Tilawat-e-Quran Ki Ahmiyat

Tilawat-e-Quran Ki Ahmiyat

تلاوتِ قرآن مجید کی اہمیت اور برکات

ارشادات خلیفۃ المسیح الخامس
Author: Hazrat Mirza Masroor Ahmad

Language: UR

UR
Holy Quran

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاپنے خطبات و خطابات میں قرآن کریم کی تلاوت کی اہمیت، برکات اور اس کے اوامر و نواہی کی پابندی کرنے کی طرف احباب جماعت کو توجہ دلاتے رہتے ہیں۔ ایک سو صفحات کی اس دیدہ زیب ٹائپ شدہ کتاب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے بابرکت اور موجب نجاح ارشادات  کو مکرم برہان احمد ظفر صاحب نے بڑی محنت سے مرتب کیا ہے جسے نظارت نشر و اشاعت قادیان نے شائع کیا ہے۔


Book Content

Page 1

تلاوتِ قرآن مجید کی اهمیت اور بركات **** ارشادات حضرت خليفة المسيح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

Page 2

نام کتاب : تلاوت قرآن مجید کی اہمیت اور برکات برہان احمد ظفر درانی مرتبہ تعداد : 2000 سن اشاعت : مارچ 2012ء شائع کردہ: نظارت نشر و اشاعت صدر انجمن احمد یہ قادیان مطبع گورداسپور ، پنجاب 143516.انڈیا فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان ISBN: 978-81-7912-328-7

Page 3

إِنه لَقُرْآن كَرِيمه في كتب مكنون لا يمسه إلَّا الْمُطَهَّرُونَ (سورۃ الواقعۃ آیت ۷۸ تا ۸۰) یقیناًیہ ایک عزت والا قرآن ہے.ایک چھپی ہوئی کتاب (محفوظ) میں کوئی اسے چھو نہیں سکتا سوائے پاک کے ہوئے لوگوں کے.

Page 4

آنحضرت صلی اا اینم نے فرمایا : قرآن والے اہل اللہ اور اللہ کے خاص بندے ہوتے ہیں.“ (مسند احمد بن حنبل جلد ۳) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.کامیاب وہی لوگ ہونگے جو قرآن کریم کے ماتحت چلتے ہیں.قرآن کو چھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور محال امر ہے." (الحکم ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۱ء)

Page 5

پیش لفظ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے : إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (الحجر ١٠) یقینا ہم نے ہی یہ ذکر اُتارا ہے اور یقینا ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں.صحف سماویہ میں قرآن مجید ہی ایک ایسا صحف ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے خود لی ہے.اس آیت میں اس بات کی تصریح ہے کہ یہ کلام ہمیشہ زندہ رہے گا اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اس کی تعلیمات کو ہمیشہ تازہ رکھنے اور اس کا نفع لوگوں کو پہنچانے والے پیدا ہوتے رہیں گے.معنوی طور پر اس کتاب کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر مسجد دین بھیجتا رہا اور آخری زمانہ میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور آپ نے قرآن کریم کے اسرار مخفیہ اور اس کے حقائق و معارف کو دنیا کے سامنے پیش فرمایا اور یقیم الشریعہ کا فریضہ احسن رنگ میں سرانجام دیا.قرآن کریم کا نہ صرف معنوی طور پر بلکہ لفظی طور پر بھی محرف اور مبدل ہونا الہی وعدوں کے مطابق محال ہے.قرآن کریم کی حفاظت کا ایک ذریعہ کثرت سے اس کی تلاوت کرنا بھی ہے.تلاوت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ امت کے دلوں میں اس کی اہمیت جاگزین کرنے کا بیڑا بھی اللہ تعالیٰ خود اٹھاتا ہے.

Page 6

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ (القيامة : ۱۸) یقینا اس کا جمع کرنا اور اس کی تلاوت ہماری ذمہ داری ہے.امام جماعت احمد یہ عالمگیر سید نا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطبات و خطابات میں قرآن کریم کی تلاوت کی اہمیت اور برکات اور اس کے اوامر و نواہی کی پابندی کی طرف احباب جماعت کو بار بار توجہ دلا رہے ہیں.آپ کے بابرکت ارشادات سے استفادہ کرتے ہوئے محترم مولانا برہان احمد صاحب ظفر ایڈیشنل ناظر اصلاح وارشاد برائے تعلیم القرآن و وقف عارضی نے مختلف عناوین کے تحت بڑی محنت سے اسے ترتیب دیا ہے.اللہ تعالیٰ ان کو اجر عظیم سے نوازے.آمین نظارت نشر و اشاعت حضور انور کے ان ارشادات مبارکہ کو کتابی شکل میں سید نا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت و منظوری سے شائع کر رہی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: قرآن شریف کی تلاوت کی اصل غرض تو یہ ہے کہ اس کے حقائق اور معارف پر اطلاع ملے اور انسان ایک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرے.(ملفوظات جلد اول صفحہ ۲۸۵) اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن کریم کی تلاوت کرنے اور اس کے حقائق و معارف کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرتے ہوئے اپنی زندگیوں میں پاک تبدیلی لانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین خاکسار حافظ مخدوم شریف ناظر نشر و اشاعت قادیان

Page 7

فهرست مضامین 1.آنحضرت سال اتم خاتم النبیین اور قرآن کریم آخری شرعی کتاب ہے.2.تقویٰ میں ترقی کرنا چاہتے ہیں تو قرآن کریم کو پڑھیں.3- قرآن کریم کو احکامات پر عمل کرنے کے لحاظ سے بہت آسان بنایا ہے.4.ہر احمدی کو قرآن کریم پڑھنا اور سمجھنا چاہئے.5.ہر احمدی خود بھی قرآن پڑھے اور اپنے بیوی بچوں کو بھی تلقین کرے.6.قرآن کریم کو چھوڑ کر کامیابی ناممکن اور محال ہے.7 قرآن کریم پڑھنے والے کی مثال.8.قرآن کریم پڑھنے والے اعلیٰ اخلاق کے مالک ہوتے ہیں.9 - قرآن کریم والے اہل اللہ ہوتے ہیں.10 - قرآن کریم حقیقی برکات کا سر چشمہ اور نجات کا سچا ذریعہ ہے.11.کوئی بھی احمدی ایسا نہ ہو جو تلاوت قرآن نہ کرتا ہو.12- قرآن کریم پر عمل نہ کرنے والے کا کوئی ایمان نہیں.13.دو افراد ایسے ہیں جن پر حسد یعنی رشک جائز ہے.14.تین دن سے کم عرصہ میں قرآن ختم کرنے والا قرآن سے کچھ نہیں سمجھتا.15.انسان کو چاہئے کہ قرآن شریف کثرت سے پڑھے.16 - قرآن شریف اپنے پیرو کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور دل کو منور کرتا ہے.1 2 4 5670 8 9 11 11 ده 13 14 15 15 16 18 17 - قرآن کریم اور آنحضرت سالی یا ہی تم سے سچی محبت رکھنے والا صاحب کرامت ہو جاتا ہے 19 18 - قرآن شریف کو پڑھو تو ترجمہ بھی پڑھو.19.قرآن کریم مطہر صحیفہ ہے جو خاتم الکتب.20.قرآن کریم ایک مکمل معجزہ ہے.20 2222 20 23

Page 8

21 - قرآن کریم اور آنحضرت سی لیا کہ تم دو موتی ہیں.22.آنحضرت سلیا یہ تم کا قرآن کریم سے عشق اور محبت.23.حسن قرآت سے قرآن کریم پڑھنا چاہئے.24.قرآن کریم کی تلاوت ٹھہر ٹھہر کر کرنی چاہئے.25.قرآن کریم کی تلاوت خوش الحانی سے کرنی چاہئے.26 - حمد والی آیات پر حمد کریں عذاب والی آیات پر خشیت اختیار کریں.27 قرآن کریم کا علم رکھنے والوں کی بے انتہا قدر ہے.28.آنحضرت مالی ای ام صحابہ سے قرآن سننا پسند فرماتے تھے.29.قرآن کریم پڑھنے والوں کا اعلیٰ مقام.30.اللہ کی کتاب کو اسکا حق ادا کرتے ہوئے پڑھو.31.تلاوت کا حق کیا ہے؟ 24 25 27 28 222 223 22 28 30 31 32 34 36 37 32 - قرآن کریم کی تلاوت کی اصل غرض یہ ہے کہ تا حقائق و معارف پر اطلاع ملے.38 33 صحیح تلفظ سے قرآن پڑھنے اور ترجمہ سیکھنے کی طرف توجہ ہونی چاہئے.34 - قرآن کریم پڑھے بغیر نہ سویا کرو.35.قرآن کریم کا ہر حکم حکمت سے پُر ہے.39 41 42 36.اللہ کے نور کو دلوں میں بھرنے کے لئے ہر احمدی کو قرآن کا پڑھنا اور سیکھنا ضروری ہے 44 37.قرآن کریم کو رمضان سے ایک خاص تعلق ہے.45 38.مومن کو چاہئے کہ رمضان میں وہ دو مرتبہ قرآن کریم کا دور کرنے کی کوشش کرے 46 39 - قرآن کریم کی تلاوت کے دوران احکامات کی تلاش کریں.40.تلاوت کا حق ادا کئے بغیر ھدایت کی تفصیل کا علم ممکن نہیں.41 - قرآنی احکامات پر عمل روحانی زندگی کا باعث ہے.42.قرآن کے ہم مرتبہ کوئی اور کتاب نہیں.43.قرآن کریم نجات کا شفا بخش نسخہ ہے.47 48 ه ه ه ه و این 49 50 51

Page 9

44.راہ نجات صرف قرآن کریم میں ہے.45.قرآن کریم پڑھنے کے آداب.46.قرآن کریم جتنا میسر ہو پڑھ لیا کرو.47.قرآن کریم پڑھ کر اور اس پر عمل کر کے ہی نیکیوں میں آگے بڑھا جا سکتا ہے.48 - قرآن کریم کو خوب نکھار کر پڑھنا چاہئے.49 - قرآن کریم کا پڑھنا نصیحت حاصل کرنا ہے.50.قرآن کریم کو پڑھنے والے ہی عقل والے ہیں.51 قرآن کریم کو غور سے سنو اور خاموش رہو.54 52 قرآن کریم کی تلاوت کا حصول در اصل احکام الہی پر عمل اور رضائے الہی ہے.60 53 قرآن کریم کی تعلیم ایک دوسرے پر سلامتی بھیجنے کا حکم دیتی ہے.54 قرآن کریم کی تلاوت دلوں کے زنگ کو دور کرتی ہے.55.آنحضرت سلی لیا کہ تم کا قرآن کریم پڑھنا.56 قرآن کریم کو بہت غور اور تدبر سے پڑھنا چاہئے.57.قرآن کریم کو پڑھنے سے مخالفین کے منہ بند کئے جاسکتے ہیں.58.اچھی آواز میں تلاوت کرنے کا حکم.59.قرآن کریم کی تلاوت کا حق مؤمنین کے نیک اعمال سے مشروط ہے.60.قرآن کریم کی تعلیم فطرت انسانی کے عین مطابق ہے.61.قرآن کریم کو تدبر سے پڑھنا اور اس پر عمل کرنا چاہئے.62.روزانہ صبح قرآن کریم کی تلاوت ضرور کرنی چاہئے.63.ہر گھر سے تلاوت قرآن کریم کی آواز آنی چاہئے.64.قرآن کریم کا ایک نام ذکر ہے.65 - قرآن کریم پر عمل ہی حقیقی روشنی کا فائدہ دیتا ہے.66.قرآن کریم ایک جامع اور محفوظ کتاب ہے.می این این لا لا له له له له له لا 55 56 57 57 58 59 59 63 65 65 66 67 68 70 71 72 75 75 75 76 77

Page 10

67 - قرآن کریم کی حکومت کو اپنے پر لاگو کرنے کا حکم ہے.68.ماہ رمضان میں مکمل قرآن کی دہرائی کی جائے.69.قرآن کریم کا پیغام عالمگیر پیغام ہے.70 - قرآن کریم مسلمانوں اور غیر مسلم دونوں کو راہنمائی دیتا ہے.71 - قرآن کریم کی عملی تصویر بنے کی کوشش کریں.72 قرآن کریم کی حفاظت کا دائمی وعدہ ہے.79 81 82 P 00 00 84 87 88 73 - قرآن کریم پڑھا کرو یہ قیامت کے روز اپنے پڑھنے والوں کی شفاعت کریگا.91 74.اللہ تعالیٰ کے حکموں کی طرف جو قرآن میں ہیں اس طرف توجہ ہونی چاہئے.75.دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کی تعلیم اور دینی تعلیم کی طرف بھی توجہ ہونی چاہئے 95 76 تلاوت قرآن کریم کے سنہری اصول.77.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا تلاوت کا طریق.78 - قرآن کریم کو مہجور کی طرح نہ چھوڑیں.79.قرآن کریم کا ترجمہ سیکھیں.80 تربیتی کلاس کا مقصد دین کا علم سیکھنا ہے.81 علم سکھانے والے کا عزت واحترام کریں.82.دین سیکھنا بہت بڑی نیکی ہے.83 محنت کی عادت ڈالیں.84.روزانہ قرآن کریم پڑھیں اور کلاسوں میں شامل ہوں.85.قرآن کریم کا پڑھنا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے.86.سب روزانہ تلاوت کی عادت ڈالیں.94 95 97 98 100 101 102 102 103 104 104 105

Page 11

1 بسم الله الرحمن الرحيم آنحضرت صلی ایتم خاتم النبیین اور قرآن کریم آخری شرعی کتاب ہے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۴ ستمبر ۲۰۰۴ء میں فرماتے ہیں: { ذَلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ} (سورۃ البقرہ آیت:3) دنیا میں، جب سے یہ دنیا قائم ہے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی اصلاح کے لئے بے شمار نبی بھیجے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی قوموں کے لئے شریعت لے کر آئے جو کتاب ان پر اتری اس کے احکام انہوں نے اپنی قوم کو بتائے ، کچھ ان نبیوں کی پیروی میں بھی تھے جو اس شریعت کو آگے چلانے والے تھے، تو بہر حال نبیوں کا یہ سلسلہ اپنی اپنی قوم تک محدود رہا، یہاں تک کہ انسان کامل اور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا.اللہ تعالیٰ نے آپ پر اپنی شریعت بھی کامل کی اور آخری شرعی کتاب قرآن کریم کی صورت میں نازل فرمائی جس میں گزشتہ انبیاء کے تمام واقعات بھی آگئے اور تمام شرعی احکام بھی اس میں آگئے اور آئندہ کی پیش خبریاں بھی اس میں آگئیں.اور تمام علوم موجودہ بھی اور آئندہ بھی ، ان کا بھی اس میں احاطہ ہو گیا گویا کہ علم وعرفان کا ایک چشمہ جاری ہو گیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ ایک ایسا چشمہ ہے جو پاک دل ہو کر اس سے فیض اٹھانا چاہے وہ اس سے فائدہ اٹھائے گا.وہ تقویٰ میں بھی آگے بڑھے گا، وہ ہدایت پانے والوں میں بھی شمار ہوگا کیونکہ یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں اور یہ متقیوں کے لئے

Page 12

2 ہدایت ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ”اس کے فیوض اور برکات کا در ہمیشہ جاری ہے.اور وہ ہر زمانے میں اسی طرح نمایاں اور درخشاں ہے جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں تھا.تقویٰ میں ترقی کرنا چاہتے ہیں تو قرآن کریم کو پڑھیں تو یہ دعوی ہے جو اس کتاب کا ہے اگر تم پاک دل ہو کر اس کی طرف آؤ گے، ہر کانٹے سے ہر جھاڑی سے جو تمہیں الجھا سکتی ہے، تمہیں بچنے کی تمنا ہے اور نہ صرف تمہیں بچنے کی تمنا ہے بلکہ اس سے بچنے کی کوشش کرنے والے بھی ہو اور تمہارے دل میں اگر اس کے ساتھ خدا کا خوف بھی ہے، اس کے حکموں پر چلنے کی کوشش بھی اور خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی خواہش اور تڑپ بھی ہے پھر یہ کتاب ہے جو تمہیں ہدایت کی طرف لے جائے گی.اور جب انسان، ایک مومن انسان، تقویٰ کے راستوں پر چلنے کا خواہشمند انسان قرآن کریم کو پڑھے گا، سمجھے گا اور غور کرے گا اور اس پر عمل کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ وہ اس ذریعے سے ہدایت کے راستے بھی پاتا چلا جائے گا اور تقویٰ پر بھی قائم ہوتا چلا جائے گا، تقویٰ میں ترقی کرتا چلا جائے گا.اور قرآن کریم کی ہدایت تمہیں دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب کرے گی.تم اللہ تعالیٰ کی رضا کو پانے والے بھی ہو گے.اللہ تعالیٰ کیونکہ انسانی فطرت کو بھی جانتا ہے اس لئے ہمیں قرآن کریم نے اس بات کی بھی تسلی دے دی کہ یہ کام تمہارے خیال میں بہت مشکل ہے.عام طور پر تمہیں یہ خیال نہ آئے کہ اس کتاب کے احکام ہر ایک کو سمجھ نہیں آ سکتے ، ہر ایک کے لئے ان کو سمجھنا مشکل ہے.اگر کوئی سمجھ آ بھی جائیں تو اس پر عمل کرنا مشکل ہے.تو اس بارے میں بھی قرآن کریم نے کھول کر بتا دیا کہ یہ کوئی مشکل نہیں ہے.یہ بڑی آسان کتاب ہے.اور اس کی یہی خوبی ہے کہ یہ ہر طبقے اور مختلف استعدادوں کے لوگوں کے لئے راستہ

Page 13

3 دکھانے کا باعث بنتی ہے.بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر وہ شخص جو اپنی اصلاح کرنا چاہتا ہے، ہدایت کے راستے تلاش کرنا چاہتا ہے، وہ نیک نیت ہو کر، پاک دل ہو کر اس کو پڑھے اور اپنی عقل کے مطابق اس پر غور کرے، اپنی زندگی کو اس کے حکموں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے.کوشش تو بہر حال شرط ہے وہ تو کرنی پڑتی ہے.دنیاوی چیزوں کے لئے کوشش کرنی پڑتی ہے اس کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوتا.روٹی کمانے کے لئے دیکھ لیں کتنی کوشش کرنی پڑتی ہے.سوائے ان لوگوں کے جن کا شیوہ ہی نکے بیٹھ کر کھانا ہوتا ہے.دوسروں سے امید لگائے بیٹھے ہوتے ہیں یا ایسے بھی ہوتے ہیں جو بیویوں کو کہتے ہیں جاؤ کماؤ، میں گھر میں بیٹھتا ہوں.پیشہ ور مانگنے والے بھی مانگنے کی کوششوں میں محنت کرتے ہیں.یہاں مغرب میں بھی بہت سارے مانگنے والے سارا دن باجے، ڈھول اور دوسری اس طرح کی چیزیں لے کر سڑکوں اور پارکوں میں بیٹھتے ہیں.یہ سب کچھ اس کوشش میں ہی ہے نا! کہ روٹی حاصل کی جائے.تو بہر حال میں یہ کہ رہا تھا کہ اگر کوشش کرو گے، اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی ہدایت پانے کی اور تقویٰ حاصل کرنے کی تو پھر تمہیں اس کتاب سے بہت کچھ ملے گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری نیت نیک ہے تو میں نے اس کو تمہارے لئے آسان کر دیا ہے اور کر دوں گا، بشرطیکہ تم اس کو پڑھ کر عمل کر کے ہدایت پانا چاہو.جیسا کہ فرماتا ہے {وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِز } (القمر: 18)، اور یقینا ہم نے قرآن کو نصیحت کی خاطر آسان بنا دیا ہے، پس کیا ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا؟ پس یہ اللہ تعالیٰ کا دعویٰ ہے، یہ اس کا دعوی ہے جس نے انسان کو پیدا کیا ہے اس کی فطرت کی ہر اونچ نیچ کو جانتا ہے.اس کے اندر کو بھی جانتا ہے.

Page 14

4 قرآن کریم کو احکامات پر عمل کرنے کے لحاظ سے بہت آسان بنایا ہے جہاں تک انسان خود بھی نہیں پہنچ سکتا.اس کو پتہ ہے کہ کس شخص کی کتنی استعدادیں ہیں.اور اس کی فطرت میں کیا کیا خوبیاں یا برائیاں ہیں.اس نے فرمایا کہ تم نصیحت پکڑنے والے بنو تم اس کو پڑھ کر اس پر عمل کرنے والے بنو.صرف نام کے مسلمان ہی نہ ہو.صرف یہ دعوی کر کے کہ ہم نے امام مہدی کو مان لیا اور بس قصہ ختم ، اس کے بعد دنیاوی دھندوں میں پڑ جاؤ.اگر اس طرح کرو گے تو اللہ تعالیٰ کے احکامات کو بھلانے والے ہو گے.اور اگر نیک نیتی سے اللہ تعالیٰ کو پانے کی تلاش میں ہو گے، اس کے احکامات پر عمل کرنے والے ہو گے تو فرمایا کہ میں نے قرآن کریم میں انسانی فطرت کو مدنظر رکھتے ہوئے بڑے آسان انداز میں نصیحت کی ہے.بڑے آسان حکم دیئے ہیں جن پر ہر ایک عمل کر سکتا ہے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ اس میں تمام بنیادی اخلاق اور اصول و قواعد کا ذکر بھی آ گیا جن پر عمل کرنا کسی کم سے کم استعداد والے کے لئے بھی مشکل نہیں ہے.عبادتوں کے متعلق بھی احکام ہیں تو وہ ہر ایک کی اپنی استعداد کے مطابق عورتوں کے متعلق حکم ہیں تو وہ ان کی طاقت کے مطابق ہیں.گھر یلو تعلقات چلانے کے لئے حکم ہے تو وہ عین انسان کی فطرت کے مطابق ہے.معاشرے میں تعلقات اور لین دین کے بارے میں حکم ہے تو وہ ایسا کہ ایک عام آدمی جس کو نیکی کا خیال ہے وہ بغیر اپنا یا دوسرے کا نقصان کئے اس پر عمل کر سکتا ہے.پھر جن باتوں کی سمجھ نہ آئے یا بعض ایسے حکم ہیں جو بعض لوگوں کی ذہنی استعدادوں سے زیادہ ہوں، اور بعض گہری عرفان کی باتیں ہیں ان کے سمجھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے زیادہ استعداد والوں کو علم دیا کہ انہوں نے ایسے مسائل آسان کر کے ہمارے سامنے رکھے دیئے.اور ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ اس زمانے میں ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کی توفیق ملی جن کو ہے.

Page 15

5 اللہ تعالیٰ نے حکم اور عدل بنا کر بھیجا.جنہوں نے قرآن کریم کے ایسے چھپے خزانے جن تک ایک عام آدمی پہنچ نہیں سکتا تھا ان خزانوں کے بارے میں کھول کر وضاحت کر دی.تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ اور اس دعوئی کے مطابق ہے کہ اگر تمہیں نصیحت حاصل کرنے کا شوق ہے تو ہم نے قرآن کریم کو آسان بنایا ہے.کیونکہ بعض معارف ایسے ہیں کہ ایک عام آدمی کی استعداد سے زیادہ ہیں، اس کی سمجھ سے بالا ہیں.ان کو کھولنے کے لئے فرمایا کہ میں اپنے پیاروں پر علم کے معارف کھولتا رہا ہوں اور رہتا ہوں اور اس زمانے میں یہ تمام دروازے مسیح موعود اور مہدی موعود پر کھول دیئے ہیں.پس انہوں نے جس طرح آسان کر کے ، کھول کر قرآن کریم کی نصیحت ہمیں پہنچائی ہے اس پر عمل کرنا چاہئے.اور اگر کوئی ان نصائح پر عمل نہیں کرتا ، جن کی خدا تعالیٰ سے علم پا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وضاحت فرمائی ہے، تو یہ اس کی بدقسمتی ہے.اللہ تعالیٰ نے تو اپنی نصیحت کو آسان کر کے سمجھانے کے لئے اپنا نمائندہ بھیج دیا ہے، اس کی بات نہ ماننا بد قسمتی نہیں تو اور کیا ہے.اور اس کو نہ مانے کا یہ نتیجہ نکل رہا ہے کہ جن نصائح اور اللہ تعالیٰ کی باتوں کو امام وقت نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر آسان کر کے دکھایا ہے، اس میں یہ لوگ ایچ پیچ تلاش کرتے ہیں اور بعض باتوں کو نا قابل عمل بنادیا ہے.کچھ حکموں کو کہ دیا کہ منسوخ ہو گئے.کچھ کو صرف قصہ کہانی کے طور پر لیتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے تو کہ دیا تھا کہ بعض باتیں صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کو اللہ نے کامل علم دیا ہے.اور اب جبکہ اللہ اور اس کے رسول کے وعدے کے مطابق دین کو سنبھالنے والا ایک پہلوان حکم اور عدل آ گیا تو ان تفسیروں کو بھی ماننا ضروری ہے جو اس نے کی ہیں.ہر احمدی کو قرآن کریم پڑھنا اور سمجھنا ہے بہر حال ایک احمدی کو خاص طور پر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس نے قرآن کریم پڑھنا

Page 16

6.ہے، سمجھنا ہے، غور کرنا ہے اور جہاں سمجھ نہ آئے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وضاحتوں سے یا پھر انہیں اصولوں پر چلتے ہوئے اور مزید وضاحت کرتے ہوئے خلفاء نے جو وضاحتیں کی ہیں ان کو ان کے مطابق سمجھنا چاہئے.اور پھر اس پر عمل کرنا ہے تب ہی ان لوگوں میں شمار ہو سکیں گے جن کے لئے یہ کتاب ہدایت کا باعث ہے.ورنہ تو احمدی کا دعویٰ بھی غیروں کے دعوے کی طرح ہی ہوگا کہ ہم قرآن کو عزت دیتے ہیں.اس لئے ہر ایک اپنا اپنا جائزہ لے کہ یہ صرف دعوئی تو نہیں؟ اور دیکھے کہ حقیقت میں وہ قرآن کو عزت دیتا ہے؟ کیونکہ اب آسمان پر وہی عزت پائے گا جو قرآن کو عزت دے گا اور قرآن کو عزت دینا یہی ہے کہ اس کے سب حکموں پر عمل کیا جائے.قرآن کی عزت یہ نہیں ہے کہ جس طرح بعض لوگ شیلفوں میں اپنے گھروں میں خوبصورت کپڑوں میں لپیٹ کر قرآن کریم رکھ لیتے ہیں اور صبح اٹھ کر ماتھے سے لگا کر پیار کر لیا اور کافی ہو گیا اور جو برکتیں حاصل ہوئی تھیں ہو گئیں.یہ تو خدا کی کتاب سے مذاق کرنے والی بات ہے.دنیا کے کاموں کے لئے تو وقت ہوتا ہے لیکن سمجھنا تو ایک طرف رہا، اتنا وقت بھی نہیں ہوتا کہ ایک دورکوع تلاوت ہی کرسکیں.ہر احمدی خود بھی قرآن پڑھے اور اپنے بیوی بچوں کو بھی تلقین کرے پس ہر احمدی کو اس بات کی فکر کرنی چاہئے کہ وہ خود بھی اور اس کے بیوی بچے بھی قرآن کریم پڑھنے اور اس کی تلاوت کرنے کی طرف توجہ دیں.پھر ترجمہ پڑھیں پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر پڑھیں.یہ تفسیر بھی تفسیر کی صورت میں تو نہیں لیکن بہر حال ایک کام ہوا ہے کہ مختلف کتب اور خطابات سے ، ملفوظات سے حوالے اکٹھے کر کے ایک جگہ کر دیئے گئے ہیں اور یہ بہت بڑا اعلم کا خزانہ ہے.اگر ہم قرآن کریم کو اس طرح نہیں پڑھتے تو فکر کرنی چاہئے اور ہر ایک کو اپنے بارے میں سوچنا چاہئے کہ کیا وہ

Page 17

7 احمدی کہلانے کے بعد ان باتوں پر عمل نہ کر کے احمدیت سے دور تو نہیں جارہا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: یہ سچ ہے کہ اکثر مسلمانوں نے قرآن شریف کو چھوڑ دیا ہے.لیکن پھر بھی قرآن شریف کے انوار و برکات اور اس کی تاثیرات ہمیشہ زندہ اور تازہ بتازہ ہیں چنانچہ میں اس وقت اس ثبوت کے لئے بھیجا گیا ہوں اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے اپنے وقت پر اپنے بندوں کو اپنی حمایت اور تائید کے لئے بھیجتا رہا ہے.کیونکہ اس نے وعدہ فرمایا تھا کہ {إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّالَهُ لَحَافِظُونَ } یعنی بے شک ہم نے اس ذکر ( یعنی قرآن شریف ) کو نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں.(الحکم 17 نومبر 1905ء) پس ہر احمدی کو یا درکھنا چاہئے کہ ہمیں بھی جو کچھ ملنا ہے قرآن کریم کی برکت سے ہی ملنا ہے اور برکت اس کے احکام پر عمل کرنے میں ہی ہے.قرآن کریم کو چھوڑ کر کامیابی ناممکن اور محال ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : " قرآن کو چھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور محال امر ہے.اور ایسی کامیابی ایک خیالی امر ہے جس کی تلاش میں یہ لوگ لگے ہوئے ہیں.صحابہ کے نمونوں کو اپنے سامنے رکھو.دیکھو انہوں نے جب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی اور دین کو دنیا پر مقدم کیا تو وہ سب وعدے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے کئے تھے پورے ہو گئے.ابتداء میں مخالف جنسی کرتے تھے کہ باہر آزادی سے نکل نہیں سکتے اور بادشاہی کے دعوے کرتے ہیں.لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ

Page 18

8 وسلم کی اطاعت میں گم ہو کر وہ پایا جوصدیوں سے ان کے حصے میں نہ آیا تھا“.( ملفوظات جلد اول صفحہ 409 احکام 31 جنوری 1901ء) پس بچوں کو بھی قرآن کریم پڑھنے کی عادت ڈالیں اور خود بھی پڑھیں.ہر گھر سے تلاوت کی آواز آنی چاہئے.پھر ترجمہ پڑھنے کی کوشش بھی کریں.اور سب ذیلی تنظیموں کو اس سلسلے میں کوشش کرنی چاہئے ، خاص طور پر انصار اللہ کو کیونکہ میرے خیال میں خلافت ثالثہ کے دور میں انکے ذمے یہ کام لگایا گیا تھا.اسی لئے ان کے ہاں ایک قیادت بھی اس کے لئے ہے جو تعلیم القرآن کہلاتی ہے.اگر انصار پوری توجہ دیں تو ہر گھر میں با قاعدہ قرآن کریم پڑھنے اور اس کو سمجھنے کی کلاسیں لگ سکتی ہیں.قرآن کریم پڑھنے والے کی مثال ย ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابوموسیٰ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مومن قرآن کریم پڑھتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے اس کی مثال ایک ایسے پھل کی طرح ہے جس کا مزہ بھی عمدہ اور خوشبو بھی عمدہ ہوتی ہے.اور وہ مومن جو قرآن نہیں پڑھتا مگر اس پر عمل کرتا ہے اس کی مثال اس کھجور کی طرح ہے کہ اس کا مزہ تو عمدہ ہے مگر اس کی خوشبو کوئی نہیں.اور ایسے منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اس خوشبو دار پودے کی طرح ہے جس کی خوشبو تو عمدہ ہے مگر مزا کڑوا ہے.اور ایسے منافق کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا ایسے کڑوے پھل کی طرح ہے جس کا مزا بھی کڑوا ہے جس کی خوشبو بھی کڑوی ہے.(بخاری کتاب فضائل القرآن باب اثم من رأى بقراة القرآن او تأكل به او فجربه) اس حدیث سے قرآن کریم کی مزید وضاحت یہ ہوتی ہے کہ نہ صرف تلاوت ضروری ہے بلکہ اس کو سمجھ کر اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے.جو قرآن کریم پڑھتے بھی ہیں

