر دیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور سرخرو ہو جائیں.اگر ہم اس وقت اپنی انتہائی طاقت خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت اور اس کے کلمہ کے اعلاء کے لیے صرف کر دیں گے تو ہماری یہ انتہائی طاقت اس بات کی ضامن ہوگی کہ جس دن ہمارے پاس کروڑوں افراد آئے ، اس دن ہم اپنے کروڑوں افراد بھی اس خدمت کے لیے پیش کر دیں گے اور اس میں ایک لمحہ کا بھی تامل نہیں کریں گے.دنیا محض الفاظ پر تسلی نہیں پاسکتی ، وہ ہمارے عمل کو دیکھتی اور اس سے نتائج اخذ کرتی ہے.اگر ہم اپنے اندر جنون کا رنگ پیدا کر کے دنیا کو دکھا دیں گے اور ہم پاگلوں کی طرح ان کی ہر ضرورت کو پورا کرنے کے لئے بے تاب پھر رہے ہوں گے تو ان کی روح مطمئن ہوگی، وہ تسلی سے بیٹھ جائیں گے اور کہیں گے ، انہوں نے اپنے دل نکال کر ہماری طرف پھینک دیئے ہیں، انہوں نے اپنے جگر نکال کر ہماری طرف پھینک دیئے ہیں، انہوں نے اپنی انتڑیاں نکال کر 731
خطبہ جمعہ فرموده 12 اپریل 1946ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم ہماری طرف پھینک دی ہیں، اس سے زیادہ قربانی کی ہم ان سے امید نہیں کر سکتے.یہ ایک ایسا خوش کن احساس ہوگا، جس کے ماتحت وہ تسلی سے بیٹھ جائیں گے اور انہیں ہمارے متعلق کوئی شکوہ پیدا نہیں ہو گا.لیکن اگر وہ دیکھیں گے کہ ہم آرام سے بیٹھے ہیں اور ان کی ضروریات پورا کرنے کا ہمیں کوئی فکر لاحق نہیں تو لاز ما دوصورتوں میں سے ایک صورت ضرور رونما ہوگی.یا تو وہ اپنے کفر پر تسلی پا کر بیٹھ جائیں گے اور یا ایک نئی قسم کی احمدیت ایجاد کر کے اپنے اندر داخل کر لیں گے.اور یہ دونوں باتیں نہایت خطرناک نتائج پیدا کرنے والی ہیں.پس دونوں گروہوں کو اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہیے.بڑوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور نو جوانوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں.ماں باپ کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے فرائض کا احساس کریں اور بچوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی آئندہ زندگی کا فکر کریں.جو کہ پیشتر اس کے کہ ہم پر وہ شرمندگی کا دن آئے کہ جماعتیں ہم سے آدمی طلب کریں اور ہم ان کی مانگ پورا کرنے سے قاصر ہوں.غیر ممالک کی طرف سے مبلغین کا مطالبہ پورا ہواور ہم کہیں کہ ہمارے پاس کوئی مبلغ نہیں.ہم اپنے آپ کو پوری طرح تیار کر لیں اور دنیا کی ضروریات پورا کرنے کا ہمارے پاس مکمل سامان موجود ہو.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ لوگوں کی امداد کرے اور آپ کے ایمان اور اخلاق میں برکت پیدا کرے.تا کہ اس اہم کام کی طرف آپ متوجہ ہوں اور دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کر کے آپ لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کریں.( مطبوع الفضل یکم مئی 1946ء) 732
تحریک جدید- ایک البی تحر یک...جلد دوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اپریل 1946ء اب وقت ہے کہ تم دنیاداری کی روح کو بالکل کچل دو خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اپریل 1946ء جب قوموں میں تنزل واقعہ ہو جاتا ہے، جب قوموں پر جہالت غالب آجاتی ہے، جب قوموں کے دلوں سے دین کی محبت چلی جاتی ہے تو اس وقت ان کی حالت اپنی پہلی حالت سے بالکل مختلف ہو جاتی ہے اور کامیابی کے سامان اور کامیابی کے ذرائع دور سے دور تر ہوتے چلے جاتے ہیں.جیسے مٹھی میں سے ریت نکلتی چلی جاتی ہے، اسی طرح با مراد ہونا اور مظفر منصور ہونا، ان کے ہاتھوں سے نکلتا چلا جاتا ہے.اور جب خدا تعالیٰ کسی قوم کی آنکھوں کو کھول دیتا ہے، جب وہ اس کے حوصلوں کو بلند کر دیتا ہے اور جب وہ اس کے ایمان کو مضبوط کر دیتا ہے تو اس قوم میں صحیح قربانی او صیح قسم کا ایثار پیدا ہوتا چلا جاتا ہے اور وہ دن بدن اپنے کاموں میں ترقی کرتی جاتی ہے.یہ ایک قانون ہے، جو ہمیشہ سے چلا آیا ہے اور ہمیشہ تک جاری رہے گا.خدا تعالیٰ کی سنتیں کبھی بدلا نہیں کرتیں اور خدا تعالیٰ جس امر کا فیصلہ اپنے قانون قدرت کے مطابق کرتا ہے، وہ آخر تک اسی طرح چلتا چلا جاتا ہے." جب کوئی قوم دنیا کی طرف جاتی ہے تو اگر اس کے اندر دین کی بنیاد ہوتی ہے تو خدا تعالیٰ اس سے دنیا بھی چھین لیتا ہے.یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ ایک قوم بچے دین کی خدمت کے لئے مقرر کی گئی ہو اور وہ اپنے فرائض میں سستی کرے اور دین کی بجائے دنیا کی طرف مائل ہو جائے تو پھر خدا تعالیٰ اس کے پاس دنیا بھی رہنے دے.جو اقوام بے دین ہیں اور جن کو روحانیت کے ساتھ کوئی وابستگی نہیں ، وہ بے شک دنیوی ذرائع سے ترقی کرتی چلی جاتی ہیں.لیکن جن قوموں کو خدا تعالیٰ نے دین کی خدمت سپرد کی ہوتی ہے، وہ کبھی دنیوی ذرائع سے ترقی نہیں کرتیں.وہ جب بھی دین کو چھوڑ کر دنیا کی طرف مائل ہو جاتی ہیں ، خدا تعالیٰ ان کی دنیا بھی چھین لیتا ہے“.وو اس وقت احمد یہ جماعت کو اللہ تعالیٰ نے ایک بچے مذہب کا حامل بنایا ہے.اگر ہماری جماعت کے افراد دیانتداری اور اخلاص کے ساتھ دین کے حامل نہیں ہوں گے تو خدا تعالیٰ احمدیوں کے ساتھ بھی وہی سلوک کرے گا، جو ایک بادشاہ اپنے باغیوں کے ساتھ کیا کرتا ہے.میں متواتر اور بار بار 733
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اپریل 1946ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم جماعت کو توجہ دلا رہا ہوں کہ ہمارے تبلیغی ادارے کمزور ہورہے ہیں اور تبلیغ کی وسعت ، جو ہمارے ذمہ لگائی گئی ہے، اس کا اندازہ اتنا زیادہ ہے کہ اس کے لیے ہمیں اپنے آدمیوں کو قربانی کے تنور میں اس طرح جھونکنا پڑے گا ، جس طرح بھٹی والا اپنی بھٹی میں پتے جھونکتا ہے.مگر باوجود اس کے میں دیکھتا ہوں کہ گا، جماعت میں پوری طرح بیداری پیدا نہیں ہو رہی.میں مایوس تو نہیں کیونکہ ہر چیز آہستہ آہستہ آتی ہے.لیکن میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ جماعت کی سستی کی وجہ سے ہمارے کاموں کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے.میں نے پچھلے سال جماعت کو مدرسہ احمدیہ میں داخلہ کی طرف توجہ دلائی تھی اور کہا تھا کہ اگر تم اپنے لڑکوں کو اس مدرسہ میں داخل نہیں کرو گے تو آخر اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کے لیے ہم کہاں سے مبلغ لا ئیں گے؟ اس سال خدا تعالیٰ نے جماعت کو توفیق عطا فرمائی اور چالیس کے قریب لڑکے مدرسہ احمدیہ کی پہلی جماعت میں داخل ہوئے.لیکن آج جب میں نے پتہ لیا تو معلوم ہوا کہ اس سال صرف چھ لڑ کے داخل ہوئے ہیں.اور چونکہ کچھ لڑ کے بعد میں نکل بھی جاتے ہیں، اس لیے اس کے معنی یہ ہوں گے کہ قریباً اس جماعت کا بند کر دینا زیادہ اچھا ہے، بہ نسبت اس کو جاری رکھنے کے.کیونکہ دو تین لڑکوں کے لیے کسی سکول یا جماعت کے کھولنے کے کوئی معنی ہی نہیں ہو سکتے.لیکن دوسری طرف یہ حالت ہے کہ جماعتیں ہم سے آدمی ضرور مانگتی ہیں.جب بھی کوئی شخص ملتا ہے، یہی کہتا ہے کہ یہاں کے ناظر بڑے ست ہیں، انجمن بڑی ست ہے.ہم چٹھیاں لکھتے رہتے ہیں لیکن ہماری طرف کوئی آدمی نہیں بھیجتے.میں حیران ہوں کہ ایسے لوگوں کے دماغ میں کوئی فتور ہے یا روحانیت کی کمی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں پر ایسا پردہ ڈال دیا ہے کہ اتنی موٹی بات بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر ہم اپنے لڑکے نہیں بھجوائیں گے تو وہ لوگ مبلغ کہاں سے بھیجیں گئے“.ہر فرد بشر شور مچارہا ہے کہ ہائے ہمیں مولوی نہیں بھیجتے ہمیں مولوی نہیں بھیجتے.حالانکہ الزام ان پر آتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو دین کی بجائے دنیا کی طرف بھیجتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہمیں مولوی بھیجو، ہمیں مولوی بھیجو.ہم اگر ہندوؤں کو نو کر رکھنا شروع کر دیں اور ان کا نام مولوی رکھ دیں تو ایسے لوگ ہمیں کئی مل جائیں گے.ہر قوم میں ایسے لوگ ہیں کہ اگر چالیس پچاس روپے ان کو دے دیئے جائیں تو وہ غیر مذہب کی ملازمت کے لیے بھی تیار ہو جائیں گے.کئی ہندو ہیں، جو اس معاوضہ پر کام کرنے کے لئے تیار ہو سکتے ہیں.لیکن کیا تم اس بات پر خوش ہو سکتے ہو کہ تمہاری طرف ہند و مبلغ بھجوا دئیے جائیں ؟ اگر تم اس بات پر راضی ہو کہ تمہاری طرف ہندو بھجوائے جائیں، اگر تم اس بات پر راضی ہو کہ تمہاری طرف 734
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 26 اپریل 1946ء چوڑھے بھجوادیے جائیں، اگر تم اس بات پر راضی ہو کہ تمہاری طرف بنگی بھجوائے جائیں، اگر تم اس بات پر راضی ہو کہ تمہاری طرف سائنسی بھجوائے جائیں، اگر تم اس بات پر راضی ہو کہ تمہاری طرف عیسائی مبلغ بھجوائے جائیں تو بڑے شوق سے اپنے لڑ کے دین کی تعلیم کے لئے نہ بھجواؤ.اور کہہ دو کہ کسی مذہب و قوم کا آدمی ہو، اس کا نام مبلغ رکھ کر ہمیں بھجوادو.لیکن اگر تمہاری مراد مبلغ سے ایک احمدی مبلغ ہے، اگر تمہاری مراد مبلغ سے ایک مسلمان مبلغ ہے، اگر تمہاری مراد مبلغ سے ایک علم دین پڑھا ہوا انسان ہے تو وہ لوگ نہیں آ سکتے ، جب تک تم اپنے بیٹوں کو اس طرف نہیں بھجواتے.ہر دفعہ جو تم شکایت کرو گے، اس کے یہ معنی ہوں گے کہ تم عقل کا منہ چڑا رہے ہو.اور ہر دفعہ جو تم شکایت کرو گے ، اس کے معنی یہ ہوں گے کہ تم حقائق سے آنکھیں بند کر رہے ہو.کیونکہ مبلغ لڑکوں سے ہی تیار ہو سکتے ہیں.جب تک کوئی جماعت اپنے لڑکے دین کی خدمت کے لئے دینے کو تیار نہیں، اس وقت تک اس جماعت کو یہ حق بھی حاصل نہیں کہ وہ ہم سے مبلغ مانگے.مگر آخر کب تک یہ سلسلہ چلتا چلا جائے گا ؟ کب تک ہم جماعت کو بیدار کرتے جائیں گے اور وہ خاموش بیٹھی رہے گی ؟ یہ مثال تو وہی ہوگئی ہے جیسے غالب نے کہا ہے کہ ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرما ئیں گے کیا؟ وو ہی کوئی ایسی بات نہیں جسے ہماری جماعت کے لوگ سمجھ نہ سکتے ہوں کہ اگر تم اپنے بیٹوں کو مدرسہ میں نہیں بھیجتے تو تمہیں سلسلہ کی طرف سے مبلغ بھی نہیں مل سکتے.تمہارے ہی بیٹے ہیں، جو مبلغ بن سکتے ہیں.عیسائیوں کے بیٹے اسلام کے مبلغ نہیں بن سکتے، ہندؤں کے بیٹے اسلام کے مبلغ نہیں بن سکتے ، سکھوں کے بیٹے اسلام کے مبلغ نہیں بن سکتے.اور اگر تمہارے بیٹے بھی دنیوی کاموں کے لیے وقف رہیں گے تو پھر اسلام کا خانہ بالکل خالی ہے.پھر ہم سے مبلغ بھی مت مانگو بلکہ کہو کہ دین کا دروازہ ہم نے اپنے اوپر بند کر لیا ہے.یہ کیوں کہتے ہو کہ مبلغ دور مبلغ دو.یہ چیز اتنی انتہا درجہ خلاف عقل ہے کہ میں حیران ہوں ، وہ کون سا ذریعہ ہے، جس سے میں جماعت کو سمجھاؤں؟ سوتے کو جگانا آسان ہوتا ہے لیکن جاگتے ہوئے کو جگانا ناممکن ہوتا ہے.اگر تم واقع میں سوئے ہوئے ہو تو میرے وعظ اور نصیحت سے کبھی کے جاگ چکے ہوتے.لیکن تم تو جاگتے ہوئے مچھلے بن رہے ہو.اب میرے پاس کون سا ذریعہ ہے، جس سے میں مچھلے کو جگا سکوں.محلے کو جگانے کی کسی انسان میں طاقت نہیں ہوتی بلکہ مجلے کو تو خدا بھی نہیں جگا تا.آخر خدا تعالیٰ نے ابوبکر کو ہدایت دی، ابو جہل کو نہیں دی.عمر کو ہدایت دی، عتبہ کو نہیں دی.عثمان کو ہدایت دی، شیبہ کو نہیں دی.علی کو ہدایت دی، ولید کو نہیں دی.جب تک تم میں یہ احساس پیدا نہیں ہوتا کہ دین 735
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 26 اپریل 1946ء " تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم کی بھی کوئی قیمت ہے، جب تک تمہارے نزدیک خدا تعالیٰ کے کلام کے معنی کرنے کی کوئی قیمت نہیں.لیکن اگر تمہارا بیٹا چاندی کا چمکتا ہوا روپیہ تمہارے پاس لے آئے تو تم خوش ہوتے ہو اور سمجھتے ہو کہ یہ حقیقی چیز ہے، جو ہمارے بیٹے کی کمائی ہے، تب تک تم سے دین کی خدمت کی امید رکھنا عبث اور فضول ہے.اس طرح ہماری جماعت کا ایک حصہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر ان کا بیٹا چمکتا ہوار و پیہ کما کر لاتا ہے تو اس کے مقابلہ میں دین کی تبلیغ اور اسلام کے بچاؤ کا کام کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتا.ہم اپنے بیٹے کو ایسے لغو کام پر کس طرح لگا سکتے ہیں کہ وہ ساری عمر لوگوں کو قرآن پڑھاتا اور بھولے بھٹکوں کو دین کی طرف بلا تا ر ہے؟ ہم اسے کسی ایسے کام پر کیوں نہ لگائیں، جس سے وہ چمکتا ہوار و پہیہ ہمارے پاس لائے ؟ شاید تم میں سے ہر شخص حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مثال سن کر مسکرا دیتا ہو گا کہ وہ شخص کیسا احمق تھا ، جس نے کہا کہ جب لوگوں نے چڑیا جتنا روپیہ میرے سامنے لا کر رکھ دیا تو میں کیا کرتا؟ مگر تم اپنے نفسوں میں غور کرو اور سوچو، کیا تمہیں محسوس نہیں ہوتا کہ یہی کام تم بھی کر رہے ہو؟ ہر وہ شخص ، جو اپنی اولاد میں سے یک حصہ کو دین کی طرف نہیں بھیجتا، وہ گویا چڑیا جتنے روپیہ کو محمدصلی اللہ علیہ والہ وسلم کے احکام اور آپ کی تعلیم پر مقدم سمجھتا ہے.اور اس کی مثال وہی ہے جیسے کہ کسی شاعر نے کہا کہ عجب طرح کی ہوئی فراغت گدھوں پر ڈالا جو بارا اپنا وو یاد رکھو اگر تم خدا تعالیٰ کے سامنے منہ دکھانے کے قابل بن کر جانا چاہتے ہو ، اگر تم نہیں چاہتے کہ قیامت کے دن تمہارے چہروں پر کول تار ملا جائے ، اگر تم نہیں چاہتے کہ تمہیں ذلت اور نامرادی کا منہ دیکھنا پڑے، اگر تم نہیں چاہتے کہ تمہیں قیامت کے دن تمام اگلی اور پچھلی نسلوں میں شرمندہ اور ذلیل ہونا پڑے تو ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو جلد سے جلد سمجھنا چاہئے اور دین کی حفاظت کے لیے اپنی نسلوں کو پیش کرنا چاہئے.یہ مت خیال کرو کہ میں یا کوئی اور عقلمند یہ سمجھ لے گا کہ تم ، جو اپنے بچوں کو دین کی خدمت کے لیے پیش نہیں کرتے ، اگر کسی وقت جہاد کا زمانہ آگیا تو تم اپنے بچوں کو فوراً اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جانیں دینے کے لیے پیش کر دو گے.ہم یہی سمجھتے ہیں کہ ایسے لوگ یقیناً اس وقت بھگوڑوں میں سے ہوں گے اور سب سے پہلے میدان جہاد سے پیٹھ موڑ کر بھاگ جائیں گے.کیونکہ جو شخص چھوٹی قربانی نہیں کر سکتا ، وہ بڑی قربانی نہیں کر سکتا.آخر مبلغ مارا نہیں جاتا، اسے ایسی تکلیفیں نہیں پہنچتیں جیسے جہاد میں پہنچتی ہیں.پھر جولوگ ان تکالیف کو برداشت نہیں کر سکتے ، جو لوگ یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ سو کی بجائے چالیس میں ان کے بیٹے گزارہ کریں، جو لوگ یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ اپنے بیٹوں کو تجارت کی بجائے 736
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم جدید ابی اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اپریل 1946ء تبلیغ پر لگا ئیں.ان سے یہ کیونکر امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو آگ میں جھونکنے کے لئے تیار ہوں گے.ہرگز نہیں.جو شخص تیاری کیا کرتا ہے، وہی موقع پر کامیاب ہوتا ہے اور جو شخص فصل ہوتا ہے، وہی کا شتا ہے.جو ہوتا نہیں ، وہ کا پتا نہیں.بس اب وقت ہے کہ تم ہوشیار ہو جاؤ اور اب وقت ہے کہ تم دنیا داری کی روح کو بالکل کچل دو.ورنہ تمہارا وہ دعوئی، جو بیعت کے وقت تم اپنے امام کے ہاتھ پر کرتے ہو کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے ، وہ ایک جھوٹ ہے ، وہ ایک لاف ہے ، وہ ایک بے دینی کا کلمہ ہے اور وہ تمہاری بے ایمانی پر دلالت کرتا ہے.( مطبوعہ الفضل 30 اپریل 1946ء) 737
تحریک ہو یہ ایک المی تحریک جلد دوم خلاصه از تقریر فرموده 13 جنوری 1947 ء اپنی زندگیاں راہ خدا میں وقف کریں تقریر فرمودہ 13 جنوری 1947ء مدرسہ احمدیہ کے صحن میں وکالت تبشیر کی طرف سے جناب مولوی نذیر احمد صاحب مبشر مبلغ گولڈ کوسٹ افریقہ کے اعزاز میں دی گئی دعوت چائے کے موقع پر حضور نے فرمایا:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کی ان علامتوں میں سے جو قرآن کریم نے بیان کی ہیں، ایک علامت یہ بھی ہے کہ وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ یعنی اس وقت وحشی غیر مہذب اور نا تعلیم یافتہ اقوام میں بھی بیداری پیدا ہو جائے گی.دنیا میں ہمیشہ ہی ہر زمانہ اور ہر دور میں کوئی نہ کوئی قوم بیدار ہوتی رہی ہے اور پستی سے نکل کر بام رفعت پر پہنچتی رہی ہے.مثلا مغل، عرب اور بربری اقوام ایک وقت ذلت کے عمیق گڑھے میں تھیں.مگر ان پر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ ساری دنیا پر چھا گئیں.پہلے زمانہ میں تو میں انفرادی طور پر بیدار ہوتی رہی ہیں.ایک وقت میں ایک عروج پر تھی تو دوسرے وقت میں دوسری بام رفعت پر.یہ کبھی نہیں ہوا کہ ایک ہی زمانہ میں ساری قومیں بیدار ہو گئی ہوں.یہ نظاره که بیک وقت ساری قوموں میں بیداری کی لہر دوڑ گئی ہو.قرآن کریم کی پیشگوئی کے مطابق صرف مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہی دکھائی دیتا ہے.اسی زمانہ میں دنیا کی ساری قومیں شاہراہ ترقی پر گامزن ہوئیں اور پست سے پست اقوام میں بھی بیداری کے آثار پیدا ہوئے.سانسی، او باہی اور دیگر ا چھوت اقوام جن کو بھی سڑکوں پر چلنے کی اجازت بھی نہ ملتی تھی ، اب حکومت میں کانگرس اور مسلم لیگ کی ہم جلیس ہیں.اور ہر قوم خواہ ہندو ہو یا مسلمان یا عیسائی ان کو اپنے میں شامل کرنے کے خواہش مند ہیں اور انہیں بھائی بنانے کے آرزومند ہیں.ہندوستان سے باہر افریقہ کا ہی ایک ایسا ملک ہے، جو لاکھوں لاکھ سال سے تاریکی اور ظلمت کے عمیق گڑھے میں گرا ہوا تھا اور کبھی بھی اس میں بیداری پیدا نہ ہوئی تھی.مگر اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے 819
خلاصه از تقریر فرموده 13 جنوری 1947ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم ہماری جماعت کو توفیق بخشی ہے کہ ان کو بیدار کرنے کی سعادت حاصل کریں.اور وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ کی پیشگوئی کے پورا کرنے میں حصہ دار بہنیں.عیسائیوں کے مقابل پر جو وہاں غلامی پیدا کرنا چاہتے ہیں، ہم نے نہایت کمزور ذرائع کے باوجود غیر معمولی فتح حاصل کی ہے.حتی کہ عیسائیت کی اشاعت ہی بند ہوگئی ہے.چناچہ چرچ آف انگلینڈ کو سخت تشویش ہوئی اور اس نے حالات کا جائزہ لینے کے لئے ایک وفد بھیجا.جس نے یہ رپورٹ کی کہ عیسائیت کی اشاعت احمدی مبلغین کی مقبولیت کی وجہ سے رک گئی ہے.سوخدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں سب اقوام کی بیداری کے سامان پیدا کر دیئے ہیں اور ان میں بیداری پیدا کرنے کی ہمیں بھی توفیق بخشی اور وَإِذَا الوحوش حُشِرکت کی پیشگوئی کے پورا کرنے کا ہمیں بھی ذریعہ بنایا.حالانکہ وہ قو میں، جن کی تعداد ہم سے کہیں زیادہ ہے، انہیں یہ سعادت حاصل نہیں ہوئی اور مولوی نذیر احمد صاحب کو اس عمارت کی ایک بنیادی اینٹ ملنے کی سعادت حاصل ہوئی.جس کو ہم نے وہاں قائم کرنا ہے.آپ نے سن لیا ہے کہ وہاں مبلغین کی کس قدر شدید ضرورت ہے.مگر سر دست ہم سو، ڈیڑھ سو مبلغ وہاں بھیجیں ، تب بھی ایک ایک علاقہ میں صرف ایک مبلغ رکھا جا سکتا ہے.پس میں نو جوانوں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ ان فیوض میں شامل ہونے کی کوشش کریں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے راستہ کھول دیا ہے.اور افریقن لوگوں کے دلوں کو اسلام کی طرف راغب کر دیا ہے اور عیسائیوں کی شان و شوکت اور ظاہری آرائش کے باوجود احمدی مبلغین کی طرف زیادہ توجہ دیتے اور اسلام کی باتوں کی طرف زیادہ دھیان دیتے ہیں.پس آپ لوگوں کو چاہیے کہ اس سعادت سے پورا پورا فائدہ حاصل کریں اور اپنی زندگیاں راہ خدا میں وقف کر کے اس سعادت سے بہرہ ور ہوں.( مطبوع الفضل 15 جنوری 1947ء ) 820
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خلاصہ تقریر فرمود 140 جنوری 1947ء ساری دنیا کو چیلنج دے کر تم خود خواب خرگوش میں محو نہیں ہو سکتے تقریر فرمود و 14 جنوری 1947 ء بر موقع مجلس عرفان ہمارے کالجوں اور سکولوں کے بہت سے طلباء مجلس میں بیٹھے ہوئے ہیں اور واقفین کا ایک معتد بہ حصہ بھی موجود ہے.آج میں انہیں مخاطب کرتے ہوئے یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ انہیں اپنے اوقات کو زیادہ سے زیادہ مفید اور کارآمد بنانا چاہیے.تاوہ سلسلہ کے لئے مفید بن سکیں اور تاجب یہ مختصرسی زندگی گزارنے کے بعد وہ خدا کے سامنے پیش ہوں تو ان کے چہروں پر ندامت کے آثار نہ ہوں بلکہ راہ خدا میں عظیم الشان قربانیوں کی وجہ سے سرخروئی اور بامرادی کے آثار ہوں.اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے زندہ رہنے کے لئے اس نے اتنے سامان پیدا کئے ہیں کہ ان کا اندازہ لگانا بھی ناممکن ہے.آدم سے لے کر اس وقت تک اللہ تعالیٰ انسان کو ترقی کے مختلف مدارج میں سے گزارتا ہوا اس بلند مقام پر لایا ہے.اور نہ معلوم آئندہ کس قدر ترقی انسان کرے گا؟ پس وہ زندگی جس کے لئے دنیا کے یہ سارے سامان پیدا کئے گئے ہیں، کتنی قیمتی ہوگی ؟ انسان کا اگر تعداد کے لحاظ سے زمین کی دوسری مخلوق سے موازنہ کیا جائے تو اسے کوئی نسبت ہی نہیں.ایک شہر ہی میں جس قدر کیڑے مکوڑے اور دوسری چھوٹی چھوٹی جاندار چیزیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں ، وہ بھی ساری دنیا کے انسانوں کے برابر ہوں گی.پھر اس دنیا کو دوسری دنیاؤں، جو چاند اور ستاروں میں آباد ہیں، کے ساتھ رکھ کر مقابلہ کیا جائے تو اس کی نسبت ان سے صرف اتنی ہوگی، جتنی اس دنیا سے ایک مکھی کو.غرض یہ دنیا ان کے مقابلہ میں کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتی.پھر انسان کا اس دنیا کے بنانے یا بگاڑنے میں کوئی حصہ ہی نہیں.اور وہ کام جو وہ اس دنیا میں کرتا ہے، کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتے.وہ مادہ مثلا لو ہا لکڑی، پانی ہٹی وغیرہ جن سے یہ مختلف چیزیں بناتا ہے، سب خدا کی پیدا کی ہوئی ہیں.اس کا دخل صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ ان کی شکل بدل دیتا ہے.دراصل خدا تعالی خالق اعمال بھی ہے.وہ طاقتیں جن کے ذریعہ سے انسان چیزوں کی نکلیں بدلتا ہے ، سب اللہ ہی کی دی ہوئی ہوتی ہیں.وہ اعضاء مثلاً ہاتھ ، پیر، آنکھ ، ناک وغیرہ جن سے یہ کام لیتا ہے، اللہ ہی کے دیئے ہوتے ہیں.دماغ اور سوچنے سمجھنے کی طاقت بھی اللہ ہی نے دی ہوئی ہے.821
خلاصه تقر بر فرمود 14 جنوری 1947ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم وہ خوبیاں مثلاً آواز کا اچھا ہونا یا حسن صورت وغیرہ جن سے انسان دوسروں سے ممتاز ہوتا اور ان سے خراج تحسین پاتا ہے، سب اللہ ہی کی دی ہوئی ہیں.اس کا ان میں کوئی بھی دخل نہیں ہوتا.اس کا اگر دخل ہوتا ہے تو وہ صرف ارادہ کا.اور یہ اتنا چھوٹا سا دخل ہے کہ وہ کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتا.لیکن اگر انسان اس چھوٹے سے دخل میں بھی کوتاہی کرے تو بہت ہی افسوس کی بات ہے.انسان جب اس چھوٹے سے دخل کو بروئے کار لا کر کوئی کام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اس کام پر بھی بہت خوش ہوتا اور کہنے لگتا ہے دیکھو! میرے بندے نے میری خاطر یہ کام کیا ، وہ کام کیا.اور وہ اس معمولی سے کام کے بدلہ میں انعام دینے لگ جاتا ہے.ایسا انعام جو کبھی ختم ہی نہ ہو.عَطَاء غَيْرَ مَجْدُودٍ پھر یہی نہیں، اللہ تعالیٰ کہتا ہے اے میرے بندے! تو نے جو مانگنا ہے، مانگ لے اور جو تو چاہتا ہے، تجھے ملے گا.وَلَهُمْ مَّا يَشْتَهُونَ اس کی مثال ایسی ہی ہے، جیسے باپ بچے کا ہاتھ پکڑ کر کاغذ پر کچھ حروف ڈالتا ہے اور بچہ خوش ہوتا پھرتا اور ہر ایک کو بتا تا پھرتا ہے.لیکن حقیقت میں وہ باپ کا لکھا ہوتا ہے.یہی حال انسان کا ہے.سارے کام تو خدا کرتا ہے مگر یہ اپنے ارادہ کے ادنی سے دخل سے پھولا نہیں سماتا اور ڈینگیں مارنے لگتا ہے.دیکھو میں نے یہ کیا اور وہ کیا.مگر بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ انسان نے ابھی تک اپنے ارادہ پر بھی قابو نہیں پایا اور اسے سراسر اللہ تعالیٰ کے لئے وقف نہیں کر دیا.مگر افسوس کہ ابھی تک انسان یہ بھی نہیں کر سکا کہ جو نظام اللہ تعالیٰ نے اس کے جسم میں رکھا ہے، اپنے کاموں میں اس کی ہی نقل کر سکے.اگر وہ صرف اس کی ہی نقل میں کامیاب ہو جائے تو دنیا کے تمام فسادات یک قلم موقوف ہو جائیں اور انسان کی زندگی اور حیات کا صحیح مقصد پورا ہو جائے.مگر اب ہزاروں ہزار سال گزر رہے ہیں، ابھی تک انسان نے اپنے ہی جسم کے نظام کی نقل نہیں کی.انسان کے جسم میں ایسا اعلی نظام ہے کہ اس میں خلل واقع ہی نہیں ہوتا اور خود بخود سارا کام ہوتا رہتا ہے.کبھی تصادم کی صورت پیدا نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ نے انسان کی رہنمائی کے لئے اتنے سامان پیدا کئے ہوئے ہیں مگر وہ ان سے فائدہ نہیں اٹھاتا اور ذرا بھی توجہ نہیں دیتا.اسی وجہ سے روز بروز تنزل کی طرف جا رہا ہے.ایک آدم نما ، اس کے دو ہی کان ، دو ہی ہاتھ اور دوہی پاؤں تھے اور وہ بھی ہماری طرح کا تھا.مگر دیکھو اس سے اولاد کا اتنا 822
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم خلاصہ تقریر فرموده 14 جنوری 1947ء وسیع سلسلہ چلا ہے کہ ختم ہونے ہی میں نہیں آتا.عجیب قدرت ہے، چھوٹی سی حوا تھی اور چھوٹا سا اس کا شکم مگر ساری دنیا کے اربوں ارب انسان اسی ایک شکم سے نکلتے ہی چلے آئے ہیں.پھر جو شکل آدم یا حوا کی تھی ، وہی شکل موجودہ انسانوں کی ہے.کوئی بھی تو فرق پیدا نہیں ہوا.دوکان ، دو ہاتھ ، دو پاؤں وغیرہ.الغرض دنیا آج ہزاروں ہزار سال کے بعد اور سائنسدانوں کے مطابق کروڑوں کروڑ سال کے بعد بھی جسمانی طور پر اس کی نقل کرتی چلی آتی ہے.مگر کتنے افسوس کی بات ہوگی کہ مومن روحانی طور پر خدا کے فرستادوں اور رسولوں کی نقل چھوڑ دے اور ان جیسا اپنے آپ کو بنانے کی کوشش نہ کرے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کواللہ تعالیٰ نے آدم کہا ہے.یہ اسی طرف اشارہ ہے کہ جس طرح دنیا نے جسمانی طور پر اس آدم کی نقل کی ہے، تم بھی روحانی طور پر اس کی نقل کرنے کی کوشش کرو.ہماری جماعت پر دو ہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم روحانی طور پر بھی اپنے زمانہ کے آدم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نقل کرتے رہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ تین سو سال تک آپ کے ماننے والوں کی اتنی کثرت ہو جائے گی کہ دوسری اقوام کی ان کے مقابلہ میں کوئی حیثیت ہی نہ ہوگی بلکہ وہ چوہڑوں اور چماروں کی طرح ہو جائیں گے.پس اگر ہم اس وعدہ اور انعام میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم بھی کچھ کر کے دکھا ئیں.اس کو پورا تو خدا نے ہی کرنا ہے اور سارا کام بھی اسی نے کرنا ہے، ہماری تو صرف شرکت ہی کی ضرورت ہے اور صرف ارادہ کرنے کی.مگر افسوس ہے کہ ہماری جماعت یہ بھی نہیں کرتی.یہی وجہ ہے کہ ہمیں سلسلہ کے کاموں کے لئے آدمی نہیں ملتے.ہمارے طالب علموں کو چاہیے کہ اس بوجھ کو اپنے کندھوں پر اٹھانے کے لئے جلد از جلد تعلیم حاصل کریں اور اپنے اندر بیداری اور احساس کا مادہ پیدا کریں.محنت اور ہمت کی زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں.ایک طرف تو وہ زیادہ سے زیادہ دنیوی تعلیم حاصل کریں اور دوسری طرف ساتھ ہی دینی تعلیم قرآن وحدیث وغیرہ کا ترجمہ بھی سیکھتے رہیں.اس وقت جو لوگ سلسلہ کے کام کو چلا رہے ہیں ، انہوں نے ایسا ہی کیا تھا.دنیا کی تعلیم کے ساتھ ساتھ دین کی تعلیم بھی حاصل کرتے رہے.اگر تم بھی ایسا کرو گے تو ہمیں فکر نہیں.ہم سمجھ لیں گے کہ دو چار سالوں میں سلسلہ کا بوجھ اٹھانے کے لئے بہت سے نو جوان ہمیں میسر آجائیں گے.نوجوانوں کو ہمیشہ یہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ وہ بہت بڑے بڑے کاموں کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.انہوں نے دفتروں میں بیٹھ کر کلر کی نہیں کرنی بلکہ ایسے کارنامے سرانجام دینے ہیں، جن سے دنیا ہل جائے.ایسے ہی بلند عزم لے کر اگر ہمارے نو جوان اٹھیں گے تو وہ کچھ حاصل کر لیں گے.لیکن اگر حو صلے ہی پست ہوں گے تو بلند و بالا نتا ئج کی کس طرح امید ہو سکتی ہے؟ 823
خلاصہ تقریر فرمود 14 جنوری 1947ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم واقفین کو چاہئے کہ وہ اپنے دوستوں کو کھینچ کھینچ کر اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کریں تا سلسلہ کے کاموں میں وہ بھی ان کے شریک کار ہو جائیں.ایک شرابی ، ایک بھنگی اور ایک بدمعاش کو اس کا رفیق مل جاتا ہے اور وہ برے کاموں کے لئے اپنا ساتھی تلاش کر لیتا ہے.لیکن کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک واقف زندگی کو نیک کام کے لئے کوئی ساتھی مل جائے ؟ پس اگر وہ اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو ہر وقت تحریک کرتے رہیں تو انہیں بہت سے ساتھی مل جائیں گے.یاد رکھو ساری دنیا کو چیلنج دے کر تم خود خواب خرگوش میں محو نہیں ہو سکتے.جب تم ساری دنیا کو سر کرنے کا عزم لے کر اٹھے ہو تو سستی اور کوتا ہی تمہیں زیب نہیں دیتی تمہیں ہمت اور محنت سے کام کرنا چاہئے.تم میں سے ہر شخص کو بیدار ہو جانا چاہئے.کیا طالب علم ، کیا صناع، کیا تاجر ہر ایک کو اپنی زندگی کو سلسلہ کے لئے وقف کر دینا چاہئے.کیونکہ سلسلہ کو ہر قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہے.پس واقفین کو چاہئے کہ وہ دوسروں میں تحریک کرتے رہیں کہ وہ بھی اس کامیابی اور انعام میں شامل ہوں، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والا ہے.یادرکھو کامیابی کا سہرا تمہارے ہی سر پر ہوگا اور دنیا سے تم ہی خراج تحسین حاصل کرو گے.بے شک مال و دولت دوسرے لے جائیں گے.مگر وہ حقیر چیز ہے، ہاتھوں کی میل ہے.صحیح دولت ، وہ عزت اور سرخروئی ہے، جو دین کی خدمت میں حاصل ہوتی ہے.نیز اللہ تعالیٰ کی خوشنودی تمہارے ہی حصہ آئے گئی.بعد میں بے شک بڑے بڑے آدمی پیدا ہوں گے، جرنیل بھی اور بادشاہ بھی.مگر دنیا کے نزدیک جو قدر و منزلت تمہاری ہوگی ، وہ ان کی نہ ہوگی.دنیا تمہارے ناموں کے ساتھ رضی اللہ تعالیٰ کے القاب لگائے گی اور تمہاری کوششوں کو سرا ہے گی.مگر ان کو کوئی پوچھے گا بھی نہیں.کیونکہ حقیقی قربانی تمہاری ہی ہو گئی اور بنیادی کام تم ہی نے کیا ہوگا.مطبوع الفضل 16 جنوری 1947ء) 824
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 جنوری 1947ء تحریک جدید کا نام نہیں بلکہ اس کے پیچھے جو روح ہے، وہ قابل عزت ہے وو خطبہ جمعہ فرمودہ 17 جنوری 1947ء میں نے جماعت کو پہلے بھی بہت دفعہ توجہ دلائی ہے کہ تبلیغ کا کام دن بدن وسیع ہوتا جا رہا ہے اور جب تک جماعت خاص قربانی نہ کرے گی، اس وقت تک اس بوجھ کو اٹھانا مشکل نظر آتا ہے.دوستوں کو معلوم ہے کہ تحریک جدید کی طرف سے ساٹھ کے قریب مبلغ باہر جاچکے ہیں اور میں کے قریب اور جانے والے ہیں.امید ہے کہ اس سال سو مبلغ غیر ممالک میں چلے جائیں گے.اس کے علاوہ یہاں باہر جانے والے مبلغین کے قائمقام بھی تیار کئے جارہے ہیں.اور کچھ واقفین عربی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور کچھ فارغ التحصیل ہونے کے بعد دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں.ان سب کے اخراجات مل کر اتنے ہیں کہ موجودہ چندہ سے ان اخراجات کو بہت مشکل سے پورا کیا جاتا ہے.اور آئندہ تو یہ کام اور بھی زیادہ ہو جائے گا اور موجودہ چندہ اس بوجھ کو نہیں اٹھا سکے گا.چندہ کو بڑھانے کی دو ہی صورتیں ہیں.ایک تو یہ کہ جماعت تعداد میں بڑھے اور دوسری یہ کہ جماعت کی آمد بڑھ جائے.یہ دونوں صورتیں ہماری جماعت کے لئے ضروری ہیں.اگر جماعت کے چندوں میں آئندہ اضافہ نہ ہوتو ریز روفنڈ قائم نہیں کیا جاسکتا.بلکہ خطرہ ہے کہ یہ بوجھ پہلے ریز روفنڈ کو بھی نہ کھا جائے.آج ہم پر تحریک جدید کا تیرھواں سال گزر رہا ہے.اس سال کو اگر نکال دیا جائے تو اس دور میں حصہ لینے والوں کے لئے چھ سال باقی ہیں اور اگر اس سال کو شامل کر لیا جائے تو سات سال ہو جاتے ہیں.ان لوگوں نے جو پہلے دور میں شامل ہیں، تحریک جدید کے اخراجات کا بوجھ بھی اٹھایا ہے اور ساتھ ایک ریز ورفنڈ بھی قائم کیا ہے اور دفتر دوم والوں کا روپیہ فی الحال جمع ہوتا جارہا ہے.ہم دفتر دوم کو اس قابل بنانا چاہتے ہیں کہ وہ دفتر اول کے بوجھ کو اٹھا سکے.مجھے افسوس ہے کہ اس سال وعدوں کی تعداد تسلی بخش نہیں.بعض جماعتوں نے ابھی تک اپنے وعدے نہیں بھجوائے باوجود اس کے کہ دفتر یاددہانی کروارہا ہے.وعدوں کے بھجوانے کی آخری تاریخ 10 فروری ہے.اس کے بعد ان حصوں کے وعدے نہیں لئے جائیں گے، جہاں اردو بولی یا کبھی جاتی ہے.مثلاً پنجاب، سرحد، یو پی وغیرہ.لیکن وہ صوبے، جہاں اردو نہیں بولی 825
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 جنوری 1947ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم جاتی بلکہ وہ غیر زبان بولتے ہیں.مثلاً بنگال وغیرہ.ان کے لئے آخری تاریخ اپریل ہے.اور ہندوستان کے باہر جون تک کے وعدے لے لئے جائیں گے.جون کے بعد جو وعدے آئیں گے، وہ نہیں لئے جائیں گے.آج 17 جنوری ہے.اس حساب سے گویا وعدوں کے لئے چوبیس دن باقی ہیں اور ابھی نصف کے قریب وعدے باقی ہیں.اور تو اور قادیان کی جماعت میں ایک حصہ ایسا ہے، جس نے اپنے وعدے ابھی تک نہیں بھجوائے.لجنہ کے متعلق تو مجھے یقینی طور پر علم ہے اور مردوں میں سے بھی بہت سے ایسے ہیں، جن کے وعدے موصول نہیں ہوئے.حالانکہ قادیان ایسی جگہ ہے، جہاں ہر تحریک کے متعلق سب.پہلے کام شروع ہونا چاہئے.کیونکہ قادیان والوں کو بیرونی جماعتوں کی نسبت پہلے علم ہوتا ہے.اس لحاظ سے قادیان کی جماعت کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ بیرونی جماعتوں کی نسبت زیادہ توجہ سے کام کریں.بیرونی جماعتوں میں سے بھی بہت سی جماعتیں باقی ہیں، جن کے وعدے نہیں آئے.معلوم نہیں کہ کیوں اس سال سستی سے کام لیا گیا ہے.یا تو عہدیداروں نے پوری کوشش نہیں کی اور یا خود افراد نے ابھی تک پوری توجہ نہیں کی.سے میں آج کے خطبہ کے ذریعہ جماعت کو اس کے فرائض کی طرف توجہ دلاتا ہوں.جماعت کو چاہئے کہ وہ جلد سے جلد اپنے وعدے بھجوائے.اگر وعدے جلد ہی نہ بھیجے جائیں تو تبلیغی کاموں کو نقصان کا پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے.جماعت کو خود اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ جماعت کی تبلیغی مساعی میں کوئی روک واقعہ نہ ہو.میں نے پہلے بتایا تھا کہ اس میں شبہ نہیں کہ جہاں تک تحریک جدید کے کاموں کو چلانے کا سوال ہے، جماعت نے اس معاملہ میں بے نظیر قربانی پیش کی ہے.اور ہر قربانی کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ انسان کو آئندہ اس سے بڑھ کر قربانی کرنے کی توفیق عطا کی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ مومن کی قربانی اس پیج کی طرح ہوتی ہے، جو کہ پھولتا پھلتا اور بار بار پھل لاتا ہے.اگر ایک شخص اخلاص کے ساتھ تحریک جدید میں حصہ لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے قبول کر لیتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ آئندہ سال اسے پہلے کی نسبت زیادہ قربانی کرنے کی توفیق ملے.میں سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ہمارے نصف سے زیادہ دوستوں کو پہلے کی نسبت زیادہ قربانی کرنے کی توفیق دے رہا ہے.اور جن کو قربانی میں بڑھنے کی توفیق نہیں ملی ، ان کو اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے اور اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنی چاہتے اور اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ جھکنا چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ ان کی بستیوں اور کمزوریوں کو دور کرے اور قربانیوں میں قدم آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے.826
جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 جنوری 1947ء گذشتہ سال یعنی تحریک جدید کے بارھویں سال گذشتہ سالوں کی نسبت جماعت نے بہت کو اچھا کام کیا ہے.اور اس سال 30 نومبر تک 92 فی صدی وعدوں کی وصولی ہو گئی.یہ خوش کن بات ہے.اور یہ چیز اس بات کا ثبوت ہے کہ وعدہ کرنے والوں نے اخلاص سے وعدے کئے.اسی لئے ان کو ان کے پورا کرنے کی توفیق ملی.میں امید کرتا ہوں کہ آئندہ بھی دوست پوری توجہ کے ساتھ تحریک جدید کے کاموں میں حصہ لیں گے.دور اول والوں کے 19 سالہ دور میں سے بارہ سال گذر چکے ہیں.بارہ سال قربانی کرنے کے بعد سستی کرنا، ایک افسوسناک امر ہے.گویا 2 6 فی صدی زمانہ گزر چکا ہے، زیادہ رستہ طے ہو چکا ہے اور تھوڑ ا رستہ باقی ہے اور اب منزل قریب نظر آرہی ہے.اب سست ہونے کی کوئی وجہ نہیں.پس میں جماعت قادیان اور بیرونی جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ وقت پر اپنی پوری کوشش کے ساتھ جتنی جلدی ہو سکے ، اپنے وعدے بھجوا دیں تا کہ اگلے سال کا بجٹ تیار کیا جا سکے.گونئے سال کا بجٹ مئی سے شروع ہوتا ہے لیکن بجٹ مارچ اپریل میں بن جاتا ہے.اس لئے دس ضروری آخری تاریخ رکھی جاتی ہے.اس وقت تک دفتر والوں کو ایک اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہمیں کتنی آمد کی امید ہے؟ اور پہلے کی نسبت وعدوں میں کمی ہے یا زیادتی ہے.جو خرچ ہم کر چکے ہیں، وہ تو رو کے نہیں جاسکتے اور نہ ہی ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے کسی ایک جگہ پر ٹھہر نا پسند کرتے ہیں.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، ساتھ مبلغ جاچکے ہیں اور ارادہ ہے کہ یہ تعداد سو تک پہنچ جائے.لیکن پھر بھی اگلی زیادتی میں بجٹ کے اندازہ کو اور چندوں کی رفتار کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے.اس بجٹ کے مطابق سکیم تیار کی جاتی ہے اور جب تک بجٹ تیار نہ ہو کسی سکیم کو چلا یا نہیں جاسکتا.دوسرا سوال دفتر دوم کا ہے.گذشتہ سال دفتر دوم میں پچانوے ہزار کے وعدے تھے.اس سے ظاہر ہے کہ دفتر دوم ابھی اس قابل نہیں ہوا کہ وہ دفتر اول کا بوجھ اٹھا سکے.اس سال تحریک جدید کا بجٹ چار لاکھ سے کم نہیں ہو گا اور ابھی چھ سال دور اول کے باقی ہیں.نہ معلوم ان میں کتنی زیادتی ہوگی ؟ اور پچانوے ہزار تو چار لاکھ کا چوتھا حصہ بھی نہیں.اس لحاظ سے دفتر دوم کی آمد بہت کم ہے اور یہ رفتار تسلی بخش نہیں.جب تک اگلی نسل قربانی کا اعلیٰ نمونہ پیش نہیں کرتی اور پہلوں سے قدم آگے نہیں رکھتی ، اس وقت تک ہم اپنے آپ کو کامیاب نہیں سمجھ سکتے.تحریک جدید میں صرف حصہ لے لینے سے انسان کو عزت حاصل نہیں ہوتی اور نہ ہی تحریک جدید کے نام میں کوئی عزت ہے بلکہ اس نام کے پیچھے جو روح کام کر رہی ہے، وہ قابل عزت ہے.یعنی انسان اللہ تعالی کے دین کی خاطر جان، مال، جائیداد اور عزت ہر قسم کی 827
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 جنوری 1947ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم قربانی کے لئے تیار ہو جائے.اگر یہ نہیں تو پھر تحریک میں صرف چند روپے دے کر انسان اللہ تعالی کا مقرب نہیں بن سکتا.بلکہ اس کا اپنی طاقت کے مطابق قربانی کرنا اس کو اللہ تعالیٰ کا مقرب بناتا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ دفتر دوم میں حصہ لینے والے بہت کم ہیں اور ان کے چندے کی وصولی کی رفتار اور بھی ست ہے.میں تو یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ ہماری نسلیں ہم سے بڑھ کر قربانی کرنے والی ہوں اور ہمارا قدم کسی رنگ میں بھی پیچھے کی طرف نہ پڑے.اور آج تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کا قدم ہر رنگ میں آگے کی طرف پڑ رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جہاں ایسے مخلص لوگ تھے کہ وہ اپنی آمد میں سے نصف سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر قربان کر دیتے تھے، وہاں آج بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے لوگ موجود ہیں جو کہ نصف آمد یا نصف آمد سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں پیسہ فی روپیہ چندہ تھا، اس کے بعد دو پیسے فی روپیہ ہوا.پھر تین پیسے فی روپیہ ہوا اور اب چار پیسے فی روپیہ ہے.یہی شکل وصیت کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بہت تھوڑے لوگ موصی تھے.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہزاروں کی تعداد میں موصی ہیں اور چندہ تو آنہ کی بجائے پانچ پیسے فی روپیہ سمجھنا چاہئے.کیونکہ چندہ جلسہ سالانہ بھی ایک مستقل چندہ ہے ، اس کو ملا کر پانچ پیسے فی روپیہ بن جاتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے تحریک جدید جاری ہوگئی ہے اور جماعت یہ تمام قسم کے بوجھ اٹھاتی جارہی ہے اور اس کا قدم دن بدن ترقی کے طرف پڑ رہا ہے.اگر انسان وفاداری کر سکتا ہے اور وفاداری کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کیوں وفاداری نہ کرے گا ؟ بلکہ وہ تو تمام دنیا سے بڑھ کر وفادار ہے اور کوئی چیز اس کی طرح وفادار نہیں.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے لئے قربانیاں کریں گے، وہ قربانیاں ان کے لئے اس دنیا میں بھی بڑی بڑی برکتوں کا موجب ہوں گی اور اگلے جہان کا اندازہ نہ تم لگا سکتے ہو اور نہ میں لگا سکتا ہوں.پھر وقف زندگی کا مطالبہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں با قاعدہ طور پر کوئی ایک مبلغ بھی نہ تھا اور اب خدا تعالیٰ کے فضل سے ہندوستان اور ہندوستان سے باہر اڑھائی سو مبلغ کام کر رہے ہیں اور بہت سے جانے کے لئے تیار ہیں اور کچھ تیاری کر رہے ہیں.اور کافی تعداد میں ایسے لوگ ہیں، جنہوں نے اپنی زندگیاں وقف کی ہوئی ہیں اور اشارے کے منتظر ہیں.وقف زندگی کرنے کے جذبہ کا احساس دوسری قومیں نہیں کر سکتیں کیونکہ ان میں یہ روح نہیں.لیکن ہماری جماعت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت سے لوگ ایسے ہیں، جن کی مثال دوسری قوموں میں نہیں بل سکتی.بعض آدمی ایسے ہیں، جو مستقل ملازمتیں چھوڑ کر آئے ہیں اور وہ ہزار، بارہ سو کے گریڈ میں کام کر 828
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 جنوری 1947ء رہے تھے اور یہاں آکر انہوں نے سوڈیڑھ سو روپیہ لے کر اسی پر قناعت کی.اور بعض وکلا ہیں، جو کہ ہزار، بارہ سور و پیہ ماہوار کما سکتے تھے اور یہاں آکر ساٹھ ستر روپے پر گزارہ کر رہے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر رنگ میں ترقی ہو رہی ہے اور جماعت دن بدن اپنے اخلاص میں ترقی کر رہی ہے.بعض دفعہ کسی خاص نقص یا خاص خرابی کی طرف جماعت کو متوجہ کرنا پڑتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ جماعت کا قدم نیچے کی طرف آرہا ہے.بلکہ اس سے مراد صرف جماعت کو آگاہ کرنا ہوتا ہے.ورنہ میں دیکھتا ہوں کہ جس طرح پروانے شمع کے گرد جمع ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے جلنے میں سبقت کرتے ہیں، اسی طرح سینکڑوں، ہزاروں لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیوانہ وارفنا ہونے کو تیار ہیں.اور جب وہ مجھے ملنے کے لئے آتے ہیں، مجھے ان کی حالت کو دیکھ کر ان پر رشک آتا ہے.آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں، جسم کانپ رہا ہوتا ہے اور پوچھتے ہیں، کس گناہ کی شامت میں ہمیں قبول نہیں کیا جارہا؟ حالانکہ وہ بڑے بڑے عہدوں پر ملازم ہوتے ہیں اور بڑی بڑی تنخواہیں پاتے ہیں لیکن وہ اس دنیوی ترقی کو نہایت حقیر سمجھتے ہیں.اور وہ جانتے ہیں کہ اصل عزت خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت سے حاصل ہوتی ہے.جس جماعت میں ایسے لوگ ہوں، اللہ تعالیٰ اس جماعت کا خود محافظ ہوتا ہے اور اس جماعت کو آپ ترقی دیتا ہے.لیکن دوسرا طبقہ، جن کو زندگیاں وقف کرنے کی توفیق نہیں ملی، ان کو چاہئے کہ وہ مالی قربانیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں.اور مالی قربانیاں کر کے یہ ثابت کر دیں کہ ہم مردہ نہیں ہیں.ہم میں بھی روحانیت ہے.اور یہ بھی ثابت ہو سکتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ قربانی کریں.دوسرے دفتر دوم والوں کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے سے بڑھ کر حصہ لیں اور ایک دو سال کے اندر اندر اپنے وعدے چار لاکھ تک پہنچا دیں.اور جب چھ سال دفتر اول والوں کے ختم ہوں تو وہ ان کے بوجھ کو بغیر کسی کی مدد کے اٹھا سکیں.جہاں تک غیرت کا سوال ہے، دفتر دوم کے اخراجات کا بوجھ دفتر دوم والوں کو ہی اٹھانا چاہئے.دفتر اول والوں نے اپنی قربانیوں سے اپنا بوجھ خود اٹھایا اور ساتھ کچھ ریز روفنڈ بھی قائم کیا.کل کو یہ کتنی شرم کی بات ہوگی کہ دفتر دوم والے یہ کہیں کہ ہماری ضروریات بھی دفتر اول والوں کے ریز روفنڈ سے پوری کی جائیں.کسی شاعر نے کیا عمدہ کہا ہے، حقا که با عقوبت دوزخ برابر است رفتن بپائے مردی ہمسایہ در بہشت یعنی جنت میں دوسرے کی مدد سے جانا دوزخ میں جانے کے برابر ہے.پس کوئی غیرت مند یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ کسی دوسرے کے سہارے پر زندہ رہے.اس لئے دفتر دوم والوں کو یہ امید نہ رکھنی چاہئے 829
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 جنوری 1947ء تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد دوم کہ ہمارا بو جھ دفتر اول والے یا دفتر سوم والے اٹھا ئیں گے.بعض لوگ یہ حساب لگانا شروع کر دیتے ہیں کہ انتشار یز روفنڈ ہے، اس سے کی پوری کی جا سکتی ہے.اس قسم کے حساب لگانا ادنی درجے کے آدمیوں کا کام ہے.یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک شخص دوسرے آدمی سے یہ امید لگائے بیٹھار ہے کہ وہ میرا بوجھ اٹھائے گا.تم صحابہ کو دیکھو، ان میں یہ احساس کس قدر موجزن تھا کہ ہر شخص کو اپنا بوجھ خود اٹھانا چاہئے اور کسی کا سہارا نہیں ڈھونڈ نا چاہئے.ایک صحابی کے متعلق آتا ہے کہ میدان جنگ میں مین لڑائی کے وقت ان کا کوڑا گر گیا، وہ گھوڑے پر سوار تھے اور فوج کولر وار ہے تھے.ایک دوسرا سپاہی اس خیال سے کہ آپ کے کام میں حرج واقعہ نہ ہو کوڑا اٹھانے کے لئے جھکا.کوڑے والے نے اسے آواز دے کر کہا کہ تجھے خدا کی قسم ہے، میرا کوڑا نہ اٹھانا.میں خود اٹھاؤں گا.پھر وہ گھوڑے سے اترے اور اتر کر کوڑا اٹھایا اور گھوڑے پر سوار ہو گئے اور اس شخص کو جو کوڑا اٹھانے کے لئے جھکا تھا، کہنے لگے، میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عہد کیا تھا کہ میں کسی سے سوال نہیں کروں گا.یعنی گو میں نے آپ سے سوال نہیں کیا لیکن عملی رنگ میں یہ سوال ہی تھا اور میں نے یہ برداشت نہ کیا کہ میں نے جو عہد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا، وہ ٹوٹے.میں اسے آخر دم تک نبھانا چاہتا ہوں.یہ غیرت ہے ، جو انسان کو قربانیوں پر برانگیختہ کرتی ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا دار لوگ بھی اپنی روایتوں کو برقرار رکھنے کی انتہائی کوشش کرتے ہیں اور وہ کسی حالت میں بھی اپنے وقار پر حرف نہیں آنے دیتے اور کسی کا سہارا نہیں لیتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ آپ کے دادا ایک دنیا دار آدمی تھے.وہ اسی سال کی عمر میں پیچش کی مرض سے فوت ہوئے.ان کو بار بار قضائے حاجت کے لئے جانا پڑتا تھا.مرنے سے ایک دو گھنٹے پہلے جبکہ وہ بہت کمزور ہو چکے تھے، قضائے حاجت کے لئے اٹھے تو نوکر نے اس خیال سے کہ کمزوری بہت ہے، کہیں گر نہ جائیں، آپ کا بازو پکڑ لیا.آپ نے اس کے ہاتھ کو پرے جھٹک کر کہا میں تمہارا سہارا نہیں لینا چاہتا.یہ ایک دنیا دار شریف آدمی کی غیرت ہے.مومن کامل کی غیرت اس سے بہت زیادہ ہونی چاہئے.پس دفتر دوم والوں کو چاہئے کہ وہ بھی غیرت کا ثبوت دیں اور کہہ دیں کہ ہم کسی دوسرے کا سہارا نہیں لیں گے.بلکہ ہم پر جو بوجھ پڑے گا، ہم اسے برداشت کریں گے.اور دفتر اول والوں یا دفتر سوم والوں کے ریز روفنڈ سے اپنی ضروریات پوری نہیں کریں گے.جیسا کہ میں پہلے کئی دفعہ بتا چکا ہوں ، جب 830
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 جنوری 1947ء دفتر اول کا کام ختم ہو جائے گا تو دفتر سوم شروع کر دیا جائے گا تا کہ دفتر دوم کام چلا تار ہے اور دفتر سوم اپنا ریز روفنڈ جمع کرتار ہے اور جب دفتر دوم کا کام ختم ہو دفتر سوم اس قابل ہو کہ اس بوجھ کو اٹھا سکے.پس اگر دفتر دوم والے دفتر اول والوں کے ریزرو سے یا دفتر سوم والوں کی مدد سے بوجھ اٹھا ئیں تو وہ پست حوصلہ اور دوں ہمت ہونے کی مثال قائم کرنے والے ہوں گے.جب تک یہ روح نو جوانوں میں کام نہیں کرتی اور جب تک وہ اس قابل نہیں بنتے کہ اپنا کام اپنے وقت میں، اپنے قائم کردہ ریز رو سے چلائیں ، اس وقت تک وہ گردن اٹھا کر قوم کے سامنے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم غیرت مند ہیں.پس نو جوانوں کو اپنے عزم مضبوط کرنے چاہیں اور اپنے حوصلے بلند کرنے چاہیں تا کہ گذشتہ جماعتوں کی طرف ان کی نظر اوپر سے نیچے کی طرف آئے ، جس طرح پہاڑ پر چڑھنے والا آدمی نیچے کے لوگوں کو دیکھتا ہے.( مطبوع افضل 30 جنوری 1947ء) 831
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرموده 31 جنوری 1947 ء یہ امتحان کا وقت ہے، ہمارا ہر قدم آگے بڑھنا چاہئے خطبہ جمعہ فرمودہ 31 جنوری 1947ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.تحریک جدید کے اس حصہ کے مخاطبین کے متعلق جو پنجاب میں یا سرحد میں ، یو.پی یا بہار میں رہتے ہیں، وعدوں کی آخری تاریخ 10 فروری ہے.دس فروری کے لکھے ہوئے وعدے قبول کئے جائیں گے.اس کے بعد وعدے قبول نہیں کئے جائیں گے.اس کے بعد ان علاقوں کے دور اول میں حصہ لینے والوں کے وعدے نہیں لئے جائیں گے.چونکہ دیہات میں ہفتہ میں ایک دو دفعہ ڈاک نکلتی ہے، اس لئے 10 فروری کے لکھے ہوئے وعدے پندرہ سولہ فروری تک پہنچتے رہتے ہیں.اس کے بعد ان علاقوں کے لئے اس سال کے وعدوں کا دروازہ بند ہو جائے گا.اس وقت وعدوں کی جو رفتار ہے، وہ ایسی نہیں کہ اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکے کہ اس سال احباب نے تندہی اور محنت سے کام کیا ہے.جب میں نے شروع شروع میں نئے سال کا اعلان کیا تو پندرہ بیس دن تک تو بڑے جوش کے ساتھ وعدے موصول ہوتے رہے اور جہاں تک ان دوستوں سے ہوسکتا تھا، انہوں نے پچھلے سال کی نسبت اس سال کے وعدوں میں زیادتیاں بھی کی تھیں.گواب بھی بعض دوست اپنے چندوں میں زیادتیاں کر رہے ہیں اور بعض تو غیر معمولی طور پر اپنے چندہ کو بڑھا رہے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جماعت نے تندہی اور محنت سے کام کیا ہے.کیونکہ اب تو وعدوں کی فہرستیں بہت آہستہ آہستہ آرہی ہیں اور ان میں کوئی خاص نمایاں زیادتی نظر نہیں آتی.میں نے جماعت کو بارہا اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہماری قربانیاں کسی ایک وقت کے ساتھ تعلق نہیں رکھتیں.اور جس قسم کی فوری قربانیاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ کو کرنی پڑی تھیں، اس قسم کی قربانیاں ہم کو نہیں کرنی پڑیں.اور جس طرح رسول کریم صلی علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ کو تھوڑ اعرصہ قربانیاں کرنے کے بعد غلبہ حاصل ہو گیا تھا، اسی طرح ہمارے لئے تھوڑا عرصہ مقدر نہیں.صحابہ پر قربانیوں کا بے انتہا بوجھ یکدم ڈالا گیا اور ان کو تھوڑے سے عرصے میں بے انتہا کا میابیاں 833
خطبہ جمعہ فرمودہ 31 جنوری 1947ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک بھی حاصل ہوئیں.لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے یہ مقدر کیا ہے کہ ہماری ترقی صحابہؓ کان سے ہو.اس لحاظ سے ہمارے لئے قربانیوں کا عرصہ بھی لمبا کر دیا گیا ہے.تا کہ ہماری قربانیاں صحابہ کی قربانیوں کے مشابہ ہو جائیں اور ہمارا انعام اور جزا ان کے انعام اور جزا کے مشابہ ہو جائے.جو کام رسول رحم کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کو میں سال یا یوں کہو کہ بتیس سال ( کیونکہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی بارہ سال تک مسلمانوں کو مشکلات کا سامنا رہا.میں کرنا پڑا ، ہمارے متعلق اللہ تعالیٰ یہ بہتر جانتا ہے کہ ہماری جماعت اس کو کتنے وقت میں کر سکے گی ؟ مگر یہ تو ظاہر ہے کہ اس وقت تک سلسلہ کے اعلان کو اٹھاون سال ہو گئے ہیں.اٹھاون سال کے عرصہ میں ابھی ہمارے کام کا خاتمہ پر پہنچنا تو درکنار، ابھی تو وہ ابتدائی مراحل میں نظر آتا ہے.اور ابھی تک سلسلہ کی ترقی ایسی نہیں کہ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکیں کہ بقیہ حصہ کام کا پانچ سات یا دس سال میں ہو جائے گا.میں سمجھتا ہوں کہ اس سے بہت زیادہ عرصہ ہمیں اپنی قربانیوں کو جاری رکھنا ہوگا.اس معاملہ میں اسلام کی مثال بنی اسرائیل کی سی ہے اور ہم ان کے نقش بنفش چل رہے ہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں بنی اسرائیل کو بہت تھوڑے عرصہ میں فتح وکامرانی حاصل ہوگئی.لیکن حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے زمانہ میں عیسائیوں کو ایک لمبے عرصہ تک قربانیاں کرنی پڑیں اور قریباً تین سوسال کی قربانیوں کے بعد انہوں نے کامیابی و کامرانی کا منہ دیکھا.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو جلد کامیابی ہوگئی اور ہماری کامیابی میں دیر لگے گی.ہاں چونکہ مسیح ناصری ( علیہ السلام) سے مسیح محمدی ( علیہ السلام ) افضل ہے، اس لئے اتنا لمبا عرصہ تو نہیں ہوسکتا، جتنا کہ عیسائیوں کے لئے مقدر تھا، اس سے تو بہر حال کم ہی ہو گا.یہ استدلال اس امر سے بھی ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مثیل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں کا زمانہ حضرت موسٹی سے کم تھا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو ساٹھ اور ستر سال کے درمیان قربانیاں کرنی پڑیں اور رسول کریم صلے اللہ علیہ والہ وسلم کی قوم کو بتیس سال قربانیاں کرنی پڑیں.گویا نصف سے بھی کچھ کم عرصہ بنتا ہے.اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی قوم کی قربانیوں کا زمانہ چونکہ دوسواسی سال کا تھا، اس لحاظ سے ہمارے لئے ایک سو بیس سال کا زمانہ ہوتا ہے.جس میں سے ستاون سال گزر چکے ہیں اور تریسٹھ سال باقی ہیں.اور اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ زمانہ یوں بھی سرعت کا ہے اور اس میں دنیوی کام بہت سرعت کے ساتھ ہورہے ہیں ، ہوسکتا ہے کہ ہمیں ایک سو بیس سال سے بھی کچھ پہلے فتح و کامرانی حاصل ہو جائے.اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس 834
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرموده 31 جنوری 1947ء عرصہ پہلے ہمیں غلبہ اور ترقی حاصل ہوگی؟ ہوسکتا ہے کہ یہ کام ستر اسی یا نوے سال میں ہی ہو جائے اور اسی عرصہ میں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے احمدیت کو دنیا میں قائم کر دے.بہر حال قربانیوں کے اتنے کم سال بھی نہیں ہو سکتے ، جتنے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ میں تھے.صحابہ نے کل بتیس سال قربانیاں کیں اور بتیس سال میں اسلام کو وہ شان و شوکت حاصل ہوگئی تھی کہ دنیا کی تمام حکومتیں اس کے خلاف آواز اٹھانے سے ڈرتی تھیں.لیکن ہمارے اعلان کو اٹھاون سال گزر چکے ہیں اور ابھی ہمیں صحابہ کے مقابلہ میں کچھ بھی کامیابی نہیں ہوئی.اس میں کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مختلف ممالک میں احمدیت کا بیج بو دیا ہے.کچھ یہاں بویا ہے ، کچھ وہاں بویا ہے اور بیج کا چھینٹا دنیا کے تمام ممالک میں دے دیا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس پیج کو دنیا بھر میں اگانا چاہتا ہے اور اسے بڑھانا چاہتا ہے اور دنیا کی ضروریات کو اس سے پورا کرنا چاہتا ہے.باقی یہ کہ یہ کام کتنے عرصہ میں ہوگا ، اس کا پورا علم تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہی ہے؟ مگر اس کامیابی اور کامرانی کے آثار نظر آرہے ہیں.اور اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ آخری لڑائی کب ہوگی؟ لیکن ہم اپنی اس لڑائی کے متعلق جو کہ دلائل اور بینات کی لڑائی ہے، یہ بات یقینی طور پر جانتے ہیں کہ اس کا انجام ہمارے حق میں ہوگا.ہمیں یہ بھی یادرکھنا چاہئے ہم جتنا جتنا کامیابی کے قریب ہوتے جارہے ہیں، اتنا ہی قربانیوں کا زیادہ بوجھل جوال اپنی گردن میں ڈالتے جارہے ہیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ اب ہم نہایت ہی اہم دور میں داخل ہو رہے ہیں اور آئندہ ایک دوسال میں جماعت کو پہلے کی نسبت بہت زیادہ قربانیاں کرنی پڑیں گی.اس لئے مومنوں کا فرض ہے کہ وہ پورے طور پر تیاری کریں اور زیادہ سے زیادہ قربانی پیش کر کے اپنے اخلاص اور نیکی کا نمونہ قائم کریں.جولوگ اس موقعہ پر سستی اور غفلت سے کام لیں گے ، وہ گر جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے دروازے سے دھتکار دیئے جائیں گے.یہ بہت خوف کا مقام ہے.ہر احمدی کو چاہیے کہ وہ تیز تیز قدم اٹھائے اور اپنے دوسرے ساتھیوں سے منزل پر پہلے پہنچنے کی کوشش کرے.دو سال ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک الہام کے ذریعہ بتایا تھا کہ جزا کا دن تو قریب آچکا ہے لیکن جماعت ابھی منزل سے دور ہے.وہ الہام یہ تھا.روز جزا قریب ہے اور راہ بعید ہے اللہ تعالیٰ نے اس میں بتایا ہے کہ ہم تو انعام دینے کو تیار ہیں لیکن جماعت کو چاہئے کہ وہ انعام حاصل کرنے کے مقام پر پہنچ جائے تا کہ جب ہمارے انعام کا وقت آئے تو وہ پہلے سے اس مقام پر 835
خطبه جمعه فرمود ه 31 جنوری 1947ء.تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم کھڑے ہوں.یہ نہ ہو کہ ہم انعام دینے کے لئے آئیں اور وہ منزل سے دور ہوں.یہ حالت بہت خطرناک ہے اور اللہ تعالیٰ وہ دن نہ لائے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام تقسیم کرنے کا اعلان ہو جائے اور ہم ابھی منزل پر ہی نہ پہنچے ہوں.مثلاً کوئی شخص دوسرے سے کہے کہ میں فلاں وقت گاؤں سے ایک میل پر گھوڑا یا بیل یا گائے چھوڑ جاؤں گا، تم وقت پر پہنچ کر وہ لے لینا.دینے والا شخص اپنے وعدے کے مطابق اس جگہ گھوڑایا بیل یا گائے چھوڑ جائے.لیکن لینے والا وقت پر نہ پہنچے تو یقینی بات ہے کہ اسے چور لے جائے گا.دینے والا تو دے گا لیکن لینے والے نے اپنی سستی اور غفلت کی وجہ سے اسے ضائع کر دیا.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس الہام میں بتایا ہے کہ میں تمہیں انعام تو دینا چاہتا ہوں لیکن ابھی تمہاری راہ بعید ہے.اور تم ابھی اس مقام سے دور ہو، جہاں میں نے انعام رکھا ہے.اگر تم وقت پر نہ پہنچے تو کوئی دوسرا اٹھا کے لے جائے گا.اب انعام حاصل کرنا تمہارے ہاتھ میں ہے.ہماری جماعت کو چاہئے کہ انتہائی کوشش کے ساتھ دوڑ کر اس مقام پر پہنچنے کی کوشش کرے.پس میں جماعت کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ دن بہت تھوڑے رہ گئے ہیں اور ابھی بہت سے وعدے باقی ہیں.جماعتوں کو کوشش کر کے فہرستیں جلدی جلدی مکمل کرنی چاہیں اور وقت سے پہلے بھجوانے کی کوشش کرنی چاہئے.تاکہ آئندہ سال کا بجٹ تیار ہو سکے اور کارکن اندازہ لگانے میں غلطی نہ کھائیں.اندازہ کے غلط ہو جانے سے بجٹ میں بہت سی مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں اور آئندہ کام کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ نہ صرف ہم ہی تبلیغ کے لئے کوشش کر رہے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمارے لئے تبلیغ کے سامان پیدا کر رہا ہے.ہمارے مبلغ ایک ملک میں سے گزر کر دوسرے ملک میں تبلیغ کے لئے جارہے تھے کہ اس ملک کے لوگوں نے ہمارے مبلغین کو کہا کہ آپ لوگ اتنی دور جار ہے ہیں اور ہمارا ملک جو آپ کے رستہ میں ہے، اس میں آپ تبلیغ نہیں کرتے.آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ آپ ہمارے ملک کو جو کہ رستہ میں ہے ، چھوڑ دیتے ہیں اور اس سے دور آگے کے ممالک میں آر تبلیغ کرتے ہیں.جب اس قسم کے متواتر کئی پیغام ہمارے پاس آئے تو میں نے سمجھا یہ ان لوگوں کے دلوں میں یہ تحریک اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیدا کی گئی ہے اور وہاں کے لوگوں کا خود مبلغ مانگنا اللہ تعالیٰ کی کسی خاص حکمت کے ماتحت ہے.چنانچہ ہم نے وہاں کی گورنمنٹ سے اپنے مبلغ کے داخلہ کی اجازت مانگی.لیکن گورنمنٹ نے ہمیں جواب دیا کہ یہاں کے لوگ آپ کے مبلغ کے داخلہ کو نا پسند کرتے ہیں، اس لئے 836
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرموده 31 جنوری 1947ء اجازت نہیں دی جاسکتی.میں نے کہا چونکہ یہ خدا کی تحریک ہے کہ وہاں کے غیر احمد یوں نے خود مبلغ کے بھجوانے کی خواہش ظاہر کی ہے، اس لئے یہ جواب ہمارے لئے کافی نہیں.ہم نے ایک پاس کے ملک والے مبلغ سے خط و کتابت کی کہ وہ اس دوسرے ملک کے کسی آدمی کو دین کے لئے زندگی وقف کرنے کی تحریک کرے تا کہ اس ذریعہ سے اس ملک میں تبلیغ کا رستہ کھل جائے.کیونکہ اسی علاقہ کے باشندوں کو گورنمنٹ داخل ہونے سے نہیں روک سکتی.چنانچہ کل ہی وہاں سے جواب آیا ہے کہ ایک دوست نے اس کام کے لئے اپنی زندگی وقف کی ہے اور اس دوست نے قربانی کا نہایت اعلی نمونہ پیش کیا ہے.ان ممالک کا گزارہ پہلے ہی بہت مہنگا تھا اور اب جنگ کی وجہ سے تو اور بھی مہنگا ہو گیا ہے.سفر ولایت میں جب ہم شام میں گئے تو میرے ساتھیوں میں سے ایک نے اپنی قمیض دھونے کے لئے دھوبی کو دی.جب دھو بی قمیض دھو کرلایا تو اس نے سوار و پیر قمیض کی دھلائی مانگی.میرے ساتھی نے کہا کہ تم قمیض ہی لے جاؤ، میں دھلائی نہیں دینا چاہتا کیونکہ دھلائی قمیض کی اصل قیمت سے زیادہ ہے.چنانچہ وہ دھوبی نمیض لے کر چلا گیا.تو ان ممالک کے گزارے اس قدر گراں ہیں کہ ہندوستان کے اخراجات پر ان کا قیاس نہیں کیا جاسکتا.باوجود ان باتوں کے اس دوست نے جو گزارہ اپنے لئے لکھا ہے، وہ نہایت قلیل ہے.اس سے تو ہندوستان میں بھی گزارہ نہیں ہو سکتا.وہ دوست نہ قادیان آئے اور نہ ہی انہوں نے سلسلہ کی کتب کا کوئی مطالعہ کیا ہے لیکن قربانی کا جو نمونہ اس دوست نے پیش کیا ہے، اس پر رشک آتا ہے.انہوں نے لکھا ہے کہ میں اپنی زندگی وقف کرتا ہوں.میں اپنا کام چھوڑ کر قادیان تعلیم کے لئے آنے کو تیار ہوں.میری دو بیویاں اور ( دو مائیں ) اور بچے ہیں.ان کے گزارہ کے لئے مجھے صرف اتنی اجازت دی جائے کہ میں قادیان میں کچھ کام کر کے ان کو گزارہ بھیجو اسکوں.اور گزارے کی رقم جس کے لئے انہوں نے کام کرنے کی اجازت مانگی ہے، وہ ہیں روپے لکھی ہے.وہ انگریزی درزی ہیں اور کٹنگ کا کام کرتے ہیں.ہم نے ان کو لکھا ہے کہ ہم آپ کو اور آپ کے بیوی بچوں کو بھی گزارہ دیں گے.آپ قادیان آجائیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف اللہ تعالیٰ دینی کاموں میں ہماری مدد فرماتا ہے بلکہ اپنے فضل سے نئے نئے ملک ہمارے لئے پیش کر رہا ہے کہ ان میں بھی تبلیغ کرو.ہمارے جو مبلغ سپین میں کام کر رہے ہیں، انہوں نے وہاں سے لکھا ہے کہ جولوگ عربی ممالک کے یہاں آتے ہیں، وہ ہم سے پوچھتے ہیں کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ آپ عیسائی ملکوں میں تو تبلیغ کرتے ہیں اور ہمارے ملکوں میں تبلیغ نہیں کرتے؟ گویا ہمارے ایک ایک ملک کے مبلغوں سے دوسرے ملکوں کے 837
خطبہ جمعہ فرمودہ 31 جنوری 1947ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم لوگ ہماری جماعت کے متعلق علم حاصل کرتے ہیں اور پھر وہ مبلغین کا مطالبہ شروع کر دیتے ہیں.اور سلسلہ دن بدن بڑھتا جارہا ہے اور خدائی ارادہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے تبلیغی پروگرام کو زیادہ وسیع کرنا چاہتا ہے.اور مبلغین جتنے زیادہ ہوتے جائیں گے، اتنا ہی جماعت پر بوجھ بڑھتا جائے گا.ہمیں مبلغ حاصل کرنے کے لئے مدارس میں زیادہ طلبا کو داخل کرنا پڑے گا، ان کو بھی وظائف دینے ہوں گے اور پھر نئے نئے مشن کھولنے کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں.لیکن ان اخراجات کو دیکھ کر میں گھبرا تا نہیں.کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی آواز کوسن کر کافر کے سوا کوئی پیچھے نہیں رہ سکتا.اور اس شخص سے زیادہ شقی اور بد قسمت اور کون ہوسکتا ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ملاقات کے لئے بلایا اور وہ پیچھے بیٹھا رہا؟ اس کے کانوں میں اللہ تعالیٰ کی آواز میں آئیں لیکن وہ اپنی غفلت اور ستی اور بخل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ملاقات سے محروم ہو گیا.پس یہ امتحان کا وقت ہے، ہر صبح اور شام، ہر منٹ اور ہر سکینڈ ہمارا قدم آگے بڑھنا چاہئے تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے منشاء کو پورا کر کے اپنے گھروں کو اس کی برکتوں اور فضلوں سے بھر لیں.(مطبوعہ الفضل 03 فروری 1947ء ) 838
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 07 فروری 1947ء وو ہمارے سب کام اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں خطبہ جمعہ فرمودہ 07 فروری 1947ء آج سات تاریخ ہے اور تحریک جدید کے وعدوں کی میعاد تین دن تک ختم ہو رہی ہے.اس وقت تک اس سال کے وعدوں کی مقدار گذشتہ سال سے قریبا چالیس ہزار روپیہ کم ہے.(خطبہ کے بعد کوئی گیارہ ہزار کے وعدے اور آچکے ہیں.حالانکہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہر سال جماعت کے وعدوں کی مقدار پچھلے سال سے بڑھتی چلی آرہی ہے.میعاد میں سے اب صرف تین دن باقی ہیں یا اگر آج کا دن بھی شامل کر لیا جائے تو چار دن باقی ہیں.اور جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں، دس تاریخ کے چلے ہوئے وعدے بعد میں پانچ پانچ، چھ چھ دن تک آتے رہتے ہیں.کیونکہ بعض جگہ ڈاک خانوں میں سے ہفتہ میں صرف ایک دفعہ اور بعض جگہ ہفتہ میں دو دفعہ ڈاک نکلتی ہے.اور بعض علاقے تو اتنی اتنی دور واقع ہیں کہ وہاں سے دس تاریخ کا لکھا ہوا خط چھ چھ، سات سات بلکہ آٹھ آٹھ دن کے بعد یہاں پہنچتا ہے.بالخصوص آج کل تو ڈاک کا انتظام ایسا خراب ہے کہ قریب کے علاقوں کے خطوط بھی بعض دفعہ بہت دیر کے بعد پہنچتے ہیں.اس لئے غالبا تحریک جدید کے وعدے 20-18 فروری تک آتے رہیں گے.لیکن پھر بھی اس وقت تک جماعت کے گذشتہ ریکارڈ کی نسبت کمی نظر آتی ہے.اللہ تعالیٰ خود ہی اپنے سلسلہ کے کام کرنے والا ہے اور میں سمجھتا ہوں وہ جماعت کے مخلصین کو ضرور اس بات کی توفیق عطا فرمائے گا کہ ان کا قدم بجائے پیچھے ہٹنے کے آگے ہی بڑھتا چلا جائے.ہمارے کام سب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اور اللہ تعالی خود بعض دفعہ غیب سے ایسے سامان کر دیتا ہے کہ ایک کمی جو نظر آ رہی ہوتی ہے، اس کو آنا فا نازیادتی اور کثرت میں بدل دیتا ہے.اور دیکھنے والا یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ جہاں انسانی ذرائع ختم ہو گئے تھے، وہاں خدا نے اپنے پاس سے برکت دے دی اور کمی پوری ہوگئی.مگر پھر بھی میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں مال خرچ کرنا کبھی بھی انسان کے لئے کمی کا موجب نہیں ہوتا.صرف ایمان چاہئے اور تو کل چاہئے.جب یہ دونوں چیزیں جمع ہو جائیں تو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرنے والا کبھی گھاٹے میں نہیں رہتا.قران کریم 839
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 07 فروری 1947ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد دوم میں اللہ تعالیٰ غرباء کے لئے اپنے اموال خرچ کرنے والوں کے متعلق فرماتا ہے کہ جو لوگ غرباء کی فلاح و بہبود کے لئے اپنا روپیہ خرچ کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے اموال کو بڑھاتا اور انہیں سو سو گنا بدلہ دیتا ہے.اگر عام انسانوں کی روٹی کے خرچ کے لئے ، عام انسانوں کے کپڑوں کے خرچ کے لئے ، عام انسانوں کی بیماری کے علاج کے لئے ، عام انسانوں کی رہائش کے انتظام کے لئے ، عام انسانوں کی تعلیم کے انتظام کے لئے ، عام انسانوں کی تمدنی بہبودی کے لئے روپیہ خرچ کرنے والا خدا تعالی سے سو گنا انعام پاتا ہے تو ایک مومن کو سمجھنا چاہیے کہ جو شخص خدا کے لئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی اشاعت اور اسلام کی امداد کے لئے اپنا روپیہ خرچ کرتا ہے، وہ یقینا خدا تعالیٰ سے سو گنے سے کہیں زیادہ بدلہ پائے گا.جس طرح کسی کھیت میں ڈالا ہوا پیج ضائع نہیں جاتا اور زمیندار اس پر کسی گھبراہٹ کا اظہار نہیں کرتا، اسی طرح ایک مومن کو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنا مال خرچ کر کے کسی گھبراہٹ کا اظہار نہیں کرنا چاہئیے.جب مادی دنیا میں ایک زمیندار اپنے کھیت میں بیج ڈال کر گھبراتا نہیں بلکہ خوش ہوتا ہے، ایک مومن کا ایمان تو بہر حال ایک عام زمیندار سے زیادہ ہونا چاہیے.کیا تم نے کبھی دیکھا کہ زمیندار کھیت میں بیج ڈال کر آئے تو وہ رونے لگ جائے کہ میرا پیج ضائع چلا گیا؟ زمیندار پرکھیتی کاٹنے کا زمانہ تو بعد میں آتا ہے، جس دن وہ اپنے کھیت میں بیج ڈال کر آتا ہے، اسی دن اس کا دل خوشی سے بھر جاتا اور اس کا قلب امیدوں سے لبریز ہو جاتا ہے.اور وہ سمجھتا ہے کہ میں نے آج ایک ایسی بنیا درکھ دی ہے، جس سے میرا اور میرے خاندان کا سال بھر کا خرچ چلتا چلا جائے گا.اگر ایک ایسا زمیندار، جو بعض دفعہ خدا کو بھی نہیں جانتا ، مذہب کو بھی نہیں جانتا، اخلاق کو بھی نہیں جانتا، دنیوی قانون پر ایسا یقین رکھتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے، میرا پیج ضائع نہیں جائے گا تو وہ مومن، کیسا مومن ہے، جو خیال کرتا ہے کہ خدا کے حکم اور اس کے ارشاد اور ہدایت کے ماتحت جو بیج میں اپنی کھیتی میں ڈالوں گا، وہ ضائع چلا جائے گا اور وہ وہ در دنیا اور ستر در آخرت بلکہ اس سے بھی کہیں بڑھ چڑھ کر مجھے واپس نہیں ملے گا ؟ پس میں اختصارا آج پھر جماعت کو اس کے فرائض کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ خدمت دین کے اس موقع کو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دیں.بلکہ جلد سے جلد اعلائے کلمہ اسلام کے لئے اپنے وعدے پیش کریں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن جائیں تا وہ اور ان کی اولادیں اس کھیت کو کاٹتی چلی جائیں ، جو آج ان کے ہاتھوں سے بویا جائے گا“.مطبوع الفضل 11 فروری 1947ء) 840
تحریک جدید- ایک ابی تحریک...جلد دوم خلاصه از خطاب فرمودہ 13 فروری 1947ء ہم نے دنیا کی ذہنیت ، خیالات اور رسم و رواج کو بدلنا ہے خطاب فرمودہ 13 فروری 1947ء جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے اب کثرت سے ہمارے آدمی تبلیغ کے لئے بیرونی ممالک میں جا رہے ہیں.اس کی وجہ سے نئے آدمی جن سے ہم کام لے سکیں ، بہت کم رہ گئے ہیں.ویسے تو چار پانچ سو کے قریب نام واقفین زندگی کی فہرست میں موجود ہیں لیکن سب کے سب ایسے نہیں ہوتے ، جنہیں ہم استعمال کر سکیں.مثلاً بعض ایسے کمزور اور بڑھاپے کی عمر کے ہیں کہ انہیں باہر بھیجنا عقل کے خلاف ہے.بعض پہلے ہی ایسے اہم کاموں پر لگے ہوئے ہیں، جہاں وہ سلسلہ کے لئے مفید وجود ثابت ہورہے ہیں.ایسے لوگوں کو ان کی جگہ سے ہٹانا بھی عقل کے خلاف ہے.پھر بعض ایسے واقف ہیں، جن کے متعلق ہمیں خطرہ ہوتا ہے کہ شاید وہ قربانی کے میدان میں پورے نہ اتر سکیں اور ٹھو کر کھا جائیں.گوممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ ایسے نہ ہوں.لیکن ہم تو عالم الغیب نہیں ہیں.ہم نے تو ظاہری حالات سے ہی اندازہ لگانا ہوتا ہے.جو غلط بھی ہو سکتا ہے اور درست بھی.پھر بعض کی تعلیم ہماری ضرورت کے مطابق نہیں ہوتی.گو کبھی کبھار ایسے کام بھی نکل آتے ہیں، جن میں کوئی خاص تعلیم کی ضرورت نہیں ہوتی.لیکن بالعموم تبلیغ کے کام کے لئے ہمیں پڑھے لکھوں کی ہی ضرورت ہوتی ہے.پھر بعض واقفین ابھی تعلیم کے ابتدائی مراحل میں ہوتے ہیں، وہ کئی سالوں کے بعد کام آسکیں گے.ان تمام امور کی وجہ سے چار، پانچ سو کی فہرست میں سے در حقیقت سو ڈیڑھ سو آدمی سے ہی ہم کام لے سکتے ہیں.کچھ عرصہ قبل تو ہماری ضرورت کے مطابق آدمی موجود تھے، اس لئے ہم نے وقف کی تحریک پر زور دینا چھوڑ دیا تھا.لیکن گذشتہ سال اتنی کثرت سے ہمارے آدمی باہر گئے ہیں کہ اب نئے واقفین ، جن سے ہم کام لے سکیں ، بہت کم رہ گئے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پھر ہمیں وقف کی تحریک جماعت میں زور کے ساتھ کرنی پڑے گی.ہمارے جو دوست جنگ میں کام کر کے اب فارغ ہو کر واپس آرہے ہیں.میں نے ان کو آگے بھی تحریک کی تھی کہ وہ وقف نمبر 1 یا وقف نمبر 2 میں اپنے نام لکھا ئیں.اب پھر میں تحریک کرتا ہوں کہ تم نے انگریزوں کی خاطر جو غیر مذہب اور غیر قوم سے تعلق رکھتے ہیں، اتنا عرصہ قربانی کی.کیا اب اسلام کی خاطر اور دین کی عظمت قائم کرنے کی خاطر قربانی نہ کرو گے؟ وقف نمبر 2 ( تجارت) میں تو تمہیں دنیوی | 841
