Language: UR
یہ کتاب خلافت احمدیہ کے سو سال مکمل ہونے پر شائع کی جانے والی کتب میں سے ایک ہے جسے صد سالہ خلافت احمدیہ کی مرکزی جوبلی کمیٹی کے زیر اہتمام تیار اور طبع کروایا گیا ہے ۔اس میں خلفائے احمدیت کی تحریکات کے عنوان سے مکرم عبدالسمیع خان صاحب نے سلسلہ کے لٹریچر کے ہزاروں صفحات سے یہ مبسوط مواد جمع کرکے مرتب کیا ہے اور ان تحریکات کے شیریں ثمرات پر بھی بات کی گئی ہے۔ قریباً 600 صفحات کی اس کتاب میں با حوالہ مواد کو قرینے سے سجایا گیا ہے۔ جماعت احمدیہ کے قیام کو اب تک 120 سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے، اس طویل دور کا سرسری مطالعہ ہی اظہر من الشمس کر رہا ہے کہ روز اول سے ہی جماعت کی ایک ہی پالیسی، ایک ہی نصب العین اور ایک ہی رخ ہے جو بانی جماعت احمدیہ نے متعین فرمایا تھا۔ ایک کے بعد ایک امام اور سربراہ چلا آتا ہے اور اسی منزل کی طرف جماعت کے قدموں میں تیزی پیدا کرتا جاتا ہے۔ نہ کوئی اختلاف ہے نہ کوئی تبدیلی، ترمیم اور تنسیخ۔ ہر آنے والا، وقت کی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق سابقہ کام کو آگے بڑھاتا ہے اور عزم و عمل کی نئی سے نئی راہیں احباب جماعت کے لئے وا کرتا چلا جاتا ہے۔
خلفاء احمدیت کی تحریکات اور ان کے شیریں ثمرات
تعارف خلافت احمد یہ صد سالہ جو بلی 2008 ء کے مبارک موقعہ پر حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جن کتب کی تدوین و اشاعت کی منظوری عطا فرمائی ہے.ان میں سے ایک اہم کتاب تحریکات خلفائے احمدیت اور ان کے شیر میں ثمرات ہے جس کی تدوین کا کام مکرم محترم جناب عبدالسمیع خان صاحب ایڈیٹر روز نامہ الفضل کے سپر دکھا اور نظارت اشاعت کے ذمہ اس کی طباعت و اشاعت ہے.الحمد للہ ! آپ نے بہت محنت سے ہزاروں صفحات پر پھیلی ان معلومات کو جمع کر کے انہیں خوبصورتی سے مدون کیا ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اسلام کے عالمگیر غلبہ کے لئے مبعوث فرمایا ہے اور اس نظیم کام کے لئے ایک طویل المدت پروگرام ہے جس کے لئے ہماری ایک یا دو نسلوں کی قربانیاں مکلفی نہیں اس کے لئے مسلسل قربانیوں کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ نے اس مقصد کے لئے قدرت ثانیہ کے طور پر احمدیت کو خلفاء کے ایسے مبارک وجود بخشے ہیں جو ہماری قربانیوں میں تسلسل کے ضامن ہیں.تاریخ کے ہر موڑ پر جس لائحہ عمل کی ضرورت ہوتی ہے.اس کے لئے اللہ تعالیٰ ان خلفاء کے دلوں میں مناسب تحریکات القاء فرماتا ہے اور وہ ان تحریکات کو جماعت کے سامنے پیش کرتے ہیں.ان تحریکات کے شیر میں ثمرات اس بات کا ثبوت ہوتے ہیں کہ یہ تحریکات الہی منشاء سے خلفاء کے دلوں پر نازل ہوتی ہیں.لہذا ہر احمدی مردوزن کا فرض ہے کہ وہ خلفاء کی پیش کردہ تحریکات کو الہی تحریکات سمجھ کر ان پر حتی المقدور عمل کرے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.کتاب کے مرتب محترم جناب عبدالسمیع خان صاحب ایڈیٹر روز نامہ الفضل ربوہ اور ان کے معاونین جماعت کی دعاؤں کے مستحق ہیں.اللہ تعالیٰ جملہ کارکنان کو نیک جزاء عطا فرمائے.
حرف آغاز آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر فرمایا تھا:.خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ( صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب فضل الصحابہ حدیث نمبر 4601) کہ بہترین صدی میری صدی ہے اور اس کے بعد دوسری اور تیسری صدی.ان تین صدیوں میں اسلام اپنے عروج کو پہنچا.کیا بلحاظ تقویٰ، کیا بلحاظ علوم اور بلحاظ وسعت اسلام تمام ادیان سے سبقت لے گیا.پھر تنزل کا دور شروع ہوا جو ایک طویل تاریک رات سے مشابہ تھا.جس کے بعد طلوع فجر اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے یہ بشارت دی تھی کہ اس انتہائی گہری تاریکی کے زمانہ کے بعد اللہ تعالیٰ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی قوت قدسیہ کے طفیل امام مہدی اور مسیح موعود کو مبعوث کرے گا جس کے ذریعہ سچائی کو پہلی سی رفعت اور شان نصیب ہوگی اور دین حق کے کل ادیان پر غلبہ کا وعدہ جو آیت لیظهره علی الدین کلہ میں مذکورہ ہے وہ اس کے زمانہ میں پورا ہوگا.اس پیشگوئی کے مطابق حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے امام مہدی اور مسیح موعود ہونے کا دعوی فرمایا اور غلبہ اسلام کی ایک عظیم الشان مہم کی داغ بیل ڈالی.جس کا ایک پہلو دلوں میں بچے ایمان کو قائم کرنا اور دوسرا پہلو دین سے بے بہرہ دنیا کو آغوش حق میں لانا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی خبر دی کہ غلبہ اسلام کا یہ عظیم منصوبہ ایک لمبے عرصہ پر پھیلا ہوا ہے جو قریباً تین سو سال میں اپنے کمال کو پہنچے گا.چنانچہ آپ نے اس کی پیشگوئی کرتے ہوئے فرمایا :.بھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسی کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخمریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.(تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد 20 ص 67) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ خوشخبری بھی دی کہ آپ کے مشن کی تکمیل کے لئے آپ کے بعد صلى الله اللہ تعالیٰ قدرت ثانیہ کا ظہور فرمائے گا اور دائمی خلافت علی منہاج نبوت قائم ہوگی ، جو رسول کریم علی
کی پیشگوئی کے مطابق ہے.جس میں آپ نے فرمایا ثم تكون خلافة على منهاج النبوة- ( مشکوۃ المصابیح کتاب الرقاق باب الانذار والتحذير ) یعنی امت کے آخری دور میں خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہوگی اور وہ خلافت راشدہ کے نقوش قدم پر چلتے ہوئے دین کو نئی زندگی اور تازگی سے ہمکنار کرے گی اور مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو پورا کرے گی.حضرت مسیح موعود نے فرمایا:.وہ اس سلسلہ کو پوری ترقی دے گا.کچھ میرے ہاتھ سے اور کچھ میرے بعد.یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور ان کو غلبہ دیتا ہے.لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک نا کامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے مخالفوں کو ہنسی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقع دے دیتا ہے اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر نا تمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں.غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے (1) اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے (2) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں.تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.سواے عزیزو! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا دے.سواب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا دیکھنا بھی ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی“.الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 ص305,304)
چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد 27 مئی 1908ء کو جماعت احمدیہ میں خلافت کا نظام قائم ہوا اور منشائے الہی کے تحت حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب بھیروی قدرت ثانیہ کے پہلے مظہر قرار پائے اور اس طرح مندرجہ ذیل مقدس وجود یکے بعد دیگرے اس منصب پر فائز ہوئے.1.حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب بھیروی خلیفتہ امسیح الاول 27 مئی 1908ء تا 13 مارچ 1914ء 2.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ اسیح الثانی 14 مارچ 1914 ء تا 8 نومبر 1965ء 3- حضرت صاحبزادہ مرزا ناصراحمد صاحب خلیفہ امسح الثالث؟ نومبر 1965 ء تا 9 جون 1982ء| 4.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ مسیح الرابع 10 جون 1982 ء تا19 را پریل 2003 ء 5 - حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ 22 را پریل 2003 ء سے اس منصب کی زینت ہیں.خلافت احمدیہ کا سارا نظام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کی تکمیل کے لئے وقف ہے اور یکے بعد دیگرے قدرت ثانیہ کے مظاہر حضرت مسیح موعود کے مقاصد کو پورا کرنے کے لئے تن من دھن کی بازی لگائے ہوئے ہیں.جماعت احمدیہ کے قیام کو اب 120 سال کا عرصہ گزررہا ہے.اس تمام عرصہ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیشگوئیوں کے مطابق جماعت احمدیہ کی ایک ہی پالیسی ، ایک ہی رخ اور ایک ہی نصب العین ہے جو بانی جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعین کیا ہے.ایک کے بعد ایک امام اور سر براہ آتا چلا جاتا ہے اور اسی منزل کی طرف جماعت کے قدموں میں مزید تیزی پیدا کرتا جاتا ہے.نہ کوئی اختلاف ہے نہ کوئی تبدیلی نہ ترمیم وتنتی.ہاں ہر آنے والا ، وقت کی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق سابقہ کام کو آگے بڑھاتا ہے اور عزم و عمل کے مزید پروگرام جماعت کو دیتا ہے.انہی پروگراموں اور لائحہ عمل کو جماعت میں تحریکات کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جو کشتی احمدیت کو بھرے ہوئے طوفانوں سے بچاتے ہوئے رفتار میں تندی پیدا کر دیتے ہیں.جماعت کے خلفاء نے اللہ کی منشاء اور رہنمائی کے تابع بیسیوں روحانی تربیتی علمی اور انتظامی تحریکیں جاری کی ہیں.اب جبکہ خلافت احمدیہ (1908 ء-2008ء کو 100 سال پورے ہو رہے ہیں مرکزی جوبلی منصوبہ کے تحت خلفاء سلسلہ کی تحریکات پر یہ مبسوط کتاب شائع کی جارہی ہے.جس
iv میں مختلف عناوین کے تابع خلفاء کی تحریکات کو یکجا کر دیا گیا ہے.نیز بعد میں آنے والے خلفاء نے ان تحریکوں میں حسن کے جو مزید رنگ بھرے اور ان تحریکوں نے جو اثرات پیدا کئے ان کا بیان بھی شامل کر دیا گیا ہے.یہ تحریکات احمدیت کے شجر پر بہار کے وہ پھل پھول ہیں جو دور خزاں میں بھی رونق چمن بنے رہتے ہیں اور خدا ان میں ایسی برکت ڈالتا ہے جو الہی تقدیروں ہی کی فسوں کاری ہے کسی انسان کے بس کی بات نہیں.سید نا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ المسیح الرابع نے 29 جولا ئی 1984ء کو خدام الاحمدیہ کے یورپین اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.اللہ تعالیٰ جب بھی کوئی تحریک جماعت احمدیہ کے کسی بھی امام کے دل میں ڈالتا ہے تو اس کے متعلق آپ کو پوری طرح مطمئن ہونا چاہئے کہ ضرور کوئی الہی اشارے ایسے ہیں جو مستقبل کی خوش آئند باتوں کا پتہ دے رہے ہیں اور وہ تحریک جو بظاہر معمولی سی آواز سے اٹھی نظر آتی ہے ایک عظیم الشان عمارت میں تبدیل ہو جایا کرتی ہے.جس تحریک میں آپ اس لئے حصہ لیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ مسیح موعود کے خلیفہ کی تحریک ہے آپ دیکھیں گے کہ اس تحریک میں اتنی عظیم الشان برکتیں پڑیں گی جو آپ کے (ماہنامہ خالد ر بوه جون 1986 ص 21 تصور سے بالا ہوں گی.اور آئندہ بیان کردہ تمام تحریکات اس دعوی کی صداقت پر گواہ ہیں.یہ تحریکات اور ان کے ثمرات خلافت کی برکات کا منہ بولتا ثبوت بلکہ خلافت احمدیہ کی تاریخ کا آئینہ ہیں.ان تحریکات کے بیان میں یہ امر ملحوظ رکھا گیا ہے کہ ایک ہی مضمون اور عنوان سے متعلق ایک خلیفہ کی تمام تحریکات کو اکٹھا کر دیا جائے اور زمانی ترتیب کے ساتھ اس کے ارتقائی مراحل کا ذکر کیا جائے.نیز ہر تحریک جو کسی خلیفہ نے شروع کی اس کی خلافت کے اختتام تک اس کی کیفیت درج کر دی جائے.نیز اس کی تازہ ترین صورتحال بھی بیان کی جائے.البتہ تمام خلفاء کی عظیم الشان اور دیر پا اثر رکھنے والی تحریکات کو ان کی اہمیت کے لحاظ سے الگ بیان کیا گیا ہے.
فہرست مضامین مرکز سلسلہ کے متعلق تحریکات حضرت خلیفہ المسیح الاول اخبارات ورسائل کے متعلق تحریکات کی تحریکات دور خلافت کا منشور قومی وحدت کے لئے تحریکات تاریخ احمدیت کی تدوین و اشاعت کے لئے تحریکات ی تعلیم القرآن کے متعلق تحریکات حمد دعوت الی اللہ کے متعلق تحریکات وسع مكانك كے سلسلہ میں تحریکات خدمت خلق کی تحریکات د علمی تحریکات 3 4 11 17 30 36 38 ے اعلیٰ دنیاوی تعلیم کے متعلق تحریکات د تحریک وقف جدید ذیلی تنظیموں کے متعلق تحریکات خدمت خلق کے متعلق تحریکات حمید عالم اسلام کی بہبود کے متعلق تحریکات مسلمانان کشمیر کے متعلق تحریکات 188 206 212 220 232 244 258 275 293 صنعت و حرفت اور تجارت کے متعلق تحریکات 302 حضرت خلیفہ المسیح الثانی ی تحریک وقار عمل کی تحریکات تربیتی تحریکات تعلیم القرآن کے متعلق تحریکات سیرت النبی کے متعلق تحریکات وقف زندگی کے متعلق تحریکات حمد تبلیغی تحریکات تحریک جدید قیام مساجد کے لئے تحریکات 43 62 72 7 2 2 3 83 97 135 151 مالی تحریکات حضرت خلیفة المسیح الثالث کی تحریکات تعلیم القرآن کے متعلق تحریکات تحریک وقف عارضی فضل عمر فاؤنڈیشن نصرت جہاں سکیم احمد یہ صد سالہ جوبلی منصوبہ کتب حضرت مسیح موعود کے متعلق تحریکات 172 د ریڈیوٹیشن کے قیام کی تحریک صحابہ مسیح موعود کے متعلق تحریکات 178 حمد احمد یہ تعلیمی منص ماہرین علوم پیدا کرنے کے لئے تحریکات 184 صحت وصفائی کے بارہ میں تحریکات 312 323 339 352 360 363 371 377 381 386
تحریک جدید کے متعلق تحریک وقف جدید کے متعلق تحریکات حمد ذیلی تنظیموں کے متعلق تحریکات جلسہ سالانہ کے لئے تحریکات مجالس موصیان کا قیام وقف زندگی کے متعلق تحریکات بد رسوم کے خلاف جہاد کی تحریک فولڈرز شائع کرنے کی تحریک ه مجلس ارشاد مرکز یہ یہ قلمی دوستی کی تحریک اتحاد بین المسلمین کی تحریک vi 394 395 399 400 405 407 408 409 410 410 411 نومبائعین کی تربیت کی تحریکات خصوصی وقف کی تحریک د پانچ سو دیگوں کی تحریک نستعلیق کتابت کے لئے کمپیوٹر کی تحریک 484 486 486 487 زبان کو پاک رکھنے کی مہم چلانے کی تحریک 487 خصوصی دعاؤں کی تحریک 488 حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ بنصر و العزیز کی تحریکات تربیتی تحریکات طاہر فاؤنڈیشن کے قیام کا اعلان ہ تعلیم القرآن کے متعلق تحریکات وقف عارضی میں شمولیت کی تحریک حمد دعوت الی اللہ کے متعلق تحریکات 493 500 501 504 505 نو مبائعین کے ساتھ رابطے زندہ کرنے کی تحریک کمیونٹی سنٹرز اور عیدگاہ کے قیام کی تحریک 412 جمل بھوکوں کو کھانا کھلانے کی تحریک دعاؤں کی تحریکات توحید کی منادی 413 415 418 حضرت خلیفہ المسح الرابع ا نظام وصیت کے متعلق تحریکات کی تحریکات ی تعمیر مساجد کے لئے تحریکات قیام عبادت اور تعمیر مساجد کے لئے تحریکات 423 خدمت خلق کے متعلق تحریکات دعوت الی اللہ کے متعلق تحریکات تحریک وقف نو تعلیم القرآن کے متعلق تحریکات خدمت خلق کے متعلق تحریکات 429 443 446 تحریک جدید کے متعلق تحریکات وقف جدید کے متعلق تحریکات اعلیٰ تعلیم کے حصول کی تحریکات 513 521 532 545 562 568 572 453 انٹرنیٹ کے مضر پہلوؤں سے بچنے کی تحریکات 580 تحریک جدید اور وقف جدید کے متعلق تحریکات 476 صفائی اور شجر کاری کے متعلق تحریکات ایم ٹی اے کے متعلق تحریکات صد سالہ جو بلی کے متعلق تحریکات 479 یہ خلافت احمد یہ جو بلی کے لئے 482 دعاؤں کی تحریک 587 592
خلفاء احمدیت کی تحریکات اور ان کے شیریں ثمرات زیر اہتمام صد سالہ خلافت احمد یہ جو بلی کمیٹی
خلفاء احمدیت کی تحریکات اور ان کے شیریں ثمرات زیر اہتمام صدسالہ خلافت احمد یہ جو بلی کمیٹی
تعارف خلافت احمد یہ صد سالہ جو بلی 2008 ء کے مبارک موقعہ پر حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جن کتب کی تدوین و اشاعت کی منظوری عطا فرمائی ہے.ان میں سے ایک اہم کتاب تحریکات خلفائے احمدیت اور ان کے شیر میں ثمرات ہے جس کی تدوین کا کام مکرم محترم جناب عبدالسمیع خان صاحب ایڈیٹر روز نامہ الفضل کے سپر دکھا اور نظارت اشاعت کے ذمہ اس کی طباعت و اشاعت ہے.الحمد للہ ! آپ نے بہت محنت سے ہزاروں صفحات پر پھیلی ان معلومات کو جمع کر کے انہیں خوبصورتی سے مدون کیا ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اسلام کے عالمگیر غلبہ کے لئے مبعوث فرمایا ہے اور اس نظیم کام کے لئے ایک طویل المدت پروگرام ہے جس کے لئے ہماری ایک یا دو نسلوں کی قربانیاں مکلفی نہیں اس کے لئے مسلسل قربانیوں کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ نے اس مقصد کے لئے قدرت ثانیہ کے طور پر احمدیت کو خلفاء کے ایسے مبارک وجود بخشے ہیں جو ہماری قربانیوں میں تسلسل کے ضامن ہیں.تاریخ کے ہر موڑ پر جس لائحہ عمل کی ضرورت ہوتی ہے.اس کے لئے اللہ تعالیٰ ان خلفاء کے دلوں میں مناسب تحریکات القاء فرماتا ہے اور وہ ان تحریکات کو جماعت کے سامنے پیش کرتے ہیں.ان تحریکات کے شیر میں ثمرات اس بات کا ثبوت ہوتے ہیں کہ یہ تحریکات الہی منشاء سے خلفاء کے دلوں پر نازل ہوتی ہیں.لہذا ہر احمدی مردوزن کا فرض ہے کہ وہ خلفاء کی پیش کردہ تحریکات کو الہی تحریکات سمجھ کر ان پر حتی المقدور عمل کرے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.کتاب کے مرتب محترم جناب عبدالسمیع خان صاحب ایڈیٹر روز نامہ الفضل ربوہ اور ان کے معاونین جماعت کی دعاؤں کے مستحق ہیں.اللہ تعالیٰ جملہ کارکنان کو نیک جزاء عطا فرمائے.سید عبدالحی ناظر اشاعت 1-5-2008
حرف آغاز آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر فرمایا تھا:.خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ( صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب فضل الصحابہ حدیث نمبر 4601) کہ بہترین صدی میری صدی ہے اور اس کے بعد دوسری اور تیسری صدی.ان تین صدیوں میں اسلام اپنے عروج کو پہنچا.کیا بلحاظ تقویٰ، کیا بلحاظ علوم اور بلحاظ وسعت اسلام تمام ادیان سے سبقت لے گیا.پھر تنزل کا دور شروع ہوا جو ایک طویل تاریک رات سے مشابہ تھا.جس کے بعد طلوع فجر اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے یہ بشارت دی تھی کہ اس انتہائی گہری تاریکی کے زمانہ کے بعد اللہ تعالیٰ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی قوت قدسیہ کے طفیل امام مہدی اور مسیح موعود کو مبعوث کرے گا جس کے ذریعہ سچائی کو پہلی سی رفعت اور شان نصیب ہوگی اور دین حق کے کل ادیان پر غلبہ کا وعدہ جو آیت لیظهره علی الدین کلہ میں مذکورہ ہے وہ اس کے زمانہ میں پورا ہوگا.اس پیشگوئی کے مطابق حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے امام مہدی اور مسیح موعود ہونے کا دعوی فرمایا اور غلبہ اسلام کی ایک عظیم الشان مہم کی داغ بیل ڈالی.جس کا ایک پہلو دلوں میں بچے ایمان کو قائم کرنا اور دوسرا پہلو دین سے بے بہرہ دنیا کو آغوش حق میں لانا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی خبر دی کہ غلبہ اسلام کا یہ عظیم منصوبہ ایک لمبے عرصہ پر پھیلا ہوا ہے جو قریباً تین سو سال میں اپنے کمال کو پہنچے گا.چنانچہ آپ نے اس کی پیشگوئی کرتے ہوئے فرمایا :.بھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسی کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخمریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.(تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد 20 ص 67) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ خوشخبری بھی دی کہ آپ کے مشن کی تکمیل کے لئے آپ کے بعد صلى الله اللہ تعالیٰ قدرت ثانیہ کا ظہور فرمائے گا اور دائمی خلافت علی منہاج نبوت قائم ہوگی ، جو رسول کریم علی
کی پیشگوئی کے مطابق ہے.جس میں آپ نے فرمایا ثم تكون خلافة على منهاج النبوة- ( مشکوۃ المصابیح کتاب الرقاق باب الانذار والتحذير ) یعنی امت کے آخری دور میں خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہوگی اور وہ خلافت راشدہ کے نقوش قدم پر چلتے ہوئے دین کو نئی زندگی اور تازگی سے ہمکنار کرے گی اور مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو پورا کرے گی.حضرت مسیح موعود نے فرمایا:.وہ اس سلسلہ کو پوری ترقی دے گا.کچھ میرے ہاتھ سے اور کچھ میرے بعد.یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور ان کو غلبہ دیتا ہے.لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک نا کامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے مخالفوں کو ہنسی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقع دے دیتا ہے اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر نا تمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں.غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے (1) اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے (2) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں.تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.سواے عزیزو! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا دے.سواب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا دیکھنا بھی ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی“.الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 ص305,304)
چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد 27 مئی 1908ء کو جماعت احمدیہ میں خلافت کا نظام قائم ہوا اور منشائے الہی کے تحت حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب بھیروی قدرت ثانیہ کے پہلے مظہر قرار پائے اور اس طرح مندرجہ ذیل مقدس وجود یکے بعد دیگرے اس منصب پر فائز ہوئے.1.حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب بھیروی خلیفتہ امسیح الاول 27 مئی 1908ء تا 13 مارچ 1914ء 2.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ اسیح الثانی 14 مارچ 1914 ء تا 8 نومبر 1965ء 3- حضرت صاحبزادہ مرزا ناصراحمد صاحب خلیفہ امسح الثالث؟ نومبر 1965 ء تا 9 جون 1982ء| 4.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ مسیح الرابع 10 جون 1982 ء تا19 را پریل 2003 ء 5 - حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ 22 را پریل 2003 ء سے اس منصب کی زینت ہیں.خلافت احمدیہ کا سارا نظام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کی تکمیل کے لئے وقف ہے اور یکے بعد دیگرے قدرت ثانیہ کے مظاہر حضرت مسیح موعود کے مقاصد کو پورا کرنے کے لئے تن من دھن کی بازی لگائے ہوئے ہیں.جماعت احمدیہ کے قیام کو اب 120 سال کا عرصہ گزررہا ہے.اس تمام عرصہ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیشگوئیوں کے مطابق جماعت احمدیہ کی ایک ہی پالیسی ، ایک ہی رخ اور ایک ہی نصب العین ہے جو بانی جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعین کیا ہے.ایک کے بعد ایک امام اور سر براہ آتا چلا جاتا ہے اور اسی منزل کی طرف جماعت کے قدموں میں مزید تیزی پیدا کرتا جاتا ہے.نہ کوئی اختلاف ہے نہ کوئی تبدیلی نہ ترمیم وتنتی.ہاں ہر آنے والا ، وقت کی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق سابقہ کام کو آگے بڑھاتا ہے اور عزم و عمل کے مزید پروگرام جماعت کو دیتا ہے.انہی پروگراموں اور لائحہ عمل کو جماعت میں تحریکات کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جو کشتی احمدیت کو بھرے ہوئے طوفانوں سے بچاتے ہوئے رفتار میں تندی پیدا کر دیتے ہیں.جماعت کے خلفاء نے اللہ کی منشاء اور رہنمائی کے تابع بیسیوں روحانی تربیتی علمی اور انتظامی تحریکیں جاری کی ہیں.اب جبکہ خلافت احمدیہ (1908 ء-2008ء کو 100 سال پورے ہو رہے ہیں مرکزی جوبلی منصوبہ کے تحت خلفاء سلسلہ کی تحریکات پر یہ مبسوط کتاب شائع کی جارہی ہے.جس
iv میں مختلف عناوین کے تابع خلفاء کی تحریکات کو یکجا کر دیا گیا ہے.نیز بعد میں آنے والے خلفاء نے ان تحریکوں میں حسن کے جو مزید رنگ بھرے اور ان تحریکوں نے جو اثرات پیدا کئے ان کا بیان بھی شامل کر دیا گیا ہے.یہ تحریکات احمدیت کے شجر پر بہار کے وہ پھل پھول ہیں جو دور خزاں میں بھی رونق چمن بنے رہتے ہیں اور خدا ان میں ایسی برکت ڈالتا ہے جو الہی تقدیروں ہی کی فسوں کاری ہے کسی انسان کے بس کی بات نہیں.سید نا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ المسیح الرابع نے 29 جولا ئی 1984ء کو خدام الاحمدیہ کے یورپین اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.اللہ تعالیٰ جب بھی کوئی تحریک جماعت احمدیہ کے کسی بھی امام کے دل میں ڈالتا ہے تو اس کے متعلق آپ کو پوری طرح مطمئن ہونا چاہئے کہ ضرور کوئی الہی اشارے ایسے ہیں جو مستقبل کی خوش آئند باتوں کا پتہ دے رہے ہیں اور وہ تحریک جو بظاہر معمولی سی آواز سے اٹھی نظر آتی ہے ایک عظیم الشان عمارت میں تبدیل ہو جایا کرتی ہے.جس تحریک میں آپ اس لئے حصہ لیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ مسیح موعود کے خلیفہ کی تحریک ہے آپ دیکھیں گے کہ اس تحریک میں اتنی عظیم الشان برکتیں پڑیں گی جو آپ کے (ماہنامہ خالد ر بوه جون 1986 ص 21 تصور سے بالا ہوں گی.اور آئندہ بیان کردہ تمام تحریکات اس دعوی کی صداقت پر گواہ ہیں.یہ تحریکات اور ان کے ثمرات خلافت کی برکات کا منہ بولتا ثبوت بلکہ خلافت احمدیہ کی تاریخ کا آئینہ ہیں.ان تحریکات کے بیان میں یہ امر ملحوظ رکھا گیا ہے کہ ایک ہی مضمون اور عنوان سے متعلق ایک خلیفہ کی تمام تحریکات کو اکٹھا کر دیا جائے اور زمانی ترتیب کے ساتھ اس کے ارتقائی مراحل کا ذکر کیا جائے.نیز ہر تحریک جو کسی خلیفہ نے شروع کی اس کی خلافت کے اختتام تک اس کی کیفیت درج کر دی جائے.نیز اس کی تازہ ترین صورتحال بھی بیان کی جائے.البتہ تمام خلفاء کی عظیم الشان اور دیر پا اثر رکھنے والی تحریکات کو ان کی اہمیت کے لحاظ سے الگ بیان کیا گیا ہے.
فہرست مضامین مرکز سلسلہ کے متعلق تحریکات حضرت خلیفہ المسیح الاول اخبارات ورسائل کے متعلق تحریکات کی تحریکات دور خلافت کا منشور قومی وحدت کے لئے تحریکات تاریخ احمدیت کی تدوین و اشاعت کے لئے تحریکات ی تعلیم القرآن کے متعلق تحریکات حمد دعوت الی اللہ کے متعلق تحریکات وسع مكانك كے سلسلہ میں تحریکات خدمت خلق کی تحریکات د علمی تحریکات 3 4 11 17 30 36 38 ے اعلیٰ دنیاوی تعلیم کے متعلق تحریکات د تحریک وقف جدید ذیلی تنظیموں کے متعلق تحریکات خدمت خلق کے متعلق تحریکات حمید عالم اسلام کی بہبود کے متعلق تحریکات مسلمانان کشمیر کے متعلق تحریکات 188 206 212 220 232 244 258 275 293 صنعت و حرفت اور تجارت کے متعلق تحریکات 302 حضرت خلیفہ المسیح الثانی ی تحریک وقار عمل کی تحریکات تربیتی تحریکات تعلیم القرآن کے متعلق تحریکات سیرت النبی کے متعلق تحریکات وقف زندگی کے متعلق تحریکات حمد تبلیغی تحریکات تحریک جدید قیام مساجد کے لئے تحریکات 43 62 72 7 2 2 3 83 97 135 151 مالی تحریکات حضرت خلیفة المسیح الثالث کی تحریکات تعلیم القرآن کے متعلق تحریکات تحریک وقف عارضی فضل عمر فاؤنڈیشن نصرت جہاں سکیم احمد یہ صد سالہ جوبلی منصوبہ کتب حضرت مسیح موعود کے متعلق تحریکات 172 د ریڈیوٹیشن کے قیام کی تحریک صحابہ مسیح موعود کے متعلق تحریکات 178 حمد احمد یہ تعلیمی منص ماہرین علوم پیدا کرنے کے لئے تحریکات 184 صحت وصفائی کے بارہ میں تحریکات 312 323 339 352 360 363 371 377 381 386
تحریک جدید کے متعلق تحریک وقف جدید کے متعلق تحریکات حمد ذیلی تنظیموں کے متعلق تحریکات جلسہ سالانہ کے لئے تحریکات مجالس موصیان کا قیام وقف زندگی کے متعلق تحریکات بد رسوم کے خلاف جہاد کی تحریک فولڈرز شائع کرنے کی تحریک ه مجلس ارشاد مرکز یہ یہ قلمی دوستی کی تحریک اتحاد بین المسلمین کی تحریک vi 394 395 399 400 405 407 408 409 410 410 411 نومبائعین کی تربیت کی تحریکات خصوصی وقف کی تحریک د پانچ سو دیگوں کی تحریک نستعلیق کتابت کے لئے کمپیوٹر کی تحریک 484 486 486 487 زبان کو پاک رکھنے کی مہم چلانے کی تحریک 487 خصوصی دعاؤں کی تحریک 488 حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ بنصر و العزیز کی تحریکات تربیتی تحریکات طاہر فاؤنڈیشن کے قیام کا اعلان ہ تعلیم القرآن کے متعلق تحریکات وقف عارضی میں شمولیت کی تحریک حمد دعوت الی اللہ کے متعلق تحریکات 493 500 501 504 505 نو مبائعین کے ساتھ رابطے زندہ کرنے کی تحریک کمیونٹی سنٹرز اور عیدگاہ کے قیام کی تحریک 412 جمل بھوکوں کو کھانا کھلانے کی تحریک دعاؤں کی تحریکات توحید کی منادی 413 415 418 حضرت خلیفہ المسح الرابع ا نظام وصیت کے متعلق تحریکات کی تحریکات ی تعمیر مساجد کے لئے تحریکات قیام عبادت اور تعمیر مساجد کے لئے تحریکات 423 خدمت خلق کے متعلق تحریکات دعوت الی اللہ کے متعلق تحریکات تحریک وقف نو تعلیم القرآن کے متعلق تحریکات خدمت خلق کے متعلق تحریکات 429 443 446 تحریک جدید کے متعلق تحریکات وقف جدید کے متعلق تحریکات اعلیٰ تعلیم کے حصول کی تحریکات 513 521 532 545 562 568 572 453 انٹرنیٹ کے مضر پہلوؤں سے بچنے کی تحریکات 580 تحریک جدید اور وقف جدید کے متعلق تحریکات 476 صفائی اور شجر کاری کے متعلق تحریکات ایم ٹی اے کے متعلق تحریکات صد سالہ جو بلی کے متعلق تحریکات 479 یہ خلافت احمد یہ جو بلی کے لئے 482 دعاؤں کی تحریک 587 592
1 حضرت خلیفہ المسح الاول کی تحریکات دور خلافت 27 مئی 1908 ء تا 13 مارچ 1914ء
3 دور خلافت کا منشور حضرت خلیفہ المسیح الاول سیرت صدیقی کے حامل تھے.آپ نے خلیفہ بننے کے بعد سب سے پہلے انہی امور پر توجہ مرکوز کی جو حضرت ابو بکر نے زیر نظر رکھے تھے اور رسول کریم ﷺ اور حضرت مسیح موعود کی بعثت کے مقاصد کو پورا کرنے والے تھے.چنانچہ آپ نے بیعت لینے سے قبل جو خطاب فرمایا اس میں گویا اپنے دور خلافت کا منشور بیان کر دیا.جو کئی تحریکات پر مشتمل تھا.آپ نے فرمایا: نبی کریم ﷺ کے بعد ابو بکر کے زمانہ میں صحابہ کرام کو بہت سی مساعی جمیلہ کرنی پڑیں.سب سے اہم کام جو کیا وہ جمع قرآن ہے اب موجودہ صورت میں جمع یہ ہے کہ اس پر عملدرآمد کرنے کی طرف خاص توجہ ہو.پھر حضرت ابو بکڑ نے زکوۃ کا انتظام کیا.یہ ایک بڑا عظیم الشان کام ہے.انتظام زکوۃ کے لئے اعلیٰ درجے کی فرمانبرداری کی ضرورت ہے.پھر کنبہ کی پرورش ہے.غرض کئی ایسے کام ہیں.اب تمہاری طبیعتوں کے رخ کسی طرف ہوں تمہیں میرے احکام کی تعمیل کرنی ہوگی.اگر یہ بات تمہیں منظور ہو تو میں طوعاً و کرہا اس بوجھ کو اٹھاتا ہوں.وہ بیعت کے دس شرائط بدستور قائم ہیں.ان میں خصوصیت سے میں قرآن کو سیکھنے اور زکوۃ کا انتظام کرنے ، واعظین کے بہم پہنچانے اور ان امور کو جو وقتاً فوقتا اللہ میرے دل میں ڈالے کو شامل کرتا ہوں.پھر تعلیم دینیات دینی مدرسہ کی تعلیم میری مرضی اور منشاء کے مطابق کرنا ہوگی اور میں اس بوجھ کو صرف اللہ کے لئے اٹھاتا ہوں جس نے فرمایا: ولتكن منكم امة يدعون الى الخير - یا درکھوساری خوبیاں وحدت میں ہیں جس قوم کا کوئی رئیس نہیں وہ مر چکی.( بدر 2 جون 1908 ص 8 جن الفاظ میں حضرت خلیفۃ ابیح الاول نے بیعت لی وہ یہ تھے:.خلیفة " آج میں نورالدین کے ہاتھ پر تمام ان شرائط کے ساتھ بیعت کرتا ہوں جن شرائط سے مسیح موعود اور مہدی معہود بیعت لیا کرتے تھے اور نیز اقرار کرتا ہوں کہ خصوصیت سے قرآن وسنت اور احادیث
4 صحیحہ کے پڑھنے سننے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا اور اشاعت اسلام میں جان و مال سے بقدر وسعت و طاقت کمر بستہ رہوں گا اور انتظام زکوۃ بہت احتیاط سے کروں گا اور با ہمی اخوان میں رشتہ محبت کے قائم رکھنے اور قائم کرنے میں سعی کروں گا.استغفر الله ربي من كل ذنب و اتوب اليه ( تین بار ) رب انی ظـلـمـت نـفسی و اعترفت بذنبي فاغفر لي ذنوبي فانه لا يغفر الذنوب الا انت ( بدر 2 جون 1908ء ص 1) ترجمہ: اے میرے رب! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں.میرے گناہ بخش کہ تیرے سوا کوئی بخشنے والا نہیں.آمین جلسہ سالانہ مارچ 1910ء کے موقعہ پر آپ نے الفاظ بیعت میں مندرجہ ذیل کلمات کا اضافہ فرمایا کہ میں شرک نہیں کروں گا.چوری نہیں کروں گا.بدکاریوں کے نزدیک نہیں جاؤں گا.کسی پر بہتان نہیں لگاؤں گا.چھوٹے بچوں کو ضائع نہیں کروں گا.نماز کی پابندی کروں گا اور زکوۃ اور حج اپنی طاقتوں کے موافق ادا کرنے کو مستعد رہوں گا“.بلکہ یہ بھی فرمایا کہ میں الفاظ بیعت میں یہ بھی بڑھانا چاہتا تھا کہ آپس میں محبت بڑھائیں گئے.مگر میں نے دیکھا کہ لوگ آپس میں لڑ پڑتے ہیں.اس لئے میں ڈر گیا کہ ایسا نہ ہو یہ لوگ معاہدہ کا خلاف کریں اور پھر معاہدہ کی خلاف ورزی سے نفاق پیدا ہو جاتا ہے.(حیات نورص 337) قومی وحدت کے لئے تحریکات حضرت خلیفہ امسیح الا ول ایک طرف تو خلافت کے استحکام کے لئے اپنی تمام توانائیاں بروئے کار لا رہے تھے تو دوسری طرف قومی وحدت کے قیام کے لئے سرگرم عمل تھے.آپ کے خطبات اور تقاریر پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ہر گفتگو کا ایک اہم نکتہ باہمی محبت اور پیار اور افتراق سے بچنے کی تلقین پر مشتمل ہوتا تھا.ایک بار فرمایا: پہلی نصیحت یہ ہے اور خدا کے لئے اسے مان لو.اللہ تعالیٰ کہتا ہے.لا تـنــاز عــوا فـتـفـشـلـوا
5 وتذهب ریحکم.اس منازعت سے تم بودے ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا بگڑ جاوے گی.پس تنازعہ نہ کرو.اللہ تعالیٰ چونکہ خالق فطرت ہے اور جانتا تھا کہ جھگڑا ہوگا.اس لئے فرمایا.فاصبروا ان الله مع الصابرین.پس جب سیکرٹری اور پریذیڈنٹ سے منازعت ہو.تو اللہ تعالیٰ کے لئے صبر کرو.جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہو گا.پھر فرمایا: میں یہ چاہتا ہوں کہ تم فرمانبردار رہو.اختلاف نہ کر یو ، جھگڑا نہ کرنا.( بدر 12 جنوری 1911 ء ) مجھے شوق یہ ہے کہ میری جماعت میں تفرقہ نہ ہو.دنیا کوئی چیز نہیں میں بہت راضی ہوں گا.اگر تم میں اتفاق ہو.میں نے تمہاری بھلائی کے لئے بہت دعائیں کیں.مجھے طمع نہیں اور ہرگز نہیں.پھر فرمایا مجھے تم سے کوئی دنیا کا طمع نہیں.مجھے میرا مولیٰ بہت رازوں سے دیتا ہے اور ضرورت سے زیادہ دیتا ہے.خبر دار جھگڑا نہ کرنا.تفرقہ نہ کرنا.اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے گا اور اس میں تمہاری عزت اور طاقت باقی رہے گی.نہیں تو کچھ بھی باقی نہیں رہے گا.( بدر 26 جنوری 1911ء) خطبہ عید الفطر میں فرمایا:.کوئی قوم سوائے وحدت کے نہیں بن سکتی بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ کوئی انسان سوائے وحدت کے انسان نہیں بن سکتا.کوئی محلہ سوائے وحدت کے محلہ نہیں بن سکتا اور کوئی گاؤں سوائے وحدت کے گاؤں نہیں بن سکتا اور کوئی ملک سوائے وحدت کے ملک نہیں بن سکتا اور کوئی سلطنت سوائے وحدت کے سلطنت نہیں بن سکتی پھر میں کہتا ہوں کہ جب تک وحدت نہ ہوگی تم کوئی ترقی نہیں کر سکتے“.( بدر 21 اکتوبر 1909 ء ص 10) جھگڑوں سے بچنے کی تلقین 5 جولائی 1913ء کو حضور نے چغل خوری، نمامی، هیزم کشی بخن چینی اور فساد کی باتیں پھیلانے اور ایک دوسرے کو لڑوانے پر نہایت مؤثر اور دل ہلا دینے والے پیرایہ میں سخت تنبیہ فرمائی اور استغفرالله ربي من كل ذنب و اتوب اليه تین بار پڑھوا کر گویا ایک قسم کی بیعت لی.اس
موقعہ کے مخاطب زیادہ تر طالب علم تھے.اسی ضمن میں اپریل 1910ء میں حضرت خلیفہ اول نے بذریعہ اخبار یہ اعلان فرمایا کہ بعض احمدی دنیوی معاملات و معاہدات کر لیتے ہیں اور ہم سے مشورہ کرنا بلکہ اطلاع تک دینا پسند نہیں کرتے مگر جب مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں تو شکایتی خطوط آنے لگ جاتے ہیں.پس ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ لین دین میں عاقبت اندیشی ، شریعت اور قانون عدالت کے مطابق کام کریں.صرف احمدی کہلانا کوئی سرٹیفیکیٹ نہیں اور نہ اس سے احمدیت پر کوئی الزام ہے خدا کی مخلوق کثیر ہے.امت محمدیہ کہلانے والے سب بد معاملگی کرتے ہیں تو اس طرح آنحضرت ﷺ پر کوئی اعتراض نہیں.مخلوق خدا میں سے کوئی بد معاملگی کرتا ہے تو اس سے خالق پر کوئی اعتراض نہیں ہے.(بدر 5 مئی 1910 ء ص 8 کالم 1) تجنید تیار کرنے کی تحریک جماعت کو امت واحدہ بنانے اور خلیفہ وقت کے ہر حکم سے مطلع کرنے کے لئے حضور نے جولائی 1908ء میں تحریک فرمائی کہ جماعت کی مکمل تجنید تیار کی جائے تاکہ قادیان سے ہر فر د جماعت تک پیغام پہنچایا جا سکے.چنانچہ الحکم 18 جولائی 1908ء میں تحریر ہے.حضرت خلیفتہ امسیح نے ارادہ فرمایا ہے کہ تمام جماعت مبائعین کی ایک مکمل اور مفصل فہرست طیار ہوتا کہ تمام جماعت کے نام اور پورے پتے معلوم ہونے کی وجہ سے وہ ضروری امور جو وقتاً فوقتاً قادیان سے قومی معاملات کی نسبت شائع ہوتے ہیں.ان سے حتی الوسع تمام قوم کو اطلاع پہنچانے کا (الحکم 18 جولائی 1908ء ص 8 کالم 3) انتظام ہو سکے.نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے میموریل جماعت کے اندرونی اتحاد سے آگے بڑھ کر حضور تمام ہندوستان کے مسلمانوں کی وحدت کے خواہشمند تھے.امت مسلمہ میں قومی وحدت کے قیام کے لئے جمعہ کا دن نہایت اہمیت رکھتا ہے.یہ مسلمانوں کے لئے ایک نہایت ہی مبارک اور مقدس دن ہے اور اس کو مومنوں کے لئے عید قرار دیا گیا ہے.اس لئے
7 قرآن کریم میں حکم ہے کہ ہر قسم کے کاروبار کو چھوڑ کر جمعہ کی نماز میں حاضر ہو جاؤ.ہندوستان میں اسلامی سلطنت میں جمعہ کی تعطیل ہوتی تھی مگر انگریزوں کی آمد کے بعد اتوار کی تعطیل شروع ہو گئی اور مسلمان اس مقدس فریضہ کی ادائیگی سے محروم رہ گئے.سید نا حضرت مسیح موعود نے یکم جنوری 1896ء کو مسلمانان ہند کی طرف سے وائسرائے ہند کے نام اشتہار شائع کیا جس میں حکومت سے درخواست کی گئی کہ وہ مسلمانوں کے لئے جمعہ کی تعطیل کا اعلان مگر مولوی محمد حسین بٹالوی کی مخالفت کی وجہ سے یہ تحریک پیش رفت نہ کرسکی.چونکہ گورنمنٹ برطانیہ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ 12 دسمبر 1911 ء کو ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں شاہنشاہ ہند جارج پنجم کی رسم تاج پوشی ادا کی جائے.اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الاول نے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر ایک میموریل تیار کیا.جس میں وائسرائے ہند کی معرفت شاہ جارج پنجم سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ مسلمانوں کو نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے دو گھنٹہ کی رخصت عنایت فرمائی جایا کرے.اس میموریل کا خلاصہ حضور کے الفاظ میں درج ذیل ہے.جمعہ کا دن اسلام میں ایک نہایت مبارک دن ہے اور یہ مسلمانوں کی ایک عید ہے بلکہ اس عید کی فرضیت پر جس قدر زور اسلام میں دیا گیا ہے.ان دو بڑی عیدوں پر بھی زور نہیں دیا گیا.جن کو سب خاص و عام جانتے ہیں.بلکہ یہ عید نہ صرف عید ہے بلکہ اس دن کے لئے قرآن کریم میں یہ خاص طور پر حکم دیا گیا ہے کہ جب جمعہ کی اذان ہو جائے تو ہر قسم کے کاروبار کو چھوڑ کر مسجد میں جمع ہو جاؤ.جیسا کہ فرمایا: يايها الذين آمنوا اذا نودي للصلوة من يوم الجمعة فاسعوا الى ذكر الله وذروا البيع یہی وجہ ہے کہ جب سے اسلام ظاہر ہوا اسلامی ممالک میں جمعہ کی تعطیل منائی جاتی رہی ہے اور خود اس ملک ہندوستان میں برابر کئی سو سال تک جمعہ تعطیل کا دن رہا ہے.کیونکہ آیت مذکورہ بالا کی رو سے یہ گنجائش نہیں دی گئی کہ جمعہ کی نماز کو معمولی نمازوں کی طرح علیحدہ بھی ادا کیا جا سکتا ہے.بلکہ جماعت میں حاضر ہونا اور خطبہ سننا اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا اس کے لئے ضروری قرار دیئے گئے ہیں.
8 یہ تو ظاہر ہے کہ نظام گورنمنٹ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہر ہفتہ میں دو دن کی تعطیل ہو اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اتوار شاہ وقت کے مذہب کے لحاظ سے تعطیل کا ضروری دن ہے.پس کوئی ایسی تجویز گورنمنٹ کے سامنے پیش کرنی چاہئے.جس سے نظام گورنمنٹ میں بھی کوئی مشکلات پیش نہ آویں اور اہل اسلام کو یہ آزادی بھی مل جائے.اس کی آسان راہ یہ ہے کہ جمعہ کے دن نماز جمعہ کے وقت یا تو سب دفاتر اور عدالتیں ، سکول، کالج وغیرہ دو گھنٹے کے لئے بند ہو جاویں.یا کم از کم اتنی دیر کے لئے مسلمان ملازمین اور مسلمان طلباء کو اجازت ہو کہ وہ نماز جمعہ ادا کر سکیں اور اس کے متعلق جملہ دفاتر و جملہ محکموں میں گورنمنٹ کی طرف سے سرکلر ہو جائے..ان وجوہات مذکورہ بالا کی بنا پر ہم نے ایک میموریل تیار کیا ہے.جوحضور وائسرائے ہند کی خدمت میں بھیجا جاوے گا.لیکن چونکہ جس امر کی اس میموریل میں درخواست کی گئی ہے.وہ جملہ اہل اسلام کا مشترک کام ہے.اس لئے قبل اس کے کہ یہ میموریل حضور وائسرائے کی خدمت میں بھیجا جاوے.ہم نے یہ ضروری سمجھا ہے کہ اس کا خلاصہ مسلمان پبلک اور مسلمان اخبارات اور انجمنوں کے سامنے پیش کیا جاوے.تا کہ وہ سب اس پر اپنی اتفاق رائے کا اظہار بذریعہ ریزولیوشنوں و تحریرات وغیرہ کے کر کے گورنمنٹ پر اس سخت ضرورت کو ظاہر کریں.تا کہ اس مبارک موقعہ پر یہ آزادی اہل اسلام کے اتفاق سے جیسی کہ ضرورت متفقہ ہے.یہ درخواست حضور وائسرائے ہند کی خدمت میں پیش ہو اور یہ غرض نہیں کہ ہم ہی اس کو پیش کرنے والے ہوں.چونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے دل میں یہ تحریک ڈالی ہے.اس لئے ہم نے اسے پیش کر دیا ہے.اگر کوئی انجمن یا جماعت ایسی ہو.جو صرف اس وجہ سے اس کے ساتھ اتفاق نہ کرے کہ یہ میموریل ہماری طرف سے کیوں پیش ہوتا ہے.تو ہم بڑی خوشی سے اپنے میموریل کو گورنمنٹ کی خدمت میں نہیں بھیجیں گے.بشرطیکہ اس کے بھیجنے کا اور کوئی مناسب انتظام کر لیا جاوے“.المعلن نورالدین (خلية أسيح الموعود ) (خلیفه قادیان ضلع گورداسپور یکم جولائی 1911ء اس اعلان کا ہر مکتبہ فکر کے مسلمانوں نے پُر جوش خیر مقدم کیا اور مسلمان مقدس اسلامی شعار کے تحفظ کے لئے پھر سے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے.چنانچہ مسلم پریس نے اس کے حق میں پر زور آواز
0 اٹھائی اور پُر جوش الفاظ میں ادار یے لکھے.اخبار زمیندار نے لکھا:.اس ضروری اور اہم تحریک کی سعادت مولانا نورالدین صاحب کے حصہ میں آئی ہے جنہوں نے قادیانی جماعت کے پیشوا کی حیثیت سے تمام مسلمانان ہند کی توجہ کو اس طرف مبذول کیا ہے...اور ہمیں یقین ہے کہ کوئی مسلمان ایسا نہ ہوگا.جو ایسے میموریل کے گزرانے کو بہ نگاہ احسان نہ دیکھئے“.اخبارا اہلحدیث امرتسر نے لکھا:.حکیم صاحب نے ایک اشتہار سب مسلمانوں کی اتفاق رائے اور تائید کے لئے اس امر کے متعلق دیا ہے کہ دربار تاج پوشی دہلی کے موقعہ پر گورنمنٹ سے ایک میموریل کے ذریعہ جمعہ کی نماز کے لئے 2 گھنٹہ کی تعطیل حاصل کی جائے اور بذریعہ سرکاری سرکلر سرکاری دفاتر ، سکولوں اور کالجوں میں یہ تعطیل ہونی چاہئے.حکیم صاحب کی رائے سے ہم متفق ہیں.تمام مسلمانوں کو اس امر کے لئے میموریل تیار کر کے وائسرائے کی خدمت میں بھیجنا چاہئے.مگر میموریل مسلم لیگ کی معرفت بھیجنا چاہئے.افشاں نے لکھا:.”اس میں شک نہیں کہ یہ تحریک نہایت مناسب اور ضروری ہے کہ کسی مسلمان کو اس قسم کی ضرورت سے انکار نہیں ہوسکتا.مسلمان اخبارات اور دوسرے عام مسلمانوں نے عموماً اور علی گڑھ تحریک سے وابستہ لوگوں نے خصوصاً یہ رائے دی کہ یہ میموریل دربارتاج پوشی کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے پیش ہو.حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے بھی اس سے اتفاق فرمایا اور احمدی جماعتوں کو اس سے مطلع کر دیا گیا کہ وہ اس معاملہ میں مسلم لیگ کی ہر طرح تائید و معاونت کریں.مسلم لیگ کے ہاتھ میں لے لینے کے بعد سب سے زیادہ جس شخص نے اس کی تائید میں منتظم کوشش کی وہ شمس العلماء مولانا شبلی تھے جنہوں نے اس غرض کے لئے چندہ جمع کیا.انگریزی میں میموریل لکھوائے.مسلمانوں کے دستخط کروائے اور ندوۃ العلماء کے اجلاس منعقدہ 8,7,6 را پریل 1912ء میں ریزولیوشن پیش کر کے اس تحریک کی تائید میں ایک مختصر اور پر دلائل تقریر فرمائی.اس
10 اجلاس میں حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب بھی موجود تھے.آپ نے بھی اس کی تائید کی اور یہ ریزولیوشن بالا تفاق پاس ہو گیا.چنانچہ اجلاس کی روئداد میں لکھا ہے.” جناب مرزا سمیع اللہ بیگ صاحب بی اے ایل ایل بی نے اس کی نہایت پُر جوش تائید کی اور جناب مرزا محمود احمد صاحب قادیانی کی تائید مزید کے بعد ووٹ لئے گئے اور تجویز مندرجہ بالا انہیں الفاظ کے ساتھ نہایت جوش کی حالت میں بالا تفاق پاس کی.سید سلیمان ندوی نے اپنی کتاب ”حیات شبلی کے ص 501 پر بھی اس واقعہ کا ذکر کیا ہے.آخر مارچ 1913ء میں مسٹر غزنوی ( بنگال کے ممبر ) نے بنگال کونسل میں اس کے متعلق گورنمنٹ سے سوال کیا.سرکاری ممبر نے اس کا جواب تسلی بخش دیا اور گورنمنٹ بنگال نے نماز جمعہ کے لئے دو گھنٹہ کی چھٹی منظور کر لی.مولانا شبلی نے اس پر ایک اور میموریل تیار کرایا جس میں بنگال گورنمنٹ کے فیاضانہ حکم کا حوالہ دے کر گورنمنٹ سے خواہش کی کہ جمعہ کو دو گھنٹہ کی تعطیل کی بجائے ایک بجے سے آدھے دن کی عام تعطیل دی جائے.یہ کارروائی ابھی جاری تھی کہ مولانا شبلی انتقال فرما گئے مگر اس میموریل کا یہ اثر ہوا کہ اکثر صوبوں میں ملازمین کو نماز جمعہ میں جانے کی اجازت مل گئی.( تاریخ احمدیت جلد 3 ص 379 تا 381 ) اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ جمعہ کی برکات سے بھر پور فائدہ اٹھا رہی ہے اور خلیفہ وقت کے عالمی خطبہ جمعہ کے ذریعہ امت واحدہ کی شکل میں عظیم نمونہ دکھا رہی ہے.چنانچہ آج ساری دنیا میں جو وحدت جماعت احمدیہ کو حاصل ہے اس کا عشر عشیر بھی کہیں نظر نہیں آتا.جماعت احمد یہ ایک بنیان مرصوص کی حیثیت رکھتی ہے.اس کا باہمی تعاون اور الفت مثالی ہے و اگر کبھی جوانی بشری کی بنا پر جھگڑے پیدا ہوں تو ان کو مٹانے کے لئے مربوط نظام موجود ہے.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے جماعت کو ہدایت کی کہ جھگڑے ختم کرنے کے لئے جہاں تک ہو سکے پنے حقوق چھوڑ دو.چنانچہ جماعت انہی راہوں پر گامزن ہے اور مثالی معاشرہ تخلیق کر رہی ہے.
11 تعلیم القرآن کے متعلق تحریکات قرآن کریم حضرت خلیفہ لمسح الاول کے دل کی غذا تھا.اس کے علوم ومعارف کی اشاعت کے لئے آپ ساری زندگی کوشاں رہے.ایک بار حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے سوال کیا کہ آپ کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے تو فرمایا: مختصر الفاظ میں یہ ہے کہ قرآن مجید عملی طور پر کل دنیا کا دستور العمل ہو.(الحکم 7 جولائی 1911 ء ص 2 کالم (3) پھر فرمایا: قرآن کو مضبوط پکڑو.قرآن بہت پڑھو اور اس پر عمل کرو.(الحکم 21 جنوری 1911ء ص 8 کالم (3) تعلیم القرآن کی اس تحریک پر سب سے زیادہ اور عارفانہ عمل آپ ہی کا تھا.آپ خلافت سے پہلے بھی مسلسل قرآن کا درس دیتے تھے.منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد باوجود بے پناہ ذمہ داریوں کے قرآن کو آپ کی مصروفیات میں اولیت حاصل رہی اور قرآن کا درس دینے کے لئے ہمیشہ جوان اور مستعد رہے.فرماتے تھے: قرآن شریف کے ساتھ مجھے کو اس قدر محبت ہے کہ بعض وقت تو حروف کے گول گول دوائر مجھے انف محبوب نظر آتے ہیں اور میرے منہ سے قرآن کا ایک دریا رواں ہوتا ہے اور میرے سینہ میں قرآن کا ایک باغ لگا ہوا ہے.بعض وقت تو میں حیران ہو جاتا ہوں کہ کس طرح اس کے معارف بیان (بدر 19 اکتوبر 1911ءص 3 کالم2) کروں.درس قرآن اور عربی سیکھنے کی تحریک 1908ء میں اپنی خلافت کے پہلے جلسہ سالانہ پر دوران تقریر آپ نے فرمایا کہ کرزن گزٹ (دہلی) نے حضرت مسیح موعود کی وفات کا ذکر کر کے لکھا ہے کہ اب مرزائیوں میں کیا رہ گیا ہے ان کا سرکٹ چکا ہے ایک شخص جو ان کا امام بنا ہے اس سے تو کچھ ہوگا نہیں ہاں یہ ہے کہ تمہیں کسی مسجد میں قرآن سنایا کرے.سوخدا کرے یہی ہو میں تمہیں قرآن ہی سنایا کروں.اس کے بعد آپ نے قرآن مجید کی بعض آیات پڑھ کر ان کی لطیف تفسیر فرمائی اور آخر میں عربی
12 بدر 7 جنوری 1909ءص9,5) زبان کی تعلیم کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی اور فرمایا کہ لوگ کہتے ہیں عربی سے کیا ہوتا ہے میں کہتا ہوں عربی سے قرآن شریف آتا ہے.عربی سے محمد رسول اللہ کی باتیں سمجھ میں آتی ہیں.عربی سے ابو بکر وعمر و تبع تابعین کی قدر کو پہچانا جاتا ہے.1910ء کے ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ روزانہ تین دفعہ درس دیتے تھے.اخبار بدرلکھتا ہے که حضور آجکل تین درس دیتے ہیں.بعد از نماز صبح مسجد میں پہلے صاحبزادہ شریف احمد صاحب کو، پھر چند گریجوایٹ ہیں.مثلاً شیخ تیمور صاحب ایم اے.ان کو قرآن مجید پڑھایا جاتا ہے.یہ درس خصوصیت سے لطیف ہوتا ہے.بخاری کا درس بھی شروع ہے.( بدر 12 مئی 1910ء ص 2 کالم 1) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے لئے 1913 ء میں بعد نماز فجر حضرت خلیفہ اسیح الاول نے قرآن مجید کا ایک درس دینا شروع فرمایا.جس میں دوسرے لوگوں کو بھی شامل ہونے کی اجازت دی گئی.علاوہ ازیں ایک درس بعد نماز عصر اور دوسرا بعد از نماز مغرب بھی جاری تھا.( بدر 27 فروری 1913ء ص 19) الحکم 1913ء سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خلیفہ اول قرآن مجید کا درس پانچ مرتبہ دے رہے تھے اور آپ نے مارچ 1913ء سے قرآن کے درس سے پہلے بخاری کا بھی عام درس شروع فرما دیا اور ایڈیٹر الحکم شیخ یعقوب علی صاحب تراب حضرت کے حکم سے اسے مرتب کرنے لگے.یہ درس کئی ماہ تک اخبار بدر میں بطور ضمیمہ چھپتا رہا.الحکم 7 مارچ 1913ء ص 10 کالم 3) تدبر و حفظ قرآن کی تحریک ایک بار حضرت خلیفہ المسیح الاول نے اپنے بعض خدام کو یہ کام سپر دفرمایا کہ وہ قرآن مجید کے اسماء افعال اور حروف کی فہرستیں تیار کریں.اس طریق سے خدام میں قرآن مجید کی خدمت اور اس پر غور وفکر کی عادت پیدا کرنا مقصود تھا.مولوی ارجمند خانصاحب کا بیان ہے کہ اس تحریک کے سلسلہ میں میرے حصہ میں اٹھارہواں پارہ آیا جو میں نے پیش کر دیا.ایک بار آپ نے 12 دوستوں کو تحریک فرمائی کہ اڑھائی اڑھائی پارے یاد کر لیں.اس طرح سبہ
13 مل کر حافظ قرآن بن جائیں.تشحید الا ذبان مارچ 1912 ء جلد 7 ص 101) اشاعت قرآن کی تحریک قرآن وحدیث سے حضور کی محبت کا پر تو تھا کہ احباب جماعت کے دل میں خدمت قرآن کے نئے ولولے جنم لیتے تھے.حضرت میر ناصر نواب صاحب نے 1913ء میں جماعت کی طرف سے قرآن مجید کے مستند اردو ترجمہ اور بخاری اور دوسری دینی کتب کے تراجم شائع کرنے کی خواہش ظاہر کی اور حضرت خلیفہ اول سے درخواست کی کہ آپ مجھے ترجمہ اور نوٹ عنایت فرماویں نیز کچھ روپیہ بھی بخشیں.حضرت خلیفہ اول نے اس تحریک پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے ، اعانت کا وعدہ کرتے ہوئے فرمایا یہ مبارک تحریک ہے اللہ تعالیٰ اس کو مثمر ثمرات برکات کرے آمین.خاکسار انشاء اللہ تعالیٰ بقدر طاقت امداد کو حاضر ہے.( بدر 18 ستمبر 1913 ء ص 4,3 قادیان کا رمضان حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے خلافت اولیٰ کے دوران 1912ء کے ماہ رمضان میں اہل قادیان کے قرآن کریم سے عشق و محبت کا نقشہ عجیب انداز سے کھینچا ہے فرماتے ہیں.قادیان کا رمضان قرآن شریف کے پڑھنے اور سننے کے لحاظ سے ایک خصوصیت رکھتا ہے.تہجد کے وقت مسجد مبارک کی چھت پر اللہ اکبر کا نعرہ بلند ہوتا ہے.صوفی تصور حسین صاحب خوش الحانی سے قرآن شریف تراویح میں سناتے ہیں.حضرت صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب بھی قرآن شریف سننے کے لئے اسی جماعت میں شامل ہوتے ہیں.تراویح ختم ہوئیں تو تھوڑی دیر میں الصلوۃ خیر من النوم کی آواز بلند ہوتی ہے.زاہد و عابد تو تہجد کی نماز کے بعد اذان فجر کی انتظار میں جاگ ہی رہے ہوتے ہیں.دوسرے بھی بیدار ہو کر حضرت صاحبزادہ صاحب کے لحن میں کسی محبوب کی آواز کی خوشبو سے اپنے دماغوں کو معطر کرتے ہوئے فریضہ صلوۃ فجر کو ادا کرتے ہیں.جس کے بعد مسجد کی چھت قرآن الفجر کے محبین سے گونجنے لگتی ہے.مگر چونکہ حضرت خلیفہ اسی جلد اپنے مکان کے صحن میں درس دینے
14 والے ہوتے ہیں اس واسطے ہر طرف سے متعلمان درس بڑے اور چھوٹے بچے اور بوڑھے، پیارا قرآن بغلوں میں دبائے حضرت کے مکان کی طرف دوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں.تھوڑی دیر میں صحن مکان بھر جاتا ہے.حضرت کے انتظار میں کوئی اپنی روزانہ منزل پڑھ رہا ہے.کوئی کل کے پڑھے ہوئے کو دہرا رہا ہے.کیا مبارک فجر ہے مومنوں کی تھوڑی دیر میں حضرت کی آمد اور قرآن خوانی سے ساری مجلس بقعہ نور نظر آنے لگتی ہے.نصف پارہ کے قریب پڑھا جاتا ہے.اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے.تفسیر کی جاتی ہے سائلین کے سوالات کے جواب دیئے جاتے ہیں.تقویٰ و عمل کی تاکید بار بار کی جاتی ہے.لطیف مثالوں سے مطالب کو عام فہم اور آسان کر دیا ہے.اس کے بعد اندرون مکان میں عورتوں کو درس قرآن دیا جاتا ہے.پھر ظہر کے بعد سب لوگ مسجد اقصیٰ میں جمع ہوتے ہیں وہاں حضرت خلیفہ مسیح بھی تشریف لے جاتے ہیں اور صبح کی طرح وہاں پھر درس ہوتا ہے.بعد عشاء مسجد اقصیٰ میں حافظ جمال الدین صاحب تراویح میں قرآن شریف سناتے ہیں اور حضرت کے مکان پر حافظ ابواللیث محمد اسمعیل صاحب سناتے ہیں.غرض اس طرح قرآن شریف کے پڑھنے پڑھانے اور سنے کا ایسا شغل ان ایام میں دن رات رہتا ہے کہ گویا اس مہینہ میں قرآن شریف کا ایک خاص نزول ہوتا ہے.حضرت خلیفہ اسیح اپنے دردمند دل کی دعاؤں کے ساتھ قرآن شریف سناتے ہیں.درس کے بعد سامعین کے واسطے دعائیں کرتے ہیں.دارالقرآن تاریخ احمدیت جلد 3 ص 603 حضرت خلیفہ المسیح الاول کو قرآن کریم کی تعلیم واشاعت کا جوش فطرتا عطا ہوا تھا اور ہمیشہ قر آن کریم کا درس دیتے رہتے تھے جو عموماً مسجد اقصیٰ میں ہوتا تھا مگر آپ کی خواہش تھی کہ ایک خاص کمرہ اس مقصد کے لئے بنایا جائے جو صرف درس قرآن کے لئے وقف ہو.اس کمرہ کے لئے حضرت اماں جان نے زمین کا ایک قطعہ دینے کا وعدہ کیا.اس کمرہ کی تعمیر کے لئے جماعت میں مالی تحریک بھی کی گئی اس کا ذکر کرتے ہوئے ایڈیٹر الحکم لکھتے ہیں: جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ دارالقرآن در اصل مدرسہ تعلیم القرآن کا مقدمہ ہے.حضرت خلیفہ ایسیح
15 کی دیرینہ خواہش ہے کہ قرآن مجید کے نہایت اعلیٰ معلم موصل وغیرہ سے منگوائے جائیں.اس وقت تک ہر چند یہاں قرآن مجید کی تعلیم و تدریس کی طرف توجہ ہے لیکن پھر بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے.حفظ قرآن اور تعلیم قراءت کا کوئی انتظام نہیں.الحکم میں پچھلے دنوں میں نے حضرت خلیفتہ امیج کو اس ضرورت کی طرف توجہ بھی دلائی تھی.خدا کا شکر ہے کہ یہ خواہش اس رنگ میں پوری ہونے لگی ہے.حضرت خلیفۃ اسیح نے حضرت میر ناصر نواب صاحب قبلہ کو یہ خدمت سپرد کی ہے کہ وہ اس دار القرآن کی تعمیر کا کام شروع کر دیں.اس کے لئے کم از کم دس ہزار روپیہ درکار ہوگا.چندہ کی فہرست کھول دی گئی ہے.ایڈیٹر الحکم چاہتا ہے کہ اس کے ناظرین اس کارخیر میں کم از کم اڑھائی ہزار جمع کر دیں اور یہ رقم خریداران الحکم کی طرف سے دارالقرآن کے لئے دی جاوے.الحکم 21 فروری 1913 ء ص 3) مگر بعد میں حضور کی ہدایت پر یہ طے پایا کہ موجودہ مسجد اقصیٰ میں ہی ایک بڑا کمرہ تیار کر والیا جائے جو درس کے کام بھی آسکے اور نمازی بھی اس میں آرام سے نماز پڑھ سکیں.چنانچہ اس فیصلہ کی تعمیل میں حضرت میر صاحب موصوف نے وہ ہال کمرہ بنوادیا.(حیات نورص 605) درس کا سلسلہ جاری رہے 1910ء میں حضور گھوڑے سے گر کر زخمی ہو گئے.آپ کی بیماری سے جماعت کو جو نقصان پہنچا اس میں آپ کے درس قرآن کی محرومی سب سے بڑا نقصان تھا.جس کا آپ کو خود بھی بہت احساس تھا.چنانچہ آپ نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو حکم دیا کہ عصر کے بعد قرآن مجید کا درس دیا کریں اور اگر وہ کسی وجہ سے نہ دے سکیں تو مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب درس دیں اگر وہ بھی نہ دے سکیں تو قاضی امیر حسین صاحب درس دیں چنانچہ حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب نے 13 فروری 1911ء سے درس شروع کر دیا.الحام 14 فروری 1911 ء ص 4 کالم 1) حضرت خلیفہ اسیح الاول کی روحانی توجہ اور بار بار ترغیب کے نتیجہ میں جماعت کے اندر قرآن کریم کا درس دینے اور درس سننے کا خاص ذوق پیدا ہو گیا تھا قادیان میں حضور کے علاوہ درس دینے والوں میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا نام نامی بہت نمایاں تھا.
16 فروری 1910 ء سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے نماز مغرب کے بعد (الحکم 21 فروری 1910ء ص 5 کالم 3) قرآن مجید کا درس دینا شروع فرمایا.وسط 1913ء سے آپ دن میں دو دفعہ درس دینے لگے یعنی فجر اور ظہر کے بعد.الفضل 18 جون 1913 ء ص 1 ) اس کے علاوہ بھی سید نا محمود نے نوجوانوں کے لئے کئی بار مختلف قسم کی تربیتی کلاسز کا انعقاد فرمایا.مثلاً 1910ء میں آپ نے سکولوں اور کالجوں کی تعطیلات کے دوران قادیان آنے والے طلباء کے لئے ایک تربیتی کلاس کا اجراء فرمایا.کلاس کے نصاب میں قرآن و حدیث اور بعض قصائد شامل تھے.آپ نے ان کو بڑی محنت سے پڑھایا اور عربی و دینی علوم سے متعارف کیا.آخری وصیت ( بدر 12 مئی 1910ء ص 2 کالم (1) 4 مارچ 1914 ء کو نماز عصر کے بعد حضرت خلیفہ اول کو یکا یک ضعف محسوس ہونے لگا.اسی وقت آپ نے حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب کو قلم دوات لانے کا حکم دیا.چنانچہ وہ قلم دوات اور کاغذ لے آئے اور آپ نے لیٹے لیٹے کا غذ ہاتھ میں لیا اور جو وصیت لکھی اس میں فرمایا قرآن وحدیث کا درس جاری رہے.( الحکم 7 مارچ 1914ء ص 5) حضرت خلیفہ مسیح الاول کا یہی طرز عمل اور یہی وصیت تھی جس نے آئندہ جماعت احمدیہ میں درس قرآن کو ہمیشہ کے لئے جاری کر دیا.آپ نے وفات سے پہلے اپنی بیٹی امتہ الحی صاحبہ سے فرمایا کہ میرے مرنے کے بعد میاں (بشیر الدین محمود احمد صاحب) سے کہہ دینا کہ وہ عورتوں میں بھی درس دیا کریں.تاریخ احمدیت جلد 3 ص 512) چنانچہ آپ کی وصیت کے مطابق حضرت مصلح موعودؓ نے عورتوں میں الگ درس کا بھی اہتمام فرمایا اور ایم ٹی اے تو بالواسطہ یا بلا واسطہ در حقیقت قرآن کریم کی تعلیمات اور درس کے لئے وقف ہے.
17 صادقانہ محبت کے نظارے حضرت خلیفہ المسیح الاول نے جس طرح عملی نمونہ سے جماعت کے دل میں قرآن کی محبت پیدا کی اس کا ایک نظارہ امرتسر کے ایک صاحب قلم سے ملاحظہ فرمائیے.ایک غیر احمدی صحافی محمد اسلم صاحب امرتسر سے قادیان آئے اور چند دن قیام کر کے واپس چلے گئے.انہوں نے حضرت خلیفتہ امسح الاول اور جماعت کا نہایت قریب سے مطالعہ کرنے کے بعد اپنے تاثرات پر ایک تفصیلی بیان دیا.جس سے حضرت خلیفہ اول اور آپ کے عہد خلافت کی قادیان پر بہت تیز روشنی پڑتی ہے.مسٹر محمد اسلم نے لکھا: عام طور پر قادیان کی احمدی جماعت کے افراد کو دیکھا گیا.تو انفرادی طور پر ہر ایک کو تو حید کے نشہ میں سرشار پایا گیا اور قرآن مجید کے متعلق جس قدر صادقانہ محبت اس جماعت میں میں نے قادیان میں دیکھی کہیں نہیں دیکھی.صبح کی نماز منہ اندھیرے چھوٹی مسجد میں پڑھنے کے بعد جو میں نے گشت کی تو تمام احمدیوں کو میں نے بلا تمیز بوڑھے و بچے اور نوجوان کے لیمپ کے آگے قرآن مجید پڑھتے دیکھا.دونوں احمدی مساجد میں دو بڑے گروہوں اور سکول کے بورڈنگ میں سینکڑوں لڑکوں کی قرآن خوانی کا مؤثر نظارہ مجھے عمر بھر یا در ہے گا.حتی کہ احمدی جماعت کے تاجروں کا صبح سویرے اپنی اپنی دکانوں اور احمدی مسافر مقیم مسافر خانے کی قرآن خوانی بھی ایک نہایت پاکیزہ سین ( منظر ) پیدا کر رہی تھی.گویا صبح کو مجھے یہ معلوم ہوتا تھا کہ قدسیوں کے گروہ در گروہ آسمان سے اتر کر قرآن مجید کی تلاوت کر کے بنی نوع انسان پر قرآن مجید کی عظمت کا سکہ بٹھانے آئے ہے.غرض احمدی قادیان میں مجھے قرآن ہی قرآن نظر آیا.( بدر 13 مارچ 1913ءص6 تا 9) دعوت الی اللہ کے متعلق تحریکات واعظین و مربیان کے لئے تحریک حضرت مسیح موعود کے دل میں اشاعت اسلام کا بے پناہ جذبہ تھا.آپ نے 9 ستمبر 1901 ء کو ایک
18 اشتہار بعنوان ”اشتہار مفید الاخیار شائع کیا اور ایک سو مبلغین کی تحریک فرمائی جو نشانات اور دلائل کے ساتھ مخالفین کا مقابلہ کر سکیں.اس کے لئے حضور نے اپنی کتابوں کے مطالعہ کو ضروری قرار دیتے ہوئے فرمایا: ہماری اس جماعت میں کم سے کم سو آدمی ایسا اہل فضل اور اہل کمال ہو کہ اس سلسلہ اور اس دعوئی کے متعلق جو نشان اور دلائل اور براہین قویہ قطعیہ خدا تعالیٰ نے ظاہر فرمائے ہیں ان سب کا اس کو علم ہو اور مخالفین پر ہر ایک مجلس میں بوجہ احسن اتمام حجت کر سکے اور ان کے مفتر یا نہ اعتراضات کا جواب دے سکے اور خدا تعالیٰ کی حجت جو ان پر وارد ہو چکی ہے بوجہ احسن اس کو سمجھا سکے اور نیز عیسائیوں اور آریوں کے وساوس شائع کردہ سے ہر ایک طالب حق کو نجات دے سکے اور دین اسلام کی حقیت اکمل اور اتم طور پر ذہن نشین کر سکے.پس ان تمام امور کے لئے یہ قرار پایا ہے کہ اپنی جماعت کے تمام لائق اور اہل علم اور زیرک اور دانشمند لوگوں کو اس طرف توجہ دی جائے کہ وہ 24 دسمبر 1901 ء تک کتابوں کو دیکھ کر اس امتحان کے لئے طیار ہو جائیں اور دسمبر آئندہ کی تعطیلوں پر قادیان میں پہنچ کر امور متذکرہ بالا میں تحریری امتحان دے.اس جگہ اسی غرض کے لئے تعطیلات مذکورہ میں ایک جلسہ ہوگا اور مباحث مندرجہ کے متعلق سوالات دیئے جائیں گے.ان سوالات میں وہ جماعت جو پاس نکلے گی ان کو ان خدمات کے لئے منتخب کیا جائے گا اور وہ اس لائق ہوں گے کہ ان میں سے بعض دعوت حق کے لئے مناسب مقامات میں بھیجے جائیں اور اسی طرح سال بسال یہ مجمع انشاء اللہ تعالیٰ اسی غرض سے قادیان میں ہوتا رہے گا جب تک کہ ایسے مباحثین کی ایک کثیر العدد جماعت طیار ہو جائے ، مناسب ہے کہ ہمارے احباب جو زیرک اور عقلمند ہیں اس امتحان کے لئے کوشش کریں.( مجموعہ اشتہارات جلد 2 ص 522) حضرت مسیح موعود کی زندگی میں بوجوہ اس تحریک پر عمل نہ ہوسکا اور نہ ہی کوئی واعظ مقرر ہوسکا.حضرت خلیفہ المسیح الاول نے خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہوئے اپنی پہلی تقریر میں واعظین کے بہم پہنچانے کو بھی بیعت خلافت کی شرائط میں شامل فرما دیا.(احکم 6 جون 1908 ء ) 30 مئی 1908 ء کو خلافت اولیٰ میں صدر انجمن احمدیہ کا پہلا اجلاس زیر صدارت حضرت سید نا مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ہوا.اس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ شیخ غلام احمد صاحب ( جو حضرت مسیح
19 موعود کی زندگی میں اشاعت حق کا عہد کر چکے تھے ) کی درخواست تقر ر حضرت خلیفہ امسیح الاول کی خدمت میں بھجوائی جائے.چنانچہ حضور نے ان کی تقرری منظور فرمائی اور ہدایات دیں.( تاریخ احمدیت جلد 3 ص 216,208 ) 16 جولائی 1908ء کو قرآن کریم کا درس دیتے ہوئے حضرت خلیفہ مسیح الاول نے حضرت مسیح موعود کے مذکورہ بالا اشتہار مفید الا خیار کے حوالے سے جماعت کو حضرت مسیح موعود کی کتب کا امتحان دینے اور مبلغین و واعظین کے تیار ہونے کی تحریک فرمائی اور فرمایا کہ حضرت اقدس کے مذکورہ اشتہار کی اشاعت کی جائے اور جو لوگ اخبار نہیں پڑھتے ان کو دوسرے لوگ یہ اشتہا ر سنا دیں.(الحکم 18 جولائی 1908 ء ) اگست 1909ء میں حضور نے اپنے ایک پیغام میں فرمایا: قوم میں دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے مطلوب ہیں جن کو دنیا کی پروا بھی نہ ہو جب مقابلہ دین و دنیا کا آکر پڑے.باہمت واعظ مطلوب ہیں جو اخلاص وصواب سے وعظ کریں، عاقبت اندیش صرف اللہ پر بھروسہ کرنے والے.دعاؤں کے قائل اور علم پر نہ گھمنڈ کرنے والے علماء مطلوب ہیں جن کو فکر لگی ہو کہ کیا کیا جائے کہ اللہ راضی ہو جائے“.چنانچہ بہت جلد حضور کی اجازت سے صدر انجمن احمدیہ نے واعظین مقرر کر دیئے.1.حضرت شیخ غلام احمد صاحب.یکم اگست 1908ء کو امرتسر سے حیدر آباد تک دورہ پر روانہ ہو گئے.2.مولوی محمد علی صاحب سیالکوٹی پنجابی کے مشہور شاعر تھے.( الحکم 7 راگست 1909 ء ص 1) 3.حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی.پنجابی کے بہت عمدہ واعظ تھے.4.حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی.آپ کو 1910ء میں جماعت لاہور کے لئے مقرر تاریخ احمدیت جلد 3 ص 324) فرمایا گیا.یہ با قاعده واعظین یا مربیان تھے ان کے علاوہ جلسوں اور مباحثوں میں حصہ لینے والے بیسیوں افراد تھے جو حضور کی اس تحریک میں شامل ہوئے.بعد میں جامعہ احمدیہ کے قیام اور خلفاء کی طرف سے وقف زندگی کی تحریکات کے نتیجہ میں بیسیوں مربیان اور مبلغین سلسلہ کو میسر آگئے.وقف جدید کے
20 سینکڑوں معلمین ان کے علاوہ ہیں.نیز وہ لوگ جو ذاتی مطالعہ اور جوش خدمت کے تحت داعیان کی صف میں شامل ہو گئے وہ بھی ہزاروں کی تعداد میں ہیں اور کل عالم کو در تو حید پر جھکانے کے لئے تن من دھن قربان کر رہے ہیں.دینی مدرسہ (جامعہ احمدیہ ) کے قیام کی تحریک حضرت مسیح موعود علیہ السلام غلبہ اسلام کے جس مشن کو لے کر مبعوث ہوئے تھے وہ بیشمار جانی اور مالی قربانیوں کا متقاضی تھا اور ایسے جاں نثار اور باکردار افراد کی ضرورت تھی جو علمی اسلحہ ، اخلاق کی قوت اور دعاؤں کے سرمایہ سے لبریز ہو کر احمدیت کی خدمت پر کمر بستہ ہو جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مدرسہ احمدیہ کے مقاصد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا.یہ مدرسہ اشاعت اسلام کا ایک ذریعہ بنے اور اس سے ایسے عالم اور زندگی وقف کرنے والے لڑکے نکلیں جو دنیا کی نوکریوں اور مقاصد کو چھوڑ کر خدمت دین کو اختیار کریں.( ملفوظات جلد چہارم ص 618 مدرسہ احمدیہ جو 1898ء میں اپنی ابتدائی شکل میں پرائمری کلاس تک شروع ہوا تھا ، جلد جلد ترقی کی منازل طے کرتا ہوا 1903 ء تک کالج کے درجے تک پہنچ گیا.یہ سفر جاری تھا کہ 1905 ء کے سال میں دو بزرگ رفقاء حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی اور حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی وفات پاگئے.ان بزرگان کی وفات سے قبل حضرت اقدس مسیح موعود کو الہام بتایا گیا :.دو شہتیر ٹوٹ گئے.چنانچہ ان بزرگان کی وفات سے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی توجہ اس جانب مبذول ہوئی کہ سلسلے کی مضبوطی کے لئے ایسے شہتیر نما وجودوں کی ضرورت جماعت کو ہمیشہ رہے گی.چنانچہ دسمبر 1905ء میں ایک موقع پر آپ نے فرمایا."مدرسہ کی حالت دیکھ کر دل پارہ پارہ اور زخمی ہو گیا.علماء کی جماعت فوت ہورہی ہے.مولوی عبدالکریم صاحب کی قلم ہمیشہ چلتی رہتی تھی.مولوی برہان الدین فوت ہو گئے اب قائم مقام کوئی ( ملفوظات جلد چہارم ص 584)
21 نیز فرمایا:.اس مدرسہ کی بنا سے غرض یہ تھی کہ دینی خدمت کے لئے لوگ تیار ہو جاویں.یہ خدا تعالیٰ کا قانون ہے.پہلے گزر جاتے ہیں، دوسرے جانشین ہوں.اگر دوسرے جانشین نہ ہوں تو قوم کے ہلاک ہونے کی جڑ ہے.مولوی عبدالکریم اور دوسرے مولوی فوت ہو گئے اور جو فوت ہوئے ہیں ان کا قائم مقام کوئی نہیں.دوسری طرف ہزار ہا روپیہ جو مدرسہ کے لئے لیا جاتا ہے پھر اس سے فائدہ کیا ؟ جب کوئی تیار ہو جاتا ہے تو دنیا کی فکر میں لگ جاتا ہے اصل غرض مفقود ہے.میں جانتا ہوں جب تک تبدیلی نہ ہوگی کچھ نہ ہوگا“.( ملفوظات جلد چہارم ص 584) جس تبدیلی کی طرف حضور نے اپنے اس ارشاد میں اشارہ فرمایا وہ دراصل خالص خدمت دین کے لئے وقف ہو جانے سے متعلق تھی.جو طلباء مدرسہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہوتے ان کے لئے لازم نہ تھا کہ وہ جماعت کے لئے زندگی وقف بھی کریں.خدمت دین کی غرض کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کے ارشاد کے مطابق 1906ء میں ایک الگ کلاس کا اجراء کیا گیا.جسے شاخ دینیات کا نام دیا گیا.مگر سرمایہ کی کمی کی وجہ سے یہ کلاس بہت ناقص حالت میں تھی.پھر آپ نے بڑے زور سے یہ تحریک فرمائی کہ حضرت مسیح موعود کی یاد میں اعلی پیمانہ پر ایک دینی مدرسہ قائم کیا جائے جس میں واعظین اور مبلغین تیار کئے جائیں.یہ تحریک ایک وسیع انتظام اور کثیر اخراجات کا تقاضا کرتی تھی.چنانچہ آپ کی خواہش اور ارشادات کے مطابق جماعت کے عمائدین نے یہ تحریک پوری جماعت کے سامنے رکھی اور بتایا کہ یہ مدرسہ دنیا میں اشاعت حق کا ایک بھاری ذریعہ ہوگا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عظیم الشان یادگار بھی.سواس مدرسہ کے لئے عمدہ عمارت، اعلیٰ درجہ کے سٹاف، طلباء کے لئے وظائف اور بہترین لائبریری کی ضرورت ہے.لہذا احباب مالی قربانی میں ذوق وشوق سے حصہ لیں.لکھا.بدر 18 جون 1908ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یادگار“ کے عنوان کے تحت ہے.حضرت خلیفہ مسیح موعود یہ چاہتے ہیں کہ حضرت موعود مبرور کی یادگار میں اعلیٰ پیمانہ پر ایک دینی
22 مدرسہ قائم کیا جاوے جس میں واعظین اور مبلغین تیار کئے جاویں.لائبریری کے متعلق حضرت خلیفہ مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ ہم اپنی کتابوں کا ایک ذخیرہ کل ہی دے دیں گے.انجمن تفخیذ الاذہان بھی اپنی لائبریری کو دینے کا وعدہ کرتے ہیں.سٹاف یعنی اس مدرسہ کے مدرسین کے لئے ہماری یہ تجویز ہے کہ جماعت کے قابل ترین آدمیوں کو اس سب سے اہم کام پر لگایا جائے لیکن اس مدرسہ کے اخراجات اور طلباء کے وظائف کے لئے ایک مستقل ماہوار خرچ کی ضرورت ہے جو آہستہ آہستہ موجودہ ہائی سکول کے برابر پہنچ رہے گا بلکہ اگر اس مدرسہ کو کالج کے درجہ تک پہنچایا جائے اور مختلف زبانوں کے سکھانے کا انتظام کیا جائے تو کسی صورت میں بھی کالج کے خرچ سے کم اس کا خرچ نہ ہوگا مگر سر دست کام شروع کرنے کے لئے قریباً دوصد روپے ماہوار تک ( خرچ ہوگا.ناقل ) جو چار پانچ سال میں سات آٹھ سوروپے ماہوار تک پہنچ جائے گا اور دوسری طرف اس کی عمارت کے لئے روپیہ درکار ہوگا.یہ وہ تجاویز ہیں جواب ہم حضرت مولوی صاحب کے ارشاد سے قوم کے سامنے پیش کرتے ہیں:.یہ مدرسہ اگر خدا نے چاہا تو دنیا میں اسلام کی اشاعت کا ایک بڑا بھاری ذریعہ ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک یادگار ہوگی.پس احباب کو چاہئے کہ اس مقدس اور اہم کام کے لئے یکمشت اور مستقل چندے حسب استطاعت دیں اور احمدیہ انجمنیں اپنی متفقہ کوششوں سے اس تجویز کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں.( بدر 18 جون 1908ء ص 4 کالم 1) احباب جماعت نے اس تحریک پر حسب استطاعت لبیک کہا اور نا مساعد حالات کے باوجود یکم مارچ 1909ء کو اس درسگاہ کی بنیاد رکھی گئی جس کا نام مدرسہ احمدیہ تجویز کیا گیا اور اولین ہیڈ ماسٹر حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب قرار پائے.اس درسگاہ کے با قاعدہ قواعد وضوابط بنائے گئے اور سات سالوں پر مشتمل ایک نصاب ترتیب دیا گیا.اس وقت تک مدرسہ احمدیہ کے لئے کسی الگ بورڈنگ کا انتظام نہ تھا اور اس کی کلاسیں مدرسہ تعلیم الاسلام میں ہی لگتی رہیں.1910ء میں حضرت خلیفہ مسیح الاول نے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو افسر مدرسہ یہ مقرر فرمایا اور جملہ انتظامات آپ کے ذمے لگا دیئے.آپ ستمبر 1910 ء سے مارچ 1914 ء تک
23 افسر مدرسہ احمد یہ رہے اسی دور میں مدرسہ کی الگ بورڈنگ، طلباء کے لئے ٹاٹ کی بجائے کرسیوں اور مدرسہ کی الگ لائبریری کا انتظام ہوا.حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے دور خلافت میں اس مدرسہ کو بہت وسعت دی اور حضور نے 1928 ء میں اسے جامعہ احمدیہ کا نام دے کر اس کا افتتاح فرمایا اور حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب کو اس کا پہلا پرنسپل مقرر فر مایا.جامعہ احمدیہ کی غرض و غایت پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی فرماتے ہیں:.خدا تعالیٰ کے مامور حضرت مسیح موعود کے ارشاد اور ہدایت کے ماتحت مدرسہ احمدیہ قائم کیا گیا تا کہ اس میں ایسے لوگ تیار ہوں جو ولتکن منکم (-) کے منشاء کو پورا کرنے والے لوگ ہوں.تبلیغ کے لحاظ سے یہ کالج (یعنی جامعہ احمدیہ ایسا ہونا چاہئے کہ اس میں نہ صرف دینی علوم پڑھائے جائیں بلکہ دوسری زبانیں بھی پڑھانی ضروری ہیں.ہمارے جامعہ میں بعض کو انگریزی، بعض کو جرمنی ، بعض کو سنسکرت ،بعض کو روسی ، بعض کو سپینش و غیرہ زبانوں کی اعلی تعلیم دینی چاہئے کیونکہ جن ملکوں میں مبلغوں کو بھیجا جائے ان کی زبان جاننا ضروری ہے“.(انوار العلوم جلد 10 ص214) 1947ء میں پاکستان بننے کے بعد جامعہ احمدیہ اور مدرسہ احمدیہ کے جملہ اساتذہ وطلباء پہلے لاہور آئے جہاں 13 نومبر 1947ء کو مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کو مدغم کر کے ادارہ شروع ہوا چند ماہ بعد یہ ادارہ چنیوٹ آیا جہاں سے تقریباً دو ماہ بعد احمد گر منتقل ہو گیا.چند سال کے بعد یہ ادارہ مستقل طور پر ربوہ آگیا.1949ء میں حضرت مصلح موعود نے جامعۃ المبشرین کا آغاز فرمایا.جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد جو طلباء اپنی زندگی وقف کرتے وہ اس میں مزید دو سال تعلیم حاصل کرتے تھے.بالآخر جامعتہ المبشرین بھی 7 جولائی 1957ء کو جامعہ احمدیہ میں مدغم کر دیا گیا.خلافت رابعہ میں ستمبر 1994 ء سے جامعہ احمدیہ کو انٹر نیشنل جامعہ احمدیہ کا نام دیا گیا اور ایک Revised نصاب سات سال کے عرصے پر محیط ، جاری کیا گیا.یہ یہ نصاب تین مرحلوں پر مشتمل ہے.پہلا مرحله دو سال ، دوسرا تین سال اور تیسرا پھر دو سال پر مشتمل ہے.یکم ستمبر 2002ء میں واقفین نو کی بڑھتی ہوئی تعداد کے جامعہ میں آنے کی توقع پر جامعہ احمد یہ ربوہ کو
24 لله وحصوں میں تقسیم کر دیا گیا.جامعہ احمد یہ جو نیئر سیکشن اور سینئر سیکشن.تقسیم ہند کے بعد قادیان میں مدرسہ احمدیہ کے نام سے ادارہ جاری رہا جس میں تدریس کا جدید دور 1954 ء سے شروع ہوا.1998ء میں اسے ترقی دے کر جامعہ احمد یہ بنادیا گیا.(مجلہ جامعہ احمدیہ قادیان ص 58,54) خلافت اولی میں قائم ہونے والا یہ چھوٹا سا ادارہ تھا جو کئی مختلف مراحل اور ادوار سے گزرتا ہوا جامعہ احمدیہ کی صورت میں عظیم الشان خدمت کر رہا ہے.جس کے فارغ التحصیل طلباء نے قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کرتے ہوئے جابجاہدایت کے بیج بوئے جواب اکثر مقامات پر تناور درخت بن چکے ہیں.جامعہ احمدیہ کی مرکزی شاخیں قادیان اور ربوہ میں ہیں.اس کے علاوہ انگلستان، کینیڈا ، انڈونیشیا، بنگلہ دیش ، غانا، نائیجیریا، سیرالیون، تنزانیہ وغیرہ میں جامعہ احمدیہ قائم ہو چکے ہیں اور سینکڑوں واقفین زندگی زیرتعلیم ہیں.مولوی ثناء اللہ امرتسری نے دینی مدرسہ کی تحریک پر یہ تبصرہ کیا تھا کہ: خلیفہ نورالدین نے حکم دیا ہے کہ مرزا کی یادگار میں دینی مدرسہ قائم کیا جائے ہم بھی اس مدرسہ کی تائید کرتے ہیں.امید ہے کہ مرزا صاحب کے راسخ مرید جی کھول کر اس میں چندہ دیں گے کہ آخر کار یہ مدرسہ ہمارا ہوگا اور مرزائی خیال عنقریب نسیا منسیا ہو کر اڑ جائے گا“.( مرقع قادیانی ستمبر اکتوبر 1908 ء ص 3 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 4 ص230) ایک طرف یہ تعلی اور توقعات اور دوسری طرف خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ برکت کہ ہزاروں واقفین زندگی اس ادارے سے فیض یاب ہو چکے ہیں اور 2006ء میں جامعہ احمدیہ نے دنیا بھر میں اپنے قیام کی سوویں سالگرہ منائی اور اپنے عزائم کو تازہ کیا.سید نا حضرت خلیفة المسیح الامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یکم اکتوبر 2005ء کو جامعہ احمدیہ یو.کے کے افتتاح کے موقع پر فرمایا.یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو جماعت احمدیہ کا دینی تعلیم سکھانے والا ادارہ ہے.وہ لوگ یہاں داخل ہوں گے جنہوں نے اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کی ہیں.تو اس لحاظ سے بہر حال پھر
25 انتظامیہ کو دیکھنا بھی پڑتا ہے.لیکن آپ لوگوں سے میں کہتا ہوں کہ اگر آپ لوگ جو طلباء آئے ہیں اعلیٰ مثالیں قائم کریں اور ہر لحاظ سے قائم کریں تو جامعہ کی تاریخ میں آپ کا نام سنہری حروف سے لکھا جائے گا.ہمیشہ آپ کو اس نام سے یاد کیا جائے گا کہ یہ ایسے طلباء تھے جن سے بعد میں آنے والوں نے بھی راہنمائی حاصل کی.کیونکہ لمبی کلاسیں چلنی ہیں ہر سال داخلے ہوں گے تو ظاہر ہے وہ آپ کے نمونے بھی دیکھ رہے ہوں گے.اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی تعلیم مکمل کرنے، نیکیوں میں بڑھتے چلے جانے اور اپنے وقف کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے.ہمیشہ آپ کو اس بات پر فخر رہے اور یہ فخر عاجزی میں الفضل 7 دسمبر 2005 ء ) بڑھائے.ٹریکٹ اور رسالے شائع کرنے کی تحریک ایک تحریک آپ نے یہ فرمائی کہ دعوت الی اللہ کے لئے زبانی اور لسانی خدمات کے علاوہ چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ اور رسالے لکھ کر شائع کئے جائیں.حضور کی اس تحریک کا ذکر کرتے ہوئے ایڈیٹر بدر ہیں:.جو صاحب خودا نتظام نہ کر سکیں یا اپنے نام پر شائع نہ کر سکتے ہوں.وہ مضمون لکھ کر دفتر بدر میں بھیج دیں.چھپوائی اور تقسیم کرائی کا خرچ ساتھ بھیج دیں.ہم انتظام کر دیں گے.سب احباب کو چاہئے کہ اس ثواب میں شریک ہوں.پہلے دعا کریں.بہت دعا کریں.پھر مضمون لکھیں.خالصتاً رضاء الہی کے لئے.اسلام کی نصرت کے واسطے لاہور اور بڑے شہروں کے دوست تو تمام انتظام بخوبی وہیں کر سکتے ہیں.ایسے تمام ٹریکٹوں کا نوٹس اخبار ”بدر میں مفت شائع ہوتا رہے گا“.( بدر 22 راگست 1912 ء ص 2) حضور کے اس ارشاد کی تعمیل میں جماعت کے اہل قلم احباب نے دھڑا دھڑ ٹریکٹ لکھ کر چھاپنے شروع کر دیے.اسی ضمن میں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ مال غنیمت کی تقسیم کے لئے جو اللہ اور رسول کا حق ہے اس کا مصرف موجودہ زمانہ میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی، اس کی صفات، اس کے افعال اور اس کے کلام پاک کی اشاعت پر رسالے اور ٹریکٹ شائع کئے جائیں اور رسول کریم علی لوہے کے حصہ کی ادائیگی کے الله
26 لئے حدیث شریف کی اشاعت اور حضور کی ذات اور حضور کے خلفاء پر اعتراضات کے جوابات پر روپیہ خرچ کیا جائے.(الحکم 14 دسمبر 1912ء ص 6 کالم 1) اخبارات کا اجراء تبلیغ اور تربیت کی خاطر خلافت اولی کے دور میں کئی اخبار جاری ہوئے.تبلیغ کے نقطہ نگاہ - الفضل کے علاوہ اخبار نور اور الحق کی خدمات ناقابل فراموش ہیں.اخبار ”نور“: حضرت شیخ محمد یوسف صاحب (سابق سورن سنگھ) نے اکتوبر 1909 ء میں اخبار نور جاری کیا جو خلافت اولی میں جاری ہونے والا پہلا اخبار تھا.جس کا مشن سکھوں میں دعوت الی اللہ تھا.یہ اخبار تقسیم ہند تک بخیر و خوبی جاری رہا.اس کے بعد شیخ صاحب نے پاکستان میں آکر گوجرانوالہ سے اسے دوبارہ نکالنا شروع کیا مگر افسوس چند پرچے ہی شائع ہوئے تھے کہ آپ کا انتقال ہو گیا.سکھوں میں دعوت حق کی کوئی تاریخ شیخ محمد یوسف صاحب کے جاری کردہ اخبار نور اور ان کے شائع کردہ لٹریچر کے بغیر مکمل نہیں قرار دی جاسکتی.(احکام 28 اکتوبر 1909ء) اخبار الحق حضرت میر قاسم علی صاحب نے دہلی سے 7 جنوری 1910ء سے دوسرا اخبار نکالنا شروع کیا.جس کا نام حضرت خلیفہ اول نے الحق، تجویز فرمایا.اخبار الحق کے اہم اغراض و مقاصد یہ تھے.(1) مخالفین کے عموماً اور دیا نندیوں کے خصوصاً اعتراضات کا جواب دینا اور دین کی خوبیوں کا اظہار کرنا اور دیا نندی تعلیم کے طلسم کو توڑنا.(2) باہمی اتحاد و اتفاق بڑھانا اور اختلافات باہمی سے اجتناب.(3) حکومت وقت ورعایا کے تعلقات کو خوشگوار بنانا.اخبارالحق نے آریوں اور دوسرے مذاہب کے خلاف قلمی جہاد کی بدولت جلد ہی مسلمانان ہند میں شہرت حاصل کر لی.1911ء میں حکومت نے پریس ایکٹ کے تحت ایک ہزار روپیہ کی نقد ضمانت طلب کی تو اسلامی پریس نے اس کے خلاف پر زور احتجاج کیا.چنانچہ اخبار البشیر ، وکیل ، الاسلام ملت، وقت، مسلمان، زمیندار، افغان وغیرہ اخبارات نے اس فیصلہ پر سخت تنقید کی.مگر حکومت نے
27 اپنا فیصلہ برقرار رکھا اور حضرت میر صاحب نے جو ایک دفعہ پہلے بھی پانچ سوروپ یہ ضمانت جمع کر چکے تھے.تین دن کے اندر اندر ایک ہزار روپیہ کی ضمانت داخل کرادی اور الحق، پھر سے جاری کر دیا.حالانکہ بڑے بڑے پرانے اخبار ضمانت طلب کئے جانے پر بند ہو گئے تھے.1913 ء کے آخر میں یہ اخبار خطر ناک مالی بحران میں مبتلا ہو گیا.تو حضرت خلیفہ المسیح الاول کی طرف سے بوساطت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ارشاد ملا کہ حضور پسند نہیں فرماتے کہ الحق بند کر دیا جائے اور یہ بھی فرمایا کہ ہم کچھ امداد بھی کریں گے خود حضرت صاحبزادہ صاحب نے میر صاحب کو لکھا کہ الحق ہرگز بند نہ کیا جائے اور مبلغ دس روپے بطور امداد بھجوائے.اخبار الحق نے آریوں میں دعوت الی اللہ کے علاوہ احمد بیت کے بعض مخصوص مسائل مسئلہ ختم نبوت وغیرہ کی وضاحت کرنے میں بھی نمایاں کام کیا.ایک خاص چیز جو سلسلہ میں قیمتی اضافہ کا موجب بنی.حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی کا سفر نامہ تھا جو اس میں بالاقساط چھپتا تھا.حضرت میر صاحب آخر 1915ء میں دہلی سے قادیان ہجرت کر کے آگئے اور اخبار الحق، فاروق کی شکل میں قادیان ہی سے شائع ہونے لگا.تاریخ احمدیت جلد 3 ص313) عربی ضمیمه اخبار بدر " مصالح العرب": 1913ء میں عرب ممالک تک احمدیت کا پیغام پہنچانے کے لئے مصالح العرب کے نام سے بدر کے ساتھ ایک ہفتہ وار عربی ضمیمہ شائع ہونا شروع ہوا.جو سید عبدائمی عرب صاحب کی ادارت میں نکلتا تھا.تاریخ احمدیت جلد 3 ص 438) انجمنوں کا قیام مجمع الاخوان: تبلیغ کی غرض سے خلافت اولی میں کی انجمنیں قائم کی گئیں.حضرت مسیح موعود کی زندگی میں مارچ 1908ء میں حضرت خلیفہ المسح الاول نے مجمع الاخوان کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تھی جس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ تائید دین کے لئے چھوٹے چھوٹے پمفلٹوں کا سلسلہ جاری کیا جائے.( الحام 10 مارچ 1908 ص 7)
28 مگر جلد ہی آپ کے خلیفہ المسیح بن جانے کی وجہ سے وہ انجمن اس رنگ میں قائم نہ رہ سکی مگر آپ کے دور خلافت میں مختلف انجمنیں ان مقاصد کو پورا کرتی رہیں.دیا نند مت کھنڈن سبھا: دہلی اور اس کے ماحول میں آریہ سماج نے زبر دست فتنہ برپا کر رکھا تھا.جماعت احمد یہ دہلی کے نامورممبر حضرت میر قاسم علی صاحب نے 1909 ء میں ملازمت چھوڑ کر ان دشمنان حق کے تحریری و تقریری دفاع کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی اور دہلی میں دیا نند مت کھنڈن سبھا کے نام سے ایک انجمن قائم کی.حضرت خلیفہ اول نے اپنی جیب خاص سے اس انجمن کے لئے ایک سو روپیہ عطا فرمایا.اس انجمن نے آریوں کی زہریلی کچلیاں توڑنے میں بڑا بھاری کام کیا اور مسلمانوں کے حوصلے بلند ہو الحكم 28 اکتوبر 1909ء ص 15 کالم 1) انجمن ارشاد 1909ء کے آخر پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محموداحمد صاحب نے انجمن ارشاد بنائی جس کا مقصد دشمنان حق کے اعتراضوں کا ابطال تھا.( تاریخ احمدیت جلد 3 ص303) انجمن انصار الله: فروری 1911ء میں ہی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ایک رویا کی بناء پر حضرت خلیفہ امسیح الاول کی اجازت سے انجمن انصار اللہ کی بنیاد ڈالی.حضور نے فرمایا میں بھی آپ کے انصار اللہ میں شامل ہوں.( بدر 23 فروری ص 2.9 مارچ 1911ءص8) اس انجمن کے ہر ممبر کا فرض تھا کہ حتی الوسع دعوت الی اللہ کے کام میں لگار ہے اور جب موقع ملے ( بدر 23 فروری 1911ءص2) اس میں اپنا وقت صرف کرے.چنانچہ جولائی 1913 ء تک اس کے ممبروں کے ذریعہ دو تین سو آدمی سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور یہ سلسلہ اسی طرح بعد میں بھی جاری رہا.انجمن نے جماعت میں داعیان الی اللہ کی ایک جمعیت تیار کر دی جس نے آئندہ چل کر جماعت احمدیہ کی ترقی و اشاعت میں بڑا بھاری حصہ لیا.انجمن نے اپنے خرچ پر ایک ممبر چوہدری فتح محمد صاحب سیال کو انگلستان میں خواجہ کمال الدین صاحب کی مدد کے لئے بھجوایا.الفضل 23 جولائی 1913ء ص 14) (الحکم جو بلی نمبر ص 77)
29 29 لندن مشن کے لئے تحریک 1913ء میں حضرت خلیفہ المسیح الاول نے تحریک فرمائی کہ ہمیں لندن مشن کے لئے ایک مربی کی ضرورت ہے.یہ سعادت حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال کے حصہ میں آئی.اخراجات کے لئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے انجمن انصار اللہ کی طرف سے تین سور و پیہ حضور کے توسط سے دیا اور 25 جولائی 1913 ء کو لندن پہنچ گئے.جہاں خواجہ کمال الدین صاحب پہلے سے موجود تھے مگر وہ حضرت مسیح موعود کا نام لینا پسند نہیں کرتے تھے.چنانچہ وہ خوا جہ صاحب کی امارت میں حضور کے حکم پر الگ تبلیغ کرتے رہے.حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی وفات پر خواجہ کمال الدین صاحب خلافت سے کٹ گئے تو حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر حضرت چوہدری صاحب نے لندن میں پہلا با قاعدہ احمد یہ مشن قائم کر دیا.لندن مشن کے ساتھ یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ جنوری 1910ء میں حضرت خلیفہ المسیح الاول نے ملک سے باہر پیغام احمدیت پہنچانے کی تحریک فرمائی اور اس ضمن میں سنگا پور اور سیلون وغیرہ میں ایک تبلیغی وفد بھجوانا چاہا مگر آپ کے زمانہ میں اس کی تکمیل نہ ہوسکی اور آپ کی مبارک آرز و خلافت ثانیہ میں پوری ہوئی.انجمن مربیان حضرت خلیفہ اول کی تحریک پر 1912ء کے ابتداء میں قادیان کے بعض احباب نے انجمن مربیان بنائی جس کا نام 'یادگار احمد بھی تھا.اس انجمن کی غرض دین کی تائید اور باقی مذاہب کے ابطال میں چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ شائع کرنا تھا.اس انجمن نے پہلا ٹریکٹ کسر صلیب“ کے نام سے شائع کیا.جو حضرت میر محمد الحق صاحب کے قلم سے نکلا.انجمن کی دیکھا دیکھی لاہور میں احمد یہ بینگ مین ایسوسی ایشن بھی قائم ہوئی جس نے کئی پمفلٹ چھاپے.تاریخ احمدیت جلد 3 ص 429 دعوت الی اللہ کی وسیع تحریک حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے بہت دعاؤں اور التجاؤں کے بعد اور
30 حضرت خلیفتہ امسیح کی اجازت سے جنوری 1914ء کے آغاز میں جماعت کے سامنے ہندوستان بھر میں دعوت الی اللہ کے لئے ایک سکیم پیش کی.جس کے اہم پہلو یہ تھے (الف) ہندوستان کے تمام شہروں اور قصبوں میں خاص طور جلسے کئے جائیں.(ب) مختلف مقامات میں واعظ مقرر ہوں.(ج) ہر زبان میں ٹریکٹ شائع ہوں.(د) سکول کھولے جائیں.(الفضل28,7 جنوری 1914ء) آپ نے تحریر فرمایا:.اس وقت ایک دوست نے کچھ روپیہ تبلیغ سلسلہ کے لئے دینے کا وعدہ کیا ہے اور میرا خیال ہے کہ اسے اس طرح خرچ کیا جائے کہ جماعت کے چند آدمی جو قرآن شریف کا ترجمہ اچھی طرح جانتے ہوں.حضرت صاحب کی کتب انہوں نے خوب مطالعہ کی ہوں.تبلیغ کے لئے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں اس طرح بھیجے جائیں کہ انہیں ڈیڑھ دو سور و پیہ تجارت کے لئے دیا جائے.وہ مال تجارت لے کر ان علاقوں میں پھریں.جن میں ہم انہیں بھیجیں اور اپنا گزارہ اور خرچ تجارت سے کریں.پیہ محفوظ سمجھا جائے گا اور وہ ہمارا ہی ہوگا.اس وقت زیادہ تر ضرورت راجپوتانہ ممالک متوسط بہار، بنگالہ ، بمبئی ، مدراس اور حیدرآباد کے علاقوں میں ہے“.اس مقدس کام کے ثواب میں دوسرے احباب کو شریک کرنے کے لئے آپ نے ”دعوت الی الخیر کے عنوان سے ایک کالم شروع فرمایا.جس میں ان احباب کی فہرست شائع کی جاتی رہی جو اس فنڈ میں الفضل 7 جنوری 1914ء ص13) اصل روپیه صہ لیتے رہے.وسع مكانك كے لئے تحريكات خلافت اولی میں جماعت کے پھیلاؤ کے پیش نظر تعمیری کام میں بہت وسعت پیدا ہوئی.اور اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفہ المسیح الا ول کو ایسے انصار بھی عطا فرمائے جو خدائی منشاء اور امام وقت کے اشارہ ابروکو سمجھ کر سرگرم عمل ہو جاتے تھے.جس طرح درس و تدریس کے کام میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب آپ کے سب سے اول مددگار تھے اسی طرح تعمیری کاموں میں حضرت میر ناصر نواب صاحب آپ کے سب سے بڑھ کر معاون و معین تھے.حضرت میر ناصر نواب صاحب نے 1909ء میں اعلان کیا کہ قادیان کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے
31 پیش نظر چار قسم کی عمارات کی اشد ضرورت ہے.حضرت خلیفہ المسیح نے اس کام کے لئے 260 روپے عطا فرمائے.ان میں مسجد نور، مردانہ ہسپتال ، زنانہ ہسپتال اور دار الضعفاء شامل تھے جن پر 20 ہزار روپیہ خرچ کا اندازہ تھا.جس کے لئے میر صاحب کو ملک کے طول و عرض میں دورہ کرنا پڑا.مسجد نور کے لئے تحریک بدر 24 جون 1909 ص 3) دور خلافت اولیٰ کی تین مالی تحریکات کا تعلق مدرسہ تعلیم الاسلام کے ساتھ ہے.مدرسہ کی اپنی عمارت کے ساتھ بورڈنگ ہاؤس اور مسجد کی اشد ضرورت تھی.مدرسہ کے ساتھ مسجد نور کی اہمیت کے پیش نظر سب سے پہلے حضرت میر ناصر نواب نے پانچ ہزار روپیہ کا خرچ تجویز کیا اور اڑھائی ہزار روپیہ جماعتوں میں گھوم کر بطور چندہ وصول کیا.اور اڑھائی ہزار روپیہ ایک خاتون کی وصیت سے میسر آ گیا.تاریخ احمدیت جلد 3 ص 312) ریویو آف ریلیجنز اردو دسمبر 1909 ء ص 484 5 مارچ 1910ء کو حضور نے مسجد نور کا سنگ بنیاد رکھا اور 23 اپریل 1910ء کو بیت کا ایک کمرہ ( بدر 5 مئی 10-1909 ء ص 3) تیار ہونے پر نماز عصر پڑھا کر اس کا افتتاح کیا.مسجد کی تکمیل کے بعد فضل حق صاحب مختار خلیفہ صاحب ریاست پٹیالہ نے اگست 1910ء میں تین سور و پیہ اس کے فرش کے لئے اور پچاس روپے کی رقم نلکا لگوانے کے لئے بھجوائی.اور یکم نومبر 1910 ء سے اس کے لئے ایک مستقل خادم مقرر ہوا.13-1912ء میں اس کا وسیع صحن تیار کرایا گیا.اور جلسہ سالانہ یہیں منعقد ہونے لگا.تاریخ احمدیت جلد 3 ص 312) یہ مسجد آپ کی زندگی میں ہی چھوٹی ہوگئی.اس لئے آپ نے اس کی توسیع کی تحریک فرمائی.چنانچہ جلسہ سالانہ 1912ء میں 27 دسمبر کو حضرت خلیفہ امسیح نے مسجد نور میں خطبہ جمعہ پڑھا.جس میں فرمایا : یہ مسجد میرے نام پر بنی ہے.مگر میں دیکھتا ہوں.یہ کس قدر تنگ ہے.اس مسجد نور کو بڑھاؤ.مگر نیکی کے لئے.اس میں مدرسہ بناؤ مگر قرآن شریف کا.( بدر 27 فروری 1913 ء ص 4 کالم نمبر 3)
32 مدرسہ تعلیم الاسلام اور بورڈنگ کے لئے تحریک مدرسہ تعلیم الاسلام کو جاری کرنے کے لئے اکتوبر 1897ء میں اشتہار دیا گیا تھا اور جنوری 1898ء میں افتتاح ہوا تھا.اور اس مدرسہ نے اس قدر ترقی حاصل کی تھی کہ کالج بن گیا اور اس میں حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب جیسے جلیل القدر انسان بھی کچھ وقت دیتے رہے مگر بعد ازاں یو نیورسٹی کمیشن کی ہدایات کے ماتحت کالج مذکور کو بند کرنا پڑا.ورنہ کا لج بڑی کامیابی کے ساتھ چل رہا تھا.بہر حال اس امر کی شدت سے ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ مدرسہ تعلیم الاسلام اور بورڈ نگ تعلیم الاسلام، جو اندرون قصبہ کچی عمارتوں میں تھے ، ان کے لئے باہر کھلی فضا میں بڑی عمدہ عمارتیں تعمیر کروائی جائیں.اس لئے خلافت اولیٰ کی ابتداء ہی میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی کوٹھی کے سامنے قصبہ کی جانب مدرسہ اور بورڈنگ ہاؤس کے لئے شاندار عمارتیں تعمیر کی جائیں.چنانچہ اس کام کے لئے چندہ کی تحریک کی گئی اور جب کچھ روپیہ جمع ہو گیا تو اینٹیں تیار کرنے کے لئے بھٹہ بنوایا گیا اور چونکہ بورڈنگ ہاؤس کی زیادہ ضرورت محسوس کی گئی.اس لئے مجلس معتمدین نے فیصلہ کیا کہ پہلے بورڈنگ ہاؤس کی عمارت تعمیر کی جائے جس کے خرچ کا اندازہ چالیس ہزار یا اس سے کچھ زیادہ رقم کا تھا، مگر چونکہ دس ہزار روپیہ چندہ گزشتہ سال جمع ہو چکا تھا، اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الاول کے حکم سے بقیہ میں ہزار روپیہ کی فراہمی کے لئے تحریک کی گئی.حضرت خلیفتہ اسیح الاول نے اس رقم کی فراہمی کے لئے ایک وفد بھی مقرر فرمایا.جس نے سب سے پہلے قادیان میں اپنا کام شروع کیا.احباب قادیان نے اس مبارک کام کے لئے سولہ سو روپیہ دینے کا وعدہ کیا اور حضرت خلیفتہ المسیح کے چھ سوروپیہ کے چندہ سے جو کل رقم کا پچاسواں حصہ تھا، اس مبارک کام کی ابتداء کی گئی.( بدر 13 مئی 1909 ء ص 6 کالم نمبر (2) چنانچہ 1910ء ہی میں بورڈ نگ تعلیم الاسلام ہائی سکول کی عالی شان اور وسیع عمارت کی بنیا د رکھی گئی ، جس کے تین پہلو ستمبر 1910 ء تک مکمل ہوئے اور باقی بعد میں چند ماہ تک مکمل ہو گئے.جس میں قریباً دوسو بورڈروں کی گنجائش تھی.اس بورڈنگ ہاؤس میں رہائشی کمروں کے علاوہ کھانا کھانے اور پڑھائی کرنے کے لئے ایک وسیع ہال بھی تھا.بورڈنگ ہاؤس اور اس سے متعلقہ عمارات پر جو
33 اخراجات ہوئے اس میں عام چندہ کے علاوہ ساڑھے چار ہزار روپیہ حکیم فضل الدین صاحب بھیروی کی موہو بہ حویلی اور زمین سے حاصل ہوئے.تاریخ احمدیت جلد 3 ص 312) مدرسہ تعلیم الاسلام اور اس کے بورڈنگ وغیرہ عمارات کے لئے 400 کنال زمین خریدی گئی تھی.(حیات نورص 447) تعلیم الاسلام ہائی سکول کی عالی شان عمارت کی تجویز تو بورڈنگ ہاؤس کے ساتھ ہی ہو چکی تھی مگر اس کی بنیاد حضرت خلیفتہ المسح الاول نے جمعیت صاحبزادگان حضرت مسیح موعود 25 جولائی 1912ء کو رکھی.آپ نے تین جگہ بنیادی اینٹیں رکھیں.بدر یکم اگست 1912 ء ص 2 کالم نمبر 2) مدرسہ تعلیم الاسلام کی عمارت بورڈنگ کی عمارت سے بھی زیادہ شاندار اور زیادہ جاذب نظر تیار ہوئی.جس میں عام کمروں کے علاوہ سائنس روم اور وسیع ہال بھی تھا اور اس کی پیشانی پر برج بھی بنائے گئے اس عمارت پر 30 ستمبر 1913 ء تک قریباً پچاس ہزار روپیہ صرف ہوا.جس میں 16 کمرے اردگرد برآمدوں سمیت تیار ہوئے اور تھوڑ اسا ہال بھی.عمارت کی پہلی منزل کی تکمیل کے دوران میں روپیہ نہ ہونے کی وجہ سے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.لیکن حضرت خلیفہ اسیح نے پانچ ہزار روپیہا اپنی ذمہ داری پر بعض ذی استطاعت احباب سے لے کر عطا فرمایا.جس سے فوری ضروریات پوری ہو گئیں.چونکہ مدرسہ کی پرانی عمارت میں طلباء کی گنجائش نہ تھی.اس لئے مئی 1913ء میں ہی سکول کو ادھوری عمارت میں لانا پڑا.توسیع مسجد اقصیٰ تاریخ احمدیت جلد 3 ص 313 1910ء کی پہلی سہ ماہی میں مسجد اقصیٰ کی توسیع بھی عمل میں آئی.اس کے لئے تین ہزار روپیہ خرچ کا اندازہ کیا گیا.جس کے نتیجہ میں ایک بڑا کمرہ اور ایک لمبا برآمدہ تیار ہو گیا.مستورات کی نماز کے لئے زیر تعمیر منارة المسیح کے ساتھ ایک چبوترہ بھی بنادیا گیا.1909ء کا جلسہ سالانہ تاخیر کے ساتھ 25 تا 27 مارچ 1910 ء کو منعقد ہونے والا تھا اور مسجد کے نچلے کمرہ میں مٹی ڈلوانے کے لئے مزدور فراہم نہیں ہو رہے تھے اور اندیشہ تھا کہ جلسہ تک یہ حصہ مکمل ہو سکے گا.اس لئے حضرت خلیفہ اول نے 11 مارچ 1910ء کو نماز جمعہ کے بعد تحریک فرمائی کہ
34 احباب اس کام میں مدد کریں.چنانچہ احباب جماعت اپنے مقدس امام کا ارشاد پاتے ہی مٹی کھودنے اور ٹوکریاں اٹھانے میں مصروف ہو گئے.خود حضرت خلیفہ اول نے بھی نہایت سرگرمی سے مٹی اٹھانا شروع کر دی.یہ نظارہ نہایت ایمان افروز تھا کہ خدا کے مسیح کا مقدس خلیفہ مسجد اقصی کی تعمیر نو کے لئے اپنے ہاتھ سے ٹوکریاں اٹھا رہا تھا اور احمدیت کے عاشق ، اپنے بوڑھے مگر جواں ہمت آسمانی جرنیل کی قیادت میں پروانہ وار کام کر رہے تھے.(بدر 17 مارچ 1910 ء ص 2 کالم ص 3) مسجد اقصیٰ کی توسیع کے ساتھ احمدی خواتین کو جمعہ میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہونے لگی.چنانچہ 21 جنوری 1910ء کے جمعہ میں احمدی مستورات جن میں حضرت اماں جان بھی تھیں شامل ہوئیں انہوں نے مسجد اقصیٰ میں سب سے پچھلی صف میں نماز پڑھی اور خطبہ سنا.اس طرح خلافت اولی میں ایک اہم سنت نبوی کا احیاء ہوا.نور ہسپتال صدر انجمن احمدیہ نے ایک مختصر سی ڈسپنسری کھول رکھی تھی.مگر زیر علاج مریضوں کے لئے کوئی مخصوص مکان نہ تھا اور مریض عموماً حضرت خلیفہ اول کے مکانوں میں یا کرایہ کے مکانوں یا مہمان خانہ یا بورڈنگ ہاؤس میں قیام کرتے تھے.ان حالات کو دیکھ کر حضرت میر ناصر نواب صاحب کے دل میں پر زور تحریک اٹھی کہ وہ ایک ایسا مکان تعمیر کرائیں جس میں ڈسپنسری کے ساتھ بیماروں کے لئے بھی وسیع ہال ہو.چنانچہ 1909 ء کے شروع سے آپ نے جماعت میں اس کے لئے چندوں کی تحریک کرنا شروع کر دی، جس کا نام ناصر وارڈ رکھا گیا.ناصر وارڈ کے کام پر حضرت خلیفہ اول نے نہایت درجہ خوشنودی کا اظہار فرمایا اور اس کے لئے خود بھی چندہ دیا اور دوسروں کو بھی تحریک فرمائی.اس مقصد کے لئے 5 ہزار رو پید انداز و خرج تجویز ہوا.حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے ایک مضمون میں تحریر فرمایا.میر ناصر نواب کو جو آجکل انجمن ضعفاء کے سرگرم ممبر ہیں.ایک جوش پیدا ہوا.کہ ان بیماروں کے لئے ایک وسیع مکان بنانا ضروری ہے تاکہ ڈاکٹر اور طبیب ایک ہی جگہ ان کو دیکھ لیا کریں اور ان کی تیمارداری میں کافی سہولت ہو.ان کی اس جوش بھری خواہش کو میں نے محسوس کر کے ایک سو روپیہ کا بدر 14 جنوری 1909ء)
35 وعدہ ان سے بھی کر لیا ہے اور 30 روپے نقد بھی دیئے.ایک پرانی رقم ساٹھ روپیہ کی جو اس کام کے لئے جو میں نے جمع کی اس کے بھی نکلوا دینے کا وعدہ کیا.اس جوش بھرے مخلص نے قادیان کے بستی مخالفوں اور موافقوں ہندو اور مسلمان.دشمن و دوست سب کو چندہ کے لئے تحریک کی.جہاں تک مجھے علم ہے.اس کا اثر تھا.کہ رات کے وقت میری بیوی نے مجھ سے بیان کیا.کہ آج جو میر صاحب نے تحریک کی ہے اس میں میں نے بچے دل اور کامل جوش اور پورے اخلاص سے چندہ دیا ہے.اور میں چاہتی ہوں کہ اگر ایسے مکان کے لئے ہمارے کوئی مکان کسی طرح بھی مفید ہوسکیں.تو میں اپنی خام حویلی دینے کو دل سے تیار ہوں.یہ سب کچھ میر صاحب کے اخلاص اور دلی جوش کا نتیجہ تھا.(الحکم 14 جنوری 1909 ص 4) حضرت میر ناصر نواب صاحب کی کوششوں سے یکم رمضان 1335ھ مطابق 21 جون 1917 ء کو نور ہسپتال کی بنیا درکھی گئی.اور ستمبر 1917ء میں اس کی تکمیل ہوئی.ابتداء ہسپتال میں کوئی سند یافتہ ڈاکٹر نہیں تھا، اس لئے حضرت مصلح موعودؓ کے خصوصی اشارہ پر محترم حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب ریاست پٹیالہ سے بلوائے گئے اور 2 فروری 1919ء کو ان کا تقرر عمل میں آیا.پہلے حضرت میر محمد الحق صاحب افسر نور ہسپتال تھے مگر اب حضرت ڈاکٹر صاحب میڈیکل ایڈوائزر مقرر ہوئے.آپ کے زمانہ میں ہسپتال نے خوب کام کیا ، زنانہ وارڈ قائم ہوا، آپریشن روم میں ترقی ہوئی.1930ء میں اسے سیکنڈ گریڈ ہسپتال کی حیثیت حاصل ہوئی.اسی سال اس کے لئے مستقل قواعد وضوابط تجویز کئے گئے.نور ہسپتال متحدہ ہندوستان کا واحد ادارہ تھا جس نے ایک مذہبی جماعت کی نگرانی میں ربع صدی سے زائد عرصہ تک بلا تمیز مذہب وملت خدمت کی.13 جنوری 2006ء کو حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے دورہ قادیان کے دوران نور ہسپتال کی نئی عمارت کا افتتاح فرمایا.ہسپتال کی عمارت نہایت پر شکوہ ہے اور قادیان اور اس کے ماحول کی تمام طبی ضروریات پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے.الفضل 18 مارچ 2006 ص 3) حضرت اماں جان نے یکم اگست 1923ء کو نور ہسپتال قادیان کے زنانہ وارڈ کا سنگ بنیا درکھا.