Page 19

9 اور اس پر غور بھی کرتے ہیں اور اس پر عمل بھی کرتے ہیں وہ ایسے خوشبودار پھل کی طرح ہیں جس کا مزا بھی اچھا ہے اور جس کی خوشبو بھی اچھی ہے.کیسی خوبصورت مثال ہے.کہ ایسا پھل جس کا مزا بھی اچھا ہے جب انسان کوئی مزیدار چیز کھاتا ہے تو پھر دوبارہ کھانے کی بھی خواہش ہوتی ہے.تو قرآن کریم کو جو اس طرح پڑھے گا کہ اس کو سمجھ آ رہی ہوگی اس کو سمجھنے سے ایک قسم کا مزا بھی آ رہا ہو گا اور جب اس پر عمل کر رہا ہو گا تو اس کی خوشبو بھی ہر طرف پھیلا رہا ہوگا.اس کے احکام کی خوبصورتی ہر ایک کو ایسے شخص میں نظر آ رہی ہوگی.قرآن کریم پڑھنے والے اعلیٰ اخلاق کے مالک ہوتے ہیں پس ایسے لوگ ہی ہوتے ہیں جو تقویٰ میں ترقی کرنے والے اور راہ ہدایت پانے والے ہوتے ہیں.ان کے گھر کے ماحول بھی جنت نظیر ہوتے ہیں.ان کے باہر کے ماحول بھی پرسکون ہوتے ہیں.وہ بیوی بچوں کے حقوق بھی ادا کر رہے ہوتے ہیں.وہ ماں باپ کے حقوق بھی ادا کر رہے ہوتے ہیں.وہ صلہ رحمی کے بھی اعلیٰ معیار قائم کر رہے ہوتے ہیں.وہ ہمسایوں کے بھی حقوق ادا کر رہے ہوتے ہیں.وہ اپنے دنیاوی کاموں کے بھی حق ادا کر رہے ہوتے ہیں اور وہ جماعتی خدمات کو بھی ایک انعام سمجھ کر اس کی ادائیگی میں اپنے اوقات صرف کر رہے ہوتے ہیں.اور سب سے بڑھ کر وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے، رحمان کے بندے ہوتے ہیں.ان کے بچے بھی ایسے باپوں کو ماڈل سمجھ رہے ہوتے ہیں اور ان کی بیویاں بھی ان سے خوش ہوتی ہیں اور پھر ایسی بیویاں ایسے خاوندوں کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتی ہیں، اپنے عملوں کو بھی ان کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتی ہیں اور اس طرح ایسے لوگ بغیر کچھ کہے بھی خاموشی سے ہی ایک اچھے راعی ، ایک اچھے نگر ان کا نمونہ بھی قائم کر رہے ہوتے ہیں.ان کا ہمسایہ بھی ان کی تعریف کے گیت گا رہا ہوتا ہے اور ان کا ماحول اور معاشرہ بھی ایسے لوگوں کی خوبیاں گنوا رہا ہوتا

Page 20

10 ہے.ان کا افسر بھی ایسے شخص کی فرض شناسی کے قصے سنا رہا ہوتا ہے اور اس کا ماتحت بھی ایسے اعلیٰ اخلاق کے افسر کے گن گا رہا ہوتا ہے اور اس کے لئے قربانی دینے کے لئے بھی تیار ہوتا ہے.اور اس کے دوست اور ساتھی بھی اس کی دوستی میں فخر محسوس کر رہے ہوتے ہیں.یہ خوبیاں ہیں جو قرآن پڑھ کر اس پر عمل کر کے ایک مومن حاصل کر سکتا ہے.بلکہ اور بھی بہت ساری خوبیاں ہیں.یہاں تو میں ساری گنوا نہیں سکتا.تو جس کو یہ سب کچھ مل جائے وہ کس طرح سوچ سکتا ہے کہ وہ قرآن کریم پڑھ کر اس پر عمل نہ کرے جب عمل کرنے کے بعد یہ سب کچھ حاصل ہو رہا ہے.اور پھر جو دوسری مثال اس میں دی کہ جو اتنی نیکی رکھتا ہے گو وہ با قاعدہ گھر میں تلاوت تو نہیں کر رہا ہوتا، ترجمہ پڑھنے والا تو نہیں ہے، اس پر غور کرنے والا تو نہیں ہے لیکن جب بھی جمعہ پر آتا ہے، درسوں پر آتا ہے، نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹھتا ہے، وہاں قرآن کریم کی کوئی ہدایت کی بات سن لیتا ہے تو پھر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے.تو وہ اس کا مزا تو نہیں لیتا جو قرآن کریم کو پڑھنے، سمجھنے اور غور کرنے سے حاصل ہو سکتا ہے لیکن اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس سے بھی وہ کچھ نہ کچھ حصہ لے رہا ہوتا ہے.اس مثال میں جس طرح بیان کیا گیا ایسے لوگ ہیں جو دنیا کے دکھاوے کے لئے قرآن کریم پڑھتے ہیں تو قرآن کریم کی خوشبو اس کو پڑھنے کی وجہ سے ماحول میں قائم ہو گی.کوئی نیک فطرت اس سے فائدہ اٹھالے گا.لیکن وہ شخص جو دکھاوے کی خاطر یہ سب کچھ کر رہا ہے اس شخص کو اس کا پڑھنا کوئی مٹھاس، کوئی خوشبو میسر نہیں کرسکتی.کوئی فائدہ اس کو نہیں پہنچے گا.اور پھر وہ شخص جو نہ قرآن پڑھتا ہے اور نہ اس پر عمل کرتا ہے، اس میں تو فرمایا کہ ایسی منافقت بھر گئی ہے کہ جس میں نہ خوشبو ہے اور نہ مزا ہے.نہ وہ خود فیض پاسکتا ہے اور نہ ہی کوئی دوسرا اس سے فیض پاسکتا ہے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ایسا بننے سے محفوظ رکھے.

Page 21

11 قرآن کریم والے اہل اللہ ہوتے ہیں ایک روایت میں آتا ہے.حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں میں سے کچھ لوگ اہل اللہ ہوتے ہیں.راوی کہتے ہیں اس پر آپ سے دریافت کیا گیا یا رسول اللہ ! خدا کے اہل کون ہوتے ہیں.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قرآن والے اہل اللہ اور اللہ کے خاص بندے ہوتے ہیں.( مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 128 مطبوعہ بیروت) اہل اللہ بننے کے لئے جیسا کہ پہلی حدیث میں بیان فرمایا گیا ہے.قرآن کریم کو پڑھنے والے بھی بنیں اور اس پر عمل کرنے والے بھی بنیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” کامیاب وہی لوگ ہوں گے جو قرآن کریم کے ماتحت چلتے ہیں.قرآن کو چھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور محال امر ہے.(الحام 31 اکتوبر 1901ء) پس ہر احمدی کو اپنی کامیابیوں کو حاصل کرنے کے لئے یہ نسخہ آزمانا چاہئے.دین بھی سنور جائے گا اور دنیاوی مسائل بھی حل ہو جائیں گے.آج دیکھ لیں مسلمانوں میں جو لڑائی جھگڑے اور دنیا کے سامنے ذلت کی حالت ہے وہ اسی لئے ہے کہ نہ قرآن پڑھتے ہیں اور نہ اس پر عمل کرتے ہیں.جو پڑھتے ہیں وہ عمل نہیں کرتے ، سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے تو ظاہر ہے پھر قرآن کو چھوڑنے کا یہی نتیجہ نکلنا تھا جو نکل رہا ہے.قرآن کریم حقیقی برکات کا سر چشمہ اور نجات کا سچا ذریعہ ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :

Page 22

12 یاد رکھو قرآن کریم حقیقی برکات کا سرچشمہ اور نجات کا سچا ذریعہ ہے.یہ ان لوگوں کی اپنی غلطی ہے جو قرآن کریم پر عمل نہیں کرتے.عمل نہ کرنے والوں میں ایک گروہ تو وہ ہے جس کو اس پر اعتقاد ہی نہیں.اور وہ اس کو خدا تعالیٰ کا کلام ہی نہیں سمجھتے.یہ لوگ تو بہت دور پڑے ہوئے ہیں.لیکن وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور نجات کا شفا بخش نسخہ ہے، اگر وہ اس پر عمل نہ کریں تو کس قدر تعجب اور افسوس کی بات ہے.ان میں سے بہت سے تو ایسے ہیں جنہوں نے ساری عمر میں کبھی اسے پڑھا ہی نہیں.پس ایسے آدمی جو خدا تعالیٰ کے کلام سے ایسے غافل اور لا پرواہ ہیں ان کی ایسی مثال ہے کہ ایک شخص کو معلوم ہے کہ فلاں چشمہ نہایت ہی مصطفی اور شیر میں اور خنک ہے اور اس کا پانی بہت سے امراض کے واسطے اکسیر اور شفا ہے.یہ علم اس کو یقینی ہے لیکن باوجود اس علم کے اور باوجود پیاسا ہونے اور بہت سی امراض میں مبتلا ہونے کے وہ اس کے پاس نہیں جاتا تو یہ اس کی کیسی بدقسمتی اور جہالت ہے.اسے تو چاہئے تھا کہ اس چشمے پر منہ رکھ دیتا اور سیراب ہو کر اس کے لطف اور شفا بخش پانی سے حظ اٹھاتا.مگر باوجود علم کے اس سے ویسا ہی دور ہے جیسا کہ ایک بے خبر.اور اس وقت تک اس سے دور رہتا ہے جو موت آ کر خاتمہ کر دیتی ہے.اس شخص کی حالت بہت ہی عبرت بخش اور نصیحت خیز ہے.مسلمانوں کی حالت اس وقت ایسی ہی ہو رہی ہے.وہ جانتے ہیں کہ ساری کامیابیوں کی کلید یہی قرآن شریف ہے جس پر ہم کو عمل کرنا چاہئے ،مگر نہیں.اس کی پروا بھی نہیں کی جاتی.ایک شخص جو نہایت ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ اور پھر نری ہمدردی ہی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم اور ایماء سے اس طرف بلاوے تو اسے کذاب اور دجال کہا جاتا ہے.اس سے بڑھ کر اور کیا قابل رحم

Page 23

13 حالت اس قوم کی ہوگی.فرمایا کہ : ” مسلمانوں کو چاہئے تھا اور اب بھی ان کے لئے یہی ضروری ہے کہ وہ اس چشمہ کو عظیم الشان نعمت سمجھیں اور اس کی قدر کریں.اس کی قدر یہی ہے کہ اس پر عمل کریں اور پھر دیکھیں کہ خدا تعالیٰ کس طرح ان کی مصیبتوں اور مشکلات کو دور کر دیتا ہے.کاش مسلمان سمجھیں اور سوچیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ایک نیک راہ پیدا کر دی ہے.اور وہ اس پر چل کر فائدہ اٹھا ئیں.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 140-141 الحکم 24 ستمبر 1904) کوئی بھی احمدی ایسا نہ ہو جو تلاوت قرآن کریم نہ کرتا ہو جب یہ دوسروں کے لئے نصیحت ہے تو یہ ہمارے لئے تو اور بھی زیادہ بڑھ کر ہے.ایسے لوگوں کے لئے جو عمل نہیں کرتے ، قرآن کریم میں آیا ہے کہ {وَقَالَ الرَّسُوْلُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا} (الفرقان : ۱۳).اور رسول کہے گا اے میرے رب یقینا میری قوم نے اس قرآن کو متروک کر چھوڑا ہے.پس احمدیوں کو ہمیشہ فکر کرنی چاہئے کیونکہ ماحول کا بھی اثر ہو جاتا ہے.دنیا داری بھی غالب آ جاتی ہے.کوئی احمدی کبھی بھی ایسا نہ رہے جو کہ روزانہ قرآن کریم کی تلاوت نہ کرتا ہو، کوئی احمدی ایسا نہ ہو جو اس کے احکام پر عمل نہ کرتا ہو.اللہ نہ کرے کہ کبھی کوئی احمدی اس آیت کے نیچے آجائے کہ اس نے قرآن کریم کو متروک چھوڑ دیا ہو.پس اس کے لئے توجہ دینے کی ضرورت ہے.جو کمیاں ہیں ہر ایک کو اپنا اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ ہمارے اندر کوئی کمی تو نہیں.ہم نے قرآن کریم کو چھوڑ تو نہیں دیا.تلاوت با قاعدگی سے ہو رہی ہے یا نہیں.ترجمہ پڑھنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ نہیں.تفسیر سمجھنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ نہیں.متروک چھوڑنے کا

Page 24

14 مطلب یہی ہے کہ اس کے حکموں پر عمل نہیں کر رہے نہ اللہ کے حقوق ادا کر رہے ہیں نہ بندوں کے حقوق ادا کر رہے ہیں.ایسی صورت میں جب ہر کوئی اپنا جائزہ لے تو ہر ایک کو اپنا علم ہو جائے گا کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں رہے گی.قرآن کریم پر عمل نہ کرنے والے کا کوئی ایمان نہیں ایک روایت میں آتا ہے حضرت صہیب سے مروی ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے قرآن کریم کے محرمات کو عملاً حلال سمجھ لیا اس کا قرآن پر کوئی ایمان نہیں.یعنی جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے ان کی کوئی پرواہ نہیں کی قرآن کریم کے جو احکامات ہیں ان پر عمل نہ کیا.تو ایسا شخص لاکھ کہتا رہے کہ الحمدللہ میں مسلمان ہوں لیکن اللہ تعالیٰ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتا ہے کہ نہیں تمہارا کوئی ایمان نہیں ہے.کیونکہ تم قرآن کریم کے حکموں پر عمل نہیں کر رہے.پس ایسے لوگوں کو جو لوگوں کے حق مارتے ہیں ان کے حقوق غصب کر رہے ہیں اس حدیث کو سننے کے بعد سوچنا چاہئے کہ میرا ایمان جا رہا ہے، کس طرح اس کو واپس لے کے آنا ہے.پھر ایک روایت میں ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور فرمایا کہ عنقریب بہت سے فتنے پیدا ہوں گے دریافت کیا گیا کہ ان فتنوں سے خلاصی کی کیا صورت ہو گی اے جبرائیل! فرمایا کہ فتنوں سے خلاصی کی صورت کتاب اللہ ہے.پس جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی کتاب کی طرف توجہ دیں اس کو پڑھیں ، اس کی تلاوت کریں.اس کے مطالب کی طرف بھی توجہ دیں اور جیسا کہ پہلے حدیث بیان ہو چکی ہے، اس کا مزا بھی لیں اور اس کی خوشبو بھی پھیلائیں.ایک روایت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن کریم کو ظاہر

Page 25

15 کر کے پڑھنے والا ، ظاہری طور پر صدقہ دینے والے کی طرح ہے اور قرآن کریم کو چھپا کر پڑھنے والا خفیہ طور پر چندہ دینے والے کی طرح ہے.پس جیسا کہ روایت میں ہے کہ صدقہ بلاؤں ، خطرات اور فتنوں کو دور کرتا ہے، ان کو ٹالتا ہے.قرآن کریم کا پڑھنا اور اس طرح پڑھنا کہ اس کی سمجھ بھی آرہی ہو صدقے کے طور پر قبول ہوگا.اور اس کی برکت سے تمام فتنوں سے بھی بچا جاسکتا ہے تمام برائیوں سے بھی بچا جا سکے گا اور ابتلاؤں سے بھی بچا جاسکے گا.دو افراد ایسے ہیں جن پر حسد یعنی رشک جائز ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صرف دو آدمی ایسے ہیں جن کے بارے میں حسد ( یعنی رشک جائز ہے.یعنی ایسا حسد جو نقصان پہنچانے کے لئے نہیں بلکہ تعریفی رنگ میں ہو).ایک وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن عطا کیا ہو اور وہ دن رات اس کی تلاوت کرتا ہو.اور اس پر رشک کرنے والا کہتا ہے کہ کاش مجھے بھی ایسی چیز دی جاتی جو اسے دی گئی ہے تو میں بھی ایسے ہی کرتا جیسا یہ کرتا ہے.اور دوسرا دوسرا شخص وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو جس کو وہ وہاں خرچ کرتا ہے جہاں خرچ کرنے کا حق ہے اور اس پر رشک کرنے والا کہتا ہے کہ کاش مجھے بھی ایسی چیز دی جاتی جو اسے دی گئی تو میں بھی ویسے ہی کرتا جیسا یہ کرتا ہے.(بخاری کتاب التمنّى) تین دن سے کم عرصہ میں قرآن ختم کرنے والا قرآن سے کچھ نہیں سمجھتا قرآن کریم کے پڑھنے کے بھی کچھ آداب ہیں اس کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے.حضرت عبد اللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے

Page 26

16 تین دن سے کم عرصے میں قرآن کریم کو ختم کیا اس نے قرآن کریم کا کچھ نہیں سمجھا.( ترمذی ابواب القراءة ).بعض لوگوں کو بڑا فخر ہوتا ہے کہ ہم نے اتنے دن میں، ایک دن میں یا دو دن میں سارا قرآن کریم ختم کر لیا.یا ہم نے اتنے منٹ میں سپارے ختم کر دیئے یا اتناسپارہ ختم کر دیا.بلکہ رمضان کے دنوں میں تو پاکستان میں (اور جگہوں پہ بھی ہوگا) غیروں کی مسجدوں میں مقابلہ ہوتا ہے کہ کون جلدی تراویح پڑھاتا ہے.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ہماری یو نیورسٹی کا کا رکن تھا.بڑا نمازی غیر از جماعت ، وہ بتاتا تھا کہ میں آج فلاں مسجد میں گیا وہاں فلاں مولوی بڑا اچھا ہے اس نے تو تین منٹ میں دو رکعت نماز پڑھا دی اور آٹھ رکعتوں میں قرآن کریم کا ایک پارہ ختم کر دیا.تو جب اسے پوچھو کہ کچھ سمجھ بھی آئی ؟ سمجھ آئی یا نہ آئی اس نے بہر حال قرآن کریم پڑھ دیا تھا.وہ ہی ہمارے لئے کافی ہے.حالانکہ حکم یہ ہے کہ قرآن کریم غور سے اور سمجھ کر پڑھو، ٹھہر ٹھہر کر ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص قرآن کریم خوش الحانی سے اور سنوار کر نہیں پڑھتا اس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں.(ابوداؤد کتاب الصلوة باب كيف يستحب الترتيل في القراءة) تو یہ مزید کھل گیا کہ ٹھہر ٹھہر کر اور سمجھ سمجھ کر پڑھنا چاہئے.انسان کو چاہئے کہ قرآن شریف کثرت سے پڑھے اور کس طرح پڑھنا چاہئے؟ اس کے بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام فرماتے ہیں کہ : ” انسان کو چاہئے کہ قرآن شریف کثرت سے پڑھے.جب اس میں دعا کا مقام آوے تو دعا کرے اور خود بھی خدا سے وہی چاہے جو اس دعا میں

Page 27

17 چاہا گیا ہے.اور جہاں عذاب کا مقام آوے تو اس سے پناہ مانگے.اور ان بداعمالیوں سے بچے جن کے باعث وہ قوم تباہ ہوئی.بلا مدد وحی کے ایک بالائی منصوبہ جو کتاب اللہ کے ساتھ ملاتا ہے وہ اس شخص کی ایک رائے ہے جو کہ کبھی باطل بھی ہوتی ہے، اور ایسی راے جس کی مخالفت احادیث میں موجود ہو وہ محدثات میں داخل ہوگی.رسم اور بدعات سے پر ہیز بہتر ہے.اس سے رفتہ رفتہ شریعت میں تصرف شروع ہو جاتا ہے.بہتر طریق یہ ہے کہ ایسے وظائف میں جو وقت اس نے صرف کرنا ہے وہی قرآن شریف کے تدبر میں لگاوے.دل کی اگر سختی ہو تو اس کے نرم کرنے کے لئے یہی طریق ہے کہ قرآن شریف کو ہی بار بار پڑھے.جہاں جہاں دعا ہوتی ہے وہاں مومن کا بھی دل چاہتا ہے کہ یہی رحمت الہی میرے بھی شامل حال ہو.قرآن شریف کی مثال ایک باغ کی ہے کہ ایک مقام سے انسان کسی قسم کا پھول چنتا ہے پھر آگے چل کر ایک اور قسم کا پھول چنتا ہے.پس چاہئے کہ ہر ایک مقام کے مناسب حال فائدہ اٹھا وے.اپنی طرف سے الحاق کی کیا ضرورت ہے.ور نہ پھر سوال ہو گا کہ تم نے ایک نئی بات کیوں بڑھائی.خدا تعالیٰ کے سوا اور کس کی طاقت ہے کہ کہے فلاں راہ سے اگر سورۃ یاسین پڑھو گے تو برکت ہوگی ورنہ نہیں“.( ملفوظات جلد ۳ صفحه ۹۱۵ جدید ایڈیشن) یہ باتیں ہوتی ہیں کہ اس طرح سورۃ یاسین پڑھی جائے تو برکت ہوگی اور اگر اس طرح ہوگی تو نہیں ہوگی.پس ہر ایک کو اس نصیحت پر عمل کرنا چاہئے ، دلوں کو پاک کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس طرح غور اور تدبر سے پڑھنا چاہئے جیسا کہ آپ نے فرمایا.پھر ہر ایک جائزہ لے کہ کتنے حکم ہیں جن پر میں عمل کرتا ہوں.تو اگر روزانہ تلاوت کی عادت ہو اور پھر اس طرح روزانہ جائزہ ہو تو کیا دل کے اندر کوئی برائی رہ سکتی ہے.کبھی نہیں.تو یہ بھی ایک پاک کرنے کا ذریعہ ہوگا.

Page 28

18 قرآن شریف اپنے پیروکو اپنی طرف کھینچتا ہے اور دل کو منور کرتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: قرآن شریف اپنی روحانی خاصیت اور اپنی ذاتی روشنی سے اپنے پیروکو اپنی طرف کھینچتا ہے.اور اس کے دل کو منور کرتا ہے اور پھر بڑے بڑے نشان دکھلا کر خدا سے ایسے تعلقات مستحکم بخش دیتا ہے کہ وہ ایسی تلوار سے بھی ٹوٹ نہیں سکتے جو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتی ہے.وہ دل کی آنکھ کھولتا ہے اور گناہ کے گندے چشمہ کو بند کرتا ہے.اور خدا تعالیٰ کے لذیذ مکالمہ مخاطبہ سے شرف بخشا ہے اور علوم غیب عطا فرماتا ہے اور دعا قبول کرنے پر اپنے کلام سے اطلاع دیتا ہے.چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۰۹،۳۰۸) اللہ کرے کہ ہم خود بھی اور اپنے بیوی بچوں کو بھی اس طرف توجہ دلانے والے ہوں اور اپنے دلوں کو منور کرنے والے ہوں اور قبولیت دعا کے نظارے دیکھنے والے ہوں.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ انصار اللہ کے ذمہ خلافت ثالثہ میں یہ لگایا گیا تھا کہ قرآن کریم کی تعلیم کو رائج کریں، قرآن کریم کی تلاوت کی طرف توجہ دیں.گھروں کو بھی اس نور سے منور کریں لیکن ابھی بھی جہاں تک میرا اندازہ ہے انصار اللہ میں بھی 100 فیصد قرآن کی تلاوت کرنے والے نہیں ہیں.اگر جائزہ لیں تو یہی صورتحال سامنے آئے گی.اور پھر یہ کہ اس کا ترجمہ پڑھنے والے ہوں آج انصار اللہ کا اجتماع بھی شروع ہو رہا ہے یہ بھی ان کے پروگرام میں ہونا چاہئے کہ اپنے گھروں میں خود بھی پڑھیں اور اپنے بیوی بچوں کی بھی نگرانی کریں کہ وہ بھی اس پر عمل کرنے والے ہوں.

Page 29

19 قرآن کریم اور آنحضرت ملا لیا کہ تم سے سچی محبت رکھنے والا صاحب کرامات ہو جاتا ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : میں بار بار کہتا ہوں اور بلند آواز سے کہتا ہوں کہ قرآن اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت رکھنا اور سچی تابعداری اختیار کرنا انسان کو صاحب کرامات بنا دیتا ہے.66 (روحانی خزائن جلد 11 ضمیمہ انجام آتھم صفحہ 61) پھر آپ فرماتے ہیں: " قرآن شریف پر تدبر کرو اس میں سب کچھ ہے.نیکیوں اور بدیوں کی تفصیل ہے.اور آئندہ زمانے کی خبریں ہیں وغیرہ.بخوبی سمجھ لو کہ یہ وہ مذہب پیش کرتا ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کے برکات اور ثمرات تازہ بتازہ ملتے ہیں.انجیل میں مذہب کو کامل طور پر بیان نہیں کیا گیا.اس کی تعلیم اُس زمانے کے حسب حال ہو تو ہو لیکن وہ ہمیشہ اور ہر حالت کے موافق ہر گز نہیں.یہ فخر قرآن مجید ہی کو ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ہر مرض کا علاج بتایا ہے اور تمام قومی کی تربیت فرمائی ہے.اور جو بدی ظاہر کی ہے اس کے دور کرنے کا طریق بھی بتایا ہے.اس لئے قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہو اور دعا کرتے رہو اور اپنے چال چلن کو اس کی تعلیم کے ماتحت رکھنے کی کوشش کرو ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 102 الحکم 17 جنوری 1907)

Page 30

20 20 قرآن شریف کو پڑھو تو ترجمہ بھی پڑھو پھر آپ فرماتے ہیں: " قرآن شریف کو پڑھو اور خدا سے کبھی نا امید نہ ہو.مومن خدا سے کبھی مایوس نہیں ہوتا.یہ کافروں کی عادت میں داخل ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے مایوس ہو جاتے ہیں.ہمارا خدا عَلٰی کُلِّ شَيْءٍ قَدِير خدا ہے.قرآن شریف کا ترجمہ بھی پڑھو اور نمازوں کو سنوار سنوار کر پڑھو اور اس کا مطلب بھی سمجھو.اپنی زبان میں بھی دعائیں کر لو.قرآن شریف کو ایک معمولی کتاب سمجھ کر نہ پڑھو بلکہ اس کو خدا تعالیٰ کا کلام سمجھ کر پڑھو.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 191.الحکم 17 جون 1902) اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم قرآن کریم کے مقام کو پہچانیں اور اپنی زندگیاں بھی سنوارنے والے ہوں اور اپنی نسلوں کی زندگیاں بھی سنوارنے والے ہوں.اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے جو ہمیں نصائح فرمائی ہیں ان پر عمل کرنے والے ہوں.(خطبہ جمعہ 24 ستمبر 2004 بحوالہ خطبات مسرور جلد دوم صفحہ 682 تا 699 ایڈیشن 2005 ، انڈیا) قرآن کریم مطہر صحیفہ ہے جو خاتم الکتب ہے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطبہ جمعہ ۴؍ مارچ ۲۰۰۵ ء میں فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کا رسول مطہر صحیفے پڑھتا تھا اور ان میں قائم رہنے والی اور قائم رکھنے والی تعلیمات تھیں.قرآن کریم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اس کے بارے میں اللہ تعالی گواہی دیتا ہے کہ یہ پاک کتاب ہے.اور ہر قسم کی ممکنہ عیب سے پاک ہے اور

Page 31

21 نہ صرف پاک ہے بلکہ ہر قسم کی حسین اور خوبصورت تعلیم اس میں پائی جاتی ہیں جس کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے.اور اس میں وہ تمام خوبیاں شامل کر دی گئی ہیں جن کی پہلے صحیفوں میں کمی تھی اور اب یہی ایک تعلیم ہے جو ہر ایک قسم کی کمی سے پاک ہے.بلکہ اس تعلیم پر عمل کر کے ہر برائی سے بچا جاسکتا ہے.اور نہ صرف بچا جاسکتا ہے بلکہ اس کی تعلیم پر عمل کرنے اور اس تعلیم کو لاگو کرنے سے بھی اپنی اور دنیا کی اصلاح ممکن ہے یعنی یہ تعلیم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری یہ اب دنیا کی اصلاح کی ، دنیا میں نیکیاں رائج کرنے کی ، دنیا میں امن قائم کرنے کی ، دنیا میں عبادت گزار پیدا کرنے کی ، دنیا میں ہر طبقے کے حقوق قائم کرنے کی ضمانت ہے.تو جس نبی پر یعنی حضرت محمد رسول اللہ علیہ وسلم پر یہ کامل اور مکمل تعلیم اتری اور جو خاتم النبین کہلائے جن کے بعد کوئی نئی شریعت آہی نہیں سکتی.اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے.تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود اس تعلیم پر کس قدر عمل کرنے والے ہوں گے.اس کا تصور بھی انسانی سوچ سے باہر ہے.کیوں کہ آپ ہی ہیں جنہوں نے اس پاک کلام کو سمجھا.آپ ہی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے اس کلام کا مکمل فہم اور ادراک حاصل ہوا.یہ آپ ہی کی ذات ہے جس کو اپنے پر اترنے والی اس آخری کتاب، اس آخری شریعت ، کلام کے مطالب اور معانی کے مختلف زاویوں اور اس کے مختلف بطون کے سمجھنے کا کامل علم حاصل ہوا.گو یا خاتم النبین کی ذات ہی تھی جس نے اس خاتم الکتب کو سمجھا اور نہ صرف اس کی گہرائی میں جا کر عمل کیا بلکہ صحابہ کو بھی وہ شعور عطا فرمایا جس سے وہ اس کو سمجھ کر پڑھتے تھے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے.اس آخری کتاب کو پڑھنے کے بعد یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی اور شریعت یا کتاب سے رہنمائی کی جائے.کیوں کہ پہلوں کی باتیں بھی اس میں آچکی ہیں اور آئندہ کی باتیں اور خبریں بھی اس میں آچکی ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : ” خاتم النبیین کا لفظ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بولا گیا