خلاصه از خطاب فرمودہ 13 فروری 1947ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم لحاظ سے بھی کافی فائدہ ہوسکتا ہے.اور اگر وقف نمبر 1 کے ماتحت تمہیں دین کی خدمت کا موقعہ ملاتو پھر بھی تمہیں اور تمہارے بال بچوں کو گزارہ کے لئے تو پیسے ملتے ہی رہیں گے.اور تم ایسی یکسوئی کے ساتھ اور اطمینان قلب کے ساتھ دین کی خدمت کر سکو گے، جو دنیوی ملازمتوں میں حاصل نہیں ہوسکتی.فوج میں سے آنے والے نوجوانوں میں سے ایک کافی تعداد نے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں اور یہ لوگ تجربے سے نسبتاً بہتر ثابت ہورہے ہیں.فوجی زندگی گزار نے مختلف ممالک میں پھرنے اور ہر قسم کے لوگوں سے ملنے جلنے کی وجہ سے ان میں مشکلات کو برداشت کرنے ، قربانی کرنے اور محنت کرنے کی عادت ہو جاتی ہے.ان میں ایک قسم کی دلیری اور بے باکی ہوتی ہے اور وہ ہر میدان میں کام کر سکتے ہیں.گویا حکومت نے اپنے خرچ پر ہمارے کام کے لئے انہیں ٹریننگ دے دی ہے.گو بہت سے ایسے نوجوانوں نے وقف کیا ہے.لیکن جنگ سے آنے والے نوجوان میرے نزدیک اب بھی ہزاروں ایسے ہوں گے، جنہوں نے اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھا اور وقف نہیں کیا.اس لئے میں پھر توجہ دلاتا ہوں کہ جو لوگ فوج سے آئے ہیں اور قدرے تعلیم یافتہ ہیں.مثلاً کلیریکل لائن میں کام کرتے رہے ہیں، وہ آگے آئیں اور دین کی خدمت کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں.نہمیں مولوی فاضل اور گریجوایٹ نوجوانوں کی بھی بہت ضرورت ہے.ایسے نو جوانوں کو بھی میں تحریک کرتا ہوں کہ وہ اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے وقف کریں.گو بہت سے مولوی فاضلوں نے اپنا نام پیش کر دیا ہے لیکن پھر بھی کئی بچے کھچے ایسے ہوتے ہیں، جو پہلے نہیں لیتے ، دوسری یا تیسری بار تحریک کرنے پر اللہ تعالیٰ انہیں تو فیق دے دیتا ہے.اصل بات تو یہ ہے کہ اب ہماری ضرورت صرف بچے کھچے لوگوں سے ہی پوری نہیں ہوسکتی.ہم نے دنیا بھر پر حملہ کرنا ہے، اس کے لئے سینکڑوں سے نہیں بلکہ ہزاروں سے ہی کام چل سکتا ہے.در حقیقت اسی وقت ہمیں کامیابی ہوگی جبکہ ہم اپنے آدمیوں کو اسی طرح قربانی کی آگ میں دھکیلیں گے، جس طرح بھٹی میں بھڑ بھونجا پتوں کا ایندھن جھونکتا ہے.ہم نے دنیا کی ذہنیت کو ، دنیا کے خیالات کو ، دنیا کے رسم ورواج کو بدلنا ہے.اس لئے ہمیں ایک لمبی جد و جہد اور مسلسل اور پیہم قربانیاں کرنی پڑیں گی.ابتدائی دور کی قربانیاں بے نتیجہ نہیں ہوتیں.ابتدا میں ایک لمبا عرصہ تک قربانیاں بظاہر بے نتیجہ نظر آیا کرتی ہیں لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں بے نتیجہ نہیں ہوتیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم بارہ سال تک مکہ میں برابر تبلیغ کرتے رہے.لیکن بظاہر اس کا کوئی اثر نظر نہیں آتا.چنانچہ ہجرت کے وقت تک بعض روایات کے مطابق صرف 83 اور بعض روایات کے مطابق دو تین سو آدمیوں نے اسلام قبول کیا تھا.گویا حصہ 842
تحریک جدید- ایک الہی تحریک.....جلد دوم خلاصه از خطاب فرمودہ 13 فروری 1947ء آپ کی تبلیغ بظاہر نا کام نظر آتی ہے لیکن حقیقت وہ نا کام نہیں تھی.کیونکہ اندرونی طور پر قلوب حق کو ماننے کے لئے تیار ہورہے تھے.چنانچہ جب مدنیہ ہجرت کرنے کی اجازت ہوئی تو مکہ معظمہ میں محلوں کے محلے ایسے تھے، جو مد نیہ چلے گئے.وہاں جا کر اسلام قبول کر لیا.گو یادولوں میں مخفی طور پر ایمان پیدا ہو چکا تھا.لیکن ڈر کی وجہ سے وہ اسے ظاہر نہ کرتے تھے.جب انہیں علم ہوا کہ مدنیہ والوں نے ، جو خود ان کے عزیز اور رشتہ دار تھے ، اسلام قبول کر لیا ہے اور انہوں نے مکہ کے مسلمانوں کو مدنیہ آ کر رہنے کی دعوت دی ہے تو اس سے ان کے حوصلے بڑھ گئے ، ان کا ڈر جاتا رہا اور وہ اسلام لے آئے.قانون قدرت میں بھی ہمیں اس قسم کی مثالیں ملتی ہیں.مونگا ایک کیڑا ہوتا ہے، جو خدا کی القاء کے ماتحت سالہا سال تک سمندر میں ایک دوسرے کے اوپر گر گر کر جان دیتا چلا جاتا ہے.حتی کہ آخر کار امتداد زمانہ سے ان کی نعشوں کے ڈھیر سے ہی سمندر میں جزیرے نمودار ہو جاتے ہیں.چنانچہ اس قسم کے مونگے کے سینکڑوں جزائر موجود ہیں.جب مونگے ایک دوسرے پر گر کر جان دے رہے ہوتے ہیں.اس وقت ان کی یہ قربانی بے حقیقت اور بے نتیجہ نظر آتی ہے.لیکن آخر ان کی قربانی سے ہی ایک نئی دنیا آباد ہو جاتی ہے.غرض قانون قدرت سے بھی ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ابتدا میں ایک لمبے عرصہ تک قربانیاں بظاہر بے نتیجہ نظر آیا کرتی ہیں لیکن دراصل وہ بے نتیجہ نہیں ہوتیں.بلکہ وہی قربانیاں دنیا میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا کرنے کا موجب ہوتی ہیں.ہمارے نو جوانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے پیش کریں.جو نو جوان تعلیم حاصل کر رہے ہیں، انہیں میں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ وقت ضائع نہ کیا کریں اور کم سے کم وقت میں اپنی تعلیم کو مکمل کر کے اپنے آپ کو دین کی خدمت کرنے کے قابل بنائیں.یا درکھو دین کی خدمت کا جتنا ثواب ابتدائی ایام میں ہوتا ہے، اتنا بعد میں نہیں ہوتا.کیونکہ جب ترقیات اور فتوحات شروع ہو جائیں، اس وقت تو ساری دنیا کو نظر آتا ہے کہ یہ جیت رہے ہیں.اس وقت دین کے لئے قربانی کرنا کوئی مشکل نہیں ہوتا.لیکن ابتدائی زمانہ میں جب دنیا کو فتح کے کچھ بھی آثار نظر نہیں آتے بلکہ وہ مومنوں کی قربانیوں کو بے کار اور بے نتیجہ مجھتی ہے، اس وقت اگر مومن اپنے خدا کی بات پر یقین کرتا ہے اور ترقیات کے متعلق اس کے وعدوں پر ایمان لا کر اپنی قربانی پیش کر دیتا ہے تو یہ قربانی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسے بہت بڑے اجر کا مستحق بنا دیتی ہے.مطبوعه الفضل 15 فروری 1947ء ) 843
جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 فروری 1947ء اپنے جسم کی ضروریات کی طرح، اپنی روح کی ضروریات کا بھی خیال رکھو 32 خطبہ جمعہ فرموده 14 فروری 1947ء پہلے تو میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے اظہار کے لئے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ پچھلے جمعہ میں، میں نے اعلان کیا تھا کہ تحریک جدید دور اول کے وعدوں کی مقررہ تاریخ میں بہت تھوڑے دن باقی رہ گئے اور گذشتہ سال کی نسبت ابھی چالیس ہزار کی کمی ہے.اور میں نے یہ بھی کہا تھا کہ کئی دفعہ جماعت پر ایسا وقت آیا ہے کہ بظاہر ہماری تدبیریں اور کوششیں بیکار نظر آتی ہیں اور ہماری مشکلات بڑھ رہی ہوتی ہیں لیکن معا اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے ایسے سامان کر دیتا ہے کہ ہماری نا امیدی امید میں تبدیل ہو جاتی ہے اور مایوسی خوشی میں تبدیل ہو جاتی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بقیہ تین چار دنوں میں حیرت انگیز تغیر ہوا.اس سے قبل ہزار ڈیڑھ ہزار روزانہ کی رفتار سے وعدے آرہے تھے اور کل وعدے دولاکھ اٹھائیس ہزار تک کے آچکے تھے.اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ اور کوئی آٹھ دس ہزار کے وعدے آجائیں گے.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے یکدم تغیر ہوا اور آخری دودنوں میں سے ایک دن تو کوئی اٹھارہ ہزار کے وعدے ایک ہی دن میں آگئے اور وہ کمی پوری ہوگئی.اب اس وقت تک دولاکھ ساٹھ ہزار کے وعدے آچکے ہیں اور ابھی بہت سے فوجیوں اور دوسرے علاقوں کے وعدے باقی ہیں.اسی طرح دفتر دوم کے سال سوم میں بھی پہلے کی نسبت ترقی ہے.نوے ہزار کے وعدے اس وقت تک آچکے ہیں اور ابھی بہت سا حصہ باقی ہے اور بیرون ہند کے وعدے بھی باقی ہیں.اب ہمیں امید ہے کہ دونوں دفتروں کے وعدے اپنے اپنے وقت پر پچھلے سال کی نسبت بڑھ جائیں گے.جب میں نے اعلان کیا تھا اس وقت گذشتہ سال کی نسبت اس تاریخ تک صرف دوسوروپے کا فرق تھا.لیکن اب وہ فرق قریباً ہمیں ہزار روپے کا ہو گیا ہے.دوسری بات جس پر میں اظہار خوشنودی اور اللہ تعالیٰ کے فضل کا اظہار کرنا چاہتا ہوں ، وہ یہ ہے کہ اس سال جماعت میں کسی قدر تبلیغ کے متعلق بھی بیداری پیدا ہوئی ہے اور جماعت نے تبلیغ کے لئے جو جدو جہد کی ہے، اس کے خوش کن نتائج نکل رہے ہیں.اس وقت تک یعنی 14 فروری تک جو بیعتیں ہوئی ہیں، وہ پچھلے سال کی نسبت بہت زیادہ ہیں.اور اتنی بیعتیں پچھلے سال کسی مہینے میں نہیں ہوئی تھیں.اگر 845
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 فروری 1947ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم جماعت متواتر اپنے فرض کو سمجھے اور جماعت کے لئے اس فرض کے سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو غیر معمولی ترقی حاصل ہونی شروع ہو جائے گی.اللہ تعالیٰ نے ہمیں سبق دینے کے لئے کچھ کام ہمارے ساتھ لگا دیئے ہیں.ان میں سے کچھ کام ایسے ہیں، جو ہم روزانہ کرتے ہیں اور کچھ کام ایسے ہیں، جو ہر وقت کرتے رہتے ہیں.کچھ کام ایسے ہیں، جو سارا دن نہیں بلکہ وقتا فوقتاً کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان کاموں کو ہمارے ساتھ لگا کر ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ اہم اور ضروری کاموں کو ہمیشہ جاری رکھنا کچھ مشکل نہیں ہوتا.جب تم اپنے طبعی تقاضوں کو بغیر بوجھ کے روزانہ اور بلا ناغہ ادا کرتے ہو تو کیا وجہ ہے کہ اس سے اہم فرائض، جو کہ تمہاری روحانی زندگی کا موجب ہیں، تم ان کو سرانجام دینے میں سنتی اور غفلت سے کام لیتے ہو؟ ہم میں سے ہر شخص روزانہ سو جاتا ہے کہ با وجود اس کے کہ اسے روزانہ سونا پڑتا ہے.وہ گھبرا تا نہیں کہ یہ کیا مصیبت مجھ پر آگئی.اسی طرح ہم میں سے ہر شخص اپنے ملکی رواج کے مطابق ہر روز کھانا کھاتا ہے.مثلاً پور بی لوگ عام طور پر دن میں ایک دفعہ کھاتے ہیں اور پنجاب کے لوگ دن میں دو دفعہ کھاتے ہیں اور شہروں والے شہروں کے دستور کے مطابق تین چار دفعہ کھاتے ہیں اور یورپ کے لوگ اپنے رواج کے مطابق دن میں پانچ دفعہ کھاتے ہیں.لیکن کسی شخص کو ذرا بھی گھبراہٹ محسوس نہیں ہوتی کہ ہمیں دن میں چار پانچ دفعہ کھانا پڑتا ہے اور ہمیں کم کھانا چاہیے.بلکہ جن کو کھانے کے لئے تھوڑا ملتا ہے، وہ شکوہ کرتے ہیں کہ ہمیں زیادہ کیوں نہیں ملتا ؟ جب انسان کئی کام روزانہ کرتا چلا جاتا ہے تو وہ ایک دوسرے اہم کام کے متعلق یہ کس طرح کہہ سکتا ہے کہ ہم سے یہ روزانہ نہیں ہوسکتا ؟ وہ نمازوں کے متعلق کس طرح کہہ سکتا ہے کہ میں روزانہ نماز نہیں پڑھ سکتا ؟ جب وہ یہ کہتا ہے تو وہ اپنے قول کی آپ تردید کر رہا ہوتا ہے.وہ روزانہ سوتا ہے، وہ روزانہ کھاتا ہے، جب وہ یہ کام روزانہ کر سکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ وہ روزانہ نماز نہیں ادا کر سکتا؟ پھر بعض کام ایسے ہیں، جن کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں.وہ کام ہر وقت ہی ہم کرتے رہتے ہیں.جیسے دیکھنا سننا، بولنا وغیرہ.انسان ہر وقت بنتا ہے، ہر وقت دیکھتا ہے، دو دومنٹ ، چار چار منٹ اور دس دس منٹ کے بعد باتیں کرتا ہے.لیکن کوئی شخص یہ شکایت نہیں کرتا کہ یہ کیا عذاب آگیا ہے کہ ہم ہر وقت ہی سن رہے ہیں؟ کوئی شخص یہ شکایت نہیں کرتا کہ بڑی آفت آگئی کہ ہم ہر وقت ہی دیکھ رہے ہیں.کوئی یہ شکایت نہیں کرتا کہ بڑی آفت آگئی ہے، تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ہمیں بولنا پڑتا ہے.بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص ان چیزوں کو عیب نہیں سمجھتا بلکہ خوبی سمجھتا ہے.اور اگر کوئی شخص ہر وقت نہ دیکھ سکے تو لوگ کہتے ہیں کہ فلاں شخص اندھا ہو گیا ہے.اور 846
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 فروری 1947ء اگر کوئی شخص سننے سے معذور ہو جائے تو لوگ کہتے ہیں کہ فلاں شخص بہرہ ہو گیا ہے.اور اگر کوئی شخص بول نہ سکے تو لوگ کہتے ہیں کہ فلاں شخص گونگا ہو گیا.اور اگر کسی میں لمس کی طاقت نہ رہے تو لوگ کہتے ہیں کہ فلاں شخص مفلوج ہو گیا.اور تمام لوگ ان حالتوں کو برا سمجھتے ہیں اور کوئی شخص بھی ان کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا.جس طرح لوگ ہر وقت کے دیکھنے ، سننے اور بولنے کو اچھا سمجھتے ہیں، اسی طرح اگر ہماری جماعت میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ تبلیغ اچھی چیز ہے تو اس کے دلوں سے یہ خیال نکل جائے کہ ہر وقت تبلیغ ہو نہیں سکتی.اور جس طرح وہ ہر وقت سننے، دیکھنے اور بولنے کو ضروری بجھتی ہے ، اسی طرح وہ تبلیغ کو بھی ضروری سمجھنے لگ جائے.اور وہ بھی بھی یہ خیال دل میں نہ لائے کہ ہر وقت تبلیغ نہیں ہو سکتی.اگر کسی کے کان بہرے ہو جائیں تو وہ فوراً ڈاکٹروں کے پاس جاتا ہے اور ان سے علاج کراتا ہے.اگر کسی کی قوت بینائی میں کمی آجائے تو اسے فکر لاحق ہو جاتا ہے اور وہ فوراً حکیموں کے پاس جاتا ہے اور ان سے علاج کراتا ہے.اگر کوئی بول نہ سکے تو اسے فکر لاحق ہو جاتا ہے اور وہ فورا اطباء کے پاس جاتا ہے اور ان سے علاج کراتا ہے.اسی طرح اگر کسی کو معلوم ہو جائے کہ تبلیغ سے میری روحانی زندگی کی تر و تازگی قائم رہے گی.اور اگر میں تبلیغ نہ کروں گا تو بیمار ہو جاؤں گا تو پھر وہ تبلیغ کرنے میں کبھی بھی سستی نہ کرے گا.جب کٹی ایسے کام ہیں، جو لوگ ہر وقت کرتے ہیں.ہر وقت ہی نہیں بلکہ اگر ان میں سے کوئی فعل بند ہو جائے تو شکوہ کرنا شروع کر دیتے ہیں اور گھبراہٹ کا اظہار کرتے ہیں.ان کاموں سے بعض ایسے ہیں، جن کی ہمیں ہر وقت ضرورت ہے، جیسے سنایا دیکھنا.اور بعض ایسے جن کی ہمیں دن میں چار پانچ دفعہ ضرورت ہے، جیسے کھانا.اور بعض ایسے ہیں، جو کہ چوبیس گھنٹے میں صرف ایک دفعہ ہم کرتے ہیں، جیسے سونا.ہم ہر روز سوتے ہیں لیکن کبھی اسے نا پسند نہیں کرتے کہ ہم ہر روز کیوں سوتے ہیں؟ بلکہ اگر کسی کو ایک دن نیند نہ آئے تو اس کی آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں اور اس کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے.اگر جسم کو روزانہ ان چیزوں کی ضرورت ہے تو روح کو روزانہ تبلیغ کی کیوں ضرورت نہیں؟ اگر جماعت میں تبلیغ کا احساس پیدا ہو جائے تو جس طرح کسی کے کان بہرے ہو جا ئیں تو وہ گھبرا جاتا ہے یا کسی کی آنکھوں میں بینائی کم ہو جائے تو وہ گھبرا جاتا ہے، اسی طرح ہماری جماعت کے لوگ تبلیغ کے مواقع پیدا نہ ہونے کی صورت میں گھبرا جائیں کہ ہماری روح گونگی ہوتی جارہی ہے ، ہماری روح اندھی ہوتی جارہی ہے، ہمیں اس کا علاج کرنا چاہیے.پس اپنے اندر تبلیغ کا احساس پیدا کرو اور پھر استقلال اور ہمت کے ساتھ تبلیغ کرتے جاؤ اور دیکھو کہ تمہاری تبلیغ کے کیسے شاندار نتائج نکلتے ہیں؟ اور اللہ تعالیٰ تمہاری حقیر کوششوں میں کیسی برکت دیتا ہے؟ کسی کام کو متواتر کرتے جانا ہی اس کی کامیابی کا راز ہوتا ہے.اچھا بڑھتی وہی ہوتا ہے، جس نے دس 847
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 فروری 1947ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم پندرہ سال کام کیا ہوا ہوتا ہے.وہ رندے اور ہتھوڑے کو خوب چلاتا ہے اور ایک ناواقف آدمی بہت سوچ سوچ کر کام کرتا ہے کہ کہیں میں اپنا ہاتھ پاؤں ہی زخمی نہ کرلوں؟ جب کسی شخص کو کسی کام میں دسترس حاصل ہو جاتی ہے تو سرعت کے ساتھ کام کرتا ہے اور اس کا کام بھی عمدہ ہوتا ہے.اسی طرح جو لوگ متواتر اور باقاعدہ طور پر تبلیغ کرتے ہیں، ان کے اندر تبلیغ کرنے کا ملکہ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ کئی مبلغوں سے بڑھ جاتے ہیں اور ان کے ذریعہ اللہ تعالی سینکڑوں لوگوں کو ہدایت دے دیتا ہے.ہماری جماعت کے ایک دوست تبلیغ کا بہت شوق رکھتے تھے.وہ اب فوت ہو چکے ہیں اور ان کا ذکر اخبارات سلسلہ میں کم آیا ہے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے مخلص صحابیوں میں سے تھے.ان میں تبلیغ کا بے انتہا جوش تھا.ان کا نام مولوی عبد اللہ تھا اور وہ کھیوہ باجوہ کے رہنے والے تھے.عام لوگ ایک بیعت کا وعدہ کرتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں لیکن مولوی صاحب کو تبلیغ کا اس قدر شوق تھا کہ چالیس، پچاس، ساٹھ آدمی سالانہ احمدی بنانے کا وعدہ کرتے تھے اور پھر اپنے وعدے سے بھی آگے نکل جاتے تھے.ان کو تبلیغ کرنے کی ایک دھن تھی اور ان کے ذریعہ کئی اضلاع میں جماعتیں قائم ہوئیں.اب بھی کئی دوست ایسے ہیں، جو کہ تبلیغ کرنے کا بہت شوق رکھتے ہیں اور جتنی تبلیغ وہ کر سکتے ہیں ، وہ کرتے ہیں.لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ جماعت کی اکثریت میں یہ جنون کام کرتا ہوا نظر آئے.حقیقت یہ ہے کہ ایک چھوٹی سی چیز کو اگر یقینی اور قطعی حساب کے ذریعہ معلوم کیا جائے تو وہ کہیں کی کہیں جا نکلتی ہے اور اسے ایک غیر معمولی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کئی دفعہ ذکر کیا ہے، جس شخص نے شطرنج ایجاد کی.جب وہ اسے مکمل کر چکا تو وہ اسے لے کر بادشاہ کے پاس گیا اور کہا بادشاہ سلامت ! میں نے ایک ایسی کھیل ایجاد کی ہے، جو کہ خالی کھیل ہی نہیں بلکہ اس کے ذریعہ جنگ کے فنون اور سیاست کے علوم سیکھے جاسکتے ہیں.بادشاہ کو وہ کھیل پسند آ گئی.بادشاہ نے کہا اچھا مانگو تمہیں اس کے بدلہ میں کیا انعام دیا جائے ؟ جو تم مانگو گے، میں تمہیں دوں گا.کھیل کے موجد نے کہا مجھے اور کچھ نہیں چاہئے ،صرف میری شطرنج کے خانوں کو کوڑیوں سے بھر دیا جائے.اور ایسے طور پر بھرا جائے کہ پہلے خانے سے اگلے خانے میں دگنی کوڑیاں ہوں.مثلاً پہلے میں ایک، دوسرے میں دو، تیسرے میں چار، چوتھے میں آٹھ.بادشاہ نے کہا تم یہ کیا مانگ رہے ہو؟ ہم سے کوئی بڑا انعام مانگو.موجد نے کہا مجھے یہی انعام چاہئے ، آپ مجھے یہی دے دیں.اس پر بادشاہ چڑ گیا اور اس نے غصہ کے ساتھ خزانچی کو کہا کہ اچھا اس کی شرط کے مطابق شطرنج کے خانوں کو کوڑیوں سے بھر دو.تھوڑی دیر کے بعد خزانچی بادشاہ کی خدمت 848
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرمود : 14 فروری 1947ء میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ بادشاہ سلامت ابھی تو آدھے خانے بھی نہیں بھرے کہ خزانے میں سے تمام روپے اور تمام ہیرے اور تمام جواہر اور تمام موتی ختم ہو چکے ہیں.پھر وہ موجد خود بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ بعض دفعہ بظاہر ایک چیز بہت چھوٹی معلوم ہوتی ہے لیکن حساب لگانے سے وہ غیر معمولی ثابت ہوتی ہے.آپ مجھے کہتے تھے کہ تم پاگل ہو گئے ہو کہ ہم سے کوڑیاں مانگتے ہو.لیکن اب دیکھیے کہ آپ کا خزانہ خالی ہو چکا ہے اور ابھی آدھے خانے بھرے گئے ہیں.میں بے وقوف نہیں تھا بلکہ آپ کو ایک سبق دینا چاہتا تھا.اب آپ کی مرضی ہے، آپ جو انعام پسند کریں مجھے دے دیں.حقیقت یہ ہے کہ بظاہر ایسے حساب بہت معمولی نظر آتے ہیں لیکن حساب لگانے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دراصل غیر معمولی حیثیت رکھتے ہیں.میں نے ان کوڑیوں کا حساب لگایا تھا.شطرنج کے چونسٹھ خانے ہوتے ہیں.ان چونسٹھ خانوں میں مجھے یاد پڑتا ہے دو کھرب روپے کے قریب کو ڑیوں کے حساب سے آتے تھے اور ابھی میں نے کسور چھوڑ دی تھیں.اسی طرح تم یہ حساب لگاؤ کہ اگر ہر شخص سال میں ایک احمدی بنائے تو شطرنج کے خانوں کی طرح ہیں سال سے کم عرصہ میں تمام دنیا احمدی ہوسکتی ہے.اور ایک احمدی بنانا کوئی مشکل بات نہیں.صرف توجہ کی ضرورت ہے.اگر ہم یہ فرض کریں کہ اس وقت ایک لاکھ احمدی بالغ ہیں.یہ ایک لاکھ آگے ایک لاکھ احمدی بنا ئیں تو دوسرے سال دولاکھ ہو جائیں گے، تیسرے سال چار لاکھ ہو جائیں گے، چوتھے سال آٹھ لاکھ ہو جائیں گے، پانچویں سال سولہ لاکھ ہو جائیں گے، چھٹے سال بنتیس لاکھ ہو جائیں گے ، ساتویں سال چونسٹھ لاکھ ہو جائیں گے، آٹھویں سال ایک کروڑ اٹھائیس لاکھ ہو جائیں گے، نویں سال دوکٹر ور چھپن لاکھ ہو جائیں گے، دسویں سال پانچ کڑور بارہ لاکھ ہو جائیں گے.لاکھ کی کسر کو چھوڑ دو اور پورا پانچ کروڑ ہی سمجھ لو.گیارھویں سال دس کروڑ ہو جائیں گے، بارہویں سال میں کروڑ ہو جائیں گے، تیرھویں سال چالیس کروڑ ہو جائیں، چودھویں سال اسی کروڑ ہو جائیں گے، پندرھویں سال ایک ارب اور ساٹھ کروڑ ہو جائیں گے اور سولہویں سال تین ارب اور بیس کروڑ ہو جائیں گے اور تمام دنیا کی آبادی دوارب ہے.گویا تمام دنیا سولہ سال میں احمدی ہو سکتی ہے.یہ کتنی چھوٹی سی چیز ہے لیکن اس کا نتیجہ کیسا شاندار ہے؟ میرے اس نسخہ کو استعمال کر کے دیکھو، سولہ سال میں تمام دنیا احمدی ہو جائے گی اور سولہ سال کے بعد اگر تم سب سے طاقتور لیمپ لے کر بھی کسی غیر مذہب والے کو تلاش کرو تو تمہیں کوئی غیر مذہب والا نہیں ملے گا.اس نسخے کو استعمال کرنے کے لئے صرف ہمت اور استقلال کی ضرورت ہے.اگر ہر ایک احمدی کم از کم ایک 849
اقتباس از خطبه جمعه فرمود 14 فروری 1947ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم احمدی ہر سال بنائے تو چند سالوں کے اندراندر تمہیں ہندوستان میں کوئی غیر مذہب والا نہ ملے گا اور سولہ سال کے بعد تمہیں تمام دنیا میں کوئی غیر احمدی نہ ملے گا.ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ تم کو تبلیغ کی دھن لگ جائے اور اس کے بغیر تم پر روٹی کھانا حرام ہو جائے اور تبلیغ کے بغیر تمہیں چین اور آرام نہ آئے.جب تمہارے قلوب کی یہ حالت ہو جائے گی تو تم دیکھو گے کہ جماعت فوری طور پر ترقی کرنا شروع کر دے گی.میں جماعت کے اس کام سے بھی خوش ہوں لیکن حقیقی خوشی تبھی حاصل ہو سکتی ہے، جب ہر احمدی ہر سال کم از کم ایک احمدی بنائے اور یہ سلسلہ متواتر چلتا جائے.اور جیسا کہ میں نے کہا ہے، یہ کام کوئی مشکل نہیں.صرف ذمہ داری کو سمجھنے اور اپنے فرض کو پہنچانے کی ضرورت ہے.ہم نے پہلے ہی بہت ستی اور غفلت کی ہے.اب اس کی تلافی کی کوشش کرنی چاہیے اور آئندہ جلدی جلدی قدم اٹھانا چاہیے.ہماری جماعت کے اعلان پرستاون سال گزر گئے ہیں.اگر ابتدا سے ہی ہم لوگ اس اخلاص کا نمونہ پیش کرتے کہ ہر احمدی کم از کم سال میں ایک احمدی ضرور بناتا تو آج تک کبھی کی دنیا فتح ہو چکی ہوتی.لیکن افسوس کی بات یہی ہے کہ اپنی ذمہ داری کو کماحقہ سمجھا نہیں گیا.میں اس وقت تمام چہروں سے یہ محسوس کرتا ہوں کہ لوگ حساب پر حیران ہوئے ہیں کہ کام کتنا معمولی ہے یعنی سال میں صرف ایک احمدی بنانا اور نتیجہ کتنا شاندار ہے کہ سولہ سال میں تمام دنیا احمدی بن سکتی ہے؟ گویا ان کے سامنے یہ ایک نئی چیز پیش کی گئی ہے.جس طرح بادشاہ اس موجد کی بات کو نہیں سمجھا تھا، اسی طرح آپ لوگ بھی اب تک میری بات کو نہیں سمجھے.اگر اب بھی آپ لوگ میری سکیم کے ماتحت پوری کوشش کے ساتھ تبلیغ کرنے لگ جائیں تو اس کے اتنے شاندار نتائج نکلیں گے کہ وہ آپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتے ؟“ ( مطبوعہ الفضل 21 فروری 1947ء ) 850
یک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود : 02 مئی 1947ء اللہ تعالی کی عطا کردہ تمام نعمتوں سے اس کا حصہ ادا کرنا ضروری ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 02 مئی 1947ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ حقیقی اسلام کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ انسان اپنی ساری طاقتوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کی خدمت میں لگا دے.بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو ستی کی وجہ سے عام طور پر دینی خدمات سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں.اور بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ دین کی بعض قسم کی خدمات تو کر لیتے ہیں لیکن بعض قسم کی خدمات سے انہیں گریز ہوتا ہے.جیسے کسی شاعر نے کہا ہے.جاں طلبی مضائقہ نیست گر زر طلبی سخن دریس یعنی اگر جان مانگو تو مجھے اس کے دینے میں کوئی عذر نہیں لیکن اگر روپیہ مانگو تو اس کے دینے میں مجھے تامل ہے.لیکن بعض طبائع ایسی بھی ہوتی ہیں کہ وہ روپیہ سے تو دین کی خدمت کرنے کو تیار ہوتی ہیں لیکن جسمانی خدمت سے گریز کرتی ہیں.زندگی وقف کرنے کے معاملہ میں مجھے نوجوانوں کے رشتہ داروں کی طرف سے یہ شکایت آتی رہی ہے کہ فلاں نو جوان اچھی کمائی کر رہا ہے، اگر اسے کام سے ہٹا کر دین کی خدمت میں لگادیا گیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ نہ صرف چالیس، پچاس یا سور و پیہ ماہوار جو وہ سلسلہ کو دیا کرتا تھا، بند ہو جائے گا بلکہ اس کے گزارہ کے لئے مزید خرچ کرنا پڑے گا.اس لئے بہتر ہے کہ اس کی بجائے کوئی دوسرا آدمی کام پر لگا دیا جائے.یہ چندہ بھی دیتا رہے گا اور دین کی خدمت بھی کرتا رہے گا.بظاہر یہ ایک خوشنما اور اچھی بات معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقت میں اس کے پیچھے شدید دنیا داری کی روح کام کر رہی ہوتی ہے.اگر ایک شخص اچھی کمائی کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے ایک حد تک اپنی قابلیت اغیار سے منوالی ہے اور اس کی قابلیت کے پیش نظر غیر بھی اس کو اچھا عہدہ دینے کے لئے تیار ہیں.مگر سلسلہ کی ضروریات کو اگر دیکھا جائے تو اسے بھی ہر قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہے.اور ہر قسم کی لیاقت رکھنے والے آدمیوں کی ضرورت 851
خطبہ جمعہ فرمودہ 02 مئی 1947ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم ہے.آخر ہر انسان ہر کام نہیں کر سکتا کوئی شخص صرف چیڑ اسی کا کام کرسکتا ہے، کوئی اچھا کلرک بن سکتا ہے، کوئی اچھا نگران بن سکتا ہے، کوئی اچھا افسر بن سکتا ہے.ان تمام کاموں کے لئے مختلف لیاقت رکھنے والے آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے اور جس لیاقت کے آدمی کی ہمیں ضرورت پیش آئے ، اگر اس لیاقت کا آدمی ہمیں مل جائے تو ہمارا کام چل سکتا ہے.گو اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوگا کہ جب کوئی اچھی لیاقت کا آدمی کسی کام پر لگایا جائے گا تو سلسلہ کو اس آمد سے محروم ہونا پڑے گا، جو اس کی طرف سے آیا کرتی تھی.اور یا پھر دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ کسی نالائق آدمی کواعلیٰ کام پر لگا کر نقصان کا دروازہ کھول دیا جائے.لیکن یہ غیر معمولی طریق ہے اور کوئی معقول آدمی اس طریق کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا.بہر حال اصل صورت یہی ہے کہ کس تجربہ کار اور قابل آدمی کے سپر د کام کیا جائے اور یہی صورت معقول اور قابل عمل ہے.مگر اس طریق پر عمل کرنے سے لازمی طور پر ایسے شخص کی معقول آمد سے سلسلہ کو محروم ہونا پڑے گا.کیونکہ عام طور پر لائق آدمی ہی زیادہ کماتے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض نا قابل اور نالائق آدمی بھی کسی اچھی جگہ پر پہنچ جاتے ہیں.لیکن یہ امر مستثنیات میں سے ہوتا ہے ورنہ عام قاعدہ یہی ہے کہ لائق آدمی ہی اچھی جگہ پر پہنچتے ہیں اور نالائق کا ترقی کرنا ایک اتفاقی امر ہوتا ہے.اور اس کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے، جیسے اتفاقاً کسی کو گر اپرا پونڈ مل جائے ، جس شخص کو اتفاقا گرا پڑا پونڈ مل جائے ، وہ اگر تمام کام کاج چھوڑ کر پونڈ ملنے کی امید پر بیٹھ جائے کہ فلاں دن جو مجھے پونڈ ملا تھا، اب بھی مل جائے گا تو ایسے شخص کو کون عقلمند کہے گا؟ پس گو نا قابل اور نالائق بھی بعض دفعہ ترقی کر جاتے ہیں لیکن عام قاعدہ یہی ہے کہ قابل آدمی اپنے فن میں مہارت حاصل کر لینے کی وجہ سے زیادہ آمد پیدا کر سکتا ہے اور اسے جب بھی اپنی جگہ سے ہلایا جائے گا، اس کی وجہ سے جو آمدن ہو رہی ہوگی ، وہ بند ہو جائے گی.لیکن اگر اسے مفید وجود سمجھ کر نہ ہلایا جائے تو سلسلہ کونا قابل اور بے کار وجودوں سے کام لینا پڑے گا.جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کام خراب ہو جائے گا.یہ بات تو زندگی وقف کرنے والوں کے متعلق ہے.لیکن ان کے علاوہ ہزاروں لاکھوں آدمی ہماری جماعت میں ایسے ہیں، جنہوں نے گو اپنی زندگیاں وقف نہیں کیں لیکن وہ ایسی جگہ پر ہیں کہ اگر وہ دینی کاموں میں حصہ لینا چاہیں تو حصہ لے سکتے ہیں.مگر ان میں سے بھی ایک طبقہ ایسا ہے، جو خیال کرتا ہے کہ جب ہم چندہ دے دیتے ہیں تو ہمیں دینی کاموں میں اپنے اوقات صرف کرنے کی ضرورت نہیں.مگر اصل بات یہ ہے کہ ایسے لوگ سلسلہ کے کاموں کے لئے اپنے دلوں میں کوئی دلچسپی ہی نہیں رکھتے.جہاں تک میں نے غور کیا ہے، ان کا یہ خیال دیانت داری کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ در حقیقت وہ سلسلہ کی روحانی 852
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود و02 مئی 1947 ء عظمت کے قائل ہی نہیں.اور وہ سلسلہ کے کام کرنے میں عزت محسوس نہیں کرتے.ان کو یہ علم ہی نہیں کہ سلسلہ کی خدمت ہی سب سے بڑی عزت ہے.بلکہ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ سلسلہ کا کام ایسا معمولی ہے کہ یہ کام دوسروں کو کرنا چاہئے ، ان کی شان کے مطابق نہیں.گویاوہ سلسلہ کے کام کرنے میں ہتک محسوس کرتے ہیں.چونکہ ان کے دلوں میں ایک حد تک ایمان ہے، اس لئے وہ اپنے نفس کے سامنے کچھ نہ کچھ بہانے بنا کر پیش کرتے ہیں.کیونکہ انسان کے لئے سب سے بڑی علامت اس کے اپنے ضمیر کی طرف سے ہوتی ہے.جب انسان کوئی برا کام کرتا ہے تو اس کا ضمیر اسے لعنت ملامت کرتا ہے.اور جب تک ضمیر مرنہ جائے ، اس وقت تک انسان ایک عذاب میں مبتلا رہتا ہے.کیونکہ ہر برے فعل کے وقت اسے ضمیر لعنت ملامت کرتی ہے کہ تو نے ایک برے فعل کا ارتکاب کیا.اور ہر وقت کا یہ احساس انسان کو بے چین کئے رکھتا ہے اور اس کی طبیعت میں دکھ اور غم پیدا ہو جاتا ہے.اور وہ ہر اس آرام اور لذت سے محروم ہو جاتا ہے، جس کے لئے اس نے بدی کا ارتکاب کیا ہوتا ہے.اس دکھ اور عذاب کو دور کرنے کے لئے اور ضمیر کی تسلی کے لئے انسان نے یہ علاج سوچا ہے کہ وہ جھوٹے عذر بنا کر نفس کو تسلی دینے کی کوشش کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں نہیں آتے تھے اور اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتے تھے کہ مجھ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا رعب اتنا زیادہ غالب ہے اور آپ کا ادب میرے دل میں اس قدر پایا جاتا ہے کہ میں آپ کے سامنے بیٹھ نہیں سکتا.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے ایک دفعہ مجلس میں اس بات کے خلاف تقریر کی اور آپ نے فرمایا.یہ نفس کا دھوکہ ہے.چونکہ ان کے دل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ میری مجلس میں نہ آنا ، ایک گناہ ہے، اس لئے اس گناہ کے دکھ سے بچنے کے لئے ان کے نفس نے یہ بہانہ بنالیا اور مجلس میں نہ آنے کا باعث انہوں نے ادب اور اعزاز اور رعب قرار دیا ہے.حالانکہ یہ نفس کی سستی اور غفلت کی علامت ہے.کیا دوسروں کے دلوں میں ادب اور اعزاز نہیں ؟ غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پوری ایک مجلس اسی بات کے متعلق خرچ کی اور آپ نے مجلس میں نہ آنے کو نفس کا بہانہ قرار دیا.اسی طرح اس قسم کے لوگ یہ کہہ کر اپنے نفسوں کو مطمئن کرنا چاہتے ہیں کہ ہم نے خدمت دین کے کاموں میں حصہ نہ لیا تو کیا ہوا، ہم چندے سے سلسلہ کی زیادہ مدد کر رہے ہیں.مگر یہ بھی ان کے نفسوں کا دھو کہ ہے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لاچکے ہیں اور بیعت کر چکے ہیں اور وہ یہ جانتے ہیں کہ ان کے لئے دین کا کام کرنا ضروری ہے لیکن وہ ایسا نہیں کرتے.ان کے اپنے نفس کو اس دکھ اور تکلیف سے 853
خطبہ جمعہ فرمودہ 02 مئی 1947ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم بچانے کے لئے، جو ضمیر کی لعنت و ملامت سے ہوتی ہے، یہ بہانہ تراش کر پیش کر دیتے ہیں کہ ہم چندے زیادہ دے رہے ہیں اور یہی دین کی خدمت ہے.چونکہ اس قسم کے لوگ دوسرے آدمیوں میں اپنی عزت قائم رکھنا چاہتے ہیں اور وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم جماعت کے صحیح اور کار آمد عضو ہیں، اسی لئے وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم زیادہ روپیہ کما کر زیادہ چندہ دیتے ہیں.حالانکہ دین کی خدمت کے لئے صرف دفتر کا وقت ہی ضروری نہیں.وہ دفتر کے اوقات میں بیشک دفتر کا کام کریں لیکن دفتر کے اوقات ہوتے کتنے ہیں؟ کیا چو میں گھنٹے ہی دفتر کا کام کرتے ہیں؟ دفتر کا وقت تو دس بجے سے چار بجے تک ہوتا ہے.اور تو اور ڈاکٹروں، وکیلوں وغیرہ کی کمائی کا وقت بھی عام طور پر چھ سات گھنٹے ہی ہوتا ہے.اس کے بعد لوگ گپیں مارتے ہیں اور سیر کے لئے نکلتے ہیں.سرکاری دفاتر میں کام کرنے والوں کا وقت بھی جیسا کہ میں نے کہا ہے، عام طور پر دس بجے سے چار بجے تک ہوتا ہے.چار بجے کے بعد لوگ اپنا فارغ وقت سیر و تفریح اور گیوں وغیرہ میں گزارتے ہیں.اور سلسلہ بھی ان سے ایسے اوقات میں اپنے حق کا مطالبہ کرتا ہے جبکہ وہ کمائی نہیں کر رہے ہوتے.اسی طرح وکلا کا بھی کام کرنے کا وقت عام طور پر دس بجے سے تین ، چار بجے تک ہوتا ہے.تین، چار بجے عدالتیں بند ہو جاتی ہیں اور وکلاء فارغ اوقات میں اپنے گھروں میں مقدموں کی تیاری کرتے ہیں اور کچھ وقت وہ بیوی بچوں میں بیٹھ کر گزارتے ہیں.اسی طرح ان کے اوقات کا کچھ حصہ سیر و تفریح میں گزرتا ہے.ایسے فارغ اوقات میں ان کو خدمت دین کے کام کرنے چاہیں.اور اگر یہ سمجھا جائے کہ فارغ وقت صرف وہی ہے ، جس میں انسان کو کوئی کام نہ ہو.باقی تمام اوقات مصروفیات کے ہیں.اور اس مسئلہ کو لمبا کیا جائے تو پھر تو نمازوں کو بھی ترک کرنا پڑے گا.ہندوستان کے ایک بڑے لیڈ ر جب بوڑھے ہوئے تو وہ نماز کے تارک ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ مجھے یہ احساس ہوا ہے کہ میں جو وقت نماز پڑھنے میں صرف کرتا ہوں ، کیوں نہ اس وقت میں کوئی قومی خدمت ہی سرانجام دیا کروں؟ مگر وہ تو پھر بھی اپنا وقت قومی خدمت میں صرف کرتے تھے.لیکن دنیا میں اکثر آدمی ایسے ہیں، جو اپنے فارغ اوقات سیر و تفریح اور گپوں وغیرہ میں گزار دیتے ہیں.لیکن جب دین کی خدمت کرنے کا سوال آجائے تو ان کا چوبیس گھنٹے کا دن صرف چھ گھنٹے کا دن بن جاتا ہے.چوبیں گھنٹوں میں سے سات آٹھ گھنٹے کام کرنے کے ہوتے ہیں، باقی چودہ گھنٹے رہ گئے، کوئی شخص سولہ گھنٹے سوتا نہیں.اور نہ ہی کوئی انسان سولہ گھنٹے نہاتا رہتا ہے اور نہ ہی کوئی انسان سولہ گھنٹے پاخانہ میں بیٹھا رہتا ہے.ان سب کاموں کے لئے اگر آٹھ گھنٹے رکھ لئے جائیں تو پھر بھی آٹھ گھنٹے بچ جاتے ہیں، جن میں 854
تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد دوم - خطبہ جمعہ فرمود و 02 مئی 1947 ء انسان نمازیں پڑھ سکتا ہے اور سلسلے کے کام کر سکتا ہے.آٹھ نہ ہی ، سات سہی.سات نہ ہی ، چھ سہی.چھ نہ سہی، پانچ سہی.پانچ نہ سہی، چار سہی.چار نہ سہی، تین سہی.کم از کم تین گھنٹے تو ہر انسان کے پاس فارغ ہو سکتے ہیں، جن میں سے وہ ڈیڑھ گھنٹے میں نمازیں ادا کر سکتا ہے اور ڈیڑھ گھنٹہ روزانہ وہ سلسلہ کے کاموں میں صرف کر سکتا ہے.پس جماعت کے لئے یہ ضروری امر ہے کہ اس کے اثر رکھنے والے افراد دین کی خدمت کے لئے وقت نکالیں.اور ہر احمدی کو یہ امر ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ دین کی خدمت سے ہی اصل عزت حاصل ہوتی ہے.اگر زیادہ کمانے والے لوگ اس طرف متوجہ نہ ہوں تو اس کے دو برے نتائج پیدا ہوں گے.ایک یہ کہ کمزور لوگ دین کی خدمت سے کوتاہی اور سستی اختیار کر لیں گے اور دوسرے یہ کہ ان کا اپنا ایمان ضائع ہو جائے گا.کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے چندوں کو ان کے منہ پر مارے گا اور فرمائے گا کہ ہم نے صرف چندے دینے کے متعلق حکم نہیں دیا تھا.بلکہ ہم نے تو کہا تھا مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ کہ ہم نے جو کچھ تم کو دیا ہے، اس سے تم خرچ کرو.ہم نے صرف روپے کے متعلق تو نہیں کہا تھا.کیا ہم نے تم کو وقت نہیں دیا تھا ؟ کیا ہم نے تمہیں ہاتھ پاؤں نہیں دیئے تھے ؟ کیا ہم نے تمہیں کان ، ناک اور آنکھیں نہیں دی تھیں؟ کیا ہم نے تمہیں عقل اور فراست نہیں دی تھیں؟ کیا ہم نے تمہیں علم نہیں دیا تھا ؟ تمہارا فرض تھا کہ ان سب چیزوں میں سے ہمارا حصہ ادا کرتے.جو شخص صرف چندہ دے کر مطمئن ہو جاتا ہے، اس کی مثال ایسی ہی ہے، جیسے کسی شخص نے دوسرے آدمی سے دس روپے قرض لئے ہوں اور وہ ان میں سے ایک روپیہ ادا کر کے سمجھ لے کہ میں نے تمام قرضہ ادا کر دیا ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت سی نعمتیں عطا فرمائی ہیں ، ان میں سے صرف ایک نعمت کا حق ادا کر کے ہم عہدہ برا نہیں ہو سکتے.بلکہ ویسے ہی مجرم ہیں ، جیسے دس روپیہ میں سے ایک رو پیدا دا کر کے باقی نو روپے ادا نہ کرنے والا مجرم ہے.پس ہر ایک نعمت ، جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا فرمائی ہے، اس میں سے اللہ تعالیٰ کا حصہ ادا کرنا ضروری ہے.اگر کوئی شخص خدمت دین سے جی چراتا ہے تو وہ لاکھ نہیں، کروڑ روپیہ ہی چندہ کیوں نہ دے، ہم اس کے متعلق یہی کہیں گے کہ وہ ایمان کی حقیقی لذت سے محروم ہے.اگر روپیہ ہی اصل چیز ہوتی تو اللہ تعالیٰ سب نبیوں کو فرما تا کہ تم تبلیغ کرنا چھوڑ دو، صرف چندہ دے دیا کرو.جو شخص صرف چندے کو ہی کافی سمجھتا ہے، گویا دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انبیا اور مامورین اور خلفاء تو ادنی کام کرتے ہیں، اصل کام وہی کر رہا ہے.اگر چندے دینا ہی سب سے بڑا کام ہوتا تو اللہ 855
