TJ Vol1

TJ Vol1

تحریک جدید ۔ ایک الٰہی تحریک (جلد اول۔ 1934 تا 1939)

Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ  کے تحریک جدید کے قیام، اغراض و مقاصد اور عالمگیر ترقیات متعلق خطبات، خطابات اور ارشادات پر مشتمل یہ کتاب وکالت الدیوان تحریک جدید انجمن احمدیہ کی مرتب کردہ ہے۔پہلی تین جلدوں   میں خلافت ثانیہ کے دور کا مواد جمع کیا گیا ہے۔


Book Content

Page 1

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اوّل رشادات حضرت خلیفہ اسی الثانی نوراللہ مرقدہ بابت تحریک جدید ۱۹۳۴ء تا ۱۹۳۹ء

Page 2

25 بسم الله الرحمان الرحيم پیش لفظ اللہ تعالیٰ نے جہاں انسان کی جسمانی ضروریات کو پورا کرنے کا بھر پور انتظام فرمایا ہے وہیں اس کی روحانی ضروریات کو پورا کرنے کا بھی خاطر خواہ بندوبست کر رکھا ہے.اسی کی ایک کڑی بعثت انبیاء ہے.اور ان کی وفات کے بعد ان کے جاری کردہ سلسلے کواللہ تعالیٰ ان کے خلفاء کے ذریعے آگے بڑھاتا ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے.(۱) اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے.(۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا.اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی را ہیں اختیار کر لیتے ہیں تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.پس وہ جوا خیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے“.(رساله الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 304) اس زمانہ میں بھی اللہ تعالیٰ کی یہ قدیم سنت بڑی شان سے جلوہ گر ہے.چنانچہ سنت اللہ کے موافق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد نظام خلافت قائم ہوا.انہیں خلفاء کرام میں سے ایک وہ موعود خلیفہ بھی تھا جس کے متعلق نوشتے قدیم سے خبر دے رہے تھے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کواللہ تعالیٰ نے آپ کے متعلق خبر دی کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے.فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح و ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے.اے مظفر تجھ پر سلام ! خدا نے یہ کہا تا وہ

Page 3

جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجے سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں، باہر آویں.اور تا دینِ اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تالوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں، جو چاہتا ہوں سو کرتا ہوں اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قو میں اس سے برکت پائیں گی.(اشتہار 20 فروری 1886ء مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 100 ت102) پس اس پیش گوئی کے موافق حضرت مصلح موعود خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ کا ظہور ہوا.آپ کے دور خلافت میں جماعت نے بے شمار سنگ میل عبور کیے، کئی فتوحات جماعت کے حصہ میں آئیں.الغرض آپ کا مبارک دور بے انتہا فضلوں اور کارناموں سے پر ہے.آپ نے اپنے با برکت دور میں کئی تحریکات کا آغاز فرمایا.انہیں میں سے ایک تحریک جدید“ ہے.اس الہی تحریک کا آغاز 1934ء میں ہوا.یہ وقت جماعت کے لئے انتہائی نازک تھا ہر طرف سے جماعت پر حملے ہور ہے تھے.دشمن پوری طاقت اور پورے زور کے ساتھ حملے کے منصوبے بنارہا تھا.اور اپنے زعم میں جماعت کو نیست و نابود کرنے کو تیار کھڑا تھا.اب کے صرف احرار کا حملہ نہ تھا بلکہ حکومت بھی انہی کے ساتھ تھی.ایسے خطر ناک حالات میں حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ نے اس الہی تحریک کا آغاز فرمایا اور اس کشتی نوح کو نصرت الہی سے طوفان سے نکال کر امن میں لے آئے.انہیں حالات کا ذکر کرتے ہوئے آپ نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں:.آپ لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ وقت بہت نازک ہے.ہر طرف سے مخالفت ہو رہی ہے اور اس کا مقابلہ کرتے ہوئے سلسلہ کی عزت اور وقار کو قائم رکھنا آپ لوگوں کا فرض ہے...آخر ہم نے کیا قصور کیا ہے ملک کا یا حکومت کا کہ ہم سے یہ دشمنی اور عناد کا سلوک روارکھا جارہا ہے؟ ہم کسی کے گھر پر حملہ آور نہیں ہوئے، حکومت سے اس کی حکومت نہیں مانگی، رعایا سے اس کے اموال نہیں چھینے بلکہ اپنی مساجد ان کے حوالے کر دیں.اپنی بیش قیمت جائیدادیں ان کو دے کر ہم میں سے بہت سے لوگ قادیان میں آگئے کہ امن سے خدا کا نام لے سکیں مگر پھر بھی ہم پر حملے کئے جاتے ہیں اور حکومت بھی ہمارے ہاتھ باندھ کر ہمیں ان کے آگے پھینکنا چاہتی

Page 4

ہے اور کوئی نہیں سوچتا کہ ہمارا قصور کیا ہے؟.66 وو خطبه جمعه فرموده 26 اکتوبر 1934 ء) اس تحریک کے آغاز کے حالات اور اس تحریک کے ثمرات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :.....یہ زمانہ ہمارے لئے نہایت نازک ہے.مجھ پر بیسیوں راتیں ایسی آتی ہیں کہ لیٹے لیٹے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جنون ہونے لگا ہے اور میں اٹھ کر ٹہلنے لگ جاتا ہوں.غرض یہی نہیں کہ واقعات نہایت خطرناک پیش آرہے ہیں بلکہ بعض باتیں ایسی ہیں جو ہم بیان نہیں کر سکتے تو سلسلہ کے خلاف ایسے سامان پیدا ہور ہے ہیں کہ جو میری ذات کے سوا کسی کو معلوم نہیں....تو میں سمجھتا ہوں کہ وقت ایسا ہے کہ ہمیں اہم قربانی کی ضرورت ہے..آج ہمارے جھنڈے کو گرانے کی بھی دشمن پوری کوشش کر رہا ہے اور سارا زور لگا رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں جو جھنڈا دے گئے ہیں اسے گرا دے.اب ہمارا فرض ہے کہ اسے اپنے ہاتھوں میں پکڑے رہیں اور اگر ہاتھ کٹ جائیں تو پاؤں میں پکڑ لیں اور اگر اس فرض کی ادائیگی میں ایک کی جان چلی جائے تو دوسرا کھڑا ہو جائے اور اس جھنڈے کو پکڑ لے.یاد رکھو خدا تعالیٰ کے لئے مرنے والے کو کوئی مار نہیں سکتا اس بات کو پلے باندھ لو اور جب تم یہ ارادہ کر لو گے کہ خدا تعالیٰ کے لئے مرنا ہے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت تم کو مار نہ سکے گی.ہاں تم پر وہ موت آئے گی جو نبیوں کو بچے دل سے ماننے والوں پر آتی ہے مگر ناکامی کی موت نہیں آسکتی کیونکہ تم جس پر گرو گے وہ چکنا چور ہو جائے گا اور جو تم پر گرے گا وہ بھی چکنا چور ہو جائے گا“.رپورت مجلس شوری منعقد : 19 تا 21 اپریل ۱۹۳۵ ء ) تحریک جدید کے الہی تحریک ہونے کے متعلق فرماتے ہیں:.وو یہ مت خیال کرو کہ تحریک جدید میری طرف سے ہے.نہیں بلکہ اس کا ایک ایک لفظ میں قرآن کریم سے ثابت کر سکتا ہوں اور ایک ایک حکم رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ارشادات میں دکھا سکتا ہوں....پس یہ خیال مت کرو کہ جو میں نے کہا ہے وہ میری طرف سے ہے بلکہ یہ اس نے کہا ہے جس کے ہاتھ میں تمہاری جان ہے.میں اگر مر بھی جاؤں تو وہ دوسرے سے یہی کہلوائے گا اور اس

Page 5

کے مرنے کے بعد کسی اور سے.بہر حال چھوڑے گا نہیں جب تک تم سے اس کی پابندی نہ کرائے.فرمایا:.خطبه جمعه فرموده 13 دسمبر 1935 ء ) پس تحریک جدید کیا ہے؟ وہ خدا تعالیٰ کے سامنے عقیدت کی یہ نیاز پیش کرنے کے لئے ہے کہ وصیت کے ذریعہ تو جس نظام کو دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے.اس کے آنے میں ابھی دیر ہے.اس لئے ہم تیرے حضور اس نظام کا ایک چھوٹا سا نقشہ تحریک جدید کے ذریعہ پیش کرتے ہیں غرض تحریک جدید گو وصیت کے بعد آئی ہے مگر اس کے لئے پیشرو کی حیثیت میں ہے گویا وہ نظام اس کے مسیح کے لئے ایک ایلیاہ نبی کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کا ظہور مسیح موعود کے غلبہ والے ظہور کے لئے بطور ارہاص کے ہے.ہر شخص جو تحریک جدید میں حصہ لیتا ہے، وصیت کے نظام کو وسیع کرنے میں مدد دیتا ہے اور ہر شخص جو نظام وصیت کو وسیع کرتا ہے.وہ نظام کو کی تعمیر میں مدد دیتا ہے.تحریک جدید کے مستقبل کے متعلق فرمایا:.( نظام نو صفحه 111,112 ) یاد رکھو کہ یہ تحریک خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.اس لئے وہ اسے ضرور ترقی دے گا اور اس کی راہ میں جو روکیں ہوں گی ان کو بھی دور کر دے گا اور اگر زمین سے اس کے سامان پیدا نہ ہوں گے تو آسمان سے خدا تعالیٰ اس کو برکت دے گا..(خطبہ جمعہ فرمودہ 24 نومبر 1939 ء ) تحریک جدید کے عظیم الشان نتائج کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:." تم اگر تحریک جدید پر عمل شروع کر دو تو آج یا کل یا پرسوں نہیں جب خدا تعالیٰ کی مرضی ہو گی تمہاری قوم کوضرور بادشاہت مل جائے گی“.خطبہ جمعہ فرمودہ 4 دسمبر (1936 ء ) پس تحریک جدید بھی خلافت کی بے شمار برکات میں سے ایک ہے.یہ حضرت مصلح موعود نور الله مرقدہ کے ان احسانات میں سے ہے جو آپ نے جماعت پر کئے.اللہ تعالیٰ آپ پر اپنا خاص فضل فرمائے.اور جماعت کو ہمیشہ خلافت کی برکت سے مستفیض فرماتا رہے.,

Page 6

محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعاؤں اور مد سالہ خلافت جو بلی کے موقع پر تحریک جدید سے متعلقہ خلفاء منظوری سے کرام کے خطبا خطابات اور ارشادات کو تحریک جدید.ایک الہی تحریک کے نام سے کتابی شکل میں شائع کرنے کی توفیق پارہی ہے.الحمد للہ علی ذالک.یہ اس سلسلہ میں اس کتاب کی پہلی جلد ہے.جو 1934 ء تا 1939ء کے خطبات ، خطابات اور ارشادات پر مشتمل ہے.اسی طرح مجالس شورای کی رپورٹس سے بھی متعلقہ مواد شامل کیا گیا ہے.مجالس شوری کے علاوہ باقی مواد کو تاریخ وار رکھا گیا ہے.جبکہ مجالس شورای کی رپورٹس سے متعلقہ مواد ہر سال کے آخر پر درج کیا گیا ہے.اگلی جلد ان شاء الله تعالی 1940ء 1947ء کے خطبات، خطابات اور ارشادات پر مشتمل ہوگی.اسی طرح مجالس شوری کی رپورٹس سے بھی متعلقہ مواد شامل کیا جائے گا.خاکساران تمام احباب کا شکر گزار جنہوں نے اس کتاب کے مختلف مراحل میں تعاون جنہوں نے مرحلہ مر رہنمائی فرمایا.خصوصا فرماتے ہوئے اپنی قیمتی مدامات سے نوازا.کتاب کی ترتیب و تدوین میں خصوصی محنت شامل ہے.اسی طرح کارکنان بسی مختلف مراحل میں شامل رہے اللہ تعالیٰ ان سب کو بہترین جزا عطا فرمائے.آمین.فجزاهم الله تعالى احسن الجزاء.اللہ تعالیٰ اس کوشش کو با برکت کرے، اس کو قبول فرمائے ، اس کو نافع الناس بنائے اور ہم کو ان ارشادات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین 2

Page 7

سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمد احمد اصلح الموعود خلیفة المسیح الثانی

Page 8

تاریخ فرموده صفحه نمبر الله الرحمان الرحيم فہرست بسم عناوین $1934 وقت آگیا ہے کہ ہم اس رنگ میں قربانیاں کریں جو بہت جلد نتیجہ خیز ہوں دنیا کہ ہر گوشہ میں احمدی خاص قربانیوں کے لئے تیار رہیں جماعت احمدیہ کے امتحان کا وقت آ پہنچا ہے خدمت دین کے لئے نام پیش کرو اعلان کردہ سکیم کے متعلق چند باتیں دین کی خاطر قربانیاں کرنے کے لئے ماحول پیدا کرنے کی ضرورت مخلصین جماعت احمدیہ سے جانی اور مالی قربانیوں کے مزید مطالبات 01 19.10.1934 05 26.10.1934 09 02.11.1934 11 09.11.1934 13 16.11.1934 15 23.11.1934 47 30.11.1934 79 107 14.12.1934 113 27.12.1934 جماعت احمدیہ سے قربانی کے مطالبات کی اعلان کردہ حکیم کے متعلق بعض اہم تشریحات 07.12.1934 جماعت احمدیہ کی موجودہ مشکلات و مصائب اور رمضان المبارک حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات $1935 ہماری جماعت کے دوست اس سکیم پر بچے طور پر عمل کریں خدمت اسلام کے لئے جماعت کا ہر فرد اپنی زندگی وقف کر دے اشاعت احمدیت کے لئے غیر ممالک میں نکل جاؤ جماعتوں میں تحریک کے متعلق خطبات دیئے جائیں تحریک جدید کے بعض مطالبات کا تذکرہ تحریک جدید کے مطالبات پرستی سے عمل کرنے والوں کے لئے انتباہ احرار کو چیلنج 121 04.01.1935 127 11.01.1935 147 15.03.1935 149 19.04.1935 151 26.05.1935 157 23.08.1935 159 27.09.1935 i 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17

Page 9

== 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 گزشتہ سال سے زیادہ قربانیوں کے لئے تیار ہو جاؤ تحریک جدید کے لئے مزید قربانیوں کی ضرورت تحریک جدید کے دوسرے سال کے لئے جماعت احمدیہ سے اہم مطالبات مبلغین جماعت احمدیہ کو نہایت اہم ہدایات جماعت احمدیہ کی قربانیوں کی کوئی حد نہیں مقرر کی جاسکتی تحریک جدید کے دوسرے سال کیلئے مالی قربانی کا مطالبہ یہ مت خیال کرو کہ تحریک جدید میری طرف سے ہے تحریک جدید کے تین اہم مطالبات بور ڈ نگ تحریک جدید میں اپنے بچے داخل کروانے والوں کو چند ہدایات یہ زمانہ ہمارے لئے نہایت نازک ہے، آئندہ ہمیں اور زیادہ قربانی کی ضرورت پیش آنے والی ہے $1936 تحریک جدید کے مطالبات کے متعلق جماعت کو انتباہ 161 01.11.1935 173 08.11.1935 175 15.11.1935 197 17.11.1935 205 29.11.1935 227 13.12.1935 233 20.12.1935 253 20.04.1935 255 21.04.1935 تحریک جدید ایک قطرہ ہے قربانیوں کے اس سمندر کا جو تمہارے سامنے آنے والا ہے 28.06.1936 تحریک جدید کے ذریعہ جماعت احمدیہ کا امتحان ہو رہا ہے سلسلہ احمدیہ افراد کی تعداد پر قائم نہیں بلکہ اخلاص پر قائم ہے امرالہی قربانیوں سے ہی حاصل ہوتا ہے دشمنوں کے سارے حملوں کا علاج تحریک جدید میں موجود ہے مالی قربانی اور سادہ زندگی کی طرف خاص توجہ کی جائے قربانی ہی وہ راہ ہے جس سے لوگ اپنے خدا تک پہنچتے ہیں تحریک جدید پر عمل شروع کر دو تو ضرور بادشاہت مل جائے گی سادہ زندگی اسلامی تمدن کا نقطہ مرکزی ہے امانت فند تحریک جدید خدمت دین کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں جلد سے جلد چندہ تحریک جدیدا دا کیا جائے النبی سلسلے روپے سے نہیں چلتے بلکہ اخلاص سے چلتے ہیں 263 15.05.1936 277 295 07.08.1936 315 11.09.1936 329 19.09.1936 331 25.09.1936 333 09.10.1936 337 27.11.1936 339 04.12.1936 341 18.12.1936 355 27.12.1936 359 10.04.1936 365 12.04.1936 367 23.10.1936

Page 10

371 25.10.1936 379 01.01.1937 383 15.01.1937 401 22.01.1937 409 05.02.1937 411 19.03.1937 421 02.04.1937 429 09.04.1937 431 16.04.1937 435 11.06.1937 439 17.06.1937 445 18.06.1937 451 24.09.1937 455 01.10.1937 457 15.11.1937 امانت فنڈ زیادہ وسیع پیمانہ پر قائم کیا جائے +1937 احمدیت کسی انجمن یا سوسائٹی کا نام نہیں بلکہ وہ اسلام کا دوسرا نام ہے تحریک جدید پر اعتراضات کے جوابات فنا ہونے سے ہی کامیابی ملتی ہے جہنم سے گزرے بغیر جنت میں داخل ہونا ممکن نہیں اپنی نیکیوں کو بے استقلالی کا شکار نہ ہونے دیں شکر الہی اور انسدا رفتن کے لئے روزے رکھیں تحریک جدید کے جلسے 9 مئی کی بجائے 30 مئی کو کئے جائیں دعائیں کرو کیونکہ کام بہت بڑا اور مشکلات بہت زیادہ ہیں دوست خصوصیت کے ساتھ دعائیں کریں دنیا کی تمام زبانیں سیکھو اور اسلام کے لئے ہر قربانی کو عین راحت سمجھو تحریک جدید کے چندوں کے متعلق ایک اعتراض کا جواب ہمیں صداقت کا اعلیٰ ترین معیار قائم کرنا چاہئے تمہیں چاہتے کہ تم میں سے ہر شخص کچی قربانی کا نمونہ بنے تحریک جدید قرآن میں موجود ہے تحریک جدید کے تمام مطالبات پر عمل کرنے والے صفات الہیہ کے مظہر بن سکتے ہیں 26.11.1937 465 483 03.12.1937 495 17.12.1937 501 28.03.1937 523 07.01.1938 527 21.01.1938 iii حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام جہاں جہاں ممکن ہو جلدی پہنچایا جائے اپنے آپ کو فنا سمجھ کر وقف کریں تحریک جدید کے بعض مطالبات کا ذکر $1938 قربانی وہی ہے جو انتہا تک پہنچے خدا تعالیٰ اپنا چہرہ ہمیشہ قربانیوں کے آئینہ میں دکھاتا ہے 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61

Page 11

533 28.01.1938 535 04.02.1938 555 11.02.1938 557 01.04.1938 561 18.06.1938 565 22.07.1938 569 31.07.1938 571 13.09.1938 575 04.11.1938 585 11.11.1938 605 18.11.1938 629 25.11.1938 643 02.12.1938 649 16.12.1938 655 30.12.1938 663 16.04.1938 677 20.01.1939 681 27.01.1939 687 17.02.1939 689 07.03.1939 691 30.06.1939 701 04.08.1939 703 20.10.1939 جماعت سے قربانی کے مطالبہ کی پہلی قسط تحریک جدید کا دور ثانی اور دوسری مدات تحریک جدید کے اصول کے پابند بنیں تحریک جدید میں کامیابی عورتوں اور بچوں کی مدد کے بغیر نہیں ہوسکتی سلسلہ کی تحریکات سے ہر فرد کو آگاہ کرنا اہم قومی فرائض میں سے ہے تحریک جدید کے تمام مطالبات کی طرف توجہ کریں تحریک جدید کیا ہے؟ مجاہدین تحریک جدید کو حضور کی اہم ہدایات رمضان کو تحریک جدید سے ایک گہری مناسبت ہے ہماری اصل توجہ حضرت مسیح موعود کے ذریعہ سپرد کی گئیں امانتوں پر ہونی چاہئے دور اول صفائی کے لئے تھا اور اب دور ثانی تعمیر کے لئے ہے سادہ زندگی اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے بلا شرط وقف کرد تحریک جدید کے مطالبے، ہجرت اور وقف زندگی تحریک جدید کے چندہ کے متعلق چند باتیں مبلغ وہ ہے جس کے دل کی ایمان کی حالت انبیاء کے ایمان کی مثل ہو * 1939 تحریک جدید خلیفہ کی طرف سے جماعت کی آزمائش.پُر زور تبلیغ کی اہمیت اور ضرورت ہماری جماعت تلوار سے نہیں بلکہ نظام اور تبلیغ سے جیتنے والی ہے تحریک جدید اور خدام الاحمدیہ تحریک جدید کے مطالبات کے متعلق جلسے کئے جائیں سمجھ لیں کہ یہ ایک موت ہے جس کا ان سے مطالبہ کیا جارہا ہے تحریک جدید کے سات روزے ماہ شوال میں رکھے جائیں 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 76 77 78 79 80 81 82 83 84 iv

Page 12

V 705 24.11.1939 709 01.12.1939 711 15.12.1939 715 26.12.1939 717 27.12.1939 719 07.04.1939 727 08.04.1939 731 733 735 757 763 767 یا درکھو کہ یہ تحریک خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے تحریک جدید کا مقصد دنیا کے ہر ملک میں اسلام کے علمبردار پیدا کرتا ہے اس تحریک کے بابرکت ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں جماعت کے لئے بہت بڑی فتوحات مقدر ہیں تعلیم یافتہ با ہمت نوجوان اپنے آپ کو وقف کریں تحریک جدید کے مطالبات کا خلاصہ کوئی چیز بھی اپنی ذات میں بری نہیں اشاریہ آیات قرآنیہ احادیث مبارکہ کلید مضامین اسماء مقامات کتابیات 85 86 87 88 89 90 91 92 93 94 95 96 97

Page 13

تحریک جدید- ایک ابھی تحریک...جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 19 اکتوبر 1934ء وقت آگیا ہے کہ ہم اس رنگ میں قربانیاں کریں جو بہت جلد نتیجہ خیز ہوں خطبہ جمعہ فرموده 19 اکتوبر 1934ء میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ سات یا آٹھ دن تک اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے زندگی اور توفیق بخشی تو میں ایک نہایت ہی اہم اعلان جماعت کے لئے کرنا چاہتا ہوں.چھ یا سات دن سے قبل میں وہ اعلان کرنا مناسب نہیں سمجھتا.اس اعلان کی ضرورت اور وجوہ بھی میں اسی وقت بیان کروں گا لیکن اس سے پہلے میں آپ لوگوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آپ لوگ احمدی کہلاتے ہیں.آپ لوگوں کا دعوی ہے کہ آپ خدا تعالیٰ کی چنیدہ جماعت ہیں، آپ لوگوں کا دعوی ہے کہ آپ خدا تعالیٰ کے مامور پر کامل یقین رکھتے ہیں، آپ لوگوں کا دعوی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے آپ نے اپنی جانیں اور اپنے اموال قربان کر رکھے ہیں اور آپ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ان تمام قربانیوں کے بدلے اللہ تعالیٰ سے آپ لوگوں نے جنت کا سودا کر لیا ہے.یہ دعویٰ آپ لوگوں نے میرے ہاتھ پر دہرایا بلکہ آپ میں سے ہزاروں انسانوں نے اس عہد کی ابتدا میرے ہاتھ پر کی ہے کیونکہ وہ میرے ہی زمانہ میں احمدی ہوئے.قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تمہارے باپ تمہارے بیٹے تمہاری بیویاں تمہارے عزیز واقارب، تمہارے اموال اور تمہاری جائیدادیں تمہیں خدا اور اس کے رسول سے زیادہ پیاری ہیں تو تمہارے ایمان کی کوئی حقیقت نہیں.یہ ایک معمولی اعلان نہیں بلکہ اعلانِ جنگ ہوگا ہر اُس انسان کے لئے جو اپنے ایمان میں ذرہ بھر بھی کمزوری رکھتا ہے، یہ اعلان جنگ ہوگا ہر اُس شخص کے لئے جس کے دل میں نفاق کی کوئی بھی رگ باقی ہے لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ ہماری جماعت کے تمام افراد إِلَّا مَا شَاءَ اللہ سوائے چند لوگوں کے سب سچے مومن ہیں اور اس وعدے پر قائم ہیں جو انہوں نے بیعت کے وقت کیا اور اس وعدے کے مطابق جس قربانی کا بھی ان سے مطالبہ کیا جائے گا اسے کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہیں گے.خطبہ جمعہ میں بولنا تو منع ہے لیکن اگر امام اجازت دے تو انسان بول سکتا ہے.پس میں آپ لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ اُس وعدے پر قائم ہیں جو آپ لوگوں نے میرے ہاتھ پر کیا ؟ ( چاروں طرف سے یقینا ہم قائم ہیں اور لبیک“ کی آواز میں بلند ہوئیں ) اس کے بعد میں آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جب 1

Page 14

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 19اکتوبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول آپ لوگ اپنی جانیں میرے ہاتھ پر فروخت کر چکے ہیں، اپنے اموال میرے ہاتھ پر فروخت کر چکے ہیں تو اب ہر ایک وہ مطالبہ جو شریعت کے اندر ہو میں آپ لوگوں سے کر سکتا ہوں اور ہر ایک مطالبہ جو میں شریعت کے اندر کروں اس کے متعلق جماعت کے ہر فرد کا یہ فرض ہے کہ وہ اس کو پورا کرے اور اگر کوئی اس مطالبہ کو پورا نہیں کرتا تو وہ منافق ہے احمدی نہیں.اس کے بعد سب سے پہلا مطالبہ جو میں آپ لوگوں سے کرتا ہوں اور جس کی آزمائش کے بعد میں دوسرا مطالبہ کروں گا یہ ہے کہ یہاں ایک جلسہ ہونے والا ہے.اس جلسہ کے متعلق مجھے یقینی طور پر اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ یہ لوگ کوئی شورش اور فساد برپا کرنا چاہتے ہیں.پس میرا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ اگر واقعہ میں وہ اطلاعات درست ہیں جو مجھے موصول ہوئیں تو میں اپنی جماعت کے ہر شخص کو یہ حکم دیتا ہوں کہ خواہ وہ مارا اور پیٹا جائے اپنا ہاتھ کسی پر مت اُٹھائے اور اپنی زبان مت کھولے بلکہ اگر وہ قتل بھی کر دیا جائے تو بھی اس کا حق نہیں کہ وہ اپنا ہاتھ اٹھائے اور اُس کا حق نہیں کہ وہ اپنی زبان ہلائے.اگر ایسی حالت میں کوئی بھائی پاس سے گزر رہا ہو تو میں اسے بھی ہدایت کرتا ہوں کہ وہ ہر گز اُس کی مدد نہ کرے ہاں فوٹو کے لئے کیمرے موجود ہونے چاہئیں.جن لوگوں کے پاس یہاں کیمرے ہیں وہ اپنے کیمروں کو تیار کرلیں اور جو باہر سے منگوا سکتے ہوں وہ باہر سے منگوالیں.جہاں کہیں وہ ایسی حرکت دیکھیں جس.انہیں معلوم ہو کہ پولیس اور اس کے افسر اپنے فرائض کو ادا نہیں کر رہے تو ان کا فرض ہوگا کہ وہ اس حالت کا فوٹو اُتار لیں ہاتھ مت بلائیں ، زبان مت کھولیں بلکہ کیمرے تیار رکھیں اور جب دیکھیں کہ پولیس اور اُس کے افسر اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کر رہے یا احمدیوں پر ظلم و تعدی ہو رہا ہے تو فورا اس حالت کا فوٹو اُتار کر اسے محفوظ کر لیں.پس اگر وہ روایات صحیح ہیں جو مجھے پہنچیں اور اگر ان لوگوں کا یہی ارادہ ہے کہ وہ فتنہ وفساد پیدا کریں تو اس اعلان کے بعد آپ لوگوں کی آزمائش ہو جائے گی اور پتہ لگ جائے گا کہ کہاں تک آپ لوگ دین کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں؟ اس کے بعد میں دوسرا مطالبہ کروں گا اور دیکھوں گا کہ آپ کس حد تک اسے پورا کرتے ہیں مگر میں وہ مطالبہ احراری جلسہ کے ایام میں پیش کرنا نہیں چاہتا تا کہ اسے انتقامی رنگ پر محمول نہ کیا جا سکے اور تا وہ مطالبہ فتنہ کا کوئی اور دروازہ نہ کھول دے.اس کے بعد میں دیکھوں گا کہ آپ لوگوں میں سے کتنے ہیں جو اس قربانی کے لئے تیار رہتے ہیں.جو قربانیاں اس وقت تک ہماری جماعت کی طرف سے ہوئی ہیں وہ ان قربانیوں کے مقابلہ میں بہت ہی حقیر ہیں جو 2

Page 15

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 119اکتوبر 1934ء حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جماعت نے کیں یا حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں نے کیس یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے کیں لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس رنگ میں قربانی کریں جو بہت جلد نتیجہ خیز ہو کر ہمارے قدموں کو اُس بلندی تک پہنچا دے جس بلندی تک پہنچانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیا میں مبعوث ہوئے.میں اُمید کرتا ہوں کہ اگر آپ لوگوں میں سے بعض کو دُور دراز ملکوں میں بغیر ایک پیسہ لئے نکل جانے کا حکم دیا گیا تو آپ لوگ اس حکم کی تعمیل میں نکل کھڑے ہوں گے اگر بعض لوگوں سے ان کے کھانے، پینے اور پہننے میں تبدیلی کا مطالبہ کیا گیا تو اس مطالبہ کو پورا کریں گے اگر بعض لوگوں کے اوقات کو پورے طور پر سلسلہ کے کاموں کے لئے وقف کر دیا گیا تو وہ بغیر چون و چرا کئے اس پر رضامند ہو جائیں گے اور جو شخص ان مطالبات کو پورا نہیں کرے گاوہ ہم میں سے نہیں ہوگا بلکہ الگ کر دیا جائے گا.“ مطبوع الفضل 23 اکتوبر 1934 ء ) 3

Page 16

Page 17

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 26 اکتوبر 1934ء دنیا کے ہر گوشہ میں احمدی خاص قربانیوں کے لئے تیار ہیں خطبہ جمعہ فرمودہ 26 اکتوبر 1934ء پس جیسا کہ حکومت پنجاب کے بعض افراد نے سلسلہ کی ہتک کی ہے، احرار کا بھی چیلنج موجود ہے اور آپ لوگوں کا کام ہے کہ بہتک کا بھی ازالہ کریں اور چیلنج کا بھی جواب دیں اور ان دونوں باتوں کے لئے جو بھی قربانیاں کرنی پڑیں، کریں.اس کے لئے میں آپ لوگوں سے ایسی بھی قربانیوں کا مطالبہ کروں گا جن کا پہلے مطالبہ نہیں کیا گیا اور ممکن ہے پہلے وہ معمولی نظر آئیں مگر بعد میں بڑھتی جائیں اس لئے دُنیا کے ہر گوشہ کے احمدی اس کے لئے تیار رہیں اور جب آواز آئے تو فور البیک کہیں.ممکن ہے میری دعوت پہلے اختیاری ہو یعنی جو چاہے شامل ہو اور میں امید کرتا ہوں کہ جس قدر میرا مطالبہ ہوگا اس سے کم طاقت خرچ نہ ہوگی اور جماعت کا ہر شخص قربانی کے لئے تیار رہے گا.غرض دو فرمانبرداریاں ہیں جن کا میں مطالبہ کرتا ہوں.ان میں سے ایک تو ساری دُنیا کو متحد کرنے والی ہے اور دوسری وقتی اور حالات کے مطابق بدلتی رہنے والی ہے.پہلی فرمانبرداری میری ہے جو خدا اور اس کے رسول کے حکم کے ماتحت ہے کیونکہ میں صرف ہندوستان کے لوگوں کا ہی خلیفہ نہیں ، میں خلیفہ ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اور اس لئے خلیفہ ہوں افغانستان کے لوگوں کے لئے ، عرب، ایران، چین، جاپان، یورپ، امریکہ، افریقہ، سماٹرا، جاوا اور خود انگلستان کے لئے.غرضیکہ کل جہاں کے لوگوں کے لئے میں خلیفہ ہوں.اس بارہ میں اہل انگلستان بھی میرے تابع ہیں، دُنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جس پر میری مذہبی حکومت نہیں.سب کے لئے یہی حکم ہے کہ میری بیعت کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں داخل ہوں لیکن دوسرا حکم وقتی ہے اور حالات کے ماتحت بدلتا رہتا ہے.آج یہاں انگریزوں کی حکومت ہے اور ہم اس کے وفادار ہیں لیکن کل یہ بدل گئی تو ہم اس نئی حکومت کے وفادار ہوں گے اس کے بالمقابل خلافت نہیں بدل سکتی.اس وقت میں خلیفہ ہوں اور میری موت سے پہلے کوئی دوسرا خلیفہ نہیں ہوسکتا اور تمام دنیا کے احمدیوں کے لئے میری ہی اطاعت فرض ہے، ہندوستانیوں پر بھی میری اطاعت ویسی ہی فرض ہے جیسے اہل ایران یا اہل امریکہ یا دنیا کے کسی دوسرے 5

Page 18

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 26 اکتوبر 1934ء وو تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول ملک کے رہنے والوں پر لیکن ان کے لئے انگریزوں کی اطاعت فرض نہیں ، اہل افغانستان پر میری اطاعت فرض ہے مگر انگریزوں کی نہیں بلکہ ان کی جگہ اپنی حکومت کی اطاعت فرض ہے اسی طرح اہل امریکہ پر میری اطاعت فرض ہے مگر انگریزوں کی نہیں.اس اطاعت میں احمدی متفرق ہیں لیکن میری اطاعت پر سب متفق ہیں.افغان، ایرانی ، ڈچ ، شامی مصری وغیرہ اپنے اپنے ہاں کی حکومتوں کے مطیع ہیں مگر وہ مرکزی نقطہ جس پر سب متفق ہیں ، وہ میری اطاعت ہے اس میں جو تفرقہ کرتا ہے وہ فاسق ہے اور جماعت کا نمبر نہیں.“ یہ بات جوں جوں انگلستان اور دُنیا کے دیگر ممالک میں پھیلے گی اور ضرور پھیلے گی تو ضرور حکومت کی بدنامی کا موجب ہوگی.دُنیا ہمیں انگریزوں کا ایجنٹ سمجھتی ہے.لیکن دوسری طرف حکومت ہم سے یہ سلوک کرتی ہے کہ کہتی ہے تم مرزا محمود احمد، سول نافرمانی کرنے والے ہو اور جب یہ واقعات کسی عقلمند کے سامنے پیش ہوں گے تو وہ تسلیم کرے گا کہ حکومت کا رویہ مسیح نہیں.میں نے یہ خطبہ جان بوجھ کر اس ہفتہ پر رکھا تھا کہ دیکھوں حکومت اس کا ازالہ کرتی ہے یا نہیں ؟ اس میں شک نہیں کہ اس نے دل داری کی کوشش کی ہے مگر گہرے زخم ظاہری مرہم سے شفا نہیں پایا کرتے.ہم کو فخر تھا کہ ہم نے پوری کوشش کر کے ملک میں امن قائم رکھا ہے اور ملک میں ایک ایسی داغ بیل ڈال دی ہے کہ فساد مٹ جائے مگر حکومت نے ہماری اس عمارت کو گرا دیا ہے، ہمارے نازک احساسات مجروح کئے گئے ہیں، ہمارے دل زخمی کر دیے گئے ہیں.ہم نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا کسی سے کچھ نہیں مانگا مگر حکومت اور رعایا خوامخواہ ہماری مخالف ہے اور مسیح ناصری کا قول بالکل ہمارے حسب حال ہے کہ: لومڑیوں کے بھٹ ہوتے ہیں اور ہوا کے پرندوں کے گھونسلے مگر ابن آدم کے لئے سر دھرنے کی بھی جگہ نہیں“.(متی 8/20) پس اے احمدی جماعت ! جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ نئی زمین اور نیا آسمان بنائے گا، تمہارا فرض ہے کہ اپنے لئے خدا کے فضل سے آپ گھر بناؤ.اس الہام میں یہی اشارہ ہے کہ یہ زمین اور آسمان تمہیں کانٹوں کی طرح کائیں گے.آخر ہم نے کیا قصور کیا ہے ملک کا یا حکومت کا کہ ہم سے یہ دشمنی اور عناد کا سلوک روا رکھا جا رہا ہے؟ کل پہرہ دینے والوں میں سے ایک خوش الحانی سے غالب کا شعر پڑھ رہا تھا کہ: دیر نہیں، حرم نہیں، در نہیں، آستاں نہیں بیٹھے ہیں رہگزر پہ ہم، کوئی ہمیں اُٹھائے کیوں؟ 6

Page 19

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 26 اکتوبر 1934ء میرے دل میں اس وقت خیال گزرا کہ یہ ہمارے حسب حال ہے.ہم کسی کے گھر پر حملہ آور نہیں ہوئے ،حکومت سے اس کی حکومت نہیں مانگی، رعایا سے اس کے اموال نہیں چھینے بلکہ اپنی مساجد ان کے حوالے کر دیں.اپنی بیش قیمت جائیدادیں ان کو دے کر ہم میں سے بہت سے لوگ قادیان میں آگئے کہ امن سے خدا کا نام لے سکیں مگر پھر بھی ہم پر حملے کئے جاتے ہیں اور حکومت بھی ہمارے ہاتھ باندھ کر ہمیں ان کے آگے پھینکنا چاہتی ہے اور کوئی نہیں سوچتا کہ ہمارا قصور کیا ہے جو ہم پر اس قدر ظلم کئے جاتے ہیں.گورنمنٹ کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہم بے شک صابر ہیں، متحمل ہیں مگر ہم بھی دل رکھتے ہیں اور ہمارے دل بھی درد کو محسوس کرتے ہیں.اگر اس طرح بلا وجہ انہیں مجروح کیا جاتارہا تو ان دلوں سے ایک آہ نکلے گی جوزمین و آسمان کو ہلا دے گی، جس سے خدائے قہار کا عرش ہل جائے گا اور جب خدا تعالیٰ کا عرش ہلتا ہے تو اس دنیا میں نا قابل برداشت عذاب آیا کرتے ہیں.“ ( مطبوعہ الفضل یکم نومبر 1934 ء) 7

Page 20

Page 21

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 2 نومبر 1934ء جماعت احمدیہ کے امتحان کا وقت آ پہنچا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 2 نومبر 1934ء میں پہلے گورنمنٹ پنجاب کے پاس اپیل کروں گا اور اگر گورنمنٹ پنجاب نے توجہ نہ کی تو گورنمنٹ آف انڈیا کو توجہ دلاؤں گا اور اگر اس نے بھی توجہ نہ کی تو ہوم گورنمنٹ کے پاس اپیل کروں گا اور اگر اس نے بھی اس امر پر کوئی توجہ نہ کی تو میں انگلستان کی پبلک اور دوسری تمام برٹش ایمپائر کی پبلک کے سامنے یہ معاملہ پیش کروں گا اور اگر یہ سب انصاف کی طلب اور اپیلیں رائیگاں گئیں تو اس وقت میں وہ تدابیر اختیار کروں گا جو اپنی عزت اور سلسلہ کی حفاظت کے لئے میرے نزدیک ضروری ہوں گی مگر ہم کسی صورت میں بھی قانون شکنی نہیں کریں گے اور کسی صورت میں بھی اپنے مقررہ اصولوں کو نہیں چھوڑیں گے بے شک یہ ایک عجیب بات معلوم ہوتی ہے کہ گورنمنٹ کی وفاداری کرتے ہوئے کس طرح اپنی عزت کی حفاظت کی جائے گی ؟ مسٹر گاندھی جو صرف تشدد کے مخالف ہیں ان کی عدم تشدد کی پالیسی بھی بہت لوگوں کو کی سمجھ میں نہیں آتی تو یہ سمجھنا تو اور بھی زیادہ مشکل ہے کہ ہم قانون شکنی بھی نہ کریں گے اور اپنے گزشتہ اُصولوں کو بھی نہیں چھوڑیں گے پھر بھی اپنی ہتک کا ازالہ کر کے چھوڑیں گے لیکن جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے ایسے مقام پر کھڑا کیا ہو جو دُنیا کی اصلاح کا مقام ہے، اللہ تعالیٰ اُسے مسٹر گاندھی اور ان کے ساتھیوں سے زیادہ عقل دیتا اور اس کی تدابیر کو دُنیا میں خود کامیاب کیا کرتا ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ کو آخر تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ اس کی غلطی تھی اور ہم حق پر تھے.باوجود یکہ ہم نہ تشدد کریں گے اور نہ سول نافرمانی باوجود یکہ ہم گورنمنٹ کے قانون کا احترام کریں گے، باوجود اس کے کہ ہم ان تمام ذمہ داریوں کو ادا کریں گے جو احمد بیت نے ہم پر عائد کی ہیں اور باوجود اس کے کہ ہم ان تمام فرائض کو پورا کریں گے جو خدا اور اس کے رسول نے ہمارے لئے مقرر کئے پھر بھی ہماری سکیم کا میاب ہو کر رہے گی.کشتی احمدیت کا کپتان، اس مقدس کشتی کو پُر خطر چٹانوں میں سے گزارتے ہوئے سلامتی کے ساتھ اسے ساحل پر پہنچا دے گا.یہ میرا ایمان ہے اور میں اس پر مضبوطی سے قائم ہوں.جن کے سپر دالہی سلسلہ کی قیادت کی جاتی ہے اُن کی عقلیں اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے تابع ہوتی ہیں اور وہ خدا تعالیٰ سے نور پاتے 9

Page 22

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 2 نومبر 1934ء مفر تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول ہیں اور اُس کے فرشتے اُن کی حفاظت کرتے ہیں اور اُس کی رحمانی صفات سے وہ مؤید ہوتے ہیں اور گودہ دنیا سے اُٹھ جائیں اور اپنے پیدا کرنے والے کے پاس چلے جائیں مگر اُن کے جاری کئے ہوئے کام نہیں ر کتے اور اللہ تعالیٰ انہیں سح اور منصور بناتا ہے.یہ مت گمان کرو کہ میرے اِس دیر کرنے میں مبادا وہ سکیم تمہارے سامنے نہ آئے کیونکہ کیا پتہ ہے کہ میں اگلے جمعہ تک زندہ بھی رہتا ہوں یا نہیں.پس میں آج یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ وہ سکیم جو میں پیش کرنا چاہتا ہوں وہ کبھی غائب نہیں ہو سکتی بغیر اس کے کہ تمہیں اُس کا علم ہو.وہ تمہارے پاس پہنچ چکی ہے اور بغیر اس کے کہ وہ تمہیں معلوم ہو بکلی محفوظ ہو چکی ہے اور کسی انسان کی موت اس کو کسی صورت میں بھی مٹا نہیں سکتی.بہر حال جماعت احمد یہ جلد یا بدیر اس معاملہ میں غالب آکر رہے گی اور اپنی صداقت دُنیا سے منوا کر رہے گی.“ وو " اگر آج ان اُمور کا انسداد نہ کیا گیا تو سلسلہ کی تحقیر اور تذلیل بڑھتی چلی جائے گی.پس میرا فرض ہے کہ میں آج آپ لوگوں کو کھول کر بتادوں کہ اب آپ کے امتحان کا وقت آ پہنچا ہے.اب آپ کی قربانیوں کا جائزہ لینے کا وقت آگیا ہے.“ ا میں اپنے خطبہ کو ختم کرتے ہوئے جماعت سے کہتا ہوں کہ اب ہمارا ایک جھگڑا تو احرار سے ہے انہوں نے ہمیں چیلنج دیا ہے اور گو ہم ظاہری طور پر کمزور ہیں مگر ہمیں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ کسی چیلنج کو ہم قبول کرنے سے انکار نہ کریں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ثابت کر دیں کہ ہمارے رب کے سپاہی بز دل نہیں ہوتے اور میں اُمید کرتا ہوں کہ جب میں اس سکیم کو بیان کروں گا جو ان فتن کے دُور کرنے کے متعلق ہوگی تو اُس وقت ہماری جماعت کا ہر فرد اپنے ذرائع کے مطابق لبیک کہتا ہوا آگے بڑھے گا.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ یہ فتنہ کوئی اہم چیز نہیں اس سے بڑے بڑے فتنے ہماری جماعت کے لئے مقدر ہیں مگر وہ جو چھوٹے فتنہ کے لئے قربانی کرنے پر تیار نہ ہو اس سے امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ کسی بڑے فتنہ کے وقت قربانی کر سکے گا.خدا بے شک عالم الغیب ہے اور وہ ہماری نیتوں سے آگاہ ہے مگر دنیا پر رعب اسی صورت میں پڑسکتا ہے جب ہم اپنی قربانیوں سے اپنا زندہ ہونا ثابت کر دیں.پس اس فتنہ کے استیصال کے لئے جو تجاویز بتائی جائیں گی میں اُمید کرتا ہوں کہ جماعت ان پر عمل کرے گی.“ ( مطبوع الفضل 11 نومبر 1934 ء ) 10

Page 23

دید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 9 نومبر 1934ء خدمت دین کے لئے نام پیش کرو خطبہ جمعہ فرمودہ 9 نومبر 1934ء میں نے اللہ تعالیٰ سے متواتر دعا کرتے ہوئے اور اس کی طرف سے مبشر رویا حاصل کرتے ہوئے ایک سکیم تیار کی ہے جس کو میں انشاء اللہ آئندہ جمعہ بیان کرنا شروع کروں گا.“ "" بہر حال ترقیات اور کامیابیوں کی بشارتیں ہمیں ملی ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ وہ حاصل ہو کر رہیں گی لیکن ان کے حصول کے لئے حسب سنت اللہ ہمیں قربانیوں کی ضرورت ہے اور حسب احکام شریعت کچھ تدابیر اختیار کرنے کی بھی لیکن میں نے پورے غور کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ قربانیاں بالعموم جبری اور لازمی نہ ہوں بلکہ اختیاری ہوں تا کہ ہر شخص اپنے حالات اور اخلاص کے مطابق کام کر سکے.میرا ارادہ ہے کہ اس سکیم کو پیش کرتے ہوئے میں اپنی جماعت سے والنٹیئر زطلب کروں گا اور ان لوگوں کو بلاؤں گا جو خوشی سے اس تحریک میں شامل ہوں.اس میں شبہ نہیں کہ اس کے نتیجہ میں ممکن ہے بعض لوگ جو کام کے قابل ہوں شامل نہ ہوں مگر جو شخص اپنے اندر کام کی طاقت رکھتے ہوئے شامل نہیں ہوگا وہ خدا تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہوگا اور اُس کا یہ عذر ہر گز شنا نہیں جائے گا کہ اس تحریک میں شامل ہونا اپنی مرضی پر موقوف رکھا گیا تھا کیونکہ اس میں شامل ہونا اختیاری ہوگا مگر جو شخص شامل ہونے کی اہلیت رکھنے کے باوجود اس خیال کے ماتحت شامل نہیں ہوگا کہ خلیفہ نے شمولیت کو اختیاری قرار دیا ہے وہ مرنے سے پہلے اس دُنیا میں یا مرنے کے بعد اگلے جہاں میں پکڑا جائے گا.ہاں جو شخص نیک نیتی سے یہ سمجھے کہ اُس کے حالات مساعدت نہیں کرتے وہ اس سے مستنی سمجھا جائے گا.“ " ہم تو گورنمنٹ کے اس معاملہ میں کسی خاص میعاد کا تعین نہیں کرتے اور نہ ہی احراریوں سے مقابلہ کی کوئی میعاد مقرر کر سکتے ہیں.اگر ایک سال نہیں، دو سال نہیں ، دس سال نہیں، سوسال نہیں ، ہزار سال بھی ہمارا اس مقابلہ میں لگ جائے تو ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں.اگر فرض کرو ہم اس میں کامیاب نہیں ہو سکتے تو ہماری آئندہ نسل کا فرض ہے کہ وہ اس سوال کو اُٹھائے اور اگر وہ بھی کامیاب نہیں ہو سکتی تو اُس سے آئندہ آنے والی نسل کا فرض ہے کہ اس سبق کو بھولے نہیں بلکہ یا در کھے اور 11

Page 24

اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 9 نومبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول اگر کوئی نسل اس عہد کو فراموش کرتی ہے تو وہ ہماری نسل نہیں کہلا سکتی.ہم کسی خاص وقت کے قائل نہیں بلکہ کہتے ہیں کہ جب خدا تعالیٰ کا منشا ہو گا وہ اس کام کو پورا کرے گا اور اگر ہمارے سو سال بھی اس کام میں لگ جاتے ہیں تو ہمارا اس میں کیا حرج ہے؟“ میں اُن قربانیوں کے سلسلہ میں جن کا تمام جماعت سے مطالبہ کرنا چاہتا ہوں بعض اور باتیں بھی کہنا چاہتا تھا لیکن چونکہ وہ اُس سکیم کا حصہ ہیں جسے میں بیان کروں گا اس لئے میں انہیں اُس کے ساتھ ہی بیان کروں گا ، سر دست ایک اور اعلان کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ مجھے فوراً جلد سے جلد ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جو سلسلہ کے لئے اپنے وطن چھوڑنے کے لئے تیار ہوں، اپنی جانوں کو خطرات میں ڈالنے کے لئے تیار ہوں اور بھوکے اور پیاسے رہ کر بغیر تنخواہوں کے اپنے نفس کو تمام تکالیف سے گزارنے پر آمادہ ہوں.پس میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جو نو جوان ان کاموں کے لئے تیار ہوں وہ اپنے نام پیش کریں.نوجوانوں کی لیاقت کے متعلق یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یا تو وہ مولوی ہوں مدرسہ احمدیہ کے سند یافتہ یا کم سے کم انٹرنس پاس یا گریجوایٹ ہوں.میں جانتا ہوں کہ بہت سے ایسے نوجوان ہماری جماعت میں نکھے موجود ہیں جو اپنے ماں باپ پر بوجھ بنے ہوئے ہیں اور گھر بیٹھے روٹیاں توڑتے رہتے ہیں.میں اُن سے کہتا ہوں کہ وہ اس طرح اپنے نفسوں کو ہلاک نہ کریں، آج اسلام کو اُن کی خدمت کی ضرورت ہے، آج احمد بیت کو ان نو نہال فرزندوں کی ضرورت ہے، وہ آگے آئیں اور اپنے نام پیش کریں.اس اعلان کے جواب سے بھی مجھے اندازہ ہو جائے گا کہ جماعت میں کتنے ایسے افراد ہیں جو عملی رنگ میں قربانی کرنے پر تیار ہیں.میں نوجوانوں کے باپوں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ اپنی اولا دوں کو خدمت دین کے لئے پیش کریں ، ان کی ماؤں سے کہتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں پیش کریں مگر ایسے ہی نو جوانوں کی ضرورت ہے جو فارغ ہوں.“ اس سلسلہ میں یہ بھی شرط ہے کہ ان نو جوانوں کو کم از کم تین سال کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنا ہوگا.گوممکن ہے بعض دفعہ کسی سے زیادہ عرصہ کے لئے بھی کام لیا جائے.ہماری جماعت میں اس وقت سینکڑوں بے کار نو جوان موجود ہیں اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ ایسے لوگ خدمت سلسلہ کے لئے کیوں سامنے نہیں آسکتے؟ اس کے بعد میں انشاء اللہ اگلے جمعہ وہ سکیم پیش کروں گا جس کے پیش کرنے کا میرا ارادہ ہے.وَمَا تَوْفِيقِى إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيم " مطبوعہ الفضل 18 نومبر 1934 ء ) 12

Page 25

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول "" اقتباس از خطبه جمعه فرموده 16 نومبر 1934ء اعلان کردہ سکیم کے متعلق چند باتیں خطبہ جمعہ فرمودہ 16 نومبر 1934ء پس میری تمام سکیم اور میرے تمام جذبات کے چاروں کونے اور اس کی بنیادیں اُن نشانات پر ہیں جن کو شریعت نے قائم کیا اور جن کو سلسلہ احمدیہ نے دنیا پر ظاہر کیا اور میری سکیم کا ایک بار یک ذرہ بھی اُن بنیادوں سے باہر نہیں جن کو شریعت اسلام اور سلسلہ احمدیہ نے قائم کیا ہے.“ " مجھ سے بہت سے لوگوں نے وعدے کئے ہیں کہ وہ اپنی جانیں اور اپنے اموال سلسلہ کے لئے فدا کرنے کو تیار ہیں.اس قربانی کا وعدہ کرنے والی بہت سی جماعتیں ہیں اور بہت سے جماعتوں کے افراد ہیں.پھر مردوں کے علاوہ عورتوں نے بھی اپنے آپ کو اس قربانی کے لئے پیش کیا ہے اگر سب کو ملا لیا جائے تو ہزاروں کی تعداد ہو جاتی ہے اور میں یقیناً دل میں خوشی محسوس کرتا ہوں کہ ہماری جماعت میں اللہ تعالیٰ نے قربانی کی ایسی روح پھونک دی ہے کہ وہ دین کے لئے ہر قسم کی تکلیف برداشت کرنے کے لئے تیار ہے اور ہر اُس آواز پر لبیک کہنے کو آمادہ جو خدا اور اُس کے رسول یا اس کے نائبوں کی طرف سے بلند ہو.پس یہ نہایت خوشی کی بات ہے مگر چونکہ یہ وعدے پیش از وقت ہیں اور چونکہ وہ سکیم میں نے ابھی بیان نہیں کی جس کے بیان کرنے کا ارادہ ہے اس لئے میں پورے طور پر خوش نہیں کیونکہ ممکن ہے لوگوں نے قربانی کا صحیح اندازہ نہ کیا ہو اور جب قربانی کا حقیقی مطالبہ اُن کے سامنے رکھا جائے تو اُن میں بعض عذرات پیش کرنے لگ جائیں.میرا اپنا اندازہ یہ ہے کہ لوگ بڑی لیکن وقتی قربانیوں کے لئے تو فوراً تیار ہو جاتے ہیں لیکن اگر اُن سے مسلسل چھوٹی قربانیوں کا مطالبہ کیا جائے مثلاً اُن سے دس دس منٹ روز کی مسلسل ایک لمبے عرصہ تک قربانی طلب کی جائے تو وہ چند دنوں کے بعد ہی رہ جائیں گے، اگر حکم دیا جائے کہ جاؤ اور لڑ کر مر جاؤ تو میں سمجھتا ہوں سو میں سے ایسے اخلاص رکھنے والے جیسا کہ ہماری جماعت کے افراد میں ہے، نوے لڑ کر مر جانے کے لئے تیار ہو جائیں گے لیکن اگر ایک سو سے کہا جائے کہ پیدل چلتے ہوئے بنگال پہنچ جاؤ تو سو میں سے پچاس معذرتیں کرنی شروع کر دیں گے کوئی کہے گا میری بیوی بیمار ہے، کوئی کہے گا میرے بچے بیمار ہیں، کوئی کہے گا میں چل نہیں سکتا.یہ سو میں سے پچاس کا اندازہ میں نے 13

Page 26

اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 16 نومبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول اپنی جماعت کے متعلق لگایا ہے ورنہ دوسرے مسلمانوں میں سے تو سو میں سے شاید ایک قائم رہے اور ننانوے اپنے عہد سے منحرف ہو جائیں لیکن جان دینے کی قربانی کا اگر سوال ہو تو میں سمجھتا ہوں کہ ایسی حالت میں بھی جبکہ مسلمانوں کا نظام ٹوٹ چکا اور ان کی اسلامی محبت مر چکی ہے ان میں سے سو میں سے ایک دوضرور نکل کھڑے ہوں گے لیکن اگر تھوڑی مگر مستقل قربانی کا مطالبہ کیا جائے تو لاکھوں مسلمانوں میں سے ایک بھی نہیں نکلے گا اور میں جب کہتا ہوں کہ لاکھوں مسلمانوں میں سے ایک بھی نہیں نکلے گا تو میں مبالغہ نہیں کرتا بلکہ مسلمانوں کے متعلق اپنا تجربہ بیان کرتا ہوں.مسلمانوں کے سامنے کئی سیاسی کام آئے مگر دو چار دن جوش دکھا کر وہ رہ گئے.پس عام مسلمانوں کے مقابلہ میں اپنی جماعت کے متعلق مستقل قربانی کے سلسلہ میں جب میں پچاس فیصدی افراد کا اندازہ لگاتا ہوں تو درحقیقت میں اپنی جماعت کی بہت کچھ تعریف کرتا ہوں لیکن ہماری تسلی تو پچاس پر نہیں ہوتی بلکہ سو پر ہوا کرتی ہے اور جب تک ہم سو فیصدی مکمل نہ ہو جا ئیں اُس وقت تک امن نصیب نہیں ہوسکتا.میں سمجھتا ہوں اگر میں قربانی کے لئے اپنے نام پیش کرنے والوں میں سے کسی کو بلا کر کہوں کہ تم نے قربانی کرنے کا وعدہ کیا ہے روزانہ رات کو نو بجے سے صبح ساڑھے پانچ بجے تک کھڑے رہا کرو تو بالکل ممکن ہے وہ اس قربانی کے لئے تیار نہ ہولیکن اگر میں یہ کہوں کہ جاؤ اور کود کر مر جاؤ تو ایک منٹ بلکہ ایک لحظہ کے لئے بھی وہ اس سے انکار نہیں کرے گا یا مثلاً میں کہوں کہ صبح چھ بجے میرے دفتر میں آؤ اور خاموش بیٹھے رہو اور شام کو اپنے گھر واپس چلے جایا کرو تو آٹھویں دن ہی مجھے رقعے آنے شروع ہو جائیں کہ میں بے کار بیٹھا ہوں مجھے کام نہیں کوئی کام بتائیے.حالانکہ حقیقی قربانی وہی ہوتی ہے جو خواہ قلیل ہو مگر انسان استقلال سے اُسے سرانجام دے.“ (مطبوع أفضل 22 نومبر 1934 ء ) 14

Page 27

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 23 نومبر 1934ء دین کی خاطر قربانیاں کرنے کے لئے ماحول پیدا کرنے کی ضرورت خطبہ جمعہ فرمودہ 23 نومبر 1934ء سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں نے گزشتہ جمعہ میں اس آئندہ تجویز کے متعلق اور اس لائحہ عمل کے متعلق جو میں جماعت کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں ، تمہیدی طور پر ایک بات بیان کی تھی.اب میں اسی تمہید کے سلسلہ میں ایک اور بات بیان کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ دنیا میں بعض باتیں انسان کو مجبورا اپنے مخالفوں سے چھپانی پڑتی ہیں وہ اپنی ذات میں بری نہیں ہوتیں، اس فعل کے معا بعد اگر اُن کو ظاہر کر دیا جائے تو دنیا کا کوئی شخص اعتراض نہیں کر سکتا لیکن جس وقت ان پر عمل کیا جارہا ہوا گر مخالف کو اُس کا علم ہو جائے تو انسان کے لئے کامیابی مشکل ہو جاتی ہے.مثلاً ایک فوج ایک شہر پر حملہ کرتی ہے ایک مظلوم قوم کی فوج جو ظالم کے دفاع کے لئے بلکہ اس قلعہ کے فتح کرنے کے لئے آگے بڑھتی ہے، جو اُس کا اپنا تھا تو یہ نہ صرف اچھی بات ہے بلکہ ثواب کا موجب ہے لیکن اگر یہ لوگ دشمن کی فوج کو یہ کہلا بھیجیں کہ ہم فلاں درہ سے داخل ہوں گے، اتنے سپاہی، اتنی بندوقیں، اتنی تو ہیں ہمارے ساتھ ہوں گی، ہمارے لڑنے کا طریق یہ ہوگا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ دشمن ان کے پہنچنے سے پہلے ہی ان کا توڑ سوچ لے گا اور آسانی سے ان کے حملہ کو ر ڈ کر دے گا.پس گو اس قسم کا حملہ نیک کام ہے اور ثواب کا موجب ہے مگر اس کے اظہار کی جرات کوئی نہیں کرے گا اور سوائے کسی بے وقوف کے کوئی اس کی تفاصیل کو ظاہر کرنے کے لئے تیار نہ ہوگا اسی طرح اگر ہم تبلیغ کے لئے کوئی جگہ چن لیں یا کوئی طریق تبلیغ تجویز کریں اور اس کا اعلان بھی کر دیں تو اس کا لازمی یہ نتیجہ ہو گا کہ مخالف بھی اپنا سارا از ور اس تجویز کو نا کام بنانے میں صرف کر دے گا اور اس طرح بالکل ممکن ہے کہ ہماری تجویز بہت حد تک نامکمل رہے.پس جس طرح ایک ہوشیار جرنیل کا کام ہے کہ دشمن کی طاقتوں کو خاص طرف لگائے رکھے اور اپنی طاقتوں کو دوسری طرف خرچ کرے تاکہ زیادہ سے زیادہ کامیابی حاصل کر سکے اسی طرح تبلیغی منتظم کا فرض ہے کہ مخالف پروپیگنڈا کو ایسی جہت پر لگائے رکھے کہ تبلیغ کے کام کو نقصان نہ پہنچے اور مخالف فریق کو اصل کام کی حقیقت کا علم نہ ہوا اور اس طرح دشمن کو اس سے 15

Page 28

خطبہ جمعہ فرمود 23 نومبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول غافل رکھ کر کامیابی حاصل کرے.پس ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے سکیم کے بعض حصے ایسے ہیں کہ میں انہیں تفصیلاً بیان نہیں کروں گا کیونکہ اگر انہیں بیان کر دوں تو نتیجہ اتنا اہم اور شاندار نہیں نکل سکتا جتنا بعض تفاصیل کو نظر انداز کرنے کی صورت میں نکل سکتا ہے.مجھے یہ بات اس لئے وضاحت سے بیان کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے کہ قرآن کریم میں خفیہ انجمنیں بنانے اور پوشیدہ کارروائیاں کرنے کی ممانعت ہے اور میں نے اس لئے یہ بات کھول کر بیان کی ہے کہ دونوں میں فرق معلوم ہو سکے.اگر کوئی خفیہ انجمن کسی کو مارنے یا قتل کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو یہ ایسا فعل نہیں کہ کسی وقت بھی اگر اس کو ظاہر کیا جائے تو لوگ کہیں کہ یہ بہت اچھا فیصلہ ہے.کوئی ایسی خفیہ کارروائی جو کسی کوقتل کرنے یا اس کے گھر کو یا کھلیان کو آگ لگانے کے متعلق ہو جب بھی ظاہر ہوگی ہر شخص یہی کہے گا کہ یہ بہت بر افعل ہے لیکن میں جو بات کہتا ہوں وہ ایسی نہیں.میں علی الاعلان کہتا ہوں کہ ہم تبلیغی کام کریں گے.ہاں اس میں ایک حد تک اخفا ہوگا یعنی محاذ جنگ کی یا ذرائع تبلیغ کی خبر دشمن کو نہیں دیں گے.وہ تبلیغ ہوگی جو جائز فعل ہے فرق صرف یہ ہوگا کہ ذرائع تبلیغ اور مقام کو پوشیدہ رکھیں گے او اس طرح تبلیغ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کریں گے لیکن اس ساری سکیم میں کوئی دھوکے کا عنصر موجود نہ ہوگا.پس ایسی تحریکات میں جو میں کروں گا مومنین کو ایک حد تک ایمان بالغیب لانا پڑے گا اور یہ بھی ان کے ایمان کی ایک آزمائش ہو گی.قرآن کریم کی پہلی سورۃ میں ہی جو مقدمہ یا دیباچہ کے بعد ہے یعنی سورۃ بقرہ اس کی ابتدا میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ ) الَّذِينَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ (البقرة:2تا4) تو مومن کو کچھ ایمان بالغیب بھی چاہئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ رضی اللہ عنہم کو بدر کے موقع پر مدینہ سے نکال کر لے گئے مگر خدا تعالیٰ سے علم پانے کے باوجود ان کو یہ نہیں بتایا کہ لڑائی یقینا ہونے والی ہے.بدر کے قریب پہنچ کر ان کو جمع کیا اور اس وقت بتایا کہ میں نے کہا تھا اللہ تعالیٰ کی طرف سے وعدہ ہے کہ دو میں سے ایک چیز ضرور مل کر رہے گی یا تو وہ قافلہ جو شام سے آنے والا ہے اور یا دوسرا فریق جو دھمکی دینے والا ہے مل جائے گا.اب میں تم کو بتاتا ہوں کہ ان دو فریق میں سے اللہ تعالیٰ نے جنگ کو ہی چنا ہے.صحابہ رضی اللہ عنہم بوجہ پورا علم نہ ہونے کے تیاری کر کے نہیں آئے تھے اور بہت سے تو گھروں سے ہی نہ آئے تھے اور بظاہر یہ حالت مسلمانوں کو کمزور کرنے والی تھی مگر مصلحت یہی تھی کہ 16

Page 29

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 23 نومبر 1934ء سارے حالات ظاہر نہ کئے جائیں.ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تفاصیل مدینہ میں ہی معلوم تھیں یا مدینہ سے باہر نکلنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے بتا ئیں مگر بہر حال قرآن کریم اور حدیث سے یہ ثابت ہے کہ کچھ عرصہ تک اس علم کو اخفا میں رکھا گیا اس لئے عین موقع پر چونکہ لوگ تیار نہ تھے آپ نے دریافت فرمایا کہ اب بتاؤ کیا منشا ہے؟ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر صحابہ رضیاللہعنہم لڑائی نہ کرنے کا مشورہ دیتے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی نہ کرتے.خدا تعالیٰ کے سامنے صرف آپ ہی جواب دہ تھے اس لئے اگر صحابہ رضی اللہ عنہم لڑائی نہ کرنے کا مشورہ دیتے تو آپ پھر بھی جنگ کرتے اور کہتے کہ مجھے خدا تعالیٰ کا حکم ہے اس لئے میں اکیلا جاتا ہوں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پوچھنے کا مطلب صرف صحابہ رضی اللہ عنہم کو ثواب میں شامل کرنا تھا.غرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ پوچھا اور اس پر مہاجرین کھڑے ہوئے اور کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم جنگ کے لئے حاضر ہیں مگر اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دوبارہ پوچھا کہ اے دوستو! مشورہ دو کیا کرنا چاہئے؟ پھر مہاجرین نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم تیار ہیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہ بارہ فرمایا دوستو ! مشورہ دو کیا کرنا چاہئے ؟ تب ایک انصاری کھڑے ہوئے اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد ہم سے ہے.ہم نے سمجھا تھا کہ جو مشورہ دیا گیا ہے وہ ہم سب کی طرف سے ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ انصار جواب دیں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں میرا یہی منشا ہے.تب اُس صحابی نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! شائد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معاہدہ کا خیال ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں بلانے کے وقت کیا گیا تھا.( نومسلمین نے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ آنے کی تحریک کی تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان لوگوں سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ اگر دشمن ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان پہنچانے یا پکڑنے کے لئے مدینہ پر حملہ کریں گے تو مدینہ کے لوگ اپنی ہر چیز قربان کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کریں گے لیکن اگر مدینہ سے باہر جنگ ہو تو وہ ذمہ دار نہیں ہوں گے.اس صحابی رضی اللہ عنہ کا اسی معاہدہ کی طرف اشارہ تھا) یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ وہ وقت تھا جب ہمیں اسلام کی پوری طرح خبر نہ تھی اور اب اس پیغام کی اہمیت کا ہمیں علم ہو چکا ہے.کیا اب بھی ہم کسی قربانی سے دریغ کر سکتے ہیں؟ کچھ منزلوں پر سمندر تھا، اُس جہت کی طرف اشارہ کر کے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس سمندر میں گھوڑے ڈالنے کا حکم دیجئے ہم کسی چون و چرا کے 17

Page 30

خطبہ جمعہ فرمودہ 23 نومبر 1934ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد اول بغیر سمندر میں کود پڑیں گے اور اگر جنگ ہوئی تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے لڑیں گے اور پیچھے لڑیں گے، دائیں لڑیں گے اور بائیں لڑیں گے اور دشمن آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچ سکے گا جب تک ہماری لاشوں کو کچل کر نہ جائے.تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا خدا کا یہی حکم تھا.اس صحابی کا جواب اتنا پیارا ہے کہ ایک اور صحابی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت سی جنگوں میں شامل وئے ، حسرت کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ کاش! مجھے ان جنگوں میں شامل ہونے کی سعادت حاصل نہ ہوئی ہوتی اور یہ الفاظ میرے منہ سے نکلے ہوتے.ہو یہ الفاظ ، ایسے موقع پر اور اس خاص حالت میں جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انصار سے مشورہ لے رہے تھے اور اس خیال کے ماتحت لے رہے تھے کہ وہ مدینہ سے باہر جنگ کرنے کے پابند نہیں ، اس جوش اور محبت میں کہے گئے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگوں میں شامل ہونے کی سعادت سے بھی زیادہ قیمتی معلوم ہوتے ہیں.اس لئے نہیں کہ الفاظ جنگ سے افضل ہیں یا زیادہ درجہ رکھتے ہیں بلکہ اس لئے کہ ان الفاظ میں جس محبت کا اظہار ہے وہ ایک بے پایاں سمندر کی طرح حدوبست سے آزاد معلوم ہوتی ہے.غرض ایسے مواقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اخفا سے کام لیتے تھے مگر ایسے حالات میں کہ مطلب کے حصول کے لئے اظہار مضر ہوتا.پس ایسا اخفا نا جائز نہیں.ہاں جو اخفا اس لئے کیا جاتا ہے کہ فعل قانو نا یا اخلاق باند با جرم ہے اور اس لئے کیا جاتا ہے کہ تا اس فعل کا مرتکب قانونی یاند ہی یا اخلاقی جرم کا مرتکب نہ قرار دیا جائے وہ نا جائز ہے لیکن جو چیز سراسر جائز ہے اس میں مطلب براری اور کامیابی کے لئے ایک حد تک اخفا جائز ہے.پس بعض باتوں کے متعلق دوستوں کو صرف مجملاًا ہدایت سن کر اس پر قربانی کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنا ہوگا.یہی وجہ ہے کہ میں نے سکیم کو لازمی قرار نہیں دیا کیونکہ اس کے بعض حصے ایسے ہیں کہ جن کو تفصیلاً بیان نہیں کیا جائے گا اور میں مخلصین سے مطالبہ کروں گا کہ اس اخفا کے باوجود جو اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کر سکتا ہے کرے اور جو نہیں کرنا چاہتا نہ کرے اور اس طرح میں کسی کے لئے ادنی اعتراض کی بھی گنجائش نہیں رہنے دینا چاہتا چاہے ایک شخص بھی اس میں شامل نہ ہو، میں اللہ تعالیٰ کے سامنے صرف اپنی ذات کا ذمہ دار ہوں.میرا کام تبلیغ کرنا ، تربیت کرنا ، فرائض کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنا اور ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کے احکام کو رکھ دینا ہے.مجھ پر ذمہ داری صرف میری جان کی ہے.میں اس کا ذمہ دار ضرور ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی آواز کو پہنچا دوں اس صورت میں اگر اللہ تعالیٰ مجھ سے سوال کرے تو 18

Page 31

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول خطبہ جمعہ فرمود 23 نومبر 1934ء میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اپنا فرض ادا کر دیا.پس دوسروں کے کام کی ذمہ داری مجھ پر نہیں اور مجھے اس کی کوئی پروا نہیں کہ سکیم کامیاب ہوتی ہے یا نہیں.میرا کام صرف یہ ہے کہ جب دیکھوں کہ اسلام یا سلسلہ کی تبلیغ میں رکاوٹ پیدا ہورہی ہے یا وقار کو نقصان پہنچ رہا ہے تو اس کے ازالہ کے لئے قدم اُٹھاؤں قطع نظر اس سے کہ کوئی میرے ساتھ شامل ہوتا ہے یا نہیں.تیسری بات جو تمہیدی طور پر میں کہنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ کوئی بڑی قربانی نہیں کی جاسکتی جب تک اس کے لئے ماحول نہ پیدا کیا جائے.اچھا پیج ایسی جگہ جہاں وہ آگ نہیں سکتا یا ایسے موسم میں جب وہ پیدا نہیں ہوتا کوئی فائدہ نہیں دے سکتا اور اسے اُگانے کی کوشش کا نتیجہ یہ ہوگا کہ محنت ضائع جائے گی کیونکہ اس زمین میں یا اس موسم یا ان حالات میں وہ آگ ہی نہیں سکتا.پس کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ ماحول ٹھیک ہو اور گردو پیش کے حالات موافق ہوں.اگر گرد و پیش کے حالات موافق نہ ہوں تو کامیابی نہیں ہوسکتی.اس نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت سے لوگ نیکی سے محروم رہ جاتے ہیں ان کے اندر نیکی کرنے کا مادہ بھی موجود ہوتا ہے اور جذبہ بھی مگر وہ ایسا ماحول نہیں پیدا کر سکتے جس کے ماتحت صحیح قربانی کرسکیں.پس ماحول کا خاص طور پر خیال رکھنا ضروری ہے.میرے ایک بچہ نے ایک دفعہ ایک جائز امر کی خواہش کی تو میں نے اُسے لکھا کہ یہ بے شک جائز ہے مگر تم یہ سمجھ لو کہ تم نے خدمت دین کے لئے زندگی وقف کی ہوئی ہے اور تم نے دین کی خدمت کا کام کرنا ہے اور یہ امر تمہارے لئے اتنا بوجھ ہو جائے کہ تم دین کی خدمت کے رستہ میں اسے نباہ نہیں سکو گے اور یہ تمہارے رستہ میں مشکل پیدا کر دے گا تو میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ نیکیوں سے اس لئے محروم رہ جاتے ہیں کہ وہ ماحول پیدا نہیں کر سکتے وہ صرف یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے جب کہا کہ قربانی کریں گے تو کر لیں گے.حالانکہ یہ میچ نہیں.ماحول کی ایک مثال میں پیش کرتا ہوں: ایک شخص کی آمدنی دس روپے ہے وہ پانچ روپے میں گزارہ کرتا ہے اور پانچ روپے کی قربانی کر سکتا ہے لیکن اگر وہ شادی کرلے تو دس روپے ہی صرف ہو جائیں گے اس صورت میں ممکن ہے وہ ایک آدھ روپیہ تو بچا سکے مگر یہ نہیں کہ پانچ کی ہی قربانی کر سکے.پس قربانی حالات کے مطابق ہوتی ہے جب قربانی کے لئے چیز ہی پاس نہ ہو تو قربانی کہاں سے دے گا؟ اسلام نے یہ جائز نہیں رکھا کہ انسان شادی نہ کرے یا اولاد پیدا نہ کرے یہ میں نے مثال دی ہے کہ انسان کی جتنی ذمہ داریاں زیادہ ہوں گی اتنی ہی مالی قربانی وہ کم کر سکے گا.پس آپ لوگ کتنے بھی ارادے قربانی کے کریں جب تک ماحول میں تغیر نہ ہوا نہیں پورا نہیں کر سکتے.مجھے ہزار ہا لوگوں نے لکھا ہے کہ ہم قربانی کے لئے تیار ہیں اور جنہوں.19

Page 32

خطبہ جمعہ فرموده 23 نومبر 1934 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول نہیں لکھا وہ بھی اس انتظار میں ہیں کہ سکیم شروع ہولے تو ہم بھی شامل ہو جائیں گے مگر میں بتاتا ہوں کہ کوئی قربانی کام نہیں دے سکتی جب تک اس کے لئے ماحول پیدا نہ کیا جائے.یہ کہنا آسان ہے کہ ہمارا مال سلسلہ کا ہے مگر جب ہر شخص کو کچھ روپیہ کھانے پر اور کچھ لباس پر اور کچھ مکان کی حفاظت یا کرایہ پر، کچھ علاج پر خرچ کرنا پڑتا ہے اور پھر اس کے پاس کچھ نہیں بچتا تو اس صورت میں اس کا یہ کہنا کیا معنی رکھتا ہے کہ میر اسب مال حاضر ہے؟ اس قسم کی قربانی نہ قربانی پیش کرنے والے کو کوئی نفع دے سکتی ہے اور نہ سلسلہ کو ہی اس سے فائدہ پہنچ سکتا ہے.سلسلہ اس کے ان الفاظ کو کہ میرا سب مال حاضر ہے کیا کرے؟ جبکہ سارے مال کے معنے صفر کے ہیں.جس شخص کی آمد سوروپیہ اور خرچ بھی سورو پہیہ ہے وہ اس قربانی سے سلسلہ کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتا جب تک کہ پہلے خرچ کو سو سے نوے پر نہیں لے آتا تب بے شک اس کی قربانی کے معنی دس فی صدی قربانی کے ہوں گے.اس قسم کے دعوے کر دینا صرف یہ ثابت کرتا ہے کہ کہنے والا بے سوچے سمجھے بات کرنے کا عادی ہے وہ پیش تو سب مال کرتا ہے لیکن یہ غور نہیں کرتا کہ اس کے پاس تو مال ہے ہی نہیں.ایک شخص کی اگر ایک پیسہ کی بھی جائیداد نہ ہو اور یہ کہے کہ میری ساری جائیداد حاضر ہے تو اس سے اسلام کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ بعض لوگ غلطی سے ایسی بات پیش تو کر دیتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ وہ کس حد تک قربانی کر سکتے ہیں؟ پس دیکھنے والی بات یہی ہے کہ قربانی کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنے والے کس حد تک قربانی کر سکتے ہیں یا کس حد تک اپنے حالات میں تبدیلی کر سکتے ہیں؟ غرض جو شخص بغیر حالات کے تغیر کے کہتا ہے کہ میرا سب مال حاضر ہے اگر تو وہ اس بات کو سمجھتے ہوئے کہ میرے پاس تو دینے کو کچھ بھی نہیں ایسا دعویٰ کرتا ہے تو وہ منافق بے وقوف ہے لیکن اگر وہ بغیر غور کئے اخلاص کے جوش میں یہ دعوی کر دیتا ہے تو وہ مخلص بے وقوف ہے.اگر عقلمند ہوتا تو اسے سوچنا چاہئے تھا کہ اس کے مال کا کون سا حصہ ہے جس کی وہ قربانی پیش کرتا ہے؟ جب تک وہ اپنے خرچ کو سو سے کم کر کے پچانوے، نوے یا ساٹھ ستر پر نہیں لے آتا وہ قربانی کر ہی کیا سکتا ہے؟ قربانی تو اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ ایسا شخص اپنے اخراجات کو کم کرے اور پھر کہے کہ میں نے اپنے اخراجات میں یہ تغیرات کئے ہیں اور ان سے یہ بچت ہوتی ہے جو آپ لے لیں.پس ضروری ہے کہ قربانی کرنے سے پیشتر اس کے لئے ماحول پیدا کیا جائے اس کے بغیر قربانی کا دعویٰ کرنا ایک نادانی کا دعوی ہے یا منافقت.یاد رکھو کہ یہ ماحول اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتا جب تک عورتیں اور بچے ہمارے ساتھ نہ ہوں.مرد اپنی جانوں پر عام طور پر پانچ دس فیصدی خرچ کرتے ہیں سوائے ان عیاش مردوں کے جو عیاشی 20

Page 33

خطبہ جمعہ فرموده 23 نومبر 1934ء ایک الہی تحریک جلد اول کرنے کے لئے زیادہ خرچ کرتے ہیں اور نہ کنبہ دار مرد عام طور پر اپنی ذات پر پانچ دس فیصدی سے زیادہ خرچ نہیں کرتے اور باقی نوے پچانوے فیصدی عورتوں اور بچوں پر خرچ ہوتا ہے.اس لئے بھی کہ ان کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور اس لئے بھی کہ ان کے آرام کا مرد زیادہ خیال رکھتے ہیں.پس ان حالات میں مرد جو پہلے ہی پانچ یا دس یا زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس فیصدی اپنے اوپر خرچ کرتے ہیں اور جن کی آمدنی کا استی نوے فیصدی عورتوں اور بچوں پر خرچ ہوتا ہے اگر قربانی کرنا بھی چاہیں تو کیا کر سکتے ہیں جب تک عورتیں اور بچے ساتھ نہ دیں؟ اور جب تک وہ یہ نہ کہیں کہ ہم ایسا ماحول پیدا کر دیتے ہیں کہ مرد قربانی کر سکیں.پس تیسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ قربانی کے لئے پہلے ماحول پیدا کیا جائے اور اس کے لئے ہمیں اپنے بیوی بچوں سے پوچھنا چاہئے کہ وہ ہمارا ساتھ دیں گے یا نہیں ؟ اگر وہ ہمارے ساتھ قربانی کے لئے تیار نہیں ہیں تو قربانی کی گنجائش بہت کم ہے.مالی قربانی کی طرح جانی قربانی کا بھی یہی حال ہے.جسم کو تکلیف پہنچانا کس طرح ہو سکتا ہے جب تک اس کے لئے عادت نہ ڈالی جائے جو مائیں اپنے بچوں کو وقت پر نہیں جگاتیں، وقت پر پڑھنے کے لئے نہیں بھیجتیں، ان کے کھانے پینے میں ایسی احتیاط نہیں کرتیں کہ وہ آرام طلب اور عیاش نہ ہو جائیں، وہ قربانی کیا کر سکتے ہیں؟ عادتیں جو بچپن میں پیدا ہو جائیں وہ نہیں چھوٹتیں.اس میں شک نہیں کہ وہ بہت بڑے ایمان سے دب جاتی ہیں مگر جب ایمان میں ذرا بھی کمی آئے پھر عود کر آتی ہیں.پس جانی قربانی بھی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک عورتیں اور بچے ہمارے ساتھ متحد نہ ہوں جب تک ما ئیں متحد نہیں ہوں گی تو وہ روز ایسے کام کریں گی جن سے بچوں میں سستی اور غفلت پیدا ہو.پس جب تک مناسب ماحول پیدا نہ ہو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.ہماری مالی قربانی ہوائے کمزوروں کے موجودہ ماحول کے لحاظ سے انتہائی حد تک پہنچی ہوئی ہے اور جب تک ماحول تبدیل نہ ہو اور بیوی بچوں کو ساتھ شامل نہ کیا جائے اُس وقت تک مزید قربانیوں کا دعوی پورا نہیں ہوسکتا.موجودہ حالات کے لحاظ سے اگر کوئی زیادہ سے زیادہ قربانی کرے گا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ مقروض ہو جائے گا اور تھوڑے ہی عرصہ میں اس کا اثر اس کی جائیداد پر پڑے گا اور اس طرح جتنی قربانی وہ پہلے کرتا تھا وہ بھی کرنے کے قابل نہیں رہے گا.ایسی قربانی کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی ایک ہاتھ والا انسان ایک طرف سے ہاتھ کاٹ کر دوسری طرف لگانا چاہے دوسری طرف ہاتھ تو کیا لگے گا دوسرا ہاتھ بھی وہ کھو بیٹھے گا.پس اگر ماحول کے بغیر قربانی کی جائے تو قربانی کرنے والا یقینا مقروض ہو جائے گا 21

Page 34

خطبہ جمعہ فرموده 23 نومبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول اور اس کی جائیداد پر اثر پڑ کر اور کم ہو جائے گی اور اس طرح یہ قربانی سلسلہ کے لئے مفید ہونے کی بجائے مضر ہوگی.مزید قربانیوں کے لئے ماحول پیدا کرنے کے واسطے ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ہمارا روپیہ خرچ کہاں ہوتا ہے؟ جو پیسہ ہم خرچ کرتے ہیں اس میں سے ایک حصہ جائیداد کی حفاظت کے لئے بھی صرف ہوتا ہے، تجارت اور زمینداری کی مضبوطی کے لئے بھی ہوتا ہے، صدقات اور چندوں پر بھی خرچ ہوتا ہے اور یہ سب خرچ مال کو کم کرنے کا نہیں بلکہ بڑھانے کا ذریعہ ہیں.پس ان اخراجات کو چھوڑ کر جب ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا باقی آمد کن کن مدات میں خرچ کرتی ہے؟ تو اس کی موٹی موٹی آٹھ مدات معلوم ہوتی ہیں.اول غذا ہر انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے ہر شخص کھانا کھانے پر مجبور ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا ہی ایسا کیا ہے اور کھانے پینے کا حکم بھی دیا ہے جو شخص نہ کھائے گا وہ سلسلہ کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا بلکہ مر جائے گا اس لئے یہ خرچ بہر حال قائم رہنا ہے.دوسرے لباس کا خرچ ہے:.اس کے متعلق بھی خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ لباس پہنو اور ننگے نہ رہو.تیسرے عورتوں کے زیورات پر خرچ ہوتا ہے یہ ضروری نہیں مگر ساری دنیا میں ہورہا ہے.چوتھے بیماریوں کے علاج وغیرہ پر خرچ ہوتا ہے اور یہ بھی قریباً ہر شخص کو کرنا پڑتا ہے.شائد ہی کوئی ایسا آدمی ہو جو کبھی بیمار نہ ہوا ہو.وگرنہ ہر شخص بیمار بھی ہوتا ہے اور ڈاکٹروں کی فیسوں اور دوائیوں وغیرہ پر خرچ کرنا پڑتا ہے.پانچویں آج کل بڑا خرج تماشوں وغیرہ پر ہوتا ہے اور یہ خرچ شہروں وغیرہ میں تو خصوصیت سے زیادہ ہوتا ہے.طالب علم ہفتہ میں ایک دو بار ضرور سنیما دیکھتے ہیں اور ایک کافی تعداد ان کی دو روپیہ ماہوار کے قریب اس پر ضرور خرچ کر دیتی ہے حالانکہ چندہ آٹھ آنے ماہوار بھی نہیں دے سکتے.تھیٹر ، سرکس اور دوسرے تماشے وغیرہ اتنے ہیں کہ ان کا گنا بھی مشکل ہے.پھر بعض دفعہ کرکٹ اور فٹ بال وغیرہ کے میچ ہوتے ہیں ان پر بھی ٹکٹ ہوتا ہے.پھر گھوڑ دوڑیں ہیں ہمارے ملک میں گو اس کا رواج کم ہے مگر پھر بھی یہ ایک خرچ ہے.غرض تماشوں کا خرچ بھی آج کل کافی ہو جاتا ہے.لاہور میں سترہ اٹھارہ سنیما ہیں، روزانہ دو کھیل ہوتے ہیں اور اس طرح 35، 36 سمجھو، اگر فی شود و سو آدمی بھی سمجھا جائے ، گو اس سے زیادہ ہوتے ہیں، تب بھی سات ہزار نے روزانہ تماشا دیکھا اور ٹکٹ کی قیمت اگر ایک روپیہ بھی اوسط رکھ لی جائے تو گویا سات ہزار روپیہ روزانہ سنیما پر خرچ ہوتا ہے.یہ اندازہ میرے نزدیک بہت کم کر کے لگایا گیا ہے مگر اس کے مطابق بھی سوا دو لاکھ روپیہ ماہوار اور چھپیں لاکھ روپیہ سالانہ سنیما پر خرچ 22

Page 35

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 23 نومبر 1934ء ہوتا ہے.دوسرے تماشے وغیرہ بھی شامل کر لئے جائیں تو ان اخراجات کا اندازہ پچاس لاکھ بھی کم ہے.یہ رقم صرف لاہور کی ہے اور پنجاب بھر میں ڈیڑھ دو کروڑ روپیہ سے کم خرچ نہ بنے گا.اگر دیہات کی کھیلیں بھی شامل کر لی جائیں تو چونکہ دیہاتی آبادی زیادہ ہوتی ہے، پنجاب میں یہ خرچ تین کروڑ کے قریب پہنچ جاتا ہے اور یورپ میں تو یہ خرچ بہت ہی زیادہ ہے.انگلستان کی آبادی چار کروڑ ہے مگر اندازہ کیا گیا ہے کہ ایک سال میں وہاں سنیما پر چار کروڑ پاؤنڈ خرچ ہوا.اگر اس کے ساتھ دوسرے تماشوں اور گھوڑ دوڑوں وغیرہ کو شامل کر لیا جائے تو خرچ اس سے دو گنے سے کم نہ ہوگا.گویا اندازہ ایک ارب بیس کروڑ روپیہ یا تمیں روپیہ فی کس سالانہ یا اڑھائی روپیہ فی کس ماہوار اور ہمارے ملک میں اوسط تین پیسے فی کس روزانہ آمد ہے یعنی ڈیڑھ روپیہ فی کس ماہوار جس میں سے تمام اخراجات پورے کرنے ہوتے ہیں مگر انگلستان میں اڑھائی روپیہ فی کس ہر مہینہ میں تماشوں پر خرچ ہوتا ہے.اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ کتنا بڑا خرچ ہے اور یہ آمدنی پر بہت بڑا بوجھ ہے.چھٹا خرچ شادی بیاہ کا ہے.اس میں بھی بڑا خرچ ہوتا ہے.یہاں قادیان میں میں نے دیکھا ہے کہ ولیمہ کا مرض بہت ترقی کرتا جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ولیمہ کی دعوتیں ہوتی تھیں مگر بہت محدود.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بڑے سے بڑا ولیمہ بھی اتنا نہیں ہوا ہوگا جتنے ہمارے ہاں چھوٹے ہوتے ہیں اور وہ اس میں شائد میری نقل کرتے ہیں.حالانکہ میرے تعلقات ساری جماعت کے ساتھ باپ بیٹے کے سے ہیں اور ایسے موقع پر ہر خاندان کے ساتھ مجھے محبت کا تعلق ظاہر کرنا پڑتا ہے.میں نے دیکھا ہے کہ اس قدر کثرت کے ساتھ لوگوں کو بلا لینے کے باوجود بھی مجھ پر شکوہ ہوتا ہے کہ ہمیں نہیں بلایا گیا اور اب تو مجھے بھی یہ تعداد تھوڑی کرنی پڑے گی.پس اگر کنچنیوں اور ڈوموں کا مرض گیا ہے تو اس کی جگہ ولیموں نے لے لی ہے.حالانکہ ولیموں پر دس پندرہ دوستوں کو بلا لینا کافی ہوتا ہے یا جیسا کہ سنت ہے ایک بکرا ذبح کیا، شور با پکایا اور خاندان کے لوگوں میں بانٹ دیا.پھر میں نے دیکھا ہے کہ اب تک یہ مرض بھی چلا جارہا ہے کہ لڑکی والے یہ پوچھتے ہیں زیور کیا دو گے؟ اور ایسا کہتے ہوئے انہیں شرم نہیں آتی.کوئی شخص اپنی طرف سے جس قدر چاہے دے لیکن لڑکی والوں کی طرف سے ایسی بات کا کہا جانا لڑکی کو فروخت کرنے کے مترادف ہے.پھر مہر بھی حد سے زیادہ مقرر کئے جاتے ہیں.ہمارے گھروں میں عام طور پر ایک ہزار روپیہ مہر ہوتا ہے بعض زیادہ بھی ہیں.زیادہ ان حالتوں میں ہیں جن میں عورتوں کو شرعی حصہ نہیں مل سکتا وہاں مہر اتنا ہے کہ کمی پوری ہو جائے مگر یہاں میں نے دیکھا ہے کہ 23

Page 36

خطبہ جمعہ فرمودہ 23 نومبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول معمولی معمولی آدمی دس دس اور پانچ پانچ ہزار مہر مقرر کرتے ہیں.حالانکہ ان کی جائیداد میں اور آمد نیاں بہت ہی کم ہوتی ہیں.باہر سے ایک دوست نے مجھے خط لکھا کہ قادیان کے ایک آدمی نے مجھے کہا ہے کہ آپ کے گھروں میں دس پندرہ ہزار مہر مقرر کیا جاتا ہے حالانکہ یہ بالکل غلط ہے.بہر حال مہر حیثیت کے مطابق ہونا ضروری ہے.ساتواں خرچ آرائش وزیبائش مکانات پر ہوتا ہے اگر کوئی شخص خود سادہ ہی رہنا چاہے تو بھی دوسروں کے لئے اس کو ایسا خرچ کرنا پڑتا ہے.میں خود زمین پر بیٹھنے کا عادی ہوں اور زمین پر بیٹھ کر ہی کام کرتا ہوں سوائے اس کے جلدی میں کوئی خط لکھنا ہو پیڈ میز پر پڑا ہو اور وہیں بیٹھ کر لکھ دوں وگرنہ عام طور پر میں زمین پر بیٹھتا ہوں مگر مجھے کو چ وغیرہ بھی رکھنے پڑتے ہیں کیونکہ میرے پاس انگریز بھی آجاتے ہیں اور ایسے ہندوستانی بھی جو کوٹ پتلون پہنتے ہیں.تو یہ بھی ایک خرچ ہے جو پہلے نہیں تھا اور اس پر بھی کافی رقم صرف ہو جاتی ہے.آٹھواں خرج تعلیم کا ہے.تعلیم بہت گراں ہو گئی ہے.پہلے زمانہ میں مدارس کچھ نہیں لیتے تھے ، وہ مفت پڑھاتے تھے اور آسودہ حال لوگ ان کی خدمت کر دیتے تھے.کتابیں بھی مدرسہ کی ہو تیں تھیں جو طالب علم تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد دوسروں کے لئے وہیں چھوڑ آتے تھے.طالب علموں کے کھانے پینے کا خرچ عام طور پر شہر والے برداشت کر لیتے تھے اور بہت ہی کم ایسے طالب علم ہوتے تھے جنہیں اپنا انتظام کرنا پڑتا.رہائش کے لئے مسجد کے ساتھ کو ٹھڑیاں وغیرہ بنی ہوتی تھیں مگر آج کل تعلیم بہت گراں ہے.کالج میں لڑکا جاتا ہے تو چالیس سے لے کر ڈیڑھ سو تک ماہوار اس پر خرچ کرنا پڑتا ہے.بعض کا لجوں کے خرچ زیادہ ہوتے ہیں.پھر بعض زیادہ تعلیموں پر زیادہ خرچ آتا ہے.مثلاً میڈیکل اور سائنس کی تعلیم پر بہت خرچ ہوتا ہے بعض کا لجوں کی فیسیں زیادہ ہوتی ہیں اور اس طرح چالیس سے لے کر ڈیڑھ سو تک خرچ ہوتا ہے.یہ ہندوستان کے عام کالجوں کے حالات ہیں بعض کا لجوں کے اور بھی زیادہ خرچ ہوتے ہیں اور یورپ میں تو تین سو سے لے کر پانچ سوروپیہ تک ماہوار خرچ ہوتا ہے لیکن نوکریوں کا یہ حال ہے کہ آخری عمر میں پہنچ کر شاید پانچ سوروپے تنخواہل سکے.تو تعلیم بھی آج کل بہت گراں ہے.ان اخراجات کی موجودگی میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہمارا سب کچھ سلسلہ کے لئے قربان ہے تو اس کا کیا نتیجہ ہو سکتا ہے؟ جو شخص عملاً کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے اس کا زبانی دعوی کوئی حقیقت نہیں رکھتا.میں نے جب بھی وقف کی تحریک کی ہے تو میں نے دیکھا ہے کہ چند آدمی ضرور اپنا نام پیش کر دیتے ہیں.حالانکہ وہ 24

Page 37

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 23 نومبر 1934ء جانتے ہیں کہ ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا.پس ایسی قربانی کا دعویٰ کرنا جسے کرنے والا نہ خود کر سکے اور نہ میں اس سے کوئی فائدہ اُٹھا سکوں.وہی بات ہے کہ سو گز واروں ایک گز نہ پھاڑوں.پس اگر جماعت قربانی کرنا چاہتی ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ماحول تیار کرے اور یہ بچوں اور عورتوں کو ساتھ ملائے بغیر نہیں ہو سکتا.یہی وجہ ہے کہ میں نے کہا تھا کہ مسجد کے پہلو میں، جو جگہ عورتوں کے لئے پہلے ہوتی تھی آج وہ ان کے لئے پھر تیار کر دی جائے تا وہ سن لیں کہ سلسلہ کو قربانیوں کے لئے ان کی امداد کی کس قدر ضرورت ہے.اگر قربانیاں نہ کر سکنے کی وجہ سے سلسلہ کی ترقی میں روک پیدا ہوتی ہے تو اس کی ذمہ داری عورتوں پر ہے.بیسیوں مرد ایسے ہیں جن میں سے میں بھی ایک ہوں کہ عورتوں اور بچوں کے اخراجات پورے کرنے کے بعد جیب بالکل خالی ہو جاتی ہے اور حالت گر زرمی طلبی سخن درین است کی مصداق ہو جاتی ہے.وہ اگر قربانی کا ارادہ بھی کریں تو کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے پاس ہوتا ہی کچھ نہیں.عام طور پر زیادہ خرچ عورتوں اور بچوں کا ہی ہے سوائے کسی ایسے بخیل کے جوان کو بھوکا رکھتا ہو یا ان کو آرام پہنچانے کا خیال نہیں رکھتا اور ایسے شخص سے ہم کیا امید رکھ سکتے ہیں؟ پس ہم قربانی کیلئے اس بات کے سخت محتاج ہیں کہ عورتیں ہمارا ساتھ دیں وگرنہ ہماری قربانی لفظی قربانی رہ جائے گی اس لئے میں عورتوں کو خصوصیت سے توجہ دلاتا ہوں کہ وہ قربانیوں کی طرف توجہ دیں اور ان امور میں جو میں آگے بیان کروں گا، مردوں کا ہاتھ بنائیں.ان کے تعاون کے بغیر جوشخص قربانی کرنا چاہے گا وہ زبردستی ان کے اخراجات کو کم کرے گا اور اس طرح ایک تو وہ ثواب سے محروم رہ جائیں گی اور دوسرے گھر میں فسادر ہے گا.ہماری مستورات کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان سے پہلے ایسی مستورات گزری ہیں جنہوں نے ایسی ایسی قربانیاں کیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کے متعلق لکھا ہے کہ وہ بہت صدقات کرتی تھیں اور اس وجہ سے ایک دفعہ ان کے بھانجے سے غلطی ہوئی اور اس نے کہا کہ ہماری خالہ یونہی روپیہ اڑا دیتی ہیں اور وارثوں کا کوئی خیال نہیں رکھتیں.حالانکہ ان کے بھی حقوق شریعت نے رکھے ہیں.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب یہ سنا تو ان کو بہت افسوس ہوا اور انہوں نے قسم کھائی کہ اس سے کبھی بات نہ کروں گی اور اگر کروں تو مجھ پر غلاموں کا آزاد کرنا فرض ہوگا.لوگوں نے اُسے ملامت کی کہ تم نے ایسا کیوں کہا ہے معافی مانگو.وہ معافی مانگنے گئے مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے قسم کھائی ہوئی ہے اس لئے ہر گز بات نہیں کروں گی.صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ کیا کہ کئی آدمی اکٹھے ہو کر 25

Page 38

خطبہ جمعہ فرموده 23 نومبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے دروازے پر گئے اور ان کے بھانجے کو بھی ساتھ لے گئے اور اس طرح اجازت مانگی کہ کیا ہم اندر آجائیں؟ اور اسے سکھا دیا کہ جا کر اپنی خالہ سے لپٹ جانا.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اجازت دے دی اور کہا آجاؤ وہ اندر داخل ہو گئے اور ان کے ساتھ ہی وہ بھانجا بھی چلا گیا اور جا کر خالہ سے لپٹ گیا.معافی مانگی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے معاف کر دیا مگر فرمایا میں نے غلاموں کی آزادی کا وعدہ کیا تھا اور کوئی حد نہ مقرر کی تھی اب مجھے ساری عمر ہی غلام آزاد کرنے پڑیں گے.چنانچہ آپ ساری عمر خرید خرید کر غلاموں کو آزاد کرتی رہیں کیونکہ آپ رضی اللہ عنہا کو یہ شک رہا کہ شاید میرا عہد پورا ہوا یا نہیں.ماں کے لئے سب سے بڑی قربانی بچے کی ہوتی ہے مگر میں اس کے لئے بھی ایک عورت کی مثال پیش کرتا ہوں جو پہلے شدید کا فر تھی.ایرانیوں کے ساتھ ایک جنگ میں مسلمانوں کو سخت شکست ہوئی.وہ اس کا ازالہ کرنے کے لئے پھر جمع ہوئے مگر پھر بھی ایرانی بوجہ کثرت تعداد اور فراوانی اسباب کے غالب ہوتے نظر آرہے تھے.ہاتھیوں کے ریلے کا مقابلہ بھی ان سے مشکل سے ہوتا تھا.چنانچہ آخری دن کی جنگ میں بہت سے صحابہ مارے گئے تھے.آخر مسلمانوں نے مشورہ کیا کہ اگلے روز آخری اور فیصلہ کن جنگ کی جائے.خنساء نامی ایک عورت جو بڑی شاعرہ اور ادیب گزری ہے، ان کے چار بیٹے تھے انہوں نے اپنے چاروں بیٹوں کو بلایا اور کہا: میرے بچو! میرے تم پر بہت سے حقوق ہیں.تمہارا باپ جواری تھا میں نے چار دفعہ اپنے بھائی سے جائیداد تقسیم کرا کر اسے دی مگر اس نے چاروں دفعہ جوئے میں برباد کردی.گویا نہ صرف یہ کہ اس کی اپنی جائیداد کوئی نہ تھی بلکہ اس نے میرے بھائی کی جائیداد کو بھی لٹا دیا مگر اس کے باوجود اس کی موت کے بعد میں نے اپنی عصمت کی حفاظت کی اور اس کے خاندان کو بٹہ نہیں لگایا اور بڑی محنت سے تمہاری پرورش کی.آج اس حق کو یاد کرا کر میں تم سے مطالبہ کرتی ہوں کہ یا تو تم جنگ میں فتح حاصل کر کے آنا اور یا مارے جانا.نا کامی کی حالت میں مجھے واپس آ کر منہ نہ دکھانا وگرنہ میں تمہیں اپنا یہ حق نہ بخشوں گی.اس جنگ کی تفاصیل ایسی ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے گویا ہر مسلمان اپنی جان کو میدان جنگ میں اس طرح پھینک رہا تھا جس طرح کھیل کے میدان میں فٹ بال پھینکا جاتا ہے.عین دو پہر کے وقت جب معرکہ جنگ نہایت شدت سے ہو رہا تھا ، خنساء آئیں، انہوں نے دیکھا کہ اس معرکہ سے بہادروں کا واپس آنا مشکل ہے.انہوں نے اس وقت ہاتھ اُٹھا کر دعا کی کہ اے خدا! میں نے اپنے بچے دین کے لئے قربان کر دیئے ہیں اب تو ہی ان کی حفاظت کرنے والا ہے.خدا تعالیٰ 26

Page 39

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 23 نومبر 1934ء نے ایسا فضل کیا کہ جنگ فتح ہو گئی اور ان کے بچے بھی زندہ واپس آگئے.اسی طرح ہندہ کی مثال ہے اس نے اور اُس کے خاوند ابوسفیان نے ہیں سال تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کی اور فتح مکہ پر مسلمان ہوئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پہلے وہ اس قدر شدید بغض رکھتی تھی کہ جنگ اُحد میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد اس نے ان کے ناک اور کان کٹوائے تھے اور بعض روایات میں ہے کہ ان کا کلیجہ نکال کر چبایا تھا.اُحد کی جنگ میں جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تھے اس جنگ میں مسلمانوں کو پیچھے ہٹنا پڑا اور اس طرح مسلمان شہداء کی لاشیں کفار کے رحم و کرم پر تھیں اس وقت ہندہ نے اس وجہ سے کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے ایک خاص آدمی کو مارا تھا ان کی لاش کا مثلہ کروایا تو وہ ایسی خطرناک دشمن تھیں مگر فتح مکہ کے بعد وہ اور ان کے خاوند ابوسفیان بھی ایمان لے آئے اور ان کے لڑکے حضرت معاویہ بھی، ایک جنگ کے موقع پر ہرقل کی فوجوں کے ساتھ سخت معرکہ درپیش تھا مسلمانوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ ساٹھ ہزار تھی اور دشمن کی دس لاکھ بھی بعض نے لکھی ہے اور تین چار لاکھ تو مسیحی مؤرخین نے بھی بیان کی ہے، گویا ان کی تعداد مسلمانوں سے کم سے کم پانچ چھ گنا تھی ، ایک دفعہ دشمن کی طرف سے ایسا سخت ریلہ ہوا کہ مسلمانوں کو پیچھے ہٹنا پڑا، ہندہ نے جو اپنے خیمہ میں تھیں جب غبار اٹھتا دیکھا تو کسی سے پوچھا کہ یہ کیسا غبار ہے؟ اس نے بتایا کہ مسلمانوں کو شکست ہو گئی ہے اور وہ پسپا ہور ہے ہیں.ہندہ نے عورتوں سے کہا کہ اگر مردوں نے شکست کھائی ہے اور اسلام کے نام کو بٹہ لگایا ہے تو آؤ ہم مقابلہ کریں.عورتوں نے ان سے دریافت کیا کہ ہم کس طرح مقابلہ کر سکتی ہیں؟ انہوں نے کہا ہم مسلمانوں کے گھوڑوں کو ڈنڈے ماریں گی اور کہیں گی کہ تم نے پیٹھ دکھائی ہے تو اب ہم آگے جاتیں ہیں.اس وقت ابوسفیان اور دوسرے صحابہ واپس آرہے تھے کیونکہ ریلہ بہت سخت تھا انہیں دیکھ کر ہندہ آگے آئیں اور ان کے گھوڑوں کو ڈنڈے مارنے شروع کئے اور ابوسفیان سے کہا کہ تم تو کفر کی حالت میں بھی اپنی بہادری کی بہت شیخیاں مارا کرتے تھے مگر اب مسلمان ہو کر اس قدر بزدلی دکھا رہے ہو.حالانکہ اسلام میں تو شہادت کی موت زندگی ہے؟ اس پر ابوسفیان نے مسلمانوں سے کہا کہ واپس چلو ہندہ کے ڈنڈے دشمن کی تلوار سے زیادہ سخت ہیں.چنانچہ مسلمانوں نے پھر حملہ کیا اور خدا تعالیٰ نے ان کو فتح دی.تو مسلمان عورتوں کی زندگیوں میں قربانی کے ایسے شاندار نمونے ملتے ہیں جن سے بڑھ کر نمونہ پیش نہیں کیا جا سکتا اسی طرح مردوں نے بھی بہت زیادہ قربانیاں کی ہیں.اُحد کی جنگ میں بہت سے مسلمان شہید ہو گئے تھے.ایک زخمی صحابی کا قول کتنا پیارا اور و 27

Page 40

خطبہ جمعہ فرموده 23 نومبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول دردناک ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سمجھتے تھے کہ قربانی کے کیا معنی ہیں.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم محفوظ ہو گئے اور کفار بھاگ گئے تو مسلمانوں نے لاشوں کا معائنہ کیا کہ دیکھیں کون کون شہید ہوا ہے؟ ایک انصاری اپنے کسی رشتہ دار کی تلاش میں تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک صحابی زخمی پڑے ہیں اور ان کی ٹانگیں کٹی ہوئی ہیں وہ اس کے پاس پہنچے اور کہا بھائی تمہاری حالت خطر ناک ہے اپنے متعلقین کو پیغام دینا ہو تو دے دو.انہوں نے کہا ہاں میں منتظر ہی تھا کہ کوئی اس طرف آئے تو میں اسے پیغام دوں.میرا رشتہ داروں کو یہ پیغام ہے کہ اے عزیز و ! ہم نے جب تک زندہ تھے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ، جو ہمارے پاس خدا تعالیٰ کی ایک امانت ہیں، اپنی جانوں سے حفاظت کی اب ہم جاتے ہیں اور یہ امانت تمہارے سپرد ہے تمہارا فرض ہے کہ اپنے مال و جان سے اس کی حفاظت کرو.اس کے سوا نہ کسی کو سلام دیا نہ کوئی پیغام بلکہ یہی کہا کہ میرے رشتہ داروں سے کہنا کہ جس رستہ سے میں آیا ہوں اسی سے تم بھی آؤ.تو یہ قربانیاں ہیں جو صحابہ کرام نے کیں مگر ان کے باوجود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اے دوستو ! ان قربانیوں کو کچھ نہ سمجھو تم سے پہلے کچھ لوگ گزرے ہیں جن کو آروں سے چیرا گیا اور جن کو آگ میں جلایا گیا محض اس وجہ سے کہ وہ خدا پر کیوں ایمان لائے؟ تمہاری قربانیاں ان کے مقابلہ میں کچھ حقیقت نہیں رکھتیں.اصل بات یہ ہے کہ قربانی کرنا مشکل نہیں ایمان لانا مشکل ہے جس کے دل میں ایمان پیدا ہو جائے اس کے لئے کوئی بھی قربانی مشکل نہیں ہوتی اور میں اُمید کرتا ہوں کہ جن مردوں کے دلوں میں ایمان ہے وہ عورتوں کی اور جن عورتوں کے دلوں میں ایمان ہے وہ مردوں کی اور جن بچوں کے دلوں میں ایمان ہے وہ اپنے ماں باپ کی مدد کریں گے اور آئندہ قربانیوں کے بارہ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے.قربانیوں کے لئے نیا ماحول پیدا کرنے کے لئے میں جو باتیں پیش کرنا چاہتا ہوں ان میں سے میں پہلے علاج کو لیتا ہوں.شریعت کا حکم ہے کہ بیمار کا علاج کرانا چاہئے اس لئے میں یہ تو نہیں کہتا کہ علاج کرا نا بند کر دیا جائے مگر اس سلسلہ میں ڈاکٹروں سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں.آج کل ڈاکٹروں میں عام مرض ہے کہ وہ کبھی خیال نہیں کرتے کہ جو دوائی وہ لکھ رہے ہیں اس کی قیمت اور فائدہ میں نسبت کیا ہے؟ ایک اشتہار ان کے پاس آتا ہے کہ فلاں دوائی کلیجی کے خون سے تیار کے گئی ہے اور جگر کے لئے بہت مفید ہے اور وہ محض تجربہ کے لئے کسی مریض کو لکھ دیں گے.حالانکہ اس کی قیمت دس بارہ روپے 28

Page 41

تحریک جدید- ایک ابھی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرمود 23 نومبر 1934ء ہوگی.مجھے خوب یاد ہے آج سے پچیس سال پہلے ڈاکٹری نسخہ کی قیمت دو تین آنہ سے زیادہ نہیں ہوتی تھی اور و آج کل جو قیمتی ادویات ڈاکٹر لکھ دیتے ہیں ان کے بغیر ہی مریض صحت یاب ہو جاتے تھے.میں نے خود حضرت خلیفہ اسیح اول رضی اللہ عنہ سے سنا ہے کہ کوئی بیماری ایسی نہیں جس کا علاج پیسہ، دھیلہ یا دمری سے نہ ہو سکتا ہو آپ ایک بزرگ صوفی کا ذکر کرتے تھے جنہوں نے اس موضوع پر کتاب لکھی ہے کہ انسانی بیماریوں کا علاج انسان کے جسم کے اندر ہی موجود ہے.بعض بیماریوں کا علاج بال ہیں اور بعض کا علاج کان کی میل ہی ہے.آنکھ کی بعض بیماریوں میں کان کی میل بہت فائدہ دیتی ہے لیکن آج کل ڈاکٹر مریضوں کا بہت سا روپیہ علاج پر خرچ کراتے ہیں اور ہر گھر میں کوئی نہ کوئی بیمار ضرور ہوتا ہے.بعض گھروں میں کئی کئی مریض ہوتے ہیں ڈاکٹر نسخے پر نسخے لکھتے ہیں اور ان پر اس قدر روپیہ خرچ آتا ہے کہ بعض لوگوں نے مجھے جتلایا ہے کہ ان کی آمدنی کا چوتھائی حصہ علاج پر صرف ہو جاتا ہے.بعض غریب لوگوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ ہم بیماری کی وجہ سے اتنے سو روپیہ کے مقروض ہو گئے ہیں.حالانکہ دس پیسہ میں اس کا علاج ہوسکتا تھا.پس ڈاکٹر اس بات کا عہد کر لیں کہ وہ اپنا سارا زور لگائیں گے کہ روپوں کا کام پیسوں میں ہو اور جب تک وہ یہ نہ سمجھیں کہ بغیر قیمتی دوا کے جان کے نقصان کا احتمال ہے اس وقت تک قیمتی ادویات پر خرچ نہ کروائیں گے.مثلاً بعض ٹیکے ایسے ہیں جو بعض بیماریوں میں بہت مفید ہوتے ہیں اور ان کے بغیر چارہ نہیں ہوتا میں ان کی ممانعت نہیں کرتا اور وہ مہنگے بھی نہیں ہوتے.میرا مطلب ایسی دوائیوں سے ہے جو آئے دن پیٹینٹ ہورہی ہیں، بڑی قیمتیں ان کی ہیں.حالانکہ وہ چیزیں سستے داموں میں اپنے ہاں تیار کی جاسکتی ہیں یا پھر ان کی ضرورت ہی نہیں ہے اس طرح ملک کا اور ہماری جماعت کا روپیہ بے فائدہ باہر جاتا ہے اور قوم میں قربانی کی روح کم ہوتی ہے.یورپ میں یہ روپیہ عیاشیوں میں خرچ ہوتا ہے.اگر ہماری جماعت کے ڈاکٹر یہ عہد کر لیں کہ علاج میں ایسے غیر ضروری مصارف نہیں ہونے دیں گے اور جماعت کے لوگ یہ کوشش کریں کہ اپنے طبیبوں سے ہی علاج کرائیں گے تو پچاس ہزار روپیہ سالانہ کی بچت ہو سکتی ہے.پنجاب میں سرکاری رپورٹ کے مطابق ہماری تعداد 56 ہزار ہے مگر ہم اسے صحیح نہیں سمجھتے اس وقت بھی جبکہ یہ مردم شماری ہوئی ہم اپنی تعداد ڈیڑھ دو لاکھ سمجھتے تھے اور اب تو اس سے بہت زیادہ ہے اگر بفرض محال سارے ملک میں اپنی تعداد چار لاکھ بھی سمجھ لیں اور دوآنہ فی کس علاج کی اوسط رکھ لیں ، پھر اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ دیہات میں عام طور پر علاج نہیں کراتے ، اگر اس تعداد کا دسواں بیسواں حصہ بھی لے لیا جائے تو باقاعدہ علاج کرانے والوں کی تعداد ہیں ہزار بن جاتی ہے اور 29

Page 42

خطبہ جمعہ فرمود 23 نومبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول جس طرز پر یہ علاج ہوتا ہے اس پر اڑھائی روپیہ سالانہ کی اوسط بھی رکھی جائے تو یہ خرچ پچاس ہزار ہو جاتا ہے.میں نے اپنے گھروں میں دیکھا ہے کہ اوسطاً چھپیں روپیہ ماہوار دوائیوں کا خرچ پڑ جاتا ہے.جس نئے طبیب سے مشورہ کیا اس نے دس بیس روپیہ کا نسخہ لکھ دیا.اس طرح مختلف نسخہ جات پر پچیس روپیہ ماہوار خرچ ہو جاتا ہے علاوہ ان دوائیوں کے جو میں نے خود منگوا کر اپنے گھر میں گھر کے استعمال کے لئے یا غربا کے استعمال کے لئے رکھی ہوئی ہیں.تو تماشوں کے خرچ کی طرح علاج کا خرچ بھی اتنا بار گراں ہے کہ یہ بھی ایک تماشا بنا ہوا ہے لیکن اگر ڈاکٹر یہ عہد کر لیں کہ وہ اپنے دماغ پر زور دے کر ایسے نسخے لکھیں گے جو سستے داموں تیار ہو سکیں اور قیمتی پیٹنٹ ادویہ استعمال کر کے نئی نئی دوائیوں کے تجربوں پر ملک کا روپیہ ضائع نہیں کرائیں گے تو یہ بار بہت حد تک ہلکا ہو سکتا ہے.اس کے علاوہ سات مدات اور ہیں جن میں سے اول غذا ہے.غذا میں کثرت اور تنوع اس قدر پایا جاتا ہے کہ اس پر بہت خرچ ہو جاتا ہے.مسلمانوں میں تو کھانے کا اس قدر مرض ہے کہ جہاں بھی چند مسلمان جمع ہوں وہاں کھانے پینے کا ضرور ذکر ہوگا.کوئی کہے گا یار فلاں چیز کھلاؤ، کوئی کہے گا یار میں تمہارے ہاں گیا تھا اور تم نے فلاں چیز نہیں کھلائی.ایک غریب دوست نے ایک دفعہ ایک اور بھائی کی دعوت کی اور مجھے بھی اس دعوت میں بلایا اس دعوت میں پلاؤ نہ تھا.جو صاحب مدعو تھے انہوں نے ہنس کر کہا کہ میری تو سمجھ میں بھی یہ بات نہیں آسکتی کہ پلاؤ کے بغیر بھی کوئی دعوت ہوسکتی ہے؟ آسودہ حال لوگوں میں تو تنوع بہت ہی زیادہ پایا جاتا ہے اور میرے زیادہ تر مخاطب آسودہ حال لوگ ہی ہیں غربا کو تو روکھی سوکھی روٹی بمشکل ملتی ہے.کھانے سے متعلق دیہاتیوں کی ذہنیت کا پتہ اس سے لگ سکتا ہے کہ کسی شخص نے کہا کہ ملکہ معظمہ کیا کھاتی ہوں گی تو دوسرے نے کہا کہ ان کا کیا کہنا ہے گڑ کی بھیلی اٹھائی اور کھالی! اپس میں یہ باتیں ان لوگوں کے لئے کہ رہا ہوں اور ان سے ہی قربانی کا مطالبہ کرتا ہوں جو آسودہ حال ہیں اور ایک سے زیادہ کھانے جن کے گھروں میں پکتے ہیں ورنہ غربا کی قربانی تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ہو چکی ہے.وہ کبھی روکھی سوکھی روٹی کھا لیتے ہیں، کبھی شکر یا گڑ سے، کبھی پیاز سے اور کبھی چٹنی سے اس لئے میرے مخاطب وہ نہیں بلکہ وہ ہیں جن کے گھروں میں اچھے اچھے کھانے پکتے ہیں اور جو کثرت سے کھاتے ہیں یا جن کے کھانوں میں تنوع پایا جاتا ہے.ایسے لوگ مالی یا جانی کسی قسم کی قربانی نہیں کر سکتے جب تک اپنے حالات میں تبدیلی نہ کریں انہیں اگر سفر پر جانا پڑے تو شکایت کرتے ہیں کہ کھانا اچھا نہیں ملتا، دودھ نہیں ملتا ، مکھن اور ٹوسٹ نہیں ملتے کیونکہ وہ اچھے اچھے کھانے کھانے کے عادی ہوتے ہیں اور تکلیف نہیں اٹھا سکتے.اسی طرح لباس میں بھی 30

Page 43

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول خطبہ جمعہ فرمود 23 نومبر 1934ء زمیندار میرے مخاطب نہیں ان کا لباس پہلے ہی سادہ اور ضرورت کے مطابق ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات ضرورت سے کم ہوتا ہے.وہ صرف لنگوٹی باندھ لیتے ہیں یا اونچا تہ بند جس سے بدن کا کچھ حصہ نگا ر ہتا ہے اور اس میں اگر کسی اصلاح کی ضرورت ہے تو یہ کہ اسے بڑھایا جائے.شہری لباس میں لوگ بہت غلطیاں کرتے ہیں اور اگر غلطی نہ ہو تو بھی ضرورت سے زیادہ لباس پر خرچ کرتے ہیں.لباس کی غرض یہ ہے کہ عریانی نہ ہو اور زینت ہو لیکن عام طور پر لباس کے بعض حصے زینت سے نکل کر فخر اور فیشن کی طرف چلے گئے ہیں مدنظر فیشن ہوتا ہے گرمی سردی سے حفاظت یا محض زینت مدنظر نہیں ہوتی ، بہت سے لوگ ان اغراض کے لئے نہیں بلکہ دکھانے کے لئے کپڑے بناتے ہیں ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ کسی کو یہ دکھائیں کہ تمہارے جیسا کوٹ ہم نے بھی بنالیا ہے.زیور کلیتہ زیبائش کے لئے ہے اس میں بھی اصلاح ہو سکتی ہے.شادی بیاہ اور خوشی کے مواقع پر بھی اخراجات میں ایسی اصلاح ہو سکتی ہے کہ نئے ماحول کے ماتحت اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے.تعلیم کے متعلق میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا ہو سکتا ہے.یہ ایک ایسا سودا ہے کہ جس سے بہر حال قوم کو فائدہ پہنچتا ہے.مدرسوں کی فیسیں، کالجوں اور بورڈنگوں کی فیسیں اور اوزاروں یا آلات کی قیمت بہر حال خرچ کرنی پڑتی ہے اور اس میں کوئی نقصان نہیں.یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص زمین خرید لے.ہاں طالب علموں کے کھانوں اور لباسوں میں اخراجات کو کم کیا جاسکتا ہے.ان باتوں کے بیان کرنے میں ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ اگر میں خالی نصیحت کروں تو ہر کوئی یہی کہے گا بہت اچھا! مگر عمل بہت کم لوگ کر سکیں گے اور اگر ضروری قرار دے دوں تو اس کا یہ نتیجہ ہو سکتا ہے کہ ایسی باتوں کو مستقل طور پر تمدن میں داخل کر دیا جائے.بعض صوفیاء نے خاص حالات کے ماتحت بعض شرطیں لگا دیں مثلاً یہ کہ کفنی پہن لو اور زیبائش کو ترک کر دو مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بعد میں فتوحات بھی ہوئیں ، بادشاہتیں بھی مل گئیں، مگر وہ کفنی نہ گئی.اسی طرح بعض نے خاص حالات کے ماتحت اچھے کھانے کھانے کی ممانعت کی مگر زمانے بدل گئے ، حالات میں تبدیلیاں ہو گئیں لیکن اس میں تبدیلی نہ ہوئی اور اب تک ایسے لوگ ہیں جو پلاؤ کھانے لگیں تو اس میں مٹی ڈال لیں گے.تو ایک طرف مجھے یہ اندیشہ ہے کہ کوئی بدعت نہ پیدا ہو جائے اور دوسری طرف صراحتا نظر آتا ہے کہ اس کے بغیر ہم ایسی قربانیاں نہیں کر سکتے جو سلسلہ کی ترقی کے لئے ضروری ہیں.کھانے، پینے اور رہائش کے لئے اسلام نے تین اصول مقرر کئے ہیں.پہلا یہ ہے کہ وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثُ ن (الضحی :11) 31

Page 44

خطبہ جمعہ فرمود 23 نومبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول یعنی جوں جوں اللہ تعالیٰ کی نعمت ملے اسے ظاہر کیا جائے.خدا تعالیٰ اگر مال دیتا ہے تو جسم کے لباس سے اسے ظاہر کرے اور تحدیث نعمت کرے.اس کے استعمال سے اللہ تعالیٰ کا شکر یہ ادا کرے.دوسری تیسری ہدایت یہ دی.كُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا یعنی کھاؤ پیونگر اسراف نہ کرو یعنی جب معلوم ہو کہ کھانا پینا حد سے آگے بڑھ گیا ہے تو چھوڑ دو یا یہ کہ جب زمانہ زیادہ قربانی کا مطالبہ کرے تو اس وقت فورا اپنے خرچ میں کمی کر دو.اسراف بھی دو طرح کا ہوتا ہے، ایک شخص کی آمد ایک ہزار یا دوتین ہزار روپے ماہوار ہے اس کے گھر میں اگر چار پانچ کھانے پکتے ہوں یا پندرہ میں روپے گز کا کپڑا وہ پہنتا ہے یا آٹھ دس سوٹ تیار کر لیتا ہے تو اس کے مالی حالات کے مطابق اُسے ہم اسراف نہیں کہہ سکتے لیکن اگر اس کے بیوی بچے بیمار ہو جائیں اور وہ ایسے ڈاکٹروں سے علاج کرائے جو قیمتی ادویات استعمال کرائیں اور اس طرح ہزار میں سے نو سور و پیہ اس کا دوائیوں پر خرچ ہو جائے لیکن کھانے اور پینے میں پھر بھی وہ کوئی تبدیلی نہ کرے تو یہ اسراف ہوگا.پس اصل یہ ہے کہ جب کوئی زمانہ ایسا آئے کہ مقابل پر دوسری ضروریات بڑھ جائیں تو اس وقت پہلی جائز چیزیں بھی اسراف میں داخل ہو جائیں گی.اسلام ہر وقت ایک قسم کی قربانی کا مطالبہ نہیں کرتا اگر ایسا ہوتا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ایک خاص جنگ کے وقت اپنا سارا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنا آدھا مال پیش نہ کرتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بیسیوں جنگیں ہوئیں مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا سارا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا آدھا مال نہیں دیا.ایک جنگ کے موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ خیال آیا کہ آج زیادہ قربانی کا موقع ہے میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے بڑھ جاؤں گا اور اس خیال سے وہ اپنا آدھا مال لے کر گئے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے قبل حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آدھا مال بھی بھی نہ دیا تھا وگر نہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ خیال کس طرح آ سکتا تھا کہ اپنا آدھا مال دے کر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے بڑھ جاؤں گا لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ موقع کی نزاکت کو دیکھ کر اپنا سارا مال دینے کا فیصلہ کر چکے تھے.چنانچہ جب وہ اپنا سارا مال لے کر گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو آپ کے داماد تھے اور ان کے گھر کی حالت سے واقف تھے اسے دیکھتے ہی فرمانے لگے کہ آپ نے اپنے گھر میں کیا چھوڑا؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا خدا اور اس کے رسول ﷺ کا نام.اسی وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ بڑے فخر سے اپنا آدھا مال لے کر آ رہے تھے مگر جب وہ وہاں پہنچے تو انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یہ جواب سنا اور سمجھ لیا کہ میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا.32

Page 45

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد اؤل خطبہ جمعہ فرمودہ 23 نومبر 1934ء پس ہر زمانہ کے لئے قربانی الگ الگ ہوتی ہے.بعض لوگ نادانی سے یہ اعتراض کر دیتے ہیں.کہ جماعت میں امرا اچھا کھانا کھاتے اور اچھا لباس پہنتے ہیں مگر یہ خیال نہیں کرتے کہ اسلام کی یہ تعلیم نہیں کہ ہمیشہ ہی اچھا کھانا نہ کھایا جائے یا اچھے کپڑے نہ پہنے جائیں بلکہ اصول یہ ہے کہ جب امام آواز دے اس وقت اس کی آواز کے مطابق قربانی کی جائے.اس وقت جو شخص اس قربانی کے لئے ماحول پیدا نہیں کرتا وہ اسراف کرتا ہے اور قابل مواخذہ ہے.پس ایک اسراف عام حالات کے ماتحت ہے اور ایک خاص حالات کے ماتحت.جو لوگ چاہتے ہیں کہ امیر اور غریب ہمیشہ ایک ہی سطح پر رہیں.وہ وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِثْةُ (الضحی : 11) کے خلاف عمل کرتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی سب ایک سطح پر نہیں تھے.جنگ صلى الله تبوک کے موقع پر ابو موسیٰ اشعری رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا یا رسول اللہ ! ہمارے لئے سواری کی ضرورت ہے.آپ نے فرمایا میرے پاس سواری نہیں ہے.انہوں نے پھر کہا مگر آپ نے پھر یہی جواب دیا کہ میرے پاس نہیں ہے.حالانکہ آپ ﷺ کے پاس اپنے لئے سواری تھی اور آپ متبوک کی طرف سواری پر ہی گئے تھے.اسی طرح بعض صحابہ اچھے کھانے کھاتے تھے اور بعض کو کئی کئی فاقے ہوتے تھے تو سب کو ہمیشہ برابر نہیں کیا جاسکتا.قربانی کے اوقات میں امام جو ہدایت کرے اس کے مطابق عمل کرنا ہر ایک کا فرض ہوتا ہے جیسے اب ہم کہتے ہیں کہ غربا یہ قربانی نہیں کر سکتے آسودہ حال لوگ کریں تو ان پر اس کی تعمیل فرض ہوگئی.اب جو یہ قربانی نہیں کرتا وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک مستوجب سزا ہے اور اس وقت میں جو مطالبہ کر رہا ہوں وہ اسی اصول کے ماتحت ہے.اسی طرح جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ دین کے بارہ میں امرا کو سادگی کی تعلیم بھی نہ دی جائے وہ بھی غلطی پر ہیں.بے شک روپیہ امرا کا اپنا ہے لیکن اسلام کے امرا اور دوسرے امرا میں ضرور فرق چاہئے.مثلاً اسلام کے امرا کو غربا کے لئے خرچ کرنا چاہئے اور اسلام کے لئے بھی.پس اس جنگ میں میرے مخاطب آسودہ حال لوگ ہوں گے اور انہیں اپنے حق چھوڑنے پڑیں گے.جنگ کی حالت میں خدا تعالیٰ بھی اپنے حق چھوڑ دیتا ہے.جنگ کی حالت ہو تو حکم ہے کہ آدھے لوگ ایک رکعت نماز پڑھ لیں اور آدھے حفاظت کے لئے کھڑے رہیں ان کے بعد ان کی جگہ دوسرے آجائیں گویا صرف ایک رکعت نماز کردی.پھر بعض حالتوں میں قصر یعنی جلدی جلدی نماز پڑھنے کی اجازت ہے اور خطرے کی حالت میں گھوڑے کی پیٹھ پر اشارے سے نماز پڑھ لینا جائز ہے جو اس بات کا ثبوت ہے 33

Page 46

خطبہ جمعہ فرمودہ 23 نومبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول کہ خطرے کے حالات میں اللہ تعالیٰ بھی اپنا حق چھوڑ دیتا ہے.پھر بندوں کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ خطرہ کی حالت میں اپنا حق چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوں؟ پس اصول یہ ہیں کہ: (1) ہر حالت میں غریب اور امیر کو ایک سطح پر لانے کی کوشش نہ کرو اس سے نظام انسانیت بدل جاتا ہے، (2) آسودہ حال لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ اپنے اموال کا ایک حصہ غربا کیلئے اور ایک حصہ دین کے لئے وقف کریں.گو ہماری جماعت میں لکھ پتی اور کروڑ پتی لوگ نہیں مگر جو لوگ کھاتے پیتے ہیں وہ ہمارے معیار زندگی کے مطابق آسودہ حال ہیں.چونکہ اس وقت ہمارا سلسلہ خاص حالات میں سے گزر رہا ہے اس لئے جو لوگ عام حالات میں آسودگی سے رہتے ہیں وہ اس امر کا ثبوت دیں کہ پہلے وہ اگر کھاتے پیتے تھے تو خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اور خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت جب قربانی کے لئے انہیں بلایا گیا تو انہوں نے سب کچھ چھوڑ دیا اگر وہ ایسا کر دیں گے تو ثابت ہو جائے گا کہ غربا کا ان پر جو یہ اعتراض تھا کہ وہ عیاشی کے ماتحت کھاتے پیتے اور پہنتے تھے وہ غلط تھا، وہ خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت کھاتے پیتے تھے جب اس کا حکم اس کے خلیفہ کے ذریعہ سے اپنی حالت بدلنے کے متعلق ملا تو انہوں نے اپنی حالت کو بدل دیا.اس اصل کے بیان کرنے کے بعد اب میں پہلا مطالبہ کرتا ہوں اور تین سال کے لئے جماعت کے مخلصوں کو بلاتا ہوں کہ جو ان شرائط پر عمل کر سکتے ہوں اور جو سمجھتے ہوں کہ وہ ان شرائط کے ماتحت آ سکتے ہیں وہ کھانے پینے ، پہنے، رہائش اور زیبائش میں ایسا تغیر کریں کہ قربانی کے لئے آسانی سے تیار ہوسکیں اور اس کے لئے میں بعض باتیں پیش کرتا ہوں.پہلی بات یہ ہے کہ کھانے میں سادگی پیدا کی جائے.اس کے لئے ایک اصل ہمیں شریعت سے ملتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ خوف و خطرات کا زمانہ تھا اُس وقت جو آپ نے مسلمانوں کو احکام دیئے تھے ہم ان سے سبق حاصل کر سکتے ہیں.آپ کا اپنا طریق بھی یہ تھا اور ہدایت بھی آپ نے یہ کر رکھی تھی کہ ایک سے زیادہ سالن استعمال نہ کیا جائے اور اس پر اتنا زور دیتے تھے کہ بعض صحابہ نے اس میں غلو کر لیا.چنانچہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے سرکہ اور نمک رکھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ دو کھانے کیوں رکھے گئے ہیں جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک کھانے کا حکم دیا ہے؟ آ 34

Page 47

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 23 نومبر 1934ء سے کہا گیا کہ یہ دو نہیں بلکہ دونوں مل کر ایک سالن ہوتا ہے مگر آپ نے کہا نہیں یہ دو ہیں.اگر چہ یه فعل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے جذبہ کی وجہ سے غلو کا پہلو رکھتا ہوا معلوم ہوتا ہے.غالباً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ منشا نہ تھا لیکن اس مثال سے یہ پتہ ضرور چلتا ہے کہ آپ نے یہ دیکھ کر کہ مسلمانوں کو سادگی کی ضرورت ہے اس کی کس قدر تاکید کی تھی.میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ والا مطالبہ تو نہیں کرتا اور یہ نہیں کہتا کہ نمک ایک سالن ہے اور سر کہ دوسرامگر یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ آج سے تین سال کے لئے جس کے دوران میں ایک ایک سال کے بعد دوبارہ اعلان کرتا رہوں گا تاکہ ان تین سالوں میں حالت خوف بدل جائے تو احکام بھی بدلے جاسکیں.ہر احمدی جو اس جنگ میں ہمارے ساتھ شامل ہونا چاہے یہ اقرار کرے کہ وہ آج سے صرف ایک سالن استعمال کرے.روٹی اور سالن یا چاول اور سالن سیہ دو چیزیں نہیں بلکہ دونوں مل کر ایک ہوں گے لیکن روٹی کے ساتھ دوسالنوں یا چاولوں کے ساتھ دوسالنوں کی اجازت نہ ہوگی.معمولی گزارہ والے گھروں میں بھی عورتیں تھوڑی تھوڑی مقدار میں ایک سے زیادہ چیزیں جسکے کے طور پر تیار کر لیتی ہیں.اس عہد میں آنے والے لوگوں کے لئے اس کی بھی اجازت نہیں ہو گی سوائے اس صورت کے کہ کوئی دعوت ہو یا مہمان گھر پر آئے اس کے احترام کے لئے اگر ایک سے زائد کھانے تیار کئے جائیں تو یہ جائز ہوگا مگر مہمان کا قیام لمبا ہو تو اس صورت میں اہل خانہ خود ایک ہی کھانے پر کفایت کرنے کی کوشش کرے یا سوائے اس کے کہ اس شخص کی کہیں دعوت ہو اور صاحب خانہ ایک سے زیادہ کھانوں پر اصرار کرے یا سوائے اس کے کہ اس کے گھر کوئی چیز بطور تحفہ آجائے یا مثلاً ایک وقت کا کھانا تھوڑی مقدار میں بیچ کر دوسرے وقت کے کھانے کے ساتھ استعمال کر لیا جائے.یہ قربانی ایسی نہیں کہ اس سے کسی کی خواہ کتنا ہی مال دار ہو، ذلت ہوتی ہو یا کسی کی صحت کو نقصان پہنچے لیکن اس قاعدہ پر عمل کر کے آسودہ حال لوگوں کے گھروں میں اچھی خاصی بچت ہوسکتی ہے.ہاں ایک اجازت میں دیتا ہوں بعض لوگ عادی ہوتے ہیں کہ کھانے کے بعد میٹھا ضرور کھا ئیں بلکہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اگر میٹھا نہ کھا ئیں تو نفخ ہو جاتا ہے، ہمارے گھر میں تو یہ عادت نہیں مگر میں نے بعض لوگوں کو یہ شکایت کرتے سنا ہے، ایسے لوگوں کے لئے اجازت ہے کہ ایک سالن کے ساتھ ایک میٹھا بھی تیار کر لیں مگر ایسے لوگ شاذ ہوتے ہیں شاید ہزار میں ایک.انگریزوں میں تو اس کا رواج ہی ہے مگر ہندوستان میں عام طور پر نہیں.اسی طرح جو لوگ کبھی کبھار کھانے کے ساتھ کوئی میٹھی چیز تیار کر لیں ان کے لئے بھی جائز ہوگا مگر میٹھی شے بھی ایک ہی ہو نیز اس اجازت سے ناجائز فائدہ نہ اُٹھایا جائے یعنی میٹھے کی خلاف عادت بھرمار 35

Page 48

خطبہ جمعہ فرموده 23 نومبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول نہ کی جائے.مہمان بھی اگر جماعت کا ہو تو اسے بھی چاہئے کہ میزبان کو مجبور نہ کرے کہ ایک سے زیادہ سالن اس کے ساتھ مل کر کھائے.ہر احمدی اس بات کا پابند نہیں بلکہ اس کی پابندی صرف ان لوگوں کے لئے ہوگی جو اپنے نام مجھے بتادیں اور ان سے میں اُمید رکھوں گا کہ اس کی پابندی کریں.بعض لوگوں نے ناشتہ کے متعلق بعد از خطبہ سوال کیا ہے.سو اس کا جواب بھی اس جگہ درج کر دیتا ہوں.چونکہ چائے پینے کی شے ہے اسے کھانے میں شمار نہ کیا جائے گا ہاں اس کے ساتھ جو چیز کھائی جائے اس کے لئے ضروری ہوگا کہ ایک ہی ہو یعنی روٹی اور کوئی سالن یا بھیجیا وغیرہ.لباس کے متعلق میرے ذہن میں کوئی خاص بات نہیں آئی ہاں بعض عام ہدایات میں دیتا ہوں مثلاً یہ کہ جن لوگوں کے پاس کافی کپڑے ہوں وہ ان کے خراب ہو جانے تک اور کپڑے نہ بنوائیں.پھر جو لوگ نئے کپڑے زیادہ بنواتے ہیں وہ نصف پر یا تین چوتھائی پر یا 4/5 پر آجائیں.مثلاً اگر دس جوڑے بنواتے ہیں تو آٹھ یا چھ یا پانچ پر گزارہ کر لیں.جو عورتیں اس میں شامل ہوں وہ اپنے اوپر ایسی ہی پابندی کرلیں.مردوں اور عورتوں کو اس کے متعلق تفصیلات سے مجھے اطلاع دینے کی ضرورت نہیں.ہاں سب سے ضروری بات عورتوں کے لئے یہ ہوگی کہ محض پسند پر کپڑا نہ خریدیں گی.یہاں عورتوں کی دکانیں مردوں سے زیادہ چلتی ہیں کیونکہ عورتیں صرف پسند آنے پر ضرورت کے بغیر بھی کپڑا خرید لیتی ہیں.پس عورتیں یہ بھی معاہدہ کریں کہ صرف پسند ہونے کی وجہ سے وہ کوئی کپڑا نہ خریدیں گی بلکہ جب ضرورت ہو کپڑالیں گی.اس عادت کو ترک کریں گی کہ جب پھیری والے کی آواز سنی کپڑا دیکھنے کو منگوالیا اور نہ یہ کہ گئے تو ایک دو پٹہ کا کپڑا خرید نے لیکن ایک پاجامہ کا کپڑا پسند آ گیا اور وہ بھی ساتھ خرید لیا.عورتوں میں یہ مرض بہت ہے کہ وہ ضرورت پر نہیں بلکہ کپڑا پسند آجانے پر کپڑا خرید لیتی ہیں یہ عادت اسراف میں بہت محمد ہے.مرد جو فیشن کی پابندی کرتے ہیں وہ بھی ایسا نہیں کرتے کہ دوکانوں پر جا کر دیکھتے پھریں اور جو کپڑا پسند آئے وہ خرید لیں مگر عورتیں ایسا کرتی ہیں.پس جو عورتیں اس تحریک میں شامل ہوں وہ اس بات کی پابند ہوں گی کہ صرف پسند آجانے پر کوئی کپڑا نہ خریدیں بلکہ ضرورت ہو تو خریدیں.دوسری پابندی عورتوں کے لئے یہ ہے کہ اس عرصہ میں گوٹہ کناری، فیتہ وغیرہ قطعاً نہ ریں.یہ باتیں میں کانگریس کے نقطہ نگاہ سے نہیں کہتا اس لئے اس کا یہ مطلب نہ سمجھا جائے کہ پہلے جو چیزیں موجود ہیں ان کو بھی ضائع کرنے یا جلا دینے کا حکم ہے بلکہ یہ مطالبات اس لئے ہیں کہ 36

Page 49

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 23 نومبر 1934ء ہمیں دین کے لئے قربانی کی ضرورت ہے.پس پچھلا اگر موجود ہوا اسے استعمال کیا جاسکتا ہے مگر آئندہ سے خریدنا بند کر دیں.تیسری شرط اس مد میں یہ ہے کہ عورتیں جو اس عہد میں اپنے آپ کو شامل کرنا چاہیں وہ کوئی نیا زیور نہیں بنوائیں گی اور جو مرد اس میں شامل ہوں وہ بھی عہد کریں کہ عورتوں کو نیا زیور بنوا کر نہیں دیں گے.پرانے زیور کو تڑوا کر بنانے کی بھی ممانعت ہے.عورتیں پرانے زیوروں کو تڑوا کر بھی نئے بنانے کی عادی ہوتی ہیں اور اس میں بھی روپیہ ضائع ہوتا ہے اور جب ہم جنگ کرنا چاہتے ہیں تو روپیہ کو کیوں خواہ مخواہ ضائع کریں خوشی کے دنوں میں ایسی جائز باتوں سے ہم نہیں روکتے لیکن جنگ کے دنوں میں ایک پیسہ کی حفاظت بھی ضروری ہوتی ہے ہاں ٹوٹے ہوئے زیور کی مرمت جائز ہے اور اسے مرمت کرا کر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن نیا بنانے کی اجازت نہیں.علاج کے متعلق میں کہہ چکا ہوں کہ اطبا اور ڈاکٹر ستے نسخے تجویز کیا کریں اس کے لئے مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں.پانچواں خرچ سنیما اور تماشے ہیں.ان کے متعلق میں ساری جماعت کو حکم دیتا ہوں کہ تین سال تیک کوئی احمدی کسی سنیما، سرکس، تھیٹر وغیرہ غرضیکہ کسی تماشا میں بالکل نہ جائے.آج سے تین سال تک کے لئے میری یہ جماعت کو ہدایت ہے اور ہر مخلص احمدی جو میری بیعت کی قدر و قیمت کو سمجھتا ہے اس کے لئے سنیما یا کوئی اور تماشہ وغیرہ دیکھنا یا کسی کو دکھانا نا جائز ہے مستی صرف وہ لوگ ہیں جو سرکاری ملازم ہیں اور ان کو خاص سرکاری تقریبوں پر ایسے تماشوں پر جانا پڑ جائے.بعض سرکاری تقریبوں کے موقع پر کوئی کھیل تماشا بھی جز و پروگرام ہوتا ہے ایسے موقع پر اگر جانا لازمی ہو تو جانے کی اجازت ہے لیکن اگر لازمی نہ ہو تو پھر انہیں چاہئے کہ خواہ مخواہ دوسروں کو انگشت نمائی کا موقع نہ دیں.جب چھوڑنے میں مشکلات ہوں تو مجبوری ہے لیکن جب نہ دیکھنے میں کوئی حرج نہ ہو تو ایسی جگہ جانے کی جو بدنامی کا موجب ہو کوئی ضرورت نہیں.سنیما کے متعلق اب میری یہی رائے ہے کہ یہ سخت نقصان دہ چیز ہے.اگر چہ آج سے صرف دو ماہ قبل تک میرا خیال تھا کہ خاص فلمیں دیکھنے میں حرج نہیں لیکن اب غور کرنے اور اس کے اثرات کا مطالعہ کرنے کے بعد کہ ملک پر اس کا کیا اثر ہو رہا ہے؟ میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ موجودہ فلموں کو دیکھنا ملک اور اس کے اخلاق کے لئے مہلک ہے اور اس لئے قطعاً ممنوع ہونا چاہئے.میں نے تھوڑے ہی دن ہوئے فرانس کے متعلق پڑھا ہے کہ وہاں گورنمنٹ کو فکر پڑگئی ہے کیونکہ کئی گاؤں اس لئے ویران 37

Page 50

خطبہ جمعہ فرموده 23 نومبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول ہو گئے ہیں کہ لوگ سنیما کے شوق میں گاؤں چھوڑ کر شہروں میں آکر آباد ہو گئے ہیں اسی طرح کے اور بہت سے حالات ہیں جن پر نظر کر کے میں سمجھتا ہوں کہ یہ چیز دنیا کے تمدن کو برباد کر دے گی مگر میں ہمیشہ کے لئے اس کی ممانعت نہیں کرتا کیونکہ یہ حرمت کی صورت ہو جاتی ہے اور اس کے لئے علماء سے مشورہ کی ضرورت ہے اس لئے فی الحال ضرورت دینی کے لحاظ سے تین سال کے لئے اس کی ممانعت کرتا ہوں اور یہ میرے لئے جائز ہے.نمائش وغیرہ کے مواقع پر تجارتی حصے کو دیکھنا جائز ہے، کپڑے دیکھو، پیج دیکھو، دوسری چیزوں کو دیکھو اور ان سے اپنے لئے اور اپنے خاندان کے لئے فائدے کی باتیں نکالومگر تماشے کا حصہ دیکھنا جائز نہیں.چھٹا شادی بیاہ کا معاملہ ہے.چونکہ یہ جذبات کا سوال ہے اور حالات کا سوال ہے اس لئے میں یہ حد بندی تو نہیں کرسکتا کہ اتنے جوڑے اور اتنے زیور سے زیادہ نہ ہوں.ہاں اتنا مد نظر رہے کہ تین سال کے عرصہ میں یہ چیزیں کم دی جائیں جو شخص اپنی لڑکی کو زیادہ دینا چاہے وہ کچھ زیور، کپڑا اور باقی نقد کی صورت میں دے دے.ساتواں مکانوں کی آرائش و زیبائش کا سوال ہے اس کے متعلق بھی کوئی طریق میرے ذہن میں نہیں آیا.ہاں عام حالات میں تبدیلی کے ساتھ اس میں خود بخود تبدیلی ہوسکتی ہے جب غذا اور لباس سادہ ہوگا تو اس میں بھی خود بخو دلوگ کمی کرنے لگ جائیں گے.پس میں اس عام نصیحت کے ساتھ کہ جو لوگ اس معاہدے میں شامل ہوں وہ آرائش وزیبائش پر خواہ مخواہ روپیہ ضائع نہ کریں اس بات کو چھوڑتا ہوں.بعض عورتیں پرانے کپڑوں سے بڑی بڑی اچھی زیبائش کی چیزیں تیار کر لیتی ہیں انہیں اجازت ہے کیونکہ اس میں روپیہ کا ضیاع نہیں بلکہ دست کاری کی ترقی ہوتی ہے.ہاں نئی چیزیں خریدنے پر پیسے خرچ نہ کئے جائیں.آٹھویں چیز تعلیمی اخراجات ہیں اس کے متعلق کھانے پینے کے متعلق جو خرچ ہوتا ہے اس کا ذکر میں پہلے کر آیا ہوں جو خرچ اس کے علاوہ ہیں یعنی فیس یا آلات اور اوزاروں یا سٹیشنری اور کتابوں وغیرہ پر جو خرچ ہوتا ہے اس میں کمی کرنا ہمارے لئے مضر ہو گا اس لئے نہ تو اس میں میں کمی کی نصیحت کرتا ہوں اور نہ ہی اس کی گنجائش ہے.پس عام اقتصادی حالات میں تغیر کے لئے میں ان آٹھ قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہوں جولوگ ان قربانیوں کو کرنا چاہیں وہ مجھے لکھ کر اس کی اطلاع دیں، جو جماعتیں ایسا کرنا چاہیں وہ ریزولیوشن پاس 38

Page 51

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 23 نومبر 1934ء کر کے مجھے بھیج دیں یا اگر کوئی ایسے لوگ ہوں جن کے سوائے ساری جماعت ان قربانیوں کے لئے آمادہ ہو تو صرف ان کے نام لکھ کر بھیجے جاسکتے ہیں.یہ تین سال کا عہد ہوگا جسے ہر سال کے بعد دہرایا جائے گا اور اگر ضرورت ہوئی تو کسی بات کو درمیان میں بھی چھوڑا جا سکے گا.جہاں یہ باتیں دوسرے گھروں کے لئے اختیاری ہیں وہاں ہمارے اپنے گھروں میں لازمی ہوں گی.قرآن کریم میں حکم ہے: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَوةَ الدُّنْيَا ( الاحزاب : 28) پس اس حکم کے ماتحت ایک نبی کا خلیفہ ہونے کی حیثیت سے میں بھی اپنے بیوی بچوں کے لئے ان باتوں کو لازمی قرار دیتا ہوں.وہ بچے جو میرے قبضہ میں ہیں اُن پر ان باتوں کی پابندی لازمی ہے ہاں جو علیحدہ ہو چکے ہیں اور شادی شدہ ہیں وہ خود ذمہ دار ہیں.وہ اپنے طور پر قربانی کریں.باقی جماعت میں سے جو چاہیں کریں اور جو نہ چاہیں نہ کریں.خدا تعالیٰ کے سامنے براہ راست جواب دہ میں ہی ہوں دوسرے لوگ میرے تابع ہیں.جو ان باتوں میں میری متابعت کرنا چاہیں وہ کریں اور جو نہ کرنا چاہیں نہ کریں لیکن اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ جب تک عورتیں تعاون نہ کریں اخراجات کم نہیں ہو سکتے اور کوئی ایسی رقم نہیں بچ سکتی جو سلسلہ کے کام آسکے اور جب تک یہ کام نہ ہو اس وقت تک یہ کہنا کہ ہمارے مال سلسلہ کے لئے حاضر میں غلط ہے.پہلے مال بچاؤ پھر ان کو حاضر کرو.جس شخص کے بیوی بچے اس قربانی کے لئے تیار نہ ہوں اور وہ اپنے آپ کو ہی پیش کر سکتا ہے اور اپنے کھانے اور پہننے میں کمی کر سکتا ہے اسی طرح جس عورت کا خاوند تیار نہ ہو وہ اگر چاہے تو اپنا نام پیش کر سکتی ہے.بچے بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں اور اگر چہ وہ کسی اور چیز میں نہیں مگر اپنے جیب خرچ میں کمی کر سکتے ہیں وہ اگر دو آنے ماہوار بھی بچائیں تو قومی مال میں زیادتی کر سکتے ہیں.پس یہ مطالبات ہیں جو میں ان دوستوں سے کرتا ہوں جو اس کے اہل ہیں جو اس کے ماتحت آتے ہی نہیں ان سے کوئی مطالبہ نہیں.پس جو افراد یا جماعتیں اس میں شامل ہونا چاہیں ان کے لئے میں آئندہ ایک ماہ کی مدت مقرر کرتا ہوں.ہندوستان کے رہنے والے ایک ماہ تک اپنے نام پیش کریں اور دوسرے ممالک میں رہنے والے چار ماہ کے اندر اندر.جس وقت وہ یہ عہد کریں گے اسی وقت سے سال شروع ہوگا.جماعت سے قربانی کا دوسرا مطالبہ جو دراصل پہلے ہی مطالبہ پر مبنی ہے میں یہ کرتا ہوں کہ جماعت کے مخلص افراد کی ایک جماعت ایسی نکلے جو اپنی آمد کا115 سے 1/3 حصہ تک سلسلہ کے مفاد کے 39

Page 52

خطبہ جمعہ فرموده 23 نومبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول لئے تین سال تک بیت المال میں جمع کرائے.اس کی صورت یہ ہو کہ جس قدروہ مختلف چندوں میں دیتے ہیں یا دوسرے ثواب کے کاموں پر خرچ کرتے ہیں یا دار الانوار کمیٹی کا حصہ یا حصے انہوں نے لئے ہیں، اخبارات وغیرہ کی قیمتوں کے علاوہ، وہ سب رقم اس حصہ میں سے کاٹ لیں اور باقی رقم اس تحریک کی امانت میں صدر انجمن احمدیہ کے پاس جمع کرا دیں.مثلاً ایک شخص کی پانچ سوروپیہ آمد ہے اور وہ موصی بھی ہے اور دارالانوار کا ایک حصہ بھی اس نے لیا ہوا ہے وہ دس بارہ روپیہ ماہوار اور ثواب کے کاموں میں بھی خرچ کرتا ہے اس شخص نے 15 دینے کا عہد کر لیا اور یہ سوروپیہ کی رقم ہوئی ، وصیت ایسے شخص کی پچاس ہوئی، دار الانوار کمیٹی کے 25 ہوئے ، چندہ کشمیر اور دوسرے کا رہائے ثواب مثلاً بارہ روپے ہوئے ، یہ کل رقم 87 ہوئی باقی تیرہ روپے ماہوار اس شخص کو انجمن میں اس تحریک کی امانت میں جمع کراتے رہنے چاہئیں اور اگر 1/4 کا عہد کیا تو 13+25 اڑ میں روپیہ جمع کراتے رہنا چاہئے.عہد کرنے والے شخصوں کو تین سال تک متواتر ایسا کرنا ہوگا.اس مطالبہ کے ماتحت جو آنا چاہے اسے چاہئے کہ جلد سے جلد مجھے اطلاع دے اور یہ بھی اطلاع دے کہ کس قدر حصہ کا عہد ہے اور چندے وغیرہ نکال کر کس قدر رقم اوسطاً اس کی امانت میں جمع کرانے والی پہنچے گی جسے وہ با قاعدہ جمع کراتا رہے گا.مقررہ تین سال کے بعد جتنی رقم جمع ہوگی وہ یا تو نقد یا رقم کے برابر جائیداد کی صورت میں اسے واپس دے دی جائے گی.اس میں یہ بھی فائدہ ہے کہ احتیاط اور کفایت کے ساتھ دوست خرچ کریں گے اور بچت کر سکیں گے.بعد میں وہ تمام کی تمام رقم انہیں واپس مل جائے گی مگر اس رقم میں آنے شامل نہیں ہوں گے.مثلاً جس شخص کے ذمہ پچاس روپیہ آٹھ آنے بنتے ہیں وہ یا تو پچاس روپیہ یا اکاون.طالب علم بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں اور اپنے خرچ میں سے ایک روپیہ بچا کر بھی جمع کرا سکتے ہیں.یہ ضروری شرط ہے کہ آنے اس میں نہیں لئے جائیں گے.پس ایسی صورت میں کہ اس تجویز میں طالب علم ، عورتیں، مرد سب شامل ہو سکتے ہیں ، آسانی کے ساتھ اس میں دو ہزار آدمی حصہ لے سکتے ہیں اور اوسط آمد ایک آدمی کی اگر پانچ روپیہ ماہوار بھی رکھ لی جائے تو ہر ماہ میں دس ہزار کی امانت داخل ہو سکتی ہے جو تین سال میں چار لاکھ کے قریب ہو سکتی ہے.تین سال کے بعد یہ روپیہ نقد یا اتنی ہی جائیداد کی صورت میں واپس کر دیا جائے گا.جو کمیٹی میں اس رقم کی حفاظت کے لئے مقرر کروں گا اس کا فرض ہوگا کہ ہر شخص پر ثابت کرے کہ اگر کسی کو جائیداد کی صورت میں روپیہ واپس کیا جارہا ہے تو وہ جائیداد فی الواقع اس رقم میں خریدی گئی ہے.اس سب کمیٹی کے ممبر علاوہ میرے 40

Page 53

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد اول مندرجہ ذیل احباب ہوں گے :- -4 مرزا بشیر احمد صاحب چودھری ظفر اللہ خان صاحب شیخ عبدالرحمن صاحب مصری مرز امحمد اشرف صاحب مرزا شریف احمد صاحب خطبہ جمعہ فرموده 23 نومبر 1934ء ملک غلام محمد صاحب لاہور چودھری محمد شریف صاحب وکیل منٹگمری چودھری حاکم علی صاحب سرگودھا چودھری فتح محمد صاحب اس کمیٹی کا کام میں اس کو بتاؤں گا باقی میں اس کی غرض نہیں بتا سکتا.بہر حال یہ قربانی مالی لحاظ سے بھی ثواب کے لحاظ سے بھی اور جماعت کی ترقی کے لحاظ سے بھی مفید ہو گی انشاء اللہ.جماعت سے قربانی کا تیسرا مطالبہ میں یہ کرتا ہوں کہ دشمن کے مقابلہ کے لئے اس وقت بڑی ضرورت یہ ہے کہ وہ جو گندا لٹریچر ہمارے خلاف شائع کر رہا ہے اس کا جواب دیا جائے یا اپنا نقطہ نگاہ احسن طور پر لوگوں تک پہنچایا جائے اور وہ روکیں جو ہماری ترقی کی راہ میں پیدا کی جارہی ہیں انہیں دور کیا جائے.اس کے لئے بھی خاص نظام کی ضرورت ہے، روپیہ کی ضرورت ہے، آدمیوں کی ضرورت ہے اور کام کرنے کے طریقوں کی ضرورت ہے.طریق میں بیان نہیں کرتا یہ میں اس کمیٹی کے سامنے ظاہر کروں گا جو اس غرض کے لئے بنائی جائے گی.اس کام کے واسطے تین سال کیلئے پندرہ ہزار روپیہ کی ضرورت ہوگی فی الحال پانچ ہزار روپیہ کام کے شروع کرنے کے لئے ضروری ہے بعد میں دس ہزار کا مطالبہ کیا جائے گا اور اگر اس سے زائد جمع ہو گیا تو اسے انگلی مدات میں منتقل کر دیا جائے گا.اس کمیٹی کا مرکز لاہور ہو گا اور اس کے ممبر مندرجہ ذیل ہوں گے :- -1 پیرا کبر علی صاحب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈوکیٹ لاہور چودھری اسد اللہ خان صاحب بیرسٹر لاہور 41

Page 54

خطبہ جمعہ فرموده 23 نومبر 1934ء له V ||- -۱۲ -17 -10 ملک عبدالرحمن صاحب قصوری ڈاکٹر عبدالحق صاحب بھاٹی گیٹ لاہور ملک خدا بخش صاحب لاہور چودھری محمد شریف صاحب وکیل منٹگمری شیخ جان محمد صاحب سیالکوٹ مرزا عبدالحق صاحب وکیل گورداسپور قاضی عبدالحمید صاحب وکیل امرتسر سید ولی اللہ شاہ صاحب تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول شمس صاحب یا اگر وہ باہر جائیں تو مولوی اللہ دتہ صاحب شیخ عبدالرزاق صاحب بیرسٹر لائل پور مولوی غلام حسین صاحب جھنگ -۱۵ صوفی عبد الغفور صاحب حال لاہور اس کام کے لئے اللہ تعالیٰ جن دوستوں کو توفیق اور اخلاص دے سو سو یا دو دو سو یا زیادہ مقدار میں یکمشت چندہ دیں ہاں غربا کو ثواب میں شامل کرنے کے لئے میں ان کے لئے اجازت دیتا ہوں کہ اس تحریک کے لئے وہ دس دس یا بیس بیس کی رقوم بھی دے سکتے ہیں یا دس دس ماہوار کر کے دے سکتے ہیں.یہ کام تین سال تک غالباًا جاری رہے گا.اس کمیٹی کے اجلاس میں ہی میں اس کام کے طریقے بتلاؤں گا.میں خود اس کا ممبر نہیں ہوں مگر مجھے حق ہوگا کہ جب چاہوں اس کا اجلاس بلاؤں اور ہدایات دوں.اس کمیٹی کا کام یہ ہوگا کہ میری دی ہوئی ہدایات کے مطابق دشمن کے پراپیگنڈا کا بالمقابل پراپیگنڈا سے مقابلہ کرے مگر اس کمیٹی کا کام یہ ہوگا کہ تجارتی اصول پر کام کرے مفت اشاعت کی قسم کا کام اس کے دائرہ عمل سے خارج ہوگا.چوتھا مطالبہ یہ ہے کہ قوم کی مصیبت کے وقت پھیلنے کی ضرورت ہوتی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو کہتا ہے کہ مکہ میں اگر تمہارے خلاف جوش ہے تو کیوں باہر نکل کر دوسرے ملکوں میں نہیں پھیل جاتے ؟ اگر باہر نکلو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری ترقی کے بہت سے راستے کھول دے گا.اس وقت ہم یکھتے ہیں کہ حکومت میں بھی ایک حصہ ایسا ہے جو ہمیں کچلنا چاہتا ہے اور رعایا میں بھی.ہمیں کیا معلوم ہے 42

Page 55

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول خطبہ جمعہ فرمود و 23 نومبر 1934ء کہ ہماری مدنی زندگی کی ابتدا کہاں سے ہوتی ہے؟ قادیان بے شک ہمارا مذ ہبی مرکز ہے مگر ہمیں کیا معلوم کہ ہماری شوکت اور طاقت کا مرکز کہاں ہے؟ یہ ہندوستان کے کسی اور شہر میں بھی ہو سکتا ہے اور چین، جاپان، فلپائن، سماٹرا، جاوا، روس، امریکہ غرضیکہ دنیا کے کسی ملک میں ہو سکتا ہے اس لئے جب ہمیں یہ معلوم ہو کہ لوگ بلاوجہ جماعت کو ذلیل کرنا چاہتے ہیں، کچلنا چاہتے ہیں تو ہمارا ضروری فرض ہو جاتا ہے کہ باہر جائیں اور تلاش کریں کہ ہماری مدنی زندگی کہاں سے شروع ہوتی ہے؟ ہمیں کیا معلوم ہے کہ کونسی جگہ کے لوگ ایسے ہیں کہ وہ فوراً احمدیت قبول کر لیں گے اور ہمیں کیا معلوم ہے کہ جماعت کو ایسی طاقت کہاں سے حاصل ہو جائے گی کہ اس کے بعد دشمن شرارت نہ کر سکے گا ؟ مجھے شروع خلافت سے یہ خیال تھا اور اسی خیال کے ماتحت میں نے باہر مشن قائم کئے تھے.بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ بیرونی مشنوں پر روپیہ خرچ کرنا بے وقوفی ہے مگر میں جانتا ہوں کہ یہ خیال صرف اسی وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ ایسے لوگوں نے سلسلہ کی اہمیت کو نہیں سمجھا اور اسے ایک انجمن خیال کر لیا ہے.مذہبی سلسلے ضرور ایک وقت دنیا کے توپ خانوں کی زد میں آتے ہیں اور وہ بھی ظلم و ستم کی تلوار کے سایہ کے بغیر ترقی ہی نہیں کر سکتے.پس ان کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ مختلف ممالک میں ان کی شاخیں ہوں تا کہ ایک جگہ وہ ظلم و ستم کا تختہ مشق ہوں تو دوسری جگہ پر ان کی امن سے ترقی ہورہی ہو اور تاکہ ان کا ذہبی لٹریچر دشمن کی دست برد سے محفوظ رہے.جو شخص بھی اس سلسلہ کو آسمانی تحریک سمجھتا ہے اُسے اس امر کے لئے تیار ہونا پڑے گا اور جو اس نکتہ کو نہیں سمجھتا وہ حقیقت میں اس سلسلہ کو بالکل نہیں سمجھتا.غرض سلسلہ احمدیہ کسی جگہ بھی اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھ سکتا اس لئے جب تک ہم سارے ممالک میں جگہ تلاش نہ کریں ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.ہماری مثال فقیر کی طرح ہے جو سب دروازے کھٹکھٹاتا ہے.ہمارا فرض ہے کہ دنیا میں نئے نئے رستے تلاش کریں اور نئے نئے ممالک میں جا کر تبلیغ کریں.ہمیں کیا معلوم ہے کہ کہاں لوگ جوق در جوق داخل ہوں گے؟ چونکہ ہمارا پہلا تجربہ بتاتا ہے کہ باقاعدہ مشن کھولنا مہنگی چیز ہے اس لئے پرانے اُصول پر نے مشن نہیں کھولے جا سکتے اس لئے میری تجویز ہے کہ دو دو آدمی تین نئے ممالک میں بھیجے جائیں ان میں سے ایک ایک انگریزی دان ہو اور ایک ایک عربی دان.سب سے پہلے تو ایسے لوگ تلاش کئے جائیں جو.سب یا کچھ حصہ خرج دے کر حسب ہدایت جا کر کام کریں.مثلاً صرف کرایہ لے لیں آگے خرچ نہ مانگیں یا کرا یہ خود ادا کریں خرچ چھ سات ماہ کے لئے ہم سے لے لیں یا کسی قدر رقم اس کام کے لئے دے سکیں.اگر اس قسم کے آدمی حسب منشانہ ملیں تو جن لوگوں نے پچھلے خطبہ کے ماتحت وقف کیا ہے ان میں سے کچھ 43

Page 56

خطبہ جمعہ فرمود : 23 نومبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول آدمی چن لئے جائیں جن کو صرف کرایہ دیا جائے اور چھ ماہ کے لئے معمولی خرچ دیا جائے اس عرصہ میں وہ ان ملکوں کی زبان سیکھ کر وہاں کوئی کام کریں اور ساتھ ساتھ تبلیغ بھی کریں اور سلسلہ کا لٹریچر اس ملک کی زبان میں ترجمہ کر کے اسے اس ملک میں پھیلا ئیں اور اس ملک کے تاجروں اور احمدی جماعت کے تاجروں کے درمیان تعلق بھی قائم کرائیں.غرض مذہبی اور تمدنی طور پر اس ملک اور احمدی جماعت کے درمیان واسطہ بنیں.پس میں اس تحریک کے ماتحت ایک طرف تو ایسے نوجوانوں کا مطالبہ کرتا ہوں جو کچھ خرچ کا بوجھ خود اٹھائیں ورنہ وقف کرنے والوں میں سے ان کو چن لیا جائے گا جو کرایہ اور چھ ماہ کا خرچ لے کر ان ملکوں میں تبلیغ کے لئے جانے پر آمادہ ہوں گے جو ان کے لئے تجویز کئے جائیں گے.اس چھ ماہ کے عرصہ میں ان کا فرض ہوگا کہ علاوہ تبلیغ کے وہاں کی زبان بھی سیکھ لیں اور اپنے لئے کوئی کام بھی نکالیں جس سے آئندہ گزارہ کر سکیں.اس تحریک کے لئے خرچ کا اندازہ میں نے دس ہزار روپیہ کا لگایا ہے.پس دوسرا مطالبہ اس تحریک کے ماتحت میرا یہ ہے کہ جماعت کے ذی ثروت لوگ جو سو سو روپیہ یا زیادہ روپیہ دے سکیں، اس کے لئے رقوم دے کر ثواب حاصل کریں.غربا کی خواہش کو مدنظر رکھ کر میں اس کی بھی اجازت دیتا ہوں کہ جو سو نہیں دے سکتے وہ دس ہیں ، ہمیں یا زیادہ رقوم جود ہا کوں پر مشتمل ہوں ادا کریں یا ، دس دس بیس بیس ماہوار کر کے اس میں شامل ہو جائیں.تمام غریب ممالک میں احمدیت کا جھنڈا گاڑنا نہایت اہم اور ضروری ہے.میں نے پہلے بھی اس کی طرف توجہ دلائی ہے.چنانچہ ایک دفعہ کی تحریک پر ایک نوجوان جن کا نام کرم دین ہے چپکے سے چلے گئے اور جہاز پر جا کر کوئلہ ڈالنے پر ملازم ہو گئے اس طرح انگلستان جا پہنچے.جماعت نے سات آٹھ دن تک کھانا وغیرہ ان کو دیا اس کے بعد انہوں نے پھیری کا کام شروع کر دیا اور ساتھ ہی کام بھی سیکھنے لگ گئے اور اس وقت وہ انگلش ویئر ہاؤس لاہور میں اڑھائی تین سور و پیر تنخواہ پاتے ہیں.پس میں اس تجربہ سے بھی سمجھتا ہوں چھ سات ماہ کی مدت کام تلاش کرنے کے لئے کافی ہے اور اگر اس میں بھی کوئی کام پیدا نہیں کر سکتا تو وہ نالائق ہے.ایسے نوجوان با قاعدہ مبلغ نہیں ہوں گے مگر اس بات کے پابند ہوں گے کہ باقاعدہ رپورٹیں بھیجتے رہیں اور ہماری ہدایات کے ماتحت تبلیغ کریں.پس پہلے مطالبہ کو ملاکر یہ پچیس ہزار کا مطالبہ ہوا جس میں سے پندرہ ہزار کی فوری ضرورت ہے.جماعت سے قربانی کا پانچواں مطالبہ یہ ہے کہ تبلیغ کی ایک سکیم میرے ذہن میں ہے جس پر سور و پیہ ماہوار خرچ ہو گا اور اس طرح 1200 روپیہ اس کے لئے درکار ہے.جو دوست اس میں بھی حصہ لے سکتے ہوں وہ لیں.اس میں بھی غربا کو شامل کرنے کی میں اجازت دیتا ہوں کہ وہ اس تحریک میں حصہ و 44

Page 57

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول لینے کے لئے پانچ پانچ روپے دے سکتے ہیں.خطبہ جمعہ فرموده 23 نومبر 1934ء جماعت سے قربانی کا چھٹا مطالبہ یہ ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ وقف کنندگان میں سے پانچ افراد کو مقرر کیا جائے کہ سائیکلوں پر سارے پنجاب کا دورہ کریں اور اشاعت سلسلہ کے امکانات کے متعلق مفصل رپورٹیں مرکز کو بھجوائیں.مثلا یہ کہ کس علاقہ کے لوگوں پر کس طرح اثر ڈالا جا سکتا ہے؟ کون کون سے با اثر لوگوں کو تبلیغ کی جائے تو احمدیت کی اشاعت میں خاص مددمل سکتی ہے؟ کس کس جگہ کے لوگوں کی کس کس جگہ کے احمدیوں سے رشتہ داریاں ہیں کہ ان کو بھیج کر وہاں تبلیغ کرائی جائے وغیرہ وغیرہ.پانچ آدمی جو سائیکلوں پر جائیں گے مولوی فاضل یا انٹرنس پاس ہونے چاہئیں.تین سال کے لئے وہ اپنے آپ کو وقف کریں گے پندرہ روپیہ ماہوار ان کو دیا جائے گا.تبلیغ کا کام ان کا اصل فرض نہیں ہو گا اصل فرض تبلیغ کے لئے میدان تلاش کرنا ہوگا وہ تبلیغی نقشے بنائیں گے گویا جس طرح گورنمنٹ سروے (SURVEY) کراتی ہے وہ تبلیغی نقطۂ نگاہ سے پنجاب کا سروے کریں گے.ان کی تنخواہ اور سائیکلوں وغیرہ کی مرمت کا خرچ ملا کر سو روپیہ ماہوار ہوگا اور اس طرح کل رقم جس کا مطالبہ ہے 27.5 ہزار بنتی ہے مگر اس میں سے 17.5 ہزار کی فوری ضرورت ہے.جو دوست اس میں حصہ لے سکیں فورا لیں.عام چندے ان چندوں میں شامل نہیں.اس تحریک میں بھی غربا کو حصہ دلانے کے لئے میں اجازت دیتا ہوں کہ جو لوگ پانچ پانچ روپیہ اس مد میں مدد دے سکیں وہ بھی اس میں حصہ لے سکتے ہیں خواہ یکمشت یا پانچ روپیہ ماہوار کر کے.ہاں جو لوگ اس سے کم حیثیت رکھتے ہیں وہ نہ میرے مخاطب ہیں اور نہ ان کے ثواب میں کمی آتی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ دلوں کو دیکھتا ہے.اب آج کے خطبہ میں میں صرف یہ چھ مطالبات کرتا ہوں بقیہ باتیں اگلی دفعہ بیان کروں گا.ایک بات سادہ زندگی کے متعلق ہے جس میں جو مرد، عورت، بچے شامل ہونا چاہیں وہ اپنا نام مجھے لکھ دیں.دوسرے وہ جو 1/5 سے 1/3 حصہ تک اپنی آمدنیوں میں سے وقف کر سکیں تین سال تک ایسی رقم واپس نہیں ہو سکے گی اور تین سال کے بعد روپیہ یا جائیداد کی صورت میں واپس ہوگی.تیسرے پراپیگنڈا کے لئے ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جس کے لئے پندرہ ہزار روپیہ کی ضرورت ہے جس میں سے پانچ ہزار فوری طور پر چاہئے.چوتھی بات یہ ہے کہ تین نئے ممالک میں دو دو کر کے چھ آدمیوں کو کچھ کرایہ یا خرچ دے کر بھیجا جائے اور ہر سال وہاں ایک ایک آدمی اور ضرور بھیجا جاتا رہے اس طرح بہت سے آدمی تھوڑے عرصہ میں 45

Page 58

خطبہ جمعہ فرموده 23 نومبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول ہی مختلف ممالک میں پہنچ جائیں گے.یہ خرچ اتنا کم اور اس کے نتائج اتنے اہم ہیں کہ جس کا ابھی اندازہ نہیں کیا جاسکتا.ہمارے ایک ایک مشن کا خرچ پانچ پانچ ہزار روپیہ سے زیادہ ہے مگر اس طرح پانچ ہزار سے تین نئے مشن ہاؤس قائم ہو سکیں گے یہی پرانے زمانہ میں صوفیا کا دستور تھا اور ایسا ہی وقت اب ہمارے لئے آگیا ہے.پانچویں بات یہ ہے کہ سورو پیہ ماہوار کی ایسے ذرائع تبلیغ کے لئے ضرورت ہے جنہیں میں ظاہر نہیں کرتا جن کے سپرد یہ کام ہوگا انہیں پر اسے ظاہر کروں گا اور چھٹی بات یہ ہے کہ سو روپیہ ماہوار کی سارے پنجاب کی سروے کے لئے ضرورت ہے.یہ چھ باتیں ہیں جو آج میں پیش کرتا ہوں اور بھی تجاویز ہیں جو اگلے جمعہ میں بیان کروں گا.ایک طرف تو مالدار لوگ ساڑھے ستائیس ہزار فورا جمع کر دیں اور دوسرے نوجوان جنہوں نے اپنے نام پیش کئے ہیں دوبارہ غور کر کے مجھے اطلاع دیں کہ کیا وہ ان شرائط کے ماتحت غیر ممالک کو جانے کے لئے تیار ہیں یا سائیکل پر سروے کا کام ان کے سپرد کیا جائے تو کیا وہ اس کے لئے تیار ہیں؟ ترجیح غیر ممالک میں جانے کے لئے ان لوگوں کو دی جائے گی جو اپنا خرچ کر سکیں.سائیکلوں پر جانے والے آدمی محنتی ہونے چاہئیں.پھر اخراجات میں کمی کر کے جو لوگ تین سال تک امانت کے طور پر بیت المال میں جمع کراسکیں وہ بھی مجھے اپنے نام بتادیں.میں سمجھتا ہوں کہ جس جوش کے ساتھ دوستوں نے پہلے قربانیوں کیلئے اپنے آپ کو پیش کیا تھا اس سے اگر آدھے جوش کے ساتھ بھی کام کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ مطالبات پورے نہ ہو جا میں.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے دین کے لئے بیش از بیش قربانیوں کی توفیق دے اور کارکنوں کو بھی توفیق دے کہ جماعت کے اموال کو دیانت کے ساتھ اور ایسے طریق پر صرف کر سکیں کہ بہتر سے بہتر نتائج پیدا ہوں.وہ اپنے فضل اور برکت کے دروازے ہم پر کھول دے اور سلسلہ کی ترقی کا جو کام ہمارے ذمہ ڈالا ہے اسے خود ہی پورا کرے.“ ( مطبوعه الفضل 29 نومبر 1934 ء ) 46

Page 59

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1934ء مخلصین جماعت احمدیہ سے جانی اور مالی قربانیوں کے مزید مطالبات خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1934ء سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں نے گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں احباب کے سامنے اس تحریک کے جو میرے نزدیک اس فتنہ کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہے جو اس وقت جماعت احمدیہ کے خلاف مختلف جماعتوں کی طرف سے کھڑا کیا گیا ہے، چھ حصے ایسے بیان کئے گئے تھے جن کے ذریعہ سے اس مخالفت کا سد باب کیا جا سکتا ہے اور سلسلہ کی ترقی کے راستہ سے روکوں کو دور کیا جاسکتا ہے.میں نے بعض نئے کام تجویز کئے تھے تا کہ ان کے ذریعہ سلسلہ احمدیہ کی اشاعت کو وسیع کیا جائے اور تبلیغ کے لئے نئے مقامات تلاش کئے جائیں اس کے لئے میں نے ساڑھے ستائیس ہزار روپیہ کی اپیل کا اعلان کیا تھا.اصل مخاطب اس اپیل کے تو وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ سوروپیہ یا سو سے زائد رقم دینے کی توفیق دے لیکن چونکہ خدا تعالیٰ نے غربا کے دلوں میں قربانی کا زیادہ مادہ رکھا ہوتا ہے بلکہ وہ تو اپنی ذات میں مجسم قربانی نظر آتے ہیں کیونکہ ان کی ساری عمر ہی قربانی میں گزر جاتی ہے.میں نے مناسب نہ سمجھا کہ ان کو اس ثواب میں شمولیت سے محروم رکھوں اس لئے چاروں سکیموں کے متعلق جن میں سے ایک پندرہ ہزار کی ہے، دوسری دس ہزار کی اور دواڑ ہائی ، اڑ ہائی ہزار کی.غربا کے لئے اس رنگ میں رستہ کھولا کہ جو چاہے کسی ایک میں یا ایک سے زیادہ میں یا سب میں شریک ہو سکے یعنی پندرہ اور دس ہزار کی تحریکوں میں دس، دس روپے دے کر اور اڑھائی ، اڑھائی ہزار کی تحریکوں میں پانچ، پانچ روپے ادا کر کے خواہ کسی ایک میں، خواہ دو میں ، خواہ تین میں اور خواہ چاروں میں شامل ہو جائے.چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ زیادہ تر اسی طبقہ جماعت نے توجہ کی ہے.گو ابھی تحریک قادیان کی جماعت تک ہی پہنچی ہے اور باہر وہ خطبہ کل یا آج پہنچا ہو گا اور وہ بھی قریب کے شہروں اور دیہات میں ورنہ بہت سے علاقوں میں وہ خطبہ ایک ہفتہ بعد اور بعض جگہ دو تین ہفتہ کے بعد پہنچے گا اس لئے اس خطبہ کے پورے جواب کی دو ماہ سے کم اور ہندوستان سے باہر سے تین چار ماہ سے کم انتظار کی مدت نہیں ہو سکتی.پس میں ابھی نہیں کہہ سکتا کہ جن کو خدا تعالیٰ نے توفیق دی ہے، وہ توفیق نہیں جو کمزور انسان قربانی 47

Page 60

خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول سے بچنے کے لئے تجویز کرتا ہے بلکہ وہ تو فیق جو خدا تعالیٰ کے نزدیک قربانی کے لئے کافی ہے ، وہ اس خطبہ کا کیا جواب دیں گے ؟ مگر میں سمجھتا ہوں جماعت احمدیہ کے غربا کا طبقہ جو اصل میں مخاطب نہیں.اگر قادیان کی جماعت کے لحاظ سے اندازہ لگایا جائے تو وہ اس چندہ میں بھی دوسروں سے بڑھ جائے گا.گو جنہوں نے 10،10 یا 5 ، 5 روپے دینے کا وعدہ کیا ہے وہ سارے کے سارے ایسے نہیں ہیں جو قطعی طور پر دس یا پانچ دینے والوں میں شامل کئے جائیں ان میں بعض ایسے بھی ہیں جن کو دس یا پانچ سے زیادہ دینے کی توفیق ہے مگر کئی ایسے بھی ہیں کہ انہوں نے جو کچھ دیا ہے انہیں اتنا دینے کی بھی توفیق نہ تھی.اسی سلسلہ میں بعض عورتوں نے مجھ سے پوچھا ہے کہ ہم بھی اس تحریک میں حصہ لینا چاہتی ہیں مگر ہمیں اتنی توفیق نہیں کہ دس یا پانچ روپے یک مشت ادا کر سکیں.ہمارے ملک میں رواج یہی ہے کہ عام طور پر عورتوں کو خرچ نفذ نہیں دیا جاتا بلکہ کھانے پینے کی اشیاء اور پہننے کا کپڑا خرید کر دے دیا جاتا ہے سوائے شہری خاندانوں کے.پس اس میں شبہ نہیں کہ اکثر عورتیں ایسی ہیں جو دس روپے یا پانچ روپے یک مشت نہیں دے سکتیں مگر انہوں نے خواہش کی ہے کہ انہیں بھی اس ثواب میں شامل ہونے کا موقع دیا جائے اور یہ اجازت دے دی جائے کہ وہ ایک ایک یا دو دو روپیہ ماہوار کر کے ادا کر دیں.عورتوں کا یہ جوش اور یہ اخلاص یقیناً قابل شکریہ بھی ہے اور قابل قدر بھی.قابل شکریہ تو اس لئے کہ اللہ تعالی نے جماعت کے اس طبقہ کو بھی جو کمزور اور ضعیف ہے دین کے لئے قربانی کا شوق اور طاقت بخشی ہے اور قابل قدر اس لئے کہ خدا تعالیٰ کے لئے کام کرنا ہر مومن کا ذاتی فرض ہوتا ہے اور جو بھی اس کام میں اس کا ہاتھ بٹاتا ہے اس کی اسے قدر کرنی چاہئے.پس میں نے عورتوں کے اخلاص کی قدر کرتے ہوئے انہیں یہ تجویز بتائی کہ جس طرح قادیان میں بھی اور باہر بھی کمیٹیاں ڈالی جاتی ہیں اور جن کے نام کا قرعہ نکلے ان کے نام سے ان تحریکوں میں رقم جمع کرا دیں.مثلاً ایک سو یا دوسوعورتیں ان تحریکوں میں شامل ہونے کا ارادہ رکھتی ہیں تو وہ سب مل کر کمیٹی ڈال لیں اور اس میں روپیہ روپیہ یا دو دوروپے دیتی رہیں.ہر ماہ جتنی رقم جمع ہو اس کے لئے قرعہ ڈال لیں مثلاً اگر سو روپے کی رقم ہو تو دس دس روپے کے قرعے جن دس عورتوں کے نام کے نکلیں ان کی طرف سے اس تحریک میں جمع کرا دیں.اسی طرح اگلے مہینے اور دس عورتوں کے نام سے جمع کرا دیں.اگر مردوں میں سے بھی بعض غربا اس رنگ میں حصہ لینا چاہیں تو وہ بھی ایسا کر سکتے ہیں مگر ضروری ہوگا کہ دس کی رقم یا پانچ کی رقم اگر اس تحریک میں حصہ لے جس کے لئے کم سے کم پانچ کی رقم مقرر ہے، خزانہ میں یکمشت جمع کرائی جائے.گو اصل مخاطب ان تحریکوں کے آسودہ حال لوگ ہیں مگر یہ رستہ ان کے لئے کھلا 48

Page 61

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1934ء ہے جو ثواب حاصل کرنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں اور کسی نیک کام میں بھی دوسروں سے پیچھے نہیں رہتا چاہتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک دفعہ غربا نے آپ سے شکایت کی کہ یا رسول اللہ ! ہم جہاد کے لئے جاتے ہیں تو ہمارے امرا بھائی بھی جاتے ہیں، ہم نمازیں پڑھتے ہیں تو وہ بھی پڑھتے ہیں ، ہم روزے رکھتے ہیں تو وہ بھی رکھتے ہیں، ہم ذکر الہی کرتے ہیں تو وہ بھی کرتے ہیں مگر مشترک ضرورتوں اور دینی کاموں کے لئے جب مال دینے کا وقت آتا ہے تو وہ دیتے ہیں ہم نہیں دے سکتے ، وہ زکوۃ دیتے ہیں مگر ہم نہیں دے سکتے ، وہ صدقہ و خیرات کرتے اور غربا کی مدد کرتے ہیں مگر ہم نہیں کر سکتے.غرض وہ کئی قسم کے ثواب حاصل کرتے ہیں مگر ہم محروم رہتے ہیں اور ان کو ہم پر فوقیت حاصل ہے کیونکہ ہم ثواب کے کاموں میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے.یا رسول اللہ ﷺ ہمیں بتائیں ہم کیا کریں تا کہ ان کی طرح ثواب حاصل کر سکیں.یہ جوش اور یہ سوال بتاتا ہے کہ بچی مخلص جماعتوں میں یہ سوال نہیں پیدا ہوا کرتا کہ فلاں ایسا نہیں کرتا اس لئے ہم بھی ایسا نہیں کرتے بلکہ یہ جوش پایا جاتا ہے کہ فلاں مومن میں فلاں نیکی پائی جاتی ہے ہم وہ نیکی کس طرح حاصل کریں؟ جب کسی جماعت کے اکثر افراد میں یہ جذبہ پایا جاتا ہے تو وہ اعلیٰ معیار کی جماعت کہلاتی ہے لیکن جس قوم میں اس قسم کے سوالات پیدا ہوں کہ فلاں نے غلطی کی تھی اسے نہیں پکڑا گیا پھر ہمیں کیوں گرفت کی جاتی ہے؟ یا یہ کہ فلاں شخص فلاں نیکی اور ثواب کا کام نہیں کرتا تو ہم کیوں کریں؟ وہ تباہ ہو جاتی ہے کیونکہ اس قسم کے عذرات کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس قوم کی نظر آگے بڑھنے والوں اور ترقی کرنے والوں کی طرف نہیں ہوتی بلکہ کمزوروں اور پیچھے رہنے والوں پر ہوتی ہے.حالانکہ جس قوم نے آگے بڑھنا ہوتا ہے وہ آگے والوں کو دیکھتی ہے اور جس نے پیچھے ہٹنا ہوتا ہے وہ پیچھے رہنے والوں کو دیکھتی ہے اور جس قوم کی نظر آگے کی طرف ہوتی ہے وہی ترقی کرتی ہے اور جس کی نظر پیچھے کو ہوتی ہے وہ تنزل کے گڑھے میں گرتی ہے.مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض احمدی کہلانے والے بھی یہ سوال کرتے ہیں کہ فلاں میں یہ کمزوری پائی جاتی ہے اور فلاں میں یہ تو پھر ہمیں اس کمزوری کی وجہ سے کیوں گرفت میں لایا جاتا ہے؟ گویا ان کے نزدیک دین کی خدمت کرنا اور دین کے لئے قربانی کرنا ایک چٹی ہے جسے اسی صورت میں برداشت کیا جاسکتا ہے کہ ہر ایک شخص کو اس میں شامل کیا جائے نیکی اعلیٰ مقصد نہیں جس کے حصول کے لئے دوسروں سے بڑھنے کی خواہش کی جائے مگر صحابہ رضی اللہ عنہم میں وہ جوش تھا کہ ان میں سے غربانے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا کہ ہم کس طرح ثواب حاصل 49

Page 62

خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1934ء حان الله تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول کرنے میں امرا کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور وہ کیا طریق ہے کہ ہم نیکی حاصل کرنے میں ان سے پیچھے نہ رہیں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا کیا میں تمہیں ایسی ترکیب بتاؤں کہ اگر تم اس پر عمل کرو تو امرا سے کئی سو سال پہلے جنت میں داخل ہو جاؤ ؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ ! وہ کیا ترکیب ہے؟ آپ نے فرمایا وہ یہ ہے کہ تم ہر نماز کے بعد 33 33 دفعہ تسبیح اور تحمید اور 34 بار تکبیر کہہ لیا کرو.انہوں نے ایسا ہی کرنا شروع کر دیا مگر معلوم ہوتا ہے جو جذ بہ قربانی اور ایثار کا اس وقت کے غربا میں پایا جاتا تھاوہی امرا میں بھی موجود تھا اُنہوں نے ٹوہ لگائی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور غربا میں کیا بات چیت ہوئی ؟ آخر انہیں پتہ لگ گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک ایسا گر بتایا ہے کہ جس پر عمل کرنے سے وہ اس ثواب کے بھی حقدار ہو جائیں گے جس میں وہ پہلے شریک نہ ہو سکتے تھے اور انہوں نے بھی وہ نسخہ معلوم کر لیا اور پھر اس پر عمل کرنا شروع کر دیا.یہ دیکھ کر غربا پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ امرا کو منع کر دیں کیونکہ انہوں نے بھی وہی کرنا شروع کر دیا ہے جو آپ نے ہمیں بتایا تھا.یہ سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جسے خدا تعالیٰ نیکی کرنے کی توفیق دے اسے میں نہیں روک سکتا.حقیقی جذبہ قربانی یہ ہوتا ہے.ایسے ہی لوگوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اور ان کے حساس اور اخلاص سے بھرے ہوئے دلوں کو ٹھیس سے بچانے کے لئے میں نے ان کو قربانی کرنے کا طریق بتا دیا ہے.کئی غربا ایسے ہیں کہ انہوں نے دس روپیہ والی تحریک میں حصہ لے کر سو، دوسو، چار سو دینے والوں سے بھی بہت بڑی قربانی کی ہے.مثلاً مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض ایسے لوگ جنہوں نے دس روپے دیئے ہیں انہوں نے سارے ماہ کی آمدنی دے دی ہے اور بعض جنہوں نے ہمیں دیئے ہیں ان کی سارے مہینے کی آمدنی ہیں روپے ہی تھی.گویا انہوں نے ایک مہینہ کی ساری کی ساری آمدنی دے دی.اب اگر چار سو ماہوار کمانے والا ایک سوروپیہ دیتا ہے یا پانچ سو روپیہ ماہوار کمانے والا ایک سو کی رقم پیش کرتا ہے تو اس کے یہ معنے ہوئے کہ وہ اپنی آمدنی کا1/4 اور 1/5 حصہ دیتے ہیں.حالانکہ ایسی ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد جو لازمی ہوتی ہیں ان کے پاس زیادہ رقم بچتی ہے.میں نے غربا اور امرا کا مقابلہ اس رنگ میں بھی کیا ہے کہ جس چیز کے بغیر گزارہ نہیں ہوسکتا اس پر ان کا خرچ کہتا ہوتا ہے؟ مثلاً ایک غریب شخص ہے جس کے کھانے والے پانچ کس ہیں اگر فی کس کے حساب سے ڈیڑھ روپیہ ماہوار کا آٹار کھا جائے تو صرف آٹا ساڑھے سات روپے کا ہوا اور اگر اس کی ماہوار آمد نہیں روپے ہو تو گویا 113 رقم سے زیادہ اس کی آٹے پر صرف ہوتی ہے 50

Page 63

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1934ء اور اگر پکوائی وغیرہ کو مد نظر رکھ لیا جائے تو گویا اس کی آمد میں سے 45 فیصدی رقم خشک روٹی پر خرچ ہو جاتی ہے.اس کے مقابلہ میں اگر پانچ سو ماہوار آمد والے شخص کے بھی پانچ کس ہی کھانے والے ہوں تو آئے پر اس کی رقم بھی اتنی ہی خرچ ہوگی جتنی ہیں روپے آمد والے غریب کی خرچ ہوتی ہے اور اس طرح امیر کی صرف 1.5 فیصدی رقم ایسی ضرورت پر خرچ ہوئی جس کے بغیر چارہ نہیں مگر غریب کی ایسی ضرورت پر 45 فیصدی رقم صرف ہوگی.یہ کتنا بڑا فرق ہے اور غریب کی قربانی کو یہ کتنا شاندار بنا دیتا ہے.غرض کئی غربا ایسے ہیں کہ میں جانتا ہوں انہوں نے اس تحریک میں حصہ لے کر بظاہر مطلوبہ رقم کو زیادہ نہیں بڑھایا لیکن جماعت کے اخلاص اور جذ بہ قربانی میں بہت بڑا اضافہ کر دیا ہے اور ایسی قیمتی چیز پیش کی ہے جسے ہم خدا تعالیٰ کے سامنے رکھ سکتے ہیں جس طرح ایک موتی کا کیر سمندر کی تہ میں بیٹھ کر ایسا موتی تیار کرتا ہے جو بادشاہ کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے اسی طرح مومن سے اخلاص سے جو کام کرتا ہے وہ موتی سے بھی زیادہ قیمتی ہوتا ہے کیونکہ وہی خدا تعالیٰ کے سامنے رکھا جاتا ہے.دین کے لئے ہر قربانی کرنے والی جماعت خدا تعالیٰ کے سامنے وہی موتی رکھے گی جو سچا اخلاص دکھانے والوں اور حقیقی قربانی کرنے والوں نے تیار کئے ہوں گے.پس اعلی قربانیوں کے ذریعہ جو روحانی موتی پیدا ہوتے ہیں وہی جماعت کی زیب وزینت کا موجب ہوتے ہیں.ایسے موتی تیار کرنے والے بظاہر پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوتے ہیں اور غربت کے ہاتھوں وہ اس حالت کو پہنچے ہوتے ہیں کہ کسی مجلس میں شامل ہو جائیں تو اس مجلس کی زینت نہیں سمجھے جاتے بلکہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مجلس کی حیثیت کو بگاڑنے والے ہیں.کئی اسی مزاج کے لوگ کہا کرتے ہیں کہ مجلس شوری میں شمولیت کے لئے کئی غربت زدہ زمیندار آجاتے ہیں مگر یا درکھنا چاہئے اس مجلس کے سوا ایک اور بھی مجلس ہونے والی ہے اور اس مجلس میں ہم ہی شامل نہ ہوں گے بلکہ ہمارے باپ دادے اور ہماری آئندہ ہونے والی اولادیں بھی شامل ہوں گی حتی کہ آدم کی اولاد کے جتنے بچے پیدا ہوئے وہ سارے کے سارے شامل ہوں گے، اُس وقت ظاہری لباسوں اور دنیوی وجاہتوں کو پیش نہیں کیا جائے گا بلکہ ایک نئی چیز پیش کی جائے گی وہ چیز جو ایسی جگہ رکھی جاتی ہے کہ ہمیں نظر نہیں آتی یعنی وہ خدا تعالیٰ کے خزانہ میں رکھی جاتی ہے.کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک کام کا اچھا نتیجہ اس دنیا میں مل رہا ہوتا ہے اور برا ادھر یعنی اگلے جہاں میں محفوظ کیا جا رہا ہے اور کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اچھا نتیجہ اُدھر جمع ہورہا ہوتا ہے اور برا اس دنیا میں مل رہا ہوتا ہے.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے درمیان میں ایک پردہ پڑا ہو اور کچھ بیلنے لگے ہوں جن میں سے بعض کا منہ پردہ کے ایک طرف ہو اور بعض کا دوسری طرف.بعض میں 51

Page 64

خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1934ء 66 تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول سے اس ادھر گرتا ہو اور بعض میں سے اُدھر.بعض کا چھلکا ایک طرف گرتا ہو اور بعض کا چھلکا دوسری طرف.یہی حال انسانی اعمال کا ہوتا ہے بعض کا رس ادھر یعنی اس دنیا میں گرتا ہے اور چھلکا دار الاقامہ یعنی ہمیشہ کے گھر میں اور بعض کا چھال کا اس دنیا میں گرتا ہے اور اس اُدھر.جب لوگ مرکز اگلے جہان میں جائیں گے تو بعض سے کہا جائے گا کہ: " لو تمہارے اعمال کا چھل کا محفوظ ہے اسے دوزخ میں ڈال دیتے ہیں اس سے تمہارے جلانے کے لئے اچھی آگ پیدا ہوگی یہی چیز تمہاری طرف سے یہاں محفوظ رکھنے کے لئے آئی تھی.حالانکہ وہ دنیا میں خوش ہو رہے ہوں گے کہ انہوں نے اپنے لئے بہت اچھا رس پیدا کیا اور کئی ایسے ہوں گے کہ دنیا میں ان کو لوگ حقیر اور ذلیل سمجھتے ہوں گے مگر ان کے بیلینے کا منہ اگلے جہاں کی طرف ہوگا اور اس میں سے نکلنے والے رس سے شکر اور کھانڈ بن رہی ہوگی جب وہ وہاں جائیں گے تو اس کے ڈھیر ان کے سامنے لگا دیئے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ : ”لو یہ قند تمہارے اعمال نے تیار کیا تھا ا سے لو اور اپنا منہ میٹھا کرو اس دنیا میں ان کو ذلیل سمجھا جاتا تھا کیونکہ ان کے کام کا فضلہ ادھر گر رہا تھا اور رس اگلے جہاں میں لیکن کچھ وہ لوگ جو یہاں معزز سمجھے جاتے ہوں گے وہاں ذلیل ہوں گے کیونکہ ان کے اعمال کا فضلہ وہاں جمع ہو رہا تھا اور رس اس جہاں میں.اُس دن جب کہ تمام اگلے پچھلے انسان جمع کئے جائیں گے اُمتیں انہی پر فخر کریں گی جنہیں دنیا کی مجلسوں میں ذلیل سمجھا جاتا تھا مگر جو اپنے اخلاص کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے نزدیک معزز تھے اُس مجلس میں وہ معزز قرار دیئے جائیں گے اور ہزاروں آدمی جو یہاں انہیں رشتہ دار سمجھنے کے لئے تیار نہیں وہاں اپنے آپ کو ان کے قریبی رشتہ دار قرار دیں گے.قرآن کریم میں اس موقع کا کیا ہی عجیب نقشہ کھینچا گیا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے مومنوں کے ساتھ منافقوں کی ایک ایسی جماعت ہے جو قر بانیوں میں شامل نہیں ہوتی اور وہ مومنوں سے کہتے ہیں تم مخلص ہو ہم منافق ہی سہی.تم قربانیاں کرو ہم شریک نہیں ہو سکتے.فرمایا: جب قیامت کے دن مومنوں کو نور دیا جائے گا جو جنت کی طرف رہنمائی کرے گا تو وہ لوگ جو دنیا میں مومنوں سے تمسخر کرتے تھے ٹھوکریں کھاتے ہوئے ان کے پیچھے چلتے ہوں گے اور عاجزانہ طور پر درخواست کریں گے کہ ہمیں بھی نور دے دو.چونکہ نور خدا تعالیٰ ہی دے سکتا ہے اس لئے مؤمن ان سے کہیں گے یہ نور تمہیں نہیں دیا جا سکتا.تم پیچھے مڑو! وہاں سے ہی نورمل سکتا ہے یعنی اس دنیا میں سے مل سکتا ہے جس سے تم نے حاصل نہیں کیا.پس یہ جوغر با ہیں ان کی رقوم سے گو کوئی معتد بہ زیادتی نہیں ہوئی مگر وہ جو اس کا نتیجہ جماعت کو ملنے والا ہے اور جو خدا تعالیٰ کی طرف سے فضل کی صورت میں نازل ہونے والا ہے اس میں یقیناً ان کا 52

Page 65

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1934ء بہت بڑا حصہ ہے اور آسودہ حال لوگ تبھی ان کے برابر ثواب کما سکتے ہیں جبکہ رقم کی زیادتی کے ساتھ نہیں بلکہ نسبتی قربانی کے ساتھ ان کے برابر ہو جائیں ورنہ وہ یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ کے دین کے کام روپیہ سے نہیں ہوا کرتے بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اخلاص کا جو نتیجہ پیدا کیا جاتا ہے اس کی وجہ سے کامیابی حاصل ہوتی ہے.ہمیں خدا تعالیٰ کے فضل سے جو نتائج حاصل ہو رہے ہیں ان کے مقابلہ میں ہمارے روپیہ کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے اس کی نسبت دشمن بہت زیادہ روپیہ خرچ کر رہا ہے باوجود اس کے ہم روز بروز بڑھ رہے ہیں اور دشمن گھٹ رہے ہیں.یہ روپیہ سے نہیں ہورہا بلکہ جس اخلاص سے ہماری جماعت کے مخلص روپیہ دیتے ہیں اس کے نتیجہ میں ہو رہا ہے.پس میں نے ایسے مخلصین کو ان تحریکات میں شمولیت سے محروم نہیں رکھنا چاہا.پھر میں نے کچھ ایسے لوگوں کے لئے پردہ پیدا کیا جو زیادہ حصہ لے سکتے ہیں مگر ممکن ہے زیادہ رقم میں حصہ نہ لیں.بوجہ اپنے بخل کے اور جو آج کل بخل دور کرتا ہے ہو سکتا ہے کہ کل خدا تعالیٰ اسے اور زیادہ بجل دور کرنے کی توفیق دے دے.ایسے لوگ بھی ان تحریکوں میں شامل ہو جائیں اور اس طرح جماعت کا ایک حصہ ایمانی تباہی سے بچ جائے گا.کھانے وغیرہ کے متعلق گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں میں نے جو کچھ کہا تھا کئی دوستوں نے اس کے متعلق سوالات کئے ہیں بعض کا جواب تو میں نے خطبہ پر نظر ثانی کرتے وقت دے دیا ہے مگر ایک سوال ایسا ہے جس کے متعلق اب کچھ کہنا چاہتا ہوں.کہا گیا ہے کہ بعض گھرانوں میں نوکروں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے.بعض لوگ غربا اور یتامیٰ کو اپنے ہاں رکھ لیتے ہیں تا کہ وہ تھوڑا بہت کام کر دیا کریں اور تعلیم حاصل کرتے رہیں، بعض کے ہاں یوں بھی ملازمین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اگر وہی کھانا جو وہ خود کھائیں ملازمین کو بھی دیں تو ان کا خرچ گھنٹے گا نہیں بلکہ بڑھ جائے گا.حدیثوں میں غلاموں کے متعلق تو آتا ہے کہ جو کھانا خود کھاؤ وہی ان کو بھی کھلا ولیکن غلام اور ملازم میں فرق ہے.غلام مجبور ہوتے ہیں کہ اپنے آقا کے ہاں ہی رہیں لیکن ملازم مجبور نہیں ہوتے وہ جو یہ سمجھتے ہوں کہ ان کو کھانا اچھا نہیں ملتا دوسری جگہ جا سکتے ہیں اس لئے جو لوگ ان کو اپنے جیسا کھانا نہیں دے سکتے وہ شرعی طور پر مجبور نہیں اور اگر وہ ملازمین والا کھانا خود نہ کھانا چاہیں تو ان کے لئے الگ پکوا سکتے ہیں لیکن اگر اس کھانے میں سے کھانا چاہیں جو ملازموں کے لئے پکایا جائے تو پھر اپنا کھا نا ملازمین کو دے دیں.لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة:286) 53

Page 66

خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول چونکہ میرے مدنظر ہے اس لئے میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ ملازموں کو بھی وہی کھانا کھلاؤ جو خود کھاؤ.وہ لوگ جنہوں نے کئی ملازم رکھے ہوئے ہوں یا پرورش کے طور پر کچھ لوگوں کو رکھا ہوا ہو ان کی مشکلات کو مد نظر رکھتا ہوا میں یہ نہیں کہتا کہ ان کے ہاں ایک ہی کھانا پکے جبکہ شریعت میں اس کے لئے کوئی پابندی نہیں ہے لیکن یہ شرط ضرور لگاتا ہوں کہ وہ اس کھانے کو جو ملازمین وغیرہ کے لئے پکے خود استعمال نہ کریں اور اگر استعمال کریں تو جھجر کے ایک نواب صاحب کی طرح کریں جن کے متعلق کہتے ہیں کہ کھانا تیار ہونے کے بعد وہ باورچی کو بلا کر کہتے کہ تم نے میرے لئے جو سب سے اچھا کھانا پکایا ہے وہ لے آؤ ! جب وہ لے آتا تو اپنے ایک خاص ملازم کو دے کر کہتے کہ یہ لے جاؤ اور کسی فوجی سپاہی کو دے کر اس کا کھانا لے آؤ اور اس طرح اس کا کھانا منگا کر کھا لیتے.بعض کا خیال ہے کہ وہ اس بات سے ڈرتے تھے کہ کھانے میں انہیں زہر نہ دے دیا جائے اس لئے ہر روز کسی نئے سپاہی کے کھانے سے اپنے کھانے کا تبادلہ کر لیتے لیکن بعض کا خیال ہے کہ وہ سپاہی منش تھے اور چاہتے تھے کہ سپاہیانہ روح قائم رہے اور کمزوری نہ پیدا ہو.مومن چونکہ نیک گمان رکھتا ہے ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ وہ سپاہیانہ زندگی کے قیام کے لئے ایسا کرتے تھے.پس اگر کسی کو خواہش پیدا ہو کہ ملازم کے لئے جو کھانا پکا ہے وہ خود کھائے تو اپنا کھانا اسے دے دے یہ نہیں کہ ملازموں کے نام سے دوسرا کھانا تیار کر لیا جائے اور پھر اس میں خود بھی شرکت کر لی جائے.بعض لوگ پوچھتے ہیں کیا چٹنی کھانی جائز ہے؟ انہیں میں کہتا ہوں جو کام کرو اخلاص اور دیانت سے کرو.اس تحریک کی غرض اقتصادی حالت کا درست کرنا اور چسکوں سے بچانا ہے.پس اگر کسی دن طبیعت خراب ہوئی اور سادہ چٹنی کی ضرورت محسوس ہوئی تو اور بات ہے لیکن ان بہانوں سے منہ کے چسکے پیدا کرنے سے کیا فائدہ ہے ؟ اس سے بہتر ہے کہ انسان تحریک میں شامل ہی نہ ہو.پس کبھی کبھار اور ضرورتاً استعمال میں حرج نہیں ورنہ بہانہ خوری سمجھی جائے گی.اب میں ساتواں مطالبہ پیش کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اس وقت کی تبلیغی ضرورتوں کو مد نظر رکھ کر ان تمام مطالبات کے باوجود جو میں کر چکا ہوں ہماری تبلیغی ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں اور پھر بھی ہماری مثال اُحد کے شہیدوں کی سی رہتی ہے کہ اگر کفن سے ان کے سر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے ہو جاتے اور اگر پاؤں ڈھانپتے تو سر ننگے ہو جاتے کیونکہ اس وقت اتنا کپڑا میسر نہ تھا جو پورا آسکتا ہماری بھی اس وقت یہی حالت ہے ہم اگر ایک طرف توجہ کرتے ہیں تو دوسری جہت خالی رہ جاتی ہے اور اگر دوسری جہت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو پہلی خالی ہو جاتی ہے ایسی صورت میں ضروری ہے کہ تبلیغی کوششوں کی کوئی اور راہ بھی 54

Page 67

یک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمود و 30 نومبر 1934ء ہو یعنی ایسی ریز رو فورس ہو کہ ضرورت پڑنے پر اس سے کام لے سکیں اور مبلغین کے کام کے علاوہ اس کے ذریعہ اپنی ضرورتیں پوری کریں.سمجھ لو کہ اس وقت پنجاب میں جماعت کی تعداد 56 ہزار ہی ہے جیسا کہ مردم شماری کی رپورٹ میں لکھا گیا ہے اسی نسبت سے سارے ہندوستان میں ایک لاکھ احمدی سمجھ لوتب بھی ان میں سے دس ہزار عاقل بالغ مرد، بوڑھے، بچے اور عور تیں نکال کر ہوتے ہیں یہ وہ کم سے کم تعداد ہے جو میسر آسکتی ہے.اس میں سے کم از کم ایک ہزار سرکاری ملازم ہوں گے اور سرکاری ملازموں کو کچھ نہ کچھ رخصتیں ملتی ہیں.بعض اس قسم کے ملازم ہوتے ہیں کہ اگر ایک سال رخصت نہ لیں ، دوسرے سال بھی نہ لیں، تیسرے سال تین ماہ کی رخصت مل جاتی ہے.اگر چار سو بھی ایسے ہوں جن کی رخصتیں اس طرح جمع پڑی ہوں یا قریب کے عرصہ میں جمع ہونے والی ہوں اور وہ سلسلہ کی خدمت کے لئے ان رخصتوں کو وقف کر دیں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ ایک سال کے لئے کام کرنے والے سو مبلغ مل گئے.ایسے اصحاب تین تین ماہ کی چھٹیاں لے لیں اور ان چھٹیوں کو سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف کر دیں.پھر ہم انہیں جہاں چاہیں تبلیغ کے لئے بھیج دیں اگر چار سو ایسے اصحاب اپنے آپ کو پیش کریں تو ایک سو مبلغ سال بھر کام کرنے والے اور اگر دوسو پیش کریں تو پچاس مبلغ ایک وقت میں سال بھر کام کر سکتے ہیں اور اس طرح تبلیغ کے لئے اچھی خاصی طاقت حاصل ہو سکتی ہے.ان کے متعلق میری سکیم یہ ہے کہ ان کو ایسی جگہ بھیجیں جہاں احمدی جماعتیں نہیں اور جہاں تین ماہ ایک اکیلا احمدی رہے گا جس کا دن رات کام تبلیغ کرنا ہو گا.ناممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں نئی جماعت نہ قائم ہو جائے.اگر دو سو اصحاب بھی اپنے آپ کو پیش کریں تو پچاس کو ایک وقت میں تبلیغ کے لئے پچاس نئے مقامات پر بھیج سکتے ہیں کہ وہاں تبلیغ کرو اس طرح تین ماہ میں پچاس نئی جماعتیں قائم ہو جائیں گی.اگلے تین ماہ میں پچاس اور پچاس مقامات پر بھیج دیں گے.اس طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک سال میں دو سو مقامات پر نئی جماعتیں قائم ہو سکتی ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک احمدی میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ جس طرح ڈائنامیٹ کے ذریعہ چٹان کو اُڑا دیا جاتا ہے اسی طرح احمدی کا وجود ڈائنامیٹ کی حیثیت رکھتا ہے جو تاریکی اور ظلمت کو مٹا دیتا ہے، نئی فضا پیدا کر دیتا ہے اور نیا ماحول بنا دیتا ہے.اس میں شبہ نہیں کہ جہاں نئی جماعت قائم ہوگی وہاں مخالفت بھی بڑھ جائے گی، لوگ پہلے سے زیادہ گالیاں دینے لگ جائیں گے، احمدیوں کو مارنے پیٹنے پر اتر آئیں گے ، زنگ آلود دلوں کے زنگ اور ترقی کریں گے اور ان کی رُوح کی موت اور بھیانک شکل اختیار کرلے گی مگر باوجود اس کے ایک طبقہ ایسا بھی پیدا ہو جائے گا جس کے دل ہل جائیں گے اور جس کی رُوح کو 55

Page 68

خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول جنبش میں آ جائے گی اور خواہ کتنی ہی ہلکی ہو محبت الہی کی ایک بار یک شعاع اڑ کر خدا کی محبت کے سورج میں جا جذب ہوگی.ایک سال میں دو سونئی جماعتوں کا قائم ہو جانا معمولی بات نہیں اس طرح اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو چار پانچ سال میں ہی عظیم الشان تغیر پیدا ہو جائے گا.مبلغین کو ہم اس طرف نہیں لگا سکتے ان کی بہت تھوڑی تعداد ہے.پھر ان کے ذمہ مباحثات اور جماعت کی تربیت کا کام ہے ان کی مثال تو اس دانے کی سی ہے جس کی نسبت کہتے ہیں: ایک دانہ کس کس نے کھانا.“ تبلیغ کی وسعت کے لئے ایک نیا سلسلہ مبلغین کا ہونا چاہئے اور وہ یہی ہے کہ سرکاری ملازم تین تین ماہ کی چھٹیاں لے کر اپنے آپ کو پیش کریں تا کہ ان کو وہاں بھیج دیا جائے جہاں ان کی ملازمت کا طہ اور تعلق نہ ہو مثلاً گورداسپور کے ضلع میں ملازمت کرنے والا امرت سر کے ضلع میں بھیج دیا جائے ، امرت سر کے ضلع میں ملازمت کرنے والا کانگڑہ یا ہوشیار پور کے ضلع میں کام کرے.گویا اپنے ملازمت کے علاقہ سے باہر ایسی جگہ کام کرے جہاں ابھی تک احمدیت کی اشاعت نہیں ہوئی اور وہاں تین ماہ رہ کر تبلیغ کرے.میں سمجھتا ہوں وہ جماعت جو یہ کہتی ہے کہ وہ جان اور مال کی قربانیاں کرنے کیلئے ہر طرح تیار ہے اس کیلئے یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے کہ اس میں سے چار سو اصحاب ایسے نکلیں جو اپنی تین تین ماہ کی رخصت اپنے گھروں میں نہ گزاریں بلکہ دوسری جگہ دین کی خدمت میں صرف کریں وہاں بھی وہ اپنے ملازمت کے کام سے آرام پاسکتے ہیں.ہاں زیادہ بات یہ ہوگی کہ وہاں ان کے ذریعہ جو جماعت قائم ہوگی اس کے نیک اعمال ان کے نامہ اعمال میں بھی لکھے جائیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو کسی کے ذریعہ ہدایت پاتا ہے اس کے نیک اعمال اس کے نامہ اعمال میں بھی لکھے جاتے ہیں جس کے ذریعہ اسے ہدایت ملتی ہے.پس اس سکیم پر عمل کرنے سے ایسے شاندار نتائج نکل سکتے ہیں جو باقاعدہ مبلغین کے ذریعہ پیدا نہیں ہو سکتے اور ملک کے ہر گوشہ میں احمدیت کی صدا گونج سکتی ہے.ایسے اصحاب کا فرض ہوگا کہ جس طرح مالکانہ تحریک کے وقت ہوا ، وہ اپنا خرچ آپ برداشت کریں.ہم اس بات کو مد نظر رکھیں گے کہ انہیں اتنی دور بھیجا جائے کہ ان کے لئے سفر کے اخراجات برداشت کرنے مشکل نہ ہوں اور اگر کسی کو کسی دور جگہ بھیجا گیا تو کسی قدر بوجھ اخراجات سفر کا سلسلہ برداشت کرلے گا اور باقی اخراجات کھانے، پینے، پہننے کے وہ خود برداشت کریں.ان کو کوئی تنخواہ نہ دی جائے گی نہ کوئی کرایہ سوائے اس کے جسے بہت دور بھیجا جائے.آٹھواں مطالبہ وہ ہے جو پہلے شائع ہو چکا ہے یعنی ایسے نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں جو تین 56

Page 69

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1934ء سال کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں.اس وقت تک سوا سو کے قریب نوجوان اپنے آپ کو پیش کر چکے ہیں.جن میں سے 40،30 مولوی فاضل ہیں.باقی انٹرنس.ایف اے اور بی اے پاس ہیں.یہ تعداد روزانہ بڑھ رہی ہے اور میں سمجھتا ہوں یہ قربانی کی روح کہ تین سال کے لئے دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا جائے ، اسلام اور ایمان کے رُو سے تو کچھ نہیں لیکن موجودہ زمانہ کی حالت کے لحاظ سے حیرت انگیز ہے.وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ جماعت احمد یہ میں لوگ روپیہ حاصل کرنے کیلئے شامل ہیں.اگر چہ ان کی یہ بات بے وقوفی کی ہے کیونکہ اگر احمدی روپیہ کی خاطر احمدی ہیں تو انہیں روپیہ دیتا کون ہے؟ مگر یہ ان کی آنکھیں کھول دینے والی بات ہے کہ جب احمدی نو جوانوں کو تین سال کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنے کے لئے بلایا گیا تو مولوی فاضل، انٹرنس پاس، ایف اے اور بی اے سینکڑوں کی تعداد میں اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں.اس قسم کی مثال کسی ایسی قوم میں بھی جو جماعت احمدیہ سے سینکڑوں گنے زیادہ ہولنی محال ہے.وہی جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ آٹھ نو کروڑ مسلمانان ہند کے نمائندے ہیں ایسی مثال تو پیش کریں! وہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے ریاست کشمیر کے خلاف ایجی ٹیشن کے دوران میں ہزاروں آدمیوں کو قید کر دیا تھا لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بتایا تھا قید ہونے کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دینا اور بات ہے اور کسی مسلسل قربانی کے لئے پیش کرنا اور بات.فوری اشتعال دلا کر تو بزدلوں کو بھی لڑایا جا سکتا ہے.بدر کی جنگ میں مکہ کے جو رو سا شریک ہوئے ان میں اکثر کا یہ خیال ہو گیا تھا کہ جنگ نہ ہو.انہوں نے کہا مسلمان بھی ہمارے ہی بھائی بند ہیں.اگر جنگ ہوئی تو یہی ہوگا کہ ہم ایک دوسرے کو قتل کریں گے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سب لوگ تیار ہو گئے کہ صلح کرلیں مگر ابو جہل جو اس ساری شرارت کا روح رواں تھا مخالفت کرنے لگا اور لوگوں نے اسے سمجھایا کہ جنگ کرنے سے ہماری طاقت بڑھے گی نہیں بلکہ گھٹے گی.ابو جہل نے اپنا منصوبہ بگڑتا دیکھ کر ایک رئیس جو مسلمانوں کے ہاتھ سے کچھ عرصہ پہلے مارا گیا تھا اس کے بھائی بندوں میں جوش پیدا کرنا چاہا.دوسرے رؤسانے انہیں بلا کر کہا کہ ہم میں دیت کا رواج ہے ہم تمہارے مقتول کی دیت ادا کر دیتے ہیں.اس پر وہ دیت لینے کے لئے تیار ہو گئے تب ابو جہل نے اور شرارت کی اُس نے مقتول کے ایک بھائی کو بلا کر کہا کہ تمہارے بھائی کا بدلہ لئے بغیر فوج واپس لوٹنا چاہتی ہے اگر ایسا ہوا تو تم کسی کو منہ نہ دکھا سکو گے.اس نے کہا پھر میں کیا کروں؟ عرب میں طریق تھا کہ جب کوئی اپنی مظلومیت اور مصیبت کی فریاد کرنا چاہتا تو نگا ہوکر رونا پیٹنا اور واویلا کرنا شروع کر دیتا.ابو جہل نے کہا تم ننگے ہو کر پیٹنا شروع کر دو! اس نے ایسا ہی کیا وہ ننگا ہو کر 57

Page 70

خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1934ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد اول رونے پیٹنے لگ گیا.ایسی حالت میں جو نبی اس نے کہا کہ میرا بھائی ایسا بہادر تھا، ایسا محسن تھا مگر آج اس کی بے قدری کی جارہی ہے اور کوئی اس کا انتقام لینے کے لئے تیار نہیں تو اہل عرب جو احسان کی قدر کرنے میں مشہور تھے انہوں نے تلواریں کھینچ لیں اور لڑائی شروع ہو گئی.وہ اسلام کے لئے تو عظیم الشان فتح کا دن تھا مگر جنہوں نے لڑائی کرائی ان کے لئے کیسا دن تھا ؟ اس دن کفار کے تمام بڑے بڑے سردار مارے گئے اور جیسا کہ بائبل میں پیشگوئی تھی کہ تہامہ کی شوکت باطل ہو جائے گی.ملکہ کی وادیوں میں رونے اور پیٹنے کے سوا کوئی شغل نہ رہا کیونکہ ہر خاندان میں سے کوئی نہ کوئی مارا گیا تو فوری طور پر لڑ دینا بالکل معمولی بات ہے اصل میں قربانی وہی ہوتی ہے جو لمبے عرصہ کے لئے ہو.پس وہ لوگ جو اپنے آپ کو آٹھ کروڑ مسلمانان ہند کے نمائندے کہتے ہیں وہ بھی جماعت احمدیہ کی قربانی کے نمونہ کی قربانی پیش نہیں کر سکتے.وہ نو جوان جنہوں نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے ان کے متعلق آگے تجربہ سے پتہ چلے گا کہ کس قدرشاندار قربانیاں کرتے ہیں مگر ان میں سے بعض نے ایثار اور اخلاص کا جو اظہار کیا ہے وہ ویسا ہی معلوم ہوتا ہے جیسا کہ بدر کے موقع پر دو انصاری لڑکوں نے یہ کہہ کر دکھایا تھا کہ ابوجہل کہاں ہے؟ اور جبکہ عبدالرحمن ابھی اس حیرت میں تھے کہ انہوں نے کیا سوال کیا ہے اور وہ ابو جہل کی طرف انگلی سے اشارہ ہی کرنے پائے تھے کہ دونوں لڑکے کود کر اس پر جا پڑے اور اگر چہ وہ زخمی ہو گئے لیکن انہوں نے ابو جہل کو جا گرایا اور اس کی گردن پر تلوار چلا دی اس کے ارد گرد جو محافظ کھڑے تھے وہ دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ گئے.بعض نوجوانوں نے ایسے ہی جوش کا اظہار کیا ہے وہ دین کی خاطر ہر قسم کی قربانی کرنے اور ہر قسم کی تکلیف اٹھانے کے لئے تیار ہیں.پھر یہ قربانی ایک دو دن کے لئے یا ایک دو ماہ کے لئے نہیں بلکہ مسلسل تین سال کیلئے ہے.میں نے بتایا تھا کہ بعض نوجوانوں کو ہندوستان سے باہر بھیجا جائے گا اور بعض کو ہندوستان میں ہی دورہ کے لئے بھیجوں گا.بعض اور کے ذریعہ سے میں تجربہ کرنا چاہتا ہوں جماعت کے اخلاص کا ، ان نوجوانوں کے اخلاص کا جو تو کل کر کے نکل کھڑے ہوں اور جو اتنی بھی فکر نہ کریں کہ کل کی روزی انہیں کہاں سے ملے گی؟ وہ خدا تعالیٰ پر بھروسہ کر کے چلے جائیں اور تبلیغ کرتے پھریں اُسی طرح جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام کے وہ حواری نکلے تھے جنہیں کہا گیا تھا کہ اپنے پاس کچھ مت رکھو اور کل کی روٹی کی فکر نہ کرو.پھر جہاں سے خدا تعالیٰ انہیں کھلائے کھا لیں اور جہاں سے پلائے پی لیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہر گاؤں کے لوگوں کیلئے ضروری ہے کہ جو مہمان آئے تین دن تک اس کی مہمانی کریں.پس اگر کسی گاؤں کے لوگ انہیں کھلا ئیں تو کھالیں اور اگر نہ کھلا ئیں تو سمجھیں کہ اس 58

Page 71

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1934ء گاؤں والوں نے اپنا حق پورا نہیں کیا اس میں گاؤں والوں کا قصور ہوگا مہمان بنے والوں کا نہیں ہوگا.بعض نوجوانوں کو میں اس طرح استعمال کرنا چاہتا ہوں اور بعض کے لئے اور طریق اختیار کروں گا.بہر حال ان کی آزمائش کی جائے گی اور دیکھا جائے گا کہ قربانی کے متعلق ان کے دعوے کیسے ہیں؟ میں امید کرتا ہوں ان کے دعوے ایسے نہیں ہوں گے جیسا کہ اپنے بازو پر شیر گدوانے والے کا دعویٰ تھا.گودنے والے نے جب اس کے بازو پر سوئی ماری تو اس نے کہا کیا گودتے ہو؟ اس نے کہا دایاں کان گودتا ہوں وہ کہنے لگا کیا دائیں کان کے بغیر شیر رہتا ہے یا نہیں ؟ گودنے والے نے کہا! رہتا ہے.اس نے کہا پھر اسے چھوڑ و آگے چلو.اس کے بعد جب اس نے سوئی ماری تو وہ پوچھنے لگا اب کیا گودتے ہو؟ اس نے کہا بایاں کان گودتا ہوں.کہنے لگا اگر وہ بھی کٹ جائے تو شیر رہتا ہے یا نہیں ؟ اس نے کہا رہتا ہے.وہ کہنے لگا اسے بھی چھوڑ دو.اسی طرح اس نے ہر ایک عضو پر کہا.آخر گودنے والے نے سوئی رکھ دی اور کہنے لگا اب کوئی شیر نہیں رہتا.میں امید کرتا ہوں کہ جن نوجوانوں نے اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے پیش کیا ہے ان کا پیش کرنا اس رنگ کا نہ ہوگا بلکہ حقیقی رنگ کا ہوگا اور میں سمجھتا ہوں کہ جونو جوان میری یم کے ماتحت کام پر نہ لگائے جائیں ان میں سے بھی جو بے کا رگھروں پر بیٹھے ہیں اور جو باہمت ہیں انہیں خود بخود نکل جانا چاہئے وہ جائیں اور جہاں سے خدا انہیں دے کھا ئیں اور ساتھ تبلیغ کرتے رہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جہاں کوئی جائے وہاں سے اسے تین دن تک کھانا کھانے کا حق ہے.اب یہ اسلامی طریق جاری نہیں ورنہ ہوٹلوں وغیرہ کی ضرورت ہی نہ رہے.جہاں کوئی جائے وہاں کے لوگوں کا فرض ہو کہ اسے کھانا دیں.اس قسم کا نظام تو جب خدا تعالیٰ چاہے گا قائم ہوگا اور اسی وقت حقیقی امن دنیا کو حاصل ہوگا.آجکل تو موجودہ حالات پر ہی قناعت کرنی ہوگی.اس موجودہ گری ہوئی حالت میں بھی میں سمجھتا ہوں زمیندار طبقہ مہمان نوازی کے فرائض کو نہیں بھولا اور یہ آسمانی فقیر جہاں کہیں بھی جائیں گے اول تو ضرورت نہ ہوگی کہ خود کہیں کہ کھانے کو دو لیکن اگر ضرورت پیش آئے تو ایسا کرنا بھی جائز ہے.صحابہ نے خود مہمانی مانگی.ایک جگہ کچھ صحابہ گئے تو وہاں ایک شخص ان کے پاس آیا اور آکر کہنے لگا کہ ایک آدمی کو سانپ نے ڈس لیا اس کا کوئی علاج جانتا ہے؟ ایک صحابی نے کہا میں جانتا ہوں مگر دس بکریاں لوں گا.چنانچہ دس بکریاں لے کر انہوں نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا اور وہ شخص اچھا ہو گیا.بعض ساتھیوں نے اس کے اس فعل پر اعتراض کیا اور بکریوں کی تقسیم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے استصو کر لینے تک ملتوی کی گئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور جب معاملہ پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا 59

Page 72

خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1934ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد اول بالکل جائز ہے بلکہ تم ان بکریوں میں میرا بھی حصہ رکھو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمانا کہ میرا بھی حصہ رکھو اس غرض سے تھا کہ ان لوگوں کا شک دور ہو جائے اور آپ کا بکریوں کو جائز قرار دینا میرے نزدیک اس قد ردم کر کے روپیہ لینے کی اجازت کے لئے نہ تھا جس قدر کہ یہ بتانے کے لئے کہ مہمانی مسافر کا حق ہے اور اگر کسی جگہ کے لوگ یوں مہمانی نہ دیں تو دوسرے جائز ذرائع سے اسے حاصل کیا جا سکتا ہے.مہمانی طلب کرنا سوال نہ ہوگا بلکہ حق ہوگا.ہماری جماعت یہ حق ادا کرتی ہے سینکڑوں غیر احمدی آتے اور لنگر خانہ سے کھانا کھاتے ہیں ہم نے کبھی کسی کو منع نہیں کیا اور جب ہم ان کو مہمان نوازی کا حق دیتے ہیں تو ہمارے آدمی جا کر اگر یہ حق لیں تو یہ نا جائز نہیں ہے.پس وہ ہمت اور جوش رکھنے والے نوجوان جو میری سکیم میں آنے سے باقی رہ جائیں وہ اپنے طور پر ایسے علاقوں میں چلے جائیں جہاں احمدیت ابھی تک نہیں پھیلی اور وہاں دورہ کرتے ہوئے تبلیغ کریں.چند معمولی دوائیں ساتھ رکھ کر عام بیماریوں کا جن کے علاج میں کوئی خطرہ نہیں ہوتا ، علاج بھی کرتے جائیں.ایسا معمولی علاج انہیں سکھایا جاسکتا ہے اور ارزاں ادویہ مہیا کی جاسکتی ہیں.یہ مزید ثبوت ہوگا اس بات کا کہ ہمارے نوجوان دین کے متعلق اپنی ذمہ داریاں سمجھتے ہیں اور انہیں خود بخود ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب اس قسم کے لوگ کسی جماعت میں پیدا ہو جائیں تو خواہ وہ کتنی ہی کمزور اور کتنی ہی قلیل کیوں نہ ہو دوسروں کو کھا جاتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مومنوں کی جماعت کو سانپ قرار دیا ہے.اصلی سانپ میں یہ عیب ہوتا ہے کہ وہ عقل نہ ہونے کی وجہ سے ہر ایک کو کاٹ کھاتا ہے مگر جب ایک سپاہی دشمن پر گولی چلاتا ہے تو اس کے اس فعل کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے.کیا اس وقت وہ سانپ والا ہی کام نہیں کرتا؟ کرتا ہے مگر بے قصور شخص کے متعلق نہیں بلکہ کھلے دشمن کے متعلق اس لئے قابل قدر سمجھا جاتا ہے.پس مومن کا کام دشمن کی طاقت کو توڑنا ہے اور اس کے فریب کے جال کو تباہ کر نامگر اس سے پہلے وہ خود اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتا ہے جب وہ ایسا کر لیتا ہے تو جو شخص ایسے مومن کے خلاف اٹھتا ہے وہ یا تو اس کے زہر سے مارا جاتا ہے یا اس کے تریاق سے بچایا جاتا ہے.نواں مطالبہ اس سلسلہ میں یہ ہے کہ جو لوگ تین ماہ دے سکیں کیونکہ بعض ایسے ملازم ہوتے ہیں جن کو اس طرح کی چھٹی نہیں ملتی جیسے مدرس ہیں یا جن کی تین ماہ کی رخصت جمع نہیں ہے یا جنہیں ان کا محکمہ تین ماہ کی رخصت نہ دینا چاہے ایسے لوگ ، جو بھی موسمی چھٹیاں یا حق کے طور پر ملنے والی چھٹیاں ہوں انہیں وقف کر دیں ان کو قریب کے علاقہ میں ہی کام پر لگا دیا جائے گا.میں سمجھتا ہوں اگر دوست 60

Page 73

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1934ء چھٹیوں کو ہی معقول طریق پر تبلیغ میں صرف کریں تو تھوڑے عرصہ میں کایا پلٹ سکتی اور رنگ بدل سکتا ہے.ہر عقلمند کو ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ اپنی طاقت کو صحیح طور پر استعمال کرے اور جب ایسا ہو تو بہت سی چیزیں جو دوسری صورت میں وقت کو ضائع اور طاقت کو کم کرنے والی ہوتی ہیں طاقت کو بڑھا دیتی ہیں.اب اگر ایک ہزار آدمی اس طرح تبلیغ کے لئے اپنی چھٹیاں دے تو قریباً سو مبلغ ایک وقت میں کام کرنے والے مہیا ہو سکتے ہیں اور اگر چار پانچ سال تک بھی یہ سلسلہ جاری رہے تو علاوہ مستقل مبلغوں اور ان لوگوں کے جو انفرادی طور پر تبلیغ کا کام کرتے ہیں کیا حالت پیدا کر سکتے ہیں؟ ان میں کھیتی باڑی کرنے والے لوگوں کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے.دین کی تبلیغ کرنے کے لئے کسی مولوی فاضل یا انٹرنس پاس کی ضرورت نہیں یہ شرط تو میں نے ممالک غیر میں بھیجنے والوں کے متعلق لگائی تھی ورنہ بعض پرائمری پاس بھی بہت اچھی لیاقت رکھتے ہیں اور مڈل پاس بھی اور زمینداروں میں سے بھی ایف.اے انٹرنس، مڈل اور پرائمری پاس مل سکتے ہیں اس طرح اگر چار ہزار آدمی بھی کام میں لگ جائیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ تین سو سے بھی زائد مبلغ ایک وقت میں کام کرنے والے نئے مل گئے.اتنے مبلغ اگر پنجاب میں لگا دیئے جائیں جو دن رات تبلیغ کے سوا اور کوئی کام نہ کریں تو غور کر وکتنا عظیم الشان کام ہو سکتا ہے! اصل سوال قربانی کے جذبہ اور ارادہ کا ہوتا ہے اور سوائے روپیہ کے جس کام کا ارادہ کریں گے کہ یہ ہونا چاہئے وہ ہونے لگ جائے گا.جس طرح خدا تعالیٰ کُن کہتا ہے تو ہو جاتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کے بندوں کو بھی یہ خاصیت دی جاتی ہے اور ان کی بھی یہی حالت ہوئی ہے.ہم جو مشن کہنے والے کی جماعت ہیں ہمارے لئے بھی یہی ہے کہ جس کام کو ہم کہیں ہو جا وہ ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ نے اپنے کئی مخلص بندوں کو یہ رتبہ دیا ہے کہ وہ جب کسی کام کے متعلق کہتے ہیں ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے.کئی دفعہ میرے پاس خط آتے ہیں کہ فلاں مقصد میں کامیابی کے لئے دعا کریں.میں جواب میں لکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کا مقصد پورا کرے مگر لکھا یہ جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ آپ کا مقصد پورا کرے گا.پھر خبر آتی ہے کہ مقصد پورا ہو گیا.کئی دفعہ کرے گا“ کے لفظ کو کاٹنے کو دل کرتا ہے لیکن تجربہ نے مجھے بتا دیا ہے کہ وہ خدا تعالی کی طرف سے ہوتا ہے اس لئے اب میں بہت کم ایسا کرتا ہوں.غرض اپنے متعلق الا ماشاء اللہ خدا تعالیٰ کا یہی تصرف دیکھا ہے کہ اسی طرح ہو جاتا ہے.الا ماشاء اللہ اس لئے کہتا ہوں کہ لفظی الہام بھی کئی دفعہ ٹل جاتا ہے تو قلبی الہام بھی بدلے ہوئے حالات میں بدل سکتا ہے.پس اللہ تعالٰی کے مومن بندوں کو بھی یہ طاقت دی جاتی ہے کہ وہ جس بات کو کہیں کہ ہو جاوہ ہو جاتی ہے.ضرورت اس بات کی ہے 61

Page 74

خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول کہ جماعت ارادہ کرے کہ تبلیغ کرنی ہے پھر تبلیغ ہونے لگے گی.ہم فیصلہ کر لیں کہ ہم مبلغ بن کر رہیں گے تو خدا تعالیٰ مبلغ بننے کی توفیق دے دے گا، ہم پختہ ارادہ کر لیں کہ لوگوں کو سلسلہ احمدیہ میں داخل کریں گے تو وہ داخل ہونے لگ جائیں گے.دیکھو آک کا ٹڈا آک کے پتوں میں رہ کر ایسا ہی رنگ اختیار کر لیتا ہے اور تیتری جن پھولوں میں اُڑتی پھرتی ہے ان کا رنگ حاصل کر لیتی ہے.کیا ہم نڈوں اور تیتریوں سے بھی گئے گزرے ہیں اور ہمارا خدا ( نعوذ باللہ ) آک اور پھولوں سے بھی گیا گزرا ہے کہ ٹڈا آک کے پتوں میں رہتا ہے تو ان کا رنگ قبول کر لیتا ہے، تیتریاں جن پھولوں میں رہتی ہیں ان کا رنگ اخذ کر لیتی ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے بندے اس کے پاس جائیں اور وہ اس کا رنگ نہ قبول کریں؟ دراصل وہ اپنے دل کی بدظنی ہی ہوتی ہے جو انسان کو ناکام و نامرادر کھتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے : اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِی بی جیسا بندہ ہمارے متعلق گمان کرتا ہے ویسا ہی ہم اس سے سلوک کرتے ہیں.وہ، جن کے دلوں میں اپنی ہستی کا یقین نہیں ہوتا یا خدا تعالیٰ کے متعلق یقین نہیں ہوتا ان کو کچھ نہیں ملتا لیکن جو یہ سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں معزز بنایا ہے اور بڑی بڑی طاقتیں عطا کی ہیں اور وہ یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالی بڑا رحم کرنے والا اور بڑے بڑے انعام دینے والا ہے وہ خالی نہیں رہتے اور اپنے ظرف کے مطابق اپنا حصہ لے کر رہتے ہیں.وہی خدا تعالیٰ کے سچے بندے ہیں ان کا خدا ان سے خوش ہے اور وہ اپنے خدا سے خوش ہیں.زمینداروں کے لئے بھی چھٹی کا وقت ہوتا ہے.انہیں سرکار کی طرف سے چھٹی نہیں ملتی بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے یعنی ایک موقع آتا ہے جو نہ کوئی فصل بونے کا ہوتا ہے اور نہ کاٹنے کا.اس وقت جو تھوڑا بہت کام ہوا سے بیوی بچوں کے سپرد کر کے وہ اپنے آپ کو تبلیغ کے لئے پیش کر سکتے ہیں.ہم ان کی لیاقت کے مطابق اور ان کی طرز کا ہی کام انہیں بتا دیں گے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کے اعلیٰ نتائج رونما ہوں گے.مثلاً ان سے پوچھیں گے کہ تمہاری کہاں کہاں رشتہ داریاں ہیں اور کہاں کے رشتہ دار احمدی نہیں ؟ پھر کہیں گے جاؤ ان کے ہاں مہمان ٹھہرو اور ان کو تبلیغ کرو.اس پر کچھ خرچ بھی نہ ہوگا کیونکہ رشتہ داریاں قریب قریب ہوتی ہیں یا پھر بہت تھوڑا کرایہ خرچ ہو گا.اس طرح وہ ان کے ہاں رہیں اور انہیں تبلیغ کریں.اس عرصہ میں اگر ایک بھی بیج بویا گیا تو آگے وہ خود ترقی کرے گا.اس طرح سینکڑوں مبلغ با قاعدہ طور پر کام کرنے والے پیدا ہو سکتے ہیں.زمینداروں سمیت پانچ چھ سو بلکہ ہزار تک مبلغ ایک 62

Page 75

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1934ء وقت میں کام کر سکتے ہیں.دسواں مطالبہ یہ ہے کہ اپنے عہدہ یا کسی علم وغیرہ کے لحاظ سے جو لوگ کوئی پوزیشن رکھتے ہوں یعنی ڈاکٹر ہوں، وکلا ہوں یا اور ایسے معزز کاموں پر یا ملازمتوں پر ہوں.جن کو لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.ایسے لوگ اپنے آپ کو پیش کریں تا کہ مختلف مقامات کے جلسوں میں مبلغوں کے سوائے ان کو بھیجا جائے.میں نے دیکھا ہے کہ اکثر لوگوں پر یہ اثر ہوتا ہے کہ مولوی آتے ہیں تقریریں کر جاتے ہیں اور یہ ان کا پیشہ ہے.وہ لوگ ہمارے مولویوں کی قربانیوں کو نہیں دیکھتے اور انہیں اپنے مولویوں پر قیاس کر لیتے ہیں.حالانکہ ان کے مولویوں اور ہمارے مولویوں میں بہت بڑا فرق ہے.ہمارے مولوی حقیقی عالم ہوتے ہیں اور ان کے مولوی محض جاہل! مگر لوگ ظاہری شکل دیکھتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ احمدی مولوی بھی عام مولویوں کی طرح ہی ہیں لیکن تقریر کرنے والا کوئی وکیل، کوئی ڈاکٹر یا کوئی اور عہدہ دار ہو تو لوگوں میں یہ احساس پیدا ہو گا کہ اس جماعت کے سب افراد میں ، خواہ وہ کسی طبقہ کے ہوں ، دین سے رغبت اور واقفیت پائی جاتی ہے اور خواہ ان کے منہ سے وہی باتیں نکلیں، جو مولوی بیان کرتے ہیں مگر ان کا اثر بہت زیادہ ہو گا.ایسے طبقوں کے لوگ ہماری جماعت میں چار پانچ سو سے کم نہیں ہوں گے مگر اس وقت دو تین کے سوا باقی دینی مضامین کی طرف توجہ نہیں کرتے.اس وقت چودھری ظفر اللہ خان صاحب ، قاضی محمد اسلم صاحب اور ایک دو اور نوجوان ہیں.ایک دہلی کے عبدالمجید صاحب ہیں جنہوں نے ملازمت کے دوران میں ہی مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا ، وہ لیکچر بھی اچھا دے سکتے ہیں.سرحد میں قاضی محمد یوسف صاحب ہیں.غرض ساری جماعت میں دس بارہ سے زیادہ ایسے لوگ نہیں ہوں گے.باقی سمجھتے ہیں انہوں نے فراغت پالی ہے کیونکہ لیکچر دینے کے لئے مولوی تیار ہو گئے ہیں.اسی طرح ایک تو ان کی اپنی زبانوں کو زنگ لگ رہا ہے پھر دوسرے لوگ بھی ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے.مجھے یاد ہے کہ خواجہ کمال الدین صاحب کو لیکچر دینے کا شوق تھا اور انہوں نے اس رنگ میں خدمت کی ہے.کسی نے ان کے متعلق کہا وہ شہرت چاہتے ہیں اس لئے لیکچر دیتے پھرتے ہیں.میں نے کہا اگر وہ شہرت کے لئے ایسا کرتے ہیں تو تم خدا کے لئے کیوں اسی طرح نہیں کر سکتے ؟ بہر حال اُن کو دھن تھی اور وہ لیکچر دینے جایا کرتے تھے.میں نے ان کے کئی لیکچر سنے ہیں.جب وہ لیکچر دیتے ہوئے اس موقع پر آتے کہ خواہ تم حضرت مرزا صاحب کو برا کہو مگر میں عیسائی ہونے لگا تھا مجھے انہوں نے ہی بچایا تو اس طرح لوگوں کے دلوں میں حضرت اقدس کے متعلق اُنس پیدا ہو جاتا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قدر بھی کرتے کہ انہوں نے خواجہ صاحب کو عیسائی ہونے سے بچایا.میں سمجھتا ہوں اگر اچھی پوزیشن رکھنے والا ہر شخص اپنے حالات بیان کرے اور 63

Page 76

خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول بتائے کہ اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کر کے کس قدر روحانی ترقی حاصل ہوئی اور کس طرح اس کی حالت میں انقلاب آیا.پھر ڈاکٹر یا وکیل یا بیرسٹر ہو کر قرآن اور حدیث کے معارف بیان کرے تو سننے والوں پر اس کا خاص اثر ہو سکتا ہے.ضروری نہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات ہی بیان کی جائے بلکہ ان مسائل کو بیان کرنا بھی ضروری ہے جو قبول احمدیت میں روک بنے ہوئے ہیں مثلاً فسق و فجور میں لوگوں کا مبتلا ہونا، نمازوں سے دوری، مذہب سے بے رغبتی وغیرہ.ان امور کے متعلق اگر کوئی بیرسٹر یا وکیل یا حج یا ڈاکٹر لیکچر دے تو کئی لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے مولویوں کے مونہوں سے ان کے متعلق باتیں سن کر کوئی توجہ نہ کی ہوگی مگر پھر مان لیں گے.اس قسم کے لوگ اگر علاوہ اس قربانی کے کہ جس قدر چھٹی مل سکے اس میں تبلیغ کریں، اپنے نام دے دیں اور کہہ دیں کہ جہاں موقع ہو ان کو بلا لیا جائے تو ان سے بہت مفید کام لیا جا سکتا ہے اور یہ کام زیادہ نہ ہو گا سال میں ایک ایک، دو دو لیکچر حصہ میں آئیں گے.یہ لوگ اگر لیکچروں کے لئے معلومات حاصل کرنے اور نوٹ لکھنے کے لئے قادیان آجائیں تو میں خود ان کو نوٹ لکھا سکتا ہوں یا دوسرے مبلغ لکھا دیا کریں گے اس طرح ان کو سہارا بھی دیا جا سکتا ہے.شروع شروع میں خواجہ صاحب یہاں سے بہت نوٹ لکھا کرتے تھے پھر آہستہ آہستہ ان کو مشق ہو گئی.جن اصحاب کے میں نے نام لئے ہیں کہ اس رنگ میں تبلیغ کرنے میں حصہ لیتے ہیں ان کیلئے بھی ابھی گنجائش ہے کہ اور زیادہ حصہ لیں.اس طرح بھی تبلیغ میں نئی رو پیدا کی جاسکتی ہے.اگر دو تین سوڈاکٹر ، وکیل، بیرسٹر اور اچھے عہد یدار لیکچر دینے لگیں گے تو لوگوں کی طبائع میں نیا رنگ پیدا ہوسکتا ہے.مولویوں کے لیکچروں کے متعلق تو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ فلاں ان کا مولوی اور فلاں ہمارا مولوی.ان کی آپس میں لڑائی دیکھنی چاہئے لیکن جب لیکچر دینے والے ڈاکٹر، بیرسٹر، وکیل یا دوسرے معزز پیشوں اور عہدوں کے لوگ ہوں گے تو لوگ صرف تماشہ دیکھنے کے لئے نہیں بلکہ کچھ حاصل کرنے کے لئے جمع ہوں گے اور بہت سے لوگ سلسلہ کی طرف رغبت کرنے لگیں گے.پرانے دوستوں میں سے کام کرنے والے ایک میر حامد شاہ صاحب مرحوم بھی تھے ان کو خواجہ صاحب سے بھی پہلے لیکچر دینے کا جوش تھا اور ان کے ذریعہ بڑا فائدہ پہنچا وہ ایک ذمہ دار عہدہ پر لگے ہوتے تھے باوجود اس کے تبلیغ میں مصروف رہتے اور سیالکوٹ کی دیہاتی جماعت کا بڑا حصہ ان کے ذریعہ احمدی ہوا.گیارھواں مطالبہ یہ ہے کہ ایک دفعہ میں نے تحریک کی تھی کہ 25 لاکھ سے ریزروفنڈ قائم کیا جائے اور اس طرح آمد کی ایسی صورت پیدا کی جائے کہ اس کے ساتھ ہنگامی کام کئے جاسکیں.اب ہمارا 64

Page 77

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1934ء بجٹ ایسا ہوتا ہے کہ ہم ہنگامی کام پر کچھ خرچ نہیں کر سکتے.یہی دیکھو اس وقت کتنا بڑا ہنگامہ شروع ہے مگر بعض دفعہ دس میں روپیہ خرچ کرنے کیلئے بھی کام میں روک پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ سمجھا جاتا ہے کہ اس طرح بجٹ کی رقم سے زیادہ خرچ ہو جائے گا.حالانکہ حقیقتا یہ ہونا چاہئے کہ دس لاکھ کا بجٹ ہو تو اس میں سے اڑھائی لاکھ مقررہ خرچ کے لئے ہو اور باقی ہنگامی اخراجات کے لئے ہو یعنی جو حملے جماعت پر ہوں ان کے دفعیہ کے لئے خرچ کیا جائے یا خود دوسروں پر جو حملے کئے جائیں ان میں خرچ ہو.اب تو بجٹ نپا تلا ہوتا ہے.اتنی رقم مبلغین کی تنخواہوں کی اتنی مدرسین کی اتنی وظائف کی اور اتنی لنگر کی.اتنی کلرکوں اور اتنی ناظروں کی تنخواہوں کی اور بس مگر ہنگامی خرچ ساڑھے تین لاکھ کے بجٹ میں دس ہزار یا اس سے بھی کم نکلے گا.حالانکہ اصل چیز جس سے جماعت کی ترقی ہو سکتی ہے ہنگامی کام ہی ہے.ہم سارے ملک کا سروے کریں اور دیکھیں کہ کہاں کہاں کامیابی ہو سکتی ہے اور پھر وہاں زور دے دیں.اب تو اگر کوئی موقع نکلے تو بھی اخراجات کی مشکلات کی وجہ سے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا.پچھلے دنوں بنگال کے متعلق معلوم ہوا کہ وہاں ایک پیر صاحب فوت ہوئے ہیں جنہوں نے اپنے مریدوں کو کہا تھا کہ امام مہدی آگئے ہیں ان کی تلاش کرو.ہمارے ایک دوست نے ان میں تبلیغ کی اور ان میں سے بعض نے مان لیا لیکن بعض نے کہا کہ ہم میٹنگ کر کے سب کے سب اکٹھے فیصلہ کریں گے.میں نے ایک مبلغ کو مقرر کیا کہ ان لوگوں کا سے جا کر ملے اور انہیں فیصلہ کرنے میں مدد دے مگر تین چار ماہ کے بعد دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ مبلغ جا کر شہر میں بیٹھا ہوا ہے اور جن علاقوں میں وہ لوگ ہیں وہاں نہیں جا سکا کیونکہ دعوت و تبلیغ کا محکمہ سفر خرچ کا انتظام نہیں کر سکا اور اس طرح ہیں تمہیں ہزار آدمی کی ہدایت کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا کیونکہ اس عرصہ میں مخالفت اس علاقہ میں تیز ہوگئی اور وہ لوگ ڈر گئے.تو کئی ایسے مواقع ہوتے ہیں کہ ہنگامی خرچ کرنے سے بہت بڑی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے یا جماعت کے اثر اور وقار میں بہت بڑا اضافہ ہوسکتا ہے مگر اخراجات نہ ہونے کی وجہ سے ہاتھ بندھے ہوتے ہیں کیونکہ جس قدر آمد ہوتی ہے مقررہ اخراجات پر ہی صرف ہو جاتی ہے.دراصل خلیفہ کا کام نئے سے نئے حملے کرنا اور اسلام کی اشاعت کے لئے نئے سے نئے رستے کھولنا ہے مگر اس کیلئے بجٹ ہوتا ہی نہیں.سارا بجٹ انتظامی امور کے لئے یعنی صدر انجمن کے لئے ہوتا ہے.نتیجہ یہ ہے کہ سلسلہ کی ترقی افتادی ہورہی ہے اور کوئی نیا رستہ نہیں نکلتا.ہم کوئی نئی کوشش نہیں کر سکتے اسی لئے میں نے اس وقت کہا تھا کہ دس سال کے اندر اندر ایسے تغیرات ہونے والے ہیں کہ ہندوستان کی حالت بدل جائے گی اور اب ایسا ہی ہو رہا ہے.بالشویزم ہندو اور مسلمانوں میں پھیل رہی ہے اور یہ 65

Page 78

خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول دجالیت کا فتہ کہیں احراریوں کی شکل میں کہیں کسان سبھا کی صورت میں اور کہیں سوشلزم کے نام کے نیچے کام کر رہا ہے.یہ سب ایک ہی روی بالشویک کی شاخیں ہیں خواہ براہ راست ان کے اثر کے نیچے، خواہ ان کے خیالات سے کلی یا جزئی طور پر متاثر ہو کر.بولشویزم کی غرض مذہب کو باطل کرنا ہے.ان تحریکوں کا اثر بھی بالواسطہ یا بلا واسطہ مذہب کے خلاف پڑتا ہے.بظاہر ان شاخوں میں کام کرنے والے بعض افراد مذہب کی تائید کرتے ہیں مگر حقیقت میں ان کی تحریکوں کا مذہب سے تعلق نہیں بلکہ مجموعی اثرات کے خلاف ہی پڑتا ہے.ا صوبہ سرحد کے سرخ پوشوں کو دیکھو کتنا اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن جب موقع آیا تو کانگریس کے ساتھ مل گئے.پس ان لوگوں کا دعویٰ نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ جا کدھر رہے ہیں؟ یہ ہو ہی کس طرح سکتا ہے کہ ایک اسلام کی خیر خواہ اور اسلام کی محافظ جماعت ہو اور آریہ عیسائی وغیرہ اس کی مدد کریں؟ یہی دیکھ لو یہاں کے آریوں نے احراریوں کو جلسہ کرنے کے لئے جگہ دی.ہند و افسر احراریوں کی ہمارے خلاف مدد کرتے رہے.اگر ہم اسلام کو تباہ کرنے والے اور مسلمانوں کو ہلاکت کے گڑھے میں ڈالنے والے ہیں تو چاہئے تھا کہ غیر مسلم دوڑ کر ہمارے پاس آتے اور کہتے ہم تمہاری مدد کرنے کے لئے آئے ہیں مگر ہوتا کیا ہے یہ کہ ہماری بجائے احراریوں کی مدد کی جاتی ہے.پھر اس کی کیا وجہ تھی کہ بعض افسر تنخواہ تو گورنمنٹ سے پاتے تھے مگر مدد احراریوں کی کر رہے تھے ؟ دراصل وہ حرام خوری کر رہے تھے کہ حکومت سے تنخواہیں لے کر حکومت ہی کی جڑ کاٹ رہے تھے اور اس کے دشمنوں کی مدد کر رہے تھے.غرض اس قسم کی تحریکیں پیدا ہو رہی ہیں جو جلد سے جلد موجودہ نظام دنیا میں تغیر پیدا کر رہی ہیں ایسا تغیر جو اسلام کے لئے سخت مضر ہے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے آج سے دس سال قبل میں نے ریز روفنڈ قائم کرنے کے لئے کہا تھا تا کہ اس کی آمد سے ہم ہنگامی کام کر سکیں مگر افسوس جماعت نے اس کی اہمیت کو نہ سمجھا اور صرف 20 ہزار کی رقم جمع کی اس میں سے کچھ رقم صدر انجمن احمدیہ نے ایک جائیداد کی خرید پر لگا دی اور کچھ رقم کشمیر کے کام کے لئے قرض لے لی گئی اور بہت تھوڑی سی رقم باقی رہ گئی.یہ رقم اس قدر قلیل تھی کہ اس پر کسی ریز روفنڈ کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی تھی.ہنگامی کاموں کے لئے تو بہت بڑی رقم ہونی چاہئے جس کی معقول آمدنی ہو.پھر اس آمدنی میں سے ہنگامی اخراجات کرنے کے بعد جو کچھ بچے اس کو اسی فنڈ کی مضبوطی کے لئے لگا دیا جائے تا کہ جب ضرورت ہو اس سے کام لیا جاسکے.دوستوں نے اس کے متعلق بڑے بڑے وعدے کئے.ایک صاحب نے کہا میرے لئے ایک لاکھ روپیہ جمع کرنا بھی مشکل 66

Page 79

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 30 نومبر 1934ء نہیں مگر افسوس وعدوں کو پورا کرنے کی طرف توجہ نہ کی.جن صاحب نے ایک لاکھ کا وعدہ کیا تھا وہ ایک سو امہیا نہ کر سکے.سب سے زیادہ حصہ چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے لیا تھا.انہوں نے دو تین ہزار کے قریب رقم دی تھی باقی لوگوں نے تھوڑی تھوڑی رقم دی اور پھر خاموش ہو گئے اور پانچ چھ سال سے اس میں کوئی آمد نہیں ہوئی.میں اب پھر جماعت کو اس کی طرف توجہ دلاتا ہوں.اس رقم کا جمع کر لینا کوئی بڑی بات نہیں ہے.میاں احمد دین صاحب زرگر کشمیر فنڈ کے لئے پھرتے رہتے ہیں کئی لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ وہ اپنا خرچ لیتے ہیں.بے شک ان کو خرچ دیا جاتا ہے کیونکہ کام کرنے والے کو خرچ کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے مگر میں نے دیکھا ہے جہاں کے متعلق مقامی لوگ کہتے ہیں کہ کچھ نہیں مل سکتا وہاں سے بھی وہ 40 50 روپے کشمیر ریلیف فنڈ میں جمع کر لیتے ہیں اور پھر لوگ کہتے ہیں کہ ان کو وصول کرنے کا ڈھنگ آتا ہے.اس سے معلوم ہوا وصول کرنے کے لئے ڈھنگ کی ضرورت ہے یہ نہیں کہ ملتا نہیں.اگر ایک ہزار آدمی بھی اس بات کا تہیہ کرلے کہ ریز روفنڈ جمع کرنا ہے اور ہر ایک کی رقم دوسو بھی رکھ لی جائے تو بہت بڑی رقم ہر سال جمع ہوسکتی ہے اور پھر اس کی آمد سے ہنگامی کام بآسانی کئے جاسکتے ہیں اور جب کوئی ہنگامی کام نہ ہو تو آمد بھی اصل رقم میں ملائی جا سکتی ہے.جماعت کو یاد رکھنا چاہئے کہ جب تک ہنگامی کاموں کے لئے بہت بڑی رقم خلیفہ کے ماتحت نہ ہو بھی ایسے کام جو سلسلہ کی وسعت اور عظمت کو قائم کریں نہیں ہو سکتے.بارھواں مطالبہ یہ ہے کہ جب یہ کام کئے جائیں گے تو مرکز میں کام بڑھے گا.کئی باہر کے لوگ جو کہتے ہیں کہ یہاں کارکنوں کو کم کام کرنا پڑتا ہے ، ان سے میں کہا کرتا ہوں کہ خود یہاں آکر کام کرو اور جب کوئی آکر کام کرتا ہے تو پھر کہتا ہے یہاں تو بڑا کام کرنا پڑتا ہے.کل ہی خان صاحب فرزند علی صاحب مجھ سے کہہ رہے تھے کہ جتنا کام نظارت امور عامہ کا کرنا پڑتا ہے میں نے اپنی ملازمت کے 15 ( یا میں سال کہا) آخری سالوں میں اتنا زیادہ کام نہیں کیا.تو کام تو یہاں ہے اور بہت بڑا کام ہے.میں صبح اپنے دفتر میں آکر کام شروع کرتا ہوں رُفعے اور ڈاک اور دفتروں کے کاغذات دیکھتا ہوں.پھر ملاقات کرنے والوں سے ملاقات کرتا ہوں اس میں دفتر کے اوقات کے چھ سات گھنٹے صرف ہو جاتے ہیں اور کسی کام کے لئے کوئی وقت نہیں بچتا.پھر لوگ امید رکھتے ہیں کہ میں سکیمیں پیش کروں ، ان کی نگرانی کروں ، تقاریر کروں اور تصانیف بھی کروں.اس میں شبہ نہیں کہ خلیفہ ایک ہی ہوسکتا ہے.ناظروں کی طرح زیادہ خلیفے نہیں ہو سکتے لیکن اگر خلیفہ کے ماتحت زیادہ کام کرنے والے ہوں تو اس تک گو معاملات پھر بھی آئیں گے 67

Page 80

خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول لیکن وہ کام کرنے سے گر بتائے گا اور کام دوسرے کر لیں گے.موجودہ حالات میں کام چل ہی نہیں سکتا جب تک زائد آدمی کام کرنے والے نہ ہوں مگر بجٹ پہلے ہی پورا نہیں ہوتا تو اور آدمی کس طرح رکھے جاسکتے ہیں؟ اس لئے میں تحریک کرتا ہوں کہ وہ بیسیوں آدمی جو پنشن لیتے ہیں اور گھروں میں بیٹھے ہیں خدا نے ان کو موقع دیا ہے کہ چھوٹی سرکار سے پنشن لیں اور بڑی سرکار کا کام کریں یعنی دین کی خدمت کریں.اس سے اچھی بات ان کے لئے اور کیا ہو سکتی ہے؟ بیسیوں ایسے لوگ ہیں جو پنشن لیتے ہیں اور جنہیں اپنے گھروں میں کوئی کام نہیں ہے میں ان سے کہتا ہوں کہ خدمت دین کے لئے اپنے آپ کو وقف کریں تا ان سکیموں کے سلسلہ میں ان سے کام لیا جائے یا جو مناسب ہوں انہیں نگرانی کا کام سپر د کیا جائے اور نہ اگر نگرانی کا انتظام نہ کیا گیا تو عملی رنگ میں نتیجہ اچھا نہ نکل سکے گا.تیرھواں مطالبہ یہ ہے کہ باہر کے دوست اپنے بچوں کو قادیان کے ہائی سکول یا مدرسہ احمدیہ میں سے جس میں چاہیں تعلیم کے لئے بھیجیں.میں عرصہ سے دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے مرکزی سکولوں میں باہر کے دوست کم بچے بھیج رہے ہیں.اس کی ایک وجہ تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ باہر سکول بہت کھل گئے ہیں دوسرے پہلے با ہر اتنی جماعتیں نہ تھیں جتنی اب ہیں.اب احمدیوں کے بچے اکٹھے ان سکولوں میں چلے جاتے ہیں اور انہیں اس قدر تکلیف نہیں ہوتی جتنی پہلے ہوتی تھی لیکن اس طرح ہمارے بچوں کی تربیت ایسی نہیں ہوتی جیسی کہ ہم چاہتے ہیں.میرا تجربہ یہ ہے کہ یہاں پڑھنے والے لڑکوں میں سے بعض جن کی پوری طرح اصلاح نہ ہوئی وہ بھی الا ماشاء اللہ جب قربانی کا موقع آیا تو یکدم دین کی خدمت کی طرف لوٹے اور اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کر دیا.یہ ان کی قادیان کی رہائش کا ہی اثر ہوتا ہے.ایک لڑکے کو میں نے آوارگی کی وجہ سے قادیان سے کئی بار نکلوایا لیکن جب وہ اپنے وطن میں گیا اور اس علاقہ کے لوگ جب آئیں تو یہی کہیں کہ وہ خدمت دین کے جوش اور شوق کی وجہ سے ہمارے لئے نمونہ ہے.اسے سل کی بیماری ہوگئی تھی حتی کہ اسے خون آنے لگ گیا مگر با وجود ایسی حالت کے تبلیغ میں سرگرمی سے مصروف رہتا اور لوگ کہتے اس کا نمونہ بہت اعلیٰ درجہ کا ہے.غرض قادیان میں پرورش پانے والے بچوں میں ایسا بیج بویا جاتا ہے اور سلسلہ کی محبت ان کے دلوں میں ایسی جاگزیں ہو جاتی ہے کہ خواہ ان میں سے کسی کی حالت کیسی ہی ہو جب دین کی خدمت کیلئے آواز اٹھتی ہے تو ان کے اندر سے لبیک کی سر پیدا ہو جاتی ہے الا ما شاء اللہ لیکن اس وقت میں ایک خاص مقصد سے یہ تحریک کر رہا ہوں.ایسے لوگ اپنے بچوں کو پیش کریں جو اس بات کا اختیار دیں کہ ان بچوں کو ایک خاص رنگ اور خاص طرز میں رکھا جائے اور دینی 68

Page 81

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبه جمعه فرمودہ 30 نومبر 1934ء تربیت پر زور دینے کے لئے ہم جس رنگ میں ان کو رکھنا چاہیں رکھ سکیں اس کے ماتحت جو دوست اپنے لڑکے پیش کرنا چاہیں کریں.ان کے متعلق میں ناظر صاحب تعلیم و تربیت سے کہوں گا کہ انہیں تہجد پڑھانے کا خاص انتظام کریں، قرآن کریم کے درس اور مذہبی تربیت کا پورا انتظام کیا جائے اور ان پر ایسا گہرا اثر ڈالا جائے کہ اگر ان کی ظاہری تعلیم کو نقصان بھی پہنچ جائے تو اس کی پرواہ نہ کی جائے.میرا یہ مطلب نہیں کہ ان کی ظاہری تعلیم کو ضرور نقصان پہنچے اور نہ بظاہر اس کا امکان ہے لیکن دینی ضرورت پر زور دینے کی غرض سے میں کہتا ہوں کہ اگر ان کی دینی تعلیم و تربیت پر وقت خرچ کرنے کی وجہ سے نقصان پہنچ بھی جائے تو اس کی پرواہ نہ کی جائے اس طرح ان کیلئے ایک ایسا ماحول پیدا کیا جائے جو ان میں نئی زندگی کی روح پیدا کرنے والا ہو.چودھواں مطالبہ یہ ہے بعض صاحب حیثیت لوگ ہیں جو اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتے ہیں ان سے میں کہوں گا کہ بجائے اس کے کہ بچوں کے منشا اور خواہش کے مطابق ان کے متعلق فیصلہ کریں یا خود یا اپنے دوستوں کے مشورہ سے فیصلہ کریں وہ اپنے لڑکوں کے مستقبل کو سلسلہ کے پیش کر دیں.اس کیلئے ایک کمیٹی بنادی جائے گی اس کے سپر دایسے لڑکوں کے مستقبل کا فیصلہ کر دیا جائے گا وہ کمیٹی ہر ایک لڑکے کے متعلق جو فیصلہ کرے اس کی پابندی کی جائے.اب یہ ہوتا ہے کہ اگر ایک لڑکا آئی سی ایس کی تیاری کرتا ہے تو سب اسی طرف چلے جاتے ہیں.اگر وہ سارے کے سارے پاس بھی ہو جائیں تو اتنی جگہیں کہاں نکل سکتی ہیں جو سب کومل جائیں؟ لیکن اگر لڑکوں کو علیحدہ علیحدہ کاموں کے لئے منتخب کیا جائے اور ان کے لئے تیاری کرائی جائے تو پھر انہیں ملازمتیں حاصل کرنے میں بھی کامیابی ہوسکتی ہے اور سلسلہ کی ضرورتیں بھی پوری ہو سکتی ہیں.موجودہ حالات میں جو احمدی اعلیٰ عہدوں کی تلاش کرتے ہیں وہ کسی نظام کے ماتحت نہیں کرتے اور نتیجہ یہ ہوا ہے کہ بعض صیغوں میں احمدی زیادہ ہو گئے ہیں اور بعض بالکل خالی ہیں.پس میں چاہتا ہوں کہ اعلیٰ تعلیم ایک نظام کے ماتحت ہو اور اس کے لئے ایک ایسی کمیٹی مقرر کر دی جائے کہ جو لوگ اعلیٰ تعلیم دلانا چاہیں وہ لڑکوں کے نام اس کمیٹی کے سامنے پیش کر دیں پھر وہ کمیٹی لڑکوں کی حیثیت، اُن کی قابلیت اور اُن کے رُجحان کو دیکھ کر فیصلہ کرے کہ فلاں کو پولیس کے محکمہ کے لئے تیار کیا جائے ، فلاں کو انجینئر نگ کی تعلیم دلائی جائے، فلاں کو بجلی کے محکمہ میں کام سیکھنے کے لئے بھیجا جائے ، فلاں ڈاکٹری میں جائے، فلاں ریلوے میں جائے وغیرہ وغیرہ یعنی ان کیلئے الگ الگ کام مقرر کریں تا کہ کوئی صیغہ ایسا نہ رہے جس میں احمدیوں کا کافی دخل نہ ہو جائے.اب صرف تین یا چار صیغوں 69

Page 82

خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول میں احمدیوں کا دخل ہے اور باقی خالی پڑے ہیں.میں سمجھتا ہوں اس بارے میں معمولی سا نظام قائم کرنے سے سلسلہ کو بہت بڑی طاقت حاصل ہوسکتی ہے اور وہ لڑکے جن کی زندگیاں ضائع ہو جاتی ہیں بیچ سکتے ہیں اور کئی نو جوان جو اچھے اور اعلیٰ درجہ کے کام نہیں کر رہے کرنے لگ جائیں گے اور کئی محکموں میں ترقی کرنے کا رستہ نکل آئے گا.اگر ایسے سو آدمی بھی اپنے لڑکوں کو پیش کر دیں اور کمیٹی ان لڑکوں کے متعلق فیصلہ کرے تو اس کا نتیجہ بہت اچھا نکل سکتا ہے.دوسرے صوبوں میں یہ کمیٹی اپنی ماتحت انجمنیں قائم کرے جو اپنے رسوخ اور کوشش سے نو جوانوں کو کامیاب بنائیں.اس کام کے لئے جو کمیٹی میں نے مقرر کی ہے اور جس کا کام ہوگا کہ اس بارے میں تحریک بھی کرے اور اس کام کو جاری کرے ، اس کے فی الحال تین ممبر ہوں گے.جن کے نام یہ ہیں :- 1.چودھری ظفر اللہ خاں صاحب 2.خان صاحب فرزند علی صاحب 3.میاں بشیر احمد صاحب یہ اس تحریک کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں اور کام کو جاری کرنے کی ممکن تدابیر عمل میں لائیں.پندرھواں مطالبہ جو جماعت سے بلکہ نو جوانان جماعت سے یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے بہت سے نوجوان بے کار ہیں.میں ایک مثال دے چکا ہوں کہ ایک نوجوان اسی قسم کی تحریک پر ولایت چلے گئے اور وہاں سے کام سیکھ کر آگئے اب وہ انگلش ویئر ہاؤس لاہور میں اچھی تنخواہ پر ملازم ہیں.وہ جب گئے تو جہاز پر کوئلہ ڈالنے والوں میں بھرتی ہو گئے.ولایت جا کر انہوں نے کنٹر کا کام سیکھا اور اب اچھی ملازمت کر رہے ہیں.وہ نو جوان جو گھروں میں بے کار بیٹھے روٹیاں توڑتے ہیں اور ماں باپ کو مقروض بنا رہے ہیں انہیں چاہئے کہ اپنے وطن چھوڑیں اور نکل جائیں.جہاں تک دوسرے ممالک کا تعلق ہے اگر وہ اپنے لئے صحیح انتخاب کر لیں تو 99 فیصدی کامیابی کی امید ہے.کوئی امریکہ چلا جائے، کوئی جرمنی چلا جائے ، کوئی فرانس چلا جائے ، کوئی انگلستان چلا جائے، کوئی اٹلی چلا جائے، کوئی افریقہ چلا جائے غرض کہیں نہ کہیں چلا جائے اور جا کر قسمت آزمائی کرے.وہ کیوں گھروں میں بے کار پڑے ہیں؟ باہر نکلیں اور کمائیں پھر خود بھی فائدہ اُٹھا ئیں اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائیں.جو زیادہ دور نہ جانا چاہیں وہ ہندوستان میں ہی اپنی جگہ بدل لیں مگر میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ بعض نوجوان ماں باپ کو اطلاع دیے بغیر گھروں سے بھاگ جاتے ہیں یہ بہت بری بات ہے.جو جانا چاہیں اطلاع دے کر جائیں اور اپنی خیر و عافیت کی اطلاع دیتے رہیں.مدر اس کے بمبئی کے علاقہ میں چلے جائیں، بمبئی کے بہار میں، 70

Page 83

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1934ء پنجاب کے بنگال میں.غرض کسی نہ کسی دوسرے علاقہ میں چلے جائیں.رنگون کلکتہ بمبئی وغیرہ شہروں میں پھیری سے ہی وہ کچھ نہ کچھ کما سکتے ہیں اور ماں باپ کو مقروض ہونے سے بچا سکتے ہیں لیکن اگر کسی کو ناکامی ہوتو کیا نا کامی اپنے وطن میں رہنے والوں کو نہیں ہوتی ؟ پھر کیا وجہ ہے کہ وہ باہر نکل کر جدوجہد نہ کریں اور سلسلہ کے لئے مفید وجود نہ بنیں اور بے کار گھروں میں پڑے رہیں؟ سولہواں مطالبہ یہ ہے کہ جماعت کے دوست اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں.میں نے دیکھا ہے اکثر لوگ اپنے ہاتھ سے کام کرنا ذلت سمجھتے ہیں.حالانکہ یہ ذلت نہیں بلکہ عزت کی بات ہے.ذلت کے معنی تو یہ ہوئے کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ بعض کام ذلت کا موجب ہیں اگر ایسا ہے تو ہمارا کیا حق ہے کہ اپنے کسی بھائی سے کہیں کہ وہ فلاں کام کرے جسے ہم کر ناذلت سمجھتے ہیں؟ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے ہاتھ سے کام کرنا چاہئے.امرا تو اپنے گھروں میں کوئی چیز ادھر سے اٹھا کر ادھر رکھنا بھی عار سمجھتے ہیں.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میں نے بیسیوں دفعہ برتن مانجتے اور دھوتے دیکھا ہے اور میں نے خود بیسیوں دفعہ برتن مانجے اور دھوئے ہیں اور کئی دفعہ رومال وغیرہ کی قسم کے کپڑے بھی دھوئے ہیں.ایک دفعہ میں نے ایک ملازم کو پاؤں دبانے کے لئے بلایا وہ مجھے دبا رہا تھا کہ کھانے کا وقت ہو گیالڑ کا کھانے کا پوچھنے آیا تو میں نے کہا دو آدمیوں کا کھانا لے آؤ.کھانا آنے پر میں نے اس ملازم کو ساتھ بٹھا لیا.لڑکا یہ دیکھ کر دوڑا دوڑا گھر میں گیا اور جا کر قہقہہ مار کر کہنے لگا: حضرت صاحب فلاں ملازم کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رہے ہیں.اسلامی طریق یہی ہے اور میں سفر میں یہی طریق رکھتا ہوں کہ ساتھ والے آدمیوں کو اپنے ساتھ کھانے پر بٹھا لیتا ہوں.میں نے دیکھا ہے حضرت خلیفہ امسیح اول رضی اللہ عنہ میں بعض بعض خوبیاں نہایت نمایاں تھیں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اسی مسجد میں قرآن کریم کا درس دیا کرتے تھے.مجھے یاد ہے میں چھوٹا سا تھا سات آٹھ سال کی عمر ہوگی ، ہم باہر کھیل رہے تھے کہ کوئی ہمارے گھر سے نکل کر کسی کو آواز دے رہا تھا کہ فلانے مینہ آ گیا ہے او پہلے بھیگ جائیں گے جلدی آؤ اور ان کو اندر ڈالو.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ درس دے کر ادھر سے جارہے تھے انہوں نے اس آدمی سے کہا کیا شور مچارہے ہو؟ اس نے کہا کوئی آدمی نہیں ملتا جو او پلے اندر ڈالے آپ نے فرمایا تم مجھے آدمی نہیں سمجھتے ؟ یہ کہہ کر آپ نے ٹوکری لے لی اور اس میں اوپلے ڈال کر اندر لے گئے.آپ کے ساتھ اور بہت سے لوگ بھی شامل ہو گئے اور جھٹ پٹ اوپلے اندر ڈال دیئے گئے اسی طرح اس مسجد کا ایک حصہ بھی حضرت خلیفہ اسیح اول رضی اللہ عنہ نے بنوایا تھا.ایک کام میں نے بھی اسی قسم کا کیا تھا مگر اس پر بہت عرصہ گزر گیا ہے.71

Page 84

خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول میں نے اپنی جماعت کے لوگوں کو اپنے ہاتھ سے کام کرنے کے لئے کئی بار کہا ہے مگر توجہ نہیں کرتے کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں اور یہ احساس مٹا دیں کہ فلاں آتا ہے اور فلاں مزدور.اگر ہم اس لئے آقا بنتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے بنایا ہے تو یہ بھی ظاہر کرنا چاہئے کہ ہمارا حق نہیں کہ ہم آقا بنیں اور جب کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسے آقا بنے کا حق ہے تو وہ مومن نہیں رہتا.کئی لوگ ترقی کرنے سے اس لئے محروم رہ جاتے ہیں کہ اگر ہم نے فلاں کام کیا اور نہ کر سکے تو لوگ کیا کہیں گے؟ بعض مبلغ خود چودھری بن کر بیٹھ جاتے ہیں اور دوسروں کو مباحثہ میں آگے کر دیتے ہیں تا کہ وہ ہار نہ جائیں.مجھے یہ سن کر افسوس ہوا کہ ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ نے کہا ہمارے پاس اب صرف دو مبلغ مناظرے کرنے والے ہیں مگر اس کی ذمہ داری ناظر صاحب پر ہی عائد ہوتی ہے انہیں دو مبلغ ہوشیار نظر آئے انہی کو انہوں نے مناظروں کے لئے رکھ لیا حالانکہ انہیں چاہئے تھا کہ سب سے یہ کام لیتے اور اس طرح زیادہ مبلغ مباحثات کرنے والے پیدا ہو جاتے کیونکہ کام کرنے سے کام کی قابلیت پیدا ہوتی ہے.بعض لوگ دراصل کام کرنے سے جی چراتے ہیں مگر ظاہر یہ کرتے ہیں کہ وہ اس کام کے کرنے میں اپنی ہتک سمجھتے ہیں.میں ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالنے کا جو مطالبہ کر رہا ہوں اس کے لئے پہلے قادیان والوں کو لیتا ہوں یہاں کے احمدی محلوں میں جو اونچے نیچے گڑھے پائے جاتے ہیں، گلیاں صاف نہیں ، نالیاں گندی رہتی ہیں بلکہ بعض جگہ نالیاں موجود ہی نہیں ان کا انتظام کریں ، وہ جو او دور سیٹر ہیں وہ سروے کریں اور جہاں جہاں گندہ پانی جمع رہتا ہے اور جو ارد گرد بسنے والے دس ہیں کو بیمار کرنے کا موجب بنتا ہے اسے نکالنے کی کوشش کریں اور ایک ایک دن مقرر کر کے سب مل کر محلوں کو درست کر لیں.اسی طرح جب کوئی سلسلہ کا کام ہو مثل لنگر خانہ یا مہمان خانہ کی کوئی اصلاح مطلوب ہو تو بجائے مزدور لگانے کے خود لگیں اور اپنے ہاتھ سے کام کر کے ثواب حاصل کریں.ایک بزرگ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ جب قرآن پڑھتے تو حروف پر انگلی بھی پھیرتے جاتے کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے قرآن کے حروف آنکھ سے دیکھتا ہوں اور زبان سے پڑھتا ہوں اور انگلی کو بھی ثواب میں شریک کرنے کے لئے پھیرتا جاتا ہوں.پس جتنے عضو بھی ثواب کے کام میں شریک ہو سکیں اتنا ہی اچھا ہے اور اس کے علاوہ مشقت کی عادت ہوگی.اب اگر کسی کو ہاتھ سے کام کرنے کے لئے کہو اور وہ کام کرنا شروع بھی کر دے تو کھسیانا ہوکر مسکراتا جائے گالیکن اگر سب کو اسی طرح کام کرنے کی عادت ہو تو پھر کوئی عار نہ سمجھے گا.یہ تحریک میں قادیان سے پہلے شروع کرنا چاہتا ہوں اور باہر گاؤں کی احمد یہ جماعتوں کو ہدایت 72

Page 85

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1934ء کرتا ہوں کہ وہ اپنی مساجد کی صفائی اور لیپائی وغیرہ خود کیا کریں اور اس طرح ثابت کریں کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنا وہ عار نہیں سمجھتے.شغل کے طور پر لوہار نجار اور معمار کے کام بھی مفید ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے کام کیا کرتے تھے.ایک دفعہ خندق کھودتے ہوئے آپ نے پتھر توڑے اور مٹی ڑھوئی.صحابہ کے متعلق آتا ہے کہ اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو پسینہ آیا بعض نے برکت کے لئے اسے پونچھ لیا.یہ تربیت ، ثواب اور رعب کے لحاظ سے بھی بہت مفید چیز ہے.جو لوگ یہ دیکھیں گے کہ ان کے بڑے بڑے بھی مٹی ڈھونا اور مشقت کے کام کرنا عار نہیں سمجھتے ان پر خاص اثر ہوگا.بدر کے موقع پر جب کفار نے ایک شخص کو مسلمانوں کی جمیعت دیکھنے کے لئے بھیجا تو اس نے آکر کہا: آدمی تو تھوڑے سے ہی ہیں لیکن موت نظر آتے ہیں وہ یا تو خود مر جائیں گے یا ہمیں مار ڈالیں گے.اسی وجہ سے انہوں نے لڑائی سے باہر رہنے کی کوشش کی جس کا ذکر میں پہلے کر آیا ہوں.ہماری جماعت کے لوگوں کو بھی مخالفین جب یہ دیکھیں گے کہ یہ ہر کام کرنے کے لئے تیار ہیں اور کسی کام کے کرنے میں عار نہیں سمجھتے تو سمجھیں گے کہ ان پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں.سترھواں مطالبہ یہ ہے کہ جو لوگ بے کار ہیں وہ بے کار نہ رہیں.اگر وہ اپنے وطنوں سے باہر نہیں جاتے تو چھوٹے سے چھوٹا جو کام بھی انہیں مل سکے وہ کر لیں.اخباریں اور کتابیں ہی بیچنے لگ جائیں، ریز رو فنڈ کے لئے روپیہ جمع کرنے کا کام شروع کر دیں.غرض کوئی شخص بے کار نہ رہے خواہ اسے مہینہ میں دو روپے کی ہی آمدنی ہو کیونکہ دو بہر حال صفر سے زیادہ ہیں.بعض بی اے کہتے ہیں ہم بے کار ہیں ہمیں کوئی کام نہیں ملتا.میں انہیں کہتا ہوں دو روپے بھی اگر وہ کما سکیں تو سمائیں.میں نے جس قدر حساب پڑھا ہے اس سے مجھے یہی معلوم ہوا ہے کہ دور و پے صفر سے زیادہ ہوتے ہیں.غرض کوئی احمدی نکما نہ رہے اسے ضرور کوئی نہ کوئی کام کرنا چاہئے.اٹھارھواں مطالبہ باہر کے دوستوں سے میں یہ کرتا ہوں کہ قادیان میں مکان بنانے کی کوشش کریں.اس وقت تک خدا تعالیٰ کے فضل سے سینکڑوں لوگ مکان بنا چکے ہیں مگر ابھی بہت گنجائش ہے.جوں جوں قادیان میں احمدیوں کی آبادی بڑھے گی ہمارا مرکز ترقی کرے گا اور غیر عنصر کم ہوتا جائے گا.غیر عنصر کو کم کرنے کے دو ہی طریق ہیں یا تو یہ کہ وہ یہاں سے چلا جائے اور یہ ہمارے اختیار میں نہیں یا یہ کہ ہماری آبادی بڑھنے سے ان کی آبادی کی نسبت کم ہو جائے اور یہ ہمارے اختیار کی بات ہے.جب ہم اپنے آپ کو بڑھاتے جائیں گے تو غیر عصر خود بخود کم ہوتا جائے گا.ہاں یا درکھو! کہ قادیان کو خدا تعالیٰ نے سلسلہ احمدیہ کا مرکز قرار دیا ہے اس لئے اس کی آبادی انہی لائنوں پر چلنی چاہئے جو سلسلہ کے لئے مفید 73

Page 86

خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول ثابت ہوں.اس موجودہ حالت کو مد نظر رکھتے ہوئے میری تاکید ہے کہ قادیان، بھینی اور منگل کے سوا سر دست اور سی گاؤں سے آبادی کے لئے زمین نہ خریدی جائے.ابھی ہمارے بڑھنے کے لئے بھینی اور منگل کی طرف کافی گنجائش ہے.منگل کے لوگ خوشحال ہیں اور زمین فروخت نہیں کرتے ان کی اس حالت کو دیکھ کر ہمیں خوشی ہوتی ہے.بھینی والے اپنی زمین بیچتے رہتے ہیں مگر اس لئے نہیں کہ وہ اپنی زمین زیادہ قیمت پر بیچ کر اور جائیداد پیدا کرتے ہیں بلکہ غربت کی وجہ سے بیچتے ہیں اس بات کا ہمیں افسوس ہے.کاش! وہ پہلی زمینیں فروخت کر کے فروخت کردہ زمین سے زیادہ زمین دوسرے گاؤں میں خریدتے تو ہمارے لئے دُہری خوشی کا موجب ہوتا.یہ مطالبات ہیں جو میں جماعت کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں.ان میں سے ہر ایک لمبے غور اور فکر کے بعد تجویز کیا گیا ہے اور ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو سلسلہ کی ترقی میں ممد نہ ہو.ان میں سے ہر ایک بیج ہے ایسا بیج جو بڑی ترقی پانے والا اور بہت بڑا درخت بنے والا اور دشمنوں کو زیر کرنے والا ہے.ان میں سے کوئی ایک چیز بھی نظر انداز کرنے والی نہیں اور ایک بھی ایسی نہیں کہ اس کے بغیر ہماری ترقی کی عمارت مکمل ہو سکے.پس میں اپنی جماعت کے لوگوں سے کہتا ہوں کہ جس جس سے ہو سکے ان میں حصہ لے اور اس طرح سلسلہ کی ترقی کے وقت کو قریب لانے اور خدا تعالیٰ سے اجر حاصل کرنے کی کوشش کرے.ایک اور چیز باقی رہ گئی ہے جو سب کے متعلق ہے گوغر با اس میں زیادہ حصہ لے سکتے ہیں.د نیوی سامان خواہ کس قدر کئے جائیں آخر دنیوی سامان ہی ہیں اور ہماری ترقی کا انحصار ان پر نہیں بلکہ ہماری ترقی خدائی سامان کے ذریعہ ہوگی اور یہ خانہ اگر چہ سب سے اہم ہے مگر اسے میں نے آخر میں رکھا ہے اور وہ دعا کا خانہ ہے.وہ لوگ جو ان مطالبات میں شریک نہ ہوسکیں اور ان کے مطابق کام نہ کر سکیں وہ خاص طور پر دعا کریں کہ جو لوگ کام کر سکتے ہیں خدا تعالیٰ انہیں کام کرنے کی توفیق دے اور ان کے کاموں میں برکت ڈالے.ہماری فتح ظاہری سامانوں سے نہیں بلکہ باطنی سامانوں سے ہوگی.اگر ہمارے دلوں میں حقیقی ایمان پیدا ہو جائے اور اگر ہم صرف خدا کے ہو جائیں تو ساری دنیا کو فتح کر لینا ہمارے لئے کچھ بھی مشکل نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر چالیس مومن بھی کھڑے ہو جائیں تو ساری دنیا کو فتح کر سکتے ہیں.وہ لوگ جو کچھ نہیں کر سکتے وہ یہی دعا کرتے رہیں کہ خدا تعالیٰ چالیس مومن پیدا 74

Page 87

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1934ء 66 کردے ایسے چالیس مومن جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ دنیا کو فتح کر سکتے ہیں.پس وہ لولے لنگڑے اور اپاہج جو دوسروں کے کھلانے سے کھاتے ہیں، جو دوسروں کی امداد سے پیشاب پاخانہ کرتے ہیں اور وہ بیمار اور مریض جو چار پائیوں پر پڑے ہیں اور کہتے ہیں کہ کاش ہمیں بھی طاقت ہوتی اور ہمیں بھی صحت ہوتی تو ہم بھی اس وقت دین کی خدمت کرتے ان سے میں کہتا ہوں کہ ان کیلئے بھی خدا تعالیٰ نے دین کی خدمت کرنے کا موقع پیدا کر دیا ہے وہ اپنی دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا دروازہ کھٹکھٹائیں اور چار پائیوں پر پڑے پڑے خدا تعالیٰ کا عرش ہلائیں تا کہ کامیابی اور فتح مندی آئے.پھر وہ جو ان پڑھ ہیں اور نہ صرف ان پڑھ ہیں بلکہ گند ذہن ہیں اور اپنی اپنی جگہ کڑھ رہے ہیں کہ کاش ہم بھی عالم ہوتے ، کاش ہمارا بھی ذہن رسا ہوتا اور ہم بھی تبلیغ دین کے لئے نکلتے ! ان سے میں کہتا ہوں کہ ان کا بھی خدا ہے جو اعلیٰ درجہ کی عبارت آرائیوں کو نہیں دیکھتا، اعلیٰ تقریروں کو نہیں دیکھتا، بلکہ دل کو دیکھتا ہے وہ اپنے سیدھے سادے طریق سے دعا کریں خدا تعالیٰ ان کی دعا سنے گا اور ان کی مدد کرے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک مخلص صحابی بلال حبشی تھے جن کے نام سے تمام امت اسلامیہ واقف ہے وہ اذان دیا کرتے تھے.چونکہ عرب نہ تھے اس لئے عربی کے بعض حروف ادا نہ کر سکتے تھے.اَشْهَدُ کی بجائے اسهَدُ “ کہا کرتے تھے اور لوگ ان کی اذان پر پہنتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ لوگوں کو ہنستے سنا تو باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ بلال کی آواز تو اللہ تعالیٰ کو بھی پیاری ہے اللہ تعالیٰ یہ نہیں دیکھتا تھا کہ وہ ”ش“ ادا نہیں کر سکتے بلکہ وہ یہ دیکھتا تھا کہ یہ میرا وہ بندہ ہے جسے سخت دھوپ میں گرم ریت میں لٹایا گیا مگر اس نے اَشْهَدُ اَنْ لَّا اِلہ کہنا نہ چھوڑا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک دفعہ ایک عالم آیا، آپ نے بات کرتے وقت معمولی طور پر ق کا حرف ادا کرتے ہوئے قرآن کہا تو وہ کہنے لگا.مسیح موعود بنے پھرتے ہیں اور قر آن کہنا بھی نہیں آتا، ان دنوں صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید بھی آئے ہوئے تھے ، ان کا ہاتھ اس شخص کے منہ کی طرف اٹھنے ہی لگا تھا کہ آپ نے انہیں روک دیا اور پھر جب تک اس شخص سے گفتگو کرتے رہے صاحبزادہ صاحب کا ایک ہاتھ آپ نے پکڑے رکھا اور دوسرا حضرت مولوی عبدالکریم کو پکڑے رکھنے کا ارشاد فرمایا اور وہ اس دوران میں غصہ سے لرزتے رہے لیکن وہ نادان کیا جانتا تھا کہ خدا تعالیٰ کو آپ کا سیدھا سادا قرآن کہنا ہی پسند تھا.پس کوئی یہ مت سمجھے کہ اسے عبارت آرائی نہیں آتی کیونکہ خدا تعالیٰ الفاظ کو نہیں دیکھتا.اگر اعلیٰ درجہ کے الفاظ میں اس سے التجا کی جائے تو اسے بھی سنتا ہے اور اگر ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اس کے در اجابت کو کھٹکھٹایا جائے تو بھی کھولتا ہے اور پکارنے والے کی دعا سنتا ہے.پس وہ لوگ جو معذوری اور مجبوری کی 75

Page 88

خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول صلى الله وجہ سے کسی مطالبہ کو پورا کرنے میں بھی حصہ نہیں لے سکتے میں نے یہ ایسی تجویز بتائی ہے کہ اس میں وہ سب شریک ہو سکتے ہیں اور یہ سب سے اعلیٰ سب سے اہم اور سب سے ضروری تجویز ہے.وہ جو چار پائیوں پر پڑے ہوئے اپاہج ہیں ، وہ جنہیں بات کرنے کا شعور نہیں ، وہ جن کے ذہن رسا نہیں ، وہ جو بیمار اور کمزور ہیں ، وہ جو قید میں پڑے ہیں، وہ جو مصائب و تکالیف اور مشکلات میں گرفتار ہیں، وہ سب جو یہ کام کرنا چاہتے ہیں مگر کر نہیں سکتے وہ اس تجویز پر عمل کریں، اس طرح وہ کام کرنے والوں سے ثواب حاصل کرنے میں پیچھے نہ رہیں گے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے کہہ سکتے ہیں ہمارے پاس دل ہی تھا وہ ہم نے پیش کر دیا اور خدا تعالیٰ ضرور ان کے دل کی قدر کرے گا اور انہیں ایسا ہی اجر دے گا جیسا کام کرنے والوں کو دے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ ایک جنگ کے لئے جارہے تھے آپ نے صحابہ کو دیکھا کہ بہت سخت تکلیفیں اٹھا رہے ہیں، بھوکے پیاسے ہیں، جنگل کاٹ کاٹ کر رستہ بنا رہے ہیں اور اس سخت تشویش اور تکلیف کو دین کی خاطر برداشت کر کے فخر محسوس کر رہے ہیں کہ ہم کو دین کی بہت بڑی خدمت کی توفیق ملی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس حالت کو محسوس کر کے فرمایا کہ مدینہ میں کچھ لوگ ہیں جو تمہارے جیسا ثواب حاصل کر رہے ہیں.صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ ! یہ کس طرح ممکن ہے کہ قربانیاں تو ہم کریں، جانیں دینے کیلئے ہم نکلیں تکلیفیں ہم اُٹھا ئیں مصیبتیں ہم جھیلیں اور ثواب ان کو بھی ہمارے برابر ملے جو گھروں میں بیٹھے ہیں.آپ نے فرمایا: ہاں وہ اپانچ اور وہ لولے لنگڑے جن کے دل بریاں ہیں اور جو رو رہے ہیں کہ ہمیں توفیق حاصل نہیں ورنہ ہم بھی اس جنگ میں شریک ہوتے.کیا خدا تعالیٰ ان کو ثواب نہ دے گا؟ پس ایسے لوگ جو مجبور اور معذور ہیں، خدا تعالیٰ کے سامنے نہ کہ اپنے جھوٹے نفس کے سامنے ، ان کے پاس سب سے کاری حربہ ہے وہ اسے چلائیں اس طرح وہ خود بھی ثواب کے مستحق ہوں گے اور جماعت بھی ترقی کرتی جائے گی.یہ وہ انیس تجاویز ہیں جو میں نے جماعت کے سامنے پیش کی ہیں.امید ہے کہ جلد سے جلد ان کو عمل میں لایا جائے گا اور وہ جو دین کیلئے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں آگے بڑھیں گے.روپیہ کے متعلق جو تحریک کی گئی ہے اور جو بھی قادیان میں ہی لوگوں کو پہنچی ہے اس میں اس وقت تک 6 سو روپیہ نقد اور 7-8 سو کے وعدے ہو چکے ہیں اور مجھے جو خبریں ملی ہیں ان کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ سکتا ہوں کہ اگر محلوں کی کمیٹیاں صحیح طور پر کوشش کریں تو قادیان سے ہی دو تین ہزار روپیہ جمع ہوسکتا ہے.باہر کی جماعتوں کے متعلق مہینہ ڈیڑھ مہینہ تک اندازہ لگایا جا سکے گا.میں نے جو سکیم تجویز کی ہے اس کا فورا پیش کرنے والا حصہ آج کے خطبہ سے مکمل ہو چکا ہے لیکن بعض زائد خیالات کا اظہار میں اگلے جمعہ کے خطبہ میں کروں گا.جماعت کے لوگ ان مطالبات میں سے جس کا 76

Page 89

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 30 نومبر 1934ء جس کو پورا کر سکتے ہیں اس کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں مگر یاد رکھیں یہ جو کچھ ہے پہلا قدم ہے.جس طریق سے الہی سلسلے ترقی کرتے ہیں اس کے مقابلہ میں یہ بالکل حقیر ہے.جس طرح سپاہی کو مشق کرانے کیلئے اس کے کندھے پر بندوق رکھی جاتی ہے اور اسے مشق کرائی جاتی ہے اسی قسم کی یہ مشق ہے ورنہ وہ قربانیاں جو ترقی کے لئے ضروری ہیں وہ آگے آنے والی ہیں.قادیان والوں پر سب سے زیادہ ذمہ داریاں ہیں کیونکہ وہ مرکز میں اور نبی کی تخت گاہ میں رہتے ہیں وہ کوشش کر کے ایک دوسرے سے آگے ( مطبوعه الفضل 9 دسمبر 1934 ء ) " 77

Page 90

Page 91

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 7 دسمبر 1934ء جماعت احمدیہ سے قربانی کے مطالبات کی اعلان کرده سکیم کے متعلق بعض اہم تشریحات خطبہ جمعہ فرموده 7 دسمبر 1934 ء سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں ان تجاویز کے متعلق جو میرے نزدیک اس فتنہ کے مقابلہ کے لئے موجودہ حالات میں ضروری ہیں جو آج کل جماعت احمدیہ کی ترقی کے راستہ میں روک بن رہا ہے یا روکیں پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ وہ تجاویز ان تجاویز کی پہلی قسط ہیں جن پر ہمارے لئے عمل کرنا ضروری ہوگا.آئندہ جو حالات پیدا ہونے والے ہیں ان کا حقیقی علم تو اللہ تعالی کو ہی ہے لیکن اس کے دیئے ہوئے علم کے ماتحت بعض باتیں ہمیں بھی معلوم ہیں ان کو مد نظر رکھتے ہوئے جن تجاویز کو اختیار کرنا ہمارے لئے ضروری ہوگا وہ میرے ذہن میں ہیں لیکن کوئی شخص یکلخت نیچے سے پھلانگ کر چھت پر نہیں پہنچ سکتا بلکہ مختلف سیڑھیوں سے گزرنا ضروری ہوتا ہے.پس میں سمجھتا ہوں کہ ان سیڑھیوں میں سے وہ تجاویز جو میں نے پیش کی ہیں پہلی سیڑھی ہیں یا چونکہ اس سے بھی پہلے چندے جماعت دیتی تھی یا قربانیاں کرتی تھی ان کو اگر پہلی سیڑھی قرار دیا جائے تو یہ دوسری ہوگی اور اگر ان ادوار کو جن میں سے جماعت گزرتی رہی ہے گن لیا جائے تو یہ تیسری یا چوتھی ہوگی مگر بہر حال چھت ابھی ہمارے قریب نہیں آئی اور چھت پر پہنچنے کیلئے جن سیٹرھیوں پر چڑھنا ہمارے لئے ضروری ہے ان پر ابھی ہم نہیں چڑھے اور آئندہ اور سیٹرھیاں ابھی ہمیں چڑھنی پڑیں گی اور وہ کس مواد کی بنی ہوئی ہوں گی؟ وہ ایک حد تک میرے ذہن میں ہے اور اسی کو مد نظر رکھ کر میں نے یہ پہلی سیڑھی تیار کی ہے تا کہ آئندہ جن حالات میں سے جماعت کو گزرنا پڑے ان کیلئے آج ہی تیاری شروع کی جا سکے.میں نے ساری تجاویز کو کھول کر بیان کر دیا ہے سوائے ایک دو باتوں کے جن کا چھپانا اس لئے ضروری نہ تھا کہ وہ زیادہ اہم تھیں بلکہ اس لئے کہ اگر ان کو ظاہر کر دیا جائے تو ان کا تو ڑ دشمن آسانی سے کر سکتا ہے اور وہ کام جو تھوڑے خرچ سے ہو سکتا ہے اظہار کر دینے کی صورت میں اس کے لئے زیادہ خرچ کرنے کی ضرورت پیش آئے گی لیکن وہ باتیں بھی میں نے ممبروں کو بتادی ہیں جن کے سپر دوہ کی گئی ہیں.79

Page 92

خطبہ جمعہ فرموده 7 دسمبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول باوجود اس اظہار کے جو میں نے کیا ہے سکیم کے ہر پہلو میں بعض اُمور کو میں نے مدنظر رکھا ہے جن کی حقیقت کو ظاہر نہیں کیا.فوائد اور اغراض کے بعض پہلو میں نے بتائے ہیں لیکن بعض نہیں بتائے.جس طرح طبیب ایک دوائی دیتا ہے اور اس کا اتنا ہی فائدہ بیان کرتا ہے جتنا مریض کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.ایک دوائی قبض کے لئے بھی مفید ہوتی ہے، معدہ کے لئے اور جگر کیلئے بھی وہی نزلہ اور زکام کے لئے بھی مفید ہوتی ہے.طبیب کے پاس ایک نزلہ کا مریض آتا ہے اور وہ اسے دوائی دے دیتا اور کہتا ہے کہ یہ نزلہ کیلئے مفید ہے یہ ضروری نہیں کہ وہ اسے یہ بھی بتائے کہ یہ جگر اور معدہ کے لئے بھی مفید ہے یہ باتیں وہ معدہ یا جگر کے مریض سے کہے گا.اسی طرح آئندہ کے مصالح کو بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی لیکن وہ مکمل عمارت میرے ذہن میں ہے جس کی حفاظت کے لئے یہ تمام تجاویز کی گئی ہیں اور وہ حملے بھی میرے ذہن میں ہیں جو ابھی کئے نہیں گئے مگر دشمن کرے گا یا کر سکتا ہے اور دفاع کی تدابیر بھی موجود ہیں اور اسی کے سلسلہ میں میں نے یہ تجاویز پیش کی ہیں.کسی بات کو آخر وقت پر اختیار کرنا نظمندی کی علامت نہیں ہوتا.جو شخص بارش شروع ہونے کے بعد اس سے بچنے کیلئے عمارت بنائے ، جو آگ لگنے کے بعد کنواں کھودے کہ اس سے پانی لے کر آگ بجھائے اور جو بھوک لگنے کے بعد غلہ ہونے کیلئے جائے اس سے زیادہ احمق اور کوئی نہیں ہوسکتا.بارش سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے سے گھر تیار کیا جائے اور بھوک سے محفوظ ہونے کیلئے پہلے غلہ بوناضروری ہے اور جو شخص اپنے گھر کو آگ سے بچانا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ پانی کے پاس رہے تا آگ بجھا سکے.پس ضروری تھا کہ میں ان امور کو مد نظر رکھتا جو موجودہ جدوجہد کے لازمی نتائج ہیں.میں یقیناً جانتا ہوں کہ دشمن بھی یہ نہیں جانتا کہ اس کی تحریکات کے کیا نتائج پیدا ہونے والے ہیں؟ اللہ تعالیٰ ہی سب کچھ جانتا ہے اور وہ اپنے بندوں کو جس قدر مناسب سمجھے بتاتا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ان کے انسداد کے لئے کیا کرنا چاہئے؟ پس اس سکیم میں میں نے صرف حال کو ہی نہیں بلکہ استقبال کو بھی مدنظر رکھا ہے اور صرف یہی نہیں سوچا کہ موجودہ حملے سے کس طرح محفوظ رہا جائے بلکہ یہ بھی مد نظر ہے کہ آئندہ نتائج سے بھی جماعت کو بچایا جائے.گو یہ بات بھی ہے کہ بعض طبعی نتائج ایسے ہو سکتے ہیں جن کے لئے ہمیں مزید تدابیر اختیار کرنی پڑیں مگر یہ دور کی باتیں ہیں اس لئے ابھی میں ان کو چھوڑتا ہوں.کھانے کے متعلق میں نے بعض ہدایات دی تھیں.اس بارہ میں بعض سوالات کئے گئے ہیں ان کا اب جواب دیتا ہوں تا دوسرے لوگ بھی واقف ہو جائیں.80

Page 93

تحریک جدید- ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 7 دسمبر 1934ء ایک دوست نے سوال کیا ہے کہ عید کے موقع پر کیا ہوگا؟ یہ سوال پہلے ہی میرے ذہن میں تھا.اور میں نے پہلے ہی اس پر غور کیا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عیدین ہمارے کھانے پینے کے دن ہیں.پس اس حدیث کی بناء پر عیدین کیلئے وہی عہد کہ جو ہم نے دوسرے دنوں کے لئے کیا ہے اسی صورت میں جاری نہیں رہ سکتا.ہاں اس صورت میں وہ عیدوں کے لئے بھی ہے کہ عیدوں کے موقع پر بھی کھانے پینے میں کفایت کو مد نظر رکھا جائے.دوسرے دنوں کے لئے تو یہ ہے کہ صرف ایک ہی سالن استعمال کیا جائے یا جو میٹھا کھانے کے عادی ہیں وہ ایک ہی قسم کی کوئی میٹھی چیز بھی تیار کر لیں یا جو لوگ کبھی کبھار کوئی میٹھی چیز تیار کر لیتے ہیں وہ بھی کر سکتے ہیں لیکن روٹی کے ساتھ یا چاول کے ساتھ سالن ایک ہی ہونا چاہئے مگر عیدوں کے لئے یہ پابندی نہیں کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عیدیں کھانے پینے کے دن ہیں مگر یہ نہیں فرمایا کہ یہ اسراف کے دن ہیں اور یہ فرمانے سے کہ یہ کھانے پینے کے دن ہیں یہ مراد نہیں لیا جا سکتا کہ کھانا تو ایک ہی پکایا جائے لیکن کھا یا زیادہ جائے کیونکہ زیادہ کھانے سے بدہضمی کی شکایت ہوگی اور اسلام بیمار کر دینے کا حکم نہیں دے سکتا.پس اس کا مطلب یہی ہے کہ ہم عیدوں کے ایام میں ایک سے زیادہ کھانے کھا سکتے ہیں.عیدوں کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی کئی کھانے استعمال کر لیتے تھے اور پھر کئی دفعہ کھا لیتے تھے.بہر حال کفایت مد نظر ر ہے.پس عیدین کے متعلق میری ہدایت یہی ہے کہ ہمیشہ کی نسبت کھانوں میں کمی کی جائے جولوگ پانچ چھ کھانے تیار کرتے ہوں وہ چار کریں اور جو چار پانچ کرتے ہیں وہ تین چار کریں اور وہ لوگ بھی جو پنے گھروں میں اس سے کم پکاتے ہیں وہ بھی یہ امور مد نظر رکھیں کہ زیادہ خرج والے کھانے نہ پکائیں اور اتنا نہ پکائیں کہ کھانا بوجھ ہو جائے.حضرت خلیفہ اُسیح اول فرمایا کرتے تھے کہ ایک امیر نے آپ کے پاس شکایت کی کہ مجھے بھوک نہیں لگتی ، معدہ خراب ہے اور بہت دوائیاں استعمال کی ہیں مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا.آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ تم کیا کھاتے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ میں ہر طرح کوشش کرتا ہوں کہ کوئی چیز میری طبیعت کے موافق ہو تو میں پیٹ بھر کر کھاؤں اور اسی غرض سے میرے دستر خوان پر تمیں چالیس کھانے آتے ہیں اور میں سب کو چکھتا ہوں کہ کون سا مزیدار ہے تا اسے کھاؤں مگر با وجود اعلیٰ سے اعلیٰ کھانوں کی موجودگی کے کسی چیز کے کھانے کو دل نہیں چاہتا.حالانکہ بات یہ تھی کہ اتنے کھانے چکھنے سے ہی اس کا پیٹ بھر جاتا تھا.اگر ہر ایک کھانے سے چکھنے کیلئے دو دو لقے بھی لے تو آستی 80 لقمے 81

Page 94

خطبہ جمعہ فرموده 7 دسمبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول ہو گئے اور اسی لقمے کھانے کے بعد انسان اور کیا کھائے گا ؟ آپ فرماتے تھے کہ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور کہا کہ تمہاری سور ہضمی کا علاج بہت مشکل ہے اور میرے پاس اس کا کوئی علاج نہیں.اس چکھنے کو آپ چکھنا کہتے ہیں حالانکہ سو کے قریب لقے اسی طرح کھا جاتے ہیں.پس یہ احتیاط برتی جائے کہ کھانوں کی اقسام زیادہ نہ ہوں اور اتنا نہ ہو کہ ضائع جائے اور ایسے قیمتی کھانے نہ پکائے جائیں جن پر زیادہ خرچ آتا ہو لیکن عیدین کیلئے یہ پابندی نہیں کہ ایک سے زائد کھانے نہ کھائے جائیں.اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ضرور ایک سے زیادہ ہی پکائے جائیں اور جن کے گھروں میں دوسرے دنوں میں فاقہ ہوتا ہو وہ بھی عید کے روز ضرور ہی ایک سے زیادہ کھانے پکا ئیں بلکہ صرف یہ مراد ہے کہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عید میں ہمارے لئے کھانے پینے کے دن ہیں اس لئے عیدین کے موقع کو اس پابندی سے مستقلی سمجھا جائے گا کہ ضرور ایک ہی کھانا پکے اور اقتصاد کو مد نظر رکھنے کا عہد ان دنوں میں اسراف سے اجتناب کرنے کی صورت میں نباہا جائے گا بغیر کسی معین صورت پر عمل کرنے کے.عیدین کے موقعہ پر ایک اور وقت بھی ہے کہ دوست ایک دوسرے کو تحائف بھیجتے ہیں.یہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور میں اسے بھی روک نہیں سکتا اور اس طرح بھی ایک سے زیادہ کھانے کھانے پڑتے ہیں اس لئے میں منع نہیں کرتا اور یہی ہدایت دیتا ہوں کہ بیٹوظ رہے کہ جس قدر کفایت ممکن ہو کی جائے.بعض دوست سوال کرتے ہیں کہ بعض لوگ عادت یا بیماری کے علاج کیلئے بعض اشیاء استعمال کرتے ہیں، بعض ممالک میں دودھ ساتھ پیتے ہیں وہ کھانا دودھ کے ساتھ نہیں کھا سکتے مگر علیحد ہ دودھ ضرور پیتے ہیں.اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ دودھ پینے کی چیز ہے کھانے کی نہیں گو عربوں میں تو دودھ کھانے کے طور پر ہی استعمال ہوتا تھا اور جب کوئی دودھ پی لیتا تو سمجھ لیا جاتا کہ کھانا کھالیا مگر ہمارے ہاں یہ رواج نہیں.پس اگر کسی کی صحت پر اثر پڑتا ہو یا عادت ہو تو اس سے لطف پیدا نہیں ہوتا.اول تو دودھ ہمارے ملک میں صحت کیلئے ہی سب کو پینا پڑتا ہے کسی نے کسی وقت پی لیا اور کسی نے کسی وقت.عام طور پر زمیندار لوگ رات کو دودھ ضرور پیتے ہیں اور دوسرے بھی پیتے ہیں.شاید چند افراد میرے جیسے جنہیں ہضم نہیں ہوتا یاوہ لوگ جن کو میسر نہیں آسکتا نہ پیتے ہوں ورنہ عام طور پر لوگ پیتے ہیں.پس ایسے لوگوں کا سوال نہیں ان کو تو اجازت ہو تو بھی استعمال نہیں کر سکتے.مجھے دودھ ہضم ہی نہیں ہوتا حضرت خلیفہ اسی اول نے بہت جتن ) 83 82

Page 95

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 7 دسمبر 1934ء کئے اور فرمایا کہ مجھے نہ آتا ہے دودھ ضرور ہضم ہو جائے گا مگر آخر آپ تھک کر رہ گئے.میں تو زیادہ دودھ کی کچی لسی بھی نہیں پی سکتا اگر کبھی کسی بیماری کے علاج کے طور پر پینی پڑے تو اس طرح پیتا ہوں کہ دو تین پیچ دودھ کے اور ایک گلاس پانی اور اگر کبھی دودھ پی لوں تو فور اگلا خراب ہو جاتا ہے.پس بیمار کے لئے شرط کوئی نہیں اور یہ تو میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ جو چیز طبیب بتائے اس کے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں.یہ بات جو کھانے کے متعلق میں نے بتائی ہے یہ صحت کی درستی کے لئے ہے نہ کہ خرابی کیلئے اور صحت کیلئے اگر ڈاکٹر پانچ کھانے بھی بتائے تو وہ کھانے ضروری ہیں.یہ آگے ڈاکٹر اور اللہ تعالی کا معاملہ ہے کہ ڈاکٹر دیانت داری سے ایسا مشورہ دیتا ہے یا نہیں.امریکہ میں جن دنوں شراب کی ممانعت کا قانون رائج تھا لوگ ڈاکٹروں کو بڑی بڑی فیسیں دے کر سرٹیفیکیٹ لے لیتے تھے کہ صحت کے لئے شراب پینا ضروری ہے اور پھر اس اجازت کی آڑ میں خوب شراب پیتے تھے.پس اگر کوئی شخص ڈاکٹر کو ساتھ ملا کر ایسی اجازت حاصل کر لیتا ہے تو اس کا معاملہ اللہ تعالی کے ساتھ ہے اور ایسے لوگوں کا یہاں سوال نہیں یہاں تو اخلاص والوں سے خطاب ہے.ہمارے ملک میں کہا جاتا ہے کہ تالے تو بھلے مانسوں کے لئے ہوتے ہیں نہ کہ چوروں کے لئے چور تو انہیں جھٹ تو ڑ لیتے ہیں.اسی طرح ہمارے قوانین بھی مخلصین کے لئے ہیں جن کے اندر اخلاص نہیں ان کے لئے کوئی قانون نہیں.ایسا شخص اگر باہر آکر ہمارے سامنے ایک کھانا کھائے اور اندر کوٹھڑی میں جا کر پانچ سات کھانے کھالے تو اسے کون روک سکتا ہے؟ پس بیمار کے لئے پابندی نہیں.ہر شخص جسے ڈاکٹر کہتا ہے کہ اس کی صحت کی لئے ضروری ہے کہ وہ ایک سے زیادہ کھانے کھائے وہ زیادہ کھانے کھا سکتا ہے مگر یہ اپنا ہم نہ ہو بلکہ طبی خیال ہو اور بیمار کے لئے دہ سب چیزیں جائز ہیں جن کا طبیب حکم دے.فقہا نے تو بعض حالتوں میں بیمار کے لئے شراب کی بھی اور بعض نجس اشیاء کے استعمال کی بھی اجازت دی ہے اور جب ایسی چیزوں کی ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق اجازت ہے تو جائز چیزوں کی کیسے ممانعت ہو سکتی ہے؟ باقی رہاد ہی کا سوال ، بعض لوگ قبض دور کرنے کے لئے دہی استعمال کرتے ہیں انہیں اجازت ہے لیکن کیوں نہ ایسا کر لیا جائے کہ بجائے سالن کے ساتھ علیحد ہ دہی کھانے کے اس کو بلو کر پی لیا جائے.اس سے چسکا پورا کرنے کا سوال بھی پیدا نہ ہوگا اور عادت بھی پوری ہو جائے گی.اگر سور ہضمی کا اندیشہ ہو تو پانی نہ ڈالا جائے اور صرف بلو کر اسے پی لیا جائے.دہی روٹی کے ساتھ ہی کھانے سے فائدہ نہیں دیتا بلکہ اس طرح پی لینے سے بھی فائدہ ہوتا ہے.83

Page 96

خطبہ جمعہ فرموده 7 دسمبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول اس کے علاوہ زمینداروں کے متعلق ایک اور سوال ہے کہ ان کے کھیتوں میں مولیاں گاجریں ہوتی ہیں اور وہ ان کو بھی استعمال کر لیتے ہیں لیکن ان کیلئے وہ ایسی ہی ہیں جیسے شہروں کے رہنے والے لوگوں یا زمینداروں میں سے بھی امیر لوگوں کے لئے دودھ ہوتا یا پھل ہوتا ہے.اگر روٹی کھاتے وقت وہ ساتھ گاجر یا مولی رکھ لیں تو اس سے عیاشی نہیں ہو سکتی نہ ان کی بیویوں کو اس کے پکانے پر وقت صرف کرنا پڑتا ہے نہ ہی اسے کھانے کے لئے انہیں خرچ کرنا پڑتا ہے وہ یہ چیزیں بیچنے کیلئے ہوتے ہیں اس میں سے کوئی چیز اگر خود کھالی تو کوئی حرج نہیں.پس یہ ان کا جائز حق ہے بلکہ ضروری ہے کہ وہ ایسی چیزوں کا استعمال کیا کریں کیونکہ تر کاری کا استعمال صحت کے لئے ضروری ہوتا ہے اور دیہات میں لوگ سبزی تر کاری کم استعمال کرتے ہیں زیادہ تر دالیں وغیرہ ہی کھائی جاتی ہیں اور اگر زمیندار لوگ ایسی چیزیں کھا لیا کریں تو یہ ان کی صحت کو بھی بڑھانے کا موجب ہوگا اور دوسرا سالن نہیں کہلا سکے گا.چوتھی بات دعوت کے متعلق ہے.میں پہلے بھی اس کی اجازت دے چکا ہوں کہ دعوتوں کے موقع پر ایک سے زیادہ کھانے پکانے کی اجازت ہے.ہاں اپنے گھر کی دعوت میں کوشش یہ کرنی چاہئے کہ خود ایک ہی کھائیں اور اگر دوسرے کے ہاں دعوت ہو اور وہ بے تکلف ہو تو اس سے بھی کہہ دیا جائے کہ میں ایک ہی کھانا کھاؤں گا لیکن اگر دعوت کرنے والا بے تکلف نہ ہو اور اس کی طرف سے شکوہ کا ڈر ہو تو پھر متعدد کھانے بھی کھائے جا سکتے ہیں.مہمان کو کھلاتے وقت بھی یہی بات مد نظر رہے اگر مہمان ایسا ہو کہ ڈر ہو کہ وہ اسے برا منائے گا کہ میز بان خود ایک کھانا کھاتا ہے تو مہمان کے ساتھ سب کھانوں میں شریک ہو جائے.اگر اس کا خطرہ نہ ہو تو پھر خود ایک ہی کھانا کھائے اس کے آگے ایک سے زیادہ کھانے رکھ دے مگر جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں گو دعوتوں میں ایک سے زیادہ کھانوں کی اجازت ہے مگر اس میں بھی گزشتہ دستور سے کمی کی کوشش کی ضرورت ہے.میں سمجھتا ہوں اگر غیروں کے ہاں کی دعوتوں کے مواقع پر بھی ایک ہی کھانے پر اصرار کیا جائے تو اقتصادی فوائد کے علاوہ اس سے پروپیگنڈہ بھی بہت ہو سکتا ہے.مثلاً جب کوئی کہے گا کہ میں ایک ہی کھانا کھاؤں گا تو دوسرا شخص ضرور اس کی وجہ دریافت کرے گا کہ کیوں ایک ہی کھانا کھاؤ گے؟ اس کا جواب یہ دے گا کہ اس وقت اسلام اور سلسلہ احمدیہ جن حالات سے گزر رہا ہے وہ بہت پریشان کن ہیں اور ان کے لئے یہ موقع بہت نازک ہے اس لئے میر افرض ہے کہ اپنے آپ کو اس جنگ کے لئے تیار کروں جو اسلام اور سلسلہ کے وقار کے لئے ہمیں جلد لڑنی پڑے گی اور جفاکشی کی عادت ڈالنے اور چسکے سے بچنے 84

Page 97

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 7 دسمبر 1934ء کے لئے ہماری جماعت نے یہ تحریک کی ہے کہ صرف ایک ہی کھانا کھایا جائے تو میزبان کے دل میں ضرور احساس پیدا ہوگا اور یہ بھی ایک رنگ کی تبلیغ ہو جائے گی اور اگر وہ بھی اس تجویز پر عمل پیرا ہو گا تو اس کی اقتصادی حالت بھی درست ہو گی.میں دیکھ رہا ہوں کہ میری اس سکیم کا اثر غیروں پر بھی گہرا ہے.بہت سے لوگ مجھ سے خود ملے ہیں اور کئی خطوط بھی آتے ہیں.جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوؤں اور سکھوں میں بھی بعض لوگ تحریک کر رہے ہیں کہ ہم بھی اس پر عمل کریں اور میں نے دیکھا تو نہیں سنا ہے کہ بعض اخبارات نے بھی اس پر نوٹ لکھے ہیں.اس سکیم کے ضمن میں ایک اور بات ہے میں نے جو سادگی کی ہدایت کی ہے کہ کھانا سادہ اور لباس سادہ ہو اس کا اثر باہر کے احمدی تاجروں پر تو شاید اتنا نہ پڑے مگر قادیان کے تاجروں پر اس کا اثر زیادہ پڑے گا.ایک طرف تو ہم ان سے چندوں کی اپیلیں کرتے ہیں اور دوسری طرف ان کے گاہکوں کو کھانے اور لباس میں کمی کرنے کی تعلیم دے کر ان کی بکری کم کرتے ہیں.اس سے انہیں یقیناً نقصان ہوگا مگر جب میں نے یہ تحریک کی تھی تو اس کا علاج بھی ساتھ ہی سوچا تھا تا دوسرے ذرائع سے ان کو فائدہ پہنچ سکے.باہر جو احمدی دوکاندار ہیں ان کی دوکانیں احمدیوں کی بکری پر نہیں چلتیں بلکہ ان کے گاہک کو غیر لوگ بھی ہوتے ہیں بلکہ اگر ایک گاہک احمدی ہو تو دس بارہ دوسرے ہوتے ہیں اس لئے یہ تحریک باہر کے احمدیوں کو اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتی جتنا قادیان کے دوکانداروں کو.پھر باہر کے دوکانداروں کو احمدی گاہکوں کی کفایت سے جتنا نقصان پہنچے گا اس سے زیادہ وہ خود کفایت کر کے فائدہ اٹھا سکیں گے مگر قادیان کے احمدی دوکانداروں کی بکری نوے فیصدی احمدیوں سے ہوتی ہے اس لئے وہ ضرور توجہ کے مستحق ہیں اور اس لئے انہیں نقصان سے بچانے کیلئے میں نے دو تجاویز کی ہیں.ایک تجویز تو یہ ہے کہ یہاں ایک خاصہ طبقہ ایسے لوگوں کا ہے جو سودا سلف باہر سے خریدتا ہے.بعض لوگ تو کھانے پینے کی چیزیں بھی بٹالہ امرتسر سے خریدتے ہیں اور بعض کپڑا وغیرہ اور دیگر استعمال کی چیزیں بٹالہ، امرتسر یا لاہور سے خرید لیتے ہیں.بعض دفعہ اس لئے کہ یہاں مناسب چیزیں نہیں ملتیں اور بعض دفعہ اس لئے کہ باہر سے سنتی چیزیں مل جاتی ہیں یا مقابلہ اچھی مل جاتی ہیں.میں نے خود دیکھا ہے کہ جب لاہور وغیرہ شہروں میں جاتا ہوں تو خود بھی اور گھر کے لوگ بھی وہاں سے ضرورت کی چیزیں خرید لاتے ہیں.اگر چہ میں کھانے پینے کی چیز میں باہر سے نہیں منگوا تا مگر مجھے معلوم ہے کہ یہاں کے لوگوں کی کی 85

Page 98

خطبہ جمعہ فرمودہ 7 دسمبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول ایک کافی تعداد ہے جو کھانے پینے کی اشیاء بھی بٹالہ وغیرہ سے خریدتے ہیں اس لئے میں حکم تو نہیں دیتا مگر تحریک کرتا ہوں کہ جماعت کے ایسے دوست جنہیں اللہ تعالیٰ نے ملی مفاد کے سمجھنے کی توفیق دی ہو وہ سب چیزیں یہاں سے ہی خریدا کریں اگر اس سے انہیں کوئی نقصان ہوگا تو یہ نقصان بھی فائدہ کا ہی موجب ہوگا اس لئے جہاں تک ہو سکے یہاں کے دوکانداروں سے ہی چیزیں خریدا کریں.اس سلسلہ میں میں یہاں کے دوکانداروں سے بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے وہ چیزوں کی قیمت کم رکھا کریں اور تھوڑی بکری پر زیادہ منافع کا اصول نہ رکھیں بلکہ زیادہ بکری پر تھوڑے منافع کا اصول رکھیں دونوں طرح سے ان کے گھر میں اتنا ہی آجائے گا.پس وہ نفع کم لگائیں.دوسری تجویز اس سلسلہ میں یہ ہے کہ جو دوست باہر سے یہاں آتے ہیں وہ بھی ایسی چیزیں جو یہاں سے خرید کر لے جاسکیں جیسے کپڑے وغیرہ یہاں سے تیار کر لیا کریں.میری اس اقتصادی تعلیم سے انہیں جو تم بچے گی قادیان سے اشیاء خریدنے میں اگر اس میں سے کچھ حصہ خرچ ہو جائے تو بھی وہ نفع میں رہیں گے.میں نے اپنی ذات میں تو اس پر عمل بھی شروع کر دیا ہے.اب جو میں لاہور گیا تو گھر کے لئے بعض چیزوں کی ضرورت تھی میرے بچوں یا بیویوں نے کہا کہ فلاں فلاں چیز کی ضرورت ہے مگر جو چیزیں قادیان میں مل سکتی ہیں یا جن کے قائم مقام یہاں مل سکتے ہیں ان کے متعلق میں نے یہی کہا کہ وہ قادیان سے ہی جا کر خریدیں گے اس طرح قادیان کے دوکانداروں کا کچھ نقصان دور ہو جائے گا بلکہ ممکن ہے کہ بالکل ہی دور ہو جائے.اسی طرح جلسہ سالانہ یا مجلس شوری کے موقع پر جو لوگ آتے ہیں وہ سارے کے سارے بڑے شہروں کے رہنے والے ہی نہیں ہوتے بلکہ کئی ایسے مقامات پر رہائش رکھنے والے ہوتے ہیں جہاں چیزوں کی قیمتیں ایسی ہی ہوتی ہیں جیسی یہاں، وہ بھی اگر ایسی چیزیں جو آسانی سے ساتھ لے جاسکیں یہاں سے خرید لیں یا کپڑے یہاں سے بنوالیا کریں تو یہاں کے دوکانداروں کی بکری زیادہ ہوسکتی ہے.چودھری نصر اللہ خان صاحب مرحوم کئی دفعہ اپنے کپڑے یہاں سے بنوایا کرتے تھے.کسی نے ان سے کہا کہ آپ رہتے سیالکوٹ میں ہیں اور کپڑے یہاں سے بنواتے ہیں یہ کیا بات ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اس سے دُہرا ثواب مجھے مل جاتا ہے.اس سے قادیان میں روپیہ کے چلن میں زیادتی بھی ہو جاتی ہے اور بھائی کو فائدہ بھی پہنچ جاتا ہے.میں سمجھتا ہوں اگر چودھری صاحب مرحوم کے نقش قدم پر چلنے والے چند سو دوست بھی پیدا ہو جائیں تو قادیان کے دوکانداروں کا نقصان ہی دور نہیں ہو سکتا بلکہ انہیں فائدہ بھی پہنچ سکتا ہے.86