Page 32

22 ہے.بجائے خود چاہتا ہے اور بالطبع اسی لفظ میں یہ رکھا گیا ہے کہ وہ کتاب جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے وہ بھی خاتم الکتب ہو.اور سارے کمالات اس میں موجود ہوں اور حقیقت میں وہ کمالات اس میں موجود ہیں.کیونکہ کلام الہی کے نزول کا عام قاعدہ اور اصول یہ ہے کہ جس قدر قوت قدسی اور کمال باطنی اس شخص کا ہوتا ہے اسی قدر قوت وشوکت اس کلام کی ہوتی ہے.اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی کو ہر کوئی جانتا ہے کہ کس طرح آپ نے صحابہ میں پاک تبدیلیاں پیدا کیں.جو پاک تبدیلیاں صحابہ میں ہوئیں کہ راتوں کو جاگ کر محفلیں لگانے والے اب بھی راتوں کو جاگتے تھے لیکن راگ رنگ کی محفلیں نہیں جمتی تھیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدوں میں راتیں گزرتی تھیں.پھر جو شراب کو پانی کی طرح پینے والے تھے انہوں نے جب خبر سنی تو نشے کی حالت میں بھی یہ نہیں کہا کہ پہلے پتہ کرو کیا ہورہا ہے کیا نہیں ہو رہا ہے.بلکہ پہلے شراب کے مٹکے توڑے گئے.تو یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی ہی تھی جس نے یہ انقلاب برپا کیا.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جس قدر کسی شخص کی قوت قدسی ہوتی ہے اسی قدر اس کا قوت وشوکت کا کلام ہوتا ہے.پھر فرمایا کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی اور کمال باطنی چونکہ اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کا تھا جس سے بڑھ کر کسی انسان کا نہ کبھی ہوا اور نہ آئندہ ہوگا.اس لئے قرآن شریف بھی تمام پہلی کتابوں اور صحائف سے اس اعلیٰ مقام اور مرتبہ پر واقع ہوا ہے جہاں تک کوئی دوسرا کلام نہیں پہنچا.کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی استعداد اور قوت قدسی سب سے بڑھی ہوئی تھی.اور تمام مقامات کمال آپ پر ختم ہو چکے تھے اور آپ انتہائی نقطہ پر پہنچے ہوئے تھے اور اس

Page 33

23 مقام پر قرآن شریف جو آپ پر نازل ہوا کمال کو پہنچا ہوا ہے.اور جیسے نبوت کے کمالات آپ پر ختم ہو گئے اسی طرح پر اعجاز کلام کے کمالات قرآن شریف پر ختم ہو گئے.آپ خاتم النبین ٹھہرے اور آپ کی کتاب خاتم الکتب ٹھہری.جس قدر مراتب اور وجوہ اعجاز کلام کے ہو سکتے ہیں ان سب کے اعتبار سے آپ کی کتاب انتہائی نقطہ پر پہنچی ہوئی ہے.یعنی کیا باعتبار فصاحت و بلاغت، کیا باعتبار ترتیب مضامین، کیا باعتبار تعلیم،کیا باعتبار کمالات تعلیم ،کیا باعتبار ثمرات تعلیم ،غرض جس پہلو سے دیکھو اسی پہلو سے قرآن شریف کا کمال نظر آتا ہے اور اس کا اعجاز ثابت ہوتا ہے.اور یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے کسی تعلیم ، خواہ بلحاظ ، پیشگوئیوں اور غیب کے جو قرآن شریف میں موجود ہیں.غرض کسی رنگ میں دیکھو یہ معجزہ ہے.“ ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 26-27 جدید ایڈیشن.الحکم 24 را پریل 1903ء صفحہ 1'2) قرآن کریم ایک مکمل معجزہ ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ قرآن کریم ایک مکمل معجزہ ہے.اور یہی نہیں کہ اس میں مکمل تعلیم آگئی اور یہ معجزہ ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معجزے کے ہر حکم کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیا اور اس پر عمل کر کے دکھایا تا کہ اپنے ماننے والوں کو بھی بتا سکیں کہ میں بھی ایک بشر ہوں ، جہاں تک بشری تقاضوں کا سوال ہے.لیکن ایسا بشر ہوں جس کو خدا تعالیٰ نے اپنا پیارا بنایا ہے.اور اپنی طرف جھکنے کی وجہ سے پیارا بنایا ہے.تم بھی اس تعلیم پر عمل کرو، میری سنت کی پیروی کرو اور اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق خدا تعالیٰ کا قرب پانے والے بنو.آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کے حکموں پر کس حد تک عمل کرتے تھے.اس

Page 34

24 بارے میں حضرت عائشہ کا مشہور جواب ہر ایک کے علم میں ہے کہ جب آپ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خُلق کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ کیا تم قرآن نہیں پڑھتے.پوچھنے والے نے کہا: کیوں نہیں.تو انہوں نے فرمایا کہ فَاِنَّ خُلُقَ نَبِيَّ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ الْقُرآن ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق قرآن ہی تھے.(مسلم، کتاب صلاة المسافرين باب جامع صلاة الليل ومن نام عنه او مرض حدیث نمبر 1739) یعنی قرآن کریم میں جس طرح لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت کی.قرآن کریم میں جس طرح لکھا ہے کہ حقوق العباد ادا کرو.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوق العباد ادا کئے.قرآن کریم میں جن باتوں کو کرنے کا حکم دیا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان باتوں اور حکموں پر مکمل طور پر عمل کیا، ان کو بجالائے ، ان کی ادائیگی کی.قرآن نے جن باتوں سے رکنے کا حکم دیا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان باتوں کو ترک کیا.قرآن کریم نے روزوں کا حکم دیا،صدقات کا حکم دیا، زکوۃ کا حکم دیا.آپ نے روزوں صدقات اور زکوۃ کے اعلیٰ ترین معیار قائم کر دئے.قرآن کریم نے معاشرے میں لوگوں کے ساتھ نرمی کی وہ انتہا کی جس کی مثال نہیں مل سکتی.اپنے جانی دشمنوں کو بھی معاف فرما دیا.اگر اللہ تعالیٰ نے اصلاح معاشرہ کے لئے سختی کا حکم دیا تو آپ نے اس کی بھی پوری اطاعت وفرمابرداری کی.غرض کون سا حکم ہے قرآن کریم کا جس کی آپ نے نہ صرف پوری طرح بلکہ اعلیٰ ترین معیار قائم کرتے ہوئے تعمیل نہ کی ہو.قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دو موتی ہیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم

Page 35

25 کے، آپ کے آپس کے تعلق کی بہت اچھی طرح مثال پیش کی ہے کہ قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو موتی ہیں جو ایک ہی سیپ سے اکٹھے نکلے ہیں.قرآن کریم کی تعلیم کو جاننا چاہتے ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو دیکھ لو.اور اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں معلومات لینا چاہتے ہو، اگر یہ دیکھنا چاہتے ہو کہ آپ کے صبح و شام اور رات دن کس طرح گزرتے تھے، تو قرآن کریم کے تمام حکموں کو ، اوامر ونواہی کو پڑھ لو آپ کی سیرت سامنے آجائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک اور مقدس زندگی کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہادی کامل اور پھر قیامت تک کے لئے اور اس پر کل دنیا کے لئے مقرر فرمایا.مگر آپ کی زندگی کے کل واقعات ایک عملی تعلیمات کا مجموعہ ہیں.جس طرح پر قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی قولی کتاب ہے اور قانون قدرت اس کی فعلی کتاب ہے، اسی طرح پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بھی ایک فعلی کتاب ہے جو گویا قرآن کریم کی شرح اور تفسیر ہے“.( ملفوظات جلد 3 صفحہ 34 جدید ایڈیشن) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن کریم سے عشق اور محبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن کریم سے عشق اور محبت.اس کے احکامات پر عمل، اللہ تعالیٰ کی خشیت، اس بارے میں آپ کی سیرت ہمیں کیا بتاتی ہے؟ آپ کا قرآن کریم پڑھنے کے بارے میں کیا طریق تھا؟ اس بارے میں چند مثالیں احادیث سے پیش کرتا ہوں.

Page 36

26 26 حضرت عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں نماز فجر پڑھائی آپ نے سورۃ مومنون سے تلاوت شروع کی.یہاں تک کہ جب موسیٰ اور ہارون علیہ السلام کا ذکر آیا....تو شدت خشیت الہی کے باعث آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانسی شروع ہوگئی.اس پر آپ نے رکوع کیا.(مسلم، کتاب الصلوۃ، باب القراءة في الصبح ) تو یہ خشیت اس حد تک تھی کہ اپنی قوم کی بھی ساتھ یقینا فکر ہوگی.کیوں کہ آپ کا دل تو انتہائی نرم تھا جس طرح فرعون اور اس کی قوم تباہ ہوئے یہ لوگ بھی کہیں انکار کی وجہ سے تباہ نہ ہو جائیں.اس بات پر اتنا یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ ذکر کیا ہے، جو مثالیں دی ہیں تو انکار کی وجہ سے آئندہ بھی ایسے واقعات ہو سکتے ہیں.تو کہیں میری قوم بھی اس انکار کی وجہ سے تباہ نہ ہو جائے.پھر ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ مجھے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آیت { وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضَ جَمِيْعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيمَةِ وَالسَّمَوْتُ مَطْوِيتْ بِيَمِيْنِهِ سُبْحَنَهُ وَ تَعْلَى عَمَّا يُشْرِكُون} (الزمر: 68) کے بارے میں دریافت کیا.جس کا ترجمہ یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی قدر نہیں کی جیسا کہ اس کی قدر کا حق تھا اور قیامت کے دن زمین تمام تر اس کے قبضہ میں ہوگی اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لیٹے ہوئے ہوں گے.تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں جبار ہوں، میں یہ ہوں، میں یہ ہوں.اللہ تعالیٰ اپنی بزرگی بیان کرتا ہے،.راوی کہتے ہیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات اس جوش سے بیان کر رہے تھے کہ منبر رسول اس طرح ہل رہا تھا کہ ہمیں اس بات کا خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں منبر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لئے ہوئے گر نہ (الدر منثور - تفسير سورة الزمر زیر آیت نمبر 68) پڑے.

Page 37

27 اللہ تعالیٰ کی بڑھائی بیان کرتے ہوئے آپ کا جوش غیر معمولی ہو جایا کرتا تھا.کیونکہ آپ کی ذات ہی تھی جسے اللہ تعالیٰ کی جبروت اور قدرتوں کا صحیح ادراک تھا.صحیح علم تھا.صحیح گہرائی تک آپ پہنچ سکتے تھے.اور آپ ہی کی ذات تھی جس کے سامنے خدا تعالیٰ کی ذات سب سے بڑھ کر ظاہر ہوئی.تو آپ کو پتہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی کیا کیا قدرتیں ہیں اور طاقتیں ہیں، اور اللہ تعالیٰ کا اگر رحم نہ ہو تو یہ لوگ جو اس کی باتوں سے دور ہٹتے جارہے ہیں، اسکے حکموں پر عمل نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ ہم بڑی طاقتوں کے مالک ہیں، اس پہ بڑا فخر ہے، اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھ رہے ہوتے ہیں تو ان کو وہ اس طرح تباہ و برباد کر دے جس طرح ایک کیڑے کی بھی شاید کوئی حیثیت ہو، ان کی وہ بھی حیثیت نہیں ہے.قرآن کریم جب نازل ہوا تو سب سے زیادہ آپ اس کو آسانی اور روانی سے پڑھ سکتے تھے اور اسی روانی میں اس کے مطالب کو بھی خوب سمجھ سکتے تھے.لیکن اس کے باوجود آپ کا قرآن کریم پڑھنے کا طریق کیا تھا اس بارے میں حضرت قتادہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کیا کرتے تھے.(سنن ابی داؤد.کتاب الوتر - باب استجاب الترتيل في القراءة ) حسن قراءت سے قرآن کریم پڑھنا چاہئے آپ کا قرآن کریم پڑھنے کے بارے میں کیا طریق ہوتا تھا اس بارے میں اور بہت ساری روایات ہیں، جن کے بارے میں بیان کرنے والوں نے اپنے اپنے رنگ میں بیان کیا ہے.ان سے آپ کے حسن قراءت کی اور بھی زیادہ وضاحت ہوتی ہے.ایک روایت یعلی بن ملک کی ہے کہ میں نے ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قرآن کریم کی تلاوت کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں

Page 38

28 نے کہا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآت مفسرہ ہوتی تھی.یعنی ایک ایک حرف کے پڑھنے کی سننے والے کو سمجھ آرہی ہوتی تھی.(سنن ابی داؤد.کتاب الوتر - باب استجاب الترتيل في القراءة حديث نمبر 1463) قرآن کریم کی تلاوت ٹھہر ٹھہر کر کرنی چاہئے پھر حضرت ام سلمہ ہی ایک اور جگہ روایت کرتی ہیں.آپ کے پڑھنے کا طریق بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کی تلاوت ٹھہر ٹھہر کر کرتے تھے.آپ (الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ) پڑھ کر توقف فرماتے.پھر (الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ) پڑھتے اور پھر توقف فرماتے ، رکتے.( مشکوۃ المصابیح کتاب فضائل القرآن الباب الاول الفصل الثانی حدیث نمبر 2205) تو آپ اتنا غور کر رہے ہوتے تھے.کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں ہر ہر لفظ میں معنی پنہاں ہیں اس لئے بڑے ٹھہر ٹھہر کر غور کرتے ہوئے وہاں سے گزرتے تھے.پھر حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ بنی کریم رات کو کبھی بلند آواز سے اور کبھی آہستہ آواز سے تلاوت کرتے تھے.کا (سنن ابی داؤد کتاب التطوع.باب في رفع الصوت بالقراءة في صلاة الليل ) اور یہ بلند آواز بھی اور آہستہ آواز بھی انہیں حدود کے اندر تھی جس طرح کہ اللہ تعالیٰ حکم ہے.قرآن کریم کی تلاوت خوش الحانی سے کرنی چاہئے پھر ایک روایت میں آتا ہے ، جس سے پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی تلاوت کو کس طرح دیکھتا تھا.یہ بھی حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ اللہ کسی چیز کو

Page 39

29 29 ایسی توجہ سے نہیں سنتا جیسے قرآن کو سنتا ہے جب پیغمبر اس کو خوش الحانی سے بلند آواز سے پڑھے.(سنن ابی داؤد کتاب الوتر باب استجاب الترتيل في القراءة حديث نمبر 1470 ) تو اللہ تعالیٰ کی اپنے پیارے نبی پر جو نظر ہے اس وقت پہلے سے بھی بڑھ جاتی ہے، جب وہ اپنا کلام اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے خوش الحانی سے سنتا ہے کہ دیکھو میرا پیارا میرے کلام کو کس خوف کس خشیت اور کس محبت کے ساتھ مکمل طور پر اس میں فنا ہوکر پڑھ رہا ہے.پھر حضرت حذیفہ سے ایک روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی.جب آپ رکوع کرتے تو سبحَانَ رَبِّيَ الْعَظیم پڑھتے اور جب سجدہ کرتے تو سُبحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلیٰ پڑھتے.اور جب کوئی رحمت کی آیت آتی تو آپ رک جاتے ، تلاوت کے وقت اور رحمت طلب کرتے ، اور جب کوئی عذاب کی آیت آتی تو آپ رک جاتے اور اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتے.(سنن ابی داؤد - كتاب الصلاة باب ما يقول الرجل في ركوعه و سجوده) اور بعض روایتوں میں آتا ہے کہ یہ رحمت اور پناہ طلب کرتے وقت بعض دفعہ آپ کی روتے روتے ہچکی بندھ جایا کرتی تھی.آپ میں اللہ تعالیٰ کی خشیت اور پیار او تعلق اور محبت اس طرح تھا کہ جس کو تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ہے.پھر حضرت ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ ابو بکر نے عرض کی یا رسول اللہ ! آپ میں بڑھاپے کے آثار نظر آنے لگے ہیں.اس پر رسول اللہ نے فرمایا مجھے سورۃ ھود،سورۃ واقعہ سورۃ المرسلات اور عم يتساءلون اور واذا الشمس کورت ،سورۃ تکویر وغیرہ نے بوڑھا کر دیا ہے.( ترمذی کتاب تفسير القرآن باب و من سورة الواقعة حديث 3297)

Page 40

30 حمد والی آیات پر حمد کریں عذاب والی آیات پر خشیت اختیار کریں حضور انور نے فرمایا: پھر اور بہت ساری سورتیں ہیں جن کی آپ باقاعدگی سے تلاوت کیا کرتے تھے جن میں قوموں کی تباہی، ان میں شرک رائج ہونے اور توحید سے پرے ہٹنے یا قیامت کے آنے وغیرہ کا ذکر ہے.پھر ایسی سورتیں جن میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور توحید کا ذکر ہے، نیکیوں پر قائم ہونے کا ذکر ہے، برائیوں سے بچنے کا ذکر ہے.آپ کے مقام کا ذکر ہے ، آخرین کے زمانے کا ذکر ہے، قربانیوں کا ذکر ہے، جن میں مالی قربانیوں اور جانی قربانیاں ہیں اور پھر یہ آپ کو نصیحت کہ آپ تو صرف نصیحت کرتے چلے جائیں، آپ کا کام نصیحت کرنا ہے، تو یہ سورتیں بھی بہت سی ہیں جس کی تلاوت آپ اکثر کیا کرتے تھے بلکہ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ روزانہ پڑھا کرتے تھے، اور یہ تو ہم پہلی روایات میں دیکھ ہی آئے ہیں کہ آپ کے پڑھنے کا طریق کیا تھا.عذاب کی آیات یا الفاظ جہاں بھی آتے تھے آپ کانپ جایا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ کی خشیت غالب آجایا کرتی تھی ، اور پھر یقینا آپ اسی صورت میں امت کے لئے دعائیں بھی کرتے ہوں گے.اللہ تعالیٰ کے انعامات والی آیات سن کر، پڑھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے تھے.غرض کہ عجیب انداز تھا، عجیب اسلوب تھا آپ کا قرآن کریم پڑھنے کا اور سمجھنے کا اور تلاوت کرنے کا.ایک روایت میں آتا ہے.عبد اللہ بن مغفل کی روایت ہے کہ میں نے فتح مکہ کے دن رسول صلی یتیم کو ایک اونٹ پر سوار سورۃ الفتح پڑھتے دیکھا.آپ بار بار ہر آیت کو دوہراتے تھے.(سنن ابی داؤر - كتاب الوتر باب استحباب الترتيل في القراءة حديث نمبر 1464)

Page 41

31 اس وقت آپ کے جذ بات اللہ تعالیٰ کی حمد سے لبریز تھے، اس کے شکر سے لبریز تھے.آپ کا سر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز تھا.روایات میں آتا ہے جس اونٹ پر آپ بیٹھے ہوئے تھے اس کی سیٹ کے اگلے حصہ پر سر ٹک گیا تھا.کیوں کہ آپ کو اس فتح کے ساتھ آئندہ آنے والی فتوحات کے نشانات بھی نظر آ رہے تھے.اس سے اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر کے جذبات اور زیادہ بڑھ گئے تھے.“ قرآن کریم کا علم رکھنے والوں کی بے انتہا قدر ہے حضور انور نے فرمایا: پھر قرآن کریم کا علم جاننے والوں ، حفظ کرنے والوں کی بھی آپ بے انتہا قدر کیا کرتے تھے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کا کلام اپنے دل ودماغ میں بسایا ہوا ہے.اس زمانہ میں جب جنگیں ہوا کرتی تھیں.جنگ احد میں بہت زیادہ شہادتیں ہوئی تھیں.اس میں قرآن جاننے والے اس کا علم حاصل کرنے والے بہت سارے حفا ظ بھی شہید ہوئے تھے.تو جب سب کی تدفین کا معاملہ پیش ہوا تو اس وقت آپ نے تدفین کے لئے ایک اصول وضع فرمایا جس کا روایات میں یوں ذکر آتا ہے کہ جنگ احد کے دن زخمی صحابہ نے شہداء کے لئے قبریں کھودنے کی بابت اپنی مجبوری عرض کی بہت سارے زخمی بھی ہو گئے تھے اور جو شہید ہوئے تھے وہ کافی تعداد میں تھے.علیحدہ علیحدہ ان کے لئے قبر کھودنا بڑا مشکل تھا.طاقت اور ہمت نہیں تھی.تو آپ نے فرمایا کہ کشادہ قبریں کھودو اور انہیں عمدگی سے تیار کرو اور ایک قبر میں دو دو اور تین تین کو دفن کرو اور فرمایا ان شہداء میں سے مقدم اس شہید کو رکھو جو قرآن زیادہ جاننے والا تھا.( ترمذی، کتاب الجہاد باب ما جاء فى دفن الشہداء)

Page 42

32 ان کا بھی اس وقت احترام ہے شہید تو سارے ہیں لیکن قرآن زیادہ جاننے والے کو مقدم رکھو.قرآن کریم سے عشق و محبت تو آپ کو تھا ہی کیونکہ آپ پر نازل ہوا تھا.جس کے اعلیٰ معیاروں کا مقابلہ کرنا تو ممکن نہیں ہے ہاں یہ معیار حاصل کرنے کے لئے حتی المقدور اپنی کوشش کرنی چاہئے.کیوں کہ آپ کو ہر اس شخص سے محبت تھی جو قرآن کریم عمدگی سے پڑھا کرتا تھا اور اس کو یاد کیا کرتا تھا.آنحضرت سل امام صحابہ سے قرآن سننا پسند فرماتے تھے قرآن کریم کو پڑھنے شوق سے پڑھنے اور یاد کرنے کا شوق پیدا کرنے کے لئے آنحضرت صلی الی یوم صحابہ سے قرآن سنا بھی کرتے تھے..چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ.راوی کہتے ہیں میں نے عرض کی کیا میں آپ کو قرآن پڑھ کر سناؤں؟ حالانکہ آپ پر قرآن کریم نازل کیا گیا ہے.آنحضور نے میرا جواب سن کر فرمایا : میں یہ پسند کرتا ہوں اپنے علاوہ کسی اور سے بھی قرآن کریم سنوں.تو حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے سورۃ نساء کی تلاوت کرنا شروع کی یہاں تک کہ میں آیت { فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَ جِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا} (النساء: 42) پر پہنچا تو آنحضور نے فرمایا ٹھہر جاؤ.حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے.(بخاری.کتاب فضائل القرآن باب قول المقرئ للقارئ حسبک) اس کا ترجمہ یہ ہے کہ پس کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لے کر آئیں گے اور ہم تجھے ان سب پر گواہ بنا کر لائیں گے.تو آپ کو اپنی اس گواہی پر اللہ کے حضور اپنے اس مقام کا سن کر ایک خشیت کی کیفیت طاری ہوگئی تھی اور پھر یہ کہ میری اس

Page 43

33 گواہی کی وجہ سے جو ظاہر ہے ایک سچی گواہی ہونی ہے، میری امت کے کسی شخص کو سزا نہ ملے.آپ کو اس گواہی پہ فخر نہیں تھا کہ مجھے تو بڑا مقام ملا ہے.بلکہ فکر تھی.اور اس فکر کی وجہ سے آپ کو یہ فکر بھی ہوتی تھی کہ امت میں قرآن کریم پڑھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے پیدا ہوں جس کے لئے آپ ہمیشہ تلقین فرماتے رہے تھے.چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے.آپ علیہ نے فرمایا کہ اے قرآن کے ماننے والو! قرآن کو تکیہ نہ بناؤ اور رات دن کے اوقات میں اس کی ٹھیک ٹھیک تلاوت کرو اور اس کے پڑھنے پڑھانے کو رواج دو.اور اس کے الفاظ کو صحیح طریق سے پڑھو اور جو کچھ قرآن میں بیان ہوا ہے ہدایت حاصل کرنے کی غرض سے اس پر غور و فکر کرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ.اس کی وجہ سے کسی دنیاوی فائدے کی خواہش نہ کرنا.بلکہ خدا کی خوشنودی کے لئے اس کو پڑھنا (مشکوۃ المصابیح ) یعنی صرف اس کو زبانی سہارا نہ بناؤ، قرآن کریم رکھا ہوا ہے اور پڑھ رہے ہیں.بلکہ اس کو پڑھو اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرو اس کے الفاظ و معانی پر غور کرو اور پھر اس کا پڑھنا خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہو نہ کہ ذاتی فائدے اٹھانے کے لئے جس طرح آج کل بعض لوگ کرتے ہیں.پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت عبیدہ املیکی رضی الہ عنہ جو صحابہ میں سے ہیں روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلیا کی تم نے فرمایا اے اہل قرآن! قرآن پڑھے بغیر نہ سویا کرو.اور اس کی تلاوت رات کو اور دن کے وقت اس انداز میں کرو جیسے اس کی تلاوت کرنے کا حق ہے.اور اس کو پھیلا ؤ اور اس کو خوش الحانی سے پڑھا کرو اور اس کے مضامین پر غور کیا کرو تا کہ تم فلاح پاؤ.( مشکوۃ المصابیح، کتاب فضائل القرآن الباب الاول الفصل الثالث حدیث نمبر (2210)

Page 44

34 قرآن کریم پڑھنے والوں کا اعلیٰ مقام یعنی قرآن کریم کو پڑھو بھی اس کی تعلیم کو پھیلا ؤ بھی اور اسپر عمل بھی کرو.دوسروں کو بھی بتاؤ.پھر آپ نے فرمایا کہ جو شخص قرآن کریم پڑھتا ہے اور اس کا حافظ ہے وہ ایسے لکھنے والوں کے ساتھ ہوگا جو بہت معزز اور بڑے نیک ہیں.اور وہ شخص جو قرآن کریم کو پڑھتا ہے اور اس کی تعلیمات پر شدت سے کاربند ہوتا ہے اس کے لئے دوہرا اجر ہوگا.( بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ عبس.حدیث نمبر 4937) تو زیادہ اجر قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے سے ہی ہے اور عمل اسی وقت آئے گا جب اس کے مفہوم کو سمجھ سکیں گے.اور آپ اس کی بار بار تلقین اس لئے فرماتے تھے کہ قرآن کریم پڑھو اور سمجھو کہ قرآن کریم کو گھروں میں صرف سجاوٹ کا سامان نہ بنا کے رکھویا صرف یہی نہیں کہ پڑھ لیا اور عمل نہ کیا بلکہ عمل سے ہی درجات بلند ہوتے ہیں.پھر ایک اور ترغیب دیتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ اونچی آواز سے قرآن پڑھنے والا ایسا ہے جیسے لوگوں کے سامنے خیرات کرنے والا اور آہستہ آواز میں قرآن پڑھنے والا ایسا ہے جیسے چپکے سے خیرات دینے والا.( سنن ابی داؤد کتاب التطوع باب في رفع الصوت بالقراءة في صلاة الليل) پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی یا پی ایم نے فرمایا جس شخص نے قرآن پڑھا اور اس پر عمل کیا تو قیامت کے روز اس کے ماں باپ کو دو تاج پہنائے جائیں گے جن کی روشنی سورج کی چمک سے بھی زیادہ ہوگی، جو ان کے دنیا کے گھروں میں ہوتی تھی.پھر جب اس کے والدین کا یہ درجہ ہے تو خیال کرو کہ اس شخص کا کیا درجہ ہو گا جس نے قرآن پر عمل کیا.(سنن ابی داؤد کتاب الوتر باب ثواب قراءة القرآن) دیکھیں آپ کو ہر وقت یہ گن تھی کہ اس کتاب کو امت ہمیشہ پڑھتی رہے، اس پر عمل

Page 45

35 کرتی رہے.کہیں یہ نہ ہو کہ اس کو چھوڑ دے.اور یقینا اس کیلئے آپ دعا میں بھی کرتے تھے.اور یہ جو درجات کی بلندی کے بارے میں فرما رہے ہیں یہ بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا ہوگا اور اسی سے علم پا کر آپ نے بتایا کہ اس کے درجات کی بلندی ہوگی.اللہ کرے کہ آپ کی اس دلی تمنا کو امت سمجھے اور بھی بے شمار مثالیں ہیں جن میں آپ نے امت کو قرآن پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی نصیحت فرمائی ہے تا کہ وہ اعلیٰ اخلاق قائم ہوسکیں.جن کو آپ نے اپنی زندگی کا حصہ بنایا ہوا تھا اور آپ چاہتے تھے کہ امت بھی ان پر عمل کرے اور قرآن کریم کی تعلیم تمام دنیا میں رائج ہو جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : اس بارہ میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن مجید وحی متلو ہے اور اس کا ہر حصہ متواتر اور قطعی ہے اور حتی کہ اس کے نقطے اور حروف بھی.خدا تعالیٰ نے اسے ایک زبر دست اور کامل اہتمام کے ساتھ ملائکہ کے حفاظت اور پہرہ میں اتارا ہے.پھر نبی ستی ایم نے اس بارے میں کسی قسم ا دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا اور ہمیشہ اس بات پر مداومت سے عمل کیا کہ اس کی آیت آپ کی آنکھوں کے سامنے اسی طرح لکھی جائے جس طرح نازل ہوتی تھی.یہاں تک کہ آپ نے تمام قرآن کریم جمع فرما دیا اور بنفس نفیس اس کی آیات کی ترتیب قائم فرما دی.آپ ہمیشہ نمازوں وغیرہ میں اس کی تلاوت کرتے رہے یہاں تک کہ اس دنیا سے رخصت ہو کر اپنے رفیق اعلیٰ اور محبوب رب العالمین سے جاملے.“ ( ترجمه عربی عبارت ، حمامۃ البشری ، روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 216) اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کریم کو پڑھنے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین خطبه جمعه ۴ / مارچ 2005ء بحوالہ خطبات مسرور جلد سوم صفحہ 127 تا 141 ایڈیشن اکتوبر 2006 ء انڈیا)

Page 46

36 36 اللہ کی کتاب کو اسکا حق ادا کرتے ہوئے پڑھو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اب میں پھر اصل بات کی طرف آتا ہوں کہ جیسا کہ شروع میں میں نے کہا تھا کہ ایسے حالات میں ایک احمدی کا کردار کیا ہونا چاہئے ؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ احمدی جب بیعت کرتا ہے، یہ عہد کرتا ہے کہ میں روحانی تبدیلی کے لئے زمانے کے امام کی بیعت میں آیا ہوں تو وہ خود بخود اس طرف متوجہ ہو کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے تعلق بھی بڑھانا ہے جو کہ اس کا حقیقی عبد بن کے ہی بڑھ سکتا ہے، جو کہ عبادتوں کے معیار بلند کرنے سے ہی ہوسکتا ہے.دوسرے اس تعلیم کی طرف توجہ ہو جو قرآن کریم کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اتاری ہے اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میری کتاب کو اس کا حق ادا کرتے ہوئے پڑھو.جیسا کہ میں نے ابھی جو آیت تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب دی در آنحالیکہ وہ اس کی ایسی تلاوت کرتے ہیں (جب کہ وہ ایسی تلاوت کرتے ہیں ) جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے.یہی وہ لوگ ہیں جو ( درحقیقت ) اس پر ایمان لاتے ہیں اور جو کوئی بھی اس کا انکار کرے پس وہی ہیں جو گھاٹا پانے والے ہیں.