خطبہ جمعہ فرمودہ 02 مئی 1947ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم تعالی انبیاء اور خلفاء کو بھی صرف چندے دینے کا ہی حکم دیتا.اور اگر صرف چندے دینا ہی ضروری ہوتا تو جماعت احمد یہ اس طریق کار کو اختیار کرتی کہ ہندوؤں اور عیسائیوں کو دین کے کاموں پر لگا دیا جاتا اور خود احمدی زیادہ روپیہ کمانے والے کاموں میں لگ جاتے.پریزیڈنٹ کا کام ایک احمدی کی بجائے ملا واصل کرتا اور سیکرٹری کا کام پکٹ انگریز کرتا اور تعلیم و تربیت کا کام سند رسنگھ کرتا.اور جب کوئی پوچھتا کہ جماعت کا پریزیڈنٹ کون ہے؟ تو کہا جا تا لالہ ملاوائل.اور جب پوچھا جا تا سیکرٹری کون ہے؟ تو کہا جاتا پکٹ.اور جب پوچھا جاتا سیکرٹری تعلیم وتربیت کون ہے؟ تو کہا جاتا سندر سنگھ.پوچھنے والا دریافت کرتا کہ یہ کیا بات ہے کہ جماعت احمدیہ کے عہدیدار غیر مسلم ہیں؟ تو اس کو یہ جواب دیا جاتا کہ جماعت کے مفید وجود زیادہ کمائی کرنے والے کاموں میں لگے ہوئے ہیں اور وہ فضول کام کر کے اپنا وقت ضائع کرنا نہیں چاہتے.کیا تم میں سے کوئی بھی معقول انسان اس طریق کو پسند کرتا ہے؟ اگر نہیں تو سمجھ لو کہ خواہ کوئی کتنا بڑا مالدار ہے اور خواہ کوئی کتنا بڑا تاجر ہے اور خواہ کوئی کتنا بڑا افسر ہے ، اگر وہ دین کے کاموں میں دلچسپی نہیں لیتا تو خواہ اس کے چندے لاکھوں تک ہی کیوں نہ ہوں؟ ہم یہی کہیں گے کہ اس کے دل میں ایمان نہیں ہے.اگر اس کے دل میں ایمان ہوتا تو وہ سب سے بڑی عزت خدمت دین کو سمجھتا.اور جو شخص صرف روپے سے ہی خدمت کرنے کو اصل خدمت سمجھتا ہے ، وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء اور تابعین کی ہتک کرتا ہے کہ نعوذ باللہ وہ ذلیل کام کرتے تھے اور یہ اصل کام کر رہا ہے.اس لئے ایسے شخص کا روپیہ بھی برکت کا موجب نہیں بن سکتا.پس اب جبکہ جماعت ایک نازک دور میں سے گزر رہی ہے، ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تمام عطا کردہ نعمتوں کا حصہ ادا کرے.اور ہر فرد خدمت دین کے لئے زیادہ سے زیادہ وقت نکالے.اور ہر فر دمقامی انجمنوں کے ساتھ پورا پورا تعاون کرے اور ان کے کاموں میں پورے طور پر دلچسپی لے.اور اپنے وقت کا کچھ نہ کچھ حصہ مقامی جماعت کی اصلاح و تربیت اور مضبوطی میں خرچ کرے.میں نے خدام الاحمدیہ کو بھی اسی لئے قائم کیا تھا کہ وہ نو جوانوں سے کچھ نہ کچھ وقت خدمت دین کے لئے لیا کریں اور اس وقت ان سے کوئی مفید کام کروایا جائے.اسی طرح جماعت کے ہر فرد کو اپنے اوقات میں سے کچھ وقت دین کی خدمت کے لئے دینا چاہیے کیونکہ اس کے بغیر ایمان کا امتحان نہیں ہوتا.پس جماعت کو اس نازک ترین دور میں اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے اور سلسلہ کی خدمت کے لئے اور سلسلہ کی عظمت کو قائم کرنے کے لئے حتی الامکان اپنے اوقات صرف کرنے چاہیں.اس 856
خطبہ جمعہ فرمود 02 مئی 1947ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک کا یہ مطلب نہیں کہ جو شخص دین کی خدمت کرے، وہ روپیہ سے سلسلہ کی خدمت نہ کرے.کیونکہ رو پی بھی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ہے.جس طرح کان، ناک، آنکھ ، دماغ اور وقت اور علم میں سے اللہ تعالیٰ کا حصہ ادا کرنا ضروری ہے، اسی طرح مال میں سے بھی حصہ ادا کرنا ضروری ہے.یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لو کہ دین کی ادنیٰ سے ادنی خدمت بھی بہت بڑی عزت کا باعث ہے.اگر تم اس بات پر یقین نہیں رکھتے تو پھر یا تو تمہارے اندر ایمان ہے ہی نہیں اور اگر ایمان ہے تو وہ متعلق ہے.اس کو جب بھی ذرا ساجھٹکالگا، وہ ٹوٹ جائے گا.اور تم اپنی ساری امیدوں اور آرزوؤں کو خاک میں ملتا ہوا دیکھو گئے.( مطبوع الفضل 14 مئی 1947 ء ) 857
تحریک جدید- ایک ابی تحریک.....جلد دوم خطبہ جمعہ فرموده 09 مئی 1947ء اب تک اللہ تعالیٰ ہی سب کام کرتا آیا ہے اور آئندہ بھی اسی سے امید ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 09 مئی 1947ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:." آج میں جماعت کو ایک دفعہ پھر اس کے اس فرض کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں، جو تازہ چندہ کی تحریک کے متعلق اس پر عائد ہوتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جماعت کے مخلصین کا ایک حصہ تندہی کے ساتھ اس تحریک میں شرکت کی کوشش کر رہا ہے.لیکن ابھی تک بہت سی جماعتیں ایسی ہیں، جن کی طرف سے رپورٹیں موصول نہیں ہوئیں.ممکن ہے جماعتوں کے اندر یہ احساس پایا جا تا ہو کہ اس تحریک کے متعلق لوگوں نے فردا فردا جواب دینے ہیں لیکن یہ درست نہیں.تحریک جدید کے وعدوں اور چندوں کے متعلق ہماری جماعت کا جو دستور ہے ، اسی کے مطابق اس تحریک کے بارہ میں بھی انتظام ہونا چاہیے.یعنی مختلف جماعتوں میں جو سیکرٹریان مال مقرر ہیں، پریذیڈنٹوں اور امیروں یا دوسرے سیکرٹریوں کی مدد میں جوسکی اور کی سے انہیں اپنی جماعتوں کی مکمل لسٹیں جلد سے جلد بھجوانی چاہیں.جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا ہے ابھی اکثر جماعتوں کی طرف سے وعدوں کی لسٹیں مکمل ہو کر مجھے نہیں ملیں.میرے پہلے خطبات کے بعد کچھ لسٹیں آئی ہیں لیکن وہ زیادہ تر افراد کی ہیں، جماعتوں کی نہیں.جماعتوں کے لحاظ سے اب تک بمشکل دس فی صدی لٹیں آئی ہیں، باقی جماعتوں کی طرف سے جن میں بعض بڑی بڑی جماعتیں بھی شامل ہیں، ابھی تک مجھے کوئی اطلاعات نہیں پہنچیں.میں نے اس تحریک کے وعدوں کے لئے ڈیڑھ ماہ کی میعاد مقرر کی تھی، جو 20 مئی کو ختم ہو جاتی ہے.مگر چونکہ یہ ئی تحریک ہے اور دوستوں کو ایک وقت اس کے سمجھنے میں بھی لگا ہے، اس لئے میں اس کی مدت 31 مئی تک بڑھا دیتا ہوں.مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ دوست ضرور 31 مئی تک یہی انتظار کرتے رہیں بلکہ نیکی کے کام میں جلد سے جلد حصہ لینا بھی انسان کے ثواب کو بڑھانے کا موجب ہوتا ہے.اور جس طرح گورنمنٹ سروس میں یہ قاعدہ ہے کہ جو شخص پہلے سروس میں شامل ہو، اس کو بعد میں شامل ہونے والوں سے سینئر سمجھا جاتا ہے اور آئندہ ترقیات میں اس کی سنیارٹی کا لحاظ رکھا جاتا ہے.یہاں تک کہ دنوں کا بھی حساب رکھا جاتا ہے.مثلاً ایک شخص اگر یکم تاریخ کو سرکاری ملازمت 859
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 09 مئی 1947ء میں شامل ہو تو اس کو اس شخص سے سینئر اور بالا سمجھا جاتا ہے جو دوسری تاریخ کو شامل ہو.حالانکہ فرق صرف ایک دن کا ہوتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کے حضور میں بھی وہ لوگ ، جو قر بانیوں میں پیش پیش ہوتے ہیں، زیادہ ثواب کے مستحق ہوتے ہیں.سوائے اس کے کہ ان کی راہ میں ایسی مشکلات اور وقتیں ہوں، جن کی وجہ سے ان کا بعد میں آنا، پہلے آنے کے برابر سمجھا جائے.مگر یہ چیز تو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور وہ کسی کے متعلق کیا فیصلہ کرے گا، انسان اس کے متعلق کچھ جان نہیں سکتا؟ اس لئے ظاہر پر نظر کرتے ہوئے ، ہر جماعت کا فرض ہے اور فرض ہونا چاہئے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ بڑی جماعت کا یہ حق ہے اور اسے اپنا یہ حق لینے کی کوشش کرنی چاہئے کہ وہ دوسری جماعتوں سے پہلے اپنے وعدے لکھوائے تا کہ نہ صرف وہ ثواب میں شامل ہو بلکہ بعد میں شامل ہونے والوں سے خدا تعالیٰ کے حضور مقدم کبھی جائے.جہاں تک نظام کا تعلق ہے، جس رنگ میں تحریک جدید کا محکمہ کام کر رہا ہے، میرے نزدیک بیت المال والے اس رنگ میں کام نہیں کر رہے.تحریک جدید کی رپورٹوں میں نہ صرف یہ اطلاع ہوتی ہے کہ کس حد تک وعدے آئے ہیں بلکہ وہ یہ بھی اطلاع دیتے ہیں کہ انہوں نے اس بارہ میں کیا کوششیں کی ہیں؟ مگر بیت المال والوں کی طرف سے کوئی ایسی رپورٹ ، جو حقیقت پر مبنی ہو اور جس سے معلوم ہو سکے کہ معقول طور پر جد و جہد کی جارہی ہے، اب تک میرے پاس نہیں پہنچی.اور در حقیقت میں ابھی تک اس بات سے ناواقف ہوں کہ صحیح طور پر ہر جماعت پر حجت پوری کر دی گئی ہے یا نہیں.دوستوں کو یا درکھنا چاہیے کہ اس تحریک کے متعلق جو وقف آمد یا وقف جائیداد کی ہے یا غیر واقفین سے نصف ماہ کی آمد یا ان کی جائیداد کا 2 / 1 فی صدی لینے پر مشتمل ہے، ہم نے یہ قانون بھی پاس کیا ہے کہ جولوگ اس تحریک میں شامل نہ ہوں یا غیر واقفین کی صورت میں اپنی جائیداد کا 2 / 1 فی صدی یا ایک ماہ کی نصف آمد بھی دینے کے لئے تیار نہ ہوں، ان کو آئندہ سلسلہ کے ہنگامی کاموں میں شامل نہ کیا کو نہ جائے.پس جماعتوں کے لئے جہاں یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے وعدے جلد از جلد بھجوا دیں، وہاں ان کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ مجھے اس بارہ میں بھی اطلاع دیں کہ کون کون سے لوگ اس تحریک میں حصہ نہیں لے رہے؟ تاکہ ان کا ریکارڈ رکھا جا سکے.ابھی تک کسی جماعت نے بھی ایسی اطلاعات ہم نہیں پہنچا ئیں.حالانکہ اس تحریک کے مثبت اور منفی دو حصے ہیں.مثبت حصہ تو یہ ہے کہ کس کس نے اس تحریک میں حصہ لیا ہے؟ اور منفی حصہ یہ ہے کہ کس کس نے اس تحریک میں حصہ نہیں لیا ؟ اور یہ دونوں حصے اہم ہیں.منفی کے متعلق ہمارا یہ فیصلہ ہے کہ ایسے لوگوں کو آئندہ سلسلہ کی ہنگامی تحریکوں میں شامل ہونے کا موقعہ نہ دیا 860
خطبہ جمعہ فرموده 09 مئی 1947ء تحریک جدید - ایک البی تحر یک...جلد دوم جائے.سوائے ایسی صورت کے کہ وہ تو بہ کریں اور سلسلہ کے سامنے معقول معذرت پیش کریں.اگر ان کا کا عذر جائز ہونے کی صورت میں قبول کر لیا جائے تو اس کے بعد انہیں ہنگامی تحریکوں میں شامل ہونے کو حق ہو گا لیکن اس کے بغیر نہیں.پس جماعتوں کو نہ صرف وعدے کرنے والے دوستوں کے نام بھجوانے چاہیں بلکہ جولوگ انکار کریں، ان کے نام بھی بھجوانے چاہیں.وو میں نے بار بار اور کھول کر بیان کیا ہے کہ جو لوگ تحریک وقف میں حصہ نہیں لیتے ، ابھی ہم ان کو مجبور نہیں کرتے کہ اپنی آمد یا جائیداد وقف کریں.ایسے لوگ ایک ماہ کی نصف تنخواہ یا جائیداد کا 1/2 فی صدی دے کر موجودہ تحریک سے عہدہ برآ ہو سکتے ہیں اور نادہندگی کے الزام سے بچ سکتے ہیں.بعض دوستوں کو اس بارہ میں یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ جو لوگ ایک ماہ کی نصف تنخواہ یا اپنی جائیداد کا 1/2 فی صدی دیں گے، ان کو بھی آئندہ ہنگامی تحریکات میں شامل نہیں کیا جائے گا.چنانچہ اس قسم کا ایک نوٹ میں نے الفضل میں بھی دیکھا ہے، جو تحریک جدید کی طرف سے تھا.حالانکہ یہ بات غلط ہے.میں نے ہرگز یہ نہیں کہا کہ ہر شخص اپنی جائیداد یا آمد ضر ور وقف کرے.میں نے جو کچھ کہا ہے، وہ یہ ہے کہ مومن کا ایمان اس بات کا متقاضی ہوتا ہے کہ وہ اپنی جائیداد اور آمد اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دے.اس لئے دوستوں کو وقف کرنا چاہیے.اور ظاہر ہے کہ وقف کرنا چاہیئے اور وقف کرنے میں بڑا بھاری فرق ہے.ایسے آدمی ہو سکتے ہیں، جو وقف میں شامل ہونے کے متعلق اپنے سینوں میں انشراح نہ پاتے ہوں.مگر ان کے لئے بھی ہم نے رستہ کھول دیا ہے کہ وہ ایک ماہ کی نصف تنخواہ یا اپنی جائیداد کا1/2 فی صدی دے دیں.لیکن چونکہ ایسے آدمی بھی ہو سکتے ہیں، جو ایک ماہ کی نصف آمد یا جائیداد کا1/2 فی صدی بھی نہ دے سکیں یا وہ سمجھتے ہوں کہ وہ نہیں دے سکتے تو ایسے لوگوں کے لئے یہ راستہ ہے کہ وہ اپنی معذرت دفتر بیت المال میں بھیج کر ناظر صاحب بیت المال سے اپنے آپ کو مستی کرالیں ، تب بھی وہ الزام سے بچ جائیں گے.اور اگر ناظر صاحب بیت المال ان کو مستی کر دیں گے تو وہ اس سزا سے کہ آئندہ سلسلہ کے ہنگامی کاموں میں انہیں شامل نہ کیا جائے، محفوظ ہو جائیں گے.لیکن ایسے لوگوں کا بالکل خاموش رہنا اور جماعت کے ساتھ تعاون نہ کرنا،اس معیار ایمان سے بہت اونی ہے، جس کا اسلام کی طرف سے ادنیٰ سے ادنی معیار کے ہر مومن سے مطالبہ کیا جاتا ہے.مجھے حالات سے اتنی کم واقفیت ہے کہ اب تک میں یہ بھی نہیں جانتا اور نہ ہی دفتر بیت المال والوں نے مجھے اطلاع بہم پہنچائی ہے کہ قادیان کے ہر محلہ نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے یا نہیں.دور دور کی 861
خطبہ جمعہ فرمودہ 09 مئی 1947ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم جماعتوں کے متعلق تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی طرف سے وعدوں کے پہنچنے میں دیر ہوگئی ہے.مگر قادیان کی جماعتوں کے متعلق اس قسم کے کسی امکان کی گنجائش نہیں.اور وں کو تو جانے دو، مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ صد را مجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے کارکنوں سے بھی وعدے لئے گئے ہیں یا نہیں.( میں نے لسٹیں منگوا کر بعد خطبہ دیکھی ہیں.قادیان کے چندہ کا نصف ابھی آیا ہے اور کارکنان انجمن کا نصف سے بھی کم.لیکن اب ناظر صاحب بیت المال نے وعدہ کیا ہے کہ وہ جلد وعدوں کی لسٹوں کو پورا کریں گے.) جو رپورٹیں میرے پاس آتی ہیں، ان سے میں سمجھتا ہوں کہ قادیان کی جماعت سے بھی پوری طرح وعدہ نہیں لیا گیا.کیونکہ اگر سب لوگوں کے وعدے شامل ہوتے تو جتنے وعدوں کی اطلاع مجھے اس وقت تک مل چکی ہے، ان سے بہت زیادہ تعداد ہوتی.جب قادیان کے لوگوں سے بھی وعدہ لینے کا انتظام پوری طرح نہیں کیا گیا تو اسی پر باہر کی جماعتوں کا قیاس کیا جاسکتا ہے.پس میں دوستوں کو ایک دفعہ پھر یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ 31 مئی تک ان کے وعدے آسکتے ہیں.جولوگ نادہند ہیں، ان کے نام بھی آنے چاہیں اور جو لوگ چندہ دینے والے ہیں، ان کی لٹیں بھی ہر جماعت کی طرف سے مجھے پہنچنی چاہئیں.وعدے زیادہ تر میرے پاس ہی آتے ہیں اور یہی طریق زیادہ مناسب ہے.کیونکہ اس طرح مجھے ایسے لوگوں کا علم بھی ہوتا رہتا ہے اور ان کے لئے دعا کی تحریک بھی ہوتی رہتی ہے.تحریک جدید کے وعدے بھی میرے پاس آتے ہیں اور اس طرح مجھے وقت پر ہر بات کا علم ہو جاتا ہے اور اگر کوئی نقص دور کرنے کے قابل ہو تو اس کو دور کر دیا جاتا ہے.اسی طریق کے مطابق جو جماعتیں اپنے وعدوں کی لسٹیں مکمل کریں ، وہ میرے پاس بھجوا دیں.چونکہ آجکل ڈاک کا انتظام خراب ہے، اس لئے اگر بعض جماعتیں اپنے وعدوں کی لسٹیں بھجوا چکی ہوں لیکن ان کو وعدوں کے پہنچنے کی اطلاع نہ ملی ہو تو انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ ان کے وعدے نہیں پہنچے.ایسی صورت میں دوبارہ انہیں وعدوں کی لسٹیں بھجوانی چاہیں.ہر جماعت کو لسٹ بھجواتے ہوئے اس کی ایک نقل اپنے پاس رکھنی چاہئے.تا کہ اگر پہلی فہرست ضائع ہو جائے تو دوبارہ بغیر تاخیر کے نقل کی نقل قادیان بھجوائی جاسکے.) اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جو لوگ اپنی ایک ماہ کی آمد یا جائیداد کا ایک فیصدی دینے والے ہوں، ان کے وعدوں کی لسٹیں الگ اور جو نصف ماہ کی آمد یا اپنی جائیدادوں کا 1/2 فی صدی دینے والے ہوں، ان کی لسٹیں الگ ہوں.تا کہ یہ دونوں قسم کی لسٹیں آپس میں مل نہ جائیں اور ایک کا نام دوسرے رجسٹر میں درج نہ ہو جائے.میں امید کرتا ہوں کہ جماعتیں اپنے اخلاص اور ایثار اور قربانی سے اس عظیم الشان امتحان میں سے بھی زیادہ کامیاب ثابت ہوں گی.میں دیکھتا ہوں کہ بعض دوستوں نے ایسی عظیم الشان قربانیاں 862
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 09 مئی 1947ء پیش کی ہیں کہ انہیں دیکھ کر رشک آتا ہے.قربانی میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کس نے کیا دیا ہے.بلکہ دیکھنے والی بات یہ ہوتی ہے کہ اس نے اپنی طاقت کے لحاظ سے قربانی میں کس قدر حصہ لیا ہے؟ بعض ایسے لوگ جن پر صرف دس روپے چندہ عائد ہوتا ہے، انہوں نے چالیس روپے چندہ دیا ہے اور بعض کے وعدے تو اتنے زیادہ تھے کہ مجھے ان کے وعدوں کو رد کرنا پڑا.اور میں نے ان سے کہا کہ جو مطالبہ ساری جماعت سے کیا گیا ہے، اسی مطالبہ کے مطابق آپ لوگ بھی قربانی کریں، اس سے زیادہ نہیں.ورنہ بعض نے تو اپنی ساری ساری جائیدادیں پیش کر دی تھیں اور کہا تھا کہ جب ہم نے ساری جائیداد ینے کا وعدہ کیا ہوا ہے تو ہم ساری جائیداد کیوں نہ پیش کر دیں؟ یہ ایک خوشکن بات ہے.مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے، میں نے ایسے وعدے قبول نہیں کئے.بلکہ ان کے اخلاص اور قابل رشک انتشار کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے ، انہیں یہی لکھوایا ہے کہ اس وقت جائیداد کا ایک فی صدی مانگا گیا ہے، آپ لوگ بھی اتنا ہی پیش کریں.اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہی سب کام ہیں اور اس وقت تک اللہ تعالیٰ ہی ہمارے سب کا م کرتا چلا آیا ہے اور ہمیں آئندہ بھی اس کے فضل و کرم کی امید ہے.پس ہمیں ان دنوں خصوصیت کے ساتھ دعائیں کرنی چاہیں کہ جو فرض اللہ تعالیٰ نے ہم پر عائد کیا ہے، اس کی بجا آوری کی ہمیں توفیق ملے.اور اگر کوئی شخص اپنے فرض کو ادا کر چکا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرنی چاہیے کہ اس کے دوسرے بھائیوں کو بھی اللہ تعالیٰ اس امتحان میں فیل ہونے سے بچائے.اور اگر کسی کے اندر کچھ کمزوری پائی جاتی ہے تو وہ دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کی کمزوری کو دور کرنے اور اسے بھی سابقین میں شامل ہونے کی توفیق بخشے.اللہ تعالیٰ کی قدرتیں نہایت وسیع ہیں اور اس کے فضل عظیم الشان ہیں.اس وقت ایک نہایت ہی نازک دور ہندوستان پر آیا ہوا ہے، جس کا علاج صرف خدا تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے.بظاہر انسان کام کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن در حقیقت خدا کی تقدیر ان کے پیچھے کام کر رہی ہے.پس ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور جھک کر دعا ئیں کرنی چاہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی تقدیر کو ایسے رنگ میں جاری کرے کہ وہ اسلام اور احمدیت کے لئے مفید ہو اور آئندہ دنیا میں امن قائم کرنے کا موجب ہو اور یہ کہ ہمارے ملک کے اندر جو فتنہ اور فساد پایا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو دور کرے.اور ہر قوم کو سمجھ عطا کرے کہ وہ آپس کے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر صلح اور امن اور آشتی کے طریق کو قبول کرے اور نہ صرف ہمارا ملک صلح اور آشتی کے طریقوں کو اختیار کرے.بلکہ خدا کے فضل سے ہمارا ملک ساری دنیا میں ایک اہم اور نیک تغیر پیدا کرنے کا موجب بن جائے.اللهم آمین.(مطبوعہ الفضل 15 مئی 1947 ء ) 863
یک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 16 مئی 1947ء ہماری قربانیاں گزشتہ ابنیاء کی جماعتوں کے مقام تک پہنچنی چاہیں وو خطبہ جمعہ فرمودہ 16 مئی 1947ء تحریک جدید کو جب شروع کیا گیا تھا تو اس وقت اس تحریک کی خوبیاں جماعت کی نگاہ سے مخفی تھیں.مگر اب نظر آ رہا ہے کہ اس تحریک کے ذریعے دنیا بھر میں تبلیغ اسلام کا کام نہایت وسیع پیمانہ پر جاری ہے اور سینکڑوں لوگ اسلام کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر رہے ہیں.یہ تحریک جدید کا ہی نتیجہ ہے کہ ایک انگریز نومسلم، جنہوں نے اپنی زندگی دین کی خدمت کے لئے وقف کی ہوئی ہے.دین کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے قادیان آئے ہیں.پھر یہ تحریک جدید کا ہی نتیجہ ہے کہ اسی ہفتہ غیر ممالک سے دو اور افراد کے متعلق یہ اطلاع موصول ہوئی ہے کہ وہ بھی تعلیم حاصل کرنے کے لئے قادیان آنا چاہتے ہیں.ایک اطلاع تو ایک جرمن نو مسلم کے متعلق ہے ، وہ چاہتے ہیں کہ وہ قادیان میں تعلیم حاصل کریں اور پھر اپنے ملک میں تبلیغ کریں.دوسرے اسی ہفتہ میں امریکہ سے اطلاع موصول ہوئی ہے کہ ایک امریکن نو مسلم نے بھی اپنے آپ کو اسلام کی خدمت کے لئے پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ میں قادیان جا کر دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہوں.دیکھو یہ کتنی عظیم الشان تحریک ہے کہ غیر ممالک کے نو مسلم بھی یہاں آکر دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں اور جب یہ لوگ یہاں سے دینی تعلیم حاصل کر کے واپس اپنے ملک میں جائیں گے تو ان کے لئے اپنے ملک کے لوگوں کو سمجھانا آسان ہوگا.غرض اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحم سے جتنے کام مجھ سے لئے ہیں، ان تمام کاموں کے متعلق میں دیکھتا ہوں کہ درحقیقت وہ بنیاد ہوتے ہیں، بعض آئندہ عظیم الشان کاموں کی.وو میں نے وقف جائیداد کی تحریک کی تھی.جو در حقیقت بنیاد تھی ، آج کی تحریک کے لئے.مگر اس وقت لوگ اس تحریک کی حقیقت کو نہیں سمجھے تھے.کچھ لوگوں نے تو اپنی جائیداد میں وقف کر دی تھیں مگر باقی لوگوں نے خاموشی اختیار کر لی.اور وہ لوگ جنہوں نے اپنی جائیدادیں وقف کی تھیں، وہ بھی بار بار مجھے لکھتے تھے کہ آپ نے وقف کی تو تحریک کی ہے اور ہم اس میں شامل بھی ہو گئے ہیں لیکن آپ ہم سے مانگتے کچھ نہیں.انہیں میں کہتا تھا کہ تم کچھ عرصہ انتظار کرو.اللہ تعالیٰ نے چاہا تو وہ وقت بھی آجائے گا، جب تم سے 865
اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 16 مئی 1947ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم جائیداد کا مطالبہ کیا جائے گا.چنانچہ دیکھ لو، اس تحریک سے خدا تعالیٰ نے کتنا عظیم الشان کام لیا ہے؟ مگر عام چندہ کے ذریعہ اس وقت جماعت میں حفاظت مرکز کے لئے تحریک کی جاتی تو میں سمجھتا ہوں کہ لاکھ، دولاکھ روپیہ کا اکٹھا ہونا بھی بہت مشکل ہوتا.مگر چونکہ آج سے تین سال پہلے وقف جائیداد کی تحریک کے ذریعہ ایک بنیاد قائم ہو چکی تھی ، اس لئے وہ لوگ جنہوں نے اس تحریک میں اس وقت حصہ لیا تھا، وہ اس وقت مینار کے طور پر ساری جماعت کے سامنے آگئے.اور انہوں نے اپنے عملی نمونہ سے جماعت کو بتایا کہ جو کام ہم کر سکتے ہیں، وہ تم کیوں نہیں کر سکتے ؟ چنانچہ جب ان کی قربانی پیش کی گئی تو ہزاروں ہزار اور لوگ ایسے نکل آئے ، جنہوں نے ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی جائیدادیں وقف کر دیں."...در حقیقت جانی قربانی کا مطالبہ وقف زندگی کے ذریعہ کیا جارہا ہے اور مالی قربانی کا مطالبہ چندوں کے ذریعہ کیا جارہا ہے.اور اب جائیدادوں اور آمد کے وقف کے ذریعہ تمام جماعت کو مالی قربانی کے ایک بہت ہی بلند مقام پر کھڑا کیا جارہا ہے.پھر شاید وہ وقت بھی آجائے کہ سلسلہ ہر شخص سے اس کی جان کا بھی مطالبہ کرے.اور جماعت میں یہ تحریک کی جائے گی کہ ہر شخص نے جس طرح اپنی جائیداد خدا تعالیٰ کے لئے وقف کی ہوئی ہے، اسی طرح وہ اپنی زندگی بھی خدا تعالیٰ کے لئے وقف کر دے، تا کہ ضرورت کے وقت اس سے کام لیا جا سکے.مال کی قربانی کی ابتداء ہو چکی ہے.پھر جان کی قربانی کا مطالبہ کیا جائے گا.پھر مالی قربانی کا مطالبہ پہلے سے بھی زیادہ کیا جائے گا.اور پھر جان کی قربانی کا بھی مطالبہ زیادہ سے زیادہ کیا جائے گا.یہاں تک کہ ہماری قربانیاں ایسے مقام پر پہنچ جائیں ، جس مقام پر گزشتہ ابنیاء کی جماعتوں کی قربانیاں پہنچی تھیں.بلکہ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں بہتوں سے بڑھ کر قربانی کی تو فیق عطا فرمائے تاکہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا زیادہ سے زیادہ فضل نازل ہو کہ اسلام اور احمد بیت کو دنیا میں قائم کر دے.اللهم آمین.( مطبوع الفضل 22 مئی 1947 ء ) 866
تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 30 مئی 1947ء جب تک ما فوق العادت کام کرنے کی روح پیدا نہ ہو، ہم ترقی نہیں کر سکتے خطبہ جمعہ فرمودہ 30 مئی 1947ء اس کے بعد میں جماعت کو ایک نہایت اہم امر کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں.ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت ہے.یہ کوئی سوسائٹی نہیں کہ جو اپنے لئے کچھ اصول طے کر کے کام کو چلا رہی ہو اور انہی اصولوں کے اندر اپنے کاموں کو محصور رکھتی ہو.بلکہ ہر نیک کام کرنا ہماری جماعت کا فرض ہے اور ہر بدی کو دور کرنا ہمارا فرض ہے اور اسلام کی تبلیغ کو اکناف عالم تک پہنچانا ہمارا کام ہے.ان اغراض کو پورا کرنے کے لئے ہی میں نے تحریک جدید جاری کی ، جس کے ماتحت مختلف سکیمیں کام کر رہی ہیں.ان سکیموں کو چلانے کے لئے جماعت کے لوگوں سے میں نے وقف زندگی کا مطالبہ کیا تھا.میرے مطالبہ پر جن لوگوں نے زندگیاں وقف کی ہیں، ان میں سے بعض کو مبلغ بنایا گیا ہے ، بعض کو مدرس بنایا گیا ہے اور بعض کو دوسرے کاموں پر لگایا گیا ہے.ایک واقف زندگی کلرک بھی ہو سکتا ہے، ایک واقف زندگی کا چپڑاسی بھی ہو سکتا ہے، ایک واقف زندگی خزانچی بھی ہو سکتا ہے، ایک واقف زندگی صناع بھی ہو سکتا ہے اور ایک واقف زندگی تاجر بھی ہو سکتا ہے.چنانچہ مختلف لوگوں کو مختلف کاموں پر لگا دیا گیا ہے اور لگایا جا رہا ہے.بعض نوجوانوں کو مبلغ بنا کر ہندوستان سے باہر بھیجا گیا ہے اور کچھ ہندوستان میں ہی تعلیم حاصل کر رہے ہیں.تا کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے بھائیوں کی جگہ جا کر کام کریں.اور کچھ ایسے ہیں، جو دفاتر میں بطور انچارج کام کر رہے ہیں اور کچھ اکا ؤ ٹینسی کا کام کر رہے ہیں.اور کچھ زمیندارہ کاموں کی نگرانی پر لگے ہوئے ہیں اور کچھ سلسلہ کے کارخانوں میں نگران کے طور پر کام کر رہے ہیں.لیکن ایک حصہ ایسا تھا ، جو کہ وقف زندگی کے مطالبہ میں شامل نہ ہو سکتا تھا.اور وہ زمینداروں کا طبقہ تھا.کئی دفعہ زمینداروں نے مجھے کہا کہ کیا ہمارے لئے بھی کوئی صورت وقف زندگی کی ہے؟ ہم لوگ ان پڑھ ہیں، زندگی وقف کرنے کی صورت میں ہم سلسلہ کا کوئی کام سرانجام دے سکیں گے یا نہیں ؟ میں انہیں جواب دیتا تھا کہ میرے ذہن میں ابھی تک کوئی صورت ایسی نہیں آئی.اور میں برابر غور کرتا چلا آرہا تھا.چنانچہ اب تبدیل شدہ حالات کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے زمینداروں کے لئے بھی موقع پیدا کر دیا ہے.اور آج میں جماعت کے زمینداروں کو بلاتا ہوں کہ وہ سلسلہ کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں اور 867
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 30 مئی 1947ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد دوم ان کو جو گزارے دیئے جائیں، ان کو انعام سمجھ کر کام کرتے چلے جائیں.پس آج زمینداروں کے لئے موقعہ ہے کہ وہ سلسلہ کے لئے یا سلسلہ کے مفاد کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں.میں یہ الفاظ یونہی نہیں بول رہا بلکہ ان میں ایک حکمت اور مصلحت ہے، جس کا ابھی اظہار مفید نہیں.بہر حال زمینداروں کو چاہئے کہ وہ سلسلہ کے لئے یا سلسلہ کے مفاد کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں اور جہاں ہم ان کو بھیجیں ، وہاں جائیں اور جن حالات میں ہم ان کو رہنے کے لئے کہیں، ان حالات میں وہ رہیں.اور جو فیصلے ان کے گزارہ کے لئے ہم کریں، وہ اس پر اپنی خندہ پیشانی سے کام کریں.جس خندہ پیشانی سے ہمارے دوسرے واقفین آج کل کام کر رہے ہیں.ہمارے مبلغوں میں بعض بی اے ہیں، بعض ایم اے ہیں، بعض وکیل ہیں اور بعض انٹرنس پاس ہیں.ہم نے ان میں سے ہر ایک کے حالات کے مطابق ان کے گذارے مقرر کئے ہیں اور وہ گزارے نہایت غریبانہ ہیں.اسی طرح زمینداروں میں سے جو لوگ اپنی زندگیاں وقف کریں گے ، ہم ان کو ایسی جگہوں پر کام کرنے کے لئے لگائیں گے، جو سلسلہ کے لئے مفید ہوں گی.اور ان کا کام زمیندارہ ہی ہوگا لیکن یہ کہ ان کو کس جگہ کام کرنا ہوگا؟ یا کیسے کام کرنا ہوگا ؟ یہ باتیں بعد میں بتائی جائیں گی.ہو سکتا ہے کہ کسی جگہ ہم ان کو گزارہ رقم کی صورت میں دے دیں اور کسی جگہ گذارہ غلے اور پیداوار کی صورت میں دے دیں.مثلاً نصف پیدا وار سلسلہ کی اور نصف ان کی یا دو تہائی کا ان کی اور ایک تہائی سلسلہ کی یا اس سے کم و بیش کسی طریق سے.یہ تفصیلات اس وقت بیان نہیں کی جا سکتیں اور نہ ہی ان کا بیان کرنا مفید ہے.مختلف حالات میں مختلف جگہوں پر کام کرنا ہو گا اور اس میں غلط نہی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا.یہاں کوئی ملازمت کا سوال تو در پیش نہیں کہ بعد میں غلط نہی کا خطرہ ہو.جو شخص زندگی وقف کرتا ہے، اسے اس سے کیا مطلب ہے کہ اسے زیادہ گزارہ ملتا ہے یا کم گزارہ ملتا ہے؟ اس نے تو اپنی جان اللہ تعالیٰ کے سپر د کر دی.اسے اس بات کا کیا ڈر ہو سکتا ہے کہ میرے ساتھ کیسا سلوک ہوگا ؟ اور مجھے میرے کام کا کیا بدلہ ملے گا؟ اس کے کام کا بدلہ تو اسے اللہ تعالیٰ ہی دے گا اور وہ بھی اسی نیت سے زندگی پیش کرتا ہے کہ میرے کام کا بدلہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، مجھے بندوں سے بدلہ کی امید نہیں.زیادہ گزارے یا کم گزارے کا خیال تو ملازمین کو ہوتا ہے، واقف زندگی کے لئے اس قسم کی کوئی شرط نہیں ہوسکتی.اگر ہمارے پاس زیادہ ہو گا تو ہم واقفین کو زیادہ دے دیں گے.اگر کم ہو گا تو کم دیں گے اور اگر بالکل نہ ہو گا تو ہم ان کو کچھ بھی نہیں دیں گے.اور ان سے کہہ دیں گے کہ مانگ کر کھاؤ اور سلسلہ کا کام کرو.اور یہ کوئی نئی بات نہیں، پہلے انبیا کے زمانہ میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے.گوتم بدھ کے زمانہ میں یہی طریق رائج تھا.گوتم بدھ نے دیکھا کہ چندوں اور تنخواہوں سے تو کام نہیں بنتا.ان کے پاس جو 868
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 30 مئی 1947ء شاگرد آتے تھے ، آپ انہیں ایک جھوٹی دے دیتے کہ مانگ کر کھاؤ اور بدھ مذہب کی تبلیغ کرو.نہ گزارے کی شرط نہ تنخواہ کی شرط مانگو اور تبلیغ کرو.ان کی زندگی میں ایک عجیب مثال پائی جاتی ہے.گوتم بدھ کے گھر جوانی میں ایک لڑکا پیدا ہوا.چونکہ وہ دنیاوی کاموں سے بہت دور رہتے تھے.والدین نے ان کی بچپن میں ہی شادی کر دی تھی.لڑکے کی پیدائش کے بعد انہوں نے گھر بار چھوڑ دیا اور عبادات کرنے کے لئے جنگلوں کے طرف چلے گئے اور جنگلوں میں جا کر ہی آپ کو الہام ہونا شروع ہوا.گوتم بدھ کا باپ اس علاقے کا بادشاہ تھا اور ان کی حکومت کا یہ قانون تھا کہ حکومت باپ کے بعد بیٹے کوملتی تھی ، پوتے کو نہیں.اب گوتم بدھ تو بادشاہ بننے سے انکار کر چکے تھے اور پوتا تخت کا وارث نہیں ہو سکتا تھا.گو تم بدھ کے باپ نے یہ تجویز کی کہ اپنے پوتے کو فقیروں کا لباس پہنایا اور اس سے کہا کہ تم جا کر گوتم بدھ سے راج کی بھیک مانگو.اس کا مطلب یہ تھا کہ گوتم بدھ اسے بادشاہت پر قابض ہونے کی اجازت دے دے گا تو میں اپنے پوتے کو تخت پر بٹھا دوں گا.چنانچہ گوتم بدھ کا بیٹا ان کے پاس گیا اور کہا میں آپ سے راج کی بھیک مانگنے آیا ہوں.گوتم بدھ کے نزدیک تو اصل راج وہ تھا، جو اللہ تعالیٰ کی درگاہ سے حاصل ہوتا ہے.انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا تم سچے دل سے بھیک مانگنے آئے ہو؟ اس نے کہا ہاں سچے دل سے بھیک مانگنے آیا ہوں.انہوں نے نائی کو بلوایا اور اس کے سر کے بال منڈوا کر اسے فقیری کا خرقہ پہنا دیا اور کہا یہی راجہ ہمارے پاس ہے جاؤ اور اس راج کی تبلیغ کرو.گوتم بدھ کے باپ کو جب معلوم ہوا تو اسے غش پر غش آنے لگے.کیونکہ اس کے معنی یہ تھے کہ حکومت اس کے خاندان میں سے ہمیشہ کے لئے نکل گئی.آخر باپ نے گوتم بدھ کو بلایا اور انہیں کہا کہ خاندان کو تو تم نے تباہ کر دیا لیکن کیا تم سمجھتے ہو کہ تم نے انصاف کیا ہے کہ ایک نابالغ لڑکے کو اس کے متکفل کی اجازت کے بغیر تم نے اس کے حق سے محروم کر دیا؟ آئندہ کے لئے عہد کرو کہ تم کسی نابالغ کو بھکشو نہیں بناؤ گے.چنانچہ گوتم بدھ نے یہ عہد کیا اور آئندہ کے لئے حکم دے دیا کہ کسی نابالغ کو بھکشو نہ بنایا جائے.چنانچہ اب بدھوں میں نابالغ کو بھکشو نہیں بناتے.اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے کہا.جھولی لو اور مختلف ممالک میں پھیل جاؤ اور صرف آج کی روٹی کا فکر کرو.کل کی روٹی تمہیں کل مل جائے گی.اسی طرح رسول کریم صلی علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ تم جہاں جاؤ ، اس علاقے کے لوگوں پر تین دن تک تمہاری روٹی کا حق ہے.اس لئے دین کی تبلیغ کرتے ہوئے روٹی کے لئے پریشان نہ ہو.جہاں جاؤ، اس علاقہ کے لوگوں سے لے لو.پس اشاعت مذہب کے لئے صحیح طریق یہی ہے کہ بغیر کسی معاوضہ کے دینی کام کئے جائیں.مگر اس زمانہ کی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے ہم قدم بقدم چل رہے ہیں.پہلے ہمارے پاس کوئی مبلغ نہ تھا، 869
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 30 مئی 1947ء تحریک جدید - ایک البی تحریک.....جلد دوم پھر ہم نے تنخواہ دار مبلغ رکھے اور پھر وقف زندگی کے مطالبہ کے ماتحت تنخواہ کا سوال ہی اڑا دیا.اب آہستہ آہستہ وہ زمانہ بھی آجائے گا کہ ہماری جماعت کا ایک حصہ جھولیاں ڈال کر تبلیغ اسلام کے لئے نکل جائے گا اور خدا کے نام پر اگر کسی نے کچھ کھانے کو دیا تو کھالیں گے اور خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کا نام اکناف عالم میں پھیلاتے چلے جائیں گے.ہر گروہ اپنے اپنے وقت پر آگے آئے گا اور دین کا کام کرے گا.اسی سلسلہ میں اب زمینداروں کے لئے موقعہ پیدا ہو گیا ہے کہ وہ آگے آئیں.اللہ تعالیٰ نے ان کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے رستہ کھول دیا ہے.ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے، جو زمیندارہ کام جانتے ہوں اور سخت سے سخت کام کرنے کے لئے تیار ہوں.ممکن ہے ہمیں ان کو ایسی جگہ بھیجنا پڑے، جہاں گھنے جنگل ہوں اور ان جنگلات میں درندے وغیرہ ہوں.اور ممکن ہے کہ سندھ کی زمینوں پر بھی ان سے کام لیا جائے.کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ سلسلہ کی زمینوں پر جہاں باقی کارندے واقف زندگی ہوں، وہاں مزارع بھی واقفین ہی ہوں.یعنی ہل چلانے والا بھی واقف زندگی ہو اور ہل چلوانے والا بھی واقف زندگی ہو اور نگرانی کرنے والا بھی واقف زندگی ہو.اس کے علاوہ بھی ہمیں بعض جگہ فوری طور پر زمینداروں کی ضرورت ہے، جو ہر تکلیف برداشت کرنے کو تیار ہوں اور ایسا کام سوائے واقفین کے اور کوئی نہیں کر سکتا.ہماری جماعت کے لوگوں میں ایڈونچرس روح ہونی چاہئے.یعنی ہمت اور خطرہ والے کاموں کی خواہش ہونی چاہیے.کیونکہ جس قوم میں مافوق العادت کام کرنے کی روح پیدا نہیں ہوتی ، وہ ترقی نہیں کر سکتی.انگریزوں پر دوسری اقوام حسد کرتی ہیں کہ انہوں نے ہندوستان اور افریقہ کے ممالک پر قبضہ کر رکھا ہے.لیکن آج سے تین چار سو سال قبل جبکہ نہ ریل تھی اور نہ ڈاک و تار کا کوئی انتظام تھا.انگریز نوجوان اپنے گھروں سے نکلے اور انہوں نے غیر ملکوں میں جاکر ان کو آباد کیا.وہاں کے باشندوں کو تہذیب سکھائی.جن لوگوں نے یہ تکلیف اٹھائی، وہی اس قابل تھے کہ ان علاقوں پر حکومت کرتے لیکن وہ لوگ جو اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھے رہے ، ان کو دوسری اقوام پر حکومت کرنے کا کیا حق ہے؟ ہماری جماعت بھی اگر ترقی کرنا چاہتی ہے تو اسے مافوق العادت کاموں کی طرف توجہ کرنی چاہیے، اس کے افراد میں سفروں کا شوق ہونا چاہیے، غیر ممالک میں جانے کا شوق ہونا چاہیے اور نئے نئے علوم اور نئے نئے پیشے سیکھنے کا شوق ہونا چاہیے.میں جب فلسطین گیا تھا، اس وقت وہاں یہودیوں کی آبادی دس فی صدی تھی اور عیسائیوں کی آبادی بھی دس فی صدی تھی اور مسلمانوں کی آبادی اسی فی صدی تھی.لیکن اسٹیشنوں پر میں نے دیکھا کہ سفر کرنے والوں میں اسی فی صدی یہودی تھے اور بیس فی صدی دوسری اقوام.اس وقت ہی میں نے کہہ دیا تھا کہ اس قوم میں ترقی کی امنگ شدت سے پیدا ہو رہی ہے اور اس 870
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرمود 300 مئی 1947ء کے پھیلنے کے آثار نمایاں نظر آرہے ہیں.کہتے ہیں ”ہونہار بروا کے چکنے چکنے پاتے.ہماری جماعت بھی تبھی ترقی کر سکتی ہے، جب اس میں مافوق العادت کام کرنے کی روح پیدا ہو جائے.ہم جماعت کے باہر نکلنے کے لئے مختلف ذرائع پیدا کر رہے ہیں.اور ہندوستان میں اور ہندوستان سے باہر بعض جگہ زمینوں کا انتظام کر رہے ہیں.وہاں زمیندار پیشہ لوگوں کو بسایا جائے گا.بعض زمینیں ہم نے قیمتا خریدی ہیں اور بعض ہمیں مفت ملی ہیں.لیکن یہ کام تبھی چل سکتے ہیں، جب جماعت کے زمیندار ہمارے ساتھ پورے طور پر تعاون کریں اور اپنی زندگیاں وقف کر کے سلسلہ کی مضبوطی کا موجب بنیں.جو شخص اپنی زندگی پیش کر دیتا ہے، وہ محنت کے ساتھ کام کرتا ہے اور وہ خود بھی کامیاب ہوتا اور جماعت کی کامیابی میں بھی ممد ہوتا ہے.وہ پڑھے تھے، اس لئے وہ مبلغین بن گئے.یہ ان پڑھ ہیں تو زمیندارہ کے لئے اپنی خدمات پیش کر دیں.اللہ تعالیٰ یہ نہیں دیکھے گا کہ کون پڑھا ہوا تھا اور کون ان پڑھ تھا ؟ بلکہ اللہ تعالیٰ یہ دیکھے گا کہ میری خاطر جان کس نے پیش کی؟ اور جان پیش کرنے کے لحاظ سے پڑھا ہوا اور ان پڑھ دونوں برابر ہیں اور ثواب میں برابر کے شریک ہیں.جو کچھ پڑھے ہوئے کے پاس تھا، اس نے پیش کر دیا اور جو کچھ ان پڑھ کے پاس تھا، اس نے پیش کر دیا.اس لحاظ سے وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دونوں برابر ہیں.پس یہ زمینداروں کی حسرت کے پورا ہونے کا موقعہ ہے.ان کو چاہیے کہ وہ قربانی کر کے پڑھے ہوئے لوگوں کے برابر ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں“.مطبوعہ الفضل 04 جون 1947ء ) 871