Page 99

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 7 دسمبر 1934ء دوسری نصیحت میں قادیان کے دوکانداروں کو یہ کرتا ہوں کہ انہیں سود استا خریدنے کی کوشش کرنی چاہئے.میں نے خود کئی دفعہ مقابلہ کیا ہے اور مجھے معلوم ہوا کہ یہاں کے بعض دوکاندار اشیاء مہنگی خریدتے ہیں.ایک دوست سے میں نے ایک دفعہ ایک چیز کا ریٹ دریافت کرایا تو اس نے بٹالہ یا امرت سر کا ریٹ سولہ روپیہ بتایا اور دوسرے نے کہا کہ نو یا دس روپیہ تک آ جائے گی اور اس نے اس سے بھی کم میں کہ جتنا بتایا تھالا کر بھی وہ چیز دے دی.چیز بھی نسبتا اچھی تھی اور میرا ذاتی تجربہ ہے کہ اگر چیز احتیاط سے خریدی جائے تو اچھی اور سستی مل جاتی ہے.میں جب ولایت جانے لگا تو میری ایک لڑکی جو اس وقت چھوٹی تھی رونے لگی میں نے اسے کہا کہ رو نہیں میں تمہارے واسطے اچھی سی گڑیا لاؤں گا.یہ وعدہ آتے وقت مجھے یاد آیا اور میں نے اس کے لئے ایک گڑیا کوئی چار روپیہ میں خریدی بعض دوستوں نے اسے دیکھا اور کہا کہ بڑی عجیب چیز ہے کتنے میں آئی ہے؟ میں نے انہیں کہا کہ میں نے قریباً چار روپیہ میں خریدی ہے مگر بازار میں گیارہ بارہ سے کسی طرح کم میں نہ آئے گی.ڈور کا سفر تھا اور دوسروں کے بھی پیچھے بچے تھے ایک دو کو خیال آیا کہ ہم بھی ایسی گڑیا لے چلیں وہ گئے اور واپس آکر کہنے لگے کہ یہ تو کہیں بھی سولہ شلنگ سے کم میں نہیں ملتی جو گیارہ روپے کے قریب بنتے ہیں.تو میں نے تجزیہ کیا ہے کہ اگر مجھے خود سود ا خریدنے کا موقع ملے تو چیز سستی مل جاتی ہے.ولایت کی ایک بڑی دوکان ہے جہاں سے بادشاہ اور ملکہ بھی سودا خریدتے ہیں میں نے وہاں سے ایک چیز خریدی.اُن کا دستور ہے کہ چیز کی قیمت کم نہیں کرتے مگر میں نے کم کرا کے خریدی.ایک انگریز نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے یہ چیز کہاں سے لی ہے میں نے اسے بتایا کہ فلاں دکان سے لی ہے اور قیمت کم کرا کے لی ہے وہ حیران ہوا اور کہنے لگا کہ وہاں تو قیمت کم کرنے کا کوئی نام لے تو وہ باہر نکال دیتے ہیں کہ تم ہماری ہتک کرتے ہو.تو انسان اگر ہوشیاری سے سودا خریدے تو ستا خرید سکتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ ایک صحابی کو ایک دینار دیا کہ ایک بکرا خرید لاؤ.وہ گیا اور واپس آکر بکرا بھی دے دیا اور دینار بھی.آپ نے فرمایا دینار کیسا واپس کر رہے ہو ؟ اس نے کہا کہ میں شہر سے ذرا دور چلا گیا تھا اور وہاں سے ایک دینار میں دو بکرے خریدے کیونکہ وہاں سستے ملتے تھے رستہ میں ایک شخص نے دریافت کیا کہ بکرے کا کیا لو گے؟ میں نے کہا ایک دینار اور یہاں چونکہ ایک دینار ہی کو بکرا ملتا ہے اس نے ایک دینار دے کر بکرا خرید لیا اس لئے دینار بھی حاضر ہے اور بکرا بھی.آپ نے اس کے لئے دعا کی کہ خدا تعالیٰ ہمیشہ اس کے سودے میں برکت دے اور صحابہ کا بیان ہے کہ وہ 87

Page 100

خطبہ جمعہ فرموده 7 دسمبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول اگر مٹی پر بھی ہاتھ ڈالتا تو سونا ہو جاتی.لوگ تجارت کے لئے اسے اس کثرت سے روپیہ دیتے کہ اسے انکار کرنا پڑتا مگر پھر بھی لوگ اس کی ڈیوڑھی میں پھینک کر چلے جاتے.تو اگر ہوشیاری سے چیز خریدی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ستی نہ ملے.بعض لوگ جاتے ہیں اور دکاندار سے کہہ دیتے ہیں کہ سستا سودا دینا اور سمجھ لیتے ہیں کہ ستا خریدنے کی ہم نے پوری کوشش کر لی.یہ سادگی ہے یا بد دیانتی کہ محنت نہ کی اور سمجھ لیا کہ کرلی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک سَابِقُونَ الاَوَّلُون صحابہ تھے جو بہت مخلص تھے مگر بہت سادہ طبیعت تھے وہ آتے وقت آپ کے لئے ضرور کوئی نہ کوئی پھل وغیرہ لے آتے مگر ان کے خریدنے کا طریق یہ تھا کہ دکان پر گئے اور کہا میاں اچھے سیب ہیں؟ اب دکاندار کیوں کہے گا کہ اچھے نہیں ہیں.وہ کہہ دیتا کہ ہاں بہت اچھے ہیں.یہ کہتے کیا بھاؤ دو گے؟ وہ اگر کہتا کہ روپیہ کے سولہ تو یہ کہتے کہ بارہ دو مگر اچھے چن کر دے دو میں نے اپنے پیر کے لئے لے جانے ہیں وہ وہی جو سولہ کے حساب سے دیتا اُٹھا کر دے دیتا اور وہ لے آتے.حالانکہ ان میں اتنی ہی اچھائی ہوتی تھی جتنی کہ اعلیٰ چیز اور اعلیٰ دوکان سے خریدنے میں ہو سکتی تھی.سولہ سے کم کر کے بارہ لینے میں انہیں کوئی زیادہ اچھی چیز نہ مل جاتی تھی.پس بے احتیاطی سے سودا خرید نا یا سادگی سے ہوتا ہے یا بد دیانتی سے.کوشش کر کے اور مختلف دوکانیں پھر کر اگر چیز خریدی جائے تو سستے داموں مل سکتی ہے.اب میں نے اس سکیم کے متعلق مجموعی طور پر اس کی وہ تفصیلات جو موجودہ حالات میں ضروری ہیں ، سب بیان کر دی ہیں اور اس میں میں نے مندرجہ ذیل امور مدنظر رکھے ہیں.(۱) یہ کہ جماعت کے اندر اور باہر ایسا ماحول پیدا ہو جائے کہ جس سے جماعت کی ذہنیت اور اقتصادی حالت اچھی ہو جائے.اچھی ذہنیت کے بغیر کام نہیں چل سکتا.اگر کسی شخص کے سامنے اعلیٰ سے اعلیٰ کھانا رکھا ہو مگر وہ یہ سمجھے کہ اچھا نہیں تو مزا نہیں اٹھا سکتا.جب سے ایک ہی سالن کھانے کی پابندی پر شدت سے عمل شروع کیا ہے، میں نے خود اس کا تجربہ کیا ہے.پہلے اگر دو سالن کبھی آتے تو کئی دفعہ ایک کو نا پسند اور دوسرے کو پسند کیا کرتا تھا، مگر جب ایک ہی کھانا ہو تو جن نقائص کو دو کی صورت میں زبان محسوس کرتی ہے وہ محسوس نہیں ہوتے کیونکہ جب زبان کو معلوم ہو کہ دوسرا نہیں ملنا تو اعتراض کا مادہ کم ہو جاتا ہے.پس ذہنیت بڑا بھاری اثر رکھتی ہے.کوئی غریب آدمی پیدل چلا جارہا ہو اور کوئی کمہارا سے کہے کہ پیدل کیوں چلتے ہو؟ آؤ میرے گدھے پر بیٹھ جاؤ تو اس کا دل باغ باغ ہو جائے گا اور وہ خیال کرے گا کہ 88

Page 101

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 7 دسمبر 1934ء اتنے میل پیدل چلنے سے بچ گئے لیکن اگر کوئی امیر آدمی جار ہا ہو اور اسے غصہ آ رہا ہو کہ نوکر کوگھوڑ الانے کا حکم دیا تھا وہ نہیں لایا یا کسی دوست رشتہ دار کو اطلاع دی تھی کہ فلاں جگہ پرگھوڑا بھیج دینا اور اس نے نہیں بھیجا اور وہی گدھے والا اسے کہے کہ آؤ میرے گدھے پر سوار ہو جاؤ تو وہ بجائے کسی جذ بہ امتنان کے اظہار کے اتنی مغلظات سنائے گا کہ شاید اسے کانوں میں انگلیاں دے لینی پڑیں اور اپنی ذہنیت کے بدلہ میں وہ امیر آدمی گدھے پر چڑھنے کی دعوت کا انکار کرتے کرتے خود گدھا بن جائے گا.تو ذہن کا اثر بڑی چیز ہے اگر ذہنیت تبدیل ہو جائے تو آدھی لڑائی فتح ہو سکتی ہے.کسی امیر آدمی کو جو ایک بزرگ سے اخلاص نہیں رکھتا اس کا مستعمل کپڑا دے کر دیکھو کسی قدر ناراض ہوگا لیکن اگر اخلاص ہو اور وہ سمجھے کہ مستعمل کپڑے میں برکت ہوگی تو خود لجاجت کر کے لے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک صحابی ایک جنگ میں قید ہو کر مکہ میں پہنچے.کفار نہیں طرح طرح کے دکھ دیتے تھے اور مار دینے کا فیصلہ کر چکے تھے.ایسی حالت میں ان سے کسی نے کہا کہ کیا تمہارے نزدیک اچھا نہ ہوتا کہ تم مدینہ میں آرام سے اپنے گھر میں بیٹھے ہوتے اور تمہاری جگہ یہاں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہوتے ؟ اگر ان صحابی کے دل میں اخلاص نہ ہوتا تو وہ کہتے کہ میرے ایسے نصیب کہاں ؟ مگر انہوں نے جواب دیا کہ تم تو یہ کہتے ہو مگر میں تو یہ بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ میں گھر میں آرام سے بیٹھا ہوں اور محمد رسول اللہ ﷺ کے پاؤں میں مدینہ ہی کی کسی گلی میں کانٹا چبھ جائے ! ہمارے صلى الله پیر ہر اس کانٹے کی جستجو کرتے ہیں جو آپ ﷺ کے پاؤں میں چھنے والا ہو.غرض ذہنیت کے تغیر سے بہت بڑا تغیر ہو جاتا ہے.ایک شخص جو پانسور و پیہ ماہوار تنخواہ لیتا ہے اگر تنزل کر کے اس کی تنخواہ چار سو روپے کر دی جائے تو اس کے ہاں ماتم بپا ہو جائے گا اور وہ بے چین ہو جائے گا کہ اب خرچ کیونکر چلے گا؟ لیکن اگر ایک تین سو ماہوار پانے والے کی تنخواہ چار سو کر دی جائے تو وہ اور اس کے گھر والے خوشی سے اچھلتے پھریں گے اور سمجھیں گے کہ اب خوب آرام سے گزر ہوگی.پس اس سکیم میں اول تو میرے مد نظر یہ بات ہے کہ ذہنیت میں ایسا تغییر کروں کہ جماعت خدمت دین کے لئے تیار ہو جائے اور آئندہ ہمیں جو قدم اٹھانا پڑے اسے بوجھ نہ خیال کیا جائے بلکہ بشاشت کے ساتھ اُٹھایا جا سکے.ذہنیت کے بدلنے کے ساتھ ساتھ ماحول کا تغیر بھی میرے مد نظر ہے یعنی اقتصادی حالت کی درستی اور مشقت کی عادت.میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ جو لوگ عمدہ عمدہ کھانے اور عمدہ لباس پہننے کے عادی ہوں وہ اگر ضرورت پڑے تو باہر خدمت دین کے لئے نہیں جا سکتے.امیروں کی اولا د عام طور پر نیکی 89

Page 102

خطبہ جمعہ فرموده 7 دسمبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول سے محروم رہ جاتی ہے.اول تو والدین کی حد تک پہنچنا یوں بھی مشکل ہوتا ہے لیکن جب جفاکشی کی عادت نہ ہو تو بالکل ہی اچھے کام نہیں کر سکتے.میں نے اس سکیم میں اس بات کو مد نظر رکھا ہے کہ ایسا ماحول پیدا کر دیا جائے کہ ان کے اندر اچھے کام کرنے کی اہلیت پیدا ہو جائے.دوسری بات میرے مدنظر یہ ہے کہ ہر طبقہ کے لوگوں کو یہ احساس کرا دیا جائے کہ اب وقت بدل چکا ہے اس سکیم کا اثر سب ہی پر پڑے گا.جو شخص زیادہ کپڑے بنوانے کا عادی ہے جب وہ جا کر اب اور کپڑا خریدنے لگے گا تو معاً اسے خیال آئے گا کہ اب ہماری حالت بدل گئی ہے، جب بھی بیوی سبزی تر کاری کے لئے کہے گی اور دو تین کے بجائے صرف ایک ہی منگوانے کو کہے گی تو فوراً اسے خیال آجائے گا کہ اب ہمارے لئے زیادہ قربانیاں کرنے کا وقت آ گیا ہے جب بھی نو کر کھانا پکانے لگے گا اور صرف ایک ہنڈیا چڑھائے گا اسے محسوس ہو جائے گا کہ اب اس گھر کی حالت بدل گئی ہے.غرضیکہ کوئی حصہ ایسا نہیں جس میں احساس نہ پیدا ہو گا کہ اب جماعت کی حالت بدل گئی ہے اور اسے بھی اپنی حالت کو بدل لینا چاہئے ورنہ تم جماعت کا مخلص حصہ نہیں سمجھے جاؤ گے.تیسری بات میں نے یہ مد نظر رکھی ہے کہ جس قدر اطراف سے سلسلہ پر حملہ ہو رہا ہے سب کا دفعیہ ہو.اب تک ہم نے بعض رستے چن لئے تھے اور کچھ قلعے بنا لئے تھے مگر کئی حملے دشمن کے اس لئے چھوڑ دیتے تھے کہ پہلے فلاں کو دور کر لیں پھر اس طرف توجہ کریں گے مگر اس سکیم میں اب میں نے یہ مد نظر رکھا ہے کہ حتی الوسع ہر پہلو کا دفعیہ کیا جائے اور کوئی حملہ ایسا نہ ہو جس کے جواب کے لئے ہم تیار نہ ہوں.مثلاً یہ بھی ہم پر ایک حملہ تھا کہ کانگرسی کھدر پہنتے ہیں اور آپ کی جماعت مذہبی جماعت ہوتے ہوئے اس قدر قربانی نہیں کرتی ؟ ہم جواب دیتے تھے کہ کانگری وہ روپیہ جوکھدر پہننے سے بچتا ہے کانگرس کو نہیں دے دیتے لیکن ہماری جماعت تو اس قدر مالی قربانی کرتی ہے کہ کانگرس والے اس کا عشر عشیر بھی پیش نہیں کر سکتے مگر یہ جواب گو درست تھا مگر سوال کا پہلو بچا کر دوسرے رنگ میں دیا جاتا تھا.اس جہت سے ہم کوئی جواب نہ دے سکتے تھے جس طرف سے کہ یہ حملہ کیا جاتا تھا مگر اب ہم کہیں گے کہ صرف کھدر پہننا کوئی عقلمندی نہیں عقلمندی یہ ہے کہ اقتصادی حالت کو درست کیا جائے اور ہم نے ایسا عہد کیا ہے کہ جس سے ہماری اقتصادی حالت درست ہو جائے.مثلاً بیش قیمت لباس نہ استعمال کیا جائے ، گوٹہ کناری اور فیته، لیس وغیرہ نہ خریدے جائیں.کانگریس کھدر کے ساتھ ایسی سب چیزیں استعمال کر لیتے تھے مگر ہم نے یہ سب چیزیں چھوڑ دی ہیں.اسی طرح ہم نے کپڑوں میں کفایت کے علاوہ کھانے ، شادیوں اور 90

Page 103

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 7 دسمبر 1934ء دعوتوں میں بھی تغیر کر دیا ہے.پس اب ہم ان کے اصول کو صحیح قرار دیتے ہوئے بھی جواب دے سکتے ہیں.چوتھی بات میں نے یہ مد نظر رکھی ہے کہ سلسلہ کی طرف سے پہلے ہم نے ایک دور سے مقرر کر رکھے تھے اور انہی راہوں سے دشمن پر حملہ کرتے تھے اور باقی کو یہ کہ کر چھوڑ دیتے تھے کہ ابھی اور کی توفیق نہیں مگر اب سکیم میں میں نے یہ بات مد نظر رکھی ہے کہ حملے وسیع ہوں اور بیسیوں جہات سے دشمن پر حملے کئے جائیں.ہمارے حملے ایک ہی محاذ پر محدودنہ ہوں بلکہ جس طرح دفاع کے لئے ہم مختلف طریق اختیار کریں اسی طرح حملہ کے لئے بھی مختلف محاذ ہوں.پانچویں بات یہ ہے کہ مغربیت کے بڑھتے ہوئے اثر کو جو دنیا کو کھائے جاتا ہے اور جو دجال کے غلبہ میں محمد ہے اسے دور کیا جائے.اس سلسلہ میں میں نے عورتوں کی تعلیم کے سلسلہ میں کچھ عرصہ ہوا ایک لیکچر دیا تھا اگر چہ مجھے افسوس ہے کہ ہمارے کارکنوں نے اس سے فائدہ نہیں اُٹھایا اور سکول میں لڑکیوں کی تعلیم کو اس طرز پر نہیں بدلا جو میں نے بتائی تھی مگر میں نے اپنے گھر میں اسے رائج کر دیا ہے اور ڑکیوں کو سکول سے ہٹا کر ایسے رنگ میں انہیں گھر پر تعلیم دلانی شروع کر دی ہے کہ تا ایک طرف انگریزی بولنی اور معنی آجائے دوسری طرف دینی تعلیم اور اُردو زبان کی تعلیم زیادہ ہو.سکولوں میں گون انگریزی اور اس کے لوازمات پر زور دیا جاتا ہے مگر پھر بھی طالبات کو انگریزی بولنی نہیں آتی حالانکہ کسی زبان کے سیکھنے میں اصول یہ ہونا چاہئے کہ طالب علم اس میں گفتگو کر سکے مگر سکولوں کی تعلیم سے یہ غرض حاصل نہیں ہوتی استانیوں کو بھی بولی نہیں آتی تو لڑکیاں کس طرح سیکھیں گی ؟ بلکہ میں نے دیکھا ہے لڑکوں کو بھی انگریزی بولنی نہیں آتی مگر میں نے اپنے گھر میں اس طرز پر تعلیم شروع کرائی ہے کہ انگریزی بولنے کی مشق ہو اور باقی تعلیم دینی ہو.گوبچوں کی تعلیم پر مجھے ایک بہت بڑی رقم خرچ کرنی پڑتی ہے کیونکہ کئی استاد اور استانی رکھنی پڑتی ہے اور بوجھ نا قابل برداشت ہوتا ہے مگر مقصود روپیہ سے زیادہ قیمتی ہے اور جب تک ہمارے زنانہ سکول کی حالت نہ بدلے ایسا کرنا پڑے گا.اس وقت میں نے اس امر کو پھر دوہرا دیا ہے تا لوگوں کو معلوم رہے کہ لڑکیوں کی موجودہ تعلیم کا میں سخت مخالف ہوں تا دوسرے مخلصین اگر صحیح طرزا بھی اختیار نہ کر سکیں تو بھی ان کے دل میں یہ خلش ضرور ہو کہ ہم نے اسے بدلنا ہے.غرض مغربیت کے اثر کو زائل کرنا بھی اس سکیم میں میرے مد نظر ہے اور جوں جوں وہ زائل ہوتا جائے گا اسلام کی محبت اور اس کا دخل بڑھتا جائے گا اسی لئے میں نے ہاتھ سے کام کرنے اور ایک ہی سالن کھانے کی عادت ڈالنے کی ہدایت کی ہے یہ دونوں باتیں مغربیت کے خلاف ہیں.91

Page 104

خطبہ جمعہ فرمودہ 7 دسمبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول چھٹی بات یہ ہے کہ اللہ تعالی کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے زیادہ جدو جہد کی جائے کیونکہ ہماری فتح اسی سے ہو سکتی ہے اسی لئے دعا کرنا میں نے اپنی سکیم کا ایک جزو رکھا ہے.اس کی غرض یہی ہے کہ ہماری تمام ترقیات اسی سے وابستہ ہیں اور جب ہمارے اندر سے غرور نکل جائے اس وقت اللہ تعالی کا فضل نازل ہو سکتا ہے.اللہ تعالیٰ کو یہی پسند ہے کہ امن کی بنیاد ایسے اصول پر قائم ہو کہ انسانیت کے لحاظ سے سب برابر ہوں.اس سکیم میں میں نے یہ بات بھی مدنظر رکھی ہے کہ امیر وغریب کا بعد دور ہو مثلاً بعض گھر ایسے ہوتے ہیں جہاں مہمان زیادہ آتے ہیں وہ چار پانچ کھانے پکاتے ہیں اور جو مہمان بلند پایہ ہوں انہیں میز پر اپنے ساتھ بلا کر کھانا کھلا لیتے ہیں اور جو ذرا کم درجہ کے ہوں انہیں کہہ دیا جاتا ہے کہ آپ اپنے کمرہ میں تشریف رکھیں وہیں کھانا آپ کو پہنچ جائے گا مگر جب ایک ہی سالن پکے گا تو اس کی بھی ضرورت نہ ہوگی.ساتویں بات اس سکیم میں میرے مدنظر یہ ہے کہ جماعت کے زیادہ سے زیادہ افراد کو تبلیغ کیلئے تیار کیا جائے.پہلے سارے اس کے لئے تیار نہیں ہوتے اور جو ہوتے ہیں وہ ایسے رنگ میں ہوتے ہیں کہ مبلغ نہیں بن سکتے.اول تو عام طور پر ہماری جماعت میں تبلیغ کا انحصار مبلغوں پر ہی ہوتا ہے وہ آئیں اور تقریریں کر جائیں.ان کے علاوہ انصار اللہ ہیں مگر وہ ارد گرد جا کر تبلیغ کر آتے ہیں اور وہ بھی ہفتہ میں ایک بار! اس سے تبلیغ کی عادت پیدا نہیں ہو سکتی اور نہ ہی تبلیغ کرنے کا ہنر آتا ہے کسی بات کو سیکھنے کے لئے تسلسل اور تواتر سے کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.میرے پاس موٹر ہے اور میں نے کئی بار کوشش کی ہے کہ اسے چلانا سیکھ لوں اور جب بھی سفر پر جاتا ہوں تو اس کی مشق شروع کرتا ہوں مگر واپس آکر چھوڑ دیتا ہوں اور پھر اگر کبھی باہر جانے کا موقع ملا تو اسے شروع کیا اور اس طرح میں چار سال میں بھی موٹر چلانا نہیں سیکھ سکا لیکن اگر چار سال کی جگہ چار دن مسلسل سیکھتا تو سیکھ لیتا.پس اب میں نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ تین ماہ کے لئے جو دوست فراغت حاصل کر سکیں وہ تبلیغ کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں اور اس طرح متواتر تین ماہ تک گھر سے دور جا کر تبلیغ کریں.اپنے گاؤں کے ارد گرداگر ایک تبلیغی وفد بن کر چلا بھی جائے تو اگر کسی مخالف کو غصہ بھی آئے تو وہ یہ خیال کر کے چپ ہو رہے گا کہ یہ زیادہ آدمی ہیں ایسا نہ ہو ماریں اور اس طرح ان کو تبلیغ کی ٹرینگ نہ ہوگی مگر جب اپنے ماحول سے دور جا کر اور مسلسل طور پر ایک شخص کام کرے گا تو اسے مبلغ والی صحیح تربیت حاصل ہوگی.پس اس سکیم میں یہ بھی میرے مد نظر ہے کہ تبلیغ کا دائرہ زیادہ سے زیادہ وسیع کیا جائے اور ایسے مبلغ پیدا کئے جائیں جو بغیر معاوضہ کے تبلیغ کریں.92

Page 105

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 7 دسمبر 1934ء آٹھویں بات اس سکیم میں میرے مدنظر یہ ہے کہ مرکز کو ایسا محفوظ کیا جائے کہ وہ بیرونی حملوں سے زیادہ سے زیادہ محفوظ ہو جائے.اس بات کو اچھی طرح سوچنا چاہئے کہ ایک سپاہی اور جرنیل میں کتنا فرق ہے مگر یہ فرق ظاہر میں نظر نہیں آتا.مثال کے طور پر آنکھوں کو لے لو، سپاہی اور جرنیل کی آنکھ میں کیا فرق ہے سوائے اس کے کہ سپاہی کی نظر تیز ہوگی اور جرنیل بوجہ بڑھاپے کے اس قدر تیز نظر نہ رکھتا ہوگا ، اسی طرح دونوں کے جسم میں کیا فرق ہے سوائے اس کے کہ سپاہی نوجوان اور مضبوط ہونے کی وجہ سے زیادہ بوجھ اٹھا سکتا ہے اور جرنیل اس قدر نہیں اٹھا سکتا یا سپاہی زیادہ دیر بھوک برداشت کر سکتا ہے اور جرنیل ایسا نہیں کر سکتا.مگر باوجود اس کے جرنیل کی جان ہزاروں سپاہیوں سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے اور بعض دفعہ ساری کی ساری فوج اسے بچانے کیلئے تباہ ہو جاتی ہے.نپولین کو جب انگریزوں اور جرمنوں کی متحدہ فوج کے مقابل میں آخری شکست ہوئی ہے تو اس وقت اس کی فوج کے ایک ایک سپاہی نے اسی خواہش میں جان دے دی کہ کسی طرح نپولین کی جان بچ جائے کیونکہ ہر ایک یہی سمجھتا تھا کہ اگر نپولین بچ گیا تو فرانس بھی بچ جائے گاور نہ مٹ جائے گا.نپولین کا جو گارڈ تھا وہ چنندہ بہادروں پر مشتمل تھا اور اس کے سب سپاہی اس قدر بہادر تھے کہ یورپ میں ضرب المثل تھی کہ نپولین کا گارڈ جب حرکت میں آتا ہے تو زمین ہل جاتی ہے.جب واٹرلو کے میدان میں جنگ کا پہلو فرانسیسیوں کے حق میں خراب نظر آنے لگا تو گارڈ آگے بڑھے اُس دن انگریز اور جرمن بھی یہ سمجھ کر لڑ رہے تھے کہ اگر آج شکست ہوگئی تو دنیا میں ہم زندہ نہ رہ سکیں گے اس لئے وہ بھی سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے اس لئے جب گارڈ نے حملہ کیا تو انگریزی فوج اس کے صدمات کو جرات سے سہ گئی اور گارڈ کا پہلا حملہ ناکام رہا تو فرانسیسیوں کیلئے خطرہ اور بھی بڑھ گیا اتنے میں گولہ بارود بھی فرانسیسیوں کا ختم ہو گیا اور گارڈ کو تلواروں اور کر چوں سے لڑنا پڑا وہ گولیاں کھا کھا کر گر رہے تھے مگر پیچھے نہ ہٹتے تھے.لکھا ہے کہ اس وقت کسی نے انہیں کہا کہ تم بندوقیں کیوں استعمال نہیں کرتے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے پاس گولی بارود نہیں.اس نے کہا پھر بھاگتے کیوں نہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ بھا گنا ہمیں نپولین نے سکھایا نہیں اور اس وقت بعض فرانسیسی افسر آگے بڑھے اور نپولین کے گھوڑے کی باگ پکڑ کر اسے موڑ نا چاہا اور اس سے درخواست کی کہ آپ واپس لوٹیں.اس نے جواب دیا کہ میں کس طرح لوٹ سکتا ہوں جب میرے سپاہی جانیں دے رہے ہیں ؟ مگر انہوں نے کہا کہ کہ فرانس کی عزت آپ سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ آپ واپس لوٹیں تو بعض دفعہ بعض چیزوں کو ایسی اہمیت حاصل ہوتی ہے کہ ان کے مٹنے کے بعد شان قائم نہیں رہ سکتی.93

Page 106

خطبہ جمعہ فرموده 7 دسمبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول پس قادیان اور باہر کی اینٹوں میں فرق ہے.اس مقام کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں اسے عزت دیتا ہوں جس طرح بیت الحرم، بیت المقدس یا مدینہ و مکہ کو برکت دی ہے اور اب اگر ہماری غفلت کی وجہ سے اس کی تقدیس میں فرق آئے تو یہ امانت میں خیانت ہوگی اس لئے یہاں کی اینٹیں بھی انسانی جانوں سے زیادہ قیمتی ہیں اور یہاں کے مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے اگر ہزاروں احمدیوں کی جانیں بھی چلی جائیں تو پھر بھی ان کی اتنی حیثیت نہ ہوگی جتنی ایک کروڑ پتی کیلئے ایک پیسہ کی ہوتی ہے.پس قادیان اور قادیان کے وقار کی حفاظت زیادہ سے زیادہ ذرائع سے کرنا ہمارا فرض ہے.نویں بات اس میں میرے مد نظر یہ ہے کہ جماعت کو ایسے مقام پر کھڑا کر دیا جائے کہ اگلا قدم اٹھا نا سہل ہو.میں نے اس سکیم میں اس بات کو مد نظر رکھا ہے کہ اگر آئندہ اور قربانیوں کی ضرورت پڑے تو جماعت تیار ہو اور بغیر مزید جوش پیدا کرنے والی تحریکات کرنے کے جماعت آپ ہی آپ اس کے لئے آمادہ ہو.دسویں بات اس میں میں نے یہ مدنظر رکھی ہے کہ ہماری جماعت کا تعلق صرف ایک ہی حکومت سے نہر ہے.اب تک ہمارا حقیقی تعلق صرف ایک ہی حکومت سے ہے سوائے افغانستان کے جہاں ہماری جماعت اپنے آپ کو ظاہر نہیں کر سکتی اور احمدی کام نہیں کر سکتے.باقی سب مقامات پر جہاں جہاں زیادہ اثر رکھنے والی جماعتیں ہیں.مثلا ہندوستان، نائیجیریا، گولڈ کوسٹ ،مصر، سیلون، ماریشس وغیرہ مقامات پر وہ سب برطانیہ کے اثر کے نیچے ہیں دیگر حکومتوں سے ہمارا تعلق نہیں سوائے ڈچ حکومت کے مگر ڈچ بھی یورپین ہیں اور یورپیوں کا نقطہ نگاہ ایشیائی لوگوں کے بارہ میں جلدی نہیں بدلتا.ہمیں ایسی حکومتوں سے بھی لگاؤ پیدا کرنا چاہئے جن کی حکومت میں ہم شریک ہوں یا جو ہم پر حکومت کرنے کے باوجود ہمیں اپنا بھائی سمجھیں.مشرقی خواہ حاکم ہو مگر وہ حکوم کو بھی اپنا بھائی سمجھے گا.اسی طرح جنوبی امریکہ کے لوگ ہیں انہوں نے بھی چونکہ کبھی باہر حکومت نہیں کی اس لئے وہ بھی ایشیائی لوگوں کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں.پس اس سکیم میں میرے مد نظر ایک بات یہ بھی ہے کہ ہم باہر جائیں اور نئی حکومتوں سے ہمارے تعلقات پیدا ہوں تا ہم کسی ایک ہی حکومت کے رحم پر نہ رہیں.یوں تو ہم خدا تعالی کے ہی رحم پر ہیں مگر جو حصہ تدبیر کا خدا نے مقرر کیا ہے اسے اختیار کرنا بھی ہمارا فرض ہے اس لئے ہمارے تعلقات اس قدر وسیع ہونے چاہیں کہ کسی حکومت یا رعایا کے ہمارے متعلق خیالات میں تغیر کے باوجود بھی جماعت ترقی کر سکے.94

Page 107

تحریک جدید- ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 7 دسمبر 1934ء گیارھویں بات یہ مدنظر ہے کہ آئندہ نسلیں بھی اس درد میں ہماری شریک ہوسکیں.اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ ایک نعمت دی ہے کہ ہمارے دلوں میں درد پیدا کر دیا ہے.گورنمنٹ نے جو ہماری ہتک کی یا احرار نے جو اذیت پہنچائی اس کا یہ فائدہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ ہمارے دلوں میں درد کی نعمت پیدا کر دی اور وہی بات ہوئی جو مولا نا روم نے فرمائی ہے کہ ہر بلا کیں قوم را حق داده است زیر آن گنج کرم بنهاده است یعنی ہر آفت جو مسلمانوں پر آتی ہے اس کے نیچے ایک خزانہ مخفی ہوتا ہے.پس یقینا یہ بھی ایک خزانہ تھا جو خدا تعالیٰ نے ہمیں دیا کہ جماعت کو بیدار کر دیا اور جو لوگ ست اور غافل تھے ان کو بھی چوکنا کر دیا.پس یہ ایک ایسا واقعہ تھا جو د نیوی نگاہ میں مصیبت تھا مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک رحمت تھا اور میں نے نہیں چاہا کہ اس سے صرف موجودہ نسل ہی حصہ لے بلکہ یہ چاہا ہے کہ آئندہ نسلیں بھی اس سے حصہ پائیں اور میں نے اس سکیم کو ایسا رنگ دیا ہے کہ آئندہ نسلیں بھی اس طریق پر نہیں جو شیعوں نے اختیار کیا ہے بلکہ عقل سے اور اعلیٰ طریق پر جو خدا کے پاک بندے اختیار کرتے آئے ہیں اسے یادر کھ سکیں اور اس سے فائدہ اٹھا سکیں.اس کے علاوہ اور بھی فوائد ممکن ہے اس میں ہوں مگر یہ کم سے کم تھے جو میں نے بیان کر دیئے ہیں یا یوں کہو کہ یہ سکیم کا وہ حصہ ہے جو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے بتایا.اس سکیم کے ثواب کو وسیع اور فائدہ کو زیادہ کرنے کے لئے اس میں مندرجہ ذیل امور ہیں.اول ایک سالن کھانا: اس میں سب شامل ہو سکتے ہیں ، امیر زیادہ کو کم کر کے ایک کھا سکتا ہے اور غریب تو کھاتا ہی ایک ہے.بعض غریب خیال کرتے ہیں کہ ہمیں اس میں شامل ہونے کی ضرورت نہیں مگر ایسا خیال کرنے والوں نے دراصل اس سکیم کے مغز کو نہیں سمجھا حالانکہ ان کا حق زیادہ ہے کہ ثواب میں شریک ہوں.ثواب ہمیشہ نیت کا ہوتا ہے عمل کا نہیں.دنیا میں کون ہے جو اپنی بیوی سے پیار نہیں کرتا اور وہ کون مؤمن ہے جو اپنی بیوی سے حسن سلوک نہیں کرتا ؟ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کے منہ میں اس لئے لقمہ ڈالتا ہے کہ اسے ثواب حاصل ہو، اس کیلئے ایک نیکی لکھی جاتی ہے.پس جو کام یوں بھی کئے جاتے ہیں وہ نیت کر لینے سے نیکی بن جاتے ہیں.جولوگ ایک ہی سالن کھاتے ہیں وہ پہلے مجبوری سے کھاتے تھے مگر اب اگر نیت کر لیں تو یہی مجبوری ان کے لئے نیکی بن جائے گی اس لئے کوئی ایسا شخص نہیں جو اس میں شامل نہ ہو سکتا ہو بلکہ غربا زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں.کئی امیر ایسے 95

Page 108

خطبہ جمعہ فرموده 7 دسمبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول ہو سکتے ہیں جو اپنے دل میں یہ کہتے ہوں گے کہ ہم تو تین چار سے کم سالن پر گزارہ نہیں کر سکتے اور پھر وہ زبان سے اعتراض کریں گے کہ گاندھی جیسی تحریکیں شروع کر دی ہیں لیکن وہ غریب جسے یہ پتہ لگے کہ اس مجبوری کی حالت سے وہ ثواب حاصل کر سکتا ہے اور پھر بھی نہ کرے تو اس سے زیادہ بے وقوف کون ہو سکتا ہے اور ایسے غریب کی مثال تو اس شخص کی ہوگی جو گرمیوں کے موسم میں دھوپ میں بیٹھا تھا کسی نے اس سے کہا کہ میاں اٹھ کر سائے میں ہو جاؤ تو وہ کہنے لگا کیا دو گے؟ تو جو لوگ کھاتے ہی ایک سالن ہیں ان کا کیا حرج ہے کہ اسے عبادت بنالیں؟ جو غربا کا خیال کرتے ہیں کہ یہ ہدایت امیروں کے لئے ہی ہے، انہیں یا د رکھنا چاہئے کہ بے شک امیر کے لئے ظاہری قربانی ہے مگر دل کی قربانی تو غریب کے لئے بھی ہے.غریب سے غریب آدمی جسے فاقے بھی آجاتے ہوں اس پر بھی کبھی نہ کبھی ایسا موقع ضرور آ جاتا ہے کہ دو کھانے کھا سکے کبھی کوئی دوست تحفہ ہی بھیج دیتا ہے کبھی کوئی سبزی ترکاری اپنے کھیت میں سے یا اگر اپنی نہ ہوئی تو ہمسایہ سے مانگ کر ہی پکائی جاتی ہے، کچھ ساگ پکا لیا، کچھ دال بھی آلو بھی پکالئے اور شلغم بھی تو اس طرح غریب بھی بعض اوقات دو بھا جیاں بنا لیتے ہیں.گوان میں گوشت نہیں ہوتا مگر ہنڈیاں دو کئی دفعہ وہ بھی پکا لیتے ہیں.اب اگر ایسا شخص جسے کبھی کبھی ایسا ملتا ہے دوسرا سالن یا تر کاری چھوڑ دے تو اس کی یہ قربانی اس امیر سے زیادہ ہے جسے روز کا چسکا ہے.پس غریب یہ نہ سمجھیں کہ وہ اس میں شامل نہیں ہو سکتے ، ہو سکتے ہیں اور ان کے لئے ثواب کے حصول کا ویسا ہی موقع ہے جیسا امرا کے لئے ، اس لئے جماعت کے ہر فرد کو اس میں شامل ہونے کا عہد کرنا چاہئے.میں نے کہا تھا کہ جو دوست اس میں شامل ہوں وہ مجھے اطلاع دیں لیکن میں جانتا ہوں کہ بیسیوں لوگ ایسے ہیں جنہوں نے عہد تو کیا ہے مگر مجھے اطلاع نہیں دی.قادیان کے صرف دو محلوں نے بحیثیت مجموعی اس کی اطلاع دی ہے ایک دَارُ السَّعَة اور ایک دارالرحمت محلہ دار الرحمت ہر تحریک میں دوسروں سے آگے رہتا ہے مگر اس تحریک میں دَارُالسَّعَہ بھی سبقت لے گیا ہے.باقی کسی محلہ نے محلہ کے طور پر اطلاع نہیں دی.(اس عرصہ میں دار البرکات نے بھی اطلاع دے دی ہے.فجزاهم الله احسن الجزاء.) اگر چہ مجھے معلوم ہے کہ بیسیوں افراد ہیں جنہوں نے اس میں حصہ لیا ہے ان کے اطلاع نہ دینے کی دوہی و جہیں ہو سکتی ہیں یا تو یہ کہ وہ ڈرتے ہیں کہ شاید یہ عہد ٹوٹ نہ جائے اور یا پھر یہ کبر کی علامت ہے جب میں نے کہا ہے کہ وہ اطلاع دیں تو کیوں نہیں دیتے ؟ دوسری بات میں نے غربا کو شامل کرنے کیلئے یہ کہی ہے کہ ہاتھ سے کام کرنے کی عادت پیدا کی 96

Page 109

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 7 دسمبر 1934ء جائے.غربا پہلے بھی ایسا کرتے ہیں مگر مجبوری کے ماتحت.اب وہ یہ کہیں گے کہ چونکہ مذہبی اخلاق کے حصول اور قومی ترقی کے لئے ہمیں یہ ہدایت ہے اس لئے ہم ایسا کرتے ہیں.تیسرے میں نے دعا کو ضروری قرار دیا ہے کہ غریب ، امیر کے علاوہ اپاہج اور لنگڑے لولے بھی اس میں شامل ہوسکیں.جو امیر اپاہج ہو وہ تو روپیہ دے کر بھی شریک ہو سکتا ہے لیکن غریب اپاہج کے لئے کوئی صورت نہ تھی اس لئے میں نے دعا کو ضروری قرار دے دیا ہے تا ایسے لوگ دعاؤں میں شریک ہو کر ثواب حاصل کر سکیں اور یہ ایک ایسی بات ہے کہ گھر میں بیٹھی ہوئی عورت بلکہ چار پائی کے ساتھ چسپاں مریض بھی اس میں حصہ لے سکتا ہے.چوتھے سکیم کے اثر کو وسیع کرنے کے لئے اور اس خیال سے کہ جماعت کے زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں شریک ہوں مالی قربانیوں میں میرے مخاطب گو پہلے امرا ہی تھے مگر میں نے یہ رعایت بھی کر دی ہے کہ جوغر بادس دس یا پانچ پانچ روپے نہ دے سکیں وہ کمیٹیاں ڈال کر ایک ایک روپیہ یا آٹھ آٹھ آنے جمع کر کے جس جس کے نام پر قرعہ نکلتا جائے جمع کراتے جائیں.پانچویں بات اس کے فوائد کو وسیع کرنے کے لئے میں نے یہ رکھی ہے کہ اس سکیم کو اختیاری رکھا ہے.میں نے سب حالات سامنے رکھ دیئے ہیں مگر ان کا علاج بھی بتا دیا ہے مگر یہ نہیں رکھا کہ جو حصہ نہ لے اسے سزا دی جائے بلکہ سزا و ثواب کو خدا تعالیٰ پر ہی چھوڑ دیا ہے تا جو حصہ لے اسے زیادہ ثواب ملے.تحریکات دو قسم کی ہوتی ہیں: جبری اور اختیاری.نماز جبری ہے اور نفل اختیاری اور دونوں ضروری ہیں.جبر فائدہ کیلئے ہوتا ہے اور اختیار میں ثواب بڑھ جاتا ہے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بندہ نفل کے ذریعہ اپنے رب کے حضور ترقی کرتا ہے.جماعت يُقِيمُونَ الصَّلوةَ سے ترقی کرے گی مگر افراد فضل سے.تو یہ فرق ہے جو شریعت نے رکھا ہے.اس کی تفاصیل بیان کرنے کا اس وقت موقع نہیں.اس سکیم میں میں نے نفلی ترقی مد نظر رکھی ہے.ہاں اس کے بعض حصے جبری ہیں جیسے سنیما کے متعلق حکم.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی دونوں طرح سے کام لیتے تھے جنگ بدر کی بھرتی اختیاری تھی اور تبوک کی جبری! اس لئے میں ہدایت کرتا ہوں کہ اس تحریک کو چلانے والے مندرجہ ذیل باتوں کو مد نظر رکھیں.1 - یہ کہ وہ صرف میری تجاویز کولوگوں تک پہنچادیں اس کے بعد مردوں پر اس میں شامل ہونے کے لئے زیادہ زور نہ دیں.ہاں عورتوں تک خبر چونکہ مشکل سے پہنچتی ہے اور باہر کی مشکلات سے ان کو آگاہی بھی کم ہوتی ہے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مردوں میں تو چندہ کے لئے صرف اعلان کر 97

Page 110

خطبہ جمعہ فرموده 7 دسمبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد اول دیتے تھے کہ کون ہے جو اپنا گھر جنت میں بنائے مگر عورتوں سے اصرار کے ساتھ وصول فرماتے تھے بلکہ فردا فردا اجتماع کے مواقع میں انہیں تحریک کرتے تھے.ایک دفعہ ایک عورت نے ایک کڑا اتار کر دے دیا تو آپ نے فرمایا دوسرا ہاتھ بھی دوزخ سے بچا.پس عورتوں کے معاملہ میں اجازت ہے کہ ان میں زیادہ زور کے ساتھ تحریک کی جائے مگر مجبور انہیں بھی نہ کیا جائے اور مردوں پر تو زور بالکل نہ دیا جائے صرف ان تک میری تجاویز کو پہنچا دیا جائے اور جو اس میں شامل ہونے سے عذر کرے اسے ترغیب نہ دی جائے.کارکن تحریک مجھے دکھا کر اور اسے چھپوا کر کثرت سے شائع کرا دیں اور چونکہ ڈاکخانہ میں بعض اوقات چٹھیاں ضائع ہو جاتی ہیں اس لئے جہاں سے جواب نہ ملے دس پندرہ روز کے بعد پھر تحریک بھیج دیں اور پھر جواب نہ آئے تو خاموش ہو جائیں.اس طرح بیرونی جماعتوں کے سیکرٹریوں کا فرض ہے کہ وہ میرے خطبات جماعت کو سنادیں جو جمع ہوں انہیں یکجا اور جو جمع نہ ہوں ان کے گھروں پر جا کر لیکن کسی پر شمولیت کے لئے زور نہ ڈالیں اور جو عذر کرے اسے مجبور نہ کریں.تیسری بات یہ مد نظر رکھی جائے کہ ہندوستان کے احمدیوں کا چندہ پندرہ جنوری 35 ء تک وصول ہو جائے جو 16 جنوری کو آئے یا جس کے 15 جنوری سے پہلے پہلے وعدہ نہ کیا جا چکا ہوا سے منظور نہ کریں.پہلے میں نے ایک ماہ کی مدت مقرر کی تھی مگر اب چونکہ لوگ اس مہینہ کی تنخواہیں لے کر خرچ کر چکے ہیں اس لئے میں اس کی میعاد کو 15 جنوری تک زیادہ کرتا ہوں جو تم 15 جنوری تک آ جائے یا جس کا وعدہ اس تاریخ تک آجائے وہی لی جائے.زمیندار دوست جو فصلوں پر چندہ دے سکتے ہیں یا ایسے دوست جو قسط وار رو پی دینا چاہیں وہ 15 جنوری تک ادا کرنے سے متقی ہوں گے مگر وعدے ان کی طرف سے بھی 15 جنوری تک آجانے ضروری ہیں جو رقم یا وعدہ 16 جنوری کو آئے اسے واپس کر دیا جائے.ہندوستان سے باہر کی جماعتوں کیلئے میعاد یکم اپریل تک ہے جن کی رقم یا وعدہ اس تاریخ تک آئے وہ لیا جائے اس کے بعد آنے والا نہیں.اس صورت میں جو لوگ اس میں حصہ لینا چاہتے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ اپنے وعدے اس تاریخ کے اندر اندر بھیج دیں.رقم فروری ، مارچ، اپریل میں آسکتی ہے یا جو دوست بڑی رقوم دس ہیں ہمیں، چالیس کی ماہوار قسطوں میں ادا کرنا چاہیں یا اس سے زیادہ دینا چاہتے ہوں انہیں سال کی بھی مدت دی جاسکتی ہے مگر ایسے لوگوں کے بھی وعدے عرصہ مقررہ کے اندر اندر آنے چاہئیں.اس میعاد کے بعد صرف انہی لوگوں کی رقم یا وعدہ لیا جائے گا جو حلفیہ بیان دیں کہ انہیں وقت پر اطلاع نہیں مل سکی.مثلاً جو ایسے نازک بیمار ہوں کہ جنہیں اطلاع نہ ہو سکے یا دور دراز ملکوں میں ہوں.98

Page 111

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 7 دسمبر 1934ء پس کارکنوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالی کی طرف سے جماعتوں پر ایسے وقت بھی آتے ہیں کہ وہ امتیاز کرنا چاہتا ہے اس کا منشا یہی ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کو ثواب سے محروم رکھا جائے.پس جن کو خدا پیچھے رکھنا چاہتا ہے انہیں آگے کرنے کا ہمیں کوئی حق نہیں اور ہم کون ہیں جو اس کی راہ میں کھڑے ہوں.ہمارے مدنظر روپیہ نہیں بلکہ یہ ہونا چاہئے کہ خدا کے دین کی شان کس طرح ظاہر ہوتی ہے.اللہ تعالی غیرت والا ہے وہ کسی کے مال کا محتاج نہیں.یہ مت خیال کرو کہ دین کی فتح اس ساڑھے ستائیس ہزار روپیہ پر ہے اور کہ بعض لوگ اگر اس میں حصہ نہ لیں گے تو یہ رقم پوری کیسے ہوگی ؟ جب اللہ تعالیٰ اس کام کو کرنا چاہتا ہے تو وہ ضرور کر دے گا.اگر اللہ تعالی کا یہی منشا ہے کہ روپیہ پورا نہ ہوتو وہ اس کے بغیر بھی کام کر دے گا.پس رقم کو پورا کرنے کے خیال سے زیادہ زورمت دو.کارکنوں کا کام صرف یہی ہے کہ تحریک دوسروں تک پہنچا دیں اور دس پندرہ دن کے بعد پھر یاد دہانی کر دیں.اسی طرح جماعتوں کے سیکریٹری بھی احباب تک اس تحریک کو پہنچا دیں.یہ کسی کو نہ کہا جائے کہ اس میں حصہ ضرور لو.جو کہتے ہیں ہمیں توفیق نہیں انہیں مت کہو کہ حصہ لیں کیونکہ خدا تعالیٰ نہیں چاہتا کہ جو باوجود توفیق کے حصہ نہیں لیتے ان کا حصہ اس پاک تحریک میں شامل ہو.اگر ایسا شخص دوسروں کے زور دینے پر حصہ لے گا تو وہ ہمارے پاک مال کو گندہ کرنے والا ہو گا.پس ہمارے پاک مالوں میں ان کے گندے مال شامل کر کے ان کی برکت کم نہ کرو.میں نے پچھلے ایک خطبہ میں کہا تھا کہ غربا زیادہ حصہ لے رہے ہیں اور ان کیلئے میں نے جو سہولتیں رکھی ہیں ان کو استعمال کر رہے ہیں اور غالباً یہ بھی کہا تھا کہ مالی طور پر ان کے روپیہ سے شاید زیادتی نہ ہو مگر اخلاص کے لحاظ سے ضرور ہوگی مگر اب معلوم ہوا ہے کہ غر با شاید مال کو بھی بڑھا دیں گے کیونکہ یہ ظاہر ہورہا ہے کہ جب انہوں نے لبیک کہا تھا تو ان کے دل کے ذرہ ذرہ سے لبیک کی صدا اٹھ رہی تھی اس کے بالمقابل بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو زیادہ حصہ لے سکتے تھے مگر انہوں نے نہیں لیا اور بعض کو بظاہر جتنی توفیق تھی اس سے زیادہ حصہ لے رہے ہیں.جو لوگ میرے مخاطب تھے یعنی آسودہ حال ان میں سے اس وقت تک صرف پانچ چھ نے ہی حصہ لیا ہے.میں نے آسودگی کا جو معیار اپنے دل میں رکھا تھا وہ یہ تھا کہ جو لوگ ڈیڑھ سو یا اس سے زیادہ آمد رکھتے ہیں وہ آسودہ حال ہیں.ہماری جماعت میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جو فی الواقعہ امیر ہوں متوسط طبقہ زیادہ ہے اور انہی کو ہم امیر کہہ لیتے ہیں مگر ہمارے متوسط طبقہ نے جو قربانیاں کی ہیں وہ اپنی شان میں بہت اہم ہیں.بعض نے تو ان میں سے چار چار ماہ کی 99

Page 112

خطبہ جمعہ فرموده 7 دسمبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول آمد نیاں دے دی ہیں اور زیادہ تر حصہ بھی انہی لوگوں نے لیا ہے جو غر با یا متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور و انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ گو ان کے وسائل کمزور ہیں مگر دل وسیع ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی تھی: بَدَأَ الْإِسْلَامُ غَرِيْبًا وَسَيَعُودُ غَرِيبًا اسلام غریب ہی شروع ہوا اور آخر زمانہ میں پھر غریب ہو جائے گا.کون ہے جو بچہ سے پیار کرتا ہے مگر اس کا باپ یا اس کی ماں؟ کون ہے جو بھائی سے پیار کرتا ہے مگر اس کا بھائی ؟ کون ہے جو غریب الوطن سے ہمدردی کرتا ہے مگر اس کا ہم وطن ؟ ان غریبوں نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنی غربت میں بھی غریب اسلام کو نہیں بھولے کیونکہ وہ بھی غریب ہیں اور اسلام بھی غریب ! اور اس طرح وہ اس کے رشتہ دار ہیں اور اس کی غربت کی حالت کو دیکھنا پسند نہیں کرتے اور اپنے خون سے اس کی کھیتی کو سینچ کر وہ اس کی حالت کو بدلنا چاہتے ہیں.رضی الله عنهم و رضواعنه.بعض لوگ مالی لحاظ سے غریب ہوتے ہیں اور بعض دل کے غریب ہوتے ہیں اور دل کے غریب وہ ہوتے ہیں جو کبر محسوس نہ کریں.میں نے بیسیوں تحریکیں اپنی خلافت کے زمانہ میں کی ہیں مگر کئی امرا اور علما ہماری جماعت کے ایسے ہیں کہ انہوں نے ان میں بہت ہی کم حصہ لیا ہے اس لئے جو امرا دینی تحریکات میں حصہ لیتے ہیں ان کو بھی میں غربا میں ہی شامل کرتا ہوں کیونکہ وہ دل کے غریب ہیں.تحدیث نعمت کے طور پر میں چودھری نصر اللہ خان صاحب مرحوم کی اکثر اولاد بالخصوص چودھری ظفر اللہ خان صاحب کا ذکر کرتا ہوں.میں نے آج تک کوئی تحریک ایسی نہیں کی جس میں انہوں نے حصہ نہ لیا ہو خواہ وہ تحریک علمی تھی یا جسمانی یا مالی یا سلوک کی خدمت تھی انہوں نے فوراً اپنا نام اس میں پیش کیا اور پھر خلوص کے ساتھ اسے نباہا.جب میں نے ریز روفنڈ کی تحریک کی تھی تو کئی لوگوں نے اپنے نام دیئے مگر ان میں سے صرف چودھری ظفر اللہ خاں صاحب ہی ہیں جنہوں نے اسے پوری طرح نباہا اور ہزاروں روپیہ جمع کر کے دیا.حالانکہ اس وقت ان کی پوزیشن ایسی نہ تھی جیسی اب ہے کہ کوئی خیال کرے کہ اپنے اثر سے روپیہ جمع کر لیا ہوگا.چودھری نصر اللہ خاں صاحب مرحوم گو 1900ء کے بعد داخل سلسلہ ہوئے مگر انہوں نے اخلاص کا بہت نیک نمونہ دکھایا اور وہی نمونہ کم و بیش ان کی اولاد میں بھی ہے اور ان کی اہلیہ میں بھی اخلاص کا وہی نیک نمونہ ہے بلکہ وہ صاحب کشوف بھی ہیں ان کو ہمیشہ سچے خواب آتے رہتے ہیں.مجھے ان کی اولاد سے اس لئے بھی محبت ہے کہ جب میں نے آواز دی کہ جولوگ اپنے گزارہ کے لئے کافی 100

Page 113

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 7 دسمبر 1934ء روپیہ کما چکے ہوں وہ اب اپنا بڑھا پا دین کے لئے وقف کر دیں تو چودھری نصر اللہ خاں صاحب مرحوم نے اس پر لبیک کہا اور نہایت اخلاص سے صدر انجمن احمدیہ میں کام کرتے رہے اور وفاداری اور فرمانبرداری سے کام کیا.ان کو چونکہ میرے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہے اس لئے مجھے ان کی قدر ہے اور ان کی اولاد نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنے باپ کے لئے بھی مجھے پیاری ہے اور اب کہ ان کا ذکر آیا ہے میں ان کی اولاد کے لئے دعا کرتا ہوں کہ ان کے دل کا متاع کبھی ضائع نہ ہو.اگر اللہ تعالیٰ انہیں دنیا کی نعمتیں دے تو یہ اس کا فضل ہے لیکن ان کے دل کی غربت ضرور قائم رہے بلکہ بڑھتی رہے کیونکہ اگر یہ نہ ہو تو دینوی مال و دولت ایک لعنت ہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ ان کے سوا جماعت میں اور مخلص نہیں ہیں.اور بھی بڑے بڑے مخلص ہیں.ایک سیٹھ عبداللہ بھائی ہیں انہوں نے اتنی مالی قربانیاں کی ہیں کہ وہ پہلے حقیقتا امیر آدمی تھے مگر اب عملاً غریب ہیں، انہوں نے تبلیغ کا بھی بہت کام کیا ہے.مالی قربانی انہوں نے بالکل ایسی کی ہے جس طرح سیٹھ عبدالرحمن حاجی اللہ رکھا صاحب نے کی تھی لیکن تبلیغی خدمت ان کی ایسی ہے جس کی مثال موجودہ جماعت میں نہیں ملتی انہیں تبلیغ کا جنون ہے ان کے ذریعہ ایسی ایسی جگہوں پر احمدیت پہنچی ہے کہ جہاں اور کوئی نہ پہنچا سکتا.مجھے دو چار دن ہوئے ایک گریجویٹ رجسٹرار کا ایک ایسے علاقہ سے خط آیا جس کا نام بھی میں نے کبھی نہ سنا تھا اُس نے لکھا کہ میں سکندر آباد آیا تھا وہاں سیٹھ صاحب کے لڑکے یا کوئی رشتہ دار کسی کے ساتھ باتیں کر رہے تھے جو میں نے سنیں.بعد میں ان کو خط لکھا اور انہوں نے مجھے لٹریچر بھیجا جسے پڑھ کر مجھ پر حق کھل گیا تو ایسے ایسے مقامات پر ان کے ذریعہ تبلیغ پہنچی ہے کہ ہم جہاں نہ پہنچ سکتے تھے.وہ تبلیغی لٹریچر بہت پھیلاتے ہیں اور اس کام میں وہ اپنی مثال آپ ہی ہیں اور میں سمجھتا ہوں تبلیغ کے میدان میں ایک بھی احمدی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا، وہ جب احمدی ہونے کے قریب تھے تو مجھے ایک دوست نے دعا کیلئے لکھا اور میں نے رویاء دیکھا کہ ایک مکان ہے جس کے صحن میں ایک تخت ہے جس وہ شخص بیٹھا ہے جس کے لئے مجھے دعا کی تحریک کی گئی ہے، اس وقت تک میں نے ابھی سیٹھ صاحب کونہ دیکھا تھا، میں نے دیکھا کہ تہجد کا وقت ہے آسمان میں چھلنی کی طرح سوراخ ہیں جن میں سے خدا کا نور چاروں طرف سے اس شخص پر گرتا ہے.میں نے اس خواب کی اطلاع اسی وقت دے دی تھی.اللہ تعالیٰ ان پر اور ان کے خاندان پر خاص فضل فرمائے اور ہمیشہ ان میں دین کی خدمت اور سلسلہ کی اشاعت کا جوش قائم رہے اور ان کے خاندان کے وہ افراد جو احمدیت میں ابھی تک داخل نہیں.اللہ تعالٰی انہیں بھی احمدیت میں داخل کرے.پروه 101

Page 114

خطبہ جمعہ فرمودہ 7 دسمبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول ان کے علاوہ طبقہ امرا میں اور لوگ بھی ہیں جو نہایت مخلص اور سچی قربانی کرنے والے ہیں مگر ان دو کا نام میں نے اس لئے لے دیا ہے کہ ایک تنوع اور دوسرے کی مالی اور تبلیغی قربانیاں بے مثال ہیں.اللہ تعالیٰ ان دوسروں کے گھروں کو بھی برکتوں سے بھر دے.مخلصین کے علاوہ جو لوگ ان سے اتر کر کریں.وہ بھی دوسری اقوام کے امرا سے یقینا بہتر ہیں کیونکہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کے نور سے حصہ لے اور اس کی کچھ بھی اصلاح نہ ہو مگر جب تک حقیقی روح قربانی کی پیدا نہ ہو خطرہ کا مقام ہے.قربانی کی روح اور شے ہے اور قربانی اور شے ہے.انسان کو ابتلا سے قربانی محفوظ نہیں کرتی بلکہ قربانی کی روح محفوظ کرتی ہے.جس میں وہ روح پیدا نہ ہو گو وہ قربانی میں حصہ لے پھر بھی کچے دھاگے کی طرح ہے جس کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہے.جماعت کے مخلص امرا میں سے سیٹھ عبد اللہ بھائی کو ایسا درجہ حاصل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس قسم کے چالیس مومنوں کو خواہش کی تھی وہ ایسے ہی ہیں.ان کا تبلیغی جوش حقیقتا اس درجہ کا ہے کہ صاف نظر آتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو تبلیغ میں خدا تعالیٰ کے سامنے ذمہ دار سمجھتے ہیں اور ان کی مالی قربانی اس رنگ کی ہے کہ مجھے ان.بڑے بڑے مطالبہ میں کوئی جھجک نہیں ہو سکتی اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر ان جیسے چالیس آدمی پیدا ہو جائیں تو بہت بڑا انقلاب پیدا ہوسکتا ہے.بہر حال اس وقت اخلاص کی ضرورت ہے اور میں نے سلسلہ کے حالات، خطرات اور ان کا علاج کھول کھول کر بیان کر دیا ہے.اب وہ وقت ہے کہ اگر ہم نے کروٹ نہ بدلی تو ظاہری حالات کے لحاظ سے ہمارا زندہ رہنا مشکل ہے.اس میں شک نہیں کہ خدا تعالٰی اس سلسلہ کو زندہ رکھے گا مگر ہم نے صحیح قربانی نہ کی تو خدا تعالیٰ ہمیں مٹا کر دوسری قوم کے سپرد یہ کام کرے گا.وہ پہلے تختی کو صاف کرے گا کیونکہ جس تختی پر پہلے لکھا جا چکا ہو اس پر اور نہیں لکھا جا سکتا.اس وقت ہمارے لئے حالات ایسے ہیں جنہیں عام لوگ نہیں سمجھ سکتے میں نے ایک حد تک انہیں ظاہر کیا ہے اور اگر ہم زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں اب کروٹ بدلنی اور ہوش میں آنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ هر طرف کفر است جوشاں ہمچو افواج یزید دین حق بیمار و بے کس ہمچو زین العابدین اور بعینہ یہی حالت آج کل ہو رہی ہے.دشمنوں نے یہ محسوس کر لیا ہے کہ یہ بڑھتا جا رہا 102

Page 115

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 7 دسمبر 1934ء ہے اور اگر اسے مزید بڑھنے دیا گیا تو کچھ عرصہ بعد ہم اس کی ترقی کو روک نہیں سکیں گے اس لئے وہ ہر طرف سے ہم پر حملہ آور ہو رہے ہیں اور ہمیں آج وہی نظارہ پیش ہے جو حضرت امام حسین کو کربلا میں پیش آیا تھا.ہمارا حسین اس وقت کربلا کے میدان میں ہے اور یزید کا لشکر سامنے پڑا ہے.اس کے ہاتھوں میں کمانیں کھنچی ہوئی ہیں اور تیرحسین کے سینہ کی طرف چھوٹنے والے ہیں.پس جو چاہے کوفہ والوں کی طرح ایک طرف ہو جائے ، جو چاہے آگے آئے اور قربانی کے لئے اپنے آپ کو پیش کرے اور کہے کہ جو تیر سلسلہ کے لئے چھوڑا جائے گا میں اسے خود اپنے سینہ پر کھاؤں گا اور جو ایسا کریں گے وہی برکت والے ہوں گے اور جن کے دلوں میں اخلاص نہیں یا اخلاص کی کمی ہے اللہ تعالیٰ انہیں ظاہر کر دے گا.ہمارا کام صرف یہ ہے کہ اس مقصد کے لئے اپنی جانیں قربان کریں.یہ نہیں کہ دوسروں کو مجبور کریں کہ آگے بڑھو.یاد رکھو! کہ جو اس جنگ میں مرتا ہے وہ دراصل زندہ ہوتا ہے.پس دوسروں کا فکر نہ کرو بلکہ اپنا فرض ادا کرو.جو قربانی کر سکتا ہے مگر نہیں کرتا وہ کوفہ والوں کی طرح ہے جو اگر چہ جانتے تھے کہ حضرت امام حسین حق پر ہیں مگر ان کی امداد کے لئے میدان میں نہ آئے.جو دشمن ہیں اور نقصان کے در پے، خواہ منافقوں سے ہوں خواہ کا فروں میں سے، وہ یزیدی ہیں اور یزید کا شکر ہیں.پس جو اس وقت میدان میں آتے ہیں وہ حضرت امام حسین کے ساتھیوں کی طرح ہیں.یہ مت خیال کرو کہ تم تھوڑے ہو اس لئے ہار جاؤ گے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ ہر بات دو دفعہ ظاہر کرتا ہے اور پہلی ناکامی کو دوسری دفعہ کی کامیابی سے دھو دیتا ہے.پہلا آدم جنت سے نکالا گیا اس لئے خدا نے پھر میرا نام آدم رکھا تا کہ میں پھر اولاد آدم کو جنت میں داخل کروں، پہلے مسیح کو یہودیوں نے صلیب پر لٹکا یا تب خدا نے پھر میرا نام مسیح رکھا تا میرے ذریعہ صلیب کو توڑ دے.اسی طرح یاد رکھو کہ پہلا حسین کربلا میں بے گناہ حق کی حمایت کی وجہ سے شہید کیا گیا اور اب دوسرے حسین کے ذریعہ خدا تعالیٰ یزید کے لشکر کو شکست دے گا اس لئے میں تحریک کرنے والوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ صرف اخلاص کولیں اور روپیہ یا تعداد کی کمی کا خیال نہ کریں.جو لوگ اخلاص کے ساتھ قربانیاں کرتے ہیں صرف وہی اس میں شامل کئے جائیں اور جو لوگ اپنے اندر اخلاص نہیں رکھتے وہ ہمارے ساتھ نہیں چل سکیں گے بلکہ ہمارے لئے بوجھ ہوں گے.یہ ہو نہیں سکتا کہ ہم بچے بھی ہوں اور خون کی ندیوں سے گزرے بغیر کامیاب بھی ہو جائیں کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ بچے کو دیکھ کر کفر جوش میں نہ آئے اور اسے مٹانے اور اس کے حاملوں کو قتل کرنے کے 103

Page 116

خطبہ جمعہ فرموده 7 دسمبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول در پے نہ ہو.ہمارا فرض ہے کہ ہم یہ حق ادا کریں.اگر روحانی معنوں میں اپنی جانیں دینی پڑیں تو اس سے دریغ نہ کریں اور اگر جسمانی معنوں میں دشمنوں کے حملوں کا شکار ہونا پڑے تو اس سے دریغ نہ کریں.بہر حال موت کا قبول کرنا ہمارے لئے ضروری ہے.اگر ہم اس کے بغیر کامیاب ہو جائیں تو یہ دنیوی فتح ہوگی.الہی سلسلے بغیر آگ اور خون کی ندیوں میں سے گزرنے کے کامیاب نہیں ہو سکتے.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب آگ دیکھی تھی تو خدا نے اس میں سے پکار کر کہا تھا کہ انسٹی اَنَا اللهُ اور اس کا یہی مطلب تھا کہ اگر میرے پاس آنا چاہو تو تمہیں آگ میں سے گزرنا پڑے گا.پس تمہیں آگ میں کودنا ہوگا اور خون کی ندیوں میں سے گزرنا پڑے گا تب فتح حاصل کر سکو گے اور وہی فتح قیمتی ہے جسے انسان جان دے کر حاصل کرتا ہے جس طرح کہ ہمارے آقا سیدنا ومولانا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے نائب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہا: اب وقت آگیا ہے کہ اس روحانی اور مذہبی جنگ کی بنیا د رکھی جائے جس سے شیطان کو ہم نے کچلنا ہے اور دشمن سے نڈر ہو کر مقابلہ کیا جائے ، اب وقت آگیا ہے کہ مخالفت کو بڑھنے دیا جائے اور دشمن کو حملہ کرنے دیا جائے یعنی گو اس سے مقابلہ کیا جائے مگر مداہنت کا کوئی رنگ نہ ہو ، جھوٹی صلح کے لئے کوئی کوشش نہ کی جائے ، سوائے ان لوگوں کے جو بچے طور پر ہم سے مل کر کام کرنا چاہیں کسی غیر سے تعلق نہ رکھا جائے ان صاف دل لوگوں کے ہم خیر خواہ ہوں گے اور انہیں اپنا خیر خواہ سمجھیں گے لیکن اب ہم دوغلی طبیعت والوں سے یا ان سے جو سلسلہ کو حقیر سمجھتے ہیں کبھی مل کر کام نہیں کریں گے.ہر قوم کا راستباز ہمارا دوست ہوگا مگر زمانہ ساز آدمی خواہ ہماری جماعت میں شامل ہو ہمارا دشمن سمجھا جائے گا.آخر میں میں سابقون کیلئے دعا کرتا ہوں، ان ظاہر و باطن غریبوں کے لئے بھی جن کا دل بھی غریب اور جسم بھی غریب ہے اور ان کے لئے بھی جو ظاہری مالدار نظر آتے ہیں لیکن ان کے دل انکسار اور تذلیل اور اطاعت کے جذبات سے لبریز ہیں.وہ بھی اپنے آپ کو اسی طرح سلسلہ کا مال سمجھتے ہیں جس طرح غربا اور لوگوں میں اپنی بڑائی ظاہر نہیں کرتے اور محسوس کرتے ہیں کہ ان کے اموال خدا تعالی کی امانتیں ہیں اور ان کی وجہ سے انہیں غربا پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا فضل کرے اور ان کو کامل تقومی عطا کرے کہ جو دائمی زندگی کے لئے بطور دورانِ خون کے ہے کہ جب تک خون چلتا ہے زندگی کی اُمید رہتی ہے.104

Page 117

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 7 دسمبر 1934ء سابقون کے معنی میرے نزدیک یہ ہی ہیں کہ جس نے سنا اور ہفتہ کے اندر اندر لبیک کہہ دیا یا رقم دے دی یا وعدہ کر لیا یا وہ جنہوں نے حکم سنتے ہی دوسری خدمات کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا کیونکہ یاد رکھو کہ جن نوجوانوں نے تبلیغ کے لئے اپنے نام پیش کئے ہیں وہ کسی سے کم نہیں بشرطیکہ وہ اپنے دعوئی کو سچا کر دکھائیں یا وہ سابقون میں سے ہیں جنہوں نے سنا اور دوسروں کے مشمول کے خیال سے ابھی اطلاع نہیں دی اور اس انتظار میں ہیں کہ دوسروں کی لسٹ کے ساتھ اپنے نام بھجوائیں گے یا وہ جنہوں نے خیال کیا کہ دوسروں کو بھی تیار کر کے اپنے نام بھجوائیں گے یا جنہوں نے ارادہ کر لیا مگر کسی روک کی وجہ سے اطلاع نہیں دے سکے یہ سب سابقون میں سے ہیں کیونکہ مسابقت دل سے تعلق رکھتی ہے نہ کہ ظاہر سے.ہاں جسے جب اطلاع ہو اس کا ہفتہ وہیں سے شروع ہوگا اور سبقت یہی ہے کہ آدمی سنے اور مان لے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت ابو بکر نے دریافت کیا تھا کہ کیا آپ نے ایسا ایسا دعوی کیا ہے؟ آپ دلیل دینے لگے تو کہا مجھے دلیل کی حاجت نہیں صرف یہ فرمائیے کہ دعوی کیا ہے یا نہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! تو انہوں نے کہا میں ایمان لاتا ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جمعہ میں ایک ایسی ساعت آتی ہے کہ اس میں ہر دعا جو کی جائے قبول ہو جاتی ہے آج رات میں نے تہجد میں دعا کی کہ الہی مجھے توفیق دے کہ میں ان سابقون کے لئے دعا کروں اور وہ ساعت مجھے نصیب ہو اور ان کے حق میں میری دعائیں قبول ہوں گو بعد والے بھی دعاؤں سے حصہ پائیں گے مگر جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین کو مقصرین پر فضیلت دی تھی سابقون کو ان پر فضیلت ہوگی اور سابق دوہرے اجر پائیں گے اس لئے کہ جو کتا اور جھجکتا اور پھر اپنے آپ کو پیش کرتا ہے اس سے آواز سنتے ہی لبیک کہنے والے کا درجہ بہر حال زیادہ ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس روحانی جنگ کو اپنی سستی یا تکلیف سے بچنے کے خیال سے پیچھے نہ ڈالیں بلکہ خدا تعالیٰ کے منشا کے مطابق دلیری اور جرات سے اُسے قریب لانے کی کوشش کریں اور پھر اس میں نڈر ہو کر کو د جائیں اور آگ اور خون کی ندیوں میں سے جو ہماری قربانیوں کی وجہ سے زمین کے نشیب کو پر کر رہا ہو گزر کر اس کے پاس پہنچ جائیں اور اس کے قدموں پر ہاں پاک قدموں پر اپنی محبت کا موتی ڈال دیں تا اس کی محبت کی نگہ ہمیں حاصل ہو اور وہ غریبوں کا والی اپنے غریبوں کو اپنی گود میں اُٹھا لے.نِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ الْوَكِيلُ.“ ( مطبوع الفضل 13 دسمبر 1934ء) 105

Page 118

Page 119

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 14 دسمبر 1934ء جماعت احمدیہ کی موجود و مشکلات و مصائب اور رمضان المبارک "" خطبہ جمعہ فرمودہ 14 دسمبر 1934ء دشمن زیادہ سے زیادہ تمہیں جو نقصان پہنچا سکتا ہے وہ یہی ہے کہ مار دے مگر وہ موت جو خدا کی راہ میں نصیب ہو بہترین زندگی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ جو لوگ خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ مت کہو کیونکہ وہ زندہ ہیں.دراصل ان مشکلات سے نیک و بد میں امتیاز ہو جاتا ہے ست لوگ ہوشیار ہو جاتے ہیں.جب میں ابھی خطبات بیان کر رہا تھا تو چاروں طرف سے لبیک لبیک اور ہم تیار ہیں کی آوازیں آرہی تھیں مگر جب میں نے تفاصیل کو بیان کیا ہے تو بعض جماعتیں بالکل خاموش ہو گئیں اور پہلی لبیک کو بھول گئیں اور بعض نے اخلاص کا ایسا نظارہ دکھایا کہ میرے ذہن میں بھی نہ آسکتا تھا اور اس طرح ایک امتیاز ہو گیا.سب سے زیادہ قربانی کی مثال اور اعلیٰ نمونہ قادیان کی جماعت نے دکھایا ہے.دشمن اعتراض کرتے ہیں کہ یہاں منافق جمع ہیں ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ منافق ایسی شاندار قربانیاں نہیں کر سکتے.یہاں کی احمدی آبادی سات ہزار کے قریب ہے.پنجاب میں احمدیوں کی آبادی سرکاری مردم شماری کے رُو سے 31ء میں 56 ہزار تھی جو بہت کم ہے لیکن اگر ہم اسی کو درست سمجھ کر آج 70 ہزار بھی سمجھ لیں تو گویا قادیان کی جماعت سارے پنجاب کا دسواں حصہ ہے لیکن ساڑھے ستائیس ہزار روپیہ کی تحریکات میں قادیان کی جماعت کی طرف سے پانچ ہزار روپیہ نقد اور وعدوں کی صورت میں آیا ہے اور ایسے ایسے لوگوں نے اس میں حصہ لیا ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.اگر چہ مجھے افسوس ہے کہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو زیادہ حصہ لے سکتے تھے مگر کم لیا ہے مگر ایک خاصی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے اپنی حیثیت اور طاقت سے زیادہ حصہ لیا ہے.بعض لوگ تو ایسے ہیں جنہوں نے اپنا سارا اندوختہ دے دیا ہے، بعض ایسے ہیں جن کی چار چار پانچ پانچ روپیہ کی آمد نیاں ہیں اور انہوں نے کمیٹیاں ڈال کر اس میں حصہ لیا یا کوئی جائداد فروخت کر کے جو کچھ جمع کیا ہوا تھا وہ سب کا سب دے دیا ہے.باہر کی جماعتوں میں سے بعض کے جواب آئے ہیں اور بعض کے ابھی نہیں آئے اور نہ ہی آسکتے تھے مگر بظاہر حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ قادیان کی جماعت بڑھ جائے گی.مجھے خوشی ہے کہ قادیان کی جماعت نے حسب دستور اس موقع پر بھی اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھایا ہے اور جو لوگ یہاں کے رہنے والوں پر اعتراض کیا کرتے ہیں ان کے 107

Page 120

اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 14 دسمبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول لئے یہ کافی جواب ہے کہ جب خدا کے دین کے لئے قربانی کا سوال پیش ہوتا ہے تو یہی لوگ سب سے زیادہ اعلیٰ نمونہ دکھاتے ہیں.اس میں شک نہیں کہ باہر سے تکالیف کو دیکھ کر یہاں بعض منافق بھی آجاتے ہیں.ان کے علاوہ یہاں چونکہ احمد یہ جماعت کی کثرت کی وجہ سے کچھ عرصہ پہلے بعض قسم کے مظالم سے لوگ بچے رہتے تھے اس وجہ سے بعض گھروں کی نسلوں میں خرابی پیدا ہو کر بعض جوانوں میں نفاق پیدا ہو گیا تھا مگر یہ لوگ بہت کم تعداد میں ہیں ان کے نمایاں نظر آنے کی وجہ یہ ہے کہ جیسے سفید رنگ کے کپڑے پر سیاہی کا ایک داغ بھی نمایاں دکھائی دیتا ہے مگر کالی چیز پر اگر توے کی ساری سیاہی مل دو تو بھی معلوم نہ ہوگی اسی طرح یہاں کے منافق بالکل اسی طرح نظر آتے ہیں جس طرح سفید کپڑے پر سیاہی کا دھبہ.وہ اسی لئے نمایاں ہیں کہ یہاں سفیدی زیادہ ہے.باہر کی جماعتوں کو یہاں کی جماعت پر ایک فضیلت ہے کہ وہ ہر وقت دکھوں میں رہتی ہیں اور اس وجہ سے وہاں منافق نہیں ٹھہر سکتے اور باہر کے دوست جب قادیان آتے ہیں تو یہاں کے منافق انہیں نمایاں نظر آتے ہیں جو ہر وقت اعتراض کرتے رہتے اور باہر سے آنے والوں کو غلط فہمیوں میں مبتلا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں.باہر کی جماعتوں میں سے بھی بعض نے اخلاص کا عمدہ نمونہ دکھایا ہے اور بعض نے تو اتنی ہوشیاری سے کام لیا ہے کہ حیرانی ہوتی ہے.مثلاً لاہور چھاؤنی کی جماعت کا وعدہ قادیان کی جماعت کے وعدہ کے ساتھ ہی پہنچ گیا تھا.کوئی دوست یہاں سے خطبہ سن کر گیا اور اس سے سن کر دوست فوراً ا کٹھے ہوئے اور تحریک میں شامل ہو گئے اور جس وقت مجھے قادیان والوں کی رپورٹ ملی اسی وقت لاہور چھاؤنی کی مل گئی مگر بعض جماعتیں لاہور چھاؤنی کے پہلو میں اور اس کے رستہ میں ایسی ہیں جنہوں نے تاحال توجہ نہیں کی.یہ سستی یا چستی کا سوال ہے خبر کے جلد یا بدیر پہنچنے کا نہیں.سرسری اندازہ یہ ہے کہ چودہ دن کے اندر اندر پندرہ ہزار کے قریب وعدے اور نقد روپیہ آچکا ہے جس میں سے چار ہزار کے قریب نقد ہے اور ابھی جماعت کا بہت سا حصہ خصوصاً وہ لوگ جن کی آمدنیاں زیادہ ہیں خموش ہے یا اس انتظار میں ہے کہ جماعت کے ساتھ وعدہ بھیجوائیں گے لیکن دوسری طرف متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے یا غربا میں سے بعض ایسے ہیں کہ جن کے پاس پیسہ نہیں تھا اور انہوں نے چیزیں پیش کر دیں اور کہا کہ ہمارا اثاثہ لے لیا جائے.اگر چہ ہم نے لیا نہیں کیونکہ میرے اصل مخاطب امرا تھے مگر اس سے اتنا پتہ تو لگ سکتا ہے کہ جماعت میں ایسے مخلصین بھی ہیں جو اپنی ہر چیز قربان کر دینے کے لئے تیار ہیں.اسی سلسلہ میں مجھے یہ بھی شکایت پہنچی ہے کہ بعض جماعتوں کے عہدیدار لوگوں کو یہ کہہ کر خاموش کر رہے ہیں کہ جلدی نہ کرو پہلے غور کر لو! گویا ان کے غور کا زمانہ ابھی باقی ہے! ڈیڑھ دو مہینہ سے میں خطبات پڑھ رہا ہوں اور تمام حالات وضاحت سے 108

Page 121

تحریک جدید - ایک ابھی تحریک....جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 14 دسمبر 1934ء پیش کر چکا ہوں لیکن ابھی ان کے غور کا موقع ہی نہیں آیا؟ یہ مشورہ کوئی نیک مشورہ نہیں یا سادگی پر دلالت کو کرتا ہے یا شاید بعض خود قربانی سے ڈرتے ہوں اور دوسروں کو بھی اس سے روکنا چاہتے ہوں کہ ان کی ستی اور غفلت پر پردہ پڑا رہے.کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ میں جہاد کے موقع پر پہلے غور کیا جاتا تھا اور یہ کہا جاتا کہ جلدی نہ کرو غور کر لو؟ قرآن کریم میں تو اللہ تعالی فرماتا ہے کہ : فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَتِ (البقرة:148) یعنی دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اور جلدی کی کوشش کرو! مگر یہ کہتے ہیں کہ ٹھہر جاؤ، غور کر لو! حالانکہ غور کیلئے پہلے ہی کافی عرصہ مل چکا ہے.ایسے عہدیداروں کو یا د رکھنا چاہئے کہ ان کی اس تلقین سے جو لوگ سبقت کے ثواب سے محروم رہیں گے ان کا عذاب بھی انہی کی گردنوں پر ہو گا لیکن میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص ثواب سے محروم رہتا ہے تو اپنے کسی فعل کے نتیجہ میں رہتا ہے.یہ نظام کا کوئی سوال نہیں تھا کہ عہدہ داروں کے ماتحت رہ کر ہی کرنا ضروری تھا ہر شخص اپنے طور پر بھی رقم بھیج سکتا یا اپنا نام لکھوا سکتا تھا اسے کس نے روکا تھا کہ علیحدہ طور پر حصہ لیتا؟ اور جو لوگ کسی ایسی وجہ سے ثواب سے محروم ہیں ان کی اپنی بھی غلطی ہے.جماعتی لحاظ سے بعض مقامات سے مجھے اطلاع موصول ہوئی ہے کہ جماعتیں اپنی لسٹیں اکٹھی بھجوائیں گی.گو یاد میر اس وجہ سے ہے ان جماعتوں پر یا ان کے افراد پر کوئی الزام نہیں مگر ان میں سے بھی بعض مخلصین ایسے ہیں جنہوں نے اس دیر کو بھی برداشت نہیں کیا اور رقمیں بھیج دی ہیں اور جماعت کا انتظار بھی نہیں کیا.یہ گو معمولی باتیں ہیں مگر روحانی دنیا میں یہی چیز میں ثواب بڑھا دینے کا موجب ہو جایا کرتی ہیں.ایسی معمولی باتیں بظاہر نفسی والی ہوتی ہیں مگر روحانی دنیا میں وہ بہت قیمتی ہوتی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک دفعہ تقریر فرما رہے تھے بعض لوگ کھڑے تھے آپ نے فرمایا بیٹھ جاؤ ! حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ گلی میں جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آرہے تھے آپ نے یہ آواز سنی تو وہیں بیٹھ گئے اور گھسٹ گھسٹ کر چلنا شروع کر دیا.اب بظاہر یہ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ ایک شخص اکڑوں بیٹھا ہوا چلتا جا رہا ہے ایک شخص نے انہیں اس حالت میں دیکھا اور پوچھا کیا کر رہے ہو؟ آپ نے کہا میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بیٹھ جانے کے متعلق سنا اور اس خیال سے کہ کیا معلوم وہاں پہنچنے تک جان ہی نکل جائے اور اس کی تعمیل کا موقع ہی نہ ملے ، یہیں بیٹھ گیا.اب جس شخص نے انہیں اس حالت میں دیکھا وہ تو دل میں ہنستا ہوگا کہ یہ شخص کتنا نادان ہے مگر اسے کیا معلوم کہ یہی حرکت کس قدر خدا تعالیٰ کے حضور مقبول تھی.کئی باتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں دوسرے جلد بازی سمجھتے 109

Page 122

اقتباس از خطبه جمعه فرمود : 14 دسمبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول ہیں اور ان کے کرنے والوں کے متعلق بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بڑے خیر خواہ بنے پھرتے ہیں مگر یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ بڑا انکتہ نواز ہے اور وہ ضرور ثواب حاصل کر لیتے ہیں.میں نے کسی گزشتہ خطبہ میں بیان کیا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کے سپرد ایک مہمان کیا کہ اسے لے جا کر کھانا کھلاؤ.آپ اسے ساتھ لے گئے اور بیوی سے پوچھا کہ کھانا ہے؟ اس نے کہا صرف بچوں کے لئے ہی ہے اس سے زیادہ نہیں.انہوں نے کہا کہ یہ ایک تو مہمان ہے اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا بھیجا ہوا.بیوی نے کہا کہ پھر اس طرح کرتے ہیں کہ میں بچوں کو یونہی تھپک کر سلا دیتی ہوں اس کے بعد دستر خوان بچھا کر کھانا رکھ دوں گی تم کہنا کہ روشنی ذرا اونچی کر دو اور میں اونچی کرنے کے بہانہ سے گل کر دوں گی اور پھر معذرت کر دوں گی کہ آگ موجود نہیں اور روشنی کرنے کا کوئی اور سامان بھی نہیں ہمسایوں کو اس وقت تکلیف دینا مناسب نہیں اس لئے اگر مہمان اندھیرے میں ہی کھانا کھالے تو اس کی مہربانی ہوگی.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا.بچوں کو سلا دیا اور بتی اونچی کرتے ہوئے دیا بجھا دیا، مہمان سے معذرت کر دی اور اس نے کہا کوئی حرج نہیں میں اندھیرے میں ہی کھالوں گا اور پھر خود مہمان کے ساتھ بیٹھ کر یونہی منہ مارتے رہے، اس وقت تک پردہ کا حکم نازل نہ ہوا تھا اس لئے اس خیال سے کہ مہمان ہتک نہ محسوس کرے میاں بیوی دونوں اس کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھ گئے اور اس طرح مچا کے مارنے شروع کئے کہ گویا کھانے میں بڑا لطف آرہا ہے.اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ حرکت ایسی پسند آئی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو وحی کے ذریعہ اس سے آگاہ کیا اور جب وہ صحابی اگلے روز حضور میں یہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے ہنس کر فرمایا کہ کل رات تو تم نے خوب لطیفہ کیا! وہ صحابی گھبرائے کہ شاید میرے متعلق کوئی شکایت کسی نے کر دی ہے مگر آپ علیہ نے فرمایا کہ تمہاری اس بات کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ بھی ہنسا اور میں بھی ہنستا ہوں.اللہ تعالیٰ کی ہنسی کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اس کے دانت اور ہونٹ ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خوش ہوا، اس نے اس نکتہ کو نوازا اور اس کے عوض ان کے نام پر نیکیاں لکھیں.تو بعض دفعہ چھوٹی باتیں بھی خدا کو پیاری لگتی ہیں.سبقت کرنے والوں کی بعض باتیں بظاہر بے وقوفی کی ہوتی ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ بہت مقبول ہوتی ہیں.ہاں اگر ان کے اندر ریاء ہو تو پھر وہ لعنت بن کر گلے کا طوق بن جاتی ہیں.غرض یہ دن جو آئے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے رحمت کا موجب ہیں اور اگر ان سے فائدہ اٹھایا جائے تو عظیم الشان تغیر ہم اپنے اندر پیدا کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی بعض ایسی باتیں ظاہر ہو 110

Page 123

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 14 دسمبر 1934ء رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہمارے لئے بہت برکت کا موجب بنائے گا ضرورت صرف استقلال کی ہے اُسی استقلال کی جو اس رمضان والے نے دکھایا! اسے ہر روز دق کیا جاتا اور سمجھ لیا جاتا کہ اب اس کی زبان ہم نے بند کر دی مگر دوسرے روز محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پھر وہی بات پیش کر دیتے.پس ضرورت ہے کہ دنیا ہم کو بےشرم کہے، بے حیا کہے ، پاگل کہے.لوگ کہیں کہ یہ بہت بے شرم ہیں ہم نے ان کو سود فعہ منع کیا ہے کہ ہمارے سامنے یہ باتیں نہ کیا کرو مگر باز نہیں آتے ، یہ پاگل ہو گئے ہیں اور ان میں عقل کی کمی ہے.جب یہ بات پیدا ہوگی تو پھر اللہ تعالیٰ کا کلام نازل ہوگا.قرآن کریم کے بعد کسی نئے کلام کی تو ضرورت نہیں اور جو نیا اُترے بھی وہ اسی کے تابع ہوتا ہے اس لئے کلام الہی کے نزول سے میرا مطلب یہ ہے کہ یہی کلام دوبارہ انسان کے دل پر اُترتا ہے جو اس غار حرا والے کی اتباع کرے.اس پر ایسے ایسے قرآن کریم کے معارف کھولے جاتے ہیں کہ وہ خود حیران رہ جاتا ہے.“ وو خدا کیلئے اپنے اوپر موت وارد کر لینے اور تاریکی قبول کر لینے کے سوا خدا کو ہم نہیں پاسکتے اس لئے ہمارے دوست اس ظاہری رمضان سے بھی زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں تا جو روحانی رمضان ہم پر آیا ہوا ہے اس سے بھی زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھایا جا سکے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ہم نے رمضان اس لئے نازل کیا ہے تا لوگوں کو سہولت پہنچے اور وہ تنگی سے بچ جائیں لیکن ہم دیکھتے ہیں بظاہر ان دنوں میں زیادہ جنگی ہوتی ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ (البقرة: 185) ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ تم ایمان لاؤ اور پھر تنگیوں میں بسر کرو اس لئے ہم نے روزے فرض کئے تا تمہاری تنگیاں دور ہوں.یہ ایسا نکتہ ہے جو مومن کو مومن بناتا ہے اور جو یہ ہے کہ روزہ میں بھوکا رہنا یا دین کے لئے قربانی کرنا انسان کے لئے کسی نقصان کا موجب نہیں بلکہ سراسر فائدہ کا باعث ہے جو یہ خیال کرتا ہے کہ رمضان میں انسان بھوکا رہتا ہے وہ قرآن کی تکذیب کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم بھوکے تھے ہم نے رمضان مقر کیا تائم روٹی کھاؤ.پس معلوم ہوا کہ روٹی یہی ہے جو خدا کھلاتا ہے اور اصل زندگی اسی سے ہے اس کے سوا جو روٹی ہے وہ روٹی نہیں پتھر ہیں جو کھانے والے کے لئے ہلاکت کا موجب ہیں.مومن کا فرض ہے کہ جو لقمہ اس کے منہ میں جائے اس کے متعلق پہلے دیکھے کہ وہ کس کے لئے ہے اگر تو وہ خدا کیلئے ہے تو وہی روٹی ہے اور اگر نفس کے لئے ہے تو وہ روٹی نہیں، جو کپڑا خدا کے لئے

Page 124

اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 14 دسمبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول پہنا جائے وہی لباس ہے جو نفس کے لئے پہنتا ہے وہ نگا ہے.دیکھو! کیسے لطیف پیرایہ میں بتایا ہے کہ جب تک خدا کے لئے تکالیف اور مصائب برداشت نہ کرو تم سہولت نہیں اٹھا سکتے.اس سے ان لوگوں کے خیال کا بھی ابطال ہو جاتا ہے جو بقول حضرت مسیح موعود علیہ السلام رمضان کو موٹے ہونے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں.حضور فرمایا کرتے تھے کہ بعض لوگوں کے لئے تو رمضان ایسا ہی ہوتا ہے جیسے گھوڑے کے لئے خورید.وہ ان دنوں میں خوب گھی ،مٹھائیاں اور مرغن اغذیہ کھاتے ہیں اور اسی طرح موٹے ہو کر نکلتے ہیں جس طرح خورید کے بعد گھوڑا.یہ چیز بھی رمضان کی برکت کو کم کرنے والی ہے.ہماری جماعت کے دوستوں نے عام اقرار کیا ہے کہ غذا کو سادہ کر دیں گے اور صرف ایک سالن پر گزارہ کریں گے.اس میں شک نہیں کہ اس پر عمل میں نے ہر ایک کی مرضی پر چھوڑا ہے اور یہ تحریک اختیاری ہے مگر میں سمجھتا ہوں یہ اختیار صرف نیکی کو زیادہ کرنے کیلئے ہے ورنہ جو احمدی اسے اختیار نہیں کرتا وہ نیکی سے محروم رہتا ہے اس لئے دوستوں کو رمضان کے مہینہ میں خاص طور پر اس اقرار کے متعلق احتیاط برتنی چاہئے.افطار میں تنوع اور سحری میں تکلفات نہیں کرنے چاہئیں اور یہ نہیں خیال کرنا چاہئے کہ سارا دن بھوکے رہے ہیں اب پرخوری کر لیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ کرام افطار وغیرہ کے لئے کوئی تکلفات نہ کرتے تھے کوئی کھجور سے، کوئی نمک سے، بعض پانی سے اور بعض روٹی سے افطار کر لیتے تھے اور ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم بھی اسی طریق کو پھر سے جاری کریں جبکہ دین کیلئے خدا تعالیٰ وہی زمانہ پھر لایا ہے اور اس کے لئے طرح طرح کے مصائب ہیں بے شک ذاتی طور پر ہمارے لئے کوئی مصیبت نہیں لیکن جب دین کے لئے مصیبت ہے تو وہ ہمارے لئے ہے اور خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم وہی دن یاد کریں جب قرآن نازل ہوا تھا تو ہمارے لئے بھی وہی طریق اختیار کرنا ضروری ہے جو ان دنوں میں تھا.( مطبوعه الفضل 20 دسمبر 1934 ء ) 112

Page 125

زیک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از تقریر فرموده 27 دسمبر 1934ء حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات تقریر فرمودہ 27 دسمبر 1934ء بر موقع جلسہ سالانہ میری ان تحریکوں کے متعلق جو میں نے پچھلے دنوں کی ہیں بعض دوستوں نے لکھا ہے: ہم تو امید کرتے تھے کہ آپ لاکھوں روپے اور لاکھوں والنٹیئرز مانگیں گے مگر آپ نے صرف ساڑھے ستائیس ہزار روپیہ مانگا اور چند آدمی مانگے ! میں معترف ہوں ان دوستوں کے اخلاص اور ایثار کا مگر میں یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ وسعت خیال میں انہوں نے مجھے شکست دے دی ہے.میں نے نہ ساڑھے ستائیس ہزار روپیہ مانگا ہے اور نہ چند آدمی مانگے ہیں بلکہ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم صحابہ سے فرمایا کرتے تھے کہ فلاں مہمان کو کھانا کھلا دو.آسمانی جماعتیں لاکھوں کروڑوں انسانوں سے نہیں جیتا کرتیں اور نہ لاکھوں کروڑوں روپوں سے جیتی ہیں بلکہ پوری چیز سے جیتی ہیں.اگر جماعت کے سو آدمی ہوں اور سو ہی مل جائیں تو وہ جماعت کامیاب ہو جاتی ہے.پس میر امطالبہ یہ ہے کہ جو کچھ مومنوں کے پاس ہے وہ مجھے دے دیں اور جتنے مومن ہیں وہ سب کے سب مجھے مل جائیں ، اگر ان کے پاس صرف دو روپے ہیں اور دو ہی مجھے مل جاتے ہیں تو میں کامیاب ہوں گا ، اگر ایک لاکھ کی جماعت ہے جن میں سے 99,999 منافق ہیں اور صرف ایک مومن ہے تو وہ جب میرے پاس آگیا کامیابی ہو جائے گی اور اگر اس مومن کے پاس صرف ایک دھیلا ہے اور وہ بھی کھوٹا مگر وہ لے آتا ہے تو فتح ہو جائے گی.پس یہ کہنا ان کی غلطی ہے کہ وہ لاکھوں کی امید رکھتے تھے مگر میں نے صرف چند مانگے ہیں.ہم تو یوم اور بعض یوم ہی جانتے ہیں.میرا سوال نہ آج کے لئے ہے نہ کل کے لئے اور نہ پرسوں کے لئے ، نہ ہزاروں روپے کا ہے نہ لاکھوں کا نہ کروڑوں کا ، نہ ہزاروں انسانوں کے لئے ہے نہ کروڑوں کے لئے.اگر کوئی بہت بڑا امیر احمدی ہو جاتا ہے اور ایک ارب روپیہ دیتا ہے جبکہ جماعت بحیثیت جماعت قربانی نہیں کرتی تو کیا اس سے احمدیت کامیاب ہو جائے گی ؟ نہیں.اس کے مقابلہ میں اگر ایک غریب احمدی ہے اور وہ اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کر دیتا ہے.مثلاً اس کے پاس ایک ہی روپیہ ہے اور وہی دے دیتا ہے تو کامیابی حاصل ہو جائے گی.پس میرا یہ مطالبہ ہے کہ ہر مومن اپنی جان 113

Page 126

اقتباس از تقریر فرموده 27 دسمبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول اور اپنا تمام مال دے تب کامیابی ہوگی.اگر کہو کہ بعض کی سستی اور کو تا ہی کا الزام ہم پر کیوں رکھا جاتا ہے؟ تو یاد رکھنا چاہئے کہ ہر مومن کا فرض ہے کہ دوسروں کو اپنے ساتھ آگے بڑھائے اور پیچھے نہ رہنے دے.مومن کسی حال میں پیچھے نہیں رہتا.اگر رہتا ہے تو اسی وجہ سے کہ اس کی تربیت نہیں ہوئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت شراب کے حرام ہونے کا جب حکم نازل ہوا تو کچھ صحابہ ایک جگہ بیٹھے شراب پی رہے تھے اور شراب کے نشہ میں مخمور تھے ،شراب کا نشہ کتنا بڑا ہوتا ہے، اس وقت ایک شخص بازار سے یہ کہتا ہوا گزرا کہ اے مسلمانو ! رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے شراب حرام کر دی ہے! اس مخمور حالت میں، جب کہ کوئی اپنے ماں باپ کی بات سنے کیلئے بھی تیار نہیں ہوتا، ایک نے شراب کے نشہ میں کہا: ذرا دروازہ کھولنا تا معلوم کریں کہ کہنے والے نے کیا کہا ہے؟ دوسرا اٹھا اور اس نے کہا: پہلے میں شراب کے مٹکے اور دوسرے برتنوں کو توڑ دوں گا اور پھر پوچھوں گا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کیا کہا ہے؟ پس مومن کو جب آواز پڑے تو خواہ وہ دنیا کے نشے میں کتنا ہی مخمور ہو تو بھی اٹھ کھڑا ہوتا ہے مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ مومن تک آواز پہنچے.ہمیں کافروں اور منافقوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ مومنوں کی ہے اور سب کے سب مومنوں کی ہے اسی لئے میں نے کہا تھا کہ آپس میں اگر کسی کی ناراضگی ہو تو صلح کر لو تا کہ سب کے سب مل کر آگے بڑھیں اور ایک جھنڈے کے نیچے جمع ہو جائیں.پس جب سب مومن آگئے تو ان کا سب مال آ گیا تب فتح یقینی ہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنا سارا مال مجھے دے دیں بلکہ یہ ہے کہ وہ سمجھیں کہ ان کے پاس جو کچھ ہے میرا ہی ہے.پس سب کے سب مومنوں کو ساتھ لے کر اٹھو اور مل کر آگے قدم بڑھاؤ.اگر کسی کو کسی سے ناراضگی ہو تو اسے دور کر دو.دیکھو! جن بچوں کے ماں باپ مر جاتے ہیں وہ آپس میں ایک دوسرے سے کس طرح پیار اور محبت کرتے ہیں.اگر ان کے ماں باپ کو گالیاں دی جارہی ہوں اور وہ کچھ نہ کر سکیں تو کیا کریں گے؟ یہی کہ ایک دوسرے سے چمٹ کر رونے لگ جائیں گے.میں نے وہ بچے دیکھے ہیں جو ماں کے مرجانے کی وجہ سے دوسری ماؤں کے سپرد کئے گئے اور جب ان کی ماں کو برا بھلا کہا گیا وہ آپس میں لپٹ کر رونے لگ گئے.قرآن کریم میں نبی کو مومنوں کا باپ قرار دیا گیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوئے ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا اور ہم اس وجہ سے اپنے آپ کو یتیم سمجھتے تھے.پھر حضرت مسیح موعود بھی فوت ہو چکے ہیں، آج لوگ ان کو برا بھلا کہتے ہیں مگر ہم بے بس ہیں اس لئے نہیں کہ ہم میں کچھ کرنے کی طاقت نہیں ہے ، ان سے بہت زیادہ طاقت ہے جو ہمیں دکھ دے رہے ہیں بلکہ اس 114

Page 127

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول اقتباس از تقریر فرموده 27 دسمبر 1934ء لئے کہ وہی ہمارے ہاتھ باندھ گیا ہے جس کے خلاف بد زبانی کر کے ہمیں دکھ دیا جارہا ہے.پھر خدا تعالیٰ نے ہمارے ہاتھ باندھ دیئے ہیں.پس ہم بے بس ہیں.اگر اس وقت ہم ایک دوسرے سے نہیں چمٹ جاتے تو اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنا باپ سمجھتے ہیں اور آپ کے خلاف بدزبانی کرنے والوں سے ہمیں صدمہ پہنچ رہا ہے؟ جب میری بیوی امتہ ابھی مرحومہ فوت ہوئیں تو بڑی لڑکی سات آٹھ سال کی تھی اور چھوٹی پانچ سال کی ماں کے فوت ہونے پر بڑی لڑکی مجھے چھٹ کر رونے لگی اور کہنے لگی کہ اب امتہ الرشید خلیل کو جوان کا چھوٹا بھائی ہے، کون پالے گا ؟ اس وقت وہ ساری لڑائیاں بھول گئی اور اپنے سے سب سے قریب چیز وہی بہن نظر آئی جس سے لڑتی رہتی تھی.پس میں کس طرح مان لوں کہ ہم اپنے آپ کو یتیم محسوس کرتے ہیں اور حضرت مسیح موعود کو اپنا باپ سمجھتے ہیں جبکہ ہم ایک دوسرے کو گلے سے پکڑنے کے لئے تیار ہوں؟ تمام احمدیوں کو میری یہ نصیحت ہے کہ جاؤ اور اپنے دوسرے بھائیوں کے گلے سے لیٹے رہو.حتی کہ حضرت مسیح موعود کے پاس پہنچ جاؤ.مسجد اقصیٰ میں جب میں نے اعلان کیا کہ آپس کی ناراضگیاں دور کر دو اور بنیان مرصوص بن کر دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ تو قادیان کے احمدیوں نے کہا ہم ایسا ہی کرنے کے لئے تیار ہیں اور باہر کے احمدیوں نے لکھا کہ کاش! ہم بھی اس وقت موجود ہوتے.آج باہر کے ہزاروں احمدی یہاں موجود ہیں میں ان سے کہتا ہوں کہ میں نے انہیں خدا کا پیغام پہنچا دیا.تم اس وقت ایک یتیم قوم ہو تم پر مصائب پر مصائب آئیں گے اور تمہیں بھائیوں کی طرح رہنا ہو گا.جاؤ! اپنے ان بھائیوں کے گلے مل جاؤ جن سے تمہیں کسی قسم کی ناراضگی اور رنج ہے، جاؤ اور ان سے مل جاؤ.کیا میں نے تمہیں خدا کا یہ پیغام پہنچا دیا؟ اس پر تمام مجمع نے متفق اللسان ہو کر کہا ہاں حضور نے پیغام پہنچا دیا.) پھر میں نے سادگی کی زندگی بسر کرنے کی تعلیم دی ہے اس لئے کہ تم اعلیٰ قربانیاں کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ، محنت اور مشقت برداشت کرنے کی تم میں طاقت پیدا ہو، مشکلات اور تکالیف برداشت کر سکو اور جب تمہارے پاس مال ہوگا تو تم اعلیٰ قربانی کرنے کے قابل ہو سکو گے.دل کی قربانی سے مال مہیا نہیں ہوسکتا لیکن جب دل کی قربانی ہوگی اور تمہارے پاس مال بھی ہو گا تو اسے تم پیش کر سکو گے.پس سادہ کھانا کھاؤ، سادہ کپڑے پہنو اور کفایت شعاری سے گزارہ کرو.اپنی آمدنی میں سے چندے دو اور ایک حصہ امانت فنڈ میں جمع کراؤ.پھر کچھ اپنے پاس بھی جمع کرو.بعض کہتے ہیں کہ یہ دین کے خلاف ہے مگر انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود نے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ کم از کم تنخواہ کا 1/4 115

Page 128

اقتباس از تقریر فرمودہ 27 دسمبر 1934ء " تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول جمع کرتے جاؤ.پس جب تک تمہیں یہ آواز نہیں آتی کہ سب کچھ لے آؤ اس وقت تک کچھ نہ کچھ جمع کرتے جانا چاہئے.بعض کہتے ہیں کہ کیا یہ تین سال کے لئے ہے مگر بات یہ ہے کہ تین سال کی میعاد تو ایسی ہے جیسا کہ جب کوئی جانور چلتا نہ ہو تو اسے چلانے کے لئے گھاس دکھائی جاتی ہے پھر جب چل پڑے تو چلتا ہی جاتا ہے.میں عالم الغیب نہیں ہوں میں نہیں جانتا کہ مشکلات کب تک دور ہوں گی ؟ میں نے مشکلات دور کرنے کہ تدابیر پیش کی ہیں اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جب جماعت ان پر کار بند ہو جائے گی تو پھر ان پر عمل کرتی رہے گی.پس یہ تدابیر فتح حاصل ہونے تک کے لئے ہیں ان پر عمل کرانے کے لئے جبر اس لئے نہیں کیا گیا کہ عمل کرنے والوں کو ثواب زیادہ حاصل ہو.اگر کوئی ان تدابیر پر عمل نہیں کرتا تو نہ ہم اسے جماعت سے نکالیں گے اور نہ اسے برا کہیں گے.یہ جو کچھ پیش کیا گیا ہے یہ ابتدائی سکیم ہے.بعض اور تدابیر بھی ہیں جن میں سے کئی ایک ایسی ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ ان پر یقینا عمل کرنا پڑے گا اور اب وہی ہمارے ساتھ چل سکے گا جو یہ سمجھے گا کہ جب اُکھلی میں سر دیا تو پھر موسلوں سے کیا ڈرنا ! جو اس کے لئے تیار نہیں وہ گھر میں بیٹھے رہیں.“ یا درکھو کہ اب ایسا وقت آگیا ہے کہ آپ لوگوں کو دو میں سے ایک چیز قبول کرنی ہوگی یا تو وہ زندگی قبول کرو جس کے بعد کوئی زندگی نہیں یا پھر وہ موت قبول کرو جس کے بعد کوئی موت نہیں.وہ جو بظاہر زندگی ہے خدا تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس کے بعد زندگی نہیں اور وہ جو موت ہے اس کے متعلق خدا تعالٰی نے بتایا ہے کہ اس کے بعد حیات ابدی ہے.میں نے جو اخراجات کے لئے پہلی قسط طلب کی ہے اس کے متعلق اگرچہ سب نے ابھی تک توجہ نہیں کی مگر روپیہ آیا ہے اور جس قدر طلب کیا گیا تھا اس سے بہت زیادہ آیا ہے.امانت فنڈ کا روپیہ بھی کافی آجائے گا اور اگر پیش آمدہ ضروریات سے زیادہ چندہ آگیا تو میرا ارادہ ہے کہ چونکہ انگریزی ترجمہ قرآن کی اشاعت کی فورا ضرورت ہے اس میں سے کچھ رو پید اس کام پر خرچ کیا جائے.اگر اس کام سے بھی بڑھ گیا تو وہ اگلے سال کام آجائے گا.دین کی خدمت کے لئے زندگی وقف کرنے والوں کی بھی کافی تعداد ہو چکی ہے مگر کئی باتیں ایسی ابھی ایسی ہیں جن کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے.مثلاً (1) نو جوانوں کا غیر ممالک میں جانا ، (2) اعلیٰ عہدیداروں اور تعلیم یافتہ لوگوں کا لیکچر دینے کے لئے پنے آپ کو پیش کرنا (3) رخصت لے کر یا فراغت کے موسم میں تبلیغ کے لئے اپنا نام لکھانا، (4) 25 لاکھ روپیہ تک کیلئے ریز روفنڈ جمع کرنا ، (5) پنشن یافتہ یا فارغ البال لوگوں کا مرکز میں کام 116

Page 129

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول اقتباس از تقریر فرموده 27 دسمبر 1934ء کرنے کیلئے اپنے آپ کو پیش کرنا ، (6) قادیان کے سکولوں میں بچوں کو تعلیم کیلئے بھیجنا اور ان کے متعلق یہ اختیار دینا کہ ان کی دینی تربیت پر زور دینے کے لئے ہم جس رنگ میں ان کو رکھنا چاہیں رکھ سکیں اور (7) قادیان میں مکان بنانے کی کوشش کرنا.یہ سات باتیں ایسی ہیں جن کی طرف ابھی تک کم توجہ کی گئی ہے.ان میں سے ہر ایک کے متعلق احباب کو چاہیے کہ مجھے جواب دیں.بہت سے احباب نے توجہ کی ہے مگر جس قدر جماعت ہے اس کے مقابلہ میں توجہ کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے.یہ اصل تحریکیں ہیں اور یا درکھنا چاہئے کہ میں سب کچھ مانگ رہا ہوں ہاں فی الحال یہ چند مطالبات کئے ہیں.پس احباب کو چاہئے کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں، سادہ کھانا کھائیں ،سادہ کپڑا پہنیں، دین کی خدمت کیلئے اپنے آپ کو پیش کریں، کوئی احمدی بے کار نہ رہے اگر کسی کو جھاڑو دینے کا کام ملے تو وہ بھی کرلے اس میں بھی فائدہ ہے.ہر حال کوئی نہ کئی کام کرنا چاہئے اس کے جو فوائد ہیں وہ میں اس وقت نہیں بیان کر سکتا کیونکہ وقت تھوڑا ہے مگر یہ ضرور کہتا ہوں کہ ہر شخص کو کوشش کرنی چاہئے کہ بے کار نہ رہے.ماں باپ سنگدل بن کر اپنے بے کارلڑکوں سے کہہ دیں کہ ہم نے تمہیں پالا پوسا ہے اب تم جوان ہو جاؤ اور خود کما کر کھاؤ.بے شک یہ سنگدلی ہے مگر اس پیار اور محبت سے ہزار درجہ بہتر ہے جو بے کاری میں مبتلا رکھتی ہے.میں نے یہ بھی سوچا ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے دینی کورس تیار کیا جائے اور پھر اس میں ان کا امتحان لیا جائے کوئی احمدی لڑکا یا لڑ کی ایسی نہ ہو جسے اس کورس کی تعلیم نہ ہو ہر ایک کے لئے اس کا پڑھنا لازمی ہو.زمیندار احباب سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ وہ سنتے چھوٹ گئے ان کی بھی باری آرہی ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ زمیندار طبقہ جو نہایت شاندار قربانیاں کرتا رہا ہے اب بھی کرے گا.پراپیگنڈہ کے لئے جو کمیٹی بنائی گئی ہے اس نے اپنا کام شروع کر دیا ہے مگر جو کچھ وہ تیار کرے اسے لوگوں کے گھروں تک پہنچانا جماعت کا کام ہے مگر جماعت کی توجہ اس طرف کم ہے اگر توجہ کی جاتی تو کئی سو الفضل اور کئی ریویو اور سن رائز کے پرچے جاری کرائے جا سکتے ہیں اور اس طرح بہت اہم کام ہو سکتا ہے فی الحال میں جماعت میں تحریک کرتا ہوں کہ الفضل کے کم از کم دوسو پرچے مفت تقسیم کئے جائیں اور پانچ پانچ سور یویو اور سن رائز کے.اتنی تعداد جماعتوں کے نام بحصہ رسدی لگادی جائے اور احباب اپنی اپنی جگہ کوشش کریں کہ اتنے پر چوں کی قیمت مفت اشاعت کے لئے جمع ہو جائے.میں نے کئی بار اخبارات کی ایجنسیاں قائم کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی ہے اگر احباب کوشش کریں تو اس طرح ہزاروں کی تعداد میں پرچے نکل سکتے ہیں.بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس طرح مہینہ میں روپیہ، ڈیڑھ روپیہ سے زائد آمد نہیں ہوسکتی مگر میں کہتا ہوں 117

Page 130

اقتباس از تقریر فرموده 27 دسمبر 1934ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول کہ روپیہ، ڈیڑھ روپیہ صفر سے بہر حال زیادہ ہوتا ہے اور آج کل تو اس سے ایک شخص ایک مہینہ تک کھانا کھا سکتا ہے.پس میں جماعتوں کو ہدایت دیتا ہوں کہ اپنی اپنی جگہ کے بے کاروں یا ان کو جنہیں اپنے دوسرے کاموں سے فرصت مل سکتی ہے اخبارات فروخت کرنے کے کام پر لگا دیں.غرض ہر رنگ میں کام کرنے کی ضرورت ہے.میں تمہیں ایک طرف تو یہ کہتا ہوں کہ جاؤ نکل کر تمام دنیا میں پھیل جاؤ اور دوسری طرف یہ کہتا ہوں کہ جب تمہیں مرکز سلسلہ سے آواز آئے کہ آجاؤ تو لبیک کہتے ہوئے جمع ہو جاؤ یہ آنا جسمانی طور پر بھی ہوسکتا ہے اور روحانی ، اخلاقی اور مالی طور پر بھی.اللہ تعالیٰ سورۃ البقرہ میں فرماتا ہے: وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِمُ رَبِّ اَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتُ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنُ قَالَ بَلَى وَلكِنْ لِيَطْمَينَ قَلبِى قَالَ فَخُذْاَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعيًا ط (البقرة :260) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے کہا کہ آپ کے حکم سے میں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے.اب بتائیے میری جماعت کس طرح غالب آئے گی.چنانچہ انہوں نے کہا: رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتُى اے میرے رب ! ہم تو دنیا کے مقابلہ میں مردہ ہیں.بتائیے آپ کس طرح ان مردوں کو زندہ کریں گے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اَوَلَمْ تُؤْمِنُ کیا تمہیں زندہ کرنے پر ایمان نہیں؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا ایمان ہے اور آپ کا وعدہ ہے مگر نظمین قلبی.میں یہ چاہتا ہوں کہ اس وعدہ کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتا دیکھوں کیونکہ اطمینان اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب چیز مل جائے.ایمان کے معنی چیز کے ملنے پر یقین ہوتا ہے اور اطمینان چیز کے ملنے پر حاصل ہوتا ہے.خدا تعالے نے فرمایا:- فَخُذْ ارْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ چار پرندے لو، فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ اور اپنے ساتھ سدھالو، ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْء پھر انہیں چار پہاڑوں پر رکھ دو، ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعَيًّا پھر انہیں بلا و وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آئیں گے.اسی طرح یہ بتایا کہ اپنی جماعت میں اخلاص اور تقویٰ پیدا کرو اور انہیں کہو کہ دنیا میں چاروں طرف نکل جائیں مگر یہ سمجھا دو کہ جب تمہیں آواز آئے تو جمع ہو جاؤ.118

Page 131

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد اول اقتباس از تقریر فرموده 27 دسمبر 1934ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی یہ الہام ہوا ہے.پس اس مضمون نے آپ کوی جماعت کے بارے میں پورا ہو نا ہے.مومن کو کلام الہی میں پرندہ کہا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام چونکہ ابراہیم رکھا گیا ہے اس لئے آپ سب لوگ ان کے پرندے ہوئے.پس اے ابراہیم ثانی کے پرندو! اگر احیاء چاہتے ہو تو دنیا میں پھیل جاؤ مگر اس طرح نہیں کہ اپنے اصل گھر کو بھول جاؤ تمہارا اصل گھر قادیان ہی ہے خواہ تم کہیں رہتے ہوا سے یا درکھو.جب تمہیں ابراہیمی آواز آئے ، قادیان سے خدا کا نمائندہ، میں یا کوئی اور جب کہے کہ اے احمد یو! خدا کے دین کو تمہاری اس وقت ضرورت ہے تم جہاں جہاں ہو مرکز میں حاضر ہو جاؤ.اگر مال کی ضرورت ہو تو مال حاضر کرو، اگر جان کی ضرورت ہو تو جان پیش کر دو اور چاروں طرف سے وہی نظارہ نظر آئے جو حج کے موقع پر ہر طرف سے لبیک اَللَّهُمَّ لَبَّیک کہنے والوں کا نظر آتا ہے.خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا تھا کہ تمہاری نسل چاروں طرف پھیل جائے گی اور جب تم ان کو بلاؤ گے تو دوڑیں آئیں گے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ہونا چاہئے کہ چاروں طرف سے لبیک کہنے والے دوڑے آئیں.اس نظارہ ہی کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس شعر میں اشارہ فرماتے ہیں کہ: زمین قادیان اب محترم ہے ہجوم خلق سے ارض حرم ہے پس جاؤ اور دنیا میں پھیل جاؤ کہ کامیابی کا ذریعہ یہی ہے اور جب آواز پہنچے تو یوں جمع ہو جاؤ جس طرح پرندے اڑ کر جمع ہو جاتے ہیں.پھر خواہ کتنی بڑی کوئی فرعونی طاقت تمہارے مٹانے کے لئے کھڑی ہو جائے اسے معلوم ہو جائے گا کہ احمدیت کو مٹانا آسان نہیں ہے.یہ وہ چیز ہے جس کی میں آپ لوگوں سے امید کرتا ہوں کیونکہ آپ وہ لوگ ہیں جن میں خدا تعالیٰ نے حقیقی ایمان پیدا کیا اور جو مقدس گھر کے گرد گھومنے والے پرندے ہیں.میں نے خدا تعالیٰ کی باتیں آپ کو پہنچا دیں جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا اور جو کچھ بتانا تھا تا دیا.اب یہ تمہارا کام ہے کہ لبیک اللھم لبیک کہتے ہوئے کھڑے ہو جاؤ.“ ( مطبوعہ الفضل 20 جنوری (1935ء ) 119

Page 132

Page 133

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 4 جنوری 1935ء ہماری جماعت کے دوست اس سکیم پر بچے طور پر عمل کریں خطبہ جمعہ فرمودہ 4 جنوری 1935ء اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کیا ہوگا یا کیا نہ ہو گا ؟ مگر میں نے تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک پروگرام تیار کیا ہے اور ایک سکیم جماعت کے سامنے رکھی ہے کہ اس طریق پر عمل کرو تو احراری فتنہ سے محفوظ رہو گے.میں یقین رکھتا ہوں، خالی یقین نہیں بلکہ ایسا یقین جس کے ساتھ دلائل ہیں اور جس کی ہر ایک کڑی میرے ذہن میں ہے اور اس یقین کی بنا پر میں کہتا ہوں کہ گو جو شیلے لوگوں کو وہ سکیم پسند نہ آئے لیکن ہماری جماعت کے دوست اس سکیم پر بچے طور پر عمل کریں تو یقینا فتح ان کی ہے.میں نے روپیہ کے متعلق جو تحریک کی تھی اس کا جواب جو جماعت کی طرف سے دیا گیا ہے وہ اتنا خوش آئند ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے یہ خیال نہیں کیا جاسکتا کہ باقی حصہ سکیم میں جماعت کمزوری دکھلائے گی مگر جیسا کہ میں نے کئی بار بیان کیا ہے بعض لوگ فوری بڑی قربانی کے لئے تو تیار ہو جاتے ہیں مگر مستقل اور چھوٹی قربانی نہیں کر سکتے.میں نے ساڑھے ستائیس ہزار روپیہ کی تحریک کی تھی مگر اس وقت تک ساٹھ ہزار سے زائد کے وعدے آچکے ہیں اور بیس ہزار کے قریب نقد آ چکا ہے اس لئے بالکل ممکن ہے کہ گو میں نے پندرہ جنوری تک صرف وعدوں کا مطالبہ کیا تھا لیکن اس تاریخ تک نقد رقم مطالبہ کے برابر یا اس سے بڑھ کر آجائے.جیسا کہ میں نے جلسہ سالانہ پر اعلان کیا تھازائد رقم کا ایک حصہ یعنی چھ سات ہزار روپیہ تو میں قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ پر خرچ کرنا چاہتا ہوں اور میرا خیال ہے کہ جلد سے جلد انگلستان آدمی بھیجے جائیں جو اس کی چھپائی وغیرہ کا جلد سے جلد انتظام شروع کر دیں اور باقی جو روپیہ بچے گا اسے آئندہ دونوں سالوں پر تقسیم کر دیا جائے گا اور اس صورت میں بجائے 22 ہزار کے آئندہ سالوں میں صرف 14 ،15 ہزار روپیہ ہی جماعت سے مانگنا پڑے گا باقی پہلے ہی جمع ہوگا مگر میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ روپیہ بتانا کی تحریک اصل تحریک کا 1/100 حصہ بھی نہیں بقیہ تحریک میں جو اصول ہیں وہ بہت زیادہ مفید اور اہم ہیں اس لئے ان پر زیادہ سے زیادہ عمل کی ضرورت ہے خالی روپیہ جمع کر لینے سے کچھ نہیں بن سکتا کیونکہ 121

Page 134

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 4 جنوری 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد اول 1/100 حصہ تو کوئی چیز نہیں.ایک شخص ایک گلاس پانی یا دودھ میں تین چمچے شکر ڈالنے کا عادی ہے.ایک چیچ میں ڈھائی تین گرام شکر آتی ہے اور اس طرح وہ قریباً ایک اونس شکر ڈالتا ہے لیکن اگر وہ اس کا 1/100 حصہ یعنی صرف اڑھائی رتی ڈالے تو کیا اس سے پیالہ میٹھا ہو جائے گا؟ ہر گز نہیں ! اس میں اتنی مقدار کا تو پتہ بھی نہیں لگ سکے گا.پس جو چیز تحریک ک1/100 حصہ ہے اس پر خواہ کس قدر جوش کے ساتھ عمل کیا جائے کامیابی نہیں ہو سکتی.اصل کام وہ ہے جو جماعت کو خود کرنا ہے.روپیہ تو ایسے حصوں کے لئے ہے جہاں پہنچ کر جماعت کام نہیں کر سکتی باقی اصل کام جماعت کو خود کرنا ہے.قرآن اور حدیث سے کہیں یہ پتہ نہیں چلتا کہ کسی نبی نے مزدوروں کے ذریعہ فتح حاصل کی ہو.کوئی نبی ایسا نہ تھا جس نے مبلغ اور مدرس نوکر رکھے ہوئے ہوں خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک بھی مبلغ نوکر نہ تھا اب تو جماعت کے پھیلنے کی وجہ سے سہارے کے لئے بعض مبلغ رکھ لئے گئے ہیں جیسے پہاڑوں پر لوگ عمارت بناتے ہیں تو اس میں سہارے کے لئے لکڑی دے دیتے ہیں تا لچک پیدا ہو جائے اور زلزلہ کے اثرات سے محفوظ رہے.پس ہمارا مبلغین کو ملازم رکھنا بھی لچک پیدا کرنے کے لئے ہے وگر نہ جب تک افراد جماعت تبلیغ نہ کریں، جب تک وہ یہ نہ بجھیں کہ ان کے اوقات دین کے لئے وقف ہیں، جب تک جماعت کا ہر فرد سر کو ہتھیلی پر رکھ کر دین کے لئے میدان میں نہ آئے اس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی.“...جب تک جماعت کے ہر فرد کے اندر یہ روح پیدا نہ ہو اور جب تک ہر شخص اپنی جان سے بے پروا ہو کر دین کی خدمت کے لئے آمادہ نہ ہو جائےکوئی کامیابی نہیں ہوسکتی.یہ اور بات ہے کہ ہم کسی پر ظلم نہ کریں، فساد نہ کریں، قانون شکنی نہ کریں مگر یہ روح ہمارے اندر ہونی چاہئے کہ ظالم کی تلوار سے مرنے کیلئے تیار ہیں اور میرے پروگرام کی بنیاد اسی پر ہے.جب میں کہتا ہوں کہ اچھا کھانا نہ کھاؤ تو اس کا یہ مطلب ہے کہ جو اس لئے زندہ رہنا چاہتا ہے وہ نہ رہے اور جب کہتا ہوں قیمتی کپڑے نہ پہنو تو گویا طلب زندگی کے اس موجب سے میں تمام جماعت کے لوگوں کو محروم کرتا ہوں اور جب یہ کہتا ہوں کہ کم سے کم رخصتیں اور تعطیلات کے اوقات سلسلہ کے لئے وقف کرو تو اس بات کیلئے تیار کرتا ہوں کہ باقی اوقات بھی اگر ضرورت ہو تو سلسلہ کے لئے دینے کے واسطے تیار ہیں اور جب وطن سے باہر جانے کو کہتا ہوں تو گویا جماعت کو ہجرت کے لئے تیار کرتا ہوں.طب میں سہولتیں پیدا کرنے کو اس لئے کہتا ہوں کہ جو لوگ تہذیب و تمدن کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں اور اس لئے باہر نہیں جا سکتے کہ وہاں یہ سہولتیں میں 122

Page 135

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 4 جنوری 1935ء نہیں آسکتیں اور معمولی تکلیف کے وقت بھی اعلی درجہ کی دوائیں اور دوسری آرام دہ چیزیں نہیں مل سکتیں ان کو اس سے آزاد کر دوں اور تہذیب کے ان رسوں کو توڑ دوں.جب ایک کشتی کے زنجیر توڑ دیئے جائیں تو کسی کو کیا معلوم کہ پھر لہریں اسے کہاں سے کہاں لے جائیں گی.پس میں نے جماعت کی کشتی کا لنگر توڑ دیا ہے کہ خدا تعالیٰ کشتی کو جہاں چاہے لے جائے کیونکہ ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارے لئے کس ملک میں ترقی کے لئے زیادہ سامان مہیا کئے گئے ہیں.پس یہ مت خیال کرو کہ دس ہیں یا سو دو سور و پیہ دے دیا اور فرض ادا ہو گیا یہ تو ادنی ترین قربانی تھی سکیم کے اصل حصے دوسرے ہیں جو زیادہ اہم ہیں اور جب تک ہر فرد جماعت ان کی طرف توجہ نہ کرے اور اس احتیاط کے ساتھ ان پر عمل نہ کرے جس کے ساتھ ایک لائق اور ہوشیار ڈاکٹر اپنے زیر علاج مریض کو پر ہیز کرواتا ہے اس وقت تک فائدہ نہیں ہو سکتا.میں نے اپنی ذات میں بھی تجربہ کیا ہے اور باہر سے بھی بعض دوستوں کے خطوط آتے ہیں کہ پہلے یہ خیال رہتا تھا کہ فلاں خرچ کس طرح پورا کریں؟ مگر اب یہ خیال رہتا ہے کہ اس خرچ کو کس طرح کم کریں؟ اس پر عمل کرنے سے اور بھی بعض فوائد حاصل ہوتے ہیں.مثلاً ہمارے گھر میں لوگ تحائف وغیرہ بھیج دیتے ہیں اور میں نے ہدایا کو استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی ہے مگر جب وہ میرے سامنے لائے جاتے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ ایک سے زیادہ چیزیں کیوں ہیں؟ کہا جاتا ہے کہ یہ کسی نے تحفہ بھیج دیا تھا تو میں کہتا ہوں کہ ہمارے تعلقات تو ساری جماعت سے ہیں اس لئے ہمارے ہاں تو ایسی چیزیں روز ہی آتی رہیں گی اس لئے جب ایسی چیزیں آئیں تو کسی غریب بھائی کے ہاں بھیج دیا.کر وضروری تو نہیں کہ سب تم ہی کھاؤ.اس سے غربا سے محبت کے تعلقات بھی پیدا ہو جائیں گے اور ذہنوں میں ایک دوسرے سے انس پیدا ہو گا.کئی دوست لکھتے ہیں کہ اس سکیم کے ماتحت تو ہمیں فلاں خرچ بھی ترک کرنا پڑتا ہے اور میں انہیں جواب دیتا ہوں کہ یہی تو میری غرض ہے.پس اس سکیم میں میں نے جو جو تحریکیں کی ہیں وہ ساری کی ساری ایسی ہیں کہ ان پر عمل کرنے سے تخفیف کی نئی نئی راہیں نکلتی ہیں اور ان کے نتیجہ میں ہم اپنی حالت کو زیادہ سے زیادہ اسلامی طریق کے مطابق کر سکتے ہیں.میں ان لوگوں سے متفق نہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارا پہلا طریق اسلامی نہیں تھا جیسا کہ میں نے بتایا ہے اسلامی طریق یہی ہے الْاِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ یعنی وہ قربانی کرو جس کا امام مطالبہ کرتا ہے جب وہ کوئی مطالبہ نہ کرے اس وقت حلال و طیب کو دیکھنا چاہئے لیکن جہاں وہ حکم دے وہاں حلال و طیب کو بھی چھوڑ دینا چاہئے.ہاں مگر یہ ضروری ہے کہ یہ وقتی قربانی ہو اور اسلام کے دوسرے اصولوں کے مطابق ہو بدعت کا 123

Page 136

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 4 جنوری 1935ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد اول رنگ نہ ہو.غرض میں پہلے کو نا جائز قرار نہیں دیتا مگر اب جو طریق میں نے تجویز کیا ہے اس پر عمل کرنا ضروری ہے کیونکہ اب یہی اسلامی طریق ہے اور اب جو ڈھال کی پناہ میں نہیں آئے گا وہ دشمن کے تیر کھائے گا.بہر حال اس سال کے لئے ہمارا پروگرام یہی ہے اور ہر احمدی کو چاہئے کہ اسے یاد کر لے اور اس پر عمل کرے.میرے دل میں یہ تحریک ہو رہی ہے کہ اس سکیم کے چارٹ تیار کرائے جائیں اور پھر انہیں ساری جماعت میں پھیلا دیا جائے ہر احمدی کے گھر میں وہ لگے ہوئے ہوں تا سوتے جاگتے ، اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے ان پر نظر پڑتی رہے.ہمارے خطیب ہر ماہ کم سے کم ایک خطبہ میں نئے پیرا یہ میں اسے دہرا دیا کریں تا احساس تازہ رہے.پھر ہمارے شاعر اُردو اور پنجابی نظمیں لکھیں جن میں سکیم ، اس کی ضرورتیں اور فوائد بیان کئے جائیں جو بچوں کو یاد کر وا دی جائیں اور اگر اس طریق پر سال بھر کام کیا جائے تو جماعت میں بیداری پیدا کی جاسکتی ہے.ایک دوست کا مجھے خط آیا ہے کہ ایک بڑے سرکاری افسر نے ان سے کہا کہ ہماری رپورٹ یہ ہے کہ اس سکیم کا جواب جماعت کی طرف سے اس جوش کے ساتھ نہیں دیا گیا لیکن کیا ہی عجیب بات ہے کہ حکومت قرضہ مانگتی ہے جس میں قرضہ دینے والوں کو زیادہ سے زیادہ نفع دیا جاتا ہے اور پھر اگر وہ دو گنا بھی ہو جائے تو تاریں دی جاتی ہیں کہ قرضہ میں بہت کامیابی ہوئی ہے لیکن ہم نے جس قد ر طلب کیا تھا اس سے اڑھائی گنا آجانے کے باوجود انہیں اس میں کامیابی نظر نہیں آتی اور وقت مقررہ کے ختم ہونے تک انشاء اللہ العزیز پونے تین گنے بلکہ ممکن ہے اس سے بھی زیادہ آ جائے مگر وہ قرض کے دو گنا وصول ہونے کو کامیابی سمجھتے ہیں مگر میرے اس مطالبہ کے جواب میں انہیں کامیابی نظر نہیں آتی.حالانکہ میں نے جو مانگا ہے اس کی واپسی نہیں ہوگی وہ قرض نہیں چندہ ہے سوائے امانت فنڈ کے کہ وہ بے شک امانت ہے اور واپس ملے گا.جو لوگ اسے کامیابی نہیں سمجھتے وہ دنیا کی کسی اور قوم میں اس کی مثال تو پیش کریں اور پھر ہم نے جو لیا ہے غریبوں کی جماعت سے لیا ہے کروڑ پتیوں اور لکھ پیتوں سے نہیں لیا گیا.کروڑ پتی تو ہمارے مطالبہ سے بھی زیادہ رقم کی موٹریں ہی خرید لیتے ہیں.بعض انگریزی موٹریں ایسی ہیں جن کی قیمت ساٹھ ہزار سے ایک لاکھ تک ہوتی ہے اس لئے ایسے لوگوں کے لئے 27 ہزار کی قربانی کوئی بڑی بات نہیں مگر ہماری جماعت کی مالی حیثیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر دیکھا جائے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہے اور جو لوگ اسے کامیابی نہیں سمجھتے میں ان سے کہتا ہوں کہ وہ دنیا کی کسی اور قوم میں اس کے بالمقابل آدھی بلکہ اس کا چوتھائی حصہ قربانی 124

Page 137

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 4 جنوری 1935ء کی ہی کوئی مثال پیش کریں، خواہ انگریزوں کی قوم میں سے کریں، خواہ جرمنوں یا فرانسیسیوں میں سے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جماعت میں احساس پیدا ہورہا ہے مگر مجھے اس امر کا افسوس ہے کہ ہمارے دوستوں میں ابھی استقلال نہیں اور وہ اس کی قیمت کو ابھی تک نہیں سمجھے اور اب میرا انشایہ ہے کہ دوستوں کے اندر استقلال پیدا کروں چاہے اس کے لئے مجھے ان کے گلوں میں جھولیاں ڈلوانی پڑیں اور بھیک منگوانی پڑے.اب میں ان کے اندر وہ حالت پیدا کرنا چاہتا ہوں کہ ان کی شکل سے ظاہر ہو کہ یہ اللہ تعالیٰ کے در کے فقیر ہیں.جس جس قدم کو اللہ تعالیٰ ضروری سمجھے گاوہ میں اُٹھاتا جاؤں گا اور جس رنگ میں وہ میری ہدایت کرتا جائے گا میں اسے پورا کرنے کی کوشش کروں گا.آج میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس سال برا یہی پروگرام ہے جو سکیم میں بیان ہوا ہے.پس شاعر اس کے متعلق نظمیں لکھیں، نقشے بنانے والے اس قسم کے نقشے تیار کریں.اب میں عملی حصہ کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.سب سے اول یہ کہ میں سائیکلسٹوں کو جلد بھجوانا چاہتا ہوں.پس چاہئے کہ سائیکلسٹ جلد از جلد دفتر میں حاضر ہوں تا ان کو میں کاموں پر بھیج سکوں.ایک کام میں تو دیر بھی ہو چکی ہے وہ آج سے تین چار دن پہلے شروع ہو جانا چاہئے تھا اس لئے اب دیر نہیں ہونی چاہئے ، جن طالب علموں نے تین سال کے لئے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں ان میں سے پہلے اعلان کے علاوہ بھی بعض لوگ لئے جائیں گے.بعض نئے کام نکلے ہیں اس لئے انٹرنس سے کم تعلیم رکھنے والے نوجوان جن کے اندر تبلیغ کا مادہ ہو، وہ بھی اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہیں.“ ( مطبوعه الفضل 17 جنوری 1935ء) 125

Page 138

Page 139

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 11 جنوری 1935ء خدمت اسلام کے لئے جماعت کا ہر فرد اپنی زندگی وقف کر دے خطبه جمعه فرمودہ 11 جنوری 1935ء سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.جمعہ کے لحاظ سے یہ ہندوستان کیلئے میری تحریکات کے مالی حصہ کا آخری جمعہ ہے.اس وقت تک جو وعدے جماعتوں کی طرف سے موصول ہو چکے ہیں وہ ستر ہزار کے قریب ہیں اور جور قوم آچکی ہیں وہ 23 ہزار کے قریب ہیں.آج گیارھویں تاریخ ہے اور چار دن اور باقی ہیں جس کے بعد یہ تحریک ہندوستان کے لوگوں کے لئے ختم ہو جائے گی سوائے بنگال کے کہ بنگال کی جماعت میں سے جو بنگالی بولنے والا حصہ ہے اور در حقیقت وہی زیادہ ہے اس نے احتجاج کیا ہے کہ چونکہ ہمارے صوبہ کے ننانوے فیصدی لوگ اردو نہیں جانتے اور الفضل میں شائع ہونے والے خطبات سے ہم آگاہ نہیں ہو سکتے اس لئے ان خطبات کا بنگالی زبان میں ترجمہ کرنے پر مہینہ ڈیڑھ مہینہ لگ جائے گا اور پھر ان کے شائع کرنے اور انہیں لوگوں تک پہنچانے کے لئے بھی وقت درکار ہے اس لئے انہوں نے زیادہ مہلت طلب کی ہے جس پر میں انہیں 15 مارچ یا 15 اپریل تک ( مجھے اچھی طرح یاد نہیں ) مہلت دے چکا ہوں.بنگال کی جماعت ایک غریب جماعت ہے اور جو تعلیم یافتہ جماعت ہے وہ میرے خطبات سے واقف ہو چکی ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں بنگال میں اس تحریک کی اشاعت سے ہمیں مالی لحاظ سے گو معتد بہ فائدہ نہیں ہوگا لیکن اپنے اخلاص کے اظہار کا انہیں ایک موقع مل جائے گا جو بذات خود ایک نہایت قیمتی چیز ہے.بنگال کو خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ فضیلت حاصل ہے کہ پنجاب کے بعد زیادہ کثرت اور سرعت کے ساتھ بنگال میں ہی ہماری جماعت پھیلنی شروع ہوئی ہے.شاید بنگال اور پنجاب کے لوگوں میں کوئی مناسبت ہے کیونکہ اسلام بھی پہلے پنجاب میں پھیلا اور پھر بنگال میں.جتنے قلیل عرصہ میں بنگال کی جماعت پھیلی ہے اتنے عرصہ میں کوئی اور جماعت نہیں پھیلی.یوں تو بہار میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کئی صحابی موجود ہیں اسی طرح یوپی میں مگر بنگال میں بہت بعد میں احمد بیت گئی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس نے جلد جلد ترقی کی گویہ جلدی ایسی نہیں جو بنگال کی آبادی کے لحاظ سے ہو گر بہر حال دوسرے صوبوں کے 127

Page 140

خطبہ جمعہ فرمودہ 11 جنوری 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول لحاظ سے اس نے ترقی کی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ان لوگوں کا حق تھا کہ گور قم کے لحاظ سے ان کی طرف سے قلیل روپیہ آئے مگر انہیں اپنے اخلاص کے دکھانے کا موقع دیا جائے.باقی باہر کی جماعتیں ہیں اور کچھ وہ لوگ بھی جنہیں ابھی تک اس تحریک کی خبر نہیں ہوئی اور گو ایسے لوگ بہت قلیل ہیں مگر بہر حال ہوتے ضرور ہیں.چنانچہ پرسوں ہی مجھے ایک خط آیا کہ مجھے اس تحریک کی ابھی ابھی اطلاع ملی ہے کیونکہ میں سفر پر تھا اور مجھے اخبار دیکھنے کا موقع نہیں ملا.پس ہو سکتا ہے کہ ہندوستان میں بھی ایسے بے خبر لوگ موجود ہوں مگر یہ قلیل تعداد ہے اور ہمیں سمجھنا چاہئے کہ ان تمام حالات کو دیکھ کر انداز 75 ہزار کے لگ بھگ وعدے ہو جائیں گے.جو میرے مطالبہ سے اڑھائی گنے سے زیادہ یعنی پونے تین گنے کی رقم ہے.ان رقوم کے علاوہ جو کام دوسرا تھا اس میں دو کمیٹیوں نے کام شروع کر دیا ہے.پرو پیگنڈا کمیٹی نے بھی کام شروع کر دیا ہے اور امانت کمیٹی نے بھی اپنے اجلاس شروع کر دیئے ہیں.گو عملی کام ابھی اس نے شروع نہیں کیا مگر امید ہے کہ یہ دونوں قسم کے کام اس مہینہ میں اچھی طرح شروع ہو جائیں گے.امانت میں جن دوستوں نے اپنے نام لکھوائے ہیں خواہ وہ قادیان میں رہتے ہوں یا باہر ان سب کو میں یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ چونکہ یہ ان کے اخلاص کا امتحان ہے اس لئے اس تحریک میں زیادہ یاد دہانیاں نہیں کرائی جائیں گی اگر کوئی شخص با قاعدہ چندہ نہیں دے گا تو دفتر امانت ایک دو یاد دہانیوں کے بعد اس کا نام رجسٹر سے کاٹ ڈالے گا اور سمجھا جائے گا کہ اس نے اپنے اخلاص کا محض مظاہرہ کیا تھا.حقیقت اس میں نہیں تھی.پس دوست اس امر کی امید نہ رکھیں کہ لوگ ان کے پاس پہنچیں گے اور کہیں گے کہ لاؤ چندہ.صدر انجمن والے چندوں میں پیچھے پڑ کر چندہ لیا جاتا ہے مگر یہ مطاوعت والے چندے ہیں اس لئے جس طرح اس تحریک میں شامل کرنے کے لئے کسی پر جبر نہیں کیا گیا اسی طرح شامل ہونے کے بعد بھی کوئی جبر نہیں ہوگا.پس اگر کوئی دوست اس ثواب میں شریک ہونے سے اس وجہ سے محروم رہ جائے کہ اس سے چندہ مانگا نہیں گیا تو اس کی ذمہ داری اسی پر عائد ہوگی.میری ہدایات دفاتر متعلقہ کو یہی ہوں گی کہ وہ چندہ لوگوں سے مانگیں نہیں مگر چونکہ انسان کے ساتھ نسیان بھی لگا ہوا ہے اس لئے کبھی کبھار اگر ایک دو یاد دہانیاں کر دی جائیں تو کوئی حرج نہیں مگر وعدے والے پر بھی اصرار نہ کیا جائے اور خالص طور پر اس میں لوگوں کو اپنی مرضی اور شوق کے ظاہر کرنے کا موقع دیا جائے ممکن ہے اس لحاظ سے کہ چندہ مانگنے کیلئے دفاتر متعلقہ کی طرف سے زیادہ اصرار نہیں کیا جائے گا رقم کچھ کم ہو جائے اور غفلت ، سستی یا کمزوری ایمان کی وجہ سے بعض لوگ رہ جائیں.پھر کئی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو فوری جوش میں آکر اپنا 128

Page 141

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبه جمعه فرموده 11 جنوری 1935ء نام لکھا دیتے ہیں مگر بعد میں اپنے وعدوں کو پورا نہیں کرتے اور گو ہماری جماعت میں ایسا عنصر بہت کم ہوتا ہے لیکن چونکہ دوسرے چندوں میں اصرار کی عادت کی وجہ سے امکان ہے کہ ان چندوں میں عدم اصرار انہیں ست کر دے.اس لحاظ سے ممکن ہے کہ رقم میرے اوپر بیان کردہ اندازہ سے کچھ کم موصول ہو.پھر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کچھ رقم انگریزی ترجمہ قرآن کے لئے علیحدہ کر لی جائے گی اور کچھ رقم خرچ کے اندازوں کی غلطی کی وجہ سے بیان کردہ مدات میں ڈالنی پڑے گی کیونکہ بعد میں مزید غور کرنے سے بعض مدات کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ ان پر اس سے زیادہ خرچ آئے گا جتنا میں نے بیان کیا تھا ان تمام اخراجات کے بعد جو ر تم بیچ رہے گی وہ آنے والے دونوں سالوں میں تقسیم کر دی جائے گی.امانت کے متعلق جو وعدے ہوئے ہیں ان سے میرا اندازہ ہے کہ تین چار ہزار روپیہ ماہوار کی رقم آئے گی لیکن ہم یہ خیال کرتے تھے اور بات بھی معقول تھی کہ جنوری سے مدامانت میں ادا ئیگی شروع ہو جائے گی کیونکہ جنہوں نے دسمبر میں وعدے کئے تھے وہ وعدے انہوں نے اس وقت کئے جبکہ وہ اپنی تنخواہیں خرچ کر چکے تھے.پس امید کی جاتی تھی کہ وہ جنوری سے امانتیں جمع کرانی شروع کر دیں گے اور میں اب بھی امید کرتا ہوں کہ جنہوں نے امانت کے وعدے کئے ہیں ان کے ذہن میں یہی بات ہوگی مگر جن کے ذہن میں یہ بات نہ ہو انہیں چاہئے کہ وہ یہ واضح کر دیں کہ وہ کس مہینہ سے اپنی امانت ادا کرنی شروع کریں گے اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو دفتر امانت یہی سمجھے گا کہ جنوری سے انہوں نے وعدہ کیا ہوا ہے اور یہ کہ انہوں نے اپنے وعدہ پر عمل نہیں کیا اس صورت میں ایک دوماہ کی غفلت کے بعد ان کا نام دفتر سے کاٹ دیا جائے گا اور سمجھا جائے گا کہ انہوں نے صرف دکھاوے سے کام لیا حقیقت اس میں نہیں تھی.پس میں اس اعلان کے ذریعہ قادیان والوں کو براہِ راست اور باہر کی جماعتوں کو اخبار کے ذریعہ توجہ دلاتا ہوں کہ ہم نے مجوزہ سکیم پر کام شروع کر دیا ہے اور جماعتوں کے سیکریٹریوں اور امرا کو چاہئے کہ وہ میرا یہ خطبہ لوگوں کو پڑھ کر سنا دیں کیونکہ اس کے سوا میری آواز ان تک پہنچنے کا اور کوئی ذریعہ نہیں.ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں کی جماعت ہے مگر اخبار الفضل“ کی اشاعت پندرہ ، سولہ سو کے درمیان رہتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہزار ہا آدمی ہماری جماعت میں ایسے ہیں جن کے کانوں تک میری آواز نہیں پہنچتی.بنگالی اُردو کا ایک حرف تک نہیں جانتے.پس وہ الفضل“ سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے.پھر ہمارے ملک میں ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے.اندازہ لگایا گیا ہے کہ مسلمانوں میں سے صرف تین چار فیصدی تعلیم یافتہ ہیں باقی 97،96 فیصدی ایسے 129

Page 142

خطبہ جمعہ فرمودہ 11 جنوری 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول لوگ ہیں جو پڑھے لکھے نہیں.پھر جو لوگ پڑھ بھی سکتے ہیں ان میں سے کچھ غریب ہوتے ہیں اور وہ اپنی غربت کی وجہ سے اخبار نہیں منگوا سکتے ، بہت سے سست ہوتے ہیں اور بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں جو لکھے پڑھے ہونے کے باوجود اخبار نہیں منگواتے اور اگر ان کے قریب کوئی اور شخص اخبار منگواتا ہو تو اسی سے پوچھتے رہتے ہیں: سنائیے ! " الفضل میں سے کوئی تازہ بات.گویا وہ اتنا ہی کافی سمجھتے ہیں کہ اخبار لے کر پڑھ لیا یا کسی دوسرے سے کوئی ایک آدھ خبر معلوم کر لی خود اس کو خرید نا ضروری نہیں سمجھتے.پس ان تمام لوگوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ جماعت کے عہدیداروں کا فرض ہے کہ وہ جمعہ یا اتوار کے دن یا ہفتہ میں کسی اور موقع پر میرا ہر خطبہ لوگوں کو سنا دیا کریں بلکہ جماعتوں کا اصل کام یہی ہونا چاہئے اور ہر جگہ کی جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ وہ میرا خطبہ جمعہ تفصیلاً یا خلاصۂ لوگوں کو جمعہ یا اتوار کے دن سنادیا کریں.جس شخص کے سپر د خدا تعالیٰ جماعت کی اصلاح کا کام کرتا ہے اسے طاقت بھی ایسی بخشتا ہے جو دلوں کو صاف کرنے والی ہوتی ہے اور جو اثر اس کے کلام میں ہوتا ہے وہ دوسرے کسی اور کے کلام میں نہیں ہوسکتا لیکن میں نے دیکھا ہے کہ سیکریٹریوں یا امرا کو یہ شوق ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ خود ہی خطبہ پڑھیں.مجھے کئی رپورٹیں ایسی آتی رہتی ہیں کہ جماعت کے لوگ بعض اہم خطبات کی نسبت چاہتے ہیں کہ و الفضل سے پڑھ کر سنا دیئے جائیں مگر سیکریٹری یا امیر مصر ہوتے ہیں کہ نہیں وہ اپنا ہی خطبہ سنائیں گے.گویا وہ اپنی تقریر کے شوق اور لیڈری کی امنگ میں ان فوائد سے قوم کو محروم کر دیتے ہیں جو جماعت کیلئے ایسے ہی ضروری ہوتے ہیں جیسے بچہ کیلئے دودھ.پس چونکہ یہ نہایت ہی خطر ناک پالیسی ہے اس لئے آئندہ جماعتوں کو چاہئے کہ جو خطبات میں پڑھوں انہیں وہ جب بھی موقع ملے جماعت کو سناد یا کریں.جو زیادہ اہم ہوں انہیں تو جمعہ کے خطبہ کے طور پر سنادیں اور جن میں کسی خاص سکیم کا ذکر نہ ہوا سے جمعہ یا اتوار کو کوئی الگ مجلس کر کے خطبہ یا خطبے کا خلاصہ سنا دیا کریں.بعض دفعہ خطبہ لمبا ہوتا ہے یا جماعت میں سے اکثر نے پڑھا ہوا ہوتا ہے اس صورت میں خطبے کا خلاصہ سنا دینا چاہئے مگر بہر حال جماعت کے ہر ایک فرد تک خطبات کی آواز پہنچنی چاہئے جو دراصل آواز پہنچانے کا اکیلا ذریعہ ہے ورنہ امام کے لئے اور کون سا طریق ہو سکتا ہے جس سے کام لے کر وہ جماعت کو اپنے مافی الضمیر سے آگاہ کر سکے؟ جماعت کے نام خطوط تو میں لکھ نہیں سکتا اس کے علاوہ کتا بیں بھی میں اب نہیں لکھتا.پس یہ خطبات ہی ایسی چیز ہیں جس کے ذریعہ میں اپنا عندیہ یاوہ عندیہ جو خدا تعالیٰ سے معلوم کروں ظاہر کرتا رہتا ہوں.اس کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ دوسرے کاموں میں سے بھی بعض کام شروع کر دیئے گئے 130

Page 143

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد اول خطبه جمعه فرمود : 11 جنوری 1935ء ہیں.مثلاً جو تبلیغ کا کام تھا اور جس کے متعلق میں نے مطالبہ کیا تھا کہ دوست اپنی زندگیاں وقف کر دیں یا جو لوگ سال میں یا دو دو تین تین سال کے بعد لمبی چھٹیاں لے سکتے ہوں وہ اپنی فرصت اور رخصت کے اوقات کو خدا تعالیٰ کے دین کیلئے وقف کر دیں تا کہ انہیں تبلیغ پر لگایا جاس کے اور لوگوں کو احمدیت کی طرف متوجہ کیا جا سکے.اس کام کیلئے فی الحال دو مرکز قائم کئے گئے ہیں اور کام بھی شروع کر دیا گیا ہے لیکن میں ان مرکزوں کا نام نہیں بتاتا کیونکہ ان کا مخفی رکھنا ضروری ہے اس کے علاوہ چار سائیکلسٹ بھی روانہ ہو چکے ہیں لیکن ساری سکیم پر دوبارہ غور کرنے اور عملی پہلوؤں کو اپنے ذہن میں مستحضر کرنے کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں پانچ نہیں بلکہ سولہ سائیکل سواروں کی ضرورت ہے اور اب تجویز یہی ہے کہ سولہ سائیکلسٹ مقرر کئے جائیں اور چونکہ تجویز کی وسعت کے ساتھ زیادہ سائیکلوں کی ضرورت ہے اس لئے میں دوستوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بعض دوست ایسے ہوتے ہیں جو پہلے سائیکل پر سوار ہوا کرتے تھے مگر اس کے بعد انہوں نے موٹر خرید لیایا پہلے سائیکل پر سوار ہوا کرتے تھے مگر اس کے بعد انہوں نے گھوڑا خرید لیا یا اب سائیکل پر چڑھنا ہی انہوں نے چھوڑ دیا اور اس طرح سائیکل ان کے پاس بے کار پڑے ہوئے ہوتے ہیں.پس اگر ایسے دوست ہماری جماعت میں ہوں خواہ وہ قادیان کے ہوں یا باہر کے تو وہ اس طرح بھی ثواب کما سکتے ہیں کہ اپنے اپنے سائیکل یہاں بھجوا دیں.اگر ہم خریدنے لگیں تو آٹھ نو سور و پیہ ہمارا خرچ ہو جائے گا لیکن اگر اس طرح سائیکل آجائیں تو ایک ایک سائیکل پر خواہ دس پندرہ روپے بطور مرمت خرچ ہو جائیں تو پھر بھی سوڈیڑھ سو روپیہ میں کئی سائیکل تیار ہو سکتے ہیں اور اس طرح بہت سی بچت ہو سکتی ہے.اب جو چار سائیکلسٹ گئے ہیں ان میں سے ایک کے پاس اپنا بائیسکل تھا جسے مرمت کرا دیا گیا، دوسائیکل بعض دوستوں کی طرف سے ہدیۂ ملے تھے اور ایک سائیکل خرید لیا گیا چونکہ یہ تمام سائیکل سوار پندرہ ہیں دن کے اندر اندر روانہ ہونے والے ہیں اس لئے قادیان یا باہر کی جماعت میں سے اگر کوئی دوست سائیکل دے سکتے ہوں تو بہت جلد بھجوا دیں.غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب سروے کا کام بھی شروع ہو گیا ہے اور تبلیغ کا کام بھی شروع ہو گیا ہے.گو ابھی یہ کام چھوٹے پیمانہ پر شروع کیا گیا ہے تا تمام مشکلات اور حالات ہمارے سامنے آجائیں اور پھر ان کو دیکھ کر اپنے کام کو پھیلا سکیں.اگر پہلی دفعہ ہی کام کو زیادہ پھیلا دیا جائے تو بعد میں بعض دفعہ اپنی طاقت کو سمیٹنا پڑتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے بہت سی طاقت ضائع کر دی.پس اس لئے کہ ابتدا میں ہم ایک دم اپنی تمام طاقت صرف نہ کر دیں اور اس لئے کہ تا حالات کا تجربہ ہو جائے کام 131

Page 144

خطبہ جمعہ فرمودہ 11 جنوری 1935ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول چھوٹے پیمانے پر شروع کیا گیا ہے جسے تجربہ کے بعد انشاء اللہ تعالیٰ وسیع کر دیا جائے گا.جن لوگوں نے میرے مطالبہ پر رھتیں وقف کی ہیں ان کی تعداد بھی بہت تھوڑی ہے.غالباً زمینداروں اور ملازمت پیشہ لوگوں کو ملا کر سو کے قریب تعداد ہے.حالانکہ زمینداروں کو ملا کر ہماری جماعت میں تبلیغ کے قابل آدمی ہندوستان میں ہزاروں کی تعداد میں مل سکتے ہیں.پس چونکہ اس مطالبہ کے جواب میں ابھی بہت ہی کم لوگوں نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے اس لئے میں پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس رنگ میں اپنی زندگیوں کو دین کی خدمت کے لئے وقف کریں.میں پہلے بھی کئی دفعہ بتا چکا ہوں کہ دنیا میں روپیہ کے ذریعہ بھی تبلیغ نہیں ہوئی اور جو قوم یہ بجھتی ہے کہ روپیہ کے ذریعہ وہ اکناف عالم تک اپنی تبلیغ کو پہنچا دے گی اس سے زیادہ فریب خوردہ، اس سے زیادہ احمق اور اس سے زیادہ دیوانی قوم دنیا میں اور کوئی نہیں.روپیہ کے ذریعہ سے ہونے والا کام صرف ایک ظاہری چیز ہے جس کے اندر کوئی حقیقت نہیں.تم روپیہ کو قلابہ توسمجھ سکتے ہو جو دو چیزوں کو آپس میں ملا دیتا ہے مگر وہ عارضی چیز ہے جس کے اندر کوئی پائیداری نہیں تم کیلوں سے مکان نہیں بنا سکتے بلکہ کیلوں کا اتناہی کام ہے کہ وہ دروازوں اور کھڑکیوں کو جوڑ دیں.جس چیز کے ساتھ مذہبی جماعتیں دنیا میں ترقی کیا کرتی ہیں وہ ذات کی قربانی ہوتی ہے نہ کہ روپیہ کی.روپیہ کے ذریعہ سے مذہبی جماعتوں نے دنیا میں کبھی ترقی نہیں کی کیونکہ مذہب دلوں کو جیتا ہے اور روپیہ کسی کے دل کو فتح نہیں کر سکتا.روپیہ سے فتح کئے ہوئے لوگ زیادہ سے زیادہ غلام کہلائیں گے مگر مذہب تو وہ چیز ہے جو غلامی سے لوگوں کو نجات دلاتا ہے.اگر تم روپیہ سے دنیا کو فتح کرتے ہو تو تم لوگوں کو غلام بناتے ہو کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ تم نے دنیا کو خرید لیا مگر کیا غلام بھی دنیا میں کوئی کام کیا کرتا ہے؟ اس صورت میں تم دنیا کو ترقی کی طرف نہیں لاتے بلکہ اسے اور بھی زیادہ ذلیل اور تباہ کرتے ہو.کیا تم سمجھتے ہو کہ بچے جس طرح اپنے ماں باپ کی خدمت کرتے ہیں غلام اس سے بڑھ کر خدمت کیا کرتے ہیں؟ یا غلام اور بچہ کی ایک ہی قیمت ہوتی ہے؟ اگر نہیں تو اس کی کیا وجہ ہے اور کیوں بچہ قیمتی ہوتا ہے مگر غلام قیمت نہیں ہوتا ؟ اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ تم نے غلام کو روپیہ سے خریدا ہوا ہوتا ہے مگر بچہ کو ماں نے اپنی جان دے کر خریدا ہوتا ہے.بچہ کی قیمت کیا ہے؟ بچہ کی قیمت ماں کا نو مہینے اپنی زندگی کا اس کے لئے وقف کر دینا ہے.پھر بچہ کی قیمت زچگی کے وقت ماں کا اپنے آپ کو قربانی کیلئے پیش کر دینا ہے.زچگی کیا ہے؟ ایک موت ہے جس کے بعد بچہ پیدا ہوتا ہے.جس دن بچہ کی پیدائش ہوتی ہے اس دن گھر میں دو پیدائشیں ہوتی ہیں ایک ماں کی پیدائش ہوتی ہے اور ایک بچہ کی 132

Page 145

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 11 جنوری 1935ء پیدائش ہوتی ہے.پس ماں نو مہینے کے لئے اپنی زندگی بچہ کے لئے وقف کرتی ہے پھر اپنی جان کو قربانی کے بھینٹ چڑھاتی ہے جس میں کبھی تو وہ جان دے دیتی ہے اور کبھی بیچ کر آ جاتی ہے اور در حقیقت زچگی کے وقت عورت کے جسم پر جو اثرات ظاہر ہوتے ہیں اور جس قدر شدائد و مشکلات میں سے وہ گزرتی ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ عورت اللہ تعالیٰ کے فضل کے طور پر دوبارہ زندہ کر دی جاتی ہے ورنہ وہ حالت زندگی کی نہیں ہوتی اس لئے باوجود سخت احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے ہر سال ایک بڑی تعداد عورتوں کی ہلاک ہو جاتی ہے کبھی ماں مر جاتی ہے اور بچہ زندہ رہتا ہے، کبھی بچہ مر جاتا ہے اور ماں رہ جاتی ہے اور کبھی ماں اور بچہ دونوں مرجاتے ہیں اور اس طریق پیدائش میں ہزار ہا قربانیاں عورتوں کی طرف سے ہر سال کی جاتی ہیں.پھر بچہ بھی ایک طرح کا غلام ہی ہوتا ہے بلکہ جتنی غلامی وہ کرے اتنا ہی شریف اور نیک سمجھا جاتا ہے مگر اس میں کوئی عیب یا ذلت کی بات نہیں کیونکہ وہ جان دے کر خریدا گیا ہے.پس در حقیقت وہی انسان دنیا میں مفید کام کر سکتے ہیں جو تمہاری روحانی اولادہوں اور جنہیں تم نے اپنی جانیں دے کر خریدا ہوا ہو.جن کے غم میں تم گھلے جا رہے ہو اور جن کی ہدایت کے لئے تم خدا تعالیٰ کے دروازے کے آگے گویا روحانی رنگ میں مرچکے ہو تب اس کے نتیجہ میں تمہیں جو فرزند ملیں گے وہ تمہارے روحانی فرزند ہوں گے مگر جن کو مبلغوں کے ذریعہ روپیہ دے کر تم خریدو گے وہ غلام ہوں گے اور غلام کے ذریعہ تم کسی کام کی توقع نہیں کر سکتے.یورپ کے مشنریوں نے روپیہ کے ذریعہ کتنی تبلیغ کی مگر ایک جگہ بھی وہ آزاد نہیں بلکہ وہ بھی غلام بنے ، ان کے ملک بھی غلام بنے ، ان کے بچے بھی غلام بنے اور ان کی بیویاں بھی غلام بنیں.افریقہ کا بیشتر حصہ عیسائی ہے مگر کیا وہ آزاد ہیں؟ وہ اخلاقی طور پر بھی غلام ہیں، وہ روحانی طور پر بھی غلام ہیں اور وہ جسمانی طور پر بھی غلام ہیں اور جب بھی ان قوموں کی آزادی کا سوال پیدا ہوتا ہے یورپین ممالک ہمیشہ یہی کہا کرتے ہیں کہ ہم نے بہت سا رو پید ان کی بہتری کے لئے صرف کیا ہے اس لئے ہم ان ملکوں کو نہیں چھوڑ سکتے.غرض روپیہ سے خریدی ہوئی چیز بجر غلامی میں اضافہ کرنے کے اور کسی کام نہیں آسکتی مگر خدا اور اس کے قائم کردہ رسول لوگوں کو آزاد کرنے کیلئے آتے ہیں انہیں غلام بنانے کیلئے نہیں آتے.پس اگر تم دنیا میں کامیاب ہونا چاہتے ہو تو روپیہ کے ساتھ نہیں بلکہ لوگوں کو اپنی جان کے ساتھ خرید کر لاؤ.جس کو روپیہ کے ساتھ خرید کر لاؤ گے وہ خود بھی ذلیل ہوگا اور تم بھی ذلیل ہو گے مگر جس کو جان دے کر خریدو گے وہ تم پر جان دے گا اور تم اس پر قربان ہو گے.پس یہ غلط ہے کہ تم روپیہ یا مبلغین کے ذریعہ کام کر سکتے ہو.تم اگر دنیا میں فتحیاب ہونا چاہتے ہو تو جان دے کر ہو گے اور جان دینے کے معاملہ 133

Page 146

خطبہ جمعہ فرمود : 11 جنوری 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول میں ہرگز کوئی قوم نہیں کہہ سکتی کہ چونکہ فلاں شخص نے جان دے دی ہے اس لئے اس کا فرض ادا ہو گیا.جب تک تم میں سے ہر شخص اپنے آپ کو اس قربانی کے لئے پیش نہیں کرتا، جب تک تم میں سے ہر شخص یہ سمجھ نہیں لیتا کہ اس کی زندگی اس کی نہیں بلکہ اس کے خدا اور اس کے رسول اور اس کے امام اور اس کے بھائیوں کی زندگی ہے، جب تک اس کی جان ہر ایک کی نہیں ہو جاتی سوائے اپنے آپ کے، اس وقت تک اس میدان میں کسی کو کامیابی نہیں ہوئی نہیں ہو سکتی نہیں ہوگی.پس میں جماعت کے تمام افراد کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ قربانی روپیہ والی قربانی سے کم نہیں بلکہ اس سے ہزار ہا گنا زیادہ اہم ہے اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے رو پیدا ادا کر کے اپنے فرض کو پورا کر دیا وہ تمسخر کرتے ہیں اپنے ایمان سے، وہ تمسخر کرتے ہیں احکام الہی سے اور تمسخر کرتے ہیں خدا اور اس کے رسول سے.کیا تم سمجھتے ہو کہ جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم بدر یا اُحد کی جنگ کیلئے جارہے تھے اس وقت اگر کوئی شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک سو روپیہ دے دیتا اور کہتا یا رسول اللہ علہ ! میرا فرض ادا ہو گیا تو اس کا نام مومنوں میں شمار ہوتا ؟ کیا تم سمجھتے ہو خدا کا کلام اسے منافق قرار نہ دیتا؟ اگر سمجھتے ہوتو پھر تم تین ہزار نہیں دس ہزار روپیہ دے کر بھی کس طرح فرض کر لیتے ہو کہ تمہارا حق ادا ہو گیا؟ تم سے جس چیز کا مطالبہ کیا گیا اور جو اکیلا حقیقی مطالبہ ہے وہ تمہاری جان کا مطالبہ ہے.نہ صرف تمہیں اس وقت اس مطالبہ کو پورا کرنا چاہئے بلکہ ہر وقت یہ مطالبہ تمہارے ذہن میں مستحضر رہنا چاہئے کیونکہ اس وقت تک تم میں جرات و دلیری پیدا نہیں ہو سکتی جب تک تم اپنی جان کو ایک بے حقیقت چیز سمجھ کر دین کے لئے اسے قربان کرنے کیلئے ہر وقت تیار نہ رہو.کیوں تم میں سے بعض لوگ معمولی تکلیفوں سے گھبرا جاتے ہیں؟ کیوں مصیبت کے وقت ان کے قدم لڑکھڑا جاتے اور کیوں ابتلاؤں کے وقت ٹھو کر کھا جاتے ہیں؟ اسی لئے کہ یہ بات تمہارے ذہن میں نہیں کہ تمہاری جان تمہاری نہیں بلکہ خدا اور اس کے رسول اور اس کے سلسلہ کی ہے.تم جب جماعت میں داخل ہوتے ہو تو یہ سمجھ لیتے ہو کہ تم نے ایک آنہ فی روپیہ چندہ دینا ہے.حالانکہ اللہ تعالیٰ تو روپیہ میں سے پندرہ آنے بھی قبول کرنے کو تیار نہیں.میں تو سمجھ بھی نہیں سکتا کہ ایک جاہل بھی ایسا خیال کرتا ہو کہ روپیہ میں سے پندرہ آنے لے کر اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے گا.آخر کیا چیز ہے جس کو تم پیش کرتے ہو؟ یا درکھو کہ اس زمانہ کو خدا تعالیٰ نے ذوالقرنین کا زمانہ کہا ہے.تم نے قرآن مجید میں پڑھا ہوگا کہ لوگوں نے اس سے کہا ہم تمہیں روپیہ دیتے ہیں.ذوالقرنین نے اس کے جواب میں کہا کہ مجھے روپیہ کی ضرورت نہیں بلکہ میری فتوحات اور ذرائع سے ہوں گی.میں اس تفصیل میں نہیں پڑنا چاہتا کہ وہ کیا ذرائع تھے جن سے ذوالقرنین کام لینا چاہتا تھا.134

Page 147

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 11 جنوری 1935ء مگر بہر حال قرآن مجید سے یہ ثابت ہے کہ اس نے کہا میری فتوحات روپیہ سے نہیں ہوں گی بلکہ اور چیزوں سے ہوں گی.پس جنہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے 27 ہزار کے مطالبہ پر 70 ہزار روپیہ دے دیا اور اب ہمارا فرض ادا ہو گیا وہ غلطی پر ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر ہماری جماعت 27 ہزار روپیہ کے مطالبہ پر 27 ہزار روپیہ پیش نہ کرتی تو یہ اس کی موت کی علامت ہوتی مگر 70 ہزار یا ایک لاکھ روپیہ بھی اکٹھا کر دینا اس کی زندگی کی علامت نہیں کہلا سکتی.زندگی کی علامت یہ ہے کہ تم میں سے ہر شخص اپنی جان لے کر آگے آئے اور کہے کہ اے امیر المومنین! یہ خدا اور اس کے رسول اور اس کے دین اور اس کے اسلام کے لئے حاضر ہے.جس دن سے تم سمجھ لو گے کہ تمہاری زندگیاں تمہاری نہیں بلکہ اسلام کے لئے ہیں، جس دن سے تم نے محض دل میں ہی یہ نہ سمجھ لیا بلکہ عملاً اس کے مطابق کام بھی شروع کر دیا اُس دن تم کہہ سکو گے کہ تم زندہ جماعت ہو.تمہارا منہ سے یہ کہہ دینا مجھے کیا تسلی دے سکتا ہے کہ ہماری جان حاضر ہے جب کہ میں تم سے کہوں کہ تم اپنے بارہ مہینوں میں سے تین یا دو ماہ سلسلہ کے لئے وقف کر دو اور تم میرے اس مطالبہ پر خاموش رہو؟ اس صورت میں میں کس طرح مانوں کہ تم جانیں فدا کرنے کے لئے تیار اور اسلام کے لئے انہیں قربان کرنے کے لئے حاضر ہو؟ اگر تم سال میں سے دو تین ماہ تبلیغ احمدیت کے لئے وقف کر دو تو اس سے کیا ہوگا؟ زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ تم ان دو تین ماہ میں اپنے والدین یا بیوی بچوں کو ملنے کے لئے اگر جایا کرتے تھے تو اب نہیں جا سکو گے مگر کیا تم نے کبھی غور نہیں کیا کہ ولایت سے ڈپٹی کمشنر اور اعلیٰ حکام جب آتے ہیں تو بعض دفعہ پندرہ پندرہ سال یہاں رہتے ہیں اور اپنے وطن نہیں جا سکتے کیا ان کے والدین نہیں ہوتے؟ ان کی بیویاں اور بچے نہیں ہوتے؟ پھر انہوں نے تو کالے کوسوں جانا ہوتا ہے مگر تمہیں زیادہ سے زیادہ اپنے ہی ملک کے کسی اور صوبہ میں جانا ہوگا اور وہ بھی نوکریوں یا تجارت اور زراعت سے فراغت کے اوقات میں اور پھر اپنے گھر آ جانا ہوگا بلکہ ایک دو سال کیا اگر تمہیں ساری عمر کے لئے خدا اور اس کے دین کے لئے یہ قربانی کرنی پڑے تو تمہیں اس سے دریغ نہیں ہونا چاہئے مگر جس قربانی کا میں تم سے مطالبہ کر رہا ہوں وہ تو ایسی ہی ہے جیسے دستر خوان کی بچی ہوئی ہڈیاں.پس تمہاری چھٹیوں کی مثال تو ہڈیوں یا دستر خوان کے بچے ہوئے ٹکڑوں کی سی ہے اور گواب تم سے روٹی کے بچے ہوئے ٹکڑے مانگے جاتے ہیں مگر کبھی تم سے یہ مطالبہ بھی کیا جائے گا کہ تم اپنی ساری روٹی دے دو اور خود ایک ٹکڑا بھی نہ کھاؤ.پس سر دست تو بچے ہوئے ٹکڑوں کا تم سے مطالبہ کیا گیا ہے.اگر تم اس مطالبہ کو پورا نہیں کرتے تو کس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ تم انگلی قربانیوں کے لئے تیار ہو؟ 135

Page 148

خطبہ جمعہ فرموده 11 جنوری 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول پس میں جماعت کے دوستوں سے پھر وہی مطالبہ کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ تم میں سے ہر فرد اس غرض کے لئے اپنے آپ کو پیش کرے گا یہاں تک کہ لوگ تمہیں مجنوں کہنے لگ جائیں.مجنون کی طاقت جس قدر بڑھ جاتی ہے وہ کسی پر مخفی نہیں.یہاں ہی ایک استانی ہوا کرتی تھیں انہیں کبھی کبھی جنون کا دورہ ہو جاتا.ایک دفعہ حضرت خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ درس دے رہے تھے کہ اسے دورہ ہو گیا اور کو ٹھے پر سے اس نے چھلانگ لگانی چاہی عورتوں نے شور مچایا تو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے بھی اٹھ کر اسے پکڑ لیا.یہ اس زمانہ کی بات ہے جب حضرت خلیفہ اول ابھی بیمار نہ ہوئے تھے آپ کا جسم خوب چوڑا چکلا اور مضبوط تھا، مجھے یاد ہے ایک دفعہ آپ نے بانہہ نکال کر کہا تھا کہ کوئی جوان ہوتو بانہہ پکڑ کر دیکھ لے مگر باوجود ایسی مضبوطی کے اور باوجود اس کے کہ پانچ سات اور عورتوں نے بھی اسے پکڑا ہوا تھا پھر بھی وہ عورت ہاتھ سے نکلی جاتی تھی تو جس وقت انسان دماغی حدوں کو توڑ دیتا ہے اس وقت اسے ایک غیر معمولی طاقت ملتی ہے چاہے جسمانی حدوں کو توڑنے کی وجہ سے حاصل ہو اور چاہے روحانی قیود کو توڑ دینے کی وجہ سے حاصل ہو.جس طرح انسان کے دماغ کی جب کل بگڑ جاتی ہے تو اس کی طاقتیں وسیع ہو جاتی ہیں اسی طرح خدا کی طرف سے جب آواز بلند ہو اور انسان دیوانہ وار کہے کہ آتا ہوں ، آتا ہوں ! تو پھر کوئی طاقت اور قوت اسے روک نہیں سکتی یہی روحانی دیوانے ہوتے ہیں جو دنیا میں کوئی کام کیا کرتے ہیں ، یہی روحانی دیوانے ہوتے ہیں جو دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر دیا کرتے ہیں ایسا انقلاب جو اس کے تمدن میں تبدیلی پیدا کر ، دیتا ہے، اس کی سیاست میں تبدیلی پیدا کر دیتا ہے، اس کی تعلیمی حالت میں تبدیلی پیدا کر دیتا ہے اور اس کے اخلاق میں تبدیلی پیدا کر دیتا ہے ورنہ وہ چند نقال جو یورپین مدرسوں میں پڑھنے کے بعد مغربی اصطلاحیں رٹنے لگ جاتے ہیں یا چند زمیندار جو صبح سے شام تک ہل چلا کر گھروں میں آ بیٹھتے ہیں انہوں نے دنیا میں کونسی تبدیلی کر دی؟ یا کونسی وہ تبدیلی کر سکتے ہیں؟ اگر چہ اپنی ساری کمائی سامنے لا کر رکھ دیں.دنیا میں تبدیلی کرنے کیلئے پہلے اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، پہلے اپنے اندر وہ چیز پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو دنیا میں زندگی کی روح پھونکنے والی ہو.پس میں اپنی جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس جسمانی قربانی کی اہمیت محسوس کریں اور یہ پہلا قدم ہے جس کے اٹھانے کا ان سے مطالبہ کیا گیا ہے ورنہ اصل قدم تو یہی ہے کہ ہر وقت ان کے ذہن میں یہ بات رہے کہ ان کی جان ان کی نہیں بلکہ خدا کے قائم کردہ سلسلہ کی ہے اور یہ کہ وہ بزدل نہیں بلکہ بہادر ہیں.جو لوگ بہادر ہوں ان سے لوگ ہمیشہ ڈرا کرتے ہیں.ہمارے صوبہ میں کبھی کوئی پٹھان آجائے اور اس کا کسی سے 136

Page 149

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرمود ه 11 جنوری 1935ء جھگڑا ہو جائے تو زمیندار اسے دیکھ کر جھٹ کہنے لگ جاتا ہے کہ پٹھان ہے جانے بھی دو کہیں خون نہ کر دے.حالانکہ ہمارے بعض پنجابی ایسے ایسے مضبوط ہوتے ہیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی پٹھان کو پکڑ لے تو اسے ملنے نہ دے مگر اس کا رعب ہی ایسا ہوتا ہے کہ پنجابی کہنے لگ جاتے ہیں خان صاحب آگئے اور ان کی ساری شیخیاں کا فور ہو جاتی ہیں.پس جو قوم مرنے کیلئے تیار ہو اس سے ہر قوم ڈرا کرتی ہے اسی طرح ہم بھی اگر اپنی جانیں دینے پر آمادہ ہو جائیں تو لوگ ہم سے بھی ڈرنے لگ جائیں گے مگر وہ ڈر خوف والا نہیں ہوگا بلکہ محبت والا ہوگا.ہم عمارتوں کو اس لئے نہیں گرائیں گے کہ ان کے باغوں کو ویران اور ان کے محلات کو کھنڈر کر دیں بلکہ ہم پاخانوں کو گرا کر انہیں قلعے بنائیں گے اسی طرح کاغذوں کو جلائیں گے مگر اس طرح نہیں کہ دیا سلائی سے انہیں جلا دیا بلکہ ان کی گندی عبارتیں مٹاکر ان پر پاکیزہ عبارتیں لکھیں گے.پس ہمارے اصول تخریبی نہیں بلکہ تعمیری ہوں گے کیونکہ جو تو میں تباہی کے اصول دنیا میں رائج کیا کرتی ہیں وہ خود بھی تباہ ہوتی ہیں اور ان کے اصول بھی ناکارہ ہو جاتے ہیں.محبت ہی ہے جو آخر دنیا کو فتح کرتی اور عالمگیر مواخات کا سلسلہ قائم کر دیتی ہے.ہمارے نو جوانوں میں سے بعض نے اپنی زندگیاں وقف کی ہوئی ہیں اور میں آج کل ان کا امتحان بھی لے رہا ہوں اس امتحان لینے سے جہاں مجھے یہ معلوم ہوا کہ ان نوجوانوں میں اخلاص اور جرات ہے وہاں مجھے یہ بات بھی نہایت افسوس اور رنج سے معلوم ہوئی کہ ان کی تربیت اس رنگ میں نہیں ہوئی جس رنگ میں اسلام لوگوں کی تربیت کرنا چاہتا ہے.اسلام مومن کے دماغ میں ایک وسعت پیدا کر دیتا ہے.اتنی بڑی وسعت کہ ہر مومن اپنے آپ کو دنیا کا بادشاہ سمجھتا ہے وہ کسی ایک صوبہ یا ایک ملک یا ایک براعظم کا نہیں بلکہ ساری دنیا کا اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتا ہے اور دنیا کے ہر شعبے کی طرف اپنی نگاہ دوڑاتا اور ہر شعبے سے اپنے لئے فوائد اخذ کرتا ہے اسی لئے صوفیا کرام نے انسان کو عالم صغیر کہا ہے اور گو ظاہری الفاظ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ہر انسان کو عالم صغیر کہا مگر در حقیقت ان کی انسان سے مراد انسان کامل ہے.جس طرح ایک انچ کا شیشہ بھی اگر ایک وسیع باغ کے سامنے رکھ دیا جائے تو اس باغ کے تمام پودے نہایت چھوٹے پیمانہ پر شیشے میں نمایاں ہو جاتے ہیں اور جس طرح سبزہ زار کو ظاہری طور پر دیکھ کر انسان لطف اندوز ہوتا ہے اسی طرح شیشہ میں دیکھ کر لطف اٹھا سکتا ہے بالکل اسی طرح ایک مومن کی نگاہ تمام دنیا پر وسیع ہوتی ہے اس کا دماغ روشن، اس کی عقل تیز ، اس کے حوصلے بلند ، اس کی امنگیں شاندار اور اس کی خیال آرائیاں بہت اونچی ہوتی ہیں مگر مجھے نہایت افسوس سے معلوم ہوا کہ 137

Page 150

خطبہ جمعہ فرمودہ 11 جنوری 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول جامعہ احمدیہ میں جو طلبا تعلیم پاتے ہیں انہیں کنوؤں کے مینڈکوں کی طرح رکھا گیا ہے، ان میں کوئی وسعت خیال نہ تھی ، ان میں کوئی شاندار امنگیں نہ تھیں اور ان میں کوئی روشن دماغی نہ تھی.میں نے کرید کرید کر ان کے دماغ میں داخل ہونا چاہا مگر مجھے چاروں طرف سے ان کے دماغ کا راستہ بند نظر آیا اور مجھے معلوم ہوا کہ سوائے اس کے کہ انہیں کہا جاتا ہے وفات مسیح کی یہ آیتیں رٹ لو یا نبوت کے مسئلہ کی یہ دلیلیں یاد کر لو، انہیں کوئی اور بات نہیں سکھائی جاتی جس کے معنے یہ ہیں کہ ہمارا کام اتنا ہی ہے کہ کچھ لوگ خرابی کریں اور ہم اسے مٹادیا کریں.گویا خدا کے پاس نعوذ باللہ تعمیری کام کوئی نہیں.اگر ہے تو تحر یہی کام ہی ہے اور پھر اس کے معنے یہ ہیں کہ اگر چند مولوی یہ خیال نہ گھڑ لیتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہے یا چند مولوی یہ خیال نہ پھیلا دیتے کہ مسیح ناصری آسمان پر زندہ موجود ہیں تو نہ مسیح موعود کی ضرورت تھی اور نہ سلسلہ احمدیہ کے قیام کی.گویا ہماری جماعت صرف چند مولویوں کے ڈھکوسلوں کو دور کرنے کے لئے دنیا میں قائم ہوئی ہے.میں نہیں سمجھ سکتا اس سے زیادہ ذلیل، اس سے زیادہ ادنی ، اس سے زیادہ رسوا کن اور اس سے زیادہ کمینہ خیال بھی دنیا میں کوئی اور ہو سکتا ہے؟ پس یہ عالم ہیں جنہیں جامعہ تیار کر رہا ہے اور یہ مبلغ ہیں جنہیں احمدیت کی تبلیغ کے لئے تعلیم دی جارہی ہے؟ حالانکہ یہ ویسے ہی مسجد کے ملنٹے ہیں جن کو مٹانے کیلئے یہ سلسلہ قائم ہوا ہے.میں نے عام طور پر لڑکوں سے سوال کر کے دیکھا اور مجھے معلوم ہوا کہ کثرت سے طالب علم ایسے ہیں جنہوں نے کبھی اخبار کو پڑھا ہی نہیں.کیا دنیا میں کبھی کوئی ڈاکٹر کام کر سکتا ہے جسے معلوم ہی نہیں کہ مرضیں کون کون سی ہوتی ہیں؟ میں نے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا ہے.آپ علیہ السلام را توں کو بھی کام کرتے اور دن کو بھی کام کرتے اور اخبارات کا باقاعدہ مطالعہ رکھتے.اس تحریک کے دوران میں خود اکتوبر سے لے کر آج تک 12 بجے سے پہلے کبھی نہیں سویا اور اخبار کا مطالعہ کرنا بھی نہیں چھوڑا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تو میں نے اس طرح دیکھا ہے کہ جب ہم سوتے اس وقت بھی آپ جاگ رہے ہوتے اور جب ہم جاگتے تو اس وقت بھی آپ کام کر رہے ہوتے.جب انہیں پتہ ہی نہیں کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے تو وہ دنیا میں کیا کام کر سکتے ہیں؟ میں نے جس سے بھی سوال کیا، معلوم ہوا کہ اس نے اخبار کبھی نہیں پڑھا اور جب بھی میں نے ان سے امنگ پوچھی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم تبلیغ کریں گے اور جب سوال کیا کہ کس طرح تبلیغ کرو گے تو یہ جواب دیا کہ جس طرح بھی ہوگا تبلیغ کریں گے.یہ الفاظ کہنے والوں کی ہمت تو بتاتے ہیں مگر عقل تو نہیں بتاتے.الفاظ سے یہ تو ظاہر ہوتا ہے کہ کہنے والا ہمت رکھتا ہے مگر یہ بھی ظاہر ہو جاتا ہے کہ 138

Page 151

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد اول خطبه جمعه فرموده 11 جنوری 1935ء کہنے والے میں عقل نہیں ہے اور نہ وسعت خیال ہے.جس طرح ہوگا تو سو ر کیا کرتا ہے اگر سور کی زبان ہوتی اور اس سے پوچھا جاتا کہ تو کس طرح حملہ کرے گا ؟ تو وہ یہی کہتا کہ جس طرح ہوگا کروں گا.بس سؤر کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ سیدھا چل پڑتا ہے آگے نیزہ لے کر بیٹھو تو وہ نیزہ پر حملہ کر دے گا، بندوق لے کر بیٹھو تو بندوق کی گولی کی طرف دوڑتا چلا آئے گا.پس یہ تو سوروں والا حملہ ہے کہ سید ھے چلے گئے اور عواقب کا کوئی خیال نہ کیا.حالانکہ دل میں ارادے یہ ہونے چاہئیں کہ ہم نے دنیا میں کوئی نیک اور مفید تغیر کرتا ہے مگر اس قسم کی کوئی امنگ میں نے نو جوانوں میں نہیں دیکھی اور اسی وجہ سے جتنے اہم اور ضروری کام ہیں وہ اس تبلیغی شعبہ سے پوشیدہ ہو گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جماعت ترقی نہیں کرتی حالانکہ مبلغ کا کام یہ ہے کہ وہ دنیا میں ایک آگ لگا دے جہاں جائے وہاں دیا سلائی لگائے اور آگے چلا جائے.اگر مبلغ ایک جنگل کو صاف کرنے بیٹھے تو وہ اور اس کی نسلیں بھی ہزار سال میں ایک جنگل کو صاف نہیں کر سکتیں لیکن اگر وہ سوکھی لکڑیوں اور پتوں وغیرہ کو اکٹھا کر کے دیا سلائی لگا تا چلا جائے تو چند دنوں میں ہی تمام جنگل راکھ کا ڈھیر ہو جائے گا.پس مجھے نہایت ہی افسوس سے معلوم ہوا کہ مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کی تعلیم نہایت ہی ناقص، نہایت ہی ردی اور نہایت ہی ناپسندیدہ حالت میں ہے.اس میں شبہ نہیں کہ طالب علموں میں ایمان اور اخلاص نہایت اعلیٰ درجہ کا ہے.چنانچہ ایک طالب علم سے جب میں نے پوچھا کہ تم یہ سمجھ لو کہ ہم نے جس امداد کا وعدہ کیا ہے ممکن ہے اتنا بھی نہ دے سکیں تو اس نے جواب دیا کہ جو کچھ آپ دے رہے ہیں یہ تو احسان ہے.اللہ تعالیٰ کی قسم ! آپ اس وقت کہیں کہ چین چلے جاؤ تو میں ٹوکری ہاتھ میں لے کر مزدوری کرتا ہوا روانہ ہو جاؤں گا.یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ لڑکوں کی ذات میں اخلاص ہے مگر یہ اخلاص استاد تو پیدا نہیں کرتے؟ یہ ماحول کا نتیجہ ہے ورنہ جو کام استادوں کا ہونا چاہئے تھا وہ نہیں ہوا.وہ ہیرے ہیں مگر بے کاٹے ہوئے.ہم نے مدرسہ اور جامعہ میں انہیں اس لئے بھیجا تھا کہ تا وہ ہیرے ہمیں کاٹ کر بھیجے جائیں مگر وہ پھر بے کئے ہمارے پاس آگئے.یہ ایک اتنی بڑی کو تاہی ہے کہ میں سمجھتا ہوں سینکڑوں طالب علم ہیں جن کی زندگیاں تباہ کر دی گئیں اور انہیں ملنے اور مسجد کے کنگال مولوی بنادیا گیا ہے.نہ ان کے دماغوں میں کوئی تعمیری پروگرام ہے، نہ ان کی آنکھوں میں عشق ہے اور نہ ان کے سینوں میں سلگتی ہوئی آگ ہے.اگر آگ ہے تو دبی ہوئی مگر دبی ہوئی آگ کیا فائدہ دے سکتی ہے؟ بند ایمان کوئی فائدہ نہیں دے سکتا بلکہ وہی ایمان فائدہ دے سکتا ہے جو کھلا ہو اور ایمان جب کھلتا ہے تو انسان کو وسعت خیال حاصل ہو جاتی ہے، روز نئی نئی سکیمیں اسے سوجھتی ہیں، نئے سے نئے ارادے اور نئی سے نئی امنگیں اس کے دل 139

Page 152

خطبہ جمعہ فرمود : 11 جنوری 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول میں موجزن ہوتی ہیں اور اگر امنگ پیدا ہو تو پھر وہ چھپ نہیں سکتی بلکہ ظاہر ہو کر رہتی ہے.بند ہنڈیا میں بھی اگر دھواں جمع ہو جائے تو وہ دھوئیں کی وجہ سے اچھلنے لگ جاتی ہے.پس ایک ہنڈیا دھوئیں سے اچھل سکتی ہے تو کیا مومن کے اندر اگر وسعت خیال اور اُمنگیں داخل ہو جائیں تو وہ نہیں اچھلے گا؟ ریل ایجاد ہوئی تو محض اسی بات سے کہ ایجاد کرنے والے نے ایک دن دیکھا کہ بند ہنڈیا دھوئیں سے اچھل رہی ہے.اس کے ذہن میں معابات آئی اور اس نے ایک انجن بنایا جس میں دھواں بھر دیا اور وہ چلنے لگ گیا.تو بخارات بھی اگر بند ہوں تو ہنڈیا کو اچھال سکتے ہیں.تو جس کے دل میں ایمان اور محبت کا دھواں اٹھ رہا ہو وہ کس طرح کم حوصلہ ہو سکتے ہیں؟ مگر میں نے جامعہ کے طالب علموں کو ایسا دیکھا کہ گویا وہ بڑے بڑے پتھروں کے نیچے دبے پڑے ہیں.حالانکہ انہیں غباروں کی طرح اڑنا چاہئے تھا اور بجائے اس کے کہ ہم کہتے جاؤ اور خدا کے دین کی تبلیغ کرو وہ خود دیوانہ وار تبلیغ کے لئے نکل کھڑے ہوتے مگر ان غریبوں نے جو ایمان پیدا کیا مدرسوں اور پروفیسروں نے اسے صیقل کرنے کی طرف دھیان ہی نہیں کیا اور میں یہ سمجھتا ہوں سینکڑوں خون ہیں جو ان کی گردنوں پر رکھے جائیں گے.جس طرح ایک دیوار کے سامنے جب آدمی کھڑا ہو جائے تو اسے آگے جانے کا راستہ نہیں ملتا اسی طرح میں نے ان کے دماغ میں کرید کرید کر جانا چاہا مگر مجھے معلوم ہوا کہ ان کا دماغ محض ایک دیوار ہے سر ٹکرا کر مر جاؤ مگر آگے راستہ نہیں ملے گا.غضب یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں تک انہوں نے نہیں پڑھیں.جس سے بھی سوال کیا گیا ، کورس کی کتابوں کے سوا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں میں سے دو ایک کے علاوہ وہ کسی کا نام نہ لے سکا.اگر انہیں اپنے ایمانوں کی مضبوطی کا خیال ہوتا تو کیا ہوسکتا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کا مطالعہ نہ کرتے؟ مجھے تو یاد ہے جب میں سکول میں پڑھا کرتا تھا ہمیشہ مجھے کوئی نہ کوئی بیماری رہتی تھی اور مدرسہ سے بھی اکثر ناغے ہوتے مگر اس عمر میں ہی میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھی ہیں.بعض دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بستہ میں کوئی نئی کتاب رکھنی تو وہیں کھسکا کر لے جانی اور شروع سے آخر تک اسے پڑھنا بلکہ موجودہ عمر میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کم کتابیں پڑھی ہیں کیونکہ اب میرے علم کے استعمال کرنے کا وقت ہے مگر چھوٹی عمر میں جب مدرسہ کی پڑھائی سے بوجہ بیماری فراغت ہوتی اور اور کام نہ ہوتا ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابیں میں بہت پڑھا کرتا تھا اور در حقیقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابیں ہی علم کا سمندر ہیں.اس وقت جبکہ اکثر لوگ خود ی مسیح کو وفات یافتہ کہ رہے ہیں ان بحثوں میں کیا رکھا ہے کہ وفات مسیح کے یہ دلائل ہیں اور 140

Page 153

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 11 جنوری 1935ء فلا نے علامہ نے یہ لکھا اور فلاں امام نے یہ لکھا؟ کن چیزوں پر حصر کرنے کا نام علم رکھ لیا گیا ہے؟ میرا یہ مطلب نہیں کہ یہ بالکل بے کار چیزیں ہیں، یہ بھی مفید چیزیں ہیں مگر ان کی مزید تحقیق کی چنداں ضرورت نہیں ان کے لئے کافی ذخیرہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب میں آچکا ہے.اب ان سوالات سے ایسا ہی تعلق ہونا چاہئے تھا جیسا سیر فی الکتب کرتے ہوئے کوئی نئی بات آگئی تو اسے معمولی طور پر نوٹ کر لیا مگر اس پر اپنے دماغوں کو لگانے اور اپنی محنت کو ضائع کرنے کے کیا معنی ہیں ؟ تمہیں اس سے کیا تعلق کہ فلاں امام نے کیا لکھا؟ تمہیں تو اپنے اندر ایک آگ پیدا کرنی چاہئے ، ایمان پیدا کرنا چاہئے، اخلاق پیدا کرنے چاہئیں، امنگیں پیدا کرنی چاہئیں اور تمہیں سمجھنا چاہئے کہ تمہیں خدا نے کسی خاص کام کے لئے پیدا کیا ہے اور تم زمین میں اس کے خلیفہ ہو.پھر اگر تم اخبار میں پڑھتے اور جہاں جہاں مسلمانوں کو تکالیف و مصائب میں گرفتار پاتے ،تمہارے دلوں میں ٹیسیں اٹھتیں اور تم ان کی بہبودی کے لئے کوششیں کرتے مگر تم دنیا کے حالات سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہو اور جیسے ترکوں کے حرم مشہور ہیں اسی طرح طالب علموں کو حرم بنا کر رکھ دیا گیا ہے.پس جہاں ایک طرف مجھے خوشی ہوئی کہ لڑکوں میں اخلاص پایا جاتا ہے بلکہ بعض کا اخلاص تو ایسا تھا جو دلوں پر رقت طاری کر دیتا اور وہ اپنی مثال آپ تھا مگر وہ ان بے بس قیدیوں سے مشابہت رکھتے تھے جن کے ہاتھ پاؤں جکڑ دیئے جائیں اور وہ مرنے کے لئے تو تیار ہوں مگر انہیں یہ معلوم نہ ہو کہ اپنی جان کو کس طرح بچایا جا سکتا ہے؟ لیکن مومن کو خدا تعالیٰ نے اس لئے تو پیدا نہیں کیا کہ وہ مر جائے بلکہ اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ خود بھی زندہ رہے اور دوسروں کو بھی زندہ رکھے.نپولین کے گارڈز کی مثال میں نے کئی دفعہ سنائی ہے کہ ایک جنگ میں ان کا سامان ختم ہو گیا لوگوں نے انہیں کہا کہ میدان سے بھاگتے کیوں نہیں تو انہوں نے کہا کہ نپولین نے ہمیں بھا گنا سکھایا نہیں.اگر میں ان طالب علموں سے کہتا کہ جاؤ اور آگ میں کود پڑو تو وہ آگ میں کودنے کے لئے تیار تھے، اگر میں انہیں کہتا کہ سمندر میں کود جاؤ تو وہ سمندر میں بھی کو دنے پر بھی تیار تھے مگر وہ آگ سے نکلنے کا راستہ نہیں جانتے اور نہ سمندر میں تیرنے کا مادہ ان میں ہے.حالانکہ جب میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ مرجاؤ تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوتا کہ اس کا نتیجہ تمہاری موت ہوگا کیونکہ مومن کو خدا کبھی بلاک نہیں کرتا اور مومن کی جان سے زیادہ اور کوئی قیمتی چیز اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو اس سے زیادہ صدمہ اور کسی وقت نہیں ہوتا جتنا ایک مومن بندے کی جان نکالتے وقت اسے ہوتا ہے.پس مومن کی جان تو اتنی قیمتی چیز ہے کہ اس کے نکلنے سے عرش الہی بھی کانپ اٹھتا ہے اور گو 141

Page 154

خطبہ جمعہ فرمودہ 11 جنوری 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول مومن کو خدا ہلاک کرنے کے لئے پیدا نہیں کرتا مگر مومن کا یہ فرض ضرور ہوتا کہ وہ اپنی جان دینے کے لئے تیار رہے.ہاں اپنی تدبیروں کو وسیع رکھے اور نہ صرف اپنی جان بلکہ ہزاروں جانوں کے بچانے کے خیالات اس کے دل میں سمائے رہیں.پس میں جہاں جماعت کو قربانیوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں وہاں ذمہ دار کارکنوں اور صدر انجمن کو بھی توجہ دلاتا ہوں کیونکہ ان پر بھی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور وہ بھی اسی طرح ان طالب علموں کے خون میں شریک ہے جس طرح جامعہ کے پروفیسر اور اساتذہ اس میں شریک ہیں.صدر انجمن محض ریزولیوشن پاس کر دینے کا نام نہیں نہ صدر انجمن اس امر کا نام ہے کہ کسی صیغہ کے لئے افسر مقرر کر کے اسے نگرانی کے بغیر چھوڑ دیا جائے.صدر انجمن کا فرض ہے کہ وہ طالب علموں کے ذہنوں ، ان کی امنگوں اور ان کے ارادوں میں وسعت پیدا کر دے، ان کے اندر ایک بیداری اور زندگی کی روح پیدا کرے، ان کے خیالات میں وسعت پیدا کرے اور اگر مدرس مفید مطلب کام کرنے والے نہ ہوں تو صدر انجمن کا فرض ہے کہ انہیں نکال کر باہر کرے.ہم نے طالب علموں کا خالی اخلاص کیا کرنا ہے؟ اس کے ساتھ کچھ سمجھ اور عقل بھی تو چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیشہ حضرت ابو ہریرۃ کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ حضرت ابو ہریرہ میں تفقہ کا مادہ دوسرے صحابہ سے کم تھا مولویوں نے اس پر شور مچایا مگر جو صحیح بات ہو وہ صحیح ہی ہوتی ہے.آج کل جس قدر عیسائیوں کے مفید مطلب احادیث ملتی ہیں وہ سب حضرت ابو ہریرہ سے ہی مروی ہیں.اس کی وجہ تھی کہ وہ سیاق وسباق کو نہ دیکھتے اور گفتگو کے بعض ٹکڑے بغیر پوری طرح سمجھے آگے بیان کر دیتے مگر باقی صحابہ سیاق و سباق کو سمجھ کر روایت کرتے.اسی طرح اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق روایتیں چھینی شروع ہوئی ہیں جن میں سے کئی ایسے لوگوں کی طرف سے بیان کی جاتی ہیں جنہیں تفقہ حاصل نہیں ہوتا اور اس وجہ سے ایسی روایتیں چھپ جاتی ہیں جن پر لوگ ہمارے سامنے اعتراض کرنا شروع کر دیتے ہیں.چنانچہ ایک دفعہ روایت چھپ گئی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب آتھم کی میعاد میں سے صرف ایک دن باقی رہ گیا تو بعض لوگوں سے کہا کہ وہ اتنے چنوں پر اتنی بار فلاں سورۃ کا وظیفہ پڑھ کر آپ کے پاس لائیں.جب وہ وظیفہ پڑھ کر چنے آپ کے پاس لائے تو آپ انہیں قادیان سے باہر لے گئے اور ایک غیر آباد کنوئیں میں انہیں پھینک کر جلدی سے منہ پھیر کر واپس لوٹ آئے.میرے سامنے جب اس کے متعلق اعتراض پیش ہوا تو میں نے روایت درج کرنے والوں سے پوچھا کہ یہ روایت آپ نے کیوں درج کر دی؟ یہ تو 142

Page 155

تحریک جدید-ایک الہبی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 11 جنوری 1935ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صریح عمل کے خلاف ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی نعوذ باللہ ٹو نے وغیرہ کیا کرتے تھے.اس پر جب تحقیقات کی گئی تو معلوم ہوا کہ کسی شخص نے ایسا خواب دیکھا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے جب اس خواب کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا اسے ظاہری شکل میں ہی پورا کر دو.اب خواب کو پورا کرنے کے لئے ایک کام کرنا بالکل اور بات ہے اور ارادہ ایسا فعل کرنا اور بات اور ظاہر میں خواب کو بعض دفعہ اس لئے پورا کر دیا جاتا ہے کہ تا اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اس کا مصر پہلو اپنے حقیقی معنوں میں ظاہر نہ ہو.چنانچہ معبرین نے لکھا ہے کہ اگر منذ رخواب کو ظاہری طور پر پورا کر دیا جائے تو وہ وقوع میں نہیں آتی اور خدا تعالیٰ اس کے ظاہر میں پورے ہو جانے کو ہی کافی سمجھ لیتا ہے.اس کی مثال بھی ہمیں احادیث سے نظر آتی ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ سراقہ بن مالک کے ہاتھوں میں کسری کے سونے کے کنگن ہیں.اس رویا میں اگر ایک طرف اس امر کی طرف اشارہ تھا کہ ایران فتح ہوگا تو دوسری طرف یہ بھی اشارہ تھا کہ ایران کی فتح کے بعد ایرانیوں کی طرف سے بعض مصائب و مشکلات کا آنا بھی مقدر ہے کیونکہ خواب میں اگر سونا دیکھا جائے تو اس کے معنے غم اور مصیبت کے ہوتے ہیں.حضرت عمرؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ آلہ مسلم کے رویا کے اس مفہوم کو سمجھا اور سراقہ کو بلا کر کہا کہ پہن کڑے ورنہ میں تجھے کوڑے ماروں گا.چنانچہ اسے سونے کے کڑے پہنائے گئے اور اس طرح حضرت عمرؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس رویا کے غم اور فکر کے پہلو کو دور کرنا چاہا مگر ظاہری صورت میں خواب کو پورا کر دینے کے باوجود پھر بھی خواب کا کچھ حصہ حقیقی معنوں میں پورا ہو گیا کیونکہ حضرت عمر کو شہید کرنے والا ایک ایرانی ہی تھا.پھر ایران میں شیعیت نے جو ترقی کی وہ ہمیشہ مسلمانوں کے لئے غم اور مصیبت ہی بنی رہی ہے مگر یہ بات تب کھلی جب میں نے دریافت کیا کہ ایسی روایت کیوں درج کر دی گئی ہے؟ غرض عقل اور فہم کی زیادتی اخلاص کے ساتھ نہایت ہی ضروری ہوتی ہے ورنہ بڑی بڑی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے پاس شکایت آئی کہ کچھ عورتیں اپنے مردے پر نوحہ کر رہی ہیں آپ نے فرمایا انہیں منع کرو مگر جب منع کرنے کے باوجود وہ نہ رکیں اور دوبارہ آپ کے پاس شکایت کی گئی تو آپ نے فرمایا کہ ان کے منہ میں مٹی ڈالو.یہ تو عربی زبان کا ایک محاورہ ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو.ہمارے ملک میں بھی کہہ دیتے ہیں ”کھے کھاوے اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوتا کہ وہ مٹی کھاوے بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر نہیں مانتا تو نہ مانے.غرض عربی زبان کا یہ محاورہ ہے کہ جب کسی کے متعلق کہنا ہو کہ اسے 143

Page 156

خطبہ جمعہ فرمودہ 11 جنوری 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول اس کے حال پر چھوڑ دو تو کہتے ہیں اس کے منہ میں مٹی ڈالو مگر سننے والوں نے یوں فرمانبرداری کرنی شروع کی کہ مٹی کے بورے بھر لئے اور ان عورتوں کے مونہوں پر مٹی پھینکنی شروع کر دی.حضرت عائشہ کو معلوم ہوا تو آپ سخت ناراض ہو ئیں اور فرمایا ایک تو ان کے گھر میں ماتم ہو گیا ہے اور دوسرا تم ان ر مٹی ڈالتے ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ منشا تو نہ تھا جو تم سمجھے.پس اخلاص کے ساتھ عقل و ہم نہایت ضروری ہوتا ہے.صرف عربی کتابیں رٹوا دینے سے کیا بن جاتا ہے جب تک فہم وفراست نہ پیدا کی جائے ، وسعت حوصلہ نہ پیدا کی جائے اور اس بات کی ہمت نہ پیدا کی جائے کہ انہوں نے دنیا کو فتح کرنا ہے.پس صدر انجمن پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور پروفیسروں پر بھی اور میں امید کرتا ہوں کہ صدر انجمن کو رسوں کو بدل کر ، استادوں کو بدل کر ، نظام کو بدل کر ، طریق نگرانی کو بدل کر ایسا انتظام کرے گی کہ ہمارے طالب علم ایک زندہ دل اور امنگوں سے بھرا ہوا دل لے کر نکلیں گے اور ہر تغیر جو دنیا میں پیدا ہوگا انہیں قربانی پر آمادہ کرے گا اور ہر تغیر ان کے دل میں ایسی گدگدی پیدا کر دے گا کہ وہ خدا کے دین کی آواز پر لبیک کہے بغیر نہیں رہ سکیں گے.ایسے طالب علم جب پیدا ہو جا ئیں گے تو ہمیں کسی مبلغ کی ضرورت نہیں رہے گی.یہ لوگ اپنی ذات میں مبلغ ہوں گے اور بغیر کسی تحریک کے آپ ہی دنیا کی ہدایت کے لئے گھروں سے نکل کھڑے ہوں گے.ورنہ پر تکلف مبلغ سے دنیا کیا فائدہ حاصل کر سکتی ہے؟ اب بہت سے لوگ شکایتیں کرتے رہتے ہیں کہ ہمارے مبلغوں کی ڈاڑھیاں چھوٹی ہوتی ہیں.میں نے بھی یہ نقص دیکھا ہے.اس میں شبہ نہیں کہ حضرت علی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کی ڈاڑھی چھوٹی تھی.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لمبی ڈاڑھی رکھا کرتے تھے.حضرت خلیفہ اول کسی بھی لمبی ڈاڑھی تھی اور میری ڈاڑھی بھی لمبی ہے.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بھی بڑی ڈاڑھی تھی.حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان کی بھی بڑی ڈاڑھی تھی.یہ مان لیا کہ حضرت علیؓ کی چھوٹی ڈاڑھی تھی مگر ممکن ہے اس کی وجہ ان کی کوئی بیماری ہو یا کوئی اور.اور اگر یہ بات نہ بھی ہو تب بھی کیوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نقل نہ کی جائے اور حضرت علی کی نقل کی جائے ؟ بہر حال ڈاڑھیوں میں نقص ہے.اسی طرح ہمارے مبلغ ظاہری تکلفات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور اکثر یہ شکایت کرتے رہتے ہیں کہ فلاں جگہ کی جماعت اتنی ست ہے کہ ہم وہاں گئے مگر اس نے ہم سے کام نہیں لیا.حالانکہ یہ مبلغ کا اپنا فرض ہے کہ وہ کام کرے کیونکہ ہم تو مبلغ سمجھتے ہی اس کو ہیں جو آگ ہو.کبھی آگ بھی کہا کرتی ہے کہ مجھے سلگایا ہیں جاتا ؟ وہ تو خود بخو سکتی ہے اور اگر ایک گھر کو گنتی ہے تو ساتھ کے دس گھروں کو بھی اپنی 144

Page 157

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 11 جنوری 1935ء لپیٹ میں لے لیتی ہے.پس اگر کوئی مبلغ ایسا ہے تو وہ مبلغ نہیں بلکہ اپنے دین اور ایمان سے تمسخر کرنے والا ہے.پھر عام طور پر شکایت آتی ہے کہ ہمارے مبلغ اکثر انہی مقامات میں جاتے ہیں جہاں پہلے سے احمدی موجود ہوں.حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریق عمل یہ تھا کہ آپ غیر قوموں کے پاس جاتے اور انہیں تبلیغ اسلام کرتے.یہ نقص اسی وجہ سے واقع ہوا ہے کہ ہمارے مبلغوں میں وسعت خیال نہیں.میرا یہ مطلب نہیں کہ مبلغین میں کوئی خوبی نہیں.ان میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھے اچھے مخلص ہیں اور جس قربانی کا بھی ان سے مطالبہ کیا جائے اسے پورا کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں.چنانچہ طالب علموں کے اخلاص کا جو میں نے ابھی ذکر کیا ہے اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے مبلغین اللہ تعالیٰ کے فضل سے کس قدرا خلاص رکھتے ہوں گے مگر ان کے یہ جو ہر پوشیدہ رکھے گئے ہیں اور انہیں تر اشا اور بنایا نہیں گیا.پس ذمہ دار کارکنوں کو میں توجہ دلاتا ہوں کہ طالب علموں کے اندر وسعت خیال اور علو ہمت پیدا کرو.تمام قسم کی دیواروں سے نکال کر انہیں کھلی ہوا میں کھڑا کرو اور ان کے ذہنوں کو بجائے مباحثات کی طرف لگانے کے دنیا کی روحانی، اخلاقی اور تمدنی ضروریات اور ان کے علاج کی طرف لگاؤ.پس اس خطبہ کے ذریعہ جہاں میں پروفیسروں، ذمہ دار کارکنوں اور صدر انجمن کو طلباء " جامعہ کی طرف توجہ دلاتا ہوں وہاں جماعت سے بھی کہتا ہوں کہ وہ اپنے ایمان کا معیار صرف یہ نہ سمجھ لے کہ اس نے تحریک جدید میں حصہ لے کر میرے مطالبہ کو پورا کر دیا بلکہ ہر جماعت کا یہ فرض ہے وہ اپنے چندوں کی با قاعدہ ادا ئیگی کی طرف توجہ کرے اور ہر جماعت کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے بقائے پورے کرے.اس کے علاوہ جماعت کا ہر فرد یہ کوشش کرے کہ وہ اپنی زندگی کا ایک حصہ خدمت سلسلہ کے لئے وقف کر دے اور اگر اسلام کی طرف سے دوسری آواز اٹھے تو وہ اپنا سارا وقت خدمت اسلام پر لگانے کے لئے کمر بستہ رہے.یاد رکھو بغیر جانوں کی قربانی کے یہ سلسلہ ترقی نہیں کر سکتا.چونا اور قلعی سے مکان نہیں بنا کرتا بلکہ مکان اینٹوں سے بنتا ہے اسی طرح الہی سلسلہ روپوں کے ذریعہ نہیں بلکہ جانوں کو قربان کرنے کے بعد ترقی کیا کرتے ہیں.میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے دوست اس ماحول کو سمجھنے کی کوشش کریں گے اور ہر قسم کی افسردگی کو اپنے دلوں سے دور کر کے سلسلہ کی ضروریات کو سمجھتے ہوئے اس اخلاص کے ساتھ ، جس کے متعلق مجھے یقین ہے کہ پیدا ہو چکا ہے، آگے بڑھیں گے اور چندوں کی ادائیگی کے علاوہ اپنی جانوں کی قربانی کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کریں گے.میں سمجھتا ہوں کہ ابھی ہماری جماعت کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے سوتے ہوئے کسی شخص کو جگا دیا جائے تو وہ گھبرا کر یہ کہتا ہوا اٹھے کہ 145

Page 158

خطبہ جمعہ فرمودہ 11 جنوری 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول کیا ہو گیا؟ کیا ہو گیا؟ مگر میں کہتا ہوں اب آنکھیں کھولو اور بیدار ہو کہ تمہارے گھر کو آگ لگنے والی ہے.پریشانی کی حالت دور کرو اور سمجھنے کی کوشش کرو ان قربانیوں کو جو تمہارے سامنے پیش کی گئی ہیں اور سمجھنے کی کوشش کرو ان حالات کو جو آج کل تمہارے خلاف پیدا ہو رہے ہیں.تب اور صرف تب تم میں ہمت پیدا ہوگی تمہیں صحیح قربانی کی بھی توفیق ملے گی اور تبھی اس کے صحیح نتائج بھی تمہارے لئے پیدا ہوں گے.“ (مطبوعہ افضل 24 جنوری 1935ء ) 146

Page 159

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول "" اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 15 مارچ 1935ء اشاعت احمدیت کے لئے غیر ممالک میں نکل جاؤ خطبہ جمعہ فرمودہ 15 مارچ 1935ء اگر تم دوبارہ زندگی چاہتے ہو تو تمہارا کام یہ ہے کہ پہلے مسیح موعود کی آواز سن کر اس کے پیچھے چلو اور اس کی تعلیم پر عمل کرو پھر دنیا میں اس کی تعلیم پھیلانے کیلئے نکل جاؤ.وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ ( الجمعه (11) (الجمعه : 11) اور اللہ تعالیٰ کا وہ فضل تلاش کرو جس کے نتیجہ میں تمہاری تمام تکالیف ذلت اور رسوائیاں دور ہو جائیں.یہی وہ چیز ہے جسے میں نے اپنی نئی تحریک میں پیش کیا ہے اور جسے بار بار میں جماعت کے سامنے لا رہا ہوں.ہمارے ہندوستان کے لوگوں میں یہ مرض ہے کہ وہ ایک جگہ سمٹ کر بیٹھنا چاہتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ موجودہ زمانہ میں ہم سے یہ چاہتا ہے کہ: فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ ہم باہر جائیں اور زمین میں پھیل کر تبلیغ احمدیت کریں.اس میں شبہ نہیں کہ یہ ایک ایسی بات ہے جس میں موت نظر آتی ہے اور اسی لئے موت کو ہلکا کرنے کے لئے ہم نے کہا ہے کہ ہم غیر ممالک میں جانے والوں میں سے بعض کو کرایہ دے دیں گے یا چھ چھ ماہ وہاں رہنے کا خرچ دے دیں گے.یہ تمام باتیں موت کو ہلکا کرنے والی ہیں کیونکہ جسے امید ہو کہ اسے باہر جانے کے لئے کراہیں جائے گا اور امید ہو کہ وہاں کچھ عرصہ رہنے کے لئے خرچ بھی مل جائے گا وہ کسی قدر اپنی موت سے بے فکر ہو جاتا ہے لیکن اصل قربانی انہی لوگوں کی ہے جو موت کے منہ میں اپنے آپ کو ڈال دیتے ہیں اور یہ سمجھ لیتے ہیں کہ جب کئی فقیر دنیا میں بھیک مانگتے ہیں تو ہم بھی بھیک مانگ کر اپنا گزارہ کر لیں گے یا مزدور مزدوری کر کے اپنا پیٹ پالتے ہیں تو ہم بھی مزدوری کر کے اپنا پیٹ پال لیں گے.پھر اگر مرنا ہے تو یہاں بھی مرنا ہے اور وہاں بھی.پھر کیوں ایسی جگہ نہ مریں جہاں مرکز خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو.بے شک کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو غیر ممالک میں جب جاتے ہیں تو اپنے علمی زور سے رزق کما لیتے ہیں مگر جب تک ہماری جماعت پر زمانہ نہیں آتا کہ ہم اپنے علمی لوگ فارغ کر کے غیر ممالک میں بھیج سکیں اس وقت تک جماعتی طور پر ضرورت ہے کہ ہم باہر جائیں اور غیر ممالک کے لوگوں کو احمدیت میں داخل کریں 147

Page 160

اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 15 مارچ 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول خدا تعالیٰ ہم سے یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ ہم زمین میں پھیلیں اور احمدیت کی تبلیغ کریں.میں نے اس تحریک کے ذریعہ اس کی ابتدا کر دی ہے اسی طرح جس طرح باغ لگانے والا پنیری تیار کرتا ہے اور یہ ارادہ کیا ہے کہ سر دست چند آدمی ایسے تیار کریں جو مختلف ممالک میں جائیں اور احمدیت کا بیج بوئیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جماعت کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ ہمارے اکثر لوگ باہر جا ئیں اور مختلف ممالک میں پیغام احمدیت پہنچانے لگ جائیں.دراصل ہمارے لئے اس بات کا جانا اور سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ کس ملک کو اللہ تعالیٰ نے اشاعت احمدیت کا مرکز قرار دیا ہے.قادیان کا مرکز بنایا جانا محض اس بات کی دلیل ہے کہ قادیان قابلیت رکھتا ہے لیڈری کی اور قادیان قابلیت رکھتا ہے.پنیری کی تیاری کی مگر یہ ضروری تو نہیں کہ یہ باغ کے بڑھنے کے لئے بھی اچھی جگہ ہو جو قابل لیڈر ہو ضروری نہیں ہوتا کہ وہ اچھا سپاہی بھی ہو.بعض جرنیل بڑے اچھے ہوتے ہیں لیکن اگر انہیں سپاہی بنادیا جائے تو ناقص ثابت ہوتے ہیں اسی طرح بعض قابل سپاہی ہوتے ہیں لیکن انہیں جرنیل بنایا جائے تو ناقص ثابت ہوتے ہیں.پس قادیان کو مرکز بنا دینے کے یہ معنی نہیں کہ یہاں جماعت بھی زیادہ پھیلے گی.پچاس سال کے قریب سلسلہ احمدیہ پر گزر گئے مگر ابھی تک یہاں غیر احمدی موجود ہیں اور ان میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو ہمارا شدید دشمن ہے اور نہ اس نے احمدیت قبول کی ہے اور نہ وہ احمدیت قبول کرنے کے لئے تیار ہے.پھر وہ اتنا گند اچھالنے والا اور اتنا جھوٹ بولنے والا طبقہ ہے کہ جو بات ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی وہ اسے ہماری طرف منسوب کر دیتا ہے مکہ میں بھی دیکھ لو یہی حالت تھی.چنانچہ مکہ میں اس سرعت سے اسلام نہیں پھیلا جس سرعت سے مدینہ میں پھیلا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تیرہ سالہ تبلیغی مساعی کا یہ نتیجہ تھا کہ اتی یا بعض روایات کے رُو سے تین سو افراد آپ پر ایمان لائے مگر مدینہ میں دو سال کے اندر سارے مدینہ نے اسلام قبول کر لیا.تو بعض مقام لیڈری کے لحاظ سے مرکز ہوتے ہیں اور بعض اشاعت کے لحاظ سے مرکز ہوتے ہیں.“ اگر تم چاہتے ہو کہ تم خدا تعالیٰ کی برکت حاصل کرو تو آؤ دین کے کام میں لگ جاؤ اور اشاعت اسلام کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف کر دو.وَ اللهُ خَيْرُ الرَّازِقِيْنَ اور یہ مت خیال کرو کہ اگر تم دین کے لئے اپنا مال خرچ کرو گے، دین کیلئے اپنی جانیں قربان کرو گے اور دین کیلئے اپنا وقت دو گے تو تمہیں اس سے نقصان ہوگا بلکہ یا درکھو وَ اللهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ جب اس طرح مال خرچ کرو گے تو خدا تعالی تمہیں دنیا کا بادشاہ بنا دے گا.دولت تمہارے قدموں میں آئے گی اور یہ چھوٹی چھوٹی قربانیاں تمہیں بالکل حقیر اور ذلیل نظر آنے لگیں گی.“ "" ( مطبوع الفضل 29 مارچ 1935ء) 148

Page 161

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 19 اپریل 1935ء جماعتوں میں تحریک کے متعلق خطبات دیئے جائیں خطبہ جمعہ فرمودہ 19 اپریل 1935ء...اب موجودہ فتن کو دور کرنے اور تحریک جدید کو وسعت دینے کیلئے میں نے ایک تجویز کی ہے جس کا آج اعلان کرتا ہوں اور وہ یہ کہ ہر مہینہ میں ایک خطبہ جمعہ تمام احمد یہ جماعتوں میں میری جدید تحریک کے متعلق پڑھا جائے اور اس میں جماعت کو قربانیوں پر آمادہ کرتے ہوئے ان میں نیکی اور تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کی جائے.میری مفصل تحریک کو مد نظر رکھ کر ہر جماعت مہینہ میں ایک خطبہ جمعہ اس کے متعلق پڑھے اور تحریک کے مختلف حصوں کو مختلف خطبات میں بیان کر دیا جائے.مثلاً ایک خطبہ مالی قربانی کے متعلق پڑھا جائے ، دوسرا خطبہ زندگی وقف کرنے کے متعلق پڑھ دیا جائے اور تیسرا خطبہ جماعت میں صلح و محبت قائم کرنے کے متعلق پڑھ دیا جائے.اسی طرح تحریک کے تمام حصے ایک ایک کر کے مختلف خطبات کے ذریعہ جماعت تک پہنچائے جائیں.پھر ایک اور تجویز میں نے یہ کی ہے کہ ہر چھ ماہ کے بعد ایک دن مقرر کر کے ہر جگہ کی جماعتیں اپنے اپنے مقام پر جلسے کریں جس میں تحریک جدید کے متعلق لیکچر دیے جائیں.اس سال کے لئے میں نے 26 مئی کی تاریخ مقرر کی ہے اور اس تاریخ کو غالباً اتوار کا دن ہوگا بلکہ مجھے یاد آیا اس تاریخ کو اتوار کا ہی دن ہے کیونکہ اس کے متعلق میرے ذہن میں ایک واقعہ بھی تازہ ہو گیا.ایک دفعہ میں یہی سوچ رہا تھا کہ کون سا دن اس غرض کے لئے مقرر کیا جائے؟ کہ مجھے خیال آیا حضرت مسیح موعود کی وفات کا دن ایسا ہے جس دن جماعت اپنے فرائض کی طرف زیادہ عمدگی سے متوجہ ہو سکتی ہے اس پر میں نے ایک دوست سے کہا کہ حساب کرو اس تاریخ کو کون سا دن ہوگا ؟ انہوں نے حساب کیا تو اتوار نکلا.پس 26 مئی اتوار کے دن ہر جگہ کی جماعتیں جلسے کریں اور مختلف لوگ مختلف موضوعات پر لیکچر دیں.مثلا کوئی صلح ومحبت پر لیکچر دے، کوئی اس پر لیکچر دے کہ چندوں کے بقائے صاف کئے جائیں، کوئی اس بات پر لیکچر دے کہ لڑکوں کو تعلیم کے لئے قادیان بھیجا جائے ، کوئی اس بات پر لیکچر دے کہ تحریک جدید کے آئندہ سال کے چندہ کے لئے جماعت کو تیار رہنا چاہئے.اس سال کا چندہ وعدوں کے لحاظ سے ایک لاکھ دس ہزار تک پہنچ گیا تھا نقد رقم اب تک صرف 55 ہزار وصول ہوئی ہے.حالانکہ بجٹ جو تحریک جدید کے متعلق بنایا گیا ہے 70 ہزار کا بنا ہے اور یہ 70 ہزار کا بجٹ بہت سے ایسے کام ترک کر کے بنایا گیا ہے جن کے ذریعہ دنیا میں شور مچایا جا سکتا تھا.یہ تجاویز جو میں نے بیان کی 149

Page 162

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 19 اپریل 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول میں انچارج تحریک جدید کی طرف سے چھپوادی گئی ہیں.اسی طرح ایک چارٹ بھی ایک کا تب دوست تیار کر رہے ہیں دوستوں کو چاہئے کہ جب وہ تیار ہو جائیں تو انہیں خرید کر اپنے کمروں میں انکا لیں تاکہ ہر وقت سکیم انہیں یا درہ سکے.مجھے یقین ہے کہ اگر جماعت اس تحریک پر عمل کرے تو یہ اس کے لئے بہت با برکت ہوگا.تحریک کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ ہر شخص اپنا روپیہ امانت فنڈ میں جمع کرائے ، بہت سے دوست ایسا کر رہے ہیں مگر بعض نہیں بھی کرتے.حالانکہ اگر کوئی دس میں سے ایک روپیہ بھی ہر مہینے جمع کرا دے تو یہ اس کے لئے مفید ہوگا اور ایسے کام درمیان میں نکل سکتے ہیں جن کے ماتحت اس کا تھوڑا سا روپیہ بھی بہت بڑی آمد کا ذریعہ بن جائے.غرض 26 مئی کی نسبت میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اس دن تمام جماعت کو چاہئے کہ وہ جلسے کرے اور جس طرح عید کے دن مرد اور عورتیں اکٹھی ہوتی ہیں اسی طرح اس دن جمع ہو کر تحریک جدید کے ہر حصہ پر تقریریں کی جائیں.اگر کسی جماعت کے افراد تھوڑے ہوں تو ان میں سے ایک ایک شخص تحریک کے دو دو چار چار حصوں پر تقریریں کر سکتا ہے اور اگر زیادہ ہوں تو ایک ایک حصہ پر علیحدہ علیحدہ ہر شخص لیکچر دے سکتا ہے.یہ ضروری نہیں کہ وہی دلائل دیئے جائیں جو میں بیان کر چکا ہوں بلکہ اگر کوئی شخص اس کے علاوہ دلائل رکھتا ہو تو وہ بھی بیان کئے جا سکتے ہیں.اسی طرح ہر مہینہ میں ایک خطبہ جمعہ جماعت کے سامنے تحریک جدید کے متعلق پڑھا جائے اور کسی میں جماعت میں صلح و محبت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے، کسی میں نمازوں کی پابندی کی تاکید کی جائے، کسی میں چندوں کی ادائیگی کی طرف متوجہ کیا جائے اور کسی میں جماعت کو تقویٰ و طہارت پیدا کرنے کی نصیحت کی جائے.کئی لوگ ایسے ہوا کرتے ہیں جو اپنے آدمیوں سے بات عمدگی سے سمجھ سکتے ہیں اس لئے وہ اس طریق سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں.پھر کئی ایسے ہوتے ہیں جو سلسلہ کی اخبار میں نہیں پڑھتے اور اس طرح انہیں پور اعلم نہیں ہوتا.غرض ہر مہینہ میں اگر ایک خطبہ جمعہ اس تحریک کے متعلق پڑھا جائے اور اپنی زندگیوں کو خدمت دین کے لئے وقف کر کے تبلیغ کی جائے تو میں سمجھتا ہوں اگر جماعت تعہد سے اس پر عمل کرے تو جن فتن کو دور کرنے کے لئے میں نے سکیم بنائی ہے وہ فتن خدا تعالیٰ کے فضل سے دور ہو جائیں اور چھ سات ماہ کے بعد ہی ایک نیا رنگ دنیا میں پیدا ہو جائے.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری جماعت کی اصلاح فرمائے اور اسے یہ سمجھنے کی تو فیق دے کہ ایک ایک سیکنڈ جو ضائع جا رہا ہے یہ ہمیں بہت بڑی مشکلات میں مبتلا کرنے والا اور اسلام کو نقصان پہنچانے والا ہے.66 150 ( مطبوعہ افضل 24 اپریل 1935 ء )

Page 163

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول اقتباس از تقریر بر موقع جلسه 26 مئی 1935ء " تحریک جدید کے بعض مطالبات کا تذکرہ تقریر فرموده 26 مئی 1935ء کوئی تین ماہ کا عرصہ گزرا میں ایک سفر پر جارہا تھا کہ میرے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ خیال ڈالا کہ تحریک جدید کے متعلق جو اُمور میں نے بیان کئے ہیں وہ جماعت کے سامنے اس وقت تک کہ مشیت الہی ہمیں کامیاب کر دے ہر چھٹے ماہ دہرائے جانے چاہئیں.اس کے ساتھ ہی مجھے یہ خیال آیا کہ اس کے لئے پہلا دن اگر وہ دن ہو جس دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہوئے تھے تو یہ گویا ہمارے عہدوں کی تجدید کا نہایت لطیف موقع ہو گا لیکن مشکل یہ ہے کہ ہندوستان میں جلسے اچھی طرح صرف اتوار کے روز ہی ہو سکتے ہیں اور دوسرے دنوں میں بوجہ تعطیل نہ ہونے کے عمدگی سے نہیں ہو سکتے.اس وقت سواری میں میرے ساتھ برادرم سید محمود اللہ شاہ صاحب تھے.میں نے انہیں کہا کہ حساب لگا ؤ 26 مئی کو ہو کون سا دن ہوگا ؟ میرا دل کہتا ہے کہ اتوار ہی ہوگا.انہوں نے حساب لگایا تو حساب میں کوئی غلطی ہوگئی اور انہوں نے کہا کہ نہیں یہ دن اتوار کا نہیں ہوگا مگر میں نے کہا کہ نہیں پھر حساب لگا ئیں میرا دل گواہی دیتا ہے کہ وہ دن ضرور اتوار کا ہوگا.چنانچہ پھر جب انہوں نے حساب لگایا تو 26 مئی کو اتوار ہی تھا اور تحریک کے اعلان کے چھ ماہ بعد پہلا اتوار کا دن آتا تھا.پس میں نے سمجھا کہ یہ خیال الہی تصرف کے ماتحت تھا اور اللہ تعالیٰ نے بغیر اس کے کہ ہم کسی بدعت کے مرتکب ہوں یا ایسی رسم کے مرتکب ہوں جس کی مذہب اجازت نہیں دیتا ہم کو یہ موقع دیا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ہم اس دن جس دن کہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنے پاس بلالیا اور آپ کے کام کا بوجھ ہمارے کندھوں پر ڈالا، ہم سے اس اقرار کی تجدید کرائے کہ دنیا مخالفتوں، عداوتوں اور عناد میں خواہ کتنی بڑھ جائے ایک سچا احمدی اپنا فرض سمجھے گا کہ ہر قربانی کر کے اس مقصد کو پورا کرے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہمارے سامنے رکھا ہے.“ وو ان فتنوں سے بچنے کیلئے میں نے بتایا تھا کہ دوست سب سے پہلے یہ کریں کہ باہم لڑائی 151

Page 164

اقتباس از تقریر بر موقع جلسه 26 مئی 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول جھگڑے بند کر دیں.میری اس تحریک کے نتیجہ میں سینکڑوں نے صلح کی لیکن سینکڑوں ایسے ہیں جو پھر لڑنے لگ گئے اس لئے اس مطالبہ کے چھ ماہ بعد میں پھر آپ لوگوں کو اور جو یہاں موجود نہیں ان کو اخبار کے نمائندوں کے ذریعہ توجہ دلاتا ہوں کہ کوئی احمق ہی اس وقت اپنے بھائی سے لڑ سکتا ہے جب کوئی دشمن اس کے گھر پر حملہ آور ہو.ایسے نازک وقت میں اپنے بھائی کی گردن پکڑنے والا یا تو پاگل ہو سکتا ہے یا منافق.ایسے شخص کے متعلق کسی مزید غور کی ضرورت نہیں وہ یقینا یا تو پاگل ہے اور یا منافق ! اس لئے آج چھ ماہ کے بعد میں پھر ان لوگوں سے جنہوں نے اس عرصہ میں کوئی جھگڑا کیا ہو کہتا ہوں کہ وہ تو بہ کریں، تو بہ کریں، تو بہ کریں ورنہ خدا کے رجسٹر سے ان کا نام کاٹ دیا جائے گا اور وہ تباہ ہو جائیں گے.منہ کی احمدیت انہیں ہرگز ہرگز نہیں بچا سکے گی.ایسے لوگ خدا کے دشمن ہیں، رسول کے دشمن ہیں ، قرآن کے دشمن ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے دشمن ہیں.ایسے لوگ خون آلود گندے چیتھڑے کی طرح ہیں جو پھینک دیئے جانے کے قابل ہے اس لئے ہر وہ شخص جس نے اپنے بھائی سے جنگ کی ہوئی ہے میں اس سے کہتا ہوں کہ پیشتر اس کے کہ خدا کا غضب اس پر نازل ہو وہ ہمیشہ کے لئے صلح کرلے اور پھر کبھی نہ لڑے.ذرا غور تو کرو تم کن باتوں کے لئے لڑتے ہو؟ نہایت ہی ادنی اور ذلیل باتوں کے لئے؟ پھر میں نے نصیحت کی تھی کہ اس زمانہ میں مالی قربانی کی بہت ضرورت ہے اس لئے سب مرد اور عورتیں اپنی زندگی کو سادہ بنائیں اور اخراجات کم کر دیں تا جس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے قربانی کے لئے آواز آئے وہ تیار ہوں.قربانی کے لئے صرف تمہاری نیت ہی فائدہ نہیں دے سکتی جب تک تمہارے پاس سامان بھی مہیا نہ ہوں.ایک نابینا جہاد کا کتنا ہی شوق کیوں نہ رکھتا ہو اس میں شامل نہیں ہوسکتا ، ایک غریب آدمی اگر زکوۃ دینے کی خواہش بھی کرے تو نہیں دے سکتا، ایک مریض کی خواہش خواہ کس قدر زیادہ ہو روزے نہیں رکھ سکتا.پس اگر سامان مہیا نہ ہوں تو ہم وہ قربانی کسی صورت میں بھی نہیں کر سکتے جس کی ہمیں خواہش ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک سادہ زندگی اختیار کرے تا کہ وقت آنے پر وہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کر سکے اور اگر اس کا موقع نہ آئے تو بھی خدا تعالیٰ سے کہہ سکو کہ ہم نے جو جمع کیا تھا اگر چہ وہ ملا تو ہماری اولاد کو ہی لیکن ہم نے اسے دین کے واسطے قربانی کی نیت سے جمع کیا تھا اسی لئے میں نے یہ تحریک کی تھی کہ دوست سادہ غذا کھا ئیں اور ایک ہی کھانے پر اکتفا کریں اور دعوتوں وغیرہ کے موقع پر اگر چہ یہ پابندی نہ ہومگر کوشش کی جائے کہ ایسے مواقع پر بھی خرچ کم ہو، کھانا معمولی اور ستا ہو اور دعوتوں کے موقع پر جو لوگ پہلے چار کھانے تیار کرتے تھے وہ دو کریں اور جو آٹھ دس کرتے تھے وہ تین چار 152

Page 165

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول اقتباس از تقریر بر موقع جلسه 26 مئی 1935ء پراکتفا کریں.جماعت کا اکثر حصہ اس تحریک کو قبول کر چکا ہے مگر پھر بھی کئی ہیں جو اس بارہ میں غفلت کرتے ہیں اور پھر کئی ہیں جو بار بار شرطیں پوچھتے ہیں.ایک خاتون نے مجھے کہا اور کتنا شرمندہ کیا کہ مردوں کو کھانے کا شوق ہوتا ہے آپ نے ان کو ایک کھانے کا حکم دیا مگر وہ اس کے متعلق کئی سوالات پوچھتے رہتے ہیں.عورتوں کو زیور کا شوق ہوتا ہے اور آپ نے انہیں حکم دیا کہ زیور نہ بنواؤ ! عورتوں نے اس کے متعلق کوئی سوال کیا ہی نہیں اور فوراً اس حکم کو مان لیا.میں اپنے منصب اور مقام کے لحاظ سے تو نہ مشرقی ہوں نہ مغربی نہ عورتوں کا ایجنٹ ہوں نہ مردوں کا مگر اس کے اس لطیفہ میں مجھے مزا آیا کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو بھی جواب کا موقع دے دیا.ہمیں چاہئے کہ قربانی کے لئے ہر وقت تیار رہیں اور تیاری کرتے ر ہیں ورنہ وقت آنے پر فیل ہو جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی ایک مثال سنایا کرتے تھے کہ کسی بادشاہ نے کہا سپاہیوں کا کیا فائدہ ہے؟ خوامخواہ بیٹھے تنخواہ لیتے ہیں ، سب سپاہی موقوف کر دیئے جائیں.جب قریبی ملک کے بادشاہ کو اس کا علم ہوا تو اس نے جھٹ حملہ کر دیا.اب اس نے مقابلہ کی یہ تجویز کی کہ سب قصائیوں کو بھیجا جائے تا کہ حملہ آور فوج کا مقابلہ کریں چنانچہ انہیں بھیجا گیا مگر تھوڑی ہی دیر کے بعد وہ بھاگے ہوئے آئے کہ حضور بہت ظلم ہو گیا! وہ لوگ تو نہ رگ دیکھتے ہیں نہ پٹھا! ہم تو چار چار آدمی مل کر پہلے ایک آدمی کو لٹاتے ہیں اور پھر قاعدہ کے ساتھ اسے ذبح کرتے ہیں مگر وہ لوگ اتنے عرصہ میں ہمارے ہیں آدمی مارڈالتے ہیں ہم فریادی ہو کر آئے ہیں کہ کوئی انتظام کیا جائے.پس جو قوم دشمن کے مقابلہ کے لئے تیار نہیں رہتی اس کا وہی حال ہوا کرتا ہے جوان قصائیوں کا ہوا.تمہارا مقابلہ بھی ان لوگوں سے ہے جو نہ رگ دیکھتے ہیں نہ بیٹھا اور جب تک تم بھی ان کے مقابلہ کے لئے اچھی طرح تیار نہ ہو گے کامیابی نہیں ہو سکتی اس لئے تکالیف کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ ، سادہ غذا کھاؤ اور جو اس ہدایت سے منہ موڑے تم اس سے منہ موڑ لو اور اس سے صاف کہہ دو کہ آج سے میرے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں ، اسی طرح اپنے لباس کو سادہ بناؤ اور ضرورت سے زیادہ کپڑے نہ بنواؤ جن کے پاس کافی کپڑے ہوں جب تک وہ پھٹ نہ جائیں اور نہ بنائیں اور جب بنوائیں تو کم بنوائیں ، اسی طرح عورتیں بھی محض پسندیدگی کی وجہ سے کپڑا نہ خریدیں اور جب ضرورت ہو تو ستا خریدیں.زیورات کے متعلق میں نے ہدایت کی تھی کہ ان کا بنوانا بند کر دیں سوائے شادی بیاہ کے اور شادی بیاہ میں بھی پہلے سے کمی کر دیں ہاں ٹوٹے پھوٹے کی معمولی مرمت ہو سکتی ہے.پھلوں کے متعلق میں نے کہا تھا کہ یہ چونکہ صحت کے لئے ضروری ہیں اس لئے میں کلی طور پر تو ان کی ممانعت نہیں کرتا مگر حتی الوسع کم استعمال کئے جائیں.بہت 153

Page 166

اقتباس از تقریر بر موقع جلسه 26 مئی 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول سی ایسی چیزیں ہیں جو ہم نے یونہی اپنے ساتھ لگا رکھی ہیں.اس سال ہم برف کا استعمال نہیں کرتے اسی طرح اس سال سوڈے کی مفت تو بوتل میں نے پی ہے مگر خرید کر نہیں پی مہمان نوازی کے طور پر کسی نے پلا دی تو پی لی.پھر میں نے کہا تھا کہ سنیما تھیٹ، سرکس وغیرہ چیزوں سے کلی پر ہیز کیا جائے نوجوان کثرت سے اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں اس لئے ان کو خصوصیت سے میں نے توجہ دلائی ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ لاہور کے اکثر نوجوانوں نے اسے چھوڑ دیا ہے اور بعض جو کثرت سے اس کے عادی تھے اب اس سے نفرت کرتے ہیں مگر جو اس بارہ میں غفلت کر رہے ہیں ان کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ سوائے آفیشل تقاریب کے باقی خواہ کیسے بھی حالات ہوں وہ ہرگز ان تماشوں میں نہ جائیں حتی کہ مفت بھی نہ دیکھیں.پھر میں نے آرائش مکان کے متعلق نصیحت کی تھی کہ اس پر بھی روپیہ ضائع نہیں ہونا چاہئے.علاجوں کے متعلق میں نے بتایا تھا کہ ڈاکٹر کم قیمت علاج کریں اور دوست بھی قیمتی ادویہ کے پیچھے نہ پھریں تا نا واجب خرچ نہ ہو.میں امید کرتا ہوں کہ آج چھ ماہ کے بعد دوست پھر ان باتوں کو پورا کرنے کا اقرار کریں گے اور اپنی زندگیوں میں عمدہ نمونہ دکھانے کی کوشش کریں گے.پھر میں نے مطالبہ کیا تھا کہ ہر احمدی تبلیغ کی کوشش کرے اور دو دو ماہ وقف کر دیں مگر بہت کم لوگوں نے اس طرف توجہ کی ہے جن کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہیں اور ان میں سے بھی بہت سے قادیان کے ہیں حالانکہ اگر ہم اس حد تک بھی کوشش نہ کریں جس حد تک ہمارے اختیار میں ہے تو یہ کس قدر افسوس کی بات ہوگی.لوگوں کے کانوں تک تبلیغ کا پہنچا دینا ہمارے ذمہ ہے اور اگر ہم اس ذریعہ کو بھی استعمال نہ کریں تو ہم کس طرح اللہ تعالیٰ کے حضور کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا.ایک مطالبہ زندگیاں وقف کرنے کا تھا اس کا جواب بھی اگر چہ کوئی زیادہ شاندار نہیں تاہم سینکڑوں نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے کہ جہاں چاہیں بھیج دیا جائے ان میں سے پانچ جا بھی چکے ہیں باقی تیار ہورہے ہیں اور ہمت سے کام کر رہے ہیں.پانچ ماہ ہوئے لیکن اس عرصہ میں ان میں کوئی تزلزل پیدا نہیں ہوا اور وہ ہمت سے قائم ہیں اور اس دن کے منتظر ہیں جب اشاعت دین کیلئے انہیں بھیج دیا جائے.یہ نو جوان مبارکباد کے مستحق ہیں لیکن دوسروں کو بھی چاہئے کہ آگے آئیں اور اپنے نام پیش کریں تا دلائل کی جنگ میں وہ دوسروں سے رہنے والے نہ ہوں یہ سلسلہ ختم ہونے والا نہیں بلکہ ہمیشہ ایسے مطالبے ہوتے رہیں گے.پھر میں نے ایک تحریک امانت کے متعلق کی تھی اس میں کل وعدے پانچ ہزار ماہوار تک کے ہیں حالانکہ ضرورت زیادہ کی 154

Page 167

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد اول اقتباس از تقریر بر موقع جلسه 26 مئی 1935ء ہے.پس ہر احمدی جو ایک پیسہ بھی بچا سکتا ہوا اسے چاہئے کہ یہاں جمع کرائے.یاد رکھو! کہ یہ غفلت اور ستی کا زمانہ نہیں ہے.یہ خیال مت کرو کہ اگر آج نہیں تو کل ثواب کا موقع مل سکے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی پیشگوئی ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب تو بہ قبول نہیں کی جائے گی اور یہ مسیح موعود کے زمانہ کے متعلق ہی ہے.پس ڈرو اس دن سے کہ جب تم کہو کہ ہم مال و جان دینا چاہتے ہیں مگر جواب ملے کہ اب قبول نہیں کیا جاسکتا.اس کے علاوہ چندہ کی تحریک تھی اس میں وعدے تو ایک لاکھ دس ہزار کے آئے ہیں مگر وصول ابھی تک باسٹھ ہزار ہوا ہے حالانکہ بجٹ ستر ہزار کا ہے ( اس وقت تک قریبا چھیاسٹھ ہزار کی آمد ہو چکی ہے.) امید ہے کہ دوست بقیہ وعدے جلد پورے کریں گے اور اس بات کے لئے تیار ہو جائیں گے کہ اگلے سال پھر جوش سے اس تحریک میں حصہ لے سکیں.میں آئندہ نومبر میں پھر اعلان کرنے والا ہوں مگر جو آج وعدہ پور انہیں کرتا وہ کل کس طرح آگے آئے گا ؟ ایک مطالبہ قادیان میں تعلیم کے لئے بچوں کو بھجوانے کا تھا اس کے ماتحت طلبا قادیان میں آئے ہیں اور ان کی تربیت کا کام جن لوگوں کے سپرد کیا گیا ہے امید ہے وہ میری ہدایات کے ماتحت اس کیلئے پوری پوری کوشش کریں گے.قادیان میں مکان بنوانے کی بھی تحریک کی گئی تھی اس کی طرف بہت سے دوستوں نے توجہ کی ہے مگر ابھی اس کی طرف مزید توجہ کی ضرورت ہے.اب تو احرار بھی کہتے ہیں کہ قادیان میں مکان بناؤ اور زمینیں خرید و.اس سے ہمارے دوست اندازہ کر سکتے ہیں کہ انہیں اس امر کی طرف کس قدر توجہ کی ضرورت ہے.ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ یہاں اس کثرت سے مکان بنائیں کہ مخالفوں کے لئے کوئی زمین ہی نہ رہنے دیں.ایک نصیحت ترک بے کاری کے متعلق تھی اس پر بھی بہت کم عمل کیا گیا ہے اور بہت کم ہمت دکھائی گئی ہے.جھوٹی نام نمود کی قربانی بہت مشکل ہوتی ہے.تعلیم یافتہ بے کار یہ ہمت نہیں کرتے کہ ”الفضل“ کے پرچے بغل میں دبا کر بیچتے پھریں.میں امید کرتا ہوں کہ نو جوان اس مرض کو دور کریں گے اور والدین بھی اپنی اولاد سے اس مرض کو دور کرانے کی کوشش کریں گے کہ یہ مرض قوم کی کام کرنے کی روح کو کچل دیتا ہے.پھر میں نے ہاتھ سے کام کرنے کی نصیحت کی تھی اس کی طرف بھی کم توجہ کی گئی ہے.میں نے کہا تھا کہ اگر قادیان کی جماعت کوئی ایسے کام پیدا کرے تو میں بھی دوستوں کے ساتھ ان کاموں میں شریک ہوں گا لیکن ابھی تک کوئی ایسا کام پیدا نہیں کیا گیا.ایک تحریک یہ تھی کہ پینشن یافتہ دوست یہاں آئیں اس کے ماتحت جس قدر آدمیوں کی ضرورت 155

Page 168

اقتباس از تقریر بر موقع جلسه 26 مئی 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول تھی اتنے میسر نہیں ہوئے.ان سب باتوں کے علاوہ میں نے دعا کے لئے کہا تھا اور نصیحت کی تھی کہ دوست یہ دعا ئیں کثرت سے پڑھا کریں:.اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُورِهِمْ وَنَعُوذُبِكَ مِنْ شُرُورِهِم اور رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنَا وَانْصُرْنَا وَارْحَمْنَا.لیکن شاید بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ دعا ئیں صرف روزوں کے ایام کے لئے ہی تھیں حالانکہ یہ صحیح نہیں.جب تک یہ فتنہ ر ہے دوستوں کو چاہئے کہ یہ دعائیں پڑھتے رہیں.ان کے علاوہ اپنی اپنی زبان میں زیادہ جوش کے ساتھ بھی دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ رحم کرے اور ہمیں ایسا روحانی غلبہ عطا کرے کہ ہم لوگوں کے خیالات میں، افکار میں، رحجانات میں، ان کے قلوب میں، زبانوں میں ، اعمال میں، تمدن میں، دین میں اصلاح کر سکیں تا جیسے خدا کی بادشاہت آسمان پر ہے زمین پر بھی ہو.ان کے علاوہ اور بھی بعض باتیں ہیں مگر زیادہ اہم یہی ہیں.بعض کو دوسری باتوں کے ساتھ ملا کر بیان کر دیا ہے.بالآخر میں دوستوں کو پھر نصیحت کرتا ہوں کہ قادیان میں مکان بنوائیں اور امانت فنڈ کو مضبوط کریں.یہ نہایت اہم کام ہے اور دشمن کے مقابلہ کے لئے آپس میں تعاون سے کام لیں بغیر تعاون کے کوئی کام نہیں ہو سکتا.جو کام قوموں کے سپرد ہوتے ہیں وہ افراد نہیں کر سکتے.پس چاہئے کہ جماعت احمدیہ کا ہر بچہ، ہر جوان ، ہر بوڑھا، ہر مرد اور ہر عورت ایسے رنگ میں کام کرے کہ قیامت کے دن کہہ سکے اے خدا ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا.156 (مطبوعہ الفضل 12 جون 1935 ء )

Page 169

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرمود : 23 اگست 1935ء تحریک جدید کے مطالبات پر ستی سے عمل کرنے والوں کے لئے انتباہ خطبہ جمعہ فرمودہ 23 اگست 1935ء میں نے گزشتہ سال یہ اعلان کر دیا تھا کہ اب میں ستوں کی پروا نہیں کروں گا اور جو مستعد ہیں ان کو آگے لے جاؤں گا.ہم سونے والوں کو جگائیں گے مگر جو نہیں جاگیں گے ان کو چھوڑتے جائیں گے.پچھلے سال میں نے بتایا تھا کہ میں نے جس قربانی کا مطالبہ کیا ہے یہ بہت ہی کم ہے آئندہ کے لئے جو سکیم میرے مد نظر ہے وہ بہت بڑی قربانیوں کا تقاضا کرتی ہے اور اب یہی ہوگا کہ کمزوروں کے متعلق ہم یہی کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے اور جو باقی ہیں ان کو آگے بڑھا لے جاؤں گا اور اس صورت میں خواہ دس آدمی بھی میرے ساتھ ہوں انجام کار فتح انہی کی ہوگی.پس ان معاملات میں اب میں نہ ناظروں کی پروا کروں گا، نہ انجمن کی ، نہ افراد کی اور نہ جماعتوں کی اور نہ مشوروں سے کام کروں گا.اب تو یہی ہے کہ جو ہمارے ساتھ چل سکتا ہے چلے اور جو نہیں چل سکتا وہ پیچھے رہ جائے.اس پوزیشن میں اب میں کوئی تبدیلی کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں حتی کہ فتح کا دن آجائے اس وقت تک میں اب کسی کا لحاظ نہیں کروں گا.لوگ کہتے ہیں کہ ڈرانا نہیں چاہئے مگر میں کہتا ہوں کہ جو ڈرنے والے ہیں وہ بے شک ڈر جائیں بلکہ میں تو یہ بھی کہتا ہوں کہ تین سال کی شرط ہی ضروری نہیں ممکن ہے یہ تحریک مستقل ہی ہو؟ اور اس سے بھی زیادہ قربانیوں کی ضرورت پیش آئے.جو ان کو اپنے اوپر بوجھ سمجھتا ہے وہ الگ ہو جائے.اب قربانیوں کا مطالبہ زیادہ سے زیادہ ہوگا جو اس کو بوجھ سمجھتا ہے وہ نہ اُٹھائے.حتی کہ جو انگلی اُٹھا کر بھی کوئی اعتراض کرے گا میں اُسے جماعت سے علیحدہ کردوں گا.بے شک مشورہ میں میں اب بھی دوسروں کو شامل کروں گا لیکن کروں گا وہی جو مجھے خدا تعالیٰ سمجھائے کیونکہ اب جنگ کا زمانہ ہے جب کمانڈر انچیف وہی کرتا ہے جسے ضروری اور مناسب سمجھتا ہے اور بے ہودہ بحثوں میں وقت ضائع نہیں کرتا.“ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کے لئے سامان رکھے ہیں میں نے کہا تھا کہ جس کے پاس کچھ نہیں وہ دعائیں ہی کیا کرے.پس اگر دل پر زنگ ہے تو یہ مت خیال کرو کہ وہ دور نہیں ہو سکتا.اپنے آپ کو دھواں 157

Page 170

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 23 اگست 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد اول بنا کر خدا تعالیٰ کے دروازے پر جا گر اؤ اور مایوس مت ہو کہ جو مایوس ہوتا ہے وہ شیطان ہے.فرشتوں نے بھی کہا تھا کہ آدم دنیا میں فساد پھیلائے گا مگر جب خدا نے کہا کہ سجدہ کرو تو وہ سجدہ میں گر گئے اور سجدہ دعا ہی ہے.اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ مایوس نہ تھے اور سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اس کے نقصان سے دنیا کو بچا سکتا ہے مگر شیطان مایوس تھا اور اس نے سجدہ نہ کیا.پس فرشتوں کی طرح خدا کے پاس برتن لے کر جاؤ پھر خدا تمہیں خالی ہاتھ نہ آنے دے گا.“ ( مطبوعه الفضل 27 اگست 1935 ء ) 158

Page 171

زیک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول احرار کو چیلنج اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 27 ستمبر 1935ء خطبہ جمعہ فرمودہ 27 ستمبر 1935ء احرار اپنے آپ کو آٹھ کروڑ مسلمانوں کا نمائندہ کہتے تھے حضور نے انہیں مخاطب کر کے فرمایا:.دیکھ لو! میں نے تبلیغ کو وسیع کرنے کے لئے نوجوانوں سے مطالبہ کیا کہ آؤ اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کرو! اس پر بیسیوں نہیں سینکڑوں نوجوانوں نے اپنی زندگیاں وقف کر دیں.گریجوایٹوں کو پندرہ پندرہ روپیہ ماہانہ ملتا ہے اور اسی میں انہیں کھانا پینا اور دیگر ضروریات کو پورا کرنا پڑتا ہے مگر اس قلیل سی رقم پر وہ ہندوستان سے باہر جاتے اور تبلیغ اسلام کرتے ہیں جہاں غریب سے غریب آدمی کا بھی تمہیں چالیس روپیہ سے کم میں گزارہ نہیں ہو سکتا.ذرا آٹھ کروڑ مسلمانان ہند کو اپنی بیعت میں شامل رکھنے کا ادعا کرنے والے بھی تو اس قسم کا اعلان کر دیکھیں پھر انہیں خود بخود نظر آ جائے گا کہ کتنے آدمی ان کی آواز پر لبیک کہتے ہیں یا مثلاً میں نے اعلان کیا کہ آؤ اور چندہ دو اور میں نے ساتھ ہی کہا کہ ابھی وہ اہم زمانہ نہیں آیا جس میں اس سے بہت زیادہ مالی قربانیوں کا مطالبہ کیا جائے گا لیکن میں نے ساڑھے ستائیس ہزار روپیہ کی اپیل کی اور جماعت نے ایک لاکھ آٹھ ہزار کے وعدے کئے ہیں جن میں سے 82 ہزار سے کچھ زیادہ روپیہ وصول ہو چکا ہے اور ابھی میعاد ختم نہیں ہوئی.22 نومبر کو میں نے یہ اعلان کیا تھا جس کے ماتحت ابھی ایک مہینہ سے زیادہ کا عرصہ رہتا ہے بلکہ قریباً دو مہینے ابھی باقی ہیں اور اُمید کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت حد تک وعدے پورے ہو جائیں گے.“ ( مطبوع الفضل 6اکتوبر 1935ء) 159

Page 172

Page 173

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول جلد خطبه جمعه فرموده یکم نومبر 1935ء گزشتہ سال سے زیادہ قربانیوں کے لئے تیار ہو جاؤ خطبه جمعه فرموده یکم نومبر 1935ء يَاأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللهِ انَّا قَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ أَرَضِيْتُمْ بِالْحَيوةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الحيوةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ (سورۃ توبہ: 38) سے شروع کر کے آخر رکوع تک تلاوت کرنے کے بعد فرمایا: آج ان واقعات پر ایک سال گزرتا ہے جو گزشتہ سال جماعت کے لئے دنیا کی نگاہوں میں تباہی کا پیغام لے کر آئے تھے اور جنہوں نے غیر تو غیر اپنوں میں سے بھی کمزور دل کے لوگوں کو گھبراہٹ میں ڈال دیا تھا اور وہ سمجھنے لگے تھے کہ جماعت کا مستقبل نہایت تاریک نظر آتا ہے.اسی مقام سے، اسی دن اور اسی مہینہ میں گزشتہ سال میں نے جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ وہ جب تک اپنی حالت میں تبدیلی نہ کرے گی، مغربی اثر کو دور کر کے مکمل اسلامی طریق اختیار نہیں کرے گی اور اس راہ کو جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم کردہ جماعتیں چل کر کامیاب ہوتی ہیں، اختیار نہ کرے گی اس وقت تک یہ مصائب اور مشکلات کسی صورت میں دور نہ ہوں گی.میں نے ایک سکیم بیان کی تھی جس کے پہلے حصہ کے لئے تین سال کی میعاد مقرر کی تھی اور بتایا تھا کہ یہ مصائب اور ابتلا آنے ضروری ہیں اور جو جماعتیں ان سے گھبرا جاتی ہیں اور اپنے قدموں کو مست کر دیتی ہیں وہ روحانی دنیا میں کبھی ترقی نہیں کر سکتیں اور یہ کہ روحانی اور دنیوی لشکروں میں فرق ہی یہ ہوتا ہے کہ دنیوی لشکر ایک حد تک چل کر رک جاتے ہیں لیکن روحانی لشکر جب تک اس منزل پر نہیں پہنچ جاتے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لئے مقدر ہوتی ہے اپنے قدم ست نہیں کرتے اور میں نے جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ ہمارے سامنے ایک قوم ، ایک ملک یا ایک مذہب کے لوگ نہیں ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی سب اقوام ، سب ممالک اور سب مذاہب و ملل کی طرف مبعوث فرمایا ہے اس لئے ہمارا صرف یہ کام نہیں کہ ہندوستان کے لوگوں کو فتح کریں، چین کے لوگوں کو فتح کریں، جاپان، افغانستان یا عرب کے لوگوں کو فتح کریں ، ایشیاء 161

Page 174

خطبه جمعه فرموده یکم نومبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول افریقہ یا جزائر کے لوگوں کو فتح کریں بلکہ ہمارے سپرد یہ کام ہے کہ دنیا کے ہر ملک اور زمین کے ہر حصہ میں رہنے والے لوگوں کے دلوں کو فتح کریں اور ان دلوں کو صاف اور پاک کر کے خدا تعالیٰ کے قدموں میں لا ڈالیں اور ظاہر ہے کہ یہ کام کوئی معمولی کام نہیں اور معمولی قربانیاں اس کے لئے کافی نہیں ہو سکتیں.یہ کام نہیں ہو سکتا جب تک یہ بات ہمارے دلوں میں نقش نہ ہو جائے اور ہمارے سینوں کے اندر ایک آگ نہ لگ جائے ایسی آگ جسے دنیا کی کوئی طاقت سرد نہ کر سکے اور جو ہمیں ، سوائے اس کے کہ ہمارا مقصد پورا ہو جائے ، اپنے فرض سے غافل نہ ہونے دے.میں نے ایک تحریک پیش کی تھی جس میں انیس مطالبات تھے ان میں سے مالی مطالبہ کے متعلق جماعت نے جو جواب دیا وہ شاندار تھا.میں نے ساڑھے ستائیں ہزار کا مطالبہ کیا تھا مگر وعدے ایک لاکھ آٹھ ہزار کے ہوئے جن میں سے اٹھاسی ہزار وصول ہو چکا ہے.گویا ہیں ہزار کے وعدے ابھی باقی ہیں اور اسی فیصدی رقوم وصول ہو چکی ہیں.اس کے علاوہ کچھ اور تحریکات بھی تھیں.مثلاً یہ کہ نوجوان اپنی زندگیاں پیش کریں اس کے ماتحت دواڑھائی سونو جوانوں نے اپنے آپ کو پیش کیا ان میں سے بعض کو ہم نے کام پر لگایا اور بعض کو نہیں لگایا جا سکا.یہ جواب بھی گو ایسا شاندار نہ تھا جتنا ہمیں جماعت سے امید رکھنی چاہئے مگر دوسری جماعتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت حد تک شاندار تھا.اس کے علاوہ کچھ تحریکیں جماعت کی اندرونی حالت کی اصلاح اور درستی کے متعلق تھیں ، مثلاً ایک سادہ زندگی کے متعلق تھی کہ سادہ خوراک کھا ئیں اور سادہ لباس پہنیں، خوراک کے لئے ایک قانون بنا دیا گیا تھا کہ صرف ایک ہی سالن استعمال کیا جائے سوائے دعوت کے جو ایسے شخص کی طرف سے ہو کہ انکار کرنا اس کے لئے موجب تکلیف ہو باقی ایک نمکین اور ایک میٹھے کے سواد وسرا کھانا استعمال نہ کیا جائے میٹھا اس واسطے رکھا تھا کہ بعض لوگوں کو اس کی عادت ہوتی ہے اور یہ ان کے لئے کھانے کا ایک جزو ہوتا ہے یہ مطلب نہ تھا کہ جنہیں روزانہ میٹھا کھانے کی عادت نہیں وہ سالن تو ایک کر دیں لیکن بیٹھا زائد کر دیں.پھر میں نے کہا تھا کہ عورتیں کپڑے بنوانے میں احتیاط سے کام لیں گوٹہ کناری کا استعمال نہ کریں، زیورات نہ بنوائیں، پرانی اشیاء تلف کرنے کا میں نے حکم نہیں دیا تھا مگر آئندہ ایسے سامان جن میں اسراف کا رنگ ہو جیسے گوٹہ کناری وغیرہ ہیں، ان سے منع کر دیا تھا.پھر ضرورت سے زیادہ کپڑے بنوانے کی ممانعت کی تھی.ان سب چیزوں کی تفاصیل آئندہ چند خطبوں میں میں پھر بیان کروں گا سر دست میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میری طبیعت پر یہ اثر ہے کہ جس رنگ میں جماعت نے مالی قربانی کی ہے اس حد تک دوسری باتوں کی طرف توجہ نہیں کی.سادہ زندگی کے متعلق میں جانتا ہوں کہ ہزار ہالوگوں نے اپنے اندر تغیر پیدا کیا 162

Page 175

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد اول خطبه جمعه فرموده یکم نومبر 1935ء (التوبة: 39) ہے مگر ابھی بہت ہیں جن کو اپنے اندر تغیر پیدا کرنا چاہئے.بہر حال میں نے ایک اعلان کیا تھا اور جماعت نے اس کا ایسے رنگ میں جواب دیا جو دشمن کے لئے حیرت انگیز ہے مگر ہمارے لئے نہیں کیونکہ ہم نے جو کام کرنا ہے اس کے لئے بہت سی قربانیوں کی ضرورت ہے.اس سکیم کو چونکہ فی الحال ہم نے تین سال تک چلانا ہے اس لئے آئندہ چند خطبوں میں اگر اس میں سے کسی بات میں تبدیلی کرنی ہوئی تو وہ ورنہ پھر اسی مضمون کو بیان کروں گا تا جماعت کے دوستوں کے دماغوں میں پھر سب باتیں مستحضر ہو جائیں اور اس خطبہ کے ذریعہ اعلان کرتا ہوں کہ ہر جماعت جمعہ یا اتوار کے روز جیسا بھی اس کے حالات کے مطابق مناسب ہو ان خطبات کو اپنے اپنے ہاں سنانے کا انتظام کرے تاسب دوست آگاہ ہو جائیں.یا درکھو کہ تمہارے لئے ایک آزمائش ہے بہت بڑی آزمائش ! جس میں اگر تم پورے نہ اُترے تو جیسا کہ میں نے قرآن کریم کا جو رکوع ابھی پڑھا ہے اس کا آگے چل کر ترجمہ کرتے ہوئے بتاؤں گا تمہارے لئے سخت مشکلات پیدا ہو جائیں گی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ یعنی ہم ایسے لوگوں کو جو ہمارے فرائض کو ادا نہیں کرتے تباہ کر کے دوسروں کو ان کی جگہ کھڑا کر دیا کرتے ہیں.دیکھو انسان اور جمادات میں یہی فرق ہوتا ہے انسان کے دل میں بھی کبھی آگ ہوتی ہے اور دھاتوں کو بھی آگ دی جاتی ہے.دونوں کو آگ ملتی ہے مگر لوہا صرف تھوڑی دیر گرم رہتا ہے اور اسی وقت اسے کوٹا جاسکتا ہے جب وہ گرم ہو لیکن مومن انسان کا دل کبھی ٹھنڈا نہیں ہوتا.مومن اور غیر مومن میں یہی فرق ہوتا ہے کہ غیر مومن جمادات کی طرح خاص موقعوں پر گرم ہوتے ہیں اور موقع کی تاک میں رہتے ہیں لیکن مومن کے لئے ہر وقت موقع ہوتا ہے.جوش کی حالت میں ہر شخص قربانی کر سکتا ہے.ایک منافق جس کی بزدلی کا ذکر خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے کیا ہے اس کو ماں بہن کی گالی اگر کوئی دے تو وہ بھی مرنے مارنے پر تیار ہو جائے گا.میں کسی مومن کو یہ نہیں کہہ رہا کہ وہ منافق کو گالی دے بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ اگر منافق کو جو بزدل ہوتا ہے اگر کوئی شخص گالی دے تو وہ بزدل ہونے کے باوجود اس سے لڑ پڑے گا.ہمارے ملک میں مثل مشہور ہے کہ ایڑی کے نیچے آیا ہوا کیڑا بھی کاٹ لیتا ہے.پس یہ کوئی بہادری نہیں کہ کسی وقت ایڑی کے نیچے آجانے کی وجہ سے تم کاٹ لو اس سے صرف یہ ثابت ہوگا کہ تمہاری غیرت کیڑے جتنی ہے مگر مومن کی غیرت ایسی نہیں ہوتی ، مومن کی غیرت پہاڑوں کو ہلا دیتی ہے.وہ جن باتوں پر غیرت کھاتا ہے انہیں کبھی نہیں بھلاتا.اگر بعد میں آنے والے مسلمان وہی غیرت رکھتے جوصحابہ کرام 163

Page 176

خطبه جمعه فرموده یکم نومبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول میں تھی تو کیا یہ بھی ممکن تھا کہ آج غیر مذاہب دنیا میں موجود ہوتے ؟ لوگ کہتے ہیں مسلمان دیوانے ہیں جہاں ان کی حکومت پہنچی وہاں انہوں نے اسلام کو تلوار کے زور سے پھیلایا.ہم اس الزام کو بالکل غلط سمجھتے ہیں ہمیں تو الٹا یہ شکوہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر دیوانوں کی طرح اسلام کو پھیلانے کا جوش نہ رہا.کاش ! جو جوش صحابہ میں یا ان کے بعد قریب کے زمانہ کے مسلمانوں میں تھا وہ بعد میں آنے والوں میں بھی ہوتا اگر ایسا ہوتا تو آج اسلام اس طرح غریب الوطنی کی حالت میں نہ ہوتا.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ وہ مذہب جس نے ساری دنیا کو فتح کیا اور ساری دنیا پر حکومت کی ، جس کے بادشاہوں کے سامنے دوسرے بادشاہ عاجزانہ حیثیت میں پیش ہوتے تھے ملکہ الزبتھ کے زمانہ میں انگلستان پر سپین نے حملہ کیا تو باوجود یکہ اس زمانہ میں مسلمانوں کی طاقت مٹ چکی تھی ، بیان کیا جاتا ہے کہ ملکہ الزبتھ نے ترکوں کو لکھا کہ میں نے سنا ہے مسلمان عورت کی عزت کی حفاظت کرتے ہیں.میں ایک عورت ہوں اور اہل سپین نے مجھ پر حملہ کر دیا ہے کیا ترک میری مدد نہ کریں گے؟ جس زمانہ میں، بغداد کی خلافت قریباً مٹ چکی تھی اور طوائف الملوکی پھیلی ہوئی تھی اُس زمانہ میں فلسطین کے علاقہ میں جہاں عیسائی صلیبی جنگیں کرنے والوں نے قبضہ کیا ہوا تھا ایک مسلمان عورت پر بعض عیسائیوں نے حملہ کیا اور دست درازی کرنے لگے جب اس کے کپڑے اُتار کر اسے ننگا کرنے لگے تو اس نے آواز دی کہ کوئی ہے جو بغداد کے خلیفہ کو یہ اطلاع دے کہ اس طرح ایک مسلم عورت کی بے حرمتی کی جارہی ہے؟ اس وقت خلافت صرف بغداد تک محدود تھی سب ریاستیں آزاد ہو چکی تھیں کسی قافلہ والے نے جس نے عورت کی یہ آواز سنی تھی بغداد پہنچ کر برسبیل تذکرہ کسی سے اس کا ذکر کیا کسی نے جا کر خلیفہ سے بھی اس کا ذکر کر دیا، اُس زمانہ میں عباسی خلیفہ بالکل شاہ شطرنج کی حیثیت رکھتا تھا مگر اس گئے گزرے زمانہ میں بھی جب اس نے یہ بات سنی تو اسے اس قدر غیرت آئی کہ تلوار نکال کر تخت سے کود پڑا اور چلایا کہ میں تمہاری امداد کو ابھی آتا ہوں، ابھی آتا ہوں.چونکہ عباسی خاندان عرصہ سے حکومت کر رہا تھا اس لئے ان کا آزاد ریاستوں پر بھی ایسا اثر تھا کہ خلیفہ بغداد کے اس اعلان سے ایک آگ لگ گئی اور سب خلیفہ بغداد کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے اور اس وقت تک آرام نہیں کیا جب تک اس عورت کو چھڑا کر نہیں لائے مگر آج کیا ہے؟ ایک معمولی عورت کا تو ذکر ہی نہیں ایک معزز ترین عورت کو بھی جانے دو، سب مسلمان عورتوں کی عزت کے سوال کو بھی جانے دو، ان سب سے زیادہ معزز اور مکرم اور مسلمانوں کی محبت کا مرکز جس کی عزت پر سب عزتیں قربان ہیں یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! کی عزت کو لے لو، اس سے کیا سلوک کیا جاتا ہے؟ آج کھلے بندوں 164

Page 177

ر یک جدید- ایک الہی تحریک جلد اول خطبه جمعه فرموده یکم نومبر 1935ء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر حملے کئے جاتے ہیں مگر کوئی مسلمان نہیں جو ان حملوں کو دور کر سکے، وہ خون کے آنسو روتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق گالیاں سن کر ان کے دل جل جاتے ہیں مگر ان کے ہاتھ اور ان کے جسم مفلوج ہیں وہ کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ ان کی کمزوریوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان سے قوت عملیہ چھین لی ہے.یہ حالت جو آج اسلام کی ہے اس کا کیا علاج ہو سکتا ہے؟ اور سوائے اللہ تعالیٰ کے کون اس کا علاج کر سکتا ہے اس سے زیادہ تکلیف دہ نظارہ دنیا میں اور کیا ہو سکتا ہے؟ بچپن میں ہم ایک واقعہ کتابوں میں پڑھتے تھے اور اسے پڑھ کر آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے مگر اس واقعہ کو اس نظارہ سے کوئی نسبت ہی نہیں.بیسیوں نے آپ لوگوں میں سے اس واقعہ کو پڑھا ہوگا اور اس پر آنسو بہائے ہوں گے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ رونے کی بات تو اسلام کی موجودہ حالت ہے باقی سب اس کے سامنے بیچ میں وہ سید انشاء کا واقعہ ہے.ایک زمانہ تھا کہ ان کی عزت اس قدر تھی کہ لکھنو کے بادشاہ اور رؤسا کے ہاتھی آکر ان کے دروازہ پر کھڑے رہتے تھے اور جب وہ دربار میں جاتے تو ایسے ناز سے بیٹھتے کہ دیکھنے والے سمجھتے بے ادبی کر رہے ہیں ان کے ایک دوست کہتے ہیں کہ میں نے ان کے عروج کا یہ زمانہ دیکھا.اس کے لمبے عرصہ بعد پھر میں ایک بار لکھنؤ آیا، ایک مشاعرہ تھا میں بھی وہاں پہنچا اور دیکھا کہ ایک گدڑی پوش نہایت خستہ حالت میں مجلس میں آیا اور جو نتیوں میں بیٹھ گیا لوگوں نے عرض کیا کہ قبلہ آگے آئیے ! اس طرح ہوتے ہوتے ان کی آمد کی اطلاع صدرنشین نوابوں اور رئیسوں تک پہنچی اور لوگ انہیں کھینچ کر صدر تک لے آئے.وہ صاحب کہتے ہیں میں نے ایک دوست سے پوچھا کہ یہ صاحب کون ہیں تو اس نے بتایا کہ یہ وہی تمہارے پرانے دوست انشاء اللہ ہیں اور کون ہیں؟ میں بہت حیران ہوا اور پوچھا کہ ان کی یہ حالت! مجھے بتایا گیا کہ جب سے بادشاہ کی نظر پھری ہے یہ حالت ہو گئی ہے.سید صاحب نے اپنی غزل پڑھی اور اسے وہیں پھینک کر ر بودگی کی حالت میں چلے گئے.اس پر میں بھی ان کے پیچھے پیچھے ان کے مکان پر گیا وہاں ہاتھی تو کجا اب کوئی دربان بھی نہ تھا میں نے آواز دی کہ کیا میں آسکتا ہوں.اس پر اندر سے آواز آئی کہ بھائی تمہیں کون جواب دے؟ میں بھی تمہاری بہن ہی ہوں آ جاؤ! یہ سید انشاء اللہ کی بیوی تھیں.میں اندر گیا تو سید انشاء کو ریت کے ایک تو وہ پر سر رکھ کر لیٹے ہوئے پایا.نیچے ایک پھٹی ہوئی دری بچھی تھی.یہ کس قدر عبرت کا مقام ہے مگر کیا اسلام کی حالت آج اس سے کم عبرت ناک ہے؟ سید انشاء اللہ خان کی عزت کیا تھی؟ لکھنو کے ایک بادشاہ کی دی ہوئی عزت تھی مگر اسلام تو ساری دنیا کی بادشاہتوں پر غالب آ گیا تھا اور سب دنیا پر چھا گیا تھا.پھر انشاء کا اس حالت میں بھی کوئی 165

Page 178

خطبه جمعه فرموده یکم نومبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول گھر تو تھا اور انہیں گالیاں تو نہیں دی جاتی تھیں مگر آج اسلام کا تو کوئی گھر نہیں اور ہمارے آقا وسردار محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو تو علی الاعلان گالیاں دی جاتی ہیں مگر مسلمانوں میں طاقت نہیں کہ اس کا ازالہ کر سکیں.اس حالت کا علاج ایک ہی صورت میں ممکن تھا کہ خدا تعالیٰ پھر ایک آواز آسمان سے اٹھائے جو پھر اسلام کی عزت قائم کرے.پس جب اللہ تعالیٰ نے دیکھا کہ امت محمدیہ کے دل اور ہاتھ مفلوج ہو چکے ہیں اور ان کے اندر عشق کی آگ نہیں رہی تو اس نے اپنا مامور بھیج دیا تا دائمی غیرت مسلمانوں کے اندر پیدا کرے عارضی غیرت بھی دنیا میں بڑے بڑے کام کرا لیتی ہے جیسے بغداد کے برائے نام بادشاہ سے کرا دیا مگر یہ غیرت ایمان کی علامت نہیں اگر ایمانی غیرت ہوتی تو اسلام کے دن اسی وقت پھر جاتے مگر انہوں نے عورت کو چھڑایا اور پھر سو گئے.ایسی عارضی غیرت سے اسلام زندہ نہیں ہوسکتا.اسلام اس غیرت سے زندہ ہوتا ہے جو کبھی مٹ نہ سکے، اس آگ سے زندہ ہو سکتا ہے جو کبھی سرد نہ ہو سکے جب تک کہ سارے جہان کو جلا کر راکھ نہ کر دے، اس زخمی دل سے ہو سکتا ہے جو کبھی اند مال نہ پائے ، اسے وہ دیوانہ زندہ کر سکتا جس کی دیوانگی پر ہزار فرزانگیاں قربان کی جا سکیں یہی دیوانگی پیدا کرنے کے لئے ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے اور اسی روح کو آپ کی زندگی میں ہم نے مشاہدہ کیا.آپ کے اندر سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے، چلتے پھرتے ہم نے دیکھا کہ ایک آگ تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو دنیا میں دوبارہ قائم کیا جاسکے.آج نادان اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہتک کی مگر ہمیں معلوم ہے کہ آپ کو کس طرح ہر وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت قائم کرنے کی دھن لگی رہتی تھی.مجھے ایک بات یاد ہے جو گو اس وقت تو مجھے بری ہی لگی تھی مگر آج اس میں بھی ایک لذت محسوس کرتا ہوں.ہمارے بڑے بھائی میرزا سلطان احمد صاحب مرحوم ایک دفعہ باہر سے یہاں آئے ، ابھی تک انہوں نے بیعت کا اعلان نہیں کیا تھا، میں ان سے ملنے گیا میرے بیٹھے بیٹھے ہی ڈاک آئی.اس زمانہ میں توہینِ مذاہب کے قانون کا مسودہ تیار ہورہا تھا اس سے بات چل پڑی تو مرزا سلطان احمد صاحب کہنے لگے اچھا ہوا بڑے مرزا صاحب فوت ہو گئے ، وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بڑے مرزا صاحب کہا کرتے تھے، ورنہ سب سے پہلے وہ جیل میں جاتے کیونکہ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تو ہین کو برداشت نہیں کرنا تھا.اس وقت تو یہ بات مجھے بری لگی کیونکہ اس میں بے ادبی کا پہلو تھا مگر اس سے اس محبت کا اظہار ضرور ہوتا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی.تو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی 166

Page 179

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ یکم نومبر 1935ء دیکھا ورطہ میں اور سالم زندگی کو دیکھا آپ ایک آگ میں کھڑے تھے وہی آگ آپ نے ورثہ میں ہمیں دی ہے اور جس احمدی میں وہ آگ نہیں وہ آپ کا صحیح روحانی بیٹا نہیں.میں کہہ رہا تھا کہ ایک سال کا عرصہ ہوا یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دی گئیں اور کہا گیا کہ فرعونی حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے گا، گالیاں تو آپ کو ہمیشہ ہی دی جاتی ہیں مگر یہ آواز قادیان میں سخت گستاخی اور دل آزار طریق پر اٹھائی گئی، ہمارے کانوں نے اسے سنا اور ہمارے دلوں کو اس نے زخمی کر دیا اور جماعت میں ایک عام جوش اور اس کے نتیجہ میں کام کرنے کا ایک عام ولولہ پیدا ہو گیا مگر میں آپ لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا وہ زخم ابھی تک ہرا ہے یا مندمل ہو رہا ہے؟ جس کا زخم مندمل ہو رہا ہے وہ سمجھ لے کہ وہ اس ایمان کو نہیں پاسکا جو کامیابی کے لئے ضروری ہے لیکن اگر آج بھی ہرا ہے ، آج بھی تم قربانی کے لئے اسی طرح تیار ہو ، آج بھی اپنی گردن آستانہ الہی پر اسی طرح کٹوانے پر آمادہ ہو تو سمجھو کہ تمہارے اندر ایمان موجود ہے.اچھی طرح یا درکھو کہ ایمان جنون اور موت ایک ہی چیز ہے سوائے اس کے کہ دنیوی جنون میں عقل ماری جاتی ہے اور صحیح مذہبی جنون میں عقل تیز ہو جاتی ہے.پس اپنے دلوں کوٹو لو اور دیکھو کہ تمہارے دل کی آگ کی وہ حالت تو نہیں جو لوہے کی ہوتی ہے جب اسے آگ میں ڈالا جاتا ہے؟ جب اسے آگ سے نکالا جائے تو سرد ہو جاتا ہے.خدا کی محبت کی آگ ایسی نہیں کہ اس کے بغیر ایمان قائم رہ سکے اس آگ میں مومن کا دل ہر وقت پگھلا رہنا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے ہماری مدد کر کے بہت سی باتیں دور کر دی ہیں.اسی مقام قادیان میں گو حقیقتا اس کی زمین میں نہیں ایک سال ہوا کہ احرار اصحاب فیل کی طرح آئے اور ان کے صدر نے اعلان کیا کہ فرعونی تخنت الٹ دیا جائے گا لیکن تمہاری کوشش اور محنت کے بغیر آج کہاں ہے وہ تخت جس پر بیٹھ کر جماعت کے متعلق یہ الفاظ کہے گئے تھے؟ میں نے کئی دفعہ سنایا ہے اور آپ لوگوں کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ ایک دفعہ یہود نے ایران کے بادشاہ کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف خوب بھڑ کا یا اور کہا کہ یہ شخص اپنی حکومت قائم کر رہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عرب میں ایرانی مقبوضات آپ کے ہاتھ سے نکل جائیں گے.بادشاہ ظالم تھا اس نے بغیر تحقیقات کے یمن کے گورنر کو خط لکھا کہ عرب کے جس شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اسے گرفتار کر کے ہمارے پاس بھیج دو.گورنریمن نے اپنے چند آدمی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیئے اور کہلا بھیجا کہ بے شک یہ حکم ظالمانہ ہے اور آپ نے کوئی ایسی حرکت نہیں کی کہ جس سے شاہ ایران کو غصہ پیدا ہو لیکن چونکہ وہ طاقتور بادشاہ ہے اس لئے آپ ﷺ کی طرف سے انکار کی صورت میں 167

Page 180

خطبه جمعه فرموده یکم نومبر 1935ء الله تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد اول وہ عرب کو تاخت و تاراج کر دے گا.آپ ﷺہ آجائیں اور میں سفارش کر دوں گا کہ آپ مے سے کوئی بدسلوکی نہ ہو.جب یہ قاصد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ پیغام دیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اچھا ہم کل جواب دیں گے.دوسرے دن وہ پھر جواب کے لئے گئے مگر آپ ﷺ نے پھر اگلے روز جواب دینے کو فرمایا اور اگلے روز پھر فرمایا کہ کل جواب دیں گے اس طرح جب تین راتیں گزرگئیں تو ان قاصدوں نے کہا کہ ہم آپ کو نصیحت کرتے ہیں کہ اس طرح ٹال مٹول نہ کریں.گورنر یمن نے آپ ﷺ کی سفارش کا وعدہ کر لیا ہے ورنہ اگر شاہ ایران کو غصہ آ گیا تو عرب کی حیثیت ہی کیا ہے؟ وہ اسے بالکل تباہ کر دے گا.اس پر آپ ﷺ نے فرمایا سنو! اپنے گورنر سے جا کر کہہ دو کہ میرے خدا نے تمہارے خدا کو آج رات مار دیا ہے.انہوں نے اسے نعوذ باللہ مجذوب کی بڑ سمجھا اور خیر خواہی کے طور پر پھر نصیحت شروع کی مگر آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم جا کر یہ بات کہہ دو.گورنر یمن سے جا کر اس کے نمائندوں نے جب یہ بات کہی تو اس نے کہا کہ یہ شخص یا تو مجنون ہے یا نبی ہے.بہر حال میں انتظار کروں گا.چند روز کے بعد ایران کا ایک جہاز بندرگاہ پر آیا جس میں سے ایک شاہی پیغامبر اترا اور بادشاہ کا خط گورنر کو دیا جس کی مہر دیکھتے ہی اس نے کہا کہ مدینہ والے شخص کی بات سچی معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس پر مہر ایک دوسرے بادشاہ کی تھی.خط کو کھولا تو اس میں لکھا تھا کہ اپنے باپ کی ظالمانہ حرکات کو دیکھ کر اور یہ دیکھ کر کہ وہ ملک کی حالت کو خراب کر رہا ہے فلاں رات ہم نے اسے قتل کر دیا ہے اب ہم بادشاہ ہیں اس لئے ہماری اطاعت کرو اور ہمارے باپ نے عرب کے ایک مدعی نبوت کے متعلق ایسا ظالمانہ حکم دیا تھا اسے بھی ہم منسوخ کرتے ہیں.کیا خدا نے بالکل اسی طرح یہاں نہیں کیا ؟ وہی لوگ جو اصحاب فیل کی طرح یہاں آئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ فرعونی تخت الٹنے آئے ہیں.جاؤ اور ان سے کہہ دو کہ ہمارے خدا نے تمہارے تخت کو الٹ دیا ہے.آج تمہارے اپنے بھائی تمہیں گالیاں دیتے اور تم پر پھٹکارمیں ڈال رہے ہیں.انہی کے ہاتھ سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں ذلیل کر دیا ہے جیسے کہ کسی شاعر نے کہا ہے کہ: اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے مگر یہ جو کچھ ہو تمہاری وجہ سے نہیں ہوا اور نہ ہی اس سے تمہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ حملہ میں کمی آگئی ہے جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا ہے مخالفتوں کے طوفان یکدم نہیں آیا کرتے بلکہ طوفان کے ہر جھونکے کے بعد وقفہ ہوتا ہے.اگر تم سمجھتے ہو کہ یہ خدا کے کام ہیں تو چاہئے کہ اپنے اخلاص اور قربانی میں ترقی کرو 168

Page 181

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول خطبه جمعه فرموده یکم نومبر 1935ء اور آگے بڑھو.جنہوں نے پہلے کوئی کمی کی ہے وہ اسے پورا کریں اور جنہوں نے پہلے پورا کیا ہے وہ اضافہ کریں اور اس وقت تک چین نہ لیں جب تک خدا کا وعدہ پورا نہ ہو اور یہ میں تمہیں بتا دیتا ہوں کہ خدا کا وعدہ تم میں سے اکثر کی زندگیوں میں پورا ہونے والا نہیں.اللہ تعالیٰ کا وہ وعدہ یہ ہے کہ اسلام سب دنیا میں پھیل جائے گا، سب حکومتیں اسلامی ہوں گی اور غیر مسلم اس طرح دنیا میں رہ جائیں گے جس طرح آج چھوٹی چھوٹی غیر متمدن اقوام مثلاً گونڈ، بھیل وغیرہ ہیں.ان عظیم الشان تغییرات کے لئے کہ کفر کو ایمان سے، نفاق کو جرات سے، جہالت کو علم سے اور بد دیانتی کو دیانت سے بدل دیا جائے ، ایک لمبے عرصہ اور متواتر قربانیوں کی ضرورت ہے.دلائل سے دلوں میں اسلام کی عظمت قائم کرنا کوئی معمولی کام نہیں اور یہ کام ایک نسل سے نہیں ہو سکتا.تمہارے ہاتھ سے اللہ تعالیٰ اس کی بنیاد رکھوا رہا ہے اور اصل عزت اس وقت قبول کرنے والوں کی ہوتی ہے جب لوگ قبول کرنے سے ڈرتے ہیں.دنیا میں قاعدہ ہے کہ جو لوگ تجارتی کمپنیاں جاری کرتے ہیں ان کو زیادہ حقوق دیئے جاتے ہیں اور بعض کمپنیاں تو کام شروع کرنے والوں کو چند ماہ کی کوشش کے صلہ میں لاکھوں کے حصے مفت دے دیتی ہیں کیونکہ انہوں نے اس وقت کام میں ہاتھ ڈالا جب لوگ گھاٹے سے ڈرتے تھے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی نظر میں بھی تمہاری وقعت زیادہ ہے مگر ضرورت ہے کہ تمہاری قربانیاں مسلسل ہوں.جھٹکے والی قربانی نہ ہو.ایسی قربانیاں تو ادنی درجہ کا کیڑا اور جاہل انسان بھی کر لیتا ہے.مومن کا یہ کام ہے کہ وہ رات دن ایک دھن کے ماتحت چلتا جاتا ہے مخالفت ہو یا نہ ہو وہ اپنے کام کو نہیں بھولتا.یہ چیز تمہارے اندر ہونی چاہئے اور تمہیں دم نہیں لینا چاہئے جب تک کہ فتح نصیب نہ ہو جس کے متعلق میں نے بتایا ہے کہ تم میں سے اکثر کی زندگی میں نہیں ہوگی.گویا اس دنیا میں ہمارے لئے آرام کا کوئی مقام نہیں ہم اپنے بوجھ اپنے آقا کے دربار میں جا کر ہی اُتاریں گے اور جو یہاں اُتارنا چاہتا ہے اسے اس میدان میں قدم رکھنے کی ضرورت نہیں.اس ضمن میں ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے.اس طوفان کے زمانہ میں حکومت کے بعض افسروں کی جہالت کی وجہ سے حکومت بھی ہماری مخالفت پر کمر بستہ ہو گئی تھی اور بعض افسروں کو جس طرح کسی کو بھجلی ہوتی ہے کوئی خیال پیدا ہوا اور وہ خواہ مخواہ ایک وفادار جماعت کے خلاف شرارتیں کرنے لگے اب حکومت کے رویہ میں میں اگر چہ ایک نیک تغیر دیکھتا ہوں مگر یہ تغیر ابھی تک حقیقت کو نہیں پہنچا.حکومت محسوس کرتی ہے کہ ماتحتوں نے غلطیاں کی ہیں مگر وہ کوئی گرفت نہیں کرنا چاہتی.حالانکہ دیانتداری کا تقاضا ہے کہ ایسے افسروں کو سزادی جائے جن سے قصور ہوا ہو حکومت کی عزت اسی میں ہے.بہر حال 169

Page 182

خطبه جمعه فرموده یکم نومبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول حکومت نے غلطی کی اور میں کہوں گا اب تک غلطی کر رہی ہے کیونکہ جن افسروں نے سلسلہ احمدیہ کے وقار کو مٹانے کے لئے کاروائیاں کیں ان کے خلاف وہ کوئی کارروائی نہیں کر رہی.احرار نے سمجھا تھا کہ یہ بھی شاید کوئی روپیہ بٹورنے والی جماعت ہے اور ہماری طرح اس کے بھی بعض لیڈر ہوں گے اور حکومت نے بھی خیال کیا کہ یہ ایک چھوٹی سی جماعت ہے اس کے حقوق کی نگہداشت کی کیا ضرورت ہے؟ مگر ہم نے احرار کو بھی کچھ نہیں کہا خدا نے ہی ان کو سزا دی ہے اور اگر حکومت اپنے ان افسروں کو سزا نہیں دے گی تو خدا تعالیٰ ان افسروں کو سزا دے گا.بے شک برطانوی حکومت کا ہاتھ بہت وسیع ہے مگر ہمارے خدا کا ہاتھ اس سے بہت زیادہ وسیع ہے.حکومت یہ مت خیال کرے کہ ان معاملات کو دبایا اور ہمیں ڈرایا جا سکتا ہے یا لالچ دی جاسکتی ہے.بہتک ہماری نہیں بلکہ خدا کے سلسلہ کی کی گئی ہے اور جو کام ہم نہیں کر سکتے اسے ہمارا خدا کر سکتا ہے اس لئے ہم نہ قتل سے ڈرتے ہیں نہ پھانسی سے اور نہ دیگر سزاؤں سے.حکومت یہ خیال بھی نہ کرے کہ لمبے عرصہ کے بعد ہم ان باتوں کو بھول جائیں گے.ہمارے دلوں میں بغض نہیں مگر ہمارا خدا اپنے دین اور اپنی جماعت کی ہتک کو تو بہ کے بغیر معاف نہیں کیا کرتا.ہم حکومت کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور یہ چیز ہمارے مذہب کی تعلیم کے خلاف ہے لیکن خدا کی غیرت بھی وہیں جوش میں آیا کرتی ہے جب وہ بندے کے ہاتھ باندھ دیتا ہے.جہاں وہ خود مقابلہ کی اجازت دیتا ہے وہاں خود چپ رہتا ہے لیکن جب ہاتھ روکتا ہے تو پھر خود اس کا انتقام لیتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ کسی مجلس میں بیٹھے تھے حضرت ابو بکر بھی تھے کہ ایک شخص آیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں حضرت ابو بکر" کو گالیاں دینے لگا.کچھ دیر کے بعد حضرت ابو بکر کو بھی غصہ آگیا اور انہوں نے کوئی جواب دیا.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابو بکر جب تک تم خاموش تھے خدا کہہ رہا تھا کہ یہ میرا بندہ مظلوم ہے میں نے اس کی زبان رو کی ہوئی ہے اس لئے فرشتے جواب دے رہے تھے مگر اب تم بولے تو فرشتے خاموش ہو گئے.تو جہاں خدا بندے کو روکتا ہے وہاں خود انتقام لیتا ہے.ہو سکتا ہے حکومت کے بعض افسر دہریہ ہوں یا بعض دہر یہ تو نہ ہوں مگر زندہ خدا کے قائل نہ ہوں یا بعض زندہ خدا کے قائل تو ہوں مگر یہ نہ مانتے ہوں کہ اس کا اسلام سے تعلق ہے یا بعض اس کا تعلق اسلام سے تو سمجھتے ہوں مگر یہ نہ مانتے ہوں کہ آج احمد یت ہی اسلام کا صیح نقشہ پیش کر رہی ہے لیکن ان کے ان خیالات سے خدا کی قدرتوں میں فرق نہیں آسکتا.اس کی قدرتیں ظاہر ہوں گی اور ضرور ہوں گی.میں خدا تعالیٰ کے فضل سے محتاج نہیں اور مجھے اس امر کی حاجت نہیں کہ حکومت میر ابدلہ لے لیکن میں یہ بات خود حکومت کے فائدہ کے طور پر کہتا ہوں کہ 170

Page 183

تحریک جدید- ایک ابھی تحریک...جلد اول خطبه جمعه فرموده یکم نومبر 1935ء اسے اپنے اس رویہ میں تبدیلی کرنی چاہیئے.ہمارے تعلقات اس سے دوستانہ رہے ہیں اور اب بھی ہم رکھنا چاہتے ہیں اس لئے بحیثیت ایک ایسے شخص کے جس نے خدا کی زندہ قدرتوں کا مشاہدہ کیا، جس نے خدا کی مالکیت کا مشاہدہ کیا، اس کی ملوکیت کا مشاہدہ کیا، حکومت کی خیر خواہی کی غرض سے یہ کہتا ہوں کہ حکومتیں تبھی تک قائم رہ سکتی ہیں جب تک ان کی بنیاد تقویٰ اور خشیت اللہ پر ہو.مذہب اور چیز ہے اور خشیت اللہ اور چیز.عیسائی، یہودی، سکھ اور ہندو بھی خدا سے ڈرسکتا ہے.حکومت کو بھی چاہئے کہ خدا سے ڈرے کہ اسی میں اس کی کامیابی ہے اور اسے چھوڑنے میں اس کے لئے سراسر ضرر ہے.جن افسروں نے جماعت احمدیہ کے وقار کو توڑنے کی کوشش کی ان کو گرفت کرنی ضروری ہے.بے شک حکومت کہتی ہے کہ اس طرح اس کا پر سٹیج قائم نہیں رہ سکتا مگر اسے یادرکھنا چاہئے کہ اس سے ایک بالا حکومت کے پر سٹیج کا سوال بھی اب پیدا ہو چکا ہے اور غور طلب امر یہ ہے کہ اگر حکومت کو باوجود اپنے افسروں کے غلطی پر ہونے کے ان کے پر سٹیج کا خیال ہے تو کیا ہمارے خدا کو اپنے خادموں کے پر سٹیج کا با وجود ان کے حق پر ہونے کے خیال نہ ہو گا ؟ ہوگا اور ضرور ہو گا.ان افسروں نے دیکھ لیا ہے کہ وہ سال بھر کی لگا تار کوشش کے باوجود ہمیں بغاوت کی طرف مائل نہیں کر سکے.ہم آج بھی حکومت کے ویسے ہی وفادار ہیں جیسے کہ پہلے تھے اور آئندہ بھی ہم کبھی قانون شکنی نہیں کریں گے مگر معاملہ ہمارے ہاتھ میں نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جو تمام بادشاہوں کا بادشاہ ہے.میں حکومت کے رویہ میں ایک نیک تغیر محسوس تو کرتا ہوں مگر ایسے ہی وقتوں میں انصاف کرنا اور غلطی کا ازالہ کرنا ضروری ہوتا ہے تا خدا کے فضل کا وارث بنا جا سکے.اللہ تعالیٰ نے حکومت کو ایک رنگ میں تنبیہہ بھی کی ہے جس طرح کہ احرار کو کی ہے.مسجد شہید گنج کا جو قضیہ ہوا ہے وہ ایک نشان ہے احرار اور حکومت کے لئے.کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ احرار جو کا نگری ہیں اور حکومت جس کے فوائد ان کے خلاف ہیں وہ دونوں ایک ہی سوال کے متعلق تشویش میں پڑ جاتے ہیں؟ میں دیکھتا ہوں ابھی یہ سوال دبا نہیں ابھی چند روز ہوئے لاہور میں ایک مسلمان نے ایک سکھ کو ہلاک کر دیا اور بعض ہندوؤں سکھوں کو زخمی کیا لوگ کہتے ہیں وہ مجنون تھا.میں کہتا ہوں اچھا یونہی سہی لیکن اگر دلوں میں منافرت نہیں ہے تو جنون میں اسے یہ خیال کیوں آیا کہ سکھوں اور ہندوؤں کو ہی ماروں؟ اس کا مطلب یہی ہے کہ ہوش کے وقت اس کے خیالات ہندوؤں اور سکھوں کے متعلق ایسے پراگندہ تھے کہ جنون میں بھی یہی خیال قائم رہا اور بھی بعض ایسے حالات موجود ہیں اور پیدا بھی ہو رہے ہیں.ہمیں ان حالات میں حکومت سے ہمدردی ہے مگر ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکومت کو تنبیہ ہے.وہ بتانا چاہتا ہے کہ تم میرے نمائندے 171

Page 184

خطبه جمعه فرموده یکم نومبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد اول ہو اس لئے چاہئے کہ میری طرح انصاف کرو.پس یہ دونوں باتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اس نے دونوں کو تنبیہ کی ہے اگر وہ اس سے فائدہ اٹھا لیں تو بہتر ہے ورنہ خدا کا ہاتھ بہت وسیع ہے.یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے ان مخالف حالات کو جو ہمارے نقصان کے لئے پیدا ہورہے تھے بدلنے کے لئے کچھ نہیں کیا.ہماری قربانیاں کچھ نہیں ہیں اس لئے میں جماعت کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ آئندہ خطبات میں میں پھر سکیم کی وضاحت کروں گا اور اسے چاہئے کہ مزید قربانیوں کے لئے تیار رہے اور اب یہ خیال دل سے نکال دے کہ ہم کسی جگہ ٹھہریں گے.تین سال تو پہلا قدم ہے بعض لوگوں نے مجھے کہا ہے کہ اس تحریک کو اب بند کر دیا جائے کیونکہ چندوں پر برا اثر پڑتا ہے لیکن جیسا کہ میں آگے چل کر بتاؤں گا قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ کمزوری دکھانے والا یا ٹھہر نے والا خدا تعالیٰ کی راہ پر چلنے کے قابل نہیں.میں نے آج تک کسی کو جا کر نہیں کہا کہ آؤ اور میری بیعت کرو بلکہ میرے سامنے اگر کوئی کسی کو ایسا کہے تو میں اسے روکتا ہوں تا وہی آگے آئے جو خود جان دینے کو تیار ہو اس لئے مجھے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ تم نے ہمیں کس مصیبت میں پھنسا دیا؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی لکھا ہے کہ میرا رستہ پھولوں کی پیج کا نہیں بلکہ پر خار ہے جو ڈرتا ہے وہ آگے نہ آئے.پس قربانیوں کے مطالبات اب زیادہ ہوں گے کم نہیں.جو خیال کرتا ہے کہ اب سیال ختم ہو گیا یہ بھی ختم ہو جانی چاہئیں اس کے اندر ایمان نہیں.میرے ساتھ اب وہی چلیں گے جو یہ مستقل ارادہ رکھتے ہوں گے کہ ہم نے اب سانس نہیں لینا.اب ہم خدا کے قدموں میں ہی مریں گے اور جان دیں گے.جب تک عشق کی وہ گولی نہ کھائی جائے جو اللہ تعالیٰ کے دربار میں پہنچا دے اس وقت تک کوئی زندگی نہیں.جو میرے ساتھ نہیں آتا اس پر کوئی افسوس نہیں.اگر تم سب کے سب بھی مجھے چھوڑ دو تب بھی خدا غیب سے سامان پیدا کر دے گا لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ جو بات خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہی اور جس کا نقشہ اس نے مجھے سمجھا دیا ہے وہ نہ ہو.وہ ضرور ہو کر رہے گی خواہ دوست، دشمن سب مجھے چھوڑ جائیں.خدا خود آسمان سے اُترے گا اور اس مکان کی تعمیر کر کے چھوڑے گا.“ ( مطبوع الفضل 7 نومبر 1935 ء ) 172

Page 185

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 8 نومبر 1935ء تحریک جدید کیلئے مزید قربانیوں کی ضرورت خطبہ جمعہ فرمودہ 8 نومبر 1935ء جب گزشتہ سال تم نے قربانیاں کیں اور تم نے دیکھ لیا کہ ابھی ان کا کوئی شاندار نتیجہ نہیں نکلا اور نہ لوگوں کے قلوب میں بہت بڑا تغیر ہوا ہے تو تمہارا فرض ہے کہ تم پہلے سے بھی زیادہ قربانیاں کرو اور اگر تم پچھلے سال سے زیادہ قربانی کرنے کیلئے تیار نہیں تو تم اپنے عمل سے یہ ثابت کرتے ہو کہ تم کسی بڑے انعام کے مستحق نہیں.ابھی تک صرف چند غیر ممالک میں مبلغ بھیجے جاسکتے ہیں سٹریٹس سیٹلمنٹ میں مبلغ بھجوائے گئے ہیں، جاپان میں ایک مبلغ بھجوایا گیا ہے، چین میں بھجوایا گیا بلکہ چین میں تھوڑے دن ہوئے ایک اور مبلغ بھی روانہ کیا گیا ہے.اسی طرح پانچ سات اور مبلغ غیر ممالک میں جانے والے ہیں پھر بھی ان مبلغین سے سلسلہ کا پیغام کہاں دنیا کے کناروں تک پہنچ سکتا ہے؟ سینکڑوں ممالک ابھی باقی ہیں جن میں ہم نے تبلیغ کرنی ہے.پس ہما را کم سے کم فرض یہ ہے کہ ہم ہر ملک میں احمد یہ جماعت ایسے وقت میں قائم کر دیں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ زندہ ہیں تا وہ یہ کہہ سکیں کہ گو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نہیں دیکھا مگر ان کے دیکھنے والوں کو تو دیکھ لیا." پس تیار ہو جاؤ اس بات کیلئے کہ تمہاری قربانیاں گزشتہ سال سے کم نہ ہوں بلکہ زیادہ ہوں.میں نے تحریک جدید کے ماتحت جو سکیم بیان کی ہوئی ہے اس پر عمل کرو.مجھے یقین ہے کہ اگر اس سکیم پر صحیح طور پر عمل کیا جائے تو دنیا کی کایا پلٹ سکتی ہے.پس اس سکیم کو یاد کرو اور اس کے مضامین کو اپنے ذہنوں میں جماؤ اور لوگوں کو اس سے واقف و آگاہ کرو.بہت سے ان پڑھ ہوتے ہیں جنہیں اس سکیم کے مضامین سے آگاہ کرنا ضروری ہوتا ہے.پھر بہت سے غافل ہوتے ہیں انہیں جگانا اور ہوشیار کرنا بھی ضروری ہوتا ہے.پس تم وہ سکیم ذہن نشین کرو اپنے محلہ والوں کے، ذہن نشین کرو اپنے دوستوں کے، ذہن نشین کرو ان پڑھوں کے اور ذہن نشین کردستوں کے.اس کیلئے میں یکم دسمبر کی تاریخ مقرر کرتا ہوں اس دن اتوار ہے اور سرکاری ملازمین کو بھی چھٹی ہوگی.پس یکم دسمبر کو ہر جگہ کی جماعتیں تحریک جدید کے متعلق جلسے منعقد کریں اور اس میں میرے ان پرانے خطبات کے مطالب سے جو میں تحریک جدید کے 173

Page 186

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 8 نومبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول متعلق دے چکا ہوں.ان نئے خطبات کے مطالب کے ساتھ ملا کر جو اس وقت دے رہا ہوں تمام افراد کو آگاہ کیا جائے پس تمام جماعتوں کو چاہئے کہ وہ یکم دسمبر کو اپنی اپنی جماعتوں میں جلسے کریں اور سادہ زندگی ، خوراک لباس اور دوسرے امور کے متعلق جماعت سے عہد لیں.گو جماعت ایک دفعہ پہلے بھی یہ عہد کر چکی ہے کہ وہ اس سکیم کو کامیاب بنائے گی مگر ضروری ہے کہ اس دن پھر اس عہد کی تجدید کرائی جائے اور ان سے اقرار لیا جائے کہ وہ اپنے وعدوں پر قائم رہیں گے اور سلسلہ کی خدمت ہمیشہ کرتے رہیں گے.اسی طرح میں جو چندہ کی تحریک کروں اس کے متعلق بھی یکم دسمبر تک جن دوستوں کے نام نہ پہنچیں ان سے عدے لئے جائیں.میں نے پہلے بھی کہا تھا اور اب پھر کہتا ہوں کہ جو لوگ اس خیال میں رہیں گے کہ احمدیت ایک معمولی چیز ہے اور وہ سلسلہ کے لئے مالی اور جانی قربانیاں نہیں کریں گے خدا انہیں ہلائے گا اور اس زور سے ہلائے گا کہ ان کی زیست کی کوئی صورت باقی نہیں رہے گی.پس ہوشیار ہو جاؤا اور بیدار ہو جاؤ اور سمجھ جاؤ کہ احمدیت میں داخل ہونا ایک فوج میں داخل ہونے کے مترادف ہے جس میں داخل ہوتے ہی یہ عہد لیا جاتا ہے کہ اسے خدا تعالیٰ کے راستہ میں اپنا سر کٹانا پڑے گا.“ ( مطبوعه الفضل 13 نومبر 1935ء) 174

Page 187

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 15 نومبر 1935ء تحریک جدید کے دوسرے سال کیلئے جماعت احمدیہ سے اہم مطالبات خطبہ جمعہ فرمودہ 15 نومبر 1935ء يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ سے آخر تک تلاوت کرنے کے بعد فرمایا: ( سورة التوبة: 38) پیشتر اس کے کہ میں آج کے خطبہ کا مضمون شروع کروں میں چند مختصر ہدایات اس امر کے متعلق دینا چاہتا ہوں کہ احرار کی طرف سے مباہلہ کا بہانہ بنا کر قادیان میں کانفرنس منعقد کرنے کی جو تجویزیں ہو رہی ہیں بلکہ جو اطلاعات ہمیں پہنچی ہیں ان کے مطابق یہاں فساد پھیلانے کی جو تجویزیں ہو رہی ہیں ان کے بارہ میں جماعت کو بعض احتیاطوں کی ضرورت ہے.میں نے بتایا ہے کہ وہ مباہلہ کا بہانہ بنا کر یہاں کا نفرنس کرنا چاہتے ہیں اور یہ بات ایسی روشن اور بین ہے کہ سوائے ایسے شخص کے کہ جو عمداً آنکھوں کو بند کر لے اس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا.ہمیں متفرق مقامات سے ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں بلکہ ایک احمدی کا بیان بھی اخبار میں شائع ہوا ہے جس نے مولوی عطاء اللہ صاحب اور دوسرے احراری لیڈروں کے ساتھ ریل میں سفر کیا ، ان کو اس کے احمدی ہونے کا علم نہ تھا، اس نے سوال کیا کہ کیا مباہلہ کی شرائط طے ہو گئی ہیں؟ تو اسے جواب دیا گیا کہ بے شرائط ہی مباہلہ ہو گا.پھر اس نے پوچھا کہ وقت مقرر ہو گیا ہے؟ تو مولوی صاحب نے کہا کہ بے وقت ہی ہوگا اور سارا دن ہوگا.اسی طرح ہوشیار پور میں ایک عرس ہوتا ہے جس پر بڑا اجتماع ہوتا ہے.اس موقع پر بھی ان کے بعض لیڈ روہاں گئے تھے ، انہوں نے وہاں جو تقریریں کیں ان میں بھی یہی بات کہی گئی کہ بے شرائط مباہلہ ہوگا بلکہ کسی کے دریافت کرنے پر کہ کیا شرائط طے ہو گئی ہیں؟ اسے جواب دیا گیا کہ شرائط کی ضرورت ہی کیا ہے؟ آخر ہم نے وہاں جلسہ بھی کرنا تھا یا نہیں؟ تو ان لوگوں کے یہاں آنے کی غرض کا نفرنس کرنا اور فساد پھیلانا ہی ہے ورنہ اگر انہیں اللہ تعالیٰ پر اتنا یقین ہوتا کہ سمجھتے ہم سچے ہیں اور مباہلہ کر سکتے ہیں تو جس طرح میں نے قسم کھا کر مباہلہ کر ہی دیا ہے یہ لوگ بھی اسی طرح کیوں نہ کر دیتے ؟ وہ اخباروں میں 175

Page 188

خطبہ جمعہ فرمود : 15 نومبر 1935ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد اول اعلان کر رہے ہیں کہ احمدی مباہلہ سے ڈر گئے.حالانکہ میں نے پہلے ہی قسم کھا لی تھی اور کیا ڈرنے والا پہلے ہی قسم کھا لیا کرتا ہے؟ جو الزام وہ لگاتے ہیں ان کو مد نظر رکھتے ہوئے اور ان کے مطابق الفاظ میں میں نے قسم شائع کر دی ہے تا کوئی یہ نہ کہ سکے کہ مباہلہ سے ڈر گئے ہیں.اسی طرح اگر وہ یقین رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آپ کو نعوذ بالله من ذالک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل سمجھتے تھے بلکہ آپ پر ایمان نہ رکھتے تھے اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی عظمت آپ کے دل میں نہ تھی اور آپ چاہتے تھے کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی نعوذ بـالـلـه مـن ذالک اینٹ سے اینٹ بج جائے (نصیب دشمناں) اور یہ کہ جماعت احمدیہ کا بھی یہی عقیدہ ہے تو کیوں احرار کے لیڈروں نے میرے الفاظ کے مترادف الفاظ میں بالمقابل قسم شائع نہیں کر دی ؟ اگر وہ بھی قسم کھا لیتے تو لوگوں کو پتہ چل جاتا کہ وہ بھی مباہلہ کے لئے تیار ہیں یا پھر میرے پیش کردہ شرائط ہی شائع کر دیتے اور لکھ دیتے کہ ہمیں یہ منظور ہیں.جب میں نے ان کی اس چالا کی کی وضاحت کی اور بتایا کہ میری طرف سے کیا شرائط تھے تو ان کی طرف سے کہا گیا کہ یہ نئے شرائط ہیں جس سے معلوم ہوا کہ شرائط کے متعلق ابھی جھگڑے کا امکان تھا.اگر کوئی امکان نہ تھا تو اب وہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ یہ نئے شرائط ہیں؟ جب مجھ پر چھوڑ دیا تھا تو چاہئے تھا کہ جو میں کہتا اسے مان لیتے اور اگر ابھی ان کے لئے بولنا باقی تھا تو معلوم ہوا کہ ابھی شرائط طے نہیں ہوئی تھیں.پس اول تو انہیں قادیان میں آنا نہیں چاہئے تھا اگر نیت مباہلہ کی ہوتی تو جیسا کہ میں نے کہا تھا وہ لا ہور یا گورداسپور میں کرتے.ان کی غرض لڑائی اور فساد کرنا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ شائد اس طرح ان کا کام بن جائے لیکن دین کے لئے جو لڑائی ہو اس سے مومن کبھی نہیں ڈرتا.اگر فساد ہو تو زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ کوئی مرجائے گا یا کسی اور رنگ میں نقصان پہنچ جائے گا لیکن کیا مومن بھی کبھی موت سے ڈرسکتا ہے؟ مومن کا فرض ہے کہ جہاں تک ممکن ہو فساد اور لڑائی سے بچے لیکن اگر خدا کی مشیت ایسا موقع لے ہی آئے تو مومن کبھی ڈرا نہیں کرتا.خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ دشمن کو نہ بلا ؤ اس لئے وہ کوشش کرتا ہے کہ اسے دور رکھے لیکن اگر لڑائی ہو ہی جائے اور کوئی آدمی مر بھی جائے تو یہ ہمارے لئے کسی گھبراہٹ کا موجب نہیں بلکہ ثواب کا موجب ہوگا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی ہمیشہ یہ نیت ہوتی تھی کہ لڑائی نہ ہو لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ڈرتے تھے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: كَأَنَّمَا يُسَاقُونَ إِلَى الْمَوْتِ (الانفال: 7) 176

Page 189

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول....خطبہ جمعہ فرمود و 15 نومبر 1935ء یعنی لڑائی کے لئے جانا انہیں موت معلوم ہوتا تھا.گویا انہیں لڑائی اتنی بری لگتی تھی کہ وہ کبھی نہیں چاہتے تھے کہ لڑائی ہومگر جب لڑائی ہوئی تو وہی صحابہ جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے ان کی حالت بالکل بدل جاتی تھی.بدر کے موقع پر جب کفار اور مسلمان آمنے سامنے ہوئے تو مکہ والوں نے ایک شخص کو بھیجا کہ جا کر اندازہ لگاؤ، مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے؟ وہ گیا اور آکر کہا کہ مسلمانوں کی تعداد تین سوا تین سو ہے اور سامان بھی کچھ نہیں اور اس کا یہ اندازہ صحیح تھا کیونکہ مسلمان صرف تین سو تیرہ تھے مگر اس نے کہا کہ باوجود اس کے میں تمہیں یہی مشورہ دیتا ہوں کہ لڑائی مت کرو کیونکہ بے شک ان کی تعداد کم ہے مگر میں نے ان کے چہروں کی طرف دیکھا تو مجھے ایسا معلوم ہوا کہ گھوڑوں اور اونٹوں پر آدمی نہیں بلکہ موتیں سوار ہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک یہ عزم کئے ہوئے ہے کہ یا مار دے گا یا مر جائے گا.تو ان کی ایک طرف تو یہ حالت تھی کہ لڑائی کیلئے جانا ان کے لئے موت تھا مگر جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجبور کیا گیا کہ جاؤ تو وہ اس موت کو بالکل حقیر سمجھنے لگ گئے بلکہ اسے ایک نعمت خیال کرنے لگ گئے.پس ہم بھی لڑائی سے احتراز کرتے ہیں اور ہماری کوشش یہی ہے کہ لڑائی نہ ہو لیکن اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہم ڈرتے ہیں بلکہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا امتحان کرنا نہیں چاہتے.وہ ہمارا آقا اور مالک ہے اس لئے ہم اس کے سامنے ادب کے مقام پر کھڑے ہیں مگر جب وہ خود ایسے حالات پیدا کر دے جو مومن سے قربانی کا مطالبہ کرتے ہوں تو مومن سے زیادہ دلیر کوئی نہیں ہوتا اور دنیا کے تمام مصائب اسے ایسے حقیر نظر آتے ہیں کہ وہ انہیں پر پشہ کے برابر بھی وقعت نہیں دیتا.بہر حال اپنے نقطۂ نگاہ سے احرار سمجھتے ہیں کہ یہاں آکر فساد کر دینا ان کے لئے بڑی کامیابی ہے اور ایسی صورت میں جماعت کے لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ انتظام کریں.نیشنل لیگ انتظام کر بھی رہی ہے مگر میں بھی چاہتا ہوں کہ چند نصائح کروں جو جماعت کے پیش نظر رہنی چاہئیں.میں نے پہلے بھی کہا ہے اور آج پھر بھی کہنا چاہتا ہوں کہ جماعت کے دوستوں کو یہ امر مد نظر رکھنا چاہئے کہ جیسا کہ میں پہلے بھی کئی بار ظاہر کر چکا ہوں بعض سرکاری حکام اور احرار کا بھی منشا یہ ہے کہ ہمیں قانون شکن بنا ئیں مگر ہمیں کبھی بھی قانون شکنی نہ کرنی چاہئے.اسلام نے ایسے طریق بتائے ہیں کہ بغیر قانون شکنی کے ہم اپنے حقوق لے سکتے ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر قرآن کریم کے بتائے ہوئے گروں پر عمل کیا جائے تو قانون کے کامل احترام کے باوجود ان شرور کا جو خواہ حکومت کی طرف سے ہوں اور خواہ رعایا کی طرف سے ہم ازالہ کر سکتے ہیں اور اپنے لئے ترقی کے راستے 177

Page 190

خطبہ جمعہ فرمود : 15 نومبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول کھول سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں قانون کے احترام کی تعلیم دی ہے اس پر ہمیشہ دشمن اعتراض کرتا چلا آیا ہے کہ اس طرح آپ نے اپنی جماعت کو دائمی غلامی پر رضا مند رہنے کی تعلیم دی ہے.آپ کے بعد حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ بھی ہمیں یہی تعلیم دیتے رہے اور اب میں بھی ہمیشہ یہی کہتا رہتا ہوں اور دشمن اپنے اعتراض میں ترقی کر رہا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے اب ہمیں یہ موقع دیا ہے کہ دشمن پر ثابت کر دیں کہ بغیر قانون شکنی کے بھی ترقی ہوسکتی ہے بلکہ حقیقی ترقی صرف اسی طرح ہو سکتی ہے.ایسے موقع کو اپنے ہاتھوں سے ضائع کر دینا حماقت ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ ایک موقع دیا ہے کہ ہم بتا دیں کہ قرآن کریم اور اسلام کی تعلیم مکمل ہے اور اس سے انسان کی سب ضرورتیں پوری ہو سکتی ہیں اور اگر ہم اس اصل کو چھوڑ دیں تو یہ ہمارا کھلا اعتراف شکست ہوگا کیونکہ ہم دنیا کو اپنے عمل سے یہ بتائیں گے کہ جب ہم پر مصیبت آئی تو ہم نے تسلیم کر لیا کہ بغیر قانون شکنی کے ہماری فتح نہیں ہو سکتی.اس موقع پر ہمیں یہ ثابت کر دینا چاہئے کہ قرآن کریم نے ہمیں جو تعلیم دی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو اس کی تشریح فرمائی ہے وہی صحیح طریق عمل اور وہی کامیابی کی کلید ہے.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ ہماری طرف سے قانون شکنی کی کوئی صورت نہ ہو.مثلاً آج کی پریڈ میں میں نے دیکھا کہ اور تو سب لوگوں کے ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں لیکن ایک شخص کے ہاتھ میں کلہاڑی کی قسم کا کوئی ہتھیار تھا کل ہی اخبارات میں اعلان ہوا ہے کہ کلہاڑیاں لے کر چلنا پھرنا حکومت نے خلاف قانون قرار دے دیا ہے، یوں تو کلہاڑیاں وغیرہ لوگ لکڑیاں پھاڑنے کے لئے گھروں میں رکھتے ہی ہیں لیکن بعض قسم کی کلہاڑیاں رکھنا یا ان کی نمائش کرنا قانون کے خلاف ہے مجھے نہیں معلوم کہ یہ کلہاڑی جو اس دوست کے پاس تھی قانون کی زد میں آتی ہے یا نہیں لیکن مومن کو مواقع التہم سے بچنا چاہئے تا دشمن اس کے افعال سے جماعت کو بدنام نہ کر سکے اس کلہاڑی کے متعلق تو میں نے اسی وقت حکم دے دیا تھا کہ فوراً اس شخص سے لے لی جائے مگر آئندہ بھی کوئی شخص ایسی غلطی کر سکتا ہے اس لئے میں نصیحت کرتا ہوں کہ کوئی فعل ایسا نہ کیا جائے جو قانون شکنی کی حد میں آتا ہو اور قانون کے اندر رہ کر دشمن کو دکھا دیا جائے کہ قرآن کریم کی تعلیم ! حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تشریح انسان کو کامیابی سے محروم نہیں کرتی بلکہ وہی حقیقی کامیابی کی کلید ہے.دوسری نصیحت میں یہ کرتا ہوں کہ جب طبائع میں جوش ہو تو لوگ اخلاق کو بھول جاتے ہیں حالانکہ اخلاق دکھانے کا وقت وہی ہوتا ہے جب آدمی ٹھنڈے دل کے ساتھ گھر میں بیٹھا ہو تو سوائے پاگل کے کون ہے جو دوسرے سے بدخلقی سے پیش آئے ؟ برے سے برا آدمی بھی کبھی ایسا نہیں کرتا کہ آرام سے اور 178