36 36 خدمت خلق کی تحریکات غربا، مساکین اور طلباء کے لئے تحریک حضرت خلیفہ المسیح الاول کی زندگی کے حالات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ جہاں کہیں رہے یتامی مساکین اور طالب علموں کے لئے ملا و ماویٰ بن کر رہے اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک عظیم الشان قوم کا امام بنایا آپ اس اہم کام سے کیونکر غفلت برت سکتے تھے.آپ نے اس امر کو مد نظر رکھ کر سیکرٹری صدر انجمن احمدیہ کو ارشاد فرمایا کہ یتامی ، مساکین اور طالب علموں کے لئے جماعت میں چندہ کی تحریک کی جائے.اس پر سیکرٹری صاحب نے جو تحریک کی ، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ قریب چار ہزار روپے کی رقم تو ان بیتامی ، مساکین اور طالب علموں وغیرہ کے گزارہ کے لئے چاہیئے ، جو اس وقت انجمن کے انتظام کے نیچے اس امداد کے مستحق ہیں.اور اکیس سو روپے کی رقم ان یتامی ، مساکین وغیرہ کے ایک سال کے گزارہ کے لئے چاہیئے ، جن کی درخواستیں آئی ہوئی ہیں اور گواس روپے کا بالفعل کوئی اندازہ پیش نہیں کیا جا سکتا جو آئندہ درخواست کنندگان کے لئے درکار ہو گا مگر یہ ظاہر ہے کہ کچھ نہ کچھ گنجائش اور بھی ہونی چاہئے.پس مجھے ارشاد ہوا ہے کہ میں ان سب کے لئے تمام احمدی احباب کی خدمت میں اپیل کروں.اکیس سو روپے کی رقم میں سے ایک سو روپیہ خود حضرت خلیفہ المسیح الاول نے اپنی طرف سے عطا فر مایا.( بدر 21 جنوری 1909 ء میں 1 کالم نمبر (2) دار الضعفاء حضرت میر ناصرنواب صاحب نے باہمی محبت ومواساة اور اخوت پیدا کرنے کے لئے ایک مجلس ضعفاء کی بنیاد بھی رکھی جسے حضرت خلیفہ امسیح نے بھی پسند فرمایا.اس مجلس میں سب کے سب غربا شامل تھے.ہر آٹھویں روز مجلس کے ممبر اپنے اپنے گھروں سے کھانا لاتے اور ایک دستر خوان پر بیٹھ کر کھاتے تھے.حضرت میر صاحب نہایت محبت و اخلاص کے ساتھ ان میں بیٹھتے اور اپنے غریب بھائیوں کی دلجوئی کرتے تھے.(حیات ناصرص 26 )
37 غربا کے لئے رہائشی مکانات کا ملناسخت مشکل تھا اس لئے حضرت میر ناصر نواب صاحب نے بہشتی مقبرہ کے ساتھ دار الضعفاء کا ایک حصہ آباد کر دیا.اس محلہ کی بنیاد حضرت خلیفہ المسیح الاول نے 1911ء میں رکھی.حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بائیس مکانات کے لئے زمین عطا فرمائی.پہلا مکان حضرت خلیفہ اول کے خرچ پر بنا.بعد میں یہ محلہ ناصر آباد کے نام سے موسوم ہوا.1913ء میر صاحب آپ نے ناصر آباد میں مسجد بھی تعمیر کرادی اور اس کے ساتھ ایک کنواں بھی بنوا دیا.حیات نا صرص 25) حضرت خلیفہ المسیح اول نے حضرت میر صاحب کی انہی خدمات کے باعث انہی دنوں ، اپنے قلم سے ایک خط لکھا کہ آپ کے کاموں اور خواہشوں کو دیکھ کر میری خواہش بھی ہوتی ہے اور دل میں بڑی تڑپ پیدا ہوتی ہے کہ جس طرح آپ کے دل میں جوش ہے کہ شفاخانہ زنانہ، مردانہ، مسجد اور دار الضعفاء کے لئے چندہ ہو، اور آپ ان میں سچے دل سے سعی و کوشش فرما رہے ہیں اور بحمد اللہ آپ کے اخلاص صدق وسچائی کا نتیجہ نیک ظاہر ہورہا ہے اور ان کاموں میں آپ کے ساتھ والے قابل شکر گزاری سے پر جوش ہیں، ہمارے اور کاموں میں سعی کرنے والے ایسے ہی پیدا ہوں.الحکم 7 مئی 1909 ص 2) حضرت میر صاحب ہر ممکن کوشش کرتے تھے کہ غربا کی ضروریات بطریق احسن پوری ہوتی رہیں.چنانچہ بدر 19 جنوری 1911ء میں اطلاع عام“ کے عنوان سے آپ کی طرف سے ایک نوٹ شائع ہوا.جس میں آپ فرماتے ہیں: جس قدر احمدی جماعت ہے.اس پر واضح ہو کہ قادیان میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ ضعفا، تعلیم دین کے لئے جمع رہتے ہیں.جن کا گزارہ فقط تو کل پر ہوتا ہے.روٹی لنگر مسیح سے مل جاتی ہے.لیکن کپڑے و دیگر حوائج ضروری جیسے دھوبی، نائی وغیرہ کے لئے کچھ نہ کچھ کپڑے یا نقد کی بھی انہیں ضرورت پڑتی ہے.جس کے لئے اس عاجز یعنی ( ناصر نواب) نے کوشش کا ذمہ لیا ہے.چنانچہ بعض احباب نے ان غر با وضعفاء کا حال معلوم کر کے اس عاجز کو ان کی خدمت کے لئے تھوڑا بہت ماہوار یا سالانہ دینا منظور فرمایا ہے.نیز قادیان کے احمدیوں نے ضعفاء کے لئے چندہ دینا شروع کر دیا ہے.حضرت صاحب کے انتقال کے بعد یہ کام اس عاجز نے شروع کیا ہے اور اس کام میں مجھے تھوڑی بہت
38 کامیابی بھی اب تک ہوئی ہے اور آئندہ زیادہ امید ہے.چونکہ کام نفسانی جوش سے نہیں شروع کیا گیا.اس لئے انشاء اللہ تعالیٰ دن بدن اس میں زیادہ سے زیادہ برکت ہونے کی امید ہے.اکثر احباب پر یہ امر پوشیدہ تھا.اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ اخبار میں درج کر کے کل احباب پر واضح اور مبرہن کر دیا جاوے کہ ہر ایک اہل وسعت احمدی، ضعفاء کے لئے حسب مقدور کچھ نہ کچھ عنایت فرما کر میری دستگیری فرمادے، اور خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرے.پرانے جوتے پرانے کپڑے ، نقد و جنس ، جس قسم کی ہو.قرآن شریف و کتب دینیہ، غرض جو کچھ ہو سکے عنایت فرماویں اور اس عاجز کوکسی خوشی و غمی کی تقریب میں فراموش نہ کریں.یہ عاجز اور میرے ضعفاء ان کے حق میں دعا کے سوا اور کیا کر سکتے ہیں.ہم انشاء اللہ تعالیٰ دعا کرتے رہیں گے.جس کا فائدہ انشاء اللہ تعالیٰ انہیں نظر آتا رہے گا اور یہ دینی خدمت ان کی خالی نہیں جانے کی.امید ہے کہ لوگ ضرور متوجہ ہوں گے.اور پنبہ غفلت کانوں سے نکال کر میری عرض سنیں گے.کوئی تعداد میں مقرر نہیں کرتا.ایک روپیہ، دس روپیہ، سو روپیہ 8 آنے ، 4 آنے ، 2 آنے ، ایک آنہ جو ہو، ماہانہ ، سالانہ ، ششماہی ، سہ ماہی بھیج دیا کریں.نیا پرانا کپڑا.نیا یا پرانا جوتا، کوئی قرآن شریف یا دینی کتاب، جو کچھ میسر ہو وہ عطا فرما دیں.لیکن یہ چیزیں بنام اس عاجز کے ہوں.ناصر نواب از قادیان ( بدر 19 جنوری 1911ء ص 8 کالم نمبر 1) علمی تحریکات علم تعبیر الرویا سے متعلق تحریک 1912ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الاول نے ایک ایسی تحریک فرمائی جو حضور کے مخصوص عالمانہ مزاج کی آئینہ دار ہے.آپ نے سورۃ یوسف کا درس دیتے ہوئے تعبیر الرویا کے بارہ میں تحریک کی اور فرمایا: سوره یوسف پر تدبر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ علم الرویا بھی ایک بڑا علم ہے.خواہیں کافر کی بھی ہوتی ہیں ، مومن کی بھی ، یہ علم اللہ تعالیٰ اپنے بعض انبیاء کو دیتا ہے اور ان سے ورثہ میں علماء امت محمدیہ کو بھی پہنچا ہے.چنانچہ پہلے مسلمانوں نے اس فن پر بہت عمدہ کتا بیں لکھی ہیں.کامل اتعبیر اور تعطیر الا نام مجھے بہت پسند ہیں.آجکل کے نئی روشنی کے تعلیم یافتہ اور جنٹلمین تو خوابوں کو پریشان خیالات کا
39 مجموعہ سمجھتے ہیں.مگر ہمیں ایسی بے ادبی نہیں کرنی چاہئے.خوا ہیں تو نبوت کا جزو ہیں.ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ جو جو خواب ان کو آئے.وہ مختصر طور پر ان کو لکھ لیا کریں اور پھر جو تعبیر اللہ تعالیٰ سمجھائے یا دکھائے اسے بھی نوٹ کر لیا کریں.اس طرح پر ایک وقت ایسا آئے گا کہ اس فن میں ایک ضخیم کتاب تیار ہو سکے گی.ہم سے پہلوں نے تو اپنا فرض ادا کر دیا.لیکن اب کئی چیز میں ایسی نکل آئی ہیں جو پہلے موجود نہ تھیں.اس لئے ان کی تعبیر ان کتابوں میں نظر نہیں آتی.مثلاً خواب میں کوئی موٹر ہار دیکھے یا ہوائی جہاز یا ایسی اور ایجادیں.ایسے خوابوں کی تعبیر میں تجارب کی بناء پر سمجھ میں آجاتی (احکم 14 دسمبر 1912 ء ص 6 کالم 1) حضرت مصلح موعودؓ نے 1917ء میں حقیقۃ الرویا کے نام سے جلسہ سالانہ پر بے نظیر خطاب فرمایا تھا.اور حضور نے رویا و کشوف کے ضمن میں بہت سی تعبیریں بھی بیان فرمائی ہیں مگر اس میں ابھی بہت گنجائش ہے اور مختلف احباب اپنے اپنے ذوق کے مطابق کام کرتے رہتے ہیں.یہ تحریک اب بھی اہل ذوق کو دعوت عام دے رہی ہے اگر تمام دنیا کے احمدی اس میں حصہ لیں تو یقینا ایک نادر خزانہ تیار ہو جائے گا.علی گڑھ یونیورسٹی کے لئے تحریک ہیں.سرسید کے بیٹے سید محمود نے 1873ء میں ایک ایسی اسلامی یو نیورسٹی کا تخیل پیش کیا جو کیمبرج اور آکسفورڈ کی طرح حکومت وقت کے اختیارات سے آزاد ہو.اس کے بعد نواب محسن الملک مرحوم نے سرسید کی وفات کے بعد اس خیال کو آگے بڑھایا اور سرسید کی یادگار ٹھہرا کر ایجو کیشنل کانفرنس کے مقصد میں اس کو داخل کر لیا.اور اس کی اعانت کے لئے ہندوستان بھر میں اداروں ، جماعتوں ، دوسرے رؤسا اور عوام سے چندہ کی تحریکیں کی گئیں.محترم نواب فتح علی خاں صاحب نے لاہور سے حضرت خلیفہ المسیح الاول کی خدمت میں بھی چندہ کی تحریک کی.اور یہ بھی عرض کیا کہ جماعت میں بھی تحریک فرما دیں کہ وہ کارخیر میں حصہ لے.اس سلسلہ میں حضور نے جو خط نواب صاحب موصوف کو لکھا.وہ درج ذیل ہے: قادیان 27 فروری 1911ء مکرم معظم جناب نواب صاحب
40 السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ جیسا کہ میں نے پہلے جناب کو لکھا تھا.مجھے اسلامی یونیورسٹی کی تجویز کے ساتھ پوری ہمدردی ہے.میں خود اس فنڈ میں انشاء اللہ تعالی ایک ہزار روپیہ دوں گا.اپنی جماعت کی شمولیت کے لئے میں نے ایک اعلان شائع کر دیا ہے.جس کی نقل ارسال خدمت ہے.والسلام دعا گو نور الدین اعلان ضروری تکمیل تجویز متعلق محمدن یونیورسٹی چونکہ اس وقت ایک عام تحریک ، اسلامی یونیورسٹی کی ہندوستان میں قائم کرنے کے لئے ہو رہی ہے.اور بعض احباب نے یہ دریافت کیا ہے کہ اس چندہ میں ہمیں بھی شامل ہونا چاہئے یا نہیں.اس لئے ان سب احباب کی اطلاع کے لئے جو اس سلسلہ میں شامل ہیں.یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اگر چہ ہمارے اپنے سلسلہ کی خاص ضروریات بہت ہیں اور ہماری قوم پر بہت بوجھ چندوں کا ہے، تاہم چونکہ یونیورسٹی کی تحریک ایک نیک تحریک ہے، اس لئے ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے احباب بھی اس تحریک میں شامل ہوں اور قلعے ، قدمے سخنے ، زرے مدد دیں.نورالدین.“ ( بدر 9 مارچ 1911ء ص 6 کالم نمبر 3) اس اعلان کے ساتھ جماعت احمدیہ کی طرف سے یہ ایک ہزار روپیہ کا عطیہ بھی بھجوایا.سالانہ رپورٹ صدرانجمن احمد یہ 12 1911 ء ص 81) نواب محسن الملک کی زندگی میں انگریزی حکومت کی بعض کڑی شرائط کے باعث یو نیورسٹی کا معاملہ کئی برسوں تک کھٹائی میں پڑا رہا.مگر آخر جنوری 1921ء میں عظیم الشان یونیورسٹی جو ایشیائی مسلمانوں کی بہت بڑی یونیورسٹی تھی.معرض وجود میں آگئی.( موج کوثر ص 145)
41 حضرت خلیفة المسح الثاني لمصلح الموعود کی تحریکات دور خلافت 14 مارچ1914 ءتا8 نومبر 1965ء
43 حضرت مصلح موعودؓ کی تربیتی تحریکات تعلق باللہ اور عبادات کی تحریک نماز مومن کی معراج ہے.اس لئے حضرت مصلح موعود کی تمام ہدایات تعلق باللہ اور نمازوں کے گرد گھومتی ہیں.حضرت مصلح موعودؓ نے 11 اگست 1955ء کو نو جوانان احمدیت کو یہ تحریک فرمائی: وہ تقویٰ اور عبادت پر خاص زور دیں اور اتنی عبادت کریں کہ آسمان کے دروازے ان پر کھل (الفضل 17 نومبر 1955ء) جائیں اور ان پر الہام نازل ہونا شروع ہو جائے.ذکر الہی کی تحریک حضور نے 12 مئی 1944ء کو تحریک فرمائی کہ احمدی نمازیں سنوار کر اور با جماعت پڑھیں اور روزانہ کم از کم بارہ دفعہ تسبیح و تحمید اور درود شریف پڑھنے کا التزام کریں.چنانچہ فرمایا:.”رسول کریم علیہ فرماتے ہیں:.كلمتان حبيبتان الى الرحمن خفيفتان على اللسان ثقيلتان في الميزان سبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم فرماتے ہیں دو کلمے ایسے ہیں کہ رحمن کو بہت پیارے ہیں.خفیفتان علی اللسان زبان پر بڑے ہلکے ہیں.عالم ، جاہل عورت ، مرد ، بوڑھا، بچہ، ہر شخص ان کلمات کو آسانی سے ادا کر سکتا ہے.جہاں رسول کریم ﷺ نے تسبیح و تحمید اور تکبیر کی طرف توجہ دلائی ہے.وہاں تسبیحوں میں سے یہ تسبیح آپ نے بڑی اہم قرار دی ہے.پس میں جماعت میں تحریک کرتا ہوں کہ ہر احمدی کم سے کم بارہ دفعہ دن میں یہ تسبیح روزانہ پڑھ لیا کرے.وہ چاہے تو سوتے وقت پڑھ لے.چاہے تو ظہر کے وقت پڑھ لے.چاہے تو عصر کے وقت پڑھ لے.چاہے تو مغرب کے وقت پڑھ لے.چاہے تو عشاء کے وقت پڑھ لے.چاہے تو فجر کے وقت پڑھ لے.بہر حال ہر احمدی یہ عہد کرے کہ وہ روزانہ بارہ دفعہ سبحان الله وبحمده سبحان الله العظیم پڑھ لیا کرے گا.اسی طرح دوسری چیز جو اسلام کی
44 ترقی کے لئے ضروری ہے وہ رسول کریم ﷺ کی برکات اور آپ کے فیوض کا دنیا میں وسیع ہونا ہے اور ان برکات اور فیوض کو پھیلانے کا بڑا ذریعہ درود ہے.بیشک ہرنماز کے وقت تشہد کے وقت درود پڑھا جاتا ہے مگر وہ جبری درود ہے اور جبری درود اتنا فائدہ نہیں دیتا جتنا اپنی مرضی سے پڑھا ہوا درود انسان کو فائدہ دیتا ہے.وہ درود بیشک نفس کی ابتدائی صفائی کے لئے ضروری ہے.لیکن تقرب الی اللہ کے حصول کے لئے اس کے علاوہ بھی درود پڑھنا چاہئے.پس میں دوسری تحریک یہ کرتا ہوں کہ ہر شخص کم از کم بارہ دفعہ روزانہ درود پڑھنا اپنے اوپر فرض قرار دے لئے.الفضل 23 مئی 1944 ء ص 6,5) حضرت مصلح موعودؓ نے 12 اکتوبر 1947ء کو مجلس عرفان میں ایک پر معارف تقریر کے ذریعہ احمدیوں کو ذکر الہی اور نماز با جماعت کی خاص تحریک کی.چنانچہ فرمایا:.ہمیں تو ایسے رنگ میں اپنے اعمال کو ڈھالنا چاہئے.جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ کر دے.پھر نماز سے پہلے اور پیچھے ذکر الہی کرنے میں بھی بہت غفلت سے کام لیا جاتا ہے.نماز سے پہلے جو وقت امام کے انتظار میں گزارا جاتا ہے اس کو بالعموم ادھر ادھر کی باتوں میں گنوا دیا جاتا ہے.حالانکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ یہ وقت ایسا ہی ہوتا ہے جیسے جہاد کا وقت.ذکر الہی سے دماغ صاف ہوتا ہے.فرشتوں سے تعلق مضبوط ہوتا ہے اور نفس کی کمزوریاں دور ہوتی ہیں.پس ذکر الہی کی عادت ڈالو.اپنے وقتوں کو صحابہ کے رنگ میں گزارو، ورنہ وہ برکتیں دیر تک پیچھے پڑتی ہی جائیں گی جو خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے مقدر کر رکھی ہیں.ان فتنوں کا ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کا فضل ہم پر نازل ہو.پس خدا کے فضل کے جاذب بنو اور دعائیں کرو کہ قوم کے اندر اتحاد، قربانی اور ایثار کا مادہ پیدا ہو.اگر پاکستان میں بھی خدانخواستہ مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے تو پھر سوائے سمندر میں جا کر غرق ہو جانے کے اس ملک میں مسلمانوں کے لئے کوئی ٹھکانہ نہیں ہو گا.الفضل14/اکتوبر 1947 ءص4) ایک الہامی دعا پڑھنے کی تحریک: حضرت مصلح موعود کو نومبر 1956ء کے آغاز میں بذریعہ خواب مندرجہ ذیل دو فقرے القاء ہوئے.ہم قدم قدم پر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہیں اور اس کی رضا کی جستجو کرتے ہیں“.حضور نے 16 نومبر 1956ء کے خطبہ جمعہ میں احباب جماعت کو تحریک فرمائی کہ دوست اپنی دعاؤں میں یہ
45 فقرے کثرت سے پڑھیں ان کی دعائیں زیادہ قبول ہوں گی.(الفضل 23 نومبر 1956 ء ص 3) نفلی روزے حضرت مصلح موعودؓ نے فرض روزوں کے علاوہ متعدد بار نفلی روزوں کی تحریک فرمائی.چنانچہ 1929ء، 1930ء میں دشمن کی شرارتوں اور اذیت رسانی کے مقابل پر انسانی عدالتوں کی بجائے حضور نے خدائے قدوس کی بارگاہ میں استغاثہ پیش کرنے کی یہ ہدایت فرمائی.آپ نے مجلس مشاورت 1929ء میں فرمایا کہ: رسول کریم کی عادت تھی کہ ہفتہ میں دو روز پیر اور جمعرات کے دن روزے رکھا کرتے تھے.ہماری جماعت کے وہ احباب جن کے دل میں اس فتنہ نے درد پیدا کیا ہے اور جو اس کا انسداد چاہتے ہیں.اگر روزے رکھ سکیں تو 28 اپریل 1930 ء سے تمیں دن تک جتنے پیر کے دن آئیں ان میں روزے رکھیں اور دعاؤں میں خاص طور پر مشغول رہیں کہ خدا تعالیٰ فتنہ دور کر دے اور ہم پر اپنا خاص فضل اور نصرت نازل کرے اور جو دوست یہ مجاہدہ مکمل کرنا چاہیں وہ چالیس روز تک جتنے پیر کے دن آئیں ان میں روزے رکھیں اور دعا کریں.الفضل 23 اپریل 1930ء میں 2 کالم 4,3) چنانچہ جماعت کے دوستوں نے حضور کی تحریک پر روزے رکھے اور تضرع سے دعائیں کیں آخر خدائی عدالت نے اپنے بندوں کے حق میں ڈگری دے دی یعنی ایسا سامان پیدا کر دیا کہ فتنہ پردازوں کے دلوں میں حکومت کی مخالفت کا جوش پیدا ہو گیا.جس کی وجہ سے وہ سب پکڑے گئے باقی وہ رہ گئے جو بالکل کم حیثیت اور ذلیل اور ذلیل لوگ تھے.اصل وہی تھے جن کی شہ پر انہیں شرارت کی جرات ہوتی تھی اور وہ گرفتار ہو گئے ان کے علاوہ وہ اخبار جو جماعت کے خلاف گندا چھالتے تھے یا تو وہ بند ہو گئے.یا پر لیس آرڈی نینس کے خوف کی وجہ سے اپنا رویہ بدلنے پر مجبور ہوئے.الفضل 12 جون 1930 ، صفحہ 5 کالم (3) اسی طرح حضرت مصلح موعودؓ نے سالانہ جلسہ 1952ء پر ارشاد فرمایا کہ احمدی 1953ء کے شروع میں سات نفلی روزے رکھیں اور ہر روزہ سوموار کو رکھا جائے.حضور نے سال کے پہلے خطبہ میں اس کی یاد دہانی کرائی اور نصیحت فرمائی کہ :
46 جو طاقتور ہیں، تندرست ہیں ان کے لئے سفر میں رمضان کے روزے جائز نہیں.نفلی روزے جائز ہیں کیونکہ احادیث سے یہ ثابت ہے کہ جب مسافر کے لئے فرض روزے منع ہو گئے تو بھی بعض صحابہ شفر اورلڑائیوں میں نفلی روزے رکھ لیتے.ان ایام کو خصوصیت کے ساتھ دعاؤں میں گزار و اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو.احمدیوں نے جو ہمیشہ فتنوں اور آزمائشوں کے ایام میں اس روحانی مجاہدہ کے خوشکن اثرات و نتائج کو آزماتے آرہے تھے اس تحریک پر بھی والہانہ لبیک کہا.تاریخ احمدیت جلد 15 ص 421 ) تحریک ادا ئیگی حج سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے فریضہ حج کی بجا آوری کے لئے پر زور تحریک کی.چنانچہ خطبہ جمعہ یکم ستمبر 1952ء کے دوران فرمایا یہ عید اس طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ اپنے بھائیوں کو دیکھ کر ہمارے اندر بھی حج کرنے کا جذبہ پیدا ہونا چاہیے.جہاں اپنے بعض بھائیوں کو حج نصیب ہونے کی خبر سن کر ہم خوش ہوتے ہیں وہاں ساتھ ہی ہمیں یہ خیال بھی کرنا چاہئے کہ ہم کیوں حج نہ کریں؟ ہمارے اندر یہ خواہش پیدا ہونی چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہمیں بھی حج کا موقعہ دے مگر افسوس کہ حج کی طرف سے لوگوں کی توجہ ہٹ گئی ہے بہت کم لوگ ہیں جو حج کے لئے جاتے ہیں.“ یہ عید اس لئے آتی ہے تا ہمارے دلوں کو بیدار کرے اور ہمیں ہمارا فرض یاد دلائے عید ہمیں یہ بتانے آتی ہے کہ حج کی عبادت تم پر بھی فرض ہے جس طرح نماز ایک ضروری فریضہ ہے جس طرح زکوۃ ایک ضروری فریضہ ہے، جس طرح روزے ایک ضروری فریضہ ہیں.اسی طرح حج بھی ایک ضروری فریضہ ہے لیکن افسوس کہ نہ غیر احمدیوں میں اس فریضہ کا صحیح احساس پایا جاتا ہے اور نہ احمد یوں کو اس کا پورا احساس ہے.غیر احمدیوں میں تو یہ لطیفہ ہوتا ہے.ان کے خطوط آتے ہیں کہ اگر حضرت مرزا صاحب مسلمان تھے تو انہوں نے حج کیوں نہیں کیا ؟ پھر ان کے پہلے خلیفہ نے بھی حج نہیں کیا اور آپ نے بھی حج نہیں کیا حالانکہ حضرت خلیفہ اسیح الاوّل نے نہ صرف حج کیا تھا بلکہ دوسال کے قریب پ مکہ مکرمہ میں رہے اور میں نے بھی حج کیا ہے.حضرت مسیح موعود کی صحت اس قابل نہیں تھی کہ
47 آپ سفر کرتے اور پھر آپ کے لئے رستہ میں امن بھی نہیں تھا.اس لئے آپ نے حج نہیں کیا لیکن آپ کی طرف سے ہم نے حج بدل کروادیا تھا.اب اس عید سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے دلوں میں حج کی عظمت پیدا کرو اور زیادہ سے زیادہ حج کے لئے جاؤ تا کہ حج کی غرض پوری ہو اور حج سے جو خدا تعالیٰ کا منشاء ہے وہ پورا ہو.الفضل 3 اکتوبر 1952 ء ) سندھ کے ایک احمدی دوست نے سیدنا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کی خدمت میں تجویز بھجوائی کہ مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ ایک فنڈ قائم کرے جس میں زیادہ سے زیادہ خدام شامل ہوں جو ایک روپیہ سالا نہ چندہ ادا کریں.اس طرح جو ر قم جمع ہو اس سے ہر سال کم از کم ایک احمدی کو حج بیت اللہ کرایا جائے.حضور نے اس تجویز پر اظہار خوشنودی کیا اور فرمایا کہ فی الحال یہ تحریک کی جائے کہ جو شخص چھ سو روپیہ خود ادا کرے اسے اس فنڈ سے مزید چھ سوروپے دے دیئے جائیں گے تا کہ وہ حج کر کے آسکے.اس ارشاد مبارک کی تکمیل میں سال 1954 ء کے شروع میں حج فنڈ مجلس خدام الاحمدیہ کی مد امانت کھول دی گئی.اس مبارک تحریک کی بدولت متعدد احمدیوں کو فریضہ حج بجالانے کی توفیق ملی.احیاء سنت کی تحریک الفضل 8 جنوری 1954 ء ) سالانہ جلسہ 1937ء پر سید نا محمود نے سالانہ جلسہ پر جمع ہونے والے احمدیوں کو احیاء سنت کے لئے سرگرم ہونے کا حکم دیتے ہوئے یہ خوشخبری سنائی کہ احمدیت کے ذریعہ مستقبل میں عالمگیر اسلامی انقلاب برپا ہونا مقدر ہے اور دنیا کی حکومتیں اور بادشاہتیں احمدیوں کو عطا ہونے والی ہیں.ی عظیم الشان بشارت حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اپنی 28 دسمبر 1938ء کی معرکۃ الآراء اور اپنے اندر الہامی رنگ رکھنے والی پر شوکت تقریر کے آخر میں سنائی جو انقلاب حقیقی کے اہم موضوع پر تھی اور جس کے ابتداء میں حضور نے دنیا کی مشہور تمدنی اور مذہبی تحریکات کی خصوصیات پر بالتفصیل روشنی ڈالنے کے بعد اعلان فرمایا.اب وقت آ گیا ہے کہ ہماری جماعت اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور احیاء سنت و شریعت کے لئے
48 سرگرم عمل ہو جائے.جب تک میں نے اعلان نہ کیا تھا.لوگوں کے لئے کوئی گناہ نہ تھا.مگر اب جبکہ امام اعلان کرتا ہے کہ احیاء سنت و شریعت کا وقت آگیا ہے کسی کو پیچھے رہنا جائز نہیں ہو گا.اور اب اگر سستی ہوئی تو کبھی بھی کچھ نہ ہو گا.انقلاب حقیقی - انوار العلوم جلد 15 ص 100) اس اعلان کے بعد حضور نے اسلامی تمدن کے متعلق بطور نمونہ دس احکام بیان فرمائے اور احمد یوں سے عہد لیا کہ وہ اپنی جائداد سے اپنی لڑکیوں اور دوسری رشتہ دار عورتوں کو وہ حصہ دے گا.جو خدا اور اس کے رسول نے مقرر کیا ہے.انقلاب حقیقی.انوار العلوم جلد 15 ص 108) اس کے علاوہ حضور نے احیاء شریعت وسنت کے پہلے مرحلہ کے طور پر عورتوں کے حقوق ، امانت ، خدمت خلق اور احمدی دارالقضاء کی طرف رجوع کرنے کے متعلق تاکیدی ہدایات دیں اور فرمایا بیشک آج ہم وہ کام نہیں کر سکتے جو حکومت اور بادشاہت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں مگر وہ باتیں جو ہمارے اختیار میں ہیں.ان پر آج سے ہی عمل شروع ہو جانا چاہیے.حضور نے تقریر کے آخر میں یہ بشارت دی کہ: دنیا میں انسان جب ایک سبق یاد کر لیا کرتا ہے تو استاد ا سے دوسرا سبق دیتا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ جب تم اس سبق کو یاد کر لو گے.تو اللہ تعالیٰ دنیا کی حکومتیں اور بادشاہتیں تمہارے قدموں میں ڈال دے گا.اور کہے گا جب تم نے ان تمام احکام اسلام کو جاری کر دیا.جن کے لئے حکومت کی ضرورت نہیں تھی.تو آؤاب میں حکومتیں بھی تمہارے سپرد کرتا ہوں.یا جو چند احکام شریعت کے باقی ہیں ان کا بھی عالم میں نفاذ ہو اور اسلامی تمدن کی چاروں دیواریں پایہ تکمیل کو پہنچ جائیں.پس اگر تم میری ان باتوں پر عمل شروع کر دو.تو اللہ تعالیٰ حکومتوں کو بھی تمہارے سپر د کر دے گا اور جو حکومتیں اس کے لئے تیار نہیں ہوں گی اللہ تعالیٰ انہیں تباہ کر دے گا اور اپنے فرشتوں کو حکم دے گا کہ جاؤ اور ان کا تختہ الٹ کر حکومت کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں دو جو میرے اسلام کو دنیا میں رائج کر رہے ہیں.انقلاب حقیقی.انوار العلوم جلد 15 ص 114 ) نظام وصیت میں شمولیت کی تحریک حضور نے 7 مئی 1926ء کو خطبہ جمعہ میں فرمایا’وصیت کی تحریک خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.
49 اور اس کے ساتھ بہت سے انعامات وابستہ ہیں.ابھی تک جنہوں نے وصیت نہ کی ہو وہ کر کے اپنے ایمان کے کامل ہونے کا ثبوت دیں.کیونکہ حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے کہ جو شخص وصیت نہیں کرتا مجھے اس کے ایمان میں شبہ ہے.پس وصیت معیار ہے ایمان کے کامل ہونے کا.مگر دسویں حصہ کی وصیت اقل ترین معیار ہے.یعنی یہ تھوڑے سے تھوڑا حصہ ہے جو وصیت میں دیا جا سکتا ہے.مگر مومن کو یہ نہیں چاہئے کہ چھوٹے سے چھوٹے درجہ کا مومن بنے کی کوشش کرے بلکہ بڑے سے بڑے درجہ کا مومن بننا چاہئے.یہ درست ہے کہ رشتہ داروں اور لواحقین کو مد نظر رکھ کر کہا گیا ہے کہ 1/3 حصہ سے زیادہ وصیت میں نہ دے.لیکن یہ نہیں کہا گیا کہ دسویں حصہ سے زیادہ وصیت نہ دے.مگر دیکھا گیا ہے کہ اکثر دوست 1/10 حصہ کرنے پر کفایت کرتے ہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاید ان کا خیال ہو کہ وصیت کا مفہوم دسویں حصہ کی وصیت کرنا ہی ہے حالانکہ یہ ادنی مقدار بیان کی گئی ہے اور مومن کے لئے یہی بات مناسب ہے کہ جس قدر زیادہ دے سکے دے.(خطبات محمود جلد 10 ص167) حضور نے جلسہ سالانہ 1926ء پر 28 دسمبر کے خطاب میں فرمایا: میں دوستوں کو وصیت کی طرف خصوصیت سے توجہ دلاتا ہوں.وصیت ہماری جماعت کے لئے نہایت اہم اور اصل چیز ہے.حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے جو شخص وصیت نہیں کرتا اس کے ایمان میں نفاق کا حصہ ہے.پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں.وصیت کی طرف خاص توجہ کریں.جماعت کا کثیر حصہ ابھی تک وصیتوں سے خالی ہے.اس وقت ہماری جماعت کی ترقی کے لئے مالی قربانیوں کی بہت ضرورت ہے.خدا تعالیٰ کا منشاء ہے کہ ہم مالی قربانیوں میں پورا حصہ لیں.(انوار العلوم جلد 9 صفحہ 443 ) حضور نے 26 اگست 1932ء کو فرمایا " تیسر ا فرض جس کی طرف میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں وہ وصیت کا مسئلہ ہے.حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے کہ وصیت ایمان کی آزمائش کا ذریعہ ہے اور وہ اس کے ذریعہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کون سچا مومن ہے اور کون نہیں ہے.ہماری جماعت اس وقت لاکھوں کی تعداد میں ہے مگر وصیت کرنے والے صرف دو تین ہزار ہیں.حالانکہ وصیت ایسی چیز ہے جو یقینی طور پر خدا کا مقرب ہونا ظاہر کرتی ہے.اس میں شبہ نہیں کہ مومن ہی وصیت کرتا ہے لیکن اس میں بھی شبہ نہیں کہ اگر کسی شخص میں کچھ کمزوریاں
50 بھی پائی جاتی ہوں تو جب وہ وصیت کرے گا تو اللہ تعالیٰ اپنے اس وعدہ کے مطابق بہشتی مقبرہ میں صرف جنتی ہی مدفون ہوں گے ، اس کے اعمال کو درست کر دیتا ہے.پس وصیت اصلاح نفس کا زبر دست ذریعہ ہے.کیونکہ جو بھی وصیت کرے گا اگر وہ ایک وقت میں جنتی نہیں تو بھی وہ جنتی بنا دیا جائے گا اور اگر اعمال اس کے زیادہ خراب ہیں تو خدا اس کے نفاق کو ظاہر کر کے اسے وصیت سے الگ کر دے گا.(خطبات محمود جلد 13 صفحہ 562 ) حضور نے 27 دسمبر 1942ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقعہ پر نظام نو کے عنوان سے ایک معرکہ الآراء خطاب فرمایا جس میں تحریک جدید اور نظام وصیت کے باہمی رابطے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ” خدا تعالیٰ نے میرے دل میں تحریک جدید کا القاء فرمایا تا کہ اس ذریعہ سے ابھی سے ایک مرکزی فنڈ قائم کیا جائے اور ایک مرکزی جائیداد پیدا کی جائے جس کے ذریعہ تبلیغ احمدیت کو وسیع کیا جائے.پس تحریک جدید کیا ہے وہ خدا تعالیٰ کے سامنے عقیدت کی یہ نیاز پیش کرنے کے لئے ہے کہ وصیت کے ذریعہ تو جس نظام کو دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے اس کے آنے میں ابھی دیر ہے اس لئے ہم تیرے حضور اس نظام کا ایک چھوٹا سا نقشہ تحریک جدید کے ذریعہ پیش کرتے ہیں تا کہ اس وقت تک کہ وصیت کا نظام مضبوط ہو اس ذریعہ سے جو مرکزی جائیداد پیدا ہو اس سے تبلیغ احمدیت کو وسیع کیا جائے اور تبلیغ سے وصیت کو وسیع کیا جائے.پس جوں جوں تبلیغ ہوگی اور لوگ احمدی ہوں گے وصیت کا نظام وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے گا اور کثرت سے اموال جمع ہونے شروع ہو جائیں گے...پس وصیت کے ذریعہ اس وقت جو اموال جمع ہورہے ہیں ان کی رفتار بیشک تیز نہیں مگر جب کثرت سے احمدیت پھیل گئی اور جوق در جوق لوگ ہمارے سلسلہ میں داخل ہو گئے اس وقت اموال خاص طور پر جمع ہونے شروع ہو جائیں گے اور قدرتی طور پر جائیدادوں کا ایک جتھا دوسری جائیدادوں کو کھینچنا شروع کر دے گا اور جوں جوں وصیت وسیع ہوگی نظام نو کا دن انشاء اللہ قریب سے قریب تر آجائے گا.غرض تحریک جدید گو وصیت کے بعد آئی ہے مگر اس کے لئے پیشرو کی حیثیت میں ہے بطور ارہاص کے ہے ہر شخص جو تحریک جدید میں حصہ لیتا ہے وصیت کے نظام کو وسیع کرنے میں مدد دیتا ہے اور ہر شخص جو نظام وصیت کو وسیع کرتا ہے وہ نظام نو کی تعمیر میں مدددیتا ہے“.پھر فرمایا:
51 پس تم جلد سے جلد وصیتیں کرو تا کہ جلد سے جلد نظام نو کی تعمیر ہو اور وہ مبارک دن آجائے جبکہ چاروں طرف اسلام اور احمدیت کا جھنڈا لہرانے لگے.اس کے ساتھ ہی میں ان سب دوستوں کو مبارک باد دیتا ہوں.جنہیں وصیت کرنے کی توفیق حاصل ہوئی اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو بھی جو ابھی تک اس نظام میں شامل نہیں ہوئے.توفیق دے کہ وہ بھی اس میں حصہ لے کر دینی ود نیوی برکات سے مالا مال ہو سکیں اور دنیا اس نظام سے ایسے رنگ میں فائدہ اٹھائے کہ آخر ا سے یہ تسلیم کرنا پڑے کہ قادیان کی وہ بستی جسے کو ردہ کہا جاتا تھا.جسے جہالت کی بستی کہا جاتا تھا.اس میں سے وہ نور نکلا جس نے ساری دنیا کی تاریکیوں کو دور کر دیا.جس نے ساری دنیا کی جہالت کو دور کر دیا.جس نے ساری دنیا کے دکھوں اور دردوں کو دور کر دیا جس نے ہرا میر اور غریب ، ہر چھوٹے اور بڑے کو محبت اور پیار اور الفت با ہمی سے رہنے کی توفیق عطا فرما دی.نظام نو.انوار العلوم جلد 16 صفحہ 599-602 ) جماعت امریکہ کو نظام وصیت میں شمولیت کی تحریک: حضرت مصلح موعودؓ نے 1955ء میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے احمدیوں کے نام انگریزی میں ایک اہم پیغام ارسال فرمایا جس میں حضور نے نظام وصیت کے عظیم الشان مقصد پر روشنی ڈالی اور اسے امریکہ میں بھی جاری کرنے کی پر زور تحریک فرمائی.میرے عزیز امریکن بھائیو! جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہوگا کہ حضرت مسیح موعود نے اپنی وفات سے دو سال قبل وصیت کے طور پر ضروری ہدایات اس دستاویز کی شکل میں شائع فرما دی تھیں جو الوصیت کے نام سے موسوم ہے.یہ دستاویز بہت اہم ہے ہر احمدی کو چاہئے کہ وہ اس کا ضرور مطالعہ کرے.مجھے یقین ہے کہ اس دستاویز کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ میں سے ہر ایک میں یہ شدید خواہش ہو گی کہ وہ بھی اس عظیم الشان تحریک میں جو اس میں بیان کی گئی ہے اور جو اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے نہایت درجہ اہمیت کی حامل ہے شامل ہونے کی سعادت حاصل کرے.الوصیت کے منشاء کے مطابق ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی جماعت احمد یہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے کسی مرکزی علاقے میں ایک موزوں قطعہ زمین خریدنے کا انتظام کرے گی.یہ قطعہ زمین قبرستان کے طور پر ان لوگوں کے لئے
52 مخصوص ہوگا جو الوصیت میں بیان کردہ شرائط اور ان قواعد کے مطابق جو امام جماعت احمدیہ اور صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کی طرف سے نافذ ہوں.وصیت کریں گے.مجھے یقین ہے کہ ریاست ہائے متحدہ میں ایک دفعہ جاری ہونے کے بعد یہ سکیم انشاء اللہ تقویت حاصل کرے گی.اور رفتہ رفتہ تمہارے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ہم وطن اس میں شامل ہو جائیں گے اور اس طرح ان لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا جو اپنی مساعی اور آمد نیوں اور جائیدادوں کا ایک معقول.الوصیت کے اغراض و مقاصد کے لئے وقف کریں گے.جوں جوں ایسے مخلص اور فدائی احمدیوں کی تعداد بڑھے گی.اس امر کی ضرورت محسوس ہوگی کہ ملک کے مختلف حصوں میں ایسے قبرستان قائم کئے جائیں.چنانچہ حسب ضرورت مختلف اوقات میں ایسے قبرستانوں کا قیام عمل میں آتا رہے گا.جیسا کہ ”الوصیت میں بیان کیا گیا ہے وصیت کی اس سکیم کے فوائد اور رنگ میں بھی ظاہر ہوں گے.اور بالآخر یہ انسانیت کے کمزور طبقوں کو اٹھانے اور انسانی فلاح و بہبود اور خوشحالی کو ترقی دینے کا ذریعہ ثابت ہوگی.کوئی نظام بھی جس کی بنیاد جبر و اکراہ پر ہو اس مقصد میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتا.الوصیت میں جو سکیم پیش کی گئی خالصۂ طوعی اور رضا کارانہ اور خدمت اسلام کے ایک اجر کا درجہ رکھتی ہے اس لحاظ سے جو اخلاقی اور روحانی فوائد اس تحریک کے ساتھ وابستہ ہوں گے تمام دوسرے نظام ان سے محروم ہیں.رفتہ رفتہ ایک ملک کے بعد دوسرا ملک اس تحریک کو اپنانے کے لئے آگے آتا رہے گا اور اس طرح ان لوگوں کی طرف سے جو اس سکیم کے ذریعہ روحانی، اخلاقی اور مادی فوائد سے متمتع ہوں گے.دنیا میں خدا کا نام بلند ہوتا رہے گا.اس تحریک پر پاکستان اور ہندوستان میں پہلے سے عمل ہو رہا ہے.میری خواہش ہے اور میں اس کے لئے دعا بھی کرتا ہوں کہ تحریک کو اپنانے والے ممالک میں سے امریکہ تیسرا ملک ثابت ہو.اور اس طرح وہ وسیع سے وسیع تر پیمانے پر انسانیت کی فلاح و بہود اور اس کی ترقی کی بنیادیں استوار کرنے میں حصہ لے آمین.(الفضل 9 فروری 1956ء) سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے یہ خصوصی پیغام چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر انچارج امریکہ مشن کو
53 ارسال فرمایا اور اس مبارک تحریک کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بذریعہ مکتوب حسب ذیل ہدایات دیں ایک مضمون ارسال ہے.اس کو فوراً شائع کروا ئیں.اور پھر اس کے مطابق جو لوگ وصیتیں کریں ان کے نام اور جائیداد کی تفصیل مرکز کو بھجوائیں.ایک مقبرہ کمیٹی قائم کریں جو زمین خریدے اور اس مقبرے کو بہت خوبصورت بنایا جائے.باغ وغیرہ لگایا جائے.میرے مضمون ” نظام نو“ کا انگریزی ترجمہ بھی جلد شائع کیا جائے اس میں تمام تفصیلات اس مضمون کی میں نے بیان کی ہیں.وہاں کے لوگوں میں قادیان کی محبت اور قادیان کو واپس لینے کا جذ بہ بھی پیدا کر یں.جن لوگوں کو خدا توفیق دے وہ ایسا انتظام کریں کہ ان کی وفات کے بعد قادیان ان کی نعش لے جائی جا سکے تو اس کا تاریخ احمدیت جلد 19 ص112) بہت اچھا اثر ہوگا.جماعت انڈونیشیا کو نظام وصیت میں شمولیت کی تحریک: حضرت مصلح موعودؓ نے امریکہ کے بعد اگلے سال 1956ء میں انڈونیشیا کی احمد یہ جماعتوں کو بھی نظام وصیت کی ترویج کی طرف توجہ دلائی جس کے خوشکن اثرات رونما ہونے شروع ہو گئے.جس پر حضور نے 29 جون 1956ء کو خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا حضرت مسیح موعود نے وصیت کا نظام جاری فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے اس میں ایسی برکت رکھ دی کہ باوجود اس کے کہ انجمن کے کام ایسے ہیں جو دلوں میں پیدا کرنے والے نہیں.پھر بھی انجمن احمد یہ کا بجٹ تحریک جدید کے بجٹ سے ہمیشہ بڑھارہتا ہے.کیونکہ وصیت ان کے پاس ہے اس سال کا بجٹ بھی تحریک جدید کے بجٹ سے دو تین لاکھ زیادہ ہے حالانکہ تحریک جدید کے پاس اتنی بڑی جائیداد ہے کہ اگر وہ جرمنی میں ہوتی تو ڈیڑھ دو کروڑ روپیہ سالانہ ان کی آمد ہوتی مگر اتنی بڑی جائیداد اور بیرونی ممالک میں تبلیغ کرنے کی جوش دلانے والی صورت کے باوجود محض وصیت کے طفیل صدر انجمن احمد یہ کا بجٹ تحریک جدید سے بڑھارہتا ہے.اس لئے اب وصیت کا نظام میں نے امریکہ اور انڈونیشیا میں بھی جاری کر دیا ہے اور وہاں سے اطلاعات آرہی ہیں کہ لوگ بڑے شوق سے اس میں حصہ لے رہے ہیں میں نے سمجھا کہ چونکہ یہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ ایک نظام ہے اگر اس نظام کو بیرونی ملکوں میں بھی جاری کر دیا جائے تو وہاں کے مبلغین کے لئے اور مساجد کی تعمیر کے لئے بڑی سہولت پیدا ہو جائے روز نامہ الفضل ربوہ 10 جولا ئی 1956ء)
54 جیسا کہ حضرت مصلح موعودؓ کے مندرجہ بالا پیغام سے عیاں ہے کہ آپ کی دلی تمنا اور خواہش تھی کہ برصغیر پاک و ہند کے بعد نہ صرف امریکہ اور انڈونیشیا بلکہ ساری دنیا کے ممالک میں نظام وصیت کا قیام عمل میں آجائے سو الحمد للہ حضور نے 1955ء میں جو آواز بلند کی تھی اس کی گونج اب آہستہ آہستہ ساری دنیا میں سنائی دینے لگی ہے.حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ 2004ء پر نظام وصیت میں شمولیت کی پر زور تحریک فرمائی جس کے بے حد خوشکن نتائج ظاہر ہوئے.شعائر اسلامی کی پابندی کا تاکیدی ارشاد 3 اکتوبر 1930ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے شعار اسلامی (داڑھی) کی پابندی کی طرف پر زور توجہ دلائی چنانچہ فرمایا ” احباب کو چاہئے کہ اپنے بچوں کو شعائر اسلامی کے مطابق زندگی بسر کرنے کا عادی بنائیں کیا یہ کوئی کم فائدہ ہے کہ ساری دنیا ایک طرف جارہی ہے اور ہم کہتے ہیں ہم اس طرف چلیں گے.جس طرف محمد رسول اللہ علہ لے جانا چاہتے ہیں اس سے دنیا پر کتنا رعب پڑے گا دنیا رنگا رنگ کی دلچسپیوں اور ترغیبات سے اپنی طرف کھینچ رہی ہو مگر ہم میں سے ہر ایک یہی کہے کہ میں اس راستہ پر جاؤں گا جو محمد رسول اللہ ﷺ کا تجویز کردہ ہے تو لازماً دنیا کہے گی کہ محمد رسول اللہ لے کے خلاف کوئی بات نہیں کرنی چاہئے کیونکہ اس کے متبعین اس کے گرویدہ اور جاں نثار ہیں.لیکن جو شخص فائدے گن کر مانتا ہے وہ دراصل مانتا نہیں مانتا وہی ہے جو ایک دفعہ یہ سمجھ کر کہ میں جس کی اطاعت اختیار کر رہا ہوں وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے آئندہ کے لئے عہد کر لیتا ہے کہ جو نیک بات یہ کہے گا اسے میں مانوں گا اور اطاعت کی اس روح کر مد نظر رکھتے ہوئے سوائے ان صورتوں کے کہ گورنمنٹ کے کسی حکیم یا نیم حکیم سے داڑھی پر کوئی پابندی عائد ہو جائے سب کو داڑھی رکھنی چاہئے مگر یہ ایسی ہی صورت ہے جیسے بیماری کی حالت میں شراب کا استعمال جائز ہے.اس لئے اس حالت والے چھوڑ کر باقی سب دوستوں کو داڑھی رکھنی چاہئے اور اپنے بچوں کی بھی نگرانی کرنی چاہئے کہ وہ شعائر اسلامی کی پابندی کرنے والے ہوں اور اگر وہ نہ مانیں تو ان کا خرچ بند کر دیا جائے اسے کوئی صحیح الدماغ انسان جبر نہیں کہ سکتا.اس کا نام جبر نہیں بلکہ نظام کی پابندی ہے اور نظام کی پابندی جبر نہیں ہوتا بلکہ
55 اس کے اندر بہت بڑے بڑے فوائد ہیں اور اس کے بغیر دنیا میں گزارہ ہی نہیں ہوسکتا.الفضل 9 اکتوبر 1930 ء ص 7 کالم 32 حضور نے 19 جون 1942ء کو ایک مفصل خطبہ ارشاد فرمایا.جس میں شعائر اسلامی کی پابندی کی از حد تاکید کی اور بتایا کہ داڑھی منڈوانے والے احمدی شکست خوردہ ذہنیت رکھتے ہیں.انہیں جماعت کے کسی عہدہ کے لئے منتخب نہ کیا جائے.چنانچہ حضور نے فرمایا.” جہاں شریعت کے احکام کا سوال آجائے وہاں اگر ہم دوسروں کی نقل کریں تو یقینا ہم اسلام کی ذلت کے سامان کر کے دشمنوں کی مدد کرنے والے قرار پاتے ہیں.انہی نفلوں میں سے ایک نقل داڑھی منڈوانا ہے.رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ نہیں متواتر داڑھی منڈوانے سے منع فرمایا ہے اور داڑھی منڈوا کر کوئی خاص فائدہ انسان کو نہیں پہنچتا.جو شخص رسول کریم ﷺ کی اتنی چھوٹی سی بات نہیں مان سکتا اس سے یہ کب توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر اس کے سامنے کوئی بڑی بات پیش کی جائے تو وہ اسے مان لے گا“.نیز فرمایا: ” میں نے متواتر جماعتوں کو توجہ دلائی ہے اور ہاں قانون بھی ہے کہ کم سے کم جماعت کے عہد یدار ایسے نہیں ہونے چاہئیں جو داڑھی منڈواتے ہوں اور اس طرح اسلامی احکام کی ہتک کرتے ہوں.مگر میں دیکھتا ہوں کہ اب بھی دنیا داری کے لحاظ سے جس کی ذرا تنخواہ زیادہ ہوئی یا چلتا پر زہ ہوا یا دنیاوی لحاظ سے اسے کوئی اعزاز حاصل ہوا اسے جماعت کا عہد یدار بنادیا جاتا ہے خواہ وہ داڑھی منڈوا تا ہو.حالانکہ دنیوی لحاظ سے ہماری جماعت کے بڑے سے بڑے لوگ بھی ان لوگوں کے پاسنگ بھی نہیں جو اس وقت دنیا میں پائے جاتے ہیں....پس ایسی شکست خوردہ ذہنیت کے لوگ جنہوں نے مغربیت کے آگے ہتھیار ڈال رکھے ہیں.وہ ہر گز کسی عہدہ کے قابل نہیں ہیں.وہ بھگوڑے ہیں اور بھگوڑوں کو حکومت دے دینا اول درجہ کی حماقت اور نادانی ہے.پس میں ایک دفعہ پھر جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہاں سوال چند بالوں کا نہیں بلکہ یہاں سوال اس ذہنیت کا ہے جو مغربیت کے مقابلہ میں اسلام اور احمدیت نے پیدا کرنی ہے اور جس ذہنیت کو ترک کر کے انسان مغربیت کا غلام بن جاتا ہے.تمہارا ایمان تو ایسا ہونا چاہئے کہ
56 اگر دس کروڑ بادشاہ بھی آکر کہیں کہ ہم تمہارے لئے اپنی بادشاہتیں چھوڑنے کو تیار ہیں تم ہماری صرف ایک بات مان لو جو اسلام کے خلاف ہو تو تم ان دس کروڑ بادشاہوں سے کہہ دو کہ تف ہے تمہاری اس حرکت پر میں محمد مصطفے ﷺ کی ایک بات کے مقابل میں تمہاری اور تمہارے باپ دادا کی بادشاہتوں کو جوتی بھی نہیں مارتا یہ ہے ایمان کی کیفیت.جو شخص یہ کیفیت اپنے دل میں محسوس نہیں کرتا اس کا یہ دعوئی کہ اس کا ایمان پکا ہے ہم ہرگز ماننے کے لئے تیار نہیں ہو سکتے“.تحریک حلف الفضول الفضل 30 جون 1942 ء ص 7,5,3) حلف الفضول“ ایک معاہدہ تھا جو حضرت رسول کریم علیہ کے زمانہ میں بعثت سے قبل ہوا جس میں زیادہ جوش کے ساتھ حصہ لینے والے تین فضل نام کے تھے اور اسی لئے اس کو حلف الفضول کہتے ہیں.یہ معاہدہ عبداللہ بن جدعان کے مکان میں ہوا.اس کے اولین اور پُر جوش داعی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا اور خاندان کے سر براہ زبیر بن مطلب تھے اور طے پایا کہ ہم مظلوموں کو ان کے حقوق دلوانے میں مدد کیا کریں گے اور اگر کوئی ظلم کرے گا تو اس کو روکیں گے اور اس بات میں ایک دوسرے کی تائید کریں گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حمایت مظلوم کی اس تحریک میں بنفس نفیس شرکت فرمائی.حضور عہد نبوت میں بھی فرمایا کرتے تھے کہ میں عبداللہ بن جدعان کے مکان پر ایک ایسے معاہدہ میں شریک ہوا کہ اگر آج اسلام کے زمانہ میں بھی مجھے کوئی اس کی طرف بلائے تو میں اس پر لبیک کہوں.سیدنا مصلح موعود کے قلب مبارک پر القاء کیا گیا کہ اگر اسی قسم کا ایک معاہدہ آپ کی اولاد بھی کرے اور پھر اس کو پورا کرنے کی کوشش کرے تو خدا تعالیٰ ان کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ ان پر اپنا فضل فرمائے گا.الفضل 22 جولا ئی 1944ء ص 2 کالم 3) اس الہام ربانی کی بناء پر حضور نے 4 جولائی 1944 ء کے خطبہ جمعہ میں تحریک فرمائی کہ جماعت احمدیہ کے بعض افراد معاملات کی صفائی اور مظلوم کی امداد اور دیانت و امانت اور عدل و انصاف کے قیام کے لئے با قاعدہ عہد کریں.حضرت سیدنا امصلح الموعودؓ نے ”حلف الفضول“ کی مبارک تحریک میں شمولیت کے لئے یہ شرائط المصل
57 تجویز فرمائیں کہ: جو لوگ اس میں شامل ہونا چاہیں ان کے لئے لازمی ہے کہ سات دن تک متواتر اور بلا ناغہ استخارہ کریں.عشاء کی نماز میں یا نماز کے بعد دو نفل الگ پڑھ کر دعا کریں کہ اے خدا اگر میں اس کو نباہ سکوں گا تو مجھے اس میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرما.ایک اور شرط ہو گی کہ ایسا شخص خواہ امام الصلوۃ کے ساتھ اسے ذاتی طور پر کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو مرکزی احکام کے بغیر اس کے پیچھے نماز پڑھنا ترک نہ کرے گا اور اپنے کسی بھائی سے خواہ اسے شدید تکلیف بھی کیوں نہ پہنچی ہو اس نے بات چیت کرنا ترک نہ کرے گا اور اگر وہ دعوت کرے تو اسے رد نہ کرے گا.ایک اور شرط ہے کہ سلسلہ کی طرف سے اسے جو سزا دی جائے گی اسے بخوشی برداشت کرے گا اور ایک یہ کہ اس اس کام میں نفسانیت اور ذاتی نفع نقصان کے خیالات کو نظر انداز کر دے گا“.اس دعوت پر وسط 1945 ء تک جو دوست شریک معاہدہ ہوئے ان کی تعداد 177 تھی.تحریک سالکین حضرت خلیفہ لمسیح الثانی نے احمدیوں کی تربیت واصلاح کی غرض سے 27 دسمبر 1933ء کو جلسہ سالانہ کے موقعہ پر ایک نہایت اہم تحریک تحریک سالکین“ کے نام سے جاری فرمائی.یہ تحریک تین سال کے لئے تھی اس کے مقاصد حضور کے الفاظ میں یہ تھے.تربیت دو قسم کی ہوتی ہے ایک تربیت ابدال یا تبدیلی سے ہوتی ہے اور ایک تربیت سلوک سے ہوتی ہے.صوفیاء نے ان دونوں طریق کو تسلیم کیا ہے.تبدیلی یہ ہے کہ انسان کے اندر کسی اہم حادثہ سے فوراً ایک تبدیلی پیدا ہو جائے اور سلوک یہ ہے کہ مجاہدہ اور بحث سے آہستہ آہستہ تبدیلی پیدا ہو.یورپ والے بھی ان کو تسلیم کرتے ہیں اور وہ فوری تبدیلی کو کنورشن (conversion) کہتے ہیں صوفیاء کنورشن کو ہی ابدال کہتے ہیں.ابدال کی مثال یہ ہے کہ لکھا ہے ایک شخص ہمیشہ برے کاموں میں مبتلا رہتا تھا.اسے بہت سمجھایا گیا.مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوتا.ایک دفعہ کوئی شخص گلی میں سے گزرتا یہ آیت پڑھ رہا تھا الم يان للذين امنوا ان تخشع قلوبهم لذكر الله (الحديد : 17)
58 ہوتا کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ مومن کے دل میں خشیت اللہ پیدا ہو.اس وقت وہ شخص ناچ اور رنگ رلیوں میں مصروف تھا.یہ آیت سنتے ہی چنیں مار کر رونے لگ گیا.سارا قرآن سن کر اس پر اثر نہ ہوتا تھا لیکن یہ آیت سن کر ان کی حالت بدل گئی.یہ اصلاح کنورشن کہلاتی ہے.ایک سلوک ہوتا ہے.یعنی انسان اپنی اصلاح کی آہستہ آہستہ کوشش کرتا ہے.وہ ذکر الہی کرتا ہے اور دوسروں سے دعائیں کراتا ہے اور اسی طرح اپنی اصلاح میں لگا رہتا ہے لیکن کبھی یہ دونوں باتیں ایک ہی انسان میں پائی جاتی ہیں.جماعت احمدیہ میں جو شخص داخل ہوتا ہے اس پر یہ دونوں حالتیں آتی ہیں جب کوئی پہلے پہل داخل ہے ہے تو ابدال میں شامل ہوتا ہے ایک عظیم الشان تغیر اس پر آتا ہے.حضرت مسیح موعود کا ایک الہام ہے يدعون لك ابدال الشام شام کے ابدال تیرے لئے دعائیں کرتے ہیں گو اس جگہ ابدال شام کا ذکر ہے لیکن اس سے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ احمدیت میں سچے دل سے داخل ہونے والے ابدال میں شامل ہوتے ہیں.یعنی شخصیت کو بدلنے والی ایک فوری تبدیلی ان میں پیدا ہوتی ہے جیسا کہ اس لفظ کے معنوں سے ثابت ہوتا ہے.بدل عوض کو کہتے ہیں اور تغیر کو بھی ، مراد یہ ہوتی ہے کہ پہلے وجود کی جگہ ایک نیا و جو د اس شخص کو ملتا ہے مگر یہ یا درکھنا چاہئے.کہ بعض لوگ پورے ابدال بن جاتے ہیں اور بعض ناقص یعنی کچھ حصہ ان کا سلوک کا محتاج رہ جاتا ہے اور ان لوگوں کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ مجاہدات سے اپنے بقیہ قصوں کو دور کریں اس قسم کے نقصوں کو دور کرنے کے لئے وعظ اور نصیحت کی جاتی ہے.مگر خالی وعظ سے یہ کام نہیں ہوتا.بلکہ ایک مستقل نگرانی کی حاجت باقی رہتی (انوار العلوم جلد 13 ص 345) حضور نے 1934 ء کے اوائل میں تحریک سالکین کی نسبت متعد د خطبات دیئے اور 23,9 فروری اور 23 مارچ کے خطبات جمعہ میں سالکین کو پانچ بنیادی ہدایات دیں جو یہ تھیں :.اول یہ کہ بجائے اپنے کسی بھائی کو بدنام کرنے کے پہلے عام رنگ میں نصیحت کی جائے کہ وہ لوگ جنہیں کہیں سے روپیہ آنے کی امید نہ ہو.وہ قرض نہ لیا کریں.دوم روپیہ دینے والوں کو نصیحت کریں کہ ایسے لوگوں کو قرض دینے سے اجتناب کیا کریں.سوم یہ کہ دھوکہ باز کا فریب جماعت میں ظاہر کریں تا لوگ اس سے بیچ کر ر ہیں.الفضل 15 فروری 1934ء ص 8) چهارم احباب اپنے اپنے نقائص کا پتہ لگا ئیں اور ان کی اصلاح کریں.اس سلسلہ میں اپنے نفس کا
59 محاسبہ کیا جائے.دوسرے امر پر غور کیا جائے کہ غیر اس کے متعلق کیا کہتے ہیں.الفضل یکم مارچ 1934 ء ص 8 کالم 1 ) پنجم رب العالمین کی صفت کے ماتحت تو کام ہوتے ہی رہتے ہیں.رحمانیت کی صفت کے ماتحت بھی نیکیاں کریں اور اس نیت سے کریں کہ دین کو تقویت ہو.( الفضل 29 مارچ 1934ء) یہ گویا پانچ ستون تھے جن پر تحر یک سالکین کی بنیاد رکھی گئی.تحریک مصالحت اور اس کا اثر تبلیغی نظام چونکہ جماعت مومنین نے باہمی اتفاق و اتحاد اور جذبہ اخوت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا.اس لئے حضور نے تبلیغ پر زور دینے کے ساتھ 8 جنوری 1932ء کے خطبہ جمعہ میں جماعت سے اس خواہش کا بھی اظہار فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ ہم اس نئے سال کو اس غرض کے لئے وقف کر دیں کہ جماعت سے تمام لڑائیاں جھگڑے تفرقے اور عناد اللہ تعالیٰ کے فضل سے مٹادیں.اس سلسلہ میں احباب جماعت کو یہ خاص ہدایت بھی فرمائی کہ جو شخص اپنے دوسرے بھائی سے کسی وجہ سے نہیں بولتا.یا اس سے عداوت اور بغض رکھتا ہے وہ فورا اپنے بھائی کے پاس جائے اور اس سے خلوص دل کے ساتھ صلح کرلے اور آئندہ کے لئے کوشش کرے کہ آپس میں کوئی جھگڑا نہ ہو.حضرت مصلح موعودؓ کے اس خطبہ جمعہ کا جماعت پر حیرت انگیز اثر ہوا اور جماعت کے دوستوں نے اپنی رنجشوں اور کدورتوں کو حضور کے اشارہ پھر چھوڑ دیا.حتی کہ لوگوں نے مالی نقصان گوارا کر کے خطبہ سنتے یا پڑھتے ہی صلح کر لی.مستثنیات تو ہر معاملہ میں چلتی ہیں.تاہم شاذ و نادر ہی کوئی ایک شخص ہوگا جو اس سعادت سے بکلی محروم رہا ہو.جماعت میں صلح و آشتی کا یہ خوش گن نظارہ دیکھ کر حضور نے 29 جنوری 1932ء کے خطبہ جمعہ میں نہایت خوشنودی کا اظہار فرمایا.مگر ساتھ ہی نصیحت فرمائی: میں نے یہ نصیحت کی تھی کہ لوگ اپنے دلوں کو دوسروں کی نسبت صاف کر لیں اور خواہ وہ مظلوم ہی کیوں نہ ہوں صلح کریں.میری یہ نصیحت نامکمل رہے گی اور فتنوں کا سد باب پوری طرح نہیں ہوگا جب تک میں اس کا دوسرا حصہ بھی بیان نہ کروں اور وہ یہ ہے کہ نہ صرف دوسروں کے متعلق ہر قسم کی
60 رورت سے اپنے دلوں کو صاف کرو بلکہ اس امر کو بھی مدنظر رکھو کہ کسی مظلوم کا معافی مانگ لینا ایسی بات نہیں جو تمہارے لئے خوشی کا موجب ہو سکے بلکہ خوشی صرف اسی کے لئے ہے جس نے معافی مانگی اور تمہیں خوشی اس وقت حاصل ہوگی جب تم اپنے خدا کو حاضر ناظر جانتے ہوئے اگر دوسروں کے حقوق کو تم نے غصب کیا ہوا ہے تو وہ حقوق ادا کر دو اور اگر تم پر کسی کا مالی یا جانی یا اخلاقا حق ہے تو وہ اسے دید و.ورنہ اگر تم دوسروں کے حقوق ادا نہیں کرتے تو خواہ دوسرا شخص تم سے ہزار معافی مانگے اس کا درجہ بڑھتا جائے گا لیکن تمہارا جرم اور گناہ بھی ساتھ ساتھ بڑھتا جائے گا.کیونکہ وہ شخص میرے کہنے پر تمہارے پاس گیا اور اس نے مظلوم ہونے کے باوجود تم سے معافی مانگی مگر تم نے باوجود ظالم ہونے کے اور باوجود اس کے معافی مانگ لینے کے اس کے حقوق کی ادائیگی کا خیال نہ کیا اور تم نے اپنے دل میں یہ سمجھ لیا کہ وہ نیچا ہو گیا.پس اپنے نفوس کو اس غرور میں مبتلاء نہ ہونے دو کہ ہم نے دوسرے کو نیچا دکھا دیا.کیونکہ وہ معافی مانگ کر نیچا نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اونچا ہو گیا.کیونکہ اس نے خدا کی فرمانبرداری کی اور خلیفہ وقت کی بات مانی مگر تم جو اس وقت اپنے آپ کو اونچا سمجھ رہے ہو دراصل نیچے گر گئے جس طرح انسان جتنا اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ میں جھکتا ہے.خدا اس کو اوپر اٹھاتا ہے یہاں تک کہ اسے ساتویں آسمان پر لے جاتا ہے اسی طرح جو شخص اپنے بھائی سے معافی مانگتا ہے وہ نیچے نہیں گرتا بلکہ اس کا درجہ بلند ہوتا ہے اور خدا کے حضور بہت بلند ہو جاتا ہے.الفضل 4 فروری 1932 ء ص 5) کچھ عرصہ بعد جبکہ جماعتی مخالفت زوروں پر تھی جماعت کے ایک طبقہ میں اندرونی مناقشات نے پھر سر اٹھایا اور اس تحریک کے اثرات زائل ہوتے نظر آئے تو مقدس امام نے 26 مئی 1935 ء کو پھر توجہ دلائی کہ: کوئی احمق ہی اس وقت اپنے بھائی سے لڑ سکتا ہے.جب کوئی دشمن اس کے گھر پر حملہ آور ہو ایسے نازک وقت میں اپنے بھائی کی گردن پکڑنے والا یا تو پاگل ہو سکتا ہے یا منافق.ایسے شخص کے متعلق کسی مزید غور کی ضرورت نہیں وہ یقیناً یا تو پاگل ہے اور یا منافق اس لئے آج چھ ماہ کے بعد میں پھر ان لوگوں سے جنہوں نے اس عرصہ میں کوئی جھگڑا کیا ہو.کہتا ہوں کہ وہ تو بہ کریں تو بہ کریں.ورنہ خدا کے رجسٹر سے ان کا نام کاٹ دیا جائے گا اور وہ تباہ ہو جائیں گے.منہ کی احمدیت انہیں ہرگز ہرگز نہیں بیا
61 سکے گی.ایسے لوگ خدا کے دشمن ہیں.رسول کے دشمن ہیں.قرآن کے دشمن ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دشمن ہیں.ایسے لوگ خون آلود گندے چیتھڑے کی طرح ہیں جو پھینک دیئے جانے کے قابل ہیں.اس لئے ہر وہ شخص جس نے اپنے بھائی سے جنگ کی ہوئی ہے اس سے کہتا ہوں کہ پیشتر اس کے کہ خدا کا غضب اس پر نازل ہو وہ ہمیشہ کے لئے صلح کرلے اور پھر کبھی نہ لڑے“.الفضل 12 جون 1935 ص 8 کالم 4,3
62 تعلیم القرآن کے متعلق تحریکات مصلح موعود کا ایک اہم فرض اور علامت یہ تھی کہ اس کے ذریعہ کلام اللہ کا مرتبہ ظاہر ہو گا.اس لئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے خلافت اولیٰ میں ہی تعلیم القرآن کا مقدس کام شروع کر دیا تھا.آپ نے درس القرآن کا آغاز فرمایا اور سکولوں اور کالجوں کی تعطیلات کے دوران تربیتی کلاسز کا اجراء کیا.خلافت ثانیہ میں حضور نے علم قرآن کے دریا بہائے.معارف لٹائے جو تفسیر کبیر اور دوسری متعدد کتب سے چھلک رہے ہیں.قرآن سیکھنے اور سکھانے کے نظام کو آپ نے منظم بنیا دوں پر قائم کرتے ہوئے متعد دتحریکات جاری فرمائیں.تعلیم کتاب و حکمت : حضور نے اپنے عہد کی پہلی مجلس شوری 12 اپریل 1914ء میں سورۃ البقرہ آیت 130 کی روشنی میں اپنی خلافت کا لائحہ عمل بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ نبی کے جانشین ہونے کی وجہ سے خلیفہ کا ایک بہت اہم کام تعلیم کتاب و حکمت ہے.اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا :.وو يعلمهم الكتب قرآن شریف کتاب موجود ہے اس لئے اس کی تعلیم میں قرآن مجید کا پڑھنا پڑھانا.قرآن مجید کا سمجھانا آجائے گا.کتاب تو لکھی ہوئی موجود ہے اس لئے کام یہ ہوگا کہ ایسے مدارس ہوں جہاں قرآن مجید کی تعلیم ہو.پھر اس کے سمجھانے کے لئے ایسے مدارس ہوں جہاں قرآن مجید کا ترجمہ سکھایا جائے اور وہ علوم پڑھائے جائیں جو اس کے خادم ہوں.ایسی صورت میں دینی مدارس کا اجراء اور ان کی تکمیل کا کام ہوگا.دوسرا کام اس لفظ کے ماتحت قرآن شریف پر عمل کرانا ہوگا کیونکہ تعلیم دو قسم کی ہوتی ہے ایک کسی کتاب کا پڑھا دینا اور دوسرے اس پر عمل کروانا.الحكمة تعليم الحکمۃ کے لئے تجاویز اور تدابیر ہوں گی کیونکہ اس فرض کے نیچے احکام شرائع کے اسرار سے آگاہ کرنا ضروری ہے.(انوار العلوم جلد 2 ص 31) پھر حضرت خلیفتہ اسی الاول کی وصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:.حضرت خلیفہ اسیح نے اپنی وصیت میں اپنے جانشین کے لئے فرمایا متقی ہو، ہر دلعزیز ہو، قرآن و
63 حدیث کا درس جاری رہے عالم باعمل ہو.اس میں يعلمهم الكتب والحكمة کی طرف اشارہ اس حکم میں ہے کہ قرآن و حدیث کا درس جاری رہے کیونکہ الکتب کے معنے قرآن شریف ہیں اور الحكمة کے معنے بعض ائمہ نے حدیث کے کئے ہیں.اس طرح یعلمهم الكتب والحكمة كے معنى ہوئے قرآن و حدیث سکھائے.(انوار العلوم جلد 2 ص 33) اصل مقصود : حضور نے تمام جماعتی نظام کا اصل مقصود بیان کرتے ہوئے فرمایا:.ہمارا اصل پروگرام تو وہی ہے جو قرآن کریم میں ہے.لجنہ اماء اللہ ہو مجلس انصار ہو، خدام الاحمدیہ ہو نیشنل لیگ ہو، غرضیکہ ہماری کوئی انجمن ہو، اس کا پروگرام قرآن کریم ہی ہے اور جب ہر ایک احمدی یہی سمجھتا ہے کہ قرآن کریم میں سب ہدایات دے دی گئی ہیں اور ان میں سے کوئی بھی مضر نہیں تو اس کے سوا اور کوئی پروگرام ہو ہی کیا سکتا ہے.حقیقت یہی ہے کہ اصل پروگرام تو وہی ہے اس میں سے حالات اور اپنی ضروریات کے مطابق بعض چیزوں پر زور دے دیا جاتا ہے.لیکن جب روزے رکھے جار ہے ہوں تو اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ حج منسوخ ہو گیا بلکہ چونکہ وہ دن روزوں کے ہوتے ہیں اس لئے روزے رکھے جاتے ہیں.جب ہم کوئی پروگرام تجویز کرتے ہیں تو اس کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ اس وقت یہ امراض پیدا ہو گئے ہیں اور ان کے لئے یہ قرآنی نسخہ ہم استعمال کرتے ہیں اور یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ سارا پروگرام سامنے ہو اور اس میں سے حالات کے مطابق باتیں لے لی جائیں.لیکن اگر سارا پروگرام سامنے نہ ہو تو اس کا ایک نقص یہ ہوگا کہ صرف چند باتوں کو دین سمجھ لیا جائے گا.(مشعل راه جلد اول ص 103) حضور نے 21 نومبر 1947ء کو خاص طور پر اس موضوع پر خطبہ جمعہ دیا کہ اگر ہماری جماعت قرآن کریم کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے تو سارے مصائب آپ ہی آپ ختم ہو جائیں.چنانچہ فرمایا:.سلسلہ الہیہ کو سلسلہ الہیہ مجھنا اور اس کی تعلیم پر عمل نہ کرنا بالکل لغو اور فضول ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات عذاب الہی کو بھڑ کانے کا موجب بن جاتا ہے.پس ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ قرآن کریم کے پڑھنے اور پڑھانے کا اتنا رواج دے کہ ہماری جماعت میں کوئی ایک شخص بھی نہ رہے جسے قرآن نہ آتا
64 ہو.ابھی تک جماعت کے بعض لوگ اس سلسلے کو محض ایک سوسائٹی کی طرح سمجھتے ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ بیعت کرنے کے بعد اگر چندہ دے دیا تو اتنا ہی ان کے لئے کافی ہے.حالانکہ...جب تک ہم اپنے ساتھیوں اور اپنے دوستوں اور اپنے رشتہ داروں کو قرآن کریم کے پڑھانے اور اس پر عمل کرانے کی کوشش نہ کریں گے اس وقت تک ہمارا قدم اس اعلیٰ مقام تک نہیں پہنچ سکتا جس مقام تک پہنچنے کے نتیجہ میں انبیاء کی جماعتیں کامیاب ہوا کرتی ہیں.(الفضل 9 دسمبر 1947ء ص 6,5) آپ نے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.میں بھی طلباء سے یہی کہتا ہوں کہ وہ خود غور کرنے کی عادت ڈالیں اور جو باتیں میں نے بیان کی ہیں ان کے متعلق سوچیں پھر دوسرے لوگوں میں بھی انہیں پھیلانے کی کوشش کریں.یاد رکھو صرف کتابیں پڑھنا ہی کافی نہیں بلکہ ان میں جو کمی تمہیں نظر آتی ہے اسے دور کرنا بھی تمہارا فرض ہے مثلاً تفسیر کبیر کو ہی لے لو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے قرآن کریم کا بہت کچھ علم دیا ہے لیکن کئی باتیں ایسی بھی ہوں گی جن کا ذکر میری تفسیر میں نہیں آیا.اس لئے اگر تمہیں کوئی بات تفسیر میں نظر نہ آئے تو تم خود اس بارہ میں غور کرو اور سمجھ لو کہ شاید اس کا ذکر کرنا مجھے یادنہ رہا ہو اور اس وجہ سے میں نے نہ لکھی ہو یا ممکن ہے وہ میرے ذہن میں ہی نہ آئی ہو اور اس وجہ سے وہ رہ گئی ہو.بہر حال اگر تمہیں اس میں کوئی کمی دکھائی دے تو تمہارا فرض ہے کہ تم خود قرآن کریم کی آیات پر غور کرو اور ان اعتراضات کو دور کرو.جوان پر وارد ہونے والے ہیں“.مشعل راه جلد اول ص 750) کلاسز اور درس کی تحریک آپ نے ذیلی تنظیموں کو بار بار تعلیم القرآن کلاسز لگانے کا ارشاد فرمایا.چنانچہ 1945ء میں مجلس خدام الاحمدیہ اور نظارت تعلیم و تربیت کے اشتراک سے پہلی تعلیم القرآن کلاس شروع کی گئی جو ایک ماہ جاری رہی اور 86 نمائندگان نے شرکت کی.( الفضل 8 ستمبر 1945ء) خلافت ثانیہ میں ہی نظارت اصلاح وارشاد کے تحت تعلیم القرآن کلاس کا 1964ء میں آغاز ہوا جو کامیابی سے مسلسل جاری ہے.بعد میں خدام الاحمدیہ کے زیر اہتمام سالانہ تربیتی کلاس کا آغاز ہوا جس میں اب ایک ہزار کے قریب طلباء حصہ لیتے ہیں.
65 حضور نے 27 دسمبر 1927ء کو جلسہ سالانہ پر خطاب میں فرمایا :.قرآن کریم پڑھنے کا بہترین طریق یہ ہے کہ درس جاری کیا جائے.بہت سی ٹھوکر میں لوگوں کو اس لئے لگتی ہیں کہ وہ قرآن کریم پر تدبر نہیں کرتے.پس ضروری ہے کہ ہر جگہ قرآن کریم کا درس جاری کیا جائے اگر روزانہ درس میں لوگ شامل نہ ہو سکیں تو ہفتہ میں تین دن سہی اگر تین دن بھی نہ آسکیں تو دو دن ہی سہی.اگر دو دن بھی نہ آسکیں تو ایک ہی دن سہی مگر درس ضرور جاری ہونا چاہئے تا کہ قرآن کریم کی محبت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو.اس کے لئے بہترین صورت یہ ہے کہ جہاں جہاں امیر مقرر ہیں وہاں وہ درس دیں.اگر کسی جگہ کا امیر درس نہیں دے سکتا تو وہ مجھ سے اس بات کی منظوری لے کہ میں درس نہیں دے سکتا.درس دینے کے لئے فلاں آدمی مقرر کیا جائے.تمام امراء کو جنوری کے مہینہ کے اندراندر مجھے اطلاع دینی چاہئے کہ درس کے متعلق انہوں نے کیا فیصلہ کیا ہے اور درس روزانہ ہوگا یا دوسرے دن یا ہفتہ میں دو بار یا ایک بار.میں سمجھتا ہوں درس کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں قرآن کریم کی محبت راسخ ہو جائے گی اور بہت سے فتن کا آپ ہی آپ ازالہ ہو جائے گا.تقریر دلپذی.انوار العلوم جلد 10 ص 92 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی حضور کے ارشاد پر وسط مارچ 1928ء میں ناظر تعلیم و تربیت کی حیثیت سے عہدیداران جماعت کو مزید توجہ دلائی کہ جہاں جہاں ابھی تک سلسلہ درس شروع نہیں ہوا اس کی طرف فوراً توجہ دیں.نیز گھروں میں بھی درس جاری کرنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا: ”ہمارے احباب کو چاہئے کہ علاوہ مقامی درس کے اپنے گھروں میں بھی قرآن شریف اور حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود کا درس جاری کریں اور یہ درس خاندان کے بزرگ کی طرف سے دیا جانا چاہئے.اس کے لئے بہترین وقت صبح کی نماز کے بعد کا ہے لیکن اگر وہ مناسب نہ ہو تو جس وقت بھی مناسب سمجھا جائے اس کا انتظام کیا جائے.اس درس کے موقعہ پر گھر کے سب لوگ ، مرد، عورتیں لڑکے، لڑکیاں بلکہ گھر کی خدمت گار میں بھی شریک ہوں اور بالکل عام فہم سادہ طریق پر دیا جائے اور درس کا وقت پندرہ بیس منٹ سے زیادہ نہ ہو ، تا کہ طبائع میں ملال نہ پیدا ہو.اگر ممکن ہو تو کتاب کے پڑھنے کے لئے گھر کے بچوں اور ان کی ماں یا دوسری بڑی مستورات کو باری باری مقرر کیا جائے اور
66 اس کی تشریح یا ترجمہ وغیرہ گھر کے بزرگ کی طرف سے ہو میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس قسم کے خانگی درس ہماری جماعت کے گھروں میں جاری ہو جائیں تو علاوہ علمی ترقی کے یہ سلسلہ اخلاق اور روحانیت کی الفضل 16 مارچ 1928ء ص 2) اصلاح کے لئے بھی بہت مفید و با برکت ہوسکتا ہے.حضور نے خطبہ جمعہ 26 جنوری 1934ء بمقام لاہور فرمایا:.میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ قرآن کو اخلاص سے پڑھیں ہر جماعت کو چاہئے کہ درس جاری کرے.بہت سے لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی خود نہیں سمجھ سکتے اس لئے ابتداء انہیں سہارے کی ضرورت ہوتی ہے جو درس سے حاصل ہو سکتا ہے.یا اگر مسجد ، ہوٹل یا جو دوست دور دور رہتے ہیں وہ محلہ وار جمع ہو کر درس کا انتظام کریں اور جن کے لئے محلہ وار جمع ہونا بھی مشکل ہو وہ گھر میں ہی درس دے لیا کریں تو جماعت میں تھوڑے ہی دنوں کے اندر علوم کے دریا بہہ جائیں.درس کے لئے بہترین طریق یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود کی تفاسیر کو مدنظر رکھا جائے.آپ نے اگر چہ کوئی با قاعدہ تفسیر تو نہیں لکھی مگر تفسیر کے اصول ایسے بتا دیئے ہیں کہ قرآن کو ان کی مدد سے سمجھنا بہت آسان ( خطبات محمود دجلد 15 ص 33) ہو گیا ہے.جہاد بالقرآن کی اہم تحریک سیدنا حضرت خلیفہ امسح الثانی نے جولا ئی 1928ء کے پہلے ہفتہ میں مسلمانان عالم کو اس طرف توجہ دلائی کہ ترقی و سربلندی کا اصل راز قرآن مجید کے سمجھنے اور اس پر کار بند ہونے میں مضمر ہے.چنانچہ حضور نے 6 جولائی 1928ءکو خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا:.ہر مسلمان کو چاہئے کہ قرآن کریم کو پڑھے.اگر عربی نہ جانتا ہوتو اردوترجمہ اور تفسیر ساتھ پڑھے عربی جاننے والوں پر قرآن کے بڑے بڑے مطالب کھلتے ہیں مگر یہ مشہور بات ہے کہ جو ساری چیز نہ حاصل کر سکے اسے تھوڑی نہیں چھوڑ دینی چاہئے.کیا ایک شخص جو جنگل میں بھوکا پڑا ہو، اسے ایک روٹی ملے تو اسے اس لئے چھوڑ دینی چاہئے کہ اس سے اس کی ساری بھوک دور نہ ہوگی.پس جتنا کوئی پڑھ سکتا ہو پڑھ لے اور اگر خود نہ پڑھ سکتا ہو تو محلہ میں جو قرآن جانتا ہو اس سے پڑھ لینا چاہئے.جب شخص بار بار قرآن پڑھے گا اور اس پر غور کرے گا تو اس میں قرآن کریم کے سمجھنے کا ملکہ پیدا ہو جائے
67 گا.پس مسلمانوں کی ترقی کا راز قرآن کریم کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں ہے جب تک مسلمان اس کے سمجھنے کی کوشش نہ کریں گے، کامیاب نہ ہوں گے.کہا جاتا ہے دوسری قو میں جو قرآن کو نہیں مانتیں وہ ترقی کر رہی ہیں پھر مسلمان کیوں ترقی نہیں کر سکتے.بے شک عیسائی اور ہندو اور دوسری قومیں ترقی کر سکتی ہیں لیکن مسلمان قرآن کو چھوڑ کر ہر گز نہیں کر سکتے.اگر کوئی اس بات پر ذرا بھی غور کرے تو اسے اس کی وجہ معلوم ہو سکتی ہے اگر یہ میچ ہے کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کی کتاب ہے اور اگر یہ صحیح ہے کہ ہمیشہ دنیا کو ہدایت دینے کے لئے قائم رہے گی تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اگر قرآن کو خدا کی کتاب ماننے والے بھی اس کو چھوڑ کر ترقی کر سکیں تو پھر کوئی قرآن کو نہ مانے گا پس قرآن کی طرف مسلمانوں کو توجہ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی ترقی کا انحصار قرآن کریم ہو“.الفضل 13 جولائی 1928 ء ص 7) کالم (3) حفظ قرآن کی تحریکات تعلیم القرآن کی ہی ذیلی سیکیم حفظ قرآن ہے.حضور نے 7 دسمبر 1917 ء کو وقف زندگی کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:.جو لوگ اپنے بچوں کو وقف کرنا چاہیں وہ پہلے قرآن کریم حفظ کرائیں.کیونکہ مبلغ کے لئے حافظ قرآن ہونا نہایت مفید ہے.بعض لوگ خیال کرتے ہیں.اگر بچوں کو قرآن حفظ کرانا چاہیں تو تعلیم میں حرج ہوتا ہے.لیکن جب بچوں کو دین کے لئے وقف کرنا ہے تو کیوں نہ دین کے لئے جو مفید ترین چیز ہے وہ سکھالی جائے.جب قرآن کریم حفظ ہو جائے گا تو اور تعلیم بھی ہو سکے گی.میرا تو ابھی ایک بچہ پڑھنے کے قابل ہوا ہے اور میں نے تو اس کو قرآن شریف حفظ کرانا شروع کر دیا ہے.ایسے بچوں کا تو جب انتظام ہو گا اس وقت ہوگا اور جو بڑی عمر کے ہیں وہ آہستہ آہستہ قرآن حفظ کر لیں گے.الفضل 22 دسمبر 1917ء - خطبات محمود جلد 5 ص (612) اپریل، مئی 1922 ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت میں حفظ قرآن کی تحریک فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ کم از کم تھیں آدمی قرآن کریم کا ایک ایک پارہ حفظ کریں جس پر کئی احباب نے لبیک کہا.(الفضل 4 مئی 1922 ء ص 1 )
68 24 /اپریل1944ء کو دعوی مصلح موعود کے بعد حضور نے پھر حفاظ پیدا کرنے کی تحریک فرمائی.الفضل 26 جولائی 1944 ء ص 4,3) حضرت مصلح موعودؓ نے 29 اپریل 1946 ء کوتحریک فرمائی کہ قرآن کریم کا چرچا اور اس کی برکات کو عام کرنے کے لئے ہماری جماعت میں بکثرت حفاظ ہونے چاہئیں.چنانچہ فرمایا :.صدرانجمن احمدیہ کو چاہئے کہ چار پانچ حفاظ مقرر کرے جن کا کام یہ ہو کہ وہ مساجد میں نمازیں بھی پڑھایا کریں اور لوگوں کو قرآن کریم بھی پڑھائیں.اسی طرح جو قرآن کریم کا ترجمہ نہیں جانتے ان کو ترجمہ پڑھا دیں اگر صبح و شام وہ محلوں میں قرآن پڑھاتے رہیں تو قرآن کریم کی تعلیم بھی عام ہو جائے گی اور یہاں مجلس میں بھی جب کوئی ضرورت پیش آئے گی ان سے کام لیا جا سکے گا.بہر حال قرآن کریم کا چر چا عام کرنے کے لئے ہمیں حفاظ کی سخت ضرورت ہے.انجمن کو چاہئے کہ وہ انہیں اتنا کافی گزارہ دے کہ جس سے وہ شریفانہ طور پر گزارہ کرسکیں.پہلے دو چار آدمی رکھ لئے جائیں پھر رفتہ رفتہ اس تعداد کو بڑھایا جائے“.الفضل 26 راگست 1960 ءص4) چنانچہ حضور کی توجہ اور ہدایات کے تابع جماعت میں حفظ قرآن کی سکیم کو خاص اہمیت حاصل ہے.تاریخی ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ 1920 ء سے قبل قادیان میں حافظ کلاس کا آغاز ہو چکا تھا اور حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے اسی کلاس سے قرآن حفظ کیا.قیام پاکستان کے بعد یہ کلاس احمد نگر ، پھر مسجد مبارک ربوہ اور جون 1969 ء سے جامعہ احمدیہ کے کوارٹر اور کچھ دیر مسجد حسن اقبال جامعہ میں جاری رہی.1976ء میں باقاعدہ مدرسۃ الحفظ قائم کیا گیا.2000ء میں مدرسۃ الحفظ کو موجودہ نئی عمارت میں منتقل کیا گیا.الفضل 11 اپریل 2001 ء ) مدرسۃ الحفظ سے سینکڑوں بچے اب تک قرآن حفظ کر چکے ہیں.اسی طرح بچیوں کے لئے 17 مارچ 1993 ء سے عائشہ دینیات اکیڈمی قائم کی گئی ہے جس سے سینکڑوں بچیاں قرآن حفظ کر چکی ہیں.2 ستمبر 2000ء کو برطانیہ میں مدرسہ حفظ قرآن عمل میں آیا جس میں ٹیلی فون اور جز وقتی کلاسوں کے ذریعہ بچوں کو قرآن حفظ کروایا جاتا ہے.اس کا نام الحافظون رکھا گیا ہے.یکم مارچ 2005ء کوغا نا میں جامعہ احمدیہ کے ساتھ مدرستہ الحفظ کا قیام عمل میں آیا.(الفضل 13 مئی 2006 ء )
69 عربی سیکھنے کی تحریک قرآن سیکھنے کے لئے عربی جانا اول قدم ہے اس لئے حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے عربی زبان کی ترویج کی طرف خاص توجہ فرمائی اور 19 جون 1944 ء کو خطبہ جمعہ کے علاوہ مجلس عرفان میں فرمایا.عربی زبان کا مردوں اور عورتوں میں شوق پیدا کرنے اور اس زبان میں لوگوں کے اندر گفتگو کا ملکہ پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ...ایک عربی بول چال کے متعلق رسالہ لکھیں.حضرت مسیح موعود نے بھی عربی کے بعض فقرے تجویز فرمائے تھے جن کو میں نے رسالہ تفخیذ الاذہان میں شائع کر دیا تھا.ان فقروں کو بھی اپنے سامنے رکھ لیا جائے اور تبرک کے طور پر ان فقرات کو بھی رسالہ میں شامل کر لیا جائے.در حقیقت وہ ایک طریق ہے جو حضرت مسیح موعود نے ہمارے سامنے پیش فرمایا.اب ہمارا فرض ہے کہ ہم اس راستہ پر چلیں اور اپنی جماعت میں عربی زبان کی ترویج کی کوشش کریں.میرے خیال میں اس میں اس قسم کے فقرات ہونے چاہئیں کہ جب ایک دوست دوسرے دوست سے ملتا ہے تو کیا کہتا ہے اور کس طرح آپس میں باتیں ہوتی ہیں.وہ باتیں تربیت کے ساتھ لکھی جائیں.پھر مثلاً انسان اپنے گھر جاتا ہے اور کھانے پینے کی اشیاء کے متعلق اپنی ماں سے یا کسی ملازم سے گفتگو کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے کھانے کے لئے کیا پکا ہے یا کون سی تر کاری تیار ہے؟ اس طرح کی روزمرہ کی باتیں رسالہ کی صورت میں شائع کی جائیں.بعد میں محلوں میں اس رسالہ کو رائج کیا جائے.خصوصاً لڑکیوں کے نصاب تعلیم میں اس کو شامل کیا جائے اور تحریک کی جائے کہ طلباء جب بھی ایک دوسرے سے گفتگو کریں عربی زبان میں کریں.اس طرح عربی بول چال کا عام رواج خدا تعالیٰ کے فضل سے پیدا کیا جاسکتا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ یہودیوں نے ایک مردہ زبان کو اپنی کوشش سے زندہ کر دیا ہے.عبرانی زبان دنیا میں کہیں بھی رائج نہیں.لیکن لاکھوں کروڑوں یہودی عبرانی زبان بولتے ہیں.اگر یہودی ایک مردہ زبان کو زندہ کر سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ عربی زبان جو ایک زندہ زبان ہے اس کا چرچا نہ ہو سکے.پہلے قادیان میں اس طریق کو رائج کیا جائے.پھر بیرونی جماعتوں میں یہ طریق جاری کرنے کی کوشش کی جائے گی.چھوٹے چھوٹے آسان فقرے ہوں جو بچوں کو بھی یاد کرائے جاسکتے ہیں.اس کے بعد
70 لوگوں سے امید کی جائے گی کہ وہ اپنے گھروں میں بھی عربی زبان کو رائج کرنے کی کوشش کریں.اس طرح قرآن کریم سے لوگوں کی دلچسپی بڑھ جائے گی اور اس کی آیات کی سمجھ بھی انہیں زیادہ آنے لگ جائے گی.اب تو میں نے دیکھا ہے.دعائیں کرتے ہوئے جب یہ کہا جاتا ہے.ربنا اننا سمعنا تو ناواقفیت کی وجہ سے بعض لوگ بلند آواز سے آمین کہہ دیتے ہیں.حالانکہ یہ آمین کہنے کا موقعہ نہیں ہوتا.یہ عربی زبان سے ناواقفیت کی علامت ہے.اگر عربی بول چال کا لوگوں میں رواج ہو جائے گا تو یہ معمولی باتیں لوگ خود بخود سمجھنے لگ جائیں گے اور انہیں نصیحت کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی.یہ رسالہ جب شائع ہو جائے تو خدام الاحمدیہ کے سپرد کر دیا جائے تا کہ اس کے تھوڑے تھوڑے حصوں کا وہ اپنے نظام کے ماتحت وقتا فوقتا نو جوانوں سے امتحان لیتے رہیں.یہ فقرات بہت سادہ زبان میں ہونے چاہئیں.مصری زبان میں انشاء الادب نام سے کئی رسالے اس قسم کے شائع ہو چکے ہیں مگر وہ زیادہ دقیق ہیں.معلوم نہیں ہمارے سکولوں میں انہیں کیوں جاری نہیں کیا گیا.الفضل یکم جنوری 1945 ء ص 4 کالم 4,3) ترجمہ قرآن کریم انگریزی کے پھیلاؤ کی تحریک انگریزی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع ہوا تو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی خاطر جماعت کو تحریک کی کہ اس کی ایک ہزار کا پیاں دنیا کے مشہور علماء سیاستدان، لیڈروں اور مملکتوں کے سربراہوں کو دی جائیں اور دنیا کی مشہور لائبریریوں میں رکھی جائیں.جماعت کے مخیر اور مخلص احباب ایک یا ایک سے زائد کاپیوں کی قیمت پیش کریں.حضور فرماتے ہیں:.جماعت کو ہمت کر دکھانی چاہئے اور ایک ہزار کتاب خرید کر سلسلہ کے سپرد کر دینی چاہئے تا کہ بڑے بڑے سیاستدانوں، لیڈروں ، مذہبی لوگوں اور مستشرقین میں ان کتابوں کو تقسیم کیا جا سکے.اگر کتاب کی قیمت بیس روپے ہوئی تو کل بہیں ہزار کی رقم بنتی ہے.اگر پچیس روپے ہوئی تو پچیس ہزار روپے کی رقم بنتی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں پچیس ہزار کی رقم جماعت کے لئے کوئی بڑا بوجھ نہیں
71 بلکہ جس قسم کا یہ کام ہے اس کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے یہ رقم بہت ہی ادنی ہے.کہتے ہیں جو بولے وہی کنڈا کھولے.اس لئے میں اپنی طرف سے ایک سو جلد خرید کر محلہ کو تقسیم کرنے کے لئے دینے کا وعدہ کرتا ہوں.ایک سو جلدوں کی جو بھی قیمت ہوگی وہ میں دوں گا.باقی نو حصے جماعت کو پورنے کرنے چاہئیں.لجنہ اماءاللہ نے دو سو جلدوں کا وعدہ کیا ہے.اس لئے صرف سات سو جلد میں باقی جماعت کے ذمہ رہ جاتی ہیں.ممکن ہے بعض مخلصوں کو اللہ تعالیٰ توفیق بخشے اور یہ حصے بھی لگ جائیں اور باقیوں کو افسوس کرنا پڑے اس لئے اس نیک کام میں حصہ لینے کے لئے دوستوں کو جلدی کرنی چاہئے.(الفضل 26 فروری 1947 ء ص 3 کالم (3) جماعت کے احباب نے اپنے پیارے امام کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے اپنے اموال پیش کئے اور کلام اللہ کی اشاعت میں حصہ لیتے ہوئے ترجمہ کی مطلوبہ کا پیاں خرید کر پیش کر دیں.
72 سیرت النبی ﷺ کے متعلق تحریکات تحفظ ناموس رسالت کی تحریک متحدہ ہندوستان میں بعض بد زبان اور دریدہ دہن آریہ مصنف آنحضرت علی کی ذات بابرکات پر خاص طور پر حملے کر رہے تھے.چنانچہ ایک آریہ سماجی راجپال نے ”رنگیلا رسول“ نامی کتاب شائع کی اور اس میں مقدس بانی اسلام علی کی نسبت نہایت درجہ دلخراش اور اشتعال انگیز باتیں لکھیں جس پر حکومت کی طرف سے مقدمہ چلا.یہ مقدمہ ابھی زیر سماعت تھا کہ امرتسر کے ہندو رسالہ ”ورتمان نے مئی 1927ء کی اشاعت میں ایک بے حد دل زار مضمون شائع کیا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے یہ اشتعال انگیز مضمون دیکھتے ہی ایک پوسٹر شائع فرمایا جس کا عنوان تھا.رسول کریم کی محبت کا دعوی کرنے والے کیا اب بھی بیدار نہ ہوں گے.اس پوسٹر میں حضور نے نہایت پر شوکت اور پر جلال انداز میں تحریر فرمایا:.”ہماری جنگل کے درندوں اور اور بن کے سانپوں سے صلح ہو سکتی ہے لیکن ان لوگوں سے ہر گز صلح نہیں ہو سکتی جو رسول کریم علیہ کو گالیاں دینے والے ہیں.بیشک وہ قانون کی پناہ میں جو کچھ چاہیں کرلیں اور پنجاب ہائی کورٹ کے تازہ فیصلہ کی آڑ میں جس قدر چاہیں ہمارے رسول کریم عملے کو گالیاں دے لیں.لیکن وہ یاد رکھیں کہ گورنمنٹ کے قانون سے بالا اور قانون بھی ہے اور وہ خدا کا بنایا ہوا قانون فطرت ہے وہ اپنی طاقت کی بناء پر گورنمنٹ کے قانون کی زد سے بچ سکتے ہیں لیکن قانون قدرت کی زد سے نہیں بچ سکتے اور قانون قدرت کا یہ اٹل اصل پورا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جس کی ذات سے ہمیں محبت ہوتی ہے اس کو برا بھلا کہنے کے بعد کوئی شخص ہم سے محبت اور صلح کی توقع نہیں رکھ سکتا.ا پھر مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:.”اے بھائیو! میں دردمند دل سے پھر آپ کو کہتا ہوں کہ بہادر وہ نہیں جو لڑ پڑتا ہے وہ بزدل ہے کیونکہ وہ اپنے نفس سے دب گیا ہے بہادر وہ ہے جو ایک مستقل ارادہ کر لیتا ہے اور جب تک اس کو پورا
73 نہ کرلے اس سے پیچھے نہیں ہوتا.پس اسلام کی ترقی کے لئے اپنے دل میں تینوں باتوں کا عہد کرلو.اول یہ کہ آپ خشیت اللہ سے کام لیں گے اور دین کو بے پرواہی کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے.دوسرے یہ کہ آپ تبلیغ اسلام سے پوری دلچسپی لیں گے اور اس کام کے لئے اپنی جان اور اپنے مال کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے اور تیسرے یہ کہ آپ مسلمانوں کو تمدنی اور اقتصادی غلامی سے بچانے کے لئے پوری کوشش کریں گے اور اس وقت تک بس نہیں کریں گے جب تک کہ مسلمان اس کچل دینے والی غلامی سے بکلی آزاد نہ ہو جائیں اور جب آپ یہ عہد کر لیں تو پھر ساتھ ہی اس کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنے لگیں.یہی وہ سچا اور حقیقی بدلہ ہے ان گالیوں کا جو اس وقت بعض ہند و مصنفین کی طرف سے رسول کریم ﷺ فداہ نفسی و اهلی کو دی جاتی ہیں اور یہی وہ سچا اور حقیقی علاج ہے جس سے بغیر فساد اور بدامنی پیدا کرنے کے مسلمان خود طاقت پکڑ سکتے ہیں اور دوسروں کی مدد کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں ورنہ اس وقت تو وہ نہ اپنے کام کے ہیں نہ دوسروں کے کام کے اور وہ قوم ہے بھی کس کام کی جو اپنے سب سے پیارے رسول کی عزت کی حفاظت کے لئے حقیقی قربانی نہیں کر سکتی ؟ کیا کوئی دردمند دل ہے جو اس آواز پر لبیک کہہ کر اپنے علاقہ کی درستی کی طرف توجہ کرے اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کا وارث ہو“.(انوار العلوم جلد 9 ص 555) رنگیلا رسول کے مقدمہ میں راجپال کو زیر دفعہ 153.الف تعزیرات ہند چھ ماہ قید با مشقت اور ایک ہزار روپیہ جرمانہ یا چھ ماہ قید مز ید کی سزا ہوئی تھی.راجپال نے پنجاب ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی اور اس کے بیج کنور دلیپ سنگھ نے اسے بری کر دیا.فیصلہ کے خلاف اخبار مسلم آؤٹ لگ (Muslim Outlook) کے احمدی ایڈیٹر سید دلاور شاہ صاحب بخاری نے 14 جون 1927ء کو مستعفی ہو جاؤ“ کے عنوان سے ایک ادار یہ لکھا جس پر پنجاب ہائی کورٹ کی طرف سے اخبار کے ایڈیٹر اور اس کے مالک و طابع ( مولوی نورالحق صاحب ) کے نام توہین عدالت کے جرم میں ہائی کورٹ کی طرف سے نوٹس پہنچ گیا.سید دلاور شاہ صاحب بخاری ہائی کورٹ کا نوٹس لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ بعض لوگوں کی رائے ہے کہ مضمون پر اظہار افسوس کر دینا چاہئے مگر حضور نے مشورہ دیا کہ: آپ اپنے جواب میں لکھوا دیں کہ اگر ہائی کورٹ کے جوں کے نزدیک کنور دلیپ صاحب کی
74 عزت کی حفاظت کے لئے تو قانون انگریزی میں کوئی دفعہ موجود ہے لیکن رسول کریم ع ل و ل ﷺ کی کی حفاظت کے لئے کوئی دفعہ موجود نہیں تو میں بڑی خوشی سے جیل خانہ جانے کے لئے تیار ہوں.الفضل یکم جولائی 1927 ء ص 3 انوار العلوم جلد 9 ص 559 اس مقدمہ میں وکالت کے لئے مسلمان وکلاء نے متفقہ طور پر چودھری ظفر اللہ خان صاحب کا نام تجویز کیا اور آپ ہی مقدمہ میں پیش ہوئے اور ایسی قابلیت اور عمدگی سے وکالت کی کہ سب مسلمانوں نے آپ کو خراج تحسین ادا کیا.جسٹس براڈوے نے سید دلاور شاہ صاحب بخاری، مولوی نورالحق صاحب کے بیانات اور چودھری ظفر اللہ خان صاحب کی بحث سننے کے بعد فیصلہ دیا کہ:.میں سید بخاری کو چھ ماہ قید محض اور ساڑھے سات سو روپے جرمانہ اور بصورت عدم ادائیگی چھ ہفتہ مزید قید محض کی سزا دیتا ہوں اور مولوی نور الحق کو 3 ماہ قید محض ہزار روپے جرمانہ اور بصورت عدم ادا ئیگی مزید ایک ماہ قید محض کا حکم سناتا ہوں.تمام جوں نے اس سزا سے اتفاق کیا.(الفضل یکم جولائی 1927ء.انوار العلوم جلد 9 ص 560) عدالتی فیصلہ پر مسلمانان ہند کا قومی دماغ سخت پریشان ہو گیا اور مسلمان اس وقت متفق طور پر یہ فیصلہ نہ کر سکے کہ اب انہیں کیا اقدام کرنا چاہئے ایک فریق نے یہ علاج سوچا کہ عدالتوں کا بائیکاٹ کیا جائے.دوسرے فریق نے کہا کہ مسلم آؤٹ لک کے ایڈیٹر کی طرح دوسرے مسلمان بھی تو ہین عدالت کے جرم کا تکرار کریں.آخر کتنے مسلمانوں کو جیل خانہ میں ڈالا جاسکے گا.تیسرے فریق نے یہ تجویز بتائی کہ ملک میں سول نافرمانی شروع کر دی جائے.مگر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ان سب تدبیروں کو پر زور دلائل سے بے فائدہ بلکہ مسلم مفادات کے اعتبار سے انتہائی نقصان دہ اور ضرر رساں ثابت کیا اور اس نازک ترین وقت میں جبکہ مسلمانوں اور اسلام کی زندگی اور موت کا سوال در پیش تھا مسلمانوں کی فرمائی اور تحفظ ناموس رسول ﷺ کے لئے ایک پر امن مگر موثر عملی تحریک کا آغاز کر دیا.اس سلسلہ میں حضور نے ابتدائی مرحلہ پر فوری رنگ میں یہ تجویز کی کہ مسلم آؤٹ لک کے مدیرو مالک کی قید کے پورے ایک ماہ بعد یعنی 22 جولائی 1927ء کو جمعہ کے دن ہر مقام پر جلسے کئے جائیں
75 جن میں مسلمانوں کو اقتصادی اور تمدنی آزادی سے متعلق آگاہ کیا جائے اور سب سے وعدہ لیا جائے کہ وہ اپنے اپنے حلقہ میں تبلیغ اسلام کا کام جاری کریں گے اور ہندوؤں سے ان امور میں چھوت چھات کریں گے جن میں ہندو چھوت چھات کرتے ہیں.اپنے قومی حقوق قوانین حکومت کے ماتحت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور اس دن ہر مقام پر ایک مشتر کہ انجمن بنائی جائے جو مشتر کہ فوائد کا کام اپنے ہاتھ میں لے.اسی طرح تمام مسلمان حکومت سے درخواست کریں کہ ہائی کورٹ کی موجودہ صورت مسلمانوں کے مفاد کے خلاف اور ان کی ہتک کا موجب ہے ( پنجاب میں ) پچپن فیصد آبادی والی قوم کے کل دو حج ہیں اس لئے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ کم سے کم ایک مسلمان حج پنجاب کے بیرسٹروں میں سے اور مقرر کیا جائے اور اسے نہ صرف مستقل کیا جائے بلکہ دوسرے جوں سے اسے اس طرح سینئر کیا جائے کہ موجودہ چیف جسٹس (سر شادی لال) کے بعد وہی چیف حج ہو.حضور نے مزید فرمایا کہ 22 جولائی کے جلسوں میں مسلمانوں سے دستخط لے کر ایک محضر نامہ تیار کیا جائے کہ ہمارے نزدیک مسلم آؤٹ لک کے ایڈیٹر اور مالک نے ہر گز عدالت عالیہ کی بہتک نہیں کی بلکہ جائز نکتہ چینی کی ہے جو موجودہ حالات میں ہمارے نزدیک طبعی تھی اس لئے ان کو آزاد کیا جائے اور جلد سے جلد جسٹس کنور دلیپ سنگھ کا فیصلہ مستردکر کے مسلمانوں کی دلجوئی کی جائے.(انوار العلوم جلد 9 ص 589 انگریزی حکومت نے چاہا کہ آپ یہ مہم جاری نہ کریں.لیکن حضور نے حکومت کو صاف صاف کہہ دیا کہ:.66 مجھ سے یہ نہیں ہوسکتا کہ گورنمنٹ کی خاطر قوم کو قربان کر دوں اس وقت قوم کی حفاظت کا سوال (لیکچر شملہ.انوارالعلوم جلد 10 ص29) حضرت خلیفہ مسیح الثانی کی اس آواز سے جو آپ نے قادیان سے بلند کی تھی پورا ہندوستان گونج اٹھا اور جیسا کہ آپ نے تحریک پیش کی تھی ، 22 جولائی کو مسلمانان ہند نے ہر جگہ کامیاب جلسے کئے اور ایک متحدہ پلیٹ فارم سے نہ صرف مسلم آؤٹ لک کے مالک اور مدیر کی گرفتاری پر احتجاج کیا گیا.بلکہ حضرت خلیفۃ اسیح الثانی کی سکیم کے مطابق مسلمانوں نے مشترکہ انجمنیں قائم کر کے دکانیں کھلوائیں.تبلیغ اسلام کی طرف توجہ دی اور اپنے سیاسی حقوق کے لئے اپنی جدو جہد تیز تر کر دی اور
76 ایک محضر نامہ تیار کیا جس پر پانچ لاکھ مسلمانوں کے دستخط تھے.جماعت احمدیہ کے علماء مصنفین اور دوسرے احمدی اپنے محبوب امام کی ہدایات کے مطابق اس تحریک کو کامیاب کرنے کی جدو جہد میں مصروف ہو گئے.الفضل 25 /اکتوبر 1927ء ص4) رسالہ ”ورتمان“ کی ضبطی اور اس کے طابع و ناشر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے پر ہندوؤں نے حکومت انگریزی پر زور دیا کہ وہ امام جماعت احمدیہ پر بھی مقدمہ چلائے مگر حکومت ہندوؤں سے مرعوب نہ ہوئی اور چیف جسٹس نے یہ مقدمہ ایک حج کے سپر د کر دیا.لیکن حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے حکومت کو بذریعہ تار توجہ دلائی کہ یہ مقدمہ ایک سے زیادہ جوں کے سامنے پیش ہونا چاہئے تا دفعہ 153 - الف سے متعلق جسٹس دلیپ سنگھ کے فیصلہ کی تحقیق ہو جائے.یہ معقول مطالبہ حکومت نے منظور کر لیا اور چیف جسٹس صاحب جو رخصت پر جارہے تھے.بمبئی سے واپس آگئے اور مقدمہ ورتمان ڈویژن بینچ کے سپرد ہو گیا.جس نے 6 اگست 1927 ء کو فیصلہ سنایا کہ مذہبی پیشواؤں کے خلاف بدزبانی 153.الف کی زد میں آتی ہے اور بانی اسلام کو اسلام سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا اور بنابریں ڈویژن بینچ نے ورتمان کے مضمون نگار کو ایک سال قید با مشقت اور پانچ سو روپیہ جرمانہ اور ایڈیٹر کو چھ ماہ قید سخت اور اڑھائی سور و پیہ جرمانہ کی سزا دی.الفضل 16 راگست 1927 ء ) تحفظ ناموس پیشوایان مذاہب کے لئے مکمل قانون کا مطالبہ مقدمہ ورتمان“ کے فیصلہ کے بعد اس امر کی فوری ضرورت تھی کہ بزرگان مذاہب کی توہین کے انسداد کے لئے پہلے سے زیادہ واضح اور زیادہ مکمل قانون کا مطالبہ حکومت سے کیا جاتا.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے 10 اگست 1927ء کو فیصلہ ورتمان کے بعد مسلمانوں کا اہم فرض کے عنوان سے ایک اشتہار شائع کیا جس کے ابتداء میں یہ بتایا کہ جماعت احمد یہ اس قانون کے نامکمل ہونے کی دیر سے شا کی ہے.چنانچہ حضور نے تحریر فرمایا کہ:.1897ء میں بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے گورنمنٹ کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ مذہبی فتن کو دور کرنے کے لئے اسے ایک زیادہ مکمل قانون بنانا چاہئے لیکن افسوس کہ لارڈ اینٹکن
77 نے جو اس وقت وائسرائے تھے اس تجویز کی طرف مناسب توجہ نہ کی.اس کے بعد سب سے اول 1914ء میں میں نے سرا ڈوائر کو اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ گورنمنٹ کا قانون مذہبی فتن کے دور کرنے کے لئے کافی نہیں اور جب تک اس کو مکمل نہ کیا جائے ملک میں امن قائم نہ ہوگا.انہوں نے مجھے اس بارہ میں مشورہ کرنے کے لئے بلایا لیکن جس تاریخ کو ملاقات کا وقت تھا اس سے دو دن پہلے استاذی المکرم حضرت مولوی نورالدین صاحب امام جماعت احمد یہ فوت ہو گئے اور دوسرے دن مجھے امام جماعت منتخب کیا گیا.چنانچہ وہ جماعت کے لئے ایک سخت فتنہ کا وقت تھا.میں سراڈ وائر سے مل نہ سکا اور بات یونہی رہ گئی.اس کے بعد 1923ء میں میں میںکلیکن سابق گورنر پنجاب سے ملا اور انہیں اس قانون کے نقصوں کی طرف توجہ دلائی مگر باوجود اس کے کہ میں نے انہیں کہا تھا کہ آپ گورنمنٹ آف انڈیا کو توجہ دلائیں انہوں نے یہ معذرت کر دی کہ اس امر کا تعلق گورنمنٹ آف انڈیا سے ہے اس لئے ہم کچھ نہیں کر سکتے.اس کے بعد میں نے پچھلے سال ہز ایکسیلینسی گورنر جنرل کو ایک طویل خط میں ہندوستان میں قیام امن کے متعلق تجاویز بتاتے ہوئے اس قانون کی طرف بھی توجہ دلائی لیکن افسوس کہ انہوں نے محض شکریہ تک ہی جواب کو محدود رکھا اور باوجود وعدہ کے کہ وہ ان تجاویز پر غور کریں گے غور نہیں کیا.میرے اس خط کا انگریزی ترجمہ چھ ہزار کے قریب شائع کیا گیا اور تمام حکام اعلیٰ سیاسی لیڈروں اخباروں پارلیمنٹ کے ممبروں اور دوسرے سر بر آوردہ لوگوں کو جاچکا ہے اور کلکتہ کے مشہور اخبار ” بنگالی نے جو ایک متعصب اخبار ہے لکھا ہے کہ اس میں پیش کردہ بعض تجاویز پر ہندو مسلم سمجھوتے کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے.سرمائیکل اڈوائر اور ٹائمنر آف لندن کے مسٹر براؤن نے ان تجاویز کو نہایت ہی ضروری تجاویز قرار دیا اور بہت سے ممبران پارلیمنٹ اور دوسرے سر بر آوردوں نے ان کی اہمیت کو تسلیم کیا.لیکن افسوس کہ ان حکام نے جن کے ساتھ ان تجاویز کا تعلق تھا ان کی طرف پوری توجہ نہ کی جس کا نتیجہ وہ ہوا جو نظر آرہا ہے ملک کا امن برباد ہو گیا اور فتنہ و فساد کی آگ بھڑک اٹھی“.(الفضل 19 اگست 1927ء ص 5.انوار العلوم جلد 9 ص 632) یہ تفصیل بیان کرنے کے بعد حضور نے حکومت اور مسلمانوں کو مروجہ قانون (153) الف) کی چار واضح خامیوں کی طرف توجہ دلائی.1.موجودہ قانون صرف اس شخص کو مجرم گردانتا ہے جو فسادات کی نیت سے کوئی مضمون لکھے.براہ
راست تو ہین انبیاء کو جرم نہیں قرار دیتا.78 2.اس قانون کے تحت صرف حکومت ہی مقدمہ چلا سکتی ہے.3.اس قانون میں یہ اصلاح کرنا ضروری ہے کہ جوابی کتاب لکھنے والے پر اس وقت تک قانونی کارروائی نہ کی جائے جب تک کہ اصل مؤلف پر مقدمہ نہ چلایا جائے بشرطیکہ اس نے گندہ دہنی سے کام لیا ہو.4.یہ قانون صوبائی ہے لہذا اصل قانون یہ ہونا چاہئے کہ جب ایک گندی کتاب کو ایک صوبائی حکومت ضبط کر لے تو باقی تمام صوبائی حکومتیں بھی قانو نا پابند ہوں کہ وہ اپنے صوبوں میں اس کتاب کی طباعت یا اشاعت بند کر دیں بلکہ بہتر یہ ہے کہ اس قانون پر عملدرآمد گورنمنٹ آف انڈیا کے اختیار میں ہو جو کسی صوبہ کی حکومت کے توجہ دلانے پر ایک عام حکم جاری کر دے.جس کا سب صوبوں پر اثر ہو.الفضل 19 را گست 1927 میں 7,6 ) (انوار العلوم جلد 9 ص 633 تا 635) سیرت النبی کے جلسوں کی تحریک 1928ء کا نہایت مہتم بالشان اور تاریخ عالم میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے لائق واقعہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ہاتھوں سیرت النبی کے جلسوں کی بنیاد ہے جس نے برصغیر ہندو پاک کی مذہبی تاریخ پر خصوصاً اور دنیا بھر میں عموماً بہت گہرا اثر ڈالا ہے اور جواب ایک عالمگیر تحریک کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے.حضور نے فرمایا:.لوگوں کو آپ پر ( یعنی آنحضرت ﷺ پر.ناقل ) حملہ کرنے کی جرات اسی لئے ہوتی ہے کہ وہ آپ کی زندگی کے صحیح حالات سے ناواقف ہیں.یا اسی لئے کہ وہ سمجھتے ہیں دوسرے لوگ ناواقف ہیں اور اس کا ایک ہی علاج ہے جو یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کی سوانح پر اس کثرت سے اور اس قدر زور کے ساتھ لیکچر دئیے جائیں کہ ہندوستان کا بچہ بچہ آپ کے حالات زندگی اور آپ کی پاکیزگی سے آگاہ ہو جائے اور کسی کو آپ کے متعلق زبان درازی کرنے کی جرات نہ رہے جب کوئی حملہ کرتا ہے تو یہی سمجھ کر کہ دفاع کرنے والا کوئی نہ ہوگا.واقف کے سامنے اس لئے کوئی حملہ نہیں کرتا کہ وہ دفاع کر
79 دے گا.پس سارے ہندوستان کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کو رسول کریم ﷺ کی پاکیزہ زندگی سے واقف کرنا ہمارا فرض ہے اور اس کے لئے بہترین طریق یہی ہے کہ رسول کریم ﷺ کی زندگی کے اہم شعبوں کو لے لیا جائے اور ہر سال خاص انتظام کے ماتحت سارے ہندوستان میں ایک ہی دن ان پر روشنی ڈالی جائے تاکہ سارے ملک میں شور مچ جائے اور غافل لوگ بیدار ہو جائیں“.وسیع سکیم: (الفضل 10 جنوری 1928 ء خطبات محمود جلد 11 ص 272) اس اہم قومی وملی مقصد کی تکمیل کے لئے آپ نے ایک وسیع پر وگرام تجویز فرمایا جس کے اہم پہلو مندرجہ ذیل تھے.اول: ہر سال آنحضرت ﷺ کی مقدس سوان میں سے بعض اہم پہلوؤں کو منتخب کر کے ان پر خاص طور سے روشنی ڈالی جائے.1928ء کے پہلے سیرت النبی کے جلسے کے لئے آپ نے تین عنوانات تجویز فرمائے.(1) رسول کریم ﷺ کی بنی نوع انسان کے لئے قربانیاں.(2) رسول کریم اللہ کی پاکیزہ زندگی.(3) رسول کریم ﷺ کے دنیا پر احسانات.دوم: ان مضامین پر لیکچر دینے کے لئے آپ نے ایسے ایک ہزار فدائیوں کا مطالبہ کیا.جو لیکچر دینے کے لئے آگے آئیں تا انہیں مضامین کی تیاری کے لئے ہدایات دی جاسکیں اور وہ لیکچروں کے لئے تیار کئے جاسکیں.جلسوں کے اثرات سے قطع نظر صرف یہی بہت بڑا اور غیر معمولی کام تھا کہ حضور علیہ صل الله الصلوۃ والسلام کی سیرت پر روشنی ڈالنے والے ہزار لیکچرار تیار کر دیے جائیں.سوم : سیرت النبی پر تقریر کرنے کے لئے آپ نے مسلمان ہونے کی شرط اڑادی اور فرمایا رسول کریم ﷺ کے احسانات سب دنیا پر ہیں اس لئے مسلمانوں کے علاوہ وہ لوگ جن کو ابھی تک یہ تو فیق تو نہیں ملی کہ وہ رسول کریم ﷺ کے اس تعلق کو محسوس کر سکیں.جو آپ کو خدا تعالیٰ کے ساتھ تھا.مگر وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ آپ نے اپنی قربانیوں سے بنی نوع انسان پر بہت احسان کئے ہیں وہ بھی اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہیں ان کی زبانی رسول کریم ﷺ کے احسانات کا ذکر زیادہ دلچسپ اور زیادہ پیارا معلوم ہوگا.پس اگر غیر مسلموں میں سے بھی کوئی اپنے آپ کو اس کام کے لئے پیش کریں گے تو انہیں شکریہ کے ساتھ قبول کیا جائے گا اور ان کی اس خدمت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا.( الفضل 10 جنوری 1928 ء.خطبات محمود جلد 11 ص 273)
80 66 چهارم: غیر مسلموں کو سیرت رسول کے موضوع سے وابستگی کا شوق پیدا کرنے کے لئے یہ اعلان کیا گیا کہ جو غیر مسلم اصحاب ان جلسوں میں تقریریں کرنے کی تیاری کریں گے اور اپنے مضامین ارسال کریں گے ان میں سے اول، دوم اور سوم پوزیشن حاصل کرنے والوں کو علی الترتیب سو، پچاس اور پچیس روپے کے نقد انعامات بھی دیئے جائیں گے.(الفضل 5 جون 1928 ء ص 1) پنجم : حضور کے سامنے چونکہ میلاد النبی “ کے معروف رسمی ، بے اثر اور محدود جلسوں کی مخصوص اغراض کی بجائے ”سیرت النبی “ کے خالص علمی اور ہمہ گیر جلسوں کا تصور تھا اس لئے آپ نے ان کے انعقاد کے لئے 12 ربیع الاول کے دن کی بجائے ( جو عموماً ولادت نبوی کی تاریخ تسلیم کی جاتی ہے ) دوسرے دنوں کو زیادہ مناسب قرار دیا.چنانچہ 1928ء میں آپ نے یکم محرم 1347ھ بمطابق 20 جون کو یوم سیرت منانے کا اعلان کیا.جسے شیعہ فرقہ کے مسلمانوں کی بآسانی شمولیت کے پیش نظر 17 جون میں تبدیل کر دیا.(الفضل 4 مئی 1928ء.خطبات محمودجلد 11ص364) سیرت النبی کے کامیاب جلسوں کا روح پرور نظارہ: اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت اس عظیم الشان مہم کے پیچھے کام کر رہی تھی اور ہندوستان کے عرض وطول میں 17 جون کو نہایت تزک واحتشام سے یوم سیرت النبی منایا گیا اور نہایت شاندار جلسے منعقد کئے گئے اور ایک ہی سٹیج پر ہر فرقہ کے مسلمانوں نے سیرت رسول پر اپنے دلی جذبات عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے تقریریں کیں.چنانچہ متعدد مقامی احمدیوں نے لیکچر دیے مرکز سے قریباً پچاس کے قریب لیکچرار ملک کے مختلف جلسوں میں شامل ہوئے.دوسرے مسلمانوں میں سے تقریر کرنے والوں یا نظم پڑھنے والوں یا صدارت کرنے والوں میں کئی نمایاں شخصیتیں شامل تھیں.مسلمانوں کے علاوہ ہندو، سکھ، عیسائی، جینی اصحاب نے بھی آنحضرت ﷺ کی پاکیزہ سیرت بیش بہا قربانیوں اور عدیم النظیر احسانات کا ذکر کیا اور نہ صرف ان جلسوں میں بخوشی شامل ہوئے بلکہ کئی مقامات پر انہوں نے ان کے انعقاد میں بڑی مدد بھی دی.جلسہ گاہ کے لئے اپنے مکانات دیئے، ضروری سامان مہیا کیا ، سامعین کی شربت وغیرہ سے خدمت کی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بڑے بڑے معزز اور مشہور لیڈروں نے جلسوں میں شامل ہو کر تقریریں کیں.سینکڑوں غیر مسلم معززین اور غیر مسلم
81 تعلیم یافتہ خواتین بھی جلسوں میں شریک ہوئیں اور دنیا کے سب سے بڑے محسن سب سے بڑے پاکباز اور سب سے بڑے ہمدرد کے متعلق اپنی عقیدت اور اخلاص کا اظہار کیا.یہ ایسا روح پرور نظارہ تھا جو اس سے قبل کبھی دیکھنے میں نہیں آیا اور جس کی یاد دیکھنے والوں کے ذہن میں آج بھی تازہ ہے.الفضل 26 جولائی 1928 ء ص 4,3 ہندوستان کے علاوہ سماٹرا، آسٹریلیا ، سیلون، ماریشس، ایران ، عراق ، عرب، دمشق، حیفا ( فلسطین) گولڈ کوسٹ (غانا)، نائیجیریا، جہ، ممباسہ (مشرقی افریقہ) اور لندن میں بھی سیرت النبی کے جلسے رپورٹ مجلس مشاورت 1929ء ص 206 ) ہوئے.اس طرح خدا کے فضل سے عالمگیر پلیٹ فارم سے آنحضرت ﷺ کی شان میں محبت و عقیدت کے ترانے گائے گئے اور سپین کے مشہور صوفی حضرت محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کی پیشگوئی کا ایک پہلو کہ آنحضرت کے مقام محمود کا ظہور حضرت امام مہدی کے ذریعہ سے ہوگا.امام مہدی کے خلیفہ برحق کے زمانہ میں (جس کا نام خدائے ذوالعرش نے محمود رکھا تھا ) پوری ہوگئی.مجالس سیرت النبی کی کامیابی ایسے شاندار رنگ میں ہوئی کہ بڑے بڑے لیڈر دنگ رہ گئے اور اخباروں نے اس پر بڑے عمدہ تبصرے شائع کئے اور اس کی غیر معمولی کامیابی پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو مبارکباد دی.یوم پیشوایان مذاہب کی بنیاد حضرت خلیفہ المسی الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ن دنیا میں عموماً اور ہندوستان میں خصوصا مذ ہی نفرت و حقارت اور کشیدگی کم کرنے کے لئے 1928ء میں سیرت النبی کے مبارک جلسوں کی بنیاد رکھی جو عوامی فضا کو درست کرنے اور مسلم و غیر مسلم حلقوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں بہت ممد و معاون ثابت ہوئی.اس سلسلہ میں حضور نے دوسرا قدم قیام امن و اتحاد عالم کے لئے یہ اٹھایا کہ اپریل 1939ء کی جماعتی مجلس شوریٰ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک دیرینہ خواہش کے مد نظر آئندہ کے لئے پیشوایان مذاہب کی سیرت بیان کرنے کے لئے بھی سال میں ایک دن مقر ر فرما دیا اور ہدایت فرمائی کہ اس دن تمام لوگوں کو دعوت دی جائے کہ وہ اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں یا اپنے بانی مذہب
82 کے حالات اس موقع پر بیان کریں.رپورٹ مجلس مشاورت 1939 ء ص 96,95) اس فیصلہ کی تعمیل میں جماعت احمدیہ کی طرف سے دنیا بھر میں پہلا یوم پیشوایان مذاہب نہایت جوش و خروش سے 3 دسمبر 1939ء کو منایا گیا اور بہت سے غیر مسلم معززین نے ان جلسوں میں شمولیت کی اور بعض جگہ تو خود غیر مسلموں نے جلسوں کا انتظام کیا اور اشتہار وغیرہ شائع کرائے اور حضرت امام جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اس جلسہ کی بنا ءرکھ کر ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے.رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمد یہ 41-1940ء ص 167 ) غرض یہ جلسے ہر طرح کامیاب رہے اور آئندہ کے لئے جلسہ سیرت النبی کی طرح ہر سال با قاعدگی کے ساتھ ان کا انعقاد ہونے لگا.جواب تک کامیابی سے جاری ہے.
83 وقف زندگی کے متعلق تحریکات حضرت مسیح موعود کی قریباً 1901ء سے خواہش تھی کہ جماعت کے واعظین مقرر کر کے پیغام حق پہنچایا جائے اور آپ متفرق مجالس میں اس کا ذکر فرماتے رہے.ستمبر 1907ء میں آپ کی توجہ خاص طور پر اس طرف مبذول ہوئی.چنانچہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر بدر لکھتے ہیں :.چند روز سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے دل میں یہ خاص جوش ڈالا ہے کہ واعظین سلسلہ حقہ کے جلد تقرر کے واسطے جماعت کے خواندہ اور لائق آدمیوں سے جو اس کام کے واسطے اپنے آپ کو وقف کر سکیں انتخاب کیا جائے اور ایسے آدمیوں کو خدمت تبلیغ سپرد کر کے مختلف مقامات پر بھیجا جائے.دسمبر 1905ء کے جلسہ میں حضرت مولوی نورالدین صاحب نے بھی اس قسم کی تجویز پیش کی تھی کہ مدرسہ میں با قاعدہ طور پر واعظین طیار کرنے سے پہلے سر دست جماعت کے خواندہ اور لائق آدمیوں کو کچھ عرصہ قادیان میں رکھ کر اور دینی تعلیم دے کر یہ خدمت ان کے سپرد کی جائے.ہر ایک امر کے واسطے ایک وقت ہوتا ہے اور اب جبکہ خدا تعالیٰ نے اپنے مامور کو اس کام کے جلد پورا کرنے کے واسطے جوش عطا فرمایا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا وقت آگیا ہے.اس کے بعد انہوں نے واعظین کی صفات کے متعلق حضرت مسیح موعود کا ارشاد درج کیا اور لکھا کہ حضور کے اس فرمان کو سن کر 13 احباب نے وقف کیا ہے.حضور نے سب پر خوشنودی کا اظہار فرمایا ہے مگر سر دست کسی کو مقرر نہیں فرمایا.واعظین کا با قاعدہ تقرر خلافت اولی میں شروع ہوا.مگر جماعت کے بڑھتے اور پھیلتے ہوئے تقاضوں کے پیش نظر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے وقف زندگی کی متعد تحریکات فرمائیں اور جماعت میں وقف کے نظام کو نہایت مضبوط بنیادوں پر قائم کر دیا.پیشے سیکھ کر خدمت دین کریں (بدر 3 /اکتوبر 1907ء) حضرت مصلح موعودؓ نے وقف زندگی کی پہلی تحریک خطبہ جمعہ 7 دسمبر 1917ء میں فرمائی.
84 حضور نے اشاعت اسلام کے لئے صحابہ اور بزرگان دین کی طرف سے زندگیاں وقف کرنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: یہ وہ طریق ہے جس کے ذریعہ اسلام نے دنیا میں ترقی کی تھی اور جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی پسند فرمایا تھا.حضرت صاحب کے وقت اس مسئلہ پر غور کیا گیا تھا اور آپ نے قواعد بنانے کے لئے سید حامد شاہ صاحب کو مقرر فرمایا تھا.سید صاحب نے جو قواعد مرتب کر کے دیئے تھے وہ حضرت صاحب نے مجھ کو دیکھنے کے لئے دیئے تھے کہ درست ہیں یا نہیں.تو میں نے عرض کیا تھا کہ درست ہیں.حضرت صاحب نے بھی ان کو پسند کیا تھا.ان قواعد پر عمل کرنے کے لئے تجویز ہوا تھا کہ دوستوں کو اپنی زندگیاں وقف کرنی چاہئیں تا کہ سلسلہ پر ان کا کوئی بوجھ نہ ہو اور وہ خود محنت کر کے اپنا گزارہ بھی کریں اور اسلام کی اشاعت میں بھی مصروف رہیں اور وہ ایک ایسے انتظام کے ماتحت ہوں کہ ان کو جہاں چاہیں.جس وقت چاہیں بھیج دیں اور وہ فوراً چلے جائیں.ان تجاویز کو حضرت صاحب نے پسند فرمایا تھا اس وقت کچھ لوگوں نے اپنی زندگی بھی کی تھی.مگر پھر معلوم نہیں کہ کیا اسباب ہوئے کہ وہ سلسلہ قائم نہ رہ سکا.ابتدائے اسلام میں ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام ایسے ہی لوگوں کے ذریعہ پھیلا.وہ لوگ چند آدمیوں کی جماعت بن کر مختلف اقطاع میں چلے جاتے تھے.اپنے گھر بار چھوڑ دیتے تھے اور بال بچوں سمیت جدھر حکم ہوتا تھا.چل کھڑے ہوتے تھے.یہی وہ روح تھی.جس نے اسلام کو ابتداء میں پھیلایا اور یہی وہ روح ہے جو حقیقی اسلام کی روح ہے.ابتداء میں تبلیغ کا یہی رنگ تھا.اور طریق بعد میں پیدا ہوئے ہیں.حضرت مسیح موعود نے اس کو پسند فرمایا ہے اور یہی وہ طریق ہے جس کے ذریعہ ہم کامیاب ہو سکتے ہیں.پس جب تک کام اس طرح نہیں ہوگا.وہ کام انجام نہیں پائے گا.جو ہمارے پیش نظر ہے.پس ہمارے دوست اپنی زندگیاں وقف کریں اور مختلف پیشہ سیکھیں.پھر ان کو جہاں جانے کے لئے حکم دیا جائے.وہاں چلے جائیں اور وہ کام کریں جو انہوں نے سیکھا ہے.کچھ وقت اس کام میں لگے رہیں تاکہ ان کے کھانے پینے کا انتظام ہو سکے اور باقی وقت دین کی تبلیغ میں صرف کریں.مثلاً کچھ لوگ ڈاکٹری سیکھیں کہ یہ بہت مفید علم ہے.بعض طب سیکھیں.اگر چہ طب جہاں ڈاکٹری پہنچ گئی
85 ہے کامیاب نہیں ہو سکتی ہے.مگر ابھی بہت سے علاقہ ایسے ہیں جہاں طب کو لوگ پسند کرتے ہیں.اسی طرح اور کئی کام ہیں.ان تمام کاموں کو سیکھنے سے ان کی غرض یہ ہو کہ جہاں وہ بھیجے جائیں وہاں خواہ ان کا کام چلے یا نہ چلے.لیکن کوئی خیال ان کو روک نہ سکے...میرے دل میں مدت سے یہ تحریک تھی لیکن اب تین چار دوستوں نے باہر سے بھی تحریک کی ہے کہ اسی رنگ میں دین کی خدمت کی جائے پس میں اس خطبہ کے ذریعہ یہاں کے دوستوں اور باہر کے دوستوں کو متوجہ کرتا ہوں کہ دین کے لئے جوش رکھنے والے بڑھیں اور اپنی زندگیاں وقف کر دیں.جو ابھی تعلیم میں ہیں اور زندگی وقف کرنا چاہتے ہیں.وہ مجھ سے مشورہ کریں کہ کس ہنر کو پسند کرتے ہیں.تا ان کے لئے اس کام میں آسانیاں پیدا کی جائیں.لیکن جو فارغ التحصیل تو نہیں لیکن تعلیم چھوڑ چکے ہیں.وہ بھی مشورہ کر سکتے ہیں.(الفضل 22 دسمبر 1917ء.خطبات محمود جلد 5ص611,610) اس تحریک پر لبیک کہتے ہوئے 63 نو جوانوں نے اپنے نام پیش کئے جن میں حضرت مولوی جلال الدین صاحب شمس، مولوی ظہور حسین صاحب، مولوی ابوبکر صاحب سماٹری، خان بہادر مولوی ابوالہاشم خان صاحب ایم اے اسسٹنٹ انسپکٹر مدارس بنگال.شیخ محمود احمد صاحب عرفانی اور مولوی رحمت علی صاحب مولوی فاضل بھی تھے.مبلغین کے لئے تحریک تاریخ احمدیت جلد 4 ص204) حضور نے 4 مئی 1928ء کو جماعت کے نوجوانوں سے دوسری بار وقف زندگی کا مطالبہ کرتے ہوئے فرمایا: کچھ عرصہ ہوا میں نے تحریک کی تھی کہ نوجوان خدمت دین کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں.اس پر بہت سے نوجوانوں نے کیں جن میں کئی ایک عربی کی تعلیم حاصل کئے ہوئے تھے اور کئی انگریزی کی.اس وقت جتنے آدمیوں کی ضرورت تھی وہ پوری ہوگئی لیکن اب پھر بعض کا موں کے لئے ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے.پہلے میں نے مدرسہ احمدیہ میں اس بات کا ذکر کیا ہے اور بعض نوجوانوں نے مجھے درخواستیں پہنچائی ہیں اور بعض نے دفتر میں دی ہیں.اب میں باقی جماعت کو اس خطبہ کے ذریعہ مطلع کرتا ہوں خصوصاً کالجوں کے طلباء کو اور ان طلباء کو جو اپنی تعلیم ختم کر
86 چکے یا کرنے والے ہیں.اس وقت غیر مذاہب میں تبلیغ کے لئے مبلغ بھیجنے کی ضرورت ہے.اس لئے ایسے نوجوان ہوں جو دین کے متعلق واقفیت رکھتے ہوں یا واقفیت پیدا کرنے کی خواہش رکھتے ہوں.اس وقت چند آدمیوں کی ضرورت ہے جن کو لے کر کام پر لگا دیا جائے گا یا تیاری کرائی جائے.الفضل 15 مئی 1928ء - خطبات محمود جلد 11 ص 377) تبلیغ ممالک بیرون کے لئے وقف 1934ء میں تحریک جدید کے آغاز پر حضور نے وقف زندگی کا بڑے زور سے مطالبہ کیا جس پر بیسیوں احباب نے لبیک کہا اور دنیا بھر میں دعوت الی اللہ کی ایک مربوط اور منتظم سکیم کا آغاز ہوا.تحریک جدید کا آٹھواں مطالبہ یہ تھا کہ ایسے نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں جو تین سال کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں.( الفضل 9 دسمبر 1934 ء) اس پر مولوی فاضل، بی اے، ایف اے اور انٹرنس پاس قریباً دوسونو جوانوں نے تین سال کے لئے وقف کر دیا.(الفضل 22 دسمبر 1937ء) 1937ء میں حضور نے اس تحریک میں اضافہ کرتے ہوئے مستقل وقف زندگی کی تحریک فرمائی.حضور نے فرمایا.دور اول میں میں نے کہا تھا کہ نو جوان تین سال کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں مگر دور ثانی میں وقف عمر بھر کے لئے ہے.میری کوشش یہ ہے کہ اس دور میں سو واقفین ایسے تیار ہو جائیں جو علاوہ مذہبی تعلیم رکھنے کے ظاہری علوم کے بھی ماہر ہوں اور سلسلہ کے تمام کاموں کو حزم واحتیاط سے کرنے والے اور قربانی وایثار کا نمونہ دکھانے والے ہوں.(الفضل 24 نومبر 1938ء) یکم فروری 1945 ء کو حضور نے 22 واقفین کو بیرونی ممالک میں بھجوانے کے لئے منتخب فرمایا.( تاریخ احمدیت جلد 8 ص 107 ) چنانچہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ پر 1945ء میں 16 مبلغین بیرونی ممالک کے لئے روانہ ہوئے اور یہ سلسلہ کسی تعطل کے بغیر آج تک جاری ہے.