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 26 ستمبر 1947ء سمجھ لو کہ آئندہ کے لئے تمہارا مال تمہارا نہیں بلکہ خدا کا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 26 ستمبر 1947ء " پس ہمیں اپنی پوزیشن اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے، روحانی طور پر بھی اور جسمانی طور پر بھی.روحانی طور پر تمہیں سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان ابتلاؤں کے ذریعہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم میں سے ہر شخص مسیح موعود علیہ السلام کے مقام پر کھڑا ہے یا نہیں؟ تم میں سے بعض لوگ ان مصائب کو دیکھ کر کتنا ڈر رہے ہیں؟ مگر کیا تم نے بھی سوچا کہ تمہارے یہ مصائب، ان مصائب کے مقابلہ میں کیا حقیقت رکھتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس سلسلہ کے قیام کے وقت برداشت کئے تھے ؟ جس دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعوی کیا تھا، اس دن جو کیفیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل کی ہوگی ، اگر وہی کیفیت ہم اپنے دل میں پیدا کر لیں اور ہم آپ کے بچے پیرو بن جائیں تو ہمارے دل کے حوصلے بلند ہونے چاہئیں اور ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ جو کام ہمارے آقا نے کیا تھا، وہی کام کرنا ہمارا فرض ہے.وہ اکیلے تھے مگر ہم اب بھی خدا تعالٰی کے فضل سے لاکھوں ہیں.بے شک کچھ حصہ کی جائیدادیں تباہ ہوئی ہیں.یعنی ان لوگوں کی جائیدادیں، جو مشرقی پنجاب میں تھے.مگر ہماری مغربی پنجاب کی جائیدادیں تباہ نہیں ہوئیں.اگر قربانی کی ہم میں کچی روح ہے تو جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں تمہیں سمجھ لینا چاہیے کہ آئندہ کے لئے تمہارا مال تمہارا نہیں بلکہ خدا کا ہے.جو کچھ تم کماؤ گے، وہ سب کچھ خدا کا مال ہوگا.تمہیں اس میں سے صرف روٹی ملے گی.بلکہ ہو سکتا ہے کہ وہ بھی نہ ملے یا جیسے میں نے کہا تھا تمہارا فرض ہے کہ تبلیغ کرو اور بھیک مانگ کر گزارہ کرو.تم پندرہ پندرہ دن تبلیغ کے لئے وقف کرو اور اس رنگ میں وقف کرد کہ سلسلہ سے ایک پیسہ بھی نہ لو.اگر خدا تعالیٰ کے لئے تمہیں کسی وقت بھیک مانگنی پڑے تو تم اس کے لئے تیار رہو.اور تا خدانخواستہ اگر ہماری مغربی پنجاب کی جائیدادیں بھی کسی وقت ابتلا میں آجائیں تو ہم میں سے ہر شخص مبلغ ہو اور اسے عادت ہو کہ وہ بھیک مانگے اور تبلیغ کرے.ہمارے سامنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاء کا نمونہ موجود ہے.اور انبیاء کے متعلق تو تم کہہ سکتے ہو کہ وہ پرانے انبیاء ہیں، ہم 873
اقتباس از خطبه جمعه فرمود 26 ستمبر 1947ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم نے اپنی آنکھوں سے ان کے نمونہ کو نہیں دیکھا.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات تو ہمارے سامنے گزرے ہیں.اور اگر تم نے ان کو نہیں دیکھا تو کم سے کم دیکھنے والوں نے ان واقعات کو دیکھا اور وہ واقعات اتنے قریب ہیں کہ دشمن بھی ان کا انکار نہیں کر سکتا.پھر تمہارے لئے کون سی مشکل ہے؟ نمونہ تمہارے سامنے موجود ہے.تمہارا کام یہ ہے کہ تم اس نمونہ کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال لو.اگر تم حقیقی اور سچے احمدی بن جاؤ تو میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ بارہ مہینے ، انسان کے گنے ہوئے ٹھیک بارہ مہینے نہیں گزریں گے کہ تمہاری طاقت اور شوکت پہلے سے کئی گنا بڑھ جائے گی.انسان کو اپنے اندر صرف ایمان پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.تم اپنے ایمانوں کا جائزہ لو سچائیوں پر قائم ہو جاؤ ، راستی اور صداقت کو اپنا شعار بناؤ، خدا کے ذکر میں مشغول رہو، اس کی معرفت اپنے اندر پیدا کرو.تا کہ خدا تعالیٰ تم کو نظر آ جائے اور اسی دنیا میں وہ تم کو اپنا جلوہ دکھا دے.جب تک خدانظر نہیں آتا، دنیا کی مصیبتیں پہاڑ اور اس کے ابتلا بے کنار اسمندر نظر آتے ہیں.مگر جب خدا انظر آ جاتا ہے تو اس کی نگاہ میں یہ ساری چیزیں بیچ ہو جاتی ہیں.تب ایک ہی چیز اس کے سامنے ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کا قول پورا ہو اور خدا تعالیٰ کے قول کے مقابلہ میں نہ حکومتیں کوئی حقیقت رکھتی ہیں ، نہ بادشاہتیں کوئی حقیقت رکھتی ہیں اور نہ جائیدادیں کوئی حقیقت رکھتی ہیں، وہ ہنستا ہوا جاتا اور اپنی قربانی پیش کر کے خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو جاتا ہے." خلاصہ یہ کہ میں نے تم کو ہوشیار کیا اور بار بار کیا.مگر تم کہتے رہے کہ یہ ایک شاعرانہ مبالغہ ہے، جو کیا جا رہا ہے.حالانکہ مجھے خدا تعالیٰ نے سب کچھ بتا دیا تھا.اور خدا تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ کسی نبی کی جماعت ان قربانیوں کے بغیر ترقی نہیں کیا کرتی تم کو بھی خون سے غسل دے دیا گیا ہے اور یہی غسل ہوتا ہے، جو آخری غسل ہوتا ہے.اگر اب بھی تم سنبھل جاؤ اور اپنے اندر اصلاح پیدا کر لوتو پھر خدا نئے سرے سے دنیا میں احمدیت کو مضبوطی سے قائم کر دے گا.پس تم میں فوری طور پر ایک نئی تبدیلی پیدا ہونی چاہیے.مگر افسوس ہے کہ ابھی تم میں وہ تبدیلی پیدا نہیں ہوئی تم میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں، جو باوجو دسب کچھ دیکھنے کے یوں سمجھتے ہیں کہ کوئی واقعہ ہی نہیں ہوا.اور گویا یہ ایک خواب تھا، جو انہوں نے دیکھا.حالانکہ جو واقعات ظاہر ہوئے ہیں، وہ بتارہے ہیں کہ اب نہ تمہیں مال کی پروا ہونی چاہیے ، نہ جان کی پروا ہونی چاہیے، نہ کسی اور چیز کی پروا ہونی چاہیے.مطبوع افضل 05 اکتوبر 1947ء) 874
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم "" اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 اکتوبر 1947ء پس اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو اور تبلیغ پر زور دو خطبه جمعه فرموده 17 اکتوبر 1947ء...زندہ چیز ہمیشہ بڑھتی رہتی ہے اور بے جان چیز اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے اور مردہ چیز گھٹنی شروع ہو جاتی ہے.حیوان بڑھتا ہے، درخت بڑھتا ہے، پتھر اور لوہا اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے اور بے جان حیوان اور مردہ حیوان اور مردہ نباتات، یہ چیزیں گھنی شروع ہو جاتی ہیں.جانور کا جسم تحلیل ہونا شروع ہو جاتا ہے اور آخر اس کی ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ رہ جاتا ہے.ایک بڑے سے بڑا پہلوان مرنے کے بعد اور تحلیل کا زمانہ آجانے کے بعد صرف ایک مشت خاک رہ جاتا ہے یا چند سیر ہڈیاں اس کی باقی رہ جاتی ہیں.بڑے بڑے درختوں کے پتے سوکھ کر چھوٹے ہو جاتے ہیں.اتنے چھوٹے کہ وہ پتے ، جو سارے درخت کو ڈھانچے ہوئے ہوتے ہیں، سوکھ کر ایک چھوٹے سے بکس میں آجاتے ہیں.غرض زندگی کی علامت ہے، بڑھنا.بے جان ہونے کی علامت ہے، اپنی جگہ پر کھڑے ہو جانا اور بے جان سے مراد وہ چیز ہے، جس میں جان پڑی ہی نہیں ہوتی.اور مرنے والی چیز وہ ہے، جس میں پہلے جان ہوتی ہے.غرض ہر وہ چیز جس میں پہلے جان نہیں ہوتی اور اس لحاظ سے وہ بے جان ہوتی ہے، اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے.اور وہ چیز جس میں پہلے جان ہوتی ہے اور پھر نہیں رہتی، وہ گھلنی شروع ہو جاتی ہے.یہ ایک ایسا قانون ہے، جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی.مگر جس طرح لوگوں کو موت یاد نہیں رہتی ، اسی طرح انہیں یہ قانون بھی بھولا رہتا ہے.ہر قدم پر کمزور افراد اور کمزور قو تیں ٹھہرنا چاہتی ہیں، وہ ذرا سا چل کر سانس لینا چاہتی ہیں اور خواہش رکھتی ہیں کہ انہیں آرام کرنے اور سستانے کا موقع مل جائے.حالانکہ اس دنیا میں سانس لینے کا کوئی موقعہ ہی نہیں.جوٹھہرے گا، وہ گرے گا.جو شخص زندگی کی حرکات کو روکے گا ، وہ مرے گا.اور جو مرے گا ، وہ سڑے گا.پس ہماری جماعت کو یہ نکتہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ انفرادی اعمال ہوں یا قومی اعمال ، ان میں ہمیشہ آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے.یہاں تک کہ ہر انسان کا عمل اس کے پہلے عمل سے بہتر ہو.اگر کسی شخص کی نماز میں کمزوری پائی جاتی ہے تو اسے دوسرے دن اپنی نماز کو بہتر بنانا چاہیے اور تیسرے دن 875
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 اکتوبر 1947ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم اس کو اور زیادہ بہتر بنانا چاہیے.اگر کسی کو دین کی خدمت کا موقعہ ملے تو اسے کوشش کرنی چاہیے کہ دوسرے دن اسے اور زیادہ خدمت کا موقع ملے اور تیسرے دن اور زیادہ خدمت کرے.اگر کسی شخص کو بنی نوع انسان کی خدمت کا موقع ملا ہے تو اسے کوشش کرنی چاہیے کہ دوسرے دن اور زیادہ خدمت کرے.اور تیسرے دن پہلے دونوں سے بھی زیادہ بنی نوع انسان کی خدمت کرے.اگر وہ اس حرکت کو قائم نہیں رکھے گا تو مرے گا اور جو مرے گا، وہ سڑے گا.ہو نہیں سکتا کہ وہ اپنی حالت کو قائم رکھ سکے.اسی طرح قومی زندگی اور اخلاقی زندگی کا حال ہے".وو ہی حال جماعتی نظام کا بھی ہوتا ہے.اگر کوئی جماعت اپنے نظام میں زیادہ سے زیادہ نہیں بڑھتی تو آخر اس پر جمود طاری ہو جاتا ہے اور اس کے بعد اس پر موت وارد ہو جاتی ہے.اس بڑھنے اور ترقی کرنے کے سلسلہ میں تبلیغ ایک ایسی چیز ہے، جو بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے.وو پس ہماری جماعت کو اپنے اندر تبدیلی پیدا کر کے تبلیغ کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ کرنی چاہیے.اور تبلیغ ایسی ہونی چاہیے، جو اندرونی بھی ہو اور بیرونی بھی ہو تم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ اپنے ہمسایہ کو اچھی نصیحت کرے اور بری باتوں سے روکے.تم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ اگر تمہارا قریبی ہمسایہ یا تمہارا دور کا ہمسایہ اسلام میں داخل نہیں تو اس کے سامنے اسلام پیش کرے.پھر صرف ہمسایوں پر ہی بس نہیں، اپنے تمام دوستوں اور عزیزوں اور رشتہ داروں تک اسلام کا پیغام پہنچاؤ.اپنے اہل ملک کو اسلام کی تعلیم سے آگاہ کرو اور کوشش کرو کہ دنیا کے ہر فرد تک تم اسلام کا پیغام پہنچادو." میں نے جماعت کے سامنے یہ تجویز رکھی تھی کہ ہر شخص پندرہ پندرہ دن تبلیغ کے لئے وقف کرے اور میں نے کہا تھا کہ جو لوگ اس فرض کے لئے اپنے آپ کو وقف کریں، وہ بغیر ایک پیسہ لئے اسی طرح تبلیغ کے لئے نکل کھڑے ہوں، جیسے حضرت مسیح نے اپنے حواریوں کو کہا کہ وو نہ سونا اپنے کمروں میں بند رکھنا ، نہ چاندی، نہ پیسے.راستہ کے لئے نہ جھولی لینا ، نہ دو، دوکرتے ، نہ جوتیاں، نہ لاٹھی.کیونکہ مزدور اپنی خوراک کا حقدار ہے.(متی باب 10 آیت 10, 9) در حقیقت اس میں تبلیغ کا صحیح راستہ بتایا گیا ہے.جو شخص تبلیغ میں بھی امارت کو اپنے ساتھ رکھتا ہے، وہ مبلغ نہیں بلکہ ایک ملنے والا خزانہ ہے.مبلغ وہی ہے، جو خالی ہاتھ جائے اور اخوت کے جذبات کے ساتھ جائے.اگر اس کے پاس کوئی پیسہ نہیں ہوگا تو لازماً اسے روٹی کھانے کے لئے دوسروں کے پاس جانا 876
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 اکتوبر 1947ء پڑے گا.اور جب وہ کسی دوسرے شخص کے پاس اس غرض کے لئے جانے پر مجبور ہوگا کہ روٹی کھائے تو لا ز ماہر غریب سے غریب انسان کے پاس وہ ایک بھائی کے طور پر جائے گا اور ایک بھائی کے طور پر اس سے تعلقات رکھے گا.وہ غریب کی دل شکنی نہیں کرے گا، وہ اس سے تعلقات رکھنے پر ناک بھوں نہیں چڑھائے گا.وہ خود بھی خالی ہاتھ ہوگا اور ان لوگوں سے ملنے میں بھی وہ کوئی عار محسوس نہیں کرے گا، جو امارت سے تہی دست ہوں.پس مال کو گھر میں چھوڑ کر تبلیغ کے لئے نکلنا، ایک نہایت ہی اعلیٰ درجہ کا تبلیغی ذریعہ ہے.جب اس کا مال اس کے گھر میں ہوگا اور دوسری طرف وہ پندرہ دن کے لئے تبلیغ کے لئے باہر جائے گا تب اس میں اخوت کے وہ جذبات پیدا ہوں گے، جو امیر اور غریب کے تفاوت کو بالکل دور کر دیتے ہیں.ہر دیکھنے والا ایسے شخص کو دیکھ کر یہی کہے گا کہ یہ ہمارا اپنا بھائی ہے، جو ہمارے ساتھ مل جل کر رہتا ہے، کوئی الگ چیز نہیں.پس میں ایک دفعہ پھر جماعت میں اعلان کرتا ہوں کہ تمام جماعتیں اپنے اپنے افراد سے تبلیغ کے لئے پندرہ پندرہ دن لیں.مگر شرط یہی ہوگی کہ جیسے حضرت مسیح علیہ السلام نے کہا کہ تیری جیب میں کوئی پیسہ نہ ہو.اسی طرح ان کی جیب میں کوئی پیسہ نہ ہو.وہ جس جگہ تبلیغ کے لئے جائیں ، اسی جگہ کے رہنے والوں سے کھانا کھائیں اور انہیں تبلیغ کریں.اور اگر کسی گاؤں یا شہر والے کھانا نہ پوچھیں تو حضرت مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں:....وہ شہر نا پاک ہے.تو دوسرے گاؤں میں چلا جا اور اس شہر سے باہر نکلتے وقت اپنے پاؤں کی گرد تک جھاڑ دئے“.و, (متی باب 10 آیت 14) یہ ایک نہایت ہی سچا ذریعہ تبلیغ ہے.اور یہی طریق ہے، جس پر عمل کرنے کی وجہ سے آج بھی عیسائیوں میں تبلیغ کا جو جوش پایا جاتا ہے، وہ مسلمانوں میں نہیں.حالانکہ وہ جھوٹے ہیں اور مسلمان بچے.یہ تفاوت اس لئے ہے کہ مسلمانوں نے كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ کے حکم کو بھلا دیا لیکن عیسائیوں نے اسے یاد رکھا اور منظم طریق پر تبلیغ کی کوشش کرتے رہے.بدھوں کا یہی حال تھا.سارے ہندوستان میں انہوں نے اپنا جال پھیلا رکھا تھا.پھر ہندؤوں نے انہیں اس طرح مارنا شروع کر دیا، جس طرح آج مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کو مارا گیا ہے.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ 877
اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 اکتوبر 1947ء تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد دوم ہندوستان سے چین اور جاپان چلے گئے اور ان ممالک میں بدھ مذہب پھیل گیا.اگر عیسائی مذہب دنیا میں پھیل سکتا ہے تو اسلام، جو بہت سی خوبیاں اپنے اندر رکھتا ہے اور جو تمام مذاہب سے زیادہ مکمل اور حسین ہے، وہ کیوں پھیل نہیں سکتا؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کی اشاعت کے لئے صحیح ذرائع سے کام لیا جائے.اگر تم اسلام کی اشاعت صرف کالجوں اور مدرسوں کے ذریعہ کرو گے تو یہ ایک مذہب نہیں بلکہ سوسائٹی ہوگی.اور سوسائٹی میں صرف چند آدمی داخل ہوا کرتے ہیں ، ساری دنیا داخل نہیں ہوا کرتی.لیکن اگر تم اپنی تبلیغ کو مذہبی رنگ دے دو تو پھر جوق در جوق تمام دنیا کے لوگ اسلام میں داخل ہونے لگ جائیں گے.پس اپنی تبلیغ کو مذہبی رنگ دو اور اسلام کی اشاعت کے لئے فقیرانہ رنگ اختیار کرو.پھر دیکھو تمہاری تبلیغ کس سرعت اور تیزی کے ساتھ دنیا میں پھیلتی چلی جاتی ہے؟“ ( مطبوعه الفضل 30اکتوبر 1947 ء) 878
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 28 نومبر 1947ء تحریک جدید کے مقاصد کو سامنے نہ رکھنا، اپنی موت کا ثبوت بہم پہنچانا ہے "" خطبہ جمعہ فرمودہ 28 نومبر 1947ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.دو چار دنوں میں نومبر کا مہینہ ختم ہونے والا ہے اور نومبر کے آخر میں تیرہ سال سے میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کیا کرتا ہوں.اب چودھویں سال کی تحریک کے اعلان کا وقت آگیا ہے اور جس طرح چودھویں رات کا چاند ایک مکمل چاند ہوا کرتا ہے، اسی طرح چودھویں سال کی تحریک بھی ایک ایسے موقعہ پر ہونے لگی ہے جبکہ تحریک جدید کا مقصد اپنے انتہا کو پہنچ رہا ہے.تحریک جدید کی غرض یہ تھی کہ جماعت میں اسلامی شعار اور سادہ زندگی کی عادت پیدا کی جائے اور تبلیغ احمدیت اور تبلیغ اسلام کے کام کو زیادہ سے زیادہ وسیع کرنے کی کوشش کی جائے.جماعت کے ایک طبقہ نے اس کام میں حصہ لیا اور بڑے زور سے حصہ لیا ایک اور حصہ نے اس کام میں سستی اور غفلت دکھائی اور بعد میں اپنی سستی اور غفلت کا ازالہ کرتے ہوئے ، وہ اس تحریک میں شامل ہو گیا.اور کچھ حصہ ایسا بھی تھا، جو نہ شروع میں شامل ہوا ، نہ درمیان میں شامل ہوا اور نہ آج تک اسے شامل ہونے کی توفیق ملی ہے.گیارھویں سال سے تحریک جدید کے دفتر دوم کا بھی اعلان کر دیا گیا تھا.تا کہ وہ نوجوان جو پہلے بچے تھے یا وہ بے کار، جن کی پہلے کوئی کمائیاں نہ تھیں، اب بڑے ہو کر با کار ہو کر اپنے اس فرض کو ادا کر سکیں ، جواللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر عائد ہوتا ہے.ہماری جماعت ایک جماعت ہے، فرد نہیں.فرد مرا کرتے ہیں، جماعتیں نہیں مرا کر تیں.فرد کا کام ایک وقت پر جا کر ختم ہو جاتا ہے مگر جماعتوں کا کام کسی وقت ختم نہیں ہوتا.سوائے اس کے کہ وہ آپ ہی ختم ہو جانا چاہتی ہوں.پس تحریک جدید کسی ایک سال کے لئے نہیں، دو سال کے لئے نہیں، دس سال کے لئے نہیں، نہیں سال کے لئے نہیں ، سو سال کے لئے نہیں، ہزار سال کے لئے نہیں.تحریک جدید اس وقت تک کے لئے ہے، جب تک جماعت کی رگوں میں زندگی کا خون دوڑتا ہے.جب تک جماعت احمد کرنا احمد یہ احمد یہ دنیا میں کوئی مفید کام کرنا چاہتی ہے.اور جب تک جماعت احمد یہ اپنے فرائض اور اپنے مقاصد کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھنا چاہتی ہے.879
خطبہ جمعہ فرمودہ 28 نومبر 1947ء تحریک جدید - ایک ابھی تحریک جلد دوم تحریک جدید در حقیقت نام ہے، اس جدو جہد کا جو ہر احمدی کو احمدیت اور اسلام کی اشاعت کے لئے کرنی چاہیے.تحریک جدید نام ہے، اس جدو جہد کا جو اسلام اور احمدیت کے احیاء کے لئے ہر احمدی پر واجب ہے.اور تحریک جدید نام ہے، اس کوشش اور سعی کا جو اسلامی شعار اور اسلامی اصول کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے ہماری جماعت کے ذمہ لگائی گئی ہے.روپیہ کا حصہ صرف ایک ظاہری نشانی ہے کیونکہ اس زمانہ میں کچھ نہ کچھ دولت خرچ کئے بغیر کام نہیں ہو سکتا.ورنہ در حقیقت تحریک جدید نام ہے، اس عملی کوشش کا جو ہر احمدی اپنی اصلاح اور دوسروں کی اصلاح کے لئے کرتا ہے.ہر وہ احمدی، جس کے سامنے تحریک جدید کے مقاصد نہیں رہتے ، درحقیقت وہ اپنی موت کا ثبوت بہم پہنچاتا ہے یا اپنی زندگی کے لئے کوئی کوشش کرنا پسند نہیں کرتا.خدائی سلسلے در حقیقت انسانوں کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ انسان خدائی سلسلوں کے محتاج ہوتے ہیں.خدا کی طرف سے آنے والی روح اسی طرح دنیا میں بکھر جاتی ہے، جس طرح بارش کا پانی جب آسمان سے برستا ہے تو وہ دنیا میں بکھر جاتا ہے.جس طرح اچھا کسان بارش کا پانی جمع کر کے اپنی فصل کے لئے نہایت مفید سامان بہم پہنچاتا ہے، اسی طرح ہوشیار مومن اللہ تعالیٰ کے فیضان کی بارش کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے اور نہ صرف اس دنیا میں بلکہ اگلے جہان میں بھی اس سے فائدہ اٹھاتا ہے.لیکن بے وقوف اور نادان اور جاہل کسان پانی کی پرواہ نہیں کرتا ، وہ ضائع چلا جاتا ہے اور پورا سال وہ چیختا اور چلاتا اور روتا ہے، مگر اس کی آواز نہیں سنی جاتی.کیونکہ وہ آواز خدا تعالیٰ کے قانون کے خلاف ہوتی ہے.پس آج میں چودہویں سال کی تحریک کا اعلان کرتا ہوں.مجھے کہا گیا ہے کہ مشرقی پنجاب کے لٹے ہوئے احمدی، جنہوں نے تحریک جدید میں حصہ لیا تھا، اب کیا کریں.اگر وہ مجھ سے پوچھیں تو میں انہیں یہی کہوں گا کہ مومن خدا تعالیٰ پر بدظنی نہیں کیا کرتا.اگر وہ اپنے ایمان اور اپنے حوصلہ کو ان وعدوں کے مطابق بنائیں گے، جو جماعت احمدیہ سے کیے گئے ہیں تو خدا تعالیٰ بھی ان کے ایمان اور یقین اور تو کل کو ضائع نہیں کرے گا.ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگوں کی حالت آئندہ خراب ہو جائے یا خراب ہی رہے اور سدھر نہ سکے.مگر اس امر کے بھی سامان ہیں کہ اگر وہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں اور اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی تدبیروں اور عقل اور دماغ سے کام لیں تو ان کی آئندہ حالت اس سے بہت اچھی ہو جائے ، جو مشرقی پنجاب میں تھی.جہاں تک خدا نے مجھے عقل دی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے لئے ترقی کے راستے پہلے سے بہت زیادہ کھلے ہیں.انسان کی عقل ہی ہوتی ہے، جو اسے ترقی کی طرف لے جاتی ہے اور جہالت ہی 880
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد دوم خطبہ جمعہ فرمود : 28 نومبر 1947ء ہے، جو اسے تباہ کرتی ہے.مردہ دل انسان کے ہاتھ اور پاؤں میں بھی مرد نی ہوتی ہے اور وہ اپنی قوتوں سے کام لینے کی بجائے ان کو ضائع کر دیتا ہے.لیکن جس شخص کے اندر زندگی کی روح ہوتی ہے، اس کے ہاتھ اور پاؤں میں بھی زندگی کی علامات نظر آنے لگتی ہیں.جو شخص خدا تعالیٰ پر توکل کرتا ہے، اس کے دماغ میں روشنی پیدا کی جاتی ہے.اور جس کے دماغ میں روشنی پیدا کی جائے ، اسے آپ ہی آپ کامیابی کے راستے نظر آنے لگ جاتے ہیں.در حقیقت انسان اپنی موت آپ مرتا ہے.خدا نے انسان کے لئے زہر نہیں بنایا، تریاق پیدا کیا ہے.ہر انسان جو مرتا ہے، اپنے لئے آپ زہر پیدا کرتا ہے.اگر انسان اللہ تعالیٰ پر سچا تو کل کرے تو اس کی کامیابی کے کئی رستے نکل آتے ہیں.صحابہ نے جب مکہ چھوڑا اور اپنی جائیدادوں کو ترک کیا تو بظاہر وہ اپنے تمام مکانات اور تمام مال و متاع کو اپنے پیچھے چھوڑ گئے تھے.مگر اپنے وقت پر مرنے والے مہاجرین مکہ کی اس زندگی سے کہیں بڑھ کر تھے، جو انہیں مکہ میں حاصل تھی.مکہ کے بڑے بڑے مالداروں میں حضرت عثمان اور حضرت ابوبکر تھے.لیکن جس حالت میں یہ لوگ فوت ہوئے ہیں، جہاں تک مالی حالت کا سوال ہے، ان کی حالت اس سے بہت بڑھ کر تھی ، جس حالت میں وہ مکہ سے نکلے تھے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب حضرت عثمان فوت ہونے لگے تو ان کے پاس روپیہ نہیں تھا.مگر روپیہ کا فقدان اس لئے نہیں تھا کہ وہ کنگال تھے بلکہ اس لئے تھا جیسا کہ انہوں نے خود بھی بتایا کہ انہوں نے اپنے رشتہ داروں اور دوسرے اسلامی کاموں میں اپنی موت سے پہلے اپنا تمام روپیہ خرچ کر دیا تھا.حضرت عبدالرحمان بن عوف فوت ہوئے تو اڑھائی کروڑ درھم ان کے گھر سے نکلا.اس زمانہ کے لحاظ سے اڑھائی کروڑ درھم کے یہ معنی ہیں کہ وہ اڑھائی ارب درھم کی جائیداد تھی.دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لو کہ ساٹھ کروڑ روپیہ ان کے گھر میں سے نکلا.حالانکہ آجکل جو بڑے بڑے میلینئر (Millionaire) ہیں، ان کے گھروں سے بھی ساٹھ کروڑ روپیہ نہیں نکل سکتا.تو اللہ تعالیٰ کے لئے جو لوگ قربانیاں کرتے ہیں، ان کی قربانیاں کبھی ضائع نہیں جاتیں.اور اگر بفرض محال کسی کی موت اس وقت سے پہلے ہو جاتی ہے، جب خدا کی طرف سے کامیابی کے رستے کھولے جاتے ہیں تو پھر بھی کیا ہے؟ یہ دنیا نہایت محدود چیز ہے.اصل زندگی تو وہ ہے، جو اگلے جہان سے شروع ہوتی ہے.اگر کسی کی انگلی زندگی سدھر جائے اور دنیا میں اسے کچھ نقصان بھی پہنچ جائے تو یہ نقصان کوئی حیثیت نہیں رکھتا.جہاں تک میں دیکھتا ہوں عقل سے کام لینے والے کے لئے بہت رستے کھلے ہیں.محنت سے کام لینے والے کے لئے بہت رستے کھلے ہیں.افسوس یہ ہے کہ بہت سے لوگ محنت نہیں کرتے.بلکہ چاہتے ہیں کہ کچی پکائی روٹی انہیں مل جائے اور 881
خطبہ جمعہ فرموده 28 نومبر 1947ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم من اور سلوی ان کے لئے آسمان سے اترے.حالانکہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی جو سمجھ دی ہے، اس کے لحاظ سے تو ہم سمجھتے ہیں کہ من و سلوی بھی آسمان سے نہیں اترے بلکہ زمین میں سے نکالے گئے تھے.اور آسمان پر گئے ہوئے مسیح کے متعلق بھی ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ آسمان پر نہیں گئے بلکہ زمین میں ہی مدفون ہیں.جب اس قسم کے پہلے غلط خیالات بھی اللہ تعالیٰ نے تمہارے ذریعہ سے دور کر دیئے ہیں تو اب تم اسی قسم کے اور غلط خیالات کس طرح اپنے دلوں میں رکھ سکتے ہو؟ پس اگر وہ لوگ مجھ سے پوچھیں تو میں انہیں تو یہی کہوں گا کہ وہ اپنے وعدوں میں کمی نہ کریں بلکہ خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے ، اپنے اخلاص اور قربانی کی روح کا مظاہرہ کریں.اگر خدا تعالیٰ انہیں تو فیق دے تو وہ اپنے وعدوں کو دوران سال میں پورا کر دیں اور اگر ادا کرنے کی توفیق نہ ملے تو اس رقم کو قرض تصور کر کے اگلے سال کے چندہ میں بڑھا دیں.پھر اگلے سال ادائیگی کی کوشش کریں اور اگر اس سال بھی ادا کرنے کی انہیں توفیق نہ ملے تو دونوں سالوں کی رقم اپنے اوپر قرض تصور کرتے ہوئے ، اس سے اگلے سال میں بڑھا دیں.یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے انہیں تمام چندہ ادا کرنے کی توفیق مل جائے.اور اگر باوجود ان کی نیک نیتی اور اخلاص اور دیانتدارانہ کوششوں کے خدا تعالیٰ کی طرف سے انہیں چندہ ادا کرنے کی توفیق نہیں ملتی اور وہ اسی حالت میں مرجاتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ ویسے ہی سمجھے جائیں گے، جیسے وہ لوگ جنہوں نے اپنی زندگی میں تمام چندہ ادا کر دیا.ایک شخص اگر دس روپے کا وعدہ کرتا ہے مگر باوجود پوری کوشش اور جدوجہد کے وہ دس روپے ادا نہیں کر سکتا تو اگر یہی کوشش کرتے کرتے وہ مر جائے گا تو گو اس نے دس روپے نہیں ادا کئے ہوں گے مگر خدا تعالیٰ کے حضور یہی لکھا جائے گا کہ اس نے دس روپے ادا کر دیئے ہیں یا ایک اور شخص دس ہزار روپیہ کا وعدہ کرتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اس کے حالات ایسے ہیں کہ اگر وہ دیانتدارانہ رنگ میں کوشش کرے گا تو یہ رقم ادا کر سکے گا.مگر کچھ ایسی روکیں پیدا ہو جاتی ہیں کہ وہ یہ رقم ادا نہیں کر سکتا تو اگر ایسی حالت میں وہ مر جاتا ہے تو چونکہ اس نے دس ہزار روپیہ کی ادائیگی کے لئے پوری کوشش کی ہوگی اور آخر وقت تک اس کی یہی تمنا ہوگی کہ میں یہ رقم جلد سے جلد ادا کر دوں.اس لئے باوجود اس کے کہ اس نے دس ہزار میں سے ایک روپیہ بھی ادا نہیں کیا ہوگا، خدا تعالیٰ کے حضور یہی سمجھا جائے گا کہ اس نے دس ہزار روپیہ دے دیا ہے.پس تم اگر اپنے وعدوں کو قائم رکھو اور ایسی حالت میں مرجاؤ تو اللہ تعالیٰ کے حضور تمہیں وہی ثواب ملے گا جو پورا چندہ ادا کرنے والوں کو ملے گا.اور یہ کتنے بڑے فائدہ کی بات ہے؟ اگر تمہیں توفیق مل جاتی ہے تو تم چندہ ادا کر کے ثواب حاصل کر سکتے ہو اور 882
خطبہ جمعہ فرمودہ 28 نومبر 1947ء یک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اگر تمہیں تو فیق نہیں ملتی مگر ادائیگی کے لئے تم اپنی کوششیں جاری رکھتے ہو اور اسی حالت میں ایک دن وفات پا جاتے ہو تو با وجود چندہ ادا نہ کرنے کے تمہیں وہی ثواب مل جائے گا ، جو دس ہزار روپیہ دینے والے کو ملے گا.اگر تم دس روپیہ چندہ لکھواتے اور تمہیں اس کی ادائیگی کی توفیق نہ ملتی تب بھی تم نے چندہ ادا نہیں کرنا تھا اور اگر تم دس ہزار روپیہ لکھواتے اور تمہیں اس کی ادائیگی کی توفیق نہ ملتی تب بھی تم نے چندہ ادا نہیں کرنا تھا.مگر چونکہ تم ارادہ رکھتے تھے کہ تم دس روپیہ یا دس ہزار روپیہ سلسلہ کو ادا کرو، اس لئے تمہارے مرجانے کی صورت میں تمہارا مخلصانہ ارادہ ہی تمہارے عمل کا قائمقام بن جائے گا اور تمہیں اسی صف میں لا کر کھڑا کر دے گا، جس صف میں چندہ دینے والے کھڑے ہوں گے.پس تصوف کے لحاظ سے میرا مشورہ انہیں یہی ہے کہ وہ اپنے وعدوں میں کمی نہ کریں بلکہ خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے ، اپنے پہلے حالات کے مطابق ہی چندہ لکھوائیں.مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ مغربی پنجاب کے رہنے والوں میں سے بھی اگر کوئی شخص صرف دس روپے دینے کی طاقت رکھتا ہے تو وہ دس ہزار روپے چندہ لکھوا دے.یہ تو دھوکا اور فریب ہوگا.اور ایسا شخص ثواب کی بجائے خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد ہوگا.میں جو کچھ کہتا ہوں، یہ ہے کہ وہ مشرقی پنجاب کا دوست، جسے اللہ تعالیٰ نے پہلے اس بات کی توفیق عطا فرمائی تھی کہ وہ زیادہ چندہ دے مگر اب اس کی جائیداد کھوئی گئی ہے تو چونکہ کھوئی ہوئی چیز کے ملنے کا بہت امکان ہوتا ہے، اس لئے وہ اپنی کھوئی ہوئی طاقت کے مطابق وعدہ کر دے.پھر اگر وہ محنت اور کوشش اور عقل سے کام لے گا تو اللہ تعالیٰ اسے اس وعدے کو پورا کرنے کی ضرور توفیق عطا فر مادے گا اور چونکہ اس نے اپنے وعدہ میں اضافہ بناوٹ سے نہیں کیا ہوگا بلکہ اس بنا پر وعدہ کیا ہوگا ، جس بنا پر وہ ہمیشہ سے وعدہ کرتا چلا آیا ہے، اس لئے اگر وہ اسی حالت میں مر جائے گا تو خدا تعالیٰ اس کے پرانے فعل اور پرانی کوشش کی وجہ سے اس کے چندہ نہ ادا کرنے کے با وجود بشر طیکہ اس نے اپنی طرف سے ادائیگی کے لئے پوری کوشش اور جدوجہد کی ہو، اسے اتنا ہی ثواب دے گا، جتنا ثواب اسے ادا کرنے کی وجہ سے ملنا تھا.مغربی پنجاب کے رہنے والے لوگ یا ان علاقوں کے رہنے والے افراد، جن پر وہ تباہیاں نہیں آئیں ، جو مشرقی پنجاب میں رہنے والوں پر آئی ہیں، ان سے میں کہتا ہوں کہ وہ اپنے وعدوں کو حسب سابق پہلے سالوں سے بڑھانے کی کوشش کریں اور نئے سے نئے افراد کو تحریک جدید کا ممبر بنائیں.اس وقت بعض کاموں کی وجہ سے سات لاکھ روپیہ کا قرض تحریک جدید پر ہے.جو در حقیقت جماعتی قرضہ ہے.بعض بوجھ تو ایسے ہیں، جو ہماری اپنی غلطیوں کا نتیجہ ہیں.یعنی بعض کو ششیں تحریک جدید 883
خطبہ جمعہ فرمودہ 28 نومبر 1947ء تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد دوم کا مال بڑھانے کے لئے کی گئیں مگر وہ الٹ ثابت ہوئیں اور روپیہ ضائع ہو گیا.اور بعض کوششیں اس لئے کامیاب نہیں ہوسکیں کہ ہمیں اچھے کارکن میسر نہیں آرہے.مثلاً تحریک جدید کے لئے دس ہزا را یکڑ زمین خریدی گئی ہے اور یہ نہری زمین ہے.اگر اس کی صحیح قیمت ڈالی جائے تو اس وقت کی قیمتوں کے لحاظ سے یہ زمین تمیں لاکھ روپے کی ہے.بلکہ اگر ہمیں وہ قیمت مل جائے ، جو اس وقت پنجاب میں زمینوں کی ہے.بلکہ اس سے آدھی بھی مل جائے تو ایک کروڑ کی جائیداد ہے.مگر ہمیں سمجھدار کارکن نہیں مل رہے اور اس وجہ سے آمد بہت کم ہوتی ہے.اتنی کم کہ جور قوم پہلے ادا کرنی ضروری ہیں ، وہی بمشکل ادا ہوتی ہیں.اگر صحیح طور پر کام کرنے والے مل جاتے تو اس زمانہ کی قیمتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تین لاکھ روپیہ سالانہ کی آمد ہوسکتی تھی.بلکہ عام حالات میں بھی ایک لاکھ روپیہ کی آمد بالکل یقینی ہے.مگر ابھی تک اس زمین کی وجہ سے ہمیں کوئی آمدن نہیں ہو رہی.بلکہ اتنی بھی نہیں ہو رہی کہ ہم اسے آمدن کہہ سکیں.صرف اتنارو پہیہ آتا ہے، جس سے ہم پرانے قرضے اور کچھ نئی قسطیں ادا کر سکتے ہیں.اتنی رقم نہیں آتی کہ ہم اسے خزانہ میں جمع کر سکیں.میں سمجھتا ہوں کہ اچھے کارکنوں کی صورت میں اس آمد میں بہت کچھ اضافہ ہو سکتا ہے.مگر مشکل یہی ہے کہ تجربہ کار اور محنتی کارکن، جو آمد بڑھائیں ، وہ ہمیں ابھی تک میسر نہیں آئے.سندھ اور پنجاب کے حالات بھی مختلف ہیں.سندھ میں مزارع زیادہ ہیں اور مالک کم ، اس وجہ سے مزارع محنت نہیں کرتے اور پیداوار اتنی نہیں ہوتی جتنی ہونی چاہئے.اور ان زمینوں سے اس کا 1/5 بچت بھی نہیں ہوتی جتنی پنجاب میں ہوتی.ہے.اس مہنگے زمانہ میں بھی وہاں اچھا مربع زمین ساڑھے تین سو، چار سو روپے میں مل جاتا.جبکہ یہاں اچھا مربع زمین دو اڑھائی ہزار روپیہ میں ملتا ہے.گویا یہاں کی نسبت وہاں کی آمد چھ ھ گنا کم ہے.مگر بہر حال وہ ایک جائیداد ہے اور کسی وقت اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے.لیکن اس وقت سلسلہ کا بار اٹھانے میں وہ کوئی مرد نہیں دے رہی.اس کے علاوہ سلسلہ کا مال بڑھانے کے لئے بعض اور کوششیں بھی کی گئی ہیں مگر ابھی تک ان کوششوں میں پوری کامیابی نہیں ہوئی.بہر حال اس وقت تبلیغ کا کام اور قرضہ اتارنے کا کام سلسلہ پر اور سلسلے کے مخلص افراد پر ہی ہے.گزشتہ سال جو تحریک کی گئی تھی ، اس میں سے بھی ڈیڑھ لاکھ روپیہ سے زیادہ کی وصولی ابھی باقی ہے اور بوجھ اسی طرح ہے، جس طرح پہلے تھا.گو ہندوستان سے باہر کی جماعتوں پر ہم زور دے رہے ہیں کہ وہ اپنا بوجھ آپ اٹھانے کی کوشش کریں.مگر حقیقت یہ ہے کہ بعض جماعتیں کسی صورت میں بھی اپنا بوجھ خود اٹھا نہیں سکتیں.مگر پھر بھی وہ اس کوشش میں لگی ہوئی ضرور ہیں.اور بعض تو ایسی قربانی کر رہی ہیں، جو ہندوستان کی جماعتوں کے لئے ایک نمونہ ہے.884
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 28 نومبر 1947ء پس ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ اپنے فرائض کو یا در رکھتے ہوئے اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے تحریک جدید کے اس دور میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی کوشش کرے.خصوصا مغربی پنجاب اور ہندوستان اور پاکستان سے باہر کے لوگوں کو اس تحریک میں نمایاں حصہ لینا چاہیے.اس کے علاوہ ان کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ تحریک جدید کے دفتر دوم کے لئے نئے نو جوان پیدا کریں.اور اس طرح اس سلسلہ کو زیادہ سے زیادہ وسیع کرنے کی کوشش کریں.گزشتہ سال تحریک جدید کے دفتر دوم کا وعدہ 95 ہزار کا تھا.مگر جہاں تک تحریک جدید کے اخراجات کا تعلق ہے، وہ چار، پانچ لاکھ تک پہنچ چکا ہے.چار، پانچ لاکھ کے مقابلہ میں 95 ہزار کی آمد بہت ہی تشویش پیدا کرنے والی ہے.آج سے پانچ سال بعد تحریک جدید کا سارا بوجھ دفتر دوم پر ہی ہوگا اور دفتر اول اس وقت تک فارغ ہو چکا ہوگا.اس لئے جب تک ہم دفتر دوم کو بھی چار، پانچ لاکھ تک نہیں پہنچا دیتے ، اس وقت تک ہمیں پوری کامیابی میسر نہیں آسکتی.ہر احمدی کو چاہیے کہ وہ اپنے دوستوں ، اپنے رشتہ داروں، اپنے واقفوں، اپنے ہم علاقہ اور اپنے ہم عصر لوگوں کو تحریک کرے کہ ان میں سے جولوگ ، اس وقت تک تحریک جدید میں حصہ نہیں لے سکے، وہ دفتر دوم میں شامل ہونے کی کوشش کریں.اور جو پہلے سے دفتر اول یا دفتر دوم میں شامل ہیں، وہ زیادہ سے زیادہ خود بھی وعدہ کریں اور دوسروں کو بھی نمایاں اضافوں کے ساتھ وعدہ کرنے کی تحریک کریں.خصوصیت سے دفتر دوم کو مضبوط کرنے کی زیادہ ضرورت ہے.جولوگ دفتر دوم میں شامل ہیں، ان کا فرض ہے کہ وہ ایسا اچھا نمونہ دکھا ئیں ، جو دفتر سوم والوں کے لئے قابل رشک ہو.اور دفتر سوم والوں کا فرض ہے کہ وہ ایسا اچھا نمونہ دکھا ئیں ، جو دفتر چہارم والوں کے لئے قابل رشک ہو.اور دفتر چہارم والوں کا فرض ہے کہ وہ ایسا اچھا نمونہ دکھا ئیں ، جو دفتر پنجم والوں کے لئے قابل رشک ہو اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے.یہاں تک کہ قیامت تک یہ سلسلہ چلتا چلا جائے اور اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے ایک مضبوط بنیاد ہمارے ہاتھوں سے قائم ہو جائے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر دفتر میں حصہ لینے والے لوگ خدا تعالیٰ کے حضور ثواب کے مستحق ہوں گے.مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ وہ لوگ جنہوں نے دفتر اول میں حصہ لیا ہے، وہ خدا تعالیٰ کے حضور بعد میں شامل ہونے والے لوگوں کے ثواب میں بھی شریک ہوں گے.کیونکہ دفتر اول میں شامل ہونے والوں کا نمونہ دفتر دوم میں شامل ہونے والوں کے لئے تحریک کا موجب بنا اور دفتر دوم میں شامل ہونے والوں کا نمونہ دفتر سوم میں شامل ہونے والوں کے لئے تحریک کا موجب ہو گا.اور چونکہ ہر دفتر اگلے دفتر کے لئے اور باص اور تحریک کا موجب ہوتا ہے، اس لئے ہر دفتر میں حصہ لینے والا نہ صرف اپنے عمل کا اللہ تعالیٰ سے ثواب 885
خطبہ جمعہ فرمودہ 28 نومبر 1947ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم پائے گا بلکہ دوسروں کے لئے نیکی کا نمونہ بن جانے کی وجہ سے ان کے ثواب میں بھی حصہ دار ہوگا.اور چونکہ دفتر اول والوں نے اس تمام تسلسل کی بنیاد رکھی ہے اور دفتر اول پر بھی آئندہ دفاتر کی عمارت کھڑی ہونے والی ہے، اس لئے وہ لوگ ، جنہوں نے اس تحریک کے دفتر اول میں حصہ لیا ہے ، وہ سب سے زیادہ خدا تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے وارث ہوں گے.بہر حال آج میں خدا تعالیٰ کے فضل پر تو کل کرتے ہوئے اور اس کی رحمت اور کرم کی امید رکھتے ہوئے، ایسے حالات میں جو بظاہر خراب معلوم ہوتے ہیں لیکن روحانی طور پر وہ بہترین حالات ہیں، تحریک جدید کے چودھویں سال کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں.دنیا کی تباہی اور بربادی در حقیقت مومنوں کی آسمان پر لکھی ہوئی کامیابی کا ایک الٹا عکس ہوتا ہے.جس طرح خواب میں اگر کسی شخص کو ہنستے دیکھا جائے تو اس سے مراد اس کا رونا ہوتا ہے.اور اگر کسی کو روتا دیکھا جائے تو اس سے مراد اس کا ہنسنا ہوتا ہے.اسی طرح خدائی جماعتوں پر بھی جو ابتلا آتے ہیں، وہ خوابوں کی طرح بظاہر ابتلاء ہوتے ہیں لیکن در حقیقت آسمان پر ان کی کامیابی کا بیج بویا جاتا ہے اور اس کامیابی کا زمین پر جب الٹا عکس پڑتا ہے تو وہ ابتلا کی صورت میں نظر آتا ہے.تم نے دیکھا ہوگا کہ کا تب ہمیشہ سیدھی کتابت کرتا ہے لیکن جب کا پی پتھر پر لگائی جاتی ہے تو حروف الٹے نظر آنے لگتے ہیں.اسی طرح فرشتے بھی آسمان پر جب خدائی جماعتوں کی اچھی تقدیر لکھتے ہیں تو اس الٹی عقل کی دنیا میں اس کا الٹا عکس پڑ جاتا ہے.بظاہر ان کی تباہی اور بربادی کے آثار نظر آتے ہیں لیکن جب اس پتھر پر کاغذ رکھ کر کا پیاں لگائی جاتی ہیں اور جب یہی تباہیاں اور بربادیاں اپنا بیج پیدا کرتی ہیں تو ہر شخص ان کا پیوں کو پڑھ کر اور اس پیج سے پیدا شدہ فصل کو دیکھ کر اس خوش قسمتی کا اندازہ لگا لیتا ہے، جو خدا تعالیٰ کے انبیا کی جماعتوں کے لئے مقدر ہوتی ہیں.سو جو کچھ تم تباہی اور بربادی دیکھتے ہو، یہ ایسی ہی ہے جیسے کتابت پتھر پر الٹے نقش آجاتے ہیں.آج لوگوں کو بیشک ہماری الٹی قسمت نظر آتی ہے.مگر جب اس پتھر پر کاپیاں لگائی جائیں گی تو وہ ایک ایسی خوشنما اور خوبصورت چھپی ہوئی کتاب کی صورت میں ظاہر ہوں گی کہ جن لوگوں کو آج بر اوقت نظر آتا ہے اور جو ہماری تباہی اور بربادی کے خواب دیکھ رہے ہیں، ان کی آنکھیں کھل جائیں گی اور وہ حیران ہوں گے کہ یہ کیسے نیک وقت کی تحریر تھی ، جس سے ایسی شاندار کتاب چھپی !! زمیندار جب زمین میں اپنا بیج پھینک دیتا ہے تو ایک ناواقف اور زراعت کے اصول سے نابلد شخص اسے دیکھ کر کہتا ہے، یہ کیسا احمق اور بیوقوف انسان ہے، جس نے اپنا غلہ گھر سے اٹھایا اور زمین میں بینک دیا ! مگر جب وہی غلہ ایک ایک دانہ کی بجائے کئی کئی سودانوں کی صورت میں اسے واپس ملتا ہے.886