Page 191

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمود : 15 نومبر 1935ء بیٹھا ہوا کھانا کھا رہا ہو اور باہر نکل کر محلہ والوں کو گالیاں دینے لگ جائے.پس اچھے اخلاق کی یہی علامت ہے کہ انسان اس وقت بھی اپنے جذبات کو قابو میں رکھے جب اسے اشتعال دلایا جاتا ہوا اگر احرار یہاں آئے تو ان کی طرف سے اشتعال دلانے کی پوری کوشش کی جائے گی یعنی اگر وہ کا نفرنس کے لئے آئے یا اگر مباہلہ کی نیت سے آئیں تو اس کا کوئی خطرہ نہیں کیونکہ اس صورت میں وہ زیادہ سے زیادہ ایک ہزار آدمی ہوں گے اور تقریریں وغیرہ کوئی نہیں کریں گے بلکہ زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس منٹ میں ہر ایک فریق اپنا عقیدہ بیان کر دے گا اور پھر دعا کر کے دونوں فریق اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں گے مگر جیسا کہ اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے وہ جلسہ کے لئے آئیں گے اور اشتعال دلانے کی کوشش کریں گے اور چونکہ میں نے بھی جماعت کو اجازت دے دی ہے کہ وہ اس سال ان کی تقریروں کا جواب جلسوں وغیرہ کے ذریعہ سے یا لٹریچر تقسیم کر کے دے سکتے ہیں اور میرا حکم گزشتہ سال کی طرح یہ نہیں کہ ہمارے دوست گھروں میں رہیں حتی کہ کوئی اشتہار بھی تقسیم نہ کیا جائے اس لئے اس دفعہ احتیاط کی اور بھی ضرورت ہے.گزشتہ سال ہم نے یہ حکم حجت تمام کرنے کیلئے دیا تھا اور حجت پوری کرنے کے لئے بعض دفعہ انسان اپنے حقوق بھی چھوڑ دیتا ہے کیونکہ انتہائی نمونہ دکھائے بغیر دشمن کو سمجھانا مشکل ہوتا ہے.پس یہ بتانے کے لئے کہ حکومت نے بھی ہمارے ساتھ تختی کی ہے اور احرار نے بھی زیادتی کی ہے، ہم اپنے حقوق سے بھی دست بردار ہو گئے تھے مگر اس دفعہ یہ نہیں ہوگا بلکہ اگر کوئی احمدیت پر حملہ کرے گا تو ہمیں پورا حق ہوگا کہ خواہ تقریر سے خواہ تحریر سے جواب دیں یا افراد سے الگ الگ ملاقات کر کے دیں.ہمارے آدمی وہاں جائیں اور ان کی باتوں کو نوٹ کریں اور پھر ان کی تردید مناسب موقع پر کریں اور اگر ان کے لیکچرار کوئی چیلنج دیں تو اسے قبول کریں.غرض قانون نے ہمیں جو حقوق دیئے ہیں اور شریعت نے ان کو رد نہیں کیا، ہماری جماعت کو اجازت ہوگی کہ انہیں پوری طرح استعمال کرے مگر ہماری طرف سے بداخلاقی نہیں ہونی چاہئے.بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ کسی نے گالی دی تو اس کا جواب گالی میں دے دیا یا جلسہ میں ہی : تَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَذِبِينَ (آل عمران : 62 ) کہہ دیا جیسا کہ پچھلے دنوں ایک نوجوان نے ان کی تقریر میں ایسا کہہ دیا تھا.یہ طریق ہماری جماعت کے لئے مناسب نہیں.گو میں سمجھتا ہوں کہ احرار کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں کیونکہ ان کے اعمال کی تاریکی انہیں دوسرے پر ایسا اعتراض کرنے کی اجازت نہیں دیتی مگر مشکل یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے 179

Page 192

خطبه جمعه فرموده 15 نومبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول برے اعمال کو بھول جاتے ہیں اور ہماری معمولی باتیں انہیں یاد رہتی ہیں اور یہی ہماری فتح کی علامت ہے.دو سال ہوئے میں نے لاہور میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر تقریر کی تو ان ہی کی قماش کے لوگوں کی طرف سے آدمی بھیجے گئے کہ جلسہ میں شور کریں اور ابھی میں نے تقریر شروع ہی کی تھی کہ ایک مولوی صاحب کہنے لگے کہ پگڑی تو اتنی بڑی باندھی ہوئی ہے مگر باتیں کیسی کرتا ہے حالانکہ نہ میں نے کسی پر اعتراض کیا تھا اور نہ کسی کی تردید کی تھی صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بیان کرنے لگا تھا کہ اس نے کہ دیا: پگڑی تو اتنی بڑی باندھی ہوئی ہے اور باتیں کیسی کرتا ہے؟ تو انہیں اپنی یہ باتیں بھول جاتی ہیں انہیں یہ یاد نہیں کہ سیالکوٹ میں جو ان کا بڑا مرکز ہے، ہمارے ایک جلسہ میں ان کے ہیں ہزار آدمی برابر ایک گھنٹہ دس منٹ تک ہم پر پتھر برساتے رہے جس سے ہمارے 24 آدمی زخمی ہوئے جن میں سے بعض کو شدید زخم آئے وہاں پولیس افسر موجود تھے مگر وہ بھی انہیں روکتے نہیں تھے بلکہ ان میں سے ایک ان کو انگیخت کر رہا تھا کہ روشنی میں پتھر نہ مارو اس طرح ہم پر الزام آتا ہے، اس درخت کے پیچھے چھپ کر مارو.آخر سپرنٹنڈنٹ پولیس جو ایک انگریز تھے وہاں پہنچے مگر وہ بھی ایک عرصہ تک انتظام نہ کر سکے.پھر ڈپٹی کمشنر صاحب آئے یہ سب ان کو روکتے رہے مگر وہ برابر پتھر مارتے گئے حتی کہ ہمارے 24 آدمی زخمی ہو گئے اور ان میں سے ایک کا ہاتھ اب تک بے کار ہے مگر میں نے اپنے آدمیوں سے کہہ دیا کہ ان کی طرف مخاطب نہ ہوں ، ماریں کھائیں مگر بولیں نہیں اور ہمارے آدمی اسی طرح چپ بیٹھے رہے جس طرح آپ لوگ اس وقت بیٹھے ہیں.جو زخمی ہوتا وہ اٹھ کر چلا جاتا یا دوسرے اٹھا کر اسے لے جاتے تھے مگر اپنی جگہ سے کوئی نہ ہلتا تھا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک شدید مخالف جو کئی بار اس سے پہلے ہمیں گالیاں دے چکا تھا ، آدھی رات کو ہماری قیام گاہ پر آیا اور اس نے کہا کہ جنگ اُحد کی باتیں ہم سنا کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ کہانی ہے مگر آج اُحد کا نظارہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا جس وقت یہ لوگ پتھر مار رہے تھے کئی احمدی رؤسا میرے پاس آئے کہ خطرہ بڑھ رہا ہے آپ سی پر نہ ٹھہریں مگر میں نے انکار کر دیا اور کہا کہ ہم نہیں ہلیں گے جب تک تقریر نہ کر لیں.باوجود یکہ میرے چاروں طرف دوست اخلاص سے کھڑے تھے مگر پھر بھی میز پر ایک پتھروں کا ڈھیر لگ گیا اور دوسرے دن کئی من پتھر وہاں سے دوستوں نے جمع کئے اور گوچاروں طرف سے دوست احاطہ کئے کھڑے تھے پھر بھی تین پتھر مجھے بھی آکر لگے.تو یہ شرمناک نظارہ، یہ بے حیائی اور بے غیرتی کا نظارہ انہیں بھول جاتا ہے لیکن ہمارے ایک بے وقوف نوجوان کی بات یاد رہتی ہے؟ مگر ان کا حق ہے کہ ایسا کریں اس لئے کہ وہ ایسی قوم ہے جس نے خدا تعالیٰ کے نور کو نہیں دیکھا اور تم نے اس کی تازہ 180

Page 193

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 15 نومبر 1935ء آواز کو سنا ہے اور جب وہ تم پر اعتراض کرتے ہیں تو ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم تو جو کچھ ہیں ، ہیں ہی.تم کیوں ایسا کرتے ہو؟ پس ہمارے لئے شرم کا مقام ہے اگر ہم دشمن کو ایسا موقع دیں جو ہماری سچائی پر حرف لانے والا ہو اس لئے قانون اور شریعت کے دیئے ہوئے حقوق کا استعمال کرو مگر اخلاق کو نہ چھوڑو کیونکہ شدید اشتعال کے وقت ہی اعلیٰ اخلاق کا نمونہ دکھانے کا موقع ہوتا ہے.تیسری بات یہ ہے کہ اگر دشمن فساد کر دے تو یا درکھو کہ مومن کی قربانی کا مقابلہ اور کوئی شخص نہیں.کر سکتا.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بیسیوں جنگیں کرنی پڑیں بلکہ سینکڑوں جنگیں پیش آئیں.حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ تک مسلمانوں نے اس وقت کی معلوم دُنیا قریب قریباً ساری فتح کر لی تھی اور اس کے لئے انہیں سینکڑوں لڑائیاں لڑنی پڑیں مگر مسلمانوں کو حقیقی شکست کبھی نہیں ہوئی.بعض اوقات شکست نما صورتیں پیدا ہوئیں مگر حقیقی شکست کبھی نہیں ہوئی.مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے دو واقعات ایسے ہیں ایک اُحد کا اور ایک حسنین کا جب بظاہر مسلمان میدان سے ہے مگر یہ بھی نہیں ہوا کہ مسلمان میدان سے ہٹ کر بھاگ گئے ہوں اللہ ماشاء اللہ سوائے ایک دو کمز ور طبیعت لوگوں کے یا ان لوگوں کے جو پچھلے لوگوں کو حالات کی خبر دینا چاہتے تھے.اُحد کا مقام مدینہ سے نزدیک تھا مگر اُحد کے موقع پر بھی معلوم ہوتا ہے کہ صرف چند آدمی مدینہ میں پہنچے مگر ممکن ہے وہ سب کے سب خبر دینے ہی گئے ہوں ورنہ جب کبھی مسلمانوں کے قدم اکھڑے وہ میدان میں ہی ادھر اُدھر رہے بھاگے نہیں.حنین کے موقع پر بھی صحابہ کے قدم اکھڑے ہیں تو ارادہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ اس جنگ میں دو ہزار کے قریب کا فر بھی شریک ہو گئے تھے اور جب وہ بھاگے تو ان سے ڈر کر صحابہ کے گھوڑے بھی بھاگ پڑے.ایک صحابی کا بیان ہے کہ ہم سواریوں کی باگیں انہیں روکنے کے لئے اس قدر زور سے کھینچتے تھے کہ ان کے منہ کمر سے آ لگتے تھے مگر جب باگیں ڈھیلی کرتے تو وہ بھاگ اٹھتے.یہ صحابہ کا دوڑنا نہیں کیونکہ سپاہی کا دوڑنا اسے کہتے ہیں کہ میدان سے گھوڑا بھاگے اور وہ اسے تیز کرنے کے لئے اور مارے.صحابہ نے ایسا نہیں کیا بلکہ بعض تو سواریوں سے اتر کر پیدل ہی واپس لوٹ پڑے اس لئے یہ شکست نہیں کہلا سکتی مگر جو کچھ بھی ہو صرف یہ دو واقعات ہیں جنہیں شکست کے مشابہ کہا جاسکتا ہے مگر دونوں مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ کچھ اور صحابہ کھڑے رہے اور باقی اب بھی میدان سے ہٹ کر چلے نہیں گئے.پس یہ بھی نہیں ہوا کہ مسلمان چلے 181

Page 194

خطبه جمعه فرموده 15 نومبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول گئے ہوں اور دشمن میدان میں کھڑا رہا ہو بلکہ دونوں مواقع پر دشمن میدان چھوڑ گیا اور مسلمان کھڑے رہے.حتی کہ حسنین کے موقع پر مسلمانوں نے ایک سارے کا سارا قبیلہ گرفتار کر لیا.یہ نہیں کہہ سکتے کہ صحابہ رضی اللہ عنہ کو کبھی بھی شکست ہوئی تھی.پس مومن اول تو لڑتا نہیں اور اگر لڑائی کے لئے مجبور کیا جائے تو میدان سے کبھی نہیں بنتا.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن صرف دو صورتوں میں پیچھے ہتا ہے: ایک تو حملہ کرنے کے بعد بڑے لشکر سے ملنے کے لئے اور دوسرے زیادہ مفید صورت میں حملہ کرنے کے لئے.مثلاً لکیر کاٹ کر دشمن پر حملہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سوائے ان دو صورتوں کے مومن میدان سے پیچھے نہیں ہلتا.پس اگر فرض کر لیں کہ گورنمنٹ اپنا فرض ادا نہیں کرتی اور فرض کر لیں کہ احرار آتے اور فساد کرتے ہیں تو ایسی صورت میں یا درکھو کہ مومن کی موت اس کی زندگی سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے.لوگ کہتے ہیں احمدی 56 ہزار ہیں، میں کہتا ہوں کہ اگر یہ چھپن ہزار اپنی جانیں قربان کر دیں تو 56 ہزار زندوں سے یہ 56 ہزار مردے بہت زیادہ کام کر سکتے ہیں.بچپن میں ہم کہانیاں پڑھا کرتے تھے کہ بعض دیوا ایسے ہوتے تھے کہ جب ان کو مارا جاتا تو ان کے خون کے ہر قطرہ سے جو زمین پر گرتا کئی اور دیو پیدا ہو جاتے تھے ، وہ تو کہانیاں تھیں مگر مومنوں کے متعلق یہ بات بالکل درست ہے کہ جب مومن کے خون کا قطرہ زمین پر گرتا ہے تو وہ ہزاروں مومن پیدا کر دیتا ہے.پس موت کی صورت میں تمہاری قیمت زندگی سے بہت زیادہ ہے.جان دینے میں مومن کو صرف ایک ہی شبہ ہو سکتا ہے کہ اگر مر گئے تو اعمال صالحہ سے محروم رہ جائیں گے.مثلاً ایک شخص کی عمر چالیس سال ہے اگر ساٹھ سال وہ اور زندہ رہتا تو اس عرصہ میں وہ اور بہت سی نیکیاں کر سکتا تھا.پس موت کے رستہ میں صرف یہی ایک نیکی کا خیال اس کے لئے روک بن سکتا ہے ورنہ اگر وہ صحیح طور پر آخرت کو مقدم کرتا ہے تو کوئی دنیوی خیال اس کے راستہ میں روک بن ہی نہیں سکتا.یہی ایک خیال ہے کہ اتنی مدت کی نمازوں ، روزوں ، جہاد اور تبلیغ سے محروم رہ جاؤں گا.اس شبہ کی معقولیت کو اللہ تعالیٰ نے بھی تسلیم کیا ہے اور پھر اس کا جواب بھی دیا ہے.چنانچہ فرمایا:.وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ احيَا وَلكِنْ لَا تَشْعُرُونَ (البقره:155) یعنی شہید کے اعمال کبھی ختم نہیں ہو سکتے وہ ہمیشہ زندہ ہے اور اس کے اعمال ہمیشہ بڑھتے رہتے 182

Page 195

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرمود : 15 نومبر 1935ء ہیں.اس نے خدا کے لئے جان قربان کر دی اور خدا نے نہ چاہا کہ اس کے اعمال ختم ہو جائیں.کوئی دن نہیں گزرتا کہ تم نمازیں پڑھو اور ان کا ثواب تمہارے نام لکھا جائے اور شہید اس سے محروم رہے، کوئی رمضان نہیں گزرتا کہ تم اس کے روزے رکھو اور ان کا ثواب تمہارے نام لکھا جائے اور شہید اس سے محروم رہے، کوئی حج نہیں کہ تم تکلیف اٹھا کر اس کا ثواب حاصل کرو اور شہید اس کے ثواب سے محروم رہے.قرآن کریم نے فرما دیا ہے کہ ان کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں اور وہی برکتیں حاصل کر رہے ہیں جو تم کرتے ہو.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شہید صحابی کے لڑکے کو دیکھا کہ افسردہ تھا آپ نے اسے پاس بلایا اور پوچھا تمہیں پتہ ہے تمہارے باپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کیا سلوک کیا ؟ اس نے کہا میں نہیں جانتا اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے یا اس نے اپنے رسول ﷺ کو بتایا ہوگا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ کو بلایا اور فرمایا کہ تم نے میری راہ میں قربانی کی اور جان دے دی.اب مانگو کیا مانگتے ہو اور طلب کرو جو تمہاری خواہش ہے میں دوں گا.تو اس نے جواب دیا کہ اے میرے خدا! میری ایک ہی خواہش ہے کہ تو مجھے زندہ کر دے اور میں پھر تیری راہ میں مارا جاؤں، پھر زندہ کر دے اور پھر میں تیری راہ میں مارا جاؤں اور یہی چیز تھی جسے مکہ کے کافروں نے صحابہ کے چہروں سے پڑھا اور کہا کہ مسلمانوں کے گھوڑوں اور اونٹوں پر آدمی نہیں بلکہ موتیں سوار ہیں.پس تم ہر ایک فتنہ سے احتراز کرو لیکن اگر کوئی حملہ کرے تو یہ آواز کوئی نہ سنے کہ تم وہاں سے بھاگ گئے.میرا ارادہ تھا کہ تحریک جدید کے بعض حصے ابتدائی تمہیدات کے بعد چند خطبوں میں بیان کروں گا مگر چونکہ اگلے جمعہ کو ممکن ہے کہ خطبہ موجودہ حالات کے لحاظ سے مجھے اور اغراض کے لئے استعمال کرنا پڑے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اس تحریک کا آج ہی اعلان کر دوں.میں نے گزشتہ سال بتایا تھا کہ یہ سیکیم تین سال کے لئے ہے مگر ہر سال میں اسے دہرایا کروں گا تا دوستوں کو اپنے عہد کو تازہ کرنے کا موقع ملتا رہے اور تا اگر کسی بات میں تبدیلی یا ترمیم کرنی ہو تو کی جاسکے.میں نے بتایا تھا کہ قربانی اچھی چیز ہے اور ہر مومن کی خواہش ہوتی ہے کہ قربانی کرے مگر جس قربانی کے لئے وہ سامان پیدا نہیں کرتا اس کی خواہش کرنا ایمان کی علامت نہیں بلکہ نفاق کی علامت ہے.جس شخص کے پاس ایک پیسہ بھی نہیں وہ اگر کہے کہ میرے پاس دس کروڑ روپیہ ہو تو میں خدا کی راہ میں دے دوں تو اس کی اس خواہش کی کیا قیمت ہے؟ ایسے کئی لوگوں کو جب مال مل جاتا ہے تو پھر وہ قربانی نہیں کرتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ میں لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ زکوۃ دیتے ہیں، صدقہ خیرات 183

Page 196

خطبہ جمعہ فرمودہ 15 نومبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول کرتے ہیں، غربا کو کھانا کھلاتے ہیں، نگوں کو کپڑے دیتے ہیں تو میرے دل میں حسرت پیدا ہوتی ہے کہ کاش میں بھی کروں.آپ دعا کریں اللہ تعالیٰ مجھے بہت سا مال دے.اس کے لئے ابتلا مقدر ہوگا آپ نے دعا کی اور وہ اتنا مالدار ہو گیا کہ صحابہ کا بیان ہے اس کے زکوۃ کے مال سے ایک وادی بھر جاتی تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ایک شخص اس کے پاس زکوۃ لینے کے لئے گیا تو اس نے کہا کہ بیوی بچوں کے اخراجات پورے کریں، مال مویشی کے چارہ اور ان کی دیکھ بھال کے لئے نوکروں پر خرچ کریں یاز کو دیں؟ محنت ہم کرتے ہیں اور زکوۃ دوسروں کو دیں ؟ اس شخص نے آکر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کا جواب سنا دیا.آپ کا قاعدہ تھا کہ ایسے لوگوں کو سزا دیتے تھے جو ز کوۃ نہ دیں لیکن اس کے متعلق آپ نے ایسا نہیں کیا بلکہ اسے یہ سزادی کہ فرمایا آئندہ اس سے کبھی زکوۃ نہ لی جائے کیونکہ آپ اسے نشان کے طور پر قائم رکھنا چاہتے تھے کچھ عرصہ کے بعد اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ مویشیوں کا ایک بڑا گلہ زکوۃ کے طور پر لے کر آیا جو اس قدر تھا کہ صحابہ کا بیان ہے کہ جہاں تک نظر جاتی تھی مویشی ہی مویشی نظر آتے تھے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے زکوۃ نہیں لی جائے گی اور وہ روتا ہوا واپس چلا گیا.اسی طرح وہ ہر سال آتا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی زکوۃ قبول نہ کرتے اور روتا ہوا چلا جاتا حتی کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا اور اس نے آکر کہا کہ اب تو میری توبہ قبول کر لی جائے مگر آپ نے فرمایا کہ لے جاؤ! جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہیں کیا اسے میں کیسے کر سکتا ہوں ؟ اس کا دستور تھا کہ ہر سال اسی طرح زکوۃ کا مال لاتا اور پھر روتا ہوا واپس چلا جاتا.تو کئی لوگ ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ اگر ہمارے پاس مال ہوتا تو یوں کرتے ، یوں کرتے لیکن ان کی مثال ایسی ہی ہے کہ جیسے کوئی بڑھا آدمی جو چار پائی پر پڑا ایڑیاں رگڑ رہا ہو، کہے کہ اگر مجھ میں طاقت ہوتی تو یوں جہاد کرتا.اگر ایک کنگال کہے کہ میرے پاس مال ہوتا تو میں یوں قربانی کرتا تو اس کا کیا ثبوت ہے کہ وہ ضرور ایسا کرتا ؟ اس کی سچائی اسی طرح معلوم ہو سکتی ہے کہ جو اس کے پاس ہے وہ پیش کرے یا جو قربانی اس کے لئے ممکن ہے اس کے لئے سامان مہیا کرے.قادیان کے ایک شخص کا واقعہ مجھے یاد ہے.اس سے جب کسی نے کہا کہ چندہ دیا کر تو اس نے کہا کہ قرآن کریم کا حکم : قُلِ الْعَفْوَ (البقره: 220) ہے یعنی جو بچے وہ دو اور ہم بچاتے ہی نہیں تو دیں کہاں سے؟ واقعی لطیفہ تو اسے خوب سوجھا! قرآن کریم 184

Page 197

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 15 نومبر 1935ء میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ عضو میں سے خرچ کرو اور عفو کے معنے زائد مال کے بھی ہیں لیکن اس کے معنے بہترین مال کے بھی ہیں.اگر بچنے کی شرط کو پیش کر کے سب لوگ کھائیں ، اڑائیں اور کہہ دیں کہ بچتا کچھ نہیں تو یہ اس امر کی علامت ہوگی کہ ان کے اندر ایمان نہیں.خالی دعووں کو کیا کرنا ہے جب حقیقت کچھ نہ ہو؟ پس اگر واقعی تمہارے اندر سچی خواہش ہے تو ایسا ماحول پیدا کرو جس میں قربانی ممکن ہو ورنہ خالی وعولی بے فائدہ شے ہے.دعویٰ کرنا تو مشکل نہیں بلکہ منافق زیادہ دعوے کیا کرتے ہیں.میں نے ایک دفعہ جلسہ سالانہ میں تقریر کی اور اس میں کہا کہ ہماری جماعت میں مال تو ہے مگر دیانت دار تاجر نہیں ملتے.شروع شروع میں میرے پاس بہت سے ایسے لوگ آتے تھے کہ ہمارے پاس روپیہ ہے وہ کسی کام میں لگوادیں.اب بھی آتے ہیں مگر اب چونکہ لوگوں کو پتہ لگ گیا ہے کہ میں ایسے روپیہ کو رد کر دیتا ہوں اور اس کی ذمہ داری نہیں لیتا اس لئے کم آتے ہیں تو میں نے بیان کیا کہ میرے پاس لوگ رو پید لاتے ہیں.اگر دیانت دار تا جرمل سکیں تو ان کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے اور روپیہ والوں کو بھی.اس تقریر کے بعد پانچ سات رفعے میرے پاس آئے کہ آپ کا سوال تو یہی تھا نہ کہ دیانتدار آدمی نہیں ملتے سو وہ وقت دور ہوگئی اور ہم اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں.آپ ہمیں روپیہ دلوادیں ہم دیانت داری سے کام کرنے والے ہیں.یہ لوگ سب کے سب ایسے تھے جن کے پاس پھوٹی کوڑی کا امانت رکھنا بھی میں جائز نہ سمجھتا تھا اور بعد میں بعض ان میں سے خیانت میں پکڑے بھی گئے.تو صرف منہ کا دعوئی کچھ نہیں بلکہ عمل سے اس کی تائید ہونی چاہئے جو اسی طرح ہو سکتی ہے کہ جو قربانی کی خواہش رکھتا ہے وہ اس کے مطابق ماحول بھی پیدا کرے.ایک شخص آتا اور کہتا ہے کہ میں خدا کے لئے اپنا سارا وقت قربان کرتا ہوں مگر ساتھ ہی یہ کہ دیتا ہے کہ میں چھ گھنٹے ڈیوٹی دیتا ہوں، آٹھ گھنٹے سوتا ہوں، دو گھنٹے نمازوں میں صرف کرتا ہوں، دو گھنٹے پاخانہ پیشاب میں گزر جاتے ہیں، دو گھنٹے سیر اور دو گھنٹے احباب سے بات چیت میں گزارتا ہوں اور باقی دو گھنٹے گھر میں زائد کام کرتا ہوں تو اس طرح چوبیس گھنٹہ کا حساب دے دینے کے بعد میں اس کے لئے چھپیں گھنٹے کس طرح بنا سکتا ہوں؟ اور اس سے کیا کام لے سکتا ہوں؟ اس کے اس دعوئی کا یہ مطلب ہے کہ یا تو وہ خود بے وقوف ہے اور یا مجھے بے وقوف سمجھتا ہے.اسے چاہئے کہ پہلے دو چار گھنٹے بچائے اور پھر یہ نہ کہے کہ میں سارا وقت پیش کرتا ہوں بلکہ کہے کہ تین گھنٹے میں پیش کر سکتا ہوں.دیانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ جب تم دعوی کرتے ہو تو اس کے پورا کرنے کے سامان بھی مہیا کرو ورنہ تم تمسخر کرتے ہو خدا سے اور تمسخر کرتے ہو اس کے رسول سے اور تمسخر کرتے ہو اس کے خلیفہ سے.185

Page 198

خطبه جمعه فرمود : 15 نومبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول اسی طرح ایک شخص کہتا ہے میں اپنی جان دین کے لئے پیش کرتا ہوں اور حقیقت وہ اپنی جان کسی اور کے پاس بیچ چکا ہوا ہے تو میں اس کے اس دعوی کو کیا کر سکتا ہوں؟ پس میں نے بتایا تھا کہ اگر واقعہ میں تمہارے اندر آگ ہے، عشق ہے، زندگی ہے اور قربانی کی خواہش ہے تو اس کے لئے ماحول پیدا کرو پھر تم مومن بن سکو گے اور پھر خدا کے گھر میں تمہاری عزت ہوگی.اگر ایسا نہیں تو تم خدا کو دینے نہیں آئے بلکہ اس سے لینے آئے ہو.دوسرے بات یہ کہی تھی کہ گنجائش کے علاوہ قربانی کی عادت بھی چاہئے.ہمارے ملک میں ملانوں کی قوم لالچی مشہور ہے.کہتے ہیں کوئی ملا کسی خشک کنوئیں میں گر گیا جو بہت گہرا نہیں تھا لوگ اسے نکالنے کے لئے جمع تھے اور کہتے تھے کہ ملا جی ہاتھ دو مگر وہ چپ چاپ کھڑا تھا.کوئی مسافر گزررہا تھا اس نے کہا کہ آپ لوگ ملانوں کا مزاج نہیں سمجھتے.دیکھو میں ملا کو نکالے دیتا ہوں ! یہ کہ کر وہ آگے بڑھا اور اپنا ہاتھ لٹکا کر کہا کہ ملا جی ذرا ہا تھ تو لینا! اس کا یہ کہنا تھا کہ ملا نے اُچک کر اُس کا ہاتھ پکڑ لیا.یوں تو یہ لطیفہ ہے مگر اس میں صداقت ضرور ہے یعنی جسے کسی کام کی عادت نہ ہو وہ اسے کر نہیں سکتا.عیسائیوں نے اس سے بہتر انتظام کر رکھا ہے.وہ صدقہ خیرات پادریوں کے سپرد کر دیتے ہیں اس لئے ان میں قربانی اور ایثار کا مادہ زیادہ ہوتا ہے.پس اول تو قربانی کے لئے سامان جمع کرو اور پھر اس کی عادت ڈالواگر سامان نہیں ہیں تو کہاں سے دو گے؟ جب مال بچاتے نہیں، جان کسی کے سپرد ہے، وقت سب تقسیم شدہ ہے تو خدا کو کیا دو گے؟ بے شک ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب سب کام کاج چھوڑ دینے کا حکم ہوتا ہے.ایسے موقع پر مخلص تو ضرور گھر بار سب کچھ چھوڑ کر آجائیں گے مگر اس سے پہلے پہلے جو قربانیاں ہیں جو لوگ انہیں بھی نہیں کر سکتے وہ یہ انتہائی قربانی کس طرح کر سکتے ہیں؟ ابھی تو صرف یہ کہا جاتا ہے کہ اپنی آمد کا ایک حصہ پیش کردو لیکن جو شخص یہ بھی نہیں کرتا وہ موقع آنے پر نوکری سے استعفیٰ دے کر کس طرح آجائے گا ؟ پس گزشتہ سال جو میں نے کہا تھا کہ قربانی کے لئے ماحول کی ضرورت ہے وہ آج بھی ویسی ہی ہے.ہمارے خلاف لوگوں میں اس قدر اشتعال بھر دیا گیا ہے کہ تبلیغ کا کام بہت مشکل ہو گیا ہے.بے شک اس سال بیعت گزشتہ سالوں کی نسبت زیادہ ہے مگر اس سال تبلیغ بھی تو گزشتہ سالوں سے بہت زیادہ ہوئی ہے اور جب محنت زیادہ اور نتیجہ کم ہو تو اس کا یہی مطلب ہے کہ ہم نے کچھ کھویا ہے پایا نہیں.پچھلے سال اگر کوئی چیز پانچ روپیہ سیر تھی اور تم پانچ روپے دے کر ایک سیر لے آئے اور اس سال وہ آٹھ روپیہ سیر ہواور تم دس روپیہ 186

Page 199

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 15 نومبر 1935ء دے کر سوا سیر لے آئے تو زیادہ خریدنے کی وجہ سے یہ نہیں کہیں گے کہ تم زیادہ مالدار ہو گئے جو چیز تم گھر میں لائے وہ گو زیادہ تھی مگر جور تم تم نے اس سال دی وہ نسبتا بہت ہی زیادہ تھی.پس دیکھنا یہ ہے کہ تم نے خرچ کیا کیا اور نتیجہ کیا نکلا؟ مجھے یقینی طور پر تو علم نہیں مگر مجھ پر یہ اثر ہے کہ بیعت اس سال زیادہ ہے مگر اس کے مقابلہ میں اس سال ہم نے تبلیغ پر جو زور دیا ہے وہ بھی پہلے سالوں سے بہت زیادہ ہے.پہلے سالوں میں اگر میں چالیس مبلغ کام کرتے تھے اور اس سال چھ سات سو مبلغین نے کام کیا ہے اس لئے اگر بیعت سوائی یا ڈیوڑھی بھی ہوگئی ہو تو یہ کوئی خوشی کا موقع نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مشکلات بڑھ گئی ہیں اور قربانی کی زیادہ ضرورت ہے.دشمن کا حملہ بھی زیادہ ہے گو احرار کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے شکست ہوئی ہے مگر ہمارے مخالف صرف احرار ہی نہیں جو لوگ ان کے مخالف ہیں وہ بھی ہماری مخالفت میں ان سے کم نہیں بلکہ آج کل تو مخلص مسلمان کی علامت ہی یہ ہوگئی ہے کہ ہم کو زیادہ گالیاں دے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ احرار کو ذلیل کرنے کے لئے جو پچاسوں واعظ پھر رہے ہیں وہ بھی ان کی مخالفت کرنے سے پہلے ہم کو گالیاں دے لیتے ہیں تا ان پر احمدی یا احمدی نواز ہونے کا الزام نہ آ سکے اور اس طرح ہماری مخالفت جو پہلے محدود اب زیادہ پھیل گئی ہے حتی کہ اب کے ڈسٹرکٹ بورڈوں کے جو انتخاب ہوئے ہیں ان میں بھی احمدیت یا احمدیوں کی حمایت کا سوال اٹھایا جاتا رہا ہے اور لوگوں نے اپنے مخالف کو شکست دینے کا ذریعہ ہی یہ سمجھا ہوا تھا کہ اسے احمدی یا احمدی نواز قرار دیا جائے.چنانچہ اس غرض کے لئے بیسیوں لوگوں نے مولویوں کو اور پیروں کو تمیں دے دے کر احمدیت کی مخالفت کروائی اس جدو جہد سے ہمارا نام تو بے شک پھیلا مگر ہمارے خلاف بغض بھی بڑھ گیا اور اس صورت حالات کا مقابلہ کرنا ہمارا فرض ہے ورنہ ایک دوسال میں ہمارے خلاف ایسی دیوار بن جائے گی جسے توڑنا بہت مشکل ہو گا.تم جس دل کو دلائل سے فتح کرنے کے لئے جاؤ گے اسے لوہے کی ایسی چار دیواری میں بند پاؤ گے کہ تمہارے دلائل اس سے ٹکر انکرا کر اسی طرح ضائع ہو جائیں گے جس طرح کوئی شخص مضبوط چٹان کے ساتھ اپنا سر ٹکر اٹکرا کر پھوڑ لیتا ہے.پس تم بھی اپنے ماحول کو وسیع کرو.ہشیار جرنیل لڑائی میں اپنی صفوں کو لمبا کرتے ہیں تا دشمن کے پہلوؤں پر سے گزر کر عقب میں سے اس پر حملہ کر سکیں.ان کے دشمن بھی اگر ہوشیار ہوتے ہیں تو وہ بھی اپنے بازوؤں کو پھیلاتے جاتے ہیں تا کہ حملہ آور اپنے اس ارادہ میں کامیاب نہ ہو سکے.پس جب ہمارا دشمن اپنی صفوں کو پھیلا رہا ہے تا کہ ہمارے لئے واپسی کا راستہ بھی باقی نہ چھوڑے تو ہمارا بھی فرض ہے کہ اپنی صفوں کو وسیع کریں.اس لئے اس سال پچھلے سال سے قربانی کی ضرورت زیادہ ہے اور میں دوبارہ 187

Page 200

خطبه جمعه فرمود : 15 نومبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول اعلان کرتا ہوں کہ اس سال بھی سادگی اور کفایت کا اصول مد نظر رکھا جائے.میں نے ممانعت کی تھی کہ کوئی احمدی سنیما، تھیٹر اور سرکس وغیرہ نہ دیکھے سوائے اس کے کہ کسی کو اپنی ڈیوٹی کے طور پر یا سرکاری حیثیت سے وہاں جانا پڑے.مثلاً بعض لوگ درباروں وغیرہ میں شامل ہوتے ہیں اور پروگرام کی تقاریب دیکھنی پڑتی ہیں یا سنیما میں کوئی احمدی ملازم ہو اور اللہ تعالیٰ نے اس کی روزی اس میں رکھی ہو تو اسے مشین وغیرہ دیکھنے کے لئے جانا ہوگا مگر وہ بھی تماشہ دیکھنے کے لئے نہ جائے.یہ امر اختیاری نہیں رکھا گیا تھا بلکہ لازمی تھا اور میں نے کہا تھا کہ تین سال تک ہر احمدی اس سے احتراز کرے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ تین سال کے بعد میں اجازت دے دوں گا بلکہ میں نے کہا تھا کہ اس کے بعد علماء سے مشورہ کر کے فتویٰ شائع کیا جائے گا اس وقت نظامی لحاظ سے میں تین سال کے لئے ممانعت کرتا ہوں.دوسری نصیحت یہ ہے کہ میں نے گزشتہ سال بتایا تھا کہ مال کے خرچ ہونے کی بڑی بڑی آٹھ جگہیں ہوتی ہیں: ایک کھیل تماشہ، دوسرے غذا، تیسرے لباس، چوتھے زیور، پانچویں علاج وغیرہ چھٹے آرائش ، ساتویں تعلیمی اخراجات اور آٹھویں شادی بیاہ وغیرہ.یہ آٹھ مواقع ہیں جن پر بیشتر حصہ روپیہ کا خرچ ہوتا ہے.جب تک ان آٹھوں میں حد بندی نہ کی جائے اس وقت تک خدا کے لئے قربانی کی آواز پر لبیک نہیں کہا جاسکتا.پس سینیما اور تھیٹر ، سرکس وغیرہ کی میں پھر ممانعت کرتا ہوں.اس کے بعد سادہ غذا ہے یہ میں نے اختیاری رکھا تھا مگر جماعت کے اکثر دوستوں نے اسے قبول کیا اس میں بھی میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں سمجھتا.ہر احمدی خواہ بڑا ہو یا چھوٹا امیر ہو یا غریب یہ اقرار کرے کہ صرف ایک سالن استعمال کرے گا سوائے اس کے جو یہ اقرار نہ کرنا چاہتا ہو مگر یہ چیز ایسی ہے کہ جو اسے اختیار کرنے کے لئے تیار نہیں اس کے اندر ضرور نفاق کی رگ ہوگی.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ دین کے لئے قربانی کرنے کی غرض سے ماحول پیدا کرنے کیلئے جو شخص زبان کا چسکا بھی نہیں چھوڑ سکتا وہ دین کے لئے قربانی کرنے والا سمجھا جا سکے؟ ایسا انسان کس منہ سے دعوی کر سکتا ہے کہ وہ خدا کے لئے اپنی جان قربان کرنے کو تیار ہے؟ جب وہ ایک سے زیادہ سالن قربان نہیں کر سکتا تو کس طرح امید کی جاسکتی ہے کہ جان قربان کر دے گا؟ ایسا شخص فریب خوردہ ہے.اس مطالبہ کو میں پھر دوہراتا ہوں اور تمام جماعتیں اپنے ہر فرد سے اقرار لیں کہ وہ ایک ہی کھانا استعمال کرے گا جسے میٹھا کھانے کی عادت ہو وہ اور دوسرے لوگ بھی کبھی کبھی میٹھا استعمال کر سکتے ہیں مگر یہ یاد رکھیں کہ تکلف نہ ہو ایک کھانے میں بھی انسان تکلف کر سکتا ہے.امرا پر اس قربانی کا زیادہ اثر ہوگا مگر ر با بھی اس قربانی میں شریک ہو سکتے ہیں کیونکہ اول تو وہ بھی کبھی کبھی دوکھانے 188

Page 201

تحریک جدید- ایک ابھی تحریک....جلد اول - الہی خطبہ جمعہ فرمودہ 15 نومبر 1935ء تیار کر لیتے ہیں دوسرے ثواب نیت کا ہوتا ہے.کسی کو کیا پتہ ہے کہ اگر آج وہ غریب ہے تو کل امیر نہیں ہو جائے گا؟ اگر وہ خدا سے اقرار کرے کہ حالت بدل جانے پر بھی اسی حالت پر قائم رہے گا تو کون کہہ سکتا ہے کہ ایسے شخص کو اس کی نیت کا ثواب نہیں ملے گا بلکہ اس میں فاقہ کش بھی شامل ہو سکتے ہیں کیونکہ بعض اوقات انہیں بھی صدقہ میں دو کھانے مل جاتے ہیں اور اگر وہ ایک کی قربانی کر دیں تو یہ قربانی امیر سے زیادہ سمجھی جائے گی.امیر کو روز میسر تھا مگر فاقہ کش کو اتفاق سے مل گیا اور اس نے خدا کے لئے اپنی خواہش کی قربانی کر دی تو امیر غریب سب کو اس میں شامل ہونا چاہئے.ہاں مہمان کے لئے ایک دوروز تک ایک سے زیادہ کھانے تیار کرانے کی اجازت ہے مگر جس نے کئی ماہ رہنا ہو وہ مہمان نہیں سمجھا جا سکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مہمانی تین روز کی ہے اور اگر مہمان بے تکلف ہو تو پسندیدہ امر یہی ہے کہ اس کے لئے بھی ایک ہی کھانا ہو.ہاں جس مہمان سے بے تکلفی نہیں اس کے لئے ایک سے زیادہ سالن بھی تیار کئے جاسکتے ہیں کیونکہ واقف مہمانوں کے متعلق تو انسان جانتا ہے کہ وہ کیا چیز پسند اور کیا نا پسند کرتے ہیں؟ مگر نئے مہمانوں کے متعلق ایسا علم نہیں ہوتا اور بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بعض چیزیں نہیں کھاتے مثلاً میں جب سے پیدا ہوا ہوں آج تک حلوا کر کبھی خوشی سے نہیں کھایا.ہاں بعض جگہ مجھے مجبوراً کھانا پڑا اور میں نے کھایا مگر اس حالت میں کہ اندر سے معدہ اس کو رد کرتا چلا جاتا تھا اور میں بامر مجبوری کھاتا جاتا تھا.پس بعض دفعہ اس خیال سے کہ ممکن ہے مہمان کو کوئی چیز پسند نہ ہو یا اسے کوئی بیماری ہو اور اس وجہ سے وہ کوئی خاص چیز استعمال نہ کر سکتا ہو اگر دوسرا کھانا پکا لیا جائے تو کوئی حرج نہیں.مثلاً مہمان کو بواسیر ہو تو تم نے بینگن پکائے تو ان کے کھانے سے اسے تکلیف ہوگی اسی طرح مہمان کے متعلق یہ بھی ہدایت ہے کہ اگر وہ سمجھتا ہے کہ میزبان کی دل شکنی نہ ہوگی تو وہ ایک کھانا کھائے.اس سال مجھے بھی بعض ایسی دعوتوں میں شامل ہونا پڑا جن میں ایک سے زیادہ کھانے پکائے گئے تھے مگر میں نے ایک ہی کھایا.پس مہمان کو عام صورتوں میں ایک ہی کھانے پر کفایت کرنی چاہئے لیکن اگر میزبان کی دل شکنی کا ڈر ہو یا غلط فہمی پیدا ہونے کا خوف ہو یا ادب اور احترام چاہتے ہوں کہ میزبان کی پیش کردہ شے کو استعمال کیا جائے تو پھر ایک سے زیادہ کھانے کا استعمال کیا جاسکتا ہے.مثلا کسی غیر احمدی کے ہاں احمدی کی دعوت ہو وہ اس نکتہ کو سمجھ ہی نہیں سکتا جو میں نے پیش کیا ہے.پس اس کی دل شکنی سے بچنے کے لئے دوسری چیز بھی کھالی جائے تو کوئی حرج نہیں.اسی سال ایک غیر احمدی نے میری دعوت کی میں نے ایک کھانے پر کفایت کی ، کھانے کے دوران میں وہ ایک چیز لائے اور کہا کہ یہ تو میں نے خاص طور پر آپ کے 189

Page 202

خطبه جمعه فرموده 15 نومبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول لئے تیار کروائی ہے یہ ضرور کھائیں.میں نے اس میں سے ایک لقمہ لے لیا تا کہ ان کی دل شکنی نہ ہو کہ یہ بھی گناہ ہے.پس چونکہ دوسرا کھانا شرعاً حرام نہیں ہے اس لئے ایسے موقع پر دوسری چیز کو بہ حد ضرورت استعمال کیا جاسکتا ہے.گو پوری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ایک ہی کھانا استعمال کیا جائے.پھر ادب اور احترام کا سوال بھی ہوتا ہے.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس میں تشریف رکھتے تھے کہ کوئی شخص دودھ لایا آپ نے پیا اور جو باقی بچا اسے کس کو دینا چاہا.آپ کے دائیں طرف ایک لڑکا تھا.اور بائیں طرف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے.آپ نے چاہا کہ دودھ ان کو دے دیں، ممکن ہیں حضرت ابو بکر دیر سے بیٹھے ہوں اور آپ نے اس خیال سے کہ بوڑھے آدمی ہیں ان کو دینا چاہا ہو یا اور کسی وجہ سے آپ ان کو دودھ دینا چاہتے ہوں، بہر حال آپ نے دودھ انہیں دینا چاہا مگر چونکہ آپ کا عام قاعدہ یہ تھا کہ دائیں طرف کو ترجیح دیتے تھے.آپ نے اس لڑکے سے پوچھا کہ میرے پینے سے کچھ دودھ بچا ہے اور میری عادت یہی ہے کہ دائیں طرف والے کو دیتا ہوں اس لئے یہ تمہارا حق ہے لیکن اگر تمہاری اجازت ہو تو میں ابوبکر کو دے دوں؟ اس لڑکے نے کہا یا رسول اللہ ! آپ کا حکم ہے یا مجھے اجازت ہے کہ جو چاہوں کہہ دوں؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں حکمتو نہیں بلکہ اگر تم چاہو تو لے سکتے ہو.اس پر اس نے کہا کہ پھر حضرت ابوبکر کے لئے میں تبرک تو نہیں چھوڑ سکتا لائیے دودھ میرے حوالے کیجئے.تو بعض ایسے مواقع ہوتے ہیں کہ میزبان کا ادب اور اس کا احترام چاہتا ہے کہ اس کی پیش کردہ چیز کو رد نہ کیا جائے.اس موقع پر ایک سے زیادہ کھانوں کی اجازت ہے مگر عام طور پر ایک ہی کھانا استعمال کرنا چاہئے.ہاں بیمار کے لئے کوئی حد بندی نہیں.ناشتہ میں چائے سالن نہ سمجھی جائے گی، چائے کے علاوہ روٹی کے ساتھ کوئی اور چیز بھی استعمال کی جاسکتی ہے.تیسری چیز لباس ہے.میں نے کہا تھا کہ جہاں تک ممکن ہو کم کپڑے بنوائے جائیں اور وہ بھی سادہ ہوں، عورتیں گوٹہ کناری استعمال نہ کریں، پھیری والوں سے کپڑا نہ خریدیں کہ اس طرح بلا ضرورت کپڑے خریدنے کی عادت پڑتی ہے اور صرف صحیح ضرورت پر کپڑا خریدیں اس ہدایت کو بھی میں پھر دو ہرا تا ہوں.پھر میں نے کہا تھا کہ زیور نہ بنوائے جائیں ، نہ پرانے تڑوا کر اور نہ نئے.ہاں ٹوٹے ہوئے کی مرمت کروائی جاسکتی ہے.شادی بیاہ کے متعلق میں نے کہا تھا کہ زیور کی اجازت ہے مگر جہاں تک ممکن ہو کم زیور بنوائے جائیں.اطبا اور ڈاکٹروں کو ہدایت کی تھی کہ وہ محض تجربے کرنے کے لئے نئی نئی قیمتی دوا ئیں نہ تجویز کیا 190

Page 203

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول خطبہ جمعہ فرمود : 15 نومبر 1935ء کریں.ہاں اگر کسی ایسی دوا کے سوا چارہ نہ ہو تو بے شک تجویز کر دیں کیونکہ انسانی جان بہر حال قیمتی ہے.عام طور پر آسان اور سستے نسخے تجویز کیا کریں.آرائش کے سامانوں کے متعلق کوئی قانون تو نہیں بنایا تھا مگر یہ کہا تھا کہ عام طور پر اس سے بچنا چاہئے.ہاں پرانی چیزوں سے عورتیں آرائش کی جو چیزیں بنا لیتی ہیں ان کی ممانعت نہیں.تعلیمی اخراجات کے متعلق میں نے کہا تھا کہ انہیں ہم کم نہیں کر سکتے مگر طالب علموں کو چاہئے کہ کھانے اور لباس کے اخراجات میں کمی کریں.اُستادوں کی ٹیوشن فیسوں اور کتابوں کے اخراجات کم نہیں کئے جاسکتے کیونکہ یہ بھی قوم کا سرمایہ ہے جس سے مال گھٹتا نہیں بلکہ بڑھتا ہے مگر کھانے اور لباس میں جس قدر کی ممکن ہوا نہیں کرنی چاہئے.شادی بیاہ کے متعلق میں نے کہا تھا کہ کوئی قواعد مرتب کرنے تو مشکل ہیں مگر اخراجات میں ضرور کمی کرنی چاہئے.ولیمہ کی دعوت میں بھی سادگی چاہئے.میں نے بتایا تھا کہ ڈوموں اور میراثیوں پر جو اخراجات ہوتے تھے ان کی جگہ اب ولیمہ نے لے لی ہے.معمولی سے معمولی آدمی بھی ولیمہ کرتا ہے تو سود وسو آدمی کو بلا لیتا ہے اس سے بھی احتراز کرنا چاہیئے.ان سب باتوں کا میں دوبارہ اعلان کرتا ہوں کیونکہ ان کے بغیر ہم قربانی کرنے کے قابل نہیں ہو سکتے.اس کے بعد میں یہ بتاتا ہوں کہ گزشتہ سال میں نے ساڑھے 27 ہزار روپیہ کا مطالبہ کیا تھا مگر جب بجٹ تیار کیا گیا تو وہ ستر ہزار کا بن گیا کیونکہ کئی اخراجات پہلے اندازہ میں نظر انداز ہو گئے تھے.مثلاً دفتر کے اخراجات، ہندوستان میں تبلیغ کے اخراجات، ہندوستان میں اشتہارات کی اشاعت وغیرہ.پھر یہ بھی خیال نہیں کیا گیا تھا کہ ہمیں آدمی سکھانے پڑیں گے اور ان پر اور ان کے اُستادوں پر خرچ کرنا پڑے گا.اس طرح بعض دوسرے اندازوں میں بھی غلطی ہوگئی تھی قرآن کریم کا ترجمہ شائع کرنے کے اخراجات بھی شامل نہیں کئے گئے تھے اس لئے ان سب کو ملا کر بجٹ ستر ہزار کا بن گیا تھا اور اب خیال یہ ہے کہ اسی ہزار خرچ ہو جائے گا.گو اس وقت تک عملاً کم رقم خرچ ہوئی ہے مگر پچھلے سال کے بجٹ میں سے ابھی پانچ ماہ باقی بھی ہیں.تحریک گو میں نے نومبر میں کی تھی مگر مارچ سے کام شروع کیا جا سکا تھا اور اصل کام مئی سے شروع ہوا.پس اس وقت گو کچھ رقم محفوظ ہے مگر وہ خرچ ہو جائے گی.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے جماعت کے اندر ایک ایسی روح پیدا کر دی کہ اس نے اسی ہزار روپیہ فراہم کر دیا ورنہ سارا بجٹ رہ جاتا.اس وقت تک جو کام ہوا ہے اس کی تفاصیل میں میں نہیں جاسکتا صرف اس قدر بتا دیتا ہوں کہ اس وقت جن شعبوں میں کام ہورہا ہے اور تمہیں چالیس آدمی 191

Page 204

خطبہ جمعہ فرمودہ 15 نومبر 1935ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد اول کام کر رہے ہیں بعض جگہ نئی جماعتیں بن گئی ہیں اور بعض جگہ بن رہی ہیں ان کے علاوہ ہم اس طرح بھی کام لے لیتے ہیں کہ جن غیر صوبہ سے کسی نے اپنے آپ کو تبلیغ کے لئے وقف کیا اسے اسی صوبہ میں لگا دیا.مثلاً بنگال کے ایک دوست نے اپنی چھٹی وقف کی اور ہم نے انہیں بنگال ہی میں ایک علاقہ میں بھیج دیا جہاں پہلے کوئی جماعت نہ تھی انہوں نے ایک ماہ کام کیا جس کے نتیجہ میں گیارہ آدمیوں کی جماعت وہاں قائم ہوگئی اسی طرح درجنوں دیہات ہیں جہاں نئی جماعتیں قائم ہو گئی ہیں.بہار اور پنجاب میں بھی کئی ایسے مبلغ ہیں جنہیں مقررہ حلقوں سے باہر لگا دیا جاتا ہے.سائیکلسٹ بھی کام کر رہے ہیں اور کئی اضلاع کی شہر شماری اور سروے کا کام کر چکے ہیں.ہندوستان سے باہر پانچ مبلغ بھیجے جاچکے ہیں اور 8 ، 9 اس سال کے لئے تیار ہورہے ہیں جن کے جانے کے بعد اور نئے آئیں گے.قرآن کریم کے ترجمہ کے لئے بھی تیاری ہورہی ہے اور تھوڑے دنوں میں ہی مولوی شیر علی صاحب ولایت جانے والے ہیں.اخبار سن رائز لاہور سے اور ایک مسلم ٹائمنر ولایت سے جاری ہوا ہے.ایک اخبار اردو میں شائع کیا جارہا ہے دو اخبار ایسے ہیں جو ہماری امداد سے چل رہے ہیں.ولایت کے اخبار کے متعلق غیر ممالک سے اطلاعات آئی ہیں کہ وہاں اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، چین سے اطلاع ملی ہے کہ وہاں لوگ اسے شوق سے پڑھتے ہیں.سن رائز نے بھی غیر ممالک کے نو مسلموں میں روح پھونکنے کے لئے بہت کام کیا ہے.امریکہ سے مجھے کئی خطوط نومسلموں کے پہنچے ہیں کہ پہلے جماعت سے ہمیں کوئی وابستگی معلوم نہ ہوتی تھی مگر اب سن رائز میں آپ کے خطبات کے تراجم شائع ہونے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ انہیں پڑھ کر ہم بھی اپنے آپ کو جماعت کا ایک حصہ سمجھنے لگے ہیں.چنانچہ امریکہ کے نومسلموں نے اس تحریک میں تین ہزار چندہ لکھایا ہے جس میں سے معقول رقم وصول ہو چکی ہے جو بہت بڑی کامیابی ہے کیونکہ وہ لوگ ایسی باتوں کے بالکل عادی نہیں ہیں اور بعض نے تو بالکل شرائط کے مطابق دیا ہے.امریکہ میں ایک گورے نو جوان وکیل ہیں، مبلغ امریکہ نے لکھا ہے کہ ان کی اتنی حالت خراب تھی اس لئے میں نے سمجھا کہ امرا کے لئے جو رقم مقرر کی گئی ہے ان کے ذمہ اتنی نہیں ڈالنی چاہئے مگر انہوں نے خود ہی آکر تین سو کا وعدہ لکھوادیا اور پھر اسے ادا بھی کر دیا.گویا جو لوگ اسلام کے دشمن تھے اور اس کا نام سننا بھی نہ چاہتے تھے ان کے اندر بھی زندگی کی نئی روح پیدا ہو رہی ہے.انشاء اللہ العزیز تھوڑے دنوں میں پندرہ میں نئے ممالک میں بھی تبلیغ کا کام با قاعدہ شروع ہو جائے گا.اعلان کے وقت یہ بات نظر انداز ہو گئی تھی کہ ان ممالک میں ان کی زبانوں میں لٹریچر کی ضرورت ہوگی لیکن اب اس ضرورت کا بھی احساس ہوا ہے اور پندرہ ہیں نئے ملکوں 192

Page 205

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبه جمعه فرمود : 15 نومبر 1935ء کو مد نظر رکھ کر جہاں تبلیغ شروع کی جائے گی ، لاکھوں روپیہ اس کام کے لئے بھی چاہئے ہوگا.گو میرا ارادہ ہے کہ اس کام کو تجارتی اصول پر چلایا جائے اور کتب کو زیادہ تر فروخت کیا جائے اور پہلی کتب کی فروخت پر اور کتب شائع کی جائیں مگر آٹھ دس زبانیں بھی چینی جائیں اور پندرہ ہزار کا سرمایہ فی ملک کے لئے وقف کیا جائے جو بہت کم ہے تو بھی ڈیڑھ لاکھ کی ضرورت اس غرض کے لئے ہے.بے شک یہ سب بار ایک سال میں نہیں پڑے گا لیکن اسے پانچ سال پر بھی تقسیم کیا جائے تو تمیں ہزار فی سال کی ضرورت ہوتی ہے.یہ کام ایسا ہے کہ اسے افراد کی جانی قربانی تکمیل تک نہیں پہنچا سکتی کیونکہ خواہ کتنے آدمی اپنی جان اور اپنا وقت قربان کر دیں قرآن کریم کا ترجمہ ایک زبان میں بھی شائع نہیں ہو سکتا.اس کام کو تو روپیہ ہی پورا کر سکتا ہے.چینی میں یہ کام شروع بھی ہو گیا ہے، ٹیچنگز آف اسلام یعنی تقریر جلسہ مہوتسو کا ترجمہ چینی میں ہو چکا ہے، احمدیت اور تحفتہ الامیر کا ترجمہ جلد ہونے والا ہے اور قرآن کریم کے ترجمہ کے لئے بھی مناسب آدمیوں کی تلاش ہو رہی ہے.انگریزی ترجمہ کی ٹائپ شدہ کاپی بھجوادی گئی ہے تا اسے سامنے رکھ کر ترجمہ کریں.عربی دان علما بھجوانے کی تیاری ہورہی ہے تاکہ ترجمہ کی صحت میں مدد دیں.جاپان میں بھی جلد اسلامی کتب اور قرآن کریم کے ترجمہ کی کوشش کی جائے گی صوفی عبد القدیر صاحب محنت سے جاپانی زبان سیکھ رہے ہیں تا کہ ترجمہ کی نگرانی کر سکیں.ایک ماہ تک ایک تحصیل یافته مبلغ ادھر روانہ ہو گا تا کہ عربی زبان کی مشکلات میں مدد دے سکے.غرض یہ سب اخراجات ہیں.ادھر بورڈنگ جدید کے اخراجات اور دفتر کے اخراجات کو بھی پہلے شامل نہ کیا گیا تھا مگر میرا ارادہ ہے کہ ہر سال ایک حصہ چندہ کا صدر انجمن احمد یہ کے نام پر کچھ تجارتی جائیداد خرید نے پر لگا دیا جائے تا کہ مستقل اخراجات چندہ پر نہ پڑیں بلکہ جائیداد کی آمد سے ادا ہوں.اس جائیداد کی آمد صرف تحریک جدید کے کاموں پر خرچ کی جائے.میں نے اس سال بھی کچھ روپیہ اس خیال سے لگایا ہے جس سے گیارہ بارہ سورو پیر کا منافع انشاء اللہ ہوگا لیکن یہ خیال بہت دیر کے بعد آیا ورنہ چھ سات ہزار کی آمد بہ سہولت پیدا کی جاسکتی تھی.آئندہ سال انشاء اللہ اس کام کو اچھی طرح چلایا جائے گا اور انشاء اللہ دفتر اور تحریک جدید کے بورڈنگ کے اخراجات چندہ سے نہیں بلکہ تجارتی آمد سے چلائے جائیں گے اور چندہ صرف ہنگامی کاموں کے لئے خرچ کیا جائے گا اس لئے اس سال میں پھر اس مالی تحریک کا اعلان کرتا ہوں لیکن ساتھ ہی دوستوں سے خواہش کرتا ہوں کہ وہ مالی قربانی میں پچھلے سال سے زیادہ حصہ لیں.میں دیکھتا ہوں کہ پچھلے سال کی قربانی دشمنوں کے لئے حیرت انگیز تھی مگر میرے نزدیک بعض دوست زیادہ حصہ لے سکتے تھے مگر انہوں نے کم حصہ لیا.اسی طرح ہندوستان کا 193

Page 206

خطبه جمعه فرموده 15 نومبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول سے باہر کی ہندوستانی جماعتوں نے اتنا حصہ نہیں لیا جتنا میرے نزدیک وہ لے سکتے تھے.کئی دوستوں نے تین سو کو آخری حد سمجھا حالانکہ یہ زیادہ تو فیق والوں کے لئے نیچے کی حد تھی اوپر کی حد نہ تھی مگر بعض نے بہت بڑی قربانی کا بھی ثبوت دیا.چنانچہ انہوں نے اپنی آمد کا قریباً 1/4 حصہ علاوہ دوسرے چندوں کے اس تحریک میں دیا اور کل رقم چھپیں سو کی گزشتہ سال میں ادا کی.یہ اعلیٰ درجہ کا اخلاص ہے.ان کے ہاں اولاد ہے اور ان کا نام لئے بغیر میں تحریک کرتا ہوں کہ دوست ان کے لئے ضرور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اولا د عطا کرے جو نیک اور دین کی خادم ہو.پس دوبارہ اس تحریک کا اعلان کرتے ہوئے اس امید کا اظہار بھی کرتا ہوں کہ دوست پہلے سے زیادہ اس سال حصہ لیں گے اور حقیقی قربانی کا ثبوت دیں گے تا ایمان کی قیمت میں اضافہ کا ثبوت مل سکے.جو شخص ایک سال خوشخطی کی مشق کرتا ہے یقیناً اگلے سال اس کا خط بہتر ہوتا ہے اس طرح قربانی کرنے والے کے ایمان میں بھی اضافہ ظاہر ہونا چاہئے.پس دوستوں کو اس امر کا ثبوت دینا چاہئے کہ گزشتہ سال کی قربانی نے ان کے ایمان میں اضافہ کیا ہے اور آج وہ پچھلے سال سے زیادہ خدا کی راہ میں تکلیف اٹھانے کے لئے تیار ہیں اور چاہئے کہ ہر جماعت کا چندہ پہلے سے بڑھ جائے اور ہر فرد کا چندہ پہلے سے زیادہ ہو سوائے اس صورت کے کہ کسی کے لئے ایسا کرنا ناممکن ہے اور میں جانتا ہوں کہ بعض کے لئے ایسا کرنا فی الواقع ناممکن ہے کیونکہ بعض نے اپنی اس سال کی آمد میں سے چندہ نہ دیا تھا بلکہ گزشتہ عمر کا اندوختہ سب کا سب دیا تھا ایسے دوست بے شک روپیہ کی صورت میں گزشتہ سال جتنا حصہ نہیں لے سکیں گے لیکن یقیناً ان کا اخلاص ضائع نہیں جائے گا.اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص اور گزشتہ سال کی قربانی کی وجہ سے اس سال ان کے ثواب کو رقم کے لحاظ سے نہیں بلکہ گزشتہ قربانی کے لحاظ سے بڑھائے گا.ان کے سوا جو لوگ ایسے ہوں کہ وہ بڑی زیادتی نہ کر سکتے ہوں ان کو بھی میں نصیحت کروں گا کہ وہ کچھ بڑھا دیں.مثلاً پانچ کی جگہ چھ کر دیں یا دس کی جگہ گیارہ کر دیں تا کہ ان کا قدم نیکی میں آگے بڑھے کھڑا نہ رہے.میں جماعت کو بتا چکا ہوں کہ ابتلاؤں کا ایک لمبا سلسلہ ان کے سامنے ہے، ایک نہ ختم ہونے والی جنگ ان کے سامنے ہے جسے خدا تعالیٰ کا ہاتھ ہی ختم کرے گا.گزشتہ قوموں سے زیادہ قربانیوں کی امیدان سے کی جاتی ہے کیونکہ ان کے سپر د دنیا کی آخری جنگ کا فیصلہ کیا گیا ہے.پس یاد رکھو! کہ جو اس وقت کی حقیر قربانی نہیں کر سکتا کہ یہ جو مطالبات میں کر رہا ہوں آئندہ کے مقابلہ پر بالکل حقیر ہیں، اسے اس سے بڑی قربانیوں کی توفیق نہیں مل سکے گی، جو آج چھوٹی کلاس کا سبق یاد نہیں کرتا وہ کل کے بڑے 194

Page 207

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبه جمعه فرمودہ 15 نومبر 1935ء امتحان میں ضرور فیل ہوگا، جو آج قربانی کی مشق نہیں کرتا وہ کل ضرور میدان کارزار سے بھاگے گا.منافق یہی کہتے ہوئے مر جائیں گے کہ ہائے چندہ! ہائے چندہ ! مگر ان کا ٹھکانہ خدا کے پاس نہیں ہوگا.ان کی باتوں میں نہ آؤ اور اگر کسی کا دل ایسا ہے کہ اس پر منافقوں کی باتوں کا اثر ہوتا ہے تو اسے چاہئے کہ علیحدہ ہو جائے منافق کی رفاقت ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر منافق تمہارے ساتھ ہوں گے تو تمہاری صفوں کو خراب کریں گے.پس ہر ایسا شخص پیچھے ہٹ جائے تو یہ بھی اس کی ایک خدمت ہوگی مگر یا درکھو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کوئی کھیل نہیں یہ شیطان سے جنگ کا آخری اعلان ہے.آج کل اٹلی اور حبشہ کی جنگ ہورہی ہے مگر اس کی کیا حقیقت ہے تمہاری اس جنگ کے مقابلہ میں ؟ لیکن اسی جنگ سے اٹلی ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہل گیا ہے.مسولینی نے بھی حکم دیا ہے کہ لوگوں کو گوشت کی ایک ہی ڈش ملے.یہ پہلا حکم ہے جو کسی ملک میں دیا گیا ہے اور یہ میرے حکم کے بعد کا ہے.اٹلی کے ڈکٹیٹر کا حکم ہے کہ تمام ملک میں ہر شخص گوشت کی ایک ہی ڈش استعمال کرے مگر ابھی وہ اس مقام پر نہیں پہنچا جو میں نے تجویز کیا تھا یعنی کسی قسم کا دوسرا سالن استعمال نہ کرو مگر بہر حال آج اٹلی کے لوگ ایک چھوٹی سی جنگ کے لئے ہر قسم کی قربانیاں کر رہے ہیں.اگر ہم خدا تعالیٰ کی بات پر ایمان رکھتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی عظمت پر یقین رکھتے ہیں تو ہمارے اندر اٹلی سے زیادہ جنبش پیدا ہونی چاہئے کیونکہ ہماری جنگ اس جنگ سے بڑی ہے اور جس قدر وہ بڑی ہے اسی قدر قربانی بھی بڑی ہونی چاہئے.یہ جنگ احادیث کے رو سے شیطان اور رحمن کی آخری جنگ ہے.پس جب تک تم اپنی زندگیوں کو روحانی سپاہیوں کے رنگ میں نہ ڈھال لو اور اپنے آپ کو خدا کے حکموں سے مقید نہ کر لو فتح حاصل نہیں کر سکتے.جنگ عظیم میں دو کروڑ آدمی مارے گئے یا زخمی ہوئے تھے اربوں ارب روپیہ خرچ ہوا تھا، صرف انگریزوں کا دو کروڑ روپیہ روزانہ صرف ہوتا تھا مگر ہمارے لئے اس سے بڑھ کر جنگ در پیش ہے کیونکہ ہمارا کام دلوں کا فتح کرنا اور انسانوں کی عادتوں اور اخلاق اور خیالات کو بدلنا ہے.ہم جب تک اپنے اوقات اور اپنے اموال کو ایک حد بندی کے اندر نہ لے آئیں اور اس کے بعد خدا تعالیٰ سے عرض نہ کریں کہ اے خدا تو نے ہمیں بلایا اور ہم تیرے حضور حاضر ہو گئے ہیں اس وقت تک سب دعوے باطل اور امنگیں اور خواہشیں بے سود ہیں اور کوئی چیز ہمیں فائدہ نہیں دے سکتی.خالی دعوے تو پاگل بھی کرتا ہے لیکن اس کے دعووں کو کون وقعت دیتا ہے؟ کیونکہ وہ جو کہتا ہے کرتا نہیں ہے اور عمل کے بغیر کوئی ترقی نہیں ہوتی.تحریک کے متعلق باقی حصے میں انشاء اللہ اگلے خطبات میں بیان کروں گا آج چندوں کے متعلق اعلان 195

Page 208

خطبہ جمعہ فرمود : 15 نومبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول کر دیتا ہوں اور اللہ تعالیٰ پر اس تحریک کی تعمیل کو چھوڑتا ہوں کہ یہ کام اسی کا ہے اور میں صرف اس کا ایک حقیر خادم ہوں.لفظ میرے ہیں مگر حکم اس کا ہے وہ غیر محدود خزانوں والا ہے اسے میرے دل کی تڑپ کا علم ہے اور اس کام کی اہمیت کو جو ہمارے سپرد ہے وہ ہم سے بہتر سمجھتا ہے.پس میں اسی سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ جماعت کے سینوں کو کھولے اور ان کے دلوں کے زنگ کو دور کرے تا وہ ایک مخلص اور باوفا عاشق کی طرح اس کے دین کی خدمت کے لئے آگے بڑھیں اور دیوانہ وار اپنی بڑی اور چھوٹی قربانی کو خدا تعالیٰ کے قدموں میں لا ڈالیں اور اپنے ایمان کا ایک کھلا ثبوت دے کر دشمن کو شرمندہ کریں اور اس کی ہنسی کو رونے سے بدل دیں اور نہ صرف یہ قربانی کریں بلکہ دوسرے مطالبات جو جانی اور وقتی قربانیوں سے تعلق رکھتے ہیں ان میں دل کھول کر حصہ لیں.اللهم یا رب آمین.ہاں دوستوں کو یہ ضرور یادر ہے کہ اس چندہ کا اثر صدر انجمن کے چندوں پر ہرگز نہ پڑے کہ ایک ہاتھ کو بچانے کے لئے دوسرا کاٹ دینا بے وقوفی ہے اور چاہئے کہ تحریک امانت کو بھی دوست نظر انداز نہ کریں اور جو دوست اس وقت تک حصہ نہیں لے رہے اس میں حصہ لیں اور جو کم حصہ لے رہے ہیں وہ اپنا حصہ اور بھی بڑھا دیں تا خدا تعالیٰ کی نصرت ان کے شامل حال ہو اور اس کا فضل ان پر بارش کی طرح نازل ہو.اے میرے رب ! اپنے اس غریب اور عاجز بندہ کی دعا کوسن اور ہر ایک جو میری آواز پر لبیک کہتا ہے تو اس سے ایسا ہی معاملہ کر.آمين يارب العالمين " ( مطبوع افضل 19 نومبر 1935ء) 196

Page 209

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد اول تقریر فرموده 17 نومبر 1935ء مبلغین جماعت احمدیہ کو نہایت اہم ہدایات تقریر فرمودہ 17 نومبر 1935ء مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کے طلبا نے احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن لاہور کے ممبروں کو جامعہ احمدیہ کے صحن میں دعوت چائے دی اور ایڈریس پیش کیا از راہ شفقت حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی اس تقریب میں شرکت فرمائی اور حسب ذیل تقریر فرمائی: ”جب میں کوئی ایسا اجتماع دیکھتا ہوں جس میں مدرسہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کے فارغ طلبا کا مشترک حصہ ہوتا ہے تو میرا دل اس خوشی کو محسوس کرتا ہے کہ ایسے زمانہ میں جبکہ میری زیادہ عمر نہ تھی اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ میں ان دونوں شعبوں کو مٹائے جانے میں روک بن سکوں اور ان کے قائم رہنے میں مدد دے سکوں گو وہ کام مادی لحاظ سے زیادہ اہمیت نہ رکھتا ہو لیکن میں سمجھتا ہوں کہ روحانی نقطہ نگاہ سے بہت بڑے نتائج پیدا کرنے والا ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات سے چند ماہ پہلے یہ سوال اُٹھا کہ ہماری جماعت کو مخالفین کا چونکہ علمی لحاظ سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے اس لئے ہمیں علماء کی ضرورت ہے اور ان کے لئے کوئی انتظام ہونا چاہئے اس سوال کے پیدا ہونے پر عام طور پر یہ احساس پیدا ہو گیا کہ اس کی صورت یہ ہے کہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کو بند کر دیا جائے اور تمام زور مدرسہ احمدیہ پر صرف کیا جائے اس وقت اس کے متعلق اس قدر غلو ہو گیا اور یہ معاملہ اس وقت کا اس قدرا ہم ترین مسئلہ بن گیا کہ اگر کوئی یہ کہتا کہ مدرسہ انگریزی بھی قائم رہنا چاہئے تو اس کے متعلق کہا جاتا کہ اس میں نفاق کی کوئی رگ ہے کیونکہ اس کے دل میں انگریزی مدرسہ قائم رکھنے کی خواہش ہے.اُس زمانہ کی جو شیلی طبائع کے مطابق آخر تمام وہ لوگ جو بولنے والے تھے اور اہل الرائے سمجھے جاتے تھے مومن بن گئے اور کمزور ایمان والے ہم دو سمجھے گئے یعنی حضرت خلیفتہ اسیح الاول اور میں.مجھے یاد ہے حضرت خلیفہ اسح اول کی طبیعت میں چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ادب بہت زیادہ تھا اس لئے خود کچھ عرض کرنے کی بجائے جو دلائل مدرسہ ہائی کے قائم رکھنے کے متعلق سوجھتے وہ مجھے سمجھاتے اور فرماتے حضرت مسیح موعود کو سناؤ.آخر میٹنگ ہوئی اور فیصلہ کیا گیا کہ مدرسہ ہائی کو قائم رکھا جائے اور مدرسہ احمدیہ کو لگ جاری کیا 197

Page 210

تقریر فرموده 17 نومبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول جائے.اس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ جس انسٹی ٹیوشن کی ضرورت کا انکار نہیں کیا جا سکتا اس کے کے قائم رکھنے کا موجب بنوں.اس تجویز کے مطابق مدرسہ احمدیہ قائم کیا گیا یا یوں کہنا چاہئے کہ اسے مضبوط کر دیا گیا کیونکہ کچھ جماعتیں پہلے جاری تھیں اس وقت عام طبائع میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ اچھے پیمانہ پر اسے چلانا چاہئے.اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مئی 1908 ء میں فوت ہوئے اور دوسرا جلسہ جو دسمبر 1908 میں ہوا اس میں جماعت کے سامنے یہ سوال رکھا گیا کہ مدرسہ احمدیہ کی غرض کیا ہے؟ صرف یہ کہ ملا پیدا کرے اور ملاؤں نے پہلے ہی دنیا کو تباہ کر رکھا ہے پھر اس مدرسہ سے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ یہ سوال جلسہ عام میں پیش کرنے کی بجائے مصلحتی مجلس شوری میں پیش کیا گیا جس میں ساری جماعتوں کے نمائندے موجود تھے.وہ لوگ جو اس وقت خاص اثر اور رسوخ رکھتے تھے یعنی خواجہ کمال الدین صاحب، ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب ، سید محمد حسین شاہ صاحب، مولوی محمد علی صاحب ان کی تجویز یہ تھی کہ تعلیمی وظائف بڑھا دئیے جائیں اور پاس ہونے کے بعد ان میں سے جو دین کی خدمت کے لئے زندگی وقف کریں انہیں ایک آدھ سال میں قرآن پڑھا کر مبلغ بنادیا جائے.نا معلوم کیا سبب ہوا ؟ اس وقت ہم تفخیذ الاذھان کا کام بھی کیا کرتے تھے، میں اس میں مصروف رہا یا کوئی اور کام تھا مجلس شوری کے شروع ہونے کے وقت میں وہاں نہ پہنچ سکا اور جب وہاں پہنچا تو خواجہ کمال الدین صاحب تقریر کر رہے تھے اور بڑے زور سے یہ کہہ رہے تھے کہ ہماری جماعت بڑی عقلمند ہے وہ کسی چیز کا ضائع ہونا گوارا نہیں کر سکتی ہمیں چونکہ انگریزی دان مبلغ چاہئیں اس لئے مدرسہ احمدیہ پر اس قدر خرچ کرنے کی ضرورت نہیں.اس وقت میں نے دیکھا کہ قریباً سب لوگ متاثر ہورہے تھے چنانچہ ان کی تقریر کے بعد کچھ اور لوگ کھڑے ہوئے اور انہوں نے ان کی تائید کی اور آوازیں آنے لگیں کہ ٹھیک ہے ایسا ہی ہونا چاہئے.اس قسم کی مجلس میں بولنے کا میرے لئے پہلا موقع تھا.اس وقت میں نے اس طرف توجہ دلائی کہ دنیا میں ہر چیز اپنے لئے ماحول چاہتی ہے اور اس کے لئے ضروری انتظامات کی ضرورت ہوتی ہے یہ خیال کر لینا کہ کوئی شخص کچھ دن دینیات کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دین سے پوری طرح واقف ہوسکتا ہے اور اس کے تاثرات دین کے متعلق ایسے مضبوط ہو سکتے ہیں جیسے اس شخص کے جسے بچپن سے دین کی تعلیم حاصل کرنے پر لگایا گیا ہو، یہ غلط ہے.دین سے صحیح واقفیت رکھنے والے علما پیدا کرنے کے لئے مدرسہ احمدیہ کی ضرورت ہے اور اُسے قائم رکھنا چاہئے.198

Page 211

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول تقریر فرموده 17 نومبر 1935ء پھر خدا تعالیٰ نے مجھے اس موقع پر ایک جذباتی دلیل بتادی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ مدرسہ احمدیہ کو آپ کی یاد گار بنا دیا جائے.میں نے کہا ہم سے پہلے کچھ لوگ تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ تھے ، جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رحلت فرمائی تو ایک عام بغاوت پھیل گئی اور ایسا خطرہ پیدا ہوا کہ مدینہ بھی محفوظ نہیں رہے گا اس وقت صرف تین مقامات پر نماز با جماعت ہوتی تھی اور بہت سے لوگوں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا تھا، اس وقت بعض صحابہ نے حضرت ابو بکر سے درخواست کی کہ آپ اس وقت ذرا نرمی سے کام لیں اور کچھ قوموں سے جو ز کوۃ دینے سے انکار کر رہی ہیں زکوۃ لینا چھوڑ دیں اس پر حضرت ابو بکڑ نے فرمایا اگر کوئی شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت اونٹ باندھنے کی رسی بھی زکوۃ میں دیتا تھا تو میں اُسے بھی نہ چھوڑوں گا خواہ خون کی ندیاں بہ جائیں اور خواہ خطرہ اتنا بڑھ جائے کہ مدینہ کی گلیوں میں صحابہ کی بیویوں کو دشمن گھسیٹتے پھریں.میں نے کہا ایک طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعض صحابہ آپ ﷺ کی ایک یادگار میں جو خاص طور پر آپ ﷺ کی طرف منسوب بھی نہیں تھی کچھ تغیر کرنے کے لئے کہتے حضرت ابوبکر صاف انکار کر دیتے ہیں اور ہر خطرہ کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں لیکن ادھر ہم یہ نمونہ پیش کر رہے ہیں کہ وہ مدرسہ احمد یہ جسے حضرت مسیح موعود کی یاد گار بنایا گیا تھا اس پر پورا سال بھی گزرنے نہیں پایا کہ اس کے بند کرنے پر تیار ہو گئے.رض میں سمجھتا ہوں میری اس دلیل نے لوگوں کو زیادہ اپیل کیا ادھر میں نے تقریر ختم کی اُدھر لوگوں نے کہنا شروع کر دیا مدرسہ احمدیہ ضرور قائم رہنا چاہئے.مجھے یاد پڑتا ہے میرے بعد شاید خان صاحب برکت علی صاحب بولے لوگوں نے کہا اب ہم اور کچھ سنا نہیں چاہتے مدرسہ احمدیہ کا قائم رکھنا ضروری ہے.جب اخلاص سے کوئی شخص بات کرتا ہے تو اس پر قائم بھی رہتا ہے مگر مدرسہ احمدیہ کو بند کرنے والوں میں چونکہ اخلاص نہ تھا اس لئے اپنی بات پر قائم نہ رہے.جب مدرسہ احمدیہ کو جاری رکھنے کے حق میں کوئی بات پیش ہوتی تو وہ کہہ دیتے یہی تو ہمارا مطلب تھا ہم بھی یہی کہتے تھے.آخر کہا گیا کہ یہ امر تمام جماعتوں کے سامنے پیش کیا جائے گا.انہوں نے سمجھا کہ اس وقت جذبات ٹھنڈے ہو جائیں گے اور مدرسہ احمدیہ کو بند کرنے پر لوگوں کو آمادہ کر سکیں گے.چنانچہ ایجنڈا میں اس تجویز کو جس رنگ میں درج کیا گیا اس سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ مدرسہ احمدیہ کا بند کرا نا منظور ہے لیکن جماعت کے لوگ چونکہ محسوس کر چکے تھے کہ مدرسہ احمد یہ ضروری چیز ہے اس لئے تمام جماعتوں کی 199

Page 212

تقریر فرمود : 17 نومبر 1935ء طرف سے یہی رائے آئی کہ مدرسہ احمدیہ قائم رہنا چاہئے.تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول پس جب میں کوئی ایسا اجتماع دیکھتا ہوں تو یہ دونوں باتیں جو میرے پچپن کے کام ہیں جوانی کے کئی کاموں سے زیادہ خوشنما اور پسندیدہ نظر آتے ہیں.میں آج بھی اسی خیال پر قائم ہوں جس پر اُس وقت تھا.قرآن کریم سے صراحتاً معلوم ہوتا ہے کہ ایک خاص جماعت کو دین کی خدمت کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَيكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ( آل عمران : 105) اور دوسری طرف فرماتا ہے: كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ( آل عمران: 111 ) سارے مومنوں کا فرض ہے کہ دعوت الی الخیر کریں.تو ایک خاص جماعت کا ہونا ضروری ہے اور یہ لازمی چیز ہے.کوئی فوج اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک اس کا ایک حصہ خاص کام کے لئے مخصوص نہ ہو اور تمام نیچر میں یہی بات نظر آتی ہے کہ ایک ذرہ مرکزی ہوتا ہے.مذہبی تبلیغ کے لئے بھی ایک ایسا مرکز ہونا چاہئے جو اپنے ارد گرد کو متاثر کر سکے اور دوسروں سے صحیح طور پر کام لے سکے یہی غرض مبلغین کی ہے لیکن عام طور پر خود مبلغین نے بھی ابھی تک اس بات کو نہیں سمجھا.وہ سمجھتے ہیں کہ وہ احمدیت کے سپاہی ہیں اور کام انہیں خود کرنا ہے مگر جو یہ سمجھتا ہے وہ سلسلہ کے کام کو محدود کرتا ہے.ہم خدمت دین کیلئے کس قدر مبلغ رکھ سکتے ہیں؟ اس وقت ساٹھ ستر کے قریب کام کر رہے ہیں جن کا جماعت پر بہت بڑا بوجھ ہے اور چندے کا بہت بڑا حصہ ان پر خرچ کرنا پڑتا ہے مگر وہ کام کیا کرتے ہیں؟ اگر کام کرنے والے صرف وہی ہوں تو سلسلہ کی ترقی بند ہو جائے.ان کے ذریعہ سال میں صرف دو تین سو کے قریب لوگ بیعت کرتے ہیں اور باقی جن کی تعداد کا اندازہ دس بارہ ہزار کے قریب ہے، جماعت کے لوگوں کے ذریعہ احمدیت میں داخل ہوتے ہیں.رہے مباحثات جو مبلغین کو کرنے پڑتے ہیں، یہ اسی وقت تک ہیں جب تک ہمارے ملک کے لوگوں کے اخلاق کی اصلاح نہیں ہوتی.مباحثات پبلک کے اخلاق کی خرابی کی وجہ سے کرنے پڑتے ہیں.جس طرح ہمارے ملک میں لوگ 200

Page 213

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول تقریر فرموده 17 نومبر 1935ء مرغبازی یا بٹیر بازی کے عادی تھے جسے قانون نے ایک حد تک روک دیا ہے وہ مولوی بازی کے بھی عادی ہیں، ایک مولوی ادھر کھڑا ہو جاتا ہے ایک اُدھر، ایک دوسرے کو چونچیں مارتے ہیں اور پبلک یہ تماشا دیکھ کر خوش ہوتی ہے.یہ دراصل گرے ہوئے اخلاق کا مظاہرہ ہوتا ہے اور یہ ہمارے لئے ایسا ہی ہے جیسا کہ طہارت کے لئے جانا پڑتا ہے.چوہڑے کے کام کو ذلیل سمجھا جاتا ہے مگر ایک وقت ہر انسان کو خود یہی کام کرنا پڑتا ہے.ایسا ہی یہ کام ہے کہ دوسرے ہم پر پاخانہ چھینکتے ہیں اور ہم اُسے دور کرتے ہیں.کوئی شخص اولا داس لئے نہیں پیدا کرتا کہ اس کی طہارت کرے مگر طہارت کا کام والدین کو کرنا ہی پڑتا ہے.اس طرح ہمارا یہ مقصد نہیں کہ علما مباحثات کے لئے پیدا کریں بلکہ علما کی غرض یہ ہے کہ وہ آفیسرز کی طرح ہوں جو اپنے اردگرد فوج جمع کریں اور اس سے کام لیں یا اس گڈریے کی طرح جس کے ذمہ ایک گلے کی حفاظت کرنا ہوتی ہے اور یہ کام دس میں مبلغ بھی عمدگی سے کر سکتے ہیں.جب تک ہمارے مبلغ یہ نہ سمجھیں اُس وقت تک ہمارا مقصد پورا نہیں ہو سکتا.مبلغ کے معنے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ غیروں کو مخاطب کرنے والا مگر صرف یہ معنے نہیں ہیں اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ غیروں کو مخاطب کرانے والا.رسول کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے بڑھ کر کون مبلغ ہو سکتا ہے؟ مگر آپ کس طرح تبلیغ کیا کرتے تھے ؟ اس طرح کہ شاگردوں سے کراتے تھے.صحابہ میں آپ نے ایسی روح پھونک دی کہ انہیں اس وقت تک آرام نہ آتا تھا جب تک کہ خدا تعالٰی کی باتیں لوگوں میں نہ پھیلا لیں.پھر صحابہ نے دوسروں میں یہ روح پھونکی اور انہوں نے اوروں میں اور اس طرح یہ سلسلہ جاری رہا حتی کہ مسلمانوں نے اس بات کو بھلا دیا تب خدا تعالیٰ نے اس روح کو دوبارہ پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا.اس طرح بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم ہی تبلیغ کر رہے ہیں.پس علما کا کام یہ ہے کہ وہ ایسے لوگ پیدا کریں جو دوسروں کو تبلیغ کرنے کے قابل ہوں، وہ خدمت گزاری اور شفقت علی الناس کا خود نمونہ ہوں اور دوسروں میں یہ بات پیدا کریں مگر عام طور پر مبلغ لیکچر دے دینا یا مباحثہ کر لینا اپنا کام سمجھتے ہیں اور خیال کر لیتے ہیں کہ ان کا کام ختم ہو گیا اس کا ایک نتیجہ تو یہ ہو رہا ہے کہ لوگ شکایت کرتے ہیں کہ علما بے کا ر رہتے ہیں.بات اصل میں یہ ہے کہ تقریر کرنے یا مباحثہ کرنے کے بعد مبلغ کو اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ کچھ آرام کرے کیونکہ بولنے کا کام مسلسل بہت دیر تک نہیں کیا جاسکتا بولنے میں زور لگتا ہے اور تقریر کے بعد انسان نڈھال ہو جاتا ہے.مبلغ سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ہر روز کئی کئی گھنٹے تقریر کرے اگر کوئی ایسا کرے تو چند ماہ کے بعد اُسے سل ہو جائے گی اور وہ مر جائے گا.پھر روزانہ کہاں اس قدر لوگ مل سکتے ہیں جو اپنا کام کاج چھوڑ کر تقریر سننے 201

Page 214

تقریر فرموده 17 نومبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول کے لئے جمع ہوں.پس یہ کام چونکہ ایسا نہیں جو مسلسل جاری رہ سکے اس لئے لوگوں کو شکایت پیدا ہوتی ہے کہ مبلغ فارغ رہتے ہیں.حالانکہ ان حالات میں ان کا فارغ رہنا قدرتی امر ہے.دراصل انہوں نے اپنے فرض کو سمجھا ہی نہیں وہ کہہ دیتے ہیں جب ہمارے پاس کوئی آیا ہی نہیں تو ہم سمجھا ئیں کسے ؟ اس وجہ سے ہم فارغ رہتے ہیں لیکن اگر وہ اپنا یہ فرض سمجھتے کہ ان کا کام صرف تقریر کرنا ہی نہیں بلکہ لوگوں کے اخلاق کی تربیت کرنا ہے.انہیں تبلیغ کرنے کے قابل بنانا ہے اور پھر وہ اپنا تصنیف کا شغل ساتھ رکھیں، جہاں جائیں لکھنے پڑھنے میں مصروف رہیں، کوئی ادبی مضمون لکھیں کسی مسئلے کے متعلق تحقیقات کریں ، ضروری حوالے نکالیں، تاریخی امور جمع کریں تو پھر ان کے متعلق یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ فارغ رہتے ہیں.یہ تاریخی مختلف کام ہیں جن کی طرف ہمارے مبلغین کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے اگر کوئی مبلغ کہیں جاتا اور وہاں تصنیف کا شغل بھی جاری رکھتا ہے تو لوگ یہ نہ کہتے کہ وہ فارغ رہا بلکہ یہی کہتے کہ لکھنے میں مصروف رہا مگر مبلغین کو اس طرف توجہ نہیں اور یہی وجہ ہے کہ تصنیف کا کام نہیں ہو رہا.ممکن ہے اس وقت بھی یہاں بعض مبلغ ہوں مگر دعوت چونکہ ان کی طرف سے ہے جو آئندہ مبلغ بننے والے ہیں اس لئے میں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ وہی طریق اختیار نہ کریں جو ان سے پہلوں نے کیا اور جس کی وجہ سے نو حصے کام ضائع ہوا اور صرف ایک حصہ ہو رہا ہے اس طرح جماعت کی ترقی نہیں ہو سکتی کیونکہ جو مبلغ اپنے اوقات کی حفاظت نہیں کرتے اور انہیں صحیح طور پر صرف نہیں کرتے وہ جماعت کے لئے ترقی کا موجب نہیں بن سکتے.جو لوگ آئندہ مبلغ بننے والے ہیں وہ اپنے اوقات کی پوری طرح حفاظت کرنے کا تہیہ کریں ان کا کام صرف اپنے منہ سے تبلیغ کرنا نہیں بلکہ دوسروں کو دینی مسائل سے آگاہ کرنا، ان کے اخلاق کی تربیت کرنا، ان کو دین کی تعلیم دینا، ان کے سامنے نمونہ بن کر قربانی اور ایثا رسکھانا اور انہیں تبلیغ کے لئے تیار کرنا ہے.گویا ہمارا ہر ایک مبلغ جہاں جائے وہاں دینی اور اخلاقی تعلیم کا کالج کھل جائے.کچھ دیر تقریر کرنے اور لیکچر دینے کے بعد اور کام کئے جا سکتے ہیں مگر متواتر بولا نہیں جاسکتا کیونکہ گلے سے زیادہ کام نہیں لیا جا سکتا مگر باقی قومی سے کام لے سکتے ہیں.میں تقریر کرنے کے بعد لکھنے پڑھنے کا کام سارا دن جاری رکھتا ہوں.اب تقریر کرنے کے بعد جا کر تحریر کا کام کروں گا اور پھر شام تک گلے کو کچھ آرام حاصل ہو جائے گا تو درس دوں گا.انشاء اللہ.پس میں مبلغین کو یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے اپنا کام اب جو سمجھا ہوا ہے وہ ان کا کام ہے.یہ بہت چھوٹا اور محدود کام ہے.افسر کا کام یہ نہیں ہوتا کہ سپاہی کی جگہ بندوق یا تلوار لے کر 202

Page 215

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول تقریر فرمودہ 17 نومبر 1935ء لڑے بلکہ اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ سپاہیوں کو لڑائے اس طرح مبلغ کا کام یہ ہے کہ جماعت کو تبلیغ کا کام کرنے کے لئے تیار کرے اور ان سے تبلیغ کا کام کرائے.اس طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کی ترقی ہو سکتی ہے، پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھ سکتی ہے.اسی طرح جماعت کی تربیت کی طرف مبلغین کو توجہ کرنی چاہئے ، جماعت کے بے کاروں کے متعلق تجاویز سوچنی چاہئیں ، بیاہ شادیوں کی مشکلات کو حل کرنے کیلئے جد و جہد کرنی چاہئے.غرض جس طرح باپ کو اپنی اولاد کے متعلق ہر بات کا خیال ہوتا ہے اس طرح مبلغین کو جماعت سے متعلق ہر بات کا خیال ہونا چاہئے کیونکہ وہ جماعت کے لئے باپ یا بڑے بھائی کا درجہ رکھتے ہیں اور ہر نقص کو رفع کرنا ان کا کام ہے.جب وہ یہ کام کریں گے تو لازمی طور پر جماعت کے لوگوں کے تعلقات ان کے ساتھ بڑھیں گے، ان سے خلوص اور تعاون بڑھے گا اور اس طرح وہ دیوار، جو حائل ہے اور جس کو دور کرنے کے لئے دونوں طرف سے تقریریں کی گئی ہیں، حائل نہیں رہے گی.کیا ایک مولوی کا بیٹا جب ایم اے ہو جائے تو باپ کو اس سے محبت نہیں رہتی یا اگر کسی کا بیٹا عربی کی تعلیم حاصل کرلے تو اسے اپنے ماں باپ سے محبت نہیں رہتی ؟ در اصل نہ عربی صحبت کرنے سے روک دیتی ہے نہ انگریزی بلکہ آپس کے تعلقات کی کمی اور ایک دوسرے سے تعاون کی روح نہ ہونے کی وجہ سے دیوار حائل ہونے لگتی ہے.اگر ہمارے انگریزی دان اور عربی دان مبلغین میں تعلقات بڑھیں اور وہ ایک دوسرے سے تعاون کریں تو اپنے آپ ہی متحد ہوتے چلے جائیں گے.اللہ تعالیٰ دونوں جماعتوں ، انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن اور جامعہ والوں کو اخلاص اور تقویٰ عطا کرے اور ان میں قربانی کا صحیح جذبہ پیدا کرے اور صحیح طور پر اسلام کی خدمت کا موقع دے.“ ( الفضل 21 نومبر 1935 ء ) 203

Page 216

Page 217

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبه جمعه فرموده 29 نومبر 1935ء جماعت احمدیہ کی قربانیوں کی کوئی حد نہیں مقرر کی جاسکتی تحریک جدید کے دوسرے سال کیلئے مالی قربانی کا مطالبہ خطبہ جمعہ فرمودہ 29 نومبر 1935ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں نے پچھلے سے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں چندہ تحریک جدید کے متعلق اعلان کیا تھا.اس وقت تک اس کے متعلق جو وعدے آچکے ہیں وہ میرے اندازہ میں اٹھارہ ہزار کے ہیں ان میں صرف تین یا چار جماعتوں کے وعدے ہیں باقی افراد کی طرف سے ہیں.ان کی زیادتی کا میں صحیح اندازہ تو نہیں کر سکتا مگر اس وقت تک کے وعدوں سے پتہ لگتا ہے کہ اس سال پینتیس فیصدی کی زیادتی ہے یعنی اٹھارہ ہزار کے وعدے جن لوگوں کی طرف سے ہیں گزشتہ سال ان کے وعدے ساڑھے تیرہ ہزار کے تھے اور ابھی ان میں وہ وعدے بھی شامل ہیں جو یا تو گزشتہ سال کے برابر ہیں اور یا گزشتہ سال سے کم ہیں ورنہ افراد کو لیا جائے تو بعض نے ڈیوڑھا بعض نے دُگنا وعدہ کیا ہے اور بعض نے اس سے کم زیادتی کی ہے.یہ یاد رکھنا چاہئے کہ بعض مخلصین نے گزشتہ سال اپنا سارا اندوختہ دے دیا تھا اور جس نے اپنا سارا اندوختہ گزشتہ سال دے دیا ہو وہ یقیناً اس سال گزشتہ سال کے برابر حصہ نہیں لے سکے گا.ان کے علاوہ بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو گز شتہ سال کچھ نہ کچھ ذرائع آمدنی رکھتے تھے مگر اس سال نہیں رکھتے.پھر بعض ایسے بھی ہیں جن پر اس سال میں کوئی مالی بوجھ پڑ گیا ہے باقی لوگوں میں سے جو دینے کے قابل تھے اکثر ایسے ہیں جنہوں نے اپنا چندہ بڑھایا ہے بعض نے کم زیادتی کی ہے مگر اس اصول کو مد نظر رکھا ہے جس کا میں نے اعلان کیا تھا کہ جو لوگ زیادتی نہ کر سکیں وہ قلیل زیادتی ضرور کر دیں تا ان کا قدم پیچھے نہ رہے.مثلاً دس دینے والے ساڑھے دس کر دیں مگر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کافی حصہ ایسا ہے جس نے ہیں، پچیس ، پچاس فیصد کی زیادتی کی ہے اور بعض نے دو گنا کر دیا ہے.میں پہلے بتا چکا ہوں کہ اس تحریک کی غرض عارضی نہیں ہے وہ وقت آ رہا ہے جب ہمیں ساری دنیا کے دشمنوں سے لڑنا پڑے گا.دنیا سے مراد یہ نہیں کہ ہر فرد سے لڑنا پڑے گا کیونکہ ہر قوم اور ہر ملک میں شریف لوگ بھی ہوتے ہیں میرا مطلب یہ ہے کہ تمام ممالک میں ہمارے لئے رستے بند کرنے کی کوششیں 205

Page 218

خطبه جمعه فرموده 29 نومبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول ہو رہی ہیں پس ہماری جنگ ہندوستان تک محدود نہ رہے گی بلکہ دوسرے ملکوں میں بھی ہمیں اپنے پیدا کرنے والے اور حقیقی بادشاہ کی طرف سے جنگ کرنی ہوگی.اگر تو احمد بیت کوئی سوسائٹی ہوتی تو ہم یہ کہہ کر مطمئن ہو سکتے تھے کہ ہم اپنے حلقہ اثر کومحدود کر لیں گے اور جہاں جہاں احمدی ہیں وہ سمٹ کر بیٹھ جائیں گے مگر مشکل یہ ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہے کہ جو بات اس کی طرف سے آئی ہے اسے ساری دنیا میں پہنچا ئیں اور ہم نے اسے پہنچانا ہے.ہمارا پروگرام وہ نہیں جو ہم خود تجویز کریں بلکہ ہمارا پروگرام ہمارے پیدا کرنے والے نے بنایا ہے اور ہم اس میں کوئی شععہ بھی کم و بیش نہیں کر سکتے.مجھے یاد ہے غالباً یہ 1911 ء یا 1912ء کی بات ہے کہ ایک دن شیخ یعقوب علی صاحب میرے پاس آئے اور کہا کہ خواجہ صاحب سے میری باتیں ہوئی ہیں اور میں اس لئے آیا ہوں کہ آپ تک ان باتوں کو پہنچا دوں ، اس وقت اختلافات شروع ہو چکے تھے اور نبوت و کفر و اسلام کے مسائل زیر بحث تھے میرا خیال ہے کہ یہ 1911ء یا 1912 ء کے ابتدا کی بات ہے کیونکہ اس کے بعد خواجہ صاحب ولایت چلے گئے تھے، ان مسائل کے زیر بحث آنے کی وجہ سے جماعت میں ایک پریشانی اور حیرانی سی پیدا ہو چکی تھی کہ اب کیا بنے گا؟ شیخ صاحب نے خواجہ صاحب سے گفتگو کی اور مجھے کہا کہ خواجہ صاحب نے پیغام بھیجا ہے کہ وہ ہر طرح صلح کے لئے تیار ہیں اور کہ اگر میں بھی تیار ہوں تو انہیں کوئی انکار نہیں.شیخ صاحب پر ان کی اس گفتگو کا اتنا اثر تھا کہ انہوں نے گھر پر آکر ہی مجھے بلایا، وہ دروازہ اب نہیں رہا پہلے مسجد مبارک کو جو چھوٹی سیڑھیاں چڑھتی ہیں ان کے ساتھ ایک دروازہ ہوا کرتا تھا اور اس سے گزر کر ایک چھوٹا سا صحن تھا اس کے آگے پھر ایک دروازہ تھا جس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آتے جاتے تھے، شیخ صاحب نے اس اندر کے دروازہ پر آکر دستک دی اور مجھے بلوایا اور کہا کہ خواجہ صاحب سے میری گفتگو ہوئی ہے اور میری طبیعت پر گہرا اثر ہے کہ خواجہ صاحب کی بھی خواہش ہے کہ کوئی ایسی تدبیر کی جائے جس سے فساد دور ہو جائے.میں نے انہیں کہا کہ فساد تو میں بھی نہیں چاہتا آپ خواجہ صاحب سے پوچھ لیں کہ اگر تو ان سے جھگڑا کسی دنیوی چیز کے لئے ہے، کوئی چیز میرے پاس ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کا حق ہے یہ انہیں مل جانی چاہئے تو میں بغیر کسی عذر کے ان کو دے دیتا ہوں ان کو اختیار ہے کہ مجھ سے پوچھے بغیر اسے لے جائیں لیکن اگر اختلاف عقائد کے متعلق ہے تو یہ نہ ان کا حق ہے نہ میرا کہ بعض باتوں کو چھوڑ کر کوئی درمیانی راہ اختیار کرلیں اور اس طرح صلح نہیں ہوگی بلکہ فساد بڑھے گا اور ہم دونوں دین کے دشمن اور غدار ثابت ہوں گے.206

Page 219

جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 29 نومبر 1935ء پس حقیقت یہ ہے کہ احمدیت ایک مذہبی تحریک ہے یا دوسرے لفظوں میں اسلام کا دوسرا نام ہے کوئی نیا مذہب نہیں بلکہ نیا فرقہ بھی نہیں صرف نام کی شناخت کے لئے احمدیت کا لفظ بولا جاتا ہے ورنہ احمدیت در حقیقت نام ہے اس اسلام کا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں لائے.بعض مسلمانوں کی غفلت اور دست برد سے اس میں کئی خرابیاں پیدا ہو گئیں اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث کیا اور آپ کو قرآن کریم کی وہی تشریح سمجھائی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سمبھائی تھی.پس یہ نام صرف امتیاز کے لئے ہے ورنہ احمدیت کوئی حقیقت نہیں جب تک اس کا ترجمہ اسلام نہ کریں.اب سوال یہ ہے کہ کیا اسلام میں کوئی کمی بیشی ہو سکتی ہے؟ کیا اس میں کوئی تبدیلی کی جاسکتی ہے؟ کیا قرآن کا کوئی شععہ بھی بدلا جا سکتا ہے؟ اگر یہ ہو سکتا ہے تو ہم بھی خیال کر سکتے ہیں کہ ہم اپنے کام کی تجاویز اور تفاصیل حالات کے مطابق ڈھال لیں گے لیکن جب یہ غلط ہے کہ اسلام میں کوئی رد و بدل ممکن ہو تو یہ بھی ممکن نہیں کہ ہم اپنے پروگرام کو حالات کے مطابق ڈھال لیں.جب اسلام پہلی دفعہ دنیا میں آیا تو اس وقت بھی ساری دنیا نے اس سے لڑائی کی اور چاہا کہ یہ نہ پھیل سکے اور اسے غلبہ حاصل نہ ہو لیکن خدا نے اسے پھیلا دیا اور لوگوں کی باتوں کی پروا نہیں کی، اللہ تعالیٰ نے انکار کیا ہر بات سے سوائے اس کے کہ وہ اپنے نور کو کامل کرے.اسی طرح اب بھی ہوگا چاہے دشمن شرارت میں حد سے بڑھ جائیں اور دوست ہمت ہار بیٹھیں خدا تعالیٰ نے جو بات کہی ہے وہ ہو کر رہے گی اور اگر ہم اس سے ذرا بھی ادھر اُدھر ہوں تو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت جاتی رہے گی.آگے بھی اللہ تعالیٰ نے جو کچھ کیا ہے ہمارے لئے نہیں کیا.آپ میں سے ہر ایک کو یہ سوچنا چاہئے کہ کیا ہماری حیثیت اتنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہر چیز ہماری خدمت پر لگ جائے ؟ ہماری حیثیت ہے کیا ؟ ایک چیونٹی یا مکھی کو ہاتھی سے جو نسبت ہوتی ہے دنیا کے مقابلہ میں ہماری نسبت اس سے بھی کم ہے لیکن یہ چاند اور ستارے جن کے دنیا سے فاصلوں کا بھی تاحال علم نہیں ہوسکا اب تک جو تحقیقات ہوئی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ روشنی ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ اسی ہزار میل چلتی ہے، ایک منٹ میں ساٹھ سیکنڈ اور ایک گھنٹہ میں ساٹھ منٹ ہوتے ہیں، چوبیس گھنٹوں کا ایک دن تمہیں دنوں کا ایک مہینہ اور تین سو ساٹھ دنوں کا ایک سال ہوتا ہے.دنیا نے اس وقت تک جو علم حاصل کیا ہے وہ یہی ہے کہ دنیا کا باہم فاصلہ بارہ ہزار روشنی کے سالوں کا ہے یعنی بارہ ہزار کو تین سو ساٹھ سے ضرب دو جو تیجہ نکلے اسے تمہیں سے اس کے ماحصل کو چوٹیں سے اور پھر اسے ساٹھ سے اور اس کے ماحصل کو پھر ساتھ سے ضرب دو تو یہ اتنے میں بنتے ہیں کہ ان کے پڑھنے پر بھی خاصہ وقت خرچ ہوتا ہے اور ابھی معلوم نہیں نئی 207

Page 220

خطبہ جمعہ فرموده 29 نومبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول تحقیقاتوں کے نتیجہ میں اس فاصلہ میں اور کتنا اضافہ ہو جاتا ہے.آج سے چند سال قبل یہ فاصلہ صرف تین ہزار روشنی کے سالوں کا سمجھا جاتا تھا.اتنے بڑے عالم کو اللہ تعالیٰ نے جو انسان کی خدمت پر لگایا ہوا ہے تو یقیناً انسانی اعمال اس خدمت کا مقصود نہیں ہو سکتے.ذرا غور تو کرو کہ کروڑوں سال سے اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام کر رکھا تھا کہ ایک رمضان کے مہینہ میں سورج اور چاند کو خاص تاریخوں میں گرہن لگے تا اس گمنام بستی میں پیدا ہونے والے ایک شخص کی سچائی دنیا پر ثابت ہو.اسے دیکھ کر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ انسانوں کے لئے ہو رہا ہے؟ نہیں بلکہ سچائی کی خاطر ہو رہا ہے، اس لئے ہو رہا ہے کہ تا خدا کا نور دنیا میں پھیل سکے.پس کیا کوئی خیال کر سکتا ہے کہ جس امر کے لئے خدا تعالیٰ نے اس قدر وسیع نظام بنایا ہے اسے معمولی عذروں سے وہ نظر انداز کر دے گا؟ کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ وہ اتنا بڑ ا سلسلہ چلانے کے بعد تمہارا یہ عذر قبول کرلے گا کہ مخالفت اور مشکلات بہت تھیں اس لئے ہم چپ کر کے بیٹھ گئے یا یہ عذر کسی کا قبول کر لے گا کہ ایک عرصہ تک قربانی کے بعد میں آرام کرنے کے لئے بیٹھ گیا تھا ؟ ایک ادنی سی چیز بنانے کے لئے ہزاروں روپیہ کی قربانی کرنی پڑتی ہے، ایک چھوٹے سے ملک کے لئے ہزاروں لاکھوں جانوں کو قربان کر دیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے نور کو پھیلانے اور دائمی سچائی کو دنیا میں قائم کرنے کے مقابلہ میں ہماری ہستی ہی کیا ہے کہ قربانی کے وقت ہماری طرف سے کوئی عذر قبول کیا جا سکے؟ ہمیشہ اس مقصد کو سامنے رکھو جس کے لئے خدا نے تمہیں پیدا کیا ہے.جب صبح کے وقت گھروں میں آگ جلائی جاتی ہے تو تمہاری مائیں ، تمہاری بیٹیاں تمہاری بہنیں اور تمہاری بیویاں یا جن کو اللہ تعالیٰ نے وسعت دی ہے ان کی ملازم عورتیں جب او پلے کو تو ڑ کر آگ میں ڈالتی ہیں تو کیا کوئی رحم ان کے دل میں پیدا ہوتا ہے یا اس کی کوئی اہمیت تم سمجھا کرتے ہو؟ پس اچھی طرح یا درکھو کہ جس طرح اس وقت کسی کو یہ خیال نہیں آتا کہ اوپلے کو آگ میں ڈالا جا رہا ہے اور یہ بات کوئی اہمیت رکھتی ہے اسی طرح اس مقصد کے حصول کے لئے جس کے لئے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث کیا ہے یعنی اسلامی صداقتوں کے احیا کے لئے تمہاری قربانیوں کی کوئی بھی قیمت نہیں کیونکہ اس مقصد کے مقابلہ میں جس کے لئے تمہیں پیدا کیا گیا ہے یہ قربانیاں کچھ بھی نہیں.رحم وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں قربان ہونے والی چیز اس سے زیادہ قیمتی ہو جس کے لئے وہ قربان کی جاتی ہو یا وہاں کہ قربان ہونے والی شے فنا ہو رہی ہو.دیکھو او پلا فنا ہوتا ہے مگر تمہارے دل میں کوئی رحم پیدا نہیں ہوتا اس لئے کہ وہ اپنے سے بہتر وجود پیدا کرنے میں مدد دے رہا ہوتا ہے مگر ہماری قربانی تو او پلے کی قربانی کے برابر بھی نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ ہمیں آگ میں ڈال کر فنا نہیں کرتا بلکہ 208

Page 221

تحریک جدید - ایک البی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرمود: 29 نومبر 1935ء کندن بناتا اور ترقی دیتا ہے.سو نہ صرف یہ کہ ہمارا مقصد اتنا اعلیٰ ہے کہ کوئی قربانی اس کے مقابلہ میں حقیقت نہیں رکھتی کیونکہ ہم فنا نہیں ہوتے بلکہ شکل تبدیل کر کے اعلیٰ درجہ حاصل کر لیتے ہیں اس لئے ہماری قربانیاں اور تکلیفیں ایسی نہیں کہ انہیں مد نظر رکھتے ہوئے اصل مقصد کو بھلا دیا جائے.پس ضرورت صرف نقطہ نگاہ کی تبدیلی کی ہے.اسلام احمد بیت کا نام ہے وہی اسلام جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں لائے مگر اسلام نام اس چیز کا نہیں کہ ظہر اور عصر کی نمازوں کی چند رکعتیں پڑھ لو یہ تو قشر ہے.اسلام نام ہے اللہ تعالیٰ کی صداقت اور اس کے نور کے دنیا میں قائم ہو جانے کا اور نور الہی کی شعاعوں کے پھیلنے میں جو چیزیں حائل ہیں ان کو مٹا دینے کا.اس غرض کے لئے ایک ظاہری شکل بھی پیدا کی جاتی ہے جو نماز ہے.جیسے فوج وردیوں کا ، سلام کرنے کا یا مارچ کرنے کا نام نہیں بلکہ نام ہے اس اسپرٹ کا کہ ملک کی خاطر اگر تمام انسانوں کو بھی ہلاک کرنا پڑے تو کر دیا جائے اور ذرا دریغ نہ کیا جائے.وہ وردیاں اور وہ سلام اور وہ مار چنگ کس کام کا جس کے پیچھے یہ روح نہیں ؟ اگر یہ روح موجود ہے تو اس قشر کی بھی کوئی قیمت ہوسکتی ہے ورنہ نہیں.دیکھو! بادام کے چھلکے کی قدر تم اس وقت تک کرتے ہو جب تک مغز اس کے اندر ہوتا ہے جب وہ نکال دیا جائے تو چھلکے کو فورا پھینک دیا جاتا ہے.بچپن میں میں نے ایک رؤیاد دیکھا تھا، یہ غالبا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی بات ہے یا علیہ السلام کی وفات کے قریب یعنی چار پانچ ماہ کے اندر ہی، اُس وقت حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان میں ہی رہا کرتے تھے، مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے مکان کی طرف جو گلی جاتی ہے اُس کے اوپر جو کمرہ اور صحن ہے اس میں آپ رضی اللہ عنہ کی رہائش تھی، میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اس صحن میں ہوں اور اس کے جنوب مغرب کی طرف حکیم غلام محمد صاحب امرت سرکی جو حضرت خلیفہ اول کے مکان میں مطلب کیا کرتے تھے کھڑے ہیں، ان کو میں سمجھتا ہوں کہ خدا کے تصرف کے ماتحت ایسے ہیں جیسے فرشتہ ہوتا ہے، میں تقریر کر رہا ہوں اور وہ کھڑے ہیں.میرے ہاتھ میں ایک آئینہ ہے جسے میں سامعین کو دکھاتا ہوں ، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہاں اور لوگ بھی ہیں مگر نظر نہیں آتے گو یا ملائکہ یا اعلیٰ درجہ کے لوگ ہیں جو نظروں سے غائب ہیں، میں انہیں وہ آئینہ دکھا کر کہتا ہوں کہ خدا کے نور اور انسان کی نسبت ایسی ہے جیسے آئینہ کی اور انسان کی.آئینے میں انسان اپنی شکل دیکھتا ہے اور اس میں اس کا حسن ظاہر ہوتا ہے اور وہ اس کی خوب قدر کرتا 209

Page 222

خطبہ جمعہ فرموده 29 نومبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول ہے اور سنبھال سنبھال کر اور گرد سے بچا کر رکھتا ہے مگر جونہی وہ آئینہ خراب ہو جاتا اور میلا ہو جاتا ہے اور اس میں اس کی شکل نظر نہیں آتی یا چہرہ خراب نظر آتا ہے تو وہ اسے اٹھا کر پھینک دیتا ہے اور جب میں یہ کہہ رہا ہوں تو رویا میں دیکھتا ہوں کہ میرے ہاتھ میں ایک آئینہ ہے اور ان الفاظ کے کہنے کے ساتھ ہی وہ میلا ہو جاتا ہے اور کام کا نہیں رہتا اور میں کہتا ہوں کہ انسان کا دل بھی خدا تعالیٰ کے مقابل پر آئینہ کی طرح ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ اس میں اپنے حسن کا جلوہ دیکھتا ہے اور اس کی قدر کرتا ہے مگر جب وہ میلا ہو جاتا ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ کا حسن ظاہر نہیں ہوتا تو وہ اسے اس طرح اٹھا کر پھینک دیتا ہے جس طرح خراب آئینہ کو اٹھا کر پھینک دیا جاتا ہے اور یہ کہتے ہوئے میں نے اس آئینہ کو جو میرے ہاتھ میں تھا زور سے اٹھا کر پھینک دیا اور وہ چکنا چور ہو گیا اس کے ٹوٹنے سے آواز پیدا ہوئی اور میں نے کہا جس طرح خراب شدہ آئینہ کو توڑ دینے سے انسان کے دل میں کوئی درد پیدا نہیں ہوتا اسی طرح ایسے گندے دل کو توڑنے کی اللہ تعالیٰ کوئی پروا نہیں کرتا.غرض انسان کی پیدائش کی غرض ہی یہی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے نور کو ظاہر کرے اور جب اس نور کے پھیلنے میں کوئی روک پیدا ہو جائے تو اللہ تعالیٰ ایک ایسی جماعت کو کھڑا کر دیتا ہے جو صیقل کرنے والی ہوتی ہے اور اس کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ خدا کے نور کو دنیا میں پھیلائے اگر وہ کامیاب نہ ہو اور نور کو پھیلا نہ سکے تو اسے بھی توڑ دیا جاتا ہے.وہی آئینہ جو دنیا کی حسین ترین ہستی کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور جس پر اس ہستی سے محبت کرنے والے رشک کرتے ہیں وہ جب میلا ہو جاتا ہے اور کام کا نہیں رہتا تو اسے پھینک دیا جاتا ہے اور وہ ٹکڑے ہو کر بازاروں اور گلیوں میں جوتیوں کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے.پس صرف نقطہ نگاہ کی تبدیلی کی ضرورت ہے جس دن یہ خیال تمہارے دل سے نکل گیا کہ احمد بیت ایک سوسائٹی ہے جس میں شامل ہو کر کچھ لوگ ایک دوسرے سے تعاون کرتے اور ہمدردی کرنے کا اقرار کرتے ہیں اور جس دن تم نے یہ سمجھ لیا کہ احمدیت خدا کے نور کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے اس دن نہ میرے خطبات کی ضرورت رہے گی اور نہ کسی کے وعظ ونصیحت کی ، اس دن ایسی تبدیلی تمہارے اندر پیدا ہو جائے گی اور ایسی آگ روشن ہو جائے گی کہ شاید تمہیں روکنے کی ضرورت تو پیش آ سکے لیکن تحریک کی نہیں اور جب تک یہ روح نہیں اس وقت تک خطبات اور وعظوں کی ضرورت ہے.پس تم یہ اچھی طرح سمجھ لو کہ جب تمہاری بعثت کی غرض ہی خدا کے نور کو پھیلانا ہے اور اس کے رستہ میں حائل شدہ روکوں کو دور کرنا ہے تو تمہاری قربانیوں کی کوئی مقدار مقرر نہیں کی جاسکتی اور کیا یا کیوں یا کیسے کا کوئی سوال ہی نہیں ہو سکتا.جو اس خیال سے قربانی میں شامل ہوتا ہے کہ ایک یا دو سال کے بعد یہ ختم 210

Page 223

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبه جمعه فرموده 29 نومبر 1935ء ہو جائے گی اس کے لئے یہی بہتر ہے کہ بالکل شامل نہ ہو.بعض لوگوں نے مجھے لکھا ہے کہ آپ نے جو گزشتہ سال کہا تھا کہ یہ تحریک صرف ایک سال کے لئے ہے اور اب پھر اس سال کے لئے جاری رکھنے کا آپ نے اعلان کر دیا ہے.حالانکہ میں نے ہرگز ایک سال کے لئے نہیں کہا تھا بلکہ تین سال کے لئے کہا تھا اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ تین سال اس کی موجودہ صورت کی میعاد ہے نہ یہ کہ تین سال کے بعد قربانیاں ختم ہو جائیں گی.پس جو یہ خیال کرتا ہے کہ ایک سال نہیں تین سال کے بعد بھی قربانیاں ختم ہو جائیں گی اسے چاہئے کہ اس تحریک میں ہرگز شامل نہ ہو.میں نے یہ تحریک قربانی ختم کرنے کے لئے نہیں بلکہ اعلیٰ قربانیوں کے لئے تیار کرنے اور ان کی مشق کرانے کے لئے جاری کی ہے.پس جس کے ذہن پر قربانی کے ختم ہونے کا خیال غالب ہے اسے اس میں ہر گز شامل نہیں ہونا چاہئے.انسانوں کی طرح بعض اموال بھی بابرکت ہوتے ہیں اور برکت والا مال وہی ہو سکتا ہے جس کے پیچھے اخلاص کی روح ہو.جو آج اور کل کو دیکھتا ہے وہ میرے لئے دیتا ہے نہ خدا کے لئے اس لئے اس کے مال میں برکت نہیں ہوسکتی.انسان ہمیشہ مرتے ہیں اور مرتے جائیں گے.پس کسی انسان کی خاطر قربانی کرنا انسان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا.قربانی وہی مفید ہو سکتی ہے جو خدا کے لئے ہو اور خدا کے لئے آج اور کل کوئی حقیقت نہیں رکھتے.مال بھی انہی لوگوں کے بابرکت ہو سکتے ہیں جن کے لئے وقت کا سوال نہ ہو اور جن کی قربانیوں کا زمانہ اس حد تک بلکہ اس سے بھی آگے تک چلتا ہے جب تک خدا کا نور نہیں پھیلتا کیونکہ تبلیغ کے بعد تربیت کا زمانہ شروع ہو جاتا ہے اور پھر تربیت کے لئے اسی طرح قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے جس طرح تبلیغ کے لئے اور ایسا زمانہ کوئی نہیں ہو سکتا جب تربیت کی ضرورت نہ رہے.مسلمان اس وقت کمزور ہوئے جب وہ یہ سمجھنے لگ گئے کہ ہمیں صرف دو تین یا چند سالوں کے لئے ہی قربانیوں کی ضرورت تھی.پس یا درکھو! کہ قربانی کا زمانہ مومن کے لئے کبھی ختم نہیں ہوتا.قربانیوں کی شکلیں بدلیں گی ممکن ہے کچھ عرصہ کے بعد اور قسم کی قربانیاں کرنی پڑیں مگر مومن کے لئے قربانی کا زمانہ کبھی ختم نہیں ہوتا.جن لوگوں نے اسلام کو میری تحریک جدید کی طرح عارضی سمجھا وہی اس کا بیڑہ غرق کرنے والے ہوئے ، انہوں نے تلوار کے جہاد کو ہی اسلام سمجھا اور جب وہ غیر قوموں کی حکومتوں کو مٹا چکے تو سست ہو کر بیٹھ گئے اور نتیجہ یہ ہوا کہ آئندہ ایسی نسلیں پیدا ہوئیں جو اسلام سے غافل ہو گئیں اور ہوتے ہوتے مسلمان ذلیل ہو گئے.ایک زمانہ تھا کہ مسلمان سے زیادہ قابل اعتماد اور کوئی نہ سمجھا جاتا تھا.مسلمان کہہ دیتا تھا کہ یوں ہو گا اور لوگ سمجھ لیتے تھے کہ بس بات ختم ہوگئی ضرور اسی طرح ہوگا لیکن آج یہ حالت ہے کہ وہ کوئی بات 211

Page 224

خطبہ جمعہ فرموده 29 نومبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول کرے سننے والا یہی کہے گا کہ اس کا اعتبار کون کر سکتا ہے؟ میں ایک دفعہ کشمیر گیا وہاں مختلف رنگوں کی لوئیوں سے گئے بنائے جاتے ہیں، میں نے بھی ایک گنا بنانے کے لئے ایک شخص کو کچھ پیشگی دی لیکن جب وہ شخص گیا تیار کر کے لایا تو وہ طے شدہ لمبائی، چوڑائی سے چوتھائی حصہ کم تھا میں نے اسے کہا کہ یہ تم نے ٹھیک نہیں بنایا اور میرے کام کا نہیں اس پر وہ بار بار یہ شور مچائے کہ جی میں مسلمان ہوں.گویا مسلمان کی یہ علامت سمجھی جاتی ہے کہ بددیانت ہو؟ اس کو خطرہ تھا کہ شاید یہ اب گہا نہ لے اس لئے وہ بار بار یہ کہ رہا تھا کہ میں مسلمان ہوں اور مجھے اس سے اور چڑ پیدا ہو اور میں اس سے کہوں کہ تو یہ کہ کر اسلام کو کیوں بدنام کرتا ہے کہ اسلام اور وعدہ خلافی لازم وملزوم چیزیں ہیں ؟ تو اب یہ زمانہ ہے کہ مسلمان کی بات کا اعتبار ہی کوئی نہیں رہا اور یہ حالت اسی وقت سے ہوئی ہے جب سے یہ خیال پیدا ہو گیا کہ اسلام کے لئے قربانی کا زمانہ کسی وقت ختم بھی ہو سکتا ہے.خدا تعالیٰ کی کوئی تحریک کبھی ختم نہیں ہوتی ہاں اس کی شکلیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں.انسان پہلے بچہ ہوتا ہے پھر لڑکپن آتا ہے پھر جوان پھر ادھیڑ اور پھر بوڑھا ہو جاتا ہے اور پھر مر جاتا ہے کیا ہر شکل پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ختم ہو گیا ؟ ہاں ہر شکل کی تبدیلی پر مختلف غذا اور مختلف لباس کی ضرورت رہتی ہے.یہی حال خدائی تحریکات کا ہے اور جب تک یہ نقطہ نگاہ نہ سمجھا جائے اس وقت تک تباہی دوبارہ آجاتی ہے اور جو لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے وہ مذہب کو تباہ کرنے والے ہوتے ہیں.خدا تعالی کی طرف سے جو تحریکات ہوتی ہیں ان کی صرف شکلیں بدلتی ہیں وہ ختم کبھی نہیں ہوتیں اور نہ وہ افراد سے وابستہ ہوتی ہیں میں جاؤں گا تو خدا تعالیٰ کسی اور کو کھڑا کر دے گا پھر وہ جائے گا تو خدا تعالیٰ اور کو کھڑا کر دے گا اور جو یہ کہے گا کہ ہم نے اپنا کام ختم کرلیا ہے وہ اسلام کو فنا کرنے والی تحریک کا بانی ہوگا اور اس تحریک کا آدم کہلائے گا جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسلام کے دوبارہ احیا کے آدم تھے اور ہر وہ شخص جو اپنی ہر چیز کو اسلام پر قربان کرنے کے لئے تیار ہے اپنے حلقہ میں اسلام کو زندہ رکھنے کی تحریک کے لئے بمنزلہ آدم کے ہے اسی طرح جو شخص یہ خیال کرلے گا کہ اسلام کی اشاعت کے لئے اس کا کام ختم ہو گیا وہ اسلام کو فنا کرنے کی تحریک کا آدم ہوگا.جس طرح ہر نیکی جو اسلام کے احکام کی تعمیل میں کی جاتی ہے خواہ وہ مسلمانوں کی طرف سے ہو یا غیر مسلموں کی طرف سے کیونکہ کئی غیر مسلم بھی قرآن کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں اور خواہ وہ پہلی صدی میں ہو یا دسویں میں یا اس صدی میں یا آئندہ کسی صدی میں اس کا ثوار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملتا ہے اور قیامت تک کی تمام نیکیوں کا ملتا رہے گا اور جس طرح آئندہ ہر ایک 212

Page 225

تحریک جدید- ایک ابھی تحریک...جلد اول - خطبہ جمعہ فرمودہ 29 نومبر 1935ء اس نیکی کا جو اسلام کے دوبارہ احیا کے لئے قیامت تک کی جائے گی اس کا ثواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی ملتار ہے گا اسی طرح جو شخص یہ اطمینان کر کے بیٹھ جائے گا کہ کام ختم ہو گیا تبلیغ اور تربیت میں جس قدر کمی ہوگی اور اس کے نتیجہ میں جس قدر خرابی پیدا ہوگی اس سب کا گناہ اس کے سر پر ہو گا.اسلام یونہی تباہ نہیں ہوا کوئی نہ کوئی بد بخت تھا جس کے دل میں پہلے یہ خیال پیدا ہوا کہ اب اسلام ترقی کر چکا ہے اب ان قربانیوں کی ضرورت نہیں رہی جن کی ضرورت پہلے تھی وہ ابلیس سے بدتر انسان تھا کیونکہ ابلیس نے آدم کے نور کو روکنے کی کوشش کی تھی اور اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کوروکنے کی کوشش کی پھر اس شخص سے اور ابلیس پیدا ہوئے اور ان سے اور یہاں تک کہ ان اہلیوں کی تلبیس سے متاثر ہو کر مسلمان سو گئے اور پھر مر گئے.جس طرح اس ابلیس سے بدتر انسان پر ساری دنیا کی لعنتیں پڑتی ہیں اور پڑتی رہیں گی اسی طرح جس دن کسی احمدی کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اب جد و جہد کی ضرورت نہیں وہ اسلام کی دوبارہ موت کا موجب ہوگا اور اہلیوں کی ایک اور نسل کے لئے بمنزلہ آدم کے ہوگا اور قیامت تک اس پر لعنتیں پڑتی رہیں گی.پس یہ خیالات دل سے نکال دو کہ یہ قربانیاں ایک دو سال بعد ختم ہو جائیں گی.میرے منہ کی طرف مت دیکھو کہ میں ایک فانی وجود ہوں اپنے خدا کی طرف دیکھو جو ہمیشہ رہنے والا ہے.جس طرح خدا نے تمہیں دائمی زندگی دی ہے اسی طرح تمہاری قربانیاں دائمی ہونی چاہئیں.دائی زندگی کے تم تبھی مستحق ہو سکتے ہو جب تم دائمی قربانی کے لئے تیار رہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آریوں کے ایک اعتراض کا یہی جواب دیا ہے.آریوں کا اعتراض ہے کہ انسان کے اعمال محدود ہیں پھر ان محدود اعمال کے نتیجہ میں دائمی اور ابدی انعام کس طرح مل سکتا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ بے شک انسانی اعمال محدود ہیں لیکن ان کے محدود رہنے کی وجہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو مار دیا اور نہ مومن کب اپنے اعمال کو محدود کرنا چاہتا ہے؟ وہ تو ہمیشہ کی قربانی کے لئے تیار ہوتا ہے.پس جب اس کی نیت غیر محدود تھی اور وہ ہمیشہ کے لئے نیک اعمال بجالانے کی نیت کر چکا تھا اور غیر معمولی قربانی کے لئے تیار تھا موت اپنے لئے وہ خود نہیں لایا بلکہ خدا نے اسے موت دے دی تو غیر محدود قربانی کی نیت رکھتے ہوئے وہ غیر محدود جزا کا مستحق کیوں نہ ہو؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ در اصل مومن وہی ہے جو غیر محدود قربانی کے لئے تیار رہے جو مر مر کر پیچھے دیکھتا ہے کہ مڑنے کا حکم ہوا ہے یا نہیں وہ کس طرح اپنے آپ کو دائی زندگی کا مستحق قرار دے سکتا؟ اس کی زندگی تو ایسی ہی ہے جیسے حدیثوں میں آتا ہے کہ قیامت کو بعض جانوروں کو بھی موقع دے دیا جائے گا کہ تھوڑی دیر 213

Page 226

خطبہ جمعہ فرموده 29 نومبر 1935ء سیک کلیلیں کرلیں.تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد اول پس میں اس تحریک کے متعلق پھر یہ اعلان کر دیتا ہوں کہ جو اس میں میری خاطر شریک ہونا چاہتے ہیں اور اسے محدود خیال کرتے ہیں بہتر ہے کہ وہ آج ہی علیحدہ ہو جائیں کیونکہ میں ایک غریب اور کمزور انسان ہوں مجھ میں ان کا بدلہ دینے کی طاقت نہیں اور ان کی قربانی دین کے لئے برکت کا موجب ہر گز نہیں ہوسکتی.پس وہ شامل نہ ہوں تو اچھا ہے صرف وہی لوگ شامل ہوں جو خدا تعالی کے لئے قربانی کرنا چاہتے ہیں اور جو تیار ہوں کہ اسے غیر محدود عرصہ تک جاری رکھیں گے.میری وجہ سے کوئی اس میں حصہ نہ لے کیا پتہ ہے کہ میں کل تک بھی زندہ رہ سکوں یا نہ بلکہ شام تک کا بھی علم نہیں.میری وجہ سے شامل ہونے والوں کی قربانی دیر پا نہیں ہو سکتی قربانی اس کی مفید ہو سکتی ہے جو اپنے آپ کو ابدی قربانی کے لئے پیش کرے.قربانی کی تعیین اس کے ذہن میں بے شک نہ ہو اور یہ تو میرے ذہن میں بھی نہیں.ممکن ہے اگلے سال یہ قربانی نہ رہے یا مالی قربانی کی بجائے وطن یا رشتہ داروں یا جانوں کی قربانی کرنی پڑے کسی کو کیا علم ہے کہ کل کو خدا تعالیٰ کی طرف سے کیا مطالبہ کیا جائے گا ؟ پس جو شخص ایسی مستقل اور بے شرط قربانی کے لئے تیار ہے اس کی شمولیت ہمارے لئے برکت کا موجب ہو سکتی ہے لیکن جو یہ خیال کرتا ہے کہ آج دے لوکل آرام کریں گے وہ خواہ دس لاکھ روپیہ بھی دے دے وہ ہمارے لئے برکت کا موجب نہیں ہوگا.اس سال کی قربانی کے لئے میں پھر یہ شرط لگا تا ہوں کہ کسی کو مجبور کر کے وعدہ نہ لیا جائے اور وہی لیا جائے جو کوئی خود دیتا ہے اگر تم مجھتے ہو اک شخص سور و پسہ دے سکتا ہے مگروہ صرف پانچ دیتا ہے تو اسے کچھ مت کہو.یہ چندہ ماہوار چندوں کی طرح نہیں ہے کہ ہر شخص لازماً ایک آنہ فی روپیہ دے سوائے اس کے جو نہ دینے کے لئے باقاعدہ اجازت حاصل کرے صرف آواز پہنچا دو پھر لاکھ دینے کی استطاعت رکھنے والا بھی اگر دس روپیہ دیتا ہے تو اسے یہ نہ کہو کہ زیادہ دے.تمہارا کام صرف یہ ہے کہ کوئی احمدی ایسا نہ رہے جس تک یہ آواز نہ پہنچ جائے.عورت ، مرد، بے کار، با کار، بوڑھا، جوان ، بچہ ہر ایک تک یہ آواز پہنچا لیکن یہ مت کہو کہ ضرور دے اور پھر بار بار مانگ کر اسے شرمندہ مت کرو کیونکہ اس سے تم کام کی برکت کو کھو دیتے ہو.یاد رکھو! برکت اطاعت سے ہوتی ہے اور اس چندہ کے متعلق اطاعت یہی ہے.پچھلے سال بھی میں نے یہی نصیحت کی تھی اور اب بھی کرتا ہوں کہ وعدہ لکھا کر بھی اگر کوئی سنتی کرتا ہے تو اسے ایک دو بار یاد دہانی کرا دو لیکن پیچھے نہ پڑ جاؤ.214

Page 227

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 29 نومبر 1935ء ہندوستان کی جماعتوں کے لئے اس چندہ کی آخری تاریخ میں 15 جنوری مقرر کرتا ہوں لیکن چونکہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ 15 جنوری کو پوسٹ کیا ہوا خط وغیرہ اگلے روز نکلتا ہے اس لئے جن پر سولہ کی مہر ہوگی وہ وعدے بھی لے لئے جائیں گے لیکن اس کے بعد کا کوئی وعدہ قبول نہیں کیا جائے گا اور نہ کوئی چندہ لیا جائے گا.وصولی کی مدت وہی ایک سال ہوگی.گزشتہ سال کے وعدے جو میں نومبر تک ادا کر دیتا ہے وہ اسے پورا کرنے والا ہے لیکن جو دیر کرتا ہے سوائے اس کے کہ وہ اجازت حاصل کر چکا ہو اس سے پھر وہ چندہ نہیں مانگا جائے گا ہاں اگر اس کے دل میں خود ہی ندامت محسوس ہو اور وہ آپ ہی آپ دے دے تو چونکہ تو بہ کا دروازہ بند نہیں اس لئے ہم اسے روک نہیں سکتے.ہندوستان کے بعض حصے ایسے ہیں جہاں تحریک جلد نہیں پہنچ سکتی کیونکہ ان لوگوں کی زبان مختلف ہے مثلاً بنگال اور مدراس کے علاقے ہیں ان کے لئے میں تھیں مارچ کی تاریخ مقرر کرتا ہوں یعنی 31 مارچ یا یکم اپریل کی مہر جن وعدوں پر ہوگی وہ لئے جائیں گے اس کے بعد کے نہیں.غیر ممالک کی ہندوستانی جماعتوں کے لئے بھی یہی تاریخ ہے اس عرصہ میں ان تک یہ تحریک بخوبی پہنچ سکتی ہے ہاں غیر ہندوستانی، غیر ملکی جماعتوں کے لئے چونکہ نہ صرف فاصلہ کی بلکہ زبان کی بھی وقت ہے اس لئے ان کے واسطے آخری تاریخ 30 جون ہے جیسے انگلستان، امریکہ سماٹر اوغیرہ میں جماعتیں ہیں اسی طرح چندہ کی وصولی کی مدت 30 جون تک کی میعاد والوں کے لئے 30 جنوری 1937 ء تک ہو گی ، 15 جنوری تک والوں کے لئے 30 نومبر 1937 ء اور 30 / مارچ والوں کے لئے یکم اپریل 1937 ء تک.مگر یاد رکھو کہ نیکی جتنی جلدی کی جائے اتنا ہی ثواب زیادہ ہوتا ہے.یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ آخر میں دیں گے بعض اوقات وہ دے ہی نہیں سکتے.بعض نے مجھے خطوط لکھے ہیں کہ ہم نے خیال کیا تھا کہ بعد میں دے دیں گے مگر بد بختی سے ملازمت جاتی رہی یا آمد کے دوسرے ذرائع بند ہو گئے.پس یہ مت خیال کرو کہ سال کے آخر تک دے دیں گے جو لوگ آخر وقت نماز ادا کرنے کے عادی ہوتے ہیں وہ بھول بھی جاتے ہیں.پس پہلے دینے کا ثواب زیادہ ہوتا ہے جو شخص آج دیتا ہے وہ اگلے دسمبر میں دینے والے سے گیارہ ماہ قبل کا ثواب حاصل کرتا ہے.ایک دن کا ثواب بھی معمولی چیز نہیں کہ اسے چھوڑا جا سکے جو لوگ ایک دن ملازمت میں پہلے داخل ہوتے ہیں وہ ساری عمر سینئر رہتے ہیں اسی طرح یہ سمجھ لو کہ خدا کے انعام پہلے اس پر ہوں گے جو پہلے شامل ہوتا ہے سوائے کسی ایسی مجبوری کے جو خدا کے ہاں بھی مجبوری ہولیکن وہ مجبوری نہیں جو انسان خود قرار دے لے.215

Page 228

خطبہ جمعہ فرموده 29 نومبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول اس کے بعد میں امانت فنڈ کی طرف احباب کو توجہ دلاتا ہوں.پچھلے سال بھی میں نے اس کے متعلق توجہ دلائی تھی مگر احباب نے اتنی توجہ نہیں کی جتنی کرنی چاہئے تھی.اس فنڈ میں ساڑھے پانچ ہزار ماہوار کے قریب روپیہ آتا ہے میں نے بتایا تھا کہ یہ چیز چندے سے کم اہمیت نہیں رکھتی اور پھر اس میں یہ سہولت ہے کہ اس طرح تم پس انداز کر سکو گے.مومن کیلئے ضروری ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ پس انداز بھی کرتا رہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت خلیفہ اول کو لکھا تھا کہ اپنی آمدنی کا کم سے کم 1/4 حصہ جمع کرتے رہو، صحیح نسبت مجھے اس وقت یاد نہیں 1/4 یا 1/3 لکھا تھا کیونکہ جب تک پس انداز نہ کرو گے ثواب کے کاموں سے محروم رہو گے.پس مومن کو چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے دین کی خاطر قربانی کر سکنے کی نیت سے کچھ نہ کچھ پس انداز کرتا رہے اگر وہ خدا تعالیٰ کے لئے جائیداد بڑھاتا ہے تو وہ دنیا دار نہیں کہلا سکتا.جو شخص دن میں چھ کی بجائے دس گھنٹے اس لئے کام کرتا ہے کہ دین کی خدمت زیادہ کر سکے اسے دنیا دار کون کہہ سکتا ہے؟ وہ تو پکا دین دار ہے اسی طرح جو دین کی خاطر روپیہ جمع کرتا ہے اسے تم بخیل نہیں کہہ سکتے.جو شخص آواز آنے پر بھی مال حاضر نہیں کرتا وہ بے شک دنیا دار کہلا سکتا ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ آلہ یلم سے ایک شخص نے مالدار ہونے کے لئے دعا کروائی مگر پھر زکوۃ کے لئے آپ نے کسی کو اس کے پاس بھیجا تو کہہ دیا کہ ہم خود اپنے اخراجات چلائیں یا ز کوۃ دیں؟ لیکن اگر کوئی شخص اپنے عمل سے ثابت کر دیتا ہے کہ اس کے پاس جتنی جائیداد ہے اتنی ہی قربانی کی روح اس کے اندر موجود ہے تو اس کا جائیداد پیدا کرنا بھی دین کی خدمت ہے اور اس کا دنیا کمانے میں وقت لگانا نماز سے کم نہیں.پس جو شخص امانت فنڈ میں اس لئے روپیہ جمع کراتا ہے کہ اس عرصہ میں نیت کا ثواب حاصل کرتا رہے اور جائیداد پیدا ہو جانے یا رقم جمع ہو جانے کے بعد خدمت دین میں زیادہ حصہ لینے کے قابل ہو سکے وہ دنیا دار نہیں اس لئے جو شخص ایک روپیہ تک بھی اس میں حصہ لے سکتا ہے اسے ضرور لینا چاہئے اور کوشش کرو کہ یہ رقم اور بڑھے.میں نے پچھلے سال دس ہزار تک کہا تھا پس کوشش کرو کہ یہ دس ہزار تک پہنچ جائے بلکہ لاکھوں تک بڑھ جائے اس میں تمہارا اپنا بھی فائدہ ہے اور دین کی شوکت میں بھی اس سے اضافہ ہوتا ہے لیکن یا درکھنا چاہئے کہ یہ چندہ نہیں اور نہ چندہ میں وضع کیا جا سکتا ہے.بعض لوگ اب مجھے لکھ رہے ہیں کہ ہم نے جو روپیہ جمع کرا رکھا ہے وہ تحریک جدید کے چندہ میں وضع کر لیا جائے لیکن یہ نہیں ہوسکتا یہ برابر تین سال تک چلے گا جو آج اس میں شامل ہو گا اس کے لئے بھی تین سال تک جاری رہے گا سوائے اس کے کہ ، خدا نخواستہ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی کے لئے ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ وہ شامل نہ رہ سکے اور پھر تین سال کے بعد بھی 216

Page 229

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 29 نومبر 1935ء بہر حال یہ رقم واپس لینی ہوگی چندہ میں نہیں دی جاسکے گی.ہاں یہ مقرہ کمیٹی کا اختیار ہوگا کہ خواہ نقد رو پیری دے یا جائیداد کی صورت میں لیکن چوتھے سال بہر حال جو شخص امانت فنڈ کو ختم کرنا چاہے اسے یہ رقم واپس دی جائے گی.یہ اور بات ہے کہ کوئی شخص رقم یا جائیداد پر قبضہ کر کے خود اپنی خوشی سے اسے چندہ میں دے دے مگر امانت جمع کرانے والے کے قبضہ میں آنے سے پہلے اس کی خواہش کے باوجود بھی اسے چندہ میں ہے.قبول نہ کیا جائے گا کیونکہ قبضہ میں آنے کے بعد بھی انسان کی نیت بدل جاتی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کا ایک لطیفہ مجھے یاد ہے آپ کے ایک پرانے صحابی حکیم فضل الدین صاحب تھے، آج کل کے نوجوان تو شاید ان سے واقف نہ ہوں، ان کے تعارف کے لئے بتاتا ہوں کہ وہ بہت پرانے اور مخلص صحابی تھے حضرت خلیفہ اول کے دوست تھے اور ان کے ساتھ ہی یہاں آگئے ان کی دو بیویاں قادیان آنے سے پہلے کی تھیں ایک شادی انہوں نے قادیان آکر کی ، پہلی بیویوں کے متعلق انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ذکر کیا کہ ان کا مہر پانچ پانچ سو تھا جو انہوں نے معاف کر دیا ہے.حضور نے فرمایا کہ یہ معافی نہیں آپ ان کی جھولی میں ڈال دیں اور پھر اگر وہ لونا دیں تو معافی کہلائے گی.انہوں نے کہا کہ حضور وہ ہمیشہ یہ کہتی رہتی ہیں کہ ہم نے معاف کیا.حضور نے فرمایا اس طرح کی معافی کوئی معنی نہیں رکھتی ہمارے ملک کی عورتیں جب دیکھتی ہیں کہ مہر وصول تو ہوگا نہیں تو پھر وہ یہ خیال کر کے کہ احسان ہی کیوں نہ کر دیں، کہہ دیتی ہیں کہ معاف کیا.اس پر حکیم صاحب مرحوم نے حضرت خلیفہ اول یا کسی اور سے قرض لے کر ان کی جھولی میں پانچ پانچ سوروپیہ ڈال دیا اور کہا کہ تم دونوں نے مجھے معاف تو پہلے سے ہی کر دیا ہوا ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ پہلے ان کی جھولی میں روپیہ ڈال دو پھر وہ معاف کرنا چاہیں تو کر سکتی ہیں اس لئے میں نے رو پی تم کو دے دیا ہے اب تم اگر چاہو تو یہ روپیہ مجھے دے سکتی ہو.اس پر انہوں نے کہا کہ اب تو ہم واپس نہیں کریں گی ہم تو یہ بھی تھیں کہ مہر کوئی دیتا تو ہے نہیں چلو معاف ہی کر دیں.تو بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ قادیان میں جو کچھ دیا جائے وہ چندہ ہی ہے اسے واپس کیا لینا ہے مگر میں یہ روح پیدا کرنا نہیں چاہتا اس لئے یہ روپیہ بہر حال واپس ہوگا اس کے بعد اگر کوئی دیتا ہے تو ہم اسے روک نہیں سکتے لیکن اس تحریک میں کوئی جس وقت سے شامل ہو وہیں سے اس کے تین سال شروع ہوں گے اور یہ فنڈ سلسلہ کی عظمت و شوکت اور مالی حالت کی مضبوطی کے لئے جاری رہے گا اور اس کی طرف جماعت کی مزید توجہ بلکہ بہت بڑی توجہ کی ضرورت ہے.پچھلے سال میں نے وقف کی بھی تحریک کی تھی اس پر سینکڑوں نو جوانوں نے اپنے 217

Page 230

خطبہ جمعہ فرموده 29 نومبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد اول نام دیئے مگر ان میں سے بہت سے تھے جن کی خدمات سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا اور بعض جن سے ہم نے فائدہ اٹھانا چاہا ان میں دینی لحاظ سے بہت کمزوری دیکھی گئی.دینی تعلیم بہت کم تھی حتی کہ بعض قرآن شریف کے ترجمہ تک سے ناواقف تھے اس پر مجھے بہت فکر ہوئی کہ جو لوگ قرآن کریم کا ترجمہ تک نہیں جانتے وہ اسلام کی روح کو کس طرح سمجھ سکتے ہیں؟ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت تھی کہ مجھے اس طرح علم ہو گیا.چند آیات یا سورتوں کا جاننا کافی نہیں ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ سارے قرآن کا ترجمہ اور کچھ نہ کچھ حدیث بھی جانتا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ بھی ضروری ہے.دینی علوم کے مطالعہ میں دو قوموں کو خاص سہولتیں حاصل ہیں اہل عرب کو قرآن و حدیث سمجھنے کی اور ہندوستانیوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے سمجھنے کی.باقی تمام ممالک پر ڈ ہرا بوجھ ہے اور انہیں اپنی ملکی زبان کے علاوہ دین کو سمجھنے کے لئے دو غیر ملکی زبانیں سیکھنی پڑتی ہیں.ہمارے لئے یہ بہت بڑی سہولت ہے گویا ہمارا کام آدھا ہو گیا دین کی مکمل تشریح اردو میں ہے اور اصل دین عربی میں.یہ بہت بڑی سہولت ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوئی ہے.پس چاہئے کہ اس کی قدر کرو اور کوشش کرو کہ تم میں سے کوئی بھی ایسا نہ رہے جسے کم از کم قرآن کریم کا ترجمہ نہ آتا ہو.یہ کوئی مشکل نہیں جب کسی کام کا ارادہ کر لیا جائے تو کوئی مشکل نہیں رہتی صرف ضرورت اس امر کی ہے کہ قربانی کے کام کو عارضی مت سمجھو اور جب یہ نقطہ نگاہ ہو جائے گا تو کوئی کام بھی مشکل نہ رہے گا.خیر یہ تو ایک ضمنی بات تھی اس موقع پر، میں یہ کہہ رہا تھا.کہ وقف کی تحریک میں اس سال پھر کرتا ہوں پچھلی لسٹیں بھی ابھی ہیں ان میں سے بھی دیکھ لئے جائیں گے لیکن اس عرصہ میں کئی نئے گریجوایٹ بنے اور مولوی فاضل و میٹرک کے امتحانات پاس کر چکے ہیں، کئی ڈاکٹری پاس کر کے فارغ ہیں اس لئے انہیں موقع دینے کے لئے پھر اس تحریک کا اعلان کرتا ہوں.گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی غیر ممالک میں آدمی بھیجے جائیں گے کچھ عرصہ ان کو الاؤنس دیا جائے گا تا وہ زبان سیکھ سکیں اور اپنے لئے کام پیدا کر سکیں اس کے بعد جب تک ان کے پاس روپیہ نہ ہو صرف ڈاک کا خرچ دیا جائے گا اور جب خدا تعالیٰ انہیں روپیہ دے دے تو یہ بھی نہیں دیا جائے گا.بعض ممالک میں تین چار، بعض میں پانچ چھ ، بعض میں آٹھ نو مہینے کام مہیا ہونے اور زبان سیکھنے پر لگتے ہیں اس عرصہ میں انہیں قلیل ترین گزارہ دیا جائے گا.اس تحریک کے ماتحت اس وقت تک پانچ نوجوان غیر ممالک میں جاچکے ہیں اور آٹھ نو تیار ہیں جنہیں قرآن کریم اور دینی تعلیم دی جارہی ہے انہیں پچھلے سال کی تحریک کے ماتحت روانہ کر دیا جائے گا اور اس سال کے لئے اور نو جوان درکار ہیں.ایک ڈاکٹر کو بھی باہر بھیجا گیا ہے اور تجربہ 218

Page 231

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 29 نومبر 1935ء سے معلوم ہوا ہے کہ ڈاکٹر اور حکیم بہت زیادہ کامیاب ہو سکتے ہیں.اسی طرح پیشہ ور لوگ بھی مفید ہو سکتے ہیں اچھے لوہار دنیا کے ہر علاقہ میں خصوصاً آزاد ملکوں میں جہاں ہتھیار وغیرہ بنتے ہوں بہت کامیاب ہو سکتے ہیں چین اور افریقہ کے کئی علاقوں میں ان کی بہت قدر ہو سکتی ہے عرب میں نہیں کیونکہ وہاں کے لوگ تلوار بنانے میں ماہر ہیں.اسی طرح ڈرائیوری جاننے والوں کے لئے بھی کافی گنجائش ہو سکتی ہے.کسی ملک میں پہنچ کر کوئی سیکنڈ ہینڈ لاری یا موٹر لے کر فوراً کام شروع کیا جا سکتا ہے.بی اے، مولوی فاضل اور میٹرک پاس بھی کام دے سکتے ہیں.ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ وہ ہاتھ سے کام کرنے کے لئے تیار ہوں.پھیری کے ذریعہ پہلے دن ہی روزی کمائی جاسکتی ہے.ہم تو کچھ مدد بھی دیتے ہیں لیکن ہمت کرنے والے نوجوان تو بغیر مدد کے بھی کام چلا سکتے ہیں.تم میں سے ایک نوجوان نے گزشتہ سال میری تحریک کو سنا وہ ضلع سرگودھا کا باشندہ ہے وہ نو جوان بغیر پاسپورٹ کے ہی افغانستان جا پہنچا اور وہاں تبلیغ شروع کر دی حکومت نے اسے گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا تو وہاں قیدیوں اور افسروں کو تبلیغ کرنے لگا اور وہاں کے احمدیوں سے بھی وہیں واقفیت بہم پہنچالی اور بعض لوگوں پر اثر ڈال لیا.آخر افسروں نے رپورٹ کی کہ یہ تو قید خانہ میں بھی اثر پیدا کر رہا ہے ملانے قتل کا فتویٰ دیا مگر وزیر نے کہا کہ یہ انگریزی رعایا ہے اسے ہم قتل نہیں کر سکتے.آخر حکومت نے اپنی حفاظت میں اسے ہندوستان پہنچادیا.اب وہ کئی ماہ کے بعد واپس آیا ہے اس کی ہمت کا یہ حال ہے کہ جب میں نے اسے کہا کہ تم نے غلطی کی اور بہت ممالک تھے جہاں تم جاسکتے تھے اور وہاں گرفتاری کے بغیر تبلیغ کر سکتے تھے تو وہ فورا بول اٹھا کہ اب آپ کوئی بتادیں میں وہاں چلا جاؤں گا.اس نوجوان کی والدہ زندہ ہے لیکن وہ اس کے لئے بھی تیار تھا کہ بغیر والدہ کو ملے دوسرے کسی ملک کی طرف روانہ ہو جائے مگر میرے کہنے پر وہ والدہ کو ملنے جارہا ہے.اگر دوسرے نوجوان بھی اس پنجابی کی طرح جو افغانستان سے آیا ہے ہمت کریں تو تھوڑے ہی عرصہ میں دنیا کی کایا پلٹ سکتی ہے.روپیہ کے ساتھ مشن قائم نہیں ہو سکتے.اس وقت جو ایک دو مشن ہیں ان پر ہی اس قدر روپیہ صرف ہو رہا ہے کہ اور کوئی مشن نہیں کھولا جا سکتا لیکن اگر ایسے چند ایک نو جوان پیدا ہو جائیں تو ایک دو سال میں ہی اتنی تبلیغ ہو سکتی ہے کہ دنیا میں دھاک بیٹھ جائے اور دنیا سمجھ لے کہ یہ ایک ایسا سیلاب ہے جس کا رکنا محال ہے.مغل قوم جس ملک سے آئی وہاں غربت بہت تھی یہ لوگ عام طور پر شکار پر گزارہ کرتے تھے ان میں سے چند لوگ باہر نکلے تو دولت دیکھی اور واپس آکر شور مچادیا کہ دنیا میں اس قدر دولت ہے اور تم بھوکے مر رہے ہو.یہ لوگ دولت کی خاطر اپنے ملک سے نکلے اور فرانس سے لے کر چین کی حدوں تک حکومت کی 219

Page 232

خطبہ جمعہ فرموده 29 نومبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول اور وہ لوگ جو بالکل وحشی تھے ایک صدی کے اندر اندر بادشاہ بن گئے، یہ اسلام سے پہلے کی بات ہے، اسلام نے آکر ان کی اور بھی کایا پلٹ دی.ہاتھو خان ایک پرانے مغل فرمانروا کے متعلق انگریزی مؤرخین گن وغیرہ نے لکھا ہے کہ وہ جب یورپ فتح کر رہا تھا تو یورپ کے سارے بادشاہ اکٹھے ہو کر ڈینیوب کے کنارے اسے ملے اور کہا کہ ہمارے بچے یتیم اور بیویاں بیوہ ہو جائیں گے آپ رحم کریں اور واپس چلے جائیں.اسی طرح قبلائی خان نے چین کو فتح کیا اور جاپان پر حملہ کیا مگر فتح اس واسطے نہ کر سکا کہ ساحل پر طوفان آ گیا اور بیڑے کا ایک حصہ غرق ہو گیا اور ایک حصہ کو ہوائیں چین کی طرف دھکیل لائیں.تا ہم اس کا رعب اتنا ہوا کہ جاپان کی عورتیں مغربی علاقہ میں باوجود اس کے کہ اس حملہ کو چار پانچ سو سال کا عرصہ ہو چکا ہے آج بھی اپنے بچوں کو اس کا نام لے کر ڈراتی ہیں.یہ وہ لوگ تھے جو روٹی کی خاطر گھروں سے نکلے تو کیا میں اپنے نو جوانوں سے اتنا مایوس ہو جاؤں کہ وہ دین کی خاطر بھی باہر نہیں نکل سکتے ؟ اگر ارادہ کر لو تو تم اتنے عظیم الشان کام کر سکتے ہو کہ دنیا تمہارے سامنے فوراً ہتھیار ڈال دے.مومن کو صرف ارادہ کی ضرورت ہوتی ہے جس دن وہ ارادہ کر لے اسی دن مال، دولت، عزت سب خود درخواستیں کرتی ہیں کہ ہمیں قبول کیا جائے.اصل چیز رضائے الہی ہے اور اسی سے زندگی ملتی ہے.یہ دنیا سب ویران اور سنسان پڑی ہے گو تمہیں یہ آباد نظر آتی ہے مگر خدا کی نظروں میں ویران ہے تم دہلی، لاہور اور دوسرے شہروں میں جاتے ہو تو سمجھتے ہو کہ یہ شہر آباد ہیں اور تم زندوں میں پھر رہے ہو ؟ مگر تمہاری آنکھیں دھوکا کھا رہی ہوتی ہیں وہ زندہ نہیں مردہ ہیں کیونکہ خدا کا نام ان میں نہیں.جب تم خدا کا نام وہاں پہنچا دو گے تب ان کو زندگی ملے گی وہ شہر آباد ہوں گے اور تم ان کے آدم ہو گے.پس نوجوان ہمت کریں اور باہر نکلیں.تم میں سے ایک نوجوان افغانستان ہو آیا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ تم وہ کام نہ کر سکو جو تمہارا ایک بھائی کر آیا ہے.وہ یہاں متفرق کلاس کا طالب علم تھا اور مجھے یا کسی کو اطلاع دیئے بغیر نکل کھڑا ہوا اور اب واپسی پر اس کا ذکر کیا ہے جب اس نے یہ کام کیا تو کیا تم میں سے بعض اس سے بھی بڑے کام نہیں کر سکتے ؟ ڈاکٹر اور حکیم بہت کام کر سکتے ہیں.ہم نے ایک ڈاکٹر کو بھیجا ہے اور اس کا کام بہت اچھی طرح چلنے کی امید ہے کیونکہ ہمیں جو اطلاع آئی تھی اس میں لکھا تھا کہ ڈاکٹر آنکھ کی بیماریوں کا علاج جانتا ہو تو اسے یہاں جلد مقبولیت حاصل ہو سکتی ہے اور چونکہ یہ نوجوان یہ کام جانتا ہے اس لئے خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بہت جلد وہاں عزت اور رتبہ حاصل کر لے گا اور شہر کے معززین میں رسوخ حاصل کر سکے گا.تو طب پڑھے ہوئے بہت اچھا کام کر سکتے 220

Page 233

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 29 نومبر 1935ء ہیں.ضرورت صرف حوصلہ کی ہے مگر افسوس! کہ بعض وہ لوگ جن کو میں نے منتخب کیا حوصلہ مند نہیں ثابت ہوئے.سٹریٹس سیٹلمنٹ میں تین نوجوانوں کو بھیجا گیا ان میں سے دو اس طرح وہاں جا کر غائب ہو گئے ہیں کہ گویا کبھی تھے ہی نہیں.بہر حال وہاں تین احمدی پہنچ چکے ہیں اور چاہے وہ کاروبار میں ہی پھنس گئے ہوں اور اس جوش سے تبلیغ نہ کرتے ہوں اور اپنی رپورٹوں کو اس طرح قائم نہ رکھ رہے ہوں مگر پھر بھی ان کے ذریعہ احمدیت کا نام تو ضرور پھیل رہا ہے.ان سے ملنے والوں میں ہی احمدیت پھیلے گی اور بعض خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ چھیل رہی ہے اور احمدیت تو کوئی ایسی چیز نہیں کہ ایک دفعہ دل میں گڑ کر پھر نکل سکے اس لئے وہ گواتنا جوش نہ دکھا ئیں پھر بھی کامیابی کی بہت امید ہے.اس طرح رقم بھی بہت تھوڑی خرچ ہوتی ہے سال بھر کے لئے ایک مبلغ بھیجنے پر اڑھائی تین ہزار کا خرچ ہوتا ہے اور ان کے بھیجنے پر تین چار سو سے زیادہ نہیں ہوا اور وہ کچھ نہ کچھ کام کر رہے ہیں.اگر کسی وقت اللہ تعالیٰ جوش پیدا کر دے تو اور زیادہ کامیابی کی امید ہے ورنہ خدا تعالی مقامی لوگوں میں سے ہی ان کے ذریعہ کوئی اچھا کام کرنے والا آدمی پیدا کر دے گا.میں نو جوانوں کو پھر نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے اندر وسعت نظر اور بلند ہمتی پیدا کرو.دیکھو! انگریز کس طرح دنیا پر پھیل گئے ہیں؟ کسی وقت وہ ایسے ہی کمزور تھے جیسے آج ہم ہیں.یہاں کے لوگ اس کو بات سے چڑتے ہیں کہ انگریز غیر ملک سے آکر یہاں حکومت کرتے ہیں مگر میں کہتا ہوں یہ اعتراض کرنے والے کیوں نہ ان کے ملک میں چلے گئے ؟ انگریز اب چار کروڑ ہیں مگر ا اس وقت صرف کروڑ ڈیڑھ کروڑ ہی تھے.مگرتم تینتیس کروڑ تھے اور باہر نہ نکل سکے تمہیں کس نے روکا تھا کہ باہر نکلو؟ خدا کا قانون یہی ہے کہ جو دنیا کے لئے باہر نکلتا ہے خدا اس کے آگے دنیا کو ڈال دیتا ہے اور دنیا کی حکومت اسے عطا کر دیتا ہے اور اسی طرح جو دین کے لئے باہر نکلتا ہے اسے دین کی حکومت عطا کر دیتا ہے.انگریز دنیا کے لئے باہر نکلے خدا تعالیٰ نے دنیا انہیں دی تم دین کے لئے نکلو گے تو خدا تمہیں دین عطا کرے گا.میں نے افسوس کے ساتھ دیکھا ہے کہ مبلغین کلاس کے سوا باقی مدرسہ احمدیہ اور مولوی فاضل کلاس کے طلبا دینی تعلیم سے بہت کم واقف تھے انہیں دوران تعلیم میں بھی تبلیغ کے لئے باہر بھیجتے رہنا چاہئے تا وہ وسیع مطالعہ کریں اور واقفیت بڑھے.شعبہ تعلیم کو میں توجہ دلاتا ہوں کہ خالی مولوی فاضل کسی کام کے نہیں اور وہ ہر جگہ ناکام ہوں گے.یہ کوئی عذر نہیں کہ امتحان کی تیاری کراتے ہو اس تیاری کے ساتھ ہی دینی تعلیم ہونی چاہئے.مدرسہ احمدیہ اور مولوی فاضل کلاس کے بعض طالب علم دینی تعلیم میں بہت کچے ثابت ہوئے 221

Page 234

خطبہ جمعہ فرموده 29 نومبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول بلکہ بعض ہائی سکول کے طلبا ان سے زیادہ واقف تھے.پس ایسا انتظام کیا جائے کہ ہر لڑ کا ہر مہینہ میں ایک تقریر ضرور باہر جا کر کرے اس سے ان کا علم بڑھے گا اور دماغ میں روشنی پیدا ہوگی.اب میں پھر اصل سوال کی طرف لوٹتا ہوں.میں نے ذکر کیا تھا کہ اس سال بھی وقف کرنے والے آدمیوں کی ضرورت ہے گزشتہ سال کے کاموں کے علاوہ بعض اور کام بھی میرے مدنظر ہیں.مثلاً میرا ارادہ ہے کہ اس سال کی تحریک میں بے کاری کو دور کرنا بھی شامل کر لیا جائے.اس وقت غریب اور بے کارلوگوں کو مدد دی جاتی ہے.میں چاہتا ہوں کہ آئندہ ان کو کام پر لگایا جائے.ہماری آمد کا بہت سا حصہ تو تبلیغ پر صرف ہوتا ہے، کچھ تعلیم پر، کچھ مرکز کے کارکنوں پر اور اسی طرح لنگر خانہ پر بھی.سالانہ جلسہ کے اخراجات کو ملا کر چھپیں چھبیس ہزار روپیہ خرچ ہوتا ہے اس کے بعد غربا کی امداد کے لئے کم رقم بچتی ہے مگر پھر بھی تعلیمی وظائف وغیرہ ملا کرتیں پینتیس ہزار روپیہ کی رقم صرف ہوتی ہے مگر اتنی بڑی جماعت کے لحاظ سے یہ پھر بھی کم رہتی ہے اور کمی کی وجہ سے کئی لوگ تکلیف اٹھاتے ہیں کئی شکوے بھی کرتے ہیں.حالانکہ مومن کو شکوہ کبھی نہیں کرنا چاہئے اسے چاہئے کہ بجائے دو روپے نہ مل سکنے کا شکوہ کرنے کے ایک جو ملا ہے اس کا شکر کرے.بہر حال غربا کو پوری امداد نہیں دی جاتی اور نہ دی جاسکتی ہے اور اس کی وجہ قلت سرمایہ ہے.پس اس تکلیف کا اصل علاج یہی ہے کہ بے کاری کو دور کیا جائے.میں نے اس کے لئے ایک کمیٹی بھی بنائی تھی مگر اس نے اپنا کام صرف یہی سمجھ رکھا ہے کہ درخواستوں پر امداد دیے جانے کی سفارش کر دے.حالانکہ یہ کام تو میں خود بھی آسانی سے کر سکتا تھا بلکہ غربا چونکہ مجھ سے زیادہ ملتے اور اپنے حالات بیان کرتے رہتے ہیں اس لئے ان سے بہتر طور پر کر سکتا تھا.پس امدادی رقم کی تقسیم کے لئے کسی امداد کی تو مجھے ضرورت نہیں.میری غرض تو یہ تھی کہ بے کاروں کے لئے کام مہیا کیا جائے اس لئے میرا ارادہ ہے کہ اس شعبہ کو بھی تحریک جدید میں ہی شامل کر دیا جائے اور اس کے لئے بھی ایک ایسے آدمی کی ضرورت ہوگی جو اپنے آپ کو غربا کی امداد اور ان کے لئے کام مہیا کرنے کے لئے وقف کر دے.یہ بھی مبلغ سے کم ثواب کا کام نہیں.جو کام بھی سپر د کر دیا جائے وہی کرنا موجب ثواب ہے اگر کسی شخص کو کسی جگہ مدرس مقرر کر دیا جاتا ہے تو یہ نہیں کہ وہ تو اب میں مبلغ سے کم رہے گا یا مثلاً بور ڈ نگ تحریک جدید کا انچارج ہے بوجہ اس کے کہ اس کا کام دین کی خدمت کے لئے ایک نئی نسل پیدا کرنا ہے یہ مبلغ کے کام سے کم اہمیت نہیں رکھتا بلکہ اچھی طرح کیا جائے تو مبلغ سے بھی زیادہ ثواب حاصل کیا جا سکتا ہے اسی طرح غربا کو کام پر لگانے میں امداد کرنا اور اس سلسلہ میں جو روپیہ اس کے سپرد کیا جائے اسے ٹھیک طور پر استعمال کرنا کوئی کم ثواب کا موجب نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ اس میں 222

Page 235

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 29 نومبر 1935ء ہزاروں غربا کی دعائیں ملیں گی ، زیادہ ثواب کا موجب ہوسکتا ہے.پس وقف کنندگان کو اگر تعلیم پر یا کسی اور کام پر لگا دیا جائے تو انہیں یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ ہمارا ثواب کہاں گیا ؟ مثلاً میں نے ان میں سے ایک کو تحریک جدید کے بورڈنگ کا سپر نٹنڈنٹ بنایا ہے.وہ اگر بچوں کی اصلاح اور تربیت کے لئے رات دن ایک کرے تو وہ سینکڑوں مبلغوں میں چنندہ مبلغ کے برابر ثواب حاصل کر سکتا ہے.امداد بے کار ان کے متعلق میرا ارادہ یہ ہے کہ راس المال کو خرچ نہ کیا جائے بلکہ بعض نفع مند کاموں پر روپیہ لگا کر جو نفع حاصل ہو وہ اس مد میں خرچ کیا جائے اور بے کاروں کے لئے لوہار، ترکھان، چمڑے کا کام.مثلاً اٹیچی کیس اور بوٹ وغیرہ بنانا سکھائے جانے کا انتظام کیا جائے.ہم سالانہ، قادیان کے غربا پر پندرہ ہزار روپیہ کے قریب صرف کرتے ہیں، پانچ ہزار تو زکوۃ کا ہوتا ہے پھر کئی ایک کو لنگر خانہ سے روٹی دی جاتی ہے پھر دار الشیوخ کے طلبا ہیں جن کے لئے جمعہ کے روز آٹا جمع کیا جاتا ہے، عیدین کے موقع پر بھی کچھ روپیہ خرچ ہوتا ہے اور میں کچھ رو پیدا اپنے پاس سے بھی خرچ کرتا ہوں اور یہ سب ملا کر قریباً پندرہ ہزار ہو جاتا ہے، اس کی بجائے اگر ہم فی الحال پانچ ہزار بھی تجارتی کاموں پر لگا دیں تو اس سے بہت زیادہ فوائد ہوں گے، بے کاروں کے اندر کام سیکھنے کے بعد قربانی کی روح اور خود اعتمادی پیدا ہوگی اور مانگنے کی وجہ سے جو خست پیدا ہو جاتی ہے وہ دور ہوگی اور پانچ ہزار روپیہ سے ہم سو دو سو آدمی پال سکتے ہیں اور ایسے کام نکالے جائیں گے جن میں عورتیں اور نا بینا اشخاص بھی حصہ لے سکیں.مثلاً ٹوکریاں بنانا ، چکیں بنانا، آزار بند بنانا وغیرہ یہ ایسے کام ہیں جنہیں عورتیں بھی کر سکتی ہیں.اگر شروع میں ہمیں نقصان بھی ہو تو کوئی حرج نہیں.مثلاً ہم نے دس ہزار خرچ کیا اور آٹھ ہزار کی آمد ہوئی تو پھر بھی ہم نفع میں رہے کیونکہ ان لوگوں کی اگر ہم روپیہ سے امداد کرتے تو غالبا پانچ ہزار سے کم خرچ نہ ہوتی.اگر اللہ تعالیٰ اس سلسلہ میں برکت دے تو موجودہ بے کاروں کو کام پر لگانے کے بعد باہر سے بھی بے کاروں کو بلایا جا سکتا ہے اور اس طرح یہ کام قادیان کی ترقی کا موجب بھی ہو سکتا ہے.پس اس کام کے لئے بھی ایک شخص کی ضرورت ہے جو حقیقی معنوں میں زندگی وقف کرنے والا ہو.بعض لوگوں کو میں نے دیکھا ہے کہ تکلیف سے گھبرا جاتے ہیں یا کہیں زیادہ تنخواہ کی امید ہو تو چلے جاتے ہیں، بعض کام سے جی چراتے ہیں، بعض کام کے عادی ہی نہیں ہوتے حالانکہ وقف کے معنی یہ ہیں کہ سمجھ لیا جائے اب اسی کام میں موت ہوگی نہ دن کو آرام ہو نہ رات کو نیند آئے.میرا ذاتی تجربہ ہے کہ حقیقی جوش سے کام کرنے والے کی نیند اکثر خراب ہو جایا کرتی ہے.میں نے دیکھا ہے کہ کئی دفعہ چار پائی 223

Page 236

خطبہ جمعہ فرموده 29 نومبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول پر لیٹ کر کئی کئی گھنٹے فکر سے نیند نہیں آتی اور سلسلہ کے کاموں کے متعلق سوچنے اور فکر کرنے میں دماغ لگا رہتا ہے.پس کام کرنے والے کے لئے نیند بھی نہیں ہوتی.قرآن کریم نے جو کہا ہے کہ مومن سوتے وقت بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں اس کا یہی مطلب ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے دین کی فکر میں ہی تھک کر سو جاتے ہیں اس لئے نیند میں بھی ان کا دماغ دین کے کام میں لگا رہتا ہے.پس وہ نوجوان آگے آئیں جو دین کے کام میں مرنا چاہیں.یہ غلطی ہے کہ بعض لوگ چھ سات گھنٹے کام کرنے کو احسان سمجھ لیتے ہیں اور پھر نا کامی کو قسمت پر ڈال دیتے ہیں حالانکہ گستاخ اور بے ادب ہے وہ شخص جو سمجھتا ہے کہ نا کامی خدا کی طرف سے آتی ہے خدا سے ہمیشہ کامیابی آتی ہے اور جو نا کامی کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی بہتک کرنے والا ہے.پس جب تک کوئی یہ نہ سمجھے کہ ناکامی کا میں خود ذمہ دار ہوں وہ اپنے آپ کو وقف نہ کرے.میں نے دیکھا ہے کہ کئی لوگ شکوہ کرتے ہیں کہ ناکامی ہوئی تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟ کیا کامیابی ہمارے اختیار میں ہے؟ لیکن ایسے خیالات سے قوم میں سستی پیدا ہوتی ہے.یوروپین قوموں میں ناکامی کے عذر کو قبول نہیں کیا جاتا اور جو نا کام ہوا سے علیحدہ کر دیا جاتا ہے کہ بس تم اس کام کے اہل نہیں اس لئے تم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ جو کام بھی اس کے سپرد کیا جائے اس میں کامیاب ہو کر دکھائے.دیکھو! زمینیں ہماری اچھی ہیں اور کثرت سے ہیں مگر ہمارے ہاں زمیندار اگر کوئی ملازم رکھیں تو اسے چند من غلہ کے سوا کوئی اجرت نہیں دے سکتے مگر امریکہ والے زمیندار اپنے ملازموں کو دو دوسو روپیہ تنخواہیں دیتے ہیں اور پھر وہ اتنا غلہ پیدا کرتے ہیں کہ ہمارے ملک کا دیوالیہ نکال دیتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ پاگل ہو کر کام کرتے ہیں.میں نے لنڈن کی گلیوں میں کسی آدمی کو چلتے نہیں دیکھا سب بھاگے پھرتے ہیں جب میں وہاں تھا تو ایک دن مجھے سے حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے پوچھا کہ کیا آپ نے یہاں کسی آدمی کو چلتے بھی دیکھا ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ گو یا کسی قریبی کے مکان کو آگ لگی ہوئی ہے اور اسے بجھانے جارہے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ تیزی سے وہ لوگ چلتے ہیں.پس مجھے ایسے انسانوں کی ضرورت ہے جو خود پاگل ہوں اور دوسروں کو پاگل کر دیں.اتنے بڑے ثواب کا کام ہے کہ ایسے شخص کا نام صدیوں تک زندہ رہ سکتا ہے اور اگر روپیہ آجائے تو ایسے لوگوں کی خدمت کرنے سے بھی سلسلہ کو دریغ نہیں ہوسکتا.مثلاً اگر پندرہ ہزار منافع ہو جائے تو اس میں سے کام کرنے والے کو چار پانچ سو یا ہزار دینے میں بھی کیا عذر ہو سکتا ہے؟ گویا اس کام میں دنیوی طور پر بھی فائدہ ہونے کا امکان ہے.جو دوست ان کاموں سے واقف ہوں 224

Page 237

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 29 نومبر 1935ء وہ یہ بھی مشورہ دیں کہ کیا کیا کام جاری کئے جائیں؟ میرے ذہن میں تو لکڑی کا کام مثلاً میز کرسیاں بنانا ، لوہے کا کام جیسے تالے، کیل، کانٹے اور اسی قسم کی دوسری چیزیں جو دساور کے طور پر بھیجی جاسکتی ہیں، چمڑے کا کام یعنی بوٹ، اٹیچی کیس وغیرہ چیزیں تیار کرانا ہے.ہماری جماعت میں ہی ان کی کافی کھپت ہو سکتی ہے.اس کے علاوہ ازار بند، پراندے اور اسی قسم کی کئی دوسری چیزیں ہیں.گوٹہ کے استعمال سے میں نے روک دیا ہے لیکن اگر باہر اس کی کھپت ہو سکے تو بھی تیار کرایا جاسکتا ہے.میں نے جہاں تک عقل کا کام تھا یہ سکیم تیار کی ہے باقی تجربہ سے جو حصہ تعلق رکھتا ہے اس کے بارہ میں اس خطبہ کی اشاعت کے بعد تجر به کار دوست اطلاع دیں.میری تجویز یہ ہے کہ عورت ، مرد، بچہ بوڑھا ہر ایک کوکسی کام پر لگا دیا جائے اور سوائے معذوروں کے کوئی بے کار نہ رہے اس طرح ہجرت کا سامان بھی پیدا ہوسکتا ہے.اب تو ہم ہجرت سے روکتے ہیں مگر اس صورت میں باہر سے لوگوں کو بلا سکیں گے.میں چاہتا ہوں کہ ہم میں سے ہر شخص کما کر کھانے کا عادی ہو.میرا ارادہ ہے کہ تحریک جدید کے طلبا کو بھی ایسے کام سکھائے جائیں تا ان میں ہاتھ سے کام کرنے کی روح پیدا ہو.غریب امیر کا امتیاز مٹ جائے اور نوکری نہ ملے تو کوئی پیشہ ان کے ہاتھ میں ہو.پڑھے لکھے لوگ آج کل دس دس روپیہ کی چپڑاسی کی نوکری کے لئے ٹکریں مارتے پھرتے ہیں حالانکہ اس طرح کے کاموں سے وہ سو پچاس روپیہ ماہوار کما سکتے ہیں.پس ایک تو دوست اس تجویز کے متعلق مشورہ دیں اور دوسرے نوجوان اپنے آپ کو وقف کریں.دیکھو! ایک نوجوان نے اس تحریک پر عمل کر کے دکھا دیا ہے اور گو الْفَضْلُ لِلْمُتَقَدِّم کے مطابق پہل کی عزت اسے مل گئی ہے مگر تم دوسرے نمبر کی عزت کو ہی ضائع نہ کرو.میں امید کرتا ہوں کہ نوجوان اس سال پہلے سے زیادہ قربانیاں کریں گے اور ایک امتیاز پیدا کر کے دکھائیں گے.“ مطبوع الفضل 3 دسمبر 1935ء ) 225

Page 238

Page 239

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اوّل اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 13 دسمبر 1935ء یہ مت خیال کرو کہ تحریک جدید میری طرف سے ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 13 دسمبر 1935ء افسوس کہ بہت کم لوگوں نے اس تحریک میں حصہ لیا.قادیان کے لوگ اس تحریک کے لحاظ سے سب جماعت میں اول رہے ہیں لیکن اس میں کسی قدر جبری بھرتی کا بھی دخل ہے.اگر یہاں کے لوگ بھی اپنی ذمہ داری کا پوری طرح احساس کرتے تو یہاں سے ہی دو اڑھائی ہزار آدمی مل سکتا تھا اور اگر قریب کی جماعتیں مثلاً ضلع گورداسپور، اضلاع لاہور، سیالکوٹ ، گجرات ، جالندھر، ہوشیار پور، امرت سر کی جماعتیں بھی اس تحریک پر صحیح طور پر لبیک کہتیں تو اتنے آدمی مل سکتے تھے کہ تبلیغ کے موجودہ میدانوں کو بہت زیادہ وسیع کیا جا سکتا تھا مگر اب تو یہ حال ہے کہ صرف چار علاقوں میں تبلیغ ہورہی ہے اور ان کے لئے بھی کافی آدمی نہیں مل رہے.حالانکہ یہ بہت ہی مفید کام ثابت ہوا ہے کئی نئی جماعتیں پیدا ہوئی ہیں اور کئی قائم ہونے والی ہیں، کئی لوگ ایسے ہیں جو توجہ کر رہے ہیں اور کئی علاقے ایسے ہیں کہ جہاں لوگوں کے لوگ جماعت در جماعت سلسلہ میں داخل ہونے کی توقع ہے مگر نقص یہ ہے کہ اگر ایک دفعہ میں آدمی اس علاقہ میں گئے ہیں تو دوسری دفعہ دس ہی بھیجے جا سکے ہیں اور بقیہ دس لوگوں کے زیر تبلیغ رہ چکنے والوں کو جو سلسلہ کے قریب ہو چکے تھے خالی چھوڑ دینا پڑا ہے.زیر تبلیغ لوگوں کے لئے مسلسل تبلیغ کی ضرورت ہوا کرتی ہے اور جو لوگ احمدیت میں داخل ہو کر پکے نہیں ہو جاتے ان کے لئے ایک مہینہ کا وقفہ بھی مضر ہوتا ہے.جس طرح بچے ایک ماہ کی رخصتوں کے بعد آتے ہیں تو پہلا لکھا پڑھا انہیں سب کچھ بھول چکا ہوتا ہے اسی طرح جو لوگ مذہب کو پوری طرح سمجھ چکے ہوں انہیں ایک ماہ بھی خالی چھوڑ دیا جائے تو وہ پھر سب کچھ بھول جاتے ہیں.پس جماعت کے دوستوں کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے کہ ہر فن اور ہر پیشہ کے لوگ کم سے کم ایک ماہ تبلیغ کیلئے وقف کریں ان کے علاوہ دوسو ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جو دو تین ماہ دے سکیں تا نہیں انچارج بنایا جا سکے لیکن ایسے لوگ نبت ز یادہ تعلیم یافتہ ہونے چاہئیں کیونکہ انہیں رپورٹیں لکھنی ہوں گی اور اگر کسی جگہ احمدیوں کو دکھ دیا جارہا ہو تو افسروں سے بھی ملنا ملانا پڑے گا اس لئے یہ لوگ لکھے پڑھے اور تجربہ کار ہوں.اگر جماعت کے لوگ اس طرح اپنے آپ کو تبلیغ کیلئے وقف کریں تو نہ صرف یہ کہ ان 227

Page 240

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمود 13 دسمبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول کے علم اور تجر بہ میں زیادتی ہوگی بلکہ چند سالوں میں ہماری تبلیغ میں بھی اتنی وسعت پیدا ہو جائے گی جو کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں.گھروں میں بے شک تبلیغ کرو مگر اس طرح ایک ایک مہینہ کیلئے وقف کرنا کئی لحاظ سے فائدہ مند ہے.جو لوگ اس طرح تبلیغ کیلئے گئے ہیں ان میں سے کئی اگر چہ کورے ہی واپس آئے ہیں مگر بہت سے ہیں جن کے اندر یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ ہمیں اپنے علم میں اضافہ کرنا چاہئے تا آئندہ زیادہ اچھی طرح تبلیغ کر سکیں.یہ رکوع جس کی میں نے آج تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسے ہی جماعتی کاموں کی طرف بلایا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض اوقات ایسے آتے ہیں کہ ساری قوم کو قربانی کی ضرورت ہوتی ہے اور اس میں کوتاہی نیک نتائج پیدا نہیں کر سکی بلکہ قوم کو تباہ کر دیتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِى سَبِيلِ اللهِ انَّا قَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ أَرَضِيتُمُ بِالْحَيَوةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَوة - الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيل (التوبة: 38) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم کہتے ہو کہ ہم ایمان لائے تو ایمان کے اس دعوئی کے بعد وجہ بتاؤ کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کے راستہ میں دور دور نکل جاؤ اور جلدی جلدی اپنے کاموں سے فارغ ہو کر آجاؤ تو کیوں نہیں آتے؟ نفر کے ایک معنی دور نکل جانے کے ہیں اور ایک جلدی سے آجانے کے ہیں.آج ریل اور جہاز سفر کیلئے موجود ہیں اور ہم کچھ مدد بھی دے دیتے ہیں، ڈاک کا انتظام موجود ہے اور ہر جگہ کے حالات معلوم ہو سکتے ہیں لیکن صحابہ کرام کے زمانہ میں نہ ریلیں تھیں اور نہ جہاز.پھر سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ ڈاک کا کوئی انتظام نہ تھا اور پتہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ ہمارا فلاں رشتہ دار کہاں ہے اور کس حال میں ہے مگر باوجود اس کے صحابہ کے اخلاص کا یہ حال تھا کہ حضرت علی کے زمانہ میں جب اختلاف پیدا ہوا اور حضرت معاویہ کے ساتھ لڑائی شروع ہو گئی تو ایک صحابی نے کہا کہ اب یہاں جہاد کا میدان ختم ہے چلو ہم کہیں اور چلیں اور وہ چین کی طرف نکل گئے اور وہاں اسلام کی بنیاد رکھی اور آج چین میں جو سات کروڑ مسلمان ہیں ان سب کا ثواب ان کو ملتا ہو گا.غور کرو کہ کہاں عرب ہے اور کہاں چین ! ہندوستان دونوں کے درمیان ہے.چین کی سرحد یہاں سے چار پانچ سو میل ہے اور عرب سے دو ہزار میل 228

Page 241

تحریک جدید- ایک ابھی تحریک...جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 13 دسمبر 1935ء لیکن ہم ابھی تک اہل چین کی خبر نہیں لے سکے.حالانکہ اب سفر کی سہولتیں میسر ہیں، ڈاک کا سلسلہ ہے اور ان مقامات پر بھی جہاں ڈاک بہت دیر سے پہنچتی ہے چھ ماہ کے اندر متعلقین کے حالات کا علم ہو سکتا ہے مگر اس زمانہ میں یہ باتیں نہ تھیں اور تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ بعض دفعہ لوگ رشتہ داروں کی تلاش میں عمریں صرف کر دیتے تھے.ایک بچہ جب جوان ہوتا تو باپ کی تلاش میں نکلتا تھا اور اسی میں بوڑھا ہو جاتا تھا لیکن آج ڈھائی آنہ کا خط ساری دنیا میں خبریں پہنچا دیتا ہے.پھر اس زمانہ میں لوٹ مار کا سلسلہ بہت زیادہ تھا مگر اب نہیں.چین کے بعض حصوں میں بے شک ابھی یہ سلسلہ جاری ہے لیکن جاپان ، سٹریٹ سیٹلمنٹ ، جاوا، سماٹرا وغیرہ میں جاؤ وہاں کوئی خطرہ نہیں.پھر ریلوں اور جہازوں کا سفر ہے اور زائد چیز یہ ہے کہ امداد کی بھی صورت ہے مگر ان سب باتوں کے باوجود تمہارے اندر وہ جوش نہیں جو پہلے زمانہ میں صحابہ کے اندر تھا.حالانکہ خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہمارے لئے ایک اُسوہ حسنہ بنایا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی سے مراد صرف آپ ﷺ کی ذاتی زندگی ہی نہیں بلکہ صحابہ بھی اس میں شامل ہیں وہ بھی آپ ﷺ کی زندگی کا جزو ہیں اور جیسی قربانیاں انہوں نے کیں ویسی ہی خدا تعالیٰ ہم سے بھی چاہتا ہے.اگر ہم میں ایسے لوگ پیدا نہ ہوں تو ہم کس طرح ان جیسا ثواب حاصل کر سکتے ہیں؟ اس کے لئے ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو تعلیم سے فارغ ہو چکے ہوں اور باہر نکل جائیں مگر ہزاروں ایسے فارغ التحصیل نوجوان ہیں جو گھروں میں بیٹھے روٹیاں تو ڑ رہے ہیں اور ماں باپ کے لئے بوجھ بنے ہوئے ہیں مگر کوئی مفید کام نہیں کرتے.“ " جب تمہیں علم ہے کہ تبلیغ کا قرآن کریم میں عام حکم ہے اور صراحتاً انفِرُوا کا حکم موجود ہے یعنی دور نکل جاؤ اور کلام الہی کو پھیلاؤ پھر قرآن کریم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کام کے بڑے بڑے اجر ہیں تو ان سب باتوں کے ماننے کے باوجود تم بتاؤ کہ تمہیں کیا عذر ہے کہ جب تم کو دین کی خدمت کے لئے جماعتی طور پر بلایا جاتا ہے تو تم فوراً اپنے آپ کو پیش نہیں کرتے ؟ اِنفِرُوا فِي سَبِيلِ اللہ میں دور دور نکل جانے کا بھی حکم ہے اور چند ماہ کے وقف کی جو صورت میں نے پیش کی ہے وہ بھی اس میں شامل ہے کیونکہ انفروا کے معنی صرف جلدی سے نکل کھڑے ہونے کے بھی ہوتے ہیں.کئی لوگ یہ عذر کر دیتے ہیں کہ ہم گھروں میں ہی تبلیغ کرتے ہیں مگر گھروں میں یکسوئی سے تبلیغ نہیں ہو سکتی وہاں آدمی بیوی بچوں کے مشاغل میں الجھا رہتا ہے کبھی بچہ بہار ہو گیا تو اس کی طرف متوجہ ہونا پڑا بھی کسی اور طرف توجہ بٹ گئی لیکن دوسرے علاقہ میں دوسرے مشاغل سے بالکل فارغ ہو جاتا ہے.229

Page 242

اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 13 دسمبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول پس میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ یا تو وہ تبلیغ کے لئے کچھ وقت یا پورے وقت کو پیش کریں یا وجہ بتا ئیں کہ وہ کیوں ایسا نہیں کرتے ؟ تم سے یہ سوال میں نے آج پوچھا ہے لیکن اپنے ایک بچہ سے آج سے چار پانچ مہینہ پہلے یہ سوال کیا تھا.حالانکہ وہ تعلیم میں مشغول ہے کہ وجہ بتاؤ تم نے اپنا نام تبلیغ کے لئے کیوں پیش نہیں کیا ؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ اعلان دوسروں کے لئے ہی ہوتے ہیں اور تمہارے لئے نہیں ؟ اگر میں تمہیں حکم نہیں دیتا تو اس لئے کہ تم میرے حکم سے دین کی خدمت کرنے کی وجہ سے ثواب سے محروم نہ ہو جاؤ اور چاہتا ہوں کہ نیکی کی تحریک تمہارے اپنے دل میں پیدا ہو.تمہارا فرض تھا کہ سب سے پہلے اپنے آپ کو پیش کرتے.تو یہ سوال میں اپنے لڑکوں سے پہلے پوچھ چکا ہوں اور آج باقی لوگوں سے کہتا ہوں کہ اپنے نفسوں سے پوچھ کر بتاؤ کہ کیوں اس حکم پر تم عمل نہیں کرتے ؟ یا تو کہو کہ تبلیغ ضروری نہیں یا احمدیت کی صداقت ہم پر ظاہر نہیں ہوئی یا یہ ثابت کرو کہ اس کے نتیجہ میں تم خدا تعالیٰ کی رضا کے اُمید وار نہیں ہو.جو شخص ان باتوں میں سے کوئی بات کہہ دے میں اس پر جبر نہیں کر سکتا لیکن اگر احمدیت کچی ہے، اگر قرآن کریم کے ان احکام پر عمل کرنا ضروری ہے، اگر اس کے نتیجہ میں انعام حاصل ہونے پر تمہارا ایمان ہے تو پھر بتاؤ کہ خدا تعالیٰ سے تم یہ تمسخر کر رہے ہو یا نہیں ؟ کہ کہتے کچھ ہو اور کرتے کچھ ہو.صحابہ کرام میں سے تو ایک بڑے حصہ نے اپنے وطن دین کیلئے چھوڑ دیئے اور میں تو تم سے صرف ایک یا دو مہینے وقف کر دینے کا مطالبہ کرتا ہوں.یادرکھو! یہ مطالبہ میری طرف سے نہیں بلکہ خدا نے میرے ذریعہ سے یہ مطالبہ کیا ہے تا پتہ لگ جائے کہ تم میں سے کتنے ہیں جنہیں اگر وطن چھوڑ دینے کے لئے بلایا جائے تو وہ اس کے لئے تیار ہوں گے ؟ جس طرح ریز رو فورس کو سال میں ایک مہینہ کی ٹریننگ دی جاتی ہے یہ ٹرینینگ بالکل اسی طرح کی ہے اور جو شخص ایک مہینہ کیلئے اپنے آپ کو وقف کرتا ہے اس کے متعلق امید کی جاسکتی ہے کہ اگر بارہ مہینوں کی ضرورت ہوئی تو بھی وہ ضرور اپنے آپ کو پیش کرے گا لیکن جو لوگ ایک مہینہ کیلئے بھی اپنے آپ کو پیش نہیں کرتے ان کو میں کس طرح ایسے لوگوں کی فہرست میں شامل کر سکتا ہوں جن کے متعلق یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اگر ضرورت ہوئی تو وہ اپنے وطنوں کو چھوڑ دیں گے؟“ وو یہ مت خیال کرو کہ تحریک جدید میری طرف سے ہے.نہیں بلکہ اس کا ایک ایک لفظ میں قرآن کریم سے ثابت کر سکتا ہوں اور ایک ایک حکم رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ارشادات میں دکھا سکتا ہوں مگر سوچنے والے دماغ اور ایمان لانے والے دل کی ضرورت ہے.پس یہ خیال مت کرو کہ جو میں نے کہا ہے وہ میری طرف سے ہے بلکہ یہ اس نے کہا ہے جس کے ہاتھ میں تمہاری جان ہے.میں 230

Page 243

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 13 دسمبر 1935ء اگر مر بھی جاؤں تو وہ دوسرے سے یہی کہلوائے گا اور اس کے مرنے کے بعد کسی اور سے.بہر حال چھوڑے گا نہیں جب تک تم سے اس کی پابندی نہ کرالے.یہ پہلا قدم ہے اور اس کے بعد اور بہت سے قدم ہیں.یہ سب باتیں قرآن مجید میں موجود ہیں اور جب تم پہلی باتوں پر عمل کر لو گے تو پھر اور بتائی جائیں گی لیکن جب تک ان پر عمل نہ کرو اور نئی کس طرح پیش کی جاسکتی ہیں؟ آخر میں میں پھر نصیحت کرتا ہوں کہ سستیوں اور غفلتوں کو دور کرو، اپنے اندر بیداری پیدا کرو، ہر تحریک میں طاقت کے مطابق حصہ لو مگر طاقت کا اندازہ وہ نہ کرو جو منافق کرتا ہے بلکہ وہ کرو جو مومن کرتا ہے.چندہ اور امانت فنڈ دونوں میں حصہ لو اور سادہ زندگی اختیار کرو کہ وہ نور بخشنے والی ہے جو اسے اختیار نہیں کرتا وہ سمجھ لے کہ اس کے لئے جہنم تیار ہے.کوئی بات میں نے ایسی نہیں کہی جس کی کل کو ضرورت نہیں پیش آنے والی.جب وقت آئے گا تو وہ لوگ جنہوں نے مان کر عمل کیا دعا ئیں دیں گے کہ خدا بھلا کرے جس نے ہمیں اس وقت کے لئے تیار کر دیا تھا اور نہ ماننے والے اپنے آپ کو لعنت کریں گے.احمدیت اسلام کا نام ہے جس طرح اسلام نے تلوار کے سایہ میں پرورش پائی تھی اسی طرح جب تک دنیا کا چپہ چپہ احمدیوں کے خون سے رنگین نہیں ہوتا احمدیت ترقی نہیں کرسکتی اور اگر تم ی سمجھتے ہو کہ اس کے بغیر ہی ترقی حاصل ہو جائے گی تو تم سے زیادہ بے وقوف، دھوکا خوردہ اور پاگل دنیا میں اور کوئی نہیں.ہر ملک میں اور ہر علاقہ میں تمہیں ہر طرح کی قربانیاں کرنی پڑیں گی اور اس کے لئے جو سپاہی آج مشق نہیں کرتا وہ کل جان کب دے سکے گا ؟ (مطبوعہ الفضل 21 دسمبر 1935 ء ) 231

Page 244

Page 245

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 20 دسمبر 1935ء تحریک جدید کے تین اہم مطالبات خطبہ جمعہ فرمودہ 20 دسمبر 1935ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.(1) تحریک جدید کے بعض حصوں کو میں قبل ازیں بیان کر چکا ہوں اور آج میں اس کے بعض دوسرے حصے بیان کرنا چاہتا ہوں.ایک بات تحریک جدید میں میں نے یہ بیان کی تھی کہ جو دوست لیکچر دینے کی قابلیت رکھتے ہوں وہ اپنے نام دفتر میں لکھوادیں تا مختلف جگہوں پر جو جلسے ہوتے ہیں ان پر انہیں بھیجا جائے اور ان سے تقریریں کرائی جائیں.در حقیقت انسانی دماغ مختلف قسم کے ہوتے ہیں بعض انسان علمی باتوں کو زیادہ پسند کرتے ہیں اور بعض لوگ بات کی نسبت بولنے والے کی پوزیشن کو زیادہ دیکھتے ہیں.جو لوگ علمی باتیں سننے اور انہیں سمجھنے کے عادی ہوتے ہیں ان کے لئے ہمارے سلسلہ کے علما کافی ہیں لیکن بعض لوگوں کے دلوں میں یہ احساس ہوتا ہے کہ دیکھیں کہنے والا کس حیثیت کا آدمی ہے اور وہ ہمیں اپنی باتیں سنانے کیلئے کن مقاصد کے ماتحت آیا ہے.دنیا میں عام طور پر اس وقت لالچ اور حرص کا دور دورہ ہے اس لئے لوگ یہ سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ ہمارے سلسلہ کے مبلغ صرف معمولی گزارہ لیتے ہیں اور در حقیقت سلسلہ کے لئے ان کا کارکن بننا کوئی ملازمت نہیں بلکہ زندگی کو وقف کرنا ہے مگر چونکہ وہ ایسے ماحول میں رہتے ہیں جس میں عربی علوم اور دین کی کوئی قدر نہیں اس لئے وہ مبلغ کو قدرو منزلت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے.لوگ ہر پیشہ کی قدر سمجھتے ہیں اور ایک لوہار کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں گے اور جب وہ ان کا کوئی کام کرے تو وہ اس کی مزدوری دینے کے لئے تیار رہیں گے، وہ ایک بڑھئی کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں گے اور اس بڑھتی کی مزدوری کے پیسوں کو اس کا جائز حق سمجھیں گے، انہیں اس بات کا احساس ہوگا کہ لوہار کے بیوی بچے ہیں اور وہ بھی کپڑے پہنتے اور روٹی کھاتے ہیں اس لئے اس کی مزدوری ضرور دینی چاہئے.انہیں اس بات کا 233

Page 246

خطبہ جمعہ فرمود 20 دسمبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول احساس ہوگا کہ بڑھتی کے بیوی بچے ہیں اور وہ بھی کپڑے پہنتے اور روٹی کھاتے ہیں اس لئے اس کی مزدوری کو نہیں روکنا چاہئے اسی طرح وہ ایک ڈاکٹر ، ایک انجینئر ، ایک وکیل ایک معمار، ایک درزی ، ایک نائی اور دنیا کے دوسرے پیشہ وروں کے متعلق یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جائز اور مفید کام کرتے ہیں اور ان کی خدمت کرنی چاہئے خواہ ماہوار تنخواہ کی صورت میں یا روزانہ مزدوری ادا کرنے کی صورت میں مگر جب دین کا معاملہ آتا ہے تو وہ مبلغین کے متعلق یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ وہ نہ کھاتے ہیں، نہ پہنتے ہیں، نہ ان کی بیویاں ہیں، نہ بچے گویاوہ انسان نہیں بلکہ ملائکہ کی قسم کے لوگ ہیں یا کم سے کم وہ ان کے متعلق یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا حق نہیں نہ کھائیں اور پئیں اور اگر وہ کھاتے ہیں تو دوسروں کا حق چھین کر جیسے کتے کو بعض دفعہ انسان اپنی روٹی ڈال دیتا ہے ان کو بھی کچھ دے دیا جاتا ہے.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب کبھی بھی علم دین کی کوئی باتیں سنانے والا ان کے پاس جائے ، چاہے وہ اس کی باتوں کی قدر کریں مگر وہ اسے ذلیل ترین وجود سمجھتے ہیں.حالانکہ جس کام کو انہوں نے اختیار کیا ہوا ہوتا ہے اگر اسے دیانت داری سے کریں تو وہ دنیا کا معزز ترین کام ہے.عام طور پر ہمارے ملک میں جن لوگوں کو شریف اور معزز سمجھا جاتا ہے ان سے اگر کوئی کہے کہ اپنی لڑکی ایسے شخص کو دے دو تو وہ حیران ہو کر کہیں گے یہ تو ملا ہے ! حالانکہ ملا کیا چیز ہے؟ ملا ہمارے ملک کا مذہبی رہنما ہے مگر کچھ ان کے اخلاق بگڑ جانے کی وجہ سے اور کچھ اس گزارہ کی رقم کی وجہ سے جو وہ لیتے ہیں غلط فہمی میں مبتلا ہو کر لوگ انہیں ذلیل ترین وجود سمجھنے لگ گئے مگر یہ احساس ان کو ڈاکٹر سے متعلق نہیں ہوتا اور نہ ان کو یہ احساس ایک وکیل کے متعلق ہوتا ہے وہ بڑے ادب اور احترام سے ایک ڈاکٹر یا وکیل کو فیس دیں گے، اس کی خاطر تواضع کریں گے، نام بھی عزت سے لیں گے اور بات کرتے ہوئے کہیں گے کہ بڑے آدمی جو ہوئے ہم ان کے مقابلہ میں کیا ہیں؟ پس ایک ڈاکٹر کی ڈاکٹری اور ایک وکیل کی وکالت کی ان کی نگاہوں میں وقعت ہے لیکن دین اور اس کی اشاعت کرنے والے کی ان کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں اور چونکہ ایک خرابی اور خرابیاں پیدا کر دیا کرتی ہے اس لئے اس تحقیر کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان ایک لعنت میں گرفتار ہو گئے کہ ان میں سے جتنی تو میں اپنے آپ کو شریف سمجھتی تھیں انہوں نے اس دینی کام کی طرف سے اپنی توجہ ہٹالی، کچھ شرفا جنہوں نے یہ کام اختیار کیا ذلیل ہو گئے اور کچھ ذلیل اس لئے اس کام کی طرف متوجہ ہو گئے کہ جب ہم آگے ہی ذلیل ہیں تو ایک ذلت یہ بھی سہی.آخر جس کا سر پھر جائے گا اس کا باقی دھڑ اسے کیا کام دے سکتا ہے؟ جب وہ لوگ جو دین کا سر تھے ذلیل ہو گئے تو مسلمان بھی بحیثیت قوم گر گئے اور سب دنیا کی نگاہوں میں ذلیل ہو گئے.یہ عادت جو مسلمانوں میں ایک 234

Page 247

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول خطبہ جمعہ فرمود و 20 دسمبر 1935ء عرصہ سے قائم ہے ابھی تک گئی نہیں اور اب بھی وہ اس کام میں برائی محسوس کرتے ہیں.اگر چہ پہلے جتنی نہیں لیکن ابھی تک یہ بات ان میں قائم ہے کہ وہ کسی شخص کے دینی خدمت کرنے کے معنے یہ مجھتے ہیں کہ اب یہ شخص تمام دنیوی عزتوں سے محروم کر دیا گیا.حالانکہ اسلام نے یہ بتایا ہے کہ جو دین کی خدمت کرتا ہے حقیقت میں وہی معزز ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَيكُمْ یعنی جو شخص اللہ تعالٰی کے کام میں لگ جائے اس کے متقی ہونے میں کوئی شبہ ہی نہی ہوسکتا بشر طیکہ وہ دوسرے اعمال میں بھی تقویٰ اور طہارت ملحوظ رکھے.اس خیال کے ماتحت ہمارے علما خواہ کتنی بڑی قربانی کر کے لوگوں کے پاس جائیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بھی دوسرے ملاؤں جیسے ملا ہیں چھوٹے نہ سہی بڑے ملا سہی.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں پر جو باتوں پر غور کرنے کی بجائے کہنے والے کی شخصیت دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں ہمارے علما کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا.وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا کیا ہے یہ تنخواہ لیتے اور کام کرتے ہیں جس طرح اور لوگ روپوں پر اپنا دین بیچ دیتے ہیں اسی طرح انہوں نے بھی اپنا دین بیچ رکھا ہے.چونکہ وہ خود روپوں پیسوں پر اپنا دین فروخت کرنے کے عادی ہیں اس لئے وہ ہمارے مبلغوں کے متعلق بھی یہ سمجھ لیتے ہیں کہ انہیں چونکہ مرکز کی طرف سے گزارہ ملتا ہے اس لئے انہوں نے اپنا دین بیچ دیا ہے مگر یورپین لوگوں میں یہ بات نہیں ان میں پادری کی عزت قوم کے دوسرے معززین سے کم نہیں بلکہ زیادہ ہوتی ہے.ہاؤس آف لارڈز جو نوابوں کا مقام ہے اس میں بھی بڑے بڑے پادری شامل ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ کوئی موقع یا مجلس ہو اس میں پادری کو شامل کیا جا تا اور اس کا اعزاز کیا جاتا ہے اس کی وجہ سے باوجود یورپ میں دہریت پھیلنے کے مذہب کی عزت اور اس کا احترام وہاں پایا جاتا ہے.وہ دہر یہ ہیں اور خدا تعالیٰ کے وجود کے منکر مگر سمجھتے ہیں کہ ہماری مذہبی روش اس قابل ہے کہ اسے قائم رکھا جائے کیونکہ ملک کی ترقی کے لئے اس روح کا قائم رہنا ضروری ہے.پس وہ پادریوں کا اعزاز کرتے اور انہیں اس قابل سمجھتے ہیں کہ اپنی آنکھوں پر بٹھا ئیں اور جو کچھ وہ انہیں دیتے ہیں بجائے اس کے کہ اس کی وجہ سے ان پر احسان رکھیں وہ اسے ان کی خدمات کا ادنی معاوضہ سمجھتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں یہ بات نہیں.میں اپنی جماعت میں بھی دیکھتا ہوں کہ مسلمانوں کے پرانے رسم و رواج کے ماتحت جب کوئی ہم میں سے بھی دنیاوی لحاظ سے کچھ عزت حاصل کر لیتا ہے تو وہ سلسلہ کے مبلغین کو ادنی سمجھنے لگ جاتا 235

Page 248

خطبہ جمعہ فرموده 20 دسمبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد اول ہے.حالانکہ جو شخص دین کے لئے اپنی زندگی وقف کرتا ہے وہ ادنی نہیں بلکہ اعلیٰ ہے بشرطیکہ مبلغ ہر قسم کی کو تا ہی سے اپنے آپ کو بچائے.میرے نزدیک مبلغوں میں سے بعض ایسے ہو سکتے ہیں بلکہ بعض کمزور مبلغ ایسے ہیں جنہوں نے ظاہر میں دین کو دنیا پر مقدم کیا ہے مگر در حقیقت وہ دنیا کو دین پر مقدم رکھتے ہیں بعض دفعہ وہ جھوٹا بل بنادیں گے، بعض دفعہ لوگوں سے مانگ کر چیزیں لے لیں گے مگر ایک یا دو یا اس سے زیادہ کی برائی سارے مبلغوں کی طرف منسوب نہیں ہو سکتی.اگر ایک یا دو ایسے مبلغ ہیں جو اس قسم کے ناجائز کام کرنے والے ہیں تو بیسیوں ایسے مبلغ بھی ہیں جنہوں نے حقیقت میں دین کو دنیا پر مقدم کیا اور اپنا دامن ہر قسم کی آلائشوں سے منزہ رکھا.پس دو چار کے نقائص سب کی طرف منسوب نہیں ہو سکتے اور اگر ہم کسی مبلغ کے متعلق دیکھیں کہ وہ جھوٹ بولتا ہے یا حرص اور لالچ سے کام لیتا ہے یا بعض جگہ سوالی بن جاتا تو ایسے شخص کی ذلت اس کے ساتھ تعلق رکھے گی اور وہ ایک آدمی کی ذلت ہوگی نہ کہ مبلغ کی ذلت.تم اس قسم کی حرکات دیکھ کر کہ سکتے ہو کہ فلاں شخص ذلیل ہے، تم اپنے دل میں محسوس کر سکتے ہو کہ فلاں شخص نے ذلیل کام کیا مگر تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ مبلغ ہونا ذلت کا کام ہے یا تبلیغ ناپسندیدہ چیز ہے.بہر حال موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ جب ہمارے مبلغ تبلیغ کے لئے جائیں تو بعض لوگ محسوس کریں کہ چونکہ یہ روپیہ لے کر کام کرنے والے ہیں اس لئے انہوں نے ایسی باتیں کہنی ہی ہیں لیکن اگر ایک ڈاکٹر تبلیغ کیلئے جاتا ہے یا ایک وکیل تبلیغ کیلئے جاتا ہے یا ایک زمیندار تبلیغ کے لئے جاتا ہے یا ایک سرکاری افسر تبلیغ کے لئے جاتا ہے تو وہ لوگ جو مبلغوں سے باتیں سننے کیلئے تیار نہیں ہو سکتے وہ ان سے باتیں سن کر دین کی باتیں سمجھ سکیں گے.اس وجہ سے میں نے تحریک کی تھی کہ وہ لوگ جنہیں خدا تعالیٰ نے کسی قسم کی فوقیت دی ہے خواہ علم کے لحاظ سے خواہ پیشہ کے لحاظ سے خواہ ملازمت کے لحاظ سے وہ اپنے نام لکھا ئیں تا انہیں وعظوں اور لیکچروں کیلئے مختلف مقامات کے جلسوں پر بھیجا جا سکے.مجھے افسوس ہے کہ میری اس تحریک پر بہت کم لوگوں نے اپنے آپ کو پیش کیا.میں یہ نہیں کہتا کہ لوگوں نے اپنے آپ کو پیش نہیں کیا ، پیش کیا مگر بہت کم اور پھر افسوس ہے کہ جن لوگوں نے اپنے آپ کو پیش کیا ہم ان سے صحیح رنگ میں فائدہ نہ اٹھا سکے.وجہ یہ ہوئی کہ یہ تمام نام دفتر تحریک جدید میں درج کئے گئے اور چونکہ دفتر تحریک جدید کا کام جلسے کرانا اور لیکچروں کے لئے لوگوں کو بھیجنا نہیں بلکہ یہ کام دعوۃ و تبلیغ کا ہے اس لئے یہ کام نہ ہو سکا.اب میں ایک تو دفتر تحریک جدید کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ ایسی تمام فہرستیں دعوۃ و تبلیغ کے دفتر میں بھجوادے اور دوسرے میں دعوت و تبلیغ والوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ ان لوگوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں 236

Page 249

تحریک جدید - ایک ابھی تحریک....جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 20 دسمبر 1935ء لیکن چونکہ یہ کام ایک عرصہ سے ہماری جماعت کے ذہن سے اترا ہوا تھا اس لئے میں دعوۃ و تبلیغ والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ لوگوں سے تدریجا کام لیں اگر انہوں نے پہلے ہی یکدم لوگوں پر بوجھ ڈال دیا تو جنہوں نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے وہ اس کی برداشت نہ کر سکیں گے اور کام کرنا چھوڑ دیں گے چونکہ ہماری جماعت کے افراد کے لئے یہ نیا کام ہوگا اس لئے آہستہ آہستہ اس کی انہیں عادت ڈالی جائے، پہلے کسی ایک جلسہ پر انہیں بھیجا جائے کچھ مدت کے بعد دو جلسوں پر ان سے لیکچر دلائے جائیں اسی طرح تدریج کے ساتھ ترقی کی جائے اور یکدم بار نہ ڈالا جائے.اگر اس طرح کام لیا گیا تو تھوڑے ہی عرصہ کے بعد لوگ کام کرنے کے عادی ہو جائیں گے اور پھر اس قدر انہیں شوق پیدا ہو جائے گا کہ وہ خود کہیں گے ہمیں کسی جلسہ پر لیکچر کے لئے بھیجا جائے.میں نے یہ دیکھا ہے خواجہ کمال الدین صاحب لیکچر دیا کرتے تھے ہمیں ان کے لیکچروں پر کتنا ہی اعتراض کیوں نہ ہو چونکہ وہ وکالت کی پریکٹس چھوڑ کر لیکچر دیا کرتے تھے اس لئے لوگوں پر علما کے لیکچروں سے ان کے لیکچر کا زیادہ اثر ہوتا تھا اور وہ بات چاہے کتنی ہی غلط کہتے ، لوگ کہتے ایک کامیاب وکیل اپنا پیشہ چھوڑ کر جو تبلیغ کر رہا ہے اس کی باتیں توجہ سے سننی چاہئیں.پس کوئی وجہ نہیں کہ ہم دین کے لئے وہ تمام ذرائع اختیار نہ کریں جو خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے پیدا کئے ہیں.میں ایک طرف تو دعوۃ و تبلیغ والوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ جن لوگوں نے اس سلسلہ میں اپنے نام پیش کئے ہیں ان کی لسٹ دفتر تحریک جدید سے لے کر کام شروع کریں اور دوسری طرف جماعت کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ اپنے نام دفتر تحریک جدید میں بھجوائیں تاکہ تبلیغ کے اس طریق سے بھی فائدہ اُٹھایا جائے اور میں اُمید کرتا ہوں کہ جماعت کے احباب گزشتہ سال سے زیادہ اپنے آپ کو اس سلسلہ میں پیش کریں گے.(2) تحریک جدید کی ہدایتوں میں سے ایک ہدایت یہ بھی تھی کہ ہماری جماعت کے افراد بے کار نہ رہیں.میں نہیں کہہ سکتا میری اس تحریک پر جماعت نے کس حد تک عمل کیا ؟ لیکن اپنے طور پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ جماعت نے اس پر کوئی عمل نہیں کیا اور اگر کیا ہو تو میرے پاس اس کی رپورٹ یا درکھو! جس قوم میں بے کاری کا مرض ہو وہ نہ دنیا میں عزت حاصل کر سکتی ہے اور نہ دین میں عزت حاصل کر سکتی ہے.بے کاری ایک وبا کی طرح ہوتی ہے جس طرح ایک طاعون کا مریض سارے گاؤں والوں کو طاعون میں مبتلا کر دیتا ہے، جس طرح ایک ہیضہ کا مریض سارے گاؤں والوں کو ہیضہ میں مبتلا کر دیتا ہے اسی طرح تم ایک بے کار کوکسی گاؤں میں چھوڑ دووہ سارے نو جوانوں کو بے کار بنانا شروع 237

Page 250

خطبہ جمعہ فرموده 20 دسمبر 1935ء کر دے گا.تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول جو شخص بے کار رہتا ہے وہ کئی گندی عادتیں سیکھ جاتا ہے.مثلا تم دیکھو گے کہ بے کار آدمی ضرور اس قسم کی کھیلیں کھیلے گا جیسے تاش یا شطرنج وغیرہ ہیں اور جب وہ یہ کھیلیں کھیلنے بیٹھے گا تو چونکہ وہ اکیلا کھیل نہیں سکتا اس لئے وہ لاز مادو چار اور لڑکوں کو اپنے ساتھ ملانا چاہے گا اور پھر اپنے حلقہ کو اور وسیع کرتا جائے گا.اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے ہمارے ایک اُستاد تھے ان کے دماغ میں کچھ نقص تھا بعد میں وہ اسی نقص کی وجہ سے مدعی کا موریت اور نبوت بھی ہو گئے ، انہیں بھی کسی زمانہ میں تاش کھیلنے کا شوق تھا اور باوجود اس کے کہ وہ ہمارے استاد تھے اور ان کا کام یہ تھا کہ ہماری تربیت کریں پھر بھی وہ پکڑ کر ہمیں بٹھا لیتے اور کہتے آؤ تاش کھیلیں.اس وقت ہم کو بھی اس کھیل میں مزہ آتا کیونکہ بچپن میں جس کام پر بھی لگا دیا جائے اس میں بچے کو لذت آتی ہے لیکن آج یہ بے ہودہ کھیل معلوم ہوتی ہے.مجھے یاد ہے بعض اور بچے بھی ان کے ساتھ تاش کھیلتے جب نماز کا وقت آتا تو ہم نماز پر جانے کے لئے گھبراہٹ کا اظہار کرتے لیکن جب انہیں ہماری گھبراہٹ محسوس ہوتی تو کہتے ایک بار اور کھیل لو! وہ کھیلتے تو تھوڑی دیر کے بعد کہتے ایک بار اور کھیل لو! ہمارے کان میں چونکہ ہر وقت یہ باتیں پڑتی رہتی تھیں کہ دین کی کیا قیمت ہے اس لئے جب ہم دیکھتے کہ نماز کو دیر ہو رہی ہے تو اٹھ کر نماز کے لئے بھاگ جاتے مگر جن کے کانوں میں یہ آواز نہ پڑے کہ دین کی کیا قدر و قیمت ہوتی ہے اُن کے ساتھ اگر ایسی کھیلوں میں دوست مل جائیں یا کوئی اُستاد ہی مل جائے تو ان کی زندگی کے تباہ ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے؟ جس وقت فٹ بال کی کھیل میں مقابلہ ہوتا ہے یا کرکٹ میں مقابلہ ہوتا ہے یا تاش میں مقابلہ ہوتا ہے تو بچے لذت محسوس کرتے ہیں کیونکہ انسان کو ترقی دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فطرت میں یہ مادہ رکھا ہے کہ وہ مقابلہ میں دلچسپی لیتی اور لذت محسوس کرتی ہے.اگر کبھی چوری کے مقابلہ کی عادت ڈال دو تو تھوڑے ہی دنوں میں تم دیکھو گے کہ چوریاں زیادہ ہونے لگی ہیں اور لوگوں نے چوری میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش شروع کر دی ہے.یہی مقابلہ کی روح ہے جو تاش وغیرہ کھیلوں کے ذریعہ بچوں کی زندگی برباد کر دیتی ہے.غرض تم کسی شہر میں ایک آوارہ کو چھوڑ دو وہ چونکہ بے کار ہوگا اس لئے اپنی بے کاری کو دور کرنے کے لئے کوئی کام نکالے گا کیونکہ انسان اگر فارغ بیٹھے تو تھوڑے ہی دنوں میں پاگل ہو جائے لیکن چونکہ وہ محنت سے جی چراتا ہے اس لئے بجائے کوئی مفید کام کرنے کے ایسے کام کرتا ہے جن میں اس کا دن بھی گزر جاتا ہے اور جی بھی لگارہتا ہے.کہیں تاش شروع ہو جائیں گے، کہیں شطرنج کھیلی جائے گی ، کہیں گانا شروع ہو جائے گا، کہیں 238

Page 251

تحریک جدید- ایک ابھی تحریک....جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 20 دسمبر 1935ء بانسریاں بجنی شروع ہو جائیں گی، کہیں سارنگیاں اور پھر طبلے بجنے لگ جائیں گے یہاں تک کہ اسے ان چیزوں کی عادت ہو جائے گی اور ان سے پیچھے ہٹانا اس کے لئے ناممکن ہو جائے گا وہ بظاہر ایک آوارہ ہوگا مگر در حقیقت وہ مریض ہو گا طاعون کا، وہ مریض ہوگا ہیضے کا جو نہ صرف خود ہلاک ہوگا بلکہ ہزاروں اور قیمتی جانوں کو بھی ہلاک کرے گا پھر اس سے متاثر ہونے والے متعدی امراض کی طرح اور لوگوں کو متاثر کریں گے اور وہ اور کو یہاں تک کہ ہوتے ہوتے ملک کا کثیر حصہ اس لعنت میں گرفتار ہو جائے گا.پس بے کاری ایسا مرض ہے کہ جس علاقہ میں یہ ہو اس کی تباہی کے لئے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں.پہلا بے کا راس لئے بنا تھا کہ اس کے والدین نے اس کے لئے کام مہیا نہ کیا لیکن دوسرے بے کار اس لئے بنیں گے کہ وہ ایک بے کار سے متاثر ہو کر اس کے رنگ میں رنگین ہو جائیں گے اور اس کی بد عادات کو اپنے اندر پیدا کر کے اپنی زندگی کا مقصد یہی سمجھیں گے کہ کہیں بیٹھے تو گالیا، کہیں سر مارلیا ، کہیں تاش کھیل لی، کہیں شطرنج کھیل لیا، کہیں جوا کھیلنے لگ گئے.غرض بے کاروں کی تمام تر کوشش ایسے ہی کاموں کے لئے ہوگی جو نہ ان کے لئے مفید نہ سلسلہ کے لئے اور نہ مذہب کے لئے.پھر اقتصادی لحاظ سے بھی بے کاری ایک لعنت ہے اور اسے جس قدر جلد ممکن ہو دور کرنا چاہئے ہمارے ملک کی آمد پہلے ہی چھ پانی فی کس ہے اور یہ ہر شخص کی آمد نہیں بلکہ کروڑ پتیوں کی آمد ڈال کر اوسط نکالی گئی ہے اور ان لوگوں کی آمد ڈال کر نکالی گئی ہے جن کی دو تین لاکھ روپیہ ماہوار آمد ہے ورنہ اگر ان کو نکال دیا جائے تو ہمارے ملک کی آمد فی کس تین پائی رہ جاتی ہے جس ملک کی آمدنی کا یہ حال ہو اس میں سمجھ لو کتنے بے کار ہوں گے؟ اگر ملک کے تمام افراد کام پر لگے ہوئے ہوتے تو یہ حالت نہ ہوتی لیکن اب تو یہ حال ہے کہ اگر کوئی دو آنے کماتا ہے تو اس پر اتنے بے کاروں کا بوجھ ہوتا ہے کہ اپنے لئے اس کی آمد دمڑی رہ جاتی ہے اور جو زیادہ کماتا ہے اس کی آمد پر بھی اثر پڑتا ہے تو بے کاروں کی وجہ سے ایک تو دوسرے لوگ ترقی نہیں کر سکتے کیونکہ بے کار ان کے لئے بوجھ بنتے ہیں.دوسرے جب ملک میں ایک طبقہ ایسا ہو جو آگے نہ بڑھنے والا ہو تو دوسرے لوگوں کا قدم بھی ترقی کی طرف نہیں بڑھ سکتا کیونکہ بے کار مزدوری کو بہت کم کر دیتے ہیں.بے کار شخص ہمیشہ عارضی کام کرنے کا عادی ہوتی ہے اور جب کسی کی بے کاری حد سے بڑھتی اور وہ بھوکوں مرنے لگتا ہے تو مزدوری کے لئے نکل کھڑا ہوتا ہے لیکن چونکہ اسے سخت احتیاج ہوتی ہے اس لئے اگر ایک جگہ مزدور کو چار آنے مل رہے ہوں تو یہ دو آنے لے کر بھی وہ کام کر دے گا اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ سارے مزدوروں کی اجرت دو آنے ہو جائے گی اور لوگ کہیں گے کہ جب ہمیں دو دو آنے پر مزدور مل جاتے ہیں تو ہم چار آنے مزدوری 239

Page 252

خطبہ جمعہ فرموده 20 دسمبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول کیوں دیں؟ پس وہ ایک بے کارساری دنیا کے مزدوروں کی اجرت کو نقصان پہنچا تا اور سب کو دو آنے لینے پر مجبور کر دیتا ہے.یہی وجہ ہے کہ جن قوموں میں بے کاری زیادہ ہو ان میں مزدوری نہایت سستی ہوتی ہے کیونکہ بے کار مجبوری کی وجہ سے کام کرتا اور باقی مزدوروں کی اجرتوں کو نقصان پہنچا دیتا ہے لیکن جن قوموں میں بے کاری کم ہو ان میں مزدوری مہنگی ہوتی ہے.تو بے کا را قتصادی ترقی کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں بے کار شخص ہمیشہ مانگنے کے عادی ہوگا، دوسروں پر بوجھ بنے گا اور اگر کبھی مزدوری کرے گا تو مزدوروں کی ترقی کو نقصان پہنچائے گا.پس اقتصادی لحاظ سے بھی بے کاروں کا وجود سخت خطر ناک ہے.پھر نہ صرف اقتصادی لحاظ سے بے کاروں کا وجود خطرناک ہے بلکہ قومی لحاظ سے بھی ان کا وجود خطر ناک ہے.اگر کسی قوم میں دس ہزار میں سے ایک ہزار بے کار ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس قوم کے پاس سو میں سے صرف نوے شخص موجود ہیں اور ان پر بھی دس فیصدی کا بوجھ ہے.ایسی قوم دنیا کی اور قوموں کے مقابلہ میں جن کا ہر فرد خود کمانے کا عادی ہو کس طرح کامیاب ہو سکتی ہے؟ نیلامی میں اس قسم کا نظارہ دیکھنے کا موقع مل سکتا ہے.ایک شخص کے پاس ایک سو روپیہ ہوتا ہے اور دوسرے کے پاس ایک سو ایک لیکن یہ سو روپیہ پاس رکھنے والا شخص وہ چیز نہیں لے سکتا جو صرف ایک روپیہ زائد پاس رکھنے والا اس کا مخالف لے جاتا ہے.اگر صرف ایک روپیہ زائد پاس رکھنے سے نیلامیوں میں مخالف کامیاب ہو جاتا ہے تو جہاں سو کے مقابلہ میں کسی کے پاس نوے روپے ہوں وہ کس طرح کامیاب ہو سکتا ہے؟ ایسے شخص کا تو شکست کھا جانا یقینی ہے.ہندؤوں کو دیکھ لو، ان میں چونکہ بے کار کم ہیں اس لئے وہ ہر مرحلہ پر مسلمانوں کو شکست دے دیتے ہیں ان کی قوم دولت کمانے کی عادی ہے اور گوہ دنیا کی خاطر دولت کماتی ہے جسے ہم اچھا نہیں سمجھتے مگر اقتصادی اور قومی طور پر اس کا نتیجہ ان کے لئے نہایت ہی خوش کن نکلتا ہے.پس میں نے تحریک کی تھی کہ ہماری جماعت میں جو لوگ بے کار ہیں وہ معمولی سے معمولی مزدوری کر لیں مگر بے کار نہ رہیں لیکن جہاں تک مجھے معلوم ہے میری اس نصیحت پر عمل نہیں کیا گیا اور اگر کیا گیا تو بہت کم حالانکہ اگر کوئی شخص بی.اے ہے یا ایم.اے اور اسے ملازمت نہیں ملی اور وہ کوئی ایسا کام شروع کر دیتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ دو یا پانچ روپے ماہوار کماتا ہے تو اس کا اسے بھی فائدہ ہوگا اور جب وہ کام میں مشغول رہے گا تو دوسروں کو بھی فائدہ ہوگا اور اس سے عام لوگوں کو وہ نقصان نہیں پہنچے گا جو بے کار شخص سے پہنچتا ہے بلکہ محنت سے کام کرنے کی وجہ سے اس کے اخلاق درست ہوں گے.محنت سے کام کرنے کی وجہ سے اس کے ماں باپ کا روپیہ جو اس پر صرف کرتے تھے ضائع نہیں ہو گا اور محنت سے کام کرنے کی وجہ سے اس سے قوم 240

Page 253

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 20 دسمبر 1935ء کو بھی فائدہ پہنچے گا.غرضیکہ وہ اپنی اخلاقی حالت کو بھی درست کرے گا اور اقتصادی حالت کو بھی.پس میں ایک دفعہ پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں.جو لوگ اپنے بے کار بچہ کے متعلق یہ کہتے ہیں یہ ہمارا بچہ ہے، ہمارے گھر سے روٹی کھاتا ہے، کسی اور کو اس میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ ویسی ہی بات کہتے ہیں جیسے کوئی کہے کہ میرا بچہ طاعون سے بیمار ہے کسی اور کوگھبرانے کی کیا ضرورت ہے؟ یا میرا بچہ ہیضہ سے بیمار ہے کسی اور کو گھبرانے کی کیا ضرورت ہے؟ جس طرح طاعون کے مریض کے متعلق کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے متعلق کسی اور کو کچھ کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ بلکہ سارے شہر کو حق حاصل ہے کہ اس پر گھبراہٹ کا اظہار کرے اور اس بیماری کو رو کے جس طرح ہیضہ کے مریض کے متعلق کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس معاملہ میں کسی اور کو کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ بلکہ سارا شہر اس بات کا حق رکھتا ہے کہ اس سے متعلق گھبراہٹ ظاہر کرے اور اس بیماری کو رو کے اسی طرح جو شخص بے کار ہے اس کے متعلق تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اسے ہم خود روٹی کھلاتے اور کپڑے پہناتے ہیں کسی اور کو اس میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے؟ بلکہ ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ اس بے کاری کے مرض کو دور کرنے کی کوشش کرے کیونکہ وہ طاعون اور ہیضہ کے کیڑوں کی طرح دوسرے بچوں کا خون چوستا اور انہیں بد عادات میں مبتلا کرتا ہے.تم ہیضہ کے مریض کو اپنے گھر میں رکھ سکتے ہو تم طاعون کے مریض کو اپنے گھر میں رکھ سکتے ہو مگر تم ہیضہ اور طاعون کے کیٹروں کو اپنے گھر میں نہیں رکھ سکتے کیونکہ وہ پھلیں گے اور دوسروں کو مرض میں مبتلا کریں گے اسی طرح تم یہ کہہ کر کہ ہم اپنے بچہ کو کھلاتے اور پلاتے ہیں اس ذمہ واری سے عہدہ برآنہیں ہو سکتے جو تم پر عائد ہوتی ہے بلکہ تمہارا فرض ہے کہ جس قدر جلد ہو سکے اس بیماری کو دور کرو ورنہ قوم اور ملک اس کے خلاف احتجاج کرنے میں حق بجانب ہوں گے.پس یہ معمولی بات نہیں کہ اسے نظر انداز کیا جا سکے.اگر ایک کروڑ پتی کا بچہ بھی بے کار ہے تو وہ اپنے گھر کو ہی نہیں بلکہ ملک کو بھی تباہ کرتا ہے.یا درکھو! تمام آوارگیاں بے کاری سے پیدا ہوتی ہیں اور آوارگی سے بڑھ کر دنیا میں اور کوئی جرم نہیں.میرے نزدیک چور ایک آوارہ سے بہتر ہے بشرطیکہ ان دونوں جرائم کو الگ الگ کیا جا سکے اور اگر چوری اور آوارگی کو الگ الگ کر کے میرے سامنے رکھا جائے تو یقینا میں یہی کہوں گا کہ چور ہونا اچھا ہے مگر آوارہ ہونا بر اقتل نہایت ناجائز اور نا پسندیدہ فعل ہے لیکن اگر میری طرح کسی نے اخلاق کا مطالعہ کیا ہو اور ان دونوں جرائم کو الگ الگ رکھ کر اس سے دریافت کیا جائے کہ ان میں سے کون سا فعل زیادہ برا ہے؟ تو وہ یقینا یہی کہے گا کر قتل کرنا اچھا ہے مگر آوارہ ہونا برا کیونکہ ممکن ہے قاتل پر ساری عمر میں صرف ایک گھنٹہ 241

Page 254

خطبہ جمعہ فرموده 20 دسمبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول ایسا آیا ہوجبکہ اس نے جوش میں آکر کسی شخص کو قتل کر دیا ہو لیکن آوارہ آدمی ساری عمر ذہنی طور پر قاتل بنا رہتا ہے اور اپنی عمر کے ہر گھنٹہ میں اپنی روح کو ہلاک کرتا ہے تم ایک قاتل کو نیک دیکھ سکتے ہو لیکن تم کسی آوارہ کو نیک نہیں دیکھ سکتے کیونکہ ہو سکتا ہے ایک شخص نیک ہو لیکن اس کی عمر میں ایک گھنٹہ ایسا آجائے جبکہ وہ جوش میں آکر کسی کو قتل کر دے اور قتل کے بعد اپنے کئے پر پشیمان ہو اور دوسرے گھنٹہ میں ہی وہ اپنے رب کے سامنے جھک جائے اور کہے اے میرے رب ! مجھ سے غلطی ہوئی مجھے معاف فرما.پس ہو سکتا ہے وہ معاف کر دیا جائے لیکن آوارہ شخص خدا تعالیٰ کی طرف نہیں جھکتا کیونکہ وہ مردہ ہوتا ہے اس میں کوئی روحانی حس باقی نہیں ہوتی.میرے نزدیک دنیا کا ہر خطر ناک سے خطرناک جرم آوارگی سے کم ہے اور آوارگی مجموعہ جرائم ہے کیونکہ جرم ایک جزو ہے اور آوارگی تمام جرائم کا مجموعہ.ایک بادشاہ کے ہاتھ کی قیمت بادشاہ کی قیمت سے کم ہے، ایک جرنیل کے ہاتھ کی قیمت جرنیل سے کم ہے اسی طرح ہر جرم کی پاداش آوارگی سے کم ہے کیونکہ جرم ایک جزو ہے اور آوارگی اس کا کل ہے تم دنیا سے آوارگی مٹاڈالو تمام جرائم خود بخود مٹ جائیں گے.تمام جرائم کی ابتدا بچپن کی عمر سے ہوتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بچہ آوارگی میں مبتلا ہوتا ہے تم بچے کو کھلا چھوڑ دیتے ہو اور کہتے ہو یہ بچہ ہے اس پر کیا پابندیاں عائد کریں؟ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خطرناک جرائم کا عادی بن جاتا ہے.اگر دنیا اپنے تمدن کو ایسا تبدیل کر دے کہ بچے فارغ نہ رہ سکیں تو یقیناً دنیا میں جرائم کی تعداد معقول حد تک کم ہو جائے.لوگ اصلاح اخلاق کے لئے کئی کئی تجویزیں سوچتے اور قسم قسم کی تدبیریں اختیار کرتے ہیں مگر وہ سب ناکام رہتی ہیں اس کے مقابلہ میں اگر بچوں کو کام پر لگا دیا جائے اور بچپن کی عمر فارغ عمر نہ قرار دیا جائے تو نہ چوری باقی رہے، نہ جھوٹ ، نہ دعا، نہ فریب اور نہ کوئی اور فعل بد.بالعموم لوگ بچپن کی عمر کو بے کاری کا جائز زمانہ سمجھتے ہیں حالانکہ وہ بے کاری بھی ویسی ہی نا جائز ہے جیسے بڑی عمر میں کسی کا بے کار رہنا.چنانچہ ہماری شریعت نے اس کو خصوصیت سے مد نظر رکھا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق امت محمدیہ کو ہدایت دی ہے، پاگل اور دیوانے کہتے ہیں کہ یہ بے معنی حکم ہے حالانکہ یہ بہترین تعلیم ہے جو بچوں کے اخلاق کی اصلاح کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی آپ ﷺ فرماتے ہیں: جب بچہ پیدا ہو تو اس کے دائیں کان میں اذان کہو اور بائیں میں اقامہ ! وہ بچہ جو ابھی بات کو سمجھتا ہی نہیں ، وہ بچہ جو آج ہی پیدا ہوا ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ تم آج ہی اس سے کام لو اور پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں اذان دو.کیا تم سمجھتے ہو کہ بچہ کے پیدا ہوتے ہی تو تمہیں اس کے کان میں اذان دینی چاہئے لیکن دوسرے اور تیسرے دن نہیں؟ 242

Page 255

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 20 دسمبر 1935ء کیا پہلے دن بچہ اذان کو سمجھ سکتا تھا مگر مہینہ کے بعد کم فہم ہو جاتا ہے کہ تم اس حکم کو نظر انداز کر دیتے ہو؟ یا سمجھتے ہو کہ پہلے دن تو وہ اس قابل تھا کہ اس سے کام لیا جاتا لیکن سال دو سال گزرنے کے بعد وہ نا قابل ہو گیا ہے؟ جو شخص ہمیں یہ نصیحت کرتا ہے کہ تم بچہ کے پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں اذان دو یقینا وہ اس تعلیم کے ذریعہ ہمیں اس نکتہ سے آگاہ کرتا ہے کہ بچہ کا ہر دن تعلیم کا دن ہے اور ہر روز اس کی تربیت کا تمہیں فکر کرنا چاہئے مگر امت محمدیہ میں سے کتنے ہیں جنہوں نے اس نکتہ کو سمجھا؟ ہمیں خدا تعالیٰ نے ایسا معلم دیا تھا جس کا ہر ہر لفظ اس قابل تھا کہ دنیا کے خزانے اس پر نچھاور کر دیے جائیں اس نے ہمیں معرفت کے موتی دیئے ، علوم کے خزانے بخشے اور ایسی کامل تعلیم دی جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا عاجز ہے مگر افسوس ! لوگوں نے اس کی قدر نہ کی.تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جو پیدا ہوا مگر اس کے کان میں اذان نہ کہی گئی پھر کیوں تم نے اب تک یہ نقطہ نہیں سمجھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بے کاری کو سب سے بڑی لعنت قرار دیا ہے؟ اور تمہارا فرض ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اس لعنت سے بچاؤ.تم دنیا میں دیکھتے ہو کہ جب کارخانہ والوں کے سپر د کوئی مزدور کیا جاتا ہے تو وہ اس کا نام رجسٹر میں درج کر لیتے ہیں اور اس سے کام لینا شروع کر دیتے ہیں.کیا تم نے بھی دیکھا کہ کارخانہ والوں نے کسی مزدور کا نام رجسٹر میں درج کر لینے کے بعد اسے دو چار سال کے لئے کھلا چھوڑ دیا ہو؟ اگر نہیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے منہ سے کسی بزرگ کے ذریعہ تمہارے بچوں کے کانوں میں اذان دلا کر کہا کہ اب اس کا نام میری امت کے رجسٹر میں درج ہو گیا تم نے اس بچے کا نام رجسٹر میں درج تو کرالیا مگر پھر ا سے کارخانہ سے چھٹی دے دی.پس اس غفلت اور کوتاہی کا تم پر الزام عائد ہوتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں.ہر نبی اپنی امت کا ذمہ دار ہوتا ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ تعلیم دے دی کہ جب کوئی بچہ پیدا ہو تو اس کے کان میں اذان کہو تو اس کے بعد قیامت کے دن اگر محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے خدا تعالیٰ پوچھے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ! یہ تیری امت کے بے کارجو چور، قاتل، جھوٹے ، دغا باز ، فریبی اور مکار بن گئے اور خون چوسنے والی جونکوں کی طرح انہوں نے ظلم سے دوسروں کی اولا دوں کو بھی تباہ کیا ان کی ذمہ داری کس پر ہے؟ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہ دیں گے اے خدا! اس کی ذمہ داری مجھ پر نہیں میں نے تو انہیں کہہ دیا تھا کہ جس دن بچہ پیدا ہوا اسی دن اس کے کان میں اذان دو جس کا یہ مطلب تھا کہ اسی دن بچوں کو کام پر لگا دو اور ان کی نگرانی کرو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو یہ جواب دے کر اپنی فرض شناسی کا ثبوت دے دیں گے مگر ذمہ داری ان کے 243

Page 256

خطبہ جمعہ فرموده 20 دسمبر 1935ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد اول لوگوں پر عائد ہو جائے گی جن کے گھروں میں بے کار نیچے رہے اور انہوں نے ان کی بے کاری کو دور کرنے کا کوئی انتظام نہ کیا.پس یہ غلطی ہے کہ ہمارے ملک میں بچپن کے زمانہ کو بے کاری کا زمانہ سمجھتے ہیں حالانکہ اگر بچپن کا زمانہ بے کاری کا زمانہ ہے تو پھر چوری چوری نہیں اور فریب فریب نہیں.تمام بدکاریاں اور تمام قسم کے فسق و فجور بچپن میں ہی سیکھے جاتے ہیں اور پھر ساری عمر کے لئے لعنت کا طوق بن کر گلے میں پڑ جاتے ہیں.پس بے کاری کا ایک دن بھی موت کا دن ہے جب تک ہماری جماعت اس نکتہ کو نہیں بجھتی حالانکہ خدا تعالیٰ نے اس کو سمجھانے والے دیئے ہیں، اس وقت تک وہ کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتی.دیکھو ! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کبھی مگر لوگوں نے نہ مجھی.اب میں نے بتائی ہے اور یہ میں آج ہی نہیں کہہ رہا بلکہ میں مختلف رنگوں اور مختلف پیرایوں میں کئی دفعہ اس بات کو دہرا چکا ہوں.مجھے اللہ تعالیٰ نے ایسا ملکہ دیا ہے کہ میں اسلام کے کسی حکم کو بھی لوں اسے ہر دفعہ نئے رنگ میں بیان کر سکتا اور نئے پیرایہ میں لوگوں کے ذہن نشین کر سکتا ہوں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم مختلف رنگوں میں ایک بات کو سنو مزے لو اور عمل نہ کرواس کے نتیجہ میں تمہارا جرم اور بھی بڑھ جاتا ہے کیونکہ تمہیں ایک ایسا شخص ملا جس نے ایک ہی بات مختلف ودلکش اور مؤثر پیرایوں میں تمہارے سامنے رکھی مگر پھر بھی تم نے اس کی طرف توجہ نہ کی.پس تحریک جدید میں میں نے ایک یہ نصیحت کی تھی کہ بے کاری کو دور کیا جائے مگر مجھے افسوس ہے کہ جماعت نے اس طرف توجہ نہیں کی.(3) میں نے اس کا ایک مرکز بنانے کے لئے بورڈ نگ تحریک جدید قائم کیا ہے.میں خوش ہوں کہ جماعت نے اس بورڈنگ میں اپنے لڑکے داخل کرنے کے متعلق میری تحریک پر عمل کیا اور اس وقت ساٹھ سے اوپر طالب علم بورڈنگ تحریک جدید میں داخل ہیں لیکن یہ تعداد بھی کافی نہیں اور پھر میرے مدنظر تحریک جدید کا صرف ایک بورڈنگ نہیں بلکہ دو ہیں : ایک تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ساتھ اور دوسرا مدرسہ احمدیہ کے ساتھ.پھر میرے مد نظر یہ بھی ہے کہ اسی طرز پر لڑکیوں کے لئے بھی ایک بورڈ نگ قائم کیا جائے اور میرا منشا یہ ہے کہ جماعت کے کسی لڑکے اور لڑکی کو فارغ نہ رہنے دیا جائے.میرے پاس بورڈ نگ تحریک جدید کے سپر نٹنڈنٹ شکایت کرتے رہتے ہیں کہ لڑکوں کے پاس اتنا کام ہے کہ اور زیادہ کام کے لئے ان کے پاس کوئی وقت نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں اگر اوقات کا صحیح استعمال کیا جائے تو کام نہایت قلیل عرصہ میں ختم ہو سکتا ہے اور باقی وقت اور کاموں کے لئے بیچ سکتا ہے.میں دیکھتا 244

Page 257

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 20 دسمبر 1935ء ہوں وہی کام جو میں تھوڑے سے وقت میں کر لیتا ہوں اگر کسی دوسرے کے سپرد کروں تو وہ دو گنا بلکہ بعض دفعہ چوگنا وقت لے لیتا ہے بلکہ بعض کام جو میں دو گھنٹے میں کر لیتا ہوں اگر کسی اور کے سپرد کروں تو وہ چوبیس گھنٹے خرچ کر دیتا ہے.در حقیقت انسانی دماغ میں اللہ تعالیٰ نے یہ قابلیت رکھی ہے کہ اگر انسان چوکس اور ہوشیار ہو کر بات سنے اور اس پر عمل کرے تو وہ اتنی جلدی بات سمجھ لیتا اور کام کو پورا کر دیتا ہے کہ دوسرے حیران رہ جاتے ہیں.پس اگر تحریک جدید کے بورڈروں کو ہوشیار بنایا جائے اور ان میں چستی اور بیداری پیدا کی جائے تو ان کا دن چوبیس گھنٹے کا نہ رہے بلکہ اڑتالیس یا بہتر گھنٹے کا بن جائے یا اس سے بھی زیادہ کا.تو در حقیقت وقت کی زیادتی آپ ہی آپ ہو سکتی ہے اگر لڑکے کو چست بنایا جائے ، اسے جلدی جلدی لکھنے کی عادت ڈال دی جائے ، جلدی جلدی بات سمجھنے کی قابلیت اس میں پیدا کی جائے اور اس کے تمام عقلی قومی کو تیز کر دیا جائے تو وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ چوبیس گھنٹے میں کام ختم نہیں ہوتا شکوہ کریں گے کہ ہمارے پاس وقت ہے مگر کام نہیں لیکن جلدی سے مراد بے وقوفی نہیں بلکہ سوچ کر اور سمجھ کر جلدی کام کرنا مراد ہے.وہ لوگ جنہیں خدا تعالیٰ نے روحانی آنکھیں دی ہوئی ہوتی ہیں وہ جانتے ہیں کہ جلد بازی اور جلدی سے کام کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے.مولوی برہان الدین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک نہایت ہی مخلص صحابی گزرے ہیں احمدیت سے پہلے وہ وہابیوں کے مشہور عالم تھے اور ان میں انہیں بڑی عزت حاصل تھی جب احمدی ہوئے تو باوجود اس کے کہ ان کے گزارہ میں تنگی آگئی پھر بھی انہوں نے پروانہ کی اور اس غربت میں دن گزار دئیے بہت ہی مستغنی المزاج انسان تھے انہیں دیکھ کر کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا کہ یہ بھی کوئی عالم ہیں بلکہ بظاہر انسان یہی سمجھتا تھا کہ یہ کوئی کتھی ہیں بہت ہی منکسر طبیعت کے تھے، مجھے ان کا ایک لطیفہ ہمیشہ یادر ہتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب سیالکوٹ تشریف لے گئے اور وہاں سخت مخالفت ہوئی تو اس کے بعد آپ جب واپس آئے تو مخالفوں کو جس جس شخص کے متعلق پتہ لگا کہ یہ احمدی ہے اسے سخت تکلیفیں دینی شروع کر دیں.مولوی برہان الدین صاحب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوٹرین پر سوار کرا کے سٹیشن سے واپس جا رہے تھے کہ لوگوں نے ان پر گوبر اُٹھا اُٹھا کر پھینکنا شروع کر دیا اور ایک نے تو گوبر آپ کے منہ میں ڈال دیا مگر وہ بڑی خوشی سے اس تکلیف کو برداشت کرتے گئے اور جب بھی ان پر گو بر پھینکا جاتا تھا بڑے مزے سے کہتے تھے کہ ایہہ دن کھوں، ایہ خوشیاں کتھوں اور بتانے والے نے بتایا کہ ذرا بھی ان کی پیشانی پر بل نہ آیا.غرض بہت ہی مخلص انسان تھے وہ اپنے احمدی ہونے کا موجب ایک عجیب واقعہ سنایا کرتے تھے، احمدی گو وہ کچھ 245

Page 258

خطبہ جمعہ فرموده 20 دسمبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول عرصہ بعد میں ہوئے تھے مگر انہوں نے دعوئی سے بھی پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو شناخت کر لیا تھا.درمیان میں کچھ وقفہ پڑ گیا، انہوں نے ابتدا میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر سنا تو پیدل قادیان آئے یہاں آکر پتہ لگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور تشریف لے گئے ہیں، شائد کسی مقدمہ میں پیشی تھی یا کوئی اور وجہ تھی مجھے صحیح معلوم نہیں، آپ فورا گورداسپور پہنچے وہاں انہیں حضرت حافظ حامد علی صاحب مرحوم ملے، یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک دیرینہ خادم اور دعویٰ کے پہلے آپ کے ساتھ رہنے والے تھے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ذیل گھر میں یا کہیں اور ٹھہرے ہوئے تھے اور جس کمرہ میں آپ مقیم تھے اس کے دروازہ پر چک پڑی ہوئی تھی مولوی برہان الدین صاحب کے دریافت کرنے پر حافظ حامد علی صاحب نے بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے کمرہ میں کام کر رہے ہیں.انہوں نے کہا کہ میں آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں.حافظ صاحب نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مصروفیت کی وجہ سے منع کیا ہوا ہے اور حکم دے رکھا ہے کہ آپ کو نہ بلایا جائے.مولوی صاحب نے منتیں کیں کہ کسی طرح ملاقات کرا دو مگر حافظ صاحب نے کہا میں کس طرح عرض کر سکتا ہوں جب کہ آپ نے منع کیا ہوا ہے؟ لیکن آخر بہت سی منتوں کے بعد انہوں نے حافظ صاحب سے اتنی اجازت لے لی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چک سے جھانک کر زیارت کر لیں یا ان کی نظر بچا کر ، مجھے اس وقت یہ تفصیل یاد نہیں ، وہ اس کمرہ کی طرف گئے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے اور چک اُٹھا کر جھانکا تو دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نہل رہے ہیں اُس وقت آپ کی دروازہ کی طرف پشت تھی اور بڑی تیزی سے دیوار کی دوسری طرف جارہے تھے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عادت تھی کہ جب آپ کتاب، اشتہار یا کوئی مضمون لکھتے تو بسا اوقات ٹہلتے ہوئے لکھتے جاتے اور آہستہ آواز سے اسے ساتھ ساتھ پڑھتے بھی جاتے اس وقت بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوئی مضمون لکھ رہے اور بڑی تیزی سے ٹہلتے جا رہے تھے اور ساتھ ساتھ پڑھتے بھی جاتے تھے ، دیوار کے قریب پہنچ کر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام واپس مڑنے لگے تو مولوی برہان الدین صاحب کہتے ہیں میں وہاں سے بھاگا تا آپ کہیں مجھے دیکھ نہ لیں حافظ حامد علی صاحب نے یا اور کسی نے پوچھا کیا ہوا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کر لی ؟ وہ کہنے لگ گئے بس پتہ لگ گیا اور پنجابی زبان میں کہنے لگ گئے جیہڑا کمرے وچ اتنا تیز تیز چلدا ہے اس نے کسی دور جگہ ہی جانا ہے یعنی جو کمرہ میں اس قدر تیز چل رہا ہے معلوم ہوتا ہے اس کی منزل مقصود بہت 246

Page 259

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 20 دسمبر 1935ء دور ہے اور اسی وقت آپ کے دل میں یہ بات جم گئی کہ آپ دنیا میں کوئی عظیم الشان کام کر کے رہیں گے.یہ ایک نکتہ ہے مگر اسی کو نظر آسکتا ہے جسے روحانی آنکھیں حاصل ہوں.وہ اس وقت بغیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کوئی بات کئے چلے گئے مگر چونکہ یہ بات دل میں جم چکی تھی اس لئے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعویٰ کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق دی اور پھر اس قدرا خلاص بخشا کہ انہیں کسی کی مخالفت کی پرواہی نہ رہی.تو تیزی کے ساتھ کام کرنے میں اوقات میں بہت بڑا فرق پڑ جاتا ہے.پس بچوں کو جلدی کام کرنے اور جلدی سوچنے کی عادات ڈالی جائے مگر جلدی سے مراد جلد بازی نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر تیزی سے کام کرنا ہے.جلد باز شیطان ہے لیکن سوچ سمجھ کر جلدی کا کام کرنے والا خدا تعالیٰ کا سپاہی ہے.پھر میرا منشا ہے کہ نہ صرف موجودہ بورڈنگ تحریک جدید کو ترقی دی جائے بلکہ ایسا ہی ایک بورڈنگ مدرسہ احمدیہ کے ساتھ قائم کیا جائے اور اسی طرح کا ایک بورڈ نگ لڑکیوں کیلئے بنایا جائے اور میر امنشا ہے کہ آہستہ آہستہ لڑکوں کو اتنا تیز کام کرنے کا عادی بنایا جائے کہ وہ علاوہ تعلیم کے دوسرے کاموں کے لئے بھی وقت نکال سکیں اور ہو سکے تو اپنے لئے غلہ بھی خود پیدا کریں، سبزیاں خود پیدا کریں یعنی کھیتی باڑی کا بھی کام کریں.اس سے دو فائدے ہوں گے: ایک تو یہ کہ ان میں سے کبر مٹ جائے گا اور دوسرے یہ کہ بڑے ہو کر وہ نوکریوں پر نظر نہیں رکھیں گے بلکہ پیشوں کی طرف توجہ دیں گے.پھر اس کا یہ بھی فائدہ ہوگا کہ ان کی صحت اچھی رہے گی.ابھی ہمارے پاس اتنی جگہ نہیں کہ لڑکوں سے کھیتی باڑی کا کام لیا جائے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ بورڈنگ میں یہ نقص ہے کہ اس کے ارد گرد عمارتیں بن گئی ہیں اور کھیتی باڑی کے لئے کوئی زمین نہیں رہی.بورڈ نگ ایسی جگہ ہونا چاہئے جس کے ارد گرد کم از کم چالیس پچاس ایکڑ جگہ ہو اور بچوں کا یہ کام ہو کہ وہ صبح اٹھتے ہی کھیتی باڑی کا کام کریں پھر مرغی خانہ کا کام بھی انہیں سکھایا جائے اور اس طرح اپنے لئے وہ سبزی خود پیدا کریں ، غلہ خود پیدا کریں اور اگر گوشت کی ضرورت ہو تو وہ بھی مرغیاں ذبح کر کے اپنے لئے آپ مہیا کیا جائے اس طرز پر کام کرنے کے نتیجہ میں جہاں ماں باپ کے اخراجات کم ہو جائیں گے وہاں لڑکوں میں کام کرنے کی عادت پیدا ہو گی ، ان کا ذہن تیز ہوگا اور صحت مضبوط ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میں نے دیکھا ہے آپ دن بھر گھر کے اندر کام کرتے لیکن روزانہ ایک دفعہ سیر کے لئے ضرور جاتے اور چوہتر پچھتر برس کی عمر ہونے کے باوجود سیر پر اس قدر با قاعدگی رکھتے کہ آج وہ ہم سے نہیں ہو سکتی.ہم بعض دفعہ سیر پر جانے سے رہ جاتے ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام ضرور سیر کے لئے تشریف لے جاتے.تو کھلی ہوا کے اندر چلنا 247

Page 260

خطبہ جمعہ فرموده 20 دسمبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول پھر نا اور اس سے فائدہ اُٹھا نا دماغ کے لئے بہت مفید ہوتا ہے اور جب تحریک جدید کے بورڈ کھلی ہوا میں رہ کر مشقت کا کام کریں گے تو جہاں ان کی صحت اچھی رہے گی وہاں ان کا دماغ بھی ترقی کرے گا اور وہ دنیا کے لئے مفید وجود بن جائیں گے.پس یہ تحریک آج میں پھر کرتا ہوں کہ جماعت کے احباب اپنے بچوں کو بورڈ نگ تحریک جدید میں داخل کریں.خدا تعالیٰ کے فضل سے جو نوجوان بچوں کے لئے سپر نٹنڈنٹ مقرر ہیں وہ بچوں کی تعلیم اور ترقی میں بہت دلچسپی لے رہے ہیں اور تن دہی کے ساتھ اپنے فرائض کو ادا کر رہے ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ وہ ہر لحاظ سے پورا کام کر رہے ہیں ، ابھی ان کے لئے بھی ترقی کی بہت گنجائش ہے لیکن بہر حال وہ اس کام میں دلچسپی لے رہے ہیں اور چونکہ میں دیکھتا ہوں کہ انہیں بچپن سے دین کی طرف رغبت ہے اس لئے امید ہے کہ اگر انہوں نے اس میں ترقی کرنے کی کوشش کی تو وہ خود بھی فائدہ حاصل کر سکتے اور بچوں کو بھی فائدہ پہنچا سکتے ہیں علاوہ ازیں اس ذریعہ سے بے کاری کا بھی ایک حد تک ازالہ ہوسکتا ہے.پس یہ تین تحریکیں آج میں پھر دُہراتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ دوست ان کی طرف توجہ کریں گے.تمام دوستوں کو یا درکھنا چاہئے کہ کام ہمیشہ کرنے سے ہوتے ہیں باتیں کرنے سے نہیں ہوتے.میں نے پچھلے دو خطبوں میں، ایک پچھلے جمعہ کے خطبہ میں ایک چار پانچ پہلے جمعوں میں سے کسی ایک جمعہ کے خطبہ میں ، بیان کیا تھا کہ اگر تم سب کے سب مجھے چھوڑ دو تب بھی خد تعالی غیب سے سامان پیدا کر دے گا لیکن یہ ہو نہیں سکتا کہ جو بات خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہی اور جس کا نقشہ اس نے مجھے سمجھا دیا ہے وہ نہ ہو وہ ضرور ہو کر رہے گی خواہ دوست دشمن سب مجھے چھوڑ جائیں اس پر بعض دوستوں نے شکوہ کیا ہے کہ آپ نے یہ الفاظ کیوں کہے ؟ ہمیں ان سے تکلیف ہوتی ہے ہم تو آپ پر اپنی جان اور اپنا مال سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن یہ الفاظ اس قابل نہیں تھے کہ اس پر انہیں تکلیف ہوتی بلکہ اس قابل تھے کہ وہ بھی خدا تعالیٰ کے دین کے متعلق اسی قسم کے الفاظ کہتے یہ خدا تعالیٰ کا معاملہ ہے اور خدا تعالیٰ کے معاملہ میں رقابت کی ضرورت ہوتی ہے.میں تو چاہتا ہوں کہ ہم میں سے کوئی شخص ایسانہ ہو جس کے دل میں یہ احساس نہ ہو کہ خواہ ساری دنیا احمدیت کو چھوڑ دے پھر بھی وہ خدا کے سلسلہ کو پھیلا کر رہے گا.پس یہ صدمہ والی بات نہ تھی بلکہ رقابت والی بات تھی اور تم میں سے ہر شخص کو میری طرح یہ کہنا چاہئے تھا کہ اگر ساری دنیا الگ ہو جائے اور کوئی بھی ہمارے ساتھ نہ رہے پھر بھی احمد بیت دنیا کے کناروں تک پھیلا کر چھوڑیں گے کیونکہ یہ خدا کا سلسلہ ہے اور کوئی نہیں جو اسے روک سکے.میں نے اس کے 248

Page 261

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 20 دسمبر 1935ء صلى ساتھ ایک مثال بھی دی تھی اور بتایا تھا کہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسولوں کے قرب میں چھوٹے اور بڑے کا کوئی سوال نہیں ہوتا وہ یہ تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ آپ جو کام بھی شروع فرماتے دائیں طرف سے شروع کرتے ایک دفعہ آپ مجلس میں تشریف رکھتے تھے کہ کوئی شخص دود لایا.آپ نے تھوڑا سا پی کر چاہا کہ باقی تبرک حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دیں مگر وہ اس وقت آپ کے بائیں طرف تھے اور دائیں طرف ایک نوجوان بیٹھا تھا آپ نے دائیں طرف منہ کر کے اس نوجوان سے پوچھا کہ میاں ! اگر تم اجازت دو تو میں یہ دودھ ابو بکر کو دے دوں؟ اس نے کہا یا رسول اللہ صل اللہ علیہ آلہ سلم ! یہ آپ ﷺ کا حکم ہے یا آپ ﷺ مجھے اختیار دیتے ہیں کہ میں جو چاہوں کہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا حکم تو نہیں.وہ کہنے لگا تو پھر ادھر لائے تبرک کے معاملہ میں میں کسی کو اپنے آپ پر ترجیح نہیں دے سکتا.تو اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں سارے بندے رقیب ہیں اور ہر بندے کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ دوسرے سے اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہو.پس میں وہ الفاظ کہہ کر صرف اپنا احساس بیان نہیں کر رہا تھا بلکہ میں چاہتا تھا کہ تم میں سے ہر شخص کے دل میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ خدا تعالیٰ کے سلسلہ کی اشاعت کا وہی ذمہ دار ہے اور اگر ایسا احساس تم میں پیدا ہو جائے تو پھر نہ وعظ کی ضرورت ہے نہ لمبے خطبوں کی.پھر اتنی ہی ضرورت ہوگی کہ میں کھڑا ہو کر سورۃ فاتحہ کی تلاوت کر کے مختصر سے مختصر خطبہ بیان کر دوں کیونکہ مجھے علم ہوگا کہ ہر شخص اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا نمائندہ سمجھتا ہے اور اسے کسی وعظ کی ضرورت نہیں.پس جس دن تم یہ سمجھنے لگ جاؤ گے کہ تم دنیا میں خدا تعالیٰ کے نمائندہ ہو اور تمہارے سپر دہی یہ کام ہے کہ تم ساری دنیا میں احمدیت پھیلاؤ اُس دن کسی نصیحت، کسی لیکچر اور کسی وعظ کی ضرورت نہ رہے گی تم خود خدا تعالیٰ کی وہ چلتی پھرتی تلواریں ہو گے جو آپ ہی آپ ضلالت اور کفر و شرک کی گردنیں کاٹتی پھریں گی.یا درکھو! وعظ ونصیحت سے اس وقت تک کچھ نہیں بنتا جب تک دلوں میں تغیر پیدا نہ کیا جائے اور جب تک یہ سمجھا نہ جائے کہ ہم پر اشاعت دین کی ذمہ داری ہے جب تک یہ تغیر پیدا نہیں ہوتا وعظ و نصیحت کی ضرورت رہتی ہے اور جب لوگ یہ سمجھنے لگ جائیں کہ ہم خدا تعالیٰ کے نمائندہ ہیں اور ہمارا اپنا کام ہے کہ بغیر کسی تحریک کے خود بخود کام کرتے چلے جائیں وہ دن ترقی کا ہوتا ہے اور اس دن سے جماعت کو بیدار کرنے کی ضرورت نہیں رہتی.میں نے تحریک جدید کے مالی حصہ کے لئے چندہ کی اپیل کی تھی اس کے متعلق میں نے دیکھا ہے جو لوگ بیدار اور ہوشیار تھے انہوں نے اس بات کی ضرورت نہیں سمجھی کہ کب ان کی جماعت کی طرف سے مجموعی طور پر چندہ کی فہرست جاتی ہے بلکہ انہوں نے تحریک سنتے ہی اپنے وعدے 249

Page 262

خطبہ جمعہ فرموده 20 دسمبر 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول لکھوا دیے اور جن جماعتوں میں ایسے آدمی کم تھے ان کی طرف سے اب آہستہ آہستہ اور ٹکڑے ٹکڑے ہو کر نام پہنچ رہے ہیں مگر جو جو شیلے تھے انہوں نے جھٹ پٹ اپنے نام بھجوا دیئے اور سمجھ لیا کہ بعد میں جماعت کے چندہ دہندگان میں بھی اپنا نام لکھا دیں گے ستی کر کے اپنے ثواب کو کیوں کم کریں؟ یہ آگ جس دن ایک یا دو کے دل میں نہیں بلکہ تمام لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو جائے گی اس دن تمام وعظ دل سے پیدا ہوں گے اور خدا تعالیٰ کے فرشتے تمہارے دلوں میں بیٹھ کر آپ تمہاری راہنمائی کریں گے مگر وہ جن کے دلوں میں یہ آگ نہیں وہ ایک بیل گاڑی کی طرح ہیں جسے کھینچنے کے لئے بیلوں کی ضرورت ہوتی ہے یا گھوڑے گاڑی کی طرح ہیں جس کے آگے جب تک گھوڑے نہ جوتے جائیں حرکت نہیں کر سکتی مگر جن کے دلوں میں آگ پیدا ہو جائے وہ انجن کی طرح ہو جائیں گے جو کسی بیرونی تحریک کے محتاج نہ ہوں گے بلکہ ان کے اندر کی آگ خود بخود انہیں قربانیوں پر آمادہ کریں گی.پس یہ باتیں صرف سن لینے سے کام نہیں چلتا بلکہ کام اس آگ کے ذریعہ ہوگا جو تمہارے دلوں میں پیدا ہوگی.جب تک جماعت کے افراد کے دلوں میں یہ احساس پیدا نہ ہو کہ سلسلہ کے کاموں کے وہ خود ذمہ دار ہیں وہ یہ نہ دیکھیں کہ ان کا سیکر ٹری اور پریذیڈنٹ کیا کرتا ہے؟ بلکہ اگر سیکرٹری یا پریذیڈنٹ سستی کرتا ہے تو خود اس کی بجائے کام کریں اس وقت ستیک حقیقی معنوں میں ترقی نہیں ہو سکتی.میں نے دیکھا ہے کہ جس جماعت کا سیکرٹری یا پریذیڈنٹ صاحب خود چندہ نہ دینا چاہیں وہ کام کو پیچھے کرتے چلے جاتے ہیں.حالانکہ اگر جماعت کا ہر فرد اپنے آپ کو سلسلہ کے کاموں کے لئے سیکرٹری اور پریذیڈنٹ سمجھے تو وہ اپنے سیکرٹری یا پریذیڈنٹ کی سستی کی وجہ سے ثواب سے محروم نہ رہے بلکہ اگر وہ ست ہوں تو ان کی بجائے آپ جماعت میں چندہ کی تحریک شروع کر دے اور سیکرٹری اور پریذیڈنٹ کے کاموں کا بھی خود ثواب لے لے.میں نہیں سمجھ سکتا اگر تحریک جدید کے چندہ کے فارم لے کر کوئی شخص چل پڑے اور لوگوں سے وعدے لینا شروع کر دے تو اس کے متعلق کوئی شخص کہہ سکے کہ یہ مجرم ہے سیکرٹری یا پریذیڈنٹ کو یہ کام کرنا چاہئے تھا.اگر سیکرٹری یا پریذیڈنٹ چاہتا ہے کہ ثواب لے تو اس کا فرض ہے کہ دوسروں سے پہلے کام کرے اور اگر وہ کام نہیں کرتا اور جماعت کا کوئی اور فر دلوگوں سے چندہ لینا یا چندے کے وعدے لکھوانا شروع کر دیتا ہے تو خدا تعالیٰ کے نزدیک وہی سیکرٹری اور وہی پریذیڈنٹ ہے.غرض تحریکیں کتنی ہی اعلیٰ ہوں جب تک کام نہ شروع کیا جائے اور اس میں سرگرمی نہ دکھائی جائے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.پس اپنے اندر وہ آگ پیدا کرو جو تمہیں انجن بنادے تم بیل گاڑی نہ بنو 250

Page 263

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 20 دسمبر 1935ء جو بیلوں کی محتاج ہوتی ہے بلکہ تم انجن بنو جو دوسروں کو بھی کھینچ کر لے جاتا ہے.جس دن اس قسم کے لوگ جماعت میں پیدا ہو جائیں گے تمام کام خود بخود سہولت سے ہوتے چلے جائیں گے.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ رمضان کے پاک اور مقدس مہینہ کے طفیل ہماری جماعت کی غفلت اور ستی کو دور کرے اور ہر شخص میں یہ روح پیدا کرے کہ وہ اپنے آپ کو دنیا میں خدا تعالیٰ کا نمائندہ اور دینی خدمت کا ذمہ دار سمجھے.دیکھو! خدا تعالیٰ نے خاص طور پر بعض کو خلفا قرار دیا ہے مگر ایک جگہ یہ بھی فرماتا ہے کہ: ثُمَّ جَعَلْنَكُمُ خَلَّيْفَ فِي الْأَرْضِ (یونس: 15) تم میں سے ہر ایک خدا کا خلیفہ ہے.پس تم کیوں سمجھتے ہو کہ سلسلہ کے کاموں کا فلاں ذمہ دار ہے اور تم نہیں ؟ تم بھی ان کاموں کے ذمہ دار ہو اور دوسرے بھی اور میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ یہ احساس تم میں پیدا ہو کہ تم میں سے ہر شخص خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور اس کے جلال کا زندہ نمونہ ہے اور اسی کا فرض ہے کہ وہ دنیا کو آستانہ اسلام پر جھکائے اس کے ساتھ ہی میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو اخلاص کے ساتھ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے تا ہماری غفلتوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے جو نقصان اسلام کی اشاعت کو پہنچ رہا ہے وہ دور ہو اور ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن جائیں.“ مطبوع الفضل 25 دسمبر 1935 ء ) 251

Page 264

Page 265

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول ید-...جلد اقتباس از تقریر فرموده 20 اپریل 1935ء بورڈ نگ تحریک جدید میں اپنے بچے داخل کروانے والوں کو چند ہدایات " تقریر فرموده 20 اپریل 1935 ء بر موقع مجلس شورای اس کے بعد میں اختصار کے ساتھ تحریک جدید کے ماتحت اپنے بچوں کو داخل کرانے والوں سے کچھ کہنا چاہتا ہوں.اس کے متعلق بعض احباب کو یہ غلطی لگی ہے کہ گویا تحریک جدید کے ماتحت کوئی علیحدہ سکول قائم کیا جارہا ہے، یہ نہیں ، بلکہ بورڈ نگ قائم کیا گیا ہے.بعض نے اپنے بچوں کے متعلق یہ کہا ہے کہ انہیں قادیان میں تعلیم دلائیں.خواہ ہائی سکول میں داخل کر دیں، خواہ مدرسہ احمدیہ میں مگر تحریک جدید کے ماتحت جدا گانہ انتظام ہے.وہ سکول نہیں بلکہ بورڈنگ ہے جو خاص طور پر مقرر کیا گیا ہے.لڑکا چاہے مدرسہ احمدیہ میں پڑھے چاہے ہائی سکول میں پڑھے مگر فی الحال ہائی سکول میں پڑھنے والوں کے لئے یہ انتظام کیا گیا ہے.اس انتظام کے ماتحت اپنے لڑکوں کو دینے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ تحریک جدید کے دفتر میں یہ تحریر دیں کہ ہم نے اپنے فلاں بچہ کو اس تحریک کے ماتحت آپ کے سپرد کیا دوسری بات یہ ہے کہ بچہ کے متعلق تحریک جدید والوں کو کلی اختیارات دیئے جائیں.یعنی تربیت کے متعلق بچہ کے والد یا سر پرست کو دخل اندازی کا کوئی حق نہیں ہوگا.ان سب بچوں کو ایک ہی قسم کا کھانا ملے گا.سوائے اس کے کہ کوئی لڑکا ایسے علاقہ کا ہو جہاں روٹی کی بجائے چاول کھاتے ہیں.اس کو چاول اور سالن دیں گے لیکن باقی سب کے لئے ایک ہی کھانا ہوگا اور انہیں ایک ہی رنگ میں رکھا جائے گا.کوئی نمایاں امتیاز ان میں نہ ہونے دیا جائے گا، تا کہ غریب امیر اور چھوٹے اور بڑے کا امتیاز انہیں محسوس نہ ہو.پس ان کا لباس بھی اور کھانا بھی قریب قریب ایک جیسا ہوگا.پھر ان کی دینی تعلیم پر زیادہ زور دیا جائے گا.ہاں سکول میں پاس ہونے کے لئے سکول کی تعلیم بھی دلائی جائے گی، مگر یہ تعلیم دلانا مقصد نہ ہوگا بلکہ اصل مقصد دینی تعلیم ہوگی.بڑی عمر کے لڑکوں کو تجد بھی پڑھائی جائیں گی اور کسی ماں باپ کی شکایت نہ سنی جائے گی.یہ تو ہو سکے گا کہ لڑکے کو اس بورڈنگ سے خارج کر دیا جائے مگر یہ نہ سنا جائے گا کہ لڑکے کو یہ تکلیف ہے.اس کا یوں ازالہ کرنا چاہئے یا اس کے لئے یہ انتظام کیا جائے.اس بورڈنگ 253

Page 266

اقتباس از تقریر فرموده 20 اپریل 1935ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول کے سپرنٹنڈنٹ سے ہمارا عہد ہے کہ وہ ان بچوں میں باپ کی طرح رہے گا اور اگرلڑکوں میں سے کوئی ناروا حرکت کرے گا تو اس کی سزا خود لڑ کے ہی تجویز کریں گے.مثلاً یہ کہ فلاں نے جھوٹ بولا اسے یہ سزاملنی چاہئے.اس قسم کے اصول ہیں جو اس بورڈنگ کے لئے مقرر کئے گئے ہیں اور ابھی میں غور کر رہا ہوں.پس جو دوست اس تحریک کے ماتحت اپنے بچوں کو داخل کرنا چاہیں وہ تحریر دے جائیں.صرف یہاں کے کسی مدرسہ میں داخل کرا دینا کافی نہ ہوگا.اسی طرح انہیں بورڈنگ یا مدرسہ کے متعلق کوئی شکایت لکھنے کا حق نہ ہوگا.انہیں جو کچھ لکھنا ہوا انچارج تحریک کو لکھیں.وہ اگر مناسب سمجھے گا تو دخل دے گا.“ در پورت مجلس شوری منعقده 19 تا 21 اپریل ۱۹۳۵ ء ) 254

Page 267

دید - ایک الہی تحریک جلد اول وو اقتباس از تقریر فرموده: 21 اپریل 1935ء سیہ زمانہ ہمارے لئے نہایت نازک ہے آئندہ ہمیں اور زیادہ قربانی کی ضرورت پیش آنے والی ہے تقریر فرمودہ 21 اپریل 1935 ء بر موقع مجلس شورای پس میں پھر مجلس مشاورت کے نمائندوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہاں جو باتیں ہوتی ہیں ان کو یادرکھنے کی کوشش کرنی چاہئے.یہ زمانہ ہمارے لئے نہایت نازک ہے.مجھ پر بیسیوں راتیں ایسی آتی ہیں کہ لیٹے لیٹے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جنون ہونے لگا ہے اور میں اٹھ کر ٹہلنے لگ جاتا ہوں.غرض یہی نہیں کہ واقعات نہایت خطر ناک پیش آرہے ہیں بلکہ بعض باتیں ایسی ہیں جو ہم بیان نہیں کر سکتے.مجھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول یاد آتا ہے کسی نے ان سے کہا خالد کو آپ نے کیوں معزول کر دیا ؟ آپ نے فرمایا تم اس کی وجہ پوچھتے ہو؟ اگر میرے دامن کو بھی پتہ لگ جائے کہ میں نے اسے کیوں ہٹایا تو میں دامن کو پھاڑ دوں.تو سلسلہ کے خلاف ایسے سامان پیدا ہور ہے ہیں کہ جو میری ذات کے سوا کسی کو معلوم نہیں اور جو کچھ میں بتاتا ہوں وہ بھی بہت بڑا ہے اور اس سے بھی نیند حرام ہو جاتی ہے اور میں اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی نیند حرام کر دیا کرتا ہوں تحریک جدید والے کئی دن سے لکھ رہے ہیں کہ اب گرمیاں آگئی ہیں رات کو کام کرنا مشکل ہے لیکن پرسوں میں یہاں سے کام کر کے گیا تو رات کے ساڑھے بارہ، ایک بجے تک ڈاک پڑھی اور پھر صبح سویرے سے کام شروع کر دیا.تو ہمارے ذمہ اتنے کام ہیں کہ انہیں چھوڑ ہی نہیں سکتے.کل رات کو جب میں یہاں سے گیا تو جسم مضمحل تھا اور صبح کو بخار بھی تھا.معلوم نہیں اب ہے یا نہیں گو جسم کوفت محسوس کرتا ہے مگر وقت نہیں کہ اس کا خیال رکھیں.شریعت کہتی ہے کہ اپنے جسم کا بھی خیال رکھو مگر پھر بھی مصروفیت ایسی ہے کہ جسمانی تکلیف کی کوئی پروا نہیں کی جاسکتی اور میرے ساتھ کام کرنے والوں کی بھی یہی حالت ہوتی ہے.چودھری برکت علی صاحب کو مہینوں رات کے بارہ بجے تک تحریک جدید کا کام کرنا پڑا اسی طرح تحریک جدید کے دفتر کے کام کرنے کا وقت بارہ گھنٹے مقرر ہے اس سے زیادہ ہو جائے تو ہو جائے کم نہیں کیونکہ یہ اقل مقدار ہے.تو میں سمجھتا ہوں کہ وقت ایسا ہے کہ ہمیں اہم قربانی کی ضرورت ہے اس کے لئے سب - پہلے ناظر اور دوسرے کا رکن مد نظر ہیں.میں نے جن کارکنوں سے کام لیا وہ دفتر ڈاک اور تحریک جدید میں 255

Page 268

اقتباس از تقریر فرموده 21 اپریل 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول کام کرنے والے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ صدرانجمن کے دفاتر کے کارکنوں نے اتنا تعاون نہیں کیا جتنا انہیں کرنا چاہئے تھا.اگر ناظر بھی اسی طرح کام لیتے تو کام بہت زیادہ ہوتا ہاں ایک ناظر کو اس حد تک کام کرنا پڑا ہے یا اس کے قریب قریب اور وہ خان صاحب فرزند علی صاحب ہیں انہیں راتوں کو جاگنا پڑا اور ایک دفعہ تو ساری رات ہی جاگتے رہے مگر عام طور پر نظارتوں نے اس طرح تعاون نہیں کیا اس لئے پہلے میں ان کو نصیحت کرتا ہوں اور پھر جماعت کو کہ ایک احمدی دین کی خدمت میں پہلے سے زیادہ وقت لگائے.اس وقت ہم جنگ کے میدان میں کھڑے ہیں اور جنگ کے میدان میں اگر سپاہی لڑتے لڑتے سو جائے تو مر جاتا ہے.ہمارے سامنے نہایت شاندار مثال ان صحابہ کی ہے جن کے مثیل ہونے کے ہم مدعی ہیں.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ جھنڈا وہ لے جو اس کا حق ادا کرے.ایک صحابی نے کہا یا رسول اللہ ! مجھے دیں.آپ نے اس کو دے دیا.جنگ میں جب اس کا وہ ہاتھ کاٹا گیا جس سے اس نے جھنڈا تھاما ہوا تھا تو اس نے دوسرے ہاتھ میں تھام لیا اور جب دوسرا ہاتھ بھی کٹ گیا تو لاتوں میں لے لیا اور جب ٹانگیں کاٹی گئیں تو منہ میں پکڑ لیا آخر جب اس کی گردن دشمن اُڑانے لگا تو اس نے آواز دی دیکھو مسلمانو! اسلامی جھنڈے کی لاج رکھنا اور اسے گرنے نہ دینا! چنانچہ دوسر اصحابی آگیا اور اس نے جھنڈا پکڑ لیا.آج ہمارے جھنڈے کو گرانے کی بھی دشمن پوری کوشش کر رہا ہے اور سارا زور لگارہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں جو جھنڈا دے گئے ہیں اسے گرا دے.اب ہمارا فرض ہے کہ اسے اپنے ہاتھوں میں پکڑے رہیں اور اگر ہاتھ کٹ جائیں تو پاؤں میں پکڑلیں اور اگر اس فرض کی ادائیگی میں ایک کی جان چلی جائے تو دوسرا کھڑا ہو جائے اور اس جھنڈے کو پکڑ لے.میں ان نمائندوں کو چھوڑ کر ان بچوں اور نو جوانوں سے جواد پر بیٹھے سن رہے ہیں کہتا ہوں ممکن ہے یہ جنگ ہماری زندگی میں ختم نہ ہو.گو اس وقت لوہے کی تلوار نہیں چل رہی لیکن واقعات کی ، زمانہ کی اور موت کی تلوار تو کھڑی ہے ممکن ہے یہ چل جائے تو کیا تم اس بات کے لئے تیار ہو کہ اس جھنڈے کو گرنے نہ دو گے؟ (اس پر سب نے بیک آواز لبیک کہا.ہمارے زمانہ کو خدا اور اس کے رسولوں نے آخری زمانہ قرار دیا ہے اس لئے ہماری قربانیاں بھی آخری ہونی چاہئیں ، ہمیں خدا تعالیٰ نے دنیا کی اصلاح کے لئے چنا ہے اور ہم خدا تعالیٰ کی چنیدہ جماعت ہیں ہمیں دنیا سے ممتاز اور علیحدہ رنگ میں رنگین ہونا چاہئے.صحابہ تہمارے لئے ادب کی جگہ ہیں مگر عشق میں رشک پیاروں سے بھی ہوتا ہے.پس ہمارا مقابلہ ان سے ہے جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوش بدوش جنگیں کیں اور اپنی جانیں قربان کیں ہم ان کی بے حد عزت اور 256

Page 269

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول اقتباس از تقریر فرموده 21 اپریل 1935ء تو قیر کرتے ہیں لیکن کوئی وجہ نہیں کہ ان کی قربانیوں پر رشک نہ کریں اور ان سے بڑھنے کی کوشش نہ کریں.میں ایک مثال بیان کرتا ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے.آپ ﷺ کا طریق یہ تھا کہ اگر کوئی چیز اہل مجلس کو دیتے تو دائیں طرف والے کو دیتے.اس وقت آپ کے لئے دودھ لایا گیا آپ ﷺ نے اس وقت حضرت ابو بکر کی طرف دیکھا جو بائیں طرف بیٹھے تھے اور دائیں طرف ایک بچہ بیٹھا تھا آپ ﷺ نے شاید اس خیال سے کہ حضرت ابو بکر بوڑھے ہیں اور دیر سے بیٹھے ہیں انہیں بھوک لگی ہوگی بچے سے کہا اگر اجازت دو تو میں یہ دودھ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دے دوں؟ بچہ نے کہا کیا یہ دودھ لینے کا میرا حق ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں ! اس نے کہا پھر میں یہ نہیں کر سکتا کہ یہ حضرت ﷺ کا ترک ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دے دوں میں اس برکت کو نہیں چھوڑ سکتا.پس ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ادب اور احترام کا مقام دے سکتے ہیں اور ان کے لئے جان بھی دے سکتے ہیں مگر جب قربانی کا موقع آئے تو ہم کہیں گے کہ ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں.جب تک ہم میں سے ہر ایک کے دل میں یہ جذبہ نہ پیدا ہو، ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے اپنی ذمہ داری کو پوری طرح محسوس کر لیا.اب غور کرو ہم پر ایک طرف تو کام کا اتنا بوجھ اور دوسری طرف سستی کا یہ عالم کہ اس مارچ تک جماعتوں کے ذمہ 80 ہزار کا بقایا اور موصیوں کے ذمہ 58 ہزار کا بقایا ہے! اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک لاکھ اڑ میں ہزار بقایا ہے اور ایک لاکھ تین ہزار کا قرضہ ہے.اگر ستی نہ ہوتی اور پوری رقوم ادا کی جاتیں تو قرضہ ادا کرنے کے بعد 35 ہزار روپیہ جمع ہوتا.میں نے جو تحریکیں کی ہیں ان کے الفاظ نہیں بلکہ ان کی روح کو سمجھ لیں تو پھر بقایا نہیں رہ سکتا.بہر حال یہ ضروری ہے کہ چندہ کا بقایا نہ ہو بلکہ کچھ رقم اپنے لئے پس انداز بھی ہو اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے اخراجات کو کم کر دیں اور کفایت شعاری سے کام لیں اس طرح کامیابی حاصل ہو سکتی ہے.میں کیوں آپ لوگوں کو پس انداز کرنے کے لئے کہتا ہوں؟ اس لئے کہ آئندہ ہمیں اور زیادہ قربانی کی ضرورت پیش آنے والی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اس دن ہماری جماعت کے ہر فرد کی جائیداد اور آمد آج سے زیادہ ہو.جب چندے بڑھا دیئے گئے ہیں اور ادھر پس انداز کرنا ضروری قرار دیا گیا تو آج سے چند سال بعد آج سے زیادہ جائیداد ہر احمدی کے پاس ہوگی.اگر ہماری جماعت کے 80 فیصدی لوگ بھی پر عمل کریں کیونکہ بعض کے لئے اس پر عمل کرنا ناممکن ہے تو کچھ عرصہ کے بعد ہم زیادہ آسانی کے ساتھ ہے تو کے بعد زیادہ آسانی کے ساتھ اس ہے دشمن کا مقابلہ کر سکیں گے.257

Page 270

اقتباس از تقریر فرموده 21 اپریل 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول یہ تحریک اقتصادی تجاویز کا مغز ہے اسے اگر دوست سمجھ لیں اور اس کی تعلیم اپنی اپنی جماعت کے ہر ایک فرد کو دیں تو بہت شاندار نتائج نکل سکتے ہیں.اس کے لئے میں نے ایک تجویز بھی بتائی تھی کہ مہینہ میں ایک دن ایسا رکھو جبکہ تحریک جدید کے مطالبات بیان کئے جائیں، ہر مہینے ایک جلسہ ہو جس میں سارے مطالبات ذہن نشین کئے جائیں.ہماری جماعت جس قدر قربانی کرتی ہے اس کی مثال سکھوں میں نہیں مل سکتی باوجود یکہ وہ قربانی کرنے میں بڑے مشہور ہیں مگر ان میں ہماری جماعت کے مقابلہ میں 1/10 حصہ بھی قربانی نہیں پائی جاتی لیکن سکھ عام طور پر کر پان لگائے پھرتے ہیں اور ہمارے آدمی سونا رکھنے کے بھی عادی نہیں.ان میں اطاعت کی کمی نہیں مگر یہ بات یاد نہیں رہتی اگر یاد دلایا جاتا تو اس وقت تک کوئی احمدی ایسا نہ ہوتا جو اپنے ہاتھ میں سوٹا نہ رکھتا.تو دہرانے سے بات یاد آجاتی ہے اسی طرح جب تحریک کی جائے کہ چندہ با قاعدہ ادا کیا جائے اور اس پر خطبہ پڑھا جائے اور پھر یہاں سے رپورٹ کی جائے کہ اتنا قرضہ ہے تو اس سے جماعت میں بیداری پیدا ہو جائے گی.اس کے بعد میں دوستوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے سامنے ایک بہت بڑی مصیبت ہے مگر اس میں بھی دوستوں کو ایک بات یاد رکھنی چاہئے اور وہ یہ کہ اس مصیبت کو ہی ترقی کا ذریعہ بن سکتے ہیں.موجودہ ابتلا ایسا ہی ہے جیسے طوفان یا آندھی آجاتی ہے.ہمیں لوگ پیس کر رکھ دینا چاہتے ہیں مگر میں سمجھتا ہوں یہ طوفان بھی ترقی کا موجب بن سکتا ہے.طوفان کیا کرتا ہے؟ یہ کہ جو سر بلند چوٹیاں ہوتی ہیں انہیں نیچے گرا دیتا ہے اور جو پسا ہوا غبار ہوتا ہے اسے آسمان کی طرف چڑھا دیتا ہے.پس آؤ ہم وہ طریق اختیار کریں کہ اپنے آپ کو پیس کر خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کر دیں کہ لے یہ غبار اور اس طرح سر بلندی حاصل کریں مگر وہ طوفان جو غبار کو اونچا اٹھا لیتا ہے وہ گرا بھی سکتا ہے.اگر ہم تکبر اور خود پسندی سے کھڑے ہوں گے تو ضرور گریں گے اور اسی بات کا مجھے سب سے زیادہ خطرہ ہے اور ہمارے رستہ میں یہی روک ہے.معاندین قادیان میں ہر قسم کی شرارتیں کرتے اور ایذائیں پہنچاتے ہیں اس سے مجھے یہ ڈر نہیں وہ ہمیں مٹا دیں گے بلکہ یہی ڈر رہتا ہے کہ ان کی اشتعال انگیزیوں کی وجہ سے کوئی نو جوان لڑ نہ پڑے، مجھے یہ ڈر نہیں کہ وہ ہمیں مارتے ہیں بلکہ یہ ڈر ہے کہ ہمارا کوئی آدمی ان کے اشتعال دلانے پر ان کو نہ مار بیٹھے.اگر مجھے یہ اطمینان حاصل ہو جائے کہ ہماری جماعت کا کوئی آدمی کسی حالت میں بھی قانون شکنی نہیں کرے گا تو ہم مخالفین کی تمام شرارتوں کے باوجود بے فکر ہو کر کام میں لگ جائیں.پس مجھ پر یہ بوجھ نہیں کہ احرار ہمارے آدمیوں کو مارتے ہیں بلکہ یہ بوجھ ہے کہ جب وہ مارنے لگیں تو ہمارا کوئی آدمی بھی نہ مار بیٹھے.میں 258

Page 271

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از تقریر فرموده 21 اپریل 1935ء وثوق سے جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمیں ضرور کامیاب کرے گا اور دشمن ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکے گا.مجھے یہ خطرہ نہیں کہ دشمن کیا کرے گا بلکہ یہ ڈر ہے کہ اپنے آدمیوں میں سے کوئی غلطی نہ کر بیٹھے جیسے اُحد کی جنگ میں بعض صحابہ نے غلطی کی تھی.اگر دوست اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں مٹا دینے کے لئے تیار ہو جائیں تو کوئی انہیں مٹا نہیں سکتا اور وہ خدا تعالیٰ تک پہنچ جائیں گے.پس اس طرح یہ طوفان ہمیں اونچا کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے اگر سب دوست اس بات کو سمجھ لیں کہ ہمارا نقطہ نگاہ کیا ہے تو وہ وقت دور نہیں جب ہمیں عظیم الشان کامیابی حاصل ہوگی.دنیا میں کام دو طرح ہوتے ہیں: ایک محبت سے، دوسرے خوف سے.یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ لگی ہوتی ہیں مگر کبھی باری باری آتی ہیں.کچھ وہ لوگ ہوتے ہیں کہ ان کے کاموں پر محبت غالب ہوتی ہے اور کچھ وہ ہوتے ہیں جن کے کاموں پر خوف غالب ہوتا ہے یعنی انسان بعض کام خوف سے کرتا ہے اور بعض کام محبت سے.یہ دو دائرے ہیں ان کے متعلق ایک بات یاد رکھنی چاہئے اور وہ یہ کہ جن کا دائرہ محبت کا ہوتا ہے وہ خواہش کے ماتحت ہوتا ہے کہ یہ بھی ہو جائے اور یہ بھی حاصل ہو جائے اور جن کا دائرہ خوف کا ہوتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسا نہ ہو جائے.آج کل جب کہ ایک قسم کا خوف پیدا ہے میں دیکھتا ہوں بعض کی حالت ایسی ہے کہ وہ کہتے ہیں ایسا نہ ہو جائے یعنی احرار ہمیں تباہ نہ کر دیں مگر کام کرنے کا یہ محرک اولی ہے مومن کا محرک یہ ہوتا ہے کہ یہ بھی لینا ہے اور وہ بھی لینا ہے.اس کی مثال بچہ کی سی ہوتی ہے جس کی ترقی محبت کے ماتحت ہوتی ہے، اس کی بڑی بڑی امنگیں ہوتی ہیں وہ کبھی کہتا ہے میں بہت بڑا تاجر بنوں گا کبھی کہتا ہے میں بادشاہ بنوں گا لیکن اگر کسی بوڑھے سے پوچھو کہ تمہاری کیا خواہش ہے تو وہ کہے گا بس یہی کہ انجام بخیر ہو جائے.بچہ یہ کوشش کرتا ہے کہ یہ بھی لے لوں مگر بوڑھا یہ کوشش کرتا ہے کہ اس بلا سے بچ جاؤں اور اس بلا سے بھی بچ جاؤں ، بوڑھا آخرت کی فکر میں ہوتا ہے مگر بچ نئی دنیا پیدا کر رہا ہوتا ہے، بڑھے کا محرک گرنے والا ہوتا ہے مگر بچے کا بڑھنے والا ، میں ان بڑھوں کا ذکر نہیں کرتا جو مرنے کے وقت تک بھی جوان ہی ہوتے ہیں، حضرت انس ایک سو دس برس کی عمر میں جب فوت ہونے لگے اور ان کے دوست ان کے پاس آئے اور پوچھا کوئی خواہش ہے تو انہوں نے کہا شادی کرا دو.پس مومن کبھی بوڑھا نہیں ہوتا کیونکہ جسم کے بڑھاپے کی وجہ سے بڑھا پا نہیں آتا بلکہ روح کے بڑھاپے سے آتا ہے.بچہ جب باتیں کرنے لگتا ہے تو اس زمانہ میں کہتا ہے چاند لینا ہے، تارالیتا ہے.میرے متعلق ہی آتا ہے کہ رات کو میں اور ہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے اُٹھالیا اور 259

Page 272

اقتباس از تقریر فرموده 21 اپریل 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول چپ کرانے کے لئے کہا دیکھو وہ تارا ہے! اس وقت میں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ تارا لینا ہے تو بچہ کی نظر اس طرف جاتی ہے کہ وہ لینا ہے.یہی روح ہمارے اندر ہونی چاہئے.پس ہم کام اس لئے نہ کریں کہ دشمن ہمیں مار دے گا کیونکہ یہ مومن کی شان نہیں بلکہ مومن کی شان یہ ہے کہ کام اس لئے کرتا ہو کہ یہ بھی لینا ہے اور وہ بھی لینا ہے.دیکھو! قرآن کریم میں کیسے لطیف پیرایہ میں یہ بات بیان کی گئی ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُلْلَةٍ مِنْ طِينٍ (المؤمنون:12) ہم نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا.طین پانی ملی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ دو شرک کام پر لگانے والے ہیں.پھر فرماتا ہے یہ دو چیزیں رکھیں پھر کیا کیا ؟ ثُمَّ جَعَلْنَهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ نطفہ بنادیایعنی پانی رہ گیا اور مٹی غائب ہوگئی.دوسری جگہ فرماتا ہے: (المؤمنون: 13) (الانبياء: 30) مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْ حَيْ ہر چیز کو پانی سے زندہ کیا یعنی ہر چیز جذبات اور امنگ والی ہوتی ہے، اس میں بڑھنے کی طاقت ہوتی ہے.پانی حیات نامیہ ہے آخر جب پانی کم ہو جاتا ہے تو ہر چیز مٹی بن جاتی ہے.گویا ابتدا ماء سے ہوتی ہے اور انجام تراب پر ہوتا ہے.یہی مومن اور غیر مومن کی حالت ہوتی ہے.مومن اس لئے کام کرتا ہے کہ دنیا بسا جاؤں لیکن غیر مومن اس لئے کرتا ہے کہ فلاں خطرہ سے بچ جاؤں، فلاں مصیبت سے بچ جاؤں.اس کے بعد حضور نے بورڈ پر دائرے بنا کر مومن کی ترقی اور مخلوق خدا کی ہمدردی کے متعلق قرآن کریم کی آیات کے نکات بیان فرمائے اور نہایت وضاحت کے ساتھ بتایا کہ بندہ ترقی کر کے جب خدا تعالیٰ کی طرف جاتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی سامنے آجاتا ہے اور اس کو مل جاتا ہے.پھر بندہ کو نیچے بھیج دیتا ہے کہ جاؤ جا کر میرے بندوں کی خدمت کرو.جب بندہ نیچے آتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی اس کے لئے نیچے آجاتا ہے کہ دنیا میرے اس بندہ کو نقصان نہ پہنچائے جیسے ماں بچہ کو کہیں اکیلے بھیجتی ہے تو پھر اس کے پیچھے بھاگتی ہے کہ کوئی اسے نقصان نہ پہنچائے.(چونکہ بورڈ پر شکلوں کو دیکھنا اور ساتھ کے ساتھ حضور کی تقریر کو قلمبند کرناممکن نہ تھا اس لئے تقریر کا یہ حصہ قلم بند نہ کیا جاسکا.) آخر میں حضور نے فرمایا: - یا درکھو خدا تعالیٰ کے لئے مرنے والے کو کوئی مار نہیں سکتا اس بات کو پلے باندھ لو اور جب تم یہ ارادہ کر لو گے کہ خدا تعالیٰ کے لئے مرنا ہے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت تم کو مارنہ سکے گی.ہاں تم پر وہ موت 260

Page 273

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد اول اقتباس از تقریر فرموده 21 اپریل 1935ء آئے گی جو نبیوں کو سچے دل سے مانے والوں پر آتی ہے مگر نا کامی کی موت نہیں آسکتی کیونکہ تم جس پر گرو گے وہ چکنا چور ہو جائے گا اور جو تم پر گرے گا وہ بھی چکنا چور ہو جائے گا.یہ مقام تم یقینی طور پر حاصل کر لو گے مگر اسی طرح کہ اس راستہ سے خدا تعالیٰ کے پاس جائیں جو میں نے بتایا ہے.پرسوں میں نے جو تقریر کی اس کے بعد میں نے رات کو خواب میں دیکھا کہ قاری سرفراز حسین جو دہلی کے تھے اور اب فوت ہو چکے ہیں اور میں نے ان کی شکل کبھی نہیں دیکھی وہ آئے اور میرے پاس بیٹھ گئے.اس کی تعبیر میری سمجھ میں یہ آئی کہ جو سرفراز ہونا چاہتا ہے وہ سینی نمونہ دکھا کر عزت حاصل کرے.میں سمجھا اس سے خدا تعالیٰ کا یہی بتانا مقصود تھا.گویا خدا تعالیٰ نے جماعت کو یہ پیغام دیا ہے کہ جماعت اگر سرفراز بننا چاہتی ہے تو حسینی نمونہ دکھا ئیں اور اس ابتلا میں سے کامیابی کے ساتھ گزر جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے: کر بلا نیست سیر ہر صد حسین است آنم در گریبانم جب تک ہم یہ مثال پیش نہیں کرتے کامیاب نہیں ہو سکتے.ہمیں یہ نمونہ دکھانا ہوگا تب ترقی ہوگی.پس خدا تعالیٰ کا ارادہ یہ ہے کہ تم دنیا کے سامنے اس نیت سے جاؤ کہ خدا کی راہ میں مارے جائیں گے مگر خدا تعالیٰ نے یہ ارادہ کیا ہے کہ اس زمانہ میں مارے نہیں جائیں گے.ہم میں سے ہر ایک کو موت قبول کر کے یزید کے لشکر کے سامنے جانا اور کر بلا سے گزرنا ہے مگر نتیجہ وہی ہوگا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت ہوا کہ چھری حضرت اسمعیل علیہ السلام کی گردن کی بجائے مینڈھے کی گردن پر چلی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ابراہیم بھی کہا گیا ہے اور اسمعیل بھی.آپ کو ثم تھا اور آپ نے دعائیں کیں.آپ نے جب یہ کہا کہ صد حسین است در گریبانم تو اس کا مطلب یہ تھا کہ آپ کی جماعت حسین بننے والی ہے تب آپ نے دعا کی اور آپ کو بتایا گیا کہ آپ کی جماعت حسین بنے گی مگر ہم اسمعیل بنا کر بچالیں گے.میں امید کرتا ہوں کہ دوست اپنی ذمہ داری کو سمجھیں گے اور دوسروں کو سمجھائیں گے کہ اس سال کے ہی نہیں بلکہ اس سے پہلے کے بھی تمام بقائے صاف کر دیئے جائیں اور مجھے امید ہے کہ دین کی تبلیغ کے لئے بھی اپنے آپ کو وقف کر کے دست در کار و دل بایار کی مثال پیش کریں گے.زمیندار کا ہاتھ اہل پر ہو مگر دماغ میں یہ چکر چل رہا ہو کہ اسلام کو غالب کر کے رہیں گے، دفتروں میں کام کرنے والوں کی قلمیں کا غذات کا لے کر رہی ہوں مگر ان کے دل میں یہی ہو کہ خدا تعالیٰ کے دفتر میں ان کے نام لکھے جائیں، 261

Page 274

اقتباس از تقریر فرموده 21 اپریل 1935ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول تجارت والے اپنا بہی کھا نہ لکھ رہے ہوں مگر ان کی توجہ اس طرف ہو کہ خدا تعالیٰ کے کھاتہ میں ان کا حساب لکھا جائے.ہم یہ سارے کام کرتے جائیں گے جب تک یہ آواز نہیں آتی کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر نکل آؤ.جب ہم سچے دل سے یہ ارادہ کر لیں گے تو خدا تعالیٰ ہمیں ضرور کامیاب کرے گا.خدا تعالیٰ شکور ہے بندہ اگر اس کی طرف چل کر جاتا ہے تو وہ اس کی طرف دوڑ کر آتا ہے.“ رپورٹ مجلس شوری منعقد ہ 19 تا 21 اپریل ۱۹۳۵ء ) 262

Page 275

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 15 مئی 1936ء تحریک جدید کے مطالبات کے متعلق جماعت کو انتباہ خطبہ جمعہ فرمودہ 15 مئی 1936ء سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ ابراہیم کی آیت: وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُم مِّنْ أَرْضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّلِمِينَ (ابراہیم: 14) تلاوت کی اور پھر فرمایا:.” میں نے بار بار جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ان مشکلات اور ابتلاؤں کے لئے تیار کریں جو مستقبل میں ان کا انتظار کر رہے ہیں مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آرام یا آرام تو نہیں، کہنا چاہئے آرام طلبی موجودہ طرز رہائش کی وجہ سے دنیا میں خصوصاً ہندوستانیوں میں پیدا ہورہی ہے، اس کی وجہ سے اکثر دوست اس بات کی جو میں کہتا ہوں اہمیت کو نہیں سمجھتے اور اپنے اندر تغیر پیدا کرنے کے لئے آمادہ وتیار نظر نہیں آتے.میں اپنی جماعت کے متعلق تو یہ نہیں سمجھتا کہ ایسا ہو لیکن بعض دفعہ بد قسمتی سے انسان کی آنکھیں ایسی بند ہو جاتی ہیں کہ وہ نتائج اور انجام سے غافل ہو جاتا ہے یہاں تک کہ مصیبت آکر اُسے پکڑ لیتی ہے.ہزاروں بادشاہتیں اور حکومتیں اسی طرح تباہ ہو گئیں کہ ان بادشاہتوں اور حکومتوں والے اپنے خیال میں اس یقین اور اطمینان سے بیٹھے رہے کہ کوئی دشمن ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا.ہندوستان میں انگریزوں کا تسلط اس رنگ میں ہوا یہاں کے حکمرانوں کو انہوں نے آپس میں لڑا دیا اور ان میں سے ہر ایک یہی سمجھتا رہا کہ ہم اپنے دشمن کو مار رہے ہیں اور کسی نے بھی یہ خیال نہ کیا کہ اپنے آپ کو مار رہے ہیں.ایک انگریز مصنف نے لکھا ہے کہ ہندوستان کو ہم نے فتح نہیں کیا بلکہ ہندوستانیوں نے ہندوستان کو ہمارے لئے فتح کیا ہے.سارے ہندوستان میں صرف ایک شخص تھا جس نے اس حقیقت کو سمجھا اور دوسروں کو اُکسایا اور ہوشیار کیا مگر کسی نے اس کی بات نہ سنی اور اس کی آواز بالکل رائیگاں گئی یہاں تک کہ ملک ہاتھ سے نکل گیا 263

Page 276

خطبہ جمعہ فرمودہ 15 مئی 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول اور بعد میں افسوس سے ہاتھ ملنے لگے.انگریز بھی خوب سمجھتے ہیں کہ درحقیقت وہی ایک شخص تھا جس نے ان کی تدابیر کو سمجھا کیونکہ ان کے دلوں میں اس کا اتنا بغض ہے کہ وہ اس کے نام پر اپنے کتوں کا نام رکھتے ہیں جس کا اثر یہ ہے کہ گلی کوچوں میں آوارہ پھرنے والے بچے بھی جب کسی کو چڑانا چاہتے ہیں تو اسے کتا کہنے کی بجائے ٹیپو ٹیپو کہہ کر پکارتے ہیں اور ان کو معلوم نہیں کہ ہندوستان میں صرف وہی ایک بادشاہ تھا جس نے اس خطرہ کو سمجھا جو یہاں اسلامی حکومت کو پیش آنے والا تھا وہی تھا جس نے غیرت دکھائی اور غیرت پر جان قربان کر دی.سلطان ٹیپو نے جب انگریزوں کے بڑھتے ہوئے تسلط کو دیکھا، ٹیپو اس کا نام نہیں بلکہ جس طرح پنجابی میں بعض لوگوں کے نام کے ساتھ کوئی لفظ ہوتا ہے جسے اس کی آل کہا جاتا ہے اسی طرح ٹیپوال تھی تو اس نے چاروں طرف مسلمانوں کو خطوط لکھے کہ اسلامی عظمت کا نشان مٹ رہا ہے آؤ! اکٹھے ہو جاؤ تا اسے بچایا جا سکے.اُس نے ایک طرف ایران کی حکومت کو لکھا تو دوسری طرف افغانستان کی سلطنت کو.پھر اس نے ترکوں کو بھی لکھا اور اس کے پہلو میں نظام کی جو حکومت تھی اسے بھی متوجہ کیا اور یہاں تک لکھا کہ یہ مت سمجھو کہ میں اپنی عظمت چاہتا ہوں اگر تمہارا یہ خیال ہو تو میں تمہارے ماتحت ہو کر لڑنے کو تیار ہوں لیکن خدا کے لئے اور اسلام کی خاطر آؤ متحد ہو جائیں مگر جب بد قسمتی آتی ہے تو آنے والے خطرات سے انسان کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں یہاں تک کہ اسے موت آدباتی ہے.اس وقت کے نظام نے خیال کیا کہ چونکہ انگریز میرے دوست ہیں اور ان کی مدد سے میں ٹیپو کی حکومت کا خاتمہ کرنے والا ہوں اس لئے ڈر کر اس نے مجھے یہ تحریک کی ہے اور ایرانیوں نے خیال کیا کہ ہندوستان میں اسلامی سلطنت کا خاتمہ ہونے سے ہمیں کیا نقصان پہنچ سکتا ہے؟ آخر اس بندہ خدا نے اکیلے ہی مقابلہ کیا اور اس مقابلہ میں اس کا آخری فقرہ میں سمجھتا ہوں ایسا فقرہ ہے جسے تاریخ کبھی مٹا نہیں سکتی ، بعض فقرات اپنے اندر ایسے پاکیزہ جذبات کو لئے ہوئے ہوتے ہیں کہ زمانہ کے اثرات اور وقت کا بعد انہیں مٹا نہیں سکتا، جس وقت قلعہ کی بیرونی فصیل کو تو ڑ کر جس میں وہ تھا ایک طرف سے انگریز اندر داخل ہوئے یا یوں کہنا چاہئے کہ بعض غدار افسروں کی مدد سے وہ اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تو اس کا ایک جرنیل دوڑ کر اس کے پاس پہنچا وہ اس وقت دو فصیلوں کے درمیان کھڑا اپنی فوج کولڑا رہا تھا کہ اسے اس کے جرنیل نے یہ خبر دی کہ انگریز شہر میں داخل ہو گئے ہیں اور اب بچاؤ کی کوئی صورت نہیں سوائے اس کے کہ آپ ہتھیار رکھ دیں اور اپنے آپ کو ان کے سپرد کر دیں وہ یقیناً آپ کا اعزاز کریں گے مگر جس وقت سلطان ٹیپو نے یہ سنا کہ انگریز شہر میں 264

Page 277

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 15 مئی 1936ء داخل ہو گئے ہیں اس نے تلوار میان سے نکال لی اور خود لڑائی میں کود پڑا اور اس نے کہا کہ : ” گیڈر کی سو سال کی زندگی سے شیر کی ایک گھنٹے کی زندگی بہتر ہوتی ہے.ایک انگریز افسر جو شریف دل رکھتا تھا باوجود اس کے کہ اس کے دشمنوں سے تعلق رکھتا تھا، اپنے تذکرہ اور یادداشت میں بیان کرتا ہے کہ ہم نے متواتر اس کے سامنے یہ بات پیش کی کہ ہم فتح پاچکے ہیں اب تم ہمارے ساتھ کہاں لڑ سکتے ہو ؟ بہتر ہے کہ ہتھیار ڈال دو مگر وہ نہ مانا یہاں تک کہ میدان میں ڈھیر ہو گیا.یہ اکیلا شخص تھا جس نے ہندوستان کی آئندہ حالت کو سمجھا اور مسلمانوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی مگر کوئی اس کی بات کو نہ سمجھا اور اس کے نتائج آج ہم دیکھ رہے ہیں.ہزاروں غلامیوں کے طوق آج مسلمانوں کے گلے میں پڑے ہیں.وہ ایک غلامی کو رو رہے ہیں کہ یہاں انگریز حکومت ہے حالانکہ ہندوؤں کی حکومت کا طوق بھی ان کی گردن میں ہے ،سکھوں کی حکومت کا طوق بھی ان کی گردن میں ہے، بڑے بڑے تاجروں کی حکومت کا طوق ہے، ساہوکاروں کی حکومت کا طوق ہے، ہر محکمہ پر جو لوگ قابض ہیں ان کی حکومت کا طوق ہے.کوئی پیشہ کوئی فن ، کوئی ہنر اور کوئی میدان نہیں جس میں انہیں عزت حاصل ہو اور یہ سب نتیجہ اس آواز کے نہ سننے کا ہے جو انہیں وقت پر سنادی گئی تھی.اس وقت مسلمان بے وقوفی کی جنت میں بیٹھے رہے جو انہیں دوزخ میں لے گئی انہوں نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے سمجھ لیا کہ اب بلی ان پر حملہ آور نہیں ہوگی لیکن وہ تو تشت اختلاف اور تفرقہ کا زمانہ تھا لوگوں نے اس بات کو نہ سمجھا اور اختلاف کی رو میں بہہ گئے مگر ہماری جماعت کے لئے ویسا زمانہ نہیں ہم نئے نئے متحد ہوئے ہیں اور : فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا (آل عمران: 104) کا نظارہ پیش کر رہے ہیں.ایسی جماعت کی قلبی اور اندرونی حالت یقیناً اس سے بہتر ہونی چاہئے اور ہمارے اندر زیادہ بیداری اور ہوشیاری ہونی چاہئے.میں نے متواتر توجہ دلائی ہے کہ آئندہ کے خطرات کو محسوس کرو، اپنے اندر تغیر پیدا کرو اور ان قربانیوں کی طاقت اپنے اندر پیدا کرو جن کے نتیجہ میں محفوظ رہ سکو مگر بعینہ اس طرح جس طرح ایک افیونی کو جگا دیا جاتا ہے مگر وہ پھر سو جاتا ہے، پھر جگایا جاتا ہے اور پھر سو جاتا ہے، جماعت کے دوستوں کو جگایا جاتا اور ہوشیار کیا جاتا ہے اور وہ قربانی کے لئے تیار ہو جاتے ہیں مگر پھر سو جاتے ہیں.انہیں سوچنا چاہئے کہ کب تک کوئی گلا پھاڑ تا رہے گا؟ اگر یہی حالت رہی تو تم سمجھ سکتے ہو اس کا انجام کیا ہوگا؟ یہ مت خیال کرو کہ خدا کے وعدے تمہاری کامیابی کے لئے ہیں خدا تعالیٰ کے وعدے مشروط ہوتے ہیں اور اگر انسان 265

Page 278

خطبہ جمعہ فرمودہ 15 مئی 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد اول ان کا اپنے آپ کو مستحق بنائے تو وہ پورے ہوتے ہیں.کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ اُحد میں کامیابی کے اللہ تعالیٰ کے وعدے نہ تھے ؟ پھر کیا صرف دس آدمیوں کی غلطی سے وہ فتح شکست نما نہ ہو گئی تھی؟ پس اگر ایک ہزار میں سے دس کی غلطی فتح کو شکست نما بنا سکتی ہے تو آج تم میں سے ہزاروں کی غفلت سے تمہاری فتح شکست نما کیوں نہیں بن سکتی؟ ہمارے لوگ اس بات پر مطمئن ہیں بالکل اس طرح جس طرح غافل اور تباہ ہونے والی قو میں ہوتی ہیں کہ وہ ایک آئینی حکومت کے ماتحت آباد ہیں اور کہ انگریز منصف اور عادل ہیں.اب اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک سبق دیا ہے کہ جن انگریزوں پر تم انحصار کر سکتے ہو وہ بھی تمہارے دشمن ہو سکتے ہیں مگر افسوس! کہ ہمارے دوستوں کی آنکھیں ابھی تک نہیں کھلیں میرے بار بار کے خطبات کے باوجود بعض دوست لکھتے رہتے ہیں کہ ہماری سفارش کر دو.حالانکہ آج کل حکومت کے بعض انگریز افسر بھی جماعت احمدیہ کے شدید دشمن ہیں ایسے ہی دشمن ہیں جیسے چودھری افضل حق صاحب اور مولوی عطاء اللہ صاحب.ہم پر صریح ظلم کیا جاتا ہے ، صریح جھوٹ ہمارے متعلق بولا جاتا ہے مگر ایسے افسر کوئی توجہ نہیں کرتے بلکہ ایسا کرنے والوں کو انگیخت کرتے ہیں مگر ہم میں سے بعض بے حیا بن کر کہتے ہیں کہ ہماری سفارش کرو.مجھے اس وقت حیرت ہوتی ہے کہ انسان بے حیائی میں کتنا کمال تک پہنچ سکتا ہے.وہ ان باتوں کو شاید مبالغہ اور مذاق سمجھتے ہیں.جو باتیں مجھے معلوم ہیں وہ تو بہت بڑی ہیں مگر جتنی میں نے تو بتائی ہیں ان کا ہزارواں حصہ بھی اگر ایک شخص کے متعلق ثابت ہو تو میں تو موت کو اس کے پاس سفارش کر نے کو ترجیح دوں.تمہارے دل میں تو ان باتوں کا اتنا احساس چاہئے تھا کہ خواہ پھانسی پر لٹکنا پڑتا تمہارے بیوی بچوں کو تمہارے سامنے قتل کر دیا جاتا تو تم اس بات کو زیادہ پسند کرتے یہ نسبت ایسے لوگوں کے پاس سفارش لے جانے کے.ایسے افسر تو ہمارے دشمن ہیں مگر شیخ سعدی علیہ الرحمہ نے تو کہا ہے کہ: حقا که با عقوبت دوزخ برابر است رفتن بہ پائے مردی ہمسایہ در بہشت یعنی ہمسایہ کی مدد سے جنت میں جانا دوزخ کے برابر ہے.اس میں شبہ نہیں کہ اس قسم کی مثالیں محدود ہیں نہ ہندوستان کی ساری گورنمنٹیں ایسی ہیں نہ پنجاب گورنمنٹ کے سارے افسر ایسے ہیں مگر سوال تو یہ ہے کہ ایسے وقت میں کون کہہ سکتا ہے کہ کون کیسا ہے؟ پس ان حالات میں مناسب یہی ہے کہ انسان غیرت سے کام لے اور کہے کہ ہم سفارش نہیں کراتے.آج حالت یہ ہے کہ پچھلے دنوں ایک بڑے افسر نے کہا تھا کہ احمدیوں کی بھرتی کی حکومت نے ممانعت نہیں کی اور بعض افسروں نے اعلان کیا تھا کہ سیدوں 266

Page 279

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 15 مئی 1936ء کی بھرتی منع نہیں ہے مگر میں نے تحقیقات کی ہے یہ دونوں باتیں صحیح ہیں یہ حکم بھی ہے کہ سیدوں کو بھرتی نہ کیا جائے اور یہ بھی کہ احمدیوں کو بھرتی نہ کیا جائے.واللہ اعلم معاملہ کیا ہے؟ اس بڑے افسر کو یہ علم ہی نہ تھا یا اس نے غلط بیانی کی لیکن جب یہ میچ ہے کہ ایک طبقہ ضرور ہمارا مخالف ہے تو ہمیں چاہئے دوسروں کے پاس بھی کوئی سفارش نہ لے جائیں.جو مخالف نہیں اگر ان کے پاس ہم سفارش کریں تو ممکن ہے وہ تو کوئی احسان نہ جتائیں مگر مخالف طبقہ ضرور کہے گا کہ ہم نے فلاں وقت تمہارا کام کر دیا تم ہمیں کس طرح اپنا مخالف کہتے ہو؟ اور یہ الفاظ سننے کے لئے کیا تمہاری غیرت تیار ہے؟ بے شک ایسے افسر اور ہیں اور دوست اور مگر ہمیں تو اتنی عقل چاہئے کہ اس کے نتیجہ میں ہمیں کیا طعنہ ملے گا ؟ بے شک جو انگریز ہمارے دوست ہیں یا حسن نلنی رکھتے ہیں وہ ایسی بات یاد نہیں دلائیں گے اور سمجھیں گے کہ یہ اچھے شہری ہیں، قانون کے پابند ہیں اور ملک میں امن قائم کرتے ہیں ان کے بھی حقوق ہیں انہیں کیوں تلف کریں؟ مگر وہ حصہ جو جھوٹ سے پر ہیز نہیں کرتا وہ دوسروں کے کام کو لے کر ہمارے منہ پر مارے گا اور کہے گا کہ تمہیں یاد نہیں فلاں وقت ہم نے تمہارا فلاں کام کیا تھا مگر افسوس ہے کہ جماعت کے بعض لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے.پتہ نہیں ہمارے ساتھ جو ہو رہا ہے اور جس کا میں نے بار بار اپنے خطبات میں ذکر بھی کیا ہے وہ ان سب باتوں کو مبالغہ یا محول اور کھیل ہی سمجھتے ہیں؟ میں جب یہ حالت دیکھتا ہوں تو اگر چہ لفظوں سے تو نہیں کہتا مگر میرا دل چاہتا ہے کہ اگر جائز ہو تو خدا تعالیٰ سے کہوں کہ وہ جماعت کے ابتلاؤں کو اور بھی بڑھا دے تا ایسے دوستوں کے حواس درست ہوں.خدا ابتلاؤں کو اتنا بڑھائے کہ یہ سونے والے بیدار ہو جائیں اور پاگل عقلمند بن جائیں اور وہ سمجھیں کہ یہ تو پھر بھی غیر لوگ ہیں سعدی نے تو کہا ہے کہ ہمسایہ کی مدد سے جنت میں جانا بھی دوزخ میں جانے کے برابر ہے.میں سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکومت کا ابتلا اسی وجہ سے آیا ہے تا اللہ تعالیٰ ہمیں بتا دے کہ انگریزی حکومت میں بھی ایسے کل پرزے آسکتے ہیں جو ہمیں نقصان پہنچا ئیں.گو یہ آج تھوڑے ہیں مگر کس کو کیا معلوم کہ کل زیادہ ہو جائیں؟ اگر آج حکومت پنجاب میں ہیں تو کل حکومت ہند میں بھی ہو سکتے ہیں.جو شخص کسی دوسرے کے سہارے پر بیٹھا رہتا ہے اس سے زیادہ احمق اور بے حیا کوئی نہیں ہو سکتا.انگریز خواہ کتنے اچھے کیوں نہ ہوں مگر ہم کیوں ان کے سہارے پر رہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیشہ اپنے والد صاحب کا ایک واقعہ لطف لے کر بیان کیا کرتے تھے کہ آپ جب فوت ہوئے اس وقت اتنی سال کے قریب عمر تھی مگر وفات سے ایک گھنٹہ پہلے آپ پاخانہ کے لئے اٹھے آپ کو سخت پیچش تھی اور پاخانہ کے لئے جارہے تھے کہ رستہ میں ایک ملازم نے 267

Page 280

خطبہ جمعہ فرمودہ 15 مئی 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول آپ کو سہارا دیا مگر آپ نے اُس کا ہاتھ جھٹک کر پرے کر دیا اور کہا مجھے سہارا کیوں دیتے ہو؟ اس کے ایک گھنٹہ بعد آپ کی وفات ہو گئی.تو جب ایک معمولی مومن بھی کسی کا سہارا لینا پسند نہیں کرتا تو خدا تعالیٰ کی خاص جماعت کب ایسا کر سکتی ہے؟ مومن تو ہر ایک ہو سکتا ہے خواہ وہ نبی کے ہزار سال بعد ہو مگر تم میں تو ابھی کئی صحابی موجود ہیں اور تم سب تابعی ہو پھر تم کس طرح یہ پسند کر سکتے ہو کہ کسی کا سہارا لو اور سہارا بھی ان کا جو عیسائی ہیں اور جن کے مذہب کو مٹانے کے لئے تم کھڑے ہو؟ تمہارا ہاتھ ہمیشہ اونچا ہونا چاہئے تم ان کی مدد تو کرو مگر ان کی مددمت لو.ایک اچھے شہری کی طرح تمہارا فرض ہے کہ ملک میں امن قائم کرو اور اگر حکومت کسی مصیبت میں ہو تو اس کی تائید کرو جس طرح تمہارا یہ فرض ہے کہ اگر حکومت رعایا پر ظلم کرے تو رعایا کی مدد کرو مگر تمہارے لئے یہ ہرگز جائز نہیں کہ بھیک کا ٹھیکرا لے کر اس کے پاس مانگنے جاؤ.مومن کی غیرت کا مقام بہت بلند ہوتا ہے وہ مر جانا پسند کرتا ہے مگر مانگنا پسند نہیں کرتا اور دوسرے کو اپنا سہارا بنانا گوارا نہیں کر سکتا.تم کس طرح مؤخد ہو سکتے ہو جب یہ سمجھو کہ انگریز تمہاری جانیں بچائیں گے؟ اگر تمہاری جانوں کا انحصار انگریزوں پر ہے تو یہ آج بھی نہیں ہیں اور کل بھی نہیں.انگریزوں کی حکومت بھی آخر انسانوں کی حکومت ہے جو ہمیشہ نہیں رہ سکتی.اب سینیا کا جو حشر ہوا ہے اس کے بعد خود انگریزی اخبار لکھ رہے ہیں کہ انگریزی حکومت لڑکھڑا رہی ہے اور شاید یہ پہلا موقع ہے کہ انگریزی حکومت کے وزیر اعظم نے یہ کہا ہے کہ میں اپنے نفس میں ذلت محسوس کر رہا ہوں.پس آدمیوں پر انحصار کرنا حماقت ہے.تم اپنے نفسوں میں وہ قوت پیدا کرو کہ کوئی دشمن تم کو ہلاک نہ کر سکے اور ایسی طاقت اول ایمان کی طاقت ہے اور دوسرے اتحاد اور قوت عمل کی.انسان جب ایمان لے آتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا نگران ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کبھی نہیں مرتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے الله زیادہ صحابہ کو کس سے عشق ہو سکتا تھا؟ چنانچہ جب آپ ﷺ فوت ہوئے تو حضرت عمر تلوار لے کر کھڑے ہو گئے کہ جو کہے گا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں میں اُسے قتل کر دوں گا ! حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اس وقت باہر گئے ہوئے تھے جب آپ کو خبر ہوئی تو آپ آئے اور اندر گئے، جسد اطہر پر سے کپڑا اٹھایا، ماتھے پر بوسہ دیا اور کہا میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں ! اللہ تعالیٰ آپ ﷺ پر دو موتیں وارد نہیں کرے گا یعنی ایک تو جسمانی موت آئی ہے اس کے ساتھ یہ نہیں ہوسکتا کہ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت خراب ہو جائے اس کے بعد آپ باہر آئے اور کہا کہ لوگو! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں جس طرح تمام پہلے انبیاء علیہم السلام فوت ہو چکے ہیں: 268

Page 281

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد اؤل خطبہ جمعہ فرمودہ 15 مئی 1936ء مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدُمَاتَ سنو! تم میں سے بعض سمجھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں یہ شرک ہے اور عبادت ہے.جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا میں اسے خبر دار کرتا ہوں کہ آپ ﷺ فوت ہو گئے ہیں: وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ لیکن جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے اس کا معبود زندہ ہے اور کبھی نہیں مرسکتا.پس ہم تو ان لوگوں کے قائم مقام ہیں جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو بھی اللہ تعالیٰ کے مقابلہ پر کھڑا کرنا جائز نہیں سمجھا.ابو بکر نے تو اتنی غیرت دکھائی کہ کہا: محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انسان تھے اور فوت ہو چکے ہیں مگر تم میں سے بعض ایسے بے غیرت ہیں کہ سمجھتے ہیں انگریز ہمیشہ رہیں گے اور ان کی حفاظت کریں گے اور اگر یہی حالت رہی تو یا درکھو کہ انگریزی حکومت کسی دن جاتی ہی رہے گی مگر ساتھ ہی وہ ایسے لوگوں کو بھی لے ڈوبے گی.صرف خدا زندہ ہے اور وہی زندہ رہے گا جس کا وہ سہارا ہے باقی حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں، ان کے نقطہ ہائے نگاہ بھی بدلتے رہتے ہیں مستقبل کا کسی کو کیا علم ہو سکتا ہے؟ آج سے تین سو سال پہلے کسی کو کیا علم تھا کہ انگریزوں کی حکومت اتنی وسیع ہو جائے گی اور کون کہہ سکتا ہے کہ آج سے سوسال بعد ان کی یہ حکومت افسانہ بن کر نہ رہ جائے گی ؟ خوب یا درکھو! کہ انگریز بھی تبھی زندہ رہ سکتے ہیں جب وہ خدائے واحد سے تعلق پیدا کریں اور اسی پر توکل کریں اور تم بھی اسی طرح زندہ رہ سکتے ہو.زندگی کے سامان سب کے لئے اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں یہ ضروری نہیں کہ جس طرح پہلی قومیں تباہ ہو گئیں انگریز بھی ہو جائیں.اس میں شک نہیں کہ اگر یہ جھوٹ اور فریب پر اپنی حکومت کی بنیاد رکھیں گے، انصاف کے مقابلہ میں پر سٹیج کا زیادہ خیال رکھیں گے تو جس طرح روما اور کسریٰ کی عظیم الشان سلطنتیں تباہ ہوئیں یہ بھی تباہ ہو جائیں گے لیکن اگر یہ سچ پر قائم ہوں، انصاف کریں اور خدا سے تعلق پیدا کر کے اسی پر تو کل رکھیں تو ان کی جو پچھلی زندگی ہے اس سے بہت زیادہ بھی زندگی انہیں مل سکتی ہے مگر پھر بھی وہ تمہارا سہارا نہیں بن سکتے.تم خدا کی جماعت ہو اور خدا کو تمہارے لئے غیرت ہے جس طرح کوئی شخص اپنی بیا ہتا بیوی کو کسی غیر کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے پھرتا دیکھے تو اُسے غیرت آتی ہے اسی طرح خدا کو غیرت آتی ہے جب اس کی جماعت کسی غیر کا سہارا لے.پس انگریز اگر ہمیشہ بھی رہیں تو وہ تمہارا سہارا نہیں بن سکتے.269