87 دیہاتی مبلغین کے لئے تحریک ایک لمبے تجربہ کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے جب دیکھا کہ ہم اتنے مبلغ تیار نہیں کر سکتے جو دنیا کی ضرورت کو پورا کرسکیں.تو اللہ تعالیٰ نے حضور کے دل میں دیہاتی مبلغین کی سکیم ڈالی اور حضور نے 29 جنوری 1943ء کو وقف برائے دیہاتی مبلغین جاری کرتے ہوئے اعلان فرمایا کہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ دو قسم کے مبلغ ہونے چاہئیں.ایک تو وہ جو بڑے بڑے شہروں اور قصبوں میں جا کر تبلیغ کرسکیں.لیکچر اور مناظرے وغیرہ کرسکیں.اپنے ماتحت مبلغوں کے کام کی نگرانی کر سکیں اور ایک ان سے چھوٹے درجہ کے مبلغ دیہات میں تبلیغ کے لئے ہوں.جیسے دیہات کے پرائمری سکولوں کے مدرس ہوتے ہیں ایسے مبلغ دیہات کے لوگوں میں سے ہی لئے جائیں.ایک سال تک ان کو تعلیم دے کر موٹے موٹے مسائل سے آگاہ کر دیا جائے اور پھر ان کو دیہات میں پھیلا دیا جائے اور جس طرح پرائمری کے مدرس اپنے ارد گرد کے دیہات میں تعلیم کے ذمہ دار ہوتے ہیں اسی طرح یہ اپنے علاقہ میں تبلیغ کے ذمہ دار ہوں انہیں ایک سال میں موٹے موٹے دینی مسائل مثلاً نکاح، نماز، روزہ، حج ، زکوۃ، جنازہ وغیرہ کے متعلق احکام سکھا دئیے جائیں.قرآن شریف کا ترجمہ پڑھا دیا جائے ، کچھ احادیث پڑھائی جائیں، سلسلہ کے ضروری مسائل پر نوٹ لکھا دئیے جائیں.تعلیم و تربیت کے متعلق ان کو ضروری ہدایات دی جائیں اور انہیں سمجھا دیا جائے کہ بچوں کو کس قسم کے اخلاق سکھانے چاہئیں اور اس غرض سے انہوں نے ایک دو ماہ خدام الاحمدیہ میں کام کرنے کا موقع بہم پہنچایا جائے اور یہ سارا کورس ایک سال یا سوا سال میں ختم کر کے انہیں دیہات میں پھیلا دیا جائے..پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس سکیم کو کامیاب بنانے کی کوشش کرے اور اپنے اپنے ہاں کے ایسے نو جوانوں کو جو پرائمری یا مڈل پاس ہوں اور لوئر پرائمری کے مدرسوں جتنا ہی گزارہ لے کر تبلیغ کا کام کرنے پر تیار ہوں.فوراً بھجوا دیں تا ان کے لئے تعلیم کا کورس مقرر کر کے انہیں تبلیغ کے لئے تیار کیا جا سکے.(الفضل 4 فروری 1943ء) چونکہ جنگ کا زمانہ تھا اور گرانی بہت تھی اس لئے ابتداء میں صرف پندرہ واقفین منتخب کئے گئے جن کی ٹریننگ با قاعدہ ایک کلاس کی شکل میں جنوری 1945 ء تک جاری رہی.انہیں علمائے سلسلہ کے
88 88 علاوہ خود سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی بھی تعلیم دیتے تھے.چنانچہ حضور نے مجلس مشاورت (منعقدہ 7, 8, 9 اپریل 1944ء) میں بتایا کہ میں دیہاتی مبلغین کو آجکل تعلیم دے رہا ہوں.یہ لوگ مدرس بھی ہوں گے اور مبلغ بھی.چھ مہینہ تک یہ لوگ فارغ ہو جائیں گے.پندرہ ہیں ان کی تعداد ہے.ٹرینگ کا دور ختم ہوا تو ان میں سے چودہ کو فروری 1945ء سے پنجاب کے مختلف دیہاتی علاقوں میں متعین کر دیا گیا.دیہاتی مبلغین کے وقف کی یہ سکیم بہت کامیاب رہی اور حضور نے دیہاتی مبلغین کی نسبت اظہار خوشنودی کرتے ہوئے 17 جنوری 1947ء کو خطبہ جمعہ میں فرمایا:.خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارا یہ تجربہ بہت کامیاب رہا ہے.کئی جماعتیں ایسی تھیں جو کہ چندوں میں ست تھیں اب ان میں بیداری پیدا ہوگئی.پہلے سال صرف پندرہ آدمی اس کلاس میں شامل ہوئے تھے اور پچھلے سال پچاس شامل ہوئے“.الفضل 30 جنوری 1947ءص4) دیہاتی مبلغین کی تیسری کلاس 1947ء میں کھولی گئی جس میں 53 واقفین داخل کئے گئے.ابھی پڑھائی کا گویا آغاز ہی تھا کہ ملک فسادات کی لپیٹ میں آگیا.نتیجہ یہ ہوا کہ اکثر طلباء قادیان میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے رہ گئے اور صرف چھ پاکستان آئے جنہیں تکمیل تعلیم کے بعد تبلیغ پر لگادیا گیا.رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ پاکستان 48-1947 ء ص 6) خاندان مسیح موعود کو وقف کی تحریک حضور نے دعوی مصلح موعود کے بعد 10 مارچ 1944 ء کے خطبہ جمعہ میں خاندان حضرت اقدس مسیح موعود کو وقف کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا: ”دیکھو ہمارے اوپر اللہ تعالیٰ کے اس قدر احسانات ہیں کہ اگر سجدوں میں ہمارے ناک گھس جائیں، ہمارے ہاتھوں کی ہڈیاں گھس جائیں تب بھی ہم اس کے احسانات کا شکر ادا نہیں کر سکتے.اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری موعود کی نسل میں ہمیں پیدا کیا ہے اور اس فخر کے لئے اس نے اپنے فضل سے ہمیں چن لیا ہے.پس ہم پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہے.دنیا کے لوگوں کے لئے دنیا کے اور
89 بہت سے کام پڑے ہوئے ہیں مگر ہماری زندگی تو کلیۂ دین کی خدمت اور اسلام کے احیاء کے لئے الفضل 14 مارچ 1944 ءص1) وقف ہونی چاہئے.اس تحریک وقف پر سب سے پہلے حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب نے لبیک کہا.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی اصلح الموعود نے انہی دنوں فرمایا:.”سب سے پہلے ہمارے خاندان میں سے عزیزم مرزا ناصر احمد نے اپنے آپ کو وقف کیا تھا“.الفضل 12 جنوری 1945 ء ص 3 کالم 2) سیدنا حضرت المصلح الموعودؓ نے اپنے سب بچوں کو وقف فرما دیا اور اپنی جیب سے ان کے تعلیمی اخراجات ادا فرمائے اور اس کے بعد ان کو سلسلہ احمدیہ کے سپرد فرما دیا.چنانچہ حضور نے ایک بار فرمایا بر ”میں نے اپنا ہر ایک بچہ خدا تعالیٰ کے دین کے لئے وقف کر رکھا ہے.میاں ناصر احمد وقف ہیں اور دین کا کام کر رہے ہیں.چھوٹا بھی وقف ہے اور میں سوچ رہا ہوں کہ اسے کس طرح دین کے کام پر لگایا جائے.اس سے چھوٹا ڈا کٹر ہے.وہ امتحان پاس کر چکا ہے اور اب ٹریننگ حاصل کر رہا تا سلسلہ کی خدمت کر سکے.باقی چھوٹے پڑھ رہے ہیں اور وہ سب بھی دین کے لئے پڑھ رہے ہیں.میرے تیرہ لڑکے ہیں اور تیرہ کے تیرہ دین کے لئے وقف ہیں.( تاریخ احمد بہت جلد 8 ص 50) اپنے سارے بیٹوں کو خدمت دین کے لئے وقف کرنے کے بعد سید نا حضرت اصلح الموعود نے اپنی زندگی میں ان کی تعلیم وتربیت سے متعلق امور کو نہایت توجہ اور حکمت سے ادا فرمایا.اس ضمن میں حضور نے خود ایک موقع پر اپنے ایک بیٹے سے متعلق ایک واقعہ بیان فرمایا جو خصوصاً واقفین زندگی کے لئے مشعل راہ کا کام دیتار ہے گا.فرمایا:.”میرے ایک بچہ نے ایک دفعہ ایک جائز امر کی خواہش کی تو میں نے اسے لکھا کہ یہ بیشک جائز ہے مگر تم یہ سمجھ لو کہ تم نے خدمت دین کے لئے زندگی وقف کی ہوئی ہے اور تم نے دین کی خدمت کا کام کرنا ہے اور یہ امر تمہارے لئے اتنا بوجھ ہو جائے گا کہ تم دین کی خدمت کے رستہ میں اسے نباہ نہیں سکو گے اور یہ تمہارے رستہ میں مشکل پیدا کر دے گا.الفضل 29 نومبر 1934 ء) فرمایا: ”آخر میرے تیرہ بیٹوں نے زندگیاں وقف کی ہیں یا نہیں.وہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں
90 نے وقف چھوڑا تو میں نے ان کی شکل نہیں دیکھنی.میرے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں رہے گا“.وقف زندگی اور حضرت مصلح موعود کا ایک عہد : (سوانح فضل عمر جلد 3 ص 329 ) حضور نے 1939ء میں ایک عہد بھی کیا تھا جو حضور کی ایک نوٹ بک پر جو حضور عموماً اپنے کوٹ کی اندر کی جیب میں یاد داشت وغیرہ لکھنے کے لئے رکھا کرتے تھے آپ کے قلم سے درج ہے اور وہ یہ ہے." آج چودہ تاریخ کو ( مئی 1939ء) میں مرزا بشیر الدین محمود احمد اللہ تعالیٰ کی قسم اس پر کھاتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود کی نسل سیدہ سے جو بھی اپنی زندگی سلسلہ کی خدمت میں خرچ نہیں کر رہا میں اس کے گھر کا کھانا نہیں کھاؤں گا اور اگر مجبوری یا مصلحت کی وجہ سے مجھے ایسا کرنا پڑے تو میں ایک روزہ بطور کفارہ رکھوں گا یا پانچ روپے بطور صدقہ ادا کروں گا.یہ عہد سر دست ایک سال کے لئے ہوگا“.الفضل 25 مارچ 1966 ء ) وقف زندگی کی وسیع تحریک حضرت مصلح موعودؓ کی دور بین نگاہ نے قبل از وقت دیکھ لیا تھا کہ جنگ عظیم دوم کے اختتام پر ہمیں فوری طور پر تبلیغ اسلام کی طرف توجہ دینا پڑے گی.اس لئے حضور نے 24 مارچ 1944ء کو وقف زندگی کی پر زور تحریک کی اور فرمایا: ”میرا اندازہ ہے کہ فی الحال اور دوسو علماء کی ہمیں ضرورت ہے تب موجودہ حالات کے مطابق جماعتی کاموں کو تنظیم کے ماتحت چلایا جا سکتا ہے لیکن اس وقت واقفین کی تعداد 35,30 ہے.اس کے علاوہ گر یجو یٹوں اور ایم اے پاس نو جوانوں کی بھی کالج کے لئے ضرورت ہے تاپر و فیسر وغیرہ تیار کئے جاسکیں.ایسے ہی واقفین میں سے آئندہ ناظروں کے قائم مقام بھی تیار کئے جاسکیں گے.آگے ایسے لوگ نظر نہیں آتے جنہیں ناظروں کا قائم مقام بنایا جاسکے.میری تجویز ہے کہ واقفین نو جوانوں کو ایسے کاموں پر بھی لگایا جائے اور ایسے رنگ میں ان کی تربیت کی جائے کہ وہ آئندہ موجودہ ناظروں کے قائم مقام بھی ہو سکیں پس ایم اے پاس نو جوانوں کی ہمیں ضرورت ہے.(افضل 31 مارچ 1944ء)
91 اس عظیم الشان تحریک پر بھی مخلصین جماعت نے شاندار جوش و خروش کا مظاہرہ کیا اور ڈیڑھ ماہ کے اندر اندر قادیان اور بیرونی مقامات کے 335 مخلصین نے (جن میں ہر طبقہ، ہر عمر اور ہر قابلیت کے افراد شامل تھے ) اپنے آقا کے حضور وقف زندگی کی درخواستیں پیش کر دیں.الفضل 11 مئی 1944 ء ص 6 ) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی اس تحریک پر نوجوانان احمدیت خدمت دین کے لئے جس طرح دیوانہ وار آگے بڑھے اور اپنی زندگیاں وقف کیں.اس نے غیر مسلموں تک کو متاثر کیا.چنانچہ اخبار پر کاش“ ( جالندھر) نے لکھا:.آپ احمدیت تحریک قادیان کی طرف دھیان دیں اور آنکھیں کھولیں.قادیان میں بڑے سے بڑے احمدی نے اپنے لخت جگروں کو احمدیت کی تبلیغ کے لئے وقف کر دیا ہے اور اس پیشہ کو بڑی آور کی درشٹی سے دیکھا جاتا ہے.تحریک دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہی ہے کیونکہ ان کے لیڈر عالم باعمل ہیں اور سپرٹ مخلصانہ ہے.(بحوالہ الفضل 10 مئی 1947ء) اس تحریک کا غیر احمدی نوجوانوں پر کیا اثر ہوا ؟ اس کا اندازہ لگانے کے لئے صرف ایک مکتوب درج کیا جاتا ہے.ایک غیر احمدی دوست اقبال احمد صاحب زبیری بی اے بی ٹی علیگ نے حضور کی خدمت میں لکھا:.آپ کی جماعت میں ایک صاحب بنام مبارک احمد صاحب میرے ہم پیشہ دوست ہیں.میرا اور موصوف کا قریباً دو اڑھائی سال سے ساتھ ہے اور ہمارے درمیان بہت گہرے اور مخلصانہ تعلقات قائم ہیں.موصوف کے ساتھ دو جمعہ کی نمازوں میں شریک ہوا جبکہ علاوہ وقتا فوقتا الفضل پڑھنے کے آپ کا دیا ہوا خطبہ میں نے سنا.وہ خطبے جو میں نے سنے ان میں سے دو قابل ذکر ہیں.ایک جو ہندوستان اور برطانیہ کے مابین مصالحت کے متعلق تھا اور دوسرا جس میں آپ نے جماعت کے لوگوں سے زندگی وقف کر دینے کے لئے خدا اور اس کے رسول کی راہ میں تاکید فرمائی.مبارک احمد صاحب نے تو آپ کی آواز پر فوراً لبیک کہا اور ان کا خط اور درخواست غالبا اس وقت آپ کے زیر غور ہوگی.میں آپ کی جماعت کا باقاعدہ رکن تو اس وقت نہیں ہوں.لیکن اللہ اور اس کے رسول کی خدمت کسی نظام کے ماتحت کرنے میں مجھے عذر بھی نہیں“.تاریخ احمدیت جلد 8 ص 102)
92 خاندانی وقف کی تحریک 5 جنوری 1945ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے خاندانی وقف کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا: تحریک جدید کے پہلے دور میں، میں نے اس کی تمہید باندھی تھی.مگر اب دوسری تحریک کے موقعہ پر میں مستقل طور پر دعوت دیتا ہوں کہ جس طرح ہر احمدی اپنے اوپر چندہ دینا لازم کرتا ہے.اسی طرح ہر احمدی خاندان اپنے لئے لازم کرے کہ وہ کسی نہ کسی کو دین کے لئے وقف کرے گا“.نیز فرمایا:.الفضل 10 جنوری 1945ء ص 5) ایمان کی کم سے کم علامت یہ ہونی چاہئے کہ ہر خاندان ایک لڑکا دئے“.الفضل 10 جنوری 1945 ء ) سید نا حضرت مصلح موعودؓ کو اپنے دوسرے سفر یورپ 1955 ء کے دوران یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ مغربی دنیا تیزی سے اسلام کی طرف مائل ہو رہی اور آپ اس نتیجے پر پہنچے کہ وقت آگیا ہے کہ وقف زندگی کی تحریک کو پہلے سے زیادہ منظم ، مؤثر اور دائمی شکل دی جائے کیونکہ جب تک جماعت احمدیہ میں دین کی خدمت کرنے والے مسلسل اور متواتر پیدا نہ ہوں غلبہ اسلام کے اہم مقصد کی تکمیل ہرگز ممکن نہیں.یہی وجہ ہے کہ حضور نے سفر یورپ سے واپسی کے بعد کراچی اور ربوہ میں جو ابتدائی خطبات ارشاد فرمائے.ان میں بار بار وقف زندگی کی پُر جوش تحریک فرمائی.چنانچہ 16 ستمبر 1955 ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا.” جب تک جماعت میں وقف کی تحریک مضبوط نہ ہو اس وقت تک ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ناممکن ہے وقف کی تحریک اسلام کی اشاعت کے لئے ایک عظیم الشان تحریک ہے.اگر وقف کی تحریک مضبوط ہو جائے اور نسلاً بعد نسل ہماری جماعت کے نوجوان خدمت دین کے لئے آگے بڑھتے رہیں تو سینکڑوں نہیں ہزاروں سال تک تبلیغ اسلام کا سلسلہ قائم رہ سکتا ہے.اس غرض کے لئے میں نے متواتر جماعت پر وقت کی اہمیت کو ظاہر کیا مگر اب میرا ارادہ ہے کہ جماعت سے خاندانی طور پر وقف اولا د کا مطالبہ کروں یعنی ہر خاندان کے افراد اپنی طرف سے ایک ایک نوجوان کو خدمت کے لئے
93 پیش کرتے ہوئے عہد کریں کہ ہم ہمیشہ اپنے خاندان میں سے کوئی نہ کوئی فرد دین کی خدمت کے لئے وقف رکھیں گے اور اس میں کبھی کوئی کوتاہی نہیں کریں گے.جب خاندانی وقف کی تحریک مضبوط ہو جائے تو پھر اس کو وسیع کر کے ہم وقف کرنے والوں کو تحریک کر سکیں گے کہ وہ اپنے اپنے دوستوں اور ساتھیوں میں سے ایک ایک دو دو تین تین چار چار کو وقف کرنے کی کوشش کریں اس طرح یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ممتد ہوتا چلا جائے گا اور قیامت تک جاری رہے گا.“ اسی سلسلہ میں حضور نے 14 اکتوبر 1955 ءکو ایک زور دار خطبہ میں فرمایا: خاندانی طور پر اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کرو اور عہد کرو کہ تم اپنی اولاد در اولاد کو وقف کرتے چلے جاؤ گے.پہلے تم خود اپنے کسی بچے کو وقف کرو.پھر اپنے سب بچوں سے عہد لو کہ وہ اپنے بچوں میں سے کسی نہ کسی کو خدمت دین کے لئے وقف کریں گے اور پھر ان سے یہ عہد بھی لو کہ وہ اپنے بچوں سے عہد لیں گے کہ وہ بھی اپنی آئندہ نسل سے یہی مطالبہ کریں گے.چونکہ اگلی نسل کا وقف تمہارے اختیار میں نہیں اس لئے صرف تحریک کرنا تمہارا کام ہوگا.اگر وہ نہیں مانیں گے تو یہ ان کا قصور ہو گا.تم اپنے فرض سے سبکدوش سمجھے جاؤ گے اگر تم یہ کام کرو گے اور یہ روح جماعت میں نسلاً بعد نسل پیدا ہوتی چلی جائے گی اور ہر فرد یہ کوشش کرے گا کہ اس کے خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد دین کی خاطر اپنی زندگی وقف کرے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں واقف زندگی دین کی خدمت کے لئے مہیا ہو جائیں گے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وصیت کی تحریک فرمائی ہے.تمہیں یہ بھی کوشش کرنی چاہئے کہ تم میں سے ہر شخص وصیت کرے اور پھر اپنی اولاد کے متعلق بھی کوشش کرے کہ وہ بھی وصیت کرے اور وہ اولاد اپنی اگلی نسل کو وصیت کی تحریک کرے.یہ بھی دین کی خدمت کا ایک بڑا بھاری ذریعہ ہے.اگر ہم ایسا کر لیں تو قیامت تک تبلیغ اور اشاعت کا سلسلہ جاری (الفضل 25 نومبر 1955ء) 66 رہ سکتا ہے.تحریک وقف تجارت 5 اکتوبر 1945ء کو حضور نے وقف تجارت کی تحریک فرمائی جس کا مقصد تجارت کے ذریعہ تبلیغی سنٹر قائم کرنا تھا.چنانچہ حضور نے فرمایا:
94 وہ نوجوان جو فوج سے فارغ ہوں گے اور وہ نوجوان جو نئے جوان ہوئے ہیں اور ابھی کوئی کام شروع نہیں کیا.میں ان سے کہتا ہوں کہ اپنی زندگی وقف کریں.ایسے رنگ میں نہیں کہ ہمیں دین کے لئے جہاں چاہیں بھیج دیں چلے جائیں گے بلکہ ایسے رنگ میں کہ ہمیں جہاں بھجوایا جائے ہم وہاں چلے جائیں گے اور وہاں سلسلہ کی ہدایت کے ماتحت تجارت کریں گے.اس رنگ میں ہمارے مبلغ سارے ہندوستان میں پھیل جائیں گے.وہ تجارت بھی کریں گے اور تبلیغ بھی.الفضل 11 اکتوبر 1945 ء ص 6 ) وقف تجارت کے تحت واقفین تجارت کو مختلف مقامات پر متعین کیا گیا جہاں سے وہ دفتر کی ہدایات کے ماتحت تجارت کرتے اور اپنی باقاعدہ رپورٹیں بھجواتے تھے.اس وقف کے تحت سرمایہ واقفین خود الفضل 7 نومبر 1945ء ص 4 کالم 4) لگاتے تھے.طلباء کو وقف کی تحریک قیام پاکستان کے ابتدائی چند سالوں میں جہاں انڈونیشیا، سیلون اور افریقہ وغیرہ ممالک کے احمدی جوانوں میں وقف زندگی کی طرف رجحان پہلے سے بڑھ گیا وہاں پاکستان میں اس کی طرف بتدریج توجہ کم ہو گئی اور آہستہ آہستہ اس کا احساس مثنے لگا حتی کہ 1954 ء میں صرف ایک پاکستانی احمدی نو جوان مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوا.جس کی ایک وجہ یہ ہوئی کہ تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کے سابق ہیڈ ماسٹر حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب مرحوم سال بھر کوشش کرتے رہتے تھے اور حضرت سیدنا اصلح لمصل الموعود کی خدمت بابرکت میں یہ اطلاع بھی پہنچاتے رہتے تھے کہ میں نے اتنے طلباء سے وقف کا وعدہ لیا ہے مگر ان کے بعد یہ التزام و اہتمام نہ رہا.نتیجہ یہ نکلا کہ پورے ملک میں صرف ایک احمدی نوجوان کو وقف کرنے کی توفیق مل سکی.اس تشویش انگیز صورتحال کا سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے فوری نوٹس لیا اور 8 اور 15 /اکتوبر 1954 ء کے خطبات وقف زندگی کی تحریک کے لئے وقف کر دیئے.جن میں جماعت کے سامنے اصل حقائق رکھے اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کے اساتذہ اور تعلیم الاسلام کالج کے احمدی پروفیسروں کو ہدایت فرمائی کہ وہ ہمیشہ ہی طلباء کو دین کی خاطر زندگیاں وقف کرنے کی تحریک کرتے رہیں.نیز جماعت کو تلقین فرمائی کہ وہ ضرورت وقت کو سمجھیں اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس
95 کر کے اپنے اپنے خاندان کے نوجوانوں کو وقف کریں اور اتنی کثرت سے کریں اگر دس نو جوانوں کی ضرورت ہو تو جماعت سونو جوان پیش کرے.15 اکتوبر کے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے آیت قرآنی ولتكن منكم امة يدعون الى ر ( آل عمران : 105) کی روشنی میں واضح کیا کہ دینی جماعتیں وقف کے بغیر زندہ ہی نہیں رہ سکتیں.چنانچہ حضور نے صحابہ النبی کی مثال دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: بغیر وقف کے دین کا کام کرنا مشکل ہے جس جماعت میں وقف کا سلسلہ نہ ہو وہ اپنا کام کبھی مستقل طور پر جاری نہیں رکھ سکتی ہم نے تو وقف کی ایک شکل بنادی ہے ورنہ زندگی وقف کرنے والے رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی موجود تھے.حضور نے خطبہ کے آخر میں تحریک فرمائی کہ:.تم ضرورت وقت کو سمجھو اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس کر کے اپنے اپنے خاندان کے نو جوانوں کو وقف کرو اور یہ وقف اتنی کثرت سے ہونا چاہئے کہ اگر دس نو جوانوں کی ضرورت ہو تو جماعت سونو جوان پیش کرے“.الفضل 20 /اکتوبر 1954ءص6,4) حضرت مصلح موعود کی اس تحریک پر کئی مخلص خاندانوں نے لبیک کہا اور متعدد احمدی نوجوانوں نے اپنی جانیں اپنے مقدس امام کے حضور پیش کر دیں.صدر انجمن احمدیہ کے لئے تحریک واقفین سیدنا حضرت مصلح.مصلح موعودؓ نے 1955ء کے شروع میں تحریک فرمائی کہ مخلص احباب تحریک جدید کے علاوہ صدر انجمن احمدیہ کے لئے بھی اپنی زندگیاں وقف کریں.فرمایا: احباب کی اطلاع کے لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ اب تک صرف تحریک جدید کے لئے واقفین لئے جاتے تھے.اب ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ صدرانجمن کے لئے بھی واقفین زندگی کی تحریک کی جائے.پس اس بارہ میں میں اعلان کرتا ہوں کہ مخلص احباب اپنے آپ کو سلسلہ کی خدمت کے لئے پیش کریں.عام راہنمائی کے لئے یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ مندرجہ ذیل قسم کے احباب کارآمد ہو سکیں گے:.اول: ایم اے ایل ایل بی.ڈاکٹر
96 96 دوم: بی اے بی ٹی سوم : ایسے افراد جن کو انتظامی کاموں کا تجربہ ہو.خواہ پنشنز ہوں.چہارم : ایسے احباب جو تجارتی یا صنعتی دلچسپی رکھتے ہوں.خواہ مڈل تک کی تعلیم ہو.گزارہ کے متعلق ہر ایک واقف کو صدرانجمن احمدیہ اطلاع دے گی کہ کس اصل پر وہ گزارہ دے سکتی ہے.اس تحریک پر کئی مخلصین جماعت نے اپنی زندگیاں اپنے پیارے امام کے حضور پیش کرنے کی سعادت حاصل کی.(الفضل 8 فروری 1955ء ص 3) قادیان کے لئے واقفین حضرت مصلح موعودؓ نے 1956ء میں قادیان میں سلسلہ کے کاموں کے لئے وقف کی تحریک فرمائی.”قادیان میں کارکنان کی سخت ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہندوستان میں پیدا کیا.اس لئے یہ ہندوستانیوں کا حق ہے کہ وہ سلسلہ کے کاموں کے لئے قربانیاں کریں.اس لئے تمام جماعتوں کی اطلاع کے لئے لکھا جاتا ہے کہ اول ڈاکٹر.دوم گریجویٹ.سوم میٹرک پاس اگر اپنی زندگیاں ساری عمر کے لئے نہیں تو دس سال کے لئے وقف کریں تا کہ ان کو قادیان میں رکھ کر دینی تعلیم دلائی جائے اور پھر سلسلہ کے کاموں پر لگایا جائے“.(الفضل 16 مارچ 1956 ء ) واقفین زندگی بڑے ہی سخت جان ہیں ہزار مشکلات میں بھی حوصلے کی کان ہیں نہ پوچھ ان کے حوصلوں کی ہمتوں کی رفعتیں کہ پست ان کے سامنے زمین و آسمان ہیں عبدالحمید خان شوق الفضل 6 جون 2006ء )
97 تبلیغی تحریکات حضرت مصلح موعودؓ نے منصب خلافت سنبھالتے ہی پہلی شوری میں 12 / اپریل 1914ء کو جو ایجنڈا جماعت کے سامنے رکھا اس میں سب سے بلند مقام تبلیغ کو حاصل ہوا تھا.آپ نے مجلس شوری کے سامنے منصب خلافت“ کے موضوع پر معرکتہ الآراء تقریرفرمائی اور ابراہیمی دعا وابعث فيهم رسولا کی روشنی میں نہایت لطیف پیرائے میں مقام خلافت ، فرائض خلافت اور تزکیہ نفوس کے طریق پر روشنی ڈالی اور خلافت اور انجمن سے متعلق مسائل پر سیر حاصل بحث کی اور فرمایا:.وو پہلا فرض خلیفہ کا تبلیغ ہے.جہاں تک میں نے غور کیا ہے میں نہیں جانتا کیوں بچپن ہی سے میری طبیعت میں تبلیغ کا شوق رہا ہے اور تبلیغ سے ایسا انس رہا ہے کہ میں سمجھ ہی نہیں سکتا.میں چھوٹی سی عمر میں بھی ایسی دعائیں کرتا تھا اور مجھے ایسی حرص تھی کہ اسلام کا جو کام بھی ہو میرے ہی ہاتھ سے ہو.میں اپنی اس خواہش کے زمانہ سے واقف نہیں کہ کب سے ہے میں جب دیکھتا تھا اپنے اندر اس جوش کو پاتا تھا اور دعائیں کرتا تھا کہ اسلام کا جو کام ہو میرے ہی ہاتھ سے ہو پھر اتنا ہوا تھا کہ قیامت تک کوئی زمانہ ایسا نہ ہو جس میں اسلام کی خدمت کرنے والے میرے شاگرد نہ ہوں.میں نہیں سمجھتا تھا اور نہیں سمجھتا ہوں کہ یہ جوش دین کی خدمت کا میری فطرت میں کیوں ڈالا گیا.ہاں اتنا جانتا ہوں کہ یہ جوش بہت پرانا رہا ہے.غرض اسی جوش اور خواہش کی بناء پر میں نے خدا تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ میرے ہاتھ سے تبلیغ اسلام کا کام ہو اور میں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے میری ان دعاؤں کے جواب میں بڑی بڑی بشارتیں دی ہیں.پس آپ وہ قوم ہیں جس کو خدا نے چن لیا اور یہ میری دعاؤں کا ایک ثمرہ ہے جو اس نے مجھے دکھایا.اس کو دیکھ کر میں یقین رکھتا ہوں کہ باقی ضروری سامان بھی وہ آپ ہی کرے گا اور ان بشارتوں کو عملی رنگ میں دکھا دے گا اور اب میں یقین رکھتا ہوں کہ دنیا کو ہدایت میرے ہی ذر اذریعے ہوگی اور قیامت تک کوئی زمانہ ایسا نہ گزرے گا جس میں میرے شاگرد نہ ہوں گے.کیونکہ آپ لوگ جو کام کریں گے.وہ میرا ہی کام ہوگا“.پھر اپنی سکیم کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرمایا.
98 میں چاہتا ہوں کہ ہم میں ایسے لوگ ہوں جو ہر ایک زبان کے سیکھنے والے اور پھر جاننے والے ہوں.تاکہ ہم ہر ایک زبان میں آسانی کے ساتھ تبلیغ کرسکیں اور اس کے متعلق میرے بڑے بڑے ارادے اور تجاویز ہیں اور میں اللہ تعالیٰ کے فضل پر یقین رکھتا ہوں کہ خدا نے زندگی دی اور توفیق دی اور پھر اپنے فضل سے اسباب عطا کئے اور ان اسباب سے کام لینے کی توفیق ملی تو اپنے وقت پر ظاہر ہو جاویں گے.غرض میں تمام زبانوں اور تمام قوموں میں تبلیغ کا ارادہ رکھتا ہوں“.منصب خلافت انوار العلوم جلد 2 ص 35,34) اس مجلس نے حضور کے ارشاد کے روشنی میں تفصیلی تجاویز تیار کیں پھر ان تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کے لئے حضور نے ایک انجمن کی بنیاد رکھی جس کا نام اپنے ایک رؤیا کی بناء پر انجمن ترقی اسلام “ رکھا.یہ انجمن اپنے نام کی طرح خدا کے فضل سے اسلام کی ترقی اشاعت کا نہایت موثر ذریعہ ثابت ہوئی برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں اس انجمن کا نام ہمیشہ قائم رہے گا.یہی وہ بابرکت ادارہ تھا جس نے ایک عرصہ تک دنیا میں تبلیغ کی ذمہ داری نہایت خوش اسلوبی سے سنبھالے رکھی.یہاں تک کہ پہلے صدرانجمن احمد یہ اور پھر 1945ء میں تحریک جدید نے بین الاقوامی سطح پر تبلیغ کا یہ کام اپنے ہاتھ میں لے لیا.تبلیغ کی اس سکیم کے لیے مالی تحریک کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے اس کام کو پورا کرنے کے لئے میرے دل میں ڈالا ہے کہ میں اسلام و احمدیت کی اشاعت کے لئے خاص جد و جہد کروں اور میں نے فی الحال اندازہ لگایا ہے کہ اس کام کا ایک سال کا خرچ بارہ ہزار روپیہ ہوگا.میں نے روپیہ کے انتظام کے لئے ایک کمیٹی مقرر کی ہے.جس میں مجلس معتمدین کے کل وہ ممبران شامل ہوں گے جو بیعت کر چکے ہیں اور ان کے علاوہ کچھ اور دوست بھی شامل کئے جائیں گے....میں نے بہت دعاؤں کے بعد اس بات کا اعلان کیا ہے اور اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ میری دعاؤں کو ضرور قبول کرے گا اور خود اشاعت اسلام کے لئے سامان کر دے گا اور جو لوگ اس کام میں میرا ہاتھ بٹائیں گے ان پر خاص فضل فرمائے گا.میرے دوستو بارہ ہزار روپیہ سالانہ کی رقم بظاہر بہت معلوم ہوتی ہے.لیکن جس رب نے مجھے اس
99 کام پر مقرر کیا ہے اس کے سامنے کچھ بھی نہیں وہ بڑے خزانہ والا ہے.وہ خود آپ لوگوں کے دل میں الہام کرے گا اور آپ ہی اس کے لئے سامان کر دے گا.(انوار العلوم جلد 2 ص 73) حضور نے یہ اعلان کا تب کو دینے سے پہلے جب درس قرآن کے وقت سنایا تو اللہ تعالیٰ نے جماعت قادیان کے دلوں میں ایسا جوش پیدا کر دیا کہ اس نے دوسرے ہی دن عام جلسہ کر کے تین ہزار کے قریب وعدے لکھوائے اور اعلان کی اشاعت سے پہلے ہی پانچ سو روپے سے زائد وصول بھی ہو گئے.بعض مخلصین نے اپنی ساری زمین تبلیغ کے لئے وقف کر دی.بعض نے اپنا کل اندوختہ نذر کر دیا.(الفضل 2 مئی 1914 ء ص 11) کئی دوستوں نے اپنی ایک ایک ماہ کی تنخواہ پیش کر دی.عورتوں نے بھی اس مالی قربانی کی پہلی تحریک میں مردوں کی طرح حصہ لیا.حضرت اماں جان نے ایک سور و پیہ دیا.الفضل 27 راپریل 1914 ء 1 ) بعض مستورات نے اپنے زیور تک پیش کر دیئے.(الفضل 29 اپریل 1914ء ص 1) حضرت مصلح موعود کو اہل قادیان کی اس شاندار قربانی سے پہلے ہی دکھا دیا گیا تھا کہ ایک شخص عبدالصمد کھڑا ہے اور کہتا ہے مبارک ہو قادیان کی غریب جماعت تم پر خلافت کی رحمتیں یا برکتیں نازل منصب خلافت.انوار العلوم جلد 2 ص 47 ) ہوتی ہیں.کلاسوں کا اجراء: آغاز خلافت ثانیہ میں مدرسہ احمدیہ میں تعلیم پانے والے مبلغین کے میدان عمل میں آنے کے لئے ابھی کچھ وقت درکا ر تھا.مگر جماعتی حالات کا تقاضا تھا کہ ملک میں تبلیغ کا کام جلد سے جلد تیز سے تیز تر کر دیا جائے.حضرت مصلح موعود نے اس اہم ضرورت کو پورا کرنے کے لئے تبلیغی کلاسیں جاری کئے جانے کی ہدایت فرمائی.یہ کلاسیں مسجد مبارک اور مسجد اقصیٰ میں دو وقت لگتی تھیں اور حضرت قاضی امیر حسین صاحب حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب حضرت حافظ روشن علی صاحب.حضرت میر محمد اسحاق صاحب حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصری اور حضرت صوفی غلام محمد صاحب پڑھاتے تھے.الفضل 27 / اپریل 1914 ء )
100 آنریری مبلغین کے لئے تحریک حضرت خلیفہ المسیح کے حکم سے تبلیغ کے کام کو ملک کے طول وعرض میں زیادہ سے زیادہ وسیع کرنے کے لئے نومبر 1916 ء آنریری مبلغین کے تقرر کی تحریک ہوئی.الفضل 25 نومبر 1916 ء ) جس پر کئی احمدیوں نے لبیک کہا.خواتین کے لئے تبلیغ فنڈ کی تحریک (الفضل 13 جنوری 1917ء) حضرت مصلح موعودؓ نے دسمبر 1916ء میں سلسلہ احمدیہ کی خواتین کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ اس وقت مرد اندازاً آٹھ دس ہزار روپیہ ماہوار کا خرچ برداشت کر رہے ہیں.جن سے مختلف ضروریات دینی کو پورا کیا جاتا ہے اور سر دست مردوں کی جماعت پر اتنا بوجھ ہے کہ وہ اب زیادہ بوجھ برداشت نہیں کر سکیں گے.ولائت کے اخراجات تبلیغ بڑھ رہے ہیں اور اس وقت پانچ سورو پیہ ماہوار کا اندازہ کیا جاتا ہے کہ جس سے وہاں گزارا ہو سکتا ہے.عورتیں اپنے ذمہ یہ پانچ سو کی رقم لے لیں.اس سے ان کا یہ عہد بھی پورا ہو جائے گا کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گی اور جولوگ اس کے وجود کو پیش کر کے اسلام سے لوگوں کو بدظن کرتے ہیں.ان کی اس کا روائی کا جواب بھی ہو جائے گا.کیونکہ جب ولائت کے لوگوں کو یہ معلوم ہوگا کہ مسلمان عورتوں نے وہاں لوگوں کی ہدایت کے لئے ایک تبلیغی وفد بھیجا ہے.تو ان کو فوراً معلوم ہو جائے گا کہ یہ جو ہمیں سنایا جاتا تھا کہ اسلام میں عورتیں جانوروں کی طرح سمجھی جاتی ہیں اور روحانی ترقیات کا دروازہ ان کے لئے بند ہے یہ بالکل غلط تھا کیونکہ مسلمان عورتیں نہ صرف خود دین پر قائم ہوتی ہیں بلکہ وہ تو ہزاروں کوسوں پر ہمیں بھی اسلام کی طرف بلانے کے لئے وفد بھیج رہی ہیں.یہ ایک عملی چوٹ ہوگی جو جھوٹ بولنے والوں کے طلسم کو آنا فانا تو ڑ دے گی اور اہل یورپ کی آنکھیں اس بات کو معلوم کرتے ہی کھل جائیں گی اور وہ معلوم کر لیں گے کہ صرف صداقت سے محروم رکھنے کے لئے انہیں دھوکہ دیا جاتا تھا.پھر جس قدر لوگ ایمان لائیں گے.ان کا ثواب تمہارے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا“.آپ نے ہدایت فرمائی ” ایک اشتہار بھی عورتوں کی طرف سے انگریزی میں ترجمہ کر کے شائع
101 کر دیا جائے.نیز فرمایا:.چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حکم ہے کہ ہر ایک احمدی لنگر کے لئے چندہ دے.اس لئے میری تجویز یہ ہے کہ سب چندہ میں سے دسواں حصہ لنگر کے فنڈ میں منتقل کر دیا جایا کرے اور باقی تبلیغ ولائت پر خرچ ہو.تحصیل چندہ کے متعلق فرمایا :.ہر جگہ کی عورتیں اپنے ہاں جلسہ کریں اور ایک اپنی سیکرٹری مقرر کریں.جو ماہوار چندہ سب سے لکھوا کے اور باقاعدہ طور پر یہاں بھجوادیا کرے.اگر کسی جگہ ایسی کارکن عورت نہ ہو تو مرد سیکرٹری ہیں.خاوندوں ، باپوں ، بھائیوں اور بیٹوں کے ذریعے عورتوں کا چندہ وصول کریں.وہ الگ جمع ہو اور الگ ہی بھیجا جایا کرے.گاؤں کی عورتیں یہ انتظام کر سکتی ہیں کہ ایک آٹا فنڈ قائم کر لیں اور روزانہ ایک مٹھی آٹے کی الگ کر کے ایک برتن میں جمع کر دیا کریں.جو ہفتہ وار جمع ہو کر عورتوں کے تبلیغ فنڈ میں جمع کیا جائے اور فروخت کر کے اس کی قیمت بھجوادی جایا کرے“.(ضمیمہ الفضل 16 دسمبر 1916ء) اللہ تعالیٰ نے جماعت کی عورتوں کو توفیق دی کہ وہ حضور کی تحریک پر لبیک کہیں.چنانچہ انہوں نے اخلاص کا بہترین نمونہ پیش کر کے اس خرچ کو برداشت کیا.جو ان کے امام نے ان کے ذمہ لگایا تھا.تحریری خدمات کی تحریک 1917ء میں مخالفین نے احمدیت کے خلاف کافی لٹریچر شائع کیا اس کے جواب میں حضور نے 26 اکتوبر 1917ء کے خطبہ جمعہ میں جماعت کو قلمی خدمت کے ذریعہ تبلیغ کی تحریک کرتے ہیں فرمایا:.آج صرف تقریروں کا زمانہ نہیں، بلکہ تحریر کا ہے اور تحریر سے ایک شخص دور دور تک ہلچل ڈال سکتا ہے.اس زمانہ میں مطابع کی ایجاد اور کاغذ کی کثرت نے حملہ کے طریق کو بدل دیا ہے اور جس طرح شرارت کے اسباب زیادہ ہو گئے ہیں.اس طرح ہدایت کے سامان بھی بہت وسیع ہو گئے ہیں.پس
102 زبانی طور پر تبلیغ کا کام کرنے کی بجائے یہ طریق زیادہ مؤثر ہے.اس وقت ہمارے مخالف انہی سامانوں کے ساتھ اُٹھے ہیں.ستارہ صبح.ذوالفقار.اہلحدیث وغیرہ اخباروں میں حملے ہور ہے.کئی انجمنیں ہیں جو ٹریکٹ ہمارے خلاف شائع کرتی ہیں اور ان ٹریکٹوں کی بیسیوں تک نوبت پہنچ گئی ہے.جن کا کوئی جواب نہیں دیا گیا.کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ایک وہ وقت تھا ہمارا قرضہ دشمنوں کے ذمہ ہوتا تھا.لیکن اب ہمارے ذمہ ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ آجکل جو لوگ لکھ سکتے ہیں.انہوں نے فرض کفایہ کی طرح دین کی خدمت سمجھ لیا ہے.وہ کہتے ہیں ہم میں سے فلاں فلاں جو کام کر رہے ہیں.ہمیں کیا ضرورت ہے.حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مجموعی طور پر مخالفین کا مقابلہ کیا جائے.اس لئے میں تمام دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ سستی اور غفلت کو چھوڑ دیں اور ہر ایک ٹریکٹ ، اشتہار، اخبار خواہ وہ غیر احمدیوں کے ہوں یا غیر مبائعین کے یا عیسائیوں کے یا آریوں کے غرض کسی طرف سے ہوں.ان کا جواب دیا جائے اور ان پر اعتراضات کئے جائیں تا کہ دشمن کو حملہ کا پہلو چھوڑ کر دفاع کا طریق اختیار کرنا پڑے.( خطبات محمود جلد 5 ص 580) 9 نومبر 1917ء کے خطبہ جمعہ میں حضور نے تبلیغ کے لئے ابتدائی اور ضروری معلومات کا نصاب بھی بیان فرمایا اور ان پر عبور حاصل کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا :.”ہماری جماعت نے اپنے ذمہ لیا ہے.بلکہ خدا نے ان کے ذمہ ڈالا ہے کہ وہ تبلیغ اسلام کرے.پس جماعت کے لوگوں کو چاہئے کہ پہلے تبلیغ کے اصل کو پورا کریں.تمام ضروری علوم کو حاصل کریں.جن کی تبلیغ کی ضرورت ہے.غیر احمدیوں کے لئے تین چار مسئلہ ہیں.1.وفات مسیح 2.آمد مسیح کا ثبوت قرآن و حدیث سے 3.راستبازوں کی پہچان کے معیار 4.پیشگوئیوں کے متعلق خدا تعالیٰ کی سنت کیا ہے.5.ہر قسم کی نبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بند ہوگئی یا کوئی قسم جاری بھی ہے.یہ پانچ مسائل ہیں.پہلا مسیح فوت ہو چکا ہے.دوسرا اسی اُمت میں سے ہے.اس کی تائید قرآن کریم اور فلاں فلاں احادیث سے ہوتی ہے.پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا طریقہ کیا ہے.ان سب مسائل کیلئے 100 آیات اور احادیث سے زیادہ نہیں بنتی ہوں گی ان کو اچھی طرح سمجھ لے.زیادہ سے زیادہ ایک مہینہ میں انسان بخوبی سمجھ سکتا ہے.اگر پورا وقت نہ دے سکے.صرف ڈیڑھ دو گھنٹہ بوجہ اپنے کام کاج کی مصروفیت کے دے سکے.تو پانچ چھ مہینے میں اچھی طرح خوب یاد کر
103 سکتا ہے.اگر غور کریں تو بہت سا فرصت کا وقت محض لغو باتوں میں بہت سے ہیں جو صرف کر دیتے ہوں گے.وہ اسی وقت کو جو ایسی باتوں میں خرچ کرتے ہیں جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں.اس دین کے علم حاصل کرنے میں لگائیں.تو وہ بخوبی اٹھا سکتے ہیں اور ان کے کام کاج میں کچھ حرج واقع نہیں ( خطبات محمود جلد 5 ص587) ہوگا.سکتا اچھوت اقوام میں تبلیغ کی تحریک حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو ایک عرصہ سے یہ خیال تھا کہ ہندوستان کی اچھوت اقوام میں تبلیغ کی جاوے.تبلیغ کے عام فریضہ کے علاوہ آپ نے یہ بھی سوچا کہ ہندوستان میں ان قوموں کی تعداد کئی کروڑ ہے اور ہندو لوگ انہیں مفت میں اپنائے بیٹھے ہیں.پس اگر ان قوموں میں احمدیت کی اشاعت ہو اور وہ احمدی ہو جائیں تو ان کی اپنی نجات کے علاوہ اس سے اسلام کو بھی بھاری فائدہ پہنچ ہے.چنانچہ آپ نے اپریل 1922ء کے آغاز میں ایک سکیم کے مطابق پنجاب کی اچھوت قوموں میں تبلیغ شروع فرما دی اور ان کے لئے ایک خاص عملہ علیحدہ مقرر کر دیا.آپ کی اس کوشش کو خدا نے جلد ہی بار آور کیا اور تھوڑے عرصہ میں ہی کافی لوگ حق کی طرف کھینچ آئے اور بہت سے مذہبی سکھ، بالیکی اور دوسرے اچھوت احمدیت میں داخل ہوئے اس رو کا سب سے بڑا زور 24-1923ء میں تھا.جبکہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ تو میں ایک انقلابی رنگ میں پلٹا کھائیں گی.مگر اس وقت بعض خطرات محسوس کر کے یہ سلسلہ دانستہ مدہم کر دیا گیا اور انفرادی تبلیغ پر زور دیا جانے لگا اور خدا کے فضل سے اس کے اچھے نتائج پیدا ہوئے.(سلسلہ احمدیہ ص 373) ابتداء میں یہ کام شیخ عبد الخالق کے ذریعہ سے مختصر پیمانہ پر قادیان سے شروع کیا گیا.دواڑھائی سال میں جو اچھوت حلقہ بگوش احمدی ہوئے ان کے ذریعہ سے اردگرد کے دیہات میں جدو جہد جاری کی گئی اور پھر پورے ملک میں ان سرگرمیوں کا آغاز ہوا.1928 ء سے مکرم گیانی واحد حسین صاحب اچھوت اقوام کے طلباء کی تعلیم وتدریس کے لئے مقرر ہوئے ان کے بعد مہاشہ فضل حسین صاحب نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خاص ہدایات کے ماتحت عظیم الشان لٹریچر پیدا کیا جس سے اچھوتوں کو بیدار کرنے اور انہیں اسلام کے قریب لانے میں بھاری مدد لی اس سلسلہ میں اچھوتوں کی درد بھری
104 کہانیاں اچھوتوں کی حالت زار دید شاست اور اچھوت ادھار“، ”اچھوت ادھار کی حقیقت یا ہند و اقتدار کے منصوبے (حصہ اول) خاص طور پر قابل ذکر ہیں.آخری کتاب مشہور اچھوت لیڈر ڈاکٹر امبید کر کی فرمائش پر لکھی گئی تھی اور اس کا انگریزی ترجمہ بھی شائع کر دیا گیا.ڈاکٹر امبید کر اس لٹریچر سے بہت متاثر تھے.انہوں نے چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ سے لندن میں ایک ملاقات کے دوران میں کہا کہ اگر میں کبھی مسلمان ہوا تو احمدی جماعت میں ہی داخل ہوں گا.حضرت خلیفۃ اسیح الثانی نے ہندوستان میں صوبہ پنجاب کے بعد بنگال کی طرف بھی توجہ فرمائی اور صوفی عبد القدیر صاحب نیاز بی اے کو ابتدائی سروے کے لئے بھجوایا.جنہوں نے بڑی حکمت عملی سے کام لے کر ایک مفصل سکیم پیش کی.جس پر وہاں بھی یہ کام ہونے لگا.1923ء رپورٹ مجلس مشاورت 1928ء ص 201 انسداد شدھی کی تحریک ء کے دوران آریوں نے یہ سکیم تیار کی کہ ہندوستان کے سات کروڑ مسلمانوں کو ہندو بنالیا جائے.اس کے لئے انہوں نے چندے جمع کئے تنظیمیں قائم کیں.اخبارات نکالے اور پروپیگنڈا کی ایک مشینری حرکت میں آئی.ملکانہ کے علاقہ میں چار لاکھ سے زائد ایک قوم نے ہندومت کو قبول کر لینے کے کا ارادہ ظاہر کیا.حضور کو علم ہوا تو اس شدھی کی تحریک کا وسیع پیمانہ پر مقابلہ کرنے کے لئے ایک ز بر دست سکیم تیار کی اور آپ نے یہاں تک تہیہ کر لیا کہ ”میری کل جماعت کی جائیداد تخمیناً دو کروڑ روپیہ کی ہے.اگر ضرورت پڑی تو یہ سب املاک اور اموال خدا کی راہ میں وقف کرنے سے میں اور میری جماعت دریغ نہ کریں گے.اس عظیم سکیم کے ماتحت کام کرنے کے لئے افراد اور اموال کی ضرورت تھی.حضور نے اپنے خدام کو آواز دی تو وہ سینکڑوں کی تعداد میں حاضر ہو گئے.چنانچہ حضور نے 7 مارچ 1923ء کو درس القرآن سے قبل اعلان فرمایا کہ جماعت احمد یہ فتنہ ارتداد کے خلاف جہاد کا علم بلند کرنے کی غرض سے ہر قربانی کے لئے تیار ہو جائے.(انوار العلوم جلد 7 ص 169 ) اس کے بعد 9 مارچ 1923ء کو خطبہ جمعہ میں تحریک فرمائی کہ فتنہ ارتداد کے مٹانے کے لئے فی الحال
105 ڈیڑھ سواحمدی سرفروشوں کی ضرورت ہے.جو اپنے اور اپنے لواحقین کی معاش کا انتظام کر کے میدان عمل میں آجائیں.چنانچہ آپ نے فتنہ ارتداد کی وسعت بیان کرتے ہوئے اور جماعت کو اپنی سکیم کے ایک حصہ سے آگاہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:.ہمیں اس وقت ڈیڑھ سو آدمیوں کی ضرورت ہے جو اس علاقہ میں کام کریں اور کام کرنے کا یہ طریق ہو کہ اس ڈیڑھ سوکو میں تمہیں کی جماعتوں پر تقسیم کر دیا جائے اور اس کے چار حصہ میں ہیں کے بنائے جائیں اور تمیں آدمیوں کو ریز رو رکھا جائے.کہ ممکن ہے کوئی حادثہ ہو.اس ڈیڑھ سو میں سے ہر ایک کو فی الحال تین مہینہ کے لئے زندگی وقف کرنی ہوگی.ہم ان کو ایک پیسہ بھی خرچ کے لئے نہیں دیں گے.اپنا اور اپنے اہل و عیال کا خرچ انہیں خود برداشت کرنا ہوگا.سوائے ان لوگوں کے جن کو ہم خود انتظام کرنے لئے بھیجیں گے.ان کو بھی جو ہم کرایہ دیں گے وہ تیسرے درجے کا ہوگا.چاہے وہ کسی درجہ، کسی حالت کے ہوں اور اخراجات بہت کم دیں گے.ان لوگوں کے علاوہ زندگی وقف کرنے والے خود اپنا خرچ آپ کریں گے.اپنے اہل و عیال کا خرچ خود برداشت کریں گے.البتہ ڈاک کا خرچ یا وہاں تبلیغ کا خرچ اگر کوئی ہوگا تو ہم دیں گے.اس کے لئے جماعت کو پچاس ہزار روپیہ دینا ہوگا.ایسے کاموں کے لئے جو تبلیغ وغیرہ کے ہوں گے.باقی مبلغین اسی رنگ میں جائیں گے وہاں اپنے اخراجات خود اٹھائیں گے.جو لوگ ملازمتوں پر ہیں وہ اپنی رخصتوں کا خود انتظام کریں اور جو ملازم نہیں اپنے کاروبار کرتے ہیں.وہاں سے فراغت حاصل کریں اور ہمیں درخواست میں بتائیں کہ دو چارسہ ماہیوں میں سے کس سہ ماہی میں کام کرنے کے لئے تیار ہیں.( خطبات محمود جلد 8 ص 37) حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے 7 اور 9 مارچ 1923ء کو جماعت سے جس عظیم الشان جانی و مالی قربانی کا مطالبہ فرمایا اس پر جماعت نے انتہائی والہانہ رنگ میں لبیک کہا اور ڈیڑھ ہزار احمدیوں نے اپنی آنریری خدمات حضور کی خدمت میں پیش کر دیں.اس قربانی کے لئے آگے آنے والے ملازم، رؤسا، وکلاء، تاجر، زمیندار، صناع، پیشه ور مزدور، استاد، طالبعلم، انگریزی خوان ، عربی دان، بوڑھے اور جوان غرض کہ ہر طبقہ کے لوگ تھے.حتی کہ مستورات اور بچوں تک نے اس جہاد کے لئے اپنا نام پیش کیا.
106 چنانچہ لجنہ اماءاللہ نے حضور کی خدمت میں درخواست پیش کی کہ ہمیں راہنمائی فرمائی جائے کہ ہم اس جہاد میں کیا خدمت سرانجام دے سکتی ہیں؟ خواتین نے ملکانہ عورتوں میں تبلیغ کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا.اس موقعہ پر احمدی بچوں میں بھی اشاعت اسلام کا جوش اور ولولہ پیدا ہو گیا.چنانچہ حضور کے بیٹے مرزا منور احمد صاحب جو اس وقت 5 سال کے تھے ملکا نہ علاقوں میں جانے کے لئے تیار ہو گئے.حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے فرزند محمد احمد صاحب نے جن کی عمر اس وقت بارہ سال ہوگی اپنی والدہ ماجدہ حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کو لکھا کہ تبلیغ کرنا بڑوں کا ہی نہیں ہمارا بھی فرض ہے.اس لئے جب آپ تبلیغ کے لئے جائیں تو مجھے بھی لے چلیں اور اگر آپ نہ جائیں تو مجھے ضرور بھیج دیں.جہاں تک انسدا دارتداد کے لئے پچاس ہزار روپیہ چندہ کا تعلق تھا یہ بہت جلد جمع ہو گیا اور جماعت نے اپنی بساط سے بڑھ کر حصہ لیا.چندہ میں شرکت کے لے ابتداء یہ شرط تھی کہ کم از کم ایک سو روپیہ چندہ دینے والے لوگ آگے آئیں.لیکن بعد میں غریب احمدیوں کی درخواست پر حضور نے یہ شرط اڑا دی اور غریبوں کو بھی اس ثواب میں حصہ لینے کا موقعہ میسر آ گیا.چندے کے علاوہ احمدی احباب نے مجاہدین کے لئے سائیکل دیئے خصوصا لا ہور کی جماعت نے ڈاکٹر محمد منیر صاحب آف امرتسر نے دھوپ سے بچانے والے پروٹیکٹر دیئے.بعض نے ستو کی بوریاں بھیج دیں.عید الاضحیہ کا موقعہ آیا تو ہزاروں روپے میدان ارتداد میں ملکانہ قوم کے لئے جانور ذبح کرنے کے لئے بھجوا دیئے.بعض غریبوں نے جن کے پاس کچھ نقد اثاثہ نہ تھا.اپنا مکان یا زمین یا جانور بیچ کر اس میں حصہ لیا.کہتے ہیں کہ مشہور پنجابی شاعر ڈاکٹر منظور احمد صاحب بھیروی نے اپنی بھینس بیچ ڈالی اور میدان ارتداد میں جا پہنچے.بھینس اگر چہ خسارے پر بکی.مگر ڈاکٹر صاحب نے اس گھاٹے کے سودے پر بھی خوشی منائی.مردوں کے علاوہ احمدی عورتوں نے بھی ایثار و قربانی کا ثبوت دیا.چنانچہ لجنہ اماءاللہ نے ہیں بڑے دو بیٹے ان ملکا نہ عورتوں کے لئے بھیجے جو ارتداد کے وقت پر ثابت قدم رہیں.حضرت اقدس کی صاحبزادی امتہ القیوم نے جن کی عمر اس وقت چھ سال کی ہوگی ، اپنا ایک چھوٹا دو پٹہ دیا اور کہا کہ یہ کسی چھوٹی ملکانی کو دیا جائے.تاریخ احمدیت جلد 4 ص333) تحریک شدھی کے خلاف جماعت کی کوششوں کو مسلمان اخبارات اور دانشوروں کی طرف.ނ
107 از بر دست خراج تحسین پیش کیا گیا اور ہندو بھی عش عش کر اٹھے.ان کے بیانات کا ایک حصہ تاریخ احمدیت کی چوتھی جلد میں محفوظ ہے.جب آریوں کو پسپا ہونا پڑا تو شدھی کے بانی شردھانند نے بالآخر تحریک شدھی سے دستبرداری کا اعلان کر دیا.مگر حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ جب تک شدہ شدہ مسلمانوں میں ایک فرد بھی باقی ہے ہم یہ ہر گز نہیں بند کریں گے.چنانچہ آپ نے علاقہ ارتداد میں مستقل مبلغین مقررفرما دیئے.بالشویک علاقہ میں تبلیغ کی تحریکات حضرت مصلح موعودؓ نے 9 اگست 1923ء کو مندرجہ بالا عنوان کے تحت ایک مضمون تحریر فرمایا.جس میں حضور نے روسی علاقوں میں تبلیغ کرنے والے بعض فدائیوں خصوصاً محمد امین خان صاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.میں ان واقعات کو پیش کر کے اپنی جماعت کے مخلصوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ تکالیف جن کو ہمارے اس بھائی نے برداشت کیا ہے.ان کے مقابلہ میں وہ تکالیف کیا ہیں جو ملکانہ میں پیش آرہی ہیں.پھر کتنے ہیں جنہوں نے ان ادنی تکالیف کے برداشت کرنے کی جرات کی ہے.اے بھائیو! یہ وقت قربانی کا ہے.کوئی قوم بغیر قربانی کے ترقی نہیں کر سکتی.آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ ہم اپنی نئی برادری کو جو بخارا میں قائم ہوئی ہے.یونہی نہیں چھوڑ سکتے.پس آپ میں سے کوئی رشید روح ہے جو اس ریوڑ سے دور بھیڑوں کی حفاظت کے لئے اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہو اور اس وقت تک ان کی چوپانی کرے کہ اس ملک میں ان کے لئے آزادی کا راستہ اللہ تعالیٰ کھول دے.(انوار العلوم جلد 7 ص 291) سالانہ ایک لاکھ بیعتوں کی تحریک حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے 13 فروری 1925ء کو تحریک فرمائی کہ ہر ایک احمدی دل میں عہد کرے کہ اشاعت سلسلہ میں ہمہ تن لگ جائے گا.نیز فرمایا :.” میرے نزدیک موجودہ ترقی کی رفتار بہت کم ہے.جب تک ایک لاکھ سالانہ سلسلہ میں لوگ
108 داخل نہ ہوں ہماری ترقی خطرہ میں ہے.ہمیں جلد سے جلد اس بات پر قادر ہونا چاہئے.ایک لاکھ سالانہ کی رفتار سے ہم یہ امید کر سکتے ہیں کہ سلسلہ میں ایسے لوگ پیدا ہو جائیں گے کہ جو اس کام کو جاری رکھ سکیں گے.موجودہ حالت میں تو ہم یہ بھی امید نہیں کر سکتے.پس جس طرح احباب سب چندہ دیتے ہیں.اس طرح ایک دو سال بھی اگر وہ سب اشاعت سلسلہ اور اخلاق کی درستی کی کوشش میں لگ جائیں جس کے ساتھ جماعت کے اندر ایک رو پیدا ہو جائے تو اس طرح ایسی تعداد پیدا ہوسکتی ہے کہ جو کام کو سنبھال سکیں“.( خطبات محمود جلد 9 ص40) تبلیغی کتب حضرت مصلح موعودؓ نے کئی والیان ریاست کو تبلیغی خطوط لکھے اور ان کے لئے کتب تصنیف فرما ئیں اور تبلیغ کا ایک جدید طریق اختیار کیا.ان میں سے دو کتب ایسی ہیں جو ہندوستان کے انگریز حکمرانوں کے نام لکھیں اور اس کی اشاعت میں آپ نے احمدیوں کی ایک بڑی تعداد کو شامل فرمایا.تحفہ شہزادہ ویلز کی اشاعت کی تحریک: شہزادہ ویلز جو بعد میں ایڈورڈ ہشتم بنے دسمبر 1921ء میں ہندوستان کے دورہ پر آئے تو حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت کے سامنے یہ تجویز پیش فرمائی:.ہم ان کو جماعت کی طرف سے ایک مناسب تحفظ دیں.جو ان کی شان کے شایان ہو اور ہماری شان کے بھی شایان ہو اور وہ تحفہ یہی ہو سکتا ہے کہ ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچادیں اور حق و صداقت کی ان کو دعوت دیں.اس تحفہ کی اشاعت کے سلسلہ میں فرمایا:.میں نے ہر شخص سے ایک آنہ کے پیسہ وصول کئے جانے کی تجویز پیش کی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ کم سے کم پچیس ہزار آدمی کی طرف سے یہ تحفہ پیش ہو.گو اس سے زیادہ لوگ اس میں شامل ہوں تو اور بھی اچھا ہے.دوبارہ چندہ کسی سے نہ لیا جائے اور نہ ایک آنہ فی کس سے زیادہ وصول کیا جائے.اگر کوئی صاحب اپنی خوشی سے زیادہ دینا بھی چاہیں.تب بھی ایک آنہ فی کس سے زیادہ نہ لیا جائے.(الفضل 9 جنوری 1922ء)
109 اس تحریک کے بعد حضور نے تحفہ شہزادہ ویلز کے نام سے ایک عظیم الشان کتاب تصنیف فرمائی.جس میں آپ نے شہزادہ کو سچائی کا پیغام دیا.اس کتاب کو آپ کی تجویز کے مطابق جماعت احمدیہ کے بتیس ہزار سے زائد افراد نے ایک ایک آنہ فی کس آمدنی جمع کر کے شائع کیا اور 27 فروری 1922ء کو لاہور میں احمد یہ وفد کے ذریعہ ایک مرصع رو پہلی کشتی میں شہزادہ کے سامنے پیش کیا.شہزادہ ویلز نے اس لاثانی تحفہ کو نہایت قدر و احترام کی نگاہ سے دیکھا اور نہ صرف اپنے چیف سیکرٹری کے توسط سے اس کا شکریہ ادا کیا بلکہ یکم مارچ 1922ء کو لاہور سے جموں تک کے سفر میں سے مکمل طور پر مطالعہ کیا اور بہت خوش ہوئے اور جیسا کے بعد کی اطلاعات سے معلوم ہوا کہ کتاب پڑھتے پڑھتے بعض مقامات پر ان کا چہرہ گلاب کی طرح شگفتہ ہو جاتا تھا.اس طرح ان کے ایڈی کا نگ نے یہ بھی بتایا کہ وہ کتاب پڑھتے پڑھتے یکدم کھڑے ہو جاتے تھے.چنانچہ اس کے کچھ عرصہ بعد انہوں نے صراحتاً عیسائیت سے بیزاری کا اظہار کیا.اخبار ” ذوالفقار (24 اپریل 1922ء) نے اس کتاب پر یہ ریویو کیا کہ ہم خلیفہ ثانی کی سلسلہ احمدیہ کی اشاعت اسلام میں ہمت کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے تحفہ ویلز کا بہت سا حصہ ایسا ہے جو تبلیغ اسلام سے لبریز ہے اور ایک عظیم الشان کارنامہ ہے کہ جس کو دیکھتے ہوئے غیر احمدی ضرور شک کریں گے یہ ضروری ہے کہ ہم اخبار نویسی کے میز پر تعصب کی مالا گلے سے اتار کر رکھ دیتے ہیں.اس واسطے اس تحفہ کو دیکھ کر ہم عش عش کر اٹھے.(بحوالہ الفضل 8 مئی 1922ء) تحفہ لارڈارون: لا رڈارون 1926ء میں ہندوستان میں وائسرائے ہو کر آئے اور 1931 ء تک اس عہدہ پر فائز رہے.لارڈارون نہایت خوش خلق ، نیک دل اور مذہبی آدمی تھے.جنہوں نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں اعلیٰ اخلاقی نمونہ پیش کیا.لا رڈارون جب ہندوستان سے رخصت ہونے لگے تو دوسروں نے تو ان کو مادی تحفے تحائف پیش کئے مگر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ایک کتاب تحفہ لا رڈارون کے نام سے ( 27 مارچ سے 31 مارچ 1931 ء تک) پانچ روز میں تصنیف فرمائی جو احمد یہ وفد نے 8 اپریل 1931 ء کو
110 وائسرائے الیگل لاج (دہلی) میں وائسرائے ہند لارڈارون کو نہایت خوبصورت اور خوشنما طشتری بطور تحفہ پیش کی.اس کتاب میں حضور نے لارڈارون کو سلسلہ احمدیہ کی نسبت گزشتہ نوشتے بتائے اور پھر جماعت احمدیہ کے بائیس بنیادی عقائد بیان کرنے کے بعد خاتمہ میں بتایا کہ بے شک یہ سلسلہ اس وقت کمزور ہے لیکن سب الہی سلسلے شروع میں کمزور ہوتے ہیں، شام، فلسطین اور روم کے شہروں میں پھرنے والے حواریوں کو کون کہ سکتا تھا کہ یہ کسی وقت دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر دیں گے.وہی حال ہمارے سلسلہ کا ہے اس کی بنیادیں خدا تعالیٰ نے رکھی ہیں اور دنیا کی روکیں اس کی شان کو کمزور نہیں بلکہ دو بالا کرتی ہیں کیونکہ غیر معمولی مشکلات پر غالب آنا اور غیر معمولی کمزوری کے باوجود ترقی کرنا الہی مد داور الہی نصرت کا نشان ہوتا ہے اور بصیرت رکھنے والوں کے ایمان کی زیادتی کا موجب“.لا رڈارون نے اس قیمتی تحفہ پر بہت خوشی کا اظہار کرنے اور اس کا زبانی شکر یہ ادا کرنے کے علاوہ حضور کے نام ایک تحریری شکریہ بھی ارسال کیا جو تحفہ لارڈارون اردو ایڈیشن کے آخر میں طبع شدہ ہے.جماعت احمدیہ سے تبلیغ کے متعلق عہد مجلس مشاورت 1927ء کے دوران جماعت کے سامنے کئی اہم امور زیر بحث آئے جن میں ایک بہت بڑا مسئلہ اچھوت اقوام میں تبلیغ تھا.جس پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے جماعت کے نمائندوں سے تبلیغ کی مہم جاری رکھنے کا عہد لیا کہ اگر ہمارے جسموں کا ذرہ ذرہ بھی اشاعت میں لگ جائے گا تو ہم تبلیغ بند نہ کریں گے.نیز پر شوکت الفاظ میں فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے ہمیں دلوں کی عمارتیں بنانے کے لئے خدا تعالیٰ نے بھیجا ہے.ہمیں اینٹ پتھر کی عمارتوں سے کیا غرض.آپ نے یہ بھی فرمایا کہ آئندہ لوگ آئیں گے جو سنگ مرمر کی عمارتیں بنائیں گے ان میں سونے کا کام کریں گے.یہ کام ان کے لئے رہنے دو.آؤ ہم دلوں کی عمارتیں بنائیں.پس اگر ہمیں ان عمارتوں کو فروخت کرنا پڑے، ان زمینوں کو بیچ ڈالنا پڑے تو کوئی پرواہ نہیں.یہ سارا نظام اسی وقت تک ہے جب تک ہم اصل فرض اور مقصد کو پورا کر سکتے ہیں جب ہم سمجھیں کہ اسلام کی عزت اس کی محتاج ہے تو ہمیں ان کے بیچ ڈالنے میں ایک
111 منٹ کے لئے بھی دریغ نہ ہوگا.مگر کوئی غیرت مند آدمی پسند نہ کرے گا کہ اس کا مکان باقی رہے اور قوم کی عمارتیں بک جائیں.اس کی زمین تو باقی رہے لیکن اسلام کی زمین فروخت ہو جائے...اگر صرف آپ لوگ جنہوں نے آج اقرار کیا ہے دین کی خدمت کے لئے کھڑے ہو جائیں تو میں سمجھوں گا اسلام کی فتح کا زمانہ آگیا اور میں دشمن پر فتح پا گیا.رپورٹ مجلس مشاورت 1927 ء ص 186,183) تبلیغ کے لئے نئے عزم کی تحریک 1927ء میں مشہور ہندو لیڈر پنڈت شردھانند صاحب کے قتل نے ہندو قوم میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف زبر دست آگ لگادی تھی اور پشاور سے لے کر کلکتہ تک کے تمام ہندوؤں نے عزم کر لیا کہ وہ پنڈت شردھانند کا کام بہر کیف جاری کھیں گے اور اپنی جان اور اپنا مال تک قربان کرنے سے دریغ نہیں کریں گے.اس غرض کے لئے ایک شردھانند میموریل فنڈ قائم کیا گیا اور ہندو شدھی سمجھانے اپنی سرگرمیاں اور زیادہ تیز کر دیں.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے جماعت کے سامنے یہ تشویشناک صورت رکھتے ہوئے بتایا کہ اب دین پر جو حملہ ہو گا.اس کا دفاع ہمیں کرنا ہو گا.چنانچہ حضور نے فرمایا.”ہندوستان میں سپین کی طرح کا مشکل وقت اسلام کے لئے آیا ہوا ہے.یہ جو ہندوؤں کی طرف سے چیلنج دیا گیا ہے اگر احمدی جماعت اس کے جواب کے لئے میدان میں نکل کھڑی ہو تو یقیناً دین کی فتح ہے پس میں احمدی دوستوں سے کہتا ہوں.اگر وہ اس جنگ کے لئے تیار ہوں تو..وہ ایک جان ہو کر مضبوط عزم کے ساتھ کھڑے ہو جائیں اور ایسی بلند آواز اٹھائیں کہ ہر ہندو کے کان میں وہ پہنچے اور کوئی شخص اس آواز کو دبا نہ سکے.دیوانہ وار تبلیغ کرنے کا ارشاد ( الفضل 6 مئی 1927ء) 22 نومبر 1929ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت سے بذریعہ خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا کہ دیوانہ وار تبلیغ احمدیت میں لگ جاؤ ورنہ آئندہ نسلیں بھی کمزور ہو جائیں گی.(الفضل 29 نومبر 1929 ء ص 6)
112 نئے مقامات پر مبلغین کی تقرری کی تحریک حضرت مصلح موعودؓ نے ملک میں تبلیغ کا دائرہ وسیع تر کرنے کے لئے 4 دسمبر 1929 ء کو ہدایت فرمائی کہ مبلغین خاص طور پر ان مقامات پر بھجوائے جائیں جہاں ابھی تک کوئی جماعت قائم نہیں ہوئی چنانچہ فرمایا.ہماری تبلیغ میں ایک روک ہے.عام طور پر ہمارے مبلغین انہی مقامات پر جاتے ہیں جہاں پہلے ہی جماعتیں موجود ہیں میں نے سوچا ہے ہر مبلغ کے لئے ایسے مقامات کے دورے لازمی کر دیے جائیں جہاں پہلے کوئی احمدی نہیں.تا نئی جماعتیں قائم ہوں جس جگہ پہلے ہی کچھ احمدی ہوتے ہیں وہاں پھر جماعت ترقی نہیں کرتی.کیونکہ لوگوں میں ضد پیدا ہو جاتی ہے لیکن اگر مبلغین کو نئے مقامات پر بھیجا جائے تو ہر ایک کے لئے ماہ ڈیڑھ ماہ میں پانچ سات نئے آدمی جماعت میں داخل کرنا کچھ مشکل نہیں...اور اس طرح پہلی جماعتوں میں بھی از سرنو جوش پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ جب ان کے قرب و جوار میں نئی جماعتیں قائم ہو جائیں تو وہ بھی زیادہ جوش اور سرگرمی سے کام کریں گے.الفضل 17 دسمبر 1929 ء ص 6 ) تبلیغی سرگرمیوں میں اضافہ کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے خطبہ جمعہ 6 فروری 1931ء میں فرمایا :.میں نے پچھلے سال یہ اعلان کیا تھا کہ جو اضلاع یا جو تحصیلیں ایک ہزار نئے احمدی جماعت میں داخل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ان کے علاقہ میں ایک مستقل مبلغ رکھنے کا انتظام ہم کر دیں گے لیکن جہاں تک مجھے یاد ہے اعلان ایسے موقع پر ہوا جب وقت بہت کم تھا اس لئے دوبارہ اس سال کے شروع میں میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اگر کوئی تحصیل ایک سال میں ایک ہزار نئے احمدی پیدا کرے تو اس کے لئے اگر کوئی سارا ضلع اتنی تعداد پوری کرے تو اس کے لئے ہم ایک مستقل مبلغ دے دیں گے.(خطبات محمود جلد 13 ص41) چالیس سالہ جو بلی: سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اکتوبر نومبر 1890ء میں مقام مسیحیت کا انکشاف ہوا
113 جس کا اعلان حضور نے شروع 1891ء میں ”فتح اسلام میں فرمایا.اس لحاظ سے 1931ء کے آغاز میں جماعت احمدیہ کی عمر چالیس سال تک پہنچ گئی اور بلوغت تامہ کا پہلا درجہ جماعت کو حاصل ہوا.یہ چالیس سالہ دور اس شان سے گزرا کہ اس کی ہر دہائی میں احمدیت کو فتح نصیب ہوئی.پہلے دس سال میں مسیحیت و مجددیت کے خلاف اٹھنے والے طوفان کا رخ پلٹا گیا.دوسرے دس سال میں اللہ تعالیٰ نے نبوت کی تشریح و توضیح کا سامان فرمایا.تیسرے دس سال میں نظام خلافت کو تقویت حاصل ہوئی اور چوتھے دس سال میں بیرونی ممالک میں بکثرت احمد یہ مشن قائم ہوئے اور سلسلہ کی عالمگیر ترقی کی بنیادیں رکھ دی گئیں.حضرت مصلح موعودؓ نے خدا تعالیٰ کی اس غیر معمولی تائید و نصرت پر جذبات تشکر ظاہر کرنے کے لئے 5 جون 1931ء کو ایک اہم خطبہ جمعہ پڑھا اور ارشاد فرمایا کہ یہ ایک قسم کی جو بلی ہے کیونکہ پچاس سال کا عمر پا جانا بڑی خوشی کی بات ہوا کرتی ہے.مگر پہلی بلوغت چالیس سالہ ہے اور ہمیں سب سے پہلے اس بلوغت کے آنے پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ باوجود دشمنوں کی کوششوں کے ہماری جماعت چالیس سال کی عمر تک پہنچ گئی اور میں سمجھتا ہوں ہمیں خاص طور پر اس تقریب پر خوشی منانی چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے قوانین میں سے ایک قانون یہ بھی ہے کہ اگر بندہ اس کی نعمت پر خوشی محسوس نہیں کرتا تو وہ نعمت اس سے چھین لی جاتی ہے اور اگر خوشی محسوس کرے اور اللہ تعالیٰ کی حمد کرے تو زیادہ زور سے اللہ تعالیٰ کے فیضان نازل ہوتے ہیں.پس میرا خیال ہے ہم کو اس سال چالیس سالہ جو بلی منانی چاہئے“.اس چہل سالہ جو بلی کی بہترین صورت آپ نے یہ بیان فرمائی کہ: ”سب سے بڑی جو بلی یہ ہے کہ ہم سال حال تبلیغ کے لئے مخصوص کر دیں اور اتنے جوش اور زور کے ساتھ تبلیغ میں مصروف ہو جائیں کہ ہر جماعت اپنے آپ کو کم از کم دگنی کرے یہ جو بلی ایسی ہوگی جو آئندہ نسلوں میں بطور یادگار رہے گی.اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے اپنی یادگاروں کے قیام کے لئے اینٹوں ، پتھروں اور چونے کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ وہ دنیا میں روحانیت قائم کرنا چاہتے ہیں اور یہی ان کی بہترین یادگار ہوتی ہے کہ اس مقصد کو پورا کر دیا جائے جس کے لئے وہ دنیا میں مبعوث ہوئے.
114 اور فرمایا:.اس جو بلی کی یادگار کا اس کو حصہ ہی قرار دے لو کہ تمام بالغ احمدی خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں کوشش تو یہ کریں کہ ہمیشہ تہجد پڑھیں لیکن اگر ہمیشہ اس پر عمل نہیں کر سکتے تو جمعہ کی رات مخصوص کر لیں اور سب اللہ تعالیٰ کے حضور متفقہ طور پر دعائیں مانگیں.( الفضل 11 جون 1931 ء، خطبات محمود جلد 13 ص 183,175 ) حضور نے 12 جون 1931ء کو جمعہ کی رات میں التزام سے تہجد پڑھنے کی تلقین کرتے ہوئے اس یقین کا اظہار فرمایا کہ اگر جماعت یہ نیکی بطور یادگار پیدا کرے تو عرش الہی ہل جائے گا اور دہریت کی رو جو اس وقت دنیا میں جاری ہے رک جائے گی اور بے دینی و الحاد کو شکست ہو جائے گی اور اللہ کی رحمتوں کا نزول شروع ہو جائے گا“.(الفضل 18 جون 1931ء.خطبات محمود جلد 13 ص189) يوم التبليغ کا آغاز سیدنا حضرت خلیفہ لمسیح الثانی خصوصاً پچھلے کئی سالوں کی جماعت کو اس کی تبلیغی ذمہ داریوں کی طر ف توجہ دلا رہے تھے اور گو اس کا نتیجہ بھی نہایت خوشکن نکل رہا تھا اور خدا کے فضل سے جماعت سُرعت سے ترقی بھی کر رہی تھی مگر چونکہ یہ ترقی نسبتی تھی اور ابھی جماعت کے بہت سے احباب حقیقی طور پر تبلیغ کی طرف متوجہ نہیں ہوئے تھے اس لئے حضور نے 1932 ء کے آغاز میں جماعت کو نہایت جوش سے تبلیغ کرنے کے تحریک فرمائی.چنانچہ 8 جنوری 1932ء کو خطبہ جمعہ کے دوران ارشاد فرمایا کہ: ضروری ہے کہ ہم پہلے سے بھی زیادہ جوش اور اخلاص کے ساتھ کام کریں کیونکہ جب تک ہر سال لاکھوں آدمی ہماری جماعت میں شامل نہ ہوں گے.اس وقت تک ہم پورے طور پر ترقی نہیں کر سکیں گے.بالعموم پہلی صدی ہی ایسی ہوتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت دنیا میں وسیع طور پر پھیل جاتی ہے اور ہم یہ ترقی حاصل نہیں کر سکتے جب تک لاکھوں آدمی ہر سال ہماری جماعت میں شامل نہ ہوں...الہی سلسلہ کی پہلی صدی میں تبلیغ کا کام تو دوستوں کے سپرد ہوتا ہے اور تربیت کا کام دشمنوں کے سپر د مگر بعد کی صدیوں میں چونکہ دشمن کم ہو جاتے ہیں اور دشمنوں کے شدائد کی کمی کی وجہ سے تربیت میں نقص آ جاتا ہے اس لئے اُس وقت بہت سے جھگڑے پیدا ہونے شروع ہو جاتے
115 ہیں.پس ہم اگر اس وقت تبلیغ میں سستی ظاہر کرتے ہیں تو یہ ستی تربیت پر بھی برا اثر ڈالتی ہے اور جماعت اگر تعداد کے لحاظ سے کم ہوتی ہے تو دوسری طرف اس کی تربیت میں بھی کمی آجاتی ہے.کیونکہ جب بھی تبلیغ سرد پڑ جائے گی اسی وقت تربیت بھی سرد پڑ جائے گی.یہی وجہ ہے کہ دشمنوں کے مظالم ، دکھ اور تکالیف مومنوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کرتی ہیں اور یہ تکالیف ہی ایسی چیز ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نصرت لا کر مومن کو اللہ تعالیٰ کا عینی مشاہدہ کرا دیتی ہیں.تب وہ ایمان حاصل ہوتا ہے جو خطرے سے بچاتا ہے اور تمام لغزشوں سے انسان کو محفوظ رکھتا ہے.پس میں تبلیغ کے لئے اگر چہ پہلے بھی کئی بار ا حباب کو توجہ دلا چکا ہوں مگر اب پھر توجہ دلاتا ہوں اور رچہ دوستوں کو تاکید کرتا ہوں کہ وہ اپنی ستی کو دور کریں اور اس جوش سے تبلیغ کا کام کریں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر سال لاکھوں آدمی سلسلہ میں داخل ہونے شروع ہو جائیں.( الفضل 14 جنوری 1932 ء.خطبات محمود جلد 13 ص 325 ) اس ولولہ انگیز خطبہ کے بعد حضور نے ملک میں تبلیغ احمدیت کا ایک عام رجحان اور حرکت پید اکرنے کے لئے مجلس مشاورت 1932ء میں یہ فیصلہ بھی فرمایا کہ جماعت سال میں دو دفعہ یوم التبلیغ منائے.ایک یوم التبلیغ ، غیر احمدی مسلمانوں کے لئے مخصوص ہو اور دوسرا غیر مسلموں خصوصاً ہند و اصحاب کیلئے.نیز یہ ہدایت فرمائی کہ نظارت دعوۃ و تبلیغ ایسے قواعد بنائے کہ ہر احمدی اس تبلیغ میں مشغول ہو سکے اور اس غرض کے لئے باقاعدہ ایک سکیم بنائی جائے.فہرستیں تیار کی جائیں اور اس کے ماتحت احمدی مردوں اور احمدی خواتین غرضیکہ تمام افراد جماعت کی نگرانی کی جائے کہ اس میں کہاں رپورٹ مجلس مشاورت 1932ء ص 44 تا 49) تک حصہ لیا گیا ہے.پہلا یوم التبليغ: چنانچہ اس فیصلہ کے مطابق جماعت احمدیہ نے ملک بھر میں سب سے پہلا یوم التبلیغ 8 /اکتوبر 1932ء کو پورے جوش و خروش اور والہانہ اور فدائیانہ ذوق و شوق سے منایا اور مخالفین احمد بیت کی شر انگیزیوں کے باوجود اس کے نہایت شاندار نتائج برآمد ہوئے جن کی تفصیل سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے مبارک الفاظ میں درج کی جاتی ہے.حضور نے فرمایا:.جس غرض کو پورا کرنے کے لئے یہ دن مقرر کیا گیا تھا اس وقت تک جس حد تک نتائج میرے
116 سامنے آئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بہت حد تک پوری ہو چکی ہیں اور مخالفوں کی مخالفت ہمارے رستہ میں روک بننے کی بجائے کھاد کا موجب ہوئی ہے.بعض دوستوں نے لکھا اور بعض نے بیان کیا ہے کہ جن لوگوں کے پاس جا کر ہم نے دس پندرہ منٹ صرف اپنی آمد کی غرض بتانے میں صرف کرنے تھے انہوں نے دیکھتے ہی کہہ دیا اچھا آپ آج ہمیں تبلیغ کرنے کے لئے آئے ہیں ہم تو پہلے ہی سمجھتے تھے کہ آپ نے ہمیں چھوڑنا نہیں.اچھا آئیے سنائیے گویا اس مخالفت سے وہ ہزاروں لاکھوں آدمی جن تک ہماری آواز پہنچنا مشکل تھی یا جن کے گھروں پر جا کر دس پندرہ منٹ اپنی آمد کی غرض سمجھانے میں ہمیں صرف کرنے پڑتے انہیں مخالفوں کی آواز نے پہلے ہی تیار کر دیا.”زمیندار ، حریت اور مولوی ثناء اللہ صاحب وغیرہ معاندین نے انہیں بتا دیا کہ فلاں تاریخ کو احمدی تمہارے پاس آئیں گے ان کے پاس وقت چونکہ تھوڑا ہے اس لئے اسے ضائع نہ کرنا ان کی آمد کی غرض ہم تمہیں بتائے دیتے ہیں اور اس طرح وہ ہزارہا گھنٹے جو احمدیوں کے اپنے آنے کی تمہید میں ضائع ہونے تھے بچ گئے بہر حال مخالفوں کی مخالفت نے بھی ہمیں فائدہ ہی پہنچایا ہے اور میں سمجھتا ہوں اگر یہ نہ ہوتی تو 6 شاید ہماری تبلیغ اس سے آدھی بھی نہ ہو سکتی جتنی کہ اب ایک جگہ ہمارے آدمی گئے تو ان میں سے ایک نے اس مکان میں جہاں وہ جا کر بیٹھے باہر سے کنڈی لگادی تا دوسرے لوگ آکر ان کی باتوں کو نہ سن سکیں.لیکن اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ان کے اپنے پانچ سات آدمی جو وہاں پہلے سے موجود تھے ان کو خوب تبلیغ کی گئی.کنڈی باہر سے لگی رہی اور وہ مجبوراً بیٹھے سنتے رہے.میں سمجھتا ہوں اُس وقت کی تبلیغ بھی زیادہ مؤثر ہوئی ہوگی.اگر ہمارے آدمی کی طرف سے کنڈی لگائی جاتی تو ان پر اور قسم کا اثر ہوتا وہ اسے شرارت پر محمول کرتے اور بھڑک جاتے لیکن جب ان کے اپنے آدمی کی طرف سے ایسا ہوا تو ہمارے مبلغین پر غصہ نہیں ہو سکتے تھے بلکہ ان سے گونہ ہمدردی پیدا ہوئی ہوگی تو کچھ دیوانگی ہم سے بھی ہونی چاہئے تھی اور وہ یہ کہ شدید مخالفوں کے گھروں میں جاتے مثلاً مولوی ظفر علی ، مولوی ثناء اللہ مولوی اشرف تھانوی وغیرہ اور ایسے مخالفوں کے مکانوں پر پہنچ کر انہیں تبلیغ کرتے لیکن بہر حال اس سے جو نتائج نکلے ہیں وہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ بہت ہی مفید چیز ہے.خطبات محمود دجلد 13 ص 612 و 615 - خطبه فرموده 21 /اکتوبر 1932 ء )
117 دوسرالیوم التبلیغ دوسرا یوم التبلیغ جو غیر مسلموں کے لئے مقرر کیا گیا تھا بڑی شان و شوکت سے اگلے سال 5 مارچ 1933 ء کو منایا گیا اور احمدیوں نے ہندوؤں، سکھوں اور عیسائیوں اور اچھوتوں تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے پورا دن وقف کیا.قادیان میں اس تقریب پر صبح سوا آٹھ بجے کے قریب حضور نے تبلیغ پر جانے والوں کو بیش قیمت ہدایات دیں اور دعا سے رخصت کیا.قادیان کے چھوٹے بڑے اصحاب کے قریباً60 وفود قادیان کے گردونواح کے دس میل کے حلقہ میں تمام دن مصروف تبلیغ میں ہے.اس کے علاوہ قادیان کے مقامی غیر مسلموں کے گھروں اور دکانوں میں جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچایا اور ایک تبلیغی پوسٹر اور 15,16 مختلف تبلیغی ٹریکٹ قادیان اور بیرونجات کے لکھے پڑھے لوگوں میں تقسیم کئے گئے.چھوٹے بچوں کا ایک جلوس نکالا گیا.دو پہر کے وقت لوکل کمیٹی کی طرف سے قادیان کے دوسو ا چھوتوں کو ہائی سکول کے ہال میں دعوت طعام دی گئی جس میں بزرگان سلسلہ نے تقریریں کیں.شام کے وقت چالیس کے قریب ہندو اور سکھ معززین قادیان کو قصر خلافت میں پھلوں کی پارٹی دی گئی جس میں سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے نہایت لطیف پیرا یہ میں صداقت اسلام معلوم کرنے کا یہ طریق بتایا کہ: وو وہ سچے دل سے دعا کریں اور سارے خیالات دل سے نکال کر خدا کے آگے جھکیں اور کہیں.ہم ہر طرف سے منقطع ہو کر تجھ سے التجا کرتے ہیں کہ ہمیں ہدایت عطا کر.اگر اب بھی ہماری دُعا نہ سنی گئی تو ذمہ داری ہم پر نہ ہوگی“.اس تقریر سے مقامی غیر مسلم بہت متاثر ہوئے اور لالہ دولت رام ممبر سمال ٹاؤن کمیٹی نے اہل ہنود اور اہل شہر کی طرف سے اس تقریب کے انعقاد پر شکریہ بھی ادا کیا اور مبارک باد بھی پیش کی.قادیان کی مستورات نے بھی یوم التبلیغ میں سرگرم حصہ لیا اور ہند وسکھ عورتوں کے علاوہ خاکرور عورتوں کے گھروں میں جا کر تبلیغ کی.بعض خواتین نواحی دیہات میں بھی گئیں.امرتسر میں غیر احمدی علماء نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ احمدیوں کو غیر مسلموں میں تبلیغ نہیں کرنے دیں گے.اس مقصد کے لئے احمدیت کے خلاف متواتر دو ہفتے تک جلسے کئے گئے.ایک مقامی انجمن تبلیغ اسلام نے اشتہارات شائع کئے اور ہندوؤں کو اکسایا گیا کہ احمدیوں کی بات نہ سنو کیونکہ ہم ان کو
118.اسلام سے خارج کر چکے ہیں.یہ احمدی 5 مارچ کو تمہارے گھروں پر ہلہ بول دیں گے اور فساد کریں گے.ہم مسلمان ذمہ دار نہیں ہوں گے مگر اس زبر دست مخالفت کے باوجود امرتسر کے احمدیوں نے با قاعدہ تنظیم کے ساتھ الگ الگ گروپ ترتیب دے کر غیر مسلم ایڈیٹروں ، مضمون نگاروں ، مذہبی پیشواؤں ، وکیلوں ، ڈاکٹروں، افسروں یا اعلیٰ حکام غرضیکہ ہر طبقہ کے لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچایا.اس موقعہ پر مقامی جماعت نے پانچ ہزار کی تعداد میں (انگریزی، ہندی، گورمکھی کے ) اشتہارات ٹریکٹ اور پمفلٹ اور ہینڈ بل تقسیم کئے.غیر مسلم حضرات بڑی خوش دلی اور محبت و تکریم سے پیش آئے اور تبلیغی لٹریچر بڑی مسرت اور قدردانی سے قبول کیا.پنڈت کرتار سنگھ فلاسفر ہندی گورمکھی ہنسکرت اور انگریزی کے فاضل نے کہا کہ میں مسلمانوں کو ڈا کو سمجھتا تھا مگر حضرت مرزا صاحب کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی کے ترجمہ دی ٹیچنگ آف اسلام نے میرے خیالات کی کایا پلٹ دی ہے.اب مجھے اسلام ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور احمدی جماعت سے بڑی عقیدت ہے اور حضرت مرزا صاحب کو ایک بہت بڑا بزرگ رشی مانتا ہوں اور کہا ہم نے تو حضرت مرزا صاحب کے طفیل اسلام کا صحیح فوٹو دیکھا ہے.کبیر پنتھیوں کے استھان میں جب اسلام کی خوبیوں اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کا ذکر کیا گیا.تو ان لوگوں نے جواب دیا کہ زندگی میں آج پہلی دفعہ اسلام کی سچی تعلیم ہمارے سامنے پیش کی گئی ہے.غیر احمدی علماء اور مساجد کے درویش بازاروں میں برملا گالیاں دیتے اور احمدیوں کے مکانوں اور دکانوں کے آگے سیا پا کرتے اور دل آزار نعرے لگاتے ہوئے کوشش کرتے کہ کسی طرح فساد ہو جائے مگر احمد یوں نے ان کو قطعا لائق التفات ہی نہ سمجھا اور صبر وتحمل سے پورا دن تبلیغ میں مصروف رہے.حد یہ ہے کہ جناب مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے اپنے اخبار ”اہلحدیث‘ 10 مارچ 1933ء میں فخریہ انداز میں لکھا.امرتسر میں 5 مارچ کا دن دیکھنے کے قابل تھا بجائے اس کے کہ مرزائی ہندوؤں کو تبلیغ کرتے طلباء عربی مرزائیوں کو تلاش کر کر کے بازاروں، گلیوں اور ان کے گھروں میں پکڑ کر تبلیغ کا حق ادا کر تے تھے.گویا بالفاظ مولوی صاحب یہ طریق اس لئے اختیار کیا گیا کہ احمدی ہندوؤں کو تبلیغ اسلام نہ کر سکیں ور نہ خاص اس دن جو احمدیوں نے خالصہ غیر مسلموں میں تبلیغ کے لئے وقف کیا تھا احمد یوں کو تلاش کر کے اور پکڑ کر تبلیغ کرنے کے کیا معنی ہو سکتے تھے.(الفضل 21 مارچ 1933ء)
119 خاندان حضرت مسیح موعود کو تبلیغ کی زبردست تحریک حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے 2 جولائی 1934 ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر صاحب اور صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کے نکاحوں کا اعلان فرمایا.اس پُر مسرت تقریب پر حضور نے ایک نہایت ایمان افروز خطبہ ارشاد فرمایا جس میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے افراد خاندان کو خصوصاً اور جماعت احمدیہ کو عموماً ان کی حفاظت اسلام سے متعلق اہم ذمہ داریوں کی نسبت پر زور طریق پر توجہ دلائی.چنانچہ حضور نے فرمایا:.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت محمدیہ کی تباہی کے وقت امید ظاہر کی ہے کہ لنا له رجال من فارس اور یقین ظاہر کیا کہ اس فارسی النسل موعود کی اولا ددنیا کے لالچوں ، حرصوں اور ترقیات کو چھوڑ کر صرف ایک کام کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دے گی اور وہ کام یہ ہے دنیا میں اسلام کا جھنڈا بلند کیا جائے.ایمان کو ثریا سے واپس لایا جائے اور مخلوق کو آستانہ خدا پر گرایا جائے.یہ امید ہے کہ جو خدا کے رسول نے کی اب میں اُن پر چھوڑتا ہوں کہ وہ اس کا کیا جواب دیتے ہیں.خواہ میری اولا د ہویا میرے بھائیوں کی وہ اپنے دلوں میں غور کر کر کے اپنی فطرتوں سے دریافت کریں کہ اس آواز کے بعد ان پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد میں سے اگر کوئی شخص مغربیت کی نقل کا ذرہ بھی مادہ اپنے اندر رکھتا ہے تو وہ مسیح موعود کا حقیقی بیٹا نہیں کہلا سکتا.کیونکہ اس نے اس آواز کو نہیں سنا، جسے پھیلانے کے لئے مسیح موعود مبعوث ہوئے.پس میں وضاحت سے ان کو یہ پیغام پہنچا تا اور وضاحت سے ہر ایک کو ہوشیار کرتا ہوں کہ میں ہر ایسے خیال اور ہر ایسے شخص سے بیزار ہوں جس کے دل میں مغربیت کی نقل کا ذرہ بھی مادہ پایا جاتا ہے اور جو دین کی خدمت کرنے کے لئے تیار نہیں خواہ وہ میرا بیٹا ہو یا میرے کسی عزیز کا.لیکن میں نے ہمیشہ یہ دعا کی ہے اور متواتر کی ہے کہ اگر میرے لئے وہ اولاد مقدر نہیں جو دین کی خدمت کرنے والی ہو تو مجھے اولاد کی ضرورت نہیں اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اسی دعا کی آخر دم تک توفیق عطا فرمائے.ہمارے سامنے ایک عظیم الشان کام ہے اتنا عظیم الشان کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی کام نہیں ہو سکتا.ہمارے سامنے ایک فتنہ ہے.اتنا بڑا فتنہ کہ اس کے برابر
120 دنیا میں اور کوئی فتنہ نہیں اگر ہم اس کام کی سرانجام دہی کے لئے کھڑے نہیں ہو جاتے اور اس فتنہ کے مقابلے کی ضرورت اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے تو میں نہیں سمجھتا کہ ہم دنیا میں ذرہ ہی عزت کے بھی مستحق ہیں.اس وقت اسلام کے مقابل پر بیسیوں جھنڈے بلند ہیں.جب تک وہ تمام جھنڈے سرنگوں نہیں ہو جاتے جب تک تثلیث کا جھنڈا سرنگوں نہیں ہو جاتا.جب تک بت پرستی کا جھنڈا سرنگوں نہیں ہو جاتا.جب تک اسلام کے سوا باقی تمام جھنڈے سرنگوں نہیں ہو جاتے.جب تک سب دنیا میں تکبیر کے نعرے بلند نہیں ہو جاتے ہم کبھی اپنے فرائض کو پورا کرنے والے سمجھے نہیں جاسکتے.یہ وہ چیز ہے جسے میں آج پیش کرتا ہوں اور اگر چہ میں پہلے بھی اسے پیش کرتا رہا ہوں لیکن کچھ دنوں سے ایک طاقت مجھے مجبور کر رہی ہے کہ میں واضح طور پر یہ بات پیش کر دوں.( خطبات محمود جلد 3 ص 345) غیر مبائعین کو محبت و خلوص سے تبلیغ کرنے کی تحریک حضرت مولوی غلام حسن خاں صاحب کی بیعت خلافت نے غیر مبائعین میں بہت جوش و خروش پیدا کر دیا.جس پر حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے 29 مارچ 1940ء کو یہ تحریک فرمائی کہ نہایت درد اور اخلاص کے ساتھ اپنے بچھڑے ہوئے بھائیوں کی اصلاح کی پوری کوشش کی جائے.نیز ہدایت فرمائی کہ ہر جماعت میں ”سیکرٹری اصلاح مابین کے نام سے ایک عہدیدار مقرر کیا جائے جس کا یہ فرض ہو کہ وہ غیر مبائعین سے ملے انہیں تبلیغ کرے، پرانا لٹریچر مہیا کرے اور جماعت کو اس لٹریچر سے آگاہ ے.دوسرے یہ حکم دیا کہ جماعتیں غیر مبائعین کی مفصل لسٹیں مرکز میں بھجوائیں تا اُن کو مرکز سے بھی تبلیغی لٹریچر بھجوایا جاسکے.ساتھ ہی نظارت دعوت و تبلیغ کو توجہ دلائی کہ وہ اس قسم کے علماء اور انگریزی خوانوں کی ایک لسٹ تیار کرے جو غیر مبائعین کے متعلق مفید مضامین لکھ سکتے ہوں اور پھر انہیں اخباروں اور رسالوں میں مضامین لکھنے کی تحر یک کرے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے غیر مبائعین کو تبلیغ کرنے والوں یا اس کی نسبت مضمون لکھنے والوں کو خاص طور پر یہ نصیحت فرمائی کہ دوستوں کو محبت اور پیار سے کام لینا چاہئے اور کبھی بھی سخی نہیں کرنی چاہئے.یادر کھوتی سے تم دوسرے کو چپ کرا سکتے ہو سختی سے تم دوسروں کو شرمندہ کر سکتے ہو سختی سے تم
121 دوسرے کو ذلیل کر سکتے ہو.مگر سختی سے تم دوسرے کے دل کو فتح نہیں کر سکتے.اگر تم دل فتح کرنا چاہتے ہو تو تمہارے اپنے دل میں یہ اخلاص اور درد ہونا چاہئے کہ میرا ایک بھائی گمراہ ہو رہا ہے اُسے کسی طرح میں ہدایت پر لاؤں.جب تک یہ احساس اور یہ جذبہ تمہارے اندر نہ ہوگا..اس سلسلہ میں اصلاح مابین کے سیکرٹریوں کو ارشاد فرمایا کہ: ” جب انہیں مرکز سے ٹریکٹ وغیرہ بھجوائے جائیں تو وہ محنت سے انہیں غیر مبائعین کے گھروں تک پہنچائیں تا اُن میں سے جو سعید لوگ ہیں وہ سلسلہ کی طرف توجہ کریں.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی اس خاص تحریک پر احمدی جماعتوں نے منظم طریق پر غیر مبائعین تک پیغام حق پہنچانے کی طرف توجہ دی.اہل قلم بزرگوں اور دوستوں نے ”الفضل، فاروق اور ریویو آف ریلیجز میں معلومات افزا مضامین 41-1940 ء کے دوران لکھے.علاوہ ازیں نظارت دعوت و تبلیغ قادیان نے غیر مبائعین کے لئے مناسب ٹریکٹ اور اشتہارات شائع کئے اور ایک کمیٹی اصلاح مابین کے لئے قائم کر دی جس کے فرائض میں سے ایک فرض یہ بھی تھا که غیر مبائعین اصحاب کے استفسارات کا جواب دیا جائے.اس کمیٹی کے سیکرٹری حضرت قاضی محمد نذیر صاحب لائکپوری کے مقرر کئے گئے.کمیٹی کے پاس متعدد اعتراضات پہنچتے رہے جن کا مدلل جواب علمائے سلسلہ کی طرف سے دیا جاتا رہا.ان سب اصلاحی کوششوں کا مجموعی نتیجہ یہ ہوا کہ جہاں تک جماعت احمدیہ کے نوجوان خصوصاً اور دوسرے افراد عموماً متنازعہ مسائل کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصل موقف کو پہلے سے زیادہ عمدہ طریق پر سمجھنے لگے وہاں بعض سعید الفطرت، غیر مبائعین کے حلقہ سے نکل کر نظام خلافت سے وابستہ ہو گئے.صحابہ مسیح موعود کو اشاعت احمدیت کے لئے سرگرم عمل ہونے کی تحریک 3 جنوری 1941 ء کو سال کا پہلا جمعہ تھا جس کے خطبہ میں حضرت خلیفہ لمسیح الثانی نے سال نو کا پروگرام رکھتے ہوئے رفقاء حضرت مسیح موعود کو تلقین فرمائی کہ وہ احمدیت کی عمارت کو دنیا میں مضبوط و مستحکم بنانے کے لئے ہر ممکن جد و جہد سے کام لیں.چنانچہ حضور نے فرمایا:.
122 ہر دن اور ہر رات ہمیں موت کے قریب کرتی جارہی ہے اور صحابیوں کے بعد جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا یہ کام تابعین کے ہاتھ میں اور پھر اُن کے بعد تبع تابعین کے ہاتھوں میں جائے گا.ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ آئندہ احمدی ہونے والے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نہیں دیکھا وہ یہ تو کہہ سکیں کہ ہم نے آپ کے دیکھنے والوں کو دیکھا یا یہ کہ آپ کے دیکھنے والوں کے دیکھنے والوں کو دیکھا.پس جن لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا اُن کی زندگیاں بہت قیمتی ہیں اور جتنا کام وہ کر سکتے ہیں دوسرے نہیں کر سکتے.اس لئے اُن کو کوشش کرنی چاہئے کہ مرنے سے قبل احمدیت کو مضبوط کر دیں تا دنیا کو معلوم ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے صحابہ نے ایسی محنت سے کام کیا کہ احمدیت کو دنیا میں پھیلا کر مرے“.الفضل 4 جنوری 1941 ء ) اخبارات اور خطوط کے ذریعے تبلیغی مہم حضرت خلیفہ لمسیح الثانی کو دوسری جنگ عظیم کے دوران اس طرف توجہ ہوئی کہ اب تک جماعت احمد یہ انفرادی رنگ میں تبلیغ کرتی رہی ہے.اب اسے اجتماعی تبلیغ کا رنگ اختیار کرنا چاہئے اور جنگ کے خاتمے سے پہلے ہندوستان میں اشاعت دین کے لئے پورا زور لگا دیا جائے اور جونہی جنگ ختم ہو اور بیرونی راستے کھلیں تو غیر ممالک پر روحانی حملہ کر دیا جائے تا دنیا میں جو خلا پیدا ہو وہ احمدیت کے ذریعے بآسانی پورا کیا جاسکے.چنانچہ حضور نے فرمایا :.گو ہندوستان سے باہر مبلغ نہیں بھیجے جاسکتے مگر جنگ کے بعد بہت ضرورت ہوگی.فی الحال ہمیں ہندوستان میں ہی تبلیغ کے کام کو بڑھانا چاہئے اور باہر کا جو رستہ بند ہو چکا ہے اس کا کفارہ یہاں ادا کرنا ضروری ہے پس کیوں نہ ہم یہاں اتنازور لگائیں کہ جماعت میں ترقی کی رفتار سوائی یا ڈیوڑھی ہو جائے اور دو تین سال میں ہی جماعت دوگنی ہو جائے.جب تک ترقی کی یہ رفتار نہ ہو کامیابی نہیں ہو سکتی.ہمارے سامنے بہت بڑا کام ہے، پونے دو ارب مخلوق ہے جس سے ہم نے صداقت کو منوانا ہے اور جب تک باہر کے راستے بند ہیں ہندوستان میں ہی کیوں نہ کوشش زیادہ کی جائے“.(انوار العلوم جلد 16 ص 286)
123 اس مقصد کے مد نظر حضور نے 6 اکتوبر 1942 ء کے خطبہ جمعہ میں ہندوستان کے چپہ چپہ تک پیغام احمدیت پہنچانے کے لئے تبلیغ کی نہایت اہم تحریک فرمائی جس کے دو حصے تھے.اوّل:.غیر احمدی علماء، امراء اور مشائخ کے نام خطبہ نمبر "الفضل اور سن رائز“ کے ہزار ہزار پرچے جاری کرائے جائیں.دوم:.ملک کے بااثر اور مقتدر طبقہ کو خطوط کے ذریعے بھی بار بار تبلیغ کی جائے.تبلیغ کی اس نئی تحریک کی تفصیلات پر حضور نے مندرجہ ذیل الفاظ میں روشنی ڈالی.سر دست ضرورت ہے کہ ایک حد تک اس طبقہ میں جو علماء اور روساء اور امراء یا پیروں اور گدی نشینوں کا طبقہ ہے اُس تک باقاعدہ سلسلہ کا لٹریچر بھیجا جائے "الفضل“ کا خطبہ نمبر یا انگریزی دان طبقہ تک سن رائز، جس میں میرے خطبہ کا انگریزی ترجمہ چھپتا ہے با قاعدہ پہنچایا جائے.تمام ایسے لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے جو عالم ہیں یا امراء روسا یا مشائخ میں سے ہیں اور جن کا دوسروں پر اثر و رسوخ ہے اور اس کثرت سے اُن کو بھیجیں کہ وہ تنگ آکر یا تو اس طرف توجہ کریں اور یا مخالفت کا بیڑہ اٹھائیں اور اس طرح تبلیغ کے اس طریق کی طرف آئیں جسے آخر ہم نے اختیار کرنا ہے.لٹریچر اور الفضل“ کا خطبہ نمبر یا سن رائز بھیجنے کے علاہ ایسے لوگوں کو خطوط کے ذریعے بھی تبلیغ کی جائے اور بار بارا ایسے ذرائع اختیار کر کے اُن کو مجبور کر دیں کہ یاوہ صداقت کی طرف توجہ کریں اور تحقیق کرنے لگیں اور یا پھر مخالفت شروع کر دیں.مثلاً ایک چٹھی بھیج دی.پھر کچھ دنوں کے بعد اور بھیجی پھر کچھ انتظار کے بعد اور بھیج دی جس طرح کوئی شخص کسی حاکم کے پاس فریاد کرنے کے لئے اُسے چٹھی لکھتا ہے مگر جواب نہیں آتا تو اور لکھتا ہے پھر وہ توجہ نہیں کرتا تو ایک اور لکھتا ہے.حتیٰ کہ وہ افسر توجہ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے.پس تکرار کے ساتھ علماء اور امراء ورؤساء ،مشائخ نیز راجوں مہاراجوں نوابوں اور بیرونی ممالک کے بادشاہوں کو بھی چٹھیاں لکھی جائیں.اگر کوئی شکر یہ ادا کرے تو اس بات پر خوش نہ ہو جائیں اور پھر لکھیں کہ ہمارا مطلب یہ ہے کہ آپ اس کی طرف توجہ کریں.جواب نہ آئے تو پھر چند روز کے بعد اور لکھیں کہ اس طرح آپ کو خط بھیجا گیا تھا مگر آپ کی طرف سے اس کا کوئی جواب نہیں آیا.پھر کچھ دنوں تک انتظار کے بعد اور لکھیں حتی کہ یا تو وہ بالکل ایسا ڈھیٹ ہو کہ اُس کے دل پر مہر لگی ہوئی ہے اور اس کی طرف سے اس کی سیکرٹری کا جواب آئے کہ تم لوگوں کو کچھ تہذیب نہیں بار بار دق کرتے ہو.راجہ صاحب یا پیر صاحب نے خط پڑھ لیا اور وہ جواب دینا نہیں چاہتے اور یا پھر اس کی
124 طرف سے جواب آئے کہ آؤ جو سُنانا چاہتے ہو سنا لو.اس رنگ میں تبلیغ کے نتیجہ میں کچھ لوگ غور کے لئے تیار ہو جائیں گے.مگر اس وقت تو یہ حالت ہے کہ غور کرتے ہی نہیں.پس اب اس رنگ میں کام شروع کرنا چاہئے اس کے لئے ضرورت ہے ایسے مخلص کارکنوں کی جو اپنا وقت اس کام کے لئے دے سکیں.بہت سی چٹھیاں لکھنی ہوں گی.چٹھیاں چھپی ہوئی بھی ہوسکتی ہیں مگر پھر بھی ان کو بھیجنے کا کام ہوگا.اگر جواب آئے تو اُن کا پڑھنا اور پھر اُن کے جواب میں بعض چٹھیاں دستی بھی لکھنی پڑیں گی.بعض چٹھیوں کے مختلف زبانوں میں تراجم کرنے ہوں گے اور یہ کافی کام ہوگا.اس کے لئے جن دوستوں کو اللہ تعالیٰ توفیق دے وہ اس کام میں مدد کریں.پھر جو دوست الفضل“ کا خطبہ نمبر اور سن رائز دوسروں کے نام جاری کرا سکیں وہ اس رنگ میں مدد کریں.امداد دینے والے دوست اپنے نام میرے سامنے پیش کریں میں خود تجویز کروں گا کہ کن لوگوں کے نام یہ پرچے جاری کرائے جائیں.پھر اس سلسلہ میں اور جو دوست خدمت کے لئے اپنا نام پیش کرنا چاہیں وہ بھی کر دیں.ان کے ذمہ کام لگا دیئے جائیں گے.مثلاً یہ کہ فلاں قسم کے خطوط فلاں کے پاس جائیں اور اُن کے جواب بھی وہ لکھیں.اس کام کی ابتداء کرنے کے لئے میں نے ایک خط لکھا ہے جو پہلے اردو اور انگریزی میں اور اگر ضرورت ہوئی تو دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ کرا کے دنیا کے بادشاہوں اور ہندوستان کے راجوں مہاراجوں کی طرف بھیجا جائے گا.اس قسم کے خطوط بھی وقتا فوقتا جاتے رہیں.مگر اصل چیز ”الفضل“ کا خطبہ نمبر یا سن رائز“ ہے جو ہر ہفتہ اُن کو پہنچتا رہے اور چونکہ خطبہ کے متعلق مسنون طریق یہی ہے کہ وہ اہم امور پر مشتمل ہو اس لئے اس میں سب مسائل پر بحشیں آجاتی ہیں.اس میں سلسلہ کے مسائل بھی ہوتے ہیں.جماعت کو قربانی کی طرف بھی توجہ دلائی جاتی ہے اور مخالفوں کا ذکر بھی ہوتا ہے اور اس طرح جس شخص کو ہر ہفتہ یہ خطبہ پہنچتا رہے احمدیت گویا ئنگی ہو کر اس کے سامنے آتی رہے گی اور وہ بخوبی اندازہ کر سکتا ہے کہ اس جماعت کی امنگیں اور آرزوئیں کیا ہیں کیا ارادے ہیں یہ کیا کرنا چاہتے ہیں.دشمن کیا کہتا ہے اور یہ کس رنگ میں اس کا مقابلہ کرتے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں؟ اگر اس رنگ میں کام شروع کیا جائے تو ایک شور مچ سکتا ہے.اگر دو ہزار آدمی بھی ایسے ہوں جن کے پاس ہر ہفتہ سلسلہ کا لٹریچر پہنچتا ہے تو بہت اچھے نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے.ان لوگوں کو چٹھیاں بھی جاتی رہیں اور ان سے پوچھا جائے کہ آپ ہمارا
125 لٹریچر مطالعہ کرتے ہیں یا نہیں؟ اگر کوئی کہے نہیں تو اس سے پوچھا جائے کیوں نہیں؟ یہ پوچھنے پر بعض لوگ لڑیں گے اور یہی ہماری غرض ہے کہ وہ لڑیں یا سوچیں.جب کسی سے پوچھا جائے گا کیوں نہیں پڑھتے تو وہ کہے گا کہ یہ پوچھنے سے تمہارا کیا مطلب ہے تو ہم کہیں گے کہ یہ پوچھنا ضروری ہے کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کی آواز ہے جو آپ تک پہنچائی جارہی ہے.اس پر وہ یا تو کہے گا سنا لو اور یا پھر کہے گا کہ میں نہیں مانتا اور جس دن کوئی کہے گا کہ جاؤ میں نہیں مانتا اسی دن سے وہ خدا تعالیٰ کا مد مقابل بن جائے گا اور ہمارے رستہ سے اُٹھا لیا جائے گا جن لوگوں تک یہ آواز ہم پہنچائیں گے اُن کے لئے دو ہی صورتیں ہوں گی یا تو ہماری جو رحمت کے فرشتے ہیں سنیں اور یا پھر ہماری طرف سے منہ موڑ کر خدا تعالیٰ کے عذاب کے فرشتوں کی تلوار کے آگے کھڑے ہو جائیں.مگر اب تو یہ صورت ہے کہ نہ ہمارے سامنے ہیں اور نہ ملائکہ عذاب کی تلوار کے سامنے بلکہ آرام سے اپنے گھروں میں بیٹھے ہیں.نہ تو وہ خدا تعالیٰ کی تلوار کے سامنے آتے ہیں کہ وہ انہیں فنا کر دے اور نہ اس کی محبت کی آواز کو سنتے ہیں کہ ہدایت پا جائیں.اب تو ایک ایسی چیز ہیں جو اپنے مقام پر کھڑی ہے اور وہاں سے ہلتی نہیں.لیکن نئی تعمیر کے لئے یہ ضروری ہے کہ اُسے وہاں سے ہلایا جائے.یا تو وہ ہماری طرف آئے اور یا اپنی جگہ سے ہٹ جائے“.الفضل 22 اکتوبر 1942 ء ص 4,5) اس ضمن میں حضور نے اپنے ایک دوسرے خطبہ میں ان اخبارات کو اور ان کے متعلقہ محکموں کو ہدایت فرمائی کہ وہ اپنے پرچوں کو زیادہ سے زیادہ مکمل اور دلچسپ بنانے کی کوشش کریں اور مواد اس طرح مرتب کریں کہ اسلام اور احمدیت کا صحیح نقشہ پڑنے والوں کے سامنے آجائے اور ساتھ ہی اہل قلم اصحاب کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ.وہ مختصر عبارتوں میں ایسے مضامین لکھیں جن سے یہ پرچے زیادہ دلچسپ اور زیادہ مفید بن سکیں اور لوگوں کی توجہ تبلیغ کی طرف کھینچ سکے.خالی دلچسپی بھی کوئی چیز نہیں.یہ تو بھانڈ پن ہی ہے.بلکہ دلچسپی کا مطلب یہ ہے کہ دین کے معاملات کو ایسی عمدگی اور خوبصورتی سے پیش کیا جائے کہ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل ہوں.قرآن کریم سے زیادہ دلچسپ کتاب اور کوئی نہیں ہو سکتی مگر اس میں کھیل تماشے کی کوئی بات نہیں.پھر بھی کا فریہ کہتے تھے کہ کانوں میں انگلیاں ڈال لو.خوب شور مچاؤ تا یہ کلام کا نوں میں نہ پڑے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ساحر اور قرآن کریم کو سحر کہتے تھے.یہ دلچسپی کی ہی بات ہے
126 اور اس کا مطلب یہی ہے کہ جو سنے اس پر ضرور اثر ہوتا ہے بشرطیکہ اس کے دل میں خدا کا خوف ہو.(الفضل 5 نومبر 1942 ء ) حضرت خلیفة المسیح اثانی رضی اللہ عنہ کی دوسری تحریکوں کی طرح یہ تحریک بھی کامیاب رہی اور مخلصین جماعت نے چند ہفتوں کے اندراندر الفضل اور سن رائز کے پرچوں کے لئے مطلوبہ رقم پیش کر دی.اسی طرح کئی احمدی خطوط کے ذریعے تبلیغ کرنے کی مہم میں شامل ہو گئے.اس تحریک کے بہت عمدہ اور خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے.( الفضل 2 دسمبر 1942ء) ہندوستان میں سات مراکز بنانے کی تحریک حضرت سید نالمصلح الموعود نے ملک میں تبلیغ کو وسیع پیمانے پر شروع کرنے کے لئے 21 جولائی 1944ء کو تحریک فرمائی کہ ہندوستان کے سات مقامات یعنی پیشاور ، کراچی، مدراس، بمبئی ، کلکتہ، دہلی اور لاہور میں تبلیغی مراکز قائم کئے جائیں.اس تحریک کے مطابق چند ماہ کے اندر اندر بمبئی ، کلکتہ اور کراچی میں با قاعدہ مشن کھول دیئے گئے.(الفضل4 اگست 1944ء ص1) پھر حضور نے ان مقامات پر قیام مساجد کی تحریک فرمائی.کراچی میں عرصہ ہوا کہ حضور پہلے ہی چار کنال زمین خرید چکے تھے.اس تحریک کے مطابق پہلے ہی سال دہلی کی جماعت نے تمہیں ہزار روپے کے وعدے پیش کئے.(الفضل یکم جنوری 1945ء) نکل کھڑے ہوں سید نام مصلح الموعودؓ نے یکم مئی 1944ء کو جماعت کے سامنے تحریک فرمائی کہ دنیا میں تبلیغ اسلام کے لئے ہزاروں مبلغوں کی ضرورت ہے.یہ ضرورت صرف اس طرح پوری ہوسکتی ہے کہ احمدی بدھ بھکشوؤں اور حضرت مسیح کے حواریوں کی طرح قریہ قریہ بستی بستی میں نکل کھڑے ہوں.چنانچہ فرمایا :.دنیا میں تبلیغ کرنے کے لئے ہمیں ہزاروں مبلغوں کی ضرورت ہے.مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ مبلغ کہاں سے آئیں اور ان کے اخراجات کون برداشت کرے میں نے بہت سوچا ہے مگر بڑے غور وفکر کے بعد سوائے اس کے اور کسی نتیجہ پر نہیں پہنچا کہ جب تک وہی طریق اختیار نہیں کیا جائے گا
127 جو پہلے زمانوں میں اختیار کیا گیا تھا اس وقت تک ہم کامیاب نہیں ہو سکتے...حضرت مسیح ناصری نے اپنے حواریوں سے کہا کہ تم دنیا میں نکل جاؤ اور تبلیغ کرو.جب رات کو وقت آئے تو جس بستی میں تمہیں ٹھہر نا پڑے اس بستی کے رہنے والوں سے کھانا کھاؤ اور پھر آگے چل دو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی حکمت سے یہ بات امت کو سکھائی ہے.آپ نے فرمایا ہر بستی پر باہر سے آنے والے کی مہمان نوازی تین دن فرض ہے.ایک صحابی نے عرض کیا.یا رسول اللہ اگر بستی والے کھانا نہ کھلا ئیں تو کیا کیا جائے ؟ آپ نے فرمایا تم زبر دستی ان سے لے لو.گویا ہمارا حق ہے کہ ہم تین دن ٹھہریں اور بستی والوں کا فرض ہے کہ وہ تین دن کھانا کھلائیں.میں سمجھتا ہوں اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ کے طریق کی طرف اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے.اگر تم کسی بستی سے تین دن کھانا کھاتے ہو تو یہ بھیک نہیں.ہاں اگر تین دن سے زائد ٹھہر کر تم ان سے کھانا مانگتے ہو تو یہ بھیک ہوگی.اگر ہماری جماعت کے دوست بھی اسی طرح کریں کہ وہ گھروں سے تبلیغ کے لئے نکل کھڑے ہوں.ایک ایک گاؤں اور ایک ایک بستی اور ایک ایک شہر میں تین تین دن ٹھہرتے جائیں اور تبلیغ کرتے جائیں.اگر کسی گاؤں والے لڑیں تو جیسے حضرت مسیح ناصری نے کہا تھا وہ اپنے پاؤں سے خاک جھاڑ کر آگے نکل جائیں تو میں سمجھتا ہوں تبلیغ کا سوال ایک دن میں حل ہو جائے.دیہاتی مبلغین کی تحریک الفضل 21 دسمبر 1944 ء ص 4) حضور نے جلسہ سالانہ 1944 ء پر فرمایا:.اس سال پندرہ دیہاتی مبلغ تیار کئے گئے ہیں ان کو قرآن کریم کا ترجمہ موٹے موٹے دینی مسائل اور طب وغیرہ کی تعلیم دی گئی ہے.ان کے علاقے بھی مقرر کر دیئے گئے ہیں.تین ضلع سیالکوٹ میں، تین ضلع گورداسپور، دو ضلع لاہور، دو ضلع سرگودھا، ایک ضلع ملتان ، ایک ضلع کرنال ، ایک ضلع امرتسر اور دو ضلع گوجر انوالہ میں لگائے گئے ہیں.یہ سکیم میں پہلے شائع کر چکا ہوں.میرا انشاء یہ ہے کہ دس پندرہ یا میں دیہات کے لئے ایک مبلغ مقرر کیا جائے.یوں تو بہت سے دیہاتی مبلغین کی ضرورت ہے اگر
128 صرف ان مقامات پر ہی دیہاتی مبلغ رکھے جائیں جہاں جماعتیں ہیں تو بھی آٹھ سو جماعتیں ہیں.اگر ہر دیہاتی مبلغ کا حلقہ چار چار جماعتوں پر پھیلا ہوا ہو تو بھی دوسو دیہاتی مبلغ درکار ہوں گے.لیکن اگر دوسو دیہاتی مبلغ بھی مہیا کئے جائیں تو اُن پر سوالاکھ روپیہ خرچ ہو گا.اگر ہر مبلغ کا خرچ پچاس روپیہ بھی سمجھ لیا جائے تو اس کے معنی ہوں گے دس ہزار روپیہ ماہوار.یعنی ایک لاکھ بیس ہزار روپیہ سالانہ.مگر ابھی ہم اتنا خرچ برداشت نہیں کر سکتے اس لئے میری تجویز ہے کہ فی الحال پچاس تیار کئے جائیں.اس کے لئے بھی بیس سے تمیں سال تک کی عمر کے نوجوان جن کی تعلیم مڈل کے درجہ تک ہوا اپنے نام پیش کریں.چالیس سال تک کی عمر کے وہ لوگ بھی لئے جاسکتے ہیں جو اس کام کے لئے (انوار العلوم جلد 17 ص 492 ) موزوں سمجھے جائیں.وو ستیارتھ پرکاش“ کے مکمل جواب کی سکیم 1944ء حضرت سید نام مصلح الموعود نے یہ فیصلہ فرمایا کہ آریہ سماج کے بانی دیانند سرسوتی کی کتاب ستیارتھ پرکاش کا مکمل جواب شائع کیا جائے.چنانچہ حضور 1944ء کو مجلس عرفان میں رونق افروز ہوئے اور ملک فضل حسین صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے ارشا د فر مایا:.”میرے دل میں تحریک پیدا ہوئی ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ستیارتھ پرکاش کا مکمل جواب لکھا جائے.اس وقت تک اس کے جس قدر جواب دیئے گئے ہیں وہ سب دفاعی رنگ رکھتے ہیں.زیادہ تر لوگوں نے ستیارتھ پر کاش کے چودھویں باب کو اپنے سامنے رکھا ہے اور اسی کا جواب دینے کی کوشش کی ہے.ضرورت ہے کہ ستیارتھ پرکاش کے پہلے باب سے شروع کر کے آخر تک مکمل جواب لکھا جائے اور اس جواب میں صرف دفاعی رنگ نہ ہو بلکہ دشمن پر حملہ بھی کیا جائے.کیونکہ دشمن اس وقت تک شرارت سے باز نہیں آتا جب تک اس کے گھر پر حملہ نہ کیا جائے.اس کا طریق تو یہ ہے کہ ستیارتھ پرکاش کے جتنے نسخے شروع سے لے کر اب تک چھپے ہیں ان سب کو جمع کی جائے اور پھر ان نسخوں میں جو جو اختلافات ہیں یا جہاں جہاں آریوں نے ستیارتھ پر کاش میں تبدیلیاں کی ہیں وہ سب اختلافات واضح کئے جائیں اور کتاب کا ایک باب اس غرض کے لئے مخصوص کر دیا جائے.گویا ایک باب ایسا ہو جس کا عنوان مثلا یہی ہو کہ ستیارتھ پر کاش میں تبدیلیاں اور پھر بحث کی جائے کہ آریوں
129 نے اس میں کیا کیا تبدیلیاں کی ہیں.پھر جہاں جہاں وہ بہانے بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کا تب کی غلطی سے ایسا ہو گیا.وہاں بھی بحث کر کے واضح کیا جائے کہ یہ کتابت کی غلطی ہو ہی نہیں سکتی.پھر پنڈت دیا نند نے علمی طور پر ہندو مذہب کے متعلق جو باتیں لکھی ہیں ان کے متعلق ویدوں اور ہندؤں کی پرانی کتابوں سے یہ ثابت کیا جائے کہ پنڈت جی کا بیان غلط ہے.اس طرح ستیارتھ پرکاش کے ہر باب میں جو کوتاہیاں یا غلطیاں پائی جاتی ہیں، الف سے لے کر ی تک ان سب کو واضح کیا جائے.اسلام پر جو حملہ کئے گئے ہیں ان کا بھی ضمنی طور پر جواب آجانا چاہئے.اس طرح ستیارتھ پرکاش کے رد میں ایک مکمل کتاب لکھی جائے جو کم سے کم آٹھ سو صفحات کی ہو اور جس طرح ستیارتھ پرکاش ایک معیاری کتاب کے طور پر پیش کی جاتی ہے اس طرح یہ کتاب نہایت محنت سے معیاری رنگ میں لکھی جائے.بعد میں ہر زبان میں اس کتاب کا ترجمہ کر کے تمام ہندوستان میں پھیلائی جائے.آپ اس کے لئے ڈھانچہ تیار کریں اور مجھ سے مشورہ لیں اور پھر میرے مشورہ اور میری ہدایات کے مطابق یہ کتاب لکھی جائے.پہلا باب مثلاً اس کتاب کی تاریخ پر مشتمل ہونا چاہیئے دوسرے باب میں ستیارتھ پر کاش کے پہلے باب کا جواب دیا جائے اور بتایا جائے کہ اس میں کیا کیا غلطیاں ہیں یا اگر ہم ان باتوں کو ہندومذہب کے لحاظ سے تسلیم کر لیں تو پھر ان پر کیا کیا اعتراض پڑتے ہیں.اس طرح شروع سے لے کر آخر تک تمام کتاب کا مکمل جواب لکھا جائے.(الفضل کم جنوری 1945 میں 4 کالم 1) اس سکیم کے مطابق حضرت سیدنا اصلح الموعود نے اس کتاب کے مختلف ابواب پروفیسر ناصرالدین عبداللہ صاحب، مہاشہ محمد عمر صاحب اور مہاشہ فضل حسین صاحب میں بغرض جواب تقسیم فرما دیئے.لمصل چودھویں باب کی نسبت حضور نے فیصلہ فرمایا کے اس کا جواب خود تحریر فرمائیں گے.جماعت احمدیہ کے ان سنسکرت دان علماء نے حضرت سید نا صلح الموعودؓ کی ہدایت اور نگرانی میں ماہ جنوری 1948ء میں قریباً سات، آٹھ ابواب کا جواب مکمل کر لیا.چنانچہ حضور نے 2 فروری 1945ء کے خطبہ جمعہ میں بتایا کہ : میں نے ستیارتھ پرکاش کا جواب شائع کرنے کا اعلان کیا تھا.چنانچہ اس کا جواب قریباً سات آٹھ بابوں کا ہو چکا ہے اور بقیہ تیار ہو رہا ہے.جونو جوان اس کام کو کر رہے ہیں مجھے خوشی ہے کہ وہ نت کے ساتھ کر رہے ہیں اور مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ ہماری جماعت میں ایسے نوجوان پیدا
130 ہور ہے ہیں جو ہندو لٹریچر کو اس کی اپنی زبان میں پڑھ کر غور کر سکتے ہیں.اس کام کے لئے میں نے مولوی ناصر الدین صاحب عبداللہ اور مہاشہ محمد عمر صاحب اور مہاشہ فضل حسین صاحب کو مقرر کیا ہوا ہے اور یہ تینوں بہت جانفشانی سے اس کام میں لگے ہوئے ہیں اور میں سر دست ایڈیٹنگ کرتا ہوں.وہ نوٹ لکھ کر مجھے دے دیتے ہیں اور میں جرح کر کے واپس بھیج دیتا ہوں.پھر وہ اصل مضمون لکھ کر بھیج دیتے ہیں اور میں اسے دیکھ لیتا ہوں.اس میں میرا اپنا کام صرف اتنا ہی ہے کہ جو دلائل کمزور ہوں ان کی طرف انہیں توجہ دلا دیتا ہوں کہ یہ دلائل کمزور ہیں یا تمہارا یہ اعتراض ان معنوں پر پڑتا ہے اور ان معنوں پر نہیں پڑتا یا یہ کہ بعض دفعہ ان کی عبارتوں میں جوش ہوتا ہے کیونکہ ستیارتھ پر کاش میں سخت سخت حملے کئے گئے ہیں اس لئے اس کا جواب دیتے وقت جذبات کو روکنا مشکل ہوتا ہے.اس لئے میں اس بات کی بھی نگرانی کرتا ہوں کہ ایسے سخت الفاظ استعمال نہ کئے جائیں جن سے کسی کی دل شکنی ہو.یا اس بات کو بھی مدنظر رکھتا ہوں کہ یہ کتاب آریہ سماج کی ہے.لیکن ہمارے نو جوان بعض دفعہ نا تجربہ کاری کی وجہ سے اس بات کو بھول کر کہ ہمارے مخاطب تمام ہندو نہیں بلکہ صرف آریہ سماجی ہیں مضمون زیر بحث میں سناتن دھرم کی بعض باتوں کی بھی تردید شروع کر دیتے ہیں تو میں اس بات میں بھی ان کی نگرانی کرتا ہوں کہ وہ صرف آریہ سماج کو ہی مخاطب کریں اور ایسی باتوں کا ذکر نہ کریں جو براہ راست ویدوں یا سناتن دھرم کے لٹریچر کے متعلق ہوں جس حد تک میرے پاس مضمون آچکا ہے اور غالبا اکثر آچکا ہے اس کو دیکھ کر میں نے اندازہ لگایا ہے کہ بہت محنت اور جانفشانی سے لکھا گیا ہے.(الفضل 8 فروری 1945 ء ) افسوس ! تقسیم ہند کی وجہ سے ستیارتھ پر کاش کے جواب کی یہ کوشش درمیان ہی میں رہ گئی.ظلم کے سد باب کے لئے تبلیغ کی تحریک دوسری جنگ عظیم ابھی پورے زور شور سے جاری تھی کہ حضرت سید نالمصلح الموعود نے 29 ستمبر 1944 ء کو ایک خاص خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں بتایا کہ جنگ کے بعد دنیا پھر ایک ظلم کا بیج بونے والی ہے.ہمیں اس غلطی کو واضح کرنے اور دین کو پھیلانے میں دیوانہ وار مصروف ہو جانا چاہئے.حضور نے جماعت احمدیہ کے ہر فرد کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:.