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خطبہ جمعہ فرمودہ 28 نومبر 1947ء تب اسے احمق اور بیوقوف قرار دینے والا اپنی غلطی کو محسوس کرتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے، صحیح طریق وہی تھا، جو کسان نے اختیار کیا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا نے ہمیں اٹھا کر زمین میں پھینک دیا ہے.مگر ہمیں یہ بھی تو دیکھنا چاہئے کہ ہم کیا ہیں؟ ہم ایک کامل ہستی کا پیدا کیا ہوا پیج ہیں.ہم خدا تعالیٰ کے فارم کا بیج ہیں، جو دنیا کی کھیتی میں ڈالا گیا.اگر لائل پور کا بیج اعلی درجے کا غلہ پیدا کرتا ہے، اگر سکرنڈ کے فارم کا پیج اعلیٰ درجہ کا غلہ پیدا کرتا ہے تو تم سمجھ سکتے ہو کہ خدا تعالیٰ کے فارم کا بیج جب زمین میں پھینکا جائے گا تو وہ کیسی شاندار اور اعلی درجہ کی کھیتی پیدا کرنے کا موجب ہوگا ؟ بیشک دنیا کی نگاہوں میں ہم مٹی میں ملائے گئے ہیں مگر آسمانی فرشتوں کی نگاہ میں ہم ایک کھیت میں ڈالے گئے ہیں.اور ہم اس کھیت سے ایک دن ایسی شان اور عظمت سے نکلیں گے کہ دنیا کی نظریں ہمیں دیکھ کر حیران ہوں گی ، اس کی آنکھیں خیرہ ہو جائیں گئی اور دشمنوں کے دل مایوسی سے بھر جائیں گے.جیسے قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ خدا تعالی کی ہوئی ہوئی فصل ایسی شان کے ساتھ نکلتی ہے کہ منکر اور بے دین لوگ تو الگ رہے خود بونے والے جنہوں نے یقین سے بویا تھا، اسے دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں اور ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ایسی اعلی درجہ کی فصل کہاں سے نکل آئی ؟ مطبوع الفضل 02 دسمبر 1947 ء ) 887
جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرموده 05دسمبر 1947ء اخلاص اور صرف اخلاص ہی آج کام آسکتا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 05دسمبر 1947ء اس کے بعد میں جماعت کو تحریک جدید کی طرف پھر توجہ دلانا چاہتا ہوں.تحریک جدید کے چندہ کا اعلان میں پچھلے جمعہ میں کر چکا ہوں اور کچھ لوگوں کو اس وقت تک اس میں شامل ہونے کی بھی توفیق مل چکی ہے.لیکن بہت سی جماعت ایسی ہے، جس کو ابھی توفیق نہیں ملی.اس لئے نہیں کہ وہ مست ہے بلکہ اس لئے کہ جماعتیں اپنی اکٹھی فہرست مرتب کر کے بھجوایا کرتی ہیں.میں پھر جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں جیسا کہ سابق میں قاعدہ رہا ہے، اس چندہ کی تحریک کا آخری وقت سات فروری ہوگا.سات فروری تک جو وعدے آئیں گے، وہ وقت کے اندر سمجھے جائیں گے.مگر چونکہ گزشتہ ایام میں پنجاب پر بڑی بھاری آفت اور مصیبت آئی ہے اور ڈاک کا انتظام نہایت ردی اور خراب ہے ، اس لئے مغربی پنجاب ، سندھ اور نارتھ ویسٹرن فرنٹیئر پروفیس کے علاقہ کی میعاد سات اپریل ہوگی.جو ہندوستان کی سے باہر کے ممالک ہیں، ان کی میعاد یکم جون تک ہوگی.میں امید کرتا ہوں کہ دوست جلد سے جلد اپنے وعدوں کی فہرست مکمل کر کے بھجوانے کی کوشش کریں گے.اس وقت تک سب سے زیادہ جوش قادیان کے مہاجرین نے ہی دکھایا ہے.چنانچہ جتنی موعودہ رقم آئی ہے، اس کا نوے فی صدی قادیان کے وعدوں پر ہی مشتمل ہے.اور جہاں تک میر اعلم ہے یا میری یاد کام دیتی ہے، لاہور کی جماعت کا غالبا اس وقت تک ایک کے سوا کوئی وعدہ نہیں آیا.وہ وعدہ اختر صاحب کا ہے.انہوں نے اسی دن اپنا وعدہ مجھے لکھ کر دے دیا تھا.ان کے علاوہ لاہور کی جماعت میں سے اور کسی نے اب تک وعدہ نہیں کیا.میں لاہور کی جماعت کو بوجہ اس کے کہ مجھے بچپن سے اس جگہ رہنے کا بہت موقع ملا ہے، بار بار ہوشیار کرنے پر مجبور ہوں.میری پہلی شادی بھی لاہور میں ہی ہوئی تھی اور بیوی کا وطن مرد کا اپنا وطن ہی ہوتا ہے، اس لئے جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوتہ والسلام نے سیالکوٹ کو اپنا دوسرا وطن قرار دیا ہے، میں بھی لاہور کو اپنادوسرا وطن ہی سمجھتا ہوں.مگر مجھے کچھ عرصہ سے نہایت ہی تلخ تجربہ ہوا ہے کہ یہاں کی جماعت نہ معلوم کس وجہ سے مست ہو گئی ہے؟ یہ جماعت کسی وقت نہایت ہی بیدار اور ہوشیار ہوا کرتی تھی 889
اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 05دسمبر 1947ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم مگر اب اس جماعت پر مردنی چھائی ہوئی ہے اور اتنے بڑے ابتلاء اور مصائب کے بعد بھی اس جماعت میں بیداری پیدا نہیں ہوئی.قادیان کی حفاظت کے معاملہ میں اس جماعت نے سوفی صدی بزدلی دکھائی، چھپن آدمی جماعت نے پیش کئے مگر ان چھپن میں سے ایک آدمی بھی قادیان جانے کے لئے تیار نہیں تھا.پھر چندے کا سوال آیا تو چندہ کی فہرست بھی ابھی تک مجھے نہیں دی گئی.ہر آٹھویں، دسویں دن کہہ دیا جاتا ہے کہ ایک ، دودن میں تیار کر کے پیش کر دی جائے گی.(اس خطبہ کو نو دن ہوئے ہیں مگر اب تک بھی وہ لسٹ پیش نہیں ہوئی.تبلیغ کے متعلق جو تحریک تھی کہ ہر احمدی پندرہ پندرہ دن تبلیغ کے لئے وقف کرے.اس کے متعلق یہاں کے مبلغ کی رپورٹ ہے کہ ڈیڑھ مہینہ کی جدوجہد کے بعد صرف تین، چار حلقوں کی طرف سے جواب آیا ہے.مگر وہ جواب انہیں الفاظ میں ہے کہ فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هُهُنَا قُعِدُونَ جاؤ تم اور تمہارا خدا لڑتے پھرو، ہم میں تبلیغ کی توفیق نہیں.ایک آدمی کا نام بھی اس تبلیغ کی تحریک میں پیش نہیں ہوا.حالانکہ یہی جماعت کسی وقت بڑے اخلاص کا نمونہ رکھتی تھی.میں سمجھتا ہوں اس کی ذمہ داری افسروں پر ہے.خود افسروں کے اندر بزدلی پیدا ہوگئی ہے اور افسروں کی خرابی کی ذمہ داری جماعت پر ہے، کسی اور پر نہیں.اگر تم میں سچا ایمان اور اخلاص ہے تو تم اڑا کر پھینک نہ دو، ان امیروں اور پریذیڈنٹوں اور سیکریٹریوں کو.اور ان کی بجائے ان کو منتخب کرو، جو تم میں نیک تغیر اور اخلاص پیدا کر سکتے ہوں.میرے نزدیک افسر ذمہ دار ہیں، اس بات کے کہ جماعت مردہ ہوگئی.اور جماعت ذمہ دار ہے اس امر کی کہ افسر مردہ ہو گئے.مذہبی جماعتوں میں ایم.اے بابی.اے یا وکیلوں اور بیرسٹروں کی کوئی شرط نہیں.تم انہیں چھوڑ دو اور ایک مخلص مزدور کو ہی اپنا امیر یا سکریٹری بنالو.جس کے اندر ایمان ہے، وہی تمہارا امام ہے.اور اگر افسروں کی غلطی نہیں، تمہاری ہے تو پھر افسر ذمہ دار ہیں، اس بات کے کہ وہ کیوں جماعت کے گندے اور نا پاک حصہ کو کاٹ کر اسے درست کرنے کی کوشش نہیں کرتے؟ وہ منافقوں کی پناہ بننے کی کوشش کیوں کرتے ہیں؟ وہ منافقوں کو اپنی ڈھال کے پیچھے کیوں چھپاتے ہیں؟ جو ہمارا نہیں، وہ ہمارا نہیں رہنا چاہیے.جو شخص دین کے لئے قربانی کرنے کے لئے تیار نہیں ، وہ ایک دن کے لئے بھی اس جماعت کو بدنام کرنے کا موجب نہیں ہونا چاہیے.بہر حال دونوں صورتیں خطر ناک ہیں.اگر آئمہ بگڑے ہیں اور اس وجہ سے جماعت بھی بگڑ گئی ہے تو سوال یہ ہے کہ تم ایسے آئمہ کو کیوں نکال نہیں دیتے اور کیوں ان کو اپنا امیر اور پریذیڈنٹ اور سیکریٹری 890
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 05 دسمبر 1947ء بنائے پھرتے ہو؟ بگڑے ہوئے امام اور بگڑے ہوئے سیکرٹری کی اتنی بھی حیثیت نہیں، جتنی اس مری ہوئی مکھی کی ہوتی ہے، جو دودھ میں پڑی ہوئی ہو.کبھی مری ہوئی لکھی کو نکال کر پھینکنے میں تم درد محسوس کرتے ہو؟ اسی طرح بگڑی ہوئی جماعت کی بھی اتنی حیثیت نہیں، جتنی ایک مری ہوئی لکھی کی ہوتی ہے.اگر امیر اور پریذیڈنٹ دودھ یا چائے میں پڑی ہوئی مردہ مکھی کو نکال کر پھینکنے میں کوئی درد محسوس نہیں کرتے تو بگڑی ہوئی جماعت کو الگ کرنے میں انہیں کیوں تکلیف محسوس ہوتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جماعت کی اصلاح کی اہمیت افسروں کے مد نظر نہیں.صرف جماعت کی تعداد کی اہمیت ان کے مد نظر ہے.جماعت سمجھتی ہے کہ اگر ان کا ڈگری یافتہ امام ہو گا تب وہ معزز ہوگی.حالانکہ یہ نہایت ہی حقیر اور ذلیل خیال ہے.اور امرا اور سیکرٹری یہ سمجھ رہے ہیں کہ جماعت کے افراد کی جتنی تعداد زیادہ ہوگی ، اتنی ہی ان کی عزت ہوگی.یہ بھی نہایت ذلیل اور گرا ہوا خیال ہے.اگر لاہور کی جماعت بجائے چھ یاپانچ یا چار ہزار ہونے کے صرف چالیس افراد پر مشتمل ہو، جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہوں مگر وہ مخلصین کی جماعت ہو تو وہ ہزار چاند لگادے گی جماعت کے ماتھے پر.اور اگر جماعت کے امیر اور سیکریٹری بجائے بیرسٹ اور وکیل اور ایم.اے اور بی.اے ہونے کے ایسے افراد ہوں، جو خواہ دیا سلائی بیچ کر گزارہ کرتے ہوں یا رسیاں بٹ کر گزارہ کرتے ہوں مگر وہ مخلص اور کام کرنے والے وجود ہوں تو وہ جماعت کے ماتھے پر ہزار چاند لگادیں گے.پس جماعت کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور عہدیداران کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں.میں نہیں جانتا کہ دونوں میں سے کس کا قصور ہے؟ یاممکن ہے دونوں کا ہی قصور ہو.بہر حال ذہنیت گندی ہے.افسر سمجھتے ہیں کہ جماعت کی تعداد جتنی زیادہ ہوگی ، اتنی ہی ان کی عزت ہوگی.اور جماعت سمجھتی ہے کہ اگر افسر بڑی بڑی ڈگریوں والے ہوں گے ، تب اس کی عزت ہوگی.یہ دونوں نظریے نہایت گندے ناپاک اور ذلیل ہیں.نہ جماعت کی تعداد کوئی اہمیت رکھتی ہے اور نہ افسروں کا ڈگری یافتہ ہونا کوئی اہمیت رکھتا ہے.اگر ڈگریوں کے ساتھ ہی جماعت کو عزت ملتی ہے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کے پاس کون سی ڈگریاں تھیں؟ حضرت مسیح موعود کی جماعت کے پاس کون سی ڈگریاں تھیں؟ یا اب جو تمہاری جماعت کا امام ہے، اس کے پاس کون سی ڈگریاں ہیں؟ تب تو تم پہلے سے ہی ایک ذلیل جماعت ہو.لاہور کا امیر یا سیکریٹری تم کو کیا عزت دے سکتے ہیں؟ جب تمہارا امام بھی تمہارے نقطہ نگاہ سے (نعوذ باللہ ) ایک ذلیل انسان ہے، کیونکہ ڈگریاں اس کے پاس نہیں.اور اگر جماعت کی تعداد 891
اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 05دسمبر 1947ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم ہی عزت کا موجب ہوتی ہے، تب بھی تم ذلیل وجود ہو.کیونکہ دنیا کی اور اقوام کے مقابلہ میں تمہاری کون سی تعداد ہے؟ اور اگر تھوڑی سی تعداد کی وجہ سے تمہیں دنیا میں کوئی ذلت نہیں پہنچ سکی تو لاہور میں اگر تمہاری تھوڑی تعداد ہوگی تو تمہیں کون سی ذلت پہنچ جائے گی ؟ پس کاٹ دو، جماعت کے ناکارہ طبقہ کو.اور اس کے متعلق ہمارے پاس رپورٹ کرو تا کہ انہیں الگ کر دیا جائے.اخلاص اور صرف اخلاص ہی آج کام آ سکتا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح آج دنیا میں مخلص ارواح کو تلاش کر رہی ہے.اور یہی مخلص ارواح کا جتھہ ہے، جو اسلام کو پھر اس کے اصل اور باعزت مقام پر کھڑا کر سکتا ہے.انسانوں کی تعداد کے لحاظ سے آج بھی مسلمان چالیس کروڑ ہیں اور دنیا کی کوئی قوم تعداد میں ان کے برابر نہیں.مگر تعداد نے مسلمانوں کو مصائب اور آلام سے نہیں بچایا.اسلام کو قربانی اور اخلاص اور روحانیت ہی بچا سکتے ہیں.اس کے لئے جدو جہد کرو.اپنے لئے بھی اور اپنے حکام کے لئے بھی.خود بھی چاہو کہ خدا تم کو اخلاص اور روحانیت کے مقام پر کھڑا کرے اور اپنے امیروں، پریذیڈنٹوں اور سیکریٹریوں کے متعلق بھی چاہو کہ خدا تعالیٰ ان کو بھی اخلاص اور روحانیت کے مقام پر کھڑا کرے.وہ ذراسی کمزوری کو بھی موت سمجھیں.نہ یہ کہ بات نہیں اور ہنس کر آگے چل پڑیں.یہ دن کام کے دن ہیں، یہ دن قربانی کے دن ہیں.سارے ہی دن کام کے دن ہوتے ہیں.مگر کوئی دن زیادہ اہم ہوتے ہیں اور کوئی دن کم اہم ہوتے ہیں.اسی طرح سارے ہی دن دین کے لیے اپنے آپ کو فنا کرنے کے ہوتے ہیں.مگر کوئی دن ایسے ہوتے ہیں کہ اگر انسان ذرا بھی غفلت کرے تو خدا اس کی پروا نہیں کرتا بلکہ اسے مٹادیتا ہے.کچھ دنوں میں خدا چشم پوشی سے کام لیتا ہے.مگر کچھ دن ایسے ہوتے ہیں، جن میں وہ چشم پوشی سے کام نہیں لیتا.یہ وہ دن ہیں ، جب اسلام کو ان مسلمانوں کی ضرورت ہے، جو قربانی کے بکرے بننے کے لئے تیار ہوں.آج وہی شخص اسلام کے لئے عزت کا موجب ہوسکتا ہے ، آج وہی شخص خدا تعالیٰ کے حضور عزت حاصل کر سکتا ہے، جو قربانی کا بکرا بننے کے لئے تیار ہو اور سمجھتا ہو کہ میں ہر وقت قربانی دینے کے لئے آمادہ ہوں ، صرف آواز آنے کی ضرورت ہے.بلکہ اسے یہ رنج ہو، یہ الم ہو، یہ دکھ اور یہ درد ہو کہ کیوں مجھے اب تک قربانی کے لئے نہیں بلایا گیا ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری عمر میں صرف ایک دفعہ صحابہ سے موت کی قسم لی تھی.جسے بیعت رضوان اور بیت موت اور بیت شجرہ بھی کہتے ہیں.یہ وہ بیعت ہے، جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر لی، جس کے بعد صلح حدیبیہ کا واقعہ ہوا.آپ عمرہ کرنے کے لئے کچھ ساتھیوں سمیت 892
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 05دسمبر 1947ء مکہ گئے.جب مکہ کے قریب پہنچے تو چونکہ کفار کو آپ کی آمد کا علم ہو گیا.وہ ایک بڑا لشکر لے کر آپ کو روکنے کے لئے کھڑے ہو گئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی آدمی بھیجوانا چاہا تا کہ وہ کفار کے عمائد سے گفتگو کرے اور ان سے کہے کہ ہم تو صرف عمرہ کرنے کے لئے آئے ہیں، لڑنے اور فساد کرنے کے لئے نہیں آئے.پھر کیوں ہم سے جنگ کی جاتی ہے؟ جب آپ نے اس بارہ میں صحابہ سے مشورہ لیا تو سب نے مشورہ دیا کہ اس گفتگو کے لئے حضرت عثمان کو بھجوایا جائے.کیونکہ ان کے رشتہ دار اس وقت برسر حکومت تھے.آپ نے اس مشورہ کے مطابق حضرت عثمان " کو بھجوا دیا.جب حضرت عثمان مکہ پہنچے تو چونکہ ان کے رشتہ دار بھی اور دوست بھی اور عزیز بھی سب وہیں تھے ، آپ نے باتیں کیں تو باتیں لمبی ہو گئیں اور بحث مباحثہ طول پکڑ گیا.انہوں نے کہا کہ ہم اس دفعہ محمد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کو عمرہ کی اجازت نہیں دے سکتے.ہاں آئندہ سال اگر وہ آئیں تو انہیں اجازت دے دی جائے گی.آپ ہماری طرف سے محمد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) سے کہیں کہ اس دفعہ وہ واپس چلے جائیں.پھر انہوں نے حضرت عثمان سے کہا کہ ہم آپ کو اجازت دیتے ہیں، آپ بے شک عمرہ کر لیں.حضرت عثمان نے جواب دیا کہ جب تک میرے آقا کو عمرہ کی اجازت نہیں ملے گی، میں بھی عمرہ نہیں کروں گا.بہر حال لمبی گفتگو کی وجہ سے حضرت عثمان کو واپس آنے میں دیر ہوگئی اور کفار کے لشکر میں سے کسی شخص نے یہ مشہور کر دیا کہ عثمان شہید کر دیئے گئے ہیں.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ افواہ پہنچی تو آپ نے اعلان فرمایا کہ وہ مسلمان ، جو آج میرے ہاتھ پر موت کی بیعت کرنا چاہتے ہوں، وہ جمع ہو جائیں.اس آواز کا بلند ہونا تھا کہ صحابہ پروانوں کی طرح آپ کے گرد جمع ہو گئے.آپ نے ایک مختصری تقریر کی اور فرمایا کہ کہا گیا ہے که عثمان شہید کر دیئے گئے ہیں.ادنیٰ سے ادنی اقوام میں بھی سفیر کی عزت کی جاتی ہے، اسے مارا نہیں جاتا.اگر یہ خبر درست ہے تو میں تم سے قسم لینا چاہتا ہوں کہ آج ہم مکہ پر حملہ کریں گے اور یا تو سارے کے سارے مارے جائیں گے اور یا مکہ کو فتح کر کے واپس لوٹیں گے.آپ نے فرمایا وہی شخص آج بیعت کرے، جو اپنے دل میں یہ عزم رکھتا ہو کہ یا تو وہ فتح حاصل کرے گا یا اسی میدان میں مارا جائے گا.اس وقت صحابہ بھاگے نہیں، صحابہ ڈرے نہیں ، صحابہ کے رنگ زرد نہیں ہوئے.ایک صحابی کہتے ہیں، خدا کی قسم ہماری تلوار میں میانوں سے باہر نکل رہی تھیں تا کہ وہ شخص جو ہم سے پہلے بیعت کرنا چاہتا ہو، اس کی گردن کاٹ دیں.انہوں نے یہ نہیں کیا کہ وہ موت کو دیکھ کر بھاگنے لگ گئے ہوں.بلکہ انہوں نے کہا کہ کسی اور کا کیا حق ہے کہ وہ ہم سے آگے مرنے کے لئے جائے ؟ عبد اللہ بن عمر نے جب کسی کے سامنے یہ بات بیان 893
اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 05دسمبر 1947ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم کی تو اس نے پوچھا کہ آپ تو پہلے بیعت کرنے والوں میں سے ہوں گے؟ حضرت عبداللہ بن عمر نے ایک آہ بھری اور کہا.خدا کی قسم میں سب سے پہلے بیعت کرنے والوں میں سے ہوتا.مگر میرے والد اس وقت دور بیٹھے ہوئے تھے، مجھے خیال پیدا ہوا کہ میرا اپنے باپ سے پہلے بیعت کر لینا اور اپنے باپ کو یہ موقع نہ دینا باپ سے بے انصافی ہوگی.میں دوڑ کر اپنے باپ حضرت عمر کو بلانے چلا گیا اور اس لئے سب سے پہلے بیعت کرنے والوں سے پیچھے رہ گیا.تو دیکھو سچا مومن موت کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے اور وہ موت، جو اسلام کی راہ میں اسے پیش آنے والی ہوتی ہے، اس میں وہ دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے، بھاگنے کی کوشش نہیں کرتا.وہ شخص جو اس موت کو موت سمجھتا ہے ، وہ شخص جو اس موت سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کرتا ہے، اس کا نام خدا تعالیٰ کے دفتر سے ہمیشہ کے لئے کاٹا جاتا ہے.( مطبوع الفضل 16 دسمبر 1947ء) 894
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اشاریہ 1 آیات قرآنیہ 2.احادیث مبارکہ 3 کلید مضامین -4 اسماء 5.مقامات 6.کتابیات اشاریہ 895
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد دوم آیات قرآنیہ الانفال اشاریہ ، آیات قرآنیہ الفاتحة 9,19,45,81,99,147,163,231,255,265,297, 381,393,415,425,449,553,567,575,585, 597,615,629,655,677,687,701,711,739, 787,833,851,859,879 و مارميت اذرميت ولكن الله رمی(18)554 التوبة ان الله اشترى من المؤمنين.........(112) 294,501 البقرة ممارزقناهم ينفقون.855(04).فلاتموتن الاوانتم مسلمون(133)33,34,42 وحيث ماكنتم فولوا وجوهكم...(145)413 انالله وانااليه راجعون(157)180 هود عطاء غیر مجذود.النحل ولهم مايشتهون.822(109)..822(59).ولا تكونوا كالتي نقضت غزلها.....(93)51 آل عمران ولتكن منكم امة.الحج 325(105)...يناله التقوى منكم..155(38)..كنتم خيرامة اخرجت للناس....(110)877 النور النساء فانكحوا ما طاب لكم من النساء...(32904 لا تلهيهم تجارة ولابيع.النمل 69(38).ان تكونواتالمون فانهم يالمون......(105) ان الملوك اذادخلوا قرية افسدوها...(35) 547,551 175 المائدة الاحزاب فاذهب انت وربك فقاتلا..........(25) فمنهم من قضى نحبه.........(24) 70,669 512, 616,890 سراجا منيرا..305,306(47)...لا يضركم من ضل اذا اهتديتم...(106)210 897
اشاریہ ، آیات قرآنیہ فاطر والعمل الصالح يرفعه.............(5011 الفتح يعجب الزراع.887(30)..الحجرات ان اكركم عند الله اتقاكم.الذاريات 326(14)..وما خلقت الجن والانس............(57) 3 الحديد الم يان للذين امنوا 117,126 (17) الصف هو الذي ارسل رسوله............(10) 118 التكوير واذا الوحوش حشرت.......(819,82006 الضحى واما بنعمة ربك فحدث 486(12).النصر يدخلون في دين الله افواجا......(03)350 898 ☆☆☆ تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم
تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد دوم احادیث اشماریہ ، احادیث مبارکہ فليبلغ الشاهد الغائب 1 آخری زمانہ میں انسانی حالت کے جلد تغیر کی پیشگوئی 25,27 لاهجرة بعد الفتح 68,69 من كانت هجرته..69,70.......الاعمال بالنيات 154-148,152 سيف من سيوف الله 151 الدين النصح 188 الامام جنة يقتل من ورائه 316 الامن يفتح الله له ابواب رحمته..امامکم منکم 365 اللهم صل على محمد.......462 تركت فيكم الثقلين....514 لو كان الايمان معلقا بالثريا.....515 سلمان منا اهل البيت 515 الدين يسر....634 خير القرون قرني.......685 325 اذان کا حکم 26 مومن کی جنت سارے زمین و آسمان کے برابر ہوگی 32 حضرت ابوذرغفاری کے قبول اسلام کا واقعہ 47-45 غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت ابو خیمہ کے پیچھے رہ جانے کا واقعہ 54-52 حضرت ابو بکر صدیق اور ابی بن خلف کی شرط کا واقعہ 59 نماز نہ پڑھنے والا منافق ہے 71 غیبت کیا ہے؟ 78 انسان نوافل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے 82,86 سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف واقعات 83 وفاة النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر 83 حضرت عائشہ کا جان کنی کے متعلق خیال 83,86 ایک صحابی کی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست دعا کہ اللہ تعالیٰ جنت میں مجھے آپ کے ساتھ رکھے 102 اللهم لا على ولا لی (اثر حضرت عمر 268 مسلمان آپس میں ایک جسم کی طرح ہیں 105 احادیث بالمعنی نیکی کی تحریک کرنے والے کو دوہرا ثواب ملتا ہے 128 فتح مکہ کے موقع پر ایک نوجوان انصاری کا مال غنیمت کی تقسیم جتنا کوئی خدا کا پیارا ہوتا ہے اتنا ہی وہ زیادہ مشکلات میں گھرا ہوتا ہے 135 پر اعتراض 14,15 حضرت ابوذرغفاری کا مال و دولت سے نفرت کا واقعہ 16 حضرت حمزہ کی شہادت کا واقعہ 151 جہاد کے منسوخ ہونے کے متعلق 19 جنت میں جانے والا آخری آدمی.....157 899
اشاریہ ، احادیث مبارکہ تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد دوم جب بادل آتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا جاتے 174 حضرت ابو ہریرۃ کے آنحضور کی خدمت میں آنے پر ان کے بھائی کا شکوہ 488 آنے والے امام مہدی کی علامات....214 حضرت حذیفہ کا آنحضور سے منافقین کے متعلق پوچھنا 215 جہاد فی سبیل اللہ کے معنی 495 حضرت ابو بکر کا اپنے گھر کا سارا سامان قربان کر دینا آخری زمانہ کے حالات کا ذکر 564 221,779 پہلے لوگوں کی قربانیوں کا ذکر 589 یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے کام کی مثال 234 ایک شخص کے زکوۃ دینے سے انکار کا واقعہ 603 آنحضور کے زمانہ میں ایک لڑکے کا امامت کرانا جس کا ستر جس قوم میں ہل آگیا وہ ذلیل ہوگئی 605,612 ڈھکا ہوا نہ تھا 248,249 مواخات مدینہ 624,721,723 جو صدقہ کا ارادہ کرے، اس کے لئے صدقہ کرنا ضروری ہو نیکی کرنے پر دل پر سفید نقطہ اور بدی پر سیاہ نقطہ لگنا677 جاتا ہے 257 حضرت عثمان بن مظعون کی شہادت 680 ربانی کام وہی ہے جو تھوڑ ا شروع ہو کر ترقی کرتا ہے 293 آنحضور کا تبلیغ کی غرض سے قریش مکہ کی دعوت کرنا 723,724 آنحضور کا عورتوں کے جنگ میں پانی پلانے پر ان کو بھی ہر انسان کا ایک گھر جنت میں اور ایک دوزخ میں بنایا جاتا مال غنیمت میں سے حصہ دینا 316 ہے 757 کشفی حالت میں ایک شخص کے ہاتھ میں کسری کے سونے نیکی کی تحریک کرنے والے کو بھی ثواب 781 ایک صحابی کا آنحضور سے عہد کہ کسی سے سوال نہیں کروں گا830 کے کنگن دیکھنا 316 صحابہ سے حضور کا پوچھنا کہ تمہیں کون سا مال پسند ہے؟321 آنحضور کی تبلیغ اور ہجرت کے متعلق روایات 842,843 آنحضور کا لوگوں سے مسجد نبوی میں جھاڑو دینے والی بعض صحابہ کی مالی حالت کا ذکر 881 عورت کا حال دریافت فرمانا 322 آنحضور کا ارشاد کہ تین دن تک مہمان نوازی فرض ہے صلح حدیبیہ اور بیعت رضوان کا واقعہ 894-892 ☆☆☆ 352,869 مسلمانوں کی تباہی کی وجوہ 394 آنحضور کے زمانہ میں ایک جگہ چالیس مبلغ بھیجنے کا واقعہ 412 شہادت کی اقسام 429 اللہ تعالٰی کی نعمت کا اظہار ہونا چاہیے 486 900
اشاریہ ، کلید مضامین تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم آخرت را خروی زندگی ( نیز دیکھئے قیامت) کلید مضامین 237,245,247-249,253,255,257,258,261, 265-273,275-279,281,283,285,287,289, 291,293,294,297-302,304-306,311-313, 317,318,320,322,325-329,331,333-336, 339,340,348,349,353,355-357,359,361, 362,393,405,415,422,442,499,502,504, 523,586,587,592,630,679,688,697,755, 846,863 اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ذکر 15,61,89,121,124,128 131-133,160,161,165,169,197,203-207, 221,223,226,229,232,240-242,256,266- 268,272,277,278,284,287-289,297,299, 310,312,313,320,321,324,334,339,348, 350,360,364,369,380,387,395,401,405, 407,423,435,438,440,449,462,478,534,651 تعلق باللہ 271,602 خدا کا دیدار 271 خشیت اللہ 174 ذکر الہی 68,69,126,187,188 ذکر کے معنی 127 تبلیغ کے میدان جنگ کے لئے ذکر الہی آرسنل اور فیکٹری ہے 187 رضائے الہی,233,283 901 34,86,107,119,159,167,217, 237,268,323,324,564,565,797,828,881 اگلے جہان میں اولاد کو ماں باپ کے پاس رکھا جائے گا 34 دین کا بوجھ اٹھانے پر خدا ہمارے تمام بوجھ اس جہان اور اگلے جہان میں بھی اٹھا لے گا 44 آریہ / آریہ سماج 134,657 آسٹرین قوم 104 آوارگی 126,668 آیت ( دیکھئے آیات قرآنی ) الله رخدا 1,3-7,12-16,19,20,23-27,30-33,35,38- 44,46,49-55,57,59,61,67-72,82,83,86- 90,93,96,102,106-108,110,113,114,117- 121,123-129,131-135,137,139-146,148- 154,156,158-160,163-165,167,169,171, 172,174,175,177,178,183,184,186,188- 190,192-194,196,198,203-208,210,213, 215-217,220-223,225,226,233,234,236,
اشاریہ ،کلید مضامین 323,437,440,472,493,499,504,728,754 روبیت الہی 3 تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم انسان کے ابتلا و مصائب سے محفوظ ہونے سے مراد 83,86 بری مشکل وہ ہوتی ہے جو انسان کو تباہ کر دے 134 صفات الہی کے اختیار کرنے سے مراد 82,83 مصائب انبیاء کا خاصہ ہیں 135 قرب الہی 3,4,38,69,214,271,272,728,828 ابتال / تضرع 267,303 قرب الہی کے حصول کا ذریعہ نوافل 82 ابنائے فارس 278 جتنا قرب الہی زیادہ ہو گا اتنی خشیت الہی زیادہ ہوگی 174 اتحاد 115 لقاء الہی اتمام حجت 23 لقاء الہی کو اولاد کی قربانی سے محفوظ کیا جا سکتا ہے3,4 اجتماعیت / جتھہ / تنظیم محبت الہی 16,271,272 نصرت الہی 380 115,605,606,607,609,610,611,639,640 احرار اللہ تعالیٰ ہر موقع پر جماعت کے کاموں کے لئے نئے سے احرار کی فتنہ انگیزی 275,449,455,456 نئے آدمی کھڑے کرتا چلا جاتا ہے ممکن ہی نہیں کہ وہ ایسا نہ کمرے 40 احسان 185,223,268,277,297,310,315,385,449 اللہ تعالیٰ کا انسان کے ہاتھ پاؤں بن جانے کے یہ معنی نہیں احمدیت / جماعت احمدیہ کہ ایسا انسان مصیبتوں سے محفوظ ہو جاتا ہے 86,87,554 اللہ تعالیٰ کا فیصلہ انسانی اعمال پر نہیں ہو گا 155 ہم نے خدا تعالیٰ کی بادشاہت کو دنیا میں قائم کرنا ہے 592 ہمیں ہستی باری تعالیٰ کو ثابت کرنا ہے 595 ہمارے سب کام اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہیں 839 ابتلا/ مصائب / تکالیف 1,4,9,11,12,14-16,19,22-25,28-31,35, 37,39-44,55,61,65,67,68,71,72,79,81,90, 93,95-97,106,108-110,114,115,117,118, 121-124,128,131,139,140,142,143,145, 156,158,161,163,165,167,169,171-173, 177,178,180-186,189-192,194-197,199- 201,203-208,213,216,220,222,223,225, 72,90,100,119,120,133, 229,231-234,239,242,247,253,255-257, 140,172,180,185,202,205,216,219,220, 263,265-268,270,279-281,283-285,287- 225,226,239,240,242,245-250,278,287, 289,291-294,297,299,300,302,303,305, 298,299,312,360,460,461,573,873,886 902
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم اشاریہ کلید مضامین جماعت احمدیہ کے سوا دنیا کے پردہ پر خدا کے لئے قربانی کرنے والی اور کوئی جماعت نہیں 272 308,309,311-321,325-327,331,333-336, 339,341-345,347-350,352,353,355,357, 358,360,363,367,369-371,375-377,379, 380,384-387,389,394,395,400,405,407, 411,413,414,423,426,427,429,430,433, 440,442,444,449,451,455,458,460,461, 472,476,478,485,488,497,498,509,511, 521,531,549,577,585,597,601,605,606, 621,675,678,687,696,719,728,729,733, 757,758,769-771,785,807,808,811,853, 856,863,879,880,885,890-892 سلسلہ کا ہر کام تبلیغ سے وابستہ ہے 310 آئندہ زمانہ ہماری جماعت کے لئے نازک ترین ہے 578,583 ہماری جماعت کوئی سوسائٹی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت ہے 867 احیائے اسلام 246,277,278,376,880 اخلاق عالیہ 73,75,103,126,187,192,210 نظر کی تیزی اخلاق فاضلہ سے ہی حاصل ہوتی ہے 74 ایمان ایک روح ہے اور اخلاق فاضلہ جسم 79 اخلاص جماعتی مشکلات کا حل تبلیغ 1 احمدیت دنیا کی مشکلات کو دور کرنے کا واحد ذریعہ ! احمدیت کے بغیر اللہ تعالیٰ کی حکومت دنیا میں قائم نہیں ہو سکتی 1 5,11,14,41,43,53,90-92,109,127,155, 185,186,188,190,192,194,202,205,207, تبلیغ اسلام کا جہاد ہماری جماعت کے ہر فرد پر فرض ہے 21 221,232,233,267,268,270,272,273,291 احمدیوں نے بھی اخلاق کی اہمیت کو پوری طرح نہیں سمجھا 73 308,309,311,315,319,320,321,353,384 احمدیت کی صداقت کا کیا ثبوت ہے ؟76 اسلام اور احمد بیت کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کر و 97 386,395,401,402,418,422,437,442,474, 478,497,702,754,765,862,882 آج دنیا کے پردہ پر اگر کوئی جماعت اسلام کی تبلیغ کر رہی ہے اخلاص اور صرف اخلاص ہی آج کام آسکتا ہے 892 اذان موذن 68 تو وہ جماعت احمد یہ ہے 113 ہماری جماعت کو تو خدا تعالیٰ نے پیدا ہی ترقی کے لئے کیا ہے 129 اذان الہامی ہے 26 احمدیت کو انسانیت کو بلند کرنے کے لئے قائم کیا گیا ہے 141 پانچ بار اذان کی حکمت 26 احمدیت کی ترقی سے ہندوستانیوں کی عزت بھی بڑھے گی 144 ارتقاء 576 جماعت کا فرض ہے کہ مبلغین کی قدر کرے 186 استاد / اساتذ 665,667,670,742 903
اشاریہ کلید مضامین استقلال 196,198,199,226,440 استهزاء تمسخر 92,387,465 اسراف 242,293 اسلام تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خدا تعالٰی کے دائگی احکام منسوخ نہیں ہوا کرتے ملتوی ہو سکتے ہیں 189 اس زمانہ میں اسلام کی فتح اور مسلمانوں کا غلبہ محض تبلیغ سے وابستہ ہے 261 4,9,11,14,19,21,22,24,26,35,48,49, 60,61,78,95,96,101,103-105,114,117, 118,121,141,143-145,149,151,156,158, 161,163,164,171,180,183,186,188-190, 199-201,204,213,222,225,229,234,248, 249,253,255,259,266-270,272,275,278, 280,281,283,289,291,298,302,307,309, 311,314,315,317,318,320-323,333-337, 339,346,349,355,356,361-363,368,371, 375,376,389-391,413,414,427,429,430, 442,460,461,475-477,479,482,499,509, 510,525,564,585,599,601,671,673,685, 807,840,863,878,885,892,894 اسلام کوئی خفیہ مذہب نہیں 27 اسلام کو تم نے کیوں مانا ہے؟ 75 اسلام کا جھنڈا بلند کرنا ہماری جماعت کے سپرد ہے 649 حقیقی اسلام کے معنی 851 اسلامی تعلیمات 19,20,56,75,78,246,250,251,290,321,455 اسلامی تہذیب و تمدن 199,240,328 اشاعت 1,24,39,131,148,161,163,183, 185,189,198,203,204,225,234,253,275, 279,280,281,287,300,307,308,311,344, 347,349,354,355,368,369,371,400,403, 404,409,418,420,422,431,432,433,437, 439,492,509,539,599,600,603,608,649, 656,674,704,727,814,840,869,880,885 اشانی قبیلہ 749 اشعار و مصرع اسلام اور احمدیت کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کر و 97 انت الذي ولدتک امک با کیا 107 آج دنیا کے پردہ پر اگر کوئی جماعت اسلام کی تبلیغ کر رہی ہے قسمت میری دیکھیے ٹوٹی کہاں کمند 120 تو وہ جماعت احمد یہ ہے 113 اسلامی نظام کے ہر شعبہ کا نام دین ہے 310 اسلامی احکام 19,178,189,248,670 جودم غافل سو دم کا فر 177 عیسی مسیح کر دے گا جنگوں کا التواء 189 من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی 215 904
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم بے کسے شد دین احمد پیچ خویش و یار نیست 278 اشاریہ کلید مضامین 555,558,575,578,579,598,649,836,869 جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور 441 اذان الہامی ہے 26 ہر بلا کیں قوم راحق داده اند 449 در کوئے تو اگر سر عشاق را زنند 461 میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا118 دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ 275 عجب طرح کی ہوئی تسلی جو بار اپنا گدھوں پر ڈال 527,736 بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے 300,301 دیکھئے سرکار اس میں شرط یکھی نہیں 528 اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا 320 قسمت تو دیکھئے کہ کہاں ٹوٹی ہے کمند 568 حان ان تعان وتعرف بين الناس 326 اگر آں ترک شیرازی بدست آور دل ما را 581 روز جزا قریب ہے اور رہ بعید ہے 333,334,381,540,835 ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرما ئیں گے کیا ؟735 يدعون لک ابدال الشام 367 754 Water water every where عبدالقادر 367 ینصرک رجال نوحى اليهم من السماء 379 در کوئے تو اگر سر عشاق را زنند 762 حقا که با عقوبت دوزخ برابر است 829 سلطان القلم 509 گر جاں طلبی مضائقہ نیست 851 اصلاح,85,92,117,125,127,141 154,211,256,302,331,334,352,360,394, 400,409,445,602,667,688,856,880,891 ترای نسلا بعيدا 530 کامل سے کاٹا گیا اور سیدھا ہماری طرف آیا 725 امام 248,249,257,316,430,598,715,749,890,891 اطاعت 67,190,242,316,320,394,429,592 امام کے حکم کے مطابق طریق اختیار کرنا ہی نیکی اور حقیقی امام کی کامل اطاعت ہی نیکی کا معیار ہے 317 ایمان ہے 317 امانت 208,223 امانت فنڈ 140 اطالوی قوم 104 افغانی قوم 74,369 اقتصادیات 549,556,602,605,636 الہام الہامات / وحی 59,63,203,306,324,335,380, 379,401,403,450,459,540,543,544,553, شخص کو کچھ نہ کچھ اس میں جمع کرتے رہنا چاہیے 63 امت محمدیہ 214,306,335,352 182,202,240,268,272,8630 قیام امن کے لئے احمدیت کی اشاعت ضروری ہے 1 905
اشاریہ ،کلید مضامین تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم دنیا میں امن قربانی سے قائم ہوتا ہے، زور اور طاقت سے نہیں 110 364,385,421,423,439,504,559,580,836 امریکن قوم 382 شہید کی موت انعام 86 انابت 267 انبیاءورسل 72,83,117,193,197,233,257,259, 298,299,328,335,350,365,402,557,599, 602,630,678,685,719,785,855,856,873 انفاق فی سبیل اللہ 293,294,389,483,706,839,840 انکسار / فروتنی 126,141 انگریز قوم,74,103,108,109,113 164,225,326,328,381,382,385 انبیاء کے بعد ان کے سلسلہ کو زیادہ ترقیات حاصل ہونے کی وجہ 38 اولاد 7,34-3 انبیاء کو جان کنی کی تکلیف کی وجہ 84 تمام انبیاء کو دنیا میں تکالیف پہنچتی ہیں 86 انبیاء کو کوئی ایسی تکلیف نہیں پہنچتی جو انہیں مایوس یا رحمت خداوندی سے محروم کر دے 86 انبیاء پر بھی مشکلات آتی ہیں 133 مصائب انبیاء کا خاصہ ہیں 135 60,75,77-79,95,99,106,134,142,171, 175,177,215,216,278,281,285,288,289, 294,313,326,339,351,357,362,391,514, 526,527,528,530,564,587,681,717,719 اولاد کی قربانی کی اقسام 4 قتل اولا د 662 انبیاء کے زمانہ میں بھی ترقی کا ذریعہ تبلیغ ہی رہی ہے 189 اہل بیت 515 انبیا ء خدا تعالیٰ کی صفات کے خلاف کبھی کوئی کام نہیں کرتے 190 اہل کتاب 58 انبیاء کو مجنون کہا جانے کی وجہ 191 انجام 43,119,311 انجام بخیر 33,34,42 انجام پر ہی سارا انحصار ہوتا ہے 34 انصار 14,15 انصار الله 273 انعام 31,32,68,87,102,107,117,134 16,73,74,201,207,221,339,437,862>) ایرانی قوم 60,369,671-58 ایفائے عہد ( دیکھئے وعدہ) ایمان 71-26,31,37,49,67 81,83,85,89,106,108,120,128,146,186, 188,205-207,212,214,223,232,233,242, 269,270,276,288,290,293,294,299,301, 153,158-160,172,214,216,305,333,335, 906 302,314,315,336,349,364,385,414,441,
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم 442,459,461,497,724,754,839,856,857 اشاریہ ، کلید مضامین 68,83,96,113,121,135,156,163,205,216, جوانعامات کے وعدوں کے باوجود قربانی سے دریغ کرتا ہے 266,268,273,275,276,291,302,303,304 اس کا دل نور ایمان سے خالی ہے 32 ایمان کا دھواں عمل ہے 50 311,324,353,361,472,493,504,649,828, برکات کے حصول کے لئے وابستگی ضروری ہے 301 جو وعدہ پورا نہ کرے اسے اس کا ایمان کیا فائدہ دے گا 58 جماعت کے بغیر خدا کی رحمت اور برکت نازل نہیں ہوتی 314 ایمان ایک روح ہے اور اخلاق فاضلہ جسم 79 برہمو سماج 636 جان کنی کی تکلیف کا تعلق ایمان کے ساتھ نہیں 86 بنی اسرائیل 234,298,834 مبلغوں کو اپنی دعاؤں میں یاد نہ رکھنا نقص ایمان ہے 184 بنی نوع انسان / انسان / انسانیت 43,47,49 ایمان اور ا خلاص تعلیم پر منحصر ہیں 311 امام کے حکم کے مطابق طریق اختیار کرنا ہی نیکی اور حقیقی ایمان ہے 317 ایمان کی مضبوطی کے لئے تبلیغ ضروری ہے 774 51,58,69,70,74,75,77,78,82,85,89,93, 96,107,109,111,122,124,125,127,129, 133,141,142,174,177-179,188,190,204, 239,245,246,249,265,267,272,275,294, 314,319,329,356,359,575,602,723,876 بادشاہ بادشاہت,59,194,195,215,216,249,271 بنی نوع انسان کی محبت اور خیر خواہی چاہتی کہ احمدیت کو جلد 276,298,315,327,351,362,387,743,752 مغل بادشاہ367,368 بیمه 351 از جلد پھیلایا جائے 1 انسانی حالت ہمیشہ بدلتی رہتی ہے 25 انسان کے صفات الہی کے اختیار کرنے سے مراد 82,83 بت پرست ابت پرستی 58,750,752,753 بد ابدی 83,85,86,269 بدظنی 109 انسان کے ابتلا و مصائب سے محفوظ ہونے سے مراد 83 جس انسان کے دل میں دنیا کی محبت ہوا سے جان کنی کی سخت تکلیف ہوتی ہے 84 اللہ تعالیٰ کا انسان کے ہاتھ پاؤں بن جانے کے یہ معنی نہیں بدھ بدھ مت 26,118,351,869,877,878 بر بری قوم 819 برطانی قوم 104 برکت / برکات 16,35,41,49,50,61,67 که ایسا انسان مصیبتوں سے محفوظ ہو جاتا ہے 86,87 بورڈ نگ تحریک جدید 95,99,106,108,211,748 بورڈ نگ تحریک جدید میں بچے داخل کرانے کی اصل غرض 73 907