Page 282

خطبہ جمعہ فرمودہ 15 مئی 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول باقی رہے دوسرے دشمن، ان کا نقشہ قرآن کریم نے ان الفاظ میں کھینچا ہے کہ: قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ (آل عمران: 119 ) ان کا بغض ان کے مونہوں سے ظاہر ہو گیا ہے اور جو دلوں میں ہے وہ بہت زیادہ ہے.امرت سر میں احرار کی جو کانفرنس ہوئی ہے اس میں اس امر پر بہت زور دیا گیا ہے کہ ہمارا کام ہندوستان سے انگریزوں کو نکالنا ہے اور اس کے ساتھ سب احمدیوں کو بھی.یہ : قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ (آل عمران: 119 ) ہے لیکن ان کے دلوں میں جو ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے اور وہ یہ ہے کہ نکالیں گے کیوں یہیں پھانسی پر لٹکا ئیں گے.یہ وہ دشمن ہے جو تمہارے گرد گھیرا ڈال رہا ہے، روز بروز زیادہ منظم ہو رہا اور طاقت پکڑ رہا ہے.چاہے وہ احرار کی صورت میں ہو اور چاہے کسی اور صورت میں ہو.شیطان کو اس سے غرض نہیں کہ اس کا نام احرار ہی رہے.تمہاری نظر مجلسوں پر ہے اور تم سمجھتے ہو مجلس احرار کو کل جو طاقت حاصل تھی وہ آج نہیں.حالانکہ میں نے بار بار کہا ہے کہ تمہارا مقابلہ احرار سے نہیں شیطان سے ہے.مجھے یاد ہے ہم میں سے بعض کہا کرتے تھے کہ اب مولوی ثناء اللہ صاحب کی طاقت ٹوٹ گئی ہے مگر اب میں ان سے پوچھتا ہوں کہ ان کی طاقت زیادہ تھی یا احرار کی؟ اسی طرح اب بعض یہ خیال کر رہے ہیں کہ احرار کی طاقت ٹوٹ گئی ہے اب ہم سو جائیں مگر یاد رکھو! تمہارے لئے سونا مقدر نہیں.تم یا تو جاگو گے یا مرد گے یہ ممکن نہیں کہ لمبی دیر تک سو سکو جب سوؤ گے مرد گے.یہ سچائیاں ہیں جو ہر نبی کے زمانہ میں ظاہر ہوئیں قرآن کریم کو پڑھو اس کا ایک ایک لفظ اس کی تصدیق کرے گا پھر کیا تمہیں اس پر بھی اعتبار نہیں کہ سمجھتے ہو تمہارے ساتھ ویسا نہ ہوگا ؟ حضرت آدم، حضرت ابراہیم ، حضرت نوح، حضرت موسیٰ ، حضرت داؤد اور حضرت عیسی علیہم السلام اور سب سے آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت جو کچھ ہوا کیوں کر ممکن ہے کہ وہ پیالہ تم کو نہ پینا پڑے؟ وہ ضرور پینا پڑے گا.اگر منہ سے نہیں پیو گے تو نلکیوں کے ذریعہ نتھنوں کے رستہ پلایا جائے گا اگر اس طرح بھی نہیں پیو گے تو پیٹ چاک کر کے پلایا جائے گا.دشمن اس فکر میں ہے کہ تم کو ہندوستان سے نکال دے اور یہ وہ چیز ہے جس کا اظہار اس کے منہ سے ہو گیا.اس کے دل میں جو کچھ ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے اور تم اس خیال میں ہو کہ ایک حکومت ہے جو قانون کی پابند ہے اور وہ 270

Page 283

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 15 مئی 1936ء تمہاری حفاظت کرے گی ؟ اس حکومت کے ایک حصہ نے بتا دیا ہے کہ جب وہ بگڑے گی قانون بھی مٹ جائے گا.بھلا وہ کونسا قانون تھا جس کے ماتحت ایک افسر نے دوسکھ نمبرداروں کو بلا کر یہ کہا کہ ہمیں معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ خلیفہ قادیان نے تم کو بلا کر پچاس پچاس روپے دیئے تھے کہ عید گاہ کے کیس میں شہادت بدل دو؟ اور اس طرح انہیں جھوٹ بولنے کی تحریک کی اور ایک دوسرے افسر نے ملاقات کے وقفہ میں صاف لفظوں میں ان کو ایسی گواہی دینے کا مشورہ دیا.کیا اس امر کا کروڑواں بلکہ اربوں کھر بواں حصہ بھی سچ ہے؟ اور انگریزی حکومت کے بعض افسر اگر اتنا جھوٹ بول سکتے ہیں تو کیا تم سمجھتے ہو کہ بعض دوسرے افسر کسی وقت جھوٹ بول کر تمہیں سزائیں نہیں دلوا سکتے ؟ جب خدا کسی قوم کو سزا دینا چاہتا ہے تو سب کچھ کر ا لیتا ہے اس لئے اطمینان سے نہ بیٹھو کہ تمہارے سر پر تلوار منڈلا رہی ہے.صرف خدا پر توکل کرو.حاکموں کے دل بھی خدا کے قبضہ میں ہیں وہ چاہے تو انہیں نیک بنا سکتا ہے.پس تم یہ مت کہو کہ خدا ہم سے ضرور یوں معاملہ کرے گا بلکہ خدا والے بنو پھر تمہارے لئے امن ہوگا خواہ وہ انگریزوں.کرا دے خواہ ہندوستان میں آئندہ قائم ہونے والی حکومت کے ذریعہ اور خواہ تمہارے اپنے ہاتھوں سے جو سب سے بہتر ہے مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ غفلتوں اور سستیوں کو ترک کر دو.میں محسوس کرتا ہوں کہ جماعت میں آج گزشتہ سال سے دسواں حصہ بھی جوش نہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے خدا تعالیٰ کوئی لٹھ ہی بھیجے تو ان کی آنکھیں کھلتی ہیں.پچھلے سال لٹھ پڑتے تھے تو تم بیدار تھے.آج خدا نے ان میں کمی کر دی ہے تو تم پھر سو گئے ہو.پچھلے سال تحریک جدید کے دوماہ کے اندر اندر آمد تحریک بھی بڑھ گئی تھی مگر اس سال گو وعدے زیادہ ہیں مگر آمد دو تہائی ہے اور اس حساب سے اندازہ ہے کہ سال کے آخر تک 75-74 ہزار آمد ہوگی مگر خرچ کا بجٹ ایک لاکھ اٹھائیس ہزار ہے.ممکن ہے میں غلطی پر ہوں مگر میرا خیال یہی ہے کہ یہ ادنی ایمان ہے کہ انسان کہ دے میں کچھ نہیں کروں گا مگر جو کہتا ہے اور پھر کرتا نہیں وہ مومن نہیں غدار اور منافق ہے.میں نے کئی بار کہا ہے کہ کوئی چندہ مت لکھاؤ جو دے نہ سکو.جبری چندوں کے متعلق تو کوئی کہہ سکتا ہے زبردستی لئے جاتے ہیں مگر تحریک جدید کے چندہ کے متعلق تو میں نے صاف کہا ہوا ہے کہ جس کی مرضی ہو وہ دے اور جتنا کوئی چاہے دے.پھر بھی جو لکھوانے کے باوجود نہیں دیتا وہ یہ بتاتا ہے کہ اُسے دین کی کوئی پروا نہیں وہ صرف نام لکھوا کر واہ واہ چاہتا ہے اور یہی بات بڑھتے بڑھتے جنون تک پہنچ جایا کرتی ہے.ایک شخص کا مجھے خط آیا ہے کہ گزشتہ سال میں نے اس اس قدر شاید میں چالیس روپیہ کا وعدہ کیا تھا مگر دے کچھ نہیں سکا اس سال میرا وعدہ تین ہزار کا لکھ 271

Page 284

خطبہ جمعہ فرمودہ 15 مئی 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد اول لیں.یہ اس Mentality اور ذہنیت کا آخری نتیجہ ہے جو انسان کو بے عمل کر دیتی ہے.ہر بُرے عمل کا آخری نتیجہ اس کے بھیانک پن کو ظاہر کر دیتا ہے.ایسا انسان جو وعدہ کرتا ہے مگر پورا نہیں کرتا وہ خدا کو دھوکہ دینا چاہتا ہے وہ سمجھتا ہے خدا یہ نہیں دیکھے گا کہ اس نے کتنا دیا بلکہ صرف یہ دیکھے گا کہ وعدہ کتنے کا کیا؟ پھر یہی نہیں کہ لوگوں نے اتنا لکھوایا ہے جو دے نہیں سکتے.میں جماعت کے حالات سے واقف ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ بعض لوگ اگر اپنی ذمہ داری کو سمجھتے تو اس سے دُگنا دے سکتے تھے جتنا اب دیا ہے.بہت سے ایسے ہیں جو زیادہ حصہ لے سکتے تھے مگر کم لیا ہے اور پھر بہت ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی حیثیت سے تین چار گنا زیادہ دیا ہے.ایسے لوگ یقینا اپنے عمل کا بدلہ اللہ تعالیٰ سے لیں گے مگر ان کے اعمال ان لوگوں کے لئے کافی نہیں ہو سکتے جنہوں نے کہنے اور وعدہ کرنے کے باوجود حصہ نہیں لیا.پنجاب کی ایک بڑی جماعت ہے جس نے پانچ ماہ کے عرصہ میں ایک پیسہ بھی ادا نہیں کیا وہ لکھوا کر سو گئے.پھر کئی ایسے بھی ہیں جو نہایت غریب ہیں مگر اس عرصہ میں قریباً سارے کا سارا ادا کر چکے ہیں جس سے پتہ لگتا ہے کہ مال کے پاس ہونے یا نہ ہونے کا سوال نہیں بلکہ اخلاص کا سوال ہے.بیسیوں ایسے ہیں جن کی رقمیں فہرست میں دیکھ کر مجھے شک ہوتا ہے کہ غلطی سے تو نہیں لکھ دی گئیں ؟ کیونکہ بظاہر ان سے اتنا دینے کی توقع نہیں کی جاسکتی.تو یہ اخلاص کی بات ہے طاقت کی نہیں.جتنا ایمان ہو اس کے مطابق کام ہو سکتا ہے.مجلس مشاورت کے موقع پر جو نمائندے آئے وہ وعدہ کر کے گئے تھے کہ جاتے ہی اس طرف توجہ کریں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ نانوے فیصدی نے کوئی توجہ نہیں کی یا کم سے کم ان کی توجہ کے کوئی آثار نظر نہیں آتے.باقی رہیں دوسری قربانیاں، ان کا بھی یہی حال ہے.ابھی تک میں یہی سنتا ہوں کہ فلاں کی فلاں سے لڑائی ہے حتی کہ نماز بھی الگ پڑھی جاتی ہے.ایک دوست نے سنایا کہ ایک جگہ پانچ احمدی ہیں اور پانچوں الگ الگ نماز پڑھتے ہیں.میں اس دوست پر حیران تھا کہ وہ انہیں احمدی کس طرح کہتے ہیں؟ یہ کہنا چاہئے کہ وہاں احمدیت کے لئے پانچ کلنک کے ٹیکے ہیں اور پانچوں تاریکیاں الگ الگ جگہ چھائی ہوئی ہیں.احمدی تو بڑا لفظ ہے اس سے ادنی درجہ کا مومن بھی اس قدر بے حیا نہیں ہو سکتا کہ خدا کی عبادت میں بھی تفرقہ ڈالے.میں نے بار بار کہا ہے کہ خدا کی عبادت میں ایسا نہ کرو مگر بعض لوگوں پر کوئی ایسی لعنت برسی ہے کہ ان پر کوئی اثر ہی نہیں ہوتا.پھر میں نے بار بار توجہ دلائی ہے کہ اپنی اولادوں کو کام کا عادی بناؤ مگر اس تحریک میں مجھے کئی 272

Page 285

تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 15 مئی 1936ء ایسے لوگوں سے واسطہ پڑا کہ جو اس وجہ سے اولاد سے کام نہیں کراتے کہ گرمی زیادہ ہے بھوکے مریں گے مگر جب کہا جائے کہ جو کار خانے کھولے جا رہے ہیں ان میں اولاد کو داخل کر دو تو کہیں گے کہ وہاں گرمی میں کام کرنا پڑتا ہے.ہم تو گرم ملک کے رہنے والے ہیں مگر سرد ملک کے رہنے والے انگریز گرمی میں کام کرنے سے نہیں گھبراتے.انگلستان میں چھ ماہ تو برف پڑی رہتی ہے اور گرمیوں میں بھی اتنی سردی ہوتی ہے کہ آدمی ٹھٹھر نے لگتا ہے.جب میں وہاں گیا تھا تو سخت گرمی کا موسم تھا حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے گرم پاجامہ پہنا اور کہنے لگے کہ میں نے ہندوستان میں سخت سردیوں کے موسم میں بھی اسے کبھی نہ پہنا تھا مگر ایسے سرد ملک کے رہنے والے لوگ انجنوں پر کام کرتے ہیں اور ہمارے ملک کے لوگ شکایت کرتے ہیں کہ انگریزوں نے نوکریاں سنبھال لی ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ کیوں نہ سنبھالیں وہ نہیں سنبھالیں گے تو کیا وہ سکتے لوگ سنبھالیں گے جو گر می گرمی پکارتے ہیں اور اولادوں کو گھروں میں بے کار بٹھائے رکھتے ہیں.میں نے الفضل والوں کو کہا تھا کہ وہ شہروں میں ایجنسیاں قائم کر دیں مگر وہ شکایت کرتے ہیں کہ نوجوان یہ کام نہیں کرتے اور کوئی کرتا ہے تو روپیہ نہیں دیتا.جس قوم کے نوجوان چند پیسے بھی لے کر ادا نہ کریں اور بے کار پھریں، کام کے لئے تیار نہ ہوں وہ کب اُمید کر سکتی ہے کہ زندہ رہے گی؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے جس سے مخالف مراد ہیں مگر جماعت کو بھی اس سے سبق حاصل کرنا چاہئے.آپ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ایک بڑی لمبی نالی ہے اور اس نالی پر ہزار ہا بھیٹر میں لٹائی ہوئی ہیں اس طرح پر کہ بھیڑوں کا سرنالی کے کنارہ پر ہے اس غرض سے کہ تا ذبیح کرنے کے وقت ان کا خون نالی میں پڑے، ہر ایک بھیڑ پر ایک قصاب بیٹھا ہے اور ان تمام قصابوں کے ہاتھ میں ایک ایک چھری ہے جو ہر ایک بھیٹر کی گردن پر رکھی ہوئی ہے اور آسمان کی طرف ان کی نظر ہے.گویا اللہ تعالیٰ کی اجازت کے منتظر ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ وہ لوگ جو دراصل فرشتے ہیں بھیڑوں کے ذبح کرنے کے لئے مستعد بیٹھے ہیں محض آسمانی اجازت کی انتظار ہے تب میں ان کے نزدیک گیا اور میں نے قرآن شریف کی یہ آیت پڑھی:.قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان: 78) یعنی میرا خدا تمہاری کیا پر وا کرتا ہے اگر تم اس کی پرستش نہ کرو اور اس کے حکموں کو نہ سنو.میرا یہ کہنا ہی تھا کہ فرشتوں نے فی الفور اپنی بھیڑوں پر چھریاں پھیر دیں اور کہا تم چیز کیا ہو؟ گوں کھانے والی بھیڑیں ہی ہو.مطلب یہ ہے کہ وہ سکتے لوگ مٹا دیئے جاتے ہیں.بھیڑیں تو پھر بھی گوں کھا کر نجاست کو 3 273

Page 286

خطبہ جمعہ فرموده 15 مئی 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول دور کرتی ہیں لیکن نکما آدمی تو اس سے بھی بدتر ہے.پھر میں نے توجہ دلائی ہے کہ صلح کرو اور آپس میں محبت پیدا کرومگر اس کی طرف بھی پوری توجہ نہیں کی جاتی.غرض جماعت کا معتدبہ حصہ ایسا ہے یہ نہیں کہ ساری کی ساری جماعت ایسی ہے مگر غربا میں بھی اور امرا میں بھی ایسے لوگ ہیں جو ہمارے ملک کے اس عام مرض میں مبتلا ہیں.یہ لوگ وعظ مزے لینے کے لئے سنتے ہیں عمل کے لئے نہیں اگر عمل کے لئے سنتے تو آج تک ولایت اور سلوک کی منازل طے کر چکے ہوتے مگر وہ مزے کے لئے سنتے یا اخبار میں پڑھتے ہیں.اگر جماعت ان باتوں کی طرف توجہ کرے جو میں بتاتا ہوں تو یقیناً وہ وعدے پورے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ نے کئے ہیں اور جو پہلے انبیاء علیہم السلام کی جماعتوں کے متعلق پورے ہوئے.پہلے ہمیں کہا جاتا تھا کہ ذرا افغانستان جاؤ، ایران جاؤ اور دیکھو وہاں تمہارے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے؟ مگر اب اس نئے انتظام کے ماتحت چونکہ خیال ہو گیا ہے کہ حکومت ہندوستانیوں کو مل جائے گی اس لئے کہا جاتا ہے کہ ملک سے نکال دیں گے مگر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی فرما دیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے مخالف ہمیشہ ان کو یہ کہتے رہے ہیں کہ :.لَنُخْرِ جَنَّكُمْ مِنْ أَرْضِنَا یعنی ہمیشہ رسولوں کو ان کی کا فرقو میں یہ کہتی رہی ہیں کہ ہم تمہیں اس ملک سے نکال دیں گے ورنہ اپنا دین چھوڑ کر ہمارے ساتھ مل جاؤ.یہ مماثلت بھی آج احرار نے پوری کر دی ہے.معلوم ہوتا ہے یہ اپنے جیسے پہلے سب لوگوں سے بڑھے ہوئے ہیں کیونکہ احرار کے منہ سے لَتَعُودَنَّ نہیں نکلا بلکہ صرف یہی کہتے ہیں کہ پکڑ کر سمندر پار کر دیں گے لیکن اللہ تعالٰی مومنوں کو تسلی دیتا اورفرماتا ہے کہ:.(ابراہیم :14) (ابراہیم: 14) فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ یعنی یہ کیا نکالیں گے؟ اللہ تعالیٰ ان کو دنیا سے نکال دے گا.پس اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہو کر رہے گا مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے وہ تبدیلی پیدا کرو جو نبیوں کی جماعتوں کے لئے ضروری ہے.یہ تو ابتدائی زینہ ہے جو میں نے بتایا ہے اسے انتہائی سمجھ کر بیٹھ نہ جاؤ اس سے بہت بڑی بڑی قربانیوں کا نقشہ میرے ذہن میں ہے اور اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو اپنے وقت پر میں انہیں بیان کروں گا اور اگر آپ دیانت داری کے ساتھ میری اتباع کریں گے تو جس طرح یہ یقینی بات ہے کہ اس وقت سورج نصف النہار پر ہے اسی طرح فتح یقینی ہو گی مگراللہ تعالیٰ کی برکتیں کام سے نازل ہوتی ہیں پہلے اس کے بن جاؤ، اسے اپنا رب بنالو پھر اس کی طرف سے تمہیں وحی ہوگی کہ لَنُهْلِكُنَّ الظَّلِمِینَ یعنی بہت 274

Page 287

تحریک جدید- ایک اپنی تحریک...جلد اول اچھا! ہم ان کو مٹادیں گے.خطبہ جمعہ فرمودہ 15 مئی 1936ء حضرت نظام الدین اولیاء کا ایک واقعہ میں نے کئی بار سنایا ہے وہ بادشاہ کے دربار میں نہیں جایا کرتے تھے مخالفوں نے بادشاہ کو اکسایا کہ یہ اپنی حکومت بنانا چاہتے ہیں.بادشاہ ناراض ہو گیا.وہ بہار کی طرف جارہا تھا اس لئے اس نے کہا کہ واپس آکر سزا دیں گے.چنانچہ جب وہ واپس آرہا تھا آپ کے مریدوں نے عرض کیا کہ حضور بادشاہ آیا ہی چاہتا ہے کوئی صورت کرنی چاہئے جس سے وہ سزا نہ دے مگر آپ نے فرمایا: ہنوز دلی دور است.وہ اور قریب آیا مریدوں نے پھر توجہ دلائی مگر آپ نے پھر وہی جواب دیا حتی کہ بادشاہ شہر کے باہر آ موجود ہوا، اسلامی طریق یہی ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیا کرتے تھا کہ رات شہر کے باہر ہی قیام کر کے صبح شہر میں داخل ہوتے اس کے مطابق بادشاہ نے بھی رات شہر سے باہر قیام کیا.مرید اور بھی پریشان تھے انہوں نے پھر جا کر عرض کیا کہ کوئی تدبیر کی جائے مگر آپ نے فرمایا کہ: ہنوز دتی دور است.رات جشن ہوا، بادشاہ کے لڑکے اور دوسرے امرا نے دعوتیں کیں اور ہجوم اتنا ہو گیا کہ چھت گر پڑی اور بادشاہ دب کر مر گیا.پس اگر تم خدا تعالٰی سے تعلق پیدا کرلو، کچی قربانیوں کے لئے تیار ہو جاؤ اور ان باتوں پر غور کرو جو میں بتاتا ہوں اور جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں تو ضرور کامیاب ہو کر رہو گے.زمانہ تمہیں نافرمانی کی سز ایا اتباع کے نتیجہ میں کامیابی دے کر بتا دے گا کہ یہ باتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور ایک بھی میری نہیں لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ ضروری ہے کہ جو سلوک پہلے ابنیاء علیہم السلام کی جماعتوں سے ہوا وہ تم سے ہو اور جب تم ان امتحانوں میں پاس ہو جاؤ گے تو تمہاری فتح بھی یقینی ہوگی.اگر اپنی اصلاح کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکات نازل ہوں گی اور اگر ستی کرو گے تو انجام جتنا بھیانک ہے وہ میں نے بتا دیا ہے.ابھی دشمن جو کہتا ہے ڈرتے ڈرتے کہتا ہے کہ شاید حکومت پکڑ نہ لے مگر پھر بھی وہ کہہ چکا ہے کہ احمدیوں کو ملک سے نکال دیا جائے گا.گو حکومت کا رویہ احرار کو پکڑنے والا نہیں.بار بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دی جاتی ہیں خصوصاً اخبار مجاہد کی طرف سے تو حکومت نے کانوں میں روئی ٹھونسی ہوئی ہے، وہ بار بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دجال، کذاب ، شرابی ، عیاش اور زانی لکھتا ہے لیکن حکومت کو ذرا احساس نہیں ہوتا کہ ایک قانون ہے جو اس نے خود بانیان مذاہب کی عزت کے تحفظ کے لئے بنوایا ہوا ہے وہ کہاں گیا ؟ ان حالات میں سوائے اس کے کہ ”مجاہد اور بعض افسروں میں سمجھوتہ ہے اور کیا کہہ سکتے ہیں؟ دشمن جس قسم کی شرارت کر رہا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ اسے بعض فضول 275

Page 288

خطبہ جمعہ فرمودہ 15 مئی 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک......جلد اول افسروں کی انگیخت اور سہارا ہے لیکن اگر آپ لوگ دینی اصلاح کر کے اللہ تعالیٰ پر توکل کریں تو ایسے سمجھوتے سب کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ جائیں گے، ایسے بددیانت حاکموں کو بھی ضرور سزا ملے گی ، ان کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل جائے گی خواہ اللہ تعالیٰ ان سے بڑے افسروں کے ذریعہ ان کو سزا دے یا آسمان سے حکم جاری کرے لیکن اگر ہماری طرف سے سستی اور غفلت ہو تو اللہ تعالیٰ کی غیرت بھڑ کنے کی کوئی وجہ نہیں اور وہ انتظار کرے گا جب تک کہ ہم اصلاح نہ کرلیں یا ہماری جگہ کوئی اور قوم نہ کھڑی ہو جائے.جب تک ہم اپنے نفسوں میں تبدیلی نہ کریں گے، جب تک جان و مال اور عزت و آبرو کی قربانی کے لئے تیار نہ ہوں گے، بستیوں اور غفلتوں کو ترک نہ کریں گے اس وقت تک کامیابی محال ہے.ابھی ایک مقدمہ میرے پاس آیا اور عمر بھر میں میرا یہ پہلا تجربہ تھا کہ فریقین کی باتیں اتنی متضاد تھیں کہ ایک ان میں سے ضرور خطرناک جھوٹ بول رہا تھا.احمدیوں کے متعلق یہ میرا پہلا مشاہدہ تھا کہ ایک فریق خطرناک جھوٹ بول رہا تھا اور ایک موقع پر تو فریقین نے اقرار کر لیا کہ فلاں وقت وہ دونوں جھوٹ بول چکے ہیں.پس جب تک اپنی اصلاح نہ کرو گے عزت نصیب نہیں ہوگی.جب تک آپس میں صلح نہ کر وہ محبت پیدا نہ کروہ محنت کی عادت نہ ڈالو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی کس طرح اُمید کر سکتے ہو؟ پس مالی اور جانی قربانیوں کے لئے خود بھی تیار ہو جاؤ اور اولادوں کو بھی قربانی کے لئے تیار کرو ان کو تختی محنت اور مشقت کا عادی بناؤ، ایثار اور سچائی کی عادت ڈالو.ہماری جماعت کو تو سچ پر اس طرح قائم ہونا چاہئے کہ اگر احمدی کوئی بات کہہ دے تو لوگ خاموش ہو جا ئیں کہ بس یہی سچی ہے.یہ دن لے آؤ پھر دیکھو کس طرح فتح قریب آتی ہے.جس طرح خدا تعالیٰ قریب بھی ہے اور دور بھی اسی طرح مومن کی کامیابی دور بھی ہوتی ہے اور نزدیک بھی.لوگ خدا کو کتنا دور سمجھتے ہیں کہ ساری عمر میں بھی اس تک نہیں پہنچ سکتے مگر وہ اتنا قریب ہے کہ ایک منٹ میں انسان اسے حاصل کر سکتا ہے.یہی حال مومن کی کامیابی کا ہے دنیا کو وہ سینکڑوں سالوں میں جا کر حاصل ہوتی ہے مگر مومن جب ارادہ کر لیتا ہے تو فوراً کامیاب ہو جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دورمت سمجھو.اگر اپنی اور اپنی اولادوں کی اصلاح کر لو تو گورات کو آسمان پر مایوسیوں کے بادل تمہیں نظر آتے ہوں مگر جب صبح اُٹھو گے تو تم ہی دنیا کے بادشاہ ہو گے.“ (مطبوعہ الفضل 22 مئی 1936 ء ) 276

Page 289

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول تقریر فرمود : 28 جون 1936ء تحریک جدید ایک قطرہ ہے قربانیوں کے اس سمندر کا جو تمہارے سامنے آنے والا ہے تقریر فرموده و 28 جون 1936 ء بر موقع جلسہ تحریک جدید سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میری صحت تو اس بات کی اجازت بالکل نہیں دیتی کہ میں تقریر کر سکوں لیکن انسان ان باتوں سے غافل ہوتا ہے جو اس کو نظر نہیں آتیں.اگر کسی کے پاؤں میں کوئی زخم ہو اور وہ چلتا ہوا نظر آئے تو اس سے تعلق رکھنے والا ہر شخص اس کو ملامت کرتا اور اس کی منتیں کرتا ہوا کہتا ہے آپ لیٹے رہنے تا زخم اچھا ہو جائے کیونکہ وہ زخم ان لوگوں کو نظر آ جاتا ہے لیکن جب وہی زخم اندرونی ہوتا ہے، ایک کو پیچش ہو جاتی ہے اور وہ اس تکلیف کا اظہار کرتا ہے تو اس کے دوست اسے کہتے ہیں یو نبی نخرے کر رہا ہے اسے کیا ہوا ہے کہ یہ چل پھر نہیں سکتا؟ وہی زخم اگر کسی کے گلے میں ہوتا ہے تو اس کی انسان چنداں پروا نہیں کرتا اور یہ امید رکھتا ہے کہ باوجود اس زخم کے وہ بولتا چلا جائے اور وہ خیال کرتا ہے کہ بھلا تھوڑ اسا بو لنے میں کیا حرج ہے؟ یہ عام انسانی فطرت کی کمزوری ہے اور انسان بوجہ اپنے محدود علم کے اس قسم کی غلطیوں میں مبتلا ہوتارہتا ہے.میں نے تحریک جدید کے متعلق اس قدر باتیں کہہ دی ہیں کہ میں سمجھتا ہوں مجھے اس بارہ میں مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں مگر انسانی فطرت جدت پسند بھی ہے اور وہ سب کچھ سننے کے بعد پھر بھی خواہش کرتی ہے کہ کچھ اور سنایا جائے اور وہ اس سوال پر بھی بر امناتی ہے کہ تم جو اور سننے کے خواہش مند ہو پچھلے سننے پر تم نے کیا عمل کیا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں ایک دفعہ ایک شخص آیا اور کہنے لگا میں معجزہ دیکھنا چاہتا ہوں اگر مجھے فلاں معجزہ دکھا دیا جائے تو میں آپ پر ایمان لانے کیلئے تیار ہوں.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ مداری نہیں وہ کوئی تماشا نہیں دیکھا تا بلکہ اس کا ہر کام حکمت سے پُر ہوتا ہے آپ یہ بتائیں کہ جو پہلے مجزے دکھائے گئے ہیں اُن سے آپ نے کیا فائدہ اٹھایا ہے کہ آپ کے لئے اب کوئی نیا معجزہ دکھایا جائے ؟ مگر انسانی فطرت کی کمزوری اس کو بھی نا پسند کرتی بلکہ شاید اسے بد تہذیبی قرار دیتی ہے.وہ جائز سمجھتی ہے کہ سستی اور غفلت میں مبتلا چلی جائے بلکہ سستی اور غفلت میں ہمیشہ پڑی رہے اور کوئی اس سے اتنا بھی سوال نہ کرے کہ اس نے اپنی ذمہ داری کو کس حد تک 277

Page 290

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول تقریر فرمودہ 28 جون 1936ء ادا کیا ہے.ہاں جب بھی وہ کوئی تماشاد یکھنا چاہے اس وقت اُسے وہ تماشاضرور دکھا دیا جائے.انسان کو اللہ تعالیٰ نے عقل دے کر بھیجا ہے وہ کوئی پاگل وجود نہیں، جمادات کی طرح اور حیوانات کی طرح وہ محمد ود عقل کا یا بالکل بے عقل وجود نہیں مگر وہ خدا تعالیٰ کی اس نعمت سے جو اسے دی گئی ہے کیا فائدہ اُٹھاتا ہے؟ کتنے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی عقل کو استعمال کرتے ہیں؟ کتنے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی سمجھ کو استعمال کرتے ہیں؟ کتنے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے فہم کو استعمال کرتے ہیں؟ دنیا میں بڑی چیزوں پر ہمیشہ چھوٹی چیزوں کو قربان کیا جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کمزور انسانیت پر اپنے پیدا کئے ہوئے قیمتی سے قیمتی جو ہروں کو قربان کیا.آدم علیہ السلام اپنے زمانہ کا سب سے قیمتی جو ہر تھا مگر خدا تعالیٰ نے ان کمزور لوگوں کے لئے جنہوں نے شیطان کو جنت میں دخل دیا آدم علیہ السلام کی سی قیمتی جان کو قربان کرا دیا.حضرت نوح علیہ السلام اپنے زمانہ میں سب سے قیمتی وجود تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ان ازلی شقوں اور ان بد قسمت وجودوں کیلئے جو ہدایت سے محرومی اختیار کر چکے تھے حضرت نوح علیہ السلام کی جان کو قربان کرا دیا.حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے زمانہ کے سب سے قیمتی وجود تھے مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جان کو کمزور اور ناقص انسانوں کے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کرب و بلا میں مبتلا کیا.حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے زمانہ کے قیمتی سے قیمتی وجود تھے مگر وہ نبی اسرائیل جو خدا کے لئے صرف اس قربانی کے مالک تھے کہ انہوں نے کہہ دیا: فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ إِنَّا هُهُنَا قُعِدُونَ (المائدة 25) اُس بزدل، اس نشانات سے آنکھیں بند کر لینے والی اور اس جاہل قوم کے لئے خدا تعالیٰ نے حضرت موسی کی سی قیمتی جان کو قربان کرا دیا.حضرت عیسی علیہ السلام اپنے زمانہ کے قیمتی ترین وجودوں میں سے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لئے جن کے متعلق حضرت مسیح علیہ السلام خود کہتے ہیں کہ وہ سانپ اور سانپوں کی اولاد ہیں، وہ درندے اور درندوں کی اولاد ہیں ، ان کی زندگی کو بھینٹ چڑھا دیا.محمد ﷺ سے زیادہ پاک اور اعلی وجود دنیا میں کون آیا؟ کہ جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا: لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاک 278

Page 291

جدید - ایک الہی تحریک جلد اول تقریر فرمودہ 28 جون 1936ء اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اگر تجھے پیدا نہ کرنا ہوتا تو میں زمین اور آسمان کو بھی پیدا نہ کرتا.پس وہ وجود جس کی خاطر بنی نوع انسان پیدا کئے گئے.ابو جہل، عتبہ اور شیبہ کی ہدایت اور بھلائی کے لئے اس کو ایک ایسی صلیب پر لٹکا دیا گیا جولوگوں کو تو نظر نہیں آئی مگر خدا تعالیٰ جس کی نظر میں ہر غیب بھی ظاہر ہے ، وہ اس صلیب کے متعلق فرماتا ہے: لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء:4) اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! شاید کہ غم کی چھری تجھ کو ذبح کرتے کرتے تیری گردن کے آخری قسموں کو بھی کاٹ دے گی اس وجہ سے کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے؟ وہ قربان ہونے والے وجود کس قیمت کے تھے ؟ اور جن کے لئے انہوں نے قربانی دی وہ کس قیمت کے تھے ؟ مگر کون تھے جنہوں نے ان قربانیوں سے فائدہ اُٹھایا اور کس حد تک؟ کیا ہمیں اس بات کے سمجھانے کے لئے کسی نبی کی ضرورت ہے کہ ہماری زندگی موت پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ ایک اور تسلسل زندگی کا ہمیں حاصل ہونے والا ہے؟ کیا ہمیں اس بات کے سمجھانے کے لئے کسی نبی کی ضرورت ہے کہ ہمارے اعمال کسی بدلے اور جزا کے متقاضی ہیں؟ اور ہماری زندگیاں بے کار اور رائیگاں جانے والی نہیں ؟ اور ایک دار الحساب ہمارے لئے مقرر ہے جس میں ہم سب کا حساب لیا جائے گا؟ پھر کیا ہمیں اس بات کے سمجھانے کے لئے کسی نبی کی ضرورت ہے کہ ہم اس دنیا میں ہمیشہ زندہ نہیں رہیں گے بلکہ ایک دن مر جائیں گے اور سب چیز میں اسی جگہ چھوڑ کر چلے جائیں گے؟ آخر کونسی چیز ہے جس کے لئے ہم کہیں کہ ہمیں اس کے متعلق باہر سے امداد کی ضرورت ہے؟ چھوڑ دوان باتوں کو جو آسمان سے آنے والی ہوتی ہیں اور جن کے بغیر انسان کی روحانیت اعلیٰ مدارج پر نہیں پہنچ سکتی کہ وہ بے شک رسولوں کے ذریعہ آتی ہیں اور ان کا علم حاصل نہیں ہو سکتا لیکن ان سے نیچے اتر کر وہ ابتدائی باتیں جن کے لئے نبیوں کی ضرورت نہیں انہی کے متعلق غور کر کے دیکھ لو انسان اُن کا کس حد تک خیال رکھتا ہے.سب سے زیادہ یقینی چیز موت ہے مگر کیا سب سے زیادہ انسان اسی کو نہیں بھولتا ؟ کوئی انسان ہے جو کہے کہ میں نے اپنا کوئی رشتہ دار مرتا ہوا نہیں دیکھا؟ کیا کوئی ہے جو کہہ سکے کہ وہ آدم علیہ السلام سے پہلے زمانہ کا ہے؟ جس کا نہ کوئی باپ تھانہ کوئی رشتہ دار اور وہ اب تک موت سے محفوظ ہے؟ اگر آج کوئی آدم ނ 279

Page 292

تقریر فرمودہ 28 جون 1936ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد اول علیہ السلام کا بیٹا بھی ہے تو بھی آدم اُس کے سامنے مرا، اگر آج کوئی نوح کا بیٹا ہے تب بھی آدم اور اس کی و اولا داور حضرت نوح کی وفات اس کے سامنے ہوئی ، اگر کوئی موسٹی سے بھی تعلق رکھنے والا ہے تب بھی حضرت آدم ، حضرت نوح ، حضرت ابراہیم اور دوسرے لاکھوں انسان اس نے مرتے دیکھے اسی طرح اگر آج کوئی حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ کا موجود ہے یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کا کوئی شخص پایا جائے تو ہزار ہا انسان اس کے سامنے فوت ہو چکے مگر اس قسم کا آدمی تو دنیا میں کوئی موجود نہیں.انسان کی اوسط عمر چالیس پچاس سال ہوتی ہے.اس تھوڑے سے عرصہ میں ہی اس کے کئی بھائی بند، رشتہ دار اور دوست اس کے سامنے فوت ہو جاتے ہیں مگر کتنے ہیں جو اپنی موت یا درکھتے ہیں؟ اور پھر کتنے ہیں جو موت کے آنے سے پہلے اس کے لئے تیاری کرتے ہیں؟ در حقیقت میری تحریک کوئی جدید تحریک نہیں بلکہ یہ قدیم ترین تحریک ہے اور اس جدید کے لفظ سے صرف ان ماؤف اور بیمار دماغوں سے تلعب کیا گیا ہے جو بغیر جدید کے کسی بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے جس طرح ڈاکٹر جب ایک مریض کا لمبے عرصہ تک علاج کرتا رہتا ہے تو بیمار بعض دفعہ کہتا ہے مجھے ان دواؤں سے کوئی فائدہ نہیں ہوا.تب وہ کہتا ہے اچھا میں آج تمہیں نئی دوا دیتا ہوں یہ کہ کر وہ پہلی دوا میں ہی نکھر کارڈیم ملا کر اور خوشبودار بنا کر اُسے دے دیتا ہے مریض سمجھتا ہے کہ مجھے نئی دوا دی گئی ہے اور ڈاکٹر بھی اسے نئی دوا کہنے میں حق بجانب ہوتا ہے کیونکہ وہ اس میں ایک نئی دوا ملا دیتا ہے مگر وہ اس لئے اسے جدید بناتا ہے تا مریض دوائی پیار ہے اور اس کی امید نہ ٹوٹے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک دفعہ ایک بڑھیا آئی اُسے ملیر یا بخار تھا جو لمبا ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے فرمایا تم کو نہیں کھایا کرو.وہ کہنے لگی کو نین! میں تو اگر کسی دن کو نین کی گولی کا چوتھا حصہ بھی کھالوں تو ہفتہ ہفتہ بخار کی تیزی سے پھنکتی رہتی ہوں.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھا کہ وہ کو نین کھانے کیلئے تیار نہیں تو چونکہ عام طور پر ہمارے ملک میں کو نین کو گوئین کہتے ہیں جس کے معنے دو جہانوں کے ہوتے ہیں اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے کھانے کو تو کونین کی ہی گولیاں دیں مگر فرمایا: یہ دارین کی گولیاں ہیں انہیں استعمال کرو.دو تین گولیاں ہی اس نے کھائی ہوں گی کہ آکر کہنے لگی مجھے تو اس دوا سے ٹھنڈک پڑ گئی ہے کچھ اور گولیاں دیں.میں نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرح پرانی تحریک کا نام جدید رکھ دیا اور تم نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ جدید تحریک ہے.وہ لوگ جن کے اندر اخلاص تھا اور وہ چاہتے تھے کہ روحانیت میں ترقی کریں انہوں نے جب ایک تحریک کا نیا نام سنا تو انہوں نے کہا یہ نئی چیز ہے آؤ ہم اس 280

Page 293

نزیک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول تقریر فرمودہ 28 جون 1936ء سے فائدہ اُٹھا ئیں اور وہ لوگ جن کے اندر نفاق تھا انہوں نے یہ سمجھ کر کہ یہ نئی چیز ہے کہنا شروع کر دیا کہ اب یہ نئی نئی باتیں نکال رہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ السلام کے طریق سے انحراف کر رہے ہیں.نہ اس نے بات سمجھنے کی کوشش کی اور نہ اس نے فائدہ اُٹھایا.پرانی شراب پرانے مٹکوں میں پڑی ہوئی تھی صرف اس کا نام بدل دیا گیا تو منافق نے کہنا شروع کر دیا اب یہ نئی باتیں بتانے لگ گئے ہیں اور مخلص نے کہا میرے سامنے نئی چیز پیش کی جارہی ہے آؤ میں اس سے فائدہ اُٹھاؤں.حالانکہ وہ پرانی ہی چیز تھی جسے ایک نیا نام دے دیا گیا.وہ وہی چیز تھی جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا اور وہ وہی چیز تھی جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش فرمایا مگر وہ لوگ جن کی ایمانی حالت بچوں کی سی تھی انہوں نے کہا: آؤ ہم ایک نئی چیز کا تجربہ کریں اور منافقوں نے کہہ دیا کہ اب پرانے طریق چھوڑ کر نئے طریق اختیار کئے جارہے ہیں.حالانکہ اس میں وہ کونسی چیز ہے جو نئی ہے؟ وہی ایک قانون ہے جو آدم کے وقت سے مقرر ہوا کہ جب شیطان تم پر حملہ کرے گا تمہیں اس کے مقابلہ میں اپنے ہاتھ پاؤں ہلانے پڑیں گے بغیر اس کے تمہیں کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.اس کے سوا تحریک جدید اور کیا ہے؟ یہی قانون اس تحریک میں کام کر رہے کہ حرکت میں برکت ہے نیا نام تو اسے اس لئے دیا گیا کہ وہ لوگ جونئی چیز کی طرف توجہ کرنے کے عادی ہیں اس کا نیا نام سن کر اس کی طرف توجہ کریں.جیسا کہ کہتے ہیں کوئی زمیندار مرنے لگا تو اس کے چار لڑکے تھے وہ چاروں اُس کے پاس آئے باپ نے کہا: میں اب مرنے لگا ہوں اس لئے میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میں نے اپنے کھیت میں ایک خزانہ دفن کیا تھا مجھے یاد نہیں رہا وہ کس جگہ ہے؟ جب میں مر جاؤں تو سارا کھیت کھود ڈالناممکن ہے وہ خزانہ کسی جگہ سے تمہیں دستیاب ہو جائے.باپ کے مرتے ہی چاروں بھائی کدالیس لے کر کھیت میں پہنچ گئے اور تمام زمین کھود ڈالی مگر انہیں خزانہ نہ ملا وہ حیران ہوئے کہ خزانہ کہاں چلا گیا؟ پھر خیال آیا کہ شاید کوئی چور نکال کر لے گیا ہو مگر اس کے بعد جب انہوں نے اسی کھیت میں کھیتی ہوئی تو بوجہ اس کے کہ انہوں نے کھود کھود کر تمام زمین کو نرم کر دیا تھا فصل خوب ہوئی اور دوسروں سے کئی گنے زیادہ اناج پیدا ہوا.انہوں نے ایک دن اتفاقاً کسی سے ذکر کیا کہ ہمارے باپ نے مرتے وقت کہا تھا کہ اس زمین میں خزانہ مدفون ہے ہم نے تمام زمین کھود ڈالی مگر خزانہ کہیں سے نہیں ملا.وہ کہنے لگا ہے وقو فو! یہی تو خزانہ ہے جو کئی گنے زیادہ اناج کی صورت میں تمہیں مل گیا اگر تمہارا باپ تمہیں یہ کہتا کہ زمین خوب کھودنا اس سے اچھی فصل ہو گی تو تم کب اس کی بات مانتے ؟ تم کہتے کیا بے وقوفی کی بات ہے؟ جس طرح دوسرے لوگ فصل ہوتے ہیں اسی طرح ہم کیوں نہ ہوئیں؟ مگر جب اُس نے خزانے کا لفظ بول 281

Page 294

تقریر فرمودہ 28 جون 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول دیا تو تم سب مل کر زمین کھود نے لگ گئے اور اس طرح تمہیں دوسرے سے کئی گنے زیادہ غلہ مل گیا یہی تو خزانہ ہے جو تمہیں اپنے باپ کی وجہ سے ملا.تو چیز ایک ہی ہوتی ہے مگر رنگ بدل دیا جاتا ہے.وہی چیز جو آدم کے ہاتھوں دنیا میں قائم ہوئی، وہی نوٹ کے ذریعہ قائم ہوئی ، وہی ابراہیم کے ذریعہ قائم ہوئی، وہی موسی" کے ذریعہ قائم ہوئی ، وہی عیسی کے ذریعہ قائم ہوئی اور وہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ قائم ہوئی.کامیابی کا گر سب کا ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ جب شیطان خدا تعالی کی بادشاہت پر حملہ کرے تو اس وقت مومن اُٹھے اور اپنی جان دے دے.جب تک مومن خدا تعالیٰ کے لئے جان دینے کے لئے تیار نہیں ہوتا ، جب تک خدائی قلعہ کی حفاظت کے لئے وہ ہر قسم کی قربانیوں پر آمادہ نہیں ہوتا اس وقت تک خدا تعالی کی نصرت اُس کے لئے نہیں اُترتی.اس چیز کا کوئی نام رکھ لو، تحریک جدید رکھ لو، تحریک قدیم رکھ لو، دین حنیف رکھ لو، دین موسوی رکھ لو، دین عیسوی رکھ لو بات ایک ہی ہے.گر ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ خدا اپنے مومن بندوں سے قربانی کا مطالبہ کرتا ہے اگر بندے اس کے لئے جان دینے کے لئے تیار ہوں تو خدا تعالیٰ ان کی جان بچانے کے لئے تیار ہو جاتا ہے اور اگر بندے خدا تعالیٰ کے لئے اپنی جان دینے کے لئے تیار نہ ہوں تو خدا تعالیٰ اُن کی جان بچانے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتا.جب تک انسان اس گر پر عمل کرتارہے گا خد اتعالیٰ کی نصرت اور مدد اس کے شامل حال رہے گی اور جب اس گھر پر عمل کرنا چھوڑ دے گا خدا تعالیٰ کی نصرت اور مدد بھی اس سے چھین لی جائے گی.بہر حال ضروری ہے کہ انسان ہر قسم کی قربانیوں کے لئے تیار رہے اور کوئی قربانی ایسی نہ ہو جس کے کرنے سے وہ ہچکچائے خواہ وہ مال کی قربانی ہو خواہ جان کی قربانی ہو خواہ عزت کی قربانی ہو خواہ وجاہت کی قربانی ہو خواہ وطن کی قربانی ہو خواہ جذبات و احساسات کی قربانی ہو ہر قسم کی قربانی کے لئے وہ تیار ہو.خدا تعالیٰ کبھی شرطیں کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا باقی انسان تو شرطیں کر لیتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کبھی شرطیں نہیں کرتا اس کی طرف سے صرف یہ بات پیش کی جاتی ہے کہ جو اس سے تعلق رکھنا چاہتا ہے وہ بلا شرط اپنے آپ کو اس کے سامنے پیش کر دے.اگر وہ مال کے بارہ میں اس کا امتحان لینا چاہے تو وہ مالی امتحان کے لئے تیار ہو ، اگر جان کے بارہ میں اس کا امتحان لینا چاہے تو جانی امتحان کے لئے تیار ہو، اگر وطن کے بارہ میں اس کا امتحان لینا چاہے تو وطن کے امتحان کیلئے تیار ہو، اگر عزت کے بارہ میں اس کا امتحان لینا چاہے تو عزت کے امتحان کے لئے تیار ہو اور اگر عزیز و اقارب اور رشتہ داروں کے بارہ میں امتحان لینا چاہے تو اس امتحان کے لئے تیار ہو.ان میں سے کون سی قربانی ہے جسے ہم بڑا یا چھوٹا کہہ سکتے ہیں؟ خدا تعالیٰ نے نوع کا امتحان اس رنگ میں لیا کہ ان کے بیٹے کو 282

Page 295

تحریک جدید- ایک البی تحر یک...جلد اول تقریر فرمودہ 28 جون 1936ء مذہباً ان سے جدا کیا ، خدا تعالیٰ نے ابراہیم کا امتحان اس طرح لیا کہ ان کے ہاتھ سے اپنے بیٹے پر چھری چلوانی چاہی ، خدا تعالی نے لوڈ کا امتحان اس طرح لیا کہ ان کی بیوی ان سے الگ رہی ، خدا تعالیٰ نے موسی کا امتحان اس طرح لیا کہ ان کا وطن ان سے چھڑایا اسی طرح خدا تعالیٰ نے عیسی کا امتحان اس طرح لیا کہ انہیں صلیب پر لٹکا دیا.کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان میں سے فلاں قربانی چھوٹی ہے اور فلاں بڑی.یہ تو خدا تعالیٰ کی مصلحت ہوتی ہے کہ وہ کسی قوم کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جس طرح چاہتا ہے اس کا امتحان لیتا ہے مگر اس میں کیا شبہ ہے کہ یہ سارے امتحان اپنی اپنی جگہ پر حکمت ہیں اور یہ امتحان اللہ تعالیٰ انسان کے فائدہ کے لئے لیتا ہے خواہ کسی انسان کا وہ امتحان لے جو اس نے حضرت نوح علیہ السلام سے لیا خواہ وہ امتحان لے جو اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لیا خواہ وہ امتحان لے جو اس نے حضرت لوط علیہ السلام سے لیا خواہ وہ امتحان لے جو اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے لیا خواہ وہ امتحان لے جو اس نے حضرت عیسی علیہ السلام سے لیا اور خواہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح سارے امتحان ہی اس سے لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قریب ترین وجودوں سے بھی خدا تعالیٰ نے چھڑایا.چنانچہ ان کے اپنے چچا ایمان سے محروم رہے، اُن سے وطن بھی چھڑایا اور انہیں دشمنوں نے صلیب کی قسم کی تکالیف بھی دیں جیسے اُحد کی جنگ میں آپ ﷺ پر پتھر پھینکے گئے اور آپ علیہ بے ہوش ہو گئے.واقعہ صلیب کیا تھا؟ یہی کہ ہاتھ پاؤں میں کیل گاڑے گئے جس سے حضرت عیسی علیہ السلام - ہوش ہو گئے مگر اس وقت فوت نہیں ہوئے اسی طرح اُحد کی جنگ میں کھیلوں کی جگہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر مارے گئے ، آپ یو کے دانت گرے اور آپ یہ بے ہوش ہو گئے.غرض جو تکلیف حضرت عیسی علیہ السلام پر آئی وہی تکلیف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پیش آئی اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام کواپنا وطن چھوڑ نا پڑا اورمحمدصلی اللہ علہ وسلم کو بھی وطن چھوڑنا پڑا.غرض وہ تمام قربانیاں جو پہلوں سے لی گئیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اکٹھی لی گئیں.اب ہم کس قربانی کو حقیر کہہ سکتے ہیں؟ کس قربانی کو چھوٹا اور کس کو بڑا کہہ سکتے ہیں؟ یہ حض خدا تعالیٰ کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ قربانی کے جس دروازہ سے چاہے انسان کو بلائے ورنہ جب خدا کہتا ہے کہ جنت میں ہر دروازہ سے فرشتے آئیں گے اور جنتیوں کو سلام کہیں گے تو اس کے یہی معنے ہیں کہ خدا کہے گا تم پر ہر دروازہ سے مصیبت آئی تھی اور تم نے اسے قبول کیا اب اس کے بدلہ میں ہر دروازہ سے تم پر سلامتی بھیجی جاتی ہے.اگر ہر دروازے سے کسی نے موت قبول نہیں کی تھی تو ہر دروازے سے اُس پر فرشتوں کے ذریعہ سلامتی بھیجنے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ 283

Page 296

تقریر فرمودہ 28 جون 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول آخر وہاں ناٹک کا تماشا تو نہیں ہو گا کہ چاروں طرف سے فرشتے بھیس بدل بدل کر آرہے ہوں گے اور مومنوں کو سلام کریں گے.مِنْ كُلِّ بَابِ سَلَامٌ سے مراد یہی ہے کہ چونکہ مومن نے دنیا میں ہر باب سے قربانی دی ہوگی اور ہر تکلیف کو خدا تعالٰی کے لئے برداشت کیا ہو گا اس لئے خدا تعالیٰ بھی ہر دروازے سے اس پر سلامتی بھیجے گا.پس وہ شخص جو اپنے لئے قربانی کا ایک دروازہ بھی بند کرتا ہے جنت کا ایک دروازہ اپنے او پر بند کرتا ہے جس کا دوسرے لفظوں میں یہ مطلب ہے کہ ایسا شخص جو اسلام سے تعلق رکھنے والی کسی قربانی سے پیچھے رہتا ہے جنت میں داخل نہیں ہو سکتا کیونکہ جنت میں وہی شخص داخل ہوگا جس نے ہر دروازہ سے خدا تعالیٰ کیلئے موت قبول کی ہوگی اور ہر قربانی کیلئے اس نے اپنے آپ کو تیار رکھا ہوگا.وہ بخیل جو مال کی قربانی کے وقت پیچھے ہٹ جاتا اور بہانے بنا بنا کر اس سے محفوظ رہنا چاہتا ہے وہ قربانی کا ایک دروازہ اپنے اوپر بند کر لیتا ہے کیونکہ یہ شرط ہے کہ جنت میں داخل ہونے والے پر ہر دروازہ سے سلامتی او بھیجی جائے گی.پس اگر اس نے ہر قربانی میں حصہ نہیں لیا تو وہ جنت میں داخل ہو کر ہر سلامتی کا مستحق کس طرح بن سکتا ہے؟ وہ بزدل جو خدا تعالیٰ کے راستہ میں اپنا خون بہانے سے ڈرتا ہے، جسے اپنی جان خدا تعالیٰ کے دین کے مقابلہ میں زیادہ پیاری دکھائی دیتی ہے وہ قربانی کا ایک دروازہ اپنے اوپر بند کرتا اور اس کے نتیجہ میں جنت کا دروازہ بھی اپنے اوپر بند کر لیتا ہے کیونکہ جنت میں وہی داخل ہوگا جس نے ہر دروازہ سے خدا تعالیٰ کے لئے قربانی دی ہوگی اور جس کے پاس ہر دروازہ سے فرشتے سلامتی کا پیغام لے کر آئیں گے.یہ کیوں کر ہوسکتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کے فرشتے آئیں اور ایک شخص اپنے مکان میں ان میں سے کسی ایک فرشتے کو داخل نہ ہونے دے تو باقی فرشتے داخل ہو جائیں؟ کیا کوئی غیرت مند یہ برداشت کر سکتا ہے کہ وہ اور اس کا بھائی کسی کے مکان پر جائیں اور مالک مکان کہے کہ تمہیں تو اندر آنے کی اجازت ہے مگر تمہارے بھائی کو نہیں تو وہ بھائی کو وہیں چھوڑ کر آپ اندر چلا جائے؟ اگر تم اپنے بھائی کے ساتھ کسی سے ملنے کیلئے جاتے ہو اور وہ کہتا ہے کہ تم آجاؤ اور تمہارا بھائی نہ آئے تو تمہیں غیرت آتی ہے اور تم کہتے ہو کہ اگر میرے بھائی کو اندر نہیں آنے دیتے تو میں بھی نہیں آسکتا تو کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک فرشتہ کے لئے تم دروازہ بند کرو تو باقی فرشتے تمہارے پاس آجائیں؟ یقیناً وہ بھی نہیں آئیں گے.اللہ تعالیٰ نے یہ نکتہ دنیا کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ بتایا.حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے رب کے حکم کے ماتحت جب اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کو خدا تعالیٰ کیلئے قربان کرنے کو تیار ہو گئے تو 284

Page 297

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد اول تقریر فرمودہ 28 جون 1936ء خدا تعالیٰ نے کہا: اے ابراہیم علیہ السلام! میں تیری نسل کو دنیا کے کناروں تک پھیلاؤں گا.اللہ تعالیٰ کار کلام بتا رہا ہے کہ نسل ہمیشہ اس کو ملتی ہے جو اپنی نسل کی قربانی خدا تعالیٰ کے لئے کرنے کو تیار ہو جائے اور عزت ہمیشہ اس کو ملتی ہے جو اپنی عزت خدا تعالیٰ کے لئے قربان کرنے کو تیار ہو جائے.سلامتی ابتلا کے مقابلہ کی چیز ہے.جب ہم کہیں کہ خدا نے کسی کو نسل دی ہے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ اپنی اولا د کو خدا تعالی کیلئے قربان کرنے پر تیار ہو گیا تھا، جب ہم کہیں کہ خدا نے کسی کو مال دیا ہے تو اس کے لازمی معنے یہ ہوں گے کہ وہ اپنے مال کو خدا تعالیٰ کے لئے قربان کرنے پر تیار ہو گیا تھا، جب ہم کہیں کہ خدا نے کسی کو عزت دی ہے تو اس کے یہی معنے ہوں گے کہ وہ اپنی عزت کو خدا تعالیٰ کیلئے قربان کرنے پر تیار ہو گیا تھا اور جب ہم کہیں کہ ہر دروازہ سے کسی کے لئے سلامتی آئی تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ خدا تعالیٰ کے لئے ہر قربانی کرنے پر تیار ہو گیا تھا.پس مت خیال کرو کہ تمہارے منہ کی باتیں تمہارے کام آئیں گی اور تمہاری زبانیں تمہیں جنت میں لے جاسکیں گی.جب تک تم ہر دروازہ سے خدا تعالیٰ کے لئے موت قبول نہیں کرو گے، جب تک تم فرشتوں کیلئے ہر دروازہ کھولنے کے لئے تیار نہیں ہو گے، جب تک تم اپنی جان کو خدا تعالیٰ کے لئے قربان نہیں کرو گے، جب تک تم اپنے مال کو خدا تعالیٰ کے لئے قربان نہیں کرو گے، جب تک تم اپنی عزتوں کو خدا تعالیٰ کے لئے قربان نہیں کرو گے، جب تک تم اپنی اولاد کو خدا تعالیٰ کے لئے قربان نہیں کرو گے ، جب تک تم اپنی دوستیوں کو خدا تعالیٰ کے لئے قربان نہیں کرو گے، جب تک تم اپنی عادات کو خدا تعالیٰ کے لئے قربان نہیں کرو گے اور جب تک ہر دروازہ فرشتوں کے لئے کھول نہیں دو گے اس وقت تک تمہیں جنت میئر نہیں آسکتی.یہ کوئی نیا پیغام نہیں جو میں نے دیا.حضرت آدم بھی یہی پیغام لائے تھے، حضرت نوح بھی یہی پیغام لائے تھے، حضرت ابراہیم بھی یہی پیغام لائے تھے ، حضرت موسی بھی یہی پیغام لائے تھے، حضرت عیسی بھی یہی پیغام لائے تھے اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم بھی یہی پیغام لائے تھے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام قیامت تک کے لئے ہے جسے کوئی بدل نہیں سکتا.انسانی چیزوں اور خدائی چیزوں میں فرق یہی ہے کہ انسان کی چیز پرانی ہو جاتی ہے مگر خدا تعالیٰ کی چیز پرانی نہیں ہوتی.انسان کپڑے پہنتا ہے جو چند دنوں کے بعد میلے ہو جاتے اور کچھ عرصہ کے بعد پھٹ جاتے ہیں لیکن خدا تعالٰی غلہ پیدا کرتا ہے وہ انسان کھاتا ہے جس کا کچھ حصہ پاخانہ بن کر زمین میں چلا جاتا ہے اور پھر اس کے ذریعہ اور غلہ پیدا ہو جاتا ہے.پھر انسان کی بنائی ہوئی چیز مولد نہیں ہوتی مگر خدا تعالی کی بنائی ہوئی چیز مولد ہوتی ہے.تمہارے لٹھے کا ایک تھان پانچ تھان نہیں بن سکتا لیکن خدا تعالیٰ کا ایک دانہ ستر دانے بن 285

Page 298

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول تقریر فرموده 28 جون 1936ء جاتا ہے اس طرح وہ دانہ پرانا بھی ہوتا ہے اور جدید بھی.ایک ہی وقت میں وہ پرانا ہوتا ہے اور اسی وقت میں وہ جدید بھی ہوتا ہے.وہ دانہ جو ہم آج کھاتے ہیں کیا اپنے اندروہی جزو نہیں رکھتا جو حضرت آدم کے وقت کا دانہ رکھتا تھا ؟ پھر وہی آدم کا دانہ تھا جو نواح کے زمانہ میں لوگوں نے کھایا اور وہی نوح" کے زمانہ کا دانہ تھا جو حضرت ابرا ہیم کے زمانہ میں لوگوں نے کھایا.کیا حضرت ابراہیم کے وقت کا دانہ آسمان سے اتر اتھا؟ کیا وہ اُسی دانہ سے نہ نکلا تھا جو حضرت نوح نے کھایا اور جو حضرت آدم نے کھایا ؟ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ آیا تو اس وقت بھی وہی دانہ تھا جو حضرت ابراہیم کے وقت تھا اور وہی خواص اس کے اندر تھے جو حضرت ابراہیم کے وقت اس کے اندر موجود تھے.پس وہ قدیم بھی تھا اور جدید بھی تھا بعض انسانوں کی عقل سے تلعب کرنے کے لئے تم بے شک اسے نیا کہہ سکتے ہو ، بعض انسانوں کی عقل سے تلعب کرنے کے لئے تم بے شک اُسے پرانا کہہ سکتے ہو مگر خدا کے لئے نہ وہ نیا تھا نہ پر انا بعض انسان بے شک اسے نیا کہ دیں گے اور بعض انسان کہہ دیں گے یہ پرانا ہے مگر خدا اور خدا سے تعلق رکھنے والوں کے نزدیک وہ نہ نیا ہے نہ پرانا ایک ہی دانہ ہے جو سب نے اپنے زمانہ میں کھایا اور کھاتے چلے جائیں گے.غرض تو ایک ریک کا نیا نام رکھنے سے یہ ہوتی ہے کہ کوئی فائدہ اُٹھائے اگر انسان اس سے فائدہ نہیں اُٹھاتا تو اسے جدید کہ لو یا قدیم کہ لو، بدعت کہ کر چھوڑ دو یا اچنبھا سمجھ کر منہ سے اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ کے حضور وہی پسندیدہ ہوتا ہے جو اس کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جو اپنی جان اور اپنا مال اور اپنی عزت اور اپنی آبرو اور اپنی ہر چیز خدا تعالیٰ کے حوالے کر دے اور اسے کہہ دے کہ آپ اس سے جو چاہیں سلوک کریں.وہ خدا واحد اور لاشریک ہے وہ اپنی چیز میں کسی دوسرے کو شریک نہیں کرتا وہ یہ نہیں دیکھ سکتا کہ کچھ حصہ اسے دیا جائے اور کچھ شیطان کو یا کچھ حصہ خدا کو دیا جائے اور کچھ دوستوں اور عزیزوں کو یا کچھ حصہ خدا کو دیا جائے اور کچھ حصہ دنیوی حکومتوں کو یا کچھ حصہ خدا کو دیا جائے اور کچھ حصہ اپنی بیوی اور بچوں کو.خدا ایسے شخص کی کوئی چیز قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا، نہیں ہوا اور نہیں ہوگا.وحدہ لاشریک ہونے کے لحاظ سے وہی چیز قبول کرتا ہے جو خالص اسی کو دی جائے اور اس میں کسی اور کا حصہ نہ رکھا جائے پھر وہ اپنی خوشی سے جو چاہے واپس کر دے مگر اس کو یہ پسند نہیں کہ اس کی محبت اور اس کے لئے قربانیوں میں کسی دوسرے کو حصہ دار بنایا جائے.پس ہر شخص جو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنے وطن اور اپنی ہر چیز کی قربانی میں کسی اور کو شریک بناتا اور پھر یہ امید رکھتا ہے کہ خدا اس سے راضی ہو وہ نادان ہے وہ کبھی دنیوی زندگی کا ماحصل نہیں پا سکتا اس کی کوششیں عبث اور 286

Page 299

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول رائیگاں ہیں وہ: ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا (الكهف: 105) تقریر فرموده 28 جون 1936ء کا مصداق ہے اور قیامت کے دن وہ اس بنجر زمین میں دانہ بونے والا قرار دیا جائے گا جس میں سے کچھ بھی نہیں اُگ سکتا.جس کام کے لئے ہماری جماعت اس وقت کھڑی کی گئی ہے وہ کوئی معمولی کام نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ نوح کے زمانہ سے لے کر میرے زمانہ تک ہر نبی نے آخری زمانہ کے فتنہ سے لوگوں کو ڈرایا اور اس کی ہیبت پر زور دیا ہے مگر کیا ہماری جماعت میں یہی احساس ہے کہ وہ آخری زمانہ کے اس بہت بڑے فتنہ کا سر کچلنے اور اسے دنیا سے ہمیشہ کے لئے نیست و نابود کرنے کے لئے کھڑی ہوئی ہے؟ ہر شخص اپنے نفس سے سوال کرے اور سوچے کہ اگر اس کے گھر کو آگ لگ جائے تو کیا اس آگ کو بجھانے کے لئے اس کی کوشش ویسی ہی ہوگی جیسی کوشش وہ آج اس وقت کر رہا ہے جب خدا کے گھر کو آگ لگی ہوئی ہے؟ یا کیا اس کا بچہ اگر موت کے پنجہ میں گرفتار ہوتو وہ اس کو بچانے کے لئے اتنی ہی جدو جہد کیا کرتا ہے جتنی جد جہد آج وہ اسلام کو موت کے منہ سے بچانے کے لئے کر رہا ہے؟ کیا اس کے دل میں اس وقت جو درد اور تکلیف پیدا ہوتی ہے اور اس کے اعزا و اقربا آٹھوں پہر جس طرح بے قرار رہتے ہیں اسی قسم کا درد، اسی قسم کی تکلیف اور اسی قسم کی بے قراری تمہارے دلوں میں اسلام کی مصیبت دیکھ کر پیدا ہوتی ہے؟ اگر نہیں تو کیونکر سمجھا جا سکتا ہے کہ تمہارے نزدیک یہ فتنہ اتنا ہی عظیم الشان ہے جتنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ؟ میں تو دیکھتا ہوں کہ ابھی بہت سی چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنی قوتوں کو ضائع کیا جاتا ہے.کئی ہیں جو اپنی اولادوں کی ذراذراسی باتوں پر ابتلا میں آجاتے ہیں، کئی ہیں جو چندوں کی وجہ سے ابتلا میں آجاتے ہیں، کئی ہیں جو قربانیوں کے دوسرے مطالبات پر ابتلا میں آجاتے ہیں.وہ دکھ جو انسان کو بے چین کر دیتا ہے، وہ ایمان جو انسان کو شکوک و شبہات سے بالا کر دیتا ہے، وہ عرفان جو محبت کی چنگاری انسان کے قلب میں پیدا کر دیتا ہے ابھی بہت کم لوگوں میں نظر آتا ہے.اگر وہ محبت کی چنگاری ہماری جماعت کے قلوب کو گرما دیتی تو آج دنیا کی حالت کچھ سے کچھ بدلی ہوئی ہوتی.آج کل فلسطین میں فسادات ہو رہے ہیں اور ایک دوسرے کو لوگ مار رہے ہیں، کل میرے ایک بھائی نے عربی کے ایک اخبار کی ایک تصویر مجھے بھیجی ، اس تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ ایک عرب لیٹا ہوا ہے اس کا ماتھا بالکل اُڑ چکا ہے، اس کا مغز نظر آرہا ہے، ایک آنکھ اس کی نکل چکی ہے اور دوسری آنکھ زخمی 287

Page 300

تقریر فرمودہ 28 جون 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول ہے میں نے اُسے دیکھا اور میرا دل اس سے متاثر ہوا کئی منٹ تک میں اسے دیکھتارہا اور میرا دل تکلیف اور غم سے بھرتا چلا گیا مگر میں نے سوچا یہ ایک آدمی ہے اس کے مرنے سے دنیا میں کونسا تغیر آ گیا ؟ اس کا جسم نہیں اُڑا بلکہ ماتھا اُڑا، ایک آنکھ نکلی ہے اور اس کی دوسری آنکھ زخمی ہوئی لیکن اس کو دیکھ کر ہر شخص کے جذبات بھڑک اُٹھتے ہیں.وہ مصر کا اخبار تھا اور اس تصویر کے اوپر لکھا ہوا تھا فلسطین کے بھائی کی تکلیف کو دیکھا اور اس کی مدد کے لئے اُٹھ ! میں نے کہا اس کا سارا جسم سلامت ہے صرف اس کا ماتھا اُڑا، ایک آنکھ نکلی اور دوسری آنکھ زخمی ہوئی اور مجھے اس کی تکلیف کا اتنا احساس ہے لیکن آج اسلام کا کون سا حصہ سلامت ہے؟ اس کا ماتھا بھی اُڑ گیا، اس کا سر بھی اُڑ گیا، اس کا ناک بھی اُڑ گیا، اس کے کان بھی اُڑ گئے ، اس کے کلے بھی پچک گئے ، اس کی گردن بھی کائی گئی، اس کا سینہ بھی چھلنی کیا گیا اور اس کے ہاتھ اور اُس کے پاؤں کو بھی کاٹ کر اس کا قیمہ کر کے رکھ دیا گیا.اس بے کار انسان کے قلیل زخم کو دیکھ کر جب انسانی دل تڑپ اُٹھتا ہے تو کیا اسلام کے ان گہرے زخموں کو دیکھ کر جن سے اس کا کوئی حصہ بھی محفوظ نہیں کوئی دردمند انسان ہے جو نہ تڑپے؟ اسلام سچائیوں کا نام ہے اور سچائی تمام چیزوں سے بالا تر کبھی جاتی ہے لیکن اگر اسلام میں دماغ ہوتا، اگر اسلام میں قوت متفکرہ ہوتی ، اگر اسلام کے پاس سوچنے والا دل اور بولنے والی زبان ہوتی تو وہ خدا کے عرش کے سامنے کھڑا ہو کر کہتا کہ کاش! تو مجھے ایک انسان ہی بنا دیتا جس کے زخم دیکھ کر لوگ تڑپ تو اُٹھتے ! تو نے مجھے سچائی بنایا جس کی وجہ سے میرے زخموں کو کوئی نہیں دیکھتا، میرے زخموں کو دیکھ کر کسی کے دل میں درد پیدا نہیں ہوتا مگر یہ حالت کن کی ہے؟ ان لوگوں کی جو مادی دنیا کے مشاغل میں مبتلا ہیں، جنہیں روحانی نظریں حاصل نہیں جو روحانی کیفیتوں سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے ، جنہیں قرآن کے اوراق محض کاغذ اور اس کے حروف محض سیا ہی نظر آتے ہیں، جن کو قرآن کا حسن صرف اتنا ہی نظر آتا ہے کہ اسے کسی اچھے کاتب نے اعلیٰ خط میں لکھا، ان کو اس قرآن کے وہ زخم نظر نہیں آتے جو اسے لگے ہوئے ہیں نہ انہیں اسلام کے وہ زخم دکھائی دیتے ہیں جو اس کے ہر حصہ پر دشمنوں نے لگائے مگر وہ جن کی روحانی آنکھیں کھلی ہیں، جنہیں روحانی خوبصورتی نظر آتی ہے وہ اسلام کے اس دکھ کو بھی محسوس کرتے ہیں، وہ قرآن کے ان زخموں کو بھی دیکھتے ہیں.قرآن کریم میں ہی آتا ہے کہ قیامت کے دن محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے اور اس سے رفت بھرے لہجہ میں کہیں گے: يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان: 31) اے میرے رب ! میری قوم نے اس قرآن کو پیچھے پھینک دیا.لوگوں کو لہلہاتے ہوئے سبروں کو 288

Page 301

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول تقریر فرمودہ 28 جون 1936ء کی خوبصورتیاں نظر آئیں، بل کھاتے ہوئے دریاؤں نے ان کی آنکھوں کو خیرہ کیا، چمکتی ہوئی بجلیاں اور کڑکتے ہوئے بادل ان کی دلجمعی کا باعث بنے ، پہاڑوں کی سرسبزیاں اور ان کی شادا بیاں ان کے دلوں کی راحت کا موجب ہوئیں، مرنے والا انسان جو ہزاروں گندگیاں اپنے اندر رکھتا ہے آنکھ کی اچھی بیٹھک یا ناک کی اچھی بیٹھک کی وجہ سے ان کا محبوب و مطلوب بن گیا مگر کسی نے توجہ نہ کی تو سارے جسموں کے مجموعہ اور تمام خوبصورتیوں کے جامع قرآن کی طرف.دنیا داروں نے دنیا کی چیزوں کو دیکھا اور ان کے حسن کو انہوں نے محسوس کیا، محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے روحانی دنیا میں قرآن کو دیکھا اور اس کے حسن کو انہوں نے اپنے دل میں جگہ دی اور دکھ محسوس کیا کہ لوگوں نے کیوں اسے چھوڑ دیا؟ لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں میرا بیٹا بڑا ذہین ہے مگر اُستاد اس کی طرف توجہ نہیں کرتا اور وہ فیل ہو جاتا ہے ، لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں میری بیٹی بڑی لائق ہے مگر اس کا خاوند اس سے اچھا سلوک نہیں کرتا ، لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں میرا بیٹا بڑا لائق ہے مگر اس کی بیوی اس سے محبت نہیں کرتی ، لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے بیٹے نے اعلیٰ نمبروں میں امتحان پاس کیا ہے مگر تمام محکموں پر ہندو چھائے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے اسے نوکری نہیں ملتی ، لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارا بچہ بیمار ہے اس کی حالت نہایت دردناک ہے.غرض ہر شخص دنیا کی چیز دیکھتا اور دنیا کی چیزوں کے متعلق اپنی درد دوسرے کے سامنے پیش کرتا ہے مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کا قرآن لے کر اس کے پاس جاتے ہیں اور کہتے ہیں : اے خدا! اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا.کیا ہے وہ زندگی اور کیا نفع ہے اس حیات کا جس میں ہم کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں؟ ہم دنیا کو مخاطب کرتے اور کہتے ہیں ہم مسلمان ہیں جو اسلام کے لئے اپنی جانیں دینے کے لئے تیار ہیں مگر عمل سے کچھ نہیں کرتے اور نہیں سوچتے کہ کیا واقعہ میں ہم اسلام کے لئے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں یا کیا ہم دنیا کو اتنا بے وقوف سمجھتے ہیں کہ وہ ہماری حالتوں کو نہیں دیکھتی اور ہمارے جھوٹ کو محسوس نہیں کرتی؟ کیا ممکن ہے کہ ہم سارے کے سارے بحیثیت جماعت یا ہم میں سے اکثر اسلام کے لئے اپنی جانیں دینے کے لئے تیار ہوں اور خدا تعالٰی کے ملائکہ آسمان سے اتر کر دنیا کا نقشہ نہ بدل دیں ؟ مگر ابھی تو ہماری چھوٹی سے چھوٹی تدبیریں اور تجویزیں بھی جدید اور قدیم کے ناموں میں الجھتی رہتی ہیں.گویا ہماری مثال اس بچہ کی سی ہے جس کی ماں مرجاتی ہے اور بچہ سمجھتا ہے کہ ماں جو مجھ سے نہیں بولتی تو وہ مجھ سے مذاق کر رہی ہے.اسلام میں اب کیا باقی رہ گیا ہے؟ اس کی روح اس سے نکل گئی ہے، قرآن کی روح بھی جاتی رہی ہے مگر ہم ابھی کھیل رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ابھی موت کا دن آنے والا ہے.حالانکہ اس کی موت کا 289

Page 302

تقریر فرمودہ 28 جون 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول دن آچکا اور ہم اپنی نادانی اور بے وقوفی سے بچہ کی طرح اسے مذاق سمجھ رہے ہیں.اب اگر خدا تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو تو اسلام کا سوائے اس کے اور کیا باقی ہے کہ لوگ آئیں اور اس کی لاش کو دفن کر دیں.ایک بچہ جس دن اس کی ماں مرتی ہے یہ نہیں سمجھتا کہ اس کی ماں مرگئی ہے مگر جب وہ بڑا ہوتا ہے، جب وہ یتیم کے طور پر کسی گھر میں پالا جاتا ہے، جب اس کے پیٹ میں درد ہوتا ہے اور وہ تکلیف کا اظہار کرتا ہے تو مالکہ اسے ڈانٹ کر کہتی ہے بے شرم بے حیا روٹی کھانے کے لئے آموجود ہوتا ہے اور کام کے وقت پیٹ میں درد شروع ہو جاتا ہے؟ جب اس پر ملیریا کا حملہ ہوتا ہے، جب اس کی لاتوں اور ہاتھوں میں درد ہو رہا ہوتا ہے اور اس کی مالکہ اسے مار کر کہتی ہے، بچہ کوکھلا اور جب وہ تکلیف کا اظہار کرتا ہے تو وہ اور تمھیاں مارتی اور کہتی ہے: نامعقول بہانے بناتا ہے! تب اُسے محسوس ہوتا ہے کہ میری ماں مر چکی ہے اور اب دنیا میں میرا کوئی ہمدرد نہیں مگر افسوس! مسلمانوں پر کہ وہ تجھیاں پڑنے پر بھی نہ سمجھے.اسلام جس کے ذریعہ انہیں عزت حاصل تھی ، اسلام جس کے ذریعہ انہیں عظمت حاصل تھی ، اسلام جس کے ذریعہ انہیں فوقیت حاصل تھی ، وہ اسلام جس نے ان بھیڑوں اور بکریوں کے چرواہوں سے اُٹھا کر دنیا کا بادشاہ بنا دیا اور یورپ کے ایک سرے سے لے کر چین کے دوسرے سرے تک ان کا ڈنکا بجا دیا وہ اسلام اور قرآن مرگئے ، دفن کر دیئے گئے اور مسلمان غیر عورتوں کے سپرد کر دیئے گئے، ان کی طرف سے مسلمانوں پر تھچیاں پڑیں ظلم ہوئے تکلیفیں آئیں مگر ابھی تک وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ہم اپنے بد اعمال کی وجہ سے اپنی ماؤں سے جدا کر دئیے گئے ہیں.کاش! انہیں محسوس ہوتا کہ دنیا کی مائیں ایک دفعہ مر کر زندہ نہیں ہوتیں مگر روحانی مائیں زندہ ہو جاتی ہیں.اگر ہم میں سے وہ شخص جس کی ماں مری ہوئی ہو، اگر ہم میں سے وہ شخص جس کا باپ مرا ہو، وہ شخص جو دوسروں کے دروازہ پر ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہو جسے کھانے کے لئے روٹی، پینے کے لئے پانی اور تن ڈھانکنے کے لئے کپڑا میسر نہ ہو جسے نہ دن کو آرام اور نہ رات کو چین کی نیند نصیب ہوا ایسے انسان کے پاس اگر کوئی شخص آئے اور کہے: اے بچہ! اُٹھ اور اپنے والدین کی قبر پر افسوس اور ندامت کے دو آنسو بہا تیری ماں اور تیرا باپ زندہ ہو جائیں گے تو کون ہے جو پاگلوں کی طرح قبرستان کی طرف دوڑ انہیں جائے گا اور اپنے ماں باپ کی قبر پر افسوس اور ندامت کے ساتھ آنسو بہانے کے لئے تیار نہیں ہوگا؟ میری تو قوت واہمہ بھی اس کا خیال نہیں کر سکتی کہ ایک شخص کے سامنے یہ تجویز پیش ہو اور ایسے معقول انسان کی طرف سے پیش ہو جس پر اسے اعتبار ہو اور اس کی بات کو وہ رد کرنے کے لئے تیار نہ ہو تو وہ دیوانہ وار قبرستان کی طرف نہ جائے اور اپنے آنسوؤں سے ان قبروں کو تر نہ کر دے؟ مگر ہماری روحانی ماں اسلام اور روحانی 290

Page 303

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول تقریر فرمودہ 28 جون 1936ء باپ قرآن دونوں فوت ہو گئے ، فوت ہونے کے بعد دونوں دفن کر دیئے گئے اور کوئی معمولی آدمی نہیں بلکہ ہمارا خدا کہتا ہے کہ تم عقیدت کے دو آنسو ان پر بہاد و وہ زندہ ہو جائیں گے مگر ہمیں اتنی بھی توفیق نہیں ملتی کہ ہم دو آنسو بہا سکیں اور پھر ہم خیال کرتے ہیں کہ ہم مومن ہیں ؟ پھر ہم خیال کرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں؟ اگر اسلام اور قرآن کی موت پر ہمارے دو آنسو بھی عقیدت کی نذر نہیں بن سکتے تو اسلام اور قرآن سے ہماری محبت کا دعویٰ کہاں تک جائز ہو سکتا ہے؟ پس میں اپنی جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ باتیں کرنے کا کوئی فائدہ نہیں.تم باتیں کرتے ہو مگر کام نہیں کرتے.یہاں مجالس شوری ہوتی ہیں، دھڑلے سے تقریریں کی جاتیں ہیں، لوگ رو بھی پڑتے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کا کلیجہ باہر آنے لگا ہے مگر جب یہاں سے جاتے ہیں تو ست ہو جاتے ہیں، لوگ چندے لکھواتے ہیں مگر دینے کے لئے نہیں بلکہ لوگوں میں نام پیدا کرنے کے لئے وہ کہتے ہیں ہم احمدیت کے لئے ہر چیز قربان کرنے کیلئے تیار ہیں مگر قربانی کے وقت پیچھے ہٹ جاتے ہیں ان کی مثال بالکل ہندوؤں کی لڑائی کی سی ہوتی ہے ایک کہتا ہے پنسیری ماردوں گا اور دوسرا کہتا ہے مار پنسری تو پہلا شخص دو قدم پیچھے ہٹ جاتا ہے.کیا یہ ہوسکتا ہے کہ ہم فیصلہ کر لیں کہ اسلام اور احمدیت کے لئے اپنی جانیں قربان کر دیں گے اور پھر کوئی بڑے سے بڑا دشمن بھی ہم پر غالب آ سکے؟ بچہ کو اس کی ماں بعض دفعہ اُٹھاتی اور اُچھالتی ہوئی کہتی ہے بیٹا تجھے نیچے پھینک دوں ؟ جب تک بچہ ڈرتا ہے ماں اس کا مذاق اُڑاتی رہتی ہے اور کہتی ہے تجھے ابھی بچے پھینکتی ہوں مگر جب بچہ کہتا ہے پھینک دو تو کیاتم سمجھتے ہو کوئی سنگدل سے سنگدل ماں بھی اس فقرہ کو سن کر بے تاب ہوئے بغیر رہ سکتی ہے؟ کیا بچہ جس وقت کہتا ہے ماں مجھے بے شک پھینک دو اس وقت ایک سنگدل سے سنگدل ماں کا دل بھی خون نہیں ہو جاتا ؟ کیا اس کے آنسو نہیں بہہ پڑتے اور کیا وہ اس کا منہ چوم کر اسے چھاتی سے نہیں لگا لیتی؟ اور کیا وہ اسے بھینچ کر نہیں کہتی میری جان تجھ پر قربان میں تجھے کب گرا سکتی ہوں؟ پھر کیا تم سمجھتے ہو ہمارا خداماں سے کم رحم دل ہے؟ وہ بھی ہمارے ایمان اور ہمارے اخلاص کا امتحان لیتا ہے اور کہتا ہے میں تمہیں نیچے گراتا ہوں.جب تک ہم کہتے ہیں ہم کو قربان نہ کرو، ہمیں نیچے نہ گراؤ وہ اور زیادہ زور سے ہمیں ڈراتا ہے مگر جب ہم کہہ دیتے ہیں ہمیں اس میں کیا عذر ہے اور یہ کیا قربانی ہے؟ ہم تو اس سے بھی بڑی قربانیاں کرنے کے لئے تیار ہیں وہ ماں سے زیادہ زور سے ہمیں بھینچتا، اپنے ساتھ ہمیں چمٹاتا اور پیار کرتا ہے اور ہم پہلے سے بھی زیادہ اس کے قریب ہو جاتے ہیں اور جب ہم اس کے قریب ہو جائیں تو موت کی کیا طاقت ہے کہ خدا کی گود میں ہاتھ ڈال 291

Page 304

تقریر فرمودہ 28 جون 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول سکے؟ ایسے انسان کو خدا اپنی گودی میں لے لیتا، اسے پیار کرتا اور اسے اپنے قریب کر لیتا ہے.ہماری مصیبتوں اور ابتلاؤں کا اس وقت بڑھنا بتاتا ہے کہ در حقیقت ہم حقیقی موت کے لئے ابھی تیار نہیں ہوئے جس طرح ماں اپنے بچہ کو چھیڑتی ہے اور کہتی ہے میں تجھے نیچے گراؤں اور وہ کہتا ہے نہ گراؤ تو چونکہ وہ اپنی ماں پر بدظنی کرتا ہے اس لئے وہ اور زیادہ اسے چڑاتی ہے مگر جب بچہ کہہ دیتا ہے بے شک مجھے پھینک دو تب وہ اپنے بچہ کو پھینکا نہیں کرتی بلکہ اسے گلے سے چمٹا لیتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ بھی یہ دیکھتا ہے کہ ہم پھینکے جانے اور اُس کے لئے موت قبول کرنے کے لئے تیار ہیں یا نہیں ؟ جس دن ہمارے دل کی گہرائیوں سے یہ آواز اُٹھی کہ اے خدا! ایک ہلاکت کیا ہم تیرے لئے ہزار ہلاکتوں کو بھی اپنے نفس پر وارد کرنے کے لئے تیار ہیں اور ایک موت کیا ہم تیرے دین کے لئے ہزار موتیں بھی قبول کرنے کو تیار ہیں کیونکہ قربانی ہمارے لئے عزت کا مقام ہے اس دن خدا تعالیٰ کی محبت میں اس زور سے جوش پیدا ہوگا اور اس کی الفت کے سمندر میں ایسا طوفان آئے گا کہ وہ خس و خاشاک کی طرح ہمارے مخالفوں کو بہارے گا اور وہ دشمن کے بیڑے جو ہماری تباہی کے لئے آرہے ہیں انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا مگر ہمیں بھی تو محبت کا کوئی جذ بہ دکھا نا چاہئے.کیا خدا تعالیٰ نے اپنی محبت کا ہاتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شکل میں ہماری طرف نہیں بڑھایا ؟ مگر ہم نے اس ہاتھ کی کیا قدر کی؟ کیا ہمارے اندر اس ہاتھ کو دیکھ کر وہی جوش اور وہی محبت پیدا ہوئی.جو اس قسم کے احسان اور سلوک کے نتیجہ میں پیدا ہونی چاہئے ؟ ہم نے تو اس احسان کی طرف ایسی ہی توجہ کی جیسے انسان قوس قزح کا نشان آسمان پر دیکھتا ہے تو تھوڑی دیر کیلئے کہ دیتا ہے واہ وا کیا اچھا نشان ہے! اور یہ کہ کہہ کر پھر اپنے کام میں مشغول ہو جاتا ہے اور اسے خیال بھی نہیں آتا کہ آسمان پر قوس قزح ہے.بے شک ہم میں مخلص بھی ہیں، وہ بھی ہیں جو اپنی جان اور اپنا مال اور اپنی عزت اور اپنی آبرو ہر وقت قربان کرنے کے لئے تیار ہیں مگر ان کی تعداد کتنی ہے؟ عام لوگوں کو تو ان سادہ لوح ، ان پڑھ مخلصوں پر رشک کرنا چاہئے جو گو علم ظاہر سے محروم تھے مگر خدا تعالیٰ نے ان کو علم باطن دیا ہوا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی زندگی کے آخری ایام میں آخری جلسہ سالانہ پر سیر کیلئے باہر نکلے تو جس وقت آپ اس بڑ کے درخت کے قریب پہنچے جو آج کل ریتی چھلہ کے درمیان میں ہے تو ہجوم کی زیادتی کی وجہ سے سیر کے لئے جانا آپ کیلئے مشکل ہو گیا اور اسی جگہ ٹھہر کر آپ نے لوگوں کو مصافحہ کا موقع دیا اس وقت ہجوم میں پانچ چھ سو کے قریب لوگ تھے ، ہجوم کی زیادتی اور محبت کے وفور کی وجہ سے مصافحہ کے لئے رستہ ملنا بعض کو مشکل ہو گیا.ایک زمیندار سے دوسرے زمیندار نے پوچھا کیوں بھئی مصافحہ کر لیا؟ اس نے جواب دیا ہجوم بہت ہے اور 292

Page 305

تحریک جدید- ایک ابھی تحریک...جلد اول تقریر فرموده 28 جون 1936ء دھکے لگتے ہیں میں نے تو ابھی مصافحہ نہیں کیا.وہ کہنے لگا دھکے کیا ہوتے ہیں؟ اگر تمہاری ہڈیوں سے بوٹیاں بھی الگ ہو جائیں تو پروا نہیں، ہجوم میں گھس جاؤ اور مصافحہ کر آؤ یہ دن تمہیں پھر کہاں نصیب ہو سکتے ہیں؟ وہ ایمان تھا اور وہ اخلاص تھا جو حقیقی محبت پر دلالت کرتا تھا یعنی خدا کی طرف سے آنے والے کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھونے کے لئے اگر گوشت ہڈی سے جدا ہو جاتا ہے تو جدا ہو جائے کیونکہ یہ دن روز روز میسر نہیں آسکتے.کاش! ہم ان لوگوں کے دلوں کی کیفیت کا احساس کر سکتے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے پہلے تیرہ سوسال کے عرصہ میں ہوئے.کاش! ہم اس درد کو جانتے.کاش! ہم اس گریہ وزاری پر اطلاع رکھتے جو درد اور جو گریہ وزاری ان لوگوں کو اس حسرت میں پیدا ہوتی کہ کاش ! وہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں آپ ﷺ کے پاؤں کو نہیں بلکہ آپ ﷺ کے پاؤں کی خاک کو ہی چھونے کا فخر حاصل کر سکتے.اگر یہ چیز ہمارے سامنے آجائے تو شاید ہمیں شرمندگی پیدا ہو، شاید ہمارے دلوں میں بھی احساس ہو کہ ہم نے کتنی بڑی چیز کی ناقدری کی.خدا تعالیٰ نے ایک آواز ہمارے لئے بلند کی، اس نے ایک ہاتھ ہماری طرف لمبا کیا اور ہمیں موقع دیا کہ ہم پھرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا مقام حاصل کریں، پھر ہم اپنے خدا کول سکیں لیکن افسوس! ہم نے اس کی قدر نہ کی اس کی قیمت کو نہ پہچانا اور اسی طرح گزر گئے جس طرح بازار میں کوئی خربوزوں کے ڈھیر اور آموں کے ٹوکروں پر سے گزر جاتا ہے.پس ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ پہلے اس چیز کو سمجھے کہ وہ ہے کیا ؟ جب تک اس مقام کو وہ نہیں سمجھتی اس وقت تک اسے اپنے کاموں میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.تحریک جدید تو ایک قطرہ ہے اس سمندر کا جو قربانیوں کا تمہارے سامنے آنے والا ہے جو شخص قطرہ سے ڈرتا ہے وہ سمندر میں کب کو دے گا؟ پانی کے قطرے سے تو وہی ڈرتا ہے جسے ہلکے کہتے یعنی شیطان نے کاٹ لیا ہو ورنہ بھی تندرست بھی قطرے سے ڈرا کرتا ہے؟ تندرست اگر ڈر سکتا ہے تو سمندر سے کیونکہ وہ خیال کرتا ہے کہ نامعلوم میں اس میں تیر سکوں یا نہ تیر سکوں؟ اور نامعلوم اسے عبور کر سکوں یا نہ کر سکوں؟ مگر کوئی سمجھدار باشعور انسان پانی کے قطرہ سے نہیں ڈرتا.پس جو شخص قطرے سے ڈرے اس کے متعلق سمجھ لو کہ اسے ہلکے گنتے یعنی شیطان نے کا نا ہے کیونکہ تحریک جدید ایک قطرہ ہے قربانیوں کے سمندر کے مقابلہ میں، اب جو شخص اس قطرے سے خائف ہے یقینا ا.ہلکے کتے نے کاٹا ہے یعنی یقینا اس پر شیطان نے غلبہ کیا ہوا ہے اور اس کا ایمان ضائع ہو چکا ہے.پس اس قطرے کا نگل لینا کون سا مشکل کام ہے؟ ابھی تو اس سمندر میں تمہیں تیرنا ہے جس سمندر میں تیرنے کے بعد دنیا کی اصلاح کا موقع تمہیں میسر آئے گا.کیا قرآن میں یہ آیت پڑھتے وقت کہ: 293

Page 306

تقریر فرمودہ 28 جون 1936ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان : 31) تمہارے دل میں یہ درد پیدا نہیں ہوتا کہ کاش! جس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خدا کے سامنے یہ کہیں کہ: يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان: 31) اے میرے رب ! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا.اس وقت وہ ایک استثنا بھی کریں اور وہ استثنا تمہارا ہو جس وقت وہ یہ کہیں کہ اے میرے رب ! میری قوم نے تیرے اس قرآن کو چھوڑ دیا تو اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی کہیں کہ میں اس قوم اور اس جماعت کو مستی کرتا ہوں.کیا یہ خواہش تمہارے دلوں میں کبھی پیدا ہوتی ہے یا نہیں؟ اور اگر ہوتی ہے تو تم قربانیوں کے لئے کیوں آمادہ نہیں ہوتے ؟ کب تک تم کو سنانے والے سنائیں گے؟ کب تک تم کو جگانے والے جگائیں گے؟ ہر دن جو گزر رہا ہے وہ تم کو اس چشمہ سے دور کر رہا ہے جس چشمہ سے تمہاری نجات وابستہ ہے، جس چشمہ سے تمہاری حیات وابستہ ہے.پس ہوشیار ہو جاؤ اور بیدار ہو جاؤ اور اس دن کا انتظار نہ کرو کہ جب تمہیں جگانے والے نہیں رہیں گے اور نہ ہوشیار کرنے والے رہیں گے.آج تمہارا بوجھ بٹانے والے دنیا میں موجود ہیں مگر وہ ہمیشہ نہیں رہ سکتے کیونکہ خدا کی یہ سنت چلی آئی ہے کہ بوجھ بٹانے والے وہ ہمیشہ ساتھ نہیں رکھتا.پس اپنے اندر تغیر پیدا کرو اور چھوٹے چھوٹے امتحانوں میں کامیاب ہونے کی کوشش کرو تا بڑے امتحانوں میں تم کامیاب ہو سکو.تم نیت کر لو اور ارادہ کر لو اس بات کا کہ تم خدا کے لئے کسی بڑی سے بڑی قربانی سے بھی انکار نہیں کرو گے تم نیت کر لو اور ارادہ کر لو اس بات کا کہ اگر تمہیں خدا کے لئے اپنے کسی عزیز اور رشتہ دار کو چھوڑنا پڑے تو تم اسے بخوشی چھوڑنے کے لئے تیار ہو گے تم نیت کر لو اور ارادہ کر لو اس بات کا کہ تم خدا کے لئے ہر قسم کی موت کو قبول کرنے کے لئے تیار رہو گے.تم خدا کے لئے مر جاؤ اور اس کے لئے موت قبول کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ پھر تمہیں اس کی طرف سے ابدی زندگی ملے گی تم اس کے لئے گڑھے میں گرنے کے لئے تیار ہو جاؤ کہ جو خدا کے لئے گڑھے میں گرنے کے لئے تیار ہو جائے گا خدا اسے اپنی گود میں اُٹھا لے گا.تم ان لوگوں میں سے مت بنو جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے مطابق قرآن اُٹھا کر اپنی پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا بلکہ تم ان لوگوں میں سے بنو جنہوں نے جب دیکھا کہ قرآن کو پیٹھوں کے پیچھے پھینکا جا رہا ہے تو انہوں نے فوراً اپنی جھولیوں میں اسے اُٹھا لیا.“ (مطبوعہ الفضل 2 جولائی 1936ء) 294

Page 307

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 7 اگست 1936ء تحریک جدید کے ذریعہ جماعت احمدیہ کا امتحان ہو رہا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 7 اگست 1936ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:."" سب سے پہلے تو میں اس بات پر اظہار افسوس کرتا ہوں کہ بعض دوست سٹیشن پر آج گئے تھے.اور میں نے ان سے مصافحہ نہیں کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ کل میں نے پرائیویٹ سیکریٹری صاحب کو بالوضاحت اس بات کی ہدایت کر دی تھی کہ چونکہ جمعہ کا دن ہوگا اور قادیان پہنچ کر نہانا، دھونا، کپڑے بدلنا اور پھر کھانے کا وقت ہونے کی وجہ سے کھانا کھانا ہوگا اس وجہ سے زیادہ وقت سٹیشن پر خرچ نہیں کیا جا سکتا اس لئے آپ تار دے دیں کہ دوست سٹیشن پر استقبال کے لئے نہ آئیں.انہوں نے پوچھا کیا یہ مطلب ہے کہ مصافحہ نہ کیا جائے؟ میں نے کہا: یہ بات مجھے زیادہ شرمناک معلوم ہوتی ہے کہ دوست آئیں مگر میں اُن سے مصافحہ نہ کروں اس لئے یہ نہ لکھا جائے کہ مصافحہ نہ ہو بلکہ یہ کھیں کہ دوست سٹیشن پر ہی نہ آئیں لیکن جب میں قادیان پہنچا تو میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ سٹیشن پر استقبال کے لئے کھڑے ہیں.میں نے پرائیویٹ سیکریٹری صاحب سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے تو ہدایت بھجوا دی تھی اس پر مقامی امیر صاحب سے میں نے دریافت کیا کہ میری ہدایت کے خلاف کیوں عمل کیا گیا ہے؟ اور دوستوں کو جمع کر کے کیوں ایک طرف مجھے شرمندہ کیا اور دوسری طرف انہیں تکلیف دی گئی ؟ انہوں نے کہا: ہمیں تار یہی پہنچی تھی کہ مصافحہ نہیں کرنا اس لئے ہم نے لوگوں کو جمع ہونے سے منع نہیں کیا.مجھے اس پر تعجب ہوا کہ جب بالوضاحت پرائیویٹ سیکریٹری نے مجھ سے یہ بات دریافت کر لی تھی اور ان کی تجویز پر کہ مصافحہ سے روکا جائے میں نے کہہ دیا تھا کہ اسے میں نا پسند کرتا ہوں کہ لوگوں کو جمع ہونے دیا جائے اور پھر مصافحہ سے روکا جائے اس لئے دوستوں کو جمع ہونے سے ہی روک دیا جائے پھر اس قسم کی تارکیوں کر دی گئی ؟ اور میں نے دوبارہ امیر مقامی مولوی سید سرور شاہ صاحب سے پوچھا کہ آپ کو غلطی تو نہیں لگی ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں میں نے تین شخصوں سے تار پڑھوائی اور سب نے یہی کہا کہ اس میں مصافحہ کو منع کیا گیا ہے.میں نے ان سے کہا کہ آپ تار مجھے بھجوادیں اس کے بعد موٹر میں بیٹھتے ہوئے نیر صاحب میرے پاس آئے اور کہا کہ میں 295

Page 308

خطبه جمعه فرموده 7 اگست 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول نے ڈاکٹر صاحب سے مشورہ کیا تھا اور انہوں نے یہ کہا تھا کہ یہی تار چاہئے کہ مصافحہ نہیں ہونا چاہئے اس لئے ان کے مشورہ کے مطابق میں نے یہ تار دے دی تھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ محض نمائش کی خاطر اور صرف یہ دکھانے کیلئے کہ جب قادیان میں امام جماعت احمدیہ آتا ہے تو لوگ استقبال کے لئے جمع ہو جاتے ہیں میری حکم عدولی کرتے ہوئے اس قسم کا تار دے دیا گیا.میں دُنیا کی کسی لغت کے لحاظ سے نہیں سمجھ سکتا کہ جب وضاحتنا یہ ہدایت دے دی گئی ہو کہ لوگ سٹیشن پر نہ آئیں کیونکہ سٹیشن پر ان کے آجانے کے بعد اُن سے مصافحہ نہ کرنا مجھے بہت معیوب معلوم ہوتا ہے اور یہ بات مجھے بری لگتی ہے کہ لوگ جمع ہو جائیں اور میں ان سے مصافحہ نہ کروں.میری ہدایت کو ان الفاظ میں ادا کیا جائے کہ لوگ مصافحہ نہ کریں.پرائیویٹ سیکریٹری صاحب نے یہ عذر بھی کیا کہ میں نے اور ڈاکٹر صاحب نے یہ سمجھا تھا کہ اگر یہ تار دی کہ لوگ نہ آئیں تو پہرہ کا انتظام بھی نہ ہو گا.حالانکہ تار میں آسانی سے لکھا جا سکتا تھا کہ سوائے منتظمین کے اور کوئی نہ آئے لیکن میرے نزدیک اپنی ذات میں بھی یہ عذر فضول ہے اس لئے کہ جو عملہ قادیان سے باہر پہرہ کا انتظام کر سکتا ہے، ریل میں پہرہ کا انتظام کر سکتا ہے وہ قادیان میں کیوں نہیں کر سکتا؟ کیا قادیان کے شیشن پر باہر کی نسبت زیادہ خطرات ہوتے ہیں؟ اور سٹیشن کے باہر تو موٹر میں ہی جانا تھا.غرض یہ عذرات بالکل نادرست اور باطل تھے اور اسی ہندوستانی عادت کے ماتحت تھے کہ سوگز واروں گز بھر نہ پھاڑوں، جان قربان کرنے کے دعوے زور شور سے کئے جائیں اور اطاعت بالکل نہ کی جائے اور میں مجبور ہوں کہ سمجھوں کہ محض نمائش اور جھوٹے مظاہرہ کی خاطر میری ہدایت کی دیدہ و دانستہ اور جان بوجھ کر نا فرمانی کی گئی ہے اور مجھے افسوس ہے کہ اس غلطی کا خمیازہ قادیان کے دوستوں کو بھی بھگتنا پڑا اور جو مجھے تکلیف ہوئی ہے وہ بھی کچھ کم نہیں.میں نے صراحتاً کہ دیا تھا کہ وہ لوگ جو دوستوں کو جمع کر کے لے تو آتے ہیں مگر پھر مصافحہ کرنے سے انہیں روکتے ہیں ان کارو کنا مجھ پر بہت ہی گراں گزرتا ہے جب لوگ جمع ہو جائیں تو اس وقت میں یہی چاہتا ہوں کہ ان سے مصافحہ کروں اور وہ لوگ جو ایسی حالت میں کہتے ہیں کہ مصافحہ نہ کرو ان کی یہ بات مجھے نہایت ہی شرمناک معلوم ہوتی ہے.اس کی تحقیقات تو میں بعد میں کروں گا کہ یہ صریح نافرمانی کیوں کر ہوئی؟ لیکن میں چاہتا ہوں کہ دوستوں سے اس بات کی معذرت کر دوں کہ میرا ان سے مصافحہ نہ کرنا آج نظام کے قیام کے لئے ضروری تھا.ہمارے ہندوستانیوں کی عموماً اور مسلمانوں کی خصوصاً سب سے بڑی لعنت یہی ہے کہ ان کے 296

Page 309

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد اول خطبه جمعه فرموده 7 اگست 1936ء تمام کاموں میں نمائش ہوا کرتی ہے اطاعت نہیں ہوتی.ان کی ذلت اور رسوائی کا تمام راز اس امر میں ہے کہ وہ کچی اطاعت اور قربانی کے مفہوم سے ناواقف ہیں نہ وہ خدا تعالی کی کچی اطاعت کرتے ہیں اور نہ ان لوگوں کی جن کے ہاتھ میں دینی یا دنیوی قیادت کی باگیں ہیں.نہایت چھوٹی چھوٹی نمائشی باتوں کے لئے ان کی جان یوں نکلتی ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ بع نقصاں جو ایک پیسے کا دیکھیں تو مرتے ہیں لیکن بڑے اور عملی کاموں کی طرف ان کی توجہ بالکل نہیں ہوتی.ان کی مثال بالکل ویسی ہی ہے جیسے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قاتلوں میں سے ایک حضرت ابن عباس کے پاس آیا اور آکر کہنے لگا حضور یہ تو بتائیے کہ حج کے دنوں میں کوئی شخص جوں مار بیٹھے تو اس کی سزا کیا ہے؟ انہوں نے کہا: خدا کے رسول کے بھائی ، خدا کے رسول کے داماد اور خدا تعالیٰ کے قائم کردہ خلیفہ کو تم نے قتل کر دیا اور تم مجھ سے مسئلہ پوچھنے نہ آئے لیکن حج کے دنوں میں جوں مارنے والے کی سزا کے متعلق تم مجھ سے مسئلہ پوچھنے آ گئے ہو؟ جاؤ دور ہو جاؤ میں تم کو کوئی مسئلہ بتانے کے لئے تیار نہیں.تو یہ ضلالت اور گمراہی ہمارے ملک میں عام ہے کہ لوگ شیطانی قیاس کرتے ہیں اور بات کو خوب سمجھنے کے باوجود پھر بھی اپنے قیاسات دوڑاتے ہیں.یہی لعنت ہے جو ان کی ذلت اور رسوائی کا موجب ہے اور جس کی وجہ سے فرمانبرداری اور اطاعت کی روح ہمارے ملک میں نہیں پائی جاتی.جن بزرگوں نے یہ کہا ہے کہ پہلا قیاس شیطان نے کیا تھا در حقیقت ان کا بھی ایسے ہی قیاس سے مطلب تھا کہ بات واضح ہوتی ہے حکم بین ہوتا ہے مگر اسے رد کر دیا جاتا ہے اور ایک راہ پیدا کر کے کہا جاتا ہے کہ ہم نے یوں قیاس کیا تھا.اسی قسم کا قیاس ہے جس نے آدم کے زمانہ سے تباہی مچائی ہوئی ہے.جب تک مومن کا مقام اس اطاعت اور فرمانبرداری کی حد تک نہ پہنچ جائے کہ جب اس پر حکم واضح ہو جائے تو پھر چاہے اس کی حکمت اسے سمجھ آئے یا نہ آئے اس پر عمل کرے اس وقت تک اسے کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.پہلا کام مومن کا یہ ہوتا ہے کہ جب اُسے کوئی حکم دیا جائے اور وہ اسے پوری طرح نہ سمجھ سکے تو اس حکم کی وضاحت کرالے جیسے مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کا مقصد یہ ہے کہ مصافحہ نہ ہو؟ میں نے کہا نہیں میرا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص سٹیشن پر نہ آئے.اس حد تک ان کا پوچھنا بالکل جائز تھا بلکہ ماتحت کا فرض ہوتا ہے کہ جب اسے کسی غلط نہی کا اندیشہ ہوتو وہ پوچھ لے لیکن جب ماتحت دریافت کر چکے تو پھر جو بات اسے کہی گئی ہو اس کے متعلق اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس پر ایسی اطاعت اور فرمانبرداری سے عمل کرے کہ اس میں کسی اعتراض کی گنجائش نہ ہو اور نہ اس میں کسی قسم کا تختلف ہو.آخر غور تو کرو کہ 297

Page 310

خطبه جمعه فرموده 7 اگست 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد اول رحم صحابہ نہیں اور تم میں خدا تعالیٰ نے کیوں فرق رکھا ہے؟ ان کو خدا تعالیٰ نے اُٹھایا اور چند سالوں میں ہی آسمان پر پہنچا دیا اور وہ لوگ جن کے بوٹ عربوں کی گردنوں پر تھے پندرہ بیس سال کے عرصہ میں ہی ان کی گردنوں پر عربوں کی جوتیاں رکھی گئیں.یہ بات یونہی تو نہیں ہو گئی.ان کے اندر فرمانبرداری کی روح تھی وہ جانتے تھے کہ فرمانبرداری اور اطاعت کسے کہتے ہیں؟ وہ جانتے تھے کہ عقل سے کام کرنا کسے کہتے ہیں؟ ان کا یہ حال تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ وعظ فرمارہے تھے آپ ﷺ نے بعض لوگوں کو کناروں پر کھڑے دیکھا تو فرمایا بیٹھ جاؤ! حضرت عبد اللہ بن مسعود گلی میں سے مسجد کی طرف آرہے تھے ان کے کانوں میں جو نہی یہ آواز پڑی کہ بیٹھ جاؤ ! وہ وہیں بیٹھ گئے اور انہوں نے گھسٹ گھسٹ کہ مسجد کے دروازہ کی طرف آنا شروع کر دیا جہاں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تقریر فرما رہے تھے.کسی نے پوچھا یہ کیا کر رہے ہو؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میرے کانوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز آئی تھی کہ بیٹھ جاؤ اس لئے میں گلی میں ہی بیٹھ گیا اور میں نے گھسٹ گھسٹ کر مسجد کی طرف بڑھنا شروع کر دیا.کسی نے کہا آپ مسجد میں داخل ہونے کے بعد بیٹھتے تو عبد اللہ بن مسعودؓ نے کہا کہ اگر داخل ہونے سے پہلے مرجاتا تو خدا تعالیٰ کو کیا جواب دیتا؟ یہ وہ روح تھی جس کی وجہ سے مسلمانوں نے فتح پائی اور انہوں نے دنیا میں اتنا عظیم الشان تغیر پیدا کر دیا کہ حیرت سے دنیا کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور وہ استعجاب سے انگشت بدندان ہوگئی.اس فرمانبرداری کے مظاہرہ کی ایک اور مثال میں سناتا ہوں: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مرض الموت سے بیمار ہوئے تو نے وفات سے کچھ دن پہلے ایک لشکر رومی حکومت کے مقابلہ کے لئے تیار کیا اور اُسامہ بن زید کو اس کا سردار مقرر فرمایا تھا، ابھی یہ لشکر روانہ نہیں ہوا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی اور سارے عرب میں بغاوت ہوگئی.اس بغاوت کا حلقہ اثر اتنا وسیع ہو گیا کہ صرف تین مقام ایسے تھے جہاں نماز با جماعت ہوتی تھی ایک مکہ میں ایک مدینہ میں اور ایک چھوٹے سے گاؤں میں، ان کے سوا عرب میں ہر جگہ بغاوت رونما ہو گئی تھی.بڑے بڑے صحابہ نے مل کر مشورہ کیا کہ اس موقع پر اُسامہ کا لشکر باہر بھیجنا درست نہیں کیونکہ ادھر سارا عرب مخالف ہے ادھر عیسائیوں کی زبر دست حکومت سے لڑائی شروع کردی تو نتیجہ یہ ہوگا کہ اسلامی حکومت بالکل درہم برہم ہو جائے گی.حضرت عمر حضرت ابو بکر کے پاس پہنچے اور کہنے لگے ہم عرض کرنا چاہتے ہیں کہ یہ موقع نہیں کہ اسامہ کا لشکر باہر بھیجا جائے آپ اس لشکر کو روک لیں اور پہلے عرب کے باغیوں کا مقابلہ کریں جب ہم انہیں دبالیں گے تو 298

Page 311

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 7 اگست 1936ء اسامہ کے لشکر کو عیسائیوں کے مقابلہ کے لئے بھیج دیں گے.حضرت ابو بکر کی عادت تھی کہ جب وہ اپنی منکسرانہ حالت ظاہر کرنا چاہتے تو اپنے آپ کو اپنے باپ سے نسبت دے کر بات کرتے کیونکہ ان کے باپ نہایت مسکین اور غریب آدمی تھے.حضرت عمر نے جب کہا کہ جیش اسامہ کو روک لیا جائے تو حضرت ابو بکر کہنے لگے کیا ابن ابوقحافہ کی طاقت ہے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم ایک لشکر کو بھیجیں اور وہ اسے روک لے؟ پھر فرمایا خدا کی قسم ! اگر کفار مدینہ کو فتح کریں اور مدینہ کی گلیوں میں مسلمان عورتوں کی لاشیں گتے گھسیٹتے پھریں تب بھی میں اُس لشکر کو نہیں روکوں گا جس کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ کرنے کے لئے تیار کیا تھا.اس کے بعد فرمایا کیا تم چاہتے ہوا بن ابو قحافہ کا اپنی خلافت میں پہلا کام یہ ہو کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم کو منسوخ کر دے؟ بظاہر یہ ایک چھوٹی سی بات معلوم ہوتی ہے اور زیادہ سے زیادہ اس سے بہادری کا وہ جذبہ ظاہر ہوتا ہے جو حضرت ابو بکر کے اندر تھا لیکن در حقیقت اس میں ان کی کامیابی کا راز تھا.وہ قوت ارادی جس سے دنیا فتح ہوسکتی ہے اسی صورت میں پیدا ہوسکتی ہے جب کامل اطاعت اور فرمانبرداری کا مادہ انسان کے اندر ہو جب وہ حیلے جتیں نہ کرے، جب وہ اپنی تجویزوں اور اپنے قیاسات سے کام لینے کی بجائے اس حکم کو سنے جو اُسے دیا گیا ہو اور اُس پر پوری طرح عمل کرے.اگر انسان اس بات کی عادت ڈال لے تو اس صورت میں اسے بہت جلد کامیابی حاصل ہو سکتی ہے.پس ایک طرف میں دوستوں سے معذرت کرتا ہوں اور دوسری طرف انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ اس قسم کی کارروائیاں تمہیں قطعاً کامیابی عطا نہیں کر سکتیں جب تک تمہارے اندر ایسی فرمانبرداری پیدا نہ ہو کہ اگر تمہیں کہا جائے تلوار کی دھار پر اپنی گردنیں رکھ دو تو ایک بھی تم میں سے پیچھے نہ ہٹے اس وقت تک تمہیں اطاعت کا مقام حاصل نہیں ہوسکتا.مومن کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ ابتدائی تحقیق کر کے دیکھ لیتا ہے کہ مدعی خدا کا رسول ہے یا نہیں؟ یا نبی کی جانشینی اور قائم مقامی کا دعوی کرنے والا صحیح معنوں میں اس کا قائم مقام اور جانشین ہے یا نہیں؟ لیکن جب وہ اسے مان لیتا ہے تو پھر وہ دوسری آواز نہیں نکالتا، اس کی اپنی آواز میں بند ہو جاتیں ہیں اور اس کے لئے صرف ایک ہی راستہ کھلا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ وہ اس کی فرمانبرداری اور اطاعت کرتا چلا جائے خواہ اُسے آگ میں کودنا پڑے یا سمندر میں چھلانگ لگانی پڑے.اسلام تو اسلام جب یہ بات کافروں میں پیدا ہو جاتی ہے تو وہ بھی دنیا کو فتح کر لیتے ہیں.نپولین ایک معمولی ماں باپ کا بیا تھا لیکن وہ ایسے وقت میں فرانس میں پیدا ہوا جب فرانس کی حالت بہت 299

Page 312

خطبه جمعه فرموده 7 اگست 1936ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد اول گر رہی تھی.فرانس اس سے پہلے بہت بڑی طاقت رکھتا تھا اور سارے یورپ پر اس کا رُعب اور دبدبہ تھالیکن نپولین کے زمانہ میں فرانس اپنی عروج کی حالت سے گر رہا تھا نپولین نے اسے سنبھالنا چاہا اور اس نے لوگوں سے یہ کہنا شروع کر دیا کہ جب تک تم میں تفرقہ اور شقاق ہے تم کامیاب نہیں ہو سکتے تم اطاعت اور فرمانبرداری کا مادہ اپنے اندر پیدا کر و جیت جاؤ گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.ملک کی حالت دیکھ کر دردمند لوگ اس کے ارد گرد جمع ہونے شروع ہو گئے اور انہوں نے اطاعت اور فرمانبرداری کا بہترین نمونہ دکھایا ایسا نمونہ کہ خود اس نے نپولین کی زندگی میں بھی تغیر پیدا کر دیا.نپولین ایک دفعہ ایک بڑی جنگ کے بعد فرانس کے پاس اٹلی کے نیچے ایک جزیرہ میں قید کر دیا گیا.کچھ لوگوں کی مدد سے آخر وہ آزاد ہوا اور فرانس کے ساحل پر اترا اس وقت نئی حکومت قائم ہو چکی تھی اور نیا نظام تھا.بادشاہ نے پادریوں کو بلایا اور ان کے ذریعہ جرنیلوں سے بائبل پر ہاتھ رکھ رکھ کر قسمیں لیں اور جرنیلوں کے ذریعہ تمام سپاہیوں سے قسمیں لیں کہ وہ پوری طرح حکام کی اطاعت اور فرمانبرداری کریں گے.بادشاہ نے یہ قسمیں اس لئے لیں کہ وہ جانتا تھا کہ نپولین نے لوگوں کے دلوں میں ایسی روح پیدا کر دی ہے کہ جب بھی نپولین ان کے سامنے آئے گا وہ نئی حکومت سے اپنے سارے تعلقات بھول جائیں گے اور اسی کے گرد جمع ہو جائیں گے، اس طرح قسمیں لینے کے بعد جنرل (Nay) نے کورئیس لشکر بنایا گیا اور وہ بیس ہزار سپاہی لے کر نپولین کے مقابلہ کو روانہ ہوا.نپولین کے ساتھ صرف چند سو آدمی تھے اور وہ بھی اکثر زمیندار تھے جولڑائی کے فن سے چنداں واقف نہ تھے اور ان کے پاس ہتھیاروں کی اتنی کمی تھی کہ بعض کے پاس صرف درانتیاں تھیں.اتفاقاً نپولین کے دستہ اور شاہی فوج کی مڈ بھیڑ ایک ایسے مقام پر ہوئی جہاں درہ بہت چھوٹا تھا اور صرف چند آدمی کندھے سے کندھا ملا کر گزر سکتے تھے.نپولین نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ آگے بڑھو! وہ آگے بڑھے تو شاہی فوج نے اُن پر گولیاں چلا ئیں اور وہ مارے گئے پھر اس نے بعض آدمی بھیجے وہ بھی مارے گئے.آخر سپاہیوں نے اُسے کہا کہ آگے بڑھنے کی کوئی صورت نہیں دشمن سامنے کھڑا ہے اور وہ کہتا ہے کہ ہم بائبل پر ہاتھ رکھ کر اور قسمیں کھا کر آئے ہیں کہ نپولین کے سپاہیوں کو مار ڈالیں گے اور چونکہ دو چار سپاہیوں کے سوا ہم میں سے زیادہ بڑھ نہیں سکتے کیونکہ درہ چھوٹا ہے اس لئے وہ گولیوں سے ہلاک کر دیتے ہیں اور ہم مقابلہ بھی نہیں کر سکتے.میں اس بات کی مثال دے رہا تھا کہ نپولین نے ان لوگوں میں کس طرح اطاعت اور فرمانبرداری کا مادہ پیدا کر دیا تھا.چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب سپاہیوں نے کہا کہ شاہی فوج کے آدمی 300

Page 313

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 7 اگست 1936ء ہم پر گولی چلا کر ہمیں ہلاک کر دیتے ہیں تو نپولین نے کہا تم نے کہا نہیں ہوگا کہ نپولین کہتا ہے رستہ چھوڑ دو.انہوں نے کہا ہم نے کہا تھا مگر انہوں نے جواب دیا کہ ہم اس کا حکم نہیں مان سکتے کیونکہ ہم بائبل پر قسمیں کھا کر آئے ہیں.نپولین کہنے لگا میں اس امر کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ تم نے میرا نام لے کر کہاہوراستہ چھوڑ دو اور انہوں نے نہ چھوڑا ہو.اب جاؤ اور کہو کہ نپولین کہتا ہے کہ رستہ چھوڑ دو.وہ پھر گئے اور انہوں نے یہی کہا مگر انہوں نے جواب دیا ہم اب یہ باتیں سننے کے لئے تیار نہیں.ہم بائبل پر ہاتھ رکھ کر اور قسمیں کھا کر آئے ہیں کہ تمہارا مقابلہ کریں گے.آخر نپولین خود چلا گیا اور کہنے لگا میں دیکھوں گا کہ وہ کس طرح میری بات نہیں مانتے؟ نپولین ان کے سامنے ہوا اور کہنے لگا: دیکھو! نپولین تم سے کہتا ہے کہ راستہ چھوڑ دو.شاہی فوج کا افسر کہنے لگا: جناب وہ دن گزر گئے اب اور بادشاہ ہے اور نئی حکومت.ہم آپ کی بات کس طرح مان سکتے ہیں؟ مگر نپولین جانتا تھا کہ اس نے لوگوں کو اپنی اطاعت کا جو سبق پڑھایا ہوا ہے وہ اتنی جلدی بھولنے والا نہیں وہ آگے بڑھا اور کہنے لگا: بہر حال میری فوجوں نے آگے بڑھنا ہے اگر تم وہ اطاعت کا سبق جو تمہیں پڑھایا گیا تھا بھول چکے ہوتو لو یہ میرا سینہ کھلا ہے جس سپاہی کا دل چاہتا ہے کہ وہ اپنے بادشاہ کے سینہ میں گولی مار دے وہ گولی مار کر اپنا دل خوش کر سکتا ہے.نپولین نے جونہی یہ الفاظ کہے وہ پرانا جذ بہ وفاداری ان لوگوں میں عود کر آیا اور معا سپاہیوں نے اپنی بندوقیں ہوا میں اُچھال دیں اور نپولین زندہ باد کے نعرے لگانے شروع کر دیئے اور دوڑ کر اُس کے ساتھ آملے اور کئی ان میں سے بچوں کی طرح روتے تھے.جب یہ خبر جنرل نے کو ملی تو وہ فوج کا بڑا حصہ جو بھی پیچھے تھا اس کو لے کر آگے بڑھا لیکن جس وقت نپولین کی آواز اس کی فوج کے کانوں میں پڑی کہ فرانس کے سپاہیو! تمہارا بادشاہ نپولین تم کو بلاتا ہے تو وہ فوج بھی اور جنرل نے بھی اپنے اقراروں کو بھول گئے اور صرف وہ اطاعت کا جذبہ ان کے اندر رہ گیا جسے نپولین نے ان کے دلوں میں پیدا کیا تھا اور وہ دوڑ کر اس کے گرد جمع ہوئے.فرانس میں اس وقت اتنا تفرقہ اور فساد تھا کہ انسان صبح کو نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ شام تک زندہ بھی رہے گا یا نہیں.ہزاروں لاکھوں انسان اس تفرقہ اور فساد کے زمانہ میں مارے گئے مگر اس تفرقہ کو نپولین نے فرمانبرداری کی روح پیدا کر کے دور کر دیا اور ملک کی حالت کو یکدم بدل دیا.اب دیکھ لومسولینی کی وجہ سے اٹلی کو کس قدر عروج حاصل ہے.اٹلی کی حالت اتنی ذلیل تھی کہ جنگ عظیم میں ہر قسم کی قربانیاں لینے کے بعد فرانسیسیوں اور انگریزوں نے گوشت گوشت تو خود رکھ لیا اور ہڈیاں اٹلی کو دے دیں تمام اعلی ملک اور زرخیز علاقے اپنے قبضہ میں کر لئے اور اٹلی والوں کو محض پر چا دیا اس کے بعد مسولینی اُٹھا اور اس نے فرمانبرداری کی روح 301

Page 314

خطبه جمعه فرموده 7 اگست 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول اٹلی والوں میں پیدا کرنی شروع کر دی اس کا نتیجہ یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ اٹلی والوں کے پاس کوئی مذہب نہیں ان کے ساتھ خدا تعالیٰ کی وہ تائید نہیں جو بچے مذہب والوں کے ساتھ ہوا کرتی ہے.محض فرمانبرداری کی روح کے نتیجہ میں وہی اٹلی جسے جنگ عظیم کے بعد فرانسیسیوں اور انگریزوں نے دھتکار کر پرے کر دیا تھا آج چیلنج دے رہا ہے، متواتر اور بار بار چیلنج دے رہا ہے کہ اگر کسی طاقت میں دم خم ہے تو اس کا مقابلہ کر لے مگر وہی طاقتیں جو پہلے اسے ذراذراسی بات پر گھورا کرتی تھیں اس طرح چپ کر کے بیٹھ گئی ہیں گویا وہ دنیا میں ہیں ہی نہیں.آج سے بارہ سال پہلے کے اٹلی میں فرمانبرداری کی روح نہیں تھی اس لئے وہ ذلیل تھا مگر آج بارہ سال کے بعد اٹلی میں فرمانبرداری کی روح پیدا ہوگئی اس لئے وہ عزت کی نگاہوں سے دیکھا جانے لگ گیا.بیعت کا مفہوم تو ہے ہی یہ کہ انسان اطاعت میں اپنے آپ کو فنا کر دے اور یہ مفہوم اتنا بلند ہے کہ دنیوی امور میں فرمانبرداری اس کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتی.آج دنیا میں کون سا بادشاہ ہے جولوگوں سے بیعت لیتا ہو؟ بیعت تو سوائے اسلام کے اور کہیں نہیں.پس بیعت کا مقابلہ دنیا کی فرمانبرداری نہیں کر سکتی.بیعت کے معنی بیچ ڈالنے کے ہیں اور جب کسی نے اپنے آپ کو بیچ ڈالا تو پھر کون سی چیز ہے جو اس کی رہ سکتی ہے.پس یہ گر کہ: مفہوم : أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ النساء:60) ایسا ہے کہ جب تک کوئی قوم اس پر عمل نہیں کرتی خواہ وہ سچے مذہب کی پابند ہو یا اس سے ناواقف کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی.یہی روح ہے جس کو میں تحریک جدید کے ماتحت پیدا کرنا چاہتا ہوں مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایک طبقہ جماعت کا ایسا ہے کہ نہ وہ بیعت کا مفہوم سمجھتا ہے نہ تحریک جدید کا سمجھتا ہے اور نہ اطاعت کا مفہوم سمجھتا ہے.بے شک ہر جماعت میں کچھ کمزور لوگ ہوتے ہیں مگر کمزور ہونا کوئی عزت کا موجب نہیں کہ ہم کہیں چونکہ تمام جماعتوں میں کمزور لوگ ہوا کرتے ہیں اس لئے ہمارے اندر بھی کمزور لوگوں کا ہونا قابل اعتراض نہیں.کمزوری ایک بری چیز ہے اور اس کا مٹانا ہمارا فرض ہے اگر ہم اپنی کمزوری کو نہیں مٹا سکتے تو یقیناً ہم اپنی تباہی کے سامان آپ پیدا کرتے ہیں.اطاعت اور وفاداری وہ چیزیں ہیں جن کے بغیر دنیا کبھی ترقی نہیں کر سکتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کا مقابلہ آخرکون سے سامان تھے جن سے کیا ؟ مال آپ ﷺ کے پاس نہیں تھا، سپاہیوں کی تعداد آپ کے کے پاس کم تھی، سوار آپ ﷺ کے پاس تھوڑے تھے، سامان جنگ آپ ﷺ کے پاس قلیل تھا، آپ ﷺ 302

Page 315

مک جدید ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 7 اگست 1936ء نے جس چیز کے ساتھ دُنیا پر غلبہ حاصل کیا وہ یہ تھی کہ آپ ﷺ نے صحابہ میں یہ روح پیدا کر دی کہ خواہ وہ آگ میں پھینکے جائیں یاسمندر میں ، ان کا فرض ہے کہ وہ اطاعت کریں.مکہ والوں کے پاس اعلیٰ سے اعلیٰ فوجیں موجود تھیں، زیادہ سے زیادہ روپیہ جمع تھا کیونکہ وہ تاجر لوگ تھے ، ان کے پاس کھانے پینے کی چیزوں کی بہتات تھی، نیزوں کی بہتات تھی، تیروں کی بہتات تھی ، تلواروں کی بہتات تھی ، اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کی بہتات تھی مگر ایک چیز نہیں تھی یعنی اطاعت اور فرمانبرداری کا مادہ نہیں تھا جس کی وجہ سے نہ ان کی فوجیں ان کے کام آئیں نہ ان کا روپیہ ان کے کام آیا نہ تیروں اور تلواروں نے انہیں فائدہ پہنچایا اور نہ گھوڑے اور اونٹ انہیں غالب کر سکے.اس کے مقابلہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں یہ چیز موجود تھی اور اسی چیز نے انہیں کامیاب کیا.بدر کی جنگ کے موقع پر جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو کفار نے آپس میں مشورہ کے بعد ایک سردار کو مقرر کیا جو دیکھے کہ مسلمانوں کے کتنے آدمی ہیں تا انہیں تسلی ہو اور وہ فتح و شکست کے متعلق اندازہ لگا سکیں اُنہوں نے مسلمانوں کا جائزہ لینے کے لئے جو سردار مقرر کیا وہ نہایت زیرک اور ہشیار تھا مسلمانوں کو دیکھ کر جب وہ واپس گیا تو کہنے لگا آدمی تو وہ تین سو سوا تین سو ہیں اور یہ اس کا کہنا بالکل ٹھیک تھا کیونکہ صحابہ تین سو تیرہ تھے مگر میری نصیحت تمہیں یہی ہے کہ ان کا مقابلہ نہ کرو.انہوں نے کہا یہ کیوں ؟ وہ اتنے تھوڑے ہیں اور تم ہمیں ان کا مقابلہ کرنے سے ڈراتے ہو.وہ کہنے لگا اے میرے بھائیو! بے شک وہ تھوڑے ہیں مگر میں نے اونٹوں اور گھوڑوں پر آدمی سوار نہیں دیکھے بلکہ موتیں سوار دیکھی ہیں یعنی تم یہ خیال نہ کرو کہ تمہارے پاس نیزے ہیں اُن کے پاس نیزے نہیں تمہارے پاس تیر ہیں اُن کے پاس تیر نہیں ،تمہارے پاس تلواریں ہیں اُن کے پاس تلواریں نہیں، تمہارے پاس تیر کمانیں ہیں اُن کے پاس تیر کمانیں نہیں، تمہارے پاس گھوڑے ہیں اور اُن کے پاس گھوڑے نہیں، تم ہزاروں ہو اور وہ تین سو سوا تین سو ہیں بلکہ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ وہ ایک اشارہ پر مرجانے والے اور ایک آواز پر اپنی جانیں فدا کر دینے والے ہیں ایسے آدمیوں کا مقابلہ آسان نہیں کیونکہ میں نے آدمی نہیں دیکھے بلکہ موتیں دیکھیں ہیں جو اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار تھیں.چنانچہ واقعات نے ثابت کر دیا کہ وہ موتیں ہی تھیں.وہ سوائے موت کے اور کسی چیز کو نہیں جانتے تھے یا وہ خود مارے جاتے ہیں یا دوسروں کو مار دیتے ہیں.میں نے کئی دفعہ واقعہ سنایا ہے کہ اسی جنگ میں دو انصاری لڑکے بھی شامل تھے جو نہایت چھوٹی عمر کے تھے جن میں سے ایک لڑکے کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فیصلہ فرما دیا تھا کہ وہ اتنی چھوٹی عمر کا ہے کہ اُسے لڑائی میں شامل نہیں کیا جاسکتا مگر وہ اتنا رو یا اتنا رویا کہ 303

Page 316

خطبه جمعه فرموده 7 اگست 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رحم آ گیا اور آپ ﷺ نے اسے شامل ہونے کی اجازت دے دی.حضرت عبدالرحمن بن عوف جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے، جنگ میں ان کے دائیں بائیں یہ دونوں لڑکے کھڑے تھے ، وہ کہتے ہیں میں اپنے دل میں افسوس کر رہا تھا کہ آج چھوٹے چھوٹے لڑکے میرے دائیں اور بائیں ہیں میں کس طرح لڑ سکوں گا؟ کہ اتنے میں دائیں طرف سے مجھے کہنی پڑی میں نے مڑ کر دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ اُس لڑکے نے جو میرے دائیں طرف کھڑا تھا مجھے کہنی ماری ہے، مجھے اپنی طرف متوجہ پا کر کہنے لگا چا! وہ ابو جہل کون سا ہے جو مکہ والوں کا سردار ہے ؟ میں نے سنا ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑا دکھ دیا کرتا ہے میں نے آج اُس سے بدلہ لینا ہے.وہ کہتے ہیں میں ابھی اُسے جواب بھی دینے نہ پایا تھا کہ دوسری طرف سے مجھے کہنی پڑی میں نے مڑ کر دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ بائیں طرف کے لڑکے نے مجھے کہنی ماری ہے اُس نے بھی مجھے اپنی طرف متوجہ پا کر کہا چا! وہ ابو جہل کون سا ہے جو مکہ والوں کا سردار ہے اور جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت دُکھ دیا کرتا ہے؟ میں نے آج اُس کی جان لینی ہے.حضرت عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ باوجود ایک تجربہ کار جرنیل ہونے کے میں خیال بھی نہیں کر سکتا تھا کہ میں ابو جہل کو مار سکوں گا کیونکہ وہ قلب لشکر میں کھڑا تھا اور پہرہ داروں کے جھرمٹ میں تھا اور بہادر سپاہی اس کی حفاظت کے لئے نکی تلواریں لئے اس کے پہرہ پر کھڑے تھے لیکن جب دونوں لڑکوں نے مجھے سے پوچھا تو میں نے انگلی اٹھائی اور کہا دیکھو وہ جو قلب لشکر میں گھوڑے پر سوار ہے اور جس کے آگے پیچھے سپاہی جنگی تلوار میں لئے کھڑے ہیں وہ ابو جہل ہے.وہ کہتے ہیں ابھی میرا ہاتھ نیچے نہیں آیا تھا کہ جس طرح باز چڑیا پر حملہ کرتا ہے وہ دونوں کود کر لشکر کفار میں گھس گئے اور اس تیزی سے گئے کہ پہرہ داروں کے حواس باختہ ہو گئے مگر پھر بھی ایک پہرہ دار نے ان میں سے ایک کا ہاتھ کاٹ دیا مگر اس نے اس کی پروانہ کی اور ابو جہل تک پہنچ ہی گیا اور دونوں لڑکوں نے مل کر ابو جہل کو گرا دیا اور اسے بری طرح زخمی کر کے گرادیا جو بعد میں عبد اللہ بن مسعودؓ کے ہاتھ سے مارا گیا.یہ وہ لوگ تھے جن کو ایک ہی دھن تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی اطاعت میں دنیا میں ایک نیا تغیر پیدا کر دیں.انہوں نے اطاعت کی اور اس کا پھل پالیا.آج ہم جو کچھ کریں گے اس کا پھل آئندہ زمانہ میں پالیں گے مگر یہ چیز ہے جس کی طرف جماعت کو لا نا ہمارا فرض ہے اسی لئے آج کل میں بالکل پروا نہیں کر رہا اور جماعت کا قدم آگے سے آگے بڑھا رہا ہوں اور اسی وجہ سے جو قادیان کے منافق ہیں وہ بھی پہلے سے زیادہ اعتراض کرنے لگ گئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ لوگوں پر بوجھ چونکہ زیادہ پڑ رہا ہے اس لئے وہ جلدی ان کے دھوکہ اور فریب میں آجائیں گے مگر وہ نہیں 304

Page 317

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول خطبه جمعه فرموده 7 اگست 1936 ء جانتے کہ میں آدمیوں کو نہیں دیکھ رہا بلکہ میں خدا کو دیکھ رہا ہوں، میں ایسا بے وقوف نہیں کہ مجھوں اس کا وقت جولوگ میرے سامنے بیٹھے ہیں ان کے ذریعہ میں دنیا کو فتح کر سکتا ہوں یا جماعت میں اس وقت جتنے آدمی شامل ہیں ان کے ذریعہ ساری دنیا فتح کی جاسکتی ہے.پچاس ہزار یا لا کھ دولاکھ آدمی ساری دنیا کے مقابلہ میں کیا کر سکتے ہیں؟ پھر مال کے لحاظ سے انہیں دیکھو تو اُن کے پاس مال کہاں ہے؟ طاقت کے لحاظ سے انہیں دیکھو تو اُن کے پاس طاقت کہاں ہے؟ پس میں دنیا کی فتح کا آدمیوں کے ذریعہ اندازہ نہیں کرتا.آدمی میر ا ساتھ نہیں دے سکتے بلکہ ایمان اور اخلاص میرا ساتھ دے سکتا ہے اور جب کسی انسان کے ساتھ ایمان اور اخلاص شامل ہو جائے تو ساری دنیا کے خزانے مل کر بھی اُس کے مقابلے میں بیچ ہو جاتے ہیں.آج میں خصوصیت کے ساتھ اسی مسئلہ کو بیان کرنے کے لئے آیا ہوں کہ جماعت کو توجہ دلاؤں کہ اُس مقام کو حاصل کئے بغیر جس میں انسان فنافی اللہ ہو جاتا ہے کسی قسم کی کامیابی اور ترقی حاصل نہیں ہو سکتی.آج سے قریباً پونے دو سال پہلے جب میں نے تحریک جدید کا اعلان کیا تھا جماعت میں ایک شور تھا، ایک غوغا تھا، ایک ہنگامہ تھا اور لوگ کہ رہے تھے ہم کو حکم دیجئے ہم اپنا سب کچھ احمدیت کے لئے قربان کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن آج جاؤ اور تحریک جدید کے لئے مالی وعدوں کو دیکھ لو، رجسٹر موجود ہیں ان سے معلوم کر لو، پرانے خطوط محفوظ ہیں انہیں نکال کر پڑھ لو، کئی قربانیوں کا شور مچانے والے ایسے نکلیں گے جنہیں کہا گیا تھا کہ اگر تم کوئی رقم ادا نہیں کر سکتے تو اس رقم کی ادائیگی کا وعدہ مت کرو کیونکہ یہ کوئی جبری چندہ نہیں مگر انہوں نے وعدہ کیا اور پھر اُسے پورا نہیں کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک واقعہ سنایا کرتے تھے فرماتے تھے حضرت ابو بکر کے ہاں یا حضرت عمرؓ کے ہاں، مجھے صحیح یاد نہیں ، چوری ہو گئی اور ان کا کچھ زیور پر ایا گیا، ان کا ایک نوکر تھا وہ شور مچاتا پھرے کہ ایسے کم بخت بھی دنیا میں موجود ہیں جو خدا تعالیٰ کے خلیفہ کے ہاں چوری کرتے ہوئے بھی نہیں شرماتے ، وہ چوری کرنے والے پر بے انتہا لعنتیں ڈالے اور کہے خدا اس کا پردہ فاش کرے اور اُسے ذلیل کرے.آخر تحقیقات کرتے کرتے پتہ لگا کہ ایک یہودی کے ہاں وہ زیور گرور کھا ہوا ہے جب اس یہودی سے پوچھا گیا کہ یہ زیور کہاں سے تمہیں ملا تو اس نے اسی نوکر کا نام بتلایا جو شور مچاتا اور چور پرلعنتیں ڈالتا پھرتا تھا.تو منہ سے لعنتیں ڈال دینا زبان سے فرمانبرداری کا دعوی کرنا کوئی چیز نہیں عمل اصل چیز ہوتی ہے ورنہ منہ سے اطاعت کا دعوی کرنے والا سب سے زیادہ منافق بھی ہو سکتا ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ وہ لوگ جنہوں نے تحریک جدید میں وعدوہ کیا اور پھر اسے پورا نہیں کیا منافق ہیں مگر کئی تھے جنہوں نے پہلے سال وعدہ کیا اور پھر وعدہ پورا بھی کیا مگر دوسرے سال کی 305

Page 318

خطبه جمعه فرموده 7 اگست 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول تحریک میں آکر رہ گئے ایسے لوگ ایک سالہ مومن تھے ان کی دوڑ پہلے سال میں ہی ختم ہوگئی دوسرے سال کی دوڑ میں وہ شریک نہ ہو سکے یہی وجہ ہے کہ وہ پہلے سال شور مچاتے تھے کہ جو قربانی لینی ہے ابھی لے لو.ایسے تمام لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ میں نے اسی لئے تحریک جدید کے متعلق تین سال کی شرط لگا دی تھی تا وہ جو پہلے یا دوسرے قدم پر تھک کر رہ جانے والے ہیں وہ پیچھے ہٹ جائیں اور خالص مومن باقی رہ جائیں.ایمان اور اخلاص کے سانس بھی مختلف ہوتے ہیں جیسے کہتے ہیں فلاں اونٹنی دس میل دوڑ سکتی ہے، فلاں اونٹنی ہیں میل اور فلاں سو میل.ایمان کی بھی دوڑیں ہوتی ہیں اور ایمان کی دوڑوں میں وہی جیتے ہیں جن کے لئے کوئی حد بندی نہ ہو.ہمیں نہ یک سالہ مومن کام دے سکتے ہیں نہ دو سالہ مومن بلکہ وہی کام دے سکتے ہیں جو بغیر کسی شرط کے ہمیشہ قربانیوں کے لئے تیار رہنے والے ہوں.اب انشاء اللہ تیسرے سال کی تحریک آنے والی ہے میں سمجھتا ہوں کہ کئی ہیں جو اس میں بھی رہ جائیں گے وہ دو سالے مومن ہوں گے جو تیسری تحریک کے وقت گر جائیں گے.غرض کچھ لوگ اس سال گر گئے اور کچھ لوگ اگلے سال گر جائیں گے اور پھر کچھ سہ سالہ مومن ہوں گے جو تین سال قربانیوں پر صبر کر سکتے ہیں اس سے زیادہ ہیں.یہ سب لوگ جھڑتے چلے جائیں گے اور گرتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ صرف وہ مومن رہ جائیں گے جو حیاتی مومن ہوں گے یعنی ساری زندگی ہی وہ خدا تعالیٰ کے لئے قربانیاں کرنے میں گزار دیں گے اور یہی وہ لوگ ہوں گے جن کے ہاتھ پر خدا تعالیٰ اپنے دین کو فتح دے گا.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم تم کو نہیں چھوڑیں گے جب تک خبیث اور طیب میں فرق کر کے نہ دکھلا دیں.اس زمانہ میں بھی اللہ تعالیٰ خبیث اور طیب میں ضرور فرق کر کے دکھلائے گا.جو لوگ گھبرا رہے ہیں اور خیال کر رہے ہیں کہ اس ذریعہ سے میں جماعت کو چھوٹا کر رہا ہوں وہ نادان ہیں وہ جانتے ہی نہیں کہ جماعت ترقی کس طرح کرتی ہے؟ وہ سمجھتے ہی نہیں کہ جماعت کی مضبوطی اور کمزوری کا کیا معیار ہوا کرتا ہے؟ کیا ایک لمبی زنجیر جس کی بعض کڑیاں کمزور ہوں وہ مضبوط ہوتی ہے یا وہ چھوٹی زنجیر جس کی ساری کڑیاں مضبوط اور پائیدار ہوں؟ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ وہی زنجیر کام آسکتی ہے جس کی ساری کڑیاں مضبوط ہوں.انگریزی میں ایک ضرب المثل ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ زنجیر کی طاقت سب سے کمزور کڑی میں ہوتی ہے یعنی سب سے کمزور کٹڑی جتنی طاقت کی ہوتی ہے اتنی ہی زنجیر کی طاقت ہوتی ہے اسی طرح افراد کے ایمان کی مضبوطی ہی ایسی چیز ہے جو ہمیں اپنے مقاصد میں کامیاب کر سکتی ہے خواہ جماعت کے افراد تھوڑے ہوں یا بہت، اسی لئے میں نے تحریک جدید کو لمبا پھیلایا ہے تا میں دیکھوں کہ کتنے مخلص ہیں جو اس دوڑ میں میرے 306

Page 319

تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد اول خطبه جمعه فرموده 7 اگست 1936 ء ساتھ چلتے ہیں.میں نے دیکھا ہے پچھلے سال موجودہ سال کی نسبت زیادہ لوگوں کے وعدے پورے ہوئے تھے.چنانچہ ابھی میں نے نقشہ منگوا کر دیکھا ہے جس سے معلوم ہوا ہے کہ پچھلے سال آج کے دن تک 74 ہزار روپیہ وصول ہو چکا تھا مگر اس سال آج کے دن تک تریسٹھ ہزار روپیہ وصول ہوا ہے حالانکہ اس سال گزشتہ سال کی نسبت وعدے زیادہ تھے.اس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ایک سالہ مومن تھکنے لگ گئے ہیں اور اگلے سال کی تحریک میں جو دو سالہ مومن ہوں گے وہ تھک کر الگ ہو جائیں گے اور پھر پہلی تحریک جدید کے بعد جب دوسرا قدم اُٹھایا جائے گا تو وہ جو سہ سالہ مومن ہوں گے وہ گرنے لگ جائیں گے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کے دین کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں آجائے گا جو خدا تعالیٰ کے ساتھ شرطیں باندھنے کے عادی نہیں ہوتے تب اس وقت فرشتے نازل ہوں گے اور آدمی نہیں بلکہ فرشتے لڑائی کر کے دنیا کو دین کے لئے فتح کریں گے.ہاں جیسا کہ قرآن کریم میں منافقوں کا حال لکھا ہے جب دنیا فتح ہو جائے گی اور اسلام کی حکومت عالم پر قائم ہو جائے گی اس وقت یک سالہ مؤمن اور دوسالہ مومن اور سہ سالہ مومن سب جمع ہو کر آجائیں گے اور کہیں گے ہم بھی مومن ہیں ہمیں بھی فتوحات میں شامل کیا جائے مگر خواہ وہ دنیا کی چیزیں لے لیں خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوسکتا.دنیا کی بادشاہت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے نائین سے چھین کر یزید نے لے لی مگر کیا خدا تعالیٰ کے حضور بھی یزید کوکوئی بادشاہت ملی؟ یزید کا نام اس دنیا میں بھی جہنم کے دروازہ پر لکھا ہوا ہے کجا یہ کہ آخرت میں اسے کوئی انعام حاصل ہو.پس دنیا کا حصہ گوا ایسے لوگوں کو مل جائے مگر آخرت میں انہیں کوئی حصہ نہیں مل سکتا کیونکہ آخرت میں انہی کا حصہ ہے جو خدا تعالیٰ کے ساتھ شرطیں نہیں کرتے.پس میں جماعت کو آج یہ توجہ دلانے کے لئے آیا ہوں کہ تحریک جدید کے ذریعہ ان کا امتحان ہو رہا ہے فیل ہونے والے فیل ہورہے ہیں اور کامیاب ہونے والے کامیاب ہو رہے ہیں.وہ جو اُمید کرتے ہیں کہ اب ان کے لئے کوئی آرام کا سانس ہے وہ غلطی پر ہیں اگر بندوں کے ہاتھ سے ان کا امتحان نہیں ہوگا تو خدا خودان کا امتحان لے گا لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ چاہتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مخلصوں اور کمزوروں اور منافقوں کو جدا جدا کر دیا جائے.میں نے تحریک جدید میں جو امور پیش کئے تھے اگر جماعت ان پر عمل کرتی تو ہر سال پہلے سے زیادہ چندہ آتا اور زیادہ چندہ دینے کی طاقت ان میں پیدا ہوتی.میں نے کہا تھا کہ اپنے اخراجات کم کرو اور اخراجات میں کمی کر کے جور تم تمہارے پاس بچے وہ اسلام کی ترقی کے لئے دو اور اخراجات میں کمی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کرو جسے دو ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ ملتی ہے وہ اپنے اخراجات کے لحاظ سے کمی 307

Page 320

خطبه جمعه فرموده 7 اگست 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد اول کرے اور جسے دس روپے ملتے ہیں وہ اپنے اخراجات کے لحاظ سے کمی کرے اور اس طرح جو روپیہ بچے وہ چندہ میں دے دیا جائے مگر معلوم ہوتا ہے چندہ دینے کا یہ گر جو میں نے بتایا تھا جماعت نے اُس پر عمل نہیں کیا.میں نے شروع میں بتایا تھا کہ تم منہ سے کہتے ہو ہم اپنا سب کچھ اسلام کے لئے قربان کرنے کے لئے تیار ہیں حالانکہ تمہارے پاس کچھ نہیں ہوتا اس صورت میں تمہارا دعویٰ کیونکر صحیح ہو سکتا ہے؟ تمہارا فرض ہے کہ پہلے مٹھی میں کچھ لو اور پھر دینے کا نام لواور مٹھی میں لینے کے معنے یہ ہیں کہ تم اپنی زندگیوں میں تغیر پیدا کرو.کھانے میں، پینے میں، پہنے میں اور مکانات کی آرائش و زیبائش غرض ہر چیز میں فرق کرو اور اپنی حیثیت کے مطابق کرو.میں یہ نہیں کہتا کہ ایک غریب شخص بھی اتنا ہی چندہ دے جتنا ایک امیر دیتا ہے بلکہ اگر وہ پانچ روپے دے سکتا ہے تو پانچ ہی دے مگر پانچ روپے دینا بھی ایک غریب شخص کے لئے تبھی ممکن ہے جب وہ اپنے اخراجات میں کمی کرے جیسا کہ ایک امیر کے لئے پانچ سوروپیہ چندہ دینا بھی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ وہ قربانی کر کے اخراجات کو کم نہیں کرتا.ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ میں امرا سے کہوں کہ جو کچھ ان کے پاس ہے وہ لائیں اور اسلام کیلئے قربان کر دیں ابھی نسبت کے طور پر ان سے قربانی کا مطالبہ کیا جاتا ہے.مثلاً کہا جاتا ہے جو سو روپیہ لیتا ہے وہ دس روپے دے اور جو ہزار روپیہ کماتا ہے وہ ایک سوروپے دے لیکن جب وہ وقت آیا کہ کہا گیا جو کچھ پاس ہے سب اسلام کے لئے حاضر کر دو اس وقت شاید اور زیادہ لوگوں کا امتحان ہو جائے مگر اس امتحان کے آنے تک ضروری ہے کہ جنہوں نے اپنے آپ کو تحریک جدید کے ادنیٰ امتحان میں شامل کیا ہوا ہے وہ اس میں کامیاب ہونے کی کوشش کریں.مجھے تحریک جدید کے مالی شعبہ اور امانت فنڈ دونوں کی رپورٹوں سے معلوم ہوا ہے کہ ان دونوں شعبوں کے چندوں میں کمی آرہی ہے اور یک سالہ اور دو سالہ مومن کمزوری دکھا رہے ہیں مگر مجھے اس کی کوئی گھبراہٹ نہیں.میں چاہتا ہوں کہ ایسے لوگ گر جائیں اور ہمارا ساتھ چھوڑ دیں اور صرف ایسی ہی مخلص جماعت ساتھ رہ جائے جو پورے طور پر اطاعت کرنے اور اپنی ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہو.میں قادیان کے لوگوں کو خصوصاً توجہ دلاتا ہوں کہ میرا ہر گز یہ ارادہ نہیں کہ اگر چندہ میں کمی ہو تو ان کاموں کو جن کو شروع کیا جا چکا ہے بند کر دیا جائے میں پہلے بھی اشارۃ بیان کر چکا ہوں کہ روپیہ کی کمی کی وجہ سے کام ہرگز بند نہیں کئے جا سکتے.اگر روپیہ کی کمی ہوئی تو کارکنوں کی تنخواہیں دس فیصدی کم کر دی جائیں گی اور اگر دس فیصدی کمی کر کے بھی گزارہ نہ ہوا تو ان کی تنخواہوں میں میں فیصدی کمی کر دی جائے گی اور اگر ہمیں فیصدی کمی بھی ضروریات کو پورا نہ کر سکی تو میں فی صدی کمی کر دی جائے گی اور اگر تمہیں فیصدی کمی 308

Page 321

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول خطبه جمعه فرموده 7 اگست 1936ء کافی ثابت نہ ہوئی تو چالیس بلکہ پچاس فی صدی کمی کر دی جائے گی.صدر انجمن احمدیہ کے جو کارکن پہلے سے کام کر رہے ہیں یا وہ کارکن جنہوں نے اس تحریک جدید پر کام شروع کیا ہے، میں آج سے ان سب کو ہوشیار کر دیتا ہوں کہ اگر انہیں اپنی تنخواہوں میں یہ کی منظور نہ ہو تو وہ بے شک اپنی نوکریوں کا باہر انتظام کر لیں.مجھے یقین ہے کہ پانچ یا دس دفعہ بھی اگر مجھے آدمی بدلنے پڑے تو خدا تعالیٰ اپنے فضل سے نئے آدمی بھیجتا چلا جائے گا اور وہ کام پورا ہو کر رہے گا جس کے کرنے کا ذمہ ہم نے اُٹھایا ہوا ہے اور جس کو تکمیل تک پہنچانے کا فرض ہم پر عائد کیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کا نام انبیاء علیہم السلام نے شیطان کی آخری لڑائی کا زمانہ رکھا ہے.اس لڑائی کی آگ میں جب تک ہم اپنی ہر چیز جھونکتے نہ جائیں گے اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے.شاہ جہاں کی نسبت آتا ہے اس کی بیوی نے مرنے سے پہلے خواب دیکھا کہ میں مرگئی ہوں اور میری قبر پر بادشاہ نے ایسا ایسا مقبرہ بنایا ہے ، یہ وہی مقبرہ ہے جسے آج کل تاج محل کہتے ہیں اور آگرہ میں ہے، اس نے بادشاہ کے پاس ذکر کیا وہ چونکہ بیمار تھی اور بادشاہ کو اس کی دلجوئی مد نظر تھی اس لئے اس نے بڑے بڑے انجینئر زبلائے اور کہا کیا اس قسم کی عمارت تم بنا سکتے ہو؟ سب نے کہا یہ تو کسی جنت کی عمارت کا نقشہ ہے ہم اسے تیار نہیں کر سکتے.آخر ایک انجینئر آیا اور اُس نے کہا بادشاہ سلامت ایسی عمارت بن سکتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ آپ میرے ساتھ کشتی میں سوار ہو کر جمنا کے دوسرے کنارے چلیں اور ہزار ہزار روپیہ کی دوستھیلیاں اپنے پاس رکھوالیں تجویز میں بتادوں گا اور وہ جگہ بھی بتا دوں گا جہاں اس قسم کا مقبرہ بن سکتا ہے.بادشاہ نے حکم دیا جس پر فوراً ہزار ہزار روپیہ کی دوسو تھیلیاں خزانہ سے آ گئیں.اس نے ان تھیلیوں کو کشتی میں رکھا اور انجینئر کے ساتھ سوار ہو کر جمنا کے دوسرے کنارے جانے کے لئے روانہ ہو گیا.کشتی تھوڑی دور ہی گئی تھی کہ اس انجینئر نے ایک تھیلی اٹھائی اور دریا میں پھینک دی اور کہا بادشاہ سلامت اس طرح روپیہ خرچ ہوگا بادشاہ نے کہا کوئی حرج نہیں.دو قدم کشتی آگے بڑھی تو پھر اس نے ایک تھیلی اٹھائی اور دریا میں پھینک دی اور کہا بادشاہ سلامت اس طرح روپیہ لگے گا، بادشاہ نے کہا کوئی پروا نہیں.تھوڑی دور آگے چلے تو اس نے تیسری تحصیلی دریا میں پھینک دی اور پھر چوتھی اور پھر پانچویں یہاں تک کہ رفتہ رفتہ ہزار ہزار روپیہ کی دوسو تھیلیاں اس نے دریا میں پھینک دیں اور ہر دفعہ وہ یہی کہتا گیا کہ بادشاہ سلامت یوں روپیہ خرچ ہو گا بادشاہ بھی یہی کہتا رہا کہ پروا نہیں تم عمارت تیار کرو.جب وہ انجینئر جمنا کے دوسرے کنارے پہنچا تو کہنے لگا بادشاہ سلامت مقبرہ بن سکتا ہے اور یہ جگہ ہے جہاں مقبرہ بنے گا.بادشاہ نے کہا آخر وجہ کیا ہے کہ دوسروں نے کہا ایسا مقبرہ نہیں بن سکتا 309

Page 322

خطبه جمعه فرموده 7 اگست 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول اور تم کہتے ہو کہ بن جائے گا ؟ وہ کہنے لگا بات یہ ہے کہ انہوں نے حضور کے دل کا اندازہ نہیں لگایا تھا انہوں نے سمجھا کہ آپ اس قدر روپیہ کہاں خرچ کریں گے؟ مگر میں نے آپ کے دل کا اندازہ لگا لیا ہے اور میں سمجھ گیا ہوں کہ جب آپ دولاکھ روپیہ کے ضائع ہونے پر چیں بہ جبیں نہیں ہوئے تو اس قسم کے مقبرہ پر بھی بے دریغ روپیہ خرچ کر دیں گے.اگر آپ ان دولا کھ کے ضائع ہونے پر چیں بہ جبیں ہو جاتے تو میں بھی کہہ دیتا کہ مقبرہ نہیں بن سکتا.اگر تاج محل بنانے کے لئے اتنے وسیع حوصلہ کی ضرورت ہو سکتی تھی تو خدا تعالیٰ کے لئے ایک نئی زمین بسانے کے لئے کتنے وسیع حوصلہ اور کتنی بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے؟ ہمیں بھی اسی طرح اپنی جائیں اور اپنے اموال قربان کرنے پڑیں گے جس طرح اس انجینئر نے شاہ جہاں کا روپیہ قربان کیا.میں جانتا ہوں کہ ہر شخص کی عقل اتنی وسیع نہیں ہوتی کہ وہ قربانیوں کی حقیقت کو سمجھ سکے بعض تھڑ دلے ہوتے ہیں وہ نہ دین کے پھیلانے کی عظمت جانتے ہیں نہ قربانی کی حقیقت سے واقف ہوتے ہیں نہ خدا تعالیٰ کی رضا اور اس کی محبت کی ان کے نزدیک کوئی قیمت ہوتی ہے ان کی ایک ایک پیسہ پر جان نکلتی ہے اور دین کے لئے خرچ کرنا انہیں موت دکھائی دیتا ہے مگر وہ جو جانتے ہیں کہ کام کتنا بڑا ہے ، جو سمجھتے ہیں کہ قربانیاں اپنے اندر کیا عظمت وشان رکھتی ہیں، جو خدا تعالیٰ کی رضا اور اس کی محبت کے مقابلہ میں دنیوی مال و متاع کو ایک حقیر اور ذلیل چیز قرار دے کر اسے قربان کرنا کوئی بڑی بات نہیں سمجھتے وہ قربانیوں پر بجائے عمگین ہونے کے خوش ہوتے اور قربانیوں کوستا سودا سمجھتے ہیں ایسے آدمی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت میں کم نہیں ہزار ہا ہیں جو سی قسم کا اخلاص اور اس قسم کی محبت رکھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں عبد الحکیم نے جب اعتراض کیا کہ جماعت احمدیہ میں سوائے حضرت مولوی نور الدین صاحب اور ایک دو آدمیوں کے کوئی صحابہ کا نمونہ نہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے اس خیال کی نہایت سختی سے تردید کی اور فرمایا میری جماعت میں ہزاروں ہیں جو صحابہ کرام کا نمونہ ہیں.پس میرے لئے گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں.یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے اور وہ خود ایسے آدمی کھڑے کرے گا جو سلسلہ کی مالی اور جانی خدمات سرانجام دیں گے لیکن میں نہیں چاہتا کہ ایک بھی ہم میں سے تباہ ہو اس لئے میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ میرا راستہ لمبا اور تکلیفوں سے پُر ہے جو لوگ کمزور ہیں انہیں چاہئے کہ وہ اپنی کمزوری کو دور کر کے اپنے آپ کو مضبوط بنائیں.اس راستہ میں مال کی قربانی بھی کرنی پڑے گی، جان کی قربانی بھی کرنی پڑے گی، عزت کی قربانی بھی کرنی پڑے گی ، وطن کی قربانی بھی کرنی پڑے گی ، 310

Page 323

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد اول خطبه جمعه فرموده 7 اگست 1936ء آرام و آسائش کی قربانی بھی کرنی پڑے گی اور اسی طرح کی اور بہت سی قربانیاں ہیں جو انہیں کرنی پڑیں گی تب خدا تعالیٰ کا نور دنیا میں پھیلے گا.پس جو کمزور ہیں وہ میری تحریک کی اہمیت کو سمجھ لیں اور اس کے مطابق عمل کریں ورنہ اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ یا تو ایک دن مرتد ہو کر انہیں جماعت سے خارج کرنا پڑے گا یا خود انہیں جماعت سے الگ کر دیا جائے گا.قادیان کے کارکنوں کو بھی اچھی طرح معلوم ہو جانا چاہئے کہ اگر سرمایہ کافی نہ ہوا تو گو پہلے ہی انہیں باہر کی نسبت قلیل تنخواہیں دی جاتیں ہیں لیکن پھر بھی ان کی تنخواہوں میں کمی کی جائے گی اور جو کارکن اس کے لئے تیار نہ ہوں انہیں پہلے سے اپنی نوکریوں کا باہر انتظام کر لینا چاہئے.پھر کارکنوں کے علاوہ جماعت کے جو عام افراد ہیں خواہ وہ قادیان میں رہتے ہوں یا با ہر ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس امر کے لئے تیار رہیں کہ اب انہیں ہر قدم پہلے سے آگے بڑھانا پڑے گا اور یہ کام ختم نہیں ہو گا جب تک اسلام کی حکومت دنیا میں قائم نہ ہو جائے اس سے پہلے ہمارے لئے کوئی ہالٹ اور کوئی ٹھہر نا اور کوئی آرام کرنا نہیں ہاں جب دنیا میں صحیح رنگ میں اسلامی حکومت قائم ہو جائے گی تو ایک مرحلہ ہماراختم ہو جائے گا مگر جیسا کہ میں نے بار ہا بتایا ہے مومن کا کام پھر بھی ختم نہیں ہو سکتا جو سچا مومن ہو جس دن اس کا کام ختم ہو جاتا ہے اسی دن اس کی موت آجاتی ہے.دیکھو ! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:- إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًان فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبَّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا (النصر : 2 5t) کہ تیرا کام چونکہ دنیا میں اسلام پھیلانا ہے اس لئے جب اسلام میں لوگ جوق در جوق داخل ہونے لگیں اور فوج در فوج لوگ اسلام قبول کرنے کے لئے آئیں تو سمجھ لینا کہ تیرا وقت ختم ہو گیا اس وقت ذکر الہی میں مشغول ہو جانا اور خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو یہ آیت سنائی تو باقی صحابہ تو بڑے خوش ہوئے کہ اب فتوحات کا زمانہ آ گیا لیکن حضرت ابو بکر رو پڑے وہ نہایت کامل الایمان تھے وہ یہ آیت سنتے ہی سمجھ گئے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کام ختم ہو گیا تو پھر آپ ﷺ نے دنیا میں رہ کر کیا کرنا ہے؟ خدا تعالیٰ کا رسول نکما نہیں بیٹھتا.پس اس کا مطلب یہ ہے کہ اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ وفات نزدیک ہے اس پر حضرت ابوبکر کو اتنا رونا آیا ، اتنا رونا آیا کہ ان کی گھگی بندگئی بعض روایات میں آتا ہے کہ بعض صحابہ آپ کے رونے کو سن کر کہہ اُٹھے کہ اس 311

Page 324

خطبہ جمعہ فرموده 7 اگست 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد اول بڑھنے کو کیا ہو گیا کہ خدا تعالیٰ تو یہ کہتا ہے کہ اسلام ترقی کرے گا اور جوق در جوق لوگ اس میں داخل ہوں گے اور یہ روتا ہے؟ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس نکتہ کو سمجھ گئے یعنی آپ ﷺ نے سمجھ لیا کہ حضرت ابوبکر نے آیت کا مفہوم سمجھ لیا ہے اس لئے آپ ﷺ نے ان کی تسلی اور دلجوئی کے لئے فرمایا: ابوبکر مجھے اتنے پیارے ہیں، اتنے پیارے ہیں کہ اگر کسی بندے کو خلیل بنانا جائز ہوتا تو میں ابوبکر " کو بناتا لیکن یہ اسلام میں میرے بھائی ہیں پھر فرمایا مسجد میں جس قدر کھڑکیاں کھلتی ہیں سب بند کر دی جائیں مگر ابو بکر کی کھڑ کی کھلی رہے اس میں آپ ﷺ نے اس طرف اشارہ کر دیا کہ میرے بعد یہی امام ہوں گے اور انہیں چونکہ نماز پڑھانے کے لئے مسجد میں آنا پڑے گا اس لئے ضروری ہے کہ ان کی کھڑ کی مسجد کی طرف کھلی رہے.تو مومن جب اپنا کام ختم کر لیتا ہے تو وہ بالکل دنیا میں رہنا نہیں چاہتا.دیکھو! جب کوئی شخص اپنے بیوی بچوں سے جدا ہو کر غیر ملک میں جاتا ہے تو جب اس کا کام ختم ہو جاتا ہے وہ اپنے بیوی بچوں سے ملنے کے لئے بے تاب ہو جاتا ہے.جب بیوی بچوں کی محبت اپنے اندر اتنی کشش رکھتی ہے کہ جب تک اُسے فرض منصبی رو کے رکھتا ہے وہ رکا رہتا ہے لیکن جب اس کا کام ختم ہو جاتا ہے وہ ان کے ملنے کے لئے بے تاب ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ کی محبت اپنے اندر کس قدر کشش رکھتی ہوگی ؟ یہی وجہ ہے کہ مومن جب تک دنیا میں اپنے فرائض منصبی میں مشغول رہتا ہے وہ مجبوراً اپنے محبوب خدا سے دور رہنا برداشت کر لیتا ہے لیکن جب وہ اپنے فرائض منصبی کو پورا کر لیتا ہے اس وقت وہ ایک منٹ بھی دنیا میں رہنا پسند نہیں کرتا بلکہ چاہتا ہے کہ اُڑے اور خدا کے پاس پہنچ جائے.ہاں جب تک اس کا فرض منصبی پورا نہیں ہوتا وہ سمجھتا ہے کہ میں مجبور ہوں کیونکہ میرے آقا کا حکم یہی ہے کہ میں دنیا میں کام کروں مگر کام کے ہو جانے کے بعد وہ ایک منٹ بھی دنیا میں ٹھہر نا پسند نہیں کرتا.پس جب تک دنیا میں اسلام کی حکومت قائم نہیں ہو جاتی میرا اور جماعت کا کام ختم نہیں ہوسکتا اور جن کی زندگیوں میں بھی یہ کام ختم ہو گیا کیونکہ ضروری نہیں کہ ہماری زندگیوں میں ہی یہ کام پورا ہو ، وہ اس دنیا میں رہنا پسند نہیں کریں گے بلکہ ان کی روحیں اُڑیں گی اور خدا سے جاملیں گی اور پھر نئی پود کو نیا کام سپرد کیا جائے گا.در حقیقت لوگوں نے اس بات کو سمجھا نہیں کہ آخرت کے انعامات کی کیا اہمیت ہے؟ انہوں نے سب کچھ دنیا کو ہی سمجھ رکھا ہے اسی لئے وہ اس کی ذرہ ذرہ سی بات پر مرتے ہیں.حالانکہ دنیا ایک میدان جنگ ہے جہاں شیطان سے لڑائی جاری ہے کوئی شخص پسند نہیں کر سکتا کہ وہ ساری عمر لڑتا ہی رہے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ لڑائی سے جلد فارغ ہو کر اپنے گھر آئے.پس جس طرح میدان جنگ عارضی 312

Page 325

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 7 اگست 1936ء مقام ہوتا ہے اسی طرح سچا مومن چاہتا ہے کہ وہ دنیا میں جلد سے جلد شیطان سے لڑائی ختم کر کے اپنے مولی کے پاس پہنچے.پس ایک بار پھر میں جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ سستی اور غفلت کو چھوڑ دیں ورنہ اس بات کے لئے تیار رہیں کہ آج نہیں تو کل خدا تعالیٰ کی طرف سے انہیں ٹھوکر لگے گی اور ان پر ایسا ابتلا آئے گا کہ وہ ایمان سے بالکل محروم کر دئیے جائیں گے.خدا تعالیٰ کو اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ زیدیا بکر اس کے سلسلہ میں داخل ہے یا نہیں.اگر کوئی شخص اس کے دین میں نہیں رہتا اور خدا تعالیٰ دیکھتا ہے کہ وہ اس کے دین کو چھوڑ کر الگ ہو رہا ہے تو وہ کہتا ہے جاؤ میرے دین کا کام کرنے والے اور بہت سے موجود ہیں میں ان سے کام لے لوں گا بلکہ خدا تو خدا ایک مومن بھی یہ پسند نہیں کر سکتا کہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کے دین پر احسان رکھے ، وہ پسند کرے گا کہ وہ اکیلا خدا تعالیٰ کی راہ میں لڑائی لڑے بجائے اس کے کہ اس کے پہلو میں کوئی ایسا شخص ہو جو خدمت کر کے احسان جتانے والا ہو.پس جو سچے مومن ہیں وہ اس بات کی ذرہ بھر بھی پروا نہیں کر سکتے کہ کوئی ان کا ساتھ دیتا ہے یا نہیں اور جو سچے مومن نہیں وہ پھر ہیں جو قوم کے گلے میں پڑے ہوئے ہیں اور جن کی وجہ سے خطرہ ہے کہ بعض دوسرے لوگ بھی ڈوب جائیں.پس جتنی جلدی یہ پتھر دور ہوجائیں اور جتنی جلدی ان سے نجات ملے اتنا ہی اچھا ہے.ہاں چونکہ جن لوگوں سے تعلق اور محبت کو ان کے علیحدہ ہونے پر افسوس بھی آتا ہے اس لئے ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے کمزوروں پر رحم فرمائے، انہیں ایمان اور اخلاص عطا فرمائے اور ہمیں بھی وہ طاقت بخشے کہ نہ دنیا کی آفات اور مصیبتیں ہمیں ڈرا سکیں اور نہ حکومتیں اور بادشاہتیں ہمیں مرعوب کر سکیں صرف ایک ہی چیز ہو جو ہمارا مقصود ہو اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کی رضا اور اس کی محبت ہمیں حاصل ہو اور اس کے قرب کا مقام ہمیں ملے.خدا تعالیٰ کیلئے جان دینا ہمارے لئے سب سے بڑی نعمت ہو اور اس کی خوشنودی کے لئے مرنا ہماری سے بڑی راحت ( مطبوع الفضل 19 اگست 1936 ء ) 313

Page 326

Page 327

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 11 ستمبر 1936ء سلسلہ احمدیہ افراد کی تعداد پر قائم نہیں بلکہ اخلاص پر قائم ہے خطبہ جمعہ فرموده 11 ستمبر 1936ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.کھانسی اور گلے کی تکلیف کی وجہ سے میرے لئے بلند آواز سے بولنا بالکل جائز نہیں لیکن چونکہ بخار میں تخفیف ہے اور دو جمعے درمیان میں میں یہاں خطبہ نہیں پڑھا سکا اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ تکلیف اُٹھا کر بھی آج خطبہ جمعہ خود پڑھاؤں.میں نے چند جمعے ہوئے غالباً 7 اگست کو جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ تحریک جدید کے چندہ کے متعلق میں بعض دوستوں میں سستی اور غفلت دیکھتا ہوں.حالانکہ اس چندہ کی تحریک طوعی تھی جبری نہ تھی یعنی ہر شخص کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ اپنی مرضی کہ مطابق اس چندے میں شامل ہو یا نہ ہو.صرف تحریک کی جاتی تھی اور ہر شخص کو اس میں شامل ہونے کا پابند نہیں بنایا جاتا تھا.اس ستی کو دیکھ کر یہ خطرہ بھی ہوسکتا تھا کہ یہ چیز تو ہمارے سامنے آجاتی ہے مگر اس تحریک کے وہ دوسرے حصے جو سامنے نہیں آتے ممکن ہے دوست ان میں بھی مستیاں کر رہے ہوں.مثلاً ایک کھانا کھانے کی تحریک ہے یا سادہ لباس کی تحریک ہے یا بے کار نہ رہنے کی تحریک ہے یا تبلیغ کی تحریک ہے، ان ساری قسم کی تحریکوں کے متعلق قدرتی طور پر یہ شبہ پیدا ہونا لازمی ہے کہ شاید ان میں بھی کسی قسم کی مستی ہو رہی ہے.میرے اس خطبہ کے نتیجہ میں جماعت میں ایک اصلاح تو ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ چندہ کی رفتار پہلے سے بڑھ گئی ہے اور اس خطبہ کے بعد اس وقت تک جو دس اور گیارہ ہزار کے درمیان پچھلے سال اور اس سال کے چندہ میں فرق تھا وہ کوئی ساڑھے چھ ہزار کے قریب آگیا ہے.گویا چار یا ساڑھے چار ہزار روپیہ کی کی کو دوستوں نے پورا کیا ہے لیکن ابھی تک جماعت کے تمام افراد میں وہ تحریک پیدا نہیں ہوئی جو ہونی چاہئے تھی.جن جن افراد نے علیحدہ طور پر چندے لکھوائے ہیں انہوں نے زیادہ جوش سے چندے ادا کئے ہیں لیکن جماعتی چندوں میں ابھی بہت کچھ کمی ہے.میں الفضل“ کی کسی قریب کی اشاعت میں بعض بڑی جماعتوں کی لسٹ شائع کروں گا تا کہ ان جماعتوں کو توجہ ہو.315

Page 328

خطبہ جمعہ فرمود : 11 ستمبر 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول در حقیقت بہت سی رقم جو جمع ہوئی ہے وہ افراد کی طرف سے جمع ہوئی ہے ورنہ بہت سی جماعتیں ایسی پائی جاتی ہیں جنہوں نے بحیثیت جماعت نہایت سستی اور غفلت دکھائی ہے میں ان جماعتوں کو ستمبر تک کی مہلت دیتا ہوں کہ وہ ستمبر تک اپنے بقائے پورے کرنے کی کوشش کریں.میں یہ نہیں کہتا کہ سارے دوست ہی ستمبر تک بقائے ادا کر دیں کیونکہ مہلتیں بعض کی نومبر تک ، بعض کی جنوری تک اور بعض کی اس سے بھی بعد تک ہیں لیکن بہر حال جس حد تک حصہ ان کی طرف سے اس وقت تک پہنچ جانا چاہئے اپنی اپنی رقم کے مطابق وہ اس کو ضرور پورا کرنے کی کوشش کریں ورنہ اطلاع دیں کہ کیوں اس وعدے کو پورا کرنے پر وہ قادر نہیں ہو سکے جو طوعی طور پر انہوں نے کیا تھا؟ اور جس کے متعلق کوئی جبران پر نہیں کیا گیا تھا.میں بتا چکا ہوں کہ تدریجی طور پر جماعت کو قربانی کے میدان میں اب آگے سے آگے بڑھنا ہو گا.ذاتی طور پر مجھے اس بات کا قطعاً درد محسوس نہیں ہو سکتا اگر ہماری جماعت موجودہ تعداد سے گھٹ کر آدھی رہ جائے یا چوتھا حصہ رہ جائے یا اس سے بھی زیادہ گر جائے کیونکہ میں اس یقین پر قائم ہوں کہ مخلصین وہ کچھ کر سکتے ہیں جو تعداد نہیں کر سکتی.ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایسے ذرائع بتائے ہوئے ہیں کہ جن کے ماتحت چند آدمیوں کے ذریعہ بھی ساری دنیا میں اسلام قائم کیا جا سکتا ہے لیکن ان ذرائع کو استعمال کرنے کے اوقات ہوتے ہیں.خدا نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ تجھے اور تیری قوم کو کنعان کی حکومت دی جاتی ہے.بنی اسرائیل نے آگے سے کہ دیا: فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هُهُنَا قُعِدُونَ (المائدة: 25) جاموئی تو اور تیرا رب لڑتے پھر وجب فتح ہو جائے گی تو ہم بھی شامل ہو جائیں گے اُس وقت تک تو ہم یہیں بیٹھے ہیں.موسی اور اس کا خدا اکیلے رہ گئے مگر باوجود اس کے کنعان پھر بھی فتح ہوا اور کنعان پر تیرہ سو سال تک بنی اسرائیل نے حکومت کی.حضرت مسیح علیہ السلام کو جب صلیب کا واقعہ پیش آیا حواری سب بھاگ گئے بلکہ ایک حواری نے تو آپ پر لعنت بھی کی اور کہا: میں نہیں جانتا یہ کون ہے؟ یہ سب کچھ ہوا مگر کیا عیسائیت دنیا میں نہیں پھیلی؟ کیا وہ یونہی رک کر رہ گئی ؟ پس میں اس یقین پر قائم ہوں اور سمجھتا ہوں کہ جو شخص اس یقین پر قائم رہے گا وہی اپنے ایمان کو سلامت لے کر نکلے گا کہ سلسلہ افراد کی تعداد پر قائم نہیں بلکہ اخلاص پر قائم ہے.جس شخص کے دل میں یہ خیال ہو کہ ہر گندی چیز کو ہم سمیٹیں اور رکھ لیں وہ نہ سلسلہ کی خدمت کر سکتا ہے اور نہ سلسلہ کو کوئی نفع پہنچا سکتا ہے.میرا مطلب یہ نہیں کہ خواہ مخواہ بیٹھے بٹھائے جس کو خدا تمہارے پاس بھیجے اس کو نکالو.یہ خود ایک 316

Page 329

جدید - ایک الہی تحریک جلد اول إِنَّا هُهُنَا قُحِدُونَ خطبه جمعه فرموده 11 ستمبر 1936ء (المائدة: 25) بھاری گناہ اور عذاب کا موجب ہے بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص پوری وضاحت اور انکشاف کے بعد اپنے آپ کو اسلام کے لئے مفید بنانے کے لئے تیار نہیں تو وہ اپنے آپ کو سلسلہ سے آپ نکالتا ہے تم اسے نہیں نکالتے.ایک کمزور اور ناطاقت جس میں چلنے کی طاقت نہیں اگر تم اسے دیکھو تو تمہارا کام ہے کہ اسے اٹھاؤ اور لے چلو.ایک ناواقف اور جاہل جسے کوئی علم نہیں اگر وہ تمہارے پاس آتا ہے تو تمہارا کام ہے کہ اسے بتاؤ اور اپنے ساتھ شامل کرو مگر ایک واقف اور آگاہ شخص جو ٹانگیں رکھتے ہوئے بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے: تمہارا فرض ہے کہ تم اسے سلام کر کے کہہ دو آج سے میں اور تم الگ.ہمارا تم سے کوئی تعلق نہیں.جب تمہارے نفس میں اس رنگ میں خدا پر تو کل قائم ہو گا تب تم دنیا میں کامیابی حاصل کر سکو گے اور جب تم اپنے آپ کو دیوانگی کے مقام پر کھڑا کر لیتے ہو تب تم منزل مقصود پر بھی کامیابی کے ساتھ پہنچ سکتے ہو.یہ مت خیال کرو کہ تمہارے دائیں اور بائیں ایسے لوگ ہیں جو اندر سے ہو کر تمہاری مخالفت کرتے ہیں.وہ منافق ہیں اور منافق کی مثال چوہے کی سی ہوتی ہے جس نے بلی کی میاؤں سنی اور وہ بھاگا.مثل مشہور ہے کہ کچھ چوہے تھے انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ بلی نے ہمیں سخت ستایا ہوا ہے آؤ ہم اسے مل کر پکڑیں.آخر صلاح ٹھہری کہ والنٹیئر ز طلب کرو جو اپنی جانیں قربان کر دیں اور قوم کو اس مصیبت سے نجات دیں.چنانچہ پچاس ساٹھ چوہے کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا ہم اپنے آپ کو اس خدمت کے لئے پیش کرتے ہیں کہ اگر بلی آئی تو ہم اس کا دایاں پاؤں پکڑ لیں گے، پچاس ساٹھ چوہوں نے کہا ہم اس کا بایاں پاؤں پکڑ لیں گے اسی طرح والنٹیئر زکھڑے ہوتے گئے اور انہوں نے بلی کا تمام جسم آپس میں تقسیم کر لیا اور کہا کہ ہم اسے پکڑ کر وہیں ماردیں گے جب سب حصے وہ آپس میں تقسیم کر چکے تو ایک بوڑھا چوہا کہنے لگا تم بلی کے پاؤں اور اس کے دیگر اعضا سے اتنا نہیں ڈرتے جتنا اس کی میاؤں سے ڈرتے ہو اس لئے یہ بتاؤ کہ اس کی میاؤں کو کون پکڑے گا ؟ ادھر اس نے یہ کہا اور ادھر اتفاقاً ایک بلی نمودار ہوگئی اور اس نے کہا میاؤں! میاؤں کا سنا تھا کہ سارے چوہے بلوں میں گھس گئے یہی حال منافق کا ہوتا ہے وہ دعوے بہت کرتا ہے لیکن ہوتا سخت ڈرپوک ہے.بھلا وہ منافق جو قلیل التعداد دوستوں کے سامنے کھل کر بات کرنے سے ڈرتا ہے وہ کثیر التعداد دشمنوں کا کہاں مقابلہ کر سکتا ہے؟ ابتدائی مومنوں کی تعداد تو کفار کے مقابلہ میں ہمیشہ قلیل ہوتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی 317

Page 330

خطبہ جمعہ فرموده 11 ستمبر 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول تعداد دشمنوں کے مقابلہ میں دسواں حصہ بھی نہ تھی.یہی حال ہمارا ہے تینتیس کروڑ ہندوستان کے باشندے ہیں ان میں سے الا ماشاء اللہ شریف الطبع لوگوں کو مستی کرتے ہوئے بہت سے ہمارے جانی دشمن ہیں، بہت سے ایسے ہیں جنہیں سلسلہ کی چونکہ واقفیت نہیں ہوتی اس لئے مولوی انہیں ورغلا لیتے ہیں.پس وہ جو ہمیں نقصان پہنچانا چاہتے ہیں ان کے مقابلہ میں ہماری تعداد ہے ہی کیا ؟ پھر تم منافق سے یہ کس طرح اُمید کر سکتے ہو اور تمہاری یہ امید کس طرح صحیح بھی جاسکتی ہے کہ وہ اتنے بڑے دشمنوں کا مقابلہ کرے گا ؟ جبکہ تم دیکھتے ہو کہ تم اپنے دشمنوں کے مقابلہ میں سینکڑوں گنے کم ہو لیکن وہ تم سے ڈرتے ہیں اور تمہارے سامنے بات نہیں کر سکتے جو لوگ ہمارے جیسی قلیل اور بے کس جماعت سے ڈرتے اور خوف کھاتے ہیں وہ ہم سے مل کر کئی گنے طاقتور دشمنوں کا مقابلہ کس طرح کر سکتے ہیں؟ وہ تو صرف ایک ہی کام کر سکتے ہیں اور وہ یہ کہ تمہاری صفوں کو پراگندہ کریں، تمہاری چغل خوری اور عیب جوئی کریں اور تمہاری دشمنوں کے پاس خبر رسانی کریں.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے منافقوں کا کام یہی بیان فرمایا ہے فرماتا ہے: منافق تمہارے ساتھ شامل ہو جائیں تو سوائے اس کے کہ تمہارے اندر تفرقہ پیدا کریں اور دشمنوں کے پاس خبر رسانی کریں اور کیا کر سکتے ہیں؟ پس میرا یقین ہے کہ جماعت کی ترقی ان مخلصین کے وجود پر ہے کہ جب جب اور جس جس وقت انہیں مرکز کی طرف سے آواز سنائی دے وہ اس پر لبیک کہتے جائیں اور میں سمجھتا ہوں جب تک جماعت کے خیالات اس بارہ میں متفق نہ ہوں جماعت کے لوگ میری مدد نہیں کر سکتے.اگر اس خیال پر تم قائم نہیں ہو کہ تمہاری ترقی اخلاص کے ذریعہ ہے نفاق کے ذریعہ نہیں اور نہ تعداد کے ذریعہ تو تم لاکھوں نہیں کروڑوں نہیں اربوں روپیہ بھی میرے قدموں میں ڈال دو پھر بھی وہ میرے کام نہیں آسکتا کیونکہ وہ تو کل کا روپیہ نہیں بلکہ شرک کا روپیہ ہے اور شرک کا روپیہ کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا اس کے مقابلہ میں اُس شخص کا دیا ہوا ایک پیسہ بھی برکت کا موجب ہوسکتا ہے جو کہتا ہے کہ میں خدا کا ہوں اور خدا میرا ہے اور فتح صرف خدا دیتا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے سوا دنیا میں کوئی چیز نہیں اور تمام اشیا محض سایہ ہیں جو خدا کے ارادہ سے ادھر اُدھر نظر آتی ہیں اور جب وہ ارادہ ہٹالے تو کوئی حقیقت باقی نہیں رہتی.بعض دوستوں نے جو سلسلہ کے کارکن ہیں میرے گزشتہ خطبہ سے متاثر ہو کر مجھے لکھا ہے کہ ہماری تنخواہوں میں سے اتنا اتنا حصہ کاٹ لیا جایا کرے.میں ان دوستوں کے اخلاص کی تو قدر کرتا ہوں مگر انہیں توجہ دلاتا ہوں کہ : 318

Page 331

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقْتَلُ مِنْ وَرَآئِهِ خطبہ جمعہ فرموده 11 ستمبر 1936ء خالی قربانی کبھی کامیاب نہیں کرتی بلکہ وہ قربانی جو امام کے پیچھے اور اس کی اتباع میں کی جائے.بے شک مومن کو قربانیوں کے لئے ہر وقت تیار رہنا چاہئے مگر اُسے اس بات کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے کہ امام کی آواز سنے اور جب امام قربانیوں کے لئے بلائے اس وقت اپنی قربانی کا اظہار کرے.نماز کتنی اچھی چیز ہے جتنی لمبی نماز ہو جائے اتنا ہی اچھا ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی فرمایا کہ جو شخص امام سے پہلے حرکت کرتا ہے قیامت کے دن اس کا منہ گدھے کی طرح بنایا جائے گا اسی طرح اگر کوئی شخص نام کے تکبیر کہنے سے ایک منٹ پہلے نماز کی نیت باندھ لیتا ہے تو وہ ثواب حاصل نہیں کرتا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے مطابق قیامت کے دن وہ گدھے کی شکل میں اُٹھایا جائے گا پھر رکوع اور سجدہ دعا کیلئے کتنے اچھے مقام ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص امام سے پہلے رکوع یا سجدہ میں چلا جاتا ہے وہ غلطی کرتا ہے جب امام جھکے تب جھکنا چاہئے اور جب امام سر اُٹھائے اس وقت سر اٹھانا چاہئے.پس بے شک انہوں نے اخلاص دکھایا اور میں اس کی قدر کرتا ہوں اور ان کے لئے دعا کرتا ہوں لیکن ان کی خیر خواہی کے بدلہ میں ان سے یہ خیر خواہی کرتا ہوں کہ انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم بتا تا ہوں کہ جس وقت قومی قربانی کا سوال ہو اس وقت ہر شخص کو امام کی آواز کا انتظار کرنا چاہئے.ہاں جب انفرادی قربانی کا سوال ہو ہر شخص اپنے اخلاص کے اظہار کے لئے دوسروں سے آگے بڑھ سکتا ہے اور اسے بڑھنا چاہئے.در حقیقت امام کی غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ ایک جماعت بحیثیت جماعت قربانی کرے.افراد کی قربانی تو بغیر امام کے بھی ہو سکتی ہے.سپین کی نازک حالت میں جب مسلمانوں کی حکومت تباہ ہو رہی تھی عیسائیوں نے بعض شرائط پیش کیں کہ اگر مسلمان انہیں مان لیں تو ہم انہیں ملک سے نکل جانے کی اجازت دے دیں گے.بادشاہ نے اس کے متعلق مشورہ لینے کے لئے جب اپنے سرداروں کو بلایا تو انہوں نے کہا یہ بہت اچھی بات ہے کہ ان شرائط کو تسلیم کر لیا جائے ہمارے اندران کے مقابلہ کوئی طاقت نہیں.اگر وہ ہمیں افریقہ جانے دیں، کتب خانے ساتھ لے جانے دیں اور کسی قدر مال و دولت کے لے جانے میں بھی مزاحم نہ ہوں تو ہمیں اور کیا چاہئے؟ ان سرداروں میں ایک مسلمان جرنیل بھی تھا جب اُس نے یہ باتیں سنیں تو وہ کھڑا ہوا اور اس نے کہا: سوڈیڑھ سو سال سے ہماری حالت اس ملک میں کمزور ہوتی چلی 319

Page 332

خطبہ جمعہ فرمود : 11 ستمبر 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول آرہی ہے اور اس عرصہ میں بیسیوں معاہدے عیسائیوں سے ہوئے مگر کیا تم ایک معاہدہ بھی ایسا دکھا سکتے ہو جو انہوں نے پورا کیا ہو جب ایک معاہدہ بھی تم ایسا نہیں دکھا سکتے جو انہوں نے پورا کیا ہو بلکہ ہر معاہدہ کو انہوں نے توڑا ہے تو اب تم کس طرح اُمید کر سکتے ہو کہ وہ اس معاہدہ کی تمہارے لئے نگہداشت کریں گے؟ اس کا یہ کہنا تھا کہ باقی سب اس کے پیچھے پڑ گئے کہ یہ پاگل ہے، دیوانہ ہے، یہ نہیں سمجھتا کہ مصلحت کیا چیز ہوتی ہے، اتنی عمدہ شرطیں جب وہ پیش کر رہے ہیں تو ہمیں ضرور مان لینی چاہئیں اگر یہ شراکہ ہم منظور نہیں کریں گے تو چونکہ ہم کمزور ہیں اس لئے وہ شہر فتح کر کے اندر داخل ہو جائیں گے اور ہم سب کو ماردیں گے.جب انہوں نے مخالفت کی تو وہ جرنیل اس مجلس سے اٹھ کر چلا گیا اور اکیلا عیسائی فوج سے لڑا اور مارا گیا لوگوں نے سمجھا یہ ایک بے وقوف تھا جس نے اپنی بے وقوفی کی سزا پالی لیکن وہ بے وقوف نہیں تھا کیونکہ جب صلح ہوگئی اور مسلمانوں نے جہازوں میں عورتوں اور بچوں کو بھر دیا اور کتب خانوں کو بھی ساتھ لے لیا تو جس وقت وہ پین کو آخری الوداع کہہ رہے اور اپنے آنسوؤں کا ہدیہ اس کے سامنے پیش کر رہے تھے عیسائیوں نے یکدم حملہ کر کے ان کے جہازوں کو غرق کر دیا اور اس طرح وہ بزدل اور ذلیل ہو کر مرے لیکن دنیا اس جرنیل کو آج بھی یاد کرتی ہے جس نے بہادری سے اپنی جان دی اس کے مقابلہ میں ان ہزاروں جان دینے والوں پر رحم تو آتا ہے مگر ساتھ ہی دل کے گوشوں سے ان کے متعلق لعنت کی آواز بھی اٹھتی محسوس ہوتی ہے.پس اکیلا مر جانا اور قربانی کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دینا ہر وقت ہو سکتا ہے لیکن امام کی غرض چونکہ یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک جماعت تیار کرے اس لئے قربانیوں کا وہ آہستہ آہستہ مطالبہ کرتا ہے.بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اگر اسلام ایسی ہی قربانی چاہتا ہے جیسی آپ بیان کرتے ہیں تو کیوں اس وقت اس قربانی کا مطالبہ نہیں کیا جاتا.انہیں معلوم ہو جانا چاہئے کہ بے شک اسلام انتہائی قربانی چاہتا ہے مگر اسلام یہ بھی چاہتا ہے کہ کمزوروں کو اُٹھایا جائے اور انہیں بھی دوسروں کے پہلو بہ پہلو ترقی دی جائے اگر وقت سے پہلے ہی انتہائی قربانی کا مطالبہ کر لیا جائے تو ہزاروں لوگ جو بعد میں مومن ثابت ہو سکتے ہیں منافق بن جائیں جیسے اسلام کہتا ہے کہ خدا اور رسول کے دشمن تباہ ہو جاتے ہیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ مخالفت کرتے ہیں وہ فور انتباہ نہیں ہوتے بلکہ انہیں ایک عرصہ تک ڈھیل دی جاتی ہے قرآن مجید میں ہی بار بار کفار کا یہ اعتراض دہرایا گیا ہے کہ جب ہم مخالفت کرتے ہیں تو ہم مارے کیوں نہیں جاتے؟ اللہ تعالیٰ نے انہیں یہی جواب دیا ہے کہ ہم تمہیں ڈھیل دیتے ہیں شاید کسی وقت تم درست ہو جاؤ اور ہدایت پر آجاؤ.یہی حال انبیا کی جماعتوں کا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ انہیں آہستہ آہستہ قربانیوں کی طرف لاتا ہے تا جو گرنے والے ہیں وہ کم ہو جائیں اور بیچنے والے زیادہ ہوں.320

Page 333

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد اؤل خطبه جمعه فرموده 11 ستمبر 1936ء پس قربانی کا معیار اسی جگہ پہنچ کر رہے گا جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں پہنچا جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں پہنچا اور جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پہنچا مگر چونکہ کمزوروں اور ناطاقتوں کو اُٹھانا بھی ایمان کا حصہ ہے اس لئے امام کا فرض ہوتا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ قربانیوں کا مطالبہ کرے اور زیادہ سے زیادہ جماعت کو بچائے.پس جماعت کے تمام مخلصین کو اس دن کا انتظار کرنا چاہئے جب اگلی قربانی کا ان سے مطالبہ کیا جائے.بے شک اپنے دلوں میں فیصلہ انہیں آج سے ہی کر لینا چاہئے مگر عمل اسی دن ہونا چاہئے جس دن امام کی آواز ان کے کانوں میں پہنچے کیونکہ : الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقْتَلُ مِنْ وَرَآئِهِ اسی طرح بہت دوستوں نے میرے اس اعلان سے گھبرا کر تیسرے سال کے لئے وعدے کرنے شروع کر دیئے ہیں میں ان دوستوں کے اخلاص پر بھی جزاکم اللہ احسن الجزاء کہتے ہوئے ان کو تنبیہ کرتا ہوں کہ ابھی میری طرف سے تیسرے سال کی قربانیوں کا مطالبہ نہیں ہوا.ان کو کیا معلوم کہ میں پہلے سے اب کی دفعہ کس قدر زیادہ مطالبہ کروں گا؟ یا قربانی کا کس رنگ میں مطالبہ کروں گا ؟ پس ان کو بھی اس دن کا انتظار کرنا چاہئے جب تیسرے سال کی قربانیوں کے متعلق میری طرف سے اعلان ہو پھر جب اعلان ہو جائے تو اس کے مطابق وہ وعدے کریں فی الحال دوستوں کو اس کوشش میں لگ جانا چاہئے کہ جہاں جہاں جماعتوں نے وعدے پورے کرنے میں سستی دکھائی ہے وہاں کی جماعتوں کو سستی کے دور کرنے اور اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی طرف توجہ دلائیں.میری پہلی مخاطب جماعت قادیان ہے مگر مجھے معلوم نہیں کہ اس نے اپنے وعدوں کے پورا کرنے میں سنتی دکھائی ہے یا چستی؟ اگر انہوں نے چستی دکھائی ہے تو انہیں مزید چستی کی ضرورت ہے اور اگر انہوں نے سستی کی ہے تو انہیں اپنی ستی کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور پچھلے دونوں سالوں کے بقائے بھی ادا کرنے چاہئیں یہاں تک کہ نومبر میں جب تیسرے سال کی قربانیوں کے متعلق اعلان کیا جائے تو ان کی طرف سے کوئی بقایا نہ ہو اور وہ اپنے وعدوں کو پورا کر چکے ہوں.پھر ساتھ ہی میں دوستوں کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ تحریک جدید کے دوسرے حصوں کو بھی یا درکھنا چاہئے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جوں جوں اس تحریک پر جماعت کے لوگ عمل کرتے جا رہے ہیں کمزور اور منافق طبقہ گھبرارہا اور زیادہ سے زیادہ اعتراض کرتا جارہا ہے کہ فلاں نے یوں کیا اور فلاں نے یوں کیا حالانکہ جو شخص یہ کہتا ہے کہ فلاں نے یوں کیا اور فلاں نے یوں، وہی تو منافق ہوتا ہے 321

Page 334

خطبہ جمعہ فرموده 11 ستمبر 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول جب تک وہ یہ ثابت نہ کرے کہ اس نے کیا کیا؟ جو شخص اپنا سب کچھ قربان کر دیتا ہے اس کا حق ہے کہ وہ کہے باقی لوگوں نے کیا کیا؟ اور وہ کیا کرتے ہیں؟ بشر طیکہ یہ اعتراض جائز ہو کیونکہ بعض حالات میں بعض کے لئے قربانی کا زیادہ موقع ہوتا ہے اور بعض کے لئے کم اور حقیقت تو یہ ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی محبت کے حصول کے لئے قربانی کرنے والے ہوتے ہیں وہ اعتراض کم کرتے ہیں اور لوگوں کی اصلاح کی کوشش زیادہ کرتے ہیں.حدیثوں میں اس کی ایک مثال بھی آتی ہے حضرت ابو بکر ہمیشہ قربانی میں دوسروں سے بڑھے ہوئے رہتے مگر ان کو کبھی دوسروں کی قربانی دیکھ کر یہ خیال نہ آتا کہ وہ کم ہے لیکن کم قربانی کرنے والوں کو ضرور خیال آجاتا کہ ان کی قربانی زیادہ ہے.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کا مطالبہ کیا حضرت عمر نے کہا حضرت ابو بکر قربانی میں ہمیشہ بڑھ جاتے ہیں اب کی دفعہ میں انہیں شکست دوں گا.اس وقت تک حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی جو مالی قربانی تھی وہ نصف کے قریب نہیں پہنچی تھی اور جب بھی گھر سے مال لاتے نصف سے کم ہوتا.حضرت عمر نے کہا میں اب کے اپنا نصف مال لے جاؤں گا اور ان کو شکست دوں گا مگر جب وہ اپنے گھر کا نصف مال لئے چلے آرہے تھے تو انہوں نے دیکھا حضرت ابو بکر پہلے ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے ہوئے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس مال کو جو چندہ کے طور پر ابو بکر لائے تھے دیکھ کر حیرت کے ساتھ ان سے پوچھ رہے تھے کہ ابوبکر " کیا تم نے اپنے گھر میں بھی کچھ چھوڑا؟ اور حضرت ابو بکر جواب میں عرض کر رہے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول کا نام گھر میں باقی ہے اور تو کچھ نہیں.حضرت عمر نے جب یہ واقعہ دیکھا تو وہ کہنے لگے اس شخص کو شکست دینا ہمارے بس کی بات نہیں.اس واقعہ سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دو کمال ظاہر ہوتے ہیں: ایک یہ کہ وہ قربانی میں سب سے آگے بڑھ گئے اور دوسرے یہ کہ باوجود اپنا سارا مال لانے کے پھر سب سے پہلے پہنچ گئے اور جنہوں نے تھوڑا دیا تھا وہ اس فکر میں ہی رہے کہ کتنا گھر میں رکھیں اور کتنالا ئیں ؟ مگر باوجود اس کے حضرت ابو بکر کے متعلق یہ کہیں نہیں آتا کہ انہوں نے دوسروں پر اعتراض کیا ہو.حضرت ابو بکر قربانی کر کے بھی یہ سمجھتے تھے کہ ابھی خدا کا میں دین دار ہوں اور میں نے کوئی اللہ تعالیٰ پر احسان نہیں کیا بلکہ اس کا احسان ہے کہ اس نے مجھے خدمت کی توفیق دی لیکن منافق خود تو کوئی قربانی نہیں کرتا البتہ دوسروں کی قربانیوں پر اعتراض کرتا چلا جاتا ہے، وہ گالیاں دیتا ہے اور جب اُسے کہا جائے کہ گالی مت دو تو وہ کہتا ہے فلاں نہیں گالی دیتا؟ وہ چغلی کرتا ہے اور جب اُسے کہا جائے کہ چغلی مت کرو تو وہ کہتا ہے کیا فلاں چغلی نہیں کرتا؟ اور باوجود اس شدید عیب کے وہ سمجھتا ہے کہ وہ صلح ہے اور دعوی کرتا ہے کہ وہ دین دار ہے اسی طرح 322

Page 335

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 11 ستمبر 1936ء وہ چندے میں سستی کرتا ہے اور جب اُسے کہا جائے کہ ستی مت کرو تو وہ کہتا ہے کیا فلاں شخص چندہ دینے میں ستی نہیں کرتا؟ اور اکثر اوقات جب وہ کہتا ہے کہ فلاں شخص چندہ دینے میں ستی نہیں کرتا، وہ جھوٹ بول رہا ہوتا ہے اور محض اپنے آپ کو بچانے کے لئے دوسروں کو عیب سے ملوث کرتا ہے.ایک دفعہ ایک شخص نے میرے متعلق ایک اعتراض چھپوایا ، وہ منافق کی مثال نہیں بلکہ دشمنوں میں سے ایک شخص کی مثال ہے اور گو منافقوں کی مثالیں بھی میں دے سکتا ہوں مگر شاید اس طرح ان کا نام ظاہر ہو جائے جو ابھی میں ظاہر کرنا نہیں چاہتا، کہ انہوں نے خلافت سے بہت ساروپیہ کمایا ہے.چنانچہ ان کو صرف جلسہ سالانہ پر پچاس ہزار روپیہ نذر کا آتا ہے.ایک دوست نے جب مجھے یہ اعتراض سنایا تو میں نے انہیں کہا اُسے کہہ دیں کہ وہ آکر ٹھیکہ لے لے اور جتنا روپیہ نذر کا اکٹھا ہو اُس میں سے نو حصے آپ رکھ لیا کرے اور ایک حصہ مجھے دے دیا کرے.گو اس ایک حصہ میں سے بھی بہت سا روپیہ میں جماعت کے کاموں پر ہی خرچ کروں گا مگر پھر بھی مجھے اس ٹھیکہ میں نفع رہے گا.پس اُسے کہو کہ وہ اس شرط پر ٹھیکہ لے لے کہ وہ پانچ ہزار تو مجھے دے دیا کرے اور جس قدر نذرانہ آئے وہ خود کھ لیا کرے میں سمجھتا ہوں کہ اس کا اکثر حصہ دینی ضروریات پر خرچ کر کے پھر بھی مجھے نفع ہی رہے گا.غرض منافق اور دشمن ہمیشہ اپنے پاس سے باتیں بیان کرنی شروع کر دیتے ہیں اور کئی دوست انہیں سُن کر گھبرا جاتے ہیں اور کہنے لگ جاتے ہیں کہ فلاں کی نسبت وہ یہ کہتا تھا اور فلاں کی نسبت یہ.بھلا جو خدا سے اخلاص نہیں رکھتا وہ اپنے بھائی سے کیا اخلاص رکھ سکتا ہے؟ حضرت خلیفہ اسیح اول سنایا کرتے تھے کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا مجھے بخاری لے دیں.فرمانے لگے میں نے اُسے کہا کہ مجھے اس وقت توفیق نہیں.وہ کہنے لگا یہ بھی کوئی بات ہے کہ آپ کو توفیق نہ ہو آپ صاف طور پر یہی کہہ دیں کہ میں لے کر نہیں دینا چاہتا.فرمانے لگے کیوں؟ وہ کہنے لگا سیدھی بات ہے حضرت مرزا صاحب کے دو تین لاکھ مرید ہیں اگر وہ مرزا صاحب کو ایک ایک روپیہ نذرانہ دیتے ہوں تو دولاکھ روپیہ نذرانہ کا انہیں آجاتا ہوگا اور اگر وہ چاہے چار آنے بھی آپ کو نذرانہ دیں تو پچاس ہزار روپیہ نذر کا تو آپ کو ہر سال مل جاتا ہوگا.حضرت خلیفہ اسیح الاول فر ماتے ہیں کہ میں نے اسے کہا پہلے تم بتاؤ کہ آج تک تم نے مجھے کتنی چونیاں دی ہیں؟ جس قدرتمہاری طرف سے چونیاں پہنچی ہیں وہ گنا دو اور پھر اس پر دوسروں کا قیاس کر لو.اس پر وہ خاموش ہو کر چلا گیا.تو منافق آدمی ہمیشہ دوسروں کے متعلق بے بنیاد باتیں کرتا رہتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں 323

Page 336

خطبہ جمعہ فرموده 11 ستمبر 1936ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول یوں ہے اور فلاں ہوں.پس ان کی باتوں سے گھبرانا نہیں چاہئے اور نہ ان کی پروا کر نی چاہئے کیونکہ کوئی معقول وجہ ایسی نہیں ہوتی جس کی بنا پر سمجھا جا سکے کہ واقعہ میں ہمارا فلاں بھائی ایسا ہے.وہ صرف اپنا پہلو بچانے کے لئے اعتراض کرتا ہے اور اس کی غرض محض اپنے آپ سے اعتراض کو دور کرنا ہوتا ہے اور یہی علامت منافق کی ہے ورنہ کیا یہ جواب دینے سے کہ چونکہ فلاں شخص نجاست پر منہ مارتا ہے اس لئے میں بھی ایسا کرتا ہوں کوئی شخص بری الذمہ سمجھا سکتا ہے؟ مثل مشہور ہے کہ کسی شخص نے دوسرے سے برتن مانگا مگر دیر تک واپس نہ کیا ایک دن یہ اس کے گھر گیا تو دیکھا کہ وہ اس برتن میں ساگ کھا رہا ہے.یہ کہنے لگا چودھری یہ بات تو اچھی نہیں کہ تم نے میرا برتن لیا مگر اُسے واپس نہ کیا اور اب اس میں ساگ کھا رہے ہو میرا نام بھی تم بدل دینا اگر میں تمہارے برتن میں جا کر پاخانہ نہ کھاؤں.ان منافقوں کا جواب اگر واقعات کے لحاظ سے درست ہو تب بھی اس کی حیثیت اس جواب سے زیادہ نہیں ہے.بھلا یہ بھی کوئی جواب ہے کہ میں اگر جھوٹ بولتا ہوں تو فلاں بھی جھوٹ بولتا ہے، میں اگر فریب کرتا ہوں تو فلاں بھی فریب کرتا ہے، میں اگر غداری کرتا ہوں تو فلاں بھی غداری کرتا ہے، میں اگر بدکاری کرتا ہوں تو فلاں بھی بدکاری کرتا ہے.گویا چونکہ دوسرا شخص بھی جھوٹ بولتا، فریب کرتا، غداری کرتا اور بدکاری کا مرتکب ہوتا ہے اس لئے جھوٹ جھوٹ نہ رہا، فریب قریب نہ رہا، غداری غداری نہ رہی اور بدکاری بدکاری نہ رہی.غرض یہ یقینی بات ہے کہ جوں جوں جماعت قربانی میں ترقی کرے گی منافق چونکہ ساتھ نہیں چل سکے گا اس لئے وہ شور مچانے لگ جائے گا کہ یہ بھی ناجائز ہے اور وہ بھی ناجائز مگر جماعت کو ادھر اُدھر نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ سیدھا اپنے منزل مقصود کی طرف بڑھتے چلے جانا چاہئے.1913ء میں میں نے رؤیا دیکھا کہ دو پہاڑ ہیں جن کی ایک چوٹی سے دوسری چوٹی کی طرف میں جانا چاہتا ہوں وہ پہاڑ ایسے ہی ہیں جیسے صفا اور مروہ لیکن صفا اور مروہ کے درمیان جو جگہ تھی وہ تو اب پاٹ گئی ہے مگر خواب میں جو دو پہاڑ میں نے دیکھے ان کے درمیان جگہ خالی تھی جب میں ایک چوٹی سے دوسری چوٹی کی طرف جانے لگا تو مجھے ایک فرشتہ ملا اور کہنے لگا جب تم دوسری چوٹی کی طرف جانے لگو گے تو راستہ میں تمہیں بہت سے شیطان اور جنات ڈرا ئیں گے اور تمہاری توجہ اپنی طرف پھرانا چاہیں گے مگر باوجود اس کے کہ وہ ہر رنگ میں تمہیں ڈرائیں تمہیں اپنی طرف متوجہ کرنا چاہیں تم اُن کی طرف نہ دیکھنا اور یہی کہتے جانا کہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ “ ، ”خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ، اس کے بعد میں جب چلا تو راستے میں میں نے دیکھا کہ وسیع جنگل ہے جس میں عجیب عجیب شکلیں نکل نکل کر مجھے ڈرانا او 324

Page 337

یک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبه جمعه فرموده 11 ستمبر 1936ء چاہتی ہیں.کہیں ہاتھی نکلتے ہیں اور وہ مجھے ڈراتے ہیں، کہیں چیتے نکلتے ہیں اور مجھے ڈراتے ہیں، کہیں خالی سر آ جاتے ہیں اور مجھے خوف زدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کہیں بغیر سروں کے دھڑ آجاتے ہیں.غرض عجیب عجیب رنگوں اور عجیب عجیب شکلوں میں وہ مجھے ڈراتے اور میری توجہ اپنی طرف پھرانا چاہتے ہیں مگر جب میں کہتا ہوں ” خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ تو وہ سب شکلیں غائب ہو جاتی ہیں.غرض اسی طرح میں چلتا چلا گیا.یہاں تک کہ منزلِ مقصود پر پہنچ گیا.تو در حقیقت اس قسم کے لوگوں کی باتوں کو سن کر اس فکر میں پڑ جانا کہ فلاں نے فلاں پر یہ اعتراض کیا ہے فضول بات ہے.مومن کا کام یہ ہے کہ جب وہ اس قسم کی کوئی بات سنے تو ذمہ دار لوگوں تک اسے پہنچا دے مگر یہ کہ منافق جن لوگوں پر الزام لگائے ان الزامات کی تحقیق کی جائے یہ بے وقوفی کی بات ہے.اگر واقعہ میں انہیں کوئی اعتراض ہے اور وہ منافق نہیں تو کیوں وہ اس طریق کو اختیار نہیں کرتے جو شریعت نے مقرر کیا ہے؟ گھروں میں بیٹھ کر باتیں کرنے اور دوسروں پر اعتراض کرنے کا مطلب ہی کیا ہے؟ پس ہر دوست کو اس طرف سے بالکل آنکھیں بند کر کے فیصلہ کر لینا چاہئے کہ میں ہی ہوں جس نے یہ کام کرنا ہے خواہ میرے بیوی، بچے ، عزیز، دوست اور رشتہ دار سب مجھے چھوڑ دیں، مجھے ان کی کوئی پروانہیں میں خود اس کام کو کروں گا اور جب دوست اس قسم کا پختہ ارادہ کر لیں گے تو خود بخود کام میں سہولتیں پیدا ہوتی چلی جائیں گی.اب تک جو کام ہوا ہے کیا وہ ہماری تدبیروں کا نتیجہ ہے؟ میں تو جب اس زمانہ کی جماعت پر نگاہ دوڑاتا ہوں جب خلافت کا کام خدا تعالیٰ نے میرے سپرد کیا اور آج کی جماعت کو دیکھتا ہوں تو میں خود جس کے ہاتھ سے یہ سب کام ہوا اپنے ذہن میں اسے ایک خواب سمجھتا ہوں.آج ہماری طاقت خدا تعالیٰ کے فضل سے پہلی طاقت سے سینکڑوں گنے زیادہ ہے، آج خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم سینکڑوں گنے زیادہ وسیع علاقہ میں پھیلے ہوئے ہیں اور وہ بیسیوں تو میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام بھی نہیں جانتی تھیں آج خدا تعالیٰ کے فضل سے ان میں ہماری جماعتیں قائم ہیں.پس میں تو اس ترقی پر جب نگاہ ڈالتا ہوں مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا ایک خواب ہے اور میری اس حالت کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے وہ رات دیکھی ہے جس سے پہلے دن حضرت خلیفہ اسی الاول رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی اس رات مولوی محمد علی صاحب نے ایک ٹریکٹ تمام جماعت میں تقسیم کیا جس میں لکھا تھا کہ آئندہ کسی خلیفہ کی کوئی ضرورت نہیں صرف ایک پریذیڈنٹ ہونا چاہئے اور وہ بھی چالیس سال سے اوپر کی عمرکا اور پھر وہ بھی ایسا جو غیر احمدیوں کو کافر نہ کہتا ہو.ادھر ہمیں یہ نظر آتا تھا کہ جماعت کی کنجی ان کے ہاتھ میں ہے، 325

Page 338

خطبہ جمعہ فرموده 11 ستمبر 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول سارے عہدے ان کے قبضے میں ہیں اور خزانہ بھی انہی کے ماتحت ہے اور اس پر بھی انہی کا قبضہ ہے.وہ رات جنہوں نے قادیان میں گزاری ہے وہ جانتے ہیں کہ جماعت کیسی خطرناک حالت میں سے گزری ہے، اس وقت جماعت کی حالت بالکل ایسی ہی تھی جیسے پانی پر ایک بلبلہ ہو اور اچانک ایک تیز آندھی اُسے مٹانے کے لئے آجائے ، ایک تیز آندھی کے مقابلہ میں بلبلے کی کیا حیثیت ہوا کرتی ہے؟ ہر شخص اس کا اندازہ آسانی سے لگا سکتا ہے.بلبلہ تیز آندھی کے مقابلہ میں ایک بالکل بے حقیقت سے ہوتا ہے مگر کوئی کیا جانتا تھا کہ یہی بلبلہ ایک دن گنبد خضرا بننے والا ہے اور آسمان کی طرح دنیا پر چھا جانے والا ہے.بلبلہ بلبلہ ہی تھا اور طوفان طوفان ہی تھا مگر اس بلبلہ کے اندر جو ہوا بھری ہوئی تھی وہ معمولی ہوانہ تھی بلکہ خدا کی روح تھی وہ بڑھی ، وہ ترقی پائی، وہ مضبوط ہوئی یہاں تک کہ ایسی چھت بن گئی جس کے نیچے ساری قوموں نے آرام پایا.پس کون ہے جو مومن کو ڈرا سکے؟ کون ہے جو اُ سے خائف کر سکے؟ کہ مومن کی طاقت اس کے نفس سے نہیں آتی بلکہ اس کے خدا کی طرف سے آتی ہے.ایک تلوار جو خالی پڑی ہوئی ہو وہ ایک بچہ کو بھی زخمی نہیں کر سکتی لیکن ایک معمولی سی چھڑی مضبوط انسان کے ہاتھ میں جا کر دوسرے انسان کا سر بھی تو ڑسکتی ہے.پس دنیا کے سامانوں سے مت ڈرو اور اس کی تکلیفوں کا مست خیال کرو تم میں سے ہر فرد واحد کا معامله براه راست خدا تعالیٰ سے ہے.پس اپنے دل میں عہد کرو کہ ہم اس آخری زمانہ کے مصلح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دنیا کی اصلاح کریں گے اور بیوی بچوں ، ہمسایوں، دوستوں ، رشتہ داروں اور ملنے والوں کی کوئی پرواہ نہ کریں گے اور جس جس قربانی کے لئے بلایا جائے گا اس کے لئے آمادہ ہوں گے.جب تم ایسا کرو گے تو تمہارا معاملہ خدا سے صاف ہو گیا: لَا يَضُرُّكُم مِّنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ ( المائدة : 106) جب تم ہدایت پاگئے تو دوسرے کی گمراہی تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی.خدا تعالیٰ کے سامنے تم دنیا کے ذمہ دار نہیں بلکہ صرف اپنی جان کے ذمہ دار ہو.جب تم اپنی جان خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کر دو گے اور کہہ دو گے کہ اے خدا! ہم نے تیرے لئے اور تیرے دین کی اشاعت کے لئے اپنی جان بھی قربان کر دی آگے لوگوں کی اصلاح ہوئی یا نہیں یہ تیرا کام تھا ہمارا نہیں تو تم اپنے فرض سے سبکدوش سمجھے جاؤ گے اور تم پر کوئی الزام نہیں ہوگا مگر یاد رکھو! اگر انسان خدا تعالیٰ کے لئے اپنی جان دینے کے لئے تیار ہو جائے تو ناممکن ہے کہ دنیا کی اصلاح نہ ہو.زمین مل سکتی ہے، آسمان مل سکتے ہیں، پہاڑ غائب ہو سکتے ہیں، دریا خشک ہو سکتے ہیں، سمندر بھاپ بن کر اڑ سکتے ہیں، تمام عالم تہ و بالا کیا جا سکتا ہے مگر مومن کی 326

Page 339

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 11 ستمبر 1936ء قربانی کو خدا کبھی ضائع ہونے نہیں دیتا ، اس کے دل سے بہا ہوا ایک قطرہ خون سارے زمین آسمان سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے.چاہے تم اس دنیا میں کامیابی دیکھو چاہے اگلے جہان میں آسمان پر سے جھانک کر دیکھو.بہر حال تمہاری قربانیاں ضائع نہیں ہوں گی.دنیا کی اصلاح ہو کر رہے گی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مشن دنیا میں قائم ہو کر رہے گا اور تم خدا کی گود میں ہنستے ہوئے کہو گے کہ ہمارا تھوڑا سا خون دنیا میں کتنے عظیم الشان تغیرات پیدا کرنے کا موجب ہوا.آج اسلام تباہی کی حالت میں گرا ہوا ہے مگر صدیوں تک اسلام نے دنیا میں نہایت نیک اور مہتم بالشان تغیر پیدا کئے ہیں.وہ دو دو چار چار روپے کی حیثیت کے صحابہ" جن کے جسم پر کپڑے بھی کافی نہیں ہوتے تھے اور جن کے پیٹ میں روٹی نہیں ہوتی تھی وہ کس اعلیٰ مقام کو پہنچے؟ جس وقت اگلے جہان میں خدا ان کی روحانی بینائی کو تیز کرتا ہوگا اور گزشتہ صدیوں میں جب وہ آسمان پر سے جھانک کر دیکھتے ہوں گے کہ کس طرح دنیا میں یورپ سے لے کر چین کے کناروں تک مسلمان خدا کا نام پھیلانے میں مصروف ہیں تو ان کے دل کس قدر خوشیوں سے بھر جاتے ہوں گے اور وہ کس کس رنگ میں مزے نہ لیتے ہوں گے کہ ہماری چھوٹی چھوٹی قربانیاں دنیا میں کتنا عظیم الشان تغیر پیدا کر گئیں اور ہمارا بویا ہوا چھوٹا سا پیچ کیسا عظیم الشان درخت بن گیا.یہی حال آئندہ ہونے والا ہے.ہمارے زمانہ میں یہ باتیں آئیں یا نہ آئیں مگر یہ آکر رہیں گی اور اگر اس دنیا میں ہم نے ان اُمور کو پورا ہوتے نہ دیکھا تو ہم آسمان پر سے دنیا کو جھانکیں گے اور دنیا کے تغیرات کو دیکھ کر کہیں گے کہ خدا نے سب کچھ ہمارے ہاتھوں سے کرایا.اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ہم نے تجھ سے جو وعدے کئے ہیں ان وعدوں میں سے بعض تیری زندگی میں پورے کر دیں گے اور بعض تیری وفات کے بعد پورے کریں گے.یہی حال مومن کا ہوتا ہے وہ کچھ اُمور کو پورا ہوتے اپنی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے اور کچھ اُمور کے پورا ہونے کو آسمان پر سے جھانک کر دیکھتا ہے اور میں سمجھتا ہوں دنیا کے دیکھنے سے آسمان پر سے دیکھنا کچھ کم حیثیت نہیں رکھتا بلکہ دنیا میں انسان جب ان اُمور کو دیکھتا ہے تو اس کے ساتھ بہت سے خطرات بھی لگے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ آئندہ کے حال سے بھی ناواقف ہوتا ہے لیکن آسمان پر بیٹھی ہوئی روح مستقبل سے بھی واقف کی جاتی ہے اور وہ جانتی ہے اس وسعت کو جو اس کا لگایا ہوا درخت دنیا میں حاصل کر رہا ہو.پس اپنی ذات کا معاملہ خدا سے درست کر لو دنیا کا معاملہ خدا تعالیٰ خود درست کر دے گا کیوں کہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے مومن کی قربانی کبھی ضائع نہیں ہوتی ، ضائع نہیں ہو سکتی اور ضائع نہیں کی جاتی.“ مطبوع الفضل 19 ستمبر 1936ء) 327

Page 340

Page 341

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 19 ستمبر 1936ء امرالہی قربانیوں سے ہی حاصل ہوتا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 19 ستمبر 1936ء اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ (البقرة:250) جب اللہ تعالیٰ کا امر حاصل ہو جائے جو قربانیوں سے ہی حاصل ہوتا ہے تو پھر ترقی کے رستہ میں کمی تعداد روک نہیں بن سکتی اس لئے میں نے تحریک جدید میں ہر قسم کی قربانیاں رکھی ہیں مگر مجھے افسوس ہے کہ کئی لوگ کھانے پینے اور لباس کے معاملہ میں اس کی پوری طرح پابندی نہیں کرتے ، زیورات بنوانے کے معاملہ میں بعض عورتیں اُس پر عمل کرنے میں کوتاہی کرتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ جماعت ابھی تک ان قربانیوں کو پیش نہیں کر سکی جن کی ضرورت ہے کیونکہ جب انسان کے پاس ہے ہی کچھ نہیں تو وہ قربانی کیا کرے گا؟ اگر تمہارے جسم کے اندر روح موجود ہے تو تم جان کی قربانی پیش کر سکتے ہو مگر جب روح ہی نہیں تو جان کی قربانی کے کیا معنی؟ اسی طرح جو شخص اقتصاد کی مدد سے کچھ رقم پس انداز نہیں کرتا وہ مالی قربانی کس طرح کر سکے گا؟ اور جو شخص جلد جلد کام کرنے کا عادی نہیں وہ وقت کی قربانی کس طرح کر سکتا ہے؟ وقت کی قربانی وہی کر سکتا ہے جو جلد کام کرنے کا عادی ہو ، جان کی وہی قربانی کر سکتا ہے جس کے پاس جان ہو اور مالی قربانی وہی کر سکتا ہے جس نے محنت سے کام کیا ہو اور پھر اقتصاد سے کچھ بچایا بھی ہو.پس جب تک تحریک جدید کے سارے حصوں پر عمل نہیں ہوتا اور ہر ایک مطالبہ کو مد نظر نہیں رکھا جاتا اس وقت تک ہم ترقی کے میدان میں نہیں اتر سکتے.یاد رکھو! کہ منہ کی قربانی کسی کام کی نہیں قربانی وہی ہے جو حقیقی معنوں میں ہو.منہ کی قربانی کی تو وہی مثال ہے سو گز واروں ایک گز نہ پھاڑوں اور اس سے اسلام کو یا دین کو قطعاً کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.“ مطبوع الفضل 26 ستمبر 1936ء) 329

Page 342

Page 343

تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 25 ستمبر 1936ء دشمنوں کے سارے حملوں کا علاج تحریک جدید میں موجود ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 25 ستمبر 1936ء ”میرے نزدیک اس زمانہ میں صحیح طریق جذبات کے اظہار کا یہ ہے کہ ایسے موقعوں پر جماعت کے دوستوں کو تحریک جدید کی طرف توجہ دلائی جائے.دشمنوں کے سارے حملوں کا علاج تحریک جدید میں موجود ہے.پس انہیں بتایا جائے کہ جس قدر کرنے والی باتیں ہیں وہ تمہارے امام نے تمہیں بتادی ہیں کیا تم نے ان باتوں پر عمل کر لیا؟ اگر کیا ہے تو اور کرو اور اگر نہیں کیا تو ان پر جلدی عمل کرو کہ انہی باتوں میں ان تمام فتن کا علاج ہے.پس تحریک جدید کے مختلف پہلو جو قربانیوں کے ہیں انہیں لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے اور انہیں توجہ دلائی جائے کہ جنہوں نے ابھی تک اس تحریک پر عمل نہیں کیا وہ عمل کریں.یہ ایک صحیح ذریعہ قربانی پیش کرنے کا ہوگا مگر اس قربانی کا دعوی کرنا جس قربانی کا مطالبہ ہی نہ ہو پا جس قربانی کی نوعیت پر خود بھی غور نہ کیا ہو انسان کو نکما بنا دیتا ہے اور اس کے دل پر زنگ لگا دیتا ہے.ایک شخص جو جانتا ہی نہیں کہ کیا کریں گے؟ وہ اگر کہتا ہے ہم مر جائیں گے ، ہم مٹ جائیں گے، ہم مٹادیں گے، ہم ہلا دیں گے، ہم دکھا دیں گے، ہم بتا دیں گے تو وہ بے ہودہ اور لغو دعوے کرتا ہے.وہ نہ خود جانتا ہے کہ کس طرح ہلا دیں گے اور نہ وہ جانتے ہیں جو اس کی تقریر سُن رہے ہوتے ہیں کہ کس طرح ہلا دیں گے؟ صرف اپنے ہی دل میں وہ دونوں ہل رہے ہوتے ہیں.تو صحیح طریقہ یہ ہے کہ تمہارے سامنے جو پروگرام رکھا گیا ہے اور جو تمہارے امام نے تمہارے سامنے پیش کیا ہے اس پر عمل کرو اور لوگوں کو بتاؤ کہ یہ حملے اس لئے ہورہے ہیں کہ تم سکیم کے فلاں فلاں حصے پر عمل نہیں کرتے پھر اس حصہ کے متعلق دلائل دو اس کی تفصیلات بیان کرو، اس کے نتائج اس کی خوبیاں اور اس کے اثرات واضح کرو اور لوگوں کو توجہ دلاؤ کہ جب وہ قربانیوں کے لئے تیار ہیں تو کیوں تحریک جدید کے ماتحت قربانیاں نہیں کرتے ؟ یہ وہ قربانی کی تحریک ہے جو جائز اور مفید ہے.پس ایک مفصل سکیم تمہارے سامنے موجود ہے اس سے فائدہ اٹھاؤ خالی جذبات کے اظہار کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا.پس یہاں کا جلسہ ریزولیوشن اور اظہار اخلاص کی حد تک جائز ، مفید اور موجب ثواب تھا لیکن اس سے زائد اگر کوئی خالی وعدے کئے گئے ہیں تو وہ بے فائدہ تھے.قربانی کے لئے 331

Page 344

اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 25 ستمبر 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول - تمہارے سامنے ایک سکیم موجود ہے.اس پر عمل کرو اور لوگوں کو بھی توجہ دلاؤ کہ وہ اس کے مطابق اپنی زندگیاں بنا ئیں.اس کا دینی فائدہ بھی ہوگا، دنیوی فائدہ بھی ہوگا اور پھر ثواب الگ رہا جو تحریک کرنے والوں کو ملے گا..66 ( مطبوع الفضل 3 اکتوبر 1936ء) 332

Page 345

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اوّل اقتباس از خطبه جمعه فرموده 9 اکتوبر 1936ء مالی قربانی اور سادہ زندگی کی طرف خاص توجہ کی جائے خطبہ جمعہ فرموده 19اکتوبر 1936ء و تحریک جدید کا دوسرا سال عنقریب ختم ہونے والا ہے اور تیسرے سال کے متعلق چند ہفتوں تک انشاء اللہ اعلان ہونے کو ہے اس لئے پھر ایک دفعہ میں ان دوستوں کو جو اخلاص و تقویٰ کے ساتھ سلسلہ سے تعلق رکھتے ہیں ان کے فرائض کی طرف متوجہ کرتا ہوں..."" 66 میں نے شروع میں ہی بتایا تھا کہ تحریک جدید کے متعلق منافقوں میں چہ مگوئیاں ہوں گی کیونکہ منافق زیادہ قربانیوں کی برداشت نہیں کر سکتا.مثلاً منافق کہیں گے کہ انجمن کی مالی حالت اس قدر خراب ہے اور اس پر تحریک جدید کے چندے اسے اور بگاڑ رہے ہیں.چنانچہ مجھے ابھی بعض لوگوں کی نسبت جو معزز اور باوقار سمجھے جاتے ہیں اور جنہیں لوگ معتبر اور دیانت دار خیال کرتے ہیں اطلاع ملی ہے کہ وہ اپنی مجلس میں ذکر کر رہے تھے کہ اس زمانہ میں تحریک جدید کو جاری کر کے انجمن کی مالی حالت اور خراب کر دی گئی ہے کیونکہ اس کی وجہ سے لوگ عام چندے ادا نہیں کر سکتے.ان کا پہلا جھوٹ تو انجمن کے رجر دیکھنے سے معلوم ہوسکتا ہے کیونکہ رجسٹروں سے پتہ چلتا ہے کہ انجمن کی آمد آگے سے زیادہ ہے اگر قرضہ ہے تو اس وجہ سے کہ اخراجات آمد کی زیادتی سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں اس لئے نہیں کہ آمد پہلے سے کم ہو گئی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ قریب کے سالوں میں عموماً جھٹ پٹ آمد میں کمی آنے لگتی تھی مگر اب متواتر کئی سال سے آمد ایک ہی سطح پر قائم ہے.اِلَّا مَا شَاءَ اللہ کسی ہفتہ یا مہینہ میں کوئی کمی ہو کیونکہ جو لوگ قربانی کے عادی ہو جاتے ہیں وہ زیادہ سے زیادہ قربانی کرتے ہیں اس لئے تحریک جدید نے آمد میں کمی نہیں کی بلکہ زیادتی کی ہے یا کم سے کم ایک ہی سطح پر قائم کر دیا ہے.پھر جیسا کہ میں نے جلسہ سالانہ پر اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا تحریک جدید طوعی ہے اس میں حصہ لینے کے لئے کسی کو مجبورنہیں کیا جا تا بلکہ انہی سے اس کا چندہ لیا جاتا ہے جو خوشی سے 333

Page 346

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 9 اکتوبر 1936ء تحریک جدید- ایک الہبی تحریک....جلد اول کریں اور انجمن کے چندے بھی باقاعدہ ادا کریں بلکہ گزشتہ سال کئی لوگوں نے یہ بات پیش کی کہ ہم نے تحریک جدید کا وعدہ لکھایا تھا مگر اس وقت ہمیں اپنی طاقت کا علم نہ تھا اب ہم محسوس کرتے ہیں کہ اگر تحریک جدید کا چندہ ادا کریں تو انجمن کے چندے ادا نہیں کر سکیں گے اس لئے ہمیں تحریک جدید کا چندہ معاف کر دیا جائے تو ان کا تحریک جدید کا چندہ معاف کر دیا گیا مگر منافق کے لئے ان دلائل کا بیان کرنا فضول ہے کیونکہ منافق کو دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی.وو پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وقت کم ہے اس لئے مالی بھی اور دوسری قربانیاں کرنے کی طرف بھی پوری پوری توجہ کریں خصوصاً سادہ زندگی کی طرف زیادہ توجہ کریں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سادہ زندگی کی ہدایت پر عمل کرنے میں کچھ نقص ہے ورنہ اتنا اثر چندوں پر نہ پڑتا کیونکہ سادہ زندگی سے اخراجات میں جو کمی آنی چاہئے چندوں کا بوجھ اس سے کم ہے اس لئے چاہئے تو یہ تھا کہ دوستوں کے پاس کچھ روپیہ جمع ہوتا مگر ایسا نہیں ہوا.سادہ زندگی کی تحریک کوئی معمولی نہیں بلکہ دراصل دنیا کے آئندہ امن کی بنیا داسی پر ہے.جب تک جماعت احمدیہ قائم رہے گی تحریک جدید بھی کسی نہ کسی شکل میں چلتی رہے گی.ممکن ہے چندہ کی شکل چند سالوں تک ختم ہو جائے اور میں کوشش کر رہا ہوں کہ آمد کی مستقل صورت پیدا ہو جائے اور یہی وجہ ہے کہ آمد کا معتد بہ حصہ میں سلسلہ کے لئے جائیداد بنانے پر لگا رہا ہوں تا اس کی آمد سے کام چلائے جاسکیں اور چندوں کی ضرورت صرف وقتی کاموں کے لئے ہی رہے لیکن اس تحریک کے جو دوسرے حصے ہیں وہ کبھی ختم نہیں ہو سکتے خصوصاً سادہ زندگی کی تحریک بہت ضروری ہے یہی ہے جو امیر و غریب کا امتیاز مٹاتی ہے.مغربی اور مشرقی و شہری اور دیہاتی تمدن میں سوائے اس کے کیا فرق ہے کہ گاؤں کے امیر کی زندگی بھی سادہ ہوتی ہے مگر شہروں میں ایسا نہیں.ایک گاؤں میں دوسوا یکڑ زمین کے مالک کا تمدن بھی ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ دوا یکٹر زمین کے مالک کا اور وہ دونوں دارے میں اکھٹے بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں.ور.اس تحریک سے میری غرض یہ ہے کہ دو آدمیوں میں جو فرق ہے یعنی ایک اپنے کو آدمی سمجھتا ہے اور دوسرا فرعون ، اسے مٹا دیا جائے اور دونوں ہی آدمی بن جائیں.حضرت خلیفہ اول کا ایک لطیفہ مجھے یاد ہے آپ رضی اللہ عنہ کے پاس بعض شاگرد بھی بیٹھے رہتے تھے اور شاگردوں میں سے بھی بعض اپنے کو بڑا سمجھ لیا کرتے ہیں.بعض اوقات آپ کسی مریض کو دوالگانے کے لئے فرماتے کہ کوئی تنکا 334

Page 347

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 9 اکتوبر 1936ء وغیرہ لاؤ یا کوئی اور کام بتاتے تو بعض دفعہ اگر وہی شاگر د موجود ہوتے جو اپنے آپ کو بڑا سمجھتے تھے تو وہ بیٹھے رہتے اور آپ جب پھر دریافت فرماتے کہ فلاں چیز ابھی آئی یا نہیں؟ تو وہ کہہ دیتے کہ حضور کوئی آدمی آتا ہے تو منگوالیتے ہیں.اس پر آپ رضی اللہ عنہ فرماتے کہ تھوڑی دیر کے لئے آپ ہی آدمی بن جائیں.تو زندگی کے سادہ نہ ہونے کی وجہ سے کچھ آدمی آدمی نہیں رہے بلکہ بعض آدمیت سے نکل گئے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ سارے ہی آدمی بن جائیں اس لئے یہ تحریک ہمیشہ جاری رہے گی ورنہ مذہب اپنی اصل شکل پر قائم نہیں رہ سکتا اس لئے اس تحریک کے مالی حصہ کے سوا باقی سب تحریکیں دائمی ہیں اور حقیقت میں وہ زیادہ مقدم ہیں اور چونکہ اس سال کی تحریک کے اب صرف دو ماہ ہی رہ گئے ہیں اس لئے جن دوستوں نے غفلت کی ہے وہ اب جلد کوتاہیوں کو پورا کریں تا وقت پورا ہونے کے بعد ان کے دل ملامت نہ کریں.میں تو کوئی ملامت نہیں کروں گا کیونکہ یہ طوعی تحریک ہے مگر ان کے دل ضرور ملامت کریں گے.پس پیشر اس کے کہ دل ملامت کریں انہیں چاہئے کہ کوشش کریں تا سال کے اختتام پر وہ خوش ہوں اور کہ سکیں کہ پہلا بوجھ تو ہم اُٹھا چکے اب نئے سال کا اُٹھانے کو تیار ہیں.“ ( مطبوع افضل 16 اکتوبر 1936ء) 335

Page 348

Page 349

تحریک ہو مدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 27 نومبر 1936ء قربانی ہی وہ راہ ہے جس سے لوگ اپنے خدا تک پہنچتے ہیں خطبہ جمعہ فرمودہ 27 نومبر 1936ء باوجود طبیعت کی ناسازی اور بخار کے میں نے آج کا جمعہ کا خطبہ اس لئے کہنے کا ارادہ کیا ہے کہ تا تحریک جدید کے سال سوم کی تحریک کا اعلان کر سکوں.آج سے دو سال پہلے جب میں نے تحریک جدید کی ابتدا کی تھی اس وقت کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ تحریک آئندہ کیا رنگ اختیار کرنے والی ہے.شاید آج بھی بہت سے لوگ اس کے نتائج سے ناواقف ہوں گے لیکن میں جانتا ہوں کہ در حقیقت یہ تحریک الہی تصرف کے ماتحت ہوئی تھی.“ وو قربانی ہی ایک راہ ہے جس سے لوگ اپنے یار تک پہنچتے ہیں اور موت ہی وہ راستہ ہے جو ہمیں اپنے محبوب تک پہنچاتا ہے.پس اس موت کے لئے تیار ہو جاؤ اور ان اعمال کو اختیار کرو جو انسان کو موت کے لئے تیار کرتے ہیں.ہر کام کے کمال کے لئے ابتدائی مشق کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح کامل قربانی کے لئے نسبتا چھوٹی قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے.تحریک جدید کے پہلے دور نے ان چھوٹی قربانیوں کی طرف جماعت کو بلایا ہے اور وہ جو ان چھوٹی قربانیوں پر عمل کرنے کے لئے تیار ہوں گے خدا تعالیٰ انہیں بڑی قربانیوں کے لئے تو فیق عطا فرمائے گا اور وہ خدا کے بڑے ہو جائیں گے جس طرح یسوع اور موسی اور داؤد اور سلیمان اور اور ہزاروں کامل بندے خدا کے بڑے قرار پائے اور انہوں نے خدا کی محبت کی چھری کو خوشی سے اپنی گردن پر پھر والیا دنیا کی تمام شوکتیں ان کے پاؤں پر قربان ہیں، دنیا کی تمام عزتیں ان کی خدمت پر قربان ہیں، دنیا کی تمام بادشاہتیں ان کی غلامی پر قربان ہیں.وہ خدا کے ہیں اور خدا ان کا 66 وو پس آج میں اجمالی طور پر تحریک جدید کے تمام مطالبات کی طرف جماعت کو پھر بلاتا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ اس پہلے درجہ کی آخری جماعت میں ہمارے دوست ایسے اعلیٰ نمبروں پر پاس ہوں گے کہ خدا کے فضل ان پر بارش کی طرح نازل ہونے لگیں گے اور دشمنوں کے دل مایوسی سے پر ہو جائیں گے اور منافقوں کے گھروں میں صف ماتم بچھ جائے گی.ابھی بہت سا کام ہم نے کرنا ہے اور یہ تو ابھی پہلا ہی قدم ہے اگر اس قدم کے اُٹھانے میں جماعت نے کمزوری دکھائی تو خدا کے کام تو پھر بھی 337

Page 350

اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 27 نومبر 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول نہیں رکیں گے لیکن دشمن کو مسیح موعود پر طعن کرنے کا موقع مل جائے گا اور ہر وہ گالی اور ہر وہ دشنام اور ہر وہ طعنہ جو مسیح موعود کو یا ان کے سلسلہ کو دیا جائے گا اس کی ذمہ داری انہی لوگوں پر ہوگی جو اپنے عمل کی کمزوری سے دشمن کو یہ موقع مہیا کر کے دیں گے.اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت دی تو آئندہ ہفتوں میں میں انشاء اللہ تعالی پھر ایک دفعہ تفصیلی طور پر ان امور کی طرف توجہ دلاؤں گا سر دست میں نے اجمالا سب امور کی طرف توجہ دلا دی ہے اور مالی حصہ تحریک کو میں آج ہی کے خطبہ کے ساتھ شروع کر دیتا ہوں کیونکہ اس تحریک کے لئے دوستوں کو ہفتوں محنت کرنی پڑتی ہے اور بڑی مہلت درکار ہوتی ہے.پس اگر اس میں تعویق کی گئی تو احباب کے لئے مشکلات پیدا ہوں گی.پس میں آج ہی اس امر کا اعلان کرتا ہوں کہ یکم دسمبر سے تحریک جدید کے مالی حصے کی قسط سوم کا زمانہ شروع ہو جائے گا اور میں دوستوں سے امید رکھتا ہوں کہ جہاں تک ان سے ہو سکے وہ پہلے سالوں سے بڑھ کر اس میں حصہ لینے کی کوشش کریں کیونکہ مومن کا قدم پیچھے نہیں پڑتا بلکہ اُسے جتنی قربانی پیش کرنی پڑتی ہے اُتنا ہی وہ اخلاص میں آگے بڑھ جاتا ہے.ہر وہ شخص جس نے ایک سال یا دو سال اس قربانی کی توفیق پائی لیکن آج اس کے دل میں انقباض پیدا ہو رہا ہے یا وہ اس بشاشت کو محسوس نہیں کرتا جو گزشتہ یا گزشتہ سے پیوستہ سال میں اس نے محسوس کی تھی ، اسے میرے سامنے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، اپنے دوستوں کے سامنے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ، اپنے ماں باپ اور بیوی ہے بچوں کے سامنے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں اسے چاہئے کہ خلوت کے کسی گوشہ میں اپنے خدا کے سامنے اپنے ما تھے کو زمین پر رکھ دے اور جس قدر خلوص بھی اس کے دل میں باقی رہ گیا ہو اس کی مدد سے گریہ وزاری کرے یا کم سے کم گریہ وزاری کی شکل بنائے اور خدا تعالیٰ کے حضور میں جھک کر کہے کہ اے میرے خدا! لوگوں نے بیج بوئے اور ان کے پھل تیار ہونے لگے ، وہ خوش ہیں کہ ان کے اور ان کی نسلوں کے فائدہ کے لئے روحانی باغ تیار ہو رہے ہیں پر اے میرے رب! میں دیکھتا ہوں کہ جو بیچ میں نے لگایا تھا اس میں سے تو کوئی روئیدگی بھی پیدا نہیں ہوئی نا معلوم میرے کبر کا کوئی پرندہ اسے کھا گیا یا میری وحشت کا کوئی درندہ اسے پاؤں کے نیچے مسل گیا یا میری کوئی مخفی شامت اعمال ایک پتھر بن کر اس پر بیٹھ گئی اور اس میں سے کوئی روئیدگی نکلنے نہ دی ! اے خدا میں اب کیا کروں؟ (مطبوعہ الفضل 3 دسمبر 1936 ء ) 338

Page 351

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 4 دسمبر 1936ء تحریک جدید پر عمل شروع کرد و تو....ضرور بادشاہت مل جائے گی خطبہ جمعہ فرمودہ 4 دسمبر 1936 ء میں نے سب سے پہلے سال تحریک جدید کا اعلان کرتے ہوئے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ ایک تو وہ آپس میں صلح کریں، لڑائی جھگڑوں کو چھوڑ دیں اور ایک دوسرے کے ایسے قصور جو ذاتی ہوں اور ایسے جھگڑے جو دینی نہ ہوں ان کو بھلا دیں اور دوسرے اپنے بقائے ادا کرنے کی طرف توجہ کریں کیونکہ جو پچھلا بقایا ادا نہیں کرتا وہ آئندہ کے لئے کس طرح وعدہ کر سکتا ہے؟ " اس کے بعد میں نے جو دوسری بات کہی تھی کہ جب تک ایک شخص بقائے ادا نہ کرے تحریک جدید اُسے کوئی نفع نہیں دے سکتی اس کی طرف پھر توجہ دلاتا ہوں.دراصل جو شخص اپنے پہلے حقوق ادانہ کرتے ہوئے مزید وعدے کرتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے غضب کو اپنے اوپر بھڑ کا تا ہے اور دنیا کو خوش کرنے کی کوشش کرتا ہوا خدا کو ناراض کر لیتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ دنیا کو کیا معلوم ہے کہ میں نے اپنا پچھلا وعدہ پورا نہیں کیا؟ لوگ تو خوش ہو جائیں گے کہ فلاں نے اتنا وعدہ کیا ہے مگر اللہ تعالیٰ تو اس دھوکہ بازی کو خوب جانتا ہے اور اسے معلوم ہے کہ اس شخص نے پہلے بھی دھوکہ کیا تھا اور اب پھر کرتا ہے اس لئے دوستوں کو چاہئے کہ اپنے فرض چندوں کے بقایوں کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ کریں اور اگر ادا نہیں کر سکتے تو دل میں ان کو ادا کرنے کا پختہ اقرار تو کر لیں اور کوئی ایسا طریق مقرر کر لیں جس سے ادا کر سکیں.مثلاً کوئی قسط مقرر کر لیں اور اس کے بعد تحریک جدید کی طرف توجہ کریں ورنہ تحریک جدید کا وعدہ ان کی ترقی کا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہوگا.اگر دوست یہ دونوں باتیں کریں یعنی مومن اور مخلص لوگ دلوں سے بغض نکال کر باہم محبت پیدا کریں اور بقائے ادا کریں اور پھر تحریک جدید میں حصہ لے سکیں تو لیں بلکہ اگر توفیق ہو تو تحریک جدید میں حصہ لینا بھی ضروری سمجھیں تو پھر ترقیات کے دروازے ان پر کھل سکتے ہیں.تحریک جدید میں حصہ لینا اگر چہ میں نے اختیاری رکھا ہے مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ اس میں حصہ لینے سے کو تا ہی کی جاسکتی ہے.یہ تحریک اختیاری تو میں نے اس لئے رکھی ہے کہ انسان کو زیادہ ثواب انہی تحریکوں میں حصہ لینے سے ہوتا ہے جو خود اختیاری ہوں...339

Page 352

اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 4 دسمبر 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول " تم اگر تحریک جدید پر عمل شروع کر دو تو آج یا کل یا پرسوں نہیں جب خدا تعالیٰ کی مرضی ہوگی تمہاری قوم کو ضر ور بادشاہت مل جائے گی.دیکھو! حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی قوم کو اللہ تعالیٰ نے تین سوسال کے بعد ایک محدود بادشاہت دی تھی مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پندرہ بیس سال میں ہی ایک وسیع بادشاہت عطا فرما دی.پس خدا تعالیٰ بحیثیت قوم تم کو بھی یقینا بادشاہت دے گا لیکن اس کے وقت کا علم خدا تعالیٰ کو ہی ہے.ہاں ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ پہلے مسیح کی قوم کو جس سرعت سے ترقی ملی تھی اس سے بہت زیادہ سرعت سے ہماری جماعت ترقی کر رہی ہے اور پھر جو ہم سے وعدے ہیں وہ پہلے مسیح سے بہت زیادہ ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے فرمایا ہے کہ تین سو سال کے اندر جماعت احمد یہ سب دنیا پر غالب آجائے گی اور اس کے مخالف صرف چوہڑے چماروں کی طرح کمزور اور قلیل التعداد ہو جائیں گے مگر یہ بادشاہت قومی ہوگی لیکن خدا تعالیٰ کا قرب ہر شخص حاصل کر سکتا ہے.....ہر کر (مطبوعہ الفضل 12 دسمبر 1936 ء ) 340

Page 353

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 18 دسمبر 1936ء "" سادہ زندگی اسلامی تمدن کا نقطۂ مرکزی ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 18 دسمبر 1936ء علاوہ ازیں اس سال تحریک جدید کے چندہ کے متعلق میں نے تحریک کی ہے کہ دوست پہلے سالوں سے زیادہ دیں اور گو یہ تحریک اختیاری ہے لیکن پھر بھی جماعت کی ایک معقول تعداد اس میں حصہ لیتی ہے اور جماعت کے ایک حصہ کی مالی حالت پر ضرور اس کا اثر پڑتا ہے اور ایسے دوستوں سے جب خواہش کی گئی ہے کہ وہ پہلے سالوں سے زیادہ چندہ دیں تو جو لوگ اس پر لبیک کہیں گے یقینا ان کے اموال پر پہلے سے زیادہ بوجھ پڑے گا.“ وو اس کے بعد میں تحریک جدید کی طرف پھر متوجہ ہوتا ہوں کہ اول تو میں دوستوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بعض جماعتوں نے اس سال کی تحریک کے متعلق اس لئے کہ ان کی جماعت کا نام جلدی پہنچ جائے نامکمل فہرستیں بھیجنی شروع کر دیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ان کی جماعت کے دوستوں کی طرف سے وعدے موصول ہو رہے ہیں.اس میں شبہ نہیں کہ جلدی کی نیکی بھی اعلیٰ نیکی ہوتی ہے مگر نامکمل نیکی کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا جو لوگ جلدی اور مکمل فہرستیں بھیج سکتے تھے انہیں ایسا ہی کرنا چاہئے تھا مگر جو لوگ جلدی مکمل فہرستیں نہ بھیج سکتے تھے ان کیلئے یہی بہتر تھا کہ وہ اپنی جماعت کے باقی ساتھیوں کا انتظار کر لیتے اور مکمل فہرستیں بھیجتے.میں دیکھتا ہوں بعض جماعتوں کی طرف سے پانچ پانچ چھ چھ چٹھیاں آرہی ہیں اور لکھا جا رہا ہے کہ اب ہماری یہ لسٹ ہے اور اب یہ لسٹ ہے ایسے لوگ اگر چند دن انتظار کر لیتے تا کہ دوسرے دوست بھی ان کے ساتھ شامل ہو جائیں تو ان کے سابق ہونے میں کوئی فرق نہ آتا.میں نے گزشتہ سال اپنے کسی خطبہ میں بیان کیا تھا کہ جو شخص اس لئے انتظار کرتا ہے کہ دوسرے دوست بھی اس کے ساتھ شامل ہو جائیں ان کی سبقت میں کوئی فرق نہیں آ سکتا کیونکہ انھوں نے جس دن چندہ کی ادائیگی کی نیت کر لی خدا تعالیٰ کے حضور ان کا نام سابق لوگوں میں لکھا گیا خواہ ہمارے پاس وہ مہینہ ڈیڑھ مہینہ کے بعد پہنچے سابق قرار دینا یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے میرا نہیں.بالکل ممکن ہے کہ ایک شخص میرے پاس آئے اور سور و پیہ چندہ دے اور میں اس کی بڑی قدر کروں اور ایک 341

Page 354

اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 18 دسمبر 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول دوسرا شخص آئے جو پانچ روپے دے اور میں یہ اندازہ نہ کر سکوں کہ اس نے کتنی بڑی قربانی کے بعد پانچ روپے دیئے ہیں اور خدا کے نزدیک اس کی قربانی زیادہ قرار پا جائے.ایسی صورت میں خدا تعالیٰ کے نزدیک اول نمبر پر پانچ روپیہ چندہ دینے والا ہی لکھا جائے گا نہ کہ سورو پہیہ چندہ دینے والا ، اسی طرح ایک شخص جلدی سے خط بھیج دیتا ہے مگر دوسرا شخص انتظار کرتا ہے تا اس کے باقی بھائی بھی اس میں شامل ہو جائیں تو اگر وہ اس احتیاط کی وجہ سے دیر لگاتا ہے کہ وہ عمدگی سے کام کرے اور اس کی ارسال کردہ فہرست ہر لحاظ سے مکمل ہو تو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں وہی سابق ہے.میرا اس احتیاط کی تاکید سے یہ مطلب نہیں کہ جو جلد وعدے بھجوا سکتے ہوں وہ بھی جلدی نہ کریں.یقیناً جو جماعتیں مکمل اور جلدی وعدے بھجوا سکیں انہیں ایسا کرنا چاہئے کیونکہ وہ شوکت اسلام کے ظاہر کرنے میں مد ہوتی ہیں.اگر خلیفہ کے اعلان کے معابعد کثیر تعداد میں وعدے وصول ہونے لگیں تو دوسرے لوگوں پر یقینا اس کا اثر پڑتا ہے اور وہ مجھے ہیں کہ دیکھو یہ جماعت کس طرح اپنے امام کی آواز پر لبیک کہتی ہے.میری نصیحت صرف ان جماعتوں سے تعلق رکھتی ہے جو صرف جلدی کو مد نظر رکھتی ہیں تکمیل کو نہیں.اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ اس سال کے وعدے قلیل زمانہ میں پہلے سالوں سے زیادہ موصول ہو چکے ہیں.گزشتہ سال پہلے مہینے میں پچاس ہزار کے وعدے موصول ہوئے تھے لیکن اس دفعہ پندرہ دن میں اسی ہزار کے قریب کے وعدے وصول ہوئے ہیں جس کی دو وجہیں ہیں.ایک تو یہ کہ پہلے دو سال کام کرنے سے یہ کام زیادہ منظم ہو چکا ہے اور جماعتیں جلد وعدوں کی فہرست کو پورا کر لیتی ہیں اور دوسری یہ کہ جنہوں نے گزشتہ سالوں میں قربانیاں کی تھیں ان کے اخلاص کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کو زیادہ سہولت سے اور جلدی قربانی پیش کرنے کی اس سال توفیق دے دی ہے.خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ جو کوئی اس کی راہ میں قربانی کرے وہ اسے مزید قربانیوں کیلئے زیادہ جوش بخش دیتا ہے اور پچھلی قربانیوں کا ثواب اس رنگ میں بھی اسے ملتا ہے کہ اور قربانیوں کی توفیق اسے مل جاتی ہے.میں یہ بھی اعلان کر دیتا ہوں کہ اس سال گزشتہ سال کے مقابل پر چونکہ پندرہ دن بعد میں نے تحریک کی ہے اس لئے اس سال کی تحریک کے وعدوں کے اختتام کا وقت ہندوستان کے لئے 31 جنوری ہے.گویا ہندوستان کی تمام جماعتوں کے وعدے 31 جنوری تک پہنچ جانے چاہئیں اور ہندوستان سے جو باہر کی جماعتیں ہیں ان کے لئے چونکہ زیادہ وقت درکار ہوتا ہے اس لئے انہیں جون کے آخر تک مہلت ہے.میں نے گزشتہ سال بھی یہ اعلان کیا تھا اور متواتر کیا تھا کہ بیرون ہند کی 342

Page 355

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرمود : 18 دسمبر 1936ء جماعتوں کی وصولی کی تاریخ بھی جون کے آخر تک ہے لیکن معلوم ہوتا ہے انہوں نے ان اعلانات کو پڑھا نہیں اور اب تک بیرونی جماعتوں کی طرف سے تحریکیں ہو رہی ہیں کہ ہمیں چندوں کی ادائیگی کے لئے مزید مہلت ملنی چاہئے.حالانکہ ان کے لئے پہلے سے جون کے آخر تک وقت مقرر ہے اور جنوری کے آخر تک کا وقت ہندوستان والوں کے لئے ہے جن کے وعدوں کی مدت 15 جنوری تک ختم ہوتی تھی.پس وصولی کی مدت بھی اگلے سال کی اسی تاریخ پر ختم کی گئی.اس کے بعد میں دوستوں کو تحریک جدید کے اس حصہ کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو سادہ زندگی اختیار کرنے کا ہے.میں نے اس کی طرف متواتر جماعت کو توجہ دلائی ہے اور علاوہ تحریک کے ایام کے دوسرے وقتوں میں بھی توجہ دلائی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں جہاں تک اسلام پر غور کرتا ہوں مجھے اس کے تمدن کا یہ نقطہ مرکزی نظر آتا ہے اور میں سمجھتا ہوں ہزاروں قومی خرابیاں تکلفات سے پیدا ہوتی ہیں.غریب اور امیر کا فرق یا تمدنی تعلقات کی ترقی یہ سب بنی ہیں سادہ زندگی یا پر تکلف زندگی پر.جیسی جیسی کسی انسان یا قوم کی زندگی ہو اس کے مطابق قومی تعلقات اور تمدنی تعلقات ترقی کرتے ہیں یا تنزل کرتے ہیں.خالی یہ سوال نہیں کہ خود انسان کیا کھاتا ہے یا کیا پہنتا ہے؟ بلکہ سوال یہ بھی ہے کہ اس کے کھانے اور اس کے پہنے کا اثر اس کی روحانیت اور اس کی قوم پر کیا پڑتا ہے؟ بہت سے لوگ دنیا میں ایسے ہوتے ہیں جن کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے دوستوں کی دعوت کریں لیکن وہ اس لئے ان کی دعوت نہیں کر سکتے کہ اگر دعوت کی تو شاید ان کی حیثیت کے مطابق انہیں کھانا نہ کھلا سکیں.کئی امرا اس لئے اپنے غریب بھائیوں کی دعوت قبول نہیں کرتے کہ وہ ان کے مزاج کا کھانا انہیں نہیں کھلا سکیں گے لیکن اگر کھانے میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق وہی طریق جاری ہو جائے جو ہم تحریک جدید کے ماتحت اختیار کئے ہوئے ہیں کہ صرف ایک کھانا پکایا جائے تو نہ دعوت کرنے والے پر کوئی بار پڑتا ہے اور نہ دعوت قبول کرنے والا کوئی ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے.دعوت کرنے والا سمجھتا ہے کہ میرا کوئی زائد خرچ تو ہونے نہیں لگا اور دعوت قبول کرنے والا سمجھتا ہے کہ گھر میں بھی تو میں نے ایک ہی کھانا کھانا ہے آؤ آج اس کی دعوت ہی قبول کر لیں اور وہ کون سا ایک کھانا ہے جس کے متعلق کسی کو دعوت کرنے کا تو خیال آ جائے مگر وہ تیار نہ کر سکے؟ آخر وہ شخص جو فاقے کرتا ہوا سے تو دعوت کرنے کا خیال نہیں آسکتا.دعوت کا خیال جسے آسکتا ہے وہ بہر حال ایک کھانا تیار کر سکتا ہے اور کوئی شخص ایسا نہیں ہوسکتا جسے دوسرے کی دعوت کرنے کا تو خیال آئے مگر ایک کھانا بھی نہ تیار کر سکے.پس اس ذریعہ سے امرا اور غربا کے تعلقات میں 343

Page 356

اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 18 دسمبر 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول وسعت پیدا ہو جاتی ہے اور اسلام جس برادری کو دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے وہ قائم ہو جاتی ہے.یہی حال لباس کا ہے.لباس کی نظافت اور صفائی اور چیز ہے لیکن اگر کچھ لوگ اپنے گھروں کو کپڑوں سے بھر لیں اور روپیہ ایسی چیزوں پر خرچ کرنا شروع کر دیں جو ضروری نہیں مثلاً گوٹے کناریاں ہیں، فیتے ہیں، ٹھتے ہیں تو ان چیزوں کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ملک کی دولت ایسی جگہ خرچ ہوتی ہے جس جگہ خرچ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا.ہماری شریعت نے اسی لئے روپیہ جمع کرنے سے منع کیا ہے اور جمع شدہ روپیہ پر زکوۃ لگا دی ہے اور زکوۃ لگا کر کہہ دیا ہے کہ تم بے شک روپیہ جمع کرو مگر ہم چالیس پچاس سال کے اندر اندر سے ختم کر دیں گے.تو شریعت نے ہم کو روپیہ جمع کرنے سے اسی لئے منع کیا ہے کہ جو روپیہ جمع ہوتا ہے وہ لوگوں کے کام نہیں آسکتا اور دنیا کی تجارتوں کو نقصان اور کارخانوں کو ضعف پہنچتا ہے.تو نہ شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ روپیہ ضائع کرو اور نہ اس بات کی اجازت دی ہے کہ اس طرح سنبھال کر رکھ لیا جائے کہ وہ لوگوں کے کام نہ آئے.ان دونوں باتوں پر غور کرنے سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ یہی کہ سادہ زندگی بسر کرو اور روپیہ اس طرح خرچ کرو کہ لوگوں کو فائدہ پہنچے.مثلاً تجارتیں کرو کیونکہ تجارت میں ہزاروں لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے ، بعض کو نوکریوں کے ذریعہ فائدہ پہنچ جاتا ہے ، بعض کو دلالی کے ذریعہ سے، بعض کو حرفت کے ذریعہ سے.ہاں اسلام نے یہ بھی کہہ دیا کہ فضول باتیں نہ کرو کیونکہ اس سے غربا کے دلوں میں حرص پیدا ہوتی ہے اور ان کے قلوب کو تکلیف پہنچتی ہے.مثلاً شادیوں کے موقع پر بڑی تباہی اس وجہ سے آتی ہے کہ لوگوں میں یہ رواج ہے کہ لڑکے والے بری دکھاتے ہیں اور لڑکی والے جہیز دکھاتے میں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غریب لڑکیاں جو ان چیزوں کو دیکھتی ہیں وہ یا تو دل ہی دل میں کڑہتی رہتی ہیں یا اگر بے وقوف ہوں تو ماں کو آکر چمٹ جاتی ہیں کہ ہمارے لئے بھی ایسی چیزیں تیار کی جائیں اسی طرح مردوں میں سے کئی جب اس قسم کے نظارے دیکھتے ہیں تو ان کے دلوں میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ جب ہماری شادی ہوگی تو ہم بھی ایسا ہی کریں گے حالانکہ اول تو امارت کے یہ معنی ہی نہیں کہ روپیہ ضائع کیا جائے.ہاں چونکہ شادیاں خوشی کا موقع ہوتی ہیں اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کی بھی تاکید کی ہے کہ ایسے موقع پر کچھ خرچ کیا جائے کیونکہ ایسے موقع پر خرچ کرنا گناہ نہیں بلکہ لڑکی کا دل رکھنا مرد کے لئے نہایت ضروری ہے لیکن اس کے لئے وہ طریق اختیار نہیں کرنا چاہئے جو بداثر ڈالے اور غربا کیلئے تکلیف کا موجب بنے.اگر مسلمان قرآن کریم کا علم رکھتے تو وہ سمجھتے کہ قرآن کریم نے ایسے دکھاوے سے منع کیا ہوا ہے.344

Page 357

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول چنانچہ وہ فرماتا ہے: اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 18 دسمبر 1936ء وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى مَا مَتَّعْنَابِةٍ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ زَهْرَةً الْحَيَوةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ (132) کہ اگر کسی کو اچھی چیزیں ملیں تو تم ان کی طرف جھانکا نہ کرو اور نہ اپنے دل کو اس طرح میلا کیا کرو.پس اگر دکھانے والے دکھاتے اور دیکھنے والے انکار کر دیتے اور کہہ دیتے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ:.وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى مَا مَتَّعْنَابِةٍ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ (القصص:25) (132) کہ اگر کوئی دولت مند ہوں اور وہ اپنی چیزیں دکھا کر تمہارا دل دکھانا چاہیں تو وہ چیزیں دیکھانہ کرو اور اپنے خدا کی طرف نظر رکھا کرو جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ:.رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ کہ اے میرے رب میں محتاج ہوں مگر میں محتاج ہو کر بندوں کی طرف نہیں دیکھنا چاہتا بلکہ تیری طرف دیکھتا ہوں.پس تیری طرف سے جو آئے اسے میں قبول کرنے کے لئے تیار ہوں.تو نہ انہیں تکلیف ہوتی ہے اور نہ وہ اندر ہی اندر کڑھتے.پس ان رسوم کے نتیجہ میں کمزور طبائع پر برا اثر پڑتا ہے.لیکن اگر ملک میں سادہ زندگی آجائے تو یقیناً بہت سی دولت بچ جائے گی جو غر با اور ملک کی ترقی کے کام آئے گی اور اس طرح آہستہ آہستہ تمام ملک یا جماعت ایسے مقام پر آجائے گی کہ غریب اور امیر کا فرق بہت کم ہو جائے گا.یوں شریعت نے دولت کمانے سے منع نہیں کیا.حضرت عبدالرحمن بن عوف جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے وہ جب فوت ہوئے تو انہوں نے اڑھائی کروڑ روپیہ کی جائیداد چھوڑی.اس زمانہ میں تو روپیہ کی قیمت بہت تھی لیکن آج بھی جبکہ روپیہ کی قیمت گری ہوئی ہے مسلمانوں میں ایسے لوگ بہت کم ہیں جو اس قدر جائیدا اور کھتے ہوں لیکن خود ان کی اتنی سادہ زندگی تھی کہ ان کا روزانہ کا خرچ چار آنے ہوا کرتا تھا اور وہ اپنی آمد کا اکثر حصہ غربا میں تقسیم کر دیا کرتے تھے.یہ زندگی تھی جو اسلامی زندگی تھی.اسلام نے انہیں کمانے سے منع نہیں کیا تھا انہوں نے کمایا اور کما کر بتا دیا کہ یوں کمایا کرتے ہیں لیکن دوسری طرف چونکہ اسلام کا یہ بھی حکم تھا کہ اپنی زندگی کو ایسا پر تکلف نہ بناؤ کہ جو کچھ کما و وہ سب اپنی ذات پر خرچ کر دو اور غربا کے لئے کچھ نہ رہنے دو اس لئے وہ باوجود دولتمند ہونے کے غریب رہے اور یہی چیز ہے جس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ فلاں شخص قربانی کر رہا ہے.جب تک مسلمانوں میں ایسے لوگ رہے جو کمانے 345

Page 358

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 18 دسمبر 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول والے اور غر با پر خرچ کرنے والے تھے اس وقت تک مسلمانوں میں غربت کا وہ زور نہ تھا جو آج کل ہے لیکن جب کمانے والے نہ رہے یا ایسے کمانے والے پیدا ہو گئے جنہوں نے سب رو پیدا اپنے ہاتھوں میں جمع کر لیا اور سوائے اپنی ذات اور ضروریات کے اور جگہ خرچ نہ کیا تو مسلمانوں پر تباہی آگئی چنانچہ آج کل مسلمانوں کی تباہی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اول وہ کماتے نہیں.جہاں دیکھو مسلمان بے کار ہی بے کا ر دکھائی دیتے ہیں اور اگر انہیں کوئی کام کرنے کو کہا جائے تو اس میں وہ اپنی ہتک محسوس کرتے ہیں وہ خیال کرتے ہیں ہمارا باپ ایسا تھا پس جب تک ہمیں باپ جیسا عہدہ نہ ملے گا ہم کام نہیں کریں گے.اسی طرح زمیندار ہیں وہ نوکریاں نہیں کریں گے یا کوئی اور پیشہ اپنی روزی کمانے کے لئے اختیار نہیں کریں گے اور جب انہیں کہا جائے کہ کیوں کوئی کام نہیں کرتے ؟ تو کہہ دیں گے ہم زمینیدار ہیں، ہم کوئی اور پیشہ کس طرح اختیار کر سکتے ہیں؟ پس وہ کوئی پیشہ اختیار نہیں کریں گے، کوئی فن نہیں سیکھیں گے ، کوئی اور ذریعہ اپنی روزی کمانے کے لیے اختیار نہیں کریں گے ، بھوکے مریں گے، اپنی صحت خراب کر لیں گے، اپنی بیوی اور بچوں کی صحت تباہ کر لیں گے لیکن کسی کام کو ہاتھ نہیں لگائیں گے.زمیندار ماں اپنے بچہ کو بھوکے رہنے کی وجہ سے خون پلاتی جائے گی مگر وہ اس گھمنڈ میں رہیں گے کہ ہمارا باپ زمیندار تھا ہم موچی کا کام کس طرح کر سکتے ہیں؟ ہم نجاری اور معماری کا کام کس طرح کر سکتے ہیں؟ ہم جولا ہوں کا کام کس طرح کر سکتے ہیں؟ پس مسلمانوں کی تباہی کا ایک بہت بڑا سبب یہ ہے کہ وہ کام نہیں کرتے اور دوسرا سبب یہ ہے کہ ان میں سے جو کام کرتے ہیں وہ سارا رو پید اپنے گھروں میں رکھ لیتے ہیں غربا پر اسے خرچ نہیں کرتے حالانکہ اسلام چاہتا ہے کہ لوگ کمائی کریں اور اس میں سے کچھ اپنی ذات پر خرچ کریں اور کچھ دوسرے لوگوں پر صرف کریں.(الضحی :12) وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ کا مطلب ہی یہ ہے کہ جو نعمت تمہیں ملے اسے دنیا میں پھیلاؤ.تحدیث دو ہی طرح ہو سکتی ہے: ایک یہ کہ کچھ اپنی ذات پر اس روپیہ کو خرچ کیا جائے اس سے بھی لوگوں کو پتہ لگ سکتا ہے کہ اسے نعمت ملی ہے اور کچھ غریبوں میں تقسیم کرے اس سے بھی لوگوں کو پتہ لگ سکتا ہے کہ اس کے پاس دولت ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہی گر بتایا ہے اور یہ گر بغیر سادہ زندگی اختیار کئے کام نہیں آسکتا.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ باوجود بار بار توجہ دلانے کے ہماری جماعت کا ایک حصہ ابھی ایسا ہے جس نے اس کی قیمت کو نہیں سمجھا.کئی کئی طریق پر دوست اس سے پہلوتہی کر لیتے ہیں.گزشتہ سفر کے موقع پر ہی ایک دوست نے پوچھا، وہ نہایت مخلص احمدی ہیں مگر چونکہ پرانی عادتیں زیادہ کھانا کھانے کی 346

Page 359

تحریک جدید - ایک ابھی تحریک...جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 18 دسمبر 1936ء پڑی ہوئی ہیں اس لئے بعض افراد کی طبیعت کسی نہ کسی آڑ میں اس مطالبہ سے پہلوتہی کا جواز تلاش کرنا چاہتی ہے، کہ میں تحریک جدید پر تو عمل کرتا ہوں لیکن اس طرح کہ ہم ایک جگہ چار آدمی ہیں ہم چاروں ایک ایک کھانا پکوالیتے ہیں اور پھر سب مل کر کھا لیتے ہیں اس میں کوئی حرج تو نہیں؟ میں نے کہا کہ چار کھانے تو آج کل ایک وقت اُمرا بھی نہیں کھایا کرتے آپ کس طرح چار کھانے کھا کر سمجھتے ہیں کہ آپ نے تحریک جدید کے اس مطالبہ پر عمل کر لیا؟ اب دیکھو انہوں نے اپنی طرف سے تحریک جدید پر بھی عمل کیا اور چار کھانے بھی کھالئے.پھر میں نے انہیں کہا میں صرف یہی نہیں چاہتا کہ ایک کھانا پکانے کی وجہ سے لوگوں کو اخراجات میں کفایت رہے بلکہ میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ زبان کے جسکے کی عادت نہ پڑے اب چار کھانے کھانے سے چسکا بڑھ سکتا ہے کم نہیں ہوسکتا؟ اگر وہ گھر میں کھانا پکاتے تو زیادہ سے زیادہ دو پکاتے لیکن مل کر کھانے کی وجہ سے چار کھالئے گئے اور یہ بھی سمجھ لیا گیا کہ تحریک جدید پر عمل ہو رہا ہے.اسی طرح کئی لوگ اس رنگ میں ایک سے زیادہ کھانا کھا لیتے ہیں کہ کہتے ہیں تحفہ آ گیا ہے بے شک کبھی کبھار کا تحفہ تحفہ ہے اور اس کے استعمال میں خصوصا تحفہ بھیجنے والے کا دل رکھنے کے لئے حرج نہیں بلکہ بعض صورتوں میں ثواب ہے لیکن اگر دو ہمسائے آپس میں ایک دوسرے کے گھر کھانا بھجوانے کی عادت ڈال لیں تو ایسے کھانے کا استعمال یقینا تحریک جدید کا غلط استعمال ہوگا.غرض تحفوں میں احتیاط کی ضرروت ہے اگر اس بارہ میں تحریک کی حقیقت کے مطابق عمل نہ کیا جائے تو شاید ہمارے گھر میں تو اس تحریک پر کبھی عمل نہ ہو سکے کیونکہ ہمارا تعلق اور رشتہ روحانی خدا تعالی کے فضل سے بڑا وسیع ہے اور کوئی نہ کوئی تحفہ ہمارے گھروں میں روز آ جاتا ہے اس لئے ہمیں تو تحفہ کے استعمال میں بھی احتیاط کرنی پڑتی ہے.گزشتہ دو سال میں چار پانچ مرتبہ سے زیادہ ایسا اتفاق نہیں ہوا جہاں تحفہ آیا اور میں نے سمجھا کہ اس موقع پر دل رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اسے استعمال کر لیا جائے ورنہ عام طور پر جب کوئی تحفہ بھیج دیتا ہے تو یا تو میں اُسی کو استعمال کرتا ہوں گھر کا کھانا نہیں کھاتا یا پھر گھر کا کھانا کھاتا ہوں اور اسے خود استعمال نہیں کرتا کیونکہ میں سمجھتا ہوں بھیجنے والے نے بھیج دیا اب اسے کیا پتہ میں نے وہ چیز کھائی ہے یا نہیں کھائی ؟ اسے بہر حال ثواب ہو گیا.تو تحفوں میں بھی انسان احتیاط کر سکتا ہے اور تحفہ کو بھی وہیں کھانے کی ضرورت ہوتی ہے جہاں ایسا نہ کرنے سے دوسرے کی دل شکنی کا خوف ہو.اسی طرح ایک کھانے کے استعمال میں بعض اور استثنائی صورتیں ہو سکتی ہیں.مثلا کوئی غیر احمدی دعوت کرتا ہے یا غیر احمدی کی دعوت کی جاتی ہے تو ایسی حالت میں اگر ایک ہی کھانا کھایا جائے تو وہ سمجھتا ہے ہتکہ 347

Page 360

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 18 دسمبر 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد اول گئی.پس ایسے موقع پر اگر کوئی شخص ایک سے زیادہ کھانا کھا لیتا ہے تو یہ اور بات ہے.اس قسم کی ایک دعوت مجھے بھی ایک دفعہ پیش آئی ایک جگہ بہت سے غیر احمدی معززین کو بلایا گیا تھا اور انہیں مد نظر رکھتے ہوئے کئی کھانے تیار کئے گئے تھے ان معززین کی دلداری کے طور پر مجھے بھی ایک سے زائد کھانے کھانے پڑے.ہاں جہاں بے تکلفی ہو وہاں دعوت کرنے والوں کو کہا جا سکتا ہے یا دوسرے مہمانوں کو بتایا جاسکتا ہے کہ ہم ایک ہی کھانا کھا ئیں گے زیادہ نہیں.تو بعض دوست تحریک جدید کے اس مطالبہ کی اہمیت کو نہیں سمجھتے.درحقیقت میری غرض اس تحریک سے صرف عارضی فائدہ حاصل کرنا نہیں بے شک اس کا ایک عارضی فائدہ بھی ہے اور وہ یہ کہ جو دوست تحریک جدید کے مالی مطالبات میں حصہ لیں انہیں ایک کھانا پکانے کی وجہ سے مالی تنگی محسوس نہ ہو اور ان کی بشاشت قائم رہے یہ ٹھیک ہے اور اس تحریک میں یہ ایک فائدہ بھی مد نظر ہے لیکن میری اصل غرض یہ ہے کہ ہم دنیا میں اس اسلامی تمدن کو پھر قائم کریں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کیا.یہ مستقل غرض ہے اور وہ عارضی ہے.ہم جب تک اس مستقل غرض کو قائم نہیں کر دیتے اس وقت تک یقیناً ہم اسلام کی روح کو قائم نہیں کر سکتے.اولیاء اللہ نے لکھا ہے کہ اعلیٰ روحانی ترقیات کے لئے کم کھانا کم بولنا اور کم سونا ضروری ہے اور کم کھانے سے سادہ زندگی کا بڑا تعلق.زیادہ کھانے کھانے والوں کو یہ پتہ ہی نہیں لگتا کہ وہ کتنا کھا گئے.حضرت خلیفتہ اسیح اول رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ایک امیران کے پاس آیا اور کہنے لگا: مجھے بھوک نہیں لگتی کوئی ایسا نسخہ بتائیے جس سے بھوک خوب لگے.فرمایا ہم نے اس کا کچھ علاج کیا لیکن ایک دن ہمیں جو اس کے کھانے پر جانے کا اتفاق ہوا تو کیا دیکھا کہ چالیس کے قریب کھانے اس کے دستر خوان پر جمع ہیں وہ ایک ایک تھالی اُٹھاتا اور ہر تھالی میں سے ایک ایک لقمہ اس غرض کے لئے کھاتا جاتا کہ وہ چکھ کر دیکھے کہ ان میں سے کون سی چیز اچھی پکی ہے اور اپنے کھانے کے متعلق فیصلہ کرے، اس کے بعد اس نے دو چار کھانے پسند کر کے اپنے سامنے رکھ لئے اور چند لقمے کھا کر کہنے لگا: مولوی صاحب دیکھئے بالکل دل ہی نہیں چاہتا کہ کھاؤں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: میں نے اسے کہا کہ اب آپ کا اور کھانے پر کیا دل چاہے؟ چالیس لقمے تو آپ نے چکھنے کی خاطر کھائے ہیں.حالانکہ عام طور پر انسان بتیس لقمے کھاتا ہے اور اس پر بھی آپ کو شکائت ہے کہ آپ کو بھوک نہیں لگتی ؟ تو زیادہ کھانے کھانے والوں کو یہ پتہ ہی نہیں لگتا کہ وہ زیادہ کھا رہے ہیں کیونکہ پیٹ کا کچھ حصہ چکھنے سے بھر جاتا ہے اور باقی حصہ چند اور لقموں سے بھر جاتا ہے تو چونکہ پیٹ میں جتنی گنجائش ہوتی ہے اتنی غذا وہ کھا لیتا ہے اور کھانے ابھی سامنے پڑے ہوتے ہیں اس ہے 348

Page 361

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 دسمبر 1936ء لئے وہ سمجھتا ہے کہ میں نے بہت تھوڑا کھایا ہے اور زبردستی اور کھاتا جاتا ہے.حالانکہ وہ چکھنے میں ہی بہت کچھ کھا چکا ہوتا ہے تو کم خوری، کم گوئی اور کم سونا یہ روحانی ترقیات کے لئے اولیائے الہی ضروری بتاتے ہیں اور کم کھانے کے لئے ضروری ہے کہ انسان ایک کھانا کھائے زیادہ کھانوں میں کم خوری بہت مشکل ہوتی ہے.سو دوستوں کو اس تحریک کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہئے اور میں امید کرتا ہوں کہ آئندہ ہمارے دوست عموماً ایک دوسرے پر نگاہ رکھیں گے اور ان کے اعمال کو تاڑیں گے مگر شکایت کی غرض سے نہیں جاسوسی کے طور پر نہیں کیونکہ جاسوسی اسلام میں منع ہے بلکہ اس نیت سے کہ دوسرے کی اصلاح ہو اور پھر اس شخص کے علاوہ اور کسی کے پاس ذکر نہ کیا جائے.یہ میں پسند نہیں کروں گا کہ لوگ میرے پاس آئیں اور کہیں کہ فلاں شخص دو کھانے کھاتا ہے.میں نے ایک کھانا کھانے کا کوئی حکم نہیں دیا میں نے صرف تحریک کی ہے اور اگر کوئی شخص اس تحریک کے باوجود دو کھانے کھاتا ہے تو اس کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے.ممکن ہے وہ اس تحریک کو ہی فضول سمجھتا ہو اور ممکن ہے وہ کسی خاص وجہ سے دو کھانے استعمال کرتا ہو.بہر حال جبکہ میری طرف سے ایسا کوئی حکم نہیں تو میں نہیں چاہتا کہ اس کی خلاف ورزی پر کسی کو سزا دوں لیکن میں امید کرتا ہوں کہ جہاں تک دوستوں سے ممکن ہے وہ اس سوال پر غور کریں، وہ میرے دلائل کو سوچیں، وہ اسلام کی تاریخ کو دیکھیں، وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر نگاہ دوڑائیں اور پھر سوچیں کہ جو میں کہہ رہا ہوں وہ صحیح ہے یا نہیں.اگر انہیں معلوم ہو کہ صحیح ہے تو اس پر عمل کریں اور اگر کوئی دوست غفلت میں مبتلا ہے اور اس کے محلے والا سمجھتا ہے کہ اس کو سمجھانا مناسب ہے تو اسے سمجھائے لیکن اسے بدنام نہ کرے اور نہ اس کی کمزوری کا کسی اور کے پاس ذکر کرے.پس اس نظر سے اگر کوئی دوسرے بھائی کے اعمال کو دیکھے گا تو یہ تجس نہیں کہلائے گا.تجسس اس کو کہتے ہیں کہ انسان اپنے بھائی کے حالات معلوم کرنے کے لئے مخفی ذرائع سے کام لے اور پھر لوگوں میں باتیں کرتا پھرے لیکن جب یہ اپنے بھائی کا نقص اپنی ذات تک محدود رکھتا ہے اور کسی اور کو کانوں کان بھی خبر نہیں ہونے دیتا تو یہ اپنے دوست کا محاسب ہے ، تنجس نہیں اور دوستوں کا محاسبہ کر نابڑی نیکی ہوتی ہے.یہ یاد رکھو! کہ میں نے نگاہ رکھنا کہا ہے تجس نہیں کہا اور نگاہ رکھنا اور ہوتا ہے اور تجسس اور.اگر یہ کسی کے مکان پر جاتا اور اور گھر والے کے بچے کو بلا کر پوچھتا ہے کہ آج تمہارے ہاں کیا کیا پکا ہے؟ تو یہ نجس ہے اور منع ہے لیکن نگاہ رکھنا یہ ہے کہ مثلاً باتوں باتوں میں کسی نے کہہ دیا کہ آج ہم نے گھر میں یہ یہ چیز پکائی ہے تو اس کی باتیں سن کر اسے نصیحت کر دی کہ یہ درست نہیں ایک ہی کھانا کھانا چاہئے.پس اگر دوست اس کا خیال رکھیں تو میں سمجھتا ہوں یقینا قومی 349

Page 362

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 18 دسمبر 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول کریکٹر میں ایک بہت بڑی تبدیلی پیدا ہوسکتی ہے اور آہستہ آہستہ یہ تبدیلی ہو بھی رہی ہے.چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں قربانی کی روح اس وجہ سے پیدا ہورہی ہے مگر قربانی کی روح بھی انہی میں پیدا ہوتی ہے جو بشاشت سے اعمال بجالائیں کیونکہ روحانی امور بشاشت سے ہی تعلق رکھتے ہیں جو لوگ عمل کریں مگر ساتھ ہی کڑھتے چلے جائیں اور کہتے جائیں کہ جب سے ایک کھانا کھانا شروع کیا ہے کھانے میں مزا ہی نہیں رہا، انہیں میں یہی کہوں گا کہ وہ دوہی کھانے کھا ئیں کیونکہ ان کا دو کھانے کھانا ایک کھانا کھانے سے زیادہ اچھا ہے.پس اس تحریک میں وہی شامل ہو جو اس تحریک کی خوبیوں کا قائل ہو گیا ہو اور اپنی اور اپنی جماعت کی زندگی اس میں محسوس کرتا ہو اور جو شخص ابھی اس مقام پر نہیں پہنچا وہ تجربہ کر کے دیکھ لے اگر ایک کھانا کھانے کے بعد اس کے دل میں بشاشت پیدا نہ ہو تو چھوڑ دے یعنی اس تحریک کی خوبیوں کو نہ اس کا دل مانتا ہو نہ عقل اور وہ تجربہ کر کے فائدہ نہ دیکھے تو اسے چھوڑ دے.ہاں وہ شخص جس کی عقل تو نہ مانتی ہومگر دل مانتا ہو یعنی وہ سمجھتا ہو کہ خواہ میرا نفس کچھ اور کہتا ہے مگر جب میں ایک شخص پر اعتقاد رکھتا ہوں کہ وہ میرا استاد ہے تو اس نے جو کچھ کہا ہوگا درست ہی کہا ہوگا تو ایسے شخص کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے لیکن وہ شخص جس کی نہ عقل مانتی ہو نہ دل اور عمل کے بعد بھی اس کی قبض دور نہیں ہوتی وہ اس مطالبہ پر عمل کر کے کوئی فائدہ حاصل نہیں کر سکے گا سوائے اس کے کہ اس کی صحت خراب ہو اور وہ صبح شام کڑھتا ر ہے اور کچھ نتیجہ اس کے لئے نہیں نکلے گا.میں نے جیسا کہ بتایا ہے یہ معمولی مطالبہ نہیں بلکہ نہایت ہی اہم مطالبہ ہے اور یقیناً جو شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طریق پر غور کرے گا اسے معلوم ہو جائے گا کہ اسلامی تعلیم اور اسلامی تعامل یہی ہے.باقی رہا یہ کہنا کہ اگر اسلامی تعلیم یہی ہے تو آپ حکم کیوں نہیں دیتے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ میں چاہتا ہوں جو عمل کیا جائے وہ بشاشت سے کیا جائے اور اپنی مرضی سے کیا جائے تا کہ ثواب بڑھے.جو فوری ضروریات ہوتی ہیں ان کے متعلق ہم حکم دے دیتے ہیں اور جو فوری امور نہ ہوں ان میں ہم حکم نہیں دیتے بلکہ قوم کو تیار کرتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں جوں جوں ہماری جماعت اس تحریک پر عمل کرتی چلی جائے گی ایک طبقہ ایسا پیدا ہو جائے گا جو پھر واپس نہیں جائے گا اور کہے گا ہمارے لئے یہی مقام اچھا ہے.اصل بات یہ ہے کہ اسلام ایسے تمدن کو قائم کرنا چاہتا ہے جو دنیا کے تمدن سے بالکل مختلف ہے اور یہ اس تمدن کی پہلی سیڑھی ہے.آج اگر ہم تمدن میں تبدیلی نہیں کر سکتے تو جب ہمیں بادشاہتیں ملیں گی 350

Page 363

تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 دسمبر 1936ء اس وقت کیا کریں گے؟ ابھی تو ہماری جماعت میں سے اکثر لوگ غریب ہیں لیکن جب ہم میں سے لوگوں نے محنت کرنی شروع کر دی اور سلطنتیں اور حکومتیں آگئیں تو پھر کتنی خرابیاں پیدا ہو جانے کا احتمال ہے؟ پھر تو وہی چالیس چالیس کھانا کھانے والے لوگ آجائیں گے جن کا ایک ایک لقمہ چکھ کر پیٹ بھر جائے گا اور شکایت کریں گے کہ انہیں بھوک نہیں لگتی.غریب بھو کے مررہے ہوں گے اور ہماری جماعت میں سے وہ لوگ جن کے پاس بادشاہتیں ہوں گی ان کی کوشش یہ ہوگی کہ ساری دنیا کی دولتیں جمع کریں اور باقی ملکوں کو کنگال اور مفلس بنا دیں.پس اس چھوٹی سی بات کی طرف اگر توجہ نہ کی گئی تو اس کے نتیجہ میں ہم دنیا کیلئے جنت نہیں دوزخ پیدا کرنے کا موجب ہو جائیں گے جیسے یورپ والے آج کل جہاں جاتے ہیں لوگ ان پر لعنتیں ڈالتے ہیں کہ وہ تمام ملکوں کی دولت جمع کر کے لے گئے لیکن اگر وہ اسلامی تعلیم پر عمل کرتے تو لوگ ان کے ہاتھ چومتے اور کہتے ، آگئے ہمیں غلامی کی قید سے آزاد کرانے والے.پس یہ تقویٰ کی راہ ہے جو میں نے بتائی اور تقویٰ بھی کوئی نہ کوئی ذریعہ چاہتا ہے.آخر بغیر کسی ذریعہ کے ہم تقومی کس طرح پیدا کر سکتے ہیں؟ جو جو بدیاں دنیا میں پیدا ہیں ان کے مٹانے کا کوئی نہ کوئی سامان چاہئے اور انہی سامانوں میں سے ایک یہ ہے کہ سادہ زندگی اختیار کی جائے اور کھانے پینے اور پہننے میں ایسا طریق اختیار کیا جائے جس میں اسراف نہ ہو اور جس میں ہمارے غریب بھائیوں کا حصہ شامل ہو اور امرا اور غربا کے تعلقات میں کوئی ایسی دیوار حائل نہ ہو کہ غریب امیر کو بلانے سے ڈرے اور امیر غریب کی دعوت قبول نہ کر سکے بلکہ ایسا تمدن قائم ہو جائے کہ ہر شخص دوسرے سے خوشی سے ملے اور تکلفات جاتے رہیں اور یہ سب کچھ سادہ زندگی سے حاصل ہو سکتا ہے.میں نے کئی دفعہ بیان کیا ہے کہ ہمارے ملک میں پیروں نے لوگوں کو یہ عادت ڈال دی ہے کہ جہاں انہیں کوئی مرید ملے وہ اپنی جوتی اُتار دے اور میں دیکھتا ہوں کہ باوجود میرے روکنے کے ہماری جماعت کے بعض دوستوں پر اس کا اب تک اثر ہے اور چوتھے پانچویں روز کوئی نہ کوئی دوست ایسا ملنے آجاتا ہے کہ وہ ادب سے جوتی اُتارنا شروع کر دیتا ہے.بس میری اور اس کی کشتی شروع ہو جاتی ہے میں کہتا ہوں جوتی پہنو اور وہ جوتی اُتار رہا ہوتا ہے.تو اسلام تو یہ چاہتا ہے کہ بنی نوع انسان میں برادرانہ تعلقات پیدا ہوں بے شک ایک بڑا بھائی ہو اور دوسرا چھوٹا لیکن بہر حال اخوت اور برادری ہو اور اخوت ہی اسلام قائم کرنا چاہتا ہے.غریب کو تم چھوٹا بھائی سمجھ لو اور امیر کو بڑا سمجھ لولیکن امیر اور غریب دونوں بھائی ہیں اور یہی روح ہے جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے اور یہ ادب کے بھی منافی نہیں.کیا چھوٹا بھائی اپنے بڑے بھائی کا ادب نہیں کرتا اور کیا بڑا بھائی اپنے چھوٹے بھائی کیلئے قربانیاں نہیں کرتا؟ بے شک جب مسند پر بیٹھنے کا وقت آئے تو چھوٹا بھائی اپنے سے بڑے بھائی کو 351

Page 364

اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 18 دسمبر 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول جگہ دے گا اور آپ ایک طرف بیٹھ جائے گا لیکن نوکروں کی طرح وہ جوتیوں میں نہیں کھڑا ہوگا.یہی چیز ہے جس کو پھر اسلام دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے اور یہی دنیوی بخت ہے.جب یہ نہ ہو اور لکیریں کھینچ دی جائیں کہ تم برہمن ہو تم کشتری ہو، تم شودر ہو اس وقت محبت اور پیار نہیں رہتا اور جس کا داؤ چلتا ہے دوسرے کو ذلیل کر کے نکال دیتا ہے لیکن جب برادری قائم ہو جائے تو آپس کے تعلقات خراب نہیں ہو سکتے.کوئی چھوٹا بھائی یہ کبھی نہیں کہتا کہ اپنے بڑے بھائی کو ماردوں کیونکہ گو وہ اپنے بڑے بھائی کا ادب کرتا ہے لیکن وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ یہ اپنے سکھ کو میرے لئے قربان کرتا ہے اور جانتا ہے کہ اگر کچھ چھوٹے ہونے کی قیمت ادا ہو رہی ہے تو کچھ بڑے ہونے کی قیمت بھی ادا ہو رہی ہے.چھوٹا سمجھتا ہے کہ گو یہ آگے بیٹھتا ہے اور میں پیچھے بیٹھتا ہوں لیکن جب باپ موجود نہ ہو تو اس کا فرض ہے کہ کما کر چھوٹے بھائیوں کو پالے یا وہ مصیبت میں ہوں تو یہ انہیں بچانے کیلئے جدو جہد کرے یا باپ کی عدم موجودگی میں ان کا حافظ و نگران ہو.پس اس پر جو ادب کی قربانی ہے وہ گراں نہیں گزرتی.وہ سمجھتا ہے کہ دونوں ہی اپنے مقام کی قیمت ادا کر رہے ہیں.وہ ایک طرح دے رہا ہے اور میں دوسری طرح دے رہا ہوں.اسی طرح میاں بیوی کا تعلق ہے ، بیوی کھانا پکاتی ہے اور بظاہر وہ ایک ملازمہ نظر آتی ہے لیکن دوسرے موقع پر اس کا میاں اس کی ہر بات مان رہا ہوتا ہے اور بیوی مجھتی ہے کہ گو میں اس کا کام کرتی ہوں مگر اس کو بھی میری اطاعت کی قیمت دوسری طرح ادا کرنی پڑتی ہے.خاوند اس پر روپیہ خرچ کرتا ہے، خاوند اس سے محبت و پیار کرتا ہے اور خاوند اس کی تکلیف میں کام آتا ہے.پس بیوی اپنے آپ کو نو کر نہیں بجھتی بلکہ وہ کہتی ہے کہ اگر اپنے تعلق کی ایک قیمت میں ادا کر رہی ہوں تو میرا خاوند بھی اپنے تعلق کی قیمت ادا کر رہا ہے.یہی اخوت کا تعلق ہوتا ہے جس میں تمام انسان ایک دوسرے کیلئے قربانیاں کرتے ہیں.صرف عمل کے دائرہ میں اختلاف ہوتا ہے ورنہ ہوتی برابری ہی ہے.یہ چیز ہے جسے اسلام قائم کرنا چاہتا ہے اور اس کا ایک ذریعہ تحریک جدید ہے جس میں اپنے ہاتھوں سے کام کرنا، کھانے میں سادگی ، لباس میں سادگی اور رہائش میں سادگی رکھی گئی ہے اور یہ عارضی چیزیں نہیں بلکہ مستقل چیزیں ہیں اور دوستوں کا فرض ہے کہ جبر سے نہیں بلکہ پیار سے، محبت سے سمجھا کر ، دلائل دے کر لوگوں کو قائل کریں.جب یہ باتیں ہماری جماعت کے قلوب میں راسخ ہو جائیں گی تو جب احمدیت کو بادشاہتیں ملیں گی اس وقت کے بادشاہ بادشاہ بن کر نہیں بلکہ بھائی بن کر حکومت کریں گے اور جہاں جائیں گے لوگ کہیں گے یہ ہمیں اٹھانے آئیں ہیں اور جس جس ملک میں بھی احمدیت پھیلے گی خواہ انگلستان میں پھیلے، خواہ جرمن میں، یہ وہاں کا نقشہ بدل کر رکھ دے 352

Page 365

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرمود : 18 دسمبر 1936ء گی اور وہ جابر حکومتیں نہیں ہوں گی بلکہ خادم حکومتیں ہوں گی اور دنیا کو لوٹنے کے لئے قائم نہیں ہوں گی بلکہ دنیا کو ابھارنے کے لئے قائم ہوں گی اور اس ذریعہ سے پھر اسلام کی شوکت اور اس کی عظمت ظاہر ہو گی.پس میں اس مطالبہ کی طرف جماعت کو پھر توجہ دلاتا ہوں یہ کوئی معمولی کام نہیں بلکہ نہایت ہی اہم ہے دوستوں کو چاہئے کہ وہ اس کی طرف خاص توجہ کریں اور اپنے اخلاق کو ایسے طور پر ڈھالیں کہ وہ نہ صرف ان کے لئے بلکہ ان کے تمام بھائیوں کے لئے رضائے الہی کا موجب، سکھ کا موجب، عزت کا موجب اور نیک نامی کا موجب ہوں.“ مطبوعہ الفضل 22 دسمبر 1936ء) 353

Page 366

Page 367

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول امانت فنڈ تحریک جدید اقتباس از تقریر فرمودہ 27 دسمبر 1936ء تقریر فرموده 27 دسمبر 1936 ء بر موقع جلسہ سالانہ دوسری چیز تحریک جدید کا امانت فنڈ ہے جس پر اس سال میں خصوصیت کے ساتھ زور دینا چاہتا ہوں.گزشتہ سال امانت کی رقم پہلے سال سے کم آئی تھی حالانکہ شرط یہ رکھی گئی تھی کہ جو شخص اس امانت فنڈ کے لئے وعدہ کرے گا وہ مسلسل تین سال تک اپنے وعدے کو پورا کرتا چلا جائے گا.اس لحاظ سے 1935ء میں جو وعدے کئے گئے تھے وہ صرف 1935 ء کے لئے نہیں تھے بلکہ 1935 ء ،1936 ء ، 1937ء کے لئے تھے اور 1937ء کے آخر میں ان کے وعدے ختم ہوتے تھے.پھر گزشتہ سال کی تحریک پر بعض نئے لوگوں نے بھی وعدے کئے تھے اس لئے چاہئے تھا کہ 1936ء میں زیادہ امانت جمع ہوتی مگر ہوا یہ کہ 1936ء میں امانت فنڈ کی رقم 1935 ء سے بھی کم آئی گو کمی تو بہت قلیل ہے اور صرف دو تین ہزار کے قریب ہے مگر بہر حال یہ کمی نہیں ہونی چاہئے تھی.پچھلے سال غالباً پچھتر ہزار کے قریب رقم آئی مگر اس چھتر ہزار میں سے دس ہزار کے قریب یکدم آگیا تھا کیونکہ بعض عورتوں نے اس میں حصہ لینے کے لئے اپنے زیورات فروخت کر دیئے تھے اور بعض نے اپنی جائیدادیں بیچ کر اس میں حصہ لیا تھا اس لئے اس دس ہزار کو مستی کرتے ہوئے پینسٹھ ہزار روپیہ جمع ہوا تھا اور اس سال اس وقت تک ساٹھ ہزار کے قریب روپیہ جمع ہوا ہے.ممکن ہے جلسہ سالانہ کے آخری ایام تک باسٹھ تریسٹھ ہزار روپیہ تک رقم پہنچ جائے مگر بہر حال اس مد میں زیادتی ہونی چاہئے تھی جو افسوس ہے کہ نہیں ہوئی بلکہ کمی ہوئی.میں اس مد کی تفصیلات کو بیان نہیں کر سکتا صرف اس قدر کہنا چاہتا ہوں کہ اس کے دو نقطہ نگاہ ہیں میں نے کئی دفعہ سُنایا ہے کہ جب فتح حسنین ہوئی اور مکہ والوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹوں کے گلے اور بھیٹروں اور بکریوں کے ریوڑ تقسیم کر دیئے تو بعض حدیث العہد نو جوانوں کو جو انصار میں سے تھے شکوہ پیدا ہوا اور ایک نے اُن میں سے کہا کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور مال محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رشتہ داروں میں بانٹ دیا.آپ ﷺ کو جب اس امر کی اطلاع ہوئی تو آپ یا اللہ نے انصار کو جمع کیا اور فرمایا اے انصار! مجھے تمہارے متعلق یہ رپورٹ پہنچی ہے وہ رو پڑے اور انہوں نے کہا یا رسول الله الا الله! صلى الله 355

Page 368

اقتباس از تقریر فرموده 27 دسمبر 1936ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول م میں سے ایک نوجوان نے بے وقوفی سے یہ بات کہی ہے ہم اس کے اس قول سے بیزار ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے انصار ! یہ بات دو طرح کہی جاسکتی تھی تم کہہ سکتے تھے کہ حمد صلی اللہ علیہ وسلم اکیلا تھا، ملکہ کے لوگ اس کے دشمن تھے، اس کی قوم اس کی مخالف تھی ، انہوں نے مل کر اسے اپنے وطن سے نکالا اور جب لوگوں میں سے کوئی اس کا مددگار نہ رہا تو مدینہ والے آئے اور انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جگہ دی ، اپنے مال اس کی خاطر لگائے اور اپنی جانیں اس کے اشارہ پر قربان کر کے اُسے مکہ فتح کر کے واپس دلایا مگر جب مکہ فتح ہو گیا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مال تو اپنے وطن والوں کو دے دیا مگر انصار کو کچھ صلى الله نہ دیا.انصار پھر رو پڑے اور انہوں نے کہا: یارسول اللہ ! ہم نہیں کہتے ، ہم میں سے ایک بے وقوف نوجوان نے یہ بات کہی ہے.آپ ﷺ نے پھر فرمایا: اے انصار! لیکن اگر تم چاہتے تو ایک اور رنگ میں بھی یہ بات کہہ سکتے تھے تم کہہ سکتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے سب سے بڑے رسول سید ولد آدم کو مکہ میں پیدا کیا مگر جب اُس نے مکہ والوں کے سامنے اپنا دعویٰ پیش کیا تو انہوں نے انکار کیا تب اللہ تعالیٰ نے مکہ والوں پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ان لوگوں میں رہنے نہ دیا بلکہ مدینہ میں اُسے جگہ دی پھر خدا تعالیٰ نے فرشتوں کی مدد سے نہ کہ انسانوں کی امداد سے مکہ اس کے لئے فتح کیا لیکن جب مکہ فتح ہو گیا اور مکہ کے رہنے والے یہ امید کرنے لگے کہ شاید اب ہماری امانت ہمیں واپس مل جائے گی اور خُدا کا رسول پھر ہمارے شہر میں جو اس کا وطن ہے رہنے لگ جائے گا تو خدا تعالیٰ نے اُن کی اس خواہش کو رد کر دیا اور مکہ والے تو اونٹوں اور بھیڑوں اور بکریوں کے گلے ہانک کر اپنے گھروں کو لے گئے مگر مدینہ والے خُدا کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھروں کو لے آئے.آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم چاہتے تو یہ بھی کہہ سکتے تھے.اس امانت فنڈ کا بھی یہی حال ہے اور اس کے بھی دو نقطہ نگاہ ہیں: ایک نقطہ نگاہ وہ ہے جو احراری پیش کرتے ہیں کہ چونکہ نذریں آنی بند ہو گئی ہیں اس لئے اب امانت کے نام سے روپیہ مانگنا شروع کر دیا ہے.مگر دوسرا نقطہ نگاہ وہ ہے جو ہمارے دوست جانتے ہیں اور جن کو حالات کا بخوبی علم ہے وہ جانتے ہیں کہ امانت فنڈ کے ذریعہ احرار کو خطر ناک شکست ہوئی ہے اتنی خطر ناک شکست کہ میں سمجھتا ہوں اُن کی شکست میں کم سے کم پچیس فیصد حصہ امانت فنڈ کا ہے لیکن باوجود اس قدر فائدہ حاصل ہونے کے دوستوں کا تمام روپیہ محفوظ ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ دوستوں کو اس روپیہ پر کچھ نہ کچھ نفع ہی مل جائے گا 356

Page 369

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از تقریر فرموده 27 دسمبر 1936ء گوامانت پر نفع نہیں ہوتا لیکن اگر امانت رکھنے والا نفع دے دے تو یہ جائز ہوتا ہے.غرض امانت فنڈ کا استعمال ایسا مبارک اور ایسا اعلیٰ درجہ کا ثابت ہوا ہے کہ میں سمجھتا ہوں اگر دس بارہ سال تک ہماری جماعت کے دوست اپنے نفسوں پر زور ڈال کر امانت فنڈ میں روپیہ جمع کراتے رہیں اور اس دوران میں جس کو ضرورت ہو وہ روپیہ لیتا ہے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے قادیان اور اس کے گردو نواح میں ہماری جماعت کی مخالفت پچانوے فیصدی کم ہو جائے اور صرف پانچ یا سات فیصدی رہ جائے.یوں بھی انسان اپنی ضروریات کے لئے گھر میں روپیہ جمع کیا ہی کرتا ہے بلکہ جمع کرنا ضروری ہوتا ہے.حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل جب جموں میں ملازم تھے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک خط میں انہیں لکھا کہ آپ کو اپنی آمد کا چوتھا حصہ جمع کرنا چاہئے اس سے کم نہیں.ہاں اگر زیادہ جمع کر سکیں تو یہ اور بھی زیادہ بہتر ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے روپیہ جمع کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کی وجہ آپ نے یہی لکھی کہ آپ اپناروپیہ چونکہ دینی ضروریات پر خرچ کرتے ہیں اور ممکن ہے کل کوئی زیادہ اہم دینی معاملہ پیدا ہو جائے جس کے لئے روپیہ کی فوری ضرورت ہو اس لئے بہتر ہے کہ ابھی سے روپیہ جمع کرنا شروع کر دیں تا زیادہ ثواب کا موقع آنے پر آپ کو یہ رنج نہ ہو کہ کاش میرے پاس روپیہ ہوتا اور میں اسے دین کے لئے دے سکتا تو دینی ضرورتوں کے لئے اور اس لئے کہ انسان مسرف نہ بنے.روپیہ جمع کرنا نا جائز نہیں بلکہ جائز ہے اور یہ جمع کرنا تو ایسا ہی ہے جیسے کہتے ہیں ” آم کے آم گٹھلیوں کے دام“.امانت فنڈ میں روپیہ جمع کرنے والوں کو دام بھی مل جائیں گے اور جو گٹھلی ہوگی وہ خدا تعالیٰ کے سلسلہ کے کام آجائے گی.پس یہ ایک نہایت ہی اہم چیز ہے جس کی طرف جماعت کو خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے.میں نے کہا تھا کہ جو لوگ اس مد میں روپیہ جمع کرنا چاہیں وہ ایک روپیہ سے کم رقم جمع نہ کریں اور جو ایک روپیہ بھی نہ دے سکیں وہ چند آدمی مل کر جمع کرائیں تا کہ ہر جماعت اس ثواب میں شامل ہو جائے.میں سمجھتا ہوں جوں جوں ہماری جماعت ترقی کرتی جائے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے دس بارہ لاکھ روپیہ سالانہ امانت فنڈ میں جمع ہو سکتا ہے اور ہم اس روپیہ کے ذریعہ جماعت کی اقتصادی ترقی کے لئے وہ تمام کام کر سکتے ہیں جو حکومتیں کیا کرتی ہیں.آخر حکومت تو ہمارے پاس ہے نہیں کہ ہم اپنی جماعت کی اصلاح اور ترقی کے لئے وہ ذرائع اختیار کرسکیں جو حکومتیں اختیار کیا کرتی ہیں لیکن اگر امانت فنڈ میں کافی ردو پہیہ آنے لگ جائے تو ایسے تمام ذرائع اختیار کئے جاسکتے ہیں اور ممکن ہے علاوہ اصل روپیہ کی واپسی کے 357

Page 370

اقتباس از تقریر فرموده 27 دسمبر 1936ء لوگوں کو کچھ نفع بھی دیا جا سکے.تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول پس ان تمام فوائد کے ساتھ اگر یہ روپیہ جماعت کی اقتصادی حالت کو مضبوط بنا دے تو کتنی بڑی فائدہ کی بات ہے.جماعت کے دوستوں کا روپیہ بھی محفوظ رہے گا اور اقتصادی ترقی بھی ہوتی چلی جائے گی.میں نے جو سکیم میں سوچی ہوئی ہیں اُن کے ماتحت اگر کسی وقت پانچ چھ لاکھ روپیہ تک امانت فنڈ پہنچ جائے تو ہم بغیر کسی بوجھ کے خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ تمام کام کر سکتے ہیں جو حکومتیں کیا کرتی ہیں اور جنہیں یورپ کی حکومتیں تو کرتی ہیں مگر ہندوستان کی حکومت نہیں کرتی.غرض یہ تحریک ایسی اہم ہے کہ میں تو جب بھی تحریک جدید کے مطالبات پر غور کرتا ہوں اُن میں سے امانت فنڈ کی تحریک پر میں خود حیران ہو جایا کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ امانت فنڈ کی تحریک الہامی تحریک ہے کیونکہ بغیر کسی بوجھ اور غیر معمولی چندہ کے اس فنڈ سے ایسے ایسے اہم کام ہوئے ہیں کہ جاننے والے جانتے ہیں وہ انسان کی عقل کو حیرت میں ڈال دینے والے ہیں.“ ( مطبوع الفضل 13 جنوری 1937 ء ) 358

Page 371

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از تقریر فرموده 10 اپریل 1936ء خدمت دین کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں تقریر فرمود: 10 اپریل 1936 ، بر موقع مجلس شوری تیسری بات یہ ہے کہ نو جوان خصوصاً اور دوسرے لوگ عموماً اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کریں اور غیر ممالک میں جا کر تبلیغ کریں.اس وقت تک کئی نوجوان جاچکے ہیں اور کئی جانے والے ہیں.سٹریٹ سیٹلمنٹ میں جو مبلغ گیا ہے وہ مدرسہ احمدیہ کا ایک مولوی فاضل ہے پہلے اس کے متعلق مجھ پر اثر تھا کہ اس نے چستی سے کام نہیں کیا مگر اب معلوم ہوا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ اچھا اثر پیدا کر رہا ہے اور اپنے لئے مفید ماحول تیار کر رہا تھا ہم اسے کوئی خرچ نہیں دیتے وہ پھیری کر کے کماتا ہے اور تبلیغ کرتا ہے.اور بھی کئی نوجوان جا رہے ہیں، چین میں ایک مبلغ جاچکا ہے اور دوسرا جانے کے لئے تیار ہے، آسام کو جانے کے لئے ایک نو جوان تیار ہے، پین جاچکا ہے، ساؤتھ افریقہ جاچکا ہے، ہنگری جاچکا ہے، البانیہ جانے کے لئے تیار ہے ( اس عرصہ میں جاچکا ہے ).یہ سب زندگی وقف کنندگان ہیں ان کے علاوہ آٹھ دس نو جوان اپنے طور پر مختلف علاقوں کو روانہ ہو چکے ہیں ان میں سے بعض یہاں سے کلکتہ تک پیدل گئے ہیں اور پھیری کر کے اپنا زادراہ پیدا کرتے چلے گئے ہیں.یہ شاندار کام جو انہوں نے کیا اور بھی کر سکتے ہیں اور جماعت کی ترقی میں محمد ہو سکتے ہیں.بے شک ہمیں دین کے لئے روپیہ کی ضرورت پیش آتی ہے اور پیش آتی رہے گی لیکن جہاں تک تبلیغ کا کام ہے وہ روپیہ سے نہیں چل سکتا بلکہ قربانی اور ایثار سے چل سکتا ہے اس کے لئے نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں اور اس میں جماعت اس طرح تعاون کرے کہ ہر جگہ بااثر لوگ اپنی اپنی جماعتوں میں اس پر تقریریں کریں اور نو جوانوں میں تحریک کریں کہ وہ اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کریں.میں نے ایک خطبہ میں بیان کیا تھا کہ ایک لڑکا میرا خطبہ سن کر افغانستان چلا گیا جہاں اسے قید میں ڈال دیا گیا اور وہ قید خانے کے افسروں کو تبلیغ کرنے لگ گیا جن میں سے بعض احمدیت کے قریب آگئے.اس پر علما نے فتوی دیا کہ اسے قتل کر دیا جائے لیکن حکومت نے کہا یہ انگریزی رعایا ہے اس کے قتل کرنے سے کوئی الجھن نہ پیدا ہو جائے.آخر اسے افغانستان سے نکال دیا گیا، وہ یہاں آ گیا اب پھر وہ کسی اور ملک کے لئے چلا گیا ہے اسی طرح 359

Page 372

اقتباس از تقریر فرموده 10 اپریل 1936ء "" تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول اور کئی ایک نے ایسا ہی کیا ہے.وہ جس کا میں نے ذکر کیا ہے کہ کلکتہ تک پیدل گیا وہ جالندھر سے روانہ ہوا اور کلکتہ پہنچ کر آگے سٹریٹ سیٹلمنٹ کے لئے روانہ ہو گیا اور دس کے قریب ایسے لڑکے ہیں جو ان کے علاوہ ہیں جن میں سے بعض کی تقلیل مدد کی گئی اور بعض کو کوئی مدد نہیں دی گئی.تو جماعتیں اپنے نوجوانوں کو بتائیں کہ گھروں میں بے کار بیٹھے رہنے کی بجائے پاؤ نیر بنو اور باہر جا کر کام کرو.اس طرح خود بھی فائدہ اٹھاؤ اور سلسلہ کو بھی فائدہ پہنچاؤ.“ میں بتا چکا ہوں کہ روحانی ترقی کا روپیہ پر انحصار نہیں مگر موجودہ حالات کے لحاظ سے روپیہ کی ضرورت ہے اس کے لئے جماعت کو تحریک ہوتی رہتی ہے.میں نے تحریک جدید اور صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے ایسے کام شروع کرائے ہیں کہ ان کے ذریعہ کچھ آمد ہو سکے اور اس غرض کے لئے کچھ زمین بھی خریدی گئی ہے اور امید کی جاتی ہے کہ کچھ عرصہ تک وہ زمین اپنا بوجھ برداشت کرنے لگ جائے گی اور اس کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ آمد دینے لگے گی.گو اس وقت تک صدر انجمن احمدیہ کا پچاس ہزار کے قریب اور تحریک کا پچاس ہزار کے قریب روپیہ خرچ ہوا ہے لیکن امید ہے کہ آخر یہ جائیداد بارہ تیرہ لاکھ کی ہو جائے گی یا اس سے بھی زیادہ کی ، میرا ارادہ ہے کہ اسی طرح کچھ اور جائیداد خریدی جائے یہاں تک کہ دفاتر کے مستقل اخراجات کا بار چندہ پر نہ رہے چندہ صرف تبلیغ تعلیم وغیرہ پر خرچ ہو.میرا ارادہ ہے کہ جائیداد پچیس لاکھ تک بڑھا دی جائے تا کہ اس طرح ریز روفنڈ کی تحریک پوری ہو جائے بلکہ ممکن ہو تو بڑھا کر ایک کروڑ تک پہنچادی جائے تاکہ تبلیغ کے کام کو زیادہ شدت سے وسیع کیا جا سکے.اس طرح یہ زمین اٹھارہ لاکھ کی بن جاتی ہے اور ساری سکیم ایک کروڑ کی ہے جس کے لئے خدا کے فضل سے ایسے سامان پیدا ہو گئے ہیں اور اس طرح پیدا ہوئے ہیں کہ جس کا وہم و گمان بھی نہ تھا مگر اس سکیم کو مکمل کرنے کے لئے شروع میں غیر معمولی قربانیوں کی بھی ضرورت ہوگی مگر اس کے بغیر چارہ نہیں کیونکہ اس وقت ہمارے چندوں کا اکثر حصہ تنخواہوں پر خرچ ہو جاتا ہے بلکہ 2/3 تنخواہوں پر خرچ ہو جاتا ہے اور 1/3 صرف سائز کے لئے رہ جاتا ہے.حالانکہ ہونا یہ چاہئے کہ 114 عملہ پر خرچ ہو اور 3/4 سائر پر بلکہ ممکن ہو تو اس سے بھی زیادہ فرق ہو تا کہ سلسلہ کا لٹریچر ساری دنیا میں پھیلایا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا دنیا کی ہر زبان میں ترجمہ ہو، ہر ملک میں مبلغ جائیں، وہاں کے لوگوں کو یہاں بلوا کر تعلیم دی جائے.جماعت کے ناداروں کو کام پر لگانے کی ، بیتامی اور مساکین کی پرورش کی پوری طرح ذمہ داری لی جائے مگر اب تک ہم یہ نہیں کر سکے کیونکہ اول تو آمدیم پھر مرکزی دفاتر کا خرچ زیادہ ہے جسے کم کرنے کی کوئی صورت نہیں کیونکہ اس سے کم کر لیا 360

Page 373

تحریک جدید - ایک ابھی تحریک...جلد اول اقتباس از تقریر فرموده: 10 اپریل 1936ء جائے تو کام بالکل ہی بند ہو جاتا ہے.پس ہمارے لئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ جس قدر کام کا روپیہ پر انحصار ہے اس کے لئے ہم مستقل آمد کی صورت پیدا کریں اور تبلیغی کاموں کے لئے بھی مزید رقوم کا انتظام کریں.اس وقت خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے بعض ایسے راستے کھولے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں اگر تین چار لاکھ روپیہ کا انتظام ہو جائے تو غالباً ہم لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالانہ کی آمد کی جائیداد پیدا کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں جو پہلی خرید شدہ جائیداد کے ساتھ مل کر سلسلہ کو مرکزی دفاتر کے اخراجات کے بار سے آزاد کر اسکتی ہے اور اس طرح ہم پورے جوش سے تبلیغ کے کام کو وسیع کر سکتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے چند دن میں ہی اعلی سے اعلیٰ نتائج پیدا ہو سکتے ہیں لیکن اس رقم کا انتظام تو اس وقت مشکل ہے کم سے کم اگر دوست صدر انجمن احمدیہ کے بقائے ادا کر دیں اور تحریک کا چندہ اس خلوص سے ادا کریں جس سے انہوں نے وعدہ کیا تھا تو کم سے کم ایک معقول بنیاد اس کام کی ڈالی جاسکتی ہے.گویا مزید قربانی کرنے کے بغیر اگر جماعت اپنے وعدوں کو ہی جلد سے جلد ادا کر دے تو مجھے اپنی سکیم کے مکمل کرنے میں سہولت ہو سکتی ہے مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس سال تحریک جدید کا چندہ اس سرعت سے نہیں وصول ہو رہا جس سرعت سے گزشتہ سال وصول ہوا تھا.حالانکہ اس سال چندہ کا وعدہ گزشتہ سال کے وعدے سے زیادہ ہے.اگر جماعت اس چوٹ کو یا د رکھتی اور اس تکلیف کو بھول نہ جاتی جو اسے پہنچی ہے تو وہ ریز روفنڈ کو بہت مضبوط کر دیتی.اس کے لئے میں تمام مخلص احباب سے تعاون چاہتا ہوں اور وہ اس طرح کہ: (۱) جن جماعتوں کے ذمہ تحریک جدید کا چندہ ہے اور جسے انہوں نے اس سال ادا کرنا ہے وہ دو تین ماہ کے اندر اندر بھیج دیا جائے اور یہ انتظار نہ کریں کہ سال سے ختم ہونے تک ادا کر دیں گے.(۲) کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جو مکان بنانے یا کسی اور غرض کے لئے روپیہ جمع کر رہے ہوتے ہیں اور روپیہ کے جمع ہو جانے تک انتظار کر رہے ہوتے ہیں.ایسے لوگ یا وہ لوگ جو اپنی ضرورت کو ایک سال پیچھے ڈال سکتے ہیں میں ان سے چاہتا ہوں کہ وہ ایک سال کے لئے اپنا روپیہ مجھے قرض دے دیں، میں اس کے ذریعہ سے تحریک جدید کے ریز روفنڈ کو مضبوط کروں گا اور اگلے سال کے چندہ سے ان کی رقم واپس کر دوں گا.ایسی رقوم بہر حال کیکم اپریل 1937 ء تک انشاء اللہ واپس کر دی جائیں گی.اگر احباب اس طرح تعاون کریں تو جماعت پر بغیر کسی قسم کا زائد بوجھ ڈالنے کے کام چلایا جاسکتا ہے اور سلسلہ کی آمدنی کا بہت بڑا انتظام کیا جا سکتا ہے.اگر ہمارا ریز روفنڈ کامیاب ہو جائے تو سو فیصدی چندہ تبلیغ کے کام پر اور ان مقاصد پر جو مرکز سے نہیں بلکہ باہر سے تعلق رکھتے ہیں خرچ ہوگا اور مرکز کے اخراجات ریز روفنڈ کی آمدنی سے چلائے جاسکیں گے چندہ میں سے مرکز میں کچھ نہیں لگے گا.361

Page 374

اقتباس از تقریر فرموده 10 اپریل 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول اس وقت تک جو زمین خریدی جا چکی ہے اس زمین کا انتظام اس ارادہ کے ساتھ کیا گیا تھا کہ جماعت کے زمیندار اسے خرید لیں اس کے لئے الفضل میں اعلان بھی کیا گیا مگر کسی نے توجہ نہ کی اس پر نصف سے کچھ زائد صدرانجمن احمدیہ نے خرید لی اور باقی کچھ اور لوگوں نے جن میں میں بھی شامل ہوں لیکن میں برابر اس فکر میں رہا ہوں کہ جماعت کے زمینداروں کی اصلاح کے لئے اور رقبے حاصل کئے جائیں اور چونکہ دوستوں کو اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ انہیں ایسی سکیم میں حصہ لینا چاہئے تھا اس لئے سنڈیکیٹ جو ایک کمپنی زمیندارہ کے متعلق ہے اور جس میں 1/3 حصہ صدر انجمن احمد یہ کا ہے اور رقبہ جات کی فکر میں ہے.میں دوستوں کو پھر توجہ دلاؤں گا کہ اگر کامیابی ہو تو دوست اس دفعہ پھر غفلت نہ برتیں بلکہ زمیندار لوگ محنت سے کام لیں اپنی حالت کو بدلنے کی کوشش کریں یوں لکھے اپنے گھروں میں پڑے رہنے سے کچھ نہیں بنتا.انہیں چاہئے کہ جہاں زمین مل سکتی ہو چلے جائیں اور تھوڑی زمینداری پر کئی کئی خاندان نہ پڑے رہیں.آج زمینداروں کی حالت بہت ہی قابل رحم ہو رہی ہے.میں دوستوں کوئی بار توجہ دلا چکا ہوں کہ وہ اپنے گھروں سے باہر نکل کر اپنی مشکلات کو دور کرنے کی کوشش کریں مگر وہ کچھ ایسے ضدی واقع ہوئے ہیں کہ اپنے وطنوں کو چھوڑتے ہی نہیں.دوسری سکیم یہ ہے کہ یہاں کارخانے جاری کئے جائیں.جراب سازی کا کارخانہ تو اپنے طور پر قائم ہو چکا ہے اور وہ اس سکیم کے ماتحت نہیں گو میری تحریک سے ہی جاری ہوا ہے.اس سکیم کے ماتحت جو کارخانے جاری کئے گئے ہیں وہ یہ ہیں: (۱) لوہے کا کام کرنے کا کارخانہ، (۲) لکڑی کا کام کرنے کا کارخانہ ، اب چمڑے کے کام کا بھی اضافہ کیا جارہا ہے.(اس دوران میں یہ کارخانہ بھی جاری ہو چکا ہے ) ، (۳) دواسازی کا کام بھی شروع کیا جائے گا جس کی ایک شاخ دہلی میں کھولی جائے گی، (۴) گلاس فیکٹری کا کام ہے.ایک مخلص دوست نے اپنی جائیداد بیچ کر جاری کیا ہے.چونکہ وہ اکیلے اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے تھے اس لئے اس میں بھی تحریک جدید کا حصہ رکھ دیا گیا ہے.بیرونی ممالک میں جو مبلغ گئے ہیں ان کے ذریعہ وہاں کئی قسم کا ہندوستان کا سامان فروخت ہو سکتا ہے اس لئے ایک قسم کی دوکان جاری کرنے کی تجویز ہے.اس کے علاوہ اور کارخانے بھی مدنظر ہیں.اصل بات بے کاروں کو کام پر لگانا ہے اور یہ بھی کہ جماعت کی مالی حالت بھی اچھی ہو اور تحریک جدید کی مالی تحریک جب بند کر دی جائے تو اس کا کام ان کارخانوں کی آمدنی سے چلے.ان کارخانوں کے متعلق احباب ان طریقوں سے مدد کر سکتے ہیں : (۱) جن احباب کو ان کاموں میں سے کسی کا تجربہ ہو وہ مفید تجاویز بتا ئیں اور سودمند مشورے دیں، (۲) ماہر فن احباب کارخانوں میں آکر کام ہوتا دیکھیں اور مشورے دیں کہ کس طرح کام کرنا چاہئے، 362

Page 375

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد اول اقتباس از تقریر فرموده 10 اپریل 1936ء (۳) اس طرح بھی اس بارے میں مدد کی جاسکتی ہے کہ جماعت کے لوگ ان کارخانوں کی بنی ہوئی چیزیں خریدیں.ہوزری سے خریدنے کے لئے میں نے کہا تھا.گو مجھے افسوس ہے کہ اس طرف پوری توجہ نہیں کی گئی مگر مجھے ہوزری سے بھی شکایت ہے کہ اس نے کام اس طرح سے شروع نہیں کیا جس طرح اسے کرنا چاہئے تھا.اسی طرح لکڑی کا سامان ہے جو دوست یہ سامان اور جگہوں سے خریدتے ہیں وہ یہاں سے خریدا کریں.ان کارخانوں میں کام سکھانے سے متعلق ہم یتیم لڑکوں کو مقدم رکھیں گے اور جن لڑکوں کو ہم لیتے ہیں ان کا سارا خرچ برداشت کرتے ہیں ساتھ ہی دینی اور دنیوی تعلیم بھی دلاتے ہیں تا کہ گو وہ کہنے کو تو مستری ہوں لیکن اصل میں انجینئر ہوں اور اعلیٰ پیشہ ور ہوں.یہ بھی ارادہ ہے کہ سرکاری ورکشاپوں سے معلوم کیا جائے کہ انہیں کن کاموں اور پیشوں کے جاننے والوں کی ضرورت ہوتی ہے.پھر ان کے مطابق کام سکھایا جائے.“ در پورت مجلس شوری منعقدہ 10 تا 12 اپریل 1936 ء ) 363