131 بالکل ممکن ہے اگر فاتح مغربی اقوام جرمنی اور جاپان سے اچھوتوں والا سلوک کریں تو گو جرمنی اور جاپان سے یہ تو میں ذلت نہ اُٹھا ئیں مگر اس ظلم کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ بعض اور قومیں کھڑی کر دے جن کا مقابلہ ان کے لئے آسان نہ ہو.پس دنیا پھر خدانخواستہ ایک غلطی کرنے والی ہے.پھر خدا نخواستہ ایک ظلم کا بیج بونے والی ہے.پھر ایک ایسی حرکت کرنے والی ہے جس کا نتیجہ بھی اچھا پیدا نہیں ہوسکتا اور ہمارا فرض ہے کہ ہم خدا تعالیٰ سے دُعا کریں کہ وہ اس غلطی سے حاکم اقوام کو بچائے اور دوسری طرف ہمارا فرض ہے ہم دنیا کو اس غلطی سے آگاہ کریں اور تبلیغ کے متعلق زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھا ئیں.اس جنگ کے بعد کم سے کم دو ملک ایسے تیار ہو جائیں گے جو ہماری باتوں پر سنجیدگی اور متانت کے ساتھ غور کریں گے.یعنی جرمنی اور جاپان.یہ دو ملک ایسے ہیں جو ہماری باتیں سننے کے لئے تیار ہو جائیں گے.خصوصاً جرمنی ایک ایسا ملک ہے جو اس لحاظ سے خاص طور پر اہمیت رکھتا ہے.ہم ان لوگوں کے پاس پہنچیں گے اور انہیں بتائیں گے کہ دیکھو عیسائیت کتنی ناکام رہی کہ عیسائیت کی قریب دو ہزار سالہ آزادی کے بعد بھی تم غلام کے غلام رہے اور غلام بھی ایسے جن کی مثال سوائے پرانے زمانے کے اور کہیں نظر نہیں آسکتی.اس وقت ان کے دل اسلام کے طرف راغب ہوں گے اور ان کے اندر یہ احساس پیدا ہوگا کہ آؤ ہم عیسائیت کو چھوڑ کر اسلام پر غور کریں اور دیکھیں کہ اس نے ہمارے دکھوں کا کیا علاج تجویز کیا ہوا ہے.پس وہ وقت آنے والا ہے جب جرمنی اور جاپان دونوں کے سامنے ہمیں عیسائیت کی ناکامی اور اسلامی اصول کی برتری کو نمایاں طور پر پیش کرنا پڑے گا.اس طرح انگلستان اور امریکہ اور روس کے سمجھدار طبقہ کو ( اور کوئی ملک ایسے سمجھدار طبقہ سے خالی نہیں ہوتا ) دین کی تعلیم کی برتری بتا سکیں گے.مگر یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہماری طاقت منظم ہو جب ہماری جماعت کے تمام افراد زیادہ سے زیادہ قربانیاں کرنے کے لئے تیار ہوں جب کثرت سے مبلغین ہمارے پاس موجود ہوں اور جب ان مبلغین کے لئے ہر قسم کے سامان ہمیں میسر ہوں.الفضل 11 اکتوبر 1944 ء ص 7) مشہور زبانوں میں لٹریچر : حضور نے 20 اکتوبر 1944ء کو ترجمہ قرآن کریم کے ساتھ دوسرے تبلیغی لٹریچر کی اشاعت کی نہایت اہم سکیم رکھی اور اس غرض کے لئے 12 کتابوں کا سیٹ تجویز فرمایا جس کا دنیا کی آٹھ زبانوں
132 میں ترجمہ ہونا ضروری تھا.ان بارہ کتابوں میں سے نو یہ تھیں.اسلامی اصول کی فلاسفی مسیح ہندوستان میں، احمدیت یعنی حقیقی اسلام، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح عمری ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سوانح، ترجمہ احادیث، پرانے اور نئے عہد نامہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پیشگوئیاں ، پرانے اور نئے عہد نامہ کی روشنی میں توحید، نظام نو.یہ سیٹ انگریزی ممالک کے لئے تھا.جہاں تک عربی ممالک کا تعلق ہے حضور کا منشاء تھا کہ اور قسم کا سیٹ تجویز ہونا چاہئے.اس کے علاوہ حضور نے نو زبانوں میں چھوٹے چھوٹے ٹریکٹوں اور اشتہارات کی اشاعت کا پر وگرام اس سکیم میں شامل کیا.اس عظیم الشان جد و جہد کا واحد مقصد یہ تھا کہ جونہی مادی اور سیاسی جنگ بند ہو تبلیغی اور روحانی جنگ کا آغاز کر دیا جائے.چنانچہ حضور نے فرمایا.لڑائی کا بگل تو جب اللہ تعالیٰ چاہے گا بجے گا.پریڈ کا بگل بجادیا گیا ہے اور چاہئے کہ اسلام کا درد رکھنے والوں میں یہ بگل ایک غیر معمولی جوش پیدا کرنے کا موجب ہو.وقت آگیا ہے کہ جن نوجوانوں نے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں وہ جلد سے جلد علم حاصل کر کے اس قابل ہو جائیں کہ انہیں اسلام کی جنگ میں اس طرح جھونکا جا سکے جس طرح تنور میں لکڑیاں جھونکی جاتی ہیں.اس جنگ میں وہی جرنیل کامیاب ہو سکتا ہے جو اس لڑائی کی آگ میں نوجوانوں کو جھونکنے میں ذرا رحم محسوس نہ کرے اور جس طرح ایک بھڑ بھونجا چنے بھونتے وقت آموں اور دوسرے درختوں کے خشک پتے اپنے بھاڑ میں جھونکتا چلا جاتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے اس کے دل میں ذرا بھی رحم پیدا نہیں ہوتا اسی طرح نو جوانوں کو اس جنگ میں جھونکتا چلا جائے.اگر بھاڑ میں پتے جھونکنے کے بغیر چنے بھی نہیں بھن سکتے تو اس قسم کی قربانی کے بغیر اسلام کی فتح کیسے ہو سکتی ہے؟ پس اس جنگ میں وہی جرنیل کامیابی کا منہ دیکھ سکے گا جو یہ خیال کئے بغیر کہ کس طرح ماؤں کے دلوں پر چھریاں چل رہی ہیں نوجوانوں کو قربانی کے لئے پیش کرتا جائے.موت اس کے دل میں کوئی رحم اور درد پیدا نہ کرے.اس کے سامنے ایک ہی مقصد ہو اور وہ یہ کہ اسلام کا جھنڈا اس نے دنیا میں گاڑنا ہے اور سنگدل ہو کر اپنے کام کو کرتا جائے.جس دن مائیں یہ سمجھیں گی کہ اگر ہمارا بچہ دین کی راہ میں مارا جائے تو ہمارا خاندان زندہ ہو جائے گا جس دن آپ یہ سمجھنے لگیں گے کہ اگر ہمارا بچہ شہید ہو گیا تو
133 وہ حقیقی زندگی حاصل کر جائے گا اور ہم بھی حقیقی زندگی پالیں گے وہ دن ہو گا جب محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو زندگی ملے گی“.( الفضل 20 مئی 1944ء) سندھیوں میں حلقہ تبلیغ وسیع کرنے کی تحریک حضرت مصلح موعودؓ نے 2 مارچ 1951ء کو ناصر آباد سندھ کے مقام پر ایک اہم خطبہ ارشاد فرمایا جس میں احمدی جماعتوں کو تحریک فرمائی کہ وہ صوبہ کے اصل باشندوں یعنی سندھیوں میں حلقہ تبلیغ کو وسیع کریں.چنانچہ فرمایا:.جب تک تم سندھیوں میں احمدیت کی تبلیغ نہیں کرتے یا جب تک تم ان کے ساتھ اس طرح مل جل نہیں جاتے کہ تمہارا تمدن بھی سندھی ہو جائے تمہارے کپڑے بھی سندھیوں جیسے ہو جائیں.تمہاری زبانیں بھی سندھی ہو جا ئیں اس وقت تک تمہاری حیثیت محض ایک غیر ملکی کی رہے گی.یہ کتنی واضح چیز ہے جو نظر آرہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کتنے آدمی ہیں جنہوں نے اس حقیقت پر کبھی غور کیا ہے.اس وقت بیرونی جماعتوں میں سے سوڈیڑھ سو آدمی یہاں آیا ہوا ہے اور ہم خوش ہیں کہ جماعت میں زندگی کے آثار پائے جاتے ہیں کہ ایک جنگل میں اتنے آدمی اکٹھے ہو گئے ہیں لیکن اگر ہم غور سے کام لیں تو یہ زندگی کے آثار ہیں کہ جس ملک میں ہم بیٹھے ہیں اسی ملک کے باشندے ہمارے اندر موجود نہیں.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے ہم انگلستان میں ایک بہت بڑا جلسہ کریں اور اس میں پاکستان کے پاکستانی، افریقہ کے حبشی، انڈونیشیا کے انڈونیشین ، سیلون کے سیلونی، برما کے برمی ، افغانستان کے افغان اور عرب ممالک کے عرب سب موجود ہوں لیکن انگلستان کا کوئی آدمی نہ ہو اور ہم بڑے خوش ہوں کہ ہمارا جلسہ نہایت کامیاب ہوا ہے.سوال یہ ہے کہ وہ جلسہ کیا کامیاب رہا جس میں اور ممالک کے لوگ تو موجود تھے اور انگلستان کا کوئی آدمی موجود نہ تھا.اس طرح تو ہم نے اپنے روپیہ کو ضائع ہی کیا کیونکہ جس ملک کے لوگوں پر ہم اپنا اثر پیدا کرنا چاہتے تھے اس ملک کا کوئی فرد اس میں موجود نہیں تھا.اس طرح ہم جب سندھ میں آئے تو سندھ کے لوگوں کی خاطر آئے ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم سندھیوں میں اپنی تبلیغ کے حلقہ کو وسیع کریں اور ان کو اپنے اندر زیادہ سے زیادہ تعداد میں شامل کریں.غرض اگر غور سے کام لیا جائے اور سوچنے کی عادت ڈالی جائے تو یہ چیز ہمارے سامنے آجاتی ہے اور
134 ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ در حقیقت اس صوبہ میں رہتے ہوئے ہم نے اپنی ذمہ داری کو سمجھا ہی نہیں.حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کے رہنے والوں کا حق پنجابیوں سے زیادہ ہے اور ہمارے لئے خوشی کا دن دراصل وہ ہوگا جب ہمارے جلسہ میں اگر پانچ سو آدمی ہوں تو ان میں سے چار سوسندھی ہوں اور ایک سو پنجابی ہوں.اگر ہم ایسا تغیر پیدا کر لیں تب بیشک یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم نے اپنے فرض کو الفضل 28 مارچ 1951ءص6) ادا کر دیا.
135 تحریک جدید وسعت اور جامعیت: خلفائے احمدیت کی تحریکات میں تحریک جدید کو ایک نمایاں اہمیت اور امتیاز حاصل ہے.اپنی وسعت اور جامعیت کے اعتبار سے یہ قریباً تمام تربیتی تبلیغی اور مالی تحریکات کا بہترین نچوڑ ہے.خاص طور پر تحریک جدید سے قبل سرزمین احمدیت میں دعوت الی اللہ کے جتنے چشمے پھوٹے رواں ہوئے ان سب کو تحریک جدید کی جھیل میں اکٹھا کر کے دعوت حق کی بیشمار نہریں جاری کی گئیں جو آج شاخ در شاخ دنیا کے ہر خطے میں پھیل گئی ہیں.اس کی کوکھ سے سینکڑوں نئی تحریکات نے جنم لیا.جن میں سے بعض اس کے اثرات کو چار دانگ عالم میں پھیلانے کے لئے تھیں اور بعض اس کے ثمرات کو سمیٹنے کے لئے تھیں.تاریخ احمدیت میں تحریک جدید اس پھل کی حیثیت رکھتی ہے جو اپنے سینے میں طاقتور بیج جمع کئے ہوئے ہے.جن سے نئے رسیلے پھل پیدا ہوتے ہیں جگہ جگہ ہوتے ہیں مگر بسا اوقات یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ یہ پھل کس پیج کا مرہون منت ہے.نظام وصیت کی ارہاص: تحریک جدید گو نظام وصیت کے ایک عرصہ بعد ظہور پذیر ہوئی لیکن دراصل یہ حضرت اقدس مسیح موعود کے قائم کردہ عالمی ابدی نظام کی ارباص ہے.کیونکہ تحریک جدید احمدیت میں داخل کرنے کا ایک دروازہ ہے جس کے ذریعہ نظام جماعت میں شامل ہونے والے نظام وصیت کا حصہ بنتے ہیں اور پھر تحریک جدید کے فیض سے دعوت الی اللہ میں حصہ لے کر نئے موصی پیدا کرتے ہیں.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.تحریک جدید کیا ہے وہ خدا تعالیٰ کے سامنے عقیدت کی یہ نیاز پیش کرنے کے لئے ہے کہ وصیت کے ذریعہ تو جس نظام کو دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے اس کے آنے میں ابھی دیر ہے اس لئے ہم تیرے حضور اس نظام کا ایک چھوٹا سا نقشہ تحریک جدید کے ذریعہ پیش کرتے ہیں تا کہ اس وقت تک کہ وصیت کا نظام مضبوط ہو اس ذریعہ سے جو مرکزی جائیداد پیدا ہو اس سے تبلیغ کو وسیع کیا جائے اور تبلیغ سے
136 وصیت کو وسیع کیا جائے غرض تحریک جدید گو وصیت کے بعد آتی ہے مگر اس کے لئے پیشرو کی حیثیت میں ہے.ہر وہ شخص جو تحریک جدید میں حصہ لیتا ہے وصیت کے نظام کو وسیع کرنے میں مدد دیتا ہے اور ہر شخص جو نظامِ وصیت کو وسیع کرتا ہے وہ نظام نو کی تعمیر میں مدد دیتا ہے.انوار العلوم جلد 16 صفحه 599 ، 600 ) تحریک جدید کا آغاز 1934ء میں ہوا اور اللہ تعالیٰ کی خاص تقدیروں کے تابع اس سے قبل شدید مخالفانہ ماحول پیدا ہوا تا کہ جماعت کے سینوں میں منہ زور جذ بے ابلنے لگیں جن کا رخ تحریک جدید کی لگام کے ذریعہ خدمت دین کی طرف موڑ دیا جائے اور جماعت کے جسم وروح کا ذرہ ذرہ شجر احمدیت کی آبیاری میں کھاد کا کام دے.یہ وہ زمانہ تھا جب تمام مذہبی جماعتیں مجلس احرار کی شکل میں اور تمام انتظامی طاقتیں انگریزی حکومت کی شکل میں اکٹھے ہو کر جماعت کے خلاف صف آراء ہو چکی تھیں اور چاروں سمتوں اورا و پر اور نیچے سے جماعت کو پیس دینے کا ارادہ کر چکی تھیں اور جماعت باز کے پنجوں میں ایک کمزور چڑیا کی طرح پھڑ پھڑا رہی تھی.ان لرزہ خیز حالات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعودؓ کے دل پر یہ تحریک نازل فرمائی جس نے دیکھتے دیکھتے طوفانوں کا رخ پھیر دیا اور کشتی احمدیت بھنور سے نکل کرنئی فتوحات کے سفر پر روانہ ہوگئی.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.تحریک جدید کے پیش کرنے کے موقع کا انتخاب ایسا اعلیٰ انتخاب تھا جس سے بڑھ کر اور کوئی اعلیٰ انتخاب نہیں ہو سکتا اور خدا تعالیٰ نے مجھے اپنی زندگی میں جو خاص کا میابیاں اپنے فضل سے عطا فرمائی ہیں ان میں ایک اہم کامیابی تحریک جدید کو عین وقت پر پیش کر کے مجھے حاصل ہوئی اور یقیناً میں سمجھتا ہوں جس وقت میں نے یہ تحریک کی وہ میری زندگی کے خاص مواقع میں سے ایک موقع تھا اور میری زندگی کی ان بہترین گھڑیوں میں سے ایک گھڑی تھی جبکہ مجھے اس عظیم الشان کام کی بنیا درکھنے کی توفیق (انوار العلوم جلد 14 ص 116)
137 تعین بنیادی حصے تحریک جدید بنیادی طور پر تین شقوں پر مشتمل ہے.1.جماعت اپنے کردار میں پاک تبدیلیاں پیدا کرے.جسد واحد بن جائے، تقویٰ کی بار یک را ہوں کو اختیار کرے اور خدا تعالیٰ کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار ہو جائے.2.جماعت سادہ زندگی اپنائے ، لغویات سے بچے اور تمام غیر ضروری اخراجات کم کر کے تبلیغ احمدیت کے لئے رقم فراہم کرے.3.جماعت تبلیغ کے لئے اٹھ کھڑی ہو.ہر فرد اپنے دائرہ میں داعی الی اللہ بن جائے نیز ہر قسم کے واقفین کی ضرورت ہے جو ممالک بیرون میں سلسلہ کا پیغام پہنچائیں.27 مطالبات اس سکیم کے ماتحت حضور نے مختلف اوقات میں 27 مطالبات جماعت کے سامنے رکھے جو مجموعی طور پر درج ذیل ہیں.(1) سادہ زندگی بسر کریں.2) امانت فنڈ تحریک جدید میں روپیہ جمع کروا ئیں.3) دشمن کے گندے لٹریچر کا جواب تیار کریں.4) دعوت الی اللہ ممالک بیرون میں حصہ لیں.(5) سکیم خاص دعوت الی اللہ میں مالی لحاظ سے حصہ لیں.(6) سروے میں حصہ لیں.7) وقف رخصت موسمی میں حصہ لیں.8) نوجوان خدمت دین کے لئے زندگیاں وقف کریں.9) رخصت کے ایام خدمت دین کے لئے وقف کریں.(10) صاحب پوزیشن مختلف جلسوں میں لیکچر دیں.(11) کم از کم پچیس لاکھ کا ایک مستقل ریز رو فنڈ قائم کریں.12) پنشنرز اصحاب اپنے آپ کو خدمت دین کے لئے پیش کریں.(13) طلباء کو تعلیم و تربیت کے لئے مرکز سلسلہ میں بھیجیں.(14) صاحب حیثیت لوگ اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں مشورہ طلب کریں.15) بیکار دنیا میں نکل جائیں، خود کمائیں اور کھائیں اور تبلیغ بھی کرتے رہیں.16) اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں.17) جولوگ بریکار ہیں وہ چھوٹے سے چھوٹا جو کام بھی مل سکے کریں.18) مرکز سلسلہ میں مکان بنوائیں یہ دنیا نہیں بلکہ دین
138 ہے.19) مقاصد تحریک جدید کی کامیابی کے لئے خاص طور پر دعائیں کریں.20) تمدن قرآنی کا قیام کریں.(21) قومی دیانت کا قیام کریں.(22) عورتوں کے حقوق کی حفاظت کریں.(23) راستوں کی صفائی کا خیال رکھیں.(24) احمد یہ دارالقضاء کا قیام کریں اور اس کے فیصلوں کی پابندی کریں.25) اپنی اولاد کو دین کے لئے وقف کریں.26) وقف جائیداد و آمد میں حصہ لیں.(27) ”حلف الفضول“ کی قسم کا معاہدہ کریں کہ ہم امانت ، عدل وانصاف کو قائم رکھیں گے.ان مطالبات کے متعلق حضور نے فرمایا: ان میں سے ہر ایک لمبے غور اور فکر کے بعد تجویز کیا گیا ہے اور ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو سلسلہ کی ترقی میں محمد نہ ہو ان میں سے ہر ایک ایسا بیج ہے جو بڑا ترقی پانے والا اور بہت بڑا درخت بننے والا ہے اور دشمنوں کو زیر کرنے والا ہے ان میں سے کوئی چیز بھی نظر انداز کرنے والی نہیں اور ایک بھی ایسی نہیں کہ اس کے بغیر ہماری ترقی کی عمارت مکمل ہو سکے.( الفضل 9 دسمبر 1934 ء ) مالی قربانی مقاصد تحریک جدید کی تکمیل کے لئے حضور نے جماعت سے مالی قربانی کی اپیل کی اور اس کی ابتدائی طور پر وضاحت کرتے ہوئے فرمایا.1.گندہ لٹریچر جو ہمارے خلاف شائع ہو رہا ہے اس کا جواب دیا جائے یا اپنا نقطہ نگاہ احسن طور پر لوگوں تک پہنچایا جائے اور وہ روکیں جو ہماری ترقی کی راہ میں ہیں انہیں دور کیا جائے...اس کام کے واسطے تین سال کے لئے پندرہ ہزار روپے کی ضرورت ہوگی.2.قوم کو مصیبت کے وقت پھیلنے کی ضرورت ہوتی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو کہتا ہے مکہ میں اگر تمہارے خلاف جوش ہے تو کیوں باہر نکل کر دوسرے ملکوں میں نہیں پھیل جاتے اگر باہر نکلو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری ترقی کے بہت سے راستے کھول دے گا.اس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ حکومت میں بھی ایک حصہ ایسا ہے جو ہمیں کچلنا چاہتا ہے اور رعایا میں بھی.کیا معلوم کہ ہماری مدنی زندگی کی ابتداء کہاں سے ہوتی ہے.قادیان بیشک ہمارا مذہبی مرکز ہے لیکن ہمیں کیا معلوم کہ ہماری شوکت و طاقت کا مرکز کہاں ہے.یہ ہندوستان کے کسی اور شہر میں بھی ہو سکتا ہے اور چین، جاپان ، فلپائن،
139 سماٹرا، جاوا، روس، امریکہ غرضیکہ دنیا کے کسی ملک میں ہوسکتا ہے.میری تجویز ہے کہ دو دو آدمی تین نئے ممالک میں بھیجے جائیں.ان میں سے ایک ایک انگریزی دان ہو اور ایک ایک عربی دان.سب سے پہلے تو ایسے آدمی تلاش کئے جائیں جو کچھ حصہ خرچ کا لے کر حسب ہدایت کام کریں.مثلاً صرف کرایہ لے لیں.آگے خرچ کچھ نہ مانگیں.یا کرایہ خود ادا کریں.خرج سات ماہ کے لئے ہم سے لے ں...اس تحریک کے لئے خرچ کا اندازہ میں نے دس ہزار روپے لگایا ہے.3 تبلیغ کی ایک سکیم میرے ذہن میں ہے جس پر سوروپیہ ماہوار خرچ ہوگا.4.پانچ آدمی بھیج کر ملک کی تبلیغی سروے کرائی جائے.ان کی تنخواہ اور سائیکلوں وغیرہ کی مرمت کا خرچ ملا کر سوروپیہ ماہوار ہو گا اور اس طرح کل رقم جس کا مطالبہ ہے ، ساڑھے ستائیس ہزار بنتی ہے.( خطبات محمود جلد 15 صفحہ 432 تا 436) اس تحریک کی تمام شقوں پر جماعت نے حیرت انگیز طور پر لبیک کہا اور ایک نئی زندگی پا کر دشمن کو انگشت بدنداں کر دیا.چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت سے تین سال کے عرصہ میں ساڑھے ستائیس ہزار روپے کی رقم مانگی اور اس نے پہلے سال ہی ڈیڑھ ماہ کے اندر اندر 29712 روپے نقد حضور کے قدموں میں لاکر رکھ دیئے.مجموعی طور پر اس سال جماعت کی طرف سے ایک لاکھ تین ہزار روپے وصول ہوئے.دوسرے سال وصولی ایک لاکھ دس ہزار تھی.تیسرے سال ایک لاکھ چالیس ہزار کی رقم وصول ہوئی گویا ساڑھے ستائیس ہزار روپے کے مطالبہ کے مقابل تین لاکھ تریپن ہزار روپے کی رقم پیش کی گئی.حضور نے جماعت کے اس جذ بہ قربانی پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا.” میں نے روپیہ کے متعلق جو تحریک کی تھی.اس کا جواب جو جماعت کی طرف سے دیا گیا ہے وہ اتنا خوش آئند ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے یہ خیال نہیں کیا جاسکتا کہ باقی حصہ سکیم میں جماعت کمزوری دکھلائے گی“.قادیان کی جماعت کے متعلق فرمایا: ( خطبات محمود جلد 16 ص5) ”قادیان کی جماعت سارے پنجاب کا دسواں حصہ ہے.لیکن ساڑھے ستائیس ہزار روپیہ کی تحریکات میں قادیان کی جماعت کی طرف سے پانچ ہزار روپیہ نقد اور وعدوں کی شکل میں آیا ہے.
140 اور یہ رقم صرف پہلے سال کے لئے تھی باقی دو سالوں کی رقم اس کے علاوہ ہے.ناقل ) دائمی تحریک الفضل 20 دسمبر 1935 ء ) تین سال کے بعد اس تحریک کو سات سال کے مزید عرصہ کے لئے بڑھا دیا گیا.گویا پہلے تین سالوں کو ملا کر یہ تحر یک دس سال کے لئے کر دی گئی.اس نئے دور کو سات سال تک کے عرصہ تک محدود رکھنے کے متعلق حضور نے فرمایا: قربانیاں کئی رنگ میں کرنی پڑتی ہیں.موجودہ مالی سکیم کو میں نے سات سال تک کے لئے مقرر کیا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ بعض پیشگوئیوں سے معلوم ہوتی ہے کہ 42،43 ء تک زمانہ ایسا ہے جس تک سلسلہ احمدیہ میں بعض مالی مشکلات جاری رہیں گی.اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کر دے گا کہ بعض قسم کے ابتلاء دور ہو جائیں گے اور اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے نشانات ظاہر ہو جائیں گے کہ جن کے نتیجہ میں بعض مقامات کی تبلیغی روکیں دور ہو جائیں گے اور سلسلہ احمد یہ ترقی کرنے لگ جائے گا“.حضور نے قربانی کے اس مطالبہ پر لبیک کہنے والوں کو ان الفاظ میں بشارت دی کہ حضرت مسیح موعود یہ دعا کر چکے ہیں کہ اے خدا وہ شخص جو میرے دین کی خدمت میں حصہ لے تو اس پر اپنے فضلوں کی بارش نازل فرما اور آفات اور مصائب سے اسے محفوظ رکھ پس وہ شخص جو اس تحریک میں حصہ لے گا اسے حضرت مسیح موعود کی دعا سے بھی حصہ ملے گا اور پھر وہ میری دعاؤں میں بھی حصہ دار ہو جائے گا“.( الفضل 4 دسمبر 1937ء) اس دس سالہ دور کے ختم ہونے پر حضور نے نہ صرف اس تحریک کو انہیں سال کے عرصہ تک بڑھا دیا.بلکہ ایک نئی پانچ ہزاری فوج کو بھی آگے آنے کے لئے ارشاد فرمایا.جو نئے سرے سے اس تحریک میں حصہ لے کر ایک دوسرے انیس سالہ دور کی بنیا در کھے.حضور نے ان کا حساب علیحدہ علیحدہ رکھنے کا ارشاد فرمایا.1953ء میں جب یہ انیس سالہ دور ختم ہوا تو حضور نے اس سکیم کو دائمی قرار دے دیا اور 27 نومبہ
141 1953ء کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا: تحریک جدید کے کام کو وسیع کرنے کے بعد خدا تعالیٰ نے میرا ذہن اس طرف پھیرا کہ تمہارے منہ سے جو عر صے بیان کروائے گئے تھے وہ محض کمزور لوگوں کو ہمت دلوانے کے لئے تھے.ورنہ حقیقتاً جس کام کے لئے تو نے جماعت کو بلایا تھا.وہ ایمان کا ایک جزو ہے اور ایمان کو کس حالت میں اور کسی وقت بھی معطل نہیں کیا جا سکتا.نیز حضور نے فرمایا: ”میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں تحریک جدید کو اس وقت تک جاری رکھوں گا جب تک کہ تمہارا سانس قائم ہے تا خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت صرف 19 سال تک محدود نہ رہے بلکہ وہ تمہاری ساری عمر تک چلتی چلی جائے اور جس کی ساری زندگی تک خدا تعالیٰ کے فضل اور انعام جاتے ہیں اس کے مرنے کے بعد بھی وہ اس کے ساتھ جاتے ہیں“.( صلح 11 دسمبر 1953ء ص 3،2) تحریک جدید کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ حضرت مسیح موعود کا وہ کشف بھی پورا ہو گیا جس میں حضور کو غلبہ حق کے لئے پانچ ہزار سپاہیوں پر مشتمل ایک فوج دی گئی تھی.فرماتے ہیں:.کشفی حالت میں اس عاجز نے دیکھا کہ انسان کی صورت پر دو شخص ایک مکان میں بیٹھے ہیں ایک زمین پر اور ایک چھت کے قریب بیٹھا ہے تب میں نے اس شخص کو جو زمین پر تھا مخاطب کر کے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے مگر وہ چپ رہا اور اس نے کچھ بھی جواب نہ دیا تب میں نے اس دوسرے کی طرف رخ کیا جو چھت کے قریب اور آسمان کی طرف تھا اور اسے میں نے مخاطب کر کے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے.وہ میری اس بات کو سن کر بولا کہ ایک لاکھ نہیں ملے گی مگر پانچ ہزار سپاہی دیا جائے گا تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر چہ پانچ ہزار تھوڑے آدمی ہیں پر اگر خدائے تعالیٰ چاہے تو تھوڑے بہتوں پر فتح پاسکتے ہیں.اس وقت میں نے یہ آیت پڑھی کم من فئة قليلة غلبت فئة كثيرة ـ پھر وہ منصور مجھے کشف کی حالت میں دکھایا گیا اور کہا گیا کہ خوشحال ہے خوشحال ہے مگر خدائے تعالیٰ کی کسی حکمت مخفیہ نے میری نظر کو اس کے پہچاننے سے قاصر رکھا لیکن امید رکھتا ہوں کہ کسی دوسرے وقت دکھا یا جائے.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 149) یہ کشف اس طرح پورا ہوا کہ تحریک جدید کے پہلے انیس سالہ دور ( 1934ء تا 1953 ء ) میں حصہ
142 لینے والے احباب پانچ ہزار کے لگ بھگ تھے.ان لوگوں کی قربانیاں احیائے دین کے لئے خاص اہمیت رکھتی ہیں.اس لئے حضور نے فرمایا: تحریک جدید کا جہاد کبیر وہ شان رکھتا ہے کہ اس میں اخلاص سے حصہ لینے والوں کو اللہ تعالیٰ اپنے قرب کا مقام عطا فرمائے گا کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خدا تعالیٰ کے دین کے احیاء کے لئے اور اس کے جھنڈے کے بلند رکھنے کے لئے اس میں حصہ لیا اور یہی وہ پانچ ہزاری فوج ہے جو حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی کے پورا کرنے میں حصہ پارہی ہے.ان پانچ ہزار احباب کے نام اور قربانیوں کو ہمیشہ زندہ رکھنے کے لئے جون 1959ء میں پانچ ہزاری مجاہدین کی مکمل فہرست شائع کی گئی.دفاتر کا قیام تحریک جدید کا آغاز 1934ء میں ہوا.پہلے دس سال تک جو اس کے چندہ دہندگان میں شامل ہوئے وہ دفتر اول میں شمار کئے گئے.1944ء میں دفتر دوم جاری ہوا اور نئے چندہ دینے والے اس دفتر میں شامل ہوتے رہے.اپریل 1966ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے دفتر سوم کا اجراء فرمایا اور ساتھ ہی فرمایا کہ اس کا اجراء یکم نومبر 1965ء سے شمار کیا جائے تا کہ یہ دفتر بھی حضرت مصلح موعودؓ کے عہد کی طرف منسوب ہو.25 اکتوبر 1985ء کو حضرت خلیفتہ اسیح الرابع نے دفتر چہارم کا اور حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 5 نومبر 2004ء کو دفتر پنجم کے اجراء کا اعلان کیا.2004ءکودفتر خلفاءسلسلہ نے مختلف وقتوں میں ان دفاتر کی ذمہ داری ذیلی تنظیموں پر ڈالی.چنانچہ دفتر اول اور چہارم مجلس انصارالله دفتر دومجلس خدام الاحمدیہ اور دفتر وم لجنہ اماءاللہ کے سپرد ہے.(الفضل 11 نومبر 1993ء) حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے خطبہ جمعہ 5 نومبر 1982ء میں تحریک فرمائی کہ دفتر اول اور دفتر دوم کو ہمیشہ زندہ رکھا جائے اور ان کی اولادیں ان کی طرف سے چندہ ادا کرتی رہیں.خطبات طاہر جلد اول ص 6-255 سید نا حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ نے بھی کئی دفع اس امر کی یاد دہانی کروائی اور آپ نے 3 نومبر 2006ء کو تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کرتے ہوئے یہ خوشخبری دی کہ دفتر اول کے تمام کھاتے جاری ہو چکے ہیں.(الفضل 12 دسمبر 2006ء)
143 تحریک جدید کے دیگر مطالبات پر جماعت کا رد عمل جماعت احمدیہ نے تحریک جدید کے مالی جہاد میں پُر جوش حصہ لینے کے علاوہ دوسرے مطالبات پر بھی شاندار طور پر لبیک کہا جس کا خلاصہ ذکر کیا جاتا ہے.مطالبہ سادہ زندگی کے تحت جماعت کے مخلصین نے کھانے ، لباس ، علاج اور سینما وغیرہ کے بارہ میں اپنے پیارے امام کی ہدایات کی نہایت سختی سے پابندی کی.کھانے کے تکلفات یکسر ختم کر دیے.بعض نے چندے زیادہ لکھوا دئیے اور دو دو تین تین سال تک کوئی کپڑے نہیں بنوائے.اکثر نوجوانوں نے سینما، تھیڑ ، سرکس وغیرہ دیکھنا چھوڑ دیا اور بعض جو کثرت سے اس کے عادی تھے اس سے نفرت کرنے لگے.الغرض حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی آواز نے جماعت میں دیکھتے ہی دیکھتے ایک زبردست انقلاب برپا کر دیا جو دوسرے لوگوں کی نگاہ میں ایک غیر معمولی چیز تھی.چنانچہ اخبار رنگین (امرتسر) کے سکھ ایڈیٹر ارجن سنگھ عاجز نے لکھا کہ: احمدیوں کا خلیفہ ان کی گھریلو زندگی پر بھی نگاہ رکھتا ہے اور وقتا فوقتا ایسے احکام صادر کرتا رہتا ہے جن پر عمل کرنے سے خوشی کی زندگی بسر ہو سکے.ترک خواہشات کی سپرٹ ان کے خلیفہ نے جس تدبر اور دانائی سے ان کے اندر پھونک دی ہے وہ قابل صد ہزار تحسین و آفرین ہے اور ہندوستان میں آج صرف ایک خلیفہ قادیان ہی ہے جو سر بلند کر کے یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کے لاکھوں مرید ایسے موجود ہیں جو اس کے حکم کی تعمیل کے لئے حاضر ہیں اور احمدی نہایت فخر سے کہتے ہیں کہ ان کا خلیفہ ایک نہایت معاملہ فہم ، دور اندیش اور ہمدرد بزرگ ہے جس نے کم از کم ان کی دنیاوی زندگی کو بہشتی زندگی بنا دیا ہے اور اس کے عالی شان مشوروں پر عمل کرنے سے دنیا کی زندگی عزت و آبرو سے کٹ سکتی ہے.(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 8 ص 42,41) ستمبر 1936 ء تک تیرہ سو احباب نے اپنی چھٹیاں ملک میں رضا کارانہ تبلیغ کے لئے وقف کیں اور شمالی اور وسطی ہند کے علاوہ جنوبی علاقہ مثلاً میسور، مدراس، کولمبو اور بمبئی میں بھی تبلیغی وفود نے کام کیا.ایسے اصحاب کو حضرت خلیفہ المسیح کی طرف سے تحریرات خوشنودی عطا کی جاتی تھیں.مولوی فاضل بی اے، ایف اے اور انٹرنس پاس قریباً دوسونو جوانوں نے اپنے آپ کو سہ سالہ
144 وقف کے لئے پیش کیا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے فرمایا: یہ قربانی کی روح کہ تین سال کے لئے دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا جائے اسلام اور ایمان کی رو سے تو کچھ نہیں.لیکن موجودہ زمانہ کی حالت کے لحاظ سے حیرت انگیز ہے..اس قسم کی مثال کسی ایک قوم میں بھی جو جماعت احمدیہ ے سینکڑوں گے زیادہ ہولانی محال ہے.کئی پنشنر حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے حکم کی تعمیل میں آگے آئے اور مرکز میں کام کرنے لگے مثلاً خانصاحب فرزند علی صاحب، بابوسراج دین صاحب خانصاحب برکت علی صاحب، ملک مولا بخش صاحب اور خان بہادر غلام محمد صاحب گلگتی و غیر ہم.حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے ایک خطبہ میں بھی ان کی خدمات کا خاص طور پر ذکر فرمایا.تحریک جدید کے تحت وقف زندگی کے مستقل نظام نے جنم لیا.جس کے تحت ہزاروں مستقل یا عارضی واقفین کل عالم میں خدمات بجالا رہے ہیں.حضور کے اس مطالبہ کے تحت کہ بریکار نوجوان باہر غیر ممالک میں نکل جائیں، کئی نوجوان اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے اور نا مساعد حالات کے باوجود غیر ممالک میں پہنچ گئے.چنانچہ حضرت خلیفہ ایچ نے شروع 1935ء میں بتایا کہ ایک نوجوان جالندھر سے پیدل چل کر 1500 میل دور رنگون پہنچ گیا اور اب سٹریٹ سیٹلمنٹس کی طرف جارہا ہے.(خطبات محمود جلد 17 صفحہ 26) پھر فرمایا: ایک نوجوان نے گزشتہ سال میری تحریک کو سنا.وہ ضلع سرگودھا کا باشندہ ہے.وہ نوجوان بغیر پاسپورٹ کے ہی افغانستان جا پہنچا اور وہاں تبلیغ شروع کر دی.حکومت نے اسے گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا تو وہاں قیدیوں اور افسروں کو تبلیغ کرنے لگا اور وہاں کے احمدیوں سے بھی وہیں واقفیت ہم پہنچالی اور بعض لوگوں پر اثر ڈال لیا.آخر افسروں نے رپورٹ کی کہ یہ تو قید خانہ میں بھی اثر پیدا کر رہا ہے.ملانوں نے قتل کا فتویٰ دیا.مگر وزیر نے کہا کہ یہ انگریزی رعایا ہے.اسے ہم قتل نہیں کر سکتے.آخر حکومت نے اپنی حفاظت میں اسے ہندوستان پہنچا دیا.اب وہ کئی ماہ کے بعد واپس آیا ہے.اس کی ہمت کا یہ حال ہے کہ میں نے اسے کہا کہ تم نے غلطی کی اور بہت ممالک تھے جہاں تم جاسکتے تھے اور.
145 (خطابات محمود جلد 16 ص758) وہاں گرفتاری کے بغیر تبلیغ کر سکتے تھے تو وہ فوراً بول اٹھا کہ اب آپ کوئی ملک بتادیں.میں وہاں چلا جاؤں گا.اس نوجوان کی والدہ زندہ ہے.لیکن وہ اس کے لئے بھی تیار تھا کہ بغیر والدہ کو ملے دوسرے کسی ملک کی طرف روانہ ہو جائے.ہاتھ سے کام کرنے کے مطالبہ پر جماعت کے افراد نے خاص توجہ دی.چنانچہ اس ضمن میں مدرسہ احمدیہ کے اساتذہ اور طلباء نے اولیت کا شرف حاصل کیا اور 13 دسمبر 1934 ء کو قادیان کے اندرونی حصہ سے ایک ہزار شہتیر یاں سالانہ جلسہ گاہ تک پہنچائیں.(الفضل 16 دسمبر 1934ء) 1936 ء سے اس مطالبہ کے تحت اجتماعی وقار عمل کا سلسلہ جاری کیا گیا اور اب جماعت کی پہچان بن چکا ہے.جہاں تک قادیان میں مکان بنانے کا تعلق تھا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے جماعت کے طرز عمل پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے شروع 1936 ء میں فرمایا: جماعت نے اس معاملہ میں بہت کچھ کام کیا ہے.چنانچہ اب دوسو مکان سالانہ خدا تعالیٰ کے فضل سے قادیان میں بن رہا ہے اور بہت سے دوست زمینیں بھی خرید رہے ہیں.جماعت احمد یہ اگر چہ ہمیشہ غلبہ اسلام کے لئے دعاؤں میں مصروف رہتی تھی مگر تحریک جدید کے مطالبات کے ضمن میں حضور نے جو خاص تحریک فرمائی اس کی بنا پر جماعت میں خاص جوش پیدا ہو گیا اور احباب جماعت نے خدا تعالیٰ کے سامنے جبین نیاز جھکانے میں خاص طور پر زور دینا شروع کیا اور نمازوں میں عاجزانہ دعاؤں کا ذوق و شوق پہلے سے بہت بڑھ گیا اور جماعت میں ایک نئی روحانی زندگی پیدا ہوگئی.جنوری 1935 ء سے لے کر نومبر 1935 ء تک صوبہ کے پانچ اضلاع کا مکمل تبلیغی سروے کیا گیا جو اپنی نوعیت کی جدید چیز تھی.(الفضل 20 نومبر 1935ء) یہ کام سائیکلوں کے ذریعہ سے کیا جاتا تھا.ابتداء میں چار سائیکل سوار بھجوائے گئے ایک کے پاس اپنی ذاتی سائیکل تھی.دوسائیکلیں ہدیہ اور ایک سائیکل دفتر نے خرید کی تھی.11 جنوری 1935ء کو حضور نے تحریک فرمائی کہ سولہ سائیکلوں کی فوری ضرورت ہے.اس پر جماعت نے اس کثرت سے سائیکلیں بھیج دیں کہ آئندہ سائیکل نہ بھجوانے کی ہدایت کرنا پڑی.اس معاملہ میں جماعت احمد یہ دہلی
146 سب جماعتوں پر سبقت لے گئی.نئے مراکز کا قیام: الفضل 24 جنوری، 14 فروری 1935ء) تبلیغی جائزہ کی رپورٹیں موصول ہونے پر حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے تحریک جدید کے زیرانتظام شروع 1935ء میں چار تبلیغی مراکز قائم فرمائے جن میں مکیریاں (ضلع ہوشیار پور ) اور ویرووال (ضلع امرتسر ) کے مشن بالخصوص قابل ذکر ہیں.مکیریاں مشن کا قیام مختار احمد صاحب ایاز ( پہلے امیر المجاہدین) کی کوششوں سے ہوا.مرکز کے لئے ایک احمدی مولوی محمد عزیز الدین صاحب سٹیشن ماسٹر ا بن حضرت مولوی محمد وزیر الدین صاحب (313) نے اپنا مکان ہبہ کر دیا تھا.اس مشن کی ذیلی شاخیں حسب ذیل مقامات پر کھولی گئیں، چھنیاں، بہبووال، مہت پور.تحریک جدید کے قومی سرمایہ سے ( زینت محل لال کنواں ) دہلی میں ویدک یونانی دواخانہ قائم کیا گیا.دواخانہ جاری کرنے سے پہلے حضرت مصلح موعودؓ نے چند واقفین کو یونانی طب کی تعلیم دلائی اور خود بھی ویدک اور یونانی ادویہ سے متعلق قیمتی مشورے دیئے.تحریک جدید کی طرف سے ایک مناسب رقم انگریزی ترجمہ القرآن کے لئے مخصوص کر دی گئی اور اس کی ترتیب و تدوین کے لئے 26 فروری 1936 ء کو حضرت مولوی شیر علی صاحب انگلستان بھجوائے گئے.آپ 9 نومبر 1938ء کو واپس قادیان میں تشریف لائے.حضرت خلیفہ ایسیح الثانی نے ریز روفنڈ کی نسبت فرمایا کہ میں نے آج سے کچھ سال پہلے 25 لاکھ ریز روفنڈ کی تحریک کی تھی مگر وہ تو ایسا خواب رہا جو تشنہ تعبیر ہی رہا مگر اللہ تعالیٰ نے تحریک جدید کے ذریعہ اب پھر ایسے ریز روفنڈ کے جمع کرنے کا موقع بہم پہنچا دیا ہے اور ایسی جائیدادوں پر یہ روپیہ لگایا جا چکا اور لگایا جارہا ہے جن کی مستقل آمد 30,25 ہزار روپیہ سالانہ ہوسکتی ہے تا تبلیغ کے کام کو بجٹ کی کمی کی وجہ سے کوئی نقصان نہ پہنچے.الفضل24 نومبر 1938ءص11) ثمرات و برکات تحریک جدید کی کامیابیاں سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کا نہایت درخشاں پہلو ہے.اس نے نہ صرف
147 جماعت کی عملی زندگی میں حیرت انگیز انقلاب برپا کیا بلکہ بیرونی فتوحات کا بھی دروازہ کھول دیا.وہ جماعت جسے مخالفین قادیان کے اندر گلا گھونٹنے کی دھمکیاں دے رہے تھے وہ ایک سیلاب کی طرح بلندیوں اور پستیوں کو عبور کرتی ہوئی زمین کے کناروں تک پھیل گئی.تحریک جدید عالمی غلبہ حق میں جو کردار ادا کر رہی ہے اس کا نظارہ دو پہلوؤں سے کیا جاسکتا ہے.1.خلافت ثانیہ کے اختتام تک اس کے ثمرات 1934ء تا 1965ء 2.تازہ ترین اعداد و شمار خلافت ثانیہ میں خدمات یہ تحریک ساڑھے ستائیس ہزار روپیہ سے شروع ہوئی اور 66-1965 ء اس کا سالانہ بجٹ قریب چھتیس لاکھ روپے تک پہنچ چکا تھا.دنیا کے مختلف براعظموں کے 40 ملکوں میں اس کے 136 مضبوط مشن قائم ہوئے اور ان کے علاوہ کئی ممالک میں منظم جماعتیں قائم ہوئیں جو مالی اور دعوت الی اللہ کے جہاد میں حصہ لے رہی تھیں.جن چالیس ملکوں میں مشن قائم ہوئے ان کے نام یہ ہیں:.شمالی امریکہ: ریاست ہائے متحدہ امریکہ ، ٹرینیڈاڈ ، برٹش گی آنا.یورپ انگلینڈ ، سوئٹزرلینڈ، ہالینڈ ، سپین، ڈنمارک، جرمنی.مغربی افریقہ نائیجیریا، غانا، سیرالیون ، لائبیریا، گیمبیا، آئیوری کوسٹ ٹو گولینڈ.مشرقی افریقہ : کینیا ، ٹا نگا، یوگنڈا، ماریشس ، جنوبی افریقہ.مشرق وسطی : فلسطین، لبنان ، شام ، عدن، مصر، کو بیت ،عراق ، بحرین، دوبئی.ممالک بحر ہند : بر ما سیلون.مشرق بعید: ہانگ کانگ، سنگاپور کوالا لمپور ،شمالی بور نیو، جاپان، جزائر فجی فلپائن اور انڈونیشیا.ان کے علاوہ چین، ایران، اردن، ایتھوپیا، سومالی لینڈ، کانگو، سویڈن، ناروے، فرانس، اٹلی ، جزائر سلی، رومانی، بلغاریہ، یوگوسلاویہ البانیہ ہنری پولینڈ ارجنٹائن اور دیگر کئی ممالک میں با قاعدہ مبلغین کے ذریعہ احمدیت کا پیغام پہنچایا جا چکا تھا اور کئی ممالک میں لٹریچر کے ذریعہ احمدیت سے روشناس کرایا گیا.
148 واشنگٹن، ہیمبرگ (جرمنی)، فرینکفرٹ (جرمنی)، زیورک (سوئٹزر لینڈ)، ہیگ (ہالینڈ)، نیروبی ( کینیا) جہ کسموں ( نانگانیکا) کے علاوہ کئی ممالک میں اہم مقامات پر 311 شاندار بیوت الذکر تعمیر کی گئیں.ممالک بیرونی میں 57 کالج / سکول کام کر رہے تھے جن کے ذریعہ دینی اور دنیوی دونوں قسم کے علوم کی تعلیم جاری تھی.اشاعت اسلام کے لئے مختلف ملکوں اور مختلف زبانوں میں 122 اخبارات اور رسائل جاری ہوئے.قرآن کریم کے تراجم انگریزی ، ڈچ ، جرمنی اور سواحیلی زبان میں شائع ہوئے اور دو زبانوں میں کچھ حصہ اشاعت پذیر ہوا.تین زبانوں میں ترجمہ زیر اشاعت تھا.بارہ اور زبانوں میں ترجمہ ہو چکا تھا جو بعد میں زیور اشاعت سے آراستہ ہوا اور تین زبانوں میں ترجمہ ہو رہا تھا.لٹریچر کے لحاظ سے ٹریکٹ اور پمفلٹ اور انگریزی اور عربی کی کتب کروڑوں کی تعداد میں تقسیم کی گئیں.ملکی زبانوں میں ہر جگہ لٹریچر تیار کیا جارہا تھا.متعدد اہم کتابوں کا ترجمہ مختلف زبانوں میں ہوا.اشاعت لٹریچر پر قریباً پونے دولاکھ روپیہ سالانہ خرچ کیا جا رہا تھا.اس تحریک کا مرکزی ادارہ جوتحریک جدید انجمن احمدیہ کے نام سے موسوم ہے گورنمنٹ کے سوسائٹی ایکٹ کے ماتحت با قاعدہ رجسٹر شدہ ہے اور مرکز ربوہ میں اس کے دفاتر اس کی اپنی تعمیر کردہ شاندار عمارت میں ہیں.جس کی جدید پر شکوہ عمارت تعمیر ہو چکی ہے کارکنان کے لئے بیسیوں کوارٹرز بھی یہ ادارہ تعمیر کروا چکا ہے.یہ تنظیم مرکز میں ایک مرکزی تعلیمی ادارہ (جامعہ احمدیہ ) بھی چلا رہی ہے جو سلسلہ کی ضروریات کو پورا کر رہا ہے.1965ء کے آخر تک اس تنظیم میں جو عملہ کام کر رہا تھا اس کا علم مندرجہ ذیل گوشوارہ سے ہوتا ہے.مرکزی دفاتر : وکلاء 5.نائب وکلاء8.محررین 40.انسپکٹر 7.مددگار کار کن و دیگر 23.جامعہ احمدیہ: پرنسپل 1.اساتذہ 19.لائبریرین 1 - محرر 3.دیگر کارکنان 7 بیرونی مشنز : پاکستانی مبلغ 61.مقامی مبلغ 65.دیگر کارکنان 20
بیرونی تعلیمی ادارے: 149 پاکستانی ٹیچرز اور پروفیسر ز 13 ( مقامی ٹیچر اور پروفیسر زان کے علاوہ ہیں ) میڈیکل مشنز : پاکستانی سند یافتہ ڈاکٹر 30.ان کے علاوہ 33 مبلغین باہر جانے کے لئے تیار تھے.اس سارے نظام میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بے پناہ وسعت پیدا ہو چکی ہے.دنیا کے کئی ممالک میں جامعہ احمدیہ کی شاخیں قائم ہو چکی ہیں جن میں واقفین نو کی بڑی تعداد حصول علم میں مصروف ہے.تازه کوائف نومبر 2007 ء تک تحریک جدید کی مالی قربانی میں شامل ہونے والوں کی تعداد 4 لاکھ 68 ہزار ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے.دنیا میں بیشمار رضا کار اس کی تشخیص، وصولی اور اس کے مقاصد کی تکمیل کے لئے سرگرم عمل ہیں.جولائی 2006 ء اور پھر 28 جولائی 2007ء میں جلسہ سالانہ برطانیہ پر حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے احمدیت کی ترقیات کے جو کوائف بیان فرمائے ان کا خلاصہ حسب ذیل ہے.دنیا کے 189 ممالک میں احمدیت کا پودا لگ چکا ہے.اس سال 4 نئے ممالک میں احمدیت قائم ہوئی.جن میں گواڈے لوپ، سینٹ مارٹن، فرنچ گیا نا اور ھیٹی شامل ہیں.653 نئی جماعتوں کا قیام ہوا اور 631 نئے مقامات پر پہلی بار جماعت کا پودا لگا.اس طرح کل 1284 نئے مقامات پر احمدیت کا نفوذ ہوا.1984ء کے بعد 21 سالوں میں جماعت کو 14304 بیوت الذکر بنانے کی توفیق ملی یا بنی بنائی ملیں.گزشتہ 15 سالوں میں ساڑھے سولہ کروڑ افراد احمدیت میں داخل ہو چکے ہیں.64 زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع ہو چکے ہیں.دنیا بھر میں دعوت الی اللہ کے 1587 مراکز قائم ہو چکے ہیں.55 ممالک میں 650 سے زائد ہومیو پیتھک کلینک قائم ہیں.186 نئے مشن ہاؤسز کا اضافہ ہوا اور 97 ممالک میں کل تعداد 1869 ہو چکی ہے.جماعت برطانیہ نے نئی جلسہ گاہ حدیقہ المہدی خریدی جو 1208ایکڑ پر مشتمل ہے.
150 74 زبانوں میں کتب اور فولڈر تیار کرائے گئے.رسالہ الوصیت کا 11 زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے.تفسیر کبیر کی 6 جلدوں کا عربی ترجمہ شائع ہو چکا ہے.دنیا میں لگنے والی 273 نمائشوں کے ذریعہ 3 لاکھ سے زائد افراد تک پیغام پہنچایا گیا.رقیم پریس لندن کے تحت افریقہ کے 8 ممالک میں پریس کام کر رہے ہیں.نصرت جہاں سکیم کے تحت افریقہ کے 12 ممالک میں 34 ہسپتال کام کر رہے ہیں.11 ممالک میں 494 سکول جاری ہیں.مختلف ممالک میں 1398ٹی وی پروگرام دکھائے گئے جو 813 گھنٹوں پر مشتمل تھے.ریڈیو پروگرام 11873 گھنٹوں پر مشتمل ہیں.ان ذرائع سے 8 کروڑ اور 6 کروڑ افراد تک پیغام پہنچایا گیا.احمد یہ ویب سائٹ پر 170 کتابیں آگئی ہیں.تحریک وقف نو میں 34 ہزار 811 بچے شامل ہو چکے ہیں.31 ہومیوڈسپنسریوں سے 37,412 مریضوں نے فائدہ اٹھایا.طاہر ہومیو پیتھک انسٹی ٹیوٹ میں 1,21,390 مریضوں کا علاج کیا گیا.ہیومینیٹی فرسٹ 19 ممالک میں رجسٹر ڈ ہو چکی ہے.پاکستان کے زلزلہ میں 5لاکھ 20 ہزار کلو گرام امدادی سامان دیا گیا.
151 قیام مساجد کے لئے تحریکات حضرت مصلح موعودؓ کو قیام نماز کے ساتھ تعمیر مساجد کی طرف بھی خاص توجہ تھی اور آپ کے دور خلافت میں قریباً 311 مساجد تعمیر ہوئیں یا ان میں توسیع ہوئی.نئی تعمیر ہونے والی مساجد میں سب سے اہم مسجد فضل لندن ہے جس نے تاریخ احمدیت بلکہ تاریخ اشاعت اسلام میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے.مسجد فضل لندن انگلستان میں جماعت احمدیہ کا با قاعدہ مشن 1914ء سے کام کر رہا تھا مگر اپنا مشن ہاؤس اور مسجد نہ تھی.سیدنا حضرت خلیفہ المسح الثانی نے لندن میں مسجد کی تعمیر کے لئے احباب جماعت کو مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی تحریک کرنے کے لئے 6 جنوری 1920ء کو ایک مضمون تحریر فرمایا.اس میں حضور انور نے اس امر کی طرف متوجہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انگلستان میں کامیابی کے ساتھ تبلیغ کا کام جاری ہے، وہاں کے مبلغین اس امر پر زور دیتے رہے ہیں کہ تبلیغ کے فریضہ کو کماحقہ ادا کرنے کے لئے اس ملک میں مسجد کی تعمیر کرنا ضروری ہے.تاکہ لوگوں کی توجہ کو زیادہ مؤثر رنگ میں اسلام کی طرف منتقل کیا جاسکے.حضور نے فرمایا کہ ہمارے مبلغین کی یہ درخواست واقعی قابل توجہ ہے.مگر میرے نزدیک اپنی مسجد بنانے کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ مسجد میں کچھ خاص برکات ہیں جو بغیر مسجد کے حاصل نہیں ہوتیں.(انوار العلوم جلد 5 ص3) اس سلسلہ میں تحریک کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.یا درکھیں انگلستان وہ مقام ہے جو صدیوں سے تثلیث پرستی کا مرکز بن رہا ہے.اس میں ایک ایسی مسجد کی تعمیر جس پر سے پانچ وقت لا الہ الا اللہ کی صدا بلند ہو کوئی معمولی کام نہیں ہے.یہ ایک ایسا عظیم الشان کام ہے جس کے نیک ثمرات نسلاً بعد نسل پیدا ہوتے رہیں گے اور تاریخیں اس کی یاد کو تازہ رکھیں گی.وہ مسجد ایک نقطہ مرکزی ہوگی جس میں سے نورانی شعاعیں نکل کر تمام انگلستان کو منور کر (انوار العلوم جلد 5 ص4) دیں گی.
152 حضور نے مسجد کے لئے 30 ہزار روپیہ کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:.یہ موقع اس کام کے لئے سب سے بہتر ہے کیونکہ اس وقت پونڈ کی قیمت گری ہوئی ہے اور ہم اگر یہاں سے دس روپے بھیجیں تو ولایت میں اس کے بدلہ میں ایک پاؤ نڈ مل جاتا ہے.گویا اس وقت روپیہ بھیجنے سے ہمیں ڈیوڑھا روپیہ ملنے کی امید ہے.پس ان تمام امور کو مد نظر رکھ کر میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اسی ماہ میں ایک معقول رقم جس کا اندازہ نہیں ہزار کیا جاتا ہے.مسجد لندن کے لئے یہاں سے بھجوا دی جائے جو امید ہے کہ وہاں پچاس ہزار کے قریب ہو جاوے گی اور اس سے ایک گزارہ کے قابل مسجد اور مختصر مکان بن سکے گا اور میں اس اعلان کے ذریعہ تمام احمدی احباب کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلد اس رقم کو پورا کرنے کی کوشش کریں اور اپنے اپنے چندے فوراً بھجوا دیں تا کہ اسی ماہ ولایت روانہ کئے ا (انوار العلوم جلد 5 ص 3) جاسکیں“.حضور نے یہ مضمون تحریر فرمایا اور اشاعت سے قبل 7 جنوری 1920ء کو اہل قادیان کو ایک خطاب کے ذریعہ مسجد لندن کے لئے تحریک فرمائی تو فوری طور پر 5 ہزار کے قریب چندہ قادیان سے ہی ہوا تھا.حضور فرماتے ہیں:.دوسرے دن پھر عورتوں اور مردوں میں تحریک کی تو چندہ کی مقدار گیارہ ہزار سے بھی بڑھ گئی اور بارہ ہزار کے قریب پہنچ گئی.جس میں سے سات ہزار وصول بھی ہو چکا ہے اور باقی بہت جلد وصول ہو جائے گا.اس غریب جماعت سے اس قدر چندہ کی وصولی خاص تائید الہی کے بغیر نہیں ہو سکتی تھی اور میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اس چندہ کے ساتھ شامل ہے.ان دنوں میں قادیان کے لوگوں کا جوش و خروش دیکھنے کے قابل تھا اور اس کا وہی لوگ ٹھیک اندازہ کر سکتے ہیں جنہوں نے اس کو آنکھوں سے دیکھا ہو.اخلاص تو نیا نہیں پیدا ہوتا.وہ تو دل میں پہلے سے ہوتا ہے مگر اس کے اظہار کا یہ ایک خاص موقع تھا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ قادیان کے احمدیوں کا اخلاص ابلنے کے درجہ پر پہلے سے پہنچا ہوا تھا اور صرف بہانہ ڈھونڈ رہا تھا اور جماعت کے اس ولولہ کو دیکھتے ہوئے حضور نے چندہ کی رقم 30 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ کر دی.(انوار العلوم جلد 5 ص7,5) اس تحریک کے متعلق اللہ تعالیٰ نے آپ کو کامیابی کی بشارت اور راہنمائی سے بھی نوازا.فرمایا:.” مجھے خدا تعالی کی رویت ہوئی ہے جس سے مجھے یقین ہے کہ یہ کام مقبول ہے جہاں تک مجھے یاد
153 ہے وہ یہی ہے کہ میں مسجد لندن کا معاملہ خدا تعالیٰ کے حضور پیش کر رہا تھا میں اللہ تعالیٰ کے حضور دوزانو بیٹھا تھا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا.جماعت کو چاہئے کہ ”جد سے کام لیں اور ھرل سے کام نہ لیں.جد“ کا لفظ مجھے اچھی طرح یاد ہے اور اس کے مقابلہ میں دوسرا لفظ مھر ل“ اس حالت میں معاً میرے دل میں آیا تھا اس کے معنے یہ ہیں کہ جماعت کو چاہئے کہ اس کام میں سنجیدگی اور نیک نیتی سے کام لے ہنسی اور محض واہ واہ کے لئے کوشش نہ کرے.(رویا و کشوف سید نا محمودص 55) چنانچہ جماعت نے جس سنجیدگی اور اخلاص سے حضور کی اس تحریک میں حصہ لیا.وہ اپنوں کو تو کیا غیروں کو بھی متاثر کئے بغیر نہ رہ سکا.چنانچہ آریہ اخبار پر کاش لاہور نے اپنے 18 جنوری 1920ء کے الیشوع میں لکھا کہ :.اس مسجد لندن کے خرچ کا کا اندازہ میں ہزار لگایا گیا ہے.لندن جیسے شہر میں تمہیں ہزار کی لاگت پر ایک مسجد کا تیار ہونا ہماری سمجھ میں نہیں آیا.لیکن اس بات کو چھوڑ کر ہم ان کی ہمت کی طرف نظر ڈالتے ں.مرزا محمود احمد صاحب نے قادیان کے احمدیوں سے اپیل کی جس پر بارہ ہزار روپیہ جمع ہو گیا.جب قادیان میں اس قدر روپیہ جمع ہو گیا تو میں ہزار کا جمع ہونا کیا مشکل ہے.الفضل 29 جنوری 1920 ء ) اخبار تنظیم امرتسر نے اپنے ایشوع مورخہ 20 دسمبر 1926ء میں لکھا:.د تعمیر مسجد کی تحریک 6 جنوری 1920ء میں امیر جماعت احمدیہ نے کی.اس سے زیادہ مستعدی اس سے زیادہ ایثار اور اس سے زیادہ مع واطاعت کا اسوہ حسنہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ 10 جون تک ساڑھے اٹھہتر ہزار روپیہ نقد اس کارخیر میں جمع ہو گیا تھا.کیا یہ واقعہ نظم وضبط امت اور ایثار و فدائیت کی حیرت انگیز مثال نہیں“.چنانچہ 1920ء میں مسجد فضل لندن کے لئے زمین خرید لی گئی.حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے پہلے سفر یورپ میں 19 اکتوبر 1924ء کو اس کا سنگ بنیا درکھا اور سر شیخ عبدالقادر صاحب نے 3 را کتوبر 1926ء کو اس کا افتتاح فرمایا.مسجد برلن: تاثرات قادیان بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 4 ص 253) حضرت خلیفہ المسح الثانی ایک عرصہ سے جرمنی میں تعمیر مسجد کے لئے جدوجہد فرمار ہے تھے.آخر
154 ستمبر 1922ء میں مولوی مبارک علی صاحب لندن سے برلن بھیجے گئے.انہوں نے حضور کی ہدایت پر وہاں زمین کا انتظام کر لیا.جس پر حضور نے 2 فروری 1923ء کو یہ تحریک فرمائی کہ مسجد برلن کی تعمیر خواتین کے چندہ سے ہو.فرمایا میں نے سوچنے اور غور کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ جرمنی میں جو مسجد بننے والی ہے وہ عورتوں کے چندہ سے بنے.پھر حضور نے اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:..” میرا یہ منشاء ہے کہ جرمن میں مسجد عورتوں کے چندہ سے بنے.کیونکہ یورپ میں لوگوں کا خیال ہے کہ ہم میں عورت جانور کی طرح سمجھی جاتی ہے.جب یورپ کو یہ معلوم ہوگا کہ اس وقت اس شہر میں جو دنیا کا مرکز بن رہا ہے.اس میں مسلمان عورتوں نے جرمن کے نو مسلم بھائیوں کے لئے مسجد تیار کرائی ہے تو یورپ کے لوگ اپنے اس خیال کی وجہ سے جو مسلمان عورتوں کے متعلق ہے.کس قدر شرمندہ اور حیران ہوں گے اور جب وہ مسجد کے پاس سے گزریں گے تو ان پر ایک موت طاری ہوگی اور مسجد بآواز بلند ہر وقت پکارے گی کہ پادری جھوٹ بولتے ہیں جو کہتے ہیں کہ عورت کی اسلام میں کچھ حیثیت نہیں.وہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں عورتیں بالکل جانور ہیں اور ان کو جانور ہی سمجھا جاتا اور یقین کیا جاتا ہے.مسلمان عورتوں کو جانور کی طرح سمجھتے ہیں.اب جب صرف عورتوں کے چندہ سے وہاں مسجد بنے گی.تو ان کو یہ معلوم ہوگا کہ یہاں کی عورتوں کو تو یہ بھی علم ہے کہ ایسے لوگ بھی دنیا میں ہیں جو ایک بندے کی پرستش کرتے ہیں“.( خطبات محمود جلد 8 ص 19) میں اب خطبہ کے ذریعہ تمام احمدی عورتوں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ اس کام کے لئے تین ماہ کے اندر پچاس ہزار روپیہ چندہ جمع کر دیں.ہاں یہ یادر ہے کہ مردوں کا ایک پیسہ بھی اس کام میں نہیں لیا جائے گا.اگر کسی مرد کی طرف سے چندہ آگیا تو وہ کسی اور مد کی طرف منتقل کر دیا جائے گا.اس میں صرف عورتوں کا ہی روپیہ ہوگا تا کہ یہ مسجد ہمیشہ کے لئے عورتوں کی ہی یادگار رہے.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ عورتوں کو اس کام کی تو فیق عطا کرے.( خطبات محمود جلد 8 ص21) اس تحریک نے احمدی خواتین کا مطمح نظر بلند کر کے ان میں اخلاص و قربانی اور فدائیت اور للہیت کا ایساز بر دست ولولہ پیدا کر دیا کہ (متحدہ) ہندوستان کی اسلامی تاریخ میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی اور اگر
155 ملتی ہے تو صرف اور صرف قرون اولیٰ کی صحابیات میں !! چنانچہ ام المومنین حضرت اماں جان کو ایک جائیداد میں سے پانچ سوروپے کا حصہ ملا تھا جو آپ نے سب کا سب چندہ میں دے دیا.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے ایک ہزار روپیہ دیا.حضرت نواب امة الحفظ بیگم صاحبہ، بیگم صاحبہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب.حضرت ام داؤد (اہلیہ حضرت میر محمد اسحاق صاحب) اور بیگم صاحبہ خان بہادر حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب نے مقدور بھر حصہ لیا.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے اہل بیت بھی خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دوسری مبارک خواتین سے اپنی قربانی میں پیچھے نہیں رہے.حضرت ام ناصر کو حضور کی طرف سے ایک رقم ملی تھی جس کا نصف آپ نے وصیت میں اور باقی اس تحریک میں دے دیا.حضرت امتہ الحی صاحبہ نے ایک سورو پیہ پیش کیا.حضرت ام طاہر نے اپنا ایک گلو بند بھی دیا اور کچھ نقدی بھی.قادیان کی دوسری احمدی خواتین میں سے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی، حضرت قاضی امیر حسین صاحب کے گھر والوں اور حامدہ بیگم صاحبہ (دختر حضرت پیر منظور محمد صاحب) نے نمایاں.لیا.ایک نہایت غریب وضعیف بیوہ جو پٹھان اور مہاجر تھی اور سونٹی لے کر بمشکل چل سکتی تھی خود چل کر آئی اور حضور کی خدمت میں دو روپے پیش کر دئیے.یہ عورت بہت غریب تھی اس نے دو چار مرغیاں رکھی ہوئی تھیں جن کے انڈے فروخت کر کے اپنی کچھ ضروریات پوری کیا کرتی تھی.باقی دفتر کی امداد پر اس کا گزارہ چلتا تھا.ایک پنجابی بیوہ عورت نے جس کے پاس زیور کے سوا کچھ نہ تھا اپنا ایک زیور مسجد کے لئے دے دیا.ایک اور بیوہ عورت جو کئی یتیم بچوں کو پال رہی تھی اور زیور اور مال میں سے کچھ بھی پیش کرنے کے لئے موجود نہ تھے اپنے استعمال کے برتن ہی چندہ میں دے دیئے.ایک خاتون نے اپنا زیور چندہ میں دے دیا تھا دوبارہ گھر گئی کہ بعض برتن بھی لا کر حاضر کر دوں.اس کے خاوند نے کہا کہ تو زیور دے چکی ہے اس نے جواب دیا کہ میرے دل میں اس قدر جوش پیدا ہورہا ہے کہ اگر خدا اس کے دین اور اس کے رسول کے لئے ضرورت پیش آئے ( اور ایسا ممکن اور جائز ہو ) تو میں تجھے بھی فروخت کر کے چندہ میں دے دوں یہ الفاظ کو ہرگز قابل تعریف نہ تھے نہ شرعا نہ اخلاقا مگر ان سے اس جوش کا ضرور اندازہ ہو سکتا ہے.جس نے ایک غیر تعلیم یافتہ عورت کا جذ بہ فدائیت ان الفاظ میں ظاہر کر دیا.ایک بھاگلپوری دوست کی بیوی دو بکریاں لئے الدار میں پہنچی اور کہا کہ ہمارے
156 گھر میں ان کے سوا کوئی چیز نہیں.یہی دو بکریاں ہیں جو قبول کی جائیں.قادیان کے باہر کی مستورات نے بھی قربانی کے قابل رشک اور قابل فخر نمونے دکھائے.چنانچہ اہلیہ صاحبہ کپتان عبدالکریم صاحب ( سابق کمانڈر انچیف ریاست خیر پور ) نے اپنا کل زیور اور اعلیٰ کپڑا چندے میں دے دیا.اس قسم کے اخلاص کا نمونہ چوہدری محمد حسین صاحب صدر قانونگو سیالکوٹ، سیٹھ ابراہیم صاحب، خان بہادر علی خاں صاحب اسٹنٹ پولیٹیکل افسر چکدرہ ( بنوں) حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری ، ڈاکٹر اعظم علی صاحب جالندھری ، خان بہادر صاحب خان نون اکسٹرا اسٹنٹ کمشنر ، حضرت ڈاکٹر قاضی کرم الہی صاحب امیر جماعت امرتسر (والد ماجد قاضی محمد اسلم صاحب) میاں محمد دین صاحب واصل باقی نویس کے خاندان کی مستورات نے بھی دکھایا.الفضل یکم مارچ 1923 ء ص 2,1 ) اس طرح جماعت کی خواتین نے فوری طور پر 50 ہزار روپیہ جمع کر دیا مگر خدا تعالیٰ کی تقدیر تھی کہ جرمنی کے حالات یکا یک بدل گئے.کاغذی روپیہ کو عملاً منسوخ کر دیا گیا اور سکہ سونے کا جاری کر دیا گیا.اس وجہ سے دو تین سو گنا قیمت بڑھ گئی.پہلے اندازہ تھا کہ تمہیں ہزار میں مسجد بن جائے گی.مگر اب یہ انداز ہ 15 لاکھ روپیہ تک جا پہنچا.اس لئے حضور نے بمشورہ نمائندگان جماعت تعمیر مسجد کے کام کو ملتوی کر دیا اور مسجد برلن کے لئے جو رقم وصول ہوئی تھی وہ لندن مشن کو مضبوط بنانے میں لگا دی گئی.مسجد برلن کی تعمیر کا یہ خواب خلافت خامسہ میں پورا ہورہا ہے.حضرت خلیفتہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 2 جنوری 2007ء کو مسجد برلن کا سنگ بنیا درکھا.الفضل 23 جنوری 2007ء ص 8 ) مسجد لندن کا خرچ مسجد لندن کی تعمیر کے بعد انگلستان میں تبلیغ اسلام کا کام روز بروز بڑھ رہا تھا چنانچہ مبلغ انگلستان خان صاحب فرزند علی صاحب کی طرف سے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں یہ درخواست پہنچی کہ کام زیادہ ہے اور عملہ بڑھانے کی ضرورت ہے اس کی تائید حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے بھی ولایت کے دوران قیام میں کی تھی.اس لئے حضور نے فیصلہ صادر فرمایا کہ ایک مبلغ کا وہاں اضافہ کر دیا جائے اور بجائے ہندوستان سے کوئی نیا مبلغ بھیجنے کے خود انگلستان کے کسی نو مسلم کو اس کام پر مقرر کیا جائے.صدر انجمن کے بجٹ میں اس کی گنجائش نہیں تھی اس لئے حضور نے 12 اکتوبر 1928 ء کو
157 احمدی خواتین کو تحریک کرتے ہوئے فرمایا:.لندن کی مسجد چونکہ احمدی عورتوں کے چندہ سے بنی ہے اس لئے انہی کی ہے.مردوں کا روپیہ مکان خرید نے اور تجارت پر لگایا گیا اور کچھ روپیہ یہاں جماعت کے لئے جائیداد خریدنے پر صرف کیا گیا تھا اس طرح چونکہ مردوں کا روپیہ خرچ ہوا تھا اس لئے لندن کی مسجد عورتوں کے اس روپیہ سے بنی ہے جو مسجد کے لئے جمع کیا گیا تھا.چونکہ وہ مسجد عورتوں ہی کی ہے اس لئے اس مشن کا سارا خرچ عورتوں کو ہی برداشت کرنا چاہئے.اس سال نو ہزار کی تحریک عورتوں میں کی جاتی ہے.میں سمجھتا ہوں تمام دنیا میں پھیلی ہوئی جماعت کی عورتوں کے لئے 9 ہزار کی رقم نہایت قلیل ہے اور وہ بہت جلدی اسے پورا کر دیں گی.نیز فرمایا کہ مرد اس تحریک میں حصہ نہ لیں.(خطبات محمود جلد 11 ص 499) چنانچہ احمدی مستورات نے حسب سابق حضور کے اس مطالبہ پر پورے اخلاص سے لبیک کہا اور قادیان، امرتسر ، لدھیانہ، کراچی، گوجرانولہ، سنتو کداس، سیالکوٹ، کیمبل پور، لاہور، فیروز پور، لالہ موسیٰ ، گھٹیالیاں ، میلسی، ملتان، میرٹھ، دہلی، نوشہرہ چھاؤنی، ایبٹ آباد، فیض اللہ چک ضلع گورداسپور ضلع محبوب نگر ، ڈیرہ غازی خاں ، جہلم، بھیرہ ، چکوال ، کنتھوالی چک 312 ، کوہاٹ اور راولپنڈی وغیرہ مقامات کی مستورات نے اس مالی قربانی میں نہایت اخلاص سے حصہ لیا.بیرونی ممالک میں ماریشس کی احمدی عورتوں نے بھی چندہ دے کر اپنے اخلاص کا ثبوت دیا.مسجد لندن کی مرمت کے لئے خواتین سے اپیل: حضرت مصلح موعودؓ نے 1931ء میں فرمایا :.ނ الفضل 23 اکتوبر 1928 ء ) انگلستان کے خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد لندن میں جو صرف احمدی خواتین کے روپیہ سے تیار ہوئی تھی اور جس کی وجہ سے ہماری جماعت کی مستورات کے اخلاس اور قربانی کی تمام دنیا میں دھوم مچ گئی تھی.اس کا گنبد کسی انجینئر نگ کے نقص کی وجہ سے خطرہ کی حالت میں ہے اور عمارت کے فن کے ماہروں نے مشورہ دیا ہے کہ فوراً گنبد کی مرمت کی جائے اور ایسے خول چڑھائے جائیں جن سے وہ کلی طور پر محفوظ ہو جائے ورنہ مسجد کی تمام عمارت کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہی نہیں بلکہ غالب یقین ہے.ضروری مرمت کے اندازے بھی میں نے لگوائے ہیں اور کم سے کم اندازہ چھ ہزار روپیہ کا ہے.لیکن
158 چونکہ اخراجات عام طور پر اندازوں سے بڑھ جایا کرتے ہیں.اس لئے اصل اندازہ سات اور آٹھ ہزار کے درمیان لگانا چاہئے.اس رقم کے جمع کرنے کے لئے میں خواتین جماعت احمدیہ سے اپیل کرتا ہوں.اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قدر عظیم الشان یادگار قائم کرنے کے بعد اگر انہوں نے اس کی ضروری مرمت سے بے تو جہی کی تو جس طرح دنیا میں ان کی شہرت ہوئی ہے اسی طرح ان کی دوسری سستی کی وجہ سے بدنامی ہوگی.عورتوں کو ترغیب دلاتے ہوئے فرمایا: اپنے عمل سے یہ ثابت کر دو کہ اگر دوسری قوموں کی عورتیں مذہبی اور قومی کاموں سے بے پرواہ اور غافل ہیں تو احمدی جماعت کی مستورات ایسی نہیں ہیں.انہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے وہ دل و گردہ دیا ہے کہ ہر ایک آواز جو دین کی خدمت کے لئے اٹھتی ہے.وہ اس پر لبیک کہتی ہیں اور دین کی خدمت پر ان کے دل میں ملال نہیں پیدا ہوتا بلکہ ان کا دل اس خوشی سے بھر جاتا ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ایک کام کرنے کا موقع ملا.(الفضل 27 راگست 1931ء) حضور کی اس تحریک میں بیگم صاحبہ سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب نے مبلغ ایک ہزار روپیہ چندہ دیا اور باقی رقم بھی دوسری خواتین سلسلہ کے اخلاص اور قربانی کی وجہ سے وقت کے اندر پوری ہوگئی.مسجد اقصیٰ قادیان کی توسیع کی تحریک: حضور نے فرمایا: یہ مسجد جوکسی وقت آدمیوں کی محتاج تھی اب ہمارے لئے تنگ ہورہی ہے اب وہ دن آ گیا ہے کہ ہم اسے بڑھانے کی کوشش کریں.اس کے جس طرف راستہ ہے.ادھر تو بڑھائی نہیں جاسکتی.اس لئے اس کے بڑھانے کی صرف یہی صورت ہے کہ دوسری طرف کے مکانات خرید کر اس میں شامل کرلئے جائیں.ایک مکان تو خرید بھی لیا گیا ہے اور اگر خدا نے چاہا تو کسی وقت مسجد میں شامل کیا جا سکے گا.میں نے سنا ہے کہ ایک دوست اپنا مکان فروخت کرنا چاہتے ہیں.کارکنوں کو چاہئے کہ اگر وہ فروخت کریں تو اسے خرید لیں اور اس کی تعمیر کو صرف قادیان والے اپنا فرض سمجھیں.یہ غلط اصول ہے کہ ہم مقامی کاموں میں بیرونی جماعتوں کی امداد کے خواہشمند ہوں..کوئی وجہ نہیں کہ
159 قادیان کی ساری جماعت مل کر پانچ چھ ہزار روپیہ مرکزی مسجد کے لئے خرچ نہ کر سکے میں جانتا ہوں کہ بعض بیرونی مخلصین اس بات کو نا پسند کریں گے کہ اس مسجد کی توسیع میں جسے اللہ تعالیٰ نے مسجد اقصی قرار دیا اور اس کے انوار کی جلوہ گاہ ہے اور جو در حقیقت ایک مرکزی حیثیت رکھتی ہے.حصہ لینے سے انہیں محروم کیا جائے لیکن اس کی یہی صورت ہو سکتی ہے کہ اگر کوئی حصہ لینا چاہے تو لے ہم کسی کو حکم نہیں دیں گے کہ وہ ضرور اس میں حصہ لے...یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی برکات جس وقت نازل ہونا شروع ہوتی ہیں تو وہ آثار سے پہچانی جاتی ہیں.اگر وہ جماعت جسے دشمن چاہتے تھے کہ کچل دیں.ہر سال یا دوسرے تیسرے سال اپنی سابقہ عمارتوں کو اپنی وسعت کے مقابلہ میں تنگ محسوس کرنے لگے.تو یہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا نشان ہے لیکن یہ بھی اس کی سنت ہے کہ وہ کسی جماعت کو وسعت دینا چاہتا ہے لیکن وہ اس کی طرف توجہ نہیں کرتی اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ساتھ ساتھ ترقی کرنے کی کوشش نہیں کرتی تو پھر ا سے تنگ کر دیتا ہے پس پیشتر اس کے کہ خدا تعالیٰ کہے.جب یہ خود وسعت نہیں چاہتے تو انہیں کیوں وسعت دی جائے اور اس رنگ میں اس کی نگاہ ہم پر پڑے.اس طرف توجہ کرو اور جس قدر جلد ہو سکے.مسجد کو وسیع کر دو اور دعائیں کرتے رہو کہ خدا تعالیٰ اور بھی وسعت عطا فرمائے.(الفضل 14 فروری 1932ء) حضور کی اس اپیل پر احباب قادیان نے لبیک کہا اور بعض بیرونی جماعتوں کے احمدی افراد نے بھی حصہ لیا اور ان کی کوششوں سے اتنا چندہ جمع ہو گیا کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے مسجد اقصیٰ پہلے کی نسبت دوگنی ہوگئی.کچھ مکانات خرید کئے گئے اور حضور کی تجویز کے مطابق انہیں مسجد میں شامل کر لیا گیا.مسجد مبارک قادیان کی توسیع : حضرت مصلح موعودؓ نے دعوئی مصلح موعود کے بعد 9 مارچ 1944ء کو مسجد مبارک قادیان میں مجلس عرفان کے آغاز کا اعلان فرمایا.وہاں ساتھ ہی مسجد مبارک کی توسیع کا بھی فیصلہ کیا.چنانچہ فرمایا :.اب اس کثرت سے لوگ یہاں نمازیں پڑھنے آرہے ہیں کہ کل سے میں بھی سوچ رہا ہوں اور بعض دوسرے دوست بھی کہ اب یہ مسجد اس قابل نہیں رہی کہ سب لوگ اس میں سما سکیں بلکہ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے بڑھا دیا جائے.چنانچہ اس کے نتیجہ میں پہلی برکت تو یہ نازل ہوئی ہے کہ آج ہی میں نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اس مسجد کو پہلو کی طرف بڑھا دیا جائے.اس سے انشاء اللہ یہ مسجد موجودہ
160 مسجد سے دوگنی ہو جائے گی.مسجد کے لئے یہ جگہ سالہا سال سے خریدی جا چکی تھی.اب انشاء اللہ اس مسجد کو بڑھا دیا جائے گا.میں اپنے قلب میں ایسا محسوس کرتا ہوں جیسے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ انکشاف ہوتا ہے.گوکسی الہام یا رویا کی بناء پر میں یہ نہیں کہہ رہا.مگر میرا قلب یہ محسوس کرتا ہے کہ ہر شخص جو یہاں نماز پڑھنے کے لئے آتا ہے وہ سلسلہ کی ترقی کے لئے ایک باب کھولتا ہے“.(الفضل 16 اپریل 1944 ء ) اس فیصلہ کے مطابق بہت جلد مسجد مبارک کی توسیع عمل میں آئی جس سے مسجد کی عمارت نہایت شاندار اور پہلے کی نسبت دوگنی سے بھی زیادہ ہوگئی.2 دسمبر 1944ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے نئے محراب میں نماز ظہر پڑھا کر اس کا افتتاح فرمایا.( الفضل 4 دسمبر 1944ء) اس حصہ کی توسیع کے لئے روپیہ حضرت سیدنا اصلح الموعود کی ذاتی اپیل پر دوستوں نے پُر جوش طوعی چندوں کی صورت میں پیش کیا جس میں ایک معقول حصہ خود حضور کے ذاتی چندہ کا تھا.حضور نے فرمایا:.کل عصر کے وقت میں نے اس کا ذکر کیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہمیں مسجد مبارک کی توسیع کرنی چاہئے اس کا اثر یہ ہوا کہ شام کی نماز کے بعد جب میں بیٹھا تو میں نے بعض ایسے دوستوں کے نام لکھوانا شروع کر دیا.جنہوں نے اس غرض کے لئے مجھے چندہ دیا ہوا تھا.اس پر دوسرے دوستوں نے بھی اس وقت چندہ دینا شروع کر دیا اور بعض نے وعدے لکھوانے شروع کر دیئے اور اس اخلاص سے چندے دیئے اور وعدے لکھوانے شروع کئے کہ نماز مغرب میں شامل ہونے والے نمازیوں سے ہی اندازہ کی رقم پوری ہوگئی.ہمارا اندازہ مسجد کی زیادتی کے خرچ کا 10 ہزار روپیہ کا تھا.مگر اب تک خدا تعالیٰ کے فضل سے پندرہ ہزار روپے کے وعدے ہو چکے ہیں ( جو آج ہفتہ کی شام تک سترہ ہزار سے زائد کے وعدے ہو چکے ہیں) اور ان میں سے سات ہزار روپیہ تو نقد وصول ہو چکا ہے.باقی روپیہ بھی امید ہے دو چار دنوں میں دوستوں کی طرف سے مل جائے گا.( آج ہفتہ کی شام تک دس ہزار روپیہ سے اوپر نقد آچکا ہے) یہ کیسا شاندار اخلاص کا نمونہ ہے جو ہماری جماعت نے دکھایا.دنیا میں آج کون سی جماعت ہے جو دین کی خدمت کے لئے ایسا نمونہ دکھا رہی ہے.(الفضل 14 مارچ 1944 ء )
161 اس توسیع کی نگرانی کا کام حضور کی خاص ہدایت کے تحت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے انجام دیا اور عملی نگرانی سید سردار حسین شاہ صاحب اوورسیئر نے کی.مسجد مبارک کی نئی توسیع عملاً دسمبر 1944 ء ہی میں مکمل ہو چکی تھی اور اسی لئے حضور نے اس جدید حصہ میں نماز کا آغا ز فرما دیا.مگر اس کی تکمیل کی بعض ضمنی تعمیرات 1945 ء کے شروع تک جارہی رہیں.(الفضل 26 مارچ 1945ء) قیام مساجد کی تحریک حضور نے 27 دسمبر 1944 ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر فرمایا:.اس کے بعد میں مساجد کی تحریک کا ذکر کرتا ہوں میں نے اس سال یہ تحریک کی تھی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس میں کافی کامیابی ہوئی ہے.ام طاہر احمد مرحومہ کی وفات کے بعد میں نے مسجد مبارک کی توسیع کی تحریک کی تھی اور احباب نے دیکھ لیا ہوگا کہ اب کیسی شاندار مسجد بن چکی ہے.پہلے تو اندازہ تھا کہ اس پر 12, 13 ہزار روپیہ خرچ آئے گا اور میرا یہ بھی ارادہ تھا کہ بیرونی دوستوں کو بھی اس میں حصہ لینے کا موقع دوں گا.مگر میں نے عصر کی نماز کے بعد یہ تحریک کی کہ میں چاہتا ہوں اس مسجد کو وسیع کیا جائے اور عشاء کی نماز تک سولہ ہزار کی بجائے قادیان کی جماعت نے ہی 24 ہزار روپیہ جمع کر دیا.اس تحریک کے نتیجے میں مسجد مبارک پہلے کی نسبت دوگنی سے بھی زیادہ ہوگئی ہے اور ابھی بعض اور سامان بھی اس کی وسعت کے ہیں اور خدا تعالیٰ چاہے تو اس سے بھی وسیع ہو سکتی ہے.اس کے علاوہ اس امر کی ضرورت ہے کہ مسجد اقصیٰ کو وسیع کیا جائے.چند ہی سال ہوئے ہم نے اس مسجد کو بڑھایا تھا.شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور نے مہربانی کر کے اپنا مکان انجمن کے پاس فروخت کر دیا جسے مسجد میں شامل کر لیا گیا.اب وہ مسجد بھی تنگ ہو گئی ہے.دوسری طرف باہر کے دوستوں کی طرف سے میرے پاس یہ شکایت پہنچتی ہے کہ مسجد مبارک کے چندہ کی تحریک میں انہیں حصہ لینے کا موقع نہیں دیا گیا اب اگر مسجد اقصیٰ میں توسیع کی تحریک کی گئی تو باہر کے دوستوں کو ضرور اس میں حصہ لینے کا موقع دیا جائے گا مگر ابھی اس تحریک کا موقع نہیں.اگر اس مسجد کو بڑھایا گیا تو میرا خیال ہے اس پر پچاس ہزار روپیہ بلکہ ممکن ہے ایک لاکھ روپیہ خرچ ہو.اب جن عمارات کو اس میں شامل کر کے اسے وسعت دی جاسکتی ہے وہ بہت قیمتی جائیدادیں ہیں.اس لئے اسے وسیع کرنے پر کافی خرچ آئے گا اور جب اس کا
162 موقع آئے گا میں تحریک کر دوں گا اور باہر کی جماعتوں کو اس میں شامل ہونے کا موقع دیا جائے گا.اس سال میں نے یہ تحریک بھی کی تھی کہ ہندوستان کے سات اہم مقامات پر مساجد تعمیر کرنا چاہئیں یعنی پشاور، لاہور، کراچی، دہلی، بمبئی، مدراس اور کلکتہ میں اور یہ تحریک بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہورہی ہے.دہلی کے دوستوں کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اور سب نے ایک ایک ماہ کی آمد چندہ میں دی اور اس طرح اس مد میں تمیں ہزار روپیہ کے وعدے ہو چکے ہیں اور کچھ روپیہ امانت فنڈ سے دے دیا گیا ہے.دو کنال زمین خرید لی گئی ہے جس کی قیمت پچاس ہزار روپیہ ہے یہ نواب پٹواری کی جائیداد ہے.ستر ہزار روپیہ عمارت کی تعمیر پر خرچ ہونے کا اندازہ ہے.یہ جگہ جو خریدی گئی ہے یہاں پہلے عیسائیوں کا مشن بنا تھا.مجھے اس سلسلہ میں ایک بات یاد آئی جس سے بہت لطف آیا.قریباً تمہیں سال پہلے مولوی محمد علی صاحب کی کوٹھی پر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے ہائی سکول اور بورڈنگ کی عمارتوں کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا کہ ہم تو قادیان سے جار ہے ہیں لیکن دس سال نہیں گزریں گے کہ ان عمارتوں پر عیسائیوں کا قبضہ ہو جائے گا.ان کی یہ بات تو خدا تعالیٰ نے غلط ثابت کر دی اور ہمیں توفیق دی کہ دہلی میں عین اس مقام پر ہم مسجد بنارہے ہیں جہاں سب سے پہلے عیسائیوں نے اپنا مشن قائم کیا تھا اور اس طرح بجائے اس کے کہ عیسائی ہماری عمارتوں پر قبضہ کر سکتے ہم کو اللہ تعالیٰ نے وہ جگہ دے دی جہاں انہوں نے پہلے اپنا مشن قائم کیا.امید ہے کہ ایک لاکھ بیس ہزار روپیہ میں وہاں ایک مسجد اور ایک ہال تعمیر ہو جائے گا.میرا تو اندازہ تھا کہ کم سے کم سوالا کھ یا ڈیڑھ لاکھ روپیہ خرچ ہوگا مگر دہلی کے دوستوں نے بتایا ہے کہ بعض تجاویز ایسی ہیں کہ انشاء اللہ انہیں سامان ستا مل سکے گا اور اس طرح بہت جلد وہاں مسجد ، ہال اور ایک مہمان خانہ تعمیر ہو سکے گا اور ہندوستان کے سیاسی مرکز میں ہمارا تبلیغی مرکز قائم ہو جائے گا.دوسری جماعت جس نے جماعت دہلی سے بھی بڑھ کر اس تحریک میں حصہ لیا ہے وہ کلکتہ کی جماعت ہے.ابھی پانچ سات سال کی بات ہے کہ کلکتہ کی جماعت کا چندہ دو چار ہزار روپیہ سے زیادہ نہ ہوتا تھا مگر اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسا ہوا ہے کہ کچھ نئے آدمی وہاں گئے اور جو پہلے سے وہاں موجود تھے ان میں سے بعض کی حالت سدھر گئی اور اب یہ حالت ہے کہ اس جماعت نے 66 ہزار
163 روپیہ چندہ مسجد کے لئے دیا ہے اور ان میں سے بعض نے تحریک کی ہے کہ اس چندہ کو ڈبل کیا جائے گویا ایک لاکھ میں ہزار کے قریب ایک جگہ بھی انہوں نے مسجد کے لئے تجویز کی ہے جو امید ہے ساٹھ پینسٹھ ہزار میں مل جائے گی.ایک اور ٹکٹڑ از مین کا شہر کے اندر ہے مگر اس کی قیمت ڈیڑھ لاکھ روپیہ ہے میں نے یہی مشورہ دیا ہے کہ شہر کے باہر کے علاقہ میں بنائیں.باہر کے علاقہ میں تبلیغ میں سہولت ہوتی ہے وہاں مخالفت بھی بڑی ہوتی ہے تو اس طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے کلکتہ میں سامان ہورہا ہے اور جماعت نے 66 ہزار روپیہ جمع کر دیا ہے.بمبئی میں ابھی جگہ خریدی نہیں گئی مگر وہاں بھی سامان ہو رہا ہے.وہاں قبرستان کے لئے بھی جگہ حاصل کی جارہی ہے.بعض ممبروں کے دستخط بھی ہو چکے ہیں.صرف ایک کے باقی ہیں.فی الحال بمبئی میں زمین خریدنے کے لئے روپیہ مرکز سے بھجوایا گیا ہے.پشاور میں پہلے سے مسجد ہے مگر چھوٹی ہے وہاں مبلغ کے لئے مکان اور لیکچر ہال کی بھی ضرورت ہے اور میں صوبہ سرحد کے احمدیوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ کسی ایسی جگہ کا خیال رکھیں جہاں پاس آبادی بھی ہوا اور جگہ کھلی مل سکے تا اگر ہو سکے تو وہاں عربی مدرسہ بھی جاری کیا جا سکے.لا ہور میں بھی اچھے موقع پر سات ایکڑ زمین خرید لی گئی ہے مگر اب حکومت کی طرف سے نوٹس دیا گیا ہے اور وہ اسے واپس لینا چاہتی ہے کوشش کی جائے گی کہ وہ واپس نہ لے...حیدر آباد بھی ہندوستان میں ایک اہم جگہ ہے سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اور انہوں نے 30,25 ہزار روپیہ صرف کر کے وہاں ایک احمد یہ جو بلی ہال تعمیر کرایا ہے.ہے تو وہ مسجد ہی مگر کہلاتی ہال ہے اب انہوں نے اسے اور بڑا کر دیا ہے اور وہ اب تک اس پر قریباً پچاس ہزار روپیہ خرچ کر چکے ہیں.انوار العلوم جلد 17 ص 486) تعمیر مسجد مبارک ربوہ کی تحریک مورخہ 3 /اکتوبر 1949ء کو بعد نماز عصر حضرت مصلح موعودؓ نے مسجد مبارک ربوہ کی بنیادی اینٹ اپنے دست مبارک سے رکھی.اس موقع پر حضور نے احباب جماعت سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا.چونکہ یہ ایک مرکزی مقام ہے اور ساری دنیا کے لوگوں سے اس کا تعلق ہے اس لئے ساری دنیا
164 کے لوگوں کو ہی اس کی تعمیر میں حصہ لینا چاہئے.پس اس موقع پر میں تمام جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی اپنی توفیق کے مطابق اس مسجد کی تعمیر میں حصہ لیں.میرا خیال ہے کہ میں چھپیں ہزار روپیہ اور یا تھیں پینتیس ہزار روپیہ اس پر خرچ ہو جائے گا“.(الفضل6/اکتوبر 1949ء) حضور نے اس موقع پر نہ صرف اپنی طرف سے اور اپنے بیوی بچوں کی طرف سے چندہ کے وعدے لکھوائے بلکہ اس خیال سے کہ بیرونی جماعتوں تک اطلاع دیر سے پہنچے گی اور اس طرح وہ شاید اسی نیک کام میں حصہ لینے سے محروم رہ جائیں گی ان کی طرف سے خود وعدے لکھوا دیئے اور فرمایا اگر یہ جماعتیں اس سے زیادہ رقم دینا چاہیں تو دے دیں اور اگر ان کی طرف سے اس سے کم رقم وصول ہوئی تو کمی میں خود پوری کروں گا.اس کے بعد موجود احباب نے اپنی طرف سے اور اپنی جماعتوں کی طرف سے وعدے لکھوائے اور حضور دعا کے بعد قصر خلافت تک نہیں پہنچے تھے کہ 16 ہزار کی رقم کے وعدے ہو گئے.دفتر میں جو وعدے بعد میں لکھوائے گئے ان کی مقدار سترہ ہزار سے اوپر چلی گئی اور اسی دن شام تک سولہ ہزار سات سو روپے کی رقم نقد وصول ہو گئی.باقی احباب کے وعدے جو بعد میں وصول ہوئے.انہیں ملا کر مطلوبہ رقم پوری ہو گئی اور یہ مسجد قریباً پچاس ہزار روپے کی لاگت سے تیار ہوگئی.25 را کتوبر تک جماعت احمد یہ ربوہ کی طرف سے ایک ہزار روپیہ چندہ میں دیا گیا.مسجد ہالینڈ کے لئے تحریک حضرت مصلح موعودؓ نے ہالینڈ کی مسجد احمدی عورتوں کے چندہ سے تعمیر کرنے کی تحریک فرمائی اور خواتین احمدیت نے اپنی روایت کے مطابق اس پر والہانہ لبیک کہا.چنانچہ حضور نے فرمایا:.ہالینڈ کی مسجد کے متعلق عورتوں میں تحریک کی گئی تھی انہوں نے مردوں سے زیادہ قربانی کا ثبوت دیا ہے.انہوں نے زمین کی قیمت ادا کر دی ہے اور ابھی چھ سات ہزار روپیہ ان کا جمع ہے جس میں اور روپیہ ڈال کر ہالینڈ کی مسجد بنے گی.پھر چندہ انہوں نے ایسے وقت میں دیا ہے جبکہ لجنہ کا دفتر بنانے کے لئے بھی انہوں نے چودہ پندرہ ہزار روپیہ جمع کیا تھا.الفضل 20 دسمبر 1951 ء ) | سالانہ جلسہ 1951 ء کے موقع پر بتایا:.مسجد ہالینڈ کا چندہ عورتوں نے مردوں سے زیادہ دیا ہے.مردوں کے ذمہ واشنگٹن کی مسجد لگائی
165 گئی ہے اور اس کا خرچ مسجد بنا کر قریباً اڑھائی پونے تین لاکھ ہوتا ہے اور جو عورتوں کے ذمہ لگایا گیا تھا.مسجد ہالینڈ کا اس کی ساری رقم زمین وغیرہ ملا کر کوئی اسی ہزار یا لاکھ کے قریب بنتی ہے.انہوں نے اپنے اسی ہزار میں سے چھیالیس ہزار روپیہ ادا کر دیا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ عورتوں کو توجہ دلانے کی اتنی ضرورت نہیں مجھے یقین ہے کہ وہ میری اس مختصری تحریک سے ہی اپنے فرض کو سمجھنے لگ جائیں گی اور اس نیک کام کو تکمیل تک پہنچا دیں گی.میں عورتوں سے کہتا ہوں تمہاری قربانی مردوں سے اس وقت بڑھی ہوئی ہے.اپنی اس شان کو قائم رکھتے ہوئے اپنے دفتر کے قرضہ کو بھی ادا کرو اور اس کے ساتھ مسجد ہالینڈ کو بھی نہ بھولنا.اس کے لئے ابھی کوئی پچاس ہزار روپیہ کے قریب ضرورت ہے.ہمارا پہلا اندازہ مکان اور مسجد کی تعمیر کا تمیں ہزار کے قریب تھا لیکن اب وہ کہتے ہیں کہ ساٹھ ہزار سے کم میں وہ جگہ نہیں بن سکتی کیونکہ اس جگہ پر گورنمنٹ کی طرف سے کچھ قیود ہیں اور وہ ایک خاص قسم کی اور خاص شان کی عمارت بنانے کی وہاں اجازت دیتے ہیں اس سے کم نہیں دیتے.پس زمین کی قیمت مل کر نوے ہزار سے ایک لاکھ تک کا خرچ ہوگا جس میں سے وہ بفضلہ چھیالیس ہزار تک اس وقت تک ادا کر چکی ہیں.( الفضل 2 جنوری 1952ء) چنانچہ 12 فروری 1955ء کو کھدائی کا کام شروع کیا گیا.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے دعا کرائی اور کدال چلا کر کام کا آغاز کیا.20 مئی 1955ء کو حضرت چوہدری صاحب نے ہی مسجد کا سنگ بنیا درکھا.9 دسمبر کو 1955ء کو حضرت چوہدری صاحب نے ہی اس کا افتتاح فرمایا.(الفضل 13 دسمبر 1955 ء ) ہالینڈ میں مسجد کی تعمیر کو غلبہ اسلام کی شاہراہ میں ہمیشہ سنگ میل کی حیثیت حاصل رہے گی.اس سرزمین میں خانہ خدا کی اہمیت کو ہالینڈ کے اونچے طبقے نے خاص طور پر محسوس کیا ہے چنانچہ ہیگ کا ایک کثیر الاشاعت روزنامہ "Nieuwe Heagse Courant" نے مسجد ہیگ میں نماز کی حالت کا ایک بڑا سا فوٹو دیتے ہوئے لکھا کہ:.یہ فوٹو کراچی، قاہرہ یا بغداد کی نہیں بلکہ یہ مسجد خود ہیگ میں ہے جس میں لوگ نماز ادا کر رہے ہیں.تکمیل مسجد کے لئے مزید چندہ کی تحریک: مسجد ہالینڈ پر چونکہ اندازہ سے زیادہ خرچ ہو چکا تھا اس لئے حضرت مصلح موعود نے احمدی خواتین کو
166 چندہ کی تحریک برابر جاری رکھی اور اس پر بہت زور دیا.چنا نچہ فرمایا:.اس سال ہالینڈ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے صرف احمدی مستورات کے چندہ سے ہی ایک نہایت عظیم الشان مسجد تعمیر ہوئی ہے لیکن اس پر جو خرچ ہوا ہے وہ ابتدائی اندازے سے بہت بڑھ گیا ہے.اس وقت تک مستورات نے جو چندہ دیا ہے.91 ہزار روپیہ اس سے زائد خرچ ہو گیا ہے.مستورات کو چاہئے کہ جلد یہ رقم جمع کر دیں.ایک اور موقعہ پر فرمایا :.عورتوں نے ہالینڈ کی مسجد کا چندہ اپنے ذمہ لیا تھا مگر اس پر بجائے ایک لاکھ کے جو میرا اندازہ تھا ایک لاکھ چوہتر ہزار روپیہ خرچ ہوا.78 ہزار ان کی طرف سے چندہ آیا تھا گویا ابھی 96 ہزار باقی ہے.پس عورتوں کو بھی میں کہتا ہوں کہ وہ 96 ہزار روپیہ جلد جمع کریں تا کہ مسجد ہالینڈ ان کی ہو جائے.بعد ازاں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ:.میں نے مسجد ہالینڈ کی تعمیر کے لئے عورتوں میں ایک لاکھ پندرہ ہزار روپیہ کی تحریک کی تھی جس میں سے 99 ہزار عورتیں اس وقت تک دے چکی ہیں لیکن جو اندازہ وہاں سے آیا تھا وہ ایک لاکھ چونتیس ہزار روپے کا تھا اور عملاً اب تک ایک لاکھ چھہتر ہزار روپیہ خرچ ہو چکا ہے.تحریک جدید کا ریکارڈ کہتا ہے عورتیں ننانوے ہزار روپیہ دے چکی ہیں.میں نے وکالت مال کے شعبہ بیرون کے انچارج چوہدری شبیر احمد صاحب کو بلایا اور ان سے دریافت کیا کہ کیا آپ کے پاس کوئی ریکارڈ ہے جس سے معلوم ہو کہ جب ہیگ سے ایک لاکھ چونتیس ہزار روپے کا تخمینہ آیا تھا تو میں نے عورتوں سے اس قدر چندہ کرنے کی اجازت دی ہو کیونکہ عورتوں کا حق تھا کہ چندہ لینے سے پہلے ان سے پوچھ لیا جاتا کہ کیا وہ یہ چندہ دے بھی سکتی ہیں یا نہیں.انہوں نے کہا افسوس ہے کہ اس وقت ہم سے غلطی ہوئی اور ہم نے حضور سے دریافت نہ کیا کہ آیا مزید رقم بھی عورتوں سے جمع کی جائے.ہمارے پاس ایسا کوئی ریکارڈ نہیں جس کی رو سے زیادہ رقم اکٹھی کرنے کی منظوری لی گئی ہو.میں نے کہا میں یہ مان لیتا ہوں کہ آپ نے ایک لاکھ چونتیس ہزار روپیہ کے جمع کرنے کی منظوری مجھ سے نہ لی لیکن جب وہ رقم ایک لاکھ پچھہتر ہزار بن گئی تو پھر تو آپ نے مجھ سے منظوری لینی تھی کیا آپ نے مجھ سے منظوری لی.انہوں نے پھر یہی جواب دیا کہ ہم نے اس کے متعلق بھی حضور سے کوئی منظوری نہیں لی اور ہمارے
167 پاس کوئی ایسا کا غذ نہیں جس میں یہ لکھا ہو کہ عورتوں سے ایک لاکھ چونتیس ہزار یا ایک لاکھ چھہتر ہزار روپیہ جمع کرنا منظور ہے.اس لئے میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ لجنہ اماء اللہ اس سال صرف چھتیس ہزار روپیہ چندہ کر کے تحریک جدید کو دے دے اور باقی روپیہ تحریک جدید خود ادا کرے.لجنہ اماءاللہ چھتیں ہزار روپے سے زیادہ نہیں دے گی اور مسجد ہالینڈ ہمیشہ کے لئے عورتوں کے نام پر ہی رہے گی.(الفضل 23 فروری 1958ء) حضرت مصلح موعودؓ نے تعمیر مسجد ہیگ کے لئے ایک لاکھ پندرہ ہزار روپیہ کی تحریک خاص فرمائی تھی مگر خواتین احمدیت نے اپنے آقا کے حضور ایک لاکھ تینتالیس ہزار چھ سو چونسٹھ روپے کی رقم پیش کر دی بلکہ بعض مستورات تو اس مد کے ختم ہونے کے بعد بھی چندہ بھجواتی رہیں.تحریک تعمیر مساجد بیرون تاریخ احمدیت جلد 12 ص (182 حضرت مصلح موعودؓ نے مجلس شوری 1952ء میں بیرون ممالک میں مساجد تعمیر کرنے کے متعلق تحریک کرتے ہوئے فرمایا:.یورپین ممالک میں مسجد تبلیغ کا ایک ضروری حصہ ہیں“.(رپورٹ مجلس شوری 1952ء ص 20) نیز فرمایا:.چھ ممالک ( امریکہ، ہالینڈ، جرمنی، اٹلی، سپین اور فرانس) ہیں.جن میں اگر ہماری مسجد میں بن جائیں.تو تبلیغ کا بڑا بھاری ذریعہ ثابت ہو سکتی ہیں.اگر ان مساجد پر سات لاکھ روپیہ کے خرچ کا بھی اندازہ ہو اور ہم اپنے بجٹ میں ایک لاکھ روپیہ سالانہ تعمیر مساجد کے لئے رکھیں تو سات سال میں اور اگر پچاس ہزار روپیہ رکھیں تو چودہ سال میں اس رقم کو پورا کر سکتے ہیں.مگر بہر حال کچھ تو ہونا چاہئے.تا کہ ہم اپنے تبلیغ کے کام کو وسیع کر سکیں اور لوگوں کے جمع ہونے کا امکان ہو“.(ایضاً ص 21) حضور نے اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے جماعت کے سامنے ایک سکیم رکھی جس کی تفصیل رپورٹ مذکور میں درج ہے.
168 چندہ تعمیر مساجد کا مستقل نظام اسی موقع پر حضور نے تعمیر مساجد کے چندہ کی فراہمی کے لئے ایک مستقل نظام تجویز فرمایا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ (1) ملازم پیشہ اپنی سالانہ ترقی کے پہلے ماہ کی رقم (2) بڑے پیشہ ور ایک مہینے کی آمد کا پانچواں حصہ (3) چھوٹے پیشہ ور مہینے کی کسی معینہ تاریخ کی مزدوری کا دسواں حصہ (4) تاجر اصحاب مہینہ کے پہلے سودا کا منافع اس مد میں دیا کریں اور (5) زمیندار احباب ہر فصل پر ایکڑ زمین میں سے ایک کرم کے برابر چندہ تعمیر مساجد ادا کیا کریں.مندرجہ بالا طبقوں کے نمائندوں نے خلیفہ وقت کے سامنے بشاشت کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ مجوزہ نظام کے مطابق بالالتزام چندہ دیا کریں گے.اس موقعہ پر سیالکوٹ کے ایک تاجر دوست خواجہ محمد یعقوب صاحب نے حضور کی خدمت میں ایک سو روپیہ اس فنڈ کے لئے پیش کیا جس پر حضور کی خدمت با برکت میں نقدی پیش کرنے کی ایک عام رو پیدا ہوگی.حضور کے اردگرد اتنا ہجوم ہو گیا کہ نظم وضبط کی خاطر انہیں قطاروں میں کھڑا کرنا پڑا، چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے چار ہزار سے زائد روپیہ نقد اور ایک ہزار روپیہ سے زائد کے وعدے وصول ہو گئے.خواتین کی طرف سے 90/6/0 نقد کے علاوہ دو طلائی انگوٹھیاں بھی بطور چندہ حضور کی خدمت میں پیش ہوئیں.چندہ دینے کا یہ سلسلہ ابھی پورے جوش و خروش سے جاری تھا کہ حضور نے مجلس کی کارروائی کی خاطر ا سے روک دینے کا اعلان کیا اور ارشاد فرمایا کہ مسجد فنڈ کے مزید چندے اور وعدے بعد میں دیئے جائیں.(الفضل 17 اپریل 1952ء) سب سے پہلے احمدی تاجر جنہوں نے مشاورت کے معا بعد اس مالی جہاد میں حصہ لیا اور ڈھائی سو روپیہ اس مد میں بھجوایا.حضرت شیخ کریم بخش صاحب آف کوئٹہ کے فرزند شیخ محمد اقبال صاحب ہیں جن کا ذکر خصوصی خود حضرت مصلح موعودؓ نے خطبہ جمعہ 26 مئی 1951 ء میں فرمایا:.حضور کی اس سکیم کے تحت اپریل 1965 ء تک سات لاکھ تریپن ہزار ایک سو تین روپے کی آمد ہوئی مساجد واشنگٹن، ہیگ (ہالینڈ)، ہیمبرگ (جرمنی)، فرینکفورٹ (جرمنی)، زیورک (سوئٹزر لینڈ ) اور ڈنمارک کی خصوصی تحریکوں کے نتیجہ میں نولاکھ سولہ ہزار سات سو چھہتر روپے وصول ہوئے اور اس رقم
169 میں سے دس لاکھ تریسٹھ ہزار چار سو اڑسٹھ روپیہ کی رقم سے مذکورہ بالا مساجد تعمیر ہوئیں.اس رقم میں سے ایک لاکھ چونتیس ہزار روپیہ مسجد ہیگ (ہالینڈ) کے لئے اور دو لاکھ بارہ ہزار چھ سو بیس روپیہ 21 جنوری 1966 ء تک لجنہ اماءاللہ نے ادا کیا.یورپ میں 5 مساجد خلافت ثانیہ میں سرزمین یورپ میں 5 مساجد تعمیر ہوئیں.(1) مسجد فضل لندن.حضرت مصلح موعود نے 1924ء کو اس کا سنگ بنیاد رکھا.3 /اکتوبر 1926ء کو اس کا افتتاح ہوا.(2) مسجد مبارک ھیگ ہالینڈ کا سنگ بنیاد 20 مئی 1955 ء کو حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے رکھا اور 9 دسمبر 1955 ء کو اس کا افتتاح فرمایا.(3) مسجد فضل عمر ہمبرگ جرمنی کا افتتاح حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے 22 جون 1957 ءکو فرمایا.(4) مسجد نور فرینکفرٹ جرمنی کا سنگ بنیاد چوہدری عبد اللطیف صاحب نے رکھا اور 12 ستمبر 1959 ء کو حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے افتتاح فرمایا.(5) مسجد محمود زیورک سوئٹزر لینڈ.حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ بنت حضرت مسیح موعود نے 25 را گست 1962 ء کو سنگ بنیا درکھا اور 22 جون 1963ء کو حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے افتتاح فرمایا.ولی تڑپ حضور نے مساجد کی تعمیر کے متعلق اپنی دلی تڑپ اور خواہش کا اظہار کرتے ہوئے سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ پر 13 اکتوبر 1957ء کو فرمایا:.مجھے اسلام کا غم ہے.میں تمہیں بتاتا ہوں کہ ابھی تو صرف لندن، ہیمبرگ، جرمنی اور ہیگ میں ہی مساجد تعمیر ہوئی ہیں مگر جلد ہی فرینکفرٹ جرمنی میں ایک مسجد تعمیر ہوگی ونٹر برگ جرمنی میں ایک مسجد
170 تعمیر ہوگی.نیورمبرگ جرمنی میں ایک مسجد تعمیر ہوگی.روم میں ایک مسجد تعمیر ہوگی.نیپلز میں ایک مسجد تعمیر ہوگی.تین مساجد سکنڈے نیویا میں بنیں گی.تم کہو گے یہ بڑھا سٹھیا گیا ہے.ابھی یورپ میں صرف تین مساجد بنی ہیں اور یہ آٹھ مساجد اور بنا رہا ہے.لیکن میں کہتا ہوں کہ میں تقریر کرتا ہوا مساجد کی تعداد کم کر گیا ہوں.اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو میں پچاس مساجد یورپ میں بنواؤں گا.تا کہ وہاں ہر بڑے شہر میں مسجد موجود ہو.باوانا تک تو ایک دنیا دار ملاں کے پیچھے کھڑے ہو گئے تھے.جس کی وجہ سے وہ اس کا ساتھ نہ دے سکے لیکن تم ایک ایسے آدمی کے پیچھے لگے ہوئے ہو جس کو یورپ میں اسلام پھیلانے اور مساجد تعمیر کرنے کا شوق ہے بلکہ پچاس مساجد بھی کم سے کم اندازہ ہے.میرا خیال تو اس سے بھی بلند جایا کرتا ہے.پچاس مساجد پر ایک کروڑ روپیہ لگتا ہے جو اس وقت ہمارے پاس موجود نہیں لیکن اگر تم اپنے رشتہ داروں کو تبلیغ کر کے انہیں احمدیت میں داخل کرو تو ایک کروڑ روپیہ کا مہیا ہونا کوئی مشکل امر نہیں.مثلاً صدر انجمن احمدیہ کا سالانہ بجٹ پچھلے سال بارہ لاکھ تھا.اس سال وہ پچاس ساٹھ لاکھ ہو جائے اور دو تین سال کے اندر اس کی مقدار تین کروڑ ہو جائے تو ایسی صورت میں اگر ہم 1/3 حصہ بھی مساجد کی تعمیر کے لئے رکھیں تو ایک کروڑ روپیہ ہر سال نکل سکتا ہے اور ہر سال پچاس مساجد تعمیر کی جاسکتی ہیں اور اگر ہم ہر سال پچاس مساجد تعمیر کرسکیں تو پانچ سال کے عرصہ میں اڑھائی سو مساجد بن سکتی ہیں.اگر اڑھائی سو مساجد یورپ میں تعمیر ہو جائیں تو اس کے چپہ چپہ پر خدا تعالیٰ کی تکبیر کی صدا بلند ہو سکتی ہے.ان مساجد سے مؤذن اللہ اکبر کی صدا بلند کریں گے اور ان کے ساتھ ساتھ قصبات والے بھی اللہ اکبر کہیں گے.تو بیک وقت سارا یورپ اللہ اکبر کی آوازوں سے گونج اٹھے گا اور عیسائی اپنی زبان سے کہیں گے کہ اب عیسائیت کمزور ہوگئی ہے اور یہ بات تو میں نے پانچ مساجد کے متعلق بیان کی ہے لیکن جب یورپ میں اڑھائی سو مساجد تعمیر ہو جائیں گی تو یورپ کے سارے کناروں تک نعرہ ہائے تکبیر کی صدائیں بلند ہوں گی اور وہ نعرہ ہائے تکبیر ایسے ہوں گے کہ ایک مسجد کی آواز دوسری مسجد تک پہنچے گی اور پھر قریب کے علاقہ میں پھیلتی جائے گی اور یورپ والے کہیں گے کہ اب اسلام غالب آ گیا ہے اور وہ اسلام کے مقابلہ میں اپنے ہتھیار پھینک دیں گے.ان کا سارا غرور جاتا رہے گا اور وہ خود اقرار کریں گے کہ اب اسلام غالب آچکا ہے.تب وہ زمانہ آ جائے گا جس کے متعلق حضرت مسیح موعود
171 علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ قو میں اسلام میں داخل ہوں گی پھر ہم امریکہ کی طرف متوجہ ہوں گے اور وہاں ہزار دو ہزار مساجد بنائیں گے.نتیجہ یہ ہوگا کہ آواز در آواز پھیلتی چلی جائے گی.تم دیکھولو ربوہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے لیکن یہاں جب مسجد مبارک میں مؤذن کی آواز بلند ہوتی ہے تو وہ سارے شہر میں پھیلتی ہے اور جب دوسری مساجد سے بھی اذان کی آواز میں اٹھتی ہیں تو پورے شہر کے اندر زندگی اور بیداری کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے.اسی طرح جب یورپ اور امریکہ کی ہزاروں مساجد میں اذانیں ہوں گی تو عیسائی سمجھ لیں گے کہ اب عیسائیت مرگئی اور پھر یہ نور آہستہ آہستہ تمام دنیا میں پھیلا تو چکر کھا کر جاپان ، فلپائن اور انڈونیشیا سے ہوتا ہوا پاکستان آئے گا.پہلے لوگ کہتے تھے کہ انگریزی سلطنت پر سورج نہیں ڈوبتا.لیکن اب یہ بات عملاً احمدیت پر بھی صادق آتی ہے.اب احمدیت پر بھی سورج غروب نہیں ہوتا لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اذانوں پر بھی سورج غروب نہ ہو.الفضل 26 دسمبر 1957 ء )
172 کتب حضرت مسیح موعود کے متعلق تحریکات حضرت مصلح موعودؓ نے قرآن کریم اور حدیث کے فہم کے لئے حضرت مسیح موعود کی کتب کے مطالعہ کی طرف سینکڑوں بار توجہ دلائی اور اس ضمن میں بعض اہم تحریکات بھی فرمائیں.مطالعہ کی تحریک 27 دسمبر 1920ء کو حضور نے جلسہ سالانہ پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.تم بے شک ظاہری علوم پڑھومگر دین کا علم ضرور حاصل کرو اور اپنے اندر دین کی باتیں سمجھنے اور اخذ کرنے کا ملکہ پیدا کرو.اس کے لئے ایک تو قرآن کریم سیکھو اور دوسرے حضرت صاحب کی کتابیں پڑھو اور خوب یا درکھو کہ حضرت صاحب کی کتابیں قرآن کی تفسیر ہیں.کل میں ان کے متعلق ایک خاص نکتہ بتاؤں گا.آج صرف اتنا ہی کہتا ہوں کہ وہ قرآن کی تفسیر ہیں ان کو پڑھو.(اصلاح نفس.انوار العلوم جلد 5 ص447) ایک خاص نکتہ: اگلے دن حضور نے وہ خاص نکتہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:.جو کتابیں ایک ایسے شخص نے لکھی ہوں جس پر فرشتے نازل ہوتے تھے ان کے پڑھنے سے بھی ملائکہ نازل ہوتے ہیں.چنانچہ حضرت صاحب کی کتابیں جو شخص پڑھے گا اس پر فرشتے نازل ہوں گے.یہ ایک خاص نکتہ ہے کہ کیوں حضرت صاحب کی کتابیں پڑھتے ہوئے نکات اور معارف کھلتے ہیں اور جب پڑھو جب ہی خاص نکات اور برکات کا نزول ہوتا ہے.براہین احمدیہ خاص فیضان الہی کے ماتحت لکھی گئی ہے اس کے متعلق میں نے دیکھا ہے کہ جب کبھی میں اس کو لے کر پڑھنے کے لئے بیٹھا ہوں دس صفحے بھی نہیں پڑھا سکا کیونکہ اس قدرنئی نئی باتیں اور معرفت کے نکتے کھلنے شروع ہو جاتے ہیں کہ دماغ انہیں میں مشغول ہو جاتا ہے“.ملائکۃ اللہ.انوار العلوم جلد 5 ص 560) روزانہ ایک صفحہ پڑھو: حضور نے 27 دسمبر 1927ء کو جلسہ سالانہ کے خطاب میں کتب حضرت مسیح موعود کا روزانہ ایک
173 صفحہ پڑھنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:.اصلاح نفس کے لئے دوسری چیز یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ کیا جائے.افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ لوگ با قاعدہ حضرت صاحب کی کتب کا مطالعہ نہیں کرتے.اگر ہر ایک احمدی یہ فیصلہ کرلے کہ حضرت صاحب کی کسی کتاب کا روزانہ کم از کم ایک صفحہ کا مطالعہ کیا کروں گا تو اس کا بہت بڑا فائدہ ہو سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب میں وہ روشنی اور وہ معارف ہیں جو قرآن کریم میں مخفی طور پر بیان ہوئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کی اپنی کتب میں تشریح فرمائی ہے حتی کہ ایک ادنی لیاقت کا آدمی بھی انہیں سمجھے سکتا ہے.اس وجہ سے آپ کی کتب میں بھی وہ نور اور ہدایت ہے جو قرآن کریم میں ہے.قرآن کریم کی یہ فوقیت ہے کہ وہ خود خدا تعالیٰ کے الفاظ میں ہے.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ ہر ایک احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب میں سے کم از کم ایک صفحہ روزانہ پڑھا کرے.عیسائی انجیل کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان لوگوں کو چھوڑ کر جو علی الا علان دہر یہ ہیں باقی سب اسے پڑھتے ہیں.وہ رات کو اپنے بچوں کو سونے نہیں دیتے جب تک کہ دعانہ کرالیں پھر کتنے افسوس کی بات ہے کہ جن کو دہریہ اور بے دین اور کیا کیا کہا جاتا ہے وہ تو اپنی اس مذہبی کتاب کا مطالعہ نہیں چھوڑتے جس میں بہت کچھ تغیر و تبدل ہو چکا ہے مگر آپ لوگ جن کو تازہ کتابیں ملی ہیں آپ انہیں نہیں پڑھتے کم از کم ایک صفحہ روزانہ ضرور پڑھنا چاہئے.تقریر دلپذیر.انوار العلوم جلد 10 ص92) مطالعہ کتب مسیح موعود کا نظام ترتیب 1920ء میں ایک مخلص احمدی نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت اقدس میں بذریعہ مکتوب استفسار کیا کہ حضرت مسیح موعود کی کتابیں کس ترتیب سے پڑھنی چاہئے.اس کے جواب میں حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا (1) سب سے پہلے ازالہ اوہام کی ضرورت ہے.(2) پھر براہین احمدیہ حصہ پنجم.(3) تحفہ گولڑویہ.(4) الوصیت.(5) تقویۃ الایمان (کشتی نوح ) (6) حقیقۃ الوحی.
174 ان کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد دوسرا سلسلہ (1) براہین احمدیہ پہلے چار حصے.(2) سرمہ چشم آریہ.(3) آئینہ کمالات اسلام.(4) اسلامی اصول کی فلاسفی اور چشمہ معرفت.اور وقت ملے تو باقی جو حضرت مسیح موعود کی دوسری کتابیں ہیں وہ بھی پڑھیں.براہین احمدیہ حصہ پنجم اور حقیقۃ الوحی اس کے ساتھ ملحوظ رہے.اگر خود تحقیق کی فرصت نہ ہو.تو حقیقۃ النبوۃ کا مطالعہ کیا جاوے مگر یہ یا درکھنا چاہئے کہ حضرت اقدس کی صرف کتب کا مطالعہ کافی نہیں.اس سے محض علمی رنگ کامل ہوتا ہے.ایک اور چیز ہے.جس کے بغیر حضرت اقدس کی بعثت سے انسان پورا فائدہ نہیں اٹھا سکتا.اور وہ ان ڈائریوں کا مطالعہ ہے.جو وقتاً فوقتاً اخباروں میں چھپتی رہی ہیں ان کا علمی حصہ ایسا یقینی نہیں.جیسے حضرت اقدس کی کتب ہیں.کیونکہ ڈائری نویس بعض وقت الفاظ پوری طرح یاد نہیں رکھ سکتا لیکن ان سے دو باتوں کا پتہ لگتا ہے.ایک یہ کہ حضرت اقدس اپنی بعثت کا مطلب کیا سمجھے تھے اور اسے پورا کرنے کے لئے کس رنگ میں کوشش کرتے رہے.دوسرے یہ کہ جن لوگوں کے سامنے حضور کا دعوے پیش ہوا.اور اسے انہوں نے قبول کیا.اور سالہا سال تک آپ کے ساتھ رہے یا کثرت سے آپ کی ملاقات کرتے رہے.انہوں نے حضور کے کلام سے کیا سمجھا اور آپ کے ساتھ کس رنگ میں معاملہ کرتے تھے.ان دونوں باتوں کے جاننے کے بغیر انسان احمدیت کے مغز کو نہیں پاسکتا.الفضل 9 دسمبر 1920 ء ص 9,8 ) کتب کا عظیم مقام: سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے مجلس مشاورت 1925ء پر یہ اعلان فرمایا:.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے تھے.محمد ﷺ کا بروز ہو کر آئے تھے.اس لئے آپ کے قلم سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ دنیا کی ساری کتابوں اور تحریروں سے بیش قیمت ہے اور اگر کبھی یہ سوال پیدا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریر کی ایک سطر محفوظ رکھی جائے یا سلسلہ کے سارے مصنفین کی کتابیں؟ تو میں کہوں گا آپ کی ایک سطر کے مقابلہ میں یہ ساری کتابیں مٹی کا تیل ڈال کر جلا دینا گوارا کروں گا.مگر اس سطر کو محفوظ رکھنے کے لئے اپنی انتہائی کوشش صرف کر دوں گا“.رپورٹ مجلس مشاورت 1925 ء ص 39)
175 کتب کے پھیلاؤ کی تحریک حضرت خلیفہ المسح الثانی نے 22 مارچ 1929ءکوارشادفرمایا کہ یہ زمانہ نشر واشاعت کا ہے جس ذریعہ سے ہم آج اسلام کی مدد کر سکتے ہیں وہ یہی ہے کہ صحف و کتب کی اشاعت پر خاص زور دیں اگر ہر جماعت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کی ایجنسیاں قائم ہو جائیں تو یقیناً بہت فائدہ ہو سکتا ہے.رپورٹ مجلس مشاورت 1929 ء ص 247) نیز ہدایت فرمائی کہ عام طور پر ہماری کتابیں گراں ہوتی ہیں اور اس وجہ سے لوگ ان کی اشاعت نہیں کر سکتے.اس کے لئے ایک طرف تو میں نظارت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ کتابوں کی قیمتوں پر نظر ثانی کرے اور قیمتیں اس حد پر لے کر آئے کہ ان انجمنوں کو جو ایجنسیاں میں کافی معاوضہ بھی دیا جا سکے اور نقصان بھی نہ ہو اور دوسری طرف احباب کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بھی اس بارے میں فرض شناسی کا ثبوت الفضل 29 مارچ 1929 ء ص 6) حضرت مسیح موعود کی طرز تحریر اختیار کرنے کی تحریک مضمون حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے 10 جولائی 1931ء کو جماعت کے مصنفوں، اخبار نویسوں اور مضہ نگاروں کو یہ اہم تحریک فرمائی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرز تحریر اپنائیں تا ہمارے جماعتی لٹریچر ہی میں اس کا نقش قائم نہ ہو بلکہ دنیا کے ادب کا رنگ ہی اس میں ڈھل جائے.چنانچہ حضور نے فرمایا:.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے وجود سے دنیا میں جو بہت سی برکات ظاہر ہوئی ہیں.ان میں سے ایک بڑی برکت آپ کا طرز تحریر بھی ہے.جس طرح حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے الفاظ جو ان کے حواریوں نے جمع کئے ہیں یا کسی وقت بھی جمع ہوئے ان سے آپ کا ایک خاص طرز انشاء ظاہر ہوتا ہے اور بڑے بڑے ماہرین تحریر اس کی نقل کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طرز تحریر بھی بالکل جدا گانہ ہے اور اس کے اندر اس قسم کی روانی زور اور سلاست پائی جاتی ہے کہ باوجود سادہ الفاظ کے، باوجود اس کے کہ وہ ایسے مضامین پر مشتمل ہے جن
176 سے عام طور پر دنیا نا واقف نہیں ہوتی اور باوجود اس کے کہ انبیاء کا کلام مبالغہ، جھوٹ اور نمائشی آرائش سے خالی ہوتا ہے اس کے اندر ایک ایسا جذب اور کشش پائی جاتی ہے کہ جوں جوں انسان اسے پڑھتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے الفاظ سے بجلی کی تاریں نکل نکل کر جسم کے گرد لپٹتی جارہی ہیں اور یہ انتہا درجہ کی ناشکری اور بے قدری ہوگی.اگر ہم اس عظیم الشان طرز تحریر کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے طرز تحریر کو اس کے مطابق نہ بنائیں“.نیز فرمایا:.پس میں اپنی جماعت کے مضمون نگاروں اور مصنفوں سے کہتا ہوں کسی کی فتح کی علامت یہ ہے کہ اس کا نقش دنیا میں قائم ہو جائے.پس جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نقش قائم کرنا جماعت کے ذمہ ہے آپ کے اخلاق کو قائم کرنا اس کے ذمہ ہے.آپ کے دلائل کو قائم رکھنا ہمارے ذمہ ہے.آپ کی قوت قدسیہ اور قوت اعجاز کو قائم کرنا جماعت کے ذمہ ہے.آپ کے نظام کو قائم کرنا جماعت کے ذمہ ہے وہاں آپ کے طرز تحریر کو قائم رکھنا بھی جماعت کے ذمہ ہے“.اس ضمن میں حضور نے اپنا تجربہ یہ بتایا کہ: میں نے ہمیشہ یہ قاعدہ رکھا ہے.خصوصا شروع میں جب مضمون لکھا کرتا تھا.پہلا مضمون جو میں نے تشخیذ میں لکھا وہ لکھنے سے قبل میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریروں کو پڑھاتا اس رنگ میں لکھ سکوں اور آپ کی وفات کے بعد جو کتاب میں نے لکھی اس سے پہلے آپ کی تحریروں کو پڑھا اور میرا تجربہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس سے میری تحریر میں ایسی برکت پیدا ہوئی کہ ادیبوں سے بھی میرا مقابلہ ہوا اور اپنی قوت ادبیہ کے باوجود انہیں نیچا دیکھنا پڑا.(الفضل 16 جولائی 1931 ص5) اردو سیکھنے کے لئے حضرت مسیح موعود کی کتب پڑھنے کی تحریک 23 جولائی 1933 ء کو طلباء جامعہ احمدیہ ومدرسہ احمدیہ سے خطاب کرتے ہوئے سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے تحریک فرمائی کہ احمدی طلباء کو اردو سیکھنے کے لئے حضرت مسیح موعود کی کتب پڑھنی چاہئیں اس تعلق میں یہ بھی ارشاد فرمایا.
177 جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دینی امور میں اصلاح کی ہے وہاں اردو زبان میں بھی بہت بڑی اصلاح کی ہے.چنانچہ ایک شخص نے لندن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے انگریزی لٹریچر کا اردو لٹریچر پر اثر“ کے عنوان سے ایک تھیس لکھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ آپ کی تحریروں نے زبان اردو پر خاص اثر ڈالا ہے..اب اردو کے حامل احمدی ہوں گے یا یہ کہ اردو کے حامل احمدی ہو جائیں گے...زمانہ خود اردو کو اس طرف لے جا رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو الفاظ استعمال کئے ہیں وہ اردو کے سمجھے جائیں گے پس ہمارے طلباء کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب نمونہ اور ماڈل ہونی چاہئیں خصوصاً آخری زمانہ کی کتابیں ان کی روانی اور سلاست پہلے کی نسبت بہت بڑھی ہوئی ہے ان کی اردو نمونہ کے طور پر ہے اور وہی اردو دنیا میں قائم رہے گی.تراجم کی تحریک الفضل 6 اگست 1933 ء ص 7,6 ) حضرت مصلح موعودؓ نے متعدد مواقع پر حضرت مسیح موعود کی مختلف کتب کے تراجم کی تحریک بھی فرمائی.چنانچہ خلافت ثانیہ میں کئی زبانوں میں بہت سی کتب کا ترجمہ شائع ہوا.