Page 47

37 تلاوت کا حق کیا ہے؟ تلاوت کا حق کیا ہے؟ تلاوت کا حق یہ ہے کہ جب قرآن کریم پڑھیں تو جو اوامر ونواہی ہیں ان پر غور کریں.جن کے کرنے کا حکم ہے ان کو کیا جائے.جن سے رکنے کا حکم ہے ان سے رُکا جائے.آنحضرت صلی ا یتیم کے سامنے یہود ونصاریٰ کا یہی دعویٰ تھا کہ ہمارے پاس بھی کتاب ہے.چاہتے تھے کہ مسلمان ان کی بات مان لیں تو اللہ تعالیٰ نے ایک تو ان یہود کا یہ رد کر دیا کہ تمہاری کتاب اب اس قابل نہیں رہی کہ اسے اب سچی کہا جا سکے کیونکہ تمہارے عمل اس کے خلاف ہیں.بعض باتوں کو چھپاتے ہو بعض کو ظاہر کرتے ہو.پس تمہاری کتاب اب ہدایت نہیں دے سکتی.بلکہ آنحضرت صلی اینم کی بعثت کے بعد ، شریعت کے اترنے کے بعد یہ قرآن کریم ہی ہے جو ہدایت کا راستہ دکھانے والی ہے جس نے اب دنیا میں ہدایت قائم کرنی ہے.پس صحابہ رضوان اللہ علیہم نے یہ ثابت کیا ان کی زندگیاں اس بات کی ثبوت ہیں کہ وہ مومن ہیں جنہوں نے اس کتاب کی تلاوت کا حق ادا کیا اور یہی ایمان لانے والے کہلائے.کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کو اعمال صالحہ کے ساتھ مشروط کیا ہے.پس حقیقی مومن وہ ہیں جو تلاوت کا حق ادا کرتے ہیں اور حقیقی مومن وہ ہیں جو اعمال صالحہ بجالاتے ہیں.لھذا تلاوت کا حق وہی ادا کرنے والے ہیں جو نیک اعمال کرنے والے ہیں.پس اس زمانے میں یہ مسلمانوں کے لئے انذار بھی ہے کہ اگر تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو اور وہ عمل نہیں جن کا کتاب میں حکم ہے تو ایمان کامل نہیں.اس زمانے کے حالات کے بارے میں (جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کے حالات تھے ) آنحضرت صلی لا یہی تم نے انذار فرمایا ہے جو ظاہر وباہر ہے، ہر ایک کو پتہ ہے.احادیث میں ذکر ہے اور ایسے حالات میں ہی مسیح موعود کا ظہور ہونا تھا جب یہ حالات پیدا ہونے تھے.پس حق تلاوت ادا کرنے والے وہی لوگ ہوں گے جو فی

Page 48

38 زمانہ اس مہدی کی جماعت میں شامل ہو کر قرآن کریم کے احکامات پر عمل کرنے والے بھی ہوں گے.پس یہ ذمہ داری ہے ہر احمدی کی کہ وہ اپنے جائزے لے کہ کس حد تک ان احکامات پر عمل کرنے کو کوشش کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں دیئے ہیں.قرآن کریم کی تلاوت کی اصل غرض یہ ہے کہ تا حقائق و معارف پر اطلاع ملے حضرت مسیح موعود فر ماتے ہیں کہ : لوگ قرآن شریف پڑھتے ہیں مگر طوطے کی طرح یونہی بغیر سوچے سمجھے چلے جاتے ہیں.جیسے ایک پنڈت اپنی پوتھی کو اندھا دھند پڑھتا جاتا ہے.نہ خود سمجھتا ہے اور نہ سننے والوں کو پتہ لگتا ہے.اسی طرح پر قرآن شریف کی تلاوت کا طریق صرف یہ رہ گیا ہے کہ دو چار سپارے پڑھ لئے اور کچھ معلوم نہیں کہ کیا پڑھا.زیادہ سے زیادہ یہ کہ سر لگا کر پڑھ لیا اور ”ق“ اور ”ع“ کو پورے طور پر ادا کر دیا.قرآن شریف کو عمدہ طور پر اور خوش الحانی سے پڑھنا بھی ایک اچھی بات ہے.مگر قرآن شریف کی تلاوت کی اصل غرض تو یہ ہے کہ اس کے حقائق اور معارف پر اطلاع ملے اور انسان ایک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرے.یہ یاد رکھو کہ قرآن شریف میں ایک عجیب و غریب اور سچا فلسفہ ہے.اس میں ایک نظام ہے جس کی قدر نہیں کی جاتی.جب تک نظام اور ترتیب قرآنی کو مدنظر نہ رکھا جاوے.اس پر پورا غور نہ کیا جاوے، قرآن شریف کی تلاوت کے اغراض پورے نہ ہوں گے“.الحکم جلد 5 نمبر 12 مورخہ 31 مارچ 1901 صفحہ 3) پس یہ ہے تلاوت کا حق جس کے متعلق حضرت مسیح موعود نے وضاحت فرمائی ہے.

Page 49

39 صحیح تلفظ سے قرآن پڑھنے اور ترجمہ یکھنے کی طرف توجہ ہونی چاہئے ایک وقت تھا کہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع ” نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ صحیح طور پر قرآن کریم نہیں پڑھا جاتا جماعت کو صحت تلفظ کی طرف توجہ دلائی تھی کہ اس طرح پڑھا جائے کیوں کہ زیر زبر پیش کی بعض غلطیاں ہو جاتی تھیں کہ ان غلطیوں کی وجہ سے معنے بدل جاتے ہیں یا مفہوم واضح نہیں ہوتا، تو اس طرح آپ نے صحت تلفظ کی طرف توجہ دلائی تھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے بعد جماعت میں اس طرف خاص توجہ پیدا ہوئی.لیکن اس بات کی ضرورت ہے کہ ترجمہ قرآن کی طرف بھی توجہ دی جائے.ذیلی تنظیمیں بھی کام کریں.جماعتی نظام بھی کام کرے.یہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے انصار اللہ یو.کے نے شروع کیا ہے.یہ انٹرنیٹ کے ذریعہ سے بھی پڑھا رہے ہیں اس سے استفادہ کرنا چاہئے.کیونکہ ترجمہ آئے گا تو پھر ہی صحیح اندازہ ہو سکے گا کہ احکامات کیا ہیں؟ جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ غور کرو تبھی غور کی عادت پڑے گی.عمل کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوگی اور یہی تلاوت کا حق ہے.ایک صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا کہ قرآن شریف کس طرح پڑھا جائے.حضرت مسیح موعود نے فرمایا: قرآن شریف تدبر و تفکر وغور سے پڑھنا چاہئے.حدیث شریف میں آیا ہے.رُبَّ قَارٍ يَلْعَنهُ الْقُرْآن یعنی بہت ایسے قرآن کریم کے قاری ہوتے ہیں“ پڑھنے والے ہیں کہ جن پر قرآن کریم لعنت بھیجتا ہے.جو شخص قرآن پڑھتا اور اس پر عمل نہیں کرتا اس پر قرآن مجید لعنت بھیجتا

Page 50

40 ہے.فرمایا: ” تلاوت کرتے وقت جب قرآن کریم کی آیت رحمت پر گزر ہو وہاں خدا تعالیٰ سے رحمت طلب کی جاوے اور جہاں کسی قوم کے عذاب کا ذکر ہو تو وہاں خدا تعالیٰ کے آگے پناہ کی درخواست کی جاوے اور تدبر و غور سے پڑھنا چاہئے اور اس پر عمل کیا جاوے“.( ملفوظات جلد 5 صفحہ 157 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پس یہ اسلوب ہے جو حضرت مسیح موعود نے ہمیں قرآن کریم پڑھنے کے بارے میں بتا دیا.اور جیسا کہ میں نے کہا یہ بھی ممکن ہے جب اس کا ترجمہ آتا ہو گا.اب بہت سے ایسے ہیں جن کی تلاوت بہت اچھی ہے.دل کو بھاتی ہے لیکن صرف آواز اچھی ہونا ان پڑھنے والوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی جب تک کہ وہ اس کو سمجھ کر نہ پڑھیں.کسی بھی اچھی آواز کی تلاوت اس شخص کو تو فائدہ پہنچا سکتی ہے جو اچھی آواز میں یہ تلاوت سن رہا ہو اور اس کا مطلب بھی جانتا ہے.جب پیشگوئیوں کے بارے میں سنتا ہے اور پھر اپنے زمانے میں انہیں پوری ہوتی دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بنتا ہے کہ اس زمانے کی پیشگوئیوں کو پورے ہونے کے نظارے دیکھے.اور اس پر پھر مستزاد یہ کہ ایک احمدی شکر گزاری کرتا ہے جس مسیح و مہدی کے آنے کی آنحضرت مسل لا تم نے پیشگوئی فرمائی تھی.جس کے زمانہ میں یہ قرآنی پیشگوئیاں پوری ہونی تھیں اسے مانے کی بھی ہمیں توفیق ملی.پھر نئے سائنسی انکشافات ہیں ان کو دیکھ کر بھی اللہ تعالیٰ کی حمد سے دل لبریز ہوتا ہے، دل بھر جاتا ہے.چودہ سو سال پہلے یہ باتیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم کے ذریعہ سے بتا دیں.پرانی قومیں جنہوں نے نبیوں کا انکار کیا اور اس انکار کی وجہ سے ان سے جو سلوک ہوا اس پر ایک خدا کا خوف رکھنے والا ، قرآن کریم کا ترجمہ سمجھنے والا استغفار کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں اس حالت سے بچایا ہوا ہے اور آئندہ بھی بچائے رکھے.تو جتنا جتنا فہم و ادراک ہوگا اتنا اتنا اللہ تعالی کی کامل کتاب پر ایمان اور یقین بڑھتا جائیگا.اور یہی چیز ہے جو حق تلاوت ادا کرنے والی ہے.

Page 51

41 ย قرآن کریم پڑھے بغیر نہ سویا کرو آنحضرت صلی ای پی تی اس بارہ میں کیا نصیحت فرماتے ہیں.ایک روایت میں آتا ہے حضرت عبیدہ املیکی ” جو صحابہ میں سے ہیں روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی تم نے فرمایا اے اہل قرآن! قرآن پڑھے بغیر نہ سویا کرو.اور اس کی تلاوت رات کو اور دن کے وقت اس انداز میں کرو جیسے اس کی تلاوت کرنے کا حق ہے.اور اس کو پھیلاؤ اور اس کو خوش الحانی سے پڑھا کرو اور اس کے مضامین پر غور کیا کرو تا کہ تم فلاح پاؤ.رواه البيهقي في شعب الايمان بحواله مشكوة المصابيح كتاب الفضائل الباب فضائل القرآن حدیث نمبر (2210) پس اس آیت کی مزید وضاحت بھی ہو گئی کہ حق تلاوت ادا کر کے صرف گھاٹے سے ہی نہیں بیچ رہے ہوگے جیسا کہ اس کے آخر میں لکھا ہوا ہے بلکہ ان لوگوں میں شامل ہو رہے ہو گے جو فلاح پانے والے ہیں.ان لوگوں میں شامل ہونے جارہے ہیں جو کامیابیاں حاصل کرنے والے ہیں.پھر ایک روایت میں حق تلاوت ادا کرنے والے کے مقام بلکہ اس کے والدین کے مقام کا بھی ، جنہوں نے ایک بچے کو اس تلاوت کی عادت ڈالی، ذکر یوں ملتا ہے، پھل بن معاذ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الہ الا یہ تم نے فرمایا جس شخص نے قرآن پڑھا اور اس پر عمل کیا تو قیامت کے دن اس کے ماں باپ کو دو تاج پہنائے جائیں گے جن کی روشنی سورج کی چمک سے بھی زیادہ ہوگی، جو ان کے دنیا کے گھروں میں ہوتی تھی.پھر جب ان کے والدین کا یہ درجہ ہے تو خیال کرو کہ اس شخص کا کیا درجہ ہو گا جس نے قرآن پر عمل کیا.(سنن ابی داؤد کتاب الوتر باب ثواب قراءة القرآن )

Page 52

42 پس والدین کو بھی توجہ کرنی چاہئے کہ یہ اعزاز ہے جو بچوں کو قرآن پڑھانے پر والدین کو ملتا ہے.تو اپنے بچوں کو اس خوبصورت کلام کے پڑھانے کی طرف بھی توجہ دیں اور ان میں پڑھنے کی ایک لگن بھی پیدا کریں.پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ نبی لیم نے فرمایا: وہ شخص جو قرآن کریم پڑھتا ہے اور اس کا حافظ ہے وہ ایسے لکھنے والوں کے ساتھ ہوگا جو بہت معزز اور بڑے نیک ہیں.اور وہ شخص جو قرآن کریم کو پڑھتا ہے اور اسکی تعلیمات پر شدت سے کاربند ہوتا ہے اس کے لئے دوہرا اجر ہے.(بخاری کتاب التفسیر ) فرمایا کہ: (خطبہ جمعہ 7 مارچ 2008ء بحوالہ اخبار بدر 1 مئی 2008ء) قرآن کریم کا ہر حکم حکمت سے پڑ ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس سلسلہ میں اپنے ایک خطبہ جمعہ میں پھر حکمت کے معنی عقل اور دانائی کے بھی ہیں.اس کتاب نے جو عظیم رسول صلی یہ تم پر تری بڑے پر حکمت احکامات اتارے ہیں.ہر حکم کی دلیل اتاری ہے جو ہر موقع ومحل کے لحاظ سے ہے.جیسا کہ میں پہلے بھی مثال دے آیا ہوں قرآن کریم کہتا ہے کہ اگر کوئی مجرم ہے تو اس کو سزا دو.چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصے میں آکر ، مغلوب الغضب ہو کر سزا نہ دو.اگر معاف کرنے سے اصلاح ہوسکتی ہے تو معاف کرنے میں حکمت ہے لیکن اگر عادی چور کو معاف کر دیا جائے تو معاشرے میں فساد پیدا کرنے کو موجب ہوں گے.اسی طرح اگر قاتل کو معاف کرو گے تو اور قتل پھیلائے گا.وہاں پھر سز ا ضروری ہو جاتی ہے.غرض کہ قرآن کریم کا کوئی بھی حکم لے لیں اس میں حکمت

Page 53

43 ہے.ان احکامات کی بڑی لمبی تفصیل ہے.اگر مومن ان احکامات کو سامنے رکھے اور ان کی حکمت پر غور کرے تو جہاں ہر ایک کی اپنی عقل اور دانائی میں اضافہ ہوتا ہے وہاں معاشرے میں بھی علم و حکمت پھیلنے سے محبت اور پیار کو رواج ملتا ہے.زیادہ دماغ روشن ہوتے ہیں.پس ایک مومن کی یہی کوشش ہونے چاہئے کہ قرآن کریم سے یہ حکمت کے موتی تلاش کرے اور اللہ تعالیٰ کا بھی یہی حکم ہے جیسے کہ فرماتا ہے وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَىٰ فِي بُيُؤْتِكُنَّ مِنْ أَيْتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا (الاحزاب : 35 ) اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی آیات اور حکمت کو جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت کی جاتی ہے.یقینا اللہ تعالیٰ بہت باریک بین اور باخبر ہے.ان باتوں کو قرآن کریم کے جو احکامات ہیں ان کو یاد کرنے کا حکم ہے.یہ آیات اور حکمت کی باتیں قرآن کریم میں جتنی بھی ہیں جن کی ہم اپنے گھروں میں تلاوت کرتے ہیں.قرآن کریم کا ڑھے جاتے ہیں بڑے اہتمام سے رکھے بھی جاتے ہیں روز تلاوت کی جائے تو تلاوت کا ثواب ملتا ہے لیکن اس کتاب کا حقیقی مقصود تب پورا ہوتا ہے.ان آیات کی تلاوت کرنے کا فائدہ تب ہو گا جب ان احکامات پر عمل بھی ہوگا اور اسی طرح اسوہ رسول صلی یہ تم بھی ہمارے سامنے ہوگا اور یہ آیات اور حکمت کے موتی اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی ہم کوشش کریں گے.اللہ تعالیٰ باریک بین اور باخبر ہے.یہ جو آخر میں فرمایا اور یہ کہ کر ہمیں اس طرف توجہ دلائی کہ اللہ تعالیٰ جو ہمارے ظاہر و باطن سے باخبر ہے اسے کبھی دھوکہ نہیں دیا جا سکتا ہے.وہ ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی کی بھی خبر رکھتا ہے اور ہر برائی کی بھی.پس اس عظیم رسول کی اس تعلیم کو جب تک اپنے پر لاگو کر کے ہم اپنی زندگیاں اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہیں کریں گے حقیقی مومن کہلانے والے نہیں بن سکتے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر حکمت تعلیم کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین " ( خطبه جمعه فرموده 18 جنوری 2008ء بحوالہ الفضل انٹر نیشنل 8 فروری2008ءجلد 15 شمارہ 6 صفحہ 8)

Page 54

44 اللہ تعالیٰ کے نور کو دلوں میں بھرنے کے لئے ہر احمدی کو قرآن کا پڑھنا اور سیکھنا ضروری ہے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: دلوں کو اللہ تعالیٰ کے نور سے بھرنے کے لئے.یہ دیکھنے کے لئے کہ کون سی باتیں ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور کونسی باتیں ہیں جن کے کرنے کا خدا تعالیٰ نے حکم عطا فرمایا ہے.قرآن شریف سیکھنا اور پڑھنا چاہئے.جن کو قرآن کریم کا ترجمہ آتا ہے وہ دوسروں کو سکھا ئیں.قرآن کریم کے درس کو روزانہ جماعتوں میں رواج دیں.چاہے چند منٹ کا ہی ہو.تا کہ جو خود پڑھ اور سمجھ نہیں سکتے ان تک بھی یہ خوبصورت تعلیم وضاحت کے ساتھ پہنچ جائے.تلاوت قرآن کریم تو بہر حال ہر احمدی کو روزانہ ضرور کرنی چاہئے تا کہ قرآن کریم کی برکات نازل ہوں اور دل تقویٰ سے بھرتے چلے جائیں.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو یہ بھی فرمایا ہے اگر کوئی شخص مومن نہ بھی ہو اور صرف انصاف سے کام لے کر قرآن دیکھے نہ کہ جہالت.حسد اور بخل سے تو یہ بھی تقوی کی ابتدائی شکل ہے اگر کوئی شخص انصاف سے قرآن شریف پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کو نور ہدایت دے دیتا ہے تو جو ایمان لے آئے ہیں اور تقویٰ کی نظر سے قرآن کریم پڑھتے ہیں اس کے لئے کس طرح ہو سکتا ہے کہ قرآن کریم ہدایت نہ دے اور تقویٰ پر نہ چلائے.اگر ایک ایمان لانے والے کے دل میں قرآن کریم پڑھ کر اور سن کر نور ہدایت کو جوش پیدا نہیں ہوتا تو پھر اس کو فکر کرنی چاہئے کہ تقویٰ میں کہیں کمی رہ رہی ہے سوچنا چاہئے کہ

Page 55

45 ہماری بڑائیاں اور ہماری خود پسندیاں ہمیں اصل تعلیم سے دور لے جارہی ہیں اور ہم میں تقویٰ نہیں ہے.کیوں کہ قرآن کریم نے تو کہہ دیا ہے کہ اس میں متقیوں کے لئے ہدایت ہے.اگر ہم قرآن کریم کے حکموں پر عمل نہیں کر رہے تو یہ ہماری غلطی ہے اور ہمارے لئے یہ فکر کی بات ہے.اللہ تعالیٰ تو ہمیں اجر دینے کا وعدہ بھی کرتا ہے بشرطیکہ ہم اس کی تعلیم کے مطابق ہدایت پر قائم ہوں اور نیکیاں بجالانے والے ہوں جیسا کہ وہ فرماتا ہے.{وَمَا يَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ يُكْفَرُوْهُ وَاللَّهُ عَلِيمُ بِالْمُتَّقِينَ} (آل عمران : ۱۱۲ ) اور جو نیکی بھی کریں گے تو ہرگز ان سے اس کے بارے میں ناشکری کا سلوک نہیں کیا جائے گا اور اللہ متقیوں کو خوب جانتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل سے تقویٰ پر قائم رہنے اور نیکیاں بجالانے کی توفیق عطا فرمائے.اور ہم اسکے ہر اس انعام سے حصہ لینے والے ہوں جو اس کے نزدیک ہمارے لئے بہترین ہے“ وہ (خطبہ جمعہ فرمودہ 26 مارچ 2004ء بحوالہ خطبات مسرور جلد دوم صفحہ 221-220 ایڈیشن 2005 ، انڈیا) قرآن کریم کو رمضان سے ایک خاص تعلق ہے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے مہینہ میں تلاوت قرآن کریم کی اہمیت کو اجا گر کرتے ہوئے اپنے خطبہ جمعہ 4 ستمبر 2009ء میں فرمایا: رمضان کے مہینے کو قرآن کریم سے ایک خاص نسبت ہے جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرما دیا کہ رمضان کے مہینے کے روزے یونہی مقرر نہیں کر دیئے گئے.بلکہ اس مہینے میں قرآن کریم جیسی عظیم کتاب آنحضرت مصلی تم پر نازل ہوئی یا اس کا نزول ہونا شروع ہوا.اور احادیث میں ذکر ملتا ہے کہ جبریل علیہ السلام ہر سال رمضان میں آنحضرت صلیا کہ تم پر

Page 56

46 قرآن کریم کا جو حصہ اترا ہوتا تھا اس کی دو ہرئی کرواتے تھے.پس اس مہینے کی اہمیت اس بات سے بڑھ جاتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی آخری اور کامل شریعت اس مہینے میں نازل ہوئی ، یا اس کا نزول شرع ہوا.پس اللہ تعالیٰ نے جب ہمیں روزوں کا حکم دیا تو پہلے یہ فرمایا کہ روزے تم پر فرض کئے گئے ہیں اور پھر یہ ہے کہ دعاؤں کی قبولیت کی خوشخبری دی.اس کے بعد کی جو آیات ہیں ان میں پھر بعض اور احکام جو رمضان سے متعلق ہیں وہ دیئے.اور یہ واضح فرما دیا کہ روزے رکھنا اور عبادت کرنا صرف یہی کافی نہیں ہے، بلکہ اس مہینے میں قرآن کریم کی طرف بھی تمہاری توجہ ہونی چاہئے.اس کے پڑھنے کی طرف تمہاری توجہ ہونی چاہئے.روزوں کی اہمیت اس لئے ہے اور اس لئے بڑھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں انسان کامل پر اپنی آخری اور کامل شریعت نازل فرمائی جو قرآن کریم کی صورت میں نازل ہوئی.خدا تعالیٰ کا قرب پانے اور دعاؤں کے اسلوب تمہیں اس لئے آئے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں وہ طریق سکھائے جس سے اس کا قرب حاصل ہو سکتا ہے اور دعاؤں کی قبولیت کے نشان ظاہر ہوتے ہیں.پس اس کتاب کو پڑھنا بھی بہت ضروری ہے.رمضان میں اس کی تلاوت کرنا بھی بہت ضروری ہے تا کہ سارا سال تمہاری اس طرف توجہ رہے.آنحضرت ا کے آخری رمضان میں جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو دو مرتبہ قرآن کریم کا دور مکمل کروایا.مومن کو چاہئے کہ رمضان میں وہ دو مرتبہ قرآن کریم کا دور کرنے کی کوشش کرے پس اس سنت کی پیروی میں ایک مومن کو بھی چاہئے کہ دو مرتبہ قرآن کریم کا دور

Page 57

47 مکمل کرنے کی کوشش کرے.اگر دومرتبہ تلاوت نہیں کر سکتے تو کم از کم ایک مرتبہ تو خود پڑھ کر کریں.پھر درسوں کا انتظام ہے ، تراویح کا انتظام ہے، اس میں ( قرآن ) سنیں.بعض کام پہ جانے والے ہیں کیسٹ اور CDS ملتی ہیں ان کو اپنی کاروں میں لگا سکتے ہیں،سفر کے دوران سنتے رہیں.اس طرح جتنا زیادہ سے زیادہ قرآن کریم پڑھا اور سنا جا سکے، اس مہینے میں پڑھنا چاہئے اور سننا چاہئے.قرآن کریم کی تلاوت کے دوران احکامات کی تلاش کریں اور پھر صرف تلاوت ہی نہیں بلکہ اس کے اندر بیان کردہ احکامات کی تلاش کرنی چاہئے.پھر سارا سال ان تلاش شدہ احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.پھر ان حکموں کے اعلیٰ سے اعلیٰ معیار تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.تبھی رمضان کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے اور روزوں اور عبادتوں کا حق بھی ادا ہوتا ہے.کیونکہ اگر یہ نہیں پتہ کہ جو کام کر رہا ہوں اس کا مقصد کیا ہے اور کیوں خدا تعالیٰ نے احکامات دیئے ہیں تو ان اعمال کے حق ادا نہیں ہو سکتے.بلکہ اعمال کا بھی پتہ نہیں چل سکتا کہ کیا کرنا ہے.اگر صرف یہی سنتے رہیں کہ تقویٰ پر چلو اور اعمال صالحہ بجالا ؤ اور یہ پتہ نہ ہو کہ تقویٰ کیا ہے اور اعمال صالحہ کیا ہیں تو یہ تو دیکھا دیکھی ایک نظام چل رہا ہے رمضان کے دنوں میں یا عام تقریریں سن لیں، آگے چلے گئے ، خطبات سن لئے ، چلے گئے.ایک کام تو ہورہا ہو گا لیکن اس کی روح کا پتہ نہیں چلے گا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حقیقی مسلمان وہ ہیں جو الَّذِينَ آتَيْنَهُمُ الْكِتَبَ يَتْلُوْنَهُ حَقَّ تِلَاوَتِه (البقرة : 122 ) یعنی وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی اس کی اس طرح تلاوت کرتے ہیں جس طرح اس کی تلاوت کا حق ہے.یعنی غور بھی باقاعدگی سے ہو.اور غور بھی اچھی طرح ہو تلاوت میں بھی باقاعدگی رہے اور پھر جو پڑھا یا سنا اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی ہو.

Page 58

48 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا بلکہ خود قرآن کریم میں آتا ہے کہ اُسے مہجور کی طرح نہ چھوڑ دینا.پس تعلیم یہ ہے کہ غور بھی ہو، عمل بھی ہو، تلاوت بھی ہو.نہ کہ مہجور کی طرح چھوڑ دیا گیا ہو.تلاوت کا حق ادا کئے بغیر ھدایات کی تفصیل کا علم ممکن نہیں اور یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ یہ فرمانے کے بعد کہ شہر رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ.پھر فرماتا ہے هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَان یعنی انسانوں کی ہدایت کے لئے اتارا گیا ہے اس میں ہدایت کی تفصیل بھی ہے اور حق و باطل میں فرق کرنے والے امور بھی بیان کئے گئے ہیں.پس جب تک اس کی تلاوت کا حق ادا نہ ہو، نہ ہدایت کی تفصیل پستہ لگ سکتی ہے ، نہ ہی جھوٹ اور سچ کا فرق واضح ہوسکتا ہے.پس ہر مومن کا فرض ہے کہ اگر روزوں کا حقیقی حق ادا کرنا ہے تو قرآن کریم کی تلاوت اور اس کے احکامات کی تلاش بھی ضروری ہے.قرآن کریم کی تلاوت کے بارہ میں ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اس طرح حکم فرمایا ہے وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ وَاَنْ اَتْلُو الْقُرْآنَ (النمل: 92-93) یعنی اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں فرمانبرداروں میں سے ہو جاؤں اور یہ کہ میں قرآن کی تلاوت کروں.پس حقیقی فرمانبرداری یہی ہے کہ جو کامل شریعت خدا تعالیٰ نے آنحضرت پر اتاری ہے اور جس کو ماننے کا ہمارا دعویٰ ہے اور پھر اس زمانے میں مسیح الزمان و مہدی دوران کو ماننے کا ہم اعلان کرتے ہیں تو پھر اس کامل کتاب کی یعنی قرآن کریم کی تلاوت کا حق ادا کرنے کی بھی کوشش کریں اور اس رمضان میں جہاں اس کو باقاعدگی سے پڑھنے کا عہد کریں اور پڑھیں وہاں اس بات کا بھی عہد کریں کہ ہم نے رمضان کے بعد بھی روزانہ

Page 59

49 ہم نے اس کی تلاوت کرنی ہے اور اپنے پر اس کی تلاوت کو فرض کرنا ہے.اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کی حتی الوسع کوشش کرنی ہے.کیونکہ یہی چیز ہے جو ہمیں خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والی ہوگی اور یہی چیز ہمارے لئے رمضان کی مقبولیت کا باعث بنے گی.اور یہی بات ہے جس کی طرف خاص طور پر ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے توجہ دلائی ہے.قرآنی احکامات پر عمل روحانی زندگی کا باعث ہے آپ فرماتے ہیں: اور تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے“.یعنی اس حقیقی تعلیم پر عمل کو بھول نہ جانا.صرف پڑھنا ہی نہ رہے.صرف تلاوت کرنا ہی نہ رہے.بلکہ اس پر عمل بھی ہونا چاہئے.ورنہ مردہ کی طرح ہو جاؤ گے.روحانی زندگی جو ہے وہ نہیں رہے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بیعت کا عہد جو ہے وہ فضول ٹھہرے گا.فرمایا کہ پس اس کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دینا.پھر فرمایا کہ ”جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے.جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا.کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 13 ) آسمان پر عزت پانا اور مقدم رکھا جانا کیا ہے؟ یہی کہ پھر خدا تعالیٰ اپنا فضل فرماتے ہوئے اپنا قرب عطا فرمائے گا.قبولیت دعا کے نشان ملیں گے.معاشرے کی برائیوں سے اس دنیا میں بھی انسان بچتا رہے گا.پس جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرما دیا ہے کہ پہلی کوشش

Page 60

50 تمہاری ہوگی تو میں بھی دوڑ کر تمہارے پاس آؤں گا.یہ نظارے دیکھنے کے لئے ہمیں قرآن کو عزت دینا ہوگی.اس کی تلاوت کا حق ادا کرنا ہوگا.اس کے حکموں کی پیروی کی کوشش کرنی ہوگی.ย قرآن کے ہم مرتبہ کوئی اور کتاب نہیں پھر آپ فرماتے ہیں: نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی سانا ہی سام.سوتم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ وجلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ.اور یاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے.نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے“.(یعنی شفاعت کرنے والے ہیں ) اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے.اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے اور اس کے ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے خدا نے یہ بنیاد ڈالی ہے کہ اس کے افاضہ تشریعی اور روحانی کو قیامت تک جاری رکھا اور آخر کار اس کی روحانی فیض رسانی سے اس مسیح موعود کو دنیا میں بھیجا جس کا آنا اسلامی عمارت کی تکمیل کے لئے ضروری تھا.کیونکہ ضرور تھا کہ یہ دنیا ختم نہ ہو جب تک کہ محمدی سلسلہ کے لئے ایک مسیح روحانی رنگ کا نہ دیا جاتا جیسا کہ موسوی سلسلہ کے لئے دیا گیا تھا.کشتی نوح روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 13-14)