Page 376

Page 377

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول وو اقتباس از تقریر فرموده 12 اپریل 1936ء جلد سے جلد چندہ تحریک جدید ادا کیا جائے تقریر فرمود : 12 اپریل 1936، بر موقع مجلس شوری مالی دقت کو دور کرنے کے لئے دوست اس طرح بھی امداد کر سکتے ہیں کہ چندہ تحریک جدید میں جو سستی نظر آتی ہے اسے چستی سے بدل دیں.اگر کافی رقم آگئی تو اخراجات سے جوز ائد ہوگا اسے سلسلہ کی جائیداد کے قیام پر لگا دیا جائے گا.پس احباب کو کوشش کرنی چاہئے کہ جلد سے جلد تحریک جدید کا چندہ ادا ہو، اس کی ادائیگی سال کے آخر تک نہ رہنی چاہئے ، اس کا بقایا ایسا ہی شرمناک ہے جیسی کہ ناک کٹ جائے کیونکہ اس کے متعلق بار بار کہا گیا ہے کہ جس نے جس قد ر ادا کرنا ہو اسی قدر وعدہ لکھائے اور وعدہ لکھانے یا نہ لکھانے کا اسے اختیار ہے.پس جن لوگوں نے اس قدر احتیاط کے بعد چندہ لکھوایا ہوا گر وہ ستی کریں تو انتہا درجہ کی غفلت پر یہ امر دلالت کرے گا.پس دوست تحریک جدید کے چندے سب کے سب پورے کریں اور جلد سے جلد پورے کریں سوائے اشد مجبوری کے سال تک انتظار نہ کریں اور میں پھر ایک دفعہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ جس نے یوں ہی چند لکھوا دیا تھا اور وہ ادا نہیں کر سکتا وہ اب بھی اپنا نام کٹوادے ورنہ میں تو ایسے شخص کو منافق سمجھنے پر مجبور ہوں گا جس نے اپنی آزاد مرضی سے چندہ لکھوایا بغیر اس کے کہ اس پر کسی قسم کا جبر کیا گیا ہو اور پھر اپنے وعدہ کو پورا نہ کیا اور اپنے پیدا کرنے والے خدا سے دھو کہ کیا یا پھر اسے ثابت کرنا ہوگا کہ اس پر کوئی ایسی ناگہانی آفت گرمی کہ جس کی وجہ سے اس کے لئے چندہ ادا کرنا ناممکن ہو گیا مگر معمولی عذر اور ایسی مالی تنگی جو عام طور پر ہو ہی جایا کرتی ہے ہرگز کافی عذر تسلیم نہ ہوگا.“ رپورٹ مجلس شوری منعقد 10 تا 12 اپریل 1936ء ) 365

Page 378

Page 379

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از تقریر فرموده 23 اکتوبر 1936ء الہی سلسلے روپے سے نہیں چلتے بلکہ اخلاص سے چلتے ہیں تقریر فرموده 23 اکتوبر 1936 ء بر موقع مجلس شوری میں نے تحریک جدید کو شروع میں ہی بتایا تھا کہ الہی سلسلے روپے سے نہیں چلتے بلکہ اخلاص سے چلتے ہیں اس لئے ہم اسی وقت کامیاب ہو سکتے ہیں جبکہ ہمارے کاموں کی بنیاد روپیہ پر نہیں بلکہ اخلاص پر ہو.ہمارے لئے روپیہ کے ذریعہ کام کرنا ناممکن ہے اس لئے غور کرتے وقت یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ ہمارے کام کی بنیاد روپیہ پر نہیں بلکہ اخلاص پر مبنی ہو.دیکھو صحابہ کے مقابلہ میں ہماری جماعت کتنی وسیع ہے مگر میں یہ نہیں خیال کر سکتا کہ اس وقت ہمیں کئی لاکھ کی جماعت میں سے دس ہزار سپاہی بھی آسانی سے مل سکتے ہیں کیونکہ آج کل کے لحاظ سے دس ہزار سپاہی رکھنے کے یہ معنے ہیں کہ کم از کم چار پانچ لاکھ روپیہ مہیندان پر خرچ کیا جائے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت جبکہ ہماری تعداد کی نسبت آپ ﷺ کے صحابہ کم تھے اور کم روپیہ رکھتے تھے، دس ہزار سپاہی جمع کر لئے.اس کی وجہ کیا تھی؟ یہی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کام اخلاص پر ہوتا تھا روپیہ پر نہیں.اس وجہ سے آدمیوں کا ملنا ناممکن نہ تھا اور یہ سوال ہی نہ تھا کہ فلاں حد تک ہم قربانی کریں گے اس سے آگے نہیں بلکہ یہ کہا جاتا تھا کہ کوئی حد بندی نہیں جہاں چاہیں لے جائیں.چنانچہ بدر کے موقع پر صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ! ہم سے آپ ﷺ کیا پوچھتے ہیں؟ یہ سامنے سمندر ہے ارشاد ہو تو اس میں گھوڑے ڈال دیں.اس سے ظاہر ہے کہ مومن دین کے لئے قربانی کرتے وقت کوئی شرط نہیں جانتا بلکہ حکم کا منتظر رہتا ہے اور جب کوئی جماعت اس مقام پر قائم ہو جائے تو پھر روپیہ کی کمی اس کی ترقی میں روک نہیں بن صلى الله.میں نے کہا ہے کہ میں اس کے لئے تیار نہیں ہوں کہ کوئی جاری شدہ کام بند کر دیا جائے لیکن اگر کوئی کام خود بخود بند ہو جائے تو ہو جائے.مثلاً سکول کے کارکن مخلص نہ ہوں ، چار پانچ یا آٹھ دس ماہ کا بقایا ہو جائے اور وہ مدرسہ چھوڑ کر چلے جائیں اور سکول بند ہو جائے مگر میں جانتا ہوں کہ سکول بند نہ ہوگا.اگر ہم اور بند اسے جاری رکھنے کی کوشش کریں مگر کامیاب نہ ہوں اور کام کرنے والے کام چھوڑ کر چلے جائیں تو ایک دن 367

Page 380

اقتباس از تقریر فرمود : 23 اکتوبر 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول بھی کام بند نہ ہوگا کہ ان کے قائم مقام جو ان سے بہت زیادہ مخلص ہوں گے مل جائیں گے.دیکھو! یہ کہیں نہیں آیا کہ ہم نے مومنوں کو روپیہ دیا ہے.قرآن کریم میں ایسی چیزوں کا نام آتا ہے جن کو خدا نے بنایا ہے.قرآن نے مال کا نام لیا ہے اور مال روپیہ کو نہیں کہتے بلکہ ہر اس چیز کو کہتے ہیں " جسے ترقی دی جاسکے اور جس سے غلبہ حاصل ہو اور یہ چیز مومن کے پاس ہر وقت موجود ہوتی ہے.پس میں جانتا ہوں کہ اگر ہمارا کوئی کام بند ہونے لگے تو خدا تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر دے گا کہ وہ جاری رہے لیکن اگر اس کی مصلحت اسے بند ہی رکھنا چاہے تو پھر ہم پر ذمہ داری عائد نہیں ہو گی مگر جسے ہم خود بند کریں اس کی ذمہ واری ہم پر عائد ہوگی.“ میں نے جماعت سے دین کی خدمت کے لئے روپے مانگے اور وہ اس نے دے دیئے لیکن جب میں نے کہا کہ میں تمہارے بچوں کو زندگی دیتا ہوں تو اسے قبول نہ کیا گیا اور جہاں دو متضاد چیزیں جمع ہو جائیں وہاں ترقی کس طرح ہو سکتی ہے ؟ ہماری جماعت کے لوگوں نے پہلے سے زیادہ مالی قربانی کر کے گویا اپنے آپ کو ایک رنگ میں مار دیا اور اپنے بچوں کو بے کا ر رکھ کر موت لے لی اور اس طرح دو موتیں جمع ہو گئیں.حالانکہ میں نے ان کو ایک حیات دی تھی اور وہ یہ کہ اپنے بچوں کو بے کار نہ رکھو، اسے انہوں نے چھوڑ دیا اور جو موت دی تھی وہ لے لی اور پھر کہا جاتا ہے کہ بچوں کے لئے کوئی کام نہیں ملتا.قادیان میں ہی ایک محکمہ بے کاری کو دور کرنے کے لئے ہے مگر وہ کامیاب نہیں ہوتا.ہم نے یہاں کئی کارخانے جاری کئے ہیں مگر یہی سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ محنت زیادہ کرنی پڑتی ہے اور مزدوری تھوڑی ملتی ہے.حالانکہ آوارگی اور بے کاری سے تو تھوڑی مزدوری بھی اچھی ہے.یہ قدرتی بات ہے کہ کام سیکھنے والے سے کام خراب بھی ہو جاتا ہے اور اس طرح کام سکھانے والوں کو نقصان اُٹھانا پڑتا ہے اس وجہ سے کام سیکھنے والوں کو کم مزدوری دی جاتی ہے، کل ہی کام سکھانے والے آئے تھے جو کہتے تھے کہ کام سیکھنے والے لڑکوں نے کام خراب کر دیا ہے.طریق تو یہ ہے کہ کام سکھانے والے سیکھنے والوں سے لیتے ہیں مگر ہم تو کچھ نہ کچھ دیتے ہیں مگر پھر بھی کام نہیں سیکھتے.حالانکہ اس وقت تک ہمارے پاس کئی ہندوؤں کی چٹھیاں آچکی ہیں کہ ہمارے بچوں کو اپنے کارخانوں میں داخل کر کے کام سکھائیے.ولایت میں بھی کام سکھانے والے کام سیکھنے والوں سے لیتے ہیں مگر یہاں کہتے ہیں مزدوری کم ملتی ہے اور اس وجہ سے بچوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں جبکہ میرا بتایا ہوا یہ گر استعمال نہیں کیا گیا تو آگے کیا امید ہو سکتی ہے کہ جو بات بتائی جائے گی اس پر عمل کیا جائے گا مگر 368

Page 381

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از تقریر فرموده 23 اکتوبر 1936ء میرا کام یہ ہے کہ رہنمائی کرتا جاؤں جب تک جماعت یہ بات محسوس نہیں کرتی کہ نو جوانوں کا بے کار رہنا خطرناک ظلم ہے اتنا خطر ناک کہ اس سے بڑھ کر اولا د ر اور پھر قوم پر ظلم نہیں ہوسکتا.میں نے کہا تھا کہ چاہے ایک پیسہ کی مزدوری ملے تو بھی کرو خواہ کوئی گریجوایٹ ہو جب تک اسے کوئی اور کام نہیں ملتا.اب اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہتا ہوں کہ اگر ایک پیسہ بھی نہ ملے تو بھی محنت مزدوری کرو کیونکہ بے کار رہنے کی نسبت یہ بھی تمہارے لئے ، تمہارے خاندان کے لئے اور تمہاری قوم کے لئے بابرکت ہوگا.یاد رکھو! جب تک تم اپنی زندگی کے لمحات مفید بنانے کے لئے تیار نہیں ہوتے اس وقت تک غالب حیثیت سے رہنے کے بھی قابل نہیں بن سکتے.غلبہ حاصل کرنے کے لئے کام کرنے بلکہ کام میں لذت محسوس کرنے کی ضرورت ہے.اگر کسی کو کوئی کام نہیں ملتا تو وہ گھر سے نکل جائے اور وہ سڑکوں پر جھاڑ وہی دیتا پھرے مگر بے کار نہ رہے.“ رپورٹ مجلس شوری منعقدہ 23 تا 25 اکتوبر 1936 ء ) 369

Page 382

Page 383

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول 23 اقتباس از تقریر فرموده 25 اکتوبر 1936ء امانت فنڈ زیادہ وسیع پیمانہ پر قائم کیا جائے تقریر فرموده 25 اکتوبر 1936ء بر موقع مجلس شوری اندازہ لگایا گیا ہے کہ کل سات ہزار افراد تحریک جدید میں حصہ لیتے ہیں.ان میں سے ہر ایک قریباً اتنی رقم ادا کر دیتا ہے جتنی ایک ماہ کی آمد کی رقم اس کے ذمہ ڈالی جائے.سالانہ جلسہ کا چندہ پندرہ فیصدی ڈالا جاتا ہے اور نہیں ہزار کے قریب آمد ہوتی ہے.یہ 213 6 فیصدی بنتا ہے.اس دفعہ کا چندہ تحریک جدید ایک لاکھ سترہ ہزار ہے اور کل سات ہزار آدمی ہیں جو یہ رقم ادا کر رہے ہیں دو سال سے ادا کر رہے ہیں اور تیسرے سال کے لئے ابھی میں نے روک دیا ہے کہ اعلان کرنے پر حصہ لیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر مخلص کو مخاطب کیا جائے تو وہ سارا بوجھ اٹھالیتا ہے.چندہ خاص جو جبری قسم کا ہے کہ مہینہ یا پندرہ دن کی تنخواہ دوا سے لمبا چلانا درست نہیں لیکن سب کمیٹی کی تجویز کے مطابق ہر سال چندہ خاص کرنا ضروری ہے کیونکہ آمد سے خرچ ہر سال بڑھ جاتا ہے.اس طرح چندہ خاص ہر سال کا ہو جاتا ہے.پھر کارکن بھی سست ہو جائیں گے کہ جو کمی رہے گی اس کے لئے چندہ خاص ہو جائے گا.ان حالات میں میں سمجھتا ہوں علاج اور رنگ میں ہونا چاہئے.قرضہ والی تجویز ایک بوجھ ہوگا اور کارکن مجبور ہوں گے کہ چستی سے کام لیں تاکہ قرض اتار سکیں مگر سوال یہ ہے کہ کون سی چیز ہے جس کے ذریعہ موجودہ بوجھ کو دور کیا جاسکے؟ ہم اس کو دور کر سکتے ہیں بشرطیکہ جماعت سے مخلص اس تحریک کی اہمیت کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں اگر چوتھا حصہ بھی جماعت کا عمل کرے تو یقینی بات ہے کہ بوجھ اتر جائے.ہم دیکھتے ہیں کہ بڑی بڑی حکومتیں بھی آمدنی سے نہیں چل رہیں بلکہ قرضوں پر چلتی ہیں.انگریزوں کی حکومت اتنی بڑی ہے مگر وہ بہت بڑی مقروض بھی ہے اس کے مقابلہ کی یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ کی حکومت ہے وہ بھی مقروض ہے.ہم بھی قرض لے سکتے ہیں لیکن ان میں اور ہم میں ایک فرق ہے، وہ سود دیتی ہیں مگر ہم سود نہیں دے سکتے.یہاں دو بڑے بڑے بنکوں کے نمائندے اس لئے آئے کہ انہیں یہاں اپنے بینک کی شاخ کھولنے کی اجازت دی جائے اور صدرانجمن احمد یہ اپنا رو پید ان کے ہاں جمع کرائے اس طرح وہ صدر انجمن کو لا کھ دو لاکھ جس قدر ضرورت ہو قرض دے سکیں گے.میں نے کہا: آپ لوگوں نے سود لینا 371

Page 384

اقتباس از تقریر فرمود : 25 اکتوبر 1936ء ہے اور ہم سود نہیں دے سکتے.تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول ایک اور بینک والے نے کہا صدرانجمن کے لئے لاکھ دو لاکھ روپیہ قرض دینا کچھ بھی مشکل نہیں.میں نے کہا: آپ کے لئے مشکل نہیں مگر ہمارے لئے مشکل ہے کیونکہ ہم نے سود نہیں دینا.ان حالات میں ہم اس قسم کا قرض تو لے نہیں سکتے مگر ایک اور طریق ہے اور وہ یہ کہ امانت فنڈ زیادہ وسیع پیمانہ پر قائم کیا جائے اور لوگ گھروں میں روپیہ جمع رکھنے کی بجائے وہاں جمع کرائیں.بنکوں کے جو اعلانات ہوتے ہیں ان میں لکھا ہوتا ہے کہ: رقم خزانہ سرمایہ بینک ہیں کروڑ دو کروڑ اس کی وجہ یہ ہے کہ جتنے بینک امانتیں رکھتے ہیں ان میں بہت بڑی رقوم لوگوں کی جمع ہوتی ہیں یہاں صدر انجمن میں امانت رکھنے کی تحریک کی گئی تھی.اب ستر اسی ہزار کی رقم جمع رہتی ہے.عام اصول یہ سمجھا جاتا ہے کہ امانت رکھنے والے سو میں سے دس ایک وقت میں واپس روپیہ مانگتے ہیں.سوائے خاص حالات کے کہ بینک بدنام ہو جائے اور سب لوگ ایک وقت میں روپیہ کی واپسی کا مطالبہ شروع کر دیں اور اس طرح دیوالیہ نکل جاتا ہے مگر جاری حساب میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ نوے فیصدی مطالبہ نہیں کرتے اور میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ کچھ نہ کچھ روپیہ عام طور پر لوگ جمع رکھتے ہیں.قرآن کریم کے ترجمہ کا سوال جب 1915ء میں پیدا ہوا تو مشکل یہ پیش آئی کہ روپیہ کہاں سے آئے؟ جماعت اس وقت تفرقہ میں پھنسی ہوئی تھی اور چندہ میں بہت کمی ہو گئی تھی.اندازہ یہ تھا کہ ساڑھے تین ہزار کی رقم لگے گی.میں نے اس وقت کہا کہ ہم اپنی جائیداد فروخت کر کے روپیہ مہیا کر دیتے ہیں مگر جائیداد کا کوئی خریدار نہ ملا اس لئے میں نے اعلان کرایا کہ ہم کچھ زمین بیچنا چاہتے ہیں کیونکہ ترجمہ قرآن کریم کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے.اس پر میں نے دیکھا صبح سے شام تک چھ ہزار کے قریب روپیہ جمع ہو گیا.محلہ دارالفضل کی بنیاد اسی طرح رکھی گئی اور قادیان کی وسعت اس طرح شروع ہوئی اس وقت پتہ لگا کہ قادیان کی وسعت میں روک یہی تھی کہ مکان بنانے کے لئے جگہ نہ ملتی تھی.پھر میں نے اپنے بھائیوں سے مشورہ کر کے کہا یہ تو ظلم ہے کہ جماعت کے جو لوگ یہاں مکان بنانا چاہیں انہیں جگہ نہ ملے ہمیں اپنی زمین فروخت کر دینی چاہئے اس طرح مختلف محلوں کی آبادی شروع ہوئی.اس وقت میں جو تجویز پیش کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جن دوستوں نے مکانات بنانے کے لئے کچھ روپیہ جمع کیا ہو اور ابھی مکان بنانے میں کچھ دیر ہو وہ اپنا روپیہ امانت کے طور پر انجمن میں جمع کرا 372

Page 385

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از تقریر فرموده 25 اکتوبر 1936ء دیں.اب باوجود اس کے کہ بہت تھوڑے لوگوں نے انجمن میں امانت رکھانے کی عادت ڈالی ہے، استراتی ہزار کے قریب رقم جمع رہتی ہے.یہ صرف اٹ ہائی تین سو آدمی ہیں پھر کبھی یہ سوال نہیں پیدا ہوا کہ کوئی امانت رکھانے والا اپنی رقم واپس لینے کے لئے آیا ہو اور اسے روپیہ نہ ملا ہولیکن جماعت کا بیشتر حصہ ابھی تک ادھر متوجہ نہیں ہوا.یہ کتنی چھوٹی سی قربانی ہے کہ کسی کے پاس ایک سور و پیہ ہے اور اس لئے ہے کہ مکان بنائے گا اس سے وہ مکان نہیں بنا سکتا اسے امانت فنڈ میں جمع کرا دے اور آئندہ بھی جمع کراتا رہے حتیٰ کہ مکان بنانے کے لئے پوری رقم جمع ہو جائے اس طرح رو پی جمع کرنا نا جائز نہیں ہے بلکہ شریعت کا حکم ہے خدا تعالیٰ نے بھی اپنا مکان بنایا جسے بیت اللہ کہا جاتا ہے.غرض دوستوں کے پاس اس قسم کے روپے ہوتے ہیں اور اگر قادیان کے ہی دوست اس طرح امانت رکھاناشروع کر دیں تو پچاس ساٹھ ہزار روپیہ جمع ہو سکتا ہے اور اگر یہ تحریک جاری کی جائے اور اسے پھیلایا جائے یعنی نہ صرف وہی دوست روپیہ جمع کرائیں جنہوں نے مکان بنانے کی نیت سے کچھ نہ کچھ جمع کیا ہو بلکہ وہ بھی جنہوں نے بچوں کی تعلیم کے لئے یا شادیوں کے لئے یا اور ضروری اغراض کے لئے کیا ہے تو بہت بڑی رقم جمع ہو سکتی ہے اور وہ ضرورت کے لئے واپس لے سکتے ہیں یا پھر قرضہ ایک مدت معینہ کے لئے دے دیں یعنی سال کے لئے یا دو سال کے لئے.پھر اس پر زکوۃ نہیں ہوگی اور اڑھائی فیصدی اس طرح گو یا نقد نفع بھی مل گیا.غرض اس طریق پر اگر عمل کیا جائے تو ایک دو لاکھ نہیں میں سمجھتا ہوں دس، پندرہ بیس لاکھ روپیہ جمع ہو سکتا ہے اور ان لوگوں کو جو روپیہ جمع کرائیں گے کوئی تکلیف نہ ہوگی وہ جب چاہیں اپنا روپیہ مانگ لیں.ادھر انجمن والوں کو سانس لینے کا موقع مل جائے گا.غرض نہایت سہولت کے ساتھ یہ رقم جمع ہو سکتی ہے بشرطیکہ دوست بے اعتباری اور بے جا شرم کو چھوڑ دیں.امانت رکھانے والوں کو اب تک کوئی شکایت پیدا نہیں ہوئی اور شرم کی بھی کوئی بات نہیں.سوائے تجارتی روپیہ کے اگر کسی کے پاس دس ہیں، ہو، دوسو، ہزار روپیہ جمع ہو تو اس کے لئے جمع کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے.یہ روپے ایسے طور پر رکھے جائیں گے کہ کبھی مطالبہ پر دیر نہ ہو.دوست اگر اس پر عمل کریں تو ان کا کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا لیکن انجمن کو فائدہ پہنچ سکتا ہے لیکن اگر وہ اس کے لئے بھی تیار نہ ہوں جس پر ان کا کچھ خرچ نہیں ہوتا تو پھر ان کے بڑے بڑے دعووں کی کیا حقیقت باقی رہ جاتی ہے؟ میں نے گزشتہ مجلس مشاورت کے موقع پر اعلان کیا تھا کہ قرضہ کے طور پر انجمن کو روپیہ دیا جائے 373

Page 386

اقتباس از تقریر فرموده 25 اکتوبر 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اور یہ قرض چند ماہ کے لئے ہوگا.اس میں کل اکتیس ہزار کی رقم جمع ہوئی ہے اس میں ایک بیوہ نے بھی پچاس روپیہ کی رقم دی.تجریہ یہ ہے کہ لوگ کچھ نہ کچھ پس انداز کرتے ہیں اگر ایسی رقوم کو وہ امانت کے طور پر رکھا دیں تو اس طرح ایک بڑی رقم جمع ہو سکتی ہے.اگر جماعت اس کے لئے تیار ہو اور اپنے لئے ضروری قرار دے لے کہ رو پیدامانت میں جمع کرانا ہے تو کامیابی ہوسکتی ہے.دوسری تجویز یہ ہے کہ ایک لاکھ روپیہ قرضہ کی تحریک کی جائے میں اسے منظور کرتا ہوں.جو لوگ مدت مقرر کر کے قرض کے طور پر رقم دے سکیں دے دیں مگر قرضہ کی کوئی ضرورت نہیں رہتی اگر دوست امانت کے طور پر اپنی رقوم جمع کرانے لگ جائیں اور پھر جب چاہیں نکال لیں اس میں کوئی روک نہ ہوگی.پس میں ایک تحریک یہ کرتا ہوں اور نمائندوں سے اقرار لیتا ہوں کہ وہ اپنے ہاں جا کر تحریک کریں کہ جس کے پاس روپیہ ہو وہ امانت کے طور پر صدرانجمن کے خزانہ میں جمع کرا دے.نمائندوں کا یہ خاص فرض ہے کہ جماعتوں میں یہ تحریک کریں اور ایک ماہ کے اندر اندر اطلاع دیں کہ کس قدر اس میں کامیابی ہوئی ہے؟ اس تجویز کا دوسرا حصہ قرضہ ہے میں اسے بھی منظور کرتا ہوں.تیسرا حصہ ایسا ہے جس میں اور بھی سہولت ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ایسے ذرائع ہیں کہ اگر روپیہ ہو تو ایسے نفع بخش کام پر لگا دیا جائے کہ روپیہ دینے والے کو بھی فائدہ پہنچ سکے.اس کے لئے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انجمن اپنی جائیدادیں روپیہ دینے والوں کو گروی کر دے یعنی تجارت پر روپیہ لگانے والے دوست اپنے روپیہ سے انجمن کی بعض جائیداد میں گرو رکھ لیں.پچاس ساٹھ ہزار روپیہ اس طرح بھی لگایا جاسکتا ہے اور اتنا ہی روپیہ اور تجارتی کاموں پر لگایا جاسکتا ہے جن پر نفع قریباً یقینی ہے اور دس فیصدی نفع چھ ماہ میں مل سکتا ہے.اس طرح بھی انجمن کے بار میں کمی آسکتی ہے.یہ گویا چار تحریکیں ہیں.اگر جماعت ان پر عمل کرے تو بغیر چندہ خاص کرنے کے اور بغیر کسی قسم کا بوجھ ڈالنے کے بلکہ فائدہ اٹھاتے ہوئے انجمن کا بوجھ اتار سکتے ہیں.(۱) جماعت جبری طور پر سمجھ لے کہ انجمن کے خزانہ میں امانت رکھانی ہے.ایک دوست نے سوال کیا ہے کہ اگر تھوڑی سی رقم امانت رکھنی ہو اور پھر جلد ہی واپس لینی ہو تو اس طرح اس کے بھیجنے اور واپس لینے پر بہت خرچ پڑ جائے گا مگر یہ خرچ زیادہ نہ ہوگا.روپیہ واپس بھیجنے کا خرج انجمن خود برداشت کر سکتی ہے اور اس طرح بھی نفع میں رہتی ہے پھر انجمن مقامی چندہ میں سے رقم ادا کر سکتی ہے.پس یہ بہت معمولی اور چھوٹی سی بات ہے.اگر اس مد میں روپیہ بھی نہ ہوا تو میں یہ ہیں مانوں 374

Page 387

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از تقریر فرموده 125 اکتوبر 1936ء گا کہ دوستوں کے پاس روپیہ نہیں بلکہ یہ سمجھوں گا کہ اس طرف توجہ نہیں کی گئی.پچاس فیصدی لوگوں کے پاس کچھ نہ کچھ رقم پس انداز ہوتی ہے.ایک دوست نے لکھا ہے کہ جو تم کوئی جمع کرائے وہ کسی اور کو نہ بتائی جائے.یہ ضروری بات ہے بینک والے بھی ایسا ہی کرتے ہیں وہ حکومت تک کو کسی کی امانتی رقم نہیں بتاتے کیونکہ بتانے سے رقوم رکھنے والوں کو کئی قسم کی دقتیں پیش آسکتی ہیں.اس بارہ میں یہ قانون ہو گا کہ کسی کی امانتی رقم کا کسی کو علم نہ ہو اور کسی کو کسی رقم کے متعلق کچھ نہ بتایا جائے.اسی کے ماتحت جو صاحب یہ کہیں گے کہ ان کی رقم مقامی جماعت کی معرفت ادا نہ ہوا نہیں انجمن خود بھیجے گی.دوسری تجویز قرض کی ہے، تیسری انجمن کی بعض جائیداد میں گرور کچھ کر روپیہ دینے کی اور چوتھی جو د دوست اپناروپیہ تجارت پر لگا نا چاہیں وہ لگا سکتے ہیں اور انہیں کافی منافع مل سکتا ہے.یہ چار تجویزیں ایسی ہیں کہ اگر جماعت ان پر عمل کرے اور کوئی وجہ نہیں کہ عمل نہ کرے یا اس سے عمل کرایا نہ جائے تو بوجھ دور نہ ہو.پانچویں تجویز یہ ہے کہ وہ جماعتیں جو موجودہ حالات میں اسے پسند کرتی ہیں شرح چندہ چار پیسے کی بجائے پانچ پیسے کر دیں اور اس پر عمل شروع کر دیں.یہ لازمی نہ ہو بلکہ ہر ایک کی مرضی پر ہو اس کے لئے تحریک کی جائے کہ اپنی مرضی سے یہ اضافہ کریں اور موصیوں کو تحریک کی جائے کہ زیادہ حصہ کے لئے وصیت کریں.یہ جبری نہ ہوگا بلکہ اپنی مرضی سے ہوگا.بے شک ہم جبری طور پر بھی وصیت کا حصہ بڑھا سکتے ہیں اور ہر موصی کے لئے ضروری قرار دے سکتے ہیں مگر اسی وقت کہ اسلام کی زندگی اور موت کا سوال در پیش ہومگر ایسا وقت ابھی نہیں آیا.پس چندہ کے اضافہ اور حصہ وصیت کے بڑھانے کے متعلق جماعتوں کو تحریک کی جائے اور ناظر پوچھتے رہیں کہ مقامی کارکن اور نمائندگان مجلس مشاورت نے تحریک کی ہے یا نہیں اور کتنے مخلصین نے پانچ پیسے نی روپیہ چندہ دینے پر آمادگی ظاہر کی ہے اور وصیت کے حصہ میں اضافہ کرنے والے کتنے ہیں؟ اس کے لئے میں تین سال کی میعاد مقرر کرتا ہوں.وصیت کے حصہ میں اضافہ کے لئے اور شرح چندہ میں اضافہ کے لئے بھی یعنی جو دوست اس حکم کے ماتحت اضافہ کریں گے وہ تین سال کے بعد پہلی شرح پر وصیت اور چندہ ادا کر سکیں گے.375

Page 388

اقتباس از تقریر فرموده 25 اکتوبر 1936ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول یہ چھ تجویزیں جماعت کے متعلق ہیں.انجمن کے کارکنوں کے متعلق میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ بیس یا پچیس فیصدی ان کی تنخواہ کا تمام کارکنوں سے جبری قرضہ لیا جائے.اگر کوئی ریٹائر ہو جائے تو اس کو اس کی رقم فوراً پراویڈنٹ فنڈ کے ساتھ ادا کر دی جائے ورنہ تین سال تک یہ قرض لیا جائے البتہ پندرہ روپے یا اس سے کم تنخواہ والوں سے کوئی کٹوتی نہ ہو.اس بارہ میں تخفیف کمیٹی سے مشورہ لیا جائے گا.اس طرح اڑھائی ہزار کے قریب ماہوار کی بچت ہو جائے گی اور سالانہ میں ہزار اور ہر جماعت کے متعلق جو تجاویز میں نے پیش کی ہیں ان سے کم از کم چالیس پچاس ہزار کی آمد بھی کر سکیں تو تین سال تک ہم بجٹ کو برابر رکھ سکتے ہیں اور قرض بھی ادا کر سکتے ہیں.چندہ خاص کو میں پسند نہیں کرتا یہ جبری ہوگا اور یہ طوعی کو بھی کھا جاتا ہے اور تحریک جدید کے چندہ کو بھی کھا جائے گا.میرا خیال تھا کہ تحریک جدید کے تین سال ختم ہونے کے بعد چوتھے سال چندہ خاص کیا جائے اور اس سال ایک مہینہ کی آمدنی دینے کی تحریک کروں جس میں سے ایک قلیل رقم تحریک جدید میں رکھ کر باقی انجمن کو دے دی جائے لیکن یہ تریسٹھ فیصدی چندہ کی تحریک بنتی ہے.در اصل مستقل آمد نہ ہونے کی وجہ سے ساری مشکلات ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الوصیت میں اس طرف بڑا زور دیا ہے اور حصہ وصیت بتا رہی ہے کہ اس کی غرض یہی ہے.معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالی نے اس بات پر مطلع کر دیا تھا کہ ایسے حالات پیش آسکتے ہیں جب کہ جماعت سے چندہ حاصل کرنا مشکل ہو جائے.سنا ہے ایک سرکاری افسر نے جو سلسلہ کی مخالفت کر رہا تھا دوسرے سے ذکر کیا کہ گورنمنٹ اس بات پر غور کر رہی ہے کہ جماعت احمدیہ کو چندہ وصول کرنے سے بند کر دیا جائے.جہاں تک میں سمجھتا ہوں معمولی حالات میں یہ نہیں کیا جاسکتا مگر ہو سکتا ہے کہ کسی وقت کوئی دیوانی گورنمنٹ ایسا کر دے اس لئے مستقل آمد اور مختلف علاقوں میں پھیلی ہوئی آمد کا انتظام کرنا چاہئے کیونکہ ظالم لوگ ہمیشہ سے نبی کی جماعت پر ظلم کرتے آئے ہیں اس لئے اس جماعت کو مختلف ملکوں میں پھیلا دیا جاتا ہے.ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ مختلف علاقوں میں جائیدادیں بنائیں اور میں نے منافقین کے اعتراضات کے باوجود کئی لاکھ کی جائیداد خریدی ہے اور ابھی لے رہا ہوں اور اسی کی آمد سے اس کی خرید کی رقم ادا کی جاری ہے.امید ہے کہ اس سے زائد آمد بھی ہونے لگ جائے گی.پس مستقل اخراجات کے لئے ضروری ہے کہ اتنی جائیداد ہو جس سے کارکنوں کی تنخواہیں ادا 376

Page 389

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول اقتباس از تقریر فرموده 25 اکتوبر 1936ء ہوسکیں اور چندہ باقی ہنگامی کاموں کے لئے ہو.چونکہ مرکز کا قائم رکھنا نہایت ضروری ہے اس لئے پورا زور لگانا چاہئے کہ سلسلہ کی اتنی جائیداد پیدا ہو جائے کہ کارکنوں کی تنخواہیں اس سے نکل آئیں.دوسری طرف عملہ بیت المال کو ذمہ دار قرار دیا جائے اور اس پر زیادہ بار ڈالا جائے اور اگر ثابت ہو جائے کہ عملہ نے کام اچھی طرح نہیں کیا تو اس کو سزادی جائے.مثلاً یہ کہ دوسروں کو جتنے ماہ کی تنخواہ نہ ملی ہو بیت المال والوں کو ان سے بھی پیچھے رکھا جائے یا ان کی رقم زیادہ کائی جائے لیکن اگر کام کے مقابلہ میں عملہ کم ہو تو عملہ بڑھایا جائے اور ہر روز کا پتہ رکھا جائے کہ آج کیا حالت ہے؟ اگر کوئی کمی واقع ہو تو معلوم کیا جائے کہ کون سی جماعت اس کی ذمہ دار ہے.عملہ میں اضافہ کی اگر ضرورت محسوس کی گئی تو میں خود بڑھاؤں گا.عملہ میں ایسے آدمی داخل کئے جائیں جو باہر کے اکاؤنٹ کا تجربہ رکھتے ہوں تا کہ عمدگی سے کام کر سکیں.سب کمیٹی کی پانچویں تجویز انجمن کی جائیداد فروخت کرنے کی ہے اس کے لئے پہلے سے ہی کوشش ہو رہی ہے مگر آئندہ زیادہ زور دیا جائے اور اس فروخت سے جو رقم وصول ہو اس سے زیادہ قیمتی جائیداد پیدا کی جائے.ریز روفنڈ کی تحریک بھی ہو چکی ہے.ایک دوست نے لکھا ہے کہ یہ ایسی تحریک ہے جس پر ہر احمدی عمل کر کے کامیابی حاصل کر سکتا ہے.ان کا اپنا تجربہ یہ ہے کہ ہر اتوار کو گھر سے نکلتے ہیں اور کم از کم آٹھ آنے ضرور مل جاتے ہیں.وہ کہتے ہیں کون ایسا احمدی ہے جو ہفتہ وار آٹھ آنے بھی نہ لا سکے اور اس طرح انہوں نے سوالاکھ روپیہ کا اندازہ کیا ہے.میں ان کے تجربہ کور نہیں کرتا وہی رد کر سکتا ہے جو ان کی تجویز پر عمل کرے اور اسے کامیابی نہ ہو اس لئے یہ تجر بہ قابل تجربہ ہے.نہ سہی سوالاکھ دس پندرہ ہزار روپیہ سال میں جمع ہو جانا تو کوئی مشکل نہیں ہے مگر سوال کام کرنے کا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کوئی امیر تھا جس کے باورچی خانہ میں بہت اسراف ہوتا تھا اس نے کہا باورچی خانہ کے دروازوں کو کواڑ لگا دیئے جائیں.یہ بات جب ان کتوں کو معلوم ہوئی جو باورچی خانہ میں داخل ہو کر کھاتے پیتے تھے تو وہ ایک جگہ جمع ہو کر رونے لگے اتنے میں ایک بوڑھا کتا آیا جس نے رونے کی وجہ پوچھی اور جب اسے بتائی گئی تو اس نے کہا رونے کی کیا ضرورت ہے کواڑ اگر لگ بھی گئے تو انہیں بند کون کرے گا؟ پس ترکیبیں تو ہیں اور ان پر عمل کر کے کامیابی بھی ہوسکتی ہے مگر سوال بند کرنے کا ہے اگر آپ لوگ ان پر عمل کرنے کے لئے تیار ہیں تو کامیابی بھی حاصل ہو جائے 377

Page 390

اقتباس از تقریر فرموده 25 اکتوبر 1936.گی ورنہ نہیں.تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول اس وقت جو تجاویز میں نے بیان کی ہیں وہ ایسی ہیں کہ سوائے مرکزی کارکنوں کے اور کسی پر بوجھ نہیں پڑتا اور سلسلہ کے کام سہولت سے ہو سکتے ہیں.آپ لوگوں نے اگر کام کرنا ہے تو کر کے دکھائیں ور نہ کیا فائدہ ہے اس کا کہ یہاں آئے اور باتیں کر کے چلے گئے.یہی ریز روفنڈ کی تجویز ہے.میرا اندازہ ہے کہ سو میں سے دو جماعتوں نے بھی اس کی طرف توجہ نہیں کی اور ہزار میں سے ایک نے بھی عمل نہیں کیا.جماعت کو کام کی اہمیت سمجھنی چاہئے اور پھر جو تجاویز پیش کی جائیں ان پر عمل کرنا چاہئے.امید ہے کہ جماعت ان تجاویز پر عمل کرے گی.گو چھلی دفعہ کھڑے کر کے دیکھنے کا کوئی فائدہ نہ ہوامگر کیا پتہ ہے کہ: اَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ (الحديد : 17) شاید آج وہ وقت آ گیا ہو کہ جماعت اپنے وعدے پورے کرنے کے لئے تیار ہو.یہ تجاویز جو میں نے بتائی ہیں ان کی وجہ سے آپ لوگوں پر کوئی بوجھ نہیں پڑتا.پھر یہ مرضی پر منحصر ہیں جس کی مرضی ہو وہ شامل ہوسکتا ہے.کیا آپ لوگ وعدہ کرتے ہیں کہ ان تجاویز پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے؟ آئندہ نتیجہ خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے.اگر وعدہ کرتے ہیں تو کھڑے ہو جائیں.(اس پر سب کے سب نمائندے کھڑے ہو گئے ) بیٹھ جائیں ! یہ آپ لوگوں نے اخلاقی ذمہ داری بھی لی ہے.آپ کی یہ ذمہ داری نہیں کہ اپنے ہمسایہ سے ضرور چندہ لیں گے بلکہ یہ ہے کہ اسے تحریک کریں گے.ایسی وصیت جس نے کی ہوئی ہے وہ اپنے نفس سے پوچھے وہ اضافہ کر سکتا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو معذور سمجھا جائے اس طرح دوسروں سے پوچھے.پھر ریز روفنڈ ہے اس کے لئے یہ نہیں رکھا کہ ضرور دیں مگر یہ ضرور رکھا ہے کہ ہفتہ میں یا مہینہ میں ایک بار جا کر کوشش کریں اور آپ ہی نہیں بلکہ جماعت کے دوسرے لوگوں کو بھی اس کی تحریک کریں.میں سمجھتا ہوں ان تجاویز پر عمل کیا جائے تو بوجھ کم ہو سکتا ہے اور مالی مشکلات دور ہو سکتی ہیں.“ در پورت مجلس شوری منعقد 23 تا 25 اکتوبر 1936 ء ) 378

Page 391

ید- ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده یکم جنوری 1937ء احمدیت کسی انجمن یا سوسائٹی کا نام نہیں بلکہ وہ اسلام کا دوسرا نام ہے "" خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جنوری 1937ء آج کا جمعہ نئے سال کا پہلا جمعہ ہے اور پہلا دن بھی ہے.پس ہمیں اس جمعہ میں آئندہ کے لئے ایسے ارادے قائم کرنے چاہئیں جو اس سال نئے سال میں ہمارے لئے چستی اور محنت کا سامان پیدا کرتے رہیں.بہت سے انسان اس لئے نیک کاموں سے محروم رہ جاتے ہیں کہ اُن کے سامنے کوئی مقصود نہیں ہوتا اور وہ نہیں جانتے کہ اپنے فارغ اور زائد وقت کو کہاں صرف کریں اور اس وجہ سے جب کبھی ان کو فارغ وقت ملتا ہے وہ اسے سٹی میں ضائع کر دیتے ہیں لیکن اگر کوئی شخص اپنے لئے نیک ارادوں کی ایک فہرست بنالے اور اسے اپنے ذہن میں رکھے تو اسے فارغ اوقات میں ان ارادوں کو پورا کرنے کی طرف تحریک ہوتی رہتی ہے اور وہ بہت سے ایسے کام کر لیتا ہے جن سے اُس کا دوسرا بھائی جس نے پہلے سے اپنے لئے کوئی مقصود قرار دیا ہوا نہیں ہوتا محرورم رہ جاتا ہے.پس میں آج کے دن تمام دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے دلوں میں یہ پختہ عہد کرلیں کہ احمدیت کی طرف سے جو اُن کے سامنے مطالبہ پیش کیا گیا ہے وہ اُسے اپنی آنکھوں کے سامنے رکھیں گے اور اپنی زندگی کو اُس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں گے.یادرکھنا چاہئے کہ احمدیت کسی انجمن یا سوسائٹی کا نام نہیں ہے بلکہ وہ اسلام کا دوسرا نام ہے اور اسلام ایک وسیع تعلیم کے مجموعہ کا نام ہے جو مذہب کے متعلق بھی ہدا یتیں دیتی ہے اور اخلاق کے متعلق بھی ہدایتیں دیتی ہے اور تمدن کے متعلق بھی ہدایتیں دیتی ہے اور سیاست کے متعلق بھی ہدایتیں دیتی ہے اور معاملات باہمی کے متعلق بھی ہدایتیں دیتی ہے اور اقتصادیات کے متعلق بھی ہدایتیں دیتی ہے اور نفسیات کے متعلق بھی ہدایتیں دیتی ہے اور انسانی دماغ کے رجحانات کے متعلق بھی ہدایتیں دیتی ہے اور انسانی جذبات کے اتار چڑھاؤ کے متعلق بھی ہدایتیں دیتی ہے.غرض آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر کوئی بات ایسی نہیں جس کے متعلق اسلام کوئی نہ کوئی ہدایت نہ دیتا ہو.پھر جو شخص احمدیت کو قبول کر کے اس امر پر خوش ہو جاتا ہے کہ میں وفات مسیح کا قائل ہو گیا ہوں یا آنے والے مسیح پر ایمان لے آیا ہوں یا میں نمازیں 379

Page 392

اقتباس از خطبه جمعه فرموده یکم جنوری 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول با قاعدہ پڑھنے لگا ہوں یا میں روزے با قاعدہ رکھتا ہوں یا میں زکوۃ دیتا ہوں یا میں حج اگر مجھے توفیق ہے تو بجالا چکا ہوں اور یہ خیال کرتا ہے کہ گویا اس نے احمدیت پر عمل کر لیا تو اُس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی شخص سمندر میں سے پانی کا ایک گلاس نکال لے اور خیال کرے کہ سمندر میرے قبضہ میں آ گیا ہے.اگر صرف یہی پانچ سات مسائل اسلام کہلاتے ہیں تو اتنے بڑے قرآن کے نازل کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ یہ باتیں تو دو تین رکوع میں آسکتی تھیں.پس جو شخص ان چندا کام پر قانع ہو جاتا ہے وہ ان لوگوں میں سے ہے جن کی نسبت قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تم کچھ حصہ قرآن پر ایمان لاتے اور کچھ حصہ کا انکار کرتے ہو آخر وہ وسیع تعلیمیں جو اللہ تعالیٰ نے توحید کے باریک مسائل کے متعلق قرآن کریم میں بیان فرمائی ہیں یا محبت الہی اور توکل کے متعلق بیان فرمائی ہیں یا وہ تفصیلات جو اس نے اخلاق کے متعلق بیان فرمائی ہیں یا تمدن یا سیاست یا اقتصادیات یا معاملات کے متعلق بیان فرمائی ہیں ان پر کون عمل کرے گا؟ کیا قرآن کریم کے یہ حصے بے کار پڑے رہیں گے؟ کیا ان کی طرف توجہ کرنے والے مسلمانوں سے باہر کوئی اور لوگ ہوں گے؟ پس جماعت احمدیہ کا فرض ہے کہ وہ قرآن کریم کے تمام مطالب اور اس کی تمام تعلیمات کو زندہ کرے خواہ وہ مذہب اور عقیدہ کے متعلق ہوں یا اخلاق کے متعلق ہوں یا اصول تمدن اور سیاسیات کے متعلق ہوں یا اقتصادیات اور معاملات کے متعلق ہوں کیونکہ دنیا ان سارے امور کے لئے پیاسی ہے اور بغیر اس معرفت کے پانی کے وہ زندہ نہیں رہ سکتی.خدا نے اسی موت کو دیکھ کر اپنا مامور بھیجا ہے اور وہ امید رکھتا ہے کہ اس مامور کی جماعت زندگی کے ہر شعبہ میں اسلامی تعلیم کو قائم کرے گی اور جس حد تک اُسے عمل کرنے کا موقع ہے وہ خود عمل کرے گی اور جن امور پر اسے ابھی قبضہ اور تصرف حاصل نہیں اُن کو اپنے اختیار میں لانے کی سعی اور کوشش کرے گی.یاد رکھو! کہ سیاسیات اور اقتصادیات اور تمدنی امور حکومت کے ساتھ وابستہ ہیں.پس جب تک ہم اپنے نظام کو مضبوط نہ کریں اور تبلیغ اور تعلیم کے ذریعہ سے حکومتوں پر قبضہ کرنے کی کوشش نہ کریں ہم اسلام کی ساری تعلیموں کو جاری نہیں کر سکتے.پس اس پر خوش مت ہو کہ تلوار سے جہاد آج کل جائز نہیں یا یہ کہ دینی لڑائیاں بند کر دی گئی ہیں.لڑائیاں بند نہیں کی گئیں لڑائی کا طریقہ بدلا گیا ہے اور شاید موجودہ طریقہ پہلے طریق سے زیادہ مشکل ہے کیونکہ تلوار سے ملک کا فتح کرنا آسان ہے لیکن دلیل سے دل کا فتح کرنا مشکل ہے.پس یہ مت خیال کرو کہ ہمارے لئے حکومتوں اور ملکوں کا فتح کرنا بند کر دیا گیا ہے بلکہ ہمارے لئے بھی حکومتوں اور ملکوں کا فتح کرنا ایسا ہی ضروری ہے جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 380

Page 393

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده یکم جنوری 1937ء کے صحابہ کے لئے ضروری تھا.صرف فرق ذریعے کا ہے وہ لوہے کی تلوار سے یہ کام کرتے ہیں اور ہمیں دلائل کی تلوار سے یہ کام کرنا ہوگا.پس آرام سے مت بیٹھو کہ تمہاری منزل بہت دور ہے اور تمہارا کام بہت مشکل ہے اور تمہاری ذمہ داریاں بہت بھاری ہیں.تم ایک خطر ناک صورت حالات میں سے گزر رہے ہو کہ باوجود تمہاری کمزوری کے خدا تعالیٰ نے تم پر وہ بوجھ لادا ہے کہ جس کے اُٹھانے سے زمین اور آسمان بھی کانپتے ہیں.دنیا کی حکومتیں صرف ایک ایک قوم سے لڑائی کے موقع پر خائف ہو جاتی ہیں اور انجام سے ڈرتی ہیں لیکن آپ لوگوں کو خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ قرآن کی تلوار لے کر دنیا کی تمام حکومتوں پر ایک ہی وقت میں حملہ کر دیں اور یا اس میدان میں جان دے دیں یا اُن ملکوں کو خدا اور اس کے رسول کے لئے فتح کریں.پس چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف مت دیکھو اور اپنے مقصود کو اپنی نظروں کے سامنے رکھو اور ہر احمدی خواہ کسی شعبہ زندگی میں اپنے آپ کو مشغول پاتا ہو اس کو اپنی کوششوں اور سعیوں کا مرجع صرف ایک ہی نقطہ رکھنا چاہئے کہ اس نے دنیا کو اسلام کے لئے فتح کرنا ہے.ہمارا ایک تاجر اپنی تجارت کے تمام کاموں میں اسی امر کو مد نظر رکھے اور ایک صناع بھی اپنے تمام کاموں میں اسی امر کو مد نظر ر کھے اور ایک معلم بھی اپنی تعلیم میں اسی امر کو مد نظر رکھے اور ایک قاضی بھی اپنے فیصلوں میں اسی امر کو مد نظر رکھے.غرض جس جس کام میں کوئی احمدی مشغول ہو وہ یہ یادر کھے کہ اس کے کام کا آخری نتیجہ اسی صورت میں ظاہر ہو کہ دنیا خدا اور اس کے رسول کے لئے فتح کر لی جائے.اگر ہمارے تمام دوست اس مقصود کو اپنے سامنے رکھیں تو ان کو ذہنی طور پر اتنی بلندی حاصل ہو کہ جو دنیا میں کسی قوم کو حاصل نہیں ہوئی.آج تو ان کی مثال ایک کنویں کے مینڈک کی سی ہے کہ ایک نہایت چھوٹی سی منزل مقصود ان کے سامنے ہے اور وہ اتنا بھی تو نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ نے کیا کام ان کے سپرد کیا ہے.حالانکہ کام کرنے سے پہلے خود کام کی مقدار کا جاننا ضروری ہوتا ہے جیسا کہ میں شروع میں کہہ چکا ہوں ان میں سے بعض چندہ دیتے اور خوش ہو جاتے ہیں اور بعض نمازیں پڑھتے اور خوش ہو جاتے ہیں اور بعض روزے رکھتے اور خوش ہو جاتے ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ یہ تعلیمیں تو اسلامی تعلیم کے سمندر کا ایک قطرہ ہیں.پس چاہئے کہ ہمارے دوست سلسلہ کے قیام کی اہمیت کو سمجھیں اور اسلام کی وسیع تعلیم کو اپنے سامنے رکھیں اور دنیا میں جس قدر خرابیاں پیدا ہور رہی ہیں ان کو دور کرنے کی کوشش کریں اور صرف ایک محدود خیال کے اندر اپنے آپ کو مقید نہ کریں.قرآن شریف میں بھی آتا ہے اور حدیث میں بھی آتا ہے کہ مومن کا ادنی بدلہ آسمان اور زمین ہوں گے.اب سوچو تو سہی کہ 381

Page 394

اقتباس از خطبه جمعه فرموده کیم جنوری 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول آسمان اور زمین مومن کومل کیونکر سکتے ہیں جب تک اس کے اعمال آسمان اور زمین پر پورے طور پر حاوی نہ ہوں؟ در حقیقت قرآن کریم اور حدیث کا یہی منشا ہے کہ مومن کے خیالات اور اس کے اعمال آسمان اور زمین کی تمام باتوں پر حاوی ہوتے ہیں اور چونکہ وہ آسمان اور زمین کی تمام چیزوں کی اصلاح کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے انعام میں اس کو آسمان اور زمین بخش دیتا ہے ورنہ جو شخص زمین کی ایک بالشت کی اصلاح میں لگا رہے اس کو حق ہی کہاں حاصل ہو سکتا ہے کہ آسمان اور زمین اسے بخش دیئے جائیں؟ وہ تو اس بالشت بھر زمین کا ہی حقدار ہو سکتا ہے.پس اگر تم چاہتے ہو کہ کامل مومن تصور کئے جاؤ اور خدا تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق زمین اور آسمان تمہیں انعام کے طور پر بخش دیئے جائیں تو زمین اور آسمان کی اصلاح کی طرف توجہ کرو اور اس کا کوئی گوشہ باقی نہ رہے جس کی اصلاح کا ارادہ یا جس کی اصلاح کے لئے کوشش تمہاری نیتوں اور کوششوں سے باہر ہو.ہاں میں یہ مانتا ہوں کہ بعض انسانوں کے لئے باوجود کوشش کے بعض کاموں کا پورا کرنا ناممکن ہوتا ہے لیکن ارادہ کرنا تو ناممکن نہیں ہوتا.پس عمل بے شک کلی طور پر آپ کے اختیار میں نہیں لیکن ارادہ تو کلی طور پر خدا تعالیٰ نے آپ کے اختیار میں رکھا ہے.پس پہلے اس چیز کو کریں جو خدا تعالیٰ نے آپ کے اختیار میں رکھی ہے پھر اُمید رکھیں کہ خدا تعالی اُس چیز کا بھی اختیار آپ کو دے دے گا جو اُس نے اپنے قبضہ میں رکھی ہوئی تھی کیونکہ جب خادم ایک کام کر لیتا ہے تو آقا اُسے دوسرا کام سپرد کر دیتا ہے.پس ارادہ جو آپ کے اختیار میں ہے آپ اس کی اصلاح کریں پھر خدا تعالیٰ عمل کو جو آپ کے اختیار میں نہیں ہے خود درست کر دے گا اور اس کے بجالانے کی آپ کو طاقت دے گا.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری جماعت کے اذہان میں روشنی پیدا کرے اور وہ محدودیت اور مقید بیت جو اس وقت بہت سے لوگوں کے ذہنوں پر طاری ہے اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح فرمائے اور اسلام کی تعلیم کی وسعت کے سمجھنے کی انہیں توفیق بخشے اور جس طرح خدا کی قدرت نے انہیں اس زمانہ کا روحانی بادشاہ بنایا ہے وہ خود بھی اپنی بادشاہت کو محسوس کرتے ہوئے روحانی عالم کے تمام محکموں کے سمجھنے اور ان کو درست رکھنے کی کوشش کریں.382 اے خدا تو ایسا ہی کر 66 ( مطبوع الفضل 8 جنوری 1937ء )

Page 395

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول خطبه جمعه فرمودہ 15 جنوری 1937ء تحریک جدید پر اعتراضات کے جوابات خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جنوری 1937ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”سب سے پہلے تو میں دوستوں کو اس امر کی نصیحت کرنی چاہتا ہوں کہ جب ایسے کام پیش ہوں جن کے لئے جماعتی مدد کی ضرورت ہو تو اس وقت دوستوں کو اپنے ذاتی اغراض بالکل بھلا دینی چاہئیں.اس وقت بھی ہمارے سامنے بعض ایسے کام ہیں جن کے لئے سینکڑوں آدمیوں کی ضرورت ہے اور آئندہ دو ہفتے نہایت ہی مشغول ہفتے نظر آتے ہیں.نظارت اعلیٰ کی طرف سے بورڈوں پر اعلان ہورہا ہے لیکن اس اعلان کے علاوہ جو سائیکلسٹوں کے متعلق ہے.ایسے افراد کی بھی ضرورت ہوگی جو سائیکل چلانا نہیں جانتے اور پیدل یاکسی اور سواری پر دوسری جگہ جا سکتے اور کام کر سکتے ہیں.ان کاموں کے لئے ایسے لوگوں کی فہرست مہیا کرنے کے لئے جو اس خدمت کے لئے اپنے آپ کو خوشی سے پیش کریں ، میں ہدایت کرتا ہے ہوں کہ تمام مساجد میں ایسے لوگوں کی لسٹیں تیار کر کے ناظر صاحب اعلیٰ کے پاس بھیجوا دی جائیں پھر جس جس عرصہ اور جس جس مقام کے لئے نظارت اُنہیں کام پر لگانا چاہے، اس کی ہدایت کے مطابق اور اُن ذرائع کے ماتحت جو اُن کے لئے تجویز کئے جائیں وہ چلے جائیں.میں اُمید کرتا ہوں کہ وہ لوگ جو ہمیشہ اپنے آپ کو یہ کہہ کر پیش کیا کرتے ہیں کہ ہماری جانیں اور ہمارے مال آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہیں وہ اس موقع کو جو خدا تعالیٰ نے انہیں دیا ہے، رائیگاں نہیں جانے دیں گے.اس کے بعد میں دوستوں کو تحریک جدید کی طرف پھر توجہ دلاتا ہوں.قادیان میں اس دفعہ بوجہ اس کے کہ تحریک کچھ پیچھے ہوئی اور بوجہ اس کے کہ جلسے کا زور عین تحریک جدید کے زور کے زمانہ میں آیا.مردوں میں پورے طور پر اس تحریک کو مکمل نہیں کیا گیا اور عورتوں میں بھی اس وجہ سے کہ میری وہ بیوی جو لجنہ کی سیکرٹری ہیں، بیمار ہیں اور کام نہیں کرسکیں.گزشتہ سالوں کے مقابلہ میں بہت کم کام ہوا ہے اس لئے میں پھر دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ قادیان کی جماعت بیرونی جماعتوں کے لئے ایک نمونہ اور اُسوہ ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قادیان کی جماعت مالی تنگی کی وجہ سے اور تنخواہوں کے بروقت نہ ملنے کی وجہ سے دوسروں سے زیادہ تکلیف اور ابتلا میں ہے مگر وہ لوگ جو سلسلہ احمدیہ کے قیام کی اہمیت کو سمجھتے 383

Page 396

خطبہ جمعہ فرمود و 15 جنوری 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اور قادیان کے وجود کی برکات جانتے ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ دینی خدمات کے لحاظ سے سب سے زیادہ ذمہ داری قادیان کے لوگوں پر ہی عائد ہوتی ہے.خانہ کعبہ کی حفاظت اور تطہیر ہر ایک مسلمان کے ذمہ ہے مگر قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس نسل کو خاص طور پر مخاطب کیا گیا ہے جو مکہ میں رہنے والی تھی اور اُسے کہا گیا کہ تمہارے لئے خانہ کعبہ کی تطہیر فرض مقرر کی جاتی ہے.چنانچہ فرمایا: أنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّابِقِينَ وَالْعُكِفِينَ (البقرة: 126) گو طائف یعنی جو مکہ میں طواف کرنے والے تھے، اُن کے لئے بھی خانہ کعبہ کی تطہیر ضروری تھی مگر خدا تعالیٰ نے خصوصیت سے ان لوگوں کو مخاطب فرمایا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے مکہ میں رہتے تھے کیونکہ اس وقت وہی نسل تھی دوسرے لوگ مکہ میں نہیں تھے.اسی طرح جو لوگ قادیان میں رہتے ہیں یا کسی اور ایسی جگہ رہتے ہیں جس کو خدا تعالیٰ نے مقدس قرار دیا یا جہاں کے لوگوں نے دوسروں سے زیادہ ذمہ داری اُٹھائی ہوئی ہوتی ہے وہاں کے رہنے والوں پر دوسروں سے زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور ان کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ خواہ وہ بوجھ سے دوسروں سے زیادہ دبے ہوئے ہوں پھر بھی وہ زیادہ قربانیاں کریں اور زیادہ ایثار کے نمونے دکھا ئیں.پس میں تمام مساجد کے ائمہ، پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جلد سے جلد چندہ تحریک جدید کے متعلق اپنے حلقوں کی فہرستیں مکمل کر کے دفتر میں بھجوادیں مگر اس کے لئے کسی پر جبر نہ کیا جائے بلکہ انہی لوگوں کا نام لکھا جائے جو خوشی سے اپنے نام پیش کریں.میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ اس تحریک میں دوسرے پر جبر کرنا جائز نہیں اور نہ یہ جائز ہے کہ کسی کے زمہ کوئی رقم مقرر کر دی جائے اور کہ دیا جائے کہ اتنے روپوں کی ادا ئیگی اس پر فرض ہے.پس وہ بغیر لوگوں کو مجبور کرنے کے اپنے اپنے حلقوں کی فہرستیں مکمل کر کے جلد سے جلد بھجوا دیں.بعض محلوں نے غالباً فہرستیں مکمل کر لی ہوں گی مگر بعض محلے ابھی ایسے باقی ہیں جنہوں نے فہرستیں مکمل کر کے نہیں بھجوائیں.اسی طرح میں لجنہ اماءاللہ کو پھر تحریک کرتا ہوں کہ جو کمیٹیاں صرف ایک آدمی پر مبنی ہوں اور وہ آدمی جب بیمار ہو تو کام رک جائے وہ کمیٹیاں دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوا کرتیں کامیاب ہونے والی وہی کمیٹیاں ہوتی ہیں جن کا انحصار آدمیوں پر نہیں ہوتا بلکہ ایک آدمی اگر مر جائے یا کام سے علیحدہ ہو جائے تو فوراً دوسرا آدمی اس کی جگہ لینے کے لئے تیار ہو جائے اور اگر دوسرا آدمی بھی مر جائے یا کام سے علیحدہ ہو جائے تو اس کی جگہ لینے کے لئے ایک تیسرا آدمی تیار ہو.غرض زندہ قومیں اور محنت سے کام کرنے والے لوگ کسی ایک انسان سے اپنے آپ کو وابستہ نہیں رکھتے.صحابہ رضی اللہ عنہ کو دیکھو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت 384

Page 397

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 15 جنوری 1937ء ہوئے تو بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کو خیال آیا کہ اسلام کی اشاعت کا کام اب کس طرح چلے گا ؟ اور بعض تو یہاں تک کہنے لگے کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہوں ؟ وہ زندہ ہیں اور نہیں فوت ہو سکتے جب تک اسلام کامل طور پر دنیا میں نہ پھیل جائے اس وقت حضرت ابو بکر نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو مخاطب کر کے یہی کہا کہ اے مسلمانو! اسلام کا کام خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے: مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَقٌّ لَا يَمُوتُ یا درکھو! جو اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط رکھتا ہے اُسے یہ سن کر خوش ہو جانا چاہئے کہ ہمارا خدا زندہ خدا ہے ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو فوت ہو گئے ہیں لیکن ہمارا خدا زندہ ہے اور وہ کبھی فوت نہیں ہوسکتا: وَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدُمَاتَ لیکن جو اسلام سے اس لئے تعلق رکھتا تھا کہ گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ہی تمام زندگی ہے آپ ﷺ فوت ہوئے تو یہ زندگی بھی جاتی رہے گی اُسے سُن لینا چاہئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے اور اس کا اسلام بھی ختم ہو گیا تو انسانوں کے ساتھ کام کو وابستہ رکھنا بے وقوفی اور حماقت کی بات ہوتی ہے.آدمی پیدا ہوتے اور مرتے ہی رہتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے کام برابر چلتے چلے جاتے ہیں اور دراصل ہر زمانہ میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی نسبت لوگ کہتے ہیں کہ یہ بہت بڑے سیاستدان ہیں، ہر زمانہ میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی نسبت لوگ کہتے ہیں کہ یہ بہت بڑے جرنیل ہیں، ہر زمانہ میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی نسبت لوگ کہتے ہیں کہ یہ بہت بڑے ڈاکٹر یا حکیم ہیں، یہ مسیح الزمان ہو گئے ہیں مگر پھر وہ سیاستدان بھی مرتے چلے جاتے ہیں، وہ جرنیل بھی مرتے چلے جاتے ہیں، وہ ڈاکٹر اور حکیم بھی جو مسیح الزمان کہلاتے ہیں مرتے چلے جاتے ہیں مگر سیاستوں کے الجھے ہوئے مسائل پھر بھی حل ہوتے رہتے ہیں، فتوحات پھر بھی ہوتی رہتی ہیں، بیمار پھر بھی اچھے ہوتے رہتے ہیں.یہ کبھی نہیں ہوا کہ کسی بڑے سیاستدان کے مرجانے کے بعد سیاست کی پیچیدہ گتھیاں سلجھنے سے رہ جائیں یا کسی بڑے جرنیل کے مرجانے کے بعد لڑائیوں میں ہمیشہ شکست ہوتی چلی جائے یا کسی مسیح الزمان کے مرجانے کے بعد بیمارا اچھے نہ ہوتے ہوں بلکہ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک مسیح الزمان مرتا ہے تو دوسرا مسیح الزمان پیدا ہو جاتا ہے، ایک بادشاہ مرتا ہے تو دوسرا بادشاہ پیدا ہو جاتا ہے، ایک سیاستدان مرتا ہے تو دوسرا سیاستدان پیدا ہو جاتا ہے صرف قوم میں بیداری اور اپنے فرض کو پورا کرنے کا احساس ہونا چاہئے.پس 385

Page 398

خطبہ جمعہ فرمود : 15 جنوری 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول انسانوں پر اپنے کاموں کا انحصار نہیں رکھنا چاہئے.میں دیکھتا ہوں اس نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے باہر کی جماعتوں کو بھی غلطی لگ رہی ہے.چنانچہ بعض جماعتوں کے پریزیڈنٹ یا سیکرٹری جو سست ہوتے ہیں یا خودان کی مالی حالت ایسی اچھی نہیں ہوتی کہ اس تحریک میں حصہ لے سکیں وہ خاموش بیٹھے رہتے ہیں اور ان کے خاموش بیٹھے رہنے کی وجہ سے ساری جماعت خاموش رہتی ہے اور نیک تحریکات میں حصہ لینے سے محروم رہتی ہے لیکن جہاں کے پریزیڈنٹ اور سیکرٹری پچست ہوں وہاں کی جماعت کے افراد کی لسٹیں فوراً مکمل ہو کر پہنچ جاتی ہیں.چنانچہ اسی چندہ تحریک جدید کے متعلق گزشتہ دنوں میں نے بعض جماعتوں کو نصیحت کی تھی کہ وہ جلد بازی سے نامکمل فہرستیں نہ بھیجیں.ان جماعتوں سے میری مراد وہی جماعتیں تھیں جو ہوشیاری اور تیزی سے ایک دوسری سے بڑھنا چاہتی تھیں.چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ ان جماعتوں کے چندہ میں چھپیس فیصدی کی زیادتی ہوئی ہے لیکن اب وہ جماعتیں رہ گئی ہیں جن کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری ست ہیں.دفتر والے کہتے ہیں کہ ہم نے انہیں تحریکیں بھیج دیں مگر وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا.میں نے گزشتہ سال بھی بتایا تھا کہ جس جگہ کی جماعت کے پریذیڈنٹ یا سیکرٹری سست ہوں وہ مرکز سے جو تحریکات جائیں یا تو انہیں پڑھتے ہی نہیں اور اگر پڑھیں تو چھپا دیتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر جماعت کے دوسرے افراد کو بھی ان تحریکات کا علم ہو گیا تو ہمارے حصہ نہ لینے کی وجہ سے ہمیں شرمندگی ہوگی.حالانکہ تحریک جدید کوئی جبری تحریک نہیں کہ اس میں شرمندگی کا سوال ہونگر پھر بھی بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں جو اپنی کمزوری کو چھپا کر جماعت کو بدنام کرنا چاہتی ہیں.حضرت خلیفہ اسیح اول کے زمانہ میں بھی بعض دفعہ میں نے خود دیکھا کہ پیکٹ کے پیکٹ قادیان سے باہر کی بعض جماعتوں کو بھیجے جاتے اور وہاں بند کے بند ہی پڑے رہتے.ایسی جماعتوں کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری کو گو پہلی دفعہ مخاطب کر لینا چاہئے مگر جب معلوم ہو جائے کہ وہ اپنے کام میں سُست ہیں تو پھر پریذیڈنٹ اور سیکرٹری کو چھوڑتے ہوئے جماعت کے جو دوسرے افراد ہوں ان کو مخاطب کیا جائے چنانچہ اب بھی بعض مقامات سے جو اطلاعات موصول ہوئی ہیں اُن میں بھی یہی لکھا ہے کہ ہمارے پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں نے ہمیں کوئی تحریک نہیں کی ہمیں دوسرے ذرائع سے تحریک کا علم ہوا اب ہم اس تحریک میں جو حصہ لے رہے ہیں یہ منفردانہ حصہ ہے.گویا اُن پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کسی مکان کی بدر رو بند ہو جائے.جب کسی مکان کی بدر رو بند ہو جائے گی تو پھر اس کے اندر جتنا پانی آئے گا اندر ہی رہے گا 386

Page 399

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول اور آہستہ آہستہ دیوار کو گرادے گا.خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جنوری 1937ء غرض پریذیڈنٹ اور سیکر ٹری جو درمیانی واسطہ ہیں جب اُن پر غفلت اور سستی چھائی ہوئی ہوتی ہے تو جماعت کے دوسرے افراد پر بھی سستی اور غفلت چھا جاتی ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بسا اوقات جو پست لوگ ہوتے ہیں اُن کے دلوں پر بھی زنگ لگنا شروع ہو جاتا ہے اس لئے ایک طرف تو میں عہدیداروں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جن پریذیڈنٹوں یا سیکریٹریوں نے انہیں جواب نہیں دیا اب دوبارہ وہ انہیں مخاطب نہ کریں بلکہ جماعت کے دوسرے افراد کو مخاطب کریں اور لکھیں کہ آپ کی جماعت کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری چونکہ خاموش ہیں اور انہوں نے اس تحریک کا کوئی جواب نہیں دیا اس لئے ہم آپ کو مخاطب کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی اس امر کی تصریح کر دیں کہ اس چندہ کے لئے ہر گز کسی کو مجبور نہ کیا جائے.ہاں تمہارا یہ فرض ہے کہ ہر مرد اور عورت تک یہ تحریک پہنچاؤ، اس تحریک کے اغراض اور مقاصد انہیں بتاؤ، اس کی اہمیت اور ضرورت ان کے ذہن نشین کرو اور پھر تمام حالات بتانے کے بعد اُن سے پوچھو کہ آیا وہ اس میں حصہ لے سکتے ہیں یا نہیں؟ اگر کوئی شخص حصہ نہیں لے سکتا یا نہیں لیتا تو اس پر اصرار نہ کرو کہ تم اس میں ضرور حصہ لو اور جو لوگ خوشی سے اپنا نام لکھا ئیں اُن کے ناموں کی فہرست جلد سے جلد مکمل کر کے دفتر کو بھیجوا دی جائے اس کے ساتھ ہی میں جماعتوں کے افراد کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ جہاں کے پریذیڈنٹ یا سیکرٹری سست ہوں وہاں کی جماعت کے دوسرے افراد کو چاہئے کہ وہ اس کام کو اپنے ہاتھ میں لے لیں.خدا تعالیٰ کے کام پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں سے وابستہ نہیں ہوتے اور نہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کسی جماعت سے یہ پوچھے گا کہ تمہارا پریذیڈنٹ یا سیکرٹری کیسا تھا؟ بلکہ وہ افراد سے پوچھے گا کہ تم کیسے تھے؟ اگر کسی جگہ کا پریذیڈنٹ یا سیکرٹری سست ہوگا اور اُن کی سستی کی وجہ سے جماعت کے لوگ تحریک میں حصہ لینے سے محروم رہیں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں معاف نہیں کرے گا بلکہ کہے گا تم میں سے ہر تخت پریذیڈنٹ اور سیکرٹری تھا اور تمہارا فرض تھا کہ جب کوئی پریذیڈنٹ یا سیکرٹری سستی میں مبتلا تھا تو تم خود اس کی جگہ کام کرتے.پس جہاں جہاں میرا یہ خطبہ پہنچے اور جہاں جہاں جماعتوں کے پریذیڈنٹوں یا سیکرٹریوں نے تحریک جدید کو ہر مرد اور ہر عورت تک نہ پہنچایا ہو وہاں کی جماعت کے جس بندے کو بھی خدا تعالیٰ توفیق دے وہی کام شروع کر دے خدا تعالیٰ کے حضور وہی پریذیڈنٹ اور وہی سیکرٹری شمار کیا جائے گا.پھر جن جماعتوں پرستی چھائی ہوئی ہے وہاں کی قریب کی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ ان کی سستی کو دور کرنے کی 387

Page 400

خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جنوری 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول کوشش کریں اور انہیں اس تحریک میں حصہ لینے پر آمادہ کریں مثلاً اگر لاہور والے دیکھیں کہ قصور، امرت سر، شیخو پورہ یا فیروز پور کی جماعت چندوں کی ادائیگی میں نستی دکھاتی ہے اور وہ اپنا کام کر کے وہاں جائیں تو وہ دوہرے بلکہ تہرے ثواب کے مستحق ہوں گے یا شیخو پورہ، قصور، امرت سر اور فیروز پور کی جماعتوں کو معلوم ہو کہ لاہور، امرت سر اور گوجرانوالہ کی جماعتیں سست ہیں اور وہ اپنی جماعت کے آدمی بھیج کر اُن کو بست کریں تو یقینا وہ دوہرے بلکہ تہرے ثواب کے مستحق ہوں گے.میرا اس سے یہ مطلب نہیں کہ یہ جماعتیں سستی کرتی ہیں، میں نے صرف مثال کے طور پر چند نام لے دیئے ہیں.پس ہر جماعت کو چاہئے کہ وہ اپنی جماعت سے قریب تر جماعت کو اگر سستی اور غفلت میں مبتلا پائے تو اس کی سستی اور غفلت کو دُور کرنے کی کوشش کرے.میں نے بار ہا بتایا ہے کہ کوئی گھر اپنے ہمسایہ گھر کو آگ لگنے کے بعد محفوظ نہیں ہوتا.پھر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا ہے کہ تمام مومن آپس میں ایسے ہی ہیں جیسے ایک جسم کے مختلف اعضا.تو کیسے ممکن ہے کہ ایک عضو میں بیماری ہو اور باقی جسم اس بیماری کی وجہ سے تکلیف نہ اُٹھائے ؟ اگر زید، بکر، عمرو اور خالد.ہاتھ، کان، ناک اور پاؤں کی حیثیت رکھتے ہیں تو اسی طرح گوجرانوالہ ، شیخو پورہ، قصور، دہلی اور راولپنڈی کی جماعتیں بھی ہاتھ ، پاؤں ، ناک، کان اور انگلیوں کی حیثیت رکھیں گی.پس یہ کیونکر ممکن ہو سکتا ہے کہ جسم کا پاؤں یا ہاتھ یا کوئی اور عضو بیمار ہو اور سارا جسم اذیت نہ اٹھائے ؟ یقیناً جو بیماری ایک جگہ ہے وہ اپنا اثر دوسرے اعضاء پر بھی ڈالے گی اسی لئے مومن کو صرف اس بات پر تسلی نہیں ہوتی کہ فلاں کام میں نے کر لیا ہے بلکہ وہ یہ بھی دیکھا کرتا ہے کہ آیا میرے دوسرے بھائی نے بھی وہ کام کیا ہے یا نہیں؟ اور وہ تسلی سے نہیں بیٹھتا جب تک سارے لوگ وہی کام نہ کر لیں.اس طرح کسی ایک جماعت کو اس بات پر مطمئن نہیں ہو جانا چاہئے کہ اس نے تحریک جدید میں حصہ لے لیا بلکہ اسے اس وقت تک اطمینان کا سانس نہیں لینا چاہئے جب تک ساری جماعتیں اس میں حصہ نہ لے لیں.پس میں تمام دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلد سے جلد وقت مقررہ کے اندر اپنی لسٹیں تیار کر کے بھجوا دیں اور اگر انہوں نے اپنی لسٹیں مکمل کر لی ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ اپنی ہمسایہ جماعتوں کی لسٹوں کو مکمل کریں.اسی طرح جس شخص نے خود تو چندہ لکھوا دیا ہے مگر اس کے علم میں یہ بات ہو کہ جماعت میں بعض ایسے لوگ ابھی موجود ہیں جو اس تحریک میں حصہ لے سکتے ہیں مگر انہوں نے حصہ نہیں لیا خواہ اپنی غفلت کی وجہ سے یا پریذیڈنٹ اور سیکرٹری کی سستی کی وجہ سے ، تو وہ اخبار الفضل“ کے وہ پرچے جن میں تحریک جدید کے متعلق خطبات چھپے ہیں لے لے اور خود ایسے دوستوں کے گھروں پر جا کر 388

Page 401

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جنوری 1937ء انہیں سنائے تا کہ اگر کسی نے اپنی بیماری کی وجہ سے نہ کہ معذوری کی وجہ سے چندہ تحریک جدید میں حصہ نہیں لیا تو وہ اب حصہ لے لے تا اس کی بیماری میں کمی آجائے اور اس کا بدن تندرست ہو جائے کیونکہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں اور سب ایمانی جسم کا ایک حصہ ہیں.اس کے بعد میں تحریک جدید کے ایک اور پہلو کے متعلق جس پر مولوی محمد علی صاحب نے گزشتہ ایام میں بعض اعتراضات کئے ہیں کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ پہلو تحریک جدید کے کارخانہ جات کا ہے جو بے کاروں اور یتیموں کو کام پر لگانے کے متعلق جاری کئے گئے ہیں.ان کارخانوں کے اجرا اور یتیموں اور غریبوں کو کام پر لگانے سے مولوی محمد علی صاحب کی رگ حمیت اتنے جوش میں آئی ہے کہ ان کو قتیموں اور غریبوں کو کام سکھانا بے دینی نظر آنے لگ گئی ہے اور وہ کہتے ہیں اب قادیان میں دین کون سا باقی رہ گیا ہے؟ ان کے نزدیک جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم یتیموں اور بے کاروں کو کام سکھائیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ عام دنیا داروں کی طرح لوہار، ترکھان اور موچی بن جائیں گے اس لئے وہ کہتے ہیں جب لوگ لوہار، ترکھان اور موچی بن جائیں گے تو دین کی اشاعت کون کرے گا؟ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھانے اور لوگوں کو حلقہ بگوش اسلام بنانے والا کون رہے گا ؟ میں سمجھتا ہوں اول تو یہ اعتراض اس لحاظ سے غلط ہے کہ ان کے نزدیک ہم اپنی تبلیغ اور جد و جہد سے لوگوں کو محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے دور کر رہے ہیں اور اصل اسلام سے لوگوں کو منحرف کر رہے ہیں.پس اگر وہ لوگ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے لوگوں کو پھیرنے والے ہوں دنیوی کاموں میں مشغول ہو جائیں تو اس میں انہی کا فائدہ ہے اور اس پر انہیں تکلیف محسوس ہونے کی بجائے خوشی منانی چاہئے تھی کیونکہ اگر یہ میچ ہے کہ ہماری تبلیغی کوششیں دین اسلام پر حملہ ہیں.ختم نبوت کی تشریح جو ہماری طرف سے پیش کی جاتی ہے اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہے اور ہمارا لوگوں کو اپنے اندر شامل کرنا انہیں اصل اسلام سے منحرف کرنا ہے تو پھر تو انہیں خوش ہونا چاہئے کہ اب اسلام کی ترقی کا ان کے لئے راستہ کھل گیا اور ہمارے دنیا میں مشغول ہو جانے کی وجہ سے اسلام پر جو حملے ہوا کرتے تھے اور ختم نبوت کو مٹانے کی جو کوششیں پہلے کی جاتی تھیں وہ اب نہیں ہوا کریں گی اور اب بجائے تبلیغ کے ہم ترکھانے اور لو ہارے کے کام میں مشغول رہا کریں گے.پس ہمارے ان کارخانوں کے اجرا اور تیموں اور بے کاروں کے کام پر لگ جانے سے اول تو انہیں خوش ہونا چاہئے تھا کہ اب ان کا راستہ صاف ہو گیا لیکن تعجب یہ ہے کہ اس پر انہیں تکلیف ہوئی ! پس اول تو وہ ہمارے متعلق جو پرانے زمانہ میں یہ کہا کرتے تھے کہ اُنہوں نے دینِ اسلام میں رخنہ ڈال دیا اور 389

Page 402

خطبہ جمعہ فرمود : 15 جنوری 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول ان کی کوششوں نے لوگوں کو اسلام سے منحرف کر دیا اس کے مد نظر اب ہمارے کارخانوں کے اجرا اور بقول ان کے دنیا میں مشغول ہو جانے پر ان کا اعتراض کرنا درست معلوم نہیں ہوتا بلکہ انہیں خوش ہونا چاہئے تھا کہ فکر دور ہو گیا اور اب اسلام پر ایک جماعت جو حملہ کر رہی تھی اس میں کمی آنے کی اُمید ہو گئی لیکن اگر حقیقت یہ نہیں بلکہ دل میں وہ یہی مانتے تھے کہ احمدی تبلیغ اسلام کرتے ہیں ، صرف ظاہر میں وہ لوگوں کو دھوکا دینے اور ہماری طرف سے دُنیا کو بدظن کرنے کے لئے کہا کرتے تھے کہ یہ لوگ اسلام کے راستہ میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں تو پھر بھی ان کا یہ اعتراض ان کے قلتِ تدبر پر اور دین اسلام سے ناواقفیت پر دلالت کرتا ہے.ان کا اعتراض یہ ہے کہ ان کارخانوں کے جاری کرنے کی وجہ سے قادیان کے لوگ بے دین ہو گئے ہیں، اسلام سے غافل ہو گئے ہیں اور اشاعت اسلام کا کام انہوں نے چھوڑ دیا ہے.اس اعتراض پر میں جب بھی غور کرتا ہوں حیران ہوتا ہوں کہ کسی معقول انسان کی زبان پر یہ فقرہ کس طرح سکتا ہے؟ کیا کبھی بھی کوئی ایسی جماعت ہوئی ہے جس کے تمام افراد ہر قسم کے دنیوی کاموں سے الگ ہو کر صرف اشاعت اسلام میں لگے ہوئے ہوں؟ یا کوئی ایسا انتظام ہوا ہے جو دنیا کی اصلاح کے تمام کاموں سے جُدا ہو کر صرف تبلیغ میں لگا ہوا ہو؟ ہر واقف کار آدمی جانتا ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم بھی اپنی روٹی کمانے کے لئے کام کیا کرتے تھے اور خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں محنت سے روزی کمانے کی تلقین کرتے رہا کرتے تھے.ان میں تاجر بھی تھے ، صناع بھی تھے ، پیشہ ور بھی تھے، اہل حرفہ بھی تھے ہر قسم کے لوگ تھے جو محنت کرتے تھے، مزدوری کرتے تھے اور اپنے پیٹ پالتے تھے اور اپنی آمد سے دین کی خدمت کرتے تھے اور خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف یہ کہ ان کے اس طرح دنیوی کاموں میں مشغول ہونے کو بُرا نہ مناتے تھے بلکہ اس طرح رزق حلال کمانے کو پسند فرماتے اور اس کی طرف انہیں رغبت دلاتے رہتے تھے.پھر اسلامی نظام صرف لوگوں کو کلمہ ہی نہیں پڑھاتا تھا بلکہ دنیوی کام بھی سکھاتا تھا.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے کفار قیدیوں میں سے بعض کے لئے آزادی کا فدیہ ہی یہ مقرر کیا تھا کہ مدینہ کے لڑکوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دیں.یہ ظاہر بات ہے کہ مکہ کے کفار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تو کہا نہیں ہوگا کہ اسلام کے معارف لوگوں کو پڑھاؤ.وہ کم بخت جو خود اسلام نہ جانتے تھے مدینہ کے لوگوں کو اسلام کیا سکھاتے ؟ اُن سے آخر یہی مطالبہ ہو گا کہ دنیوی علوم اور ظاہری لکھنا پڑھنا سکھا دیں.پس نظام اسلامی بھی اس قسم کے کاموں سے بے رغبتی نہیں برت سکا.ہم لوگ جن کی بے رغبتی کا ماتم کرنے کے لئے مولوی محمد علی صاحب کھڑے ہوئے ہیں اس سے پہلے 390

Page 403

تحریک جدید - ایک ابی تحریک....جلد اول خطبہ جمعہ فرمود : 15 جنوری 1937ء ہماری جماعت بھی تو ساری کی ساری دن رات اشاعت دین میں مشغول نہ رہتی تھی ؟ کیا ہم میں ایسے لوگ موجود نہیں تھے جو اپنی روٹی کمانے کے لئے کالجوں میں پروفیسر یا سکولوں میں اساتذہ تھے؟ یا کیا ہم میں وہ لوگ موجود نہیں تھے جو اپنی روٹی کمانے کے لئے لو ہارے کا کام کرتے تھے؟ یا کیا ہم میں وہ لوگ موجود نہیں تھے جو اپنی روٹی کمانے کے لئے درزی کا کام کرتے تھے؟ یا کیا ہم میں وہ لوگ موجود نہیں تھے جو اپنی روٹی کمانے کے لئے ڈاکٹری کا پیشہ کرتے تھے؟یا کیا ہم میں وہ لوگ موجود نہیں تھے جو اپنی روٹی کمانے کے لئے انجینئر نگ کا کام کرتے تھے؟ یا کیا ہم میں وہ لوگ موجود نہیں تھے جن میں سے کوئی اپنی روٹی کمانے کے لئے پٹواری کی ملازمت اختیار کئے ہوئے تھا، کوئی تحصیل دار تھا، کوئی ای اے سی تھا، کوئی زمیندارہ پرگزارہ کرتا تھا، پھر کون سا معقول انسان ہے جو یہ کہہ سکے کہ ہم میں لاکھوں آدمی اپنی روٹی کمانے کے لئے مختلف کام کرتے رہے لیکن ہماری دین سے بے رغبتی ثابت نہ ہوئی لیکن جونہی سلسلہ نے یہ فیصلہ کیا کہ جماعت کے یتیم اور مسکین بچوں کو بھی مختلف پیشے سکھائے جائیں تا کہ وہ آوارہ نہ پھر میں اور بے روز گار رہ کر تکلیف نہ اٹھا ئیں ہماری جماعت فورا دین سے بے رغبت ہوگئی اور ہمارے دین کا ذخیرہ ختم ہو گیا.گویا جب تک ہم میں سے بعض اپنے نفس کے لئے روٹی کماتے رہے اس وقت تک تو مولوی محمد علی صاحب کے نزدیک ہم دین دار تھے لیکن جب ہم نے یہ کوشش شروع کی کہ ہم اپنے ہنر قیموں اور مسکینوں کو بھی سکھائیں تو فوراً بقول مولوی محمد علی صاحب ہمارے ایمان کا دیوالیہ نکل گیا اور ہم دنیا میں مشغول ہو گئے اور وہ شکایت کرنے لگ گئے کہ اب قادیان میں دین کہاں رہ گیا؟ اب تو بے دینی آگئی ہے.گویا ان کے نزدیک دین اسلام نام ہے تیموں کو بھوکا مارنے اور بے کاروں کو ہمیشہ بے کار رکھنے کا اور جب کسی قوم میں یتیموں کو کام پر لگانے کا جذبہ پیدا ہو جائے یا بے کاری کو دور کرنے اور غریبوں کو ہنر سکھانے کا اُسے خیال آئے اُسی دن سے وہ بے دین بن جائے گی.ایک زمیندار اگر سارا دن اپنے زمیندارہ کے کام میں لگا رہے تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر وہ کسی غریب لڑکے کو زمیندارہ کا کام سکھا دیتا ہے تو بے دین بن جاتا ہے.یہ دین کی ایسی اصطلاح ہے کہ غالباً مولوی محمد علی صاحب ہی اس کے موجد ہیں نہ کسی عقلمند آدمی کو اس سے پہلے یہ اصطلاح سوجھی ہے اور نہ شاید اب کسی عقلمند آدمی کی سمجھ میں یہ اصطلاح آئے.پھر عجیب بات یہ ہے کہ مولوی محمد علی صاحب سے تعلق رکھنے والے لائل پور میں بعض کارخانہ دار ہیں جنہیں اپنی قسم کے کارخانہ والوں کا بادشاہ قرار دیا جاتا ہے مولوی محمد علی صاحب اُن سے چندے بھی وصول کرتے ہیں، اُن کی بڑی بڑی رقموں پر انہیں شاباش بھی دیتے ہیں مگر اُن کے کارخانوں میں بے دینی کی کوئی علامت انہیں نظر نہیں 391

Page 404

خطبہ جمعہ فرمود : 15 جنوری 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول آتی غالبا اس لئے کہ لائل پور کے لوگ اپنی ذات کے لئے کماتے ہیں.پس مولوی محمد علی صاحب کے نزدیک اپنی ذات کے لئے کمانے میں کوئی حرج نہیں لیکن جب ہم کسی یتیم ، غریب اور بے کس کے لئے کمائیں تو دین میں فتور آجاتا ہے.ہمارے کارخانے چونکہ اپنے ذاتی مفاد کے لئے نہیں بلکہ ان کے قائم کرنے کی غرض یہ ہے کہ تیموں اور بیواؤں کی خبر گیری کی جائے اور انہیں کام مہیا کر کے دیا جائے جس سے وہ اپنی روزی کما سکیں اس لئے ان کے نزدیک قادیان کی جماعت احمد یہ دین اسلام سے بالکل بے رغبت ہوتی چلی جاتی ہے اور اشاعت اسلام کا کام اُس نے بند کر رکھا ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر لطیفہ یہ ہے کہ انجمن اشاعت اسلام لاہور مربعے خریدتی اور انہیں اپنے استعمال میں لاتی ہے اور اس سے دین کی اشاعت میں کوئی فرق نہیں آتا لیکن غریب کو پیشہ سکھا دیا جائے تو اس سے دین کی طرف سے پوری بے رغبتی ہو جاتی ہے اور اشاعت اسلام میں فورا فرق آجاتا ہے ، اگر مولوی محمد علی صاحب کتابیں لکھیں اُنہیں بیچیں اور اُن کی آمد اپنی ذات پر خرچ کریں تو یہ عین دین ہے لیکن اگر میاں نذر محمد مستری غریبوں اور قیموں کو کام سکھلائیں اور میری یا کسی اور کی نگرانی میں کام ہو تو یہ بے دینی ہے.گویا جب کارخانوں کی آمد یا کتابوں کی آمد یا بعض اور آمد نیاں مولوی محمد علی صاحب کے پاس جائیں تو یہ دین ہے لیکن جس دن وہ آمد کسی بیوہ کو ملنے لگے اُسی دن سے اشاعت اسلام کے کام میں رکاوٹ پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے! میں اگر کتا بیں لکھ کر سلسلہ کو دے دوں اور اس کی آمد بھی سلسلہ کے مفاد کے لئے ہی خرچ ہو تو یہ میری غفلت اور بے ایمانی ہے لیکن اگر مولوی محمد علی صاحب کتا ہیں لکھ کر خود نفع سمائیں تو یہ دین کی خدمت اور اسلام کی اشاعت لائل پور والے اگر کارخانے جاری کریں اور بڑی بڑی رقمیں مولوی محمد علی صاحب کو بھجوائیں تو یہ جائز لیکن اگر قادیان میں غربا کے لئے کارخانے جاری کر دیئے جائیں تو دین میں فرق آجاتا ہے.حالانکہ اسلام نام ہی ہے ہر قسم کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا جیسا کہ میں او پر اشارہ کر آیا ہوں بدر کی جنگ کے بعد جب قیدی آئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن قیدیوں سے فرمایا کہ ہم تم سے کوئی فدیہ نہیں لیتے تم مدینہ کے بچوں کو پڑھا دیا کرو.وہ قیدی آخر انہیں قرآن نہیں پڑھاتے تھے یہی لکھنا پڑھنا سکھاتے تھے اور لکھنا پڑھنا بھی ویسا ہی کام ہے جیسے لو ہارا یا تر کھانا.پھر اگر اپنے سکول جاری کرنے سے دین کی خدمت کا جذبہ کم نہیں ہوتا تو تر کھانے یا لوہارے کا کام سکھانے سے دین کی خدمت کا جذبہ کیوں کم ہو جاتا ہے؟ اس کا تو یہ مطلب ہے کہ ہم اگر کسی کو الف، ب، پڑھا ئیں تو یہ دین کی اشاعت ہے اور اس سے اسلام میں کوئی فرق نہیں آسکتا لیکن اگر ہم کسی یتیم کو پیشہ سکھا دیں تو اس سے دین میں فرق آجاتا ہے؟ 392

Page 405

تحریک جدید - ایک ابھی تحریک...جلد اول - خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جنوری 1937ء چند دن سے غیر احمدی اخباروں میں شائع ہو رہا ہے کہ جرمن کی غیر مبائعین کی مسجد میں بعض دفعہ ٹکٹ کے ذریعہ داخلہ ہوتا ہے.اس بارہ میں غیر احمدی اخباروں میں بار بار چھینچ شائع ہوتے رہے ہیں، لیکن غیر مبائعین نے اس کی کوئی تردید نہیں کی.پھر سوال یہ ہے کہ اگر ایک مذہبی لیکچر کے بدلہ میں پیسے وصول کرنے سے اشاعت اسلام میں فرق نہیں آتا تو بُوٹ یا گرسی بنا کر اگر پیسے لئے جائیں اور وہ غربا پر خرچ کئے جائیں یا اشاعت اسلام پر خرچ کئے جائیں تو اس سے اشاعت اسلام میں فرق کیوں آجاتا ہے؟ پھر یا درکھو! کہ اسلام نام ہے زندگی کے تمام شعبوں کو درست رکھنے کا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرمایا ہے کہ جو شخص سڑک پر چلتے ہوئے راستہ سے کنکر، پتھر اور کانٹے وغیرہ بنا کر ایک طرف کر دیتا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حضور ثواب کا مستحق ہے مگر اس حدیث کو دیکھ کر کوئی نہیں کہتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو صفائیوں میں لگا دیا اور اشاعت اسلام کی طرف سے ان کی توجہ کو پھرا لیا.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض دفعہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو حکم دیتے کہ گتے مارو.چونکہ آوارہ کتوں کی کثرت کی وجہ سے خدشہ ہوتا ہے کہ وہ دیوانے ہو جائیں اور لوگوں کو نقصان پہنچے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیه وسلم بعض دفعہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو گتے مارنے کا حکم دے دیتے مگر کبھی کسی نے نہیں کہا کہ اشاعت اسلام سے اس طرح لوگوں کی توجہ پھر الی گئی ہے جو وقت گنوں کے مارنے پر صرف ہوگا وہی وقت تبلیغ میں کیوں نہ صرف کریں؟ پھر حدیثوں میں اور صحیح حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم کو تیر اندازی اور نیزہ بازی کی مشق کراتے اور بعض دفعہ خود بھی اس میں شامل ہوتے ، اگر یہی بات درست ہے کہ جماعت کے کسی فرد کو لو ہارے یا تر کھانے کا کام سکھانے سے دین میں فرق آجاتا ہے تو کیوں یہ نہ سمجھا جائے کہ جتنی دیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم کو نیزہ بازی یا تیر اندازی کراتے اتنی دیر دین میں فرق آیا رہتا تھا ؟ بلکہ بخاری میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ حضرت عائشہ سے فرمایا عائشہ! آتو بھی نیزہ بازی کے کرتب دیکھ.یہ نہیں کہا کہ میں تو نیزہ بازی کے کرتب دیکھتا ہوں اور تم ذرا تبلیغ کر آؤ.پھر کیا مولوی محمد علی صاحب کہہ سکتے ہیں کہ وہ کسی چائے کی پارٹی یا دعوت میں کبھی شامل نہیں ہوئے یا کیا وہ کہ سکتے ہیں کہ وہ کسی دوست سے کبھی ملنے نہیں گئے یا کہہ سکتے ہیں کہ وہ کسی بیمار کی عیادت کے لئے کبھی نہیں گئے یا کیا وہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ کہیں سیر کے لئے کبھی نہیں گئے ؟ اگر نہیں کہہ سکتے تو انہوں نے ان وقتوں کو تبلیغ اسلام میں کیوں صرف نہیں کیا ؟ اگر کسی دعوت میں کیک اور 393

Page 406

خطبہ جمعہ فرمود : 15 جنوری 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول پیسٹری اُڑانے اور پلا ؤ اور زردہ کھانے کے باوجود ان کی اشاعت اسلام میں فرق نہیں آتا تو چند قیموں اور نادار بچوں کو نجاری یا آہنگری کا کام سکھانے پر ہمارے دین میں کس طرح فرق آجاتا ہے اور ہم ان کی نگاہ میں کیوں بے دین بن جاتے ہیں؟ یہ تو اصل میں تھو کھٹے والی بات ہے ہر کام جو میں نے آج تک کیا اس پر انہوں نے اعتراض کیا مگر پانچ دس سال کے بعد جب دیکھتے ہیں کہ ہمارا عتراض لوگوں کو بھول گیا ہوگا تو وہی کام خود شروع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ ہے ہماری قوم کی ترقی جو اس نے تھوڑی سی مدت میں کر لی بلکہ ایک مدت کے بعد تو الفاظ بھی وہی لکھنے لگ جاتے ہیں جن پر پہلے اعتراض کیا کرتے ہیں.چنانچہ اُن کا بڑا اعتراض یہ تھا کہ ہم لوگ خلافت کے قائل ہیں مگر اب ایک دوست نے ان کا ایک خط بھجوایا ے جو غیر علاقہ کے کسی آدمی کوان کی انجمن کے سیکرٹری نے لکھا اور جس میں مولوی محمد علی صاحب کے متعلق حضرت خلیفہ ایسیج امیر ایدہ اللہ کے الفاظ تحریر کئے ہیں.دیکھو! یا تو کبھی خلافت پر اعتراض کئے جاتے تھے یا اپنے خطوط پر چوری چھپے مولوی محمد علی صاحب کے متعلق خلیفہ مسیح لکھا جانے لگ گیا ہے.یہ خط جو غیر مبائعین کا پکڑا گیا ہے اس کے نیچے سیکرٹری کے طور پر غلام نبی مسلم کا نام لکھا ہوا ہے.غرض جو کام میں کرتا ہوں اس پر یہ لوگ پہلے اعتراض کرتے ہیں مگر پانچ دس سال کے بعد انہی کاموں کی نقل شروع کر دیتے ہیں.ایک زمانہ تھا جب یہ کہتے تھے کہ وصیت میں کیا رکھا ہے؟ کیا اسی زمین میں داخل ہو کر انسان جنتی بن سکتا ہے اس کے علاوہ جنتی نہیں بن سکتا؟ وہ زمانہ میں نہیں بھول سکتا جب ان لوگوں نے بہشتی مقبرہ کے پاس کچھ زمین خریدی تو کسی نے اُن سے پوچھا کہ آپ تو بہشتی مقبرہ پر اعتراض کیا کرتے تھے اور اب خود بہشتی مقبرہ کے طور پر ایک زمین خرید لی ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ تو وہ کہنے لگے کہ یہ الوؤں کو تسلی دینے کے لئے خریدی گئی ہے یعنی بعض آلو ایسے بھی ہیں کہ جب تک بہشتی مقبرہ کے پاس قبروں کے لئے کوئی جگہ نہ ہو انہیں تسلی نہیں ہوتی.اس دوست نے وہ بات آگے بیان کی پھر اور لوگوں میں مشہور ہوئی یہاں تک کہ ہوتے ہوتے ہماری جماعت میں پیغامیوں کے مقبرہ کا نام ہی اُلوؤں کا مقبرہ ہو گیا.غرض انہوں نے وصیتوں پر تمسخر اڑایا، اپنی وصیتیں واپس لیں حتی کہ مولوی محمد علی صاحب نے اپنی وصیت منسوخ کرائی مگر آج میں بائیس سال کے بعد اپنے جلسہ سالانہ میں مولوی محمد علی صاحب نے اپنی تقریر کرتے ہوئے کہا میں اپنے گناہ کا نہایت ندامت کے ساتھ اقرار کرتے ہوئے اشاعت اسلام کے لئے وصیت کرتا ہوں.گویا اب وصیت کرنا نیک کام بن گیا؟ فرق صرف یہ ہے کہ ان کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقرر کردہ بہشتی مقبرہ کے لئے وصیت کرنے والا ان الفاظ کا مستحق ہے جو انہوں 394

Page 407

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرمود : 15 جنوری 1937ء نے کہے لیکن جو لاہور کی انجمن اشاعت اسلام کے لئے وصیت کرے وہ بڑی نیکی کا کام ہے.مجھے حیرت آتی ہے کہ ایک معقول انسان، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں رہنے والا انسان، اسلام پر کتابیں لکھنے والا انسان، ایک انجمن کا پریذیڈنٹ کہلانے والا انسان جس کے خطوں میں اب چوری چھپے خلیفہ اسیح کے الفاظ بھی لکھے جارہے ہیں اُس نے یہ کیونکر کہہ دیا کہ چونکہ قادیان میں اب بعض ایسے کارخانے کھل گئے ہیں جن میں تیموں اور غریبوں کو کام کرنا سکھلایا جاتا ہے اس لئے یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ قادیان کے لوگ بے دین ہو گئے.گویا جو بیواؤں کو بھوکا رکھیں، جو یتیموں کو بھوکا ماریں، جو غریبوں کو بھوکا ماریں وہ تو دین دار مگر جو اُن کی آسائش اور سہولت کے لئے کوئی کام نکالیں وہ بے ایمان اور اشاعت اسلام کے کام سے منحرف ؟ مگر میں مولوی محمد علی صاحب سے کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ابھی زیادہ دن نہیں گزریں گے کہ وہ خود اسی قسم کے کام کرنے پر مجبور ہوں گے.یہ ایام خواہ ان کی زندگی میں آئیں یا اُن کی اولادوں کی زندگی میں، بہر حال زیادہ عرصہ نہیں گزرے گا کہ وہ خود اسی قسم کے کام کریں گے جس قسم کے کاموں پر وہ آج ہم پر اعتراض کر رہے ہیں.وہ بے شک میرا یہ خطبہ اپنے اخبار میں چھاپ دیں تا آئندہ نسلوں کے لئے سندر ہے کہ میں نے یہ دعوی کیا ہے کہ ایک دن ان کی انجمن یہی کام کرنے پر مجبور ہوگی.اگر یہ بات درست ثابت ہوئی تو ان کی نام ہی ان کی نسلوں پر ثابت ہوگی اور اگر درست نہ نکلی تو میرا جھوٹ ثابت ہوگا.ایک دوسری صورت بھی میں اُن کے سامنے پیش کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اگر وہ یہ اعتراض دیانت داری سے کر رہے ہیں تو وہ اپنی طرف سے چوکھٹوں میں یہ الفاظ شائع کر دیں کہ اگر کبھی ہماری جماعت نے صنعتی مدرسے جاری کئے یا بیواؤں اور یتیموں کی خبر گیری کی اور انہیں کوئی ہنر اور پیشہ سکھانے کی کوشش کی تو یہ سخت بے دینی ہوگی پھر وہ خود بخود دیکھ لیں گے کہ اگلی نسلیں اُن پر لعنتیں کرتی ہیں یا نہیں کرتیں اور اگر وہ کہیں کہ اگر ایسی ہی بات ہے تو پھر اور بھی بیسیوں کام ہیں وہ تم کیوں نہیں کرتے یا اس سے پہلے کیوں ایسے کام جاری نہیں کئے تھے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر کام کا وقت ہوتا ہے.جب تک ہمارے آدمی تھوڑے تھے اور اُن کو کام پر لگانے کے لئے ایسے اخراجات اسراف میں داخل تھے ہم نے یہ کام شروع نہیں کئے اور جب ہماری تعداد زیادہ ہوگئی اور بے کاری بڑھ گئی اور سکھانے کا خرچ اسراف نہ رہا ہم نے یہ کام جاری کر دیئے.اب اگر ہمارے پاس مزید طاقت ہو تو ہم یقیناً اور پیشے بھی سکھانے کے لئے جماعت میں کارخانے جاری کر دیں گے بلکہ اگر ہمارے اندر طاقت ہو تو میں تو اپنی جماعت کے افراد سے 395

Page 408

خطبہ جمعہ فرمود : 15 جنوری 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول یہی کہوں گا کہ ہو سکے تو ہوائی جہاز بنانے سیکھو، جہاز بنانے سیکھو، کشتیاں بنانی سیکھو اور ان کے ذریعہ اگر غریبوں کی امداد کر سکتے ہو تو کرو اور بے کاروں کو کام پر لگاؤ.کام کرنا بے دینی نہیں دین چھوڑ کر کام کرنا بے دینی ہوتا ہے یا اپنی آمد کو عیاشی پر خرچ کرنا بے دینی ہوتا ہے ورنہ کام کرنا جبکہ اس کے ساتھ دین کی محبت اور دین کے لئے قربانی شامل ہو خود دین ہے.پس ایسے کارخانے جاری کرنے میں کوئی حرج نہیں جن کے ذریعہ غربا کی امداد کی جاسکے.ہاں اگر ہم کارخانے اس لئے جاری کریں کہ امرا اپنی دولت میں بڑھ جائیں تو یہ بے شک ناجائز کام ہوگا لیکن ہمارا مقصد تو ان کا رخانوں کے اجرا سے دولت مندوں کو دولت میں بڑھانا نہیں بلکہ یہ ہے کہ یتیم اور غریب لڑکے ہنر سیکھ جائیں اور وہ اپنی روزی خود کما سکیں یا مثلاً لجنہ اماء اللہ کو ہم نے روپیہ دیا کہ غریب عورتوں کو اس سے سوت وغیرہ لے دے تا کہ وہ کام کریں اور اس کام کے بدلے میں انہیں ضروریات کے لئے مناسب معاوضہ دیا جائے تو اس قسم کے کام نہ صرف یہ کہ نا جائز نہیں بلکہ عین دین ہیں اور قومی ترقی کے لئے ضروری ہیں.پھر ان کارخانوں کے اجرا سے جن میں یتیم بچوں کو تر کھانے اور لوہارے کا کام سکھایا جاتا ہے یہ بھی غرض ہے کہ ان بچوں کو ساتھ کے ساتھ دین کی تعلیم بھی ملے.چنانچہ صنعتی سکولوں میں دینیات کی تعلیم بھی شامل کی گئی ہے.پس یہ تو عین خیر خواہی ہے اور اسلام ہے اور اگر ہم نے اب تک اس کام کو شروع نہیں کیا تھا تو اس لئے نہیں کہ ہمیں یہ کام پسند نہیں تھا.بلکہ اس لئے کہ ہم میں طاقت نہیں تھی اور جن کاموں کو ہم اب نہیں کر رہے وہ بھی اس لئے نہیں چھوڑے ہوئے کہ ہم انہیں پسند نہیں کرتے بلکہ اس لئے چھوڑے ہوئے ہیں کہ ہم میں اُن کے کرنے کی طاقت نہیں اور اُن کے سکھانے پر جو خرچ ہوگا وہ فائدے سے زیادہ ہو گا.ہاں جب کہ میں نے بتایا ہے اگر ہم ایسے کارخانے جاری کریں جن کی غرض یہ ہو کہ امرا کی دولت بڑھتی رہے تو یہ نا جائز ہوگا لیکن یہ کارخانے تو محض غربا کی ہمدردی اور اُن کی آئندہ زندگی سنوارنے کے لئے جاری کئے گئے ہیں اور یہ بہت بڑے ثواب کا موجب اور عین دین اسلام کی تعلیم کے مطابق ہے.سارا قرآن انہیں باتوں سے بھرا پڑا ہے کہ غریبوں کی مدد کرو اور اُن کی ہمدردی اور خیر خواہی کرو.کیا دنیا میں ہزاروں دفعہ ہم ایسا نہیں کرتے کہ ہمارے سامنے کوئی غریب آتا ہے اور ہم اسے پیسہ نکال کر دے دیتے ہیں؟ اب کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ایک غریب شخص کو پیسہ دے دینا تو دین داری اور نیکی ہو لیکن اگر ہم اُسے کوئی پیشہ سکھا دیں جس سے وہ ہمیشہ روٹی کھا سکے تو یہ نا جائز ہو جائے ؟ ہمارے گھر میں اگر سال بھر کا غلہ پڑا ہوا ہے اور غریب کھو کا مر رہا ہے تو یہ جائز لیکن اگر ہم غریب کو کوئی ایسا ہنر سکھا دیں جس سے وہ ہمیشہ کے لئے اپنی روزی آپ پیدا کر سکے تو یہ بے دینی 396

Page 409

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول بن جائے.خطبہ جمعہ فرمود : 15 جنوری 1937ء اصل بات یہ ہے کہ یہ اعتراض محض حسد کا نتیجہ ہے اور اس کی وجہ ان کی یہ جلن ہے کہ خود انہوں نے اس کام کو پہلے کیوں شروع نہیں کیا؟ اب چونکہ وہ ان کاموں کو خود ہم سے پہلے شروع نہیں کر سکے اس لئے حسد میں آکر ہمارے کاموں کو بے دینی پر محمول کرنے لگ گئے ہیں لیکن پانچ دس سال نہیں گزریں گے کہ وہ خود یہ کام کرنے لگ جائیں گے اور اس وقت اس کا نام ایمانداری اور نہایت اعلیٰ درجہ کی اسلامی خدمت رکھیں گے اور اگر انہوں نے پانچ دس سال کے بعد کوئی ایسا کارخانہ جاری کر دیا جو ہمارے ہاں نہ ہوا تو پھر وہ ہمیشہ ہماری جماعت کے افراد پر طنز کرتے رہیں گے کہ دیکھا ہم کیسے منظم ہیں.ہم نے وہ کارخانے جاری کر رکھے ہیں جو تمہارے ہاں جاری ہی نہیں.پس یہ محض تُھو کھٹے والی بات ہے.چونکہ اُنہوں نے آپ اس کام کو ابھی تک شروع نہیں کیا اس لئے یہ بات بُری ہو گئی مگر مومن اعتراضات سے نہیں ڈرا کرتا مومن کا کام یہ ہے کہ وہ بے کار نہ رہے اور جماعت کا کام یہ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ بے کاری اپنے اندر سے دور کرنے کی کوشش کرے.ہم اپنے اندر سے جتنی بے کاری اس وقت معذوری کی وجہ سے دور نہیں کر سکتے اس کے متعلق ہم خدا تعالیٰ کے حضور بری ہیں لیکن اگر ہم بے کاری کو دور کر سکتے ہوں اور پھر اپنی غفلت کی وجہ سے بے کاری دور نہ کرسکیں تو یقینا ہم خدا تعالیٰ کے حضور مجرم ہوں گے کیونکہ مومن کا بے کار رہنا خدا تعالیٰ کبھی پسند نہیں کرتا لیکن چونکہ تمام لوگ صرف ایک ہی کام یعنی دین کی خدمت نہیں کر سکتے اس لئے ضروری ہے کہ ایک حصہ دُنیا کے کاموں پر لگا ہوا ہو.قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ تم سارے کے سارے دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر سکو اس لئے ہر جماعت میں سے کچھ لوگ ایسے ہونے چاہئیں جو کلی طور پر دین کی خدمت کے لئے وقف ہوں اور جو باقی رہ جائیں وہ اپنے کام کے ساتھ ساتھ لوگوں کو تبلیغ کرتے جائیں.اگر کوئی ترکھان ہو تو وہ ترکھانے کے کام کے ساتھ تبلیغ بھی کرتا جائے، اگر لوہار ہو تو لوہارے کے کام کے ساتھ تبلیغ بھی کرتا جائے ، اگر درزی ہو تو درزی کے کام کے ساتھ ہی تبلیغ بھی کرتا رہے اور اگر موچی ہو تو موچی کے کام کے ساتھ ہی تبلیغ بھی کرتا رہے.پس ساری جماعت کبھی بھی تبلیغ میں نہیں لگ سکتی اور اسلامی تعلیم یہی ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہونے چاہئیں جو کلی طور پر دین کے لئے وقف ہوں اور جو باقی ہوں وہ روپیہ کمائیں اور زائد وقت تبلیغ اسلام پر صرف کریں.اگر خدا تعالیٰ ہمیں اس کام میں جو ہم نے شروع کیا ہے، کامیاب کر دے تو غریبوں اور 397

Page 410

خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جنوری 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول تیموں کی کتنی بڑی مدد ہو سکتی ہے.اگر اس کے نتیجہ میں سو پچاس یتیم اور غریب بھی فاقہ زدگی سے بچ جائیں اور اپنی بچی ہوئی کمائی چندوں کے لئے دے دیں تو کتنی بڑی دین کی خدمت ہوگی.اگر ایک یتیم کو روٹی دے دینا بڑی خوبی کی بات ہے، اگر یتیم کو پیسہ دے دینا بڑی خوبی کی بات ہے تو ایک یتیم اور بے کس کو ہنر سکھا دینا جس سے وہ ساری عمر روٹی کما سکے کیوں نیکی کی بات نہیں ؟ اور اگر کام سیکھ کر وہ اس قابل بن جائے کہ نہ صرف خود اپنا پیٹ پالے بلکہ چندہ بھی دے تو یہ اور بھی زیادہ اچھی بات ہے اور میں نے تو سکیم ہی ایسی رکھی ہے کہ دین سیکھنے کا کام بھی اس میں شامل ہے.چنانچہ ان سکولوں میں قرآن شریف پڑھایا جاتا ہے اور دین کی بعض اور کتابیں بھی پڑھائی جاتی ہیں تا کہ جب یہاں سے ترکھان نکلیں تو صرف ترکھان نہ ہوں بلکہ مولوی ترکھان ہوں اور یہاں سے لو ہار نکلیں تو صرف لوہار نہ ہوں بلکہ مولوی لوہار ہوں اور موچی نکلیں تو صرف موچی نہ ہوں بلکہ مولوی موچی ہوں.پس یہ تو نُورٌ عَلی نُور بات ہے کہ نہ صرف یہ کہ وہ ساری عمر کے لئے روٹی کما سکتے ہیں بلکہ وہ دینی معلومات بھی رکھتے ہوں گے اور مخالفین کو تبلیغ بھی کر سکیں گے.ایسے مفت کے مولوی مل جانا اور ایسے مفت کے مولوی تیار کرنا دین کی سب سے بڑی خدمت ہے.بھلا کونسی ایسی جماعت ہے جو ہماری جماعت کی طرح غریب ہو اور پھر وہ ہزاروں مبلغ رکھ سکے؟ زیادہ سے زیادہ پچاس سو کو ملازم رکھا جاسکتا ہے مگر تبلیغ کے لئے تو ہزاروں مبلغ چاہئیں اور وہ ہزاروں اس طرح میسر آسکتے ہیں کہ پیشے سکھانے کے ساتھ ساتھ انہیں دین کی بھی واقفیت کرائی جائے تا جب وہ مسجد میں جائیں تو واعظ بن جائیں ؟ جلسوں میں جائیں تو مبلغ بن جائیں اور دکان میں جائیں تو لوہار اور ترکھان بن جائیں.یہی وہ لوگ ہیں جن کی آج دین کو ضرورت ہے.اگر یہ بے دینی ہے تو خدا کرے یہ بے دینی اور بھی ہمیں میسر آئے اور مولوی محمد علی صاحب دعا کریں کہ یہ بے دینی ان کی قوم کو بھی میسر نہ آئے.پس میں دوستوں کو مولوی محمد علی صاحب کے اس اعتراض کی طرف توجہ دلاتے ہوئے پھر کہتا ہوں کہ اپنے اندر سے بے کاری دور کرو ہم نے یہاں جو کام شروع کیا ہے وہ محدود پیمانہ پر شروع کیا ہے لیکن اگر مختلف پیشہ ور قربانی کریں اور وہ اپنے اپنے گاؤں کے غریبوں، یتیموں اور ناداروں کو اپنے ساتھ شامل کر کے انہیں پیشہ سکھا دیں یا کسی نادار بیوہ یا بے کار بوڑھے کے بچے کو لے لیں اور اُسے ہنر سکھائیں اور ثواب کی نیت سے کام کے ساتھ ساتھ انہیں دین کی باتیں بھی سکھلاتے رہیں تو اس ذریعہ سے بھی وہ سلسلہ سے بے کاری دُور کر کے بہت بڑا ثواب حاصل کر سکتے ہیں.اسی طرح وہ لوگ جن کے بچے اس 398

Page 411

یک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جنوری 1937ء وقت بے کار ہیں وہ کوشش کر کے اگر انہیں کسی نہ کسی کام پر لگا دیں تو یقیناً سلسلہ اور اسلام کی وہ بہت بڑی مدد کرنے والے ہوں گے.ان کے اس فعل کو جو شخص بے دینی قرار دے وہ آپ اپنے دین کا پردہ چاک کرتا ہے لیکن وہ یقینا دین دار اور دین کی خدمت کرنے والے ہوں گے.پس اگر تمہارے اپنے بچے بے کار نہیں لیکن تمہیں کوئی ہنر اور پیشہ آتا ہے تو تمہارا اس ہنر اور پیشہ کو اپنے ارد گرد کے تیموں اور بے کاروں کو سکھانا بھی دین کی خدمت ہے اور اگر اس کے ساتھ تم انہیں دینی تعلیم بھی دیتے ہو تو یہ زیادہ ثواب کا موجب ہے کیونکہ اس طرح وہ مبلغ بھی بن جائیں گے.اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو.“ (مطبوعہ افضل 19 فروری 1937ء ) 399

Page 412

Page 413

دید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جنوری 1937ء فنا ہونے سے ہی کامیابی ملتی ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جنوری 1937ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں نے تحریک جدید میں خاص طور پر کام کرنے اور محنت کرنے اور سادہ زندگی بسر کرنے کی تحریک کی تھی.دُنیا میں بعض چیزیں ایسی ہیں جن کا نسبتی پہلو غالب ہوتا ہے اس لئے ان کی حقیقت کا پتہ لگانا مشکل ہوتا ہے اور بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن میں نسبت کا اصول اتنا زیادہ عمل نہیں کرتا اس لئے ان کا پتہ لگانا آسان ہوتا ہے.مثلا روپیہ کی قربانی ہوتی ہے ایک شخص لکھ پتی اور ایک کنگال ہے ان دونوں کی قربانیوں کا امتیاز اور فرق بہت مشکل ہے اور اسی طرح ان کے کھانے پینے اور پہننے کی ضرورتوں کے فرق کا پتہ لگانا بھی بڑا مشکل ہوتا ہے کیونکہ تکلیف صرف غذا کی کمی یا زیادتی سے نہیں ہوتی بلکہ عادت کے پورا ہونے یا نہ ہونے سے بھی ہوتی ہے.افیون کتنی چھوٹی سی چیز ہے، حقہ کا دھواں کتنا ہلکا پھلکا ہوتا ہے سال بھر حقہ پینے سے جو دھواں حاصل ہوتا ہے اس کا وزن اتنا بھی نہیں ہوتا جتنا ایک وقت کے کھانے کا ، بعض لوگ بھنگ کے عادی ہوتے ہیں مگر ظاہر ہے کہ بھنگ کو غذا سے کیا نسبت؟ مگر ان چیزوں کے چھوڑنے کی تکلیف غذا سے بہت زیادہ ہوتی ہے.تم بغیر کسی زیادہ تکلیف کے دو وقت کا فاقہ کر سکتے ہومگر ایک افیونی اس ذراسی گولی کا دو وقت کا ناغہ نہیں کر سکتا.جو شخص حقے کا عادی ہے اس سے دریافت کرو کہ روٹی نہ ملنے سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے یا کھتہ نہ ملنے سے؟ وہ یہی جواب دے گا کہ وہ بھوکا رہ سکتا ہے مگر حقہ کے بغیر نہیں.حالانکہ مادی لحاظ سے حصہ کا دھواں بالکل ہلکا ہوتا ہے اور روٹی بھاری ہوتی ہے.پھر روٹی کے ساتھ زندگی کی وابستگی ہے اور حقہ کی عادت جو ڈالے اُسے ہی ہوتی ہے، افیون جو نہیں کھاتا اُسے کوئی تکلیف نہیں دے سکتی مگر روٹی ہر انسان کے لئے ضروری ہے مگر باوجود اس کے روٹی چھوڑنے سے اتنی تکلیف نہیں ہوتی جتنی افیون، گانجا، چرس، بھنگ، شراب، حقہ اور نسوار وغیرہ کو چھوڑنے سے ہوتی ہے.دنیا میں لوگ بھوکے رہ کر اپنے بچوں کو کھانا دیتے ہیں مگر ایک نشہ کا عادی اپنے نشہ کی عادت کو پورا کرنے کے لئے اپنے بیوی بچوں کی بھوک کی کوئی پروا نہیں کرے گا.ایک شخص بہ نسبت اپنے بچوں کے ایک وقت 401

Page 414

خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جنوری 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول کے بھوکا رہنے کے خود تین وقت بھوکا رہنا زیادہ پسند کرے گا مگر ایک افیونی یہ پسند کرے گا کہ اس کے بیچے تین وقت فاقہ سے رہیں یہ نسبت اس کے کہ اُسے ایک وقت کی گولی نہ ملے.پس عادتوں کی قربانی بھی بڑی قربانی ہے مگر بڑی مشکل یہ ہے کہ اس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا.اُمرا کو جن کھانوں کی یا جن کپڑوں کے پہننے کی عادت ہوتی ہے ان کے لئے ان کی قربانی بڑی چیز ہے لیکن دوسرا اسے دیکھ نہیں سکتا.ایک امیر دس جوڑے کپڑے استعمال کرنے کا عادی تھا اور اب اُس نے پانچ کرلئے ہیں اس کے متعلق ایک دوسرا شخص بے شک کہے گا کہ اس کے دس جوڑے ہوتے تھے بے شک اُس نے پانچ کر ما.لئے ہیں لیکن میرے دو ہی تھے اور دو ہی ہیں.پس میری نسبت اس کے اب بھی تین زیادہ ہیں مگر سوال تو عادت کا ہے.امیر کو دس کے استعمال کی عادت تھی جس میں اس نے کمی کر دی ہے اور یہ اپنی پہلی عادت پر ہی قائم ہے.اگر چہ اس کے تین جوڑے اس کی نسبت اب بھی کم ہیں.لیکن دو کی عادت ہونے کی وجہ سے یہ تکلیف نہیں محسوس کرتا جبکہ دس جوڑوں والا پانچ جوڑے کر کے تکلیف محسوس کر رہا ہے.میں نے حقہ ، افیون، بھنگ اور چرس، نسوار وغیرہ کی مثال اس لئے دی ہے کہ پنجاب میں غربا عام طور پر حقہ کے عادی ہوتے ہیں اور سرحدی صوبہ و افغانستان وغیرہ میں نسوار کے استعمال کا رواج زیادہ ہے.کوئی ناک کے ذریعہ اُسے استعمال کرتا ہے اور کوئی منہ میں ڈال کر اور ان مثالوں سے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ عادت کا چھوڑنا بھی بڑی قربانی ہے.تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ امیر کے پاس پانچ جوڑے زائد تھے.کیا ہوا اگر اس نے کم کر دیئے؟ کیا حقہ زائد نہیں ؟ جس طرح اس کے پاس کپڑے زائد تھے اس طرح حقہ بھی زائد ہے.زمیندار کے حقہ کی قیمت اُس کے کپڑوں سے زیادہ ہوتی ہے.جتنی مالیت کا وہ تمبا کو جلاتا ہے اتنی کے کپڑے استعمال نہیں کرتا.وہ سردی میں ٹھٹھرتا پھرے گا، نمونیہ کی تکالیف اُٹھائے گا، اپنی صحت کو برباد کرے گا مگر حقہ نہیں چھوڑے گا.حلقہ کی عادت کی زیادتی کی وجہ سے اس نے کپڑے کی عادت کو کم کر دیا ہے.ہماری جماعت میں کم سے کم بیس ہزار لوگ ایسے ہوں گے جن کے حلقوں کا خرچ اُن کے چندوں سے زیادہ ہے.کم سے کم ہیں ہزار زمیندار ایسے ہوں گے جن کا سالانہ چندہ ڈیڑھ روپیہ بلکہ بارہ آنہ ہی ہو گا اور اس قدر خرچ میں وہ سال بھر حقہ نہیں پی سکتے.اگر وہ دھیلا روز کا بھی تمبا کو پیتے ہیں تو تین روپے سالانہ خرچ ہوتے ہیں مگر وہ کہیں نہ کہیں سے اس خرچ کو پورا کرتے ہیں کیونکہ وہ اس عادت کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.پس اگر ہم عادت کا اندازہ کر سکتے تو صیح نتیجہ معلوم ہوسکتا کہ کون چی قربانی کرتا ہے اور کون نہیں مگر اس کا 402

Page 415

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جنوری 1937ء اندازہ اللہ تعالیٰ ہی کر سکتا ہے کہ ایک فرد کو ایک چیز کے چھوڑنے سے کتنی تکلیف ہوتی ہے.ہم تو صرف ظاہر کو ہی دیکھ سکتے ہیں اور ظاہر کی بناء پر بڑی غلطی بھی کر سکتے ہیں لیکن میں نے بتایا ہے کہ بعض چیزیں ایسی ہیں جن کا اندازہ انسان زیادہ صحیح طور پر کر سکتا ہے اور ان میں سے پہلی چیز محنت اور کام ہے.امرا پر غر با مالی قربانی کے سلسلہ میں طنز کر سکتے ہیں یا کہہ سکتے ہیں کہ گو وہ ایک کھانا کھانے لگ گئے ہیں لیکن وہ بھی نہایت پر تکلف ہوتا ہے اور ہم تو پہلے بھی روکھی روٹی کھا لیتے تھے یا اچار کے ساتھ کھا لیتے تھے اور اب بھی ہماری یہی حالت ہے یا وہ پانچ جوڑے کپڑوں کے استعمال کرتے ہیں اور ہم ایک ہی اس لئے کہ وہ اس عادت کی قیمت نہیں لگا سکتے جسے اُمرا نے تبدیل کیا ہے.جسے دس جوڑوں کے استعمال کی عادت تھی اس کا اُسے چھوڑ دینا ایسا ہی ہے جیسا حقہ پینے والے کا حقہ کو چھوڑ دینا مگر عادت کی قربانی کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے اس لئے امراوغر با جھگڑتے ہی رہتے ہیں مگر وقت کی قربانی ایسی نہیں جس میں فرق کیا جاسکے.میں نے بارہا کہا ہے کہ بے کا رمت رہو اور کام کرو، اس میں امیر وغریب سب مساوی ہیں بلکہ غریب کو جس کا پیٹ خالی ہے کام اور محنت کرنے کی زیادہ ضرورت ہے مگر میں نے دیکھا ہے ایسے لوگ بھی چھ چھ گھنٹے حقہ پینے میں ہی گزار دیتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ جولوگ اپنے چھ گھنٹے ضائع کر دیتے ہیں اگر ان کے چھ گھنٹے ان کے مخالف نے ضائع کر دیئے تو انہیں شکوہ کا کیا حق ہے؟ وہ یہ شکوہ کرتے ہیں کہ ہم نے مزدوری کی مگر چھ آنے ہی ملے حالانکہ ہمارا گزارہ بارہ آنے میں ہوتا ہے مگر یہ نہیں سوچتے کہ اگر اپنی آدھی عمر وہ رائیگاں گنوا دیتے ہیں تو چوتھائی اگر دوسرے نے گنوادی تو اس پر کیا الزام ! جتنا وقت وہ حقہ پینے اور فضول بکو اس میں گزارتے ہیں اتنا اگر کام کرنے اور محنت کرنے میں گزارتے تو تنگدستی نہ ہوتی.سیر کو جاتے ہوئے میں نے دیکھا ہے کہ جہاں کوئی اچھا کھیت ہوتا ہے وہ سکھوں کا ہوتا ہے اور جس کھیت میں فصل ناقص ہو وہ مسلمان کی ہوتی ہے اور اب لمبے تجربہ کے بعد میں تو اچھی فصل کو دیکھ کر کہ دیا کرتا ہوں کہ یکسی سکھ کی ہوگی اور خراب فصل کو دیکھ کر کہہ دیا کرتا ہوں کہ کسی مسلمان کی ہوگی اور بالعموم یہ قیاس درست نکلتا ہے.سکھوں کو ایک نمایاں برتری تو یہ حاصل ہے کہ وہ حقہ نہیں پیتے اس لئے ان کا وقت بچ جاتا ہے مگر مسلمان زمیندار تھوڑی دیر کام کرتے ہیں اور پھر یہ کہہ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ آؤ کہ پی لیں.حقہ کی عادت زمینداروں میں اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک زمیندار یہاں مہمان آیا جب واپس گیا تو دوستوں نے پوچھا سناؤ کیا دیکھا؟ اُس نے جواب دیا کہ قادیان سے خدا بچائے.کوئی بھلا مانس وہاں رہ سکتا ہے؟ وہ بھی کوئی آدمیوں کے رہنے کی جگہ ہے.ہمارے 403

Page 416

خطبہ جمعہ فرمود 22 جنوری 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول دوست ڈر گئے کہ شاید قادیان میں کسی نے اس سے بدسلوکی کی ہے یا مہمان خانہ میں کسی سے لڑائی ہوگئی ہے اس لئے پوچھا کہ بتاؤ تو سہی ہوا کیا ہے؟ وہ سنانے لگا کہ میں یکہ میں دس بجے کے قریب وہاں پہنچا ( اس زمانہ میں یہاں ریل گاڑی نہیں تھی ) سفر کی تھکان تھی.میں نے خیال کیا کہ آرام سے بیٹھ کرحقہ پیئیں مگر آگ لینے گیا تو کسی نے کہا کہ حدیث کا درس ہونے لگا ہے.میں نے کہا نیا نیا آیا ہوں چلو چل کر درس سُن لوں پھر حقہ پیوں گا.بارہ بجے وہاں سے واپس آیا تو روٹی کھا کر آگ لینے گیا معلوم ہوا کہ حضرت صاحب نماز کے لئے باہر آنے والے ہیں اور زیارت کا موقعہ ہے اس لئے چھوڑ کر مسجد کو چلا گیا.وہاں سے واپس آیا آگ وغیرہ سُلگائی حقہ تیار کیا مگر ابھی دو چار ہی کش لگائے تھے کہ عصر کی نماز کو لوگ لے گئے میں نے سوچا واپس آکر آرام سے پیوں گا مگر آتے ہی معلوم ہوا کہ مولوی صاحب بڑی مسجد میں قرآن کریم کا درس دیں گے اس لئے اُدھر جانا پڑا.واپس آیا تو مغرب کا وقت تھا.مغرب کی نماز کے بعد حضرت صاحب بیٹھ گئے اور میں بھی بیٹھا رہا.وہاں سے آیا تو خیال کیا کہ اب آرام سے حقہ پیوں گا مگر آگ ہی سلگا رہا تھا کہ لوگوں نے کہا عشاء کی اذان ہوگئی ہے چلو نماز پڑھو.غرض سارا دن آرام سے حقہ پینے کا موقعہ نہیں ملا اس لئے میں تو سویرے اُٹھتے ہی وہاں سے بھاگا اور مجھے یقین ہو گیا کہ یہ جگہ آدمیوں کے رہنے کی نہیں.اس مثال سے معلوم ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں میں وقت کو ضائع کرنے کا مرض کس حد تک پہنچ گیا ہے اور اس میں غریب اور امیر میں فرق نہیں.خواہ ضائع کرنے کے طریقوں میں فرق ہو مگر ضائع سب کرتے ہیں ، سب ہی محنت سے جی چراتے ہیں اور اس امر میں ہم دونوں میں کوئی امتیاز نہیں کر سکتے.دونوں وقت کی کوئی قیمت نہیں سمجھتے.کل ہی ایک نوجوان کو میں نے دیکھا جو مبلغین کلاس میں پڑھتا ہے.وہ پرسوں رات باہر سے، جہاں اُسے کسی کام پر بھیجا گیا تھا، واپس آیا اور کل شام کو اُس نے رپورٹ کی.میں نے اُس سے دریافت کیا کہ آپ نے یہ اطلاع کل ہی واپسی پر کیوں نہ دی؟ تو اُس نے جواب دیا کہ میں نو بجے کی گاڑی سے آیا تھا اور خیال کیا کہ اب نو بج چکے ہیں.اس نے خیال کیا کہ جس طرح نو بج جانا اس کے لئے بڑی بات ہے سب کے لئے اسی طرح ہے.اُس نے چونکہ پہلے میاں بشیر احمد صاحب کو برپورٹ دینی تھی میں نے پوچھا کہ پھر صبح میاں صاحب کو کیوں نہ ملے؟ تو جواب دیا کہ میں آیا تھا مگر منتظمین نے اُن سے ملایا نہیں اس لئے واپس چلا گیا اور اس طرح چار مرتبہ آیا مگر ملنے کا موقع نہ ملا.میں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے چار مرتبہ اپنے آپ کو ملزم بنایا اگر تم پکے مومن ہوتے تو اس وقت تک دہلیز نہ چھوڑتے جب تک مل کر کام نہ کر لیتے.404

Page 417

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمود و 22 جنوری 1937ء آپ لوگوں کو اچھی طرح اس امر کا احساس ہونا چاہئے کہ جو اہم کام ہوتے ہیں ان میں چاہے جان بھی چلی جائے ہلتا نہیں چاہئے.اس میں امیر اور غریب کا کوئی سوال نہیں.دونوں کے لئے اس کی پابندی ضروری ہے مگر میں نے دیکھا ہے نہ امیر اس کے پابند ہیں نہ غریب.حالانکہ میں نے بار بار توجہ دلائی ہے اچھی طرح یا درکھو کہ اللہ تعالیٰ کامیابیاں انہی لوگوں کو عطا کرتا ہے جو کام کے عادی ہوں.جیتنے والے محنتوں سے نہیں گھبرایا کرتے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.والنَّشِطَتِ نَشْطاً.والشبحَاتِ سَبْحاً (النازعات: 4.3) یعنی ہمیشہ کامیاب و ہی ہوتے ہیں جو گرہ کشائی میں لگے رہتے ہیں.وہ چھوڑتے نہیں جب تک گرہ کو کھول نہیں لیتے اور کام کو پورا نہیں کر لیتے اور پھر وہ ایک دوسرے سے بڑھ کر کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں.میں نے دیکھا ہے کئی لوگ اس پر بڑے خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے آٹھ گھنٹے کام کیا ہے.حالانکہ وہ تو تندرست ہوتے ہیں اور میرے جیسے بیمار کو بھی سال میں بہت دفعہ 22 22 گھنٹے روزانہ کام کرنا پڑتا ہے.میں نے کئی دفعہ اپنے معترضین سے کہا ہے کہ میرے ساتھ دس دن اگر کام کرو تو تمہیں پتہ لگ جائے گا کہ کتنا کام کرنا پڑتا ہے.کام کا ہر ایک کو پتہ لگ جاتا ہے کیونکہ اس میں عادت کا کوئی سوال نہیں ہوتا.ایک امیر شخص یہ تو کہہ سکتا ہے کہ : أَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِتْ اضحی (12) میں مجھے اللہ تعالیٰ نے اجازت دی کہ زیادہ کپڑے پہن لوں مگر خدا نے یہ کہاں کہا ہے کہ وقت ضائع کرو؟ وقت ضائع کرنے کے لئے کوئی عذر نہیں پیش کیا جا سکتا سوائے اس کے کہ کوئی شخص کہے مجھے اس کی عادت پڑ گئی ہے مگر اس طرح تو کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ خدا اور رسول کے انکار کی مجھے عادت ہوگئی ہے.میں جماعت کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ تحریک جدید تمہیں اس وقت تک کامیاب نہیں کر سکتی جب تک رات دن ایک کر کے کام نہ کرو، اپنی راتوں اور دنوں پر قبضہ نہ کر لو اور ایسی عادت ڈال لو کہ جس کام کو اختیار کر وایسی طرح کرو کہ جس طرح ہمارے ملک میں کہتے ہیں تخت یا تختہ.جب تک یہ روح نہ پیدا ہو، جب تک کوئی شخص اپنے آپ کو فنا کرنے کے لئے تیار نہ ہو اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.تم لاکھ ایڑیاں رگڑر ومگر اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں کر سکتے جب تک اس طریق پر کام نہ کرو جو اللہ تعالیٰ نے کامیاب ہونے کے لئے مقرر کیا ہے.اس وقت بورڈ نگ تحریک جدید کے لڑکے میرے سامنے بیٹھے ہیں 405

Page 418

خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جنوری 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول میں ان کو بھی اور ان کے اُستادوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ اس بورڈنگ کے قیام سے میری غرض یہی ہے کہ نو جوانوں میں محنت کی عادت پیدا ہو تم بارہ گھنٹے بھی سو سکتے ہومگر پانچ چھ گھنٹے سو کر بھی گزارہ کر سکتے ہو.سالہا سال تک جب میری صحت اچھی تھی باوجود یکہ حضرت خلیفہ اسی اول مجھے سختی سے منع کیا کرتے تھے، میں پانچ ، ساڑھے پانچ گھنٹے سے زیادہ نہیں سویا کرتا تھا.کئی دفعہ حضرت خلیفہ اسیج اول فرمایا کرتے تھے کہ طبی نقطۂ نگاہ سے میرا مشورہ ہے کہ سات گھنٹے سے کم نیند کی صورت میں آپ کی صحت ٹھیک نہیں رہ سکتی مگر میں پانچ ، ساڑھے پانچ گھنٹہ سے زیادہ نہیں سویا کرتا تھا.اب تو صحت اس قدر برداشت نہیں کر سکتی مگر اب بھی سوائے بیماری کے سات گھنٹے میں کبھی نہیں سویا.بیماری میں تو بعض وقت آدمی دس گھنٹے بھی لیٹا رہتا ہے مگر ایسی حالت تو سال میں دو چار دفعہ ہی ہوتی ہے.عام حالات میں میں اب بھی چھ پونے چھ گھنٹے سوتا ہوں.گوشت کام کے وقت ابھی بعض دفعہ تین چار گھنٹوں پر اکتفا کرنی پڑتی ہے.تو دنیا میں کامیابی محنت اور کام کرنے سے ہی حاصل ہو سکتی ہے.محنت کے بغیر نیکی کی مشق بھی نہیں ہوسکتی.بورڈ نگ تحریک جدید کے قیام سے میری غرض یہی ہے کہ چند نو جوان ایسے پیدا ہوں جو محنت کے عادی ہوں اور پھر وہ بیج کا کام دیں اور اُن کے ذریعہ ساری قوم میں یہ عادت پیدا کی جاسکے.اس لئے میں پھر نصیحت کرتا ہوں کہ محنت کی عادت ڈالو، بے کاری کی عادت کو ترک کرو، فضول مجلسیں بنا کر گئیں ہانکنا اور بکواس کرنا چھوڑ دو، کھنہ اور دیگر ایسی لغو عادتوں میں وقت ضائع نہ کرو اور کوشش کرو کہ زیادہ سے زیادہ کام کر سکو.یاد رکھو کہ ہمارے لئے بہت نازک وقت آ رہا ہے.اس وقت ہندوستان میں نیا آئین نافذ ہو رہا ہے جس کے نتیجہ میں انگریزی اثر ملک سے کم ہو جائے گا اور تم جانتے ہو کہ دیہات میں اب بھی تمہارے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے؟ جن لوگوں پر احمدیوں کے احسان ہوتے ہیں اور جو احمد یوں پر احسان کرتے ہیں اور با ہم بہت اچھا سلوک ایک دوسرے سے کرتے ہیں وہاں ایک مولوی آکر تقریر کر دیتا ہے اور وہی لوگ بھڑک اُٹھتے ہیں.پس ان حالات کے آنے سے پہلے اپنی اصلاح کر لو محنت اور قربانی کی عادت ڈالو ورنہ تمہاری حالت اس بھیڑ کی سی ہوگی جو ہر وقت بھیڑیئے کے رحم پر ہے.جب تک تم ہمت، کوشش اور استقلال سے اپنے آپ کو شیروں میں تبدیل نہیں کر لیتے اس وقت تک تم بھیڑیں ہو جن کی جانیں ہر وقت غیر محفوظ ہیں.خدا تعالیٰ نے تمہیں اختیار دے دیا ہے کہ اگر چاہوتو شیر بن جاؤ جو جنگل میں اکیلا بھی محفوظ ہوتا ہے 406

Page 419

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 22 جنوری 1937ء لیکن بھیٹر میں دس ہیں بھی غیر محفوظ ہوتی ہیں.پس اس کے لئے کوشش کرو اور دعاؤں میں لگے رہو.میں بھی دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمہیں لغو عادتوں کو دور کرنے کی توفیق دے اور توفیق دے کہ تم محنتی اور بہت کام کرنے والے بن جاؤ ، اپنے اوقات کو خدا تعالیٰ کے دین کے لئے خرچ کرنے والے ہو جاؤ تا تھوڑے ہو کر بہتوں پر غلبہ حاصل کرنے والے بن سکو.“ ( مطبوع الفضل 3 فروری 1937ء ) 407

Page 420

Page 421

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 5 فروری 1937ء جہنم سے گزرے بغیر جنت میں داخل ہو نا ممکن نہیں خطبہ جمعہ فرمودہ 5 فروری 1937ء میں نے تم کو تحریک جدید کی شروع کی تحریکوں میں یہ بتایا تھا کہ صحیح مذہبی ترقی کے لئے سچائی ضروری چیز ہے اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر کامل تو کل اور نڈر ہو جانا بھی بہت ہی ضروری ہے اور میرے نقطہ نگاہ سے تو سچائی اور بے خوفی ایک ہی چیز ہے.جو بے خوف ہو وہ ضرور سچا ہو گا اور جو سچا ہو وہ ڈر نہیں سکتا.سچ کو چھوڑتا ہی انسان ڈر کی وجہ سے ہے خواہ وہ ڈر جان کا ہو یا مال کا یا عزت کا.جو انسان ڈرتا نہیں وہ جھوٹ کبھی نہیں بول سکتا اور جو جھوٹ نہیں بولتا وہ ضرور نڈر ہو گا.سچائی ہمیشہ امن کا موجب ہی نہیں ہوا کرتی بلکہ بیسیوں مواقع ایسے آتے ہیں کہ سچائی مال و جان کے لئے ، وطن کے لئے ، رشتہ داروں کے لئے اور عزت کے لئے خطرہ کا موجب ہو جاتی ہے اور جوان حالات میں سچائی پر قائم رہتا ہے، کون کہہ سکتا ہے کہ وہ بزدل ہے؟ سچائی اور بے خوفی اگر چہ دو علیحدہ علیحدہ خلق ہیں مگر ان کا باہم چولی دامن کا ساتھ ہے.جہاں سچ ہو گا وہیں بے خوفی ہوگی اور جہاں بے خوفی ہوگی وہیں سچ ہوگا.بے شک تم ایسی مثالیں پیش کر سکتے ہو کہ جن میں بظاہر بے خوفی ہے مگر سچ نہیں لیکن اگر ذرا گہرا غور کرو تو معلوم ہو جائے گا کہ وہاں حقیقی بے خوفی نہ تھی.جہو ر تھا مگر جرأت نہیں تھی.ڈاکو اور چور ہمیشہ جھوٹ بولتے ہیں یہ قاتل قتل کرنے کے بعد جھوٹ بولتے ہیں.بظاہر وہ بہا در نظر آتے ہیں لیکن اگر تم غور کرو تو درحقیقت وہ بہادر نہیں ہوتے بزدل ہوتے ہیں کیونکہ اس میں کیا شک ہے کہ جب ایک ڈا کو یا قاتل ڈا کہ یا قتل سے انکار کر رہا ہوتا ہے اس وقت وہ یقیناً ڈر رہا ہوتا ہے.جب ایک ڈاکو کہتا ہے میں نے ڈاکہ نہیں مارا یا چور کہتا ہے میں نے چوری نہیں کی یا قاتل قتل سے انکار کرتا ہے تو اسی لئے تو کرتا ہے کہ وہ ڈرتا ہے کہ میں پکڑا نہ جاؤں اور اس صورت میں تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ وہ نڈر تھا ؟ کیونکہ جب ڈرنے کا موقعہ آیا وہ ڈر گیا.پس گو بظاہر بعض مواقع پر یہ دونوں چیزیں اکٹھی نظر آتی ہیں مگر حقیقت یہ ظاہر بین نگاہ کی غلطی ہوتی ہے.حقیقت یہی ہے کہ بے خوفی اور جھوٹ کبھی جمع نہیں ہو سکتے اور سچ اور بے خوفی کبھی جدا 409

Page 422

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 5 فروری 1937ء نہیں ہو سکتے.وو 66 تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول پس اپنے آپ کو نڈر بناؤ اگر تحریک جدید سے فائدہ اُٹھانا چاہتے ہو اور اپنے آپ کو صادق القول بناؤ اگر اس سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو.اگر تم نڈر ہو جاؤ تو دنیا تم سے ڈرے گی اور اگر تم صادق القول بن جاؤ تو منافق تم سے ڈریں گے.منافق اسی لئے دلیر ہوتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے میرا دوست جھوٹ بول کر مجھے بچالے گا اور اگر تم یہ دونوں صفات اپنے اندر پیدا کرلو تو نہ بیرونی دشمن اور نہ اندرونی تم پر قابو پاسکتا ہے لیکن اگر یہ باتیں تمہارے اندر پیدا نہیں ہوتیں تو تمہاری مثال اس شخص کی ہوگی جو گلاب کی خوشبو کو دیکھنا چاہتا ہے، جو ترنم کی خوش آواز کو چھونا چاہتا ہے، جو نمل کی ملائمت کو چکھنا چاہتا ہے.تم ایسے شخص پر ہنستے ہو مگر یہ نہیں جانتے کہ تم خود ایسے ہی ہو.تم اسی دروازے سے داخل ہو کر ترقی کر سکتے ہو جو خدا نے کھولا ہے اور جسے خدا نے بند کیا ہے تم اسے نہیں کھول سکتے.اچھی طرح یا درکھو کہ تم خدا کے کھولے ہوئے دروازے سے داخل ہو کر اور اس کے بند کئے ہوئے دروازے سے مڑکر ہی کامیاب ہو سکتے ہو.اگر تم اس کے بند کئے ہوئے دروازہ سے داخل ہونے کی کوشش کرو گے تو تمہارے لئے سوائے رونے اور دانت پینے کے کچھ نہ ہوگا اور اگر اس کے کھولے ہوئے دروازے سے داخل ہونے کی کوشش کرو گے تو بے شک اس میں تلواریں لٹک رہی ہیں، بھیا تک نظارے اور خونخوار درندے ہیں مگر جو نہی تم قدم رکھو گے وہ جادو کی طرح اُڑ جائیں گے.خدا تعالیٰ نے اپنی جنت کو دوزخ کے نیچے چھپایا ہے اور دوزخ کو دنیا کی جنت کے نیچے چھپایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کی آیت (مریم : 72) وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا کے یہی معنی کئے ہیں کہ کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہو سکتا جب تک وہ جہنم میں سے نہ گزرے...410 68 ( مطبوع الفضل 27 فروری 1937ء )

Page 423

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول خطبه جمعه فرموده 19 مارچ 1937ء اپنی نیکیوں کو بے استقلالی کا شکار نہ ہونے دیں خطبہ جمعہ فرمودہ 19 مارچ 1937ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- » جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے کلام سے معلوم ہوتا ہے انسان کی پیدائش کی غرض جو قرآن کریم میں عبودیت کا مقام حاصل کرنا بیان کی گئی ہے اس کی تشریح دوسرے لفظوں میں تَخَلَّقُوا بِأَخْلَاقِ اللهِ ہے یعنی انسان اللہ تعالیٰ کے اخلاق کو اپنے اندر اختیار کرے اور اس کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی صفات ظاہر ہوں.اسی غرض کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ان چار جامع صفات کے ساتھ شروع کیا ہے جن کے ماتحت باقی سب صفات آجاتی ہیں اور وہ چار صفات یہ ہیں کہ اول خدا تعالیٰ رب العالمین ہے، دوم وہ رحمن ہے ، سوم وہ رحیم ہے اور چہارم وہ مالک یوم الدین ہے.یہ چار صفات بندے کو اپنے اندر پیدا کرنی چاہئیں تب جا کر وہ اس مقصد کو پورا کرنے والا قرار دیا جا سکتا ہے جس کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے یعنی اس کے لئے ضروری ہے کہ جس حد تک انسان رب العالمین کی صفت کا مظہر ہو سکتا ہے وہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا ظل ثابت کرے اور جس حد تک انسان رحمانیت کا مظہر ہو سکتا ہے وہ اپنے آپ کو رحمانیت کا نمائندہ ثابت کرے اور جس حد تک انسان الرحیم کے جلوہ کو ظاہر کر سکتا ہے وہ رحیمیت کی روشنی کو دنیا میں پھیلائے اور جس حد تک وہ مالک یوم الدین کا نمونہ قائم کر سکتا ہے وہ مالک یوم الدین کی شکل دُنیا کو دکھائے اور اگر ہم غور کریں تو یہی ذریعہ تو حید کامل کے قائم کرنے کا ہے کیونکہ شرک تو درحقیقت دوئی سے پیدا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بیان فرماتا ہے کہ انسان کے سوادُنیا کا ذرہ ذرہ خدا تعالیٰ کی صفات کو ظاہر کرتا اور اس کی سبوحیت کو بیان کر رہا ہے.پس اگر کوئی شرک کی چیز باقی رہ گئی تو وہ صرف انسان کا وجود ہی ہے.یہی چیز ہے جو کبھی خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں دوسرے خدا قرار دیتی ہے، کبھی خدا تعالیٰ کی عبادت کا حق دوسری چیزوں کو دے دیتی ہے، کبھی خدا تعالیٰ کے وجود کا ہی انکار کر بیٹھتی ہے، کبھی اس کی صفات میں نقائص پیدا کرتی ہے کبھی بُری چیزیں اس 411

Page 424

خطبہ جمعہ فرموده 19 مارچ 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول کی طرف منسوب کرنے لگ جاتی ہے، کبھی ان چیزوں کو خدا بنادیتی ہے جن کو خدا نے اس کے تابع بنایا ہے اور کبھی اپنے میں سے کسی آدمی کو خدا تعالیٰ کی صفات دے دیتی ہے.باوجود ایک کمزور مخلوق ہونے کے یہ عجوبہ چیز خدا تعالیٰ سے بھی بڑھ کر کام کر کے دکھانا چاہتی ہے یعنی صفات کا وہ کامل ظہور جو خدا تعالیٰ نے اپنے لئے مخصوص کر دیا ہے یہ ان کا خلعت بھی دوسرے لوگوں کو بخش دیتی ہے.گویا انسان کہلاتے ہوئے خدا گر بننا چاہتی ہے.اس مخلوق میں اگر فی الحقیقت خدائی صفات جلوہ گر ہو جائیں.اگر تمام انسان اپنے اندر ربوبیت عالمین اور رحمانیت اور رحیمیت اور مالکیت یوم الدین کی صفات کا پر تو پیدا کر لیں تو پھر دُنیا میں سوائے خدا کے اور کونسی چیز باقی رہ جاتی ہے؟ انسانوں کے سوا تو باقی چیزیں پہلے ہی سے خدا تعالیٰ کی تسبیح کر رہی ہیں.انسان ہی ہے جو اس میں رخنہ ڈالتا ہے اگر وہ بھی ان صفات کا حامل ہو جائے اور بجائے ایک علیحدہ وجود رکھنے کے صرف خدا تعالیٰ کے لئے ایک آئینہ بن جائے جس میں دُنیا خدا تعالیٰ کی صورت دیکھے تو بتاؤ شرک کے لئے کونسی چیز باقی رہ جاتی ہے؟ سب جگہ پر خدا ہی خدا کا جلوہ نظر آ جاتا ہے.خدا تعالی کے سوا کوئی چیز باقی نہیں رہتی.یہی مقام تو حید ہے جس کے قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کھڑا کیا ہے اور انہیں حکم دیا ہے کہ نہ صرف یہ کہ وہ خود تو حید کے مقام پر کھڑے ہوں بلکہ دوسروں کو بھی اس مقام کی دعوت دیتے چلے جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ تو حید دنیا میں قائم ہوتی چلی جائے اور شرک منتا چلا جائے.نہ صرف زبانوں کے ذریعہ سے بلکہ اعمال کے ذریعہ سے بھی اور نہ صرف دعوئی کے ساتھ بلکہ حقیقت کے ساتھ بھی.پس مومن کو ہمیشہ ان چار صفات کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ آیا وہ کس حد تک ان صفات کا مظہر بننے میں کامیاب ہو سکا ہے.میں صرف پہلی صفت کو ہی اس وقت لیتا ہوں اور اس کے بھی صرف چند پہلو بیان کر کے اپنے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ کیا واقعہ میں ربوبیت عالمین کی صفت ان میں پیدا ہو چکی ہے.ربوبیت عالمین سے جن باتوں کا اظہار کیا گیا ہے ان میں سے ایک دوام ہے.رب العالمین بتاتا ہے کہ وہ رب تھا، وہ رب ہے اور وہ رب رہے گا.جو چیز کسی وقت بھی ربوبیت میں ناغہ کرتی ہے وہ رب العالمین نہیں کہلا سکتی کیونکہ ناغہ کا وقت اس کی ربوبیت سے خارج ہو جاتا ہے اور رب العالمین ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ کوئی چیز اور کوئی وقت بھی اس کی ربوبیت سے خالی نہ ہو.پس رب العالمین کی صفت ہم کو اپنے اعمال میں دوام کی طرف توجہ دلاتی ہے.حدیث میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک دفعہ اپنی ایک بیوی سے فرمایا کہ اچھی عبادت وہ ہے جو ادُ وَمُهَا 412

Page 425

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 19 مارچ 1937ء ہو یعنی جو نیکیوں میں سے اور عبادتوں میں سے پائیدار ہو ، جس میں ناغہ نہ کیا جائے اور جسے چھوڑا نہ جائے اور جو ہمیشہ کے لئے انسان کے اعمال کا جزو ہو جائے.یہ در حقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رب العالمین کی صفت کی ایک تشریح فرمائی اور متوجہ کیا کہ عبادت اور نیکی تبھی نیکی ہو سکتی ہے جبکہ انسان اس کو دائمی طور پر اختیار کرے اور گویا اس طرح آپ نے ربوبیت عالمین کی صفت پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی اور اس میں کیا محجہ ہے کہ جس چیز کو انسان کبھی لے لیتا ہے اور کبھی چھوڑ دیتا ہے ہم کبھی تسلیم نہیں کر سکتے کہ وہ اس کو اچھا سمجھتا ہے کیونکہ اگر وہ اُسے فی الحقیقت اچھا سمجھتا تو اُسے چھوڑتا کیوں؟ جس وقت کیلئے وہ اُسے اختیار کرتا ہے اس کے متعلق ہم خیال کر سکتے ہیں کہ وہ لوگوں کی نقل کر رہا تھا یا ایک عارضی جذبہ کے نیچے اس کی روح دب گئی تھی یا یہ کہ وہ نفاق کے طور پر ایسا کام کر رہا تھا لیکن جب کوئی شخص ایک چیز کو کلی طور پر اختیار کر لیتا ہے اور اُسے بھی نہیں چھوڑتا تو اس چیز کے متعلق ہمیں یقین ہو جاتا ہے کہ یا تو اُسے نیکی سمجھ کر اختیار کر رہا ہے یا عادتوں کے ماتحت اس کے ظلم کا شکار ہورہا ہے اور اس کے مقابلہ کی اس میں طاقت نہیں ہے.غرض یا تو وہ اسے نیکی سمجھ کر اس سے محبت کرتا ہے یا اس چیز کا قیدی ہے کہ باوجود آزادی کی خواہش کے آزاد نہیں ہو سکتا اور یہ آخری بات ایسی نہیں کہ اس کا اس شخص یا دوسروں کو پتہ نہ لگ سکے.پس ربوبیت عالمین انسان کی انہی صفات سے ظاہر ہوتی ہے جن کو وہ دائمی طور پر اختیار کر لیتا ہے اور جن میں وہ کبھی ناغہ نہیں ہونے دیتا.ایک شخص جو نماز کا پابند ہوتا ہے اگر وہ کبھی کبھی بیچ میں ناغہ کر دے تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ نماز کا پابند ہے اور اس نیکی کے ذریعہ ربوبیت عالمین کی صفت ظاہر کر رہا ہے یا مثلاً ایک شخص کسی کسی وقت غریبوں پر رحم کر دیتا ہے کبھی کبھی اس بات کو چھوڑ بھی دیتا ہے، کبھی لوگوں کی مصیبتیں اس کے دل میں درد پیدا کرتی ہیں اور کبھی وہ اس کے دل پر کوئی اثر نہیں ڈالتیں.تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس نے ربوبیت عالمین کی صفت ظاہر کی ہے.اس کے رحم کو ہم کمزوری سمجھیں گے اور نیکی قرار نہیں دیں گے لیکن اگر ایک شخص ہمیشہ اپنے دل میں لوگوں کے لئے رحم محسوس کرتا ہے اور دوسروں کے لئے قربانی کی روح اس میں کبھی مردہ نہیں ہوتی تو ہم سمجھیں گے کہ یہ شخص واقعہ میں نیک ہے اور رب العالمین کی صفت کا مظہر ہے یا مثلاً ایک شخص ایک وقت میں دین کے لئے اپنی جان قربان کرنے کے لئے نکل کھڑا ہوتا ہے اور زمانہ جہاد میں جہاد کے ذریعہ اور زمانہ تبلیغ میں تبلیغ کے ذریعہ اپنی جان کو خدا تعالیٰ کی راہ میں ہلکان کرنے کے لئے آمادہ رہتا ہے، کبھی تو اس کے اعمال میں ایک جوش اور فدائیت ظاہر ہوتی ہے اور کبھی وہ ان کاموں کو چھوڑ کر خاموشی سے اپنے گھر میں بیٹھ جاتا ہے.خدا کی آواز بلند ہوتی چلی جاتی ہے اور اس 413

Page 426

خطبہ جمعہ فرموده 19 مارچ 1937 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول کے فرشتوں کی پکار اُونچی ہوتی چلی جاتی ہے اور اس کے بندوں کی ندا ئیں جو کو بھر دیتی ہیں مگر اس کے دل میں کوئی حرکت ہی پیدا نہیں ہوتی.گویا اس کے لئے جہاد اور تبلیغ بے معنی الفاظ ہیں اور اس کو ان میں کوئی لذت ہی نہیں ملتی تو کس طرح ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ایسے شخص نے جب جہاد کے وقت جہاد کیا تھا یا تبلیغ عام کے وقت تبلیغ کی تھی اس وقت اُس نے یہ کام نیکی سمجھ کر کئے تھے؟ کیونکہ اگر واقعہ میں وہ انہیں نیکی سمجھتا تو اب کیوں خاموش رہتا اور کیوں اس کے دل میں آج وہی آوازیں سُن کر پھر جوش نہ پیدا ہو جاتا.ہم تو یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ جس وقت اُس نے وہ کام کئے تھے کسی عارضی جوش یا خود غرضی یا کسی دھوکہ کے ماتحت کئے تھے لیکن اگر اس کے خلاف ایک دوسرا شخص ہر زمانہ اور ہر وقت اور ہر حالت میں جب خدا اور اس کے مقرر کردہ بندوں کی آواز سنتا ہے تو فورا قربانی اور ایثار کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے اور اگر جہاد کا وقت ہو تو امام کے آگے پیچھے، دائیں بائیں لڑنے کے لئے تیار رہتا ہے اور اگر تبلیغ کا وقت ہو تو نکل کھڑا ہوتا ہے تو ایسے شخص کے متعلق ہم مجبور ہوں گے کہ ایمان رکھیں اور یقین کریں کہ وہ خدا تعالیٰ کی صفت ربوبیت عالمین کا مظہر ہے اور ہر زمانہ میں ہادی ہونا اس کی روح کی غذا بن گیا ہے اور اسی طرح باقی اور نیکیوں کا حال ہے کہ ان کے متعلق اگر استقلال کے ساتھ کوئی شخص قائم ہوتا ہے تو ہم اس کو واقعہ میں نیک کہہ سکتے ہیں لیکن اگر استقلال کے ساتھ ان پر قائم نہیں ہوتا یا لوگوںکو دھوکہ دیتا ہے تو ایسا شخص ہر گز صفات الہیہ کا مظہر نہیں.پس ہمارے دوستوں کو دیکھنا چاہئے کہ کیا واقعہ میں انہوں نے اپنے نیک اعمال میں دوام حاصل کر لیا ہے.اگر ایسا نہیں تو ان کے لئے خوف کا مقام ہے.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ابھی بہت سے کاموں میں ہماری جماعت نے دوام کا مقام حاصل نہیں کیا.ان کی مثال اس سوئے ہوئے بچے کی طرح ہے جسے صبح کے وقت ایک متقی ماں نماز کے لئے جگا دیتی ہے.جب اس کی ماں اس کو بستر پر بٹھا دیتی ہے تو ماں کے سہارے وہ بیٹھ جاتا ہے لیکن بیٹھا بیٹھا ہی سو جاتا ہے.جب ماں اس کو اس غفلت میں دیکھتی ہے تو پکڑ کر وضو کرنے کی جگہ پر لے جاتی ہے.پھر وہاں جا کر بیٹھ جاتا ہے اور وہیں سو جاتا ہے.پھر ماں اُسے جھنجوڑ تی ہے اور وضو کراتی ہے.وضو کرنے کے بعد جب جسم کے سوکھنے کا یہ کچھ دیر انتظار کرتا ہے تو پھر سو جاتا ہے اور ماں پھر آکر اسے اٹھاتی ہے اور سنتیں پڑھواتی ہے اور پھر اسے نماز کے لئے باہر بھیج دیتی ہے.وہ مسجد میں پہنچتا ہے اور نماز شروع کرتا ہے مگر کبھی سجدہ میں سو جاتا ہے اور کبھی تشہد میں کبھی ساتھ والے نمازیوں کی حرکت سے اس کی آنکھ کھل جاتی ہے اور کبھی وہ غفلت خواب میں پڑا ہی رہ جاتا ہے.خدا کی عبادت کرنے والے عبادت کر کے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں اور وہ بے چارہ و ہیں نیند کا شکار ہوا 414

Page 427

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد اول خطبه جمعه فرموده 19 مارچ 1937ء پڑا رہتا ہے.بہت سے دوستوں کی حالت میں دیکھتا ہوں ایسی ہی ہے.جب انہیں کہا جاتا ہے نمازیں پڑھو تو وہ نمازوں میں مشغول ہو جاتے ہیں.پھر جب کہا جاتا ہے چندے دو ! تو وہ چندے دینے لگ جاتے ہیں مگر نمازوں میں ڈھیلے ہو جاتے ہیں.پھر جب کہا جاتا ہے کہ تبلیغ کرو تو وہ تبلیغ کرنے لگ جاتے ہیں مگر نمازوں اور چندوں میں سست ہو جاتے ہیں.پھر جب کہا جاتا ہے روزے رکھو تو روزے رکھنے لگ جاتے ہیں مگر نمازوں اور چندوں اور تبلیغ میں سستی آجاتی ہے.غرض جس طرح ایک چھوٹا بچہ ہر وقت سہارے کا محتاج ہوتا ہے اور اپنی توجہ صرف ایک ہی چیز کی طرف رکھ سکتا ہے، ان کی توجہ محدود رہتی ہے اور پھر اس میں بھی سہارے کی محتاج.اگر تحریک جدید پر ہمارے دوست غور کریں تو وہ اُنہیں مسائل جو میں نے اس میں بیان کئے تھے اول تو وہ دیکھیں گے کہ ان کو سارے یاد بھی نہیں اور پھر وہ محسوس کریں گے کہ ان میں سے ایک ایک چیز کی طرف وہ ایک ایک وقت میں متوجہ رہے ہیں.جب چندے کا زور ہوا تو چندہ دینے لگے اور جب تبلیغ کا زور ہوا تو تبلیغ میں مشغول ہو گئے اور جب دُعا کی تحریک ہوئی تو دعاؤں میں لگ گئے اور جب سادہ زندگی پر زور دیا گیا تو اس کی طرف توجہ کرنی شروع کر دی، جب ہاتھ سے کام کرنے پر زور دیا تو ہاتھ سے کام کرنے لگ گئے اور پھر آرام سے گھروں میں بیٹھ گئے لیکن انہیں یا درہنا چاہئے کہ اس تحریک کی تکمیل تو اس کی ہو چھٹیوں جہات کی تکمیل کے ساتھ ہی ہو سکتی تھی.اگر مکان کی ایک وقت میں ایک ہی دیوار قائم رہے تو وہ مکان حفاظت کا کس طرح موجب ہو سکتا ہے؟ اگر انسان ایک طرف توجہ کرے اور دوسری کو چھوڑ دے تو اس کے یہی معنے ہوں گے کہ جب وہ اپنے مکان کی دوسری دیوار کو کھڑا کرے تو پہلی کو گرا دے.ایسا شخص کبھی بھی اپنے مکان کو مکمل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا وہ تو گرا تا اور بنا تا ہی رہے گا نہ بھی چھت پڑے گی اور نہ اس کا مکان رہائش کے قابل ہوگا.ایسا شخص تو بہت ہی قابل رحم ہے اور سب سے زیادہ رحم اُسے اپنی جان پر آنا چاہئے مگر کتنے ہیں جو اپنی جانوں پر رحم کر کے اپنے اندر یہ تبدیلی پیدا کرتے ہیں کہ نیکیوں میں دوام پیدا کریں اور یہ نہ ہو کہ ایک کو اختیار کرتے وقت دوسری کو چھوڑ بیٹھیں.اسی طرح ربوبیت عالمین میں ایک موٹی چیز ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توجہ کا فرو مومن کی طرف یکساں ہے یعنی وہ عالم کفار کی بھی پرورش کر رہا ہے اور عالم مؤمنین کی بھی پرورش کر رہا ہے.گو عالم مومنین کی پرورش عالم کفار کی پرورش سے مختلف ہے مگر دونوں جگہ پر پرورش کا کام جاری ہے.کسی جگہ پر تو تبلیغ کے ذریعہ سے اس کی ربوبیت ظاہر ہوتی ہے لیکن کسی جگہ پر تربیت کے ذریعہ سے، کہیں وہ انذار کو ذریعہ ہدایت بناتا ہے تو کہیں انعام کو باعث ترقی بنا دیتا ہے.غرض کسی کو ڈرا کر کسی کی ہمت بلند کر کے کسی کو خوف دلا کر کسی کو انعام اور عطیہ کے ساتھ 415

Page 428

خطبہ جمعہ فرموده 19 مارچ 1937ء وہ ہو.تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول دئے لئے چلا جاتا ہے اور یہی سبق مومن کو بھی حاصل کرنا چاہئے اس کی توجہ کا فرو مومن کے لئے یکساں ہونی چاہئے ، گمراہ اور ہدایت یافتہ کے لئے یکساں ہونی چاہئے مگر میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت کے دوستوں کو اس وقت نظر سے ابھی وابستگی پیدا نہیں ہوئی.زیادہ تر ان میں سے وہی ہیں جو غیروں میں تبلیغ تو کر دیتے ہیں مگر اپنی جماعت کی تربیت کی طرف ان کی توجہ نہیں.اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ہماری جماعت میں بعض نئے پیدا ہونے والے بچے سلسلہ کی تعلیموں اور سلسلہ کی اغراض سے بالکل ناواقف ہیں اور اُن کا مذہب صرف ورثہ کا مذہب ہے.وہ اسی طرح گمراہی کا شکار ہو سکتے ہیں جس طرح دوسرے فرقوں اور دوسری قوموں کے لوگ.حالانکہ اللہ تعالٰی مومن اور کافر دونوں کی طرف یکساں اپنے فضل کو بڑھاتا ہے.گوجیسا کہ میں بتا چکا ہوں فضل کی نوعیت مختلف ہوتی ہے.پس میں جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ تعلیم و تربیت کو مد نظر رکھیں اور ہمیشہ ایک بھائی دوسرے کے لئے مشعل راہ بنا ر ہے اور ماں اور باپ اپنے بچوں کی دینی تربیت ایسے طور پر کریں کہ آئندہ نسلیں اخلاص میں پچھلوں سے کم نہ ہوں بلکہ زیادہ ہوں اور نہ صرف اپنے بچوں کی خبر گیری رکھیں بلکہ اپنے ہمسایوں اور محلہ کے بچوں کی بھی خبر گیری رکھیں کیونکہ کئی ماں باپ کمزور ہوتے ہیں اور وہ تربیت کر ہی نہیں سکتے اور کئی ماں باپ دوسرے کاموں میں ایسے مشغول ہوتے ہیں کہ وہ تربیت کے لئے وقت ہی نہیں نکال سکتے.پھر جبکہ اللہ تعالیٰ نے رب العالمین کی صفت کا ہم کو مظہر بنایا ہے تو پھر ہمارا فرض بھی تو ہے کہ ہم صرف اپنی نگاہ کو ایک محدود دائرہ میں مقید نہ رکھیں بلکہ ہماری نگاہ وسیع ہو اور ہمارے ہمسایوں اور محلے والوں کو بھی ہماری ان خوبیوں سے حصہ ملے جو خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمیں عطا ہوئی ہوں.اگر ہمارے دوست ان دو نکتوں کو یا درکھیں اور اپنی نیکیوں کو بے استقلالی کا شکار نہ ہونے دیں اور اپنی نظروں کو مقید ہونے سے بچائیں بلکہ جس طرح خدا تعالیٰ کی صفات وسیع ہیں ان کی نیکیاں بھی وسیع ہوں تو یقیناً ہماری جماعت ایک ایسے مقام پر کھڑی ہو جائے کہ جس کے بعد کوئی منزل نہیں اور انہیں ایک ایسی فتح حاصل ہو جس کے بعد کوئی شکست نہیں لیکن اگر یہی جگانے اور سونے کا ہی سلسلہ چلا گیا تو انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ دنیا فانی ہے اور کبھی اس دنیا سے جگانے والے بھی اٹھ جاتے ہیں.پھر وہ ایسے سوئیں گے کہ جا گنا مشکل ہوگا اور ایسی غفلت کا شکار ہوں گے کہ جس کے آخر میں ہوشیاری کا پتہ نہ چلے گا.پس انہیں خدا تعالیٰ کی سنتوں کو بھولنا نہیں چاہئے اور اپنے اندر مومن والا استقلال اور مومن والی وسعت نظر پیدا 416

Page 429

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 19 مارچ 1937ء کرنی چاہئے تا وہ خدا تعالیٰ کا مظہر اپنی ذات میں ہو جائیں اور خدا تعالی براہ راست خودان پر نگاہ ڈالے.میں نے خطبہ جمعہ کے شروع میں مومن کی مثال ایک آئینہ سے دی تھی.یہ مجھے خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے ایک دفعہ رویا میں سمجھائی گئی تھی.ایک دفعہ میں نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک مکان میں کھڑا ہوں اور میرے سامنے حکیم غلام محمد صاحب مرحوم کھڑے ہیں.نظر تو وہی اکیلے آتے ہیں مگر خیال یہ ہے کہ بہت سے لوگ ہیں اور میں ان میں تقریر کر رہا ہوں.میرے ہاتھ میں ایک آئینہ ہے اور اس کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہوں کہ دیکھو کہ ایک حسین انسان اپنے حسن کو آئینہ میں دیکھتا ہے اور اس آئینہ کو بڑا قیمتی سمجھتا ہے اور سنبھال سنبھال کر رکھتا ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے اس کا حسن اسے نظر آتا ہے لیکن اگر آئینہ میلا ہو جائے اور اس میں حسن پوری طرح نظر نہ آئے تو پہلے تو مالک اُسے صاف کر کے کام چلاتا ہے لیکن اگر وہ زیادہ میلا ہوتا چلا جائے تو ایک دن پھر ایسا آجاتا ہے کہ اس میں مالک کی شکل اچھی طرح نظر نہیں آتی اور وہ سمجھتا ہے کہ اب یہ میرے لئے بے کار ہے اور وہ اُٹھا کر اُسے پھینک دیتا ہے اور وہ ٹکرے ٹکرے ہو جاتا یہ کہہ کر میں نے وہ شیشہ اُٹھایا اور زور سے زمین پر پھینک دیا اور وہ ریزہ ریزہ ہو گیا اور اس کے ٹوٹنے سے آواز پیدا ہوئی.میں نے کہا دیکھو خدا تعالیٰ بھی بندوں سے ایسا ہی سلوک کرتا ہے جس طرح اس خراب اور گندے شیشے کے ٹوٹنے سے ہمارے دلوں کو رنج نہیں ہوتا اسی طرح خدا تعالیٰ بھی ایسے شخص کی و پروا نہیں کرتا جو اس کے حسن اور چہرے کو دکھانے کے قابل نہیں رہتا.پس میں جماعت کے احباب کو نصیحت کرتا ہوں.کہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے لئے آئینہ بناؤ لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ آئینے بھی میلے ہو جاتے ہیں.تم اپنے آپ کو صاف بھی کرتے رہو.بعض دفعہ صفائی دوسرے ہاتھ کی محتاج ہوتی ہے.انسان خود صفائی نہیں کر سکتا.ایسی صورتوں میں اپنے بھائی کی امداد کرو.اس سے متعلق بھی مجھے رویا یاد آیا ہے جو بچپن کے زمانہ کا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان دنوں زندہ تھے.مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس وقت میں سکول میں پڑھا کرتا تھا اور میں نے سکول 1905ء میں چھوڑا ہے.اس لحاظ سے یہ رویا 1903ء یا1904 ء کا ہے جبکہ میری عمر قریبا پندرہ سولہ سال کی تھی.میں نے دیکھا کہ ان کمروں میں سے ایک میں کہ جن میں مدرسہ احمدیہ کے لڑکے آجکل پڑھتے ہیں یعنی وہ کمرے کہ جو کنوئیں کے سامنے ہیں.ان میں سے درمیانی کمرہ میں ہم کچھ لوگ بیٹھے ہیں گو وہ آدمی جو نظر آتے ہیں تھوڑے ہیں مگر خیال ہے کہ یہاں ساری دُنیا کے لوگ جمع ہیں.ماضی، حال اور مستقبل کے بھی.گویا وہ محشر کا دن ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کی انتظار میں ہیں کہ آئے حساب لے اور فیصلہ فرمائے.ایک میز لگی ہوئی ہے جس کے سامنے ایک کرسی پڑی ہے اور چند فرشتے دائیں بائیں کھڑے ہیں اتنے میں میں 417

Page 430

خطبہ جمعہ فرمودہ 19 مارچ 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول نے دیکھا کہ ایک نہایت حسین نو جوان اس کرسی پر آکر بیٹھ گیا اور رویا میں میں سمجھتا ہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ ہے اور ہم سب اس گھبراہٹ اور پریشانی میں حیران ہیں کہ کیا انجام ہوگا کہ اتنے میں اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کے سامنے کئے جانے کا حکم دیا اور اس پر نگاہ ڈال کر فرمایا کہ اس شخص کو لے جاؤ اور جنت میں داخل کر دو.پھر ایک اور شخص کو خدا تعالیٰ نے آگے لانے کا حکم دیا جو بظا ہر نہایت حسین اور خوبصورت نوجوان تھا.جب وہ سامنے لایا گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف دیکھا مگر اس سے کوئی سوال نہیں کیا گویا اس کی نظروں میں ہی سارے سوال ہو گئے.میں نے دیکھا کہ اس کا گوشت ، اس کی ہڈیاں اور اس کے تمام عضلے کھال کے اندر یوں نرم ہونے شروع ہوئے جیسے کوئی موم وغیرہ پکھل کر سیال ہو جاتی ہے.ہم نے محسوس کیا کہ اس کی کھال کے نیچے کی ہر چیز پیپ بن گئی ہے اور وہ سر سے پیر تک پیپ کا تھیلا بن کر رہ گیا ہے.تب خدا تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا کہ اسے لے جاؤ اور جہنم میں داخل کر دو.اس وقت میں نے ایک نہایت عجیب رحمت کا نظارہ دیکھا کہ فرشتوں نے جس وقت جنتی کو جنت میں داخل کیا تو دروازے کو کھولا گیا اور جنت کی ہوائیں باہر والوں کولگیں لیکن جس وقت دوزخی کو دوزخ میں داخل کیا تو دروازے کو نہایت تھوڑ اسا کھولا اور آگے خود کھڑے ہو گئے اور اُسے دھکیل کر اندر کر کے دروازہ فوراً ہی بند کر دیا تا وہاں کی مسموم ہوا ئیں دوسروں کو نہ چھوئیں.اس کے بعد میں نے دیکھا کہ خدا تعالیٰ کھڑا ہو گیا اور فرمایا کہ اس وقت بس اتنا ہی کہا حساب لینا تھا.ابھی محشر کا دن نہیں آیا مگر شاید تم میں سے بعض لوگ اپنے انجام دیکھنا چاہتے ہوں وہ اپنی پیٹھ کی طرف دیکھیں جس کی پیٹھ کی طرف کی دیوار کی کچھ اینٹیں پکی ہوں گی وہ جنتی ہے اور جس کی سچی ہوں گی وہ دوزخی ہے.یہ کہ کر اللہ تعالیٰ چلا گیا اور ہم لوگ جو وہاں بیٹھے تھے خاموشی سے بیٹھے رہے کسی کو یہ جرات نہ تھی کہ مڑ کر پیٹھے کی طرف دیکھے.ہم بیٹھے رہے اور وقت گزرتا گیا، گزرتا گیا اور گزرتا گیا.جب ایک کافی عرصہ گزر گیا تو میرے دل میں ایک خیال پیدا ہوا.میں نے دیکھا کہ میرے دائیں طرف حضرت خلیفہ ایسی اول بیٹھے ہیں.ان کی طرف جھکا اور کہا کہ مجھ سے تو پیچھے مڑ کر دیکھا نہیں جاتا انہوں نے فرمایا میری بھی یہی حالت ہے.میں نے کہا مجھے ایک خیال آیا ہے.میں آپ کی پیٹھ کے پیچھے دیکھتا ہوں اور آپ میری پیٹھ کے پیچھے دیکھیں.اس پر انہوں نے میری پیٹھ کے پیچھے دیکھا اور میں نے ان کی پیٹھ کے پیچھے اور ایک ہی وقت میں ہم دونوں چلائے کہ پیچھے اینٹیں پکی ہیں اور جیسا کہ شدید خوشی کی حالت میں جب وہ شدید مایوسی کے بعد پیدا ہو انسان کے قومی مضمحل ہو جاتے ہیں ہمارے جسم ڈھیلے ہو کر ز میں پر گر گئے اور میری آنکھ کھل گئی.میں، آج کہ اس پر قریباً 33 سال گزر گئے ہیں، اس نظارہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے اسی طرح 418

Page 431

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 19 مارچ 1937ء دیکھ رہا ہوں جس طرح کہ اس وقت دیکھا تھا.یہ واقعات گہرے طور پر میرے دماغ میں منقش ہیں.اس میں شبہ نہیں کہ اس وقت کے جذبات آج کے جذبات نہیں ہو سکتے اور اس وقت کی گھبراہٹ کا اندازہ تو آج لگایا ہی نہیں جا سکتا لیکن پھر بھی ظاہری نظارے بہت حد تک میرے دماغ میں مرقوم ہیں اور یہ رویا میں نے اس لئے سنایا ہے کہ کبھی کبھی انسان اپنی پیٹھ کے پیچھے نہیں دیکھ سکتا اور شک وشبہ کی حالت میں پڑا رہتا ہے.اس وقت بہترین تجویز یہی ہوتی ہے کہ تم اپنے بھائی کی پیٹھ کی طرف دیکھو اور وہ تمہاری پیٹھ کی طرف دیکھے تم اس کی صفائی کرو اور وہ تمہاری صفائی کرے.یہ ایک بہترین طریق ہے اور كُونُوا مَعَ الصُّدِقِيْنَ (التوبه : 119) کہہ کر اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے دیکھو چھوٹا دوست جھوٹ بول کر تم کو تباہ اور انجام سے بے فکر کر دیتا ہے لیکن جب سچا دوست سچی بات تمہارے سامنے رکھتا ہے تو گو وہ گراں گزرتی ہے مگر تمہارے انجام کو درست کرنے والی ہوتی ہے اور تمہاری عاقبت کو ٹھیک کر دیتی ہے.پس كُونُوا مَعَ الصَّادِقِین کے یہی معنی نہیں کہ بزرگوں اور ولیوں کی تلاش کرو، وہ معنی بھی ہیں اور میں اُن کا انکار نہیں کرتا، مگر یہ معنی بھی ہیں کہ قومی اصلاح کے لئے اس کے ساتھ تعاون کیا کرو جو تمہارے اور تمہارے متعلقین کے عیوب سے تمہیں واقف کرے اور ایسے دوست نہ چنا کرو جو جھوٹ بول کر تمہیں دھو کے میں رکھیں یہاں تک کہ وقت آجائے اور خدا تعالیٰ کے فرشتے تمہیں دوزخ میں دھکیل دیں اور تمہارے لئے تو بہ کا وقت بھی نہ رہے.“ ( مطبوعه الفضل 24 مارچ 1937 ء ) 419

Page 432

Page 433

مدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 2 اپریل 1937ء شکر الہی اور انسدا رفتن کے لئے روزے رکھیں خطبہ جمعہ فرمودہ 2 اپریل 1937 ء سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں پاؤں کے درد کی وجہ آج جمعہ میں آتو نہیں سکتا تھا لیکن چونکہ اس دفعہ کے روزوں کے متعلق اور ششماہی جلسوں کے متعلق جن میں تحریک جدید کے بارہ میں احباب کو یاد دہانیاں کرائی جاتی ہیں اور ان کو ان فرائض کی طرف جو انہوں نے خوشی سے اپنے نفس پر عائد کئے ہیں توجہ دلائی جاتی ہے ابھی تک میں تحریک نہیں کر سکا اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ مختصر الفاظ میں ان امور کے متعلق اعلان کر دوں تا دیر ہو جانے کی وجہ سے بات اور زیادہ دور نہ جا پڑے.روزوں کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پہلے سالوں میں ہم پیر اور جمعرات کے روزے رکھ چکے ہیں جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے بعض فتنے دُور کر دیئے لیکن بعض فتنے ابھی باقی ہیں اس لئے اس سال ہم پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور ہمیں کچھ تو شکریہ کے روزے رکھنے چاہئیں اور کچھ بقیہ ابتلاؤں کے دور ہونے کے لئے روزے رکھنے چاہئیں اس لئے اس سال کے لئے میری تجویز یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ چالیس یا بیالیس دنوں کے اندر ہم سات روزے پورے کریں ہم ایسا طریق اختیار کریں کہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا کہ آپ پیر اور جمعرات کو روزے رکھا کرتے تھے وہ بھی ایک رنگ میں پورا ہو جائے اور ہمارے شکریہ کے بھی روزے ہو جائیں.اور دعاؤں کے بھی روزے ہو جا ئیں اس لئے اس سال میں نے تجویز کی ہے کہ اپریل سے لے کر اکتوبر تک جو سات مہینے بنتے ہیں ان میں ہر مہینہ کے پہلے ہفتہ میں پیر کے دن اور ہر مہینہ کے آخری ہفتہ میں جمعرات کا روزہ رکھیں.اس طرح چودہ روزے ہو جائیں گے اور گو ہر ہفتہ کے پیر اور جمعرات کا روزہ ہو گا مگر ہر مہینہ میں ایک پیر اور ایک جمعرات کا روزہ ہو جائے گا اور ہماری دعائیں سات مہینوں میں پھیل جائیں گی.ان چودہ روزوں میں سے سات روزے تو شکریہ کے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے بعض فتنے دور کر دیئے اور سات روزے ان ابتلاؤں کے لئے ہوں گے جو ابھی قائم ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو دور کرے اور ان کے 421

Page 434

خطبہ جمعہ فرمودہ 2 اپریل 1937ء بداثرات سے ہماری جماعت کو محفوظ رکھے.تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول وہ لوگ جن کی آنکھیں ہیں، جو واقعات کو دیکھ سکتے ہیں اور جن کی روحانی بینائی ماری ہوئی نہیں وہ جانتے ہیں کہ ہمارے گزشتہ سالوں کے روزے دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کرنے والے ہوئے ہیں.اگر دنیا کی 1933ء اور 1934ء کی تاریخ انسان اپنے سامنے رکھے اور پھر 1935ء اور 1936ء کی تاریخ پر بھی نگاہ ڈالے تو وہ حیران ہو جائے گا کہ ان سالوں کی تاریخ میں کتنا عظیم الشان تغیر پیدا ہوا ہے.ان دو سالوں میں اللہ تعالیٰ نے یکدم ایسے تغیرات پیدا کئے ہیں اور دشمنانِ احمدیت پر ایسی تباہی ڈالی اور احمدیت کی ترقی کے ایسے سامان کئے اور ہمارے مذہبی اور سیاسی دشمنوں کو مغلوب کرنے کے لئے ایسے فوق العادت نشانات دکھلائے جو بالکل غیر معمولی اور حیرت ناک نظر آتے ہیں مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے ابھی ہمارے لئے فتنوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا.اللہ تعالیٰ نے ہماری دعاؤں کے نتیجہ میں احرار کے فتنہ کا سر کچل دیا اور سیاسی لحاظ سے وہ مردہ ہو گئے مگر مذہبی لحاظ سے وہ ابھی ڈینگیں مار رہے ہیں اور ان کے وہ زہر یلے دانت جو ان کے فاسد عقائد کے سر میں پائے جاتے ہیں گو گند تو ہو گئے ہیں مگر ٹوٹے نہیں.اسی وجہ سے ان کے کسی ایجنٹ نے بعض اخبارات میں اب یہ اعلان کرایا ہے کہ آئندہ احرار سیاسی کاموں سے اجتناب کریں گے اور خالص مذہبی کا موں تک اپنی سرگرمیوں کو محدود رکھیں گے.غالبا اس کی وجہ یہی ہے کہ سیاسیات کے متعلق اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ ایسی زک حاصل کر چکے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں اب اس میدان میں ان کے لئے کامیابی کا میسر آنا بالکل محال ہے.پس انہوں نے اپنی عقلوں سے کام لیتے ہوئے سمجھا ہے کہ دو جنگیں انہیں ایک وقت میں نہیں لڑنی چاہئیں کیونکہ جب وہ سیاسی میدان میں کو دتے ہیں اور ساتھ ہی مذہبی میدان میں بھی تو سیاسی اور مذہبی دونوں قسم کے لوگ ان کے مخالف ہو جاتے ہیں اس لئے اب انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جن سے مذہبی مخالفت ہوا نہی کے خلاف شور بپا کیا جائے تاکہ سیاسی لوگوں کی امداد اور ان کی تائید میسر رہے اور ساتھ ہی مذہب سے دلچسپی رکھنے والوں کا ایک حصہ بھی ان کی تائید میں کھڑا رہے.بے شک دنیوی نقطہ نگاہ سے یہ بات ٹھیک ہے مگر روحانی نقطہ نگاہ سے یہ تجویز اپنے اندر کوئی حقیقت نہیں رکھتی.اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کی معرفت ان کی قوم کو کہلوایا تھا کہ جاؤ اور اپنے ساتھیوں کو جمع کرو.یہاں بھی وہ اپنے ساتھیوں کو ہمارے خلاف جمع کرنے لگے ہیں کیونکہ جب وہ سیاسی اختلافات کو ترک کردیں گے اور خالص مذہبی اختلاف کا سوال رہ جائے گا تو سیاسی اور مذہبی دونوں قسم کے لوگ ان کی تائید میں کھڑے ہو جائیں گے.پس اگر وہ سیاسی نقطہ نگاہ سے یہ طریق اختیار 422

Page 435

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 2 اپریل 1937ء کریں اور اس پروگرام پر عمل کریں جس کا اخبارات میں ذکر آیا ہے تو اس میں کوئی محبہ نہیں کہ دنیوی نقطہ نظر سے ان کی پارٹی مضبوط ہو جائے گی کیونکہ پہلے وہ اپنی طاقت کا کچھ حصہ سیاست میں خرچ کرتے تھے اور کچھ مذہبی معاملات میں لیکن اب ایک ہی طرف اپنی تمام طاقتوں کا رجحان رکھیں گے گویا اجمَعُوا اپنی أمْرَكُمْ بھی ہو جائے گا.اب صرف ایک تیسرا حصہ باقی رہ جاتا ہے جو میں انہیں یاد دلا دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کے ذریعہ ان کی قوم کو یہ بھی توجہ دلائی تھی کہ نہ صرف تمیم اپنے سارے شرکا کو جمع کرو اور نہ صرف ایک خاص پالیسی اپنے لئے تجویز کر لو بلکہ تمہارے سامنے ایک تفصیلی پروگرام بھی ہونا چاہئے تا مقابلہ کا کوئی طریق باقی نہ رہ جائے.سواگر یہ تیسری بات احرار کو یاد نہ ہو تو میں انہیں یاد دلاتا ہوں کہ قرآن کریم نے دنیوی امور میں کامیابی حاصل کرنے کا تیسرا طریق یہ بتایا ہے کہ نہ صرف تمہارے سامنے ایک پالیسی ہو بلکہ ایک مفصل پروگرام بھی ہونا چاہئے جس پر کلی طور پر نظر ڈال کر اور عواقب اور انجام سوچ کر دیکھ لو کہ اگر دشمن نے یوں کیا تو ہم یوں کریں گے اور اگر ہماری تدابیر کو اس نے اس طرح باطل کیا تو ہم اس طرح کام کریں گے.گو یا ضرر اور نقصان پہنچانے کے جس قدر طریق ممکن ہیں وہ سب سوچ رکھیں اور پھر چوتھی بات یہ بھی ہے جو حضرت نوح علیہ السلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے کہلوائی کہ اچانک حملہ کر دو اور ہمیں ذرہ بھر بھی ڈھیل نہ دو پھر دیکھو کہ کون کامیاب ہوتا ہے.میں بھی احرار سے وہی کہتا ہوں جو حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا مگر وہ یا درکھیں وہ افراد کو نقصان پہنچا سکتے ہیں لیکن اس سلسلہ کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا سکتے.ان کے تمام اتحاد، ان کی تمام پالیسیاں اور ان کے تمام پروگرام هباء 14 ہو کر رہ جائیں گے اور انہیں اپنے مقصد میں ذرہ بھر بھی کامیابی حاصل نہیں ہوگی.ممکن ہے وہ اس کے مقابلہ میں ایک دوسری پالیسی اختیار کریں جس کا گوا بھی ان کی پارٹی کی طرف سے اعلان نہیں ہوا مگر مجھے اس کے آثار نظر آرہے ہیں یعنی یہ کہ وہ فی الحال مذہبی جھگڑے چھوڑ دیں اور کانگریس کے ساتھ اتحاد کر لیں.ہماری کانگریس سے کوئی لڑائی نہیں.ملک کی آزادی کے متعلق اس کے جو مقاصد ہیں اس سے ہم پورے طور پر متفق ہیں گو ان کے طریق کار اور ہمارے طریق کار میں اختلاف ہے اور ہم کانگریس میں کام کرنے والوں کے ایثار اور ان کی قربانیوں کے بھی قائل ہیں مگر وہ ہمیں معاف رکھیں.مذہبی معاملہ میں کسی کی رعایت نہیں کی جاسکتی.اگر احرار اس تدبیر کو بھی اختیار کریں اور وہ چاہیں کہ کانگریس سے مل کر جماعت احمدیہ کو کچل دیں تو گو یہ منظم پالیسی ہوگی لیکن جس طرح احرار کا حکومت سے اتحاد کامیاب نہیں ہوا کانگریس سے ان کا اتحاد بھی کامیاب نہیں ہوگا اور یا تو یہ اتحاد ٹوٹ 423

Page 436

خطبہ جمعہ فرمودہ 2 اپریل 1937 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول جائے گا اور کانگریس ان کی خود غرضیوں پر آگاہ ہو کر ان سے الگ ہو جائے گی یا پھر دونوں ہی تباہ ہو جائیں گے اور میں سمجھتا ہوں احرار جیسی بے اصول جماعت کسی جماعت سے اتحاد نہیں رکھ سکتی.میرا غالب گمان یہی ہے کہ جس طرح گورنمنٹ پر احرار کی حقیقت کھل گئی ہے اسی طرح کانگریس پر بھی یہ حقیقت کھل جائے گی کہ احرار ایک زرطلب جماعت ہے جس کا کوئی اصول نہیں.اس کے ارکان اپنی ذاتی ترقی اور جاہ کے بھوکے ہیں.اس کے علاوہ ان کے سامنے کوئی مقصد نہیں.جس دن کا نگریس پر یہ حقیقت ظاہر ہوگئی اس دن وہ کانگریس کی امداد سے بھی اسی طرح محروم ہو جائیں گے جس طرح ان حکام کی امداد سے یہ محروم ہو چکے ہیں جو پہلے ان کی پیٹھ ٹھونکتے اور انہیں بڑی بڑی امیدیں دلاتے تھے مگر یہ سب کچھ خدائی ہاتھوں سے ہوگا نہ کہ انسانی ہاتھوں سے کیونکہ ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ ایک کا دو سے مقابلہ ہوسکتا ہے، تین سے مقابلہ ہو سکتا ہے، دس میں سے مقابلہ ہوسکتا ہے لیکن چند لاکھ کا کروڑوں سے کس.طرح مقابلہ ہو سکتا ہے؟ پس ضروری ہے کہ جس طرح ہم اللہ تعالیٰ کے ان عظیم الشان فضلوں کا شکر ادا کریں جو اس نے ہماری سابقہ دعاؤں کو قبول کر کے نازل فرمائے وہاں ہم عاجزانہ اور منکسرانہ طور پر پھر اس سے دعا کریں کہ اے خدا ! تیرے فضلوں نے ہمارے بہت سے مصائب کو ٹال دیا ہے لیکن بہت سے مصائب ابھی باقی ہیں.حکومت کی طرف سے بھی اور افراد کی طرف سے بھی منظم پارٹیوں کی طرف سے بھی اور متفرق لوگوں کی طرف سے بھی.پس تو آپ ہی ہم پر فضل فرما اور ہماری عاجزانہ التجاؤں کوسن.ہمیں اپنے پاس سے وہ طاقت بخش جس سے ہم اسلام اور احمدیت کو تمام دنیا پر غالب کر سکیں اور ہمیں اس کی اشاعت کی توفیق دے.ہماری زبانوں میں اثر اور ہمارے دماغوں میں روشنی پیدا کر.تا کہ ہم وہی باتیں کہیں اور سوچیں اور سمجھیں جن سے دُنیا میں تیرا جلال ظاہر ہو.ہمارے دلوں میں جذب پیدا کر تا کہ ہم تیری محبت اور پیار کو بھی جذب کریں اور تیرے ان بندوں کو بھی تیرے دین کی طرف کھینچیں جو تجھ سے برگشتہ ہو کر دنیا میں بھٹک رہے ہیں.اے خدا ! جس طرح مقناطیس لوہے کو اپنی طرف کھینچتا ہے اسی طرح ہم تیری محبت اور تیرے بندوں کو اپنی طرف کھینچنے والے ہوں اور ہم وہ نقطۂ مرکزی ہو جائیں جس پر خدا اور بندہ آپس میں مل جاتا ہے اور ہمارا دل وہ گھر بن جائے جس میں خدا اور انسان کی محبت جاگزیں ہو جاتی ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کے جو ہم پر سابقہ سالوں میں فضل نازل ہوئے ان کا شکر ادا ہو نا گو محال ہے لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ انسان کے معمولی شکر کو بھی قبول فرماتا اور اس کے عوض اپنی اور زیادہ برکات نازل کرتا ہے اس لئے ہمارا 424

Page 437

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 2 اپریل 1937ء فرض ہے کہ ہم سات روزے اس کے احسانات کے شکر میں رکھیں گویا اپریل سے لے کر اکتوبر تک چودہ روزے ہماری جماعت کے احباب کو رکھنے چاہئیں.چونکہ میری یہ تحریک باہر دیر سے پہنچ سکے گی اس لئے ان جماعتوں کے لئے جن تک یہ تحریک دیر سے پہنچے میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جس جس ہفتہ میں بھی انہیں اطلاع پہنچے اس ہفتہ کے پہلے پیر کے دن وہ پیر کا روزہ رکھ لیں اور دوسرا روزہ مہینہ کے آخری ہفتہ کی جمعرات کے دن رکھیں اور اگر بعض ایسے علاقے ہوں جہاں تحریک اس سے بھی دیر میں پہنچے تو وہ ایک روزہ تو اپریل کے آخری ہفتہ کی جمعرات کو رکھیں اور پھر اگلے مہینہ میں دو پیروں کے روزے رکھ لیں.ایک پہلے ہفتہ کے پیر کے دن اور ایک درمیانی ہفتہ کے پیر کے دن اور پھر چوتھا روزہ حسب معمول مہینہ کے آخری ہفتہ کی جمعرات کو رکھیں لیکن اگر بعض لوگ ایسے ہوں کہ ان کے ہاتھ سے اپریل کے آخری ہفتہ کی جمعرات کا روزہ بھی نکل جائے اور بعد میں انہیں اطلاع ہو تو وہ مئی کے مہینہ کے پہلے دو ہفتوں میں ہر پیر کے دن اور آخری دو ہفتوں میں ہر جمعرات کے دن روزہ رکھ لیں اور اگر کوئی جماعت ایسی ہو جسے دوسرے مہینہ میں بھی اطلاع نہ پہنچے تو وہ ان روزوں کو تیسرے مہینہ میں ڈال لے.بہر حال اکتو بر ہمارے روزوں کا آخری مہینہ ہوگا اور اس مہینہ تک ہمیں اپنے چودہ روزے ختم کر دینے چاہئیں.اس کوشش کے ساتھ کہ سات روزے ہم پیر کے دن رکھیں اور سات جمعرات کے دن.اس کے بعد میں یہ بھی اعلان کرتا ہوں کہ مئی کے دوسرے ہفتہ میں جو اتوار 9 تاریخ کو ہے اس دن تمام جماعتیں اپنے اپنے مقام پر تحریک جدید کے متعلق جلسے منعقد کریں اور کوشش کریں کہ ان جلسوں سے پہلے پہلے تحریک جدید کے چندوں کا معتد بہ حصہ ہندوستان کی جماعتوں کی طرف سے ادا ہو جائے.مجھے افسوس ہے کہ اس سال تحریک جدید کا چندہ جمع کرنے میں بہت سنتی دکھائی گئی ہے گو پچھلے سال سے اس سال اس وقت تک دو تین ہزار کی زیادتی ہے.چنانچہ پچھلے سال اس وقت تک غالباً 31 ہزار روپیہ آیا تھا اور اس سال 34 ہزار آچکا ہے مگر دراصل حساب کی رو سے چالیس ہزار سے اوپر آ جانا چاہئے تھا بلکہ اس لئے کہ میں نے خاص طور پر یہ تحریک کی تھی کہ اس سال تحریک جدید کے چندے کے مصرف ایسے ہیں کہ پہلی ششماہی پر اس کا زیادہ اثر پڑے گا اور اکثر جماعتوں اور افراد نے یہ اقرار بھی کیا تھا کہ وہ اپریل مئی تک اپنے اپنے وعدوں کی رقوم ادا کر دیں گے اس لئے دراصل موعودہ رقوم کے لحاظ سے اس وقت تک ساٹھ ہزار روپیہ آ جانا چاہئے تھا.میں جیسا کہ پہلے بھی بیان کر چکا ہوں.بیرونی تبلیغ اور وقتی تبلیغ کے اخراجات کے سلسلہ میں جو کمی صدر انجمن احمدیہ کے بجٹ میں ہوتی ہے کیونکہ عملہ کے کثیر خرچ کی وجہ 425

Page 438

خطبہ جمعہ فرمودہ 2 اپریل 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول سے سائز کے لئے نسبتا کم رقم بچتی ہے.اس کمی کو میں مستقل جائیدادوں کے ذریعہ پورا کرنا چاہتا ہوں چنانچہ تحریک جدید کی بہت سی جائیدادیں میں نے صدر انجمن احمدیہ کے نام پر خرید کی ہیں.ان جائیدادوں کی قیمتوں کے لئے بھی ہمیں بہت بڑی رقوم کی ضرورت ہوگی.پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جنہوں نے اس تحریک میں کسی رقم کی ادائیگی کا وعدہ کیا ہے وہ اپنے وعدوں کو خصوصیت سے جلد پورا کریں مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ صدر انجمن احمدیہ کے مستقل چندوں میں ستی کر کے اس طرف توجہ کی جائے.وہ چندے واجب الادا ہیں اور تحریک جدید کا چندہ نفلی ہے اور گونفل کے پورا کرنے سے متعلق بھی انسان پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ جو بوجھ تم نے اپنی مرضی اور خوشی سے اپنے نفس کے لئے برداشت کیا تھا اس کو کیوں نہیں اُٹھایا لیکن بہر حال اس چندہ کی وجہ سے صدر انجمن احمدیہ کے چندوں میں سستی نہیں ہونی چاہئے.ان جلسوں میں جو تحریک جدید کے متعلق منعقد کئے جائیں گے تحریک جدید کے تمام شعبوں اور اس کے تمام مطالبات کے متعلق تقریریں کی جائیں اور دوستوں میں ہوشیاری اور بیداری پیدا کی جائے.انہیں سادہ زندگی کے متعلق بھی توجہ دلائی جائے ، امانت فنڈ کی طرف بھی توجہ دلائی جائے، قادیان میں مکانات بنانے کی طرف بھی توجہ دلائی جائے ، شادی بیاہ کے اخراجات میں کفایت کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی جائے، بے کاری سے بچنے کی طرف بھی توجہ دلائی جائے ، ہر چھوٹا بڑا کام اپنے ہاتھ سے کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی جائے ، وقف زندگی کی تحریک کی طرف بھی انہیں توجہ دلائی جائے، غیر ممالک میں نکل جانے کی تحریک کی اہمیت بھی ان پر واضح کی جائے اور دعاؤں سے کام لینے کی بھی تاکید کی جائے.غرض تحریک جدید کے جس قدر حصے ہیں ان سب کی طرف جماعت کے احباب کو توجہ دلائی جائے اور چاہئے کہ وہ دوست جو اخلاص رکھتے ہیں آج ہی سے تحریک جدید کے متعلق میرے گزشتہ تمام خطبات نکال کر اپنے سامنے رکھ لیں اور ان کا خلاصہ اپنے الفاظ میں انفرادی اور اجتماعی طور پر دوستوں تک پہنچانا شروع کر دیں اور ابھی سے تحریک جاری کر دیں.یہاں تک کہ جلسوں کے دن آئیں تو اس دن تک جماعت کے خفتہ اصحاب بھی بیدار ہو چکے ہوں اور وہ تحریک جدید کے مطالبات میں عملی سرگرمی سے حصہ لینے کے لئے تیار ہوں.پھر اس سال چونکہ تحریک جدید کا تیسرا سال ختم ہورہا ہے اس لئے ہمیں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی کرنی چاہئے کہ وہ ہماری ان تین سالہ قربانیوں کو قبول فرمائے اور ہمیں اپنے فضل سے مزید قربانیوں کی توفیق دے.میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا کہ عقائد کا اکثر حصہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم نے اپنے اشد 426

Page 439

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 2 اپریل 1937ء معاندین سے بھی تسلیم کرالیا ہے اور دشمن بھی رفتہ رفتہ وہی عقائد اختیار کر رہے ہیں جو ہمارے ہیں لیکن عملی حصہ ہمارا کمزور ہے اس لئے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی مانگنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں ایسی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اعمال کے لحاظ سے بھی دنیا کے لئے نمونہ ہوں اور ہم ساری دنیا پر ثابت کر سکیں کہ تمام مذاہب میں سے اسلام کی تعلیم ہی قابل عمل ہے، وہ ایک مضبوط چٹان ہے جسے کوئی ہلا نہیں سکتا ، وہ ایک برسنے اور دنیا پر چھا جانے والا بادل ہے جس کی زد سے دُنیا کی کوئی زمین نہیں بچ سکتی اور وہ سورج ہے جس کی شعاعیں ساری دُنیا میں پھیل جاتیں اور سوائے ان گھروں کے جن کے رہنے والوں نے اپنے ہاتھوں سے اس کی کھڑکیاں اور دروازے بند کر رکھے ہوں سب کو روشن کر دیتی ہیں حتی کہ باریک سوراخ بھی ہوتو وہاں اس کی روشنی پہنچ جاتی ہے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے جب ہم اپنے عملی نمونہ سے اسلامی تعلیم کی برتری ثابت کریں.خالی تقریریں کوئی اثر نہیں کرتیں.ایک انسان اگر تقریریں اسلامی تعلیم کی فضیلت پر کرتا ہے لیکن وہ یا اس کا ہمسایہ مغربی اثرات اور مغربی رو میں بہا چلا جاتا ہے تو اس کی تقریروں کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا اور اس کی کوششیں سب بے کار جائیں گی.کوشش وہی کامیاب ہوتی ہے جو عملی رنگ میں کی جائے کیونکہ اس کا دوسرے کے دل پر گہرا اثر ہوتا اور دشمن بھی اسلامی تعلیم کی عظمت کا اظہار کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے.پس دعاؤں میں اپنی توجہ اس طرف بھی مبذول کرو اور یا درکھو کہ کوئی دین کا قدم ایسا نہیں ہو سکتا جو تین سال کے بعد ہٹالیا جائے.یہ پہلا قدم ہے جو اُٹھایا گیا اور یہ پہلا زینہ ہے جس پر پاؤں رکھا گیا اور اس کے بعد اور قدم اور اور زینے ہیں.پس کوئی دینی تحریک ایسی نہیں ہو سکتی جو تین سال کے بعد ختم ہو جائے ہاں اس کی شکلیں بدل جاتی ہیں.کبھی ان حصوں پر زیادہ زور دیا جاتا ہے جن پر پہلے کم دیا جاتا تھا اور کبھی ان حصوں پر کم زور دیا جاتا ہے جن پر پہلے زیادہ دیا جاتاتھا.پھر کبھی اور انواع پر زور دیا جاتا ہے اور کبھی اور انواع پر زور دیا جاتا ہے اور کبھی اور انواع پر.بہر حال دین کی ترقی کے لئے مومن کی کوشش اس کی موت تک ختم نہیں ہوتی بلکہ دین کی ترقی کے لئے کوشش کسی قوم کی موت تک بھی ختم نہیں ہوتی کیونکہ گو قوم مر جائے گی جس نے دین اور اصلاح عالم کے لئے جد و جہد چھوڑ دی لیکن اس کی قبر پر خدا تعالیٰ ایک اور قوم کا درخت اگا دے گا جو نئے سرے سے اور نئے جوش سے اس کام میں لگ جائے گی.یہی اس کی قدیم سے سنت ہے اور یہی سنت دُنیا کے آخر تک رہے گی.“ (مطبوعہ الفضل 9 اپریل 1937 ء ) 427

Page 440

Page 441

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول -...جلد اقتباس از خطبه جمعه فرموده 9 اپریل 1937ء تحریک جدید کے جلسے 9 مئی کی بجائے 30 مئی کو کئے جائیں " خطبہ جمعہ فرموده 19 اپریل 1937 ء.اس وقت میں کوئی لمبا خطبہ تو نہیں دے سکتا صرف اختصار کے ساتھ ایک تو یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ تحریک جدید کے جلسوں کے لئے میں نے جو 9 مئی 1937ء کی تاریخ مقرر کی تھی اب اسے بدلنا چاہتا ہوں کیونکہ اس تاریخ کی بیرونی جماعتوں کو وقت پر اطلاع نہیں ہو سکتی اور وہ اچھی طرح جلسہ کی تیاری نہیں کر سکتیں نیز میں خود بھی چند دن تک سفر پر جانے والا ہوں اور شاید میں بھی اس تاریخ تک واپس قادیان نہ پہنچ سکوں اس لئے اب میں 30 مئی تحریک جدید کے جلسوں کی تاریخ مقرر کرتا ہوں اس دن اتوار ہوگا اور چھٹی کی وجہ سے سب دوست جلسوں میں حصہ لیں سکیں گے.میں اُمید کرتا ہوں کہ اُس وقت تک تمام جماعتوں کو اطلاع ہو جائے گی اور اتنا وقت بھی مل جائے گا کہ وہ جلسوں کی تیاری کر سکیں.دفتر تحریک جدید کو چاہئے کہ جس وقت میرا یہ خطبہ اخبار میں چھپے فوراً ایک ایک پر چہ تمام بیرونی جماعتوں کو بذریعہ ہوائی ڈاک ارسال کر دے تا اُن کو بھی کافی وقت جلسہ کی تیاری کے لئے مل جائے.“ (مطبوعہ الفضل 13 اپریل 1937 ء ) 429

Page 442

Page 443

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 16 اپریل 1937ء دعائیں کرو کیونکہ کام بہت بڑا اور مشکلات بہت زیادہ ہیں خطبہ جمعہ فرمودہ 16 اپریل 1937ء میں نے گزشتہ جمعہ اور اس سے پہلے جمعہ میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ وہ تحریک جدید کے مطالبات کو پورا کرنے کی کوشش کریں اور اس کے علاوہ اکتوبر تک ہر مہینہ میں دو دو روزے بھی رکھیں.یہاں تک کہ گزشتہ دو سالوں کے برابر ہمارے چودہ روزے ہو جائیں.ایک ہر مہینہ کے پہلے پیر کو اور دوسرا ہر مہینہ کی آخری جمعرات کو اور یہ کہ اگر کسی شخص سے اس پیر یا جمعرات کا روزہ رہ جائے تو وہ اس مہینہ کے کسی دوسرے پیر یا کسی دوسری جمعرات کو روزہ رکھ لے اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو کسی اور دن کے روزہ سے ان روزوں کو پورا کرنے کی کوشش کرے.اس کے علاوہ میں نے یہ بات بھی کہی تھی کہ مئی کے آخری ہفتہ کے اتوار کو ہر جماعت اپنے اپنے مقام پر جلسے منعقد کرے اور ان جلسوں میں تحریک جدید کے مطالبات کی طرف جماعت کے دوستوں کو توجہ دلائی جائے.بظا ہر عقل مند کہلانے والے لوگوں کی نگاہ میں ان مطالبات میں سے میرا ایک مطالبہ شاید بالکل بے معنی اور تو ہم پرستی کا اظہار سمجھا جائے کیونکہ اس مادیت کے زمانہ میں دعا کرنا اور پھر دعا سے کسی نتیجہ کی امید رکھنا نہایت بے وقوفی اور حماقت خیال کیا جاتا ہے اور بہت سے لوگ جو دعاؤں کے قائل ہیں اور دعائیں کرتے ہیں وہ بھی در حقیقت دعا کو ایک تمسخر سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں دیتے اور ان میں سے ننانوے فیصدی بلکہ ہزار میں سے 999 ایسے ہی ہوتے ہیں کہ ان کی دعائیں ایک تو ہم ، ایک تخیل ، ایک تمسخر، ایک تگ بندی اور اندھیرے میں تیر چلانے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے.“ " میں دیکھتا ہوں یہی حال اس وقت ہماری جماعت کے افراد کا ہے جب دشمن کا حملہ تھوڑی دیر کے لئے ہٹ جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں اب ہم بچ گئے.میں پوچھتا ہوں تم کیوں سمجھتے ہو کہ ہم بیچ گئے، کیا احرار سے ہمارا فیصلہ ہو گیا ہے یا کیا گورنمنٹ سے ہمارا تصفیہ ہو گیا ہے؟ اگر دشمن اس وقت خاموش ہو گیا ہے تو اس کی خاموشی کے یہ معنی کس طرح ہو گئے کہ ہماری لڑائی ختم ہوگئی ہے؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ وہ 431

Page 444

اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 16 اپریل 1937ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد اول انتظار کر رہا ہو کہ تم سو جاؤ اور مطمئن ہو جاؤ تو پھر وہ تم پر حملہ کرے؟ پس جب تک ہماری گورنمنٹ سے با قاعدہ صلح نہیں ہوتی یا جب تک احرار سے ہمارا ایسا تصفیہ نہیں ہو جاتا جس کے بعد احرار کے لئے ہمارے مقابلہ میں سر اٹھانا ناممکن ہو جائے اس وقت تک اگر ہماری جماعت میں سے ایک آدمی بھی خاموش ہو کر بیٹھ رہتا ہے تو اس کے معنی سوائے اس کے کچھ نہیں کہ وہ احمق اور بے وقوف ہے.یاد رکھو! مومن کے دل پر جو زخم لگتے ہیں وہ بھی مندمل نہیں ہوتے اور اس وقت تک ہرے رہتے ہیں جب تک دوسرے زخموں کے لگنے کا احتمال باقی رہتا ہے.حضرت نوح کی لائی ہوئی تعلیم دنیا سے کیوں مٹ گئی ؟ اسی لئے کہ ان زخموں کی یاد تازہ رکھنے والے لوگ مٹ گئے، حضرت موسٹی کی لائی ہوئی تعلیم دنیا سے کیوں مٹ گئی ؟ اسی لئے کہ موسی کو جو زخم لگے ان کی یاد تازہ رکھنے والے لوگ دنیا میں نہ رہے.تم کیوں کہتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں اور آپ کی لائی ہوئی تعلیم مٹ نہیں سکتی ؟ اسی لئے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسے لوگ ہمیشہ آتے رہیں گے جو ان زخموں کو کریدتے رہیں گے.اگر اس امت میں بھی زخم کریدنے والے نہ آتے آپ کی لائی ہوئی تعلیم بھی مٹ جاتی کیونکہ تعلیم بھی کتابوں کے ذریعہ قائم نہیں رہتی بلکہ ماننے والوں کے ذریعہ قائم رہتی ہے.پس جب کہ خدا تعالیٰ نے اپنی مصلحتوں کے ماتحت ہمارے ہاتھوں اور ہمارے پاؤں کو باندھ رکھا ہے اور ہماری زبانوں کو اس نے بند کیا ہوا ہے.جب ایک طرف وہ یہ کہتا ہے کہ جاؤ اور حکومت وقت کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو اور دوسری طرف یہ حکم دیتا ہے کہ گالیاں سنو اور چپ رہو سوائے خاص حالات کے جن میں وہ دفاع کی اجازت دیتا ہے مگر اس صورت میں بھی اعتداء سے بچنے کی نصیحت کرتا ہے.تو ان حالات میں ہمارے لئے سوائے اس کے اور کیا صورت رہ جاتی ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے حضور دعا کریں اور اس سے کہیں اے ہمارے ہاتھوں کو روکنے والے! اور اے ہماری زبانوں کو بند کرنے والے خدا! تو آپ ہماری طرف سے اپنے ہاتھ اور اپنی زبان چلا.پھر کون کہہ سکتا ہے کہ اس کے ہاتھوں سے زیادہ طاقت ور ہاتھ بھی دنیا میں کوئی ہے اور اس کی زبان سے زیادہ مؤثر زبان بھی کوئی ہو سکتی ہے.تم نے خدا تعالیٰ کی قدرت کے کئی نظارے پچھلے دو سالوں میں دیکھے.اب تیسرا سال جارہا ہے.اگر تم اس سال سے پہلے دو سالوں سے بھی زیادہ خدا تعالیٰ کی قدرت کے شاندار نظارے دیکھنا چاہتے ہو تو گزشتہ سالوں کے چالیس دنوں کے مقابلہ میں اس سال سات ماہ تک مسلسل دعائیں کرو اور خصوصیت سے یہ دعا انگتے رہو کہ 432

Page 445

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اوّل اقتباس از خطبه جمعه فرموده 16 اپریل 1937ء اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِی نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ یعنی اے خدا ہم دشمنوں کی گردنوں پر تیرے ہی ہتھیار چلانا چاہتے ہیں اور ان کے شرور اور فتن سے تیری ہی حفاظت چاہتے ہیں.نخو اس گڑھے کو کہتے ہیں جو اس جگہ پر واقع ہے جہاں گردن اور سینہ باہم ملتے ہیں.یہیں سے بڑی رگیں سر کی طرف جاتی اور دل سے دماغ کو خون پہنچاتی ہیں.سو سر اور کوخون نَجْعَلُكَ فِي نُحُورِهِمْ کے یہ معنی ہیں کہ اے خدا ان کا کلی طور پر استیصال کر دے اور شرارت اس طرح نہ مٹا کہ وہ بار بار زندہ ہوتی رہے بلکہ اس طرح مٹا کہ وہ کبھی ظاہر نہ ہو سکے.پھر احرار کے علاوہ ہمارے اندر بعض منافق بھی پائے جاتے ہیں جن کا وجود ہمارے لئے سخت مضر ہے.گزشتہ دنوں گورنمنٹ کے بعض حکام کی طرف سے ہم پر جو مظالم ہوئے ہیں ان کی وجہ سے منافقوں نے بھی گردنیں اٹھالی ہیں.منافق ایک حد تک ہی چل سکتا ہے زیادہ نہیں چل سکتا.پھر وہ ڈرپوک اور بزدل ہوتا ہے.اس کے سارے کام مخفی ہوتے ہیں اور بسا اوقات ایسی صورت ہوتی ہے کہ شریعت اجازت نہیں دیتی کہ اسے ننگا کیا جائے.پس اس کے شر سے بچنے کا ذریعہ بھی دعاؤں کے سوا اور کوئی نہیں.پھر علاوہ ان واقعات کے جو سارے سامنے ہیں ان عظیم الشان مقاصد کے لئے جن کو سر انجام دینے کے لئے سلسلہ احمدیہ قائم کیا گیا ہے اگر ہم خاص وقتوں میں دعائیں کریں تو یہ دعا ئیں ضرورت سے زیادہ نہیں بلکہ کم ہی رہیں گی.دنیا کا فتح کرنا کوئی آسان کام نہیں.چاروں طرف لوگ ہمارے مخالف ہیں اور ہر جگہ ایسی روکیں پیدا کی جارہی ہیں جن کو دور کرنا انسانی طاقت سے بالا ہے اور جن مشکلات اور روکوں کو دور کرنے کیلئے خدا تعالیٰ کی نصرت کے سوا اور کوئی ہمارے کام نہیں آسکتا.پس آؤ کہ ہم خدا تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ان کاموں کے پورا کرنے میں ہماری امداد فرمائے جن کیلئے سلسلہ احمد یہ دنیا میں قائم ہوا ہے اور لوگوں کے قلوب کی اصلاح کرے بلکہ لوگوں کے قلوب کی اصلاح کا کیا ذ کر ابھی ہمارے اپنے نفس ہی بہت بڑی اصلاح کے محتاج ہیں.پس خدا اپنے فضل سے ہمارے دلوں کی بھی اصلاح فرمائے.ہمیں اپنے نفس پر غالب آنے کی توفیق دے اور ہمیں وہ طاقتیں عطا فرمائے جن سے اس کے دین کا جلال ظاہر ہو اور اس کا قرب اور وصال ہمیں میسر ہو.غرض مت خیال کرو کہ یہ ایک رسمی بات ہے جو میں تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں.یہ ایک نہایت ہی اہم مطالبہ ہے.جس کو پورا کرنا جماعت کے ہر فرد کا فرض ہے.چاہئے کہ جماعتوں کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری اپنی اپنی جماعت کو یہ مطالبہ یاد دلاتے رہیں اور روزوں کے متعلق بھی یاد دہانی کراتے رہیں کیونکہ جو چیز 433

Page 446

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 16 اپریل 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول بار بار سامنے آتی رہے اس کی طرف دل متوجہ ہو جاتے ہیں اور کئی کمزور بھی جو پہلے حصہ لینے کیلئے تیار نہیں ہوتے حصہ لینے لگ جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی نکتہ کی طرف راہبری کرتے ہوئے فرماتا ہے:- فَذَكَّرُ انُ نَفَعَتِ الذِّكْرُى (الاعلى: 10) کہ تو لوگوں کو نصیحت کرتا چلا جا کیونکہ نصیحت بہت دفعہ فائدہ دے جایا کرتی ہے.پس میں کہتا ہوں کہ ان دنوں کو خاموشی سے مت گزار و بلکہ روزے رکھو اور دعائیں کرو اور لوگوں سے کہو کہ وہ روزے رکھیں اور دعائیں کریں.جماعتوں کے پریذیڈنٹوں کو چاہئے کہ وہ مساجد میں بار بار لوگوں کو یاد دلاتے رہیں کہ ان ایام میں ان فتنوں کے دور ہونے کیلئے دعائیں کی جائیں جو اس وقت ہمارے سامنے ہیں ، ان مقاصد کے لئے دعائیں کی جائیں جو سلسلہ احمدیہ کے قیام سے تعلق رکھتے ہوں اور ان کمزوریوں کے لئے دعائیں کی جائیں جو خواہ ہم میں پائی جاتی ہیں یا دنیا کے اور افراد میں.تا اللہ تعالیٰ کے فضل ایسے رنگ میں نازل ہوں کہ وہ مصائب کے پہاڑ جودشمنوں کی طرف سے ہمارے راستہ میں گرائے گئے ہیں پاش پاش ہو جا ئیں اور ہمیں کامیابی ، ترقی ، نیکی اور تقویٰ کے سامان زیادہ سے زیادہ عطا ہوں.پس دعا کے متعلق تمہاری کوشش اور ہمت دوسری کوششوں اور ہمتوں سے کم نہیں بلکہ زیادہ ہوئی چاہئے کیونکہ یہ مطالبہ بھی دوسرے مطالبات سے کم نہیں بلکہ زیادہ اہمیت رکھتا ہے.پس روزوں کو یا درکھو اور دوسروں کو یاد دلاتے رہو اور دعاؤں کو یا درکھو اور دوسروں کو دعاؤں کے لئے کہتے رہو کیونکہ کام بہت بڑا ہے اور مشکلات بہت زیادہ ہیں.ہم کمزور اور بے بس ہیں.ہماری کمزوریاں ہم پر عیاں ہیں بلکہ ہم خود بھی اپنی کمزوریوں سے اتنے واقف نہیں جتنا ہمارا خدا.پس ہم اسی سے مدد طلب کرتے اور اسی کی نصرت اور تائید اپنے ہر کام میں چاہتے ہیں.( مطبوع الفضل 24 اپریل 1937 ء ) 434

Page 447

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اوّل خطبہ جمعہ فرموده 11 جون 1937ء دوست خصوصیت کے ساتھ دعائیں کریں خطبہ جمعہ فرمودہ 11 جون 1937ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں تحریک جدید کے گزشتہ جلسہ کے موقع پر بوجہ بیماری شامل نہ ہو سکا تھا اور گواب بھی اس بیماری کے اثر کے ماتحت میں اس قابل نہیں ہوں کہ زیادہ بول سکوں.بلکہ اس بیماری کے بعد اب تک یہ حالت ہے کہ اگر مجھے کھڑا ہونا پڑے تو سر میں ایسا شدید چکر آتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ شاید گر جاؤں گا.س لئے صحت کے لحاظ سے زیادہ کھڑا ہونے کی طاقت اب بھی نہیں رکھتا.مگر چونکہ اس وقت میں حصہ نہ لے سکا تھا اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اس کے بجائے آج اختصار کے ساتھ کوئی بات کہہ دوں تا اس ثواب میں شریک ہوسکوں اور وہ بات جو میں کہنی چاہتا ہوں، انہی روزوں اور دعاؤں کے متعلق ہے جن کی تحریک کوئی دو ماہ ہوئے ، میں نے کی تھی.تحریک جدید کا انیسواں مطالبہ یہ ہے کہ دوست خصوصیت کے ساتھ دعائیں کریں اور اس کے لئے میں نے یہ طریق اختیار کر رکھا ہے کہ ہر سال کچھ روزے رکھے جائیں اور دعائیں کی جائیں اور یہ روزے جہاں تک ممکن ہو مقررہ دنوں میں ہی رکھے جائیں سوائے اس کے کہ کوئی شخص بیمار ہو یا کوئی اور وجہ پیش آ جائے.اس میری تجویز کے مطابق سات ماہ میں چودہ روزے مخلصین جماعت رکھیں گے اور رکھ رہے ہیں میں نے نصیحت کی تھی اور اب پھر اسے دہراتا ہوں کہ ان دنوں میں دوست خصوصیت کے ساتھ دعائیں کریں کہ اللہ تعالٰی ان بعض فتن کو جو خواہ احرار کی طرف سے ہوں یا بعض حکام کی طرف سے، اپنے فضل سے دور کرے.اس کے علاوہ ایک زائد بات جو میں کہنی چاہتا ہوں.یہ ہے کہ دوست دعا کریں، اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو منافقین کا رنگ رکھتے ہیں یا تو ہدایت دے دے یا ان کو الگ کر دے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہماری عاجزانہ دعائیں قبول ہو رہی ہیں اور اب ایسے لوگ یا تو ظاہر ہو جائیں گے اور یا تو بہ کرلیں گے.ہماری ذاتی خواہش تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو توبہ کی توفیق دے اور ہدایت نصیب کرے، لیکن اگر مشیت الہی یہی ہو کہ جہاں بیرونی فتنوں میں جماعت کی آزمائش ہوئی ہے اندرونی فتنوں میں بھی 435

Page 448

خطبہ جمعہ فرمودہ 11 جون 1937ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول ان کی آزمائش کرے اور منافقوں کو بھی زور لگانے کا موقع دے.تو جو اس کی مرضی اور مشیت ہے ہم بھی اسی پر رضامند ہیں.پس دوست خصوصیت کے ساتھ دعائیں کریں اور جن کیلئے ممکن ہو روزے رکھیں اور کوشش کریں کہ سوائے بیماری کے یا کسی اور وجہ کے انہی ایام میں رکھیں تا دعائیں کثیر تعداد میں ہوں اور اکٹھی آسمان کو جائیں.یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ کا سلسلہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک آخری جنگ ہے جو اسلام کو دنیا میں دوبارہ قائم کرنے کیلئے لڑی جارہی ہے.افترا کی جتنی صورتیں انسانی ذہن میں آسکتی ہیں.فریب اور دعا کے جتنے طریق انسانی دماغ ایجاد کر سکتا ہے اور گمراہ کرنے اور ورغلانے کیلئے شیطان جتنی تدابیر اختیار کر سکتا ہے وہ سب احمدیت کے خلاف کی گئیں اور اختیار کی جارہی ہیں مگر باوجود اس کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس سلسلہ کی حفاظت کا وعدہ ہے جو پورا ہو کر رہے گا.نہ دشمنوں کی طاقت اس وعدہ کے پورا ہونے میں روک ہوسکتی ہے اور نہ ہمارے ضعف یا کمزوری سے اس کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے.جب اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کی ترقی کے وعدے کئے تو یہ جانتے ہوئے کئے تھے کہ جماعت کتنی کمزور ہے اور اس علم کے ساتھ کئے تھے کہ ہمارے دشمن کتنے طاقتور ہیں.وہ عالم الغیب خدا جانتا ہے کہ اس جماعت پر کتنے حملے ہونے والے ہیں اور کہ وہ ان کے دفاع کی کس قدر طاقت رکھتی ہے.مگر اس نے باوجود یہ جاننے کے کہ جماعت میں کتنی طاقت ہے اور یہ کہ دشمن اسے نقصان پہنچانے کیلئے ہر وہ طریق اختیار کرے گا جو پہلے انبیاء کے سلسلوں کے مقابل پر اختیار کئے گئے اس کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے جو پورا ہو کر رہے گا اور خدا کی نصرت تمام تاریکیوں کو پھاڑ کر اس کا نور ہزار ہا بادلوں کو چیرتا ہوا ظا ہر ہو گا.دشمن کی تخویف ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکے گی اور اس کے تمام مکر و فریب ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے.یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے جو پورا ہو کر رہے گا.یہ کلام اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود پر نازل کیا.پھر ہزاروں احمدیوں اور غیر احمد یوں پر اس کی تصدیق کے لئے اسی کا کلام نازل ہوا.ہم اگر دعا کرتے ہیں تو اس لئے نہیں کہ ہمیں خدا کی نصرت پر شبہ ہے، بلکہ اس لئے کہ خدا تعالیٰ کی نصرت جلد آئے.تا اس میں ہمارا بھی ہاتھ ہو اور اللہ تعالیٰ اس میں شامل ہونے کا موقعہ ہمیں بھی عطا کر دے.ہماری یہ دعا ئیں اس خوف سے نہیں کہ دشمن ہمیں نقصان پہنچائے گا اور شبہ سے نہیں کہ سلسلہ کی ترقی کس طرح ہوگی بلکہ اس یقین کے ساتھ ہیں کہ ترقی ضرور ہوگی.پس آؤ ہم سب مل کر وہ سب سے بڑا حربہ اور سب سے زبر دست ہتھیار جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے، استعمال کریں اور اپنی کمزوریوں کو اس 436

Page 449

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرمود ه 11 جون 1937ء کے حضور پیش کر کے اس کے فضلوں کو ڈھونڈیں تا وہ ہمارے دشمنوں کو زیر کر دے اور سلسلہ کا مؤید و ناصر ہو اور ہر اس کمزوری کو جو جماعت میں پائی جاتی ہے دور کرے اور منافقین کو یا تو ہدایت دے اور یا انہیں ظاہر کر دے تا سلسلہ کی ترقی کے رستہ سے ہر قسم کی روکیں دور ہوں.اسی طرح بیرونی دشمنوں کیلئے ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی ہدایت نصیب کرے اور ان کی گالیوں کو دعاؤں میں بدل دے اور اگر ان کے اعمال کو دیکھتے ہوئے وہ ان کی تباہی کا ہی فیصلہ کر چکا ہے تو پھر ہماری دعا یہ ہے کہ وہ ہمارے ہاتھوں سے تباہ ہوں اور ہماری زندگیوں میں ہوں تا ہم اس کے ثواب میں حصہ دار ہو سکیں.“ ( مطبوع افضل 19 جون 1937 ء ) 437

Page 450

Page 451

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطاب فرموده 17 جون 1937ء دنیا کی تمام زبانیں سیکھو اور اسلام کے لئے ہر قربانی کوعین راحت سمجھو خطاب فرمودہ 17 جون 1937ء مولوی ناصرالدین عبد اللہ صاحب کے اعزاز میں دی گئی دعوت کے موقع پر بورڈنگ تحریک جدید میں احمدی نوجوانوں اور بچوں سے خطاب سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ابھی مولوی عبد اللہ صاحب نے آپ کے سامنے اپنے واقعات بیان کئے ہیں اور بتایا ہے کہ کس طرح اسلام کی خدمت کے ارادہ سے انہوں نے اپنے وطن کو چھوڑا، اپنے عزیز واقارب کو چھوڑا اور ساڑھے سات سال تک وطن سے باہر رہ کر سنسکرت اور ویدوں کی تعلیم حاصل کی.یہ عرصہ گو اپنی ذات میں لمبا نہیں، دنیا میں اس سے بہت زیادہ لمبے عرصہ تک باہر رہنے والے لوگ بھی ہوتے ہیں، لیکن جس صحت کی حالت میں انہوں نے یہ کام کیا اور جن مشکلات میں انہوں نے یہ کام کیا اور جس مالی تنگی میں انہوں نے یہ کام کیا اس کو مدنظر رکھتے ہوئے میں کہہ سکتا ہوں کہ انہوں نے اپنے ہم عصروں اور اپنے ہم جولیوں کیلئے ایک نہایت ہی عمدہ مثال قائم کی ہے.اگر ہمارے دوسرے نو جوان بھی اس بات کو مدنظر رکھیں کہ آرام طلبی اور باتیں بنانے سے کچھ نہیں بنتا بلکہ کام کرنے سے ہی حقیقی عزت حاصل ہوتی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں مختلف زبانوں کے ماہر نہایت سہولت کے ساتھ مہیا ہو سکتے ہیں.ہماری جماعت حضرت مسیح موعود کی جماعت ہے جو مثیل مسیح ہیں اور مسیح ناصری کے متعلق انجیلوں میں آتا ہے کہ ان کا بڑا معجزہ یہ تھا کہ ان کے پیراؤں اور حواریوں کو مختلف زبانیں بولنی آگئی تھیں.انجیل میں اس معجزہ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ایک جلسہ میں حضرت مسیح کے چند حواری بیٹھے آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ اچانک وہ مختلف زبانوں کے فقرات بولنے لگ گئے اور ایک دوسرے سے مختلف زبانوں میں باتیں کرنے لگے.لیکن مختلف زبانوں کو جان لینا کوئی بڑی بات نہیں اور نہ اس سے کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے جب تک کہ انہیں تبلیغ کیلئے استعمال نہ کیا جائے.ان لوگوں نے اس پیشگوئی کا مطلب بھی یہی سمجھا.چنانچہ وہ عیسائیت کی اشاعت کیلئے نکل کھڑے ہوئے اور مسیح کی تعلیم کو دور دراز تک پہنچانے کے 439

Page 452

خطاب فرموده 17 جون 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول لئے انہوں نے مختلف زبانیں سیکھیں.پس یہی وہ معجزہ ہے جس کی پہلوں کو ضرورت تھی اور یہی وہ معجزہ ہے جس کی ہم کو ضرورت ہے.ہمیں ضرورت ہے کہ ہمارے نو جوان مختلف ملکوں میں نکل جائیں اور وہاں جا کر مختلف زبانیں سیکھیں.ہم دیکھتے ہیں کہ صرف ہندوستان ہی میں کئی سو مختلف زبانیں ہیں اور اگر تمام ملکوں کی زبانوں کو شمار کیا جائے تو ان کی تعداد کئی ہزار تک پہنچ جاتی ہے.جب تک یہ تمام زبانیں ہمارے نو جوان نہیں سیکھ لیتے اس وقت تک تمام ملکوں میں تبلیغ نہیں کی جاسکتی.میرا مقصد تحریک جدید سے ایک یہ بھی ہے کہ ہمارے نوجوان دنیا کی تمام زبانیں سیکھیں تا کہ ہر ملک میں اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کی جا سکے.گو اس وقت بھی یہ مقصد ایک حد تک پورا ہو رہا ہے مثلاً چین میں ہمارے آدمی ہیں جو چینی زبان سیکھ رہے ہیں، جاپان میں ہمارے مبلغ جاپانی زبان سیکھ رہے ہیں، جاوا میں ہمارے مبلغ وہاں کی زبان سیکھ رہے ہیں.اسی طرح سٹریٹ سیٹلمنٹ ، ہنگری، اٹلی ، سپین، امریکہ کے ایک حصہ، ارجنٹائن اور افریقہ کے بعض حصوں میں ہمارے آدمی موجود ہیں جو ان ملکوں کی زبانیں سیکھ رہے ہیں، لیکن ابھی ہمارا بہت سا کام باقی ہے اور بیسیوں ملک ابھی رہتے ہیں.اس وقت تک ہم نے جو کچھ کیا ہے وہ سمندر کے مقابلہ میں ایک چلو کے برابر ہے اور ابھی بہت سے ملک ایسے موجود ہیں جن میں ہماری تبلیغ نہیں ہورہی.اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے مبلغ ان ممالک کی زبا نہیں نہیں جانتے اور ہمارے پاس اتنے آدمی بھی نہیں کہ ان ملکوں میں چلے جائیں اور وہاں جا کر زبانیں سیکھیں اور تبلیغ کریں.پس میں جماعت کے نو جوانوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جو جوش اور ولولہ مولوی عبد اللہ صاحب نے سنسکرت کی تعلیم کے حصول کے لئے دکھایا ہے اسے وہ بھی اپنے اندر پیدا کر یں.پھر میں یہ دعا بھی کرتا ہوں کہ مولوی عبداللہ صاحب نے نہایت کمزور صحت کی حالت میں جو تعلیم حاصل کی ہے وہ دوسروں کے لئے بھی مفید ہو اورصدقہ جاریہ کا کام دے، کیونکہ کسی کام کا ثواب اسی صورت میں ہوتا ہے کہ دوسروں کو بھی اس سے مستفیض کیا جائے.خالی کسی علم کا سیکھنا کچھ فائدہ نہیں دیتا.وہ شخص بڑا ہی خوش قسمت ہے جو دوسروں کو اس قابل بنائے کہ وہ اور وں کیلئے مفید ثابت ہوسکیں.پس مولوی صاحب کو چاہئے کہ وہ اپنا علم دوسرں کو سکھانے کیلئے بھی ویسی ہی محنت اور جانفشانی سے کام لیں جو انہوں نے اس علم کو سیکھنے میں دکھائی ہے.یہ نہایت ہی خوشی کی بات ہوگی اگر وہ اپنی زندگی میں اس علم کو دوسروں تک پہنچادیں.اس کے بعد ان بچوں اور نوجوانوں کو مخاطب کرتا ہوں جن کی طرف سے آج یہ مہمان نوازی کی گئی ہے.مہمان نوازی سے مراد پانی اور شربت وغیرہ نہیں.ہمارے مہمان نواز وہ بچے ہیں جو اس وقت 440

Page 453

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطاب فرموده 17 جون 1937ء یہاں موجود ہیں اور مہمان نوازی سے مراد یہ ہے کہ ہم ان کے مکان میں آکر ٹھہرے ہیں یعنی میرے مخاطب بورڈ نگ تحریک جدید کے زیر انتظام تعلیم حاصل کرنے والے بچے ہیں جو اپنے والدین کو چھوڑ کر یہاں آئے ہوئے ہیں.کچھ دن ہوئے بورڈ نگ تحریک جدید کے چند چھوٹے بچے میرے پاس آئے.میں نے ان سے پوچھا یہ تو بتاؤ تمہارے بورڈ نگ تحریک جدید میں داخل ہونے کا کیا مقصد ہے.انہوں نے کہا یہاں آنے سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم دین سیکھیں.میں نے کہا یہ تو تم اپنے گھروں میں بھی سیکھ سکتے تھے.اس پر انہوں نے کہا یہاں رہ کر تعلیم حاصل کرنے سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ دین کی تعلیم حاصل کریں.میں نے کہا یہ تمہارے ماں باپ بھی تمہیں سکھا سکتے تھے.غرض میں نے کئی ایک سوال ان سے کئے.بالآخر انہوں نے کہا آپ ہی بتائیے کہ ہمارے یہاں آنے کا مقصد کیا ہے.میں نے انہیں کہا کہ آپ اس کے متعلق اپنے دوسرے ساتھیوں اور سپرنٹنڈنٹوں سے پوچھ کر بتا ئیں.کچھ دنوں کے بعد جب وہ دوبارہ مجھ سے ملے تو انہوں نے کہا کہ ہمارے سپرنٹنڈنٹ صاحب کہتے ہیں کہ ہمارے یہاں آنے کا مقصد مساوات پیدا کرنا ہے.چونکہ امیر اور غریب لڑکے سب مل کر ایک رنگ میں یہاں رہتے ہیں اس لئے جو مساوات یہاں پیدا ہو سکتی ہے وہ گھر میں رہنے سے نہیں ہو سکتی.میں نے کہا گو یہ بھی درست ہے لیکن مساوات تبھی قائم ہو سکتی ہے جب تمہاری ہر بات مساوی ہو، لیکن ابھی تمہارے کھانے میں اختلاف ہے.کپڑوں میں اختلاف ہے.بعض بچے ہر روز دودھ پیتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جنہیں بہت کم دودھ میسر آتا ہے.غرض اختلافات ابھی موجود ہیں اور امتیاز کی دیوار ابھی تک نہیں مٹ سکی.میں یہ ضرور کہوں گا کہ جو جواب انہیں سکھایا گیا وہ معقول ہے کیونکہ مساوات جو وہ یہاں رہ کر حاصل کر سکتے ہیں گھروں میں رہ کر انہیں حاصل نہیں ہو سکتی، مگر اس کے علاوہ بھی اور چیزیں ہیں جو بورڈ نگ تحریک جدید کے قیام کی اغراض میں داخل ہیں.میں چاہتا تھا کہ سپرنٹنڈنٹ اور ٹیوٹروں کو توجہ دلاؤں کہ آخر وہ کونسی چیز ہے جو بچوں کو گھر پر میسر نہیں آسکتی اور جس کے حصول کیلئے انہیں یہاں لایا گیا ہے اور وہ کونسی تعلیم ہے جس کا حاصل کرنا وہاں آسان نہیں لیکن میں اس موقع پر تو بیان نہیں کر سکتا کیونکہ وقت تھوڑا ہے، اس کے متعلق کبھی پھر یہاں آکر بیان کروں گا.اس وقت میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سلسلہ کے نو جوانوں کو بورڈنگ تحریک جدید میں اس لئے داخل کیا گیا ہے کہ وہ اسلام کے بچے خادم بنیں اور سلسلہ کی تعلیم ان کے اندر گھر کر جائے.وہ اسلامی تعلیم کا زندہ نمونہ ہوں تا کہ جہاں جہاں وہ جائیں لوگ ان سے متاثر ہوں اور ان 441

Page 454

خطاب فرمودہ 17 جون 1937 ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول کے اسوہ کی تقلید اپنے لئے فخر سمجھیں مگر یاد رکھو منہ کی باتوں سے کچھ نہیں بنتا.ہم نے دیکھا ہے کہ جماعت کے لوگوں میں سے بھی بعض نے اور دوسروں میں سے بھی بہتوں نے بڑے بڑے زبانی دعوے کئے.میری عمر اس وقت سینتالیس سال کی ہوگی.میں نے اپنی عمر میں بہت لوگوں کو باتیں کرتے ہوئے دیکھا ہے.وہ دعوے کرتے کہ بہت قربانیاں کریں گے.ان کا دعویٰ تھا کہ وہ خدا کے راستہ میں اپنی جانیں دے دیں گے لیکن جب ان کے دعوی کو عملی رنگ میں دیکھنے کا وقت آیا تو وہ تقویٰ میں بھی کچے ثابت ہوئے اور قربانی کے موقع پر بھی کچے ثابت ہوئے.پس ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت نہیں بلکہ ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو اپنی زندگیوں کو ملی طور پر اسلام کے سانچے میں ڈھال لیں اور اسلام میں غرق ہو جائیں.ان کی قربانیاں کسی شرط کے ساتھ مشروط نہ ہوں.کیونکہ ایمان وہ شے ہے جس میں کوئی حد بندی نہیں ہوسکتی.ایک دفعہ حضرت عمر نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یارسول اللہ مجھے آپ سے بہت محبت ہے.اتنی محبت جتنی مجھے اپنی جان سے ہو سکتی ہے.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.عمر تم ابھی ایمان میں کامل نہیں ہوئے اور تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک تم مجھ سے اپنی جان سے بھی زیادہ محبت نہیں کرتے.حضرت عمرؓ کے دل میں ایمان تھا.وہ اسی وقت بول پڑے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیارے ہیں.یہی وہ ایمان ہے جو حقیقی ایمان کہلا سکتا ہے.شرطوں والا ایمان کوئی ایمان نہیں اور نہ وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک قبول ہوتا ہے.پس میں بچوں سے کہتا ہوں کہ ان کی یہاں آنے کی غرض یہ ہے کہ ان کے اندر ایمان کی محبت جاگزین ہو جائے.وہ اسلام کیلئے ہر قربانی کرنے کو عین راحت اور ہر تکلیف کو آرام سمجھیں، کیونکہ ہم نے ہر ایک قربانی کر کے اسلام کو پھیلانا ہے.پس کوئی قربانی ایسی نہ ہو جو تمہاری نظروں میں بیچ نہ ہو اور کوئی کام نہ ہو جو تمہیں بڑا نظر آئے.تمہیں صرف ایک چیز کی دھن ہو اور وہ یہ کہ قرآن کریم کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانا ہے.اس راستے میں تمہارے لئے کوئی مشکل مشکل نہ رہے اور کوئی مصیبت مصیبت نہ رہے.تم تمام تکالیف اور تمام مشکلات پر حقارت سے مسکرا دو، کیونکہ مومن کی نظر ان تمام چیزوں سے بالا تر ہوتی ہے.تمہارے دعوے محض زبان تک محدود نہ ہوں بلکہ تمہارے دلوں میں اسلام کی محبت جاگزین ہو.تمہارے لئے کوئی تکلیف تکلیف نہ رہے اور تمام آگیں تمہارے لئے ٹھنڈی ہو جائیں.حضرت مسیح موعود کو ایک دفعہ نہایت سنگین مقدمہ میں مبتلا کیا گیا.یہ مقدمہ مشہور مارٹن کلارک عیسائی پادری کی طرف سے 442

Page 455

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول خطاب فرمودہ 17 جون 1937ء 66 قتل کا تھا.حضرت مسیح موعود کی عادت تھی کہ اس قسم کے واقعات میں بچوں کو بھی دعا کے لئے فرما دیا کرتے تھے.مجھ سے بھی کہا کہ دعا کرو.میں نے دعا کی اور انہی ایام میں ایک رؤیا دیکھا.ہمارے گھر میں ایک تہہ خانہ تھا جس کی تنگ سی سیڑھیاں تھیں.میں نے رویا میں دیکھا کہ میں باہر سے آرہا ہوں.جب میں گھر کے پاس آیا تو میں نے دیکھا کہ ہمارے گھر کے سامنے چند پولیس والے کھڑے ہیں اور مجھے اندر جانے سے روکتے ہیں.میں نے باہر سے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود اندر بیٹھے ہیں اور پولیس کے آدمی آپ کے اردگرد اوپلوں کا ڈھیر لگا رہے ہیں اور وہ ڈھیر اس قدر اونچا ہو گیا کہ حضور اس کے پیچھے اوجھل ہو گئے ہیں.پھر وہ اس ڈھیر کو دیا سلائی سے آگ لگانا چاہتے ہیں لیکن میں چاہتا ہوں کہ آگ کو بجھاؤں.ایک سپاہی نے دیا سلائی جلائی مگر وہ نہ جلی.اس نے پھر جلائی لیکن پھر بھی نہ جلی.پھر جلائی پھر بھی نہیں جلی.غرض وہ یہ کوشش کر رہے ہیں کہ آگ لگا ئیں اور میں اس کوشش میں ہوں کہ بجھاؤں.اس کے بعد یکدم میری نظر ایک فقرہ پر پڑی جو یہ تھا ” خدا کے پیاروں کو کون جلا سکتا ہے.مجھے اب یہ یاد نہیں رہا کہ پیاروں تھا یا ماموروں.بہر حال ان میں سے ایک لفظ تھا.جو نہی یہ فقرہ میں نے پڑھا اسی وقت حضرت مسیح موعود با ہر نکل آئے اور میری آنکھ کھل گئی.پس مومن مصیبتوں سے ڈرا نہیں کرتے اور نہ مصیبتیں ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں.خدا تعالیٰ جب مومن کو ابتلا میں ڈالتا ہے اور وہ اسے بخوشی جھیلنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کا صلہ اس جہان میں یا اگلے جہان میں ضرور دیتا ہے لیکن وہ جو جھوٹا ہوتا ہے اور جس کے دل میں ایمان نہیں ہوتا وہ نہ اس جہان میں کامیاب ہوتا ہے اور نہ اگلے جہان میں اسے کوئی صلہ ملتا ہے.یہ ضروری نہیں کہ قربانیوں کا صلہ اس جہان میں ملے.پس جو شخص سمجھتا ہے کہ اس نے فلاں فلاں قربانیاں کی ہیں مگر اسے اس جہان میں اس کا صلہ نہیں ملا.وہ حقیقی ایمان سے محروم ہے وہ قربانیاں کرتا ہے لیکن وہ دن جس کی شام کو اس کے لئے جنت کے دروازے کھلنے والے ہوتے ہیں اپنے اوپر بند کر لیتا ہے.کس قدر بد بخت ہے وہ انسان کہ جب اس کی محنتوں کے پھل لانے کا وقت آتا ہے تو وہ اپنے ہاتھوں سے اسے ضائع کر دیتا ہے.خدا کی راہ میں ہمیشہ وہی شخص کامیاب ہوتا ہے جو ہر قسم کے ڈر اور خوف سے بالا ہواور جو یہ فیصلہ کرے کہ خواہ اسے اس دنیا میں صلہ ملے یا نہ ملے اور خواہ وہ دکھ سہتے سہتے مرجائے.وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں تکالیف برداشت سے مونہہ نہیں موڑے گا.کتنا نادان ہے وہ شخص جو یہ سمجھتا ہے کہ اسی دنیا میں اسے بدلہ ملنا چاہئے.اگر یک شخص یہاں تمام عمر تکالیف اٹھاتا ہے لیکن آخرت میں اسے نہایت عمدہ صدیل جاتا ہے تو یہاں کی تکلیف س صلہ کے مقابلہ میں کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی اور وہ شخص گھاٹا پانے والا نہیں.پس اپنے اندر استقلال کی 443

Page 456

خطاب فرمودہ 17 جون 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول روح پیدا کرو کیونکہ استقلال کے بغیر صلہ سے بے پروائی ممکن نہیں.اگر اس دنیا میں بدلہ کا ملنا ضروری ہوتا تو کیا تم سمجھتے ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چا حضرت حمزہ جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو انتہائی محبت تھی اور جنہوں نے جوانی کی عمر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے بڑی بڑی قربانیاں کیں اور اسی عمر میں شہید ہو گئے صلہ سے محروم رہے جو کہ اسلام کی محبت میں اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ ایک دفعہ جب ایک مجلس میں ایک دشمن اسلام نے ان کے چہرے پر تھپڑ مارا جس سے انکی ایک آنکھ نکل گئی اور ایک شخص نے ان سے کہا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم میری حفاظت میں آجاؤ مگر تم نے نہ مانا اور اپنی آنکھ ضائع کرالی.اس پر انہوں نے کہا کہ اگر اسلام کی راہ میں میری دوسری آنکھ بھی ضائع ہو جائے تو مجھے کوئی پروا نہیں.انہوں نے اسلام کی فتح کا ایک دن بھی نہیں دیکھا تھا.لیکن کیاتم یہ سمجھتے ہو کہ وہ خدا کے فضل سے محروم رہے اور انہیں کوئی صلہ نہ ملا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں کے وارث ہوئے.پس یہ مت خیال کرو کہ اس دنیا کی کامیابیاں حقیقی کامیابیاں ہیں.مومن کا کام یہ نہیں کہ وہ اس دنیا کے صلہ کی طرف نگاہ رکھے.اس کا کام صرف یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ رکھتا ہوا کام کرتا چلا جائے.پس جاؤ اور اس یقین سے کام کرو کہ خدا تعالیٰ تمہیں تمہارے کاموں کا صلہ ضرور دے گا.اس دنیا کی کامیابیوں کی طرف نگاہ مت کرو اگر تم پچاس سال تک کوشش کرتے رہو اور نا کام رہو یہاں تک کہ مرجاؤ تو مت سمجھو کہ تم ناکام رہے.خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اگلے جہان میں اس کا صلہ دے گا.ہمارا خدا رحیم و کریم خدا ہے.اس پر بدظنی مت کرو بلکہ ہمیشہ اس پر یقین رکھو کہ وہ بدلہ کے دن ضرور بدلہ دے گا.پس خدا پر شک لائے بغیر قربانی کرو.بالکل ممکن ہے کہ تمہاری قربانیوں کا اس جہان میں صلہ نہ ملے لیکن خدا تعالیٰ کے وعدہ پر شبہ نہ کرو.تمہاری قربانیاں محض خدا تعالیٰ کے لئے ہوں اور تم خدا تعالیٰ سے سودا کرنے والے مت بنو.جب تمہاری ہر چیز اسی کی دی ہوئی ہے تو اس سے زیادہ بے حیائی اور کیا ہوگی کہ تم اسے کہو کہ آاور ہمارے ساتھ سودا کر ، جو شخص ایسا کرے گا خدا تعالیٰ اس کو دھتکار دے گا، کیونکہ وہ شخص خدا تعالیٰ کے دروازے سے را نداہ جاتا ہے جو اس قسم کا شبہ کرتا ہے اور اس سے سودا کرنا چاہتا ہے لیکن جو شخص ایسا نہیں کرتا وہ یا تو اس دنیا میں بھی بدلہ پالیتا ہے یا پھر آخرت میں یقیناً پالیتا ہے اگر وہ اس دنیا میں بدلہ نہیں پاتا تو آخرت میں اسے مل جاتا ہے.پس تمہیں چاہئے کہ سچے مومن بن جاؤ تا کہ تمہاری زندگی اسلام کے کام آنے والی ہو اور خود تمہارے لئے بھی بابرکت ثابت ہو.“ ( مطبوع الفضل 23 جون 1937ء ) 444

Page 457

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرمود و 18 جون 1937ء تحریک جدید کے چندوں کے متعلق ایک اعتراض کا جواب خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جون 1937ء ایک شخص نے حضور کے پاس شکایت کی تھی اسکے متعلق حضور فرماتے ہیں: ".اب جو باتیں اس نے لکھی ہیں انکے متعلق تحقیق تو میں بعد میں کروں گا.لیکن ان میں سے ایک بات ایسی ہے.جس کے متعلق میں آج ہ کچھ کہنا چاہتا ہوں.کیونکہ ممکن ہے، وہ بات کسی اور کے کان میں بھی ڈالی گئی ہو وہ یہ ہے کہ کسی کہنے والے نے کہا ہے کہ خلیفہ اسیح نے جوتحریک جدید جاری کی ہے یہ اپنے لیے روپیہ جمع کرنے کے لیے جاری کی ہے اور انہوں نے اس ذریعہ سے جماعت سے بہت سا رو پیدا کٹھا کر لیا ہے.مجھ پر خلافت سے پہلے بھی کئی قسم کے اعتراضات ہوتے چلے آئے ہیں اور اب بھی کئی لوگ اعتراض کرتے ہیں اور بہت سے اعتراض ایسے ہوتے ہیں جو معترض پوشیدہ طور پر کرتا ہے اور سمجھتا ہے، کہ شایدان پر پردہ پڑا ر ہے مگر مالی معاملات میں شروع سے میں نے ایسی احتیاط رکھی ہوئی ہے کہ شدید سے شدید دشمن کے سامنے بھی اعتراضات کو غلط ثابت کیا جاسکتا ہے.مثلاً بعض لوگ مجھ کو ہدیہ کے طور پر رقم بھجواتے ہیں ایسی رقوم کے متعلق بھی میں نے یہ اصل مقرر کیا ہوا ہے کہ وہ پہلے محاسب کے دفتر میں درج ہو کر پھر میرے کام آتی ہیں، تا کہ اگر کوئی اعتراض کرے تو دفتر کے رجسٹر کھول کر اس کے سامنے رکھدئے جائیں کہ دیکھو کتنا رو پید آیا اسی طرح تحریک جدید کے تمام اموال صدر انجمن احمدیہ کے رجسٹرات میں درج ہوتے اور خزانہ میں داخل ہو کر بلوں کے ذریعہ نکلتے ہیں.غرض تحریک جدید کے تمام روپیہ کے متعلق انتظام یہی ہے کہ جو تم بھی تحریک جدید کی خرچ ہو وہ پہلے صدر انجمن احمدیہ کی طرف منتقل ہو اور اس کی وساطت سے خرچ ہو اور اس سب کا تفصیلی حساب رکھا جاتا ہے.صرف ایک مد خاص ایسی ہے جس کے اخراجات مخفی ہوتے ہیں ،مگر میں اسکے متعلق بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ ان مخفی اخراجات کی مد میں سے جو بعض دفعہ خبر رسانیوں اور ایسی ہی اور ضروریات پر جو ہر شخص کو بتائی نہیں جاسکتیں خرچ ہوتی ہے.تین سال کے عرصہ میں صرف چار ہزار کے قریب رو پیدا ایسا ہے 445

Page 458

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جون 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول جو میرے توسط سے خرچ ہوا.اس مد کا باقی تمام روپیہ دفتر کی وساطت سے خرچ ہوا ہے.لیکن اس کے مقابلہ میں تین سال کے عرصہ میں چھ ہزار ایک سوستانوے روپیہ چندہ تحریک جدید میں میں نے اور میری بیویوں اور بچوں نے دیا ہے اور اس تین سال کے عرصہ میں آٹھ ہزار کے قریب وہ چندہ ہے جو صدر انجمن احمدیہ کو دیا گیا یا جس کا وعدہ ہے.اب تم اس اعتراض کی معقولیت کو خود سمجھ لو کہ میں نے تحریک جدید اس لئے جاری کی کہ چار ہزار روپیہ لوں اور چودہ ہزار اپنے پاس سے دیدوں.بھلا چار ہزار روپیہ کمانے کے لئے مجھے اتنی بڑی تحریک کی کیا ضرورت تھی.تحریک جدید کے رجسٹرات کھلے ہیں.وہاں سے ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ چار ہزار کے لگ بھگ رقم میرے توسط سے خرچ ہوئی ہے.یہ نہیں کہ اس چار ہزار کا حساب نہیں.حساب اس کا بھی ہے مگر وہ مخفی ہے.اگر کوئی ایسا شخص ہو جسے آگے بات بیان کرنے کی عادت نہ ہوتو یہ حساب بھی اس شخص کو بتایا جا سکتا ہے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ یہ چار ہزار روپیہ میں نے اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کیا تو جب یہ دیکھا جائے کہ اس عرصہ میں صرف تحریک جدید میں میں نے چونتیس سو چورانوے روپے چندہ دیا ہے.پہلے سال سات سو میں دیا تھا.دوسرے سال ایک ہزار چونتیس روپیہ اور اس دفعہ سترہ سو ساٹھ روپیہ دیا.گویا چونتیس سو چورانوے خالص میرا ذاتی چندہ ہے جو میں نے تحریک جدید میں دیا.بیویوں، بچوں کا چندہ ستائیس سو روپیہ کے قریب اس سے الگ ہے.یہ کل رقم چندہ کی میری اور میرے بیوی بچوں کی چھ ہزار ایک سو ستاون بنتی ہے.اسکے مقابل پر چار ہزار کے قریب کی رقم میرے توسط سے خرچ ہوئی ہے اور گو حساب اسکا موجود ہے مگر عام حساب سے مخفی نہیں لیکن کیا میرے چندہ کو دیکھ کر اور مجھ پر جو اعتراض کیا گیا ہے اسے دیکھ کر کوئی بھی شخص کہہ سکتا ہے کہ تحریک جدید کے نام پر میں نے اپنے لیے روپیہ بٹورنے کی کوشش کی.اس اعتراض کو درست تسلیم کر لینے کا مطلب تو یہ ہوا کہ میں نے چار ہزار کمانے کے لیے چھ ہزار ایک سو ستاون روپیہ خرچ کیا.پھر میں ان لوگوں کو جنہوں نے یہ اعتراض کیا کہتا ہوں کہ ہمارے سارے خاندان کا صرف تحریک جدید کا چندہ اس عرصہ کا ہیں ہزار سات سو پچانوے روپیہ بنتا ہے.اب اگر یہ درست ہے کہ ہم نے اس چندہ سے چار ہزار روپیہ چرالیا تو ایسی چوری یہ معترض خود کیوں نہیں کرتے.اس چوری میں میں انکی مدد کرنے کے لئے تیار ہوں.وہ اکیس اکیس ہزار کی رقم دیئے جائیں اور چار چار ہزار کی تھیلیاں نکال کر ہم باہر رکھ دیں گے.وہ انہیں چرا کر لیتے جائیں اور خوب مزے اڑائیں.پھر تین سال میں چار ہزار روپیہ لینے کے معنے یہ بنتے ہیں کہ میں نے قریب سوا سوروپیہ ماہوار اس تحریک سے لیا مگر کیا تم مجھتے ہو تم نے 446

Page 459

تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرمود : 18 جون 1937ء ایک ایسے شخص کے ہاتھ پر بیعت کی ہے جو سوا سوروپیہ ماہوار کھانے کیلئے ساری جماعت میں ایک شور پیدا کر دیتا ہے.پس ایسا اعتراض کرنا اسکی ذلت نہیں تمہاری اپنی ذلت ہے کہ تم نے ایک ایسے شخص کو اپنا امام چنا جس نے (نعوذ باللہ ) سوا سوروپیہ ماہوار کھانے کیلئے اتنا بڑا ہنگامہ برپا کر دیا.پھر رجسٹرات موجود ہیں وہ جا کر دیکھو تمھیں معلوم ہوگا کہ سوا سور و پیہ ماہوار سے زیادہ تو میں نے چندہ ہی دیا ہے.اب اگر اسی کا نام لوٹ ہے تو یہ لوٹ تم بھی شروع کر دو ہمیں منظور ہے.تم بھی چار چار ہزار روپیہ لوٹ کر لیتے جاؤ اور اکیس اکیس ہزار روپیہ دیتے جاؤ اگر معترض اسی طرح کرنے لگیں تو ہمیں فی ایسی چوری میں سترہ سترہ ہزار کا نفع ہوگا اور اگر ایک ہزار آدمی ہمیں ایسا مل جائے تو کئی لاکھ روپے سالانہ کی بچت ہو جائے.میں نے جیسا کہ بتایا ہے اس الزام کی تحقیق تو بعد میں کروں گا.ممکن ہے یوں ہی دوسرے پر اتہام لگا دیا گیا ہو اور اس نے یہ بات نہ کہی ہو لیکن چونکہ ممکن ہے کہ کسی شخص کے دل میں ایسا خیال موجود ہو اور اس نے کسی سے اسکا ذکر کیا ہو اسلئے ایسے لوگوں کے پراپیگنڈا کو رد کرنے کیلئے میں نے بتایا ہے کہ تحریک جدید کا تمام رو پی صدر انجمن احمدیہ کے خزانہ میں جاتا اور اسی کی معرفت خرچ ہوتا ہے اور وہ رقم جو خفیہ اخراجات کیلئے رکھی گئی ہے وہ البتہ میرے ذریعہ سے خرچ ہوتی ہے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے وہ ساری رقم تین سال میں چار ہزار کے لگ بھگ بنتی ہے حالانکہ تین سال میرا چندہ قریب ساڑھے تین ہزار اور میرے بیوی بچوں کا ملا کر چھ ہزار ایک سو ستاون کے قریب ہے اور اگر اپنے بھائیوں، بہنوں اور دوسرے رشتہ داروں کا چندہ ملا لیا جائے تو ہم نے ان تین سالوں میں اکیس ہزار کے قریب چندہ دیا ہے اور میرے ذمہ جور د پیہ آتا ہے وہ چار ہزار ہے.اب تم خود ہی اس اعتراض کی معقولیت سوچ لو کہ میں نے ی تحریک جدید اس لئے جاری کی کہ میں نے چاہا ہم اکیس ہزار دیکر سلسلہ کا چار ہزار روپیہ لوٹ لیں گے اگر کہو کہ بیوی بچوں کا چندہ اس میں کیوں ملاتے ہو انہوں نے اپنے اخلاص سے الگ دیا تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ بہر حال میں نے بھی تو ساڑھے تین ہزار چندہ دیا ہے.اب اگر میں نے چار ہزار روپیہ کھا لیا ہے اور جو کچھ کام ہوا ہے وہ سب معترضین کی توجہ سے ہوا ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ چار ہزار میں نے کھایا اور ساڑھے تین ہزار دیا یعنی تین سال میں میں نے پورے پانچ سوروپے زائد وصول کئے جو سالانہ ایک سو چھیاسٹھ روپے ہوتے ہیں اور ماہوار کے حساب سے پونے چودہ روپے ماہوار بنتے ہیں گویا تحریک جدید کے متعلق میں نے جس قدر خطبات پڑھے، جتنی تقریریں کیں، جتنی سکیمیں سوچیں، جتنا شور اور ہنگامہ برپا کیا وہ محض اس لئے تھا کہ کسی طرح میں پونے چودہ روپے ماہوار سلسلہ کے کھا جاؤں حالانکہ اگر میں خطبے 447

Page 460

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 جون 1937ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد اول اور تقریریں نہ کرتا اور صرف ایک کتاب لکھ دیتا تب بھی اس سے دوگنی بلکہ چوگنی رقم ماہوار کما سکتا تھا مگر میں نے تو یہ بھی کبھی نہیں کیا اور کتابیں لکھ کر سلسلہ کو دے دیتا ہوں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میں کماتا ہوں اور خدا نے مجھے عقل اور فہم دیا ہے.ابھی پچھلے سال میں نے تحریک جدید کا گیارہ ہزار روپیہ ایک نفع مند کام پر لگایا اور سات مہینوں میں دو ہزار روپیہ نفع کا ان کو دلایا جو سال بھر میں تین ہزار بن جاتا ہے اور تئیں فیصدی کے قریب نفع بنتا ہے.جب ایک شخص ان کو اس قدر کما کر دے سکتا ہے تو وہ خود بھی روپیہ کما سکتا ہے اور میں نے جیسا کہ بتایا ہے کماتا ہوں مگر اعتراض جو کیا گیا اس میں معقولیت کا شائبہ تک نہیں اور اس کا مطلب سوائے اسکے کچھ نہیں بنتا کہ میں نے پونے چودہ روپے ماہانہ کیلئے یہ تمام پاکھنڈ مچایا.غرض ان لوگوں کو جو اس قسم کے اخلاقی حملے کرتے ہیں میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ شاید وہ اس قسم کے اعتراضات سے کسی نا واقف کو دھوکا دے لیں مگر مالی معاملات کے متعلق میں جو بھی کام کرتا ہوں رجسٹروں کے ذریعہ کرتا ہوں.اس لئے جب بھی کوئی شخص حملہ کرے.اسے وہ رجسٹرات دکھائے جاسکتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ میرا ہی دینا نکلے گا.میرے ذمہ کسی کا کچھ نہیں نکلے گا.پس اس قسم کے حملہ کرنے والوں کو یا درکھنا چاہئے کہ جب ان کے اعتراضات کی حقیقت لوگوں پر کھل گئی ان کیلئے سخت ذلت و رسوائی ہوگی.باقی میں کبھی لوگوں کے پاس مانگنے نہیں گیا اور گوسلسلہ کی ترقی اموال پر موقوف نہیں.پھر بھی چندہ تحریک جدید کا مالی نظام نہایت محفوظ ہے.میں نے جب بھی کوئی تحریک کی ہے مرضی کی کی ہے.اگر کسی کا جی چاہتا ہے تو میری تحریکات میں شامل ہو اور اگر نہیں چاہتا تو نہ ہولیکن اگر کوئی روپیہ دیتا اور پھر اعتراض کرتا ہے تو میں اس شخص سے کہوں گا کہ تجھے کس نے کہا تھا کہ تو روپیہ دے میں تو اس سے روپیہ مانگتا ہوں جو اگر مجھے دس کروڑ روپیہ بھی دے تو وہ یہ مجھ کر دے کہ یہ روپیہ اسکے اپنے پاس اتنا محفوظ نہیں جتنا میرے پاس محفوظ ہے.میں تو کچھ عرصہ سے امانت بھی اپنے پاس نہیں رکھتا.صدرا مجمن احمد یہ کے خزانے میں رکھواتا ہوں.اسی طرح جس قدر چندے آتے ہیں صدر انجمن کے پاس جاتے ہیں.تحریک جدید کا روپیہ بھی اسی کے خزانہ میں ہے اور اسی کے ذریعہ خرچ ہوتا ہے مگر معلوم ہوتا ہے بعض لوگوں نے یہ سمجھا ہوا ہے کہ تحریک جدید کا روپیہ صدر انجمن میں نہیں جاتا کہیں الگ چھپا کر رکھ لیا جاتا ہے حالانکہ تحریک جدید کی تمام رقم پہلے صدر انجمن احمدیہ کے خزانہ میں جاتی اور پھر بلوں کے ذریعہ دفتروں میں جاتی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مد خاص کے اخراجات عام لوگوں سے پوشیدہ رکھے جاتے ہیں لیکن اس مد میں جو میرے ذریعہ سے خرچ ہوا وہ تین سال میں صرف چار ہزار روپیہ کی رقم ہے اس کے مقابل پر اکیس ہزار کی رقم ہمارا خاندان دے 448

Page 461

تحریک جدید- ایک ابھی تحریک...جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 جون 1937ء چکا ہے.مجھے افسوس ہے کہ ان معترضوں کی وجہ سے مجھے ان حقائق کو ظاہر کرنا پڑا اورنہ مجھے تو دینی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے.میں آخر میں ان لوگوں کو جو یہ اعتراض کرتے ہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ ان کا مجھ پر اس قسم کے حملے کرنا کوئی معمولی بات نہیں.وہ مجھ پر نہیں بلکہ اللہ تعالی پر حملے کر رہے ہیں.مجھے اللہ تعالی نے خلیفہ بنایا ہے اور اسی نے اپنی تائید اور نصرت کو ہمیشہ میرے شامل حال رکھا ہے اور سوائے ایک نابینا اور مادر زاد اندھے کے اور کوئی نہیں جو اس بات سے انکار کر سکے کہ خدا نے ہمیشہ آسمان سے میری مدد کیلئے اپنے فرشتے نازل کئے.پس تم اب بھی اعتراض کر کے دیکھ لو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ ان اعتراضات کا کیا نتیجہ نکلتا ہے.اس قسم کے اعتراضات حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی کئے گئے تھے.چنانچہ ایک دفعہ جب کسی نے ایسا ہی اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا تم پر حرام ہے کہ آئندہ سلسلہ کے لئے ایک جیہ بھی بھیجو.پھر دیکھو خدا کے سلسلے کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے.میں بھی ان لوگوں کو اسی طریق پر کہتا ہوں کہ تم پر حرام ہے کہ آئندہ ایک پیسہ بھی سلسلہ کی مدد کیلئے دو اور گو میری عادت نہیں کہ میں سخت الفاظ استعمال کروں مگر میں کہتا ہوں اگر تم میں ذرہ بھی شرافت باقی ہو تو اس کے بعد ایک دمری تک سلسلہ کو نہ دو اور پھر دیکھو کہ سلسلہ کا کام چلتا ہے یا نہیں چلتا.اللہ تعالیٰ غیب سے میری نصرت کا سامان پیدا فرمائے گا اور غیب سے ایسے لوگوں کو الہام کرے گا جو مخلص ہوں گے اور جو سلسلہ کیلئے اپنے اموال قربان کرنا اپنے کا لیے باعث فخر سمجھیں گے.کیا تمھیں معلوم نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے اسی مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ مقبرہ میں دفن ہونے کے بارہ میں میرے اہل وعیال کی نسبت خدا تعالی نے استثنار کھا ہے اور وہ وصیت کے بغیر بہشتی مقبرہ میں داخل ہوں گے اور جو شخص اس پر اعتراض کریگا وہ منافق ہو گا اگر ہم لوگوں کا روپیہ کھانے والے ہوتے تو اللہ تعالیٰ ہمارے لئے ایک امتیازی نشان کیوں قائم فرما تا اور بغیر وصیت کے ہمیں مقبرہ بہشتی میں داخل ہونے کی کیوں اجازت دیتا پس جو ہم پر حملہ کرتا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ کرتا ہے وہ خدا پر حملہ کرتا ہے.مجھے خوب یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ باغ میں گئے اور فرمایا مجھے یہاں چاندی کی بنی ہوئی قبریں دکھلائی گئی ہیں اور ایک فرشتہ مجھے کہتا ہے کہ یہ تیری اور تیرے اہل وعیال کی قبریں ہیں اور اسی وجہ سے وہ قطعہ آپ کے خاندان کیلئے مخصوص کیا گیا.گو یہ خواب اس طرح چھپی ہوئی نہیں لیکن مجھے یاد ہے کہ آپ نے اسی طرح ذکر فرمایا.پس خدا نے ہماری قبریں بھی چاندی کی کر کے دکھا دیں اور لوگوں کو بتا دیا کہ تم تو کہتے ہو یہ اپنی زندگی میں لوگوں کا روپیہ کھاتے ہیں اور ہم تو ان کے مرنے کے بعد بھی لوگوں کو ان کے ذریعہ سے فیض پہنچائیں گے.449

Page 462

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جون 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول پس اللہ تعالٰی ہماری مٹی کو بھی چاندی بنا رہا ہے اور تم اعتراضات سے اپنی چاندی کو بھی مٹی بنارہے ہو چونکہ منافق عام طور پر پوشیدہ باتیں کرنے کا عادی ہوتا ہے اس لئے میں نے کھلے طور پر ان باتوں پر روشنی ڈال دی ہے ورنہ مجھے اس بات سے سخت شرم آتی ہے کہ میں خدا تعالیٰ کیلئے کچھ چندہ دوں اور پھر کہتا پھروں کہ میں نے اتنا چندہ دیا مگر چونکہ یہ ایک سوال اٹھایا گیا تھا اس لئے مجھے مجبور بتانا پڑا کہ اگر اپنے تمام خاندان کا چندہ ملا لیا جائے تو اس رقم کے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ میں نے کھالی پانچ گنا زیادہ رقم ہم چندہ میں دے چکے ہیں اور جور تم صرف میرے اہل وعیال کی طرف سے خزانہ میں داخل ہوئی ہے وہ بھی اس سے زیادہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ کوئی عقلمند یہ تسلیم نہیں کرے گا کہ ہم نے پانچ گنے زیادہ رقم اس لیے خرچ کی تا اس کا پانچواں حصہ کسی طرح کھا جائیں.پس ان لوگوں کو جو اعتراض کرتے ہیں خدا تعالیٰ کا خوف کرنا چاہئے اور اس وقت سے پیشتر اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہئے جبکہ ان کا ایمان اڑ جائے اور وہ دہریہ اور مرتد ہو کر مریں.“ (مطبوعہ الفضل 2 جولائی 1937 ء ) 450

Page 463

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 24 ستمبر 1937ء ہمیں صداقت کا اعلیٰ ترین معیار قائم کرنا چاہئے خطبہ جمعہ فرمودہ 24 ستمبر 1937ء میرے ان خطبات کو نکال کر دیکھ لو جو تحریک جدید کی سکیم کو بیان کرتے ہوئے میں نے دیئے تھے.میں نے ان میں بتایا تھا کہ یہ ابتلا چھوٹے اور معمولی ہیں ان کے بعد بڑے ابتلا آئیں گے.دیکھو اس وقت کسے اس مصری، پیغامی، احراری، فتنہ کی خبر تھی مگر اسی طرح ہوا جس طرح میں نے کہا تھا اب پھر میں یہی کہتا ہوں کہ یہ فتنے معمولی ہیں ان سے بھی بڑے ابھی آنے والے ہیں اور جب تک وہ نہ آئیں قوم بن ہی نہیں سکتی.جب تک ایسی دلیری ہمارے اندر پیدا نہ ہو جائے کہ اپنی جان دینا اور اپنے مال اور وطن کو قربان کر دینا ہمارے لیے آسان ہو جائے اس وقت تک یہ دور برابر آتے رہیں گے.اب تو یہ حالت ہے کہ معمولی چوٹ پر بھی ہم میں سے بعض رونے لگتے ہیں.یاد رکھو کہ جب تک زندگی اور موت ، غنا اور فقر جنگی و آسائش ہمارے لئے یکساں نہ ہوں.جب تک ہمارے دن بھی راتیں اور راتیں بھی دن نہ ہو جائیں اس وقت تک ہم اس آخری لڑائی کیلئے تیار نہیں ہو سکتے جو اسلام اور شیطان کے مابین مقدر ہے اور ابھی تو ہم نفس کی لڑائی سے بھی فارغ نہیں ہوئے.تحریک جدید کے شروع میں ہی میں نے نصیحت کی تھی کہ ہمیں صداقت کا اعلیٰ ترین معیار قائم کرنا چاہئے مگر تم اپنے دلوں میں سوچو کہ کیا تم سچ بولتے ہو اور ہمیشہ سچ بولتے ہو.جب تک جماعت کی اکثریت ایسی نہ ہو جو سچ بولے اور ہر حالت میں سچ بولے اس وقت تک ہم اس جنگ میں کامیاب نہیں ہو سکتے.ہمیں اللہ تعالیٰ نے سچائی دیکر کھڑا کیا ہے قرآن کریم کا نام بھی حق ہے اور اصل جہاد وہی ہے جو قرآن کریم کو لیکر کیا جائے جیسا کہ فرمایا وَجَاهِدُهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا (الفرقان: 53) اور اصل جہاد اسی کا ہے جو قران کریم ہاتھ میں لیکر لڑتا ہے.بدروحنین کی لڑائیاں معمولی تھیں.اصل لڑائی وہی تھی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی تلوار سے کی اور قرآن کریم نام ہے سچائی کا جب تک تم اپنے نفسوں میں، اپنے بیوی بچوں میں، 451

Page 464

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 ستمبر 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول اپنے بیٹوں اور بیٹیوں میں، اپنے بھائیوں اور بہنوں میں، اپنے محلہ والوں میں اور اپنے ہمسائیوں میں، اپنے شاگردوں میں اور اپنے اپنے حلقہ کی جماعتوں میں سچائی کو قائم نہیں کر لیتے اس وقت تک تم اس لڑائی کیلئے تیار نہیں ہو سکتے اور جب بھی مقابلہ ہو گا تم شکست کھاؤ گے گو یہ علیحدہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت اسے ظاہر نہ ہونے دے.میں نے دیکھا ہے ذراسی بات ہو تو بعض نادان کہنے لگ جاتے ہیں کہ آجکل سچ سے گزاراہ نہیں ہوتا جھوٹ بول دو اور اتنا بھی نہیں سوچتے کہ یہ تلقین کرتے ہوئے وہ نہ صرف اس شخص کو ہی بلکہ جماعت کو بھی ساتھ ہی قتل کر رہے ہیں وہ شکایت کرتے ہیں کہ احراری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دیتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ وہ تو گالیاں دیتے ہیں مگر ی لوگ آپ کی تعلیم میں رخنہ ڈال کر آپ کے قتل کے مرتکب ہورہے ہیں جو شخص اس چیز کومٹاتا ہے جسے قائم کرنے کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے وہ آپ کو قتل نہیں کرتا تو کیا کرتا ہے حالانکہ وہ اپنے آپ کو سچائی پر قائم بتا تا ہے اور احمدیت کی فوج میں شامل ہونے کا دعویٰ کرتا ہے غیر تو اس واسطے آپ پر حملہ کرتا ہے کہ وہ آپ کو جھوٹا سمجھتا ہے لیکن یہ دوستی کا دم بھرتا ہوا آپ کے کام کو تباہ کرتا ہے اس نے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ میں ہاتھ دیا تھا کہ آپ کی لائی ہوئی صداقتوں کو دنیا میں قائم کرنے میں مدد دے گا لیکن جب پہلا ہی موقع ملایه ای دیوار کو گرانے کے لئے کھڑا ہو گیا جو آپ نے تعمیر کی تھی.پس اچھی طرح یا درکھو کہ احمدیت کی فتح سچائی سے ہوگی.جب تک تم سچائی پر اس طرح قائم نہ ہو جاؤ کہ کسی بات کے متعلق محض اس وجہ سے کہ وہ ایک احمدی نے کہی ہے قسم کھا سکو کہ سچ ہے اس وقت تک تمھاری فتح نہیں ہو سکتی.یہ کافی نہیں کہ جب میں جگاؤں تم ہوشیار ہو جاؤ اور کچھ عرصہ بعد پھر سو جاؤ.اس طرح تو ایک افیونی بھی کر لیتا ہے.وہ بھی کسی نہ کسی وقت ہوشیار ہو جاتا ہے.تمہیں چاہئے کہ کسی کے جگانے کی ضرورت ہی نہ رہے.میں نے بتایا تھا کہ ہمیں عقائد کے میدان میں جس طرح فتح حاصل ہو چکی ہے اس طرح اعمال کے میدان میں نہیں ہوئی.ہمارے اعمال کو دیکھ کر لوگ اتنے متاثر نہیں ہوتے جتنا عقائد سے متاثر ہوتے ہیں.وفات مسیح کے دلائل سن کر لوگ کہہ دیتے ہیں اس کا ہمارے پاس جواب نہیں لیکن جب ہم ان کو سچائی کی طرف بلاتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ اس پر تم بھی پوری طرح قائم نہیں ہو.قرآن کریم کے کامل ہونے کے جب دلائل دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اسکا جواب کوئی نہیں.لیکن جب امانت کا سبق دیتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ اس پر ابھی تم بھی قائم نہیں ہو.عقائد کے میدان میں ہم نے دشمن کو مار دیا ہے مگر جہاں عمل کا سوال ہو ہم میں سے بعض کی کمزوریوں سے وہ فائدہ اٹھاتا ہے.اگر جماعت کے دوست پختہ عہد کر لیں جس طرح زبان دانتوں 452

Page 465

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 24 ستمبر 1937ء میں لیکر انسان تکلیف برداشت کرنے کیلئے آمادہ ہو جاتا ہے کہ آئندہ ہم استقلال پر قائم ہونگے سچائی پر قائم ہوں گے ( در اصل سچائی پر قائم رہنے کا نام ہی استقلال ہے ) تو عمل کے میدان میں بھی ہم اسی طرح غلبہ حاصل کر سکتے ہیں.جس طرح عقائد کے میدان میں کیا ہے صرف عہد کی ضرورت ہے ہمیں صداقت پر اس طرح قائم ہونے کا عہد کرنا چاہئے کہ دشمن بھی محسوس کریں کہ ایک احمدی کے منہ سے نکلی ہوئی بات پر اعتماد کیا جاسکتا ہے.اب بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت میں ایسے نمونے ہیں کہ باہم لڑائی کے موقعہ پر دشمن کہہ دیتا ہے کہ جو بات فلاں احمدی کہے گا ہم مان لیں گے مگر ایسے نمونے کم ہیں.بہتوں کا چال چلن لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہے اور بعض اپنے جھوٹ سے لوگوں کیلئے ابتلا کا موجب بن رہے ہیں یا ابتلا کا موجب بنے کیلئے وہ تیار رہتے ہیں گو ابھی تک ان کا گند ظاہر نہ ہوا ہو.دین کے لئے قربانیوں میں میں دیکھتا ہوں کہ بہت سستی ہے.کچھ عرصہ ہوا میں نے جماعت کے ساتھ نمازوں کی پابندی کی ہدایت کی تھی باہر کا تو مجھے علم نہیں لیکن قادیان میں اس خطبہ کا دو چار ماہ تک اچھا اثر رہامگر بعد میں پھر زائل ہو گیا حالانکہ نماز تو ایسی ضروری چیز ہے کہ اگر خلافت بھی باقی نہ رہے تب بھی اسکی پابندی لازمی ہے.آدمی جنگل میں ہو تب بھی اسے نہیں چھوڑا جاسکتا اور سمندر میں ہو تب بھی نہیں یہ منتقل ہدایت ہے جسے کسی جگہ بھی چھوڑنے کی اجازت نہیں.پھر میں نے سچائی کی ہدایت کی تھی.اس کا بھی کچھ عرصہ خیال رہا دوستوں نے ایک دوسرے کی نگرانی شروع کی.ایک دوسرے کو سنبھالنے لگے مگر کچھ عرصہ بعد بھول گئے.اسی طرح تحریک جدید کے وعدے ہیں گزشتہ دنوں میں میں نے ”الفضل“ کو ایک مستقل نوٹ لکھ کر دیدیا تھا کہ شائع ہوتار ہے.اسکے نتیجہ میں پندرہ روز تک تو آمد قریب دو گنی ہوگئی لیکن پھر ستی پیدا ہونے لگی حالانکہ تحریک جدید کوئی پہلی دفعہ نہ ہوئی تھی یا اس میں چندوں کے وعدے جبرانہ لئے گئے تھے.دوستوں نے اپنی مرضی سے وعدے کئے تھے.پھر کوئی وجہ نہ تھی کہ ادا کرنے کے لئے میری طرف سے یاددہانیوں کے منتظر رہیں.“ ( مطبوع الفضل یکم اکتوبر 1937 ء ) 453

Page 466

Page 467

زیک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول تحریک...ور اقتباس از خطبه جمعه فرموده یکم اکتوبر 1937ء تمہیں چاہئے کہ تم میں سے ہر شخص کچی قربانی کا نمونہ بنے خطبه جمعه فرمود و یکم اکتوبر 1937ء تمہیں تحریک جدید کا پہلا دور ختم ہو کر اس کا دوسرا دور عنقریب شروع ہونے والا ہے.چاہئے کہ تم میں سے ہر شخص کچی قربانی کا نمونہ بنے اور اس تحریک کے جس قدر مطالبات ہیں ان کو پورا کرے تا اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس تحریک کے دوسرے دور میں شامل ہونے کی سعادت حاصل ہو.یا درکھو وہ لوگ جنہوں نے آج کوتا ہی کی ہوگی جنہوں نے آج اپنی قربانیوں میں کمزوری اور سستی دکھائی ہوگی جنہوں نے آج اپنے وعدوں کو پورا کرنے سے بے تو جہی اور لا پرواہی اختیار کی ہوگی ان کا کل ان کو اس نیکی کے راستہ سے اور زیادہ دور لے جانے والا ہوگا اور اللہ تعالیٰ ہی ان پر رحم کرے تو کرے ورنہ ظاہری حالات کے لحاظ سے انکی ایمانی حالت خطر ناک ہوگی.پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ گوسال کا زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر اب بھی وقت ہے.اب بھی لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے کا موقع ہے اور گودن بہت تھوڑے رہ گئے اور سال اپنے اختتام کو پہنچ گیا مگر پھر بھی وہ دوست جو اپنی اصلاح کرنا چاہیں کر سکتے ہیں.ان کے سامنے تحریک جدید کے تمام مطالبات موجود ہیں انہیں چاہیئے کہ وہ ان تمام مطالبات کو پورا کریں خواہ وہ مطالبات سادہ زندگی کے متعلق ہیں خواہ ایک کھانے کے متعلق ہیں خواہ تبلیغ کے متعلق ہیں خواہ وقف زندگی کے متعلق ہیں خواہ اپنے ہاتھوں سے کام کرنے کے متعلق ہیں خواہ صلح اور آشتی سے رہنے کے متعلق ہیں خواہ قربانی کے متعلق ہیں ان میں سے ہر ایک مطالبہ کو پورا کرو.چونکہ جب میں نے حال ہی میں اعلان کیا ہے اس سال مالی حصہ میں ابھی بہت کمی ہے اسلئے اس حصہ کی طرف خاص توجہ کرنی چاہئے.اسکے علاوہ ان باتوں کو بھی مدنظر رکھو جن کے متعلق میں اس سال کے چند ابتدائی خطبات میں جماعت کو توجہ دلا چکا ہوں.غرض ہر رنگ میں تحریک جدید کے مطالبات کو پورا کرو اور اپنے چھوٹوں اور اپنے بڑوں اور اپنے جوانوں اور اپنے بوڑھوں کے اندر نیکی اور تقویٰ کا وہ رنگ پیدا کرو کہ جس رنگ کو دیکھ کر دنیا یہ کہہ سکے کہ اسے تم میں خدائی جلوہ نظر آ رہا ہے.“ (مطبوعہ الفضل 8 اکتوبر 1937ء ) 455

Page 468

Page 469

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 15 نومبر 1937ء تحریک جدید.قرآن کریم میں موجود ہے خطبہ جمعہ فرمود : 15 نومبر 1937 ء.....دوسرا امر جس کی طرف میں توجہ دلاتا ہوں یہ ہے کہ تحریک جدید کے تین سال اب ختم ہور ہے ہیں.جب میں نے یہ تحریک شروع کی تھی اس وقت جماعت کے لئے ایک نیا صدمہ تھا اور دوستوں کیلئے یہ ایک حیرت انگیز بات تھی کہ گورنمنٹ کے بعض افسر بھی ہمارے خلاف ہو گئے تھے.اس نے ان کی آنکھیں کھول دی تھیں اور انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ ہمارا یہ خیال غلط ہے کہ ہمارے لئے ہی مقدر ہے کہ ہم امن سے اپنا کام کرتے جائیں گے.سرکاری حکام کا یہ سلوک اس قدر آنکھیں کھولنے والا تھا کہ بہت سے سوئے ہوئے بیدار ہو گئے اور لازمی طور پر ہماری بیداری کے ساتھ ہمارے دشمن بھی بیدار ہوئے خواہ وہ حکام میں سے تھے اور خواہ دوسرے مولویوں میں سے انہوں نے باہر سے بھی ہم پر حملے کرنے شروع کئے اور اندرونی طور پر بھی ہم میں سے بعض کو اپنے ساتھ ملانا چاہا Divide and Rule ایک پر انا اصول حکمرانی ہے.رومن حکومت کی بنیاد اس اصول پر تھی یعنی محکوموں میں با ہم تفریق پیدا کرو اور ان پر حکومت کرتے جاؤ اور بعض انگریز سیاستدانوں نے تسلیم کیا ہے کہ ان کی حکومت کی بنیاد بھی اسی اصول پر ہے.چنانچہ اس اصول کے ماتحت ہم میں سے بعض لوگوں کے اندر بھی منافقت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی چنانچہ پنجاب کے جیلوں کے ایک بڑے افسر کے ذریعہ بالواسطہ طور پر مجھے معلوم ہوا یعنی اس نے ایک معزز احمدی افسر کو بتایا ہے کہ احرار کے ایک اہم اور ذمہ دار قیدی نے اسے 35ء میں کہا کہ یہ مت خیال کرو.قادیان کے خلاف ہماری تحریک ناکام ہوئی ہے بلکہ ہم نے ان میں سے ہیں پچھپیں آدمی اپنے ساتھ ملالئے ہیں اور اس طرح جماعت کے اندر تفرقہ پیدا کر چکے ہیں یہ 1935ء کی بات ہے مگر یہ تدبیریں انہوں نے انسانوں کی طاقت کا اندازہ کر کے کی تھیں خدائی طاقتوں کا ان کو علم نہ تھا انسانی طاقتوں کو نقصان پہنچانے کیلئے یہ اصول بے شک صحیح ہے مگر خدائی طاقتوں کیلئے نہیں کیونکہ خدائی طاقتوں کی جڑ خود خدا تعالیٰ ہوتا ہے اور انسان محض فروع ہوتے ہیں اور جب درخت کی جڑ کٹ جائے تو اسے نقصان پہنچتا ہے لیکن شاخیں کاٹنے سے اکثر درخت پھیلتا ہے بلکہ بعض درخت تو ترقی ہی اس طرح کرتے ہیں کہ ان کی شاخیں 457

Page 470

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 15 نومبر 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول کائی جائیں.ہمارے مخالفوں نے سمجھا تھا کہ یہ انسانی کام ہے حالانکہ ایسا نہیں وہ اگر میں چھپیں تو کیا دس لاکھ کو بھی گمراہ کر لیتے تو بھی اس درخت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے کیونکہ اسکی جڑ خدا تعالیٰ ہے.پس پہلی شاخیں کٹتے ہی اس میں سے نئی شاخیں نکل آئیں.کئی درخت ایسے ہوتے ہیں کہ جڑ کے کاٹنے پر بھی دوبارہ پھوٹ آتے ہیں.نیکی کا بیج جو انبیاء کے ذریعہ بویا جاتا ہے وہ بھی اسی قسم کا سخت ہوتا ہے تم اسے کاٹ دیتے ہومگر وہ پھر نکلتا ہے تم اسے زمین کے اندر گھس کر بھی کاٹ دو پھر بھی وہ قائم رہتا ہے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ درخت نہیں اگ سکتا مگر خدا تعالیٰ پھر بھی اس میں سے نیا شگوفہ نکال دیتا ہے تو دشمنوں نے ہم پر حملے کئے اور ہمیں متواتر تین سال تک ان کا مقابلہ کرنا پڑا اور انکے جواب کے لئے اور جماعت کو اس نئے رستہ پر ڈالنے کیلئے میں نے یہ تحریک شروع کی جو اس لحاظ سے تحریک جدید ہے کہ اسے اب شروع کیا گیا ورنہ وہ قرآن کریم میں موجود ہے اس تحریک کے ماتحت ہم نے کئی نئے تجربے کئے ہیں.کئی نئے مشن قائم کئے گئے اور یہ نیا تجربہ تھا.میں نے تحریک کی تھی کہ نوجوان اپنی زندگیاں وقف کریں اور باہر نکل جائیں.یہ بھی نیا تجربہ تھا.دوست اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں.یہ بھی نیا تجربہ تھا.تجارت شروع کی جائے یہ بھی نیا تجربہ تھا.پھر صنعتی اداروں کا اجرا بھی نیا تجربہ تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں ان سب میں کم و بیش کامیابی ہوئی.سینکڑوں نوجوانوں نے اپنی زندگیاں وقف کیں اور بیسیوں باہر نکل گئے.کوئی کہیں چلا گیا اور کوئی کہیں.بعض تین تین سال سے بمبئی اور کراچی میں بیٹھے ہیں وہ کسی بیرونی ملک میں جانے کے ارادہ سے گھروں سے نکلے تھے لیکن چونکہ اب تک کوئی صورت نہیں بن سکی اس لئے ابھی تک اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ان کے والدین چٹھیاں لکھتے ہیں اور مجھ سے بھی سفارشیں کراتے ہیں مگر وہ یہی التجا کرتے ہیں کہ جو ارادہ ایک دفعہ کر لیا اب اسے پورا کرنے کی اجازت دی جائے.بعض ان میں سے اتنی چھوٹی عمر کے ہیں کہ ابھی داڑھی مونچھ تک نہیں نکلی مگر اس راہ میں وہ ٹوکری تک اٹھاتے ہیں.پھر بعض نوجوان بیرونی ممالک میں پہنچ گئے ہیں اور وہاں بھی کئی نئے تجربے ہمیں حاصل ہوئے ہیں.آپ لوگوں کو معلوم ہوگا کہ میں نے کہا تھا کہ ہم نے اپنے لئے مدنی طبع لوگوں کی تلاش کرنی ہے چنانچہ اس سلسلہ میں اب تک مختلف ممالک میں قریباً پندرہ مشن ہمارے قائم ہو چکے ہیں.امریکہ، اٹلی، ہنگری، پولینڈ، یوگوسلوویہ، یہ مشن البانیہ کیلئے ہے.لیکن چونکہ البانوی حکومت نے ہمارے مبلغ کو نکال دیا تھا.وہ وہاں کام کر رہا ہے فلسطین ، جاوا، سٹریٹ سیٹلمنٹ ، جاپان، چین، افریقہ ان میں سے کئی مبلغ ایسے ہیں جو ہمارے خرچ پر گئے ہیں.بعض تجارتوں کے ذریعہ سے اچھے گزارے کر رہے ہیں 458

Page 471

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرمود: 15 نومبر 1937ء اور بہت خوش ہیں.بعض ابھی مشکلات میں ہیں اور مختلف ممالک کے متعلق بھی ہمیں نئے تجربے ہوئے ہیں.مشرقی ممالک میں سوائے جاوا، سماٹرا اور سٹیٹس سیٹلمنٹ کے ہمیں ابھی کامیابی نہیں ہوئی.چین اور جاپان میں ابھی تک بالکل کامیابی نہیں ہوئی بلکہ تازہ اطلاع جو آج ہی بذریعہ تار مجھے ملی ہے یہ ہے کہ جاپانی گورنمنٹ نے صوفی عبد القدیر صاحب کو قید کر لیا ہے اور ضمنا میں ان کے لئے دعا کی تحریک بھی کرتا ہوں.اسکے متعلق ہم اب تحقیقات کرائیں گے کہ ایسا کیوں ہوا ہے لیکن بہر حال چوتھے سال کے ابتداء میں یہ واقعہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک قسم کا اندار ہے کہ سب حالات پر غور کر کے ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ اس قسم کی مشکلات بھی تبلیغ کے رستہ میں حائل ہوں گی.صوفی عبد القدیر صاحب تحریک جدید کے تجارتی صیغہ کے نمائندہ تھے گویا وہ با قاعدہ مبلغ نہیں تھے اور ابھی زبان ہی سیکھ رہے تھے اور اب تو ان کی واپسی کا حکم بھی جاری ہو چکا تھا کیونکہ دوسرے مبلغ یعنی مولوی عبد الغفور صاحب برادر مولوی ابوالعطاء صاحب ہاں جاچکے ہیں تو تجارتی اغراض کے ماتحت جانے والے ایک احمدی کیلئے جب اس قدر مشکلات ہیں تو تبلیغ کیلئے جانے والوں کیلئے کس قدر ہوں گی.جہاں تک معلوم ہو سکا ہے ان پر الزام یہ لگایا گیا ہے کہ وہ جاپانی گورنمنٹ کے مخالف ہیں اور یہ بھی ہمارے لئے ایک نیا تجربہ ہے.انگریز ہمیں کہتے ہیں کہ تم ہمارے خلاف ہو اور دوسری حکومتیں یہ کہتی ہیں کہ تم انگریزوں کے خیر خواہ ہو.بہر حال یہ سب نئے تجربے ہیں جو ہمیں حاصل ہو رہے ہیں اور ان سے پتہ لگ سکتا ہے کہ کس کس قسم کی روکاوٹیں ہمارے رستہ میں پیدا ہونے والی ہیں.پھر ایک نیا تجربہ یہ ہوا ہے کہ امریکن گورنمنٹ نے ہمارے مبلغ محمد ابراھیم ناصر کو اس بناء پر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی کہ وہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کے قائل ہیں تو ہمیں ان مبلغوں کے ذریعہ سے نئی نئی مشکلات کا علم ہوا ہے.انکے علاوہ اور بھی کئی باتیں ہیں جن سے جماعت کے اندر بیداری پیدا ہوئی ہے.سادہ زندگی ہے سینما اور تھیٹروں وغیرہ کی ممانعت ہے.اپنے ہاتھ سے کام کرنے کا حکم ہے.اس سے قوم میں نئی روح پیدا ہوتی ہے اور یہ سب ایسی چیزیں ہیں کہ ان کے بغیر کوئی قوم قوم ہی نہیں بن سکتی.دنیا میں دوستم کی رفتار میں ہیں ایک تو یہ کہ جہاز کسی منزل کو سامنے رکھ کر چلے اور دوسری یہ کہ ایک شہتیر پانی میں بہا جارہا ہو.پانی جس طرف لے جائے وہ ادھر ہی چل پڑے.ہم نے جماعت میں صرف روانی نہیں پیدا کرنی بلکہ جہاز والی روانی پیدا کرنی ہے.ہمارے لئے ضروری ہے کہ جماعت کیلئے کوئی مقصود قرار دیں اور مراقبہ کرتے رہیں کہ ہماری روانی جہازوں والی ہے یا شہتیر والی.اگر ہم الہی جماعت 459

Page 472

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمود : 15 نومبر 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ایک مقصود کو سامنے رکھ کر جہاز کو اس لائن پر چلائیں کہ خدا تعالیٰ کی مقرر کردہ منزل پر پہنچ سکیں اور تحریک جدید سے میری غرض یہی ہے کہ جن امور کی طرف جماعت کو توجہ کی ضرورت ہے اور ابھی اس طرف دھیان نہیں اس طرف جماعت کو متوجہ کیا جائے اور ہوشیار کیا جائے تاہم اسلامی نظام کی روح کو قائم کریں.اس میں شک نہیں کہ نظام حکومت سے کامل ہوتا ہے.مگر جب تک حکومتوں کو مسلمان بنانے میں ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.اس وقت تک جتنا بھی اسلامی نظام ہم قائم کر سکتے ہیں.اتنا ہی کام ہمیں کرتے رہنا چاہئے اور ایسا کرنے میں کسی شخصیت کی پروانہ کرنی چاہئے.اگر ایک بادشاہ بھی ہمارے ساتھ شامل ہے مگر ہمارے ساتھ نہیں چلتا تو اسے ایک گندہ عضو سمجھ کر الگ کر دینا چاہئے اور اس بات کو بالکل بھول جانا چاہئے کہ یہ جماعت بڑوں اور چھوٹوں اور عالموں اور جاہلوں کی جماعت ہے اور صرف ایک ہی بات کو یا درکھنا چاہئے کہ یہ خدا تعالیٰ کی جماعت ہے.اگر کوئی آدمی بڑا ہے اور وہ نظام کی پروا نہیں کرتا تو اُسے بھی الگ کر دیں اور اگر کوئی چھوٹا ہے جو ایسا ہے تو اسے بھی الگ کر دیں.اگر کوئی جاہل ہمارے ساتھ نہیں چلتا تو اسے بھی الگ کر دیں اور کوئی عالم نہیں چلتا اسے بھی.مجھ سے ایک دفعہ ایک شخص نے سوال کیا.چونکہ اب وہ فوت ہو چکے ہیں میں ان کا نام بھی لے دیتا ہوں وہ صاحب شیخ غلام احمد صاحب واعظ مرحوم تھے انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ کے نزدیک کن لوگوں سے تعلق رکھنے میں جماعت کی مضبوطی ہو سکتی ہے امیروں سے یا غریبوں سے.یہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے زمانہ کے آخری ایام کی بات ہے انہوں نے صوفیانہ رنگ میں یہ سوال کیا.میں نے انہیں جواب میں لکھا کہ جماعت کی مضبوطی ان لوگوں کے ساتھ تعلق رکھنے سے ہو سکتی ہے جو خدا تعالیٰ کے ہوں خواہ وہ امیر ہوں یا غریب.کئی دفعہ خدا تعالیٰ کے سلسلہ کا کام کرنے والا ایک غریب ہوتا ہے اور کئی دفعہ امیر کسی کو کیا پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ترقی کس کیلئے مقدر کی ہوئی ہے.پس جو خد تعالی کا ہے وہی ہمارا ہے.اگر امیر خدا تعالی کا ہے تو ہمارے سر آنکھوں پر اور اگر غریب ہے تو وہ ہمارے سر آنکھوں پر اور جو خدا تعالی کا نہیں اُسے ہمارا سلام ہے.ہم نہ سوشلسٹ ہیں کہ غریبوں کو ابھارنا ہمارا کام ہو اور نہ کیپٹیلسٹ ہیں کہ سرمایہ داروں کی مدد کریں.ہماری جماعت کوئی کسان موومنٹ نہیں کہ ہم کسانوں کیلئے اپنی سعی کو وقف کر دیں اور نہ یہ کیپٹیلسٹوں کی سوسائٹی ہے کہ تاجروں اور طاقتوروں کی مدد کریں.جو لوگ اس قسم کی باتوں میں پڑتے ہیں وہ ہمیشہ نقصان اٹھاتے ہیں.یہاں بھی بعض لوگ ایسی باتیں کرتے رہتے ہیں کوئی کہتا ہے کہ یہاں غریبوں کی کوئی قدر نہیں اور کوئی کہتا ہے کہ یہاں کسی بڑے چھوٹے کی عزت ہی نہیں حالانکہ ایسی باتیں کرنے والوں میں خود 460

Page 473

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 15 نومبر 1937ء استقلال نہیں ہوتا جو کہتے ہیں کہ غریبوں کو کوئی نہیں پوچھتا.جب مصری صاحب کا فتنہ اٹھا تو یہی کہتے تھے.کہ دیکھو جی اتنے بڑے آدمی کی پروانہیں کی گئی.ایسے لوگوں کو صرف باتیں کرنے کی عادت ہوتی ہے.حقیقت کو وہ نہیں سمجھتے.جو شخص خدا تعالیٰ کے سلسلہ کے لئے مفید ہے.ہم اسے اونچا کرتے ہیں اور جو مضر ہے اسے الگ کر دیتے ہیں.صرف یہ دیکھنا چاہئے کہ جدا کر نا ظلم کے رنگ میں نہ ہو بلکہ خیر خواہی کے رنگ میں ہو.دانت آدمی ہمیشہ رنج سے ہی نکلواتا ہے.وہ اس کے جسم کا حصہ ہوتا ہے مگر وہ مجبور ہوتا ہے.اسی طرح ہم بھی جسے نکالتے ہیں افسردہ دلی کے ساتھ ہی نکالتے ہیں خوشی سے نہیں.ہمارے دل غمگین ہوتے ہیں کہ جو چیز ہماری تھی وہ اب ہماری نہیں رہی.پس چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی محبت ہمارے دل میں ایسی ہو کہ ہم کہیں کہ جس کی وجہ سے ہمیں درد پہنچا ہے وہ سب سے بڑا ہے.صاحبزادہ مرزا امبارک احمد صاحب کی وفات پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک نظم لکھی.جس کا ایک مصرعہ یہ ہے کہ بلانے والا اُسی ہے سب سے پیارا اے دل تو جان فدا کر یعنی بے شک مبارک احمد کی وفات کا صدمہ بڑا ہے مگر اے دل جس نے اسے اپنے پاس بلایا ہے وہ اس سے بھی زیادہ پیارا ہے.یہی وہ حقیقی معرفت کا مقام ہے جو مومن کو حاصل کرنا چاہئے.جو شخص سچائی کو چھوڑتا ہے اُسے دلیری کے ساتھ مگر افسردگی کے جذبات کے ساتھ الگ کر دیا جائے.ی تحریک ابتدا تین سال کے لئے تھی اور یہ تین سال تجربہ کے تھے اور اس کے شروع میں ہی میں نے کہہ دیا تھا کہ یہ نہ سمجھو کہ یہ ختم ہو جائے گی بلکہ تین سال کے بعد یہ اس سے بھی زیادہ تعہد کے ساتھ جاری ہوگی اور زیادہ گراں اور بوجھل سکیم پیش کی جائے گی.آج میں اس نئی تحریک کو بیان تو نہیں کرتا.صرف احباب جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے نفسوں پر غور کریں کہ ان تین سالوں میں انہوں نے اس پر عمل کیا ہے یا نہیں اور اگر کیا ہے تو اس کا کیا نتیجہ ہوا اور اگر نہیں کیا تو وہ سوچیں کہ انہوں نے بیعت ہی کیوں کی ہوئی ہے.جو شخص بیعت میں شامل ہوتا ہے وہ اسی لئے ہوتا ہے کہ میں کچھ سیکھوں اور اس کے باوجود اگر وہ بے پروائی کرتا ہے تو اس کے صاف معنی ہیں کہ وہ مجھے اپنا استاد بنا کر اور ہاتھ میں ہاتھ دے کر بھی دنیا کو دھوکہ دے رہا ہے اور اپنے نفس کو بھی دھوکا دے رہا ہے.سکول میں جا کر وہی لڑکا کچھ سیکھ سکتا ہے جو سمجھتا ہے کہ استاد مجھ سے زیادہ جانتا ہے اور اس کی عزت اور احترام کرتا ہے.اسی طرح خلافت ایک مدرسہ ہے اور خلیفہ استاد ہے اور جو یہ خیال کرتا ہے کہ یہ استاد مجھے کچھ نہیں سکھا سکتا اس کا اس مدرسہ میں داخل ہونا فضول ہے 461

Page 474

اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 15 نومبر 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول پس میں نے جو تحریک کی تھی ہر شخص کو چاہئے کہ دیکھے اس پر عمل کرنے سے مجھے فائدہ ہوا ہے یا نقصان.اگر اسے نقصان نظر آئے اور وہ سمجھے کہ اس پر عمل کر کے وہ خدا تعالی سے دور ہو گیا ہے تو اُسے چاہئے کہ الگ ہو جائے مثلاً میں نے کہا تھا کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالو.ایک ہی کھانا کھاؤ.کپڑوں میں کمی کرو.یہ نہیں کہ امرا بھی کھدر پ نہیں بلکہ یہ کہ جو چار کوٹ بنوا تا تھا وہ اب تین ہی بنوائے اور جو تین بنوا تا تھا وہ دو سے ہی گزارہ کرے اور جو پیسے بچیں وہ غریبوں پر خرچ کرے یا مثلاً سینما میں کوئی نہ جائے.اب ہر شخص غور کرے کہ ان باتوں پر عمل کرنے سے اس کی روحانیت پر ضرب لگی ہے.تو پھر وہ اس امر پر غور کرے کہ اُس کا میرے ہاتھ میں ہاتھ دینا کس کام کا اور اگر سمجھے کہ فائدہ ہوا ہے تو اسے چاہئے کہ پھر آئندہ پیش ہونے والی سکیم پر عمل کرنے کیلئے تیار ہو جائے اور اگر وہ دیکھے کہ تحریک تو مفید تھی مگر اُس نے عمل نہیں کیا تو پھر اسے غور کرنا چاہئے کہ جوشخص چشمہ پر بیٹھنے کے باوجود پانی نہیں پیتا وہ کس قدر بے وقوف ہے.پس جن کو فائدہ ہوا ہے وہ پہلے سے زیادہ عمل کرنے کیلئے تیار ہو جائیں اور جس نے عمل ہی نہیں کیا وہ اپنی اصلاح کرے.اس کے علاوہ دوستوں کو چاہئے کہ اپنے وعدے جلد پورے کریں.اس سال قادیان کی جماعت پر بھی بقایا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اقتصادی تغیرات ہوئے ہیں.ان کی تنخواہیں پہلے ہی کم تھیں اور اس سال اُن میں بھی تخفیف کر دی گئی ہے.پھر غلہ بھی گراں رہا ہے.مگر مومن کے وعدے ایسے نہیں ہوتے کہ ایسی باتیں اُن کے پورا ہونے میں روک بن سکیں.لاہور کی جماعت بھی اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں اچھی ثابت نہیں ہوئی.پھر ہندوستان کے باہر کی جماعتوں کے ذمہ 25000 کی رقم بقایا ہے.اس میں شک نہیں کہ ابھی ان کی مدت جون 1938 ء تک ہے.مگر رقم بھی ابھی بہت زیادہ ہے اور ان کے بقائے ان کو مجرم نہیں تو سست ضرور ثابت کرتے ہیں.پس انہیں چاہئے کہ وعدے پورے کرنے کی طرف جلد توجہ کریں.اسی طرح ہندوستان کی اکثر جماعتوں کے ذمہ ابھی بقائے ہیں.انہیں چاہئے کہ وہ بقائے جلد ادا کریں.جو شخص پہلا قدم صحیح اٹھاتا ہے اسے اگلا قدم بھی صحیح طور پر اٹھانے کی توفیق ملاتی ہے.اس لئے دوستوں کو چاہئے کہ اپنے بقائے صاف کریں تا اللہ تعالیٰ انہیں آئندہ اور نیکیوں کی توفیق دے.آخر میں میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی زندگیوں کو عملی زندگیاں بناؤ.اب خالی دعووں کا 462

Page 475

تحریک جدید- ایک البی تحریک...جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرمود: 15 نومبر 1937ء وقت گزر چکا.ایسا نمونہ دکھاؤ کہ دشمن کے دل میں بھی یہ لالچ پیدا ہو کہ کاش ہم بھی ایسے ہی ہوں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِينَ (الحجر: 3) یعنی کئی دفعہ کا فروں کے دل میں بھی یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ یہ ایسے اچھے لوگ ہیں اور دنیا کے بہترین وجود ہیں کاش ہم بھی ایسے ہوتے.یہی وہ مقام ہے جس پر پہنچ کر کامیابی حاصل ہوتی ہے.جس دن کفار کے دل میں یہ خواہش پیدا ہو.جس دن ارد گرد کے لوگ ہندو، سکھ، غیر احمدی.ہمارے اعمال نظام، تقومی اور صداقت کو دیکھ کر یہ خیال کریں کہ کاش ہم بھی ایسے ہوں.اس دن اور صرف اس دن خدا تعالیٰ کی بادشاہت دنیا میں قائم ہوگی.66 ( مطبوع الفضل 18 نومبر 1937ء ) 463

Page 476

Page 477

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 26 نومبر 1937ء تحریک جدید کے تمام مطالبات پر عمل کرنے والے صفات الہیہ کے مظہر بن سکتے ہیں خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1937ء.البته اگر کسی تلوار سے جہاد بھی شروع ہو جائے تو اس وقت ظاہری طور پر اپنی جانیں قربان کرنا بھی ضروری ہوگا لیکن ایسا جہاد بہت کم ہوتا ہے اور یہ جہاد انسانی زندگی کا کروڑواں حصہ بھی نہیں.اگر حساب لگایا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسانی زندگی کا کروڑ منٹ اور کاموں میں خرچ ہوا ہے مگر ایک منٹ صرف جہاد پر خرچ ہوا ہے.پس سر کٹوانے سے وہ سر کٹوانا مراد نہیں بلکہ اپنے نفس کی کل طاقتوں کو خدا تعالیٰ کے احکام کے تابع کر دینا ہے اور انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے نفس کو کلیۂ تابع کر دے.رب العالمین کی صفت کے ماتحت وہ اپنے نفس کو کلیۂ تابع کر دے.رحمان کی صفت کے ماتحت وہ اپنے نفس کو کلیۂ تابع کر دے.رحیم کی صفت کے ماتحت وہ اپنے نفس کو کلیۂ تابع کردے.مالک یوم الدین کی صفت کے ماتحت جو جماعت اور جو قوم یہ کام کر لیتی ہے وہ ہی کامیابیاں اور عروج دیکھنے کی مستحق ہوتی ہے اور یہی غرض میری تحریک جدید سے ہے.چنانچہ تحریک جدید کے تمام مطالبات اسی لئے ہیں کہ تم اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بناؤ مثلاً جب میں نے کہا کہ جاؤ اور باہر تبلیغ کیلئے نکل جاؤ تو میں نے یہ حکم رب العالمین کی صفت کے ماتحت دیا اور اس لئے دیا تا تم بھی صفت رب العالمین کے مظہر بن جاؤ کیونکہ جو قو میں پیاسی ہیں انہیں پانی پلاؤ.جو تاریکیوں میں بھٹکتی پھر رہی ہیں تم انہیں وہ نور پہنچاؤ جو خدا تعالیٰ نے تمہیں دیا ہے اور جس طرح رب العالمین تمام جہان کی ربوبیت کرتا ہے اسی طرح تم بھی نکل اور تمام دنیا کو اپنی روحانی تربیت کی آغوش میں لے لو.پھر جب میں نے چندے کی تحریک کی تو وہ بھی رب العالمین اور مالک یوم الدین کی صفت کے ماتحت تھی کیونکہ ملک کیلئے خزانے کی ضرورت ہوتی ہے اور کوئی قوم اس وقت تک اپنا نظام درست نہیں کر سکتی جب تک اس کے پاس خزانہ موجود نہ ہو.پھر جب میں نے امانت فنڈ کی تحریک کی تو وہ بھی صفت رب العالمین کے ماتحت کی کیونکہ رب العالمین کی صفت اس طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ سب زمانوں پر نظر رکھی جائے اور آج کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا ہی خیال نہ کیا جائے بلکہ کل کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھا جائے.اللہ تعالیٰ رب العالمین ہے.اس نے یہ نہیں کیا کہ جن چیزوں کی انسان کو ضرورت ہے وہ اس 465

Page 478

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول نے آج پیدا کی ہوں بلکہ کروڑوں کروڑ سال پہلے اس نے یہ چیزیں تیار کرنی شروع کر دی تھیں.اسی طرح ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم بھی کل کی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے آج سے تیاری شروع کر دیں اور اسی وجہ سے میں نے امانت کی تحریک جاری کی.پھر جب میں نے کہا کہ اپنے ہاتھوں سے کام کرو تو یہ بھی رب العالمین کی صفت کے ماتحت تھا کیونکہ رب العالمین کی صفت کے ماتحت کوئی شخص اس وقت تک نہیں آسکتا جب تک وہ اپنے ہاتھوں سے کام کرنے والا نہ ہو.ربوبیت کا تعلق ماں باپ والی خدمت سے ہے اور ماں باپ کی خدمت چندہ سے نہیں بلکہ ہاتھوں سے ہوتی ہے.بعض بیمار مائیں بے شک اپنے بچہ کو دودھ نہیں پلاتیں اور وہ اس بات پر مجبور ہوتی ہیں کہ نوکروں سے خدمت لیں مگر تندرست مائیں ہمیشہ اپنے بچوں کی اپنے ہاتھ سے خدمت کرتی ہیں.خواہ ان کے ایک نہیں.دس پچاس اور سونو کر بھی ہوں.ملکیت کی زندگی کے ماتحت بے شک خدمت کاروں سے کام لیا جاسکتا ہے مگر صفت رب العالمین کے ماتحت ضروری ہوتا ہے کہ انسان اپنے ہاتھ سے کام کرے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم جن کے قدموں کے نیچے ہزاروں انسان اپنی آنکھیں بچھانے کیلئے تیار تھے اور جن کی خدمت کے لئے ہزاروں لوگ موجود تھے انہیں جب ہم اہلی زندگی میں دیکھتے ہیں تو یہ دکھائی دیتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک موقع پر جھکتے ہیں اور فرماتے ہیں.عائشہ میری پیٹھ پر پاؤں رکھ کر فلاں نظارہ دیکھ لو.پھر آپ نماز پڑھ رہے ہوتے تو حضرت حسن جوا بھی چھوٹے بچے تھے تو گردن پر چڑھ کر بیٹھ جاتے.جب آپ سجدہ کے بعد کھڑے ہونے لگتے تو انہیں اپنی گودی میں لے لیتے.پھر رکوع میں جاتے تو اتار دیتے اور جب پھر سجدہ میں جاتے تو پھر آپ کی پیٹھ پر بیٹھ جاتے.صحابہ ایک دفعہ یہ دیکھ کر حضرت حسن پر ناراض ہوئے تو آپ نے فرمایا رہنے دو بچوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ان کے شفیق بنو.غرض گودنیا جہان کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کر رہے تھے اور دنیا جہان بھی آپ کے لئے ہر چیز قربان کرنے کیلئے تیار تھی مگر حضرت حسنؓ کے ساتھ سلوک ایک جدا گانہ رنگ رکھتا تھا.جو سلوک آپ سے حضرت حسن کیا کرتے تھے کسی اور کا بچہ کرتا تو شاید وہ باپ اپنے بچے کو مار مار کر ادھ موا کر دیتا کیونکہ یہاں صرف ایمان کا سوال نہیں تھا بلکہ اہلی زندگی کا بھی سوال تھا.غرض ربوبیت کے مرکز میں آکر ہاتھوں سے کام کرنا ضروری ہوتا ہے اور یہی تحریک جدید میں میں نے جماعت سے مطالبہ کیا کہ اپنے ہاتھوں سے کام کرو اور اسی طرح کرو جس طرح ماں باپ اپنے بچوں کا کام کرتے ہیں.کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہی عورت جو اپنے ہاتھ سے اپنا ناک پونجھنے میں بہتک محسوس کرتی ہے اور بغیر رومال کے اسے صاف نہیں کرتی جب دیکھتی ہے کہ اس کے بچے کا ناک بہہ رہا ہے تو کس طرح فوراً اپنا ہاتھ بڑھا کر اس کا ناک اپنے ہاتھ سے صاف کر دیتی ہے.وہ بادشاہ جو اٹھ کر اپنے ہاتھ سے پانی لینا بھی 466

Page 479

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 26 نومبر 1937ء برداشت نہیں کر سکتے بچوں کو اپنی گودی میں اٹھائے پھرتے ہیں.تو اپنے ہاتھوں سے بنی نوع انسان کی خدمت کرنا یہ ربوبیت کا حصہ ہے اور ہر شخص جو رب العالمین کی صفت کا مظہر بننا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ یہ کام کرے.جو شخص یہ کہتا ہے کہ پیسے لے لومگر ہاتھ سے کام نہ وہ ملکیت کا مظہر تو بن سکتا ہے مگر رب العالمین کا مظہر نہیں بنتا حالانکہ ربوبیت کا مادہ فطرت انسانی میں داخل ہے.ایک زمیندار ہے شک ٹیکس ادا کرتا ہے مگر کوئی زمیندار اس امر کو برداشت نہیں کر سکتا کہ گورنمنٹ ٹیکس کچھ بڑھا دے اور اس کے بچوں کی پرورش کا خود ذمہ لے لے.وہ کہے گا کہ ٹیکس بے شک بڑھا دونگر بچہ کی خدمت میں ہی کروں گا اور کسی کو نہیں کرنے دونگا.روس میں کئی دفعہ محض اسی بات پر بغاوت ہو گئی ہے کہ حکومت کہتی ہے کہ قوم کے بچوں کو ہم پائیں گے اور ان کی پرورش حسب منشاء کریں گے اور لوگ کہتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کی خود پرورش کریں گے تمہارے سپرد نہیں کر سکتے.حکومت کے افسر کہتے ہیں کہ ہم تمہارے بچوں کو عمدہ سے عمدہ مکانوں میں رکھیں گے.اچھی سے اچھی غذا کھلائیں گے.تم ان کی پرورش ہمارے ذمہ رہنے دو مگر وہ کہتے ہیں کہ ہم خواہ بھوکے مریں یا فاقے برداشت کریں بچوں کو اپنی گودی سے نہیں اتاریں گے.غرض ملکیت کے ماتحت چندے دیئے جاتے ہیں لیکن ربوبیت کے ماتحت ہاتھوں سے خدمت کی جاتی ہے تم اپنے بچوں کو اس لئے گود میں نہیں اٹھاتے کہ اس کو اٹھانے والا اور کوئی نہیں ہوتا اگر تمہارے ہزار خادم بھی ہوں تب بھی تم اپنے بچوں کو خود اٹھاؤ گے کیونکہ ربوبیت تمہاری فطرت میں داخل ہے.مجھے ایک نظارہ کبھی نہیں بھولتا میں اس وقت چھوٹا تھا.سولہ سترہ سال عمر تھی کہ اس وقت ہماری ایک چھوٹی ہمشیرہ جو چند ماہ کی تھی فوت ہوگئی اور اسے دفن کرنے کیلئے اس مقبرہ میں لے گئے جس کے متعلق احرار کہتے ہیں کہ احمدی اس میں دفن نہیں ہو سکتے.جنازہ کے بعد نعش حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ہاتھوں پر اٹھائی.اس وقت مرزا اسماعیل بیگ صاحب مرحوم جو یہاں دودھ کی دکان کیا کرتے تھے آگے بڑھے اور کہنے لگے کہ حضور لعش مجھے دے دیجئے.میں اٹھا لیتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مڑکر ان کی طرف دیکھا اور فرمایا یہ میری بیٹی ہے یعنی بیٹی ہونے کے لحاظ سے اس کی ایک جسمانی خدمت جو اس کی آخری خدمت ہے یہی ہو سکتی ہے کہ میں خود اس کو اٹھا کر لے جاؤں.تو صفت رب العالمین کے ماتحت تمام جسمانی خدمات آتی ہیں.اگر تم رب العالمین کے مظہر بننا چاہتے ہو تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ مخلوق کی جسمانی خدمات بجالاؤ.اگر تم خدمت دین میں اپنی ساری جائیداد دے دیتے ہو.اپنی گل آمد اسلام کی اشاعت پر خرچ کر دیتے ہو تو تم ملکیت کے مظہر تو بن جاؤ گے مگر رب العالمین کے مظہر نہیں بنو گے کیونکہ رب العالمین کا مظہر بننے کیلئے ضروری ہے کہ تم اپنے ہاتھ سے کام کرو اور غربا کی خدمت پر کمر بستہ رہو.ہاں 467