178 صحابہ حضرت مسیح موعود کے متعلق تحریکات تابعی بنانے کی تحریک 3 جنوری 1936ء کو حضور نے صحابہ مسیح موعود کی زیارت کے ذریعہ دنیا کے تمام ممالک میں تابعین پیدا کرنے کی سکیم کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا.میرا پروگرام خواہ وہ ایک سال میں پورا ہو خواہ چار پانچ سال میں ، یہ ہے کہ کوئی ملک دنیا کا ایسانہ ہو، جس میں تابعی یعنی ایسے لوگ موجود نہ ہوں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے صحابہ کو دیکھا ہے.اس وقت دنیا کے قریباً ایک ہزار ممالک ہوں گے اور ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ان میں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام پہنچا دیں.ملک کی تشریح میں حکومتوں کے لحاظ سے نہیں بلکہ زبان کے لحاظ سے کرتا ہوں اور مختلف زبانوں کے لحاظ سے اس وقت شاید ایک ہزار سے بھی زیادہ ممالک ہوں گے اور ان میں سے صرف ساٹھ ستر ہی ہیں جن تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد کی خبر پہنچی ہو.باقی 900 سے زیادہ ابھی تک ایسے ہیں جن تک ابھی یہ خبر نہیں پہنچی بلکہ کافی حصہ ان میں ایسے ممالک کا بھی ہے جن میں اسلام کا نام تو ممکن ہے پہنچ چکا ہومگر تعلیم نہیں پہنچی اور میرا پروگرام یہ ہے کہ ہم کوشش کریں کہ ان ممالک میں تابعی پیدا کرسکیں.وہ وقت تو گزر گیا جب ہم ساری دنیا کو صحابی بنا سکتے تھے مگر تابعی بنا سکنے کے لئے ابھی وقت ہے.صحابہ نے بیسیوں ممالک میں تابعی بنا دیے تھے اور زبان کے لحاظ سے اگر ممالک کی تقسیم کی جائے تو سینکڑوں ممالک میں بنا یے تھے.صحابہ کے زمانہ میں ریل ، تار، ڈاک وغیرہ کی سہولتیں نہ تھیں اور ان کے نہ ہونے کے باوجود جب صحابہ نے اتنا کام کیا تو کوئی وجہ نہیں کہ ان سہولتوں کی موجودگی کے باوجود ہم ان سے زیادہ کام نہ کریں.قربانی کی قیمت کا اندازہ رستہ کی رکاوٹوں سے کیا جاسکتا ہے.اگر صحابہ نے دوسو ممالک میں تابعی بنائے تو ہم بھی دو سو ممالک میں تابعی بنا کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کے برابر ہم نے کام کیا ہے اس لئے جب تک ان سے کئی گنا زیادہ کام نہ کریں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے ان کی مشابہت حاصل کر لی.
179 پس ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہر ملک میں تابعی پیدا کر دیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے صحابہ کو ان تک پہنچا دیں یا ان کو یہاں بلالیں اور اگر ہم یہ کر سکیں تو یہ کام اتنا شاندار ہوگا کہ کسی نبی کے زمانہ میں اس کی مثال نہ مل سکے گی.کیونکہ کوئی نبی یا ما مور آج تک ایسا نہیں گزرا جس کے تابعی تمام دنیا میں تھے.یہ ایک ایسی عجیب بات ہے کہ اس کے تصور سے ہی میرا دل مسرت سے بھر جاتا ہے اور بجلی کی رو کی طرح مسرت کی ہر تمام جسم میں دوڑ جاتی ہے.حضرت مسیح ناصری کے صحابہ شام سے چلے اور کشمیر یا مدر اس تک پہنچے تھے اور ان کا یہ کام اس زمانہ کے لحاظ سے بہت تھا مگر پھر بھی یہ کچھ نہ تھا.ہم گو یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ حضرت مسیح ناصری کے پیروؤں نے تابعی بنائے یا نہیں لیکن بہر حال انہوں نے روم سے لے کر کشمیر تک آپ کا پیغام ضرور پہنچا دیا تھا اور باوجودان دقتوں کے پہنچا دیا تھا جو اس زمانہ میں سفر کے رستہ میں تھیں.لیکن ہمیں اس زمانہ میں جو سہولتیں حاصل ہیں وہ اس امر کی مقتضی ہیں کہ ہم ان سے بہت زیادہ کام کریں.( خطبات محمود جلد 17 ص4) روایات صحابہ محفوظ کرنے کی تحریک سلسلہ احمدیہ کے قیام کو 1937ء میں اڑتالیس سال اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال مبارک پر انتیس سال کا عرصہ بیت چکا تھا.اس لمبے عرصہ کے دوران حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کثیر التعدا در فقاء رحلت فرما گئے.اس تشویش انگیز صورتحال کو دیکھ کر حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے جماعت کو 19 نومبر 1937ء کے خطبہ جمعہ میں باقی ماندہ رفقاء کی روایات کے محفوظ کرنے کی خاص تحریک فرمائی چنانچہ فرمایا:.حضرت مسیح موعود کی وفات 1908ء کی ابتداء میں ہوئی ہے اور اس وقت جن لوگوں کی عمر پندرہ سال کی سمجھی جائے.کیونکہ یہی کم سے کم عمر ہے جس میں بچہ سمجھ رکھتا ہے.تو ایسے لوگوں کی عمر بھی اب 44 سال ہوگی.جس کے معنے یہ ہیں کہ ایسے لوگ بھی زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس سال اور جماعت میں رہ سکتے ہیں اور بظاہر آج سے 20, 25 سال بعد شائد ہی کوئی صحابی جماعت کو مل سکے.ایسا صحابی جس نے حضور کی باتوں کو سنا اور سمجھا ہو....میں سمجھتا ہوں رسول کریم ﷺ کی زندگی اور سیرت کے حالات کی کتابیں اور احادیث اگر جمع
180 کی جائیں تو تین چار سو نخیم جلدیں تیار ہوسکتی ہیں.جن میں سے ہر ایک جلد پانچ سو صفحات کی ہوگی.اگر ایسی تین چار سو جلدیں بھی ہوں تو یہ ڈیڑھ لاکھ صفحات ہوں گے.غرض صحابہ کرام نے اتنا ذخیرہ چھوڑا ہے کہ آج ہمیں بہت ہی کم یہ خیال آ سکتا ہے کہ کاش رسول کریم ﷺ کی فلاں بات ہمیں معلوم ہوتی.مگر حضرت مسیح موعود کے حالات اقوال اور واردات کا بہت ہی کم حصہ محفوظ ہوا ہے.میں نے بارہا دوستوں کو توجہ دلائی ہے کہ جو بات کسی کو معلوم ہو.وہ لکھا دے اور دوسروں کو سنا دے.مگر افسوس کہ اس کی طرف بہت کم توجہ کی گئی ہے اور اگر کسی نے توجہ کی بھی ہے تو ایسی طرز پر کہ اس کا نتیجہ صفر کے برابر ہے.پس میں دوستوں کو بالخصوص نظارت تالیف و تصنیف اور تعلیم کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ اس قسم کا کام ہے کہ اس میں سے بہت سا ہم ضائع کر چکے ہیں اور اس کے لئے ہم خدا کے حضور کوئی جواب نہیں دے سکتے.اب جو باقی ہے اسے ہی محفوظ کرنے کا انتظام کیا جائے.ہمارا سالانہ بجٹ تین لاکھ کا ہوتا ہے.مگر اس میں ایک ایسا آدمی نہیں رکھا گیا جوان لیکچروں اور تقریروں کو جو صحابہ کریں، قلمبند کرتا جائے.اب بھی اگر ایسا انتظام کر دیا جائے تو جو کچھ محفوظ ہو سکتا ہے اسے کیا جاسکتا ہے اور اس میں سے سال دو سال کے بعد جو جمع ہو شائع ہوتا رہے اور باقی لائبریریوں میں اور لوگوں کے پاس بھی محفوظ رہے، میں سمجھتا ہوں.اب بھی جو لوگ باقی ہیں.وہ اتنے ہیں کہ ان سے چالیس پچاس فیصدی باتیں محفوظ ہوسکتی ہیں.اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک بہت بڑے مصنف بھی تھے.اس لئے آپ کی کتابوں میں بھی بہت کچھ آچکا ہے.لیکن جو باتیں صحابہ کو معلوم ہیں اگر ان کو محفوظ کرنے کا کوئی انتظام نہ کیا گیا تو ہم ایک ایسی قیمتی چیز کھو بیٹھیں گے جو پھر کسی صورت میں بھی ہاتھ نہ آسکے گی.میں کئی سال سے اس امر کی طرف توجہ دلا رہا ہوں مگر افسوس ہے کہ ابھی تک اس کی اہمیت کو نہیں سمجھا گیا.(الفضل 26 نومبر 1937ء ) حضور کے اس فرمان مبارک پر حضرت مرزا شریف احمد صاحب ناظر تالیف و تصنیف نے حافظ بشیر احمد صاحب مولوی فاضل جالندھری کا انتخاب روایات صحابہ جمع کرنے کے لئے کیا.لیکن حافظ صاحب ابھی اس کام کا چارج لینے نہ پائے تھے کہ 2 مئی 1938ء کو اچانک انتقال کر گئے اور عارضی طور پر یہ کام ملک محمد عبد اللہ صاحب کے سپرد کیا گیا.ملک صاحب آخر اگست 1938 ء تک یہ کام سرانجام دیتے رہے.انہوں نے رفقاء کرام سے روایات حاصل کر کے ان کو اخبار الفضل میں شائع
181 بھی کرانے کا اہتمام کیا اور تبرکات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فہرست بھی مرتب کی.اسی اثناء میں حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے قادیان کے تمام محلہ جات کا بار بار دورہ کر کے صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اسم وار فہرست سن بیعت کے لحاظ سے مرتب کی.ملک محمد عبداللہ صاحب کے بعد شیخ عبدالقادر صاحب (سابق سوداگر مل ) مبلغ کراچی نے ستمبر 1938 ء سے اس اہم کام کا چارج لیا اور اس کے لئے اپنے سب اوقات وقف کر دیئے اور نہ صرف بذریعہ ڈاک ہی روایات منگوائیں بلکہ بٹالہ، امرتسر ، لاہور اور سیالکوٹ وغیرہ علاقوں کے دورے کر کے روایات کا ایک نہایت قیمتی ذخیرہ فراہم کر کے ان کو رجسٹروں کی صورت میں نقل کرانا شروع کر دیا اور اصل کے ساتھ ساتھ مقابلہ بھی جاری رکھا.اس کے ساتھ ہی شیخ صاحب موصوف تبرکات مسیح موعود کی فہرستوں کو زیادہ سے زیادہ مکمل کر کے اخبار الفضل میں شائع کرنے لگے.جناب شیخ عبدالقادر صاحب 4 جون 1940 ء تک یہ قومی خدمت بجالاتے رہے.اس عرصہ میں آپ نے سینکڑوں رفقاء کی روایات تیرہ رجسٹروں کی صورت میں محفوظ کر لیں.شیخ صاحب کے بعد 4 جون 1940ء کو دوبارہ ملک محمد عبد اللہ صاحب مولوی فاضل نے اس کام کا چارج لیا.آپ نے قریباً ڈھائی ماہ کام کیا اور 150 صفحات پر مشتمل روایات حاصل کرے درج رجسٹر کیں ازاں بعد 15 اگست 1940ء کو یہ فریضہ مہاشہ ملک فضل حسین صاحب مہاجر کے سپر د کیا گیا.( تاریخ احمدیت جلد 8 ص 431) جلسہ سالانہ 1959 ء کے موقع پر (جو 22 تا 24 جنوری 1960ء کو منعقد ہوا ) مجلس انصار الله مرکزیہ نے 11 صحابہ مسیح موعود کی روایات کو ان کی آواز میں ریکارڈ کیا.صحابہ کے بابرکت وجود سے فائدہ اٹھانے کی تحریک حضرت خلیفہ مسیح الثانی المصلح الموعود ہمیشہ ہی احباب جماعت کو یہ تلقین فرماتے رہتے تھے کہ وہ صحابہ مسیح موعود کے مبارک زمانہ کو غنیمت سمجھیں، ان سے فیض صحبت اٹھا ئیں اور ان کے رنگ میں رنگین ہو کر زندہ ایمان اور کامل عرفان پیدا کرنے کی کوشش کریں.اسی سلسلہ میں حضور نے 1944 ء کے آغاز میں ایک دردانگیز خطبہ ارشاد فرمایا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص رفقاء میں.
182 خصوصا حضرت منشی رستم علی صاحب ( آف مدار ضلع جالندھر) کے جذبہ ایثار وفدائیت کی مثال دیتے ہوئے فرمایا.حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں کئی لوگ ایسے تھے جنہیں قادیان میں صرف دو تین دفعہ آنے کا موقعہ ملا اور انہوں نے اپنے دل میں یہ سمجھا کہ خدا تعالیٰ نے بڑا فضل کیا کہ ہمارا قادیان سے تعلق پیدا ہو گیا اور ہم نے زمانہ کے نبی کو دیکھ لیا.مگر آج اس چیز کی اس قدر اہمیت ہے کہ ہماری جماعت میں سے کئی لوگ ہیں جو حضرت مسیح موعود کا زمانہ یاد کر کے بڑی خوشی سے یہ کہنے کے لئے تیار ہو جائیں گے کہ کاش ہماری عمر میں سے دس یا بیس سال کم ہو جاتے لیکن ہمیں زندگی میں صرف ایک دفعہ حضرت مسیح موعود کو دیکھنے کا موقع مل جاتا..حضرت مسیح موعود کا زمانہ تو گزر گیا.اب آپ کے خلفاء اور صحابہ کا زمانہ ہے.مگر یا درکھو کچھ عرصہ کے بعد ایک زمانہ ایسا آئے گا جب چین سے لے کر یورپ کے کناروں تک لوگ سفر کریں گے اس تلاش اس جستجو اور اس دھن میں کہ کوئی شخص انہیں ایسا مل جائے جس نے حضرت مسیح موعود سے بات کی ہو مگر انہیں کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا.پھر وہ کوشش کریں گے کہ انہیں کوئی ایسا شخص مل جائے جس نے حضرت مسیح موعود سے بات نہ کی ہو صرف مصافحہ ہی کیا ہومگر انہیں ایسا شخص بھی کوئی نہیں ملے گا.پھر وہ کوشش کریں گے کہ انہیں کوئی ایسا شخص مل جائے جس نے حضرت مسیح موعود سے بات نہ کی ہو.آپ سے مصافحہ نہ کیا ہو، صرف اس نے آپ کو دیکھا ہی ہومگر انہیں ایسا بھی کوئی شخص نظر نہیں آئے گا.پھر وہ تلاش کریں گے کہ کاش انہیں کوئی ایسا شخص مل جائے جس نے گو حضرت مسیح موعود سے بات نہ کی ہو.آپ سے مصافحہ نہ کیا ہو، آپ کو دیکھا نہ ہو، مگر کم سے کم وہ اس وقت اتنا چھوٹا بچہ ہو کہ حضرت مسیح موعود نے اس کو دیکھا ہو مگر انہیں ایسا بھی کوئی شخص نہیں ملے گا.لیکن آج ہماری جماعت کے لئے موقع ہے کہ وہ ان برکات کو حاصل کرے.( الفضل 15 اپریل 1944 ء ) صحابہ مسیح موعود کے حالات محفوظ کرنے کی تحریک سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے 27 دسمبر 1955ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر تحریک فرمائی کہ صحابہ مسیح موعود کے حالات جلد سے جلد محفوظ ہو جانے چاہئیں اور جس کو کوئی روایت پتہ لگے وہ اخبارات اور
183 کتابوں میں چھپوا دے اور ملک صلاح الدین صاحب کو پہنچا دے تا یہ خزانہ محفوظ ہو جائے.چنانچہ فرمایا:.ہمارے ہاں بھی صحابہ کے حالات محفوظ ہونے چاہئیں ملک صلاح الدین صاحب لکھ رہے ہیں جس وقت یورپ اور امریکہ احمدی ہوا تو انہوں نے آپ کو برا بھلا کہنا ہے کہ حضرت صاحب کے صحابہ اور ان کے ساتھ رہنے والوں کے حالات بھی ہمیں معلوم نہیں وہ بڑی بڑی کتا ہیں لکھیں گے جیسے یورپ میں بعض کتابوں کی ہیں ہیں چالیس چالیس پونڈ قیمت ہوتی ہے اور بڑی بڑی قیمتوں پر لوگ ان کو خریدیں گے مگر ان کا مصالحہ ان کو نہیں ملے گا اور وہ غصہ میں آکر تم کو بددعائیں دیں گے کہ ایسے قریبی لوگوں نے کتنی قیمتی چیز ضائع کر دی.ہم نے تو اب تک حضرت مسیح موعود کی سیرت بھی مکمل نہیں کی.بہر حال صحابہ کے سوانح محفوظ رکھنے ضروری ہیں.جس جس کو کوئی روایت پتہ لگے اس کو چاہئے کہ لکھ کر اخباروں میں چھپوائے.کتابوں میں چھپوائے اور جن کو شوق ہے ان کو دے تا کہ وہ جمع کریں اور پھر وہ جو کتابیں چھاپیں ان کو ضرور خریدے اور اپنے بچوں کو پڑھائے.صحابہ میں جو رنگ تھا اور ان لوگوں میں جو قربانی تھی وہ ہمارے اندر نہیں ہے مگر ہمارے اندر بھی وہ طبقہ جس نے حضرت مسیح موعود کی صحبت پائی تھی.بڑا مخلص تھا اور ان میں بڑی قربانی تھی اگر وہی اخلاص آجکل نو جوانوں میں پیدا ہو جائے تو جماعت ایک سال میں کہیں سے کہیں نکل جائے.(روزنامه افضل ربوه 16 فروری 1956ء ص 4)
184 ماہرین علوم پیدا کرنے کے لئے تحریکات ایک تیزی سے بڑھتی ہوئی علمی جماعت کو ہر قسم کے کارکنان اور خدمت گاروں کی ضرورت ہوتی ہے.اس لئے سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے نہ صرف عمومی وقف زندگی کی تحریکات فرمائیں بلکہ علماء اور ماہرین تیار کرنے کی ضرورت کو محسوس کیا اور اس کی خاطر ٹھوس قدم اٹھائے.مختلف مذاہب کے ماہرین اس سلسلہ کو بڑھاتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے بعض جوانوں کو خاص خاص مذاہب کی ریسرچ کے لئے ارشاد فرمایا.مثلاً ہندو مذہب کے لئے مہاشہ ملک فضل حسین صاحب.سکھ مذہب کے لئے چوہدری عبدالسلام صاحب کا ٹھ گڑھی.مولوی رحمت علی صاحب ( مبلغ انڈونیشیا) ، شیخ محمود احمد صاحب عرفانی اور عیسائی مذہب کی تحقیق کے لئے شیخ ( حکیم ) فضل الرحمن صاحب مقرر ہوئے.ان حضرات میں سے مولوی رحمت علی صاحب اور شیخ فضل الرحمن صاحب اور شیخ محمود احمد صاحب عرفانی نے آگے چل کر بالترتیب انڈونیشیا، افریقہ اور مصر میں سلسلہ کی اشاعت کے لئے بڑی قابل قدر خدمات سرانجام دیں اور ملک فضل حسین صاحب نے اندرون ملک میں ہندو مذہب کے حوالہ سے شاندارلٹر پچر پیدا کیا.چوہدری عبد السلام صاحب کا ٹھ گڑھی نے تحریک شدھی ملکانہ میں سرگرم حصہ لیا.سینکڑوں مفسر اور محدث تاریخ احمدیت جلد 4 ص 223) لمصل 1944ء میں حضرت میر محمد الحق صاحب کی المناک وفات کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے سیدنا الموعودؓ کی توجہ اس طرف مبذول فرمائی کہ جماعت میں جلد سے جلد علماء اور علوم اسلامیہ کے ماہرین پیدا کرنے ضروری ہیں تا پہلے بزرگوں کے قائم مقام ہو سکیں اور جماعت کے لئے من حیث الجماعت اپنے علمی مقام سے گرنے کا امکان باقی نہ رہے.چنانچہ حضور نے مجلس مشاورت کے دوران 9 را پریل 1944 ء کوفر ما یا فرمایا:.
185 ”خدا تعالیٰ کی مشیت پوری ہوئی اور میر صاحب وفات پاگئے.ان کے انتقال سے جماعت کو اس لحاظ سے شدید صدمہ پہنچا ہے کہ وہ سلسلہ کے لئے ایک نہایت مفید وجود تھے.مگر یا درکھو مومن بہادر ہوتا ہے اور بہادر انسان کا یہ کام نہیں ہوتا کہ جب کوئی ابتلاء آئے تو وہ رونے لگ جائے یا اس پر افسوس کرنے بیٹھ جائے.تم کیوں اپنے آپ کو اس حالت میں تبدیل نہیں کر لیتے کہ جب کوئی شخص مشیت ایزدی کے ماتحت فوت ہو جائے تو تمہیں ذرا بھی یہ فکر محسوس نہ ہو کہ اب سلسلہ کا کام کس طرح چلے گا بلکہ تم میں سینکڑوں لوگ اس جیسا کام کرنے والے موجود ہوں...ہماری جماعت اگر روحانی طور پر نہایت مالدار بن جائے تو اسے کسی شخص کی موت پر کوئی گھبراہٹ لاحق نہیں ہوسکتی.تم اپنے آپ کو روحانی لحاظ سے مالدار بنانے کی کوشش کرو.تم میں سینکڑوں فقیہہ ہونے چاہئیں.تم میں سینکڑوں محدث ہونے چاہئیں، تم میں سینکڑوں مفسر ہونے چاہئیں، تم میں سینکڑوں علم کلام کے ماہر ہونے چاہئیں.تم میں سینکڑوں علم اخلاق کے ماہر ہونے چاہئیں.تم میں سینکڑوں علم تصوف کے ماہر ہونے چاہئیں تم میں سینکڑوں منطق اور فلسفہ اور فقہ اور لغت کے ماہر ہونے چاہئیں.تم میں سینکڑوں دنیا کے ہر علم کے ماہر ہونے چاہئیں تا کہ جب ان سینکڑوں میں سے کوئی شخص فوت ہو جائے تو تمہارے پاس ہر علم اور ہرفن کے 499 عالم موجود ہوں اور تمہاری توجہ اس طرف پھرنے ہی نہ پائے کہ اب کیا ہو گا جو چیز ہر جگہ اور ہر زمانہ میں مل سکتی ہو اس کے کسی حصہ کے ضائع ہونے پر انسان کو صدمہ نہیں ہوتا.کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ایسی سینکڑوں چیزیں میرے پاس موجود ہیں.اسی طرح اگر ہم میں سے ہر شخص علوم و فنون کا ماہر ہو تو کسی کو خیال بھی نہیں آسکتا کہ فلاں عالم تو مر گیا.اب کیا ہوگا.یہ خیال اسی وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے وجودوں کو نادر بننے دیتے ہیں اور ان جیسے سینکڑوں نہیں ہزاروں وجود اور پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے.اگر ان کے نادر ہونے کا احساس جاتا رہے جس کی سوائے اس کے اور کوئی صورت نہیں ہو سکتی کہ ان کے قائم مقام ہزاروں کی تعداد میں ہمارے اندر موجود ہوں تو کبھی بھی جماعت کو یہ خیال پیدا نہ ہو کہ فلاں شخص تو فوت ہو گیا.اب کیا ہوگا ؟ دیکھو.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فاستبقوا الخیرات.تم نیکی کے میدان میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو.اگر ہم قرآن کریم کے اس حکم کے مطابق یہ اشتیاق رکھتے کہ ہم دوسروں سے آگے بڑھ کر رہیں.اگر ہم میں سے ہر شخص استباق کی روح کو اپنے اندر قائم رکھتا تو
186 آج ہم میں سے ہر شخص بڑے سے بڑا محدث ہوتا.بڑے سے بڑا مفسر قرآن ہوتا.بڑے سے بڑا عالم دین ہوتا اور کسی کے دل میں یہ احساس تک پیدا نہ ہوتا کہ اب جماعت کا کیا بنے گا ؟ ہمارے لئے یہ خطرہ کی بات نہیں ہے کہ حضرت خلیفہ اول بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے یا مولوی عبدالکریم صاحب بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے یا مولوی برہان الدین صاحب بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے یا حافظ روشن علی صاحب بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے یا قاضی امیر حسین بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے یا میر محمد الحق صاحب بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہو گئے.بلکہ ہمارے لئے خطرہ کی بات یہ ہے کہ جماعت کسی وقت بحیثیت جماعت مر جائے اور ایک عالم کی جگہ دوسرا عالم ہمیں اپنی جماعت میں دکھائی نہ دے.رپورٹ مجلس مشاورت 1944ءص174 تا178) اس سلسلہ میں حضور نے عملی طور پر بھی کئی اہم اقدامات اٹھائے.خصوصی تعلیم کے لئے واقفین کا انتخاب یکم فروری 1945ء کو حضور نے دار الواقفین کے تمام ممبران کو قصر خلافت میں شرف باریابی بخشا.ازاں بعد حضور نے 22 واقفین کو بیرونی ممالک میں بھجوانے اور 9 واقفین کو تفسیر، حدیث، فقہ اور فلسفہ و منطق کی اعلی تعلیم دلانے کے لئے منتخب فرمایا تا وہ سلسلہ کے بزرگ علماء کے قائم مقام بن سکیں.حصول تعلیم خاص کے لئے مندرجہ ذیل واقفین منتخب کئے گئے.مولوی نور الحق صاحب ( تفسیر ).ملک سیف الرحمن صاحب ( فقه ).مولوی محمد صدیق صاحب ( حدیث ).مولوی محمد احمد صاحب جلیل (حدیث ).مولوی محمد احمد صاحب ثاقب ( فقه ).مولوی غلام باری صاحب سیف (حدیث) - حکیم محمد اسماعیل صاحب (منطق و فلسفہ ).حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب ( تفسیر ).ملک مبارک احمد صاحب ( منطق و فلسفه ) ازاں بعد مولوی خورشید احمد صاحب شاد بھی اس زمرہ میں شامل کر لئے گئے اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے آپ کو حدیث شریف کی خصوصی تعلیم کا ارشاد فرمایا.مندرجہ بالا واقفین مئی 1947 ء میں فارغ التحصیل ہوئے جس کا ذکر خود حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے 6 جون 1947 ء کے خطبہ جمعہ میں کیا.چنانچہ فرمایا:.
187 مجھے کئی سال سے یہ فکر تھا کہ جماعت کے پرانے علماء اب ختم ہوتے جارہے ہیں.ایسا نہ ہو کہ جماعت کو یکدم مصیبت کا سامنا کرنا پڑے اور جماعت کا علمی معیار قائم رہ نہ سکے.چنانچہ اس کے لئے میں نے آج سے تین چار سال قبل نئے علماء کی تیاری شروع کر دی تھی.کچھ نو جوان تو میں نے مولوی صاحب ( یعنی حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب.ناقل ) سے تعلیم حاصل کرنے کے لئے مولوی صاحب کے ساتھ لگا دیئے اور کچھ باہر بھجوا دیئے تا کہ وہ دیو بند وغیرہ کے علماء سے ظاہری علوم سیکھ آئیں.یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت اور قدرت کی بات ہے کہ ان علماء کو واپس آئے صرف ایک ہفتہ ہوا ہے.جب وہ واپس آگئے تو مولوی صاحب فوت ہو گئے.الفضل 11 جون 1947ء ص5) حضرت مصلح موعودؓ نے مرکز میں ان واقفین کو واپسی پر ان کو دوسرے واقفین کے پڑھانے پر مقرر فرما دیا.ان علماء نے ایک لمبا عرصہ مختلف میدانوں میں جماعت کی بھر پور خدمت کی ہے اور اب ان کے شاگردوں کے ذریعہ یہ سلسلہ جاری ہے.
188 مرکز سلسلہ کے متعلق تحریکات قادیان جماعت احمدیہ کا دائگی مرکز ہے.یہ ایک طرف کل عالم کے احمدیوں کا مرکز وحدت ہے اور دوسری طرف مخالفین کی شرارتوں اور ایذا رسانیوں کا مرکز نگاہ ہے.اس لئے قادیان کی آبادی، اس کا ماحول، اس کی حفاظت اور دیگر امور احمدیت کی ترقی اور اشاعت میں زبردست کردارادا کرتے ہیں.ہے لہذا حضرت مصلح موعودؓ نے اس طرف بھی ہر پہلو سے خاص توجہ فرمائی.یہاں قادیان اور پھر منارة المسبح کے متعلق حضور کی نمایاں تحریکات کو یکجا کر دیا گیا ہے.قادیان کے متعلق سب سے اہم تحریکات تو وہ ہیں جن میں حضور اہل قادیان کو علمی اور روحانی لحاظ سے بلند مدارج پر پہنچنے کی تلقین کرتے رہے اور مسلسل خطبات کے ذریعہ را ہنمائی فرماتے رہے.نظام جماعت اور ذیلی تنظیموں کی بنیاد رکھی اور متعدد ایسے ادارے قائم فرمائے جو قادیان اور اس کے باسیوں کی نیک شہرت کا ذریعہ بنیں.یہ سلسلہ حضرت مصلح موعودؓ کے پورے دور خلافت پر پھیلا ہوا ہے اور خلافت ثانیہ کی پوری تاریخ اس کی تفصیل میں پیش کی جاسکتی ہے.مینارة المسیح قادیان کی تعمیل کی تحریک احادیث نبوی میں ایک پیشگوئی تھی کہ مسیح سفید منارہ کے قریب نازل ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کی اس بات کو ظاہر میں پورا کرنے کے لئے ایک مینار کی بنیا د رکھی.گواس وقت یہ کام بظاہر مشکل نظر آتا تھا لیکن پھر بھی آپ کے زمانہ میں جماعت نے اس غرض کے لئے بہت سا چندہ جمع کیا.لیکن کام پھر بھی نامکمل رہا.بعض مخالفین نے اس پر اعتراض کیا تو حضرت مسیح موعود نے تحریر فرمایا: اگر سارے کام ہم ہی کر جائیں تو بعد میں آنے والے لوگ کیا کریں گے اور وہ کس طرح ثواب لیں گے.حضرت مصلح موعودؓ نے 27 نومبر 1914ء کے خطبہ میں مخلصین کو تحریک فرمائی کہ وہ منار کی تکمیل میں حصہ لیں.حضرت مسیح موعود نے اس کی تکمیل سے بہت سی برکات کے نزول کی پیشگوئی فرمائی ہے
189 ممکن ہے اللہ تعالیٰ اسی کی بدولت ہمارے موجودہ ابتلاؤں کو دور کر دے.خطبہ جمعہ کے بعد حضور نے منار کی اس عمارت پر اپنے دست مبارک سے اینٹ رکھی جو نا تمام تھی.بظاہر حالات بہت مخدوش تھے.مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت خلیفہ البیع الثانی کی توجہ اور خالصین کی قربانیوں سے دسمبر 1916ء میں منار قریباً مکمل ہو گیا اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی اجازت خاص سے حضرت چوہدری مولا بخش صاحب کی طرف سے یادگاری پتھر نصب کیا گیا.فروری 1923ء میں اس پر گیس کے ہنڈے نصب ہوئے.1929ء میں منارہ اسی پر گھڑیال لگانے کے لئے ویسٹ اینڈ واچ کمپنی سے خط و کتابت کی گئی.1930ء میں منار پر لیمپ لگائے گئے اور 1931ء میں ٹاور کلاک آیا.اکتوبر 1935ء میں منارہ اسی پر بجلی کے لئے وائرنگ کی منظوری دی گئی.منارہ مسیح کی تکمیل سے وہ تمام اغراض و مقاصد پورے ہوئے جو اس کی بنیاد کے وقت حضرت مسیح موعود کے پیش نظر تھے اور جیسا کہ حضور نے خبر دی تھی ، اس کی تعمیر کے بعد اسلام کی روشنی دنیا کے کناروں تک پہنچ گئی اور تبلیغ اسلام کے ایک جدید اورانقلابی دور کا آغاز ہوا.حضرت مسیح موعود نے فیصلہ فرمایا تھا کہ منارہ اُسیح کے لئے کم از کم سو روپیہ دینے والوں کے نام منار پر بطور یادگار کندہ کرائے جائیں گے چنانچہ منار کی تکمیل کے بعد اس پر قریباً 1929ء میں دوسو گیارہ مخلصین کے نام لکھوا دیے گئے.فرمایا: قادیان بار بار آنے کی تحریک 28 دسمبر 1915ء کو جلسہ سالانہ کی تقریر میں حضور نے بار بار قادیان آنے کی نصیحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ جو لوگ قادیان نہیں آتے مجھے ان کے ایمان کا خطرہ ہی رہتا ہے بار بار یہاں آؤ تا کہ حضرت مسیح موعود کی صحبت یافتہ جماعت کے پاس بیٹھو.حضرت مسیح موعود کے نشانات کو دیکھو اور اپنے دلوں کو صیقل کرو.میں یہ نہیں کہتا کہ آپ لوگوں نے اس وقت تک کچھ نہیں سیکھایا کچھ نہیں حاصل کیا.آپ نے بہت کچھ سیکھا اور بہت کچھ حاصل کیا ہے مگر اس کو قائم اور تازہ رکھنے کے لئے یہاں آؤ اور بار بار آؤ.بہت لوگ ایسے ہیں جو صرف جلسہ پر آتے ہیں اور پھر نہیں آتے.
190 میں کہتا ہوں انہیں اس طرح آنے سے کیا فائدہ ہوا.یہ فائدہ تو ہوا کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کا حکم مانا اور اس حکم کی قدر کی.مگر ایسے موقعہ پر انہیں کچھ سکھانے اور پڑھانے کا کہاں موقع مل سکتا ہے.بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو جلسہ پر آتے اور پھر چلے جاتے ہیں ان کی بعض حرکات خلاف شرع ہوتی ہیں.لیکن ایسے وقت میں نہ کچھ بتایا جا سکتا ہے اور نہ بتانے کا کوئی موقع ملتا ہے اور پھر وہ جو یہاں نہیں آتے ان کے لئے بار بار دعا بھی نہیں ہو سکتی اور کس طرح ہو.میں تو دیکھتا ہوں.ماں بھی اپنے اس بچہ کو جو ہر وقت اس سے دور رہے بھول جاتی ہے اور جو نزدیک رہے اسے یاد رکھتی ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ بھی ان لوگوں کو بھلا دیتا ہے جو اس کو یاد نہیں رکھتے.تو و شخص جو بار بار مجھے ملتا ہے اور اپنے آپ کو شناخت کراتا ہے وہ اپنے لئے دعا کے لئے بھی یاد دلاتا ہے.پھر قادیان میں نہ صرف قرآن شریف علمی طور پر حاصل ہوتا ہے بلکہ عملی طور پر بھی ملتا ہے.یہاں خدا کے فضل سے پڑھانے والے ایسے موجود ہیں جو پڑھنے والے کے دل میں داخل کر دیں اور یہ بات کسی اور جگہ حاصل نہیں ہوسکتی کیونکہ تفقہ فی الدین اور چیز ہے اور علم اور چیز ہے.جو قرآن شریف پڑھ سکتا ہے وہ عالم ہو سکتا ہے مگر فقیہ نہیں ہوسکتا.ایسے انسان خدا کے فضل سے یہاں موجود ہیں ان سے آپ یہ بات حاصل کریں اور وہ اس طرح کہ بار بار یہاں آئیں.انوار خلافت - انوار العلوم جلد 3 ص 172 ) 27 دسمبر 1920ء کو جلسہ سالانہ پر حضور نے قادیان آنے کے سات فوائد بیان کئے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے.1 - مرکز سے تعلق رکھنے والاخطرات اور ہلاکت سے بچ جاتا ہے.2 - مرکز کا نمونہ دیکھ کر نیک اور دینی باتوں میں حصہ لینے کی تحریک ہوتی ہے.3.تعلقات میں اضافہ ہوتا ہے.4.امام کی صحبت اور دعا سے برکات حاصل ہوتی ہیں.5.مقدس مقام کی برکات سے حصہ ملتا ہے.6.جماعتی کا موں کو دیکھ کر اہمیت ذہن نشین ہوتی ہے.7.مرکزی کام کر کے مرکزی برکات عطا ہوتی ہیں.(انوار العلوم جلد 5 ص 450)
فرمایا:.191 قادیان میں آنا دو موقعوں پر بڑا ضروری ہوتا ہے.ایک جلسہ کے موقع پر.وہ خاص برکات کے نزول کا اور وعظ ونصیحت اور دوستوں سے ملنے کا موقع ہوتا ہے اور ایک کسی ایسے موقعہ پر جب لوگوں کا زیادہ ہجوم نہ ہو.تا کہ ذاتی تعارف پیدا ہو سکے.ہجوم کے دنوں میں اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ ہر شخص سے الگ الگ ملاقات کی جائے.یا اس کی طرف خاص توجہ کی جائے.پس دونوں ہی موقعوں پر آپ کو ایک دفعہ آنا چاہئے.ایک دفعہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ اکثر لوگ ایک دفعہ آ کر پھر آتے ہی رہتے ہیں“.(الفضل 13 اکتوبر 1998 ء ) قادیان میں مکان بنانے کی تحریک سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے سالانہ جلسہ 1931ء پر جماعت کو تحریک فرمائی کہ وہ قادیان میں مکان بنائیں تا قادیان کو وسعت حاصل ہو اور اس مقام کی ظاہری عظمت بھی قائم ہو.نیز بتایا کہ اس کے لئے میں نے بھی ایک سکیم بنائی ہے اور خطوط کے ذریعہ شائع کی گئی ہے جو یہ ہے کہ ایک حصہ پچیس روپے ماہوار کا رکھا گیا ہے کل حصے ایک سو بیس رکھے گئے ہیں.ایک شخص ایک یا زیادہ حصے لے سکتا ہے.اس طرح جو روپیہ جمع ہو وہ قرعہ ڈال کر ہر مہینے ایک دوست کو دے دیا جائے جو مکان بنالے اس طرح ایک سو ہمیں حصوں کے مکان نئے اور اچھے بن جائیں گے.پہلے ڈیڑھ سال تک کوئی قرعہ نہیں ڈالا جائے گا تا کہ اس طرح جور تم جمع ہو اس سے زمین خرید لی جائے اس کے بعد ہر مہینے قرعہ ڈالا جائے گا اور جس کے نام نکلے گا اس سے یہ شرط ہوگی کہ روپیہ مکان بنانے پر ہی خرچ کیا جائے.حضور کی اس تحریک پر متعدد خلصین جماعت نے لبیک کہا اور اس سکیم کے مطابق حضرت مسیح موعود کی ایک پیشگوئی پوری کرنے کے لئے قادیان کی پرانی آبادی کے مشرق کی طرف ایک نیا محلہ دارالا نوار کے نام سے آباد کیا گیا.جس کی بنیا د حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے 4 اپریل 1932 ء کو رکھی اور 25 اپریل 1932ء کو اپنی کوٹھی دار الحمد کی بنیادی اینٹ رکھی جو اس نئے محلہ کی پہلی عمارت تھی.دار الحمد کی عمارت دسمبر 1932ء میں پایہ تکمیل کو پہنچی اور 15 جنوری 1933ء کو حضور نے بطور افتتاح ایک سو روپیہ غربا میں پار چات تقسیم کرنے کے لئے عطا فرمایا.حضور نے 27 دسمبر 1932 ء کو
192 احباب جلسہ سے اپنی اس خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہ اس نئے مکان کے بابرکت ہونے کے لئے دعا کریں یہ بھی ارشاد فر مایا کہ ” میں نے قرض لے کر ایک مکان بنوایا ہے کیونکہ اب ہمارے گھر میں اتنی تنگی ہے کہ ایک ایک کمرہ میں جیل کی اتنی جگہ کے مقابلہ میں دو گنے افرا در ہتے ہیں...مجھے مکان بنوانے سے ہمیشہ ڈر آتا ہے جو مکان بنوایا گیا ہے اس کے متعلق بھی میرے دل پر بوجھ ہے اس لئے دوستوں سے خواہش کرتا ہوں کہ دعا کریں خدا تعالیٰ اس مکان کو بابرکت کرے.میں تو اس میں رہنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتا.میرے لئے تو حضرت مسیح موعود کا مکان ہی بہترین ہے مگر جو اس میں جا کر رہے اس کے لئے دعا کی جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکات سے اسے حصہ ملے.غرضیکہ متضرعانہ دعاؤں کے ساتھ دارالانوار کی بناء پڑی اور دراصل انہیں دعاؤں کا اثر تھا کہ چند سالوں کے اندر اندر قادیان کا یہ مشرقی علاقہ آباد ہو گیا اور ہر طرف خوبصورت اور عالی شان عمارتیں بن گئیں.حضرت اماں جان کی کوٹھی بیت النصرت ( جو حضرت اماں جان نے کمال ما درانہ شفقت سے حضرت صاحبزدہ مرزا ناصر احمد صاحب کو تحفہ دے کر دلی محبت کے اظہار سے ان کی عزت افزائی فرمائی اور چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی کوٹھی ” بیت الظفر ، جن کی بنیاد حضور کے دست مبارک سے بالترتیب 23 فروری 1933 ء اور 12 اپریل 1934 ء کو رکھی گئی اسی محلہ میں تعمیر ہوئیں.اسی طرح گیسٹ ہاؤس اور دفتر خدام الاحمدیہ مرکز یہ بھی یہیں بنے.حفاظت مرکز اور وقف جائیداد کی تحریک متحدہ ہندوستان کی آخری مجلس مشاورت 4, 5, 16 اپریل 1947ء کو منعقد ہوئی.اس مشاورت کا اہم ترین واقعہ حضرت مصلح موعود کی طرف سے حفاظت مرکز کے لئے مالی تحریک اور اس پر مخلصین جماعت کا شاندار رنگ میں لبیک کہنے کا ایمان افروز نظارہ ہے.جو مشاورت کے دوسرے دن 5 را پریل کو نماز مغرب وعشاء کے بعد دیکھنے میں آیا.اس روز تیسرا اجلاس 9 بجے شب شروع ہوا.جس کے آغاز میں حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:.
193 حفاظت مرکز کے لئے جماعت سے دو لاکھ کی رقم کا مطالبہ کیا گیا تھا مگر اس وقت تک صرف 36 ہزار کے قریب رقم جمع ہوئی ہے.میں حیران ہوں کہ موجودہ ہولناک تباہیوں اور خونریزیوں کو دیکھتے ہوئے جماعت نے کس طرح اتنی رقم پر اکتفا کیا.کیا کوئی عقلمند یہ تسلیم کر سکتا ہے کہ یہ حقیر رقم شعائر اللہ کی حفاظت کے لئے کافی ہے اور ہم اپنے فرض سے سبکدوش ہو گئے ہیں.اس سے سینکڑوں گنا زیادہ تو تم سال بھر میں اپنے بیماروں پر خرچ کر دیتے ہو.کیا شعائر اللہ کو اتنی اہمیت بھی حاصل نہیں ؟ اب آپ مجھے بتائیں کہ بقیہ رقم کس طرح پوری ہو سکتی ہے؟“ حضرت مصلح موعودؓ کے اس ارشاد پر کئی دوستوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور سب کچھ قربان کر دینے کا یقین دلایا.احباب اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر چکے تو سید نا حضرت الصلح الموعودؓ نے فرمایا:.دنیا میں ہر شخص کے لئے آزادی ہے سوائے ہمارے کہ ہم اپنے مقدس مقامات کو نہ چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی حفاظت کر سکتے ہیں.ایک عمارت جو مٹی اور اینٹوں کی بنی ہوئی ہے اس سے ایک مومن کی جان کہیں قیمتی ہوتی ہے لیکن جب وہ عمارت اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہونے لگے اور شعائر اللہ بن جائے تو اس کی حفاظت کے لئے سینکڑوں مومنوں کی جان بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتی اور انہیں خوشی سے قربان کیا جاسکتا ہے.پس جماعت نے اگر ان باتوں کو مد نظر نہیں رکھا تھا تو میرا فرض تھا کہ میں انہیں احساس ذمہ داری دلاؤں اور ان کے مونہوں سے کہلواؤں کہ ہم سے غفلت ہوئی.سو میں سمجھتا ہوں کہ وہ غرض پوری ہو گئی ہے.اب سوال یہ ہے کہ وہ کمی کس طرح پوری کی جائے.ہمارے عام چندے تو ان اخراجات کے متحمل نہیں ہو سکتے.ہمیں کوئی اور طریق اختیار کرنے ہوں گے.سو اس کے لئے جماعت سے میرا سب سے پہلا مطالبہ یہ ہے کہ وہ دوست جن کی رقوم باہر بینکوں میں جمع ہیں وہ بطور امانت قادیان بھیج دیں تا کہ سلسلہ کو اگر کوئی فوری ضرورت پڑے تو اس میں سے خرچ کر سکے اور پھر آہستہ آہستہ اس کمی کو پورا کر دے.یہ رقوم بطور امانت کے ہوں گی اور بوقت ضرورت واپس مل سکیں گی.اس طرح سلسلہ کی ضرورت بھی پوری ہو جائے گی اور آپ لوگوں کے ایمان کا امتحان بھی ہو جائے گا.جو دوست اس تحریک پر لبیک کہنے کے لئے تیار ہوں وہ اپنے نام اور رقوم لکھا دیں.حضور کی زبان سے ان الفاظ کا نکلنا ہی تھا کہ مخلصین نے نہایت ذوق و شوق سے اپنے نام لکھانے شروع کر دیے.ہر چہرہ سے یہی اضطراب ظاہر ہوتا تھا کہ وہ دوسروں سے سبقت لینا چاہتا ہے اور ہر
194 دل منظر تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ رقوم اپنے آقا کے قدموں میں ڈال دے.قریباً نصف گھنٹہ کے عرصہ میں.371000 روپے کے وعدے ہوئے جس کا حضور نے کھڑے ہو کر اعلان کیا اور فرمایا ”ابھی کچھ دوست رہتے ہیں.جو سوچ رہے ہوں گے اور اکثر ایسے بھی ہیں جنہوں نے مشورہ وغیرہ کرنا ہوگا اور ابھی ہزاروں ہزار دوست ایسے ہیں جو ہم سے کسی طرح اخلاص میں کم نہیں ہیں مگر وہ اس وقت دور بیٹھے ہیں.جب آپ لوگ جا کر ان کو اطلاع دیں گے تو وہ کبھی بھی آپ سے پیچھے نہر ہیں گے اور ممکن ہے مطلوبہ رقم سے بہت زیادہ روپیہ جمع ہو جائے“.اس کے بعد فرمایا ”سب سے پہلے میں جائیداد کے وقف کو لیتا ہوں جو خدا تعالیٰ کے الہام کے ماتحت جاری کیا گیا ہے.مگر میں نہایت افسوس سے کہتا ہوں کہ جماعت نے اس طرف پوری توجہ نہیں کی اور صرف دو ہزار آدمیوں نے اس وقت تک اس میں حصہ لیا ہے.حالانکہ لاکھوں کی جماعت ہے اور لاکھوں کی جماعت میں سے لاکھوں ہی کو وقف کرنا چاہئے تھا.آپ میں سے جن دوستوں نے اپنی آمد یا جائیداد وقف کی ہوئی ہے وہ کھڑے ہو جائیں.(اس پر 455 میں سے جو ہال میں تھے صرف 167 کھڑے ہوئے ) فرمایا یہ تعداد ہے جو 35 فیصدی کے قریب بنتی ہے.اس پر دوسری جماعت کا بھی اندازہ کر لیں.آپ میں سے جو لوگ اس وقت وقف کرنا چاہیں وہ بھی اپنے نام اور جائیداد کی قیمت وغیرہ لکھ دیں.اس پر ہر طرف سے ناموں کی آواز آنے لگی اور کارکنوں نے نام لکھنے شروع کئے.اس سلسلہ کے ختم ہونے پر حضور نے کھڑے ہو کر فرمایا کہ اب آپ لوگوں کا کام ہے کہ جماعتوں میں جا کر دوسرے لوگوں کو بھی اس کارخیر میں شریک کریں.ہم اس بات سے خوش نہیں ہو سکتے کہ ہم میں سے اتنے لوگوں نے حصہ لیا.بلکہ ہمیں تبھی خوشی ہو سکتی ہے کہ جب جماعت کے ہر فرد نے اس میں شرکت کی ہو اور کوئی بھی اس سے باہر نہ رہا ہو.یہی زندہ جماعتوں کی علامت ہے اس ضمن میں فرمایا اس وقت میں تجویز کرتا ہوں کہ وقف جائیداد والے دوست اپنی جائیداد کی کل قیمت کا ایک فیصدی چھ ماہ کے اندر اندر مرکز میں جمع کرا دیں اور وہ جنہوں نے ایک ماہ یا دو ماہ کی آمد وقف کی ہوئی ہے وہ ایک ماہ کی آمد بھیج دیں اور جن لوگوں نے وقف نہیں کی وہ بھی اس چندہ میں حصہ ضرور لیں.وہ اپنی کل جائیداد کی قیمت کا 1/2 فیصدی اور اپنی ایک ماہ کی آمد کا نصف چھ ماہ کے اندراندر یہاں بھیج دیں“.بالآخر حضور نے نہایت پُر جوش کلمات میں نمائندگان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.
195 پس جاؤ اور کوئی فرد باقی نہ رہنے دو جو اپنی جائیداد یا آمد وقف نہ کرے اور وہ لوگ جو انکار کریں ان سے کہہ دو کہ ہم تمہارے حرام مال سے اپنے پاکیزہ مال کو ملوث نہیں کرنا چاہئے.تیسری تجویز یہ ہے کہ وصیتوں کی تحریک کی جائے اور جماعت کا کوئی فرد نہ رہے جس نے وصیت نہ کی ہو.وصیت بیشک طوعی چیز ہے.مگر اب وقت آرہا ہے جب طوعی چیز میں بھی فرض بن جاتی ہیں.چوتھی تجویز یہ ہے کہ جو لوگ پہلے ہی موصی ہیں وہ اپنی وصیتوں کو بڑھائیں.جو 1/10 کے موصی ہیں وہ 1/9 دیں اور جو 1/9 دیتے ہیں وہ 1/8 دیں.وعلی ھذا.چوتھی تجویز قادیان کی جائیدادوں کے متعلق ہے کہ جب وہ بیچی جائیں تو جو نفع ہو اس نفع کا 50/100 سلسلہ کو دیا جائے اور جن کے پاس پہلی جائیدادیں ہیں وہ منافع کا 1/10 فیصدی سلسلہ کو دیں.میں آئندہ کے لئے یہ قانون مقرر کرتا ہوں کہ کوئی جائیداد امور عامہ کے علم اور مرضی کے خلاف فروخت نہ ہو.اس حکم کا اطلاق آج سے شروع ہوگا.سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا:.اب رہا یہ سوال کہ اگر ان تجاویز کے باوجود مطلوبہ رقم جس کی اس وقت سلسلہ کے کام چلانے اور مرکز کی حفاظت کے لئے ضرورت ہے پوری نہ ہو تو میری کوٹھی دار الحمد کو بیچ کر کی پوری کی جائے.کوٹھی کے ساتھ بہت سی زمین اور باغ بھی ہے جس کی مالیت چند لاکھ کے قریب ہے.میرے پاس نقد روپیہ نہیں ہے.جماعت کے دوست یہ کریں کہ اسے خرید لیں.اپنے پیارے آقا کی قربانی کا یہ فقید المثال جذبہ دیکھ کر ہر مومن نے یہی سمجھا کہ جس طرح اپنے پیارے امام کے مقابلہ میں ہماری جانوں کی کوئی قیمت نہیں اسی طرح اس کی جائیداد کے مقابلہ میں ہماری جائیدادوں کی کوئی حیثیت نہیں.ہر طرف سے اس قسم کی صدائیں آنے لگیں یہ نہیں ہوگا بلکہ پہلے ہماری جائیدادیں فروخت ہوں گی.پہلے ہمارا سب کچھ قربان ہوگا.اس پر حضور نے فرمایا اگر آپ لوگ قربانی کرنا چاہیں تو میرے ساتھ شامل ہو جائیں مجھے قربانی سے کیوں محروم کرتے ہیں.سب سے مقدم فرض میرا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں سب کچھ قربان کروں.آپ لوگ جائیں اور اپنے دوسرے بھائیوں کو بھی شریک کریں صرف چند افراد میں یہ روح فائدہ نہیں دے سکتی.جبکہ ساری قوم میں یہ روح ہونی چاہئے.چند افراد تو مشرکوں اور عیسائیوں میں بھی غیر معمولی قربانیاں پیش کر دیا
196 کرتے ہیں لیکن اصل چیز یہ ہے کہ قوم کا ہر فرد اس میں شریک ہو.الفضل 9 اپریل 1947 ء ) | تحریک وقف جائیدادوآمد کی کامیابی اور اس کے مفید نتائج: متحدہ ہندوستان میں ملکی حالات بد سے بدتر ہو رہے تھے اور مرکز احمدیت کے خطرات میں اضافہ ہور ہا تھا اس لئے جماعت احمدیہ کے اولوالعزم قائد اور امام حضرت مصلح موعودؓ نے مجلس مشاورت کے بعد بھی بار بار جماعتوں کو تحریک وقف جائیداد و آمد میں حصہ لینے اور جلد از جلد فہرستیں مکمل کر کے بھجوانے کی تحریک مسلسل جاری رکھی اور ان کو بتایا کہ یہ تحریک آئندہ عظیم الشان اسلامی عمارات کی بنیاد بنے گی.چنانچہ 16 مئی 1947ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا: میں سمجھتا ہوں کہ یہ تحریک بھی ہمارے سلسلہ کی اور تحریکوں کی طرح اپنے اندر خدا تعالیٰ کی بہت بڑی حکمتیں رکھتی ہے اور اس کی خوبیاں صرف اس کی ذات تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ ایک بنیاد ہے آئندہ بہت بڑے اور عظیم الشان کارناموں کو سرانجام دینے کی اور میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ کوئی اتفاقی تحریک نہیں بلکہ اس تحریک کے ذریعہ ہماری جماعت کی ترقی اور سلسلہ کے مفاد کے لئے بعض نہایت ہی عظیم الشان کاموں کی بنیاد رکھی جارہی ہے گو اب تک لوگ اس تحریک کی اہمیت کو نہیں سمجھے لیکن دو چار سال تک اس کے کئی عظیم الشان فوائد جماعت کے سامنے آنے شروع ہو جائیں گے جیسے تحریک جدید کو جب شروع کیا گیا تھا تو اس تحریک کی خوبیاں جماعت کی نگاہ سے مخفی تھیں مگر اب نظر آرہا ہے کہ اس تحریک کے ذریعہ دنیا بھر میں تبلیغ اسلام کا کام نہایت وسیع پیمانے پر جاری ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحم سے جتنے کام مجھ سے لئے ہیں ان تمام کاموں کے متعلق میں دیکھتا ہوں کہ در حقیقت وہ بنیاد ہوتے ہیں بعض آئندہ عظیم الشان کاموں کی.اسی طرح یہ تحریک بنیاد ہوگی آئندہ تعمیر ہونے والی عظیم الشان اسلامی عمارات کی جس طرح میں نے وقف جائیداد کی تحریک کی تھی جو در حقیقت بنیاد تھی آج کی تحریک کے لئے مگر اس وقت لوگ اس تحریک کی حقیقت کو نہیں سمجھے تھے.کچھ لوگوں نے تو اپنی جائیدادیں وقف کر دی تھیں مگر باقی لوگوں نے خاموشی اختیار کرلی اور وہ لوگ جنہوں نے اپنی جائیداد میں وقف کی تھیں وہ بھی بار بار مجھے لکھتے تھے کہ آپ نے وقف کی تو تحریک کی ہے اور ہم اس میں شامل بھی ہو گئے ہیں لیکن آپ ہم سے مانگتے کچھ نہیں.انہیں میں کہتا تھا کہ تم کچھ عرصہ انتظار کرو.اللہ تعالیٰ نے چاہا تو وہ وقت بھی آجائے گا.جب تم سے جائیدادوں کا مطالبہ کیا جائے گا.چنانچہ دیکھ لو اس
197 تحریک سے خدا تعالیٰ نے کتنا عظیم الشان کام لیا ہے.اگر عام چندہ کے ذریعہ اس وقت جماعت میں حفاظت مرکز کے لئے تحریک کی جاتی تو میں سمجھتا ہوں کہ لاکھ دولاکھ روپیہ کا اکٹھا ہونا بھی بہت مشکل ہوتا مگر چونکہ آج سے تین سال پہلے وقف جائیداد کی تحریک کے ذریعہ ایک بنیاد قائم ہو چکی تھی.اس لئے وہ لوگ جنہوں نے اس تحریک میں اس وقت حصہ لیا تھا وہ اس وقت مینار کے طور پر ساری جماعت کے سامنے آگئے اور انہوں نے اپنے عملی نمونہ سے جماعت کو بتایا کہ جو کام ہم کر سکتے ہیں.وہ تم کیوں نہیں کر سکتے.چنانچہ جب ان کی قربانی پیش کی گئی تو ہزاروں ہزار لوگ ایسے نکل آئے.جنہوں نے ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی جائیدادیں وقف کر دیں.پس جس طرح وہ تحریک جدید بنیاد تھی بعض اور عظیم الشان کاموں کے لئے اسی طرح حفاظت مرکز کے متعلق جو تحریک چندہ کے لئے کی گئی ہے یہ بھی آئندہ بعض عظیم الشان کاموں کا پیش خیمہ ثابت ہوگی اور جس وقت یہ تحریک اپنی تکمیل کو پہنچے گی اس وقت مالی لحاظ سے جماعت کی قربانیاں اپنے کمال کو پہنچ جائیں گی در حقیقت جانی قربانی کا مطالبہ وقف زندگی کے ذریعے کیا جارہا ہے اور مالی قربانی کے ایک بہت ہی بلند مقام پر کھڑا کیا جا رہا ہے پھر شاید وہ وقت بھی آجائے کہ سلسلہ ہر شخص سے اس کی جان کا بھی مطالبہ کرے اور جماعت میں یہ تحریک کی جائے کہ ہر شخص نے جس طرح اپنی جائیداد خدا تعالیٰ کے لئے وقف کی ہوئی ہے اسی طرح وہ اپنی زندگی بھی خدا تعالیٰ کے لئے وقف کر دے تاکہ ضرورت کے وقت اس سے کام لیا جا سکے.الفضل 22 مئی 1947 ء ) منارة مسیح بال کے لئے تحریک یکم اپریل 1945ء کو مجلس مشاورت کا تیسرا دن تھا.اس روز حضرت مرزا شریف احمد صاحب ناظر دعوت و تبلیغ نے ایجنڈا کی تجویز نمبر 5 سے متعلق سب کمیٹی کی حسب ذیل سفارش پیش فرمائی کہ :.وقت آگیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشاء کے ماتحت نظارت دعوت و تبلیغ کے زیر اہتمام قادیان میں ایک مذہبی کا نفرنس کی جائے.تفصیلی قواعد بنانے کے لئے ایک سب کمیٹی بنادی جائے.اس کا نفرنس کے اخراجات کے لئے مبلغ دو ہزار روپیہ اس بجٹ میں رکھا جائے.سب کمیٹی کی بحث کے دوران میں حضرت مسیح موعود کے یہ الفاظ مندرجہ اشتہار خطبہ الہامیہ پڑھ کر سنائے گئے.
198 بالآخر میں ایک ضروری امر کی طرف اپنے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس مینارہ میں ہماری یہ بھی غرض ہے کہ مینارہ کے اندریا جیسا کہ مناسب ہو ایک گول کمرہ یا کسی اور وضع کا کمرہ بنایا جائے جس میں کم از کم 100 آدمی بیٹھ سکے اور یہ کمرہ وعظ اور مذہبی تقریروں کے کام آئے گا.کیونکہ ہمارا ارادہ کہ ایک یا دو دفعہ قادیان میں مذہبی تقریروں کا جلسہ ہوا کرے اور اس جلسہ پر ایک ایک شخص مسلمانوں ہندوؤں ، آریوں، عیسائیوں اور سکھوں میں سے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے.مگر شرط یہ ہوگی کہ کسی مذہب پر کسی قسم کا حملہ نہ کرے.فقط اپنے مذہب کی تائید میں جو چاہے تہذیب سے کہے.حضرت مرزا شریف احمد صاحب یہ تجویز پڑھ ہی رہے تھے کہ حضرت مصلح موعوداً چانک کرسی سے اٹھے اور پاس ہی فرش پر جو تھوڑی سی جگہ تھی وہاں سجدہ میں پڑ گئے.یہ دیکھتے ہی تمام حاضرین اپنی اپنی جگہ پر سجدہ میں گر گئے اور حضور کے اٹھنے پر جب اللہ اکبر کہا گیا تو اٹھے جس کے بعد حضرت مصلح موعود نے فرمایا:.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے اکثر لوگ خدا کے نشانوں سے اعراض کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں.آج سے 45 سال پہلے وہ شخص جس کی جوتیوں کا غلام ہونا بھی ہم اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں اسے اس وقت کی اپنی جماعت کی حالت دیکھتے ہوئے ایک بہت بڑا مقصد اور کام یہ نظر آیا کہ ایک ایسا کمرہ بنایا جائے جس میں سو آدمی بیٹھ سکے.مگر آج ہم ایک ایسے کمرے میں بیٹھے ہیں جو اس غرض سے نہیں بنایا گیا تھا کہ مختلف مذاہب کے لوگ اس میں تقریریں کریں مگر اس میں پانچ سو کے قریب آدمی بیٹھے ہیں اور وہ بھی کرسیوں پر جو زیادہ جگہ گھیرتی ہیں.گویا اس زمانہ میں جماعت کی طاقت اور وسعت کی یہ حالت تھی کہ سو آدمیوں کے بیٹھنے کا کمرہ بنایا جائے اور سو آدمیوں کی بٹھانے کے لئے جگہ بنانے کی غرض سے بھی حضرت مسیح موعود کو اعلان کرنا پڑا اور اسے ایک بڑا کام سمجھا گیا اور خیال کیا گیا کہ سو آدمیوں کے بیٹھنے کے لئے کمرہ بنانا بھی مشکل ہو گا.مجھے منارة المسیح کی تعمیر کے وقت کی یہ بات یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود شہ نشین پر بیٹھے تھے اور میر حامد شاہ صاحب کے والد میر حکیم حسام الدین صاحب سامنے بیٹھے تھے.منارہ بنانے کی تجویز ہو رہی تھی.8,7 ہزار جو جمع ہوا تھا.وہ بنیادوں میں ہی صرف ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام اس فکر میں تھے کہ اب کیا ہوگا، حکیم حسام الدین صاحب زور دے رہے تھے کہ حضور یہ بھی خرچ ہوگا اور وہ بھی ہوگا اور کئی ہزار روپیہ خرچ کا اندازہ پیش
199 کر رہے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کی باتیں سن کر فرمایا.حکیم صاحب کا منشاء یہ معلوم ہوتا ہے کہ منارہ کی تعمیر کو ملتوی کر دیا جائے.چنانچہ ملتوی کر دیا گیا.ایک تو وہ وقت تھا اور ایک آج ہے کہ مسجد مبارک کی توسیع کے لئے عصر کی نماز کے وقت میں نے مقتدیوں سے ذکر کیا اور عشاء کی نماز سے پہلے پہلے 18 ہزار کے وعدے اور رقوم جمع ہو گئیں اور بیرونی احباب کو اس چندہ میں شریک ہونے کا موقع ہی نہ ملا.یہ نشان کسی نابینا کو نظر نہ آئے.مگر ہر بینا کو نظر آرہا ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کو بڑھارہا اور سامان پیدا کرتا جارہا ہے کہ اس وقت جو بات بہت بڑی معلوم ہوتی تھی.آج بہت ہی معمولی اور حقیرسی نظر آتی ہے اور آج جو چیز بہت بڑی معلوم ہوتی ہے وہ کل حقیر ہو جاتی ہے.خدا تعالیٰ کا یہی سلوک ہماری جماعت سے برابر چلا جارہا ہے اور اس بات کا خیال کر کے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرح دل بھر آتا ہے اور آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں کہ کاش جماعت کی یہ ترقی حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں ہوتی تا آپ بھی اس دنیا میں اپنے کام کے خوشکن نتائج دیکھ لیتے.(یہ فرماتے فرماتے حضور پر بیحد رقت طاری ہوگئی پھر تھوڑی دیر توقف کے بعد فرمایا ) اس تجویز کا اصل مقصد کا نفرنس منعقد کرنا ہے جس میں ہر مذہب کے نمائندے اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کریں.سب کمیٹی نے اس کے لئے دو ہزار روپے تجویز کئے ہیں.میں چاہتا ہوں کہ جو دوست اس کے متعلق کچھ کہنا چاہیں نام لکھا دیں.چنانچہ ایک مخلص نے دو ہزار روپیہ دینے کا اعلان کر دیا.اس کے بعد بعض اصحاب نے خود بخود در قوم پیش کرنی شروع کر دیں جس پر حضور نے فرمایا:.” دوستوں نے چندہ دینا شروع کر دیا ہے اور اس بات کا انتظار نہیں کیا کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں.مجھ پر جو اس وقت وجد کی حالت طاری ہوئی اور میں سجدہ میں گر گیا.اس کی وجہ حضرت مسیح موعود کے زمانہ کے حالات اور بعد کے حالات کا فرق ہے.اس وقت دو ہزار روپیہ کا جو سوال ہے وہ تو ایک دوست نے پورا کر دیا ہے اور وہ کیا اس سے بہت زیادہ چندہ ہوسکتا ہے.مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس تجویز کے پیچھے جذ بہ کیا کارفرما ہے.یہی کہ باہر سے کتنے آدمی آسکیں گے.چونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اب ہیں پچیس ہزار احمدی ہی جلسہ پر اکٹھے ہو جاتے ہیں.ان حالات میں چاہئے کہ ہم ایک ایسا ہال بنائیں
200 جس میں ایسے جلسے ہوتے رہیں یا شیڈ کے طور پر ایسی جگہ بنائیں جس میں کم از کم ایک لاکھ آدمیوں کے بیٹھنے کی جگہ ہو حضرت مسیح موعود نے اپنی اولاد کے لئے دعا فرمائی ہے کہ ایک سے ہزار ہوویں اور نبی کی اولاد اس کی جماعت بھی ہوتی ہے.اس لئے 100 کو ہزار سے ضرب دیں.تو ایک لاکھ بنتا ہے.ان کے بیٹھنے کے لئے جگہ بنانی چاہئے.گوہم جانتے ہیں کہ کچھ ہی عرصہ کے بعد آنے والے کہیں گے کہ یہ بیوقوفی کی گئی.کم از کم دس لاکھ کے لئے تو جگہ بنانی چاہئے تھی.پھر اور آئیں گے جو کہیں گے یہ کیا بنا دیا کروڑ کے لئے جگہ بنانی چاہئے تھی.اس لئے میری تجویز یہ ہے کہ پانچ سال میں دولاکھ روپیہ ہم اس غرض کے لئے جمع کریں.پانچ سال کا عرصہ اس لئے میں نے رکھا ہے کہ اس وقت تک جنگ کی وجہ سے جو گرانی ہے وہ دور ہو جائے گی اور ہم ایسی عمارت بناسکیں گے.اس لئے فی الحال میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ آئندہ پانچ سال میں اس بات کو مدنظر رکھ کر دو لاکھ روپیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے جمع کریں میں اس تجویز کو بھی منظور کرتا ہوں کہ بجٹ میں یہ رقم رکھنے اور مجلس شوری میں پیش کرنے کی بجائے انفرادی طور پر جماعت سے لے لی جائے.دو ہزار روپیہ جو چوہدری اسد اللہ خاں صاحب نے دیا ہے.اسی دو لاکھ کی رقم میں داخل کرتا ہوں.یہ رقم اعلان کر کے طوعی چندہ سے پوری کر لی جائے گی.اس وقت تک حضور کے آگے میز پر وعدوں کی تحریریں اور نقد رقوم بہت سی جمع ہو چکی تھیں.جن کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا :.یہ رفعے اور روپے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری والے اٹھالیں.میں اس بارہ میں بری ہوتا ہوں.خدا تعالیٰ کے حضور دفتر والے جواب دہ ہوں گے.یہ فرمانے پر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضور جلسہ ختم ہی کرنے والے ہیں اور حضور نے رقوم پیش کرنے والوں کے نام سنانے کا ارشاد فرمایا اور اپنی طرف سے دس ہزار روپیہ اس فنڈ میں دینے کا ارشاد فرمایا.ابھی چند ہی نام سنائے گئے تھے کہ اس کثرت سے احباب نے اپنے نام پیش کرنے شروع کر دیئے کہ حضور نے فرمایا.احباب باری باری بولیس تا ان کے نام لکھے جاسکیں اور ساتھ ہی حضور نے کئی اور اصحاب کو نام لکھنے پر مقرر کر دیا.کچھ دیر بعد حضور نے فرمایا کہ میں اپنی طرف سے، اپنے خاندان کی طرف سے نیز چودھری ظفر اللہ خان صاحب اور ان
201 دوستوں اور سیٹھ عبداللہ بھائی صاحب کے خاندان اور جماعت احمدیہ کی طرف سے اس بات کا اعلان کرتا ہوں کہ بیرونی جماعتوں کو اس فنڈ میں شریک ہونے کا موقعہ دینے کے بعد دولا کھ میں جو کمی رہے گی وہ ہم پوری کر دیں گئے“.اسی اثناء میں ساری فہرست تیار ہونے کے بعد جب رقوم کی میزان کی گئی تو حضور نے اعلان فرمایا کہ: اس جلسہ میں شریک ہونے والوں نے اپنی طرف سے یا اپنے غیر حاضر دوستوں اور رشتہ داروں کی طرف سے جو چندے پیش کئے ہیں ان کی فہرست تیار کر لی گئی ہے.ممکن ہے جلدی میں ان رقوم کی میزان کرنے میں کچھ غلطی ہو گئی ہو.لیکن اس وقت جس قدر چندہ ہو چکا ہے.وہ دو لاکھ بائیس ہزار سات سو چونسٹھ روپے شمار کیا گیا ہے.اس کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے یہ فرماتے ہوئے کہ یہ سجدہ شکر ہے پھر سجدہ کیا اور تمام مجمع حضور کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو گیا اور نہایت رقت سے دعائیں کیں.سجدہ سے اٹھنے پر حضور نے فرمایا: بعض مواقع پر بولنے سے خاموشی زیادہ اچھی ہوتی ہے.اس لئے میں اس جلسہ کو اللہ کے نام پر ختم کرتا ہوں اور دوستوں کو واپسی کی اجازت دیتا ہوں.مجھے جو کچھ کہنا ہوگا بعد میں خطبات میں کہوں گا“.اس کے بعد مجلس مشاورت کا آخری اجلاس برخواست ہو گیا.منارة اسبیح ہال کے ساتھ ایک عظیم الشان لائبریری کی سیکیم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی لمصلح الموعود کو اللہ تعالیٰ نے دور بین آنکھ بخشی تھی اور آپ کا ہر نیا قدم بصیرت اور معاملہ نہی کی نئی سے نئی راہیں کھول دیتا تھا.منارة اسبیح ہال کی تحریک کسی سوچی ہوئی تجویز کا نتیجہ نہیں تھی.بلکہ اللہ تعالیٰ نے مجلس شوری کے موقعہ پر خود ہی جماعت کے دلوں میں ایسا زبردست جوش اور اخلاص پیدا کر دیا کہ اندازہ سے بھی زیادہ چندہ نقد اور وعدوں کی صورت میں ہو گیا اور جب یہ خبر شائع ہوئی تو باہر کے دوستوں کی طرف سے بھی تقاضا ہونے لگا کہ ہمیں بھی ثواب میں شامل کیا جائے اور ساتھ ہی چندے بھی آنے لگے.حضرت مصلح موعودؓ نے ایک طرف تو خطبہ جمعہ 20 اپریل 1945ء میں اعلان فرمایا کہ
202 جماعت کا ہر فرد اس مد میں چندہ لکھوا سکتا ہے اور پانچ سال کے عرصہ میں بالاقساط یا یکمشت ادا کر سکتا ہے.مگر دوسری طرف جماعت کے دوستوں کو بتایا کہ مجوزہ ہال کم از کم پچیس لاکھ روپیہ میں بنے گا.اتنی بڑی رقم خرچ کرنے کے بعد ہمیں ایسی صورت سوچنی چاہئے کہ جس سے ہم اس ہال کو اسلام کی تبلیغ کا عظیم الشان مرکز بنادیں اور وہ اس طرح ممکن ہے کہ ہال کے ساتھ سولہ لاکھ روپے کے مصرف سے ظیم اور مثالی لائبریری بھی بنائیں جس میں دنیا کے تمام مذاہب کی اہم کتابیں اور اسلام کی قریباً ساری کتابیں جمع کرنے کی کوشش کی جائے.اس سلسلہ میں حضور نے مجوزہ لائبریری کی نسبت ایک تفصیلی سکیم بھی تیار کی.چنانچہ فرمایا:.یوں تو لائبریری پڑھنے ہی کے لئے ہوتی ہے.لیکن ہماری غرض چونکہ یہ ہوگی کہ اسلام کی تبلیغ کو ساری دنیا میں پھیلائیں اس لئے ساری دنیا میں تبلیغ پھیلانے کے لئے ضروری ہوگا کہ ہم ایسے آدمی تیار کریں جو ہر زبان جاننے والے ہوں.یا اگر ہر ایک زبان نہیں تو نہایت اہم زبانیں جاننے والے ہوں.جن زبانوں میں ان مذاہب کی کتابیں پائی جاتی ہیں.مثلاً یونانی ہے، عبرانی ہے تا کہ عیسائیت اور یہودیت کا لٹریچر پڑھ سکیں اور عربی جاننے والے بھی ہوں تا کہ اسلام کا لٹریچر پڑھ سکیں.فارسی جاننے والے بھی ہوں تا کہ اسلام کا لٹریچر پڑھ سکیں.سنسکرت اور تامل جاننے والے بھی ہوں تا کہ ہندو اور ڈریوڈینس کا لٹریچر پڑھ سکیں.پالی زبان جاننے والے بھی ہوں تا کہ بدھوں کا لٹریچر پڑھ سکیں.چینی زبان جاننے والے ہوں تا کہ کنفیوشس کا لٹریچر پڑھ سکیں اور پہلوی زبان بھی جاننے والے ہوں تا کہ زرتشتیوں کا لٹریچر پڑھ سکیں.اسی طرح پرانی دو تہذ یہیں ایسی ہیں کہ گواب وہ تہذیبیں مٹ چکی ہیں مگر ان کا لٹریچر ملتا ہے ان میں سے ایک پرانی تہذیب بغداد میں تھی اور ایک مصر میں تھی ان کا لٹریچر پڑھنے کے لئے بابلی زبان اور ہلیو گرافی جاننے والے چاہئیں تا کہ ان کے لٹریچر کو پڑھ کر اسلام کی تائید میں جو حوالے مل سکیں ان کو جمع کریں اور ان کے ذریعہ اسلام پر جو حملے ہوتے ہیں ان حملوں کا جواب دے سکیں...پس ہمارے لئے ضروری ہوگا کہ ہم اس قسم کے لٹریچر کا مطالعہ کرنے والے لوگ پیدا کریں اور ان کو اس کام کے لئے وقف کریں کہ وہ لائبریری میں بیٹھ کر کتابیں پڑھیں اور معلومات جمع کر کے مدون صورت میں مبلغوں کو دیں تا وہ انہیں استعمال کریں.اسی طرح وہ اہم مسائل کے متعلق تصنیفات تیار کریں.اگر ان لوگوں کی رہائش اور گزارہ کے لئے دولاکھ روپیہ وقف کریں تو یہ اٹھارہ
203 لاکھ روپیہ بنتا ہے پھر ان کی کتب کو شائع کرنے کے لئے ایک مبلغ کی ضرورت ہے جس کے لئے ادنیٰ اندازہ دولاکھ کا ہے اس کے علاوہ پانچ لاکھ روپیہ انداز ا اس بات کے لئے چاہئے کہ جو تصنیفات وہ تیار کریں ان کو شائع کیا جائے اور پھر ایسا انتظام کیا جائے کہ نفع کے ساتھ وہ سرمایہ دا پس آتا جائے اور دارالمصنفین کا گزارہ اس کی آمد پر ہو.یہ وہ صیح طریقہ ہے جس کے ذریعہ سے ہم علمی دنیا میں ہیجان پیدا کر سکتے ہیں اور اس کام کے لئے پچیس لاکھ روپے کی ضرورت ہے“.(الفضل یکم مئی 1945ء) ربوہ کا قیام 1947 ء میں تقسیم ہند کے بعد حضور نے جماعت کے نئے مرکز ربوہ کی بنیا دابراہیمی دعاؤں کے ساتھ رکھی اور اس کو ایک مثالی شہر بنانے کے لئے کئی تحریکیں کیں.ربوہ میں مکان بنانے اور مثالی شہر بنانے کی تحریک حضور نے فرمایا:.احباب جماعت کو آئندہ نئے مرکز میں بار بار آنے کی کوشش کرنی چاہئے.بار بار آنے سے نہ صرف یہ کہ مرکز سے ان کا تعلق مضبوط ہوگا بلکہ وہ ترقی کی سکیموں اور اسلامی خدمات کے سلسلہ میں دیگر جماعتی سرگرمیوں سے پوری طرح باخبر رہیں گے اور ان کا کثرت کے ساتھ یہاں آنا ان کے ایمان اور اخلاص میں ترقی کا موجب ثابت ہوگا“.ربوہ میں زمین خرید کر مستقل رہائش اختیار کرنے والوں کو حضور نے ہدایت فرمائی کہ ہم اس مرکز کو اسلامی تہذیب و تمدن اور معاشرت کا ایک نمونہ بنانا چاہتے ہیں اس لئے جو لوگ بھی مکان بنا کر مستقل طور پر یہاں رہنا چاہیں گے انہیں بعض شرائط اور قواعد وضوابط کی پابندی کرنی ہوگی.مثلاً ہر شخص کو خواہ اس کی تجارت کا نقصان ہو یا اس کے کاروبار پر اس کا اثر پڑے سال میں ایک ماہ خدمت دین کے لئے ضرور وقف کرنا ہوگا.ہر بچے اور بچی کو سکول میں داخل ہو کر تعلیم حاصل کرنی ہوگی.ہر فرد بشر کے لئے اسلامی اخلاق کو اس درجہ اپنانا ضروری ہوگا کہ وہ دوسروں کے لئے نمونہ بن سکے.مثلاً نماز با جماعت کی پابندی اور داڑھی رکھنا وغیرہ.( الفضل 20 راپریل 1949 ء )
204 فرمایا: ”ربوہ کی بنیاد کی غرض یہ تھی کہ یہاں زیادہ سے زیادہ نیکی اختیار کرنے والوں کو اس غرض سے بسنا چاہئے کہ وہ یہاں رہ کر دین کی اشاعت میں دوسروں سے زیادہ حصہ لیں گے.ہم نے اس مقام کو اس لئے بنایا ہے کہ تا اشاعت دین میں حصہ لینے والے لوگ یہاں جمع ہوں اور دین کی اشاعت کریں اور اس کی خاطر قربانی کریں.پس تم یہاں رہ کر نیک نمونہ دکھاؤ اور اپنی اصلاح کی کوشش کرو.تم خدا تعالیٰ سے تعلق قائم کر لو.اگر تم اس کی رضا کو حاصل کر لو تو ساری مصیبتیں اور کوفتیں دور ہو جائیں اور راحت کے سامان پیدا ہو جائیں“.صفائی اور شجر کاری ربوہ کی صفائی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور نے فرمایا:.تاریخ احمدیت جلد 13 ص172) شہر کی صفائی کی طرف توجہ کرو اور درخت اور پھول اور سبزیاں لگاؤ.جن لوگوں نے گھروں میں درخت لگائے ہوئے ہیں.انہیں دیکھ کر دل بہت خوش ہوتا ہے.گلی میں سے گزریں تو لہلہاتے درخت نہایت بھلے معلوم ہوتے ہیں.لیکن اصل میں یہ کام میونسپل کمیٹی اور لوکل انجمن کا ہے.اگر سارے مل کر کوشش کریں تو وہ شہر کو دلہن بنا سکتے ہیں.اب بھی جب میں تصور کرتا ہوں تو یورپ کا نظارہ میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے.ہر گھر میں دروازوں کے آگے چھجے بنے ہوئے ہیں اور ان پر بکسوں میں بھری ہوئی مٹی پڑی ہے اور اس میں پھول لگے ہوئے ہیں.جس گلی میں سے گز رو پھول ہی پھول نظر آتے ہیں اور سارا شہر ایک گلدستہ کی طرح معلوم ہوتا ہے.ربوہ بھی اسی طرح بنایا جاسکتا ہے.بڑی محنت کی ضرورت نہیں تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہے.اس سے بیوی بچوں کو باغبانی کا فن بھی آتا ہے.صحت بھی اچھی ہو جاتی ہے اور کچھ آمد کی صورت بھی پیدا ہو جاتی ہے.مثلاً گھروں میں خربوزے.لکڑی اور دوسری چیزیں لگا دی جائیں تو خوبصورتی کی خوبصورتی نظر آئے گی.صحت بھی اچھی رہے گی اور کھانے کو ترکاری بھی مل جائے گی جو یہاں نصیب نہیں.میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ یورپ کا ڈا کٹر بھی کہتا ہے کہ سبزیاں کھاؤ مگر پاکستان میں سبزیاں نہیں ملتیں.اگر لوگ گھروں میں سبزیاں لگانے لگ جائیں اور سبزیاں کھانے کی عادت ڈالیں تو اس سے ان کی صحت میں بھی ترقی ہوگی اور پھر جو شخص گھروں میں سبزیاں لگائے گا اور اسے سبزیاں کھانے کی عادت ہوگی.وہ دکاندار
205 سے بھی اصرار کرے گا کہ سبزیاں لاؤ اور دکاندار آگے زمینداروں سے اصرار کرے گا کہ تم سبزیاں لگاؤ.اس طرح ملک میں سبزیاں کاشت کرنے کا رواج عام ہو جائے گا.(الفضل 14 دسمبر 1955ء) حضور جب بسلسلہ علاج یورپ میں تھے تو زیورچ سے مئی 1955ء میں ناظر صاحب اعلیٰ کو حسب ذیل مکتوب لکھا جس میں تاکید فرمائی کہ اہل ربوہ کی صحت کے لئے زیادہ سے زیادہ درخت لگوائے جائیں.حضور نے فرمایا:.ربوہ میں لوگوں کی صحت کے لئے زیادہ سے زیادہ درخت لگانے نہایت ضروری ہیں اور درخت بغیر پانی کے نہیں لگ سکتے.آپ فوری طور پر صدرانجمن میں یہ معاملہ رکھ کر پاس کرائیں کہ پہلے ٹیوب ویل کو درست کرایا جائے.بلکہ بہتر ہو کہ بجلی کا انجن اس کی جگہ فوری لگ جائے تا کہ پانی با افراط مہیا ہو سکے اور پہلے لگے ہوئے درخت سوکھ نہ جائیں اس کے علاوہ مزید ٹیوب ویل بھی جلدی لگائے جانے ضروری ہیں.اس بارہ میں کسی واقف سے مشورہ کر کے فوری اپنی رپورٹ بھجوائیں کہ کس کس ہ ٹیوب ویل لگ سکیں گے جن سے تمام ربوہ کی سڑکوں پر پودوں کے لئے پانی آسانی سے دیا جاسکے.ضروری ہے موجودہ درختوں سے بھی دس پندرہ گنے بلکہ زیادہ درخت لگائے جائیں بجلی سے اب کام بہت آسان ہو گیا ہے.تاریخ احمدیت جلد 17 ص 527)
206 اخبارات و رسائل کے متعلق تحریکات حضرت مسیح موعود اس زمانہ میں دنیا کی ہدایت کے لئے مبعوث کئے گئے اور آپ نے کل عالم میں اسلام کو غالب کرنے کی مہم کا آغاز فرمایا.اس لئے آپ دنیا کے تازہ ترین حالات سے باخبر رہتے تھے.آپ اس زمانہ کے معروف اخبارات کا مطالعہ فرماتے اور اسلام پر ہونے والے اعتراضوں کے جوابات تحریر فرماتے.آپ کے دور میں الحکم اور البدر شروع ہوئے جن کو آپ اپنا باز و قرار دیا کرتے تھے.آپ کے موعود فرزند حضرت مصلح موعودؓ ایک زندہ با شعور جماعت کے نہایت ذہین و فہیم رہنما تھے.جن کے سپرد بیشمار روحوں کو صاف کرنا تھا.اس لئے آپ دنیا کے حالات سے نہ صرف خود باخبر رہتے تھے بلکہ جماعت کو بھی اس طرف متوجہ کرتے رہتے تھے.آپ نے حضرت مسیح موعود کی زندگی میں مارچ 1906ء میں رسالہ تفخیذ الاذہان اور خلافت کے منصب پر فائز ہونے سے قریباً ایک سال پہلے 18 جون 1913ء سے الفضل کا اجرا فرمایا.جو خدا کے فضل سے اب اپنی عمر کے 95 ویں سال میں ہے.قادیان جیسی گمنام، وسائل سے محروم اور تہذیبی علاقوں سے دور لبستی میں سے سابقہ اخباروں اور رسالوں کی موجودگی میں الفضل کا اجراء.جبکہ مالی تنگدستی بھی ہو آپ کی اولوالعزمی کا ایک زندہ ثبوت ہے.مطالعہ کی ترغیب اخبارات کے مطالعہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:.جماعتی معاملات میں افراد کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتے بلکہ کبھی زندہ نہیں رہ سکتے.جب تک ان کا جڑ سے تعلق نہ ہو اور اس زمانہ میں تعلق پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ اخبارات ہیں.(انوار العلوم جلد 14 ص 543) حضور نے خطبہ جمعہ 11 جنوری 1935 ء میں بعض نوجوانوں سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.
207 میں نے عام طور پر لڑکوں سے سوال کر کے دیکھا اور مجھے معلوم ہوا کہ کثرت سے طالب علم ایسے ہیں جنہوں نے کبھی اخبار کو پڑھا ہی نہیں.کیا دنیا میں کبھی کوئی ڈاکٹر کام کر سکتا ہے جسے معلوم ہی نہیں کہ مرضیں کون کون سی ہوتی ہیں.میں نے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا ہے.آپ راتوں کو بھی کام کرتے اور دن کو بھی کام کرتے اور اخبارات کا باقاعدہ مطالعہ رکھتے.اسی تحریک کے دوران میں خود اکتوبر سے لے کر آج تک بارہ بجے سے پہلے کبھی نہیں سویا اور اخبار کا مطالعہ کرنا بھی نہیں چھوڑا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام کو تو میں نے اس طرح دیکھا ہے کہ جب ہم سوتے اس وقت بھی آپ جاگ رہے ہوتے اور جب ہم جاگتے تو اس وقت بھی آپ کام کر رہے ہوتے.جب انہیں پتہ ہی نہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے تو وہ دنیا میں کام کیا کر سکتے ہیں.میں نے جس سے بھی سوال کیا.معلوم ہوا کہ اس نے اخبار کبھی نہیں پڑھا.(خطبات محمود جلد 16 ص36) آپ کی توجہ اور تحریکات کی بدولت آپ کے دور خلافت میں متعدد اخبارات اور رسائل دنیا بھر سے جاری ہوئے.صرف قادیان اور ربوہ سے 25 کے قریب جرائد قادیان اور ربوہ سے شائع ہونے لگے جن میں اردو، عربی، انگریزی، گورمکھی اور ہندی زبانوں کے تبلیغی اور تربیتی رسائل شامل ہیں.کئی رسالے جماعت کی ذیلی تنظیموں کی طرف سے جاری کئے گئے.مسلسل تحریکات کا خلاصہ ان اخبارات و رسائل کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ نے مسلسل کئی تحریکیں فرمائیں جن کا خلاصہ درج ہے.1.احباب کثرت سے ان اخبارات و رسائل کا مطالعہ کریں.2.احباب ان میں مضامین تحریر کریں.3.رسالے اپنا معیار بہتر بنائیں اور مضامین میں وسعت اور تنوع پیدا کیا جائے.4.ان کی خریداری اور اشاعت بڑھائی جائے.5.جماعت کے باہر دوسرے احباب کو بھی یہ جرائد بھجوائے جائیں.حضور جلسہ سالانہ پر قریباً ہر سال جلسہ سالانہ پر نئی کتب کے علاوہ اخبارات و رسائل سے متعلق
208 تحریکات کو دہرایا کرتے تھے اور سب سے زیادہ الفضل کی اشاعت کی تحریک فرماتے تھے.ایک موقعہ پر آپ نے فرمایا:.آج لوگوں کے نزدیک الفضل کوئی قیمتی چیز نہیں مگر وہ دن آرہے ہیں اور وہ زمانہ آنے والا ہے ب الفضل کی ایک جلد کی قیمت کئی ہزار روپیہ ہوگی لیکن کوتاہ بین نگاہوں سے یہ بات ابھی پوشیدہ (الفضل 28 مارچ 1946ء) قیام پاکستان کے بعد روز نامہ الفضل لاہور سے شائع ہوتا تھا.دسمبر 1954ء میں الفضل لاہور بوہ منتقل کر دیا گیا اور 31 دسمبر 1954 ء سے ضیاء الاسلام پریس ربوہ سے چھپنے لگا.اس وقت پہلے پرچہ کے لئے حضرت مصلح موعودؓ نے جو تحریری پیغام ارسال فرمایاوہ درج ذیل ہے.آج ربوہ سے اخبار شائع ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ اس کا ربوہ سے نکلنا مبارک کرے اور جب تک یہاں سے نکلنا مقدر ہے اس کو اپنے صحیح فرائض ادا کرنے کی توفیق دے.اخبار قوم کی زندگی کی علامت ہوتا ہے.جو قوم زندہ رہنا چاہتی ہے اسے اخبار کو زندہ رکھنا چاہئے اور اپنے اخبار کے مطالعہ کی عادت ڈالنی چاہئے.اللہ تعالیٰ آپ کو ان امور پر عمل کرنے کی توفیق بخشے.روزنامه الفضل 31 دسمبر 1954 ء ) اخباری زندگی مضبوط کریں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ تقریر جلسہ سالانہ 27 دسمبر 1937ء میں فرماتے ہیں:.ایک طبقہ ایسے لوگوں کا بھی ہے جو اپنے آپ کو ارسطو اور افلاطون کا بھائی سمجھتے ہیں انہیں تو فیق بھی ہوتی ہے اور اخبار کی خریداری کی استطاعت بھی رکھتے ہیں مگر جب کہا جاتا ہے کہ آپ ” الفضل کیوں نہیں خریدتے تو کہہ دیتے ہیں اس میں کوئی ایسے مضامین نہیں ہوتے جو پڑھنے کے قابل ہوں.ان کے نزدیک دوسرے اخبارات میں ایسے مضامین ہوتے ہیں جو پڑھے جانے کے قابل ہوں مگر خدا تعالیٰ کی باتیں ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتیں کہ وہ انہیں سنیں اور ان کے پڑھنے کیلئے اخبار خریدیں ایسے لوگ یقینا وہمی ہوتے ہیں اور ان میں قوت موازنہ نہیں پائی جاتی.میرے سامنے جب کوئی کہتا ہے کہ ”الفضل میں کوئی ایسی بات نہیں ہوتی جس کی وجہ سے اسے
209 خریدا جائے تو میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ مجھے تو اس میں کئی باتیں نظر آ جاتی ہیں آپ کا علم چونکہ مجھ سے زیادہ وسیع ہے اس لئے ممکن ہے کہ آپ کو اس میں کوئی بات نظر نہ آتی ہو.اصل بات یہ ہے کہ جب کسی کے دل کی کھڑکی بند ہو جائے تو اس میں کوئی نور کی شعاع داخل نہیں ہوسکتی پس اصل وجہ یہ نہیں ہوتی کہ اخبار میں کچھ نہیں ہوتا بلکہ اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کے اپنے دل کا سوراخ بند ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اخبار میں کچھ نہیں ہوتا..اس سستی اور غفلت کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری اخباری زندگی اتنی مضبوط نہیں جتنی کہ ہونی چاہئے حالانکہ یہ زمانہ اشاعت کا زمانہ ہے اور اس زمانہ میں اشاعت کے مراکز کو زیادہ سے زیادہ مضبوط ہونا چاہئے.میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اگر اخبارات کے متعلق ہماری جماعت کی وہی حالت ہو جائے جو حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں تھی تو اخبار الفضل“ کے روزانہ ہونے کے باوجود کم از کم پانچ ہزار خریدار پیدا ہو سکتے ہیں.بشرطیکہ ہمارے دوستوں کے اندر وہی روح پیدا ہو جائے کہ وہ کہیں ہم نے بہر حال اخبار خریدنا ہے چاہے ہمیں پڑھنا آتا ہو یا نہ آتا ہو.اور اسی روح سے کام کرنے کے نتیجے میں باقی رسائل وغیرہ کے بھی ہزار دو ہزار خریدار ہو سکتے ہیں کیونکہ اس وقت پنجاب میں ہماری ایک لاکھ سے زیادہ معلوم جماعت ہے.وہ لوگ جو کمزوری کی وجہ سے اپنے آپ کو ظاہر نہیں کر سکتے یا دل میں تو احمدی ہیں مگر ہمیں ان کی احمدیت کا علم نہیں وہ اس سے الگ ہیں اور اگر سارے ہندوستان کو دیکھا جائے تو اس میں جو ہماری معلوم جماعت ہے اس کو شامل کر کے یہ تعداد دولاکھ تک ہو جاتی ہے اور اگر بیرون ہند کی معلوم جماعت کو اس میں شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد تین ساڑھے تین لاکھ تک پہنچ جاتی ہے.گویا وہ احمدی جو ہمارے ریکارڈ کے لحاظ سے ہمیں معلوم ہیں اور جو اپنے آپ کو ایک نظام میں شامل کئے ہوئے ہیں وہ تین چار لاکھ سے کم نہیں.اگر یہ لوگ اپنے اندر زندگی کی حقیقی روح پیدا کریں اور عورتوں اور بچوں اور ان لوگوں کو نکال بھی دیا جائے جو انتہائی غربت کی وجہ سے کسی اخبار کے خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے تو کم از کم ہیں ہزار لوگ یقیناً ہماری جماعت میں ایسے موجود ہیں جوستا یا مہنگا کوئی نہ کوئی اخبار خرید سکتے ہیں مگر افسوس ہے کہ اس طرف توجہ نہیں کی جاتی اور ان کا نفس یہ عذر تراشنے لگ جاتا ہے کہ اور چندوں کی کثرت کی وجہ سے ہم اخبار نہیں خرید سکتے حالانکہ اس قسم کے چندے حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں بھی تھے اور گو اس وقت عام چندہ کم تھا مگر ایسے مخلص بھی موجود
210 تھے جو اپنا تمام اندوختہ حضرت مسیح موعود کی خدمت میں پیش کر دیتے تھے.مضامین کی وسعت: (انوار العلوم جلد 14 ص 543) الفضل کے مضامین کی وسعت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.میں تو حیران ہوتا ہوں کہ بعض دوست شکایت کرتے ہیں کہ الفضل میں سیاسی مضامین شائع ہوتے ہیں.وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اگر وہ دنیا کی سیاسیات سے واقف نہیں ہوں گے تو اس کی اصلاح کیسے کریں گے.کیا سیاست قرآن کریم کا حصہ نہیں؟ ہاں اگر کوئی بات غلط شائع ہو تو اعتراض ہو سکتا ہے.ایک دوست کو شکایت ہے کہ جاپان کے حالات اخبار الفضل میں کیوں درج ہوتے ہیں.اور یہی لوگ ہیں جن کو میں کنویں کے مینڈک کہتا ہوں.فکر تو یہ ہونی چاہئے کہ جاپان کے حالات تو شائع ہوتے ہیں فلپائن کے کیوں نہیں ہوتے؟ روس کے کیوں نہیں ہوتے؟ یہ غم تمہیں کھائے جانا چاہئے کہ کیا یہی ہماری پہنچ ہے کہ ہمارے اخبار میں صرف جاپان کے حالات ہی شائع ہوتے ہیں.ہمارے دوستوں کو اس پر گلہ ہونا چاہئے کہ جو نہیں چھپا نہ کہ اس پر جو چھپ رہا ہے.انہیں سوچنا چاہئے کہ کیا جاپان کی اصلاح ہمارا فرض نہیں؟ اگر ہے تو اس کے حالات کا علم نہ ہوگا تو ہمارے دل میں اس کے لئے در دکس طرح پیدا ہو گا اور ہم اس کی اصلاح کس طرح کر سکتے ہیں.پس ہماری جماعت کو اپنے فرائض کو سمجھنا چاہئے اور یا درکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں دنیا کی اصلاح کے لئے پیدا کیا ہے.خاص کر ایسے وقت میں جبکہ دنیا میں اس قدر خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں.کیا ایک طبیب کہہ سکتا ہے کہ لوگ آکر مجھے تنگ کرتے ہیں جو اپنی بیماریاں مجھے بتاتے ہیں؟ اگر وہ ان بیماریوں سے آگاہ نہ ہو تو علاج کس طرح کر سکتا ہے.اسی طرح جب تک تمام دنیا کے حالات سے واقف نہ ہواس کی اصلاح کیسے کر سکتے ہو.( خطبات محمود جلد 18 ص 10) یہ آپ کا فائدہ ہے: حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا:.جماعت کے دوستوں کو میں توجہ دلاتا ہوں اور گو پہلے بھی کئی دفعہ توجہ دلا چکا ہوں مگر معلوم ہوتا ہے.دوست میرے الفاظ کو رسمی سمجھتے ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ میں اخبار کی امداد کا اعلان کر رہا ہوں
211 حالانکہ میں اخبار کے فائدہ کے لئے نہیں بلکہ آپ لوگوں کے ایمانوں اور آپ کی نسلوں کے ایمانوں اور آپ کے ہمسایوں کے ایمانوں کے فائدے کے لئے کہہ رہا ہوں کہ آپ لوگ اخبارات خریدیں اور جو لوگ نہیں پڑھ سکتے وہ بھی اخبار خرید کر اپنے غیر احمدی ہمسایوں اور دوست کو دیا کریں....پس میں دوستوں کو اس طرف خصوصیت سے توجہ دلاتا ہوں.انہیں اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے کہ میں الفضل کی تائید کے لئے کہہ رہا ہوں بلکہ میں یہ بات اس لئے کہ رہا ہوں کہ تا آپ لوگوں کے ایمان مضبوط ہوں.مخالف جب بھی حملہ کرتا ہے اس لئے کرتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے میں بعض لوگوں کو ورغلالوں گا.کیونکہ وہ سلسلہ کی تعلیم سے پوری طرح واقف نہیں لیکن اگر جماعت پوری طرح سلسلہ سے وابستہ ہو اور جماعت کے عقائد اور تعلیمات سے اسے واقفیت ہو تو وہ حملہ کی جرات نہیں کر سکتا.پس سلسلہ سے وابستگی کے لئے بھی اخبارات کی خریداری ضروری ہے تا ایسا نہ ہو کہ کوئی بھیڑیا حملہ کر کے کسی بھیڑ کو لے جائے.میں امید کرتا ہوں کہ جماعتوں کے سیکرٹری اپنی اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اولین کوشش یہ کریں گے کہ اخبار کے خریداروں میں اضافہ ہوتا کہ الفضل بغیر کسی تکلیف کے چل سکے.(انوار العلوم جلد 14 ص 543
212 تاریخ احمدیت کی تدوین و اشاعت کے لئے تحریکات حضرت مصلح موعودؓ کی تڑپ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کو اپنے زمانہ خلافت کے آغاز ہی سے سلسلہ احمدیہ کی ابتدائی تاریخ کے محفوظ کئے جانے کا خیال دامنگیر رہا.چنانچہ حضور نے جلسہ سالانہ 1914ء کے موقع پر ارشاد فرمایا:.”ہمارے بہت بڑے فرائض میں سے ایک یہ بھی فرض ہے کہ حضرت مسیح موعود کے حالات اور آپ کے سوانح کو بعد میں آنے والے لوگوں کے لئے محفوظ کر دیں.اس لئے حضرت مسیح موعود کے سوانح لکھنے نہایت ضروری ہیں پس جس کسی کو آپ کا کوئی واقعہ کسی قسم کا یاد ہو وہ لکھ کر میرے نام بھیج دے.یہ ہمارے ذمہ بہت بڑا کام ہے جس کو ہم نے کرنا ہے میں نے ایک آدمی کو لوگوں سے حالات دریافت کر کے لکھنے کے لئے مقرر کیا ہے اور وہ لکھ رہا ہے تم میں سے بھی جس کو کوئی واقعہ یاد آئے وہ لکھ کر بھیج دے تا کہ کل واقعات ایک جگہ جمع کر کے چھاپ دیئے جائیں اور ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جائیں.آج بہت سے لوگ حضرت مسیح موعود کے دیکھنے والے اور آپ کی صحبت میں بیٹھنے والے موجود ہیں اور ان سے بہت سے واقعات معلوم ہو سکتے ہیں مگر جوں جوں یہ لوگ کم ہوتے جائیں گے.آپ کی زندگی کے حالات کا معلوم کرنا مشکل ہو جائے گا.اس لئے جہاں تک ہو سکے بہت جلد اس کام کو پورا کرنا چاہئے.برکات خلافت.انوارالعلوم جلد 2 ص324) ابتدائی سوانحی کتب حضور نے صرف جماعت ہی کو اس طرف توجہ نہیں دلائی بلکہ بعد ازاں علاوہ رسالہ سیرت مسیح موعود تالیف کیا ، اپنے خطبات ، تقاریر اور ملفوظات اور کتب میں بڑی کثرت سے حضرت مسیح موعود کے عہد مبارک کے واقعات پر روشنی ڈالی.جہاں تک جماعت احمدیہ کے دوسرے افراد کا تعلق ہے جن بزرگوں کو سب سے بڑھ کر اس قومی فریضہ کی بجا آوری کا شرف حاصل ہوا ان میں سر فہرست حضرت
213 9966 شیخ یعقوب علی صاحب تراب (عرفانی) تھے.جنہوں نے ”حیات النبی حیات احمد اور سیرت مسیح موعود کی متعد دجلدیں شائع فرمائیں.آپ کے علاوہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے صحابہ مسیح موعود کی روایات ”سیرت المہدی“ کے تین حصوں میں سپر دا شاعت فرمائیں.حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے ذکر حبیب“ کے نام سے ایمان افروز کتاب لکھی.حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی کا سفرنامہ جو حضرت مسیح موعود کے واقعات پر مشتمل تھا.خلافت اولی کے عہد مبارک میں اخبار الحق (دہلی) میں چھپا اور جون 1915ء میں ”تذکرۃ المہدی“ کے نام سے شائع ہوا.حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے فرمایا کہ اس کا دوسرا حصہ بھی چھپنا چاہئے.حضرت پیر صاحب کے قلم کا لکھا ہوا دوسرا حصہ 375 صفحات کا تھا اور آپ کا ارادہ تھا کہ اسے کئی حصوں میں تقسیم کر کے چھپوا دیں مگر افسوس اس کے صرف 48 صفحات ہی شائع کر پائے تھے کہ آپ انتقال کر گئے.روایات ظفر : 19 نومبر 1937ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے روایات صحابہ جمع کرنے کی ایک اور مؤثر تحریک فرمائی.اس تحریک پر ابھی مرکزی نظام کے تحت با قاعدہ کام شروع نہیں ہوا تھا کہ حضرت مسیح موعود کے نہایت یک رنگ، قدیم اور بے مثال فدائی و شیدائی حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی بیمار ہو گئے.حضرت خلیفہ ثانی المصلح الموعود نے 15 دسمبر 1937ء کو اپنے قلم مبارک سے مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ کپورتھلہ کولکھا کہ:.د منشی صاحب کی بیماری کی خبر سے افسوس ہوا.آپ یہ کام ضرور کریں کہ بار بار پوچھ پوچھ کر ان.ایک کاپی میں سب روایات حضرت مسیح موعود کے متعلق لکھوا لیں اس میں تاریخی اور واعظانہ اور سب ہی قسم کی ہوں یعنی صرف ملفوظات ہی نہ ہوں بلکہ سلسلہ کی تاریخ اور حضور کے واقعات تاریخی بھی ہوں.یہ آپ کے لئے اور ان کے لئے بہترین یادگار اور سلسلہ کے لئے ایک کارآمد سامان ہوگا“.محترم شیخ محمد احمد صاحب مظہر نے اس ارشاد مبارک کی تعمیل میں حضرت منشی ظفر احمد صاحب کی بیان فرمودہ روایات انہی کے الفاظ میں قلمبند کر کے رسالہ ریویو آف ریلیجنز جنوری 1942ء میں شائع کرا دیں.
214 تاریخی کتب 1937ء کی تحریک کے نتیجہ میں نہ صرف روایات صحابہ کے جمع و اشاعت کا کام پوری توجہ اور با قاعدگی سے شروع ہو گیا بلکہ ایسا لٹریچر بھی تیار ہونے لگا جو سید نا حضرت مسیح موعود اور خلافت اولی و ثانیہ کے عہد مبارک کی تاریخ پر مشتمل تھا.چنانچہ فروری 1938ء میں مکرم چوہدری محمد شریف صاحب مولوی فاضل مربی سلسلہ احمدیہ نے ”سلسلہ عالیہ احمدیہ اور دسمبر 1938ء میں ملک فضل حسین صاحب مہاجر نے تاثرات قادیان“ شائع کی.دسمبر 1939ء میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے قلم.سلسلہ احمدیہ جیسی شاندار تالیف، اشاعت پذیر ہوئی جو سلسلہ احمدیہ کی پچاس سالہ تاریخ پر ایک مختصر مگر نہایت جامع اور حقیقت افروز کتاب تھی.1942ء میں شیخ محمود احمد صاحب عرفانی مدیر الحکم نے مرکز احمدیت.قادیان“ کے نام سے ایک پر از معلومات کتاب چھپوائی.1945ء میں حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد نے اپنی محققانہ تالیف Life of Ahmad" کا حصہ اول مکمل کیا جو 1948 ء میں لاہور سے شائع ہوا.1950ء میں ملک صلاح الدین صاحب ایم اے درویش قادیان نے اصحاب احمد کی پہلی جلد اور 1952ء میں دوسری جلد شائع کی جس سے سلسلہ کے لٹریچر میں قابل قدر اضافہ ہوا.اسی طرح 1951ء کے دوران حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کی حیات قدسی کے دو حصے حیدر آباد دکن سے سیٹھ علی محمد.اے.الہ دین صاحب کے زیر انتظام چھپے اور ہر طبقہ کے لئے ازدیاد ایمان کا موجب بنے.دو تاریخ کی باقاعدہ تدوین کا آغاز 1953ء کا سال اگر چہ ابتلاؤں کا سال تھا مگر یہی وہ سال تھا جس میں سید نا حضرت مصلح موعود کی تحریک خاص سے مرکز احمدیت میں تاریخ سلسلہ احمدیہ کی تدوین و اشاعت کی مرکزی سطح پر بنیاد پڑی.اس کا محرک در اصل حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا ایک مکتوب تھا جو آپ نے 24 مارچ 1953 ء کو حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت بابرکت میں لکھا اور جس میں ایک عزیز کی یہ تجویز عرض کی گئی تھی کہ کوائف 1953ء سے متعلق حکومت پاکستان کے مرکزی اور صوبائی افسروں کے بیانات ایک
215 رسالہ کی صورت میں شائع ہونے چاہئیں.سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اس پر اپنے قلم مبارک سے تحریر فرمایا کہ:.اچھی بات ہے.اصل بات یہ ہے کہ اس کی مکمل تاریخ لکھی جائے.میرے نزدیک مہاشہ فضل حسین کو بلوا کر اس کام پر لگا دیا جائے یا دوست محمد بھی یہ کام کر سکتے ہیں...اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضور کی توجہ اس طرف بھی منعطف فرمائی کہ سلسلہ احمدیہ کی پوری تاریخ کو محفوظ کیا جانا چاہئے.چنانچہ اس سلسلہ میں حضور نے درج ذیل الفاظ میں تحریک فرمائی:.آپ کو علم ہے کہ ہماری جماعت کی تاریخ اب تک غیر محفوظ ہے.حضرت مسیح موعود کے سوانح بعض لوگوں نے مرتب کرنے کی کوشش کی ہے لیکن وہ بھی نامکمل ہیں.پس سلسلہ کی اس اہم ضرورت کو پورا کرنے کے لئے تاریخ سلسلہ احمدیہ کے مکمل کرانے کا انتظام کیا گیا ہے.سب سے پہلے قریب کے زمانہ کی تاریخ مرتب کی جائے گی تا کہ ضروری واقعات محفوظ ہوسکیں.سلسلہ کی تاریخ کئی جلدوں میں مکمل ہوگی.تین سال تک کام کا اندازہ ہے.اس کی چھپوائی اور لکھوائی وغیرہ پر کم از کم تھیں پینتیس ہزار روپیہ خرچ کا اندازہ ہے.صدرانجمن احمدیہ پر چونکہ اس وقت کافی بار ہے اس لئے اس کام کا علیحدہ انتظام کرنے کے لئے میں احباب جماعت میں سر دست صرف مبلغ بارہ ہزار روپیہ کی تحریک اس کام کے لئے کر رہا ہوں.جب یہ روپیہ خرچ ہونے کو ہوگا پھر اور اپیل کی جائے گی.جماعت کے جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی ہے.انہیں سلسلہ کی اس اہم ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے تایہ کام جلد پایہ تکمیل کو پہنچ جائے.دفتر محاسب صدر انجمن احمد یہ ربوہ میں اس تحریک کے لئے مدکھول دی گئی ہے جو احباب اس تحریک میں حصہ لینا چاہیں وہ اپنی رقوم محاسب صاحب صدرانجمن احمد ی ربوہ کو بر تصنیف تاریخ سلسلہ احمدیہ بھیجوا دیں.یہ رقم میرے اختیار میں رہے گی اور میرے ہی دستخطوں سے برآمد ہو سکے گی.یہ تحریک اخبار المصلح» (کراچی) 20 مئی 1953ء میں چھپ کر منظر عام پر آئی تو مخلصین جماعت نے اس کا پُر جوش خیر مقدم کیا.نیز اس اعلان نے جماعت کے اہل قلم اصحاب میں بھی ایک جنبش پیدا کردی.چنانچہ لا ہور کے ایک مخلص احمدی ایڈووکیٹ نے حضرت مصلح موعود کی خدمت
216 اقدس میں تحریری درخواست دی کہ انہیں تاریخ سلسلہ لکھنے کا موقعہ عطا فرمایا جائے.لیکن حضور نے دفتر کوارشاد فرمایا کہ:.لمصلح میں اعلان کیا جائے.تاریخ سلسلہ کے لکھنے کے لئے آدمیوں کی ضرورت ہے.تاریخ سے مس ہو.ادیب ہوں تحقیق اور مطالعہ کا بہت شوق ہو.جس تنخواہ پر آسکیں اس سے بھی اطلاع دیں.چنانچہ مکرم مولوی محمد صدیق صاحب انچارج خلافت لائبریری ربوہ کی جانب سے اصلح 16 جولائی 1953ء ص 6 میں یہ بھی اعلان کر دیا گیا جس پر درج ذیل مقامات سے درخواستیں موصول ہوئیں.لا ہور (2 عدد)، شیخوپورہ (2 عدد)، کراچی (ایک عدد)، لطیف نگر سٹیٹ ضلع تھر پارکر سندھ (ایک عدد) حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت بابرکت میں جب یہ سب درخواستیں مع کوائف پیش کی گئیں تو حضور نے فیصلہ صادر فرمایا کہ درخواستوں پر کسی کارروائی کی ضرورت نہیں ان میں سے سردست کوئی پورا نہیں اتر تا‘.حضور کی معین راہنمائی چونکہ حضور تاریخ سلسلہ کے مدون کئے جانے کا عزم صمیم کر چکے تھے.اس لئے آپ نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے ابتدائی مراسلہ کے قریباً سواماہ کے بعد مکرم مہاشہ فضل حسین صاحب کو تاریخ احمدیت کا مواد اکٹھا کرنے کے لئے نامزد فرمایا اور ان کا تقرر خلافت لائبریری میں ہوا.آپ نے 30 اپریل 1953 ء سے لے کر 20 مئی 1955 ء تک یہ خدمت انجام دی.حضور نے فسادات 1953ء کے واقعات کو جمع کرنے میں اولیت دینے کی ہدایت فرمائی.چنانچہ حضور کے ارشاد کی تعمیل میں انہوں نے علاوہ اخبارات ورسائل کا مطالعہ کرنے کے منٹگمری (ساہیوال) سے لے کر راولپنڈی تک کا دورہ کیا اور بہت سی چشمد ید شہادتیں جمع کر کے ان کو مرتب کیا نیز ” فسادات پنجاب 1953ء کا پس منظر“ کے عنوان سے ایک کتا بچہ بھی لکھا.محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد لکھتے ہیں.محترم مہاشہ فضل حسین صاحب کو مقرر ہوئے چند ہفتے ہی گزرے تھے کہ 24 جون 1953ء کو دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کی طرف سے راقم الحروف ( دوست محمد شاہد ) کو اطلاع ملی کہ حضرت اقدس نے اس عاجز کو یاد فرمایا ہے.چنانچہ اگلے دن حضور نے شرف بازیابی بخشا اور تاریخ احمدیت کی تدوین سے
217 متعلق بنیادی ہدایات ارشاد فرما ئیں جن کا خلاصہ یہ تھا کہ:.1.فی الحال ستمبر 1946ء سے اگست 1952 ء تک کی تاریخ لکھنے کا کام آپ کے سپرد کیا جاتا ہے.یہ حصہ لکھنے کے بعد دوسرے حصوں کی طرف توجہ دینا ہوگی.2.تاریخ کی ترتیب و تدوین میں علاوہ دیگر ماخذوں کے لاہور کی پبلک لائبریری سے بھی فائدہ اٹھایا جائے.3.اس حصہ تاریخ میں نمایاں طور پر قیام واستحکام پاکستان کے سلسلہ میں جماعتی خدمات کو پیش کیا جائے.حوالہ پورا نقل کیا جائے اور جو مواد بھی مل سکے اس کو جمع کر دیا جائے تا مستقبل کے مؤرخ اس سے انتخاب کر کے اپنے زمانہ میں ان واقعات کی ترتیب دے سکیں.تاریخ احمدیت کی تدوین کا دفتر ابتداء پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر کے کمرہ ملاقات میں قائم کیا گیا بعد ازاں جب خلافت لائبریری کے نئے کمرے تعمیر ہو گئے تو اسے لائبریری میں منتقل کر دیا گیا.یہ محکمہ چونکہ حضور کی تحریک خاص سے قائم ہوا تھا اس لئے حضور اس کی خاص طور پر نگرانی اور راہنمائی فرماتے تھے.حضور کی شروع ہی سے تاکیدی ہدایت تھی کہ اس شعبہ کی ہفتہ وار رپورٹ آنی چاہئے.چنانچہ (حضور کی بیماری یا سفر یورپ کے دنوں کے سوا) اس شعبہ کی کارگزاری با قاعدگی سے حضور کی خدمت میں پیش کی جاتی تھی حضور ا سے ملاحظہ فرما کر بعض اوقات اپنے دست مبارک سے اور بعض اوقات زبانی ارشادات فرما دیتے.حضور کے بعض احکام حضرت سیدہ ام متین صاحبہ حرم حضرت مصلح موعود کے قلم سے بھی لکھے ہوتے تھے.22 مئی 1955ء کو حضرت خلیفہ المسح الثاني لمصلح الموعوز یورچ (سوئٹزرلینڈ میں تشریف فرما تھے روز حضور نے مکرم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ پرائیویٹ سیکرٹری کو مکرم مولوی محمد صدیق صاحب انچارج خلافت لائبریری ربوہ کے نام خط لکھوایا کہ ”مہماشہ صاحب نے جتنا کام کر لیا کرلیا باقی دوست محمد صاحب شروع کر دیں بہر حال تاریخ سلسلہ ہم نے بھنی ہے 1938 ء - 19 ء سے پہلے لکھ لیں پچھلی بعد میں لکھ لی جائے گی“.حضور کا یہ ارشاد 29 مئی 1955 ء کور بوہ میں موصول ہوا.ازاں بعد 6 فروری 1956ء کو شعبہ تاریخ کی رپورٹ ملاحظہ کر کے ارشاد فرمایا:.
218 یہ بتائیں چھپنے میں کیا دیر ہے؟ چھپنی جلد چاہئے تاکہ محفوظ ہو جائے پھر بتدائی تاریخ کی تدوین شروع کر دیں میں نے پچھلے زمانہ کی تاریخ اس لئے سپرد کی تھی کہ کم از کم یہ تو محفوظ ہو جائے.19 جلدیں (ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 17 ) حضرت مصلح موعودؓ کی اس مبارک خواہش کو پورا کرنے کی سعادت ادارۃ المصنفین کے حصہ میں آئی.حضور نے اس مرکزی ادارہ کی بنیاد دسمبر 1957ء میں رکھی اور اس کے بنیادی مقاصد میں تاریخ احمدیت کی اشاعت کو بھی شامل فرمایا.چنانچہ 2007 ء تک ” تاریخ احمدیت کی 19 ضخیم جلدیں شائع ہو چکی ہیں.علاوہ ازیں ابتدائی جلدوں کے نئے ایڈیشن بھی شائع ہورہے ہیں.تاریخ سے آگاہی کی تحریک حضرت خلیفة اصبح الثالثف نے خطبہ جمعہ 9 فروری 1973 ء میں فرمایا.تاریخ کا جاننا اور خصوصاً اپنی تاریخ کا جاننا ہم سب کیلئے ضروری ہے کیونکہ کسی انسان یا کسی جماعت کی زندگی اپنے ماضی سے کلیہ منقطع نہیں ہوتی.مجھے یہ احساس ہے کہ بہت سے احمدی گھروں میں سلسلہ کی تاریخ اور حضرت مسیح موعود کے زمانہ کے واقعات دہرائے نہیں جاتے حضرت مسیح موعود نے اپنی کتاب میں بعض جگہ خودان واقعات کی تصویر کھینچی ہے.ان واقعات کو بچوں کے سامنے دہرانا چاہئے.جماعت کی مخالفت میں دنیا کو اسی سال ہو گئے ہیں اور جماعت کو اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کو حاصل کرتے ہوئے اتنی سال ہو گئے ہیں اور ان کوششوں کو بھی اسی سال ہو گئے ہیں جو جماعت کو مٹانے میں لگی ہوئی ہیں اور ان ناکامیوں کو بھی اسی سال ہو گئے ہیں جو ہر روز ان مخالفانہ حرکتوں کے نصیب میں ہم مشاہدہ کرتے ہیں.ہماری یہ ایک معمور تاریخ ایک کامیاب تاریخ ہے.(خطبات ناصر جلد 5 ص 38)
219 خاندانوں کی تاریخ اکٹھا کرنے کی تحریک حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے جماعت کی دوسری صدی میں داخل ہوتے وقت تحریک فرمائی کہ : ہر خاندان کو اپنے بزرگوں کی تاریخ اکٹھا کرنے کی طرف متوجہ ہونا چاہئے“.الفضل 27 مارچ 1989 ء ) اس تحریک پر لبیک کہتے ہوئے بہت سے افراد نے اپنی خاندانی یا علاقائی تاریخ کو محفوظ کیا ہے اور متعدد کتابیں یا کتابچے منظر عام پر آچکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے.اسی طرح بہت سے مقالے اور مضامین بھی شائع ہو چکے ہیں.
220 اعلیٰ دنیاوی تعلیم کے متعلق تحریکات مدارس کے قیام کی تحریک حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی خلافت کے آغاز میں ہی 12 اپریل 1914ء کو نمائندگان مشاورت سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.یزکیھم کے معنوں میں ابھارنا اور بڑھانا بھی داخل ہے اور اس کے مفہوم میں قومی ترقی داخل ہے اور اس ترقی میں علمی ترقی بھی شامل ہے اور اسی میں انگریزی مدرسہ، اشاعت اسلام وغیر ہما امور آجاتے ہیں.اس سلسلہ میں میرا خیال ہے کہ ایک مدرسہ کافی نہیں ہے جو یہاں کھولا ہوا ہے اس مرکزی سکول کے علاوہ ضرورت ہے کہ مختلف مقامات پر مدر سے کھولے جائیں.زمیندار اس مدرسہ میں لڑکے کہاں بھیج سکتے ہیں.زمینداروں کی تعلیم بھی تو مجھ پر فرض ہے پس میری یہ رائے ہے کہ جہاں جہاں بڑی جماعت ہے وہاں سر دست پرائمری سکول کھولے جائیں ایسے مدارس یہاں کے مرکزی سکول کے ماتحت ہوں گے.ایسا ہونا چاہئے کہ جماعت کا کوئی فرد عورت ہو یا مرد باقی نہ رہے جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو.صحابہؓ نے تعلیم کے لئے بڑی بڑی کوششیں کی ہیں.آنحضرت مع اللہ نے بعض دفعہ جنگ کے قیدیوں کا فدیہ صلى الله آزادی یہ مقررفرمایا ہے کہ وہ مسلمان بچوں کو تعلیم دیں.میں جب دیکھتا ہوں کہ آنحضرت میے کیا فضل لے کر آئے تھے تو جوش محبت سے روح بھر جاتی ہے.آپ نے کوئی بات نہیں چھوڑی.ہر معاملہ میں ہماری راہنمائی کی ہے پھر حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفہ المسیح نے بھی اسی نقش قدم پر چل کر ہر ایسے امر کی طرف توجہ دلائی ہے جو کسی بھی پہلو سے مفید ہو سکتا ہو.غرض عام تعلیم کی ترقی کے لئے سر دست پرائمری سکول کھولے جائیں.ان تمام مدارس میں قرآن مجید پڑھایا جائے اور عملی دین سکھایا جائے نماز کی پابندی کرائی جائے.مومن کسی معاملہ میں پیچھے نہیں رہتا.پس تعلیم عامہ کے معاملہ میں ہمیں جماعت کو پیچھے نہیں رکھنا چاہئے اگر اس مقصد کے ماتحت پرائمری سکول کھولے جائیں گے تو گورنمنٹ سے بھی مددمل سکتی ہے.66 منصب خلافت انوار العلوم جلد 2 ص 49)
221 اعلیٰ تعلیم دلوائیں بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے بارہ میں حضور فرماتے ہیں:.جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی ہے وہ اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلائیں اور وہ لوگ جنہیں استطاعت نہیں.انہیں چاہئے کہ وہ سب مل کر اپنے گاؤں کے کم از کم ایک اچھے اور ہونہار طالب علم کو اعلی تعلیم دلائیں اور پھر وہ طالب علم جب بر سر کار ہو تو آگے کسی اور طالب علم کی پڑھائی کا بوجھ اٹھائے اس طرح وہ طالب علم دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائے گا اور دوسرے طالب علموں میں بھی تعلیم کا شوق پیدا ہوگا.ترقی کرنے والی قوم کے لئے ایک نہایت اہم سوال ہوتا ہے کہ اس کے جوان زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ ہوں.کیونکہ تعلیم یافتہ آدمی بات کی تہہ تک جلدی پہنچ جاتا ہے اور جس پیشے کو وہ اختیار کرتا ہے اس میں بہت جلد مہارت حاصل کر لیتا ہے اور ہر وقت یہ بات اس کے مدنظر رہتی ہے کہ میں قوم کا ایک مفید جزو بنوں.اس لئے ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہماری جماعت کے نوجوان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں“.(روز نامہ الفضل 13 /اکتوبر 1960ء) آپ نے جب صدر انجمن احمد یہ میں نظارتوں کا قیام فرمایا تو نظارت تعلیم بھی قائم فرمائی جس کے فرائض کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اس صیغہ کے ذمہ یہ کام ہو گا کہ جماعت کے لڑکوں کی فہرستیں تیار کرائے اور معلوم کرے کہ مثلاً زید کے تین لڑکے ہیں ان کی تعلیم کا کوئی انتظام ہے یا نہیں اور وہ دینی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں یا نہیں.اگر معلوم ہو کہ نہیں تو اسے لکھا اور سمجھایا جائے کہ اپنے بچوں کی تعلیم کا انتظام کرے.ایسے لوگ خواہ کہیں رہتے ہوں ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت کی نگرانی یہ صیغہ کرے گا اور ممکن سہولتیں مہیا کرنا اس کا فرض ہوگا اس طرح تمام جماعت کے بچوں پر اس صیغہ کی نگرانی ہوگی.پھر جو شخص فوت ہو جائے گا اس کی اولاد کے متعلق یہ دیکھا جائے گا کہ اس کی تعلیم و تربیت کا کیا انتظام ہے.اس کے رشتہ داروں نے کچھ کیا ہے یا نہیں.اگر کیا ہے تو وہ تسلی بخش ہے یا نہیں اور کس قدر امداد دینے ( سوانح فضل عمر جلد دوم ص 132) 66 کی ضرورت ہے.
222 تعلیم الاسلام کا لج کا آغاز سید نا حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں تعلیم الاسلام کالج کا افتتاح 28 مئی 1903 ء کو ہوا.مگر بعد میں حکومت کی طرف سے ایسی شرائط تمام تعلیمی اداروں کے لئے نافذ کر دی گئیں کہ ایک غریب جماعت کے لئے کالج کا جاری رکھنا نہایت دشوار تھا.چنانچہ کالج کو بند کردیا گیا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے خلیفہ بنتے ہی 12 / اپریل 1914ء کو نمائندگان مشاورت سے خطاب کرتے ہوئے کالج کے متعلق اپنی دلی آرزو کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :.اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہمارا اپنا ایک کالج ہو.حضرت خلیفہ امسیح کی بھی یہ خواہش تھی.کالج ہی کے دنوں میں کیریکٹر بنتا ہے.سکول لائف میں تو چال چلن کا ایک خاکہ کھینچا جاتا ہے.اس پر دوبارہ سیاہی کالج لائف ہی میں ہوتی ہے.پس ضرورت ہے کہ ہم اپنے نو جوانوں کی زندگیوں کو مفید اور مؤثر بنانے کے لئے اپنا ایک کالج بنا ئیں.پس تم اس بات کو مد نظر رکھو میں بھی غور کر رہا ہوں“.منصب خلافت - انوار العلوم جلد 2 ص 51 کالج کے احیاء کی تحریک 1943 ء کی مجلس مشاورت کے دوران اللہ تعالیٰ نے حضور کے دل میں تحریک کی کہ جلد سے جلد اپنا کالج کھول دینا چاہئے اور پھر اس تحریک کے فوائد اور نتائج بھی حضور کو سمجھا دیئے.الفضل 31 مئی 1944 ء ص 5) چنانچہ حضور نے 24 مارچ 1944 ء کے خطبہ جمعہ میں اور 19 را پریل 1944ء کو مجلس مشاورت کے دوران ڈیڑھ لاکھ روپیہ کی تحریک فرمائی.1 لاکھ روپے کی تحریک: حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا:.”ہم نے قادیان میں کالج شروع کر دیا ہے.ابتدائی اخراجات کے لئے ڈیڑھ لاکھ روپیہ کی ضرورت ہے.عمارت وغیرہ کے لئے قرض لے کر روپیہ دے دیا گیا ہے تا کام شروع ہو سکے..
223 میں جماعت میں یہ تحریک کرتا ہوں کہ عام چندوں کے معیار کو قائم رکھتے ہوئے وہ اس چندہ میں حصہ لے اور مجھے امید ہے کہ جماعت کا مالدار حصہ خصوصاً وہ لوگ جن کو جنگ کی وجہ سے ٹھیکوں وغیرہ کے ذریعہ یا دوسرے ایسے ہی کاموں کے ذریعہ زیادہ روپیہ ملا ہے...وہ اس طرف توجہ کریں.یا وہ زمیندار جن کی آمدنیاں بڑھ گئی ہیں.دین کے حصہ کو نہ بھولیں.پس ایسے لوگ اس چندہ میں خاص طور پر حصہ لیں.میں کسی کو محروم نہیں کرتا.غریب لوگ بھی حصہ لے سکتے ہیں اور اگر کوئی غریب ایک دھیلہ بھی دیتا ہے تو وہ رد نہیں بلکہ شکریہ کے ساتھ قبول کیا جائے گا اور اس امید کے ساتھ کیا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ اسے ایک لاکھ روپیہ دینے والے امیر سے زیادہ ثواب دے گا“.(الفضل 31 مارچ 1944ء) حضور کی اس تحریک کے بعد چھ ماہ کے اندر یعنی اکتوبر تک جماعت کی طرف سے 151000 روپے کے وعدے ہوئے اس کے بعد جن لوگوں نے اس تحریک میں حصہ لیا وہ ان کے علاوہ تھا.بعد میں محترم ناظر صاحب بیت المال نے جماعت سے اس رقم کو دو لاکھ تک پہنچا دینے کی اپیل کی اور جماعت نے یہ مطلوبہ رقم پوری کر دی.بچے بھیجوانے کی تحریک: 5 مئی 1944 ء کے خطبہ جمعہ میں حضور نے کالج کے لئے طلباء بھجوانے کی تحریک فرمائی.کالج شروع کر دیا گیا ہے.پروفیسر بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے مل گئے ہیں.اب ضرورت اس امر کی ہے کہ چندہ جمع کیا جائے اور لڑکوں کو اس میں تعلیم کے لئے بھجوایا جائے.ہر وہ احمدی جس کے شہر میں کالج نہیں وہ اگر اپنے لڑکے کو کسی اور شہر میں تعلیم کے لئے بھیجتا ہے تو کمزوری ایمان کا مظاہرہ کرتا ہے.بلکہ میں کہوں گا ہر وہ احمدی جو توفیق رکھتا ہے کہ اپنے لڑکے کو تعلیم کے لئے قادیان بھیج سکے خواہ اس کے گھر میں ہی کالج ہوا گر وہ نہیں بھیجتا اور اپنے ہی شہر میں تعلیم دلواتا ہے تو وہ بھی ایمان کی کمزوری کا مظاہرہ کرتا ہے“.(الفضل 20 مئی 1944ء) 7 مئی 1944ء کو حضور نے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو کالج کا پرنسپل مقر رفرمایا اور 26 مئی کو فضل عمر ہوٹل قائم کر دیا گیا.کالج کا باقاعدہ افتتاح 4 جون 1944ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے نہایت پر معارف خطاب سے فرمایا.پہلے سال میں 60 کے لگ بھگ طلباء داخل ہوئے.
224 نئی کلاسز کے لئے مالی تحریک: حضور نے کالج میں بی اے اور بی ایس سی کی کلاسیں کھولنے کے لئے 15 مارچ 1946ء کو ایک مضمون رقم فرمایا جس میں 2 لاکھ روپے کی تحریک فرمائی.و تحمیل تعلیم کے لئے بی اے اور بی ایس سی کی جماعتوں کا ہونا ضروری ہے جس کے کھولنے کے لئے صرف عمارت اور فرنیچر اور سائنس کے سامان کا اندازہ ایک لاکھ ستر ہزار کیا جاتا ہے اور کل خرچ پہلے سال کا دولاکھ پانچ ہزار بنایا جاتا ہے.میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے کالج کی بی اے اور بی ایس سی کی کلاسیں کھول دی جائیں اور اس سے دعائے کامیابی کرتے ہوئے ، میں جماعت احمدیہ کے مخلص افراد سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس کام کے لئے دل کھول کر چندہ دیں اور یہ دو لاکھ کی رقم اسی سال پوری کر دیں.تا کہ یہ کام به تمام و کمال جلد مکمل ہو کر اسلام کی ایک شاندار بنیا د رکھی (الفضل 19 مارچ 1946ء) حضور کی اس تحریک پر لبیک کہتے ہوئے فوری طور پر جماعت کے چار افراد نے 26 ہزار روپے کے وعدے کئے.لجنہ اماءاللہ قادیان نے اس میں پانچ ہزار روپے کا وعدہ کیا.جون 1946ء میں یہ وعدے ایک لاکھ سے اوپر نکل گئے اور اپریل 1947 ء تک اس مد میں ڈیڑھ لاکھ کے وعدے پہنچ گئے.جائے.پاکستانی دور 1947ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی ہجرت کر کے لاہور تشریف لائے اور قادیان کے نامساعد حالات کی بناء پر کالج بند ہو گیا.24 اکتوبر 1947ء کو حضور نے ہدایت فرمائی کہ آسمان کے نیچے پاکستان کی سرزمین پر جہاں کہیں بھی جگہ ملتی ہے لے لو اور کالج شروع کر دو.چنانچہ لاہور کی ایک بوسیدہ عمارت میں دسمبر سے کالج کا آغاز کر دیا گیا.ربوہ میں کالج کی مستقل عمارت کی تعمیر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی زیر نگرانی مکمل ہوئی اور 6 دسمبر 1954ء کو حضرت مصلح موعود نے اس کا افتتاح فرمایا.افسوس کہ 1972ء میں حکومت نے اسے قومی تحویل میں لے لیا اور اس کی شاندار تعلیمی اور ادبی روایات کا خاتمہ ہو گیا.