Page 61

51 پس یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم نے اس مسیح محمدی کی جماعت میں شامل ہو کر اللہ تعالیٰ کی کامل شریعت جو قرآن کریم کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے اس کے مقام کو سمجھنے کا عہد کیا ہے.آنحضرت سلیہ ایام کے مقام خاتمیت نبوت کا ادراک حاصل کیا ہے جبکہ دوسرے مسلمان اس سے محروم ہیں.پس یہ اعزاز ہمیں دوسروں سے منفرد کرتا ہے اور اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کو سمجھیں اور اس کی حقیقت کو جانیں اور اس کی حقیقی عزت اپنے دلوں میں قائم کریں.بلکہ اس کا اظہار ہمارے ہر قول و فعل سے ہو.اگر اس کا اظہار ہمارے ہر قول وفعل سے نہیں تو پھر یہ مہجور کی طرح چھوڑ دینے والی بات ہے اور یہ حالت پیشگوئی کی صورت میں خدا تعالیٰ نے خود قرآن کریم میں فرما دی ہے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا.سورۃ الفرقان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ( الفرقان : 31) اور رسول کہے گا اے میرے رب ! یقینا میری قوم نے اس قرآن کو متروک کر چھوڑا ہے.ترک کر دیا ہے.چھوڑ ا ہے.پڑھتے تو ہیں لیکن عمل کوئی نہیں.پس بڑے ہی خوف کا مقام ہے، ہر احمدی کے لئے یہ محہ فکر یہ ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ ہم زمانہ کے امام کو اس لئے مانیں کہ ہم نے قرآن کریم کی حکومت اپنے پر لاگو کرنی ہے.ہم نے اس خوبصورت تعلیم کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی کوشش کرنی ہے.پس قرآن کریم کی تلاوت کے بعد اس کی اس تعلیم پر عمل ہی ہے جو ہمیں اس عظیم اور لاثانی کتاب کو ہجور کی طرح چھوڑنے سے بچائے گا.قرآن کریم نجات کا شفا بخش نسخہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارہ میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : یا درکھو، قرآن شریف حقیقی برکات کا سر چشمہ اور نجات کا سچا ذریعہ ہے.یہ ان لوگوں کی اپنی غلطی ہے جو قرآن شریف پر عمل نہیں کرتے.عمل نہ

Page 62

52 کرنے والوں میں سے ایک گروہ تو وہ ہے جس کو اس پر اعتقاد ہی نہیں اور وہ اس کو خدا تعالیٰ کا کلام ہی نہیں سمجھتے.یہ لوگ تو بہت دور پڑے ہوئے ہیں.لیکن وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور نجات کا شفا بخش نسخہ ہے اگر وہ اس پر عمل نہ کریں تو کس قدر تعجب اور افسوس کی بات ہے.ان میں سے بہت سے تو ایسے ہیں جنہوں نے ساری عمر میں کبھی اسے پڑھا ہی نہیں.پس ایسے آدمی جو خدا تعالیٰ کے کلام سے ایسے غافل اور لا پرواہ ہیں.ان کی ایسی مثال ہے کہ ایک شخص کو معلوم ہے کہ فلاں چشمہ نہایت ہی مصفی اور شیریں اور بخنک ہے اور اس کا پانی بہت سی امراض کے واسطے اکسیر اور شفاء ہے.( ان کو یہ علم ہو کہ بہت میٹھے پانی والا یہ چشمہ ہے.ٹھنڈا اور میٹھا پانی ہے اور اس کا پانی بہت سی بیماریوں کا علاج بھی ہے ).اور یہ علم اس کو یقینی ہے لیکن باوجود اس علم کے اور باوجود پیاسا ہونے اور بہت سی امراض میں مبتلا ہونے کے وہ اس کے پاس نہیں جاتا.تو یہ اس کی کیسی بد قسمتی اور جہالت ہے.اسے تو چاہئے تھا کہ وہ اس چشمے پر منہ رکھ دیتا اور سیراب ہو کر اس کے لطف اور شفاء بخش پانی سے حظ اٹھاتا.مگر باوجو دعلم کے اس سے ویسا ہی دور ہے جیسا کہ ایک بے خبر.اور اس وقت تک اس سے دُور رہتا ہے جو موت آ کر خاتمہ کر دیتی ہے.اس شخص کی حالت بہت ہی عبرت بخش اور نصیحت خیز ہے.مسلمانوں کی حالت اس وقت ایسی ہی ہو رہی ہے.وہ جانتے ہیں کہ ساری ترقیوں اور کامیابیوں کی کلید یہی قرآن شریف ہے جس پر ہم کو عمل کرنا چاہئے.مگر نہیں.اس کی پرواہ بھی نہیں کی جاتی.ایک شخص جو نہایت ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ اور پھر نری ہمدردی ہی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم اور ایماء سے اس طرف بلاوے تو اسے کذاب اور دجال کہا

Page 63

53 " جاتا ہے.( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے بارہ میں فرما رہے ہیں کہ جب میں درد سے تمہیں یعنی مسلمانوں کو اپنی طرف بلاتا ہوں کہ قرآن کریم پہ عمل کرو تو کذاب ، جھوٹا اور دجال کہا جاتا ہے).فرماتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر اور کیا قابل رحم حالت اس قوم کی ہوگی“.فرمایا کہ ”مسلمانوں کو چاہئے تھا اور اب بھی ان کے لئے یہی ضروری ہے کہ وہ اس چشمہ کو عظیم الشان نعمت سمجھیں اور اس کی قدر کریں.اس کی قدر یہی ہے کہ اس پر عمل کریں اور پھر دیکھیں کہ خدا تعالیٰ کس طرح ان کی مصیبتوں اور مشکلات کو دور کر دیتا ہے.کاش مسلمان سمجھیں اور سوچیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے یہ ایک نیک راہ پیدا کر دی ہے اور وہ اس پر چل کر فائدہ اٹھائیں.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 140-141 - مطبوعہ ربوہ ) اس اقتباس میں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسلمانوں کی حالت کا نقشہ کھینچا ہے اور افسوس کا اظہار فرمایا ہے.وہاں ہماری ذمہ داری بھی بڑھتی ہے کہ اس خوبصورت تعلیم کو اس قدر اپنی زندگیوں پر لاگو کریں کہ بعض مسلمان گروہوں کے عملوں کی وجہ سے جو غیر مسلموں کو اسلام اور قرآن پر انگلی اٹھانے کی جرات پیدا ہوتی ہے وہ نہ رہے.احمدیوں کے عمل کو دیکھ کر انہیں اپنی سوچیں بدلنی پڑیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے احمدی ہیں جو قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں، لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جب بھی ہمارے جلسے ہوں، سیمینار ہوں قرآن کریم کی تعلیم پیش کی جاتی ہے تو برملا ان غیروں کا اظہار ہوتا ہے کہ اسلام کی تعلیم کا یہ رخ تو ہم نے پہلی دفعہ سنا ہے.پس جب ہم ان باتوں کو اپنی روزمرہ زندگیوں کا بھی حصہ بنالیں گے تو صرف تعلیم سنانے والے نہیں ہوں گے بلکہ عملی نمونے دکھانے والے بھی ہوں گے.

Page 64

54 راہ نجات صرف قرآن کریم میں ہے اس طرح احمدیوں کو اپنے دائرے میں مسلمانوں کو بھی یہ تعلیم پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئے کہ تم ہمارے سے اختلاف رکھتے ہوتو کولیکن اسلام کے نام پر اسلام کی کامل تعلیم کو تو بدنام نہ کرو تمہارے لئے راہ نجات اسی میں ہے کہ صرف قرآن کریم کو ماننے کا دعوئی نہ کرو بلکہ اس کی تعلیم پر غور کرو.جس حالت کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے نشاندہی فرمائی ہے اور جس طرح مسلمانوں کی مصیبتوں اور مشکلات کا ذکر فرمایا ہے وہ صورت جو ہے وہ آج بھی اسی طرح قائم ہے.بلکہ بعض صورتوں میں مسلمانوں کی زیادہ نا گفتہ بہ حالت ہے اور جب تک قرآن کریم کو اپنالائحہ عمل نہیں بنا ئیں گے اس مشکل اور مصیبتوں کے دور سے مسلمان نکل نہیں سکتے.اسلام کا نام لینے سے اسلام نہیں آ جاتا.اسلام کا حسن اس کی خوبصورت تعلیم سے خود بولتا ہے.قرآن کریم کی تفسیر کوئی عالم خود نہیں کر سکتا جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کو وہ اسلوب نہ سکھائے جائیں اور وہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اسے ہی سکھائے ہیں جسے یہ لوگ دجال اور کذاب اور پتہ نہیں کیا کچھ کہتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہی ان لوگوں پر رحم فرمائے اور ان کو عقل دے اور ہمیں پہلے سے بڑھ کر قرآن شریف کی تلاوت کا حق ادا کرنے اور اس کی تعلیم پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اس کی عزت قائم کرنے والے ہوں اور اسے ہمیشہ مقدم رکھنے والے ہوں.یہ عزت کس طرح قائم ہوگی اور اس کو مقدم کس طرح رکھا جا سکتا ہے، یہ میں پہلے بتا چکا ہوں.اس بارہ میں خود قرآن کریم نے بھی مختلف جگہوں پر مختلف احکامات کے ساتھ ہماری راہنمائی فرمائی ہے.بعض آیات یا آیات کے کچھ حصے میں یہاں مختصر ا پیش کرتا ہوں.کس خوبصورت طریقے سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے مقام اور اس کی اعلیٰ تعلیم کے بارہ میں راہنمائی

Page 65

55 55 فرمائی ہے.آج تو شاید یہ مضمون ختم نہ ہو سکے یعنی وہ حصہ جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ ختم نہ ہو سکے ورنہ تو قرآن کریم ایک ایسا سمندر ہے کہ انسان اس کو بیان کرنا شروع کرے تو کبھی ختم ہو ہی نہیں سکتا.اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق ہر انسان جب اس پر غور کرتا ہے تو نئے سے نئے نکات آتے چلے جاتے ہیں.قرآن کریم پڑھنے کے آداب سب سے پہلے تو یہ ہے کہ قرآن کریم پڑھنے کے آداب کیا ہیں اور قرآن کریم کو پڑھنے سے پہلے کس طرح ذہن کو صاف کرنا چاہئے.اس بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيم (النحل: 99).پس جب تو قرآن پڑھے تو دھتکارے ہوئے شیطان سے اللہ کی پناہ مانگ.جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ انسان کو تقویٰ کی راہ سے ہٹانے کے لئے شیطان نے ایک کھلا اعلان کیا ہے، ایک چیلنج دیا ہوا ہے اور قرآن کریم وہ کتاب ہے جس کا ہر ہر لفظ خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والا ، تقویٰ پر قائم کرنے والا اور اللہ تعالیٰ کی طرف جانے والے راستوں کی راہنمائی کرنے والا ہے.اس لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم خدا تعالیٰ کے قرب کے معیاروں کو حاصل کرنا چاہتے ہو، اور اس تعلیم کو سمجھنا چاہتے ہو جو قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے تو قرآن کریم پڑھنے سے پہلے خالص ہو کر اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرو کہ وہ تمہیں شیطان کے وسوسوں اور حملوں سے بچائے اور اس تعلیم پر عمل کرنے کی توفیق دے جو تم پڑھ رہے ہو.کیونکہ یہ ایسا بیش قیمت خزانہ ہے جس تک پہنچنے سے روکنے کے لئے شیطان ہزاروں روکیں کھڑی کرے گا اور اگر شیطان سے بچنے کی دعانہ کی تو تمہیں پتہ ہی نہیں چلے گا کہ کس وقت شیطان نے کس طرف سے تمہیں اللہ تعالیٰ کے پیغام کو سمجھنے سے روک دیا ہے.باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے لیکن شیطان کی گرفت میں آنے کی

Page 66

56 50 وجہ سے اس کلام کو پڑھنے سے تمہاری راہنمائی نہیں ہو سکے گی.پس پہلی بات تو یہ کہ قرآن کریم کو خالص اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آ کر پڑھو ورنہ سمجھ نہیں آئے گی.اس لئے ایک جگہ فرمایا کہ وَلَا يَزِيدُ الظَّلِمِيْنَ اِلَّاخَسَارً ) بنى اسرائيل: 3 8) کہ ظالموں کو قرآن کریم خسارے میں بڑھاتا ہے حالانکہ مومنوں کے لئے یہی نفع رساں ہے.قرآن کریم جتنا میسر ہو پڑھ لیا کرو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ عَلِمَ أَنْ لَّنْ تَحْصُوْهُ فَتَابَ ط عَلَيْكُمْ فَاقْرَءُ وَا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ عَلِمَ أَنْ سَيَكُوْنَ مِنْكُمْ مَّرْضَى وَأَخَرُوْنَ يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ (المزمل : 21) یعنی اور اللہ رات اور دن کو گھٹاتا بڑھاتا رہتا ہے.(اس سے پہلے کا حصہ میں چھوڑ رہا ہوں ).اور وہ جانتا ہے کہ تم ہرگز اس طریق کو نبھا نہیں سکو گے.پس وہ تم پر عفو کے ساتھ جھک گیا ہے.پس قرآن میں سے جتنا میسر ہو پڑھ لیا کرو.وہ جانتا ہے کہ تم میں سے مریض بھی ہوں گے اور دوسرے بھی جو زمین پر اللہ کا فضل چاہتے ہوئے سفر کرتے ہیں.اور پھر اس کے آگے بھی کچھ ہدایات ہیں.اس حصے سے پہلے آیت میں تہجد کے نوافل کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس میں قرآن کا حصہ جو بھی یاد ہو پڑھو اور اس کے علاوہ بھی جتنا قرآن کریم تم غور کرنے کے لئے پڑھ سکتے ہو تمہیں پڑھنا چاہئے.ایک مومن کا یہی کام ہے.تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرآن سے صرف یہ مطلب ہی نہیں لینا چاہئے کہ جو ہمیں یاد ہے کافی ہے وہی پڑھ لیا اور مزید یاد کرنے کی کوشش نہیں کرنی.یا جس تعلیم کا علم ہے وہی کافی ہے اور ہم نے مزید نہیں سیکھنی.بلکہ جہاں تک ممکن ہو اس میں بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے.

Page 67

57 قرآن کریم پڑھ کر اور اس پر عمل کر کے ہی نیکیوں میں آگے بڑھا جا سکتا ہے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری جگہ فرمایا ہے فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتَ (المائدہ:49) کہ نیکیوں میں آگے بڑھو.اور جب تک یہ علم ہی نہ ہو کہ نیکیاں کیا ہیں جو قرآن کریم میں بیان کی گئی ہیں، کون کون سے اعمال ہیں جو قرآن کریم میں بیان کئے گئے ہیں تو کس طرح آگے بڑھا جا سکتا ہے.پس قرآن کریم کا پڑھنا اور سیکھنا اور اس پر غور کرنا بھی بڑا ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام ہوا تھا کہ الْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآن کہ تمام بھلائیاں اور نیکیاں جو ہیں وہ قرآن کریم میں موجود ہیں.پس یہاں میسر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مزید سیکھنا ہی نہیں ہے.جو یاد ہو گیا، یاد ہو گیا بلکہ اپنی صلاحیتوں کو اور علم کو بڑھاتے رہنا چاہئے تاکہ زیادہ سے زیادہ اس قرآن کریم سے فیض پایا جا سکے.باقی جو حالات ہیں ان کے مطابق یہ ذکر ہے کہ تم بیمار ہو گے، مریض ہوگے، سفر پہ ہو گے تو اس لحاظ سے نمازیں چھوٹی بڑی بھی ہو جاتی ہیں، قرآن ( پڑھنے ) میں کمی زیادتی بھی ہو جاتی ہے.لیکن اس کا مطلب یہ قطعا نہیں ہے کہ قرآن کریم کو جو سیکھ لیا وہ سیکھ لیا اور مزید نہیں سیکھنا.قرآن کریم کو خوب نکھار کر پڑھنا چاہئے پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا (المزمل: 4) یا اس پر کچھ زیادہ کر دے اور قرآن کو خوب نکھار کر پڑھ.یعنی تلاوت ایسی ہو کہ ایک ایک لفظ واضح ہو، سمجھ آتا ہو اور خوش الحانی سے پڑھا جائے.یہ نہیں کہ جلدی جلدی پڑھ کے گزر

Page 68

58 گئے، جیسا کہ پہلے بھی ایک دفعہ میں بتا چکا ہوں کہ دوسرے مسلمان جو تراویح میں پڑھتے ہیں تو اتنی تیزی سے پڑھتے ہیں کہ سمجھ ہی نہیں آ رہی ہوتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : خوش الحانی سے قرآن شریف پڑھنا بھی عبادت ہے.( الحكم 24 مارچ 1903 ء ) ایک حدیث میں آتا ہے، سعید بن ابی سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا جو شخص قرآن کریم کو خوش الحانی سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں ہے.(سنن ابو داؤد کتاب الصلوة باب استجاب الترتيل في القراءة ) قرآن کریم کا پڑھنا نصیحت حاصل کرنا ہے پھر ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور حکم ہے کہ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنَ الْكِتَبِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُمْ بِه (البقرة : 232) اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو تم پر ہے اور جو اس نے تم پر کتاب اور حکمت میں اتارا ہے.وہ اس کے ساتھ تمہیں نصیحت کرتا ہے.یعنی اللہ تعالیٰ کے جو احکامات قرآن کریم میں ہیں یہ سب نعمت ہیں جو تمہیں اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے ہیں.سورۃ نور کے شروع میں بتا دیا کہ یہ نعمت جو تمہیں دی گئی ہے اس میں احکامات ہیں اس میں غور کرو.جب تک پڑھو گے نہیں ان نعمتوں کا علم حاصل نہیں کر سکتے ان کا فہم ہی نہیں ہو سکتا.پس قرآن کریم پڑھنا نصیحت حاصل کرنا ہے اور ایک مومن کے لئے یہ انتہائی ضروری چیز ہے.کیونکہ یہی چیز ہے جو انسان کو تقویٰ میں بڑھاتی ہے.

Page 69

59 قرآن کریم کو پڑھنے والے ہی عقل والے ہیں پھر اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کتب اَنْزَلْنَهُ إِلَيْكَ مُبَرَكَ لِيَدَّبَّرُوْا أَيَتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أوْلُوا الْأَلْبَابِ ( سورة ص: 30) یہ کتاب ہے جسے ہم نے تیری طرف نازل کیا، مبارک ہے تا کہ یہ لوگ اس کی آیات پر تدبر کریں اور تاکہ عقل والے نصیحت پکڑ لیں.پس قرآن شریف کو ماننے والے اور اس کو پڑھنے والے ہی عقل والے ہیں.کیوں عقل والے ہیں؟ اس لئے کہ اس کتاب میں تمام سابقہ انبیاء کی تعلیم کی وہ باتیں بھی آجاتی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ قائم رکھنا چاہتا تھا، جو صحیح باتیں تھیں اور اس زمانے کے لئے ضروری تھیں.اور موجودہ اور آئندہ آنے والی تعلیم یا ان باتوں کا بھی ذکر ہے جو ضرورت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے سمجھا کہ یہ تاقیامت انسان کے لئے ضروری ہیں اور وہ آنحضرت سلیپ تم پر نازل فرمائیں.پس اس اعلان پر جو قرآن کریم نے کیا ہے غور کرو.نصیحت پکڑو اور عقل والوں کا یہی کام ہے.اس اعلان کا ہم تبھی چر چا کر سکتے ہیں جب اس تعلیم کو ہم خود بھی اپنے اوپر لاگو کرنے والے ہیں.قرآن کریم کو غور سے سنو اور خاموش رہو پھر تلاوت کے بارہ میں کہ کس طرح سننی چاہئے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهُ وَاَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الاعراف:205) اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو تا کہ تم پر رحم کیا جائے.قرآن کریم کا یہ احترام ہے جو ہر احمدی کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے اور اپنی اولاد میں بھی اس کی اہمیت واضح کرنی چاہئے.بعض لوگ بے احتیاطی کرتے ہیں.تلاوت کے وقت اپنی باتوں میں مشغول ہوتے ہیں.بعض دفعہ بعض گھروں میں ٹی وی لگا ہوتا ہے اور تلاوت آ رہی ہوتی

Page 70

60 ہے اور گھر والے باتوں میں مشغول ہوتے ہیں.خاموشی اختیار کرنی چاہئے.یا تو خاموشی سے تلاوت سنیں یا اگر باتیں اتنی ضروری ہیں کہ کرنی چاہئیں، اس کے کئے بغیر گزارا نہیں ہے تو پھر آواز بند کر دیں.یہ حکم تو غیروں کے حوالے سے بھی ہے کہ اگر خاموشی سے اس کلام کو سنیں تو انہیں بھی سمجھ آئے کہ یہ کیسا زبردست کلام ہے.اور اللہ تعالیٰ پھر اس وجہ سے ان پر رحم فرماتے ہوئے ان کی ہدایت اور راہنمائی کے سامان بھی مہیا فرما دے گا.پس ہمیں خود اس بات کا بہت زیادہ احساس ہونا چاہئے کہ اللہ کے کلام کو خاموشی سے سنیں اور سمجھیں اور زیادہ سے زیادہ اللہ کا رحم حاصل کرنے کی کوشش کریں.قرآن کریم کی تلاوت کا حصول در اصل احکام الہی پر عمل اور رضائے الہی ہے پھر ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْاء إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرَ (هود: 113) پس جیسے تجھے حکم دیا جاتا ہے تو اس پر مضبوطی سے قائم ہو جا اور وہ بھی قائم ہو جائیں جنہوں نے تیرے ساتھ تو بہ کی ہے اور حد سے نہ بڑھو یقینا وہ اس پر جو تم کرتے ہو گہری نظر رکھنے والا ہے.یہ سورۃ ھود کی آیت ہے.تو یہ حکم صرف آنحضرت ﷺ کے لئے نہیں تھا.ویسے تو ہر حکم جو آپ پر اترا وہ اُمت کے لئے ہے.آپ کے ماننے والوں کے لئے ہے.لیکن یہاں خاص طور پر مومنوں کو اور تو بہ کرنے والوں کو بھی شامل کیا گیا ہے کہ تمام احکامات پر مضبوطی سے عمل کرو اور کرواؤ.اور ایک بات یا درکھو کہ صرف عبادات پر ہی انحصار نہ ہو بلکہ اصل چیز جو اس کا مغز ہے اس کو تلاش کرو اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول اور یہ حکم آپ کو دے کر خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے تو بہ کی تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی

Page 71

61 قائم کردہ حدود کو جانیں اور مجھیں اور زیادہ سے زیادہ اس کا علم حاصل کریں اور کبھی اس سے تجاوز کرنے کی کوشش نہ کریں تبھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو سکتی ہے.اس میں ہماری یہ بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کی بھی ایسی تربیت کریں کہ وہ خدا تعالیٰ کے اس کلام کو سمجھنے اور غور کرنے اور اپنی زندگیوں پر لاگو کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں.اس کی وضاحت کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: " مجھے تو سخت افسوس ہوتا ہے جبکہ میں دیکھتا ہوں کہ مسلمان ہندوؤں کی طرح بھی احساس موت نہیں کرتے.رسول اللہ کو دیکھو صرف ایک حکم نے کہ فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْت نے ہی بوڑھا کر دیا.کس قدر احساس موت ہے.آپ کی یہ حالت کیوں ہوئی.صرف اس لئے کہ تاہم اس سے سبق لیں کوئی حکم ہوا تو آنحضرت نے کہا کہ مجھے اس آیت نے بوڑھا کر دیا.کس لئے تا کہ اُمت، جو ماننے والے ہیں وہ بھی اس سے سبق لیں.ان کی فکر تھی آپ کو.فرماتے ہیں کہ دور نہ رسول اللہ کی پاک اور مقدس زندگی کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بادی کامل اور پھر قیامت تک کے لئے اور اس پر کل دنیا کے لئے مقرر فرمایا.مگر آپ کی زندگی کے گل واقعات ایک عملی تعلیمات کا مجموعہ ہیں.جس طرح پر قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی قولی کتاب ہے اور قانون قدرت اس کی فعلی کتاب ہے اسی طرح پر رسول اللہ کی زندگی بھی ایک فعلی کتاب ہے جو گو یا قرآن کریم کی شرح اور تفسیر ہے.( تفسیر حضرت مسیح موعود ( سورة هودزیر آیت 113 ) جلد دوم صفحه 704) اس کی مزید وضاحت بھی آپ نے فرمائی ہے.فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ نے لوگوں کے پوچھنے پر فرمایا کہ مجھے سورۃ ھود نے بوڑھا

Page 72

29 62 کر دیا کیونکہ اس حکم کے رو سے بڑی بھاری ذمہ داری میرے سپرد ہوئی ہے.اپنے آپ کو سیدھا کرنا اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی پوری فرمانبرداری جہاں تک انسان کی اپنی ذات سے تعلق رکھتی ہے ممکن ہے کہ وہ اس کو پورا کرے.لیکن دوسروں کو ویسا ہی بنانا آسان نہیں ہے.اس سے ہمارے نبی کریم کی بلندشان اور قوت قدسی کا پتہ لگتا ہے.چنانچہ آپ نے اس حکم کی کیسی تعمیل کی.صحابہ کرام کی وہ پاک جماعت تیار کی کہ ان کو كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ( سورة آل عمران آیت نمبر (111) کہا گیا اور رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ (المائدہ : 120 ) کی آواز ان کو آ گئی.آپ کی زندگی میں کوئی بھی منافق مدینہ طیبہ میں نہ رہا.غرض ایسی کامیابی آپ کو ہوئی کہ اس کی نظیر کسی دوسرے نبی کے واقعات زندگی میں نہیں ملتی.اس سے اللہ تعالیٰ کی غرض یہ تھی کہ قیل و قال ہی تک بات نہ رکھنی چاہئے“.(صرف زبانی جمع خرچ نہ ہو) ” کیونکہ اگر نرے قیل و قال اور ریا کاری تک ہی بات ہو تو دوسرے لوگوں اور ہم میں پھر امتیاز کیا ہوگا اور دوسروں پر کیا شرف؟“.(الحام - جلد 5 نمبر 29.مورخہ 10 راگست 1901 صفحہ 1) ( تفسیر حضرت مسیح موعود، سورة هود زیر آیت 113، جلد دوم صفحه 704-705) پس آج یہ سبق ہمارے لئے بھی ہے کہ قیل وقال تک بات نہ رہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو سمجھ کر اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کی جائے کیونکہ یہی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے.جیسا کہ ایک جگہ فرمایا کہ وَهَذَا كِتَابَ أَنزَلْنَهُ مُبَارَكَ فَاتَّبِعُوْهُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الانعام : 156) اور یہ مبارک کتاب ہے جسے ہم نے اتارا ہے.پس اس کی پیروی کرو اور تقویٰ اختیار کرو تا کہ تم رحم کئے جاؤ.

Page 73

63 قرآن کریم کی تعلیم ایک دوسرے پر سلامتی بھیجنے کا حکم دیتی ہے پھر ایک اور بات جو معاشرے کے لئے ، امن کے لئے ضروری ہے اس کا میں یہاں ذکر کر دوں.پہلے ہی ذکر آنا چاہئے تھا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُوْنَ بِايْتِنَا فَقُلْ سَلَمَ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوَى بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّهُ غَفُوْرٌ رَّحِيم (الانعام:55) اور جب تیرے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں تو ان سے کہا کر تم پر سلام ہو.تمہارے لئے تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت فرض کر دی ہے.یعنی یہ کہ تم میں سے جو کوئی جہالت سے بدی کا ارتکاب کرے پھر اس کے بعد توبہ کرلے اور اصلاح کرلے تو یاد رکھے کہ وہ ( یعنی اللہ ) یقینا بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.پس یہ خوبصورت تعلیم ہے جو معاشرے کا حسن بڑھاتی ہے.جب سلامتی کے پیغام ایک دوسرے کو بھیج رہے ہوں گے تو آپس کی رنجشیں اور شکوے اور دوریاں خود بخود ختم ہو جائیں گی اور ہو جانی چاہئیں.بھائی بھائی جو آپس میں لڑے ہوئے ہیں.ناراضگیاں ہیں.ان میں صلح قائم ہو جائے گی.ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ ہم احمدی ہیں اور قرآن کریم پر ہمارا پورا ایمان ہے اور اس کی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.تو پھر قرآن تو کہتا ہے کہ سلامتی بھیجو.ایک دوسرے پر سلامتی بھیجو.اور یہاں بعض جگہ پر ناراضگیوں کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے.پس غور کرنا چاہئے اور اپنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر جو قرآن کریم کی اعلیٰ تعلیم اور احکامات ہیں ان کو قربان نہیں کرنا چاہئے.پس ہر احمدی کو قرآن کریم کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے.یہ ایسی عظیم کتاب ہے کہ کوئی پہلو ایسا نہیں جس کا اس نے احاطہ نہ کیا ہو.پس معاشرے کے امن کے لئے بھی ، اپنی روحانی ترقی کے لئے بھی، خدا کا قرب

Page 74

64 پانے کے لئے بھی انتہائی ضروری ہے کہ ہم قرآن کریم کے احکامات تلاش کر کے ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں.اور یہ بھی ہو سکتا ہے جب ہم با قاعدہ تلاوت کرنے والے اور اس پر غور کرنے والے ہوں گے.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ تمام باتیں تو بیان نہیں ہوسکتیں.کچھ میں نے کی ہیں باقی آئندہ انشاء اللہ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : قرآن شریف پر تدبر کرو.اس میں سب کچھ ہے.نیکیوں اور بدیوں کی تفصیل ہے اور آئندہ زمانے کی خبریں ہیں وغیرہ.بخوبی سمجھ لو کہ یہ وہ مذہب پیش کرتا ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا.کیونکہ اس کے برکات اور ثمرات تازہ بتازہ ملتے ہیں.انجیل میں مذہب کو کامل طور پر بیان نہیں کیا گیا.اُس کی تعلیم اُس زمانے کے حسب حال ہو تو ہو لیکن وہ ہمیشہ اور حالت کے موافق ہرگز نہیں.یہ فخر قرآن مجید ہی کو ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ہر مرض کا علاج بتایا ہے اور تمام قومی کی تربیت فرمائی ہے اور جو بدی ظاہری کی ہے اس کے دُور کرنے کا طریق بھی بتایا ہے.اس لئے قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہو اور دعا کرتے رہو اور اپنے چال چلن کو اس کی تعلیم کے ماتحت رکھنے کی کوشش کرو.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 102.جدید ایڈیشن) اللہ ہمیں اس کے پڑھنے ، سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم خود بھی اس ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں اور اپنی نسلوں کو بھی قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم کی طرف توجہ دلائیں اور ان کے دلوں میں قرآن کریم کی محبت پیدا کرنے والے ہوں.خطبه جمعه فرمودہ 4 ستمبر 2009 بحوالہ اخبار بدر 10 دسمبر 2009 صفحہ 3 تا 6 )