Page 480

اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 26 نومبر 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول جب تم اپنے ہاتھوں سے بھی بنی نوع انسان کی خدمت بجالاؤ گے تو تم رب العالمین کی صفت کے مظہر بن جاؤ گے.پھر جب میں نے کہا کہ تحریک جدید کے بورڈنگ میں اپنے بچوں کو داخل کراؤ تو یہ تمہیں صفت رحیمیت کا مظہر بنانے کے لئے مطالبہ کیا کیونکہ رحیمیت کہتی ہے کہ تم ایسی تربیت کرو اور ایسی عمدہ خوبیاں مخلوق میں پیدا کرو کہ جن سے وہ دوامی زندگی اختیار کر لے.پھر یہ تحریک ایک رنگ میں رب العالمین کی صفت کے ماتحت بھی ہے یعنی قوم کے ہر شعبہ کی اصلاح کی جائے.اسی طرح جب میں نے سادہ زندگی اختیار کرنے کیلئے کہا.مطالبہ صفت رحمانیت اور صفت ملکیت کے ماتحت آتا تھا کیونکہ ہر وہ قوم جو اپنی زندگی عیش پسند بنالیتی ہے غربا کی خدمت میں حصہ نہیں لیتی حالانکہ رحمانیت کی صفت چاہتی ہے کہ مزدوروں سے ہی نہیں بلکہ غیروں سے بھی سلوک کیا جائے اور پھر اس کیلئے ضروری ہے کہ انسان کے پاس سامان ہو اور سامان تبھی ہو سکتا ہے کہ جب اس کی زندگی کو بعض قیود کے اندر رکھا جائے جو شخص بعض قیود کے اندر اپنے آپ کو نہیں رکھتا وہ موقع پر ضرور فیل ہو جاتا ہے.پھر ملک ہونے کے لحاظ سے بھی سادہ زندگی ضروری ہے کیونکہ ملک کیلئے سپاہ ضروری ہے اور سپاہی کیلئے یہ بات ضروری ہے کہ وہ جفا کش ہو.ورنہ وہ فوج جس کے سپاہی ترفہ سے زندگی بسر کرتے ہوں لڑائی میں کام نہیں آسکتی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک لطیفہ بیان کیا کرتے تھے کہ ایک بادشاہ تھا.جسے یہ وہم ہو گیا کہ سپاہیوں پر روپیہ فضول بر باد کیا جاتا ہے.ملک میں جو ہزاروں لاکھوں قصائی موجود ہیں یہی لڑائی کے لئے کافی ہیں.جب جنگ کا موقع ہو انہیں بلایا جا سکتا ہے.چنانچہ اس خیال کے آتے ہی اس نے تمام سپاہی موقوف کر دیئے.جب یہ خبر اردگرد پھیلی تو اس کے قریب ہی ایک اور بادشاہ تھا جو اس کا دشمن تھا اس نے دیکھا کہ یہ موقع عمدہ ہے.اب فوجیں اس نے موقوف کر دی ہیں.اس پر حملہ کر دینا چاہئے.چنانچہ وہ اپنی فوج لے کر ملک پر حملہ آور ہو گیا.بادشاہ کو جب یہ خبر پہنچی تو اس نے حکم دیا کہ فوراً تمام قصائیوں کو جمع کیا جائے اور ایک فوج بنا کر انہیں کہہ دیا جائے که دشمن پر حملہ کر دیں.اس پر اول تو قصائیوں کو جمع کرنے میں بہت دیر لگی اور اتنے عرصہ میں دشمن کی فوجیں شہر کے قریب آگئیں لیکن خیر جدوجہد کے بعد قصائیوں کو جمع کر کے میدان جنگ میں بھیج دیا گیا.ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ بادشاہ نے کیا دیکھا کہ وہ تمام قصائی بھاگے چلے آرہے ہیں اور بادشاہ سے مخاطب کر کے فریاد کر رہے ہیں کہ انصاف! انصاف ! بادشاہ نے پوچھا کیا ہوا.وہ کہنے لگے بھلا یہ بھی کوئی انصاف ہے ہم باقاعدہ دشمن کے ایک آدمی کو پکڑتے اور پوری احتیاط کے ساتھ اس کو ذبح کرتے ہیں مگر وہ لوگ نہ رگ دیکھتے ہیں نہ پٹھا یو نہیں مارتے چلے جاتے ہیں.ہمارے ساتھ انصاف کیا جائے.وہ قصائی تو ادھر انصاف کی جستجو کرتے رہے اور اُدھر دشمن کی فوجیں بے انصافی لئے ملک میں داخل ہو گئیں.تو 468

Page 481

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 26 نومبر 1937ء دنیا میں کبھی امن قائم نہیں ہوتا جب تک قوم کے افراد میں ایک نظام نہ ہو اور ان میں جفاکشی کی عادت نہ ہو اور جفاکشی بغیر سادہ زندگی اختیار کئے پیدا نہیں ہوتی.اسی طرح رب العالمین کی صفت کے ماتحت بھی سادہ زندگی کی تحریک اس طرح آتی ہے کہ سادہ زندگی اس فرق کو دور کرتی ہے جو امرا اور غربا میں پایا جاتا ہے.جس طرح باپ چاہتا ہے کہ کسی وقت اس کے تمام بیٹے خواہ وہ امیر ہوں یا غریب ایک ہی دستر خوان پر کھانا کھا ئیں.اسی طرح رب العالمین یہ چاہتا ہے کہ امرا اور غربا میں ایسا فرق نہ ہو جس کی وجہ سے ان کا ایک دستر خوان پر جمع ہونا مشکل ہو.فرق بے شک ہو مگر ایسا نہ ہو جو آپس کے تعلقات کو خراب کر دے اور ان میں اس قدر انسانیت بھی باقی نہ رہنے دے کہ امیر غریب کو حقیر اور ذلیل جانے اور غریب امیر کے متعلق سمجھے کہ وہ تمام انسانوں سے اب کچھ بالا ہو گیا ہے مگر امارت غربت کا امتیاز سادہ زندگی سے ہی دور ہوسکتا ہے اور یہ صفت بھی رب العالمین کے ماتحت ایک تحریک ہے جس پر عمل کر کے انسان اپنے آپ کو رب العالمین کا مظہر بنا سکتا ہے.غرض یہ چند مشقیں ہیں جو میں نے بتائیں اور میری غرض ان مشقوں سے یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا مظہر بناؤ اور اس کی رحمانیت کا بھی مظہر بناؤ اور اس کی ملکیت کا بھی مظہر بناؤ اور اس طرح اپنے اندر ایک عظیم الشان تغیر پیدا کر کے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی رضا کا مستحق بناؤ مگر میں دیکھتا ہوں چونکہ ہماری جماعت میں جو لوگ نئے داخل ہوتے ہیں.وہ وفات مسیح اور ختم نبوت وغیرہ کے مسائل سن کر داخل ہوتے ہیں اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ یہ چند مسائل ہی ہیں جو ہم نے ماننے ہیں.انہیں مانا اور چھٹی ہوگئی.ނ حالانکہ اسلام ایک وسیع نظام کا نام ہے اور اس کے اندر بادشاہتوں کا نظام بھی شامل ہے.اہلی اور عائلی زندگی کا نظام بھی شامل ہے.تعلیمی نظام بھی شامل ہے.تربیتی نظام بھی شامل ہے اور یہ جس قدر نظام ہیں ان کو قائم کرنا ہمارے لئے ضروری ہے.ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم رحمانیت کو بھی قائم کریں اور رحیمیت کو بھی.ہم ربوبیت کو بھی قائم کریں اور ملکیت کو بھی.پھر ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم غربا کی خبر گیری کریں اور انہیں اٹھانے کی کوشش کریں اور امرا کا بھی خیال رکھیں اور انہیں عیش پسند زندگی میں پڑنے سے محفوظ رکھیں.غرض ایک وسیع نظام کی ضرورت ہے جس کے ماتحت اسلام کے تمام احکام عملی رنگ میں دنیا کے سامنے آ سکتے ہیں.بے شک اس نظام کا ایک حصہ وہ ہے جو حکومت سے تعلق رکھتا ہے لیکن ملکیت کا بھی ایک حصہ حکومت نے رعایا کے سپر د کر رکھا ہے اور پھر اسلام کا وہ نظام جو اہلی اور عائلی زندگی سے تعلق رکھتا ہے اسے تو گلی طور پر ہم قائم کر سکتے ہیں.کیونکہ حکومت کی طرف سے اس میں کسی قسم کی روک نہیں.پس جب حکومت ایک بات میں دخل نہیں دیتی اور ہم اس میں اسلامی تعلیم جاری کر سکتے 469

Page 482

اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 26 نومبر 1937ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول ہیں.تو کوئی وجہ نہیں ہم اس معاملہ میں اسلامی احکام کا اجرا نہ کریں.نادان کہتے ہیں کہ ہمارے ذاتی معاملات میں دخل دیا جاتا ہے مگر میں کہتا ہوں کہ اگر تم اس بات کو برداشت نہیں کر سکتے تو تم ہمارے پاس آئے کیوں تھے تم نے جب خدا کو رب العالمین تسلیم کیا ہے تو تم خدا تعالیٰ کے دین کے جس نمائندہ کے پاس بھی جاؤ گے وہ تمہارے باپ کے طور پر ہوگا اور اس کا حق ہو گا کہ وہ تمہارے ذاتی معاملات میں دخل دے اور اگر وہ دخل نہ دے تو اسلام کی تعلیم لوگوں کے گھروں میں کس طرح قائم ہو سکتی ہے.پس جب تک خدا تعالی موجودہ حکومتوں اور پارلیمنوں کو احمدی نہیں بنا دیتا.اس وقت تک اسلامی نظام کے دو حصے ہیں جن پر عمل کیا جا سکتا ہے.ضروری ہے کہ ان پر عمل کیا جائے اور جب حکومتیں احمدی ہو جائیں گی تو اس وقت اسلامی نظام کا مکمل ڈھانچہ تیار ہو گا اور اس وقت دنیا کو معلوم ہوگا کہ اسلام کی تعلیم اور اسلام کا نظام کس قدر پُر امن ہے.آج کو حکومتیں احمدی نہیں مگر کئی امور ایسے ہیں جن میں حکومت روک نہیں بنتی.مثلاً زکوۃ ہے موجودہ گورنمنمیں زکوۃ نہیں لیتیں اور اگر کوئی زکوۃ وصول کرے تو اس کے راستہ میں کوئی روک نہیں ڈالتیں.پس جب حکومت خود ایک بات کی ہمیں اجازت دیتی ہے یا کم از کم اس میں روک نہیں بنتی تو ہم کیوں اس سے فائدہ نہ اٹھائیں اور کیوں اس میں اسلامی نظام قائم نہ کریں.پس جتنے حصے اسلامی نظام کے ہیں ان میں سے جن حصوں کو موجودہ بادشاہت نے اپنے اندر شامل نہیں کیا ہمارا حق ہے کہ ان کو استعمال کریں اور ان کے ماتحت لوگوں کو چلنے پر مجبور کریں.زکوۃ کی میں نے صرف ایک مثال دی ہے.ورنہ اور بھی کئی ایسے مسائل ہیں جو شریعت نے ملکیت سے متعلق رکھے ہیں لیکن موجودہ حکومتوں نے ان کو اپنے حدود اختیار سے باہر رکھا ہے اور اگر ان کا انتظام کیا جائے تو حکومت کا کوئی قانون ان میں روک نہیں بنتا.بے شک بہت سے ایسے بھی حصے ہیں.جو بادشاہت سے تعلق رکھتے ہیں اور ان پر اس وقت عمل کیا جاسکتا ہے جب بادشاہت احمدیوں کو حاصل ہو.مگر جب تک وہ وقت نہیں آتا وہ امور جن میں حکومت دخل نہیں دیتی ہمارا فرض ہے کہ ان میں اسلامی احکام نافذ کریں.اگر ہم زندگی کے ان شعبوں میں بھی اسلامی احکام جاری نہیں کرتے جن میں ان احکام کا اجرا ہمارے لئے قانوناً جائز ہے تو یقیناً ہم انسان نہیں طوطے ہیں.جس طرح طوطا میاں مٹھو.میاں مٹھو کہتا رہتا ہے اور اگر میاں مٹھو کی بجائے اُسے لا اله الا اللہ سکھا دو تو وہ یہی کہتا رہے گا.اسی طرح گوتم احمدی ہو مگر تم طوطے کی طرح اپنے آپ کو احمدی کہتے ہو اور سمجھتے نہیں کہ اپنے آپ کو احمدی کہنے کے بعد تم پر کس قدر ذمہ داریاں عائد ہو چکی ہیں.پس جب تک اسلامی حکومت کو قائم کرنے کے لئے ہم اپنے نظام میں تبدیلی نہیں کرتے.اس وقت 470

Page 483

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 26 نومبر 1937ء تک ہم صرف نام کے احمدی ہیں.کام کے احمدی نہیں.مگر صرف نام لے لینے سے کیا بنتا ہے جب تک انسان کے اندر وہ حقیقت بھی نہ پائی جاتی ہو جو اس نام کے اندر ہو.مجھے یاد ہے کہ ہماری بہن امتہ الحفیظ دو اڑھائی سال کی تھی کہ ہمارے ہاں ایک مہمان آئے.ان کی بھی ایک ہی چھوٹی سی لڑکی تھی جو قریباً اسی عمر کی تھی.اس کی آنکھیں چندھیائی ہوئی تھیں اور روشنی میں چونکہ نہیں کھلتی تھیں اس لئے وہ بجھتی تھی کہ شاید اور لوگوں کو بھی میری طرح دن میں نظر نہیں آتا.امتہ الحفیظ کبھی کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے جا کر کہا کرتی تھی کہ ابا مجھے بیجھی دو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسے کوئی چیز کھانے کی دے دیا کرتے تھے.اس لڑکی نے جو اسے اس طرح مانگتے دیکھا تو ایک دن خود بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے جا کر ہاتھ پھیلا کر کہنے لگی.حضرت صاحب میں بھیجی (امتہ الحفیظ ) ہوں مجھے بیجی دے دیں.یہی مثال تم میں سے بہتوں کی ہے.تم بھی اسی خیال میں مست ہو کہ تم خدا کے سامنے جا کر کہہ دو گے کہ ہم مسلمان یا احمدی ہیں ہمیں انعام دو اور اسے (معاذ اللہ ) کوئی علم نہیں ہوگا کہ تم کیا کرتے رہے ہو اور آیا تم انعام کے مستحق بھی ہو یا نہیں.غرض اگر تم سچے دل سے لا الہ الا اللہ کہہ رہے ہو تو تمہارا فرض ہے کہ تم اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں اسلامی حکومت قائم کرو لیکن اب تو تمہاری یہ حالت ہے کہ جو شخص تم میں اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے تم اس کے دشمن ہو جاتے ہو.کوئی تم میں سے اس پر اعتراض کرتا ہے.کوئی تم میں سے اسے گالیاں دیتا ہے.کوئی تم میں سے اس پر الزام لگاتا ہے.کوئی تم میں سے اس کے خلاف شکوہ و شکایت کرتا ہے اور ان تمام اتہاموں اور ان تمام الزاموں ، ان تمام اعتراضوں اور ان تمام نکتہ چینیوں کی وجہ محض یہ ہے کہ وہ تم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ آؤ اور سچے مسلمان بن جاؤ.آؤ اور بچے احمدی بن جاؤ.لوگ کہتے ہیں یہاں تختی کی جاتی ہے مگر میں کہتا ہوں کہ کس بات پر ؟ تم وہ باتیں نکا لوجن کی بناء پر تم کہتے ہو کہ تم سے سختی کی جاتی ہے پھر تمہیں معلوم ہو گا کہ کس بات پر سختی کی جاتی ہے.تم پر اس وجہ سے سختی کی جاتی ہے کہ تم میں سے بعض اپنی لڑکیاں غیر احمدیوں کو دے دیتے ہیں مگر اس سے مجھے ذاتی طور پر کوئی فائدہ ہے ؟ تم میرے پاس آتے ہو اور اپنے منہ سے کہتے ہو کہ ہم احمدیت کا جوا اٹھانے کیلئے تیار ہیں.میں تمہاری بیعت لیتا ہوں اور تم احمدیت میں شامل ہو جاتے ہو.اس کے بعد تمہارے لئے ایک ہی راستہ ہے کہ تم احمدیت کی تعلیم پر عمل کرو اگر تم اس کی تعلیم پر عمل کرنے کیلئے تیار نہیں تو میں تمہیں کہتا ہوں کہ منافق مت بنو یا تم پورے احمد کی بن جاؤ یا احمدیت سے الگ ہو جاؤ مگر تمہاری حالت یہ ہے کہ تم آپ میرے پاس آتے اور احمد بیت کو قبول کرتے ہو تم پر کوئی جبر نہیں ہوتا.تم سے کوئی زبردستی نہیں کی جاتی.تم اپنی رضاء ورغبت 471

Page 484

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 26 نومبر 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول سے مجھے اپنا استاد تسلیم کرتے ہو.مگر جب کوئی کام تمہارے سپرد کیا جاتا ہے تو تم بہانے بنانے لگ جاتے ہو.اس دھوکا اور فریب کا کیا فائدہ.کیا تم خدا کو دھوکا دینا چاہتے ہو اور سمجھتے ہو کہ اسے تمہارے اعمال کا علم نہیں.تمہاری فطرت اور تمہارا دماغ کہتا ہے کہ احمدیت کے بغیر تمہاری نجات نہیں مگر تم چاہتے ہو کہ تمہیں نجات بھی مل جائے اور تم دل سے غیر احمدی کے غیر احمدی بھی بنے رہو.کوئی انسان کسی دوسرے عقل مند انسان کو بھی دھوکا نہیں دے سکتا.پھر تم کس طرح خیال کر لیتے ہو کہ تم خدا کو دھوکا دے لو گے.یہی وہ احساس ہے جس کے ماتحت میں نے تحریک جدید کا آغاز کیا اور میں نے فیصلہ کیا کہ اب اس قسم کے کمزور لوگوں کو احمد بیت میں رہ کر جماعت کو بدنام کرتے ہیں زیادہ مہلت نہیں دی جاسکتی.میں جماعت کو اسی امر کی طرف لا رہا ہوں اور میں امید کرتا ہوں کہ جماعت کو اس پر ثبات حاصل ہو جائے گا.مگر اس احساس کے باوجود میں پھر بھی مہلت دے دے کر تمہیں لا رہا ہوں تا کہ تم پر بوجھ نہ پڑے اور تم یکدم گھبرا نہ جاؤ.میں جانتا ہوں کہ میرے اس ارادہ کی لازماً مخالفت ہو گی اور نہ صرف میری مخالفت ہوگی بلکہ ہر شخص جو میرے ساتھ تعاون کرے گا.ہر شخص جو قانون کے دائرہ کے اندر اسلامی حکومت قائم کرنا چاہے گا اس کی بھی مخالفت ہو گی.لوگ برا منائیں گے.وہ گالیاں دیں گے.وہ بد نام کریں گے، وہ عیب چینی کریں گے اور بجائے اس کے کہ اصل حقیقت بیان کریں غلط واقعات بیان کر کے لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنا چاہیں گے.مثلاً وہ یہ نہیں کہیں گے کہ انہوں نے شریعت کا فلاں قانون توڑا تھا جس کی انہیں سزا ملی یا غیر احمد یوں کو انہوں نے لڑکی دی تھی جس کی سزا ملی.وہ کہیں گے کہ ناظر امور عامہ نے مجھ پر ظلم کیا اور پھر یہ بتائیں گے نہیں کہ کیوں ظلم کیا اور کیا ظلم کیا.پھر یہ اگر کسی کو واقعہ کا کچھ علم ہوگا اور وہ اشارہ کہہ دے گا کہ لڑکی کا کیا واقعہ تھا تو وہ کہہ دیں گے کہ اصل بات یہ نہیں.بات اصل میں یہ ہے کہ ناظر امور عامہ کی میرے ساتھ لڑائی ہے اور خواہ مخواہ مجھے دق کرتا ہے.غرض وہ اس طرح لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے لگ جائیں گے اور لوگ یہ نہیں سمجھیں گے کہ یہ بہانے بناتا ہے اور اپنے جرم کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے.تم کبھی نہیں دیکھو گے کہ کوئی چور کہے کہ بھائیو آؤ اور آنسو بہاؤ کہ میں چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا ہوں.وہ یہی کہتا ہے کہ لوگوں کی مجھ سے دشمنی تھی.فلاں جگہ میں بیٹھا تھا کہ انہوں نے گھاس کاٹ کر میری جھولی میں ڈال دیا اور مجھے چور چور کہہ کر پکڑوا دیا.وہ کیوں ایسا کہے گا اور اصل حقیقت بیان نہیں کرے گا.اسلئے کہ سچ بولنے سے اسے لوگوں کی ہمدردی حاصل نہیں ہو سکتی تھی.مگر جھوٹ بول کر وہ سمجھتا ہے کہ اسے لوگوں کی ہمدردی حاصل ہو جائے گی.تو یہ دنیا کا عام دستور ہے اور ہر ملک اور ہر شہر.ہر قصبہ اور ہر گاؤں اور ہر محلہ 472

Page 485

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 26 نومبر 1937ء میں اس کی نظیر یں ملتی ہیں مگر پھر جس طرح لوگ موت کو بھول جاتے ہیں اسی طرح اسے بھی بھول جاتے ہیں اور مجرموں کی حمایت کرنا شروع کر دیتے ہیں.تو وہ لوگ جو قانون کا احترام کرتے ہوئے کوشش کریں گے کہ اسلامی حکومت قائم ہو اور میرے کام میں میرے ساتھ تعاون کرنا چاہیں گے انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ بدنامی ان کے حصہ میں بھی آئے گی.مگر خدا کے حضور وہ ضرور نیک نام ہونگے.دنیا کی نگاہ میں وہ بے شک ذلیل ترین وجود، ظالم، فاسق، فاجر ، بدکار، جھوٹی سفارشیں قبول کرنے والے لوگوں پر جبر کرنے والے اور ایمان پر چھاپہ ڈالنے والے مشہور ہونگے مگر خدا تعالیٰ کے حضور وہ بڑی عزتوں کے مالک ہونگے کیونکہ خدا کہے گا کہ یہ وہ شخص ہیں جنہوں نے اپنی عزت اس لئے برباد کی کہ میری عزت دنیا میں قائم کریں.پس اگر اسے اس کام کے عوض دنیا میں عزت نہ بھی ملے تب بھی وہ ابدی زندگی کا وارث ہوگا اور اس کا نام آسمان پر ہمیشہ کیلئے محفوظ کر دیا جائے گا اور وہی جو اس پر اعتراض کرنے والے ہونگے اگلے جہان میں اس کے سامنے خادموں کے طور پر پیش ہونگے.پس یہ کام بہت مشکل ہے.یہ منزل بہت کٹھن ہے.مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو شخص آگے بڑھے گا اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے انتہاء برکات حاصل ہوں گی اور وہ اس کے عظیم الشان فوائد اپنی آنکھوں سے دیکھے گا.غرض تحریک جدید کے دوسرے دور میں جو سکیم نافذ کی جانے والی ہے وہ نہایت ہی اہم ہے اور اسکی تفصیلات بہت وقت چاہتی ہیں، جو آئندہ کئی خطبات میں انشاء اللہ تعالی بیان کی جائیں گی لیکن چونکہ تحریک جدید کا تیسرا امالی سال ختم ہو رہا ہے اسلئے میں اس تحریک کے دوسرے دور کے مالی حصہ کو آج کے خطبہ میں ہی بیان کر دیتا ہوں.یاد رکھنا چاہئے کہ تحریک جدید کا تیسر اسال مالی لحاظ سے ختم ہو رہا ہے اور اب آئندہ کے متعلق میں نے اپنے خیالات کا اظہار کرنا ہے.میں دوستوں اور ان کا رکن اصحاب کی واقفیت کیلئے جنہوں نے اس سلسلہ میں کام کرنا ہے بتا دینا چاہتا ہوں کہ جہاں اس تحریک کے دوسرے حصوں میں زیادہ سختیاں کی جائیں گی اور دوستوں سے زیادہ زور اور زیادہ جوش کے ساتھ کام لیا جائے گا وہاں میرا اس تحریک کا مالی حصہ کو ایک حد تک پیچھے ہٹانے کا ارادہ ہے.میں نے مالی حصہ کے تمام پہلوؤں پر کافی غور کیا ہے اور میں ایک لمبے غور کے بعد جس نتیجہ پر پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ تحریک کے مالی پہلو کو ایسی مضبوطی حاصل ہونے میں جس کے بعد کسی سالانہ تحریک کی انشاء اللہ ضرورت نہ رہے بلکہ اخراجات خود بخود نکلتے آئیں سات سال کی مسلسل قربانی کی ضرورت ہے.پس آج سے کہ چوتھا سال شروع ہو رہا ہے سات سال اور تحریک جدید کا مالی مطالبہ ہوتا چلا جائے گالیکن اس رنگ میں کہ موجودہ تین سالہ دور میں 473

Page 486

اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 26 نومبر 1937 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول سے پہلے سال جس قدر چندہ کسی نے دیا تھا کم از کم اسی قدر چندہ اس سال دیا جائے.ہاں اگر کوئی زیادہ دینا چاہے تو وہ زیادہ بھی دے سکتا ہے.پس اس وقت میرا دوستوں سے مطالبہ یہ ہے کہ انہوں نے اس تین سالہ دور میں سے پہلے سال جتنا چندہ دیا تھا کوشش کریں کہ اس سال اس چندہ کے برابر چندہ دیں لیکن میں کسی کو مجبور نہیں کرتا کہ وہ ضرور اسی قدر چندہ دے کیونکہ یہ طوعی چندہ ہے اور اس کا دینا میں نے ہر شخص کی مرضی پر منحصر رکھا ہوا ہے.پس میں یہ نہیں کہتا کہ جو شخص اس سال چندہ دینے کی بالکل طاقت نہیں رکھتا وہ بھی ضرور چندہ دے.میں کسی کو مجبور نہیں کر رہا اور نہیں کرنا چاہتا.یہ طوعی چندہ ہے اور مجھے نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ باوجود اس کے کہ میں نے بار بار کہا ہے کہ یہ طوعی چندہ ہے اور اگر کسی میں ہمت نہیں تو وہ وعدہ مت لکھوائے.پھر بھی بعض لوگ اپنی مرضی سے چندہ لکھوا کر ادا نہیں کرتے اور اس طرح وہ ایک خطر ناک گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں.ہزاروں احمدی ایسے ہیں جنہوں نے اس تحریک میں حصہ نہیں لیا لیکن ان پر میرا کوئی گلہ نہیں.مجھے شکایت ان سے ہے جو اپنا نام لکھوا کر پھر پیچھے ہٹے اور انہوں نے وقت کے اندر چندہ ادا نہ کیا.میں نے ان کی سہولت کیلئے یہ اعلان بھی کر دیا تھا کہ اگر کوئی شخص دیکھتا ہے کہ اس کے حالات ایسے ہیں کہ وہ چندہ ادا کرنے کی بالکل طاقت نہیں رکھتا مگر نام لکھا چکا ہے تو وہ اپنی میعاد میں اضافہ کرا لے یا مجھ سے معافی لے لے.میں اس کا چندہ معاف کرنے کے لئے تیار ہوں.اسطرح وہ خدا کے حضور مجرم نہیں بنے گا، کیونکہ خدا کہے گا کہ جب میرے نمائندہ نے تجھے معاف کر دیا تو میں نے بھی تجھے معاف کر دیا.خدا رو پے کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ سچائی دیکھتا ہے.اگر تم ایک عیسائی سے کوئی وعدہ کرتے ہو تو اس وقت عیسائی اس کا نمائندہ ہے اور تمہارا فرض ہے کہ اس وعدے کو پورا کرو اور اگر تم ایک یہودی سے کوئی وعدہ کرتے ہو تو اس وقت یہودی اس کا نمائندہ ہے اور تمہارا فرض ہے کہ اس وعدے کو پورا کرو، کیونکہ جس سے وعدہ ہو گیا اس کے اور وعدہ کرنے والے کے درمیان خدا آجاتا ہے.پس وعدے کو پورا کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے اور جب میں نے ان لوگوں کیلئے جو سخت مالی مشکلات میں مبتلا ہوں یہ صورت پیدا کر دی تھی تو انہیں چاہئے تھا کہ وہ اس سے فائدہ اٹھاتے اور خدا تعالیٰ کے گنہ گار نہ بنتے مگر کئی دوست ایسے ہیں جنہوں نے اس سے بھی فائدہ نہیں اٹھایا.میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر وقت کے اندرا دا نہیں کر سکتے تو مہلتیں لے لو.چنانچہ بعض نے مزید مہلت لے لی مگر بعضوں نے مہلت بھی نہیں لی.چندہ معاف بھی نہیں کرایا اور وقت کے اندر بھی ادا نہیں کیا.گویا انہیں یہ شوق تھا کہ ہم ضرور گنہگار بنیں گے اور کسی رعایت سے فائدہ نہیں اٹھا ئیں گے.اب بھی میں یہی کہتا ہوں کہ جو شخص 474

Page 487

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اؤل اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1937ء چندہ دے سکتا ہے دے اور جو نہیں دے سکتا وہ نہ دے اور اگر کوئی شخص ایسا ہے جو اپنے پہلے چندوں سے بھی زیادہ چندہ دینا چاہتا ہے تو میں اسے بھی نہیں روکتا.میرے مخاطب صرف وہ لوگ ہیں جو چندہ دے سکتے ہیں اور دینے کا ارادہ رکھتے ہیں.چنانچہ گو بھی تحریک نہیں کی گئی تھی مگر اس وقت تک چار پانچ وعدے میرے پاس آچکے ہیں اور وہ ان کے پہلے وعدوں سے زیادہ ہیں.ان میں سے ایک چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا وعدہ ہے اور دوسرا ڈاکٹر شاہ نواز خان صاحب افریقہ کا.خود میرا ارادہ بھی پہلے تین سالوں سے زیادہ چندہ دینے کا ہے.اسی طرح اور بھی بعض دوستوں کے وعدے آچکے ہیں.پس جو لوگ زیادہ دے سکتے ہیں ان کو میں نہیں روکتا.جو شخص نیکی کے میدان میں جس قدر زیادہ قدم بڑھاتا ہے اسی قدر زیادہ وہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کا مستحق ہوتا ہے.پس میں ان سے بھی جو زیادہ چندہ دے سکتے ہیں کہتا ہوں کہ نیکیوں کا میدان وسیع ہے آؤ اور آگے بڑھو اور جو شخص چندہ نہیں دینا چاہتا اسے میں یہ کہتا ہوں کہ اگر تم چندہ نہیں دینا چاہتے تو مت دو اور وعدہ بھی مت لکھواؤ.ایسانہ ہو کہ تم گنہ گار ٹھر ولیکن اگر کوئی شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ خواہ مجھے تنگی سے گزارہ کرنا پڑے میں چندہ ضرور ادا کروں گا تو میں اس سے کہتا ہوں کہ تم کم سے کم اس قدر قربانی کرو جس قدر تم نے پہلے سال کی تھی اور انہی اصول پر کرو جو پہلے سال میں نے بتائے تھے یعنی دو دو چار چار روپے نہیں بلکہ کم از کم پانچ روپے اس تحریک میں دیئے جائیں.پھر دس ، پھر میں، پھر تھیں، پھر ساٹھ، پھر سو، پھر دوسو، پھر تین سو اور جو اس سے بھی زیادہ دے سکتا ہے وہ اس سے زیادہ دے مگر جو شخص اتنا چندہ نہیں دے سکتا جتنا اس نے پہلے سال دیا تھا تو اگر جس قدر رقم اس نے دی تھی اس سے کم تر کسی اور رقم کی اجازت ہے.تو وہ اپنے حالات کے مطابق اس سے کم چندہ دے دے مثلاً اگر کسی نے پہلے سال میں روپے دیئے اور اس سال وہ اتنے نہیں دے سکتا تو وہ ہیں دے سکتا ہے اور اگر کسی نے ہمیں دیئے تھے اور اس سال وہ اتنے روپے نہیں دے سکتا تو اس کیلئے بھی گنجائش ہے وہ دس روپے دے سکتا ہے اور اگر کوئی شخص جس نے پہلے سال دس روپے دیئے تھے اس سال دس دینے کی بھی طاقت نہیں رکھتا تو پانچ دے لیکن چونکہ یہ آخری حد ہے اسلئے اگر کوئی شخص ایسا ہو جس نے پہلے سال پانچ وپے دیئے تھے اور اس سال وہ پانچ بھی نہیں دے سکتا تو پھر وہ اس تحریک میں حصہ نہ لے کیونکہ پانچ سے کم کوئی رقم اس تحریک میں قبول نہیں کی جاتی.پس جو شخص دے سکتا ہے وہ انہی اصول پر دے جو میں مقرر کر چکا ہوں سوائے اسکے کہ وہ اس سے زیادہ دینا چاہتا ہو.مثلاً کوئی شخص تین سو کی بجائے ہزار، دو ہزار یا تین ہزار دینا چاہے تو شوق سے دے.اللہ تعالیٰ کے فضل غیر محدود ہیں اور اس کے پاس جس.475

Page 488

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 26 نومبر 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول طرح تین سور و پیہ چندہ دینے والے کے لئے جزاء ہے.اسی طرح اس کے پاس تین ہزار روپیہ چندہ دینے والے کے لئے بھی جزاء ہے.اسی طرح اگر کوئی شخص پانچ ہزار روپیہ چندہ دینا چاہے تو وہ پانچ ہزار روپیہ چندہ کی جزاء بھی دے سکتا ہے اور اسکی طرف سے قربانی کے مطابق ثواب ملتا ہے جو شخص دو ہزار روپے دے سکتا ہے مگر وہ تین سو دیتا ہے اسے وہ ثواب ہر گز نہیں مل سکتا جو اس شخص کو ملے گا جو پانچ روپے دینے کی تو فیق رکھتا تھا اور اس نے پانچ روپے ہی دیئے کیونکہ دو ہزار دینے کی توفیق رکھنے والا جب تین سو روپیہ دیتا ہے تو وہ اپنی طاقت کا ساتواں حصہ قربانی کرتا ہے، لیکن پانچ روپے دینے کی طاقت رکھنے والا جب پانچ روپے ہی رے دیتا ہے تو وہ سو فیصدی قربانی کرتا ہے.پس خدا پانچ روپے دینے والے کو زیادہ ثواب دے گا اور تین سو روپے دینے والے کو کم کیونکہ وہ ثواب رو پید کی مقدار پر نہیں دیتا بلکہ قربانی کی طاقت پر دیتا ہے.پس یہ مت خیال کرو کہ چونکہ تم نے تین سوروپے دے دیئے ہیں اسلئے ضرور تم پانچ روپے چندہ دینے والے.ثواب میں بڑھ کر رہو گے.سینکڑوں پانچ روپے دینے والے ایسے ہونگے جو تین سو روپے چندہ دینے والوں سے زیادہ ثواب کے مستحق ہوں گے کیونکہ انہیں پانچ سے زیادہ روپیہ دینے کی توفیق نہیں تھی اور تین سو روپیہ دینے والوں کو یہ توفیق تھی کہ وہ چار سو دیتے یا پانچ سو دیتے یا ہزار بلکہ اس سے بھی بڑھ کر دیتے.پس اس سال کے لئے میری تحریک یہی ہے کہ جتنا کسی شخص نے اس تین سالہ دور کے پہلے سال چندہ دیا تھا، اتنا ہی چندہ اس سال دے.پھر میری سکیم یہ ہے کہ ہر سال اس چندہ میں دس فیصدی کم کرتے چلے جائیں یعنی جس نے اس سال سو روپیہ چندہ دیا ہے اس سے اگلے سال نوے روپے لئے جائیں گے پھر اس سے اگلے سال اسی روپے.پھر تیسرے سال ستر روپے.پھر چوتھے سال ساٹھ روپے.پھر پانچویں سال پچاس روپے اور پھر یہ پچاس فیصدی چندہ باقی دو سال مسلسل چلتا جائے گا اور ساتویں سال کے بعد چندے کے اس طریق کو ختم کر دیا جائے گا.یہ مطلب تو نہیں کہ پھر سات سال چندہ کا سلسلہ بند کر دیا جائے گا.چندے تو صدر انجمن احمدیہ کی ضرورت کیلئے بھی ہوتے ہیں.ممکن ہے کہ خدا تعالٰی اور کوئی کام پیدا کر دے مگر تحریک جدید کی سکیم کے بارہ میں میری سکیم ایسی ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس رنگ میں چندہ کی ضرورت نہ رہے گی انشاء اللہ تعالیٰ اور ان سالوں میں اس کی اپنی ذاتی آمد ایسی ہو جائے گی جو اس کام کو جاری رکھنے کیلئے کافی ہو.اس سکیم پر کسی شخص کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے کہ جماعت پر بوجھ ڈال دیا گیا ہے کیونکہ میں اس چندہ کیلئے کسی کو مجبور نہیں کرتا.میں ان کو مخاطب کر رہا ہوں جن کو اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی ہوئی ہے اور جو میری آواز پر لبیک کہنے میں سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی 476

Page 489

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 26 نومبر 1937ء طرف سے ثواب ہے.پس وہ جو مالی وسعت رکھتے ہیں میں ان سے کہتا ہوں کہ اپنی زندگی کے دن اچھے بنالو اور ثواب کا جو یہ موقع ہے اس سے فائدہ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرو اور جولوگ پہلے سے بھی زیادہ بوجھ اٹھانے کی طاقت رکھتے ہیں.میں ان سے کہتا ہوں کہ تم نے پہلے بھی ثواب کمایا اور اب اور ثواب کمالو کہ خدا نے تمہارے لئے اپنے فضل کے دروازے کھول دیئے.مگر وہ جو طاقت رکھنے کے با وجود اس میں حصہ نہیں لیتا.اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے اور جو اس چندہ میں حصہ لینے سے بالکل معذور ہے اس پر ہرگز کوئی گناہ نہیں.نہ میری طرف سے اور نہ خدا تعالیٰ کی طرف سے.گویا اس سال میری تحریک یہ ہے کہ اپنے پہلے سال کے چندہ کے برابر چندہ دو اور جو اس قدر نہ دے سکتا ہو وہ کم دے.بشرطیکہ اس سے کم چندہ دیا جا سکتا ہو.مثلاً جس نے پہلے سال دس دیئے تھے اور اس سال وہ دس روپے نہیں دے سکتا تو وہ پانچ دے اور جس نے پانچ دیئے تھے اور اس سال وہ پانچ نہیں دے سکتا وہ کچھ بھی نہ دے کیونکہ پانچ سے کم کوئی رقم اس تحریک میں نہیں لی جاتی.اسی طرح ہیں روپے دینے والا دس روپے دے سکتا ہے.تمہیں روپے دینے والا نہیں دے سکتا ہے.ستائیں اٹھا ئیں نہیں.کیونکہ ایسا کوئی درجہ مقرر نہیں.ہاں جس نے ہمیں دیئے تھے وہ چاہے تو ستائیس اٹھائیس دے سکتا ہے کیونکہ وہ زیادتی ہے.اسی طرح جو شخص سوروپے دے سکتا ہے وہ سو روپے دے اور جوس نہیں دے سکتا وہ پانچ یا پانچ کے اعداد کے لحاظ سے رقم میں کمی کر سکتا ہے.پس چندہ کے جو درجات مقرر ہیں ان کے مطابق چندہ دو اور جو شخص مقررہ رقوم سے زیادہ رقم چندہ دے سکتا ہے اس سے میں کہتا ہوں کہ وہ زیادہ دے اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کے نزول کی بھی زیادہ امید رکھے.پس ہر شخص جو ثواب حاصل کرنے کا آرزومند ہے اس سے میں کہتا ہوں کہ ثواب کے دروازے تمہارے لئے کھلے ہیں آگے بڑھو اور ان دروازوں میں داخل ہو کر اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرو.بے شک یہ چندہ نفلی ہے، مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ نوافل کے ذریعہ ہی خدا تعالیٰ کا قرب انسان کو حاصل ہوتا ہے.پس جو شخص چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرے وہ اس نفل کے ذریعہ اس کا قرب حاصل کر سکتا ہے.اگلے سال انشاء اللہ تعالیٰ یہ چندہ نوے فیصدی پر آجائے گا اور اس وقت آنوں پائیوں کی کمی بھی جائز ہوگی مثلاً جس نے اس سال پانچ روپے چندہ میں دیئے ہیں وہ اگلے سال ساڑھے چار روپے دے سکے گا اور جس نے دس روپے دیئے ہونگے اس کیلئے نو روپے رہ جائیں گے.اس طرح جس نے سوروپے دیئے ہونگے اگلے سال اسے نوے روپے دینے گے اور جس نے تین سو روپے دیئے ہونگے اسے دوسو ستر روپے دینے پڑیں گے.غرض اس سال 477

Page 490

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 26 نومبر 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول نہیں بلکہ اس سے اگلے سال پانچ روپے دینے والے کیلئے جائز ہوگا کہ وہ ساڑھے چار دے اور دس دینے والے کے لئے یہ جائز ہوگا کہ وہ تو دے اور تمیں والے کے لئے یہ جائز ہوگا کہ وہ ستائیس روپے دے مگر پھر بھی جو زیادہ چندہ دینا چاہے اسکے لئے رستہ کھلا ہوگا.یہ کمی اسی طرح سال بہ سال ہوتی چلی جائے گی یہاں تک کہ پچاس فی صدی کمی پر آکر یہ چندہ ٹھہر جائے گا اور دو سال اور گزرنے کے بعد اسے بند کر دیا جائے گا.اس انتظام کے بعد مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اتنے عرصہ میں تحریک جدید کے جو کارخانے قائم کئے گئے ہیں اور اس کی جو جائیدادیں خریدی گئی ہیں وہ ایسے رنگ میں آزاد ہو جائیں گی کہ مرکزی دفتر کے اخراجات خود بخود چلتے چلے جائیں گے.پس اس رنگ میں ہر سال اول تو چندے کا بوجھ کم ہوتا چلا جائے گا اور دوسرے یہ تحریک ایک مستقل صورت اختیار کرتی چلی جائے گی.یادرکھو.بہر حال قربانی خواہ کیسی ہی ہو جب تک انسان اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد نہ کر دے اور اس کی قربانی میں خلوص اور محبت نہ پائی جائے اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی.پس نہ صرف قربانیوں کی ضرورت ہے بلکہ اس اخلاص کی بھی ضرورت ہے جو قر بانیوں کو نتیجہ خیز بناتا ہے.یہ تحریک ہے جو اس سال میں کر رہا ہوں.بعض دوست جن کو یہ خیال تھا کہ میں اب کی دفعہ پہلے سالوں سے زیادہ مالی قربانی کا مطالبہ کروں گا.ان کی توقع کے خلاف میں نے قربانی کا مطالبہ کم کر دیا ہے لیکن اس کی میعاد بجائے تین سال کے اب میں نے دس سال کر دی ہے یعنی تین سال وہ جو گزر چکے ہیں اور سات سال وہ جو آئندہ آنیوالے ہیں اور یہ عجیب بات ہے متعدد دوستوں کی طرف سے مجھے یہ چٹھیاں آچکی ہیں کہ میں اس تحریک کو تین سال میں ختم کرنے کی بجائے دس سال تک بڑھا دوں.میرا اپنا بھی خیال اس نئے سال سے اس قسم کا اعلان کرنے کا تھا.پس ان تحریکوں کو جو بالکل میرے خیال سے تو ارد کھا گئیں.مجھے یقین ہوا کہ یہ الہی القا ہے.پس اس تحریک کی میعاد میں توسیع اللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت ہے اور دوستوں کو چاہئے کہ وہ اس میں اپنے اخلاص اور اپنی طاقت کے مطابق حصہ لیں.اسی تحریک کے امانت فنڈ کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ دوست جو امانت فنڈ میں روپے جمع کرا رہے ہیں ، وہ اپنے سابقہ طریق کو جاری رکھنے کی کوشش کریں اور جنہوں نے ابھی تک اس میں کوئی حصہ نہیں لیا وہ اس سال سے امانت فنڈ میں اپنے روپے جمع کرانے شروع کر دیں مگر جو دوست آئندہ کیلئے اس میں حصہ نہیں لے سکتے اور چاہتے ہیں کہ ان کا روپیہان کو واپس دیا جائے اُن کیلئے دونوں صورتیں ہیں.جن کے متعلق مرکز کو یہ اختیار ہے کہ وہ اس میں سے جو صورت چاہے اختیار کر لے.یعنی وہ چاہے تو انہیں ان کے روپیہ کے 478

Page 491

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 26 نومبر 1937ء بدلہ میں کوئی جائیداد دے دے اور اگر روپیہ دینے کی گنجائش ہوتو روپیہ واپس کر دے لیکن دوستوں کو میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ جن کے پاس روپیہ موجود ہے اور وہ امانت فنڈ میں آئندہ بھی رقوم جمع کرا سکتے ہیں وہ اپنے اس طریق کو جاری رکھیں اور روپیہ برابر جمع کراتے رہیں مگر وہ دوست جو یہ سمجھتے ہیں کہ اب وہ مجبور ہیں اور آئندہ وہ امانت فنڈ کی تحریک میں شامل نہیں رہ سکتے وہ دفتر کو اطلاع دے دیں اور یہ بھی لکھ دیں کہ آیا وہ روپیہ کو ترجیح دیتے ہیں کہ جائیداد کو.اگر وہ اپنی امانت بصورت نقد لینا چاہیں گے تو جس حد تک ممکن ہو گا انہیں روپیہ واپس کر دیا جائے گا اور اگر روپیہ نہ ہوا تو اس قیمت کی انہیں کوئی جائیداد دے دی جائے گی اور جیسا کہ میں نے شروع میں ہی اعلان کر دیا تھا.اصل قاعدہ یہی ہے کہ جائیداد کی صورت میں امانت واپس کی جائے اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں دوستوں کا نفع بھی اس میں ہے کیونکہ اس صورت میں انہیں کچھ فائدہ ہو جائے گا.جو لوگ امانت واپس لینا چاہیں اس کے لئے میں ایک کمیٹی بنادوں گا جس میں زیادہ تر ان لوگوں کو شامل کروں گا جو امانت فنڈ کے حصہ دار ہیں تا وہ دیکھ لیں کہ کسی سے بے انصافی تو نہیں ہو رہی اور آیا سب کے حقوق ادا ہو گئے ہیں یا نہیں اسکے ساتھ ہی میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ جو دوست سے جاری رکھنا چاہتے ہیں وہ بھی اطلاع دے دیں اور بحیثیت مجموعی سب دوست کوشش کریں کہ اپنے اس طریق عمل کو جاری رکھیں اور بجائے حساب بند کرانے کے اور دوستوں کو بھی ترغیب دے کر نئے حساب کھلوائیں کیونکہ اس کے فوائد نہایت اہم ہیں اور اس کو جاری رکھنا نہایت ضروری ہے.پس تحریک جدید کے دوسرے دور میں میں جماعت کے احباب سے جو میں نے ہر چند چاہا کہ تم گنہگار نہ بنو.میں نے تمہارے لئے اس چندہ کو طوعی رکھا.میں نے تمہیں کہا کہ اگر تم وقت کے اندرا دا نہیں کر سکتے تو مزید مہلت لے لو.میں نے تمہیں کہا کہ اگر تم بالکل دینے کی طاقت نہیں رکھتے تو چندہ معاف کرالومگر افسوس تم نے میری کسی رعایت سے فائدہ نہ اٹھایا اور گنہگار ہونا پسند کر لیا.یاد رکھو مجھے روپے کی ضرورت نہیں.میں اپنے لئے تم سے کچھ نہیں مانگتا.میں خدا کیلئے اور اس کے دین کی اشاعت کیلئے تم سے مانگ رہا ہوں اور اگر تم اس چندہ میں حصہ نہیں لو گے تو خدا خود اپنے دین کی ترقی کا سامان کرے گا مگر میں اس سے ڈرتا ہوں کہ تم دین کی ترقی میں حصہ نہ لے کر گنہگار نہ ہو.پس میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم اس موقع کو غنیمت سمجھو اور خدمت اسلام کے لئے اپنے مالوں کو قربان کر دو.جو شخص تکلیف اٹھا کر اس خدمت میں حصہ لے گا میں اس کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ دعا کر چکے ہیں کہ اے خدا وہ شخص جو تیرے دین کی خدمت میں حصہ لے تو اس پر اپنے خاص فضلوں کی بارش نازل فرما اور آفات اور مصائب 479

Page 492

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 26 نومبر 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول اسے محفوظ رکھ.پس وہ شخص جو اس تحریک میں حصہ لے گا اُسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس دعا سے بھی حصہ ملے گا اور پھر میری دعاؤں میں بھی وہ حصہ دار ہو جائے گا.پس جو شخص اس تحریک میں حصہ لیتا ہے وہ لے اور اگر کوئی شخص اس میں حصہ نہیں لے سکتا تو میں اسے کہتا ہوں کہ تم ہرگز حصہ نہ لو تم خدا کے حضور بری ہو اور جو لوگ زیادہ حصہ لے سکتے ہیں انہیں میں کہتا ہوں کہ میری حد بندیوں کو نہ دیکھو.خدا تعالیٰ کے پاس غیر محدود ثواب ہیں.اگر تم زیادہ قربانی کرو گے تو زیادہ ثواب کے مستحق بنو گے.غرض یہ تحریک جدید کا مالی حصہ ہے.جس کا مطالبہ آج میں نے سب کے سامنے پیش کر دیا ہے اور میں نے بتا دیا ہے کہ یہ چندہ رفتہ رفتہ گھٹتے گھٹتے پچاس فیصدی تک آجائے گا اور سات سال گزرنے کے بعد بند کر دیا جائے گا.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس وقت تک اس محکمہ کو ایسا مضبوط بنا دے کہ یہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے اور اپنی مستقل آمد سے تبلیغ کی ضرورتوں کو پورا کرتا چلا جائے.اسی طرح وہ دوست جنہوں نے امانت فنڈ میں روپیہ جمع کرانے کا کام گزشتہ سالوں میں جاری رکھا ہے انہیں میں یہ کہتا ہوں کہ وہ بھی یہ بتادیں کہ آئندہ کیلئے وہ اس سلسلہ کو جاری رکھنا چاہتے ہیں، اگر بند کرنا چاہتے ہیں تو وہ ساتھ ہی یہ بھی بتا دیں کہ وہ کس چیز کو ترجیح دیتے ہیں روپیہ کو یا جائیداد کو.گو مرکز اس بات کا پابند نہیں کہ وہ امانت جمع کرانے والے کوضرور رو پیر دے لیکن اس بات کی کوشش ضرور کی جائے گی کہ اگر روپیہ ہو تو انہیں روپیہ ہی واپس کیا جائے اور اگر روپیہ نہ ہو تو انہیں قیمت خرید کے مطابق کوئی جائیداد دے دی جائے گی لیکن میں دوستوں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ امانت فنڈ میں روپیہ جمع کرانے کا کام جاری رکھیں اور جو دوست ابھی تک اس میں شامل نہیں ہوئے وہ اس وقت ہی شامل ہو جائیں لیکن بہر حال جو لوگ نئے شامل ہو نگے یا وہ دوست جو گزشتہ طریق کو جاری رکھیں گے انہیں مسلسل سات سال اور امانت فنڈ میں روپیہ جمع کرانا پڑے گا اور گوروپیہ پس انداز کرنا صرف سات سال یا دس سال تک ضروری نہیں ہوتا.ساری عمر ہی انسان کو اپنا روپیہ پس انداز کرتے رہنا چاہئے لیکن اس تحریک میں شامل ہونے والے کو سات سال اور اپنا روپیہ امانت فنڈ میں جمع کرانا پڑے گا اور اگر کوئی شخص سات سال تک جمع نہیں کراسکتا تو کم سے کم اور تین سال کیلئے ہی جمع کرا دے لیکن میری نصیحت یہی ہے کہ جن دوستوں نے امانت فنڈ کی تحریک میں شمولیت اختیار کی ہے انہیں چاہئے کہ ان سے جہاں تک ہو سکے اسے جاری رکھیں.مجھے افسوس ہے کہ اس فنڈ میں روپیہ کی آمد میں کمی ہوتی چلی جارہی ہے.پہلے سال ستر پچھتر ہزار روپیہ جمع ہوا.دوسرے سال ساٹھ ہزار اور اس سال چالیس بیالیس ہزار.یہ کوئی یقینی اعداد و شمار نہیں مگر جو صیح اعداد و شمار ہیں وہ اسکے قریب 480

Page 493

تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 26 نومبر 1937ء قریب ہیں.حالانکہ یہ نہایت ہی اہم فنڈ ہے اور ایک مجلس شوری کے موقع پر ایک خفیہ میٹنگ میں میں نے دوستوں پر اس کی اہمیت کو پوری طرح واضح کر دیا تھا.پس اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور اسے کسی لمحہ بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.گزشتہ احرار کے فتن میں ہمارے دشمنوں کو جو ناکامی ہوئی اس میں امانت فنڈ کا بہت بڑا حصہ ہے اور اب جو نیا فتنہ اٹھا تھا اس نے بھی اگر زور نہیں پکڑا تو در حقیقت اس میں بھی بہت سا حصہ تحریک جدید کے امانت فنڈ کا ہے.پس اس امانت فنڈ میں جو دوست حصہ لے سکتے ہیں وہ ضرور لیں اور چاہے ایک روپیہ یا دو روپے ماہوار جمع کرائیں.بالالتزام اس فنڈ میں روپیہ جمع کراتے جائیں اور جو پہلے ہی اس میں حصہ لے رہے ہیں وہ اسے جاری رکھیں اور سات سال اور روپیہ جمع کراتے جائیں لیکن جو لوگ سات سال تک روپیہ جمع نہ کر سکتے ہوں وہ کم از کم تین سال تک اور بھی اس میں حصہ لیں اور جو لوگ آئندہ اس میں شامل نہیں رہنا چاہتے اور اپنی جمع شدہ امانت واپس لینا چاہتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ یہ اطلاع دیں کہ وہ روپیہ لینا چاہتے ہیں یا جائیداد لینا چاہتے ہیں اگر روپیہ کا مطالبہ کریں گے تو گوگوشش ہماری یہی ہوگی کہ انہیں روپیہ واپس دیا جائے لیکن اگر روپیہ نہ دیا جا سکا تو جیسا کہ میں نے پہلے بتادیا تھا کہ انہیں اس روپیہ کہ بدلہ میں اس قیمت کی کوئی جائیداد دیدی جائے گی اور جو آئندہ کیلئے اس میں شامل رہنا چاہتے ہوں لیکن گزشتہ امانت واپس لینا چاہتے ہوں وہ بھی اطلاع دے دیں.غرض تمام دوستوں کی طرف سے فرداً فرداً اطلاعات آجانی چاہئیں.اس کے بعد ایک کمیٹی بنا دی جائے گی.جس میں حصہ داران کو بھی شامل کیا جائے گا اور وہ روپیہ کی تقسیم کے کام میں مشورہ دیں گے تاکسی کو شکایت پیدا نہ ہو.پس مالی مطالبہ سے میں اس تحریک جدید کے دوسرے دور کا آغاز کرتا ہوں اور اسکی باقی تفصیلات کو اگلے خطبات پر ملتوی کرتا ہوں.اس وقت میں بتاؤں گا کہ ہماری جماعت پر کتنی اہم ذمہ داریاں عائد ہیں اور اسے اپنے نظام میں کس رنگ میں تبدیلی کرنی چاہئے.وما توفیقی الا بالله 66 ( مطبوع الفضل 14 دسمبر 1937ء ) 481

Page 494

Page 495

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 3 دسمبر 1937ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام جہاں جہاں ممکن ہو جلدی پہنچایا جائے 22 خطبہ جمعہ فرمودہ 3 دسمبر 1937ء اس کے بعد میں دوستوں کو اختصار کے ساتھ اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ تحریک جدید کے مالی حصہ کے نئے دور کا اعلان میں گزشتہ جمعہ میں کر چکا ہوں اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے میری سکیم یہ ہے کہ اس کی مالی تحریک کو سات سال کے عرصہ میں ختم کر دیا جائے اور اسے درجہ بدرجہ اس طرح کم کرتے جائیں کہ آخری تین سالوں میں یہ چندہ پچاس فیصدی رہ جائے گا اور پھر سات سال کے بعد بالکل چھوڑ دیا جائے گا کیونکہ کوشش ہو رہی ہے کہ ایک ایسا مستقل سرمایہ مہیا ہو جائے کہ تحریک جدید کے کاموں کیلئے کسی علیحدہ چندے کی ضرورت ہی نہ رہے.سوائے اس کے کہ کبھی کوئی خاص ضرورت پیدا ہو جائے لیکن عام ضروریات کیلئے مستقل سرمایہ ہو.اس وقت تحریک جدید کے ماتحت ہم گیارہ بارہ مشن قائم کر چکے ہیں اور ان کا کام اس قدر کفایت سے چلایا جاتا ہے کہ ان پر اس رقم سے بھی کم خرچ ہوتا ہے جو ہمارے پرانے دو تین مشوں پر خرچ ہوتی ہے.ان مشنوں میں سے تین تو یورپ میں ہیں، جس کے ممالک کی گرانی مشہور ہے اور ایک امریکہ میں جہاں یورپ سے بھی زیادہ گرانی ہے مگر ان سب پر روپیہ اس سے بھی کم خرچ ہو رہا ہے جو پرانے دومشنوں پر ہوتا ہے اور یہ ان نو جوانوں کے تعاون کی وجہ سے ہے جو باہر گئے ہوئے ہیں اور جنہوں نے یہ وعدہ کیا ہے کہ خود تکالیف اٹھا کر بھی دین کا کام کریں گے.اسلئے ان چار مشنوں پر ہمارا اتنا بھی خرچ نہیں ہوتا جتنا صرف انگلستان کے مشن پر ہورہا ہے.انگلستان کے مشن پر قریباً سات آٹھ سوروپیہ ماہوار خرچ ہوتا ہے اور یہ بھی اب کم ہوا ہے.پہلے گیارہ بارہ سو ہوتا تھا مگر ان چار مشنوں پر قریباً 275 روپے ماہوار خرچ ہورہا ہے اس میں شک نہیں کہ یہ خرچ لٹریچر کے علاوہ ہے یعنی رسالے اور کتب وغیرہ ان مشنوں کو علیحدہ مہیا کی جاتی ہیں مگر یہ خرچ انگلستان کے مشن پر بھی الگ ہوتا ہے اور یہ خرچ ایسا ہے کہ ہم جتنا چاہیں کر سکتے ہیں.جتنا لٹریچر چھپوا ئیں اسی کے لحاظ سے خرچ ہو گا.خواہ دس لاکھ کریں یا ایک سوکریں.جہاں تک کام کرنے والوں کا تعلق ہے چار مشنوں پر صرف پونے تین سو روپے ماہوار کے قریب خرچ ہے.ان میں سے ایک مشن یعنی امریکہ کا مشن تو ایسا ہے جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت کامیابی ہو رہی ہے وہاں کا مشنری خود محنت کر کے اپنا گزارہ کرتا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ نے ایک 483

Page 496

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 3 دسمبر 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول مخلص جماعت عربوں کی بھی ایسی دے دی ہے جو چندہ دیتی ہے اور ان کا چندہ اب یہاں بھی آنا شروع ہو گیا ہے اور امید ہے کہ وہاں جلد تر ترقی ہوتی جائے گی، کیونکہ وہاں ایک خاصی تعدا د عربوں کی ہے جو سلسلہ کی طرف متوجہ ہیں.ان کے علاوہ چین میں، جاپان میں اور سٹریٹ سیٹلمنٹ میں بھی ہمارے مشن قائم ہو چکے ہیں اور دو دو مبلغ وہاں کام کرتے ہیں اور پھر مصر اور افریقہ میں بھی مبلغین پہنچ چکے ہیں اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو اپنے خرچ پر ہی کام کر رہے ہیں یا برائے نام امداد لیتے ہیں اور بعض تو گئے بھی اپنے خرچ پر ہیں.جن مبلغوں کو خرچ جاتا ہے انہیں بھی ہماری ہدایت ہے کہ خرچ بہت کم کریں.ان کے علاوہ کچھ مشن ہندوستان میں بھی تحریک جدید کے ماتحت قائم ہیں.مثلاً ویروال ضلع امرتسر میں یا مکیریاں ضلع ہوشیار پور میں.ایک مشن کراچی میں ہے.ان میں بعض لوگ برائے نام گزارہ پر کام کرتے ہیں اور باقی جماعت کے دوست مہینہ مہینہ یا بیس بیس یا دس دس دن جا کر کام کرتے ہیں.ان مشنوں کے علاوہ انگریزی لٹریچر کی ضرورت کو بھی پورا کیا جارہا ہے.دو انگریزی اخبار ایک سن رائز لاہور سے اور ایک مسلم ٹائمنر لنڈن سے شائع ہوتے ہیں.ان میں سے بالخصوص سن رائز کی ضرورت اور اہمیت کو بہت محسوس کیا جارہا ہے اور یہ پر چھا اگر چہ ہمیں قریباً مفت ہی دینا پڑتا ہے مگر فائدہ بہت ہے.امریکہ سے نو مسلمین نے لکھا ہے کہ یہ اخبار بہت ضروری ہے اور اسے پڑھ کر ہمیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم لوگ بھی جماعت کا ایک حصہ ہیں.خصوصاً اس میں جو خطبہ جمعہ کا ترجمہ ہوتا ہے وہ ہمارے لئے ایمانی ترقیات کا موجب ہے.پہلے ہم یوں سمجھتے تھے کہ ہم جماعت سے کٹے ہوئے الگ تھلگ ہیں مگر اب خطبہ پہنچ جاتا ہے اور ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم بھی گویا جماعت کا ایک حصہ ہیں.اسکے علاوہ کتا بیں بھی شائع کی جاتی ہیں.پہلے احمدیت کو شائع کیا گیا اور دو تین کتابیں اس سال بھی شائع کی جارہی ہیں.قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ جس کے لئے مولوی شیر علی صاحب ولایت گئے ہوئے ہیں اس کیلئے بھی تحریک جدید سے ایک معقول رقم علیحدہ کر دی گئی ہے.اس کے علاوہ غربا کیلئے کارخانے بھی جاری کئے گئے ہیں تا یتامی اور مساکین بچے تو پاسکیں.اس وقت ہیں بائیس ایسے طالبعلم ہیں جن میں سے بعض کا تو تمام خرچ ہمیں برداشت کرنا پڑتا ہے اور بعض کو امداد دینی پڑتی ہے اور ان کیلئے دینی تعلیم کا سارا خرچ ہمیں کرنا پڑتا ہے.یہ ایک مستقل کام ہے جسے تین سال کے بعد چھوڑا نہیں جاسکتا.پھر ابھی تک کئی ممالک ایسے ہیں جہاں مبلغ پہنچنے چاہئیں مگر نہیں پہنچے.مومن کسی نیک کام کو شروع کر کے بند نہیں کرتا بلکہ اسے بڑھاتا ہے اور یہی نیت میری ہے اگر خدا تعالیٰ توفیق دے تو ہر ملک میں مشن قائم کر دیئے جائیں اب تک تو صرف یہ کوشش کی گئی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ممالک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام پہنچا دیا جائے اور اس میں بعض نا تجربہ کار تعلیم 484

Page 497

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 3 دسمبر 1937ء لوگوں سے بھی کام لینا پڑا ہے.بعض کام ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں تجربہ کاروں کا انتظار نہیں کیا جا سکتا.کسی شخص کے مکان پر ڈاکوؤں نے حملہ کیا ہو، تو کیا وہ یہ انتظار کرتا ہے کہ سپاہی آئیں تو ان سے لڑائی کریں نہیں بلکہ اس کے گھر کے لوگوں میں سے جس کے ہاتھ میں لٹھ آجائے وہ الٹھ لے کر جس کے ہاتھ میں کدال ہو وہ کدال لے کر مقابلہ کیلئے کھڑا ہو جاتا ہے.اس وقت تجربہ کاروں کے انتظار میں وقت ضائع نہیں کیا جاتا.تو یہ جومشن ہیں یہ نا تجربہ کار نو جوانوں کو بھیج کر قائم ہوتے ہیں اور اس وجہ سے ان سے غلطیاں بھی ہوتی رہتی ہیں اور کچھ انہیں خود بخود تجربہ ہوتا جاتا ہے اور کچھ ہم اصلاح کرتے ہیں مگر اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام ان ممالک میں پھیل رہا ہے اور خدا کا یہ کلام پورا ہورہا ہے کہ میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا.اور ہم اس کے پورا کرنے میں ممد ہورہے ہیں مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایسے عظیم الشان کام کے لئے تجربہ کار مبلغ ہی زیادہ مفید ہو سکتے ہیں مگر ایسے مبلغین ہمارے پاس ہیں نہیں جو مبلغ جامعہ احمدیہ سے نکلتے ہیں وہ انگریزی نہیں جانتے.اسی دن کے لئے میں برابر دس سال سے اس بات پر زور دے رہا تھا کہ مبلغین کے لئے انگریزی لازمی رکھی جائے.گویہ دین کا حصہ نہیں مگر دین کا کام فی زمانہ اس کے بغیر نہیں کیا جا سکتا مگر افسوس ہے کہ محکموں نے میرے ساتھ تعاون نہیں کیا اور جو مبلغ نکلتے ہیں وہ اس کا چوتھا حصہ بلکہ دسواں حصہ انگریزی بھی نہیں جانتے.جتنی کے بیرونی ممالک میں کام کرنے کے لئے جاننا ضروری ہے اور اس لئے ہمیں ایسے نوجوانوں سے کام لینا پڑتا ہے جو انگریزی دان ہوتے ہیں مگر وہ دینیات سے اچھی طرح واقف نہیں ہوتے.اس لئے ہم ان کو چند کتابیں ہی پڑھا سکتے ہیں حالانکہ یہ کافی نہیں.باہر کئی پیچیدہ مسائل پیش آ جاتے ہیں.جنہیں ایسے لوگ حل نہیں کر سکتے کیونکہ چند کتا بیں دینیات کی پڑھنے سے دین کے لاکھوں مسائل کا علم نہیں ہوسکتا اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یا تو ان کو سبکی ہوتی ہے اور یا پھر وہ غلط مسائل بتا دیتے ہیں.یہ بات بالخصوص یورپ میں بہت خطرناک ثابت ہوسکتی ہے اور پھر غلط مسائل کا نکالنا مشکل ہو جاتا ہے لوگ یہی کہتے ہیں کہ سب سے پہلا فقیہہ جو آیا اس نے ہمیں یہ بتایا تھا.پس ضروری ہے کہ ایسے مبلغ ہوں جو دین کے پورے ماہر ہوں.( مجھے یاد آیا کہ یورپ میں تین نہیں بلکہ چار مشن تحریک جدید کے ماتحت قائم ہیں پولینڈ البانیہ، ہنگری اور اٹلی اور ان سب پر اس خرچ سے آدھے سے بھی کم خرچ ہوتا ہے جو انگلستان کے مشن پر ہوتا ہے ).تو ہمیں اس امر کی سخت ضروت ہے کہ ایسے آدمی مہیا کریں جو دین کے ماہر ہوں اور غیر ملکی زبانیں بھی جانتے ہوں اور اس کے لئے ہمیں ایک 485

Page 498

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 3 دسمبر 1937ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد اول خاص حکیم تیار کرنی پڑے گی یا تو ایسے آدمیوں کو جو مولوی ہوں انگریزی پڑھانی پڑے گی اور یا پھر انگریزی دانوں کیلئے عربی اور دینیات کی تعلیم کا انتظام کرنا پڑے گا.پہلے تو جو بھیجے گئے ہیں وہ اسی نقطہ نگاہ کو مدنظر رکھ کر بھیجے گئے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام جہاں جہاں بھی ممکن ہو جلد سے جلد پہنچایا جائے.اسلئے فوراً جو مل سکے وہ بھیج دیئے گئے تا وہ نام پہنچا ئیں اور تعلیم دینے والے بعد میں آئیں گے.اس وقت جو پانچ مشن مغربی ممالک میں ہیں، ان میں سے دو میں تو مولوی فاضل مبلغ کام کر رہے ہیں اور تین انگریزی دان ہیں جنہیں دینی تعلیم حاصل نہیں اور ہم نے ان کو یونہی بھیج دیا ہے ان کی جگہ ہمیں ایسے لوگ بھیجنے ہونگے جو عالم ہوں اور ان کو بلا کر یا تو فارغ کرنا پڑے گا اور یا ایسے رنگ میں ان کو تعلیم دینی پڑے گی کہ وہ پھر واپس جا کر مشن کا چارج لے سکیں.نئے مشنوں کیلئے ہمیں ابھی سے انتظام کرنا چاہئے کہ یا تو مولوی انگریزی پڑھ سکیں اور یا پھر انگریزی دان عربی اور دینیات کی تعلیم حاصل کر سکیں اور یہ سالہا سال کا مسلسل کام ہے.اب ہم ایسے مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ اکثر ممالک میں تین چار سال کے عرصہ میں مفت مشن کھول سکیں گے.اب بھی کئی جگہ مبلغین یا تو کلی طور پر اپنا خرچ خود برداشت کر رہے ہیں یا کچھ ہم دیتے ہیں اور باقی وہ خود کھاتے ہیں اور مجھے امید ہے کہ کچھ مزید تجربہ کے لئے کوئی نہ کوئی صورت ایسی پیدا ہو جائے گی کہ مبلغین اپنے گزارے آپ کر سکیں.صرف تبلیغی لٹریچر یا مبلغین کی ٹریننگ ہمارے ذمہ ہوگی.ان کے علاوہ ہندوستان کیلئے ہمیں پیشہ ور مشنری تیار کرنے ضروری نہیں اور یہ چمڑے کے کام، بوٹ سازی وغیرہ اور لوہار ترکھان کے کام سکھانے کیلئے جو کارخانہ جاری کیا گیا ہے اس کی غرض یہی ہے کہ ہم اچھے بوٹ ساز ، اچھے لوہار اور اچھے ترکھان پیدا کریں، جو دین کے بھی عالم ہوں تا وہ جہاں جائیں، خواہ بسلسلہ ملازمت یا اپنے طور پر کام کرنے کیلئے وہ اچھے عالم اور مبلغ بھی ہوں.اس میں شک نہیں کہ ایسے کاموں پر مبلغوں سے زیادہ خرچ آتا ہے کیونکہ ان کو سکھانے کیلئے لکڑی، لوہا اور چھڑ ا ضائع کرنا پڑتا ہے کیونکہ اگر وہ ضائع نہ کیا جائے تو وہ سیکھ نہیں سکتے.اس لئے یہ کام بہت اخراجات چاہتے ہیں اور اس کیلئے بہت توجہ کی ضرورت ہے مگر کچھ تو روپیہ کی کمی کی وجہ سے اور کچھ دوسرے کاموں کی طرف توجہ کی وجہ سے ہم اس کی طرف پوری توجہ نہیں دے سکے.میرا ارادہ ہے کہ اس کام کو بھی مستقل بنیاد پر قائم کیا جائے اور اگر یہ سکیم کامیاب ہو جائے تو سینکڑوں نوجوان کام پر لگ سکتے ہیں، جو ساتھ ہی مبلغ بھی ہوں گے.میں نے سوچا ہے کہ ان سب باتوں کیلئے کم سے کم سات سال کی مہلت ہمیں ملنی چاہئے.پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے 486

Page 499

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 3 دسمبر 1937ء یقین ہے کہ ایسا فنڈ قائم ہو جائے کہ سب کام آسانی سے چل سکیں اور مزید چندوں کی بھی ضرورت نہ رہے اور ہم بغیر چندوں کے ہی اس قابل ہو سکیں کہ ایک طرف تو بیرونی ممالک میں ایسے مبلغ بھیج سکیں ، جو واقف دین ہوں اور دوسری طرف سینکڑوں ایسے لو ہار، ترکھان اور چمڑے کا کام کرنے والے نو جوان پیدا کردیں جو دین کے عالم بھی ہوں اور جو ہندوستان کی سب منڈیوں میں پھیل جائیں اور اپنا کام کرنے کے علاوہ وہاں قرآن کریم اور احادیث کا درس بھی دے سکیں اور تبلیغ بھی کریں اسلام کی تبلیغ در اصل اسی طرح ہوئی ہے.ان بزرگوں کے اگر ناموں کو دیکھا جائے جنہوں نے اسلام پھیلایا ہے تو ان کے ناموں کے ساتھ ایسے القاب ہیں کہ فلاں رسیاں بٹنے والا تھا، فلاں بوٹ بنانے والا تھا، فلاں گھی بیچنے والا تھا.دراصل صوفیاء نے تبلیغ اسلام کا یہ ذریعہ نکالا تھا کہ وہ اپنے شاگردوں کو ایسے پیشے سکھاتے کہ اپنا پیٹ پالنے کے قابل ہوسکیں اور پھر انہیں باہر بھیج دیتے تھے کہ جا کر اپنا کام بھی کریں اور ساتھ تبلیغ اسلام بھی.یہی ایک ذریعہ ہے جس میں اگر ہم کامیاب ہو جائیں تو لاکھوں مبلغ مفت ملک کے کونہ کونہ میں بھیج سکتے ہیں.مردم شماری کے اعداد و شمار کی رُو سے جو اس سال شائع ہوئے ہیں.ہمارے ملک کی آبادی ساڑھے سینتیس کروڑ ہے.اس میں سے اگر نصف بھی مرد ہوں تو گویا پونے انیس کروڑ مرد ہیں.ان میں سے اگر آدھے جوان ہوں تو قریبا نو کروڑ جوان مرد ہیں اور اندازہ کیا گیا ہے کہ ہر سو میں سے کم سے کم ہیں پیشہ ور ہیں اور باقی جو دس فیصدی ہیں وہ زراعت یا تجارت یا ملازمت کرتے ہیں.گویا ہمارے ملک میں کم سے کم ایک کروڑ اسی لاکھ انسان پیشہ ور ہیں یعنی دھوبی ، نائی، درزی، موچی، لوہار ، ترکھان وغیرہ اور اگر ہم پوری کوشش کریں اور ان ایک کروڑ اسی لاکھ میں سے سواں حصہ بھی لے لیں.تو بھی گویا ہمارے لئے اس میدان میں ایک لاکھ اسی ہزار اپنے آدمی داخل کر دینے کی گنجائش ہے اور اگر اتنے آدمی سارے ملک میں پھیل جائیں تو ہمیں چھپیں سال میں سارا ملک احمدی ہو سکتا ہے اور یہ سکیم ایسی ہے کہ جتنا اسے پھیلایا جائے اتنی ہی کامیابی ہو سکتی ہے.اس کے علاوہ تیموں اور بیواؤں کی پرورش کا سوال بھی میرے سامنے ہے اور یہ بہت بڑے ثواب کا کام ہے اور اس طرح وہ طبقہ جو عام طور پر نظر انداز ہوتا ہے وہ نمایاں طور پر آگے آسکتا ہے اور ایسے لوگ دین کے خادم بننے کے علاوہ اپنی روزی بھی کما سکتے ہیں مگر یہ کام ایسے ہیں کہ جن پر مبلغین کی تیاری سے زیادہ خرچ آتا ہے، کیونکہ اول تو پیشہ ور استاد بہت مشکل سے ملتے ہیں اور پھر یہ کام سکھانے کیلئے بہت سامان ضائع کرنا پڑتا ہے اس لئے جب تک اس سکیم کو ایسا مکمل نہ کر لیا جائے کہ یہ اپنا بوجھ خود اٹھالے اس وقت تک کامیابی مشکل ہے.شروع میں اس سکول میں نو طالب 487

Page 500

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 3 دسمبر 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول علم لئے گئے تھے اور میرا خیال تھا کہ ہر سہ ماہی پر ہم مزید نوٹر کے لیتے جائیں گے اور اگر اس میں کامیابی | ہوتی تو اس وقت اتنی طالبعلم ہوتے مگر اس وقت ہیں صرف ہیں اور اسکی وجہ یہ ہے کہ مجھے جو مشورہ دیا گیا تھا وہ بیچ نہ تھا اور جتنے عرصہ میں مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ لڑ کے اپنی روزی کمانے کے قابل ہوسکیں گے وہ غلط تھا کیونکہ وہ لڑکے ابھی تک بھی اپنی روزی کمانے کے قابل نہیں ہو سکے.دراصل اس قابل ہونے کیلئے تین چار سال درکار ہیں اور یہ طالب علم جوں جوں کام سیکھتے جائیں گے اپنی روزی کمانے کے قابل ہوتے جائیں گے اور اس طرح بیواؤں اور یتیموں کا سوال خود بخود حل ہوتا جائے گا اور مبلغ بھی تیار ہوتے جائیں گے.ان سب باتوں پر غور کر کے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اس سکیم کو کم سے کم سات سال تک ممتد کیا جائے اور اس عرصہ میں ہم کوشش کریں گے کہ یہ کام اپنا بوجھ آپ اٹھا سکیں اور یہ ایک ایسی بات ہے کہ اگر ہم اس میں کامیاب ہو جائیں تو یہ ہمارا اتنا بڑا کارنامہ ہو گا کہ جس کی کوئی مثال موجودہ زمانہ میں نہیں مل سکے گی.اس میں شک نہیں کہ دیال باغ وغیرہ میں ایسی سکیمیں کامیاب ہو چکی ہیں مگر وہ کوششیں صرف ایک گاؤں کے متعلق ہیں اور ان پر لاکھوں روپیہ خرچ ہو رہا ہے مگر ہم نے ساری دنیا میں مبلغ بھیجنے ہیں ایک گاؤں کی اصلاح کرنا اور بات ہے اور ساری دنیا میں مبلغین کا پھیلانا اور اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی شخص کہے کہ دیکھو فلاں عورت تو اپنے گھر میں بڑے اطمینان کے ساتھ روٹیاں پکا لیتی ہے اور تم جلسہ سالانہ پر روٹیوں کے انتظامات کیلئے اس قدر گھبراہٹ کا اظہار کرتے ہو.آگرہ کے پاس ایک گاؤں خاص سکیم کے ماتحت نیا بنا لینا اور ساری دنیا میں تبلیغ کے لئے آدمی تیار کرنا اور پھر ان کی علمی اور اخلاقی نگرانی کرنا ان دونوں باتوں میں بہت فرق ہے.اس وقت امریکہ میں کئی ایسے سکول ہیں جو دیال باغ کی طرح کام کر رہے ہیں مگر ہم نے تو دنیا میں مبلغین پھیلانے ہیں اور پھر ایک بہت بڑی دقت یہ ہے کہ ہم وہ لوگ ہیں جو تجارتی اور صنعتی کاموں سے واقف نہیں ہیں میں خود جو اس کام کو چلا رہا ہوں زراعت پیشہ ہوں اور نامعلوم سینکڑوں ہزاروں سال سے ہمارا خاندان تجارتی کاموں سے بے تعلق چلا آرہا ہے.اس لئے اگر خدا تعالیٰ ہمیں اس میں کامیاب کر دے تو یہ ایک ایسا کام ہو گا جس کی نظیر دنیا میں نہیں مل سکے گی مگر یہ ساری کامیابی توجہ، دیانت داری اور تعاون چاہتی ہے اور مجھے افسوس ہے جماعت میں تعاون کی روح پیدا نہیں ہوئی.عورتوں کے متعلق میں نے ایک سکیم بنائی تھی اور اس کے لئے خورد و پیہ دیا تھا اور لجنہ کے ذریعہ کوشش کی تھی کہ غریب عورتیں کام کریں اور میں جانتا ہوں کہ یہاں بہت سی عورتیں ایسی ہیں کہ جن کو وہ کام کرنا چاہئے تھا مگر میں نے دیکھا ہے کہ وہ گزارہ کیلئے مانگتی توتھیں مگر کام یہ کہہ کر کرنے سے انکار کر دیتی تھیں کہ 488

Page 501

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 3 دسمبر 1937ء مزدوری تھوڑی ہے.حالانکہ یہاں جو مزدوری ہم دیتے تھے وہ اس سے ڈیوڑھی تھی جو امرتسر میں اسی کام کے لئے ملتی ہے مگر وہ اس اجرت پر کام نہیں کرتی تھیں اور گھر میں بیٹھی درخواستیں لکھوا لکھوا کر بھیجتی رہتی تھیں کہ ہمیں فلاں ضرورت ہے، فلاں حاجت ہے.ہماری مدد کی جائے ، حالانکہ میں نے یہ بھی کہ دیا تھا کہ اس کام سے جو آمدنی ہوگی وہ بھی غربا پر ہی خرچ ہوگی.انہیں تو چاہئے تھا کہ اگر مزدوری کم بھی تھی تو کام کرتیں.امرتسر میں اگر ایک ازار بند بنانے کی اجرت ایک پیسہ ہو اور یہاں صرف دھیلا بلکہ دمڑی ملتی پھر بھی ان کو چاہئے تھا کہ کام کرتیں کیونکہ وہ آمدنی پھر غربا میں جانی تھی مگر انہوں نے ڈیوڑھی دگنی مزدوری لے کر بھی کام کرنا پسند نہیں کیا اور یہ ایک بہت بڑا نقص ہے جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہماری جماعت تاجر نہیں.ہمارے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ کام وہ کرنا چاہئے جس میں پورا گزارہ ہو سکے، حالانکہ بہتر یہ ہے کہ جو کام بھی ملے وہ کر لیا جائے اور پوری محنت کرنے کے بعد اور پورا وقت کام کرنے کے باوجود اگر گزارہ نہ ہو تو انسان کا حق ہے کہ امداد کی درخواست کرے.ایک شخص پورا کام کرتا ہے مگر پھر بھی دو روپیہ ہی کما سکتا ہے تو اس کا حق ہو جاتا ہے کہ اس کی باقی ضرورتیں جماعت پوری کرے، کیونکہ جوشخص بتا دیتا ہے کہ روزانہ چھ گھنٹے کام کرنے کے باوجود اسے دو روپے ہی مل سکے ہیں.وہ سائل نہیں اور اس کا حق ہے کہ جماعت اس کی امداد کرے لیکن جو اس خیال سے کام ہی نہیں کرتا کہ دوروپے میں اس کا گزارہ نہیں ہو سکتا اور پھر خواہش رکھتا ہے کہ اس کی ضرورتیں جماعت پوری کرے وہ سائل ہے اور سائل کو روکنے کی اسلام نے حد درجہ کوشش کی ہے.پس میں امید رکھتا ہوں کہ جماعتیں اپنی ذمہ داری کو سمجھیں گی اور کوشش کریں گی کہ اس معیار کے مطابق جو چندہ کا میں نے مقرر کیا ہے چندہ دیں.میں جانتا ہوں کہ اگر میں یہ تحریک کرتا کہ گزشتہ سال جتنا چندہ دیا گیا ہے اس سے زیادہ دیا جائے تو جماعتیں یقینا زیادہ دیتیں مگر اب کہ میں نے کم کے لئے کہا ہے.بعض لوگ ستی کریں گے اور خیال کرلیں گے کہ شاید اب ایسی ضرورت نہیں رہی.اقوام جب کمی کی طرف آتی ہیں تو اس وقت ان کا قدم تنزل کی طرف اٹھا کرتا ہے اس لئے یہ سال چندہ کے لحاظ سے نازک سال ہے کیونکہ کئی لوگ کمی کا نام سن کر ہی خیال کر لیں گے کہ اب ضرورت نہیں اس لئے کمی کے وقت ہمیشہ یہ احتیاط کرنی چاہئے کہ بالکل بند ہی نہ ہو جائے.تحریک جدید کے سب سے پہلے سال میں ایک لاکھ سات ہزار روپیہ کا وعدہ ہوا تھا اور اس سال بھی میں نے کہا ہے کہ اتنی ہی رقم جمع کی جائے.اگلے سال اس سے دس فیصدی کم یعنی 94000.اس 489

Page 502

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 3 دسمبر 1937ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد اول سے اگلے سال اس سے دس فیصدی کم اور اس طرح یہ رقم کم ہوتی جائے گی مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے کی کے لفظ کے ساتھ ہی سستی پیدا ہو جاتی ہے.اگر میں اس سال گزشتہ سال سے زیادہ کی تحریک کرتا تو میں سمجھتا ہوں مجھے اس کے متعلق دوسرے خطبہ کی ضرورت پیش نہ آتی اور لوگ خود بخود ہی خیال کر لیتے کہ ابھی تک نازک وقت موجود ہے.پہلے سال ایک لاکھ سات ہزار کے وعدے ہوئے تھے.دوسرے سال ایک لاکھ ستر ہزار کے اور تیسرے سال ایک لاکھ پینتالیس ہزار کے اور اگر چہ یہ پورے کے پورے وصول نہیں ہوئے مگر بہر حال وصولی میں بھی ہر سال پہلے سال سے زیادتی ہوتی چلی گئی ہے اور اگر اب بھی زیادہ کی تحریک ہوتی تو یقیناً دوست زیادہ جمع کر دیتے مگر کمی کی طرف آنے وجہ سے یہ خطرہ ہے کہ سستی نہ کریں.پھر جیسا کہ میں نے پہلے بھی کئی دفعہ کہا ہے دوستوں کو چاہئے اپنے بقائے صاف کریں اور یا پھر معاف کرالیں.اگر وہ ادا کر سکتے ہوں تو اب بھی ادا کر دیں اگر چہ اب ادائیگی کا ثواب اتنا تو نہیں ہو سکتا مگر اب بھی ادا کر کے وہ گناہ سے بچ سکتے ہیں اور یقیناً کچھ تو اب بھی حاصل کر سکتے ہیں اور جو ادا نہ کر سکتے ہوں وہ کم سے کم معاف ضرور کرالیں، کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ اس طرح ایک تو وہ گناہ سے بچ جائیں اور دوسرے آئندہ کے لئے ان کو خیال ہو کہ غلط وعدہ نہیں کرنا چاہئے.معافی مانگنے سے انہیں بے احتیاطی سے وعدہ کرنے پر شرم آئے گی اور آئندہ وہ ایسا نہیں کریں گے اور دوسرے معافی لے لینے سے خدا تعالیٰ کی طرف سے انہیں وعدہ توڑنے کا گناہ نہیں ہوگا اور تیسرے میری غرض یہ کہنے سے یہ بھی ہے کہ جو دے سکتا ہے وہ دے دے اور یہ دین کا فائدہ ہے اور جو واقعی نہیں دے سکتے وہ اگر معافی لے لیں تو اس میں ان کا اپنا فائدہ ہے.پس وہ تمام لوگ جو پہلے سال کا چندہ نہیں دے سکے جو دوسرے سال کا نہیں دے سکے اور جو تیسرے سال کا نہیں دے سکے وہ یا تو معافی لے لیں اور یا ادا کر دیں.تیسرے سال کیلئے تو ابھی بعض کے لئے میعاد باقی ہے.بعض کی میعاد جنوری تک ہے اور بعض کی جون تک لیکن جو سمجھتے ہیں کہ میعاد کے اندر نہیں دے سکیں گے، وہ معاف کرالیں.اس سال کی تحریک کے متعلق میں پھر دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ کمی کا وقت نازک ہوتا ہے اور یہ امتحان اور آزمائش کا وقت ہوتا ہے.اس لئے سستی نہ کریں.گواس وقت تک جو وعدے آ رہے ہیں ان میں سے ایک کافی تعداد ایسی ہے جنہوں نے اب بھی تیسرے سال کے وعدہ سے زیادہ لکھایا ہے اور یہ ایمان کا ایک مظاہرہ ہے کہ جس کی نظیر دوسری جگہ نہیں مل سکتی.جو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ جماعت گر رہی ہے اور دہریت کی طرف جارہی ہے ، ان سے میں کہتا ہوں کہ وہ غور کریں.کیا یہ دہریوں کی علامت ہے؟ اس وقت جب ہر طرف مالی تنگی ہے.غلوں کی قیمتیں گر رہی 490

Page 503

تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 3 دسمبر 1937ء ہیں.پھر قادیان کے لوگوں پر جبری قرضہ لگا دیا گیا ہے اور ساتھ امانتیں جمع کرانے کی بھی تحریک ہے اور ایسے وقت میں جب انجمن کے کئی لاکھ کے چندے بھی ہیں پھر بھی دوست کہہ رہے ہیں کہ ہم پہلے سے زیادہ دیں گے.کیا یہ دہریوں اور بے دینوں کی علامت ہے نہیں، بلکہ یہ چیز بتاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس زمانہ میں جب کہ خدا تعالیٰ پر ایمان بالکل مٹ چکا تھا اور دنیا کو دین پر مقدم کیا جاتا تھا ایک غریب ملک میں جو غیر ملکی لوگوں کے قبضہ میں ہے اور غلام ملک ہے ایک ایسی زندہ جماعت قائم کر دی جو دین کیلئے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہے اور یہ ایک بہت بڑا معجزہ ہے.پہلے سال میں نے صرف 27000 روپے کی تحریک تین سال کے لئے کی تھی اور کئی لوگوں نے کہا تھا کہ جماعت یہ روپیہ کہاں سے دے گی اور صدر انجمن احمدیہ کے چندوں کے بقالوں کی وجہ سے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ تین سال کے عرصہ میں بھی یہ رقم پوری نہیں ہو سکے گی مگر تحریک پر ایک ہفتہ بھی نہ گزرا کہ جماعت نے 27000 روپیہ نقد جمع کر دیا.یہ ایک ایسا زندہ نشان موجود ہے کہ جس کی مثال نہیں مل سکتی.کسی معترض کو یہ نظر آئے یا نہ آئے مگر یہ ایک ایسی بات ہے کہ اگر اسے کسی غیر شخص کے سامنے رکھا جائے تو وہ تسلیم کرے گا کہ ایسے مردہ ملک میں یہ ایک زندہ جماعت ہے.بیشک میں کہتا رہتا ہوں کہ جماعت سنتی کرتی ہے مگر یہ ستی نسبتی ہے.دوسروں کے مقابلہ میں سستی نہیں.میرا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس معیار کی نسبت سے سستی ہے جس کا خدا تعالیٰ مطالبہ کرتا ہے ورنہ دوسری اقوام کی طوعی قربانیوں سے یہ قربانی بہت بڑھ کر ہے.(بے شک جماعت کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جو فی الواقع سستی کرتا ہے لیکن ایک حصہ ایسا بھی ہے جو قرآن کریم کی اس آیت کا مصداق ہے کہ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ ( الاحزاب : 24) یعنی بعض ایسے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے راستہ میں جان دے چکے ہیں یا یہ کہ اپنی نذریں اور اپنے وعدے پورے کر چکے ہیں اور بعض خدا کی راہ میں مرنے کیلئے یا اپنے وعدوں کو وقت آنے پر پورا کرنے کے لئے منتظر ہیں ).بعض روایات میں ہے کہ یہ آیت ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے متعلق ہے جو بدر کی لڑائی میں شامل نہ ہوئے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مصلحت کی وجہ سے لوگوں کو بتایا نہیں تھا کہ اس موقعہ پر ایسی سخت جنگ ہونے والی ہے اس لئے بعض لوگ شامل نہ ہو سکے.جب صحابہ رضی اللہ عنہ لڑائی سے واپس آئے اور لڑائی کے حالات سنائے.تو ایک صحابی جو انصاری تھے اور بڑے مخلص تھے وہ سنتے اور انہیں رہ رہ کر غصہ آتا اور بار بار کہتے کہ کاش میں وہاں ہوتا اور تمہیں بتاتا کہ میں کیا کرتا.سننے والے خیال کرتے تھے کہ انہیں یوں ہی غصہ آرہا ہے.آخر احد کی لڑائی کا وقت آگیا اور پھر اس لڑائی کا وہ موقعہ آیا، جب ایک غلطی کی وجہ سے فتح کے بعد اسلامی لشکر تر بتر ہو گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد 491

Page 504

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 3 دسمبر 1937ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد اول صرف بارہ صحابی رہ گئے اور پھر ایک ایسار یلا آیا کہ وہ بارہ بھی پیچھے دھکیلے گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے اور کفار نے پتھر مار مار کر آپ کو بے ہوش کر دیا.اس وقت جو صحابہ آگے بڑھ سکے بڑھے اور شہید ہو ہو کر آپ کے اوپر گرتے گئے اور اس طرح آپ لاشوں کے نیچے دب گئے اور یہ خیال ہو گیا کہ آپ شہید ہو چکے ہیں، لیکن یہ صحابی فتح کے بعد پیچھے ہٹ کر کچھ کھانے میں مشغول ہو گئے تھے اور انہیں ان حالات کا علم نہ تھا.انہوں نے فتح کے وقت شاید یہ خیال کیا کہ اب تو صرف مال میں سے ہی حصہ لینا باقی ہے.وہ نہ لیا تو کیا ، وہ بھوکے تھے.اس لئے ایک طرف جا کر کھجوریں کھانے لگے.انہیں یہ معلوم ہی نہ تھا کہ جنگ کا نقشہ پھر بدل گیا ہے.جب یہ خیال پیدا ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسا بہادر شخص بھی صبر کھو بیٹھا اور ایک پتھر پر بیٹھ کر بچوں کی طرح رونے لگا.وہ صحابی ادھر سے گزرے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر کہا کہ عمر کیا بات ہے؟ مسلمانوں کو فتح حاصل ہو چکی ہے اور تم بیٹھے اور ہے ہو.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا تمہیں یہ پتہ نہیں کہ جنگ کا نقشہ بدل چکا ہے اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو چکے ہیں.اس کے ہاتھ میں اس وقت ایک دو کھجور میں باقی تھیں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بات سنی تو کھجور میں پھینک دیں اور کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ پھر یہ رونے کا وقت نہیں.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے تو اب ہمارا بھی اس دنیا میں کوئی کام نہیں.چنانچہ انہوں نے تلوار نکال لی اور ہزاروں کے لشکر میں جا گھسے اور شہید ہو گئے.جب ان کی لاش نکالی گئی تو اس کے ستر ٹکڑے تھے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ آخر تک تلوار چلاتے رہے.اس لئے بیسیوں کافروں نے غصہ میں آکر ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا.بعض روایات میں ہے کہ یہ آیت ان کے متعلق ہے مگر یہ بات غلط ہے کہ قرآن کریم کی کوئی آیت کسی خاص آدمی کے لئے ہو جب تک خدا تعالیٰ خود اس کا اظہار نہ کرے مگر اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ ایسے ہی لوگوں کے لئے ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض لوگ ایسے ہیں جو اپنی جانیں قربان کر چکے اور بعض اس انتظار میں ہیں کہ کب موقع ملے اور قربان کریں.( تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسے ہزاروں لوگ جماعت میں موجود ہیں.بے شک بعض کمزور بھی ہیں مگر ایسے بھی ہیں.جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ یعنی وہ جو اپنے وعدے پورے کر گئے اور ایسے لوگوں کی موجودگی جماعت کی ترقی کا موجب اور فتح کی ضمانت ہے.وہ لوگ جو اپنے قول کے پکے ہیں جو خدا تعالیٰ کے دین کے لئے اس کے بعض بندوں کے ہاتھ پر وعدہ کرتے ہیں اور پھر اسے پورا کر کے ہی چھوڑتے ہیں.یہی لوگ ہیں جو خدا کے فضل ( الاحزاب : 24) 492

Page 505

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 3 دسمبر 1937ء کو کھینچتے ہیں.اللہ تعالیٰ ایسے ہی لوگوں کے متعلق فرماتا ہے کہ انہوں نے میرے لئے اپنے آپ کو قربان کر دیا.اس لئے ان کی کوششیں ناکام نہیں جانی چاہئیں).پس میں پھر توجہ دلاتا ہوں کہ کمی کے لفظ سے جماعت سستی نہ کرے اور دوسری طرف جیسا کہ میں نے کہا ہے یہ کام بہت بڑا ہے اور اس میں تعاون کی ضرورت ہے.نہ صرف چندہ کے ذریعہ سے بلکہ کام کے ذریعہ سے بھی قادیان کے لوگوں کو خصوصاً اس طرف توجہ کی ضرورت ہے.غربا کے لئے کام مہیا کرنے کی سکیم کا اس میں کیا شبہ ہے پہلا فائدہ قادیان کے لوگوں کو پہنچے گا.اس لئے انہیں اس میں زیادہ قربانی کرنی چاہئے.مثلاً عورتوں کے لئے کام کی سکیم ہے.اس کا بڑا فائدہ قادیان کے غریب خاندانوں کو پہنچے گا یا کم سے کم جب تک ہم اس سکیم کو باہر نہ پھیلا سکیں یہاں کی غریب عورتوں کو ہی اس وقت تک فائدہ پہنچ سکے گا.پس انہیں سمجھنا چاہئے کہ ان کے فائدہ کی جو سکیم ہے اس میں وہ شوق اور قربانی سے حصہ لیں اگر تھوڑی مزدوری ہے تو بھی ان کو کوئی نقصان نہیں کیونکہ تھوڑی مزدوری سے یہی ہوگا کہ کام میں نفع زیادہ ہوگا اور یہ نفع سب کا سب ان پر ہی خرچ ہوگا کیونکہ میں نے لجنہ اماءاللہ سے کہہ دیا تھا کہ اگر کوئی نفع ہو تو سلسلہ اس میں سے کوئی حصہ نہ لے گا بلکہ یہ نفع بھی غربا میں تقسیم کیا جائے گا بلکہ نفع کی صورت میں اس مال کو میں انشاء اللہ بڑھاتا جاؤں گا تا یہاں ایک بھی ایسی لاوارث یا بیوہ عورت نہ رہے جو بیکار ہو اور جو اپنا گزارہ اچھی طرح نہ چلا سکے مگر چونکہ میرے ساتھ تعاون نہ کیا گیا اس لئے یہ کام اچھی طرح نہیں چلا.پس اس کام کے چلانے کیلئے قادیان والوں کے تعاون کی ضرورت ہے.اس طرح دوسرے کاموں میں بھی تعاون کی ضرورت ہے.کیا ہمارے پیشہ وروں سے میں ایسے لوگ نہیں ہیں جو کچھ وقت خرچ کر کے ہماری مدد کر سکیں.ہمیں تو یہ پتہ نہیں کہ یہ کام کس طرح جلدی سکھائے جا سکتے ہیں اور کس طرح ان میں بچتیں ہوسکتی ہیں.ہماری مثال تو ان کاموں میں ایسی ہے جیسے کوئی شخص اندھیرے میں ہاتھ مارے.خواہ اس کا ہاتھ سانپ پر پڑ جائے.خواہ ہیرے پر.اس لئے ضروری ہے کہ پیشہ ور دوست تعاون کریں اور ان کاموں کو اپنار قیب نہ سمجھیں کیونکہ یہ ان کیلئے بھی نفع کا موجب ہو نگے.نقصان کا نہیں.اگر یہ محکمے ترقی کریں گے تو اس میں ان کی اولادوں کی بہتری ہوگی کیونکہ پیشہ ور لوگوں کی اولادیں ہی زیادہ تر کام سیکھتی ہیں.کسی کو کیا پتہ کہ کل ہی اس کی موت ہو جائے اور اس کی اولاد کو اس کی ضرورت پیش آجائے.یہ محکمے تو اس امر کی ضمانت ہیں کہ کل اگر اس کی اولاد کو ضرورت ہو تو اس کے کام آئیں گے.پس نه ور دوست اپنے اوقات خرچ کر کے مشورہ دیں اور امداد کریں کہ تھوڑے ہی عرصہ میں ان کاموں کو ترقی 493

Page 506

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 3 دسمبر 1937ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد اول حاصل ہو جائے.انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ جب کسی کا جتھہ بن جائے تو اس پیشہ کی ترقی ہوتی ہے، نقصان نہیں.دیکھو ایک گھر کا ملازم اگر کام چھوڑ دے تو کسی کو پتہ بھی نہیں لگتا، لیکن اگر کسی کارخانہ کے مزدور کام چھوڑ دیں اور سٹرائیک کر دیں تو گورنر تک ان کو منانے کے لئے آتے ہیں.پس یہ بے وقوفی کی بات ہے کہ اگر ترکھان بڑھ جائیں گے تو مجھے کام کہاں سے ملے گا.وہ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ آبادی بھی اس وقت تک بڑھ جائے گی اور اس لئے کام بھی بڑھ جائے گا مثلاً اگر کوئی یہ خیال کرے کہ ہم اس وقت یہاں دس ترکھان ہیں.اگر ہمیں ہو گئے تو ہمارے لئے کام نہیں رہے گا تو یہ بے وقوفی ہے وہ یہ کیوں نہیں سمجھتا کہ اس وقت تک یہاں کی آٹھ ہزار آبادی بھی تو سولہ ہزار ہو جائے گی.یہ باتیں اللہ تعالیٰ پر بدظنی ہیں.حضرت خلیفہ اسیج اول رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں صدر انجمن احمدیہ کے بعض ممبروں نے تحریک کی کہ جلسہ کے دن بجائے تین کے دو کر دیے جائیں.کسی نے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سے بھی اس کا ذکر کر دیا.آپ کا یہ طریق تھا کہ بعض اوقات جب آپ صدر انجمن احمد یہ پر قابض جماعت پر ناراض ہوتے اور ان سے کوئی بات کہنا چاہتے تو ان کی بجائے مجھے مخاطب کر کے کہہ دیتے اور مطلب یہ ہوتا تھا کہ میں ان کو پہنچا دوں.جب آپ کو یہ بات پہنچی تو آپ نے مجھے لکھا کہ میاں میں نے سنا ہے کہ اب جلسہ کے دن تین کی بجائے دو کر دینے کی تجویز ہے مگر میں آپ کو توجہ دلاتا ہوں کہ لا تخشى عن ذى العرش اقلالاً.یعنی عرش والے خدا سے تم کمی کا خیال کیوں کرتے ہو.لوگ آئیں گے ان کے ایمان اور اخلاص میں ترقی ہوگی اور اس طرح مال بھی زیادہ آئیں گے.چنانچہ میں نے یہ بات انجمن کو لکھ بھیجی اور جلسہ بجائے دو دن ہونے کے تین دن ہی کے لئے رہنے دیا گیا.پس پیشہ ور خدا تعالیٰ پر کیوں بدظنی کرتے ہیں ان کاموں کی ترقی جماعت کی ترقی ہوگی اور پیشہ وروں کو بھی تقویت ہوگی.یہاں ایک زمانہ میں صرف ایک دو راج ہی تھے مگر اب بیسیوں ہیں اور خدا تعالیٰ سب کو رزق دیتا ہے اور اس زمانہ کے لحاظ سے ان کی آمدنی دوگنی تین گنی ہے.اس زمانہ میں مزدور تین چار آنہ روزانہ لیتا تھا اور راج اور ترکھان کی آمدنی آٹھ نو آنہ تھی مگر اب سوا اور ڈیڑھ روپیہ راج اور ترکھان کی اجرت ہے اور آٹھ نو آنہ تو مزدور کوئل جاتے ہیں.پیشہ ور اپنی اولادوں کو جو کام سکھا سکتے ہیں ان محکموں میں اس سے بہت بہتر سکھانے کا انتظام ہوگا کیونکہ ہم باہر سے ماہرین بلائیں گے اس لئے تمام افرادکو پورا پورا تعاون کرنا چاہئے کہ یہ محکمہ مضبوط ہو تا ہم اس قابل ہو سکیں کہ جلد سے جلد تمام ملک میں مبلغین پھیلا سکیں.“ ( مطبوع الفضل 11 دسمبر 1937 ء ) 494

Page 507

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 دسمبر 1937ء اپنے آپ کو فنا سمجھ کر وقف کریں خطبہ جمعہ فرمودہ 17 دسمبر 1937 ء جیسا کہ میں کہہ آیا ہوں.تفاصیل تو انشاء اللہ جلسہ کے بعد بیان کروں گا مگر بعض چھوٹی چھوٹی چیزوں کا ذکر اس اثناء میں بھی کرتا رہوں گا.چنانچہ ایک آج بیان کرتا ہوں جو یہ ہے کہ نوجوان نکلیں اور باہر جائیں.تحریک جدید کے شروع میں بھی میں نے دوستوں کو اس طرف توجہ دلائی تھی اور بہت سے نوجوان نکلے بھی تھے مگر ان کے نکلنے کا طریق زیادہ مفید نہ تھا اور اس لئے جن ممالک میں ہم جانا چاہتے تھے اور جس رنگ میں کام کرنا چاہتے تھے نہیں کیا جاسکا.بے شک انہوں نے قربانیاں کیں مگر صحیح طریق پر ان کی قربانیوں کو استعمال نہیں کیا جاسکا.اس لئے میں دوستوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس رنگ میں اپنے آپ کو وقف کریں کہ دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مبلغ بن سکیں.میں نے پچھلے سے پچھلے خطبہ میں بھی بیان کیا تھا کہ ہمیں ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو یا تو انگریزی دان ہوں اور ہم انہیں دینی تعلیم دلا دیں یا ایسے عالم ہوں جن کو یورپین زبانیں سکھا لیں.پہلا حملہ تو ہو چکا.اس وقت ہمیں جو ملا اور اسے جہاں بھیجنا پسند کیا بھیج دیا.اس سے ہم نے تجربہ حاصل کیا.نتیجہ نکلا.خطرات دیکھے.فوائد کا مشاہدہ کیا اور آئندہ کے لئے نقائص کو دور کرنے کے لئے اپنے ذہن میں بعض تدابیر کا اندازہ کیا.اب دوسرا قدم ہمیں ایسے رنگ میں اٹھانا چاہئے کہ یا تو یورپین زبانوں کے ماہرین کو دین سکھائیں اور یا علاء کو زبانیں سکھا کر باہر بھیجیں تا وہ باہر جاکر مکمل تبلیغ کر سکیں.پس جماعت کے نوجوانوں کو میں پھر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ آگے آئیں.پہلا تجربہ ان کے سامنے موجود ہے.اس لئے وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو پیش کریں.جس وقت فوری ضرورت ہو اس وقت کا معیار اور ہوتا ہے اور دوسرے وقت کا اور اس وقت ہم صرف تجربہ کرنا چاہتے تھے کہ کس طرح آواز کو غیر ممالک میں پہنچا سکتے ہیں اور دنیا کو دکھانا چاہتے تھے کہ ہم میں ایسے نو جوان موجود ہیں جو خطرات سے بے پروا ہو کر اسلام کی تبلیغ کے لئے باہر نکل جائیں.لیکن اب ہم مستقل صورت قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے پاس مستقل طریق پر کام کرنے والے ہوں اور جو ایسے اخلاص اور جذبہ اطاعت کے ماتحت اپنے آپ کو پیش کریں کہ جس میں کوئی کیا اور کیوں نہ ہو.جو شخص کیا اور کیوں کہتا ہے وہ کبھی سپاہی نہیں بن سکتا.سپاہی وہی 495

Page 508

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 دسمبر 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول ہو سکتا ہے جو ان الفاظ کو بھول جائے اور جو شخص اطاعت اور فرمانبرداری کا مفہوم جانتا ہے وہ سوال نہیں کیا کرتا.حکم کے معاملہ میں کیوں اور کیا نہیں پوچھا کرتا.پس کامل اطاعت اور فرمانبرداری نہایت ضروری ہے اور یہ صرف خلیفہ سے ہی مخصوص نہیں.بعض لوگ اس وہم میں مبتلا ہوتے ہیں کہ بس خلیفہ کی بات ماننا ہی ضروری ہے اور کسی کی ضروری نہیں.خلیفہ کی طرف سے مقرر کردہ لوگوں کا حکم بھی اسی طرح ماننا ضروری ہوتا ہے جس طرح خلیفہ کا.کیونکہ خلیفہ تو براہ راست ہر ایک شخص تک اپنی آواز نہیں پہنچا سکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مَنْ أَطَاعَ أَمِيُرِى فَقَدْ اَطَاعَنِي وَمَنْ عَصَى أَمِيُرِئُ فَقَدْ عَصَانِي.جس نے میرے مقرر کردہ افسر کی اطاعت کی اس نے گویا میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کردہ افسر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی.ایسا خلیفہ کونسا ہوسکتا ہے جو براہ راست اپنی آواز پہنچا سکے ایسا تو نبی بھی نہیں کر سکتا.بلکہ خدا تعالیٰ گواس پر قادر ہے مگر عملاً ہر ایک تک اپنی آواز نہیں پہنچا تا اس قسم کی باتیں کرنے والوں کے اندر بھی وہی روح ہوتی ہے جو حضرت موسی کی قوم نے ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ اگر خدا ہم سے کہے تو ہم مانیں گے.خدا تو ایسا کر سکتا ہے مگر کرتا نہیں لیکن خلیفہ تو کر ہی نہیں سکتا.پس جب خدا جو کر سکتا ہے وہ ایسا نہیں کرتا اور جو کر ہی نہیں سکتا وہ کس طرح کرے.خدا تعالیٰ کے لئے کر نہ سکنے کا سوال نہیں بلکہ حکمت کا سوال ہے مگر خلفاء تو نہ ایسا کر سکتے ہیں اور نہ ہی حکمت ایسا کرنے کی اجازت دیتی ہے.سوائے اس کے کہ ملاؤں کی طرح پانچ سات طالبعلم لے کر بیٹھ جائے.اس لئے ضروری ہے کہ خلیفہ کے ماتحت افسر ہوں جن کی اطاعت اسی کی طرح کی جائے.پس وہی نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں جو اس بات پر آمادہ ہوں کہ کامل اطاعت اور فرمانبرداری کا نمونہ دکھا ئیں گے.عقل سے کام لیں گے.تیسرے محنت کر سکتے ہوں.چوتھے اخلاص سے کام کرنے والے ہوں اور پانچویں قابلیت رکھتے ہوں.ان اوصاف کے ساتھ یہ وقف مفید ہو سکتے ہیں.قابلیت اور اطاعت کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا اور اگر اخلاص نہ ہو تو بھی انسان ایسے ایسے اعتراض کرتا رہتا ہے کہ بجائے مفید ہونے کے نقصان کا موجب ہو جاتا ہے.پھر محنت بھی ضروری ہے جو شخص محنت نہیں کرتا اس کے ہاتھ سے کئی چیزیں چھوٹ جاتی ہیں اور کئی سوراخ ایسے رہ جاتے ہیں جن سے خرابی پیدا ہو جاتی ہے.جیسے کوئی شخص کنویس کی چادر میں پانی ڈال لے تو اگر اس کے چاروں کونوں کو پکڑ کر رکھے تو وہ محفوظ رہے گا، لیکن اگر ایک بھی چھوٹ جائے تو پانی گر جائے گا.پھر عقل بھی ضروری ہے اگر عقل نہ ہو تو علم اور اخلاص بھی کام نہیں دے سکتا.بعض احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا 496

Page 509

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 17 دسمبر 1937ء گیا کہ زاہد بہتر ہے یا عاقل.آپ نے فرمایا عاقل کئی گنا زیادہ بہتر ہے، کیونکہ زاہد تو صرف اپنی ذات کو ہی فائدہ پہنچاتا ہے مگر عاقل دوسروں کو بھی.بعض لوگوں نے کتابیں تو رٹی ہوئی ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ علم کو استعمال کہاں کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے.قابلیت سے میری مراد در اصل علم ہے جس سے کام اور اس کے کرنے کا طریق معلوم ہوتا ہے اور عقل اس علم کے استعمال کا محل بتاتی ہے اور اخلاص استقلال اور مداومت سے سے عقل کو کام پر لگائے رکھتا ہے.جب یہ چیزیں جمع ہو جا ئیں اور پھر ساتھ محنت کی عادت اور اطاعت کا جذ بہ ہو تو پھر کامیابی ہی کامیابی ہوتی ہے لیکن ان کے بغیر کام نہیں چل سکتا.میں نے دیکھا ہے کہ تحریک جدید کے تمام کاموں سے زیادہ وقتیں تحریک جدید کے بورڈنگ میں پیش آئی ہیں.اتفاق سے ہمیں وہاں کام کرنے کیلئے ایسے آدمی ملے جنہوں نے محنت سے کام نہ کیا یا عقل سے نہ کیا اور یہ نہ سمجھا کہ اس کا مقصد کیا ہے اور میں کیا چاہتا ہوں.ان کی مثال ” من چہ سرائم وطنبورہ من چدے سرائید کی تھی.اگر وہ ذمہ داری کا احساس کرتے اور خیال کرتے کہ لوگوں کے کام تو اس زمانہ میں نتائج پیدا کریں گے اور ہمارے آئندہ زمانہ میں جا کر.تو یہ حالت نہ ہوتی مگر انہوں نے نہ خود کام کو سمجھا اور نہ ہی طالب علموں کی ذہنیت میں مناسب تبدیلی پیدا کی.حتی کہ ان کو بتایا بھی نہیں گیا کہ ان کو یہاں کیوں جمع کیا گیا ہے.پس محض وقف سے کام نہیں بنتا.ایسے وقف سے کام بنتا ہے کہ انسان محنت مشقت ، قربانی اور اطاعت سے کام کرنے کے لئے تیار ہو.تحریک جدید کے بورڈنگ کا کام ہی ایسا کام ہے کہ میں سمجھتا ہوں اگر ہم اس میں کامیاب ہو جاتے تو ایک ایسا انقلاب پیدا کر دیتے جس کی قیمت اور عظمت کا اندازہ الفاظ میں نہیں کیا جا سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر مجھے چالیس خالص مومن مل جائیں تو میں ساری دنیا کو فتح کر سکتا ہوں اور اس قسم کے بورڈنگ میں موقع ہے کہ ایک زمانہ میں ایسے سوسو مومن پیدا کر سکیں.پس آئندہ جو لوگ اپنے آپ کو وقف کریں وہ یہ سمجھ کر کریں کہ اپنے آپ کو نا سمجھیں گے اور جس کام پر ان کو لگایا جائے گا اس پر محنت، اخلاص اور عقل و علم سے کام کریں گے.عقل اور علم کا اندازہ کرنا تو ہمارا کام ہے مگر محنت ، اخلاص اور اطاعت سے کام کا ارادہ ان کو کرنا چاہئے اور دوسرے یہ بھی خیال کر لینا چاہئے کہ وقف کے یہ معنی نہیں کہ وہ خواہ کام کیلئے موزوں ثابت ہوں یا نہ ہوں ہم ان کو علیحدہ نہیں کریں گے یا سزا نہیں دیں گے.صرف وہی اپنے آپ کو پیش کریں جو سزا کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں.جن قوموں کے افراد میں سزا برداشت کرنے کی طاقت نہیں ہوتی وہ ہمیشہ ہلاک ہی ہوا کرتی 497

Page 510

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 دسمبر 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول صحابہ کو دیکھو.وہ بعض اوقات ضرورت سے زیادہ سزا برداشت کرتے تھے اور خود بخود کرتے تھے.ایک دفعہ ایک صحابی سے کوئی غلطی ہوگئی تو انہوں نے مسجد میں جا کر اپنے آپ کو ستون سے باندھ لیا اور کہا کہ جب تک اللہ تعالیٰ مجھے معاف نہ کر دے میں یہاں سے نہیں ہٹوں گا مگر ایسا کرنے کیلئے بھی ہمت کی ضرورت ہوتی ہے.کئی وہمی آدمی ہوتے ہیں جو ایسی بات سن کر فوراً اچھل پڑتے ہیں کہ بہت اچھا گر مل گیا ہے.آئندہ اگر ہم سے کبھی کوئی غلطی ہوئی تو ہم بھی اسی طرح کریں گے مگر جو اپنے آپ کو باندھتا اور پھر ادھر ادھر دیکھتا ہے کہ کوئی آئے اور مجھے چھڑائے وہ بھی دھوکا خوردہ ہے.اس کی مثال تو ایسی ہی ہے جیسے کانگرسی قانون شکنی کرتے اور پھر کہتے ہیں کہ گورنمنٹ ہمیں گرفتار کیوں کرتی ہے.اس صحابی رضی اللہ عنہ نے تو اپنی نیست پوری کر دی مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ جائز نہیں.لیکن بہر حال سزا برداشت کرنا قومی زندگی کیلئے بہت اہم چیز ہے.ایک شخص کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سزادی کہ یہ ہماری مجلس میں کبھی نہ آئے اور وہ ساری عمر نہ آسکا.اسی طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو سزا دی کہ ہمارے زمانہ میں کبھی مدینہ میں نہ آئے.چنانچہ وہ نہیں آیا مگر کام اسی قربانی سے کرتا رہا.تو سزا کا برداشت کرنا ہر مومن کیلئے ضروری ہے.خاص کر وقف زندگی کی صورت میں تو بہت ہی ضروری ہے.جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ اسے سزا دی ہی نہ جائے.خواہ کچھ ہو.وہ گویا چاہتا ہے کہ ہر حال میں اس کا لحاظ کیا جائے اور اس کیلئے دوسروں کو تباہ کر دیا جائے.پس وقف کرنے والوں کیلئے ان پانچوں اوصاف کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ سزا برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں اور بعد میں یہ نہ کہیں کہ اس وقت ہمیں نوکری مل سکتی تھی.یونہی ہمارے دو سال ضائع کئے گئے.پس وہی آگے آئے جس کی نیت یہ ہو کہ میں پوری کوشش کروں گا لیکن اگر نکھا ثابت ہوں تو سزا بھی بخوشی برداشت کر لوں گا.میں پھر ایک بار دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ ثواب کا ایک نہایت اہم موقع ہے.انگریزی دان اور عربی دان دونوں قسم کے نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں.انٹرنس پاس یا اس سے اوپر یا گریجوایٹ انگریزی دان اور مولوی فاضل یا بعض ایسے جو اگرچہ مولوی فاضل کی ڈگری تو نہ رکھتے ہوں مگر عربی میں اچھی استعداد ہو اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہیں.انتخاب کرنے کا اختیار تو ہمارا ہے مگر جو اپنے آپ کو پیش کریں وہ محنت اور قربانی کیلئے تیار ہو کر اوراللہ تعالیٰ کی رضا کے سوا اور ہر طرف سے آنکھیں بند کر کے اپنے آپ کو پیش کریں اور اپنے سامنے ایک ہی مقصود یعنی اشاعت اسلام رکھیں اور اس بات کے لئے بھی تیار ہوں کہ اگر بھی وہ نظام کیلئے موزوں ثابت نہ ہوں تو بے شک ان کو الگ کر دیا جائے.خواہ دنیوی لحاظ سے ان کو کیسا بھی نقصان کیوں نہ پہنچ چکا ہو.498

Page 511

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 دسمبر 1937ء مجھے امید ہے کہ ہمارے نوجوان ان شرائط کے ماتحت جلد از جلد اپنے نام پیش کریں گے تا اس کو سکیم پر کام کریں جو میرے مد نظر ہے.ہم آدمی تو تھوڑے ہی لیں گے مگر جو چند آدمی سینکڑوں میں سے چنے جائیں گے.وہ بہر حال ان سے بہتر ہونگے جو پانچ سات میں سے چنے جائیں.پچھلی مرتبہ قریباً دو سونو جوانوں نے اپنے آپ کو پیش کیا تھا اور مجھے امید ہے کہ اب اس سے بھی زیادہ کریں گے.جنہوں نے چھلی مرتبہ اپنے آپ کو پیش کیا تھا وہ اب بھی کر سکتے ہیں.بلکہ جو کام پر لگے ہوئے ہیں وہ بھی چاہیں تو اپنے نام پیش کر سکتے ہیں.کیونکہ ان کی تین سال کی مدت ختم ہو گئی ہے.بعض ان میں سے ایسے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ تین سال تو ہم جانتے نہیں.جب ایک دفعہ اپنے آپ کو پیش کر دیا تو پھر پیچھے کیا ہٹنا ہے.ان کو بھی قانون کے ماتحت پھر اپنے نام پیش کرنے چاہئیں.کیونکہ پہلے ہمارا مطالبہ صرف تین سال کے لئے تھا اور جو بھی اپنے آپ کو پیش کریں.پختہ عزم اور ارادہ کے ساتھ کریں کیونکہ ڈھلمل آدمی اپنے لئے بھی اور دوسرں کے لئے بھی مصیبت کا موجب ہوتا ہے.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم سے ہر ایک بچے، بوڑھے، جوان، مرد، عورت، چھوٹے ، بڑے کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ عزم صمیم کے ساتھ اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے کھڑا ہو جائے جس کا مطالبہ ہم سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ کیا گیا ہے اور وہ ہمارے کاموں میں برکت دے تاہم اس میں کامیاب ہو سکیں.آمین.مطبوعہ الفضل 22 دسمبر 1937 ء ) 499

Page 512

Page 513

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از تقریر فرموده 28 مارچ 1937ء تحریک جدید کے بعض مطالبات کا ذکر تقریر فرمودہ 28 مارچ 1937ء برموقع مجلس شوری.اس کے بعد میں دوستوں کو تحریک جدید کی طرف پھر توجہ دلانا چاہتا ہوں.آپ لوگ اس وقت اتفاقا یہاں جمع ہیں.میں خطبات میں تحریک جدید کی طرف جب توجہ دلاتا ہوں تو یہ آپ کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے کہ آپ ان خطبات کو پڑھیں یا نہ پڑھیں لیکن اب جو کچھ میں کہوں گا وہ آپ کو لازماً سننا پڑے گا.میں نے متواتر توجہ دلائی ہے کہ ہر زمانہ کے لحاظ سے کامیابی حاصل کرنے کے کچھ گر ہوتے ہیں جن کو اگر مد نظر نہ رکھا جائے تو کامیابی کی منزل بہت دور ہو جاتی ہے.وہ گو زمانہ کی ضروریات کے لحاظ سے بدلتے چلے جاتے ہیں مگر ان میں جو تبدیلیاں ہوتی ہیں وہ عارضی حصہ میں ہوتی ہیں، اصول ہمیشہ ایک ہی رہتے ہیں.مثلاً میں نے تحریک جدید میں ایک مطالبہ جماعت سے یہ کیا ہے کہ قادیان میں اپنے مکان بناؤ.یہ مطالبہ ایک عارضی مطالبہ ہے جو بعد میں صرف مخصوص لوگوں کے لئے رہ جائے گا اور ہر شخص سے یہ مطالبہ نہیں کیا جائے گا.کیونکہ اب تو ضرورت ہے کہ مرکز مضبوط ہو.پس مرکز کی مضبوطی اور اسے دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لئے ہم تحریک کرتے ہیں کہ دوست یہاں آئیں اور مکان بنائیں.ہم جب یہ تحریک کرتے ہیں تو سو میں سے ایک دو ایسے نکل آتے ہیں جو قادیان میں مکان بنا لیتے ہیں اور اس طرح اگر پانچ چھ ہزار آدمی بھی قادیان میں مکان بنالے تو اس سے مرکز کی شان و شوکت بڑھ جاتی ہے لیکن جب خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت ساری دنیا میں پھیل گئی اور اربوں لوگ احمدی ہو گئے تو اس وقت اگر ہم یہ تحریک کریں گے کہ قادیان آجاؤ اور اپنے اپنے مکان بناؤ تو پھر اس تعداد کا اگر سواں حصہ بھی آجائے اور پچاس ساٹھ لاکھ یا کروڑ آدمی نے بھی اس آواز پر لبیک کہی تو ان کے لئے قادیان میں گنجائش نہیں ہوگی.پس یہ تو منشائے الہی اور سنت اللہ کے خلاف ہے کہ اس تحریک کو مستقل طور پر جاری رکھا جائے.یہ ایک عارضی چیز ہے جو اس وقت تک قائم رہے گی جب تک مرکز مضبوط نہیں ہوتا.لیکن اس مطالبہ کے ماتحت جو اصل کام کر رہا ہے وہ ہمیشہ قائم رہے گا.یعنی جہاں بھی اسلام کو مدد کی ضرورت ہو وہاں تم جمع ہو جاؤ اور جس جگہ کے متعلق بھی اسلام چاہتا ہو کہ مسلمان وہاں جائیں اور اپنے بیوت کو قبلہ بنائیں وہاں فورا 501

Page 514

اقتباس از تقریر فرموده 28 مارچ 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول آ پہنچیں.پس یہ اصل باطل نہیں ہوگا، ہاں اس کی موجودہ شکل بدلتی رہے گی.اس زمانہ میں ممکن ہے ہم یہ کہہ دیں کہ فلاں فلاں قسم کی لیاقتوں کے لوگ قادیان میں آئیں.مثلاً وہ جو علوم دینیہ میں ماہر ہوں یا روحانیت رکھنے والے وجود ہوں تا کہ مرکز میں نیکی قائم رہے.تو تحریک جدید میں کئی چیزیں بے شک عارضی ہیں لیکن اصول وہی رہیں گے اور جب تک قومی ترقی کے لئے اس کی موجودہ شکل ضروری ہے یہ قائم رہے گی اور جب کسی اور شکل کی ضرورت ہوگی وہ قائم کر دی جائے گی.بہر حال اس وقت وہی شکل ضروری ہے جس شکل میں میں نے آپ لوگوں کے سامنے مطالبات پیش کئے ہیں.ان مطالبات پر گو جماعت نے ایک حد تک عمل کیا ہے لیکن سولہواں مطالبہ ایسا ہے جس پر ابھی بہت کچھ عمل کرنے کی ضرورت ہے.پچھلے دنوں ایک دوست جو عیسائی ہیں اور یہاں امتحانوں کے سپرنٹنڈنٹ بن کر آئے تھے مجھ سے ملنے کے لئے آئے.باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ آپ کا جو سولہواں مطالبہ تھا اور جس میں اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی تاکید تھی اس پر قادیان میں عمل نہیں ہوتا.میں نے انہیں بتایا کہ میں نے تو خود یہ نیت کی ہوئی ہے کہ اس مطالبہ پر عمل کروں اور جماعت سے کراؤں.لیکن آپ جن امور کی طرف توجہ دلا رہے ہیں آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ صرف ہماری نیت اور عمل سے درست نہیں ہو سکتے.ان کے متعلق حکومت کا تعاون بھی ضروری ہے اور وہ ہمارے ساتھ تعاون نہیں کرتی اور اس لئے ہمارے لئے بہت سی مشکلات ہیں.پھر میں نے انہیں کہا آپ کو اس بارہ میں ایک لطیفہ بھی سنادوں.ایک دفعہ پادری گارڈن صاحب ڈاکٹر ذویمر صاحب کو لے کر قادیان آئے.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم اس وقت زندہ تھے، میری ملاقات سے پہلے انہوں نے ڈاکٹر ذویمر صاحب اور پادری گارڈن صاحب کو قادیان کے بعض مقامات دکھائے.قادیان کی سیر کرنے کے بعد ڈاکٹر ذویمر کہنے لگے مجھے خواہش تھی کہ میں دیکھوں کہ اسلامی مسیح کی جماعت نے کہاں تک ترقی کی ہے.کم از کم ظاہری صفائی کے لحاظ سے تو اس کے مرکز نے کوئی ترقی نہیں کی.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم کہنے لگے، ابھی اسلامی مسیح کی حکومت نہیں آئی، پہلے مسیح کی ہی حکومت ہے.اس لئے قادیان کی صفائی کا الزام پہلے مسیح کی قوم پر ہی آتا ہے.ابھی تقریر کے دوران میں ایک دوست نے جو امرتسر کے ہیں لکھا ہے کہ ان کے پاس کسی اور دوست نے بیان کیا ہے کہ ان کی بیوی کہتی ہے میں قادیان گئی تو مجھے انہوں نے اپنے گھر میں سات سات کھانے کھاتے دیکھا ہے.وہ دوست احمدی ہے اور اس کی بیوی بھی احمدی ہے اس لئے میں لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ کہنے سے تو رہا، میں یہی کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں جھوٹ 502

Page 515

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از تقریر فرمود 28 مارچ 1937ء بچائے اور بے دینی کے مرض سے محفوظ رکھے.اگر اس دوست کی بیوی یہاں موجود ہوتیں تو میں انہیں اپنی بیویوں کے سامنے کرا دیتا اور سات کھانوں کا فیصلہ ہو جاتا.مگر وہ یہاں نہیں.اس لئے میں سوائے اس کے کیا کہوں کہ اس میں ذرہ بھر بھی سچائی سے کام نہیں لیا گیا.گذشتہ دو سالوں میں صرف دو دعوتیں ایسی ہوئی ہیں جن میں بعض غیر احمدی شریک تھے اور چونکہ ان کے مقام اور درجہ کے لحاظ سے یہ مناسب نہ تھا کہ ایک ہی کھانے پر کفایت کی جائے اس لئے میں نے اس رعایت پر ان دعوتوں میں عمل کیا جس کا میں نے شروع میں ہی اعلان کر دیا تھا.یہ دونوں دعوتیں سندھ میں ہوئی تھیں اور ان میں غیر احمدی معززین مدعو تھے.اس کے علاوہ مجھے یاد نہیں کہ میں نے ان سالوں میں ایک کھانے سے زیادہ کھانا کھایا ہو.اور سات کھانے تو میں نے عمر بھر میں کبھی نہیں کھائے.صرف ایک دعوت سات یا اس سے زائد کھانوں کی مجھے یاد ہے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی زندگی میں میں ایک دفعہ ہندوستان گیا اور شاہجہانپور میں ٹھہرا.اس وقت حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری ( جو آج کل بیمار ہیں اللہ تعالیٰ انہیں صحت عطا فرمائے) کے والد صاحب زندہ تھے، انہوں نے ہماری دعوت کی.جب کھانے چنے گئے تو وہ اس قدر زیادہ تھے کہ مجھے یہ سمجھ نہیں آتا تھا کہ میرا کھانا کہاں ختم ہوا ہے اور دوسرے دوست کا کھانا کہاں سے شروع ہوا ہے.کے طور پر میں نے اس وقت کہا کہ حافظ صاحب بعض کھانوں کی پلیٹوں تک تو شاید مجھے لیٹ کر پہنچنا پڑے گا.تو چار پانچ کھانوں سے زائد کی یہ صرف ایک دعوت مجھے یاد ہے اس کے سوا کھانا تو الگ رہا مجھے کبھی سات کھانوں کی دعوت میں بھی شامل ہونے کا موقعہ نہیں ملا.ہاں انگریزی کھانے اس سے مستلی ہیں کیونکہ انگریزی کھانے یوں تو بہت زیادہ ہوتے ہیں اور کئی کئی کھانوں کی فہرست پیش کی جاتی ہے لیکن کھانے کے قابل صرف دو تین ہی ہوتے ہیں، باقی سب نام کے طور پر جمع کئے ہوئے ہوتے ہیں جنہیں انگریز بھی نہیں کھاتے.غرض مجھے یاد نہیں کہ میں نے کبھی سات کھانے کھائے ہوں اور سات کھانے ہضم کرنے والا تو میرا معدہ ہی نہیں.بعض لوگ ممکن ہے کھا سکتے ہوں.اسی وقت ایک غیر احمدی دوست نے ایک اور طرف میری توجہ پھرائی ہے.وہ کہتے ہیں آپ کو خود ایسی دعوت دیکھنے کا موقعہ نہیں ملا مگر آپ کے علم میں تو آیا ہے کہ ایک صاحب محرم کے دن ننانوے کھانے کھاتے ہیں.یہ درست ہے میں نے کل ہی یہ ذکر تعجب سے سنا ہے جس وقت یہ واقعہ مجھے سنایا جار ہا تھا ایک دوست جو پاس بیٹھے تھے مسکرا کر کہنے لگے کہ شاید صاحب سواں کھا نا محرم کے غم کی وجہ سے چھوڑ دیتے ہیں.خیر یہ تو لطیفہ ہوا.بات کچی یہی ہے کہ سات کھانے میں نے کبھی کھائے ہی نہیں.ہاں چونکہ تحفے ہمارے گھروں میں کثرت سے آتے رہتے 503

Page 516

اقتباس از تقریر فرموده 28 مارچ 1937 ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول ہیں اس لئے ممکن ہے دو سالوں میں چھ سات دفعہ میں نے ان تحفوں میں سے کسی ایک کو تحفہ لانے والے کی دلداری کے طور پر چکھ لیا ہو.یہ اگر دوسرا کھانا کہلا سکتا ہے تو ایسا دوسرا کھانا چھ سات دفعہ دو سالوں میں میرے استعمال میں ضرور آیا ہے، اس سے زیادہ نہیں اور سات کھانے تو کبھی استعمال میں ہی نہیں آئے.اس قسم کے اعتراض بہت دفعہ بدظنی سے بھی پیدا ہو جاتے ہیں.مثلاً دستر خوان پر پانچ چھ آدمیوں نے بیٹھنا ہو، ایک دومریض ہوں جن کے لئے پر ہیزی کھانا پکا ہو، ایک کھانا باقی لوگوں والا ہو اور اتفاقاً کوئی شخص تحفہ لے آیا وہ بھی دستر خوان پر چنا گیا.اب دیکھنے والا اگر تقویٰ سے کام نہ لے تو سمجھے گا کہ چار کھانے رکھے ہیں.حالانکہ ان میں سے تین تو الگ الگ لوگوں کے لئے ہیں اور چوتھا تحفہ ہے جسے یا تو گھر کا کھانا چھوڑ کر کوئی شخص کھائے گا یا پھر صرف چکھ لے گا کہ دوسرے کا دل میلا نہ ہو.اسی قسم کی بدظنی کا واقعہ مجھ سے ایسا گزرا ہے کہ وہ مجھے ہمیشہ یاد رہتا ہے.ایک دفعہ ایک دوست میرے پاس آئے اور کہنے لگے میری بیوی پہلی دفعہ قادیان آئی تھی.اسے آپ کے گھر آکر بہت بڑا ابتلا آ گیا.میں نے پوچھا کیا بات ہوئی ؟ وہ ہے تو عورتوں کے متعلق بات لیکن چونکہ مسئلہ بیان کرنا پڑتا ہے اس لئے بعض دفعہ ایسی باتیں بھی بیان کرنی پڑتی ہیں.چنانچہ ایک دفعہ ایک عورت نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مسئلہ پوچھا جو عورتوں سے تعلق رکھتا تھا، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تو نے عورتوں کی لٹیاڈ بودی.مگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا دین کے مسائل پوچھنے اور بیان کرنے میں کوئی شرم کی بات نہیں، تو بعض دفعہ اس قسم کی باتیں بھی بیان کرنی پڑتی ہیں.خیر جب میں نے اس سے دریافت کیا کہ کیا ابتلاء آیا ہے تو اس نے بتایا کہ میری بیوی نے دیکھا ہے کہ آپ کے گھر کی مستورات نماز نہیں پڑھتیں.میں نے کہا ممکن ہے جس کے متعلق آپ کی بیوی کو شبہ پڑا ہوا نہیں ماہواری ایام آئے ہوئے ہوں.وہ کہنے لگے کہ میں نے اپنی بیوی سے یہ کہا تھا مگر اس نے کہا کہ آپ کی دونوں بیویوں نے نماز نہیں پڑھی اور نہ آپ کی جوان بیٹی نے.میں نے کہا شاید انہوں نے الگ پڑھ لی ہو.انہوں نے کہا کہ نماز کے وقت ساتھ رہی ہے اور اسے یقین ہے کہ ایسا نہیں ہوا.گو یہ دعویٰ ان کا تو باطل تھا کہ اس نے ایسی نگرانی کی ہو مگر پھر بھی میں نے احتیاطا گھر میں دریافت کیا.ایک بیوی سے معلوم ہوا کہ ان کو اور لڑکی کو انہی دنوں میں نماز جائز نہ تھی.دوسری بیوی سے بھی یہی امر معلوم ہوا.اب یہ ایک اتفاق ہے کہ ایک ہی وقت میں تینوں کے لئے نماز ترک کرنی ضروری تھی.مگر ایسے اتفاق بھی ہو جاتے ہیں.اگر وہ عورت بدظنی سے کام نہ لیتی تو اس کے لئے ابتلاء کی کوئی بات نہ تھی.تو بعض دفعہ اس طرح بھی غلطی ہو جاتی ہے.نیا آدمی ہوتا ہے اور وہ اپنے دل میں ایک قیاس کر کے اعتراض 504

Page 517

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از تقریر فرمود 28 مارچ 1937ء قائم کر لیتا ہے لیکن اس موجودہ اعتراض پر تو وہی مثال صادق آتی ہے جیسے پنجابی میں کہتے ہیں کہ نرالون ہی کنھیا ہے.سب جھوٹ ہی جھوٹ ہے اور اسمیں کچھ سچائی نہیں.کیونکہ معترضہ یہ کہتی ہے کہ اس نے مجھے سات کھانے کھاتے ہوئے دیکھا.ایک دفعہ ایک دوست نے کسی شخص کا یہ اعتراض مجھے پہنچایا کہ انہوں نے اپنی لڑکی کی شادی پر ۲۷ ہزار روپے کا زیور دیا ہے.میں نے کہا وہ شادی میں نے تحریک جدید سے پہلے کی تھی اس لئے اگر اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دیتا اور میرے پاس مثلاً کروڑ روپیہ ہوتا اور میں اس میں سے ۲۷ ہزار کے زیور بنادیتا تو اس میں کوئی حرج نہ تھا.لیکن میں نے تو ۲۷ ہزار کے زیور پہنائے ہی نہیں اور اگر اسے اصرار ہو تو وہ میرے ساتھ شرط کر لے.جتنے زیور میں نے پہنائے ہیں وہ میں اسے دے دوں گا اور ۲۷ ہزار میں سے ۲۷ سو روپیہ ہی وہ مجھے دے دے.مجھے اس میں بھی کثیر فائدہ رہے گا کیونکہ وہ زیور اس سے بھی بہت کم قیمت کا تھا.اسی طرح ایک دفعہ ایک شخص نے کہا کہ جلسے پر جب لوگ آتے ہیں تو پچیس ہزار کے قریب روپیہ انہیں صرف نذرانوں سے حاصل ہوتا ہے.میں نے اسے کہا کہ تم اس کا دسواں حصہ مجھے دے دیا کرو اور جلسہ پر جس قدر نذرانہ آئے وہ تم اٹھاتے چلے جاؤ.پھر خود ہی دیکھ لینا کہ کس کو زیادہ فائدہ رہتا ہے.غرض بعض دفعہ لوگ اتنا جھوٹ بولتے ہیں کہ اس کی کوئی حد ہی نہیں ہوتی.ایک شخص تھا وہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا مجھے بخاری خرید دیجئے.آپ نے فرمایا میرے پاس روپیہ ہے نہیں.وہ کہنے لگا بھلا آپ کے پاس روپیہ نہ ہو یہ میں کس طرح مان لوں.آپ صاف طور پر یہی کیوں نہیں کہہ دیتے کہ میں خرید کر نہیں دیتا.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا میرے پاس روپیہ ہوتا تو خرید دیتا.ہے نہیں تو کس طرح خرید دوں.وہ کہنے لگا یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ جماعت کی تعداد اس وقت دس لاکھ ہے.اگر ہر شخص چار چار آنے سالانہ بھی آپ کو نذرانہ دیتا ہو تو اڑھائی لاکھ روپیہ سالانہ آپ کے پاس جمع ہو جاتا ہے.اور پھر آپ کہتے ہیں کہ کچھ نہیں.حضرت خلیفہ اول کی عادت تھی کہ اگر سمجھانے کے لئے سختی کی ضرورت ہوتی تو اس سے دریغ نہ کرتے.آپ نے یہ سن کر فرمایا اتنی بے شرمی ! آپ ہی بتائیں.آپ نے مجھے اتنے سالوں میں کتنی چونیاں دی ہیں؟ تو کئی لوگ ایسے اعتراض کر دیتے ہیں جن میں ذرہ بھر بھی سچائی نہیں ہوتی.غرض میں نے متواتر توجہ دلائی ہے کہ تحریک جدید کے مطالبات کو پورا کرو.خصوصاً اس کا سولہواں مطالبہ ایسا ہے جس کی طرف جماعت کو زیادہ توجہ کرنے کی ضرورت ہے.مگر میں نے دیکھا ہے قادیان میں اس مطالبہ کے ماتحت چند دن کام کیا گیا پھر میں تبدیل آب و ہوا کے لئے پہاڑ پر چلا گیا تو 505

Page 518

اقتباس از تقریر فرموده 28 مارچ 1937ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک......جلد اول امور عامہ نے خیال کر لیا کہ یہ مطالبہ میری موجودگی میں ہی قابل عمل تھا، اس کے بعد نہیں.پہاڑ سے واپس ہوئے تو حضرت ام المؤمنین پر فالج کا حملہ ہو گیا اور ادھر مصروفیت رہی.پھر سندھ کی طرف جانا پڑا.اس کے بعد میں خود بیمار ہو گیا اور پھر الیکشن کے کام میں مصروف رہنا پڑا.اس وجہ سے میں نگرانی نہ کر سکا.لیکن مجھ پر اثر یہی ہے کہ اب کوئی کام نہیں ہو رہا.انہوں نے غالباً سمجھا ہے کہ چھ مہینے ہم نے ایک شغل اختیار کر لیا ہے اب اسے مستقل طور پر جاری رکھنے کی کیا ضرورت ہے.حالانکہ یہی وہ چیزیں ہیں جولوگوں پر برا اثر ڈالتی ہیں.میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑا کام کرنے والا ہوں، رات کو بھی یہاں سے گیا تو پڑھتا رہا اور جب سونے لگا تو اس وقت دو بج چکے تھے لیکن باوجود اس کے کچھ عرصہ سے کام اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ ڈاک بعض دفعہ دفتر میں بھیج دیتا ہوں کہ اس کا خلاصہ میرے سامنے پیش کیا جائے.پھر بھی میرے جیسا آدمی نہیں کہہ سکتا کہ ہفتے میں وہ اس کام کے لئے کوئی وقت نہیں نکال سکتا.پھر میں کس طرح مان سکتا ہوں کہ دوسرے لوگ جن کے اوقات اتنے مصروف نہیں ، وہ ہفتہ میں دو چار گھنٹے اس کام کے لئے نہیں نکال سکتے.اور کیا وجہ ہے کہ ایک کام کو جاری کر کے اسے چھوڑ دیا جائے.ہماری گلیوں کو دیکھو راستوں میں پاخانہ پھرا ہوا ہوتا ہے.حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر کوئی راستہ میں پاخانہ پھرتا ہے تو اس پر خدا تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے.دوسری طرف آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص راہ سے کانٹے کے اینٹیں اور دوسری ایذا دینے والی چیزیں ہٹاتا ہے تو ہر کام کے بدلہ میں اس کی ایک نیکی لکھی جاتی ہے.گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رستوں میں گند پھینکنے کا نام لعنت اور صفائی کرنے کا نام نیکی رکھا ہے.اب اگر کوئی بادشاہ بھی ہو اور وہ رستوں کی صفائی کرے تو کتنی نیکیاں ہیں جو مفت میں اسے مل سکتی ہیں.مگر یہاں تو ابھی بہت چھوٹے پیمانے پر کام شروع کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ ہفتہ میں ایک گھنٹہ کام کیا جائے.اگر قادیان کے لوگ اس کام کو جاری رکھتے تو میں باہر سے آنے والوں کو ملامت کر سکتا.مگر مجھے افسوس ہے کہ قادیان والوں نے بھی چند دن اس مطالبہ کے ماتحت کام کر کے چھوڑ دیا.میں نے دیکھا ہے جب پہلے دن میں نے کسی پکڑی اور مٹی کی ٹوکری اٹھائی تو کئی مخلصین ایسے تھے جو کانپ رہے تھے اور وہ دوڑے دوڑے آتے اور کہتے حضور تکلیف نہ کریں، ہم کام کرتے ہیں اور وہ میرے ہاتھ سے کسی اور ٹوکری لینے کی کوشش کرتے.لیکن جب چند دن میں نے ان کے ساتھ مل کر کام کیا تو پھر وہ عادی ہو گئے اور وہ سمجھنے لگے کہ یہ ایک مشترکہ کام ہے جو ہم بھی کر رہے ہیں اور یہ بھی کر رہے ہیں.تو اس طرح کام کرنے کے نتیجہ میں اخلاق کی درستی ہوتی ہے اور قوم کا معیار بلند ہوتا ہے.اگر ہفتہ میں ایک دفعہ ایسے مفت کے مزد و مل جائیں 506

Page 519

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از تقریر فرموده 28 مارچ 1937ء تو خودہی اندازہ لگاؤ صفائی میں کس قدر ترقی ہو جائے.پھر اس کا یہ بھی فائدہ ہے کہ وہ خلیج جو امیروں اور غریبوں کے درمیان حائل ہے اور جسے ہم پاٹنا چاہتے ہیں اس خلیج کو دور کرنے میں ہم کامیاب ہو جائیں گے.پس ایک طرف میں ملامت کرتا ہوں امور عامہ کو کہ اس نے ایسے اچھے اور نیک کاموں کے بجالانے میں سستی کی اور دوسری طرف یہاں کی جماعت کے دوستوں اور باہر کے احباب کو بھی اس مطالبہ کی طرف توجہ دلاتا ہوں.اس ضمن میں ایک اور بھی نقص ہے جس کی اصلاح کی طرف میں توجہ دلا دیتا ہوں اور وہ یہ کہ قادیان میں جب بھی کوئی شخص نیا مکان بناتا ہے وہ گلی میں سے کچھ نہ کچھ زمین اپنے مکان میں شامل کر لیتا ہے.یہ ایسی گندی مرض ہے کہ اسے دیکھ کر دل میں سخت قبض پیدا ہوتی ہے اور بجائے دعا کے بددعا نکلتی ہے کہ لوگ کتنے مردہ ہو گئے ہیں اور ان کے احساس کس طرح مرگئے ہیں.پھر وہ اس میں اتنا غلو اور اصرار کرتے ہیں کہ سمجھانے کے باوجود باز نہیں آتے اور کہتے ہیں چونکہ فلاں نے گلی میں سے تھوڑی سی زمین لے لی ہے اس لئے ہم سے بھی برداشت نہیں ہو سکتا اور ہم بھی ضرور گلی میں سے کچھ زمین چھینیں گے.حالانکہ چاہئے تو یہ تھا کہ اپنے مکان کی زمین میں سے تھوڑی سی زمین رستہ کی وسعت کے لئے چھوڑ دی جاتی مگر کیا یہ جاتا ہے کہ گلی کی زمین کو اپنی زمین میں شامل کر لیا جاتا ہے.اور جب جھگڑا پیدا ہوتا ہے تو کہتے ہیں ذراسی زمین تھی.ذراسی زمین لے لینے میں کیا حرج ہوا.یہ ویسی ہی بات ہے جیسے راولپنڈی کی طرف ایک ملا کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا، اگر ذراسی ہوا خارج ہو جائے تو کیا وضوٹوٹ جاتا ہے؟ اس نے کہا ذراسی کیا اور زیادہ کیا ، ہوا خارج ہوگی تو وضو ٹوٹ جائے گا.مگر وہ اصرار کرے اور کہے کہ ذراسی ہوا خارج ہو جائے تو اس میں کیا حرج ہے.یہ لوگ بھی کہتے ہیں اگر راستہ میں سے ذراسی زمین لے لی جائے تو کیا ہوا.حالانکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے چاہئے یہ تھا کہ اگر راستہ کافی چوڑا نہ ہو تو راستے چوڑے رکھنے کے لئے خود اپنی زمین میں سے کچھ حصہ گلی میں خالی چھوڑا جاتا کیونکہ رستوں کا چوڑا ہونا نہایت ضروری ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ اپنے رہنے کے لئے مکان بنانے سے پہلے مردوں کا انتظام کرنا چاہئے.آپ فرماتے تھے کسی شخص نے مکان بنایا تو زینے اس کے بہت چھوٹے رکھے.اتفاقا ان کے گھر میں ایک موت ہوگئی.جو شخص مراوہ بہت ہی موٹا تھا.اسے چھت پر سے اتارنے کے لئے بڑی جدو جہد کرنی پڑی اور لاش کی سخت بے حرمتی ہوئی.تو آپ فرمایا کرتے تھے زندوں سے پہلے مردوں کا خیال رکھو.پس ان باتوں کا خیال ہمیشہ قوم کے دماغی معیار کو بلند کرتا اور قوم 507

Page 520

اقتباس از تقریر فرمود 28 مارچ 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول میں قربانی کی روح پیدا کرتا ہے اور میں نصیحت کرتا ہوں کہ باہر کے لوگ بھی اور یہاں کے رہنے والے بھی اس بارے میں اپنا اچھا نمونہ پیش کریں.اس کے بعد میں یہ ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ دار الصناعت والوں نے جہاں صنعت و حرفت کا کام ہوتا ہے ایک نمائش کا انتظام کیا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ میں ان کے متعلق کچھ سفارش کروں.میری تقریر کے بعد غالباً اتنا وقت تو نہیں رہے گا کہ سب دوست نمائش دیکھ سکیں لیکن پھر بھی جو دوست یہاں رہیں انہیں ضرور کوشش کرنی چاہئے کہ وہاں جائیں اور جن چیزوں کی انہیں ضرورت ہو وہ خریدیں.یہ صنعت و حرفت کا کام در اصل بیتائی و غرباء کی پرورش کے لئے جاری کیا گیا ہے.ترکھانے کا کام تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت حد تک کامیاب ہوا ہے.لوہارا کام بھی ہو رہا ہے اور چمڑے کا کام بھی جاری ہے.دوستوں کو چاہئے کہ انہیں جس چیز کی ضرورت ہو وہ یہاں سے خرید لے جائیں اور کوشش کریں کہ ان چیزوں کی باہر ایجنسیاں کھل جائیں.اس کا زیادہ تر فائدہ قوم کے یتامی کو ہی پہنچے گا اور جو زائد آمد ہوگی وہ تبلیغ اسلام کے کام آئے گی.اسی طرح تحریک جدید کے ماتحت دہلی میں ایک دواخانہ کھولا یا ہے.”ویدک یونانی دواخانہ اس کا نام ہے.دہلی سے لوگ عام طور پر دوائیں منگواتے رہتے ہیں.اگر اب دوست اس کارخانہ سے جو تحریک جدید کے ماتحت جاری کیا گیا ہے دوائیں منگوائیں گے تو چونکہ سلسلہ کی طرف سے بھی اس میں ایک حصہ رکھا گیا ہے اس لئے اس کا بہت سا نفع قومی ضروریات پر ہی خرچ ہو گا.مجھے تحفہ کے طور پر اس دواخانہ والوں کی طرف سے ماء اللحم دیا گیا ہے.میں نے اسے چکھا تو وہ مجھے صحیح معلوم ہوا کیونکہ ماء اللحم کا ذائقہ اور خوشبو اس میں موجود تھے.اسی طرح اور بھی بہت سی ادویہ ہیں اور چونکہ سلسلہ کے اموال کا ایک حصہ اس پر خرچ ہوا ہے اس لئے ہم امید کرتے ہیں کہ اس دواخانہ کے کارکن دیانتداری سے کام کریں گے اور کسی کو نقصان نہ ہونے دیں گے.ان کے علاوہ بعض اور کار خانے بھی ہمارے مد نظر ہیں.پھر سندھ میں ہماری جو زمینیں ہیں وہاں ایسے دوست جن کی زمین نہیں اگر کاشتکار بن کر چلے جائیں تو ان کے لئے بھی کام کا موقع ہے.گو ہمارا اصول یہ ہے کہ ہم پنجابیوں کو ہی وہاں جمع نہیں کرتے بلکہ سندھ کے لوگوں کو بھی کام کرنے کا موقع دیتے ہیں لیکن پھر بھی ہمارے دوستوں کے لئے ابھی موقع ہے اور جو جانا چاہیں وہ وہاں اچھا کام اپنے لئے مہیا کر سکتے ہیں.تحریک جدید کے مطالبات کے سلسلہ میں میں ایک دفعہ پھر دوستوں کو چندوں کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتا ہوں.دوستوں نے در حقیقت اس کام کی عظمت کو ابھی سمجھا ہی نہیں جو تحریک جدید کے 508

Page 521

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول اقتباس از تقریر فرموده 28 مارچ 1937ء ماتحت خدا تعالیٰ کے فضل سے جاری ہے.ان دو سالوں میں دنیا کے دو براعظموں میں بڑے زور سے تبلیغ ہو رہی ہے اور اخراجات جو پہلے ہوا کرتے تھے ان کا اب چوتھا یا پانچواں حصہ ہوتا ہے اور یہ بہت ہی معمولی خرچ ہے جس پر اس وقت کئی ممالک میں تبلیغ ہو رہی ہے.مثلاً اس وقت تک تحریک جدید کے ماتحت جاپان میں دو مبلغ، چین میں تین مبلغ، سماٹرا بور نیو وغیرہ میں ایک مبلغ، سٹریٹ سیٹلمنٹس میں چار مبلغ اور جنوبی امریکہ میں ایک مبلغ کام کر رہا ہے.اسی طرح سپین میں پہلے ہمارا ایک مبلغ کام کرتا رہا ہے مگر اب انہیں روم میں مقرر کیا گیا ہے.گویا دو ملکوں میں تبلیغ ہوئی ہے.پھر ہنگری میں اس وقت دو مبلغ کام کر رہے ہیں جن میں سے ایک اب انشاء اللہ تعالیٰ پولینڈ چلے جائیں گے.اسی طرح ایک مبلغ یوگوسلاویہ میں ہے.گویا تحریک جدید کے ماتحت پندرہ مبلغ اس وقت مختلف ممالک میں کام کر رہے ہیں جن میں سے بعض جگہ تو ایسی کامیابیوں کی بنیاد پڑ گئی ہے کہ جنہیں دیکھتے ہوئے خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت خوش کن نتائج نکلنے کی وقع ہے.چنانچہ ہنگری میں بہت بڑی کامیابی ہوئی ہے.اسی طرح روم میں بھی جس طرز پر بنیاد پڑ رہی ہے وہ امید ہے بہت مفید ثابت ہوگی.البانیہ اور یوگوسلاویہ میں چھ سات شخص احمدی ہو چکے ہیں اور ہنگری میں ایک سو بیس افراد احمدیت میں شامل ہیں.سپین میں بھی کچھ جماعت قائم ہو چکی ہے اور سٹریٹ سیٹلمنٹس میں بھی.لیکن ابھی تک چین و جاپان میں ہماری جماعت قائم نہیں ہوئی اور یہ ضرور قابل تعجب امر ہے مگر اس کی وجہ غالبا یہ ہے کہ وہاں کی زبان بالکل مختلف ہے اور اس کے سیکھنے میں بھی ایک کافی عرصہ درکار ہوتا ہے.بہر حال ان دو ممالک کو اگر نکال دیا جائے تو باقی ممالک میں اچھے نتائج پیدا ہورہے ہیں یا اچھے نتائج نکلنے کے سامان ہو رہے ہیں اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلد ہی پندرہ سولہ نئے ممالک میں احمدیت قائم ہو جائے گی اور نئے مشن تحریک جدید کے ماتحت کھولے جائیں گے.تمام ممالک میں سے ہنگری میں سب سے زیادہ ترقی کے آثار ہیں.حالانکہ ابھی ہمارا مشن قائم ہوئے وہاں ایک سال ہی ہوا ہے.وہاں کے اخباروں میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے متعلق نہایت اچھے مضامین شائع ہورہے ہیں اور وہاں کی اطلاع ہے کہ تو رانی بحیثیت جماعت ہمارے مرکز میں آتے اور سلسلہ کے متعلق معلومات حاصل کرتے ہیں.امید کی جاتی ہے کہ ان کی جماعت کی جماعت جلد احمدیت میں شامل ہو جائے گی.غرض تحریک جدید کے ماتحت تبلیغ احمدیت کے نہایت شاندار نتائج نکل رہے ہیں.ہندوستان میں بھی ایک حد تک تبلیغ ہو رہی ہے لیکن چندوں کی ادائیگی کی رفتار بہت سست ہے.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ تحریک جدید کا چندہ طوعی ہے جبری نہیں اور جب یہ طوعی ہے اور اس کا وعدہ کرنا 509

Page 522

اقتباس از تقریر فرموده 28 مارچ 1937ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول ہر شخص کی اپنی مرضی پر منحصر ہے تو اپنی خوشی سے کئے ہوئے وعدے کے پورا کرنے میں بھی اگر ستی پائی جائے تو کس قدر قابل افسوس ہے.پہلے سال تحریک جدید کے چندہ کے متعلق ایک لاکھ دس ہزار کا وعدہ کیا گیا اور ۹۸ ہزار وصول ہوا.گویا بارہ ہزار بقایارہ گیا.دوسرے سال ایک لاکھ سترہ ہزار کا وعدہ کیا اور ایک لاکھ چھ ہزار وصول ہوا.اس طرح دوسرے سال بھی گیارہ ہزار کا بقایا رہ گیا.اب تیسرے سال کے لئے گو ایک لاکھ چوالیس ہزار کے وعدے ہو چکے ہیں اور ابھی اور وعدوں کی توقع ہے لیکن اس وقت تک وصولی بہت کم ہوئی ہے.میرے اندازہ میں اس وقت تک باون ہزار سے اوپر آچکنا چاہئے تھا مگر وصول صرف ۳۱ ہزار ہوا ہے.میں نے بار ہا توجہ دلائی ہے کہ تحریک جدید کا چندہ جلد سے جلد ادا کرنا چاہئے اور ابتدائی مہینوں میں ہی ادا کر دینا چاہئے مگر دوست اس کی ادائیگی میں پھر بھی غفلت سے کام لیتے ہیں.اب میں نے اخبار میں ایک نوٹ لکھ کر جماعتوں کو پھر توجہ دلائی تو میں دیکھتا ہوں اس کا اثر ہو رہا ہے اور اب چندہ کی ادائیگی کی رفتار بڑھ رہی ہے مگر اتنی نہیں جس سے امید کی جاسکے کہ سال بھر میں تمام چندہ پورا ہو جائے گا.حالانکہ اکثر دوستوں کے یہ وعدے تھے کہ وہ مئی جون تک تمام رقم ادا کر دیں گے.اگر طوعی اور اپنی مرضی کے چندوں میں بھی دوست اس قسم کی سستی دکھا ئیں تو جبری چندوں میں ان کا تساہل کہاں تک پہنچ سکتا ہے؟ پس میں دوستوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ان چندوں کی ادائیگی کی طرف خود بھی توجہ کریں اور اپنی اپنی جماعتوں میں جا کر دوسرے لوگوں کو بھی توجہ دلائیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے جماعت میں اب آہستہ آہستہ تحریک ہو رہی ہے اور چندہ کی ادائیگی کی رفتار میں سرعت پیدا ہوگئی ہے لیکن پھر بھی اس امر کی ضرورت ہے کہ جماعتوں کو بار بار توجہ دلائی جائے.میں نے پچھلے سال یہ کہ دیا تھا کہ جوشخص میعاد مقررہ میں چندہ نہیں دے گا بعد میں اس کی طرف سے چندہ قبول نہیں کیا جائے گا لیکن اب تازہ اعلان میں یہ کرتا ہوں کہ جس نے گزشتہ کسی سال کا چندہ تحریک جدید ادا نہیں کیا وہ ہم سے اس کی معافی لے لے یا وہ چندہ ادا کرے تا خدا تعالیٰ کے نزدیک گنہ گار نہ ہو.اس وجہ سے پہلے سالوں کا وہ روپیہ جو 23 ہزار کے قریب ہے وہ بھی اس قابل ہے کہ دوست ادا کریں یا اس کے متعلق مجھ سے معافی لے لیں.اگر تم وہ چندہ ادا نہیں کر سکتے تو تم ہمیں لکھ دو کہ ہمارے حالات اب ایسے ہو گئے ہیں کہ ہمارے لئے چندہ ادا کرنا مشکل ہے.ہم تمہیں فراخدلی سے معاف کر دیں گے اور اگر چندہ ادا کر سکتے ہو تو ادا کرو.بہر حال دونوں راستے تمہارے لئے کھلے ہیں.اگر اس کے باوجود کوئی شخص محض عزت نفس کے لئے معافی طلب نہیں کرتا اور نہ 510

Page 523

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از تقریر فرموده 28 مارچ 1937ء چندہ ادا کرتا ہے تو گویا وہ خدا تعالیٰ کا گنہگار ہونا تو پسند کرتا ہے لیکن یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ لوگ اس کی طرف انگلی اٹھا ئیں.حالانکہ جب میں کسی کو معاف کر دوں تو دوسروں کا انگلی اٹھانا یاکسی کو مطعون کرنا محض ظلم ہے.میں جب کسی کو خوشی سے معاف کردوں تو دوسرے کا کوئی حق نہیں کہ وہ پھر بھی دوسرے پر اعتراض کرے.پس میں دوستوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ یہ نہایت ہی اہم کام ہے، ایک عظیم الشان سکیم ہے جو میرے مدنظر ہے.اگر ان مطالبات میں ہی احباب سنتی دکھانے لگے تو دوسرے مطالبات کس طرح پیش کئے جاسکتے ہیں؟ اسی طرح امانت فنڈ کی طرف میں نے توجہ دلائی تھی.اس میں بھی اب ستی ہورہی ہے.دوستوں کو چاہئے کہ اسے دور کریں.سادہ زندگی اور ایک کھانا کھانے کے متعلق جو میری تحریک ہے اس پر البتہ جماعت کا بیشتر حصہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے عمل کر رہا ہے.گو کچھ نہ کچھ کمز ور لوگ ہر جماعت میں موجود ہوتے ہیں.اسی طرح عورتوں میں ابھی یہ مرض پایا جاتا ہے گو پہلے سے بہت کم ہے.ایک دوست ایک دفعہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے میں نے سنا ہے کہ آپ کی بیوی کا پانچ پانچ سوروپے کا ایک ایک جوڑا ہے.میں نے کہا اگر چاہوتو ابھی تلاشی لے لو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ یہ بات کس حد تک صحیح ہے.تو ایسے کمزور لوگ جو بہانے بنا بنا کر اپنے آپ کو اس تحریک کے مطالبات سے آزاد کرنا چاہتے ہیں ان کو چھوڑ کر باقی جماعت نے اچھا نمونہ دکھایا ہے.چندے کے وعدے بھی اچھے کئے ہیں اور ادا بھی بہت حد تک کیا ہے، امانت فنڈ میں بھی کافی حصہ لیا ہے گو اتنا نہیں جتنی میری خواہش تھی ، سادہ زندگی کی طرف بھی توجہ کی ہے، قادیان میں مکانات بنانے کے متعلق بھی جماعت میں ایک بیدار پائی جاتی ہے گو اتنی نہ ہو جتنی اس وقت ضرورت ہے، قادیان میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے اپنے بچے بھیجنے کے مطالبہ میں بھی لوگوں نے حصہ لیا ہے، بیرونی ممالک میں نکل جانے کے متعلق بھی جماعت نے اچھا نمونہ دکھایا ہے.غرض انیس مطالبات میں سے سات آٹھ مطالبے ایسے ہیں جن کو جماعت نے عمدگی سے پورا کیا ہے.باقی تمام مطالبات ایسے ہیں جن کی طرف جماعت کو ابھی توجہ کی بہت زیادہ ضرورت ہے.خصوصاً بے کاری دور کرنے اور اپنے ہاتھوں سے کام کرنے کے متعلق جو میری نصیحت تھی اس کے مطابق صرف ایک فیصدی کام ہوا ہے اور نانوے فیصدی باقی ہے.پس ان امور کی طرف میں جماعت کو پھر توجہ دلاتا ہوں اور انہیں بنا تا ہوں کہ ہر قربانی دوسری قربانی کے لئے ایک زینہ کے طور پر ہوتی ہے.اگر کوئی شخص ایک زمینہ پر قدم نہیں رکھتا تو اس سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ دوسرے زینہ پر چڑھ سکے.اس طرح اگر کسی شخص نے ان 511

Page 524

اقتباس از تقریر فرموده 28 مارچ 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول مطالبات کے پورا کرنے میں حصہ نہیں لیا تو اس سے یہ امید کس طرح کی جا سکتی ہے کہ وہ اگلی سکیموں پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو گا؟ کسی کو کیا پتہ کہ اگلی سکیم کیسی ہو اور اس کے لئے کتنی بڑی قربانیوں اور ایثار کی ضرورت ہو؟ لیکن اگر آپ یہ چھوٹی چھوٹی قربانیاں کریں گے اور شوق سے ان میں حصہ لیں گے تو اللہ تعالٰی آپ کو ان سے بڑی بڑی قربانیوں کی توفیق عطا فرما دے گا.پس اس طرف میں خصوصیت سے توجہ دلاتا ہوں.جو دوست یہاں بیٹھے ہیں وہ توجہ کریں لیکن یاد رکھیں کہ میرا یہ حکم نہیں کہ واجبی چندوں کو نظر انداز کر کے اس میں حصہ لو بلکہ میں نے جو کچھ کہا ہے وہ یہ ہے کہ صدر انجمن احمدیہ کے مستقل چندے ضروری ہیں.ہاں ان کے علاوہ اپنی خوشی سے تم اس تحریک میں شامل ہونا چاہتے ہو تو ہو جاؤ.اسی طرح تحریک جدید کے بقایوں کے متعلق بھی لوگوں کو جا کر کہو اور انہیں مجبور کرو کہ یا تو وہ اپنے بقائے ادا کریں اور اگر بقائے ادا کرنے سے معذور ہیں تو پھر معافی مانگ لیں.میں فراخ دلی سے انہیں معاف کرنے کے لئے تیار ہوں.ہیں.اس کے بعد اصولی طور پر میں ان آیات کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو اس وقت میں نے تلاوت کی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (الصف:2) اے انسان تیرے سوا جتنی بھی مخلوق ہے وہ بلا استثنا تیح الہی کر رہی ہے اور اللہ تعالی کی پاکیزگی ثابت کر رہی ہے.صرف ایک تیرا وجود ہی ہے جو استثناء رکھتا ہے.باقی سب اپنے اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں.یہاں تک کہ شیطان بھی اور فرشتے بھی اور نیچر بھی.غرض زمین و آسمان کی کوئی چیز ایسی نہیں جو تسبیح نہ کر رہی ہو.وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (الصف:2) اور خدا غالب حکمت والا ہے.یعنی دنیا ثبوت دے رہی ہے اس بات کا کہ خدا حکمت والا ہے.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللهِ وَمَا لَا تَفْعَلُو پھر فرماتا ہے:.أنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُونَ (الصف:3,4) 512

Page 525

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از تقریر فرموده 28 مارچ 1937ء اب چونکہ ایک انسان ہی ایسا رہ گیا تھا جس کے متعلق یہ سوال ہو سکتا تھا کہ وہ تسبیح کرتا ہے یا نہیں؟ اس لئے فرماتا ہے تم جانے دو کافروں کو کہ وہ تسبیح الہی نہیں کرتے.ان سے اگر کہا بھی جائے گا تو وہ کہیں گے ہم خدا کو کب مانتے ہیں کہ اس کی تسبیح کریں؟ پس جب انسانوں میں سے بھی کا فرمستی ہو گئے تو تسبیح کرنے والے صرف مؤمن رہ گئے اور مومنوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ (الصف: 3) میرے جلال اور بڑائی کو دنیا میں ظاہر کرنے کا صرف تم ہی ایک ذریعہ رہ گئے تھے مگر حالت یہ ہے کہ تم میں سے بھی ایک حصہ کہتا کچھ ہے اور کرتا کچھ.تو اس صورت میں میری تسبیح انسانوں میں اور بھی محمد ود ہو گئی.انسانوں کے سوا تو زمین و آسمان میں جس قدر چیزیں ہیں وہ جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی تسبیح کر رہی ہیں اور انسانوں میں سے کفار یوں مستثنی ہو گئے کہ وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کا وجود اور اس کی قدرتوں کو تسلیم ہی نہیں کرتے.اس لئے فرماتا ہے اے مومنو! کم سے کم تم جو تھوڑے سے رہ گئے تھے تمہارا فرض تھا کہ تم اپنے عمل سے بتا دیتے کہ انسان بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح کر رہا ہے لیکن اگر تم میں سے بھی ایک حصہ ایسا ہو جو تسبیح نہ کرتا ہو اور دعوے تو بہت بڑے کرتا ہولیکن عملی قربانیوں میں ست ہو تو بتاؤ تسبیح الہی کا نظارہ دنیا کے انسانوں میں سے کون دکھائے گا ؟ پس الا ماشاء اللہ اگر کوئی کمزور ہو تو اس کو چھوڑ کر تمہاری اکثریت ایسی ہونی چاہئے کہ اس کے منہ سے جو الفاظ نکل جائیں وہ اٹل ہوں اور جو اقرار وہ کرے اسے ہر قربانی کر کے پورا کرنے والی ہو.صحابہ کو دیکھو اس تعلیم کا کتنا اثر ہوا.انہوں نے یہاں تک اپنے وعدوں کو پورا کیا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ان کی تعریف کرتا اور فرماتا ہے:.فَمِنْهُم مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ ( الاحزاب : 24) کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت نے ہماری اس نصیحت کو سن کر ایسا عمل کیا ، ایسا عمل کیا کہ ان میں سے بعض نے تو اپنے فرائض ادا کر دیئے اور بعض اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے پوری مستعدی سے تیار بیٹھے ہیں.حدیثوں میں آتا ہے کہ یہ آیت خصوصیت سے ایک صحابی پر چسپاں ہوتی ہے اور اسی صحابی کا واقعہ اس آیت کا شان نزول ہے.دراصل شانِ نزول کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ اس واقعہ کی وجہ سے آیت 513

Page 526

اقتباس از تقریر فرموده 28 مارچ 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول نازل ہوئی بلکہ اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ اس آیت کی زندہ مثال فلاں صحابی میں پائی جاتی ہے.تو صحابہ اس آیت کے زندہ ثبوت کے طور پر ایک صحابی کا واقعہ پیش کیا کرتے تھے.بدر کی جب جنگ ہوئی تو وہ صحابی اس میں شامل نہ ہو سکے.جب جنگ ہو چکی اور انہیں معلوم ہوا کہ اس طرح کفار سے ایک عظیم الشان لڑائی ہوئی ہے تو انہیں اپنے شامل نہ ہونے کا بہت ہی افسوس ہوا اور اس کا ان کی طبیعت پر ایسا اثر ہوا کہ اس کے بعد جب کسی مجلس میں بدر کی جنگ کا ذکر آتا اور وہ سنتے کہ فلاں نے یوں بہادری دکھائی اور فلاں نے اس طرح کام کیا تو وہ سنتے سنتے کہہ اٹھتے اچھا کیا اچھا کیا لیکن اگر میں ہوتا تو بتا تا کہ کس طرح لڑا کرتے ہیں.لوگ سن کر ہنس دیتے کہ اب اس قسم کی باتوں کا کیا فائدہ مگر ان کا جو جوش تھا نچ نچ کا جوش تھا.کسی عارضی جذبہ کے ماتحت نہیں تھا بلکہ عشق ومحبت کی وجہ سے وہ کھلے جا رہے تھے اور انہیں یہ غم کھائے جار ہا تھا کہ کاش انہیں بھی خدا کی راہ میں اپنی جان قربان کرنے کا موقع ملے.آخر خدا تعالیٰ نے احد کی جنگ کا موقع پیدا کر دیا.اس جنگ میں جب مسلمانوں نے کفار کے لشکر کو شکست دے دی اور ان کی فو جیں پراگندہ ہو گئیں تو ایک درہ تھا جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس آدمی چن کر کھڑے کئے تھے اور حکم دیا تھا کہ خواہ جنگ کی کوئی حالت ہو تم نے اس درہ کو نہیں چھوڑنا.جب کفار کا لشکر منتشر ہو گیا تو انہوں نے غلطی سے اجتہاد کیا کہ اب ہمارے یہاں ٹھہرے رہنے کا کیا فائدہ ہے.ہم بھی چلیں اور غنیمت کا مال حاصل کریں.چنانچہ ان میں سے سات آدمی درہ چھوڑ کر چلے آئے اور صرف تین پیچھے رہ گئے.ان کے سردار نے انہیں کہا بھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ ہم یہ درہ چھوڑ کر نہ جائیں مگر انہوں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مطلب تو نہ تھا کہ فتح ہو جائے تب بھی یہیں کھڑے رہو.آپ کے ارشاد کا تو یہ مطلب تھا کہ جب تک جنگ ہوتی رہے یہ درہ نہ چھوڑو.اب چونکہ فتح ہو چکی ہے اس لئے ہمارے یہاں ٹھہرنے کا کوئی فائدہ نہیں.حضرت خالد بن ولید جو اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے، نوجوان تھے اور ان کی نگاہ بہت تیز تھی.وہ جب اپنے لشکر سمیت بھاگے چلے جا رہے تھے تو اتفاقا انہوں نے پیچھے کی طرف نظر جو ڈالی تو دیکھا کہ درہ خالی ہے اور مسلمان فتح کے بعد مطمئن ہو گئے ہیں.یہ دیکھتے ہی انہوں نے لشکر میں سے چند آدمی منتخب کئے اور اس درہ کی طرف سے چڑھ کر یکدم مسلمانوں کی پشت پر ردیا.مسلمانوں کے لئے یہ حملہ چونکہ بالکل غیر متوقع تھا اس لئے ان پر سخت گھبراہٹ طاری ہوگئی اور بوجہ بکھرے ہوئے ہونے کے دشمن کا مقابلہ نہ کر سکے.اور میدان پر کفار نے قبضہ کر لیا.یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد صرف بارہ صحابہ رہ گئے جن میں حضرت ابوبکر حضرت عمر، حضرت عثمان، 514

Page 527

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از تقریر فرموده 28 مارچ 1937ء حضرت علی، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر بھی تھے اور ایک وقت تو ایسا آیا کہ بارہ بھی نہیں صرف چند آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد رہ گئے اور کفار نے خاص طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تیراندازی شروع کر دی.صحابہ نے اس وقت سمجھا کہ اب ہماری خاص قربانی کی ضرورت ہے.چنانچہ حضرت زبیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ کی طرف کھڑے ہو گئے تا اس طرف سے کوئی تیر آکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ لگے اور حضرت طلحہ آپ کے سامنے کھڑے ہو گئے اور انہوں نے اس جگہ جہاں سے تیرگزر کر آتے تھے اپنا ہاتھ رکھ دیا تا کہ تیر ان کے ہاتھ پر لگیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم تک کوئی تیر نہ پہنچ سکے.اس طرح اور صحابی بھی ارد گرد کھڑے ہو گئے.چونکہ اس وقت تیروں کی سخت بوچھاڑ ہو رہی تھی اس لئے جس قدر صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد کھڑے تھے وہ گردن سے لے کر زانوؤں تک تیروں سے زخمی ہو گئے اور ایک انچ جگہ بھی ایسی نہ رہی جہاں انہیں تیر نہ لگا ہو اور حضرت طلیہ کا ہاتھ تو تیر لگتے لگتے بالکل شل ہو گیا اور ساری عمر کے لئے ناکارہ ہو گیا.بعد میں وہ ایک جگہ کسی مجلس میں بیٹھے تھے کہ ایک منافق نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اس ٹنڈے کی یہ بات ہے.حضرت طلحہ نے یہ سن کر کہا تمہیں پتہ ہے میں کس طرح ٹنڈا ہوا ؟ پھر انہوں نے احد کی جنگ کا قصہ سنایا اور بتایا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے اپنا ہاتھ پھیلائے کھڑا رہا اور جو تیر بھی آیا وہ میں نے اپنے ہاتھ پر لیا.یہاں تک کہ تیروں کی بوچھاڑ نے اسے مشل کر دیا.کسی نے کہا آپ اس وقت درد سے کراہتے نہ تھے؟ وہ کہنے لگے میں درد سے کس طرح کراہ سکتا تھا اگر کراہتا تو میرا جسم ہل جاتا اور تیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لگ جاتا.جب دشمنوں کی تیراندازی بھی رائیگاں گئی تو انہوں نے یکدم ریلہ کر دیا اور وہ بارہ آدمی بھی دھکیلے گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہو کر ایک گڑھے میں گر گئے.آپ پر بعض اور صحابہ جو آپ کی حفاظت کر رہے تھے ، شہید ہو کر گر گئے اور اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر کے لئے نگاہوں سے اوجھل ہو گئے اور لشکر میں یہ افواہ پھیل گئی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں.یہ سن کر بعض کمز ور تو مدینہ کو واپس چلے گئے کہ وہاں کے لوگوں کو اطلاع دیں اور باقی صحابہ میدانِ جنگ میں گھبرائے گھبرائے پھرنے لگ گئے.حضرت عمر پر اس خبر کا یہ اثر ہوا کہ آپ ایک چٹان پر بیٹھ کر رونے لگ گئے.اس وقت بعض صحابہ ایسے بھی تھے جنہیں اس امر کی اطلاع نہ تھی کیونکہ وہ فتح کے بعد ایک طرف ہو گئے تھے اور انہیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ کفار نے دوبارہ حملہ کر دیا ہے.انہی میں وہ صحابی بھی تھے جو ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ اگر میں جنگ بدر میں شامل ہوتا تو یوں کرتا اور یوں کرتا.انہیں اس وقت بھوک لگی ہوئی تھی 515

Page 528

اقتباس از تقریر فرموده 28 مارچ 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول اور وہ ٹہلتے ٹہلتے کھجوریں کھا رہے تھے.چلتے چلتے وہ حضرت عمرؓ کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ وہ رور ہے ہیں.گھبرا کر پوچھا کہ عمر یہ رونے کا کون سا مقام ہے؟ اسلام کو فتح حاصل ہوئی ہے اور آپ رو ر ہے ہیں! حضرت عمر نے کہا تم کو پتہ نہیں دشمنوں نے دوبارہ حملہ کیا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں.انہوں نے جب یہ سنا تو کہنے لگا عمر! تمہاری عقل بھی خوب ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں تو پھر ہمارے اس دنیا میں رہنے کا کیا فائدہ ہے؟ یہ کہہ کر انہوں نے کھجور کی طرف دیکھا اور کہا کہ میرے اور جنت میں کیا چیز حائل ہے؟ صرف یہ کھجور! یہ کہتے ہوئے انہوں نے کھجور کو زمین پر پھینک دیا اور کہا کہ عمر رو کیوں رہے ہو؟ جہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں وہاں ہم بھی جائیں گے.چنانچہ تلوار لے کر دشمنوں پر ٹوٹ پڑے اور اس قدر جوش سے لڑے کہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر شہید ہو گئے.بعد میں صحابہ نے ان کی نعش کو دیکھا تو ان کے جسم پر ستر زخم تھے.تو صحابہ یہ مثال پیش کیا کرتے تھے:.فَمِنْهُم مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ (الاحزاب :24) کی کہ بعضوں نے اپنے فرائض کو جو ان پر خدا تعالیٰ کی طرف سے عائد ہوتے تھے ادا کر دیا اور بعض یقین اور صدق سے بیٹھے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ ان کا وجود بھی اسلام کی خدمت کے لئے کام آئے گا.یہ گواہی ہے جو صحابہ کے متعلق خدا تعالیٰ نے دی.اس کو اپنے سامنے رکھو اور پھر غور کرو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللهِ أَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُونَ (القت: 4) خدا تعالیٰ کے حضور یہ سخت نا پسندیدگی کی بات ہے کہ تم کہتے ہومگر کرتے نہیں.فرماتا ہے بعض چیزیں جبری ہوتی ہیں اور بعض طوعی.جبری تو بہر حال پوری کرنی پڑیں گی اور جو طوعی ہوں ان کے متعلق ہم یہ کہتے ہیں کہ یا تو وعدہ ہی نہ کیا کرو اور اگر وعدہ کرو تو پھر اسے پورا کرو چاہے تمہیں کس قدر قربانی کرنی پڑے.ہندوؤں میں ایک قصہ مشہور ہے.وہ ہے تو قصہ مگر ہم اس سے بہت کچھ سبق حاصل کر سکتے ہیں.کہتے ہیں کہ کوئی راجہ تھا جس کے ہاں اولاد نہیں ہوتی تھی.ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ تین خدا ہیں: بر ہما، وشنو اور شوجی.برہما پیدا کرتا ہے، وشنورزق دیتا ہے اور شوجی مارتا ہے.اس تقسیم کی وجہ سے ہندوؤں میں برہما کی پوجا نہیں کی جاتی.کیونکہ وہ سمجھتے ہیں پیدا تو ہم ہو ہی گئے ہیں اب ہمیں روٹی کی ضرورت ہے اور اس بات کی ضرورت ہے کہ زندہ رہیں.پس وہ وشنو اور شوجی کی پوجا کرتے ہیں برہما کی نہیں کرتے لیکن اس 516

Page 529

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد اول اقتباس از تقریر فرمود و 28 مارچ 1937ء راجہ کے ہاں چونکہ اولاد نہیں ہوتی تھی اور اولاد بنا بر ہا کا کام تھا اس لئے اس نے برہما کی پرستش شروع کر دی.آخر اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا.جب وہ گیارہ سال کا ہوا اور عقل اس کی پختہ ہونی شروع ہوئی تو اس نے اپنے باپ سے کہا کہ آپ برہما کی کیوں پرستش نہیں کرتے اور اس کے احسان کے بدلہ میں بے وفائی کیوں دکھاتے ہیں؟ باپ نے کہا اب برہما نے ہمارا کیا کر لینا ہے.اب تو ہم شوجی کی پوجا کریں گے تا وہ تم کو زندہ رکھیں.بیٹے نے کہا میں تو برہما کی پرستش کروں گا.اس نے مجھے پیدا کیا ہے اور اس کے احسان کا میں شکر ادا کروں گا.اس پر باپ بیٹے میں اختلاف ہو گیا اور یہ اختلاف اتنا بڑھا کہ باپ نے غصہ میں آکر دعا کی کہ شوجی میرے بیٹے کو مارڈالو یہ بڑا نا خلف اور نالائق ہے.چنانچہ شوجی نے اسے مار دیا.برہما کو جب یہ معلوم ہوا تو وہ کہنے لگے: بائیں! میری پرستش کرنے کی وجہ سے یہیڑ کا مارا گیا ہے؟ میں اسے زندہ کروں گا.چنانچہ انہوں نے اسے زندہ کر دیا.شوجی نے اسے پھر مار دیا.برہما کو پھر جوش آیا اور انہوں نے اسے پھر زندہ کر دیا.غرض ایک لمبے عرصہ تک بر ہم زندہ کرتا اور شوجی مار دیتے ، شوجی مارتے اور برہم زندہ کرتے.یہ ہے تو قصہ اور قصہ کے لحاظ سے لغو بھی مگر سبق سے خالی نہیں.اس میں سبق یہ ہے کہ جب خدا تعالی کے لئے کوئی شخص جان دیتا ہے تو کون ہے جو اسے مار سکے؟ وہی تو پیدا کرنے والا ہے اور جب وہی پیدا کرنے والا ہے تو اس پر موت کس طرح آسکتی ہے ؟ پس اس قصہ میں کم از کم یہ سبق ضرور ہے کہ اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کے لئے مرتا ہے تو وہ مرتا نہیں.دیکھ لوحضرت اسماعیل علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قربان کیا مگر کیا وہ قربانی رائیگاں گئی اور کیا حضرت اسماعیل ہمیشہ کے لئے زندہ نہ ہو گئے؟ پس اگر کوئی اپنی مرضی سے کوئی چندہ لکھاتا اور کسی قربانی کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ اپنے عہد کو نیا ہے خواہ کس قدر ہی تکلیف ہو اور یقین رکھے کہ خدا تعالیٰ کے لئے موت قبول کر کے انسان موت کا شکار نہیں ہوتا بلکہ موت سے محفوظ ہو جاتا ہے اور جس کی نیت وعدہ پورا کرنے کی نہ ہو وہ وعدہ کرے ہی نہ.کیونکہ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ (الصف:4) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم اس بات سے سخت ناراض ہوتے ہیں کہ تم خوشی سے ایک عہد کرو اور پھر عملی رنگ میں اسے پورا نہ کرو.517

Page 530

اقتباس از تقریر فرموده 28 مارچ 1937 ء اس کے بعد فرماتا ہے:.تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد اول 5 إنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوص (القت: 5) اللہ تعالیٰ یقیناً ان لوگوں کو پسند فرماتا ہے جو اس کی راہ میں یوں جنگ کرتے ہیں گویا وہ ایسی دیواریں ہیں جن کے رخنے سیسہ ڈال ڈال کر پر کئے گئے ہیں.اس میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ مومن کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ متحد ہو کر رہے.چنانچہ دیکھ لو نمازوں کے وقت بھی صفیں سیدھی رکھی جاتی ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر تم صفیں ٹیڑھی کرو گے تو تمہارے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے.اس کے معنے یہی ہیں کہ جس طرح باطنی رخنے خرابی کا موجب ہوتے ہیں اسی طرح ظاہری رخنے بھی خرابی کا موجب ہوتے ہیں.گویا نماز کی ظاہری صف کے ٹیڑھے ہونے کو بھی اسلام پسند نہیں فرما تا کجا یہ کہ دلوں میں رخنے ہوں اور اتحاد کی بجائے بغض اور عناد بھرا ہوا ہو.پھر دیوار کی مثال دے کر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف بھی اشارہ کر دیا کہ مومن کا کام یہ ہے کہ نہ صرف دینی امور میں وہ خود مضبوط ہو بلکہ دوسروں کو بھی مضبوط رکھے.جیسے اینٹیں جب دیوار پر لگائی جاتی ہیں اور ان پر سیمنٹ کا پلستر کر دیا جاتا ہے تو وہ ہل کر ایک دوسری کو مضبوط بنادیتی ہیں.پس مومن کا کام صرف یہی نہیں کہ خود مضبوط بنے بلکہ اس کا کام یہ ہے کہ دوسروں کو بھی مضبوط بنائے.وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يُقَوْمِ لِمَ تُؤْذُونَنِي وَقَدْ تَعْلَمُونَ أَنِّي ( الصف : 6) رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمُ جب موسٹی نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم اتم مجھے کیوں دکھ دیتے ہو؟ یہاں خدا تعالیٰ نے اگر چہ یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے کیا دکھ دیا لیکن سیاق کلام سے صاف پتہ لگتا ہے کہ اس کا اشارہ اسی امر کی طرف ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں بھی بعض لوگ ایسے تھے جو باتیں بہت کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں بھی اس کی قوم کے بعض افراد نے ایسی حرکات کیں جن سے اسے تکلیف ہوئی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ کہنا پڑا کہ جب میں کہتا ہوں کہ میری فلاں تحریک میں شامل ہونا اپنی مرضی پر منحصر ہے.تو تم پہلے تو کہہ دیتے ہو کہ ہم سبھی اس میں شامل ہوں گے لیکن درمیان میں آکر رخنہ ڈال دیتے ہو اور اپنے وعدہ کو پورا نہیں کرتے.اب تم خود ہی بتاؤ کہ تم مجھے کیوں تکلیف دیتے اور میری جاری کردہ سکیموں کو تباہ کرتے ہو؟ 518

Page 531

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول لِمَ تُؤْذُونَنِي اقتباس از تقریر فرمود 28 مارچ 1937ء تم کیوں مجھے تکلیف دیتے ہو؟ جبکہ تمہارے اختیار میں تھا کہ تم میری جاری کردہ تحریک میں شامل ہوتے یا نہ ہوتے پھر جبکہ تم نے اپنی خوشی سے اس میں شامل ہونا پسند کیا وَقَدْ تَعْلَمُونَ أَنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمُ (الصف: 6) اور تمہیں یہ بھی پتہ ہے کہ میں خدا تعالیٰ کا رسول ہوں تو پھر اپنے اقرار کو کیوں پورا نہیں کرتے ؟ گویا تم نے کسی میرے کام کے متعلق وعدہ نہیں کیا بلکہ اس انسان کے ہاتھ پر وعدہ کیا ہے جس کی رسالت پر تمہارا یقین ہے.ان حالات میں تمہارا فرض تھا کہ تم اس عہد کو پورا کرتے مگر تم نے اپنے عہد کو پورا نہ کر کے مجھے بہت دکھ دیا ہے.ضمناً اس آیت سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ وہی اقرار انسان پورا کرنے پر مجبور ہوتا ہے جو نیکی کا اقرار ہو اور جس میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ہو.بدی کے متعلق کوئی اقرار نہیں ہوتا.حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں نے ایک شخص کو نصیحت کی کہ فلاں عورت سے تم نے ناجائز تعلق رکھا ہوا ہے یہ سخت گناہ کی بات ہے اسے چھوڑ دو.تو وہ کہنے لگا مولوی صاحب وہ عورت ہو کر اپنے اقرار پر قائم ہے تو کیا میں مرد ہو کر بے ایمان ہو جاؤں اور اس کو چھوڑ دوں؟ گویا اس کے نزدیک کسی غیر عورت کو اپنے گھر میں ڈال لینا اور آپس کے اقرار کو پورا کرنا یہ ایمان تھا.حالانکہ شرارت کا وعدہ کوئی وعدہ نہیں ہوتا.وعدہ وہ ہے جو نیکی پر مبنی ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اس امر کی طرف اپنی قوم کو توجہ دلاتے اور فرماتے ہیں کہ تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے غلطی سے وعدہ کر لیا تھا اب ہمیں سمجھ آیا کہ یہ وعدہ ناجائز تھا کیونکہ اگر کسی غیر سے وعدہ ہوتا تو تم کہہ سکتے تھے کہ ہمیں بعد میں غور کر کے معلوم ہوا کہ ہمارا وعدہ درست نہیں لیکن تم تو میرے متعلق یہ یقین رکھتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں، پھر تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ میں نے تم سے کسی برے کام کے متعلق وعدہ لیا.پس تم یہ عذر نہیں کر سکتے.کیونکہ اگر یہ عذر کرو تو یہ تمہارے دین، ایمان، انصاف اور دیانت کے بالکل خلاف ہو گا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی یہ فصیحت جب ان کی قوم نے نہ سنی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَلَمَّا زَاغُوا اَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ (الصف: 6) 519

Page 532

اقتباس از تقریر فرموده 28 مارچ 1937ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول یہ وہی مضمون ہے جو حد بیٹوں میں آتا ہے کہ اگر صفیں ٹیڑھی ہوں گی تو تمہارے دل ٹیڑھے ہو ؟ جائیں گے.اللہ تعالیٰ بھی فرماتا ہے جب بعض نے ان میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بات نہ مانی تو ان کی صف ٹیڑھی ہوگئی اور ان کی صف ٹیڑھی ہونے کے نتیجہ میں دل بھی آگے پیچھے کر دیئے گئے اور ان کا امن اور اتحاد تباہ ہو گیا.وَاللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمِ الْفُسِقِينَ (القت: 6) اور اللہ تعالی عہد شکنوں کی قوم کو بھی کامیاب نہیں کیا کرتا.فسق کے معنے ہوتے ہیں خَرَجَ عَنِ الطَّاعَةِ.اور فاسق اس کو کہتے ہیں جو اپنے عہد کی حدود سے نکل جائے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عہد شکنوں کی قوم کو ہم کبھی کامیاب نہیں کیا کرتے.وہی قوم کامیاب ہوتی ہے جو وعدہ کرتی اور پھر ہر حال میں خواہ عسر ہو یا میسر ، اسے پورا کرتی ہے.صحابہ میں یہی بات تھی اور اسی وجہ سے دنیا ان پر ہاتھ اٹھانے سے ڈرتی تھی.آج ہم پر بھی لوگ ہاتھ اٹھانے سے ڈرتے ہیں کیونکہ وہ رعب جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمیں عطا ہوا ہے وہ ان کے سامنے آجاتا ہے مگر بہر حال ہمیں سمجھنا چاہئے کہ جب تک ہم اپنے وعدوں پر قائم رہیں سے تبھی تک اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت بھی نازل ہوگی اور اگر ہم نے اپنے عہدوں سے انحراف کرلیا تو خدا تعالیٰ کی نصرت بھی جاتی رہے گی.سو آج میں پھر تمام جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اگر وعدوں کو پورا کرنے کا ارادہ نہ ہو تو وعدہ ہی نہ کیا کرو اور اگر اپنی خوشی سے وعدے کر و تو پھر چاہے موت آجائے ، چاہے ذلت برداشت کرنی پڑے ان وعدوں کو پورا کرو اور اگر دیکھو کہ وعدے پورے کرنے کی تم میں استطاعت نہیں تو تم میرے پاس آجاؤ میں تمہیں ہر وقت معاف کرنے کے لئے تیار ہوں.اللہ تعالیٰ کے جو مستقل احکام ہیں ان میں تو میں کچھ نہیں کر سکتا.مثلاً نماز ہے، اسے میں معاف نہیں کر سکتا، روزے ہیں وہ میں معاف نہیں کر سکتا، زکوۃ ہے وہ میں معاف نہیں کر سکتا لیکن جو وقتی احکام ہوں ان میں میں تبدیلی کر سکتا ہوں.پس کیوں جماعت کے لوگ جرات کر کے میرے پاس نہیں آتے اور اگر ان میں استطاعت نہیں تو وہ مجھ سے معافی نہیں لے لیتے اور یا پھر ہمت کر کے ان وعدوں کو پورا نہیں کر دیتے ؟ میں نہیں سمجھ سکتا ان دو باتوں کے علاوہ کوئی بھی راہ ہو؟ یا تو وہ وعدے جو تم نے اپنی خوشی سے کئے ہیں پورے کرو اور اگر پورے نہیں کر سکتے تو میری طرف سے آزادی ہے.تم میرے پاس آؤ اور اپنا معاملہ پیش کرو.میں ہر وقت اس پر ہمدردانہ طور پر غور کرنے کیلئے تیار ہوں.اب تک ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کی جاسکتی کہ کسی شخص نے 520

Page 533

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول اقتباس از تقریر فرموده 28 مارچ 1937ء چندے کی معافی کی مجھ سے درخواست کی ہو اور میں نے اسے منظور نہ کیا ہو.پس کیوں آپ لوگ ان دونوں راہوں میں سے ایک راہ اختیار نہیں کرتے اور خواہ مخواہ گنہگار بنتے ہیں.اب آپ لوگ میرے پاس آتے ہیں اور وعدہ کرتے ہیں کہ ہم سادہ زندگی اختیار کریں گے مگر پھر لوگوں میں یہ کہتے پھرتے ہیں کہ خلیفہ اسیح سات سات کھانے کھاتے ہیں.ایسے جھوٹ کی بھلا کیا ضرورت ہے؟ پس آپ لوگوں نے تحریک جدید کے متعلق جو وعدے کئے ہیں ان کے متعلق وہ طریق عمل اختیار کریں جو میں نے بتایا ہے.یا تو اپنے وعدوں کو پورا کریں اور یا پھر مجھ سے معافی لے لیں.جو مستقل شرعی احکام ہیں ان کے متعلق یقین کر لیں کہ میں ان میں کچھ نہیں کر سکتا لیکن جو مطالبہ میں نے کیا ہے وہ بدل بھی سکتا ہے اور اس کی تبدیلی اور تغیر میرے اختیار میں ہے.اس کے بعد میں دوبارہ احباب سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے اپنے دلوں میں یہ عہد کر کے جائیں کہ وہ اپنے وعدوں کو پورا کریں گے اور خواہ انہیں کس قدر تکلیف اٹھانی پڑے وہ تکلیف اٹھا کر بھی اپنے عہدوں کو نباہیں گے.چونکہ دوستوں نے اب جانا ہے اور اڑھائی بجنے والے ہیں اس لئے میں بقیہ رکوع کی تشریح چھوڑتا ہوں اور دعا کر کے اس جلسہ کو برخاست کرتا ہوں“.رپورٹ مجلس شوری منعقد ہ 26 تا 28 مارچ 1937 ء ) | (مطبوعه الفضل 6 مئی 1937 ء ) 521

Page 534

Page 535

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه مورخہ 7 جنوری 1938ء قربانی وہی ہے جو انتہا تک پہنچے خطبہ جمعہ مورخہ 7 جنوری 1938ء.اس کے بعد میں قادیان کی جماعت کو اور باہر کی جماعتوں کو بھی اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اب تحریک جدید کے وعدوں کی میعاد میں بہت تھوڑا وقت رہ گیا ہے نومبر کے آخر میں میں نے یہ تحریک کی تھی اور اب جنوری ہے گویا اس تحریک پر ڈیڑھ مہینہ کے قریب گزر چکا ہے اور ہماری طرف سے جو میعاد مقرر ہے اس میں بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں.ہندوستان کے لوگوں کے لئے سوائے بنگال اور مدراس کے کہ وہاں غیر زبانیں بولی جاتی ہیں اور ان علاقوں میں اتنی جلد اس تحریک سے ہر شخص آگاہ نہیں ہوسکتا.31 جنوری آخری تاریخ ہے لیکن چونکہ ایسا ہو سکتا ہے کہ بعض دوست 31 جنوری کی شام کو اپنا وعدہ لکھوائیں اور وہ خط یکم فروری کو ڈالا جائے اس لئے جس خط پر یکم فروری کی مہر ہو گی اسے بھی لے لیا جائے گا لیکن اس کے بعد کوئی وعدہ قبول نہیں کیا جائے گا اور چونکہ اس میعاد میں اب بہت قلیل دن رہ گئے ہیں اس لئے دوستوں کو بہت جلد وعدے لکھوا دینے چاہئیں.آج جنوری کی سات تاریخ ہے اور اس مہینے کے 24 دن رہتے ہیں اور 38 39 دن پہلے گزر چکے ہیں.گویا ساٹھ فیصدی سے زیادہ وقت گزر چکا ہے اور صرف چالیس فیصدی وقت باقی ہے.مجھے افسوس ہے کہ اب تک اکثر جماعتوں نے اپنے وعدے نہیں بھجوائے اور ان جماعتوں میں بعض بڑی بڑی جماعتیں بھی شامل ہیں.چند دن ہوئے دفتر کی طرف سے جور پورٹ مجھے ملی تھی اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ صرف تمہیں فیصدی جماعتوں کے وعدے آئے ہیں اور ستر فیصدی جماعتیں ابھی تک خاموش ہیں.قادیان میں سے اکثر وعدے اگر چہ آچکے ہیں مگر پھر بھی مکمل وعدے نہیں آئے.ابھی بعض محلے ایسے باقی ہیں جنہوں نے پوری کوشش نہیں کی.اسی طرح لجنہ اماءاللہ نے بھی پوری کوشش کر کے عورتوں سے وعدے نہیں لکھوائے لیکن پھر بھی ایک معقول رقم قادیان والوں کی طرف سے پیش ہو چکی ہے.جنہوں نے ستی کی ہے اور ابھی تک اپنے وعدے نہیں بھیجوائے ان کو مستقلی کرتے ہوئے جو وعدے آچکے ہیں اور جنہوں نے اس تحریک میں حصہ لیا ہے انہوں نے خدا تعالیٰ کے فضل سے اخلاص کا نہایت ہی اعلی نمونہ دکھایا ہے.چنانچہ بہت کی جماعتوں نے اپنے تیسرے سال کے وعدہ سے بھی زیادہ 523

Page 536

اقتباس از خطبهہ جمعہ مورخہ 7 جنوری 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول چندہ دینے کا وعدہ کیا ہے اور بہت سے افراد ایسے ہیں جنہوں نے اپنے پہلے سال کے چندہ سے دو گنا بلکہ تکنا اور تیسرے سال سے بھی کچھ زیادہ دینے کا وعدہ کیا ہے.اس کے مقابلہ میں جو لوگ سابقون الاولون میں شامل نہیں ہو سکے اور پیچھے رہ گئے ہیں ان میں سے بعض کی حالت نمایاں طور پر قابل اعتراض ہے.چنانچہ بعض دوست اس دفعہ جلسہ پر آئے اور انہوں نے بیان کیا کہ ہمارے سیکرٹری اور پریذیڈنٹ نے چونکہ خود چندہ نہیں دیا اس لئے جب اس تحریک کا ان سے ذکر ہو تو وہ کہہ دیتے ہیں میاں یہ طوعی چندہ ہے جس کی مرضی ہو اس میں حصہ لے اور جس کی مرضی ہو نہ لے.ایسے سیکرٹریوں اور پریذیڈنٹوں کو دیکھتے ہوئے میں نے پہلے سے دوستوں کو ہوشیار کر دیا تھا اور بتا دیا تھا کہ جب وہ اپنے کسی سیکر ٹری کو سست دیکھیں تو اس کی جگہ کسی اور کوتحریک جدید کا سیکریٹری مقرر کر لیں اور اپنے سیکرٹری یا پریذیڈنٹ کی غفلت اور ستی کی وجہ سے ثواب کے اس موقعہ کو نہ کھوئیں.پس جس جس جگہ کی جماعتوں کے سیکرٹریوں نے اپنے فرائض کی طرف کما حقہ توجہ نہیں کی انہیں چاہئے کہ وہ اگر دیکھیں کہ ان کے سیکرٹری اپنے فرائض کی ادائیگی میں سستی کر رہے ہیں تو ان کی بجائے کسی اور کو سیکرٹری مقرر کر دیں اور اگر ساری جماعت میں سے کوئی ایک ہی دوست ایسا ہے جو چست ہے تو وہی آگے آجائے اور اپنے آپ کو پریذیڈنٹ اور سیکرٹری تصور کر کے کام شروع کر دے کیونکہ خدا تعالیٰ کی دین بعض دفعہ ایسے رنگ میں آتی ہے کہ انسان کو اس کا علم بھی نہیں ہوتا.ممکن ہے پہلے سیکرٹری اور پریذیڈنٹ کو اللہ تعالیٰ ثواب سے محروم رکھنا چاہتا ہو اور اب اس نئے شخص کو ثواب کا موقعہ دینا چاہتا ہو؟ پس وہ پیچھے نہ رہے بلکہ آگے آئے اور اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی مجلس کا سیکرٹری سمجھ لے.میں نے پچھلے سالوں میں بتایا تھا کہ قربانی وہی ہے جو انتہا تک پہنچے.پس یہ مت خیال کرو کہ فلاں شخص جس نے پہلے اتنا چندہ دیا تھا اس نے چونکہ اس دفعہ اپنا چندہ نہیں لکھوایا اس لئے ہم بھی اس کی تقلید کریں.بہت لوگ بظاہر بڑے نیک ہوتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی نگاہ میں وہ گر جانے والے ہوتے ہیں اور بہت بظاہر کمزور اور بے حقیقت نظر آتے ہیں.مگر اللہ تعالیٰ کی نظر میں وہ بہت طاقتور ہوتے ہیں.پس ایسا نہ ہو کہ تم کہو جب فلاں شخص نے اس کام کو نہیں کیا.جو وعدے دار ہے تو ہم کیوں کریں.شاید خدا اب اسے گرانے کا ارادہ رکھتا ہو کہ تمہیں اٹھائے اور بلند کرے.پھر یہ امر اچھی طرح یا درکھو کہ قربانی وہی ہے جو موت تک کی جاتی ہے.پس جو آخر تک ثابت قدم رہتا ہے وہی ثواب پاتا ہے.اگر کوئی کہے کہ پھر نئے دور کو سات سال تک کیوں محدود رکھا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قربانیاں کئی رنگ میں کرنی پڑتی ہیں.موجودہ سکیم کو میں نے سات سال کے لئے مقرر کیا ہے.جس کی وجہ یہ ہے کہ بعض پیشگوئیوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ 1942ء یا 1944 ء تک کا زمانہ ایسا ہے جس تک سلسلہ احمدیہ کی بعض موجودہ مشکلات جاری رہیں گی.اس کے 524

Page 537

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه مورخہ 7 جنوری 1938ء بعد اللہ تعالیٰ ایسے حالات بھی پیدا کر دے گا کہ بعض قسم کے ابتلاء دور ہو جائیں گے اور اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے نشانات ظاہر ہو جائیں گے کہ جن کے نتیجہ میں بعض مقامات کی تبلیغی روکیں دور ہو جائیں گی اور سلسلہ احمد یہ نہایت تیزی سے ترقی کرنے لگ جائے گا.پس میں نے چاہا کہ اس پیشگوئی کی جو آخری حد ہے یعنی 1944 ء اس وقت تک تحریک جدید کو لئے جاؤں اور جماعت سے قربانیوں کا مطالبہ کرتا چلا جاؤں تا آئندہ آنے والی مشکلات میں اسے ثبات حاصل ہو.پس آج میں پھر خصوصیت کے ساتھ تمام جماعتوں کو خواہ وہ بڑی جماعتیں ہیں یا چھوٹی ، قریب کی جماعتیں ہیں یا دور کی توجہ دلاتا ہوں کہ جلد سے جلد وہ اپنی لسٹوں کو مکمل کر کے بھیج دیں کیونکہ ہندوستان کی جماعتوں کیلئے جو آخری تاریخ مقرر ہے اس میں اب بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں اور کوشش کریں کہ اگر وہ سابقون الاولون میں شامل نہیں ہو سکے تو کم از کم پھڈی بھی نہ رہیں اور اپنے اخلاص سے کام لیتے ہوئے قربانیوں میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کریں.کیا یہ افسوس کی بات نہیں کہ ہندوستان سے باہر کی جماعتیں جن کو اپریل تک مہلت حاصل ہے وہ تو اپنے وعدے بھجوا رہی ہیں مگر ہندوستان کی کئی جماعتیں جو بغل میں بیٹھی ہوئی ہیں وہ بالکل خاموش ہیں اور انہوں نے وعدے بھجوانے کی کوئی کوشش نہیں کی.اگر افریقہ کے لوگ اس قسم کی چستی دکھا سکتے ہیں اور ایسی جگہوں سے اپنے وعدے اس عرصہ میں بھیج سکتے ہیں جہاں سے خط بھی پندرہ بیس دن میں پہنچتا ہے تو کیا یہ افسوس اور شکوہ کی بات نہ ہوگی کہ پنجاب اور ہندوستان کی جماعتوں کے عہدیدار ستی دکھا ئیں اور وہ خاموشی سے بیٹھے رہیں؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ 31 جنوری 1938 ء تک انہیں مہلت حاصل ہے مگر اس میعاد کے ابتدائی وقت میں شامل ہونے کی بجائے آخری وقت شامل ہونے کی کوشش کرنا بھی کوئی اچھی علامت نہیں.بے شک بہت جلدی بھی اچھی نہیں ہوتی اور ان لوگوں کو جو معمولی توجہ سے بیدار ہو سکتے ہیں ترک کردینا کوئی خوبی نہیں مگر اس کے یہ معنی بھی نہیں کہ انسان ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھا ر ہے اور کہے کہ ابھی کافی وقت ہے.آخری تاریخ کو خط لکھ دیں گے.حیدر آباد کی جماعت کافی دور ہے مگر وہ بڑی جماعتوں میں سے ایک ہے جنہوں نے بہت جلد اپنے وعدے بھجوا دیئے.بے شک اس میں بھی بعض کمزور ہیں ،مگر ایسے بھی لوگ ہیں جو قربانی کی حقیقت کو سمجھتے ہیں اور وہاں سے جو چندہ آتا ہے وہ مقدار کے لحاظ سے بڑی بڑی جماعتوں کے چندوں کے برابر ہوتا ہے.وہاں سے یہاں پانچ دن میں خط آتا ہے لیکن میری اس تحریک کے دسویں بارہویں دن حیدر آباد کی جماعت کے وعدوں کا بہت سا حصہ پہنچ چکا تھا.525

Page 538

اقتباس از خطبہ جمعہ مورخہ 7 جنوری 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول نومبر کے آخر میں میں نے یہ تحریک کی تھی اور ابھی اس تحریک پر دس بارہ روز نہیں گزرے تھے کہ اس جماعت نے اپنے وعدوں کی لسٹ بھیج دی جو بہت حد تک مکمل تھی اور جو چند اور دوست باقی رہتے تھے ان کی لسٹ 2015 دسمبر تک پہنچ گئی بلکہ پہلے انہوں نے بذریعہ تار اپنے وعدے بھجوائے اور پھر تفصیلی فہرستیں بعد میں بھیجیں.ان کی اس سرگرمی اور اخلاص کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ پہلے سال انہوں نے چھتیں سو روپیہ داخل کیا تھا مگر اس سال پہلے پینتیس سو کی لسٹ بھیجی اور اب تک چار ہزار کی لسٹ بھجوا چکے ہیں اور ابھی کہہ رہے ہیں کہ اور وعدے بھجوائیں گے.تو اگر دور کی جماعتیں اس عرصہ میں کام کر سکتی تھیں تو کیا وجہ ہے کہ قریب کی جماعتیں فہرست مکمل نہ کر سکیں اور اس خیال میں بیٹھی رہیں کہ ابھی کافی وقت ہے.پس محض اس لئے سستی کرنا کہ 31 جنوری 1938 ء تک ابھی کافی وقت ہے ایک خطر ناک علامت ہے جس کا نتیجہ بعض دفعہ یہ نکلتا ہے کہ انسان آخری وقت میں بھی شامل نہیں ہو سکتا اور ثواب حاصل کرنے سے محروم رہ جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ میں جو تین صحابی ایک جنگ سے پیچھے رہ گئے تھے وہ اس لئے پیچھے رہے تھے کہ پہلے وہ خیال کرتے رہے کہ ابھی کافی وقت ہے ہم تیاری کر لیں گے مگر آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جہاد کے لئے چل پڑے اور چونکہ ان کی تیاری مکمل نہیں تھی اس لئے وہ محروم رہ گئے.پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ہوشیار ہو جائیں اور اپنے اپنے وعدے جلد لکھ کر دفتر میں بھجوا دیں اور جس جماعت کے دوست یہ سمجھتے ہوں کہ ان کے سیکر ٹری سست ہیں میں انہیں کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو ثواب کے مواقع آتے ہیں وہ سیکرٹریوں اور پریذیڈنٹوں کے لئے نہیں ہوتے بلکہ ہر شخص کے لئے ہوتے ہیں.پس وہ اپنے آپ کو سلسلہ کے کاموں کا ذمہ دار سمجھتے ہوئے سیکرٹری یا پریذیڈنٹ تصور کر لیں اور کام شروع کردیں.خدا تعالیٰ کے نزدیک وہی سیکرٹری اور پریذیڈنٹ ہوں گے.پس تم دوسروں کے مونہوں کی طرف مت دیکھو تم اپنی زبان کو خدا کی زبان اور اپنے ہاتھوں کو خدا کا ہاتھ سمجھوتا اللہ تعالیٰ کی رحمت تم پر نازل ہو.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری جماعت سے شرک کو کلی طور پر دور کر کے توحید کامل کا مقام ہمیں عطا کرے ہمیں بچی قربانیوں کی توفیق دے اور ہم میں سے ہر شخص کا حوصلہ اتنا بڑھائے کہ وہ سمجھے کہ سلسلہ کی تمام ذمہ داریاں اسی پر ہیں اور دوسروں کی سستی ہماری چستی کو دور کرنے والی نہ ہو بلکہ ہماری چستی دوسروں کی سستی دور کرنے والی ہو.اللهم آمین ( مطبوعہ الفضل 13 جنوری 1938ء) 526

Page 539

تحریک ہو ہے.ایک المی تحریک - جلد اول جدید وو اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 21 جنوری 1938ء خدا تعالیٰ اپنا چہرہ ہمیشہ قربانیوں کے آئینہ میں دکھاتا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 21 جنوری 1938ء تحریک جدید کے دوسرے دور کے مالی وعدے کا زمانہ اب چند دنوں میں ختم ہونے والا ہے اور جیسا کہ میں اعلان کر چکا ہوں 31 جنوری کے بعد ہندوستان کے ان علاقوں کے، جن میں اردو بولی جاتی ہے یا کبھی جاتی ہے، مزید وعدے وصول نہیں کئے جائیں گے.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اس خطبہ کے ذریعہ سے جو اس دوران میں چھپ کر جماعت تک پہنچنے والے خطبوں میں سے آخری خطبہ ہوگا.جماعت کو پھر ایک دفعہ ان کی مالی خدمات کے سلسلہ میں ذمہ داریوں اور دوسری ذمہ داریوں کی طرف توجہ دوں.خدا تعالیٰ کے کام ہو کر رہیں گے اور بندوں کی سستی یا غفلت ان میں کوئی حرج پیدا نہیں کر سکتی.وہ جو ستی کرتا ہے خود اپناہی نقصان کرتا ہے اور اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو خدا تعالیٰ کے فضلوں سے محروم کرتا ہے.خدا تعالیٰ کا دین زید یا بکر کا محتاج نہیں.اگر زید یا بکر پہلی آواز دینے والوں میں سے بنیں تو خدا تعالیٰ دوسرے ثواب کی پہلی آواز بھی انہیں تک پہنچاتا ہے لیکن اگر وہ اس آواز کونہ نہیں اور اس کی طرف سے اپنے کان بہرے کر لیں تو پھر وہ اور دوسرے شخصوں کو آگے لے آتا ہے تا کہ وہ اس کے دین کی خدمت کریں کہ خدا تعالیٰ کی فوج میں تھک جانے والے اور ملال پیدا کرنے والے اور ہتھیار پھینک دینے والے اور نتائج کے متعلق جلد بازی کرنے والے کبھی قبول نہیں ہوتے.تھوڑی سی قربانیوں کے بعد بڑی امنگوں کے ساتھ تو ادنیٰ سے ادنی آدمی بھی کھڑے ہو جاتے ہیں اور وقتی قربانی خواہ کتنی ہی عظیم الشان ہو کمزور سے کمزور انسان بھی پیش کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے بلکہ سچ یہ ہے کہ تھوڑے سے وقت میں کسی اشتعال کے ماتحت یا جوش کے ماتحت بڑی سے بڑی قربانی کرنا کمزوروں ہی کا کام ہے اور طاقتور اور مضبوط ایمان والے وہی ہوتے ہیں جن کا قدم مضبوطی کے ساتھ ایسے مقام پر قائم ہوتا ہے کہ دن کے بعد دن اور ہفتے کے بعد ہفتہ اور مہینے کے بعد مہینہ اور سال کے بعد سال اور دسیوں سال کے بعد دسیوں سال مصائب اور قربانی کے گزرتے چلے جاتے ہیں لیکن ان کے دل میں اپنے آرام کی خاطر کبھی یہ خیال بھی نہیں آتا کہ منزل مقصود کب آنے والی ہے اور انہیں بیٹھنے کا موقعہ کب ملے گا ؟ وہ اگر کبھی دعا کرتے ہیں اور منی نصر اللہ کہتے ہیں تو صرف اس لئے کہ خدا کا جلال ظاہر 527

Page 540

اقتباس از خطبه جمعہ فرمودہ 21 جنوری 1938ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول ہو نہ اس لئے کہ ہماری قربانیوں کا زمانہ ختم ہو کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے بچے شیدا ہوتے ہیں ان کی منزل مقصود کوئی دنیا کی کامیابی نہیں ہوتی بلکہ وصال الہی ان کا منزل مقصود ہوتا ہے اور وہ ہر دم اور ہر لحظہ انہیں حاصل ہوتا چلا جاتا ہے.پس وہ یہ کبھی نہیں دیکھتے کہ ان کی مادی قربانیوں نے کیا مادی نتائج پیدا کئے ہیں اور وہ اپنے بوئے ہوئے درختوں کو اس لالچ سے نہیں دیکھتے کہ وہ ان کے ثمرات کھا ئیں گے بلکہ وہ انہیں چھوڑ دیتے ہیں دوسروں کے لئے کہ وہ ان کے ثمرات کھائیں اور وہ اپنی کوششوں کا ثمرہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا ہی کی صورت میں حاصل کرنا چاہتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کس نے قربانیاں کی ہیں اور کون قربانیاں کر سکتا ہے؟ لیکن آپ کو ہم دیکھتے ہیں کہ انہی قربانیوں میں آپ اس جہان سے گزر گئے اور اس دنیا کی ترقیات کا زمانہ آپ کی زندگی میں نہیں آیا.قیصر و کسری کے خزانے جو اُن قربانیوں کے نتیجہ میں حاصل ہوئے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھیں وہ جا کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں فتح ہوئے اور ان کا فائدہ زیادہ تر ان لوگوں نے حاصل کیا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ابو جہل اور ابوسفیان کے لشکر میں شامل ہو کر مسلمانوں کا مقابلہ کرتے رہے تھے.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری عمر میں ایمان لائے اور فتوحات کے زمانہ میں تھوڑے سے عرصہ کے لئے لڑائیوں میں بھی شامل ہوئے اور پھر فتوحات میں حصہ دار بن کر ہر قسم کی راحت و آرام حاصل کرنے والے ہو گئے اور وہ جنہوں نے قربانیاں کی تھیں اور جو آسمان سے اس بہشت کو کھینچ کر لائے تھے وہ اپنے خدا کے پاس مدتوں پہلے جاچکے تھے یا ان چیزوں سے مستغنی ہو کر اپنے رب کی یاد میں بیٹھے تھے یا خدمت خلق میں مشغول تھے.کیا عجیب نظارہ ہمیں نظر آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد معاویہ ہزاروں مسلمانوں کے درمیان کھڑے ہوتے ہیں.وہی معاویہ جو فتح مکہ تک برابر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لڑتے رہے تھے اور کھڑے ہو کر مسلمانوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اے مسلمانو ! تم جانتے ہو ہمارا خاندان عرب کے رؤسا میں سے ہے اور ہم لوگ اشراف قریش میں سے ہیں.پس آج مجھے سے زیادہ حکومت کا کون مستحق ہو سکتا ہے اور میرے بیٹے سے زیادہ کون مستحق ہو سکتا ہے؟ اس وقت حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ مسجد کے ایک کو نہ میں بیٹھے ہوئے تھے وہ عبداللہ بن عمر جن کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں صحابہ رضی اللہ عنہم نے خلافت کا حق دار قرار دیا تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے خواہش کی تھی کہ آپ اپنے بعد ان کو خلافت پر مقررفرما ئیں کیونکہ مسلمان زیادہ سہولت سے ان کے ہاتھ پر جمع ہو جائیں گے اور کسی قسم کے فتنے پیدا نہیں ہوسکیں گے لیکن 528

Page 541

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 21 جنوری 1938ء حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں اس کی نیکی کو جانتا ہوں اور اس کے مقام کو پہچانتا ہوں لیکن یہ رسم میں نہیں ڈالنا چاہتا کہ ایک خلیفہ اپنے بعد اپنے بیٹے کو خلیفہ مقرر کر دے اور خصوصاً جب کہ اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم زندہ موجود ہیں اس لئے میں اس کو مشورہ میں تو شامل رکھوں گا لیکن خلافت کا امید وار قرار نہیں دوں گا.یہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس وقت مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے وہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہ بات کہتے سنا تو وہ چادر جو میں نے اپنے پاؤں کے گرد لپیٹ رکھی تھی اس کے بند کھولے اور ارادہ کیا کہ کھڑا ہو کر کہوں کہ اے معاویہ رضی اللہ عنہ! اس مقام کا تجھ سے زیادہ حق دار وہ ہے جس کا باپ تیرے باپ کے مقابلہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو کر لڑتا رہا ہے اور جو خود اسلامی لشکر میں تیرے اور تیرے باپ کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کے کلمہ کے اعلا کے لئے جنگ کرتا رہا ہے مگر پھر مجھے خیال آیا کہ یہ دنیا کی چیزیں ان کے لئے رہنے دو اور اسلام میں ان باتوں کی وجہ سے فتنہ مت پیدا کرو اور میں پھر بیٹھ گیا اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف میں نے کوئی آواز نہ اٹھائی.یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اسلام کی خاطر قربانیاں کیں اور یا تو وہ ان کے دنیوی ثمرات پیدا ہونے سے پہلے ہی فوت ہو گئے یا پھر ان کے زمانہ میں وہ ثمرات ظاہر ہوئے لیکن انہوں نے یا تو با وجود مقدرت کے ان ثمرات میں سے حصہ نہیں لیا اور یا پھر وہ ثمرات دوسروں کے ہاتھوں میں جاتے ہوئے دیکھے مگر اپنا حصہ خدا کی رضا میں سمجھ کر ان ثمرات کی طرف سے آنکھیں پھیر لیں اور حقارت سے ان کو ٹھکرا دیا.یہی لوگ ہیں جو ایمان کا سچا نمونہ دکھانے والے ہیں اور انہی کے نقش قدم پر چل کر انسان مومن کہلا سکتا ہے لیکن وہ شخص جو تھوڑی سی قربانی کرتا اور اس کے بعد تھک جاتا ہے اور اس امید میں لگ جاتا ہے کہ خدا کی طرف سے اس کے لئے کیا بدلہ آیا ہے؟ اس کو خدا کی رحمتیں نہیں آتیں بلکہ بزعم خود قربانیاں خود اسی کے منہ پر ماری جاتی ہیں کیونکہ گو خدا قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے لیکن اس کا مطالبہ سائلوں کی طرح نہیں ہے.خدا کا مانگتے وقت ہاتھ نیچا نہیں ہوتا بلکہ اس کا ہاتھ اوپر ہوتا ہے جس طرح حکومتیں لوگوں سے ٹیکس لیتی ہیں مگر وہ ذلت کے ساتھ نہیں مانگتیں.خدا تعالیٰ اس سے بھی زیادہ شان کے ساتھ مطالبہ کرتا ہے کیونکہ حکومتیں تو لوگوں کے روپیہ سے فائدہ اٹھاتی ہیں مگر خدا تعالیٰ بندوں کی قربانیوں سے کسی قسم کا فائدہ نہیں اٹھاتا بلکہ اس کا سارا فائدہ بندوں کو ہی پہنچتا ہے.جو عقلمند ہوتے ہیں وہ تو کوشش کرتے ہیں کہ ہماری جسمانی قربانیوں کا روحانی فائدہ ہمیں مل جائے اور جو کم عقل ہوتے ہیں وہ جسمانی فائدے کی تلاش میں لگ جاتے ہیں اور قومی لحاظ سے وہ بھی ان کو مل ہی جاتا ہے.ایسا کبھی نہیں ہوا کہ خدا کا کوئی نبی آیا ہو اور جلد یا بدیر اس کی قوم میں حکومت نہ آگئی ہو.پس حکومتیں تو آتی ہیں اور دنیوی 529

Page 542

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 21 جنوری 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول فائدے تو پہنچتے ہی ہیں مگر دنیوی فوائد سے زیادہ متمتع ہونے کی خواہش ان لوگوں کو ہوتی ہے جو روحانی فوائد کی قیمت نہیں جانتے لیکن دوسرے لوگ جن کو روحانی آنکھیں عطا ہوتی ہیں وہ اپنے انعامات کو روحانی شکل میں بدلنے کی کوشش کرتے ہیں.پس وہ لوگ جو کہ قربانیوں میں تھک جاتے ہیں ایسے لوگ ہیں جو کہ خدا تعالیٰ سے سودا کرنا چاہتے ہیں اور ان کی غرض خدا تعالیٰ کی محبت نہیں ہوتی بلکہ دنیوی فوائد ہوتے ہیں.جب کچھ عرصہ کی قربانیوں کے بعد وہ خیال کرتے ہیں کہ اب ہمیں دنیوی انعامات مل جانے چاہئیں لیکن وہ انعامات حاصل ہوتے نہیں تو وہ تھک کر بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں ہم نے قربانیوں میں جو حصہ لینا تھا لے لیا اب ہمیں مزید قربانیوں کی ضرورت نہیں.حالانکہ وہ لوگ جو کل کی غذا کو آج کی غذا کیلئے کافی نہیں سمجھتے اور آج کے لئے نئی غذا کے طالب ہوتے ہیں بلکہ دن میں کئی کئی دفعہ کھانے اور پینے کی طرف رغبت کرتے ہیں وہ کبھی نہیں کہتے کہ ہمارا کل کا کھانا اور کل کا پینا ہمارے آج کے لئے کافی ہو گیا ہے بلکہ وہ آج کل سے بھی زیادہ اچھے کھانے اور زیادہ شیریں پانی کی جستجو کرتے ہیں لیکن خدا کے دین کی قربانیوں کے موقعہ پر جو کہ انسان کے لئے روحانی غذا ہیں وہ یہ خیال کرنے لگتے ہیں کہ ہماری کل کی غذا آج کے لئے بھی کافی ہوگی اور آئندہ آنے والے دنوں میں بھی ہماری طاقت کو بڑھاتی چلی جائے گی.حالانکہ وہ نہیں جانتے.جس کا طرح جسم کو بار بار غذا کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روح کو بھی بار بار غذا کی ضرورت ہوتی ہے اور جب تک روح کو بار بار غذا نہ پہنچے جو بار بار کی قربانیوں اور متواتر قربانیوں کے ذریعہ پہنچ سکتی ہے اس وقت تک روحانی زندگی قائم نہیں رہ سکتی.اگر آج تم ظہر کے وقت بارہ رکعتیں پڑھ لو اسی طرح عصر کے وقت بارہ پڑھ لو اور پھر مغرب کے وقت نو پڑھ لو اور پھر عشاء کے وقت بارہ پڑھ لو اور دوسرے دن صبح چھ پڑھ لو اور یہ امید رکھو کہ آئندہ دو دن یہ پانچوں نمازیں تم چھوڑ سکتے ہو کیونکہ تم نے خدا کا حق وقت سے پہلے ادا کر دیا تو یہ مت سمجھو کہ یہ بات تمہارے ایمان کے بڑھانے کا موجب ہوگی بلکہ وہ سب سے پہلی نماز جسے تم اس وہم کی وجہ سے چھوڑ دو گے تمہارے ایمان کو باطل کرنے والی ہو جائے گی اور تم یہ نہیں کہہ سکو گے کہ ہم نے تو یہ نماز پہلے ہی دن ادا کر دی تھی.تم اگر پہلے دن فرض رکعتوں کے علاوہ سوسو رکعت بھی اور پڑھ جاؤ تو دوسرے دن اپنے وقت پر نئے فرض ادا کرنے پڑیں گے.وہ سور کعتیں سورکعتوں کے قائم مقام تو الگ ر ہیں وہ دوسرے دن چار رکعتوں کے قائم مقام بھی نہیں ہو سکتیں، وہ دو رکعتوں کے قائم مقام بھی نہیں ہوسکتیں، وہ ایک رکعت کے قائم مقام بھی نہیں ہوسکتیں، وہ سجدہ کی ایک تسبیح کے قائم مقام بھی نہیں ہوسکتیں.جس طرح کل کی کھائی ہوئی دس روٹیاں آج صبح کے وقت ناشتہ کے ایک لقمہ کی کفایت بھی 530

Page 543

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 21 جنوری 1938ء نہیں کر سکتیں اسی طرح روحانی عبادتیں یا جسمانی قربانیاں جو انسان ماضی میں کرتا ہے اور ان پر توکل کر کے چاہتا ہے کہ مستقبل کی قربانیوں سے آزاد ہو جائے.وہ اس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتیں وہ اگر ایسی بے وقوفی کرے گا تو یقیناً اپنے آپ کو ہلاک کرنے والا ہوگا.وہ جو خدا کی جماعتوں میں داخل ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ ہر آن انہیں اپنا چہرہ دکھانا چاہتا ہے اور خدا تعالیٰ اپنا چہرہ ہمیشہ قربانیوں کے آئینہ میں ہی دکھاتا ہے.میں نے گزشتہ سالوں میں کہا تھا وہ شخص جو یہ خیال کرتا ہے کہ میں موت سے پہلے کسی وقت بھی قربانیوں سے آزاد ہو سکتا ہوں وہ سمجھ لے کہ اس کا ایمان کمزور ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی فوج کا سپاہی بننے کے قابل نہیں ہے.مجھے افسوس ہے کہ جہاں جماعت کے ایک حصہ نے میری اس بات کو انہی معنوں میں سمجھا ہے جن معنوں میں کہ میں نے اسے بیان کیا تھا وہاں ایک حصہ جماعت کا ایسا ہے جس نے یہ خیال کیا کہ شاید میں یہ باتیں صرف اس وقت کے لئے اور ان قربانیوں کے لئے جوش پیدا کرنے کی خاطر کہہ رہا ہوں جن کا اس وقت مطالبہ کیا گیا تھا اور وہ اپنے دلوں میں یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ شاید ہماری تین سال کی قربانیاں جو صرف چند حقیر رقموں پر مشتمل تھیں وہ زمین و آسمان کا نقشہ بدل ڈالیں گی اور ان چند روپوں سے وہ کام ہو جائے گا جو تئیس سال کی ہر قسم کی قربانیوں کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کمان میں صحابہ رضی اللہ عنہم کر سکے تھے.پس جو شخص چاہتا ہے کہ ایمان پیدا کرے اس کو اپنی لذت اور اپنی راحت خدا میں بنانی چاہئے اور ذرا بھی امید نہیں کرنی چاہئے کہ کوئی ایک قربانی یا دوسری قربانی اس کے حقوق کو ادا کرے گی کیونکہ حقوق قربانیوں سے ادا نہیں ہوتے بلکہ قربانیوں کے متواتر اور مستقل ارادوں سے ادا ہوتے ہیں.پس جو کچھ میں نے کہا تھا وہ کسی کو جوش دلانے کیلئے نہیں کہا تھا بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایمان کی سلامتی کیلئے متواتر قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے اور موت سے پہلے کوشش کے چھوڑ دینے کا خیال اندرونی بے ایمانی کی علامت ہے اور ایسے شخص کے لئے خطرہ ہے کہ اگر آج اس کا ایمان سلامت ہے تو کل سلامت نہ رہے اور مرنے سے پہلے کسی وقت وہ ٹھوکر کھا جائے اور اپنے انعامات جو پہلی قربانیوں سے اس نے جمع کئے تھے اس کی اس غفلت کی وجہ سے کسی اور مومن کو مل جائیں جو کہ پہلے ٹھو کر کھایا ہوا تھا لیکن مرنے سے پہلے خدا کی طرف متوجہ ہو گیا کیونکہ نتائج انسان کی زندگی کے کاموں کے مطابق نہیں ہوتے بلکہ انسان کے انجام کے مطابق ہوتے ہیں.یہ مت خیال کرو کہ یہ ظلم ہے کہ خدا انسان کی زندگی کے کاموں کو تو نظر انداز کر دیتا ہے لیکن آخری گھڑیوں کے کاموں کو قبول کر لیتا ہے کیونکہ آخری گھڑی کی حالت در حقیقت پہلے کاموں کا نتیجہ ہوتی 531

Page 544

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 21 جنوری 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول ہے.وہ جس کی پہلی زندگی اچھی نظر آتی ہے لیکن اس کا انجام خراب نظر آتا ہے.اس کا انجام اس لئے خراب ہوتا ہے کہ اس کی پہلی زندگی گو بظاہر خوشنما تھی لیکن خدا کی نگاہ میں وہ گندی تھی.تم کبھی بھی یہ امید نہیں کر سکتے کہ گوبر کی گولیوں پر کھانڈ چڑھا کر مریضوں کو شفا دے سکو یا بھوکوں کے پیٹ بھر دو کیونکہ باہر کی کھانڈ اندر کے خبث کا علاج نہیں ہو سکتی.پس وہ جس کا انجام خراب ہوتا ہے یا کمزور نظر آتا ہے.وہ اسی لئے خراب ہوتا ہے اور اسی لئے کمزور ہو جاتا ہے کہ اس کی پہلی زندگی بناوٹی تھی اور منافقانہ تھی اور خدائے علیم و خبیر جو دلوں کا بھید جاننے والا ہے اس نے نہ چاہا کہ یہ غیرمستحق حق والوں کا حق لے جائے.پس اس نے مرنے سے پہلے، اگر یہ ایمان ضائع ہو جانے کا مستحق تھا، تو اس کے ایمان کو ضائع کردیا اور اگر یہ ایمان کے کمزور ہونے کا مستحق تھا تو اس نے اس کے ایمان کو کمزور کر دیا.یہی حال اس کا ہے جس کا نتیجہ اس کے بر عکس ہوتا ہے یعنی اس کی پہلی زندگی تو خراب ہوتی ہے لیکن اس کا انجام اچھا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ اس کے انجام کو اس لئے اچھا نہیں کرتا کہ وہ بغیر کسی مقصد کے ایک شخص کے ساتھ رعایت کرنا چاہتا ہے بلکہ اس لئے اچھا کرتا ہے کہ دوسرے شخص کے اعمال یا اس کا ایمان گو بظاہر کمزور نظر آتا ہے لیکن اس کے دل کی گہرائیوں میں کوئی ایسا جو ہر ہی تھا، کوئی ایسی قابلیت چھپی ہوئی تھی، کوئی ایسی محبت کی ٹیس اٹھ رہی تھی جس کو خدا تعالیٰ نظر انداز نہیں کر سکتا تھا.پس اس نے اس کی موت کو پیچھے کر دیا اور اس وقت تک ملک الموت کو آنے نہ دیا جب تک اس کا مخفی جو ہر ظاہر نہ ہو گیا اور اس کی چھپی ہوئی محبت عیاں نہ ہو گئی.پس خدا نے بلا بہ اس کی حالت کو نہیں بدلا بلکہ جو قابلیتیں اس کے اندر مخفی تھیں اور جو درد محبت اس کے اندر نہاں تھا اسی کو ظاہر کر کے انصاف قائم کیا ہے نہ کہ رعایت.پس انجام کے مطابق ہی خدا کے بدلے ملتے ہیں اور اسی طرح ہونا چاہئے.یہی انصاف ہے اور اسی میں عدل ہے اور یہی رحمت کا تقاضا ہے.پس جس کو خدا تعالیٰ توفیق دیتا ہے کہ اس کا قدم قربانیوں میں آگے ہی بڑھتا چلا جائے.خدا کا فیصلہ اس کے ایمان پر مہر لگاتا چلا جاتا ہے اور ہم اس کی اس ترقی کو دیکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ یہ اپنی منزل مقصود پر پہنچ کر رہے گا لیکن وہ جو چلتا ہے اور کھڑا ہو جاتا ہے اور قربانی کرتا اور پھر آسمان کی طرف بدلہ کے لئے نگاہ اٹھاتا ہے اور اپنی موت سے پہلے ہی اپنے پھل حاصل کرنا چاہتا ہے یا تھک کر بیٹھ جاتا ہے یا پہلے سے اس کا قدم سست ہو جاتا ہے، جیسا کہ اس سال بعض جماعتوں اور بعض افراد کی حالت سے نظر آرہا ہے، اس کا پھل اس کا خدا نہیں بلکہ اس کی دنیا ہے.دنیا تو شاید اس کو مل جائے مگر خدا اس کو نہیں ملے گا اور کبھی نہیں ملے گا“.مطبوع الفضل 25 جنوری 1938ء) 532

Page 545

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه فرمودہ 28 جنوری 1938ء " جماعت سے قربانی کے مطالبہ کی پہلی قسط خطبہ فرمودہ 28 جنوری 1938ء تحریک جدید کے دوسرے دور کے متعلق میں نے جو یہ کہا ہے کہ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ دنیا میں اسلامی اخلاق قائم کر سکیں.یہ بات بھی اس کا ایک حصہ ہے.میں نے پچھلے سال بعض خطبات بیان کئے تھے.جن میں بتایا تھا کہ زبانی دعووں سے ہم دنیا کو مرعوب نہیں کر سکتے.یہ کام عمل سے ہی ہو سکتا ہے.عقائد کے لحاظ سے ہم نے دنیا میں غلبہ حاصل کر لیا ہے.مگر عملی لحاظ سے ابھی ایسا نہیں کر سکے.پس ہمیں سوچنا چاہئے کہ ابھی تک ہم ایسا کیوں نہیں کر سکے؟ اس کی ایک وجہ یہی ہے کہ ایمان سے عادت کا گہرا تعلق نہیں ہوتا مگر عمل سے ہوتا ہے مثلاً حضرت عیسی علیہ السلام کی موت کا مسئلہ ہے.اس سے عادت کا کوئی تعلق نہیں.جس دن کسی شخص کے دماغ میں یہ بات آجائے کہ آپ فوت ہو گئے ہیں اس کے بعد اس پر عادت کے حملہ کا کوئی خطرہ باقی نہیں رہتا کیونکہ خیالات کا تعلق عادت سے بہت ہی کم ہوتا ہے اور جب خیال کی اصلاح ہو جائے تو عادت خود بخود پیچھا چھوڑ دیتی ہے مگر عمل کے ساتھ عادت کا بہت گہرا تعلق ہے.اس لئے صرف عقائد کی اصلاح سے اعمال کی اصلاح نہیں ہو سکتی."3 میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے نوجوان جو ہمیشہ ایسے مواقع پر اپنے ایمان کا ثبوت دیتے چلے آتے ہیں.آج بھی پیچھے نہیں رہیں گے.اس وقت پانچ انگریزی کے بعد دس بارہ عربی کے گریجوایٹ اس صیغے میں کام کر رہے ہیں اور یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ یہ قربانی نو جوانوں کے لئے ناممکن نہیں.میرا انشاء یہ ہے کہ تحریک جدید کے ماتحت وقف کرنے والے نوجوانوں کو دینی و دنیوی علوم میں پوری مہارت پیدا کرائی جائے تاوہ حسب ضرورت سلسلہ کے ہر کام کو سنبھالنے کے قابل ہوں اور اگر مالی طور پر انہیں دوسروں سے زیادہ قربانیاں کرنی پڑیں تو عملی طور پر انہیں بدلہ بھی دوسروں سے زیادہ مل جائے.یہ پہلی قسط ہے، جماعت سے قربانی کے مطالبہ کی جو میں جماعت کے سامنے پیش کرتا ہوں اور پھر خلاصہ اسے دہرا دیتا ہوں.1.سچائی اور دیانت کا اقرار اپنے تمام کاموں میں عملاً اس کا اظہار حتی کہ غیر لوگ بھی اس کا 533

Page 546

اقتباس از خطبه فرموده 28 جنوری 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول اقرار کریں کہ احمدی راستباز اور دیانت دار ہوتے ہیں اور ہمارے مخالفوں کے پروپیگنڈا کو قبول کرنے سے انکار کر دیں.2 تبلیغ اس طرح نہیں کہ فرصت کا وقت نکال کر کی جائے بلکہ کام کا حرج کر کے بھی (سوائے اس کے کہ انسان دوسرے کا ملازم ہو اس صورت میں اپنے آقا کے مفاد کا خیال رکھنا اس کے لئے ضروری ہے) تبلیغ کی جائے مگر یادر ہے کہ یہ تبلیغ صرف زبانی نہیں ہونی چاہئے.احمدیت کی فوقیت ثابت کرنے کیلئے ضروری ہے کہ دوست خدمت خلق کے کام بھی کیا کریں.کیونکہ ملی تبلیغ زبانی تبلیغ سے زیادہ موثر ہوتی ہے.اس لئے میں نے خدام الاحمدیہ کو قائم کیا ہے.جو بعض جگہ اس بارہ میں نہایت اچھے کام کر رہے ہیں.-3 چندوں میں باقاعدگی اور باقاعدگی کے بعد مسابقت کی روح پیدا کرنا میرا مطلب اس سے یہ ہے کہ ہر احمدی مالی قربانی میں دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے حتی کہ سلسلہ کی مالی پریشانیاں دور ہو جائیں اور اس کی اشاعت کا دامن وسیع ہو جائے.4.بی.اے ایم.اے مولوی فاضل، ڈاکٹر ، وکیل نوجوان اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کریں تا انہیں سلسلہ کے کاموں اور تبلیغ کے لئے تیار کیا جائے اور وہ سلسلہ کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کا کام کریں اور اسکے علاوہ سلسلہ کے جن اور کاموں میں ان کی خدمات کی ضرورت ہو ان کا کے لئے وہ اپنے آپ کو پیش کریں.اگر کوئی نوجوان ان اغراض کے لئے طالب علمی کی زندگی بسر کر رہے ہوں اور وہ ایک دو سال میں فارغ ہونے والے ہوں تو وہ بھی اپنے نام پیش کر سکتے ہیں.5.ہر حکومت اور ہر نظام کی پابندی کرتے ہوئے دین کی ترقی کے لئے کوشش کرنا اور اس پر عمل کرنے کے بغیر ہم احمدیت کی تعلیم کی برتری ثابت نہیں کر سکتے.6 چھٹی بات جو در حقیقت تبلیغ کا ہی ایک حصہ ہے.میں اس کے بعد اس کا بھی ذکر کر دینا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ چونکہ مخالف ہر جگہ حکام اور دیگر با اثر لوگوں کے کان بھرتارہتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بہت سے بارسوخ لوگ اور افسر متواتر غلط باتیں سن کر احمد یوں کے خلاف متاثر ہو جاتے ہیں.اس لئے ہر ضلع میں پرو پیگنڈا کمیٹیاں بنائی جائیں.جو اپنی اپنی جگہ مختلف اقوام کے چیدہ چیدہ لوگوں سے اور حکام سے ملتی رہیں اور احمدیت کے خلاف جو پروپیگنڈا کیا جارہا ہے.اس کی حقیقت سے انہیں آگاہ کرتی رہیں.“ مطبوعہ الفضل 5 فروری 1938ء) 534

Page 547

یک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 4 فروری 1938ء تحریک جدید کا دور ثانی اور دوسری مدات خطبہ جمعہ فرمودہ 4 فروری 1938ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.تحریک جدید کے متعلق بعض دوستوں کی طرف سے مجھے خطوط موصول ہوئے ہیں کہ اس کی جو دوسری مدات تھیں آیا وہ اب تک جاری ہیں یا نہیں ؟ سو اس بارے میں آج بعض باتیں کہنی چاہتا ہوں.سب سے اول تو یہ بات سوچنے والی ہے کہ اچھی بات آیا وقتی ہوا کرتی ہے یا داگی ؟ بعض باتیں صداقت کی ایسی ہوتی ہیں کہ جو دائی ہوتی ہیں.ان دائی صداقتوں کو کبھی بھی ترک نہیں کیا جا سکتا اور اگر کسی وقت ان میں کسی قسم کی سہولت روا رکھی جائے تو وہ سہولت وقتی ہوگی اور جب کبھی تبدیلی ہوگی اس سہولت کے دور کرنے میں ہوگی نہ کہ اصل چیز کے دور کرنے میں.مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے شروع زمانہ میں چونکہ عرب میں رواج تھا کہ لوگ گدھے کا گوشت بھی کھا لیا کرتے تھے اس لئے کو آپ نے اس میں دخل نہ دیا لیکن بعد میں جا کر آپ نے اس سے روک دیا.در حقیقت گدھا اپنی اخلاقی حالت کے لحاظ سے شروع سے ہی دوسرے ممنوع جانوروں سے مشابہت رکھتا ہے مگر وقتی ضرورتوں اور لوگوں کی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا میں اس میں دخل نہ دیا یا متعہ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع میں کوئی حکم نہ دیا لیکن دوسرے وقت جا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا.تو جو چیزیں اپنے اندر کوئی برائی یا عیب رکھتی ہیں ان میں اگر کسی وقت کوئی سہولت دی جاتی ہے تو وہ سہولت عارضی ہوتی ہے.اصل حکم عارضی نہیں ہوتا.مثلاً تحریک جدید ہے.اس میں ایک ہدایت یہ تھی کہ سادہ زندگی بسر کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.اب یہ غور کرنا چاہئے کہ آیا سادہ زندگی اسلام کا کوئی اصل ہے یا ضرورت کے مطابق اس کی ہدایت دی جاتی ہے.اگر اصل اسلامی تعلیم یہ ہو کہ انسان کو خوب عیاشا نہ طور پر زندگی بسر کرنی چاہیئے تو سادہ زندگی کا حکم عارضی سمجھا جائے گا اور یہ سوال ہر وقت کیا جا سکے گا کہ اب اس ہدایت پر عمل ترک کر دیا جائے یا نہ کیا جائے؟ لیکن اگر اسلام کی اصل تعلیم سادہ زندگی کی ہو تو پھر اس حکم کے متعلق یہ سوال نہیں ہوتا کہ یہ عارضی ہے اسے واپس لے لیا جائے بلکہ یہ 535

Page 548

خطبہ جمعہ فرمودہ 4 فروری 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول سوال ہوگا کہ اس حکم کو کامل طور پر جاری کرنے میں اگر کوئی روک تھی تو اس کو کب دور کیا جائے گا ؟ اس کا میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام نے بطور شریعت سادہ زندگی کی کوئی تعریف نہیں کی.اسلام نے بطور اصول یہ تو بتایا ہے کہ سادہ زندگی اختیار کرو مگر یہ تعریف نہیں کی کہ سادہ زندگی کس کو کہتے ہیں.پس یہ بحث تو کی جاسکتی ہے اور ہر وقت کی جاسکتی ہے کہ سادہ زندگی کی تعریف کیا ہے اور آیا فلاں احکام جو سادہ زندگی اختیار کرنے کے ضمن میں دیئے گئے ہیں وہ سادہ زندگی سے تعلق رکھتے ہیں یا نہیں رکھتے یا بعض افراد یا بعض قومیں آپس میں مل کر فیصلہ کر لیں کہ فلاں بات بھی سادہ زندگی کے اصول میں شامل کر لینی چاہئے لیکن اصولی طور پر اس بات پر بحث نہیں ہو سکتی کہ آیا سادہ زندگی اختیار کرنی چاہئے یا نہیں ؟ کیونکہ یہ خالص اسلام کا حکم ہے اور قرآن کی بیسیوں آیات اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیسیوں احکام اس معاملہ میں موجود ہیں جو ہمارے لئے خضر راہ اور ہدایت نامہ ہیں اور پھر ہماری عقل بھی اس طرف رہنمائی کرتی ہے.اگر ہم نے دنیا میں اس اسلامی تہذیب کو قائم کرنا ہے جو اس دنیا میں بھی اسی طرح بنی نوع انسان کے لئے بہشت سکھینچ کر لاتی ہے جس طرح اگلے جہان میں بہشت ہے تو لازماً اس معاملہ میں آہستہ آہستہ ہمیں بعض اور قیود بھی بڑھانی پڑیں گی یہاں تک کہ اسلام کے منشا کے مطابق سادہ زندگی کی روح دنیا میں قائم ہو جائے.بے شک ایک کھانا کھانا چاہئے یا زیادہ کی بھی اجازت ہو.یہ خود اپنی ذات میں پورے طور پر سادہ زندگی کے مفہوم کو ادا کرنے والے نہیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ آپ ایک کھانا کھانے پر اکتفا کیا کرتے تھے.الا ماشاء اللہ خاص دعوتوں یا عیدین کے موقعہ پر آپ نے ایک سے زائد کھانے کھائے تو یہ اور بات ہے.چنانچہ ان قیود سے عیدوں کو میں نے پہلے ہی مستی کر دیا تھا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب یہ سوال پیش ہوا تو آپ نے عیدین کے متعلق فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کیلئے کھانے پینے کے دن رکھے ہیں.تو میں نے سادہ طعام کے متعلق جو ہدایت دی تھی اس میں یہ اصول مقرر کیا تھا کہ عیدوں پر ایک سے زائد کھانا کھانے کی اجازت ہے.ہاں لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی عقل اور سمجھ کے مطابق پھر بھی سادگی کو مدنظر رکھیں کیونکہ جب سادہ زندگی اصل کے طور پر ہے تو اس میں وسعت پیدا کرتے وقت بہت احتیاط کی ضرورت ہے.ہمارے پنجاب میں اچھی اچھی دعوتوں کے موقعہ پر صرف چار پانچ کھانوں پر لوگ کفایت کرتے ہیں لیکن انگریزوں میں جہازوں اور ہوٹلوں میں عام کھانے ہی سات آٹھ سکتے ہیں اور ان کے رات کے ڈنر میں تو پندرہ پندرہ سولہ سولہ کھانے ہوتے ہیں.گو وہ سارے پچکے ہوئے نہیں ہوتے بلکہ 536

Page 549

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 4 فروری 1938ء بعض کھانے چٹنیوں کی قسم کے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی بہت سے کھانے پکتے ہیں.اس کے مقابلہ میں ہمارے ہندوستان کے ہی بعض گوشوں میں مہمان نوازی کی تعریف یہ مجھی جاتی ہے کہ میں تمہیں، چالیس چالیس کھانے پکائے جائیں.مجھے اپنی عمر میں صرف ایک دفعہ ایسی دعوت میں شریک ہونے کا موقع ملا ہے.حضرت خلیفہ اصبح الاول رضی اللہ عنہ کے وقت کی بات ہے کہ ہم بعض دوست ایک وفد کی صورت میں ہندوستان کے مختلف مدارس دیکھنے کے لئے گئے.جب دورہ کرتے ہوئے ہم ایک شہر میں پہنچے تو وہاں ایک پرانی وضع کے نہایت مخلص احمدی تھے.انہوں نے میرے آنے کی خوشی میں دعوت کی اور اس خیال سے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد میں سے ہوں ، میرے اعزاز میں انہوں نے بہت سے کھانے پکائے.میں نے وہ کھانے گئے تو نہیں مگر یہ مجھے یاد ہے کہ جو کھانے میرے دائیں بائیں رکھے گئے تھے وہ اتنے تھے کہ اگر میں اپنے دونوں ہاتھ پھیلا بھی دیتا تو وہ دائیں بائیں کی طشتریوں کو ڈھانپ نہیں سکتے تھے اور جو میرے سامنے کھانے پڑے تھے وہ اتنے زیادہ تھے کہ اگر میں لیٹ بھی جاتا تو تب بھی بعض کھانے دور رہ جاتے.میں نے جب اس قدر کھانے پکے ہوئے دیکھے تو ایک دوست سے میں نے کہا کہ یہ کیا بات ہے؟ اتنے کھانے انہوں نے کیوں تیار کئے ہیں؟ اس پر اس نے چپکے سے میرے کان میں کہا کہ آپ اس امر کا یہاں ذکر نہ کریں کیونکہ اس طرح ان کی دل شکنی ہوگی.یہاں یہ رواج ہے کہ جب کسی کے اعزاز میں دعوت کی جاتی ہے تو خاص طور پر بہت زیادہ کھانے پکائے جاتے ہیں.پس جو کھانا آپ نے کھانا ہے کھا لیں کچھ کہیں نہیں.اب یہ بھی دعوت کا ایک طریق ہے تو زیادتی میں بھی سادگی کو مد نظر رکھا جا سکتا ہے کیونکہ ایک سے زائد کھانے کے معنے دو بھی ہو سکتے ہیں، تین بھی ہو سکتے ہیں ، دس بھی ہو سکتے ہیں، ہمیں بھی.پس ہمیں یہ بات مد نظر رکھنی چاہئے کہ سادگی اصل حکم ہے اور ترفہ ایک عارضی اجازت اور عارضی اجازت ہر حالت میں اصل حکم کے تابع رہنی چاہئے.حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ ایک امیر میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مولوی صاحب ہاضمہ کی کوئی اچھی سی دوائی مجھے دیں تا کہ میں کھانا پیٹ بھر کر کھا سکوں.میری یہ حالت ہے کہ بس لقمہ دو لقمے کھاتا ہوں اور پیٹ بھر جاتا ہے.آپ فرماتے کہ ایک دن مجھے اس امیر کے دستر خوان پر جانے کا اتفاق ہوا.میں نے دیکھا کہ کھانے کی چالیس پچاس طشتریاں اس کے سامنے آئیں اس نے ہر تھالی میں سے ایک دو لقمے لئے اور چکھا کہ ان سب میں سے اچھا کھانا کون سا ہے؟ پھر دو چار کھانے جو اسے پسند آئے وہ اس نے الگ 537

Page 550

خطبہ جمعہ فرمودہ 4 فروری 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول کر لئے اور ان میں سے تھوڑے سے لقمے لینے کے بعد کہنے لگا کہ دیکھئے مولوی صاحب اب بالکل کھایا نہیں جاتا.حضرت خلیفہ اسی اول رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں نے اسے کہا کہ یہ کوئی بیماری نہیں کیونکہ جو چکھنے کے لقمے ہیں وہ بھی تو آپ کے معدہ میں ہی گئے ہیں اور اس سے زیادہ کوئی تندرست آدمی نہیں کھا سکتا.پس میں اس بارے میں جہاں پھر سادگی کی تاکید کرتا ہوں وہاں میں بعض دوستوں کی متواتر تحریک پر وہ استثنیٰ بھی کر دیتا ہوں.ایک تو عیدوں کی طرح جمعہ کا بھی میں استثٹی کرتا ہوں اور اس دن ایک سے زائد کھانا کھانے کی لوگوں کو اجازت دیتا ہوں مگر اسی حد تک کہ اگر اس دن کوئی دوسرا کھانا کھا لے تو جائز ہوگا یہ ہیں کہ ضرور اسی دن ایک سے زائد کھانے پکائے جائیں اور اس اسٹی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس دن کئی کئی کھانے پکنے لگ جائیں.پس جمعہ کا میں استنشی کرتا ہوں اور اس دن دو کھانوں کی اجازت دیتا ہوں کیونکہ جمعہ کے متعلق بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ ہماری عید ہے.بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چھٹیوں کے دنوں میں چونکہ رشتہ دار وغیرہ جمع ہوتے ہیں اور ان کی خاص طور پر خاطر مدارت کرنی پڑتی ہے اس لئے چھٹی کے دن بھی اس قید کو اڑا دیا جائے.میرے لئے یہ سوال مشکل پیدا کر رہا ہے کہ میں اتوار کو چھٹی قرار دوں یا جمعہ کو؟ کیونکہ اصل سوال یہ ہے کہ چونکہ چھٹی کے دن رشتہ دار ایک دوسرے کے ہاں ملاقات کے لئے آتے ہیں اس لئے اس خوشی کے موقعہ پر کسی قدر خاطر مدارات کے لئے یہ اجازت ہونی چاہئے کہ ایک سے زائد کھانے پکائے جائیں.اب ایک طرف چونکہ سرکاری دفاتر میں اتوار کو چھٹی ہوتی ہے اس لئے اس اجازت کے ماتحت اتوار کومستی کرنا چاہئے لیکن دوسری طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے لئے عید کا لفظ فرمایا ہے اس لئے اس رخصت کا حقدار وہ دن ہے.اگر شریعت اور موجودہ حالات کا لحاظ رکھا جائے تو ہفتہ میں دو دن مستثنیٰ کرنے پڑتے ہیں لیکن ہفتہ میں دو دن کا استنشی بہت زیادہ ہے اور اس طرح سہولت بہت وسیع ہو جاتی ہے اس لئے میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کا ادب ملحوظ رکھتے ہوئے یہی مناسب سمجھا ہے کہ ہم چھٹی کا دن جمعہ کو ہی قرار دیں گو عملاً ہمارے ملک میں جمعہ کو چھٹی نہیں ہوتی لیکن زمیندار، تاجر اور جولوگ ایسی جگہوں پر ملازم ہیں جہاں جمعہ کے دن چھٹی ملتی ہے اب بھی جمعہ کو چھٹی کرتے ہیں اور کر سکتے ہیں اور دوسرے لوگ جنہیں اتوار کو چھٹی ملتی ہے وہ بھی اگر چاہیں تو اس بات کی عادت ڈال سکتے ہیں کہ اتوار کو اپنے آرام کا وقت رکھ لیں اور جمعہ کی شام کو اپنے کام کاج سے فارغ ہو کر اپنے رشتہ داروں سے مل لیں.گویا رشتہ داروں کی ملاقات 538

Page 551

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 4 فروری 1938ء کا وقت بجائے اتوار کے جمعہ کی شام کو رکھا جائے.اس طرح جمعہ کے استثنا سے فائدہ اٹھا کر وہ ان کی خاطر مدارات کے لئے ایک سے زائد کھانے تیار کر سکتے ہیں.غرض شرعی مسئلہ چونکہ جمعہ کی تائید میں ہے اس لئے میرا میلان طبع اسی طرف ہے کہ بجائے اتوار کے جمعہ کو مستی کیا جائے.بعد میں اگر دوست اس میں کوئی مشکلات دیکھیں تو وہ بتا سکتے ہیں اور اس پر ہر وقت غور کیا جا سکتا ہے.فی الحال میں جمعہ کا استثنی کرتا ہوں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر جمعہ کو ضرور ایک سے زائد کھانے پکائے جائیں بلکہ یہ مطلب ہے کہ اگر کوئی ایسی تقریب ہو جب رشتہ دار یا دوست احباب جمع ہوں یا کوئی مہمان آئے ہوئے ہوں تو ان کی خاطر اگر دو کھانے پکالئے جائیں تو جائز ہوگا.اس استثنیٰ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بہت سے دوستوں نے شکایت کی ہے کہ ہمارے پنجاب اور ہندوستان میں چاول نیم غذا ہے جس کا کبھی کبھی کھانا صحت کے لحاظ سے اور ملک کی آب و ہوا کے لحاظ سے ضروری ہوتا ہے مگر اس حکم سے کہ ایک کھانا کھایا جائے ہم چاول کو بالکل ترک کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں کیونکہ صرف چاول کھانے کی عادت نہیں ہوتی اور روٹی سالن کے علاوہ اگر چاول کھائیں تو دوکھانے ہو جاتے ہیں.پس ایک کھانا کھانے کی وجہ سے یہ جو دقت پیدا ہو گئی تھی کہ لوگ روٹی ہی کھاتے تھے چاول نہیں کھا سکتے تھے حالانکہ چاولوں کا کبھی کبھی کھانا ہماری ملکی آب و ہوا کے لحاظ سے ضروری ہے.اس انتلی سے اس کا ازالہ ہو جائے گا اور وہ لوگ جو شکایت کیا کرتے ہیں کہ ایک کھانا کھانے کا حکم دے کر چاول کی غذا بالکل بند کر دی گئی ہے.انہیں اطمینان ہو جائے گا اور وہ جمعہ کے دن حسب خواہش روٹی کے علاوہ چاول بھی کھاسکیں گے.دوسرا استثنی جو میں کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ دعوتوں کے موقعہ پر میں نے پہلے یہ شرط رکھی تھی کہ اگر اپنا ہی کوئی احمدی دوست مہمان ہو تو دستر خوان پر میزبان صرف ایک ہی کھانا کھائے لیکن اگر کوئی غیر مہمان ہو تو اس کے ساتھ ایک سے زائد کھانا کھا سکتا ہے اس کے متعلق بعض دوستوں نے شکایت کی ہے کہ یہ پابندی بہت مشکلات پیدا کرتی ہے کیونکہ جب مہمان دوکھانے کھا رہا ہو تو ہم صرف ایک ہی کھانا کھائیں تو یہ امر مہمان پر بہت شاق گزرتا ہے.پس آئندہ کے لئے میں اس پابندی کو بھی دور کرتا ہوں اور اس امر کی اجازت دیتا ہوں کہ اگر کوئی ایسا مہمان ہو جس کیلئے ایک سے زائد کھانے پکائے گئے ہوں تو اس صورت میں خود بھی دو سے زائد کھانے کھانے جائز ہوں گے مگر شرط یہ ہے کہ کوئی غیر مہمان ہو یہ نہ ہو کہ اپنے ہی رشتہ دار بغیر کسی خاص 539

Page 552

خطبہ جمعہ فرموده 4 فروری 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول تقریب کے اکٹھے ہوں اور ان کے لئے ، جمعہ کے استثنیٰ کے علاوہ ، ایک سے زائد کھانے تیار کر لئے جائیں اور خود بھی دو دو کھانے کھالئے جائیں.غرض میری یہ اجازت اس حالت کے لئے ہے جب غیر لوگ مہمان ہوں یا اپنے عزیزوں کی خاص دعوت ہو.میں سمجھتا ہوں اس سے زیادہ کوئی اور سہولت دینا سوائے تکلف کے اور کوئی نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا.مثلاً اگر مہمان کے لئے تین چار کھانے پکائے جائیں تو میزبان کو مہمان کے ساتھ سب کھانے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی.اسے زیادہ سے زیادہ دو کھانے کھانے کی اجازت دی جاسکتی ہے اور اگر یہ ان کھانوں میں سے دو کھانے کھالے گا تو مہمان کو یہ اصرار نہیں ہو گا کہ ضرور تین کھانے کھاؤ.مہمان کی طرف سے اسی وقت اصرار ہوتا ہے جب یہ صرف ایک کھانا کھاتا ہے کیونکہ ہمارے ملک میں یہ عام دستور ہے کہ روٹی سالن ایک کھانا سمجھا جاتا ہے اور چاول دوسرا کھانا.اب جب یہ صرف روٹی سالن پر اکتفا کرتا ہے اور چاول نہیں کھاتا تو مہمان کو یہ بات چیھتی ہے لیکن اگر یہ روٹی سالن بھی کھا لے اور چاول بھی کھالے تو مہمان یہ اصرار نہیں کرے گا کہ اب ضرور فلاں چیز بھی کھاؤ کیونکہ وہ خیال کرے گا کہ جو چیز اسے پسند تھی اس نے کھالی اگر فلاں چیز یہ نہیں کھانا چاہتا تو نہ کھائے.پس چونکہ صرف روٹی سالن کھانے سے ایک امتیاز معلوم ہوتا ہے اور مہمان کو یہ بات چھتی ہے اس لئے دوسرا کھانا کھانے کی بھی اجازت ہے.اس طرح میں سمجھتا ہوں مہمان پر اس کا طریق عمل گراں نہیں گزرے گا کیونکہ جب مثلاً دستر خواں پر دو سالن ہوں گے اور یہ صرف ایک سالن استعمال کرے گا تو وہ خیال کرے گا کہ اس نے ایک سالن تو استعمال کر لیا دوسرا نہیں کیا تو نہ کرے کیونکہ ایک سالن دوسرے سالن کا قائم مقام ہو جاتا ہے لیکن چونکہ ہمارے ملک میں روٹی چاول کا قائم مقام نہیں سمجھی جاتی اس لئے مہمان کو یہ امر چبھتا ہے کہ میزبان نے مثلاً خالی چاول کھائے ہیں یا صرف روٹی کھائی ہے اور اسے بھی دوسری اشیاء استعمال کرنے میں حجاب ہوتا ہے.ہاں ایک اور استنثٹی میں گزشتہ سالوں میں کر چکا ہوں وہ قائم ہے اور وہ رسمی یا حکام کی دعوتوں کے متعلق ہے.ایسی دعوتوں میں ایک سے زائد کھانے کھانا یا کھلانا جو ملک کے رواج کے مطابق ضروری ہوں، جائز رکھا گیا ہے اور اب بھی جائز ہے.بعض ملکوں میں جیسے بنگال اور بہار کے علاقے ہیں.چاولوں کے ساتھ ایک پتیلی دال پکاتے ہیں جس کی غرض محض چاولوں کو گیلا کرنا ہوتی ہے.اس کی 540

Page 553

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 4 فروری 1938ء اجازت میں پچھلے دور میں دے چکا ہوں اور اس دور میں پھر اس کو ہرا دیتا ہوں کہ جن علاقوں میں یہ رواج ہے کہ تھوڑا سا خشک سالن وہ چاولوں کے ساتھ استعمال کرنے کے لئے الگ پکاتے ہیں اور ایک پتلی دال جو بالکل پانی کی طرح ہوتی ہے الگ پکاتے ہیں تا کہ چاول گیلے ہو کر آسانی سے ہضم ہوسکیں.انہیں پتلی دال استعمال کرنے کی اجازت ہے کیونکہ یہ پتلی دال وہاں غذا نہیں سمجھی جاتی بلکہ غذا صرف خشک سالن اور چاول ہوتی ہے.یہ دال صرف اس لئے ملائی جاتی ہے تا کہ چاول گیلے ہو جائیں اور انہیں نگلنے میں آسانی ہو.یہ استنی اگر چہ میں نے پچھلے دور میں کر دیا تھا مگر اس دور میں پھر اس کو دہرا دیتا ہوں مگر شرط یہ ہے کہ وہ دال پتیلی دال تک ہی محدود ہو اگر اس دال کو خود ایسا گاڑھا اور مرغن بنالیا جائے کہ وہ سالن کا کام دے سکے تو پھر اس کی اجازت نہیں.خطبوں میں تو مجھے یاد ہے لیکن یہ یاد نہیں کہ کسی خطبہ میں بھی میں بیان کر چکا ہوں یا نہیں کہ اچار اور چٹنی اگر سادہ ہو اور بطور مصالحہ یا ہاضم کے اسے استعمال کیا جائے تو کھانے کے ساتھ اس کا استعمال جائز ہے لیکن بعض ملکوں میں چٹنی بھی سالن کا قائم مقام کبھی جاتی ہے.پس جب چٹنی میں بھی تکلف کی کوئی صورت ہو اور سالن کے قائم مقام سمجھی جا سکے تو پھر اس کے استعمال میں بھی احتیاط کرنی چاہئے.ہر شخص کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے اور فائدہ اسی صورت میں پہنچ سکتا ہے جب انسان حجت اور حیلہ سازی سے کام نہ لے.اگر چٹنی اور اچار صرف چٹنی اور اچار کی حد تک ہی ہو اور اس کے استعمال کی غرض یہ ہو کہ ہاضمہ درست ہو اور کھانا ہضم ہو جائے تو اس کا استعمال جائز ہے لیکن اگر وہ سالن کے قائم مقام ہو تو پھر کسی دوسرے سالن کے ساتھ اس کا استعمال جائز نہیں اور یہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ بعض علاقے ایسے ہیں جہاں چٹنیاں ہی چٹنیاں بنا کر کھاتے ہیں کوئی الگ سالن استعمال نہیں کرتے.ایک دفعہ جب میں شملہ میں تھا تو ایک رئیس میری ملاقات کیلئے آئے.ان سے دوران گفتگو کہیں میں نے ذکر کر دیا کہ سنا ہے کہ آپ کے وطن میں کھانے اور قسم کے ہوتے ہیں؟ اس کے بعد مجھے اس بات کا کوئی خیال نہ رہا.انہوں نے میری دعوت کی.جب میں ان کے ہاں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ چھوٹی چھوٹی پیالیاں آئی شروع ہو گئیں جن میں مختلف قسم کی چٹنیاں تھیں.میں نے ان چٹنیوں کو کچھ چکھا اور پھر چھوڑ دیا اور دیر تک باتیں ہوتی رہیں.اب میں یہ انتظار کرتارہا کہ کھانا آئے تو میں کھاؤں مگر کھانا کوئی نہ آیا یہاں تک کہ گیارہ بج گئے اور ہم وہاں سے رخصت ہو گئے.راستہ میں میں نے حافظ روشن علی صاحب مرحوم سے، جو میرے ساتھ تھے، پوچھا کہ کیا آج ہماری یہاں دعوت نہیں تھی؟ اور کیا ہمیں غلطی تو نہیں لگی کہ ہم دعوت کے خیال 541

Page 554

خطبہ جمعہ فرمودہ 4 فروری 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول سے یہاں آگئے؟ وہ اتفاق سے اس علاقہ میں رہ چکے تھے وہ کہنے لگے کھانا آیا جو تھا آپ نے نہیں کھایا ؟ میں نے کہا کھانا کون سا آیا کچھ چٹنیاں آئی تھیں وہ میں چکھ کر چھوڑتا گیا.کہنے لگے وہی تو کھانا تھا.میں نے کہا میں نے سمجھا کہ یہ صرف ہاضمہ کے تیز کرنے کے لئے چٹنیاں آرہی ہیں اور چونکہ مجھے کھانسی کی شکایت تھی میں چکھ کر چھوڑ دیتا تھا کھاتا نہ تھا کہ اصل کھانا بعد میں آئے گا.کہنے لگے یہی چٹنیاں جو انہوں نے بھجوائی تھیں کھانا تھیں.تو بعض علاقوں میں چٹنیاں بھی کھانا مجھی جاتی ہیں جیسے میرے ساتھ واقعہ پیش آیا یہاں تک کہ مجھے راستہ میں دریافت کرنا پڑا کہ آیا ہماری یہاں دعوت بھی تھی یا نہیں ؟ اگر اس قسم کی چٹنیاں ہوں تو پھر یہ بھی کھانے میں شمار ہوں گی اور ان میں بھی سادگی اور حد بندی کی ضرورت ہوگی.لباس کے متعلق بھی بعض دوستوں نے دریافت کیا ہے.حالانکہ لباس کی سادگی نہایت ضروری چیز ہے.میں نے دیکھا ہے لباس میں سادگی نہ ہونے کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ امیروں اور غریبوں میں ایک مہین فرق ہے.امیر اپنے کپڑے سنبھالے بیٹھے رہتے ہیں اور ہر وقت انہیں یہ خیال رہتا ہے کہ کہیں کپڑے پر داغ نہ لگ جائے ، کہیں میلا نہ ہو جائے اور اس طرح وہ غرباء سے پرے پرے رہتے ہیں.پس لباس میں سادگی نہایت ضروری ہے.بلکہ میں یہاں تک کہوں گا کہ اگر کسی شخص کے پاس صرف ایک جوڑا ہے اور وہ اسے ایسی احتیاط سے رکھتا ہے کہ ہر وقت اسے یہ خیال رہتا ہے کہیں اس پر دھبہ نہ پڑ جائے کہیں اس پر داغ نہ لگ جائے اور اس طرح غریبوں سے اس کے دل میں نفرت پیدا ہوتی ہے تو اس نے ہرگز تحریک جدید کے اس مطالبہ پر عمل نہیں کیا.اس کے مقابلہ میں اس شخص کو میں زیادہ سادہ کہوں گا جس کے پاس دو یا تین جوڑے کپڑوں کے ہیں اور وہ ان کے متعلق ایسی احتیاط نہیں کرتا جو امارت و غربت میں امتیاز پیدا کر دیتی ہے.در حقیقت لباس میں ایسا تکلف جو انسانوں میں تفرقہ پیدا کرنے کا موجب ہو جائے ، جو بنی نوع انسان میں کئی قسم کی جماعتیں پیدا کرنے کا محرک ہو جائے سخت ناپسندیدہ اور فتنے پیدا کرنے والا ہے.خواہ اس کے پاس ایک جوڑا ہو یا دو ہوں.پس یہ ہدایت بھی کوئی وقتی ہدایت نہیں بلکہ نل ہدایت ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے انسانوں میں سے تفرقہ دور ہوتا ہے.مستقل عورتوں میں خصوصاً اعلیٰ لباس کی بہت پابندی ہوتی ہے اور اس میں ان کی طرف سے بڑے بڑے اسراف ہو جاتے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بعض گھر عورتوں کے لباس اور زیور کی وجہ سے ہی برباد ہو گئے ہیں.انگریز اقتصادی لحاظ سے بہت بڑی محتاط قوم ہے مگر ان میں بھی عورتوں کے لباسوں کے اخراجات کی وجہ سے بڑے بڑے امرانتباہ ہو جاتے ہیں.عورت بازار میں جاتی اور مختلف فیشنوں کے جنون میں ماری جاتی ہے.542

Page 555

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبه جمعه فرموده 4 فروری 1938ء میں نے ایک دفعہ ایک ولائتی اخبار میں لطیفہ پڑھا کہ فرانس میں جہاں فیشن کا سب سے زیادہ خیال رکھا جاتا ہے.ایک عورت جو فیشن میں خاص طور پر مشہور تھی ایک دکان سے ایک ٹوپی خرید کر نکلی اتفاق سے اسے راستہ میں ایک فیشن کی ملکہ نظر آگئی.یورپ کے ہر ملک میں چار پانچ ایسی عورتیں ہوتی ہیں جو فیشن کی ملکہ کہلاتی ہیں یعنی جو لباس وہ پہنتی ہیں وہی فیشن سمجھا جاتا ہے.ان کے لباس کے خلاف اگر کوئی عورت لباس پہنے تو اس کا لباس فیشن کے خلاف سمجھا جاتا ہے.جب اس نے اس فیشن کی ملکہ کو دیکھا تو اسے معلوم ہوا کہ اس نے اور قسم کی ٹوپی پہنی ہوئی ہے.یہ دیکھ کر اس نے وہی ٹوپی جو اس نے ابھی خریدی تھی ، سر سے اتار کر اپنی بغل کے پیچھے دبالی تاکہ کوئی اسے اس ٹوپی کے ساتھ دیکھ نہ لے.یہ فیشن پرستی جنون بھی ہے اور قومی اتحاد کو تباہ کرنے والی بھی.ہمارے ملک میں بھی جو مغربی لباس پہنے والوں کی نقل کرتے ہیں.انہیں دیکھ کر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ آدمی ہیں بلکہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ مشینیں ہیں جن پر کپڑے لیٹے ہوئے ہیں.ہر وقت، اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے انہیں یہی خیال رہتا ہے کہ کپڑے کو شکن نہ پڑ جائے ، اس پر داغ نہ لگ جائے ، اس میں سلوٹ نہ پڑ جائے.بھلا ایسے دماغ کو خدا کے ذکر کے لئے کہاں فرصت مل سکتی ہے؟ دماغ نے تو آخر ایک ہی کام کرنا ہے.جسے اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے یہی خیال رہتا ہو کہ پتلون کو شکن نہ پڑ جائے ، کوٹ میں کوئی سلوٹ نہ آجائے اس نے بھلا اور کیا کام کرنا ہے؟ اس کے دماغ کا بہت سا وقت تو اپنے لباس کی درستی میں ہی لگ جاتا ہے.در حقیقت اسلام یہ چاہتا ہے کہ ہمارا دماغ اور باتوں سے فارغ ہو اور پا تو وہ خدا کی یاد میں مشغول ہو یا بنی نوع انسان کی بہتری کیلئے تدابیر سوچ رہا ہو اور حق بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ان باتوں میں ہمہ تن مشغول ہو تو اسے یہ موقعہ ہی نہیں ملتا کہ وہ لباس کی درستی کی طرف توجہ کرے.میں نے دیکھا ہے کہ کام کی کثرت کی وجہ سے کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ادھر میں کھانا کھا رہا ہوتا ہوں اور ادھر اخبار پڑھ رہا ہوتا ہوں.بیویاں کہتی بھی ہیں کہ اس وقت اخبار نہ پڑھیں کھانا کھا لیں مگر میں کہتا ہوں میرے پاس اور کوئی وقت نہیں.پھر کئی دفعہ لوگ میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کے لباس میں یہ نقص ہے، وہ نقص ہے مگر میں کہتا ہوں کہ مجھے اس بات کا احساس بھی نہیں.آپ کو معلوم نہیں کہ اس کا کیوں خیال ہے.حضرت مسیح موعود کو ہم نے دیکھا ہے گو مخالف اس پر ہنسی اڑاتے اور یہ کہتے ہیں کہ آپ نعوذ باللہ پاگل تھے.مگر واقعہ یہ ہے کہ آپ کئی دفعہ بوٹ ٹیڑھا پہن لیتے.دایاں بوٹ بائیں پاؤں میں اور بایاں بوٹ دائیں پاؤں میں.وہ نادان نہیں جانتے کہ جس کا دماغ اور باتوں کی طرف شدت سے لگا ہوا ہو 543

Page 556

خطبہ جمعہ فرمودہ 4 فروری 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اسے ان معمولی باتوں کی طرف توجہ کی فرصت ہی کب مل سکتی ہے؟ اسی طرح کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ آپ بیٹن اوپر نیچے لگا لیتے یعنی اوپر کا بٹن نچلے بٹن کے کاج میں اور نیچے کا بٹن اوپر کے بٹن کے کاج میں لگا رابھی اور تاہے تو دیتے.میرا بھی یہی حال ہے دوسرے تیسرے دن بٹن اوپر نیچے ہو جاتے ہیں اور کوئی دوسرا بتا تا ہے تو درستی ہوتی ہے.گو بوٹ کے متعلق اب تک میرے ساتھ ایسا کبھی واقعہ نہیں ہوا کہ بایاں بوٹ میں نے دائیں پاؤں میں پہن لیا ہو اور دایاں بوٹ بائیں پاؤں میں اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ میرے پاؤں پربھنوری ہے اور ڈاکٹر نے مجھے بچپن سے ہی بوٹ پہنے کی ہدایت کی ہوئی ہے اور چونکہ بچپن سے ہی مجھے بوٹ پہننے کی عادت ہے اس لئے ایسا کبھی اتفاق نہیں ہوا لیکن حضرت مسیح موعود کے ساتھ تو اکثر ایسا ہوا کہ چلتے چلتے آپ کو ٹھو کر گئی اور کوئی دوسرا دوست بتاتا کہ حضور نے گرگابی الٹی پہنی ہوئی ہے اور آخر آپ نے انگریزی جوتی پہنی بالکل ترک کر دی.تو انسانی دماغ جب ایک طرف سے فارغ ہو بھی دوسرا کام کر سکتا ہے.اگر ہم اپنے دماغ کو ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف لگا دیں تو اسلام کی ترقی کے کام کب ہم کر سکیں گے ؟ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے کھانے اور لباس میں انسان کو سادگی کا حکم دیا تا کہ وہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھنے کی بجائے اہم امور کی طرف توجہ کرے.پس لباس کے متعلق بھی میں سمجھتا ہوں کہ جو قیود میری طرف سے عائد کی گئی تھیں ان کا قائم رہنا ضروری ہے.فیتوں کے متعلق بھی بعض دوستوں نے دریافت کیا ہے کہ آیا اس کے متعلق عورتوں پر جو پابندی عائد کی گئی تھی اس کا وقت گزر گیا ہے یا ابھی جاری ہے ؟ سو اس کے متعلق میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ پابندی بہر حال قائم ہے کیونکہ کپڑے خواہ کتنے گراں ہوں ایک لمبے عرصہ تک کام دے سکتے ہیں مگر فیتے چونکہ لباس پر صرف ٹانکے جاتے ہیں اور ہر روز بدلے جاسکتے ہیں اس لئے ہر نئے فیشن کو دیکھ کر عورتیں ریجھ جاتی ہیں اور نیا فیتہ خرید کر پہلے فیتے کی جگہ لگا لیتی ہیں اور میرا تجربہ ہے کپڑوں پر اتنی قیمت نہیں لگتی جتنی کہ ایک فیشن پرست عورت کے فیتوں پر کیونکہ فیتے بدلتے چلے جاتے ہیں.پس مجھے کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ میں اس میں تغیر کروں بلکہ میں کہتا ہوں ہمیں آہستہ آہستہ ابھی بعض اور قید میں اس بارہ میں بڑھانی پڑیں گی.لیکن چونکہ میں ابھی تک ان امور کے متعلق غور کر رہا ہوں اس لئے ابھی ان کا ذکر نہیں کرتا.زیورات کے متعلق میں یہ اجازت دے چکا ہوں کہ شادی بیاہ کے موقعہ پر نیاز یور بنوانا جائز ہے 544

Page 557

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 4 فروری 1938ء اس کے علاوہ کسی موقعہ پر نہیں اور در حقیقت زیور اپنی ذات میں کوئی ایسی چیز بھی نہیں کہ شادی کے بعد خاص طور پر بنوایا جائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں خاص طور پر زیور بنوانے کا کوئی رواج نہیں تھا ہاں ٹوٹے پھوٹے زیور کی مرمت کی اجازت میں پہلے بھی دے چکا ہوں اور اب بھی وہ اجازت قائم ہے لیکن ٹوٹے پھوٹے زیور بنوانے کے یہ معنی نہیں کہ ایک زیور تڑوا کر دوسر از یور بنوا لیا جائے بلکہ یہ مطلب ہے کہ ٹوٹے ہوئے زیور کی محض مرمت کرائی جائے.مجھے معلوم ہے کہ عورتیں زیورات کو توڑ پھوڑ کر بعض دفعہ زیور کی قیمت سے بھی زیادہ اس پر خرچ کر دیتی ہیں.پس تو ڑنے پھوڑنے کی مرمت سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ گلے کا زیور ہاتھ کا بنالیا جائے اور ہاتھ کا زیور گلے کا بلکہ اس سے مراد صرف ٹوٹے ہوئے زیور کی معمولی مرمت ہے تا کہ وہ کام دے سکے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں گوزیور کے لئے سونا بھی کم ہوتا تھا مگر اس فرق کو مد نظر رکھتے ہوئے بھی زیور کا جس قدر رواج تھا کہا جاسکتا ہے کہ سونے کی نسبت سے بھی کم تھا.اس وقت زیورات کی اتنی کمی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیوی کے متعلق آتا ہے کہ ان کا زیور محض یہ تھا کہ ان کے پاس ایک ہار تھا جو لونگوں اور بعض دوسرے خوشبودار بیجوں سے بنا ہوا تھا اور وہ بھی کسی سے عاریتاً کیا ہوا تھا.ہمارے ملک میں بھی بعض زمیندار عورتیں کھوپرے کے ٹکڑوں اور خربوزوں کے بیجوں کے بار بنا لیتی ہیں.اسی طرح انہوں نے بھی خوشبو کیلئے مختلف قسم کی بیجوں اور لونگوں کو اکٹھا کر کے ایک ہار بنا لیا ہوا تھا.در حقیقت زیور اقتصادی لحاظ سے ایک نہایت ہی مضر چیز ہے کیونکہ اس میں قوم کا پیسہ بغیر کسی فائدے کے پھنس جاتا ہے اور دراصل یہی وہ سونا چاندی اکٹھا کرنا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جو لوگ سونا چاندی اکٹھا کرتے ہیں قیامت کے دن اس سونا چاندی کو گرم کر کے ان کے جسم پر داغ لگایا جائے گا.یوں قرآن مجید روپیہ رکھنے کی ممانعت نہیں کرتا.اگر روپیہ جمع کرنا منع ہوتا تو اسلام میں زکوٰۃ کا مسئلہ بھی نہ ہوتا.پس روپیہ جمع کرنا منع نہیں بلکہ ایسا روپیہ جمع کرنا منع ہے جو دنیا کو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے.ایک شخص کے پاس اگر دس لاکھ روپیہ ہو اور وہ تجارت پر لگا ہوا ہو تو پانچ دس سولوگ ایسے ہوں گے جو اس کے روپیہ سے فائدہ اٹھا رہے ہوں گے.پس بڑے تاجر کا روپیہ یا بڑے زمیندار کا روپیہ بند نہیں کہلا سکتا.مثلاً ایک زمیندار کے پاس اگر دو چار سو ایکڑ زمین ہے تو چونکہ وہ اکیلا اس زمین میں بل نہیں چلا سکے گا اس لئے لازماًوہ اور لوگوں کو نوکر رکھے گا اور اس طرح بارہ تیرہ آدمی بلکہ 545

Page 558

خطبہ جمعہ فرمودہ 4 فروری 1938ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول به شمولیت بیوی بچوں کے ساٹھ ستر آدمیوں کا اس کی زمین سے گزارہ چلے گا اور تمام قوم کو فائدہ پہنچے گا لیکن اگر وہ سود وسو ایکڑ زمین کی بجائے اتنی رقم کا سونا خرید کر گھر میں رکھ لیتا ہے تو کسی ایک شخص کو بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.تو اپنے روپیہ کو ایسے استعمال میں نہ لانا جس کا دنیا کو فائدہ پہنچے اسلام سخت نا پسند کرتا ہے اور ایسے لوگوں کو ہی قیامت کے دن سزادینے کا خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر کیا ہے.چونکہ زیورات کے ذریعہ بھی روپیہ بند ہو جاتا ہے اور قوم کے کام نہیں آتا اس لئے زیورات کی کثرت بھی ناپسندیدہ امر ہے.ہاں عورت کی اس کمزوری کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ وہ زیور پسند کرتی ہے اور جس کا قرآن کریم نے بھی يُنَشَّوا فِي الْحِلْيَةِ میں ذکر فرمایا ہے.اسے تھوڑا سا زیور پہننے کی اجازت ہے.اسی طرح ریشم اللہ تعالیٰ نے مردوں کیلئے منع کیا ہے مگر عورتوں کے لئے اس کا پہننا جائز رکھا ہے.اس طرح اسلام نے عورت کا یہ حق تسلیم کیا ہے کہ وہ کچھ زیور پہن کر اور کچھ ریشمی لباس میں ملبوس ہو کر زیب وزینت کر سکتی ہے.اس لئے میں نے یہ اجازت دی ہے کہ شادی بیاہ کے موقعہ کچھ زیور بنوا لیا جائے لیکن اس کے بعد کسی نئے زیور کے بنوانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی سوائے خاص حالات اور اجازت کے.ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ ٹوٹے پھوٹے زیور کی مرمت کر والی جائے کیونکہ زیورات ملک کی تجارت اور زراعت اور صنعت و حرفت کی ترقی میں سخت روک ہیں اور اس طرح ملک کا کروڑوں روپیہ بغیر کسی فائدہ کے بند پڑا رہتا ہے اور کسی قومی یاملکی فائدہ کیلئے استعمال نہیں ہو سکتا.ایک عورت اگر اپنے پاس دس ہزار روپے کا زیور بھی رکھ لیتی ہے تو کسی اور کو اس سے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے لیکن اگر وہ دس ہزار روپیہ تجارت میں لگا دیتی ہے اور پندرہ ہیں آدمی پرورش پا جاتے ہیں تو اس سے ملک اور قوم کو بہت بڑا فائدہ پہنچے گا اور اس صورت میں اس کو بھی نفع ملے گا لیکن یہ نفع دوسروں کو نفع میں شامل کر کے ملے گا اس لئے شریعت اس کی اجازت دے گی.تو اسلام روپیہ کے استعمال کی وہ صورت پسند کرتا ہے جسے لوگ استعمال کریں وہ صورت پسند نہیں کرتا کہ جس میں آنکھیں اسے دیکھ دیکھ کر لذت حاصل کریں مگر لوگ اس کے فائدہ سے محروم رہیں.پس زیورات کے بنوانے میں جس قدر احتیاط کی جاسکے وہ نہ صرف امارت و غربت کا امتیاز دور کرنے کے لئے ، نہ صرف مذہبی احکام کی تعمیل کرنے کیلئے بلکہ اپنے ملک کو ترقی دینے کیلئے بھی نہایت ضروری ہے.پس یہ احکام ایسے نہیں جنہیں بدلنے کی ضرورت ہو بلکہ ہو سکتا ہے کہ کسی وقت ان میں زیادہ بختی کی ضرورت پیش آجائے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر حکومت مسلمان ہو یا اسلامی احکام کے نفاذ کی اجازت اس کی طرف سے ہو تو ایسی کئی قیود لگانی پڑیں گی جن کے ماتحت افراد کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچ 546

Page 559

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 4 فروری 1938ء سکے کیونکہ اسلام کا منشا یہ ہے کہ دنیا کے ہر انسان کو کھانا ضرور مہیا ہو، پانی ضرور مہیا ہو ، لباس ضرور مہیا ہو اور مکان ضرور مہیا ہو اور جب بھی اسلام کا یہ مقصد پورا ہوگا لازماً امیروں کے ہاتھ سے دولت چھنے گی کیونکہ اگر دولت بعض لوگوں کے ہاتھ میں بے اندازہ طور پر چلی جائے تو حکومت سب کے لئے کھانا، پینا، لباس اور مکان کس طرح مہیا کرسکتی ہے پس جب بھی اسلامی حکومت قائم ہوئی اسے ضرور ایسے تغیرات کرنے پڑیں گے جن کے ماتحت ہر شخص کے لئے کھانا، پینا، کپڑا اور مکان مہیا ہو سکے بلکہ اس زمانہ کی ضرورتوں کے لحاظ سے ایک اور چیز بھی اس میں شامل کرنی پڑے گی اور وہ علاج ہے.اس زمانہ میں بیماریوں کا علاج اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ میرے نزدیک علاج بھی حکومت کے ذمہ ہونا چاہئے اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے بتایا ہے کہ تعلیم بھی اسی میں شامل ہے.چنانچہ بدر کے موقعہ پر جب کفار کے بہت سے قیدی آئے تو ان میں سے بعض پڑھے لکھے تھے.انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم مدینہ کے بچوں کو پڑھا دو تو تمہاری طرف سے یہی فدیہ سمجھا جائے گا.اور تمہیں اس کے بدلہ میں رہا کر دیا جائے گا.تو تعلیم ، علاج، کھانا، پینا، کپڑا اور مکان یہ دنیا کے تمام لوگوں کو میسر آنا چاہئے اور اگر کوئی ملک ایسا ہے جس میں ایک شخص تو اپنا علاج کر سکتا ہے مگر دوسرا بیماری سے ہر وقت کراہتا رہتا ہے ایک شخص تو اپنے لئے کپڑا مہیا کر سکتا ہے مگر دوسرا سردیوں اور گرمیوں میں ننگے بدن پھرتا ہے.ایک شخص تو مکان میں رہتا ہے مگر دوسرے کو اپنا سر چھپانے کے لئے ایک جھونپڑی بھی میسر نہیں تو وہ ملک کبھی جنت نہیں کہلا سکتا بلکہ وہ دوزخ ہے.ہزاروں آدمی ہمارے ملک میں ایسے ہیں جو بڑھے ہو جاتے ہیں.ان کی بیوی پہلے فوت ہو چکی ہوتی ہے اور ان کا کوئی بچہ نہیں ہوتا جو ان کی خبر گیری کرے وہ اکیلے اپنی کوٹھری میں دن رات پڑے رہتے ہیں.نہ انہیں روٹی دینے والا کوئی ہوتا ہے، نہ انہیں پانی دینے والا کوئی ہوتا ہے، نہ ان کی بلغم اٹھانے والا کوئی ہوتا ہے، نہ ان کا علاج کرنے والا کوئی ہوتا ہے.یہ کتنے غضب اور کتنی لعنت کی بات ہے اس قوم کے لئے جس قوم میں ایسے افراد موجود ہوں.مگر یہ تمام باتیں اسلامی طریق عمل اختیار کرنے سے ہی دور ہو سکتی ہیں اس کے بغیر نہیں اور اس وقت لازمی طور پر ان ٹیکسوں پر حکومت کا گزارہ نہیں ہو سکے گا جو ٹیکس حکومت کی طرف سے اب موصول کئے جاتے ہیں.پس اس وقت اسلامی حکومت کو بعض نئے ٹیکس لگانے پڑیں گے اور امرا سے زیادہ روپیہ وصول کرنا پڑے گا جیسا کہ اسلامی اصول اس بارے میں موجود ہیں اور پھر اس روپیہ سے غربا کی خبر گیری کرنی پڑے گی لیکن جب تک اسلامی حکومتیں قائم نہیں ہوتیں ہمیں اس مقصد کے لئے تیاری تو کرنی چاہئے.ہمیں کیا پتہ کہ کب خدا تعالی 547

Page 560

خطبہ جمعہ فرموده 4 فروری 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول حاکموں کے دلوں کو اسلام کی طرف پھیر دے اور وہ دوڑتے ہوئے اسلامی احکام کو دنیا میں قائم کرنے لگ جائیں.فرض کرو کہ ایک دن ایسا آتا ہے جب ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ بھی اور وزرا بھی اور امرا بھی اور بڑے بڑے جرنیل بھی سب اسلام قبول کرنے کیلئے تیار ہیںتو بتاؤ کیا ہم اس وقت تیاری کریں گے یا ہمیں آج سے ہی تیاری شروع کر دینی چاہئے؟ پس ہمیں اس عظیم الشان مقصد کیلئے جس کو پورا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے اسلام کو قائم کیا ہے تیار رہنا چاہئے اور تجربہ سے ان احکام کی باریکیوں کو پہلے سے دریافت کر چھوڑ نا چاہئے اور اپنی قربانیوں سے اسلام کے احکام کو عملی رنگ دیتے چلے جانا چاہئے.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ بادشاہوں اور حاکموں کے دلوں کو اسلام کی طرف پھیر دے اور پھر وہ اسلامی احکام کے اس حصہ کی تکمیل شروع کر دیں جس کی تکمیل کرنی اس وقت ہمارے لئے ناممکن ہے.چندوں کی وصولی کا جو طریق موجودہ حالت میں ہم جماعتی طور پر اختیار کئے ہوئے ہیں.وہ یقیناً ایسا نہیں کہ اس سے وہ تمام ضرورتیں پوری ہو سکیں جن ضرورتوں کو پورا کرنا اسلامی حکومت کا فرض ہے.دوسرے موجودہ حالت میں ہمارا بہت سا روپیہ تبلیغ پر خرچ ہو رہا ہے اور ہونا چاہئے.پس ان وجوہ سے ہم قادیان جیسی چھوٹی بستی میں بھی جہاں صرف چند ہزار نفوس ہیں.اس اسلامی طریق کو کہ ہر شخص کو کھانا ، مکان اور لباس وغیرہ بہر حال میسر ہو جاری نہیں کر سکتے بلکہ ابھی تو ہماری یہ حالت ہے کہ ہم کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو جھٹ ایک منافق شور مچانے لگ جاتا ہے اور ہمارا کچھ روپیہ اس منافق کی آواز کو دبانے اور اس کے فتنہ کو دور کرنے میں خرچ ہونے لگتا ہے.پس تحریک جدید کے یہ مطالبات ایسے نہیں کہ جنہیں اب منسوخ کر دیا جائے یا ایک عرصہ کے بعد منسوخ کر دیا جائے.ہاں ان مطالبات میں تغیر ہو سکتا ہے کیونکہ تفصیلات کے متعلق اسلام نے ہر زمانہ کے اہل الرائے پر معاملہ کو چھوڑا ہے اور اجتہاد کی اجازت دی ہے.پس اجتہاد بدل بھی سکتا ہے.لیکن اصول بہر حال یہی رہے گا جو تحریک جدید کے مطالبات میں ہے کہ سادہ زندگی اختیار کرو، سادہ کھانا کھاؤ ، سادہ لباس پہنو اور آرائش و زیبائش کے سامانوں سے الگ ہو جاؤ کیونکہ اسلام کا تقاضا ہم سے یہ ہے کہ ہمارا روپیہ زیورات وغیرہ کی صورت میں بند نہ ہو بلکہ قوم کے فائدہ کے کاموں پر لگا ہوا ہو، اسلام کا تقاضا ہم سے یہ ہے کہ امیر اور غریب میں کوئی فرق نہ رہے، اسلام کا تقاضا ہم سے یہ ہے کہ ہم آپس میں بھائی بھائی بن کر رہیں، اسلام کا تقاضا ہم سے یہ ہے کہ ہماری ایک دوسرے سے ایسی محبت والفت ہو کہ ہم ایک دوسرے سے پرے پرے نہ رہیں اور یہ نہ سمجھیں کہ ہم کچھ اور چیز ہیں اور وہ کچھ اور چیز ہے.548

Page 561

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 4 فروری 1938ء میں ایک دفعہ گورداسپور کا فارم دیکھنے گیا.اس فارم کا جو افسر ہوتا ہے اس کا عہدہ ڈپٹی کلکٹر کے برا بر ہوتا ہے.اس افسر نے مجھے تمام فارم دکھایا لیکن میں نے دیکھا کہ سڑک پر چلتے چلتے جب زمیندار سامنے آجاتے تو وہ اسے فرشی سلام کر کے کود کر ایک طرف ہو جاتے.تھوڑی دیر کے بعد میں نے انہیں ہنس کر کہا کہ آپ کے صیغے کا کوئی فائدہ نہیں.کہنے لگے کیوں؟ میں نے کہا جن زمینداروں کے فائدے کے لئے آپ یہ کام کر رہے ہیں ان کی حالت تو یہ ہے کہ وہ آپ کو دور سے دیکھتے ہی کود کر الگ ہو جاتے ہیں.بھلا ایسے لوگ آپ سے کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور آپ ان کو کیا فائدہ پہنچا سکتے ہیں؟ چنانچہ اس کے بعد میں نے سرایڈورڈ میکسیکن کو جو اس وقت گورنر پنجاب تھے چٹھی لکھی کہ میں نے آپ کے ایک محکمہ کا اتفاقاً ملاحظہ کیا ہے.جس کے ماتحت مجھ پر یہ اثر ہے کہ اس محکمہ کا کوئی فائدہ نہیں اگر آپ زمینداروں کو فائدہ پہنچانے کی حقیقی خواہش رکھتے ہیں تو اس کا طریق صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ آپ چھوٹی چھوٹی تنخواہوں والے افسر مقرر کریں جو گاؤں میں جائیں اور زمینداروں سے مل جل کر کام کریں اور انہیں بل چلا کر بتا ئیں اور نئے طریق زراعت کی طرف ان کی طبائع کو مائل کریں اس کا کوئی فائدہ نہیں کہ بڑی تنخواہ والا افسر آپ نے مقرر کر دیا ہے.جس کی شکل دیکھتے ہی زمیندار کو دکر پرے ہو جاتے ہیں.چنانچہ انہوں نے میری اس تجویز کو بہت پسند کیا اور لکھا کہ میں اس پر غور کروں گا.چنانچہ اب چھوٹے چھوٹے افسر مقرر ہیں جو کھیت میں ہل چلا کر اور بیج بو کر زمینداروں کو دکھا دیتے ہیں.گو اب بھی اس سے پورا فائدہ نہیں پہنچ رہا مگر بہر حال اب چھوٹے افسر بھی مقرر ہو گئے ہیں اور زمیندار آسانی سے ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں مگر اُس وقت صرف ڈپٹی ہی ڈپٹی ہوتا تھا کوئی چھوٹا افسر نہیں ہوتا تھا.غرض اسلام یہ چاہتا ہے کہ بنی نوع انسان میں امتیاز کم ہواور محبت اور میل جول زیادہ ہو.ایک دفعہ ایک نہایت ہی غریب شخص نے میری دعوت کی ، میں گیا.اس بے چارے کے پاس کوئی سامان نہ تھا.اس نے ایک چارپائی بچھا دی اور اس پر مجھے بٹھا کر شور با روٹی جو اسے میسر تھا اس نے میرے سامنے رکھ دیا.اتفاق سے ایک باہر کے دوست بھی اس وقت میرے ساتھ چل پڑے.جب میں کھانا کھا کر باہر نکلا تو وہ مجھے کہنے لگے کہ کیا آپ ایسے غریب کی دعوت بھی قبول کر لیا کرتے ہیں؟ میں نے کہا اگر میں اس غریب شخص کی دعوت قبول نہ کرتا اور انکار کر دیتا تو آپ ہی یہ اعتراض کرنے والے ہوتے کہ یہ امیروں کی دعوت قبول کر لیتے ہیں غریبوں کی دعوت قبول نہیں کرتے.مگر اب جبکہ میں نے دعوت قبول کر لی ہے تو آپ کے خیال نے یہ صورت اختیار کر لی ہے کہ ایسے غریب کے ہاں کھانا کھانا تو ظلم ہے.میں 549

Page 562

خطبہ جمعہ فرمودہ 4 فروری 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول نے کہا کہ اس کے ہاں کھانا کھانا ظلم نہیں تھا بلکہ انکار کر ناظم تھا کیونکہ میرے انکار سے یہ ضرور محسوس کرتا کہ میں چونکہ غریب ہوں اس لئے انکار کیا گیا ہے.پس جو اعتراض اس دوست نے کیا اس کے بالکل الٹ اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے.اسلام یہ کہتا ہے کہ کوئی ایسی امارت نہ ہو جو غربت کو حقارت کی نگاہوں سے دیکھے اور کوئی ایسی غربت نہ ہو جو غریب کے لئے وبال جان بن جائے.یہ خیال بہت دور کا ہے.ایسا ہی دور جیسے دنیا میں جنت کا خیال.مگر ایک دفعہ اسلام اس مقصد کو پورا کر چکا ہے اور اب دوسری دفعہ اس مقصد کا پورا ہونا ناممکن نہیں.پس ضرورت ہے کہ ہم اس عظیم الشان مقصد کے لئے داغ بیل ڈالیں اور اس عظیم الشان محل کی بنیادیں رکھ دیں جس کی تعمیر اسلام کا منشا ہے.بے شک ہمارے لئے بہت بڑی دقتیں ہیں.ہم دوسروں کے محکوم ہیں اور ہمارے لئے ان قواعد کی پابندی لازمی ہے اور بعض دفعہ ہماری ایک نیک خواہش کا بھی وہ یہ مفہوم لے لیتے ہیں کہ گویا ہم بادشاہ بننا چاہتے ہیں.حالانکہ ہم بادشاہ نہیں بلکہ خادم بننا چاہتے ہیں لیکن بنی نوع انسان کی خدمت کیلئے ابھی لازمی ہے کہ کوئی قانون جاری کیا جائے.اس قانون کا نام بادشاہت کی خواہش رکھ لینا انتہائی نادانی اور نا واقفیت ہے.ہماری غرض صرف یہ ہے کہ ایسے اصول دنیا میں جاری کر دیں.جن کے ما تحت امارت و غربت کا امتیاز جاتا رہے اور بنی نوع انسان کو نہایت آرام سے خدا تعالیٰ کے ذکر اور اپنی ترقی کے لئے جدو جہد کرنے کا موقع مل جائے.کئی چیزیں ایسی ہیں جن کے متعلق میری خواہش ہے کہ انہیں اس وقت دور کر دینا چاہئے مگر وہ چونکہ حکومت سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے انہیں دور نہیں کیا جا سکتا اگر اسلامی حکومت ہوتی تو میں کہتا کہ ان باتوں کو ابھی دور کر دو مگر چونکہ حکومت غیر ہے اس لئے محبت، پیار اور آہستگی کے ساتھ قدم آگے بڑھانا ضروری ہے اور اس دن کا انتظار کرنا چاہئے جب اللہ تعالیٰ ہمارے حاکموں کے دلوں کو کھول دے ورنہ ان احکام کی ضرورت آج بھی اسی طرح قائم ہے جس طرح آج سے تیرہ سوسال پہلے قائم تھی.سادہ زندگی کے متعلق آج کل ہمیں ایک اور نقطہ نگاہ سے بھی غور کرنا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ یہ ایام سلسلہ کیلئے سخت نازک ہیں اور جماعت نے کئی قسم کے چندوں کے وعدے کئے ہیں جن کا اثر ایک دو سال تک رہے گا.پس اس لحاظ سے یہ نہایت ہی ضروری امر ہے کہ سادہ زندگی اختیار کی جائے.اگر ایک باپ کا اپنے بچوں کے اخراجات پر یا خاوند کا اپنی بیوی کے زیورات پر اسی طرح روپیہ خرچ ہو رہا ہو جس طرح پہلے خرچ ہوا کرتا تھا تو اسے دین کی خدمت کا موقع کس طرح مل سکتا ہے.اگر وہ زیورات پر روپیہ خرچ 550

Page 563

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 4 فروری 1938ء کرے گا تو دین کی خدمت سے محروم رہے گا اور اگر دین کے لئے روپیہ دے گا تولازماً اسے سادہ زندگی اختیار کرنی پڑے گی اور بعض قیود اپنے اوپر عائد کرنی ہوں گی.پس اس زمانہ میں ان مطالبات پر عمل کرنا بہت زیادہ ضروری ہے اور پہلے سے بھی زیادہ ضروری ہے.میں جہاں تک سمجھتا ہوں جماعت کا ایک بڑا حصہ دیانتداری سے ان احکام پر عمل کرنے کی کوشش کر رہا ہے.امرا میں سے بھی اور غربا میں سے بھی اور بعض ست بھی ہیں.مجھے بعض امرا ایسے معلوم ہیں جنہوں نے سختی سے ان مطالبات پر عمل کیا ہے اور سادہ زندگی کے متعلق اپنے اوپر قیود عائد کی ہیں اور مجھے بعض ایسے غربا معلوم ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ ایک کھانا کھانا! یہ کون سی شریعت کا حکم ہے؟ حالانکہ یہ محض ان کے فائدہ کی بات تھی اور پھر وہ تو پہلے ہی ایک کھانا کھایا کرتے تھے.انہیں تو چاہئے تھا کہ اس مطالبہ کی تائید کرتے نہ کہ مخالفت مگر انہوں نے مخالفت کی اور اس پر عمل نہ کیا.گویا ان لوگوں کی مثال جنہوں نے غربا میں سے اس مطالبہ پر عمل نہ کیا ویسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کسی شخص کے دوست کی کتیا نے بچے دیئے.اسے معلوم ہوا تو وہ اس کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ کی کتیا نے بیچے دیئے ہیں.اگر آپ کو تکلیف نہ ہو تو ایک کتیا کا بچہ مجھے دے دیں کیونکہ مجھے مکان کی نگرانی کے لئے اس کی ضرورت ہے.وہ کہنے لگا کہ بھئی بچے تو مر گئے ہیں لیکن اگر زندہ بھی ہوتے تو میں تمہیں نہ دیتا.وہ کہنے لگا کہ اب تو خدا نے بچے مار دیئے تھے یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ اگر زندہ ہوتے تو بھی نہ دیتا؟ اسی طرح وہ غربا تو پہلے ہی ایک کھانا کھاتے ہیں وہ اگر ایک کھانا کھانے کی ہدایت پر اعتراض کریں تو ان کا اعتراض محض بے وقوفی ہے.انہیں تو چاہئے تھا کہ وہ امرا کے خلاف شور مچاتے اور کہتے کہ فلاں فلاں امیر اس پر عمل نہیں کرتا اور وہ ایک سے زائد کھانے کھاتا ہے.نہ یہ کہ وہ اس بات پر اعتراض کرتے جس میں خود انہی کا فائدہ ہے.اس کے مقابلہ میں میں ایسے امرا کو بھی جانتا ہوں جنہوں نے بعض ہدایات پر عمل نہیں کیا اور ایسے غربا کو بھی جانتا ہوں جنہوں نے خاص قربانی کر کے بعض ہدایات پر عمل کیا ہے اور جنہیں مہینوں ایک کھانا کھانے کے بعد جب کسی وقت اتفاقی طور پر دو کھانے ملے تو انہوں نے ایک کھانا ہی کھایا اور دوسرا کھانا چھوڑ دیا.ان کی قربانی یقینا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت شاندار قربانی ہے اور وہ اس کے اجر سے محروم نہیں رہیں گے.یاد رکھو کہ اس وقت ہمارے ارد گر داتنے ابتلاؤں کے سامان ہیں کہ ہمیں سپاہیانہ طور پر زندگی بسر کرنی چاہئے اور اپنی تمام زندگی کو مختلف قسم کی قیود کے ماتحت لانا چاہئے.دنیا چاہتی ہے کہ احمدیت کو متادے لیکن خدا یہ چاہتا ہے کہ احمدیت کو قائم کرے اور یقیناً ویسا ہی ہوگا جیسا کہ خدا تعالیٰ کا منشا ہے مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ تم سچے مسلمان بن کر اپنے اندر ایسی 551

Page 564

خطبه جمعه فرموده 4 فروری 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول سادگی پیدا کرو جو تمہارے اندر مساوات پیدا کر دے، جو تمہارے اندر اخلاق فاضلہ پیدا کر دے ، جو تمہارے اندر الفت و محبت پیدا کر دے اور جو تمہارے اندر برادرانہ اخوت و تعلق پیدا کرنے کا موجب بن جائے تا اس کے بعد ایک طرف سے اللہ تعالیٰ کی نصرت نازل ہو تو دوسری طرف سے خود تمہارے اندر ایسی طاقت اور قوت پیدا ہو جائے کہ جو بھی تمہارے سامنے آئے اسے اپنے آگے سے بھگا دو.دیکھو پہلوان جب اپنے شاگردوں کو کشتی لڑنا سکھاتے ہیں تو گو ان کے شاگر د دس دس بیس بیس ہوتے ہیں مگر وہ اکیلے سب کو گرا لیتے ہیں.اسی طرح اگر تم بھی مجاہدات کرو گے تو تمہارے اندر ایسی طاقتیں پیدا ہو جائیں گی کہ تم دس دس بیس بیس دشمنوں کا مقابلہ کر سکو گے.جس طرح دنیوی ریاضات کے نتیجہ میں ایک ایک جسم دس دس جسموں کو گرا لیتا ہے اسی طرح جب روحانی ریاضات کی جاتی ہیں تو اپنی اپنی ریاضت اور اپنے اپنے مجاہدہ کے مطابق کوئی روح دس روحوں کو گرا لیتی ہے، کوئی بیس کو گر الیتی ہے، کوئی پچاس کو گرا لیتی ہے، کوئی س کو گر الیتی ہے، کوئی ہزار کوگر الیتی ہے اور جب کسی قوم میں زبر دست روحانی طاقت وقوت پیدا ہو جائے، اس وقت تعداد کا سوال بالکل اہمیت کھو بیٹھتا ہے.اس وقت یہ نہیں پوچھا جاتا کہ دشمن ایک کے مقابل پر دس ہیں یا ہیں بلکہ ایسی روحانی طاقت حاصل کرنے والی قوم کے تھوڑے سے آدمی ساری دنیا پر غالب آ جاتے ہیں.مثل مشہور ہے کہ ایک دفعہ چوہوں نے شور کیا کہ بلی کو پکڑ کر قید کر دیا جائے.دس ہیں نے کہا کہ ہم اس کا کان پکڑ لیں گے، دس میں نے کہا کہ ہم اس کی دم پکڑ لیں گے، دس ہیں نے کہا ہم اس کی ٹانگوں سے چمٹ جائیں گے.اس طرح سینکڑوں چو ہے تیار ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ آج بلی آئی تو ہم اسے جانے نہیں دیں گے.یہ سب باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ ایک بڑے چوہے نے کہا کہ تم سب کچھ پکڑ لو گے مگر یہ تو بتاؤ کے اس کی میاؤں کو کون پکڑے گا ؟ اتفاقاً اسی وقت ایک کونے میں سے ایک بلی کی آواز آئی جو وہاں چھپی بیٹھی تھی.اس نے ایک میاؤں جو کی تو تمام چو ہے بھاگ کر اپنے اپنے بلوں میں گھس گئے.غرض انسان کے اندر جب غیر معمولی یقین پیدا ہو جائے تو دنیا اس سے دینے لگتی ہے اور یہ ایک صوفیانہ نکتہ ہے جو تمہیں یادرکھنا چاہئے کہ انسان کے اندر ایک میں ہوتی ہے.جب وہ میں پاک ہو جائے تو باقی تمام دنیا کی میں اس کے آگے دب جاتی ہے.اس وقت جسموں اور تعداد کا کوئی سوال نہیں رہتا بلکہ جس طرح ایک شیر کے مقابلہ میں ہزاروں خرگوش کوئی حقیقت نہیں رکھتے اسی طرح ایسی روحانی طاقت رکھنے والے انسان کے سامنے ہزاروں کیا لاکھوں نفوس بھی محض بے حقیقت ہوتے ہیں کیونکہ وہ روحانیت سے خالی ہوتے ہیں اور انہی لوگوں کو پیدا کرنا ہمارا مقصود ہے.ہماری اصل غرض نہ ایک کھانا کھانا ہے، نہ سادہ کپڑا 552

Page 565

تحریک جدید.ایک ابھی تحریک...جلد اول - خطبہ جمعہ فرمودہ 4 فروری 1938ء پہننا ہے نہ یہ ہے نہ وہ بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہمارے اندر ایسی روحانی طاقت پیدا ہو جائے جس کے نتیجہ میں ہم میں اخوت اسلامی پیدا ہو جائے ، ہم میں جرات اسلامی پیدا ہو جائے اور جب وہ پیدا ہوگئی تو ایک طرف ہمارے اندر کوئی فتنہ پیدا نہیں ہو سکے گا اور دوسری طرف دشمن ہمیں دبا نہیں سکے گا کیونکہ ہمارے اندر قوت روحانی کا ایک چشمہ پھوٹ رہا ہوگا اور چشمہ کبھی خشک نہیں ہو سکتا.جس طرح ایک چشمہ سے تم جس قدر پانی نکالو وہ خشک نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کے نیچے سے اور پانی نکل آتا ہے.اسی طرح جو لوگ روحانی اور اخلاقی ورزشوں سے اپنے اندر قوت پیدا کر لیتے ہیں.وہ روحانیات کا چشمہ بن جاتے ہیں.جب دشمن اس میں کچھ پانی چرا کر لے جاتا اور سمجھتا ہے کہ اب پانی ختم ہو گیا تو اس چشمہ کے نیچے سے اور پانی نکل آتا ہے اور وہ ہمیشہ ہی بھرارہتا ہے.پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ سادہ زندگی کی طرف متوجہ ہوں اور بجائے اس کے کہ وہ ان قیود کو کم کرنے کی کوشش کریں انہیں چاہئے کہ وہ زیادہ تعہد کے ساتھ ان مطالبات پر عمل کریں بلکہ جن لوگوں نے گزشتہ سالوں میں عمل کرنے میں کوتاہی کی ہے.انہیں بھی اس طرف لانے کی کوشش کریں تا اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی برکتیں نازل ہوں اور اسلام اور احمدیت کی ترقی کے راستے میں جو مشکلات حائل ہیں وہ دور ہو جائیں اور خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جلال ظاہر ہو.مطبوع الفضل 11 فروری 1938ء) 553

Page 566

Page 567

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول اقتباس از خطبه عید الاضحیه فرموده 11 فروری 1938ء تحریک جدید کے اصول کے پابند بنیں خطبہ عیدالاضحیہ فرمودہ 11 فروری 1938ء بہت سے لوگ ہیں جو وعدے کرتے ہیں مگر انہیں پورا نہیں کرتے ، بہت سے لوگ ہیں جو وعدے کرتے ہیں مگر انہیں میعاد کے آخر میں پورا کرتے ہیں، بہت سے لوگ ہیں جو وعدے کرتے ہیں مگر وعدوں کو پورا کرنے کے سامان بہم نہیں پہنچاتے.میں نے تحریک جدید کے شروع میں ہی کہا تھا کہ اگر تم کوئی وعدہ کرتے ہو تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ تم وہ ماحول بھی پیدا کرو جس کے ماتحت تم اپنے وعدے کو آسانی سے پورا کر سکو.اگر تم صرف ایک ہی کھانا نہیں کھاتے بلکہ کئی عمدہ سے عمدہ کھانے تیار کروا کر کھاتے ہو، اگر تم سادہ کپڑے نہیں پہنتے بلکہ لباس پر بہت سا روپیہ بے جا طور پر صرف کر دیتے ہو اور اس طرح تمہارے پاس کچھ نہیں بچتا تو اگر تم نے تحریک جدید میں سوروپے دینے کا وعدہ کیا ہوا ہے، سوروپی تم نے وصیت کا دینا ہے اور سوروپے تمہارا چندہ عام ہے تو وہ تین سو روپے تم کہاں سے دو گے؟ جب تم نے اس روپے کے لئے کوئی گنجائش ہی نہیں رکھی، جبکہ اپنی آمد کے برابر پہلے سے ہی تم خرچ کر رہے ہو تو تم مزید بوجھ کس طرح اٹھا سکتے ہو.اس صورت میں اگر تم سو یا دوسوروپے کا وعدہ بھی لکھا دیتے ہو تو اس کے یہی معنی ہوں گے کہ تم نے محض نام و نمود کے لئے وعدہ لکھوا دیا.ورنہ تمہاری نیست شروع سے ہی یہی ہے کہ تم وعدہ پورا نہ کرو.پس جب تک کھانے اور پینے اور پہننے اور رہائش کے طریق میں تبدیلی نہیں کی جاتی اس وقت تک کسی مالی قربانی کی توفیق نہیں مل سکتی اور اگر تم ان حالات میں کوئی وعدہ کرتے ہو تو تم خدا تعالیٰ سے تمسخر کرتے ہو اور پھر اگر یہ وعدہ میعاد کے اندر پورا بھی ہو جائے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے پورا ہوگا.تمہارے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ تم نے اس کیلئے کوئی تیاری نہیں کی تھی.پھر جس قسم کی مالی مشکلات میں سے ہمارا سلسلہ گزر رہا ہے ان کی موجودگی میں ہماری موجودہ مالی قربانیاں ہرگز کافی نہیں ہیں اور ہم ان کاموں کو کبھی بھی ایک لمبے عرصہ تک جاری نہیں رکھ سکتے.اس کے لئے ہمیں اپنے بجٹوں پر دوبارہ غور کرنا پڑے گا اور ہمیں اپنے طریق تبلیغ پر بھی نظر ثانی کرنی پڑے گی 555

Page 568

اقتباس از خطبه عید الاضحیه فرموده 11 فروری 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول اور ہمیں اپنے سارے کارکنوں سے ایسے رنگ میں قربانی لینی پڑے گی جس رنگ میں ان سے پہلے کبھی قربانی کا مطالبہ نہیں کیا گیا اور میں سمجھتا ہوں کہ مالی دقتوں کے لحاظ سے اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے مبلغین سے بھی یا تو آنریری طور پر خدمت لیں یا اس صیغہ کو بالکل بند کر دیں.آخر تحریک جدید میں جو مبلغین کام کر رہے ہیں وہ آنریری کام کر رہے ہیں اور یا پھر نہایت قلیل گزارہ لے رہے ہیں.پس کوئی وجہ نہیں کہ اگر تحریک جدید کے مجاہد اس قدر قلیل گزاروں پر کام کر سکتے ہیں تو دوسرے مبلغین کام نہ کر سکیں اور اگر حالات پیدا ہوں تو ان کے سابقہ طریق میں تغیر نہ کیا جائے.اسی طرح بیرونی جماعتوں میں جو سلسلہ کے کارکن ہیں ان کے لئے بھی مزید قربانیوں کے دروازے کھولے جائیں گے مگر وہ یا درکھیں کہ ان کو اسی وقت ان قربانیوں کی توفیق ملے گی جب وہ تحریک جدید کے اصول کے پابند ہوں گے.اگر وہ ان اصول کی پیروی نہیں کریں گے تو انہیں قربانی کی توفیق ہر گز نہیں ملے گی کیونکہ جو شخص تیاری نہیں کرتا وہ امتحان میں کامیاب نہیں ہوسکتا.“ ( مطبوع الفضل 15 مارچ 1938ء) 556

Page 569

زیک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول الی تحریک...جلد اقتباس از خطبه جمعه فرموده یکم اپریل 1938ء تحریک جدید میں کامیابی عورتوں اور بچوں کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتی وو خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اپریل 1938ء ایسے ذرائع کو اختیار کرنا چاہئے جن سے قوم کے دماغ کی تربیت ہوا اور خصوصاً نوجوانوں کے دماغ کی تربیت ہو کیونکہ زیادہ تر کاموں کی ذمہ داری آئندہ نوجوانوں پر ہی پڑنے والی ہوتی ہے.اگر نو جوانوں میں بری باتیں پیدا ہو جائیں.مثلاً سکھے پن کی عادت پیدا ہو جائے یا ستی کی عادت پیدا ہو جائے یا جھوٹ کی عادت پیدا ہو جائے تو یقیناً آج نہیں تو کل وہ قوم تباہ ہو جائے گی.بالخصوص جھوٹ تو ایسا خطرناک مرض ہے کہ یہ انسان کے ایمان کو جڑ سے اکھیڑ دیتا ہے.بعض دفعہ پندرہ پندرہ سال تک ہم ایک شخص کے متعلق یہ سمجھتے رہتے ہیں کہ وہ بڑا بزرگ اور راستباز انسان ہے مگر پھر پتہ لگتا ہے کہ وہ بڑا کذاب ہے.دیکھتا کچھ ہے اور بیان کچھ کرتا ہے مگر یہ باتیں بچپن میں ہی پیدا ہوتی ہیں.پس نو جوانوں میں اگر اس قسم کی باتیں پیدا کر دی جائیں اور ان کے اخلاق کو صحیح رنگ میں ڈھالا جائے تو یقیناً قوم کی ترقی میں بہت مدد مل سکتی ہے.مثلاً میں نے تحریک جدید جاری کی، اس میں اگر غور کر کے دیکھا جائے تو کامیابی عورتوں اور بچوں کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتی.اگر عورتیں اور بچے ہمارے ساتھ تعاون نہ کریں تو یقیناً جماعت کا ایک حصہ اس پر عمل کرنے سے رہ جائے گا لیکن اگر عور تیں اور بچے اس میں شامل ہوں تو ہمارے کام میں بہت سہولت پیدا ہو سکتی ہے.مثلاً سادہ کپڑے ہیں یا زیورات کی کمی ہے یا ایک خاص عرصہ تک زیور نہ بنوانا ہے.اب جب تک عورتیں اس میں شریک نہ ہوں ان باتوں پر کس طرح عمل ہو سکتا ہے یا ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ہے.اس میں اگر بچے اور نو جوان شریک نہ ہوں تو یہ سکیم کس طرح چل سکتی ہے یا مثلا نکمانہ رہنا ہے.اب نکھے پن کی عادت بچوں میں ہی ہو سکتی ہے بڑے تو اپنی اپنی جگہ کام کر رہے ہوتے ہیں اور ان میں سے کئی آسودہ حال ہوتے ہیں لیکن ان کی نئی نسل یہ کہنا شروع کر دیتی ہے کہ ہمارے ابا نواب، ہمارے ابا فلانے ، ہم فلاں کام کیوں کریں؟ اس میں ہماری ہتک ہے اور پھر تمام خرابیاں اسی سے ہی پیدا ہوتی ہیں.حالانکہ اگر ان کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی جائے 557

Page 570

اقتباس از خطبه جمعه فرموده یکم اپریل 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول اور ان کے قلوب پر اس کا نقش کر دیا جائے کہ جو شخص کام کرتا ہے وہ عزت کا مستحق ہے اور جو کام نہیں کرتا بلکہ نکما رہتا ہے وہ اپنی قوم اور اپنے خاندان کے لئے عار اور نگ کا موجب ہے اور یہ کہ معمولی دولت مند یا زمیندار تو الگ رہے.اگر ایک بادشاہ یا شہنشاہ کا بیٹا بھی نکما رہتا ہے تو وہ بھی اپنی قوم اور اپنے خاندان کے لئے عار کا موجب ہے اور اس چہار کے بیٹے سے بدتر ہے جوکام کرتا ہے، تو یقینا الی نسل درست ہوسکتی ہے اور پھر وہ نسل اپنے سے اگلی نسل کو درست کر سکتی ہے اور وہ اپنے سے اگلی نسل کو.یہاں تک کہ یہ باتیں قومی کریکٹر میں شامل ہو جائیں اور ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جائیں“." تو اولادوں کی درستی اور اصلاح اور نو جوانوں کی درستی اور اصلاح اور عورتوں کی درستی اور اصلاح یہ نہایت ہی ضروری چیز ہے.اگر دوست چاہتے ہیں کہ وہ تحریک جدید کو کامیاب بنا ئیں تو ان کے لئے ضروری ہے کہ جس طرح ہر جگہ لجنہ اماء اللہ قائم ہیں اسی طرح ہر جگہ نو جوانوں کی انجمنیں قائم کریں.قادیان میں بعض نوجوانوں کے دل میں اس قسم کا خیال پیدا ہوا تو انہوں نے مجھ سے اجازت وو حاصل کرتے ہوئے ایک مجلس خدام الاحمدیہ کے نام سے قائم کر دی ہے.“ میں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ تحریک جدید کے اصول پر کام کرنے کی عادت ڈالیں، نوجوانوں کے اخلاق کی درستی کریں، انہیں اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی ترغیب دیں، سادہ زندگی بسر کرنے کی تلقین کریں، دینی علوم کے پڑھنے اور پڑھانے کی طرف توجہ کریں اور ان نوجوانوں کو اپنے ساتھ شامل کریں جو واقعہ میں کام کرنے کا شوق رکھتے ہوں.بعض طبائع صرف چودھری بننا چاہتی ہیں.کام کرنے کا شوق ان میں نہیں ہوتا.ایسوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں“.وو اگر تم ہر بات مجھ سے دریافت کرو گے اور اپنی عقلوں پر زور نہیں ڈالو گے تو تمہارے قوائے دماغیہ کمزور اور بے کار ہو جائیں گے کیونکہ جس عضو سے کام نہ لیا جائے وہ بے کار ہو جاتا ہے.ہاتھ سے کام نہ لیا جائے تو ہاتھ خشک ہو جاتا ہے، دماغ سے کام نہ لیا جائے تو دماغ کمزور ہو جاتا ہے.پس فرماتا ہے اگر تم ہم سے پوچھو گے تو گو ہم تمہیں وہ بات بتادیں گے مگر پھر تم فقہیہ نہیں رہو گے بلکہ نقال بن جاؤ گے.حالانکہ قوم کی ترقی کے لئے فقیہوں کا ہونا نہایت ضروری ہوتا ہے مگر وہ یہ بھی یاد رکھیں کہ کام تحریک جدید کے اصول پر کریں.میں نے بارہا کہا ہے کہ الْإِمَامُ جُنَّةٌ وَيُقَا تَلُ مِنْ وَرَائِهِ تمہارا کام بے شک یہ ہے کہ تم دشمن سے لڑو گے مر تمہارا فرض ہے کہ امام کے پیچھے ہو کر لڑو.558