225 تعالیم آئندہ زمانہ کی دولت ہے 1947 ء میں ہجرت کے پُر آشوب حالات میں مصلح موعودؓ نے نو جوانوں کو تعلیم حاصل کرنے کی پر زورتحریک کی اور یہ بھی راہنمائی کی کہ انہیں کس قسم کی تعلیم حاصل کرنی چاہئے.چنانچہ حضور نے 28 دسمبر 1947ء کو جلسہ سالانہ کی تقریر بمقام لاہور میں فرمایا:.تعلیم آئندہ زمانہ کی دولت ہے اور اس دولت کو موجودہ زمانہ کی مصیبت کی وجہ سے برباد نہیں کرنا چاہئے.اس زمانہ کی مصیبت کا بوجھ ہم کو خود برداشت کرنا چاہئے.آئندہ زمانہ اپنے ساتھ نئی ذمہ داریاں اور نئے بوجھ لائے گا اور کوئی وجہ نہیں کہ ہم ان ذمہ داریوں کے لئے اپنی آئندہ نسل کو تیار نہ کریں.پس میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ جن جن دوستوں کے بیٹے گھر میں بیٹھے ہیں وہ انہیں تعلیم پر مجبور کریں.آخر ہر ایک کا بیٹا مصیبت میں مبتلا نہیں بعض اس خوشی میں بیٹھے ہیں کہ اچھا ہوا پڑھائی ختم ہوگئی.دوستوں کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کی اس خوشی میں شریک نہ ہوں یہ حقیقی خوشی نہیں بلکہ ان کے مستقبل کو تباہ کرنے والی بات ہے.جس جس کا بچہ گھر میں بیٹھا ہو اس کا فرض ہے کہ وہ اسے کالج یا سکول میں داخل کرے.تعلیم الاسلام کالج اب لاہور میں کھل گیا ہے اور تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ میں ہے والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے لڑکوں کو فوری طور پر ان درسگاہوں میں بھجوا دیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ حالات میں ہمارا سائنس کا سامان ضائع ہو گیا ہے مگر بہر حال تعلیم جاری رکھنے کے لئے ہم نے فورمن کرسچین کالج والوں سے سائنس کا سامان مستعار طور پر لیا ہے.ایک دو ماہ تک اس سے کام چلائیں گے.اس کے علاوہ میں نے یورپ اور امریکہ سے بھی سائنس کے سامان کے متعلق خطوط لکھے ہوئے ہیں کچھ سامان مل گیا ہے اور کچھ ابھی تک نہیں ملا.بہر حال اپنے کالج میں اپنے انتظام کے ماتحت لڑ کے تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں.لیکن آئندہ کے لئے جماعت کو یہ امر یا درکھنا چاہئے کہ لڑکوں کی تعلیم ایک نہایت اہم چیز ہے خود انہیں بھوکا رہنا پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں، پھٹے پرانے کپڑے پہننے پڑیں تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اولا د کو ضرور تعلیم دینی چاہئے.خصوصاً سائنس کی طرف ہمارے طلباء کو زیادہ توجہ کرنی مستقبل کی بنیاد اب سائنس پر ہی پڑنے والی ہے اور اس طرف نوجوانوں کا متوجہ ہونا نہایت
226 ضروری ہے....پس نو جوانوں کو خصوصیت سے سائنس کی طرف توجہ کرنی چاہئے یہ خوشی کی بات ہے کہ ہماری جماعت کے نوجوان سائنس کی طرف توجہ کر رہے ہیں مگر موجودہ توجہ سے انہیں زیادہ توجہ کرنی چاہئے بلکہ آرٹ کی نسبت بھی سائنس کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہئے.ہمارے منتظمین کو چاہئے کہ وہ سائنس کا سامان زیادہ مہیا کریں اور طالبعلموں کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو اتنا محنتی بنا ئیں کہ کالج یا سکول والوں کو انہیں لینے میں کوئی عذر نہ ہو.تعلیمی وظائف انوار العلوم جلد 19 ص 372 تا 374) جماعت احمدیہ نے 1939ء میں خلافت احمدیہ کی سلور جوبلی منائی.اس موقع پر حضور کی خدمت میں جماعت کی طرف سے 3 لاکھ روپے نذرانہ پیش کیا گیا.حضور نے اس رقم کے مصارف کا ذکر کرتے ہوئے 28 دسمبر 1939ء کے خطاب میں فرمایا:.آرٹ اور سائنس کی تعلیم نیز غربا کی تعلیم وترقی بھی خلفاء کا اہم کام ہے.ہماری جماعت کے غربا کی اعلی تعلیم کے لئے فی الحال انتظامات نہیں ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کند ذہن لڑکے جن کے ماں باپ استطاعت رکھتے ہیں تو پڑھ جاتے ہیں مگر ذہین بوجہ غربت کے رہ جاتے ہیں.اس کا نتیجہ ایک یہ بھی ہے کہ ملک کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اس رقم سے اس کا بھی انتظام کیا جائے اور میں نے تجویز کی ہے کہ اس کی آمد سے شروع میں فی الحال ہر سال ایک ایک وظیفہ مستحق طلباء کو دیا جائے.پہلے سال مڈل سے شروع کیا جائے.مقابلہ کا امتحان ہو اور جولڑ کا اول رہے اور کم سے کم ستر فیصدی نمبر حاصل کرے اسے انٹرنس تک بارہ روپیہ ماہوار وظیفہ دیا جائے اور پھر انٹرنس میں اول، دوم اور سوم رہنے والوں کو تمیں روپیہ ماہوار، جو ایف اے میں یہ امتیاز حاصل کریں انہیں 45 روپے ماہوار اور پھر جو بی اے میں اول آئے اسے 60 روپے ماہوار دیا جائے اور تین سال کے بعد جب اس فنڈ سے آمد شروع ہو جائے تو احمدی نوجوانوں کا مقابلہ کا امتحان ہو اور پھر جو لڑ کا اول آئے اسے انگلستان یا امریکہ میں جا کر تعلیم حاصل کرنے کے لئے اڑھائی سو روپیہ ماہوار تین سال کے لئے امداد دی جائے.اس طرح غربا کی تعلیم کا انتظام ہو جائے گا اور جوں جوں آمد بڑھتی جائے گی ان وظائف کو
227 ہم بڑھاتے رہیں گے کئی غربا اس لئے محنت نہیں کرتے کہ وہ سمجھتے ہیں ہم آگے تو پڑھ نہیں سکتے خواہ مخواہ کیوں مشقت اٹھائیں لیکن اس طرح جب ان کے لئے ترقی کا امکان ہوگا تو وہ محنت سے تعلیم حاصل کریں گے مڈل میں اول رہنے والوں کے لئے جو وظیفہ مقرر ہے وہ صرف تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے طلباء کے لئے ہی مخصوص ہوگا کیونکہ سب جگہ مڈل میں پڑھنے والے احمدی طلباء میں مقابلہ کے امتحان کا انتظام ہم نہیں کر سکتے.یونیورسٹی کے امتحان میں امتیاز حاصل کرنے والا خواہ کسی یونیورسٹی کا ہو وظیفہ حاصل کر سکے گا ہم صرف زیادہ نمبر دیکھیں گے کسی یونیورسٹی کا فرسٹ سیکنڈ اور تھرڈ رہنے والا طالب علم بھی اسے حاصل کر سکے گا اور اگر کسی بھی یونیورسٹی کا کوئی احمدی طالب علم یہ امتیاز حاصل نہ کر سکے تو جس کے بھی سب سے زیادہ نمبر ہوں اسے یہ وظیفہ دے دیا جائے گا.انگلستان یا امریکہ میں حصول تعلیم کے لئے جو وظیفہ مقرر ہے اس کے لئے ہم سارے ملک میں اعلان کر کے جو بھی مقابلہ میں شامل ہونا چاہیں ان کا امتحان لیں گے اور جو بھی فرسٹ رہے گا اسے یہ وظیفہ دیا جائے گا“.(انوار العلوم جلد 15 ص436) اس سلسلہ میں ایک نہایت ایمان افروز بات یہ ہے کہ محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب اس وقت میٹرک میں زیر تعلیم تھے.انہوں نے ان وظائف سے استفادہ کر کے اعلیٰ تعلیم حاصل کی.ان کے والد چوہدری محمد حسین صاحب بیان کرتے ہیں کہ جس دن حضور کی تقریر ہوئی اسی شام ہماری جماعت جھنگ شہر کی حضور سے ملاقات تھی.وہ لکھتے ہیں :.عزیز سلام سلمہ اللہ تعالیٰ میرے ساتھ تھے.میں نے عرض کی کہ حضور یہ وظائف جو حضور نے اعلان فرمائے ہیں.عزیز سلام سب لے جائے گا.حضور حیران ہوئے اور چپ ہو گئے.1940ء میں عزیز سلام سلمہ اللہ تعالیٰ نے میٹرک کا امتحان دیا اول آکر ریکارڈ توڑا.حضرت صاحب بہت خوش ہوئے اور حسب اعلان وظیفہ کے علاوہ ایک سو روپیہ نقد ریکارڈ مات کرنے کا اعلان کیا اور دیا.ایف اے اور بی اے میں اسی طرح ہوا.عزیز کا بی اے کا ریکارڈ 1944 ء سے تا حال موجود ہے.انگلش آنرز کا ریکارڈ تاحال موجود ہے.حضور نے علاوہ وظیفہ کے دوسور و پیہ نقد انعام دیا.ڈاکٹر صاحب نے میٹرک ایف اے، بی اے اور ایم اے میں یہ اعلان کردہ وظائف حاصل عالمی شہرت یافتہ سائنسدان عبدالسلام از عبدالحمید چوہدری ص 35) کئے.
228 اعلی تعلیم کے لئے یہ وہ پودا تھا جو 1939ء میں لگایا گیا اور 1979ء میں اللہ تعالیٰ نے انہیں نوبیل انعام حاصل کر کے دنیا میں احمدیت کا وقار بلند کرنے کا موقع عطا فرمایا.جماعت احمدیہ میں اعلی تعلیم کی توسیع کے لئے سکیم حضور نے 19 اکتوبر 1945ء کو احمدیوں میں اعلیٰ تعلیم کے عام کرنے کے لئے ایک نہایت اہم سکیم تیار کی جس کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ ”جس طرح ہماری جماعت دوسرے کاموں کے لئے چندہ کرتی ہے اسی طرح ہر گاؤں میں اس کے لئے کچھ چندہ جمع کر لیا جائے جس سے اس گاؤں کے اعلیٰ نمبروں پر پاس ہونے والے لڑکے یا لڑکوں کو وظیفہ دیا جائے.اس طرح کوشش کی جائے کہ ہر گاؤں میں دو تین طالب علم اعلیٰ تعلیم حاصل کر لیں.حضور نے اپنی اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ ” جو احمدی اپنے بچوں کو پرائمری تک تعلیم دلوا سکتے ہیں وہ کم از کم مڈل تک اور جو مڈل تک تعلیم دلوا سکتے ہیں وہ کم از کم انٹریس تک اور جو انٹریس تک پڑھا سکتے ہیں وہ اپنے لڑکوں کو کم از کم بی اے کرائیں.نیز فرمایا کہ چونکہ ہم تبلیغی جماعت ہیں اس لئے ہمارے لئے لازمی ہے کہ ہم سو فیصد تعلیم یافتہ ہوں“.اسی ضمن میں حضرت مصلح موعودؓ نے صدرانجمن احمدیہ کو ہدایت فرمائی کہ: وہ فوری طور پر نظارت تعلیم و تربیت کو ایک دو انسپکٹر دے جو سارے پنجاب کا دورہ کریں اور جو اضلاع پنجاب کے ساتھ دوسرے صوبوں کے ملتے ہیں اور ان میں احمدی کثرت سے ہوں ان کا دورہ بھی ساتھ ہی کرتے چلے جائیں.یہ انسپکٹر ہر ایک گاؤں اور ہر ایک شہر میں جائیں اور لسٹیں تیار کریں کہ ہر جماعت میں کتنے لڑکے ہیں.ان کی عمریں کیا ہیں ان میں کتنے پڑھتے ہیں اور کتنے نہیں پڑھتے.ان کے والدین کو تحریک کی جائے کہ وہ انہیں تعلیم دلوائیں اور کوشش کی جائے کہ زیادہ سے زیادہ لڑ کے ہائی سکولوں میں تعلیم حاصل کریں اور ہائی سکولوں سے پاس ہونے والے لڑکوں میں سے جن کے والدین استطاعت رکھتے ہوں ان کو تحریک کی جائے کہ وہ اپنے بچے تعلیم الاسلام کا لج میں پڑھنے کے لئے بھیجیں.( الفضل 30 اکتوبر 1945ء) اس خطبہ کی اشاعت پر نہ صرف بیرونی جماعتوں نے توسیع تعلیم سے متعلق اعداد و شمار کے مطلوبہ نقشے بھجوائے بلکہ اس سکیم کو جلد سے جلد نتیجہ خیز کرنے کے لئے حضرت مصلح موعودؓ کی منظوری سے دو
229 انسپکٹر بھی مہیا کئے گئے.تعلیمی اعداد و شمار جب حضور کی خدمت میں پیش کئے گئے تو حضور نے ارشاد فرمایا:.ساتھ کے ساتھ ان علاقوں میں تعلیم پر زور دیا جائے جو تعلیم حاصل نہیں کر رہے انہیں تعلیم پر مجبور کیا جائے اور جو کر رہے ہیں انہیں اعلی تعلیم پر.انسپکٹر ان کی تقرری کے موقعہ پر یہ ہدایت خاص فرمائی کہ ( الفضل 5 جون 1945ء) پانچ ماہ کے لئے منظور ہے جہاں تک میں سمجھتا ہوں اگر جماعت کو منظم کیا جائے تو باقی صیغوں کی طرح اس صیغہ کے سیکرٹری یہ کام سنبھال سکیں گے“.چنانچہ ان ہر دوا حکام کی تعمیل کی گئی اور جب جماعت میں تعلیم کی اشاعت و فروغ کی ایک روچیل نکلی تو پانچ ماہ کے بعد یہ کام سیکر ٹریان تعلیم وتربیت کے سپرد کر دیا گیا.تعلیم بالغاں کی تحریک یکم جنوری 1954ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے خطبہ جمعہ میں پھر تحریک فرمائی کہ ہر تعلیم یافتہ احمدی مرد اور عورت کسی ایک ناخواندہ مرد یا عورت کو لکھنا پڑھنا سکھانے کی کوشش کرے.آپ نے فرمایا: وو جو باتیں میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر جماعت کے مردوں اور عورتوں کے سامنے رکھی ہیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ ہر تعلیم یافتہ مرداور ہر تعلیم یافتہ عورت جماعت کے کسی ایک مرد یا عورت کو جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے معمولی لکھنا پڑھنا سکھا دے.ہماری جماعت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے تعلیم یافتہ طبقہ زیادہ ہے.اگر ہم عزم کر لیں اور پھر اس کے مطابق عمل کریں تو اگلے سال ہماری پچاس فیصدی تعداد تعلیم یافتہ ہو جائے گی.پھر اگر اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ گور بوہ میں عورتیں تعلیم کے لحاظ سے مردوں سے بہت زیادہ آگے ہیں لیکن باہر کی جماعتوں میں عورتوں کی تعلیم کا یہ معیار نہیں.اگر ہم عورتوں کے لحاظ سے وہی معیار لے لیں جو دوسرے مسلمانوں میں مردوں کا ہے تب بھی جماعت کی ساڑھے تیرہ فیصدی عورتیں تعلیم یافتہ ہیں.اگر جماعت کی ہر لکھی پڑھی عورت کم سے کم ایک عورت کو معمولی لکھنا پڑھنا سکھا دے تو اگلے سال تعلیم یافتہ عورتوں کی تعداد 25 فیصدی ہو جائے
230 گی.اس طرح اگلے دو سال کی جدو جہد میں ہم سب کو تعلیم یافتہ بنادیں گے...پس یہ کوئی مشکل امر نہیں.اگر کوئی دقت ہے تو محض یہ کہ ہم اس کے لئے ارادہ اور عزم نہیں کرتے.پس ایک تحریک میں نے یہ کی تھی کہ ہر تعلیم یافتہ ہر مرد ہر تعلیم یافتہ عورت کم سے کم کسی ایک مرد یا عورت کو معمولی لکھنا پڑھنا سکھا دے اور زیادہ ہو جائے تو یہ اور بھی اچھی بات ہے“.(روزنامه الصلح کرا چی 21 فروری 1954 ء ) اساتذہ کی ذمہ داری حضرت مصلح موعودؓ نے احباب جماعت کو تعلیمی میدان میں زیادہ سے زیادہ آگے بڑھانے کے علاوہ مرکزی درسگاہوں کے احمدی اساتذہ کو بچوں کی نگرانی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے فرمایا کہ: ”میرے نزدیک اس کی کلی طور پر ذمہ داری سکول کے عملہ پر ہے اور کالج کے لڑکوں کی ذمہ داری کالج کے عملہ پر ہے.اگر سکول یا کالج کا نتیجہ خراب ہو اور کالج یا سکول کا عملہ اس پر عذر کرے تو میں یہ کہوں گا یہ منافقانہ بات ہے اگر لڑ کے ہوشیار نہیں تھے اگر لڑ کے محنت نہ کرتے تھے اور اگر لڑ کے پڑھائی کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے تو ان کا کام تھا کہ وہ ایک ایک کے پاس جاتے اور ان کی اصلاح کرتے.اگر وہ متوجہ نہ ہوتے تو ان کے والدین کو اس طرف متوجہ کرتے اور ان کو مجبور کرتے کہ وہ تعلیم کو اچھی طرح حاصل کریں.ہماری جماعت کے لئے اعلی تعلیم کا حصول اب بہت ضروری ہے.اگر ہم میں اعلی تعلیم یافتہ نہ ہوں گے تو ساری سکیم فیل ہو جائے گی“.(الفضل 30 جنوری 1945ء) تعلیمی اداروں کی فہرست حضرت مصلح موعودؓ کے زیر نگرانی پاکستان میں جو تعلیمی ادارے قائم ہوئے ان کی ایک فہرست جامعہ احمد یہ ربوہ تعلیم الاسلام کا لج ربوہ تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ ، نصرت گرلز ہائی سکول ربوہ، جامعہ نصرت ربوہ ، نصرت انڈسٹریل سکول ربوہ، فضل عمر ماڈل سکول ربوہ تعلیم الاسلام انٹرمیڈیٹ کالج گھٹیالیاں تعلیم الاسلام ہائی سکول گھٹیالیاں، تعلیم الاسلام سیکنڈری سکول کراچی، احمد یہ گرلز ہائی
231 سکول سیالکوٹ ،تعلیم الاسلام پرائمری سکول احمد نگر ( دیناج پور ) تعلیم الاسلام مڈل سکول کھاریاں، تعلیم الاسلام ہائی سکول شادیوال، تعلیم الاسلام پرائمری سکول چوکنا والی تعلیم الاسلام مڈل سکول سندھ ، مدرسۃ البنات کنری سندھ.انٹر میڈیٹ کالج کلر کہار.ان کے علاوہ بھی بعض اور دیہی مقامات پر متعدد پرائمری سکول قائم ہوئے.اندرون پاکستان تعلیمی اداروں کے علاوہ بیرون پاکستان بھی تعلیمی ادارے، سکول اور کالجز قائم کئے گئے.ان کی کسی قدر تفصیل ذیل میں درج ہے.ٹرینیڈاڈ : 1.برٹش گی آنا : 1 - نائیجیریا: 11 فلسطین: 1- غانا: 20 -سیرالیون: 19.کینیا: 1 یوگنڈا: 2.ماریشس : 1 - جزائر نجی: 1.انڈونیشیا: 1- میزان : 59 (روز نامہ الفضل 19 فروری 1998ء) یہ ادارے تعلیمی و تربیت لحاظ سے دین اور انسانیت کی گرانقدر خدمات کر رہے ہیں.اس کا ایک ثبوت وہ احساس تشکر ہے جو ان افریقی احباب میں پایا جاتا ہے جو ان اداروں سے فیضیاب ہو کر نکلنے والوں کی عظیم الشان قومی خدمات پر انگشت بدنداں ہیں.احمدی بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے حضور نے 1915ء میں لاہور میں احمد یہ ہوٹل قائم کیا اور وقتاً فوقتا خود بھی تشریف لے جاتے رہے.1928ء میں جامعہ احمدیہ کے نام سے عربی کالج قائم کیا گیا.جس نے بعد میں موجودہ جامعہ احمدیہ کی شکل اختیار کی.احمد یہ یونیورسٹی 1930ء کی مجلس مشاورت میں احمد یہ یو نیورسٹی کی تجویز بھی زیر غور آئی مگر اس وقت کے حالات اور جماعت کے وسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے مناسب مشورہ کے لئے یہ تجویز حضور نے متعد دسب کمیٹیوں کے سپر دفرمائی.بالآخر 1940ء کی مجلس شوریٰ میں یہ تجویز پیش ہوئی اور حضور کی منظوری سے 1942 ء میں تعلیمی بورڈ کا قیام عمل میں آیا.جس کا کام امتحانات کی نگرانی تعلیمی ضروریات کا خیال رکھنا ، نصاب مقرر کرنا اور مناسب کتب لکھوانا تھا.تاریخ احمدیت جلد 5 ص 190,189)
232 تحریک وقف جدید جس طرح تحریک جدید دعوت الی اللہ سے متعلق تحریکات کی سرخیل ہے اسی طرح تربیتی تحریکات میں سب سے اہم اور جامع تحریک وقف جدید کی تحریک ہے.تحریک جدید اگر اللہ اور رسول کی خاطر نئے علاقے فتح کرنے کا نام ہے تو وقف جدیدان مفتوحہ علاقوں کے ہر فرد کو سچا احمدی بنانے کا نام ہے.اس تحریک کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ قیام پاکستان تک حضرت مسیح موعود کو دیکھنے والے اور ان کی صحبت سے فیض حاصل کرنے والے بہت سے بزرگ جماعتوں میں موجود تھے اور یہ بزرگ جماعت کے افراد کی علمی اور روحانی ضرورتیں پوری کر رہے تھے.1947ء تقسیم ہندوستان کے نتیجے میں جماعتوں کا نظام قائم نہ رہ سکا.بہت سے بزرگ وفات پاگئے.خاندانوں کے افراد مختلف جگہوں پر جا کر آباد ہو گئے.جو افراد جماعت شہروں میں آ کر آباد ہوئے وہاں ذیلی تنظیمیں مضبوط تھیں اس لئے وہاں تعلیم و تربیت کا مسئلہ حل ہو گیا.تعلیمی سہولتوں کی وجہ سے ان کا معیار تعلیم بھی زیادہ ہوتا ہے اور وہ ذاتی مطالعہ سے اپنی کمی کو دور کر لیتے ہیں.علماء سلسلہ کی بھی شہروں میں آمد و رفت رہتی ہے جس سے یہ جماعتیں مستفیض ہوتی ہیں.مگر دیہاتی جماعتوں میں یہ سہولتیں میسر نہیں ہوتیں.یہ افراد تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ہوتے ہیں اور ان کی مصروفیات بھی مختلف نوعیت کی ہوتی ہیں.سال کے بعض دنوں میں یہ بہت زیادہ مصروف ہوتے ہیں.اس لئے ان کو کوشش کر کے ہی اکٹھا کیا جا سکتا ہے اور اس امر کی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی معلم یا مربی ان لوگوں میں رہ کر ان کی تعلیم و تربیت کرے.اس لئے دیہاتی جماعتوں کی تعلیم و تربیت کے لئے حضرت مصلح موعودؓ نے وقف جدید کا نام لئے بغیر ایک تحریک جاری کرنے کا اعلان پہلی دفعہ 9 جولائی 1957 ء کو عیدالاضحیٰ کے خطبہ میں فرمایا.آپ نے فرمایا:.در حقیقت قربانیوں کی عید ہمیں اس طرف توجہ دلاتی ہے کہ ہم خدا کی خاطر اور اس کے بعد دین کے لئے جنگلوں میں جائیں اور وہاں جا کر خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کریں اور لوگوں سے اس کے رسول کا پڑھوائیں.جیسا کہ ہمارے صوفیا کرام کرتے چلے آئے ہیں.پس تم اپنے آپ کو اس قربانی
233 کے لئے پیش کرو...میرا خیال یہ ہے کہ اس ملک میں بھی اس طریق کو جاری کیا جا سکتا ہے.چنانچہ میں چاہتا ہوں کہ اگر کچھ نوجوان ایسے ہوں جن کے دلوں میں یہ خواہش پائی جاتی ہو کہ وہ حضرت خواجہ معین الدین صاحب چشتی اور حضرت شہاب الدین صاحب سہروردی کے نقش قدم پر چلیں تو جس طرح جماعت کے نوجوان اپنی زندگیاں...( براہ راست میرے سامنے وقف کریں تا کہ میں ان سے ایسے طریق پر کام لوں کہ وہ کو تعلیم دینے کا کام کر سکیں.وہ مجھ سے ہدایتیں لیتے جائیں اور اس ملک میں کام کرتے جائیں ہمارا ملک آبادی کے لحاظ سے ویران نہیں ہے لیکن روحانیت کے لحاظ سے بہت ویران ہو چکا ہے، اور آج بھی اس میں چشتیوں کی ضرورت ہے، سہر وردیوں کی ضرورت ہے اور نقشبندیوں کی ضرورت ہے.اگر یہ لوگ آگے نہ آئے اور حضرت معین الدین صاحب چشتی ، حضرت شہاب الدین صاحب سہروردی اور حضرت فرید الدین صاحب شکر گنج " جیسے لوگ پیدا نہ ہوئے تو یہ ملک روحانیت کے لحاظ سے اور بھی ویران ہو جائے گا بلکہ یہ اس سے بھی زیادہ ویران ہو جائے.پس میں چاہتا ہوں کہ جماعت کے نوجوان ہمت کریں اور اپنی زندگیاں اس مقصد کے لئے وقف کریں.(الفضل 6 فروری 1958ء) حضرت مصلح موعودؓ نے جلسہ سالانہ 1957 ء پر جماعت کے سامنے وقف جدید کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا: ” میری اس وقف سے غرض یہ ہے کہ پشاور سے لے کراچی تک ہمارے معلمین کا جال پھیلا دیا جائے اور تمام جگہوں پر تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر.یعنی دس دس پندرہ پندرہ میل پر ہمارا معلم موجود ہو اور اس نے مدرسہ جاری کیا ہوا ہو.یا دکان کھولی ہوئی ہو اور وہ سارا سال اس علاقہ کے لوگوں میں رہ کر کام کرتا رہے اور گو یہ سکیم بہت وسیع ہے مگر میں نے خرچ کو مدنظر رکھتے ہوئے شروع میں صرف دس واقفین لینے کا فیصلہ کیا ہے ممکن ہے بعض واقفین افریقہ سے لئے جائیں یا اور غیر ملکوں سے بھی لئے جائیں مگر بہر حال ابتداء دس واقفین سے کی جائے گی اور پھر بڑھاتے بڑھاتے ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی“.پس میں جماعت کے دوستوں سے کہتا ہوں کہ وہ جتنی قربانی کر سکیں اس سلسلہ میں کریں اور اپنے نام اس سکیم کے لئے پیش کریں.اگر ہمیں ہزاروں معلم مل جائیں تو پشاور سے کراچی تک کے
234 علاقہ کو ہم دینی تعلیم کے لحاظ سے سنبھال سکتے ہیں اور ہر سال دس دس بیس ہیں ہزار اشخاص کی تعلیم و 66 تربیت ہم کر سکیں گے.“ (الفضل 16 فروری 1958ء) حضرت مصلح موعودؓ نے 2 جنوری 1958ء کے خطبہ جمعہ میں وقف جدید کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: پس میں جماعت کے دوستوں کو ایک بار پھر اس وقف کی طرف توجہ دلاتا ہوں ہماری جماعت کو یا درکھنا چاہئے کہ اگر وہ ترقی کرنا چاہتی ہے تو اس کو اس قسم کے وقف جاری کرنے پڑیں گے اور چاروں طرف رشد و اصلاح کا جال پھیلانا پڑے گا یہاں تک کہ پنجاب کا کوئی گوشہ اور کوئی مقام ایسا نہ رہے جہاں رشد و اصلاح کی کوئی شاخ نہ ہو....اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ ایک مربی ایک ضلع میں مقرر ہو گیا اور وہ دورہ کرتا ہوا ہر ایک جگہ گھنٹہ گھنٹہ دو گھنٹے ٹھہرتا ہوا سارے ضلع میں پھر گیا اب ایسا زمانہ آ گیا ہے کہ ہمارے مربی کو ہر گھر اور ہر جھونپڑی تک پہنچنا پڑے گا اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب میری یہ نئی سکیم پر عمل کیا جائے اور تمام پنجاب میں بلکہ کراچی سے لے کر پشاور تک ہر جگہ ایسے آدمی مقرر کر دئے جائیں جو اس علاقے کے لوگوں کے اندر ر ہیں اور ایسے مفید کام کریں کہ لوگ ان سے متاثر ہوں وہ انہیں پڑھا ئیں بھی اور رشد و اصلاح کے کام بھی کریں اور یہ جال اتنا وسیع طور پر پھیلایا جائے..اور اس کے ذریعے گاؤں گاؤں اور قریہ قریہ کے لوگوں تک ہماری آواز پہنچ جائے بلکہ ہر گاؤں کے ہر گھر تک ہماری پہنچ ہو.پس جب تک ہم اس مہا جال کو نہ پھیلائیں گے اس وقت تک ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.“ (الفضل 11 جنوری 1958ء) پھر فرمایا ” ہماری اصل سکیم تو یہ ہے کہ کم سے کم ڈیڑھ ہزار سینٹر سارے ملک میں قائم کر دیئے جائیں.اگر ڈیڑھ ہزار سنٹر قائم ہو جائیں تو کراچی سے پشاور تک ہر پانچ میل پر ایک سنٹر قائم.پس اگر ڈیڑھ ہزار سینٹر قائم ہو جائے تو ہمارے ملک کا کوئی گوشہ اصلاح و ارشاد ہو جاتا ہے.کے دائرے سے باہر نہیں رہ سکتا.- اس طرح وقف جدید دو اجزا پر مشتمل تھی 1.واقفین زندگی اور معلمین کے ذریعہ تربیت اور دعوت الی اللہ کا نظام (الفضل 15 مارچ 1958ء)
235 2.مالی قربانی کا نظام حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر وقف جدید نے دیہاتی جماعتوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ سندھ میں ہندوؤں میں دعوت الی اللہ کے کام پر توجہ دینی شروع کی اور ان دونوں کاموں کے بہت شاندار نتائج ظاہر ہوئے.معلمین کا نظام حضرت مصلح موعود کی طرف سے وقف جدید کا اعلان ہوتے ہی واقفین کی درخواستیں آنی شروع ہو گئیں چنانچہ 18 جنوری 1958ء کو 14 واقفین کو بطور معلم منتخب کر لیا گیا ان کے لئے ایک ہفتہ کی تربیتی کلاس منعقد کی گئی اور یکم فروری 1958ء کو معلمین کا پہلا قافلہ سوئے منزل روانہ ہو گیا.16 فروری کو مزید 22 واقفین کا انٹرویو لے کر تقرر کیا گیا.چنانچہ پہلے سال کے اختتام پر 90 مراکز وقف جدید کے تحت قائم ہو چکے تھے.چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ نے جلسہ سالانہ 1958ء پر وقف جدید کے معلمین اور ان کی خوشکن کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اس سال 90 معلم وقف جدید میں کام کر رہے ہیں اور ستر ہزار روپیہ کے وعدے جماعت کی طرف سے آئے تھے جو قریباً پورے ہو گئے ہیں.جس کی وجہ سے یہ صیغہ بڑی عمدگی سے اپنا کام کر رہا ما..وقف جدید کی معرفت 400 بیعت آئی ہے.اصلاح وارشاد کی معرفت صرف 54 افراد سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں.اگر جماعت اپنی آمد بڑھائے تو اس کے نتیجہ میں چندہ کی مقدار بھی بڑھ جائے گی.جس سے ہم اپنے کام سہولت سے وسیع کر سکیں گے بلکہ بیماریوں کو دور کرنے میں بھی ہم ملک کی مددکرسکیں گے کیونکہ وقف جدید کے معلم تعلیم کے ساتھ ساتھ علاج معالجہ بھی کرتے ہیں اور اس سے ملک میں بیماریوں کو دور کرنے میں مددل رہی ہے.“ الفضل 25 جنوری 1959ء) خلافت ثانیہ کے اختتام تک 71 با قاعدہ معلمین کام کر رہے تھے جن کے ذریعہ 64 مراکز میں اصلاح وارشاد کی مہم چلائی جا رہی تھی جن کی تعداد دسمبر 2007 ء میں 270 ہو چکی ہے.پاکستان میں اب تک 733 سنٹرز پر معلمین کام کر چکے ہیں.معلمین کی تعلیم و تربیت کے لئے ایک سال کی معلمین کلاس جاری کی گئی اور با قاعدہ ایک مدرسہ کا
236 قیام عمل میں لایا گیا ہے جسے مدرستہ الظفر کا نام دیا گیا ہے.1996ء میں عرصہ تعلیم 2 سال کیا گیا مگر 2005 ء سے اس کا دورانیہ 3 سال کر دیا گیا ہے.اس وقت بھی 122 کے قریب طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن کو ہوٹل کی سہولت بھی میسر ہے پرنسپل کے علاوہ 13 اساتذہ تدریس کے فرائض سرانجام دیتے ہیں.ایک معلم کا حلقہ پانچ میل کا ہوتا ہے وہ اپنے حلقہ میں تعلیم وتربیت اور اصلاح وارشاد کا ذمہ دار ہوتا ہے وہ اپنے حلقہ کا دورہ کر کے معلوم کرتا ہے کہ اس کے حلقہ میں کل کتنے دیہات ہیں اور ان میں کتنی احمدی جماعتیں ہیں اور اس کے حلقہ میں کل کتنے احمدی احباب ہیں.معلم اپنے ماحول کا ایک نقشہ بنا کر دفتر کو بھجواتا ہے جس میں وہ اپنے جائزہ کے مطابق اعداد و شمار کا اندراج کرتا ہے اور دفتر کو ابتدائی رپورٹ بھجواتا ہے کہ اس وقت مقامی جماعت کی تعلیم و تربیت کا یہ حال ہے اتنے افراد قاعدہ یسر نالقرآن جانتے ہیں اتنے افراد قرآن مجید ناظرہ اور باترجمہ جانتے ہیں اور اتنے افراد نماز با جماعت ادا کرنے کے عادی ہیں اور تلاوت قرآن مجید کے عادی ہیں.اس گاؤں میں احمدیت کب یعنی کس سن میں آئی اور کون کون سے فرقے پائے جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ.پھر اس کی روشنی میں تعلیم وتربیت کا نظام قائم کرتا ہے.ان معلمین کے ذریعہ صرف خلافت ثانیہ میں 3827 افراد احمدیت میں داخل ہوئے.مالی نظام آغاز میں وقف جدید کی تحریک صرف پاکستانی اور بھارتی احمد یوں کے لئے تھی اور باہر کے ممالک سے اگر کوئی اپنی مرضی سے حصہ لینا چاہتا تو لے سکتا تھا 5 198 ء میں حضرت خلیفۃ المسح الرابع نے وقف جدید کی مالی قربانی کی تحریک کو ساری دنیا پر پھیلا دیا.تا کہ ہندوستان میں بھی وقف جدید کے نظام کو فعال کیا جا سکے.وقف جدید کا سال یکم جنوری تا 31 دسمبر شمار کیا جاتا ہے.احباب جماعت اپنی استطاعت کے مطابق ہر سال کے شروع میں چندہ وقف جدید کے دینے کا وعدہ کرتے ہیں.کہ دوران سال ہم اتنا چندہ ادا کریں گے.چندہ وقف جدید کی درج ذیل مدات ہیں.
1.چندہ وقف جدید بالغاں 2.چندہ وقف جدید اطفال و ناصرات 3.قیام مراکز 4.امدا د مراکز 237 چندہ وقف جدید بالغاں: اس کے دو حصے ہیں ایک احباب جماعت اپنی استطاعت کے مطابق چندہ ادا کرتے ہیں دوسرے معاونین خصوصی ہوتے ہیں صف اول کے معاونین خصوصی ایسے افراد جماعت جو ایک ہزار روپیہ یا اس سے زائدہ سالانہ ادا کرتے ہیں.صف دوم کے معاونین خصوصی ایسے افراد جماعت جو پانچ سو روپیہ سے 999 روپے تک سالانہ ادا کرتے ہیں.قیام مراکز : ایسی جماعتیں یا افراد جو وقف جدید کے معلم کا سارا خرچ یا کچھ حصہ وقف جدید کو ادا کرتے ہیں یہ رقم چندہ وقف جدید کے علاوہ ہوتی ہے.امداد مراکز : وقف جدید کے تحت پاکستان کے ضلع تھر پارکر میں جہاں ہندوؤں کی ایک کثیر تعداد ہے.وہاں ہندوؤں میں دعوت الی اللہ کا کام ہو رہا ہے اس کام کے لئے حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے 1978 ء میں ایک خصوصی مد امداد مراکز کے نام سے قائم فرمائی.جس کا بجٹ ایک لاکھ روپیہ مقرر فرمایا.دفتر اطفال: حضرت خلیفة المسیح الثالث نے 7 اکتو بر 1966 ء کو دفتر اطفال کا اعلان فرمایا.آپ نے 15 سال کی عمر کے لڑکوں اور لڑکیوں.اطفال اور ناصرات کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا.میں آج احمدی بچوں (لڑکوں اور لڑکیوں) سے اپیل کرتا ہوں کہ اے خدا اور اس کے رسول کے بچو.اٹھو اور آگے بڑھو اور تمہارے بڑوں کی غفلت کے نتیجہ میں وقف جدید کے کام میں جو رخنہ پڑ گیا ہے اسے پر کر دو اور اس کمزوری کو دور کر دو....وہ بچے جو اپنی عمر کے لحاظ سے اطفال الاحمدیہ یا ناصرات الاحمدیہ میں شامل ہو چکے ہیں یعنی ان کی عمریں سات سال سے پندرہ سال کی ہیں اگر وہ مہینہ میں ایک اٹھنی وقف جدید میں دیں تو جماعت کے سینکڑوں ہزاروں خاندان ایسے ہیں جن پر ان بچوں کی قربانی کے نتیجہ میں کوئی ایسا بار نہیں پڑے گا.اب سال کا بہت تھوڑا حصہ باقی رہ گیا ہے
238 اگر احمدی بچے اس پر پچاس ہزار روپے پیش کر دیں تو وہ دنیا میں ایک بہترین نمونہ قائم کرنے والے ہوں گے.“ (الفضل 12 اکتوبر 1966ء) جماعت احمدیہ کے بچوں اور بچیوں اطفال الاحمدیہ اور ناصرات الاحمدیہ نے اپنے پیارے امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے جیب خرچ اور اپنی عیدی اپنے امام کے حضور پیش کر دی.چندہ اطفال کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ایک تو وہ عام بچے ہیں جو چھ روپے سالانہ یا اس سے کچھ زائد چندہ ادا کرتے ہیں.دوسرے وہ نھے مجاہدین اور منفی مجاہدات ہیں جو سالانہ ایک سوروپیہ یا اس سے زائد چندہ ادا کرتے ہیں.چندہ اطفال وقف جدید کی وصولی کا تمام کام خدام الاحمدیہ کے سپرد ہے اور ناصرات کا چندہ لجنہ اماءاللہ کے سپر د ہے اور سات سال سے کم عمر بچگان بھی لجنہ اماءاللہ کے ساتھ منسلک ہیں.حضرت خلیفۃ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 12 جنوری 2006 ء کے خطبہ جمعہ میں بیرون پاکستان اطفال کو بھی چندہ وقف جدید میں شامل کرنے کا ارشاد فرمایا.( الفضل 6 مارچ 2007ء) 1958ء میں چندہ وقف جدید کی کل آمد 70 ہزار روپے تھی جو 1965ء میں 1,24324 روپے ہو گئی.2007ء کے اختتام پر وقف جدید کا چندہ 24 لاکھ 27 ہزار پونڈ تھا.اور چندہ دھندگان کی تعداد 5 لاکھ 10 ہزار سے زائد ہو چکی تھی.وقف جدید کے ضمن میں ایک تحریک حضرت مصلح موعودؓ نے زرعی زمین وقف کرنے کے متعلق فرمائی تھی.آپ نے فرمایا میں امید رکھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کے معزز زمیندار کراچی سے پشاور تک اپنے اپنے گاؤں کے ارد گرد دس ایکڑ زمین اس سکیم کے لئے وقف کر دیں گے.اس میں یہ واقفین کھیتی باڑی کریں گے.اور اس سے سکیم کو چلانے میں مدد دیں گے.(الفضل 7 جنوری 1958ء) چنانچہ خلافت ثانیہ میں 700 را یکٹر ز مین اس سکیم کے تحت وقف ہو چکی تھی.دیگر خدمات علاقہ نگر پارکر میں دعوت الی اللہ کا کام جاری ہے.یہ علاقہ صوبہ سندھ میں ہے اور بھارت کے
239 بارڈر کے ساتھ نہایت حساس علاقہ ہے اور یہ علاقہ بہت ہی پسماندہ ہے وہاں زندگی کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں وہاں اب بھی لوگ گھاس پھونس کی جھونپڑیوں میں رہتے ہیں اس علاقے کے اکثر لوگوں نے ریل گاڑی میں سفر کرنا تو در کنار ریل گاڑی دیکھی تک نہیں.پانی اور بجلی کا کوئی تصور نہیں ہے.اگر بارش ہو جائے تو ان لوگوں کی خوراک کا انتظام ہو جاتا ہے اور اگر بارش نہ ہو.تو یہ علاقہ قحط کا شکار ہو جاتا ہے ہے اور لوگ اس علاقہ کو چھوڑ کر بالائی سندھ چلے جاتے ہیں جہاں محنت مزدوری کرتے ہیں اس علاقہ میں ہندوؤں کی قدیم اور پسماندہ ذات کے لوگ آباد ہیں.جن کا پیشہ جانور پالنا وغیرہ ہے.اس قسم کے پسماندہ علاقہ میں وقف جدید کے معلمین جا کر کام کر رہے ہیں.ان معلمین کو بعض اوقات پینے کے لئے پانی کئی کئی میل سے لانا پڑتا ہے.وہاں معلمین نہایت اخلاص اور جانفشانی سے کام کر رہے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے انسانی کوششیں ثمر آور ہورہی ہیں اور اس قوم میں بڑے اچھے پھل مل رہے ہیں.1962ء میں مکرم سعید احمد صاحب کمپوڈر کے ذریعہ ٹھی ونگر پارکر میں دعوت الی اللہ کے کام آغاز ہوا خدا تعالیٰ کے فضل سے چند پھل بھی ملے.جس کا ذکر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے وقف جدید کے پانچویں سال نو کے پیغام میں فرمایا.مجھے بتایا گیا ہے کہ وقف جدید کے ماتحت اب اچھوت اقوام تک بھی دین حق کا پیغام پہچانے کا کام شروع کر دیا ہے اور اس کے امید افزا نتائج پیدا ہور ہے ہیں.“ 1987ء میں حضرت خلیفتہ امسیح الرابع نے اس علاقہ کے لئے ایک نائب ناظم ارشاد برائے مٹھی کا تقر فرمایا اور اب اس علاقہ کو تین بڑے سنٹروں میں تقسیم کر کے دعوت الی اللہ کا کام ہو رہا ہے.مٹھی ، نگر پارکر اور دانو داندل اس کے علاوہ 30 معلمین مختلف گوٹھوں میں کام کر رہے ہیں.اب تک ان لوگوں میں سے احمدی ہونے والے سات نواحمدی بطور معلم وقف جدید اور ایک مربی سلسلہ کام کر رہے ہیں اور تین طلباہ مدرستہ الظفر میں زیر تعلیم ہیں.اب تک ہزاروں افراد خدا تعالیٰ کی تو حید قبول کر چکے ہیں اور دوسو سے زائد دیہات سے احمدی احباب ہیں.معلمین اصلاح وارشاد تعلیم و تربیت کا کام کرنے کے ساتھ ان ناخواندہ اور پسماندہ قوم کے بچوں کا تعلیم کا انتظام بھی کرتے ہیں اب ان کی تعلیم کا انتظام کیا جارہا ہے.ان بچوں کو با قاعدہ ایک بورڈنگ ہاؤس میں رکھ کر ان کی تعلیم و
240 تربیت کی جارہی ہے.اس وقت احمد یہ بورڈنگ ہاؤس میں 45 طالب علم رہائش پذیر ہیں.بورڈنگ ہاؤس مٹھی ، نگر پارکر اور دانو داندل میں ہیں اس علاقہ میں بچوں کے لئے چار پرائمری سکول جاری کئے گئے ہیں جن میں 105 طالب علم تعلیم حاصل کر رہے ہیں.نگر پارکر میں بیت الذکر کے قریب چند خاندانوں کو آباد کیا گیا ہے تا کہ ان کی دینی رنگ میں تعلیم و تربیت کی جاسکے.جس کے بڑے حوصلہ افزا نتائج حاصل ہوئے ہیں.اس کے علاوہ 8 بیوت الذکر قائم ہیں اور 3 سینٹرز میں ایم.ٹی.اے دکھانے کا انتظام ہے باقی سینٹروں میں کیسٹس کے ذریعے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطبہ سنایا جاتا ہے.معلمین اس علاقہ میں اصلاح وارشاد کے علاوہ طبی خدمات بھی سرانجام دیتے ہیں.جس سے ان لوگوں سے ایک تعلق قائم ہو جاتا ہے اور وہ غور سے معلمین کی باتیں سنتے ہیں اور متاثر ہوتے ہیں.اس علاقہ میں طبی ضروریات کے لئے ایک ڈسپنسری قائم ہے جہاں سے مفت اور برائے نام قیمت پر دوائی مہیا کی جاتی ہے.دور دراز کے علاقوں میں طبی خدمت کے لئے ایک آٹو موبائل ڈسپنسری جاری کی ہوئی ہے جس سے اس علاقہ کی بہت خدمت کی جارہی ہے اور اس علاقہ میں ایک بہت اچھا اثر ہو رہا ہے.اب تو مٹھی میں پچاس بستروں کا المہدی ہسپتال جدید سہولتوں سے آراستہ اس علاقہ کے لوگوں کی خدمت میں مصروف ہے.اس میں دو ڈاکٹرز اور ایک لیڈی ڈاکٹر کام کر رہے ہیں.اس علاقہ میں ہندو مہا جن بہت چھایا ہوا ہے.وہ ان لوگوں کو ضروریات کے لئے قرض دیتا ہے اور یہ سود در سود چڑھتا رہتا ہے اور ہر سال مہاجن آکر ان کی تمام فصل اور مویشی بھی لے جاتا ہے.مگر قرض ختم نہیں ہوتا.وقف جدید نے اس طرف بھی خصوصی توجہ دی ہے کہ فصل کی کاشت کے موقعہ پر ان لوگوں کو بی ادھار دیا جاتا ہے جس سے یہ بننے کے قرض سے بچ جاتے ہیں فصل پک جانے کے بعد یہ رقم یا بیچ واپس کر دیتے ہیں.جس سے ان لوگوں میں یہ احساس پیدا ہو رہے ہیں کہ اصل ہمدرد تو ہماری یہی جماعت ہے جو ہمارا مختلف طریقوں سے خیال رکھتی ہے.1986ء میں علاقے میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے شدید قحط سالی پیدا ہو گئی کیونکہ یہ لوگ بارش کا جمع کیا ہوا پانی پیتے ہیں اس لئے بارش نہ ہونے کی وجہ سے پینے کے پانی کی بھی قلت ہوگئی.یہ قحط اتنا شدید تھا بھوک کی وجہ سے مویشی موت کا شکار ہونے لگے اور بعض جگہ بھوک کی وجہ سے انسانی اموات کی اطلاع بھی موصول ہوئی.حضرت خلیفہ المسیح الرابع کی منظوری سے اس علاقہ میں ہنگامی بنیادوں
241 پر امداد کا کام شروع کیا گیا اور اس علاقہ میں ڈیڑھ لاکھ روپیہ کی گندم تقسیم کی گئی.جب قحط سالی شدت اختیار کر گئی اور بارش کا موسم گزر گیا تو لوگ اس علاقہ سے ہجرت کر جانے پر مجبور ہو گئے.چنانچہ لوگ قافلوں کی صورت میں تھر سے باہر نکلے تو آگے سندھ میں جانے کے لئے انہوں نے نوکوٹ میں قیام کیا تو وہاں وقف جدید کی طرف سے ان کی خوراک کا انتظام کیا گیا تو اس سلسلے میں مقامی تنظیموں نے رکاوٹ ڈالی مگر جب لوگوں نے دیکھا کہ یہ خود تو کچھ مدد نہیں کرتے اور دوسروں کو مدد کرنے سے روکتے ہیں تو وہ خود بخود جماعت کی طرف سے کئے گئے انتظام سے کھانا کھانے لگے.حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان خدمات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.سندھ میں ہندوؤں کے علاقے میں تبلیغ کا کام ہوا.یہ بھی بہت مشکل کام تھا.یہ ہندو جو تھروں میں وہاں کے رہنے والے تھے.وہاں بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے مزدوری کے لئے سندھ کے آباد علاقہ میں آیا کرتے تھے تو یہاں آکر مسلمان زمینداروں کی بدسلوکی کی وجہ سے وہ اسلام کے نام سے بھی گھبراتے تھے.غربت بھی ان کی عروج پر تھی.بڑی بڑی زمینیں تھیں، پانی نہیں تھا اس لئے کچھ کر نہیں سکتے تھے.آمد نہیں تھی اور اسی غربت کی وجہ سے مسلمان زمیندار جن کے پاس یہ کام کرتے تھے انہیں تنگ کیا کرتے تھے اور ان سے بیگار بھی لیتے تھے.یا اتنی معمولی رقم دیتے تھے کہ وہ بریگار کے برابر ہی تھی.اسی طرح عیسائی مشنوں نے جب یہ دیکھا کہ ان کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے تو ان کی غربت کا فائدہ اٹھا کر عیسائیوں نے بھی اِن کو امداد دینی شروع کی اور اس کے ساتھ تبلیغ کر کے، لالچ دے کر عیسائیت کی طرف ان ہندوؤں کو مائل کرنا شروع کیا تو یہ ایک بہت بڑا کام تھا جو اس زمانے میں وقف جدید نے کیا اور اب تک کر رہی ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی اور بڑے سالوں کی کوششوں کے بعد اس علاقے میں احمدیت کا نفوذ ہونا شروع ہوا.ان سب مشکلات کے باوجود اللہ تعالیٰ نے مددفرمائی اور بڑا فضل فرمایا، تھر کے علاقے میٹھی اور نگر پارکر وغیرہ میں ، آگے بھی جماعتیں قائم ہونا شروع ہوئیں ، ماشاء اللہ اخلاص میں بھی بڑھیں ، ان میں سے واقف زندگی بھی بنے اور اپنے لوگوں میں تبلیغ کر کے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو متعارف کروایا، اس کا پیغام پہنچاتے رہے.جب ربوہ میں جلسے ہوتے تھے تو جلسے پر یہ لوگ ربوہ آیا کرتے تھے.میں نے دیکھا ہے کہ انتہائی مخلص اور بڑے اخلاص و وفا میں ڈوبے ہوئے لوگ تھے.اب تو ماشاء اللہ
242 ان لوگوں کی اگلی نسلیں بھی احمدیت کی گود میں پلی بڑھی ہیں اور اخلاص میں بڑھی ہوئی ہیں، بڑی مخلص ہیں.شروع زمانے میں وسائل کی کمی کی وجہ سے وقف جدید کے معلمین جنہوں نے میدان عمل میں کام کیا وہ بڑی تکلیف میں وقت گزارا کرتے تھے.ان علاقوں میں طبی امداد کی ، میڈیکل ایڈ (Medical Aid) کی سہولتیں بھی نہیں تھیں.اس لئے اپنے لئے بھی اور وہاں کے رہنے والے لوگوں کے لئے بھی کچھ دوائیاں، ایلو پیتھی اور ہومیو پیتھی وغیرہ ساتھ رکھا کرتے تھے.اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں موبائل ڈسپنسری ہے، دیہاتوں میں جاتی ہے، میڈیکل کیمپ بھی لگتے ہیں.با قاعدہ کوالیفائڈ (Qualified) ڈاکٹر وہاں جاتے ہیں.اسی طرح جماعت نے مٹھی میں ایک بہت بڑا ہسپتال بنایا ہے.اس میں آنکھوں کا ایک ونگ (Wing) بھی ہے.تو وقف جدید کی تحریک میں پاکستان کے احمدیوں نے اپنی تربیت اور تبلیغ کے لئے اُس زمانے میں بڑھ چڑھ کر قربانیاں پیش کیں اور اللہ کے فضل سے اب تک کر رہے ہیں اور کام میں بھی اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت وسعت پیدا ہو چکی ہے اور کام بہت آگے بڑھ چکا ہے.اللہ تعالیٰ جس طرح جماعت پر فضل فرما رہا ہے یہ تو بڑھتا (الفضل 6 مارچ 2007ء) ہی رہنا ہے.ہومیوڈسپنسری: دفتر وقف جدید میں 1960 ء سے ایک ہو میو پیتھی ڈسپنسری قائم ہے جہاں سے قریباً 200 افراد روزانہ دوائی حاصل کرتے ہیں اور معلمین اصلاح وارشاد تعلیم و تربیت کے علاوہ طبی خدمات بھی سرانجام دیتے ہیں.وقف جدید ہندوستان ہندوستان میں بھی وقف جدید نہایت اہم خدمات سرانجام دے رہی ہے چنانچہ 1200 کے قریب معلمین کام کر رہے ہیں اور ان کے ذریعہ لاکھوں افراد گزشتہ 4 سال کی عالمی بیعتوں میں شامل ہو چکے ( الفضل 28 مارچ 2006ء ) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 2007ء میں وقف جدید بھارت کو 5 لاکھ چندہ دھندگان کا ٹارگٹ دیا الفضل 6 مارچ 2007 ء )
243 ہندوستان میں 06-2005 ء میں وقف جدید کے ذریعہ 186 اور 07-2006ء میں 154 نئی جماعتیں قائم ہوئیں.وقف جدید کی کامیابی کا یقین دلاتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے اور ضرور پورا ہو کر رہے گا.میرے دل میں چونکہ خدا تعالیٰ نے یہ تحریک ڈالی ہے اس لئے خواہ مجھے اپنے مکان بیچنے پڑیں.میں اس فرض کو تب بھی پورا کروں گا.اگر جماعت کا ایک فرد بھی میرا ساتھ نہ دے خدا تعالیٰ ان لوگوں کو الگ کر دے گا.جو میرا ساتھ نہیں دے رہے اور میری مدد کے لئے فرشتے آسمان سے اتارے گا.“ سنا رہے ہیں زمانے کو قرب حق کی نوید (الفضل 4 اگست 2006ء.خطاب 28 جولائی 2007ء) 66 (الفضل 7 جنوری 1958ء) جدید کے خدام، اہل وقف در حبیب چراغ، وفا کے پیمانے ہیں سر بکف وہ کہ جن کے ہاتھوں میں سونپی گئی دلوں کی کلید ( عبد السلام اختر - الفضل 31 مئی 2006 ء )
244 ذیلی تنظیموں کا قیام حضرت مصلح موعودؓ ایک روحانی جماعت کے بلند پایہ موعود رہنما تھے اور اس جماعت نے صدیوں دنیا کی اصلاح اور قیادت کا فریضہ سرانجام دینا ہے.اس لئے نسلاً بعد نسل الہی نور کو منتقل کرنے کی ضرورت کو حضور خوب سمجھتے تھے.پس آپ نے مرکزی نظام جماعت کو مستحکم بنیا دوں پر قائم کرنے کے بعد جماعت میں ذیلی تنظیموں کی تحریکات فرمائیں اور جماعت کے ہر فر دکو ایک مضبوط لڑی میں پرو دیا.آپ نے نظام سلسلہ کی تشکیل کے وقت نہ صرف تاریخ عالم کا گہرا مطالعہ فرمایا بلکہ انسانی جسم کے نظام کا بھی مکمل مطالعہ کیا جس میں اللہ تعالیٰ نے ہنگامی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے بکثرت متبادل راستے تجویز کر رکھے ہیں.مثلاً اگر ایک شریان بند ہو تو دوسری شریان نیا راستہ مہیا کر کے زندگی کو بچالیتی ہے.آپ نے لجنہ اماءاللہ ( مع ناصرات الاحمدیہ ) مجلس خدام الاحمدیہ ( مع اطفال الاحمدیہ ) اور مجلس انصار اللہ کا قیام بڑی محنت اور توجہ سے فرمایا اور پروان چڑھایا اور نظام جماعت کے ساتھ ان کا رابطہ قائم کرتے ہوئے فرمایا:.اگر ایک طرف نظارتیں جو نظام کی قائم مقام ہیں عوام کو بیدار کرتی رہیں اور دوسری طرف خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ جو عوام کے قائم مقام ہیں.نظام کو بیدار کرتے رہیں تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ کسی وقت جماعت کلی طور پر گر جائے اور اس کا قدم ترقی کی طرف اٹھنے سے رک جائے.جب بھی ایک غافل ہو گا دوسرا اسے جگانے کے لئے تیار ہوگا....یادرکھو اگر اصلاح جماعت کا سارا دارومدار نظارتوں پر ہی رہا تو جماعت احمدیہ کی زندگی کبھی لمبی نہیں ہوسکتی.یہ خدائی قانون ہے جو کبھی بدل نہیں سکتا کہ ایک حصہ سوئے گا اور ایک حصہ جاگے گا.ایک حصہ غافل ہو گا اور ایک حصہ ہوشیار ہوگا.خدا تعالیٰ نے دنیا کو گول بنا کر فیصلہ کر دیا ہے کہ اس کے قانون میں یہ بات داخل ہے کہ دنیا کا ایک حصہ سوئے اور ایک حصہ جاگے....یہی نظام اور عوام کے کام کا تسلسل دنیا میں دکھائی دیتا ہے.(لفضل 17 نومبر 1943ء) حضور نے خدام ، اطفال، انصار اور لجنہ کو نظام جماعت کی چار دیواری سے تشبیہ دی.خدام جوش و امنگ کی علامت ہیں.انصار حکمت اور تجربہ کے نقیب ہیں اور لجنہ سلیقہ اور استقلال کی نمائندہ ہے اور
245 مسابقت کی دوڑ میں حصہ لے کر ان سب نے جو اثرات مرتب کئے میں ان کا ذکر کرتے ہوئے مجلس احرار کا تر جمان زمزم لکھتا ہے:.ایک ہم ہیں کہ ہماری کوئی بھی تنظیم نہیں اور ایک وہ ہیں کہ جن کی تنظیم در تنظیم کی تنظیمیں ہیں.ایک ہم ہیں کہ آوارہ منتشر اور پریشان ہیں.ایک وہ ہیں کہ حلقہ در حلقہ محدود و محصور اور مضبوط اور منتظم ہیں.ایک حلقہ احمدیت ہے.اس میں چھوٹا بڑا زن و مرد، بچہ بوڑھا.ہر احمدی مرکز نبوت پر مرکوز ومجتمع ہے.مگر تنظیم کی ضرورت اور برکات کا علم و احساس ملاحظہ ہو کہ اس جامع و مانع تنظیم پر بس نہیں.اس وسیع حلقہ کے اندر متعدد چھوٹے چھوٹے حلقے بنا کر ہر فرد کو اس طرح جکڑ دیا گیا ہے کہ ہل نہ سکے.عورتوں کی مستقل جماعت لجنہ اماءاللہ ہے.اس کا مستقل نظام ہے.سالانہ جلسہ کے موقعہ پر اس کا جدا گانہ سالانہ جلسہ ہوتا ہے.خدام الاحمدیہ نو جوانوں کا جدا نظام ہے.پندرہ تا چالیس سال کے ہر فرد جماعت کا خدام الاحمدیہ میں شامل ہونا ضروری ہے.چالیس سال سے اوپر والوں کا مستقل ایک اور حلقہ ہے.انصار اللہ جس میں چوہدری سرمحمد ظفر اللہ خان تک شامل ہیں.میں ان واقعات اور حالات میں مسلمانوں سے صرف اس قدر دریافت کرتا ہوں کہ کیا ابھی تمہارے جاگنے اور اٹھنے اور منظم ہونے کا وقت نہیں آیا؟ تم نے ان متعد د مور چوں کے مقابلہ میں کوئی ایک بھی مورچہ لگایا ؟ حریف نے عورتوں تک کو میدان جہاد میں لا کھڑا کیا..میرے نزدیک ہماری ذلت و رسوائی اور میدان کشاکش میں شکست و پسپائی کا ایک بہت بڑا سبب یہی غلط معیار شرافت ہے“.(زمزم لاہور 23 جنوری 1945ء بحوالہ الفضل 18 اپریل 1945ء) ان تینوں تنظیموں کے متعلق حضور کی تحریکات اور تدریجی مراحل درج ذیل ہیں:.لجنہ اماءاللہ کا قیام سیدنا حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفہ اول کے زمانہ مبارک میں جو مجالس قائم ہوئیں وہ سب مردوں کی تھیں.مثلاً ” اشاعت اسلام.صدرانجمن احمدیہ - تفخیذ الا ذہان.مجلس احباب - مجمع الاخوان - مجلس ارشاد وغیرہ.لیکن مستورات کیکوئی علمی و دینی اور تمدنی انجمن اس وقت تک موجود نہ تھی.لہذا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے اپنی حرم دوم امتہ الحی صاحبہ کی تحریک پر 25 دسمبر 1922ء کو لجنہ
246 ما ء اللہ کی بنیاد رکھی.جس کی پہلی سیکرٹری حضرت امتہ الحئی صاحب تھیں.جب اس تنظیم کا قیام عمل میں آیا تو لجنہ کی ممبرات نے حضرت اماں جان نصرت جہاں بیگم کی خدمت میں درخواست کی کہ اس کی صدارت قبول فرمائیں اور غالباً پہلا اجلاس آپ ہی کی صدارت میں ہوا تھا.لیکن آپ نے پہلے اجلاس ہی میں حضرت ام ناصر کو اپنی جگہ بٹھا کر صدارت کے لئے نامزد فر ما دیا.لجنہ اماءاللہ کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے 15 دسمبر 1922ء کو اپنے قلم سے قادیان کی مستورات کے نام ایک 17 نکاتی مضمون رقم کیا.جس میں عورتوں کو دینی تعلیم و تربیت کے لئے ایک مجلس کے قیام کی ترغیب دی اور فرمایا کہ جو عورتیں اس سے متفق ہوں وہ مجھے اطلاع دیں.اس ابتدائی تحریک پر ( جو محض رضا کارانہ رنگ کی تھی ) قادیان کی تیرہ خواتین نے دستخط کئے.حضور کے فرمان پر 25 دسمبر 1922ء کو یہ دستخط کرنے والی خواتین حضرت اماں جان کے گھر میں جمع ہوئیں.حضور نے نماز ظہر کے بعد ایک مختصر تقریر فرمائی اور لجنہ کا قیام عمل میں آیا.اس تقریر میں حضور نے لجنات کے سپر دجلسہ مستوارت کا انتظام کر کے کئی مشورے دیئے اور نصائح فرمائیں.اس اجلاس اول کے بعد لجنہ اماءاللہ کے مفصل قواعد رسالہ تادیب النساء میں (جو قادیان سے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی ادارت میں شائع ہوتا تھا ) شائع کر دیئے گئے اور اس طرح با قاعدہ سرگرمیوں کا آغا ز ہوا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے لجنہ کے اغراض و مقاصد جلد سے جلد پورا کرنے کے لئے اور احمدی مستورات کی اصلاح و تنظیم کرنے کے لئے سب سے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ بلجنات کے ہفتہ وار اجلاس جاری کئے اور فروری اور مارچ 1923ء کے تین اجلاسوں میں نہایت جامعیت کے ساتھ دینی اور دنیاوی علوم کی تفصیلات بیان فرمائیں.اس کے ساتھ ساتھ حضور نے خدمت دین کا عملی جوش پیدا کرنے کے لئے تعمیر بیت برلن کی ذمہ داری بھی احمدی مستورات پر ڈالی اور اس کے لئے چندہ کی فراہمی کا کام لجنہ اماءاللہ کے سپر دفرمایا.دو سال بعد حضرت اقدس خلیفہ اسیح الثانی نے خواتین میں دینی تعلیم عام کرنے کے لئے 17 مارچ 1925ء کو مدرستہ الخواتین جاری فرمایا.جس میں حضرت مولوی شیر علی صاحب ، حضرت سید ولی اللہ
247 شاہ صاحب، حضرت صوفی غلام محمد صاحب سابق مربی ماریشس اور دوسرے اصحاب کے علاوہ خود حضور تعلیم دیتے تھے.حضرت مولوی شیر علی صاحب اس مدرسہ کے نگران تھے.اس مدرسہ نے خواتین کے علمی و تنظیمی خلاء کو پر کرنے میں بڑا کام کیا اور خواتین کے مرکزی اداروں اور درسگاہوں کے لئے معلمات اور کارکنات پیدا ہوئیں.15 دسمبر 1926ء کو لجنہ اماءاللہ کی نگرانی میں ماہوار رسالہ ” مصباح “ جاری ہوا جس سے احمدی خواتین کی تربیت و تنظیم کو بہت تقویت پہنچی.ابتداء میں رسالہ کا انتظام مرد کرتے تھے مگر مئی 1947ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ارشاد پر اس کا پورا اہتمام مرکزی لجنہ اماءاللہ کو سونپ دیا گیا جس سے رسالہ کے علمی و دینی معیار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور اب یہ جماعت کی مستورات کے ترجمان کی حیثیت سے سلسلہ کی خدمت بجالا رہا ہے.16 ستمبر 1927ء کو حضرت امتہ الحئی صاحبہ کی یاد میں "امتہ الحی لائبریری کا افتتاح ہوا اور اس کی نگرانی حضرت سیدہ ام طاہر احمد صاحبہ کو تفویض ہوئی.جنہوں نے اپنی پوری زندگی لجنہ کے کام کے لئے وقف رکھی.افتتاح پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی حضرت اماں جان اور خاندان حضرت مسیح موعود کے دوسرے افراد نے کتابیں عنایت فرمائیں.یہ لائبریری حضرت خلیفہ ثانی کی اجازت خاص سے گول کمرہ میں قائم ہوئی.1947 ء کے بعد اس لائبریری کا احیاء جنوری 1960ء کور بوہ میں ہوا.1930ء میں لجنہ کو مجلس شوری میں نمائندگی کا حق ملا.جولائی 1931ء میں تحریک آزادی کشمیر کا آغاز ہوا تو لجنہ نے اسے کامیاب بنانے کے لئے چندہ دیا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے یکم اپریل 1938ء کو حکم دیا کہ جہاں جہاں لجنہ ابھی قائم نہیں ہوئی وہاں کی عورتیں اپنے ہاں لجنہ اماءاللہ قائم کریں اور وہ بھی اپنے آپ کو تحریک جدید کی والنٹیر ز سمجھیں.ماہ اپریل 1944ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو الہام ہوا.اگر تم پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی.اس خدائی تحریک پر حضور لجنہ اماءاللہ کی تربیت و تنظیم کی طرف اور زیادہ گہری توجہ فرمانے لگے.1950 ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی تحر یک وقف زندگی پر مستورات نے لبیک کہا.1951ء میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا دفتر بنا.1955ء میں ان کے چندوں سے ہالینڈ کی بیت الذکر تعمیر ہوئی.
248 لجنہ اماءاللہ کی تنظیم اپنی نوعیت اور ہیئت کے اعتبار سے ایک مثالی تنظیم ہے جس نے اپنی کار کردگی کا سکہ غیروں پر بھی بٹھا رکھا ہے.مولوی عبدالمجید صاحب قرشی ایڈیٹر اخبار تنظیم امرتسر نے لکھا:.لجنہ اماءاللہ قادیان احمد یہ خواتین کی انجمن کا نام ہے.اس انجمن کے ماتحت ہر جگہ عورتوں کی اصلاحی مجالس قائم کی گئی ہیں اور اس طرح پر وہ تحریک جو مردوں کی طرف سے اٹھتی ہے خواتین کی تائید سے کامیاب بنائی جاتی ہے اس انجمن نے تمام احمد یہ خواتین کو سلسلہ کے مقاصد کے ساتھ عملی طور پر وابستہ کر دیا ہے.عورتوں کا ایمان مردوں کی نسبت زیادہ مخلص اور مربوط ہوتا ہے.عورتیں مذہبی جوش کو مردوں کی نسبت زیادہ محفوظ رکھ سکتی ہیں.لجنہ اماءاللہ کی جس قدر کارگزاریاں اخبارات میں چھپ رہی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ احمدیوں کی آئندہ نسلیں موجودہ کی نسبت زیادہ مضبوط اور پُر جوش ہوں گی اور احمدی عورتیں اس چمن کو تازہ دم رکھیں گی جس کا مرور زمانہ کے باعث اپنی قدرتی شادابی اور سرسبزی سے محروم ہونا لازمی تھا.تاریخ احمدیت جلد 4 ص310) مجلس ناصرات الاحمدیہ کا قیام: فروری 1939ء میں احمدی بچیوں کے لئے ” مجلس ناصرات الاحمدیہ کے نام سے ایک انجمن کا قیام عمل میں آیا جس کی صدر محترم استانی میمونہ صوفی صاحبہ سیکرٹری صاحبزادی امۃ الرشید صاحبه ( بنت حضرت خلیفہ المسیح الثانی) اور اسٹنٹ سیکرٹری طاہرہ بیگم صاحبہ مقرر ہوئیں.( الفضل 5 جولائی 1939 ء ) مجلس ناصرات الاحمدیہ کا قیام صاحبزادی امتہ الرشید صاحبہ کی تحریک پر ہوا.چنانچہ صاحبزادی صاحبہ کا بیان ہے کہ: ” جب میں دینیات کلاس میں پڑھتی تھی.میرے ذہن میں یہ تجویز آئی کہ جس طرح خواتین کی تعلیم و تربیت کے لئے لجنہ اماءاللہ قائم ہے.اسی طرح لڑکیوں کے لئے بھی کوئی مجلس ہونی چاہئے.چنانچہ مکرم و محترم ملک سیف الرحمن صاحب کی بیگم صاحبہ اور مکرم ومحترم حافظ بشیر الدین صاحب کی بیگم صاحبہ اور اسی طرح اپنی کلاس کی بعض اور بہنوں سے اس خواہش کا اظہار کیا اور ہم سب نے مل کر لڑکیوں کی ایک انجمن بنائی جس کا نام حضرت اقدس کی منظوری سے ناصرات الاحمد یہ رکھا گیا.
249 شروع میں تو اس کے اجلاس بھی ہمارے سکول میں ہی ہوتے رہے اور سکول کی طالبات ہی اس کی ممبر رہیں.لیکن میری شادی کے بعد جب میں سندھ چلی گئی تو اس مجلس کا انتظام لجنہ اماءاللہ نے سنبھال لیا اور اس کے زیر انتظام اس مجلس کے امور سرانجام پاتے رہے.یہاں پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ احمدی عورتوں کی عمومی تعلیم کا معیار بلند کرنے کے لئے حضور کی دیگر تحریکات کا ذکر کر دیا جائے.تعلیم نسواں کی تحریک: حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو آغاز خلافت ہی سے احمدی خواتین کی تعلیمی ترقی و بہبود کا خیال تھا.مجلس مشاورت 1928ء کے موقعہ پر حضور نے نمائندگان جماعت کے سامنے تعلیم نسواں کے لئے خاص تحریک کرتے ہوئے ارشاد فرمایا.” میرے نزدیک عورتوں کی تعلیم ایسا اہم سوال ہے کہ کم از کم میں تو اس پر غور کرتے وقت حیران رہ جاتا ہوں ایک طرف اس بات کی اہمیت اتنی بڑھتی چلی جارہی ہے کہ دنیا میں جو تغیرات ہورہے ہیں یا آئندہ ہوں گے جن کی قرآن سے خبر معلوم ہوتی ہے ان کی وجہ سے وہ خیال مٹ رہا ہے جو عورت کے متعلق تھا کہ عورت شغل کے طور پر پیدا کی گئی ہے....دوسری طرف اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عورت کا میدان عمل مرد کے میدان سے بالکل علیحدہ ہے......پس ایک طرف عورتوں کی تعلیم کی اہمیت اور دوسری طرف یہ حالت کہ ان کا میدان عمل جدا گانہ ہے یہ ایسے امور ہیں جن پر غور کرتے ہوئے نہایت احتیاط کی ضرورت ہے.ہمیں خدا تعالیٰ نے دوسروں کا نقال نہیں بنایا بلکہ دنیا کے لئے راہنما بنایا ہے.ہمیں خدا تعالیٰ نے اس لئے کھڑا کیا ہے کہ ہم دنیا کی راہنمائی کریں نہ یہ کہ دوسروں کی نقل کریں.اس لئے ضروری ہے کہ ہم غور کریں عورتوں کو کیسی تعلیم کی ضرورت ہے.ہمیں ہر قدم پر سوچنا اور احتیاط سے کام لینا چاہئے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کچھ کرنا ہی نہیں چاہئے کرنا چاہئے اور ضرور کرنا چاہئے مگر غور اور فکر سے کام لینا چاہئے.اب تک ہماری طرف سے سستی ہوئی ہے ہمیں اب سے بہت پہلے غور کرنا چاہئے تھا اور اس کے لئے پروگرام تیار کرنا چاہئے تھا گو وہ پروگرام مکمل نہ ہوتا اور مکمل تو یکلخت قرآن شریف بھی نہیں ہو گیا تھا پس یکلخت تو قدم او پر نہیں جاسکتا مگر قدم رکھنا ضرور چاہئے تھا.میں اس بات کی زیادہ ضرورت محسوس کرتا ہوں کہ پہلے اس بات پر غور ہونا چاہئے کہ
250 عورتوں کو تعلیم کیسی دینی چاہئے مختلف زبانیں سکھانا تو ضروری بات ہے باقی امور میں ضروری نہیں کہ عورتوں کو اس رستے پر لے جائیں جس پر دوسرے لوگ لے جارہے ہیں.اعلی تعلیم وہی نہیں جو یورپ دے رہا ہے مسلمانوں میں بھی اعلی تعلیم تھی مسلمان عورتیں بھی پڑھتی پڑھاتی تھیں“.عورتوں کی تعلیم کا جس قدر جلد سے جلد مکمل انتظام کیا جائے گا.اتنا ہی مفید ہوگا.تبلیغ کے لحاظ سے بھی عورتوں کی تعلیم نہایت ضروری ہے.ہندو اور عیسائی عورتیں تعلیم میں بہت بڑھ رہی ہیں.ہماری عورتیں تعلیم حاصل کر کے نہ صرف ان کے حملوں سے بچ سکتی ہیں بلکہ ان کو تبلیغ بھی کر سکتی ہیں.تاریخ احمدیت جلد 5 ص 13) عورتوں کے لئے اعلیٰ انگریزی تعلیم کا اجراء: حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے یکم جولائی 1931ء کو قادیان میں ایف اے کلاس کا افتتاح فرمایا.اس موقع پر حضور نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ انگریزی تعلیم جاری رہے یہاں تک کہ گریجوایٹ خواتین کی اتنی کثیر تعداد پیدا ہو جائے کہ ہم سکول میں بھی زنانہ سٹاف رکھ سکیں اور کالج بھی قائم اس تعلق میں حضور نے یہ بھی فرمایا کہ تربیت اولاد کے مسئلہ میں کامیابی کی فقط یہی ایک صورت ہے کہ چھوٹی عمر کے بچوں کے بورڈنگ بنا کر ان کا انتظام عورتوں کے سپرد کر دیا جائے تا کہ وہ ان میں بچپن میں ہی خاص اخلاق پیدا کریں اور پھر وہ بچے بڑے ہو کر دوسروں کے اخلاق کو اپنے اخلاق کے سانچے میں ڈھالیں.اگر ہم ایسے ہومز (گھر) قائم کرسکیں تو اس کے ذریعہ سے اعلیٰ اخلاق پیدا کئے جاسکتے ہیں اور ایسی تربیت ہو سکتی ہے جو ہماری جماعت کو دوسروں سے بالکل ممتاز کر دے.مگر یہ بات کبھی حاصل نہیں ہوسکتی جب تک کافی تعداد میں تعلیم یافتہ عورتیں نہ ہوں.مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام تاریخ احمدیت جلد 5 ص 313 حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اللہ تعالیٰ کی مشیت خاص کے ماتحت عالمگیر غلبہ حق کے لئے جن عظیم الشان تحریکات کی بنیاد رکھی ان میں سے نہایت شاندار نہایت اہم اور مستقبل کے اعتبار سے نہایت
251 دور رس نتائج کی حامل تحریک مجلس خدام الاحمدیہ ہے جس کا قیام 1938ء کے آغاز میں ہوا.حضور کو اپنے عہد خلافت کی ابتداء ہی سے احمدی نوجوانوں کی تنظیم و تربیت کی طرف ہمیشہ توجہ رہی کیونکہ قیامت تک اعلائے کلمتہ اللہ اور غلبہ احمدیت کے لئے ضروری تھا کہ ہر نسل پہلی نسل کی پوری قائم مقام ہو اور جانی اور مالی قربانیوں میں پہلوں کے نقش قدم پر چلنے والی ہو اور ہر زمانے میں جماعت احمدیہ کے نوجوانوں کی تربیت اس طور پر ہوتی رہے کہ وہ احمدیت کا جھنڈا بلند رکھیں.حضرت مصلح موعودؓ نے اس مقصد کی تکمیل کے لئے وقتاً فوقتاً مختلف انجمنیں قائم فرما ئیں مگر ان سب تحریکوں کی جملہ خصوصیات مکمل طور پر مجلس خدام الاحمدیہ کی صورت میں جلوہ گر ہوئیں اور حضرت مصلح موعود کی براہ راست قیادت غیر معمولی توجہ اور حیرت انگیز قوت قدسی کی بدولت مجلس خدام الاحمدیہ میں تربیت پانے کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کو ایسے مخلص اور ایثار پیشہ اور دردمند دل رکھنے والے اور انتظامی قابلیتیں اور صلاحیتیں رکھنے والے مد بر دماغ میسر آگئے جنہوں نے آگے چل کر سلسلہ احمدیہ کی عظیم ذمہ داریوں کا بوجھ نہایت خوش اسلوبی اور کامیابی سے اپنے کندھوں پر اٹھایا اور آئندہ بھی ہم خدا تعالیٰ سے یہی امید رکھتے ہیں کہ اللہ تعلی ہر نسل میں ایسے لوگ پیدا کرتا چلا جاے گا.انشاء اللہ العزیز حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اس مجلس کی بنیا درکھتے ہوئے پیشگوئی فرمائی تھی کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہماری طرف سے دشمن کے ) ان حملوں کا کیا جواب دیا جائے گا.ایک ایک چیز کا اجمالی علم میرے ذہن میں موجود ہے اور اسی کا ایک حصہ خدام الاحمدیہ ہیں اور در حقیقت یہ روحانی ٹریننگ اور روحانی تعلیم و تربیت ہے.بیشک وہ لوگ جو ان باتوں سے واقف نہیں وہ میری ان باتوں کو سمجھ سکتے کیونکہ ہر شخص قبل از وقت ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتا.یہ اللہ تعالیٰ کی دین ہے جو وہ اپنے کسی بندے (کو) دیتا ہے.آج نو جوانوں کی ٹرینگ کا زمانہ ہے اور ان کی تربیت کا زمانہ ہے اور ٹرینگ کا زمانہ خاموشی کا زمانہ ہوتا ہے.لوگ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ کچھ نہیں ہو رہا.مگر جب قوم تربیت پا کر عمل کے میدان میں نکل کھڑی ہوتی ہے تو دنیا انجام دیکھنے لگ جاتی ہے.درحقیقت ایک ایسی زندہ قوم جو ایک ہاتھ کے اٹھنے پر اٹھے اور ایک ہاتھ کے گرنے پر بیٹھ جائے دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر دیا کرتی ہے“.الفضل 7 اپریل 1939 ء )
252 خدام الاحمدیہ کے قیام کی بنیادی غرض : حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مجلس خدام الاحمدیہ کی تاسیس کے زمانہ میں واضح لفظوں میں اس کی غرض و غایت یہ بیان فرما دی تھی :.” میری غرض اس مجلس کے قیام سے یہ ہے کہ جو تعلیم ہمارے دلوں میں دفن ہے اسے ہوا نہ لگ جائے بلکہ وہ اسی طرح نسلاً بعد نسل دلوں میں دفن ہوتی چلی جائے.آج وہ ہمارے دلوں میں دفن ہے تو کل وہ ہماری اولادوں کے دلوں میں دفن ہو اور پرسوں ان کی اولادوں کے دلوں میں.یہاں تک کہ یہ علیم ہم سے وابستہ ہو جائے.ہمارے دلوں کے ساتھ چمٹ جائے اور ایسی صورت اختیار کرے جو دنیا کے لئے مفید اور بابرکت ہو.اگر ایک یا دو نسلوں تک یہ تعلیم محد و در ہی تو کبھی ایسا پختہ رنگ نہ دے گی جس کی اس سے توقع کی جاتی ہے.(الفضل 17 فروری 1939ء) مختصر تاریخ مجلس خدام الاحمدیہ کے قیام کی مخصر تاریخ یہ ہے کہ 31 جنوری 1938ء کو حضرت خلیفہ مسیح الثانی کی خصوصی اجازت اور شیخ محبوب عالم صاحب ایم اے کی دعوت پر قادیان کے مندرجہ ذیل دس نوجوان ان کے مکان ( متصل بورڈنگ مدرسہ احمدیہ ) پر جمع ہوئے.1 - مولوی قمرالدین صاحب.2.حافظ بشیر احمد صاحب.3.مولانا ظہور حسین صاحب.4 - مولوی غلام احمد صاحب فرخ.5.مولوی محمد صدیق صاحب.6.سید احمد علی شاہ صاحب.7.حافظ قدرت اللہ صاحب.8 مولوی محمد یوسف صاحب.9.مولوی محمد احمد صاحب جلیل.10.چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر ان احباب نے صدارت کے لئے مولوی قمر الدین صاحب کا اور سیکرٹری کے لئے شیخ محبوب عالم صاحب خالد کا انتخاب کیا.ان نوجوانوں نے خدا تعالیٰ کے فضل ونصرت پر بھروسہ رکھتے ہوئے تائید خلافت میں کوشاں رہنے اور اس کے خلاف اٹھنے والے ہر فتنہ کے خلاف سینہ سپر ہونے کا عزم کیا.اس مجلس کی بنیاد چونکہ حضرت مصلح موعودؓ کی اجازت سے رکھی جا رہی تھی.اس لئے حضور ہی سے اس کا نام رکھنے کی درخواست کی گئی.حضور نے 4 فروری 1938ء کو اس تنظیم کو "مجلس خدام الاحمدیہ کے نام سے موسوم فرمایا اور فروری اور مارچ میں قادیان کے مختلف حلقوں میں اس کی شاخیں قائم کر دی
253 گئیں.اس دوران میں مجلس کا کام یہ تھا کہ اس کے ارکان قرآن و حدیث، تاریخ ، فقہ اور احمدیت و اسلام کے متعلق کتب دینیہ کا مطالعہ کرتے اور مخالف احمدیت و خلافت فتنوں کے جواب میں تحقیق و تدقیق کرتے.ان دنوں شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کا فتنہ بر پا تھا.چنانچہ مجلس نے یکے بعد دیگرے دو ٹریکٹ شیخ مصری صاحب کے اشتہاروں کے رد میں لکھے جو بہت مقبول ہوئے.پہلا ٹریکٹ شیخ مصری صاحب کا صحیح طریق فیصلہ سے فرار کے عنوان سے شائع ہوا.دوسرے کا عنوان ”روحانی خلفاء کبھی معزول نہیں ہو سکتے“ تھا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ارکان مجلس کی ان ابتدائی علمی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:.اگر دوست چاہتے ہیں کہ وہ تحریک جدید کو کامیاب بنا ئیں تو ان کے لئے ضروری ہے کہ جس طرح ہر جگہ لجنات اماءاللہ قائم ہیں اسی طرح ہر جگہ نو جوانوں کی انجمنیں قائم کریں.قادیان میں بعض نو جوانوں کے دل میں اس قسم کا خیال پیدا ہوا تو انہوں نے مجھ سے اجازت حاصل کرتے ہوئے ایک مجلس خدام الاحمدیہ کے نام سے قائم کر دی ہے.میں نے خاص طور پر انہیں یہ ہدایت دی ہے کہ جن لوگوں کی شخصیتیں نمایاں ہو چکی ہیں ان کو اپنے اندر شامل نہ کیا جائے تا انہیں خود کام کرنے کا موقع ملے ہاں دوسرے درجہ یا تیسرے درجہ کے لوگوں کو شامل کیا جاسکتا ہے تا انہیں خود کام کرنے کی مشق ہو اور قومی کاموں کو سمجھ سکیں اور انہیں سنبھال سکیں.چنانچہ میں نے دیکھا ہے کہ اس وقت تک انہوں نے جو کام کیا ہے اچھا کیا ہے اور محنت سے کیا ہے.شروع میں وہ بہت گھبرائے انہوں نے ادھر ادھر سے کتابیں لیں اور پڑھیں اور لوگوں سے دریافت کیا کہ فلاں بات کا کیا جواب دیں.مضمون لکھے اور بار بار کاٹے مگر جب مضمون تیار ہو گئے اور انہوں نے شائع کئے تو وہ نہایت اعلیٰ درجہ کے تھے“.(الفضل 10 / اپریل 1938ء) اپریل 1938ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مسلسل خطبات کے ذریعہ قادیان اور باہر کی جماعتوں میں اس مجلس کے قیام کا ارشاد فرمایا.قبل ازیں مجلس کا کام صرف علمی حد تک تھا.مگر اب اس کا پروگرام مندرجہ ذیل تجویز ہوا.1.اپنے ہاتھ سے روزانہ اجتماعی صورت میں آدھ گھنٹہ کام کرنا.2.درس و تدریس
254 3 - تلقین پابندی نماز 4.بیوگان ، معذوروں اور مریضوں کی خبر گیری 5 - تلفين و تد فین اور تقاریب میں امدا د وغیرہ اس بنیادی پروگرام کے ساتھ ساتھ حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت کے نو جوانوں کو انسداد آوارہ گردی اور فریضہ دعوت الی اللہ کی ادائیگی کی طرف بھی متوجہ فرمایا.ان ابتدائی مراحل سے گزرنے کے بعد بالآخر خدام الاحمدیہ کا مستقل لائحہ عمل حسب ذیل قرار پایا اور اسی کے مطابق مجلس کا کام بھی مختلف شعبوں میں تقسیم کیا گیا.1.سلسلہ عالیہ احمدیہ کے نوجوانوں کی تنظیم 2.سلسلہ عالیہ احمدیہ کے نوجوانوں میں قومی روح اور ایثار پیدا کرنا 3.دینی تعلیم کی ترویج واشاعت 4.نوجوانوں میں ہاتھ سے کام کرنے اور صاف ماحول میں رہنے کی عادت پیدا کرنا 5.نوجوانوں میں مستقل مزاجی پیدا کرنے کی کوشش کرنا 6.نوجوانوں کی ذہانت کو تیز کرنا 7.نوجوانوں کو قومی بوجھ اٹھانے کے قابل بنانے کے لئے ان کی ورزش جسمانی کا اہتمام 8 نوجوانوں کو دینی اخلاق میں رنگین کرنا ( مثلاً سچ، دیانت اور پابندی نماز وغیرہ) 9.قوم کے بچوں کی اس رنگ میں تربیت اور نگرانی کہ ان کی آئندہ زندگیاں قوم کے لئے مفید ثابت ہوسکیں.10.نوجوانوں کو سلسلہ کے کاموں میں زیادہ سے زیادہ دلچسپی لینے کی ترغیب و تحریص.11.نوجوانوں میں خدمت خلق کا جذبہ 12 - نوجوانان سلسلہ کی بہتری کے لئے حتی الوسع ہر مفید بات کو جامہ عمل پہنانا.مجلس خدام الاحمدیہ 70 سال گزرنے کے بعد دینی خدمت کے جوش و ولولہ سے بھرے ہوئے نو جوانوں کی عالمی تنظیم ہے جس کا ایک بھر پور اور جامع دستور اور لائحہ عمل ہے.یہ تنظیم جماعت احمدیہ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے جس کا ماٹو ہے.
255 قوموں کی اصلاح نو جوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہوسکتی اور تیری عاجزانہ راہیں اس کو پسند آئیں“ اس تنظیم کی تربیت خلفاء سلسلہ کے مقدس ہاتھوں سے ہوئی ہے اور خود حضرت مصلح موعود اور پھر خلیفہ اسی الثالث اور خلیفہ امسیح الرابع خلافت سے قبل اس کے صدر رہے ہیں.اسی طرح حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے بھی کلیدی خدمات سرانجام دی ہیں.اس مجلس کے تمام اخراجات اس کے ممبران کے چندوں سے سرانجام پاتے ہیں اور اس کی خدمات کے غیر بھی معترف ہیں.مجلس اطفال الاحمديه: 26 جولائی 1940ء کو حضور نے مجلس اطفال الاحمدیہ کے قیام کا اعلان فرمایا یہ تنظیم مجلس خدام الاحمدیہ کے زیر نگرانی بہترین تربیتی اور تعلیمی خدمات سرانجام دے رہی ہے.مجلس انصار اللہ کا قیام سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی تحریک اور راہنمائی میں دسمبر 1922 ء سے عورتوں کی تربیت کے لئے لجنہ اماءاللہ اور جنوری 1938ء سے نوجوانوں کی تربیت کے لئے مجلس خدام الاحمدیہ کی تنظیمیں قائم تھیں اور بہت جوش و خروش سے اپنی تربیتی ذمہ داریاں ادا کر رہی تھیں اور ان کی وجہ سے جماعت میں خدمت دین کا ایک خاص ماحول پیدا ہو چکا تھا.مگر ایک تیسرا طبقہ ابھی ایسا باقی تھا جو اپنی پختہ کاری لمبے تجربہ اور فراست کے اعتبار سے اگر چہ سلسلہ احمدیہ کی بہترین خدمات بجالا رہا تھا مگر کسی مستقل تنظیم سے وابستہ نہ ہونے کے باعث قوم کی اجتماعی تربیت میں پورا حصہ نہیں لے سکتا تھا.حالانکہ اپنی عمر اور اپنے تجربہ کے لحاظ سے قومی تربیت کی ذمہ داری براہ راست اسی طبقہ پر پڑتی تھی.علاوہ ازیں خدام الاحمدیہ کے نوجوانوں کے اندر خدمت دین کے جوش کا تسلسل قائم رکھنے کے لئے بھی ضروری تھا کہ جب جوانی کے زمانہ کی دینی ٹریننگ کا دور ختم ہو اور وہ عمر کے آخری حصہ میں داخل ہوں تو وہ دوبارہ ایک تنظیم ہی کے تحت اپنی زندگی کے بقیہ ایام گزار ہیں اور زندگی کے آخری سانس تک دین کی نصرت و تائید کے لئے سرگرم عمل رہیں.
256 چنانچہ حضور نے 26 جولائی 1940ء کو چالیس سال سے اوپر کے احمدیوں کی ایک مستقل تنظیم کی بنیاد رکھی ، جس کا نام "مجلس انصاراللہ تجویز فرمایا اور آغاز میں قادیان میں رہنے والے اس عمر کے تمام احمدیوں کی شمولیت اس میں لازمی اور ضروری قرار دی.انصار اللہ کی تنظیم کا عارضی پریذیڈنٹ مولوی شیر علی صاحب کو نا مزدفرمایا.اس موقعہ پر حضور نے مجلس انصار اللہ کی نسبت بعض بنیادی ہدایات بھی دیں.حضور نے فرمایا:.چالیس سال سے اوپر عمر والے جس قدر آدمی ہیں وہ انصار اللہ کے نام سے اپنی ایک انجمن بنائیں اور قادیان کے وہ تمام لوگ جو چالیس سال سے اوپر ہیں اس میں شریک ہوں.ان کے لئے بھی لازمی ہوگا کہ وہ روزانہ آدھ گھنٹہ خدمت دین کے لئے وقف کریں.اگر مناسب سمجھا گیا تو بعض لوگوں سے روزانہ آدھ گھنٹہ لینے کی بجائے مہینہ میں 3 دن یا کم و بیش اکٹھے بھی لئے جاسکتے ہیں.مگر بہر حال تمام بچوں، بوڑھوں اور نو جوانوں کا بغیر کسی استثناء کے قادیان میں منظم ہو جا نالا زمی ہے.تین سیکرٹری میں نے اس لئے مقرر کئے ہیں کہ مختلف محلوں میں کام کرنے کے لئے زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہے ان کو فوراً قادیان کے مختلف حصوں میں اپنے آدمی بٹھا دینے چاہئیں اور چالیس سال سے او پر عمر رکھنے والے تمام لوگوں کو اپنے اندر شامل کرنا چاہئے.یہ بھی دیکھ لینا چاہئے کہ لوگوں کو کس قسم کے کام میں سہولت ہو سکتی ہے اور جو شخص جس کام کے لئے موزوں ہواس کے لئے اس سے نصف گھنٹہ روزانہ کام لیا جائے.یہ نصف گھنٹہ کم سے کم وقت ہے اور ضرورت پر اس سے بھی زیادہ وقت لیا جا سکتا ہے میرا ان دونوں مجلسوں سے ایسا ہی تعلق ہوگا جیسا مربی کا تعلق ہوتا ہے اور ان کے کام کی آخری نگرانی میرے ذمہ ہوگی یا جو بھی خلیفہ وقت ہو.میرا اختیار ہوگا کہ جب بھی مناسب سمجھوں ان دونوں مجلسوں کا اجلاس اپنی صدارت میں بلالوں اور اپنی موجودگی میں ان کو اپنا اجلاس منعقد کرنے کے لئے کہوں.یہ اعلان پہلے صرف قادیان والوں کے لئے ہے اس لئے ان کو میں پھر متنبہ کرتا ہوں کہ کوئی فردا پنی مرضی سے ان مجالس سے باہر نہیں رہ سکتا.سوائے اس کے جو اپنی مرضی سے ہمیں چھوڑ کر الگ ہو جانا چاہتا ہو.ہر شخص کو حکماً اس تنظیم میں شامل ہونا پڑے گا اور اس تنظیم کے ذریعہ علاوہ اور کاموں کے اس امر کی بھی نگرانی رکھی جائے گی کہ کوئی شخص ایسا نہ رہے جو مسجد میں نماز باجماعت پڑھنے کا پابند نہ ہو.سوائے ان زمینداروں کے جنہیں کھیتوں میں کام کرنا پڑتا ہے.یا سوائے ان مزدوروں کے جنہیں
257 کام کے لئے باہر جانا پڑتا ہے.گو ایسے لوگوں کے لئے بھی میرے نزدیک کوئی نہ کوئی ایسا انتظام ضرور ہونا چاہئے جس کے ماتحت وہ اپنی قریب ترین مسجد میں نماز باجماعت پڑھ سکیں.اس کے ساتھ ہی میں بیرونی جماعتوں کو بھی اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ کی مجالس تو اکثر جگہ قائم ہی ہیں.اب انہیں ہر جگہ چالیس سال سے زائد عمر والوں کے لئے مجالس انصاراللہ قائم کرنی چاہئیں.ان مجالس کے وہی قواعد ہوں گے جو قادیان میں مجلس انصار اللہ کے قواعد ہوں گے.مگر سر دست باہر کی جماعتوں میں داخلہ فرض کے طور پر نہیں ہوگا بلکہ ان مجالس میں شامل ہونا ان کی مرضی پر موقوف ہوگا.لیکن جو پریذیڈنٹ یا امیر یا سیکرٹری ہیں ان کے لئے یہ لازمی ہے کہ وہ کسی نہ کسی مجلس میں شامل ہوں.کوئی امیر نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی عمر کے لحاظ سے انصار اللہ یا خدام الاحمدیہ کا ممبر نہ ہو.کوئی پریذیڈنٹ نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی عمر کے لحاظ سے انصار اللہ یا خدام الاحمدیہ کا ممبر نہ ہو اور کوئی سیکرٹری نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی عمر کے لحاظ سے انصار اللہ یا خدام الاحمدیہ کا مبر نہ ہو.اگر اس کی عمر پندرہ سال سے اوپر اور چالیس سال سے کم ہے تو اس کے لئے خدام الاحمدیہ کا ممبر ہونا ضروری ہوگا اور اگر وہ چالیس سال سے اوپر ہے تو اس کے لئے انصار اللہ کا مہر ہونا ضروری ہوگا.اس طرح ڈیڑھ سال تک دیکھنے کے بعد خدا نے چاہا تو آہستہ آہستہ باہر بھی ان مجالس میں شامل ہونا لازمی کر دیا جائے گا.الفضل یکم اگست 1940 ء ) مجلس انصار اللہ کی تنظیم بھی اب عالمگیر شکل اختیار کر چکی ہے اور تمام دنیا میں احمدیت اور انسانیت کی خاطر قابل رشک خدمات سرانجام دے رہی ہے.ذیلی تنظیموں کا ملک وارصدارتی نظام 1989ء تک تمام تنظیمیں ساری دنیا میں مرکز سلسلہ ربوہ کی راہنمائی میں کام کرتی تھیں اور مرکزی طور پر ان کے صدران حضرت خلیفۃ المسیح کی طرف سے مقرر کئے جاتے تھے.3 نومبر 1989 ء کو حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے ذیلی تنظیموں کے نظام میں تبدیلی کرتے ہوئے ہر ملک میں الگ الگ صدارت کے قیام کا اعلان فرمایا.
258 خدمت خلق سے متعلق تحریکات جماعت احمدیہ کے پروگراموں میں خدمت خلق کا نہایت بلند مقام ہے.اس لئے حضرت مصلح موعود بار بار مخلوق کی بے لوث خدمت کی تلقین کرتے رہے مگر اس کا ایک نمایاں موڑ اس وقت آیا جب آپ نے 1938ء میں احمدی نوجوانوں کی تنظیم خدام الاحمدیہ قائم کی اور ان کے دلوں میں یہ بات راسخ کی کہ تم انسانیت کی خدمت کے لئے پیدا کئے گئے ہو اور یہ خدمت روحانی امور سے بھی تعلق رکھتی ہے اور عام جسمانی اور مادی معاملات سے بھی.اس تنظیم کے لائحہ عمل میں آپ نے خدمت خلق اور اس کی ذیل میں وقار عمل کا شعبہ قائم کیا جو ایک منتظم طور پر ساتھ بے لوث اجتماعی خدمت کا منفر دادارہ ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے خطبہ جمعہ 17 فروری 1939 ء میں فرمایا: خدام الاحمدیہ کے اساسی اصول میں خدمت خلق بھی شامل ہے“.(الفضل 15 مارچ 1939 ء ) خطبہ جمعہ 11 ستمبر 1942ء میں فرمایا:.ہماری جماعت کے خدام الاحمدیہ دوسری تمام اقوام کے نوجوانوں سے زیادہ نمایاں حصہ خدمت خلق میں لیں“.(الفضل 17 ستمبر 1942 ء ) چنانچہ حضور کے خطبات کی روشنی میں مجلس خدام الاحمدیہ کا جو ابتدائی پروگرام مرتب ہوا اس میں یہ امور بھی شامل تھے.خدمت خلق کے کام کرنا.خدمت خلق میں یہ ضروری نہیں کہ صرف مسلمان غریبوں، مسکینوں یا بیواؤں کی خبر گیری کی جائے.بلکہ ہندو، سکھ، عیسائی یا کسی اور مذہب کا پیروکسی دکھ میں مبتلا ہے تو اس دکھ کو دور کرنے میں حصہ لیا جائے.کہیں جلسے ہوں تو اپنے آپ کو خدمت کے لئے پیش کیا جائے اور اس طرح اپنی زندگی کو کارآمد بنایا جائے.ہر ممبر کے لئے ضروری ہوگا کہ کم از کم نصف گھنٹہ روزانہ مجلس کے مقرر کردہ پروگرام کے مطابق خدمت خلق کے لئے وقف کرے.سارے ممبر ایک جگہ جمع ہو کر کام کریں.اگر مجلس کو ضرورت پیش آئے تو ہر ممبر کم از کم دس دن سال میں اکٹھے وقف کرے.
259 ہاتھ کے کام میں سڑکوں کی صفائی، بوجھ اٹھانا، سٹیشنوں پر پانی پلانا محتاجوں کا سامان اٹھانا، تکفین و تدفین میں مدد وغیرہ شامل ہیں.( تاریخ مجلس خدام الاحمدیہ جلد 1 ص 16,15) اس لحاظ سے خدام الاحمدیہ کے ذریعہ ہونے والی خدمت خلق تاریخ احمدیت کا زریں باب ہے.نیز یہی پہلو جماعت کی مرکزی اور دیگر ذیلی تنظیموں کے نصب العین کا مرکزی حصہ ہے.ذیل میں خلافت ثانیہ کی خدمت خلق کے حوالے سے چندا ہم تحریکات درج ہیں.انفلوئنزا کی عالمگیر و با میں خدمت کی تحریک 1918ء میں جنگ عظیم کا ایک نتیجہ انفلوئنزا کی صورت میں ظاہر ہوا.اس وبا نے گویا ساری دنیا میں اس تباہی سے زیادہ تباہی پھیلا دی.جو میدان جنگ میں پھیلا ئی تھی.ہندوستان پر بھی اس مرض کا سخت حملہ ہوا.اگر چہ شروع میں اموات کی شرح کم تھی.لیکن تھوڑے ہی دنوں میں بہت بڑھ گئی اور ہر طرف ایک تہلکہ عظیم برپا ہو گیا.ان ایام میں حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کی ہدایت کے ماتحت جماعت احمدیہ نے شاندار خدمات انجام دیں اور مذہب وملت کی تمیز کے بغیر ہر قوم اور ہر طبقہ کے لوگوں کی تیمار داری اور علاج معالجہ میں نمایاں حصہ لیا.احمدی ڈاکٹروں اور احمدی طبیبوں نے اپنی آنریری خدمات پیش کر کے نہ صرف قادیان میں مخلوق خدا کی خدمت کا حق ادا کیا بلکہ شہر شہر اور گاؤں گاؤں پھر کر طبی امداد بہم پہنچائی اور تمام رضا کاروں نے نرسنگ وغیرہ کی خدمت انجام دی اور غربا کی امداد کے لئے جماعت کی طرف سے روپیہ اور خور و نوش کا سامان بھی تقسیم کیا گیا ان ایام میں احمدی والینٹیئر جن میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بھی شامل تھے ) صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کر کے دن رات مریضوں کی خدمت میں مصروف تھے اور بعض صورتوں میں جب کام کرنے والے خود بھی بیمار ہو گئے اور نئے کام کرنے والے میسر نہیں آئے بیمار رضا کا رہی دوسرے بیماروں کی خدمت انجام دیتے رہے اور جب تک یہ رضا کار بالکل نڈھال ہو کر صاحب فراش نہ ہو گئے.انہوں نے اپنے آرام اور اپنے علاج پر دوسروں کے آرام اور دوسروں کے علاج کو مقدم کیا.یہ ایسا کام تھا کہ دوست دشمن سب نے جماعت احمدیہ کی بے لوث خدمت کا اقرار کیا اور تقریر وتحریر دونوں میں تسلیم کیا کہ اس موقع پر جماعت احمدیہ نے بڑی تندہی و جانفشانی سے کام کر کے بہت اچھا نمونہ قائم کر دیا ہے.( سلسلہ احمدیہ ص 358)
260 لاوارث عورتوں اور بچوں کی خبر گیری کے لئے تحریک حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے جولائی 1927ء میں آریوں کے ایک خطرناک منصو بہ کا انکشاف کرتے ہوئے مسلمانوں کو توجہ دلائی کہ شدھی کا زور جب سے شروع ہوا ہے ہندو صاحبان کی طرف سے مختلف سٹیشنوں پر آدمی مقرر ہیں جو عورتوں اور بچوں کو جو کسی بد قسمتی کی وجہ سے علیحدہ سفر کر رہے ہوں بہکا کر لے جاتے ہیں اور انہیں شدھ کر لیتے ہیں اس سلسلہ میں حضور نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ ہر بڑے شہر میں لاوارث عورتوں اور بچوں کے لئے ایک جگہ مقرر ہونی چاہئے جہاں وہ رکھے جائیں نیز دہلی والوں کو اس کے انتظام کی طرف خاص توجہ دلائی اور فرمایا: یا درکھنا چاہئے کہ قطرہ قطرہ سے دریا بن جاتا ہے.ایک ایک آدمی نکلنا شروع ہو تو بھی کچھ عرصہ میں ہزاروں تک تعداد پہنچ جاتی ہے اور ان کی نسلوں کو مد نظر رکھا جائے تو لاکھوں کروڑوں کا نقصان نظر آتا ہے پس اس نقصان کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے“.الفضل 19 جولائی 1927ء ص 2,1) چنانچہ انجمن محافظ اوقاف دہلی نے یہ اہم فرض اپنے ذمہ لیا اور اس کے لئے پانچ معزز ارکان کی کمیٹی قائم کر دی.قادیان میں یوم سرحد صوبہ سرحد کے سرخ پوش مسلمانوں پر حکومت کی سخت گیر پالیسی اور تشدد نے ایک قیامت کی بپا کر دی تھی اس ظلم وستم کے خلاف احتجاج کے طور پر ( آل انڈیا مسلم کانفرنس دہلی کے فیصلہ کے مطابق ) 5 فروری 1932 ء کو ملک کے دوسرے شہروں کی طرح قادیان میں بھی یوم سرحد کے سلسلہ میں ایک عام جلسہ منعقد کیا گیا اور مصیبت زدگان سے ہمدردی کا اظہار کرنے اور حکومت سے اس کا ازالہ کرنے کی قرارداد متفقہ طور پر پاس کی گئی.(الفضل 11 فروری 1932ء) جلسہ سے قبل سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے بھی خطبہ جمعہ میں مظالم سرحد کا ذکر کیا اور ارشاد فرمایا کہ صوبہ سرحد میں معلوم ہوا کہ بعض افسروں نے بہت زیادتیاں کی ہیں...ہمارے خیال کے......مطابق سرخ پوش تحریک جائز نہیں مگر پھر بھی وہاں کے مظلوموں کے ساتھ ہمیں ہمدردی ہے.
261 امید ہے کہ ان حالات کا علم ہونے کے بعد حکومت ان کے ازالہ کی کوشش کرے گی اور ہر وہ مسلمان جو ان کی کسی نہ کسی طرح مدد کر سکتا ہو اس سے دریغ نہ کرے گا.میں اپنے سرحدی بھائیوں سے بھی درخواست کروں گا کہ وہ ایسی حرکات نہ کریں جن سے امن میں خلل واقع ہو اس وقت وہاں ریفارم سکیم نافذ کی جارہی ہے اس لئے خصوصیت کے ساتھ اس وقت وہاں پر امن فضا کی ضرورت ہے.(الفضل 14 فروری 1932 ء ) مظلوموں کی امداد مشرقی پنجاب کے اضلاع حصار، رہتک کرنال اور گوڑ گاؤں میں مسلمانوں کی تعداد کم تھی اس لئے ہندو اکثریت ان کو تباہ کرنے کے لئے اندر ہی اندر خوفناک تیاریوں میں مصروف تھی.1932 ء میں ہندوؤں کی اس خفیہ سازش کا پہلا نشانہ پونڈری کے مسلمان بنے اس کے بعد انہوں نے 11 اکتوبر 1932ء کی رات کو بڑھلا ڈا ( ضلع حصار) کے مسلمانوں پر بھی یورش کر دی اور چند منٹوں میں سولہ مسلمان مرد عورتیں اور بچے گولیوں کا شکار ہوئے جن میں سے سات شہید اور نو زخمی ہو گئے.عین اسی وقت جبکہ بڑھلاڈا کے مسلمانوں کو بہیمانہ طور پر ختم کیا جارہا تھا بندوقوں سے مسلح ہندوؤں نے تلونڈی کے آٹھ مسلمانوں کوموت کے گھاٹ اتار دیا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ان خونچکاں واقعات کی اطلاع اور مسلمانان بڈھلا ڈا کی درخواست پر صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی اے کو تحقیقات کے لئے بھجوایا.جنہوں نے ایک مبصر کی حیثیت سے نہایت محنت و عر قریزی کے ساتھ پیش آمدہ حالات کی چھان بین کی اور اس سازش کو پایہ ثبوت تک پہنچا دیا.جو ایک عرصہ سے ہندوؤں نے مسلمانوں کے خلاف نہایت منظم طور پر کر رکھی تھی.صوفی صاحب کی مکمل تحقیقات الفضل 27 نومبر 1932ء (ص10,7) میں شائع کر دی گئی جس سے مسلمانان پنجاب کو پہلی بار صیح اور مکمل واقعات کا علم ہوا.صوفی صاحب نے اپنے قیام کے دوران میں ایک اہم کام یہ بھی کیا کہ وہاں مسلمانوں کی تنظیم کے لئے ایک مسلم ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی.جس کے صدر اور سیکرٹری بڈھلاڈا کے بعض اہل علم مسلمانوں کو مقرر کیا.صوفی صاحب کے بعد مرکز کی طرف سے بعض اور اصحاب بھی بھجوائے گئے اور بالآخر چوہدری
262 مظفرالدین صاحب بی اے بنگالی روانہ کئے گئے.جنہوں نے اس علاقہ میں قریباً ایک سال تک قیام کیا.افسروں سے ملاقات اور خط و کتابت کر کے مسلمانوں کی مدد کی اور اصل واقعات منظر عام پر لانے کے لئے متعدد مضامین لکھے.چوہدری مظفر الدین صاحب نے مسلمانان حصار کی تنظیم میں بھی دلچسپی لی اور ان کی اقتصادی بہبود کے لئے بھی کوشش کرتے رہے اور جہاں ان کے جانے سے قبل بڑھلاڈا میں مسلمانوں کی خورونوش کی ایک دکان بھی موجود نہ تھی.وہاں ان کی تحریک پر پانچ چھود کا نہیں کھل گئیں اور وہ مسلمان جو دہشت زدہ ہو گئے تھے اور ہندوؤں کی چیرہ دستیوں سے سہمے ہوئے تھے.اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے لگے اور وہ ہندو اور سکھ افسر جو اس فتنہ کے پشت پناہ تھے تبدیل کر دئیے گئے.حضور کی ہدایت کے مطابق احمدی نمائندہ نے حکومت پر مسلمانوں کا معاملہ ایسے طریق پر واضح کیا کہ اسے ظالم افسروں کے خلاف موثر اقدام کرنے کے بغیر کوئی چارہ کا رنہ رہا.مسلمانان الور کی امداد تاریخ احمدیت جلد 6 ص 68 ) 1932ء میں ریاست الور کے بہت سے مسلمان ریاستی مظالم کی تاب نہ لا کر جے پورا جمیر شریف، بھرت پور اور ضلع گوڑ گاؤں اور دہلی وغیرہ مقامات میں آگئے تھے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو جب ان کے حالات کا علم ہوا تو مظلوموں کی اعانت کے لئے سید غلام بھیک صاحب نیرنگ ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور و جنرل سیکرٹری سنٹرل جماعت تبلیغ الاسلام کو دوسو روپے ارسال فرمائے.اسی طرح مرکز کی طرف سے افسران بالا سے خط و کتابت کی گئی.افسروں نے نہایت ہمدردی سے غور کیا اور ریاست کے متعلق حکام کو ہدایت کی کہ وہ مسلمانوں کے مطالبات کا پورے طور پر خیال رکھیں اور ان کی شکایات کا تدارک کریں.اس کے شکریہ میں نیرنگ صاحب نے انبالہ شہر سے 22 اکتوبر 1932ء کو حضور کی خدمت میں شکریہ کا خط لکھا.( تاریخ احمدیت جلد 6 ص 75)
263 بوہرہ جماعت کے قومی مفاد کا تحفظ حضرت خلیفہ المسیح الثانی مسلمانوں کے ہر مذہبی فرقہ کے قومی مفاد کی حفاظت کے لئے ہر وقت کمر بستہ رہتے تھے اس ضمن میں بوہرہ کمیونٹی کے امام سے بھی حضور کے مراسم و روابط تھے.1933ء میں بوہروں میں باہمی چپقلش پیدا ہوئی.جس کو ختم کرنے اور ان کی مرکزیت برقرار رکھنے کے لئے حضور نے حکیمانہ اقدامات کئے.تاریخ احمدیت جلد 6 ص 105) زلزلہ زدگان کی امداد حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیوں کے مطابق 15 جنوری 1934 ء کو ہندوستان میں ایک قیامت خیز زلزلہ آیا جس نے بنگال سے لے کر پنجاب تک تباہی مچادی.اس موقع پر حضور نے مصیبت زدگان کی مدد کرنے کے لئے خطبہ ارشاد فرمایا اور 2 فروری 1934ء کو فرمایا:.ہمیں اپنے عمل سے ثابت کر دینا چاہئے کہ ہمیں ہمدردی سب سے زیادہ ہے.میں نے چندہ کی اپیل کی ہے، اس پر جو لوگ بشاشت سے لبیک نہ کہہ سکیں وہ اپنے نفسوں پر بوجھ ڈال کر بھی چندہ دیں مگر سلسلہ کے دوسرے کاموں کو نقصان پہنچائے بغیر.یہ کوئی نیکی نہیں کہ ایک نیک کام چھوڑ کر دوسرا اختیار کر لیا جائے.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی پاجامہ ایک لات پر پہن لے اور پھر توجہ دلائے جانے پر اسے اتار کر دوسری پر پہن لے.پس مستقل چندہ کو کسی قسم کا نقصان پہنچائے بغیر اور پہلی نیکیوں کو قائم رکھتے ہوئے اس طرف توجہ کی جائے.میں نے جو مسئلہ بیان کیا ہے اگر یہ سمجھ میں آجائے تو بشاشت کے ساتھ اور اگر نہ آئے تو اپنے نفسوں پر بوجھ ڈال کر اس تحریک میں حصہ لیا جائے یہ قربانی کا موقع ہے.اگر بشاشت ہو تو فیھا وگرنہ عبودیت اور فرمانبرداری کے ماتحت اس میں حصہ لیا جائے اور جہاں تک ہو چکے مصیبت زدہ لوگوں کی امداد کی جائے.مونگھیر میں سوائے دو کے باقی سب احمد یوں کے مکان گر گئے ہیں.ان کی مد دضروری ہے تا کہ وہ ان کو مرمت کر سکیں اور باقی مستحقین کو بھی امداد دی جا سکے.اگر جماعت توجہ کرے تو اس کی امداد سب سے زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ دوسرے لوگ اگر چہ کروڑوں کی تعداد میں ہیں مگر ان کے صرف امراء ہی چندہ دیں گے لیکن جماعت اگر فرض شناسی سے
264 کام لے تو چونکہ ہر ایک احمدی حصہ لے گا ، ہم من حیث الجماعت حصہ لیں گے اور دوسرے من حیث الافراد اس لئے اس تحریک میں ضرور حصہ لیا جائے تا جو احمدی مبتلائے مصائب ہیں ان کی امداد کی جائے اور دوسرے مستحقین کو بھی خدا کی صفت رحمانیت کے ماتحت امداد دی جا سکے.پس قادیان کے دوست بھی اور باہر کے بھی جن کو اخبار کے ذریعہ یہ خطبہ پہنچ جائے گا تھوڑا بہت جس قدر بھی ہو سکے اس تحریک میں جو ناظر صاحب بیت المال کریں گے ، حصہ لیں.بعض لوگوں کو پہلے ہی اس کا احساس ہے.چنانچہ ینگ مینز ایسوسی ایشن قادیان نے قبل اس کے کہ میری طرف سے کوئی تحریک ہو، اگر چہ میرے دل میں لی تھی.اپنی طرف سے 10 روپے کی رقم بھیج دی ہے.الفضل 8 فروری 1934 ء.خطبات محمود جلد 15 ص 42) اس کے علاوہ مرکز کی طرف سے مولانا غلام احمد صاحب فاضل بدوملہی اظہار ہمدردی اور تفصیلات مہیا کرنے کے لئے بہار بھجوائے گئے اور مئی 1934ء میں تیرہ سو روپیہ کی رقم حضرت مولانا عبد الماجد صاحب امیر جماعت احمد یہ بھاگلپور کوروانہ کی گئی.علاوہ ازیں ایک ہزار روپیہ ریلیف فنڈ میں دیا گیا.( تاریخ احمدیت جلد 6 ص 176 ) قادیان کے غربا کے لئے غلہ کی تحریک 1942ء کے شروع میں ہندوستان کے اندر خطر ناک قحط رونما ہو گیا اور غلہ کی سخت قلت ہوگئی.اس ہولناک قحط کے آثار ماہ فروری 1942ء میں شروع ہو گئے تھے لیکن حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے جنہیں خدائی بشارتوں میں ” یوسف کے نام سے بھی پکارا گیا تھا سالانہ جلسہ 1941ء پر احباب جماعت کو توجہ دلائی کہ انہیں غلہ وغیرہ کا انتظام کرنا چاہئے اور اعلان فرمایا کہ جو دوست غلہ خرید سکتے ہیں وہ فوراً خرید لیں.بعض نے خریدا مگر بعض نے توجہ نہ دی کہ ہمارے پاس پیسے ہیں جب چاہیں گے لے لیں گے.مگر جب آنا وغیرہ ملنا بند ہوا اور سیاہ دانوں کی گندم ڈپو میں دی جانے لگی تو ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا.اس کے بعد جب فصل نکلی تو حضور نے پھر ارشاد فرمایا کہ دوست غلہ جمع کر لیں اور ساتھ ہی زمیندار دوستوں کو یہ ہدایت فرمائی کہ وہ غلہ زیادہ پیدا کریں اور اسے حتی الوسع جمع رکھیں.اس ضمن میں نے 22 مئی 1942ء کو ملک کی سب احمدی جماعتوں کو نصیحت فرمائی کہ وہ ہر جگہ اپنے غریب
265 احمدی بھائیوں کے لئے غلہ کا انتظام کریں.نیز خاص طور پر یہ تحریک فرمائی کہ قادیان کے غربا کے لئے زکوۃ کے رنگ میں اپنے غلہ میں سے چالیسواں حصہ بطور چندہ ادا کریں اور جو لوگ غلہ نہ دے سکیں وہ رقم بھجوا دیں کہ ہماری طرف سے اتنا غلہ غربا کو دے دیا جائے.مقصود یہ تھا کہ غربا کو کم از کم اتنی مقدار میں تو گندم مہیا کر دی جائے کہ وہ سال کے آخری پانچ مہینوں میں جو گندم کی کمی کے مہینے ہوتے ہیں بآسانی گزارہ کر سکیں اور تنگی اور مصیبت کے وقت انہیں کوئی تکلیف نہ ہو.اس غرض کے لئے حضور نے پانچ سومن غلے کا مطالبہ جماعت سے فرمایا اور اس میں سے بھی پچاس من خود دینے کا وعدہ کیا.چنانچہ فرمایا: مومنوں کے متعلق قرآن کریم میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ وہ بھوک اور تنگی کے وقت غربا کو اپنے نفس پر ترجیح دیتے ہیں اور در حقیقت ایمان کے لحاظ سے یہی مقام ہے جس کے حاصل کرنے کی ہر مومن کو کوشش کرنی چاہئے.مگر موجودہ زمانہ میں ہمیں وہ نمونہ دکھانے کا موقعہ نہیں ملتا جو صحابہ نے مدینہ میں دکھایا.اس لئے ہمیں کم سے کم اس موقعہ پر غربا کی مدد کر کے اپنے اس فرض کو ادا کرنا چاہئے جو اسلام کی طرف سے ہم پر عائد کیا گیا ہے اور اگر ہم کوشش کریں تو اس مطالبہ کو پورا کرنا کوئی بڑی بات نہیں.پانچ سومن غلے کا اندازہ بھی درحقیقت کم ہے اور یہ بھی سارے سال کا اندازہ نہیں بلکہ آخری پانچ مہینوں کا اندازہ ہے جبکہ قحط کا خطرہ ہے.ممکن ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے آئندہ فضل اچھی کر دے اور جوار وغیرہ نکل آنے کی وجہ سے گندم مستی ہو جائے.(الفضل 30 مئی 1942 ء ) حضور کے مدنظر اس اہم تحریک کی دو اغراض تھیں.جن کی حضور نے خود ہی وضاحت فرمائی کہ: اس اعلان کے کرنے میں میری دو غرضیں ہیں.ایک تو یہ کہ قرآن کریم نے خرچ کرنے کی مختلف اقسام بیان فرمائی ہیں.ان اقسام میں سے ایک قسم خرچ کی اپنے دوستوں ، اپنے رشتہ داروں اور اپنے بھائیوں کی امداد ہے.مگر یہ اخراجات ان معنوں میں صدقہ نہیں کہلاتے جن معنوں میں غربا کو روپیہ دینا صدقہ کہلاتا ہے.عربی زبان میں صدقہ کا مفہوم بہت وسیع ہے اور اس میں صرف اتنی بات داخل ہے کہ اپنے اس خرچ کے ذریعہ سے اس تعلق کا ثبوت دیا جائے جو انسان کو اپنے پیدا کرنے والے سے ہے.صدقہ کے معنے خدا تعالیٰ سے اپنے بچے تعلق کا اظہار ہے.تو صدقہ کی کئی اقسام ہیں اور لوگ عام طور پر قرآنی صدقہ کی بہت سی قسموں سے غافل ہوتے ہیں.پس اس تحریک سے میرا
266 ایک مطلب تو یہ ہے کہ عربی زبان میں صدقہ کا جو مفہوم ہے وہ بھی پورا کرنے کا دوستوں کو موقعہ مل جائے اور یہ مفہوم یہ نہیں کہ رد بلا کے لئے خرچ کیا جائے بلکہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے خرچ کیا جائے.پس میرا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جن دوستوں کو پہلے ایسا خرچ کرنے کا موقعہ نہیں ملا انہیں اس کا موقع مل جائے اور نیکی کا یہ خانہ خالی نہ رہے.دوسری غرض میری یہ ہے کہ ہماری جماعت میں یہاں بھی اور باہر بھی بعض سادات قابل امداد ہیں اور سادات کو معروف صدقہ دینا منع ہے.پس اگر یہ انہی معنوں میں صدقہ کی نیت سے دیا جائے جو ہمارے ملک میں اس کا مفہوم ہے تو اس سے ہم سادات کی مدد نہیں کر سکتے ہاں ہدیہ اور تحفہ سے ان کی مدد بھی کر سکتے ہیں.تحفہ انسان ماں باپ بھائی بہن بیوی بچوں دوستوں رشتہ داروں غرضیکہ سب کو دے سکتا ہے.پس میری یہ دو اغراض ہیں جن کی وجہ سے میں نے کہا ہے کہ جو دوست میری اس تحریک میں حصہ لیں وہ صدقہ کی نیت نہ کریں.( الفضل 5 جون 1942ء) اس اہم تحریک پر قادیان میں سب سے پہلے ملک سیف الرحمن صاحب ، مولوی عبدالکریم صاحب ابن حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب ) اور میاں مجید احمد صاحب ڈرائیور نے وعدے بھجوائے.جس پر حضور نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے تحریر فرمایا:." آج ( 22 مئی) میں نے خطبہ جمعہ میں اس امر کی تحریک کی ہے کہ قادیان کے غربا کے لئے بھی غلہ کا انتظام کیا جائے تا کہ جن دنوں میں غلہ کم ہوا نہیں تکلیف نہ ہو.پانچ سو من غلہ کے لئے میں نے جماعت سے مطالبہ کیا ہے.قادیان سے باہر میری کچھ زمین ہے وہ بٹائی پر دی ہوئی ہے کچھ گرو ہے جو پھر واپس مقاطعہ پر لی ہوئی ہے.چونکہ اس دفعہ فصل ماری گئی ہے اس کا مقاطعہ اور گورنمنٹ کا معاملہ اور اوپر کے اخراجات ادا کر کے کوئی پچاس من غلہ بچتا ہے.وہ سب میں نے اس تحریک میں دے دیا ہے.اس کے علاوہ اس وقت تک مندرجہ ذیل وعدے آئے ہیں.مولوی سیف الرحمن صاحب 16 سیر غلہ.مولوی عبد الکریم صاحب خلف مولوی محمد اسمعیل صاحب مرحوم ایک من.میاں مجید احمد ڈرائیور ایک مسن.خدا کی قدرت ہے کہ سب سے پہلے لبیک کہنے کی تو فیق ان کو ملی ہے جو خود غریب ہیں.شاید تبھی رسول کریم فدا نفسی و روحی ) نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے غربا میں شامل کرے.اس تحریک
267 میں چندہ غلہ کی صورت میں لیا جائے گا.یعنی گو بھیجنے والا رو پید ارسال کرے مگر اس کا وعدہ غلہ کی صورت میں ہونا چاہئے.اس کے روپیہ سے وعدہ کے مطابق غلہ خرید دیا جائے گا.لمبا وعدہ کوئی صاحب نہ کریں.جو ایک مہینہ کے اندر غلہ دے سکیں وہی وعدہ کریں.(الفضل 24 مئی 1942 ء ) بیرونی جماعتوں میں سب سے پہلے وعدے بھجوانے والی جماعت لائل پور تھی.(الفضل 5 جون 1942 ء ) قادیان اور قادیان سے باہر دوسری مخلص احمدی جماعتوں نے اس تحریک پر جس والہانہ انداز میں لبیک کہا.اس کا نظارہ ہمیں سلسلہ مامورین کے سوا کہیں نظر نہیں آتا.ان سے مطالبہ صرف پانچ سو من غلہ کا کیا گیا تھا مگر انہوں نے پندرہ سو من جمع کر دیا.جس پر حضرت مصلح موعودؓ نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا: میں نے تحریک کی تھی کہ غربا کے لئے بھی دوست بطور امداد غلہ جمع کریں.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قادیان کے غربا کو پندرہ سو من گندم جوان کی پانچ ماہ کی خوراک ہے تقسیم کی گئی اور انہیں ہدایت کی گئی کہ وہ اسے آخری پانچ ماہ کے لئے محفوظ رکھیں اور خدا تعالیٰ کی عجیب قدرت ہے کہ قحط بھی عین اسی وقت شروع ہوا.میں نے کہا تھا کہ جن لوگوں کو یہ گندم مہیا کی گئی ہے وہ اسے دسمبر میں کھانا شروع کریں اور قحط بھی دسمبر میں ہی شروع ہوا ہے.یہ بھی نظام کی ایک ایسی خوبی ظاہر ہوئی ہے کہ ساری دنیا میں اس کی مثال نہیں مل سکتی کہ ہر غریب کے گھر میں پانچ ماہ کا غلہ جمع کر دیا گیا“.( الفضل 28 فروری 1945 ء ) ( انوارالعلوم جلد 16 ص476) قادیان کی دوسری احمدی آبادی کے لئے غلہ کے انتظام کی تحریک: ی تو غربا کی بات ہے جہاں تک قادیان کی دوسری احمدی آبادی کا تعلق تھا حضرت خلیفہ امسیح الثانی کے ارشاد پر صدرانجمن احمدیہ کے کارکنوں کو غلہ کے لئے پیشگی رقم دے دی گئی تھی اور جو احمدی از خود غلہ خرید سکتے تھے انہوں نے ذاتی کوشش سے خرید لیا مگر بعض لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے استطاعت کے باوجود بر وقت غلہ کا انتظام نہ کیا اور غفلت کا ثبوت دیا.ایسے لوگوں کے لئے بھی حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی ہدایت اور بیرونی جماعتوں کے تعاون سے گندم کا انتہائی تسلی بخش انتظام کر دیا گیا جس کی تفصیل خود حضرت مصلح موعودؓ کی زبان مبارک سے بیان کی جاتی ہے.حضور فرماتے ہیں:.
268 باہر کے بعض لوگوں نے اس موقعہ پر قادیان والوں کی مدد کی ہے اور انہوں نے میری ہدایت پر نہایت اخلاص سے عمل کیا ہے.چنانچہ میں اس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں جس کی کوئی اور نظیر مجھے ساری جماعت میں نہیں ملی اور وہ چوہدری عبداللہ خان صاحب دانہ زید کا والوں کی مثال ہے.انہوں نے گزشتہ سال شروع میں ہی اپنی ضرورت سے زائد گندم محفوظ کر لی تا کہ اگر قادیان والوں کو دوران سال میں ضرورت پیش آجائے تو وہ دے سکیں.چنانچہ اس کے بعد جب گندم کی قیمتیں بہت زیادہ چڑھ رہی تھیں انہوں نے گورنمنٹ کے مقرر کردہ ریٹ پر اڑھائی سو من غلہ ہمیں مہیا کر دیا.حالانکہ وہ اگر چاہتے تو اس سے پہلے چھ بلکہ سات روپے پر منڈی میں اسے فروخت کر سکتے تھے.مگر انہوں نے غلے کو رو کے رکھا اور جلسہ سالانہ پر مجھ سے کہا کہ ہم نے آج تک اپنے غلہ کو اس لئے روک رکھا ہے کہ اگر قادیان والوں کو ضرورت ہو تو ہم انہیں دے دیں.تم خود سوچ لو کہ ایک زمیندار کی یہ کس قدر قربانی ہے کہ وہ اپنے غلہ کو اچھے داموں پر فروخت نہیں کرتا محض اس لئے کہ اگر قادیان والوں کو ضرورت پیش آگئی تو ان کا کیا انتظام ہوگا.غرض یہ ایک ایسے اخلاص کی مثال ہے جس کے مقابلہ میں اس معاملہ میں مجھے کوئی دوسری مثال اپنی جماعت میں سے نہیں ملی گوایسی جماعت میں جو خدا تعالیٰ کی جماعت ہو اس قسم کی سینکڑوں مثالیں ہونی چاہئیں.بعض جماعتوں نے بے شک اچھا نمونہ دکھایا.چنانچہ قادیان میں جب غلہ کی سخت قلت ہو گئی تو سرگودھا کی جماعت نے تمام جماعتوں سے بڑھ کر غلہ مہیا کر کے دیا.مگر یہ ایک جماعت کی مثال ہے اور چوہدری عبداللہ خان صاحب کی مثال ایک فرد کی ہے.سرگودھا کی جماعت نے اس موقعہ پر ہمیں 822 من غلہ مہیا کر کے دیا.اسی طرح شیخو پورہ کے ضلع والوں نے تقریباً 80 من غلہ دیا.بعض اور دوستوں نے بھی اپنے طور پر بعض واقف غیر احمدیوں سے لے کر بھجوایا.ضلع منٹگمری کی طرف سے 440 من غلہ پہنچا اور اس طرح ان سب جماعتوں نے اپنے اپنے درجہ کے مطابق اخلاص اور محبت کا ثبوت دیا ہے.بہر حال ان دنوں میں اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے قادیان والوں کو جو سہولتیں میسر آسکتی تھیں وہ باہر کی جماعتوں کی قربانی کی وجہ سے میسر آگئیں.بیرونی شہروں میں ان دنوں غلہ کی قلت کی وجہ سے لوگوں کو سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑا.چنانچہ جو لوگ اخبارات پڑھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ لوگوں کو آٹے کے لئے کس قدر تکلیف اٹھانی پڑی.انقلاب اخبار میں بھی کئی دفعہ یہ بات چھپی ہے کہ تھوڑے سے آٹے کے لئے لوگوں کو کئی کئی گھنٹے
269 ڈپو کے سامنے کھڑے رہنا پڑتا تھا.مگر قادیان میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسا کوئی دن نہیں آیا جب کسی شخص کو آٹے کے لئے اس قدر تکلیف ہوئی ہو.سوائے اس کے کہ کسی نے بہت ہی نادانی کر کے اپنے حق کو زائل کر دیا ہو کیونکہ یہاں یا تو لوگوں کو غلہ کے لئے قرض روپے دے دیئے گئے تھے یا غربا میں غلہ مفت تقسیم کر دیا گیا تھا یا پھر باہر کی جماعتوں نے قادیان والوں کے لئے غلہ مہیا کر دیا تھا جو قادیان والوں کو باہر کے ریٹوں سے بہت ستا دیا جاتا رہا.جب باہر سوا چھ اور سات روپے گندم کا بھاؤ تھا ہم قادیان میں سوا پانچ روپے پر دیتے رہے اور جب باہر آٹھ اور نو روپیہ ریٹ تھا ہم سات روپیہ پر دیتے رہے اور جب باہر گندم سولہ روپے پر بک رہی تھی ہم نے جو انتظام کیا اس کے مطابق قادیان والوں کو آٹھ روپے پر گندم ملتی رہی.گویا باہر کے بھاؤ میں اور اس بھاؤ میں جس پر ہم نے قادیان میں گندم دی دو گنا فرق تھا.اس وقت بھی ہمارے پاس کچھ گندم باقی تھی مگر باوجود اس کے کہ اس وقت امرتسر میں ساڑھے نو اور دس روپیہ قیمت ہے میں نے دفتر والوں سے کہا اعلان کر دو کہ جن لوگوں نے روپیہ جمع کرا دیا ہوا ہے وہ آٹھ روپیہ کے حساب سے گندم لے لیں اور وہ نہ لیں تو دوسروں کو اسی قیمت پر گندم دے دو.در حقیقت یہ قیمت بھی اس لئے مقرر کرنی پڑی کہ جب گندم بہت گراں ہو گئی تو اس وقت بعض جگہ سے ساڑھے نو اور پونے دس دس روپے پر گندم خریدی گئی مگر اس کے مقابلہ میں بعض احمد یوں نے ہمیں ستی گندم دے دی.اس لحاظ سے ہمیں اوسطاً آٹھ روپے قیمت مقرر کرنی پڑی.ورنہ جو گندم ہم نے آٹھ روپے پر فروخت کی ہے اس کا کچھ حصہ ایسا ہے جو ساڑھے نو اور دس پر خریدا گیا ہے.مگر چونکہ اس کے مقابلہ میں بعض احمدیوں سے ستی گندم مل گئی اس لئے تمام اخراجات ملا کر ایک اوسط قیمت مقرر کر دی گئی اور اس طرح قادیان والوں کو باہر کے مقابلہ میں پھر ستی گندم مل الفضل 20 اپریل 1943ء ص 3,2) قادیان میں کئی سال حضور کی اس تحریک پر گندم جمع ہوتی رہی اور تمام غربا کو سال کے آخری 5 ماہ کی خوراک مہیا کی جاتی رہی.حضور خود بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے.چنانچہ آخری سال حضور کی طرف سے دو سو من گندم اس مد میں دی گئی.جبکہ دوسرے احباب نے 1300 من گندم پیش کی اور پھر یہ گندم انتظام کے ساتھ غربا میں تقسیم کر دی گئی.گئی.