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اشاریہ ، کلید مضامین بورڈنگ میں آنے کی غرض معمولی نہیں 95 تاریخ 175,197,200,201,210,335,602 تاریخ اسلام 103,151,242,671 1,9-12,16,19,22-24,33,35,48, 63,67,113,114,118,139,142,143,145, 154,156,158,163-165,171,172,180-186, جکشو 351.869 48,160,161,294,318,358,361,458,538 بیعت کیا ہے؟ 160 بیکاری 608 188,190-195,200,202,206,225,227,255, 256,275,281,289-291,297-299,306,307, 311,312,316-318,320,321,323,343,345- 358,360,366,367,377,379,381-387,389, پادری 113,397,460 پاری / پارسی از م 502 پٹھان قوم 385 393-395,397-399,404,405,407,408,410, 412-414,436,443-445,447,450-452,463, 466,467,470,477,487,489,494,509-511, 514,517,523,524,526,530,533,537-540, پرتگیزی قوم 398 پنجابی قوم 75 پنجاب یونیورسٹی 386 پنج ہزاری مجاہدین 549,558,561,567-569,572,598,601,609, 266,267,307,308,320,387,469,491,495, 611,613,619-621,627,629,630,632-634, 496,497,548,563,608,611,612,780,792 637,639,647,654,656,662,683,691,692, پیشگوئیاں 25,26 695,699,703,706,707,711,723,726,734, 77,118,189,265,266,267,275,284,320, 736,737,739-742,746,747,753,759,761- 336,345,403,509,557,558,600,819,820 766,771-773,775,778,779,788,791,817, 825,826,836-838,841-843,845,847,848, 850,855,865,869,870,873,876-879,890 پیدائش 575 پیرا گدی نشین 193 پیغامی لاہوری / غیر مبائع 186,191,600,626 پیغامیوں کا اعتراض 114,185 تابعین 24,856 تبلیغ اسلام کا جہاد ہماری جماعت کے ہر فرد پر فرض ہے 21 تبلیغ نہ کرنے والا گناہ گار ہے 21 تبلیغ جہاد ہے 22 908
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم آج دنیا کے پردہ پر اگر کوئی جماعت اسلام کی تبلیغ کر رہی ہے تحریک جدید, 29,37-13,19,27-9 تو وہ جماعت احمد یہ ہے 113 دینوں پر فتح تبلیغ سے ہوتی ہے، تلوار سے نہیں 118 اشاریہ کلید مضامین 38,41-43,45,49,50-52,58,60,63,65,73, 74,79,81,87,89-93,95,99,119-122,124- تبلیغ کے میدان جنگ کے لئے ذکر الہی آرسنل اور فیکٹری ہے 187 141,147,148,156,158,160-129,131,139 احمدیت کی ترقی کا ہتھیار تبلیغ ہے 189 تبلیغ خاص 202,205 اس زمانہ میں اسلام کی فتح اور مسلمانوں کا غلبہ محض تبلیغ سے وابستہ ہے 261 ہمارا کام صرف تبلیغ کرنا نہیں بلکہ تربیت کرنا بھی ہے 308 دنیا میں روپیہ کے ذریعہ بھی تبلیغ نہیں ہوئی 309 صرف تبلیغ کرنا دین نہیں 310 تبلیغ کے مختلف ذرائع 353 تبلیغ کے کام کی تقسیم 462 تبلیغ کی دو حصوں میں تقسیم 653 تبلیغ کے لئے ایمان اور اخلاص کی ضرورت ہے 754 تبلیغ رحم ہے خود پر اور دوسروں پر 774 تبلیغ ہی احمد بیت کی جان ہے 783 تجارت / تاجر 70-68 104,177,180,186,232,291,310,313, 319,344,372,373,383,397,413,521,602, 605-613,619,621-627,637-640,642,643, 658,660,667,674,704,705,707,814,841 تحدیث نعمت 63 تحریکات 339,361 161,163,165-167,169,173,178,179,194- 198,204-207,213,217,219-221,225,227, 229,231-234,236,242,253,256,263,266- 270,272,273,275,287,293,308-310,348, 355,373,375-377,383,384,386,387,391, 394,402,408,419,432,439,444,450,454, 455,462,469,471,473,474,476-479,485, 491,512,513,516,528,541,543-545,547, 548,551,553-556,561-563,571,572,583, 608,612,637-639,646,648,649,651,653, 659,662,668,674,683,691-693,701-705, 708,758,764,773,779-782,785,787-792, 798,799,805,816,825,826,828,833,839, 845,859-862,865,879,880,883-886,889 تحریک جدید کے ماتحت مبلغین کی تیاری 10 تحریک جدید کے متعلق جلسے کروانے کا مقصد 27, 25 تحریک جدید کے چندے طوعی ہیں 30 یہ طوعی تحریک ہے 33,281,292 تحریک جدید کے چندہ سے تبلیغ کے لئے ایک مستقل فنڈ کا قیام 33,163 909
اشاریہ کلید مضامین تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم جولوگوں محض اپنی کسی حقیقی مجبوری کی بنا پر اس تحریک میں حصہ نہیں یہ تحریک میری نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی نازل کردہ تحریک ہے 201 لے سکے، نہ کہ بہانہ بنا کر اور خدا ان کو حصہ لینے والوں کے ساتھ تحریک جدید کا اجراء خاص الہبی تصرف کے ماتحت ہوا ہے 381,382 ثواب میں شریک کرے گا 50 ہمارے سامنے تحریک جدید کا جہاد ہے 54 زبان گومیری ہے مگر بلا وا اسی کا ہے 472 اغراض و مقاصد 223,382 اللہ تعالی اس تحریک کے ذریعہ احمدیت پر ہونے والے تحریک جدید کی غرض اعتراضات کو پاش پاش کر دے 61 تحریک جدید کا اجراء 118 87,95,108,199,200,202,203,247,867,879 تحریک میں حصہ لینے کا مقصد خدا تمہارے ہاتھ بن جائے.....88 آدمی، روپیه، عزم و استقلال اور دعاؤں کے مجموعہ کا نام تحریک جدید کے چندہ سے تبلیغ اسلام کا ایک مرکزی فنڈ قائم کریں تحریک جدید 198 گے 156 تحریک جدید نیکی کا ایک بہت بڑا موقع ہے 216 تحریک جدید کے فنڈ سے مبلغین کی تیاری 165 تحریک جدید کے اجراء کی اصل 239 ضرورت و اہمیت 27,45 تحریک جدید رسول کریم کی تعلیم کا احیاء 240 مطالبات 25,27,33,119,121,157 تحریک جدید اسلام کے احیاء کا نام 246 تحریک جدید در اصل قدیم ہے 247 177,211,241257,258,269,270,279,280, 292,294,298,313,314,315,322,339,415 تحریک جدید قرب الہی میں بڑھنے کا عظیم الشان موقع 271 ہدایات 362,363,376,400,409,598 تحریک کی بنیاد چندہ پر نہیں بلکہ آدمیوں پر ہے 309 جو چندہ نہ دے سکے وہ معافی لے لے 13,14,57 آئندہ تحریک جدید میں شامل ہونے والوں کے لئے شرائط 371 تحریک جدید کے چندوں کی ادائیگی میں عجلت سے کام لیں 13,14 تحریک جدید تبلیغ احمدیت کے لئے ایک بنیاد کے طور پر ہے عہدیداران اور کام کرنے والے چستی سے کام کریں 16 اور لٹریچر ہتھیار کے طور پر 440 تحریک جدید کی بنیاد آدمیوں پر ہے، روپیہ پر نہیں 497 دو ہفتے سے دو تین مہینہ تک ہر شخص تبلیغ کے لئے وقت دے 23 تحریک جدید کے یہ دور غیر محدود ہوں گے 693 تبلیغ اسلام کے لئے زندگیاں وقف کریں 19 عہدیداران تحریک جدید کے جلسوں کو کامیاب بنانے کی کوشش سلسلہ کے اخبارات اس کی اہمیت کو مختلف پیرایوں میں جماعت تحریک جدید کے نام میں نہیں بلکہ اس کے پیچھے جو روح ہے کریں 28 وہ قابل عزت ہے 827 الہبی تحریک 203,267,275,543 910 کے سامنے پیش کرے 28
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اشاریہ ،کلید مضامین سیکر ٹریان تحریک جدید ہفتہ وار رپورٹیں بھجواتے رہیں 28 جو تحریک جدید کے مقاصد کو اپنے سامنے نہیں رکھتاوہ درحقیقت دوست سستی اور غفلت کو ترک کر دیں 30 اپنی موت کا ثبوت بہم پہنچاتا ہے 880 فرائض کو سمجھیں اور موقع کی نزاکت کے لحاظ سے قربانیوں میں تثلیث 403 تیز ہوں نہ کہ ستہ 31 تربیت,73,295,320,349,466 جو تحریک میں حصہ نہیں لے سکے وہ حصہ لینے والوں کے انجام بخیر 475,510,514,597,686,856 ہمارا کام صرف تبلیغ کرنا نہیں بلکہ تربیت کرنا بھی ہے 308 کے لئے دعا کریں 34 تحریک میں حصہ لینے والے ایک دوسرے کے لئے دعائیں کریں 35 تربیت اولاد 4,6 تحریک جدید کے کارکنان، امراء اور پریذیڈنٹوں کو اپنی غفلت دور ترک قوم 103,105 کر کے پوری تن دہی اور جانفشانی سے اس میں حصہ لینا چاہیے 42 تعاون 115,638,639,640,642,643,668,814 تقوی,89,123,183,249,268,308 ہر سال اپنی توفیق کے مطابق پہلے سے زیادہ چندہ دیں 54 جماعت کے ہر دوست کو تحریک جدید میں حصہ لینے کی کوشش کرنی 315,316,326,329,330,331,353,754 چاہیے 55 تمبر / متکبر 57,58 بغیر تحریک کے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی فکر کریں 57 تو بہ 83,86,126,861 جلد سے جلد اپنے بقائے پورے کریں 58 توحید 403,588 عورتوں کو مردوں کے ساتھ مل کر اس تحریک کو مضبوط کرنا چاہیے 63 تو کل علی اللہ , 42,204,233,278,279-40 تحریک جدید کا وقار قائم رکھنا تم میں سے ہر ایک کا فرض ہے 108 459,460,471,493,839,881,882,886 کارکنان بیدار ہوں اور اپنے مقام کی عظمت کو سمجھیں 128 تہجد 68,93,108 اپنی آمدنیوں کے مطابق یا قربانی کی حد تک وعدے کریں 220 تہذیب 618 تحریک جدید کی غرض کو سمجھو اور اپنی زندگیوں کو اور بھی سادہ بنانے تھیو سافیکل سوسائٹی 636 کی کوشش کرو 250 خود بھی تحریک جدید پر عمل کریں اور دوسروں سے بھی کروائیں 444 ثواب 29,43,46 ثمرات تحریک 27,156 51,55-58,60,82,88-90,93,119,121,128, انتباه جھوٹی عزت کی خاطر وعدے کرنے والوں کو تنبیہ 30 129,132,140,141,149,150,153,158,171, 172,217,221,223,232,234-237,259,268, 911
اشاریہ ،کلید مضامین 280,281,292,300,311,317,360,401,425, 426,437,438,474,493,782,859,882,883 ثواب قلب کی حالت پر آتا ہے ظاہری فعل پر نہیں 50 ج جامعہ احمدیہ ( نیز دیکھئے مدرسہ احمدیہ) 9,10,354,362,453,465,660, 661,666,711,713,715,729,730,774,813 جامعہ از ہر 364,454,459,715,727,728,729 جامعه دیو بند 454 جان کنی 83,86 جان کنی کی تکلیف، خیالات اور حقیقت 84,85 جائیداد, 11,54,90,127,139 تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم جماعت / سلسلہ /نظام 57,60,92,115,183,192,292,314,317,335, 403,602,695,719,720,821,860,876,886 زندہ جماعت کے کاموں کا انحصار کسی ایک انسان پر نہیں ہوتا 38 سلسلہ عالیہ احمد یہ خدا کا ہے 39 البی سلسلے خدائی مد پر چلتے ہیں کسی انسان کی وجہ تے نہیں 40 روحانی جماعتوں کی ترقی محض خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتی ہے 72 جماعت کیا ہے؟ 156 کوئی جماعت پے درپے تحریکات کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی 213 جماعت روپے سے نہیں آدمیوں سے بنتی ہے 314 جماعت کے بغیر خدا کی رحمت اور برکت نازل نہیں ہوتی 314 وہی جماعتیں دنیا میں کام کر سکتی ہیں جو اپنی ذمہ داریوں کو بجھتی ہیں 378 جماعت کے معنی 718,793 173,174,177,204,205,215,222,279-281, 291,293,294,308,310,314,336,361,408, 411,504,529,587,707,708,810,863,884 مال اور جان کی قربانی پیش کیے بغیر کوئی جماعت خدائی جماعت نہیں کہلا سکتی 808 جائیداد کی آمد تحریک جدید کے اغراض اور اشاعت دین فرد مرا کرتے ہیں جماعتیں نہیں 879 پر صرف کی جارہی ہے 122 190,192,256,273,2 جرأت 208,281,465,783 جرم بلا ٹکٹ سفر کرنا ضرم ہے 211,212 جرمن قوم 31,32,42,104,145,164,177 جلسہ سالانہ ,60,65,129,139,147 148,165,219,220,231,273,319 خدائی سلسلے انسانوں کے نہیں بلکہ انسان خدائی سلسہ محتاج ہوتے ہیں 880 جماعت احمدیہ (دیکھئے احمدیت ) جنت 31,32,34,102,246,251,294,323,502,503 جنگ لڑائی 11,14 27,31,41,58,60,63,86,87,96,101,119, 121,139,140,142,145,166,177,178,180- 182,184,187,189-191,197,203,204,212, 912
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم 213,225,232,234,235,241,250,251,255, 256,298,316,335,336,339,362,363,381- 383,393,394,397,405,407,409,427-430, 435,458,469,481,482,525,543-545,547, 553-555,568,599,667,671,731,841,842 ہماری ساری جنگیں تبلیغی اور روحانی ہیں 67 آخری زمانہ میں فرشتوں اور شیطان کی آخری جنگ 197,525,542,785,835 جنگ احد 67,680,730 جنگ بدر 59,67,86,460,554,576 جنگ تبوک 52.53 جہاد,23,53,54,160,375-6,21 376,446,447,495,602,680,736,794 جہاد کی دو اقسام 19 یہ زمانہ تلوار کے جہاد کا نہیں 19,20 جہاد کے متعلق پیشگوئیاں اور احکام وقتی ہیں 189 جھگڑا دنیا کے جھگڑوں کاحل، احمدیت 1 جھوٹ 79,92,101,111,178,288,670 جھوٹ بولنا ایک عذاب ہے 74 اشاریہ کلید مضامین 45,50,51,54-58,60,61,63,65,66,81,82, 87-93,121-125,127-129,131,139,140, 147,148,156,157,160,163,165-167,169, 173,177,187,216,217,219,220,222,223, 227,231-233,236,249,253,263,265,267, 269,270,273,277,279,280,289,292,303, 308,310,313-315,333,348,361,371-373, 379,380,402,411,415,416,419,420,423, 425-428,430,432-435,438-440,450,469, 474,475,477-479,483,488,491,498,503, 516,518,528,541,571,604,607,608,683, 691,701,702,704,762,765,779,780,786, 787,790,792,793,797-799,805,825,828, 852-856,859,862,866,882,883,889,890 چینی قوم 74 こ حبشی قوم 101 21,22,43,126,619,620,627¿ حج کیا ہے؟ 3 حدیث ( دیکھئے احادیث مبارکہ) چ حرص 190,278,279,312,390 چغل خوری 79 حسد 15,234 چنده ( وعده، ادائیگی ، وصولی ، بقایا) 13-9,11 حسن سلوک 111 16,17,21,25,28-30,33,37-39,41-43, حکومت 1,15,16,102,105,113,114 913
اشاریہ ،کلید مضامین 117,141,180-182,190,208,210,240,298, 302,304,314,381,382,397,405,458,459 تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم خوشی کیا چیز ہے؟ 100 , حلال و حرام 20,21,22,207,210,211 حواری 200,297,304,351,753,869,876 خ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام 277,278,279,358,419,430,530 خدام الاحمدیہ 71,79,273,657,856 خدمت ,96,111 درس 353 درس القرآن 77,284 درس حدیث 284 درس کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام 284 دعا,44,50,51,57 61,72,102,132-135,145,161,175,186, 117,132,134,141,144,183,195,225,236, 256,257-259,267,269,270,273,277,278, 283,285,289,315,322,325-327,336,343, 363,385,429,483,503,796,855-857,876 خیر خواہی 1,78,84 خطیب 23 196,198,201,203,213,221,223,225,226, 249,267,272,285,298-300,306,311,321, 360,367,441,442,446,447,461,462,472, 531,535,569,570,686-690,751,826,863 تحریک جدید میں حصہ لینے والوں کے لئے دعا کی تحریک 33 بہترین دعا 34 مختلف دعا ئیں 35,183 خلافت خلیفہ وقت , 40,106,141,309,313-38 اس تحریک کی کامیابی کے لئے متواتر دعا ئیں کرنے والوں کو خدا 314,401,433,451,465,597,656,665,856 خلافت پر اعتراضات 39 خلافت جوبلی فنڈ 195 خلافت عباسیہ / خلفائے عباسیہ 105-103 خوش,58,59,81,82,88,92,99 تعالی اعلی درجہ کی قربانی کرنے والوں میں شامل کرے گا 51 خدا تعالیٰ کے فضل دعاؤں سے نازل ہوتے ہیں 72 دعا اللہ تعالیٰ کے فضل کو کھینچتی ہے 132 ہمارا فرض ہے کہ ہم مبلغین کو اپنی دعاؤں میں یادرکھیں 183,184 مبلغوں کو اپنی دعاؤں میں یاد نہ رکھنا نقص ایمان ہے 184 107,121,122,146,157,175,199,208,220, 221,223,233,267,273,275,276,281,328 خوشی منانے کا حق 6-4 914 بددعا 191 دعوة الى الخير 325 دنیا, 1,44,57,67,68,83
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم 85,86,89,97,100,107,117,119,120,122, 128,129,132-135,140,144,145,150,156, 158,159,161,164,165,167,171,173,175, 180,182,186,191,192,196,199,203,204, 208,214-217,233-235,242,244-249,251, 256,261,265,268,271-273,277-279,283, 284,288,289,297-300,302,304,308,309, 311,312,314,317,322-324,326-329,331, 335,343-346,349-351,354,355,357,360, 363,395,400,410,418,757,851,863,881 اشاریہ ، کلید مضامین راج / مہاراجے 194,195 رافت 302 رحم ا رحمت,86,89,126,129,175,184 196,267,281,300,302,362,363 جماعت کے بغیر خدا کی رحمت اور برکت نازل نہیں ہوتی 314 رمضان المبارک روزے احیام 20-22,43,135,229,275,297,303,390,807 روبه 51,55,90,91,109,121,123,139,154,156, اس وقت دنیا کو بتانے کی بہت سخت ضرورت ہے کہ ہم کون 158,160,165,173,174,177,198,205,206 ہیں اور ہمارے عقائد کیا ہیں ؟27 دنیا کی محبت کی وجہ سے جان کنی کی تکلیف 84 223,241,273,278-281,291,293,298,299, 307,310,312,314,326,336,349,360,410, دنیا میں امن قربانی سے قائم ہوتا ہے، زور اور طاقت سے نہیں 110 468,528,603,753,754,764,805,855,857 آج دنیا کے پردہ پر اگر کوئی جماعت اسلام کی تبلیغ کر رہی ہے رؤسا / امراء تو وہ جماعت احمد یہ ہے 113 193,194,318,322,326,330,331,717,718 دنیا کے مذاق کو بنانا ہمارا کام ہے بگاڑ نا نہیں 210 روی قوم 31 دنیا میں روپیہ کے ذریعہ بھی تبلیغ نہیں ہوئی 309 رومن کیتھولک 750 دنیا کی روحانی اور اخلاقی زندگی کا کام ہمارے ذمہ ہے 521 | رومی قوم 60-58 دھوکہ فریب 79,92,101,135,309,853 رؤیا/ کشوف/ خواب 3,26,63,266,287,293,294 دہریہ ادہریت 302,525,581,592,746 دیانت 73,92,103,119,180,244,268,308,309, 310,311,312,315,319,330,383,384,472 307,312,316,317,361,458,491,517,538, 539,556,598-601,608,650,656,708,751 صحابہ کو رویا میں اذان کے الفاظ سکھائے گئے 26 رياء 58 915
اشاریہ بکلید مضامین ریز روفنڈ 173,281,319,320 تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد دوم 335,343,353,363,681,846,847,875,876 348,387,394,395,408,450-452,462,469, 472,477,491,499,528,529,648,703,779- 781,791,797,798,817,825,829,830,831 زندگی کا مقصد 3 زندگی کی آئینہ دار موت 43 انسانی زندگی کے دو حصے 56 ریڈیو 210-208 زندگی وہی ہے کہ جو دین کے لئے قربان ہو جائے 321 ز زہر 316 زبانیں - 11,39,53,96,129,163-9 س 165,188,195,231,273,307,320,321,354- 356,369,395-401,403,404,409,410,417, 432,438,439,470,517,629,630,632,634 سادہ زندگی 200,242,248,250,251-63,140,198 353,389,444,445,485,486,758,759,879 سائنس 302,337,396 ستیہ گرہ 725 زراعت 319,705-70,181,317-68 زرتشت از رتشت ازم 26 سچائی رصداقت / راستبازی 21,22,178 زمانه ,109,117,118,120-96,102 121,189,204,208,214,242,255,302,757 73,77,78,92,108,110,111,119, 126,178,180,190-192,306,357,601,615 سچ انسان کا اعتبار قائم کرتا ہے 74 زمین / زمیندار 69,70,90,91,134,139,174 سچ اور اس کے فوائد کیا ہیں ؟ 75 231,233,235,270,305,308,310-315,317- 319,334,335,348,373,411,451,452,521, سچ کیوں بولنا چاہیے ؟76 سچ بولنے کے یہ معنی نہیں کہ جو کچھ معلوم ہے وہ ضرور بیان کرو 111 703,704,710,805,840,867,870,871,884 سفر 10 زمیندار طبقہ ہمارے ملک کی جان ہے 288 سکھ اسکھ مت 25,100,103,144 زندگی 358,359,502,612,635,636,735 44,68,86,87,96,119,121,122,137,160,161, 178,198,246-249,270,277,278,297,302, 303,306,309,311,315,320,322,326,333- 916 سلجوقی قوم 103 سمند ر 10 سواراج 143,144
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم سیاسیات 636 ہماری جماعت کا سیاسیات سے کوئی تعلق نہیں 521,522 سیلونی قوم 74 سینما بینی 208,211,486 اس زمانہ کی بدترین لعنت 485 سینما بینی کی ممانعت 63,123,198,207 سینما کیا ہوتا ہے 75 اشاریہ کلید مضامین 214,216,236,247,248,249,297,299,311, 321,322,352,412,444,445,483,547,625, 658,686,795,796,830,833,834,835,881 صحابہ کو رویا میں اذان کے الفاظ سکھائے گئے 26 صدرانجمن احمدیہ صدر انجمن احمد یہ , 11,12,106,205,206 207,289,292,293,308,312,409,416,464, 465,471,653,665,674,692,701,799,862 صدقہ و خیرات 125,178,257,325,351 شرک / مشرک / مشرکین 58,290,329,331,492 صدیق 86 شریعت,21,78,110,111-19 317,328,329,330,351,422,685 صلحاء 132,152 صلح جوئی 101,273,863 شطرنج 104,848 شفقت 302 شکر 131,169,277,283 شہید / شہدا/ شہادت 87,149-153,355,363,429,441,442 شہید کیوں کہتے ہیں؟ 86 شیطان 26,86,197,213,273,335,336,527,565 شیعہ 514,515,748 صالح / صالحین 86 مبر 14,16,191 صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 21,24,26 52,53,67,68,83,86,87,102,150,151, صلوۃ ( دیکھئے نماز ) صنعت صناع 68-70,310,313,413,414,521,611,612 صوفیاء 126 طالب علم طلباء 74 b 78,95,96,99,100,107,287,289,354,356, 363,395,446,514,524,529,742,821,823 تم قوم کی آئندہ اساس بننے والے ہو 106 طاقت 271,298,300,357,619,748 طاعون 74 ظلم 79 ظ 917
اشاریہ ،کلید مضامین ع عبادت / عبادات تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم 602,659-664,670,674,695,715,823,865 علم تفسیر القرآن 289,310,453,467,602,715-287 علم حدیث 289,310,453,454,467-287 3,68,71,93,102,150,306,619,869 علم فقہ 289,453,467-287 عترت علم کلام 288,289,383 عترت کے معنی 516,518-514 علم تصوف 288,289,460 عرب قوم 67,101,107,143,144,164,819 علم طب 356,357,467 عرفان 4 عذاب,29,30,58,86,127,159,174 175,183,191,196,267,323,385 علم صرف ونحو 287,453,454,635 علم موازنہ مذاہب 383 علم فلسفہ 453 جھوٹ بولنا ایک عذاب ہے 74 علم ادب 453 عزت علم حیات 576 86,92,93,106,108,143,153,214-216,234- 236,249,272,288,299,300,322,325-327, علم جغرافیہ 210,602 علم النفس 717 349,356,357,359,365,855-857,891,892 ذاتی عزت سے قومی عزت بڑھ کر ہوتی ہے 56 198,353,363* علم/ تعلیم / علوم 6,11,20,39-41,52,56,73,76,95,99,102, 134,140,143,149,164,171,195,233,234, 256,272,273,283,284,288-291,295,300, 303,310,311,314,317,318,320,323,325, 326,328-331,336,349,351,353,355,356, 359,362,377,378,383,384,389,394-396, 398-400,407,413,416,454,459,466,533, 918 9,143,174,193,194,284,287-289,- 322,357,358,361-363,405,452-454,459,465, 467,524,633,634,636,713-715,728,741,813 علماء کو تبلیغ 364 عمل / اعمال 148,153,154,161,269 272,303,334,336,601,615,875 عمل صالح ایمان کو بلند کرتا ہے 50 عمل سے ہی عزت ہے 795 عہدیداران / افسران 892-16,28,890 افسر سارا دن فارغ بیٹھے رہتے ہیں 73
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم عیسائی رعیسائیت 25,58,67,100,101,104 105,113,118,144,180,200,234,276,290, 182,293,455-458,559,863 اشاریہ کلید مضامین فتح / فتوحات 69,101,104,119-14,15,58,67 298,304,318,351,394,397,403,460,468, 479,492,498,502,510,601,612,617,635, 685,735,819,820,834,856,870,877,878 عیش پرستی 302 197,256,267,279,285,298,299,303,309,333, 334,336,339,345,358,363,381,387,533,559 دینوں پر فتح تبلیغ سے ہوتی ہے، تلوار سے نہیں 118 ہمارے ذمہ دنیا کی فتح کا کام ڈالا گیا ہے 143 3,4,6,7,20,100,155,229,255,275,390 اس زمانہ میں اسلام کی فتح اور مسلمانوں کا غلبہ محض تبلیغ سے عید اسی کی ہے جو ابراہیم کے نمونہ کے مطابق اولا د کو قربان وابستہ ہے 261 کرتا ہے ) جسم کا فتح کرنا آسان مگر دلوں کو فتح کرنا بہت مشکل کام ہے 288 اپنے بیٹوں کو قربان کرو تا کہ تمہیں حقیقی عید نصیب ہو 7 فرشتے ملائكة الله غفار قبیلہ 46 غلبہ 617 غربت / غریب غربا,50,54,55 100,153,167,205,206,210,240,250,294, 72,102,117,126,143,196,197,216, 250,272,317,326,334,335,481,487,630 فرمانبرداری اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور وفاداری چاہتی ہے کہ احمدیت کو جلد از جلد پھیلائیں 1 301,314,330,331,359,390,460,718,840 موت ایسی حالت میں آنی چاہیے جبکہ تم خدا تعالیٰ کے کامل ہمارے ملک میں امیروں اور غریبوں کے درمیان ایک دیوار حائل فرمانبردار ہو 43 فرانسیسی قوم 164 ہے141 فسار 1,150,182,251,457,863 غلامی 302,320,820 غیبت 78,79 فقہ وفتاوی فقہا ء 314,666 غیرت 831-829 کچن کی تعمیر کر وہ مسجد کی حیثیت؟174 فینٹی قبیلہ 749 ق فارسی قوم 165 فال 58,59 قادیانی/مبائع 114,185 919
اشاریہ ،کلید مضامین ں وبسط 121 قحط الرجال 283 قرآن کریم 6,20,25,33 تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم 571,573,578,580,581,583,585,586,588- 591,593,595,625,645,646,651,672,678, 680,693,700-702,704,709,722,726,732- 734,745,747,749,753,758,765,766,769, 772,773,777-781,786,788,793-798,801, 807-811,821,824-830,833-835,837,839, 842,843,862,863,866,873,874,881,892 ان قربانیوں کے نتیجہ میں خدا ملتا ہے 14,15 قربانی کے بغیر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہونا ناممکن ہے 30 43,45,48,68,77,78,88,118,126,143,154, 155,175,188,210,245,248,294,303,305, 306,325,329,336,375,399,400,402,404, 405,407,410,415,417-420,422,425,427, 428,430-437,439,470,473,486,496,501, 502,515,516,562,570,601,602,616,687 قربانیاں (روحانی، جانی، مالی، دینی ، اولاد کی ) - 7,914-3 قربانی کرنے والے اس بات کے مستحق ہیں کہ جماعت کے دوست ان کے لئے دعا کریں 33 دنیا میں امن قربانی سے قائم ہوتا ہے، زور اور طاقت سے نہیں 110 قربانیاں کبھی ختم نہیں ہوسکتیں 122 قربانی وہی کہلا سکتی ہے جو واقعہ میں قربانی ہو 125 اللہ تعالیٰ قربانی کرنے والے کی نیت کو دیکھتا ہے 154 اللہ کے نام پر قربانی کرنے والوں کے ناموں کو بھی ملتے نہیں دیکھا 158 قربانیاں قوموں کا سانس ہوتی ہیں 178 چھوٹی اور لمبی قربانی، وقتی قربانی سے زیادہ ہیبت ناک اور خطرناک ہوتی ہے 179 مبلغین کی قربانیاں 184 قربانی کے لئے مناسب ماحول ضروری ہے 201 معمولی معمولی قربانیوں سے بڑے بڑے انعامات حاصل ہو سکتے ہیں 214 16,31,32,37-39,43,51,68-70,73,74,82,89, 90,92,93,103,119-125,127,128,131,132, 145,148,149,152,153,155-157,160,161, 165-167,169,171,174,175,177,180,182, 184,186,195,198,199,200,205-208,213, 220-223,225,231-233,235-237,246,253, 256,266,267,269-273,275,279-281,285, 288,289,297-300,303-306,309,311,313- 315,318-320,322,323,330,336,339,348, 349,353,359,362,363,371,378,380,384, 386,387,389,390,416,417,427,430,435, 437,440,442-444,450,460,461,474,480- 483,486,488,492,494-496,501,504,512- 515,518,541,542,549,551,552,568,570, 920
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم قربانی وہی فائدہ دے سکتی ہے جو بشاشت کے ساتھ کی جائے 294 کریمنل لا امنڈ منٹ ایکٹ 449 کوئی قوم قربانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی 563 قرب مقرب 49,83,87,124 159,237,304,322,417,422 قریش 46,49 رؤسائے قریش 48 قناعت 16 قیافہ شناسی 356 قیامت ( نیز دیکھئے آخرت) ,44,133 155,158,189,234,236,237,258,289,885 کفرا کافرا كفار,60,86-48,49,58 اشاریہ کلید مضامین 150,177,190,334,337,387,525 کفر و اسلام، مسئلہ 626 کورل آئی لینڈ ز 305,743,843 کیمونسٹ تحریک 437 گانا بجانا209,210 گیا ( لوئیوں کے ٹکڑوں کو رنگ کر فرش پر بچھانے کے لئے بنایا گیا ایک کپڑا ) 102 قیامت کے دن انسان کو اس کے بہترین اعمال کے لحاظ سے گناہ گناہ گار,21,22,45,49,89,183 بدلہ دیا جائے گا 43 215,259,273,342,376,389,590,853 کسی کا مال استعمال کرنا گناہ ہے 109 کارخانه 710,805 کارکنان, 37,38,42,60,74,79,128,129,147 بلا ٹکٹ سفر کرنا بھی بہت بڑا گناہ ہے 212 گورنمنٹ 83 163,166,194,231,283,315,348,386,409, 413,414,416,421,433,439,574,659,660, 674,703,704,706,710,787,788,862,884 کارکنان بیدار ہوں اور اپنے مقام کی عظمت کو سمجھیں 128 کانگریس 598,599,819 لالچ 190,312 لجنہ اماء الله / عورت 41,294,401,402,404,409,416, 419,422,425,426,430,432-434,436,437, کپڑے کی تنگی 56,598 440,473,505,538,631,671-674,765,826 کشمیری قوم 103 عورتیں بھی دین کی خدمت کر سکتی ہیں 63 کرامت/ کرامات 300 لوہار 70 کرد قوم 103 لیبر پارٹی 606 921
اشاریہ ، کلید مضامین م مادیت مادی طاقت مادی غلبہ 619 مال / دولت 5,6,14,16,52,74,109,127,179,211, 271,272,281,294,297,301,321,322,325- 327,339,351,389,502,587,603,673,807 مامور من الله 26,343,368 مبلغین مربیان ,11,23,63-9 تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اگر تبلیغ میں کوئی روک پیدا ہوتی ہے تو تم سزا کے بھی مستحق ہو 172 مبلغین کو دعاؤں میں یا درکھنا ہم سب کا فرض ہے 183 مبلغوں کو اپنی دعاؤں میں یاد نہ رکھنا نقص ایمان ہے 184 جماعت کا فرض ہے کہ مبلغین کی قدر کرے 186 مبلغین سے سلسلہ کی عزت ہے 186 مبلغین ہی حقیقی ایمان کا مظاہرہ کرنے والے ہیں 186 تمام مبلغین کو اپنی دعاؤں میں یا درکھو 225 مبلغین کی تقسیم 464 114,142,163-165,173,180,181,185-188, 196,200,201,225,289-291,298,307,308, 310,311,315,317,318,320,321,336,343- 350,353-355,357,380,383-385,394,395, 398-400,402,405,407,408,410,412,444, 447,452,463,466,468-471,476,487,489, 492,493,495,496,514,519,525,527,528, 534,567,569,570,608,612,622-625,633, 635,637,651,655-659,661,677,683,684, 686,689,691,692,695,699,700,703,704, 730,732,734,735,739-742,746,749,753, 758,759,761,766,773,774,789-791,803- 805,813-815,825,827,837,838,868,876 ہماری جماعت کے مبلغ لوگوں کو زندہ رکھنے کے لئے نہیں بلکہ زندہ کرنے کے لئے ہیں 684 مجلس عرفان 821 محاورے / ضرب المثل / روز مرہ/اقوال / اصطلاحات تک کٹا 30 الامور بخواتيمها 43 کیا پدی اور کیا پدی کا شور با 113 ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات 207,382,871 مالا یدرک کله لایترک کله 357,634 العلم حجاب الاكبر 363 پہلے بے چکنے چکھا اب چکھنے کے بعد پھر چکھو (انگریزی محاوره )462 سوگز واروں، ایک گز نہ پھاڑوں 488 مبلغین نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر ہمارے بوجھ کو اٹھا تریاق از عراق آورده شود مارگزیده مرده شور 498 - 497 لیا ہے 171 عتر العتيرة 515 اگر مبلغ کے کام کی وجہ سے تم ثواب کے مستحق ہو تو تمہاری وجہ سے نالے حج نالے بیوپار 627 922
اشاریہ ،کلید مضامین تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم انگ لگتا 631 جاندے چور دی لنگوٹی سہی 634 آزادی مذہب 113 مذہب مل بیٹھنے پر خوش نہیں ہوتا بلکہ مل جانے پر خوش ہوتا ہے 192 لبھی چیز خدادی، نہ دھیلے دی، نہ پادی 667 مرکز مرکزیت 15,48,63,105,167,231,232 ول بولنا 689 خدا پنج انگشت یکساں نہ کر د 712 344,345,347,348,354,369,376,400,402, 423,426,427,449,574,607,695,696,866 شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے بہتر مساوات 445 ہے 745 محبت محبت الهی,16,53 مسجد / مساجد, 68,71,163,187,215 284,307,320,322,349,359,379,436 مسلمان,105,113-60,100-16,19,26,27,48,52,58 114,118,143,144,158,183,188,215,216, 222,234,240,290,306,315,323,330,344, 72,74,78,85,99,105,108,109,143,145, 188,192,196,205,233,237,242,245,251, 267,271,273,302,320,331,346,441,442 دنیا کی محبت جان کنی کی تکلیف کی وجہ 84 محنت - 77,78,122,165,308 312,315,319,383,384,387,823 محنت کی عادت 73,74,108,111,198,668,670,842 مدرسہ احمدیہ ( دیکھئے جامعہ احمدیہ ) 436,449,498,510,610,819,870,877,892 مسلمانوں میں اخلاق کی طرف بہت کم توجہ ہے 73 مسلمانوں کی حالت 100,103 مسلمانوں کی تباہی کی چار وجوہات 108 مسلمان کی زندگی تکلفات سے پاک ہونی چاہیے 142 اس زمانہ میں اسلام کی فتح اور مسلمانوں کا غلبہ محض تبلیغ سے وابستہ ہے 261 مسلم لیگ 819 مشائخ 193,194 مشاورت/ مجلس شورای 12,145,319 408,803,805,807,812,813,817 مشکلات 1 مشن ہاؤسز 11,63,114,320,347,348,394,562 923 289,362,363,386,453,465,487,488, 510,514,516,517,524,525,527,528,661, 666,711,713-715,729,730,734,774,819 مداہنت 365,366 مذهب / مذاہب 79,113,114 118,134,187,198,210,234,241,255,291, 309,320,323,460,468,510,684,758,869
اشاریہ ،کلید مضامین 742,749,762-764,773,790,793,816,817 مشنری 113,114,290 مصنف 23 تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے 563 موت کو مومن اپنی زندگی سے بھی پیارا سمجھتا ہے 574 مورش قوم 397 معاملات مولوی / ملاں / ملا 39,75,135,239,344,357,358,666 معاملات کی خرابی 108 مولوی فاضل,289,362,386 معاملات کی درستی 111 معجزات 77,617 معمار 70 مغل قوم 819 661,714,730,731,815,842 مومن مومنین 16,19,54,56,58,60,71,951,108 109,120,126,132,133,148,149,160,161, مقرر 23 منافق / منافقین 6,7,71,148,215,216,418,582 منافقت 26,186,190,542 من و سلوی 882 موت,32,34,49,107,119,146,160,161 174,178,204,215,233,242,244,248,249, 257,258,271,275,277,284,293,294,304, 322,323,335,336,387,414,418,422,441, 442,495,502,800,801,823,840,861,894 مہاجر / مہاجرین 14,68 174,181,212,235,248,299,309,311,314, 334,363,389,525,565,579,583,681,894 مهاجر اور تارک وطن میں فرق 23 جو صحیح معنوں میں مہاجر کہلانا چاہتا ہے وہ اپنے اوقات زیادہ یہ اس قسم کا زمانہ ہے کہ موت ایک منٹ کے لئے بھی اوجھل | مہمان نوازی 149,240,241,352 نہیں ہونی چاہیے 30 موت کے اس قدر قریب ہونے پر بھی اگر مومن اپنی ذمہ سے زیادہ خدمت دین میں صرف کرے 23 عربوں میں مہمان نوازی کا وصف خاص طور پر پایا جاتا ہے 47 واری کو نہ سمجھے تو بہت افسوس کا مقام ہے 31 نجات 291,317 موت ہی انسان کی زندگی کی آئینہ دار ہوتی ہے 43 نجار 70 وہ موت کا دن ہو گا کسی قوم کے لئے جب اس کے افراد کی نشان / نشانات 303 کثرت قربانی روح سے محروم ہو گئی 178 موت ہی دراصل زندگی ہے 461 924 نصائح ( نیز دیکھئے ہدایات تحریک جدید) 73-79,109-111,121,125,198,293,
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد دوم اشاریہ ، کلید مضامین 313,318,353,446,574,608,641,821,874 وقف کی حقیقت سمجھیں 378 چندوں کی ادائیگی میں ہمہ تن مشغول ہو جا ئیں 43 جماعت کو اپنے اندر بیداری پیدا کرنی چاہیے 412 چندوں کی وجہ سے جلسہ سالانہ پر آنے میں سستی نہ ہو 44 اب وقت غفلتوں اور سستیوں کا نہیں، کمر ہمت باندھ لو559 اور زیادہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں 72 باجماعت نمازوں کی عادت ڈالو 72 آگے بڑھو اور احمدیت اور اسلام کے لئے اپنے مالوں کو قربان کرو 651 اسلام اور احمد بیت کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کر و97 یہ کام کا وقت ہے باتیں بنانے کا نہیں 678 اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں 106 ستی کی عادت نہ ڈالو 110 اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں 687,695,826,876 جماعت کی تعداد کو جلدی جلدی بڑھایا جائے 706 جب بھی کوئی دینی تحریک ہو فوڈ ادعاؤں میں لگ جانا چاہیے 132 اپنے فرائض کو سمجھیں اور انہیں کما حقہ ادا کریں 710 میہ دن بہت نازک ہیں دن رات دعائیں کریں اور دوسروں کو اپنے ماحول کو بھی احمدی بنائیں 716,717 تحریک جدید کی اہمیت کو سمجھیں 794 بھی تحریک کریں 145 اپنی نیتوں کو درست کر وہ اپنے ارادوں کو نیک بناؤ اور اپنی خدمت دین کے اس موقع کو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دیں 840 اپنے اندر تبلیغ کا احساس پیدا کر و 847 کمروں کو کس لو 156 تمہارے دل خشیت اللہ سے بھر جانے چاہیں 175 ہماری جماعت کے لوگوں میں ایڈونچرس روح ہونی چاہیے 870 تم خون کی ندیوں میں چلنے کے لئے تیار رہو 182 نفاق 7 بہادر بنو اور اپنے نفسوں کے غلام مت بنو 208 اب غفلت اور کوتاہی سے کام لینے کا وقت نہیں رہا 214 دعائیں کرو اور کرتے چلے جاؤ 223 تمام مبلغین کو اپنی دعاؤں میں یادرکھو 225 اپنی زندگیوں کو سادہ بناؤ 251 نماز ر صلوة 20-22,25,43,70-72,133,135,150,178,215, 248,277,297,303,389,503,625,626,807 نماز ایک ایسی نیکی ہے جو ایک بھی چھوڑے وہ مسلمان نہیں رہ سکتا 108 خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نصیحت 277 نماز جنازہ 215,322,625,626 اپنے نفسوں سے دنیا کی محبت کو سرد کر دو اور اپنے دین کی نواب 194,318 خدمت کے لئے آگے آؤ 284 جلد جلد اپنے قدم بڑھا ؤ 336 نوجوان 11,14-9 54,63,79,105,110,142,187,195,207,208, 925