Page 571

اقتباس از خطبه جمعه فرموده یکم اپریل 1938ء تحریک جدید- ایک الی تحریک...جلد اول پس کوئی نیا پروگرام تمہارے لئے جائز نہیں.پروگرام تحریک جدید کا ہی ہوگا اور تم تحریک جدید کے والٹر ز ہو گے.تمہارا فرض ہوگا کہ تم اپنے ہاتھ سے کام کرو تم سادہ زندگی بسر کرو تم دین کی تعلیم دو تم نمازوں کی پابندی کی نوجوانوں میں عادت پیدا کر و تم تبلیغ کے لئے اوقات وقف کرو اسی طرح ہر جگہ ان کا یہ کام ہوگا کہ وہ سلسلہ کا لٹریچر پڑھیں ، نو جوانوں کو دینی اسباق دیں.مثلاً صبح کے وقت یا کسی اور وقت ایک دوسرے کو پڑھایا جائے ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھنے کے لئے کہا جائے اور پھر ان کا امتحان لیا جائے.اسی طرح وہ خدمت خلق کے کام کریں اور خدمت خلق کے کام میں یہ ضروری نہیں کہ مسلمان غریبوں اور مسکینوں اور بیماروں کی خبر گیری کی جائے بلکہ اگر ایک ہندو یا سکھ یا عیسائی یا کسی اور مذہب کا پیروکسی دکھ میں مبتلا ہے تو تمہارا فرض ہے کہ اس کے دکھ کو دور کرنے میں حصہ لو.“ "" پس یہ مت خیال کرو کہ تمہارے ممبر کم ہیں یا تم کمزور ہو بلکہ تم یہ سمجھو کہ ہم جو خادم احمد بیت ہیں ہمارے پیچھے اسلام کا چہرہ ہے.تب بے شک تم کو خدا تعالی کی طرف سے ایک ایسی طاقت ملے گی جس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکے گا.پس تم اپنے عمل سے اپنے آپ کو مفید وجود بناؤ.“ وو اسی طرح تمہیں چاہئے کہ تم تحریک جدید کے متعلق میرے گزشتہ خطبات سے تمام ممبران کو واقف کرو اور ان سے کہو کہ وہ اور وں کو واقف کریں اور پھر ہر شخص اپنی ماں ، اپنی بہن، اپنی بیوی اور اپنے بچوں کو ان سے واقف کرے.اسی طرح میں لجنات اماءاللہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس رنگ میں کام کریں اور جہاں جہاں لجنہ ابھی تک قائم نہیں ہوئی وہاں کی عورتیں اپنے ہاں لجنہ اماء اللہ قائم کریں اور وہ بھی اپنے آپ کو تحریک جدید کی والٹیر زسمجھیں اور اسلام کی ترقی کے لئے اپنی زندگی کو وقف قرار دیں.اگر تم یہ کام کرو تو گودنیا میں تمہارا نام کوئی جانے یا نہ جانے اور اس دنیا کی زندگی کی حقیقت ہے ہی کیا، چند سال کی زندگی ہے اور بس ؟ مگر خدا تمہارا نام جانے گا اور جس کا نام خدا جانتا ہو اس سے زیادہ مبارک اور خوش قسمت اور کوئی نہیں ہو سکتا.(مطبوعہ الفضل 10 اپریل 1938ء) 559

Page 572

Page 573

یک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 18 جون 1938ء سلسلہ کی تحریکات سے ہر فرد کو آگاہ کرنا اہم قومی فرائض میں سے ہے 55 خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جون 1938ء سلسلہ کی تحریکات سے ہر فرد کو آگاہ کرنا اہم قومی فرائض میں سے ہے.میں نے تحریک جدید کے سلسلہ میں جلسوں کے انعقاد کا اعلان اس سال کے لئے نہیں کیا کیونکہ میں نے محسوس کیا تھا کہ یہ جلسے بھی رسمی ہو کر رہ گئے تھے.لوگ شوق سے شریک نہیں ہوتے تھے.جہاں ساٹھ ستر احمدی ہوئے ان میں سے چند ایک آگئے.میں غور کر رہا تھا کہ اس نقص کا ازالہ کس طرح کیا جائے؟ چنانچہ اس کی اصلاح کی تجاویز پر غور کرنے کے بعد میں نے مناسب سمجھا کہ تحریک جدید کے الگ سیکرٹری ہوں جن کے ذمہ خالص یہی کام ہو.ایک سیکرٹری عام تحریکات کے لئے ہو اور دوسرا سیکرٹری چندوں کیلئے ہو اور ان کا فرض ہو کہ اس تحریک سے نہ صرف جماعت کے ہر فرد کو بلکہ عورتوں اور بچوں کو بھی واقف کریں.اگر چہ اب تک ساری جماعتوں نے سیکرٹری مقرر نہیں کئے مگر ایک معتد بہ حصہ نے سیکرٹری مقرر کر دیئے ہیں.اس لئے اب میں اعلان کرتا ہوں کہ جولائی کے آخری ہفتہ میں جو اتوار آئے یہ 31 جولائی کا دن ہو گا ، اس میں تحریک جدید کے جلسے کئے جائیں اور اس دوران میں متواتر جلسے ہوتے رہیں جن میں اس جلسہ میں لوگوں کو شامل ہونے کے لئے تیار کیا جائے.اس عرصہ میں کم از کم تین جلسے تو ضرور ہی کئے جائیں.ایک مردوں کیلئے ، ایک عورتوں کیلئے اور ایک بچوں کیلئے.پس سیکرٹریان تحریک جدید کا یہ فرض ہے، جس میں اگر دوسرے سیکرٹری بھی مدد دیں تو وہ بھی ثواب میں شریک ہو جائیں گے ، کہ اس بڑے جلسہ تک کم سے کم تین جلسے ایسے کرا دیں جن میں سے ایک خالص عورتوں کیلئے ، ایک خالص مردوں کیلئے اور ایک خالص بچوں کیلئے ہو اور ان میں علیحدہ علیحدہ وہ حصے بیان کئے جائیں جو ان سے تعلق رکھتے ہوں.اگر زیادہ جلسے ہوسکیں تو اور بھی اچھا ہے.جب جماعت کے ان تینوں حصوں کو اچھی طرح تحریک جدید کی اغراض سے واقف کر دیا جائے گا تو پھر بڑا جلسہ کیا جائے اور اس صورت میں امید ہے کہ جماعت کے تمام افراد میں خاص جوش پیدا ہو چکا ہوگا اور وہ اس کی اہمیت سمجھ لینے کی وجہ سے خاص طور پر اس میں حصہ لینے کے لئے تیار ہوں گے اور اس آخری بڑے جلسہ کا جو خواہ مرد عورت کا بالالتزام پردہ 561

Page 574

اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 18 جون 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول مشترک ہو یا الگ الگ بہت فائدہ ہوگا.اب تو یہ حالت ہے کہ مثلا جن باتوں کا تعلق عورتوں سے ہے ہم ان پر زور نہیں دے سکتے کیونکہ مردوں نے ان کو اطلاع بھی نہیں دی.سادہ زندگی اختیار کرنے اور اسراف سے بچنے میں عورتیں بہت بڑی روک ہوتی ہیں اور اگر ہم نے دنیا میں اسلام کے صحیح نقش و نگار کو قائم کرنا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ سب روکوں کو دور کریں میں نے دیکھا ہے کہ چونکہ ہماری جماعت کی عورتوں اور بچوں کی تربیت صحیح رنگ میں نہیں ہوتی اس لئے مرد جب کوئی کام کرنے لگتے ہیں تو وہ ان کے رستہ میں روک ہو جاتی ہیں.اس میں شک نہیں کہ بعض عورتیں مردوں سے بھی بڑھی ہوئی ہیں بلکہ بعض میرے پاس شکایتیں کرتی رہتی ہیں کہ ہمارے مردست ہیں.فلاں مرد نماز نہیں پڑھتا، فلاں چندہ میں ست ہے اور ان میں مردوں سے بھی زیادہ اخلاص ہے.یہ عورتیں اللہ تعالیٰ کے دفتر میں یقیناً اپنے مردوں سے افضل ہیں اور ان کے مرد خدا تعالیٰ کے دفتر میں ان کی رعایا ہیں.اور وہ جبرا ان سے وصول کر کے دیتی ہیں.پس عورتوں اور بچوں کی تربیت اگر صحیح رنگ میں کی جائے تو بہت اچھے نتائج پیدا ہو سکتے ہیں.اس لئے میری یہ تجویز ہے کہ آج سے لے کر جولائی (1938ء) کے آخری ہفتہ تک قادیان کی بھی اور بیرون جات کی بھی تمام جماعتیں جلسے کریں اور تحریک جدید کے مطالبات کی طرف مردوں، عورتوں اور بچوں کو متوجہ کریں اور جنہوں نے چندے لکھوائے ہوئے ہیں ان کو تحریک کریں کہ فوراً ان کو ادا کریں بلکہ کوشش کریں کہ اس جلسہ تک تمام چندے ادا ہو جا ئیں اور جنہوں نے گزشتہ وعدے پورے نہیں کئے ان کو تحریک کریں کہ وہ آئندہ ہی پورے کریں اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں.اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں اگر کسی نے پہلے ستی کی ہے تو وہ آئندہ اس کا ازالہ کر کے آگے بڑھ سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید رضی اللہ عنہ کے متعلق لکھا ہے کہ آپ پیچھے آئے مگر بہتوں سے آگے نکل گئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ پہلے ایمان لائے تھے مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بعد میں ایمان لائے مگر سب سے آگے بڑھ گئے.پس اگر کسی کے اندر کچی تو بہ اور حقیقی ایمان اور تبدیلی پیدا ہو جائے تو وہ اپنی گزشتہ ستوں اور غفلتوں کا ازالہ کر سکتا ہے.ہاں اس کے لئے بہت زیادہ کوشش کی ضرورت ہوتی ہے.اپنے دل کا خون کرنا ہوتا ہے اور اگر چند گھنٹے کے لئے بھی کوئی دل کو خون کر دے تو اللہ تعالیٰ معاف کر دیتا ہے.پس مت 562

Page 575

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 18 جون 1938ء خیال کرو کہ جو گزشتہ سالوں میں اس تحریک میں حصہ نہیں لے سکے ان کے لئے رحمت کے دروازے بند ہو چکے ہیں.تو بہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے.جو شخص نیکی کو شروع کر کے آخر تک لے جاتا ہے یا درمیان میں شامل ہو کر آخر تک لے جاتا ہے وہ کامیاب ہو جاتا ہے.نا کام وہی ہوتا ہے جو رستہ میں چھوڑ کر بیٹھ جاتا ہے.ایسے شخص سے اللہ تعالیٰ بھی کہتا ہے کہ تم نے ہمیں چھوڑ دیا اس لئے ہم تمہیں چھوڑتے ہیں مگر جو وو دیر سے آتا ہے اور تو بہ کرتا اور کوشش کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ سے مل سکے وہ ضائع نہیں کیا جاتا.لوگ آنے والے کو طعنہ دیتے ہیں کہ جھک مار کر واپس آگیا اور کہتے ہیں کہ کم بخت جب طاقت اور ہمت تھی اس وقت تو ساتھ نہ دیا اور اب آیا ہے لیکن جب کوئی گنہ گار تو بہ کر کے اللہ تعالیٰ کے حضور آئے تو وہ اسے یاد بھی نہیں دلاتا کہ تم نے کیا قصور کئے تھے بلکہ خوش ہوتا ہے کہ اس کا کھویا ہوا بندہ واپس آیا.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اس کا نام غفار، ستار اور مُكَفِّرْ عَنِ السَّيِّئَاتِ آیا ہے.غفار کے معنی ہیں کہ وہ معاف کر دیتا ہے اور سزا نہیں دیتا.ستار کے معنی ہیں کہ وہ بندے کے گناہوں کو بعد میں یاد بھی نہیں دلاتا اور مکفر کے معنی ہیں کہ مستقبل میں گناہوں کے بد نتائج کو بھی مٹاڈالتا ہے.مثلاً ایک شخ نے ایسی روٹی کھائی کہ جس کے نتیجہ میں اس کے پیٹ میں درد ہونے والا ہے تو وہ اگر تو بہ کرے تو خدا تعالیٰ ان نتائج کو مٹا دیتا ہے جو اس روٹی سے نکلنے والے تھے اور انسان کے گزشتہ گناہوں کو نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ خود یاد نہیں دلاتا بلکہ دوسرے جن انسانوں کو ان کا علم ہوتا ہے ان کے دلوں سے بھی ان کو مٹا دیتا ہے.پس تم مت خیال کرو کہ تم سے پہلے کوتاہی ہوئی ہے اگر تم سچی توبہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ سب بھلا دے گا بلکہ دوسرے جاننے والوں کے دلوں سے بھی مٹا دے گا.پس دوست جولائی کے آخری اتوار تک جلسے کریں.عورتوں، بچوں اور مردوں کا کم سے کم ایک ایک جلسہ ضرور کیا جائے جن میں تحریک جدید کے چندہ نیز دوسرے مقاصد کے متعلق کھول کر بیان کیا جائے اور پھر کوشش کی جائے کہ اس جلسہ تک چندہ کا بہت سا حصہ جمع ہو جائے.احباب نے شروع شروع میں چندوں کی ادائیگی میں سستی کی تھی مگر میرے اعلانوں کے نتیجہ میں بہت حد تک چندے ادا ہو گئے ہیں.سیکرٹریان تحریک جدید کو سمجھنا چاہئے کہ اب ان کی ذمہ داری کے امتحان کا وقت آ گیا ہے.ثواب صرف نام سے نہیں بلکہ کام سے ہوتا ہے.اس لئے کوشش سے کام کریں اور کم سے کم ایک ایک جلسہ عورتوں ، مردوں اور بچوں کا کرا دیں جس میں تحریک جدید کے تمام شعبے کھول کھول کر بیان کئے جائیں اور پھر جولائی کے آخر میں جو جلسہ ہو وہ رسمی نہ ہو بلکہ حقیقی ہو.مجھے افسوس ہے کہ پچھلے جلسے قادیان میں بھی رسمی ہوتے رہے ہیں اور بہت کم لوگ شامل ہوتے 563

Page 576

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمود 18 جون 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول رہے ہیں حالانکہ چاہئے تھا کہ بیرون جات سے بھی لوگ شامل کئے جاتے اور قادیان سے بھی سب دوست شامل ہوتے.اب میں امید کرتا ہوں کہ باہر کے بھی اور قادیان کے دوست بھی اس کو تا ہی کو دور کریں گے.مجلس خدام الاحمدیہ کیلئے خدمت کا یہ ایک موقعہ ہے.اس کے والنٹیئر لوگوں کے گھروں میں جائیں اور مردوں اور بچوں کو شریک کریں اور لجنہ اماء اللہ بھی عورتوں میں تحریک کرے اور سب کوشش کریں کہ یہ جلسے بہتر سے بہتر صورت میں ہوں اور ہر احمدی تک یہ پیغام پہنچ جائے کوئی نہ کہہ سکے کہ مجھے پتہ نہیں تھا.ابھی سفر سندھ کے دوران مجھے بعض خطوط ملے جن میں ذکر تھا کہ ہمیں تو چار سال میں تحریک جدید کا علم بھی نہیں ہوا اور جب ہم ایک چھوٹی سی جماعت تک بھی یہ پیغام نہیں پہنچا سکے تو ساری دنیا تک کس طرح پہنچا ئیں گے.پس ضروری ہے کہ ہر ایک کو پوری طرح واقف کر دیا جائے تا عمل کرنے کی روح پیدا ہو سکے اور آخری جلسہ میں لوگوں سے اس عہد کی تجدید کرائی جائے کہ وہ اسلامی تعلیم کے مطابق اپنی زندگیاں بسر کریں گے اور اپنے وعدے پورے کریں گے.تجدید عہد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورصوفیاء سے ثابت ہے جسے بیعت ارشاد کہا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کئی دفعہ لوگوں سے فرمایا کرتے تھے کہ دوبارہ بیعت کر لو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے بعض لوگ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے ستر ستر اور سوسو مرتبہ بیعت کی تھی یعنی جب بھی موقعہ ملتاوہ شامل ہو جاتے تو تجدید عہد خوبی کی بات ہے.میں امید کرتا ہوں کہ دوست اس ڈیڑھ ماہ کے عرصہ میں جماعت میں نئی بیداری اور نئی روح پیدا کرنے کی کوشش کریں گے.یہ عہدہ داران کے بھی امتحان کا وقت ہے اور مجلس خدام الاحمدیہ کے ممبروں کا بھی اور باقی جماعت کا بھی.آخر میں میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق دے کہ میں سچائیوں کو کھول کھول کر بیان کر سکوں اور جماعت کو بھی توفیق دے کہ ان کو قبول کر سکے اور ان پر عمل کر سکے.آمین.( مطبوع الفضل 22 جوان 1938 ء ) 564

Page 577

یک جدید- ایک الہی تحریک....جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 22 جولائی 1938ء تحریک جدید کے تمام مطالبات کی طرف توجہ کریں خطبہ جمعہ فرمودہ 22 جولائی 1938ء میں جماعت قادیان کو بھی اور بیرونی جماعتوں کو بھی الفضل“ کے ذریعہ اس امر کی - ، طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ تحریک جدید کے جلسوں کا دن بہت قریب آرہا ہے.میں نے اعلان کیا تھا کہ تحریک جدید کے سیکرٹریوں کو چاہئے کہ کوشش کریں کہ اس دن سے پہلے سارا یا بہت سا حصہ موعودہ چندوں کا ادا ہو جائے.اس اعلان کے بعد پہلے مہینہ میں تو معلوم ہوتا ہے کوشش کی گئی ہے کیونکہ اس مہینہ میں وصولی کی رفتار پہلے کی نسبت زیادہ رہی ہے مگر بعد میں جیسا کہ ہمارے ملک میں عام طور پر ہوتا ہے یہ رفتار پھر ست ہوگئی ہے.ہندوستان میں یہ مرض عام ہے کہ کچھ دنوں تک کام کرنے کے بعد اسے چھوڑ دیا جاتا ہے اور یہی عادت دراصل ہندوستان کی تباہی کا موجب ہے.یہاں انجمنیں بنتی ہیں ، سال دو سال کام کرتی اور پھر ختم ہو جاتی ہیں.حالانکہ یورپ میں بعض انجمنیں سوسو اور دو دوسو سال سے کام کر رہی ہیں اور ہمیشہ مضبوط تر ہوتی رہتی ہیں مگر ہندوستان میں ایسا نہیں.بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ ملیریا کا اثر ہے.اس سے طاقت عمل میں کمی واقع ہو جاتی ہے.بعض اسے گرمی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ منزل کا اثر ہے.جب تو میں گرا کرتی ہیں تو پھر یہ سب خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں.اسی ملیریا اور گرمی کے باوجود ہندوستان نے ترقی بھی کی ہے.ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ جب انگلستان کی عورتوں کے پہننے کے کپڑے ہندوستان میں بنتے تھے اور اہل انگلستان کی بیٹھکوں کے لئے زیبائش کی چیزیں بھی یا تو ہندوستان سے جاتی تھیں یا شام سے.گویا اس وقت ہندوستان نہ صرف اپنی ضروریات پوری کرتا تھا بلکہ دوسرے ممالک کی بھی.اس وقت بھی یہاں گرمی اسی طرح پڑتی تھی اور ملیر یا پیدا کرنے والے مچھر موجود تھے.یہ سب کچھ تھا مگر اس کے ساتھ ہمت بھی تھی.اب بھی وہ چیزیں ہیں مگر ہمت نہیں.اس کے نہ ہونے سے اب ہندوستانی کچھ روز کام کرتے ہیں اور پھر ست ہو کر بیٹھ جاتے ہیں کیونکہ ان کے سامنے کوئی بڑا مقصود نہیں ہوتا لیکن ہماری جماعت کو تو غور کرنا چاہئے کہ ہمارے لئے خدا تعالیٰ نے کتنا بڑا مقصود پیدا کیا ہے.زمین و آسمان میں تغیر پیدا کر دینا کوئی معمولی بات نہیں..66 565

Page 578

اقتباس از خطبه جمعه فرمود 22 جولائی 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول " تم لوگوں نے بھی کبھی غور کیا ہے کہ تمہارے سپر د جو کام کیا گیا ہے وہ صرف ایک قوم کو تم پہلے جب سے کہ آدم پیدا ہوا سپر د کیا گیا تھا.حضرت نوح علیہ السلام آئے مگر ان کی تبلیغ کا دائرہ بہت محدود تھا، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام آئے وہ بڑے عظیم الشان نبی تھے مگر صرف بنی اسرائیل کے لئے ، ہم داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کا ذکر کس عظمت کے ساتھ پڑھتے ہیں مگر وہ بھی محدود دائرہ کے لئے مبعوث ہوئے تھے ، پھر حضرت عیسی علیہ السلام کی ہم کس قدر عزت کرتے ہیں مگر ان کا دائرہ بھی کتنا محدود تھا، پھر ہم حضرت کرشن اور رام چندرعلیہ السلام کی کتنی عزت کرتے ہیں مگر وہ بھی صرف ہندوستان کے لئے ہادی بن کر آئے تھے.صرف ایک ہی قوم ہے جسے ساری دنیا کی ہدایت سپرد ہوئی اور وہ صحابہ نہیں اور ان کے بعد تم ہو.اگر تم اس بات کو محسوس کرو اور اس عظمت کا خیال کرو کہ تم کو وہ فخر دیا گیا ہے جو صرف ایک قوم کو پہلے ملا ہے تو تمہارے اندر ایسی آگ پیدا ہو جائے جو تمہیں رات دن بے چین رکھے اور کبھی سستی نہ پیدا ہونے دے مگر مشکل یہ ہے کہ حقیقت کو سمجھنے والے بہت ہی کم ہیں.بہت لوگوں نے احمدیت کو مان تو لیا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور سلسلہ کی عظمت کا احساس ان کے اندر پیدا نہیں ہوا.وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپس میں جھگڑتے ہیں لڑتے ہیں، ذرا ذراسی باتوں پر ٹھوکریں کھاتے ہیں.خدا تعالیٰ نے ان کو تخت پر بٹھایا مگر وہ اس تختہ کے ساتھ چھٹے بیٹھے ہیں جس پر مردہ کی لاش قبرستان کو لے جائی جاتی ہے.میں پھر ایک دفعہ جماعت کو متوجہ کرتا ہوں کہ وہ نہ صرف تحریک جدید کے مالی حصہ کی طرف توجہ کریں، بے شک وہ بھی بہت ضروری ہے مگر دوسرے مطالبات پر عمل کرنے بھی بہت ضرورت ہے.جب تک سب دوست ذاتی اصلاح کے علاوہ نظام کو مضبوط کرنے میں نہ لگ جائیں اور تمام افراد اپنے آپ کو ایک عضو سمجھیں ، مستقل وجود نہ سمجھیں، شرعی احکام کی پوری طرح پابندی نہ کریں اور نہ کرنے والوں کے خلاف ایسا اقدام نہ کریں کہ آئندہ کسی کو جرات نہ ہو.اس وقت تک جماعت وہ فرض ادا نہیں کر سکتی جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسے قائم کیا ہے.پس میں مختصر الفاظ میں جماعت کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ تحریک جدید کے مالی حصہ کی طرف بھی اور دوسرے حصوں کی طرف بھی توجہ کریں اور اپنے قلوب میں ایسی صفائی پیدا کریں کہ بار بار یاد دہانی کی ضرورت نہ رہے.جو شخص یاد دہانی کا محتاج ہو اس کا ایمان ہر وقت خطرہ میں ہے.کیا خبر ہے کہ یاد کرانے والا کس وقت اس سے جدا ہو جائے اور اس صورت میں جس وقت وہ یاد کرانے والا گیا اس کا ایمان بھی ساتھ ہی جائے گا.وہی ایمان وقت پر کام آ سکتا ہے جس کیلئے کسی بیرونی یاد دہانی کی ضرورت نہ ہو 566

Page 579

تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرمود 22 جولائی 1938ء اور جو آپ اپنے کو بیدار کرنے والا ہو.جو دوسرے کے سہارے کا محتاج ہے وہ ہر وقت خطرہ میں ہے.اصل سہارا اللہ تعالیٰ کا ہی ہے جو کام آسکتا ہے.پس ہر فردِ جماعت اپنے اندر یہ احساس پیدا کرے کہ سلسلہ کی ترقی مجھ پر منحصر ہے اور جب بچوں ، جوانوں، بوڑھوں اور مردوں عورتوں میں یہ احساس پیدا ہو جائے تو پھر تمہیں کوئی قوم ہلاک نہیں کر سکتی اور شیطان تم پر حملہ آور نہیں ہو سکتا.جب انسان کے اندر غیرت پیدا ہو جائے تو وہ بڑے سے بڑے دشمن کی بھی پروا نہیں کرتا.اس کے دل سے ڈرمٹ جاتا ہے.یہی حال محبت کا ہے ان دونوں کے ہوتے ہوئے خوف کبھی انسان کے پاس نہیں آسکتا.چھوٹے بچوں کو دیکھ لو کوئی مضبوط جوان آدمی ان پر حملہ کرتا ہے تو وہ ڈر کر بھاگتے ہیں مگر کبھی مقابلہ کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور مقابلہ کر لیتے ہیں اس لئے کہ وہ ارادہ کر لیتے ہیں اور ارادہ کی مضبوطی سے قومی کی مضبوطی بھی حاصل ہو جاتی ہے.وو جس طرح پاگل پر جب جنون کا دورہ ہو تو اسے آٹھ دس آدمی بمشکل قابو کر سکتے ہیں اسی طرح مومن کو بھی جب وہ جوش کی حالت میں ہو اس کے مخالف دبا نہیں سکتے اور جتنا کسی کا ایمان مضبوط ہو اتنی ہی زیادہ طاقت اس کے اندر ہوتی ہے.حتی کہ جب وہ نبی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے تو ساری دنیامل کر اسے پکڑنا چاہتی ہے مگر نہیں پکڑ سکتی.پس اپنے اندر یہ ایمان پیدا کرو پھر کوئی خطرہ باقی نہیں رہے گا.تحریک جدید کیلئے علیحدہ سیکرٹری مقرر کرنے کے لئے جو میں نے کہا تھا اس کی غرض یہ تھی کہ ایسے آدمی جو مستقل مزاج ہوں اور رات دن اپنے آپ کو اس کام میں لگائے رکھیں لیکن افسوس ہے کہ بعض سیکرٹری صرف نام کیلئے بن گئے ہیں اور کام کچھ نہیں کرتے.ان کو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خالی نام خدا تعالیٰ کے حضور کوئی فائدہ نہیں دے سکتا بلکہ نام حاصل کرنے سے پہلے ان پر کوئی الزام نہ تھا لیکن نام لینے کہ بعد اگر وہ کام نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی لعنت کے مستحق ہوں گے.اس لئے ہر سیکرٹری کو چاہئے کہ تن دہی سے کام کرے.پہلے خود تحریک جدید اور اس کی ہدایتوں کا مطالعہ کرے اور پھر اس کے مطابق جماعت سے کام لے.دیکھو یہ کتنا اہم کام ہے.جلسہ سالانہ کے موقعہ پر دوستوں نے وعدہ کیا تھا کہ آئندہ ورثہ کی تقسیم شریعت کے مطابق کیا کریں گے اور عورتوں کو حصہ دیا کریں گے مگر منہ سے کہنا آسان ہے اور عمل مشکل ہے.سیکرٹریوں کو دیکھنا چاہئے تھا کہ کیا اس کے مطابق کام ہوا اور اس عرصہ میں جو لوگ فوت ہوئے ان کا ورثہ مطابق شریعت تقسیم ہوا ؟ اگر نہیں تو انہوں نے اپنا فرض ادا نہیں کیا.میرے پاس ایک مثال بھی ایسی نہیں آئی کہ کوئی زمیندار فوت ہوا ہو اور اس کا ترکہ شرع 567

Page 580

اقتباس از خطبه جمعه فرمود 22 جولائی 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول کے مطابق تقسیم ہوا ہو.تو تحریک جدید کے کارکن جب تک اپنی ذمہ داری کو محسوس نہ کریں گے خالی نام ان کو کچھ فائدہ نہ دے سکے گا.انہیں چاہئے کہ اپنے کام کاج کا ہرج کر کے بھی اس طرف متوجہ ہوں.اپنے اندر ایک جنون پیدا کریں.مجنون کو بعض اوقات وہ چیزیں نظر آجاتی ہیں جو دوسروں کو نہیں آتیں.جس طرح نبی کو بھی وہ چیزیں دکھائی دیتی ہیں جو دوسری دنیا نہیں دیکھ سکتی.یہی وجہ ہے کہ لوگ کئی مجنون لوگوں کو مجذوب قرار دے کر ولی اللہ بنا دیتے ہیں." پس ہمارے سیکرٹری اگر اخلاص اور مذہبی جنون سے کام کریں تو یہی عہدے ان کو ولی اللہ بنا سکتے ہیں اور ان پر رویا و کشوف کے دروازے کھل سکتے ہیں لیکن اگر وہ صرف دفتری طور پر کام کریں، جوش اور جنون سے نہیں تو اللہ تعالیٰ کا سلوک بھی ان کے ساتھ ویسا ہی ہوگا.اگر وہ سمجھیں کہ سلسلہ کی ساری ذمہ داری ہم پر ہے اور محنت سے کام کریں تو یقیناً یہی کام ان کیلئے بڑا مجاہدہ بن سکتا ہے اور اس کے نتیجہ میں وہ اللہ کا قرب حاصل کر سکتے ہیں.مجاہدات بھی ہر زمانہ کے لئے علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں.اس زمانہ میں تبلیغ اور نظام جماعت کی تکمیل کے مجاہدے زیادہ مقبول ہیں اور اگر ہمارے سیکرٹری تند ہی سے کام کریں تو اسی میں وہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکتے ہیں.اب کہ وقت بہت ہی کم رہ گیا ہے.میں پھر ایک بار توجہ دلاتا ہوں کہ عہد یدار ستیاں چھوڑ کر کام کریں اور نہ صرف مالی مطالبات پورے کرائیں بلکہ دوسرے بھی.اس میں شک نہیں کہ ان تین سالوں کے اندر قربانیوں کا بوجھ جماعت پر بڑا ہے مگر کون کہ سکتا ہے کہ ان کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی فضل نہیں آنے والا ؟“.568 (مطبوعہ الفضل 28 جولائی 1938 ء )

Page 581

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد اول تحریک جدید کیا ہے؟ اقتباس از تقریر فرموده 31 جولائی 1938ء تقریر فرمودہ 31 جولائی 1938ء بر موقع جلسہ تحریک جدید آج تحریک جدید کے دور دوئم کے سال اول کا جلسہ ہے.تحریک جدید کیا ہے؟ میں چار سال سے سنا تا آرہا ہوں کہ تحریک جدید وہ قدیم تحریک ہے جو آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جاری کی گئی تھی.انجیل کے محاورہ کے مطابق ایک پرانی شراب ہے جو نئے برتنوں میں پیش کی جارہی ہے مگر وہ شراب نہیں جو بد مست کر دے اور عقلوں پر پردہ ڈال دے بلکہ وہ شراب جس کے متعلق قرآن کریم یہ فرماتا ہے کہ اس کہ پینے سے نہ تو سر دُکھے گا اور نہ ہی انسان بہکی بہکی باتیں کرے گا.ایک نور تھا جومحمدصلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں لائے.ایسا نور جو اس سے پہلے دنیا کو بھی نہیں ملا.کیسی نابینا آنکھیں ہیں وہ ، کیسے کورے دل ہیں وہ اور کیسے خر دماغ ہیں وہ جو قرآن کریم ، انجیل اور بائبل اور دوسری مذہبی کتابیں دیکھتے ہیں اور پھر انہیں قرآن کریم کی خوبی اور برتری نظر نہیں آتی.وہ حسن کا مجموعہ اور جلوہ الہی کا آئینہ ہے.جس کے لفظ لفظ سے خدا تعالیٰ کی شان نیکتی اور جس کے حرف حرف سے اللہ تعالیٰ کے وصال کی بُو آتی ہے.کون سی کتاب ہے جو اس کے مقابلہ میں ٹھہر سکے مگر افسوس مسلمانوں نے خدا تعالیٰ کی اس پاک کتاب کی طرف سے توجہ ہٹالی اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو مسلمانوں نے پس پشت ڈال دیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق خدا تعالٰی نے ایک فارسی الاصل انسان کو مبعوث فرمایا جسے خدا نے کہا کہ جاؤ اور قرآن کریم کے نور کو دنیا میں پھیلا ؤ، جاؤ اور ہماری صداقت سے دنیا کو روشناس کرو.اس نے اللہ تعالیٰ کے نور کو دنیا میں قائم کیا اور ایک ایسی جماعت قائم فرمائی جو صحابہ رضی اللہ عنہم کا نمونہ ہے اور اس پر بھی وہی ذمہ داریاں عائد ہیں جو صحابہ رضی اللہ عنہم پر تھیں.ایک روحانی جنگ ہے جو اس وقت لڑی جارہی ہے.ایسی حالت میں یہ خیال کر لینا کہ آج یا کل یا پرسوں ہماری جماعت کا کام ختم ہو جائے گا اور وہ آرام کا سانس لے سکے گی، بالکل غلط ہے.الہی سلسلوں میں وہی لوگ ثابت قدم رہا کرتے ہیں جن کے ایمان بغیر شرط کے ہوں.اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سورۃ تو بہ کے چھٹے رکوع میں فرماتا ہے کہ اے 569

Page 582

اقتباس از تقریر فرمود : 31 جولائی 1938ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد اول مومنو! تمہیں کیا ہو گیا جب تم کو کہا جاتا ہے کہ خدا کے رستہ میں باہر نکلو تو تمہارے لئے ہلنا مشکل ہو جاتا ہے؟ کیا تم اس ورلی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہو؟ یاد رکھو! اس ورلی زندگی کا فائدہ آخرت کے مقابلہ میں بالکل حقیر ہے.گویا اللہ تعالیٰ یہ صیحت کرتا ہے کہ مومن کا فرض ہے کہ خدا تعالیٰ کی آواز سن کر آگے بڑھے مگر منافق کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس کا قدم پیچھے کی طرف ہٹائے.اگر تم نے دیانت داری سے احمدیت کو قبول کیا ہے تو اے مردو اور اے عورتو! تمہارا فرض ہے کہ تحریک جدید کے اغراض اور مقاصد میں میرے ساتھ تعاون کرد - زمین اور آسمان کا خدا جانتا ہے کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں خدا تعالیٰ اور اسلام کے لئے کہہ رہا ہوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کہہ رہا ہوں، اپنے نفس کیلئے نہیں کہہ رہا.تم آگے بڑھو اور اپنا تن اور اپنا من اور اپنا دھن خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قربان کر دو.(خلاصہ تقریر مطبوع الفضل 2 اگست 1938 ء ) 570

Page 583

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول تقریر فرموده 13 ستمبر 1938ء مجاہدین تحریک جدید کو حضور کی اہم ہدایات حضور نے فرمایا: تقریر فرمودہ 13 ستمبر 1938ء ایک نہایت اہم امر یا د رکھنے کے لائق یہ ہے اور میں نے اس کا تجربہ کیا ہے کہ محنت صرف اچھی صحت سے نہیں ہوتی بلکہ بشاشت قلب سے ہوتی ہے.اپنی ذمہ داری کو اچھی طرح محسوس کرنا چاہئے ، عذرات تلاش نہیں کرنے چاہیں کہ ان وجوہ کی بنا پر نا کامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے.صرف عام روزانہ معمول کے کام پر ہی اپنی توجہ کو ملتی نہیں کرنا چاہئے بلکہ ترقی کرنے والی قوموں کی طرح اپنا ہر ایک قدم ترقی کی طرف بڑھانا چاہئے اور نئے نئے کام سوچنے چاہئیں کیونکہ عام مقررہ کام کسی سلسلہ کی زندگی کو تو برقرار رکھ سکتے ہیں لیکن اس کا قدم ترقی کے مینار کی طرف نہیں بڑھا سکتے.ہمیں ہر وقت یہ امر سوچنا چاہئے کہ کون کون سے کام اور ہیں جنہیں ہم نے کرنا ہے.اس وقت کے مخالفین سلسلہ کیا کیا تدبیریں کر رہے ہیں اور ہمیں ان کے دفاع کے طور پر کون کون سا اقدام کرنا چاہئے.اسی غرض کو پورا کرنے کیلئے میں نے وقف زندگی کی تحریک کی تھی.تحریک جدید سے ایک غرض یہ بھی ہے کہ اس امر کی کوشش کی جائے کہ روپیہ کے بغیر کام کیا جائے یا حتی الوسع نہایت کم خرچ سے کام کو چلایا جائے کئی نامور مالدار تاجروں نے نہایت معمولی پیمانے سے کام شروع کیا اور اسی سے بہت بڑی ترقی کی.جب تک ہم یہ نہیں سمجھ لیتے کہ نتیجہ کے ذمہ دار ہم ہیں اس وقت تک ہم ترقی نہیں کر سکتے.دو مسائل کے غلط مفہوم نے مسلمانوں کو ترقی سے روک رکھا ہے.(1) اس مقولہ نے کہ کام کرنا انسان کا کام ہے اور نتیجہ نکالنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے.بندے کا اس میں کوئی دخل نہیں.(2) مسئلہ تقدیر کے غلط مفہوم نے کہ کسی چیز کا حاصل کرنا انسان کے اپنے بس کی بات نہیں.می دونوں باتیں اپنے صحیح مفہوم کے لحاظ سے بالکل درست ہیں لیکن جس طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خارجیوں کی نسبت فرمایا تھا کہ 571

Page 584

تقریر فرموده 13 ستمبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول كلمة الحكمة اريد بها الباطل اسی طرح ان کا مفہوم غلط لیا جاتا ہے.حالانکہ انسان کیلئے ضروری ہے کہ سرتوڑ کوشش کرنے کے بعد نتیجہ خدا کے سپر د کر دے مگر ایسا کوئی کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا.قومی ترقی کے لئے انفرادی قربانی بھی نہایت ضروری ہے تا کہ قوم سست نہ ہو جائے آج کل تو لڑائی میں ذمہ دار آدمی جب کسی کام میں کامیاب نہیں ہوتے تو یا تو حکومت ان کو گولی سے اڑا دیتی ہے یاوہ خود اپنے آپ کو مار لیتے ہیں یا لڑتے لڑتے خود مر جاتے ہیں لیکن تاریخ اسلام میں بھی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ایک سالا رلشکر یعنی حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کو جب کہ وہ فتح پا کر واپس نہ آئے تو باوجودیکہ وہ فتح حاصل نہ کر سکتے میں معذور تھے پھر بھی ان کو یہ سزا دی کہ وہ مدینہ میں ان کے سامنے نہ آیا کریں اور اسی لشکر میں شامل ہو کر لڑنے والے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے فتح نہ حاصل کر سکنے کی وجہ سے جزیرہ عرب میں رہائش چھوڑ دی اور چین اور افغانستان میں چلے گئے اور اس طرح ان علاقوں میں اسلام پھیلانے کا ذریعہ ہوئے.شریعت نے بھی لڑائی میں پیچھے ہٹنے والے کی سزا جہنم رکھی ہے.تعداد کی قلت اور کسی دوسری معذوری کا سوال ہی نہیں ہوتا.پس جو کامیاب نہیں ہوتا اسے اپنی اس ناکامی کی سزا بھگتنے کے لئے تیار رہنا چاہئے.اسی واسطے فارم وقف زندگی میں اس شرط کو رکھا گیا ہے کہ پیش کرنے والا ہر قسم کی سزا کو بخوشی برداشت کرے گا اور اپنی ذمہ داری کا صیح اندازہ نہ لگانے کا ہی نتیجہ ہوتا ہے کہ ہمارا دماغ کام کا راستہ تلاش نہیں کرتا بلکہ بھاگنے کا راستہ ڈھونڈتا ہے.پس ہمیں یہ ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ بہادر انسان وہ ہے جو ہر قسم کی قربانی کر سکے نہ کہ کوئی خاص قسم کی قربانی تو کر سکے لیکن دوسری قسم کی قربانی نہ کرے.اسی طرح وقت کی قربانی بھی ایک اہم ترین چیز ہے جس کا ایک نام waste of time ہے دنیا اسے گناہ کہتی ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ جب قربانی کے مقام پر کی جائے تو اعلیٰ درجہ کی قربانی ہے.یہ شرعی مسئلہ ہے کہ جب کوئی شخص نماز کے انتظار میں ہوتا ہے تو اس کا وقت نماز میں ہی شمار ہوتا ہے اور اسے جہاد کا ثواب ملتا ہے.بظاہر ایسا کرنا وقت کا زیاں کرنا ہوتا ہے حالانکہ اصل میں اس میں مقصود کی عظمت کا اقرار ہوتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہر وقت مسجد میں بیٹھے رہتے تھے اگر چہ بظاہر یہ ایک بے کا رسا کام معلوم ہوتا ہے لیکن اس کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے تین سال کے عرصہ بیعت میں اس قدر باتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہیں کہ سابقون الاولون صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے بھی کسی 572

Page 585

تحریک جدید-ایک ابی تحریک...جلد اول تقریر فرمود 13 ستمبر 1938ء نے اس قدر روایات بیان نہیں کیں کیونکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کی عظمت کو سمجھتے تھے لہذا آپ انتظار میں رہتے تھے.اس قسم کا انتظار وقت کا ضیاع نہیں ہوتا بلکہ اس کے علم اور معرفت میں ترقی کا ذریعہ ہوتا ہے اور علم اپنی اہمیت سے آتا ہے.جب تک کسی علم کی اہمیت کسی شخص کے نزدیک نہ ہو اس وقت تک وہ اسے حاصل کرنے کی طرف توجہ نہیں دیتا.ہندوستان میں جھوٹ بہت بولا جاتا ہے بلکہ ایک طرح سے لوگ عادی ہو گئے ہیں.میری غرض مطالبہ وقف زندگی سے ایک یہ بھی ہے کہ جھوٹ کو مٹایا جائے اور خواہ کتنا چھوٹے سے چھوٹا ہوا گر کسی شخص کے متعلق جھوٹ ثابت ہو تو اسے ہر ممکن سزادی جائے گی.اس کے معاہدہ وقف زندگی تو ڑ دینے کے علاوہ جماعت میں ہی اعلان ہو سکتا ہے.خواہ وہ دین کی خاطر کرے یا کسی اور چیز کی خاطر بلکہ دین کی خاطر جھوٹ بولنا تو سخت پاگل پن ہے کیونکہ سلسلے کا فائدہ جھوٹ سے وابستہ نہیں ہے.اسلام کی بنیاد قُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (الاحزاب : 71) پر ہے.جھوٹ کے خلاف اس قدر احساس ہونا چاہئے اور اگر کسی وقت واقفین زندگی میں سے کسی سے جھوٹ سرزد ہو تو اسے خود آ کر کہنا چاہئے کہ میرا وقف منسوخ کر دیں، میں نے جھوٹ بولا ہے اور پھر اس کی سزا برداشت کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے.واقفین زندگی کو یہی کریکٹر جماعت احمد یہ میں بھی 66 پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.“ ( مطبوعه الفضل 20 ستمبر 1938 ء ) 573

Page 586

Page 587

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد اول 55 اقتباس از خطبه جمعه فرموده 4 نومبر 1938ء رمضان کو تحریک جدید سے ایک گہری مناسبت ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 4 نومبر 1938ء رمضان کو تحریک جدید سے ایک گہری مناسبت ہے.میں نے صرف ایک کھانا کھانے کا اصل تحریک جدید میں شامل کیا ہے.اب دیکھو دو کھانے حرام تو نہیں ہیں لیکن میں نے تم کو کہا کہ جو چیز حلال ہے اس کو بھی تم چھوڑ دوتا امیر اور غریب کا فرق دور ہو اور تا خدا ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنے روپیہ کو بچاتے ہوئے اسے خدمت دین کیلئے خرچ کر سکیں اور تا ہمیں توفیق ملے کہ ہم اپنے نفس کو عیاشی اور آرام طلبی سے بچا سکیں.یہی رمضان کی غرض ہے.رمضان بھی یہی کہتا ہے کہ آؤ تم خدا تعالی کے لئے حلال چیزوں کو چھوڑ دو.بے شک دوسرا کھانا حرام نہیں ہے مگر ہم نے اسے اس لئے چھوڑ دیا ہے تا اس کے ذریعہ ہم بہت بڑا دینی اور دنیوی فائدہ حاصل کریں.سادہ غذا کے استعمال کرنے میں نہ صرف دنیوی لحاظ سے فائدہ ہے بلکہ ہماری روح کا بھی اس میں فائدہ ہے اور وہ خلیج جو غر با اور امرا میں حائل ہے وہ اس کے ذریعہ سے بالکل پائی جاتی ہے.دو دوسرا فائدہ رمضان کا یہ ہے کہ اس کے ذریعہ لوگوں کو استقلال کی عادت ڈالی جاتی ہے کیونکہ نیکی متواتر ایک مہینہ تک چلتی ہے.پس روزوں سے دوسرا عظیم الشان سبق استقلال کا ملتا ہے اور یہ بھی تحریک جدید سے ایک گہراتعلق رکھتا ہے.تحریک جدید میں میں نے جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ ہماری قربانیاں عارضی نہیں بلکہ مستقل ہیں.بے شک قربانیوں کی شکلیں بدل سکتی ہیں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی وقت یہ کہا جائے کہ اب قربانیوں کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ بغیر مستقل قربانیوں کے کوئی شخص خدا تعالیٰ کو نہیں پاسکتا.جس شخص کے دل میں بھی یہ خیال آیا ہو کہ میں سانس لے لوں وہ سمجھ لے کہ اس کا ایمان ضائع ہو گیا.تم میں سے کئی ہیں جنہوں نے بڑی دیانت داری کے ساتھ قربانیاں کیں تم میں سے کئی ہیں جو خدا تعالیٰ کے حضور چلائے اور انہوں نے آہ وزاری کی تم میں سے کئی ہیں جنہوں نے روزے رکھے، تہجد پڑھے ، نوافل ادا کئے اور خدا تعالیٰ کے حضور روئے اور گڑ گڑائے تم میں سے کئی ہیں جنہوں نے چندے دیئے اور اپنے بیوی بچوں کے پیٹ کاٹ کر دیئے تم میں سے کئی ہیں جنہوں نے خود بھوکے اور ننگے رہ کر ز کو تیں دیں اور دوسرے فرائض 575

Page 588

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 4 نومبر 1938ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد اول ادا کئے مگر انہوں نے کہا کہ ان قربانیوں کے وہ نتائج انہیں حاصل نہیں ہوئے جو ایسی قربانیوں کے نتیجہ میں ملا کرتے ہیں اور جن کی وہ امید لگائے بیٹھے تھے.اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے قربانی تو کی مگر استقلال سے قربانی نہیں کی.ان کا جوش ایسا ہی تھا جیسے عوام الناس جب کوئی پر جوش تقریر سنتے ہیں تو لڑنے مرنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں مگر تھوڑی دیر کے بعد ہی جب دیکھا جائے تو ان کے دل بالکل ٹھنڈے ہو چکے ہوتے ہیں اور ان میں کوئی گرمی نہیں ہوتی.اگر ان قربانیوں کا محرک حقیقی اخلاص اور حقیقی جوش ہوتا تو چاہئے تھا کہ وہ اپنی قربانیوں میں بڑھتے چلے جاتے اور کسی واعظ یا کسی یاد دلانے والے کی ضرورت محسوس نہ کرتے کیونکہ حقیقی محبت جوش دلانے سے تعلق نہیں رکھتی اور نہ وہ عارضی ہوتی ہے بلکہ حقیقی محبت استقلال سے تعلق رکھتی ہے.تم اپنے بچہ سے محبت کرتے ہو مگر کیا تم بچوں سے محبت کرنے کے لئے کسی کے یاد دلانے کی ضرورت محسوس کیا کرتے ہو؟ کیا تم نے کبھی محسوس کیا کہ سال دو سال گزرنے کے بعد اپنے بچہ کی محبت تمہارے دل میں کم ہونی شروع ہوگئی ہو اور تمہیں اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی ہو کہ کوئی واعظ آئے اور تمہیں جگائے اور کہے کہ اپنے بچہ سے محبت کرو؟“ وو...پس اگر تمہاری قربانیوں نے کوئی نیک نتائج پیدا نہیں کئے تو سمجھ لو کہ تمہارا خدا تعالیٰ سے عارضی تعلق تھا اور جب تم نے کسی عارضی تحریک کے ماتحت قربانی کی تو اس کا وہ نتیجہ کس طرح پیدا ہوسکتا تھ جو دائمی قربانی کے نتیجہ میں پیدا ہوا کرتا ہے.یہی وجہ ہے کہ جب ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ذکر کیا گیا کہ فلاں شخص بڑا عبادت گزار ہے کیونکہ اس نے چھت میں ایک رستہ لڑکا رکھا ہے جب نماز پڑھتے پڑھتے اسے نیند آنے لگتی ہے تو رستہ پکڑ کر کھڑا ہو جاتا ہے.تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کوئی عبادت نہیں.عبادت وہی ہے جس میں انسان کو دوام اور استقلال نصیب ہو.پس بے شک تم میں سے بعض نے بڑی بڑی قربانیاں کیں مگر جب تم نے ان قربانیوں کے بڑے نتائج نہیں دیکھے تو سمجھ لو کہ اس کی وجہ یہی ہے کہ تم میں استقلال نہ تھا جس کے معنی یہ ہیں کہ تم میں حقیقی محبت نہ تھی ورنہ اگر تمہارے اندر حقیقی محبت ہوتی تو یقیناً تمہاری نمازیں اور تمہارے روزے اور تمہاری زکو تیں اور تمہارے حج اور تمہارے چندے بہت زیادہ شاندار اور اعلیٰ نتائج پیدا کرتے اور تم اپنی موت سے پہلے اپنے خدا کو دیکھ لیتے اور تمہاری موت شبہ کی موت نہ ہوتی بلکہ مرتے وقت انتہائی راحت اور آرام کی گھڑی تمہیں نصیب ہوتی، 55 تحریک جدید بھی استقلال سکھانے کیلئے ہے اور رمضان بھی لوگوں کے اندر استقلال 576

Page 589

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 4 نومبر 1938ء کا مادہ پیدا کرتا ہے.پس تم رمضان سے سبق حاصل کرتے ہوئے استقلال والی نیکی اختیار کرو اور اپنی وہ حالت نہ بناؤ کہ کبھی کھڑے ہو گئے اور کبھی گر گئے.کم سے کم چند نیکیاں تو اپنے اندر ایسی پیدا کرو جن میں تم مستقل ہو اور جن کو تم کسی صورت چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہو.بے شک انسان کیلئے ہر وقت نیکی کے قدم مختلف ہوتے ہیں اور ہر لحظہ اسے نیکی کرنی چاہئے مگر کم سے کم کچھ نیکیاں ایسی ضرور ہونی چاہئیں جن کے متعلق انسان یہ کہہ سکے کہ میں نے جب سے انہیں کرنا شروع کیا ہے کبھی انہیں نہیں چھوڑا.55 اگر کم سے کم یہ تین نیکیاں انسان میں پیدا ہو جائیں یعنی عبادت کے ذریعہ خدا تعالٰی کے قرب میں بڑھنا، مالی خدمات کے ذریعہ مخلوق خدا کو نفع پہنچانا اور روزہ کے ذریعہ اپنے جذبات اور احساسات کی قربانی کرنا، تو وہ کہہ سکتا ہے کہ تین ایسی عظیم الشان نیکیاں مستقل طور پر میرے اندر پائی جاتی ہیں جن کے ہوتے ہوئے کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ میرے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت نہیں.میں نے اپنی مرضی اور اختیار سے کبھی کوئی نماز نہیں چھوڑی، میں نے اپنی مرضی اور اختیار سے کبھی کوئی روزہ نہیں چھوڑا اور کبھی کوئی چندہ کا ایسا موقع نہیں نکلا جس میں میں نے حصہ نہیں لیا.اگر ان تینوں نیکیوں پر کسی شخص کا قدم مضبوطی سے قائم ہو اور باقی نیکیوں میں اس کا قدم کبھی ڈگمگا بھی جائے تو کم سے کم وہ یہ ضرور یقین رکھے گا کہ میرا ان تین نیکیوں کے عوض جنت میں مکان ضروری ہے اور کوئی نہ کوئی ٹھکانہ میر اوہاں موجود ہے کیونکہ ہر مستقل نیکی جنت کا ایک مکان ہے.بے شک وہ شخص بہت زیادہ خوش قسمت ہے جس کے جنت میں کئی محل ہوں مگر جس کا ایک محل ہو وہ بھی تو خوش قسمت ہے.دنیا میں ہزار ہا نیکیاں ہیں جن کا استقلال سے بجالانا جنت میں مختلف محلات تیار کر دیتا ہے مگر ادنی نیکی یہ ہے کہ روزہ کے ذریعہ اپنے جذبات کا ہد یہ خدا تعالیٰ کے حضور پیش کیا جائے ، نماز کے ذریعہ اس کے قرب کو تلاش کیا جائے اور مالی قربانیوں کے ذریعہ بنی نوع انسان کے حقوق ادا کئے جائیں.اگر کوئی شخص استقلال کے ساتھ بغیر ناغہ، بغیر وقفہ، بغیر تنزل اور بغیر قدم ڈگمگانے کے یہ نیکیاں کرتا ہے اور کرتا چلا جاتا ہے تو ہم اس کے متعلق یقین کر سکتے ہیں کہ اس کے نفس کو اطمینان حاصل ہو گیا اور اس کی موت کی گھڑیاں دبد ہا اور شک کی گھڑیاں نہیں ہوں گی.یہ تین زبردست شاہد ہیں جو ایک انسان کے ایمان کی شہادت دینے کیلئے کافی ہیں.دنیوی عدالتوں میں بعض جگہ دو اور بعض جگہ چار گواہ کافی سمجھے جاتے ہیں.الہی عدالت میں بھی ان تین گواہوں کی گواہی رد نہیں کی جاسکتی بلکہ ان کے ساتھ اگر کوئی چوتھی نیکی بھی ملالی جائے تو یقیناً وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا وہ بہترین ثبوت پیش کرے گا جو کسی قضا میں خطا نہیں جاتا اور کہیں نا کام نہیں ہوتا.577

Page 590

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 4 نومبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول تیر اسبق ہمیں رمضان سے یہ حاصل ہوتا ہے کہ کوئی بڑی کامیابی بغیر مشقت برداشت کئے حاصل نہیں ہو سکتی.جس کا اظہار لَعَلَّكُمْ تَتَّقُون میں کیا گیا ہے.گویا رمضان جہاں ہمیں یہ بتا تا ہے کہ کوئی قربانی استقلال کے بغیر قبول نہیں ہوتی وہاں ہمیں وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ بغیر مشقت برداشت کئے کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی اور وہ شخص جو چاہتا ہے کہ بغیر مشقت برداشت کئے دین و دنیا میں کامیابی حاصل کرلے وہ پاگل اور احمق ہے اور اسے کسی جگہ بھی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.آج ہمارے سامنے دنیا کی تین قومیں موجود ہیں جن میں سے دو ہمارے سامنے گریں اور پھر ہمارے سامنے ہی بلند ہوئیں اور ایک جو پہلے کمزور تھی مگر ہماری زندگیوں میں بیدار ہوئی اور اس نے ترقی کی.ہم میں سے وہ لوگ جو میں چالیس سال کی عمر کے ہیں وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ قومیں ان کی آنکھوں کے سامنے گریں اور پھر ان کی آنکھوں کے سامنے ہی اٹھیں.وہ اٹلی اور جرمنی ہیں اور جو پہلے کمزور تھی اور دیکھتے دیکھتے بڑھ گئی جاپان ہے.جرمن قوم ہماری آنکھوں کے سامنے 1918 ء میں گری 1928ء میں اس نے اٹھنا شروع کیا اور 1935ء یا 1938ء میں وہ منتہائے طاقت کو جا پہنچی لیکن کن قربانیوں کے ساتھ ؟ ایسی قربانیوں کے ساتھ جو ایک یا دو نے نہیں بلکہ سارے ملک نے کیں.ہماری جماعت بھی قربانیاں کرتی ہے لیکن ان قربانیوں کو اگر دیکھا جائے جو جرمن قوم نے کیں تو ایک نقطہ نگاہ سے ہماری قربانیاں ان کے مقابلہ میں بالکل بیچ ہو جاتی ہیں.گو ایک دوسرے نقطہ نگاہ سے ہماری قربانیاں ان سے بڑھی ہوئی ہیں.اخلاقی لحاظ سے ہماری قربانیاں بڑی ہیں اور عملی لحاظ سے ان کی قربانیاں بڑی ہیں.انہوں نے اپنے کھانے پینے ، پہنے اور قریباً زندگی کے ہر عمل پر ایسی حد بندیاں لگائی ہوئی ہیں جن کو سن کر حیرت ہوتی ہے اور کوئی شخص ان حد بندیوں کو نہیں تو ڑسکتا.گورنمنٹ ایک قانون بنادیتی ہے اور تمام لوگوں کو کیا مرد اور کیا عورتیں اور کیا بچے اس قانون کی اتباع کرنی پڑتی ہے اور رات دن وہ قربانیاں کرتے چلے جاتے ہیں اس لحاظ سے یقیناً ان کی قربانیاں بہت زیادہ ہیں لیکن ایک لحاظ سے ہماری قربانیاں ان سے بڑھی ہوئی ہیں اور وہ اس طرح کہ ان کو طاقت کے زور سے چلایا جاتا ہے اور ہم میں سے ہر شخص اخلاص اور اپنی مرضی سے قربانی میں حصہ لیتا ہے اور اصل قربانی دراصل وہی ہوتی ہے جو اپنی رضا اور اپنی مرضی سے کی جائے.پس اخلاقی اور مذہبی لحاظ سے ہماری قربانی ان سے بہت زیادہ ہے کیونکہ مرضی سے قربانی کرنا ہی اصل قربانی ہے وہ قربانی جو جبر اور زور سے کرائی جائے وہ قربانی نہیں کہلا سکتی.578

Page 591

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد اول وو اقتباس از خطبه جمعه فرموده 4 نومبر 1938ء جرمن قوم کی تعریف نہیں کی جائے گی کیونکہ جبر سے اس سے قربانیاں کرائی جاتی ہیں لیکن تمہاری تعریف کی جائے گی کیونکہ تم نے خدا تعالیٰ کیلئے اپنے نفس پر پابندیاں عائد کیں.پس گوان کی تکلیف زیادہ ہے مگر ان کا ثواب کم ہے کیونکہ طاقت اور قانون کے زور سے ان سے یہ قربانیاں کرائی جارہی ہیں اور گوتمہاری تکلیف کم ہے مگر تمہارا ثواب زیادہ ہے کیونکہ تم اپنی مرضی سے خدا تعالیٰ کیلئے قربانیاں کر رہے ہو.وو یہی حال اٹلی کا ہے.اٹلی کی قوم بھی مردہ تھی مگر اس نے بھی مشقتوں کا اپنے آپ کو عادی بنا کر اور متواتر قربانیاں کر کے نہ صرف اپنی کھوئی ہوئی عزت حاصل کی بلکہ پہلے سے بھی زیادہ دبدبہ اور رعب حاصل کر لیا.اسی طرح جاپان بھی مردہ تھا مگر جب ان میں قربانی کی روح پیدا ہوگئی تو وہ بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو گیا.تو رمضان میں قربانی اور استقلال کے ساتھ قربانی کا سبق مومنوں کو سکھایا جاتا ہے اور انہیں مشقت برداشت کرنے کا عادی بنایا جاتا ہے.اگر اس سے فائدہ اٹھایا جائے اور تحریک جدید کے مطالبات کو عملی جامہ پہنایا جائے تو یقیناً وہ اہم شمرات پیدا ہوں گے جو انہی قوموں کی جدو جہد کے نتیجہ میں پیدا ہوا کرتے ہیں.ہمارے ثمرات یقیناً دیر کے بعد آنے والے ہیں اور ہماری مثال اٹلی اور جرمن اور جاپان کی سی نہیں.وجہ یہ کہ اٹلی اور جرمنی اور جاپان نے ملکوں کو فتح کیا مگر ہم نے دلوں کو فتح کرنا ہے اور دلوں کو فتح کرنا ملکوں کے فتح کرنے سے زیادہ مشکل ہوا کرتا ہے.پس ہماری فتح کویقینی ہے مگر وہ کچھ دیر کے بعد دیر آید درست آید کے مقولہ کے مطابق آنے والی ہے.اس کے علاوہ ہم میں اور ان میں ایک اور فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ اگر جرمنی نے ترقی کی تو صرف جرمن قوم کو اس نے عروج پر پہنچایا ، اگر اٹلی نے ترقی کی تو صرف اٹلی کی قوم کو اس نے عزت کا مستحق بنایا اور اگر جاپان نے ترقی کی تو صرف جاپانیوں کو اس نے معراج کمال تک پہنچایا لیکن اگر ہماری کوششوں کو اللہ تعالیٰ بار آور فرمائے تو وہ صرف ہمیں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کو فائدہ پہنچائیں گی اور ہماری فتح جسموں پر نہیں بلکہ دلوں پر ہوگی اور ہماری فتح انسانوں پر نہیں بلکہ فرشتوں پر ہوگی بلکہ اگر بے ادبی نہ ہو تو ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا خدا بھی ہمارے قبضہ میں آ جائے گا.پس ہماری کوششوں کے نتائج بہت اہم ہیں اور ہماری ذمہ داریاں بہت وسیع ہیں اور ہماری منزل بہت دور ہے.کئی بے وقوف نو جوان ہیں جو کہہ دیا کرتے ہیں کہ جاپان نے تمیں سال میں ترقی کر لی ، اٹلی نے 579

Page 592

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 4 نومبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول میں سال میں ترقی کرلی اور جرمنی نے دس سال میں ترقی کر لی مگر ہم نے ان کے مقابلے میں کچھ بھی ترقی حاصل نہیں کی.وہ بے وقوف یہ نہیں جانتے کہ وہاں قوم کی قوم ایک مقصد کیلئے کھڑی تھی اور یہاں صرف ایک آدمی سے جدوجہد شروع ہوئی.جاپان نے جب دوڑ شروع کی تو اس نے چار کروڑ لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر دوڑ لگائی اور میں سال کی جدو جہد کے بعد اس نے چار کروڑ کو چھ کروڑ بنا دیا ، اٹلی نے جب دوڑ شروع کی تو اس نے چار پانچ کروڑ لوگوں کو ساتھ لے کر دوڑ شروع کی اور بیس سال کے عرصہ کے بعد انہیں چار سے پانچ کروڑ یا پانچ سے چھ کروڑ بنا دیا.اسی طرح جرمنی نے جب دوڑ شروع کی تو اس نے سات کروڑ لوگوں کے ساتھ شروع کی اور دس سال بعد انہیں آٹھ کروڑ بنا دیا.گویا وہ اس جدو جہد میں صرف چودہ فیصدی سے لے کر پچاس فیصدی تک بڑھے.حالانکہ کروڑوں لوگ ایک ہی مقصد اور ایک ہی مدعا کو لے کر کھڑے ہوئے تھے.اس کے مقابلہ میں کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہماری دوڑ صرف ایک شخص سے شروع ہوئی ؟ ایک شخص نے قادیان میں کھڑے ہو کر جو تمام متمدن دنیا سے الگ ایک گوشہ میں پڑا ہوا گاؤں تھا ، ساری دنیا کے مقابلہ میں لڑائی شروع کر دی اور پھر وہ بڑھا اور بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ پہلے وہ ایک تھا مگر آج کئی لاکھ آدمی اس کے ساتھ ہیں.پس اٹلی اور جرمنی اور جاپان نے پچاس فیصدی ترقی کی لیکن یہاں ایک سے کئی لاکھ بن گئے.اب پچاس فیصدی اور لاکھ فیصدی میں بھلا کوئی بھی نسبت ہے؟ پھر جس جس میدان میں قربانی کی ضرورت تھی ان تمام میدانوں میں جماعت احمدیہ نے قربانی کی.پس ہماری جماعت نے بھی حیرت انگیز ترقی کی ہے لیکن چونکہ ہماری جدوجہد کا دائرہ بہت وسیع ہے اس لئے گو ہماری موجودہ کامیابی بھی بہت بڑی ہے مگر ہمارا اصل مقصد ابھی دور ہے اور گروہ دیر میں آنے والا ہے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کے مقابلہ میں تمام دنیا کی فتوحات بھی بیچ ہیں کیونکہ اس کا دائرہ بہت وسیع اور اس کا حلقہ اثر عالمگیر ہے.چوتھا سبق رمضان سے ہمیں یہ حاصل ہوتا ہے کہ کوئی بڑی کامیابی بغیر دعا کے حاصل نہیں ہو سکتی.بالخصوص دین میں تو کوئی کامیابی اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک دعا نہ کی جائے.دنیا بغیر دعا کے حاصل ہو جائے تو ہو جائے دین حاصل نہیں ہو سکتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیوی کا میابیوں کے لئے بھی عملی دعا ضروری ہوتی ہے جسے لفظوں میں قوت ارادی کہتے ہیں.قوت ارادی اور عزم در اصل دعا ہی کا ایک نام ہے.دعا کیا ہے؟ اپنے عزم اور ارادہ کا لفظوں میں اظہار.بہر حال کوئی دینی جماعت دعا کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں روزوں کے احکام کے ذکر میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ :- 580

Page 593

یک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 4 نومبر 1938ء أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ (البقرة:187) جب مومن روزے رکھیں، قربانیاں کریں اور استقلال سے قربانیاں کرتے چلے جائیں اور اس کے بعد دعاؤں سے کام لیں تو وہ دعا خالی نہیں جاتی بلکہ ضرور ان کو ان کے مقاصد میں کامیاب کرتی ہے مگر فرمایا جب استقلال اور قربانیوں کے بعد دعا کریں گے تب ان کی دعاسنی جائے گی یونہی نہیں.گو یا اللہ تعالیٰ نے استقلال، قربانیوں اور دعا کو لازم و ملزوم قرار دیا ہے.بغیر دعا کے استقلال کے ساتھ قربانی کرنا دینی عالم میں بیچ ہے اور بغیر استقلال والی قربانیوں کے دعا انسان کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتی.وہ فرماتا ہے :- أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ (البقرة:187) جو اس رنگ میں دعا کرنے والے ہوں میں ان کی دعاؤں کو سنا کرتا ہوں یعنی جو استقلال کے ساتھ قربانیاں کریں اور پھر کرتے چلے جائیں اور اللہ تعالیٰ سے اپنی کامیابی کیلئے دعائیں بھی کریں ان کی دعا ضرور قبول ہو کر رہتی ہے.بعض لوگ غلطی سے اس آیت سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر پکارنے والے کی پکار کوسنتا ہے اور وہ حیران ہوتے ہیں کہ جب خدا کا یہ وعدہ ہے تو پھر ان کی بعض دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں؟ مگر یہ استدلال درست نہیں اس جگہ تمام دعاؤں کی قبولیت کا خدا تعالیٰ نے کوئی وعدہ نہیں کیا بلکہ فرمایا ہے :- أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ (البقرة:187) میں اس دعا کرنے والوں کی دعا سنتا ہوں جس کا ذکر اوپر ہوا ہے اور اس سے پہلے رمضان اور روزوں کا ذکر ہے جو استقلال سے خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں کرنے کا سبق دیتا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر ان شرائط کوملحوظ رکھتے ہوئے جن کا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے.کوئی شخص دعا کرے تو اس کی دعا ضرور قبول ہو جاتی ہے.اگر کوئی مجھے مقدس سے مقدس مقام میں بھی کھڑا کر دے تو میں وہاں کھڑا ہو کر یہ قسم کھانے کے لئے تیار ہوں کہ اس قسم کی دعا ہر گز رد نہیں ہوتی.کوئی قوم جو خدا تعالیٰ کے لئے مستقل قربانیاں کرنے کے ارادہ سے کھڑی ہو جائے اور پھر قربانیاں کرتی چلی جائے اور دعا سے بھی کام لے وہ ضرور کامیاب ہو جاتی ہے.سابق انبیاء علیہم السلام کی جماعت کا نمونہ ہمارے سامنے ہے.کیا دنیا میں کوئی بھی نبی ایسا گزرا ہے جو نا کام ہوا ہو؟“ وو گزشتہ سالوں میں جماعت پر کیسے کیسے فتنے آئے.ہر دفعہ لوگوں نے یہ سمجھا کہ اب یہ 581

Page 594

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 4 نومبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول سلسلہ مٹ جائے گا مگر ہر دفعہ تم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے سلسلہ کی معجزانہ رنگ میں حفاظت کی اور کوئی دن ایسا نہیں چڑھا جس میں پہلے سے زیادہ جماعت نے ترقی نہیں کی.مختلف ممالک میں احمدیت پھیلتی جا رہی ہے اور اسی طرح پھیلتی پھیلتی انشاء اللہ ساری دنیا کو ایک دن ادھر پھینچ لائے گی.یہ چوتھا سبق جو رمضان سے حاصل ہوتا ہے اس کا تعلق بھی تحریک جدید کے ساتھ ہے کیونکہ میں نے انیسواں مطالبہ یہی رکھا ہے کہ دعا کرو کہ اللہ تعالٰی سلسلہ کو ترقی دے.دعا کے بغیر ہماری قربانیوں کے وہ نتائج پیدا نہیں ہو سکتے جو ہم دیکھنے کے خواہش مند ہیں کیونکہ ان نتائج کا پیدا کرنا ہمارے اختیار میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.ایک ملک جو بارش کا محتاج ہو تم اگر محنت کر کے اس کی زمین میں ہل بھی چلا دو، عمدہ بیج بھی ڈال دو لیکن آسمان سے بارش نہ اترے تو تمہاری محنت کیا نتیجہ پیدا کر سکتی ہے؟ اسی طرح جس نتیجہ کے ہم امید وار ہیں وہ آسمانی بارش چاہتا ہے اور وہ آسمانی بارش دعاؤں سے ہی نازل ہوسکتی ہے.پس رمضان میں نازل ہو سکتی ہے.پس رمضان میں تحریک جدید سے اور تحریک جدید میں رمضان سے فائدہ اٹھانا چاہئے.یہ چار بڑی بڑی مناسبتیں رمضان کی تحریک جدید سے ہیں اور یہ چار مناسبتیں تحریک جدید کی رمضان سے ہیں.پس اگر تم رمضان سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو تحریک جدید پر عمل کرو اور اگر تحریک جدید کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہو تو روزوں سے صحیح رنگ میں فائدہ اٹھاؤ تحریک جدید یہی ہے کہ سادہ زندگی بسر کرو اور محنت و مشقت اور قربانی کا اپنے آپ کو عادی بناؤ اور یہی سبق رمضان تمہیں سکھانے آتا ہے.پس جس غرض کے لئے رمضان آیا ہے اس غرض کے حاصل کرنے کی جدو جہد کر وایسا نہ ہو کہ اپنی زندگی ایسی طرز میں گزار دو کہ رمضان کا آنا نہ آنا تمہارے لئے برابر ہو جائے.دو پس ہر شخص کو کوشش کرنی چاہئے کہ رمضان تحریک جدید والا ہو اور تحریک جدید رمضان والی ہو.رمضان ہمارے نفس کو مارنے والا ہو اور تحریک جدید ہماری روح کو تازگی بخشنے والی ہو.پس جب میں نے کہا کہ رمضان سے فائدہ اٹھاؤ تو دراصل میں نے تمہیں یہ سمجھایا ہے کہ تم تحریک جدید کے اغراض و مقاصد کو رمضان کی روشنی میں سمجھو اور جب میں نے کہا کہ تحریک جدید کی طرف توجہ کرو تو دوسرے لفظوں میں میں نے تمہیں یہ کہا ہے کہ تم ہر حالت میں رمضان کی کیفیت اپنے اوپر وارد رکھو اور صحیح قربانی اور مسلسل قربانی کی اپنے اندر عادت ڈالو.جو رمضان بغیر کچی قربانی کے گزر جاتا ہے وہ رمضان نہیں اور جو تحریک جدید بغیر روح کی تازگی کے گزر جاتی ہے وہ تحریک جدید نہیں...اب پھر وہ وقت آگیا ہے جب کہ تحریک جدید کے پانچویں سال کی مجھے تحریک کرنی ہے مگر اس وقت میں صرف اصولی رنگ میں اس طرف توجہ دلا دیتا ہوں.آج میں نے چاہا 33 582

Page 595

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 4 نومبر 1938ء کہ تمہیں تحریک جدید کے اصول کی طرف توجہ دلا دوں اور بتا دوں کہ بغیر ان اصول کو اختیار کئے وہ فوائد حاصل نہیں ہو سکتے جن فوائد کو حاصل کرنے کے لئے ہم کھڑے ہوئے ہیں.دراصل جب تک انسان کسی امر کی حکمت سے واقف نہیں ہوتا اس وقت تک باوجود اس کے کہ اس کا کام اچھا ہوا چھے نتائج پیدا نہیں ہوا کرتے.اب نماز ، روزہ ، زکوۃ، حج سب کام اچھے ہیں اور سب مومن ان احکام کو بجالاتے ہیں مگر سارے یکساں فائدہ نہیں اٹھاتے.ساروں کی نمازیں وہ نتیجہ پیدا نہیں کرتیں جو نمازوں سے مقصود ہے، نہ ساروں کے روزے وہ نتیجہ پیدا کرتے ہیں جو روزوں کا مقصود ہے اور نہ ساروں کی زکو میں وہ نتیجہ پیدا کرتی ہیں جو زکوۃ کا مقصد ہے.بعض لوگ بہت زیادہ چندہ دیتے ہیں مگر ان کا نتیجہ بہت کم نکلتا ہے اور بعض لوگ تھوڑا چندہ دیتے ہیں مگر نتیجہ بہت زیادہ نکلتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ مسجد میں بعض لوگوں کی آواز سنی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ہم پر کون سی وہ زیادہ فضیلت حاصل ہے؟ جیسے نیکی کے کام وہ کرتے ہیں اسی طرح نیکی کے کام ہم کرتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا اے لوگو! ابو بکر رضی اللہ عنہ کو فضیلت نماز اور روزہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس نیکی کی وجہ سے ہے جو اس کے دل میں ہے.پس نماز روزہ، حج اور زکوۃ کی بظاہر ایک ہی شکل ہے اور جس طرح ایک شخص ان احکام پر عمل کرتا ہے اس طرح دوسرا عمل کرتا ہے مگر پیچھے جو محبت ہوتی ہے وہ نتائج کو بدل کر کہیں کا کہیں لے جاتی ہے.اسی طرح نماز روزہ کا فائدہ ہر شخص اپنے ظرف کے مطابق اٹھاتا ہے.ایک شخص نماز پڑھتا ہے اور اسے نماز کا بدلہ بھی مل جاتا ہے لیکن اگر اس کے دل کا ظرف چھوٹا ہے تو جتنا نور اس کے دل میں سما سکتا ہے اتنا سما جائے گا اور باقی بہہ کر ضائع ہو جائے گا.جیسے اگر کوئی ساقی دودھ تقسیم کر رہا ہو اور اس کے ہاتھ میں ایک گلاس ہو جس کے مطابق اس نے سب کو یکساں دودھ دینا ہو تو وہ شخص جس کے پاس بڑا کٹورا ہو گا وہ تمام دودھ کٹورے میں ڈلوا لے گا اور پھر بھی اس کا کٹورا کچھ خالی رہے گا.دوسرے کے پاس فرض کرو اتنا ہی پیالہ ہے جتنے میں گلاس بھر دودھ آ سکتا ہے تو جب وہ دودھ پیالہ میں ڈلوائے گا تو گو اس کا پیالہ بھر جائے گا مگر اور دودھ کے لئے اس کے پاس کوئی گنجائش نہیں رہے گی.اسی طرح اگر کسی کے پاس تین چوتھائی جگہ ہوگی 3/4 حصہ تو پڑ جائے گا مگر باقی چوتھائی ادھر ادھر کناروں سے بہہ جائے گا اور اگر کسی کے پاس نصف گلاس دودھ کی گنجائش ہے تو نصف گلاس دودھ لے لے گا اور باقی دودھ زمین پر گر جائے گا اور اگر کسی کے پاس بہت ہی چھوٹی سی کٹوری ہے تو اس میں چند گھونٹ دودھ پڑ جائے گا اور باقی ضائع ہو جائے گا اسی طرح بے شک نماز یکساں فائدہ لاتی ہے، روزہ یکساں فائدہ لاتا ہے، حج اور زکوۃ یکساں فائدہ لاتے ہیں لیکن اگر کسی کا 583

Page 596

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 4 نومبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول ظرف چھوٹا ہو اور دل ان انوار کو سمیٹ نہ سکے جو نماز روزہ کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اترتے ہیں تو وہ ضائع چلے جائیں گے.تو اللہ تعالیٰ کے انعامات کا حصول بھی ظرف کے مطابق ہوتا ہے.جتنا ظرف کوئی اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کرتا ہے اتنی چیز اس کے ظرف میں پڑ جاتی ہے اور جو زائد ہوتی ہے وہ بہ جاتی ہے.یہ ظرف کی وسعت اور تنگی، حکمت کو سمجھنے اور جڑ کو پکڑنے کے ساتھ تعلق رکھتی ہے جیسے جیسے انسان احکام کی حکمت سمجھتا جاتا ہے اس کے دل کا پیالہ بڑھتا چلا جاتا ہے اور جتنا جتنا وہ احکام کی جڑ کو پکڑتا ہے اتنا ہی اس کے پیالہ میں مضبوطی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے.گویا پیالے کی وسعت ، حکمت کو سمجھنے اور اس کی مضبوطی جڑ کو پکڑنے سے پیدا ہوتی ہے.حکمت کے سمجھنے سے ظرف وسیع ہوتا ہے اور جڑ کے پکڑنے سے اس میں دوام اور استقلال پیدا ہو جاتا ہے.جولوگ احکام کی جڑ کو پکڑ لیتے اور حکمت کو سمجھ لیتے ہیں ان کی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ واعظوں کے وعظ سے مستغنی ہو جاتے ہیں.انہیں ضرورت نہیں ہوتی کہ واعظ آئیں اور انہیں جگائیں یا حادثات آئیں تو انہیں بیدار کریں.وہ بغیر واعظوں کے جگانے کے خود ہی ہوشیار ہوتے ہیں اور بغیر حادثات کے بیدار کرنے کے خود ہی بیدار ہوتے ہیں تو حکمتوں کو جاننا اور جڑ کو پکڑنا کامیابی کیلئے نہایت ضروری ہوتا ہے.جب تک انسان کسی کام کی حکمت نہیں سمجھتا، اس کے دل میں بشاشت پیدا نہیں ہوتی اس وقت تک انسان اللہ تعالیٰ کے انوار کو جذب بھی نہیں کر سکتا.( مطبوع الفضل 11 نومبر 1938ء) 584

Page 597

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول الہی تحریک...جلد اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 11 نومبر 1938ء ہماری اصل توجہ حضرت مسیح موعود کے ذریعہ سپرد کی گئیں امانتوں پر ہونی چاہئے خطبہ جمعہ فرمودہ 11 نومبر 1938ء میں نے گزشتہ جمعہ میں اس امر کی طرف جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ رمضان اپنے اندر خاص ا برکات رکھتا ہے اور ان برکات سے فائدہ حاصل کرنا مومن کا کام ہے اور میں نے بتایا تھا کہ رمضان بہت سے ایسے فوائد اپنے اندر رکھتا ہے جو ہمیں ان اغراض کی طرف توجہ دلاتے ہیں جن کی طرف تحریک جدید جماعت کو متوجہ کرتی ہے اور کہ معنوی طور پر تحریک جدید رمضان کے ساتھ ایک تعلق رکھتی ہے.وہ مشقت اور قربانی کی روح اور وہ استقلال اور خدا تعالیٰ کے قرب کی جستجو جو رمضان سے وابستہ ہے وہی تحریک جدید کا مقصود ہے.پس جب اس تحریک کا بھی جو شروع کی گئی ہے واحد مقصد اسلام کا قیام اور احمدیت کی مضبوطی اور اشاعت ہے تو اس کیلئے جماعت جتنی بھی جدو جہد کرے تھوڑی ہے.ہمارا پہلے دور کو کامیاب بنانا ایسا ہی تھا جیسا کہ جب کوئی شخص کسی جگہ کوئی عمارت تیار کرنا چاہے اور اس جگہ کوئی کھنڈر ہو تو اس کا پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ اسے صاف کرے.وہ اینٹیں یا ملبہ جو وہاں پڑا ہوا ہوا سے وہاں سے ہٹا دے یا وہ بوسیدہ ، خرار اور کمز ور دیواریں جو وہاں کھڑی ہوں ان کو تو ڑ کر گرا دے تا نئی عمارت کے لئے جگہ صاف ہو سکے.تحریک جدید کے پہلے دور کی غرض یہ تھی کہ دشمنانِ احمدیت کے حملہ کوتوڑا جائے جو انہوں نے احمدیت کو تباہ کرنے کی نیت سے کیا تھا مگر صرف میدان کو صاف کر لینا کوئی بڑی چیز نہیں.جب میدان صاف ہو جائے تو اصل غرض اس پر عمارت کا قیام ہوتا ہے.سو اگر ہم صرف پرانی عمارت کو صاف کر کے اس کی جگہ نئی کے قیام سے غافل رہتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے کچھ بھی نہیں کیا.کھنڈر کو صاف کرنا کوئی بڑا کام نہیں.بلکہ بعض اوقات نقصان دہ ہوتا ہے اس لئے کہ کھنڈر بھی اپنے اندر سامان عبرت رکھتے ہیں.ایک نئے نظام کیلئے پرانے عبرت کے سامان کو اگر ہم مٹادیں تو یہ کوئی بری بات نہیں لیکن اگر کوئی نیا نظام تو قائم نہ کریں اور پرانے عبرت کے سامان کو مٹا دیں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ ہم نے دنیا کو ہدایت کے ایک رستے سے خواہ وہ کتناہی مخفی کیوں نہ ہو محروم کر دیا.غرض خالی کھنڈر کو مٹا دینا کوئی فائدہ 585

Page 598

اقتباس از خطبه جمعه فرمود : 11 نومبر 1938ء نہیں پہنچا سکتا.تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول پس آج میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو گزشتہ خطبہ کے سلسلہ میں ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپر د عظیم الشان امانت کی ہے.ایسی عظیم الشان کہ جو بہت ہی کم لوگوں کو دی گئی ہے.وہ امانت صرف یہ نہیں کہ ہم اپنے آپ کو احمدی کہہ لیتے ہیں یا وفات مسیح علیہ السلام وغیرہ چند عقائد کو تسلیم کر لیتے ہیں.یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کھنڈروں کو گرانا.حیات مسیح کا عقیدہ در اصل ایک کھنڈر تھا جو اسلامی زمین پر موجود تھا اور وفات مسیح کو تسلیم کرنے کہ یہ معنی ہیں کہ ہم نے اس کھنڈر کو ہٹا دیا.کسی کھنڈر کو اگر ہٹا دیا جائے تو اس کی یہ غرض ہوتی ہے کہ وہاں نئی عمارت بنائی جائے اور اگر یہ غرض ہماری نظر کے سامنے نہیں یا ہم نے اسے پورا نہیں کیا تو ملبہ یا اینٹوں یا مٹی کے ڈھیر کو ہٹا دینے سے کیا فائدہ؟ اگر دنیا میں وہ نیا نظام قائم نہیں ہونا.جس کے رستہ میں حیات مسیح روک ہے تو اس کو ہٹانے پر اتنی طاقت اور قوت صرف کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ یہ خرابی کوئی نئی نہیں.معاصحابہ رضی اللہ عنہم کی وفات کے بعد کیونکہ ان کی زندگی میں کسی غلط عقیدہ کی اشاعت کا کوئی امکان نہ تھا لیکن ان کی وفات کے معا بعد بلکہ ابھی ان میں سے بعض زندہ ہی تھے یعنی پہلی صدی میں ہی مسلمانوں میں یہ خیال پیدا ہونے لگا کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں اور دوبارہ دنیا میں آئیں گے.دوسری صدی میں یہ خیال اور قوی ہو گیا اور تیسری صدی میں قومی تر.پہلی اور دوسری صدی میں ہمیں ایسے علماء نظر آتے ہیں جو بالوضاحت اور بالبداہت اس عقیدہ کے خلاف اعلان کرتے ہیں مگر جوں جوں زمانہ گزرتا گیا ایسے لوگ کم ہوتے گئے.حتی کہ آخری زمانہ یعنی پانچویں اور چھٹی صدی سے یہ مسلمانوں کے اندر ایسے طور پر قائم ہو گیا کہ گویا اسلام کا جزو ہے.کیا مصر اور کیا سپین، کیا مراکش اور کیا الجزائر ، کیا شام اور کیا اناطولیہ اور کیا فلسطین، عرب، عراق، ایران، بخارا، افغانستان، ہندوستان، فلپائن، سماٹرا اور جاوا میں کوئی اسلامی ملک ایسا نظر نہیں آتا جس میں یہ مسئلہ پورے طور پر قائم نہ ہو.دنیا کا ہر مسلمان اس میں مبتلا دکھائی دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ یہ بڑا اہم مسئلہ ہے اور شرک ہے مگر سوال یہ ہے کہ جو شرک چھ سو سال تک اسلامی دنیا پر اس طرح چھایا رہا جس نے پہلی ہی صدی میں اپنی شکل دکھانی شروع کی اور برابر زور پکڑتا گیا اللہ تعالیٰ کیوں اس کے مٹانے سے غافل رہا؟ کیوں نہ اسے دور کیا گیا اور کیوں اس کی اہمیت کو اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منہ سے ہی ظاہر کر ایا اور کیوں وہ دلائل جن سے حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات ثابت ہوتی ہے؟ آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ظاہر فرمائے؟ ذراسی عقل اور سمجھ رکھنے والا آدمی بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ 586

Page 599

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرموده 11 نومبر 1938ء اس زمانہ میں اس مسئلہ پر بحث کا کوئی فائدہ نہ تھا کیونکہ اس کھنڈر کے گرانے کے بعد نئی عمارت بنانے کا کوئی موقعہ نہ تھا حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے ساتھ جو اصل مقصود وابستہ ہے وہ یہ ہے کہ اس امت میں پیدا ہونے والے مسیح کے لئے راستہ صاف کیا جائے اور چونکہ اس کا موقعہ نہ تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اتنی بڑی غلطی کو چھوڑ دیا اور اس کا علاج اپنے ہاتھ میں نہ لیا بلکہ انسانوں کے دماغ پر اسے چھوڑ دیا کہ خود سوچیں.قرآن کریم میں ایسی آیات، جن سے وفات مسیح علیہ السلام ثابت ہوتی ہے، موجود تھیں.اسی طرح ایسی احادیث بھی موجود تھیں جن سے وفات مسیح ثابت ہوتی تھی.وہ آثار صحابہ موجود تھے جن سے حیات مسیح کا مسئلہ باطل ہوتا تھا.اسی طرح عقل جو اس کو رد کرتی ہے وہ بھی انسانی دماغوں میں موجود تھی اور اگر انسان چاہتا تو اس کا رد کر سکتا تھا.پس اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں خود اس کا رد نہیں کیا.اس نے کہا کہ ہم نے قرآن کریم میں اس مسئلہ کو اچھی طرح واضح کر دیا ہے.آیات قرآنیہ پر غور کرو.اپنے رسول سے اس کی حقیقت کو ظاہر کروا دیا ہے.اس کی احادیث کو دیکھ لو.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم بالخصوص خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے اسے حل کر دیا ہوا ہے.ان کے واقعات کو پڑھ لو پھر تمہارے دماغوں میں عقل موجود ہے اس سے مددلو لیکن اگر تم نہ عقل سے فائدہ اٹھاؤ اور نہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے طریق اور آثار سے، نہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے فائدہ اٹھاؤ اور نہ قرآن کریم سے تو ہم بھی چپ ہیں مگر وہی مسئلہ جس پر اللہ تعالیٰ تیرہ سو سال تک چپ رہا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اس پر اتنا زور دیا گیا کہ گویا سب سے اہم مسئلہ یہی ہے.یہ خرابی موجود تھی تیرہ سو سال سے مگر اس کی جڑ اکھیڑ نے کیلئے کوئی انتظام اللہ تعالیٰ نے نہیں کیا.قرآن کی جو آیات پکار پکار کر آج وفات مسیح علیہ السلام کا اعلان کر رہی ہیں وہ پہلے بھی موجود تھیں لیکن بالکل خاموش تھیں لیکن اب سامنے آکر دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ ہماری کی موجودگی میں تم کس طرح حیات مسیح علیہ السلام کا عقیدہ رکھتے ہو.اسی طرح وہ احادیث بھی جو وفات مسیح علیہ السلام پر شاہد ناطق ہیں تیرہ سو سال سے موجود تھیں لیکن خاموش تھیں آج کس طرح حقیقت حال کو ظاہر کر رہی ہیں.صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع چپکے سے ایک گوشے میں پڑھا تھا اور اس غلط عقیدہ کو رد کرنے میں کوئی حصہ نہ لے رہا تھا مگر آج چلا چلا کر ہمیں اپنی طرف متوجہ کر رہا اور کہہ رہا ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ان صحابہ رضی اللہ عنہم کا فیصلہ ہوں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کو قائم کیا.تم میری طرف کیوں نہیں دیکھتے ؟ وہ عقل جو پہلے بھی ہر انسان میں موجود تھی خاموش تھی مگر آج اس خیال کو دھکے دیتی اور اس پر قہقہے لگا رہی ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ایسی بات پر ایمان 587

Page 600

اقتباس از خطبه جمعه فرمود : 11 نومبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول رکھتے ہیں مگر یہ نظارہ ہمیں تیرہ سو سال کے بعد آج نظر آتا ہے پہلے نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آج خدا تعالیٰ نے ایک نئی عمارت بنانے کا فیصلہ کیا تھا.وہ عمارت بن نہیں سکتی تھی جب تک اس کھنڈر کو صاف نہ کیا جاتا.پس اس نے حکم دیا کہ اس ملبہ کو اٹھاؤ تا نئی عمارت تیار ہو سکے.غرض ضرر اور نقصان پہلے بھی موجود تھا مگر تیرہ سو سال تک آسمان سے اس کا علاج نہ کیا گیا اور خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے اسے دور کرنے کی طرف توجہ نہ کی.جس کی وجہ یہی ہے کہ کوئی نئی عمارت وہاں بنانے کا موقعہ نہ تھا مگر جب نئی عمارت بنانے کا اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا تو اس نے فورا اپنے کھنڈر کو مٹا دیا اور اس کی شناخت کو پورے زور کے ساتھ اور کھلے الفاظ میں بیان کیا.غرض حیات مسیح علیہ السلام کا مسئلہ ایک اہم مسئلہ ہے مگر اس کی حیثیت ایک کھنڈر سے زائد نہیں.اب سوال یہ ہے کہ اگر اس ملبہ کو ہٹا کر ہم خاموش ہو جائیں اور اس کی جگہ پر نئی عمارت نہ بنائیں تو اللہ تعالیٰ پر یہ الزام آتا ہے کہ اس نے صرف ملبہ کو ہی ہٹانا تھا تو پھر تیرہ سو سال میں کیوں نہ ہٹایا ؟ اللہ تعالیٰ کے اتنا عرصہ خاموش رہنے میں ایک ہی حکمت تھی کہ اس جگہ پر نئی عمارت کی تعمیر کا وقت ابھی نہ آیا تھا لیکن اب اگر ہم اس نئی عمارت کی تعمیر کو نظر انداز کر دیں تو اللہ تعالیٰ پر ضرور یہ الزام آئے گا کہ وہ اتنا عرصہ کیوں خاموش رہا؟ پس نئی عمارت کا بنایا جانا زیادہ اہم ہے اور وہی در اصل مقصود ہے.وفات مسیح کا مسئلہ گواہم ہے ہے.یہ ہمارے راستے میں آگیا اس لئے اسے حل کر لیا گیا ورنہ شاید اتنی توجہ اس کی طرف نہ کی جاتی.اصل مسائل اور ہیں اور وہی امانتیں ہیں جو ہمارے سپرد کی گئیں.ان مسائل میں سے ایک تو فہم قرآن ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ضمنی گر یہ دنیا میں قائم کیا اور وہ قرآن کریم جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيْنَةٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ (البقرة:186) وہ قرآن جو ہدایتوں اور نشانات کا مجموعہ ہے، جو جھوٹ اور سچ میں فرق اور امتیاز کر دینے والا ہے، جو نور اور تاریکی میں فرق کر دینے کا واحد ذریعہ ہے، وہ جو خدا تعالیٰ تک انسان کو پہنچاتا ہے، اس کا علم اور فہم مٹ گیا تھا.مسلمان اسے بھلا چکے تھے.اس کا کچھ درجہ تو احادیث کو دے دیا گیا تھا ، ان احادیث کو جو اگر سچی ہوں تو بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا کلام ہیں مگر موجودہ وقت میں ان میں وضعی بھی 588

Page 601

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 11 نومبر 1938ء ہیں، ان میں انسانی خیالات کا اثر بھی ہے.ایک بات کو دس آدمی سنتے اور نوٹ کرتے ہیں مگر سب میں کچھ نہ کچھ اختلاف ہو جاتا ہے.نوٹ کرتے وقت انسان پوری احتیاط کے باوجود بھی غلطی کر جاتا ہے.راوی خواہ کتنے بچے ہوں لیکن اگر بات سنتے سنتے کسی کا خیال کسی اور طرف چلا جائے اور کوئی حصہ رہ جائے تو غلطی کا ہو جانا بعید نہیں.پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض راوی بات کو سمجھ ہی نہ سکے ہوں.پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سننے والے آگے جن سے بیان کریں وہ اچھی طرح سمجھ نہ سکے ہوں یا کسی وقت ان کا دماغ کسی اور طرف متوجہ ہو جائے اور یہی سلسلہ پانچ سات آدمیوں تک چلتا جائے.تو اس کے نتیجہ میں جو بات بن جائے گی اس میں غلطی کا کس قدرا مکان ہوگا اور مفہوم کس قدر بدل جائے گا.پس احادیث خواہ وضعی نہ ہوں، کچی ہی ہوں پھر بھی ان میں کئی وجوہ سے غلطی کا امکان ہے اور وہ اس طرح ہدایت کا موجب نہیں ہو سکتیں جس طرح قرآن، جس کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک شعفہ محفوظ ہے مگر قرآن کریم کی کچھ جگہ تو ان احادیث کو دے دی گئی ، کچھ اپنے فلسفہ کو، کچھ اپنے رسوم و رواجات کو اور کچھ اپنی ہوا اور خواہشات کو حتی کہ قرآن کے لئے کوئی جگہ ہی باقی نہ رہی اور وہ اُڑ کر آسمان پر چلا گیا.اسی واقعہ کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آخری زمانہ میں قرآن کریم کے صرف الفاظ باقی رہ جائیں گے.لَا يَبْقَ مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسُمُهُ یعنی قرآن باقی نہیں رہے گا.صرف اس کے الفاظ رہ جائیں گے اور لَا يَبْقَ مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ اسلام باقی نہیں رہے گا صرف اس کا نام رہ جائے گا.قرآن کریم کی صرف سیاہی باقی رہ جائے گی گویا وہ بالکل ایک مردہ جسم ہوگا اور ظاہر ہے کہ مردہ جسم کسی کام کا نہیں ہو سکتا.کسی شخص کے ماں باپ مر جائیں تو کیا وہ اس بات پر خوش ہو سکتا ہے کہ ان کا جسم اس کے پاس رہے جب تک وہ بات نہ کریں مشورہ نہ دیں، اگر وہ مذہبی خیالات رکھتے ہیں تو اس کے لئے دعائیں نہ کریں اور اگر دنیوی خیالات کے ہیں تو اس کی دنیوی ترقی کے لئے کوئی سعی اور کوشش نہ کریں؟ اسی طرح جب قرآن کریم کی روح باقی نہ رہی تو وہ جسم بے جان تھا جس سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا جا سکتا تھا.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اس میں پھر روح قائم کی اور قرآن کریم کا وہ علم بخشا جس کی مثال آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد تیرہ سو سال میں نہیں ملتی.آج جو فہم قرآن کریم کا ہمیں حاصل ہے اس کے مقابلہ میں پچھلی تمام تفاسیر پیچ میں جو علوم خدا تعالیٰ نے ہمیں دیئے ہیں 589

Page 602

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 11 نومبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول ان کو پڑھنے والے پرانی تفاسیر کو بغدادی قاعدہ سے زیادہ نہیں سمجھتے.ابھی جو بچے ہمارے باہر سے آئے ہیں ان میں سے عزیزم ناصر احمد سلمہ اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ مغرب میں جو لوگ احمدیت کی طرف مائل ہورہے ہیں ان پر صرف یہ اثر ہے کہ قرآن کریم کی جو تفسیر ہماری طرف سے شائع ہوتی ہے اس سے وہ یہ مجھتے ہیں کہ قرآن کریم واقعی ایک زندہ کتاب ہے.پہلے لوگ عیسائیت یا دہریت کی طرف مائل تھے وہ جب ہماری پیش کردہ تفسیر دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ او ہو یہ تو بہت بڑا خزانہ ہے اس لئے وہ واپس اسلام کی طرف لوٹ رہے ہیں.ان پر نہ کوئی وفات کے دلائل کا اثر ہوتا ہے اور نہ ختم نبوت کا بلکہ صرف ہماری تفسیر کا.جب وہ اسے دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اب ہمیں معلوم ہوا کہ قرآن کریم واقعی ایک زندہ کتاب ہے.ہم بے وقوفی سے اسے چھوڑ رہے تھے.تو جو فہم قرآن کریم کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے دیا اور اصولی طور پر آپ نے ہمیں جس کی تعلیم دی ہے وہ اتنا بڑا اخزانہ ہے کہ موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ درمیان کے تیرہ سو سال کے تمام علوم اس کے سامنے بیچ ہیں.پھر دوسری چیز حقیقت احکام اسلام ہے.اس سے بھی مسلمان غافل تھے.صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معا بعد مسلمانوں نے اسلام کے احکام کی حقیقت سمجھنے سے غفلت برتنی شروع کر دی تھی.صرف انہیں احکام قرار دے کر ان پر عمل ہونے لگا.نماز کو ایک حکم سمجھ کر نماز ادا کی جاتی تھی اور روزہ کو ایک حکم سمجھ کر روزہ رکھا جا تا تھا مگر یہ بات کہ ان احکام کی حکمت کیا ہے؟ اس طرف سے توجہ بالکل ہٹ گئی تھی.نتیجہ یہ ہوا کہ احکام اسلام پر عمل کی رغبت نہ رہی یہاں تک کہ چوتھی صدی میں امام غزالی نے اس کے خلاف احتجاج کیا اور احکام کی حکمتیں بتا کر ان کی طرف رغبت دلانے کی کوشش کی.ان کے لٹریچر کے نتیجہ میں کچھ توجہ اس طرف ہوئی اور اس نے مسلمانوں کو کچھ فائدہ بخش مگر پھر نیند کا غلبہ ہوا اور احکام اسلام کے صرف لفظ رہ گئے اور روح مٹ گئی.حتی کہ ولی اللہ شاہ صاحب دہلوی کا زمانہ آیا.انہوں نے بعض کتابیں لکھیں جن میں احکام اسلام کی حکمت بیان کی مگر ان کا دائرہ اثر بالکل محدود تھا اور صرف چند لوگ ہندوستان میں ایسے تھے جن پر ان کا اثر ہوا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ شخص قریب میں آنے والا تھا جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس حکمت کو ظاہر کرنا تھا.جب سورج چڑھنے والا ہو تو صبح کے ٹمٹماتے ہوئے چراغ کی طرف نظر نہیں اُٹھا کرتی.پس مسلمان غافل ہی رہے حتی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ آ گیا اور آپ نے اسلام کے احکام کی حکمت ایسے رنگ میں بیان کی کہ ہر ایک شخص کی سمجھ میں آگئی کہ یہ احکام ہمارے ہی نفع کے لئے ہیں اور دنیا پر یہ حقیقت ظاہر ہو گئی کہ دنیا کی نجات ان قوانین میں نہیں جو نئے نئے بنائے ہیں بلکہ قرآن کی 590

Page 603

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اؤل اقتباس از خطبه جمعه فرمود : 11 نومبر 1938ء طرف جانے میں ہی ہے.آپ نے اسلام کے وہ احکام جن کے متعلق مسلمان بھی معذرتیں پیش کرتے ! اور کہتے تھے کہ یہ خاص اوقات کیلئے ہیں نہایت جرات کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کئے اور ابھی زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ یورپ میں زلزلے آنے لگے اور بڑے بڑے فلاسفر اس طرف آنے پر مجبور ہو گئے اور وہ سمجھنے لگے کہ نئے مسائل ان کو تباہی کی طرف لے جارہے ہیں.شراب اور سود میں حد بندیاں ہونے لگیں، طلاق کے مسئلہ میں آزادی ہوئی اور کثرت ازدواج میں جو سختی سے کام لیا جارہا تھا اس میں نرمی کی تحریک یورپ کے لوگوں میں شروع ہو گئی.عریانی کے معاملہ میں بھی آزادی کی بڑھتی ہوئی رو میں کمی آنے لگی.ان مسائل میں اسلام کی تعلیم کو پہلے حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور اسے اولڈ فیشن اور پرانے زمانہ کی تعلیم کہا جاتا تھا مگر اس کے بعد یورپ میں بھی جو زلزلے آئے اور جو حرکتیں ہوئیں انہوں نے نئے قوانین کی عمارتوں کو گرا کر لوگوں کو پھر اس تعلیم کی طرف آنے پر مجبور کیا جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پرانی تعلیم بتا کر پیش کیا تھا.طلاق کے بارہ میں وسعت پیدا ہو رہی ہے.یورپ میں ایک زبردست جماعت پیدا ہو رہی ہے جو یہ کہہ رہی ہے کہ کثرت ازدواج میں آزادی ہونی چاہئے.سود کے بارہ میں حد بندیوں کی حامی بھی زبر دست جماعت پیدا ہوگئی ہے جن میں سے ہٹلر اور جرمن کی یونیورسٹیوں کے پروفیسر پیش پیش ہیں.چند سال ہوئے برلن کی یونیورسٹیوں کے بعض پروفیسروں نے اپنی چھٹیاں اس لئے وقف کی تھیں کہ لوگوں کو جا کر سود کی برائیوں سے آگاہ کریں.پہلے کون کہ سکتا تھا کہ یورپ جوان بیماریوں کو پیدا کرنے والا ہے وہی ان کے علاج کی طرف متوجہ ہو گا؟ یہ تغیرات آج سب لوگوں کو نظر نہیں آتے جو مجھے آتے ہیں.بے شک یورپ ابھی شراب کو چھوڑ نہیں سکا.طلاق میں بھی اسلامی تعلیم کو قائم نہیں کر سکا اور یہی حال دوسرے مسائل کا ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس کا مزاج کس طرف مائل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ آرہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج اور اصل چیز یہی ہے کہ یورپ کا مزاج اس طرف آرہا ہے اور جب اس طرف میلان ہو رہا ہے تو ایک نہ ایک دن ان احکام پر عمل بھی ہو کر رہے گا.تمام قوم کو ایک ہی دن میں کسی بات پر قائم نہیں کیا جاسکتا.ہماری جماعت جو خدا تعالیٰ کو مانتی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا نبی یقین کرتی ہے.وہ کون سی ہر بات پر پوری طرح فورا عمل کرتی ہے.بے شک بعض لوگ ایسے ہیں جو ہر اس بات پر جو پیش کی جاتی ہے فوراً عمل شروع کر دیتے ہیں مگر کئی ایسے ہیں جن کو ہموار کرنا پڑتا ہے.جس طرح کوئی 591

Page 604

اقتباس از خطبه جمعه فرمود : 11 نومبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول کیل موٹا ہو تو اسے رگڑ رگڑ کر ٹھیک کرنا پڑتا ہے.پھر یورپ کے لوگ جن کی کھٹی میں یہ چیزیں داخل ہیں.ان کو ایک دن میں کس طرح چھوڑ سکتے ہیں؟ مگر یہ سب باتیں احمدیت میں ہی مل سکتی ہیں.اگر یہ مٹ جائے تو قرآن بھی ساتھ ہی مٹ جاتا ہے، اگر یہ مٹ جائے تو اسلام کے احکام کی حکمت بھی ساتھ ہی مٹ جاتی ہے.پھر جماعت احمدیہ ہی ایک ایسی جماعت ہے جس نے خدا تعالیٰ کیلئے اپنی تمام طاقتوں کو لگا دیا ہے.اس کے سوا کوئی جماعت ایسی نہیں جو خدا تعالیٰ کیلئے کوئی کام کرتی ہو.مصر، فلسطین، عرب، افغانستان ، ترکی اور خود ہندوستان میں نئی نئی ترقیات ہو رہی ہیں مگر ان کا محور کہیں بھی خدا تعالیٰ کی ذات نہیں.سب تحریکات وطنی اور قومی ہیں اور خدا تعالیٰ کا خانہ سب جگہ خالی ہے.اگر کوئی جماعت دعوی کے لحاظ سے بھی ایسی ہے تو وہ صرف ایک احمدیہ جماعت ہے.یہ کوئی سوچنے والی بات نہیں اس میں کسی غور اور فکر کی ضرورت نہیں.دنیا میں کوئی اور جماعت ایسی پیش کرو جو خدا تعالیٰ کی حکومت قائم کرنے کیلئے کام کر رہی ہو.یقیناً ایسا نہ کر سکو گے.مصری ، ترکی، عربی اور ہندوستان کی سب مذہبی اور سیاسی تحریکات میں سے کوئی ایسی نہیں جس کی یہ غرض ہو.ہندوستان کی جمیعۃ العلماء بھی آج یہی کہہ رہی ہے کہ کانگرس کے ساتھ شامل ہوئے بغیر اسلام زندہ نہیں رہ سکتا اور ظاہر ہے کہ جس اسلام کو زندہ رہنے کے لئے کانگریس کی مدد درکار ہے اس کی حقیقت کو ہر مسلمان خود سمجھ سکتا ہے.غرضیکہ دنیا میں کوئی ایسی جماعت نہیں نہ چھوٹی نہ بڑی جو خدا تعالی کیلئے کام کرتی ہو.صرف یہی ایک جماعت احمدیہ ہے جو محبت الہی کے محور کے گرد گھومتی ہے اور جس کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو کھینچ کر خدا تعالیٰ کے پاس لایا جائے.دنیا میں لوگ مال کی قربانیاں بھی کرتے ہیں اور جذبات کی بھی مگر ان میں سے کوئی بھی خدا تعالٰی کے لئے نہیں ہوتی سب ذاتی یا خاندانی یا قومی اغراض کے ماتحت ہوتی ہیں.خدا تعالی کیلئے کوئی نہیں ہوتی.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مرتبہ اور درجہ کی صحیح شناخت بھی احمدیت سے باہر نظر نہیں آتی.منہ سے کہنا کہ ہم آپ کے عاشق ہیں اور بات ہے لیکن ان لوگوں کی تقریروں کو اگر سنو تو اگر وہ ہمارے دلائل کی خوشہ چینی نہیں کرتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نقل نہیں کرتے تو ان میں سوائے اس کے کچھ نہیں ہو گا کہ آپ کملی والے ہیں، آپ کی زلفیں ایسی تھیں.وہ یہ نہیں سوچتے کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی یہی خوبیاں تھیں جن کیلئے اللہ تعالیٰ تیرہ سو سال سے دنیا میں لڑائیاں ، جھگڑے اور خونریزیاں کراتا رہا ہے.ان کے ذہن اس سے آگے نہیں جاتے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا خلق، انسانی روح کی ترقی کے مدارج کا بیان اور اس کی ترقی کیلئے روحانی نور کا مہیا کرنا.یہ ساری خوبیاں ان کی نظر سے پوشیدہ ہیں.اگر یہ خوبیاں کسی کے سامنے 592

Page 605

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرمود : 11 نومبر 1938ء آئیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اور اگر آج یہ خزانہ کہیں موجود ہے تو جماعت احمدیہ میں.پھر خدا تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ سے روحانی ترقیات کا جو دروازہ کھول دیا ہے، امید کے دودھ سے لبریز پیالہ جو دیا ہے وہ بھی ہمارے سوا کسی کے پاس نہیں.تمام مسلمان آپ کی ذات کو مایوس اور افسردگی کا پیغام قرار دیتے ہیں اور ایک ایسی دیوار ظاہر کرتے ہیں جو افضال الہی کے دروازہ کے آگے کھڑی ہے.صرف ایک ہی شخص ہے جس نے بتایا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک دروازہ کو بند کرنے والی دیوار نہیں ہیں بلکہ ایک بند دیوار کا دروازہ ہیں جو خدا تعالیٰ اور بندے کے درمیان حائل تھی.ختم نبوت بند کرنے والی دیوار نہیں بلکہ ایک وسیع دروازہ ہے جس سے ہو کر بندہ خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے.اس کے یہ معنی نہیں کہ خدا تعالٰی اور بندے کے تعلقات منقطع ہو گئے بلکہ یہ ہیں کہ زیادہ کثرت اور وسعت کے ساتھ خدا تعالیٰ آپ کے وجود میں سے ہو کر بندے تک پہنچے گا.یہ وہ عظیم الشان امید کا دروازہ ہے اور امنگیں پیدا کرنے والی تعلیم ہے جو احمدیت سے باہر نظر نہیں آسکتی.اگر احمدیت نہ ہو تو یہ خزانہ پھر مٹ جاتا ہے.یہ امور دنیا سے مخفی تھے اور صرف احمدیت کے ذریعہ ہی ظاہر ہوئے.بے شک ظاہری علماء کی دنیا میں کمی نہیں تھی اور نہ ہے.عربی کے ایسے بڑے بڑے عالم دنیا میں موجود ہیں جو ہمارے بڑے بڑے علماء کو برسوں پڑھا سکتے ہیں.روایات حدیث کی چھان بین کے ایسے ایسے ماہر دنیا میں موجود ہیں.صرف و نحو کے ایسے ایسے ماہر میں موجود ہیں جو ہمارے علماء کو برسوں پڑھا سکتے ہیں لیکن یہ ایک قشر ہیں.ایک مکان جب تیار کیا جاتا ہے تو اس کے باہر سفیدی کرنے اور پھول اور بیل بوٹے بنانے کے بعد والے بھی مفید کام کرنے والے ہوتے ہیں لیکن اگر عمارت بنانے کے بعد اس میں رہنے والے میسر نہ ہوں تو وہ عمارت کسی کام کی نہیں.تغلق خاندان کے ایک بادشاہ نے ایک نیا شہر آباد کیا تھا اور وہ لوگوں کو جبراً وہاں لے گیا مگر دوسرے سال لوگ پھر وہاں سے بھاگ آئے اور وہ اُجاڑ ہو گیا.تو جب تک قرآن کریم کا مغز اور رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حقیقی روح نہ ہو کسی میں خالی علم کا ہونا کسی کام کا نہیں.جہاں تک عرفان کا تعلق ہے وہ جاہل ہیں اور ہمارے جاہل بھی ان سے زیادہ عالم ہیں.اگر دولت صرف روپوں اور پونڈوں کا نام نہیں اور یقینا نہیں تو ہمیں وہ خزانہ ملا ہے جس کے مقابل میں دنیا کے سب خزانے بیچ ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ اس خزانہ کو محفوظ رکھیں.کسی شخص کی جیب میں اگر دس بیس روپیہ کے نوٹ ہوں تو وہ بار بار جبیب پر ہاتھ مارتا ہے.دو چار سور و پیہ ہو تو بڑی احتیاط سے اس 593

Page 606

اقتباس از خطبه جمعه فرمود : 11 نومبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول کی نگرانی کرتا ہے.پچاس ساٹھ ہزار یا لا کھ دو لاکھ ہو تو اسے بنکوں میں محفوظ کرتا ہے.جس کے پاس لاکھوں روپیہ ہو اس کی نیند بھی حرام ہو جاتی ہے اور کروڑوں کا مالک تو اپنی زندگی کا مقصد اس کی حفاظت ہی سمجھتا ہے.کہنے کو تو وہ اس کا مالک ہوتا ہے لیکن حقیقتا وہ اس دولت کا چوکیدار ہوتا ہے.تو جس قوم کو ایسی عظیم الشان دولت ملی ہو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس کی ذمہ داری کتنی بڑی ہے.اس ذمہ داری کو پورا کرنے کیلئے دو اصول پر عمل کرنا ضروری ہے.اول تو جگہ کے لحاظ سے ہمارا فرض ہے کہ اسے پھیلا دیں کیونکہ اس کا ایک ہی جگہ رہنا بہت خطرناک ہے.کون کہہ سکتا ہے کہ کل کو کوئی ایسی حکومت نہیں آئے گی جو اسے مٹانے کے درپے ہو اس لئے ہمارا فرض ہے کہ اسے اس طرح پھیلا دیں کہ اگر دس ، ہیں، چالیس، پچاس، نوے، پچانوے بلکہ ناوے فیصدی حکومتیں بھی اسے مٹانا چاہیں تو ایک نہ ایک ٹھکا نہ ضرور ایسا ہو جہاں احمدیت آزادی کے ساتھ اپنے خیالات پھیلا رہی ہو.سچائی بھی مخالفت کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی اور اس لئے جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ ہم مخالفت کے بغیر ہی کامیاب ہو جائیں گے وہ غلطی خوردہ ہے.اگر یہ صحیح ہے کہ احمدیت ایک روحانی طاقت ہے تو جوں جوں یہ طاقت میں بڑھتی جائے گی اس کی مخالفت بھی بڑھتی جائے گی.یہاں تک کہ وہ دن آجائے گا کہ دنیا کی آخری لڑائی اسی سوال پر لڑی جائے گی کہ دنیا میں احمدیت رہنی چاہئے یا دوسرے خیالات.پس اس کی حفاظت کیلئے پہلی چیز تو یہ ہے کہ ہم اسے پھیلا دیں تا اگر اکثر حکومتیں بھی اسے مٹا دیں تب بھی ایسی جگہیں باقی رہ جائیں جہاں احمدیت پوری شان کے ساتھ قائم ہو اور ترقی کی طرف قدم اٹھا سکے.دوسرے اسے زمانہ کے لحاظ سے قائم کرنا ضروری ہے.اگر ہم اسے ساری دنیا میں پھیلا دیں لیکن ہماری آئندہ نسلیں احمدیت پر مضبوط نہ ہوں تو ہماری ساری محنت رائیگاں جائے گی.پس صرف دنیا تک اس کو پہنچا دینا ہی ہمارا کام نہیں ہے بلکہ آئندہ نسلوں میں اس کا قائم کرنا بھی ہے.ہمارا ایک حملہ مقام پر ہونا چاہئے اور دوسرا زمانہ پر.مقام کے لحاظ سے اسے گوشہ گوشہ میں پہنچا دینا ضروری ہے اور زمانہ کے لحاظ سے آئندہ نسلوں تک.اگر ہم اسے ساری دنیا میں پہنچا دیں مگر آئندہ نسلوں میں اسے مضبوطی سے قائم نہ کریں تو وہ ایسا ہی ہوگا جیسے کوئی شخص قطب صاحب کے مینار سے بھی دس گنا اونچا مینار بنالے لیکن جس دن وہ کھڑا ہو اس سے اگلے روز وہ گر جائے.پس ہمارا فرض ہے کہ اسے نہ صرف مقام کے لحاظ سے بلکہ زمانہ کے لحاظ سے بھی مضبوط کریں ہمارا کہ نہ مقام کے لحاظ سے کہ زمانہ کے لحاظ سےبھی مضبوط 594

Page 607

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرمود 0 11 نومبر 1938ء اور اسے سینکڑوں ہزاروں سالوں تک پھیلانے کا انتظام کر دیں اور اس عظیم الشان کام کو دیکھتے ہوئے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس کیلئے عظیم الشان جد و جہد کی ضرورت ہے جو بیدار کرنے والوں سے مستغنی ہو.جو بیداری دھماکوں سے پیدا ہو وہ بھی کیا بیداری ہے؟ جا گنا وہی مفید ہوتا ہے جو انسان جاگتا اور پھر جاگتا ہی رہتا ہے.جو بیدار ہوتا اور پھر سو جاتا ہے وہ افیونی کی طرح ہے.دھماکوں سے بیدار ہونا اور پھر سو جانا بہت بڑا مرض ہے اور مجھے افسوس ہے کہ ہماری جماعت کی بیداری اس وقت تک دھماکوں کی بیداری ہے.تحریک جدید کے شروع میں میں نے جماعت کو اس طرف خاص طور پر متوجہ کیا تھا مگر افسوس ہے کہ اس سبق کو جماعت نے یاد نہیں کیا.جب تحریک جدید کا اعلان کیا گیا ہے اس وقت جماعت میں ایسی بیداری پیدا ہو چکی تھی کہ میں نے اس کا صحیح اندازہ نہ ہونے کی وجہ سے جب اپنے محدود علم کے مطابق علم جماعت سے ستائیس ہزار روپیہ کا مطالبہ کیا اور کہا کہ تین سال کیلئے یہ رقم درکار ہے تو جماعت نے ایک لاکھ سات ہزار کے وعدے کئے.حالانکہ وعدے کرنے والوں میں سے بہتوں نے ابھی صرف پہلے ہی سال کا حصہ دیا تھا.کتنی عظیم الشان بیداری تھی مگر یہ دھماکے کی بیداری تھی.دشمن نے ایک تھپڑ رسید کیا تھا جس سے جماعت میں ایک سنسنی پیدا ہوئی لرزہ پیدا ہوا اور وہ بیدار ہوگئی.میں نے اس وقت یہ کہا تھا کہ جو بیداری مار سے پیدا ہو وہ کوئی بیداری نہیں.وہ خدا تعالیٰ کیلئے نہیں بلکہ دشمن کیلئے ہوتی ہے اور اس کا ثواب اگر دشمن کو مل سکتا تو اسے ملتا.غرض 1934 ء کے آخر میں جماعت میں جو بیداری ہوئی اس کے نتیجہ میں جماعت نے ایسی غیر معمولی قربانی کی روح پیش کی جس کی نظیر اعلیٰ درجہ کی زندہ قوموں میں بھی مشکل سے مل سکتی ہے.کمزور قوموں سے مقابلہ کا کوئی سوال ہی نہیں.یہ قربانی زندہ قوموں کے مقابل پر بھی فخر کے ساتھ پیش کی جاسکتی ہے مگر وہ تھپڑ اور مار کے نتیجہ میں تھی.دشمن کے تھپڑ سے دوست یک دم گھبرا گئے اور انہوں نے محسوس کیا کہ ہم پیسے جانے لگے ہیں.تب خیال کیا کہ موت سے پہلے کچھ خرچ کر لو.اس کے بعد دوسرا اور تیسرا سال آیا اور میں نے ہر موقعہ پر سمجھایا کہ حقیقی قربانی دائمی قربانی کا نام ہے مگر تھیٹر کی چوٹ اور صدمہ جوں جوں کم ہوتا گیا، جوں جوں دشمن کو ذلت نصیب ہوتی گئی ، جماعت کے لوگ بھی لیٹنے لگے اور بعض تو غفلت کی نیند سو گئے.حتی کہ جب میں نے دوسرے دور کی تحریک کی تو بعض لوگوں نے خیال کر لیا کہ ہم اپنا فرض ادا کر چکے ہیں اور اب ہمیں کسی اور آواز کے سننے کی ضرورت نہیں.میں مانتا ہوں کہ تحریک جدید کے پہلے دور میں احباب نے غیر معمولی کام کیا اور ہم اسے فخر کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں.مؤرخ آئیں گے 595

Page 608

اقتباس از خطبه جمعه فرمود : 11 نومبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول جو اس امر کا تذکرہ کریں گے کہ جماعت نے ایسی حیرت انگیز قربانی کی کہ جس کی مثال نہیں ملتی اور اس کے نتائج بھی ظاہر ہیں.حکومت کے اس عصر کو جو ہمیں مثانے کے درپے تھا متواتر ذلت ہوئی.اس نے جھوٹ اور فریب سے کام لیا، جھوٹی مسلیں تک بنا ئیں مگر اللہ تعالیٰ نے اسے نا کام کیا اور ہم اندر بھی اور باہر بھی ہر جگہ اس قابل ہوئے کہ اعلیٰ حکام کو بتا سکیں کہ وہ ان کو بھی دھوکہ دیتے رہے ہیں اور دنیا کو بھی حتی کہ گورنمنٹ کو بھی محسوس کرنا پڑا اور اس نے پہلے نوٹس کے متعلق اپنی غلطی کو تسلیم کیا اور تسلیم کیا کہ اس کی غلطی تھی اور ہم حق پر تھے مگرفتنہ پرداز حکام نے پھر کوشش کی کہ ایسی صورت پیدا کر دیں جس سے وہ اپنی شکست کو چھپا سکیں مگر انہیں پھر نا کامی ہوئی.کچھ عرصہ ہوا اس ضلع میں مسٹرائر ڈپٹی کمشنر ہو کر آئے تھے.انہوں نے مجھ سے گفتگو کی اور کہا کہ کیوں نہ جماعت احمد یہ اور گورنمنٹ میں صلح ہو جائے؟ میں نے انہیں کہا کہ ہم صلح کے لئے تو ہر وقت تیار ہیں مگر دب کر صلح نہیں کریں گے.انہوں نے ایک سکیم پیش کی اور کہا کہ اس سے جماعت کی عزت بھی قائم رہے گی اور گورنمنٹ کی بھی.میں نے ان سے کہا کہ گورنمنٹ کو ذلیل کرنا تو ہمارا مقصد ہی نہیں.افسوس ہے کہ وہ جلد یہاں سے چلے گئے.اگر چہ انہوں نے کہا تو یہ تھا کہ میں اس وعدہ پر اس ضلع میں آیا ہوں کہ مجھے کم سے کم تین سال تک رہنے کا موقعہ دیا جائے گا مگر وہ جلد رخصت پر گئے اور پھر غالباً پنجاب سے ہی بدل دیئے گئے.انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ میں پچھلی تمام مسلیں پڑھوں گا اور پھر سب واقعات پر غور کر کے اس امر کے متعلق کوئی رائے قائم کروں گا کہ جماعت احمدیہ پر کہاں تک سختی ہوئی ہے.اس کے بعد وہ جلد یہاں سے چلے گئے لیکن جانے سے کچھ عرصہ پہلے ایک دفعہ خان صاحب مولوی فرزند علی ان سے ملے تو انہوں نے خان صاحب سے کہا کہ اس وقت تک میں نے تین مسلیں پڑھی ہیں اور میری یہی رائے ہے کہ اس معاملہ میں آپ حق پر تھے اور آپ پر نا واجب سختی کی گئی تھی.افسوس کہ انہیں موقعہ نہ ملاور نہ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ جاتی دفعہ میں ایک ایسا تفصیلی نوٹ چھوڑ کر جاؤں گا جس میں ان تمام امور کے متعلق جن میں آپ حق پر ثابت ہوں گے آپ کی بر کت کر دی جائے گی تو یہ موقعہ بھلا کسی دوسری کمیونٹی کو کہاں مل سکتا ہے کہ وہ ثابت کر دے کہ حکام نے غلطی کی تھی اور وہ حق پر تھے؟“ " اس کے علاوہ جو جماعت میں تبدیلی ہوئی وہ بہت ہی شاندار ہے.ہماری جماعت لاکھوں کی تعداد میں ہے جس میں امیر غریب ہر طبقہ کے لوگ ہیں.بعض ان میں سے ایسے ہیں جن کو سات سات آٹھ آٹھ کھانے کھانے کی عادت تھی اور جن کے دستر خوان پر ایک سرے سے دوسرے سرے 596

Page 609

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول تک کھانے ہی کھانے پڑے ہوتے تھے“." اقتباس از خطبه جمعه فرموده 11 نومبر 1938ء مگر تحریک جدید کے ماتحت سب نے ایک ہی کھانا کھانا شروع کر دیا اور نہ صرف احمدیوں نے بلکہ بیسیوں بلکہ سینکڑوں غیر احمدیوں نے بھی اس طریق کو اختیار کر لیا.میری ایک ہمشیرہ شملہ گئی تھیں انہوں نے بتایا کہ وہاں بہت سے رؤسا کی بیویوں نے مانگ مانگ کر تحریک جدید کی کا پیاں لیں اور کہا کہ کھانے کے متعلق ان کی ہدایات بہت اعلیٰ ہیں.ہم انہیں اپنے گھروں میں رائج کریں گی.ایک نوجوان نے بتایا کہ وہ بعض غیر احمدیوں کے ساتھ ایک میس میں شریک تھے.تحریک جدید کے بعد جب انہوں نے دوسرا کھانا کھانے سے احتراز کیا اور دوسرے ساتھیوں کے پوچھنے پر اس کی وجہ ان کو بتائی تو انہوں نے بھی وعدہ کیا کہ یہ بہت اچھی تحریک ہے ہم بھی آئندہ اس پر عمل کریں گے.پھر میں نے سینما دیکھنے کی ممانعت کی تھی.اس بات کو ہمارے زمیندار دوست نہیں سمجھ سکتے کہ شہریوں کے لئے اس ہدایت پر عمل کرنا کتنا مشکل تھا.شہر والے ہی اسے سمجھ سکتے ہیں.ان میں سے بعض کے لئے سینما کو چھوڑنا ایسا ہی مشکل تھا جیسے موت قبول کرنا.جن کو سینما جانے کی عادت ہو جاتی ہے وہ اسے زندگی کا جزو سمجھتے ہیں مگر ادھر میں نے مطالبہ کیا کہ اسے چھوڑ دو اور اُدھر نانوے فیصدی لوگوں نے اسے چھوڑ دیا اور پھر نہایت دیانتداری سے اس عہد کو نبھایا اور عورت مرد سب نے اس پر ایسا عمل کیا کہ جو دنیا کے لئے رشک کا موجب ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس سے لاکھوں روپیہ بچ گیا ہو گا.سینمادیکھنے والے عموماً روزانہ دیکھتے ہیں.اگر مہینہ میں دس دن بھی سینما کے شمار کئے جائیں اور صرف چار آنہ والے ٹکٹ کا اندازہ کیا جائے تب بھی سال میں تمیں روپے فی کس کا خرچ ہے اور اگر جماعت کے سینما جانے والوں کی تعداد ایک ہزار بھی جائے تو تمیں ہزار سالانہ کی بچت جماعت کو ہو گئی جور تم کہ چار سال کے حساب سے سوالاکھ بنتی ہے مگر سارے چار آنہ میں ہی دیکھنے والے نہیں ہوتے بعض روپیہ دو روپیہ کا ٹکٹ لیتے ہیں.پھر اس سے جو وقت بچا اس کی قیمت کا اندازہ کرو.گھر سے سینما آنے جانے ، تماشہ کا انتظار، خود تماشہ کا وقت، اگر اندازہ لگایا جائے تو تین چار گھنٹہ سے کم نہ ہوتا ہوگا ، یہ وقت بھی بچ گیا.پھر گھروں میں اس سے امن قائم ہوا.جو لوگ سینما دیکھنے جاتے تھے ان کی بیویوں کو واپسی تک جا گنا پڑتا ہو گا جس سے بعض اوقات لڑائی بھی ہو جاتی ہوگی.اب ایسے لوگ جلدی گھر آجاتے ہوں گے اور میاں بیوی کو باہم دُکھ سکھ کی بات چیت کرنے کا موقع مل جاتا ہو گا کسی کی نیند خراب نہیں ہوتی ہوگی.پس یہ مطالبہ معمولی نہ تھا لیکن جماعت نے ایسے سنا اور پورا کر دیا اور اس سے فوائد بھی حاصل کئے.اس کے علاوہ کون نہیں جانتا کہ عورت کپڑوں پر مرتی ہے مگر ہزار ہا 597

Page 610

اقتباس از خطبه جمعه فرمود : 11 نومبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول عورتوں نے دیانتداری سے لباس میں سادگی پیدا کرنے کے حکم پر عمل کیا.یہ باتیں انفرادی قربانی اور قومی فتح کا ایک ایسا شاندار نمونہ ہیں جس کی مثال کم ملتی ہے.یہ قربانی معمولی نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبہ کی قربانی ہے اور دیکھنے والی آنکھ کیلئے اس میں فتوحات کا لمبا سلسلہ ہے.پھر کتنے نئے ممالک میں احمدیت روشناس ہوئی.کم سے کم دس پندرہ ممالک ایسے ہیں.کئی علاقوں میں گواحدیت پہلے سے تھی مگر تحریک جدید کی جدو جہد کے نتیجہ میں اس کا اثر پہلے سے بہت وسیع ہو گیا ہے.اس کے علاوہ ایک یہ نتیجہ نکلا کہ اس سے پہلے دنیوی لحاظ سے جماعت کو صرف ایک دستہ فوج سمجھا جاتا تھا اور اس کی حیثیت مسلمانوں کے ایک بازو کی تھی لیکن احرار اور بعض حکام نے ہمارے خلاف جو شورش پیدا کی اس سے ڈر کر سارے مسلمانوں نے ہم کو علیحدہ کر دیا.خود گورنر پنجاب نے ایک دفعہ چودھری سر ظفر اللہ خان صاحب سے کہا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے مخالف صرف احرار ہیں؟ سب قوموں اور فرقوں کے لوگ میرے پاس آ آ کر آپ کی شکایتیں کرتے ہیں.ممکن ہے کہ اس میں کچھ مبالغہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ جو لوگ ہمارے مؤید تھے انہوں نے کبھی ان کے سامنے اپنے خیالات ظاہر نہ کئے ہوں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری مخالفت بہت عام ہو گئی تھی.حتی کہ وہ مسلم لیگ جس کے اجلاس بعض دفعہ نہ ہو سکتے تھے اور وہ مجھ سے روپیہ لے کر اجلاس کرتی تھی اسے بھی زکام ہوا اور اس کی پنجاب کی شاخ نے یہ فیصلہ کر دیا کہ احمدی اس کے ممبر نہیں ہو سکتے.یہ کفران نعمت کی انتہا تھی لیکن اس کی وجہ یہی تھی کہ اس وقت ہمارے خلاف لوگوں میں اتنا جوش تھا کہ انہوں نے خیال کیا اگر ہم نے احمدیوں کو شامل رکھا تو لوگ ہمیں ووٹ نہیں دیں گے.اللہ تعالیٰ نے ان کو سزادی اور پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ کی بھی ایک ہی نشست ہے.گویا وہ بھی ہمارے برابر ہیں جو یقیناً ہماری فتح ہے.ہماری جماعت تو مختلف مقامات پر پھیلی ہوئی ہے.اگر ایک ہی ضلع میں ہوں تو ہم دو ممبران بھی لے سکتے ہیں مگر ہم پھیلے ہوئے ہیں اس لئے ایک ممبر کا حصول بھی ہمارے لئے ناممکن ہے.پس ایک نشست کا حاصل کر لینا بھی ہماری بہت بڑی فتح ہے.لیکن ان کا صرف ایک نشست حاصل کرنا ان کی سخت شکست.بہر حال اس وقت تک ہم مسلمانوں کا ایک حصہ سمجھے جاتے تھے مگر مسلمانوں نے گزشتہ فتنہ سے مرعوب ہو کر ہمیں اسی طرح الگ کرنے کی کوشش کی جس طرح دودھ سے لکھی نکال دی جاتی ہے اور اس طرح ہمیں تن تنہا سب دشمنوں سے لڑنے کا موقعہ ملا او محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم اس لڑائی میں کامیاب ہوئے اور دنیا نے محسوس کر لیا کہ جماعت احمدیہ صرف مسلمانوں کے لشکر کا ایک بازو ہی نہیں بلکہ 598

Page 611

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 11 نومبر 1938ء وہ اپنی منفردانہ حیثیت بھی رکھتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے خود اپنے پاؤں پر کھڑی ہوسکتی ہے.پہلے ہماری اس حیثیت سے دنیا واقف نہ تھی.تحریک جدید کے نتیجہ میں ہی وہ اس سے آشنا ہوئی ہے مگر یہ سب فتوحات جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں حاصل ہوئیں ہمارا مقصد نہیں.ہمارا مقصد ان سے بہت بالا ہے اور اس میں کامیابی کیلئے ابھی بہت قربانیوں کی ضرورت ہے.دنیا کا کوئی ملک ایسا نہ ہونا چاہئے جہاں احمدیت قائم نہ ہو.اس وقت تک جماعت حقیقی طور پر صرف ہندوستان میں ہے اور یہاں اسے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے رنگ میں مضبوطی حاصل ہے کہ اور کہیں نہیں.ہندوستان سے اتر کر وہ ملک جہاں احمدیت کو ترقی حاصل ہو رہی ہے اور جہاں لوگ اسے سمجھنے اور اسے اپنی عملی زندگی کا جزو بنانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ سماٹرا اور جاوا ہیں.وہاں سے طالب علم بھی دین سیکھنے کیلئے یہاں آتے رہتے ہیں اور جب تاریخ عالم میں احمدیت کی تاریخ لکھی جائے گی تو ہندوستان کے بعد ان جزائر کا ذکر نمایاں طور پر ہوگا.تیسرا مقام جہاں احمدیت ترقی کر رہی ہے اور جہاں اسے سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے، عرب ہے جس کے ساتھ فلسطین بھی شامل ہے.فلسطین میں ایک گاؤں احمد یہ جماعت کا مرکز ہے.یعنی وہ قریباً سب کا سب احمدی ہو چکا ہے.اس کے علاوہ احمد کی جماعتیں مصر اور شام میں بھی ہیں.فلسطین کے جس گاؤں کا میں نے ذکر کیا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی جماعت ہے جو عملی طور پر احمدیت کو اپنی زندگی میں داخل کر رہی ہے.انہوں نے اپنے مدر سے بھی جاری کر رکھے ہیں، لٹریچر بھی شائع کرتے ہیں، روپیہ خرچ کرتے ہیں.گویا تیسرا ملک عرب ہے جس میں شام اور فلسطین وغیرہ بھی شامل ہیں جو احمدیت کی روح کو اپنے اندر داخل کرنے کی کوشش کر رہا ہے.پھر تعداد کے لحاظ سے گوا بھی علمی لحاظ سے نہیں مغربی افریقہ کو بھی نمایاں مقام حاصل ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ وہاں اس وقت تک پچاس ساٹھ ہزار احمدی ہو چکا ہے اور احمدیت وہاں وسیع طور پر پھیل رہی ہے اور یہ صرف ہمارے مبلغین کے ذریعہ نہیں بلکہ خودان میں سے جولوگ احمدی ہوتے ہیں وہ آگے جا کر دوسروں کو تبلیغ کرتے ہیں.ان لوگوں میں تعلیم بہت کم ہے اور ایسے لوگوں کو ٹھو کر بھی لگ سکتی ہے.بعض کو دوسرے لوگ دھو کہ بھی دے سکتے ہیں مگر باوجود تعلیم کی کمی کے وہ لوگ بہت کام کر رہے ہیں.ان کے مدر سے جاری ہیں، اشتہارات شائع ہوتے ہیں، کئی نوجوان اپنی زندگیاں وقف کرتے ہیں، کئی ایسے ہیں جنہوں نے چھ چھ ماہ تبلیغ کے لئے وقف کئے اور سینکڑوں میلوں کے پیدل سفر کر کے تبلیغ کیلئے گئے اور نئی جماعتیں قائم کیں.ہندوستان میں بیٹھے ہوئے لوگ یہ اندازہ نہیں کر سکتے کہ غیر ممالک میں کیا کام ہورہا ہے؟ یہاں تو بعض لوگ احمد یہ جماعتیں قادیان ہنگل اور بھینی 599

Page 612

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمود : 11 نومبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول میں ہی سمجھتے ہیں.ان کی آنکھوں کے سامنے وہ لڑائی نہیں جو غیر ممالک میں لڑی جارہی ہے اور جس میں ہمارے مجاہد نو جوان خون اور پانی ایک کر رہے ہیں اور احمدیت کے جھنڈے کو بلند کر رہے ہیں.بے شک ان ممالک میں سے کوئی روپیہ یہاں نہیں آتا یا کم آتا ہے مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ بیرونی ممالک کی جماعتوں کے چندہ کا 75 فیصدی مقامی طور پر خرچ کیا جائے اور صرف 25 فیصدی یہاں آئے اور جہاں ضرورت ہو سو فیصدی ہی وہاں خرچ کرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے لیکن اس لڑائی میں ہمیں یہاں سے روپیہ نہیں بھیجنا پڑتا.کیا یہ کم آرام کی بات ہے؟ بے شک ان کا روپیہ یہاں خزانہ میں جمع نہیں ہوتا اور جولوگ کامیابی کا اندازہ روپیہ سے کرنے کے عادی ہوئے ہیں وہ یہی خیال کرتے ہیں کہ کوئی کام نہیں ہورہا مگر انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ جماعتیں اپنے اپنے طور پر کافی خرچ کر رہی ہیں اور بعض بعض جماعتوں کے بجٹ دس دس اور پندرہ پندرہ ہزار کے ہوتے ہیں.اگر وہ ساری رقمیں یہاں آئیں تو ہمارا بجٹ دگنا نہیں تو ڈیوڑھا تو ضرور ہو جائے گا مگر وہاں بھی ایک لڑائی جاری ہے اور ایسی صورت میں ہمارا وہاں سے روپیہ منگوانا بہت بڑی حماقت ہوگی.گو کئی نادان وہاں سے روپیہ نہ آنے کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ کوئی کام نہیں ہو رہا.حالانکہ ان کے بجٹ ہزاروں کے ہوتے ہیں.پھر تحریک جدید میں انہوں نے بھی پورے شوق سے حصہ لیا ہے اور بعض ممالک سے ڈیڑھ ڈیڑھ اور دو دو ہزار روپے بھی آتے رہے ہیں.پس میں اپنی جماعت کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ عظیم الشان کام ہمارے سامنے ہے.اگر وہ اس امر کے منتظر ہیں کہ تھپڑ پڑے تو اٹھیں تو یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے پاس تھپڑوں کی کمی نہیں مگر یہ کوئی اچھی بات نہیں کہ انسان تھپڑ کھا کر بیدار ہو.یہ نمونہ تو ہم نے دکھا دیا کہ کوئی ضرب لگائے تو بیدار ہو کر ہم ایسا مقابلہ کرتے ہیں کہ اس کی مثال نہیں ملتی اور اب تحریک جدید کے دور ثانی میں ہم نے یہ دکھانا ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت میں بغیر مار کھائے بھی ہم ویسی ہی قربانی کرنے کو تیار ہیں اور اسی دور کی کامیابی پر اس سوال کا فیصلہ ہوگا کہ احرار کی مار کی ہمارے دلوں میں زیادہ عظمت ہے یا خدا تعالیٰ کی محبت اور اس سوال کا آپ جو بھی جواب دیں گے، اس سے آپ کی قیمت کا اندازہ ہوگا.دور ثانی ایسی حالت میں شروع کیا گیا ہے کہ جب بظاہر کوئی خطرہ سامنے نہ تھا اور یہ اس لئے ہوا کہ تا اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر فخر کا موقعہ دے اور ہم بتا سکیں کہ جس طرح اگر دشمن ہمیں ذلیل کرنا چاہے تو ہم ایسی قربانی کرتے ہیں جس سے وہ نا کام ہو جائے اسی طرح خدا تعالیٰ کی محبت میں بھی اگر ہمیں قربانی کرنا پڑے تو پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں.مجھے افسوس ہے کہ جماعت کے ایک حصہ نے دور ثانی کی اہمیت کو نہیں سمجھا.600

Page 613

ٹریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 11 نومبر 1938ء دور اول میں تو دشمن گھونسے تانے ہمارے سروں پر کھڑا تھا.اس وقت ہم میں جو بیداری پیدا ہوئی وہ اپنی جان بچانے کیلئے تھی مگر آج کوئی دشمن سامنے نہیں کھڑا اور اس طرح حملہ آور نہیں.گو اندر ہی اندر آگ سلگائی جارہی ہے اور ایک لاوا ہے جو پک رہا ہے مگر وہ تمہاری نظروں سے پوشیدہ ہے.اس لئے آج کی قربانی دشمن کی مار کی طرف منسوب نہیں کی جاسکتی.اس وقت قربانی خالص خدا تعالیٰ کی محبت کے لئے ہوگی ، اس وقت ہمارے مد نظر صرف خدا تعالیٰ کے دین کو پھیلانے کیلئے مستقل کام کی بنیا د رکھنا ہے اور اس کے لئے میں چاہتا ہوں کہ ایک مستقل ریز روفنڈ قائم کر دوں جس سے یہ کام سہولت کے ساتھ چلتا ر ہے اور اس کے ساتھ نو جوانوں کی ایک ایسی جماعت تیار کروں جو اسلام کو صحیح معنوں میں قائم کرنے والی ہو.یہ دونوں کام پہلے سے بہت زیادہ خرچ چاہتے ہیں لیکن باوجود اس کے میں نے کہہ دیا ہے کہ جو دوست زیادہ بوجھ نہ اٹھا سکیں ہر سال دس فیصدی چندہ تحریک میں سے کم کرتے جائیں.گو میں نے اپنا چندہ گزشتہ سال سے بھی تیسرے سال کی نسبت دس فیصدی بڑھا دیا تھا.بہر حال یہ دوسرا دور تحریک جدید کا آپ کے سامنے ہے.مجھے اس سے غرض نہیں کہ آپ اس پر کس طرح عمل کرتے ہیں اگر آپ اس پر عمل نہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ کامیابی کا کوئی اور رستہ کھول دے گا مگر میں آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ دو مواقع قربانی کے آئے ہیں.ایک وہ جب دشمن مار رہا تھا اور ایک خالص خدا تعالیٰ کی محبت میں قربانی کرنے کا.اگر اس دوسرے وقت میں ہم نے سنتی دکھائی تو آئندہ زمانہ کے لوگ ہمارے متعلق کیا فیصلہ کریں گے وہ ظاہر ہی ہے.آپ میں سے ہر ایک نے اپنی قبر میں جانا ہے اور میں نے اپنی میں.میرے اچھے عملوں سے آپ لوگوں کو کوئی فائدہ نہ ہوگا اور آپ کے اچھے عملوں سے مجھے نہیں ہوگا.ہر ایک اپنے اپنے اعمال کا خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے.اگر وہ مجھے پوچھے گا کہ تم نے کیا قربانی کی ؟ تو اس کے جواب کا میں ذمہ دار ہوں.تم اپنے لئے آپ سوچ لو کہ تم کیا جواب دو گے یا دے سکو گے ؟ میں جانتا ہوں کہ کل کو اگر کوئی اور قوم ہمارے مقابلہ کیلئے کھڑی ہو جائے تو سست دوست بھی قربانیاں کرنے لگیں گے مگر قیامت کے روز خدا تعالیٰ ان سے کہے گا بے شک تم نے قربانیاں کیں مگر میرے لئے نہیں بلکہ اپنی جان بچانے کے لئے.اس وقت میں نے آپ لوگوں کے سامنے صرف اصول رکھ دیئے ہیں اور ان پر تبصرہ کر دیا ہے.اس وقت میں کوئی تحریک نہیں کرتا صرف ایک تحریک کرتا ہوں کہ رمضان کا آخری عشرہ جو آنے والا ہے اس کو تحریک جدید کے متعلق سابق قربانیوں کے لئے شکریہ اور آئندہ کیلئے طاقت کے حصول کیلئے خرچ کرو.جن کو گزشتہ سالوں میں قربانی کی توفیق ملی ہے وہ اس کیلئے اللہ تعالیٰ کا شکر یہ ادا کریں اور ہر ایک دعا 601

Page 614

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمود : 11 نومبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول کرنے والا اللہ تعالیٰ سے ہر قربانی کرنے والے کے لئے دعا کرے کہ اس نے شوکت دین اور مضبوطی سلسلہ کے لئے جو قربانی کی ہے اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اس پر اپنے فضل اور رحمتیں نازل کرے اور اس کیلئے اپنی محبت اور برکات کا نزول فرمائے.اسی محبت اور اخلاص کے مطابق جس کے ساتھ اس نے خدا کی راہ میں قربانی کی تھی.پھر تم میں سے ہر شخص یہ دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس دور ثانی کو پہلے دور سے بھی زیادہ کامیاب بنائے.بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس روپیہ نہیں ، چندہ کہاں سے دیں ؟ لیکن میں نے تو اس تحریک کے شروع میں ہی یہ کہہ دیا تھا کہ غریب سے غریب بلکہ معذور سے معذور بھی حتی کہ جس کی زبان بھی نہ ہو وہ بھی اس میں حصہ لے سکتا ہے.یعنی وہ دعا کے ذریعہ اس میں شامل ہو سکتا ہے اور یہی انیسواں مطالبہ ہے جس میں وہ شخص بھی جو چار پائی پر پڑا ہوا ہو حتیٰ کہ ہاتھ بھی نہ ہلا سکے، زبان سے بول بھی نہ سکے وہ بھی اس میں شریک ہو سکتا ہے.اس طرح تم میں سے ہر وہ شخص خواہ وہ کتنا ہی جاہل اور ان پڑھ کیوں نہ ہو تحریک جدید میں حصہ لے سکتا ہے.پس اس عشرہ میں خصوصیت سے دعائیں کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ دور ثانی کو پہلے سے بھی زیادہ کامیاب بنائے اور جماعت کے قلوب میں ایسی صفائی پیدا کر دے کہ وہ خدا تعالیٰ کی محبت میں بھی ویسی ہی قربانیاں کر سکے جیسی کہ دشمن سے مقابلہ کے وقت کرتی ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اور اگر آپ لوگ سارے کے سارے میرے ساتھ دعاؤں میں شامل ہو جائیں تو یقیناً نتائج نہایت شاندار نکلیں گے“.خوب اچھی طرح یا درکھو کہ ہمارا کام بہت بڑا ہے.دین کو ہمیشہ کے لئے ساری دنیا میں قائم کر دینا کوئی آسان بات نہیں اور اس کیلئے بہت بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے لیکن اگر تم کچھ اور نہیں کر سکتے تو اتنا تو کرو کہ دعائیں کرو اور اگر اور رنگ میں بھی قربانی کر سکو اور پھر ساتھ دعائیں کرو تو دوہرا وو ثواب حاصل کر سکو گے.پس اس رمضان میں خصوصیت کے ساتھ ان لوگوں کیلئے دعائیں کرو جنہوں نے مال سے یا وقت سے یا اولاد کے ذریعہ سے قربانیاں کی ہیں یا دعاؤں سے مدد کی ہے.اللہ تعالیٰ ان کے گھروں کو سکون اور برکت سے بھر دے، ان کی قربانیاں دائمی صدقہ کا کام دینے والی ہوں، اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں اور ان کی غلطیوں کو معاف کرے اور انہیں گناہوں کی عادت سے بچائے ، ان کے قلوب میں اپنی محبت اور عرفان کے چشمے پھوڑے اور انہیں نیک نسلیں عطا کرے جو راستی پر قائم رہنے والی ہوں.پھر یہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس دور ثانی کو کہ جس کا محرک اس کی محبت ہے کامیاب کرے اور جماعت کو قربانیوں کی تو فیق 602

Page 615

تریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 11 نومبر 1938ء دے کہ دراصل یہی اصل قربانی ہے.اللہ تعالی مالی قربانی کرنے والوں کو بچے معیار کے مطابق قربانی کی توفیق عطا فرمائے.جن کو توفیق نہیں انہیں توفیق دے اور جنہیں توفیق ہے مگر وہ کمزوری دکھا رہے ہیں ان کے لئے بھی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کی کمزوریوں کو دور کرے.جن لوگوں کو مالی قربانی کی توفیق نہیں ان پر بھی بڑی ذمہ داری ہے وہ رات دن دعا ئیں کریں تا اللہ تعالیٰ غیب سے راستے کھول دے اور ان کی دعاؤں کی وجہ سے دوسروں کو قربانی کی توفیق دے اور اگر سچے دل سے دعائیں کی جائیں تو یقیناً ہم کامیاب ہوں گے کیونکہ الہی سلسلوں کی بنیاد ہمیشہ الہی فضلوں پر ہوتی ہے اور ان دعاؤں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ہمیں قربانیاں کرنے کی ایک ایسی رفتار بخش دے گا جس میں روز بروز ترقی ہوتی جائے گی یہاں تک کہ ہم اور ہماری نسلیں ان کے ذریعہ اپنے اس مقصود کو پالیں گے جس کیلئے ہم پیدا کئے گئے ہیں اور خدا تعالیٰ کے اس قدر نزدیک ہو جائیں گے اور قرب کا وہ مقام حاصل کر لیں گے جس پر دوسری برگزیدہ جماعتوں کو رشک پیدا ہوگا اور ہمارے مخالف حسد کی آگ میں جل جائیں گئے.(مطبوعہ افضل 15 نومبر 1938ء ) 603

Page 616

Page 617

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 18 نومبر 1938ء دور اول صفائی کے لئے تھا اور اب دور ثانی تعمیر کے لئے ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 18 نومبر 1938ء جیسا کہ میں گزشتہ خطبات میں بیان کر چکا ہوں.تحریک جدید کا دور اول صفائی کی مثال رکھتا تھا.اس کی غرض یہ تھی کہ دشمنوں نے احمدیت پر جو حملہ کیا تھا اس کا ازالہ کیا جائے اور دشمن کی حقیقت کو دنیا پر ظاہر کیا جائے.واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ اس کوشش میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہم کو عظیم الشان کامیابی عطا فرمائی ہے.اس وقت ہماری سب سے بڑی مخالفت دو گروہوں کی طرف سے ہو رہی تھی.گو شامل سارے ہی تھے مگر خصوصیت کے ساتھ ایک تو احرار مخالفت کر رہے تھے اور دوسرے حکومت کا وہ حصہ جو اندرونی طور پر برطانیہ کے دشمنوں کا ہمدرد تھا.وہ اپنے عہدوں کی آڑ لے کر ہمیں نقصان پہنچانا چاہتا تھا.اس کوشش میں اس نے حکومت کے بعض ہندوستانی یا انگریز افسروں کو بھی جھوٹی کچی شکایتیں کر کے اپنے ساتھ ملالیا تھا.احرار کا انجام جو ہوا وہ سب پر ظاہر ہے.خدا تعالیٰ نے ان کی ذلت کے ایسے سامان مہیا کر دیئے کہ اب وہ مسلمانوں میں خود آزادی سے تقریر بھی نہیں کر سکتے کئی سال تو ایسی حالت رہی کہ لاہور میں احرار کا جلسہ ہونا ناممکن ہو گیا.وہ جلسہ کرتے اور لوگ شور مچادیتے اور ابھی تک بہت جگہ ان کی یہی حالت ہے.گو وہ اپنی کھوئی ہوئی طاقت واپس لینے کے لئے اب کئی قسم کے بہانے بنانے لگ گئے ہیں.کہیں فلسطین کے مظلوم مسلمانوں سے ہمدردی کے دعوے کرتے ہیں اور کہیں کشمیر ایجی ٹیشن شروع کرتے ہیں مگر ابھی تک انہیں اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی.اللہ تعالیٰ نے انسان کو حافظہ دیا ہے اور وسیع حافظہ دیا ہے.تم میں سے وہ لوگ جو مایوس تھے اور ہر جماعت میں کچھ نہ کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو مایوسی کی عادت اپنے اندر رکھتے ہیں.وہ ذرا اپنے حافظہ پر زور ڈال کر احرار کی اس طاقت کا جو انہیں آج سے ساڑھے تین سال پہلے پنجاب میں حاصل تھی اندازہ لگائیں اور جو آج ان کی حالت ہے اس کا بھی اندازہ لگا ئیں ، پھر جو اس وقت ان کے روپیہ کی آمد کا حال تھا اس کا بھی اندازہ لگائیں اور جو آج ان کے روپیہ کی آمد کا حال ہے اس کا بھی اندازہ لگائیں.گورنر پنجاب نے خود ہمارے آدمیوں سے ان دنوں بیان کیا کہ سینکڑوں روپیہ روزانہ ان کو 605

Page 618

اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 18 نومبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول منی آرڈروں کے ذریعہ آتا ہے اور یہ ہمارے محکمہ کی رپورٹ ہے.میں اگر غلطی نہیں کرتا تو شاید انہوں نے سوروپیہ ما پانچ سورو پیر روزانہ کی آمد بتلاتی تھی.گویا ان دنوں پندرہ میں ہزار روپیہ ماہوار ان کی آمد تھی لیکن آج یہ حالت ہے کہ متواتر ان کی طرف سے اپنے لوگوں کے نام یہ اعلان ہوتے ہیں کہ دس روپے ہی بھجوا دیں دس نہیں تو پانچ ہی سہی.میں جب اس کیفیت کو دیکھتا ہوں تو مجھے وہی نظارہ یاد آ جاتا ہے جو بچپن میں میرے دیکھنے میں آیا کرتا تھا.یہاں ایک معذور فقیر ہوا کرتا تھا.اس کی یہ عادت تھی کہ اس کے پاس سے جو شخص بھی گزرتا اس سے ضرور کچھ نہ کچھ مانگتا.وہ ہمیشہ اپنا سوال روپیہ سے شروع کرتا اور کہتا کہ ایک روپیہ دیتے جاؤ مگر یہ الفاظ کہتے ہی معاً اس کی طبیعت کہتی کہ یہ روپیہ نہیں دے گا اس لئے وہ اس کے ساتھ ہی کہہ دیتا کہ اچھا اٹھنی ہی سہی اور بغیر وقفہ کے اس کے ساتھ زائد کہ دیتا اچھا دونی ہی دے دو.پھر کہتا کہ چلو ایک ہی آنہ سہی اتنے میں گزرنے والا اس کے پاس پہنچ جاتا اور وہ کہتا دو پیسے ہی دے دو، اچھا ایک پیسہ ہی سہی.جب وہ آدمی اسے چھوڑ کر آگے گزر جاتا تو کہتا کہ دھیلہ ہی دیتے جاؤ، ایک پکوڑا ہی سہی اور جب وہ دور چلا جاتا تو زور سے آواز دیتا ایک مرچ ہی دیتے جاؤ.یہی حالت ان لوگوں کی آج ہو رہی ہے مگر وہ وقت ایسا تھا کہ ان سے گورنمنٹ بھی ڈرتی تھی.چنانچہ گورنمنٹ پنجاب کے بعض ذمہ دار افسروں نے اس وقت ہمارے آدمیوں سے کہا تھا کہ بعض موقعوں پر ہم سمجھتے ہیں کہ احرار زیادتی کر رہے ہیں مگر کوئی اقدام کرنے سے پہلے ہمارے لئے یہ دیکھنا بھی تو ضروری ہے کہ ہمارے اقدام کے نتیجہ میں عام مسلمانوں پر کیا اثر ہو گا." دوسری شکست احرار کو نمایاں طور پر یہ ملی کہ قادیان کے متعلق انہوں نے یہ مشہور کر رکھا تھا کہ ہم نے اسے فتح کر لیا ہے اور قادیان کے علاقہ میں احمدیوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں مگر خدا تعالیٰ نے ان کے اس دعوی کی تردید کا بھی سامان مہیا کر دیا.گو ہمارے بعض آدمی اس حکمت کو نہیں سمجھے اور انہوں نے بغیر سوچے سمجھے یہ اعتراض کر دیا کہ جماعت کا روپیہ برباد کیا گیا ہے.حالانکہ روپیہ تو آنے جانے والی چیز ہے.آج آتا ہے اور کل ہاتھ سے نکل جاتا ہے.یہ نہ کسی انسان کے پاس رہا نہ کسی قوم کے پاس رہا نہ کسی ملک کے پاس رہا.ایک زمانہ میں ایک قوم دولت مند ہوتی ہے اور دوسرے زمانہ میں دوسری قوم دولت مند ہو جاتی ہے.ایک زمانہ میں ایک ملک دولت مند ہوتا ہے اور دوسرے زمانہ میں دوسرا ملک دولت مند ہوتا ہے.پس روپیہ آتا اور چلا جاتا ہے مگر جو چیز رہ جاتی ہے وہ نام اور شہرت ہوتی ہے.آخر غور کرو کہ وہ ساری دنیا کی حکومت جو مسلمانوں کے پاس تھی وہ اب کہاں ہے؟ وہ خلافت جس کے ذریعہ حضرت ابو بکر رضی اللہ 606

Page 619

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 18 نومبر 1938ء عنہ حکومت کرتے تھے کہاں ہے؟ وہ حکومت جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حاصل تھی وہ کہاں ہے؟ وہ شوکت اور وہ عظمت جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حاصل تھی وہ کہاں ہے؟ وہ دبدبہ اور وہ رعب جو صحابہ رضی اللہ عنہم کو حاصل تھا وہ اب کہاں ہے؟ وہ ملک چلے گئے ،حکومت جاتی رہی مگر جو چیز آج بھی موجود ہے وہ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ کا سرٹیفیکیٹ ہے.وو بعض لوگ حکمتوں کو نہیں سمجھتے اور چونکہ ان کے دماغ چھوٹے ہوتے ہیں اس لئے وہ بعض دفعہ کسی روپیہ کے خرچ کئے جانے پر اعتراض کر دیتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اس کے نتیجہ میں جماعت کی عزت کس قدر قائم ہو گئی.اب جو چیز میرے سامنے تھی وہ یہ تھی کہ قادیان کے متعلق دشمن نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ ہم نے اسے فتح کر لیا ہے اور احمدیوں کو بالکل کچل کر رکھ دیا گیا ہے.یہاں بیٹھے ہوئے ایک شخص اس اعتراض کو معمولی خیال کرتا ہے مگر سارے ہندوستان کو مد نظر رکھتے ہوئے ، بنگال، بمبئی، مدراس، یوپی، بہار، سندھ صوبہ سرحدی میں جو احراری پرو پیگنڈا جماعت احمدیہ کی موت کی نسبت کیا جا رہا تھا، وہ ہماری تبلیغ کے راستہ میں بہت بڑی روک بن رہا تھا بلکہ دور کیوں جاؤ خود پنجاب کے دوسرے علاقوں میں یہ بُرا اثر پیدا کر رہا تھا اور لوگ خیال کرنے لگے تھے کہ شاید یہ لوگ سچ ہی کہہ رہے ہیں اور اب احمد یہ جماعت ختم ہو رہی ہے اور اس اثر کا دور کرنا نہایت ضروری تھا.پس میں نے چاہا کہ اس علاقہ میں احرار کا ممبری کیلئے کھڑا ہونا ایک خدا تعالیٰ کا پیدا کردہ موقعہ ہے جسے ضائع نہیں ہونے دینا چاہئے اور ہمیں چاہئے کہ ہم اس موقعہ پر دنیا کو بتادیں کہ اس علاقہ میں ہماری طاقت با وجود اقلیت ہونے کے ان سے زیادہ ہے اور اس خیال سے میں نے احمدی امیدوار، باوجود ہمارے بعض دوستوں کے اصرار کے کہ ایسانہ کیا جائے، کھڑا کیا اور یہی جواب دیا کہ اس وقت ہمارے لئے یہ ایک اصولی سوال ہے اور ہم اس ذریعہ سے احرار کے جھوٹے پروپیگنڈا کو باطل ثابت کرنا چاہتے ہیں.اس لئے باوجود آپ لوگوں کے اصرار کے ہم اپنے آدمی کو نہیں بٹھا سکتے.چنانچہ جب الیکشن کا نتیجہ نکلا تو بے شک اہل السنت و الجماعت کا ایک نمائندہ کامیاب ہو گیا مگر دوسرے نمبر پر احمدی نمائندہ تھا، تیسرے نمبر پر احراری اور چوتھے نمبر پر دوسراسنی.اب اس نتیجہ کو احرار کہاں چھپا سکتے تھے؟ یہ پبلک کی آواز تھی جو ووٹوں کے ذریعہ ظاہر ہوئی اور اس نے دنیا پر ثابت کر دیا کہ یہ کہنا کہ احد یوں کو قادیان کے علاقہ میں کچل دیا گیا ہے، بالکل بے معنی دعوی ہے حقیقت اس میں کچھ نہیں.پس اس نتیجہ نے احرار کی آواز کو بالکل مدھم کر دیا اور اس کے بعد قادیان کی فتح کا نقارہ بجتے کم از کم میں نے کبھی نہیں سنا.اس لئے کہ یہ نتیجہ سرکاری افسروں کے سامنے نکلا اور انہوں نے بھی دیکھ لیا کہ احرار کی 607

Page 620

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 18 نومبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول نسبت جماعت احمدیہ کے نمائندہ کو ووٹ زیادہ ملے ہیں.ایسے بین اور کھلے نتیجہ کو کوئی کہاں چھپا سکتا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے پہلے دور میں ہمیں زمین صاف کرنے کا موقعہ دیا اور ادھر تو حکام پر حقیقت کھل گئی اور ادھر پبلک پر حقیقت کھل گئی اور ہمیں جو خدشہ تھا کہ جماعت کی سبکی اور بدنامی نہ ہو، وہ جاتا رہا.دوسری طرف ہمیں حکومت کے بعض افسروں سے اختلاف پیدا ہو گیا تھا.ہمیں ان پر بھی غصہ تھا کہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ تم باغی ہو اور حکومت کا تختہ الٹنے والے ہو.حالانکہ ہم ایسے نہیں.ہم نے اس الزام کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے رنگ میں غلط ثابت کیا کہ گورنمنٹ کو تقریراً اور تحریر التسلیم کرنا پڑا کہ ہم جماعت پر ایسا کوئی الزام نہیں لگاتے اور یہ کہ اس نوٹس سے جو اس نے دیا، یہ مراد ہر گز نہیں تھی کہ حکومت کے نزدیک جماعت احمدیہ نے سول نافرمانی یا کسی خلاف امن فعل کے ارتکاب کا ارادہ کیا ہے.چنانچہ حکومت پنجاب کی چٹھیوں کے علاوہ جب نائب وزیر ہند کے پاس شکایت کرتے ہوئے انہیں اس معاملہ کی طرف توجہ دلائی گئی تو انہوں نے ایک خط کے ذریعہ اطلاع دی کہ حکومت ہند کی طرف سے انہیں یقین دلایا گیا ہے کہ حکومت پنجاب اور اس کے افسروں نے اس معاملہ میں جو کچھ بھی کیا ہے اس کے کرتے وقت ان کے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ خیال نہ تھا کہ وہ کوئی ایسا کام کریں جس سے جماعت احمدیہ کے جذبات کو ، جس کی وفاداری پورے طور پر مسلم ہے، کسی طرح تھیں لگے.حالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ پہلے انہوں نے ہم پر بغاوت اور سول نافرمانی کا الزام لگایا تھا.پھر ایک واقعہ ایسا ہے جسے گورنمنٹ کسی صورت میں بھی چھپا نہیں سکتی.میں نے کئی انگریز افسروں سے گفتگو کرتے ہوئے یہ واقعہ ان کے سامنے رکھا ہے اور انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ بعض حکام سے اس بارہ میں کوئی نہ کوئی غلطی ضرور ہوئی ہے.گویا وہ ایک ایسی واضح غلطی ہے جس کو تسلیم کئے بغیر گورنمنٹ کے افسروں کیلئے کوئی چارہ ہی نہیں اور وہ یہ کہ گورنمنٹ کے کسی افسر نے ایک دفعہ ایک خفیہ سرکلر جاری کیا جو غالباً کئی ضلعوں کے ڈپٹی کمشنروں کے نام بھیجا گیا تھا کہ جماعت احمدیہ کی حالت گورنمنٹ کی نگاہ میں مشتبہ ہے اس لئے اس کے افراد کا خیال رکھنا چاہئے.اب یہ ذراحد سے نکل چلے ہیں اور ان کے خیالات باغیانہ ہو گئے ہیں.یہ سرکر تمام ضلعوں کے ڈپٹی کمشنروں یا بعض اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کو بھیجا گیا اور ہمیں بھی کسی طرح اس چٹھی کا پتہ لگ گیا.ہم نے جب گورنمنٹ سے اس چٹھی کے متعلق دریافت کیا تو اس نے بالکل انکار کر دیا اور کہا کہ ایسی کوئی چٹھی نہیں بھیجی گئی.حالانکہ ہمیں خبر دینے والے نے بتایا تھا کہ یہ معتبر خبر ہے.جب مجھے اس کا علم ہوا تو میں نے اس وقت کی گورنمنٹ کو اس طرف توجہ دلائی.اس وقت تک 608

Page 621

اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 18 نومبر 1938ء تحریک جدید- ایک ابھی تحریک...جلد اول موجودہ حکومت کا زمانہ نہ آیا تھا، گورنمنٹ نے ایسے سرکلر سے لاعلمی ظاہر کی اور بالکل ممکن تھا کہ ہم اپنی اطلاع کو کسی غلط فہمی کا نتیجہ قرار دیتے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا تازہ بتازہ ثبوت بہم پہنچا دیا اور وہ اس طرح کہ ادھر گورنمنٹ نے انکار کیا کہ ہم نے کوئی ایسی چٹھی نہیں بھیجی اور ادھر راولپنڈی کا ایک ہیڈ کانسٹیبل جلسہ سالانہ یا مجلس شوری کے موقعہ پر ، اس وقت مجھے یاد نہیں رہا ضلع راولپنڈی کے ایک گاؤں میں گیا اور اس نے احمدیوں سے کہا کہ تم مجھے اپنے نام لکھاؤ تم میں سے کون کون قادیان جائے گا.کیونکہ سرکاری حکم آیا ہے کہ احمدیوں کی نگرانی رکھو.غرض اس نے وہاں کے احمدیوں سے اقرار لیا کہ وہ اس موقعہ پر بغیر پولیس کو اطلاع کے نہیں جائیں گے.جب انہوں نے اس بات کی اطلاع ہمیں دی تو ہماری طرف سے مقامی کارکنوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس واقعہ کی تحقیق کریں اور افسران بالا سے مل کر معلوم کریں کہ اصل بات کیا ہے جب انہوں نے تحقیق کی اور وہ افسران بالا سے ملے تو پولیس کے افسروں نے انہیں یہ جواب دیا کہ اصل بات یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے ایک خفیہ چٹھی آئی تھی کہ اس امر کی نگرانی رکھی جائے مگر اس ہیڈ کانسٹیبل نے شراب پی ہوئی تھی جس کے نشہ میں اس نے بات کہ دی اور بجائے مخفی رکھنے کے اس نے خود احمدیوں سے اس کا ذکر کر دیا ورنہ ہمیں تو مخفی حکم ملا تھا اور اب بہتر ہے کہ آپ اس معاملہ کو دبا دیں اور زیادہ شور نہ کریں کیونکہ ہماری بدنامی ہوتی ہے اور اگر یہ راز کھلا تو اس ہیڈ کانسٹیبل کی شامت آ جائے گی.اب یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس کا گورنمنٹ انکار کر ہی نہیں سکتی تھی اور انہیں تسلیم کرنا پڑا کہ کوئی غلط نہیں اس ایک ایسا نہیں تھی اور ملا لیں اس بارہ میں ہوگئی ہے مگر سوال یہ ہے کہ یہ غلط فہمی ہو کس طرح گئی؟ اگر گورنمنٹ یا گورنمنٹ کے کسی ذمہ دار افسر کا کوئی آرڈر نہیں تھا تو یہ کس طرح ممکن ہو گیا کہ راولپنڈی کے ایک ہیڈ کانسٹیبل نے ایک دور دراز کے گاؤں میں جا کر احمدیوں کے نام لکھنے شروع کر دیئے اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ بغیر پولیس میں اطلاع دیے تم قادیان نہیں جاسکتے مگر خیر ہم کو ان بحثوں سے غرض نہیں.حکومت پنجاب نے علی الاعلان تسلیم کیا کہ وہ کوئی ایسا الزام جماعت احمدیہ پر نہیں لگاتی اور بالا گورنمنٹ نے بھی یقین دلایا کہ جماعت احمدیہ کی وفاداری اس کے نزدیک مسلم ہے.پس اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے حکومت کے مقابلہ میں بھی ہمیں فتح دی.گومخالفت کا سلسلہ ابھی تک اندرونی طور پر افسروں میں جاری ہے.کیونکہ حکومت میں یہ مرض ہے کہ اس کا ایک معمولی سے معمولی افسر بھی کوئی بات کہہ دے تو وہ اسے بیچ تسلیم کرلے گی اور یہ گورنمنٹ کے تنزل اور بعض دفعہ اس کے لئے ندامت کے موجبات میں سے ایک بہت بڑا موجب.پہلے وہ دھڑلے سے ہماری جماعت کو دبانے کیلئے تیار ہو جاتے تھے مگر اب وہ سوچ وو 609

Page 622

اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 18 نومبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول لیتے ہیں کہ اس دبانے کا نتیجہ کیا ہوگا.پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت کو جس رنگ میں بڑھایا ہے وہ کوئی پوشیدہ بات نہیں.چاروں طرف ترقی کے آثار نظر آرہے ہیں.کئی نئے ممالک ہیں جن میں احمدیت قائم ہوئی.ہزاروں لوگ جو اس دوران میں احمدیت میں داخل ہوئے بلکہ قریب کے علاقہ میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت نے ترقی کرنی شروع کر دی ہے اور بعض جگہ بالکل نئی جماعتیں قائم ہوگئی ہیں اور بعض جگہ پہلے چھوٹی جماعتیں تھیں مگر اب بڑی جماعتیں ہوگئی.میرے دل پر ان گالیوں کی وجہ سے ایک ناخوشگوار اثر تھا جو احرار ایجی ٹیشن کی وجہ سے ہمیں ملتی رہی ہیں اور اب بھی مل رہی ہیں کیونکہ گالیاں فتح اور شکست سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ گرا ہوا آدمی زیادہ گالیاں دیا کرتا ہے.بہر حال میری طبیعت پر یہ اثر تھا کہ مسلمانوں نے اس موقعہ پر ہمارے ساتھ اچھا معاملہ نہیں کیا اور مجھے ان کی طرف سے رنج تھا.شاید میرا گزشتہ سفر اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت اسی غرض کیلئے تھا کہ تا میری طبیعت پر جو اثر ہے وہ دور ہو جائے.میں نے اس سفر میں یہ اندازہ لگایا ہے کہ میرا وہ اثر که مسلمان شرفاء بھی اس گند میں مبتلا ہیں.اس حد تک صحیح نہیں جس حد تک میرے دل پر اثر تھا.مجھے اس سفر میں ملک کا ایک لمبا دورہ کرنے کا موقعہ ملا ہے.پہلے میں سندھ گیا وہاں سے بمبئی گیا، بمبئی سے حیدر آباد چلا گیا اور پھر حیدر آباد سے واپسی پر دہلی سے ہوتے ہوئے قادیان آ گیا.اس طرح گویا نصف ملک کا دورہ ہو جاتا ہے.اس سفر کے دوران شرفا کے طبقہ کے اندر میں نے جو بات دیکھی ہے اس سے جو میرے دل میں مسلمانوں کے متعلق رنج تھا.وہ بہت کچھ دور ہو گیا ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ شریف طبقہ اب بھی وہی شرافت رکھتا ہے جو شرافت وہ پہلے دکھایا کرتا تھا اور ان خیالات سے جو احرار نے پیدا کرنے چاہے تھے وہ متاثر نہیں بلکہ ان کی گالیوں کی وجہ سے وہ ہم سے بہت کچھ ہمدردی رکھتے ہیں.اگر مجھے یہ سفر پیش نہ آتا تو شاید یہ اثر دیر تک میرے دل پر رہتا اور میں سمجھتا ہوں یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے مجھے اس سفر کا موقعہ دیا اور وہ اثر جو میرے دل پر تھا کہ اتنے گند میں مسلمانوں کا شریف طبقہ کس طرح شامل ہو گیا؟ وہ اس سفر کی وجہ سے دور ہو گیا“.میں نے بتایا ہے کہ دور اول کے بعد دور ثانی کی ضرورت ہے.دور اول زمین کی صفائی کیلئے تھا اب دور ثانی میں تعمیر کی ضرورت ہے اور تعمیر کا کام تخریب سے بہت زیادہ اہم ہوتا ہے.پس جو تخر یہی حصہ تھا یعنی دشمنوں کی کوششوں کو باطل کرنا اور ان کو ان کے منصوبوں میں ناکام و نامراد کرنا ، یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے پورا ہو چکا ہے اب تعمیری حصہ کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے جو دنیا میں ایسی فضا وو 610

Page 623

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 18 نومبر 1938ء اور ایسا رنگ پیدا کر دے جو ان مقاصد کو پورا کرنے میں مد ہو جن مقاصد کو پورا کرنے کیلئے احمدیت قائم ہوئی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان مقاصد کا پورا ہونا صرف احمدیت کیلئے ہی خاص طور پر مفید نہیں بلکہ اسلام کیلئے بھی مفید اور بابرکت ہے اور پھر صرف اسلام کیلئے ہی ان مقاصد کا پورا ہونا مفید نہیں بلکہ جس قسم کا مذہبی، سیاسی، تعلیمی، تمدنی اور اقتصادی ماحول ہم پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ دنیا کیلئے بھی مفید اور ضروری ہے.یہ عظیم الشان ماحول ہم نے پیدا کرنا ہے مگر ہماری موجودہ حالت تو ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کیا پڑی اور کیا پڑی کا شوربہ.ہماری تعداد نہایت قلیل ہے اور جب ہم کہتے ہیں کہ ہم دنیا میں ایسا انقلاب پیدا کر کے رہیں گے تو دنیا ہم پر ہنستی ہے اور کہتی ہے یہ پاگل ہو گئے ہیں مگر آج تک دنیا میں جس قدر عظیم الشان کام ہوئے ہیں وہ ایسے ہی لوگوں سے ہوئے ہیں جنہیں پاگل کہا گیا اور ایسی ہی جماعتوں نے انقلاب بپا کیا ہے جنہیں مجنون قرار دیا گیا.پس پاگل کا لقب ہمارے لئے کوئی گالی نہیں بلکہ خوشی کا موجب ہے کیونکہ ہم سجھتے ہیں ہماری انبیاء سابقین کی جماعتوں سے ضرور ایک گہری مشابہت ہے کیونکہ جس طرح انہیں پاگل کہا گیا اسی طرح لوگ آج ہماری جماعت کو پاگل کہتے ہیں لیکن بہر حال ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ احمدیت کی ترقی کیلئے ایک عظیم الشان جدو جہد کی ضرورت ہے اور جیسے جیسے احمدیت کو ترقی ہوگی ویسے ویسے اسلام بھی ترقی کرتا چلا جائے گا اور جوں جوں اسلام دنیا میں ترقی کرے گا توں توں دنیا بھی مذہبی اور سیاسی اور تمدنی اور اقتصادی پہلوؤں سے ترقی کرتی چلی جائے گی کیونکہ اسلام باقی اقوام کو مٹاکر مسلمانوں کو نہیں بڑھا تا بلکہ باقی اقوام کو بڑھا کر مسلمانوں کو اور آگے لے جاتا ہے.چنانچہ جب کبھی دنیا میں اسلامی اصول پر ترقی ہوگی ہندوؤں سکھوں اور عیسائیوں کو بھی ترقی ہوگی اور نہ صرف ہندوؤں، سکھوں اور عیسائیوں کو ترقی ہوگی بلکہ دنیا کے ہر مذہب کے متبع کیلئے ترقی کے راستے کھولے جائیں گے اور ہر شخص کیلئے خواہ وہ کسی مذہب وملت کا پابند ہوترقی کی طرف قدم بڑھانے کی گنجائش رکھی جائے گی“.غرض احمدیت کی ترقی کے ساتھ اسلام کی ترقی اور اسلام کی ترقی کے ساتھ دنیا کی ترقی وابستہ ہے اور احمدیت کی ترقی کیلئے دو کام کرنے نہایت ضروری ہیں.ایک تعلیم و تربیت کا اور دوسر تبلیغ واشاعت کا.ان کے بغیر جماعت نہ پھیل سکتی ہے اور نہ اس کے پھیلنے کا کوئی فائدہ ہے.یعنی تبلیغ کے بغیر جماعت کی ترقی نہیں ہو سکتی اور صحیح تربیت کے بغیر احمدیت کا پھیلنا کوئی فائدہ نہیں دے سکتا.فرض کرو احمدی ساری دنیا میں پھیل جائیں مگر مذہبی، سیاسی، اقتصادی، تمدنی اور تعلیمی ماحول وہی رہے جو پہلے تھے تو ایسی احمدیت کے پھیلنے کا کیا فائدہ؟ اور اگر احمدیوں میں وہ روح نہ ہو جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے اور ایک وو 611

Page 624

اقتباس از خطبه جمعہ فرمودہ 18 نومبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول ظالم کی بجائے اگر دوسرا ظالم کھڑا ہو گیا تو اس سے بنی نوع انسان کو کیا فائدہ پہنچے گا ؟ پس تبلیغ تعلیم و تربیت نہایت ہی اہم کام ہیں اور انہی دونوں کاموں کو تحریک جدید میں مدنظر رکھا گیا ہے.تعلیم و تربیت کو مد نظر رکھتے ہوئے سادہ غذا، سادہ لباس، خود ہاتھ سے کام کرنا سینما کا ترک، غریبوں کی امداد، بورڈ نگ تحریک جدید اور ورثہ وغیرہ کام تجویز کئے گئے ہیں اور یہ تمام باتیں ایسی ہیں جن کو کسی وقت بھی ترک نہیں کیا جاسکتا.بعض تو موجودہ صورت میں ہی ہر وقت قابل عمل رہیں گی اور انہیں کسی صورت میں بھی نہیں چھوڑا جاسکے گا لیکن بعض میں حالات کے ماتحت کچھ تبدیلیاں ہو سکتی ہیں.عملی طور پر بعض حصوں کے متعلق مجلس خدام الاحمدیہ جد و جہد کر رہی ہے اور جہاں تک اس کے ایک سال کے کام کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس نے نہایت شاندار کام کیا ہے اور اگر وہ اسی طرح استقلال سے کام جاری رکھے اور نہ صرف اپنے موجودہ معیار کو قائم رکھے بلکہ اسے بڑھاتی چلی جائے تو وہ ایک عمدہ نمونہ قائم کرسکتی ہے.مجالس خدام الاحمدیہ کے نو جوانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان کے کام کے اثرات صرف موجودہ زمانہ کے لوگوں تک ہی محدود نہیں رہیں گے بلکہ اگر وہ اسی خوش دلی اور اخلاص سے کام جاری رکھیں گے تو آئندہ نسلوں تک ان کے نیک اثرات جائیں گے اور جس طرح آج صحابہ کا ذکر آنے پر بے اختیار ضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ کا فقرہ زبان سے نکل جاتا ہے اسی طرح ان کا نام لے کر آئندہ آنے والی نسلوں کا دل خوشی سے بھر جائے گا اور وہ ان کی ترقی مدارج کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں گے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ جس کام کو شروع کریں اسے استقلال سے کرتے چلے جائیں.جو شخص بھی اس جد و جہد میں کھڑا ہو گا وہ گر جائے گا اور سلامت وہی رہے گا جو اپنے قدم کی تیزی میں کمی نہیں آنے دے گا.مجلس خدام الاحمدیہ تحریک جدید کی فوج ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ لوگ زیادہ سے زیادہ اس فوج میں داخل ہوں گے اور اپنی عملی جدو جہد سے ثابت کر دیں گے کہ انہوں نے اپنے فرائض کو سمجھا ہوا ہے.اس کے مقابلہ میں دوسرا پہلو تبلیغ واشاعت کا ہے اور اس کیلئے وقف زندگی ، وقف رخصت اور دوسرے ممالک میں احمدیوں کے پھیل جانے اور چندہ جمع کرنے کی تحریک کی گئی ہے.چندے کی تحریک گو جماعت کی تعلیم و تربیت کے لحاظ سے بھی ضروری ہے مگر اس کو زیادہ تر تبلیغ کے لئے جاری کیا گیا ہے.ان میں سے ہر ایک تحریک اپنی اپنی جگہ نہایت اہم اور ضروری ہے اور میں اپنے اپنے موقعہ پر پھر دوبارہ ان تمام مطالبات کی طرف جماعت کو توجہ دلانے کا ارادہ رکھتا ہوں.تیسری چیز جوان دو مقاصد کے علاوہ ہے اور جو تبلیغ و اشاعت اور تعلیم وتربیت کیلئے محمد ہے وہ یہ ہے کہ چونکہ یہ سب کام خدا تعالیٰ کیلئے ہیں.612

Page 625

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 18 نومبر 1938ء اس لئے اس سے دعائیں کی جائیں کہ وہ ہمیں کامیابی عطا فرمائے اور چونکہ بعض دفعہ انسان اپنے جوش میں اور فتح کے نشہ میں اس امر کو بھول جاتا ہے کہ تمام کامیابی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوئی ہے اور اس کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ یہ فتح شاید میری جدو جہد کا نتیجہ ہے اس لئے روزوں کا سلسلہ جاری کیا گیا ہے تا ہماری جماعت کے دوست یہ سمجھیں کہ جو کچھ ہوا ہے وہ اسی کے فضل سے ہوا ہے اور جو کچھ آئندہ ہوگا وہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہو گا تا ایک طرف فتح کے نتیجہ میں جو بعض دفعہ کبر اور غرور پیدا ہو جاتا ہے وہ پیدا نہ ہو اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے احسانات کے متعلق شکر کا جذبہ دل میں موجزن ہو.یہ تحریک جدید کا مکمل ڈھانچہ ہے جس کا ایک پہلو تعلیم و تربیت ہے، دوسرا پہلو تبلیغ و اشاعت اور تیسرا پہلو دعا اور روزے ہیں تا جتنا کام بھی ہو اس یقین اور وثوق کے ساتھ ہو کہ یہ خدا کے فضل سے ہوا اور ہم آئندہ کی کامیابیوں کے لئے بھی اسی کی طرف اپنی توجہ رکھیں اور اس سے دعا کرتے رہیں کہ وہ ہماری مددفرمائے.میں گزشتہ خطبات میں بتا چکا ہوں کہ پہلے دور میں ہماری جماعت نے بے مثل نمونہ دکھایا ہے اور اس نے ایسی غیر معمولی قربانی اور جوش کا ثبوت دیا ہے کہ جس کا دشمن کو بھی اقرار ہے مگر میں یہ بھی بتا چکا ہوں کہ یہ کام زمین صاف کرنے کا تھا.اتنے کام پر ہی خوش ہو جانا اور اپنی تمام جدوجہد کوختم کر دینا اللہ تعالیٰ کے حضور ہمیں کسی نیک نامی کا مستحق نہیں بلکہ كَالَّتِي نَقَضَتْ غَنْ لَهَا مِنْ بَعْدِقُوَّةٍ أَنْكَاثًا (النحل: 93) کا مصداق بنانے والا ہے.وہ عورت بھی آخر کچھ نہ کچھ کام کیا ہی کرتی تھی اور محنت کر کے سُوت کا تا کرتی تھی مگر چونکہ جب کام کا وقت آتا تو وہ اپنے سوت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی اس لئے اس کی محنت اس کے کسی کام نہیں آتی تھی.ہم نے بھی پہلے دور میں سوت کا تا ہے لیکن دوسرے دور میں ہم نے اس سوت سے کپڑے بنے اور نہ صرف خود پہنے بلکہ دوسروں کو بھی پہنانے ہیں.اگر اس دور میں ہم نے ستی دکھائی تو یقیناً ہماری ساری محنت رائیگاں جائے گی اور ہمیں جس قدر نیک نامی حاصل ہو چکی ہے وہ سب بدنامی سے بدل جائے گی.اس دوسرے دور میں مجھے بعض لوگ ست نظر آتے ہیں مگر میرے لئے یہ کوئی تعجب انگیز بات نہیں.میں نے اس تحریک کے شروع میں ہی بتایا تھا کہ کچھ لوگ وقتی مؤمن ہوا کرتے ہیں اور وقتی مؤمن ہر ر 613

Page 626

اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 18 نومبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول جماعت میں ہوا کرتے ہیں اور وقتی مؤمن سے میری مراد وہ لوگ ہیں جو لڑائی جھگڑے کے وقت تو آگے آجاتے ہیں مگر جب مستقل اور لمبی قربانیوں کا موقعہ آتا ہے تو پیچھے ہٹ جاتے ہیں.وہ جان دینے کیلئے تو فوراً تیار ہو جائیں گے اور اگر جنگ ہو اور انہیں کہا جائے کہ فوج میں بھرتی ہو جاؤ اور ملک کی عزت کیلئے جان دے دو تو وہ بالکل نڈر ہو کر فوج میں شامل ہو جائیں گے اور دشمن سے لڑ کر اپنی جان دے دیں لیکن اگر انہیں کہا جائے کہ پندرہ منٹ یا آدھ گھنٹہ روزانہ فلاں کام کیلئے وقت دو تو چند دنوں کے بعد ہی وہ عذرات پیش کر دیں گے کہ آج ہماری بیوی بیمار ہے، آج بچے اچھے نہیں، آج اپنی طبیعت ناساز ہے اور اس طرح وہ کام سے بچنا شروع کر دیں گے.یہ وقتی اور ہنگامی مؤمن ہوتے ہیں اور یہ ہنگامی مؤمن ہر جماعت میں پائے جاتے ہیں.یہی ہنگامی مؤمن کبھی کبھی منافق بھی بن جاتے ہیں.فرق صرف یہ ہے کہ ایک تو مستقل منافق ہوتا ہے اور ایک یہ ہنگامی مؤمن ہوتا ہے جو بعض دفعہ جوش میں آکر مؤمنانہ کام کر لیتا ہے اور بعض دفعہ ایسی حرکات کا ارتکاب کر لیتا ہے جن سے خدا تعالیٰ کو اپنے اوپر ناراض کر لیتا اور منافق بن جاتا ہے.پس ہنگامی مؤمن کا انجام محفوظ نہیں لیکن جو مستقل مؤمن ہوں ان کا انجام خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے وو اور انہیں ہر قسم کے بعد انجام سے بچالیتا ہے.تو سستوں کا ہر جماعت میں ہونا لازمی ہوتا ہے مگر ان کی وجہ سے کام کو نقصان نہ پہنچنے دینا ہمارا فرض ہے اور ان لوگوں کی اصلاح ہم پر لازمی ہے اور ہم یہ کہہ کر ہر گز بری نہیں ہو سکتے کہ ہم نے قربانی کر دی ہے.اگر چندلوگوں نے قربانی نہیں کی تو ہم کیا کریں.ہمارا فرض ہے کہ ہم انہیں بیدار کرتے رہیں.ان کی نیند اور غفلت کو دور کریں اور انہیں چست اور ہوشیار بنا ئیں.اگر ہم اپنی اس ڈیوٹی کو چھوڑ دیں تو ہم خدا تعالیٰ کے بھی مجرم ہوں گے اور اپنی قوم اور اپنے نفس کے بھی مجرم ہوں گے اسی لئے میں ہمیشہ ایسے لوگوں کو چست کرتا رہتا ہوں اور جو پہلے ہی بیدار ہوں انہیں اور زیادہ بیدار کرتارہتا ہوں تا کہ وہ بھی کسی وقت سست نہ ہو جا ئیں.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم ان لوگوں کو جوست ہیں چست اور ہوشیار بنائیں اور جو چست ہیں انہیں وقتی مومنوں کی صف سے نکال کر کامل الایمان لوگوں کے ساتھ شامل کریں اور اگر ہم ایسا کریں تو یقیناً ہم دوہرے ثواب اور دو ہرے درجہ کے مستحق ہوں گے لیکن اگر ہم اپنے اس فرض کی ادائیگی میں کوتا ہی کریں تو ہم یہ کہ کر ہر گز بری نہیں ہو سکتے کہ ہم تو بچ گئے ہیں.خدا تعالیٰ ہم سے پوچھے گا کہ تم تو بے شک بچ گئے لیکن جن اور لوگوں کو بچانا تمہاری طاقت میں تھا ان کو تم نے کیوں نہیں بچایا ؟ میں تحریک جدید کے دور ثانی میں مستقل کام کی داغ بیل ڈالنے کیلئے مالی تحریک کے علاوہ کہ وہ 614

Page 627

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 18 نومبر 1938ء بھی مستقل ہے، ایک مستقل جماعت واقفین کی تیار کر رہا ہوں.دور اول میں میں نے کہا تھا کہ نو جوان تین سال کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں مگر دور ثانی میں وقف عمر بھر کیلئے ہے اور اب یہ واقفین کا ہرگز حق نہیں کہ وہ خود بخود کام چھوڑ کر چلے جائیں.ہاں ہمیں اس بات کا اختیار حاصل ہے کہ اگر ہم انہیں کام کے نا قابل جائیں تو انہیں الگ کر دیں.پس یہ سہ سالہ واقفین نہیں بلکہ جس طرح یہ دور منتقل ہے اسی طرح یہ وقف بھی مستقل ہے.اس دور میں کام کی اہمیت کے پیش نظر میں نے یہ شرط عائد کر دی ہے کہ صرف وہی نوجوان لئے جائیں گے جو یا تو گریجوایٹ ہوں یا مولوی فاضل ہوں اور جو نہ گریجوایٹ ہوں اور نہ مولوی فاضل ، انہیں نہیں لیا جائے گا کیونکہ ان لوگوں نے علمی کام کرنے ہیں اور اس کے لئے یا تو دینی علم کی ضرورت ہے یاد نیوی علم کی.اس دور میں تین چار آدمیوں کو منہا کر کے کہ وہ گریجوایٹ نہیں کیونکہ وہ پہلے دور کے بقیہ واقفین میں سے ہیں، باقی سب یا تو گریجوایٹ ہیں یا مولوی فاضل ہیں.چنانچہ اس وقت چار گریجوایٹ ہیں اور چار ہی مولوی فاضل ہیں کل غالباً بارہ نو جوان ہیں.چار ان میں سے غیر گریجوایٹ ہیں مگر ہیں سب ایسے ہی جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے محنت سے کام کرنے والے اور سلسلہ سے محبت رکھنے والے ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ جس رنگ میں یہ کام کر رہے ہیں اس کے ماتحت یہ ان علمی کاموں کو سرانجام دے دیں گے جو علمی کام میرے مد نظر ہیں.میرا ارادہ ہے کہ اس جماعت کا پہلا دور 24 نوجوانوں پر مشتمل ہو کیونکہ کام کے لحاظ سے اس سے کم میں گزارہ نہیں ہو سکتا.اس کیلئے میں عنقریب تحریک کرنے والا ہوں بلکہ اسی خطبہ کے ذریعہ میں تحریک کر دیتا ہوں کہ جو نو جوان گریجوایٹ ہوں یا مولوی فاضل، وہ اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کرنے کے ارادہ سے میرے سامنے اپنے نام پیش کریں.اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو بھی گریجوایٹ یا مولوی فاضل ہوگا اسے ہم بہر حال لے لیں گے کیونکہ انتخاب ہماری مرضی پر ہے، ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ ان کا تقویٰ کیسا ہے؟ خدمت دین کا جذبہ کس حد تک ہے ؟ علم کیسا ہے؟ صحت کیسی ہے؟ ان کے حالات کس قسم کے ہیں اور آیا جو کام ہمارے مد نظر ہے اسے وہ خوش اسلوبی سے سرانجام دے سکتے ہیں یا نہیں؟ غرض تمام باتیں دیکھنی پڑیں گی اور اس طرح انتخاب کا معاملہ کلیہ ہماری مرضی پر منحصر ہو گا لیکن لئے وہی جائیں گے جو یا تو گریجوایٹ ہوں یا مولوی فاضل ہوں.اسی طرح وہ لوگ بھی لئے جاسکیں گے جو دوسرے فنون کے گریجوایٹ ہوں.مثلاً ایک ڈاکٹر ہے وہ خواہ بی.اے نہ ہو لیکن اسے گریجوایٹ ہی سمجھا جائے گا.میرا منشا یہ ہے کہ ان میں سے بعض کو مرکز کے علاوہ باہر بھجوا کر اعلی تعلیم دلوائی جائے اور علمی اور عملی لحاظ 615

Page 628

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 18 نومبر 1938ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد اول سے اس پا یہ کے نوجوان پیدا کئے جائیں جو تبلیغ تعلیم اور تربیت کے کام میں دنیا کے بہترین نوجوانوں کا مقابلہ کر سکیں بلکہ ان سے فائق ہوں صرف انہیں مذہبی تعلیم ہی دینا میرے مدنظر نہیں بلکہ میر امنشا ہے کہ انہیں ہر قسم کی دنیوی معلومات بہم پہنچائی جائیں اور دنیا کے تمام علوم انہیں سکھائے جائیں تا دنیا کے ہر کام کو سنبھالنے کی اہلیت ان کے اندر پیدا ہو جائے.ان نوجوانوں کے متعلق میری سکیم جیسا کہ میں گزشتہ مجلس شوری کے موقعہ پر بیان کر چکا ہوں، یہ ہے کہ انہیں یورپین ممالک میں بھیج کر اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلائی جائے اور جب یہ ہر قسم کے علوم میں ماہر ہو جائیں تو انہیں تنخواہیں نہ دی جائیں بلکہ صرف گزارے دیئے جائیں اور ان کے گزارہ کی رقم کا انحصار علمی قابلیت کی بجائے گھر کے آدمیوں پر ہو جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں ہوا کرتا تھا اور یوں انتظام ہو کہ جس کی بیوی ہوئی یا بچے ہوئے اسے زیادہ الاؤنس دے دیا اور جس کے بیوی بچے نہ ہوئے اسے کم گزارہ دے دیا یا کسی نوجوان کی شادی ہونے لگی تو اسے تھوڑی سی امداد دے دی.یہ نہیں ہوگا کہ چونکہ فلاں ولایت سے پاس شدہ ہے اس لئے اسے زیادہ تنخواہ دی جائے اور فلاں چونکہ ولایت کا پاس شدہ نہیں اس لئے اسے کم تنخواہ دے دی جائے.سب کو یکساں گزارے ملیں گے خواہ کوئی ولایت کا پاس شدہ ہو یا یہاں کا.ہاں گزارے میں زیادتی شادی ہونے یا بچوں کے پیدا ہونے پر ہو سکے گی.مثلاً اگر ایک ولایت کا پاس شدہ نوجوان بھی ہمارے پاس ہو گا تو ہم اسے پندرہ روپے ہی دیں گے.اس کے مقابلہ میں اگر کوئی ایسا ہے جو ولایت کا پاس شدہ نہیں تو اسے بھی پندرہ روپے ہی ملیں گے.ہاں اگر شادی ہو جائے اور پھر بچے پیدا ہونے لگ جائیں تو اس صورت میں اس گزارہ میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہوتا رہے گا کیونکہ بچوں نے تو کھانا ہے.مگر علم نے نہیں کھانا.میں نے دیکھا ہے اگر اس لحاظ سے تقسیم کی جائے تو دولت مند غریب ہو جاتے ہیں اور غریب دولت مند.بعض لوگ صرف میاں بیوی ہوتے ہیں ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوتی لیکن وہ پچاس روپیہ ماہوار کما رہے ہوتے ہیں اس کے مقابلہ میں ایک اور شخص ہوتا ہے اس کے آٹھ بچے ہوتے ہیں اور وہ سو روپیہ ماہوار کماتا ہے.اب پچاس روپے والا یہ نہیں دیکھے گا کہ مجھے پچاس روپے ملتے ہیں اور ہم کھانے والے صرف دومیاں بیوی ہیں اور اسے گوسو روپیہ ملتے ہیں مگر اس کے گھر کھانے والے دس افراد ہیں بلکہ وہ پچاس اور س کو دیکھ کر شور مچانے لگ جائے گا کہ غریبوں کو کوئی پوچھتا ہی نہیں.امیروں کو سب پوچھتے ہیں.حالانکہ یہ پچاس روپے کما کر 25 روپے خود رکھتا اور 25 روپے اپنی بیوی کو دیتا ہے اور سو روپیہ کمانے والا ہر ایک کو دس دس روپے دیتا ہے مگر یہ 25 روپے لے کر بھی اپنے آپ کو غریب کہتا ہے اور دوسرے کو باوجود دس روپیہ کی آمد کے امیر قرار دیتا ہے 616

Page 629

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 18 نومبر 1938ء اور اس کی زبان یہ کہتے ہوئے گھس جاتی ہے کہ غریبوں کو کوئی نہیں پوچھتا امیروں کو ہی سب پوچھتے ہیں.تو میں نے تحریک جدید میں یہ اصل رکھا ہے کہ علم پر گزارہ مقرر نہ کیا جائے بلکہ کھانے پینے والوں کی تعداد کو دیکھ کر گزارہ مقرر کیا جائے.میں نے تحریک جدید کے ماتحت جو گزارے کے نئے اصول مقرر کئے ہیں وہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں اسی اصل کے ماتحت ہیں.میں نے ہدایت دے دی ہے کہ اگر کوئی مجرد ہو تو اسے اتنے روپے دیئے جائیں گے، شادی ہو جائے تو اتنے اور بچے پیدا ہوں تو فی بچہ اتنا الا ونس بڑھایا جائے اور اگر کسی کے بچے نہ ہوں خواہ وہ کتنا ہی تعلیم یافتہ کیوں نہ ہو وہ ہم سے اس شخص سے کم ہی گزارہ لے گا جو گو اتنا تعلیم یافتہ نہیں مگر اس کے بچے زیادہ ہیں.اس لئے کہ اس کے کھانے والے کم ہیں اور اس کے کھانے والے زیادہ اور اگر ہم اس کے گزارہ میں ترقی کریں گے تو اسی حساب سے.مثلا فرض کرو ہم نے تعین روپیہ فی بچه گزارہ مقرر کیا ہوا ہے.اب جب بھی ہم کسی کا گزارہ بڑھائیں گے اسی اصل پر بڑھائیں گے کہ فی بچہ اتنے روپے زائد کر دو یہ نہیں کہ یونہی سالوں کی زیادتی پر رقمیں بڑھاتے چلے جائیں.تو میری غرض یہ ہے کہ میں تحریک جدید کے واقفین کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلاؤں وہ اپنی زندگی خدمت دین کیلئے وقف کریں اور ہم اس قربانی کے معاوضہ میں انہیں وہ تعلیم دلائیں جو ان کا سارا خاندان مل کر بھی انہیں تعلیم نہیں دلا سکتا.گویا ان کا معاوضہ انہیں روپیہ کی صورت میں نہیں بلکہ تعلیم کی صورت میں ملے لیکن تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ ہم سے وہی گزارہ جو اس وقت لے رہے ہیں اور اس میں زیادتی انہی اصول پر ہو جو میں نے بیان کئے ہیں.ان نوجوانوں میں سے بعض اچھے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان ہیں اور وہ اگر اپنی زندگی وقف نہ کرتے اور یوں کوشش کرتے تو انہیں اچھی اچھی ملازمتیں مل جاتیں.پس چونکہ انہوں نے ایک قربانی کی ہے اس لئے میری تجویز ہے کہ انہیں ایسی اعلی تعلیم دلا ؤں کہ نہ صرف دینی طور پر بلکہ دنیوی طور پر بھی وہ ہر جگہ عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھے جائیں.اگر مالی لحاظ سے وہ غریب ہوں تو علم اور عقل اور تجربہ کے لحاظ سے اتنی دولت ان کے پاس ہو کہ وہ کسی جگہ ذلیل نہ ہوسکیں.اگر کسی انسان کے پاس نہ تو علم ہو اور نہ دولت ہو تو وہ ذلیل ہو جاتا ہے لیکن اگر ان میں سے اگر ایک چیز بھی ہو تو کسی جگہ وہ ذلت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جا سکتا.پس میں نہیں چاہتا کہ تحریک جدید کے واقفین ذلیل ہوں.میں یہی چاہتا ہوں کہ انہیں عزت حاصل ہومگر ان کی عزت دولت کی وجہ سے نہ ہو بلکہ علم کی وجہ سے ہوا اور انہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ مقام حاصل ہو کہ دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا دولت مند بھی انہیں ذلیل نہ سمجھ سکے.میری کوشش یہ ہے کہ اس دور میں سو واقفین زندگی تیار ہو جائیں جو علاوہ مذہبی علم رکھنے کے 617

Page 630

اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 18 نومبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول ظاہری علوم کے بھی ماہر اور سلسلہ کے تمام کاموں کو حزم اور احتیاط سے کرنے والے اور قربانی وایثار کانمونہ دکھانے والے ہوں.اس غرض کے لئے تعلیمی اخراجات کے علاوہ ہمیں ان لوگوں کو گزارے بھی دینے پڑیں گے اور یہ گزارہ پندرہ روپے فی کس مقرر ہے.اگر ایک گریجوایٹ بھی ہو تو اسے بھی ہم پندرہ روپے ہی دیتے ہیں زیادہ نہیں اور یہ اتنا قلیل گزارہ ہے کہ بعض یتامی اور مساکین کے وظائف اسی کے لگ بھگ ہیں مگر باوجود اس کے کہ گزارہ انہیں اتنا تھوڑا دیا جاتا ہے جتنا بعض یتامی اور مساکین کو بھی ملتا ہے وہ کام بھی کرتے ہیں اور انہوں نے اپنی تمام زندگی خدمت دین کیلئے وقف کی ہوئی ہے.سردست ہمارا قانون یہ ہے کہ اگر ان میں سے کسی کی شادی ہو جائے تو اسے ہیں روپے دیئے جائیں اور پھر بچے پیدا ہوں تو فی بچہ تین روپے زیادہ کئے جائیں اور اس طرح چار بچوں تک یہی نسبت قائم رہے گویا ان کے گزارہ کی آخری حد بتیس روپے ہے مگر یہ بھی اس وقت ملیں گے جب ان کے گھروں میں چھ کھانے والے ہو جائیں گے.میں سمجھتا ہوں کہ یہ گزارہ کم ہے.اسی طرح بچوں کی حد بندی کرنی بھی درست نہیں اور اسے جلد سے جلد دور کرنا چاہئے مگر فی الحال ہماری مالی حالت چونکہ اس سے زیادہ گزارہ دینے کی متحمل نہیں اس لئے ہم اس سے زیادہ گزارہ نہیں دے سکتے اور انہوں نے بھی خوشی سے اس گزارہ کو قبول کیا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ بیوی کے لحاظ سے بھی پانچ روپے الا ؤونٹس کم ہے اور اسے بڑھانے کی ضرورت ہے، بچوں کے لحاظ سے بھی فی بچہ تین روپیہ گزارہ تھوڑا ہے اور اس میں زیادتی ہونی چاہئے مگر یہ سب کچھ مالی حالت کے سدھرنے پر موقوف ہے.اسی طرح میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ بچوں کی حد بندی کرنی بھی درست نہیں کیونکہ نسل کا بڑھنا قومی لحاظ سے مفید ہوتا ہے لیکن بہر حال ابھی مالی دقتوں کی وجہ سے ہم عورت کے پانچ روپے اور فی بچہ تین روپے ہی مقرر کر سکے ہیں لیکن اگر ہم کسی وقت اس میں زیادتی بھی کریں تو میں سمجھتا ہوں کہ اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ کے لئے شاید ہمیں پچاس روپیہ سے زائد گزارہ مقرر نہیں کرنا پڑے گا.حالانکہ جس قسم کی اعلی تعلیم میں انہیں دلانا چاہتا ہوں اس کے بعد اگر یہ کہیں ملازمت کرلیں تو تین چار سو روپیہ ماہوار سے ان کی تنخواہ شروع ہو لیکن پھر بھی خواہ ہم انہیں کس قدر قلیل گزارہ دیں جو کام یہ لوگ کریں گے آخر وہ روپیہ کا محتاج ہے.ہم سے صدر انجمن احمدیہ کے کاموں میں یہ غلطی ہوئی ہے کہ عملہ کابل سائر سے زیادہ ہو گیا ہے یعنی صدر انجمن احمدیہ کے کارکنان کی تنخواہوں کا بجٹ سائز کے بجٹ سے بہت زیادہ ہے.حالانکہ کام کو مفید بنانے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ سائز کا بجٹ تنخواہوں سے کئی گنا زیادہ ہو.شاید یہ مجبوری تھی لیکن اس غلطی سے تحریک جدید کے کام میں اجتناب ضروری ہے اور میرا ارادہ ہے کہ 618

Page 631

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرمود : 18 نومبر 1938ء تحریک جدید کو اسی رنگ میں چلایا جائے کہ اس کے سائر کا بجٹ زیادہ ہو اور کارکنان کے گزارہ کا بجٹ کم ہو.میرا اپنا اندازہ یہ ہے کہ سائز کا بجٹ کئی گنے زیادہ ہونا چاہئے.کم از کم تین گنا ضرور ہونا چاہئے یعنی اگر سوروپے پاس ہوں تو ان میں سے پچیس روپے آدمیوں پر خرچ ہونے چاہئیں اور 75 روپے اشاعت لٹریچر اور کرایوں وغیرہ پر.اگر اس طریق کو محوظ نہ رکھا جائے تو کسی قسم کی قباحتیں پیدا ہو سکتی ہیں.مثلاً اگر لٹریچر موجود نہیں، کرایہ کیلئے کوئی رقم پاس نہیں، اشتہارات چھپوانے کیلئے کوئی روپیہ پاس نہیں، کہیں دواخانے وغیرہ کھولنے کیلئے مالی گنجائش نہیں تو صرف آدمیوں کو ہم نے کیا کرنا ہے؟ وہ تو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہیں گے اور جو کام ہے وہ رکا رہے گا.پس ضروری ہے کہ جو خرچ آدمیوں پر ہو اس سے کئی گنے زیادہ اشاعت وغیرہ کے اخراجات کیلئے روپیہ ہو.مثلاً اشتہارات چھپوانے کیلئے لٹریچر کی اشاعت کیلئے ، دواخانے کھولنے کیلئے آمد ورفت کے کرایوں کیلئے مدرسوں کے اجرا کیلئے غریب بچوں کو سکتا ہیں مہیا کر کے دینے کیلئے اور اسی طرح کے اور بہت سے کاموں کیلئے.فرض کرو ہم کسی جگہ مدر سے کھولتے ہیں وہاں تمام لڑکے غریب ہیں.اب سکول چلانے کیلئے ضروری ہوگا کہ بچوں کو کتب اور دوسرا سامان بھی دیا جائے ورنہ خالی مدرس بیٹھا ہوا وہاں کیا کر سکتا ہے؟ پس میرا اندازہ یہ ہے کہ اگر آدمیوں کی تنخواہوں پر 25 روپے خرچ ہوا کریں تو سائر کیلئے 75 روپے ہونے چاہئیں اور یہ کم سے کم اندازہ ہے اور میری کوشش ہے کہ اسی اصل پر تحریک جدید کے کام کو منظم کیا جائے.پس اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ نو جوان جو بغیر روپیہ کے کام کرنے کے لئے تیار ہوں وہ اپنی زندگیاں وقف کریں.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے بعض نوجوان ہمیں ایسی ہی روح رکھنے والے دیئے ہوئے ہیں.چنانچہ ان واقفین زندگی میں ایک وکیل ہیں، ان کے والد کئی مربعوں کے مالک ہیں اور وہ اپنے علاقہ کے رئیس اور مرکزی اسمبلی کے ووٹروں میں سے ہیں.وہ شادی شدہ ہیں مگر ہم انہیں میں روپے ہی دیتے ہیں اور وہ خوشی سے اسے قبول کرتے ہیں.حالانکہ زمیندار ہونے کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ اپنے علاقہ میں انہیں اچھا رسوخ حاصل ہے، اگر وہ وکالت کرتے تو سوڈیڑھ سو روپیہ ضرور کما لیتے بلکہ ہوشیار آدمی تو آج کل کے گرے ہوئے زمانہ میں بھی دو اڑھائی سو روپیہ کمالیتا ہے لیکن انہوں نے اپنے آپ کو وقف کیا اور قلیل گزارے پر ہی وقف کیا اور میں تو اس قسم کے وقف کو بغیر روپیہ کے کام کرنا ہی قرار دیتا ہوں کیونکہ جو کچھ ہماری طرف سے دیا جاتا ہے وہ نہ دیئے جانے کے برابر ہے.اسی طرح اور کئی گریجوایٹ ہیں جو اپنی ذہانت کی وجہ سے اگر باہر کہیں کام کرتے تو بہت زیادہ کما لیتے مگر ان سب نے خوشی اور بشاشت کے ساتھ اپنی زندگی وقف کی ہے.پس گو 619

Page 632

اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 18 نومبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول تحریک جدید کے واقفین ایک قلیل گزارہ لے رہے ہیں مگر عقلاً انہیں بغیر گزارہ کے ہی کام کرنے والے سمجھنا چاہئے کیونکہ ان کے گزارے ان کی لیاقتوں اور ضرورتوں سے بہت کم ہیں.مگر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ اگر بغیر گزارہ کے کام کرنے والے آدمی بھی ہمیں ملیں تو بھی اس کام کیلئے جو ان سے لیا جانا ہے، سرمایہ کی ضرورت ہے.کچھ ان کے قلیل گزارہ کیلئے اور کچھ غیر ممالک میں تبلیغ اسلام اور لٹریچر وغیرہ کی اشاعت کیلئے.اگر ہماری جماعت کے آدمی کتا بیں نہیں لکھتے یا اگر لکھتے ہیں تو شائع نہیں ہوتیں تو محض اس لئے کہ روپیہ نہیں ہوتا.پس میر امنشا یہ ہے کہ جہاں نو جوان بغیر روپیہ کے کام کرنے والے ہوں وہاں روزمرہ کے کاموں کیلئے روپیہ کا ایک ریز روفنڈ جائیداد کی صورت میں ہو، تا اگر کسی وقت جماعت سے چندہ نہ ملے یا چندہ لیا نہ جا سکے تو تبلیغ کے کام میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو اور مستقل آمد ایسی ہو جس سے تمام کام بخوبی چلتا چلا جائے.میں نے آج سے کچھ سال پہلے 25 لاکھ ریز روفنڈ کی تحریک کی تھی مگر وہ تو ایسا خواب رہا جو تشنہ تعبیر ہی رہا مگر اللہ تعالیٰ نے تحریک جدید کے ذریعہ اب پھر ایسے ریز روفنڈ کے جمع کرنے کا موقعہ ہم پہنچا دیا ہے اور ایسی جائیدادوں پر یہ روپیہ لگایا جا چکا ہے اور لگایا جارہا ہے جس کی مستقل آمد چھپیں تھیں ہزار روپیہ سالانہ ہوسکتی ہے تا تبلیغ کے کام کو بجٹ کی کمی کی وجہ کوئی نقصان نہ پہنچے.اگر ہم سو واقفین رکھیں جو میرا مقصود ہے اور جن کو میں دوسرے دور میں تیار کرنا چاہتا ہوں اور ان میں سے ہر ایک کے اخراجات کی اوسط پچاس روپیہ ماہوار رکھیں تو پانچ ہزار روپیہ ماہوار اور ساتھ ہزار روپیہ سالانہ بنتا ہے مگر یہ عملہ کا خرچ ہے اور میں بتا چکا ہوں کہ سائز کے اخراجات کم از کم تین گنے زیادہ ہونے چاہئیں جولٹریچر کی مفت تقسیم یا دواؤں کی مفت تقسیم یا سفر خرچ وغیرہ پر خرچ ہونا چاہئے.اس لحاظ سے دو لاکھ چالیس ہزار روپیہ بنتا ہے جس کی سالانہ ہمیں ضرورت ہوگی اور گوسر دست یہ ایک واہمہ اور خیال ہے مگر جس رنگ میں تحریک جدید کے سرمایہ سے مستقل جائیداد میں تیار ہورہی ہیں اس سے تھیں چالیس ہزار روپیہ سالانہ تک آمد ہو سکتی ہے بلکہ انشاء اللہ اس سے بھی زیادہ اور چونکہ اگر 24 نوجوان ہوں تو ان کے لحاظ سے ساٹھ ہزار روپیہ کا سالانہ بجٹ بنایا جاتا ہے اس لئے 24 نو جوانوں کے اخراجات کا بجٹ قریباً قریباً اس جائیداد سے پورا ہو سکتا ہے اور چونکہ دور ثانی میں ابھی چھ سال باقی ہیں اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہماری جماعت کوشش کرے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے آسانی کے ساتھ ایسی جائیدادیں پیدا کی جاسکتی ہے جن سے تبلیغ کا کام بسہولت ہوتا رہے اور اس کیلئے بعد میں کسی خاص جدو جہد کی 620

Page 633

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 18 نومبر 1938ء ضرورت نہ رہے مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ جماعت اپنی قربانی کو اس اعلی معیار پر قائم رکھے جو گزشتہ سالوں میں اس نے قائم کیا تھا بلکہ کوشش کرے کہ پہلے معیار سے بھی وہ آگے بڑھ جائے.دنیا میں لوگ کنویں کھدواتے ہیں، سرائیں بنواتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کا نام باقی رہے.وہ بالکل بے دین ہوتے ہیں مگر ان کے دل میں بھی یہ جذبہ ہوتا ہے کہ ہمارا نام کسی طرح باقی رہے لیکن کنوؤں اور سراؤں کی کیا حیثیت ہوتی ہے؟ پچاس، ساٹھ یا سو سال کے بعد ویران اور غیر آباد ہو جاتے ہیں لیکن اس کے مقابلہ میں تحریک جدید کا دور ثانی مستقل صدقے کا کام ہے اور جو لوگ اس میں حصہ لیں گے وہ اس تبلیغ دین کے ذریعہ جو ان کے روپیہ سے ہوتی رہے گی اپنی موت کے ہزاروں سال بعد بھی ثواب حاصل کرتے چلے جائیں گے.دنیا میں حالات بدلتے رہتے ہیں اور عام طور پر جو وقف ہوتے ہیں وہ بھی دو دو، تین تین، چار چار سو سال سے زیادہ دیر تک نہیں رہتے.لوگ کنویں کھدواتے ہیں تو وہ پچاس، ساٹھ یا سوسال کے بعد ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں لیکن دینی جماعتوں کا وقف اس سے بہت زیادہ لمبے عرصہ تک قائم رہتا ہے.اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں سے ہمیں بہت بہتر مقام عطا فرمایا ہے کیونکہ ان کے مسیح سے ہمارا مسیح اپنی ہرشان میں بلند اور بالا ہے لیکن عیسائیوں کے بعض وقف بھی ہزار ہزار سال سے چلے آتے ہیں.پس اگر عیسائیوں کے بعض وقف ہزار سال تک قائم رہ سکتے ہیں تو کیا تعجب ہے کہ تمہارا وقف ڈیڑھ ہزار یا دو ہزار برس تک قائم رہے! کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے پہلے میچ پر فضیلت دی ہے.اب خود ہی غور کرو یہ کتنا عظیم الشان ثواب کا موقعہ ہے جو تمہارے سامنے ہے.تم تحریک جدید کے دور ثانی میں غالباً چھ سال تک اور قربانی کرو گے مگر سینکڑوں ہزاروں سال تک انشاء اللہ تمہارے روپیہ سے تبلیغ اسلام ہوتی رہے گی اور تمہارے مرنے کے بعد بھی تمہیں ثواب پہنچتا رہے گا.میں کہتا ہوں کہ ہزاروں سال کو جانے دو اگر سو دو سو سال تک بھی تمہیں مستقل ثواب پہنچتا چلا جائے تو یہ کتنی عظیم الشان کامیابی ہے اور اس کامیابی کے مقابلہ میں دس سال کی قربانی کی حقیقت ہی کیا ہے؟ میں نے گزشتہ سال کہا تھا کہ تحریک جدید کے دور اول کے پہلے سال میں جس نے جس قدر چندہ دیا ہو وہ اگر چاہے تو اسی قدر چندہ دور ثانی کے پہلے سال دے سکتا ہے اور پھر ہر سال اسے اپنے چندہ میں دس فیصدی کمی کرنے کی اجازت ہے.میں آج دور ثانی کے سال دوم کے چندہ کی تحریک کا اعلان کرتا ہوا پھر اس بات کو دہرا دیتا ہوں کہ عام قانون یہی ہے کہ دوستوں کو اس بات کی اجازت ہے کہ پچھلے سال انہوں نے تحریک جدید میں جس قدر چندہ دیا تھا، اس سال اگر چاہیں تو اس سے دس فیصدی کم چندہ دے 621

Page 634

اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 18 نومبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول دیں.یعنی اگر کسی نے سوروپے دیئے تھے تو وہ نوے روپے دے سکتا ہے، ہزار روپے دیئے تھے تو نو سو روپے دے سکتا ہے، پچاس روپے دیئے تھے تو 45 روپے دے سکتا ہے، 20 روپے دیئے تھے تو 18 روپے دے سکتا ہے اور دس روپے دیئے تھے تو نو روپے دے سکتا ہے لیکن میں اس کے ساتھ یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ جو شخص توفیق کے ہوتے ہوئے اپنے چندہ میں کمی کرتا ہے وہ اپنے ایمان کو اپنے ہاتھوں نقصان پہنچاتا ہے.یہ اجازت جو میں نے دی ہے، یہ صرف اس لئے ہے کہ میں جانتا ہوں ابتدا میں بعض لوگوں نے جوش میں آکر اپنی طاقت سے بہت زیادہ چندہ دے دیا تھا.پس ان کے لئے بغیر اس کمی کے چارہ نہیں اور ان کے لئے بھی یہ کی اس لئے ہے تا پہلے سالوں سے کم چندہ دینے کی وجہ سے ان کا دل میلا نہ ہو اور وہ کہہ سکیں کہ گو ہمیں مالی مشکلات درپیش ہیں مگر پھر بھی قانون کے اندر رہتے ہوئے ہم نے مالی قربانی میں حصہ لے لیا ہے.بے شک تم کہہ سکتے ہو کہ اگر ایک شخص مجبور اور معذور ہے اور اس نے اپنی معذوری کی وجہ سے تحریک میں پہلے جتنا حصہ نہیں لیا تو اس میں کیا حرج ہے؟ مگر تم اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ اگر اس کی اجازت میں قانون کے رنگ میں نہ دوں تو اس کا دل ضرور میلا ہوگا اور وہ کہے گا کہ افسوس! میں پہلے جتنا حصہ اب کی دفعہ نہ لے سکا.پس میری غرض اس کمی سے یہ ہے کہ اگر کوئی واقعہ میں مجبور ہو اور اپنی مجبوری کی وجہ سے ہی پہلے جتنا حصہ نہ لے سکتا ہو تو اس کا دل بھی میلا نہ ہو اور وہ یہ نہ کہے کہ افسوس! میں اتنی قربانی نہ کر سکا بلکہ وہ پھر بھی خوش ہو اور کہے کہ باوجود مجبوری کے میں نے اس قدر قربانی کر لی ہے جس قدر قربانی کا سلسلہ نے مجھ سے مطالبہ کیا تھا.پس یہ صرف دل کے میلا نہ ہونے کیلئے میں نے شرط رکھی ہے ورنہ میرا ارادہ یہی ہے کہ ہر سال میں اپنا چندہ کچھ نہ کچھ بڑھاتا چلا جاؤں اور کئی دوسرے دوست بھی ہیں جنہوں نے ہر سال اپنا چندہ بڑھایا ہی ہے گھٹایا نہیں.پس مجھے چندہ میں دس فیصدی کمی کی اجازت دینے کا قانون بنانے کی ضرورت اس لئے پیش آتی ہے کہ میں چاہتا ہوں وہ لوگ جنہوں نے پہلے سال جوش میں بہت کچھ چندہ دے دیا تھا حتی کہ اپنی طاقت سے بھی زیادہ دے دیا تھا ان کے دل بھی میلے نہ ہوں یا وہ لوگ جن کی مالی حالت بعد میں واقعہ میں کمزور ہو گئی ہے ان کا دل بھی میلا نہ ہو، ورنہ میں جانتا ہوں کہ جماعت کا ایک حصہ ایسا ہے جس نے ہر سال اپنے چندہ میں زیادتی کی ہے.اس کے مقابلہ میں وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے اپنی طاقت سے کم حصہ لیا ہے.میں اس موقعہ پر ان تمام لوگوں کو جنہوں نے گزشتہ سالوں میں اپنی طاقت سے کم حصہ لیا تھا یا ان لوگوں کو جوانی قربانی کے 622

Page 635

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعہ فرمود : 18 نومبر 1938ء سابقہ معیار کو قائم رکھ سکتے ہیں اور اسی طرح ان لوگوں کو جو اپنی قربانی کے معیار کو بڑھا سکتے ہیں، کہتا ہوں کہ تم میں سے وہ، جنہوں نے گزشتہ سالوں میں اپنی طاقت سے کم حصہ لیا تھا وہ اپنی ستی کا ازالہ کریں اور خدا تعالیٰ نے ان کے لئے ثواب کا جو ایک اور موقعہ پیدا کر دیا ہے اس سے فائدہ اٹھا ئیں اور وہ جو اپنی سابقہ قربانیوں کے معیار کو قائم رکھ سکتے ہیں وہ اپنے معیار کو قائم رکھیں اور جو اس معیار کو بڑھا کر زیادہ قربانی کر سکتے ہیں وہ زیادہ قربانی کریں.اللہ تعالیٰ کے ہاں ثواب کی کمی نہیں.اگر تم زیادہ قربانی کرو گے تو اللہ تعالیٰ سے زیادہ اجر پاؤ گے اور اگر کم قربانی کرو گے تو بالکل ممکن ہے کہ قیامت کے دن تم جو اپنے آپ کو ایم.اے سمجھ رہے ہو انٹرنس پاس ثابت ہو اور ایک انٹرنس پاس خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ایم.اے ثابت ہو.پس وہ لوگ جنہوں نے کمزوری دکھائی تھی ان کیلئے اس بات کا موقعہ ہے کہ وہ اپنی پچھلی کمزوریوں کا اس رنگ میں کفارہ ادا کریں کہ تحریک جدید کے اس سال میں پہلے سالوں سے زیادہ حصہ لیں تا خدا تعالیٰ کے حضور ان لوگوں کا نام کمزور لوگوں میں نہ لکھا جائے بلکہ ان لوگوں میں لکھا جائے جنہوں نے اس کے دین کے جھنڈے کو اپنی پوری طاقت کے ساتھ بلند رکھا.اس کے مقابلہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی مالی حالت خدا تعالیٰ نے پہلے سے زیادہ مضبوط کر دی ہے.آج سے چار سال پہلے ان کی حالت سخت کمزور تھی مگر آج خدا تعالیٰ نے انہیں اپنی نعمتوں سے مالا مال کیا ہوا ہے.ایسے لوگوں کی یہ بے وقوفی ہوگی اگر وہ اپنے چندہ میں کمی کریں.جب خدا نے ان سے خاص سلوک کیا ہے تو ان کا بھی فرض ہے کہ وہ خاص جواب دیں.پس وہ لوگ جن کی مالی حالت کو اللہ تعالیٰ نے مضبوط بنایا ہے ان پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور انہیں اپنے چندہ میں کمی کرنے کی بجائے اسے بڑھاتے چلے جانا چاہئے اور وہ جن کی مالی حالت تو اللہ تعالیٰ نے اچھی رکھی ہو مگر وہ چندے کو بڑھانہ سکتے ہوں انہیں کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اپنے معیار کو قائم رکھیں.پس گو قانون یہی ہے کہ چندہ میں ہر سال دس فیصدی کمی کی اجازت ہے مگر اس سے فائدہ اس کو اٹھانا چاہئے جو واقعہ میں مجبور اور معذور ہو اور جو واقعہ میں مجبور اور معذور نہ ہوا سے اس سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہئے.میں نے خود گزشتہ سال پہلے سالوں سے زیادہ چندہ دیا تھا اور باوجود سخت مقروض ہونے کے اب بھی زیادہ ہی دینے کا ارادہ ہے اور بھی کئی دوست ہیں جنہوں نے پہلے سالوں سے زیادہ چندہ پیش کر دیا ہے اور بعض مخلصین نے تو ایسا نمونہ دکھایا ہے کہ ان پر رشک آتا ہے.ایک دوست ہیں وہ اپنی ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو انہیں گورنمنٹ کی طرف سے پراویڈنٹ فنڈ ملا.وہ اب بوڑھے اور کمزور ہو چکے ہیں اور کوئی تجارت وغیرہ کا کام نہیں کر سکتے 623

Page 636

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 18 نومبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول ان کا گزارہ جو کچھ ہے اسی پراویڈنٹ فنڈ پر ہے مگر انہوں نے پراویڈنٹ فنڈ ملتے ہی تحریک جدید کے دوسرے سات سالہ دور کا چندہ اکٹھا بھیجوا دیا اورلکھ دیا کہ میری طرف سے یہ دفتر میں بطور امانت رکھ لیا جائے اور ہر سال اتنا چندہ تحریک جدید میں میری طرف سے منتقل کر لیا جایا کرے.میں اب بوڑھا ہو چکا ہوں اور نا معلوم کب مر جاؤں یا کیا خبر ہے پھر چندہ دینے کی توفیق ملے یا نہ ملے اس لئے میں آئندہ سات سال کا چندہ اکٹھا بھجوا دیتا ہوں.یہ کیسا اعلیٰ درجہ کا اخلاص اور کس قدر خوش کن نمونہ ہے.جماعت کے دوست ایسے لوگوں پر جس قدر فخر کریں کم ہے.اسی طرح اور کئی دوست ہیں جنہوں نے گوسات سال کا نہیں مگر دو دو تین تین سال کا چندہ اکٹھا جمع کرا دیا ہے کہ ممکن ہے مالی لحاظ سے ہم پر کوئی کمزوری آجائے اور ہم اس ثواب میں شریک ہونے سے محروم رہیں.اس لئے بہتر ہے کہ ابھی سے آئندہ سالوں کا چندہ بھی جمع کرا دیا جائے.یہی وہ لوگ ہیں جن کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّنْ يَنْتَظِرُ (الاحزاب :24) یہ کام ایسا شاندار ہے کہ میں سمجھتا ہوں جو لوگ اس تحریک کو کامیاب بنانے میں مدد دیں گے ان کا کا نام اللہ تعالیٰ خاص لوگوں میں لکھے گا کیونکہ اس چندے میں جن لوگوں نے بھی حصہ لیا ہے ان کے چندوں سے اشاعت اسلام کے لئے ایک مستقل ریز روفنڈ قائم کیا جائے گا.پس اس کیلئے جتنی قربانی کی جائے تھوڑی ہے اور جس قدر ثواب کی امید رکھی جائے وہ بھی تھوڑی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ تحریک جدید کا کام ان مستقل تحریکات میں سے ہے.جن میں حصہ لینے والے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے اسی طرح مستحق ہوں گے جس طرح بدر کی جنگ میں شریک ہونے والے صحابہ رضی اللہ عنہم اللہ تعالیٰ کے خاص فضلوں کے مورد ہوئے.جنگ بدر میں جو صحابہ رضی اللہ عنہم شامل ہوئے تھے ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے فرمایا تھا کہ اِعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَإِنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ یعنی جو جی میں آئے کرو میں نے تمہیں معاف کر دیا.اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ اب تمہارے لئے چوری اور ڈا کہ اور شراب اور دوسرے ناروا افعال سب جائز ہو گئے بلکہ یہ مطلب تھا کہ تم نے ایک 624

Page 637

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 18 نومبر 1938ء ایسی نیکی میں حصہ لیا ہے کہ اب اس کے بعد اللہ تعالیٰ خود تمہارے اعمال کا ذمہ دار ہو گیا ہے اور وہ تمہیں ہر قسم کے بُرے انجام سے محفوظ رکھے گا“.وو میں سمجھتا ہوں کہ تحریک جدید کا کام بھی اسی قسم کا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ جماعت کے مخلصین کی ایک مستقل یاد گار قائم کرنا چاہتا ہے اور ان کی روحوں کو ان کی وفات کے بعد بھی مستقل طور پر ثواب پہنچانا چاہتا ہے کیونکہ اس چندے کے ذریعہ اشاعت اسلام کی ایک مستقل بنیاد پڑنے والی ہے.پس تحریک جدیدا اپنے اندر اس قسم کی برکات رکھتی ہے اور اس قسم کے انوار اتر تے محسوس ہور ہے ہیں کہ یہ امر صاف طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ جو لوگ اس میں حصہ لیں گے انہیں اللہ تعالیٰ اپنے قرب کا کوئی خاص مقام عطا فرمائے گا.دو چار دن ہوئے الفضل میں قاضی اکمل صاحب کا ایک مضمون حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک پیشگوئی کے متعلق شائع ہوا ہے جو تحریک جدید کے ذریعہ پوری ہوئی.وہ دراصل ایک پرانا کشف ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھا.آپ فرماتے ہیں ایک دفعہ کشفی حالت میں میں نے دیکھا کہ دو شخص ایک مکان میں بیٹھے ہیں، ایک زمین پر اور ایک چھت کے قریب.پہلے میں نے اس شخص کو جوز مین پر تھا مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا اور وہ چپ رہا.پھر میں نے اس دوسرے کی طرف رخ کیا جو چھت کے قریب اور آسمان کی طرف تھا اور اسے میں نے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے.اس نے کہا ایک لاکھ نہیں ملے گی مگر پانچ ہزار سپاہی دیا جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس کا یہ جواب سن کر میں نے اپنے دل میں کہا کہ پانچ ہزار اگر چہ تھوڑے آدمی ہیں لیکن اگر خدا چاہے تو تھوڑے بہتوں پر فتح پاسکتے ہیں اور میں نے کشفی حالت میں ہی یہ آیت پڑھی کہ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللهِ (القر : 250) قاضی صاحب نے لکھا ہے کہ اس رؤیا کے متعلق میرے دل میں یہ خیال گزرا کہ یہ تحریک جدید میں قربانیاں کرنے والوں کے ذریعہ پورا ہورہا ہے.چنانچہ میں نے منشی برکت علی صاحب فنانشل سیکرٹری سے پوچھا کہ تحریک جدید کے چندہ میں حصہ لینے والوں کی کس قدر تعداد ہے تو انہوں نے بتایا کہ پانچ ہزار چارسو بائیں.چونکہ ہر جماعت میں کچھ نہ کچھ ناد ہند ہوتے ہیں اس لئے اگر ان کو نکال دیا جائے تو پانچ ہزار ہی تعداد بنتی ہے.علاوہ ازیں کسور بالعموم اعداد میں شمار نہیں کئے جاتے.پس پانچ ہزار چارسو دراصل پانچ ہزار ہی ہیں لیکن اگر کسور کو بھی شامل کر لیا جائے تو میں نے بتایا ہے کہ کچھ نہ کچھ ایسے لوگوں کی تعداد بھی 625

Page 638

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 18 نومبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول ہوتی ہے جو وعدہ تو کرتے ہیں مگر اسے پورا نہیں کرتے.پس ایسے نادہندہ اگر اس تعداد میں سے نکال دیئے جائیں تو پانچ ہزار ہی وہ لوگ رہ جاتے ہیں جنہوں نے اس تحریک میں حصہ لیا.مجھے خود بھی دو تین سال ہوئے یہی خیال آیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی تحریک جدید میں حصہ لینے والوں پر ہی چسپاں ہوتی ہے اور ان دنوں میں نے چودھری برکت علی صاحب کو ایک دفعہ بلا کر پوچھا بھی کہ اس تحریک میں حصہ لینے والوں کی کتنی تعداد ہے تو انہوں نے کہا کہ میں زبانی نہیں بتا سکتا، دیکھ کر بتاؤں گا.میں نے کہا اندازاً آپ بتائیں کہ کس قدر لوگ ہوں گے؟ انہوں نے اس وقت بتلایا کہ شاید سات ہزار کے قریب ہیں.ان کے اس جواب سے میرے ذہن میں جو یہ خیال تھا کہ شاید تحریک جدید میں حصہ لینے والے پانچ ہزار ہوں اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ کشف اسی کے متعلق ہو جا تا رہا “.مگر اب قاضی صاحب کے مضمون سے جو اعداد و شمار مرتب کیے گئے ہیں.مجھے وہ پرانا خیال یاد آ گیا اور میں سمجھتا ہوں کہ در حقیقت انہی لوگوں کے متعلق یہ کشف ہے اور حقیقت یہ ہے کہ کئی سال سے میرا یہ خیال ہے کہ یہی وہ فوج ہے جس کے ملنے کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خبر دی گئی تھی اور اسی فو کے ذریعہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اسلام کی فتح کے لئے ایک مستقل اور پائیدار بنیادقائم کرے اور یہ فوج اپنا ایک ایسا نشان چھوڑ جائے جس کے ذریعہ ہمیشہ دنیا میں اسلام کی تبلیغ ہوتی رہے." پھر عجیب بات یہ ہے کہ ادھر الفضل میں یہ مضمون شائع ہوا اور ادھر چند دن پہلے میں یہ سوچ رہا تھا کہ تحریک جدید میں آخر تک قربانی کرنے والوں کو آئندہ نسلوں کے لئے بطور یادگار بنانے کیلئے کوئی تجویز کروں.جب یہ کشف میرے سامنے آیا تو اس نے میرے اس خیال کو اور زیادہ مضبوط کر دیا اور میں نے چاہا کہ وہ لوگ جو اس تحریک میں آخر تک استقلال کے ساتھ حصہ لیں ان کے ناموں کو محفوظ رکھنے کیلئے اور اس غرض کے لئے کہ آئندہ نسلیں ان کے لئے دعائیں کرتی رہیں، کوئی یادگار قائم کروں.لوگ اولاد کے لئے کتنا تڑپتے ہیں محض اس لئے کہ دنیا میں ان کا نام قائم رہے.میں نے اپنے دل میں کہا وہ جنہوں نے خدا تعالیٰ کے دین کے احیا اور اس کے جھنڈے کو بلند رکھنے کیلئے اس تحریک میں حصہ لیا ہے ان کے نام آئندہ نسلوں کیلئے محفوظ رکھنے کی خاطر کیوں نہ کوئی تجویز کی جائے.چنانچہ اس کیلئے میں نے ایک نہایت موزوں تجویز سوچی ہے جسے اپنے وقت پر ظاہر کیا جائے گا.غرض اس مضمون کو پڑھنے کے بعد میرے دل میں یہ خیال آیا کہ جسے خدا نے اپنا لشکر قرار دیا ہے اور جس کے ذریعہ اسلام کی فتح کا سامان دنیا میں ہونے والا ہے اس جماعت کو کون مٹا سکتا ہے؟ یقیناً کوئی نہیں جو اسے مٹا سکے لیکن ہمارا بھی فرض 626

Page 639

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 18 نومبر 1938ء ہے کہ ان پانچ ہزار سپاہیوں کی کوئی مستقل یادگار قائم کریں کیونکہ وہ سب لوگ جو اس جہاد کبیر میں آخر تک ثابت قدم رہیں گے ان کا حق ہے کہ اگلی نسلوں میں ان کا نام عزت سے لیا جائے اور ان کا حق ہے کہ ان کے لئے دعاؤں کا سلسلہ جاری رہے اور اس کیلئے جیسا کہ میں بتا چکا ہوں ایک نہایت موزوں تجویز میں نے سوچ لی ہے.پس میں آج اس تمہید کے ساتھ تحریک جدید کے سال پنجم کے چندہ کا اعلان کرتا ہوں.دوستوں کو چاہئے کہ سابقون الاولون بننے کی کوشش کریں.میں نے تحریک جدید کے پانچویں سال کے چندہ کی شرائط بیان کر دی ہیں.میں نے بتایا کہ قانون یہی ہے کہ دس فیصدی پچھلے سال سے کم چندہ دیا جا سکتا ہے مگر ایک سچے مومن کو اس اجازت سے اسی صورت میں فائدہ اٹھانا چاہئے جبکہ وہ واقعہ میں مجبور اور معذور ہو اور اگر وہ واقعہ میں معذور اور مجبور نہیں یا مجبور اور معذور تو ہے مگر اس کا ایمان اور اس کا اخلاص اسے پیچھے ہٹنے نہیں دیتا تو میں اسے کہوں گا کہ تم کوشش کرو کہ اپنی پہلی جگہ پر کھڑے رہو بلکہ اگر ہو سکے تو آگے بڑھنے کی کوشش کرو.بے شک اس سال چندوں کی بھر مار ہے مگر جو کام ہمارے سامنے ہے وہ بھی بہت بڑا ہے اور وہ اشاعت اسلام کے لئے مستقل جائیداد کا پیدا کرنا ہے.جو لوگ اس راستہ میں مشکلات کی پروا نہیں کریں گے اور مصیبتوں پر ثابت قدم رہیں گے، وہی لوگ ہیں جو اپنے عمل سے اس بات کو ثابت کر دیں گے کہ وہ آئندہ نسلوں میں عزت کے ساتھ یاد کئے جانے کے مستحق ہیں.مجبوریاں سب کیلئے ہوتی ہیں.اگر ایک شخص پیچھے ہٹے اور دوسرا انہی حالات میں سے گزرتے ہوئے ثابت کر دے کہ اس نے قدم پیچھے نہیں ہٹایا تو یہ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ وہ لوگ جنہوں نے یہ کہا تھا کہ ہم مجبور ہیں انہوں نے غلط کہا تھا کیونکہ انہی حالات میں دوسروں نے قربانی کی اور وہ کامیاب ہوئے.اس طرح ہر وہ شخص جو نیا احمدی ہوا ہے اس کو بھی میں توجہ دلاتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اس پر یہ بہت بڑا فضل کیا ہے کہ اپنے بچے دین کا راستہ اسے دکھا دیا یا بالفاظ دیگر اس کا خدا اسے مل گیا.اب اس پر بھی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہو چکی ہے اور اس کا فرض ہے کہ وہ دوسروں کی نسبت آگے بڑھنے کی کوشش کرے بلکہ جو نیا احمدی ہو اسے اس بات کی بھی اجازت ہے کہ وہ اگر چاہے تو گزشتہ سالوں کے چندہ میں بھی شامل ہو جائے.پس ہر نئے احمدی سے گزشتہ سالوں کا چندہ بھی قبول کیا جاسکتا ہے.اسی طرح وہ جسے پہلے اس تحریک کا علم نہ تھایا جو پہلے کلی طور پر نا دار تھا اس سے پہلے سالوں کا چندہ بھی قبول کیا جاسکتا مثلا فرض کرو ایک شخص پہلے طالب علم تھا مگر بعد میں ملازم ہو گیا یا پہلے بے کا ر تھا مگر بعد میں اسے کوئی 627

Page 640

اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 18 نومبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول ملازمت مل گئی، ایسے تمام لوگوں سے پہلے سالوں کا چندہ بھی قبول کر لیا جائے گا کیونکہ پہلے انہوں نے مجبوری سے اس میں حصہ لینے سے اجتناب کیا تھا جان بوجھ کر حصہ لینے سے انکار نہیں کیا تھا.ہاں جنہیں گزشتہ سالوں کے چندہ میں شریک ہونے کی توفیق تھی اور وہ ان دنوں برسر کا ر بھی تھے مگر انہوں نے جان بوجھ کر حصہ نہیں لیا انہیں اجازت نہیں.وہ صرف نئے سال میں شامل ہو سکتے ہیں پچھلے سالوں میں نہیں.یا درکھو! ایک بہت بڑا کام ہے جو ہمارے سامنے ہے، بہت بڑی مشکلات ہیں جنہیں میں اپنے سامنے دیکھتا ہوں، ایک عظیم الشان جنگ ہے جو شیطان سے لڑی جانے والی ہے، جو لوگ اس میں حصہ لیں گے وہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کریں گے اور جو لوگ حصہ نہیں لیں گے وہ اپنے اعراض سے خدا تعالیٰ کے کام کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے کیونکہ یہ خدا کا کام ہے اور اس نے بہر حال ہو کر رہنا ہے.قضائے آسمانست ایں بہر حالت شود پیدا پس یہ کام ہو کر رہے گا.اگر تم نہیں کرو گے تو تمہارا ہمسایہ کرے گا اور اگر وہ نہیں کرے گا تو کوئی اور کرے گا.بہر حال غیب سے اس کی ترقی کے سامان ہوں گے.پچھلا پچاس سالہ تجربہ تمہارے سامنے ہے.دشمن نے لا کھ رکاوٹیں ڈالیں، اس نے کروڑ حیلے کئے ، اس نے طعنے بھی دیئے، اس نے گالیاں بھی دیں، اس نے برا بھلا بھی کہا ، بڑے بڑے لوگ مخالفت کے لئے بھی اٹھے اور انہوں نے چاہا کہ اس سلسلہ کی ترقی کو روک دیں مگر خدا کا کام ہو کر رہا اور اس نے الہام کر کے ایسے لوگ کھڑے کر دیئے جو اس کے دین کے انصار بنے اور یقیناً اب بھی ایسا ہی ہو گا لیکن میں چاہتا ہوں کہ تم میں سے کوئی کمزور ثابت نہ ہو بلکہ تم میں سے ہر شخص اپنے عمل سے ثابت کر دے کہ جب امتحان کا وقت آیا تو تم نے اپنے اسلام اور احمدیت کے لئے وہ قربانی کی جس قربانی کا تم سے اسلام مطالبہ کرتا تھا او تم اپنے ایمان اور اپنے عمل اور اپنی قربانیوں کے لحاظ سے گزشتہ جماعتوں سے پیچھے نہیں رہے بلکہ ان سے آگے بڑھے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری جماعت کے دوستوں کے دلوں کو کھولے تا وہ اس پانچ ہزار سپاہیوں کے لشکر میں شمولیت کا فخر حاصل کر سکیں.جس کی خبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک کشف کے ذریعہ دے چکے ہیں.اللهم آمين.اللهم آمین.(مطبوعہ افضل 24 نومبر 1938ء) 628

Page 641

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اوّل اقتباس از خطبه جمعه فرموده 25 نومبر 1938ء سادہ زندگی خطبہ جمعہ فرمودہ 25 نومبر 1938ء گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں میں نے تحریک جدید کے سال پنجم کے چندے کے حصہ کے متعلق اعلان کیا تھا اور آج میں اسی کے ساتھ تعلق رکھنے والے ایک اور مطالبہ کی طرف جماعت کو توجہ دلاتا ہوں اور وہ سادہ زندگی کا مطالبہ ہے.سادہ زندگی کا مطالبہ اپنے اندر دو شقیں رکھتا ہے.ایک شق تو اس کی سیاسی مگر سیاسی مذہبی ہے، حکومتوں کے ساتھ تعلق رکھنے والی سیاست نہیں بلکہ مذہب کے ساتھ تعلق رکھنے والی سیاست مراد ہے، ہر تحریک جو کی جاتی ہے وہ کسی نہ کسی قانون کے ماتحت ہوتی ہے اور جس قانون کے ماتحت وہ کام کر رہی ہوتی ہے اسے اس کی سیاست کہتے ہیں.سیاست کے معنی دراصل ایک مکمل انتظام اور ایسے اصول کے ماتحت کسی چیز کو چلانے کے ہیں جو بدلنے والے حالات کا لحاظ رکھتا چلا جائے.آج کل لوگوں نے سیاست کے معنی یا تو جھوٹ سمجھ رکھے ہیں یا پھر اس کے معنی حکومت کے سمجھ لئے ہیں.اس کا لئے کئی نادان مخالف ہمارے متعلق بھی یہ کہتے رہتے ہیں کہ دیکھو جی یہ سیاست میں پڑ گئے ہیں.حالانکہ دنیا میں کوئی معقول چیز اپنی ذاتی سیاست کے بغیر چل ہی نہیں سکتی.کون سا وہ معقول کام ہے جو بغیر کسی خاص انتظام کے چل سکے اور اسی چیز کا نام سیاست ہے.حکومتوں کو حکومت کے چلانے کے لئے سیاست کی ضرورت ہوتی ہے، مذاہب کو مذاہب کے چلانے کیلئے تعلیمی محکموں کو تعلیم کی ترقی کیلئے ایک سیاست کی ضرورت ہوتی ہے.اسی طرح ہر محکمہ میں علیحدہ سیاست کی ضرورت ہوتی ہے اور اس وجہ سے جب حکومت کیلئے سیاست کا لفظ بولا جائے تو اس کے اور معنی ہوں گے، مذہب کیلئے اور اور تعلیم کیلئے اور معنے ہوں گے.نادان نادانی یا دشمن دشمنی کی وجہ سے اس کے کوئی اور معنی سمجھ لیتا اور پھر ہم پر اعتراض کرتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہر نظام ایک سیاست کا محتاج ہوتا ہے اور سیاست کے معنی حکمت کے ہوتے ہیں جو نظام کے پیچھے عمل کر رہی ہوتی ہے اور یہ معنی میں آج نہیں کر رہا بلکہ آج سے سینکڑوں سال پہلے مسلمان علماء نے ایسی کتابیں لکھی ہیں جن میں اس موضوع پر بڑی بڑی بخشیں کی ہیں کہ مذہب میں کس حد تک سیاست کا دخل ہو سکتا ہے اور ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کتابوں کا مقصد یہ ہے کہ مذہب میں جھوٹ کا استعمال جائز ہے یا یہ کہ حکومت میں مذہب کس طرح دخل دے سکتا ہے بلکہ ان کتابوں میں مضمون صرف فقہ کے 629

Page 642

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 25 نومبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول بیان ہیں اور فقہی بحثوں کے سوا کچھ نہیں.حتی کہ امام ابن قیم نے بھی جو صوفیا میں بھی اور فقہا میں بھی چوٹی کے آدمی سمجھے جاتے ہیں اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں لیکن بحث ان میں صرف اس قدر ہے کہ فقہ کی بنیاد کن حکمتوں پر ہے اور کس طرح تبدیل ہونے والے حالات کے ماتحت فقہ کے احکام میں بھی تبدیلی ہوسکتی ہے اور ان باتوں پر بحث کر کے ثابت کیا گیا ہے کہ اسلام میں سیاست ضروری ہے اور کوئی مسئلہ ایسا نہیں جو یکساں ہی چلتا جائے.مختلف حالات پیش آمدہ کے ماتحت ان کی نوعیت بھی بدلتی رہتی ہے اور اسی کو سیاست کہتے ہیں.نماز کیلئے وضو کا حکم ہے لیکن اگر کوئی بیمار ہو یا پانی میسر نہ آسکے تو تمیم بھی جائز ہے اور اگر نہ پانی مل سکے اور نہ مٹی، ایسے بھی مواقع آسکتے ہیں، تو وہ تمیم کے بغیر ہی نماز پڑھ سکتا ہے.فرض کرو کوئی شخص قید ہے اور کسی نئی بنی ہوئی کشتی میں سمندر میں اسے لے جایا جارہا ہے تو اسے پانی نہیں مل سکتا کیونکہ بڑی کشتیاں بہت اونچی ہوتی ہیں اور ان میں بیٹھ کر سمندر میں وضو نہیں کیا جا سکتا اور مٹی بھی نہیں مل سکتی تو اسے نماز معاف تو نہیں ہو سکتی.اس کیلئے یہی حکم ہے کہ وہ بغیر وضو اور بغیر تیم کے ہی نماز پڑھ لے یا کسی کے ہاتھ پاؤں جکڑے ہوئے ہوں.یوں تو پانی بھی موجود ہو اور مٹی بھی مگر وہ وضو کر سکے نہ تیم تو وہ بغیر اس کے بلکہ سجدہ اور رکوع کے بغیر بھی نماز ادا کر سکتا ہے اور دل ہی دل میں نماز ادا کر سکتا ہے.تو یہ احکام حالات کے ماتحت متغیر ہوتے رہتے ہیں.پھر بعض اوقات بعض احکام میں لوگ خرابی پیدا کر دیتے ہیں اور اس وقت حاکم یا قاضی کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ دخل دے کر اس خرابی کو دور کرے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاقیں الگ الگ وقتوں میں دیئے جانے کی شرط رکھی ہے مگر آپ کی زندگی کے بعد جب لوگوں میں یہ رواج بکثرت ہونے لگا کہ بیوی پر ناراض ہوئے اور کہہ دیا کہ تجھے طلاقیں ہیں تو پہلے علماء نے ایسی طلاقوں کو ایک ہی طلاق قرار دیا لیکن جب یہ رواج ترقی پکڑتا گیا تو شریعت کی بے حرمتی کی روح کو دور کرنے کیلئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اعلان کر دیا کہ اگر کوئی ایک دفعہ ہی بہت سی طلاقیں دے گا تو میں اسے تین ہی سمجھوں گا تو جس حد تک اسلام کے احکام میں متغیر حالات میں تبدیلی کی اجازت ہے ان میں تبدیلی کی جاسکتی ہے اور اسی کا نام سیاست ہے، اس کا نام حکمت اور اسی کا نام فلسفہ ہے.پس مذہب کیلئے بھی ایک سیاست کی ضرورت ہوتی ہے.اور یہ جو سادہ زندگی کی تحریک میں نے تحریک جدید کے سلسلہ میں کی تھی اس کا ایک حصہ مذہبی سیاست کے ساتھ تعلق رکھتا ہے یعنی اس زمانہ میں چونکہ اسلامی حکومت نہیں ہے اس لئے وہ مساوات جسے حکومتیں ہی قائم کر سکتی ہیں اس زمانہ میں قائم نہیں ہو سکتی اور آج کل مسلمان امیر و غریب میں ویسا ہی امتیاز کرنے لگے ہیں جیسا ہندو یا عیسائی کرتے ہیں کیونکہ مسلمانوں کی اپنی حکومت نہیں اور ان کے سامنے کوئی نمونہ نہیں.میری خلافت پر اب پچیس سال پورے 630

Page 643

تحریک جدید- ایک ابھی تحریک....جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 25 نومبر 1938ء ہونے کو آئے ہیں اور میں شروع سے ہی یہ مسئلہ سمجھانے کی کوشش کرتا آیا ہوں مگر اب تک جماعت میں یہ قائم نہیں ہو سکا کہ ایسا ادب جو شرک کے مشابہ ہو یا جو ادب کا اظہار کرنے والے کو انسانیت کے مقام سے گرانے والا ہو، نا جائز ہے.مثلاً یہاں کے لوگوں میں دستور ہے کہ جب کسی بڑے آدمی یا بزرگ کو ملنے کیلئے آتے ہیں تو جوتی اتار لیتے ہیں ، بات کرنے لگیں تو ہاتھ جوڑ لیتے ہیں اور بیٹھنے کو کہا جائے تو نیچے بیٹھ جاتے ہیں.اسلامی آداب کے لحاظ سے اسے ادب نہیں بلکہ انسانیت کی ہتک سمجھا جائے گا اور اسے نا پسندیدہ قرار دیا جائے گا.پچیس سال سے یہ بات میں سکھا رہا ہوں مگر ابھی تک اس پر عمل کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکا.اب تک یہی حالت ہے کہ بعض لوگ ملاقات کیلئے آتے ہیں تو جوتیاں اُتار دیتے ہیں اور جب اصرار کیا جائے کہ جوتی پہن کر آئیں تو پھر زمین پر بیٹھ جاتے ہیں اور پکڑ پکڑ کر اور اٹھا اٹھا کر انہیں کرسی یا فرش پر جیسی بھی صورت ہو بٹھانا پڑتا ہے لیکن بیٹھنے کے بعد جب بات شروع کرتے ہیں تو ہاتھ جوڑ لیتے ہیں اور اب تک ایسا ہو رہا ہے.اسی ہفتہ میں ایک دوست ملنے آئے.پہلی ملاقات ختم ہونے پر میں گھنٹی بجادیتا ہوں کہ تا دوسرے دوست آجائیں.میں نے گھنٹی بجائی مگر کوئی نہ آیا پھر گھنٹی بجائی تو دفتر کا آدمی آگے آیا اور میرے پوچھنے پر کہ اگلے ملاقاتی کیوں نہیں آئے؟ بتایا کہ وہ نیچے ہی جوتا اتار آئے تھے اس لئے میں نے انہیں کہا تھا کہ یہ درست نہیں آپ جوتا پہن کر تشریف لائیں.آخر وہ صاحب تشریف لائے اور آتے ہی زمین پر بیٹھ گئے اور مجھے باصرار ہاتھ پکڑ کرسی پر بٹھانا پڑا.اس کے بعد جب انہوں نے بات شروع کی تو ہاتھ باندھ لئے اور جب بڑے اصرار کے ساتھ انہیں کہا گیا کہ ہاتھ کھول دیں تو انہوں نے کھولے.وہ ہیں احمدی اور آٹھ دس سال سے احمدی ہیں معلوم ہوتا ہے وہ سمجھدار آدمی ہیں کیونکہ جب انہوں نے میرے چہرہ پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے تو بولے کہ اصل بات یہ ہے کہ ہمیں نوکریوں میں ایسا کرنے کی عادت ہو جاتی ہے.افسر توقع رکھتے ہیں کہ ان کے سامنے اسی طرح کیا جائے.آپ بے شک ایسا نہ کرنے کو کہتے رہتے ہیں مگر ہمیں چونکہ عمل اس کے خلاف کرنا پڑتا ہے اس لئے آپ کی بات ذہن سے نکل جاتی ہے.تو غیر مذاہب کے ساتھ میل جول کی وجہ سے کئی چیزیں ایسی ہیں جن کو مسلمان بھی اسلامی سمجھنے لگ گئے ہیں.حالانکہ وہ بالکل غیر اسلامی ہیں.اسلام نے جو مساوات سکھائی ہے وہ کہیں اور نظر نہیں آتی مگر ہمارا ماحول چونکہ ہندو دانہ ہے اور او پر عیسائی حکومت ہے اور ان دونوں میں مساوات نہیں.ہندوؤں میں تو چھوٹائی بڑائی کا فرق اتنا نمایاں ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں.اسی طرح عیسائیوں میں ہے ان کے تو گرجوں میں بھی علیحدہ علیحدہ سیٹیں علیحدہ علیحدہ لوگوں کیلئے مخصوص ہوتی ہیں.631

Page 644

اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 25 نومبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول بعض گر جاؤں میں مساوات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور وہ اس طرح کہ یہ سیٹ پندرہ روپیہ کرایہ کی ہے یا دس روپیہ کی اور یہ پانچ روپیہ کی ہے اور یہ دور و پیر کی ہے اور جو یہ کرایہ ادا کر سکے وہاں بیٹھ سکتا ہے.مجھ سے ایک عیسائی نے کہا کہ ہمارے گرجا میں تو مساوات ہے.میں نے کہا کہ اس مساوات سے تو وہی فائدہ اٹھا سکتا ہے جس کے پاس پندرہ روپے ہوں.جس کے پاس کھانے کو بھی نہ ہو وہ وہاں کیسے بیٹھ سکتا ہے؟ اور یہ چیزیں کوئی اس طرح تو مسلمانوں میں داخل نہیں ہوئیں کہ مصلے بکنے لگیں کہ امام کے پیچھے کے مصلے کی یہ قیمت ہے اور دائیں بائیں کھڑے ہونے کی اتنی اور یہ تو نہیں ہوا کہ پہلی صف میں کھڑے ہونے کا کرایہ پانچ روپیہ اور دوسری کا چار یا تین مگر اور شکلوں میں عدم مساوات مسلمانوں میں بھی آگئی ہے.اگر اسلامی حکومت ہوتی تو ماحول ہی ایسا ہوتا کہ یہ چیزیں پیدا نہ ہو سکتیں مگر چونکہ اسلامی حکومت قائم نہیں اس لئے ماحول کے مطابق مسلمانوں میں کچھ نہ کچھ رنگ دوسروں کا آگیا ہے اور میں نے محسوس کیا کہ تحریک جدید میں اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ مساوات کا احساس جماعت میں قائم اور زندہ رہے اور مر نہ جائے اور اس کیلئے سادہ زندگی کی تجویز میں نے کی اور اس کا ایک حصہ ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ہے تا کہ امیر اور غریب کا نمایاں امتیاز مٹ جائے.جس حد تک اسے قائم رکھنے کی شریعت نے اجازت دی ہے اسے تو ہم نہیں مٹاتے.شریعت نے یہ نہیں کہا کہ کوئی شخص اگر دس روپے کما کر لائے تو اس سے چھین لو اس لئے ہم یہ نہیں کر سکتے.ہاں روپیہ کمانے والوں پر جو پابندیاں اس نے عائد کی ہیں مثلاً یہ کہ ان سے زکوۃ لو، چندے لو یہ کر لیتے ہیں.ہاں مساوات قائم کرنے کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالی جائے.سب امیر غریب اکٹھے ہو کر ٹوکریاں اٹھائیں اور مٹی ڈھو ئیں تا اخوت اور مساوات کی روح زندہ رہے.اسی طرح کھانے پینے کے متعلق پابندیاں ہیں.جمعہ کے روز کیلئے بے شک میں نے پابندیوں کو ایک حد تک کم کر دیا ہوا ہے تا جو دوست اپنے احباب اور رشتہ داروں کے ساتھ مل کر کھانا چاہیں وہ ایسا کر سکیں مگر نسبتا اس دن بھی تنگی رکھی جائے.باقی ایام کیلئے سب کو ایک ہی کھانے کا حکم ہے تا امیر غریب میں کوئی امتیاز نہ رہے.اگر دوست اس پر پوری طرح عمل کریں تو امیر کو اپنے غریب بھائی کی دعوت پر کسی قسم کی تکلیف نہ ہوگی اور اس طرح دعوتوں میں زیادہ دوستوں کو بلانے کا موقعہ مل سکے گا.پہلے اگر دس دوستوں کو بلا سکتے تھے تو سادگی کی صورت میں تمہیں چالیس کو بلا سکیں گے.اس کے برعکس امیر جب دعوت کرتے تھے تو پانچ دس کھانے پکانا ضروری سمجھتے تھے اور چونکہ کسی کے پاس لا محدود دولت تو ہوتی نہیں اس 632

Page 645

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 25 نومبر 1938ء لئے مجبوراً صرف چند امیر ا حباب کو بلا لیتے تھے لیکن کھانے میں سادگی کی وجہ سے اتنی گنجائش ہو سکتی ہے کہ غریبوں کو بھی بلا لیں اور اس طرح دونوں کیلئے ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے کا راستہ کھل گیا ہے.گو امیر وغریب کے ہاں کھانے میں گھی یا مصالحہ اور خوشبو کی کمی بیشی کا امتیاز رہ جائے لیکن کھانا ایک ہی نظر آئے گا اور یہ اس مطالبہ کا مذہبی سیاسی پہلو تھا کہ دوئی کی روح کو مٹایا جائے اور یہ احساس نہ رہے کہ دونوں علیحدہ علیحدہ طبقے ہیں اور گو یکجہتی، اتحاد اور مساوات کی حقیقی روح حکومت کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی مگر اس تحریک کے ذریعہ میں نے کوشش کی ہے کہ وہ زندہ رہے تا جب بھی مسلمان حکومت آئے تو ہم اسے قبول کرنے کیلئے تیار ہوں اور یہ نہ ہو کہ لڑنے لگیں کہ ہم یہ نہ ہونے دیں گے کہ چھوٹائی بڑائی کے امتیاز کو مٹا دیا جائے.آج اگر ہندوؤں کی حکومت قائم ہو جائے تو بجائے اس کے کہ مساوات قائم ہوان میں جو امتیازات ہیں وہ زیادہ شدت اختیار کرلیں گے لیکن اسلامی حکومت کا قیام مساوات کو صحیح رنگ میں قائم کرے گا اور میری غرض یہ ہے کہ جب تک اسلام کی حکومت دنیا میں قائم نہ ہو مساوات کو روح زندہ رہے.دوسرا پہلو اس مطالبہ کا اقتصادی تھا.اس میں میرے مدنظر یہ بات تھی کہ اگر جماعت بغیر بچت کرنے کے چندوں میں زیادتی کرتی جائے گی تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ کمزور ہوتی جائے گی.حتی کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ اس میں کوئی قربانی کرنے کی طاقت ہی نہ رہے گی.اس لئے میں نے سوچا کہ ان میں کفایت شعاری کا مادہ پیدا ہوا اور جب کفایت کی عادت ہوگی تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ اپنے اخراجات میں کمی کر کے چندے دیں گے اور چندوں کیلئے ان کو قرض لینے کی ضرورت نہ ہوگی بلکہ جب یہ روح ان میں پیدا ہوگی تو وہ کچھ نہ کچھ پس انداز بھی کریں گے.امانت فنڈ کی مضبوطی کا مطالبہ در اصل پس انداز کرانے کے لئے ہی تھا مگر افسوس ہے کہ دوستوں نے اس سے پورا فائدہ نہیں اٹھایا.حالانکہ اس کی اصل غرض صرف یہ تھی کہ جماعت کی مالی حالت مضبوط ہو، وہ اقتصادی لحاظ سے ترقی کرتی جائے اور فضول اخراجات کو محدود کرتی جائے یہ نہ ہو کہ اخراجات کو بدستور رکھے اور جب چندہ کا وقت آئے تو بوجھ محسوس کرے اور جائیداد میں فروخت کر کے دے.اس میں شک نہیں کہ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کیلئے جائیدادیں فروخت کر کے بھی چندوں کا ادا کرنا ضروری ہوتا ہے مگر یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی طرف دوسروں کی نگاہیں اٹھتی ہیں اور جنہیں دوسروں کے سامنے اپنا نمونہ پیش کرنا ضروری ہوتا ہے.باقی لوگوں کیلئے اخراجات کو کم کر کے ہی دین کی مدد کرنا ضروری ہوتا ہے اور یہی مدد ہے جو ان کیلئے بھی اور دین کیلئے بھی زیادہ ثواب کا مستحق ہو سکتی ہے اور اخراجات میں کمی کرنا انسان کے بس کی بات ہوتی ہے.جولوگ پینشن 633

Page 646

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 25 نومبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول لیتے ہیں وہ فوراً اپنے اخراجات کو کم کر دیتے ہیں یا نہیں؟ اگر ہزار تنخواہ تھی تو پینشن پانچ سورہ جاتی ہے، پانچ سو ہو تو اڑھائی سو اور سو ہو تو پچاس روپے پینشن لینے والا اس کے مطابق اپنے اخراجات میں بھی کمی کر دیتا ہے.جب دنیوی حالات میں تبدیلی کی وجہ سے اخراجات میں کمی کی جاسکتی ہے تو دین کیلئے ایسا کرنا کیا مشکل ہے؟ حالانکہ ایسا کرنے میں سراسر ہمارا اپنا فائدہ ہے کیونکہ جو بچت ہوگی وہ ہمارے ہی کام آئے گی.شادی بیاہ اور دوسری ایسی ضروریات کے موقعہ پر قرض نہ لینا پڑے گا یا اگر اس بچت سے ان کی جائیدادیں بڑھیں گی تو ان سے ان کی آمد میں اضافہ ہوگا اور وہ ان کے اور ان کی اولادوں کے کام آئیں گی.تو بہت سے فوائد اس کے نتیجہ میں پیدا ہوں گے اور سادہ زندگی کے فوائد کا یہ اقتصادی پہلو ہے.خلاصہ یہ کہ ایک پہلو اس تحریک کا مذہبی سیاسی تھا تا کہ جماعت میں ایسی روح پیدا ہو جائے کہ مساوات قائم رہے اور چھوٹے بڑے کا امتیاز مٹ جائے اور یہ تفرقہ آگے جا کر دوسرے بڑے تفرقوں کا موجب نہ ہو.بے شک عادتوں کا چھوڑ نا مشکل ہوتا ہے.جو شخص اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے اس کیلئے یہ بہت مشکل ہوتا ہے کہ کھانے اور کپڑے میں تبدیلی کرے.اسے اس میں شرم محسوس ہوتی ہے.وہ خیال کرتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ اور اس وجہ سے یہ بہت بڑی قربانی ہے مگر قربانی کے بغیر قومی ترقی ہو ہی نہیں سکتی.یہ خیال بالکل غلط ہے کہ سادہ زندگی کا مطالبہ صرف امرا کیلئے ہے، غریب کا تو پہلے ہی بمشکل گزارہ ہوتا ہے وہ بچت کس طرح کر سکتا ہے؟ کیونکہ امیر کو اگر ضرورت کے وقت زیادہ رقم درکار ہوتی ہے تو غریب کو اسی نسبت سے کم رقم کی ضرورت ہوتی ہے.امیر کہتا ہے کہ اس وقت اگر دس ہزار روپیہ ہو تو کام چل سکتا ہے مگر غریب کہتا ہے کہ اگر پانچ روپے ہوں تو کام چل سکتا ہے.کام دونوں کے رکے ہوئے ہوتے ہیں امیر کا دس ہزار کیلئے اور غریب کا پانچ کیلئے.میں نے بعض سوالی دیکھتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ایک روپیہ فلاں ضرورت کیلئے درکار ہے اس میں سے آٹھ آنے تو مہیا ہو گئے ہیں باقی صرف آٹھ آنے کی اور ضرورت ہے.پس اگر غریب بھی بچت کا خیال کریں تو اتنی تبدیلی اخراجات میں کر لیں کہ ایک آنہ ماہواری بچالیں تو انہیں بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ایسے غریب لوگ بھی ہوتے ہیں جن کا آٹھ آنے نہ ہونے کی وجہ سے کوئی کام رکا رہتا ہے.ایسے غریب بھی ہوتے ہیں جن کا کام کسی وقت بارہ آنے یا روپیہ پاس نہ ہونے کی وجہ سے رک جاتا ہے اور جو شخص روپیہ یا دور و پیہ ماہوار کی بچت کر سکے وہ بھی اس کے لئے بہت مفید ہوسکتی ہے کیونکہ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو دس بارہ یا بیس پچیس روپے نہ ہونے کی وجہ سے اپنا کام نہیں چلا سکتے اور اگر وہ روپیہ دو روپیہ ماہوار بچاتے جائیں تو چونکہ ان کی 634

Page 647

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 25 نومبر 1938ء ضرورتیں بھی اس کے مطابق ہوتی ہیں اس لئے یہ بچت بھی ان کے لئے مفید ہوتی ہے.ہر شخص کے کام اور اس کی ضرورت کی نوعیت مختلف ہوتی ہے.کسی کا کام آٹھ آنے نہ ہونے کی وجہ سے رک جاتا ہے تو کسی کا دس ہزار نہ ہونے کی وجہ سے.پھر ایسے غربا بھی ہوتے ہیں جو ایک پیسہ کے محتاج ہوتے ہیں.ان کیلئے بظاہر اقتصادی زندگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو کہتے ہیں کہ ایک پیسہ ہو تو کیا اچھا ہے! تو ہر شخص کی ضرورت اور اقتصادی پہلو برابر برابر چلتے ہیں.بے شک ایک غریب آدمی کہہ سکتا ہے کہ اگر میں نے دو چار روپے جمع کر بھی لئے تو اس سے کیا ہوتا ہے؟ لیکن اسے خیال رکھنا چاہئے کہ اس کی ضرورتیں بھی ایسی ہی ہوتی ہیں.کئی دفعہ ایسی ضروریات پیش آجاتی ہیں کہ انسان کہتا ہے اس وقت اگر دس روپے پاس ہوتے تو بہت اچھا ہوتا اور اگر وہ بارہ آنہ یا روپیہ ہر مہینہ جمع کرتا رہے تو دوسرے سال دس روپے والی ضرورت جب اسے پیش آئے گی تو اس کا کام چل جائے گا اور اسے کوئی تکلیف محسوس نہ ہوگی.یہ صحیح ہے کہ غریب آدمی اپنی حالت کے مطابق بہت قلیل رقم پس انداز کر سکتا ہے مگر اس کی ضرورتیں بھی تو قلیل ہی ہوتی ہیں.تھوڑا تھوڑا کر کے وہ سال میں جس قدر پس انداز کرتا ہے اس کا نہ ہونا کسی وقت اس کی تباہی کا موجب ہو سکتا ہے پس یہ تحریک صرف امراء کیلئے ہی نہیں بلکہ غریبوں کیلئے بھی تھی لیکن امراء تو خیال کرتے ہیں کہ ہمارا گزارہ تو اچھا چل رہا ہے ہمیں پس انداز کرنے کی کیا ضرورت ہے جب کہ آمد کافی ہے؟ حالانکہ وہ بھی حادثات کا شکار ہو سکتے ہیں اور غریب سمجھتے ہیں کہ ہم نے جمع کیا کرنا ہے ہمارے پاس ضرورت سے زیادہ ہے ہی نہیں ؟ مگر یہ وہ کر لیتے ہیں کہ پہلے قرض لے لیا اور پھر جمع کر کے اسے ادا کر دیا.گویا وہ جمع تو کرتے ہیں مگر ایک ایسے صندوق میں جس کے نیچے سوراخ ہو اور جو کچھ اس میں ڈالیں وہ دوسرے رستے سے نکلتا جائے.وہ جو کچھ اس میں ڈالتے ہیں وہ اسی سوراخ کے رستے بنٹے کے گھر میں گرتا جاتا ہے.عقلمندی یہ نہیں کہ جسے دو روٹیاں نہیں ملتیں وہ ڈیڑھ ہی کھائے بلکہ عقلمندی یہ ہے کہ جب اسے دو ملتی ہیں اس وقت بھی وہ ڈیڑھ کھائے اور نصف ضرورت کیلئے اٹھار کھے اور جسے دو بھی نہیں ملتیں وہ بھی جو ملے اس میں سے کچھ نہ کچھ پس انداز کرے تا مصیبت کے وقت اس سے فائدہ اٹھا سکے کیونکہ جب تک ایسی حکومت موجود نہ ہو جو ہر شخص کے کھانے کی ذمہ دار ہو اس وقت تک یہ فکر نہ کرنا عاقبت نا اندیشی ہے.پس میری تجویز یہ ہے کہ آدھی روٹی گھر میں رکھوتا جب نہ ملے تو اسے کھا سکو اور اسی غرض سے میں نے تحریک جدید امانت فنڈ قائم کیا تھا.جو شخص اس تجویز پر عمل کرتا ہے وہ فائدہ میں رہتا ہے اور باقی 635

Page 648

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 25 نومبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول ماندہ روٹی اس کے کام آتی ہے لیکن جو عمل نہیں کرتا کھاتا تو وہ بھی ڈیڑھ ہی ہے مگر آدھی بنے کو دیتا ہے.پس کوئی شخص خواہ کتنا غریب ہو اسے چاہئے کہ کچھ نہ کچھ ضرور جمع کرتا رہے.خواہ پیسہ یا دو پیسے ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ بعض اوقات پیسہ دو پیسہ کا ہی خرچ آپڑتا ہے جس کے پورا کرنے کی کوئی اور صورت نہیں ہوتی اور اس وقت جمع شدہ پیسہ کام آتا ہے.بعض اوقات غریب لوگ فوت ہو جاتے ہیں تو کفن کیلئے بھی گھر میں کچھ نہیں ہوتا اور اگر ایک دو آنہ ماہوار بھی انسان بچاتا رہے تو بھی مرنے کے بعد گھر کے برتن یا دوسر اسامان گرور کھ کر کفن کا انتظام نہ کرنا پڑے گا.یہ اتنی موٹی بات ہے مگر شاید میرے بیان میں کوئی نقص ہے یا جماعت کے سمجھنے میں کہ ابھی تک جماعت میں یہ بات پیدا نہیں ہو سکی.اچھی طرح یا درکھو کہ سادہ زندگی اس تحریک کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے.اس میں غریبوں کا امیروں کی نسبت زیادہ فائدہ ہے کیونکہ وہ جو کچھ جمع کریں گے اپنی ضرورت کیلئے کریں گے اور اسی طرح امرا کو بھی اس سے فائدہ ہے.اگر کوئی مصیبت کا وقت آجائے تو اس وقت پس انداز کیا ہوا سر مایہ ان کے کام آئے گا.پس میں آج پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ سادہ زندگی کا مطالبہ تحریک جدید کے اہم مطالبات میں سے ایک ہے.اس کا اقتصادی پہلو اور مذہبی سیاسی پہلو دونوں بہت اہمیت رکھتے ہیں اور اگر ہم اس کے ذریعہ غریب اور امیر کے فرق کو کسی حد تک مٹانے اور مساوات کی اس روح کو جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے قائم رکھنے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ ایک عظیم الشان کام ہوگا جو لاکھوں، کروڑوں بلکہ اربوں، کھربوں روپیہ سے زیادہ قیمتی ہے بلکہ دنیا کی تمام دولت سے زیادہ بیش قیمت ہے.میں نے دیکھا ہے کہ کھانے کے متعلق بالعموم احباب جماعت نے پابندی کی ہے، لباس کے متعلق کچھ حصہ نے کی ہے مگر کچھ حصہ نے نہیں کی.بعض کے متعلق تو مجھے معلوم ہے کہ انہوں نے چندے زیادہ لکھوا دیے اور پھر دو دو تین تین سال تک کوئی کپڑے نہیں بنوائے.خود میرا بھی یہی حال ہے.کل ہی ایک عجیب اتفاق ہوا.جس پر مجھے حیرت بھی آئی ایک دوست ملنے آئے اور انہوں نے ایک تحفہ دیا کہ فلاں دوست نے بھیجا ہے.وہ ایک کپڑے کا تھان تھا.اس کے ساتھ ایک خط تھا جس میں اس دوست نے لکھا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ آپ آئے ہیں اور کہا ہے کہ قمیضوں کیلئے کپڑے کی ضرورت ہے، بازار سے لا دو.اس پر میں نے دریافت کیا کہ آپ صاف کپڑا پسند کرتے ہیں یا دھاری دار؟ آره نے اس کا کوئی جواب لفظوں میں تو نہیں دیا لیکن میرے دل پر یہ اثر ہوا کہ دھاری دار آپ کو پسند نہیں 636

Page 649

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 25 نومبر 1938ء اور اس خواب کو پورا کرنے کے لئے میں یہ کپڑا بھیجتا ہوں.میں نے وہ تھان لا کر گھر میں دیا کہ کسی نے بھیجا ہے اور اس سے تمھیں بنوائی جائیں.انہوں نے ایسے لے کر کہا کہ الحمد للہ چار سال کے عرصہ میں آپ نے قمیضوں کیلئے کپڑا نہیں خریدا تھا اور آپ کی پہلی قمیصیں ہی سنبھال سنبھال کر اب تک کام چلایا جار ہا تھ یا ایک دو قمیضوں کے کپڑوں سے جو کوئی تحفہ کے طور پر دے جاتا تھا، اب یہ مشکل دور ہوئی.تو خود میں نے کپڑوں میں بڑی احتیاط سے کام لیا ہے.میں ضمناً یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اس دوست کے خط کو پڑھ کر معاً میرے دل میں خیال آیا کہ پچاس سال کی عمر ہونے کو آئی ہے.جاگتے ہوئے تو میں نے کبھی کسی سے مانگا نہیں مگر خواب میں جامانگا اور گو یہ میں نے نہیں مانگا تھا بلکہ فرشتوں نے مانگا تھا لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ پھر بھی مجھے شرم محسوس ہوئی اور میں نے اسی وقت دعا کی کہ اے خدا! جس طرح تو نے اپنے فضل سے جاگتے ہوئے مانگنے سے اب تک بچایا ہے.خواب کے سوال سے بھی بچائے رکھ اور اگر خواب میں کسی کو تحریک کرنی ہو تو میرے منہ سے نہ کروا اور یہ خواب میں مانگنے کا بھی میری یاد کے مطابق پہلا ہی واقعہ ہے ورنہ خواب میں بھی میں نے کسی سے کبھی نہیں مانگا.ایک دفعہ ایک دوست نے لکھا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اتنے روپیہ کی ضرورت تھی اس میں سے اتنا پورا ہو گیا ہے اور اتنا ابھی باقی ہے جو تم قرض دے دو، سو میرے پاس اس قدر رقم ہے.اگر خواب ظاہری تعبیر کے مطابق درست ہے تو اطلاع ملنے پر روپیہ بھجوا دوں گا.یہ خواب بالکل سچی تھی بعینہ حالات اسی طرح تھے مجھے اس وقت کچھ ضرورت تھی ، اس میں سے اسی قدر رقم کا جو خواب میں اس دوست کو بتائی گئی تھی ، انتظام ہو گیا تھا اور اس قدر رقم جو ان سے طلب کی گئی تھی مہیا ہوئی باقی تھی.میں نے انہیں اطلاع دی اور انہوں نے وہ رقم بھجوا دی.فجراهم الله احسن الجزاء.دوست کا خط پڑھ کر جنہوں نے کپڑا بھجوایا تھا بے اختیار میرے منہ سے دعا نکلی کہ خدا وندا ! خواب میں بھی میں مانگنا پسند نہیں کرتا.آئندہ اپنے فضل سے ایسا خواب بھی کسی کو نہ دکھا جس میں سوال میرے منہ سے ہو.مجھے تو تو اپنے ہی ڈر کا سوالی بنا رہنے دے.ہاں میں کہہ رہا تھا کہ کھانے کے متعلق پابندی دوستوں نے کی ہے مگر لباس کے متعلق ایک حصے نے کی ہے اور ایک نے نہیں کی.میرے لئے تو اس پابندی کا سوال اکثر پیدا ہی نہیں ہو سکتا کیونکہ بعض دوست میرے لئے کوٹ وغیرہ لباس بنوا کر بھیج دیتے ہیں اس لئے میں خود تو وہ بنواتا ہی نہیں.کرتہ یا پا جامہ عام طور پر بنواتا ہوں مگر وہ بھی گھر والوں نے بتایا ہے کہ چار سال سے نہیں بنے.کوٹ بھی میں تھوڑا 637

Page 650

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 25 نومبر 1938ء تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد اول تھوڑا عرصہ پہن کر دوستوں کو دے دیتا ہوں مگر بعض دوست اور بھیج دیتے ہیں اور اس طرح یہ سلسلہ چلا جاتا ہے.مجھے اور بھی ایسے لوگ معلوم ہیں جنہوں نے دو دو چار چار سال سے کپڑے نہیں بنوائے اور اس میں سراسر انہی کا فائدہ ہے.اگر اس بچت سے وہ چندہ دیتے ہیں تو بھی ان کا فائدہ ہے اور اگر جمع کرتے ہیں تو بھی ان کا یا ان کی اولادوں کا.تو یہ تحریک جدید کا بہت ضروری حصہ ہے جس کی طرف جماعت کو توجہ کرنی چاہئے.لباس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر سادگی پسند فرماتے تھے کہ در حقیقت آج ان کے حالات پڑھ کر مجھے تو شرم آجاتی ہے.گو آج کل حالات بدل گئے ہیں اور حالات کے ماتحت تبدیلیاں بھی کرنی پڑتی ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو محبت ہے اس کی وجہ سے حالات کی تبدیلی کے باوجود شرم آنے لگتی ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے ایک چغہ پسند آیا جو کوئی شخص بیچنے کیلئے لایا تھا.میں اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اسے خرید لیجیئے.عید وغیرہ کے موقعہ پر پہننے کے کام آئے گا اور اچھا لگے گا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری یہ بات سن کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر سرخی آگئی گویا آپ نے اسے بہت نا پسند فرمایا اور فرمایا یہ تو قیصر وکسری والی باتیں ہیں.عمر یہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے نہیں رکھیں.شاید رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال آیا کہ عمر کو یہ چغہ پسند آیا ہے کیونکہ بعد میں جب کسی شخص نے ویسا چنغہ بطور ہدیہ آپ کو بھجوایا تو آپ نے وہ چغہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجوا دیا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ کو یاد ہوگا میں نے ایک دفعہ آپ سے ایسے ہی چغہ کو خریدنے کو کہا تھا تو آپ نے سخت نا پسند فرمایا تھا مگر اب آپ نے اسی قسم کا چغہ میرے پاس بھیج دیا ہے.آپ نے فرمایا کہ میں نے تمہارے پہننے کیلئے نہیں بھیجا اسے پھاڑ پھوڑ کر عورتوں کے کپڑے بنوالو.تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کپڑوں میں جس قدر سادگی اختیار کرتے تھے اس میں سے تغیر زمانہ کی وجہ کو اگر منہا بھی کر دیا جائے تب بھی وہ بہت بڑی سادگی ہے.یہ بھی صحیح ہے کہ اس زمانہ میں کپڑا کم ہوتا تھا اور اس لئے قیمتیں زیادہ تھیں اور اب بہت ستا ہے.اس زمانہ میں جو کپڑا امرا پہنتے تھے وہ آج غریبوں کو بھی میسر ہے.یہی گبرون اور لدھیانہ اس زمانہ میں بہت قیمتی اور امرا کے پہنے کا کپڑا سمجھا جاتا تھا مگر اب یہی غریبوں کا عام لباس ہے تو آج کپڑا بہت سستا ہو گیا ہے.جو آج غربا کا لباس ہے وہ اس زمانہ میں امارت کی نشانی سمجھا جاتا تھا.یہ سوسیاں وغیرہ بہت قیمت پاتی تھیں جن میں کوئی کوئی تار ریشم کا ہوتا تھا اور اسے معیار امارت سمجھا جاتا تھا.تو یہ فرق بے شک دونوں زمانوں میں ہے لیکن اس فرق کو منہا کر کے بھی دیکھا جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم 638

Page 651

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 25 نومبر 1938ء کی زندگی بہت سادہ تھی اور حقیقت یہ ہے کہ اس کے بغیر ساری دنیا کی ترقی کا سامان ہو ہی نہیں سکتا.اسلام بے شک اس کی اجازت دیتا ہے کہ روپیہ کماؤ مگر اسے خرچ اس طرح کرنے کا حکم دیتا ہے کہ سب بنی نوع انسان اس سے فائدہ اٹھا سکیں.سادہ زندگی سے صرف بچت ہی نہیں ہوتی بلکہ اور بھی کئی فوائد ہوتے ہیں.مہمان نوازی میں مدد ملتی ہے جو اعلیٰ درجہ کے اخلاق میں سے ایک ہے اور جسے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبوت کی تصدیق میں بطور ثبوت پیش کیا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی مرتبہ وحی نازل ہوئی تو آپ بہت گھبرائے ہوئے گھر پہنچے اس وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو تسلی دی اور کہا کہ آپ میں یہ یہ خوبیاں ہیں اللہ تعالیٰ آپ کو ہر گز ضائع نہیں کرے گا اور ان خوبیوں میں سے ایک آپ نے مهمان نوازی بیان کی.پر تکلف کھانوں کا رواج ہو تو انسان کو مہمان نوازی میں بہت سخت دقت پیش آتی ہے.ایک روپیہ میں ایک شخص کیلئے کھانا بمشکل تیار ہو سکتا ہے اس لئے مہمان نوازی نہیں ہو سکتی لیکن اس طرح ایک دوآنہ میں گزارہ ہو جاتا ہے اور ایک روپیہ کے صرف سے دس میں مہمانوں کو کھانا کھلایا جا سکتا ہے.تو سادہ زندگی میں مہمان نوازی بڑھ جاتی ہے.مہمان سمجھتا ہے کہ میرا دوست تکلف نہیں کرے گا اس لئے دلیری سے وہاں چلا جاتا ہے اور میزبان بھی کوئی تکلف محسوس نہیں کرتا کیونکہ جو کچھ گھر میں موجود ہو ا کر رکھ سکتا ہے.کسی کی دعوت کا مفہوم آج کل یہی سمجھا جاتا ہے کہ بہت پر تکلف کھانے تیار کروائے جائیں اور ذہنیت بھی ایسی ہوگئی ہے کہ اگر کسی کو بلا ؤ اور پلاؤ تیار نہ ہو تو اس کے ماتھے پر سلوٹیں پڑنے لگتی ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا کسی نے جوتیاں ماری ہیں.دل میں کڑھتا اور کہتا ہے کہ دیکھو خبیث نے بلا کر میرا وقت ضائع کیا حالانکہ اس غریب نے محبت کی وجہ سے کہیں سے قرض لے کر یا کئی روز کا فاقہ کر کے دعوت کی اور اس کے گلے میں کھانا اس لئے پھنس رہا ہے کہ پلاؤ نہیں اس لئے غریب آدمی مہمان نوازی سے ڈرتے ہیں لیکن اگر اسی طرح مہمان نوازی ہو کہ جس طرح گھر میں کھانا پکتا اور کھایا جاتا ہے اسی طرح مہمان کے بھی پیش کر دیا جائے تو کسی کو کوئی تکلیف نہ ہوگی اور پیسہ بھی خرچ نہ ہوگا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایک مومن کا کھانا دو کیلئے کافی ہوتا ہے.کل ہی جب میں عید پڑھا کر آیا تو معلوم ہوا کہ چھ سات ہندو دوست آئے ہوئے ہیں جن میں سے ایک ولایت کے سفر میں ہم سفر تھے.میں نے پہلے ان سے دریافت کرایا کہ مسلمانوں کے ہاں کا کھانا کھا لیتے ہیں یا نہیں تا اگر نہ کھائیں تو ہندوؤں کے ہاں ان کیلئے انتظام کرایا جائے مگر انہوں نے کہا کہ ہم تو کھا لیتے ہیں.اس پر میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ ان کو لے آئیں اور سب بیویوں سے کہا کہ اپنے کھانے بھجواد میں گو اس میں 639

Page 652

اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 25 نومبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول شک نہیں کہ اگر وہ کسی دوسرے روز آتے تو مجھے ان کیلئے خاص کھانا تیار کرانا پڑ تا لیکن عید کی وجہ سے چونکہ نسبتاً اچھا کھانا تھا میں نے سب گھروں سے کھانا جمع کر لیا اور نہ ہمیں کوئی تکلیف ہوئی اور نہ مہمانوں کو.اگر سادہ زندگی کے لوگ عادی ہوں تو ہر روز کی دعوت بھی تکلیف کا موجب نہیں ہو سکتی بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر دوستوں میں سادہ زندگی کی روح قائم ہو جائے تو لنگر خانہ کی ضرورت بھی نہیں رہتی اور مہمان نوازی میں بھی کسی کو کوئی تکلیف نہ ہو.آنے والا مہمان بھی یہ سمجھے گا کہ جو موجود ہو گا کھالوں گا اس لئے اسے کوئی تکلیف نہ ہوگی اور میزبان یہ سمجھے گا کہ جو ہو گا وہ پیش کر دوں گا اس لئے اسے بھی کوئی تکلیف نہ ہو گی.انسان کیلئے بعض اوقات پیسہ مہیا کر کے خرچ کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن خود فاقہ کر لینا مشکل نہیں ہوتا.کسی شخص کے گھر کے دس آدمی ہیں تو اگر اس کے ہاں سو مہمان آجائے اور اس کے پاس طاقت نہ ہو تو اسے ضرور قرض لے کر ان کی مہمان نوازی کرنی پڑے گی لیکن اگر پانچ آجائیں تو گھر کے پانچ فاقہ کر کے ان کو کھلا سکتے ہیں.فاقہ اختیار کرنا اختیاری امر ہے.آخر روزے بھی تو رکھے ہی جاتے ہیں مگر روپیہ لانا اختیاری امر نہیں اس لئے سادہ زندگی میں انسان بغیر کسی بوجھ کے اپنا فرض ادا کر سکتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایسا ہی ہوتا تھا.ایک دفعہ ایک مہمان آیا آپ نے ایک صحابی سے فرمایا تم اسے اپنے ہاں لے جاؤ.وہ انہیں اپنے ساتھ لے گئے.شاید کسی وقت ان کی حالت اچھی ہوگی.اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سپر دمہمان کر دیا مگر ان دنوں ان کی حالت اچھی نہ تھی.گھر میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ کھانا صرف ایک آدمی کا ہے اور صرف بچوں کیلئے کفایت کر سکتا ہے.میاں بیوی نے یہ تجویز کی کہ بچوں کو تو بھوکا ہی سلا دو اور مہمان کو کھانا کھلا دو.اب یہ بات ان کی طاقت میں تھی لیکن اگر اس وقت ان کو پیسہ مہیا کرنا پڑتا تو یہ مشکل تھا اور وہ مہمان کی خدمت میں ناکام رہتے یا پھر اگر یہ ضروری ہوتا کہ مہمان کو پلاؤ ہی کھلانا ہے تو اُس صحابی کو کہنا پڑتا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نہیں لے جاسکتا لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم کا یہی طریق تھا کہ جو موجود ہوتا لا کر پیش کر دیتے.یہ بات ان کے بس کی تھی کہ بچوں کو سلا دیں اور ان کا کھانا مہمان کو کھلا دیں.اس پر عمل کرنے کیلئے وہ تیار ہو گئے لیکن اس کے علاوہ ایک مشکل اور تھی اور وہ یہ کہ مہمان کھانے میں ساتھ شامل ہونے پر اصرار کرے گا اور کھانا تھوڑا ہے.آخر اس کا بھی حل سوچ لیا گیا.اس زمانہ میں وہ دیئے جلائے جاتے تھے جن میں روئی کی بتی ڈالی جاتی ہے.تجویز یہ ہوئی کہ : مہمان کے ساتھ کھانے پر بیٹھیں تو میاں بیوی سے کہیں کہ روشنی ذرا تیز کر دو اور بیوی تیز کرنے کے بہانے بتی کو اس طرح انگلیوں سے پکڑ کر باہر کر دے کہ وہ بجھ جائے اور جب پھر جلانے کو کہا جائے تو کہہ دے کہ 640

Page 653

تحریک جدید - ایک ابھی تحریک....جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرمود : 25 نومبر 1938ء آگ نہیں اور اب ہمسایوں کے ہاں آگ لینے کیا جاتا ہے ان کو خواہ مخواہ تکلیف ہوگی.اس پر مہمان خود ہی کہہ دے گا کہ نہیں رہنے دور وشنی کی کیا ضرورت ہے؟ اور اس طرح دونوں مہمان کے ساتھ کھانے پر بیٹھ کر اندھیرے میں یونہی مچا کے مارتے جائیں گے اور مہمان کھانا کھا لے گا.اس وقت تک پردہ کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا کہ بغیر کھانا کھانے کے ہی بڑے زور کے ساتھ مچا کے مارتے رہے.مہمان بے چارہ بھی حیران ہوگا کہ کھانا تو اس قدر لذیذ نہیں ، معلوم نہیں کہ یہ اتنے مچا کے کیوں مارتے ہیں؟ بہر حال مہمان نے کھانا کھا لیا اور یہ سب بھوکے ہی رات سوئے رہے.صبح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلوایا اور پوچھارات تم نے مہمان کے ساتھ کیا کیا ؟ انہوں نے شرمندہ ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ جو کچھ کیا مجھے اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے اور آپ ہنس پڑے اور فرمایا کہ تمہارے فعل پر خدا تعالیٰ بھی عرش پر ہنسا اور میں بھی اس لئے ہنسا ہوں کہ خدا تعالٰی ہنسا تھا.تو یہ ذاتی قربانی کا سوال تھا جو انہوں نے کر دی.اگر مالی قربانی کا سوال ہوتا تو وہ کیا کر سکتے تھے ؟ اگر تمام کام ذاتی قربانی کی طرز پر ہوں تو کام بہت وسیع ہو سکتا ہے اور دنیا میں فوراً امن قائم ہو سکتا ہے لیکن ابھی اس کا وقت نہیں آیا کہ سارے کام اس طرز پر چلائے جائیں.اگر آج اس طرح چلایا جائے تو جماعت کے لئے یہ امر تباہی کا موجب ہوگا.زمانہ کے حالات ایسے ہیں کہ بعض باتوں کو مجبورا ترک کرنا پڑتا ہے.مثلاً اسلام کا حکم ہے کہ آگ کا عذاب نہ دیا جائے لیکن اگر آج اسے جاری کر دیا جائے تو مسلمان حکومتوں کا بندوقوں، توپوں سے کس طرح بچاؤ ہو سکے؟ ہاں جب ساری دنیا میں اسلامی حکومت اور غلبہ ہو تو اس وقت یہی حکم ہے.اسی طرح اسلامی اصول یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے روپیہ کے استعمال کو کم کیا جائے لیکن اگر آج اس پر عمل کر دیا جائے تو اس کا لازمی نتیجہ تباہی ہوگا اس لئے ہمیں درمیانی راہ اختیار کرنی پڑتی ہے جس سے دشمن کے حملہ کو بھی بچایا جائے اور اسلامی روح کو بھی قائم رکھا جائے.بعض نادان یہ اعتراض کر دیتے ہیں کہ اسلام کے فلاں حکم پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا؟ حالانکہ حالات ایسے ہیں کہ اگر ان پر عمل کیا جائے تو اسلام کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے اور دینے والے دونوں پر لعنت کی ہے اور اسلام نے اس کو حرام قرار دیا ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر کسی شخص کو ایک جگہ سود دینا پڑتا ہو اور دوسری جگہ اس کا روپیہ کسی ایسی جگہ پر لگا ہوا ہو جہاں سے اسے سو د مل سکتا ہو تو اسے چاہئے کہ لے لے اور جہاں دینا ہو وہاں دے دے.اب بظاہر تو یہ دو لعنتوں کا جمع ہونا ہے لیکن کافر سے لے کر کافر کو ہی دے دینے سے مسلمان نقصان سے بچ جائے گا اور اسی 641

Page 654

اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 25 نومبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول کو مذہبی سیاست کہتے ہیں.نادان ہم پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ سیاسی آدمی بن رہے ہیں.حالانکہ ہماری سیاست یہ نہیں کہ جرمنی یا اٹلی سے کوئی معاہدہ کرتے ہیں بلکہ اپنی ہی مذہبی سیاست ہے.تو سادہ زندگی کا مطالبہ نہایت اہم ہے.مذہبی سیاسی لحاظ سے بھی اور اقتصادی لحاظ سے بھی.اس لئے میں دوستوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس کی اہمیت پر غور کریں امیر بھی اور غریب بھی اور آج میں نے پھر اچھی طرح اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ دونوں کیلئے یہ مطالبہ یکساں طور پر ضروری ہے اور دونوں کے لئے مفید ہے.اس کے بغیر نہ ہماری اقتصادی حالت درست ہو سکتی ہے اور نہ مذہبی جدو جہد وسیع ہوسکتی ہے.اگر میں دیکھتا کہ جماعت نے پہلا قدم پوری طرح اٹھایا ہے تو دوسرا مضبوطی کے ساتھ اٹھاتا لیکن ابھی میں دیکھتا ہوں کہ بہت اصلاح کی ضرورت ہے اس لئے دوسرا قدم اٹھا نہیں سکتا.کھانے کے معاملہ میں بے شک دوستوں نے اصلاح کی ہے مگر دوسرے معاملات میں نہیں بلکہ مجھے اس کا بھی اعتراف ہے کہ ابھی تک خود ہمارے گھروں میں بھی کھانے اور لباس کو چھوڑ کر باقی امور میں اس کی پوری طرح پابندی نہیں کی جاسکی اور جب تک پہلا قدم صحیح طور پر نہ اٹھا لیا جائے دوسرا نہیں اٹھایا جاسکتا.اس لئے میں دوستوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ سادہ زندگی کے سب پہلوؤں پر عمل کرنے کی کوشش کریں تا ہماری اقتصادی حالت درست ہو سکے اور ہم اس قابل ہو سکیں کہ اپنے مالوں سے ہی خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر سکیں.جماعت اگر اس کی اہمیت کو سمجھے تو چند سالوں میں ہی اہم دینی اور دنیوی تغیر پیدا ہوسکتا ہے.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اس بارہ میں ہمیں صحیح راستہ پر چلنے کی توفیق دے.جماعت میں بھی اور ہمارے گھروں میں بھی اس مطالبہ کی اہمیت پوری طرح سمجھ میں آجائے کیونکہ ہمارے گھروں کو نمونہ ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ جتنا اس نے ہمیں موقعہ دیا ہے اس کے مطابق اسلامی ماحول پیدا کرسکیں تا خدا تعالیٰ کے حضور ہم یہ کہہ سکیں کہ جتنا تو نے اختیار دیا تھا اتنا ہم نے کر دیا اور باقی اس لئے نہ کر سکے کہ وہ ہمارے بس میں نہ تھا“.مطبوع الفضل 2 دسمبر 1938ء) 642

Page 655

جدید - ایک الہی تحریک جلد اول وو اقتباس از خطبه جمعه فرموده 2 دسمبر 1938ء اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے بلا شرط وقف کرو خطبہ جمعہ فرمودہ 2 دسمبر 1938ء ایک اہم امر کی طرف جماعت کے دوستوں کو توجہ دلا دیتا ہوں.میں بتا چکا ہوں کہ بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کیلئے اور اس ملک میں بھی اللہ تعالیٰ کا نام بلند کرنے اور سلسلہ کے کاموں کو مضبوطی سے چلانے کے لئے مجھے ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کریں.میں شروع سے بتاتا چلا آرہا ہوں کہ تحریک جدید کا کام وسیع کرنے کیلئے ہمارے پاس روپیہ نہیں.اگر ساری جماعت اپنی ساری دولت بھی دے دے تب بھی اتنا رو پہیہ ہمارے ہاتھ میں نہیں آسکتا جس کے ذریعہ ہم اس کام کو سر انجام دے سکیں جو اس وقت ہمارے سامنے ہے.اگر ہم کام کر سکتے ہیں تو اسی طرح کہ نوجوان اپنی زندگیاں وقف کریں اور جو قلیل گزاروں پر جو ان کی حیثیت کے لحاظ سے قلیل ہوں کام کریں.چونکہ حقیقت بھی یہی ہے اور تجربہ سے بھی یہی ثابت ہوا ہے کہ جب تک مبلغ اعلی پایہ کی علمی قابلیت نہ رکھتے ہوں اس وقت تک تبلیغ سے چنداں فائدہ نہیں ہوتا.اس لئے ہمارے لئے ضروری ہو گا کہ ہم ان نوجوانوں کو تعلیم دلائیں.نہ صرف دینی بلکہ دنیوی بھی تا کہ بیرونی ممالک میں جب وہ کام کرنے کے لئے نکلیں تو ان کی راہ میں کوئی روک واقع نہ ہو.پس ہر نوجوان کو دو تین سال تک تعلیم دینے کے بعد پھر کام پر لگایا جائے گا بلکہ ڈیڑھ دو سال تو قادیان کی تعلیم پر ہی جو نہ ہی اور دینی تعلیم ہے خرچ ہو جائیں گے اور ڈیڑھ دو سال انہیں بیرونی ممالک میں سے کسی ملک میں انگریزی یا عربی کی تعلیم دلانی پڑے گی تب کہیں جا کر وہ کام کے قابل بن سکیں گے.پس اس کے لئے آج ہی تیاری کی ضرورت ہے.میں نے بتایا تھا کہ اس وقت ہمارے پاس بارہ نوجوان ہیں.جو یا تو انگریزی کے گریجوایٹ ہیں یا عربی کے گریجوایٹ ہیں لیکن ابھی اور بہت سے نوجوانوں کی ضرورت ہے.پہلے کام کو شروع کرنے کیلئے بھی اور آئندہ کے کام کو وسیع کرنے کے لئے بھی.پس میں آج پھر اپنی جماعت کے نوجوانوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ہمت کر کے آگے آئیں اور اس جوش کا ثبوت دیں جس کا اظہار وہ اس طرح کیا کرتے ہیں کہ ہم اپنی جانیں احمدیت کی عزت کی حفاظت کے لئے قربان کرنے کیلئے تیار ہیں.آج کل اسلام کو اس کی 643

Page 656

اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 2 دسمبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول ضرورت نہیں کہ تلوار اور بندوق سے جنگ کر کے جان قربان کی جائے بلکہ آج کل اپنی جان قربان کرنے کا صرف یہی ذریعہ ہے کہ نوجوان اپنی تمام زندگی اللہ تعالیٰ کے حکم کے اعلا کے لئے صرف کر دیں.اگر ہماری جماعت کے نوجوان اپنی زندگیاں خدمت دین کیلئے وقف کر دیں تو وہ دشمن کو کہہ سکتے ہیں کہ تم تو کہتے تھے کہ یہ جماعت گندی ہوگئی، اس جماعت میں کوئی قربانی کی روح نہیں رہی، یہ دین سے غافل اور لا پروا ہو چکی ہے.پھر اگر یہ جماعت ایسی ہی ہے تو ہم لوگ کہاں سے پیدا ہو گئے جنہوں نے اپنی زندگی کی ہر گھڑی خدا تعالیٰ کے دین کے اعلا کیلئے وقف کر دی ہے؟ یہ بہترین جواب ہوگا جو ہمارے نوجوان اپنے عمل سے دشمنوں کو دے سکتے ہیں لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ اس وقف کی شرائط وہی ہیں جو شائع ہو چکی ہیں.بعض لوگ یونہی اپنے نام پیش کر دیتے ہیں اور ساتھ ہی کچھ مجبوریاں اور کچھ شرطیں بھی لکھ دیتے ہیں یہ بالکل نادرست طریق ہے.ہماری طرف سے جس قدر شرائط ہیں وہ چھپی ہوئی موجود ہیں، وہ دیکھ لی جائیں اور ان پر غور کرنے کے بعد اگر کوئی شخص تیار ہوتو وہ ہماری طرف آئے یونہی اپنا نام پیش کر دینا اور پھر عذرات بیان کرنے لگ جانا مومنانہ طریق نہیں بلکہ اس طرح اپنے آپ کو پیش کرنا گناہ کا موجب ہے کیونکہ اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ شخص جھوٹی شہرت چاہتا ہے.میں بتا چکا ہوں کہ اب کی دفعہ صرف ایسے لوگ ہی لئے جائیں گے جو یا تو انگریزی کے گریجوایٹ ہوں یا عربی کے.اگر کوئی نوجوان اپنی تعلیم کے ایسے حصہ میں ہو جس سے وہ عنقریب فارغ ہونے والا ہو تو وہ بھی اپنے آپ کو پیش کر سکتا ہے.گو فیصلہ اسی وقت ہو گا جب وہ اپنی تعلیم سے فارغ ہو جائے گا.مثلاً وہ نوجوان جنہوں نے اب کی دفعہ بی.اے کا امتحان دینا ہے یا جو وکالت یا ڈاکٹری کی تیاری کر رہے ہیں.وہ اگر چاہیں تو اپنے آپ کو وقف کر سکتے ہیں.ان کے بقیہ زمانہ تعلیم میں ہمیں بھی علم ہو جائے گا کہ ہم انہیں لے سکتے ہیں یا نہیں اور انہیں خود بھی علم ہو جائے گا کہ وہ امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں.اس زمانہ میں نوکریوں کا ملنا بہت مشکل ہو گیا ہے اور اگر کسی کو نوکری ملتی بھی ہے تو معاوضہ اتنا قلیل ملتا ہے کہ گزارہ ہونا مشکل ہو جاتا ہے.پس اگر انسان نے تعلیم سے فارغ ہو کر گھر میں بیٹھ کر ہی روٹی کھانی ہے تو کیوں نہیں وہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کیلئے وقف کر دیتا اور سمجھ لیتا کہ گھر میں بے کار بیٹھنے سے یہ کروڑ درجے بہتر ہے کہ انسان دین کی خدمت کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خوشنودی حاصل کرے اور آئندہ آنے والی نسلوں کی دعا حاصل کرتا یہ کتنا بڑا اعزاز ہے جو اسے حاصل ہوسکتا ہے مگر کئی آدمی گھر میں بیٹھے کھیاں مارتے رہیں گے اور ہر 644

Page 657

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 2 دسمبر 1938ء روز اخبارات دیکھتے رہیں گے کہ کہیں اس میں کوئی ملازمت کا اعلان تو نہیں؟ اور جب انہیں کوئی اعلان نظر آئے گا تو فوراً درخواست بھیج دیں گے.چند دن کے بعد جواب آجائے گا کہ جگہ پر ہو گئی ہے یا ہمیں جس لیاقت کا آدمی چاہئے تھا وہ تم میں نہیں یا انٹرویو کے لئے آجاؤ مگر آنے جانے کا خرچ تمہارا ہوگا.یہ پندرہ بیس روپے خرچ کر کے وہاں پہنچیں گے تو معلوم ہوگا کہ وہاں چار پانچ سوامیدوار ہیں جو ان سے لیاقت میں کہیں بڑھ چڑھ کر ہیں اور یہ ان میں ایسے معلوم ہوتے ہیں جیسے اونٹوں میں بلی.چنانچہ یہ وہاں سے ناکام و نامراد واپس آئیں گے.ماں باپ گالیاں دیں گے کہ بے حیا ہمیں تجھ سے امید تھی کہ تو ہماری مدد کرے گا مگر تو نے الٹا ہم پر دس پندرہ روپے کا مزید قرضہ چڑھا دیا.یہ حالات ہیں جو آج کل عام طور پر نو جوانوں کو پیش آتے رہتے ہیں.پھر کیوں وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ جب خدا نے ہمیں ایک ایسی جماعت میں پیدا کیا ہے جو دین کی خدمت کے لئے کھڑی ہے تو اپنے آپ کو دین کی خدمت کیلئے وقف کر دیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا وہ اعزار حاصل کیا جائے جس سے بڑا اور کوئی اعزاز نہیں مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہم ایسے ہی لوگ لیں گے جو ہمارے معیار پر پورے اتریں گے اور جن کے متعلق ہمیں یہ یقین ہوگا کہ وہ ہمارے کام کے اہل ہیں.بعض ممکن ہے محنتی نہ ہوں، بعض ممکن ہے اچھی تقریر نہ کر سکتے ہوں ، اسی طرح ممکن ہے کہ بعض میں دین کی محبت اور اخلاص کم ہو ، بعض کے متعلق شبہ ہو کہ وہ سچائی کے معیار پر پورا نہیں اتریں گے بعض علوم میں ترقی کی قابلیت نہ رکھتے ہوں اور چونکہ اس قسم کے تمام امکانات ہو سکتے ہیں اس لئے جو نو جوان اپنے آپ کو پیش کریں گے ان میں سے ہم مناسب حال نوجوانوں کو چنیں گے مگر بہر حال جو اپنے آپ کو پیش کریں گے انہی میں سے ہم چنیں گے جو اپنے آپ کو پیش ہی نہیں کریں گے ان کا انتخاب ہم کس طرح کر سکتے ہیں؟ پس میں آج کے خطبہ کے ذریعہ پھر اعلان کرتا ہوں کہ جو دوست گر بیجوایٹ ہوں یا مولوی فاضل ہوں یا فنون عالیہ سیکھ رہے ہوں وہ اپنے آپ کو پیش کریں تا ہم انتخاب کر کے اس تعداد کو پورا کر سکیں جس تعداد کو پورا کرنا اس دوسرے دور میں میرا منشا ہے.اگر ایسے نوجوان ہمیں جلد میسر آجائیں تو وہ موجودہ نو جوانوں کے ساتھ ہی تعلیم سے فارغ ہو جائیں گے.گو ان کی نو ماہ سے پڑھائی شروع ہے مگر نو ماہ کی پڑھائی کی کمی کو پورا کرنا ان کیلئے کوئی زیادہ مشکل نہیں ہوگا.اگر وہ توجہ اور محنت سے کام کریں گے تو امید ہے کہ یہ کمی بہت جلد پوری کر لیں گے اور اس طرح ہمارے لئے بھی آسانی رہے گی کہ ہمیں دو دفعہ سکول نہیں کھولنا پڑے گا اور نہ دو دفعہ مدرسوں کو ان کی تعلیم کیلئے مقرر کرنا پڑے گا لیکن اگر جلد یہ تعداد پوری نہ ہوئی تو دو سال ان کی تعلیم اور پیچھے جا پڑے گی اور اس کام میں زیادہ 645

Page 658

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 2 دسمبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول وقفہ پڑ جائے گا.میں امید کرتا ہوں کہ جس طرح پہلے نو جوانوں نے اپنے آپ کو دلیری سے پیش کیا ہوا ہے اسی طرح اور نوجوان بھی اپنے آپ کو پیش کریں گے.میرے پہلے اعلان کے بعد اس وقت تک پانچ سات درخواستیں آچکی ہیں مگر یہ تعداد کافی نہیں اور انتخاب کیلئے اس سے بہت زیادہ تعداد کی ضرورت ہے.پس دوست اپنے آپ کو وقف کریں مگر یہ ضروری ہوگا کہ وہ بلا شرط اپنی زندگی وقف کریں جو شخص کسی شرط کے ساتھ اپنے آپ کو وقف کرتا ہے اس کا وقف بالکل فضول ہے.یہ ساری عمر کا وقف ہوگا اور ان کا یہ اختیار نہیں ہوگا کہ وہ پیچھے ہیں.ہاں ہمیں یہ اختیار ہر وقت حاصل رہے گا کہ ہم چاہیں تو انہیں شروع میں ہی رد کر دیں اور چاہیں تو کام کے دوران میں ان کو فارغ کر دیں.ہم ایسے نو جوانوں کو پہلے دین کی تعلیم دلائیں گے اور صحیح اسلامی تمدن ان کو بتائیں گے.اس کے بعد انہیں دنیوی تعلیم دلائیں گے اور پھر ہم ان سے یہ امید رکھیں گے کہ وہ اپنی زندگی اسلام اور احمدیت کی اشاعت، بنی نوع انسان کی ہمدردی اور سلسلہ احمدیہ کی ترقی کیلئے صرف کر دیں.ہمیں ایسے نوجوان نہیں چاہئیں جو حکومت کے طالب ہوں بلکہ ہمیں وہ نو جوان چاہئیں جو بچے طور پر غربا کی خدمت اور اپنے سلسلہ کی خدمت کرنے کے لئے تیار ہوں.میں ان واقفین کے ذریعہ وہ جماعت تیار نہیں کرنا چاہتا جو افسروں کی جماعت ہو بلکہ وہ جماعت تیار کرنا چاہتا ہوں جس کے ہر فرد کو یہ احساس ہو کہ میں نے جماعت احمدیہ کی خصوصاً اور بنی نوع انسان کی عموماً خدمت کرنی ہے ہے.جب تک اس رنگ میں کام کرنے والے ہمیں نہیں ملیں گے اس وقت تک وہ تمدن قائم نہیں ہو سکتا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں قائم کیا تھا اور جس کے قائم کرنے کی آپ نے تعلیم دی ہے.ہاں یہ یاد رکھو کہ وہ شخص جو خدا تعالیٰ کے لئے ذلت اختیار کرتا ہے.وہ بہت زیادہ عزت حاصل کرتا ہے.کوئی تم میں سے یہ خیال نہ کرے کہ وہ خدا تعالیٰ کے دین کیلئے اپنے آپ کو وقف کر کے اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو لوگوں کی نگاہ میں ذلیل کرے گا.ذلیل وہی ہوتا ہے جس کے دل میں دوغلی حکومت ہوتی ہے، آدھی خدا کی اور آدھی شیطان کی.ایسا شخص کبھی ذلت بھی دیکھ لیتا ہے مگر وہ ، جس کے دل پر خالص خدا تعالیٰ کی حکومت ہو وہ کبھی ذلیل نہیں ہوتا.کئی ہیں کہتے ہیں کہ غربا کی کوئی قدر نہیں.بے شک دنیا میں غربا کی کوئی قدر نہیں مگر وہ جو خالص خدا تعالیٰ کے لئے غریب ہو اس کی پھر بھی عزت ہوتی ہے مگر وہ جود وفلی چال چلے وہ اگر کسی وقت عزت پالیتا ہے تو دوسرے وقت ذلیل بھی ہو جاتا ہے.آخر خود ہی غور کرو حضرت مسیح موعود کون سے امیر تھے ؟ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کا اتنا سادہ لباس ہوا کرتا تھا کہ اس کی کوئی حد نہیں مگر باوجود اس کے بڑے سے بڑا آدمی آپ کی عزت کرنے پر مجبور ہوتا تھا.اس 646

Page 659

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 2 دسمبر 1938ء طرح مجھے دنیوی لحاظ سے کون سی دولت حاصل ہے؟ مگر دنیا میں کون ہے جو مجھے ذلیل سمجھ سکے؟ کسی علم کا ماہر میرے سامنے آجائے خدا تعالیٰ کے فضل سے اسے شکست ہی کھانی پڑتی ہے.تو عزت کے مختلف موجبات ہوا کرتے ہیں.کبھی دولت عزت کا موجب ہوتی ہے اور کبھی علم عزت کا موجب ہوتا ہے اور کبھی عرفان عزت کا موجب ہوتا ہے.دولت ہمارے پاس نہیں مگر علم روحانی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے پاس بہت ہے.اگر ہمارے پاس امرا آتے ہیں تو اس لئے نہیں کہ وہ ہم سے کسی جائیداد کے طالب ہوتے ہیں بلکہ اس لئے کہ روحانی فائدہ حاصل کریں، اگر نواب آتے ہیں تو وہ بھی اسی لئے اور یہ خزانہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے پاس بہت ہے.اسی طرح اگر کوئی عالم ہمارے پاس آئے گا تو اس لئے نہیں کہ ہم اس کا کوئی وظیفہ مقرر کر دیں بلکہ وہ کوئی علمی فائدہ ہم سے اٹھانا چاہے گا یا اپنے علمی خیالات کے متعلق ہم سے تبادلہ خیالات کرنا چاہے گا اور یہ ذخیرہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت دیا ہوا ہے.اس کے مقابلہ میں ہم کسی کے دروازے پر جاتے ہی نہیں.پس اس بات کا کوئی سوال ہی نہیں کہ وہ کیا سمجھے گا ؟ وہ جو جی میں آئے سمجھے مگر جو ہمارے پاس آئے گا وہ وہی چیز لینے آئے گا جو علمی رنگ میں ہمارے پاس ہے اور وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے پاس تھوڑی نہیں بلکہ بہت کافی ہے.اسی لئے صوفیاء نے کہا ہے کہ سالکین کو امرا کے دروازوں پر نہیں جانا چاہئے.چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ بِئْسَ الْفَقِيرُ عَلَى بَابِ الْأَمِيرِ.وہ فقیر جو کسی امیر کے دروازے پر جاتا ہے وہ بہت ہی ذلیل ہوتا ہے.اسے کس نے کہا تھا کہ وہ اپنا گھر چھوڑے اور دوسرے کے دروازے پر جا کر بھیک مانگے ؟ پس اگر یہ دوسرے کے دروازے پر جاتا نہیں اور اگر خود اس کے پاس دولت نہیں تو جو شخص اس کے پاس آئے گا روحانی علم سیکھنے ہی آئے گا اور جب وہ علم سیکھنے کے لئے آئے گا تو لازما عزت کرنے پر بھی مجبور ہوگا.“ وو ی همت خیال کرو کہ دنیوی دولت کے نہ ہونے کی وجہ سے تم ذلیل ہو جاؤ گے.ذلیل وہی ہوتا ہے جو آدھا خدا کا ہوتا ہے اور آدھا شیطان کا اور آدھا تیتر آدھا بٹیر خدا تعالیٰ کو پسند نہیں ہوتا.یہ ادھر خدا تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ کرتا ہے اور ادھر بندوں کے آگے اپنے ہاتھ پھیلاتا ہے کہ مجھ پر رحم کرو! مگر وہ جو دنیا کی محبت اپنے دل سے بالکل نکال دیتا ہے اور کہتا ہے اگر مجھے بادشاہت ملی تو میں بادشاہت لے لوں گا اور اگر فقیری ملی تو فقیری قبول کرلوں گا ، اگر تخت ملا تو تخت پر بیٹھ جاؤں گا اور اگر پھانس کا تختہ ملاتو اس پھانسی کے تختہ پر چڑھ جاؤں گا.ایسے شخص کو کوئی نہیں جو ذلیل سمجھ سکے.یہ خود کسی کے پاس اپنی کوئی غرض لے کر جائے گا نہیں اور جو اس کے پاس آئے گا وہ اس سے کوئی علمی فائدہ حاصل کرنے 647

Page 660

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 2 دسمبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول کیلئے ہی آئے گا اور اگر یہ سچا مومن ہے تو یہ خزانہ اس کے پاس اس کثرت سے ہوگا تو با وجود خرچ کرنے کے ختم ہونے میں نہیں آئے گا.پس دین کی خدمت اور خدا تعالیٰ کی محبت میں ہر قسم کی عزت ہے بشرطیکہ دنیا کا رعب دل سے مٹ جائے اور خدا تعالیٰ کا رعب دل پر چھا جائے اور دراصل ایسے شخص کا وقف ہی حقیقی وقف ہے.پس میں آج پھر جماعت کے نوجوانوں کے سامنے یہ اعلان کرتا ہوں کہ اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کرو اور اپنے عمل سے دشمن کو یہ جواب دو کہ ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے دین کی خدمت میں تم سے ہزاروں گنے بڑھ کر ہیں.اس وقت تک ہی جس قدر نوجوانوں نے ہماری جماعت میں سے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں، اگر مولوی محمد علی صاحب جو یہ دعوی کرتے رہتے ہیں کہ ان کی جماعت شب و روز تبلیغ اسلام کر رہی ہے، ان کا مقابلہ اپنی جماعت کے نوجوانوں سے کریں تو انہیں پتہ لگ جائے کہ کون سی جماعت ہے جو اسلام کی خدمت کر رہی ہے اور کونسی جماعت ہے جس میں خدمت اسلام کی تڑپ ہے؟ اگر ان میں ہمت ہے تو وہ بتائیں کہ ان کی جماعت کے کتنے گریجوایٹ اور مولوی فاضل ہیں جنہوں نے ان شرطوں پر اپنے آپ کو وقف کیا ہے جن شرائط پر ہماری جماعت کے نو جوانوں نے اپنے آپ کو وقف کیا ہوا ہے؟ میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ اس رنگ میں بھی ہماری جماعت کا مقابلہ نہیں کر سکتے لیکن میں کہتا ہوں جتنا کام ہو چکا ہے تم اس سے بھی زیادہ شاندار نمونہ دکھاؤ.پس میں پھر جماعت کے نو جوانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنی شاندار قربانیوں کے ذریعہ اس امر کو ثابت کر دیں گے کہ ہماری جماعت دین کو دنیا پر مقدم رکھتی ہے اور جھوٹا ہے وہ شخص جو کہتا ہے کہ تقویٰ اس جماعت کے دلوں میں سے نکل گیا.تقویٰ کا نمونہ اگر اس وقت روئے زمین پر کوئی جماعت دکھا رہی ہے تو وہ صرف ہماری ہی جماعت ہے.وَ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ لَا رَادْ لِفَضْلِهِ إِلَّا هُوَ يُعِزُّ مَنْ يَّشَاءُ وَ يُذِلُّ مَنْ يَّشَاءُ وَبِيَدِهِ الْخَيْرُ.648 ( مطبوعہ الفضل 8 دسمبر 1938ء)

Page 661

دید - ایک الہی تحریک جلد اول وو اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 16 دسمبر 1938ء تحریک جدید کے مطالبے ، ہجرت اور وقف زندگی خطبہ جمعہ فرمودہ 16 دسمبر 1938ء.......پس آج میں اس بات کا اعلان کرتا ہوں کہ ہجرت کے مسئلہ کی اہمیت کو پوری طرح سمجھا جائے اور ایسے ہی لوگوں کو ہجرت کے طور پر قادیان آنے کیلئے بھیجا جائے جو ہجرت کے اصول کے مطابق آنے کیلئے تیار ہوں اور جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں کہ اگر ایسے لوگ ہجرت کر کے آئیں تو ہم اس وقت تک ان کی امداد کرنے کے لئے بھی تیار ہیں جب تک کہ عارضی وقتیں ان کے راستہ سے دور نہ ہو جائیں اور یہ ہجرت کا معاملہ میری تحریک جدید کے مطالبات میں شامل ہے.چنانچہ میں نے جماعت سے جو مطالبات کئے ہیں ان میں سے ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ لوگ یہاں رہائش کے لئے مکان بنائیں اور اسی جگہ رہائش اختیار کریں.بعض لوگوں نے مجھ پر اعتراض کیا ہے کہ ادھر تو آپ نے کہا ہے کہ قادیان میں رہائش اختیار کرو اور ادھر ہجرت پر پابندیاں عائد کر دی ہیں.میں نے اس خطبہ میں اسی اعتراض کا جواب دیا ہے اور بتایا ہے کہ میں ہجرت کا مخالف نہیں بلکہ پہلے سے زیادہ زور کے ساتھ اس بات کی تحریک کرتا ہوں کہ قادیان میں اپنے مکان بناؤ اور یہیں کی رہائش اختیار کرونگر میں کہتا ہوں کہ محض خدا اور اس کے رسول کی رضا کے لئے آؤ.نفسانی اغراض اور دنیوی لالچوں کیلئے یہاں مت آؤ.اگر تم خدا تعالیٰ کے لئے یہاں آکر مکان بناؤ گے تو تم کو بھی فائدہ ہوگا اور دین کو بھی فائدہ ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کی محبت کو ضائع نہیں کرتا اور نہ اس کی خاطر قربانی کرنے والے رد کئے جاتے ہیں.ایسا شخص اگر جنگل میں بھی ہوگا تو اللہ تعالٰی اس کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دے گا اور لوگ آپ ہی آپ اس کی طرف کھینچے چلے جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہی دیکھو آپ ایک گوشہ میں پڑے ہوئے تھے اور آپ نہیں چاہتے تھے کہ خلوت سے نکل کر جلوت میں آئیں مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہام کیا اور کہا کہ فَحَانَ أَنْ تُعَانَ وَ تُعْرَفَ بَيْنَ النَّاسِ.کہ اے شخص اب وہ وقت آگیا ہے کہ خدا تیری نصرت کرے اور تیرے نام کو دنیا میں پھیلائے.پس اب تو گوشے میں نہیں بیٹھ سکتا بلکہ اب تجھے نکلنا پڑے گا اور لوگوں کے سامنے ظاہر ہونا 649