Page 75

65 قرآن کریم کی تلاوت دلوں کے زنگ کو دور کرتی ہے حضور انور نے اپنے خطبہ جمعہ 7 مارچ 2008ء میں فرمایا: ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی لا یہی تم نے فرمایا : یقینا یہ دل بھی صیقل کئے جاتے ہیں جس طرح لوہے کے زنگ آلود ہونے پر اسے صیقل کیا جاتا ہے.کہا گیا کہ اے اللہ کے رسول ! اس کی صفائی کیسے کی جائے؟ یعنی دل کی صفائی کس طرح کی جاتی ہے.تو آنحضور صلی پریتم نے فرمایا : موت کو کثرت سے یاد کرنا اور قرآن کریم کی تلاوت کرنا.(مشکوۃ المصابيح كتاب الفضائل القرآن الفصل الثالث) پس موت کی یاد اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہیں رکھتی.اس پر یقین ہو کہ جزا سزا کا دن آنا ہے.اور قرآن کریم کی تلاوت ، اس کا حق ادا کرنے سے نیکیوں کی توفیق ملتی ہے.اس حق ادا کرنے کی وجہ سے ایک مومن اس دنیا میں بہترین اجر حاصل کرنے والا بن جاتا ہے اور آخرت میں بھی اس کے لئے بہترین اجر ہوتا ہے.صاف دل ہو کر حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی کی طرف ایک مومن کی توجہ رہتی ہے.آنحضرت سالی یہ ستم کا قرآن کریم پڑھنا آنحضرت صلی ا یہ تم کس طرح قرآن پڑھتے تھے؟ اس کی وضاحت بھی ضروری ہے.کیونکہ بعض لوگ قرآن کریم جلدی جلدی پڑھنے میں زیادہ قابلیت سمجھتے ہیں جبکہ آنحضرت صلی یا کہ ان کا طریق اس سے بالکل مختلف تھا.اس بارے میں ایک روایت میں آتا ہے:

Page 76

66 حضرت قتادہ سے روایت ہے کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے نبی صالنا یہ تم کی قرآت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی ا تم ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کیا کرتے تھے.(ابوداؤد.کتاب الوتر باب استخاب الترتيل في القراءة) قرآن کریم کو بہت غور اور تدبر سے پڑھنا چاہئے آنحضرت صلی ایم نے فرمایا ہے قرآن کریم کے کئی بطن ہیں.یعنی اس کے الفاظ میں اتنے گہرے حکمت کے موتی ہیں کہ ہر دفعہ جب ایک غور کرنے والا اس کی گہرائی میں جاتا ہے تو نیا حسن اس کی تعلیم میں دیکھتا ہے.آنحضرت ملال ہی تم سے زیادہ تو کوئی اس گہرائی کا علم نہیں رکھ سکتا جو قرآن کریم کے الفاظ میں ہے.پس آپ جب ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے تو ان الفاظ کے مطالب ، ان کے معانی، ان کی گہرائی کی تہ تک پہنچتے تھے.لیکن آپ کا یہ اسوہ ہمیں اس بات پر توجہ دلاتا ہے کہ قرآن کریم کو غور اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں اور تدبر اور فکر کریں.اسی غور و فکر کی طرف توجہ دلانے کے لئے آپ نے اپنے ایک صحابی کو یوں تلقین فرمائی تھی.روایت میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ سی ایم نے مجھے فرمایا: قرآن کریم کی تلاوت ایک ماہ میں مکمل کیا کرو.اس پر میں نے عرض کیا کہ میں اس سے جلدی پڑھنے کی قوت پاتا ہوں.اس پر آنحضور مالی پریتم نے فرمایا: پھر ایک ہفتہ میں مکمل کیا کرو اور اس سے پہلے تلاوت قرآن مکمل نہ کرنا.الهموم ( بخاری کتاب فضائل القرآن باب في كم يقرء القرآن ) پس اگر وقت ہے تو پھر بھی اجازت نہیں کہ ایک ہفتہ سے پہلے قرآن کریم کا دور پورا مکمل کیا جائے کیونکہ فکر اور غور نہیں ہو سکتا.جلدی جلدی پڑھنا صرف مقصد نہیں ہے.اس

Page 77

67 بات سے صحابہ کے شوق تلاوت کا بھی پتہ لگتا ہے کہ ان کے نزدیک اس کی کتنی اہمیت تھی.اور یہ جو ہمارا زمانہ ہے اس زمانہ میں قرآن کریم کی اہمیت اور بھی زیادہ ہوگئی ہے کیونکہ ترجیحات بدل گئی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : میں نے قرآن کے لفظ میں غور کی تب مجھ پر کھلا کہ اس مبارک لفظ میں ایک زبر دست پیشگوئی ہے وہ یہ ہے کہ یہی قرآن یعنی پڑھنے کے لائق کتاب ہے اور ایک زمانہ میں تو اور بھی زیادہ یہی پڑھنے کے قابل کتاب ہوگی جب کہ اور کتابیں بھی پڑھنے میں اس کے ساتھ شریک کی جائیں گی.اس وقت اسلام کی عزت بچانے کے لئے اور بطلان کا استیصال کرنے کے لئے یہی ایک کتاب پڑھنے کے قابل ہوگی اور دیگر کتا بیں قطعا چھوڑ دینے کے لائق ہوں گی.الحکم جلد 4 نمبر 37 مورخہ 17 اکتوبر 1900 صفحہ 5) قرآن کریم کو پڑھنے سے مخالفین کے منہ بند کئے جاسکتے ہیں پس یہ ایک اہم نکتہ ہے جسے ہر احمدی کو یا درکھنا چاہئے کہ اس زمانے میں اس کتاب کو پڑھنے سے مخالفین کے منہ بند کئے جاسکتے ہیں اور یہی اسلام کی عزت بچانا ہے.لیکن کیا صرف پڑھنا کافی ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ بڑے واضح ہیں کہ اسلام کی عزت بچانے کے لئے اور بطلان کا استیصال کرنے کے لئے.یعنی قرآن کریم میں وہ دلائل ہیں جن سے اسلام کی عزت قائم ہو گی اور اس جھوٹ کی جو مخالفین اسلام پر افتراء کرتے ہیں، جڑیں اکھیڑی جائیں گی.اور یہی اصول ہے جس سے اسلام کی عزت بچائی جائے گی.جھوٹ کا خاتمہ اس وقت ہوگا جب ہمارے ہر عمل میں تو یم کی چھاپ نظر آ رہی ہوگی اور یہ چھاپ بھی اس وقت ہوگی جب ہم اس پر غور کرتے ہوئے با قاعدہ تلاوت

Page 78

68 کرنے والے بنیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : قرآن کو چھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور محال امر ہے اور ایسی کامیابی ایک خیالی امر ہے جس کی تلاش میں یہ لوگ لگے ہوئے ہیں“.یعنی جو چاہتے ہیں کہ قرآن کریم کے بغیر فتح حاصل ہو جائے.صحابہ کے نمونوں کو اپنے سامنے رکھو.دیکھو انہوں نے جب پیغمبر خداسلایل اینم کی پیروی کی اور دین کو دنیا پر مقدم کیا تو وہ سب وعدے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے کئے تھے، پورے ہو گئے.ابتداء میں مخالف ہنسی کرتے تھے کہ باہر آزادی سے نکل نہیں سکتے اور بادشاہی کے دعوے کرتے ہیں.لیکن رسول اللہ صلی ا یتیم کی اطاعت میں گم ہو کر وہ پایا جوصدیوں سے ان کے حصے میں نہ آیا تھا.( ملفوظات جلد اول صفحہ 409 مطبوعہ ربوہ ) یہ آنحضرت مال یتیم کی اطاعت کیا تھی ؟ یہ اس تعلیم پر مکمل طور پر عمل کرنے کی کوشش تھی جو آنحضرت سیلا ہی تم پر اتری تھی.اور پھر ایک دنیا نے دیکھا جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جس شہر میں آزادانہ طور پر پھر نہ سکتے تھے اور پھر ایک وقت آیا کہ جب اس شہر سے نکالے بھی گئے.اسی اطاعت اور اسی تعلیم پر عمل کرنے کی وجہ سے اس شہر میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے.پس ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ آج بھی ہماری فتوحات اسی تعلیم پر عمل کرنے کی وجہ سے ہوں گی.انشاء اللہ.اچھی آواز میں تلاوت کرنے کا حکم پھر اچھی آواز میں تلاوت کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے آنحضرت صلا یہ تم فرماتے ہیں.یہ ایک روایت ہے حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہ رسول

Page 79

69 اللہ صلی السلام نے فرمایا کہ قرآن کے حسن میں اپنی عمدہ آواز کے ساتھ اضافہ کیا کرو کیونکہ عمدہ آواز قرآن کے حسن میں اضافہ کا موجب ہوتی ہے.( مشکوۃ المصابیح کتاب فضائل القرآن ) اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : قرآن شریف کو بھی خوش الحانی سے پڑھنا چاہئے.بلکہ اس قدر تاکید ہے کہ جو شخص قرآن شریف کو خوش الحانی سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں ہے.اور خود اس میں ایک اثر ہے.عمده تقریر خوش الحانی سے کی جائے تو اس کا بھی اثر ہوتا ہے.وہی تقریر ژولیدہ زبانی سے کی جائے یعنی کہ واضح طور پر نہ ہو تو اس میں کوئی اثر نہیں ہوتا.جس شے میں خدا تعالیٰ نے تاثیر رکھی ہے اس کو اسلام کی طرف کھینچنے کا آلہ بنایا جائے تو اس میں کیا حرج ہے.حضرت داؤد کی زبور گیتوں میں تھی طمکاس کے متعلق کہا گیا ہے کہ جب حضرت داؤد خدا تعالیٰ کی مناجات کرتے تھے تو پہاڑ بھی ان کے ساتھ روتے تھے اور پرندے بھی تسبیح کرتے تھے.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 524 مطبوعہ ربوہ ) تو اس خوش الحانی کا بھی مقصد ہے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا رکھا ہے؟ یہ کہ اس سے اسلام کی تبلیغ ہو.وہ لوگ جو اچھی آواز سے متاثر ہوتے ہیں ان کو متاثر کر کے پھر اس تعلیم کے اصل مغز سے آگاہ کیا جائے.جس کتاب کا میں نے شروع میں حوالہ دیا ہے، اس میں اکثر عورتوں نے یہی ذکر کیا ہے کہ کیوں انہوں نے اسلام قبول کیا ؟ اس کو سنا اور پھر جب اس کی تعلیم کو دیکھا تو ان کو پسند آئی.تو یہی بات جو انہوں نے کی ہے اس کی تعلیم ان کو پسند آئی ، یہی قرآن کریم کا دعویٰ ہے کہ حقیقی تعلیم اور فطرت کے مطابق تعلیم اور ہدایت کے راستے قرآن کریم میں ہی ہیں.جیسا کہ فرماتا ہے.انً هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبیرا.( بنی اسرائیل : 10 ) یعنی یقینایہ قرآن اس ( راہ) کی طرف ہدایت دیتا

Page 80

70 ہے جو سب سے زیادہ قائم رہنے والی ہے اور ان مومنوں کو جو نیک کام کرتے ہیں بشارت دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ( مقدر) ہے.پس یہ اعلان غیر مسلموں کے لئے بھی ہے اور مومنین کے لئے بھی.قرآن کریم کی ہدایت اور مقاصد بہت اعلیٰ ہیں.اور یہ ہدایت اور یہ شریعت ہمیشہ کے لئے ہے جبکہ پہلی شریعتیں نہ مکانی وسعت رکھتی تھیں نہ زمانی وسعت.نہ ہی ان میں کاملیت ہے، نہ ہی فطرت کے مطابق ہیں.پس نیک فطرت لوگوں کا اس کو قبول کرنا اللہ تعالیٰ کے اس اعلان کی سچائی کا منہ بولتا ثبوت ہے.پس یہ پیغام ہے ہر غیر کے لئے جو ہم نے پہنچانا ہے کہ آئندہ اگر روحانی اور جسمانی انعامات حاصل کرنے ہیں تو یہی قرآن ہے جس کی تعلیم پر عمل کر کے حاصل کئے جاسکتے ہیں.پھر مومنوں کو بشارت ہے کہ جب تک تمہارے عمل نیک رہیں گے، اعلیٰ مقاصد کے حصول کی کوشش کرتے رہو گے تو تمہارے انعام اس اعلیٰ عمل کے نتیجے میں بڑھتے بھی رہیں گے اور بہت اعلیٰ بھی ہوں گے.قرآن کریم کی تلاوت کا حق مؤمنین کے نیک اعمال سے مشروط ہے پس جیسا کہ میں پہلے شروع میں ذکر کر آیا ہوں کہ قرآن کریم کی تلاوت کا حق مومنین کے نیک اعمال کے ساتھ مشروط ہے.اس لئے اپنے اعمال کی حفاظت کرتے رہنا یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جو ایک مسلمان پر ڈالی گئی ہے.اور نہ صرف ہر مسلمان پر اپنی ذات کے بارے میں یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے بلکہ آئندہ نسلوں کو بھی اس انعام اور اس کے بڑے اجر سے آگاہ کرنے کی ذمہ داری ڈال دی گئی ہے.یہ نہ ہو کہ صرف اس بات پر فخر رہے کہ ہمیں وہ کتاب دی گئی ہے جس کا مقام سب پہلی شریعتوں سے اعلیٰ ہے

Page 81

71 بلکہ یہ فکر ر ہے کہ اس کی تعلیم اپنے اوپر لاگو کریں اور اپنے اوپر لاگو کر کے اس کے انعامات کے مستحق خود بھی ٹھہریں اور اپنی نسلوں میں کوشش کر کے اسی تعلیم اور حق تلاوت کو راسخ کرنے کی کوشش کریں.ورنہ یا درکھیں اگر ہر احمدی نے اس اہم نکتہ کو نہ سمجھا اور صرف اسی بات پر ہم اتراتے رہیں کہ ہم قرآن کو ماننے والے ہیں تو جیسا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقتباس سے بتایا ہے کہ قرآن ایسے پڑھنے اور ماننے والوں پر لعنت کرتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کے لئے نیک اعمال کی بجا آوری اصل چیز ہے.قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنا اصل چیز ہے اور جب تک ہم اس پر قائم رہیں گے ہدایت کے راستے نہ صرف خود پاتے رہیں گے بلکہ دوسروں کو بھی دکھاتے رہیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: قرآن کریم کی تعلیم فطرت انسانی کے عین مطابق ہے یہ قرآن اس سیدھی راہ کی ہدایت دیتا ہے جس میں ذرا بھی نہیں اور انسانی سرشت سے بالکل مطابقت رکھتی ہے اور درحقیقت قرآن کی خوبیوں میں سے یہ ایک بڑی خوبی ہے کہ وہ ایک کامل دائرہ کی طرح بنی آدم کی تمام قومی پر محیط ہو رہا ہے اور آیت موصوفہ میں سیدھی راہ سے وہی راہ مراد ہے“ جو آیت میں نے پڑھی تھی کہ جو راہ انسان کی فطرت سے نہایت نزدیک ہے یعنی جن کمالات کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے ان تمام کمالات کی راہ اس کو دکھلا دینا اور وہ راہیں اس کے لئے میسر اور آسان کر دینا جن کے حصول کے لئے اس کی فطرت میں استعداد رکھی گئی ہے اور لفظ اقوم سے آیت يَهْدِی لِلَّتِي هِيَ أَقْوَم میں یہی راستی مراد ہے.کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 53-54)

Page 82

72 پھر آپ اس صحیفہ فطرت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : " قرآن کوئی نئی تعلیم نہیں لایا بلکہ اس اندرونی شریعت کو یاد دلاتا ہے جو انسان کے اندر مختلف طاقتوں کی شکل میں رکھی ہے.علم ہے.ایثار ہے.شجاعت ہے.صبر ہے.غضب ہے.قناعت ہے وغیرہ.غرض جو فطرت باطن میں رکھی تھی قرآن نے اسے یاد دلایا.جیسے فِي كِتَابٍ مَكْنُونِ.یعنی صحیفہ فطرت میں کہ جو چھپی ہوئی کتاب تھی اور جس کو ہر ایک شخص نہ دیکھ سکتا تھا.اسی طرح اس کتاب کا نام ”ذکر“ بیان کیا تا کہ وہ پڑھی جاوے تو وہ اندرونی اور روحانی قوتوں اور اس نور قلب کو جو آسمانی ودیعت انسان کے اندر ہے یاد دلاوے.غرض اللہ تعالیٰ نے قرآن کو بھیج کر بجائے خود ایک روحانی معجزہ دکھایا تا کہ انسان ان معارف اور حقائق اور روحانی خوارق کو معلوم کرے جن کا اسے پتہ نہ تھا.رپورٹ جلسہ سالانہ 1897 ، صفحہ 94) قرآن کریم کو تدبر سے پڑھنا اور اس پر عمل کرنا چاہئے قرآن کریم کو تدبر سے پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے.حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظلن تھے.سوتم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو.ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو.کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا الْخَيْرُ كُلَّهُ فِي الْقُرْآنِ کہ

Page 83

73 تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں.یہی بات سچ ہے.افسوس ان لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اُس پر مقدم رکھتے ہیں.تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے.کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی.تمہارے ایمان کا مصد ق یا مکذب قیامت کے دن قرآن ہے.اور بجزر قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلا واسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے.( یعنی قرآن کے واسطے کے بغیر کوئی اور تمہیں ہدایت نہیں دے سکتا ) ”خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ کتاب جو تم پر پڑھی گئی اگر عیسائیوں پر پڑھی جاتی تو وہ ہلاک نہ ہوتے.اور یہ نعمت اور ہدایت جو تمہیں دی گئی اگر بجائے تو ریکے یہودیوں کو دی جاتی تو بعض فرقے ان کے قیامت سے منکر نہ ہوتے.پس اس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی.یہ نہایت پیاری نعمت ہے.یہ بڑی دولت ہے.اگر قرآن نہ آتا تو تمام دنیا ایک گندے مضغہ کی طرح تھی.قرآن وہ کتاب ہے جس کے مقابل پر تمام ہدایتیں بیچ ہیں.(کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 26-27) پس یہ توقعات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک احمدی سے ہیں.قرآن کریم کے تمام احکامات کی پیروی کی کوشش ہی ہے جو ہمیں نجات کی راہیں دکھانے والی ہے.اس کے لئے ایک لگن کے ساتھ ، ایک تڑپ کے ساتھ ہم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے.اگر ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ تقویٰ کے راستوں کی تلاش ہم نے کرنی ہے اور اسی مقصد کے لئے ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا ہے تو پھر یہ تقویٰ انہی راستوں پر چل کر ہی ملے گا جن پر آنحضرت سالی یتیم کے صحابہ چلے تھے.اگر ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہم نے زمانے کے امام کو مان کر دنیا میں ایک پاک تبدیلی پیدا کرنی ہے اور ایک

Page 84

74 انقلاب لانا ہے تو سب سے پہلے ہمیں اپنی حالتوں میں انقلاب لانا ہوگا.اپنی نسلوں میں انقلاب لانا ہوگا.اپنے ماحول کو اس روشن تعلیم سے آگاہ کرنا ہوگا.اس تعلیم سے اور اس پر عمل کرتے ہوئے ان لوگوں کے منہ بند کرنے ہوں گے جو اسلام پر اعتراض کرتے ہیں.جن کو یہ فکر پڑ گئی ہے کہ اسلام کی طرف کیوں دنیا کی توجہ ہے.جس کی تحقیق کے لئے دنیا کے مختلف ممالک میں جائزہ کے لئے پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے.اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ یہ اسلام کی خوبیاں تلاش کرنے کے لئے ریسرچ ہو رہی ہے یا تحقیق ہو رہی ہے کہ خوبیاں کیا ہیں جس کی وجہ سے ہمیں اسلام کا حسن نظر آئے تو یہ غلط فہمی ہے.یہ تحقیق اس لئے ہے کہ ان طاقتوں اور حکومتوں کو ہوشیار کیا جائے جو اسلام کے خلاف ہیں کہ اس رجحان کو معمولی نہ سمجھو اور جو کارروائی کرنی ہے کر لو.جو ظاہری اور چھپے ہوئے وار کرنے ہیں کر لو اور اس کے لئے جو بھی حکمت عملی وضع کرنی ہے وہ ابھی کر لو ، وقت ہے.پس ہر احمدی کی آج ذمہ داری ہے کہ اس عظیم صحیفہ الہی کی، اس قرآن کریم کی تلاوت کا حق ادا کریں.اپنے آپ کو بھی پائیں اور دنیا کو بھی بچا ئیں.جن لوگوں کی اسلام کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے لیکن احمدی نہیں ہوئے ان میں سے بہتوں نے آخر حقیقی اسلام اور حق کی تلاش میں احمدیت کی گود میں آنا ہے انشاء اللہ تعالی.اس کے لئے ہر احمدی کو اپنے آپ کو تیار کرنا چاہئے.آج جب اسلام دشمن طاقتیں ہر قسم کے ہتھکنڈے اور اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے پر تلی ہوئی ہیں، بیہودگی کا ایک طوفان برپا کیا ہوا ہے تو ہمارا کام پہلے سے بڑھ کر اس الہی کلام کو پڑھنا ہے، اس کو سمجھنا ہے، اس پر غور کرنا ہے، فکر کرنا ، تدبر کرنا ہے اور پہلے سے بڑھ کر اس کلام کے اتارنے والے خدا کے آگے جھکنا ہے تاکہ ان برکات کے حامل بنیں جو اس کلام میں پوشیدہ ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.“ (خطبہ جمعہ 7 مارچ 2008ء بحوالہ اخبار بدر 1 مئی 2008ء)

Page 85

75 روزانه صبح قرآن کریم کی تلاوت ضرور کرنی چاہئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دورہ جرمنی کے دوران افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے موقعہ پر قرآن مجید کی تلاوت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ ہر ایک اپنے اوپر فرض کرے کہ اس نے روزانہ صبح قرآن کریم کی تلاوت ضروری کرنی ہے.اور گھر سے باہر نہیں نکلنا جب تک ایک دور کوع نہ پڑھ لے.حضور انور نے اس سلسلہ میں حضرت اقدس مسیح موعود کے چند ارشادات بھی پڑھ کر سنائے.“ ( بحوالہ اخبار بدر 13 / جولائی 2004ء صفحہ 7) ہر گھر سے تلاوت قرآن کریم کی آواز آنی چاہئے اسی طرح اجتماع انصار الله جرمنی کے اجتماع کے موقعہ پر مورخہ 31 مئی 2004ء کو تلاوت اور اس کے معانی سمجھ کر پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی تلقین کرتے ہوئے " فرمایا کہ احکامات کو سمجھنے کے لئے قرآن کریم کا مطالعہ اور اس کی تلاوت کرنی ضروری ہے.ہر گھر سے تلاوت قرآن کریم کی آواز آنی چاہئے.فرمایا کہ اس معاشرے میں اپنی نسلوں کو بچانے کے لئے اور اسلام کی حسین تعلیم سے مطلع رکھنے کے لئے اس کی طرف توجہ دینی ہوگی.“ ( بحوالہ اخبار بدر 20 جولائی 2004ء صفحہ 9) قرآن کریم کا ایک نام ذکر ہے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ 25 دسمبر 2009ء میں فرمایا: یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہی حصہ ہے جو آپ کو خدا تعالیٰ کے ٹور آنحضرت ﷺ کے نور اور قرآن کریم کے نور سے ملا کہ آپ کے علم کلام کی کوئی مثال

Page 86

76 آج کے دور میں پیش نہیں کی جاسکتی.بلکہ آپ کی تفاسیر ہی ہیں جو اب ہر تفسیر پر حاوی ہیں.قرآن کریم کے ذکر ہونے کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ : " قرآن کریم کا نام ذکر رکھا گیا ہے.اس لئے کہ وہ انسان کی اندرونی شریعت یاد دلاتا ہے.قرآن کوئی نئی تعلیم نہیں لایا بلکہ اس اندرونی شریعت کو یاد دلاتا ہے جو انسان کے اندر مختلف طاقتوں کی صورت میں رکھی ہے.حلم ہے، ایثار ہے، شجاعت ہے، جبر ہے ،غضب ہے، قناعت ہے وغیرہ.غرض جو فطرت باطن میں رکھی تھی قرآن نے اسے یاد دلایا جیسے فی کتاب مكْنُونِ (الواقعہ: 79).یعنی صحیفہ فطرت نے کہ جو چھپی ہوئی کتاب تھی اور جس کو ہر ایک شخص نہ دیکھ سکتا تھا.اس طرح اس کتاب کا نام ذکر بیان کیا تا کہ وہ پڑھی جاوے تو وہ اندرونی اور روحانی قوتوں اور اس ٹور قلب کو جو آسمانی 66 ودیعت انسان کے اندر ہے یاد دلا دے.(رپورٹ جلسہ سالانہ 1897 ء صفحہ 94 طبع اول.بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد 2 صفحہ 770 مطبوعہ ربوہ ) یعنی یہ ذکر پڑھو قرآن کریم تو جو پاک فطرت ہیں ان کے دل کا جو نور ہے اس کو یہ نکال کر باہر رکھتا ہے ان کو یاد دلاتا ہے کہ یہ یہ احکامات ہیں، یہ تعلیم ہے یہ اللہ تعالیٰ کے حقوق ہیں، یہ بندوں کے حقوق ہیں جو تم نے ادا کرنے ہیں.) قرآن کریم پر عمل ہی حقیقی روشنی کا فائدہ دیتا ہے پس جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہلاکت ہے ان پر جن کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر سے سخت ہیں یہ لوگ ان لوگوں کی طرح نہیں ہو سکتے جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے ہیں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے فرمایا کہ یہ ذکر جو قرآن شریف کی صورت

Page 87

77 میں ہے اس کو اپنانے کی ضرورت ہے.پس اس کو پڑھنا بہت ضروری ہے تا کہ اس کو پڑھنے سے انسان کی، ایک مومن کی نیک فطرت اس نور سے منور ہو کر مزید روشن ہو اور صرف روشن کرنا ہی مقصد نہ ہو اپنے دل کو بلکہ قرآن کریم کی تعلیم پر عمل ہے جو اصل میں حقیقی روشنی کا فائدہ اٹھانے والا بناتا ہے.ان احکامات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے جو ایک نیک فطرت انسان کے لئے ضروری ہیں.جو ایک مومن کے لئے ضروری ہیں.جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنتے ہیں.جس سے انسان کے اندر چھپی ہوئی قوتوں کو جلا ملتی ہے.جس سے روحانیت میں ترقی کے راستے متعین ہوتے ہیں.اگر عمل نہیں تو صرف علمی حالت اس ذکر سے کوئی فائدہ نہیں دے سکتی.غیر از جماعت مسلمان جو ہیں ان میں بڑے حفاظ ہیں، بڑے مقررین بھی ہیں ، مفسرین بھی لیکن جب وہ اس پر اس طریق پر غور نہیں کر رہے جو زمانہ کے امام نے بتایا ہے تو یہ ایک ظاہری خول ہے جس سے کچھ فائدہ نہیں پاسکتے.اس تعلیم کی عملی حالت اُن تمام باتوں کو اپنے اندر سمیٹتی ہے جس سے حقوق اللہ کی ادائیگی بھی ہورہی ہو اور حقوق العباد کی ادائیگی بھی ہو رہی ہو.تبھی یہ ذکر ہے جو انسان کی زندگی میں روحانی، اخلاقی علمی اور عملی معیاروں کو بلند کرنے کا باعث بنے گا.قرآن کریم میں جو سینکڑوں احکامات پر مشتمل ہے اس کا پڑھنا اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اپنے ذہنوں اور زبانوں کو تازہ رکھنا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ان تمام باتوں پر عمل بھی کیا جائے جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے.“ (خطبه جمعه فرموده 25 دسمبر 2009 بحوالہ اخبار بدر جلد 59 شماره 11-10 صفحہ نمبر ۴) قرآن کریم ایک جامع اور محفوظ کتاب ہے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا.پس ان مسلمانوں کے لئے بھی جو آنحضرت سلی لا پریتم کی پیشگوئی

Page 88

78 کے مطابق آنے والے مسیح موعود کو نہیں مانتے غور کرنے کا مقام ہے.مسلمانوں کے پاس تو ایک ایسی جامع اور محفوظ کتاب ہے جس کی حفاظت کا خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے اور غیر بھی باوجود کوشش کے اس میں کسی قسم کی تحریف تلاش نہیں کر سکے.چودہ سو سال سے وہ اپنی اصلی حالت میں موجود ہے.یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جمع کر کے مسلمانوں کو ہوشیار کیا ہے کہ یہ قصے کہانیاں نہیں، تمہاری حالت بھی پہلی قوموں جیسی نہ ہو.اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر کہ لَا يُفْلِحُ الْمُجْرِمُونَ ( یونس: 18) کہ مجرم لوگ کبھی کامیاب نہیں ہوتے تسلی دلا دی ہے کہ بے شک جھوٹے دعویدار ہو سکتے ہیں لیکن وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.اور کامیابی کا معیار کیا ہے؟ یہ ہے کہ اپنی تعلیم اور بعثت کے مقصد کو وہ دنیا میں پھیلا نہیں سکتے جس طرح خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے پھیلاتے ہیں.بے شک ان کی چھوٹی سی جماعت بھی بن سکتی ہے.ان کے پاس دولت بھی جمع ہوسکتی ہے.یہ سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن جو خدا تعالیٰ کی طرف سے دعویدار ہو کر آتا ہے وہ ایک روحانی مقصد کو لے کر آتا ہے.انبیاء آئے تو وہ یا نئی شریعت لے کر آئے تا کہ دنیا میں ایک روحانی انقلاب پیدا کریں اور انسان کو خدا تعالیٰ کے قریب کریں یا پرانی تعلیم کی تجدید کیلئے آئے تا کہ بھٹکے ہوؤں کو پھر سے اس تعلیم کے مطابق جو شرعی نبی لائے تھے خدا تعالیٰ کے قریب کریں.پس یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والوں کا بنیادی معیار ہے.اگر کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے ہے لیکن یہ دو مقصد حاصل نہیں کرتا تو خدا تعالیٰ پر افتراء باندھ رہا ہے.اگر وہ لوگوں میں روحانی انقلاب پیدا نہیں کر رہا اگر وہ لوگوں کو خدا تعالیٰ کے قرب کی طرف راہنمائی نہیں کر رہا، ان میں ایک انقلاب پیدا نہیں کر رہا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ غلط ہے.