اشاریہ ،کلید مضامین تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم -211,253,255,256,258,259,283,285,288 پر اعتراض 14,15 ,295,306,318,326,336,343,362,363 290 حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مال و دولت سے ,386,389,410,445,446,453,482,517,527 نفرت کا واقعہ 16 ,535,549,552,558,590,610,611,657,668 | بغداد کے ایک بزرگ کا واقعہ 31 ,673,678,683,688,732,777,778,793,794 | ایک ہندو کا مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کو برکت کے 816,820,831,842,843,851,856,867,885 لئے اپنے گھر آنے کی منت کرنا 41 نور / انوار 135,285,300,302,304,335 غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت ابوخیمہ کے پیچھے رہ جانے کا مختلف زبانیں نو جوانوں کو سکھائی جائیں 10 حضرت ابوذر غفاری کے قبول اسلام کا واقعہ 47-45 نور نبوت 290,306,357 واقعہ 54-52 نیت, 34,137 حضرت ابوبکر صدیق اور ابی بن خلف کی شرط کا واقعہ 59 ,140,148,152-156,158,160,161,266,272 کسی شخص کا آنحضرت سے پوچھنا کہ غیبت کیا ہے؟78 293,313,315,328,373,493,495,590,882 مختلف انبیاء کے ابتلاؤں کے متفرق واقعات 83 اعمال نیتوں کے تابع ہیں نیتیں اعمال کے تابع نہیں 155 آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کنی کی تکلیف کا واقعہ 83 نیتوں کی درستی کے ساتھ انسان کے کاموں میں برکتیں پیدا کسی کا اندھے کو کہنا کہ سو جا 85,247 ہو جاتی ہیں 156 کسی بیوہ عورت کی وفات کا واقعہ 100 نیک / نیکی 183,85,86,89,90,108,126,128,157 مسلمانوں اور عیسائیوں کی جنگ کا ایک واقعہ 101 ,214,216,235,241,269,273,293,302,311 ایک صحابی کی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست دعا کہ 316,330,336,360,437,441,494,504,859 اللہ تعالی جنت میں مجھے آپ کے ساتھ رکھے 102 امام کے حکم کے مطابق طریق اختیار کرنا ہی نیکی اور حقیقی گیا ( لوئیوں کے ٹکڑوں کو رنگ کر فرش پر بچھانے کے لئے بنایا گیا ایمان ہے 317 واقعات ایک کپٹر ) بنوانے کا ایک واقعہ 103-102 ایک عورت کا خلیفہ کو اپنی مدد کے لئے پکارنے کا واقعہ 104,105 داڑھی نہ رکھنے والوں کی شکایت کا واقعہ 109 حضرت نظام الدین اولیاء کے آگ اور ایک بچے کو چومنے کا واقعہ 5 ایک احمدی کے بغیر ٹکٹ ریل میں سفر کا واقعہ 109 فتح مکہ کے موقع پر ایک نو جوان انصاری کا مال غنیمت کی تقسیم ایک احمدی کے حضور اور پرائیویٹ سیکرٹری کے لئے ٹکٹ لینے 926
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم کا واقعہ 109,110 پیغامیوں کے ایک مشنری کا واقعہ 114 ایک اوباش میں اچانک تبدیلی کا واقعہ 126 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک نوٹ 133 ڈھکا ہوا نہ تھا 248,249 اللهم لا على ولا لى 268 اشاریہ ، کلید مضامین ایک عورت کی زیور کی قربانی کا واقعہ 294,673,765 سرخ سیاہی کے چھینٹوں والا واقعہ 300 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک جلالی واقعہ 134 جنگ میں پانی پلانے والیوں کو مال غنیمت دینے کا واقعہ 316 ایک میراثی کے منہ پر نور آنے کا واقعہ 135 اپنے ایک عزیز کا ذکر 141 مسلمانوں کا کھلے عام عبادت کا آغاز 150 حضرت حمزہ کی شہادت کا واقعہ 151 حضرت خالد بن ولید کی وفات کا واقعہ 151 مبلغین کی قربانیوں کے واقعات 184,185 ایک بڑھیا کا بدعائیں دینے کی مثال 191 کا رد عمل 242,243 کسری کے سونے کے کنگن والا واقعہ 317-316 افریقہ سے ایک مبلغ کا واقعہ 318 ایک شخص کا زندگی وقف کر کے پیچھے ہٹنے کا واقعہ 319 صحابہ سے حضور کا پوچھنا کہ تمہیں کون سا مال پسند ہے؟321 مسجد نبوی میں جھاڑو دینے والی عورت کا واقعہ 322 شبلی اور جنید کا واقعہ 323 ہندوستان میں اشاعت اسلام کا واقعہ 323 ایک نوجوان کو زبردستی سینما میں لے جانے کا واقعہ 208 حضرت بدھ کا اپنے بیٹے کو بھکشو بنانے کا واقعہ 351 حضرت ابوبکر کا اپنے گھر کا سارا سامان قربان کر دینے کا واقعہ 221 حضرت عیسی" کا حواریوں کو تبلیغ کا طریق بتا نا 35 لاہور والوں کی مہمان نوازی کے متعلق ایک لطیفہ 241 آنحضور کا ارشاد کہ تین دن تک مہمان نوازی فرض ہے 352 مدینہ میں چکیوں کے ذریعہ بار یک آٹا تیار ہونا اور حضرت عائشہ حضرت خلیفہ اول کے ایک سفر کا واقعہ 356 حضرت مسیح موعود کے سفر جہلم کا واقعہ 358 منشی اروڑے خاں صاحب کا حضرت مصلح موعودؓ کو پونڈ حضرت مصلح موعودؓ کے دادا کی غیرت کا ایک واقعہ 359-358 پیش کرنے کا واقعہ 244,603,604 جامعہ ازہر کے ایک عالم کے احمدی ہونے کا واقعہ 364 حضرت مصلح موعوددؓ کا شکار کا گوشت حضرت مسیح موعود کی ایک شخص کے حضرت مصلح موعودؓ کو خط لکھنے کا واقعہ 365 خدمت میں پیش کرنے کا واقعہ 245 ایک مسلمان لیڈر سے حضرت مصلح موعودؓ کی ملاقات کا واقعہ 365 قرآنی معارف کھلنے پر حضرت مصلح موعودؓ کارد عمل 245 ایک واقف زندگی کے باپ کے دفتر کو خط لکھنے کا واقعہ 377 ایک دعوت میں حضرت مصلح موعودؓ کی شمولیت کا واقعہ 246 لڑائی میں کشمیریوں کا حفاظت کے لئے پہرے دار مانگنا 385 آنحضور کے زمانہ میں ایک لڑکے کا امامت کرانا جس کا ستر آنحضور کے زمانہ میں ایک جگہ چالیس مبلغ بھیجنے کا واقعہ 412 927
اشاریہ ،کلید مضامین مبلغین کی قربانی کا واقعہ 444-443 تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم ایک احمدی کو فوج سے نکالے جانے کا واقعہ 610 احرار کے جماعتی جلسوں پر پتھراؤ کے واقعات 455,457 جاپانیوں میں تہذیب کے متعلق ایک لطیفہ 618 رام باغ میں مولوی کی بددیانتی کا مشاہدہ 460 ایک ہندوستانی کا حج کے دوران بال کاٹنے کا واقعہ 620 مبلغین کے متبادل کے لئے نا اہل لوگوں کے نام پیش کرنے ایک شخص جو عیسائیوں سے مسلمان ہوا اس کے قادیان آنے کا واقعہ 464 مبلغین کی قربانیوں کے واقعات 471 کا واقعہ 620 ایک تاجر کا اپنے بیٹے کو تجارت شروع کروانے کا واقعہ 622 حضرت ابو ہریرۃ" کے آنحضور کی خدمت میں آنے پر ان حکیم عبدالرحمان صاحب کا غافی کو روپے دینے کا واقعہ 622,623 کے بھائی کا شکوہ 488 مواخات مدینہ کا ایک واقعہ 624,721,723 حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی دینی تعلیم پر ان کے والد ایک نو احمدی کو تجارت شروع کروانے کا واقعہ 625 صاحب کی ٹکر 489 جہاد فی سبیل اللہ کے معنی پوچھنے کا واقعہ 495 ایک بینے کی کنجوسی کا واقعہ 505,811 عورتوں کی قربانی کا واقعہ 505 ایک شخص کے وقف چھوڑنے کا واقعہ 526 قبول احمدیت کے چند واقعات 538,540 مسئلہ کفر و اسلام کے متعلق ایک واقعہ 626 کشمیر کا ایک واقعہ 1 63 ویمبلے ایگزیبیشن کا ایک واقعہ 641 سیرالیون میں مخالفت کا ایک واقعہ 654 ایک افسر کا احمدیوں کو ملازم رکھنے کا واقعہ 660 حضرت خلیفہ اول کے درس کا ایک واقعہ 662 جنگ کے خاتمے کے متعلق پہلے بتا دینے کا واقعہ 543,553 ایک احمدی طالب علم سے اساتذہ کے تعصب کا ایک واقعہ 663 555,557 ایک نوجوان کی قادیان آمد کا واقعہ 539 دو پوستیوں کا واقعہ 665 بخارا کے مولویوں کا ایک واقعہ 666 بھوپال والوں کا خدا 571,572,592 ایک واقف زندگی کا واقعہ 668 حضرت ضرار بن اسوڈ کا میدان جنگ کا ایک واقعہ 573,574 ایک پھانسی پر چڑھنے والے لڑکے کا اپنی ماں کا کان کاٹ تیمور اور حافظ شیرازی کا واقعہ 581 لینے کا واقعہ 670 حضرت مصلح موعودؓ کی ایک پیشگوئی کا انگلستان میں چرچا 600 ایک جنگ میں حضرت خنساء کا اپنے بیٹوں کو بھیجنے کا واقعہ ایک شخص کے زکوۃ دینے سے انکار کا واقعہ 603 671-672,688 سر آغا خان کی اپنے ایک مرید کوں نصیحت کا واقعہ 606 حضرت سعد کی اہلیہ کا ایک جنگ میں ایک قیدی کو جنگ 928
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم کے لئے چھوڑنے کا واقعہ 973-672 اشاریہ ،کلید مضامین گجرات کے ایک دوست کی قربانی کا واقعہ 780 مطالعہ کتب حضرت مسیح موعود کی برکت کا ایک واقعہ 674 ایک جانور کی مثال جو ٹانگیں آسمان کی طرف کر کے سوتا ہے799 حضرت لوط کی بہستی پر عذاب کا واقعہ 800 بر ہما اور شوجی کی عبادت کا واقعہ 680-679 حضرت عثمان بن مظعون کی شہادت کا واقعہ 680 ایک صحابی کا آنحضور سے عہد کہ کسی سے سوال نہیں کروں گا 830 ڈاکٹر یوسف سلیمان صاحب کا قادیان آنا 699-697 حضرت مسیح موعود کے دادا کی غیرت کا ایک واقعہ 830 واقف زندگی بیٹے کے لئے جائیداد وقف کرنا ( 3 واقعات) دوران سفر ایک دھوبی کا واقعہ 838 720,721 حضرت مسیح موعود کے ایک صحابی کے جذ بہ تبلیغ کا ذکر 848 لالہ ہنس راج کا زندگی وقف کرنا اور بھائی کا خرچ دینا 722 شطرنج کے خانوں کو کوڑیوں سے بھرنے کا واقعہ 848,849 آنحضور کا تبلیغ کی غرض سے قریش مکہ کی دعوت کرنا 723,724 ایک شخص کا حضرت مسیح موعود کی مجلس میں نہ آنے کا واقعہ 853 قبول واشاعت و تائید اسلام کے واقعات 727,771,813,814,836,837,838 ایک فقیر کا واقعہ 729 ہندوستان کے لیڈر کا واقعہ جو تارک نماز ہو گیا 854 ایک نو مسلم انگریز کے وقف کرنے کا واقعہ 865 ایک مولوی کا کہنا کہ چڑیا جتنے روپے کے سامنے میں کیا کرتا 736 بعض صحابہ کی مالی حالت کا ذکر 881 ایک مچھر اور بیل کا واقعہ 741 حضرت بدھ کی تبلیغ اور بھکشو بنانے کا واقعہ 868,869 صلح حدیبیہ اور بیعت رضوان کا واقعہ 894-892 واقفین زندگی ,9,10,287,295 حضرت مسیح موعود کی غیرت اسلامی و عظمت مسلمان کا ایک واقعہ 744 واعظ 23 ٹیپو سلطان کی جنگ کا واقعہ 745 ایک مبلغ کی بیماری کا واقعہ 746 صلاح الدین ایوبی کی جنگ کا واقعہ 747 قرامطہ کے امام اور فلپ کی ملاقات کا واقعہ 749-748 309,318,327,330,331,341,355,377,379, 383-386,408,411,443,657,660,668,674, 774,788,824,825,841,860,867,868,870| گولڈ کوسٹ میں مبلغ کے استقبال اور جماعتی ترقی و پذیرائی واقف زندگی پر حملہ کرنے والا خدا تعالیٰ کی تلوار کے سامنے کے واقعات 752-749 ہوتا ہے137 مہنگائی اور مبلغین کی تنگی کے واقعات 759,760,763 واقف زندگی سلسلہ کی اولاد ہے 391 ایک جنگ میں مسلمان سپاہیوں کا ایک دوسرے کی خاطر واقف زندگی کی وجہ سے باقی خاندان کو رزق 489,720,721 جان قربان کرنا 772 351,479,480 n 929
اشاریہ ، کلید مضامین وصیت 351,587 حضرت یعقوب کی اپنے بیٹوں کو وصیت 33,34 تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم 613,625,633,637,638,642,654,657-659,|| 669,671-674,683,687,689,695,696,716- 720,722-725,730,731,735,736,742,745,|| وعدہ ایفائے عہد / معاہدہ, 23,29 765-767,777,778,807,810,811,815,820, 30,32,60,92,101,103,119,128,135,180, 822,824,828,829,837,841-843,851,852, 205,257,258,266,272,273,275,319,334, 860,861,865-868,870,871,873,876,890 335,341,348,350,351,361,376,414,748 وعدہ بڑی چیز ہوتا ہے 58 وقف زندگی کی شرائط 352 وعدہ کرنا آسان لیکن پورا کرنا مشکل ہوتا ہے 221 وقف جہاد کا حصہ ہے 375 وعظ و نصیحت 42,46,126,135,358,735 وقف زندگی کا مطلب ہے دنیا سے کٹ جانا 376 وفاداری 1 وفات مسیح 188 ولی ولایت / اولیاء 86,132,133,335 خدا تعالیٰ کی ولایت کے معنی 133 وقت 58,75,77,90,93,107,117,122,180,339,341 ویمبلے ایگزیبیشن 641 387,389,521,821,843,852,854,855,856 وقت ضائع کرنا بہت بڑی حماقت ہوتی ہے 54 ہجرت 22,23,60,68,69,657,811,842,843 ہائنٹسٹ قبیلہ 696 وقت کی پابندی 73 وقت کی قربانی 273 ہجرت کے معنی اور مفہوم 23 وقف / وقف زندگی / جائیداد / آمد / اولاد ہجرت کی غرض 23 ,14,6,19,22,23,63,68-70,137,142,174,198 ہجرت نام ہے تمام دنیوی علائق سے آزاد ہو کر اپنے آپ کو -225,253,255-258,277-281,283,284,288 خدا تعالیٰ کے لئے وقف کر دینے کا 70 292,294,306,311,315,319,321,325-328, ہدایت, 16,26,126,144,196,210,323 354,355,367,369,400,502,575,619,735 330,333,336,339,341-343,353,361-363, ہمدردی 375-379,384-386,391,410-414,446,487- 73,103,105,107,108,110,290,359,528 489,497,501,504-507,512,513,516,521, ہمسائے کرہمسایوں کے حقوق 100,103 526,527,530,541,542,590,591,595,610- 930
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اشاریہ ،کلید مضامین 126,272,273,498,528,876 ہندو ہندو مت 1,110,25,41, 100,118,143,144,204,290,303,330,502, 610,612,635,684,734,735,819,856,877 ہند و سیا د ھو 468 ہندوستانی قوم 74,143,147,166 ہوسا قوم 752 ی یور چین اقوام 74 ہور یہودیت 25,118,234,502,510,617,870 یہود کا تمسخر 88 931
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اشاریہ ، اسماء آدم ، حضرت علیہ السلام 77,368,600,684 725,774,821,822,823 آغا خان ، سر 605,606 ابراہیم، حضرت علیہ السلام 4,6,7,158,461, 462,510,514,530,693,800 ابراہیم، حضرت (آنحضور کے صاحبزادے (680 ابو العطاء، مولوی 41 اسماء اروڑے خاں ، حضرت منشی ، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 44 603,604 اسد اللہ خاں غالب 582,735 اسرافیل (فرشته) 729 اسماعیل ، حضرت علیہ السلام 514 اظہر، مسٹر 543 امام الدین ، مولوی 459 امیرحسین، قاضی سید 40,453 ایڈیسن ( مشہور سائنسدان (417 اپنی پینٹ ، مسز 636 ابوبکر صدیق ، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 4,38,59 60,68,221,222,236,515,588,603,712, 719,735,779,795,881 ابو جہل 86,735 ابوختیمہ ، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 54-52 برہان الدین جہلمی ، حضرت مولوی ، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 358,452,453,709 برہان الملک، مولوی ( مشہور صرفی عالم ) 452,453 ابوذرغفاری، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 49-16,46 برہما ( ہندو دیوتا ( 679,680 ابو ہریرۃ، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 311,488,712 بشیرالدین محمود احمد، مرزا، حضرت خلیفہ المسح الثانی المصلح ابی بن خلف ( ملکہ کا ایک رئیس )59,60 محموداحمد، الموعود رضی اللہ تعالٰی عنہ 9,10,12,13,15,17 اٹیلے 586,587 احسان اللہ ، ملک 443 احمد خاں ایاز ، حاجی 771 احمد سرہندی بریلوی ، حضرت سید 335,353 19,22-25,27,29,30,33,38-45,52,54-58,60, 61,63,65,72-74,76,77,79,81,89,90,92,95, 96,99,102,103,105,106,109,110,118,119, 121,122,125-129,131,134,135,139,141- 933
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم اشاریہ ، اسماء 774,777,778,780,781,783,785-788,794, 145,147,148,156,157,161,163,165-167, 796-799,805,807,808,810,811,813-816, 169,171,173,177-180,185,186,189-191, 819,821,825-830,833-837,839,840,842, 193-197,199-211,213,214,217,219-221, 843,845,848-851,854,859-863,865,867, 223,225,229,231-233,235-237,241,242, 868,870,873,874,876,877,879,880,882, 244-249,251,255-259,261,263,265,267- 883,886,889,890,891 273,275,277-279,281,283,284,287-289, بشیر احمد، چوہدری 543 بلال، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 712 پطرس ( حضرت عیسی علیہ السلام کا ایک مقرب حواری (304 یکٹ 856 291-295,297,302-304,306-309,311-315, 317-321,323,324,326-331,333,334,336, 339,343-346,349,350,352,353,355,358, 360-366,368,371,375-382,384,386,387, 391,400-405,407-411,413-423,425-441, 443,444,446,447,450,452,455-460,462, 464,465,467-480,482,485-489,491-494, تیمور 580,581 497,501-507,511-513,516-518,521,523- 527,529,530,534,535,538-545,547,548, ٹرومین 586,587 551-559,561-565,567-569,571-574,578- 580,583,585,586,589,590,595,597-599, ثناء اللہ ، مولوی 67,600 جبرائیل (فرشته ) 729 جلال الدین شمس، مولوی ,41,184,365,471,540 جماعت علی شاہ، پیر 539 جمال الدین، خواجہ 631,632 جنید، حضرت 323 601,603-605,607,608,610,612,613,615, 618,622,623,624,626,627,631-642,645- 651,653-662,664,666,668,671,674,675, 677-679,683,685,686,688,691,692,696, 600,697,746 697,699,700,704-711,713-716,718,720- 723,725,730,733,734-736,741-744,746, 747,753,755,760-762,764,765,769-772, 934
تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد دوم روم، مولانا 449 رینڈل ویکی مسٹر 140 ز اشماریہ ، اسماء چرچل ،مسٹر 555 حامد شاہ،حضرت میر ، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 352 زبیر، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 5,68,515,719 حسن نظامی، خواجہ 5 حذیفہ ، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 215 زبیری، مسٹر 543 زرتشت ، حضرت علیہ السلام 298,590,602,685 حمزہ ، حضرت امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ 5,150 زونغو ( کنگ البانیہ ) 540 حوا، حضرت علیہا السلام 823 خ سٹالن 586,587,600 خالد بن ولید ، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 153-151 سعد، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 515,672,673 خضر حیات خان ، ملک 587 خلیل احمد ناصر 692 سعید حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 515 سلمان فارسی ، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 515 خنساء، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنھا 671,688,689 سندر سنگھ 856 و داؤد، حضرت علیہ السلام 277,602 دیانند، پنڈت 722 رام چندر، حضرت علیہ السلام 684 رچرڈ (انگلستان کا بادشاہ 747,748 رحمت علی، مولوی 183 رمضان علی ، مولوی 185,407 شاہ جہاں 579,580 شاہ محمد ، مولوی 183,451 شاہ دولہ، پیر 696 شبیر حسین دیوبندی مولوی 456 شبلی ،مولانا 323 شریف احمد ، حضرت صاحبزادہ مرزا، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 649 روشن علی ، حضرت حافظ ، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 40,41 شوجی (ہندو دیوتا ) 679,680 453,709 روز ویلٹ ،مسٹر 140 شہاب الدین سہروردی، حضرت 335 شیبه 735 935
اشاریہ ، اسماء شیرازی ، خواجہ حافظ 581 شیر محمد ، میاں 633 صلاح الدین ایوبی ، سلطان 747,748 ضرار بن اسود، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 573,574 b طلحہ، حضرت رضی اللہ تعالٰی عنہ 5,68,515,719 ظفر ( شاعر ) 526 ظ تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم عبد القادر لدھیانوی ، مولوی 453 عبدالقدیر، صوفی 407 عبد الکریم سیالکوٹی ، حضرت مولوی ، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 452,453,709 عبداللطیف شہید، حضرت صاحبزادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ 201,709,725 عبداللہ ، حضرت مولوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 848 عبد اللہ بن ابی بن سلول 214,215 عبد اللہ بھائی ہیٹھ 409,415 عبد اللہ بن عمر ، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہما 893,894 عبدالواحد ، مولوی 466 ظفر اللہ خاں ، حضرت چوہدری سر، رضی اللہ تعالٰی عنہ عقبہ 735 11,109,110,279,401,402,404,409,415, عثمان بن مظعون ، حضرت رضی اللہ تعالی عنہ 5,680,681 434,610 ظہور الدین اکمل، قاضی 459 ع عثمان غنی ، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ ,4,16,68,515 719,795,881,893 عزرائیل (فرشته) 85,583,586,729 عائشہ، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنھا 83,86,242,243 عزیز احمد ، ملک 183,451 عباس ، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 5.48,49 عطا اللہ ، مولوی 458 عبد الخالق، مولوی 443,749,750,752 عطا محمد، مرزا ( حضرت مصلح موعود کے پردادا ( 358,830 عبدالرحمان بن عوف ، حضرت ، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 5 علی حضرت ، کرم اللہ وجہ 4,47,48,68,514 515,881 عبد الرحمان مصری 25 عبد الرحمان، ملک مل اونر )409,415,420,431 عبدالرحمان، حکیم، کاغانی 622 عبدالقادر جیلانی ، حضرت سید 335,367 515,712,723,724,735,795 عمر فاروق ، حضرت رضی اللہ تعالی عنہ 4,38 68,101,102,150,221,236,242,268,316, 317,515,671,712,719,735,779,795,894 936
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم عیسی ، حضرت علیہ السلام 58,77,79,83,159 غلام مرشد (C.S.5431 275,276,297,304,349,351,352,368,401, 509,510,533,534,590,592,595,602,617, 619,685,686,727,753,754,809,834,869, 876,877,882 غ ف فتح الدین، سلطان ٹیپو 744,745 فرعون 83,159,298,595 فضل الرحمان، حکیم 184,185,471 فقیرعلی، با بو 184 غلام احمد قادیانی ، مرزا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام | فلپ ( فرانس کا بادشاہ 747,748,749 19-22,39,76, 77,85,96,109,118,133,134,143,144,146, 163,174,177,187-189,191,214,233,236, 244,245,247,266-268,276,278,284,288, 298-302,306,307,310,344,345,352,354, 358,363,365,367,368,376,379,381,401, 402,431,438,441,444,445,453,457,461, 466,491-493,509,514-516,518,530,535, 537,540,548,557,564,581,588,590,603, 604,608,616,619,625,626,631,633,635, 640,641,657,667,674,678,700,703,707, 709,725,744,762,783,797,807,811,819, 823,828,830,848,853,873,874,889,891 اشاریہ ، اسماء ق قاسم علی سید میر 650,651 قیصر ( عیسائی بادشاہ ، شاہ روم 53,327 ک کرپس سر 606 کرشن ، حضرت علیہ السلام 298,590,602,684 کسری (شاه ایران (316,317,327 کفایت اللہ، مفتی 456 کمال الدین خواجہ 39,134,631,635,811 گلینسی ، سر 587 گنگارام، سر 512 گوتم بدھ ، حضرت علیہ السلام 351,753,868,869 گوئبلز ، ڈاکٹر 140 ل غلام حسین ایاز ، مولوی 183,451,452 غلام رسول را جیکی ، حضرت مولوی ، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 41 غلام محمد اختر ، میاں 409,415,889 لانڈ، لارڈ ( گورنر بمبئی (708 غلام مرتضی ، حضرت مرزا ( حضرت مصلح موعودؓ کے دادا ) 358 لوط، حضرت علیہ السلام 800 937
اشاریہ ، اسماء لیلی 82 مارین ،مسٹر 600 مالک حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ 775 مبارک احمد ، مولوی 185 مبارک علی، مولوی 626 مبارکہ بیگم، حضرت نواب، رضی اللہ تعالیٰ عنھا 539 مجنوں 582 محمد احسن ، مولوی سید 40 محمد احمد خاں، نواب میاں 529 محمد اسحاق، حضرت میر ، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 40,41,283,452,453,454,489,709 تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم محمد صدیق، شیخ میاں ( تاجر ) 409,415 محمد علی ، مولوی 39,600,601 محمد علی جناح ،مسٹر ، قائد اعظم 679 محمد علی خاں ، حضرت نواب، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 539 محمد مصطفی، حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم 14,15,19,20,25-27,32,38,45-49,52-54, 58-60,68,69,71,76-78,82,83,86,102,103, 105,106,117,118,128,133,146,148,150- 152,154,157,159,174,187,188,190,214- 216,221,222,233,234,236,242,243,245, 247-249,257,267,272,276,278,284,293, 297,299,305,306,315-317,321,322,326, محمد اسماعیل گوڑ گانی ، حضرت ڈاکٹر ، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 811 ,335,352,363,365,366,375,394,402,403 محمد اسماعیل، مولوی 40,452,453 محمد اقبال، ڈاکٹر سر علامہ 543 محمد الدین، مولوی 451 محمد رفیق 63 محمد سرورشاہ، حضرت سید ، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 40,452,453 محمد شریف، چوہدری 185 محمد شریف ، مولوی 364,771 محمد شریف، ملک 407 412,429,445,454,457,460,462,479,480, 483,486,488,489,492,495,496,510,511, 514,515,518,527,533,534,547,554,557, 559,564,574,576,581,588,589,595,602- 605,612,617,619,624,634,657,669,677, 678,680,681,685,687,706,707,709,712, 719,721,723,724,736,757,779,781,783, 785,794,830,833-835,840,842,856,869, 873,891,892,893 محمد صادق ، مولوی 183 محمد یعقوب ، مولوی 556 محمد یوسف شیخ ( تاجر )409,415,431 محمد صدیق ، مولوی 184 938
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم محمود غزنوی 208 مسعود احمد خان نواب 279 مسولیتی 140 مطیع الرحمان، صوفی 185,790 مظفر احمد ، صاحبزادہ مرزا 12 معین الدین چشتی ،حضرت 335 ملا وامل ، لالہ 856 ممتاز حسین ،مسٹر 543 اشاریہ ، اسماء نورالدین، حضرت الحاج حکیم مولانا، خليفة المسيح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ 39,40,76 102,245,356,357,452,489,571,592,620, 622,623,635,662,663,709,721,736,796 نیر ، مولوی عبدالرحیم 697 و ولی اللہ شاہ محدث دہلوی ، حضرت 335,353 ولید 735 موسیٰ ، حضرت علیہ السلام 77,83,159,298,510,512 ویول، لارڈ (وائسرائے ہند ) 587 533,590,595,602,616,617,619,685,834 مہاتما گاندھی جی 679,698,725 میکاڈو 586,587 میکائیل (فرشته) 729 ناصر احمد ،مرزا، حضرت خلیفہ اسیح الثالث 109,487 ناصر نواب، حضرت میر، رضی اللہ تعالیٰ عنہ 489 نپولین بونا پارٹ 580,581,744,745 نذیر احمد ، مولوی، ابن بابو فقیر علی 184 32,368,545,555,580,581,664 ہر میں 558 ہلاکو خان 31 ہنس راج ، لالہ، پرنسپل ڈی.اے.وی کالج لاہور 722 ی یعقوب ، حضرت علیہ السلام 33,34,42 یوسف، حضرت علیہ السلام 368 یوسف سلیمان ، ڈاکٹر 697 نذیر احمد مبشر سیالکوٹی ،مولوی 185,819,820 یوسٹس ،مسٹر (ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ) 458 نذیر احمد ، مولوی 318,443,533 نصرت جہاں بیگم، حضرت ام المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنھا 604 نظام الدین اولیاء حضرت 5 نوح، حضرت علیہ السلام 233,510,602 939
تحریک جدید - ایک الہی تحریک......جلد دوم مقامات اشاریہ ، مقامات آب زمزم 599 آرمینا 101 T آسام 9,10,343,432,627,637 آسٹریا 747 آسٹریلیا 23,569,626,747 اٹک / کیمل پور 420,434 الی,105,347,396,397,401 320,321,348-350,397,398,446,451,468, 470,534,535,558,568,624,651,654,658, 701,711,726,727,749,753,813,819,870 افغانستان 74,105,113,164,368 369,396,434,458,589,706,740 اقصیٰ مسجد ( قادیان (742 البانيه 451,458,540,771,804 الجيريا 458 الہ آباد 344,608,739 امرتسر 109,202,344,420 407,451,463,538,539,540,545,558,568, 569,746,747,749,763,771,790,803,804 احمد آباد 344 احمد آباد (سندھ) 709 ارجنٹائن 763,804 ارکاٹ 743 ارتھر یا 803 اڑیسہ 343,354,432,629,739 422,431,455,457,630,635,798 امریکہ,23,31,32,66,113 114,129,140,147,180-182,185,198,247, 302,307,348,382,385,397,412,435,451, 458,459,463-465,470,476,513,518,557, 558,605,606,621,626,669,692,700,739- 742,746,759-761,764,766,788,790,801 انبالہ 422,434-420 اسحاق نگر 700 اسلام آباد 102 اسمعل 617 افریقہ 10,32,302 انڈس 685 انڈونیشیا 747 انگلستان / انگلینڈ / ولایت / برطانیہ 1 941
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم بمبئی 9,10,343,344 اشاریہ ، مقامات 11,32,105,113,114,140,147,249,345, 354,355,356,379,419,421,422,435,437, 346,347,382,384,396,431,435,438,459, 465,466,539,638,659,706,708,739,740 463,464,470,471,476,481,482,521,538, 344,739 540,557,558,562,568,599,600,611,641, 538653,654,669,697,698,739,746,747,753, بنگال,9,10,129,147 760,763,788,790,801,803,804,820,837 220,343,344,354,418,421,432,465,466, 476,516,534,544,632,637,706,743,826 جنگ 633 بور نیو 803 اور7432 اپنے سینیا 803 32,297,302,322,395,476 ایران,58,105 202,343,420-422,434,113,298,368,369,396,434,458,459,463, 435,465,466,516,637,833 568,581,703,740,744,758,763,790,803 بحرین 368 بخارا 458,581,666 برازیل 804 برطانیہ 1,105,557,600 برلن 556 10,432,629,740,8041% بربان نگر 709 روده 343 بغداد 31,103,104,367,368 بلحين 463 بلوچستان 343,434 بہشتی مقبره ( قادیان (449 بھوپال 571,592 بريكا نير 343 پاکستان 885 پالم پور 649 پٹیالہ 422,434-420 پشاور 379,608,739,740,798 پنجاب 9,10,129,202,310,313 369,343,344,354,355,420,423,427,449- 452,480,512,513,518,576,630-632,636, 705-707,714,740,825,833,846,884,889 942
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم پولینڈ 105,396,451,771 پونه 344 اشاریہ ، مقامات 436,463,464,470,482,544,545,554,557, 558,568,605,626,746,747,790,791,804 پچطور 633 جنوبی افریقہ 700-697 پیل گام 649 جنوبی امریکہ 185 پیرس 746 347,397,398,407,463,568,761,762,803 تاج محل 580 تبوک 52 تحریک نگر 709 ترکی 396,458,744,771 تھانہ 706 جنوبی ہند 473,637 جودھ پور 343 جہلم 354,358,421,428,434 جھنگ 434 جے پور 343 ٹانگانیکا / تنزانیہ 803 ثرانگور 343,608 ٹرینیڈرڈ 804 چیکوسلواکیہ 105 چین,31,63,74,113,225,395 396,397,399,451,463,569,605,804,878 جاپان 31,198,382,395,399,400,407,451,463 470,476,545,558,569,605,612,618,878 جالندھر 421,428,434,635 113,114,147,171,225,226,347,397,435,436, 1b 451,463,476,692,699,726,747,763,803 حیدرآباد,202,343,344,421 434,435,608,629,708-710,739,743,798, حیدر آباد دکن 419,421,422,435,436,745 خ خانہ کعبہ 47,48,150,599 خوست 164 جده 539 جرمنی 1,32,42,105 114,140,145,177,182,347,382,412,419, , دارو 709 دہلی / دلی,103,104,237,344,356,359,365 943
اشاریہ ، مقامات 379,420-422,434-436,455-457,473,485, 543,555,557,607,608,739,742,743,798 صحابو 706 دیہہ تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم سرگودھا 358,411,421,428,434 سکاٹ لینڈ 481 سکرنڈ 887 ڑھا کہ 344,354,608,739,740 ڈیرہ غازی خان 420,434 راولپنڈی 344,420,434,635 سکندر آباد 409,415,421,435,607 708,709 سکھر بیراج لائڈ ز بیراج 707,708 113,114,147,171,225,226,347,397,435, 436,451,463,476,692,726,747,763,803 رام باغ (امرتسر ) 460 روس, 1,105,182,382,395,396 412,459,569,605,666,667,788 روشن نگر 709 روم 304,617,771 رومانیہ 396 سمر قند 581 سندھ ,193,240,308 310,312,313,315,343,344,354,355,420- 422,434,451,465,466,473,629,632,705- 707,710,739,740,788,805,870,884,889 سندھ ، دریا 708 زیکوسلواکیہ 396 سنگاپور 113,451 سوڈان 458,463,803 سوئٹزرلینڈ 790 سویڈن 804 ساہیوال / منٹگمری 411,421,428,434 سیالکوٹ 344,421,428,431,458,638,798,889 چین,396,397,412,436,451,463 558,569,749,763,790,791,804,837 ستلج 708 سٹریٹ 451,463 سی.پی 343,354 سیرالیون 113,114,321,443,463,533,654,803 سیلون 74,435,804 343,354,355,369,420-422,433,434-436,1 465,466,473,517,629,632,740,825,833,889 944 شالانگ 739
تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد دوم اشاریہ ، مقامات 101,104,105,114,118,347,367-369,434,* 458,463,517,557,568,661,747,763,804 شانز الینزا ( پیرس کا ایک بازار ( 746 شکا گو 742-739 شمالی افریقہ 396,761 شمالی امریکہ 568,761,762,803 شمالی ہند 637 شمالی یورپ 463 شملہ 41,540,739 شیخو پوره 420,422,431 605,746-749,762,763,788,790,791,804 فری ٹاؤن 321 فلپائن 804 فلسطين 114,185,347,364,367,369,434,458,463 517,568,605,617,619,661,790,803,870 فن لینڈ 1,396 فیصل آباد / لائل پور 411,421,428,434,705,887 فیروز پور 313,420,422,431,708 ق قادیان, 24,38,41,43,44,56-22 شیراز 581 b طبر وق 538 ع عدن 804 عراق ,113,118,347 367-369,434,463,498,627,804 عرب,9,58,74,113,190,368,458,517 534,576,617,650,653,706,707,740,758 عہ 104 علی پور سیداں 539 فرانس,32,105,347 396,397,463,464,557,558,568,569,599, 60,65,70,72,77,95,99,108,109,131,144, 147,166,185,197,204,236,244,263,281, 291,292,298,319,323,343,354,357,358, 359,375,376,401,402,404,409,414,416, 418,419,422,425,426,430,432-435,438, 440,449,450,455-457,464,473,475,501, 518,527,537,539,544,604,609,620,622, 623,635,636,638,650,660,664,697,700, 709,711,725,742,752,760,764,771,773, 791,826,827,837,861,862,865,889,890 قصور 409,415,420,431 کابل 164,517,725 کانپور 344 945
اشاریہ ، مقامات تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم کراچی 354,379,608,638,707,709,739,740 کانگو 463 کپورتھلہ 358 کریم نگر 709 کلکته ,344,354,355,379 344,379,409,415,420,422,430-432,434, 435,440,455,457,473,539,553,557,607, 630,635,722,739,740,798,889,891,892 لائبیریا 463 سمبر 102,343,385,434,631,632,634,649,739,740 | لبنان 463 409,415,418,421,422,431,432,434-436, 473,607,608,659,698,701,720,739,740 کوفه 311 کھیوہ باجوہ 848 کیپ ٹاؤن 698 کینیڈا 347,463,804 لدھیانہ 422,434,457-344,420 لطیف نگر 709 لکھنو 344,739 لندن 10,316,346,365,654,747 ليبيا 538,539,558 ماریشس 763,803,804 مالا بار 10,344 گجرات 354,421,428,434,751,780,798 مالیر کوٹلہ 434 گنگا جمنا 685 گوالیار 343 گوجرانوالہ 420,422,431 گورداسپور 113,134,438,473 گوردواره شهید گنج 103 گوڑ گاؤں 811 گولڈ کوسٹ 113,114,185,321 463,749,750,753,803,819 ل مبارک مسجد ( قادیان) 401 محمد آباد 706,709-704 محمود آباد 308 مدراس 9,10,129 147,343,344,354,355,379,419,421,422, 435,437,465,476,608,629,638,739,740 مدینہ منورہ 70,242-14,15,52,54,68 322,539,617,657,658,721,723,843 ورا 344 946 30,56,107,134,202,241, مراکش 758
تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد دوم مرا کو 458 ناروے 804 مشرقی افریقہ 185,349,435,762,763,790,803 ناصر آباد (سندھ) 706 مشرقی ایشیا 183 ناگپور 435 اشاریہ ، مقامات مشرقی پنجاب 873,877,880,883 نائجیر یا 113,114,118,321,463,803 مشرقی یورپ 463 74,113,114,185,308, 347,367,397,434,454,458,459,463,517, 538,539,568,653,661,727,728,748,758 مظفر گڑھ 420,434 نثال 698 نجد 118 نواب شاہ 709 نور نگر 709 نیروبی 653,803,813 مغربی افریقہ 147,184,321,349,396,435 نیویارک 316 480,624,653,654,763,766,790,803, مغربی پنجاب 873,883,885,889 مکه مکرمه 49,58,59,67,118-14,15,45 126,151,539,617,741,843,881,893 113,114,225,226,691,763,803 ویلز 481 ہالینڈ 397,463,568,746,747,749,763,804 ملتان 344,420,421,434,739,740,742 منچور یا ( جاپان کے ایک میدان کا نام (618 میانوالی 434 میر پور خاص 708,709 میسور 343,419,421,422,435 میکسیکو 804 میمن سنگھ 344 ہسپانیہ 397,568 ماليه 685 بند / ہندوستان / انڈیا , 9,12,27,31,42,66,74,81 111,113,129,141-143,147,161,163,164, 166,167,186,195,197,219,220,231,288, 298,307,312,318,323,343,345,347-350, 353,355, 367,368,371,379,396,397,401, نا کچھ 434 402,404,416,420,422,423,428,432,434, 436,437,440,446,450,452,454,456,459, 463,465,467,468,475,476,480-482,488, 947
تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد دوم اشاریہ ، مقامات 512,513,517,518,521,524,538-540,544, 554,557,558,562,568,577,587,600,606- 608,610-613,620,621,623,624,626,629, 630,632,634-639,653,659,677,691,698, 701,702,705-707,711,713,739,740,744, 745,747,764,792,795,801,826,828,837, 845,850,854,863,867,870,871,877,878, 884,885,889 ہنگری 451,771 ہوشیار پور 421,428,434 کی 9,202,343,344,420-422,- 434,465,466,637,706,707,825,833 یورپ : 31,32,105,198,240,247 248,250,297,298,302,307,322,347,348, 387,395-397,408,436,470,513,518,553, 558,562,568,658,726,747,748,788,846 یوگنڈ 8031 یوگوسلاویہ 451,771 یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ 347,463 476,586,653,740,763,804 یونان 557,747,804 ☆☆☆ 948
تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد دوم کتابیات اشاریہ ،کتابیات بائبل 383 عہد نامہ قدیم 402,403 عہد نامہ جدید 402,403 متی 876,877 مشكوة المصابيح 70 143 کتب سلسلہ احمدیہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام 402,438 اسلامی اصول کی فلاسفی 402,438 براہین احمدیہ (حصہ پنجم ) 466 تذکرہ 118,367 تذكرة الشهادتين 509 188,193-196,206,217,223,227,229,237, 251,253,259,261,263,273,276,281,285, 295,309,324,331,337,340,342,352,360, 366,370,373,376,378,380,387,390,391, 405,414,423,429,442,447,472,483,486, 519,531,535,539,542,545,549,552,556, 559,565,570,574,583,593,595,613,627, 643,651,675,681,690,693,696,700,710, 732,737,755,767,775,782,783,786,801, 805,812,817,820,824,831,838,840,843, 850,857,861,863,866,871,874,878,887, 894 رپورٹ مجلس شوری 146,226,489,499,507,654 | اہل حدیث 600 مسیح ہندوستان میں 402 اخبارات ورسائل 191 البشرى 539 الحكم 493,633 الفضل 1,7,17,24,28,32,35,44,61,63,6672 79,93,95,97,111,115,129,131,135,137, 144,161,167,169,172,175,178,182,186, پیغام صلح 600 تشحیذ الاذہان 96,106,133 ڈیلی میل 600,641 ریویو آف ریجنز 39,205,206 سن رائز 195,206-193 گزٹ اینڈ برو نیوز 600 949