Page 662

اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 16 دسمبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول پڑے گا.تو جو شخص اللہ تعالیٰ کا ہو جائے خدا تعالیٰ خود اس کا حافظ و ناصر ہو جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے لئے ہجرت کرو اور یا درکھو کہ جو شخص خدا تعالیٰ کیلئے ہجرت کرتا ہے اسے کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتا.وہ قادیان میں رہے تب بھی اس کی ترقی ہوگی اور اگر وہ شیروں کی کچھار میں رہے تب بھی خدا تعالیٰ اس کی حفاظت کرے گا.ہاں یہ بالکل ممکن ہے کہ شیر اس کے جسم کو پھاڑ دیں مگر اس طرح پھاڑے جانا کوئی بڑی بات نہیں.اس کا جسم بے شک پھاڑا جائے گا مگر اس کی روح اللہ تعالیٰ کے ابدی انعامات کی وارث ہو جائے گی.پس ایسے شخص کیلئے اگر موت مقدر ہو تب بھی اللہ تعالیٰ اس کی اولاد کو یا اس کی اولاد کی اولاد کو اپنے دنیوی انعامات سے محروم نہیں رکھے گا اور آخرت میں جو اسے انعامات ملیں گے وہ اس کے علاوہ ہیں.پس آج میں تحریک جدید کے اس حصہ کو پھر دہراتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ہر کام میں عقل سے کام لو.دیکھو ہماری شریعت نے نماز کا حکم دیا ہے مگر بعض دفعہ نماز پڑھنی بھی منع ہے ، ہماری شریعت نے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے مگر بعض دفعہ روزہ رکھنا بھی منع ہے ، اسی طرح میں کہتا ہوں کہ تم بے شک ہجرت کرو بلکہ پہلے سے زیادہ زور کے ساتھ میں تحریک کرتا ہوں کہ تم ہجرت کر کے یہاں آؤ مگر میں کہتا ہوں وہ ہجرت کرو جو خدا اور اس کے رسول کے لئے ہو ، وہ ہجرت کرو جس میں یہ عہد مصم ہو کہ ہم دین کی خدمت کریں گے اور اپنی عمر میں سے ایک کافی حصہ خدمت خلق اور خدمت اسلام کیلئے خرچ کریں گے.میرے پاس شکایت کی گئی ہے کہ جب بعض لوگوں سے یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں گاؤں میں جا کر بیٹھ رہو اور تبلیغ کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم وہاں نہیں جاسکتے ، ہمیں وہاں تکلیف ہوگی یا ہمارے کاروبار کو نقصان ہوگا.حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ میں جن صحابہ رضی اللہ عنہم نے مدینہ میں ہجرتیں کی تھیں وہ سارے مدینہ میں نہیں رہتے تھے بلکہ ارد گرد کے گاؤں میں بھی رہتے تھے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی مدینہ میں نہیں رہتے تھے بلکہ مدینہ کے قریب ایک گاؤں تھا جہاں وہ رہتے تھے مگر یہاں کے لوگ تو بھینی اور منگل کا نام سن کر کانپ اٹھتے ہیں.حالانکہ اگر انسان خدا تعالیٰ کو روزی رساں سمجھے تو اس قسم کے وساوس اس کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہیں کر سکتے.پس ان معمولی معمولی باتوں کی طرف مت دیکھو بلکہ جب بھی تمہیں کہا جائے کہ تم تبلیغ کے لئے باہر جاؤ تو فوراً نکل کھڑے ہو اور وہیں اپنا کام کرو.اس میں تمہارا بھی فائدہ ہے، دین کا بھی فائدہ ہے اور لوگوں کا بھی فائدہ ہے.اسی سلسلہ میں میں آج یہ بھی اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ وقف زندگی کے متعلق میں نے اپنی جماعت کے نوجوانوں سے جو یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے آپ کو پیش کریں اس کے ماتحت بہت سی درخواستیں مولوی فاضلوں اور گریجوایٹوں کی آرہی ہیں مگر ابھی اور بھی بہت سے نوجوانوں کی ضرورت 650

Page 663

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 16 دسمبر 1938ء ہے.اس لئے جو دوست مولوی فاضل یا گریجوایٹ ہوں اور وہ بلا شرط اپنی تمام زندگی خدمت اسلام اور خدمت احمدیت کے لئے وقف کرنے کی خواہش رکھتے ہوں وہ اپنے نام جلد سے جلد پیش کریں.درخواستوں کی ایک کافی تعداد جب ہمارے پاس پہنچ جائے گی تو اس کے بعد ان میں سے مناسب نو جوانوں کا انتخاب کیا جائے گا لیکن اس دوران میں ایک اور تجویز میرے ذہن میں آئی ہے اور میں اس کا بھی آج اعلان کر دینا چاہتا ہوں اور وہ تجویز یہ ہے کہ ان مولوی فاضلوں اور گریجوایٹوں کے علاوہ چند ایسے آدمیوں کی بھی ضرورت ہے جو عمر کے لحاظ سے ہیں سے چالیس سال تک کے ہوں.مڈل پاس ہوں اور شادی شدہ ہوں یا ان کی شادی کی کہیں تجویز ہو چکی ہو اور چھ ماہ یا سال میں ان کی شادی ہو جانے والی ہو.یہ جو واقفین زندگی ہوں گے ان کو گاؤں میں رکھا جائے گا.پس یہ ایسے ہی آدمی ہونے چاہئیں جو محنت کرنے اور ہاتھ سے کام کرنے کیلئے تیار ہوں.ان سے کام زیادہ تر مدارسی کا لیا جائے گا لیکن ان کو جو ٹرینینگ اور تربیت دی جائے گی اس میں زراعت کا سب قسم کا کام جیسے ہل چلانا، غلائی کرنی فصل کاٹنی نیز اس کے علاوہ لوہاراور بڑھئی کا کام بھی ان کو سکھایا جائے گا اور جب ٹریننگ کے بعد ان کو کہیں کام پر مقرر کیا جائے گا تو اس وقت بھی یہ کام بدستور جاری رہیں گے اور بعد میں بھی ہل چلانے کا کام اور لوہارے اور تر کھانے کا کام ان کے ساتھ لگا رہے گا.فی الحال ایسے چھ آدمیوں کی ضرورت ہے.ہماری جماعت میں بہت سے دوست ایسے ہیں جو مجھے لکھتے رہتے ہیں کہ ہم زیادہ پڑھے لکھے نہیں، ہماری تعلیم مڈل یا انٹرنس تک ہے مگر ہمیں بھی دین کی خدمت کا شوق ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ اگر خدمت دین کا کوئی موقعہ ہو تو ہمیں اس سے محروم نہ رکھا جائے.ایسے لوگوں کے لئے اب موقعہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو پیش کریں.چاہے وہ مڈل پاس ہوں اور چاہے انٹرنس پاس، دونوں صورتوں میں وہ اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہیں مگر کم سے کم انہیں مڈل پاس ضرور ہونا چاہئے کیونکہ ان کا ایک کام مدرسی بھی ہوگا.میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس تجویز کے مطابق ایک ایسی سکیم سوچ لی ہے کہ اگر وہ کامیاب ہوگئی تو ہم بہت قلیل عرصہ میں تعلیم و تربیت کا ایک وسیع جال دنیا میں پھیلا سکتے ہیں.ایسے لوگوں کو تحریک جدید کے ماتحت ہی ٹریننگ دی جائے گی اور تحریک جدید کے ماتحت ہی انہیں تعلیم دی جائے گی اور جب وہ ٹریننگ حاصل کر لیں گے تو انہیں مختلف گاؤں میں مقرر کر دیا جائے گا.ان کے وہاں کیا کام ہوں گے؟ یہ بعد میں بتایا جائے گا.سر دست میں اسی قدر بتا دیتا ہوں کہ ان سے زیادہ تر ایسا کام لیا جائے گا جو ہاتھ سے کرنے والا ہوگا کیونکہ گاؤں میں ایسے لوگ کبھی مفید نہیں ہو سکتے جوصرف کتابی حد تک اپنی کوششوں کو محدود 651

Page 664

اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 16 دسمبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول رکھنے والے ہوں بلکہ کتابی حد تک کام کرنے والے بالعموم گاؤں والوں کے کیریکٹر کو بگاڑ دیتے ہیں.گاؤں والوں کی ترقی اس شخص کے ذریعہ ہو سکتی ہے جو انہی میں سے ہو، ان کے ساتھ مل کر ہل چلائے ، ان کے ساتھ مل کر بڑھئی کا کام کرے اور ان کے ساتھ مل کر لو ہارے کا کام کرے اور پھر اس کے ساتھ ہی انہیں تعلیم بھی دیتا چلا جائے اور انہیں تبلیغ بھی کرتا چلا جائے.جب تک گاؤں والوں کے سامنے اس رنگ میں کام نہ کیا جائے اس وقت تک نہ صرف ان کی ترقی نہیں ہو سکتی بلکہ ان میں پستی رونما ہونے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے.مثلاً مدرسہ لگا ہو اور استاد کے منہ میں حقہ کی نالی ہو اور وہ بیٹھا کہیں ہانکتا چلا جارہا ہو تو ایسے شخص کے نمونہ کو دیکھ کر لوگوں نے کیا ترقی کرنی ہے؟ وہ تو اس کے برے نمونہ کو دیکھ کر اپنی اچھی عادتوں کو بھی ترک کردیں گے لیکن اگر یہ ان کے ساتھ ہی ہل چلا رہا ہو اور ساتھ ہی یہ بتاتا جاتا ہو کہ تمہارے بیج میں یہ نقص ہے مگر میرے بیچ میں یہ خوبی ہے یا میر اہل اچھا ہے اور تمہارے بل میں وہ نقص ہے تو یہ مدرس پہلے مدرس سے زیادہ مفید اور زیادہ نفع بخش ثابت ہوگا.پس میری اس تحریک پر جو لوگ اپنے آپ کو پیش کرنے والے ہوں وہ میں سے چالیس سال تک کی عمر کے ہوں ، ہاتھ سے کام کرنے والے ہوں اور محنت کیلئے تیار ہوں.ہم ایسے لوگوں کو گزارہ بھی اسی صورت میں دیں گے یعنی ہم روپیہ کی صورت میں انہیں تنخواہ نہیں دیں گے بلکہ کام کی صورت میں دیں گے تاکہ وہ گاؤں والوں کے لئے نیک نمونہ بنیں اور ان کی ترقی اور اقبال مندی کا موجب ہوں.اسی طرح ان کے ذریعہ گاؤں والوں کو اصلاح دیہات کے طریق بتائے جائیں گے.کئی پیشے سکھائے جائیں گے اور کئی ترقی کی تدابیر بتائی جائیں گی.غرض یہ گاؤں میں اس طرح رہیں گے جس طرح باپ اپنے بچوں میں رہتا ہے اور یہ اپنا بھی گزارہ کریں گے اور دوسروں کو بھی ایسے پیشے سکھائیں گے جن کے ذریعہ وہ روزی کما سکیں.گویا یہ زمینداروں کے لڑکوں کو صرف کتابی تعلیم دے کر آرام طلب نہیں بنائیں گے بلکہ انہیں زیادہ محنتی ، زیادہ کمانے والا اور زیادہ ہوشیار بنا ئیں گے.یہ سکیم اگر کامیاب ہوگئی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے قدم دیہات میں نہایت مضبوط ہو جائیں گے.اب تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ گاؤں میں بعض احمدی ہوتے ہیں تو چونکہ وہ اسلام کی تعلیم سے ناواقف رہتے ہیں.کچھ عرصہ کے بعد ان کے دلوں پر زنگ لگنا شروع ہو جاتا ہے اور پھر وہ احمدیت سے ارتداد اختیار کر لیتے ہیں.بے شک جو مخلص ہوں وہ اپنے اخلاص میں ترقی کرتے رہتے ہیں مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ایک حصہ ایسے کمزوروں کا بھی ہوتا ہے اور وہ بجائے ترقی کرنے کے تنزل میں گر جاتے ہیں.ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہوتی ہے جیسے درختوں پر جب آم کا بور لگتا ہے تو اس کا اکثر حصہ 652

Page 665

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 16 دسمبر 1938ء آندھیوں اور بارشوں کی وجہ سے گر کر ضائع ہو جاتا ہے.اسی طرح بہت سے آدمی احمدی ہوتے ہیں مگر پھر مناسب ماحول نہ ملنے کی وجہ سے گر جاتے ہیں کیونکہ وہ بور کی طرز پر ہوتے ہیں اور جس طرح بور کا ایک حصہ آندھیوں وغیرہ کی وجہ سے گر جاتا ہے اسی طرح وہ بھی پکنے نہیں پاتے اور گر جاتے ہیں مگر میں چاہتا ہوں کہ اس سکیم کے ذریعہ ایسا سامان ہو جائے کہ بور کا کوئی حصہ ضائع نہ ہو اور سب پکے ہوئے پھل کی شکل اختیار کرلے مگر یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ کوئی جگہ ایسی نہ رہے جہاں احمدیت کا مرکز نہ ہو بلکہ ہر جگہ ایسے تعلیم یافتہ لوگ موجود ہوں جو اپنی روزی بھی کمائیں اور ساتھ ساتھ لوگوں کو تعلیم بھی دیتے چلے جائیں.اس غرض کیلئے پہلی جماعت چھ آدمیوں پر مشتمل ہوگی.پس وہ دوست جو اس تحریک میں حصہ لیتا چاہتے ہوں انہیں چاہئے کہ وہ اپنی زندگی وقف کریں اور اپنے نام میرے سامنے پیش کریں اور یا درکھیں کہ منہ سے خدمت کرنے کا دعویٰ کرنا اور عملی رنگ میں کوئی کام کرنا ان دونوں باتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے.منہ سے دعوی کرنا آسان ہوتا ہے لیکن عمل کرنا مشکل ہوتا ہے اور درحقیقت عمل ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوتے ہیں.میں امید کرتا ہوں کہ میں اس طرح ان لوگوں کی خواہشات کو بھی ایک حد تک پورا کر سکوں گا جو کہتے ہیں کہ مولوی فاضلوں اور گریجوایٹوں کیلئے تو خدمت دین کا موقع نکالا جاتا ہے مگر ہم جو کم تعلیم یافتہ ہیں ہمارے لئے کیوں کوئی راستہ نہیں نکالا جاتا ؟ اگر یہ سکیم کامیاب ہوگئی تو میں سمجھتا ہوں کہ تربیت کے لحاظ سے جماعت میں ایک تغیر پیدا ہو جائے گا.باقی کام تو سب اللہ تعالیٰ نے کرنے ہیں.ہم ہزاروں کام کرتے ہیں مگر اپنی سستی اور غفلت کی وجہ سے ان کے نیک نتائج حاصل نہیں کر سکتے.پس یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہو سکتا ہے اور میں اس سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اس سکیم کو مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ ہر گاؤں میں ہمارا کوئی نہ کوئی مبلغ کام کر رہا ہو اور اس کے فضل ہم پر نازل ہوں اور اس سکیم میں ہماری دینی اور دنیوی دونوں قسم کی بہتری کے سامان پوشیدہ ہوں“.مطبوعہ الفضل 24 دسمبر 1938 ء ) 653

Page 666

Page 667

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 30 دسمبر 1938ء تحریک جدید کے چندہ کے متعلق چند باتیں خطبہ جمعہ فرمودہ 30 دسمبر 1938ء پہلے تو میں تحریک جدید سال پنجم کی میعاد کے متعلق آج یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ اس سال کا چندہ لکھوانے کی آخری تاریخ دس فروری ہے، میں نے خطبہ میں 31 جنوری کہا تھا مگر چونکہ خطبہ دیر سے شائع ہورہا ہے دس فروری آخری میعاد ہے، اس وقت تک میں یہ اعلان نہیں کر سکا تھا.کیونکہ پہلے خطبہ میں تو یہ بات مجھ سے نظر انداز ہوگئی اور بعد میں میں نے سمجھا کہ اب تو دوست جلسہ سالانہ پر آنے ہی والے ہیں اب اگر اس چندہ کی میعاد کے متعلق اعلان کیا گیا تو اس کا چنداں فائدہ نہ ہو گا.سو آج میں اعلان کرتا ہوں کہ تحریک جدید کے پانچویں سال کا چندہ لکھوانے کی آخری تاریخ ہندوستان میں رہنے والوں کے لئے بنگال اور مدر اس کے اصل باشندوں کو مستی کرتے ہوئے کہ وہاں کی زبان مختلف ہے اور ہم ہمیشہ کے رہنے والوں کو زیادہ عرصہ دیا کرتے ہیں، دس فروری ہے.پس دوستوں کی طرف سے وہی وعدے قبول کئے جائیں گے جو یا تو اس عرصہ میں دفتر پہنچ جائیں گے یا جن پر ڈاکخانہ کی مہر 11 فروری کی ہوگی کیونکہ دس فروری جو آخری تاریخ ہے.اس لئے شام کو اگر کوئی وعدہ لکھانا چاہے تو اسی روز اس کا خط ڈاکخانہ سے روانہ نہیں ہوسکتا.اس کا خط بہر حال گیارہ فروری کو روانہ ہو سکے گا.پس یکم فروری کی مہر جس خط پر ہوگی اس کے وعدہ کو قبول کر لیا جائے گا.ہاں ہندوستان کے صوبوں میں سے بنگال اور مدراس کی جماعتوں کے وعدے اور اس کے علاوہ ان تمام جماعتوں کے وعدے جو ایشیا اور افریقہ میں ہیں.30 اپریل تک قبول کئے جاسکتے ہیں جیسے ایسٹ افریقہ ہے، عراق ہے، یوگنڈا ہے، ٹانگانیکا ہے.اسی طرح دوسری طرف سماٹرا اور جادا و غیرہ ہیں.مغربی ممالک کیلئے جو زیادہ فاصلہ پر ہیں آخری میعاد 30 جون ہوگی.جیسا کہ گزشتہ سالوں سے ہوتا چلا آیا ہے.یہ رعایت اس لئے ہے کہ وہاں خطبوں کے پہنچنے میں کئی ہفتے لگ جاتے ہیں.پھر ان کی زبان اور ہے اور ان تک بات پہنچانے میں وہاں کے کارکنوں کو تحریک کا ترجمہ کرنا پڑتا ہے.اسی سلسلہ میں میں بعض اور باتیں بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں جو ملاقات کے ایام میں تحریک جدید کے متعلق میرے سامنے آئیں اور جلسہ سالانہ کے ایام میں لوگ ان کے متعلق مجھ سے پوچھتے رہے ہیں.یہ سوالات میرے اس اعلان کے متعلق ہیں جو میں 655

Page 668

اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 30 دسمبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول نے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر کیا تھا.چندہ تحریک جدید میں آخر تک حصہ لینے والوں کی جولسٹ بنائی جائے گی وہ دو حصوں میں منقسم ہو گی.ایک تو ان لوگوں کی فہرست ہوگی جنہوں نے اس تحریک میں قانون کے مطابق کمی کر کے باقاعدہ دس سال تک چندہ دیا ہوگا یا یکساں دیتے چلے گئے ہوں گے.اپنے چندہ میں کمی کرنے والوں کی وجہ میری سمجھ میں آجاتی ہے مگر ہر سال یکساں چندہ دینے والوں کی وجہ میری سمجھ میں نہیں آتی.مثلاً یہ تو سمجھ میں آسکتا ہے کہ ایک شخص جسے پانچ روپے چندہ دینے کی تو فیق بی تھی اس نے دوسرے دور کے دوسرے سال میں ساڑھے چار کر دیئے اور اس سے اگلے سال قانون کے مطابق اس کے ذمہ چار روپے رہ گئے.پھر اس سے اگلے سال ساڑھے تین رہ گئے اور پھر تین تین روپے وہ تین سال متواتر دیتا رہا یا دوسرے دور کے پہلے سال اس نے دس روپے دیئے تو اگلے سال نو روپے رہ گئے پھر نو کے آٹھ رہ گئے پھر آٹھ کے سات رہ گئے ، سات کے چھو رہ گئے اور چھ چھ روپے وہ با قاعدہ تین سال تک دیتارہا لیکن میں یہ نہیں سمجھ سکتا کہ وہ شخص جو سابقون الاولون میں نہایت معمولی زیادتی کے ساتھ شامل ہو سکتا ہے وہ چندہ ہر سال برابر کیوں دیتا رہا؟ مثلاً وہ شخص جس نے پہلے سال پانچ روپے چندہ میں دیئے اور پھر ہر سال وہ پانچ روپے ہی دیتا رہا اس نے یقینا اس بات کو نہیں سمجھا کہ وہ بہت ہی معمولی قربانی کے ساتھ سابقون الا ولون میں شامل ہو سکتا تھا مگر اس نے اس طرف توجہ نہیں کی مثلاً وہ شخص جس نے پہلے سال پانچ روپے ہے دیئے جبکہ وہ دوسرے سال پانچ روپے ایک آنہ دے کر، تیسرے سال پانچ روپے دو آنہ دے کر ، چوتھے سال پانچ روپے تین آنے دے کر، پانچویں سال پانچ روپے چار آنے دے کر، چھٹے سال پانچ روپے پانچ آنے دے کر ، ساتویں سال پانچ روپے چھ آنے دے کر سابقون اور ہر سال قدم آگے بڑھانے والوں میں شامل ہوسکتا تھا.تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ کیوں وہ چند آنوں کی زیادتی میں بخل سے کام لے کر سابقون کے درجہ میں شامل نہ ہوا اور ہر سال پانچ روپے ہی دیتا چلا گیا.جب ہر سال کے چندہ میں محض ایک آنہ کی زیادتی اسے سابقون الاولون میں شامل کر سکتی ہے تو یقینا اگر کوئی شخص یہ زیادتی نہیں کرے گا تو اس کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ یا تو اس نے ناواقفیت اور عدم علم کی وجہ سے ایسا نہیں کیا اور یا پھر اس کے دل میں سابق ہونے کی ایسی قدر نہیں ہے.تو قاعدہ کے مطابق جن دوستوں نے اپنے چندہ میں کمی کی ہے ان کی اس کمی کی حکمت تو میری سمجھ میں آسکتی ہے اور میں مان سکتا ہوں کہ مالی مشکلات کی وجہ سے وہ کمی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں مگر وہ لوگ جو ہر سال برابر چندہ دیتے رہے ہیں ان کے اس یکساں چندہ دینے کی حکمت میری سمجھ میں نہیں آتی کیونکہ وہ بلا وجہ ایک عظیم الشان ثواب کے حصول سے محروم رہتے ہیں.بے شک ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ پچھلے سال میں نے پانچ روپے چندہ میں دیئے تھے، اس سال چھ روپے چندہ دینے 656

Page 669

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرمود : 30 دسمبر 1938ء کی مجھے توفیق نہیں مگر ہم کب کہتے ہیں کہ زیادتی ضرور ایک روپیہ ہی کی ہونی چاہئے ہم نے زیادتی کے متعلق کوئی تعیین نہیں کی اور جب زیادتی کے متعلق ہماری طرف سے کوئی تعین نہیں تو یہ زیادتی پانچ روپے ایک آنہ دے کر بھی ہو سکتی ہے بلکہ پانچ روپے ایک پیسہ دے کر بھی ہو سکتی ہے اور اگر صرف ایک پیسہ کی زیادتی کی وجہ سے کوئی شخص سابقون الاولون میں شامل ہو سکتا ہو تو کیا یہ نادانی نہیں ہوگی کہ دس روپے چندہ دینے والا ہمیشہ دس روپے ہی دیتا رہے یا سو روپے چندہ دینے والا ہمیشہ سو روپیہ ہی دیتا رہے اور نہایت معمولی سی زیادتی کر کے وہ سابقون الاولون میں شامل نہ ہو جائے؟ ہماری جماعت کے ایک دوست ہیں جو نہایت ہی مخلص اور سادہ طبیعت کے ہیں.کئی موقعوں پر میں نے ان میں سلسلہ سے اخلاص اور محبت کا تجربہ کیا ہے.انہوں نے گزشتہ سال 115 روپے چندہ میں دیئے.اس سال پھر انہوں نے 115 روپے کا وعدہ کیا.اس پر میں نے انہیں لکھا کہ آپ بڑی آسانی سے اس سال 116 روپے دے کر سابقون الاولون میں شامل ہو سکتے ہیں.چنانچہ گو میں نے انہیں ایک روپیہ کی زیادتی کیلئے ہی مشورہ دیا تھا مگر انہوں نے جوش اخلاص میں اپنے وعدہ کو اور زیادہ بڑھا دیا.تو بعض لوگ اصل حقیقت کو سمجھے نہیں.وہ سمجھتے ہیں شاید اگر ہم نے ایک سال پانچ روپے چندہ میں دیئے ہیں تو دوسرے سال جب تک دس روپے نہیں دیں گے، زیادتی نہیں تبھی جائے گی.حالانکہ ہمیں تو ایمان کی زیادتی کا ثبوت چاہئے.خواہ وہ ایک پیسہ سے ہو، خواہ ایک آنہ سے ہو، خواہ دو آنہ سے ہو، خواہ تین آنہ سے ہو، خواہ چار آنہ سے ہو اور خواہ وہ دس بیس یا سو دو سو روپیہ کے ذریعہ سے ہو.تو کمی کرنے والوں کی حکمت میری سمجھ میں آجاتی ہے کیونکہ وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم اتنا بوجھ نہیں اٹھا سکتے اور ہماری مالی حالت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم زیادتی کریں مگر جو ہر سال یکساں چندہ دیتے ہیں، ان کے اس فعل کی حکمت سمجھ سے بالا ہے جبکہ وہ نہایت ہی معمولی زیادتی کر کے سابقون الاولون میں شامل ہو سکتے ہیں.مثلاً وہ شخص جس نے سات سالہ دور میں سے پہلے سال پانچ روپے چندہ دیا ہے وہ اگر ہر سال قاعدہ کے مطابق دس فی صدی کمی کرتا اور آخری تین سالوں میں چالیس فیصدی کی پر ٹھہر کر دو سال مسلسل چندہ دیتا تو وہ نو روپے بچاتا ہے، دس روپے دینے والا سات سال میں اس کمی کے نتیجہ میں اٹھارہ روپے بچاتا ہے، میں روپے دینے والا چھتیس روپے بچاتا ہے اور اگر کوئی سوروپے دینے والا تھا تو وہ سات سال میں ایک سو اسی روپے بچاتا ہے.پس اس کے فعل کی حکمت تو میری سمجھ میں آسکتی ہے مگر یہ جو برابر چندہ دیتے چلے جاتے ہیں اور ہر سال مثلاً پانچ روپے یا دس روپے ہی چندہ دے دیتے ہیں ان کا یہ طریق میری سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ وہ 657

Page 670

اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 30 دسمبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول محض پیسے کی زیادتی سے بھی یا ایک آنہ یا چار آنہ یا ایک روپیہ کی زیادتی سے بھی سابقون میں شامل ہو سکتے تھے.اگر وہ ہر سال ایک پیسہ کی ہی زیادتی کریں تو سات سال میں سوا پانچ آنے زیادتی بنتی ہے.اب میرے لئے یہ تسلیم کرنا بالکل ناممکن ہے کہ وہ شخص جو سات سال میں 35 روپے چندہ دے دیتا ہے وہ سوا پانچ آنے زائد چندہ نہیں دے سکتا تھا.یقینا سات سال میں 35 روپے چندہ دینے والوں میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں ملے گا جو سات سال میں سوا پانچ آنے زائد نہ دے سکتا ہومگر افسوس ہے کہ معمولی سی غفلت کی وجہ سے لوگ سابقون الاولون کے ثواب سے محروم ہو جاتے ہیں اور اگر کوئی شخص ایک پیسے کی بجائے ایک آنہ کی زیادتی کرے تو وہ یوں کر سکتا ہے کہ اگر اس نے پہلے سال پانچ روپے دیئے ہیں تو دوسرے سال پانچ روپے ایک آنہ دے دے، تیسرے سال پانچ روپے دو آنے ، چوتھے سال پانچ روپے تین آنے، پانچویں سال پانچ روپے چار آنے ، چھٹے سال پانچ روپے پانچ آنے اور ساتویں سال پانچ روپے چھ آنے.اس طرح سات سالوں میں ایک روپیہ پانچ آنہ کی زیادتی ہوتی ہے اور یہ زیادتی کوئی ایسی نہیں جو نا قابل برداشت ہو بلکہ جو شخص سات سال میں ستر روپے چندہ دے سکتا ہے وہ آسانی سے ایک روپیہ نو آنہ سات سال میں اور بھی ادا کر سکتا ہے.پس میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جو دوست یکساں چندہ دے رہے ہوں وہ ذراسی زیادتی کر کے سابقون الاولون میں شامل ہو سکتے ہیں.اگر انہوں نے پچھلے سال پانچ روپے دیئے تھے تو اس سال وہ اپنے چندہ کو پانچ روپے ایک آنہ بنا سکتے ہیں یا اگر اتنی زیادتی بھی وہ نہیں کر سکتے تو پانچ روپے ایک پیسہ کر دیں کیونکہ سابقون کیلئے محض زیادتی کی شرط ہے مقدار کی تعیین نہیں.بعض لوگ الفاظ غور سے نہیں سنتے اور اس وجہ سے دھو کہ کھا جاتے ہیں جیسے امانت فنڈ میں حصہ لینے والے اب شور مچارہے ہیں کہ ہمیں ہمارا روپیہ ہی واپس کیا جائے حالانکہ اگر وہ غور سے میرے خطبات کو پڑھتے تو متواتر کئی خطبات میں میں نے بتایا تھا کہ یہ میرا اختیار ہو گا کہ میں اگر چاہوں تو امانت روپیہ کی صورت میں ہی انہیں واپس کروں اور اگر چاہوں تو جائیداد کی صورت میں واپس کروں مگر انہوں نے اس بات کو نہ سمجھا اور اب شور مچارہے ہیں کہ ہمیں روپیہ ہی دیا جائے ، جائیداد ہم لینے کیلئے تیار نہیں.اسی طرح چندہ میں زیادتی کے متعلق بھی بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید سابقون میں شامل ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ انہوں نے اگر پہلے پانچ روپے چندہ دیا ہے تو اب چھ دیں یا سات دیں.حالانکہ سابقون میں شامل ہونے کے لئے ایسی کوئی شرط نہیں.صرف زیادتی کی شرط ہے خواہ وہ پیسے سے ہو یا آنہ سے ہو یا زیادہ سے ہو بلکہ پیسہ سے کم ہمارے ہاں کوئی سکہ استعمال نہیں ہوتا ور نہ میں تو کہتا کہ ایک ادھی یا 658

Page 671

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 30 دسمبر 1938ء ایک پائی سے بھی زیادتی کی جاسکتی ہے.پرانے زمانہ میں کوڑیاں استعمال ہوا کرتی تھیں.آج کل ان کا رواج نہیں لیکن اگر ان کا رواج ہوتا تو سابقون الاولون میں شامل ہونے کے لئے یہی کافی تھا کہ وہ ایک کوڑی زائد دے دیتے.مقصد یہ ہے کہ چندہ پہلے سے زیادہ دیا جائے خواہ یہ زیادتی ایک ادھی سے ہو ، خواہ پائی سے، خواہ ایک کوڑی سے ہو.یہ انسان کے اپنے حالات پر منحصر ہے کہ وہ جس قسم کی چاہے زیادتی اختیار کر سکتا ہے.پس دوستوں کو چاہئے کہ چندہ میں زیادتی کے متعلق وہ میرا نقطہ نگاہ سمجھ لیں اور جن دوستوں سے اپنے گزشتہ سالوں کے چندہ میں غلطی ہوئی ہے وہ اس کی اصلاح کر لیں.میں نے بتایا ہے کہ یہ اصلاح اتنی آسان ہے کہ بغیر کسی بوجھ کے اسے اختیار کر سکتے ہیں اور سوائے ان لوگوں کے جو اپنے حالات کی وجہ سے کمی کرنے پر مجبور ہیں، باقی سب دوست چند پیسوں یا چند آنوں کے ساتھ ہی اپنی غلطی کو دور کر سکتے اور سابقون الاولون میں شامل ہو سکتے ہیں.تو یہ بات میں واضح کر دینی چاہتا ہوں تا کہ جو دوست غلطی کی وجہ سے سابقون الاولون میں شامل ہونے سے محروم رہے ہیں.وہ اب اپنی غلطی کا ازالہ کر کے سابقون میں شامل ہو جائیں.دوسری بات اس سلسلہ میں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ زیادتی بھی دو قسم کی ہے.ایک تو وہ دوست کو ہیں جنہوں نے پہلے سال جتنا چندہ دیا تھا اس سے زیادہ چندہ انہوں نے دوسرے سال دیا اور دوسرے سال جتنا چندہ دیا تھا اس سے زیادہ چندہ انہوں نے تیسرے سال دیا اور تیسرے سال جتنا چندہ دیا تھا اس سے زیادہ چندہ انہوں نے چوتھے سال دیا اور چوتھے سال جتنا چندہ دیا تھا اس سے زیادہ چندہ انہوں نے پانچویں سال دیا.ان کے لئے اگر وہ سابقون میں شامل ہونا چاہیں تو یہی قاعدہ ہے کہ وہ اب دسویں سال تک اپنے چندہ کو پہلے سالوں سے بڑھاتے چلے جائیں کیونکہ انہوں نے چوتھے سال میں آکر تیسرے سال سے کم چندہ نہیں دیا تھا بلکہ زیادہ دیا تھا.پس چونکہ انہوں نے ایک حلقہ اپنے لئے پسند کر لیا ہے اس لئے اب ان کی زیادتی اس صورت میں زیادتی متصور ہوگی جب وہ ہر سال پہلے سال سے زیادہ چندہ دیں گے لیکن ایک وہ لوگ ہیں جنہوں نے پہلے تین سالوں میں تو اپنے چندوں میں زیادتی کی لیکن چوتھے سال آکر میری رعایت سے فائدہ اٹھا کر انہوں نے اتنا ہی چندہ دیا جتنا انہوں نے تحریک جدید کے سال اول میں دیا تھا.مثلاً پہلے سال انہوں نے پانچ روپے دیئے تھے، دوسرے سال انہوں نے دس روپے دیئے اور تیسرے سال پندرہ لیکن چوتھے سال آکر پھر انہوں نے پہلے سال کے چندہ کے مطابق میری رعایت سے فائدہ اٹھا کر صرف پانچ روپے ہی چندہ دیا.ایسے لوگوں نے چونکہ میری مقرر کردہ رعایت اور 659

Page 672

اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 30 دسمبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول قانون کے مطابق چوتھے سال اپنے چندہ میں کمی کی اس لئے اب ان کی زیادتی پانچویں سال سے شمار ہوگی اور وہ اگر چاہیں تو اب کے پانچ روپے کی جگہ پانچ روپے ایک آنہ دے کر یا پانچ روپے چار آنے دے کر یا چھ روپے دے کر یا سات روپے دے کر یا آٹھ روپے دے کر سابقون الاولون میں شامل ہو سکتے ہیں بلکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ پانچ روپے ایک پیسہ دے کر بھی ایک شخص اپنے چندہ میں اضافہ کر سکتا ہے اور ایسا شخص زیادتی کرنے والوں میں ہی شمار ہوگا بشرطیکہ اب وہ آئندہ سالوں میں کمی نہ کرے بلکہ ہر سال اپنے چوتھے سال کے چندہ پر اضافہ کرتا چلا جائے.غرض شرط یہ نہیں کہ تیسرے سال اس نے جتنا چندہ دیا تھا اس پر اضافہ کرے بلکہ چوتھے سال اس نے جتنا چندہ دیا تھا اگر آئندہ سالوں میں وہ اس پر زیادتی کرتا رہتا ہے تو وہ بھی سابقون میں ہی شمار کیا جائے گا.پس ایسے لوگوں کے لئے اصل زیادتی تیسرے سال پر نہیں بلکہ چوتھے سال کے چندہ پر بھی جائے گی.مثلاً اگر کسی شخص نے پہلے سال پانچ روپے چندہ دیا تھا.دوسرے سال اس نے دس دے دیئے اور تیسرے سال ہیں لیکن چوتھے سال پھر اس نے پانچ دے دیئے تو اب اگر وہ زیادتی کرنا چاہے تو پانچ پر ہی کر سکتا ہے.اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ ہیں پر زیادتی کرے کیونکہ اس نے چوتھے سال اپنے چندہ میں جو کمی کی تھی وہ اجازت اور قانون کے ماتحت کی تھی.میں نے اس امر کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگوں کو یہ فکر لگ گیا ہے کہ ہم نے جو چوتھے سال چندہ دیا تھاوہ تیسرے سال سے بہت کم ہے.اب اگر ہم تیسرے سال کے چندہ پر زیادتی کریں تو ہم پر بہت زیادہ بار پڑ جائے گا.میں ایسے دوستوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر انہوں نے چوتھے سال کم چندہ دیا ہے تو یہ ان کی زیادتی میں حارج نہیں ہوگا کیونکہ انہوں نے یہ کی میری دی ہوئی رعایت کے مطابق کی تھی.پس وہ اب تیسرے سال کے چندہ پر نہیں بلکہ چوتھے سال کے چندہ پر اگر دسویں سال تک زیادتی کرتے چلے جائیں گے تو سابقون الاولون کی فہرست میں آجائیں گے.بشرطیکہ پہلے تین سالوں میں بھی ہر سال زیادتی ہوتی چلی گئی ہو یا اب وہ زیادتی کر دیں مگر شرط یہی ہے کہ انہوں نے چوتھے سال قانون کے مطابق کمی کی ہو لیکن اگر کوئی شخص ایسا ہے کہ جس نے چوتھے سال بھی کمی نہیں کی تو اسے اجازت نہیں کہ وہ پیچھے ہٹے بلکہ اب وہ اسی صورت میں سابقون الاولون میں شامل رہ سکتا ہے جب ہر سال وہ اپنے چندہ میں اضافہ کرتا چلا جائے.جیسے میں نے دوسرے سال پہلے سال سے زیادہ چندہ دیا تھا، تیسرے سال دوسرے سال سے زیادہ چندہ دیا، چوتھے سال تیسرے سال سے زیادہ چندہ دیا اور پانچویں سال چوتھے سال سے زیادہ چندہ لکھایا ہے.پس میں اور میری قسم کے دوسرے دوست جنہوں نے چوتھے سال بھی کمی 660

Page 673

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرمود و 30 دسمبر 1938ء نہیں کی بلکہ تیسرے سال کے چندہ پر زیادتی کی تھی وہ اس بات پر مجبور ہیں کہ اب آئندہ ہر سال اضافہ ہی کرتے چلے جائیں اور پانچویں سال میں چوتھے سے اور چھٹے سال میں پانچویں سے اور ساتویں سال میں چھٹے سے اور آٹھویں سال میں ساتویں سے اور نویں سال میں آٹھویں سے اور دسویں سال میں نویں سے زیادہ چندہ دیں.خواہ زیادتی کتنی ہی قلیل ہو لیکن جنہوں نے چوتھے سال اپنا چندہ پہلے سال کے برابر کر دیا تھا لیکن دوسرے اور تیسرے سال بڑھتے چلے گئے تھے ان کی راہ میں چوتھے سال کے چندہ کی کمی کوئی روک نہیں ہوگی بلکہ چوتھے سال سے ان کا نیا دور شروع ہوگا اور ان کی زیادتی زیادتی ہی تصور ہوگی.اگر انہوں نے چوتھے سال کے چندہ سے پانچویں سال میں کچھ زیادہ چندہ دیا ہو.یہ دو تشر یکیں ہیں جو آج میں کر دینا چاہتا ہوں کیونکہ بہت سے دوستوں نے ملاقات کے وقت مجھ سے اس بارے میں دریافت کیا ہے اور بعض نے رقعے لکھ کر بھی سوالات کئے ہیں اور چونکہ میں دیکھتا ہوں تحریک جدید کی اہمیت معلوم ہونے کے بعد بہت سے دوستوں کے دلوں میں یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ وہ بھی سابقون الاولون میں شامل ہوں.اس لئے میں نے یہ تشریحات کر دی ہیں اور ان کی راہ میں جو روکیں حائل تھیں انہیں دور کر دیا ہے.میں ان دونوں قسم کی زیادتی کو ایک نقشہ کے ذریعہ سے بھی حل کر دیتا ہوں اور پانچ روپے چندہ دینے والوں کی مثال کی دونوں صورتیں بیان کر دیتا ہوں.اول نقشہ یہ ہے کہ ایک شخص نے پہلے سال پانچ روپے دیئے، دوسرے سال پانچ روپے ایک آنہ یا دو آنہ یا چار آنہ زیادتی کی ، تیسرے سال پھر زیادتی کی مگر چوتھے سال پھر پانچ روپے چندہ دیا، چھٹے سال پانچ روپے ایک آنہ یا دو آنہ یا چار آنہ چندہ دیا اور پانچویں سال اس سے زیادہ اور آخر تک پھر بڑھاتے چلے گئے ان کا چوتھے سال کا چندہ گوتیسرے سال سے کم ہے لیکن چونکہ یہ پہلے تین سالہ دور میں بھی چندہ بڑھاتے رہے ہیں اور دوسرے سات سالہ دور میں بھی چندہ بڑھاتے رہے ہیں.باوجود چوتھے سال میں کمی کر دینے کے یہ لوگ سابقون میں شمار ہوں گے کیونکہ دونوں دور مستقل صورت رکھتے ہیں اور دونوں دور میں وہ چندہ بڑھاتے چلے گئے ہیں.دوسری مثال یہ ہے کہ ایک شخص نے پہلے سال میں پانچ روپے چندہ دیا دوسرے میں پانچ روپے ایک آنہ، تیسرے میں پانچ روپے 2 آنے، چوتھے میں پانچ روپے تین آنے اور پانچویں میں پانچ روپے 4 آنے اور آخر دور تک وہ کچھ نہ کچھ زیادتی پہلے سال کے چندہ میں کرتے چلے گئے.یہ بھی سابقون میں سمجھے جائیں گے.کارکنوں کو چاہئے کہ وہ اس امر کو اچھی طرح جماعت کے ذہن نشین کر دیں تا کہ عدم علم کی وجہ سے وہ دوست جو زیادہ ثواب میں حصہ لینا چاہیں 661

Page 674

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 30 دسمبر 1938ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول اس سے محروم نہ رہ جائیں.میں یہ بھی کہ دینا چاہتا ہوں کہ جو دوست اس دوران میں فوت ہو جائیں ان کی نسبت سمجھا جائے گا کہ وہ آخر تک چندہ دیتے رہے ہیں اور وہ اپنی زندگی میں جس قسم کے چندہ دہندوں کی قسم میں آرہے تھے اسی قسم میں ان کا نام شامل کیا جائے گا اور یہ نہ کہا جائے گا کہ انہوں نے پورے دس سال چندہ نہیں دیا کیونکہ ثواب نیت پر ہوتا ہے نہ کہ اس عمل پر جو انسان کے اختیار میں نہ ہوں“.( مطبوعه الفضل 17 جنوری 1939 ء ) 662

Page 675

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از تقریر فرموده 16 اپریل 1938ء مبلغ وہ ہے جس کے دل کی ایمان کی حالت انبیاء کے ایمان کی مثل ہو تقریر فرمودہ 16 اپریل 1938ء بر موقع مجلس شوری تحریک جدید کے پہلے مبلغین کے انتخاب کے وقت صرف دیکھا جاتا تھا کہ جرات کے ساتھ کام کرنے کا مادہ ہو، لیاقت کا زیادہ خیال نہیں رکھا گیا تھا.اس وقت ایسے آدمی کی ضرورت تھی جو دلیری کے ساتھ آگ میں اپنے آپ کو ڈال دینے والا ہو.چنانچہ ایسے لوگوں کو منتخب کر کے ہم نے بھیج دیا اور وہ مقصد حاصل بھی ہو گیا.ان میں سے بعض دینی علوم اور عربی سے بھی اچھی طرح واقف نہ تھے بلکہ بعض کا تقویٰ کا معیار بھی اتنا بلند نہ تھا مگر اس وقت ہمیں صرف آواز پہنچانا تھی اور دشمن کو یہ بتانا تھا کہ ہمارے پاس ایسے نوجوان ہیں جو اپنا آرام و آسائش اپنا وطن عزیز واقارب، بیوی بچوں غرضیکہ کسی چیز کی پروانہ کرتے ہوئے نکل جائیں گے.بھوکے پیاسے رہیں گے اور دین کی خدمت کریں گے.ایسی قوم کو جس میں ایسے نو جوان ہوں مار دینا ناممکن ہوتا ہے.چنانچہ ہم نے یہ دکھا دیا.بعض نو جوان برائے نام گزارے لے کر اور بعض یونہی باہر چلے گئے اور اس طرح ہمارا خرچ بارہ مشنوں پر قریباً ایک مشن کے خرچ برابر ہے.لیکن جب وہ زمانہ گزر گیا اور جب ہم نے یہ بتا دیا کہ ہمارے پاس ایسے نوجوان ہیں جو ہر وقت لبیک کہنے پر آمادہ ہیں تو اس کے بعد اب دوسرا انتخاب کیا جاتا ہے.باقاعدہ تعلیم دی جاتی ہے.زیادہ معین قانون بنا دیئے گئے ہیں اور اب بھی ہمیں ایسے نو جوان مل رہے ہیں.پس اس جماعت کو مد نظر رکھتے ہوئے تبلیغ میں کمی نہیں ہوئی بلکہ صرف طریق تبدیل کیا گیا ہے اور زیادہ خرچ والا طریق چھوڑ کر کم خرچ والا اختیار کیا گیا ہے.وقف کرنے والے نوجوانوں سے کام لیا جارہا ہے.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ وقف کا صحیح مفہوم بھی نہیں سمجھتے.وہ اپنے چھوٹے بچوں کو جو دین کے نام سے بھی ناواقف ہوتے ہیں، لے آتے ہیں کہ ہم اسے وقف کرتے ہیں اور میں کہہ دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی نیت کا آپ کو بدلہ دے اور لڑکے کو تو فیق دے کہ بڑا ہو کر آپ کے خیالات سے اتفاق کرنے والا ہو اور یہ وقف کی رسم ختم ہو جاتی ہے لیکن بعض لوگ عزت کو دین کا جامہ پہنانا چاہتے ہیں.وہ محض اس لئے وقف کا لفظ استعمال کرتے ہیں کہ لڑکے کی تعلیم کا انتظام ہو جائے.میں جب کہتا ہوں کہ اچھا ہم اسے کسی کام پر لگا لیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ نہیں جی ہم نے تو 663

Page 676

اقتباس از تقریر فرموده 16 اپریل 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک......جلد اوّل سمجھا تھا کہ یہ پڑھے گا تو ان کی اصل غرض تعلیم دلانا ہوتی ہے.مگر نام وقف کا لیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ایسے لڑکوں پر مبلغین کے انتخاب کو حاوی کرنا نقصان دہ امر ہے.ایک وقت ہم مجبور تھے کہ ایسے مبلغ لیں.چنانچہ تین سال پہلے ہم نے لئے مگر آج نہیں لے سکتے.جنگ عظیم کے دنوں میں رنگروٹوں کو صرف دو ماہ کی ٹرینگ کے بعد آگے بھیج دیا جاتا تھا.حالانکہ عام حالات میں یہ عرصہ دو سال کا ہوتا ہے.اس وقت صرف ید دیکھا جاتا تھا کہ اسے بندوق کندھے پر رکھنا آتی ہواور وہ ڈرے نہیں اور یہ اس لئے کیا جاتا تھا کہ میدان خالی نہ رہے.میں نے جنگ عظیم کے متعلق پڑھا ہے کہ ایک موقع ایسا آ گیا تھا کہ سات میل کا رقبہ بالکل خالی ہو گیا تھا.اس موقعہ میں انگریزی فوج کے آدمی یا تو شکست کھا کر ہٹ چکے تھے اور یا مارے جاچکے تھے.اگر جرمن افواج کو اس کا علم ہو جاتا تو جنگ کا نقشہ بالکل بدل جاتا.جب جنرل Haug کو اس کا علم ہوا تو اس نے ایک ماتحت جرنیل کو جو شاید آسٹرین یا کینیڈین تھا بلایا اور کہا کہ ایسا ایسا واقعہ ہو گیا ہے.ہمارے پاس اس وقت فوج نہیں جو اس خلا کو پورا کر سکے.میں یہ کام تمہارے سپرد کرتا ہوں کہ جس طرح بھی ہو سکے انتظام کرو کہ یہ خلا پر ہو جائے.چنانچہ وہ جرنیل موٹر میں بیٹھا اور دھوبیوں اور باورچیوں اور دوسرے ملازموں سے جو فوج کے پیچھے کام کرتے ہیں جا کر کہا کہ تم لوگ ہمیشہ جنگ میں شریک ہونے کی خواہش کیا کرتے ہو.آج تمہارے لئے بھی حو صلے نکالنے کا موقعہ آ گیا ہے.جو ہتھیار جس کے ہاتھ میں آئے لے لو اور چلو.بعض کو بندوق چلانی آتی تھی انہیں تو بندوقیں دے دی گئیں.مگر دوسروں نے کرالیں اور پھاوڑے وغیرہ لے لئے.بعض نے کفگیر ہی اٹھائے اور چار پانچ گھنٹے اس خلا کو پر کئے رکھا اور دشمن کو یہ خیال بھی نہ ہوا کہ یہاں کوئی فوج نہیں ہے.حتی کہ پیچھے سے کمک آگئی.اس طرح گزشتہ تحریک کے موقعہ پر میں نے بعض ایسے مبلغ بھی لئے تھے جو ہر گز اس ذمہ واری کے اٹھانے کے قابل نہ تھے.لیکن ہم نے کہا کہ جاؤ اور صرف اتنا کہ دو کہ مسیح آگیا اور اس بات میں ان کی طرف سے غلطی کا کیا امکان ہوسکتا تھا.گو ان میں سے بعض نے غلط مسائل بھی بیان کر دیئے اور بعد میں ہمیں سنبھالنا پڑا مگر اب وہ حالات بدل رہے ہیں.سالہا سال کے غور کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مبلغ بننا بڑی ذمہ داری ہے.مبلغ پیدا نہیں کیا جاسکتا بلکہ وہ پیدا ہوتا ہے.یہ خیال کہ کوئی کالج مبلغ پیدا کر سکتا ہے، بالکل غلط ہے.مبلغ وہ ہے جس کے دل کی ایمان کی حالت انبیاء کے ایمان کی مثل ہو اور ظاہر ہے کہ یہ چیز خدا کی دین ہے.ہم کسی کے اندر سے پیدا نہیں کر سکتے.یہ خیال کرنا کہ قدوری یا هدایا یا تفسیریں پڑھنے سے یہ بات پیدا ہو سکتی 664

Page 677

تحریک جدید- ایک الہی تحریک....جلد اول اقتباس از تقریر فرموده 16 اپریل 1938ء ہے بالکل غلط ہے.کتا بیں پڑھ کر ایک شخص عالم تو بن سکتاہے مگر مبلغ ہیں.مبلغ کے حقیقی انتخاب کا وقت وہ ہوتا ہے جب اس کی فطرت کی گہرائیوں کا اندازہ ہو جائے.اس کے جو ہر ظاہر ہو جائیں اور اس کا ایمان آزمائشوں کی بھٹی میں پڑ چکا ہو.میں مانتا ہوں کہ دینی تعلیم کا انتظام بھی ضروری ہے لیکن مدرسہ میں پڑھنے کے وقت تو طالب علم کو خود بھی اپنے جو ہر کا علم نہیں ہوتا.پس تعلیم دینی کا انتظام تو ہونا چاہئے لیکن یہ ضروری نہیں کہ تعلیم حاصل کرنے والوں کو مبلغ بنادیا جائے.صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں یہ سہولت تھی کہ ان کا دین بھی عربی زبان میں تھا اور ان کی اپنی زبان بھی یہی تھی مگر ہمارے لئے یہ دفقت ہے کہ دین تو عربی میں ہے مگر زبان اردو ہے.اس لئے وہ ساری قوم میں سے مبلغین انتخاب کر سکتے تھے مگر ہم ایسا نہیں کر سکتے.اس لئے ضروری ہے کہ اس مدرسہ کو جاری رکھا جائے تا انتخاب کے لئے میدان موجود رہے.اس کے ساتھ میں نے تجویز کی ہے کہ ان لوگوں کے لئے ایسا انتظام بھی ہونا چاہئے کہ وہ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد اپنے گزارہ کی صورت بھی نکال سکیں.ہم انہیں ملک کے مختلف گوشوں میں پھیلا دیں اور وہ اپنا گزارہ کریں اور ساتھ ساتھ تبلیغ بھی کرتے رہیں اور جب یہ ثابت کر دیں کہ ان کے دل میں جوش ہے، ان پر وہی مثال صادق آتی ہے کہ دست با کار دل با یار اور دین کی اشاعت کے لئے ان کے دل میں تڑپ ہے تو پھر انہیں بلا کر تبلیغ کے کام پر لگا دیا جائے.وہ خواہ باہر جا کر کوئی پیشہ اختیار کریں تب بھی ہمیں یہ پتہ لگ سکتا ہے کہ وہ مبلغ بن سکتے ہیں یا نہیں.جماعت کے بعض دکان دار اور بعض ملازم پیشہ دوست بھی تبلیغ کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کو تبلیغ کرنے والوں سے کم کام نہیں کرنا پڑتا.دونوں اتنا ہی وقت دفتر میں یا دکان میں کام کرتے ہیں.فرق صرف یہ ہے کہ جس کے دل میں شوق ہوتا ہے وہ دفتر سے فارغ ہو کر تبلیغ کے لئے نکل جاتا ہے اور جسے شوق نہیں ہوتا وہ گھر جا کر لیٹ جاتا ہے.غرض اپنا اپنا کام کرنے والوں کی نسبت بھی آسانی سے پتہ لگ سکتا ہے کہ کسے تبلیغ کا شوق ہے اور کسے نہیں اور اس طرح بیسیوں آزمودہ مبلغوں میں سے کسی کا پورے وقت کا مبلغ بنانے کے لئے انتخاب کیا جاسکتا ہے اور ایسا انتخاب یقیناً بابرکت ہوگا.پس بہتر طریق یہ ہے کہ علماء کو پیشے سکھا کر باہر بھیج دیا جائے کہ اپنا اپنا کام کریں اور پھر دیکھا جائے کہ وہ دین کے کام میں لگے ہوئے ہیں یا نہیں اور اپنے عمل سے یہ ثابت کرتے ہیں یا نہیں کہ ان کے دل میں اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کی محبت ہے.اس طرح انہوں نے علم تو پہلے سیکھا ہوا ہوگا اور ایمان کا ثبوت اپنے عمل سے دے دیں گے.ایسے لوگ مبلغ بنائے جائیں گے تو وہ بہترین مبلغ ثابت ہوں گے.ب بھی بعض وہ علماء جو باہر سے بطور مبلغ لئے ہوئے ہیں نسبتاً زیادہ بہتر ہیں مثلاً مولوی راجیکی صاحب، 665

Page 678

اقتباس از تقریر فرموده 16 اپریل 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول مولوی بقا پوری صاحب، مولوی نذیر محمد صاحب لائل پوری.یہ ہمارے کالج کے پڑھے ہوئے نہیں ہیں مگر اپنے عمل سے انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ ان کے دل میں دین کا جوش ہے.بعض لوگ مبلغین میں بھی ہیں جو بہت اچھے ہیں اور موجودہ ضرورت کے لئے جس لیاقت کی ضرورت ہے اس میں وہ بڑھے ہوئے ہیں.اس لئے مدرسہ اور کالج کی ضرورت تو بہر حال ہے.صرف مبلغین کے انتخاب کے سسٹم میں تبدیلی کی ضرورت ہے.ہم ان لوگوں کو لے لیتے ہیں جو اچھا بولنے والے ہوں.حالانکہ نہ اچھے بولنے والوں سے یہ کام چلتا ہے اور نہ اچھے لکھنے والوں سے.ضرورت ایمان اور اخلاص کی ہوتی ہے.جب دل میں اخلاص ہو تو بولنا اللہ تعالیٰ خود ہی سکھا دیتا ہے.دیکھو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اچھا بولنا نہیں آتا تھا اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کہا بھی کہ میرے بھائی کو بولنا آتا ہے لیکن وہی موسیٰ علیہ السلام جنہیں بولنا نہیں آتا تھا اور جن کے متعلق مفسرین لکھتے ہیں کہ ان کی زبان میں لکنت تھی اور قرآن شریف سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کو تقریر کی مشق نہ تھی ، مگر جب خدا تعالیٰ نے ان کو نبوت دی، ایمان کا چشمہ ان کے اندر سے پھوٹ پڑا تو فرعون کے سامنے جا کر خود ہی تقریر کی.حضرت ہارون بھی ساتھ تھے مگر ان کو ایک لفظ تک آپ نے بولنے نہیں دیا اور خود اس زور سے اور ایسی شان سے تقریر کی کہ بڑے سے بڑا مقرر تسلیم کرے گا کہ آپ نے کمال کر دیا.دیکھ مصیبت زدہ عورتیں جن کو ایک لفظ بھی بولن نہیں آتا.غیر مرد کے سامنے ایک لفظ منہ سے نہیں نکال سکیں بلکہ رشتہ داروں سے بھی بات نہیں کر سکتیں.جب ان کا بچہ کسی مصیبت میں ہو تو ایسی تقریر کرتی ہیں کہ سننے والا دنگ رہ جاتا ہے تو ضرورت یہ ہوتی ہے کہ دل میں زخم ہو، بولنا خود بخود آ جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ دعا سکھائی :26 تا 29) رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِى وَيَسْرْ لِي أَمْرِى وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي يَفْقَهُوا قَوْلِي اس میں شرح صدر کو پہلے رکھا، جب شرح صدر ہو تو سہولتیں آپ ہی آپ پیدا ہو جاتی ہیں.لیکن میرا یہ مطلب نہیں کہ سکول اور کالج بریکار ہیں.یہ یقیناً ایسی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں جن کو ہمارے پرانے علماء نہیں کر سکتے اور اگر ان کو بند کر دیا جائے تو نقصان ہوگا.ان کی ضرورت ہے تا کہ علوم ایسے رنگ پڑھائے جائیں کہ اگر کسی وقت کسی کے دل میں ایمان کا چشمہ پھوٹ پڑے تو اس سے فائدہ اٹھایا جا سکے.گو یہ میچ نہیں کہ علم ایمان دار بنا سکتا ہے.اس کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ سے انسان کا تعلق محض علم کوئی چیز نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی نے جب آپ پر الہام نازل ہورہا تھا.ہو.666

Page 679

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از تقریر فرموده 16 اپریل 1938ء آیت کے مضمون کی رو سے متاثر ہو کر خاتمہ کے الفاظ بے ساختہ خود بول دیئے.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم | نے فرمایا کہ درست ہے، یہی الفاظ میں لکھو تو یہ بات اس کی ٹھوکر کا موجب ہوگئی.اس نے کہا کہ یہ تو سن سنا کر الہام بنا لیتے ہیں.پس نیکی انسان کے قلب میں پیدا ہوتی ہے ، دوسری چیزیں تو بطور امداد کے ہوتی ہیں.اگر دل میں نیکی نہ ہو تو بیرونی چیزوں سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا.نہیں ان حالات میں میں سمجھتا ہوں کہ کالج کو ایسے طریق پر لانے کی ضرورت ہے کہ اس کے فارغ التحصیل نو جوانوں کو ہم باہر بھیج دیں تو وہ جاکر اپنا کام کر سکیں اور پھر ہم حسب ضرورت ان میں سے مبلغ منتخب کر کے ان سے کام لے سکیں.یہ میچ نہیں کہ اپنا کام کاج چلانے کے بعد اسے چھوڑ نا مشکل ہوگا.جس کے دل میں ایمان اور اخلاص ہوگا اسے جب بھی خدا تعالی کی آواز پہنچے گی خواہ دس ہزار ماہوار آمد کیوں نہ ہو اس پر لات مار کر آجائے گا.لیکن جس کے دل میں میل ہوگی ، وہ کہہ دے گا کہ اب میری تجارت چل پڑی ہے، زمیندارہ کام چل نکلا ہے اب میں نہیں آسکتا.ایسا شخص ہمارے اندر رہ کر بھی کام نہیں کر سکتا.پس جو ہمارے کام کا ہے، وہ کہیں جائے گا نہیں اور جو کام کا نہیں اسے رکھ کر ہم نے کیا کرنا ہے.اس وقت ہمارے پاس مبلغ کافی ہیں اور آئندہ کے لئے اگر کوئی صحیح معنوں میں مبلغ مل سکا تو اسے لے لیا جائے گا، ورنہ نہیں.جو سچا مبلغ ہوگا اس کا رکھنا بھی بھی بوجھ کا موجب نہ ہوگا.وہ اپنا گزارہ ساتھ لائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دنیا دار کا قصہ سنایا کرتے تھے کہ اس کے بہت سے نوکر چاکر تھے.ایک دن اس نے خیال کیا کہ انہیں علیحدہ کر کے بچت کی صورت کی جائے لیکن رات کو اس نے خواب دیکھا کہ اس کا خزانہ کھلا پڑا ہے اور کچھ لوگ گڑے بھر بھر کر مال اس میں سے نکالتے جارہے ہیں.اس نے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو اور میرا مال کہاں لے جارہے ہو.انہوں نے کہا ہم فرشتے ہیں.پہلے کچھ لوگوں کا رزق تمہارے پاس تھا مگر اب تم نے ان کو نکالنے کا ارادہ کیا ہے.اس لئے ان کے حصہ کا رزق اب دوسری جگہوں پر بھیجا جائے گا تو رزق ہر ایک کا خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اور جب عام حالت میں یہ ہے تو خدا تعالیٰ کے دین کا کام کرنے والے کیوں اپنا رزق ساتھ نہ لائیں گے.کون ہے جو خدا تعالیٰ کا بندہ کہلائے اور پھر خدا تعالیٰ اسے فاقہ سے مرنے دے.پس جو اس قسم کے مبلغ ہوں گے ، وہ خزانہ پر کوئی بار نہیں ڈالیں گے.اگر ان کا خرچ ایک ہزار ہوگا تو خدا تعالی ڈیڑھ ہزار دے گا.لیکن یہ طریق کہ ہر سال جبری طور پر مبلغ رکھے جائیں، چونکہ وقتی ضرورت پوری ہو چکی ہے، اب بدل دینا چاہئے.تعلیم حاصل کرنے کے بعد مبلغین باہر جا کر اپنا اپنا کام کریں.اگر ان میں سے ہمیں کوئی موزوں آدمی نظر آیا تو اسے لے لیا جائے گا.اول تو ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات ، زمانہ طالب علمی سے ہی 667

Page 680

اقتباس از تقریر فرموده 16 اپریل 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول کچھ نہ کچھ اندازہ ہونے لگ جائے گا کہ کون سا طالب علم مبلغ بنے کی اہلیت رکھتا ہے لیکن باہر جا کر کام کرنے کی صورت میں تو اس کے بارہ میں پورا علم ہو جائے گا اور جب ہم دیکھیں گے کہ اپنا کام کرنے کے ساتھ اس نے خدا تعالیٰ کے کام کو نہیں چھوڑا تو پھر اسے رکھ لیا جائے گا اور اس طرح آئے ہوئے مبلغ حقیقی مبلغ ہوں گے اور دوسری طرف تحریک جدید میں مبلغین کو رکھنے کا سلسلہ جاری رہے گا.ان کے انتخاب میں بھی اس بات کو مدنظر رکھا جائے گا کہ دین کا علم رکھتے ہیں یا نہیں یا سیکھ سکتے ہیں یا نہیں اور ایسے مبلغ دوسروں سے بہت زیادہ مفید ہوں گے.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرا یہ مطلب نہیں کہ الاؤنس پر مبلغ نہ رکھے جائیں.میں اس چیز کا مخالف ہوں کہ دکھایا کچھ جائے اور حقیقت کچھ اور ہو.نام تو یہ ہو کہ مبلغوں کو کرایہ دیا جارہا ہے اور در حقیقت الاؤنس یا تنخواہ ہو.جو ضرورت ہو اس کا دلیری سے مطالبہ کرنا چاہئے.“ وو میں سمجھتا ہوں اب جبکہ دشمنوں نے اندرونی و بیرونی حملوں سے سلسلہ پر یورش کی ہے.ہمیں پورے طور پر مالی پریشانی کے سوال کو حل کر دینا چاہئے تا کہ پوری طاقت سے مخالف پروپیگینڈا کا مقابلہ کیا جا سکے اور کام کو پہلے سے بہتر بنایا جا سکے.اس غرض کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نمائندگان مجلس مشاورت سے خواہش کرتا ہوں کہ وہ مجھے اپنے مشوروں سے آگاہ کریں اور بعض تجاویز اپنی طرف سے بھی ان کے غور کے لئے پیش کرتا ہوں.جب بار پڑ رہا ہو تو سب سے پہلے ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ خرچ کی زیادتی کو روکیں تا کہ گزشتہ بار کو دور کرنے میں سہولت ہو اور اب ایسے حالات ہو چکے ہیں کہ جن کی موجودگی میں اس قسم کا انتظام ضروری ہے.پس میں تجویز کرتا ہوں کہ خرچ کی مستقل طور پر زیادتی کے موجبوں کو بند کر دیا جائے.مثلاً :- ا.جب تک مالی حالت میں درستی پیدا نہ ہو تمام ترقیات روک دی جائیں.سر دست تین سال کے لئے یہ فیصلہ کیا جائے.اگر اس سے پہلے حالات درست ہو جائیں تو پھر اس سوال پر غور کر لیا جائے اور اگر تین سال کے خاتمہ سے پہلے درست نہ ہوں تو تین سال کے ختم ہونے پر پھر حالات پر غور کر لیا جائے.۲- آئندہ کے لئے تین مبلغوں کی سالانہ زیادتی کو ملتوی کر دیا جائے.بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح ہم قدم پیچھے ہٹاتے ہیں لیکن در حقیقت ایسا نہیں ہے کیونکہ یہ قاعدہ اس وقت جاری کیا گیا تھا جبکہ تحریک جدید جاری نہیں ہوئی تھی.تحریک جدید کے اجرا کے پہلے تین سال میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے چالیس کے قریب مبلغ کام کر رہے ہیں یا تیار ہور ہے ہیں.گویا دس بارہ مبلغوں کی زیادتی سالا نہ ہوئی ہے 668

Page 681

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول اقتباس از تقریر فرموده 16 اپریل 1938ء اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ زیادتی بڑھتی جائے گی.پس جبکہ تبلیغ کا کام پہلے سے وسیع ہورہا ہے اور آئندہ اس کے وسیع ہونے کی صورت خدا تعالیٰ کے فضل سے نظر آ رہی ہے تو ان مبلغوں کی باقاعدہ بھرتی کے قاعدہ کو ملتوی کر دیا جائے اور صرف یہ قاعدہ رکھا جائے کہ حسب ضرورت مبلغ لئے جائیں گے تو اس سے ہم کام میں کمی نہیں کرتے بلکہ صرف کام کی ترقی کی صورت بدلتے ہیں جو جائز ہی نہیں بلکہ بعض حالات میں ضروری اور زیادہ نفع رساں ہوتی ہے.۳.مبلغوں کے دورے بند کر دیے جائیں.ان کے مقام مقرر کر کے وہاں پہنچا دیا جائے.آگے یا وہ پیدل سفر کریں یا گھوڑے وغیرہ پر دوستوں سے بطور امداد لے کر علاقہ میں سفر کریں.خرچ والے سفر صرف اس صورت میں ہوں کہ ان کو جماعتیں خود خرچ بھجوا دیں..کچھ مبلغوں کو چھانٹ کر دوسرے کاموں پر لگایا جائے یا فارغ کر دئیے جائیں.کیونکہ ایک حصہ مبلغوں میں ایسا ہوتا ہے جو در حقیقت بوجھ بنا ہوتا ہے.محکمہ ان سے کام نہیں لے رہا ہے.میرے نزدیک جس طرح نظارت دعوت و تبلیغ کام کر رہی ہے.موجودہ مبلغوں کی ایک چوتھائی موجودہ کام سے زیادہ اچھا کام کر سکے گی بشرطیکہ اچھے آدمی چنے جائیں.اس وقت تبلیغ بذریعہ مبلغین قریباً بند ہے اور سب سے زیادہ بے فیض اس بارہ میں یہ محکمہ ہے.دوسرے لوگ ان سے زیادہ افراد کو جماعت میں لانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ان سے صحیح طور پر کام نہیں لیا جاتا اور بعض ایسے لوگ مبلغ بن گئے ہیں جو تبلیغ کے اہل نہیں کیونکہ انتخاب میں پوری توجہ سے کام نہیں لیا گیا.(1) ہائی سکول اور مدرسہ البنات کے اخراجات جس طرح ہو رہے ہیں، وہ غیر ذمہ دارانہ ہیں.تمام قومی سکولوں میں اخراجات کی ذمہ داری ایک حد تک خود عملہ پر ہوتی ہے اور اکثر جگہ تو کلی طور پر عملہ پر ہی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن یہاں عملہ کو آمد سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے.میرے نزدیک ہائی سکول اور مدرسہ بنات کی امداد کی ایک رقم مقرر کر کے آئندہ آمد کے پیدا کرنے کی ذمہ داری عملہ پر ڈالی جائے تا کہ خرچ اور آمد کو برابر رکھنے کا انہیں احساس پیدا ہو.مدرسہ بنات میں تو اندھیر ہے کہ دس ہزار کا خرچ سب کا سب سلسلہ کو ادا کرنا پڑتا ہے.اگر عملہ پر ذمہ داری ہوتی تو کب کا وہ امدادسرکاری لینے میں کامیاب ہو جاتا.اس بارہ میں خاص قوانین تجویز کئے جائیں جن کی امداد سے جلد سے جلد یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچ جائے.(۲) تجارتی صیغے سب کے سب گھاٹے پر چل رہے ہیں اور اس کی وجہ صدر انجمن احمد یہ کی ہے تو جہی ہے.ہمارا کتب خانہ جو ہزاروں کی آمد کا موجب ہونا چاہئے تھا.اس کا روپیہ بہت سا ضائع 669

Page 682

اقتباس از تقریر فرمود : 16 اپریل 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول ہا ہے اور کبھی بھی اس سے نفع حاصل نہیں ہوا.حالانکہ چاہئے تھا کہ پانچ دس ہزار سالانہ اس سے منافع سلسلہ کو ملتا.یہ افسوسناک امر ہے اور اس کی اصلاح فور ہونی چاہئے.رسائل واخبارات کا بھی یہی حال ہے.عملہ اپنی کوئی ذمہ داری نہیں سمجھتا اور یقینا ستی سے کام لیتا ہے.سب کاموں میں عملہ پر آمد کی ذمہ واری ڈالنی چاہئے اور آمد کا اثر عملہ کے گزارہ پر بھی اسی طرح پڑنا چاہئے جس طرح انجمن پرتا کہ دونوں کو توجہ رہے.(۳) ایک قربانی کارکن کریں اور اس کے بالمقابل ویسی ہی قربانی جماعت کرے یعنی بحث کو پورا کرنے کے لئے کارکن بھی ایک کٹوتی اپنی تنخواہوں میں منظور کریں اور جماعت بھی اس کے مقابل پر ویسی ہی زیادتی اپنے چندوں میں کرے.آئندہ بجٹ کے متعلق میرے نزدیک اصول یہ ہونا چاہئے کہ ایک اصل آمد نکالی جائے.یعنی کل آمد سے سب زائد آمد نیاں جو عارضی طریق سے حاصل کی گئی ہوں خارج کر دی جائیں اور فیصلہ یہ کیا جائے کہ بجٹ بہر حال اس اصل آمد سے دس فی صدی کم رکھنا ہے.اس غرض کے لئے کارکنوں کی تنخواہوں اور سائز میں مناسب کمی کر دی جائے.تنخواہوں کی کمی تین درجوں میں تقسیم ہو مثلاً 20،25،33 یا مثلاً 25 ، 20 ،15 یا مثلاً 15،20، 10 یعنی ان تین قسم کی کمیوں میں سے جس قسم کی کمی سے یہ کام ہو سکتا ہو، اسے استعمال کر لیا جائے.اس تجویز سے جو دس فیصدی بچت بجٹ سے ہو نیز وہ سب رقوم جو غیر معمولی مدات آمد سے حاصل ہوں قرضہ کی ادائیگی میں خرچ کی جائیں.مرکزی کارکنوں کی اس قربانی کے بالمقابل جماعت کے مخلصین بھی تین سال کے لئے غیر معمولی بوجھ اپنے پر قبول کر کے اس قربانی کے مساوی قربانی اپنی آمد نیوں میں کریں یعنی اپنی آمدنیوں میں سے زائد چندے ادا کریں اور یہ چندے بھی قرض کی ادائیگی پر خرچ ہوں.کارکنوں کی کٹوتی کو قرض سمجھا جائے جو تو فیق پر انجمن ادا کرے.کوشش کی جائے کہ ریٹائر ہونے والے کارکن کو یہ قرض پراویڈنٹ فنڈ کے ساتھ ادا کر دیا جائے.علاوہ اوپر کی مستقل تجویزوں کے غیر ضروری جائیدادوں کو بھی فروخت کر دیا جائے اور اس آمد سے قرض اتارا جائے.(۱) یہ قانون کر دیا جائے کہ دورانِ سال میں جو تغیر انجمن بجٹ میں کرے اس کے لئے خود بجٹ میں سے گنجائش نکالے.بجٹ کو زائد نہ کیا جائے.(۲) کسی افسر کو کسی سہ ماہی میں ۱/۴ بجٹ سے زائد خرچ کرنے کا اختیار نہ ہو، سوائے خاص منظوری کے اور انجمن ہر اس درخواست کو رد کر دے جو خرچ کرنے کے بعد منظوری کے لئے دی گئی ہو.670

Page 683

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک.....جلد اول اقتباس از تقریر فرموده 16 اپریل 1938ء (۳) بجٹ میں زیادتی کی کوئی تجویز دوران سال میں پیش نہ ہو.سوائے مندرجہ ذیل صورتوں کے: (الف) جو تجویز خلیفہ وقت کی طرف سے ہو.(ب) انجمن کی طرف سے ہو اور ناظر بیت المال اس کی ذمہ داری لے.میں نے تجویز کیا ہے کہ آئندہ تین مبلغوں کا باقاعدہ لینا بند کیا جائے.اس بارہ میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جامعہ کی آخری دو جماعتیں اڑادی جائیں.اگر ایسا کیا گیا تو ایک تو جامعہ کا موجودہ عملہ بے کار ہو جائے گا، دوسرے بوقت ضرورت مشکلات پیش آئیں گی.سو اس بارہ میں میری تجویز یہ ہے کہ عملہ کو بیکار نہ کیا جائے اور جماعتیں جاری رہیں.صرف یہ کیا جائے کہ ان جماعتوں میں طب اور دوا سازی کا علم بڑھا دیا جائے مثلاً 2/3 وقت تحصیل طب میں طلبا خرچ کریں اور ۳/ ۱ دوسرے علوم کی تحصیل میں اور فارغ ہو کر مناسب جگہوں پر مطب کھول دیں.چونکہ یہ طلبا عربی زبان میں اچھے ماہر ہوں گے تھوڑی محنت سے علم طب کے مبادی اور اصول سیکھ سکیں گے.جس کی مدد سے وہ خود مطالعہ سے علم بڑھا سکیں گے.اس وقت طبیبوں کی لیاقت کا جو معیار عام طور پر پایا جاتا ہے اس سے زیادہ لیاقت یہ پیدا کر سکتے ہیں.بشرطیکہ ہوشیار ہوں.خصوصاً جبکہ ہمارا اپنا ہسپتال ہے اور تشریح اور مرہم پٹی اور تھوڑی سی کمپونڈری بھی وہ وہاں سیکھ سکتے ہیں.اس طریقہ سے ایک وسیع جال طبیبوں کا پھیلایا جا سکتا ہے.یہ لوگ عربی مدارس قائم کر کے بھی مفید کام کر سکتے ہیں.میری رائے میں یہ بہتر ہوگا کہ ان طلبا میں نے مستحق اور لائق طلباء کو تکمیل تعلیم کے بعد کچھ رقم کام کی ابتدائی مشکلات پر قابو پانے کے لئے دے دی جائیں.بے شک اس صورت میں ہمیں ایک اچھا طبیب ملازم رکھنا ہوگا لیکن یہ خرچ زیادہ نہ ہوگا.کیونکہ انجمن کے کئی عہدہ دار ریٹائر ہونے والے ہیں اور اس عملہ میں سے گنجائش نکالی جاسکتی ہے.اس تجویز کے ماتحت اگر دیکھا جائے تو خرچ اور آمد کی صورت یہ ہوگی.ایک طبیب فرض کرو ساٹھ روپیہ ماہوار کا، چالیس روپے دوائیوں وغیرہ کے لئے کل سو روپیہ ماہوار.تین لڑکے جن کو وظیفہ دیا جائے (بشرطیکہ اس کے بغیر گزارہ نہ چلے ) تمہیں روپیہ ماہوار.اس میں سے آخری خرچ اب بھی ہورہا ہے.پس صرف سو روپیہ ماہوار خرچ بڑھے گا جو میں نے بتایا ہے انجمن کے موجودہ عملہ کی تبدیلیوں سے پورا ہو سکتا ہے اور اسی سال ہو سکتا ہے جب طالب علم پاس ہوں تو جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے ضرورت مند اور وقف کنندہ طلبا کو کچھ رقم جو میرے خیال میں سو روپیہ سے دوسو رو پیر تک مناسب ہوگی اور امداد یا قرض دے کر کسی خاص مقام پر جو تبلیغ اور طب دونوں کے لحاظ سے اچھا ہو بٹھا دیا جائے.اگر اس امداد کی اوسط سورو پیہ فی طالب علم سمجھی جائے تو یہ تین سو روپیہ ہوا.جب کبھی 671

Page 684

اقتباس از تقریر فرموده 16 اپریل 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول سلسلہ کو مزید مبلغوں کی ضرورت پیش آئے ان طلبا میں سے ایک یا ایک سے زیادہ طالب علموں کو حسہ ضرورت منتخب کر کے ایک سال کے زائد مطالعہ کے بعد کام پر لگا دیا جائے.اس طرح نئے مبلغ بھی وقت پرپل سکیں گے اور جن کی ضرورت نہ ہوگی ان کی عمر بھی ضائع نہ ہوگی.اس وقت تین مبلغ سالانہ لئے جاتے ہیں.ان کی تنخواہ 45 سے 65 تک ہوتی ہے اور اوسط 55 فرض کر کے پونے دو سو روپیہ ماہوار کی بچت صرف پہلے سال میں نکل آتی ہے.جو دس سال میں ہیں ہزار سالانہ کی بچت بن جاتی ہے.زائد تین سو کا خرچ جو طب کا کام چلانے کے لے دیا جانے کی تجویز ہے، وہ بھی اگر ضرورت ہو صرف سفر خرچ کی کمی سے نکل آتا ہے، کیونکہ قریبافی مبلغ ایک سو روپیہ سالانہ سفر کے اخراجات میں خرچ ہوتے ہیں.پس ان تین مبلغوں کے اڑ جانے سے تین سو روپے سفر خرچ کے بچ جاتے ہیں اور یہی رقم حسب ضرورت فارغ التحصیل طلبا کو کام چلانے کے لئے دی جاسکتی ہے اور ہندوستان میں مختلف جگہوں پر مطلب کھولے جاسکتے ہیں.اگر جیسا کہ میں نے اوپر لکھا ہے یہ لوگ علاوہ طب کے عربی کی تعلیم کی جماعتیں بھی کھول دیں تو تھوڑے ہی عرصہ میں مختلف علاقوں میں احمدیت کے مرکز قائم ہو سکتے ہیں.انشاء اللہ تعالی.در حقیقت طب تعلیم اور تجارت یہ تین بہترین ہتھیار تبلیغ کے ہیں اور انہی کے ذریعہ تبلیغ کو وسعت دی جاسکتی ہے.ہم نے تحریک جدید کے کام میں تجربہ کیا ہے کہ تعلیم کا ہتھیار اور علاج کا ہتھیارا کثر جگہ نہایت کامیاب ہوا ہے اور اشد ترین دشمن جو پہلے نفرت کرتے تھے، محبت سے پیش آنے لگ گئے ہیں.اسی طرح یہ بھی فیصلہ کر لینا چاہئے کہ جو طلبا جامعہ کی آخری جماعتوں سے فارغ ہو کر نکلیں ان کو سلسلہ کی کارکنی کے لئے دوسروں پر ترجیح دی جائے.اس طرح بھی ان جماعتوں کے طلبا کے لئے کام نکل سکتا ہے اور یہ جماعتیں بند کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے گی.اس فوری بچت کے علاوہ بعض اور اصلاحات بھی میرے ذہن میں ہیں جن پر غور کر لیا جائے.یہ اصلاحات بھی آئندہ چند سال میں جا کر اخراجات میں خاص کمی کر دیں گی اور موجودہ حالات کے لحاظ سے کام میں بھی ان سے ترقی ہو جائے گی.(۱) مدرسہ احمدیہ کی نسبت میرا ہمیشہ یہ خیال رہا ہے اور اب بھی ہے کہ اگر حالات مساعدت کریں تو اس کی جماعتیں شروع سے الگ رہیں تا کہ دین کا خالص ماحول پیدا ہو جائے اور میں ہمیشہ اس امر پر زور دیتارہا ہوں کہ اس کی چھوٹی جماعتیں بھی الگ رہیں.لیکن عملاً آکر ایک وقت معلوم ہوئی ہے 672

Page 685

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از تقریر فرمودہ 16 اپریل 1938ء جس کا حل اس وقت ہمارے پاس نہیں ہے اور وہ یہ کہ مالی وقت کی وجہ سے مدرسہ کا عملہ ہمیشہ ایسا مقرر ہوتا رہا ہے جو حساب، جغرافیہ وغیرہ کی اعلیٰ لیاقت پیدا کرنے کا اہل نہ تھا اور اسی طرح انگریزی کی اعلیٰ تعلیم جس کے نتیجہ میں مبلغ انگریزی لیکچر وغیرہ دے سکیں کبھی نہیں دی گئی اور موجودہ حالت میں نہیں دی جاسکتی.نتیجہ یہ ہوا ہے کہ مدرسہ احمدیہ کے سات سالہ نصاب اور جامعہ کے چار سالہ نصاب کے باوجود ان کی انگریزی اور دنیوی واقعیت بالکل کم ہوتی ہے.دوسری طرف ہائی سکول میں یہ نقص ہوا ہے کہ اس کے لئے دینیات کا اعلیٰ عملہ مہیا نہیں کیا گیا.جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ وہاں سے طلبا د مینیات کی نا مکمل تعلیم پا کر نکلتے ہیں.پس ان حالات کو دیکھتے ہوئے ) کہ ابھی ہماری مالی حالت ایسی نہیں کہ دو بوجھ ایک وقت میں اٹھا سکیں) اس وقت تک کے لئے کہ اللہ تعالیٰ ہماری مالی حالت کو اچھا کرے، میری تجویز یہ ہے کہ آئندہ انٹرنس پاس طلبا مدرسہ احمدیہ میں داخل کئے جائیں اور صرف تین سال کا کورس ہو.آئندہ چار سال تک ترتیب کے ساتھ نئی جماعت کا داخلہ روک دیا جائے.اس طرح چار سال میں مدرسہ کی تین جماعتیں رہ جائیں گی اور انٹرنس پاس طلبا لئے جانے شروع ہو جائیں گے.آج سے چار سال بعد انٹرنس پاس طلباء پانچویں جماعت میں داخل کئے جائیں جو آئندہ مدرسہ کی پہلی کلاس ، ہوگی تمام و نیوی علوم جواب پڑھائے جاتے ہیں، وہ اڑادیئے جائیں.سوائے انگریزی کے جو کالج کی لیاقت کے برابر ہو.جس کے لئے ایک لائق پروفیسر مقرر کیا جائے.اگر کسی وقف کنندہ کو انگلستان میں تعلیم دلائی جائے تو وہ معمولی گزارہ لے کر کام کر سکے گا اور خرچ میں بھی کوئی خاص زیادتی نہ ہوگی.نصاب میں اس امر کو مد نظر رکھا جائے کہ انگریزی میں کم سے کم ایف.اے تک کی لیاقت مولوی فاضل پاس کرنے تک لڑکوں میں پیدا ہو جائے.جو پانچ سال کے تعلیمی عرصہ کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی مشکل امر نہیں.صرف اچھے پروفیسر کی ضرورت ہوگی.اس دوران میں موجودہ عملہ کو دوسری جگہوں میں جذب کرنے کی کوشش کی جائے اور آہستہ آہستہ جب سب عملہ جذب ہو جائے یا ریٹائر ہو جائے تو یہ بھی کوشش کی جائے کہ مدرسہ کو کالج میں جذب کر دیا جائے اور صرف چار جماعتیں کر دی جائیں یا پانچ ہی رہیں اور شروع سے ہی طب کی تعلیم کو نصاب میں شامل کر لیا جائے.اس تجویز پر عمل کر کے چار سال کے عرصہ تک مدرسوں اور وظائف وغیرہ کی تخفیف سے میں سمجھتا ہوں کافی تخفیف ہو جائے گی اور چونکہ بنیاد اس تعلیم کی ہائی سکول ہو گا.اس کی دینیات کی طرف زیادہ توجہ ہو جائے گی اور یہ زائد فائدہ ہوگا.جیسا میں نے کہا ہے میں دینیات کے ماحول کو بچپن سے شروع کرنا پسند کرتا ہوں.لیکن 673

Page 686

اقتباس از تقریر فرموده 16 اپریل 1938ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول سر دست مالی مشکلات اور عملہ کی وقتوں کو دور کرنے کا یہ اچھا ذریعہ ہے.اس کے بعد جب حالات درست ہوں، بالکل ممکن ہے کہ ضروری ماحول ہائی سکول میں ہی پیدا کرنے کی رائج الوقت قانون اجازت دے دے یا پھر نئے سرے سے مدرسہ کی جماعتیں کھول دی جائیں.چھوٹی جماعتیں ہر وقت آسانی سے کھولی جاسکتی ہیں.اس میں کوئی دقت نہیں ہے.اس تجویز سے یہ بھی فائدہ ہوگا کہ انگریزی تعلیم کی زیادتی کی وجہ سے ان طلباء کو مولوی فاضل کے بعد بی.اے کرنے میں دقت نہ ہوگی اور جوسرکاری ملازمتیں کرنا چاہیں گے ، انہیں اس میں آسانی رہے گی.(۲) آئندہ جو نئے کارکن لئے جائیں ، وہ حتی الوسع وقف کنندگان میں سے لئے جائیں جو تحریک جدید کی شرائط کے ماتحت اپنے آپ کو پیش کریں اور اس طرح ایسے بجٹوں سے چھٹکارا حاصل کیا جائے جو باقاعدہ بڑھتے چلے جاتے ہیں.ہاں یہ اصول مد نظر رہنا چاہئے کہ ایک خاص فنڈ ایسے لوگوں کی خاص ضرورتوں کے لئے کھول دیا جائے جیسے شادی بیاہ ہے، خاص بیماری ہے یا وفات کی صورت میں بچوں کا گزارہ ہے.مکان کی ضروریات ہیں اور ایسے فنڈ کے لئے مثلاً دس فیصدی سلسلہ کی آمد ریز روفنڈ کے طور پر جمع ہوتی جائے.موجودہ کارکنوں میں بھی اس قسم کے اصول پر کام کرنے کی تحریک کی جائے.لیکن جو اپنی خوشی سے اس کے لئے تیار نہ ہوں انہیں مجبور نہ کیا جائے.جو پرانے کارکنوں میں سے وقف کریں ان کی تنخواہوں میں تنزل نہ کیا جائے.ہاں آئندہ ترقیات بند کی جائیں اور امداد صرف اس اصل پر دی جائے کہ رقم زیادہ ہو جائے تو بطور خاص بونس یعنی عطیہ کے رقم دی جائے.اگر روپیہ آ گیا تو امداد ملے ورنہ نہیں.ایسے لوگوں کو جو وقف کنندہ نہ ہوں ملازمت میں توسیع نہ دی جائے.بناوٹ اور نمائش کو بند کرنے کے لئے یہ قاعدہ ہو کہ صرف وہی لوگ وقف کر سکتے ہیں جو ابھی اپنے گریڈ کی انتہاء کو نہیں پہنچے.جو گریڈ کی انتہاء کو پہنچ چکے ہوں ان کے لئے وقف بے معنی ہو جاتا ہے.(۱) ہر غیر شادی شدہ کارکن کو پندرہ روپیہ ماہوار ، شادی شدہ کو ہمیں اور چار بچوں تک تین روپیہ ماہوار کی زیادتی ہو کر آخری رقم گزارہ کی بتیس روپیہ ہوگی.یہ رقم گریجوایٹ اور غیر گریجوایٹ سب کے لئے یکساں ہوگی.(۲) اگر کسی نفع رساں کام پر کسی وقف کنندہ کو لگایا جائے گا تو علاوہ گزارہ کے نفع میں سے بھی اسے حصہ دیا جائے گا.(۳) اگر خدانخواستہ کسی وقت اس قدر گزارہ بھی ان کو نہ دیا جا سکے تو حسب وعده وقف کنندگان 674

Page 687

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از تقریر فرموده 16 اپریل 1938ء دوسرے کام کر کے اپنے گزارے کریں گے اور جن کو بھی اس طرح عارضی طور پر فارغ کیا جائے یا مستقل طور پر انہیں کوئی عذر نہ ہوگا.(۴) جولوگ غیر شادی شدہ ہوں گے، انہیں ایسی صورت میں بغیر خرچ کے پھر کر تبلیغ کرنی ہوگی.(۵) جو شادی شدہ سلسلہ کے لئے رکھ لئے جائیں گے، انہیں ایسے ایام میں اس اصول پر کام کرنا ہوگا کہ سائز کا بجٹ تیار ہو کر جو تم بچے اسے ان میں بانٹ دیا جائے ، خواہ کس قدر رقم ہی کیوں نہ بچے.(1) اس کے مقابل اگر تحریک کی آمد مستقل پیمانہ پر بڑھ جائے تو انہیں حسب لیاقت و اہمیت خدمت خاص عطیہ ( یعنی بونس ) دیا جائے گا.اس عطیہ کی کمی زیادتی کے بارہ میں بعد میں قوانین تجویز کئے جائیں گے.رپورٹ مجلس شورٹی منعقد ہ 15 تا 17 اپریل 1938ء) 675

Page 688

Page 689

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول " اقتباس از خطبه جمعہ فرمودہ 20 جنوری 1939ء تحریک جدید خلیفہ کی طرف سے جماعت کی آزمائش ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 20 جنوری 1939ء میں پہلے تو تحریک جدید کے چندہ کے متعلق دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اب وعدوں کی میعاد ختم ہونے کے قریب آرہی ہے لیکن بہت سی جماعتیں ابھی ایسی ہیں جنہوں نے ابھی تک جوابات نہیں دیئے.گوجن جماعتوں کے جواب آئے ہیں یا جن دوستوں نے اس چندہ میں شمولیت اختیار کی ہے انہوں نے گزشتہ سالوں سے زیادہ حصہ لیا ہے لیکن پھر بھی ابھی تین سو کے قریب جماعتیں ایسی ہیں جن کی طرف سے جوابات موصول نہیں ہوئے.گو یہ اطلاعات آرہی ہیں کہ وہ فہرستیں تیار کر رہی ہیں اور جلد ہی تیار ہونے کے بعد بھیج دیں گی.اسی طرح قادیان میں بھی محلہ جات کی فہرستیں ابھی مکمل نہیں ہوئیں.جیسا کہ میں پہلے بھی کئی دفعہ بتا چکا ہوں.قادیان کے لوگوں کے لئے خصوصا اور بیرون جات کے لوگوں کے لئے عموماً 1939ء اور 1940 ء مالی لحاظ سے امتحان کے سال معلوم ہوتے ہیں کیونکہ اس میں اتنی چندہ کی تحریکیں ہوئی ہیں کہ شاید اس سے پہلے جماعت میں کبھی بھی اتنی تحریک میں نہیں ہوئیں.ماہواری چندوں کی باقاعدہ ادائیگی بلکہ ان میں زیادتی کا اعلان مرکز سلسلہ کی طرف سے کیا جا چکا ہے اور بہت سے دوست اس میں زیادتی کی طرف مائل ہیں.گو بہت سے ست بھی ہیں.اسی طرح تحریک جدید کا چندہ علاوہ ان ماہواری چندوں کے ہے." 22 چندہ عام جو ہے یہ جماعت کی طرف سے چندہ ہے یعنی ایک جماعتی اور نظامی فیصلہ کے ماتحت لوگ چندہ دیتے ہیں اور یہ جماعت کے افراد کی ایک آزمائش ہے.جماعت کہتی ہے آؤ ہم اپنے اندر شامل ہونے والوں کی آزمائش کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ کہاں تک قربانی کا مادہ اپنے اندر رکھتے ہیں.تحریک جدید خود خلیفہ کی طرف سے ہے.گویا دوسری آزمائش خلیفہ کی طرف سے شروع ہے اور اس نے کہا ہے کہ آؤ میں بھی اس سال جماعت کی آزمائش کروں.خلافت جو بلی کی تحریک نہ جماعت کی طرف سے ہے اور نہ خلیفہ کی طرف سے.بعض دوستوں کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا اور جماعت کے باقی 677

Page 690

اقتباس از خطبه جمعه فرمود و 20 جنوری 1939ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول دوستوں نے اس خیال کے ساتھ اتفاق کا اظہار کر دیا.پس یہ ایک ایسی تحریک ہے جس میں ہر شخص اپنا آپ امتحان لیتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہ کس قدر قربانی کا مادہ اپنے اندر رکھتا ہے.غرض ہماری جماعت کے تمام دوستوں نے اپنے آپ کو انفرادی طور پر اس امتحان کے لئے پیش کر دیا.انہوں نے کہا ہمارا امتحان نظام سلسلہ نے بھی لیا ، ہمارا امتحان خلیفہ نے بھی لیا، آؤ ہم آپ بھی اپنا امتحان لیں.تب اللہ تعالیٰ نے عرش سے کہا ہم بھی اس امتحان میں اپنی طرف سے ایک سوال ڈال دیتے ہیں.پس یہ کیسا عظیم الشان ابتلا ہے جو اس سال ہماری جماعت پر آیا ہے.خدا نے بھی ہماری جماعت کا ایک امتحان لیا ہے، خلیفہ نے بھی جماعت کا ایک امتحان لیا ہے، نظام سلسلہ نے بھی جماعت کا ایک امتحان لیا ہے اور ہر فرد نے بھی انفرادی طور پر اپنا اپنا امتحان لیا ہے.گویا چاروں گوشے جو تکمیل کے لئے ضروری ہیں، وہ اس امتحان میں پائے جاتے ہیں.آخر انسان کے تعلقات کی کیا نوعیت ہے.اس کے چار ہی قسم کے تعلقات ہوتے ہیں یا اس کا اپنے نفس کے ساتھ تعلق ہوتا ہے یا دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلق ہوتا ہے یا روحانی یا جسمانی حاکم سے اس کا تعلق ہوتا ہے اور یا پھر خدا تعالیٰ سے تعلق ہوتا ہے.اس سال یہ چاروں ہی ابتلا آ گئے.جماعتی امتحان بھی جاری ہے، خلیفہ کا امتحان بھی جاری ہے، خود اپنے نفس کے امتحان کے لئے بھی جماعت کے ہر فرد نے اپنے آپ کو پیش کر دیا ہے.صرف اللہ تعالیٰ کا ایک امتحان رہتا تھا.سو یہ تینوں ابتلا دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے کہا آؤ ہم بھی ان کے سامنے ایک امتحانی پرچہ رکھ دیتے ہیں.پس اس نے بھی جماعت کا ایک امتحان لیا اور اس طرح ہمارے امتحان کے چار پرچے ہو گئے.اب وہ شخص جو ان چاروں پر چوں میں پاس ہو جائے اس سے زیادہ خوش نصیب اور کون شخص ہو سکتا ہے؟ پس آج ہماری جماعت میں سے ہر شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ جماعتی امتحان میں بھی کامیاب ہو، خلیفہ کے امتحان میں بھی کامیاب ہو نفس کے محاسبہ کے امتحان میں بھی کامیاب ہواور خدا تعالیٰ کے امتحان میں بھی کامیاب ہو.بے شک امتحان سخت ہے.ایک نہیں چار امتحان ہیں لیکن پھر ان چاروں امتحانوں کے بعد کوئی قسم امتحان کی باقی نہیں رہ جاتی.اٹھی امتحان بھی اس سال ہو رہا ہے، ملی امتحان بھی اس سال ہو رہا ہے، ذاتی امتحان بھی اس سال ہو رہا ہے اور خلیفہ وقت کی طرف سے بھی امتحان اس سال ہو رہا ہے.بندوں کے ابتلاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ابتلا کا شامل ہو جانا ایک بہت بڑی برکت کا پیش خیمہ ہے کیونکہ بندوں کو دوسرے بندوں پر رحم آئے یا نہ آئے.کیونکہ کسی انسان کو کیا پتہ کہ دوسرے کو 678

Page 691

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 20 جنوری 1939ء کیا تکلیف ہے اور اس نے کن مخالف حالات میں قربانی کی ہے؟ اللہ تعالیٰ کو ضرور رحم آجاتا ہے کیونکہ وہ عالم الغیب ہے اور وہ جب کوئی ابتلا اپنے بندوں پر وارد کرتا ہے تو ساتھ ساتھ عالم الغیب ہونے کی وجہ سے ان کے حالات بھی دیکھتا جاتا ہے اور جب اسے رحم آتا ہے تو وہ اگلی پچھلی تمام کسریں نکال دیتا ہے.جیسے قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت یوسف کے زمانے میں ایک بادشاہ کو یہ خواب دکھایا گیا کہ سات سال قحط پڑے گا مگر جب سات سال گزر جائیں گے تو اللہ تعالیٰ کو رحم آئے گا اور وہ پچھلے سارے نقصانات پورے کردے گا تو اگر صرف بندوں کے امتحان ہوتے تو وہ تم کو بدلہ نہیں دے سکتے تھے.مثلاً جماعت چندوں کے مقابلہ میں تمہیں کیا دے سکتی ہے یا میں تحریک جدید کے بدلہ میں تمہیں کیا دے سکتا ہوں یا خلافت جوبلی فنڈ میں حصہ لینے کی وجہ سے وہ لوگ تمہیں کیا بدلہ دے سکتے ہیں جنہوں نے یہ تحریک کی ؟ انسانوں میں سے کوئی ان چیزوں کا بدلہ نہیں دے سکتا.پس جب کوئی انسان اس کا بدلہ نہیں دے سکتا تو اللہ تعالیٰ نے خود اپنا حصہ اس میں ڈال دیا اور خدا تعالیٰ جب لیا کرتا ہے تو وہ دیا بھی کرتا ہے.خدا تعالیٰ نے کہا جماعت پر اس وقت تین ابتلا ہیں.آؤ میں بھی ان ابتلاؤں میں اپنی طرف سے ایک اور ابتلا کا اضافہ کر کے شامل ہو جاؤں تا کہ ان کی قربانیاں بے بدلہ کے نہ رہیں اور میری طرف سے انہیں اتنا کثیر بدلہ مل جائے جو باقی کی تین قربانیوں کے بدلہ پر بھی حاوی ہو جائیں.....( مطبوعه الفضل 8 فروری 1939 ء ) 679

Page 692

Page 693

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 27 جنوری 1939ء پر زور تبلیغ کی اہمیت اور ضرورت خطبہ جمعہ فرمودہ 27 جنوری 1939ء میں نے پچھلے سے پچھلے جمعہ میں قادیان کی جماعت کو تبلیغ احمدیت کے لئے اپنے آپ کو بطور والینٹیر پیش کرنے کی تحریک کی تھی اور اس کے مطابق واقفین کی لسٹیں میرے پاس پہنچ گئی ہیں.میں نے تحریک جدید اور نظارت دعوۃ و تبلیغ کے سپرد یہ کام کیا ہے کہ وہ پہلے ایسے علاقوں کے لئے جہاں تبلیغ کے لئے خاص طور پر ضرورت ہے، آدمی چن لیں اور پھر بقیہ لوگوں کو ان علاقوں میں کام کرنے کی اجازت دے دیں جن کو وہ خود ترجیح دیتے ہیں.تبلیغ ایسا ضروری فرض ہے کہ جو الہی جماعتوں کے ابتدائی زمانہ میں سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے کیونکہ وہ پروگرام جو اللہ تعالی کی طرف سے الہی جماعتوں کو دیا جاتا ہے اس کو تفصیلی طور پر پورا کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ بعض علاقوں میں یا ملکوں میں اس جماعت کی اکثریت ہو.خالی شہروں کی اکثریت کافی نہیں ہوتی بلکہ وسیع علاقوں اور ملکوں میں ہی وہ احکام نافذ کئے جا سکتے ہیں جو سوسائٹی کے ساتھ بحیثیت جماعت تعلق رکھتے ہیں.پس اسلام کی وہ تشریح جو حضرت مسیح موعود کے ذریعہ ہمیں ملی ہے اور اسلام کا وہ دور جو دنیا میں آج سے تیرہ سو سال قبل گزرا ہے.اس تشریح پر عمل اور اس دور کا قیام اسی صورت میں ممکن ہے کہ جبکہ ہم وسیع علاقہ میں اپنی اکثریت پیدا کر لیں اور پھر باہمی اتحاد اور فیصلہ کے ساتھ اس قانون اور شریعت کو رائج کریں جس کو اسلام نے ہم میں رائج کرنا چاہا ہے.وو و قرآن کریم کی تعلیم کو عملی صورت میں کسی علاقے میں ظاہر کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کوئی وسیع علاقہ ایسا ہو جہاں جماعت احمدیہ کلی طور پر موجود ہو یا بہت بڑی اکثریت رکھتی ہو اور یہ غرض پوری نہیں ہوسکتی جب تک کہ منتظم صورت میں تبلیغ نہ کی جائے مختلف علاقے لے لئے جائیں اور ان میں منظم طور پر پورے زور کے ساتھ تبلیغ کی جائے یہاں تک کہ وہ علاقہ ظاہر ہو جائے جسے اللہ تعالیٰ نے اس سعادت کے لئے مقرر فرمایا ہو.681

Page 694

اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 27 جنوری 1939ء دو وو تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد اول....اس کے بعد میں بیرونی جماعتوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلد از جلد واقفین کی فہرستیں تیار کر کے بھجوا دیں تا ان کے علاقوں میں بھی تبلیغ کے نظام کو مکمل کیا جائے.شروع میں کام کرنے والوں کے لئے بے شک وقتیں ہوں گی لیکن اگر ہمت اور ارادہ ہو تو مشکلات خود بخود دور ہو جایا کرتی ہیں“.صرف ضرورت ارادہ کی ہے اور اخلاص کی.پس میں بیرونی جماعتوں کی بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور ہر بالغ مرد ، عورتوں کو میں ابھی مجبور نہیں کرتا.گو وہ اپنی خدمات پیش کریں تو شکریہ کے ساتھ قبول کی جائیں گی مگر ان کی یہ خدمت طوعی ہوگی لیکن ہر بالغ مرد احمدی سے میں امید کرتا ہوں کہ وہ اپنا وقت اس کام کے لئے دے گا اور یہ ذمہ داری لے گا کہ خواہ کتنا وقت کیوں نہ دینا پڑے وہ ایک یا دو یا تین یا ان سے زیادہ احمدی سال میں ضرور بنائے گا.پس تمام جماعتیں ایسی فہرستیں تیار کر کے جلد بھجوا دیں تا ان کے لئے کام کی سکیم بنادی جائے اور اگر اس سکیم کی اہمیت کو مد نظر رکھا جائے تو چند سال میں ہی ہندوستان کی کایا پلٹ سکتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ سیاسی طور پر اسلام اس وقت نہایت نازک دور سے گزر رہا ہے.ایسے نازک دور سے کہ اگر اس وقت اس کی حفاظت کے لئے کوئی جماعت کھڑی نہ ہوگی تو اس کے مٹ جانے میں کوئی شبہ نہیں.یوں تو مسلمان بے شک دنیا میں رہیں گے مگر نام کے مسلمانوں سے اسلام کو کیا فائدہ؟ قرآن دنیا میں اس لئے نہیں آیا تھا کہ اسے جزدانوں میں بند کر کے رکھا جائے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں اس لئے نہیں آئے تھے کہ لوگ منہ سے آپ کو خدا کا رسول تسلیم کر لیں بلکہ اس لئے آئے تھے کہ خدا تعالی کی تعلیم کو دنیا میں قائم کریں.اگر یہ نہیں تو مسلمانوں کا وجود تعداد میں خواہ کتنا کیوں نہ بڑھ جائے ، بے فائدہ ہے." اس نازک موقعہ پر ایک جماعت احمدیہ ہی ہے جس سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے مقابلہ کے میدان میں آگے آئے گی اور جلد اسلام کے حقیقی پیروؤں کی اتنی تعداد پیدا کرلے گی کہ جو دنیا کا مقابلہ آسانی سے کر سکے.گو باہر سے بھی اطلاعات آنی شروع ہوگئی ہیں مگر اس کے لئے آخری تاریخ 8 مارچ مقر ر ہے.یہ خطبہ دیر سے چھپ رہا ہے اس لئے میں ہندوستان کے لئے 8 مارچ کی تاریخ مقرر کر دیتا ہوں.دعوت وتبلیغ کو چاہئے جس طرح تحریک جدید کا عملہ محنت کر کے سب جماعتوں سے وعدہ لکھوا چکا ہے وہ بھی خاص زور دے کر فہرستیں مکمل کریں اور سلسلہ کے اخبار اس کام میں ان کی پوری مدد کریں اور اس لحاظ سے وقت بہت کم ہے.اس لئے میں پھر دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس سے بہت 682

Page 695

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 27 جنوری 1939ء زیادہ جدو جہد کی ضرورت ہے جو وہ کر رہے ہیں.قادیان سے فہرستیں آچکی ہیں اور ان کو بہت جلد تحریک جدید و نظارت دعوۃ وتبلیغ کی طرف سے ان کے فرائض سے مطلع کر دیا جائے گا اور میں ہر ایک احمدی سے امید رکھتا ہوں کہ وہ پوری محنت ، و ہمت اور کوشش سے کام کرے گا.اس کے بعد میں قادیان کے دوستوں کو بھی اور باہر والوں کو بھی تحریک جدید کے مالی حصہ کی طرف متوجہ کرتا ہوں.یاد رکھنا چاہئے کہ دس فروری کے بعد کوئی وعدے قبول نہیں کئے جائیں گے.میں نے کل دفتر سے لسٹ منگوائی تھی اور مجھے افسوس ہے کہ قادیان میں بھی ابھی بہت سے ایسے دوست ہیں جنہوں نے توجہ نہیں کی.وہ ایسے نہیں کہ ہم خیال کریں کہ مالی مشکلات کی وجہ سے حصہ نہیں لے سکے بلکہ ایسے ہیں جو کسی نہ کسی صورت میں حصہ لے سکتے ہیں.باہر کی بعض بڑی جماعتوں کی فہرستیں بھی تاحال نہیں آئیں جیسا کہ دفتر کی اطلاعات سے معلوم ہوا ہے.میں جانتا ہوں کہ وعدوں کا زور آخری دنوں میں بہت ہوتا ہے.جو مخلص ہیں وہ تو پہلے دنوں میں ہی توجہ کرتے ہیں.پھر درمیان میں رو کم ہو جاتی ہے اور پھر جب آخری دن ہوتے ہیں تو پھر رو تیز ہو جاتی ہے کیونکہ دوستوں کو خیال ہوتا ہے کہ اب وقت ختم ہونے کو ہے مگر ان کو اچھی طرح یا درکھنا چاہئے کہ دس فروری کے بعد یا با ہر کے جس خط پر گیارہ فروری کے بعد کی مہر ہوگی ایسا کوئی وعدہ قبول نہیں کیا جائے گا جبکہ حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک جماعت خدمت کرنے والوں کی تیار کرنا چاہتا ہے اور کئی لوگوں کے خوابوں میں اس کی تائید ہو چکی ہے.سینکڑوں لوگوں کو اس کے متعلق الہامات ہو چکے ہیں تو پھر پیچھے رہنا کس قدر بدنصیبی ہے؟ پس ہر ایک شخص جو تھوڑا بہت بھی حصہ لے سکتا ہے مگر نہیں لیتا اس کی بدقسمتی میں کوئی شبہ نہیں.کئی لوگ محض اس لئے چکچاتے ہیں کہ وہ خیال کرتے ہیں کہ پہلے ہم نے زیادہ حصہ لیا تھا اب کم کس طرح لیں؟ حالانکہ شرائط کے مطابق ایسا کرنا جائز ہے.اس سے زیادہ حماقت اور کیا ہو سکتی ہے کہ جو شخص سابقون میں شامل نہ ہو سکے وہ دوسرے درجہ میں بھی نہ ہو.ایسا خیال کرنا نادانی اور ثواب کی ہتک ہے.ثواب خواہ کتنا ہی تھوڑا کیوں نہ ہو ، حاصل کرنا چاہئے.اگر کسی نے پچھلے سال سور و پیر دیا مگر اس سال وہ سمجھتا ہے کہ میں پانچ ہی دے سکتا ہوں اس لئے چندہ لکھوانے سے رکتا ہے کہ اس سے میری ہتک ہوگی تو وہ عزت کو ثواب پر مقدم کرتا ہے حالانکہ ثواب کو عزت پر مقدم کرنا چاہئے.اگر تو وہ واقعی معذور ہے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کے پانچ روپے بھی پانچ سو کے برابر ہیں اور اگر وہ معذور نہیں تو جو درجہ وہ ایمان کا اپنے لئے تجویز کرتا ہے اسی کے مطابق اللہ تعالیٰ سے اجر پائے گا.683

Page 696

اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 27 جنوری 1939ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول پس قادیان کے دوستوں کو بھی اور باہر والوں کو بھی میں ایک دفعہ متوجہ کرتا ہوں کہ بہت تھوڑے دن باقی رہ گئے ہیں.بعد میں بیسیوں لوگ خط لکھتے ہیں کہ ہم سے غلطی ہوگئی معاف کر دیں اور وعدہ قبول کر لیں حالانکہ جب ہم نے ایک قانون بنا دیا تو معافی کے کیا معنی؟ پس جنہوں نے بعد میں معافی مانگنی ہے ، وہ ابھی ہوشیار ہو جائیں.اس سال چونکہ اس سکیم کی پوری وضاحت کر دی گئی ہے.اس لئے آئندہ کوئی نیا وعدہ قبول نہیں کیا جائے گا سوائے ان کے جو ثابت کر دیں گے کہ وہ نئے احمدی ہوئے ہیں یا بے کار تھے.مثلاً کوئی اب طالب علم ہے اور اگلے سال کام پر لگے یا جن کو اس تحریک کا پہلے علم نہیں ہوا تھا.بیسیوں ایسے لوگ ہیں جو اس سال لکھتے ہیں کہ پہلے ہم نے حصہ نہیں لیا تھا مگر اب اس سکیم کی اہمیت ہم پر واضح ہوگئی ہے اس لئے شامل ہونا چاہتے ہیں.اس سال تو میں نے ایسے لوگوں کو اجازت دے دی ہے مگر آئندہ سال نہیں دی جائے گی کیونکہ اب اس کی پوری وضاحت کر چکا ہوں سوائے ان کے جو ثابت کر دیں گے کہ وہ نئے احمدی ہوئے ہیں یا پہلے کوئی آمد نہ رکھتے تھے یا ان کو اس تحریک کا علم ہی نہیں ہوا.ایسے لوگوں کے سوا کسی احمدی کا وعدہ قبول نہ کیا جائے گا خواہ وہ کتنی منتیں کیوں نہ کرے.جو اس سال شامل ہوگا وہی آئندہ شامل ہو سکے گا کیونکہ وہی اس قابل ہے کہ اس کا نام تاریخ میں محفوظ رہے.پس یہ آخری اعلان ہے جس سے دوستوں کو پورا فائدہ اٹھانا چاہئے.ممکن ہے کہ بعض جماعتوں کے سیکرٹری یا پریزیڈنٹ ستی کر رہے ہوں اور دوست سمجھتے ہوں کہ ہمارے وعدے پہنچ چکے ہیں.دفتر کو چاہئے کہ ایسے مقامات پر کئی لوگوں کو اطلاع بھیج دے کہ ان کے وعدے تاحال نہیں پہنچے اور جن کو وعدوں کی منظوری کی اطلاع دفتر سے نہیں پہنچی ان کو بھی چاہئے کہ اچھی طرح اطمینان کر لیں.ایسا نہ ہو کہ رہ جائیں.ابھی وقت ہے کہ اصلاح کر لیں لیکن اگر انہوں نے نہ کرائی تو پھر یہ عذر نہیں سنا جائے گا کہ ہم نے تو وعدہ بھیج دیا تھا.سیکرٹری یا پریزیڈنٹ پر ذمہ داری ہے.یہ تحریک چونکہ طوعی ہے اس لئے ہر فرد براہ راست ذمہ دار ہے.پس ہر فرد کو یہ اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ صرف انہی کے وعدے قبول کئے جائیں گے جو وقت پر پہنچا دیں گے.اگر کسی جماعت کے سیکرٹری یا پریذیڈنٹ ستی کرتے ہیں تو دوستوں کو چاہئے کہ خود براه راست وعدے بھیج دیں اور اگر انہوں نے خود بھی نہ بھیجے تو ہم یہی سمجھیں گے کہ عہدیداروں کی ستی میں وہ خود بھی شامل ہیں.684

Page 697

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 27 جنوری 1939ء خطبہ تاریخ گزشتہ کے بعد شائع ہو رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے مخلصین غیر معمولی اخلاص کا ثبوت دے چکے ہیں اور وعدے گزشتہ سال سے بڑھ گئے ہیں.الحمد للہ علی ذلک.میں اس خطبہ کی شرائط میں اس قدر اصلاح کرتا ہوں کہ جنہوں نے سیکرٹریوں سے وعدے لکھنے کو کہا اور انہوں نے وعدہ نہ بھجوایا.اگر وہ بعد میں اس کا علم ہونے پر نام لکھوانا چاہیں تو لکھوا سکتے ہیں.نیز یہ بھی یادر ہے کہ چونکہ اب دس سالہ میعاد مقرر ہے اور حقیقی طور پر الہی فوج کے سپاہی وہی کہلا سکتے ہیں جو دسوں سال حصہ لیتے رہے ہیں اس لئے جن لوگوں نے سابق میں معافی لے لی تھی وہ اگر ان کامل سپاہیوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو انہیں گزشتہ رقوم بھی ادا کرنی چاہئیں ورنہ وہ دس سالہ قربانی کرنے والوں میں شامل نہیں ہو سکتے.ہاں اپنی قربانی کے مطابق ثواب ضرور حاصل کر لیں گے.پس جنہوں نے کسی سابق سال کا چندہ نہیں دیا یا معافی لے لی تھی اور اب وہ دس سالہ سکیم میں شامل ہونے کی تڑپ رکھتے ہیں انہیں اب گزشتہ کی تلافی کر لینی چاہئے.ہاں ان کی سابقہ رقوم کی ادائیگی کے لئے محکمہ مناسب سہولت دے سکتا ہے.جس کا فیصلہ وہ محکمہ سے بذریعہ خط و کتابت کرلیں.( مطبوعه الفضل 3 مارچ 1939 ء ) 685

Page 698

Page 699

تریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 17 فروری 1939ء ہماری جماعت تلوار سے نہیں بلکہ نظام اور تبلیغ سے جیتنے والی ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 17 فروری 1939ء جب تک کسی قوم میں دیانت نہیں اس وقت تک نہ اس قوم میں حکومت رہ سکتی ہے نہ حکومت لے سکتی ہے اور اگر بالفرض وہ بھی اپنی کثرت تعداد کی بنا پر حکومت لے بھی لے تو وہ حکومت کو سنبھال نہیں سکتی مگر یہ چیز صرف حکومت سے تعلق نہیں رکھتی کہ یہ کہا جائے کہ آپ حکومت کی بات لے بیٹھے ہیں.جماعت احمدیہ کی بات کیوں نہیں کرتے.حقیقت یہ ہے کہ طاقت اور جتھا حکومتوں سے ہی وابستہ نہیں ہوتا بلکہ قوموں سے بھی وابستہ ہوتا ہے اور بعض قو میں تو تلوار سے جیتی ہیں اور بعض نظام اور تبلیغ سے جیتی ہیں.ہماری جماعت تلوار سے جیتنے والی نہیں بلکہ نظام اور تبلیغ سے جیتنے والی ہے اور نظام اور تبلیغ سے جیتنے والی جماعتوں کو دیانت کی ان جماعتوں سے بھی زیادہ ضرورت ہوتی ہے جو تلوار سے جیتی ہیں اس لئے کہ جن قوموں کے پاس تلوار ہو وہ تو بد دیانتوں کا تلوار سے سر اڑ سکتی ہیں مگر جن کے پاس تلوار نہ ہو انہیں بددیانتی بہت زیادہ نقصان پہنچایا کرتی ہے کیونکہ ان کے پاس بد دیانتوں کا کوئی علاج نہیں ہوتا.انگریزوں میں یا فرانسیسیوں میں یا جرمنوں میں جب کوئی شخص غداری کرتا ہے تو انگریز ، فرانسیسی اور جر من اس پر مقدمہ کرتے اور مجرم ثابت ہونے پر اسے مار ڈالتے ہیں مگر جن کے پاس حکومت نہیں ہوتی اور جو تلوار سے کامیاب نہیں ہونا چاہتے بلکہ نظام اور تبلیغ سے کامیاب ہونا چاہتے ہیں، ان میں جب کوئی غدار پیدا ہو جاتا ہے تو اس کا سوائے اس کے اور کیا علاج کر سکتے ہیں کہ دلائل سے اس کا مقابلہ کریں مگر اس رنگ میں مقابلہ کرنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ غدار شور مچاتا رہتا ہے اور اس کو دیکھ کر بعض اور لوگ بھی جن کی فطرت میں غداری کا مادہ ہوتا ہے یہ خیال کرنے لگ جاتے ہیں کہ ان کے پاس طاقت تو ہے نہیں، چلو ہم بھی ذرا شور مچا دیں.چنانچہ وہ جماعت کو بدنام کرنے لگ جاتے ہیں.اس قسم کے مفاسد کو دور کرنے کا صرف ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ کہ غداری کا قلع قمع کر دیا جائے اور غداری کا قلع قمع اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک قوم میں ایسی روح پیدا نہ ہو کہ اس کا ہر فرد موت کو غداری پر ترجیح دے اور وہ کہیں کہ ہم مر جائیں گے مگر غداری نہیں کریں گے.( مطبوع افضل 15 مارچ 1939ء) 687

Page 700

Page 701

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول تحریک جدید اور خدام الاحمدیہ اقتباس از خطبه جمعه فرموده 7 مارچ 1939ء خطبہ جمعہ فرمودہ 7 مارچ 1939ء میں نے خدام الاحمدیہ کے سامنے ایک پروگرام پیش کر دیا ہے اور میں انہیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ان باتوں کو یا درکھیں جو میں نے بیان کی ہیں اور ہمیشہ اپنے آپ کو قومی اور ملکی خدمات کے لئے تیار رکھیں.دنیا میں قریب ترین عرصہ میں عظیم الشان تغییرات رونما ہونے والے ہیں اور درحقیقت ایک ہنگامی چیز کے طور پر میرے ذہن میں آئی تھی اور جب میں نے اس تحریک کا اعلان کیا ہے اس وقت خود مجھے بھی اس تحریک کی کئی حکمتوں کا علم نہیں تھا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک نیت اور ارادہ کے ساتھ میں نے یہ حکیم جماعت کے سامنے پیش کی تھی کیونکہ واقعہ یہ تھا کہ جماعت کی ان دنوں حکومت کے بعض افسروں کی طرف سے شدید ہتک کی گئی تھی اور سلسلہ کا وقار خطرے میں پڑ گیا تھا.پس میں نے چاہا کہ جماعت کو اس خطرے سے بچاؤں مگر بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی رحمت انسانی قلب پر تصرف کرتی اور روح القدس اس کے تمام ارادوں اور کاموں پر حاوی ہو جاتا ہے.میں سمجھتا ہوں میری زندگی میں بھی یہ ایسا ہی واقعہ تھا جبکہ روح القدس میرے دل پر اترا اور وہ میرے دماغ پر ایسا حاوی ہو گیا کہ مجھے یوں محسوس ہوا گویا اس نے مجھے ڈھانک لیا ہے اور ایک نئی سکیم، ایک دنیا میں تغیر پیدا کر دینے والی سکیم میرے دل پر نازل کر دی اور میں دیکھتا ہوں کہ میری تحریک جدید کے اعلان سے پہلے کی زندگی اور بعد کی زندگی میں زمین آسمان کا فرق ہے.قرآنی نکتے مجھ پر پہلے بھی کھلتے تھے اور اب بھی کھلتے ہیں مگر پہلے کوئی معین سکیم میرے سامنے نہیں تھی جس کے قدم قدم کے نتیجہ سے میں واقف ہوں اور میں کہہ سکوں کہ اس اس رنگ میں ہماری جماعت ترقی کرے گی مگر اب میری حالت ایسی ہی ہے کہ جس طرح انجینئر ایک عمارت بناتا اور اسے یہ علم ہوتا ہے کہ یہ عمارت کب ختم ہو گی ، اس میں کہاں کہاں طاقچے رکھے جائیں گے، کتنی کھڑکیاں ہوں گی، کتنے دروازے ہوں گے، کتنی اونچائی پر چھت پڑے گی.اسی طرح دنیا کی اسلامی فتح کی منزلیں اپنی بہت سکی تفاصیل اور مشکلات کے ساتھ میرے سامنے ہیں ، دشمنوں کی بہت سی تدبیریں میرے سامنے بے نقاب ہیں ، اس کی کوششوں کا مجھے علم ہے اور یہ تمام امور ایک وسیع تفصیل کے ساتھ میری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں.تب میں نے سمجھا کہ یہ واقعہ اور فساد خدا تعالیٰ کی خاص حکمت نے کھڑا کیا تھا تا وہ 689

Page 702

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 7 مارچ 1939ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول ہماری نظروں کو اس عظیم الشان مقصد کی طرف پھر ادے جس کے لئے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا.پس پہلے میں صرف ان باتوں پر ایمان رکھتا تھا مگر اب میں صرف ایمان ہی نہیں رکھتا بلکہ میں تمام باتوں کو دیکھ رہا ہوں.میں دیکھ رہا ہوں کہ سلسلہ کو کس کس رنگ میں نقصان پہنچایا جائے گا، میں دیکھ رہا ہوں کہ سلسلہ پر کیا کیا حملہ کیا جائے گا اور میں دیکھ رہا ہوں کہ ہماری طرف سے ان حملوں کا کیا کیا جواب دیا جائے گا.ایک ایک چیز کا اجمالی علم میرے ذہن میں موجود ہے اور اس کا ایک حصہ خدام الاحمدیہ ہیں اور در حقیقت یہ روحانی ٹریننگ اور روحانی تربیت ہے اس فوج کی جس فوج نے احمدیت کے دشمنوں سے مقابلہ میں جنگ کرنی ہے، جس نے احمدیت کے جھنڈے کو فتح اور کامیابی کے ساتھ دشمن کے مقام پر گاڑنا ہے.بے شک وہ لوگ جو ان باتوں سے واقف نہیں وہ میری ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ ہر شخص قبل از وقت ان باتوں کو سمجھ نہیں سکتا.یہ اللہ تعالیٰ کی دین ہے جو وہ اپنے کسی بندے کو دیتا ہے.میں خود بھی اس وقت تک ان باتوں کو نہیں سمجھا تھا جب تک اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ان امور کا انکشاف نہ کیا.پس تم ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے اور بے شک تم کہہ سکتے ہو کہ ہمیں تو کوئی بات نظر نہیں آتی لیکن مجھے تمام باتیں نظر آ رہی ہیں.آج نو جوانوں کی ٹریننگ اور ان کی تربیت کا زمانہ ہے اور ٹرینگ کا زمانہ خاموشی کا زمانہ ہوتا ہے.لوگ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ کچھ نہیں ہورہا مگر جب قوم تربیت پا کر عمل کے میدان میں نکل کھڑی ہوتی ہے تو دنیا انجام دیکھنے لگ جاتی ہے.در حقیقت ایک ایسی زندہ قوم جو ایک ہاتھ اٹھنے پر اٹھے اور ایک ہاتھ گرنے پر بیٹھ جائے دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر دیا کرتی ہے اور یہ چیز ہماری جماعت میں ابھی پیدا نہیں ہوئی.ہماری جماعت میں قربانیوں کا مادہ بہت کم ہے مگر ابھی یہ جذبہ ان کے اندر کمال کو نہیں پہنچا کہ جونہی ان کے کانوں میں خلیفہ وقت کی طرف سے کوئی آواز آئے اس وقت جماعت کو یہ محسوس نہ ہو کہ کوئی انسان بول رہا ہے بلکہ ان کو محسوس ہو کہ فرشتوں نے ان کو اٹھا لیا ہے اور صور اسرافیل ان کے سامنے پھونکا جارہا ہے.جب آواز آئے کہ بیٹھو تو اس وقت انہیں یہ معلوم نہ ہو کہ کوئی انسان بول رہا ہے بلکہ یوں محسوس ہو کہ فرشتوں کا تصرف ان پر ہو رہا ہے اور وہ ایسی سواریاں ہیں جن پر فرشتے سوار ہیں.جب وہ کہے کہ بیٹھ جاؤ تو سب بیٹھ جائیں، جب کہیں کہ کھڑے ہو جاؤ تو سب کھڑے ہو جائیں.جس دن یہ روح ہماری جماعت میں پیدا ہو جائے گی اس دن جس طرح باز چڑیا پر حملہ کرتا ہے اور اسے توڑ مروڑ کر رکھ دیتا ہے، اسی طرح احمدیت اپنے شکار پر گرے گی اور تمام دنیا کے ممالک چڑیا کی طرح اس کے پنجہ میں آجائیں گے اور دنیا میں اسلام کا پر چھم پھر نئے سرے سے لہرانے لگ جائے گا“.( مطبوعہ الفضل 7 اپریل 1939ء) 690

Page 703

ید- تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جون 1939ء تحریک جدید کے مطالبات کے متعلق جلسے کئے جائیں خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جون 1939ء سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں نے تحریک جدید کے متعلق گزشتہ سال بھی اس زمانہ میں ایک جلسہ مقرر کیا تھا اور اس سال پھر میں اس کے متعلق ایک جلسہ کا اعلان کرنا چاہتا ہوں اور اس کے لئے 15 اگست 1939 ء کی تاریخ مقرر کرتا ہوں.جمعہ میں اعلان 30 جولائی کا کیا تھا مگر اس تاریخ کو دعوت و تبلیغ کا مقرر کردہ جلسہ ہے.اس لئے تاریخ بدل دی گئی.جیسا کہ میں نے پہلی دفعہ بیان کیا تھا ایسے جلسوں کو کامیاب بنانے کے لئے مختلف محلوں میں اور مختلف مقامات پر چھوٹے چھوٹے جلسے کرنے ضروری ہیں اور ایسے کم سے کم تین جلسے ہونے ضروری ہیں.ایک عورتوں کا ایک نوجوانوں کا اور ایک بڑی عمر کے آدمیوں کا.اس کا یہ مطلب نہیں کہ تینوں جلسے اس طرح ہوں کہ ایک طبقہ کو دوسرے طبقہ کے جلسہ میں شریک ہونے کی اجازت نہ ہو بلکہ ہر جلسہ میں دوسرے لوگ بھی شامل ہوں.مثلاً نوجوانوں کے جلسہ میں یا بڑوں کے جلسہ میں علماء کی جو تقریریں ہوں اگر پس پردہ عورتیں بھی ان کو سن سکیں تو یہ نا مناسب نہیں بلکہ پسندیدہ ہے لیکن چونکہ ہر طبقہ کے لئے اس کے حالات کو دیکھتے ہوئے بعض مخصوص خیالات کا سننا اور سنوانا ضروری ہوتا ہے اس لئے علیحدہ علیحدہ جلسوں کی تجویز میں نے کی ہے اور ان جلسوں کے آخر میں 15 اگست کو ایک بڑا جلسہ ہو جس میں سب مرد، عورتیں ، جوان، بچے، بوڑھے شریک ہوں بلکہ شہر کے علاوہ علاقہ کے احمدی بھی شامل ہوں اور اس تحریک سے پوری طرح آگاہ ہوں.میں یہ بھی اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ بہت سے دوستوں کے وعدے تھے کہ وہ جون یا جولائی تک اپنے وعدے پورے کر دیں گے.اس کے لئے سب جماعتیں تحریک کریں کہ سب وعدے 15 اگست تک ادا ہو جائیں تا وہ ثواب میں چھ ماہ آگے بڑھ جائیں.آخر جور تم دینی ہے وہ دینی ہی ہے اور جو وقت پر یا وقت سے پہلے ادا کر دے وہ ثواب کا زیادہ مستحق ہو جاتا ہے.میں نے کئی دفعہ توجہ دلائی ہے کہ جولوگ اس بات کا خیال کرتے ہیں کہ آخری وقت پر وعدہ پورا کر دیں گے وہ کبھی اپنے ارادہ میں 691

Page 704

خطبہ جمعہ فرمود و 30 جون 1939ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول کامیاب نہیں ہو سکتے.وہ بالعموم نا کام رہتے ہیں اور ان کے کاموں میں سستی پیدا ہو جاتی ہے.جس طرح وہ لوگ جو اس انتظار میں رہتے ہیں کہ آخری وقت پر نماز ادا کرلیں گے بسا اوقات محروم رہ جاتے ہیں وہ انتظار ہی کرتے رہتے ہیں اور سورج چڑھ آتا ہے یا عصر کا وقت ہوتا ہے تو سورج غروب ہو جاتا ہے.پس کوشش کرنی چاہئے کہ نیکی کو وقت پر ادا کیا جائے اور نیکی کے معاملہ میں تجھیل سے کام لیا جائے.میں نے بار ہا وہ مثال دی ہے کہ جب ایک مخلص صحابی با وجود تیاری جنگ کی طاقت رکھنے کے اس خیال سے تاخیر کرتے رہے کہ بعد میں تیاری کرلوں گا لیکن بعد میں ایسے مواقع پیش آگئے کہ نہ کر سکے.نتیجہ یہ ہوا کہ جہاد کے ثواب سے الگ محروم رہے اور خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کے مورد علیحدہ ہوئے.حتی کہ ایسے تین صحابہ کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے بائیکاٹ کیا گیا.ان کے عزیز ترین دوستوں نے ان کا بائیکاٹ کر دیا بلکہ بعض کی بیویوں نے بھی بائیکاٹ کر دیا اور مسلمانوں کا ان سے بات چیت کرنا تو الگ رہا وہ ان کے متعلق کوئی اشارہ کرنا بھی پسند نہیں کرتے تھے اور یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ انہوں نے نیکی کرنے میں سستی سے کام لیا.حالانکہ ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ میرے پاس سامان موجود تھا مگر صرف ستی سے کام لیا اور کہا کہ میں تیاری کرلوں گا سب سامان میرے پاس موجود ہے.تو جب کوئی شخص نیکی میں تاخیر کرتا ہے تو اگر اس کے اندر کبر اور خود پسندی کا مادہ پیدا ہو جائے تو بعد میں اللہ تعالی اسے ثواب سے بھی محروم کر دیتا ہے اور اگر یہ نہ بھی ہو تو بھی کم سے کم ثواب کے اتنے دن تو گئے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کے رستہ میں خرچ کرتے اور اسے قرض دیتے ہیں خدا تعالیٰ ان کو وہی بڑھا کر واپس کرتا ہے.یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے اور اسے زیادہ نہ ملے.جس طرح کھیت میں بیج ڈالا جاتا ہے تو اس کے ایک ایک دانے سے ستر ستر دانے نکلتے ہیں اسی طرح جو شخص دین کی راہ میں قربانی کرتا ہے اسے ایک ایک کے ستر ستر بلکہ اس سے بھی زیادہ ملتے ہیں مگر بعض نادان اس امید میں رہتے ہیں کہ انہیں ایک کے ستر اسی دنیا میں مل جائیں.حالانکہ اس دنیا کی نعماء کی اخروی نعمتوں کے مقابلہ میں کوئی بھی حیثیت نہیں.اگر یہاں ایک کے ستر بلکہ سات سو بھی مل جائیں تو وہ اتنے مفید نہیں ہو سکتے کیونکہ ان کا اثر محدود ہوگا.اگر انسان کی اوسط عمر ستر سال بھی فرض کر لی جائے جو اس زمانہ میں ناممکن ہے، ہندوستان میں اوسط عمر میں بلکہ ستائیس سمجھی جاتی ہے لیکن اگر بفرض محال ستر سال بھی تسلیم کر لی جائے تو یہ عرصہ اس لمبے اور غیر محدود عرصہ کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں جو موت کے بعد شروع ہوتا ہے.یہاں یہ نعمتیں کس کام آسکتی ہیں اور اس محدود عرصہ میں ان سے کیا فائدہ اٹھایا جاسکتا 692

Page 705

تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول خطبہ جمعہ فرموده 30 جون 1939ء ہے؟ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی شخص سے کہا جائے کہ تمہیں اس پڑاؤ پر آرام مل سکتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب تم منزل مقصود پر پہنچ جاؤ تو تمہارے اور تمہارے بیوی بچوں کے لئے عمر بھر کے واسطے آرام کا انتظام ہو جائے.ان دونوں میں سے تمہیں کون سا آرام پسند ہے؟ تو ہر معقول انسان منزل پر پہنچ کر عمر بھر کے آرام کو ترجیح دے گا اور جب انسان کو ایک ایسی زندگی کے دور سے گزرنا ہے جس کے متعلق قرآن کریم نے خالداً اور ابداً کے الفاظ استعمال کئے ہیں تو ایسی ابدی اور خلود کی زندگی کے آرام پر اس چند روزہ زندگی کے آرام کو ترجیح دینا نا دانی نہیں تو اور کیا ہے مگر پھر بھی بعض نادان قربانی کرنے کے بعد یہ امید رکھتے ہیں کہ انہیں اسی زندگی میں مالی صورت میں نفع ملے اور جب وہ اس سے محروم رہتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ثواب کہ کاموں سے بھی محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ وہ ایسی چیز کو بدلہ قرار دیتے ہیں جو دراصل بدلہ نہیں ہوتا.حقیقت یہی ہے کہ اگر کسی عاقل کے سامنے یہ بات رکھی جائے کہ وہ اس چند روزہ زندگی کے بدلہ کو پسند کرتا ہے یا آخرت کے غیر محدود انعامات کو؟ تو وہ ضرور آخرت کے انعامات کو ترجیح دے گا.جو لوگ اس دنیا کے بدلہ کو ترجیح دیتے ہیں ان کی مثال عقل کے معاملہ میں اس میراثی کی ہے جو کسی واعظ کا وعظ سننے چلا گیا.واعظ یہ کہہ رہا تھا کہ نماز پڑھنی چاہئے.اس نے یہ بات سنی تو واعظ سے کہا کہ آپ نے وعظ تو بڑا کیا ہے مگر یہ تو بتاؤ کہ اگر نماز پڑھیں تو کیا ملے گا ؟ واعظ کو جلدی میں اور تو کوئی جواب نہ سوجھا اس نے کہہ دیا کہ نماز پڑھنے سے نور ملتا ہے.اس پر اس نے نماز شروع کر دی اور چار نماز میں پڑھیں.صبح کی نماز کے وقت سردی بہت تھی اس نے سوچا کہ واعظ نے کوئی تیم کا مسئلہ بھی بیان کیا تھا.سو اس وقت میں تیم کر کے ہی نماز پڑھ لیتا ہوں.اس نے تمیم کے لئے ہاتھ مارا تو اتفاقاً اس کے ہاتھ توے پر پڑے اور اس نے وہی منہ اور ہاتھ پر پھیر لئے اور یہ پانچ نمازیں پڑھنے کے بعد اس نے خیال کیا کہ اب مجھے نور مل گیا ہوگا.ذرا روشنی ہوئی تو اس نے اپنی بیوی کو جگایا اور کہا کہ دیکھو کوئی نور آیا ہے یا نہیں ؟ بیوی نے اس کے چہرے کو دیکھا تو کہا یہ تو میں جانتی نہیں کہ نور کیا ہوتا ہے.ہاں اگر وہ کوئی کالی کالی چیز ہوتی ہے تو پھر تو بہت ہے.میراثی نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا تو وہ چونکہ براہ راست توے پر پڑے تھے اس لئے وہ بہت زیادہ سیاہ تھے.اس نے کہا کہ اگر تو نور کالا ہی ہوتا ہے تو پھر تو گھٹا ئیں باندھ کر آیا ہے.یہی مثال ان لوگوں کی ہوتی ہے جو خدا کی راہ میں قربانی کر کے اسی دنیا میں بدلہ کے منتظر رہتے ہیں.وہ پانچ نمازیں پڑھنے کے بعد توقع رکھتے ہیں کہ ان کے چہرہ پر نور کے آثار ظاہر ہوں اور یہ خیال نہیں کرتے کہ اس دنیا میں تو کسی نہ کسی طرح گزارہ ہو ہی جاتا ہے مگر وہ غیر محدود زندگی جہاں تمام رشتے ناطے ٹوٹ جاتے 693

Page 706

خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جوان 1939ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول ہیں ، ماں کو بیٹے سے اور بیٹے کو ماں سے، بیوی کو خاوند سے، خاوند کو بیوی سے، بھائی کو بھائی سے اور بہن کو بہن سے کسی مدد کی امید نہیں ہو سکتی وہاں کس طرح کام چلے گا ؟ جب ہر انسان خوف سے لرز رہا ہوگا.وہ وقت ایسا ہو گا جب کوئی کسی کا ساتھ نہ دے گا.اس وقت انسان کہے گا کہ کاش! کوئی چیز میرے خزانہ میں ہوتی اور آج میرے کام آتی.جب انسان ترساں ولرزاں ہوگا، گھبرایا ہوا ہو گا، ایسے وقت میں اگر خدا تعالیٰ کے فرشتے آکر کسی سے کہیں کہ یہ زاد راہ تمہارے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے تو یہ انعام زیادہ ہے یا یہ کہ یہاں دین کی راہ میں خرچ کئے ہوئے مال کے بدلہ میں ایک ایک کے ستر ستر مل جائیں؟ ہماری جماعت کے جولوگ چندہ دیتے ہیں.اس کی اوسط تین روپے فی کس بنتی ہے جسے ستر سے ضرب دی جائے تو دو سو دس روپیہ سال کے ہوتے ہیں اور سترہ روپیہ چند آنے ماہوار ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ کوئی بڑا مال نہیں.بمبئی اور کلکتہ میں ایسے ایسے ہندوستانی موجود ہیں جو لاکھ لاکھ اور دو دو لاکھ روپیہ ماہوار کماتے ہیں.حالانکہ ہندوستان ایک گرا ہوا ملک ہے اس کے مقابلہ میں سترہ روپیہ کی حیثیت ہی کیا ہے؟ لیکن اگر اس معمولی سی رقم کی بجائے وہ چیز مل جائے کہ جس کی قیمت کا اندازہ ہی نہیں ہوسکتا اور ایسی تکلیف کے وقت میں ملے جب ہر شخص ایک مصیبت میں مبتلا ہو گا اور کہے گا کہ کاش میری دولت کا چوتھا حصہ لے لیا جائے گا، کاش نصف لے لیا جائے بلکہ ساری دولت میری لے لی جائے اور اس انعام میں سے مجھے کچھ حصہ مل جائے.تو غور کرو یہ کتنا بڑا انعام ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کے روز کافر کہیں گے کہ کاش ہماری ساری دولت لے لی جائے اور ہمیں کوئی ثواب بے شک نہ ملے مگر اس عذاب سے نجات مل جائے اور جن لوگوں کو ایک معمولی سی قربانی کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس ثواب کا وعدہ ہے وہ اگر اس پر اس دنیا کے معمولی نفع کو ترجیح دیں تو ان کی نادانی میں کیا شک ہے مگر کئی ایسے نادان ہیں جو معمولی سی قربانی کرنے کے بعد چاہتے ہیں کہ اسی دنیا میں ان کو نفع پہنچے اور جب نہیں پہنچتا تو سمجھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ دھو کہ ہوا، ہم سے قربانی کرائی گئی مگر بدلہ کوئی نہیں ملا.ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ استاد نے مجھ سے چار روپیہ فیس تو لے لی مگر اس کے عوض مجھے دیا کچھ نہیں اور یہ نہیں سمجھتا کہ اس نے جو علم سکھایا ہے وہ چار کروڑ روپیہ سے بھی زیادہ قیمتی ہے.جو طالب علم فیس کے بدلہ میں امید رکھتا ہے کہ اسے استاد کی طرف سے روپیہ ملے گا، وہ کبھی خوش نہیں ہوسکتا اور اطمینان حاصل نہیں کر سکتا لیکن یہ سمجھتا ہے کہ اس فیس کے بدلہ میں جو روپے ملتے ہیں وہ جیب میں نہیں بلکہ دل میں ڈالے جاتے ہیں، وہ شوق سے علم حاصل کرتا ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ دنیا میں جو نفع حاصل ہوتا ہے وہ اس نفع کے جویہ 694

Page 707

تحریک جدید- ایک ابھی تحریک....جلد اول مقابلہ میں جو آخرت میں ملتا ہے کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا.خطبہ جمعہ فرموده 30 جون 1939ء پھر دنیا میں یہ قاعدہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بنک کو قبل از وقت ادائیگی کر دیتا ہے تو اسے ڈسکاؤنٹ ملتا ہے.مثلاً اگر 30 جولائی کو رقم واجب الادا ہے اور وہ 30 جون کو ہی ادا کر دیتا ہے تو بنگ اسے آٹھ آنے یا چار آنے سینکڑہ ڈسکاونٹ کاٹ کر بھیج دے گا.گویا اسے قبل از وقت ادائیگی کا منافع دے گا.یہی حال اللہ تعالیٰ کا ہے جو شخص بر وقت اور جلدی اپنا وعدہ پورا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا ڈسکاؤنٹ اس کو ضرور دیتا ہے.اگر بنک اپنے محدود مال کے ساتھ ڈسکاؤنٹ ادا کرتا ہے تو یہ کیونکر قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی شخص وقت سے پہلے اپنا وعدہ پورا کرے تو اللہ تعالیٰ اسے ڈسکاؤنٹ نہیں دے گا ؟ وہ دے گا اور ضرور دے گا مگر وہ چاندی یا سونے کے سکے میں نہیں ہوگا بلکہ نور اور برکت کی صورت میں ہوگا.حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے پاس لوگ گئے اور کہا کہ روم کا بادشاہ ہم سے جزیہ مانگتا ہے دیں یا نہ دیں؟ ان کا مقصد اس سوال سے فتنہ پیدا کرنا تھا.ان کا خیال تھا کہ اگر آپ کہیں گے کہ نہ دو تو ان کو شرارت کا موقعہ مل جائے گا اور کہہ سکیں گے کہ یہ حکومت کا باغی ہے اور اگر کہیں گے کہ دے دو تو پھر کہہ سکیں گے کہ تم جو کہتے ہو کہ میں خدا تعالیٰ کا نبی اور یہود کا بادشاہ ہوں یہ کیونکر صحیح ہے؟ اپنی طرف سے انہوں نے بڑی چالاکی کی اور سمجھا کہ اس طرح آپ پکڑے جائیں گے مگر آپ نے کہا کہ قیصر کیا مانگتا ہے؟ انہوں نے سکہ نکال کر دکھایا کہ یہ مانگتا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت بھی سکہ پر بادشاہ وقت کا کوئی نہ کوئی نشان ضرور ہوتا ہوگا.آپ نے اس سکہ پر قیصر کی تصویر یا نشان دیکھا تو فرمایا کہ یہ قیصر کا ہے اس لئے اسے دو اور جو خدا کا ہے وہ خدا کو دو یعنی یہ روپیہ تو بنا ہوا ہی قیصر کا ہے یہ اسے دو اور اللہ تعالیٰ کا ٹیکس اطاعت کا ہے وہ اسے دو.اللہ تعالیٰ کے سکے اور ہیں اور وہ انہی میں بدلہ ادا کرتا ہے.ہاں یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ اپنے بندوں کی مشکلات کو دیکھ کر کبھی دنیوی نفع بھی ان کو دے دیتا ہے اور اس دنیا میں بھی فضل کر دیتا ہے جیسا کہ ہزار ہا احمدیوں نے اس کا تجربہ کیا ہے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں مکہ میں تھا اور کچھ روپیہ کی ضرورت پیش آئی.اس وقت آپ طالب علم تھے.طالب علموں کی ضروریات بھی محدود ہوتی ہیں.چنانچہ اس وقت آپ کو دس پندرہ روپیہ کی ہی ضرورت تھی.آپ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں نے دل میں کہا کہ کسی سے مانگوں گا نہیں اور مصلی بچھا کر نماز پڑھنے لگ گیا.نماز کے بعد جب مصلیٰ اٹھا اٹھا کر چلنے لگا تو دیکھا کہ مصلے کے نیچے ایک پونڈ پڑا ہوا تھا.اب چاہے وہ پہلے ہی وہاں پڑا ہوا ہو چاہے اس وقت کسی کی جیب سے اچھل کر وہاں جا پڑا ہو اور چاہے فرشتوں نے رکھ دیا ہو.بہر حال اللہ 695

Page 708

خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جون 1939ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول تعالیٰ نے آپ کی مشکلات کو دیکھ کر اس رنگ میں آپ کی مددفرما دی.میں نے اپنا ایک واقعہ بھی کئی دفعہ سنایا ہے کہ ایک دفعہ میں سفر پر تھا اور کسی روحانی تحریک کے ماتحت جس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں، میں نے خیال کیا کہ یہاں ایک روپیہ مجھے ملے.ہم لوگ چلے جا رہے تھے اور بعض احمدی میرے ساتھ تھے.سامنے ایک گاؤں تھا اور کچھ لوگ کھڑے نظر آ رہے تھے.میرے ساتھیوں نے بتایا کہ اس گاؤں کا نمبر دار شدید مخالف ہے اور وہی اپنے ساتھیوں سمیت کھڑا ہے.یہ لوگ احمدیوں کو مارتے ہیں.حتی کہ اپنے گاؤں میں سے کسی احمدی کو گزرنے بھی نہیں دیتے.میرے بعض ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ گاؤں کے باہر باہر چلنا چاہئے ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ کوئی گالی گلوچ کریں.ابھی یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ گاؤں نزدیک آ گیا.جب میں اس نمبردار کے مکان کے قریب پہنچا تو وہ دوڑ کر آگے آیا اور ایک روپیہ پیش کیا.پہلے اللہ تعالیٰ نے جماعت کو سبق دلانے کے لئے ایک بات میرے دل میں پیدا کی اور اپنی محبت کا تجربہ کرانے کے لئے میرے منہ سے سوال کرا دیا کہ روپیہ ملے اور دوسری طرف جماعت کے دوستوں کو اس کا احساس کرایا کہ یہ دشمنوں کا گاؤں ہے اور پھر اس نشان کو اسی گاؤں کے سب سے بڑے مخالف کے ذریعہ پورا کرا دیا.یہ خدا تعالیٰ کا ایک نشان تھا اور اس نے بتایا کہ ہم جب چاہیں اور جہاں سے چاہیں دلوا سکتے ہیں.مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں جب آپ باغ میں فروکش تھے.ایک دفعہ آپ نے جبکہ میں بھی پاس تھا، والدہ صاحبہ سے فرمایا کہ آج کل مالی تنگی بہت ہے لنگر خانہ کا خرچ بہت زیادہ ہو رہا ہے، میرا خیال ہے کہ بعض دوستوں سے قرض لیا جائے.اسی روز جب آپ ظہر یا جمعہ کی نماز کے لئے باہر گئے اور پھر نماز کے بعد واپس تشریف لائے تو فرمایا کہ ایک غریب آدمی جس کے کپڑے بھی پھٹے ہوئے تھے اس نے میرے ہاتھ میں ایک پوٹلی دی تھی ، اس کے کپڑے اتنے پھٹے ہوئے اور بوسیدہ تھے کہ میں نے سمجھا اس پوٹلی میں چند پیسے ہوں گے.لیکن دراصل اس میں سوا دو سو روپے تھے.آپ نے فرمایا کہ ابھی میرے دل میں قرضہ لینے کا خیال تھا مگر خدا تعالیٰ نے خود ہی ضرورت کو پورا کر دیا.تو بعض اوقات اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی بندوں کی ضرورتوں کے لئے روپیہ مہیا کر دیتا ہے.چند سال ہوئے مجھے ایک مکان کی تعمیر کے لئے روپیہ کی ضرورت پیش آئی.میں نے اندازہ کرایا تو مکان کے لئے اور اس وقت کی بعض اور ضروریات کے لئے دس ہزار روپیہ درکار تھا.میں نے خیال کیا کہ جائیداد کا کوئی حصہ بیچ دوں یا کسی سے قرض لوں.اتنے میں ایک دوست کی چٹھی آئی کہ میں چھ ہزار روپیہ بھیجتا ہوں اس کے بعد چار ہزار باقی رہ گیا.ایک تحصیلدار دوست نے لکھا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ 696

Page 709

یک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمود و 30 جون 1939ء السلام تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ہمیں دس ہزار روپیہ کی ضرورت تھی اس میں سے چھ ہزار تو مہیا ہو گیا ہے باقی چار ہزار تم بھیج دو.مجھے تو اس کا کوئی مطلب سمجھ میں نہیں آیا اگر آپ کو کوئی ذاتی ضرورت یا سلسلہ کے لئے در پیش ہو تو میرے پاس چار ہزار روپیہ جمع ہے میں وہ بھیج دوں؟ میں نے انہیں لکھا کہ واقعی ضرورت تو ایسی ہے.بعینہ اسی طرح ہوا ہے.گو یا ضرورت مجھے تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے میرے منہ سے کہلوانے کی بجائے اس دوست کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منہ سے کہلوا دیا.نہ اسے علم تھا کہ مجھے دس ہزار کی ضرورت ہے اور یہ کہ اس میں سے کسی نے چھ ہزار بھیج دیا اور اب صرف چار ہزار باقی ہے اور نہ مجھے علم تھا کہ اس کے پاس روپیہ ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے خود ہی تمام انتظام فرما دیا.تو بعض اوقات ایسے مواقع اللہ تعالیٰ خود ہی بہم پہنچا دیتا ہے.اس کے خاص بندوں کے لئے یہ صورت عام ہوتی ہے اور عام بندوں کے لئے شاذ کے طور پر لیکن سب ہی کے لئے حقیقی نصرت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے جو روحانی طور پر آتی ہے.وہ اس دنیا میں معرفت کے رنگ میں اور آخرت میں روحانی نصرت کی صورت میں آتی ہے.گو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس دنیا میں بھی بدلے ملتے ہیں مگر وہ اصل بدلہ کے مقابلہ میں بہت ہی کم ہوتے ہیں.اکثر حصہ اگلے جہان میں ہی ملتا ہے اور اگلے جہان کے بدلہ کی قیمت وہی جانتا ہے جو اسے سمجھتا ہے دوسرا نہیں سمجھ سکتا.نادان کی نگاہ میں وہ حقیر چیز ہے مگر جو اس کی قیمت کو سمجھتے ہیں ان کے نزدیک اس سے زیادہ قیمتی چیز اور کوئی نہیں ہوتی.یہی صحابہ رضی اللہ عنہم جن کا میں نے ذکر کیا ہے کہ جنگ میں شامل ہونے سے رہ گئے تھے، ان میں سے ایک جن کو مالی توفیق تو تھی مگر شامل نہ ہوئے تھے، ان کے نزد یک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کے مقابلہ میں دولت کی کوئی قیمت باقی نہ رہ گئی تھی اور انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے معاف کر دے تو میں اپنی ساری دولت خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دوں گا اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی معافی کا اعلان فرمایا تو انہوں نے سب کچھ خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دیا.حتی کہ تین کے کپڑے بھی دے دیئے اور خود قرض لے کر اور کپڑے بنوا کر پہنے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی کے مقابلہ میں ان کے نزدیک ساری دولت کی کوئی حقیقت نہ تھی.نہیں میں تحریک کرتا ہوں کہ دوست کوشش کریں کہ وقت سے پہلے تحریک جدید کے وعدے پورے ہو جائیں.پھر اس کے دوسرے حصوں کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے کہ وہ بھی بہت اہم اور ضروری ہیں اور قومی کریکٹر کو بنانے میں بہت ممد ہیں.مثلاً ایک ہی کھانا کھانا سوائے دعوت کے موقعہ کے یا جمعہ یا عیدین کے موقعہ کے.تو جن حدود کے ساتھ اس کے دوسرے حصے مشروط ہیں ان کو بھی پورا کرنے کی 697

Page 710

خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جون 1939ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول طرف جماعت کو توجہ دلانی ضروری ہے.اس تحریک کے دوسرے حصوں میں ایک کھانا کھانا اتنا اہم حصہ ہے کہ اس پر عمل کرنے والے جانتے ہیں کہ یہ اپنے اندر کس قدر وسیع فوائد رکھتا ہے.یاد رکھنا چاہئے کہ بعض چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی نہایت اہم اثر پیدا کرنے والی ہوتی ہیں.جب کانگرسیوں پر مقدمات دائر ہونے لگے اور گاندھی جی بھی گرفتار ہوئے تو انہوں نے اعلان کر دیا کہ وہ اپنا کوئی ڈیفنس پیش نہیں کریں گے اور سب کانگرسیوں کو ایسا ہی کرنا چاہئے.عام لوگوں حتی کہ انگریزوں نے بھی یہ سمجھا کہ وہ ضد کرتے ہیں حالانکہ یہ ضد نہ تھی بلکہ اتنی چھوٹی سی بات اپنے اندر بہت سے فوائد رکھتی تھی لیکن میرا خیال ہے کہ بہت سے کانگرسیوں نے بھی اسے نہیں سمجھا ہو گا.بات یہ تھی کہ اگر دفاع کی اجازت ہوتی تو گاندھی جی کے لئے تو ملک کے بہترین وکلاء مثلا سر سپرو اور مسٹر جیکر وغیرہ سب جمع ہو جاتے لیکن جو غر با گرفتار ہوتے ان کے دفاع کے لئے کوئی نہ جاتا.گاندھی جی نے خیال کیا کہ اس طرح بے چینی پیدا ہوگی اور غربا خیال کریں گے کہ بڑے بڑے لوگوں کے لئے تو اس قدر انتظامات اور سامان مہیا ہو جاتے ہیں مگر غربا کو کوئی نہیں پوچھتا اور اگر سب کے لئے بڑے بڑے وکلاء پیش ہونا بھی چاہتے تو نہ ہو سکتے.مقدمات تو سارے ملک میں چل رہے تھے وہ ہر جگہ کس طرح پیش ہو سکتے تھے اور اس طرح ان کی خواہش اور ارادہ کے باوجود شکوہ کا موقعہ مل باقی رہتا.گو وہ شکوہ کتنا ہی غیر معقول اور خلاف عقل کیوں نہ ہوتا مگر لوگ یہی کہتے کہ غربا کو کوئی نہیں پوچھتا اور کثیر اخراجات کے باوجود شکایت باقی رہتی.ہم نے یہاں اپنے مقدمات میں دفاع کی اجازت دی تھی اور گو ہم نے غلطی نہیں کی بلکہ مصلحاً ایسا کیا تھا مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ اس پر ہمارا کتنا روپیہ خرچ ہوتا رہا ہے.کسی میں سور کسی میں دوسو اور کسی میں چار سو روپیہ خرچ ہوتا رہا ہے.ہر مقدمہ میں کئی کئی گواہ پیش ہوتے ہیں، کئی کئی پیشیاں ہوتی ہیں لیکن اگر ہم دفاع پیش نہ کرتے تو ایک بھی پیسہ خرچ نہ ہوتا.پیش ہوتے اور کہہ دیتے کہ جو کرنا ہے کر لو.گاندھی جی نے بھی یہی کہا اور اس سے سارے ملک میں شور مچ گیا.عام لوگوں نے خیال کیا کہ بائیکاٹ کے لئے ایسا کیا.حالانکہ ان کی غرض یہ تھی کہ چھوٹے بڑے اور امیر غریب کا کوئی سوال نہ پیدا ہو اور روپیہ نہ خرچ ہو.ہزاروں لاکھوں مقدمات تھے اگر روپیہ خرچ کیا جاتا تو بے شمار خرچ ہو جاتا اور پھر ملک میں بیداری بھی پیدا نہ ہوتی.اسی طرح کھدر پوشی ہے.یہ بھی ایسی ہی باتوں میں سے ایک ہے.کوئی کہے کہ اگر کھد رمفید ہے اور یہ بھی ایک سادہ کپڑوں کی تحریک کا حصہ ہے تو تم اس تحریک پر کیوں عمل نہیں کرتے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کا قانون اور ہے اور ہماری شریعت اور ہے.گاندھی جی نے وہ 698

Page 711

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جون 1939ء تحریک کی جو ان کے خیال کے مطابق ملک کے لئے مفید ہوسکتی تھی اور میں نے جو تحریک کی وہ اسلام اور سلسلہ کے فائدہ کو مد نظر رکھ کر کی ہے.اس لئے ہماری تجاویز میں فرق لازمی ہے.میرے مد نظر اسلام کی شوکت اور سلسلہ کی ترقی ہے اور گاندھی جی کے نزدیک ہندوستان کی ترقی ہے.دونوں کا علاج علیحدہ علیحدہ ہے.میں نے ایک کھانا کھانے ، سادہ کپڑے پہنے اور ہاتھ سے محنت کرنے کی جو تحریک کی ہے یہ کوئی چھوٹی باتیں نہیں ہیں، یہ اپنے اندر اس قدر فوائد رکھتی ہیں کہ ہر ایک پر اگر مفصل تقریر کی جائے تو سینکڑوں گھنٹے کی جاسکتی ہے اور اگر جماعت ان کو مدنظر رکھے تو قریب ترین عرصہ میں حیرت انگیز انقلاب پیدا ہوسکتا ہے اور جماعت اس پر جتنا عمل کرتی ہے اس کے اثرات بھی مشاہدہ کر رہی ہے.مجھے کئی رپورٹیں آتی رہتی ہیں کہ دوسرے لوگ بھی اسے اختیار کر رہے ہیں.کئی غیر احمدی امرا کے گھرانوں کی عورتیں ان تحریکات کو اپنے ہاں رائج کر رہی ہیں اور اسے بہت پسند کرتی ہیں.پچھلے دنوں چیف جسٹس صاحب یہاں تشریف لائے تو انہوں نے اس تحریک کا ذکر سن کر بہت پسند کیا اور کہا کہ آپ کو چاہئے تھا میرے لئے بھی ایک کھانا تیار کراتے.میں نے کہا مجھے آپ کی عادات کا علم نہ تھا انہوں نے کہا کہ میں تو سادگی کو بہت پسند کرتا ہوں تو یہ تعلیم اتنی مفید ہے کہ غیروں کو بھی اس کے فوائد نظر آرہے ہیں اور ہندوؤں سکھوں ، عیسائیوں، ایشیائیوں اور غیر ایشیائیوں سب کی توجہ اس طرف خود بخو دمبذول ہوتی جارہی ہے مگر تجربہ سے یہ بھی ثابت ہو رہا ہے کہ لوگ زیادہ کھانے چھوڑنے کے لئے تیار ہیں، سادہ کپڑے بھی پہن سکتے ہیں مگر سینما چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں.میری ہمشیر شملہ گئیں تو انہوں نے سنایا کہ بعض امرا کی عورتیں اس تحریک کو بہت پسند کرتی ہیں مگر صرف یہ کہتی ہیں کہ سینما چھوڑنا مشکل ہے.تو عام طور پر لوگوں میں یہ تحریک شروع ہے.حتی کہ مختلف کمیٹیوں اور مجلسوں میں یہ سوال آنا شروع ہو گیا ہے.لیکن افسوس ہے کہ جماعت نے ابھی اسے سمجھنے اور اس پر پورے طور پر عمل کرنے کی طرف توجہ نہیں کی.اصل کامل فرمانبرداری کامل علم سے پیدا ہوتی ہے اس لئے ان جلسوں میں واعظ اچھی طرح لوگوں کو اس کے فوائد سے آگاہ کریں اور کھول کھول کر سمجھا ئیں اور کوشش کریں کہ ہر سال کی تقریروں میں نئے نئے مضامین اور نئے نئے مسائل پیدا ہوں، میرا یہ مطلب نہیں کہ پچھلی باتیں بیان نہ کی جائیں اور ان کو نظر انداز کر دیا جائے ، ان باتوں کو چھوڑ نا خود کشی کے مترادف ہے ان کو بھی ضرور بیان کیا جائے اور ان کے علاوہ نئے مضامین پیدا کئے جائیں.نئے مضامین سے نئی روح پیدا ہوتی ہے اس لئے دونوں کو مد نظر رکھنا چاہئے یعنی نئے مضامین بھی ہوں اور پرانے بھی بیان کئے جائیں.699

Page 712

خطبہ جمعہ فرموده 30 جوان 1939ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول میں امید کرتا ہوں کہ تمام جماعتیں خصوصاً قادیان کی جماعت کہ یہ جگہ سلسلہ کا مرکز اور خدا تعالی کے رسول کی تخت گاہ ہے اور اس لحاظ سے ان کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں اپنے فرائض کو پوری طرح محسوس کریں گی.قادیان والوں کو دوسروں کے لئے نمونہ بننا چاہئے اور خود علم حاصل کرنا اور دوسروں کو سکھانا چاہئے اور پھر اس تحریک پر عمل کرنے میں بھی ایسا نمونہ دکھانا چاہئے کہ باہر والے ان سے سبق حاصل کریں.نیک نمونہ کا اثر سب سے زیادہ ہوتا ہے.آج ہی لاہور سے چلنے کے وقت ایک خاتون مجھ سے ملنے آئیں.وہ پنجاب کے ایک سابق لیڈر کی والدہ ہیں وہ کہنے لگیں کہ میرا بیٹا ایک دو بار قادیان ہو آیا ہے اور واپس آکر مجھ سے کہا کہ قادیان کا آسمان بھی اور ہے اور زمین بھی اور، وہاں کے آدمی بھی اور ہیں.ایک دفعہ انہوں نے کسی سے یہ ذکر بھی کیا کہ میں تو چاہتا ہوں کہ قادیان میں مکان بنا لوں.یہ شخص پہلے کسی بڑے عہدہ پر ملازم تھے اب ریٹائر ہو چکے ہیں اور مشہور لیڈر ہیں.تو نیک نمونہ کا اثر انسان پر ضرور ہوتا ہے.نیکی ، دیانتداری اور راستبازی کو دیکھ کر ہر شخص یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ انسان ہی اور ہیں اور جس نے یہ جماعت بنائی ہے وہ جھوٹا نہیں ہوسکتا.پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس وقت کی اہمیت کو سمجھو جو فسادات دنیا میں پیدا ہونے والے ہیں اور جو تباہیاں آنے والی ہیں پیشتر اس کے کہ وہ آئیں ، اپنے محل کو محفوظ اور دیواروں کو مکمل کر لو تا جب شیطان اس محل پر حملہ کرنا چاہے تو اس سے پہلے ہی اس کے دروازے لگ چکے ہوں اور دیوار میں مکمل ہو چکی ہوں“.(مطبوعہ الفضل 11 جولائی 1939ء) 700

Page 713

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده 4 اگست 1939ء سمجھ لیں کہ یہ ایک موت ہے جس کا ان سے مطالبہ کیا جارہا ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 4 اگست 1939ء وو میں نے تحریک جدید شروع کی.میں سمجھتا ہوں اپنے دل میں اسلام کا درد رکھنے والا کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہو سکتا تھا جس کے سامنے یہ تحریک پیش کی جاتی کہ اس چندہ کے ذریعہ ایک ایسا مستقل فنڈ قائم کر دیا جائے گا جو دائمی طور پر اسلام کی تبلیغ کے کام آئے گا اور وہ یہ تحریک سننے کے باوجود اس میں حصہ نہ لیتا بلکہ میں سمجھتا ہوں اگر ایک مرتے ہوئے با ایمان انسان کے کانوں میں بھی یہ تحریک پہنچ جاتی تو اس کی رگوں میں خون دوڑنے لگتا اور وہ سمجھتا کہ میرے خدا نے میرے مرنے سے پہلے ایک ایسی تحریک کا آغاز کرا کے اور مجھے اس میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرما کر میرے لئے اپنی جنت کو واجب کر دیا مگر تم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے اس کی اہمیت کو سمجھا.تم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے استقلال کے ساتھ اس میں حصہ لیا.لاکھوں کی جماعت میں سے پانچ ہزار کی تعداد بھی تو ابھی پوری ہونے میں نہیں آئی.چنانچہ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ” الفضل میں ان لوگوں کی جو فہرست شائع ہو رہی ہے جنہوں نے شرائط کے مطابق تحریک جدید کے پانچوں سالوں کا چندہ اگست تک ادا کر دیا ہے ان کی تعداد تین چار سو سے زائد نہیں ہوئی اور ابھی تو اس تحریک کا پانچواں سال ہے نا معلوم شامل ہونے والوں میں سے آخری سال تک کون گرتا اور کون رہتا ہے؟ اس زمانہ کے لوگ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھے رہیں اور وہ انعام بھی حاصل کر لیں جو پہلے انبیاء کی جماعتوں نے حاصل کئے.حالانکہ یہ بالکل ناممکن ہے.وہ انعامات تو الگ رہے ایمان بھی اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک ان تمام قربانیوں میں حصہ نہ لیا جائے جو پہلے انبیاء کی جماعتوں نے کیں.ایمان تو ایک موت ہے.جب تک کوئی شخص اس موت کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا اس وقت تک وہ ہرگز ہرگز ابدی زندگی حاصل نہیں کر سکتا.اللہ تعالی انہی لوگوں کو اپنی بارگاہ میں قبول کیا کرتا ہے جو ہر وقت مرنے کے لئے تیار رہتے ہیں.وو پس میں جماعت کے تمام دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ تحریک جدید کی ہر قسم کی قربانیوں میں حصہ لیں اور جو وعدے انہوں نے کئے ہوئے ہیں انہیں پورا کریں اور سمجھ لیں کہ یہ 701

Page 714

اقتباس از خطبه جمعه فرموده 4 اگست 1939ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول ایک موت ہے جس کا ان سے مطالبہ کیا جارہا ہے.تم میں سے کئی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نے سینما نہیں دیکھا ہم مر گئے تم میں سے کئی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم ہمیشہ ایک کھانا کھاتے ہیں ہم تو مر گئے تم میں سے کئی ہیں جو کہتے ہیں ہمیں تو ہمیشہ سادہ رہنا پڑتا ہے ہم تو مر گئے تم میں سے کئی ہیں جو کہتے ہیں ہمیں رات دن چندے دینے پڑتے ہیں ہم تو مر گئے ، میں کہتا ہوں ابھی تم زندہ ہو.میں تو تم سے حقیقی موت کا مطالبہ کرتا ہوں کیونکہ خدا یہ کہتا ہے کہ جب تم مرجاؤ گے تو پھر میں تمہیں زندہ کروں گا.پس یہ موت ہی ہے جس کا میں تم سے مطالبہ کرتا ہوں اور یہ موت ہی ہے جس کی طرف خدا اور اس کا رسول تمہیں بلاتا ہے اور یاد رکھو کہ جب تم مر جاؤ گے تو اس کے بعد خدا تمہیں زندہ کرے گا.پس تم مجھے یہ کہہ کر مت ڈراؤ کہ ان مطالبات پر عمل کرنا موت ہے.میں کہتا ہوں کہ یہ موت کیا اس سے بڑھ کر تم پر موت آنی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کامل احیا تمہیں حاصل ہو.پس اگر یہ موت ہے تو خوشی کی موت ہے، اگر یہ موت ہے تو رحمت کی موت ہے اور بہت ہی مبارک وہ شخص ہے جو موت کے اس دروازہ سے گزرتا ہے کیونکہ وہی ہے جو خدا تعالیٰ کے ہاتھوں ہمیشہ زندہ کیا جائے گا.( مطبوعه الفضل 22 اگست 1939 ء ) | 702

Page 715

تحریک جدید- ایک الہی تحریک...جلد اول وو اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 20 اکتوبر 1939ء تحریک جدید کے سات روزے ماہ شوال میں رکھے جائیں خطبه جمعه فرمودہ 20 اکتوبر 1939ء.......اس سال تحریک جدید کے سلسلہ میں روزوں کے متعلق میں نے تا حال کوئی اعلان نہیں کیا.اس کے متعلق میں آج اعلان کرتا ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے کہ آپ شوال کے روزے رکھا کرتے تھے.پس اس سال کے لئے تحریک جدید کے مقررہ سات روزے میں شوال کے مہینہ میں مقرر کرتا ہوں.اس طرح ایک تو اس سنت پر عمل ہو جائے گا اور دوسرے ہمارا روزے رکھنے کا طریق بھی پورا ہو جائے گا.میں نے تو حساب نہیں کیا.دیکھ لیا جائے اگر پیر یا جمعرات کو عید نہ ہو تو ان میں سے جو بھی پہلے آئے اس دن پہلا روزہ رکھا جائے اور اس سے شروع کر کے پھر ہر پیر اور جمعرات کو روزے رکھے جائیں اور سات پورے کئے جائیں.اس سال کے روزوں کے متعلق دعاؤں کے سلسلہ میں میں یہ اعلان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جہاں اپنے لئے ، اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کیلئے سلسلہ کیلئے اور اسلام کے لئے دعائیں کریں وہاں یہ بھی خیال رکھیں کہ یہ تحریک جدید کا چھٹا سال ہوگا اور اس طرح وہ چوٹی پر پہنچ کر نیچے کی طرف اتر رہی ہوگی اور یہ دن زیادہ قربانی کے ہوں گے.پس دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں زیادہ قربانیوں کی توفیق دے اور اسلام کی ترقی کے لئے ایسا مستقل فنڈ اور مجاہدین کی جماعت پیدا کر دے جو اسلام کے جھنڈے کو دنیا میں کھڑا کر سکے اور دنیا کے کناروں تک پہنچا سکے.نیز اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور دوسرے کارکنوں کو بھی توفیق دے کہ اللہ تعالیٰ کے اموال کو زیادہ سے زیادہ دیانت اور دانائی سے خرچ کر سکیں.جن لوگوں نے اس میں حصہ لیا ہے ان پر اپنے انعام کرے، جنہوں نے وعدے کئے ہوئے ہیں ان کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جو لوگ نئے شامل ہوئے ہیں یا جن کی پہلے کوئی آمد نہ تھی اب ہو گئی ہے.مثلاً پہلے طالب علم تھے مگر اب ملازم ہو گئے ہیں یا جن کی مالی حالت پہلے اچھی نہ تھی اب اچھی ہوگئی ہے ان کو بھی شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے“.( مطبوعه الفضل 28 اکتوبر 1939ء) 703

Page 716

Page 717

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول " اقتباس از خطبه جمعه فرموده 24 نومبر 1939ء یا درکھو کہ یہ تحریک خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے خطبہ جمعہ فرمودہ 24 نومبر 1939ء.میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت تک تحریک جدید کی اہمیت اور ضرورت کو میں اس حد تک واضح کر چکا ہوں کہ اب کسی لمبی تحریک کی ضرورت باقی نہیں اور وہ لوگ جن کے دلوں میں خدا تعالیٰ نے دین کی محبت پیدا کی ہے اور جو اپنی ذمہ واری کو سمجھتے ہیں اور جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکت کی تڑپ ہے انہیں اب کسی مزید تحریک کی ضرورت نہیں.ان پر یہ امر اچھی طرح کھل چکا ہے کہ اس میں کیا فوائد مخفی ہیں اور اس کے ذریعہ کس طرح کوشش کی جارہی ہے کہ ایک ایسا مستقل فنڈ قائم کر دیا جائے جو ہماری تبلیغی ضرورتوں کو ہمیشہ کے لئے تو نہیں مگر موجودہ ضرورتوں کو ایک عرصہ تک پورا کرتا رہے.یہ فنڈ اتنا قلیل ہوگا کہ آئندہ ضرورتوں کے عشر عشیر کے لئے بھی کافی نہیں ہو سکتا.عیسائیوں کو دیکھو، وہ ایک غلط عقیدہ کی اشاعت کے لئے کئی کروڑ روپیہ سالانہ خرچ کر رہے ہیں لیکن اس تحریک کے ماتحت اگر کوئی فنڈ قائم بھی کیا جا سکے تو وہ اتنا محدود ہو گا کہ ہماری آئندہ کوششوں اور ضرورتوں پر حاوی نہیں ہوسکتا.آج ہماری جماعت چند لاکھ ہے اور اس کی کوششیں بھی چند لاکھ روپیہ تک محدود ہیں مگر جب اس کی تعداد کروڑوں کی ہوگی تو رو پی بھی کروڑوں کی تعداد میں خرچ کرنا پڑے گا اور پھر جب یہ اربوں کی تعداد میں ہو جائے گی تو اس نسبت سے ضروریات کے لئے روپیہ بھی اربوں خرچ ہوگا.ہماری جماعت کے قیام کی اصل غرض یہ ہے کہ یہ پہلے مسلمانوں کی تربیت کریں اور جو مسلمان نہیں کہلاتے ان میں اشاعت اسلام کریں اور اس کی راہ میں جو روکیں ہیں انہیں دور کریں اور نئے سرے سے اسلام کی ترقی کے سامان کریں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً بتایا ہے کہ اپنی کوششوں کو اس حد تک اور اس وقت تک جاری رکھیں کہ دنیا میں احمدیت ہی احمدیت نظر آئے اور باقی لوگ ادنی غلام کی طرح قلیل تعداد میں رہ جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاما بتایا ہے کہ احمد بیت بڑھتے بڑھتے تین سو سال میں ایسے مقام پر پہنچ جائے گی کہ دنیا میں اسے ہی غلبہ حاصل ہوگا اور جو لوگ اس سے باہر رہیں گے وہ ایسی 705

Page 718

اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 24 نومبر 1939ء تحریک جدید - ایک البی تحریک....جلد اول ہی قلیل تعداد اور کمزور حالت میں رہ جائیں گے جس حالت میں آج ہندوستان میں ادنی کہلانے والی اقوام ہیں مگر یہ چیز ہمیں جادو سے حاصل نہیں ہو جائے گی.یہ نہیں ہو گا کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے اتر کر مداری کی طرح کوئی ڈنڈ ہلائیں گے اور دنیا میں احمدیت کو غلبہ حاصل ہو جائے گا بلکہ یہ اسی طرح ہوگا جس طرح ہمیشہ سے قاعدہ چلا آتا ہے.اس جماعت کو ترقی اسی طرح ہوگی جس طرح کہ الہی سلسلوں کو ہوتی ہے اور یہ ہماری جد و جہد اور قربانیوں سے ہوگی.ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ چونکہ خدا تعالیٰ کی قضا و قدر ہے اس لئے ضرور ہو کر رہے گی.بعض لوگ کہتے ہیں کہ جماعت میں کمزوریاں ہیں، اس کی رفتار ترقی بہت ست ہے، یہ کس طرح ساری دنیا میں پھیل سکے گی ؟ یہ لوگ دنیا میں اس قدر انقلاب کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟ مگر سوال یہ نہیں کہ ہماری حالت کیسی ہے اور طاقت کتنی ہے بلکہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ایسا کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے ، وہ خود ایسے لوگ پیدا کر دے گا جو دنیا کا تختہ الٹ کر رکھ دیں گئے“." کسی چیز کو بڑھانا یا گھٹانا اللہ تعالیٰ نے اپنے اختیار میں رکھا ہے اور اس کا قانون یہی ہے کہ جب وہ کسی چیز کو ترقی دینا چاہتا ہے تو اس کے بیج کو بڑھا دیتا ہے.جب وہ ایک بیج ہوتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ اس سے سینکڑوں کیسے بنیں گے اور جب سینکڑوں ہو جائیں تو کہتے ہیں اس سے ہزاروں کیونکر ہوں گے.پھر ہزاروں سے لاکھوں، لاکھوں سے کروڑوں اور کروڑوں سے اربوں تک بڑھنے میں شک کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ اسی طرح بڑھاتا چلا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب دعوی کیا تو دنیا حیران تھی اور کہتی تھی کہ ایک سے دو کس طرح ہوں گے.کوئی دوسرا شخص ایسا نہیں ہو گا جو ان عقائد کو مان لے لیکن جب چند لوگ آپ کے ساتھ شامل ہو گئے تو دنیا نے کہا کہ چالیس پچاس پاگل تو دنیا میں ہو سکتے ہیں مگر یہ آخری حد ہے اس سے زیادہ نہیں بڑھ سکتے اور جب یہ تعداد سینکڑوں تک جا پہنچی تو کہا جانے لگا کہ دنیا میں پاگلوں کے علاوہ بعض احمق بھی ہوتے ہیں جو شریک ہو گئے ہیں مگر ساری دنیا تو عقل مندی کو نہیں چھوڑ سکتی ، اب ان کی تعداد نہیں بڑھ سکتی اور جب جماعت ہزاروں تک پہنچ گئی تو کہا گیا کہ بعض اچھے بھلے سمجھدار لوگ بھی دھوکہ کھا سکتے ہیں مگر اب یہ لوگ لاکھوں تک نہیں پہنچ سکتے اور اب حیران ہیں کہ یہ کروڑوں کس طرح ہوں گے؟ اور یہ نہیں سوچتے کہ جس طرح ایک سے دسیوں ، دسیوں سے سینکڑوں سینکڑوں سے ہزاروں اور ہزاروں سے لاکھوں ہوئے اسی طرح اب لاکھوں سے کروڑوں اور کروڑوں سے اربوں ہو جائیں گے اور خدا تعالیٰ کا فضل نازل ہو کر ان کو اسی طرح بڑھاتا چلا جائے گا اور کون ہے جو خدا تعالیٰ کے فضل کو روک سکے؟ 706

Page 719

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 24 نومبر 1939ء اسی طرح اس تحریک کی بنیاد بھی آج چند ہزار روپوں پر ہے.جو چندہ آتا ہے اس میں سے اخراجات کو نکال کر جو روپیہ بچتا ہے موجودہ اندازہ کے مطابق اس سے اسی قدر مستقل فنڈ قائم کیا جاسکتا ہے کہ جس سے ساٹھ ستر ہزار روپیہ کی سالانہ آمد ہو سکے اور یہ اس کے لئے کافی ہے کہ اس وقت جو مشن ہمارے مد نظر ہیں یعنی جن کیلئے اس وقت مجاہدین ٹرینینگ لے رہے ہیں انہیں قائم کیا جا سکے.یہ زیادہ سے زیادہ 25-30 نئے مشن ہوں گے اور اگر دیکھا جائے تو یہ کچھ بھی نہیں اس جدو جہد کے مقابلہ میں جو اس وقت عیسائی کر رہے ہیں.اس وقت 65 ہزار عیسائی مبلغ دنیا کے مختلف حصوں میں کام کر رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ ان کے مقابلہ میں ہمارے 25-30 مبلغوں سے کیا بنے گا مگر ہمیں امید ہے کہ خدا تعالٰی ہمیں ضرور ترقی دے گا اور جس طرح خدا تعالیٰ نے اتنا مستقل فنڈ قائم کرنے کا سامان کر دیا ہے جبکہ پہلے ایک روپیہ بھی اس فنڈ میں نہ تھا تو اسے اس کو اور بڑھانے سے کون روک سکتا ہے؟ وہ ضرور اسے کسی وقت لاکھوں، کروڑوں بلکہ اربوں تک ترقی دے گا اور ایک وقت آئے گا کہ ہمارا تبلیغی فنڈ دنیا کی بڑی بڑی حکومتوں کے خزانوں سے بھی زیاد ہوگا.جس طرح اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ احمد بیت کو اتنی ترقی دے گا کہ ساری دنیا کی اقوام مل کر بھی اس کے مقابلہ میں ادنی اقوام کی حیثیت رکھیں گی اسی طرح وہ اس کے فنڈوں کو دنیا کی حکومتوں کے خزانوں سے زیادہ مضبوط بنادے گا اور وہ اسے ضرور بڑھائے گا“.و عربی میں ضرب المثل ہے اَلْفَضْلُ مَا شَهِدَتْ بِهِ الْاَعْدَاء یعنی فضیلت وہی ہے جس کی دشمن گواہی دے.جب میں شام گیا تو وہاں عبد القادر المغر بی جو بہت بڑے اور مشہور ادیب ہیں مجھ سے ملنے کیلئے آئے جس وقت وہ آئے ایک اور شخص مجھ سے بات چیت کر رہا تھا.وہ بیٹھے گفتگو سنتے رہے اور پھر اسے کہنے لگے کہ ان سے بحث مت کرو.یہ ہمارے وطن میں آئے ہیں ہمارا فرض ہے کہ ان کا اعزاز کریں.مذہبی باتیں ان سے نہیں کرنی چاہئیں اور پھر ان باتوں کا فائدہ بھی کیا ہے.یہ ہندوستان کے رہنے والے ہیں جو جاہل ملک ہے، جہاں کے لوگ نہ قرآن کریم سے واقف ہیں اور نہ عربی سے جو قرآن کریم کی زبان ہے اور ان کی باتوں کا ہم لوگوں پر اثر بھی کیا ہو سکتا ہے جن کی مادری زبان عربی ہے؟ اس لئے ان کے ساتھ بحث کر کے خواہ مخواہ وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے.میں نے ان سے کہا کہ آپ یا درکھیں کہ میں واپس جا کر یہاں اپنا مبلغ بھیجوں گا اور اس وقت تک نہیں چھوڑوں گا کہ جب تک یہاں جماعت قائم نہ ہو اور آپ اسے دیکھ نہ لیں کہ اس ملک کے رہنے والے بھی ہماری باتوں پر ایمان لاتے ہیں.چنانچہ میں نے وہاں پر مبلغ بھیجا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی زندگی میں ہی وہاں جماعتیں قائم ہو گئیں.اب تو مجھے معلوم نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا مر گئے لیکن جماعتیں وہاں ان کی زندگی میں ہی قائم ہو 707

Page 720

اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 24 نومبر 1939ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول گئی تھیں اور اب شام، فلسطین، مصر وغیرہ ممالک میں ایسے ایسے خلص احمدی موجود ہیں کہ ان پر رشک آتا ہے.ان میں ایسے بھی ہیں جن کو احمدیت کی وجہ سے قتل کیا گیا، ایسے بھی ہیں جو زخمی کئے گئے ، ایسے بھی ہیں جو ملک بدر کئے گئے اور جن کی جائیدادیں اور مال و اسباب لوٹ لئے گئے مگر وہ پھر بھی استقلال اور ہمت کے ساتھ تبلیغ میں مصروف ہیں اور اب خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کو ہر جگہ ترقی حاصل ہو رہی ہے.پس ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پیج کو جو آج ہم بور ہے ہیں ضرور ترقی دے گا.ہمارا فرض صرف یہی ہے کہ بیج بونے کی پوری پوری کوششیں کریں.وو فہرست میں تو وہی شخص آئے گا جو دس سالہ میعاد کو پورا کرے گا اور انہی لوگوں کے ثواب کو لمبا کرنے کی ہم کوئی صورت کریں گے.تو اس فہرست میں وہی شامل ہوں گے جو شرائط کے ماتحت اس تحریک میں حصہ لیتے رہیں گے سوائے ان کے جو فوت ہو گئے اور جب تک وہ زندہ رہے برابر شرائط کے ما تحت حصہ لیتے رہے.ایسے ہی لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ فَمِنْهُم مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ (الاحزاب : 24) پس ایسا شخص جو زندگی میں برابر حصہ لیتا رہا اور پھر فوت ہو گیا وہ آخر تک شامل سمجھا جائے گا.قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ جو لوگ دین کی خدمت کرتے ہوئے مارے جاتے ہیں وہ زندہ ہی سمجھے جاتے ہیں.وہ ان کے برابر ثواب پاتے ہیں جو زندہ ہیں اور نمازیں پڑھتے ، روزے رکھتے ، جہاد کرتے یا ثواب کے دوسرے کام کرتے ہیں.جو نیک کام وہ دنیا میں کرتے تھے اس کا ثواب ان کو برابر ملتا رہتا ہے.پس جو فوت ہو گئے ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں.وہ دس سالہ میعاد میں شامل سمجھا جائے گا.اس کی نسیت کے مطابق اس کو اجر ملے گا خواہ وہ ایک سال ہی دینے کے بعد فوت ہو گیا مگر چونکہ اس کی نیت آخر تک شامل ہونے کی تھی اس لئے اسے نیت کا ثواب مل جائے گا بشرطیکہ جب تک وہ زندہ رہا شریک رہا ہو.یاد رکھو کہ یہ تحریک خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.اس لئے وہ اسے ضرور ترقی دے گا اور اس کی راہ میں جو روکیں ہوں گی ان کو بھی دور کر دے گا اور اگر زمین سے اس کے سامان پیدا نہ ہوں گے تو آسمان سے خدا تعالیٰ اس کو برکت دے گا اور مبارک ہیں وہ جو بڑھ بڑھ کر اس تحریک میں حصہ لیتے ہیں کیونکہ ان کا نام ادب اور احترام سے اسلام کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا اور خدا تعالیٰ کے دربار میں یہ لوگ خاص عزت کا مقام پائیں گے کیونکہ انہوں نے خود تکلیف اٹھا کر دین کی مضبوطی کے لئے کوشش کی اور ان کی اولادوں کا اللہ تعالیٰ خود متکفل ہوگا اور آسمانی نور ان کے سینوں سے ابل کر نکلتا گا اور دنیا کو روشن کرتا رہے گا“.( مطبوع الفضل 30 نومبر 1939ء) رہے 708

Page 721

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرموده یکم دسمبر 1939ء تحریک جدید کا مقصد دنیا کے ہر ملک میں اسلام کے علمبر دار پیدا کرنا ہے وو خطبه جمعه فرموده یکم دسمبر 1939ء تحریک جدید کی غرض یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے تو ہم ساری دنیا میں اسلام کی طرف سے مقابلہ کرنے والے پہلوان کھڑے کر دیں.چاہے ایک کروڑ کے مقابلہ میں ایک انسان ہو، چاہے دو کروڑ کے مقابلہ میں ایک انسان ہو، چاہے تین کروڑ کے مقابلہ میں ایک انسان ہو، چاہے چار کروڑ کے مقابلہ میں ایک انسان ہو، چاہے پانچ کروڑ کے مقابلہ میں ایک انسان ہو اور چاہے دس کروڑ کے مقابلہ میں ایک انسان ہو بلکہ خواہ ساری دنیا ایک طرف ہو اور دوسری طرف وہ اکیلا کمزور اور نا تواں انسان ہو جس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوں، جس کو اپنے رہنے کے لئے مکان تک میسر نہ ہو اور کھانے کے لئے پیٹ بھر کر روٹی نہ ملتی ہو مگر وہ اپنی نا تواں اور کمزور آواز سے لا الہ الا الہ کا نعرہ بلند کر رہا ہو.جس دن ہم یہ کام کرلیں گے، جس دن ہم جاپان میں بھی اپنے مبلغ بھجوا دیں گے، ہم چین میں بھی اپنے مبلغ بھجوا دیں گے، ہم فلپائن میں بھی اپنے مبلغ بھجوادیں گے، ہم امریکہ اور اس کی ریاستوں میں بھی اپنے مبلغ بھجوا دیں گے، ہم انگلستان میں بھی اپنے مبلغ بھجوا دیں گے، ہم یورپ میں بھی اپنے مبلغ بھجوا دیں گے ہم سوئٹزر لینڈ میں بھی اپنے مبلغ بھجوا دیں گے، ہم رومانیہ میں بھی اپنے مبلغ بھجوا دیں گے، ہم یوگو سلو و یکیا میں بھی اپنے مبلغ بھجوا دیں گے، ہم یونان میں بھی اپنے مبلغ بھجوا دیں گے، ہم ہنگری میں بھی اپنے مبلغ بھجوا دیں گے ، ہم جرمنی میں بھی اپنے مبلغ بھجوادیں گے، ہم ڈنمارک میں بھی اپنے مبلغ بھجوادیں گے، ہم یجم میں بھی اپنے مبلغ بھجوا دیں گے، ہم ہالینڈ میں بھی اپنے مبلغ بھجوا دیں گے، ہم فن لینڈ میں بھی اپنے مبلغ بھجوا دیں گے، ہم سپین میں بھی اپنے مبلغ بھجوا دیں گے، ہم پرتگال میں بھی اپنے مبلغ بھجوا دیں گے اور اگر ہم زیادہ مبلغ نہ بھجوا سکیں تو کم از کم ایک مبلغ ہر علاقہ میں بھجوادیں گے.اسی طرح ہم افریقن ممالک میں ایک ایک مبلغ بھجوا دیں گے تاکہ ان ممالک میں اسلام کا جھنڈا لہرا تا ر ہے.اس دن ہم یہ سمجھیں گے کہ ہمارے کام کا آغاز ہوا.نہ ہی حکومتیں نہ سہی سلطنتیں نہ سہی کثرت تعداد نہ سہی شان و شوکت نہ سہی وہ لٹریچر جو سارے ملک میں پھیل جائے اورتعلیم یافتہ طبقہ کو اسلام کی خوبیوں کا گرویدہ کر دے نہ سہی بلند و بالا 709

Page 722

اقتباس از خطبه جمعه فرموده یکم دسمبر 1939ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول چوٹیوں پر لہرانے والا جھنڈا، کم سے کم ہر ملک میں ایک دی جی تو ہو جو ہوا میں لہرا رہی ہو اور لوگوں کو یہ بتا رہی ہو کہ اسلام مرا نہیں بلکہ زندہ ہے مگر ہم نے تو ابھی یہ بھی نہیں کیا.حالانکہ تحریک جدید کا پہلا مقصد یہ ہے کہ ہم دنیا کے ہر ملک میں کم از کم ایک آدمی ایسا کھڑا کر دیں جو اسلام کے جھنڈے کو اپنے ہاتھوں میں تھامے رکھے اور اس کے پھریرے کو ہوا میں لہرا تار ہے.دنیا بھتی ہے کہ اس نے اسلام کو مٹا دیا ہے مگر ہر ملک میں ہمارا ایک ایک مناد لوگوں کو یہ آواز دے رہا ہو کہ ہم بے شک کمزور ہیں، ہم بے شک نا تواں اور حقیر ہیں ، بے شک ہماری طاقت ٹوٹ گئی، ہماری حکومت جاتی رہی مگر اسلام نے اپنا سر نیچا نہیں کیا بلکہ اسلام کا پھر میرا آج بھی ہوا میں اڑ رہا ہے مگر ابھی تو اس دن کے آنے میں بھی ہمیں دیر نظر آتی ہے اور اس کے لئے کئی قسم کی قربانیوں کی ضرورت ہے لیکن بہر حال جس دن ہم یہ کام لیں گے اس دن ہمارا دوسرا قدم یہ ہوگا کہ ان ممالک میں صرف اسلام کا پھر یرا ہی نہ لہرائے بلکہ ان ممالک کے باشندوں میں سے کچھ ایسے لوگ پیدا کریں جو اسلام کے جھنڈے کو سرنگوں نہ ہونے دیں بلکہ ہمیشہ اسے مضبوطی سے تھامے رکھیں.جاپان میں ایک ہندوستانی اسلامی جھنڈے کونہ ہرا رہا ہو بلکہ چند جاپانی اسلامی جھنڈے کو اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے ہوں، چین میں ایک ہندوستانی اسلامی جھنڈے کونہ ہرارہا ہو بلکہ چند چینی اسلامی جھنڈے کو اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے ہوں اسی طرح انگلستان، امریکہ، فرانس، جرمن، سویڈن، ناروے، فن لینڈ ، ہنگری، سپین، پرتگال اور دیگر ممالک میں ہندوستانی اسلامی جھنڈا نہ لہرا رہے ہوں بلکہ خودان ممالک کے بعض باشندے اسلامی جھنڈا لے کر کھڑے ہوئے ہوں.چاہے وہ تعداد میں کتنے ہی تھوڑے ہوں اور چاہے وہ کتنے ہی کمزور اور ناتواں ہوں.یہ ہمارا دوسرا مقصد ہے جو تحریک جدید کے ماتحت ہمارے سامنے ہے.غرض ہمارے سامنے بہت بڑا کام ہے.فتح بہت دور ہے اور منزل بہت بعید ہے.بزدل اس لمبی مسافت سے گھبراتا اور قربانیوں سے جی چراتا ہے مگر بہادر انسان جانتا ہے کہ میرا یہ کام نہیں میں دیکھوں کہ مجھے فتح حاصل ہوتی ہے یا نہیں بلکہ میرا یہ کام ہے کہ جب تک میری زبان چلتی رہے میں بولتا چلا جاؤں اور اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے دین کی اشاعت زمین پر کرتار ہوں“.مطبوع الفضل 8 دسمبر 1939ء) 710

Page 723

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول 22 اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 15 دسمبر 1939ء اس تحریک کے بابرکت ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں خطبہ جمعہ فرمودہ 15 دسمبر 1939ء ہیں جب کہ تحریک جدید میں چندہ لکھانا بھی ہر شخص کی مرضی پر منحصر ہے اور وعدہ کر کے اپنا نام رجسٹر سے کٹو الینا بھی ہر شخص کے اختیار میں ہے اور جب کہ دونوں طرف انسان کا اپنا اختیار ہی کام کر رہا ہے، تو ایسی صورت میں چار فیصدی کیا اگر ایک فیصدی کی کمی بھی رہتی ہے تو وہ لوگ جو اس کمی کا موجب بنتے ہیں اللہ تعالیٰ کے حضور گنہ گار ٹھہرتے ہیں اس لئے کہ جب چندہ لکھواتے وقت وہ اختیار رکھتے تھے کہ چاہیں تو لکھوائیں اور چاہیں تو نہ لکھوائیں اور جب چندہ لکھوا دینے کے بعد بھی وہ اختیار رکھتے تھے کہ چاہیں تو لکھ دیں ہمارے حالات بدل گئے ہیں اب ہم چندہ نہیں دے سکتے ہمارا نام لسٹ میں سے کاٹ دیا جائے تو انہوں نے نادہند بننے کی بجائے وہ طریق کیوں نہ اختیار کیا جو ان کیلئے کھلا تھا اور جسے اختیار کر کے وہ نادہند اور گنہ گار بننے سے محفوظ رہ سکتے تھے " " اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت دنیا کے پردے پر اور کوئی جماعت ایسی نہیں جو مالی لحاظ سے ویسی قربانی کر رہی ہو جیسی قربانی ہماری جماعت کر رہی ہے.ہم کتنا ہی زجر کریں، کتنا ہی بعض لوگوں کا شکوہ کریں اس سچائی کا انکار سوائے اندھے اور ازلی شقی کے اور کوئی نہیں کر سکتا کہ اس زمانہ میں اس غریب جماعت سے زیادہ خدا تعالیٰ کے دین کے لئے قربانیاں کرنے والا کوئی نہیں.ہم میں ہزاروں کمزوریاں ہیں، ہم میں ہزاروں عیب ہیں، ہم میں ہزاروں نقائص ہیں مگر باوجود ان نقائص کو تسلیم کرنے کے اس میں کوئی کلام نہیں کہ دوسری جماعتوں کے مقابلہ میں ہماری جماعت میں خدا تعالیٰ کے دین کے لئے ایسی بے نظیر قربانیاں پائی جاتی ہیں کہ قریب کے زمانہ میں ان کی کوئی نظیر نظر نہیں آتی اور دشمن بھی اس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہے مگر پھر بھی اس فخر اور خوشی کی تکمیل کے جتنے مدارج ہوں ان کے حصول کے لئے کوشش کرنا ہمارا فرض ہے اور خدا تعالیٰ کا مقرب بنانے کیلئے جن مجاہدات کی ضرورت ہے ان کی طرف جماعت کو متوجہ کرنا ضروری ہے.711

Page 724

اقتباس از خطبہ جمعہ فرمودہ 15 دسمبر 1939ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول پس میں پھر جماعت کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں خصوصاً ان لوگوں کو جو نا دہند ہیں اور جن کی طرف تحریک جدید کا کئی کئی سال کا بقایا ہے کہ جب ان کے لئے راستہ کھلا تھا کہ وہ اس میں شامل نہ ہوں تو وہ کیوں شامل ہوئے ؟ اور جب ان کے لئے اب بھی اس بات کا راستہ کھلا ہے کہ وہ اپنا نام کٹوا لیں تو وہ اپنا نام کیوں نہیں کٹواتے ؟ ہمیں اس تحریک کے متعلق یہ نظر آتا ہے کہ اس میں حصہ لینے والوں کی تعداد پانچ ہزار کے اردگرد چکر کھا رہی ہے.گویا اس میں حصہ لینے والوں کی تعداد اتنی ہی ہے جتنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کشف میں بیان ہوئی.اس کے علاوہ بیسیوں رویا و کشوف اور الہامات اس تحریک کے بابرکت ہونے کے متعلق لوگوں کو ہوئے.بعض کو رویا میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ یہ تحریک بابرکت ہے، بعض کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتایا کہ یہ تحریک بابرکت ہے اور بعض کو الہامات ہوئے کہ یہ تحریک بہت مبارک ہے.غرض یہ ایک ایسی تحریک ہے جس کے بابرکت ہونے کے متعلق بیسیوں رویا کشوف اور الہامات کی شہادت موجود ہے.اس کے علاوہ تحریک جدید کے واقعات اس کشف سے بہت حد تک ملتے جلتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھا اور جس میں بتایا گیا تھا کہ آپ کو پانچ ہزار سپاہی دیا جائے گا.چنانچہ شروع سے ہی اس کی تعداد پانچ ہزار کے گرد چکر کھا رہی ہے مگر رویا سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ تعداد بھی ذرا مشکل سے پوری ہوگی.چنانچہ رویا یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک شخص سے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے.اس نے کہا کہ ایک لاکھ تو نہیں مگر پانچ ہزار سپاہی دیا جائے گا.تب آپ فرماتے ہیں میں نے کہا کہ گو پانچ ہزار تھوڑے ہیں پر اگر خدا چاہے تو تھوڑے بہتوں پر فتح پا سکتے ہیں.پس اس رویا کا جو اندازہ ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پانچ ہزار تعداد پوری تو ہوگی مگر ذرا مشکل سے اور وہ مشکل ہمیں اب نظر آنے لگ گئی ہے کہ کئی ناد ہند ہیں جنہوں نے کئی کئی سال سے چندہ دینے کا وعدہ کیا ہوا ہے مگر ابھی تک انہوں نے اپنے وعدہ کو پورا نہیں کیا.اگر یہ نا دہندنکل جائیں تو ہم اصل تعداد معلوم کر کے باقی جماعت کو تحریک کریں اور کہیں کہ بہادرو! ذرا ہمت کرو اور اس پانچ ہزار کی تعداد کو پورا کرو مگر اب ہم کسی صحیح فیصلہ پر نہیں پہنچ سکتے کیونکہ ہمیں نظر تو یہ آتا ہے کہ تحریک جدید میں حصہ لینے والے پانچ ہزار چھ سو میں مگرمکن ہے کہ وہ چار ہزار چھ سوہوں اور باقی ناد ہند ثابت ہوں.712

Page 725

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از خطبه جمعه فرمودہ 15 دسمبر 1939ء میں جیسا کہ پہلے بھی بتا چکا ہوں اگر تحریک جدید میں حصہ لینے والوں کی تعداد پانچ ہزار سے اوپر چلی جائے اور چھ ہزار کے قریب پہنچ جائے تب بھی پیشگوئی کے پورا ہونے میں کوئی نقص نہیں ہو سکتا کیونکہ پانچ اور چھ ہزار کے درمیان کوئی بھی تعداد ہو وہ پانچ ہزار ہی کہی جائے گی اور کسر کا حصہ شار نہیں ہوگا.پس اگر آٹھ نو سو کے قریب زیادہ بھی ہو جائیں تب بھی کوئی حرج نہیں لیکن ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ پانچ ہزار کی بجائے چار ہزار نو سویا چار ہزار نو سوننانوے سپاہی حاصل ہوں.ہاں اگر پانچ ہزار نو سو یا پانچ ہزار نوسوننانوے ہو جائیں تو یہ کشف کے خلاف نہیں ہو گا مگر یہ تمام مشکل ہمیں نادہندوں کی وجہ سے پیش آرہی ہے جن کے متعلق ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ ہماری لسٹ میں ہیں حالانکہ حقیقتاً وہ ہماری لسٹ میں نہیں ہوتے.اگر وہ نکل جائیں تو ہمیں پتہ لگ جائے کہ ہمیں اس غرض کے لئے کتنی محنت اور کرنی چاہئے.پس جس قدر ناد ہند ہیں وہ تحریک جدید کے کام میں روک بن رہے ہیں اس لئے یا تو وہ اپنے اپنے چندہ کو ادا کر دیں اور یا اپنے نام ہمارے رجسٹر میں سے کٹوا لیں تا جماعت کے دوسرے باہمت دوستوں کی طرف ہم توجہ کریں.اسی طرح جو سال ختم ہو گیا ہے اس کی میعاد گو 30 نومبر تک ہی تھی مگر پھر بھی جن دوستوں کے وعدے ابھی پورے نہیں ہوئے انہیں کوشش کرنی چاہئے کہ 31 جنوری تک اپنے کو وعدوں کو پورا کر دیں.پس آج میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ جن دوستوں کے ذمہ تحریک جدید کے گزشتہ چار سال میں سے ایک یا ایک سے زیادہ سالوں کا چندہ ابھی واجب الادا ہے وہ یا تو اپنے وعدوں کو جلد سے جلد پورا کریں اور اگر وہ اپنے وعدوں کو پورا نہیں کر سکتے تو یا ہم سے معافی لے لیں اور یا اپنے نام کٹو الیس تا کہ نہ تو وہ خود گنہ گار بنیں اور نہ صحیح لسٹ سے متعلق ہمیں کوئی دھوکہ لگئے.مطبوعہ الفضل 21 دسمبر 1939ء) 713

Page 726

Page 727

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اوّل " اقتباس از تقریر فرموده 26 دسمبر 1939ء جماعت کے لئے بہت بڑی فتوحات مقدر ہیں تقریر فرموده 26 دسمبر 1939 ء بر موقعہ جلسہ خلافت جو بلی اللہ تعالی نے اپنے فضل سے ہر ملک، ہر علاقہ اور ہر میدان میں احمدیت کی ترقی کے سامان کر دیئے ہیں اور احمدیت روز بروز بڑھتی جارہی ہے اور نئے نئے ممالک میں احمد کی جماعتیں قائم ہو رہی ہیں.سیرالیون سے جو مغربی افریقہ میں ہے حال ہی میں اطلاع موصول ہوئی ہے.اس کے متعلق کسی قدر تفصیلی حالات تو اگلے لیکچر میں بیان کروں گا.اتنا بیان کر دینا اس وقت مناسب ہے کہ اس جگہ سال بھر سے ایک مبلغ بھیج دیا گیا تھا وہاں شروع میں حکومت نے بھی مخالفت کی اور غیر مبائعین کا اثر بھی ہمارے خلاف کام کر رہا تھا مگر پرسوں وہاں کے مبلغ کی طرف سے اطلاع موصول ہوئی ہے کہ وہاں کے دو رئیس پانچ سو آدمیوں کے ساتھ احمدی ہو گئے ہیں تو خدا تعالیٰ اپنے فضل.يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا (النصر : 3) کے نظارے دکھا رہا ہے اور ابھی یہ کیا ہے.پنجابی میں جسے زندگی کہا جاتا ہے.وہ یہ کہ ایک دوکاندار کے پاس جاؤ تو وہ نمونہ کے طور پر تھوڑی سی چیز دکھاتا ہے کہ دیکھو کیسی اچھی ہے.پس یہ تو وندگی ہے جو اللہ تعالیٰ جماعت کو دکھا رہا ہے.ورنہ جماعت کے لئے بہت بڑی فتوحات مقدر ہیں جو ضرور حاصل ہوں گی.(مطبوعہ الفضل 3 جنوری 1940 ء) 715

Page 728

Page 729

یک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از تقریر فرموده 27 دسمبر 1939ء تعلیم یافتہ با ہمت نوجوان اپنے آپ کو وقف کریں تقریر فرمودہ 27 دسمبر 1939ء واقفین زندگی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.وو میری یہ خواہش ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ رویا کہ آپ کو پانچ ہزار سپاہی دیا جائے گا ایک تو تحریک جدید میں چندہ دینے والوں کے ذریعہ پورا ہو دوسرا اس رنگ میں پورا ہو کہ ہم پانچ ہزار تحریک جدید کے ماتحت مبلغ تیار کردیں جو اپنی زندگی اعلائے کلمہ اسلام کے لئے وقف کئے ہوئے ہوں.پس باہمت نوجوانوں کو جو یا تو بی.اے ہوں یا مولوی فاضل اور انٹرنس پاس ہوں کہ وہ اپنے آپ کو وقف کریں، باپوں سے کہتا ہوں کہ وہ اپنے بیٹوں کو تحریک کریں، بیٹوں کو کہتا ہوں کہ وہ اپنے باپوں سے کہیں کہ ہمیں خدمت اسلام کے لئے وقف کرو، بھائیوں سے کہتا ہوں کہ وہ بھائیوں کو تحریک کریں اور دوستوں کو کہتا ہوں کہ وہ دوستوں کو تحریک کریں“.خلاصه تقرير مطبوعه الفضل 3 جنوری 1940 ء ) 717

Page 730

Page 731

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول وو اقتباس از تقریر فرموده 7 اپریل 1939ء تحریک جدید کے مطالبات کا خلاصہ تقریر فرمودہ 7 اپریل 1939 ء بر موقع مجلس شوری جیسا کہ جماعت کے احباب کو معلوم ہوگا اور وہ میرے ان گزشتہ خطبات سے سمجھ گئے ہوں گے جو تحریک جدید کے موجودہ سال کے متعلق میں نے گزشتہ سال کے آخر یا اس سال کے شروع میں پڑھے ہیں کہ موجودہ زمانہ کی ضروریات کے لحاظ سے میں نے چند امور جماعت کے احباب کے لئے مخصوص کر دیئے ہیں اور میں اپنے خطبات میں مسلسل جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلا رہا ہوں کہ وہ ان امور کو ہمیشہ اپنے مدنظر رکھیں.میرے وہ مطالبات کو بہت سے ہیں مگر ان مطالبات کا خلاصہ چار باتیں ہیں: اول: جماعت کے افراد میں عملی زندگی پیدا کرنا.خصوصاً نو جوانوں کے اندر بیداری اور عملی جوش پیدا کرنا.دوسرے: جماعتی کاموں کی بنیاد بجائے مالی بوجھ کے ذاتی قربانیوں پر زیادہ رکھنا.تیسرے: جماعت میں ایک ایسا فنڈ تحریک جدید کا قائم کر دینا جس کے نتیجہ میں تبلیغ کے کام میں مالی پریشانیاں روک پیدا نہ کرسکیں.چوتھے : جماعت کو تبلیغی کاموں کی طرف پہلے سے بہت زیادہ توجہ دلانا.جس کے لئے میں نے جماعت سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ ہر احمدی سال میں کم از کم ایک نیا احمدی ضرور بنائے.اگر کسی کو اللہ تعالیٰ توفیق دے تو وہ زیادہ احمدی بھی بنا سکتا ہے لیکن کم سے کم میرا امطالبہ یہ ہے کہ ہر احمدی سال میں ایک نیا احمدی ضرور بنائے.یہ چار باتیں ایسی ہیں کہ اگر ہماری جماعت ان کی طرف پورے طور پر توجہ کرے تو یقیناً تھوڑے ہی عرصہ میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا ہو سکتا ہے.مدتوں سے میری یہ رائے ہے کہ اگر ایک طرف ہماری جماعت کے کاموں کی بنیاد مالی قربانی کی بجائے جانی قربانی پر رکھی جائے تو دوسری طرف مالی قربانی کے اس حصہ کو جو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مستقل صورت دے دی جائے اور کوئی ایسا فنڈ قائم کر 719

Page 732

اقتباس از تقریر فرموده 7 اپریل 1939ء تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول دیا جائے جس کی آمد سے مستقل تبلیغی ضروریات پوری ہوتی رہیں تو تبلیغی میدان میں ہمیں بہت کچھ سہولتیں میسر آسکتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوئی روک ہمارے قدم کو سست نہیں کر سکتی.جانی قربانی کے لئے میں نے وقف زندگی کی تحریک کی ہوئی ہے جس کے ماتحت خدا تعالیٰ کے فضل سے نو جوانوں کی ایک اچھی خاصی جماعت نے اپنی زندگیاں خدمت دینے کے لئے وقف کر دی ہیں.مالی قربانیوں کیلئے ہر سال مالی تحریک کی جاتی ہے جس کے متعلق آخری فیصلہ میں نے یہ کیا ہے کہ مالی قربانی کے ان مطالبات کو دس سال تک ممتد کر دیا جائے جس میں سے پانچواں سال اب گزر رہا ہے اور پانچ سال ابھی باقی رہتے ہیں.اس عرصہ میں انشاء اللہ تعالیٰ ایک ایسا فنڈ قائم ہو جائے گا جس سے ہماری تبلیغ مالی خطرات سے بالکل آزاد ہو جائے گی اور ملک اقتصادی حالت میں جو روزانہ کمی بیشی ہوتی رہتی ہے اور جس کے نتیجہ میں آمد میں اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے اس کے برے اثرات سے ہماری جماعت محفوظ ہو جائے گی.جانی قربانی کے سلسلہ میں مبلغین کا ایک جتھا مختلف ممالک میں جاچکا ہے، لیکن وہ ایک ایسا جتھا تھا جس کی خاص طور پر تعلیم و تربیت نہیں کی گئی تھی.بہر حال اس کے ذریعہ ہمیں غیر ممالک کا اچھا خاصا تجربہ ہو گیا ہے.اس جتھا کے افراد میں بعض کمزوریاں بھی معلوم ہوئی ہیں، کیونکہ ان میں اکثر ایسے تھے جو دینی تعلیم سے پوری طرح واقف نہیں تھے اور اگر کسی کو دینی تعلیم تھی تو دنیوی تعلیم کے لحاظ سے وہ کمزور تھا.لیکن بہر حال یہ ایک مظاہرہ تھا جماعتی قربانی کا اور یہ ایک مظاہرہ تھا اس بات کا کہ ہماری جماعت کے نو جوانوں میں خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ مادہ پایا جاتا ہے کہ جب بھی خدا تعالیٰ کی آواز ان کے کانوں میں آئے وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اعلائے کلمۃ الاسلام کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں.اس مظاہرہ کے ذریعہ دنیا کے سامنے ہماری جماعت کے نوجوانوں نے اپنے اخلاص کا نہایت شاندار نمونہ پیش کیا ہے، لیکن چونکہ کام میں مہارت ایک لمبی تعلیم و تربیت کے نتیجہ میں ہی پیدا ہوسکتی ہے اس لئے آئندہ کے لئے ان نوجوانوں کی تعلیم کا خاص طور پر انتظام کیا گیا ہے جنہوں نے اس تحریک پر اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کی ہیں.گو کام کے لحاظ سے ہمیں پہلے جتھا کے افراد کی تبلیغی کوششوں کے نتیجہ میں بعض جگہ اتنی کامیابی نہیں ہوئی جتنی کامیابی کی ہمیں توقع تھی، مگر پھر بھی بعض جگہ خاصی کامیابی ہوئی ہے، بلکہ قریب ترین عرصہ میں ایک ایسا واقعہ ہوا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری جماعت کے نوجوانوں نے اپنے اخلاص کا نہایت قابل رشک مظاہرہ کیا ہے اور وہ یہ کہ ان چھپیں تھیں نو جوانوں میں سے جنہوں نے اپنی 720

Page 733

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از تقریر فرموده 7 اپریل 1939ء زندگیاں وقف کی تھیں ایک نو جوان تھوڑا ہی عرصہ ہوا غالباً پندرہ بیس دن یا مہینہ کی بات ہے کہ محض احمدیت کی تبلیغ کی وجہ سے اپنے علاقہ میں مارے گئے ہیں.اس نوجوان کا نام ولی داد خاں تھا اور اس نے اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کی ہوئی تھی.افغانستان کے علاقہ میں ہم نے انہیں تبلیغ کے لئے بھجوایا تھا.کچھ طب بھی جانتے تھے اور معمولی امراض کے علاج کے لئے دوائیاں اپنے پاس رکھتے تھے.کچھ مدت تک ہم انہیں خرچ بھی دیتے رہے مگر پھر ہم نے انہیں خرچ دینا بند کر دیا تھا.ان کی اپنی بھی یہی خواہش تھی اور میں نے بھی انہیں یہی مشورہ دیا تھا کہ اس علاقہ میں طب شروع کر دیں اور آہستہ آہستہ جب لوگ مانوس ہو جائیں تو انہیں تبلیغ احمدیت کی جائے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے انہیں ایسے مواقع بہم پہنچا دیئے کہ انہوں نے اس علاقہ میں لوگوں کو تبلیغ کرنی شروع کر دی.کھلی تبلیغ سے تو ہم نے خود انہیں روکا ہوا تھا، کیونکہ یہ وہاں کے قانون کے خلاف ہے.آہستہ آہستہ وہ تبلیغ کیا کرتے اور لوگوں کو نصیحت کیا کرتے کہ کبھی پنجاب میں جایا کرو تو قادیان بھی دیکھ آیا کرو.رفتہ رفتہ جب لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ یہ احمدی ہے تو انہوں نے گھر والوں پر زور دینا شروع کر دیا کہ تمہیں اس فتنہ کے انسداد کا کوئی خیال نہیں.تمہارے گھر میں کفر پیدا ہو گیا ہے اور تم اس سے غافل ہو.چنانچہ انہیں اس قدر بر انگیختہ کیا گیا کہ وقتل کے درپے ہو مولوی ولیداد خاں چند دن پہلے ہندوستان میں بعض دوائیاں خریدنے کے لے آئے ہوئے تھے.جب دوائیاں خرید کر اپنے علاقہ کی طرف گئے تو انہی کے چازاد بھائی اور سالہ نے ان پر گولیوں کے متواتر تین چار فائر کر کے انہیں شہید کر دیا.اسی طرح ایک اور نوجوان جو اس تحریک کے ماتحت چین میں گئے تھے وہ بھی فوت ہو گئے ہیں اور گوان کی وفات طبعی طور پر ہوئی ہے مگر ایسے رنگ میں ہوئی ہے کہ وہ موت اپنے اندر شہادت کا رنگ رکھتی ہے.چنانچہ تھوڑا ہی عرصہ ہوا مجھے ایسے حالات معلوم ہوئے جن سے پتہ لگتا ہے کہ واقعہ میں اس کی موت معمولی موت نہیں، بلکہ شہادت کا رنگ لئے ہوئے ہے.اس نوجوان نے بھی ایسا اخلاص دکھایا جو نہایت قابل قدر ہے.سب سے پہلے 1934ء میں جب میں نے یہ تحریک کی اور اعلان کیا کہ نو جوانوں کو غیر ممالک میں نکل جانا چاہئے تو یہ نوجوان جو غالباً د مینیات کی متفرق کلاس میں پڑھتا تھا اور عدالت خان اس کا نام تھا تحصیل خوشاب ضلع شاہ پور کا رہنے والا تھا، میری اس تحریک پر بغیر اطلاع دیئے کہیں چلا گیا.قادیان کے لوگوں نے خیال کر لیا کہ جس طرح طالب علم بعض دفعہ پڑھائی سے دل برداشتہ ہو کر بھاگ جایا کرتے 721

Page 734

اقتباس از تقریر فرموده 7 اپریل 1939ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول ہیں اسی طرح وہ بھی بھاگ گیا ہے، مگر دراصل وہ میری اس تحریک پر ہی باہر گیا تھا مگر اس کا اس نے کسی سے ذکر تک نہ کیا.چونکہ ہمارے ہاں عام طور پر صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید اور دوسرے شہداء کا ذکر ہوتا رہتا ہے اس لئے اسے یہی خیال آیا کہ میں بھی افغانستان جاؤں اور لوگوں کو تبلیغ کروں.اسے یہ بھی علم نہیں تھا کہ غیر ملک میں جانے کے لئے پاسپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ اسے پاسپورٹ مہیا کرنے کے ذرائع کا علم تھا.وہ بغیر پاسپورٹ کے نکل کھڑا ہوا اور افغانستان کی طرف چل پڑا.جب افغانستان میں داخل ہوا تو چونکہ وہ بغیر پاسپورٹ کے تھا اس لئے حکومت نے اسے گرفتار کر لیا اور پوچھا کہ پاسپورٹ کہاں ہے.اس نے کہا کہ پاسپورٹ تو میرے پاس کوئی نہیں.انہوں نے اسے قید کر دیا، مگر جیل خانہ میں بھی اس نے قیدیوں کو تبلیغ کرنی شروع کر دی.کوئی مہینہ بھر ہی وہاں رہا ہوگا کہ افسروں نے رپورٹ کی کہ اب رہا کر دینا چاہئے ورنہ یہ قیدیوں کو احمدی بنالے گا.چنانچہ انہوں نے اس کو ہندوستان کی سرحد پر لا کر چھوڑ دیا.جب وہ واپس آیا تو اس نے مجھے اطلاع دی کہ میں آپ کی تحریک پر افغانستان گیا تھا.اور وہاں میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا.اب آپ بتائیں کہ میں کیا کروں.میں نے اسے کہا کہ تم چین میں چلے جاؤ.چنانچہ وہ چین گیا اور چلتے وقت اس نے ایک اور لڑکے کو بھی جس کا نام محمد رفیق ہے اور ضلع ہوشیار پور کا رہنے والا ہے تحریک کی کہ وہ ساتھ چلے.چنانچہ وہ بھی ساتھ تیار ہو گیا.اس کے چونکہ رشتہ دار موجود تھے اور بعض ذرائع بھی اسے میسر تھے اس لئے اس نے کوشش کی اور اسے پاسپورٹ مل گیا.جس وقت یہ دونوں کشمیر پہنچے تو محمد رفیق تو آگے چلا گیا مگر عدالت خاں کو پاسپورٹ کی وجہ سے روک لیا گیا اور بعد میں گاؤں والوں کی مخالفت اور راہ داری کی تصدیق نہ ہو سکنے کی وجہ سے وہ کشمیر میں ہی رہ گیا اور وہاں اس انتظار میں بیٹھ رہا کہ اگر مجھے موقع ملے تو میں نظر بچا کر چین چلا جاؤں گا، مگر چونکہ سردیوں کا موسم تھا اور سامان اس کے پاس بہت کم تھا اس لئے کشمیر میں اسے ڈبل نمونیہ ہوگیا اور وہ دو دن بعد فوت ہو گیا.ابھی کشمیر سے چند دوست آئے ہوئے تھے انہوں نے عدالت خاں کا ایک عجیب واقعہ سنایا جسے سن کر رشک پیدا ہوتا ہے کہ احمدیت کی صداقت کے متعلق اسے کتنا یقین اور وثوق تھا.وہ ایک گاؤں میں بیمار ہوا تھا جہاں کوئی علاج میسر نہ تھا.جب اس کی حالت بالکل خراب ہوگئی تو ان دوستوں نے سنایا کہ وہ ہمیں کہنے لگا کسی غیر احمدی کو تیار کرو جو احمدیت کی صداقت کے متعلق مجھ سے مباہلہ کر لے.اگر کوئی ایسا غیر احمدی تمہیں مل گیا تو میں بچ جاؤں گا اور اسے تبلیغ بھی ہو جائے گی ورنہ میرے بیچنے کی اور کوئی صورت نہیں.شدید بیماری کی حالت میں یہ یقین اور وثوق بہت ہی کم لوگوں کو میسر ہوتا ہے، کیونکہ نانوے 722

Page 735

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از تقریر فرموده 7 اپریل 1939ء فیصدی اس بیماری سے مر جاتے ہیں اور بعض تو چند گھنٹوں کے اندر ہی وفات پا جاتے ہیں.ہماری مسجد مبارک کا ہی ایک موذن تھا وہ عصر کے وقت بیمار ہوا اور شام کے وقت فوت ہو گیا.ایسی خطرناک حالت میں جبکہ اس کی موت یقینی کا نانوے فیصدی یقین کیا جا سکتا تھا اس نے اپنا علاج بھی یہی سمجھا کہ کسی غیر احمدی سے مباہلہ ہو جائے اور اس نے کہا کہ اگر مباہلہ ہو گیا تو یقیناً خدا مجھے شفا دے دے گا اور یہ ہو نہیں سکتا کہ میں اس مرض سے مر جاؤں.بہر حال اس واقعہ سے اس کا اخلاص ظاہر ہے.اسی طرح اس کی دور اندیشی بھی ثابت ہے کیونکہ اس نے ایک اور نو جوان کو خود ہی تحریک کی کہ میرے ساتھ چلو اور وہ تیار ہو گیا.اس طرح گو عدالت خاں فوت ہو گیا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے بیج کو ضائع نہیں کیا بلکہ ایک دوسرے شخص نے جسے وہ اپنے ساتھ لے گیا تھا احمدیت کے جھنڈے کو پکڑ کر آگے بڑھنا شروع کر دیا اور مشرقی شہر کا شغر میں پہنچ گیا اور وہاں تبلیغ شروع کر دی.نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں کے ایک دوست کو اللہ تعالیٰ نے احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرما دی.حاجی جنود اللہ صاحب ان کا نام ہے.وہ اسی تبلیغ کے نتیجہ میں قادیان آئے اور تحقیق کر کے احمدیت میں شامل ہو گئے.پھر کچھ عرصہ بعد حاجی جنود اللہ صاحب کی والدہ اور ہمشیرہ بھی احمدی ہو گئیں اور اب تو وہ قادیان ہی آئے ہوئے ہیں.تو عدالت خان کی قربانی رائیگاں نہیں گئی بلکہ احمدیت کو اس علاقہ میں پھیلانے کا موجب بن گئی.یہ ایک ایسا علاقہ ہے جس میں احمدیت کی اشاعت کا خیال بھی نہیں کیا جاسکتا تھا.ایسے ایسے خطر ناک اور دشوار گزار راستے ہیں کہ ان کو عبور کرنا ہی بڑی ہمت کا کام ہے.حاجی جنود اللہ صاحب کی والدہ نے بتایا کہ رستہ میں ایک مقام پر وہ تین دن تک برف پر گھٹنوں کے بل چلتی رہیں.ایسے سخت رستوں کو عبور کر کے ہماری جماعت کے ایک نوجوان کا اس علاقہ میں پہنچنا اور لوگوں کو تبلیغ کرنا بہت بڑی خوشی کی بات ہے.تو تحریک جدید کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے عدالت خان کو پہلے یہ توفیق دی کہ وہ افغانستان جائے.چنانچہ وہ افغانستان میں کچھ عرصہ رہا اور جب واپس آیا تو میری تحریک پر وہ چین کے لئے روانہ ہو گیا اور خود ہی ایک اور نو جو ان کو اپنے ساتھ شامل کر لیا.راستہ میں عدالت خاں کو خدا تعالیٰ نے شہادت کی موت دے دی، مگر اس کے دوسرے ساتھی کو اس امر کی توفیق عطا فرمائی کہ وہ آگے بڑھے اور مشرقی ترکستان میں جماعت احمدیہ قائم کر دے.یہ دو واقعات شہادت بتاتے ہیں کہ گو یہ اپنی جدوجہد میں کامیاب نہیں ہوئے مگر ان کی کوششیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول تھیں.چنانچہ ان دو آدمیوں میں سے ایک کو تو اللہ تعالی نے عملی رنگ میں شہادت دے دی اور دوسرے کی وفات ایسے رنگ میں ہوئی جو شہادت کے ہمرنگ ہے.اب جو نیا گروہ 723

Page 736

اقتباس از تقریر فرموده 7 اپریل 1939ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول تیار ہورہا ہے اسے دینی تعلیم دلوائی جا رہی ہے.جب یہ تعلیم مکمل ہو جائے گی تو بعض بیرونی ممالک میں انہیں دنیوی تعلیم دلائی جائے گی، کیونکہ جیسا کہ گزشتہ مجلس مشاورت کے موقع پر میں نے بیان کیا تھا میرا ارادہ ہے کہ ان لوگوں کو اگر ہم گزارے کم دیتے ہیں تو علمی طور پر ہم ان کے اندر اس قدر لیاقت اور قابلیت پیدا کر دیں کہ دنیا کی کسی علمی مجلس میں بیٹھ کر وہ اپنے آپ کو کم علم والا محسوس نہ کریں اور اگر روپیہ کے لحاظ سے ان کے پاس اس قدر فراوانی ہو کہ کوئی شخص انہیں ذلیل نہ سمجھ سکے اور ہر جگہ وہ اپنا رعب قائم رکھ سکیں.باقی رہا روپے کا معاملہ سو جہاں تک وعدوں کا سوال ہے جماعت نے اس سال پہلے سالوں سے زیادہ تحریک جدید کے مالی مطالبہ کی طرف توجہ کی ہے اور باوجود یکہ بہت سے لوگ اس نیت اور اس ارادہ سے اس تحریک میں شامل ہوئے تھے کہ تین سال کے بعد تحریک بند ہو جائے گی اور مالی بوجھ ان پر زیادہ دیر تک نہیں رہے گا اور باوجود اس بات کے کہ میں نے اب یہ اعلان کر دیا ہے کہ دس سال تک جماعت کو مسلسل یہ مالی قربانی کرنی پڑے گی اور یہ کہ وہی اس تحریک میں شال ہوں جو مستقل طور پر قربانی کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں تا کہ اس دائگی یادگار میں ان کا نام آئے جو مسلسل قربانی کرنے والوں کی یاد میں قائم کی جائے گی.پھر بھی بجائے کمی کے وعدوں میں زیادتی ہوئی ہے.چنانچہ اس وقت تک ایک لاکھ پچیس ہزار روپیہ کے وعدے ہو چکے ہیں اور ابھی بیرونی ممالک کی اکثر جماعتوں کے وعدے نہیں پہنچے.ان کو ملا کر یہ رقم اور بھی زیادہ ہو جائے گی.جیسا کہ میں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں اس روپیہ سے تحریک جدید کا ایک ایسا مستقل فنڈ ہم نے قائم کرنا ہے جس کے نتیجہ میں آئندہ تحریک جدید کا شعبہ چندے کا محتاج نہیں رہے گا.وقتی یا ہنگامی ضرورت کے لئے اگر کوئی چندہ کرنا پڑے تو وہ اور بات ہے.اس فنڈ کے قائم کرنے سے میرا منشا یہ ہے کہ روزانہ کام کے لئے چندوں کی ضرورت نہ رہے اور اس فنڈ کی آمد سے ہی تمام کام ہوتا رہے تا کہ ہمارے ملک کا اقتصادی اتار چڑھاؤ تبلیغ کے کام میں روک پیدا نہ کر سکے.عملی حصہ سے متعلق میں نے خدام الاحمدیہ کی تحریک جماعت میں جاری کی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس تحریک کو بہت بڑی کامیابی ہو رہی ہے.قادیان میں خصوصاً اچھا کام ہورہا ہے.باہر بھی بعض جگہ مجالس خدام الاحمدیہ کام کر رہی ہیں، مگر چونکہ ابھی وہ پورے طور پر منظم نہیں ہیں اور دوسرے پورے طور پر انہیں تجربہ بھی حاصل نہیں اس لئے اس عمدگی سے بیرونی جماعتوں میں کام نہیں ہورہا جس عمدگی سے قادیان میں ہورہا ہے.میرا منشا ہے کہ قادیان کے خدام الاحمدیہ جب وہ تمام سبق ذہن نشین کرلیں جو ہیں ان کے ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں اور ان کو اس تحریک کی تمام جزئیات کا علم ہو جائے تو انہیں انسپکٹر بنا کر باہر کے علاقوں میں بھیجا جائے تاکہ وہ مہینہ مہینہ دو دو مہینے وہاں رہ کر مجالس خدام 724

Page 737

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اقتباس از تقریر فرموده 7 اپریل 1939ء الاحمدیہ کو بیدار کریں اور انہیں ان نقائص کو دور کرنے کی طرف توجہ دلائیں جو ان میں پیدا ہوں.جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس کام کی طرف جماعت کو توجہ ہے.الا ما شاء اللہ بعض جماعتوں نے ابھی اس طرف توجہ نہیں بھی کی مگر عام طور پر خدام الاحمدیہ کی تحریک کی طرف جماعت کو توجہ ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کے نتائج نہایت اچھے پیدا ہور ہے ہیں.اگر میری اس سکیم پر جو میں نے خدام الاحمدیہ کے سامنے پیش کی ہے پورے طور پر عمل کیا گیا تو احمدیت کا دنیا کے سامنے ایک خوشنما نقشہ آجائے گا جسے دیکھ کر ہر شخص احمدیت کی فضیلت اور اس کی خوبیوں اور برتری کا اقرار کرنے پر مجبور ہو گا.چوتھی چیز تبلیغ احمدیت ہے.اس کے متعلق میں نے جماعت سے وعدے مانگے ہیں اور میں نے مطالبہ کیا ہے کہ ہر شخص ہمیں بتائے کہ وہ سال میں کتنے نئے احمدی بنائے گا.اس کے متعلق ابھی تمام جماعتوں کی طرف سے وعدے نہیں آئے لیکن آہستہ آہستہ آرہے ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ جن جماعتوں یا افراد نے ابھی تک اس طرف توجہ نہیں کی وہ فوری طور پر توجہ کریں گے اور محکمہ متعلقہ کو اپنے اپنے وعدوں کی اطلاع دے دیں گے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعتیں اس مطالبہ کی طرف توجہ کریں تو ایک سال میں عظیم الشان تغیر پیدا ہو سکتا ہے.اگر ہر احمدی لازماً ہر سال ایک نیا احمدی بنائے اور اس میں کسی قسم کی سستی اور غفلت کو روانہ رکھے تو چار پانچ سال کے اندر ہی ہماری جماعت اتنی زیادہ تعداد میں پھیل سکتی ہے کہ دشمن کی نگاہیں بغض اور غصہ سے ہمیں نہیں دیکھ سکتیں.“ رپورٹ مجلس شور کی منعقدہ 7 تا 9 اپریل 1939 ء ) 725

Page 738

Page 739

جدید - ایک الہی تحریک جلد اول - الہبی....جلد وو اقتباس از تقریر فرمودہ 8 اپریل 1939ء کوئی چیز بھی اپنی ذات میں بری نہیں تقریر فرمودہ 8 اپریل 1939ء بر موقع مجلس شوریٰ پھر بعض لوگوں کے منہ سے یہ بات بھی نکلی ہے کہ سینما کی ممانعت دس سال کے لئے ہے.انہیں یا درکھنا چاہئے کہ برائی کا تعلق دس سال یا بیس سال سے نہیں ہوتا.جس چیز میں کوئی خرابی ہو وہ کسی میعاد سے تعلق نہیں رکھتی.اس طرح تو میں نے صرف آپ لوگوں کی عادت چھڑا دی ہے.اگر میں پہلے ہی یہ کہہ دیتا کہ اس کی ہمیشہ کے لئے ممانعت ہے تو بعض نوجوان جن کے ایمان کمزور تھے اس پر عمل کرنے میں تامل کرتے ،مگر میں نے پہلے تین سال کے لئے ممانعت کی اور جب عادت ہٹ گئی تو پھر مزید سات سال کے لئے ممانعت کر دی اور اس کے بعد چونکہ عادت بالکل ہی نہیں رہے گی اس لئے دوست خود ہی کہیں گے کہ جہنم میں جائے سینما.اس پر پیسے ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے.قانون شکن تو اب بھی ہیں مگر اب ایک آدھ فیصدی ہے لیکن اگر میں یہ صورت اختیار نہ کرتا تو چالیس فیصدی ایسے ہوتے خصوصاً کالجوں کے طلبا.پس یہ خیال کہ دس سال کے بعد اس کی اجازت ہو جائے گی غلط ہے.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ کوئی نام اپنی ذات میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا.اس لئے یہ کہنا کہ سینما یا با کیسکوپ یا فنونو گراف اپنی ذات میں برا ہے صحیح نہیں.فونوگراف خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سنا ہے، بلکہ اس کے لئے آپ نے خود ایک نظم لکھی اور پڑھوائی اور پھر یہاں کے ہندوؤں کو بلوا کر سنائی.یہ وہ نظم ہے جس کا ایک شعر یہ ہے کہ ؎ آواز آرہی ہے یہ فونو گراف ڈھونڈو خدا کو دل سے نہ لاف و گزاف سے پس سینما اپنی ذات میں برا نہیں، بلکہ اس زمانہ میں اس کی جو صورتیں ہیں وہ مخرب اخلاق ہیں.اگر کوئی فلم کلی طور پر تبلیغی یا تعلیمی ہو اور اس میں کوئی حصہ تماشا وغیرہ کا نہ ہوتو اس میں کوئی ہرج نہیں.میری یہی رائے ہے کہ تما شا تبلیغی بھی ناجائز ہے.ہم جب ولایت میں گئے تو بعض لوگوں نے کہا کہ اذان دیں یا نماز پڑھائیں کہ ہم اس کی تصویر لیں، مگر میں نے کہا کہ تماشہ کے لئے میں ایسا نہیں کر سکتا.شام میں جب ہم گئے تو وہاں مولوی فرقہ کے لوگوں کا ایک مرکز ہے.دمشق میں ان کی باقاعدہ گدی ہے.مجھے دوستوں نے کہا کہ اگر آپ دیکھنا چاہیں تو انتظام کیا جائے.ان کو کچھ پیسے دیئے گئے اور ان کے گدی نشین نے اپنے 727

Page 740

اقتباس از تقریر فرمودہ 8 اپریل 1939ء تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول چالیس پچاس چیلے منگوا لئے اور انہوں نے حال وغیرہ دکھایا، مگر مجھے اس سے شدید نفرت ہوئی ، کیونکہ انہوں نے یہ تماشا کے طور پر دکھایا تھا.پس کوئی حرکت خواہ وہ کتنی اچھی کیوں نہ ہو اگر اس کا مقصد تماشا دکھا نا ہوتو وہ نا جائز ہے.مگرسینما تو مخرب اخلاق ہونے کی وجہ سے ہی ناجائز قرار دیا گیا ہے.اگر کوئی شخص مثلاً ہمالیہ پہاڑ کے نظاروں کی فلم تیار کرے، وہاں کی برف، درخت، چشمے دکھائے جائیں.اس کی چٹانوں، غاروں اور چوٹیوں کا نظارہ ہو تو چونکہ یہ چیز علمی ترقی کا موجب ہوں گی میں اس سے نہیں روکوں گا.جس چیز کو ہم روکتے ہیں وہ اخلاق کو خراب کرنے والا حصہ ہے اور چونکہ آج کل کی فلموں میں یہ چیز عام ہے اس لئے ہم کسی فلم کے مخرب اخلاق ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ دیکھنے والوں پر نہیں چھوڑتے ، بلکہ اس بات کو مسلمہ قرار دیتے ہیں کہ سینما میں یہ خرابی موجود ہے اور سینما کا آج کل اس قدر رواج ہو گیا ہے کہ اسے زندگی کا جز دسمجھا جانے لگا ہے.تحریک جدید کے بعد میری ہمشیرہ سے شملہ میں بعض غیر احمدی اور غیر مسلم معرزین کی مستورات نے ذکر کیا کہ یہ تحریک بہت مفید ہے بلکہ بعض نے اس کی کا پیاں منگوا کر تقسیم کیں.ایک کھانا، سادہ کپڑے، ضرورت سے زیادہ کپڑے نہ بنوانا ان سب باتوں کو ان سب نے بہت پسند کیا، مگر سینما کی ممانعت کے متعلق کہا کہ یہ بہت مشکل ہے.اسے نہیں چھوڑا جا سکتا.تو یہ چیز ایسی گھر کر گئی ہے کہ آج کل کہا اسے چھوڑنا بہت مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن اس کی خرابی میں کوئی شک نہیں.احمدیوں میں بھی بعض ایسے ہیں جو اس ممانعت کو توڑتے ہیں مگر وہ بہت کم ہیں.لاہور مین ایک شخص نے سینما دیکھا.دوسرے نے اسے کہا کہ اس کی تو ممانعت ہے تو اس نے کہا کہ سات سال کے بعد تو اجازت ہو جائے گی ، اگر میں نے پہلے دیکھ لیا تو کیا ہوا.لیکن اس کی دوبارہ اجازت کا خیال آپ لوگوں کو دل سے نکال دینا چاہئے ، کیونکہ اس میں روپیہ کے ضیاع کے علاوہ اخلاق کی بھی تباہی ہے.پھر اسراف کے حصہ کا تو علاج ہو سکتا ہے مگر اس کے ذریعہ اخلاق کو جو نقصان پہنچتا ہے وہ ایسا ہے کہ اگر کسی کے پاس لاکھوں کروڑوں بلکہ اربوں کھربوں پی بھی ہو میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا اور جب تک فلمیں مخرب اخلاق رہیں گی اس کی ممانعت قائم رہے گی.اسی طرح جب کسی فونوگراف کے ریکارڈ مخرب اخلاق ہوں تو اس کی بھی ممانعت ہوگی لیکن اگر فلمیں تعلیمی ہوں تو اس کی ممانعت نہیں ہوتی.اس طرح میں اس بات کے بھی خلاف ہوں کہ کوئی جلوس اس لئے نکالا جائے کہ کوئی اس کی فلم ہے.یہ علیحدہ بات ہے کہ ہم جلوس نکال رہے ہوں اور کوئی تصویر لے لے.اس میں کوئی ہرج نہیں.تکلف اور تصنع سے کوئی کام کرنا درست نہیں اور میں اسے ناجائز سمجھتا ہوں بلکہ اپنے عزیز اور پیارے کی اس میں ذلت سمجھتا ہوں.“ رپورٹ مجلس شوری منعقدہ 7 تا 9 اپریل 1939ء ) 728

Page 741

تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد اول اشاریہ ا.آیات قرآنیہ ۲.احادیث مبارکہ.کلید مضامین.اسماء مقامات.کتابیات اشاریہ 729

Page 742

Page 743

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک....جلد اول آیات قرآنیہ اشاریہ ، آیات قرآنیہ الفاتحه 15, 47, 79, 127, 205, 233, 263, 277, 295,315,383, 401, 411, 421, 435, 439, 535, 691 البقرة ذالك الكتاب لا ريب فيه......( ۲ تا ۴ 16 لا يكلف الله نفسا الا وسعها (۲۶)53 فاستبقوا الخيرات (۱۴۸)109 يريد الله بكم اليسر.....(۱۸۵)111 واذقال ابراهيم ربّ ارتي.....( ۲۰ )118 ولا تقولوا لمن يقتل.....(۱۵۵)182 قل العفو....(184 كم من فئة قليلة غلبت فئة كثيرة (۲۵۰)329,625 ان طهرا بيتى للطائفين والعاكفين (۱۲۶)384 LAY شهر رمضان الذى انزل فيه القرآن (5881 اجيب دعوة الداع اذا دعان (581 آل عمران لعنة الله على الكاذبين (۶۲)179 ولتكن منكم امة....(۱۰۵)200 کنتم خير امة....(111)200 فاصبحتم بنعمته اخوانا...(۱۰۴)265 قد بدت البغضاء من افواههم....(9) )270 النساء اطیعوا الله واطيعوا الرسول....( ۲۰ )302 المائدة فاذهب انت و ربک فقاتلا.(۲۵) 278,316,317 لا يضركم من ضل اذا اهتديتم (11)326 الاعراف كلوا واشربوا ولا تسرفوا (۳۲)32 الانفال كانما يساقون الى الموت (6)176 التوبة يايها الذين أمنوا مالكم....(۳۸) 161,175,228 ويستبدل قوما غيركم....(۳۹)163 كونوا مع الصادقين (419119 يونس ثم جعلنا كم خلائف في الارض (۱۵)251 ابراهيم وقال الذين كفروا لرسلهم لنخرجنكم.263,274 الحجر ربما يود الذين كفروا لو كانوا مسلمين (۳)463 النحل كاللتي نقضت غزلها من بعد قوة انكاثاً (۹۳) 613 731

Page 744

اشاریہ ، آیات قرآنیہ الكهف ضل سعيهم في الحياة الدنيا....(۱۰۵)287 مریم وان منكم الا واردها(۷۲)410 طة رب اشرح لی صدری و پسر لی امری (۲۶ تا ۲۹)666 تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول قولوا قولاً سديدا ( 1 )573 الحجرات ان اکرمکم عندالله اتقاكم...( )235 الحديد الم يان للذين أمنوا ان تخشع قلوبهم ( 1 )378 الصف ولا تمدن عينيك الى ما متعنا به ازواجا منهم...سبح لله ما في السموات وما في الارض (۲) 512 (۱۳۲)345 ياايها الذين آمنوا لم تقولون ما لا تفعلون (۳۰۳) الانبياء من الماء كل شيء حي....(۳۰) 260 المؤمنون ولقد خلقنا الانسان من سلالة من طين...(1) 260 ثم جعلناه نطفة في قرار مكين...(۱۳) 260 الفرقان قل ما يعبئوابكم رہی.....(273 يارب ان قومي اتخذوا...(۳۱) 288,294 و جاهدهم به جهاداً كبيراً(۵۳)451 الشعراء لعلك باخع نفسک....(۴)279 القصص رب اني لما انزلت الى من خير فقير (۲۵)345 الاحزاب فمنهم من قضى نحية ومنهم من ينتظر (٢٢) 491,492,513,516,624,708 يايها النبي قل لازواجک آن کنتن تردن (۲۸)39 512,513,516,517 ان الله يحب الذين يقاتلون في سبيله (۵) 518 واذ قال موسى لقومه لم تؤذوننی(1) 520-518 الجمعه وابتغوا من فضل الله....(147 فانتشروا في الأرض....(147 النازعات والناشطات نشطاً والسبحت سبحا (۴۳)405 الاعلى فذكر ان نفعت الذكرى ( 43410 الضحى واما بنعمة ربك فحدث ( ۱۲ )31,33,346,405 اذاجاء نصرا النصر الله......( ۲ تا ۵)311 يدخلون في دين ! الله افواجا(۳)715 ☆☆☆ 732

Page 745

تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد اول احادیث اشاریہ ، احادیث مبارکہ انا عند ظن عبدی بی 62 بدأ الاسلام غريبا وسيعود غريبا 100 سورۃ فاتحہ کا دم کرنا 59,60 عیدین ہمارے کھانے پینے کے دن ہیں 81,82 الامام جنة يقاتل من ورائه 123,319,321,558 حضور ﷺ کا ایک صحابی کو بکر الانے کے لئے ایک دینار دینا 87 اللهم انا نجعلك في نحورهم....156,433 رب كل شئ خادمک....156 لولاک لما خلقت الافلاک 278 حضرت ابو بکر صدیق کے ایمان لانے کا واقعہ 105 جمعہ میں ایک گھڑی قبولیت کی ہوتی ہے 105 رسول کریم ﷺ کی تلقین کو مقصرین پر فضلیت دینا 105 الله من كان يعبد الله فان الله حي لا يموت 385 (قول رسول کریم ﷺ کی آواز پر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا گلی حضرت ابوبکر تخلقوا باخلاق الله 411 من اطاع امیری فقد اطاعتی 496 لا يبقى من الاسلام الا اسمه 589 لا يبقى من القرآن الا رسمه 589 میں ہی بیٹھ جانا 109,298 ایک صحابی کی مہمان نوازی کا واقعہ 110,640 رسول کریم ﷺ کی صحابہ کو مہمان نوازی کی ہدایت 113 حرمت شراب کا واقعہ 114 مومن کی جان نکالنا خدا تعالیٰ کے لئے سب سے بڑا صدمہ 141 كلمة الحكمة اريد بها الباطل (اثر حضرت علیؓ) 572 سراقہ کے ہاتھوں میں کسری کے کنگن دیکھنا 143 اعملوا ما شئتم فاني قد غفرت لكم 624 احادیث بالمعنى صحابہ کو جنگ بدر کے متعلق بتانا 18-16 ولیمہ کے متعلق سنت 23 ایک صحابی کا رسول کریم ﷺ سے سواری کا مطالبہ 33 نوحہ کرنے سے منع کرنا 144 پیشگوئی کہ ایک زمانہ آئے گا جب تو بہ قبول نہ ہوگی 155 میرے خدا نے تمہارے خدا کو مار دیا 168 گالیوں پر صبر کرنے سے فرشتے گالیوں کا جواب دیتے ہیں 170 ایک شخص کا حضور ﷺ سے عرض کرنا کہ لوگوں کو صدقہ و خیرات کرتے دیکھ کر میرے دل میں بھی خواہش پیدا ہوتی ہے دعا کریں ایک سالن کی ہدایت اور اپنا نمونہ 34,343 غریب صحابہ کو نماز کے بعد تسبیحات کرنے کی ہدایت 49,50 اللہ مجھے مال دے 183 کسی کے ذریعے ہدایت پانے والے کے نیک اعمال اس کے رسول کریم ﷺ کا ایک افسردہ لڑکے کو بتانا کہ خدا تعالیٰ نے کھاتے میں بھی لکھے جاتے ہیں 56 تمہارے شہید باپ سے کیسا سلوک کیا ہے؟ 183 733

Page 746

اشاریہ ، احادیث مبارکہ تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول ایک شخص کا واقعہ جس کی رسول کریم مے زکوۃ قبول نہ کرتے ایمان کامل اس وقت ہوتا ہے جب اپنی جان سے بڑھ کر 184 مہمانی تین روز کی ہے 189 آپ ﷺ سے محبت ہو 442 حضرت عائشہ سے یہ کہنا کہ میری پیٹھ پر پاؤں رکھ کر فلاں نظارہ حضور ع دائیں پہلو کو ترجیح دیتے 190,249,257 دیکھ لو 466 بچہ پیدا ہو تو دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامتہ کہی جائے نماز کے دوران حضرت حسن کا آپ ﷺ پر چڑھ کر بیٹھ جانا 242,243 466 رسول کریم ﷺ نے بے کاری کو سب سے بڑی لعنت قرار دیا نوافل کے ذریعہ ہی انسان کو قرب الہی حاصل ہوتا ہے 477 ہے 243 اپنے جسم کا بھی خیال رکھو 5 25 عاقل زاہد سے کئی گنا زیادہ بہتر ہے 497 دین کے مسائل پوچھنے میں کوئی شرم کی بات نہیں 503 جھنڈے کا حق ادا کرنا 256 سفر سے واپسی پر شہر سے باہر قیام فرماتے 275 راستے میں پاخانہ پھرنے والے پر خدا تعالیٰ کی لعنت 506 صفیں سیدھی رکھو 518,520 جو شخص امام سے پہلے حرکت کرتا ہے قیامت کے دن اس کا منہ گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا 535 حضرت عمرؓ کو ایک چغہ کا پسند آنا 638 گدھے کی طرح بنایا جائے گا 319 حضرت ابو بکر کا اپنے گھر کا سارا سامان قربان کرنا 322 پہلی وحی کا نزول اور آنحضور ﷺ کی گھبراہٹ 639 فتح حنین کے موقع پر مال کی تقسیم کے متعلق بعض انصاری ایک مومن کا کھانا دو کے لئے کافی ہوتا ہے 639 نوجوانوں کا شکوہ 355 مومن کا ادنی بدلہ آسمان اور زمین ہوں گے 381 سود لینے والے اور دینے والے دونوں پر لعنت 641 آنحضور ﷺ کی سنت ہے کہ آپ یہ شوال کے روزے تمام مومن آپس میں ایک جسم کی طرح ہیں 388 رکھا کرتے تھے 703 تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں 389 راستے سے کنکر، پتھر یا کانٹے وغیرہ ہٹانے والے کو بھی ثواب ملتا ہے 393,506 ہ بعض دفعہ صحابہ کو کتے مارنے کا حکم دیتے 393 آپ عمل صحابہ کو تیراندازی اور نیزہ بازی کی مشق کرواتے 393 حضرت عائشہ کو نیزہ بازی کے کرتب دکھانا 393 اچھی عبادت وہ ہے جو دائمی ہو 412,576 آپ ﷺ کا معمول تھا کہ پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے 421 734 ☆☆☆

Page 747

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول کلید مضامین آخرت راخروی زندگی ( نیز دیکھئے قیامت) 182 307,312,443,444,570,693,695,697 آخرت کو مقدم رکھنا 182 آخرت میں انہی کا حصہ ہے جو اللہ کے ساتھ شرطیں نہیں رکھتے 307 آخرت کے انعامات کی حقیقت 312,693 آخرت کا صلہ 443 اخروی زندگی کی ترجیحات 570 آخری لڑائی انبیاء نے مسیح موعود کے زمانے کا نامشیطان کی آخری لڑائی رکھا ہے 309 آوارگی آوارگی کے نقصانات 242-240 تمام آوارگیاں بریکاری سے پیدا ہوتی ہیں 241 آیت ( دیکھئے آیات قرآنیہ ) الله رخدا 1,9,11,13,16-18,22,47,48, 61,75,79,83,92-95,99,101-111,118, 121,125,129,131,132,134,139,141, 143,145,147,148,150-154,156-163, اشاریہ ،کلید مضامین 165-169,171-178,182-184,187,188, 191,194-198,203,207-210,216,218, 221,223,224,228,235,238,244,245, 247,249,251,266-269,272-278,282- 286,297,306,307,311,313,316,318, 320,322,327,329,338-342,345,346, 356,357,380,382,385,387,393,397, 399,403,405,407,409-419,421-424, 426,427,434-437,449-451,453,455, 458-460,462,463,465,466,469,473- 480,483,486,492-494,498,502,503, 505,506,508,509,511-513,516-520, 524,525,545-548,550-553,562-569, 577,580-582,584-590,592,598-603, 605,608-610,612,613,615,617,619- 621,623-625,627,628,638,641-644, 647,649-653,663,665-669,673,678, 679,681-683,689,690,694-697,701- 703,705-708,711,715,719, خدا تعالی کا حکم ہے کہ لباس پہنو اور جنگے نہ رہو 22 حقیقی علم تو اللہ تعالیٰ کو ہی ہے 79 اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے زیادہ جدو جہد کی جائے 92 اللہ تعالی غیرت والا ہے وہ کسی کا محتاج نہیں 99 735

Page 748

اشاریہ کلید مضامین تحریک جدید - ایک الہبی تحریک...جلد اول اس میں شک نہیں کہ خدا تعالٰی اس سلسلہ کو زندہ رکھے گا 102 ابتلا دور کرنے کیلئے روزے رکھنا 421 اللہ تعالیٰ بڑا نکتہ نواز ہے 110 اللہ تعالیٰ کا ہنسنا 110 مومنین اور ابتلا 443 اجتماعیت مومن کی جان نکالنا خدا تعالیٰ کے لئے سب سے بڑا صدمہ جھتے اور اجتماعیت کے فوائد 494 ہے 141 انسان کا دل خدا تعالیٰ کے مقابل پر آئینہ ہے 210 یہ خدا کی طرف سے ہے اس کا ایک ایک لفظ قرآن سے ثابت کر سکتا ہوں 229 احرار احرار کو چیلنج 159 ان کا اپنے تئیں آٹھ کروڑ کا نمائندہ سمجھنا 159 احرار کی سازشیں 172-171 صرف خدا زندہ ہے اور وہی زندہ رہے گا جس کا وہ سہارا ہے 269 مباہلہ کا بہانہ بنا کر قادیان میں کانفرنس کا منصوبہ 175 اللہ تعالی کبھی شرطیں نہیں کرتا 282 و و خدا واحد اور لاشریک ہے 286 اللہ نے ہماری دعاؤں کے نتیجہ میں احرار کا سر کچلا 422 ایک آزارطلب جماعت جس کا کوئی اصول نہیں 424 تحریک جدید کیلئے خدا تعالیٰ نے آدمی بھیجتا چلا جائے گا 309 احرار کا انجام سب پر واضح ہے 607-605 اللہ تعالیٰ کا امر قربانیوں سے حاصل ہوتا ہے 329 صفات اربعہ 412-411 مومن کو ہمیشہ صفات اربعہ کو مد نظر رکھنا چاہئے 412 رب ، رحمن، رحیم، مالک یوم الدین 412 ربوبیت 413 صفات الہیہ 470-465 خدا تعالیٰ اپنا چہرہ ہمیشہ قربانیوں کے آئینہ میں ہی دکھاتا ہے 531 یا درکھو کہ یہ تحریک خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے 708 ابتلا و 102,161,184,258,261,267,285,287, 313,383,443,451,453,504,678,679 احمدیت / جماعت احمدیہ, 1,2,6,8 11,13,43-45,47,56,60,62,64,73,84, 101,113,119,127,131,135,138,147, 148,152,170,174,179,187,193,200, 206-210,221,227,230,231,245,248, 249,272,291,305,352,359,379,380, 383,422,424,436,452,471,472,484, 501,509,534,551,553,559,566,570, 582,585,590,592-594,598,599,605, 610,611,643,646,651-653,672,681, 690,705-708,715,721-725 انسان کو ابتلا سے قربانی محفوظ نہیں کرتی بلکہ قربانی کی روح محفوظ ہماری جماعت کے تمام لوگ سچے مومن ہیں الا ماشاء اللہ 1 کرتی ہے 102 ابتلا آنے ضروری ہیں 161 اقتلا ترقی کا موجب بن سکتے ہیں 258 ہر فرد کوقربانی کیلئے تیار رہنا چاہیئے 5 جماعت احمد یہ اپنی صداقت دنیا میں منوا کر رہے گی 9 جماعت احمدیہ کے امتحان کا وقت آپہنچا ہے 9 736

Page 749

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول ہماری جماعت میں قربانی کی وہ روح ہے کہ ہر قسم کی تکلیف تماشوں وغیرہ کے دیکھنے کا خرچ 22,188 شادی بیاہ کا خرچ 23,38,188 اشاریہ کلید مضامین برداشت کر لیتی ہے 13 ,11 جماعت کے افراد بیکار نہ رہیں 244-73,117,237 آرائش و زیبائش مکانات کا خرچ 24,38,188 جماعت احمدیہ کی موجودہ مشکلات و مصائب اور رمضان المبارک تعلیم کا خرچ 24,38,188 107,111,112 حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات 113 اخلاق عالیہ 533,534 جماعت کا مقصد تمام دنیا کو فتح کرنا ہے 162,163 جوش کا موقع اخلاق دکھانے کا صحیح وقت ہوتا ہے 178 جماعت احمدیہ کی قربانیوں کی کوئی حد مقرر نہیں کی جاسکتی 205 سلسلہ احمدیہ اور ایک احمدی کی ذمہ داریاں 251 احمدیت اسلام کا دوسرا نام ہے 207 اسلام اسلام کی عظمت دلوں میں قائم کرنا آسان کام نہیں 169 احمد بیت اسلام کا دوسرا نام ہے 207 سلسلہ احمدیہ افراد کی تعداد پر نہیں بلکہ اخلاص پر قائم ہے 318 سادہ زندگی اسلامی تمدن کا نقطہ مرکزی ہے 347-343 یا احمدیت کسی انجمن یا سوسائٹی کا نام نہیں بلکہ وہ اسلام کا دوسرا نام دنیا میں پھر سے اسلامی تمدن قائم کیا جائے 348 احمدیت کسی انجمن یا سوسائٹی کا نام نہیں بلکہ وہ اسلام کا دوسرا نام ہے 379 جماعت ہی ہے جس نے خدا کیلئے اپنی طاقتوں کو لگا دیا 592 ہے 379 احمدیت کی ترقی کی ساتھ دنیا کی ترقی وابستہ ہے 611 جماعت کے امتحانات 677,678 ہماری جماعت تلوار سے نہیں بلکہ نظام اور تبلیغ سے جیتنے والی ہے 687 جماعت کے لئے بہت بڑی فتوحات مقدر ہیں 715 احیائے اسلام اسلام کا احیا قربانی مانگتا ہے 119,208 حضرت مسیح موعود احیائے اسلام کے آدم تھے 212 اخراجات غذا کا خرچ 542-22,188,536 لباس کا خرچ 544-22,36,188,542 زیورات کا خرچ 546-22,188,544 علاج کا خرچ 22,188,547 اسلام میں تمام نظام شامل ہیں 469 تحریک کا مقصد اسلام کا قیام اور احمدیت کی مضبوطی ہے 586 ہم ساری دنیا میں اسلام کا دفاع کرنے کیلئے پہلوان کھڑے کریں 709 اسلامی احکام اسلامی احکام کے نفاذ میں ہمارے فرائض 471-469 اسلامی تعلیمات نظام کو مضبوط کئے بغیر اور تبلیغ تعلیم کے بغیر پوری طرح اسلامی تعلیمات نافذ نہیں کی جاسکتی 380 اشعار و مصرعے دیر نہیں، حرم نہیں ، در نہیں ، آستاں نہیں 6 گر زر می طلبی سخن درین است 25 737

Page 750

اشاریہ ،کلید مضامین ہر بلا کیسں قوم را حق داده است 95 تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول یہ خدا تعالٰی سے نور پاتے اور اس کے فرشتے ان کی حفاظت کرتے ہر طرف کفر است جوشاں ہمچو افواج یزید 102 ہیں 10 زمین قادیان اب محترم ہے 119 اسلامی طریق یہی ہے کہ وہ قربانی کرو جس کا امام مطالبہ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے 168 کرے 123 کربلائیست سیر بر آنم 261 حقا کہ با عقوبت دوزخ برابر است 266 امام کی غرض یہ ہوتی ہے کہ جماعت بحیثیت جماعت قربانی کرے 319 نقصاں جو ایک پیسے کا دیکھیں تو مرتے ہیں 297 امام مهدی 119 بلانے والا ہے سب سے پیارا 461 آ رہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج 591 قضائے آسمانست این بہر حالت شود پیدا 628 آواز آرہی ہے یہ فونوگراف سے 727 2,5,6,104,168,214,258,296- 305,308,352,432,495-497,695 صحابہ رسول کی اطاعت کے نظارے 297 حضور ﷺ کی اطاعت میں صحابہ کا جیش اسامہ کو روانہ کرنا 300-298 بدر میں اطاعت کے نظارے 305-303 اطاعت اور قابلیت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا 496 اعمال نیک اعمال پر دوام اختیار کرنے کی ضرورت 414 الهام 6,61,119,273,449,628,649,666,667 لفظی الہام بھی کئی دفعہ مل جاتا ہے 61 امام ان کی عقلیں ہدایت الہی کے تابع ہوتی ہیں 9 امانت فیڈ 115,116,124,150,156, 216,217,231,308,355-358,372-375, 426,465,478-481,511,633,635,658 اس فنڈ میں رقم جمع کرانے کی اہمیت 216 یہ فنڈ سلسلہ کی عظمت اور ترقی کیلئے جاری رہیگا 219 امانت فنڈ کے سلسلہ میں بعض تجاویز 374,375 امت محمدیہ 166,243-244 امت محمدیہ میں غیرت پیدا کرنے کیلئے اللہ تعالٰی نے مامور بھیجا 166 انبیاء و رسل 39,77,114,122,168,243, 268,270,278-279,287,299,376,394, 458,496,529,566-568,581,587,591 انصار الله 92 انفاق فی سبیل اللہ انفاق فی سبیل اللہ کے ثمرات 692,693 اولیاء اللہ 245,348 738

Page 751

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول ایفائے عہد ( نیز دیکھئے وعدہ) ایفائے عہد 305 وعدہ خلافی بھی ایک گناہ ہے 474 پولشوازم بولشو ازم کی غرض مذہب کو باطل کرنا ہے 66 اشاریہ کلید مضامین ایمان 1,8,16,21,28,57,74,105,111, 118-119,128,134,139-145,148,166- 172,176,183-197,228-230,268,271- 277,279,283,287,291,293,305-306, 313,316,321,379,380,391,395,414, 450,519,657,664-667,727 عہد بیعت کی اہمیت 1 بیکاری جماعت کے افراد بیکار نہ رہیں 244-73,117,237 بیکاری کی بیماری سے اولاد کو بچایا جائے 155 بیکاری کے نقصانات 241-238 تمام آور گیاں بریکاری سے پیدا ہوتی ہیں 241 بچپن اور بیکاری کی عادات 243,244 بریکاری خطرناک ظلم ہے 369 ایمان بالغیب سورۃ بقرہ میں ایمان بالغیب کا ذکر 16 پنج ہزاری مجاہدین 628-627 بادشاہت پانچ ہزار سپاہیوں کی بابت حضرت اقدس کا ایک کشف تحریک جدید پر عمل شروع کر دوت...ضرور بادشاہت مل جائے گی 712,717 340 تو مسیح ناصری کی قوم کو تین سوسال بعد ایک محدود بادشاہت ملی 340 بخل بخیل پیشگوئیاں 58,100,155,439, 525,569,625,626,683,713 وہ بخیل ہے جو مال کی قربانی کے وقت پیچھے ہٹتا ہے 284 بائیل میں تہامہ کی سلطنت باقی نہ رہنے کی پیشگوئی 58 بنی نوع انسان بنی نوع انسان کی خدمت سے انسان صفات الہیہ کا مظہر بن جاتا جائے گی 155 ہے 468 بورڈ نگ تحریک جدید 244,253 بہشتی مقبرہ حضور ﷺ کی پیشگوئی کہ ایک زمانے میں تو بہ قبول نہیں کی حضور نے کی پیشگوئی مطابق خدا تعالٰی نے فارسی الاصل مبعوث فرمایا 569 حضرت اقدس کے اہل و عیال کے لئے بہشتی مقبرہ میں بغیر وصیت تاج محل 309,310 کے دفن ہونے کا استثناء رکھا ہے 449 739

Page 752

اشاریہ کلید مضامین تاریخ 98,121,127,149,173,215,264, تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول 347,348,352,355,358,360-362,365, 367,371,376,383,384,386-389,401, 405,406,409,410,415,421,425,426, 343,349,422,425,429,523-525,655 429,431,435,439-448,451,453,455, 457-468,472-479,481,483-485,489, تاریخ اسلام 590-588 تاریخ اسلام تبلیغ 495,497,501,512,521,523-525,527, 43-46,92,122,131-133,154,192,193, 533,535,548,555-571,575,576,582, 229,230,315,439,440,480,485,487, 585,595,597,599-605,612-621,623- 488,495,509,534,548,555,559,566, 627,629,632,635,636,643,649-651, 568,599,607,611-613,616,620,621, 655-663,668,672,674,677,681-683, 626,643,648,650,681-683,687,691, 689,697,701,703,705,709-713,717, 701,708 تبلیغ کی وسعت کیلئے مبلغین کی ضرورت 56 نوجوان تبلیغ کرنے کیلئے اپنی زندگیاں وقف کریں 157 359,648-650 سینکڑوں ممالک میں تبلیغ کرنا ابھی باقی ہے 173 تبلیغ کا قرآن کریم میں عام حکم ہے 229 719,723,724,728 یہ دائمی تحریک ہے 213 حصہ لینے والی ابتدائی جماعتیں 227,228 جماعت کے لوگ تبلیغ کیلئے کچھ وقت یا پور اوقت پیش کریں 229 تحریک جدید کیا ہے ؟569 تبلیغ کی اہمیت 236,237 تبلیغ میں لوگوں سے تدریجا کام لیں 237 تحریکات یہ کوئی جدید تحریک نہیں 280 یہ تحریک کوئی جبری تحریک نہیں 386 رمضان کو تحریک جدید سے گہری مناسبت ہے 584-575 تحریک جدید خلیفہ کی طرف سے جماعت کی آزمائش 677 یہ ایک موت ہے جس کا ان سے مطالبہ کیا جا رہا ہے 701,702 تحریکیں کتنی ہی اعلی ہوں جب تک کام نہ کیا جائے کوئی فائدہ نہیں 1934ء میں اس تحریک کا اجرا 721 الہی تحریک دے ہو سکتی 250 تحریک جدید تحریک جدید کی بنیاد شریعت کے نشانات پر ہے 13 یہ خدا کی طرف سے ہے اس کا ایک ایک لفظ قرآن سے ثابت 145,149-151,173,183,193,205,211, 216,222-225,230,233,236,237,244- 255,258,271,277,281,282,293,302- 309,315,321,329,331,333,341,343, 740 کر سکتا ہوں 229 یہ مت خیال کرو کہ تحریک جدید میری طرف سے ہے 230 اس کیلئے خدا تعالٰی نئے آدمی بھیجتا چلا جائے گا 309

Page 753

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول ی تحریک انہی تصرف سے رکھی گئی ہے 337 تحریک جدید قرآن میں موجود ہے 458 یا درکھو کہ یہ تحریک خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے 708 اس تحریک کے بابرکت ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں 711 اغراض و مقاصد وقت آ رہا ہے ساری دنیا سے لڑنا پڑے گا 205 اشاریہ ،کلید مضامین مطالبات 533-534 لباس میں سادگی 544-22,36,117,190,542 636-638 شادی بیاہ کے اخراجات میں کفایت شعاری کی جائے 23,38 191,426,544-546 تحریک جدید کو لمبا پھیلایا گیا ہے تا معلوم ہو کہ مخلص کون ہیں 306 سادہ کھانا کھائیں 542-34,53,82,117,348,536 اس کی غرض یہ ہے کہ فرعون اور آدمی کا فرق مٹا دیا جائے اور دونوں ایک سالن استعمال کریں 35,95 آدمی بن جائیں 335 دنیا میں پھر سے اسلامی تمدن قائم کیا جائے 348 سینما بینی، سرکس تھیٹر اور تماشے وغیرہ کی ممانعت 37,728 اپنی آمد کا 1/3 سے 1/5 حصہ تک سلسلہ کے مفاد کے لئے تین کام کرنا ، سادہ زندگی بسر کرنا اور محنت کرنا اس تحریک کا مقصد سال تک بیت المال میں جمع کرائیں 39,40,45 ہے401 تحریک کا مقصد اسلام کا قیام اور احمد بیت کی مضبوطی ہے 586 اس تحریک کا ایک مقصد تعلیم و تربیت ہے 613 تعلیم و تربیت کیلئے نو جوان تیار کیے جائیں 615 ہم ساری دنیا میں اسلام کا دفاع کرنے کیلئے پہلوان کھڑے کریں 709 اس کے ذریعے ساری دنیا میں مبلغ بھجوانا 709,710 ضرورت و اہمیت 701,705,706 تحریک اقتصادی تجاویز کا مغز ہے 258 تحریک جدید میں ہر قسم کی قربانی موجود ہے 329 مخالف لٹریچر کے جواب کے لئے رو پید اور آدمیوں کی ضرورت 41,45 چھ مطالبات 45,46 سادہ طرز زندگی اپنایا جائے.45,152,188,346 401-403,559,629-642 اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں 71,72,96,97 117,458,502,559 جماعت کے افراد بیکار نہ رہیں 244-73,117,237 قادیان میں اپنے مکان بناؤ 73,117,501,510 ہاتھ سے کام کرنا 155 پنشن یافتہ دوست مرکز میں کام کریں 155 دشمنوں کے سارے حملوں کا علاج تحریک جدید میں موجود ہے تحریک جدید کے لئے مزید قربانیوں کی ضرورت ہے 173 331 سادگی اور کفایت کا ماحول مد نظر رکھا جائے 188 اس تحریک کے ذریعے حضور کا ایک کشف پورا ہوا کہ ایک لاکھ فوج ہر سال چندہ کا ایک حصہ تجارتی جائداد خرید نے پر لگایا جائے 194 کی ضرورت ہے 625 تحریک میں حصہ لینے کی اہمیت 698 محنت کی عادت ڈالیں 272,406 ہر ایک مطالبے کی ضرورت ہے 329 741

Page 754

اشاریہ ،کلید مضامین تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول نوجوان اپنی زندگی خدمت دین کیلئے وقف کریں اور تبلیغ جماعت کے افراد بیکار نہ رہیں 244-73,117,237 کریں 650-359,648 ناداروں کو کام پر لگایا جائے 360 تحریک جدید کے انیس مطالبات 415-414 دوست خصوصیت کے ساتھ دعائیں کریں 435 قادیان میں اپنے مکان بناؤ 73,117 155,501,510,649 قادیان سے خریداری کریں 85,86 مرکز کو محفوظ بنا ئیں 93,119 تحریک جدید کے تین پہلو تعلیم وتربیت تبلیغ و اشاعت، بچے طور پر اس سکیم پر عمل کریں 121 دعا و روزے 613 تحریک جدید کے مطالبات کا خلاصہ 719 ہدایات ہر ماہ ایک خطبہ تحریک جدید کے موضع پر دیا جائے 149 تحریک جدید کے بارہ میں جلسوں کی تحریک 149,561,691 ہر ماہ 26 کو تحریک جدید کے بارہ میں جلسہ کی تحریک 150 اعلان کردہ سکیم کے متعلق چند باتیں اور تشریحات 13,7984 تحریک جدید کے امور ہر چھٹے ماہ دہرائے جائیں 151 لباس میں سادگی 544-22,36,117,190,542 ہر احمد می تبلیغ کی کوشش کرے 154 636-638 ہاتھ سے کام کرنا 155 شادی بیاہ کے اخراجات میں کفایت شعاری کی جائے 23,38 پنشن یافتہ دوست مرکز میں کام کریں 155 سادگی اور کفایت کا ماحول مد نظر رکھا جائے 188 191,426,544-546 سادہ کھانا کھا ئیں 542-34,53,82,117,348,536 ہر سال چندہ کا ایک حصہ تجارتی جائداد خریدنے پر لگایا جائے 194 ایک سالن استعمال کریں 35,95 سینما بینی ،سرکس تھیڑ اور تماشے وغیرہ کی ممانعت 37,728 محنت کی عادت ڈالیں 272,406 اپنی آمد کا 3 / 1 سے 1/5 حصہ تک سلسلہ کے مفاد کے لئے تین اس تحریک میں وہی شامل ہو جو اس کے مفاد کا قائل ہو 349 نوجوان اپنی زندگی خدمت دین کیلئے وقف کریں اور تبلیغ سال تک بیت المال میں جمع کرائیں 39,40,45 ساری دنیا میں پھیل جائیں 43,45,94,116,119 کریں 650-359,648 147,458,721 ناداروں کو کام پر لگایا جائے 360 سادہ طرز زندگی اپنایا جائے, 45,152,188,346 یہ تحریک اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک دن رات 401-403,559,629-642 ایک کر کے کام نہ کیا جائے 405 اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے مرکز سے مشورہ کریں 68 اگر اس تحریک سے فائدہ اٹھانا ہے تو اپنے آپ کو صادق القول اپنے بچوں کو تعلیم کے لئے قادیان بھیجیں 68,117,155,244 بناؤ410 اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں,71,72,96,97 اس تحریک کیلئے روزے رکھنا 425,703 117,458,502,559 742 دوست خصوصیت کے ساتھ دعائیں کریں 435

Page 755

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول اشاریہ ، کلید مضامین تحریک جدید کے مطالبات پرستی سے عمل کرنے والوں کے لئے جہاں اسلام کی خدمت کی ضرورت ہو وہاں ایک مرکز میں جمع انتباه ہو جاؤ 501 تحریک جدید کے تمام مطالبات کی طرف توجہ کریں 566 انتباه 157 تحریک جدید میں کامیابی عورتوں اور بچوں کی مدد کے بغیر نہیں جو تحریک جدید حصہ لینا اختیاری ہے اس میں کو تا ہی نہ ہو 339 سکتی 577 شمرات تحریک تحریک جدید کے نتیجہ میں سینکڑوں کا صلح کرنا 152,339 تحقیق تحقیق کی اہمیت 167 تربیت اولاد 201,203 تحریک جدید پر عمل شروع کر دو تو ضرور بادشاہت مل جائے گی اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے مرکز سے مشورہ کریں 68 340 جو اس تحریک میں حصہ لے گا وہ مسیح موعود کی دعاؤں کا مورد ہوگا 480 اس کے ذریعہ مختلف براعظموں میں تبلیغ کے مثمر نتائج و50 اس میں حصہ لینے والوں کی اولادوں کو خدا تعالی نوازے گا708 ادوار مالی مطالبات سے تحریک جدید کے دوسرے دور کا آغاز 481,483 تحریک جدید کے دور دوم کے سال اول کا پہلا جلسہ 569 تحریک جدید کا دور ثانی 614 تحریک جدید کے ادوار 629-605 غیروں پر اثر اس سکیم کا غیروں پر اثر 85 غیر از جماعت احباب کا اعتراف کہ یہ تحریک مفید ہے 728 سادہ زندگی کے مطالبات کو غیر از جماعت نے بھی پسند کیا 728 اپنے بچوں کو تعلیم کے لئے قادیان بھیجیں 117,155,24468 اولاد سے بیکاری دور کریں 155,243 اپنی اولاد کو کام کا عادی بنائیں 272,273 اولادوں کو قربانی کیلئے تیار کریں 276,285 بچوں کو وقف کرنے کے تقاضے 368 اولادوں کی اصلاح اور درستی کی اہمیت 558 اپنی اولادوں کو اس تحریک میں شامل کریں 638 تقوی 104,118,149,150,171,203,235, 333,351,442,455,504,615,648,663 تقومی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے 149 تقوی بھی کسی ذریعہ سے پیدا ہوتا ہے بغیر ذریعے کے نہیں 351 اپنے اندر خدائی تقومی کا رنگ پیدا کریں 455 69,101,105,253,575 تہی اعتراضات توبه تحریک جدید پر اعتراضات کے جوابات 399-383 152,170,184,215419,435,562,563,569 743 445-450

Page 756

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول جماعت احمدیہ ( دیکھئے احمدیت ) اشماریہ ، کلید مضامین تو بہ کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے 563 تو کل علی اللہ 58,269,271,276317-318,380,409,531 تو کل میں ہی زندگی کے سامان ہیں 269 صرف خدا پر توکل کرو 271 حبت 50,52,98,103,265-267,278,283-285, 309,351,352,410,418,443,516,547, 550,577,701 ج پہلے آدم کا جنت سے نکالا جانا 103 جاپانی قوم جنت میں ہر دروازے سے فرشتے آئیں گے 283 جاپانی قوم کی ترقی کیلئے قربانیاں 579 جنت و دوزخ کی حقیقت 410 جامعہ احمدیہ ( نیز دیکھئے مدرسہ احمدیہ) 138,139,142,143,197, جنت کے نظارے 418 جنگ احد 27,54,134,180,181,259,283,514, 202,203,485,671-673 معیار بلند کرنے اور تعلیم میں وسعت کی ضرورت 138 احد میں حضرت طلحہ کا حضور ﷺ کی خاطر اپنا ہاتھ شل کرانا 515 معیار تعلیم اور ساتذہ کی ذمہ داریاں 142 انگریزی کا معیار بڑھانے کی ضرورت 485 ترقی کیلئے دی گئی قربانیاں 578 جزیه جرمن قوم احد کے میدان عارضی شکست.پھر کامیابی 266,267 جنگ احد کے واقعات 516-491,492,514 حضور ﷺ کی شہادت کی افواہ 493 جنگ بدر 16,57-58,73,97,134,177, حضرت مسیح ناصری کے پاس لوگوں کا شکوہ کہ روم کا بادشاہ ہم سے 392,491,514,515-303,367,386,30 جزیہ مانگتا ہے 695 جلسه سالانه 86,121,185,292,323,334, 355,394,488,567,609,655,656 بدر کے موقع پر دو انصاری بھائیوں کا ابو جہل کو قتل کرنا 58 بدر کے موقع پر اہل مکہ کامسلمانوں کی تعداد کیلئے ایک شخص کو بھیجنا 177 میدان جنگ میں صحابہ کی جان نثاریاں 304,367-303 بدر میں شامل ہونے والے اللہ کے خاص فضلوں کے مورد خلافت اولیٰ میں صدر انجمن کے بعض ممبران کی تجویز کہ جلسہ تین کی بجائے دودن کا ہو 494 جنگ عظیم ہوئے 694 جنگ حنین 181-182,355,451 195,301,302,664 744

Page 757

تحریک جدید - ایک الہبی تحریک جلد اول جنگ خندق خندق کھودتے ہوئے حضور ﷺ کا پتھر توڑنا 73 جہاد 49,109,152,182,184,211,228,380, 413,414,451,465,526,572,627,692 صحابہ کا حضور ﷺ سے شکایت کرنا کہ ہم جہاد کرتے ہیں مگر امرا مالی جہاد کر کے ہم سے آگے نکل جاتے ہیں 49 تلوار کا جہاد 211 دین کیلئے تلوار کا جہاد آج کل جائز نہیں 380 تبلیغ اور جہاد 414 اصل جہا د قرآن کریم کو ساتھ لے کر ہی ہے 451 چندہ میں مستی کا نقصان 323 چندہ معاف کرانا 334 بر وقت چندہ ادا کرنے کی تحریک 510 وصولی چندہ جات 548 اشاریہ ، کلید مضامین و عده تحریک جدید کیلئے ماحول بھی پیدا کریں 555 اس تحریک کی بنیاد چند ہزار چندے پر تھی 707 مالی سال پہلے مالی سال کا چندہ 489,490 پہلے سال 27000 روپے کی مالی تحریک 491 دوسرے مالی سال کا چندہ 490 تیسرا مالی سال 273-272 چندہ عام 677 231,307,410,418,572,727 لڑائی میں پیچھے ہٹنے والوں کی سزا جہنم رکھی گئی ہے 572 چنده چ سیکرٹری اور صدر جماعت کی ذمہ داریاں 250 معیار کے مطابق چندہ دینے کی ضرورت 488,489 چنده تحریک جدید 98,205,365,371,384,386 389,446,448,510,601,621-624,656 چندہ لکھوانا ہر ایک کی مرضی پر منحصر ہے 71 حج ایک شخص کے حضرت ابن عباس سے پوچھا کہ حج کے ایام میں جوں مارنے کی سزا کیا ہے 297 حدیث ( دیکھئے احادیث مبارکہ) حقوق وراثت کے حقوق 25 ہمسائے ہمسایوں کے حقوق 96,110,266,326,347,387,416, ہر جماعت کا فرض ہے کہ وہ اپنے چندوں کی ادائیگی میں با قاعدہ 427,452,626 ہو 145 کسی مجبور سے وعدہ نہ لیا جائے 214 چندہ بڑھانے کیلئے اہم امور 307,308 چندہ سے متعلق سستی نہ ہو 315 حقوق کا استعمال کرو مگر اخلاق نہ چھوڑو 181 ادائیگی حقوق 577 5,6,9,11,169,170,266,534,608,609 745

Page 758

اشاریہ ،کلید مضامین خدا کے ڈر سے ہی حکومت کامیاب رہ سکتی ہے 171 Divide & Rule حکمرانی کا ایک پرانا اصول 457 حلال و حرام 123 تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول خلافت راشدہ 528,606 خلیفہ,5,65,67,71,82,115,136,141 144,164,178,185,209,216,217,251, 271,297,305,325,335,342,348,449, 460,502505,671 حواری 58,316,439 انا جیل میں مسیح ناصری کا بڑا معجزہ کہ حواریوں کو مختلف زبانیں حضور کا فرمانا کہ میں گل جہان کیلئے خلیفہ ہوں 5 بولنے آ گئیں 439 تحریک جدید خلیفہ کی طرف سے جماعت کی آزمائش 677 خ و ختم نبوت دار الصناعة 508 درس القرآن 489,590,593 ختم نبوت کی تشریحات 339 حضرت خلیفہ اول کا مسجد میں درس القرآن دینا 71 خدام الاحمدیہ دعا 26,46,61,7475,87,92,97,101-105, 724,725 خدام کے کاموں کے اثرات آئندہ نسلوں تک جائیں گے 612 ,150,156,179,184,196,216,251,261 خدام الاحمدیہ کی تحریک جدید کو کامیاب بنانے میں ذمہ داریاں 689 خدمت خلق 528,534,559,650 خفیہ انجمنیں قرآن میں خفیہ انجمنوں کی ممانعت ہے 16 خلافت احمد یہ خلیفہ وقت 5,43,100,164,299,323,325,394, 445,453,461,528,630,677,679 تمام دنیا کیلئے خلافت کی اطاعت فرض ہے 5 خلافت ایک مدرسہ ہے اور خلیفہ استاد ہے 461 خلافت جوبلی 677,679 313,319,382,398,407,415,424-427, 431-437,440,443,459,479,480,499, 507,517,521,526,527,564,580-582, 601-603,613,628,637,642,644,653, 666,703 دعا کہ اللہ تعالیٰ چالیس مومن پیدا کر دے 74 جمعہ میں ایک ایسی ساعتہ ہے جس میں ہر دعا قبول کی جاتی ہے105 مالدار ہونے کیلئے دعا کرانا 216 رکوع و سجود دعا کیلئے اچھے مقام 319 اللہ نے ہماری دعاؤں کے نتیجہ میں احرار کا سر کچلا 422 دوست خصوصیت کے ساتھ دعائیں کریں 435 746

Page 759

تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول خادم دین کیلئے حضرت مسیح موعود کی دعائیں 479,480 روحانی ترقی کاروپیہ پر انحصار نہیں 360 دعا کہ اللہ تعالی ہماری جماعت سے شرک دور کر دے اور توحید پر الہی سلسلے روپے سے نہیں چلتے 367 قائم کردیں 526 بغیر استقلال والی قربانیوں کے دعا نفع نہیں دے سکتی 581 روح القدس 689 ریز روفنڈ قبولیت دعا 581 دعوة الى الخير 64,67,100,116,360,361, 377,378,620,624,674 اشاریہ ،کلید مضامین سب دوستوں کا فرض ہے کہ دعوۃ الی الخیر کریں 200 ز ذکر الہی 49,413 رمضان المبارک روز صیام 11,112,183,208,251,578, 580-582,585,588,601,602,613 سوموار اور جمعرات کے روزے 421 اس تحریک کیلئے روزے رکھنا 425,703 رمضان کو تحریک جدید سے گہری مناسبت ہے 575 رمضان المبارک کے اسباق 578,579 رمضان کا یہ سبق ہے کہ کوئی بڑی قربانی بغیر دعا کے نہیں ہو سکتی 580 رمضان اور درس استقلال 581 رمضان اور قبولیت دعا 582 برکات رمضان 585 ریز روفنڈ کی اہمیت 361 25 لاکھ ریزروفنڈ کی تحریک 520 ریم مردوں کو ریشم پہنے کی ممانعت 546 زبانیں ز غیر ملکی زبانیں سیکھنے کی اہمیت 218 زكوة 9,152,183,184,199,216,223, 344,373,380,470,520,583,632 زیورات 23,544-546,548,550,557 حضور ﷺ کے زمانہ میں زیور بنوانے کا با قاعدہ رواج نہ تھا 545 سونا چاندی جمع کرنے کی ممانعت اور نقصانات 545 تحریک جدید کے تین پہلو تعلیم وتربیت تبلیغ واشاعت، زیورات کے کثرت کی ناپسندیدگی 546 دعا و روزے 613 روپه سادہ زندگی دینی اغراض کیلئے روپیہ جمع کرنا 357 سادہ زندگی اسلامی تمدن کا نقطہ مرکزی ہے 347-343 747

Page 760

اشاریہ ،کلید مضامین سادہ طرز زندگی اپنایا جائے 45,152,188,346 401-403,559,629-642 سائنس 24 سچائی رصداقت تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول 311,317,327,350,367,381,384,385, 390,393,466,491,492,498,513-516, 520,529,531,566,569,572,586,587, 590,607,612,616,624,640,650,665, 692,697 181,184,208,288,409,451-453, 461,474,503,505,533,594,645,711 سچائی کی اہمیت 450 سینما بینی 439,727,728 جنگوں میں فدائیت کے نمونے 181,182 احد اور حنین کے موقع پر اطاعت کے نظارے 182 جنگ احد میں صحابہ کی جانثاریاں 515 اطاعت و فدائیت 497,498 وہ اپنے آپکو اطاعت میں فنا سمجھتے 498 سینما اپنا ذات میں برا نہیں بلکہ اس زمانہ کی ضرورتیں مغرب صدر انجمن احمدیہ الاخلاق ہیں 37,727 ش 40,65,66,101,128,142-145,193, 196,425-426,445-448,494,618 شریعت صلح جوئی 2,11,13,25,28,34,54,97,179,181, 242,255,325,344,345,373,433,470, 472,538,546,551,567,572,630,632, تحریک جدید کے نتیجہ میں سینکڑوں کا صلح کرنا 152,339 صلح کرو اور آپس میں محبت پیدا کرو 274,339 650,698 تحریک جدید کی بنیاد شریعت کے نشانات پر ہے 13 شہدا قرآن کریم شہدا کو زندہ قرار دیتا ہے 107 ص صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 3,16,17,25-28,33-34,49,59,73,76, آپس میں صلح جوئی کی اہمیت 275 صلوۃ ( دیکھئے نماز) صلیب 103,279,283,316 صلیبی جنگیں 164 طاقت b اصل طاقت ایمان، اتحاد اور قوت عمل کی ہوتی ہے 268 87,88,112-113,142,163,164,173, 176,177,181-184,199,201,228-230, 256,257,259,268,293,298,303,310, 748 طاعون 237,239,241

Page 761

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول فاسق اشاریہ ،کلید مضامین عباسی خلفاء ایک مظلوم عورت کا عباسی خلیفہ کو پکارنا اور خلیفہ کا اس کی مدد کیلئے جو اپنے عہد کی حدود سے نکل جائے اسے فاسق کہتے ہیں 520 تفرقہ کرنے والا فاسق ہے وہ جماعت کا نمبر نہیں ہو سکتا 6 پہنچنا 164 عبادات جماعت کیلئے بڑے بڑے فتنے مندر میں قربانی کیلئے تیار رہنا 96,269,272,411-414,576,577 اچھی عبادت وہ ہے جس میں مداومت ہو 412 چاہیئے 9,10 فتوحات فتوحات کے ذرائع 135 جماعت کا مقصد تمام دنیا کو فتح کرنا ہے 162,163 عفو کے معانی زائد مال کے ہیں 185 جماعت کے لئے بہت بڑی فتوحات مقدر ہیں 715 فديه حقیقی علم اللہ تعالیٰ کو ہے 79 علما پیدا کرنے کی غرض 201 عیسائی رعیسائیت بدر کے جنگ میں قیدیوں کی آزادی سے بدلہ لڑکوں کو تعلیم مقرر کرنا 390,497 فرشتے ملائكة الله 63,66,133,164,171,268,502 9,158,170,209,234,250,273,283- غ 285,289,307,356,414,417-419,449, 512,579,637,667,690,694,695,706 غلبہ حاصل کرنے کیلئے کام میں لذت محسوس کرنے کی فقہ وفتاوی ضرورت 368 629,630 غربت غربا احکامات فقہ 630 ایک موقع پر غربا کا حضور ﷺ سے شکایت کرنا کہ یا رسول اللہ فقہاء کی طرف سے بعض حالتوں میں ممنوعات استعمال کرنے کی زکوۃ دینے میں امرا ہم سے آگے نکل جاتے 49 ف فارسی الاصل اجازت 63 فونوگراف 727,728 ق حضور ﷺ کی پیشگوئی مطابق خدا تعالیٰ نے فارسی الاصل قرآن کریم مبعوث فرمایا 569 16,17,39,42,52,64,71,75,107, 749

Page 762

اشاریہ کلید مضامین 111-116,121-122,129,134,135,152, 163,172,176-178,182-184,191-195, 198,200,207,212,218,224,230,260, 270,273,274,288-294,306-307,318, 320,327,344,368,372,380-384,392, 396-398,404,405,410,411,423,442, 451,452,458,463,484,487,491,492, 513,545,546,563,569,580,587-590, 593,666,679,681,692-694,707 قرآن میں خفیہ انجمنوں کی ممانعت ہے 16 قرآن کریم شہدا کو زندہ قرار دیتا ہے 107 تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار رہیں 3 دنیا کے ہر گوشہ میں احمدی خاص قربانیوں کے لئے تیار رہیں 5 قربانی کیلئے ماحول کی ضرورت ہے 25, 21-15,19 امرا اور غربا کی قربانیاں 52,99,100-50 گزشتہ سال سے زیادہ قربانیوں کے لئے تیار ہو جاؤ 161 تحریک جدید کے لئے مزید قربانیوں کی ضرورت ہے 173 قربانی کی عادت ڈالیں اور اس کیلئے ماحول پیدا کریں 186 قربانی کا زمانہ مومن کیلئے کبھی ختم نہیں ہوتا 211 کچی قربانی اور جماعت احمد یہ 275 تحریک جدید تو ایک قطرہ ہے اس سمندر کا جو قربانیوں کا تمہارے سامنے آنے والا ہے 293 قرآن کریم کے بعد کسی نئے کلام کی ضرورت نہیں 111 تدریجاً جماعت کو قربانیوں کے میدان میں آگے بڑھنا ہو گا 316 قربانی کی غرض و غایت 321-318 قرآن نبی کو مومنوں کا باپ قرار دیتا ہے 114 قرآن وحدیث سے کہیں پتہ نہیں چلتا کہ کسی نبی نے مزدوروں قربانی وہ کامیاب ہوتی ہے جو امام کے پیچھے ہو 319 پتہ کے ذریعہ فتح حاصل کی ہو 122 قرآن کریم اور مومنین 182 قربانی کو خدا کبھی ضائع نہیں کرتا 327 امرالہی قربانیوں سے ہی حاصل ہوتا ہے 329 قرآن کریم کا ایک خاص جماعت کو دین کی خدمت کا ذمہ دار قرار قربانی ہی وہ راہ ہے جس سے لوگ اپنے خدا تک پہنچتے ہیں 337 دينا 200 اخلاص سے بھری قربانی میں ہی کامیابی ہے 478 یہ خدا کی طرف سے ہے اس کا ایک ایک لفظ قرآن سے ثابت قربانی وہی ہے جو انتہا تک پہنچے 524 کر سکتا ہوں 229 دنیوی امور میں ترقی کے قرآنی طریق 423-420 تحریک جدید قرآن میں موجود ہے 458 قرآن میں مذکور حضرت یوسف کے زمانے کے بادشاہ کا رویا 679 اللہ کی خاطر قربانی کرنے کے ثمرات 530 خدا تعالیٰ اپنا چہرہ ہمیشہ قربانیوں کے آئینہ میں ہی دکھاتا ہے 531 قربانیوں کے نتائج اور ثمرات 576 قیامت ( نیز دیکھئے آخرت) 52,156,212,213,243, قربانیاں (روحانی ، جانی ، مالی ، دینی) 285,287,288,319,387| 13,28,47,406,527,528 قیامت کے دن مومنوں کو نور دیا جائے گا 51 اس رنگ میں قربانیاں کریں جو بہت جلد نتیجہ خیز ہوں 1,2 جو شخص امام سے پہلے حرکت کرتا ہے قیامت کے دن اس کا منہ 750

Page 763

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول گدھے کی طرح بنایا جائے گا 319 کارکنان ک 46,67,91,98,99,142,145,222,233, 255,309,311,318,367,371,375,376, 473,508,556,568,609,655,661,670, وقف شده کارکنان جماعت کیلئے لئے جائیں 674 کانگریس اشاریہ کلید مضامین 383,409,451,492-494,514,592,602, 623,667,694,695,708 شیخین کا حضور ﷺ کی خدمت میں اپنا مال پیش کرنا 32,322 دین کیلئے اپنا مال خرچ کرنا 148 مال خرچ کرنے کے آٹھ مقامات 188 وہ بخیل ہے جو مال کی قربانی کے وقت پیچھے ہٹتا ہے 284 ہر وہ چیز جسے ترقی دی جا سکے مال کہلاتا ہے 368 مامور من الله امت محمدیہ میں غیرت پیدا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے مامور 751 بھیجا 166 36,66,90,423,424 گناه 103,190,213,317,344,394, 474,477,490,519,572,644 گناہ کا عذاب 317 وعدہ خلافی بھی ایک گناہ ہے 474 لجنہ اماء الله 396,493,523,558 ل مبلغین رمربیان 709,710 بیرونی ممالک مبلغین بھجوانے کے منصوبے 173 مبلغین جماعت احمدیہ کو نہایت اہم ہدایات 203-197 مبلغین اور علما کے فرائض اور کام 201,202 مبلغین کے کاموں کی اہمیت و عظمت 235,236 مبلغین اور غیر ملکی زبانوں کی اہمیت 440 ایسے مبلغین کی ضرورت ہے جو دین کے ماہر ہوں 485 مبلغین کے انتخاب کرتے وقت دین کے علمہ کو فوقیت دی عورتوں میں زیادہ زور سے تحریک کریں مگر مجبور نہیں کریں 97,98 جائے 663 مال مبلغ وہ ہے جس کی ایمانی حالت انبیاء جیسی ہو 664 کتب پڑھ کر انسان عالم تو بن سکتا ہے مبلغ نہیں 665 انتخاب مبلغین کے سسٹم میں تبدیلی کی ضرورت 666 حضور ﷺ نے اس سے منع فرما دیا 536 محبت محبت الہی 380,592 20,22,28,32,35,39,49,56,99,101, 104,114,115,119,148,155,183-191, 211,216,220,248,272,276,282-286, 292,302,310,319,322,355,356,368,

Page 764

اشاریہ کلید مضامین مدرسہ احمدیہ (دیکھئے جامعہ احمدیہ) 138,139,197,199,221 مدرسه و جامعہ احمدیہ میں معیار تعلیم بلند کی ضرورت 139 مذہب / مذاہب تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول مسجد میں درس القرآن 71 مساجد کی صفائی 73 مسیح الزمان جب ایک مسیح الزمان مرتا ہے تو دوسر ا صیح الزمان پیدا ہوتا 66,132,151,161,164,166,170,171, 207,212,227,235,239,268,275,302, 385 مشن ہاؤسز 335,379,380,416,422,427,611,629-631 اب ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ تین چار ممالک میں مفت مشن مذہب دلوں کو جیتتا ہے روپیہ دل فتح نہیں کر سکتا 132 کھول سکیں 486 مذہب غلامی سے نجات دلاتا ہے 132 مشاورت فرمایا ہے 161 حضرت مسیح موعود کو اللہ نے سب مذاہب و ململ کی طرف مبعوث 255,272,374,668,724 مذہب اور چیز ہے اور خشیت اللہ اور چیز 171 نمائندگان مجلس سے خواہش کہ وہ اپنے مشورے خلیفہ اسیح تک نمائندگان مجلس مشاورت کی ذمہ داریاں 255,272 بانیان مذاہب کی عزت کیلئے قانون 275 پہنچائیں 668 تمام مذاہب میں اسلام کی تعلیم ہی قابل عمل ہے 427 مصافحه مرکز / مرکزیت ایک صحابی کا فرمانا کہ اگر دھکوں میں ہڈیوں سے گوشت بھی جدا اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے مرکز سے مشورہ کریں 68 ہو جائے تو حضرت اقدس سے مصافحہ ضرور کرنا 292,293 اپنے بچوں کو تعلیم کے لئے قادیان بھیجیں 68,117,155,244 معجزات قادیان میں اپنے مکان بنا ؤ 73,117,501,510 مرکز کو محفوظ بنا ئیں 93,119 پنشن یافتہ دوست مرکز میں کام کریں 155 تبلیغ کیلئے مرکز کی اہمیت 200 جہاں اسلام کی خدمت کی ضرورت ہو وہاں ایک مرکز میں جمع ہو جاؤ 501 277,439,440 ایک شخص کا حضرت اقدس سے مجلس میں معجزہ طلب کرنا اور آپ کا فرمانا کہ خدا کوئی مداری گر نہیں 277 انا جیل میں حواریوں کا مختلف بولیاں بولنے کا معجزہ 439 مغل مغل قوم جس علاقہ سے آئی وہاں غربت بہت تھی اور شکار پر ان کا مساجد 7,24,25,71-73,115,138, 171,206,298,312,383,384,393,398, 404,414,434,498,528,572,583,723 752 گذارہ تھا 219 مفسرین مفسرین کے مطابق حضرت موسی کی زبان میں لکنت تھی 666

Page 765

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول منافقین 2,20,52,107,108,113,134,152,163, اشاریہ ،کلید مضامین اسلام مومن کے دماغ میں وسعت پیدا کرتا ہے 137 مومن کی جان نکلنے سے عرش الہی بھی کانپ اٹھتا ہے 141 185,195,231,271,281,304,305,317, 318,320-325,333,334,365,410,433, 449,450,471,515,548,570,614 قرآن میں بیان شدہ منافقین کا حال 307 مولوی مومن کا دل ہر وقت پگھلا رہنا چاہئے 167 اگر دشمن فساد کرے تو مومن کی کی قربانی کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا 176,181 مومنوں کا فرض ہے کہ دعوۃ الی الخیر کریں 200 مومن کو صرف ارادہ کی ضرورت ہوتی ہے 220 مومن اللہ سے دور رہنا برداشت نہیں کر سکتا 312 ایک کنجوس ملانے کا خشک کنویں میں گرنے کا واقعہ 186 مولوی بازی پر اظہار ناپسندیدگی 201 مولوی فاضل مولوی فاضل کے ساتھ دینی تعلیم کی اہمیت 221 مومن اور ابتلا 444 ایک مؤمن کا کھانا دو کیلئے کافی ہوتا ہے 639 مهمان نوازی مومنین 16,48-54,60,61,72-75,95,111-114, 119,137,141,142,163,167,169,176- 186,197,211,213,216,220-224,231, 259,260,268,271,272,276,282,284, 291,297,299,306-308,311-313,319, 320,325-327,338,339,367,368,381, 382,388,389,397,404,412-417,427, 432,442-444,461,462,484,497,498, 513,518,529,531,567,570,581-585, 59,60,154,189,440,537,639,640 نبی ررسول ( دیکھئے انبیاء ) نشانات تحریک جدید کی بنیاد شریعت کے نشانات پر ہے 13 سلسلہ کی تائید میں نشانات کا ظہور 525 نصائح ( نیز دیکھئے ہدایات تحریک جدید ) خدمت دین کے لئے اپنے نام پیش کریں 11 613,614,639,648 اللہ کیلئے کام کرنا ہر مومن کا ذاتی فرض ہے 48 مومن کا بچے اخلاص سے کام کرنا موتی سے بھی قیمتی ہے 51 مومن جس بات کو کہے وہ ہو جاتی ہے 61 نصیحت کے ساتھ عمل کی ضرورت 31 سینما بینی ، سرکس تھیڑ اور تماشے وغیرہ کی ممانعت 37,728 سادہ طرز زندگی اپنایا جائے 45,152,188,346 401-403,559,629-642 اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے مرکز سے مشورہ کریں 68 اگر چالیس مومن کھڑے ہو جا ئیں تو ساری دنیا فتح کر سکتے اپنے بچوں کو تعلیم کے لئے قادیان بھیجیں 68,117,155,244 ہیں 75 مومن کا فرض ہے کہ دوسرے کو ساتھ آگے بڑھائے 114 اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں,71,72,96,97 117,458,502,559 753

Page 766

اشاریہ ، کلید مضامین تحریک جدید- ایک الہبی تحریک...جلد اول جماعت کے افراد بیکار نہ رہیں 244-73,117,237 نصرت الہی قادیان میں اپنے مکان بناؤ 73,117 155,501,510,649 قادیان سے خریداری کریں 85,86 مرکز کو محفوظ بنائیں 93,119 ہر احمدی تبلیغ کی کوشش کرے 154 مرکز میں مکان بنانے کی تحریک 155,649 ہاتھ سے کام کرنا 155 ترک بریکاری کی نصائح 155 پنشن یافتہ دوست مرکز میں کام کریں 155 282,433,449 حقیقی نصرت اللہ تعالی کی طرف سے ہی ہوتی ہے 697 نماز ر صلوة 33,50,97,199,209,215,216,238,272, 298,319,404,413,414,453,466,504, 518,520,562,572,576,577,583,584, 590,630,650,692-696,727 قصر نماز 33 نمازوں کی پابندی کی ضرورت 150,413,693 نماز میں صفیں سیدھی کرنے کی اہمیت 518 اللهم انا نجعلک فی نحورهم کثرت سے پڑھنے کی لمبی اور مختصر نماز 319 نصیحت 156 نوجوان تبلیغ کرنے کیلئے اپنی زندگیاں وقف کریں 157 نماز کا انتظار کرنا بھی نماز میں شامل ہے 572 ہماری طرف سے کبھی قانون شکنی نہ ہو 178 نماز کیلئے وضوضروری ہے 630 سادگی اور کفایت کا ماحول مد نظر رکھا جائے 188 بیماری کی حالت میں نماز 630 نوجوان اپنے اندر وسعت نظر اور بلند ہمتی پیدا کریں 221 نوجوان تبلیغ میں لوگوں سے تدریجاً کام لیں 237 محنت کی عادت ڈالیں 272,406 صلح کرو اور آپس میں محبت پیدا کرو 274,339 نوجوان اپنی زندگی خدمت دین کیلئے وقف کریں اور تبلیغ کر 650-359,648 ناداروں کو کام پر لگایا جائے 360 محنت کی عادت ڈالیں 406 اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا آئینہ بناؤ 417 دوست خصوصیت کے ساتھ دعائیں کریں 435 جہاں اسلام کی خدمت کی ضرورت ہو وہاں ایک مرکز میں جمع نوجوان تبلیغ کرنے کیلئے اپنی زندگیاں وقف کریں 157 359,648-650 اپنے اندر وسعت نظر اور بلند حوصلگی پیدا کریں 221 نوجوان دین کے کام کیلئے آگے آئیں 224 نوجوانوں کی اصلاح کی اہمیت 558 نوجوان واقفین کی ضرورت 649,650 حضرت مصلح موعود کی خواہش کہ نو جوان پڑھے لکھے واقفین زندگی ہوں 717 ' ہو جاؤ 501 754 واقعہ صلیب 283

Page 767

اشاریہ کلید مضامین تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول وصال الہی 528 وصیت نظام وصیت کی اہمیت 395 وعدہ ایفائے عہد وعدہ جات تحریک جدید, 16,26,48,66,67-11 چاہتا ہے 272 ایفائے عہد 305 وعدہ خلافی بھی ایک گناہ ہے 474 وفات مسیح 138,379,452,586-588 وقت وقت کی قدرو قیمت 405 وقف زندگی روقف 68,117,122,127,131,132,137, 223,458,534,612,615-621, 455,498,571-573,650-653,717,720 وقت عارضی 12,56-58,60,62,63,116,131,152,218,612 76,87,98,108,118,121,127-129,139, 154,155,159,162,168,169,174,192, 205,212-215,250,265,266,271-274, 305,307,316,321,327,331,334,339- 342,355,361,365,378,382,426,436, 444-446,453,462,474,475,483,490- 492,509-511,516-521,523-527,550, 555,562,564,567,581,597,626, 655-657,674,682-685,691,694-697, 701-703,707,712,713,724,725 وعدہ کے مطابق قربانی کرنا 1 عہد بیعت 1 اکثر جماعتوں کے قربانی کے وعدے 15-11 وعدوں کو پورا کرنے کی ضرورت 67 129,272,305,316,334,336,339,378 وعدوں کی صورت میں چندہ 107,361 اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اسلام تمام دنیا میں پھیل جائے گا 169 وعدوں کی اہمیت 266-174,265 وعدہ خلافی 212 کسی کو مجبور کر کے وعدہ نہ لیا جائے 214 سیکرٹری تحریک اور وعدہ جات 250 واقفین سائیکل پر سارے پنجاب کا دورہ کریں 45,125 نوجوان تبلیغ کرنے کیلئے اپنی زندگیاں وقف کریں 157 359,648-650 وقف زندگی ادنی نہیں بلکہ اعلیٰ ہے 235,236 خدمت دین کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرد 359 بچوں کو وقف کرنے کے تقاضے 368 جو وقف کریں وہ اپنے آپ کو فنا کر کے وقف کریں 497 ماہرین اور تعلیم یافتہ واقفین کی ضرورت 498 نوجوان واقفین کی ضرورت 649,650 تعلیم یافته با ہمت نوجوان اپنے آپ کو وقف کریں 717 وعظ و نصیحت اس وقت تک فائدہ نہیں دے سکتے جب تک دلوں میں تغیر پیدانہ ہو 249 انسان جو وعدہ کرتا ہے اور پورانہیں کرتا وہ خدا کو دھوکہ دینا 755

Page 768

اشاریہ ،کلید مضامین ہمدردی خلق 646 ہمدردی خلق اور قرآنی تعلیمات 260 غریب الوطن سے ہمدردی 100 ہمسائے ہمسایوں کے حقوق 96,110,266,326,347,387,416, 427,452,626 ہندور ہندومت 65,66,171,289,559,631,639 می ستانی 114,115,220,290,363,391,392,396,398 یتیم بچوں کو ہنر سکھائے جائیں 96,108 یتامی کی تعلیم و تربیت 114 یہود یہودیت یہود کا ایران کو حضور ﷺ کے خلاف بھڑ کا نا کہ یہ شخص اپنی حکومت چاہتا ہے 167 756 ☆☆☆ تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول

Page 769

تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد اول آتھم، پادری عبداللہ 142 آدم، حضرت 213-6,51,103,158,212 220,270,278-282,285,286,297,356,566 ابراہیم ، حضرت 118,119,261,270,278 280,282-286,321,384,517 ابن عباس ، حضرت 297 ابن قیم ، امام 630 ابو العطاء جالندھری، مولانا 42,459 اسماء الزبتھ ، ملکہ 164 اللہ دتہ ، مولوی 42 لعة الحفیظ بیگم بنت حضرت مسیح موعود" 471 لمتہ الحی اہلیہ حضرت مصلح موعود 115 امۃ الرشید بنت حضرت مصلح موعود 115 انس بن مالک، حضرت 259 انشاء اللہ خان، سید 165,195 اثر ، ڈپٹی کمشنر مسٹر 596 ایڈورڈ میں میکلین ، گورنر پنجاب سر 549 ابوبکر صدیق ، حضرت ,32,105,170,144,184 ہاتھوخاں (مغل فرمانروا) 220 اشاریہ ، اسماء 190,199,249,257,268,269,298,299, 305,311,312,322,385,498,514,572, 583,606 برکت علی شملوی منشی 199,255,625,626,636 برہان الدین جہلمی ، حضرت مولوی 247-245 516,517 ابو جبل 57,58,279,304,528 ابوسفیان 27,528 بشیر احمد ایم اے، حضرت صاحبزادہ مرزا 41,70,404 ابو موسی اشعری، حضرت 33 ابو ہریرہ ، حضرت 142,572,573 احمد دین زرگر 67 اسامہ بن زید، حضرت 298,299 اسد اللہ خان، حضرت چوہدری 41 اسماعیل، حضرت 261,284,517 افضل حق، چوہدری 266 اکبر علی ، پیر 41 بشیر احمد، شیخ 41 بلال، حضرت 75 ٹیپو سلطان فتح علی خان 264,265 ثناء اللہ ، مولوی 270 جان محمد، شیخ 42 ث ج 757

Page 770

اشاریہ ، اسماء جلال الدین شمس ، مولانا 42 جنود اللہ ، حاجی 723 جیکر مسٹر 698 حاکم علی چوہدری 41 حامد شاہ، میر 64 حامد علی، حضرت شیخ حافظ 246 حسنؓ ، حضرت امام 466 حسین ، حضرت امام 102,103,261 حمر وابن عبد المطلب ، حضرت 444 خ خالد بن ولید ، حضرت 255,514 خدا بخش ، ملک 42 خدیجہ الکبر می" ، حضرت 639 خلیل احمد، صاحبزادہ مرزا 115 خنساء، حضرت 26 داؤد، حضرت ر 270,337,566 تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول ز زبیر بن العوام ، حضرت 515,562 زین العابدین، حضرت امام 1,102,103 زین العابدین ولی اللہ شاہ ، حضرت 42 سراقہ بن مالک 143 سر پیرو 698 سرفراز حسین ، قاری 261 س سرورشاہ، حضرت مولوی سید 295 سعدی، شیخ 266,267 سلطان احمد خان بہادر ، حضرت صاحبزادہ مرزا 166,209 سلیمان، حضرت 337,566 شاہ جہاں 309,310 شاہ نواز خان، ڈاکٹر 475 شریف احمد ، حضرت صاحبزادہ مرزا 41 شوجی 516,517 شیبہ 279 شیر علی، حضرت مولانا 192 ذوالقرنین حضرت 134 ڈویمر ، ڈاکٹر 502 b طلحه بن زبیر، حضرت 515,562 رام چندر ، حضرت 89,566 رشیدالدین، ڈاکٹر خلیفہ 502 روشن علی ، حضرت حافظ 224,273,541 روم، مولانا 95 ظ ظفر اللہ خان، حضرت چوہدری سر, 41,63,67,70,100 475,598 ظہور الدین اکمل ، قاضی 625,626 758

Page 771

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد اول عائشہ صدیقہ ، حضرت 25,26,50,144,393,466 عباس ، حضرت 17 عبد الحق ایڈووکیٹ ، مرزا 42 عبد الحق ، ڈاکٹر 42 عبدالحکیم، ڈاکٹر 310 عبدالحمید ، قاضی 42 عبدالرحمن ، حضرت 58,304 عبد الرحمن حاجی اللہ رکھا بیٹھ 101 عبدالرحمن قصوری، ملک 42 عبد الرحمن مصری، شیخ 41,461 عبدالرزاق، شیخ 42 عبدالغفور ، مولوی 42,459 عبد القادر المغربي ، علامہ 707 عبدالقدیر نیاز، صوفی 459 عبد الکریم سیالکوٹی ، حضرت مولوی 75 عبد اللطیف شہید، حضرت صاحبزادہ 75 عبد اللہ، سیٹھ 101,102 عبد اللہ بن عمرؓ، حضرت 528,529 عبد اللہ بن مسعودؓ، حضرت 109,298,304 عبدالمجید آف دہلی 63 عتبر 279 عثمان غنی ، حضرت 144,514,528,562,607 عدالت خان 723-721 عطاء اللہ ، مولوی 175,266 عطاء اللہ شاہ بخار کی 175 عکرمہ حضرت 572 اشاریہ ، اسماء علی ، حضرت 144,181,228,297,515,528 562,571,607 ایرانم عمر فاروق ، حضرت 32,34,35,143,144,255 268,298,299,305,322,442,492,514, 515,516,528,529,562,607,630,638, 650 عیسی ، حضرت مسیح ناصری,3,6,58,64,103,138 270,278,280,282,283,285,316,337, 340,439,533,566,586,587,621,695 غالب، اسد اللہ خان 6 غزالی ، امام 590 غ غلام احمد قادیانی علیہ السلام مسیح موعود و مہدی موعود، حضرت مرزا 3 5,6,63,64,71,74,75,88,102-104,112, 114,115,119,122,127,138,140-144, 149,151-153, 161, 165-167,172,173, 176,178,195,197-201,206-209,212, 213,216-218,245-249,256,259,261, 267,273,275,277,280,281,292,293, 297,305,307,309,310,323,325-327, 338,340,344,350,357,360,376,377, 394,395,403,410,417,436,439,442, 443,449,452,467,468,471,479,480, 483-486,488,491,497,499,507,543, 559,562,564,566,585-593,621,625, 626,628,641,644,649,666,667,681, 683,690,696,705,706,712,717,727 غلام احمد ، شیخ واعظ 460 759

Page 772

اشاریہ ، اسماء غلام حسین ، مولوی 42 غلام رسول را جیکی ، حضرت مولوی 665 غلام محمد، ملک 41 غلام محمد امرت سری، حکیم 209,417 غلام نبی مسلم 394 ف فتح محمد سیال ، حضرت چوہدری 41 فرزند علی خان، مولوی 67,70,256,596 فضل الدین، حضرت حکیم 216 ق قطب الدین ایبک 594 قبلائی خان 220 قیصر روم 528,638 کرشن ، حضرت 566 کسری شاہ ایران 143,167,528,638 کمال الدین ایڈووکیٹ ، خواجہ 63,64,198,206,237 گارڈن، پادری 502 گاندھی، مسٹر 9,96,698,699 گین سر ایڈورڈ 220 تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول مبارک احمد، حضرت صاحبزادہ مرزا 461 محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت, 18,23-3,16 27-28,32-35,49-50,56-62,73-76, 81-82,87,89,95,97,100,104-105, 109-114,134,138,141,143-145,148, 155,164-170,176,180-184,189,190, 199,201,207,209,212,213,216,229, 230,242-244,249,256,257,266,268- 270,275,278-289,293,294,298-304, 307,311,312,317,319-322,327,340, 343,348-350,355,356,367,380,384, 385,388-393,411-413,421,432,434, 442,444,451,461,466,477,491,492, 496,498,504,506,513-518,526,528, 529,531,535-538,545,547,553,562, 564,569-570,572-576,583,587,589, 592,593,624,630,638-641,644,646, 650,666,667,682,692,697,703,712 محمد ابراہیم بقا پوری ،مولانا 666 محمد ابراہیم ناصر 459 محمد اسلم، پروفیسر قاضی 63 لوط ، حضرت 283 محمد اشرف ،مرزا 41 محمد حسین شاہ، سید 198 ل محمد شریف ایڈووکیٹ، چوہدری 41,42 محمد رفیق 722 مارٹن کلارک، پادری 442 محمد علی ایم اے، مولوی 395,398,648-198,325,389 محمد یوسف ہوتی، حضرت قاضی 42,63 760

Page 773

تحریک جدید - ایک الہی تحریک جلد اول محمود احمد، مرزا حضرت خليفة أسبح الثاني المصلح الموعود (1) و 144,197,208,259,261,324,406,417, 418,626,637,696 محمود اللہ شاہ ، حضرت سید 151 مختار احمد شاہجہانپوری، حضرت 503 مسولینی 195,301 معاویہ، حضرت امیر 529-27,228,528 موسی ، حضرت 3,104,270,278,280,282 وشنو 516 ولی اللہ دہلوی، حضرت شاہ 42,590 ولی داد خاں 721 ہارون ، حضرت 666 ہاؤگ، انگریز جنرل 664 0 283,285,286,316,321, 337,345,432, 496,518,519,520,566,666 ہٹلر 591 ہر قل 27 ہندہ 27 ناصر احمد، صاحبزادہ مرزا، حضرت خلیفہ المسح الثالث 10 ناصر الدین عبد اللہ، مولوی 439,440 نپولین بونا پاٹ 301-1993,1419 نذر محمد، مستری 392 نذر محمد لانکیوری 666 نصر اللہ خان، حضرت چوہدری 86,100,101 نظام الدین اولیاء ، حضرت 275 نوح ، حضرت 270,278,280,282,283 285-287,422,423,432,566 102,103,261,307 AZ 590- نورالدین بھیروی، الحاج مولا نا، حضرت خلیفة المسح الاول 20 یعقوب بیگ ، ڈاکٹر 198 ی یعقوب علی عرفانی الکبیر، حضرت شیخ 13,206 یوسف ، حضرت 679 ☆☆☆ 71,81-83,115,136,144,178,197,209, 216,217,310,323,325,335,348,351, 57,386,406,418,460,494,503,505, 519,537,538,646,695 ئے فرانسیسی جنرل 300,301 نیر، مولانا 295 اشاریہ ، اسماء 761

Page 774

Page 775

تحریک جدید - ایک البی تحریک جلد اول مقامات اشاریہ ، مقامات 70,195,300-302,440,458,485,578- 580,642 آسام 359 آگرہ 309,488 اتر پردیش 1 127,607 احد 181 ارجنٹائن 440 ایران 5,143,167,168,264,274,586 ایشیا 94,161,655 بدر 16 بخارا 586 بٹالہ 85,86,87 اقصیٰ (مسجد قادیان) 115 برلن 591 افریقہ 5,70,133,162,219,319,440 458,475,484,525,599,655 برما 605 بغداد 164,523,540 افغانستان 5,6,94,161,219,220,264,274 سمیت 70,458,607,610,694 359,402,572,586,592,721,722,723 بنگال 71,127,192,215,607,655 البانية 359,458,485,509 الجزائر 586 بہار 70,127,192,275,540,607 بھینی 599,650 امرتسر 42,56,85,86,227,270,388,484 489,502 بيت الحرم 94 بیت المقدس 94 امریکہ,5,6,43,70,83,192,215,371,440 458,483,484,488,709,710 اناطولیہ 586 انگلستان / برطانیہ ولایت ,5,6,9,23,44,70,87,94 121,135,164,192,206,215,273,352, 709 پرتگال 709,710 پنجاب,5,9,23,29,45,46,55,61,71,107 127,192,266,267,272,402,457,525, 536,539,549,596,598,605-609,700, 721 763 368,483-485,565,616,639,673,709, 710

Page 776

اشاریہ ، مقامات پولینڈ 458,485,509 تاج محل 310-309 ترکستان 723 ترکی 592 مشق 728 تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول , 63,220,261,275,362,388,508,610, ڈنمارک 709 تنزانیہ تانگانیکا 655 جاپان 5,43,161,173,193,220,229,440 458,459,484,509,578-580,709,710 5,43,229,440,458,459,586,599,655 b راولپنڈی 388,609 رنگون 71 روس 43,476 جالندھر 227,360 70,352,393,578,580,642,709,710 ŠZ 162,586,599 Z جمنا (دریا) 309 جموں 357 جنوبی امریکہ 94,509 جھنگ 42 روم 95,509,695 رومانیہ 709 ریتی چھلہ ( قادیان کے ایک بازار کا نام) 292 ساؤتھ افریقہ 359 164,319,320,359,440,509,586, 709,710 چ چین , 5,43,139,161,173,192,219,220 سٹریٹس سیٹلمینٹ,173,221,229,359,360 440,458,459,484,509 سر چاه 607 228,229,290,327,359,440,458,459, 484,509,572,709,710,721-723 سرگودھا 41,219 سکندرآباد 101 5,43,215,229,459,509,586,599, 655 حبشہ رابی سينيا 195,268 سندھ 503,506,508,564,607,610 حیدرآباد 610 سوئٹزرلینڈ 709 خ سویڈن 710 سیالکوٹ 42,64,86,180,227,245 خوشاب 721 764

Page 777

تحریک جدید - ایک الہی تحریک.....جلد اول سیرالیون 715 سیلوان 94 شام 565,586,599,708 شاہ پور 721 شاہ جہان پور 503 شملہ 541,597,699,728 شیخو پوره 388 صفا 324 عراق 586,655 5,58,75,161,167,168,218,219, 228,287,298,528,535,572,586,592,599 اشاریہ ، مقامات 128,129,131,142,148,149,154-156, 167,175,176,184,217,223,227,246, 253,258,271,295,296,304,308,311, 321,326,357,368,372,373,383-386, 389-392,395,403,404,426,429,453, 457,462,491,493,501-507,511,523, 548,558,562-565,580,599,606-610, 643,649,650,677,681,683,684,700, 721,724 قصور 388 کاشغر 723 کانگڑہ 56 کراچی 484 کربلا 103,261 کشمیر 57,212,722 فرانس 301,543,710-37,70,93,219,299 کلکتہ 71,339,360,694 فلپائن 43,586,709 کنعان 316 فلسطين,164,287,288,458,586,592,599 کوفه 103 605,708 فن لینڈ 709,710 فیروز پور 388 گجرات 227 گوجرانوالہ 388 گورداسپور 42,56,176,227,246,549 گولڈ کوسٹ 94 قادیان, 74,76,77-7,24,43,47,48,64,68,72 ل 85-87,94,96,107,108,115,117,119, 22,23,41,42,44,70,85,86,108,70 765

Page 778

اشاریہ ، مقامات 154,171,176,180,192,197,220,227, 388,392,395,462, 484,605,700,728 لائل پور فیصل آباد 42,391,392 لکھنؤ 165 لندن 224,484 ماری 94 مبارک (مسجد قادیان) 206 مدراس 70,215,523,607,655 16-18,76,89,94,148,168,176,181,** 199,298,299,356,390,392,515,650 مراکش 586 مروه 324 94,288,484,586,592,599,708* 27,42,57,58,89,94,148,176,177, 183,298,303,304,355,356,384,390, 528,695 تحریک جدید - ایک الہی تحریک....جلد اول ویرووال ( ضلع امرت سر ) 484 ہالینڈ 709 ہمالیہ 728 D ہندوستان انڈیا 5,9,24,35,39,43,47,55,57 58,65,70,94,98,127,128,132,147, 151,159,161,191,192,206,215,219, 228,263,264,265,266,270,271,273, 318,342,343,358,362,406,425,440, 462,484,486,487,503,509,523,525, 527,537,539,565,566,573,586,590, 592,599,607,655,672,682,694,699, 706,707,721,722 ہنگری 359,440,458,485,509,709,710 ہوشیار پور 56,175,227,722 ی کیمن 167,168 نکیریاں ( ضلع ہوشیار پور ) 484 یورپ 5,24,29,93,220,235,290,300,351 نتگمری (ساہیوال) 41,42 ناروے 710 358,483,485,543,565,591,592,709 یوگنڈا 655 یوگوسلاویہ 458,509 نائیجیریا 94 منگل 599,650 واٹرلو ( وہ میدان جہاں فرانس کی جرمن اور انگریزوں کی متحدہ فوج یوگوسلو و یکیا 709 یونان 709 سے جنگ ہوئی) 93 766

Page 779

اشاریہ ، کتابیات تحریک جدید - ایک الہی تحریک...جلد اول کتابیات انجیل 6,439,569 بائیل 58,300,301,569 بخاری 323,393,505 قدوری 664 هدايا 664 الوصيت 376 کتب سلسلہ احمدیہ احمدیت (احمدیت یعنی حقیقی اسلام ) 193 تحفۃ الامیر ( دعوۃ الامیر ) 193 Teachings of Islam ( تقریر جلسہ مہوتسو ) 193 رپورٹ مجلس شوری, 254,262,363,365,369 378,521,675,725,729 اخبارات ورسائل الفضل,3,7,10,12,14,46,77,105,112,117 625,626,628,642,648,653,662,679, 685,687,690,700-703,708,710,713, 715,717 اشاعت بڑھانے کی ضرورت 129 دیگر شہروں میں ایجنسیاں قائم کرنے کی ضرورت 117,274 تشخيذ الاذهان 198 ریویو آف ریلیجنز 117 سن رائز 117,192,484 مجاہد (اخبار )275 مسلم ٹائمنز 192,484 کها کرده کرده 767 119,125,127,129,130,146,148,150, 155,156,158,159,172,174,196,203, 225,231,251,273, 276,294,313,315, 327,329,332,335,338,340,353,358, 362,382,388,399,407,410,419,427, 429,434,437,444,450,453,455,463, 481,494,499,526,532,534,553,556, 559,564,565,568,570,573,584,603,

Page 779