270 غربا کے مکان کی تعمیر کی تحریک حضور نے خطبہ جمعہ 11 ستمبر 1942ء میں فرمایا: بارشوں کی کثرت کی وجہ سے اس دفعہ قادیان میں بہت سے غربا کے مکان گر گئے ہیں.ان مکانوں کی مرمت اور تعمیر میں خدمت خلق کرنے والوں کو حصہ لینا چاہئے.میں اس موقعہ پر ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں جن کو معماری کا فن آتا ہے کہ وہ اپنی خدمات اس غرض کے لئے پیش کریں.آجکل عام طور پر عمارتوں کے کام بند ہیں اور وہ اگر چاہیں تو آسانی سے اپنے اوقات اس خدمت کے لئے وقف کر کے ثواب حاصل کر سکتے ہیں.پس جن معماروں کو خدا تعالیٰ توفیق دے وہ ایک ایک دو دو تین تین چار چار دن ، جس قدر خوشی کے ساتھ دے سکتے ہوں، دیں تا کہ غربا کے مکانوں کی مرمت ہو جائے.مزدور مہیا کر نا خدام الاحمدیہ کا کام ہو گا.اس صورت میں بعض اور چیزوں کے لئے بہت تھوڑی سی رقم کی ضرورت ہوگی جس کے متعلق ہم کوشش کریں گے کہ چندہ جمع ہو جائے.مگر جہاں تک خدمت کا کام ہے، خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ وہ اس کو خود مہیا کرے.اس طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی کم خرچ پر غربا کے مکانات کی مرمت ہو جائے گی.(الفضل 17 ستمبر 1942ء) بھوکوں کو کھانا کھلانے کی تحریک 30 مئی 1944ء کو حضرت خلیفة المسیح الثاني لمصلح الموعود نے جماعت احمد یہ کونمو ما اور اہل قادیان کو خصوصا یا ہم تحریک فرمائی.ہر شخص کو اپنے اپنے محلہ میں اپنے ہمسایوں کے متعلق اس امر کی نگرانی رکھنی چاہئے کہ کوئی شخص بھوکا تو نہیں اور اگر کسی ہمسایہ کے متعلق اسے معلوم ہو کہ وہ بھوکا ہے تو اس وقت تک اسے روٹی نہیں کھانی چاہئے جب تک وہ اس بھوکے کو کھانا نہ کھلائے.(الفضل 11 جون 1945ء ص 3 کالم 2) احمدی مہاجرین کے لئے کمبلوں لحافوں اور تو شکوں کی خاص تحریک قیام پاکستان کے بعد مشرقی پنجاب سے آنے والے ایک لاکھ احمدیوں میں سے غالب اکثریت
271 ان لوگوں کی تھی جو صرف تن کے کپڑے ہی بچا کر نکل سکے تھے.اس تشویشناک صورتحال نے آباد کاری کے انتظام کے بعد جلد ہی ایک خطر ناک اور سنگین مسئلہ کھڑا کر دیا اور وہ یہ کہ جوں جوں سردی کے ایام قریب آنے لگے ہزاروں ہزار احمدی مرد بچے اور بوڑھے سردی سے نڈھال ہونے لگے.سیدنا المصلح الموعودؓ سے اپنے خدام کی یہ حالت دیکھی نہ جاتی تھی.چنانچہ آپ نے مغربی پنجاب کے احمدیوں کے نام پیغام دیا کہ سردی کا موسم سر پر آپہنچا ہے انہیں اپنے مہاجر بھائیوں کے لئے بستروں کمبلوں اور تو شکوں کا فوری انتظام کرنا چاہئے.حضور کے اس پیغام کا مکمل متن حسب ذیل تھا.اس وقت ایک لاکھ سے زیادہ احمدی مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب کی طرف منتقل ہو رہا ہے.جس طرح کتے لاشوں پر جھپٹتے ہیں.اسی طرح سکھ جتھوں اور پولیس اور ملٹری نے ان علاقوں کا مال و اسباب لوٹ لیا ہے.اکثر تن کے کپڑے بچا کر ہی نکل سکے.بستر بہت ہی کم لوگ لا سکے ہیں.ہزاروں ہزار بچہ اور عورت سردی سے نڈھال ہو رہا ہے.پانچ ہزار آدمی اس وقت صرف ہمارے پاس جو دھامل بلڈنگ، دوسری بلڈنگوں اور ان کے ملحقہ میدانوں میں پڑا ہے.ان میں سے اکثر قادیان میں سے آئے ہوئے ہیں جن میں سے زیادہ مکانوں اور جائیدادوں والے تھے مگر ان کے مکانوں پر سکھوں نے قبضہ کر لیا ہے اور ان کے گھروں کو سکھوں نے لوٹ لیا ہے.قادیان کے رہنے والوں میں چونکہ یہ شوق ہوتا تھا کہ وہ اپنا مکان بنا ئیں اس لئے عورتوں کے پاس زیور اور مردوں کے پاس روپیہ بہت ہی کم ہوتا تھا.اس لئے جب لوگوں کو قادیان چھوڑنا پڑا تو مکان اور اسباب کو سکھوں نے لوٹ لئے اور روپیہ اور زیور ان کے پاس تھا ہی نہیں.اکثر بالکل خالی ہاتھ پہنچے ہیں اور اگر جلد ان کے لئے کچھ کپڑے اور رضائیاں وغیرہ مہیا نہ کی گئیں تو ان میں سے اکثر کی موت یقینی ہے.اس لئے میں مغربی پنجاب کے تمام شہری ، قصباتی اور دیہاتی احمدیوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ آج ان کے لئے ایثار اور قربانی کا جذ بہ دکھانے کا وقت آگیا ہے سوائے ان بستروں کے جن میں وہ سوتے ہیں اور سوائے اتنے کپڑوں کے جو ان کے لئے اشد ضروری ہیں باقی سب بستر اور کپڑے ان لوگوں کی امداد کے لئے دے دیں جو باہر سے آرہے ہیں.سیالکوٹ کی جماعت کو میں ہدایت کرتا ہوں کہ گورداسپور اور کئی جگہوں کے زمیندار وہاں بٹھائے جار ہے ہیں ان میں سے بھی اکثروں کے پاس کوئی کپڑا وغیرہ نہیں جو پہلے بھاگ آئے ان کے پاس کچھ کپڑے ہیں مگر جو بعد میں آئے ہیں ان کے پاس کوئی کپڑا نہیں.
272 خصوصاً جو قادیان میں پناہ گزین تھے اور وہاں سے آئے ہیں ان سب کا مال سکھوں اور ملٹری نے لوٹ لیا تھا.ان میں سے ہر شخص کے لئے بستر اور کپڑے مہیا کرنا سیالکوٹ کی جماعت کا فرض ہے.ہمارے ملک میں یہ عام دستور ہے کہ زمیندار ایک دو بستر زائد رکھتے ہیں تا کہ آنے والے مہمانوں کو دیئے جاسکیں.ایسے تمام بستر ان لوگوں میں تقسیم کر دینے چاہئیں اور اپنے دوستوں اور رشتہ داروں اور عزیزوں سے بھی جتنے بستر مہیا ہو سکیں جمع کر کے ان لوگوں میں بانٹنے چاہئیں.اس کے علاوہ سیالکوٹ کی تمام زمیندار جماعتوں کو اپنا یہ فرض سمجھنا چاہئے کہ تمام اردگرد کے تالابوں سے کسیر جمع کر کے اپنے چھکڑوں میں ان جگہوں پر پہنچائیں جہاں پناہ گزین آباد ہوئے ہیں.اسی طرح گنوں کی کھوری اور دھان کے چھلکے جمع کر کے ان لوگوں کے گھر میں پہنچادیں تا کہ بطور بستروں کے کام آسکے.تمام جماعتوں اور پریذیڈنٹوں کو اپنی رپورٹوں میں اس بات کا بھی ذکر کرنا چاہئے کہ انہوں نے اس ہفتہ یا اس مہینہ میں پناہ گزینوں کی کیا خدمت کی ہے اور ان کے آرام کے لئے انہوں نے کیا کوششیں کی ہیں.سیالکوٹ کے علاوہ دوسرے اضلاع میں جو آدمی بس رہے ہیں.ان کی امداد کے لئے بھی وہاں کی جماعتوں کو فوراً توجہ کرنی چاہئے.اپنے زائد بستر ان کو دے دینے چاہئیں.اسی طرح جولوگ قادیان سے آرہے ہیں اور لاہور میں مقیم ہیں ان کے لئے بھی کچھ کپڑے بھجوانے چاہئیں.زیادہ کمبلوں ، لحافوں، تو شکوں اور تکیوں کی ضرورت ہے.چونکہ سردی روز بروز بڑھ رہی ہے اس کام میں دیر نہیں کرنی چاہئے اور خواہ آدمی کے ذریعے سے یہ چیزیں بھجوانی پڑیں جلد از جلد یہ چیزیں ہمیں بھجوا دینی چاہئیں.اس کے علاوہ میں جماعتوں کو اس بات کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ ان کے اردگرد کی منڈیوں وغیرہ میں اگر دکانیں نکالنے کا موقعہ ہو، ایسی دکانیں جو غریب اور بیکس لوگ بغیر روپیہ کے جاری کر سکیں تو ان کے متعلق بھی فوراً مجھے چٹھیاں لکھیں تا ایسے لوگوں کو جو تعلیم یافتہ ہیں اور تجارت کا کام کر سکتے ہیں ، وہاں بھجوا دیا جائے“.الفضل 17 اکتوبر 1947ءص3) حضرت مصلح موعودؓ کے اس پر درد اور اثر انگیز پیغام نے پاکستان کی احمدی جماعتوں پر بجلی کا اثر کیا اور انہوں نے اپنے پناہ گزین بھائیوں کی موسمی ضروریات کو پورا کر دینے کی ایسی سر توڑ کوشش کی کہ انصار مدینہ کی یاد تازہ ہوگئی اور اس طرح حضرت مصلح موعود کی بر وقت توجہ سے ہزاروں قیمتی اور معصوم جانیں موسم سرما کی ہلاکت آفرینیوں سے بچ گئیں.
273 حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس نے صدرانجمن احمد یہ پاکستان کی پہلی سالانہ رپورٹ میں حضور جیسے محسن آقا کے اس لطف و کرم اور شفقت و احسان کا تذکرہ مندرجہ ذیل الفاظ میں فرمایا : جماعت کا شیرازہ بکھر چکا تھا اور ہزاروں مرد اور عورتیں اور بچے بے سروسامانی کی حالت میں لاہور میں آکر آستان خلافت پر پڑے تھے.سینکڑوں تھے جنہیں تن پوشی کے لئے کپڑوں کی ضرورت تھی اور ہزاروں تھے جن کو خورونوش کی فکر تھی اور سینکڑوں تھے جو صدموں کی تاب نہ لا کر بیمار اور مضحل ہورہے تھے.مزید برآں موسم سرما بھی قریب آرہا تھا اور ان غریبوں کے پاس سردیوں سے بچنے کا کوئی سامان نہ تھا.پھر ان لوگوں کو مختلف مقامات پر آباد کرانے اور ان کی وجہ معاش کے لئے حسب حالات کوئی سامان کرنے کا کام بھی کچھ کم اہمیت نہ رکھتا تھا.یہ مشکلات ایسی نہ تھیں جو غیر از جماعت لوگوں پر نہیں آئیں مگر ان کا کوئی پرسان حال نہ تھا اور ہمارا ایک مونس و غمخوار تھا.جب وہ لوگ پراگندہ بھیڑوں کی طرح مارے مارے پھر رہے تھے ہم لوگوں کو آستانہ خلافت کے ساتھ وابستہ رہنے کی وجہ سے ایک گونہ تسکین قلب حاصل تھی.حضرت مصلح موعود نے اپنے خدام کی تکالیف کو دیکھا اور ان کے مصائب کو سنا اور ہر ممکن ذریعہ سے نہ صرف سلسلہ کی طرف سے بلکہ ذاتی طور بھی ان کی دلجوئی کے سامان کئے.اپنے روح پرور کلام سے ان کی ہمتوں کو بڑھایا اور ان کے حوصلوں کو بلند کیا.مہاجر غربا کی تن پوشی کے لئے تحریک کر کے ذی استطاعت اور مخیر اصحاب سے کپڑے مہیا کرائے اور سلسلہ کے اموال کو بے دریغ خرچ کر کے ان کو فقر وفاقہ کی حالت سے بچایا.بیماروں کے لئے ادویات اور - ڈاکٹروں کا انتظام کرایا اور لاہور سے باہر جا کر آباد ہونے والوں کے لئے حسب ضرورت زاد راہ مہیا کیا اور ان کے گزاروں کے لئے ہر اخلاقی اور مالی امداد فرمائی.موسم سرما میں کام آنے والے پار چات مہیا کرائے.غرض ہزاروں ، لاکھوں برکات اور افضال نازل ہوں اس محبوب اور مقدس آقا پر جس نے ایسے روح فرسا حالات میں اپنے خدام کی دستگیری فرمائی.ہمارے دل حضور کے لئے شکر و امتنان کے جذبات سے معمور ہیں لیکن ہماری زبانیں ان جذبات کے اظہار سے عاجز ہیں.سیلاب میں خدمات: ( احمد یہ رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ 48-1947 ء ص 50) 1954ء اور 1955ء میں برصغیر میں سیلاب آیا جس کے نتیجہ میں بھارت ، مغربی پاکستان اور
274 مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) میں وسیع پیمانہ پر تباہی ہوئی.اس موقع پر بھی حضور کی ہدایات کے مطابق بھارت اور پاکستان کی جماعت نے خدمت خلق کے لئے نہایت قیمتی خدمات سرانجام دیں.جسے حکومت اور پریس نے بھی بہت سراہا.اکتوبر 1954 ء میں حضور نے لاہور کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ فرمایا اور جماعت کی طرف سے تعمیری سرگرمیاں ملاحظہ کیں.لاہور اور ربوہ کے 200 خدام نے 75 سے زائد گرے ہوئے مکانوں کو دوبارہ تعمیر کر کے 1000 افراد کی رہائش کا انتظام کیا تھا.( تاریخ احمدیت جلد 17 ص 336 جلد 18 ص 36 خدام الاحمدیہ سے خطاب کرتے ہوئے 15 اپریل 1938ء کو فرمایا: خدمت خلق کے کام میں جہاں تک ہو سکے وسعت اختیار کرنی چاہئے اور مذہب اور قوم کی حد بندی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہر مصیبت زدہ کی مصیبت کو دور کرنا چاہئے.خواہ وہ ہندو ہو یا عیسائی ہو یا سکھ.ہمارا خدا رب العالمین ہے اور جس طرح اس نے ہمیں پیدا کیا ہے اسی طرح اس نے ہندوؤں اور سکھوں اور عیسائیوں کو بھی پیدا کیا ہے.پس اگر خدا ہمیں توفیق دے تو ہمیں سب کی ( الفضل 22 اپریل 1938ء) خدمت کرنی چاہئے.
275 عالم اسلام کی بہبود کے لئے تحریکات حضرت مسیح موعود کا الہام ہے.” سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کر و علی دین واحد (الحکم 24 نومبر 1905ء ص 1) اس کے مطابق حضرت مصلح موعودؓ نے نہ صرف تبلیغی اور تربیتی تحریکات جاری فرمائیں بلکہ عالم اسلام کو باہم متحد ہونے کی بار بار دعوت دیتے رہے اور اس مقصد کے لئے اپنی جماعت کی طرف سے ہر قسم کی خدمات پیش کرتے رہے.اسی طرح عالم اسلام کی عمومی بہبود اور ترقی ہمیشہ آپ کے مدنظر رہی.آپ نے فرمایا: جب سعودی عراقی ، شامی اور لبنانی ، ترک، مصری اور یمنی سور ہے ہوتے ہیں.میں ان کے لئے دعا کر رہا ہوتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ وہ دعائیں قبول ہوں گی.خدا تعالیٰ ان کو پھر ضائع شدہ عروج بخشے گا اور پھر محمد رسول اللہ ﷺ کی قوم ہمارے لئے فخر ومباہات کا موجب بن جائے گی.(رپورٹ مجلس مشاورت 1955 ص9) دعاؤں کے ساتھ ساتھ آپ نے متعدد تحریکات بھی فرمائیں ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں.اشتراک عمل کی دعوت 1927ء میں ہندوؤں نے مسلمانوں کے خلاف زبردست شورش برپا کی اور فنڈز بھی قائم کئے.اس وقت حضرت مصلح موعود نے مسلمانوں کو آنے والے عظیم خطرہ سے ہوشیار اور بیدار کرتے ہوئے اشتراک عمل کی دعوت دی اور فرمایا: وہ آنحضرت ﷺ کی محبت کا دعویٰ رکھتے ہیں اگر اور کچھ نہیں تو کم از کم ان کے ہونٹوں سے تو یہ بات نکلتی ہے کہ نبی کریم ﷺ کی محبت ان کے اندر ہے اور پھر ان میں سے بعض تو اسلام کا درد بھی رکھتے ہیں.پس جب یہ بات ان میں پائی جاتی ہے تو میں ان الفاظ کا ہی واسطہ دے کر انہیں کہتا ہوں کہ وہ جو آنحضرت مے کی محبت کے الفاظ بولتے ہیں.ان کا لحاظ کر کے ہی وہ اس نازک وقت میں اسلام کی مدد کے لئے کھڑے ہو جائیں.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس وقت یقیناً وہی براہین اور دلائل
276 (الفضل 6 مئی 1927ء) کارگر ہو سکتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتائے ہیں مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ گھر کی لڑائی چھوڑ کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے“.اس سلسلہ میں حضور نے مسلمانان ہند سے تین باتوں کی خواہش کی.1.دشمن کے مقابلہ کے وقت ہم آپس میں متحد ہو جائیں اور ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں.2 مسلمان اپنے ماحول کے حالات سے باخبر رہیں اور جس جگہ وہ ہندوؤں کے حملہ کا دفاع نہیں کر سکتے وہ ہمیں اطلاع دیں.ہم اپنے آدمی بھیج دیں گے.3.جہاں جہاں آریوں اور عیسائیوں کا زور ہو.وہاں مسلمان تبلیغی جلسے کر کے ہمارے واعظوں کو بلوائیں.( خطبات محمود جلد 11 ص 77) اس اعلان پر اسلام کا درد رکھنے والا طبقہ احمدی واعظوں کو اپنے جلسوں میں بھی بلانے لگا اور احمدی اور غیر احمدی مسلمان دونوں ایک پلیٹ فارم پر اسلام کا دفاع کرنے لگے چنانچہ اس زمانہ کے اخبارات میں ایسی مثالیں بکثرت موجود ہیں کہ دوسرے مسلمانوں کو جہاں بھی اور جس وقت بھی آریوں یا عیسائیوں کے خلاف جلسہ کرنے یا مناظرے کرنے کی ضرورت پیش آئی احمدی مبلغ دعوت ملتے ہی وہاں بلا تامل پہنچے اور انہوں نے مخالفین اسلام کے دانت کھٹے کر دیئے.چنانچہ خواجہ حسن نظامی صاحب نے اپنی کتاب ” مسلمان مہارانا میں اقرار کیا کہ اگر چہ میں قادیانی عقیدہ کا نہیں ہوں نہ کسی قسم کا میلان میرے دل میں قادیانی جماعت کی طرف ہے.لیکن میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ قادیانی جماعت اسلام کے حریفوں کے مقابلہ میں بہت مؤثر اور پر زور کام کر رہی ہے.(الفضل 31 مئی 1927ء ص 5) مسلمانان ہند کے لئے وسیع اور ہمہ گیر تحریک مئی 1927 ء میں لاہور میں ہونے والے فسادات کے پیچھے مسلمانوں کو ختم کرنے کی زبر دست روح کام کر رہی تھی.اس لئے حضور نے صرف مظلومین لاہور کو امداد دینے کے علاوہ مسلمانان ہند کی اقتصادی، معاشی، سیاسی اور مذہبی ترقی کے لئے ایک ملک گیر تحریک چلانے کا فیصلہ کر لیا.اس سلسلہ میں حضور نے سب سے پہلے قادیان کے ناظروں ، مبلغوں ، ایڈیٹروں ، مصنفوں، طالب علموں اور
277 استادوں کو دفتر ڈاک میں بلایا اور ملکی حالات پر مفصل تقریر فرمائی اور انہیں اپنی تحریک سے متعلق نہایت اہم ہدایات دیں.الفضل 10 مئی 1927 ء ص (1) جماعت احمدیہ کو اپنی اہم تحریک سے روشناس کرانے کے بعد حضور نے مسلمانوں کو ان خطرناک حالات کے مقابلہ میں متحد کرنے کے لئے پے در پے مضامین، پوسٹر اور اشتہارات شائع فرمائے.چنانچہ اس سلسلہ میں آپ کے قلم سے پہلا مضمون ”امام جماعت احمدیہ کا فسادات لاہور پر تبصرہ کے عنوان سے شائع ہوا.جس میں آپ نے مسلمانوں کو توجہ دلائی کہ فسادات لاہور سے سبق لیں اور اشاعت اسلام کی طرف توجہ دیں.دوسری اہم بات جس کی طرف آپ نے اس مضمون میں مسلمانوں کو توجہ دلائی یہ تھی کہ: مسلمانوں کو چاہئے کہ سکھ صاحبان سے تعلقات کو بڑھائیں اور شورش کی وجہ سے اس امر کو نظر انداز نہ کر دیں کہ سکھ صاحبان صرف ہندوؤں کا ہتھیار بنائے گئے ہیں.ورنہ وہ دل سے مسلمانوں کے دشمن نہیں ہیں بلکہ بوجہ اپنے بزرگوں کی نصائح اور توحید پر ایمان رکھنے کے مسلمانوں کا داہنا بازو ہیں اور مسلمانوں کی ذراسی توجہ کے ساتھ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کر کے مسلمانوں کے ساتھ مل کر ملک سے فساد اور شورش کو مٹانے کی طرف متوجہ ہو جائیں گے.خصوصاً جبکہ ان کا سیاسی فائدہ بھی مسلمانوں سے ملنے میں ہے کیونکہ ہندوؤں سے مل کر وہ اس صوبہ میں قلیل التعداد ہی رہتے لیکن مسلمانوں سے مل کر وہ ایک زبر دست پارٹی بنا سکتے ہیں.جو پنجاب کو اس کی پرانی شان و شوکت پر قائم کرنے میں نہایت مفید الفضل 13 مئی 1927 ء ص (2) ہو سکتی ہے.اسلامی اتحاد کے 31 نکات اس مضمون کے ساتھ حضور نے ایک مفصل ٹریکٹ بھی شائع فرمایا.جس کا عنوان تھا.آپ اسلام اور مسلمانوں کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟ اس ٹریکٹ میں حضور نے اسلامی اتحاد کی تحریک کے اکتیس اہم نکات مسلمانوں کے سامنے رکھے جن میں انجمن ترقی اسلام سے تعاون کی اپیل فرمائی.یہ نکات حضور ہی کے الفاظ میں درج ذیل ہیں.1.آپ آج سے اقرار کر لیں کہ جہاں تک آپ کے اختیار میں ہوگا.آپ جائز طور پر مسلمانوں کی
278 بریکاری کو دور کرنے میں مدد دیں گے.2.آپ کو اگر ایسے مسلمانوں کا علم ہے، جو کسی قسم کے روزگار کے متلاشی ہیں تو ان لوگوں کو تحریک کریں کہ وہ اپنے نام سے صیغہ ترقی اسلام کو اطلاع دیں.3.آپ ارادہ کر لیں کہ آپ مسلمان مستحقین کو اپنا پیشہ سکھا کر انہیں کام کے قابل بنے کی ہر سعی کو استعمال کریں گے.4.آپ کو ایسے نو جوانوں کا حال معلوم ہے.جو مناسب پیشہ نہ جاننے کے سبب سے بیکار ہیں تو ایسے نو جوانوں کے نام سے صیغہ ترقی اسلام کو اطلاع دیں.5.آپ آج سے ارادہ کر لیں کہ مسلمان مظلوموں کی مدد کے لئے آپ حتی الوسع تیار رہیں گے.6.اگر آپ یہ نہیں کر سکتے تو یہ بھی آپ کی اسلامی خدمت ہوگی کہ آپ ایسے مظلوموں کے ناموں اور پتوں سے صیغہ مذکورہ بالا کو اطلاع دیں.7.آپ کو بعض ایسے کام اور پیشے معلوم ہیں جن میں مسلمان ترقی کر سکتے ہیں تو اس کے متعلق صیغہ مذکورہ تفصیلی علم دیں.8.اگر آپ کو بعض ایسے محکموں کا حال معلوم ہے جن میں مسلمان کم ہیں اور ان کی طرف توجہ مسلمانوں کے لئے مفید ہے تو ان سے صیغہ مذکور کو اطلاع دیتے رہیں.9.اگر مسلمانوں کی کسی ضرورت کے لئے کسی ڈیپوٹیشن کی ضرورت ہو تو آپ اس میں شامل ہونے کے لئے بشر طیکہ آپ کے حالات اجازت دیں تیار رہیں.10.اگر آپ پروفیسر ہیں یا تعلیم کے کم سے دلچسپی رکھتے ہیں تو ایسے تعلیمی شعبوں سے صیغہ مذکور کو اطلاع دیتے رہا کریں.جن میں مسلمان کم ہیں.11.اندھا دھند پرانی لکیر پر چل کر ایک ہی لائن پر اپنے بچوں کو نہ چلائیں.بلکہ اپنے بچہ کو اعلیٰ تعلیم دلانے سے پہلے اپنے احباب سے مشورہ کر لیں کہ کس تعلیم سے نہ صرف بچہ ترقی کر سکتا ہے بلکہ مسلمانوں کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے.12.خود بھی سادہ زندگی کو اختیار کریں اور اپنے بچوں کو بھی سادہ زندگی اختیار کرنے کی تحریک
279 13.اگر آپ کو خدا تعالیٰ نے عزت دی ہے تو غربا سے اور اگر آپ شہری ہیں تو قصباتیوں سے تعلق بڑھائیں.14.تعاون با ہمی کی انجمنیں اپنے علاقوں میں قائم کریں.15.آپ آج سے عہد کر لیں کہ کسی ہندو کی پکی ہوئی یا اس کے ہاتھ کی چھوٹی ہوئی چیز کا استعمال نہیں کرنا.جب تک کہ ہندو اپنی روش کو بدل کر مسلمانوں سے خریدنا اور ان کے ہاتھوں کا کھانا نہ شروع کر دیں.16.فساد سے بچنے اور مستقل ارادہ سے کام کرنے کی طرف آپ اپنے گردو پیش کے لوگوں کو تحریک کرتے رہیں.17.آپ کے محلہ اور آپ کے گاؤں میں ایسے لوگ ہیں جن کو ہندو تہذیب نے ہزاروں سالوں سے غلام بنا رکھا ہے.ان کی ہدایت کی طرف توجہ کریں.18.آپ مرسلہ اشتہار کو مناسب موقعوں پر اپنے شہر یا محلہ میں لگا دیں گے تو یہ بھی ایک دینی خدمت ہے.19.اس لٹریچر کو منگوا کر جو اس وقت کی ضرورت کے مطابق شائع کرایا جائے گا اپنے علاقہ میں فروخت کریں.20.اگر آپ کے قصبہ اور شہر میں کوئی اسلامی انجمن ایسی نہیں جو تبلیغی کام میں حصہ لے رہی ہو تو آپ ایسی انجمن کو قائم کر کے دینی خدمت کر سکتے ہیں.21.ہندو لوگ ہر علاقہ میں خفیہ خفیہ شدھی کی تحریک جاری کر رہے ہیں.آپ ایک بہت بڑی خدمت اسلامی کریں گے اگر آپ ان کی حرکات کو تاڑتے رہیں.22.بیواؤں، مظلوم عورتوں اور یتیموں کو آریہ اور مسیحی خصوصاً بہکا رہے ہیں.آپ ایک بڑی خدمت اسلام کریں گے اگر ان کے حالات پر نگاہ رکھیں اور ان کی مدد اور ہمدردی کریں.23.اگر آپ کو شوق تبلیغ ہے اور آپ عربی کی تعلیم رکھتے ہیں یا کم سے کم انٹرفیس تک تعلیم یافتہ ہیں تو ہم بڑی خوشی سے آپ کی مذہبی تعلیم کا انتظام کرنے کے لئے تیار ہیں.24.اگر آپ کے ہاں پہلے سے انجمن قائم ہے تو آپ تبلیغی لیکچروں یا مباحثوں کا انتظام کر کے
280 خدمت اسلام کر سکتے ہیں.25.آپ مسلمانوں کی دینی تعلیم کے لئے ایسے لیکچروں کا انتظام کر کے بھی جن میں اسلامی تعلیم کی خوبیاں بیان کی جائیں اسلام کی خدمت کر سکتے ہیں“.26.آپ دین کی خدمت کے لئے اپنے اموال میں سے ایک حصہ الگ کر کے دین اسلام کی مدد کر سکتے ہیں.27.آپ مسلمانوں میں یہ خیال پیدا کر کے کہ آپس میں گو ہمارے کس قدر اختلاف ہوں.لیکن دشمنان اسلام کے مقابلہ میں ہمیں ایک ہو جانا چاہئے.بہت بڑی خدمت اسلام کر سکتے ہیں.28.آپ مسلمان زمینداروں میں یہ خیال پیدا کر کے کہ وہ اپنے علاقہ کی ادنی اقوام کو مسلمان بنانے میں مبلغین اسلام کی مدد کریں.خدمت اسلام میں حصہ لے سکتے ہیں.29.مسلمانوں کو ہر موقعہ پر اس خطرہ سے آگاہ کرتے رہیں جو اس وقت اسلام کو پیش آرہا ہے.30.آپ کی خدمت اور بھی بڑھ جائے گی اگر آپ ایسے لوگوں کے ناموں اور پتوں سے صیغہ مذکورہ بالا کو اطلاع دیتے رہا کریں جو کسی نہ کسی رنگ میں خدمت اسلام میں حصہ لینے کے لئے تیار ہوں.31.اگر آپ ان امور میں سے کسی امر کی تعین نہ کر سکتے ہوں تو آپ کم سے کم اس قد رضرور کریں کہ اپنی زندگی کو اسلام کی تعلیم کے مطابق بسر کرنے کی کوشش کریں.اس طرح آپ اسلام کو اعتراض سے بچانے میں ہماری مد کریں گے.انوار العلوم جلد 9 ص 532 تا 537) سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی اس بر وقت اور پر زور تحریک کی کامیابی کے لئے جماعت احمدیہ کے مرکزی ناظروں ، مبلغوں، کارکنوں اور دوسرے احمدیوں نے اپنے اوقات وقف کر دیئے اور ایسی غیر معمولی جد و جہد سے کام لیا کہ خصوصاً مسلمانان پنجاب میں حیرت انگیز انقلاب برپا ہو گیا اور مسلمان نہ صرف اتحاد ملت اور تبلیغ اسلام سے متعلق اپنے فرائض کی طرف متوجہ ہو گئے بلکہ ایک نہایت ہی قلیل عرصہ میں مسلمانوں کی ہزاروں نئی دکانیں کھل گئیں.(انوار العلوم جلد 10 ص 102) ہندوؤں نے مسلمان دکانداروں کو نا کام کرنے کے لئے کئی صورتیں اختیار کیں.مثلاً جن چیزوں کی تجارت مسلمانوں نے شروع کی ان کی قیمتیں قیمت خرید سے بھی گرادیں.مگر مسلمانوں کو تجارت
281 کے میدان سے بے دخل کرنے کی یہ تدبیریں کارگر نہ ہو سکیں اور ان کا قدم پیچھے ہٹنے کی بجائے آگے ہی بڑھتا گیا.شیعہ سنی فساد کے موقع پر راہنمائی تاریخ احمدیت جلد 4 ص 583 1927ء کے ابتداء میں تیراہ کے علاقہ میں شیعہ سنی فسا در ونما ہوا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اس موقعہ پر شیعہ اور سنی حضرات سے مندرجہ ذیل دردمندانہ اپیل شائع کی.سرحدی آزاد علاقہ کے شیعہ سنی فساد کی اطلاعیں ان لوگوں کے لئے جن کے دل میں اسلام کا درد ہے.سخت صدمہ کا موجب ہوئی ہیں.میں تمام سنیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ان معاملات پر پلیٹ فارم یا اخبارات میں جوش سے بحث نہ کریں بلکہ باہمی اختلافات کا پرائیویٹ طور پر تصفیہ کرنے کی کوشش کریں.نیز یہ بھی اپیل کرتا ہوں کہ سنی صرف اس واسطے اس جھگڑے میں سنیوں کو حق پر نہ سمجھے لیں کہ وہ سنی ہیں اور اسی طرح میں شیعوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ یہ خیال نہ کر لیں کہ شیعہ قبائل مظلوم ہیں صرف اس وجہ سے کہ وہ شیعہ ہیں لیکن یہ بات صاف ہے کہ ہمیں بہت سی عزیز جانوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے جو کسی وقت مفاد اسلامی کے لئے زیادہ منفعت بخش ثابت ہو سکتی تھیں.ہمارا فوری فرض یہ ہونا چاہئے کہ اس برائی کو اور نہ پھیلنے دیں اور ان لوگوں کی مدد کریں جن کو اس فساد میں نقصان برداشت کرنا پڑا ہے میرے ناقص خیال میں چونکہ ہم سرکاری علاقہ میں رہنے کی وجہ سے آزاد علاقے پر بہت تھوڑا اثر رکھتے ہیں اور چونکہ وہ اقوام اپنی آزادی کے لئے بہت غیرت رکھتی ہیں.اس لئے ہم صرف سرحدی رؤسا کے ذریعہ ہی ان لڑنے والے قبائل پر اثر ڈال سکتے ہیں.لہذا ہم کو فوراً پشاور اور کو ہاٹ میں تمام اسلامی فرقوں کے ذی اثر اصحاب کی ایک کمیٹی بنانا چاہئے جس میں وہ ملا اور سردار خصوصیت سے شامل کئے جائیں.جن کو ان اقوام میں سے کسی نہ کسی کم و بیش رسوخ حاصل ہوتا کہ ہم آزاد سرحدی علاقہ کے شیعوں اور سنیوں میں صلح و آشتی پیدا کرنے کے ذرائع معلوم کر سکیں.میں یہ بھی تجویز کرتا ہوں کہ اس کمیٹی کو چاہئے کہ ان لوگوں میں حقیقی صلح کرائے اور صرف دفع الوقتی سے کام لے کر کوئی ایسا صلح نامہ نہ مرتب کرے.جو انجام کار ایک سخت نقصان دہ دھوکا ثابت ہو.نیز ایک فنڈ بھی فوراً کھولنا چاہئے.تاکہ جن لوگوں کو اس افسوسناک لڑائی میں مالی یا جانی نقصان پہنچا ہے
282 ان کی مدد کی جاسکے.میں ایک لائق ڈاکٹر کی خدمات پیش کرتا ہوں.جو بشرط ضرورت ان زخمیوں کا علاج کرے گا جن کے متعلق میں نے سنا ہے کہ کثیر تعداد میں سرکاری علاقے میں آگئے ہیں.نیز میں ان لوگوں کے لئے جن کو اس لڑائی میں تکلیف پہنچی ہے ہر ایک قسم کی مالی واخلاقی مدد دینے کا جو میری طاقت میں ہے وعدہ کرتا ہوں.اخبار تنظیم امرتسر 14 اگست 1927ء ص 2.بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 4 ص 626) مل کر مقابلہ کرو ہندوستان کے سیاسی تغیرات اپنے ساتھ مذہبی خطرات بھی لا رہے تھے.وہ مسلمان جو پہلے ہی اقتصادی طور پر ہندوؤں کے دست نگر اور ذہنی طور پر ان کے زیر اثر تھے اور تعلیمی اور دنیوی ترقیات - محروم چلے آرہے تھے اور ان کا تبلیغی مستقبل بھی تاریک نظر آرہا تھا.چنانچہ گاندھی جی کا اخبار سٹیٹمین میں ایک انٹرویو شائع ہوا کہ سوارج ( ملکی حکومت) مل جانے کے بعد اگر غیر ملکی مشنری ہندوستانیوں کے عام فائدہ کے لئے روپیہ خرچ کرنا چاہیں گے تو اس کی تو انہیں اجازت ہوگی لیکن اگر وہ تبلیغ کریں گے تو میں انہیں ہندوستان سے نکلنے پر مجبور کروں گا.جس کے معنے اس کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتے کہ سوارج میں مذہبی تبلیغ بند ہو جائے گی.اس کے علاوہ ہندوؤں کی طرف سے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے واقعات برابر ہورہے تھے.پہلے بنارس میں فساد ہوا.پھر آگرہ اور میرزا پور میں اور پھر کانپور میں مسلمانوں کو نہایت بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اس نازک موقع پر مارچ 1931ء میں مسلمانوں کو پھر اتحاد کی پر زور تلقین فرمائی اور نصیحت کی کہ اگر مسلمان ہندوستان میں زندہ رہنا چاہتے ہیں.تو انہیں یہ سمجھوتہ کرنا چاہئے کہ اگر دیگر قوموں کی طرف سے کسی اسلامی فرقہ پرظلم ہو تو خواہ اندرونی طور پر اس سے کتنا ہی شدید اختلاف کیوں نہ ہو اس موقع پر سب کو متفق ہو جانا چاہئے.(خطبات محمود جلد 13 ص 116) تحریک اتحاد کے تعلق میں جماعت احمدیہ کی کوششیں کہاں تک بار آور ہوئیں اس کا اندازہ ایک ہندو اخبار کے حسب ذیل الفاظ سے لگ سکتا ہے.اخبار ” آریہ ویر لاہور ( 9 اگست 1931 ء ص 6)
283 نے لکھا.رشی دیانند اور منشی اندرمن کے زبر دست اعتراضات کی تاب نہ لا کر مرزا غلام احمد قادیانی نے احمد یہ تحریک کو جاری کیا.احمدیہ تحریک کا زیادہ تر حلقہ کار مسلمانوں کے درمیان رہا.اس جماعت کے کام نے مسلمانوں کے اندر حیرت انگیز تبدیلی پیدا کر دی ہے.اس تحریک نے مسلمانوں کے اندر اتحاد پیدا کر دیا.آج مسلمان ایک طاقت ہیں، مسلمان قرآن کے گرد جمع ہو گئے.(الفاروق 21, 28 اپریل 1932 ء ص 10.بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 5 ص 271) مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لئے دعا کی تحریک دوسری جنگ عظیم کے دوران وسط 1942ء میں محوری طاقتوں کا دباؤ مشرق وسطی میں زیادہ بڑھ گیا اور جرمن فوجیں جنرل رومیل کی سرکردگی میں 21 جون کو طبروق کی قلعہ بندیوں پر حملہ کر کے برطانوی افواج کو شکست فاش دینے میں کامیاب ہو گئیں جس کے بعد ان کی پیش قدمی پہلے سے زیادہ تیز ہو گئی اور یکم جولائی تک مصر کی حدود کے اندر گھس کر العالمین کے مقام تک پہنچ گئیں جو سکندریہ سے تھوڑی دور مغرب کی جانب برطانوی مدافعت کی آخری چوکی تھی جس سے مصر براہ راست جنگ کی لپیٹ میں آگیا اور مشرق وسطی کے دوسرے اسلامی ممالک خصوصاً حجاز کی ارض مقدس پر محوری طاقتوں کے حملہ کا شدید خطرہ پیدا ہو گیا.ان پر خطر حالات میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے 26 جون 1942 ء کے خطبہ جمعہ میں عالم اسلام کی نازک صورتحال کا دردناک نقشہ کھینچتے ہوئے بتایا کہ:.اب جنگ ایسے خطر ناک مرحلہ پر پہنچ گئی ہے کہ اسلام کے مقدس مقامات اس کی زد میں آگئے ہیں.مصری لوگوں کے مذہب سے ہمیں کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو.وہ اسلام کی جو تو جیہ وتفسیر کرتے ہیں ہم اس کے کتنے ہی خلاف کیوں نہ ہوں اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ ظاہر ا طور پر وہ ہمارے خدا ہمارے رسول اور ہماری کتاب کو ماننے والے ہیں.ان کی اکثریت اسلام کے خدا کے لئے غیرت رکھتی ہے.ان کی اکثریت اسلام کی کتاب کے لئے غیرت رکھتی ہے اور ان کی اکثریت محمد ﷺ کے لئے غیرت رکھتی ہے.اسلامی لٹریچر شائع کرنے اور اسے محفوظ رکھنے میں یہ قوم صف اول میں رہی
284 ہے.آج ہم اپنے مدارس میں بخاری اور مسلم وغیرہ احادیث کی جو کتا ہیں پڑھاتے ہیں وہ مصر کی چھپی ہوئی ہی ہیں.اسلام کی نادر کتا بیں مصر میں ہی چھپتی ہیں اور مصری قوم اسلام کے لئے مفید کام کرتی چلی آئی ہے.اس قوم نے اپنی زبان کو بھلا کر عربی زبان کو اپنا لیا.اپنی نسل کو فراموش کر کے یہ عربوں کا حصہ بن گئی اور آج دونوں قوموں میں کوئی فرق نہیں.مصر میں عربی زبان ، عربی تمدن اور عربی طریق رائج ہیں اور محمد عربی ﷺ کا ذہب رائج ہے.پس مصر کی تکلیف اور تباہی ہر مسلمان کے لئے دکھ کا موجب ہونی چاہئے خواہ وہ کسی فرقہ سے تعلق رکھنے والا ہو اور خواہ مذہبی طور پر اسے مصریوں سے کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں.پھر مصر کے ساتھ ہی وہ مقدس سرزمین شروع ہو جاتی ہے جس کا ذرہ ذرہ ہمیں اپنی جانوں سے زیادہ عزیز ہے نہر سویز کے ادھر آتے ہی آجکل کے سفر کے سامانوں کو مد نظر رکھتے ہوئے چند روز کی مسافت کے فاصلہ پر ہی وہ مقدس مقام ہے جہاں ہمارے آقا کا مبارک وجود لیٹا ہے جس کی گلیوں میں محمد مصطفی حلوے کے پائے مبارک پڑا کرتے تھے.جس کے مقبروں میں آپ کے والا وشیدا خدا تعالیٰ کے فضل کے نیچے میٹھی نیند سورہے ہیں اس دن کی انتظار میں کہ جب صور پھونکا جائے گا وہ لبیک کہتے ہوئے اپنے رب کے حضور حاضر ہو جائیں گے.دواڑھائی سو میل کے فاصلہ پر ہی وہ وادی ہے جس میں وہ گھر ہے جسے ہم خدا کا گھر کہتے ہیں اور جس کی طرف دن میں کم سے کم پانچ بار منہ کر کے ہم نماز پڑھتے ہیں اور جس کی زیارت اور حج کے لئے جاتے ہیں جو دین کے ستونوں میں سے ایک بڑا ستون ہے.یہ مقدس مقام صرف چند سو میل کے فاصلہ پر ہے اور آجکل موٹروں اور ٹینکوں کی رفتار کے لحاظ سے چار پانچ دن کی مسافت سے زیادہ فاصلہ پر نہیں اور ان کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں وہاں جو حکومت ہے اس کے پاس نہ ٹینک ہیں، نہ ہوائی جہاز اور نہ ہی حفاظت کا کوئی اور سامان کھلے دروازوں اسلام کا خزانہ پڑا ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ دیوار میں بھی نہیں ہیں اور جوں جوں دشمن ان مقامات کے قریب پہنچتا ہے ایک مسلمان کا دل لرز جاتا ہے.(الفضل 3 جولائی 1942ء ص 3,2) حضور نے خطبہ کے دوران مقامات مقدسہ کی حفاظت کے خدائی وعدوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یقین دلایا کہ اللہ تعالیٰ خود ہی ان کی حفاظت فرمائے گا.لیکن ساتھ ہی مسلمانوں کو ان کی عملی ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلائی اور فرمایا:....اس میں شبہ نہیں کہ مکہ اور مدینہ کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں مگر اللہ تعالیٰ
285 حفاظت کے لئے آسمان سے فرشتے نہیں اتارا کرتا بلکہ بعض بندوں کو ہی فرشتے بنا دیتا ہے اور ان کے دلوں میں اخلاص پیدا کر دیتا ہے کہ اس کے وعدوں کو پورا کرنے کے ہتھیار بن جائیں.وہ گوانسان نظر آتے ہیں مگر ان کی روحوں کو فرشتہ کر دیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو جاتے ہیں ان کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں.اس کا مطلب یہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو کام فرشتوں سے لینا تھا اسے کرنے کے لئے وہ آگے بڑھتے ہیں اس لئے وہ فرشتے بن جاتے ہیں اور جب وہ فرشتے ہو گئے تو مر کیسے سکتے ہیں.فرشتے نہیں مرا کرتے.اسی لئے اللہ تعالیٰ شہداء کے متعلق فرماتا ہے کہ وہ مردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں اور اپنے خدا کے حضور رزق دیئے جاتے ہیں.پس گوان مقامات کی حفاظت کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ مسلمان ان کی حفاظت کے فرض سے آزاد ہو گئے ہیں.بلکہ ضروری ہے کہ ہر سچا مسلمان ان کی حفاظت کے لئے اپنی پوری کوشش کرے جو اس کے بس میں ہے.(الفضل 3 جولائی 1942 ء ص 4) خطبہ کے آخر میں حضور نے خاص تحریک فرمائی کہ احمدی ممالک اسلامیہ کی حفاظت کے لئے نہایت تضرع اور عاجزی سے دعائیں کریں.چنانچہ حضور نے فرمایا:.یہ مقامات روز بروز جنگ کے قریب آرہے ہیں اور خدا تعالیٰ کی مشیت اور اپنے گناہوں کی شامت کی وجہ سے ہم بالکل بے بس ہیں اور کوئی ذریعہ ان کی حفاظت کا اختیار نہیں کر سکتے ، ادنی ترین بات جوانسان کے اختیار میں ہوتی ہے یہ ہے کہ اس کے آگے پیچھے کھڑے ہو کر جان دے دے مگر ہم تو یہ بھی نہیں کر سکتے اور اس خطرناک وقت میں صرف ایک ہی ذریعہ باقی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں کہ وہ جنگ کو ان مقامات مقدسہ سے زیادہ سے زیادہ دور لے جائے اور اپنے فضل سے ان کی حفاظت فرمائے.وہ خدا جس نے ابرہہ کی تباہی کے لئے آسمان سے وباء بھیج دی تھی اب بھی طاقت رکھتا ہے کہ ہر ایسے دشمن کو جس کے ہاتھوں سے اس کے مقدس مقامات اور شعائر کوکوئی گزند پہنچ سکے کچل دے....پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور خدا تعالیٰ سے دعائیں کریں کہ وہ خود ہی ان مقامات کی حفاظت کے سامان پیدا کر دے اور اس طرح دعائیں کریں جس طرح بچہ بھوک سے تڑپتا ہوا چلاتا ہے جس طرح ماں سے جدا ہونے والا بچہ یا بچہ سے محروم ہو جانے والی ماں آہ وزاری کرتی ہے.اسی طرح اپنے رب کے حضور رو رو کر دعائیں کریں کہ اے
286 اللہ ! تو خودان مقدس مقامات کی حفاظت فرما اور ان لوگوں کی اولادوں کو جو آنحضرت علی کے لئے جانیں فدا کر گئے اور ان کے ملک کو ان خطرناک نتائج جنگ سے جو دوسرے مقامات پر پیش آرہے ہیں بچالے اور اسلام کے نام لیواؤں کو خواہ وہ کیسی ہی گندی حالت میں ہیں اور خواہ ہم سے ان کے کتنے اختلافات ہیں ان کی حفاظت فرما اور اندرونی و بیرونی خطرات سے محفوظ رکھ جو کام آج ہم اپنے ہاتھوں سے نہیں کر سکتے وہ خدا تعالیٰ کا ہاتھ کر دے اور ہمارے دل کا دکھ ہمارے ہاتھوں کی قربانیوں کا قائم مقام ہو جائے“.(الفضل 3 جولائی 1942ءص5,4) بعض متعصب ہندو ہمیشہ اعتراض کیا کرتے تھے کہ مسلمانوں کے دلوں میں ہندوستان کی نسبت مکہ اور مدینہ کی محبت بہت زیادہ ہے.اس موقعہ پر حضور نے اس اعتراض کا یہ نہایت لطیف جواب دیا بیشک دین کی محبت ہمارے دلوں میں زیادہ ہے مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ وطن کی محبت نہیں ہے.اگر ہمارا ملک خطرہ میں ہو تو ہم اس کے لئے قربانی کرنے میں کسی ہندو سے پیچھے نہیں رہیں گے.لیکن اگر دونوں خطرہ میں ہوں یعنی ملک اور مقامات مقدسہ تو مؤخر الذکر کی حفاظت چونکہ دین ہے اور زندہ خدا کے شعار کی حفاظت کا سوال ہے اس لئے ہم اسے مقدم کریں گے.بیشک ہم عرب کے پتھروں کو ہندوستان کے پتھروں پر فضیلت نہ دیں لیکن ان پتھروں کو ضرور فضیلت دیں گے جن کو خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے فضیلت کا مقام بنایا ہے.ایک مادہ پرست ہندو کیا جانتا ہے کہ وطن اور خدا تعالیٰ کے پیدا کردہ شعائر میں کیا فرق ہے.وہ عرفان اور نیکی نہ ہونے کی وجہ سے اس فرق کو سمجھ نہیں سکتا.حب الوطن من الایمان ہمارے ایمان کا جزو ہے مگر وہ گلیاں جن میں ہمارے پیار آقا محمد مصطفیٰ چلتے رہے ہیں وہ پھر جنہیں خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے عبادت کا مقام بنایا ہمیں وطن سے زیادہ عزیز ہیں.اس پر کوئی ہندو یا عیسائی حاسد جلتا ہے تو جل مرے ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں.الفضل 3 جولائی 1942 ء ص 5) حضرت خلیفہ لمسیح الثانی کی اس تحریک پر قادیان اور بیرونی احمدی جماعتوں میں مقامات مقدسہ کے لئے مسلسل نہایت پر درد دعاؤں کا سلسلہ جاری ہو گیا.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے اپنے محبوب خلیفہ اور اپنی پیاری جماعت کی تضرعات کو بپایہ قبولیت جگہ دی اور جلد ہی جنگ کا پانسہ پلٹ
287 گیا.چنانچہ 23 راکتو بر 1942ء کو برطانوی فوجوں نے العالمین پر جوابی یلغار شروع کی.ادھر شمالی افریقہ کے مغربی حصے (یعنی مراکش اور الجزائر ) میں امریکہ نے اپنی فوجیں اتار دیں جو مغرب سے مشرق کو بڑھنے لگیں.13 نومبر 1942 ء کو برطانوی فوجوں نے طبروق پر اور 20 نومبر تک بن غازی پر دوبارہ قبضہ کر لیا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اس مرحلہ پر غیرت اسلامی کا جو اظہار فرمایا اسے مخالفین احمدیت نے بھی بہت سراہا.چنانچہ احراری اخبار ” زمزم نے اپنی 19 جولائی 1942ء کی اشاعت میں لکھا.66 موجودہ حالات میں خلیفہ صاحب نے مصر اور حجاز مقدس کے لئے اسلامی غیرت کا جو ثبوت دیا ہے وہ یقیناً قابل قدر ہے اور انہوں نے اس غیرت کا اظہار کر کے مسلمانوں کے جذبات کی صحیح تر جمانی کی ہے.66 نیز لکھا:.زمزم معترف ہے کہ مقدس مقامات کی طرف سے خلیفہ صاحب کا اندیشہ بالکل حق بجانب الفضل 22 جولائی 1942 ء ص 1 کالم 4) فتنہ صیہونیت کے خلاف زبر دست اسلامی تحریک دنیا کی تمام بڑی بڑی اسلام دشمن طاقتیں ایک لمبے عرصہ سے فلسطین میں یہودیوں کو وسیع پیمانے پر آباد کرتی آرہی تھیں.اس خوفناک سازش کا نتیجہ بالآخر 16 مئی 1948ء کو ظاہر ہو گیا جبکہ برطانیہ کی عملداری اور انتداب کے خاتمہ پر امریکہ، برطانیہ اور روس کی پشت پناہی میں ایک نام نہاد صیہونی حکومت قائم ہوگئی اور دنیائے اسلام کے سینہ میں گویا ایک زہر آلود خنجر پیوست کر دیا گیا.اس نہایت نازک وقت میں جبکہ ملت اسلامیہ زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار تھی.حضرت مصلح موعودؓ نے عالم اسلام کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لئے ایک بار پھر پوری قوت سے جھنجوڑا.انہیں مغربی طاقتوں اور صیہونی حکومت کے در پر دہ تباہ کن عزائم سے قبل از وقت آگاہ فرمایا اور اس فتنہ عظمی کے منتظم مقابلہ کے لئے نہایت مفید تجاویز پرمشتمل ایک قابل عمل دفاعی منصو بہ منصوبہ پیش کیا.
288 چنانچہ حضور نے خاص اس مقصد کے لئے ” الكفر ملة واحدة “ کے نام سے ایک حقیقت افروز مضمون سپر د قلم فرمایا جس میں دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے فوراً ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے اور اس کے خلاف سر دھڑ کی بازی لگا دینے کی زبر دست تحریک فرمائی.آپ نے تحریر فرمایا:.وہ دن جس کی خبر قرآن کریم اور احادیث میں سینکڑوں سال پہلے سے دی گئی تھی.وہ دن جس کی خبر تو رات اور انجیل میں بھی دی گئی تھی.وہ دن جو مسلمانوں کے لئے نہایت ہی تکلیف دہ اور اندیش ناک بتایا جاتا تھا معلوم ہوتا ہے کہ آن پہنچا ہے.فسلطین میں یہودیوں کو پھر بسایا جارہا ہے.امریکہ اور روس جو ایک دوسرے کا گلا کاٹنے پر آمادہ ہو رہے ہیں.اس مسئلہ میں ایک بستر کے دو ساتھی نظر آتے ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ کشمیر کے معاملہ میں بھی یہ دونوں متحد تھے.دونوں ہی انڈین یونین کی تائید میں تھے اور اب دونوں ہی فلسطین کے مسئلہ میں یہودیوں کی تائید میں ہیں.عرب اس حقیقت کو سمجھتا ہے.عرب جانتا ہے کہ اب یہودی عرب میں سے عربوں کو نکالنے کی فکر میں ہیں اس لئے وہ اپنے جھگڑ.اور اختلاف کو بھول کر متحدہ طور پر یہودیوں کے مقابلہ کے لئے کھڑا ہو گیا ہے مگر کیا عربوں میں یہ طاقت ہے؟ کیا یہ معاملہ صرف عرب سے تعلق رکھتا ہے.ظاہر ہے کہ نہ عربوں میں اس مقابلہ کی طاقت ہے اور نہ یہ معاملہ صرف عربوں سے تعلق رکھتا ہے.سوال فلسطین کا نہیں سوال مدینہ کا ہے.سوال یروشلم کا نہیں سوال خود مکہ مکرمہ کا ہے.سوال زید اور بکر کا نہیں سوال محمد رسول اللہ علیہ کی عزت کا ہے.دشمن باوجود اپنی مخالفتوں کے اسلام کے مقابل پر اکٹھا ہو گیا ہے.کیا مسلمان باوجود ہزاروں اتحاد کی وجوہات کے اس موقع پر اکٹھا نہیں ہوگا.پس میں مسلمانوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس نازک وقت کو سمجھیں اور یا درکھیں کہ آج رسول کریم ﷺ کا یہ فرمان کہ الـكـفــر مـلـة واحدة لفظ بلفظ پورا ہو رہا ہے.یہودی اور عیسائی اور دہریہ مل کر اسلام کی شوکت کو مٹانے کے لئے کھڑے ہو گئے ہیں.پہلے فردا فردایور بین اقوام مسلمانوں پر حملہ کرتی تھیں مگر اب مجموعی صورت میں ساری طاقتیں مل کر حملہ آور ہوئی ہیں.آؤ ہم بھی سب مل کر ان کا مقابلہ کریں کیونکہ اس معاملہ میں ہم میں کوئی اختلاف نہیں.دوسرے اختلافوں کو ان امور میں سامنے لانا جن میں کہ اختلاف نہیں.نہایت ہی بیوقوفی اور جہالت کی بات ہے.قرآن کریم تو یہود سے فرماتا ہے.
289 قل يا اهل الكتاب تعالوا الى كلمة سواء بيننا وبينكم الا نعبد الا الله ولا نشرك به شيئا و لا يتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون الله (آل عمران : 65) اتنے اختلافات کے ہوتے ہوئے بھی قرآن کریم یہود کو دعوت اتحاددیتا ہے.کیا اس موقع پر جبکہ اسلام کی جڑوں پر تب رکھ دیا گیا ہے.جب مسلمانوں کے مقامات مقدسہ حقیقی طور پر خطرے میں ہیں.وقت نہیں آیا کہ آج پاکستانی افغانی ، ایرانی ، ملائی ، انڈونیشین ، افریقن ، بر براور ترکی یہ سب کے سب اکٹھے ہو جائیں اور عربوں کے ساتھ مل کر اس حملہ کا مقابلہ کریں جو مسلمانوں کی قوت کو توڑنے اور اسلام کو ذلیل کرنے کے لئے دشمن نے کیا ہے؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کریم اور حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی ایک دفعہ پھر فسلطین میں آباد ہوں گے لیکن یہ نہیں کہا گیا کہ وہ ہمیشہ کے لئے آباد ہوں گے.فلسطین پر ہمیشہ کی حکومت تو عباداللہ الصالحون کے لئے مقرر کی گئی ہے.پس اگر ہم تقویٰ سے کام لیں تو اللہ تعالیٰ کی پہلی پیشگوئی اس رنگ میں پوری ہوسکتی ہے کہ یہود نے آزاد حکومت کا وہاں اعلان کر دیا ہے لیکن اگر ہم نے تقویٰ سے کام نہ لیا تو پھر وہ پیشگوئی لمبے وقت تک پوری ہوتی چلی جائے گی اور اسلام کے لئے ایک نہایت خطر ناک دھکا ثابت ہوگی.پس ہمیں چاہئے اپنے عمل سے، اپنی قربانیوں سے، اپنے اتحاد سے، اپنی دعاؤں سے، اپنی گریہ وزاری سے اس پیشگوئی کا عرصہ تنگ سے تنگ کر دیں اور فلسطین پر دوبارہ محمد رسول اللہ ﷺ کی حکومت کے زمانہ کو قریب سے قریب تر کر دیں اور میں سمجھتا ہوں اگر ہم ایسا کر دیں تو اسلام کے خلاف جو رو چل رہی ہے وہ الٹ پڑے گی.عیسائیت کمزوری و انحطاط کی طرف مائل ہو جائے گی اور مسلمان پھر ایک دفعہ بلندی اور رفعت کی طرف قدم اٹھانے لگ جائیں گے.شاید یہ قربانی مسلمانوں کے دل کو بھی صاف کر دے اور ان کے دل بھی دین کی طرف مائل ہو جائیں.پھر دنیا کی محبت ان کے دلوں سے سرد ہو جائے.پھر خدا اور اس کے رسول اور ان کے دین کی عزت اور احترام پر وہ آمادہ ہو جا ئیں اور ان کی بے دینی دین سے اور ان کی بے ایمانی ایمان سے اور ان کی سستی چستی سے اور ان کی بد عملی سعی پیہم سے بدل جائے.الفضل 21 مئی 1948ء ص 4,3 ) حضرت مصلح موعودؓ کے اس انقلاب انگیز مضمون نے شام ، لبنان، اردن اور دوسرے عرب ممالک میں زبر دست تہلکہ مچا دیا.اس مضمون کی نہایت وسیع پیمانے پر اشاعت کی گئی اور شام و لبنان کی تین سو
290 مشہور اور ممتاز شخصیتوں کو جن میں بیشتر وزراء، پارلیمنٹ کے ممبر، کالجوں کے پروفیسر، مختلف وکلاء بیرسٹر اور سیاسی اور مذہبی لیڈر تھے ) خاص طور پر بذریعہ ڈاک بھجوایا گیا اور مجموعی طور پر ہر جگہ اس مضمون کا نہایت ہی اچھا اثر ہوا.الفضل 17 ستمبر 1948 ء ص 2 کالم 1) یہی نہیں شام ریڈیو نے خاص اہتمام سے اس کا خلاصہ نشر کر کے اسے دنیائے عرب کے کونہ کونہ تک پہنچا دیا.اخبار اليوم - الف باء الكفاح - الفيحاء - الاخبار - القبس - النصر - الیقظہ - صوت الاحرار النھضہ.اور الاردن وغیرہ چوٹی کے عربی اخبارات میں شائع ہوا.تیونس اور مراکش کی تحریک آزادی کی حمایت اور دعا تیونس اور مراکش کے جانباز مسلمان ایک عرصہ سے فرانس کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے.مؤتمر عالم اسلامی نے فیصلہ کیا کہ 21 نومبر 1952ء کو دنیا بھر کے مسلمان یوم تیونس و مراکش منا ئیں.اس فیصلہ کے مطابق حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ہدایت پر جماعت احمدیہ نے بھی ان مظلوم اسلامی ممالک کے مطالبہ آزادی کی حمایت میں جلسے کئے اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان کو کامیابی بخشے.چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب وزیر خارجہ پاکستان نے اقوام متحدہ میں ان ممالک کے حق میں پر زور آواز بلند کی جس کی تفصیل آپ کی خود نوشت سوانح تحدیث نعمت ( طبع اول 1971 ء صفحہ 569، 573) میں ملتی ہے.1951ء میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران مراکش اور تیونس کے مسئلے کو ایجنڈا میں شامل کرنے کا سوال پیش ہوا تو آپ ہی کی تقریر اس موقع پر سب سے نمایاں تھی.تقریر میں آپ نے امریکہ اور دیگر تمام ایسے ممالک کے طرز عمل کی مذمت کی جو ان مسائل کو شامل ایجنڈا کرنے کے خلاف تھے.آپ نے جب دوران اجلاس فرمایا کہ اگر ان مسائل پر غور کرنے سے انکار کیا گیا تو مراکش میں قتل و خون ہوگا اور اس کی تمام تر ذمہ داری امریکی نمائندہ پر ہوگی تو امریکی مندوب کا رنگ زرد پڑ گیا.اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کی دعاؤں، چوہدری صاحب کی کوششوں اور اہل تیونس و مراکش کی (ملت لاہور 22 جنوری 1954ءص7) قربانیوں کو شرف قبولیت بخشا اور یہ دونوں ملک 1956ء میں آزاد ہو گئے.
291 اتحاد کی تحریک 1955ء میں حضور نے یورپ کا سفر فر مایا اور رجحانات کا جائزہ لے کر دعوت الی اللہ کی نئی سکیمیں شروع کیں.لمصل یورپ کے بدلے ہوئے رجحانات کو دیکھ کر مسلمانوں کو متحد کرنے کا جذبہ اور زیادہ ابھر آیا اور حضور نے پاکستان میں پہنچتے ہی یہ آواز بلند فرمائی کہ یورپ کو مسلمان بنانے کے لئے سب مسلمانوں کو اکٹھا ہو جانا چاہئے.اتحاد بین السلمین کی یہ تحریک حضور نے 21 ستمبر 1955ء کی ایک تقریب میں فرمائی جس کا اہتمام جماعت احمدیہ کراچی نے کیا تھا.چنانچہ اخبار صلح کراچی نے لکھا.امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے آج بیچ لگژری ہوٹل میں تقریر کرتے ہوئے تمام مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے باہمی اختلافات کو نظر انداز کر کے اشاعت و تبلیغ اسلام کے اہم کام کے لئے متحد و منظم ہو جائیں اور ان اعتراضات کا علمی جواب دیں جو یورپ اور دوسرے ممالک کی غیر مسلم دنیا، اسلام اور محمد مصطفی ﷺ کے مقدس وجود پر کر رہی ہے.امام جماعت احمد یہ اس دعوت عصرانہ میں یہ تقریر فرما رہے تھے جو آپ کے یورپ سے تشریف لانے پر آپ کے اعزاز میں آج کراچی کی جماعت احمدیہ کی طرف سے بیچ لگژری ہوٹل کے وسیع و شاداب لان میں دی گئی تھی.امام جماعت احمدیہ نے قرآن مجید کی وہ آیت تلاوت فرمائی جس میں یہود اور عیسائیوں کو نظریہ توحید کی اشاعت و تبلیغ کے لئے تعاون کی دعوت دی گئی ہے.امام جماعت احمدیہ نے نہایت دلچسپ طرز استدلال کے بعد فرمایا اگر اسلام اور محمد مصطفی علی کے بدترین دشمن یہودی اور عیسائیوں کو یہ دعوت دی جاسکتی ہے کہ وہ رسالت نبوی کے لئے نہیں بلکہ محض وحدانیت خداوندی کے لئے مجتمع ہو جائیں اور باہمی تعاون سے کام لیں تو کیا وجہ ہے کہ آج مسلمان اپنے اپنے باہمی اختلافات کو نظر انداز کر کے رسول اکرم ﷺ کی صداقت اور اسلام کی اشاعت کے لئے باہمی تعاون اور اشتراک سے کام نہ لے سکیں ؟ سفر یورپ کے تاثرات بیان فرماتے ہوئے آپ نے فرمایا میرا مشاہدہ ہے کہ اب یورپ اسلام کی طرف بڑی تیزی سے مائل ہو رہا ہے اور وہاں کے لوگ اسلام اور محمد مصطفی ہے کی عظمت کا اعتراف کر رہے ہیں.ضرورت ہے کہ ہم لوگ اپنی جانی و مالی قربانی سے وہاں اسلام کے
292 پیغام کو پہنچا ئیں اور جولوگ کبھی محمد ﷺ کی شان میں گستاخی کے کلمات نکالتے رہے ہیں آج انہی کے مونہوں سے آپ کے لئے درود وسلام کا نذرانہ پیش کریں.الله امام جماعت احمدیہ نے اس امر پر نہایت افسوس کا اظہار کیا کہ آج مسلمانوں کے مختلف فرقے نہایت معمولی معمولی مسائل پر باہم دست وگریباں ہیں حالانکہ سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہم محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذات اور اسلام پر ہونے والے حملوں کا دفاع کس طرح کریں؟ آپ نے کہا کہ مسلمانوں کی مختلف تنظیمیں اور مختلف فرقے یورپ اور دوسرے ممالک میں تبلیغ اسلام کے لئے مشن کھولیں تو یقیناً چند ہی سالوں کے اندر اندر یورپ کی کثیر آبادی محمد علی کے حلقہ غلامی میں آسکتی ہے.آپ نے کہا کہ اگر آج مسلمانوں نے بھی اپنی مستیوں اور غفلتوں کو ترک نہ کیا اور اسلام کی اصل ضرورت کو سمجھ کر میدان میں نہ آئے تو وہ قیامت کے روز شافع محشر کو اپنا منہ نہ دکھا سکیں گے.تقریر کے اختتام پر امام جماعت احمدیہ نے اکثر حاضرین کو شرف مصافحہ بخشا اور ان سے گفتگو فرمائی.اس تقریب میں کئی سفارتی نمائندے، اعلیٰ سرکاری حکام، ممتاز شہری، اخباری نمائندے اور دیگر معزز افراد شریک تھے.تاریخ احمدیت جلد 18 ص29) سیدنا حضرت مصلح موعود کی یہ اہم تقریر اتحاد بین المسلمین کی عظیم الشان تحریک تھی جسے پاکستان کے اردو اور انگریزی اخبارات نے نمایاں طور پر شائع کیا.
293 مسلمانان کشمیر کے متعلق تحریکات اہل کشمیر مدتوں سے غلامی اور ظلم وستم کا شکار تھے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنہیں اسیروں کی رستنگاری کا موجب قرار دیا گیا تھا آپ نے اس خطہ جنت نظیر کو انسانی حقوق دلانے کے لئے بے پناہ جدوجہد کی اور متعدد تحریکات فرمائیں اور آپ کی راہنمائی میں جماعت احمدیہ نے بے نظیر خدمات سرانجام دیں.ان طویل خدمات کو اختصار کے ساتھ ملاحظہ کرنے سے معلوم ہوگا کہ اس کی تفصیل ضخیم کتب کا تقاضا کرتی ہے.زیر نظر مضمون میں صرف تاریخ احمدیت جلد 5 کو سامنے رکھ کر سال وار چند عنوان بیان کئے گئے ہیں.1909 حضور نے خلافت سے قبل یکم جولائی 1909 ء تا 22 راگست 1909 ء پہلا سفر کشمیر اختیار فرمایا.آپ نے کشمیری طلباء کو قادیان میں تعلیم دلانے کی طرف خاص توجہ فرمائی اور خلیفہ بننے کے بعد ان کے لئے وظائف مقرر فرما دیئے.حضور کے ارشادات کی روشنی میں ایک احمدی بزرگ حضرت حاجی عمر ڈار صاحب رفیق حضرت مسیح موعود نے کشمیر میں تعلیم بالغاں کی بنیا د رکھی اسی طرح ان کے بیٹے خواجہ عبدالرحمان صاحب نے اس کام کو آگے بڑھایا.علاقہ جموں میں میاں فیض احمد صاحب نے تعلیمی جد و جہد میں نمایاں حصہ لیا.1914 کشمیر کے ایک احمدی عالم مولوی عبد الرحمان صاحب نے راجور کے مسلمانوں کو منظم کرنے کی کوشش کی جس پر انہیں شدید مظالم کا سامنا کرنا پڑا.1921 حضور کا دوسراسفرکشمیر 25 جون تا 29 ستمبر.حضور نے اہل کشمیر کو باہمی اتحاد قائم کرنے اور بد رسوم سے علیحدگی کی طرف خاص توجہ دلائی.1929 حضور نے کشمیر کے ایک غیر احمدی پیر سے قادیان میں ملاقات کے درمیان پیشکش کی کہ آپ کشمیر
294 سے ذہین طلباء بھجوائیں ہم ان کی تعلیم کا ذمہ لیتے ہیں.حضرت خواجہ عبدالرحمان ڈار صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ کی ہدایات کی روشنی میں مسلمان زمینداروں کی تنظیم و اصلاح کا بیڑا اٹھایا.جس پر ریاستی حکام نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا.خلیفہ عبدالرحیم صاحب نے ملازمتوں کے ضمن میں مسلمانوں پر کئے جانے والے مظالم سے معین اعداد و شمار کے ساتھ ریاستی وزراء کو آگاہ کیا.جس کے نتیجہ میں ہندوستان کے مدبر اور کشمیر کے وزیر خارجہ سرایلین بینر جی نے مسلمانوں کے حق میں زبردست بیان دیا جس نے ریاست میں ہیجان بر پا کر دیا.ان کے بیان کی تائید میں قادیان میں جماعت احمدیہ نے جلسہ کر کے قرارداد پاس کی.28,27 را پریل کو لدھیانہ میں ہونے والے آل انڈیا مسلم کشمیری کا نفرنس کے سالانہ اجلاس کی روداد الفضل نے شائع کر کے اہل کشمیر کے مطالبات عوام و خواص تک پہنچائے.حضور کا تیسرا دورہ کشمیر حضور کا تیسرا سفر کشمیر 5 جون تا 30 ستمبر 1929 ء.حضور نے اہل کشمیر کو اخلاقی ، پہنی اور روحانی تغیر پیدا کرنے کی تلقین فرمائی.حضور کے ارشادات سے متاثر ہو کر احمدی نوجوان خواجہ غلام نبی گلکار انور نے اصلاحی تقاریر کا سلسلہ شروع کیا.1930 مئی 1930ء میں ریڈنگ روم پارٹی کا قیام ہوا جس کے صدر شیخ محمد عبد اللہ اور جنرل سیکرٹری خواجہ غلام نبی صاحب گل کار چنے گئے.چونکہ ریاست میں سیاسی انجمن بنانے کی اجازت نہیں تھی اس لئے ایک اور خفیہ پارٹی بنائی گئی جس میں خواجہ غلام نبی صاحب بھی شامل تھے.1931 ریاست کشمیر میں مذہبی مداخلت اور توہین قرآن کے ناگوار واقعات پیش آئے جس پر حضرت مصلح موعودؓ نے آزادی کشمیر سے متعلق 3 مضامین لکھے جو الفضل کے علاوہ اخبار انقلاب میں بھی شائع ہوئے.ان میں حضور نے کشمیر کے نمائندوں پر مشتمل کشمیر کا نفرنس کے قیام کی تجویز پیش کی.
295 13 جولائی کو مسلمانان سرینگر کے ایک اجتماع پر حکومت نے گولی چلا دی.کئی سو مسلمان گرفتار کر لئے گئے اور مسلم لیڈروں کو گرفتار کر لیا.جس پر حضرت مصلح موعود نے وائسرائے ہند کے نام تار دیا.جماعت نے ریاست میں ایک طبی وفد کو داخلہ دینے کی درخواست کی مگر حکومت نے انکار کر دیا.حضور نے ایک وکیل کوسر یگر بھجوایا اور 500 روپے کی رقم بھی ارسال فرما دی.پھر حضور نے فورا ایک گشتی چٹھی پنجاب اور ہندوستان کے دوسرے مسلمانوں کو بھی لکھی اور تار بھی دیئے کہ 25 جولائی 1931ء کو ہم شملہ میں جمع ہو کر کشمیر کے معاملہ پر پورے طور پر غور کریں اور اس کے ساتھ ہی آپ نے تین اقدامات فرمائے.(1) لندن میں احمد یہ مشن کو کشمیر کے حالات پر احتجاج کرنے کے لئے لکھا.(2) روزنامہ الفضل کو اہل کشمیر پر ظلم و ستم کے خلاف زیادہ پر زور آواز بلند کرنے کا ارشاد فرمایا.(3) جماعت احمدیہ کے تمام افراد کو تحریک آزادی کے لئے مستعد و تیار کرنے کے لئے 18 جولائی 1931 ء کو قادیان میں وسیع پیمانے پر زبر دست احتجاجی جلسہ منعقد کیا گیا جس میں حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے.خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل اور مولوی نظام الدین صاحب مبلغ کشمیر نے مظالم کشمیر پر تقریریں کیں اور ڈوگرہ حکومت کے خلاف زبردست صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے متعدد قرار دادیں پاس کی گئیں.کشمیر کمیٹی کی صدارت 25 جولائی 1931ء کو شملہ میں مسلم زعماء کی کانفرنس ہوئی جس میں 64 سرکردہ افراد شریک ہوئے.آل انڈیا کشمیر کمیٹی قائم کی گئی.علامہ اقبال نے حضرت مصلح موعود کا نام صدارت کے لئے پیش کیا جس کی سب نے متفقہ طور پر تائید کی.سیکرٹری مولوی عبدالرحیم صاحب درد تجویز کئے گئے.حضرت مصلح موعود نے اس شرط پر صدارت قبول کی کہ آپ کی ساری کوششیں آئینی ہوں گی اور روح تعاون پر مبنی ہوں گی.حضور نے اس خدمت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ” میرے ذمہ تو پہلے ہی بہت کام ہیں اتنی عظیم الشان جماعت کا میں امام ہوں اور اس قدر کام کرنا پڑتا ہے کہ بارہ ایک بجے سے پہلے شاید ہی کبھی سونا نصیب ہوتا ہو.میں نے تو یہ بوجھ صرف اس لئے
296 اٹھایا ہے کہ کشمیری مسلمانوں کی آئندہ نسلیں دعائیں دیں گی اور کہیں گی کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا بھلا کرے جن کی کوشش سے آج ہم آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں.ان کی دعائیں عرش الہی کو ہلا دیں گی.وہ کہیں گے الہی ! جن لوگوں نے ہمیں آزاد کرایا ہے تو بھی ان کو آزاد کر دے.الفضل 24 ستمبر 1931ء ، انوار العلوم جلد 12 ص 134) یکم اگست : حضور نے وائسرائے ہندلا رڈنگٹن سے ملاقات کی اور کشمیر کے متعلق اپنا موقف بیان اگست: حضور نے پہلیٹی کمیٹی تجویز فرمائی جس کا کام مسلمانان کشمیر کے حقوق و مطالبات کی حمایت و اشاعت تھا.اس کمیٹی نے کئی کتب اور ہینڈ بل شائع کئے.کمیٹی نے مسلم پریس سے رابطہ کر کے اخبارات میں مضامین لکھے اور لکھوائے.حضور نے خود بھی کئی مضامین لکھے جو جماعت کے اخبار سن رائز میں ترجمہ کر کے بطور اداریہ شائع کئے جاتے رہے.تحریک کشمیر کی تائید کرنے کے جرم میں حکومت نے اخبار انقلاب پر مقدمہ چلانا اور بند کرنا چاہا تو حضور نے ایڈیٹر انقلاب عبدالمجید سالک صاحب کو پیغام بھجوایا کہ ہم ضمانت کی پوری رقم 5 ہزار داخل کرنے کو تیار ہیں اخبار بند نہیں ہونا چاہئے.3 اگست: حضور نے مہاراجہ جموں و کشمیر کے نام تار دیا جس میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے وفد سے ملاقات کی اجازت مانگی گئی.لیکن مہاراجہ نے اجازت نہ دی.کشمیر ریلیف فنڈ حضور نے اہل کشمیر کی خدمت کے لئے کشمیر ریلیف فنڈ قائم کر کے ایک پائی فی روپیہ ہر احمدی کے لئے لازمی قرار دے دیا.چنانچہ کمیٹی کے اخراجات کا اکثر حصہ جماعت احمدیہ نے برداشت کیا.شیخ محمد عبداللہ صاحب حضرت مصلح موعود سے ملاقات کے لئے تشریف لائے اور حضور کی راہنمائی میں کا م کرنے کا وعدہ کیا.حضور نے مسلمانان کشمیر کی تنظیمی جد و جہد میں جوش پیدا کرنے کے لئے مطبوعہ خطوط لکھنے کا سلسلہ
شروع کیا.297 یوم کشمیر 14 اگست 1931ء: آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے فیصلہ کے مطابق پورے ہندوستان میں یوم کشمیر منایا گیا.قادیان میں بھی جلوس نکالا گیا اور جلسہ منعقد کیا گیا.جموں کے ایک جلسہ میں گولی چلا دی گئی اور مساجد پر حکومت نے قبضہ کر لیا جس پر حضور نے مہاراجہ کو فوری تار دیا.نیز فوٹو گرافر بھیج کر تصاویر لی گئیں.حضور کی ہدایت پر کشمیر کے متعلق عالمی پروپیگنڈہ کا آغاز ہوا.چنانچہ برطانیہ، امریکہ ، سماٹرا، جاوا، مصر و شام میں خاص مہم شروع کی گئی.13 ستمبر سیالکوٹ میں کشمیر کمیٹی کے اجلاس کے بعد جلسہ عام سے حضور نے خطاب فرمایا.اس جلسہ پر سنگباری بھی کی گئی لیکن حضور نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی.مظلومین ریاست کی طبی اور قانونی امداد کے لئے حضور نے متعدد وفد بھیجے.پہلا وفد 14 اگست سے قبل کشمیر پہنچ گیا.جو ایک وکیل اور کئی ڈاکٹروں پر مشتمل تھا.21 ستمبر: شیخ محمد عبد اللہ صاحب کو حکومت نے گرفتار کر لیا اور احتجاج کرنے والے مسلمانوں پر پولیس نے گولی چلا دی.یہ تمام واقعات الفضل 29 ستمبر میں شائع کر دیئے گئے.26 ستمبر کو ریاست نے مارشل لاء نافذ کر دیا.اس موقع پر حضور نے مسلسل قربانیوں کی پُر جوش تحریک فرمائی.راکتو بر حضور کی کوششوں سے مہاراجہ نے شیخ محمدعبداللہ صاحب کو رہا کر دیا.مارشل لاء ختم کر اور مسلمانوں کے مطالبات پر ہمدردانہ غور کا وعدہ کیا.شمیری لیڈروں نے حضور کے مشورہ سے مطالبات کا مسودہ تیار کیا جو 19 اکتوبر کو مہا راجہ کو پیش کیا گیا.نومبر : حضور نے مہاراجہ سے اپیل کی کہ فسادات کی تحقیقات کے لئے آزاد کمیشن مقرر کیا جائے.11 نومبر: مہاراجہ نے مڈلٹن کمیشن اور گلاسی کمیشن مقرر کئے.جس کے سامنے کیس پیش کرنے کے لئے حضور کے ارشاد پر متعد داحمدیوں نے نہایت قیمتی قانونی خدمات فراہم کیں.
298 اس سلسلہ میں ملک فضل حسین صاحب نے مسلمانان کشمیر اور ڈوگرہ راج تصنیف کی جس نے ان کمیشنوں کی بہت مدد کی.حضور گانسی کمیشن کے مسودہ پر نظر ثانی کر کے مفید مشورے عطا فرماتے رہے.شاندار فتح 12 نومبر 1931ء مہا راجہ نے رعایا کو ابتدائی انسانی حقوق دینے کا اعلان جاری کیا جو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی پہلی شاندار فتح تھی.مہاراجہ نے پتھر مسجد واگزار کردی جس میں 50 ہزار مسلمانوں کا جلسہ ہوا اور حضور کا شکر یہ ادا کیا گیا زعمائے کشمیر نے وزیر آباد میں حضور سے ملاقات کی اور مشورے لئے.1932 فروری: قادیان میں گریجوایٹ، مولوی فاضل اور کم تعلیم کے لوگوں کو آنریری خدمات کے لئے تحریک کی گئی.سینکڑوں احمدیوں نے اپنے آپ کو حاضر کر دیا.فسادات کشمیر کی ذمہ داری وزیر اعظم ہری کشن کول پر تھی اس لئے حضور نے ان کی برطرفی کی کوشش کی.چنانچہ فروری 1932ء میں ان کی جگہ مسٹر کالون وزیر اعظم مقرر کر دیئے گئے.23 / اپریل کو کشمیر کمیٹی کے وفد نے ان سے ملاقات کی.10 راپریل : گلانسی کمیشن نے مسلمانوں کے اکثر حقوق و مطالبات کے حق میں سفارش کر دی اور ریاست میں مذہبی آزادی کا اعلان کر دیا گیا.حضور نے اس پر مفصل تبصرہ شائع کیا اور ان پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کے لئے حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو کشمیر کے دورہ پر بھجوایا.حکومت کشمیر نے 1210 افراد پر مقدمات بنائے تھے.حضور کی تحریک پر 18 کے قریب احمدی وکلاء نے بے لوث خدمات پیش کیں.جس کے نتیجہ میں 1070 کے قریب بری ہو گئے اور 140 کو بہت معمولی سزائیں ہوئیں.27 مئی 1932 ء حضور نے اہل کشمیر کے نام ایک مطبوعہ خط میں کشمیری مسلمانوں کی انجمن بنانے کی تحریک فرمائی.چنانچہ حضور کے نمائندوں کی کوششوں سے مسلم کانفرنس کا پہلا اجلاس 15 تا 19 اکتوبر
299 1932ء کو ہوا اور حضور کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا.اس میں شیخ محمد عبد اللہ صاحب صدر اور چوہدری غلام عباس صاحب جنرل سیکرٹری چنے گئے.17 مئی 1933ء: بعض خفیہ سازشوں کی بناء پر حضور نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا.مگر حضور نے اہل کشمیر کی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا.4 /اگست 1934ء: اخبار اصلاح کا اجراء حضور کی خاص ہدایت پر مسلمانان کشمیر کے حقوق کی ترجمانی کے لئے سرینگر سے سہ روزہ اخبار اصلاح جاری کیا گیا جو 1947 ء تک جاری رہا.اس نے مسائل حاضرہ میں بر وقت را ہنمائی کر کے اہم خدمات سرانجام دیں.1936ء مجلس کشامرہ قادیان میں مجلس کشامرہ کی بنیاد ڈالی گئی جس کا مقصد کشمیر کے طلباء اور دیگر احباب کے لئے کام کرنا تھا.جون 1938ء کشمیر میں فسادات شروع ہو گئے جس پر حضور نے ایک پمفلٹ بعنوان ” کشمیر ایجی ٹیشن 1938ء کے متعلق چند خیالات شائع فرمایا اور مفید مشورے دیئے.1944 حضور کی ہدایات پر مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی حفاظت کے لئے آل جموں و کشمیر مسلم ویلفیئر ایسوسی ایشن کے نام سے ادارہ قائم ہوا.جس کے صدر خواجہ غلام محمد صاحب اور سیکرٹری خواجہ غلام نبی گل کارا نور تھے.جون : حکومت کشمیر کی طرف سے شاہی تحقیقاتی کمیشن قائم کیا گیا جس میں مسلمانان کشمیر کی نمائندگی میں خواجہ غلام نبی صاحب گل کار، چوہدری عبد الواحد صاحب اور خواجہ عبدالرحمان ڈار صاحب شامل تھے.مارچ 1946ء: محمد عبد اللہ صاحب نے کشمیر چھوڑ دو تحریک شروع کی جس پر حضور نے مسلمانوں اور حکومت
دونوں کی راہنمائی فرمائی.300 1947ء: آزاد کشمیر کی عارضی حکومت 4 اکتوبر : آزاد کشمیر کی عارضی حکومت کی بنیا د حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھوں سے رکھی گئی اور خواجہ غلام نبی گل کار صدر عارضی جمہوریہ حکومت کشمیر کی طرف سے مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ کی معزولی کا اعلان کیا گیا.سردار محمد ابراہیم خان وزیر اعظم تھے.24 اکتوبر کوخواجہ غلام نبی صاحب کے چلے جانے کے بعد زمام حکومت سر دارا براہیم صاحب نے سنبھال لی.19 اکتوبر : حضور نے انکشاف فرمایا کہ مہاراجہ کشمیر ہندوستان سے الحاق کا مخفی سمجھوتہ کر چکا ہے.نیز فرمایا کہ حیدر آباد اور کشمیر کے الحاق کو یکساں اصولوں پر طے ہونا چاہئے.پاکستان کا فائدہ اس میں ہے کہ کشمیر اس کے ساتھ الحاق کرے کشمیر فنڈ اور لیکچرز 12 نومبر : حضور نے مجاہدین کشمیر کی اعانت کے لئے کشمیر فنڈ کی تحریک کی نیز حضور نے پاکستان کے مختلف شہروں میں لیکچر دیئے اور مسئلہ کشمیر کی اہمیت اجاگر کی.1948 حضور کی زیر ہدایت انجمن مہاجرین جموں و کشمیر مسلم کانفرنس قائم ہوئی جس کے جملہ اخراجات کے کفیل خود حضور تھے.جنوری: کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں پیش ہوا جس میں پاکستان کے وزیر خارجہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے پاکستان کی کامیاب وکالت کی.آپ کی کوشش سے 13 اگست 1949 ء کو آزادانہ استصواب رائے کی قرارداد پاس کی گئی.حضور نے انہی دنوں فرمایا کہ سیکیورٹی کونسل اس معاملہ کا فیصلہ انصاف کے مطابق نہیں کرے گی بلکہ بین الاقوامی سیاست کے پیش نظر اس کا فیصلہ ہوگا.
301 فرقان بٹالین کا قیام جون: حکومت پاکستان کے بعض فوجی افسران کی درخواست پر حضور نے 50 احمدی جوان جموں کے محاذ پر بھجوائے.پھر جون 1948ء میں باقاعدہ رضا کار بٹالین فرقان بٹالین کے نام سے معرض وجود میں آئی.جس میں حضور کے بیٹے بھی شامل تھے.اس کمیٹی نے دو سال تک شاندار مجاہدانہ کارنامے سرانجام دیئے.9 مجاہدین نے جام شہادت نوش کیا.17 جون 1950ء کو اس کی سبکدوشی عمل میں آئی.حضرت مصلح موعود خود بھی محاذ پر تشریف لے گئے اور معائنہ فرمایا.1965ء میں خدمات: حضرت مصلح موعودؓ کے دور خلافت کے آخری ایام میں 1965ء میں کشمیر کے محاذ پر احمدی جرنیلوں خاص طور پر جنرل اختر حسین ملک نے تاریخی خدمات سرانجام دیں جن کا ایک زمانہ معترف ہے.ایک جاری وعدہ حضرت مصلح موعودؓ نے نہایت اولوالعزمی کے ساتھ سالانہ جلسہ 1931 ء پر واضح اعلان فرمایا کہ: میں نے اپنے نفس سے اقرار کیا ہے اور طریق بھی یہی ہے کہ مومن جب کوئی کام شروع کرے تو اسے ادھورا نہ چھوڑے.میں نے کشمیر کے مسلمانوں سے وعدہ کیا ہے کہ جب تک کامیابی حاصل نہ ہو جائے خواہ سو سال لگیں.ہماری جماعت ان کی مدد کرتی رہے گی اور آج میں اعلان کرتا ہوں کہ کل پرسوں ترسوں سال دو سال سود و سو سال جب تک کام ختم نہ ہو جائے ہماری جماعت کام کرتی رہے گی...پس ہماری جماعت کو مسلمانان کشمیر کی امداد جاری رکھنی چاہئے.جب تک کہ ان کو اپنے حقوق حاصل نہ ہو جائیں.خواہ اس کے لئے کتنا عرصہ لگے اور خواہ مالی اور خواہ کسی وقت جانی قربانیاں بھی الفضل 10 جنوری 1932 ء.انوار العلوم جلد 12 ص 405 ) کرنی پڑیں.پس اہل کشمیر کو حقوق ملنے تک جماعت کی طرف سے خدمت کا یہ سلسلہ جاری رہے گا.
302 صنعت و حرفت اور تجارت کے متعلق تحریکات حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ایک طرف تو جماعت کو اعلیٰ دینی و دنیوی تعلیم حاصل کرنے کی طرف توجہ دلا رہے تھے تو دوسری طرف تمام لوگوں کو حسب عمر و حالات پیشے سیکھنے کی ترغیب دلا رہے تھے.جس کا مقصد یہ تھا کہ کوئی احمدی کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے بلکہ طیب مال حاصل کر کے دین کی خدمت بھی کر سکے.اسی ضمن میں آپ نے بریکاری کے خلاف زبردست تحریک چلائی اور فرمایا کہ بریکاری قوم کی تباہی اور بربادی کا موجب ہوتی ہے.ہندوستان میں تجارت قریباً تمام کی تمام ہندوؤں کے ہاتھ میں تھی جو مسلمان اس طرف توجہ کرتے تھے.وہ اس لئے کامیاب نہیں ہو سکتے تھے کہ درمیان کے سارے راستے ہندوؤں کے قبضہ میں تھے.جب ملک میں آزادی کا احساس پیدا ہونا شروع ہوا تو مسلمانوں کو بھی صنعت کا خیال آیا.لیکن بڑھئی، جلا ہے، معمار، لوہار جو پہلے زیادہ تر مسلمان ہوتے تھے وہ گرے ہوئے برتاؤ کی وجہ سے اپنے اپنے بیشہ کو حقیر سمجھ کر چھوڑ چکے اور اس کی جگہ دوسرا کام اختیار کر چکے تھے.اس لئے اس تحریک سے بھی زیادہ تر فائدہ ہندوؤں ہی نے حاصل کیا اور وہ تجارت کے قریباً تمام شعبوں پر قابض ہو گئے.حتی کہ ذبیحہ گاؤ کے سوال پر آئے دن جا بجا فسادات بر پا کرنے کے باوجود چمڑے کی تجارت کے بھی مالک بن بیٹھے.صنعتی تحریک حضرت خلیفۃ لمسیح الثانی نے مشاورت 1931ء کے موقع پر دوسرے مسلمانوں کوعموماً اور اپنی جماعت کو خصوصاً اس نازک صورتحال کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ جماعتی ترقی کے لئے صنعت و حرفت اور تجارت ضروری چیزیں ہیں اور اگر مسلمانوں نے جلد ہی ادھر توجہ نہ کی تو ان پر ترقی کے راستے ہمیشہ کے لئے بند ہو جائیں گے.حضور نے اس سلسلہ میں ایک صنعتی تحریک جاری کرنے کا قصد فر مایا اور اس کی سکیم بنانے کے لئے مشتمل ایک کمیٹی بنادی.چند تجربه کاراصحاب صنعتی تحریک کی سکیم کے مطابق قادیان میں پہلا کارخانہ ”ہوزری فیکٹری“ کے نام سے کھولا گیا جو
303 1923ء سے 1947 ء تک بڑی کامیابی سے چلتا رہا.1934ء میں تحریک جدید کے مطالبات میں آپ نے 15 واں مطالبہ یہ کیا.وہ نوجوان جو گھروں میں بیکار بیٹھے روٹیاں توڑتے رہتے ہیں اور ماں باپ کو مقروض بنا رہے ہیں ان کو چاہئے کہ اپنے وطن چھوڑیں اور نکل جائیں.سترھویں مطالبہ میں فرمایا:.جولوگ بریکار ہیں وہ بیکار نہ رہیں.اگر وہ اپنے وطنوں سے باہر نہیں جاتے تو چھوٹے سے چھوٹا جو ا کام بھی انہیں مل سکے وہ کر لیں.اخبار میں اور کتا بیں ہی بیچنے لگ جائیں.ریز روفنڈ کے لئے روپیہ جمع کرنے کا کام شروع کر دیں.غرض کوئی شخص بیکار نہ رہے خواہ اسے مہینہ میں دوروپے کی ہی آمدنی ہو.دار الصناعت الفضل 9 دسمبر 1934 ء ) احمدی نوجوانوں میں صنعت و حرفت کا شوق پیدا کرنے کے لئے (محلہ دارالبرکات قادیان میں ) دار الصناعت قائم کیا گیا جس کا افتتاح حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے 2 مارچ 1935 ء کو فرمایا.اس موقعہ پر حضور نے زندہ لے کر خود اپنے دست مبارک سے لکڑی صاف کی اور آرمی سے اس کے دو ٹکڑے کر کے عملاً بتادیا کہ اپنے ہاتھوں سے کوئی کام کرنا ذلت نہیں بلکہ عزت کا موجب ہے.دار الصناعت میں طلباء کی تعلیم و تربیت اور رہائش کا انتظام تحریک جدید کے ذمہ تھا.ابتدائی مسائل اور عقائد کی زبانی تعلیم بھی دی جاتی تھی.اس کے تین شعبے (نجاری ، ہنگری اور چرمی ) تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے بابوا کبر علی صاحب کو ( جو محکمہ ریلوے انسپکٹر آف ورکس کی اسامی سے ریٹائر ہو کر آئے تھے ) آنریری طور پر صنعتی کاموں کا نگران مقرر فرمایا.یہ صنعتی ادارہ 1947 ء تک بڑی کامیابی سے چلتا رہا.) تاریخ احمدیت جلد 8 ص 67 پیٹے سیکھیں 21 /اپریل 1939ء کے خطبہ جمعہ میں حضور نے ایک جامع سکیم کا اعلان کیا جس کے 2 حصے ہیں.
304 یکم نومبر 1939ء کو قادیان کا کوئی مرد اور 10 سال عمر کا بچہ ان پڑھ نہ رہے.کوئی شخص بے ہنر نہ رہے اور ہر احمدی کوئی نہ کوئی پیشہ سیکھے.آپ نے فرمایا:.کتابی تعلیم کی نسبت عملی تعلیم کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور اسی لئے میں نے تحریک جدید میں یہ بات بھی رکھی تھی کہ کوئی شخص بے ہنر نہ رہے ہر احمدی کو کوئ نہ کوئی پیشہ آنا چاہئے اور اس لئے میں صرف لفظی تعلیم پر بس نہیں کروں گا بلکہ کوشش کروں گا کہ ہر فرد کوئی نہ کوئی پیشہ جانتا ہو.کوئی نجاری، کوئی لوہار کا کام، کوئی موچی کا کام، کوئی کپڑا بنا اور کوئی معماری وغیرہ جانتا ہو.غرضیکہ ہر شخص کوئی نہ کوئی پیشہ اور فن جانتا ہو.اسی طرح بعض اور باتیں جو عملی زندگی میں کام آنے والی ہیں وہ بھی سیکھنی چاہئیں میں انہیں کھیلیں نہیں بلکہ کام ہی سمجھتا ہوں مثلاً گھوڑے کی سواری، تیرنا، کشتی چلانا اور تیراندازی وغیرہ ہیں.ہر احمدی کوشش کرے کہ ان میں سے کوئی نہ کوئی کام سیکھے اور ہو سکے تو سب سیکھے میری تجویز یہ ہے کہ پہلے تو تین ماہ (چھ ماہ) کے عرصہ میں سب کو کتابی تعلیم دے دی جائے اس کے بعد حرفہ کی طرف توجہ کی جائے اور جن کو خدا تعالیٰ توفیق دے وہ مجھے لکھیں کہ وہ کیا کیا پیشے جانتے ہیں اور کتنے لوگوں کو کتنے عرصہ میں سکھا سکتے ہیں اور کیا کیا انتظامات ضروری ہیں.میں چاہتا ہوں کہ سب لوگ کوئی نہ کوئی پیشہ سیکھ جائیں.کوئی نجاری، کوئی معماری اور کوئی لوہار کا کام اور کوئی موچی کا کام یہ کام اتنے اتنے سیکھ لئے جائیں کہ گھر میں بطور شغل اختیار کئے جاسکیں اور اگر کوئی مہارت پیدا کرے تو وہ اختیار ( الفضل 29 اپریل 1939ء) بھی کر سکے.نتجارت کرو: حضور نے 21 نومبر 1952ء کو خدام الاحمدیہ کو تلقین کی میں اپنے نو جوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ تعلیم محض اس لئے حاصل نہ کریں کہ اس کے نتیجہ میں انہیں نوکریاں مل جائیں گی.نوکریاں قوم کو کھلانے کا موجب نہیں ہوتیں بلکہ نوکر ملک کی دولت کو کھاتے ہیں.اگر تم تجارتیں کرتے ہو، صنعتوں میں حصہ لیتے ہو، ایجادوں میں لگ جاتے ہو تو تم ملک کو کھلاتے ہو اور یہ صاف بات ہے کہ کھلانے والا کھانے والے سے بہترین ہوتا ہے.نوکریاں بیشک ضروری ہیں لیکن یہ نہیں کہ ہم سب نوکریوں کی طرف متوجہ ہو جائیں.ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہم
305 زیادہ سے زیادہ پیشے اختیار کریں تا کہ ملک کو ترقی حاصل ہو اور کم سے کم ملازمتیں کریں.صرف اتنی جن کی ملک کو اشد ضرورت ہو“.مشینوں پر کام کرو: حضور نے فرمایا:.(الفضل 14 دسمبر 1952ء) ہمارے خدام کو مشینری کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ نے آجکل مشینوں میں برکت دی ہے.جو شخص مشینوں پر کام کرنا جانتا ہو، وہ کسی جگہ بھی چلا جائے اپنے لئے عمدہ گزارہ پیدا کر سکتا ہے.آجکل تمام قسم کے فوائد مشینوں سے وابستہ ہیں اور جتنا مشینوں سے آجکل کوئی قوم دور ہوگی اتنی ہی وہ ترقیات میں پیچھے رہ جائے گی اسی طرح اگر خدام لوہار ، ترکھان ، بھٹی اور دھونکنی کا کام سیکھیں تو ان کی ورزش کی ورزش بھی ہوتی رہے گی اور پیشہ کا پیشہ بھی ہے.چونکہ خدام کے لئے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالنا ضروری ہے.اگر خدام ایسے کام کریں تو وہ ایک طرف ہاتھ سے کام کرنے والے ہوں گے اور دوسری طرف اپنا گزارہ پیدا کرنے والے ہوں گے.مشعل راه جلد 1 ص 445 ) صنعتی مرکز متحدہ ہندوستان کے دور میں آپ نے قادیان میں تحریک جدید کے زیر انتظام لو ہے ، لکڑی اور چھڑے کے کارخانے جاری کرائے.اس کے علاوہ مختلف احمدی صناعوں کی کوشش سے شیشہ سازی اور دوسری اشیاء کے متعدد کار خانے شروع ہوئے.مثلاً سٹار ہوزری جس کے ذریعہ ایک ہزار کے قریب افراد کو روزگار میسر آیا اور متعدد گھروں میں مشینیں نصب ہوئیں.اس کارخانہ نے مکرم بابو اکبر علی صاحب جیسے لائق اور قابل انسان کے ہاتھ میں بہت ترقی کی.قادیان کا مشہور کارخانہ میک ورکس تھا جس کی وجہ سے قادیان کی صنعتی شہرتِ دور دور کے شہروں تک پھیل گئی تھی.اس کے علاوہ اکبر علی اینڈ سنز جنرل سروس احمد برادرز، پیرورکس مکینیکل انڈسٹریز ، آئرن سٹیل میٹل وغیرہ کا رخانے لوہے کا کام کرتے تھے.جگہ جگہ بھٹیاں جل رہی تھیں.لوہا پگھل رہا تھا اور مختلف اشیاء ڈھل رہی تھیں.کہیں آتا پینے کی مشینیں نصب تھیں.کہیں روئی دھنے کی کھلیں اور کہیں لکڑی چیرنے کی مشینیں چل رہی تھیں.موسم گرما میں متعدد سوڈا واٹر فیکٹریاں کام کرتی تھیں.عطریات کے لئے پر فیومری کا کارخانہ تھا.ایک
306 کارخانہ شیشے کا بھی تھا.غرض قادیان کی مقدس بستی روحانی اور تعلیمی اعتبار ہی سے نہیں صنعتی طور پر بھی ملک کا ایک مشہور مرکز بن چکی تھی.یہ صنعتی سرگرمیاں حضرت مصلح موعودؓ کی خصوصی توجہ ، شوق اور سر پرستی کی رہین منت تھیں.اس سلسلہ میں حضور کے دلی جذبات کیا تھے؟ اس کا کسی قدر اندازہ حضور کی مندرجہ ذیل تقریر سے بخوبی عیاں ہے.حضور نے مجلس مشاورت 1936ء کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: میں نہیں جانتا کہ دوسرے دوستوں کا کیا حال ہے.لیکن میں تو جب ریل گاڑی میں بیٹھتا ہوں.میرے دل میں حسرت ہوتی ہے کہ کاش یہ ریل گاڑی احمدیوں کی بنائی ہوئی ہو اور اس کی کمپنی کے وہ مالک ہوں اور جب میں جہاز میں بیٹھتا ہوں تو کہتا ہوں کہ کاش یہ جہاز احمدیوں کے بنائے ہوئے ہوں اور وہ ان کمپنیوں کے مالک ہوں.میں پچھلے دنوں کراچی گیا تو اپنے دوستوں سے کہا.کاش کوئی دوست جہاز نہیں تو کشتی بنا کر ہی سمندر میں چلانے لگے اور میری یہ حسرت پوری کر دے اور میں اس میں بیٹھ کر کہہ سکوں کہ آزاد سمندر میں یہ احمدیوں کی کشتی پھر رہی ہے.دوستوں سے میں نے یہ بھی کہا.کاش کوئی دس گز کا ہی جزیرہ ہو جس میں احمدی ہی احمدی ہوں اور ہم کہہ سکیں کہ یہ احمدیوں کا ملک ہے کہ بڑے کاموں کی ابتداء چھوٹی ہی چیزوں سے ہوتی ہے.یہ ہیں میرے ارادے اور یہ ہیں میری تمنائیں.ان کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم کام شروع کریں.مگر یہ کام ترقی نہیں کر سکتا.جب تک کہ ان جذبات کی لہریں ہر ایک احمدی کے دل میں پیدا نہ ہوں اور اس کے لئے جس قربانی کی ضرورت ہے وہ نہ کی جائے.دنیا چونکہ صنعت و حرفت میں بہت ترقی کر چکی ہے اس لئے احمدی جو اشیاء اب بنائیں گے وہ شروع میں مہنگی پڑیں گی.مگر باوجود اس کے جماعت کا فرض ہے کہ انہیں خریدے“.رپورٹ مجلس مشاورت منعقد 10, 11, 12 اپریل 1936ء ص 129 130 ) ربوہ میں کارخانوں کی تحریک 1947ء میں ملک کے بٹوارا کے بعد یہ کارخانے قادیان میں رہ گئے.لیکن اس کے باوجود قادیان رمشرقی پنجاب کے احمدی صناعوں نے ہمت نہیں ہاری اور بدلے ہوئے حالات میں پاکستان میں
307 پہنچ کر ملک و قوم اور جماعت کی خدمت کے لئے پھر سے اپنی صنعتی سرگرمیاں شروع کر دیں.جہاں تک جماعت کے نئے مرکز ربوہ کا تعلق ہے اس نئی بستی میں بھی ایک محدود پیمانے پر صنعت و حرفت کے کاموں کی داغ بیل ڈالی گئی.مگر ان پر صدر انجمن احمد یہ پاکستان کا کنٹرول تھا.لیکن 1955ء میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے سفر یورپ سے واپسی کے بعد مخلص احمدی صناعوں کو تحریک فرمائی کہ وہ یہاں اپنے کارخانے جاری کرنے کے لئے صدر انجمن احمدیہ سے رابطہ قائم کریں انہیں مناسب سہولتیں مہیا کی جائیں گی.یہ تحریک حسب ذیل الفاظ میں تھی :.ربوہ میں صنعتوں وغیرہ کے متعلق پہلے یہ طریق تھا کہ صدرانجمن احمد یہ کوشش کرتی تھی کہ ان کو اپنے ہاتھ میں رکھے.لیکن اب اگر مخلص احمدی صناع یہاں کوئی صنعت شروع کرنا چاہیں تو ان کو اس کی اجازت دی جائے گی بشرطیکہ وہ اپنی صنعت میں نیک آدمی بطور لیبر لگائیں جو فسادی اور شرارتی نہ ہوں.اس سلسلہ میں صدرانجمن احمد یہ مناسب سہولتیں بھی بہم پہنچائے گی.مثلاً کارخانہ کی عمارت وغیرہ کے لئے زمین ربوہ کی قیمتوں کے لحاظ سے نسبتاً سستے داموں دے گی.خواہش مند احباب جلد درخواستیں بھجوائیں بلکہ مخلص احباب کا فرض ہے کہ وہ اس طرف فوری توجہ کریں تا کہ ربوہ کی آبادی کی صورت پیدا ہو.خصوصاً کپڑا بننے والے لوگ اور مستری جو لیتھوں (Lathe) وغیرہ کا کام کرتے ہیں.جلد توجہ کریں یہ ثواب کا ثواب ہے اور فائدہ کا فائدہ.قادیان میں جن لوگوں نے کارخانے جاری کئے تھے.خدا تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے بہت کچھ فائدہ اٹھایا تھا.حضور کی یہ تحریک پہلی بار الفضل مورخہ 21 /اکتوبر 1955ء ص 5 پر شائع ہوئی.الفاظ مبارک حضور پر نور ہی کے تھے مگر اعلان قائم مقام ناظر امور عامہ کی طرف سے تھا.تاجروں کی تنظیم : جلسہ سالانہ 1944ء پر حضور نے جماعتی تاجروں کی تنظیم کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:.یہ بھی ضروری ہے کہ جماعت کی تجارتی تنظیم بھی ہو جائے.اب میں نے مرکز میں اس کے لئے ایک ادارہ بھی قائم کر دیا ہے اور سیکرٹری مقرر کر دیا ہے کیونکہ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ساتھ تجارتی تنظیم کا کام بہت ضروری ہے.اب بعض چیزیں قریباً تیار ہیں مگر انہیں کامیابی کے ساتھ چلانے کے لئے دوستوں کے تعاون کی ضرورت ہے.مثلاً یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ اس قسم کی چیزوں میں دلچسپی
308 لینے والے تاجر کون ہیں جن کے پاس ان کو فروخت کیا جا سکتا ہے یا جن کے ساتھ مل کر کام کو چلایا جاسکتا ہے.اگر دوست اس کام میں دلچسپی لیں تو خود ان کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے اور سب سے بڑی چیز جو میرے مد نظر ہے یہ ہے کہ تاجروں کو منظم کر کے تبلیغ کے کام کو وسیع کیا جائے.بعض سکیمیں ایسی ہیں کہ جن سے تاجروں کو بھی کافی فائدہ پہنچ سکتا ہے اور تبلیغ کے کام میں بھی مددمل سکتی ہے.یہ سب باتیں میں اسی صورت میں بیان کر سکتا ہوں کہ تجارتی تنظیم مکمل ہو جائے اور احمدی تاجروں کی انجمن قائم ہو جائے.جماعتی تعاون تجارت میں بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے کئی ایسے لوگ ہیں جو تجارتی کاموں میں پڑنا چاہتے ہیں مگر ان کو واقفیت نہیں ہوتی کہ کیا کام شروع کریں، کس طرح کریں اور کہاں سے کریں.بعض کے پاس سرمایہ نہیں ہوتا ، بعض کے پاس سرمایہ تو تھوڑا بہت ہوتا ہے مگر انہیں کام کرنے کا ذریعہ معلوم نہیں ہوتا.اگر جماعت کی تجارتی تنظیم ہو جائے تو ایک دوسرے کو بہت مددمل سکتی ہے.پھر کئی ایسے ممالک ہیں کہ اگر احمدی تاجر وہاں جائیں تو بہت جلد ترقی کی امید کر سکتے ہیں.پس میں جماعت کے تاجروں کو اپنے اس خطبہ کی طرف توجہ دلاتا ہوں.تبلیغ کے سلسلہ کے لئے ان کا جلد از جلد منتظم ہونا بہت ضروری ہے.ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں ہر جگہ اس وقت مزدوروں اور کارخانہ داروں کے درمیان لڑائیاں جاری ہیں لیکن ہم ایسے رنگ میں اس سکیم کو چلانا چاہتے ہیں کہ ایسے جھگڑے پیدا ہی نہ ہوں اور دونوں ترقی کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کر سکیں اور ہم اس کے لئے بہت سی باتیں بتاسکتے ہیں مگر پبلک میں ان کا بیان کرنا مناسب نہیں.تاجر احباب جلد سے جلد اپنی انجمن بنالیں جس کے سامنے میں یہ باتیں بیان کر دوں گا.احمدی تاجروں کو چاہئے کہ وہ جلد سے جلد اپنے نام تحریک جدید کے دفتر میں بھجوا دیں اور جس قسم کا تعاون کر سکیں کریں.ان کاموں کے چلانے کے لئے واقفین کی بھی ضرورت ہے اور نو جوانوں کو چاہئے کہ ان کاموں کے لئے اپنے آپ کو وقف کریں.(انوار العلوم جلد 17 ص 481) تجارتی سکیم حضور نے 28 دسمبر 1947ء کو جلسہ سالانہ کی تقریر میں ایک تجارتی سکیم کا اعلان کرتے ہوئے افرمایا:
309 اس وقت پاکستان بھی اور ہمارے آدمی بھی اس بات کے محتاج نہیں کہ وہ تجارتی اور صنعتی ترقی میں حصہ لیں اور چونکہ ہماری جماعت تجارت کی طرف پوری توجہ نہیں کر رہی اس لئے جس طرح جماعت کے افراد پر چندہ عام فرض ہے اسی طرح ان کے ذمہ ایک تجارتی چندہ بھی لگایا جائے گا.یہ تجارت مشترکہ کے لئے ایک جبری امانت کی سکیم ہوگی اور اس سے سارے ملک میں تجارتی دکا نہیں جاری کی جائیں گی اور پھر ترقی کرتے ہوئے بعض کا رخانے بھی کھولے جائیں گے.اس غرض کے لئے جو رقم جمع ہوگی وہ ساری کی ساری جماعت کی ہوگی اور نفع بھی جماعت کا ہی ہوگا.صرف ان کو تجارت کی اہمیت اور اس کی ضرورت سمجھانے کے لئے یہ جبری طریق جاری کیا جائے گا.ماں باپ کا فرض ہوتا ہے اگر ان کے بچے محبت اور پیار سے کوئی بات نہ سمجھیں تو جبر سے ان کو سمجھانے کی کوشش کی جائے.آپ لوگ میرے اور سلسلہ کے بچے ہیں اگر آپ لوگوں میں بیداری پیدا نہ ہوئی تو محض آپ کے فائدہ کے لئے ہر شخص کی حیثیت کے مطابق کچھ جبری چندہ عائد کیا جائے گا.میں سمجھتا ہوں آجکل کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ہر کمانے والے فرد سے کم از کم ایک روپیہ چندہ لیا جائے اور جو لوگ زیادہ دے سکتے ہوں وہ زیادہ دیں تو مالی لحاظ سے یہ کوئی خاص بوجھ نہیں ہوگا بلکہ اگر پچاس ساٹھ ہزار یا ایک لاکھ تک اس میں حصہ لینے والے نکل آئے تو ممکن ہے یہ چندہ ایک روپیہ سے بھی کم کر دیا جائے.مثلاً آٹھ آنے کر دیا جائے یا چار آنے کر دیا جائے.اس روپیہ سے جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ دکانیں کھولی جائیں گی اور کچھ کارخانے جاری کئے جائیں گے اور آہستہ آہستہ ان کو ترقی دینے کی کوشش کی جائے گی.ہماری جماعت زیادہ تر ملازموں اور زمینداروں کی جماعت ہے.تجارت کی طرف اس کی بہت کم توجہ ہے اور یہ توجہ نہیں ہو سکتی جب تک ایک رنگ کا جبران پر نہ کیا جائے.پس میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ آئندہ ہر شخص یا ہر جماعت پر کچھ نہ کچھ رقم اس کی حیثیت کے مطابق بطور چنده عائد کر دی جائے گی اور اس سے تجارتی دکانیں اور کارخانے قائم کئے جائیں گے مالک وہی ہوں گے ہم صرف مربی کے طور پر کام کریں گے.تجارتی لحاظ سے میں جماعت کو پھر اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ آڑھت کا کام کرنے کی کوشش کریں مجھ سے کئی ڈپٹی کمشنروں نے ذکر کیا ہے کہ ہم تلاش کرتے ہیں مگر مسلمان آڑھتی نہیں ملتا.آڑھت کا کام چھوٹے قصبات میں ایک ہزار روپیہ سے اور درمیانی قصبات میں پانچ ہزار روپیہ
310 سے اور اچھی منڈیوں مثلاً اوکاڑہ وغیرہ میں ہیں پچیس ہزار روپیہ سے چلایا جاسکتا ہے.پس دوستوں کو آڑھت کی طرف خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے اور ایک ایک دو دو ایکڑ زمین لینے کا خیال اپنے دلوں سے نکال دینا چاہئے.تاجر مصیبت کے اوقات میں بھی فائدہ میں رہتا ہے جہاں مصیبت آئی وہاں سے کام چھوڑ کر دوسری جگہ چلا جاتا ہے اور پھر جن قوموں نے دنیا کو ہلانا ہو ان کے لئے تو بہت ہی ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنی حرکت کو آزا در تھیں.انہیں اپنے وجود کو اس طرح باندھنا نہیں چاہئے کہ وہ ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف حرکت نہ کر سکیں.یہ چیز ایسی ہے جس کے متعلق دوستوں کا فرض ہے کہ وہ اور لوگوں کو بھی جو ان کے واقف ہوں سمجھائیں کہ زمین پر بیٹھے رہنے سے کیا فائدہ اگر کامیاب زندگی بسر کرنا چاہتے ہو تو تجارت میں حصہ لو.(انوار العلوم جلد 19 ص (397) صنعت و حرفت اور عورتیں: حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:.صنعت و حرفت کی طرف غریب عورتوں کو متوجہ کرنا اور انہیں کام پر لگانا.یہ کام کو آہستہ آہستہ ہو رہا ہے لیکن اگر استقلال اور ہمت سے اس کام کو جاری رکھا گیا تو میں امید کرتا ہوں کہ وہ بیواؤں اور یتنامی کا مسئلہ حل کرنے میں کسی دن کامیاب ہو جائیں گی.لجنہ کے اس کام میں تاجروں کی امداد کی بھی ضرورت ہے.انہیں چاہئے کہ جو چیزیں بنوائے وہ انہیں بیچ دیا کریں.اس میں ان کا بھی فائدہ ہوگا کیونکہ آخر وہ نفع ہی پر بیچیں گے اور غربا کا بھی فائدہ ہے کہ ان کے گزارہ کی صورت ہوتی رہے گی.میں چاہتا ہوں کہ اس کام کو اتنا وسیع کیا جائے کہ نہ صرف قادیان میں بلکہ بیرونی جماعتوں میں بھی کوئی بیوہ اور غریب عورت ایسی نہ رہے جو کام نہ ملنے کی وجہ سے بھو کی رہتی ہو.ہمارے ملک میں یہ ایک بہت بڑا عیب ہے کہ بھوکا رہنا پسند کریں گے مگر کام کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے.جامع ہدایات مشعل راه جلد اول ص 87 ) تجارت سے متعلق حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت کو مختلف اوقات میں تفصیل سے جو ہدایات دیں ان کا ایک مختصر خلاصہ درج ذیل ہے.
311 1.احباب چھوٹے پیمانہ پر اور چھوٹے سرمایہ سے کام شروع کریں.2.بیکا ر احمدیوں کو کام پر لگائیں اور افراد جماعت کو روزگار مہیا کرنے میں مدد کریں.3.تاجر اور صناع دوسرے احمدیوں کو تجارت اور صناعت کی تربیت دیں.(انوار العلوم جلد 2 ص 583 4.اس خیال میں تبدیلی پیدا کرنی چاہئے کہ کوئی پیشہ ذلیل ہے اور مختلف پیشوں اور تجارت کی طرف توجہ کرنی چاہئے.5.احمدی تاجر باہمی تعاون کریں.(رپورٹ مجلس مشاورت 1931ء) (رپورٹ مجلس مشاورت 1931 ء ) 6.سوچنے اور غور وفکر میں لگے رہیں اور عقل وفراست سے کام لیں.مشعل راه جلد اول)
312 تحریک و قار مل حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک طرف تو بے کاری کے خلاف زبر دست تحریک چلائی تو دوسری طرف جماعت کو جھوٹی عزت کے جذبات سے پاک کرنے اور صفائی کا شعور پیدا کرنے کے لئے ہاتھ سے کام کرنے کی ترغیب دلائی اور اس اہم کام کو تحریک جدید کے مطالبات میں شامل فرمایا.’ جماعت کے دوست اپنے ہاتھ سے کام کی عادت ڈالیں.میں نے دیکھا ہے اکثر لوگ اپنے ہاتھ سے کام کرنا ذلت سمجھتے ہیں حالانکہ یہ ذلت نہیں بلکہ عزت کی بات ہے.یہ تحریک میں قادیان سے شروع کرنا چاہتا ہوں اور باہر گاؤں کی احمد یہ جماعتوں کو ( بھی ) ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اپنی ( بیوت الذکر ) کی صفائی اور لپائی وغیرہ خود کیا کریں اور اس طرح ثابت کریں کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنا وہ عار نہیں سمجھتے.شغل کے طور پر لوہار، نجار اور معمار کے کام بھی مفید ہیں.رسول کریم کو اپنے صلى الله ہاتھ سے کام کیا کرتے تھے.یہ تربیت ثواب اور رعب کے لحاظ سے بھی بہت مفید چیز ہے.جو لوگ یہ دیکھیں گے کہ ان کے بڑے بڑے بھی مٹی ڈھونا اور مشقت کے کام کرنا عار نہیں سمجھتے.ان پر (الفضل 9 دسمبر 1934ء) خاص اثر ہوگا.حضور نے اس سلسلہ میں اپنا ذاتی نمونہ پیش کر کے دلوں کو گرمایا.فرماتے ہیں.” جب پہلے دن میں نے کسی پکڑی اور مٹی کی ٹوکری اٹھائی تو کئی مخلصین ایسے تھے جو کانپ رہے تھے اور دوڑے دوڑے آئے اور کہتے حضور تکلیف نہ کریں ہم کام کرتے ہیں اور میرے ہاتھ سے کسی اور ٹوکری لینے کی کوشش کرتے.لیکن جب چند دن میں نے ان کے ساتھ مل کر کام کیا تو پھر وہ عادی ہو 66 گئے اور وہ سمجھنے لگے کہ یہ ایک مشترکہ کام ہے جو ہم بھی کر رہے ہیں اور یہ بھی کر رہے ہیں.“ تاریخ احمدیت جلد 8 صفحہ 50) چنانچہ قادیان اور جماعت کی دوسری آبادیوں میں صفائی کا تازہ ولولہ پیدا ہو گیا.حضرت مصلح موعودؓ نے 1938ء میں مجلس خدام الاحمدیہ کی بنیاد رکھی.ابتداء تنظیم کی ذمہ داریاں علمی میدان تک محدود تھیں لیکن اپریل 1938ء میں ہی حضرت مصلح موعودؓ نے اس پروگرام کو وسعت دی اور اس کے منشور میں پانچ نکات مزید شامل کئے جن میں پہلا نکتہ اپنے ہاتھ سے روزانہ اجتماعی
313 ،، صورت میں آدھ گھنٹہ کام کرنا تھا.یہ وقار عمل کی ابتدائی شکل تھی.“ خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اپریل 1938ء میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:.اگر ان ( نوجوانوں ) کے ذہن میں یہ بات ڈال دی جائے اور ان کے قلوب پر اس کا نقش کر دیا جائے کہ جو شخص کام کرتا ہے وہ عزت کا مستحق ہے اور جو کام نہیں کرتا بلکہ نکما رہتا ہے وہ اپنی قوم اور اپنے خاندان کے لئے عار کا موجب ہے اور اس چمار کے بیٹے سے بدتر ہے جو کام کرتا ہے.تو یقینا اگلی نسل درست ہو سکتی ہے اور پھر وہ نسل اپنے سے اگلی نسل کو ، یہاں تک کہ یہ باتیں قومی کیریکٹر میں داخل ہو جائیں“.تاریخ مجلس خدام الاحمدیہ جلد اول ص 23) وقار عمل کی تحریک سے حضور کا اولین مقصد نکے پن اور بریکاری کی عادت کونو جوانوں سے دور کر کے ان کا قومی کیریکٹر بلند کرنا تھا.خدام الاحمدیہ نے اس اجتماعی کام کی شکل کو وقار عمل کے نام سے موسوم کیا.اگر چہ وقار عمل کا سلسلہ خدام الاحمدیہ کی بنیاد سے پہلے بھی جاری تھا لیکن حضرت مصلح موعودؓ کے ارشادات کی تعمیل میں وقار عمل کو عروج تک پہنچانے کا سہرا خدام الاحمدیہ کے سر ہے.مجلس خدام الاحمدیہ کے سال 40-1939 ء سے ہر دو ماہ بعد اجتماعی و قار عمل کا سلسلہ شروع کر دیا گیا.اور اس سال چھ مرتبہ اجتماعی وقار عمل کئے گئے اور ایک ہزار روپے سے زائد رقم کی بچت کی گئی.ابتداء میں قادیان سے شروع ہونے والا کام ملک کے دیگر حصوں میں بھی مقبول ہوتا گیا.وقار عمل کا مقصد وقار عمل کا حقیقی مقصد بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں.” میں نے جماعت کو عموماً اور خدام کو خصوصاً اس امر کی ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں اور کسی کام کو بھی عار نہ سمجھیں.معین اور واضح سکیم بنائیں: مشعل راه جلد اول ص 429 ) وقار عمل کے طریقہ کار کے حوالے سے حضور نے سب سے بنیادی اور اہم بات یہ بیان فرمائی کہ واضح پروگرام اور سکیم کے تحت وقار عمل کریں.یونہی سوچے سمجھے بغیر نہ کریں.حضور خطبہ جمعہ فرمودہ
314 30 فروری 1939ء میں وقار عمل کا طریقہ کار سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں:.و مجلس خدام الاحمدیہ کے ممبران کو چاہئے کہ وہ ایک پروگرام بنا کر اس کے ماتحت کام کیا کریں.یونہی بغیر سوچے سمجھے کام کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ اب بھی ہاتھ سے کام کرتے ہیں مگر وہ کام کسی پروگرام کے مطابق نہیں ہوتا.حالانکہ جس طرح بجٹ تیار کئے جاتے ہیں اسی طرح انہیں اپنے کام کے پروگرام واضح کرنے چاہئیں.مثلاً ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ہے.اس بارہ میں یونہی بغیر پروگرام کے ادھر ادھر کام کرتے پھرنے کی بجائے اگر وہ کسی ایک سڑک کو لے لیں اور اپنے پروگرام میں یہ بات شامل کر لیں کہ انہوں نے سڑک پر بھرتی ڈال کر اسے ہموار کرنا اور اس کے گڑھوں کو پر کرنا ہے یا اسی طرح کا کوئی اور کام اپنے ذمہ لے لیں اور اسے وقت معین کے اندر مکمل کریں تو یہ بہت عمدہ نتیجہ پیدا کرے گا.بہ نسبت اس کے کہ بغیر ایک معین پروگرام کے وہ کام کرتے جائیں.مگر یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ بھرتی کے کیا معنی ہیں.گزشتہ سال جلسہ سالانہ پر چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب آئے تو انہوں نے مجلس خدام الاحمدیہ کے اراکین سے کہا کہ اب کی دفعہ جب کام کرو تو مجھے بھی بلا لینا چنانچہ انہوں نے انہیں بلایا اور وہ بھی ہاتھ سے کام کرتے رہے.مگر چوہدری صاحب نے مجھے بتایا کہ ان کے ساتھ مل کر کام کرنے میں مجھے معلوم ہوا کہ ان کے کام میں ایک نقص بھی ہے اور وہ یہ کہ سڑک پر جب وہ مٹی ڈال رہے تھے سڑک کے پاس ہی ایک گڑھا کھود کر وہاں سے مٹی لے آتے تھے.میں نے انہیں کہا کہ اس کا تو یہ مطلب ہے کہ آج آپ سڑک کے گڑھے پر کریں اور کل آپ ان گڑھوں کو پر کرنے لگ جائیں جو اس سڑک پر مٹی ڈالنے کے لئے آپ نے کھود لئے ہیں.تو یہ ایک نقص ہے جو خدام الاحمدیہ کے کام میں ہے اور اسے دور کرنا چاہئے.مگر اس کے علاوہ ضروری بات یہ ہے کہ وہ ایک سڑک یا ایک گلی لے لیں اور اس کی صفائی اور مرمت اس حد تک کریں کہ اس سڑک یا گلی میں کوئی نقص نہ رہے.مثلاً وہ ایک سڑک کس طرح درست کرنا چاہتے ہیں تو ان کا فرض ہے کہ وہ انجینئروں سے مشورہ لیں اور ان سے پوچھیں کہ یہ سڑک کس طرح درست ہو سکتی ہے.پھر جو طریق وہ بتائیں اور جو نقشہ انجینئر تجویز کریں.اس کے مطابق وہ اس سڑک کی درستی کریں اور چھ مہینے یا سال جتنا وقت بھی اس پر صرف ہو اتنا وقت اس پر صرف کیا جائے.اور اس سڑک کو انجینئر کے بتائے ہوئے نقشہ کے مطابق درست کیا جائے.مگر اب یہ ہوتا ہے کہ چند مٹی کی ٹوکریاں ایک گڑھے میں ڈال
315 دی جاتی ہیں اور چند دوسرے گڑھے میں اور کسی کو پتہ بھی نہیں لگتا کہ کوئی کام ہوا ہے.پس پہلی ہدایت تو یہ ہے کہ کوئی ایک کام شروع کیا جائے اور اسے ایسا مکمل کیا جائے کہ کوئی انجینئر بھی اس میں نقص نہ نکال سکے.دوسری یہ بات ہے کہ میں نے دیکھا ہے کہ دوسرے آدمیوں سے کوئی کام نہیں لیا جاتا.حالانکہ خدام الاحمدیہ کے کام کرنے کے یہ معنی نہیں کہ دوسروں کے لئے اس میں حصہ لینا ممنوع ہے.مشعل راه جلد اول ص 90 ، 91 ) کام کی تقسیم اور مقابلہ جات: ہیں:.حضرت مصلح موعود اپنی تقریر فرمودہ سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ 21 اکتوبر 1945 ء میں فرماتے یہ ضروری ہے کہ روزانہ کام کرنے کی عادت پیدا کی جائے اور کام کی نوعیت کو بدل دیا جائے.مثلاً ہر محلہ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بنا کر اس محلہ والوں کے ذمہ لگا دیئے جائیں اور ان کا روزانہ کام یہ ہو کہ ان کی صفائی، درستی اور پانی کے نکاس وغیرہ کا خیال رکھیں اور ہر محلہ کے خدام اپنے محلہ کے صفائی کے ذمہ دار قرار دیئے جائیں اور بجائے مہینہ یا دو مہینہ کے بعد جمع ہو کر کسی سڑک پر مٹی ڈالنے کے ، میرے نزدیک یہ طریق بہت مفید ثابت ہو گا کہ گلیاں اور سڑکیں محلہ وار تقسیم کر دی جائیں کہ فلاں گلی اور سڑک کا فلاں محلہ ذمہ دار ہے اور اس کی صفائی اور درستی نہ ہونے کی صورت میں اس سے پوچھا جائے گا.اسی طرح محلہ کے گھروں کے متعلق بھی چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بنا کر خدام میں تقسیم کر دیئے جائیں اور وہ ان گھروں کے سامنے کی صفائی کے ذمہ دار ہوں گے.ہر مہینہ میں ایک دن معائنہ اور ނ مقابلہ کے لئے مقرر کیا جائے اور تمام محلوں کا دورہ کر کے دیکھا جائے کہ کس محلہ کی صفائی سب.اچھی ہے.جس محلہ کی صفائی سب سے اچھی ہو اس کے خدام کو کوئی چیز انعام کے طور پر دی جائے تاکہ تمام محلوں میں ایک دوسرے سے مسابقت کی روح پیدا ہو.مشعل راه جلد اول ص 430-431) سارا دن کام کریں: حضرت مصلح موعودؓ خطبہ جمعہ 3 فروری 1939ء میں وقار عمل کے لئے ایک اہم ہدایت دیتے ہوئے فرماتے ہیں.میرے نزدیک مجلس خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ وہ مہینہ میں ایک دن ایسا مقرر کر دیں.جس میں
316 ساری جماعت کو شمولیت کی دعوت دیں.بلکہ میرے نزدیک شاید یہ زیادہ مناسب ہوگا کہ بجائے ایک گھنٹہ کام کرنے کے سارا دن کام کے لئے رکھا جائے.ایک گھنٹہ کا تجربہ کوئی ایسا مفید ثابت نہیں ہوا.پس آئندہ کے لئے بجائے ایک گھنٹہ کے سارا دن رکھا جائے اور کوشش کی جائے کہ مہینہ دو مہینہ میں ایک دن تمام لوگ اس کام میں شریک ہوں.بلکہ میرے نزدیک لوگوں کی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ زیادہ مناسب ہو گا کہ دو مہینہ میں ہی ایک دن ایسا رکھا جائے جس میں تمام لوگ صبح سے شام تک اپنے ہاتھ سے کام کریں.اس طرح سال میں چھ دن بن جاتے ہیں.مشعل راه جلد اول ص 92) سارا دن کام کرنے کی افادیت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.شاید سارا دن کام کرنا نتائج کے لحاظ سے زیادہ مفید ثابت ہو.اس طرح سال میں چھ دن بن جاتے ہیں اور اگر ایک دن میں ایک ہزار آدمی بھی صبح سے لے کر شام تک کام کریں تو چھ ہزار مزدور کا کام بن جاتا ہے اور چھ ہزار مزدور کا کام کوئی معمولی کام نہیں ہوتا بلکہ بہت اہم اور شاندار ہوتا ہے.بلکہ میرے نزدیک قادیان میں ہاتھ سے کام کرنے والے کم از کم چار ہزار افراد ہیں.اطفال اور انصار کو شمولیت کی دعوت: ہیں:.مشعل راه جلد اول ص 92 ) اطفال اور انصار کو بھی اپنے ساتھ لے کر وقار عمل کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے حضور فرماتے میں قادیان کے خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ سال میں چھ دن ایسے مقرر کریں جن میں یہاں کی تمام جماعت کو کام کرنے کی دعوت دی جائے بلکہ مناسب یہی ہوگا کہ وہ ابتداء میں چھ دن ہی رکھیں اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں دو مہینہ میں ایک دن کام کر لینا کوئی بڑی بات نہیں.مثلاً آخری جمعرات ہو تو اس دن عام اعلان کر دیا جائے کہ آٹھ دس سال کے بچوں سے لے کر ان بوڑھوں تک جو چل پھر سکتے اور کام کاج کر سکتے ہیں فلاں جگہ جمع ہو جائیں.ان سے فلاں کام لیا جائے گا.پھر پہلے سے پروگرام بنایا ہوا ہو کہ فلاں سڑک پر کام کرنا ہے.فلاں جگہ سے مٹی لینی ہے.اتنی بھرتی ڈالنی ہے.اس اس ہدایت کو مدنظر رکھنا ہے.اور جماعت کے انجینئر اس تمام کام کے نگران ہوں اور ان کا منظور کردہ نقشہ لوگوں کے سامنے ہو
317 اور اس کے مطابق سب کو کام کرنے کی ہدایت دی جائے.میں سمجھتا ہوں اگر پہلے سے ایک سکیم مرتب کر لی جائے تو آسانی سے بہت بڑا کام ہو سکتا ہے.غرض سکیم اور نقشے پہلے تیار کر لیں اور اس دن جس طرح فوج پریڈ کرتی ہے اسی طرح ہر شخص حکم ملنے پر اپنے اپنے حلقہ کے ماتحت پریڈ پر آ جائے.مشعل راه جلد اول ص 93 اس اقتباس سے حضور کا منشاء اور آپ کی خواہش ظاہر ہوتی ہے کہ صرف خدام ہی وقار عمل نہ کریں بلکہ تمام افراد جماعت جو کوئی کام کر سکتے ہیں.وہ وقار عمل میں شامل ہوا کریں خواہ بچے ہوں یا بوڑھے.ست خدام کو شامل کرنے کی تحریک: حضرت مصلح موعود و قارعمل پر نہ آنے والوں کے لئے ہدایت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:.چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بنا کر کام شروع کر دیا جائے اور جوں جوں خدام کی حاضری بڑھتی جائے کام کو وسیع کرتے چلے جائیں.بے شک شروع میں سو فیصد حاضری نہ ہو.اس بات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کام کو جاری رکھا جائے.جتنے خدام خوشی سے آئیں ان سے کام کراتے رہیں اور جو نہ آئیں ان پر جبر نہ کیا جائے.ہاں ان کو بار بار تحریک کی جائے کہ وہ بھی کام میں شامل ہوں“.مشعل راه جلد اول ص 432) انفرادی وقار عمل نفس مارنے کا عمدہ طریق حضرت خلیفہ المسیح الثانی نفس مارنے کے ایک عمدہ نفسیاتی طریق یعنی مخصوص انفرادی وقار عمل کو وضاحت سے بیان فرماتے ہیں :.میں خدام کو اس طرح توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آئندہ سالوں میں ہاتھ سے کام کرنے کی روح کو دوبارہ زندہ کیا جائے اور خدام سے ایسے کام کرائے جائیں جن میں وہ ہتک محسوس کرتے ہوں اور وہ کام انفرادی طور پر کرائے جائیں.جس وقت قادیان کے تمام خدام جمع ہوں اور وہ سب ایک ہی کام کر رہے ہوں تو انہیں اس وقت کسی کام میں ہتک محسوس نہیں ہوتی کیونکہ ان کے دوسرے ساتھی بھی ان کے ساتھ اسی کام میں شریک ہوتے ہیں لیکن اگر ایک خادم اکیلا کوئی کام کر رہا ہو اور اس کے ساتھی اسے دیکھیں تو وہ ضرور ہتک محسوس کرے گا.میرا اس سے یہ مطلب نہیں کہ اجتماعی طور پر کوئی کام نہ ہو.