Page 89

79 قرآن کریم کی حکومت کو اپنے پر لاگو کرنے کا حکم ہے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر مفتری ہونے کا نعوذ باللہ الزام لگایا جاتا ہے تو یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا آپ نے شریعت میں بدعات پیدا کیں یا اس میں کوئی کمی بیشی کی یا اس کے برخلاف قرآن کریم کی حکومت کو اپنے اوپر لاگو کرنے کا حکم دیا.آپ کی تحریریں پڑھ لیں.ہر جگہ یہ ملے گا کہ قرآن کی حکومت قائم کرو.کیا نمازوں میں کوئی کمی کی یا کسی اور رکن اسلام میں کوئی کمی کی ؟ یا سنت رسول اللہ صلی یم کی جو باتیں ہم تک تصدیق کے ساتھ پہنچیں، ان میں کوئی کمی یا بیشی کی؟ یا اس کے برخلاف ان تمام چیزوں کو خوبصورت رنگ میں نکھار کر ہمارے سامنے پیش کیا اور اگر جائزہ لیں تو نظر آئے گا کہ ہمارے سامنے اسلام کی خوبصورت تعلیم کو مزید نکھار کر، چمکا کر پیش کیا.آپ تو قرآن کریم کی شریعت جس کو دنیا بھول چکی تھی نئے سرے سے قائم کرنے کے لئے آئے تھے اور آنحضرت صاله ای ستم کی پیشگوئیوں کے مطابق آئے تھے.پھر یہ دیکھنے والی بات ہے کہ کیا آپ کی جماعت پھیل رہی ہے یا وہیں کھڑی ہے یا کم ہورہی ہے یا ایک دفعہ پھیلی اور پھر سکڑ گئی.خاندانوں کے افراد نہیں بلکہ خاندانوں کے خاندان اور ملکوں میں گروہ در گروہ لوگ جماعت میں شامل ہوتے ہیں اور ہورہے ہیں.اس کے مقابلہ پر ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے جو الزام لگانے والے ہیں، ان میں کتنے ایسے ہیں جو قرآن کریم کی تعلیم میں ہی ناسخ اور منسوخ کے چکر میں پڑے ہیں.فرقہ بندیوں میں بٹے ہوئے ہیں.چھوٹے چھوٹے فروعی مسائل میں پڑ کر بعض احکامات سے دُور ہٹ گئے ہیں اور بعض ایسی بدعات پیدا کر لی ہیں جن کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں.اب اگر پاکستان، ہندوستان اور ایسے ملکوں میں چلے جائیں تو وہاں قبروں پر

Page 90

80 چڑھاوے ہیں، پیروں کے دروں پر جا رہے ہیں، وہ پیر جو کبھی نمازیں بھی نہیں پڑھتے تھے.ان سے فریادیں کی جاتی ہیں، ان سے مانگا جاتا ہے.قبروں سے مانگا جاتا ہے.کیا یہ تمام چیزیں کبھی آنحضرت سلیم کے زمانے میں تھیں؟ یا آپ نے ان کا حکم دیا ؟ تو ان لوگوں نے تو خود اسلام میں بدعات پیدا کر لی ہیں.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ایک دعویدار، بہاء اللہ اٹھا.اگر اس کا دعوی نبوت مانا جائے تو اس کی سچائی اس لئے ثابت نہیں ہو سکتی کہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات اس کے ساتھ نہیں تھیں.کسی بھی موقع پر ہمیں نظر نہیں آئیں.اگر غور سے دیکھا جائے تو کوئی روشن نشان پیش نہیں کیا.پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ شریعت اسلامی کو جو آخری شریعت ہے جس نے قیامت تک رہنا ہے، اس کو ناقص ثابت کرنے کی کوشش کی اور اس وجہ سے بے شک ایک وقت میں کافی تعداد میں اس کے ماننے والے بھی اس کے ساتھ ہو گئے.لیکن اس کی مقبولیت، قرآن کریم کی مقبولیت اور شریعت کی مقبولیت کے مقابلے میں کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتی.بلکہ اب تو بہاء اللہ کی شریعت ماننے والے اکا دُکا ادھر ادھر نظر آتے ہیں.ان لوگوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے.اور قرآن کریم آج بھی دنیا کے ایک طبقہ کی طرف سے بڑی سوچی سمجھی سکیم کے باوجود کہ اسے بدنام کیا جائے، استہزاء کا نشانہ بنایا جائے ، دنیا میں پھیل رہا ہے.جماعت احمدیہ کے ذریعہ ہی لاکھوں لوگ اس کی تعلیم کے نیچے آ کر اپنی ابدی نجات کے سامان پیدا کر رہے ہیں.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ لوگ جو جھوٹے ہیں فلاح نہیں پا سکتے.تو یہ ہے ان کا فلاح پانا.دنیا وی دولت اکٹھی ہو جانا یا ایک گروہ پیدا کر لینا کامیابی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم کا اس کے مقابلہ پر لاکھوں گنا پھیلنا اور اس میں ترقی ہوتے چلے جانا، یہ اصل فلاح اور کامیابی ہے.اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے انبیاء جب اس مقصد کے لئے آتے ہیں تو پھر بڑے روشن نشانات کے ساتھ آتے ہیں.زمین و آسمان کی تائیدات ان کے ساتھ ہوتی ہیں اور یہ لوگ ہوتے ہیں جو پھر اللہ تعالیٰ کی مدد اور

Page 91

81 نصرت سے فلاح کی طرف لے جانے والے ہوتے ہیں.“ (خطبہ جمعہ 23 جنوری 2009ء بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 27 فروری 2009ءجلد 16 شماره 9 صفحہ 7،6) ماہ رمضان میں مکمل قرآن کی دہرائی کی جائے حضور اپنے خطبہ جمعہ 20 اگست 2010ء میں فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اس آیت ( یعنی سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 186 ) میں رمضان کے مہینے کی قرآن کریم سے خاص نسبت کا بیان فرمایا ہے.یعنی یہ مہینہ با برکت مہینہ ہے جس میں قرآن کریم اتارا گیا.قرآن کریم کے نازل ہونے کی ابتداء بھی اس مہینے میں ہوئی اور اس بابرکت مہینے میں جبرئیل ہر سال اس وقت تک نازل شدہ قرآن کریم کی دہرائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کروایا کرتے تھے.(بخاری کتاب فضائل القرآن باب كان جبريل يعرض القرآن على النبى حديث نمبر : 4998) پس یہ مہینہ اللہ تعالیٰ کے اس پاک کلام کو خاص طور پر پڑھنے اور سمجھنے کا مہینہ ہے.گویا اس لحاظ سے بھی بڑی اہمیت کا مہینہ ہے.صرف روزے رکھنے اور اس فرض کو پورا کرنے کی حد تک نہیں جس کی کچھ تفصیل پہلی آیات میں بیان ہوئی ہے اور کچھ تفصیل اس آیت میں اور بعد کی آیت میں بیان ہوئی ہے.بلکہ اس کی اہمیت اس لئے بھی بہت بڑھ جاتی ہے کہ اس مبارک مہینے میں قرآن کریم جیسی عظیم الشان کتاب خدا تعالیٰ نے نازل فرمائی جو کامل اور مکمل شریعت کی کتاب ہے جو انسان کامل پر نازل ہوئی ، وہ نبی جو تمام انسانوں کے لئے مبعوث ہوا جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُوْلُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف : 159) کہ اے نبی کہہ دے میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا رسول بن کر آیا ہوں.پھر اللہ تعالیٰ ایک دوسری جگہ فرماتا ہے کہ

Page 92

82 88 وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلا كَافَةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيراًوَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ (سبا: 29) اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر تمام لوگوں کے لئے بشیر اور نذیر بنا کر مگر اکثر لوگ نہیں جانتے.قرآن کریم کا پیغام عالمگیر پیغام ہے بہر حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں قرآن کریم مختلف جگہوں پر مختلف انداز میں بیان فرماتا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے وہ پیارے رسول ہیں جو تمام انسانوں کے لئے مبعوث ہوئے ہیں اور اب تا قیامت کو ئی اور شرعی کتاب والا نبی نہیں آسکتا ، شریعت لے کر نہیں آسکتا.پس قرآن کریم کا پیغام ایک عالمگیر پیغام ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں کے لئے تا قیامت نبی ہیں.اپنے آخرے ہونے اور تمام انسانیت کے لئے ہونے کا دعویٰ قرآن کریم نے کیا ہے.یہ اعزاز قرآن کریم کو حاصل ہے.اس لئے اس کی عظمت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے اور بڑھ جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ : ” ہم ایسے نبی کے وارث ہیں جو رحمة للعالمین اور کافة للناس کے لئے رسول ہو کر آیا.جس کی کتاب کا محافظ اور جس کے حقائق و معارف سب سے بڑھ کر ہیں.(الحکم جلد 6 نمبر 36 مورخہ 10اکتوبر 1902 ء صفحہ 11) قرآن کریم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کورحمتہ للعالمین بھی کہا گیا ہے، پس یہ وہ عظیم بنی ہے جس سے اب انسانیت کے لئے رحمت کے چشمے پھوٹنے ہیں اور پھوٹتے ہیں.اور آپ پر اتری ہوئی کتاب ہی ہے جس کی تعلیم پر حقیقی عمل کرنے والے اپنے عظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلتے ہوئے دنیا کے لئے رحمت ہیں.کاش کہ آج کے شدت پسند ملاؤں اور اپنے

Page 93

83 زعم میں عالم کہلانے والوں کو بھی یہ پتہ لگ جائے.ان لوگوں کو بھی پتہ لگ جائے جو مذہبی جبہ پوش ہیں کہ قرآن کریم کی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو دنیا میں رحمتوں کی تقسیم کے لئے آئے ہیں نہ کہ امن پسند شہریوں کے امن چھینے کی تعلیم دینے کے لئے.نہ کہ معصوموں کی جانوں سے بے رحمانہ طور پر کھیلنے کے لئے.بہر حال اس آیت کے اس حصہ میں جس میں قرآن کریم کے حوالے کے طور پر بات ہو رہی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس قرآن میں تمام دنیا کے انسانوں کے لئے ہدایت ہے.اس میں کھلے کھلے نشانات بیان کئے گئے ہیں.اس میں حق و باطل میں فرق کرنے والے امور بیان کیے گئے ہیں.پس مومنین کا فرض ہے کہ اس روشن تعلیم اور ھدایت سے پر جامع کتاب قرآن کو جو حق و باطل میں فرق کرتی ہے اس مہینے میں جو رمضان کا مہینہ کہلاتا ہے، جو روحانیت میں ترقی کا مہینہ کہلاتا ہے، جس میں روزے رکھ کر انسان خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے.جس میں ایک مومن اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے کی کوشش کرتا ہے اس میں قرآن کریم کو اپنے سامنے رکھو کہ یہ تمہارا رہنما ہے.اس مہینے میں اس پر غور کرتے ہوئے اپنی ہدایت کے سامان پیدا کرو.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ھدی للمتقین کہ یہ متقیوں کے لئے ہدایت ہے.پہلے فرمایا تمام انسانیت کے لئے ہدایت ہے.ہدایتوں کے معیار مختلف ہیں.متقیوں کے لئے بھی اس میں ہدایت ہے.صرف ایک دفعہ ایمان لا کر یا تقویٰ پر قائم ہو کر ہدایات ختم نہیں ہو جاتی.بلکہ ہدایت کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے.یعنی وہ لوگ جو متقی ہونے کو دعوی کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے خوف اور اس کی خشیت پر ہر قسم کے خوف خشیت اور محبت کو حاوی سمجھتے ہیں.اگر ان دعوی اکر نے والوں کا یہ دعوی سچا ہے تو پھر اس تعلیم کی تمام باریکیوں پر عمل کرنا بھی ضروری ہے ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایسے لوگ جو غور نہیں کرتے، تقویٰ پر چلنے کی کوشش نہیں کرتے ایسے لوگوں کا رات کا جاگنا بھی صرف جاگنا ہے اور ان لوگوں کے روزے بھی صرف بھوک اور پیاس ہیں.(سنن ابی ماجه کتاب الصیام باب ما جاء فى الغيبة وامرفت للصائم حدیث نمبر 1690)

Page 94

84 پس روزے کی اہمیت اس وقت ہے جب قرآن کی اہمیت ہے.اس کی تعلیم کی اہمیت ہو جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے.اس تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش ہو.پس اللہ تعالیٰ نے ان دنوں میں تزکیہ نفس پر زور دینے کو اہمیت دی ہے.جس کا پتہ بھی ہمیں قرآن کریم سے چلتا ہے.جب یہ حالت ایک مومن کی ہوگی تب وہ اس خوبصورت تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کر سکتا ہے.تب ہم دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ جس طرف تم جا رہے ہو یہ بہت خطرناک راستہ ہے.یہ تباہی کا راستہ ہے.یہ تمہاری دنیا و آخرت کی بربادی کا راستہ ہے.اگر تم دنیا و آخرت کی بقا چاہتے ہو تو آؤ ہم تمہیں ہدایت کے راستے بتاتے ہیں.قرآن کریم کا صرف دعوی نہیں ہے کہ ھدی للناس.بلکہ اگر تم اس تعلیم پر عمل کرو تو اس دنیا میں ہدایت کے اثرات نظر آتے ہیں.یعنی جیسا کہ میں نے کہا سب سے پہلے تو ایک مسلمان کے عمل ہمارے سامنے ہونے چاہئیں، دنیا کے سامنے ہونے چاہئیں، جسے دنیا دیکھ سکے.یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ آج مسلمانوں کے عمل ہی ہیں جو مخالفین اسلام کو یہ موقع دے رہے ہیں کہ وہ قرآن کریم پر اعتراض کریں، اس کی تعلیم پر اعتراض کریں.“ قرآن کریم مسلمانوں اور غیر مسلم دونوں کو راہنمائی دیتا ہے فرمایا.یہ رمضان کا مہینہ جس میں خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ قرآن کریم نازل ہوا جو تمام انسانوں کے لئے ہدایت ہے تو ہدایت کے وہ راستے متعین کریں جو قرآن کریم نے متعین کئے ہیں.ہدایت کے معیار وہ بنائیں جو قرآن کریم نے بنائے ہیں.ہدایت دینے والے کو پانے کے لئے بھی خالص ہو کر دعا کرنے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں اھدنا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا دکھائی ہے.اگر خالص ہو کر یہ دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ضرور

Page 95

85 رہنمائی فرماتا ہے.اس دعا کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ غیر مسلموں کی بھی رہنمائی فرما دیتا ہے، مسلمانوں کی تو ضرور کرے گا.کاش کہ ہمارے مسلمان بھائی ہمارے اس دردمندانه پیغام اور جذبات کو سن کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں.اور اپنی دنیا و آخرت سنوار لیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں: یا د رکھو قرآن شریف حقیقی برکات کا سر چشمہ اور نجات کا سچا ذریعہ ہے.یہ ان لوگوں کی اپنی غلطی ہے جو قرآن شریف پر عمل نہیں کرتے عمل نہ کرنے والوں میں سے ایک گروہ تو وہ ہے جس کو اس پر اعتقاد ہی نہیں اور وہ اس کو خدا تعالیٰ کا کلام ہی نہیں سمجھتے.یہ لوگ تو بہت دور پڑے ہوئے ہیں لیکن وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور نجات کا شفا بخش نسخہ ہے اگر وہ اس پر عمل نہ کریں تو کس قدر تعجب اور افسوس کی بات ہے.ان میں سے بہت سے تو ایسے ہیں جنہوں نے ساری عمر میں کبھی اسے پڑھا ہی نہیں.پس ایسے آدمی جو خدا تعالیٰ کی کلام سے ایسے غافل اور لا پرواہ ہیں ان کی ایسی مثال ہے کہ ایک شخص کو معلوم ہے کہ فلاح چشمہ نہایت ہی مصفی اور شیریں اور خنک ہے“.(صاف اور میٹھا اور ٹھنڈا پانی ہے ) اور اس کا پانی بہت سی امراض کے واسطے اکسیر اور شفا ہے.یہ علم اس کو یقینی ہے لیکن باوجود اس علم کے اور باوجود پیاسا ہونے اور بہت سی امراض میں مبتلا ہونے کے وہ اس کے پاس نہیں جاتا تو یہ اس کی کیسی بدقسمتی اور جہالت ہے.اسے تو چاہئے تھا کہ وہ اس چشمے پر منہ رکھ دیتا اور سیراب ہو کر اس کے لطف اور شفا بخش پانی سے حظ اٹھاتا مگر وہ باوجود علم کے اس سے ویسا ہی دور ہے جیسا کہ ایک بے خبر.اور اس وقت تک اس سے دور رہتا ہے جو موت آکر خاتمہ کر دیتی

Page 96

86 ہے.اس شخص کی حالت بہت ہی عبرت بخش اور نصیحت خیز ہے.مسلمانوں کی حالت اس وقت ایسی ہی ہو رہی ہے.وہ جانتے ہیں کہ ساری ترقیوں اور کامیابیوں کی کلید یہی قرآن شریف ہے جس پر ہم کو عمل کرنا چاہئے.مگر نہیں، اس کی پرواہ بھی نہیں کی جاتی.ایک شخص ( یعنی اپنے آپ کے بارے میں کہہ رہے ہیں ، ایک شخص جو نہایت ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ اور پھر نری ہمدردی ہی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم اور ایماء سے اس طرف بلاوے تو اسے کذاب اور دجال کہا جاتا ہے.اس سے بڑھ کر اور کیا قابل رحم حالت اس قوم کی ہوگی، ( ملفوظات جلد ۴ صفحه ۱۴۰ جدید ایڈیشن ربوه) آج بھی یہی حقیقت ہے کہ قرآن کریم پر غور کرنا تو ایک طرف اکثریت قرآن کریم پڑھنے کی طرف بھی توجہ نہیں دیتی.اور نام نہاد علماء کے اس بات پر ورغلانے سے النبيين ان کے پیچھے چل پڑے ہیں کہ قرآن کریم کہتا کہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم اللہ ہیں اور مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے.کاش کہ یہ غور کریں اور ہم سے پوچھیں کہ کیا دعویٰ ہے؟ حق کو پہچاننے کی جستجو کریں.ان کے پاس دلیل نہیں ہے اس لئے علماء نے جماعت پر پاکستان میں خاص طور پر اور باقی مسلم ملکوں میں بھی ہر جگہ پابندی لگائی ہے.مسلمانوں کو یہ کہا جاتا ہے کہ ان کی بات سننا بھی کفر ہے.بلکہ یہاں تک کہتے ہیں ان سے سلام کرنا بھی کفر ہے.وہی شدت پسندی اگر عیسائی دکھا رہے ہیں تو یہاں احمدیوں کے بارہ میں مسلمان بھی دکھا رہے ہیں.بلکہ عمومی طور پر ایک بہت بڑا گروہ، ایک طبقہ ایسا جو شدت پسندی کا اظہار کر رہا ہے تو عیسائیوں کو بھی جرات پیدا ہوئی ہے.پس یہ تو ان لوگوں کی حالت ہے.مسلمانوں کو اپنے آپ پر اتنا بھی یقین نہیں ہے کہ اگر احمدی غلط ہیں تو ان کی بات کو رڈ کر دیں.کیا یہ اتنے خوفزدہ ہیں، اپنے ایمانوں کو اتنا

Page 97

87 کمزور سیکھتے ہیں کہ احمدی سے بات کریں گے تو ان کے ایمان کمزور ہو جائیں گے اور اسلام چھوڑ دیں گے.بہر حال یہ تو ان کے علماء کی باتیں ہیں جن کے پیچھے چل کر عامتہ المسلمین جو ہیں وہ بھی اپنی دنیا و عاقبت خراب کر رہے ہیں.اسی طرح ہم جو احمدی ہیں ہمارا بھی فرض ہے کہ اپنا حق ادا کریں.ہمارا بھی فرض ہے کہ ان ہدایات کے راستوں کا عملی نمونہ بنیں جو قرآن کریم میں بیان کی گئی ہیں.پس رمضان کا مہینہ جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے روحانی حالتوں کی بہتری اور قرآن کریم پر عمل اور غور کرنے کے لئے ہمیں پھر میسر فرمایا ہے اس سے ہمیں بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئے اور پوری کوشش کرنی چاہئے.اور بھر پور فائدہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے جب ہم اس کی روزانہ با قاعدگی سے تلاوت بھی کرنے والے ہوں.اس کے احکامات پر غور کرنے والے ہوں.ان پر عمل کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں.اس کے لئے کوشش کریں.اللہ تعالیٰ نے بعض حکم دئے ہیں کہ ان کو بجالا کہ بعض نیکیاں ہیں ان کو کرنے کا حکم دیا ہے جن سے ہدایت کے راستے ملتے ہیں.بعض برائیاں ہیں ان سے کہا ہے کہ بچو تو ان راستوں پر چل سکو گے جو منزلِ مقصود تک لے جانے والے راستے ہیں.اور ایک مومن کی منزل مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے؟“ قرآن کریم کی عملی تصویر بنے کی کوشش کریں نیز فرمایا.”جب ہم خدا تعالیٰ سے قرآن کریم کی حکومت اور اس کی عظمت اور تمام دنیا میں اس کی حکومت کے قیام کے دعا مانگ رہے ہوں گے تو یقینا خدا تعالیٰ اپنے زور آور حملوں سے نشانات کا ایک نیا سلسلہ اور دور شروع فرمائے گا.اور قرآن کریم کی تعلیم اپنی تمام تر عظمتوں کے ساتھ حق کے قیام اور باطل کے فرار کے نظارے ہمیں دکھائے گی.لوگ

Page 98

88 زمانے کے امام آنحضرت سلیم کے عاشق صادق اور خدا تعالیٰ کے فرستادے کی آواز سننے کی طرف توجہ دیں گے.جو عین قرآنی تعلیم کے مطابق دنیا کو ہدایت اور حق کی طرف دعوت دے رہا ہے.آج اگر کوئی حفاظت قرآن کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھڑا ہے تو وہ یہی مسیح موعود ہے اور آج اگر کوئی جماعت یہ کام احسن رنگ میں سرانجام دے سکتی ہے اور دے رہی ہے تو وہ جماعت احمدیہ ہے.جس کے لئے ہمیں پہلے سے بڑھ کر کمر بستہ ہونے کی ضرورت ہے.جس کے لئے ہمیں اپنی دعاؤں میں شدت پیدا کرنے کی ضرورت ہے.ورنہ ہم اپنے فرائض سے کوتاہی کر رہے ہوں گے یا کوتاہی کرنے والے بن رہے ہوں گے.پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کی عملی تصویر بننے کے لئے اپنی استعدادوں کے لحاظ سے بھی بھر پور کوشش کرے.قرآن کریم کی حفاظت کا دائمی وعدہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : قرآن شریف میں یہ وعدہ تھا کہ خدا تعالیٰ فتنوں اور خطرات کے وقت میں دینِ اسلام کی حفاظت کرے گا.جیسا کہ وہ فرماتا ہے إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحفِظُونَ (الحجر:١٠) سوخدا تعالیٰ نے بموجب اس وعدہ کے چار قسم کی حفاظت اپنے کلام کی کی.اول: حافظوں کے ذریعہ سے اس کے الفاظ اور ترتیب کو محفوظ رکھا اور ہر ایک صدی میں لاکھوں ایسے انسان پیدا کئے جو اس کی پاک کلام کو اپنے سینوں میں حفظ رکھتے ہیں.ایسا حفظ کہ اگر ایک لفظ پوچھا جائے تو اس کا اگلا پچھلا سب بتا سکتے ہیں اور اس طرح پر قرآن کو تحریف لفظی سے ہر ایک زمانہ میں بچایا.دوسرے: ایسے ائمہ اور اکابر کے ذریعہ سے جن کو ہر ایک صدی میں فہم قرآن عطا

Page 99

89 ہوا ہے.جنہوں نے قرآن شریف کے اجمالی مقامات کی احادیث نبویہ کی مدد سے تفسیر کر کے خدا کی پاک کلام اور پاک تعلیم کو ہر ایک زمانہ میں تحریف معنوی سے محفوظ رکھا.تیسرے متکلمین کے ذریعہ سے جنہوں نے قرآنی تعلیمات کو عقل کے ساتھ تطبیق دے کر ( عقل کے مطابق کر کے یا عقلی دلیلوں کے ساتھ ) خدا کی پاک کلام کو کو تہ اندلیش فلسفیوں کے استخفاف سے بچایا ہے.چوتھے: روحانی انعام پانے والوں کے ذریعہ سے جنہوں نے خدا کی پاک کلام کو ہرا یک زمانہ میں معجزات اور معارف کے منکروں کے حملہ سے بچایا ہے.فرماتے ہیں کہ سو یہ پیشگوئی کسی نہ کسی پہلو کی وجہ سے ہر ایک زمانہ میں پوری ہوتی رہی ہے ( قرآن کریم کی پیشگوئی کہ میں نے یہ کتاب اتاری اور میں اس کی حفاظت کروں گا.) فرمایا اور جس زمانہ میں کسی پہلو پر مخالفوں کی طرف سے زیادہ زور دیا گیا تھا اس کے مطابق خدا تعالیٰ کی غیرت اور حمایت نے مدافعت کرنے والا پیدا کیا ہے لیکن یہ زمانہ جس میں ہم ہیں یہ ایک ایسا زمانہ تھا جس میں مخالفوں نے ہر چہار پہلو کے رو سے حملہ کیا تھا اور یہ ایک سخت طوفان کے دن تھے کہ جب سے قرآن شریف کی دنیا میں اشاعت ہوئی ایسے خطرناک دن اسلام نے کبھی نہیں دیکھے.بد بخت اندھوں نے قرآن شریف کی لفظی صحت پر بھی حملہ کیا اور غلط ترجمے اور تفسیریں شائع کیں.بہتیرے عیسائیوں اور بعض نیچریوں اور کم فہم مسلمانوں نے تفسیروں اور ترجموں کے بہانے سے تحریف معنوی کا ارادہ کیا اور بہتوں نے اس بات پر زور دیا کہ قرآن اکثر جگہ میں علوم عقلیہ اور مسائل مسلمہ مثبتہ طبعی اور ہیئت کے مخالف ہے.( بعض ایسے ثابت شدہ مسائل جو طبعیات اور ہیئت دانوں کے ہیں اس کے مخالف ہیں).فرمایا اور نیز یہ کہ بہت سے دعاوی اس کے عقلی تحقیقاتوں کے برعکس ہیں اور نیز یہ کہ اس کی تعلیم جبر اور ظلم اور بے اعتدالی اور نا انصافی کے

Page 100

90 طریقوں کو سکھاتی ہے اور نیز یہ کہ بہت سی باتیں اس کی صفات الہیہ کے مخالف اور قانون قدرت اور صحیفہ فطرت کے منافی ہیں اور بہتوں نے پادریوں اور آریوں میں سے ہمارے نبی علیہ السلام کے معجزات اور قرآن کریم کے نشانوں اور پیشگوئیوں سے نہایت درجہ کے اسرار سے انکار کیا اور خدا تعالیٰ کی پاک کلام اور دین اسلام اور ہمارے نبی سلائی یہ تم کی ایک ایسی صورت کھینچ کر دکھلائی اور اس قدر افتراء سے کام لیا جس سے ہر ایک حق کا طالب خواہ نخواہ نفرت کرے.لہذا اب یہ زمانہ ایسا زمانہ تھا کہ جو طبعاً چاہتا تھا کہ جیسا کہ مخالفوں کے فتنہ کا سیلاب بڑے زور سے چاروں پہلوؤں پر حملہ کرنے کے لئے اٹھا ہے ایسا ہی مدافعت بھی چاروں پہلوؤں کے لحاظ سے ہو اور اس عرصہ میں چودھویں صدی کا آغاز بھی ہو گیا.اس لئے خدا نے چودھویں صدی کے سر پر اپنے وعدہ کے مواقع جو اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحْفِظُونَ ہے اس فتنہ کی اصلاح کے لئے ایک مجدد بھیجا.مگر چونکہ ہر ایک مجدد کا خدا تعالیٰ کے نزدیک ایک خاص نام ہے اور جیسا کہ ایک شخص جب ایک کتاب تالیف کرتا ہے تو اس کے مضامین کے مناسب حال اس کتاب کا نام رکھ دیتا ہے.ایسا ہی خدا تعالیٰ نے اس مجدد کا نام خدمات مفوضہ کے مناسب حال مسیح رکھا کیونکہ یہ بات مقرر ہو چکی تھی کہ آخر الزمان کے صلیبی فتنوں کی مسیح اصلاح کرے گا.پس جس شخص کو یہ اصلاح سپرد ہوئی ضرور تھا کہ اس کا نام مسیح موعود رکھا جائے.پس سوچو کہ یکسر الصلیب کی خدمت کس کو سپرد ہے.اور کیا اب یہ وہی زمانہ ہے یا کوئی اور ہے؟ سوچو خدا تمہیں تھام لے“.ایام اصلح.روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۸۸ تا۲۹۰) جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا کہ آج چرچ نے جو اعتراض کئے ہیں یہ پرانے اعتراض ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود نے اپنے اس اقتباس میں سو سال پہلے ہی بیان کر دیا تھا.وہ اعتراض تقریباً اس سے ملتے جلتے ہیں جو اس چرچ نے کئے ہیں.اور جیسا کہ میں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود کے مقابل پر کوئی نہیں ٹھہر سکا.افسوس کہ حضرت مسیح موعود کے

Page 101

91 اس عظیم کام کو دیکھتے ہوئے جس کی بعض مسلمان لیڈروں نے تعریفیں بھی کی ہیں، بجائے اس کے کہ مسلمان آپ کے گرد جمع ہوتے ، جبکہ آنحضرت سائی کہ تم نے بھی یہ حکم فرمایا تھا کہ مسیح موعود کے آنے پر میر اسلام اسے پہنچانا.اکثریت آپ کی مخالفت میں لگ گئی.یہ سب بھی ایمان بالغیب کی نفی ہے.اور یہ مخالفت شدت پسندوں اور نا انصاف حکومتوں کی وجہ سے اپنی شدت کا رنگ اختیار کرتی چلی جارہی ہے.اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بھی عقل سے اور وہ اس عاشق رسول اور عاشق قرآن اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کی حفاظت پر مامور کے پیغام کوسن کر اس کے مددگار بنیں.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم بھی اپنی تمام استعدادوں کے ساتھ اس جری اللہ کے سلطان نصیر بنیں اور قرآن کریم کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کا باعث بنیں.“ (خطبہ جمعہ 20 اگست 2010ء بحوالہ اخبار بدر 21اکتوبر 2010ء جلد 59 شماره 42) قرآن پڑھا کرو یہ قیامت کے روز اپنے پڑھنے والوں کی شفاعت کریگا محترمہ صدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ بھارت نے سالانہ اجتماع لجنہ و ناصرات الاحمدیہ بھارت سن 2006 کے موقعہ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں پیغام بھجوانے کے لئے لکھا تو جو پیغام موصول ہوا اس میں حضور انور نے قرآن کریم کے سیکھنے ،سکھانے اور اس کی تلاوت کرنے کی طرف خاص توجہ دلائی حضور انور ایدہ اللہ کا یہ مکمل پیغام ذیل میں پیش کیا جاتا ہے.

Page 102

92 92 "بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبد المسيح الموعود.خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هوالـ ناصر لندن 10-09-06 پیاری ممبرات لجنہ اماءاللہ السلام عليكم ورحمة الله وبركاته مکرمہ صدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ بھارت نے لجنہ و ناصرات اور نو مبائعات کے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر مجھے پیغام بھجوانے کے لئے لکھا ہے.اس موقعہ پر میں آپ کو قرآن کریم سیکھنے سکھانے ، اور اس کی تلاوت کرنے کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے ہم پر یہ بڑا بھاری احسان فرمایا ہے کہ ہمیں ایک نہایت مبارک کتاب قرآن شریف عطا فرمائی ہے اور اس کی تلاوت اور اس کی تعلیمات پر عمل کے ساتھ غیر معمولی برکات وابستہ فرمائی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ” قرآن پڑھا کرو یہ قیامت کے روز اپنے پڑھنے والوں کی شفاعت کرے گا.“ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ قرآن کریم پڑھنے والے مومن کی مثال نارنگی کی سی ہے کہ جس کا مزہ بھی اچھا ہوتا ہے اور خوشبو بھی عمدہ ہوتی ہے.اور اس مومن کی مثال جو قرآن کریم کی تلاوت نہیں کرتا وہ کھجور کی طرح ہے کہ مزہ تو اچھا ہے لیکن اس کی خوشبو نہیں ہوتی اور اس فاجر کی مثال جو قرآن کریم کی تلاوت کا عادی ہے گل ریحان کی طرح ہے جس کی خوشبو تو اچھی ہوتی ہے لیکن اس کا مزہ کڑوا ہوتا ہے اور اس فاجر کی مثال جو قرآن کریم نہیں پڑھتا حنظل کی طرح ہے جس میں مہک اور خوشبو بھی نہیں ہوتی اور اس کا مزہ بھی تلخ اور کٹر وا ہوتا ہے.

Page 103

93 حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: قرآن شریف پر تدبر کرو اس میں سب کچھ ہے.نیکیوں اور بدیوں کی تفصیل ہے اور آئندہ زمانہ کی خبریں ہیں وغیرہ یہ فخر قرآن مجید ہی کو ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ہر مرض کا علاج بتایا ہے اور تمام قومی کی تربیت فرمائی ہے اور جو بدی ظاہر کی ہے اس کے دور کرنے کا طریق بھی بتایا ہے اس لئے قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہو اور اپنے چال چلن کو اس کی تعلیم کے ماتحت رکھنے کی کوشش کرو.“ پھر فرماتے ہیں: ” قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو.کیوں کہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا الْخَيْرُ كُلَّهُ فِي الْقُرْآنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں.یہی بات سچ ہے.افسوس ان لوگوں پر جو کسی اور شے کو اس پر مقدم رکھتے ہیں.تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سر چشمہ قرآن میں ہے.کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی.تمہارے ایمان کا مصدق یا مکذب قیامت کے دن قرآن ہے.اور بجر قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلا واسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے.پس اس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی.یہ نہایت پیاری نعمت ہے.یہ بڑی دولت ہے.“ کس قدر مبارک ہے ہمارے پیارے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علی وسلم کی امت کہ جسے یہ آسمانی شہر عطا ہوا جو خدا تعالیٰ کی پاک وحی سے ٹپکا ہے.ہاں جواہرات کی ایک تحصیلی عطا ہوئی ہے مگر افسوس کہ مسلمان اس سے بے خبر ہیں.آج ہم ہیں جنہوں نے اپنے عملی نمونے سے اس تعلیم سے ساری دنیا کو روشناس کرانا ہے.اپنے گھروں کو اس مقدس کتاب کی تلاوت سے مزین کرنا ہے.ابھی چند ہی دنوں تک رمضان کے بابرکت ایام شروع ہونے والے ہیں.ان مبارک ایام کو بھی قرآن کریم سے خاص مناسبت ہے.ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے میں بالخصوص اس کی تلاوت کا اہتمام فرمایا کرتے تھے.آپ ہر سال حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ رمضان میں قرآن کریم کا ایک دور مکمل فرمایا کرتے تھے.

Page 104

94 پس رمضان کے ایام میں بالخصوص اور باقی سارا سال بالعموم اپنے گھروں میں خود بھی تلاوت کو رواج دیں اپنے بچوں بچیوں کو بھی تلاوت کی تلقین کریں.اور جنہیں نہیں پڑھنا آتا ان کو سکھانے کی اور ترجمہ کی کلاسیں منعقد کریں.اللہ آپ سب کو قرآن کریم کے انوار اور فیوض و برکات سے نوازے اور آپ کو اپنی زندگیاں اس کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے.اللہ آپ سب کے ساتھ ہو اور آپ کے اجتماع کو ہر لحاظ سے کامیاب فرمائے.آمین والسلام خاکسار دستخط (مرزا مسرور احمد ) خليفة المسيح الخامس اللہ تعالیٰ کے حکموں کی طرف جو قرآن میں ہیں اس طرف توجہ ہونی چاہئے دورہ جرمنی 2008ء کے موقعہ پر واقفات کو سے مخاطب ہو کر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ہے کہ: ”ہر واقفہ نو جو ہے اس کا اللہ تعالیٰ سے تعلق ہو اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کس طرح ہوگا ؟ جب نمازوں کی طرف توجہ ہوگی ، جب دعاؤں کی طرف توجہ ہوگی.جب قرآن کریم پڑھنے کی طرف توجہ ہوگی ، جب اللہ تعالیٰ نے جو مختلف حکم دئے ہیں قرآن کریم میں ان کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی طرف توجہ ہوگی تب تم لوگ کہلا سکتی ہو کہ صحیح واقفہ نو ہو اور ایک صحیح مومنہ عورت ہو یالڑ کی ہو تو اس طرف توجہ رکھوا اپنی پڑھائی کے دوران بھی نمازوں کی طرف

Page 105

95 توجہ رہنی چاہئے.نفل پڑھنے کی طرف توجہ رہنی چاہئے جیسا کہ لڑکوں کو میں نے کہا تھا.قرآن کریم پڑھنے کی طرف توجہ رہنی چاہئے.اللہ تعالیٰ کے بہت سارے حکم ہیں قرآن کریم میں ان کی طرف توجہ رہنی چاہئے.(بحوالہ اخبار بدر 8 جنوری 2009ء) دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کی تعلیم اور دینی تعلیم کی طرف بھی توجہ ہونی چاہئے 2008ء میں ہندوستان صوبہ کیرلہ کے دورہ کے دوران لجنہ اماءاللہ سے خطاب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہمیشہ یادرکھیں کہ صرف دنیوی پڑھائی کو حاصل کرنا آپ کا مقصد نہیں ہے سو فیصد Literacy Rate کے ساتھ آپ لوگوں کو اسی شوق کے ساتھ قرآن کریم کی تعلیم اور دینی علم سیکھنے کی طرف توجہ پیدا ہونی چاہئے تا کہ اپنے آپ کو بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والی بنا ئیں اور آئندہ اپنی نسلوں کو بھی صحیح تربیت پر چلانے والی بنا سکیں.اسی لئے اس طرف خاص طور پر توجہ دیں تا کہ اپنی دنیا و آخرت بھی سنوارنے والی ہوں اور اپنی آئندہ نسلوں کو بھی.انشاء اللہ ( بحوالہ اخبار بدر 8 /جنوری 2009 ء جلد 58 شماره 2 ) تلاوت قرآن کریم کے سنہرے اصول اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فجر کے اوقات کی تلاوت کی اہمیت بیان فرمائی ہے که { وَ قُرآنَ الفجر } اور قرآن اور فجر کی تلاوت کو اہمیت دو اور پھر فرما یا لان قرآن

Page 106

96 الفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا } ( بنی اسرائیل ) کہ یقینا فجر کو قرآن پڑھنا ایسا ہے کہ اس کی گواہی دی جاتی ہے.پس یہ صبح کے وقت کی تلاوت ہر مومن کے لئے گواہ بن رہی ہوں گی.لیکن کیا صرف پڑھ لینا ہی کافی ہے.ہماری دنیا و آخرت سنوارنے کے لئے اور ہمارے حق میں گواہی دینے کے لئے صرف اتنا ہی کافی نہیں بلکہ جو تلاوت کی ہے اس کا سمجھنا بھی ضروری ہے.تبھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی عبد اللہ بن عمر ورضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا میں نے ضمنا پہلے بھی ذکر کیا تھا لیکن تفصیلی حدیث یہ ہے.آپنے فرمایا: قرآن کریم کی تلاوت ایک ماہ میں مکمل کیا کرو.( بخاری کتاب فضائل القرآن باب في كم يقرا القرآن) تا کہ آہستہ آہستہ جب پڑھو گے ،غور کرو گے سمجھو گے تو گہرائی میں جا کر اس کے مختلف معانی تم پر ظاہر ہوں گے.لیکن جب انہوں نے کہا کہ میرے پاس وقت بھی ہے اور اس بات کی استعداد بھی رکھتا ہوں کہ زیادہ پڑھ سکوں تو آپ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے پھر ایک ہفتہ میں ایک دور مکمل کر لیا کرو اس سے زیادہ نہیں.تو آپ صحابہ کو سمجھانا چاہتے تھے.کہ صرف تلاوت کر لینا، پڑھ لینا کافی نہیں ہے.انسان جلدی جلدی پڑھنا شروع کرے تو دس گیارہ گھنٹے میں پورا قرآن پڑھ سکتا ہے لیکن اس میں سمجھ خاک بھی نہیں آئے گی.بعض تراویح پڑھنے والے حفاظ اتنا تیز پڑھتے ہیں کہ سمجھ ہی نہیں آتا کہ کیا الفاظ پڑھ رہے ہیں.جماعت میں تو میرے خیال میں اتنا تیز پڑھنے والا شاید کوئی نہ ہولیکن غیر از جماعت کی مساجد میں تو 18-20 منٹ میں یا زیادہ سے زیادہ آدھے گھنٹے میں ایک پارہ بھی پڑھ لیتے ہیں اور دس گیارہ رکعت نفل بھی پڑھ لیتے ہیں.تو اتنی جلدی کیا خاک سمجھ آتی ہوگی؟ تلاوت کرنے کی بھی ہر ایک کی اپنی استعداد ہوتی ہے اور انداز ہوتا ہے.کوئی واضح الفاظ کے ساتھ زیادہ جلدی بھی پڑھ سکتا ہے.کچھ زیادہ آرام سے پڑھتے ہیں لیکن ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ تلاوت سمجھ کر کرو.قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

Page 107

97 { وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلا) (المزمل:۴) کہ قرآن کو خوب نکھار کر پڑھا کرو.اب جس نے 18-20 منٹ میں یا آدھے گھنٹے میں نماز پڑھانی ہے اور قرآن کریم کا ایک پارہ بھی ختم کرنا ہے، اس نے کیا سمجھنا اور کیا نکھارنا ہے.حضور انور کا تلاوت کا طریق ایک دفعہ میں وقف عارضی پر کسی کے ساتھ گیا ہوا تھا.تو ایک دن صبح کی نماز کے بعد ہم تلاوت سے فارغ ہوئے تو وہ مجھے کہنے لگے کہ میاں تم سے مجھے ایسی امید نہیں تھی.میں سمجھا پتہ نہیں مجھ سے کیا غلطی ہوگئی.میں نے پوچھا ہوا کیا ہے.کہنے لگے میں دو تین دن سے دیکھ رہا ہوں کہ تم تلاوت کرتے ہو تو بڑی ٹھہر ٹھہر کے تلاوت کرتے ہو.اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اسکتے ہو تمہیں ٹھیک طرح قرآن کریم پڑھنا نہیں آتا.تو میں نے انکو کہا کہ اٹکتا نہیں ہوں بلکہ مجھے اسی طرح عادت پڑی ہوئی ہے.ہر ایک کا اپنا اپنا طریق ہوتا ہے.اس حدیث کا حوالہ تو نہیں پتہ تھا.قرآن کی یہ آیت میرے ذہن میں نہیں آئی لیکن میں نے کہا کہ تیز پڑھنا بھی آتا ہے بے شک تیز پڑھنے کا مقابلہ کر لیں لیکن بہر حال جس میں مجھے مزا آتا ہے اسی طرح میں پڑھتا ہوں ، تلاوت کرتا ہوں.تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بعض لوگ اپنی علمیت دکھانے کے لئے بھی سمجھتے ہیں کہ تیز پڑھنا بڑا ضروری ہے حالانکہ اللہ اور اللہ کے رسول کہہ رہے ہیں کہ سمجھ کے پڑھو تا کہ تمہیں سمجھ بھی آئے اور یہی مستحسن ہے.اور جیسا کہ میں نے کہا ہر ایک کی اپنی اپنی استعداد ہے.ہر ایک کی اپنی سمجھنے کی رفتار اور اخذ کرنے کی قوت بھی ہے تو اس کے مطابق بہر حال ہونا چاہئے اور سمجھ کر قرآن کریم کی تلاوت ہونی چاہئے.قرآن کریم کا ادب بھی یہی ہے کہ اس کو سمجھ کو پڑھا جائے.اگر اچھی طرح ترجمہ آتا بھی ہو تب بھی سمجھ کر ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کا حق ادا کرتے ہوئے پڑھنا چاہئے تاکہ ذہن اس حسین تعلیم سے مزید روشن ہو.پھر جب انسان سمجھ

Page 108

98 لے، ہر ایک کا اپنا علم ہے اور استعداد ہے جس کے مطابق وہ سمجھ رہا ہوتا ہے جیسا کہ میں نے کہا لیکن قرآن کریم کا فہم حاصل کر کے اس کو بڑھانا بھی مومن کا کام ہے.ایک جگہ ہی یہ تعلیم محدود نہیں ہو جاتی.تو جتنی بھی سمجھ ہے ، بعض تو بڑے واضح احکام ہیں، سمجھنے کے بعد ان پر عمل کرنا بھی ضروری ہے.کسی بھی اچھی بات کا یا نصیحت کا فائدہ بھی ہوسکتا ہے جب وہ نصیحت پڑھ یا سن کر اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی ہو رہی ہوگی.کیونکہ تلاوت کا ایک مطلب پیروی اور عمل کرنا بھی ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ فرمایا دیا ہے کہ یہ قرآن میں نے تمہارے لئے ، ہر اس شخص کے لئے جو تمام نیکیوں اور اچھے اعمال کے معیار حاصل کرنا چاہتا ہے اس قرآن کریم میں یہ اعلیٰ معیار حاصل کرنے کے لئے تمام اصول اور ضابطے مہیا کر دئے ہیں.ہر قسم کے آدمی کے لئے ، ہر قسم کی استعداد رکھنے والے کے لئے ، اور نہ صرف یہ کہ جیسا کہ میں نے کہا کسی خاص آدمی کے لئے نہیں رکھے ہیں بلکہ ہر طبقے اور ہر معیار کے آدمی کے لئے رکھے ہیں.اور اس میں ہر آدمی کے لئے نصیحت ہے وہ اپنی استعداد کے مطابق سمجھ لے، فرمایا { وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ } ( القمر : ۱۸) اور یقینا ہم نے قرآن کو نصیحت کی خاطر آسان بنادیا ہے.پس کیا ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا.اب یہ ہمارے پر ہے کہ ہم اس تعلیم کو کس حد تک اپنے اوپر لاگو کرتے ہیں اور اس کی تعلیمات سے نصیحت پکڑتے ہیں.قرآن کریم کو مہجور کی طرح نہ چھوڑیں پس آج ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس رمضان میں اس نصیحت سے پُر کلام کو، جیسا کہ ہمیں اس کے زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی توفیق مل رہی ہے، اپنی زندگیوں پر لاگو بھی کریں.اس کے ہر حکم پر جس کے کرنے کا ہمیں حکم دیا گا ہے اس پر عمل کریں.اور جن باتوں کی مناہی کی گئی ہے، جن باتوں سے روکا گیا ہے ان سے رکیں، ان سے بچیں اور کبھی

Page 109

99 بھی ان لوگوں میں سے نہ بنیں جن کے بارے میں خود قرآن کریم میں ذکر ہے.فرمایا کہ {وَقَالَ الرَّسُوْلُ يَا رَبِّ اِنَ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا} (الفرقان : ۱۳) اور رسول کہے گا اے میرے رب یقینا میری قوم نے اس قرآن کو متروک کر چھوڑا ہے.یہ زمانہ اب وہی ہے.جب بہت ساری دلچسپیوں کے سامان پیدا ہو گئے ہیں.پڑھنے والی کتابیں بھی اور بہت سی آچکی ہیں اور بہت ساری دلچسپیوں کے سامان پیدا ہو گئے ہیں انٹرنیٹ وغیرہ ہیں جن پر ساری ساری رات یا سارا سارا دن بیٹھے رہتے ہیں.اس طرح ہے کہ نشے کی حالت ہے اور اس طرح کی اور بھی دلچسپیاں ہیں.خیالات اور نظریات اور فلسفے بہت سے پیدا ہو چکے ہیں.جو انسان کو مذہب سے دور لے جانے ولاے ہیں اور مسلمان بھی اس کی لپیٹ میں ہیں.دنیا میں سارا معاشرہ ہی ایک ہو چکا ہے.قرآنی تعلیم کو پس پشت ڈال کر اپنی مرضی کی تعلیمات پر ہر جگہ عمل ہو رہا ہے.یہی زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ ہے.اسی زمانے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ قرآن کو متروک چھوڑ دیا ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی ہیں جنہوں نے قرآن کریم کی اس متروک شد تعلیم کو دنیا میں دوبارہ رائج کرنا ہے اور آپ نے یہ رائج کرنا تھا بھی اور آپ نے یہ رائج کر کے دکھایا بھی ہے.آج ہم احمدیوں کی ذمہ داری ہے، ہر احمدی کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآنی تعلیم پر نہ صرف عمل کرنے والا ہو، اپنے پر لاگو کرنے والا ہو بلکہ آگے بھی پھیلائے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ فقرہ ہمارے ذہن میں ہونا چاہئے کہ جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے.ہم ہمیشہ قرآن کے ہر حکم اور ہر لفظ کو عزت دینے والے ہوں.اور عزت اس وقت ہوگی جب ہم اس پر عمل کر رہے ہوں گے.اور جب ہم اس طرح کر رہے ہوں گے تو قرآن کریم ہمیں ہر پریشانی سے نجات دلانے والا اور ہمارے لئے رحمت کی چھتری ہوگا.جیسا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ { وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءَ وَرَحْمَةً لِلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ

Page 110

100 الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَاراً} (بنی اسرائیل :83) اور ہم قرآن میں سے وہ نازل کرتے ہیں جو شفا ہے اور مومنوں کے لئے رحمت ہے اور وہ ظالموں کو گھاٹے کے سوا اور کسی چیز میں نہیں بڑھاتا.“ الخبر افضل برنیشنل 11 تا 17 نومبر 2005 پکوان مشعل را جلد پنجم حصہ سوم صفحہ 504تا506 ایڈیشن 2007 انڈیا) قرآن کریم کا ترجمہ سیکھیں حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا.پھر قرآن شریف جب آپ پڑھیں پندرہ سولہ سال کی عمر کے بچے ہیں بلکہ چودہ سال کی عمر میں بھی.اب یہ بڑی عمر کے بچے ہیں، Mature ہو گئے ہیں ،سوچیں ان کی بڑی Mature ہونی چاہئیں اس عمر میں آکے آپ لوگ اپنے مستقبل کے بارے میں، اپنے Future کے بارے میں بھی سوچنا شروع کر دیتے ہیں.تو اس میں خاص طور پر یاد رکھیں کہ قرآن شریف جب آپ پڑھ رہے ہیں تو اس کا ترجمہ سیکھنے کی کوشش کریں.کیوں کہ یہ بھی ایک حدیث ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن شریف جو ہے اس کا ایک سرا خدا کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور دوسرا سرا تمہارے ہاتھ میں.یہی مطلب ہے کہ اگر تم لوگ اس کو پڑھو اور اس پر عمل کرو، اس کو سمجھو تو تم نیکیاں کرنے کی کوشش کرو گے اور جب تم نیکیاں کرو گے اللہ تعالیٰ تک تم پہنچ سکو گے.دعائیں کرنے کا تمہیں موقعہ ملے گا.نمازیں پڑھنے کا تمہیں مزہ آئے گا اور پھر اللہ تعالیٰ کے جو حکم ہیں ان کو سمجھنے کی توفیق ملے گی.تو یہ جس طرح میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ صرف طوطے کی طرح یاد کرنا کہ زبانی یاد کر لیا اور بس کافی ہو گیا.جو سیکھنا ہے اس پر علم کرنے کی بھی کوشش کرنی ہے.اور اسی طرح آپ لوگ جو پڑھائی کرتے ہیں اس میں بھی دنیا وی دوسری تعلیم جو سکول کی تعلیم ہے، اس میں بھی یہ چیز یا درکھیں کہ جو وہاں آپ سیکھ رہے ہیں اس کو دین کی

Page 111

101 تعلیم کے ساتھ ملا کے سیکھیں.تا کہ جو ایسے لوگ ہیں جن کو مذہب کا پتہ نہیں ایسے بچے آپ کو سکول میں آپ سے بحث کرتے ہیں، بات کرتے ہیں بعض لوگ خدا تعالیٰ کو نہیں مانتے تو ان کو سمجھانے کے لئے بھی دین سیکھیں اور دین کو اس تعلیم کے ساتھ ملا ئیں تا کہ آپ ان کو سمجھا سکیں کہ اللہ تعالیٰ کی بھی ایک ذات ہے اسی نے دنیا کو پیدا کیا ہے.اسی کی ہمیں خدمت کرنی چاہئے اور اسی سے سب کچھ مانگنا چاہئے.“ ارشادات حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی حوالہ مشعل راہ جلد پنجم حصہ دوم صفحہ 365,364 ایڈیشن انڈیا 2007ء) تربیتی کلاس کا مقصد دین کا علم سیکھنا ہے حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا.یہ تربیتی کلاسیں جو منعقد کی جاتی ہیں جماعت احمد یہ میں ان کا مقصد یہ ہے کہ آپ دین کا علم سیکھیں دنیا کی تعلیم کے لئے تو سکولوں میں جاتے ہیں، چھ سات گھنٹے سکول میں رہتے ہیں، وہاں پڑھتے ہیں پھر گھر آکے بھی سکول کی پڑھائی کر رہے ہوتے ہیں.دین کی پڑھائی کی طرف کم توجہ ہوتی ہے، حالانکہ دنیا کی تعلیم کے ساتھ ساتھ دین کی تعلیم سیکھنے کی طرف بھی باقاعدگی سے توجہ ہونی چاہئے.اس لئے پہلی چیز جو ہے دین سکھانے کے لئے ایک احمدی بچے کے لئے وہ ہے قرآن شریف کا پڑھنا.مجھے یہ بتائیں ہاتھ کھڑے کر کے وہ بچے جو روزانہ قرآن شریف کی تلاوت کرتے ہیں.Thirty Percent ( تیس فیصد ) میرا خیال ہے تو باقی بھی دین سیکھنا جو ہے نا بہت ضروری چیز ہے اور اس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بڑی خاص تاکید فرمائی ہے.یہ نہیں ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کرنی ہے صرف اس لئے کی امی ابو نے کہہ دیا ہے کہ ضرور پڑھنا ہے یا میں نے کہہ دیا کہ تلاوت کیا کریں پوچھا جائے گا.یا آپ کی جو تنظیم ہے جماعت والے پوچھتے ہیں خدام الاحمدیہ والے یا ناظم اطفال پوچھیں گے تو بلکہ غور سے

Page 112

102 پڑھیں شوق سے پڑھیں اس لئے کہ ہم نے دین سیکھنا ہے اور اس میں سنجیدگی اختیار کریں، پھر یہاں جو آپ لوگوں نے تین چار دنوں میں سیکھا ہے ( چار دن کا ہی کورس تھا نا؟) تو اس میں آپ کو قرآن شریف بھی پڑھایا گیا حدیث بھی پڑھائی گئی اس کا امتحان بھی ہوا اور دینی معلومات کا بھی امتحان ہوا تو اس ساری چیزوں کو جو آپ نے یہاں سیکھیں ہیں وہ اس لئے تھی کہ آپ کو تھوڑی سی عادت ڈالی جائے تاکہ شوق پیدا ہو اور گھر جاکے بھی آپ دین سیکھیں.علم سکھانے والے کا عزت و احترام کریں پھر آپ نے یہاں آداب سیکھے ہیں یا Etiquettes جنہیں کہتے ہیں.اس میں ایک یہ بھی ہے کہ آپ کو کوئی بھی علم سکھانے والا چاہے دینی علم ہو یا دوسرا علم جو بھی آپ سیکھتے ہیں جو بھی آپ کو سکھانے والے ہیں ان کا عزت واحترام کریں آپ کی جماعت میں آپ کی مجلس میں ناظم اطفال ہیں یا منتظم اطفال ہیں جو آپ کی دینی تربیت کی بھی کوشش کرتے ہیں ایک تنظیم کے تحت ان سے بھر پور تعاون کریں.ان کی عزت کریں ان کا احترام کریں.اسی طرح اپنے سکول میں ٹیچر ز کا بھی احترام اور عزت کریں.اور ایک احمدی بچے کے لئے خاص نشان ہونا چاہئے کہ وہ اپنے استادوں کی عزت کرتے ہیں.دین سیکھنا بہت بڑی نیکی ہے پھر دین سیکھنا ایک اتنی بڑی نیکی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کے لئے کوئی اچھی بات کا ارادہ کرتا ہے یہ چاہتا ہے کہ وہ شخص نیک بنے اور نیکیاں کرے اور اللہ میاں کا پیار حاصل کرے تو اس کے ذہن کو دین سیکھنے کی طرف متوجہ کرتا ہے، اس طرف توجہ دلاتا ہے.اس کے اندر شوق پیدا کرتا ہے کہ وہ دین

Page 113

103 سیکھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تو یہ دین کی تعلیم جو ہے تقسیم کرنے کے لئے آیا ہوں اور عطا کرنے والی ذات جو ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ہے، اس لئے جب بھی آپ لوگ دین سیکھ رہے ہوں پڑھ رہے ہوں.قرآن شریف پڑھ رہے ہوں کسی سے بھی خود پڑھ رہے ہیں یا نیا نیا پڑھنا شروع کیا ہے یا قرآن شریف کا ترجمہ پڑھنا شروع کیا ہے، اس کی Translation سیکھ رہے ہیں یا حدیث پڑھ رہے ہیں یا کوئی اور دینی کتاب پڑھ رہے ہیں تو ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کا فضل مانگیں اس سے دعا بھی کیا کریں کہ اللہ میاں آپ کو جو کچھ آپ پڑھ رہے ہیں اس کو سیکھنے کی اور سمجھنے کی بھی توفیق عطا فرمائے.کیوں کہ دین سکھانے والی ذات جو ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.خود یہ نہ سمجھیں کہ کتابیں پڑھ کے صرف آپ کو خود ہی علم آ جائے گا.“ مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم صفحہ 362 تربیتی کلاس 31 دسمبر 2003ء ایڈیشن 2007 ، انڈیا) محنت کی عادت ڈالیں پھر محنت ہے، محنت کی عادت ڈالیں کیوں کہ آپ نے بڑے ہونا ہے جماعت کی ساری ذمہ داریاں آپ پر پڑنے والی ہیں.اس لئے آپ کو چاہئے کہ محنت کریں تعلیم کے معاملے میں دینی تعلیم میں بھی دنیاوی تعلیم میں بھی محنت کریں اور سیکھیں اور جب آپ کو محنت کی عادت پڑ جائے گی اور علم بھی اس وجہ سے حاصل ہو جائے گا.پھر آئندہ بڑے ہو کے آپ جماعت کے بھی اچھے کام کر سکتے ہیں.دنیاوی تعلیم کے لحاظ سے تو ہر ایک کی اپنی اپنی دلچسپی ہوتی ہے.کوئی ڈاکٹر بننا چاہے گا، کوئی انجینئر بننا چاہے گا، کوئی وکیل بنا چاہے گا، کوئی ریسرچ میں جائے گا تو وہ بے شک تعلیم حاصل کریں لیکن ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی اسی محنت سے آپ کو حاصل کرنی چاہئے.

Page 114

104 روزانہ قرآن کریم پڑھیں اور کلاسوں میں شامل ہوں اور اس کے لئے ضروری ہے کہ قرآن کریم پڑھیں.قرآن کریم پڑھیں گے تو آپ کو پتہ لگے گا کہ ہم نے کیا کیا کچھ کرنا ہے، کیا کیا کچھ اللہ میاں نے ہمیں حکم دیئے ہیں، کیا تعلیم دی ہے.تو اس طرح آپ کو بہت سارے فائدے ہوں گے.مجھے امید ہے کہ اکثر بچے ہمارے جو دس سال سے اوپر کے ہیں با قاعدہ قرآن کریم پڑھتے ہوں گے.اگر نہیں پڑھتے تو پڑھنے کی عادت ڈالیں.روز کم از کم ایک رکوع پڑھا کریں اور کلاسوں میں شامل ہوا کریں.خدام الاحمدیہ اگر کلاسیں لگاتی ہے تو بڑی اچھی بات ہے.نہیں لگاتی ہیں تو لگانی چاہئیں.تاکہ بچوں کو بتائیں تو جب آپ لوگ اس طرح تعلیم حاصل کریں گے تو ان شاء اللہ تعالیٰ جماعت کے لئے بہت مفید وجود بن جائیں گے، جماعت کا ایک بہت مفید حصہ بن جائیں گے.“ وو مشعل راه جلد پنجم حصہ دوم صفحہ 350 ایڈیشن 2007 انڈیا ) قرآن کریم کا پڑھنا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے...اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ : ذَلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًى لِلْمُتَّقِين (البقرہ) یہ وہ کتاب ہے اس میں کوئی شک نہیں ھدایت دینے والی ہے متقیوں کو.پس جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے.اپنے رب کی عبادت کرو تو تقوی میں بڑھو گے.اور تقوی میں بڑھنے کے لئے قرآن کریم جو خدا کا کلام ہے اس کو بھی پڑھنا ضروری ہے اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے.پس تقوی اس وقت تک مکمل نہیں ہو گا جب تک قرآن کریم کو پڑھنا اور اس پر عمل کرنا زندگیوں کا حصہ نہ بنالیا جائے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اللہ جل شانہ نے قرآن کریم کے نزول کی علت غالى هُدًا لِلْمُتَقِین قرار دی ہے یعنی اس کا مقصد متقیوں کے لئے ھدایت

Page 115

105 ہے.اور قرآن کریم سے رشد ھدایت اور فیض حاصل کرنے والے بالتخصیص متقیوں کو ہی ٹھہرایا ہے.“ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۳۹) یعنی خاص طور پر جو تقوی میں بڑھنے والے ہوں گے وہی قرآن کریم سے راہنمائی حاصل کریں گے.سب روزانہ تلاوت کی عادت ڈالیں ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب بھی کوئی قوم قرآن کریم پڑھنے کے لئے خدا تعالیٰ کے گھر میں سے کسی گھر میں اکٹھی ہوتی ہے تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے اور رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے ان کے گرد حلقے بنا لیتے ہیں.(سنن ابی داؤد کتاب الوتر فی ثواب قراۃ القرآن) پس اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کے لئے اور فرشتوں کے حلقوں میں آنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک قرآن کریم پڑھے اور اس کو سمجھے اپنے بچوں کو پڑھائیں، انہیں تلقین کریں کہ وہ روزانہ تلاوت کریں.اور یاد رکھیں کہ جب تک ان چیزوں پر عمل کرنے کے ماں باپ کے اپنے نمونے بچوں کے سامنے قائم نہیں ہو نگے اس وقت تک بچوں پہ اثر نہیں ہوگا.اس لئے فجر کی نماز کے لئے بھی انہیں اور اس کے بعد تلاوت کے لئے اپنے پر فرض کریں کہ تلاوت کرنی ہے پھر نہ صرف تلاوت کرنی ہے بلکہ توجہ سے پڑھنا ہے اور پھر بچوں کی بھی نگرانی کریں کہ وہ بھی پڑھیں، انہیں بھی پڑھائیں.جو چھوٹے بچے ہیں ان کو بھی پڑھایا جائے.“ (خطبہ جمعہ 16 ستمبر 2005 بحوالہ مشعل راہ جلد پنجم حصہ سوم صفحہ 481 ایڈیشن 2007 ء انڈیا)

Page 115