318 بے شک اجتماعی طور پر بھی ہو لیکن انفرادی کام کے مواقع بھی کثرت سے پیدا کئے جائیں.مثلاً کسی غریب کا آٹا اٹھا کر اس کے گھر پہنچا دیا جائے یا کسی غریب کا چارہ اٹھا کر اس کے گھر پہنچا دیا جائے یا کسی غریب کی روٹیاں پکوادی جائیں.جب خادم روٹیاں پکوانے جائے گا تو دل میں ڈر ہو گا کہ مجھے کوئی دیکھ نہ لے اور اگر کوئی دوست اسے راستے میں مل جائے تو اسے کہے گا کہ میری اپنی نہیں فلاں غریب کی ہیں.اس کا یہ اظہار کرنا اس بات کی دلیل ہو گا کہ وہ اس کام کو بہتک آمیز خیال کرتا ہے.یہ پہلا قدم ہو گا.اسی طرح بعض اور کام اسی نوعیت کے سوچے جاسکتے ہیں.ایسے کام کرانے سے ہماری غرض یہ ہے کہ کسی خادم میں تکبر کا شائبہ باقی نہ رہے اور اس کا نفس مرجائے اور وہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہر ایک کام کرنے کو تیار ہو جائے.“ مشعل راه جلد اول ص 439) و قارعمل نہ کرنے والوں کے لئے لمحہ فکریہ خدام کے سالانہ اجتماع 1945ء میں حضرت مصلح موعود وقار عمل کرنے والے خدام کو ایک اہم نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.محلوں میں صفائی رکھنا کوئی مشکل بات نہیں.اگر خدام تھوڑی بہت توجہ صفائی کی طرف رکھیں اور محلوں میں رہنے والے دوسرے لوگ بھی خدام سے تعاون کریں تو یہ بات بہت آسان ہو جاتی ہے.اس بات کو دل سے نکال دینا چاہئے کہ جب تک محلہ کے تمام خدام کسی کام میں شریک نہیں ہوتے اس وقت تک کسی کام کو شروع ہی نہ کیا جائے.حقیقت یہ ہے کہ جب بھی کام کا موقعہ آئے گا مخلص اور دیانت دار خدام ہی آگے آئیں گے اور وہی شوق سے اسے سرانجام دیں گے اور جو اخلاص اور دیانت داری سے کام کرنا نہیں چاہتا اس کے لئے سو بہانے ہیں.کہتے ہیں ”من حرامی بختاں ڈھیر.یعنی اگر کام کرنے کو جی نہ چاہتا ہو تو انسان کو سینکڑوں جنتیں اور بہانے سوجھ جاتے ہیں اور یہ حجتوں والے تو سال میں ایک دفعہ بھی وقار عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے.ایسے لوگوں کے نہ آنے کی وجہ سے کام کو پیچھے نہیں ڈالنا چاہئے.جن لوگوں کے اندر اخلاص ہے.ان کو کیوں ایسے لوگوں کی خاطر کام سے روک رکھا جائے.اب تو تم دوماہ کے بعد ایک دن وقار عمل کرتے ہو.اگر تم دس سال کے بعد بھی ایک دن مقرر کرو تو بھی نہ آنے والے غائب ہی ہوں گے اور
319 تمہاری حاضری پھر بھی سو فیصدی نہیں ہوگی دس سال کے بعد بھی جو دن تم وقار عمل کا مقرر کرو گے وہی دن ایسا ہو گا جس دن ان کو کام ہو گا اور شیطان ان کے دلوں میں یہ وسوسہ پیدا کر دے گا کہ آج تو مجھے فلاں کام بہت ضروری ہے.اگر آج وہ کام نہ کیا تو مجھے بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا.نو سال گیارہ مہینے اور انتیس دن تک انہیں وہ کام یاد نہ آیا لیکن چونکہ تم نے تیسویں دن وقار عمل مقرر کر دیا اس لئے اسے بھی کام یاد آ گیا.دس سال تو کیا اگر سو سال کے بعد بھی ان کو وقار عمل میں شامل ہونے کے لئے کہا جائے تو اس وقت بھی ان کے پاس کوئی نہ کوئی بہانہ موجود ہو گا.ایسے لوگوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے.ایسے لوگوں کا نہ آنا زیادہ بہتر ہوتا ہے بہ نسبت ان کے آنے کے.پس آپ لوگوں کو چاہئے کہ اس بات کی پرواہ نہ کریں کہ کتنے آتے ہیں اور کتنے نہیں آتے.جو آتے ہیں انہیں اپنے ساتھ لے کر کام شروع کر دیں.مشعل راه جلد اول ص (431) وقار عمل میں صفائی کے حوالے سے چندا ہم ہدایات دیتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: گلیاں کھلی رکھیں : جہاں تک گلیوں کی چوڑائی کا سوال ہے، میں نے کھلی گلیاں رکھنے کا حکم دیا ہوا ہے کیونکہ رسول کریم ﷺ کی احادیث سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا.گلیاں چوڑی ہونی چاہئیں.میں نے سر دست اندازہ لگا کر پندرہ بیس فٹ کی وہ گلیاں رکھی ہیں جو مکانوں سے بڑی سڑکوں پر ملتی ہیں اور ان پر تانگہ گزارنا مد نظر نہیں اور جن پر تانگے وغیرہ گزار نے مقصود ہیں، وہ تمہیں فٹ کی رکھی ہیں اور بڑے راستے پچاس فٹ کے رکھے ہیں“.( مشعل راه جلد اول ص 429) گلیوں میں گند نہ پھینکیں: یہ دیکھیں کہ لوگ گلیوں میں گند نہ پھینکیں اور اگر کوئی پھینکے تو سب مل کر اسے اٹھا ئیں.تھوڑی سی محنت سے صفائی کی حالت اچھی ہو سکتی ہے.گاؤں میں رہنے والے احمدیوں کو بھی صفائی کی طرف خاص توجہ چاہئے.میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وہ صفائی کا خیال نہیں رکھتے.مشعل راه جلد اول ص 140 ) گلی میں پھینکا گیا گند خدام اٹھائیں: میں نے خدام الاحمدیہ کو توجہ دلائی تھی کہ وہ اس کام کو خاص طور پر شروع کریں اور اب بھی جب تک
320 سکیم نہ بنے ، ہر محلہ کے ممبر ذمہ دار سمجھے جائیں اس محلہ کی صفائی کے.پہلے لوگوں کو منع کرو اور سمجھاؤ کہ گلی میں گند نہ پھینکیں اور اگر وہ پھر بھی باز نہ آئیں تو پھر خود جا کر اٹھا ئیں.جب وہ خود اٹھا ئیں گے تو پھینکنے والوں کو بھی شرم آئے گی اور جب عورتیں دیکھیں گی کہ جو گند گلی میں پھینکتی ہیں وہ ان کے باپ بھائی یا بیٹے کو اٹھانی پڑتی ہے تو وہ سمجھیں گی یہ برا کام ہے اور وہ اس سے باز رہیں گی.مشعل راه جلد اول ص 140 ) ہاتھ سے کام کرنے کی عادت: ہاتھ سے کام کرنے کو جب میں کہتا ہوں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ عام کام جن کو دنیا میں عام طور پر برا سمجھا جاتا ہے ان کو بھی کرنے کی عادت ڈالی جائے.مثلا مٹی ڈھونا یا ٹوکری اٹھانا ہے، کہی چلانا ہے.اوسط طبقہ اور امیر طبقہ کے لوگ یہ کام اگر کبھی کبھی کریں تو یہ ہاتھ سے کام کرنا ہو گا ورنہ یوں تو سب ہی ہاتھ سے کام کرتے ہیں.یہ کام ہمارے جیسے لوگوں کے لئے ہیں کیونکہ ہمیں ان کی عادت نہیں اگر ہم نے اس کی طرف توجہ نہ کی تو ہو سکتا ہے کہ ہماری عادتیں ایسی خراب ہو جائیں یا اگر ہماری نہ ہوں ہماری اولادوں کی عادتیں ایسی خراب ہو جائیں کہ وہ ان کو برا سمجھنے لگیں اور پھر کوشش کریں کہ دنیا میں ایسے لوگ باقی رہیں جو ایسے کام کیا کریں اور اسی کا نام غلامی ہے.پس جائز کام کرنے کی عادت ہر شخص کو ہونی چاہئے تاکہ کسی کام کے متعلق یہ خیال نہ ہو کہ یہ برا ہے.مشعل راه جلد اول ص 134 ) وقار عمل کے دوا ہم فوائد: وقار عمل کی حقیقی روح کو اگر اپنی زندگی میں جاری کر لیا جائے تو اس کے بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں.اس میں سے دو نہایت اہم فوائد جن کا تعلق قومی زندگی سے ہے، بیان کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:.اس تحریک سے دوضروری فوائد حاصل ہوں گے.ایک تو نکما پن دور ہو گا اور دوسرے غلامی کو قائم رکھنے والی روح کبھی پیدا نہ ہوگی.یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ فلاں کام برا ہے اور فلاں اچھا ہے.برا کام کوئی نہ کرے اور اچھا چھوٹے بڑے سب کریں.برا کام مثلاً چوری ہے یہ کوئی نہ کرے اور جو اچھے ہیں ان میں سے کسی کو عار نہ سمجھا جائے.مشعل راه جلد اول ص 134)
321 گندگی اور ملیریا سے بچاؤ: وقار عمل کے ذریعہ گندگی اور ملیریا سے محفوظ رہ سکتے ہیں.حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں:.پانی کی گندگی کی وجہ سے ہر سال ملیر یا آتا ہے اور دس دس پندرہ پندرہ دن ایک شخص بیمار رہتا ہے.ملیریا کی بڑی وجہ یہی ہوتی ہے کہ گڑھوں میں پانی جمع رہتا ہے اور اس کی سڑانڈ کی وجہ سے مچھر پیدا ہو جاتے ہیں جو انسانوں کو کاٹتے اور ملیریا میں مبتلا کر دیتے ہیں.اس بخار کی وجہ سے لوگ پندرہ پندرہ دن تک بیمار رہتے ہیں اور اگر دس دن بھی ایک شخص کے بیمار رہنے کی اوسط فرض کر لی جائے اور ایک گھر کے پانچ افراد ہوں تو سال میں ان کے پچاس دن محض ملیریا کی وجہ سے ضائع چلے جاتے ہیں.حالانکہ اگر وہ چھ دن بھی کوشش کرتے تو ملیریا کو جڑھ سے نابود کر دیتے مگر لوگ دوائیوں پر پیسے الگ خرچ کرتے ہیں.تکلیف الگ اٹھاتے ہیں، طاقتیں الگ ضائع کرتے ہیں، عمریں الگ کم ہوتی ہیں.موتیں الگ ہوتی ہیں اور پھر سال میں پچاس دن بھی ان کے ضائع چلے جاتے ہیں.مگر تھوڑا سا وقت خرچ کر کے قبل از وقت ان باتوں کا علاج نہیں کرتے.مشعل راه جلد اول ص94) دواجر و قار عمل احمدی نوجوانوں کا طرہ امتیاز ہے جس کا اعتراف کرنے پر غیر بھی مجبور ہیں.ایک وقار عمل سے متاثر ہوکر خواجہ حسن نظامی لکھتے ہیں: آج دہلی کی قادیانی جماعت کے چالیس افراد خدمت خلق کے لئے آئے تھے.مجھ سے پوچھا کہیں کا راستہ صاف کرنا ہو تو بتادیجئے.میں نے اپنے مسافر خانہ کا راستہ خود جا کر بتایا.ان لوگوں نے مزدوروں کی طرح پھاوڑے لے کر راستہ صاف کیا اور ان میں وکیل بھی تھے اور بڑے بڑے عہدے داروں کے سرکاری نوکر بھی تھے اور مرزا صاحب کے قرابتدار بھی تھے ان کے اس مظاہرے کا درگاہ کے زائرین اور حاضرین پر بہت اثر ہوا.ایک صاحب نے کہا کہ پراپیگنڈا کے لئے یہ کام کر رہے ہیں.میں نے کہا حضرت سلطان المشائخ نے فرمایا ہے جو شخص ظاہر داری کے لئے خدمت کرتا ہے اس کو اجر ملتا ہے اور جو محض خدا کی رضا کے لئے خدمت خلق کرتا ہے اس کو دو اجر ملتے ہیں.( بحوالہ الفضل 31 دسمبر 1990ء)
322 عالمی شناخت اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ نے نہ صرف اپنے بڑے بڑے منصو بے مثلاً مساجد اور مشن ہاؤسز وغیرہ وقار عمل کے ذریعہ مکمل کئے بلکہ ماحول اور معاشرہ کی صفائی کے لئے بھی کا رہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں.ان میں سڑکوں کی تعمیر ، عمارتوں کی تعمیر، شجر کاری اور دیگر کئی منصوبے شامل ہیں اور یہ سلسلہ صرف برصغیر یا افریقہ میں محدود نہیں یورپ اور امریکہ میں بھی پھیلا ہوا ہے.چنانچہ مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی ہر نئے سال کا آغاز یکم جنوری کو وقار عمل سے کرتی ہے.یہ اب مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے مستقل پروگرام میں شامل ہے کہ جرمنی بھر میں مقامی مجالس اپنے اپنے علاقے میں شہر کی انتظامیہ سے اجازت حاصل کر کے اور کچھ مقامات پر انتظامیہ سے مل کر شہر میں صفائی کا کام کرتی ہیں.31 دسمبر کی رات کو نئے سال کی خوشی میں جب لوگ پٹانے چلاتے ہیں تو عمو ما سارے شہرے میں اور خصوصاً شہر کی مشہور جگہوں پر گندگی کے انبار لگ جاتے ہیں جس میں پٹاخوں کے بچے ہوئے حصے اور جلے ہوئے باردو کی خاک اور کاغذ وغیرہ شامل ہوتے ہیں.اس سارے گند کو بعض جگہوں سے مشینوں کے ذریعہ بھی صاف نہیں کیا جا سکتا.مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی چند سالوں سے مختلف شہروں میں انتظامیہ سے رابطہ کر کے پیشکش کرتی ہے کہ ہم بھی اپنے شہر کی صفائی میں مدد کرنا چاہتے ہیں.اس طرح انتظامیہ شہر کا کچھ حصہ خدام الاحمدیہ کے ذمہ لگا دیتی ہے.یہ امر جرمن قوم کے لئے حیران کن ہے کہ کسی غیر قوم کے نوجوان اکٹھے ہو کر علی اصبح شہر کی صفائی کر رہے ہیں.ان کی اپنی قوم کے باشندے جنہوں نے بڑی بے دردی سے یہ گند ڈالا تھا اب نیند کے مزے لے رہے ہیں تو دیار غیر سے آئے چند دیوانے راکھ کے ان ڈھیروں کو اکٹھا کر کے ان گلیوں کو دوبارہ صاف ستھرا بنا کر ان شہریوں کو یہ پیغام دیتے نظر آ رہے ہیں کہ ابھی دنیا میں خدا کے ایسے بندے موجود ہیں جو محض خدا کی خوشنودی کی خاطر اس کی مخلوق کی بھلائی کے لئے اپنا آرام قربان کرنے کے لئے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں.اور پھر اس مادی دور میں یہ سارا کام بغیر کسی معاوضہ کے کرتے ہیں.(الفضل 12 مارچ 2004ء)
323 مالی تحریکات حضرت مصلح موعودؓ نے تعلیمی، تربیتی اور دعوت الی اللہ کے مقاصد کی خاطر جماعت میں سینکڑوں مالی تحریکات فرمائیں.ان میں سے بعض تو فی ذاتہ وسیع اداروں کی شکل میں کام کر رہی ہیں.مثلاً تحریک جدید، وقف جدید تعمیر مساجد کا نظام، تراجم قرآن کی اشاعت وغیرہ.ان مرکزی اور مستقل تحریکات کے علاوہ بھی حضور نے وقتاً فوقتاً متعدد مالی تحریکات فرما ئیں اس مضمون میں صرف ان کا جائزہ لیا گیا ہے.بیت المال کے لئے قرضہ کی تحریک حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے 5 جنوری 1922 ء کو جماعت کے سامنے قرضہ کی تحریک پیش کرتے ہوئے فرمایا:.”ہر زمیندار جس کے پاس ایک مربع زمین کا ہے.فی مربع ایک سور و پیہ بطور قرض فور ضروریات سلسلہ کے چلانے کے لئے ادا کر دے اور یہ رقم ایک سال سے دو سال تک کے عرصہ میں واپس ادا کی جائے گی.انشاء اللہ.اس طرح جن علاقوں میں مربعوں کے رنگ میں زمینوں کی تقسیم نہیں ہوتی لوگ فی تمیں گھماؤں زمین چاہی پر ایک سو اور فی پچاس ایکڑ زمین بارانی پر ایک سو روپیہ بطور قرض بیت المال میں داخل کر دیں.جو لوگ ملازم یا تاجر ہیں.ان کو چاہئے کہ جس کی آمد ایک سو روپیہ سے لے کر دوسو روپیہ ماہوار تک ہے وہ ایک سوروپیہ اور جس کی اس سے زیادہ ہے وہ دوسو روپیہ ماہوار سے او پر فی ایک سوروپیہ کی آمد پر ایک سوروپیہ کے حساب سے رقم بیت المال میں بطور قرض ادا کر دے.یہ رقوم بھی اسی طرح ایک سال سے دو سال تک ادا ہوں گی.ان لوگوں کے سوا جو اور لوگ اس کام میں حصہ لینا چاہیں.وہ بھی حصہ لے سکتے ہیں“.(الفضل 9 جنوری 1922ء) الفضل 4 جنوری 1923ء سے واضح ہوتا ہے کہ خزانہ صدرانجمن احمد یہ کئی ہزار کا مقروض تھا.30 ہزار روپے کے صرف بل واجب الادا تھے.حضور کی اس تحریک کے نتیجہ میں اتنی رقم جمع ہوگئی کہ خزانہ کا کافی بوجھ اتر گیا اور کام خوش اسلوبی سے چلنے لگ پڑا.
324 چندہ تحریک خاص 1924ء میں انگلستان کی مشہور ویمبلے نمائش کے ساتھ ساتھ ایک مذاہب کانفرنس بھی منعقد ہوئی جس میں شمولیت کے لئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں بھی دعوت نامہ روانہ کیا گیا.حضور نے جماعت سے مشورہ لیا تو اس کا نوے فیصد حصہ اس حق میں تھا کہ حضور اس کا نفرنس میں ضرور شمولیت اختیار کریں.چنانچہ حضور 12 جولائی 1924ء کو مع قافلہ لندن روانہ ہوئے اس سفر کے اخراجات کا وہ حصہ جو حضور کی ذات مبارک سے تعلق رکھتا تھا وہ تو حضور نے خود برداشت کیا.لیکن عملہ کے اخراجات سفر و قیام خرچہ ڈاک لٹریچر کی اشاعت کے اخراجات وغیرہ کی ادائیگی احباب کے ذمہ تھی.اس کے لئے رقم قرض لے کر مہیا کر دی گئی.(الفضل 16 جولائی 1925ء) اس قرض کی واپسی کے لئے حضور نے 10 فروری 1925 ء کو ایک لاکھ روپیہ کی خاص چندہ کی تحریک فرمائی.اس تحریک کا پس منظر حضور کے الفاظ میں یہ تھا.” میری صحت متواتر بیماریوں سے جو تبلیغ ولایت کے متعلق تصانیف اور دوران سفر کے متواتر کام کے نتیجہ میں پیدا ہوئیں بالکل ٹوٹ چکی ہے اور غموں اور صدموں نے میرے جسم کو زکریا علیہ السلام کی طرح کھوکھلا کر دیا ہے اور میں محسوس کرتا ہوں کہ اگر کبھی بھی میرا جسم راحت اور آرام کا مستحق اور میرا دل اطمینان کا محتاج تھا تو وہ یہ وقت ہے لیکن صحت کی کمزوری ، جانی اور مالی ابتلاؤں کے باوجود بجائے آرام ملنے کے میری جان اور بھی زیادہ بوجھوں کے نیچے دبی جارہی ہے.کیونکہ سفر مغرب کی وجہ سے اور اشاعت کتب کی غرض سے جو روپیہ قرض لیا گیا تھا اس کی ادائیگی کا وقت سر پر ہے بلکہ شروع ہو چکا ہے اور بیت المال کا یہ حال ہے کہ قرضہ کی ادائیگی تو الگ رہی کارکنوں کی تنخواہیں ہی تین تین ماہ کی واجب الادا ہیں.پس یہ غم مجھ پر مزید برآں پڑ گیا ہے کہ قرضہ ادا نہ ہونے کی صورت میں ہم پر نا دہندگی اور وعدہ خلافی کا الزام نہ آئے اور اسی طرح وہ لوگ جو باہر کی اچھی ملا زمتوں کو ترک کر کے قادیان میں خدمت دین کے لئے بیٹھے ہیں ان کو فاقہ کشی کی حالت میں دیکھنا اور ان کو ان کی ان تھک خدمات کے بعد قوت لایموت کے لئے بھی روپیہ نہ دے سکنا کوئی معمولی صدمہ نہیں ہے.تیسر ا صدمہ مجھے یہ ہے کہ اس قدر تکالیف برداشت کر کے جو سفر اختیار کیا گیا تھا اس کے اثرات کو دیر پا اور وسیع
325 کرنے کے لئے ضروری تھا کہ فوراً تجربہ کے ماتحت شام اور انگلستان میں تبلیغ کا راستہ کھولا جاتا.مگر مالی تنگی کی وجہ سے اس کام کو شروع نہیں کیا جا سکتا اور سب محنت کے برباد ہونے کا خطرہ ہے.ان - صدمات کے بعد جو میری صحت اور جسم کو پہنچے ہیں اور جو اپنی ذات میں ہی ایک انسان کو ہلاک کر دینے کے لئے کافی ہیں اس قدر صدمات کا بوجھ میرے لئے نا قابل برداشت ہوا جا رہا ہے.پس میں نے اب فیصلہ کیا ہے کہ اس وعدہ کے مطابق جو احباب نے سفر ولایت کے متعلق مشورہ لیتے وقت کیا تھا.ایک خاص چندہ کی اپیل کروں.سفر ولایت پر پچاس ہزار روپیہ خرچ آیا ہے اور اس خاص لٹریچر کی اشاعت پر جو اس سفر کی غرض کے لئے چھپوایا گیا.ہیں ہزار روپیہ.موجودہ مالی تنگی کو رفع کرنے اور سفر سے جو تحریک اسلامی اور مغربی بلاد میں پیدا کی گئی تھی اس کے چلانے اور اس سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے تیس ہزار روپیہ کی ہے.یہ کل ایک لاکھ روپیہ ہوتا ہے اور میں اس کے لئے اب جماعت سے اپیل کرتا ہوں اور اس کے پورا کرنے کے لئے یہ تجویز کرتا ہوں کہ ہر شخص جو احمدی کہلاتا ہے.اس غرض کے لئے اپنی ایک مہینہ کی آمد تین ماہ میں یعنی 15 فروری سے 15 مئی تک علاوہ ماہوار چندہ کے جو وہ دیتا ہے اس خاص تحریک میں ادا کرے.زمیندار لوگ دونوں فصلوں کے موقعہ پر علاوہ مقررہ چندہ کے دو سیر فی من پیداوار پر ادا کریں اور اس جماعت کی عزت اور سلسلہ کے کام کو برباد ہونے سے بچایا جائے.جماعت احمدیہ نے اپنے پیارے امام کے ارشاد پر تین ماہ کے اندر اندر ایک لاکھ سے زیادہ روپیہ اپنے آقا کے قدموں میں ڈال دیا.چنانچہ حضور نے اس پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے 12 جولائی 1925ء کو اعلان فرمایا.الحمد لله کہ میں آج اس امر کا اعلان کرنے کے قابل ہوا ہوں کہ معیاد مقررہ کے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت احمدیہ کو ایک لاکھ کی تحریک کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائی...مجھے نہایت خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان مخالفوں کے منہ بند کر دیئے ہیں جو اعتراض کر رہے تھے کہ احمدی چندے دیتے دیتے.تھک گئے ہیں.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ان لوگوں کے جواب میں اس نے جماعت کو اس امر کا عملی ثبوت بہم پہنچانے کا موقع دے دیا ہے کہ وہ چندے دیتے دیتے تھکی نہیں بلکہ وہ اس طرح تازہ دم ہے رح کہ پہلے دن تھی.بلکہ مومنانہ شان کے مطابق اس کا جوش پہلے سے بھی بڑھا ہوا ہے اور وہ
326 دین اسلام کے لئے ہر اک قربانی کے لئے تیار ہے اور ہر ایک بوجھ اٹھانے کے لئے آمادہ.ریز روفنڈ کی تحریک تاریخ احمدیت جلد 4 ص (515) حضرت خلیفہ ثانی نے 1927ء میں 25 لاکھ کا ریز روفنڈ قائم کرنے کی تحریک فرمائی اور اس کی ضرورت یہ بیان کی کہ ہماری جماعت کا بجٹ چونکہ محدود ہوتا ہے اور ہم اپنے سلسلہ کی ضروریات سے اس قدر روپیہ نہیں بچا سکتے جس سے عام اسلامی معاملات کی درستی کے لئے کافی رقم نکال سکیں.جیسے کہ شدھی کا مقابلہ یا تمدنی اور اقتصادی تحریکات ہیں یا ادنی اقوام کی تبلیغ ہے.اس وجہ سے ہم نے 25 لاکھ ریز روفنڈ کی تحریک کی ہے تا کہ اصل رقم محفوظ رہے اور اس کی آمدا ہم کاموں پر خرچ کی جائے.حضور نے مجلس مشاورت 1927ء میں فرمایا :.جو کام مسلمانوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے ہم شروع کرنے والے ہیں.اس کے لئے احباب کو 25 لاکھ کا ریز رو فنڈ جمع کرنے کی پوری پوری کوشش کرنی چاہئے.میں اس کے متعلق بعض دوستوں کو خاص طور پر بھی توجہ دلاؤں گا.اگر ہم مالی پہلو کی طرف سے مطمئن ہو جائیں.تو پھر کسی دشمن کی ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہوسکتی.کامیابی ہمارے ہی لئے ہے.ہمارے مد نظر یہ بات رہنی چاہئے کہ کچھ رہے یا نہ رہے مگر خدا کا نام ضرور رہے.اس کے لئے 25 لاکھ جمع کرنا پہلا قدم ہے“.رپورٹ مجلس شوری 1927 ء ص 197 ) پھر مجلس مشاورت 1930ء میں فرمایا:.میرے نزدیک ریز روفنڈ ذریعہ حفاظت ہے اسے مٹا کر کس طرح سمجھ لیا جا سکتا ہے کہ حالت اچھی ہو جائے گی.ریز روفنڈ تو مالی تنگی کے دور کرنے کا ذریعہ ہے.جب پس انداز کرنے کے لئے اسے رکھا جائے گا تو اس کے لئے روپیہ بچانے کا بھی خیال رہے گا میں نے پہلے اس کے متعلق ہدایت دی ہے کہ انجمن پس انداز کرے مگر نہیں کیا گیا.اس لئے اب ہدایت دیتا ہوں کہ ریز روفنڈ کا ماہواریل پاس کر کے یہ رقم پس انداز کی جائے اور یہ نہ کہا جائے کہ آخر سال میں اس کے لئے کوئی رقم نہیں رہی.پس میں ہدایت دیتا ہوں کہ ماہوار بل جو تین سو سوا تین سو ہوگا.نکال کر جمع کرتے جائیں“.رپورٹ مجلس شوری 1930ء ص 116 )
327 1931ء میں اس مد میں 30 ہزار روپے سے زائد رقم جمع ہوئی جس میں سے سندھ میں خرید کردہ زمینوں کی پہلی قسط ادا کی گئی اور کچھ روپیہ کشمیر فنڈ کے سلسلہ میں بطور ادھار دیا گیا.حضور اس رفتار ترقی سے خوش نہیں تھے.چنانچہ آپ نے فرمایا.اس قسم کی تحریکیں پیدا ہورہی ہیں جو جلد سے جلد موجودہ نظام دنیا میں تغیر پیدا کر رہی ہیں.ایسا تغیر جو اسلام کے لئے سخت مضر ہے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے آج سے دس سال قبل میں نے ریزرو فنڈ قائم کرنے کے لئے کہا تھا.مگر افسوس جماعت نے اس کی اہمیت کو نہ سمجھا اور صرف 30 ہزار کی رقم جمع کی.اس میں سے کچھ رقم صدرانجمن احمدیہ نے ایک جائیداد کی خرید پر لگا دی اور کچھ رقم کشمیر کے کام کے لئے قرض لے لی گئی اور بہت تھوڑی سی رقم باقی رہ گئی.یہ رقم اس قدر تقلیل تھی کہ اس پر کسی ریز روفنڈ کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی تھی.ہنگامی کاموں کے لئے تو بہت بڑی رقم ہونی چاہئے جس کی معقول آمدنی ہو.پھر اس آمدنی میں سے ہنگامی اخراجات کرنے کے بعد جو کچھ بچے اس کو اس فنڈ کی مضبوطی کے لئے لگا دیا جائے تا کہ جب ضرورت ہو اس سے کام لیا جا سکے.(الفضل 9 دسمبر 1934ء) حضور نے مزید فرمایا:.اگر ایک ہزار آدمی بھی اس بات کا تہیہ کرلے کہ ریز روفنڈ جمع کرنا ہے اور ہر ایک کی رقم دو سو بھی رکھ لی جائے تو بہت بڑی رقم ہر سال جمع ہوسکتی ہے اور پھر اس کی آمد سے ہنگامی کام بآسانی کئے جاسکتے ہیں اور جب کوئی ہنگامی کام نہ ہو.تو آمد بھی اصل رقم میں ملائی جاسکتی ہے.جماعت کو یا درکھنا چاہئے کہ جب تک ہنگامی کاموں کے لئے بہت بڑی رقم خلیفہ کے ماتحت نہ ہو کبھی ایسے کام جو سلسلہ کی وسعت اور عظمت کو قائم کریں نہیں ہو سکتے“.اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضور کی یہ تحریک بھی شاندار طور پر کامیاب ہوئی.چنانچہ تحریک جدید کے چندہ کا ذکر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:.اس روپیہ سے جہاں ہم نے دس سال کے عرصہ میں ضروری اخراجات کئے ہیں وہاں اللہ کے فضل سے ایک ریز روفنڈ بھی قائم کیا ہے اور اس ریز روفنڈ کی مقدار 280 مربع زمین ہے.اس کے علاوہ ابھی ایک سو مربع زمین ایسی ہے جس میں کچھ حصہ کے خریدنے کا ابھی وقت نہیں آیا.کچھ حصہ گو خریدا تو گیا ہے مگر اس پر ابھی قرض ہے.اسے اگر شامل کر لیا جائے تو کل رقبہ 380 مربع ہو جاتا ہے.
328 آجکل سندھ میں زمین کی جو قیمتیں ہیں ان کے لحاظ سے یہ جائیداد 26,25 لاکھ روپیہ کی ہے جو ہمارے قبضہ میں آچکی ہے.یا خریدی گئی ہے یا جس کے بیعانے دیئے جاچکے ہیں.چندہ خاص کی دوسری تحریک الفضل 28 نومبر 1944 ء ) 1927ء میں حضور نے چندہ خاص کی تحریک فرمائی تھی.جس پر مخلصین جماعت کو خدا تعالیٰ نے ایسی توفیق بخشی که نه صرف پچھلا بہت سا قرضہ اتر گیا بلکہ اگلے سال کا بجٹ پورا کرنے کے لئے بھی خاصی رقم جمع ہوگئی لیکن سلسلہ احمدیہ کا خزانہ چونکہ ابھی خطرہ سے پوری طرح باہر نہیں تھا اور جماعت کے لئے ضروری تھا کہ جب تک یہ نازک صورتحال ختم نہ ہو جائے معمولی چندوں کے علاوہ چندہ خاص بھی دیا کریں تا معمولی چندوں کی کمی اس سے پوری ہو جائے اور سلسلہ کے کاموں میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہو.چنانچہ حضور نے اس ضرورت کے پیش نظر صدر انجمن احمدیہ کے نئے مالی سال کے شروع ہونے پر احباب جماعت کے نام چندہ خاص کی دوسری تحریک فرمائی.یہ اپیل 17 جولائی 1928 ء کے اخبار الفضل میں شائع ہوئی اور اس کا عنوان تھا ” اے عباداللہ میری طرف آؤ.چنانچہ حضور نے اعلان فرمایا کہ: اس سال بھی حسب معمول تمام دوست اپنی آمد میں سے ایک معین رقم چندہ خاص میں ادا کریں اور چاہئے کہ وہ رقم ستمبر کے آخر تک پوری کی پوری وصول ہو جائے اور یہ بھی کوشش رہے کہ اس کا اثر چندہ عام پر ہرگز نہ پڑے.بلکہ چندہ عام پچھلے سال سے بھی زیادہ ہو.کیونکہ مومن کا قدم ہر سال آگے ہی آگے پڑتا ہے اور وہ ایک جگہ پر ٹھہر نا پسند نہیں کرتا“.اپنے اعلان کے آخر میں حضور نے جماعت کے دوستوں کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:.”اے میرے پیارے دوستو! میں کس طرح آپ لوگوں کو یقین دلاؤں کہ خدا تعالیٰ دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کرنے والا ہے.پس پہلے سے تیار ہو جاؤ تا موقع ہاتھ سے کھو نہ بیٹھو.یا درکھو کہ خدا تعالیٰ کے کام اچانک ہوا کرتے ہیں اور جس طرح اس کے عذاب یکدم آتے ہیں اس کے فضل بھی یکدم
329 آتے ہیں.پس بیدار ہو جاؤ اور آنکھیں کھول کر اس کے افعال کی طرف نگاہ رکھو کہ اس کا غیب غیر معمولی امور کو پوشیدہ کئے ہوئے ہے جو ظاہر ہو کر رہیں گے اور دنیا ان کو چھپانے میں ہرگز کامیاب نہیں ہو سکے گی.آپ لوگ اس کے فضل کے وارث ہو کر رہیں گے خواہ دنیا اسے پسند کرے یا نہ کرے.پھر فرمایا: میں اس امر کی طرف بھی آپ کی توجہ پھرانی چاہتا ہوں کہ اس سال بعض اضلاع میں گیہوں کی فصل خراب ہو گئی ہے اور اس کا اثر چندوں پر پڑنا بعید نہیں.پس چاہئے کہ احباب اس امر کا بھی خیال رکھیں اور اس کو پورا کرنے کی بھی کوشش کریں اور ان اضلاع کے دوستوں کو بھی جہاں نقصان ہوا ہے میں کہتا ہوں کہ لا تخش عن ذى العرش افلا سا.خدا تعالیٰ سے کمی کا خوف نہ کرو اور اس کے دین کی راہ میں قربانی سے نہ گھبراؤ کہ خدا تعالیٰ اس کا بدلہ آپ کو آئندہ موسم میں دے دیگا اور آپ کی ترقی کے بیسیوں سامان پیدا کر دے گا.خلیفہ وقت کے اس ارشاد پر مخلصین نے لبیک کہا اور کئی جماعتوں نے اپنے وعدے پورے کر ( تاریخ احمدیت جلد 5 ص54) چندہ خاص کی تیسری تحریک حضور نے خزانہ پر قرضوں کی وجہ سے جو بار پڑ گیا تھا.اس کو ہلکا کرنے کے لئے 1931ء میں جماعت سے چندہ خاص کی ادائیگی کی اپیل فرمائی.حضور فرماتے ہیں:.دین کے کام پر قحط کا اثر نہیں پڑتا اور نہیں پڑنا چاہئے.چونکہ دنیا کی حالت کو دیکھتے ہوئے خطرات بہت زیادہ ہیں اور ہماری جماعت پر 80,70 ہزار کا قرضہ ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس سال ہم یہ تمام قرض اتار دیں.ممکن ہے اگلے سال مالی حالت اور بھی زیادہ کمزور ہو جائے اور ہمارے لئے قرض اتارنا قریباً ناممکن ہو جائے.اس لئے میں نے جماعت کے احباب سے اپیل کی ہے کہ وہ ایک ایک ماہ کی آمدنی ان اخراجات کو پورا کرنے کے لئے ادا کریں.یہ چندہ خاص ایسا ہے کہ اس میں چندہ ماہواری اور چندہ جلسہ سالانہ بھی شامل ہے.اس لئے یہ پہلی تحریکوں کے مقابلہ میں معمولی تحریک
330 ہے.پہلے جب میں نے ایک ایک ماہ کی آمدنی دینے کی تحریک کی اس وقت چندہ ماہواری اور چندہ جلسہ سالانہ چندہ خاص میں شامل نہیں ہوتا تھا.مگر اب کی مرتبہ چندہ ماہواری بھی اس میں شامل ہے اور چندہ جلسہ سالانہ بھی گویا اصل چندہ خاص صرف ساٹھ فیصدی کے قریب رہ جاتا ہے.الفضل 17 ستمبر 1931 ء ) حضور کی اس تحریک پر جماعت نے لبیک کہا اور اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.چنانچہ مطلوبہ رقم جس سے قرضے بھی ادا ہو سکتے تھے اور عام چندہ کی مقدار بھی پوری ہو جاتی تھی.وقت کے اندر پوری کر دی گئی.حضور فرماتے ہیں:.اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ چندہ خاص کی تحریک میں سے سوالاکھ روپیہ مقررہ میعاد کے اندر جمع ہوگیا ہے اور عام بجٹ کا قرضہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ادا ہو گیا ہے اس کامیابی پر جس قدر بھی (الفضل 15 دسمبر 1931 ء ) اللہ تعالیٰ کا شکر یہ ادا کریں تھوڑا ہے".تحریک قرضہ سلسلہ کی ضروریات کے پیش نظر فروری 1934ء میں مرکزی اداره نظارت امور عامہ کی طرف سے ساٹھ ہزار روپیہ قرض کی ایک تحریک کی گئی کہ مخلصین جماعت کم از کم ایک ایک سورو پید اس کار خیر میں الفضل 11 فروری 1934ء ص 3) دیں.یہ تحریک غیر معمولی طور پر کامیاب ہوئی اور ساٹھ ہزار کی بجائے پچھتر ہزار روپیہ اس میں جمع ہو گیا.الفضل 29 مئی 1934 ء ) جو میعاد کے اندر واپس بھی کر دیا گیا اس تحریک کی کامیابی کا سہرا ناظر امور عامه خانصاحب فرزند علی صاحب کے سر تھا.جس پر نہ صرف حضرت مصلح موعودؓ نے بہت خوشنودی کا اظہار فرمایا بلکہ ایثار پیشہ احمدیوں کے اس جذ بہ اخلاص کو مسلم پریس نے بھی بہت سراہا.چنانچہ لکھنو کے روزنامہ حقیقت 25 مئی 1934 ء نے لکھا:.یہ واقعہ ہے کہ اس وقت ہندوستان کی تمام اسلامی جماعتوں میں سب سے زیادہ منتظم اور سرگرم عمل احمدی جماعت ہے جس نے دنیا کے گوشہ گوشہ میں اپنی تبلیغی مشن قائم کر دیئے ہیں حالانکہ اس
331 جماعت کی تعداد چند لاکھ سے زیادہ نہیں ہے اور اس پر غربا و متوسط الحال لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے باوجود اس کے حال میں اس کے دفتر قادیان سے سلسلہ کی ضروریات کے لئے ساٹھ ہزار روپیہ قرض جمع کرنے کی اپیل کی گئی تھی.چنانچہ دو ماہ کے اندرہی یہ رقم فراہم ہوگئی لیکن اگر کسی غیر احمدی جماعت کی طرف سے اتنی ہی رقم کے لئے اپیل کی جاتی تو وہ چھ ماہ میں کیا سال بھر میں بھی جمع نہ ہو سکتی تھی.خواہ وہ ضرورت کتنی ہی شدید ہوتی.چنانچہ مثالاً امارت شرعیہ بہار کے زلزلہ فنڈ ہی کو دیکھ لیجئے کہ چار ماہ میں صد ہا اپیلوں اور التجاؤں کے باوجود اب تک چالیس ہزار بھی فراہم نہیں ہو سکا.کاش احمدی جماعت کے اس ایثار سے عام مسلمان سبق لیں اور قومی ضروریات کے لئے ایک بیت المال قائم کر کے اپنی بیداری اور زندگی کا ثبوت دیں.اسی طرح لکھنو کے مشہور شیعہ ترجمان ” سرفراز ( یکم جون 1934 ء) نے لکھا:.”مذہبی حیثیت سے ہمیں قادیانیوں سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو.لیکن ہم ان کے اس جوش قومی و مذہبی کی قدر کئے بغیر نہیں رہ سکتے.جو ان کی طرف سے اپنے جماعتی مفاد کو تقویت دینے کے لئے آئے دن ظہور پذیر ہوتارہتا ہے.ابھی حال ہی میں سلسلہ احمدیہ کی ضروریات کے لئے ساٹھ ہزار روپیہ قرض کی تحریک کی گئی تھی.ناظر امور عامہ قادیان کا بیان جو الفضل قادیان مورخہ 29 مئی 1934 ء میں شائع کیا گیا ہے بتاتا ہے کہ اگر اس فنڈ کے بند کر دینے کا اعلان نہ کر دیا جاتا تو اس سلسلہ میں ایک لاکھ روپیہ جمع ہو جانا کوئی بڑی بات نہ تھی.اب بھی اس تحریک کے ان وعدوں کو ملا کر جن کی چند روز میں وصولی یقینی ہے.یہ رقم پچھتر ہزار تک پہنچ چکی ہے.یہ واضح رہے کہ چندے یا قرض کی یہ تحریک ایسی تحریک نہیں ہے جو کئی برس کے بعد اٹھائی گئی ہو اور اس کے لئے کوئی خاص جدو جہد عمل میں آئی ہو بلکہ اس جماعت کی طرف سے آئے دن اپنے جماعتی مفاد کے لئے چندے ہوتے رہتے ہیں اور اس وقت تک چار ہزار کے قریب ایسی وصیتیں ہو چکی ہیں جن میں وصیت کنندگان نے اپنی جائیداد کا بڑا حصہ اپنے جماعتی ، قومی اور مذہبی کاموں کے لئے وقف کیا ہے.ظاہر ہے کہ قادیانیوں کی مجموعی تعداد ہندوستان کے شیعوں سے بہت کم ہے لیکن جذ بہ عمل میں یہ مٹھی بھر قادیانی دو کروڑ شیعوں سے کہیں زیادہ نظر آتے ہیں.سینکڑوں مکانات پچاسوں اراضیات
332 جماعت قادیانی کے پاس موجود ہیں.برخلاف اس کے ہم شیعوں کی یہ حالت ہے کہ ہماری واحد نمائندہ جماعت آل انڈیا شیعہ کا نفرنس کے پاس دفاتر کے لئے بھی کوئی اس کا ذاتی مکان نہیں ہے اور اس مد کرایہ میں اسے گزشتہ چھ سات سال کے اندر پانچ چھ ہزار روپیہ دینے پڑے.اتنی رقم میں دفتر کانفرنس اور ادارت متعلقہ کے لئے ایک خاص عمارت بن سکتی یا خریدی جاسکتی تھی لیکن سرمایہ کے سوال نے اب تک اس تحریک کو بار آور نہ ہونے دیا.کیا شیعہ جماعت میں ایسے سرمایہ دار موجود نہیں کہ وہ پانچ سات ہزار چندہ نہیں تو قرض حسنہ ہی دے کر دفتر آل انڈیا شیعہ کانفرنس کو کرایہ مکان کے مستقل بار سے محفوظ کر دیں؟ اگر ایسا نہیں ہے تو ہمیں اپنے قومی ادارات کی حالت زار پر ایک آہ سرد بھر کر خاموش ہو جانا چاہئے اور یہ طے کر لینا چاہئے کہ ہمارے دست شل میں یہ صلاحیت نہیں کہ ہم کسی بار کو اٹھاسکیں.کاش کہ قادیانی جماعت کا جذبہ عمل ہماری سوئی ہوئی قوم کے لئے سبق آموز اور ہمت آفرین ہو اور ہم بھی وقت کی اہم ضروریات کی طرف متوجہ ہوسکیں.تاریخ احمدیت جلد 7 ص 162) امانت فنڈ میں رقم جمع کرانے کی تحریک حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے امانت فنڈ کی اپیل 1934ء میں کی.جبکہ تحریک جدید کے مطالبات کے ضمن میں حضور نے جماعت سے یہ مطالبہ کیا کہ جماعت کے مخلص افراد کی ایک جماعت ایسی نکلے جو اپنی آمد کا 1/5 سے 1/3 حصہ تک سلسلہ کے مفاد کے لئے تین سال تک بیت المال میں جمع کرائے اس کی صورت یہ ہو کہ جس قدر مختلف چندوں میں دیتے ہیں یا دوسرے ثواب کے کاموں میں خرچ کرتے ہیں.وہ سب رقم اس میں سے کاٹ لیں اور باقی رقم اس تحریک کی امانت میں صدر انجمن احمدیہ کے پاس جمع کرا دیں.اس مطالبہ کے ماتحت جو آنا چاہے اسے چاہئے کہ جلد سے جلد مجھے اطلاع دے اور یہ بھی اطلاع دے کہ کس قدر حصہ کا عہد ہے اور چندے وغیرہ نکال کر کس قدر رقم اوسطاً اس کی امانت میں جمع کرانے والی پہنچے گی.جسے وہ با قاعدہ جمع کراتا رہے گا مقررہ تین سال کے بعد جتنی رقم جمع ہوگی وہ یا تو نقد یا رقم کے برابر جائیداد کی صورت میں اسے واپس دے دی جائے گی...اوسطاً آمد ایک آدمی کی اگر پانچ روپیہ بھی رکھ لی جائے
333 تو ہر ماہ دس ہزار کی امانت داخل ہو سکتی ہے.جو تین سال میں چارلاکھ کے قریب ہوسکتی ہے.الفضل 29 نومبر 1934 ء ) اور جب ضرورت بڑھ گئی تو حضور نے فرمایا:.جماعت کے افراد میں سے جس کسی نے اپنا روپیہ کسی دوسری جگہ بطور امانت رکھا ہوا ہے وہ فوری طور پر اپنا روپیہ جماعت کے خزانہ میں بطور امانت داخل کر دے تا کہ فوری ضرورت کے وقت ہم اس سے کام چلا سکیں.اگر ہندوستان کے تمام احمدی اس تحریک کی طرف توجہ کریں تو پچاس لاکھ روپیہ آسانی سے جمع ہو سکتا ہے.مجلس شوری کے موقعہ پر ہی چار لاکھ کے قریب وعدے ہو گئے تھے.حالانکہ شوری پر آنے والے دوست تمام جماعت کا دسواں حصہ بھی نہیں.بلکہ ہزاروں بھی نہیں اگر ہم ان کو دسواں حصہ بھی سمجھیں تو بھی چالیس لاکھ روپیہ بنتا ہے جو جماعت سے اکٹھا ہوسکتا ہے“.(الفضل 16 / اپریل 1945 ء ) اس کے بعد بھی حضور نے جماعت کے احباب کو کئی بار اس طرف توجہ دلائی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب اکثر احباب جو بینکوں میں روپیہ جمع کرانے پر مجبور نہیں اپنا روپیہ جماعت کے خزانہ میں رکھنا پسند کرتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں جہاں ان کے روپیہ کی حفاظت ہوتی اور دینی کاموں میں استعمال ہونے کی وجہ سے اس میں برکت ہوتی ہے وہاں جماعت اپنے تمام ہنگامی کام اس سے چلا لیتی ہے.اس طرح کہ جماعت کی ہنگامی ضرورت بھی پوری ہو جاتی ہے اور احباب کو بھی حسب ضرورت اپنی امانت سے رو پیل جاتا ہے.حضور خود فرماتے ہیں:.”ہمارے دشمنوں کو جو نا کامی ہوئی ہے اس میں امانت فنڈ کا بہت بڑا حصہ ہے اور اب جو نیا فتنہ اٹھا.تھا.اس نے بھی اگر زور نہیں پکڑا تو در حقیقت اس میں بھی بہت سا حصہ تحریک جدید کے امانت فنڈ کا (الفضل 4 دسمبر 1937 ء ) وقف جائیداد اور وقف آمد کی اہم تحریک: سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے 10 مارچ 1944ء کو جماعت سے وقف جائیداد اور اس کے نہ ہونے کی صورت میں وقف آمد کا مطالبہ فرمایا اور ساتھ ہی وضاحت بھی فرمائی کہ
334 ید وقف...اس صورت میں ہو گا کہ ان کی جائیداد ان ہی کے پاس رہے گی اور آمد بھی مالک کی ہوگی اور وہی اس کا انتظام بھی کرے گا ہاں جب سلسلہ کے لئے ضرورت ہوگی ایسی ضرورت جو عام چندہ سے پوری نہ ہو سکے تو جتنی رقم کی ضرورت ہوگی اسے ان جائیدادوں پر بحصہ رسدی تقسیم کر دیا جائے گا“.اس مطالبہ کے اعلان سے قبل نہ صرف حضرت مصلح موعود نے اپنی جائیداد وقف فرما دی بلکہ حضور کا منشاء مبارک معلوم ہوتے ہی چودھری ظفر اللہ خاں صاحب اور نواب مسعود احمد خاں صاحب نے اپنی جائیداد میں اپنے آقا کے حضور پیش کر دیں جس کا ذکر خود حضور نے بایں الفاظ فرمایا:.میں سب سے پہلے اس غرض کے لئے اپنی جائیداد وقف کرتا ہوں.دوسرے چودھری ظفر اللہ خاں صاحب ہیں انہوں نے بھی اپنی جائیداد میری اس تحریک پر دین کی خدمت کے لئے وقف کر دی ہے بلکہ انہوں نے مجھے کہا آپ جانتے ہیں آپ کی پہلے بھی یہی خواہش تھی اور ایک دفعہ آپ نے اپنی اس خواہش کا مجھ سے اظہار بھی کیا تھا کہ میری جائیداد اس غرض کے لئے لے لی جائی.اب دوبارہ میں اس مقصد کے لئے اپنی جائیداد پیش کرتا ہوں.تیسرے نمبر پر میرے بھانجے مسعود احمد خاں صاحب ہیں انہوں نے کل سنا کہ میری یہ خواہش ہے تو فوراً مجھے لکھا کہ میری جس قدر جائیداد ہے اسے میں بھی اسلام کی اشاعت کے لئے وقف کرتا ہوں“.حضور نے اس وقف کے لئے ایک کمیٹی تشکیل فرمائی جس کے ذمہ یہ فیصلہ کرنا تھا کہ اس وقت فلاں ضرورت کے لئے وقف جائیدادوں سے کتنی رقم لی جائے.نومبر 1944 ء تک قریباً ایک کروڑ روپیہ مالیت کی جائیدادیں وقف ہوئیں.تحریک وقف جائیداد: حضرت سید نا لمصلح الموعودؓ نے 10 مارچ 1944 ء کو یہ تحریک فرمائی کہ ”ہم میں سے کچھ لوگ جن کو خدا تعالیٰ توفیق دے اپنی جائیدادوں کو اس صورت میں دین کے لئے وقف کر دیں کہ جب سلسلہ کی طرف سے ان سے مطالبہ کیا جائے گا.انہیں وہ جائیداد اسلام کی اشاعت کے لئے پیش کرنے میں قطعاً کوئی عذر نہیں ہوگا.اس تحریک کے اعلان سے قبل پہلے خود حضور نے پھر چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے اپنی
335 جائیداد میں اسلام و احمدیت کے لئے پیش کر دی تھیں.ازاں بعد جب حضور نے اپنی زبان مبارک سے پہلی بار خطبہ جمعہ میں تحریک فرمائی تو قادیان کے دوسرے دوستوں نے بھی چند گھنٹوں کے اندراندر (الفضل 14 مارچ1944ء) قریباً چالیس لاکھ روپے کی جائیداد میں وقف کر دیں.جس پر پر حضور نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا:.میں نے جائیداد وقف کرنے کی تحریک کی تھی.قادیان کے دوستوں نے اس کے جواب میں شاندار نمونہ دکھایا ہے اور اس تحریک کا استقبال کیا ہے.بہت سے دوستوں نے اپنی جائیداد میں وقف کر دی ہیں.(الفضل 31 مارچ 1944ء) قادیان کے بعد بیرونی مخلص جماعتوں نے بھی اس قربانی میں سبقت لے جانے کی مخلصانہ جدو جہد کی.نتیجہ یہ نکلا کہ وقف ہونے والی جائیدادوں کی مالیت چند دنوں کے اندر اندر کروڑ تک جا پہنچی.ان دنوں جوش کا یہ عالم تھا کہ جو احمدی ذاتی جائیداد میں نہ رکھتے تھے وہ اپنی ماہوار یا سال بھر کی آمدنیاں وقف کر کے دیوانہ وار اس مالی جہاد میں شامل ہو گئے.چنانچہ 24 اپریل 1945 ء تک کی شائع شدہ فہرستوں کے مطابق وقف کنندگان کی تعداد 2271 بنتی تھی.(الفضل 24 اپریل 1945 ء ) تحریک اصلاح و ارشاد ( مقامی ) جلسہ سالانہ 1958 ء کے موقع پر محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب حج عالمی عدالت نے حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر جماعت کے سامنے ایک سکیم پیش کی کہ جماعت کے ایک سو صاحب ثروت احباب تین سال تک 25 روپے ماہوار کے حساب سے چندہ دیں اور اس رقم سے اصلاح و ارشاد مقامی کو مضبوط کیا جائے.عام بجٹ اتنا نہیں ہوتا کہ اس سے اس کام کو کما حقہ تیز کیا جا سکے.اس کے لئے زائد رقم کی ضرورت ہے جو اس سکیم کے نتیجہ میں مہیا کی جائے گی.اس سکیم کے نتیجہ میں بجٹ سے زائد وصولی ہونے والی آمد کی مدد سے دوروں اور مربیوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا اور اس کے نہایت شاندار نتائج نکلے.چنانچہ مقامی اصلاح و ارشاد کے ماتحت علاقہ میں پچاس سے زائد جماعتیں قائم ہوئیں.جن کی تعداد افراد ہزاروں تک پہنچتی ہے.کمزور جماعتوں کی تربیت کی گئی اور انہیں بیدار کیا گیا.
336 نواحمدیوں سے چندہ لینے کی تحریک حضرت مصلح موعودؓ نے 14 اکتوبر 1955 ء کے خطبہ جمعہ میں تحریک فرمائی کہ ہمارے مبلغین کو نو احمدیوں سے چندہ لینے کی کوشش کرنی چاہئے.میں نے جرمنوں کو دیکھا ہے کہ وہ چندے دیتے ہیں ایک شخص میری آمد کے متعلق خبر پا کر دوسو میل سے چل کر مجھے ملنے آیا.چوہدری عبداللطیف صاحب مبلغ جرمنی نے مجھے بتایا کہ وہ جب سے احمدی ہوا ہے اڑھائی پونڈ ماہوار با قاعدہ چندہ دیتا ہے.پس اگر ہمارے مبلغین نو مسلموں کو چندہ دینے کی عادت ڈالیں گے تو انہیں عادت پڑ جائے گی چاہے ابتدا میں وہ ایک ایک آنہ ہی چندہ کیوں نہ دیں.اگر وہ ایک ایک آنہ بھی چندہ دینا شروع کر دیں گے تو آہستہ آہستہ انہیں اس کی عادت پڑ جائے گی اور پھر زیادہ مقدار میں چندہ دینا انہیں دو بھر معلوم نہیں ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے اشتہارات اور کتا بیں نکال کر دیکھ لو تمہیں ان میں یہ الفاظ دکھائی دیں گے کہ فلاں دوست بڑے مخلص ہیں انہوں نے ایک آنہ یا دو آنہ ماہوار چندہ دینے کا وعدہ کیا ہے لیکن پھر وہی لوگ بڑی بڑی مقدار میں چندہ دینے لگ گئے تھے.ہمارے مبلغین کو بھی چاہئے کہ وہ بھی نو مسلموں سے چندہ لینے کی کوشش کریں.تاریخ احمدیت جلد 18 ص 120
337 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی تحریکات دور خلافت 8 نومبر 1965 ء تا 9 جون 1982ء
339 تعلیم القرآن کے متعلق تحریکات حضرت خلیفتہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کو قرآن کریم کا عشق اپنے بزرگ والد اور دادا سے ورثہ میں ملا تھا.آپ نے بچپن میں قرآن مجید حفظ کیا اور خاندان مسیح موعود میں سب سے پہلے با قاعدہ واقف زندگی کا اعزاز حاصل کر کے ساری عمر قرآن کی خدمت میں کوشاں رہے.آپ نے اپنے پیشروؤں سے جو کچھ سیکھا تھا اس کا خلاصہ آپ نے خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی یوں بیان فرمایا:.خلیفہ وقت کا سب سے بڑا اور اہم کام یہی ہوتا ہے کہ وہ قرآن کریم کی تعلیم کو رائج کرنے والا اور نگرانی کرنے والا ہو“.( الفضل 27 جولائی 1966ء.خطبات ناصر جلد اول ص 298) ناظرہ قرآن سکھانے کا منصوبہ چنانچہ آپ نے تمام جماعت کو علوم قرآنی سے بہرہ ور کرنے کے لئے ایک عظیم منصوبہ کا اعلان کرتے ہوئے خطبہ جمعہ 4 فروری 1966ء میں فرمایا:.ہماری یہ کوشش ہونی چاہئے کہ دو تین سال کے اندر ہمارا کوئی بچہ ایسا نہ رہے جسے قرآن کریم ناظرہ پڑھنا نہ آتا ہو.اور واضح بات ہے کہ اتنے بڑے کام کے لئے چند مربی یا معلم یا مجالس خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے بعض عہدیدار کافی نہیں.یہ تھوڑے سے لوگ اس عظیم کام کو پوری طرح نہیں کر سکتے.اس کے لئے ہمیں اساتذہ درکار ہیں.ہمیں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ایسے رضا کار چاہئیں جو اپنے اوقات میں سے ایک حصہ قرآن کریم ناظرہ پڑھانے کے لئے یا جہاں ترجمہ سکھانے کی ضرورت ہو وہاں قرآن کریم کا ترجمہ سکھانے کے لئے دیں تا یہ اہم کام جلدی اور خوش اسلوبی سے کیا جا سکے.حضور نے اس بارہ میں ابتدائی منصوبہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.اس سلسلہ میں جو ابتدائی منصوبہ میں جماعت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ لا ہور کے تمام بچوں کو قرآن کریم ناظرہ پڑھانے کا کام مجلس خدام الاحمدیہ کرے اور کراچی کی جماعت
340 کے بچوں کو قرآن کریم ناظرہ پڑھانے کا کام میں مجلس انصاراللہ کے سپرد کرتا ہوں.ضلع سیالکوٹ کی دیہاتی جماعتوں میں یہ کام مجلس خدام الاحمدیہ کرے.ضلع جھنگ میں جو جماعتیں ہیں ان کے بچوں کو قرآن کریم ناظرہ پڑھانے کا کام مجلس انصاراللہ کے سپر د کیا جاتا ہے.ان کے علاوہ جو جماعتیں ہیں ان میں اس اہم کام کی طرف نظارت اصلاح وارشاد کو خصوصی توجہ دینی چاہئے.اس منصوبہ کی تفاصیل متعلقہ محکے تیار کریں اور ایک ہفتہ کے اندراندر مجھے پہنچائیں.( الفضل 19 فروری 1966ء) پھر حضور نے قرآن کریم کی برکتوں، عظمتوں اور روحانی تاثیرات پر مشتمل خطبات جمعہ کا ایک سلسلہ شروع کیا جو 24 جون تا 16 ستمبر 1966 ء جاری رہے اور قرآنی انوار کے نام سے شائع ہو چکے ہیں.اس سلسلہ خطبات میں حضور نے جماعت کے عہدیداران کو اس اہم تحریک کو کامیاب بنانے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:.میں پھر تمام جماعتوں کو تمام عہدیداران خصوصاً امرائے اضلاع کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ قرآن کریم کا سیکھنا ، جاننا اس کے علوم کو حاصل کرنا اور اس کی باریکیوں پر اطلاع پانا اور ان راہوں سے آگاہی حاصل کرنا جو قرب الہی کی خاطر قرآن کریم نے ہمارے لئے کھولے ہیں از بس ضروری ہے اس کے بغیر ہم وہ کام ہرگز سرانجام نہیں دے سکتے جس کے لئے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے پس میں آپ کو ایک دفعہ پھر آگاہ کرتا ہوں اور متنبہ کرتا ہوں کہ آپ اپنے اصل مقصد کی طرف متوجہ ہوں اور اپنی انتہائی کوشش کریں کہ جماعت کا ایک فرد بھی ایسا نہ رہے نہ بڑا نہ چھوٹا نہ مرد نہ عورت نہ جوان نہ بچہ کہ جسے قرآن کریم ناظرہ پڑھنا نہ آتا ہو.جس نے اپنے ظرف کے مطابق قرآن کریم کے معارف حاصل کرنے کی کوشش نہ کی ہو.الفضل 27 جولا ئی 1966 ء.خطبات ناصر جلد 1 ص 298 تعلیم القرآن کو ہی منظم کرنے کے لئے حضور نے 1966ء میں وقف عارضی کی سکیم کا اجراء فرمایا اور بیشمار احباب نے اس ذریعہ سے قرآن ناظرہ اور ترجمہ سیکھا اور روحانی پاکیزگی حاصل کی.مرکزی نظام میں اضافے : 3 سال بعد حضور نے اس تحریک کے نتائج کا جائزہ لیتے ہوئے خطبہ جمعہ 28 مارچ 1969ء میں
341 فرمایا: اس تحریک پر قریباً تین سال ہو چکے ہیں اور اس کا پہلا دور ختم ہو گیا ہے.اس عرصہ میں ایک حد تک مخلصین جماعت نے اس طرف توجہ دی اور ایک حد تک اس کے اچھے نتائج نکلے.لجنہ اماءاللہ ربوہ نے ربوہ میں بڑا اچھا کام کیا ہے.اسی طرح ربوہ سے باہر بعض لجنات نے بھی اور خدام اور انصار اور دوسرے عہدیداران نے بھی اس کی طرف بہت توجہ دی اور اپنے ماحول میں قرآن کریم کے علوم کے سکھانے ، ان کے سمجھنے سمجھانے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کی.اللہ تعالیٰ نے ان کی کوششوں کو فضل سے نوازا اور بڑے خوش کن نتائج نکلے لیکن پھر بھی ہماری کوشش کا نتیجہ سو فیصدی نہیں نکلا یعنی ان تین سالوں میں ہر وہ شخص جو اپنی عمر اور سمجھ اور استعداد کے لحاظ سے قرآن کریم ناظرہ پڑھنا سیکھ سکتا تھا یا ترجمہ سیکھ سکتا تھا یا اس کی تفسیر کے بعض حصے سیکھ سکتا تھا اس نے ایسا نہیں کیا.اس جدوجہد کا ایک دور ختم ہو گیا ہے اور اب ہمیں ایک نیا دور شروع کرنا چاہئے.اس کے لئے میری تجویز یہ ہے کہ اصلاح وارشاد میں ایک ایڈیشنل ناظر مقرر ہو جو تعلیم قرآنی اور جو اس کے دیگر لوازم ہیں ان کا انچارج ہو.مثلاً وقف عارضی کی جو تحریک ہے اس کا بڑا مقصد بھی یہ تھا اور ہے کہ دوست رضا کارانہ طور پر اپنے خرچ پر مختلف جماعتوں میں جائیں اور وہاں قرآن کریم سیکھنے سکھانے کی کلاسز کو منظم کریں اور منظم طریق پر وہاں کی جماعت کی اس رنگ میں تربیت ہو جائے کہ وہ قرآن کریم کا جوابشاشت سے اپنی گردن پر رکھیں اور دنیا کے لئے ایک نمونہ بن جائیں.وقف عارضی کا نظام بھی اسی ناظر اصلاح و ارشاد کے سپرد ہونا چاہئے اور اور بہت سی تفاصیل ہیں ان کو انشاء اللہ مشاورت میں مشورہ کے ساتھ طے کر لیا جائے گا اور ایک نگران کمیٹی ہوگی جو مشتمل ہو ، ناظر اصلاح و ارشاد، ایڈیشنل ناظر اصلاح وارشاد اور ایک تیسرے ہمارے ایڈیشنل ناظر اصلاح وارشاد ہیں ان پر نیز انصاراللہ کے صدر اور خدام الاحمدیہ کے صدر پر.یہ پانچ عہد یدار ایک کمیٹی کی حیثیت سے اس بات کی نگرانی کریں کہ جماعت میں زیادہ سے زیادہ قرآن کریم کی محبت پیدا کی جائے“.خطبات ناصر جلد 2 ص 557,554 انجمن موسیان کے فرائض: 5 اگست 1966ء کو حضور نے انجمن موصیان اور موصیات قائم کرنے کا اعلان فرمایا تھا.خطبہ جمعہ
342 4 اپریل 1969ء میں حضور نے موصیان کو قرآن کریم پڑھنے اور پڑھانے کا خاص فریضہ سپر د کر تے ہوئے فرمایا:.”خدا چاہتا تھا کہ یہ تنظیم قرآن کریم کے پڑھنے اور پڑھانے سے اپنا کام شروع کرے“.پھر ان کے معین فرائض کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.ایک تو موصیوں کے صدر اور نائب صدر کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے حلقہ کے موصیوں کا جائزہ لے کر ایک ماہ کے اندر اندر ہمیں اس بات کی اطلاع دیں کہ کس قدر موصی قرآن کریم ناظرہ جانتے ہیں اور جو موصی قرآن کریم ناظرہ جانتے ہیں ان میں سے کس قدر موصی قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہیں اور جو موصی قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہیں ان میں سے کس قدر قرآن کریم کی تفسیر سیکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ ہر موصی کو قرآن کریم آتا ہو اور تیسری ذمہ داری آج میں ہر اس موصی پر جو قرآن کریم جانتا ہے یہ ڈالنا چاہتا ہوں کہ وہ دو ایسے دوستوں کو قرآن کریم پڑھائے جو قرآن کریم پڑھے ہوئے نہیں اور یہ کام با قاعدہ ایک نظام کے ماتحت ہو اور اس کی اطلاع (خطبات ناصر جلد 2 ص 563) نظارت متعلقہ کو دی جائے.حضور نے اس مقصد کے لئے 6 ماہ کا عرصہ مقرر فرمایا.اسی خطبہ میں حضور نے مجلس انصار اللہ کو خصوصیت سے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خود قرآن سیکھیں اور جن کے راعی ہیں ان کو بھی سکھائیں اسی طرح حضور نے خدام اور لجنہ کو بھی تعلیم القرآن کی نگرانی کا ارشادفرمایا:.حضور نے موصیان کے سپر تعلیم القرآن کے فریضہ کا ذکر کرتے ہوئے 20 جون 1969ء کے خطبہ میں فرمایا:.میں نے اس کے لئے چھ ماہ کا عرصہ رکھا تھا لیکن بہت سے دوستوں نے میری توجہ اس طرف پھیری ہے کہ چھ مہینے کے اندر سارے قرآن کریم کا ترجمہ پڑھ لینا یا بہتوں کے لئے ناظرہ پڑھ لینا بھی ممکن نہیں.پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ قرآن کریم نہ ختم ہونے والا سمندر ہے.انسان ساری عمر قرآن کریم سیکھتار ہے پھر بھی وہ یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ اس نے قرآنی علوم سب کچھ حاصل کر لیا ہے.بہر حال چونکہ بہت سوں کے لئے چھ ماہ کے عرصہ میں قرآن کریم ناظرہ سیکھنا یا اس کا ترجمہ سیکھنا
343 مشکل ہے.بعض کے لئے شائد ممکن ہی نہ ہو اس لئے اس مدت کو چھ ماہ سے بڑھا کر جیسا کہ دوستوں نے مشورہ دیا ہے میں ڈیڑھ سال تک کر دیتا ہوں.مجھے امید ہے کہ ڈیڑھ سال میں سارے نہیں تو بڑی بھاری اکثریت اگر وہ دل سے قرآن کریم پڑھیں تو قرآن کریم ناظرہ پڑھ لیں گے اور ترجمہ سیکھنے (خطبات ناصر جلد 2 ص 690) والے ترجمہ سیکھ لیں گے.فضل عمر درس القرآن کلاس: نظارت اصلاح وارشاد کے تحت تعلیم القرآن کلاس 1964ء میں شروع ہو چکی تھی.حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی ذاتی توجہ اور راہنمائی نے اس کو نئی جلا بخشی.یہ کلاس ایک ماہ کے لئے مرکز میں منعقد ہوتی تھی.حضور نے اسے نظارت تعلیم القرآن سے منسلک کر دیا اور 1972ء میں حضور نے فیصلہ فرمایا کہ 4 ہفتوں میں سے پہلا ہفتہ ضلع کی جماعتوں کے زیر اہتمام ہوگا اور 3 ہفتے طلباء مرکز میں گزاریں گے.(خطبات ناصر جلد 4 ص 253 ) یہ کلاس بڑی کامیابی سے جاری ہے.حضور کی خلافت کے آخری سال 1981ء میں طلباء وطالبات کی تعداد 2 ہزار تک پہنچ گئی تھی.حضور کم و بیش ہر سال اس سے افتتاحی یا اختتامی خطاب فرماتے رہے نیز درمیان میں بھی طلباء کو ہدایات اور ملاقات کا شرف عطا فرماتے رہے.اسی طرح ہفتہ قرآن مجید کا سلسلہ بھی جاری کیا گیا.چنانچہ جماعت نے یکم تا6 مارچ1970ءکو ہفتہ قرآن مجید منایا.تفسیر حضرت مسیح موعود کے مطالعہ کی تحریک قرآن کریم ناظرہ اور ترجمہ پڑھنے کے بعد حضور نے حضرت مسیح موعود کی تفسیر قرآنی کے مطالعہ کی طرف بار بار توجہ دلائی کیونکہ وہ علوم قرآن کا زبر دست خزانہ ہے.حضرت مسیح موعود کی تفسیر کتابی شکل میں یکجا نہیں تھی اس لئے 1969ء میں آپ نے اپنی براہ راست نگرانی میں حضرت مسیح موعود کی تفسیر اور آپ کے ارشادات کو قرآن مجید کی ترتیب کے مطابق یکجا کروا کر شائع کرنے کا انتظام فرمایا.چنانچہ آپ کی زندگی میں سورۃ فاتحہ سے لے کر سورۃ کہف تک یعنی 15 پاروں سے زائد کی تفسیر پانچ جلدوں میں نہایت اعلیٰ درجہ کے کاغذ پر شائع ہوئی اور اب سارے قرآن کی تفسیر شدہ آیات کتابی شکل میں شائع ہو چکی ہیں.
344 تغییر مسیح موعود کی پہلی جلد جو تفسیر سورۃ فاتحہ پر مشتمل تھی جون 1969 ء میں شائع ہوئی.حضور نے احباب کو اس سے مستفیض ہونے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:.میں سمجھتا ہوں کہ ہر احمدی کو غور کے ساتھ اس پہلی جلد کو پڑھ لینا چاہئے اور اس نیت سے پڑھنا چاہئے کہ قرآن کریم سارے کا سارا اس اجمال کی تفصیل ہے.اگر کسی شخص کی عقل اور سمجھ اور اس کی محبت ان علوم پر حاوی ہو جائے جو سورۃ فاتحہ میں بیان ہوئے ہیں تو قرآن کریم کے بہت سے مطالب اس کے لئے آسان ہو جائیں گے.اسے بار بار پڑھیں جو شخص چار پانچ دفعہ اس کو غور سے پڑھ جائے اس کے لئے مضمون سمجھنا آسان ہو جائے گا.قرآنی معارف کے مقابلہ کی دعوت : ( خطبات ناصر جلد 2 ص 693) حضرت مسیح موعود نے مختلف مذاہب کے نمائندوں کو قرآن کریم کے معارف و حقائق کے مقابلہ کا جو چیلنج دیا تھا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بار بار دہرایا.20 جون 1969 ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا :.کیتھولک فرقہ کا سر براہ اس وقت پوپ ہے اگر پوپ صاحب یہ چیلنج قبول کریں تو ہم مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں.اسی طرح عیسائیوں یا ہندوؤں کے دوسرے فرقے ہیں ان کے جو سردار ہیں وہ مقابلہ کے لئے آئیں.جو مختلف فرقوں کے سردار ہیں وہ اکیلے اس دعوت کو قبول کریں یا اپنے ساتھ سویا ہزار یا دس ہزار آدمی ملا کر بھی مقابلہ کرنا چاہیں تو ہم اس مقابلہ کے لئے تیار ہیں.(خطبات ناصر جلد 2 ص 692) 22 جولائی 1967ء کو دورہ یورپ کے دوران حضور نے کوپن ہیگن میں عیسائی دنیا کو حضرت مسیح موعود کا چیلنج دیا کہ اگر آپ سورۃ فاتحہ کے معارف ساری بائبل سے دکھا دیں تو مسیح موعود کی مقرر کردہ انعامی رقم 500 کو بڑھا کر 50 ہزار روپے انعام دیا جائے گا.خصوصی درس قرآن حضور کے سارے خطبات و تقاریر قرآن کریم ہی کی تفسیر و توضیح پر مشتمل ہیں.تا ہم آپ نے خصوصی درس قرآن کا بھی اہتمام فرمایا.چنانچہ حضور نے 23 مارچ 1968ء کو حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کے گھر مستورات میں درس قرآن کا آغاز فرمایا.
345 اسی طرح آپ رمضان المبارک میں کم و بیش ہر سال درس القرآن کے اختتام پر آخری چند سورتوں کا درس دیتے رہے اور اختتامی دعا کرواتے رہے.تعلیم القرآن کی 10 سالہ تحریک جماعت احمدیہ کی صد سالہ جو بلی سے 10 سال قبل حضور نے 28 اکتوبر 1979ء کو غلبہ احمدیت کی صدی کے لئے حضور نے دس سالہ تحریک کا اعلان فرمایا.اس تحریک کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ آئندہ دس برس کے اندراندر 1.ہر بچہ قاعدہ یسر نا القرآن جانتا ہو.2.قرآن مجید ناظرہ جاننے والے ترجمہ اور تفسیر سیکھیں.3 ہر بچہ کم از کم میٹرک تک تعلیم حاصل کرے.4.ہر احمدی دین کی حسین تعلیم پر قائم ہو.حضور نے مجلس مشاورت 1980ء میں فرمایا:.آئندہ دس برس کے اندر ہر احمدی قرآن کریم کی تعلیم اپنی عمر کے مطابق سیکھے.یہ کام خدام الاحمدیہ، انصار الله، لجنہ اماءاللہ کے ذمہ ہے.خدام نے کام شروع کر دیا ہے.اللہ تعالیٰ ان کو احسن انجام تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے.لجنہ کی رپورٹ آچکی ہے.کراچی میں میں نے 7 مارچ کے خطبہ جمعہ میں یہ اعلان کیا تھا کہ پہلے مرحلہ میں ہر احمدی گھرانے میں ایک تفسیر صغیر کا ہونا ضروری ہے.دوسرے حضرت مسیح موعود کی بیان فرمودہ تفسیر قرآن بھی پڑھنی ضروری ہے.سورۃ کہف تک پانچ جلدوں میں پ چکی ہے.میں نے اس سلسلہ میں انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ کو یہ ہدایت دی تھی کہ وہ ان کے خریدنے کے لئے اپنی اپنی کلب بنائیں اور جماعت ایک کمیٹی بنائے جو ان ہر سہ تنظیموں میں Co-ordination پیدا کرے اور یہ دیکھے کہ ایک کتاب ایک گھر میں چار راستوں سے داخل نہ ہو.خدام الاحمدیہ کی تنظیم اگر اپنے خادم کو دے تو پھر لجنہ کو یا انصار کو یا جماعتی لحاظ سے اس گھر میں اس کتاب کو پہنچانے کی اس مرحلہ میں ضرورت نہیں.یہ جو سکیم میں نے کراچی سے شروع کی تھی.آج اس میں وسعت پیدا کر رہا ہوں اور اس سے ساری جماعت کے لئے دینی تعلیم سکھانے کی بنیاد بنا رہا ہوں.یہ سکیم اس سال مکمل ہو جانی چاہئے.الفضل 18 /اکتوبر 1980ءص1)
346 حفظ قرآن کی تحریک حضور نے اپنی خلافت کے آغاز میں جہاں قرآن کریم پڑھنے پڑھانے اور اس پر غور و تدبر کرنے کی تلقین فرمائی تعلیم القرآن کے لئے وقف عارضی کی تحریک فرمائی.وہاں قرآن کریم کو حفظ کرنے کے سلسلہ میں حضور نے خدام کو ارشاد فرمایا کہ وہ قرآن مجید کا ایک ایک پارہ حفظ کریں جب ایک پارہ حفظ ہو جائے تو دوسرا پارہ حفظ کیا جائے اس سکیم سے حضور کا مقصد قرآن مجید کے زیادہ سے زیادہ حفاظ تیار کرنا تھا.چنانچہ خدام الاحمدیہ نے اس تحریک پر کماحقہ عمل کرنے کی کوشش کی اور خدام کو ایک ایک پارہ حفظ کرنے کی سکیم تیار کی بعد میں اس کا جائزہ بھی لیا جاتا رہا اور ان خدام کے نام جنہوں نے ایک ایک پارہ حفظ کر لیا تھا.حضور کی خدمت میں بغرض دعا بھجوائے گئے.( الفضل خلیفہ ثالث نمبر ) سورۃ بقرہ کی 17 آیات یاد کرنے اور سمجھنے کی تحریک حضور نے 12 ستمبر 1969ء کو کراچی میں خطبہ جمعہ ارشاد کرتے ہوئے فرمایا:.میرے دل میں یہ خواہش شدت سے پیدا کی گئی ہے کہ قرآن کریم کی سورۃ بقرہ کی ابتدائی سترہ آیتیں جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے.ہر احمدی کو یاد ہونی چاہئیں اور ان کے معانی بھی آنے چاہئیں اور جس حد تک ممکن ہو ان کی تفسیر بھی آنی چاہئے اور پھر ہمیشہ دماغ میں وہ متحضر بھی رہنی ہے.اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ستر اسی صفحات کا ایک رسالہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام اور حضرت خلیفہ اول اور حضرت مسیح موعود کی تفاسیر کے متعلقہ اقتباسات پر مشتمل ہوگا ، شائع بھی کر دیں گے.مجھے آپ کی سعادت مندی اور جذ بہ اخلاص اور اس رحمت کو دیکھ کر جو ہر آن الله تعالیٰ آپ پر نازل کر رہا ہے امید ہے کہ آپ میری روح کی گہرائی سے پیدا ہونے والے اس مطالبہ پر لبیک کہتے ہوئے ان آیات کو زبانی یاد کرنے کا اہتمام کریں گے.مرد بھی یاد کریں گے عورتیں بھی یاد کریں گی.چھوٹے بڑے سب ان سترہ آیات کو از بر کرلیں گے.پھر تین مہینے کے ایک وسیع منصوبہ پر عمل درآمد کرتے ہوئے ہم ہر ایک کے سامنے ان آیات کی تفسیر بھی لے آئیں گے.(خطبات ناصر جلد 2 ص 851 )
347 حضور نے متعدد باران آیات کی تفسیر بھی بیان فرمائی اور جماعت کے کثیر احباب نے اس تحریک پر لبیک کہا.اشاعت قرآن کی تحریکات جماعت احمد یہ خلافت ثالثہ میں اشاعت قرآن کے لحاظ سے ایک نئے دور میں داخل ہوئی.اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے دل میں اشاعت قرآن کریم کا بے پناہ جذبہ پیدا کیا تھا اور اس کی تسکین کے لئے بشارتیں بھی دی تھیں.آپ نے 4 جولائی 1980ءکو فرینکفرٹ میں خطبہ جمعہ ارشاد کرتے ہوئے فرمایا:.ایک دن مجھے یہ بتایا گیا کہ تیرے دور خلافت میں پچھلی دو خلافتوں سے زیادہ اشاعت قرآن کا کام ہوگا.چنانچہ اب تک میرے زمانہ میں پچھلی دو خلافتوں کے زمانوں سے قرآن مجید کی دو گنا زیادہ اشاعت ہو چکی ہے.دنیا کی مختلف زبانوں میں اب تک قرآن مجید کے کئی لاکھ نسخے طبع کروا کر تقسیم کئے جاچکے ہیں.الفضل 15 جولائی 1980ء ص 2) اس مقصد کے حصول کے لئے آپ کو بے پناہ جد و جہد کرنی پڑی اور متعدد تحریکات اور سکیمیں آپ نے شروع فرمائیں.آپ نے اپنی دلی تمنا بیان کرتے ہوئے فرمایا:.میرے دل میں یہ شدید خواہش ہے کہ اگلے پانچ سال میں قرآن کریم کی کم از کم دس لاکھ کا پیاں دس لاکھ افراد کے پاس یا یوں کہنا چاہئے کہ دس لاکھ گھروں میں پہنچ جانی چاہئیں.اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا.میں نے یہ کام کروا دیا ہے.میں خود حیران ہوں میرا زمانہ خلافت ابھی بہت تھوڑا ہے.پانچ چھ سال کے اس تھوڑے سے عرصہ میں قرآن کریم کی ایک لاکھ کا پیاں چھپ چکی ہیں.میرا خیال ہے کہ آپ میں سے کسی دوست کے ذہن میں یہ بات نہیں آئی ہوگی کہ کتنا بڑا انقلاب آگیا ہے.میں نے امرائے ضلع کو ایک آسان سکیم بنا کر دی تھی کہ ہر تحصیل اشاعت قرآن کے لئے دو ہزار روپے جمع کرے..اگر ہم اوسطاً فی تحصیل دو ہزار روپیہ بطور سرمایہ اشاعت قرآن کے لئے جمع کریں تو مغربی پاکستان کی کل 152 تحصیلیں ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ 3لاکھ 4 ہزار روپے جمع ہو سکتے ہیں.خطبات ناصر جلد 4 ص 275,274 )
348 پریس کے قیام کی تحریک - جماعت کا اپنا پریس نہ ہونے کی وجہ سے اشاعت قرآن کے منصوبہ میں دیر ہوتی تھی اور دیگر مشکلات پیش آتی تھیں.چنانچہ حضور نے اللہ تعالیٰ کی منشاء سے 9 جنوری 1970ء کے خطبہ میں پریس کے قیام کی تحریک فرمائی.حضور نے فرمایا:.بڑے زور سے میرے دل میں یہ خیال پیدا کیا گیا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ دو چیزیں ہمارے پاس اپنی ہوں.ایک تو ہمارے پاس بہت اچھا پر لیس ہو....اس اچھے پریس کے لئے ہمیں 10,5 لاکھ روپیہ کی ضرورت ہوگی اگر اپنا پر لیس ہوگا تو قرآن کریم سادہ یعنی قرآن کریم کا متن بھی ہم شائع کر لیا کریں گے اس کی اشاعت کا بھی تو ہمیں بڑا شوق اور جنون ہے یہ بات کرتے ہوئے بھی میں اپنے آپ کو جذباتی محسوس کر رہا ہوں ہمارا دل تو چاہتا ہے کہ ہم دنیا کے ہر گھر میں قرآن کریم کا متن پہنچا دیں.اللہ تعالیٰ آپ ہی اس میں برکت ڈالے گا تو پھر بہتوں کو یہ خیال پیدا ہوگا کہ ہم بہ زبان سیکھیں یا اس کا ترجمہ سیکھیں پھر اور بھی بہت سارے کام ہیں جو ہم صرف اس وجہ سے نہیں کر سکتے کہ ہمارے پاس پریس نہیں لیکن میرے دل میں جو شوق پیدا کیا گیا ہے اور جو خواہش پیدا کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ سارے پاکستان میں اس جیسا اچھا پر لیس کوئی نہ ہو اور پھر اس پر لیس کو اپنی عمارت کے لحاظ سے اور دوسری چیزوں کا خیال رکھ کر اچھا رکھا جائے.عمارت کو ڈسٹ پروف Dust Proof) بنایا جائے تا ہم ایک دفعہ دنیا میں اپنی کتب کی اشاعت کر جائیں.(خطبات ناصر جلد 3 ص 25,24 ) اشاعت قرآن کے 3 مراحل : چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے 18 فروری 1973ء کور بوہ میں ایک جدید پریس کا سنگ بنیاد رکھا.بعد ازاں اس کا نام نصرت پرنٹرز اینڈ پبلشرز کر دیا گیا.حضور نے اس پریس کے قیام کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے اشاعت قرآن کے عظیم منصوبے کا اعلان فرمایا.آپ نے فرمایا:.اشاعت قرآن کے سلسلہ میں تین مرحلے آتے ہیں ایک یہ کہ متن قرآن کریم کو ہر مسلمان کے ہاتھ میں پہنچا دیا جاوے یہی نہیں بلکہ قرآن عظیم کو دنیا کے ہر انسان کے ہاتھوں تک ہی پہنچا دیا جائے.دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ قرآن کریم کا ترجمہ ہر قوم اور ہر ملک کی زبان میں کیا جائے تاکہ دنیا کے ہر
349 خطہ کے لوگوں تک قرآن کریم کو اس کے معنی و مفہوم کے ساتھ پہنچایا جا سکے.چونکہ ہم نے ہر زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کرنا ہے اس لئے پہلے ہم ان کے حروف بنائیں پھر اس کی طباعت کریں گے.یعنی قرآن کریم کا ترجمہ اس زبان میں بھی شائع کریں گے.جو اس وقت بولی جاتی ہے مگر لکھی نہیں جاتی.تیسرا مرحلہ یہ ہے کہ جو لوگ یا قومیں قرآن کریم کا متن پڑھنے لگ جائیں اور اس کا ترجمہ سمجھنے لگ جائیں ان کو ہم قرآن عظیم کی تفسیر سے روشناس کرائیں، تفاسیر کی طباعت ہو.ہر زبان میں ہو.الفضل خلیفہ ثالث نمبر ص 44) پریس کے لئے وقار عمل کی تحریک: پریس کے قیام اور قرآن کریم سے قلبی تعلق کے اظہار کے لئے آپ نے تحریک فرمائی کہ اس کے تہہ خانہ کی کھدائی وقار عمل کے ذریعہ کی جائے.چنانچہ 18 مارچ تا 24 اپریل 1973ء کو انصار، خدام اور اطفال نے بے حد ذوق و شوق کے ساتھ اس وقار عمل میں حصہ لیا اور ایک خوبصورت عمارت کھڑی ہوگئی.پھر بے پناہ خرچ کے ساتھ مشینیں بھی آگئیں مگر ملکی حالات بدل گئے اور حکومتی پابندیوں کی وجہ سے یہ جدید پریس کام شروع نہ کر سکا لیکن اللہ کے وعدوں کے مطابق اشاعت قرآن کے کام میں کوئی روک پیدا نہ ہوئی اور اللہ کے فضل سے لاکھوں کی تعداد میں سادہ قرآن کریم اور مترجم قرآن شائع کئے جاتے رہے.یہ پریس قرآنی علوم کی اشاعت کا اس پہلو سے مرکز بن گیا کہ اس کی عمارت کے ایک حصہ میں دفتر الفضل اور دوسرے حصہ میں نمائش قائم کی گئی ہے.صد سالہ جوبلی منصوبہ کے اعلان کے ساتھ حضور نے مختلف ممالک میں پریس کے قیام کو اس کا حصہ بنا دیا.حضور نے خطبہ جمعہ 21 نومبر 1975ء میں فرمایا: جب تک ہم باہر اپنے پر لیں نہ کھولیں ہم اسلام کی حقانیت میں اور توحید کے ثبوت میں لٹریچر اس تعداد میں شائع نہیں کر سکتے جتنا کہ ہم اپنے مطبع خانے اور اپنے پریس کے ذریعہ کر سکتے ہیں.(خطبات ناصر جلد 6 ص 210 اسی ضمن میں حضور نے امریکہ، انگلستان اور دیگر ممالک میں پریسوں کے قیام کی تحریک فرمائی.خطبات ناصر جلد 6 ص 214,211 )
350 طرز اشاعت میں اصلاح: ترجمہ قرآن کریم کی طرز اشاعت میں بھی آپ نے ایک بہت اہم اصلاح فرمائی.قرآن کریم عربی میں دائیں سے بائیں لکھا جاتا ہے مگر جو زبانیں بائیں سے دائیں کو لکھی جاتی ہیں ان میں ترجمہ کتاب کے بائیں طرف سے شروع ہوتا تھا اور قرآن کریم کا متن ترجمے کا پیچھا کرتا تھا.یعنی جہاں سورۃ فاتحہ ہونی چاہئے وہاں سورۃ الناس آتی تھی حضور نے اس طرز میں تبدیلی کی اور فرمایا:.اب پہلی دفعہ میں نے حالات کو دیکھ کر ترجمہ کی طرز میں تبدیلی کی.چنانچہ اب قرآن کریم کا ترجمہ متن کے پیچھے چل رہا ہے یعنی سورۃ الحمد پہلے صفحہ پر ہے آخری صفحہ پر نہیں میرے علم میں پہلی دفعہ یہ واقعہ ہوا ہے کہ قرآن کے ترجمہ کرتے وقت متن کو Follow کیا ہے.قرآن کے نئے تراجم خطبات ناصر جلد 4 ص 272,271 سابقہ تراجم قرآن کی اشاعت کے ساتھ آپ نئی زبانوں میں ترجمہ کے لئے کوشاں رہے.جماعت کے وسائل اور طاقت کے لحاظ سے یہ ایک کٹھن کام تھا مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کے دور خلافت میں 6 نئی زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ ہوا.(ماہنامہ مصباح دسمبر 1982ء ص 68ء) آپ کی تحریکات کے مطابق دنیا کے مختلف ممالک کے اہم ہوٹلوں کے ہزاروں کمروں میں خاص اہتمام سے قرآن کریم کے تراجم سیاحوں کے مطالعہ کے لئے رکھوائے گئے.قرآن کریم کی وسیع اشاعت کے لئے تین ادارے قائم کئے گئے.قطب شمالی تک قرآن کا پیغام جماعت احمدیہ کینیڈا نے دنیا کے انتہائی شمال میں واقع آخری انسانی بستیوں تک قرآن کریم پہنچایا.دورہ مغرب ص 471 ) یہ تاریخی کارنامہ مکرم حمید اللہ شاہ صاحب کے ذریعہ انجام پایا.بطور ریڈار سپیشلسٹ انہیں قطب شمالی کے اردگرد Distant Early Warning System یا مختصر طور پر ڈیوسسٹم سٹیشنوں کا دورہ
351 کرنا ہوتا تھا.انہوں نے افسران اعلیٰ کی اجازت سے قائم 21 سٹیشنوں پر قرآن کے 48 نسخے رکھوائے جن میں ایک انتہائی شمالی سٹیشن Alert نامی بھی تھا.اسی طرح مقامی اسکیمو آبادی کی لائبریریوں اور پرنسپلز تک بھی قرآن پہنچایا گیا.اس طرح اس علاقے میں پہلی مرتبہ قرآن کریم کا پیغام ایک احمدی کے ذریعہ پہنچا.(الفضل 28 مئی 1981ء) انگریزی تفسیر القرآن ہے.انگریزی دان طبقے کو قرآن کریم کے حقائق و معارف سے روشناس کرانے کے لئے انگریزی تفسیر القرآن کی پانچ مضخیم جلدوں کو ایک جلد میں مختصر کر کے انگریزی تفسیر القرآن شائع کی گئی جو علمی طبقہ کے لئے نہایت درجہ ایک قیمتی تحفہ ہے.تفسیری نوٹوں پر مشتمل یہ جلد 1460 صفحات پر مشتمل ہے الغرض آپ نے تعلیم قرآن کی سابقہ تحریکوں کے ساتھ نئے منصوبے اور پروگرام شروع کئے اور لا ریب لاکھوں سینوں میں محبت قرآن کی شمع روشن کی اور لاکھوں نئے دلوں کو اس سے متعارف کرانے کی کوشش میں اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے.اللہ تعالیٰ اس عاشق قرآن کو بلند مراتب سے نوازے.
352 تحریک وقف عارضی جماعت احمدیہ کی ایک بہت بڑی امتیازی خصوصیت اس کا وقف زندگی کا نظام ہے جس کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے رکھی اور پھر خلافت کے ذریعہ اس کی نشو ونما ہوئی اور کوئی سطحوں اور جہات میں اس کا پھیلاؤ ہوا.ان میں وہ بھی ہیں جو کلیہ اپنی زندگی امام وقت کے حضور پیش کر دیتے ہیں.وہ بھی ہیں جو کسی فارم پر تو نہیں مگر عملاً واقف زندگی ہیں اور جان مال وقت اور عزت قربان کرنے پر ہمہ وقت مستعد ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے وقف کے ضمن میں ایک نئے پروگرام کا آغاز کیا اور 18 مارچ 1966ء کو حضور نے وقف عارضی کی تحریک کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ مرور زمانہ سے بہت سی جماعتوں میں سستی پیدا ہو چکی ہے اور جتنے مربیان اور معلمین ہمیں درکار ہیں اتنی تعداد میں میسر نہیں.اس لئے آپ نے جماعت کو تحریک کی کہ وہ سال میں 2 تا 6 ہفتے جماعتی انتظام کے تحت وقف کریں.سفر اور طعام کا خرچ خود برداشت کریں اور یہ دن عبادت ، دعاؤں، احباب جماعت کی تربیت اور خدمت دین میں گزاریں.حضور نے فرمایا:.دو میں جماعت میں تحریک کرتا ہوں کہ وہ دوست جن کو اللہ تعالیٰ توفیق دے سال میں دو ہفتہ سے چھ ہفتہ تک کا عرصہ دین کی خدمت کے لئے وقف کریں اور انہیں جماعت کے مختلف کاموں کے لئے جس جس جگہ بھیجوایا جائے وہاں وہ اپنے خرچ پر جائیں اور ان کے وقف شدہ عرصہ میں سے جس قد ر عرصہ انہیں وہاں رکھا جائے اپنے خرچ پر رہیں اور جو کام ان کے سپرد کیا جائے انہیں بجالانے کی پوری کوشش کریں.الفضل 23 مارچ 1966 ء ) ہر طبقہ حصہ لے: حضور نے جماعت کے تمام طبقات اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے احباب کو اس میں شمولیت کی دعوت دی اور فرمایا کہ کم سے کم 15 دن خدا کی خاطر دنیاوی کاموں سے رخصت لیں یا چھٹی کا حق خدا کی خاطر استعمال کریں.آپ نے سالانہ 5 ہزار واقفین عارضی کی تحریک کی.آپ نے
353 سکولوں، کالجوں کے اساتذہ، پروفیسر ز ، طالبعلموں، گورنمنٹ ملازمین اور وکلاء کو خصوصیت سے اس طرف متوجہ کیا.نیز احمدی خواتین کو اپنے علاقوں میں وقف عارضی کرنے کی ہدایت کی نیز ان کو خاوندوں، والد یا بھائیوں کے ساتھ دوسری جگہ جانے کی اجازت عطا فرمائی اور بڑی تفصیل کے ساتھ واقفین عارضی کی ذمہ داریاں اور وقف عارضی کی برکات بیان فرمائیں.وقف عارضی ہر احمدی کا فرض ہے حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:.وقف عارضی کی ضرورت بہت ہے.بات یہ ہے کہ جماعت کا ایک حصہ بھول گیا ہے کہ افراد جماعت خود مربی سلسلہ ہیں اور مربیوں کی تعداد میں جو تھوڑ اسا اضافہ ہوا ہے وہ کافی نہیں.جماعت سمجھتی ہے کہ اصلاح وارشاد کا کام مربیوں کا ہے حالانکہ ہر احمدی کو بڑی توجہ کے ساتھ اصلاح وارشاد کا کام کرنا چاہئے.یہ توجہ پیدا کرنے کے لئے اور جماعت میں اصلاح وارشاد کا شوق پیدا کرنے کے لئے میں نے عارضی وقف کی سکیم جاری کی ہے.اس میں روحانی فوائد بھی ہیں اور جسمانی فوائد بھی“.(رپورٹ مجلس مشاورت 1966 ء ) احباب جماعت نے اس تحریک پر والہانہ لبیک کہا اور حضور کے 17 سالہ دور خلافت میں 1966 ء تا1982ءقریباً40 ہزار افراد نے اس میں شرکت کی سعادت پائی اور دل ٹھنڈے کئے.تعليم القرآن اس تحریک کا مرکزی نکتہ قرآن کی تعلیم کو عام کرنا تھا.چنانچہ جگہ جگہ قرآن پڑھنے پڑھانے کی کلاسیں گو یا فیکٹریوں میں تبدیل ہو گئیں اور مربیان اور معلمین کی تعداد میں کمی کی وجہ سے جو کام ست ہو رہا تھا اس نے دوبارہ رفتار پکڑ لی.اسی مقصد کے لئے حضور نے تعلیم القرآن اور وقف عارضی کی ایک نظارت قائم فرمائی.جس کی راہنمائی میں واقفین عارضی خدمات سرانجام دیتے ہیں.اسی طرح حضور نے مجلس موصیان کا بھی اس نظارت سے گہرا رابطہ قائم فرمایا.حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:.
354 وقف عارضی کی جو تحریک ہے اس کا بڑا مقصد بھی یہ تھا اور ہے کہ دوست رضا کارانہ طور پر اپنے خرچ پر مختلف جماعتوں میں جائیں اور وہاں قرآن مجید سیکھنے سکھانے کی کلاسز کو منظم کریں اور منتظم طریق پر وہاں کی جماعت کی اس رنگ میں تربیت ہو جائے کہ وہ قرآن کریم کا جو ابشاشت سے اپنی (الفضل 14 مئی 1969ء) گردن پر رکھیں اور دنیا کے لئے نمونہ بن جائیں.وقف عارضی اور نظام وصیت حضرت خلیفہ لمسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:.عارضی وقف کی تحریک جو قرآن کریم سیکھنے سکھانے کے متعلق جاری کی گئی ہے اس کا تعلق نظام وصیت کے ساتھ بڑا گہرا ہے.بشرى لكم (الفضل 10 اگست 1966 ء ) اللہ تعالیٰ نے حضور کو اس تحریک کی کامیابی اور اس کے ذریعہ قرآنی انوار کے پھیلنے کی بشارت بھی دی.حضور نے 5 اگست 1966ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا: ایک دن جب میری آنکھ کھلی تو میں بہت دعاؤں میں مصروف تھا.اس وقت عالم بیداری میں میں نے دیکھا کہ جس طرح بجلی چمکتی ہے اور زمین کو ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک روشن کر دیتی ہے اسی طرح ایک نور ظاہر ہوا اور اس نے زمین کو ایک کنارے سے لے کر دوسرے کنارے تک ڈھانپ لیا.پھر میں نے دیکھا کہ اس نور کا ایک حصہ جیسے جمع ہورہا ہے.پھر اس نے الفاظ کا جامہ پہنا اور ایک پُر شوکت آواز فضا میں گونجی جو اس نور سے ہی بنی ہوئی تھی اور وہ ہی تھی.بشری لکم یہ ایک بڑی بشارت تھی لیکن اس کا ظاہر کرنا ضروری نہ تھا.ہاں دل میں ایک خلش تھی اور خواہش تھی کہ جس نور کو میں نے زمین کو ڈھانپتے ہوئے دیکھا ہے.جس نے ایک سرے سے دوسرے سرے تک زمین کو منور کر دیا ہے.اس کی تعبیر بھی اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے مجھے سمجھائے.چنانچہ وہ ہمارا خدا جو بڑا ہی فضل کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے اس نے خود اس کی تعبیر اس طرح سمجھائی کہ گزشتہ پیر کے دن میں ظہر کی نماز پڑھا رہا تھا اور تیسری رکعت کے قیام میں تھا تو مجھے ایسا معلوم ہوا کہ کسی غیبی طاقت نے مجھے اپنے تصرف میں لے لیا ہے اور اس وقت مجھے یہ تفہیم ہوئی کہ جو
355 نور میں نے اس دن دیکھا تھا وہ قرآن کا نور ہے جو تعلیم القرآن کی سکیم اور عارضی وقف کی سکیم کے ماتحت دنیا میں پھیلایا جارہا ہے.اللہ تعالیٰ اس مہم میں برکت ڈالے گا اور انوار قرآن اسی طرح زمین پر محیط ہو جائیں گے جس طرح اس نور کو میں نے زمین پر محیط ہوتے ہوئے دیکھا ہے.وسعت پذیرتحریک: (خطبات ناصر جلد اول ص 344 ) بیرونی ممالک کے احمدیوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ اپنے اپنے ممالک میں وقف عارضی کریں.مگر بعد میں حضرت خلیفہ مسیح الرابع اور پھر حضرت خلیفتہ امسیح الخامس ایدہ اللہ نے ممالک بیرون میں وقف عارضی کی تحریک فرمائی.خدائی فضل ونصرت: جن لوگوں نے تحریک وقف عارضی میں حصہ لیا اللہ تعالیٰ نے ان پر انفرادی اور اجتماعی طور پر مختلف رنگوں میں بے پناہ فضل نازل فرمائے.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ نے ایک موقع پر ان افضال کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:.اس تحریک میں حصہ لینے والے ان پڑھ تھے یا کم پڑھے ہوئے تھے یا بڑے عالم تھے.چھوٹی عمر کے تھے یا بڑی عمر کے، اللہ تعالیٰ نے ان پر قطع نظر ان کی عمر علم اور تجربہ کے ( کہ اس لحاظ سے ان میں بڑا ہی تفاوت تھا) اپنے فضل کے نزول میں کوئی فرق نہیں کیا.اس عرصہ میں ان سب پر اللہ تعالیٰ کا ایک جیسا فضل ہوتا رہا.اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے اور اس کے فضل سے 99 فیصدی واقفین عارضی نے بہت ہی اچھا کام کیا.ان میں سے ہر ایک کا دل اس احساس سے لبریز تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس عرصہ میں اس پر اتنے فضل نازل کئے ہیں کہ وہ اس کا شکر ادا نہیں کر سکتا اور اس کے دل میں یہ تڑپ پیدا ہوئی کہ خدا کرے اسے آئندہ بھی اس وقف عارضی کی تحریک میں حصہ لینے کی توفیق ملتی رہے اور بعض جماعتوں نے تو یہ محسوس کیا کہ گویا انہوں نے نئے سرے سے ایک احمدی کی زندگی اور اس کی برکات حاصل کی ہیں.ان کی غفلتیں ان سے دور ہوگئی ہیں اور ان میں ایک نئی روح پیدا ہوگی.ان میں سے بہتوں نے تہجد کی نماز پڑھنی شروع کر دی اور جو بچے تھے انہوں نے اپنی عمر کے مطابق بڑے جوش اور اخلاص کے ساتھ قرآن کریم، نماز یا نماز کا ترجمہ اور دوسرے مسائل سیکھنے شروع کئے.غرض واقفین
356 عارضی کے جانے کی وجہ سے ساری جماعت میں ایک نئی زندگی ایک نئی روح پیدا ہوگئی.جیسا کہ میں نے بتایا ہے خود واقفین عارضی نے یہ محسوس کیا کہ اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے ان پر بڑے فضل نازل کئے ، بڑی برکتیں نازل کیں.ان میں سے بعض اپنا عرصہ پورا کرنے کے بعد واپس آکر مجھے ملے تو ہر فقرہ کے بعد ان کی زبان سے یہ نکلتا تھا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل کے بڑے نمونے دیکھے ہیں.ان کے منہ سے اور ان کی زبان سے خود بخود اس قسم کے فقرے نکل رہے تھے اور یہ حقیقت ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل اور برکت سے کیا ہے نہ کہ ہماری کسی خوبی کے ( خطبات ناصر جلد اول ص 402) وقف عارضی اصلاح نفس کا ذریعہ ہے حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ فرماتے ہیں:.تحریک وقف عارضی کا دوسرابڑا فائدہ یہ ہے کہ جولوگ وقف عارضی پر جاتے ہیں ان کو اپنے نفس کا بعض پہلوؤں سے محاسبہ کرنا پڑتا ہے.جانے سے قبل انہیں اپنی بعض کمزوریوں کی طرف توجہ ہو جاتی ہے اور دعاؤں کی طرف ان کی توجہ مائل ہو جاتی ہے.یعنی وقف عارضی پر جانے کی جو تیاری ہے اس کا بڑا حصہ یہ ہے کہ وہ دعاؤں کی طرف متوجہ ہوتے اور اپنی دینی معلومات میں اضافہ کرتے یا انہیں تازہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کچھ کتب اپنے ساتھ لے جاتے ہیں.وہ سوچتے ہیں اور اپنی عقلوں اور کمزوریوں پر نگاہ رکھتے ہیں اور انہیں دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں.ان کے اندر یہ جذ بہ پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ دوسری جگہ جائیں تو لوگوں کے لئے نیک نمونہ بنیں ، ان کے لئے ٹھوکر کا باعث نہ بنیں.چنانچہ وقف عارضی کے وفود نے دعاؤں کی برکات سے بہت فائدہ اٹھایا ہے.نئی زندگی: 66 الفضل 12 فروری 1977ء) وقف عارضی کی سکیم قرآن کریم پڑھنے اور پڑھانے کا بہترین موقع ہے.حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:.میں نے ایک بزرگ کو ایک ایسی جماعت میں بھیجا جو تعداد میں بہت بڑی ہے.انہوں نے وہاں
357 جا کے مسجد میں ڈیرہ لگالیا اور دعائیں کرنے لگ گئے.انہوں نے جماعت کو قرآن کریم پڑھنے کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے دیکھا کہ شروع میں جماعت پر کوئی اثر نہیں ہو رہا.پہلے ہفتہ انہوں نے یہ رپورٹ بھیجی کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جماعت مرچکی ہے اور اس کے زندہ ہونے کی اب کوئی امید نہیں.دوسرے ہفتہ رپورٹ بھی اس قسم کی تھی.تیسرے ہفتہ کی رپورٹ میں انہوں نے لکھا کہ میں نے پہلے جو رپورٹیں بھجوائی ہیں وہ سب غلط تھیں جماعت مری نہیں بلکہ زندہ ہے لیکن خواب غفلت میں پڑی ہوئی ہے.اگر اس کی تربیت کی جائے اور اسے جھنجھوڑا جائے تو اس کی زندگی کے آثار زیادہ نمایاں ہو جائیں گے.وہ زندگی جو جماعت ہائے احمدیہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اپنے رب سے حاصل کی ہے.خطبات ناصر جلد اول ص 404) ایک واقف عارضی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے یہ تحریک بڑی بابرکت اور ایمان افروز اور اعلیٰ نتائج کی حامل ہے.اس تحریک سے جماعتوں کے اندر ایک نئی بیداری، روحانی تغیر اور بیداری کی روح پیدا ہوگئی ہے.یہ تحریک یقیناً ایک روحانی انقلاب لائے گی.سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ترقیات کا موجب ہوگی اور سرفروشان و مجاہدین کی جماعت پیدا کرے گی.(الفضل 10 مئی 1967ء) خلوص کو خراج تحسین: واقفین عارضی جس محنت ، خلوص اور سرفروشانہ جد و جہد سے قرآن کی تعلیم و تدریس میں مشغول رہتے ہیں وہ دیکھنے والوں پر گہرا اثر ڈالتا ہے.واقفین عارضی بستی طاہر خان میں پہنچے تو ان کی دیوانہ وار محنت کو دیکھ کرسیکرٹری مال نے لکھا:.یہ بھی حضرت مسیح موعود کا ایک معجزہ ہے کہ کتنی کتنی دور سے دوست اپنے کاروبار دنیوی چھوڑ کر دین کی خاطر اپنے خرچ پر شہروں کو چھوڑ کر جنگلوں میں تعلیم قرآن دیتے پھرتے ہیں.ہر قسم کی مصیبتیں برداشت کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے.آمین (الفضل 23 ستمبر 1966ء) ایک واقف عارضی نے لکھا:.وقف عارضی پر آنے سے پہلے دعوت الی اللہ اور تربیتی نقطہ نظر سے کچھ کتب کے مطالعہ کا موقع ملا.ضرورت کے مطابق کتب ساتھ بھی رکھیں اور خدا کے حضور عاجزانہ دعائیں کرتے ہوئے کام شروع کیا.خود اپنے نفس کا محاسبہ کرنے اور اپنی اصلاح کا خوب خوب موقع ملا.بفضلہ تعالیٰ وقف
358 عارضی کے دوران تہجد میں مزید با قاعدگی اور سلسلہ کی کتب کے مطالعہ میں انتہاک میسر آیا.اس کے ساتھ وقف عارضی کا ایک اور بڑا فائدہ یہ ہوا کہ قرآن پاک کا پہلا پارہ اور بعض دوسرے حصے حفظ کر لئے اور یہ حفظ کا سلسلہ جاری ہے.وقف عارضی کی برکت سے مطالعہ کا غیر معمولی شوق پیدا ہوا.(الفضل 28 /اکتوبر 2005ء) ایک صاحب نے اپنا عرصہ وقف گزارنے کے بعد حضور کی خدمت میں لکھا:.سیدی! عاجز کی شادی کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا اور تاریخ بارات کے روز جو خوشی ہوئی تھی وہ وقف عارضی کے نتیجے میں حاصل ہونے والی قلبی بشاشت کے مقابلہ میں حقیر ترین ہوگئی.الحمدللہ زبان پر یہ شعر آ رہا تھا اس جہاں کو چھوڑنا ہے تیرے دیوانوں کا کام نقد پالیتے ہیں وہ اور دوسرے امیدوار خیال آتا تھا کہ وہ مبارک لوگ کس قدر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے مورد ہیں جنہوں نے ساری زندگی دین کے لئے قربان کی ہوئی ہے.ذاتی تجربہ: ایک وفد نے اپنی رپورٹ میں لکھا:.( افضل 31 مارچ 1967ء) حضور کی اس وقف عارضی کی تحریک سے اصلی فائدہ تو وہ لوگ محسوس کر سکتے ہیں جو واقعہ میں اس میں شامل ہو کر اپنے گھروں اور عزیزوں سے عارضی طور پر جدا ہوتے ہیں اور کچھ کام اور دعائیں کرنی شروع کرتے ہیں.ہم نے تو ان دنوں میں وہ کچھ محسوس کیا ہے جو گھر بیٹھے شاید سال بھر میں بھی ہم نہ ( الفضل یکم اپریل 1967ء) پاتے.ایک وفد نے حضور کی خدمت میں لکھا:.وقف عارضی کے دو ہفتوں کے دوران ہم نے اپنے دل میں ایک عجیب روحانی کیفیت محسوس کی، ہماری روحیں ہردم آستانہ الوہیت پر سجدہ ریز رہیں.ہم نے قبولیت دعا کے نظارے دیکھے.احمدیت کی تائید میں متعدد خدائی نشانوں کا ظہور ملاحظہ کیا اور برکات خلافت کے عجیب رنگ کے کرشمے دیکھے.یہ محض فضل الہی تھا وگرنہ ہم عاجز اور گنہگار بندے کس شمار میں ہیں.الفضل 10 مئی 1967 ء )
359 پس وقف عارضی کے ایام میں محاسبہ نفس کا موقع ملتا ہے.وسعت مطالعہ اور غور وفکر کی عادت پیدا ہوتی ہے.خود اعتمادی نشو و نما پاتی ہے.تقریر اور خطاب کرنے کی مشق ہوتی ہے.نئی نئی جگہوں پر جانے سے سیر و تفریح اور نئے نئے علاقے دیکھنے کا وقت میسر آتا ہے.وقف عارضی کے نتیجہ میں باہمی اخوت، مودت کے جذبات کا دائرہ وسیع ہوتا ہے.رشتہ ناطہ کے معاملات میں بھی فائدہ ہوتا ہے.حضرت خلیفہ المسیح الثالث جماعت کو عموماً اور اہل ربوہ کو خصوصیت سے اس طرف متوجہ کرتے اور الہامی بشارت دیتے ہوئے 23 ستمبر 1966ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:.کل رات میں سوچ رہا تھا کہ مجھے جتنے واقفین چاہئیں.اس تعداد میں واقفین مجھے نہیں ملے.مثلاً ربوہ کی ہی جماعت ہے.آج جو دوست میرے سامنے بیٹھے ہیں ان میں کثرت ربوہ والوں کی ہے لیکن ان میں سے بہت کم ہیں جنہوں نے وقف عارضی میں حصہ لیا اور یہ بات قابل فکر ہے کہ کیوں آپ کی توجہ ان فضلوں کے جذب کرنے کی طرف نہیں ہے جو اس وقت اللہ تعالیٰ واقفین عارضی پر کر رہا ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے میں رات سوچ رہا تھا کہ مجھے جتنے واقفین عارضی چاہئیں اتنے نہیں ملے حالانکہ اس کی بہت ضرورت ہے.تو جب میں سویا میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے سامنے ایک کاغذ آیا ہے اور اس کاغذ پر دو فقرے خاص طور پر ایسے تھے کہ خواب میں میری توجہ ان کی طرف مبذول ہوئی“.پھر حضور نے ان فقرات کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرمایا:.اس کے ایک معنی رفعت اور علو حاصل کرنے والے کے ہیں اور ان معنوں کے لحاظ سے اس میں یہ بشارت ہے کہ جماعت میں سے جو لوگ قرآنی علوم سیکھنے کے لحاظ سے ضعیف کہلانے والے ہیں اب اللہ تعالیٰ ان کے لئے ایسے سامان پیدا کر دے گا کہ وہ بھی علو مرتبت اور قرآن کریم کی ان رفعتوں تک پہنچنے والے ہوں گے.جن رفعتوں تک پہنچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو نازل کیا ہے.سو الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ بشارت دے رہا ہے لیکن ہر وہ بشارت جو آسمان سے نازل ہوتی ہے زمین والوں پر ایک ذمہ داری عائد کرتی ہے اور اس ذمہ داری کو پورا کرنا ان کا فرض ہوتا ہے.(خطبات ناصر جلد اول ص 403
360 فضل عمر فاؤنڈیشن سید نا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے نصف صدی سے زائد عرصہ جماعت کی شاندار قیادت فرمائی اور جماعت کے ہر شعبہ کو ترقیات کے نئے نئے سنگ میل عطا کئے.حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے حضرت مصلح موعود کی یادگار کے طور پر جلسہ سالانہ 1965ء پر آپ کے محبوب مقاصد کو جاری رکھنے کے لئے فضل عمر فاؤنڈیشن کے قیام کا اعلان فرمایا.حضور نے اس مقصد کے لئے 25لاکھ روپیہ کا سرمایہ 3 سال کے اندر اکٹھا کرنے کی تحریک فرمائی.احباب جماعت نے اس پر لبیک کہا اور موصولہ عطایا کی مقدار نقد اور موصو بہ جائیداد کی صورت میں 45 لاکھ تک پہنچ گئی.( الفضل خلیفہ ثالث نمبر ص 35) یوں تو جماعت کے تمام ادارے اور پروگرام حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے مقاصد کی تکمیل کے لئے سرگرم عمل ہیں مگر خاص آپ کے نام نامی سے موسوم اس تحریک نے احباب جماعت کے دلوں میں بے پناہ ولولہ پیدا کر دیا.چنانچہ حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے اس تحریک کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.فضل عمر فاؤنڈیشن کی تحریک محبت و عقیدت کے اس چشمہ سے پھوٹی ہے جو احباب کے دل میں اپنے پیارے آقا اصلح الموعودؓ کے لئے ہمیشہ موجزن رہی اور موجزن رہے گی.پھر فرمایا: (الفضل یکم جون 1966 ء ) د فضل عمر فاؤنڈیشن تو دراصل اظہار ہے اس محبت کا جو ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود کے لئے پیدا کی اور یہ محبت اس لئے پیدا ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود کو جماعت پر بحیثیت جماعت اور لاکھوں افراد جماعت پر بحیثیت افراد بیشمار احسانات کرنے کی توفیق عطا فرمائی تو خدا تعالیٰ کے حمد وشکر کے طور پر اور اس محبت کے نتیجہ میں جو ہمارے دلوں میں اس پاک وجود کے لئے ہے.ہم نے کلمہ اسلام کی اشاعت کے لئے اس فاؤنڈیشن کو جاری کیا ہے.(الفضل 24 مئی 1966 ء ) اس تحریک کا خوبصورت دفتر صدر انجمن احمدیہ کی عمارت کے عقب میں واقع ہے جس کا افتتاح
361 15 جنوری 1967ء کو ہوا.حضرت مصلح موعودؓ کو حاصل ہونے والے آسمانی علوم کو یہ ادارہ نہایت عمدگی سے محفوظ کر رہا ہے اور آپ کے مقاصد کی تکمیل کرتے ہوئے بیش بہا خدمات سرانجام دے رہا ہے.اس ادارہ کی طرف سے اب تک شائع ہونے والی کتب درج ذیل ہیں.خطبات محمود ( خطبات جمعہ، نکاح ، عیدین )18 جلدیں انوار العلوم ( حضور کی کتب، تقاریر تحریرات ) 19 جلدیں سوانح فضل عمر مکمل 5 جلد میں م رویا و کشوف سید نامحمود خلافت علی منہاج النبوۃ از افاضات حضرت مصلح موعود سیر روحانی، سیرۃ النبی، فضائل القرآن ، نظام نو ، احمدیت ، تقاریر محمد سمیت 50 کے قریب قیمتی کتب شائع کی جاچکی ہیں.حضرت مصلح موعودؓ کی خواہش کی تکمیل میں فضل عمر فاؤنڈیشن نے خلافت لائبریری کی عمارت تعمیر کر کے صدر انجمن احمدیہ کے حوالے کی جس کا افتتاح حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے 3 اکتوبر 1971ءکو فرمایا.چند سال قبل اس عمارت میں توسیع بھی ہو چکی ہے اور اس وقت اس میں کئی لاکھ کتب و رسائل اور قلمی نسخے موجود ہیں.سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی خواہش تھی کہ جماعت کے اہل علم و قلم احباب دینی علمی مسائل پر تصانیف مرتب کر کے شائع کریں.اس خواہش کی تکمیل کے لئے فضل عمر فاؤنڈیشن نے تصانیف کے انعامی مقابلے ہر سال منعقد کرنے کا فیصلہ کیا.اس ضمن میں متعلقہ عنوانات کو پانچ اصناف میں تقسیم کر کے ہر صنف کے عنوانات میں اول قرار پانے والے مقالوں کے لئے انعام دینے کا فیصلہ کیا.اس طرح ہر سال پانچ انعامات دینے کی گنجائش رکھی جاتی ہے.یہ مقالہ جات 1967ء سے جاری ہیں.مئی 2007 ء تک 129 مقالے موصول ہوئے جن میں 37 کو انعام دیا جا چکا ہے.سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کے منشاء مبارک کے مطابق فضل عمر فاؤنڈیشن نے جدید طرز کا
362 ایک وسیع گیسٹ ہاؤس بیرونی ممالک کے وفود کے قیام دوران جلسہ سالانہ کے لئے تعمیر کروا کر اس کی عمارت تحریک جدید انجمن احمدیہ کے سپرد کی.یہ عمارت سرائے فضل عمر کے نام سے موسوم ہے.بیرونی ممالک سے جو وفود جلسہ سالانہ میں شریک ہوتے ہیں ان کے اراکین جلسہ سالانہ کے دوران ہونے والی تقاریر کو جوار دو میں ہوتی ہیں، اردو زبان سے ناواقف ہونے کی وجہ سے سمجھ نہیں سکتے تھے.سیدنا حضرت خلیفتہ امسح الثالث نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ ان کے لئے انگریزی اور انڈونیشین زبانوں میں تقاریر کا ساتھ کے ساتھ ترجمہ سنانے کا انتظام کیا جائے.فضل عمر فاؤنڈیشن نے حضور کے اس منشاء کو پورا کرنے کے لئے ضروری آلات، ماہر انجینئروں کے ذریعے تیار کروائے اور ان مشینوں کے چلانے والی ٹیموں کا بھی انہی ماہرین کے ذریعہ انتظام کرایا.چنانچہ جلسہ سالانہ 1980ء سے مذکورہ ہر دو زبانوں میں جلسہ گاہ مردانہ اور زنانہ ہر دو میں ترجمہ سنانے کا انتظام کیا گیا.قرآن کریم کے فرانسیسی ترجمہ کی اشاعت کے لئے امداد کی گئی.جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے لئے روٹی پکانے کی مشین کی تیاری کے لئے مالی امداد کی گئی.ایک فوٹوسٹیسٹ مشین 75 ہزار روپے میں خرید کی گئی جو بعد میں بورڈ کے فیصلہ کے مطابق جامعہ احمدیہ کو بطور عطیہ دے دی گئی.فضل عمر فاؤنڈیشن کے پہلے صدر حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب اور سیکرٹری محترم شیخ مبارک احمد صاحب تھے.اس کے ڈائریکٹر ز کا 3 سال کے لئے تقر ر ہوتا ہے.اس وقت صدر کرم چوہدری حمید نصر اللہ خان صاحب لاہور اور سیکرٹری مکرم ناصر احمد صاحب شمس مربی سلسلہ ہیں.
363 نصرت جہاں سکیم افریقن اقوام مدتوں سے انسانیت سوز مظالم کا نشانہ بنی ہوئی تھیں.ان کو غلام بنا کر جدید دنیا کی تعمیر میں اینٹوں اور پتھروں کی طرح استعمال کیا گیا.ان کی معدنی دولت لوٹ لی گئی.انہیں ہر شرف اور عزت سے بے نصیب کر دیا گیا اور انہیں اندھیروں میں بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیا گیا.ان قوموں کی دوبارہ زندگی حضرت مسیح موعود اور ان کے غلاموں کے ذریعہ مقدر تھی.چنانچہ حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں ہی ان مظلوموں تک احمدیت کا پیغام پہنچا.سعید روحوں نے اسے قبول کیا اور ان کی روحانی پاکیزگی کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا.جو خلافت ثانیہ میں بھی جاری رہا.اس منصوبے میں ایک عظیم موڑ اس وقت آیا جب حضرت مسیح موعود کے نائب حضرت خلیفہ لمسیح الثالث نے 1970ء میں افریقہ کا پہلا دورہ فرمایا، جو 6 ممالک کا تھا.یہ دنیا کی تاریخ کا ایک عظیم واقعہ تھا کہ اس سرزمین نے پہلی دفعہ خلیفہ المسیح کے قدم چومے اور محبت کا چشمہ اس سرزمین سے پھوٹ پڑا.حضور دورہ افریقہ کے دوران گیمبیا میں تشریف فرما تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں ایک عظ تحریک القاء کی.آپ نے فرمایا :.وو گیمبیا میں ایک دن اللہ تعالیٰ نے بڑی شدت سے میرے دل میں یہ ڈالا کہ تم کم از کم ایک لاکھ پونڈ ان ملکوں میں خرچ کرو اور اس میں اللہ تعالیٰ بہت برکت ڈالے گا“.(الفضل 20 جون 1970 ء) سکولوں اور ہسپتالوں کا جال اس رقم سے افریقہ میں سکولوں اور ہسپتالوں کا ایک جال بچھانا مقصود تھا.چنانچہ حضور نے مالی تحریک کے ساتھ واقفین ڈاکٹر ز اور ٹیچرز کو آواز دی جو وہاں بے لوث خدمت کریں.حضور نے اس سکیم کا اعلان سب سے پہلے دورہ افریقہ کے بعد 24 مئی 1970ء کو مسجد فضل لندن میں فرمایا حضور نے خطبہ جمعہ 12 جون 1970 ء میں اس کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.یہ ایک لاکھ پاؤنڈ کی رقم کم سے کم ہے اور اس سلسلہ میں انگلستان کی جماعتوں میں سے مجھے دوسو ایسے مخلص آدمی چاہئیں جو دو سو پاؤنڈ فی کس کے حساب سے دیں اور دوسو ایسے مخلصین جو ایک سو پاؤنڈ
364 فی کس کے حساب سے دیں اور باقی جو ہیں وہ 36 پاؤنڈ دیں ان میں سے بارہ پاؤنڈ (ایک پاؤنڈ ایک مہینے کے لحاظ سے فوری طور پر دے دیں میں نے انہیں کہا کہ قبل اس کے کہ میں انگلستان چھوڑوں اس مد میں دس ہزار پاؤنڈ جمع ہونے چاہئیں.میں نے جمعہ کے خطبہ میں انہیں کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا منشاء ہے کہ ہم یہ رقم خرچ کریں اور ہسپتالوں اور سکولوں کے لئے جتنے ڈاکٹر ز اور ٹیچر چاہئیں وہاں مہیا کریں.چنانچہ 2 دن کے اندر 28 ہزار پاؤنڈز کے وعدے ہوئے اور حضور نے اس کا نام نصرت جہاں ریز روفنڈ رکھا.خطبات ناصر جلد 3 ص 125) حضور نے 2 اکتوبر 1970ء کے خطبہ میں فرمایا: میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی تھی کہ خلافت احمدیہ پر 62 سال کے قریب گزر چکے ہیں جماعت طاقت رکھتی ہے کہ اگر بشاشت سے ہمت کر کے کام کرے تو باسٹھ لاکھ روپیہ ایک لاکھ روپیہ فی سال کے حساب سے نصرت جہاں ریزروفنڈ میں جمع ہو جانا چاہئے.(خطبات ناصر جلد 3 ص 355) حضور نے 26 جون 1970ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:.انگلستان میں جب میں نے تحریک کی تو وہاں کے بعض بڑے بڑے تعلیم یافتہ اور اونچی ڈگریاں لینے والے احمدی ڈاکٹروں نے افریقہ میں کام کرنے کے لئے رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کردیں.بہر حال ہمیں کم سے کم 30 ڈاکٹروں اور 80,70 ٹیچرز کی ضرورت ہے.خطبات ناصر جلد 3 ص 171 بے لوث خدمات: چنانچہ جماعت نے حضور کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے ایک طرف تو اپنی پاک کمائی خدا کی راہ میں لثانی شروع کر دی اور ایک لاکھ پاؤنڈ کے مقابل پر اڑھائی لاکھ پاؤنڈ پیش کر دیئے اور دوسری طرف ڈاکٹروں اور اساتذہ نے وقف کی درخواستیں دینی شروع کر دیں.حضور نے فرمایا کہ وہ منصوبہ جس کے متعلق خیال تھا کہ سات سال میں مکمل ہوگا وہ ڈیڑھ 2 سال میں مکمل ہو گیا.(الفضل 13 دسمبر 1975ء)
365 حضور نے مجلس نصرت جہاں قائم کر کے مربوط اور ثمر آور کوشش کا ارشاد فر مایا.چنانچہ حضور کے دورہ کے 6 ماہ کے اندر ستمبر 70ء میں غانا میں پہلا سکول اور نومبر 1970ء میں غانا میں ہی پہلا ہسپتال قائم ہو گیا.خلافت ثالثہ کے اختتام تک 6 افریقن ممالک (غانا)، سیرالیون، نائیجیریا، گیمبیا، لائبیریا ، آئیوری کوسٹ) میں 19 ہسپتال اور 24 سکول کام کر رہے تھے اور ان اداروں کا سالانہ بجٹ 4 کروڑ سے تجاوز کر چکا تھا.ہسپتالوں اور سکولوں کی کروڑوں روپوں کی عمارتیں اس کے علاوہ تھیں.جون 1982 ء تک 27لاکھ مریضوں کا علاج کیا گیا.سکولوں سے 28 ہزار بچوں نے تعلیم حاصل کی.آسمانی تائید و نصرت: اس سکیم میں اللہ تعالیٰ نے جو برکت ڈالی اس کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.اس سکیم کے تحت بہت سے احباب نے جانی قربانی کا جو نمونہ پیش کیا وہ بھی کچھ کم اہم نہیں ہے.بہت سے ڈاکٹروں نے مغربی افریقہ میں نئے کلینک کھولنے اور انہیں چلانے کے لئے تین تین سال وقف کئے.میں نے ان سے کہا تم خدمت کے لئے جار ہے ہو.جاؤ ایک جھونپڑا ڈال کر کام شروع کر دو اور مریضوں کی ہر ممکن خدمت بجالا ؤ.میں ابتدائی سرمائے کے طور پر انہیں صرف پانچ سو پونڈ دیتا تھا.انہوں نے اخلاص سے کام شروع کیا.غریبوں سے ایک پیسہ لئے بغیر ان کی خدمت کی.امراء نے وہاں کے طریق کے مطابق اپنے علاج کے اخراجات خود ادا کئے.اب وہاں ہمارے ایسے ہسپتال بھی ہیں جن کی بچت تمام اخراجات نکالنے کے بعد ایک ایک لاکھ پونڈ سالانہ ہے.دو سال کے اندر اندر سولہ ہسپتال کھولنے کی توفیق مل گئی.پھر ان کی تعداد بڑھتی چلی گئی اور اب تو میڈیکل سنٹروں کی تعداد چو بیس پچیس ہوگئی ہوگی وہاں لوگ ہمارے پیچھے پڑے رہتے ہیں کہ ہمارے علاقہ میں بھی ہسپتال قائم کرو.اسی طرح مغربی افریقہ کے ممالک میں پہلے یہ حالت تھی کہ مسلمانوں کا کوئی ایک پرائمری سکول بھی نہ تھا.سارے سکول عیسائی مشنوں کے ہوتے تھے.مسلمان بچے بھی انہی کے سکولوں میں پڑھنے پر مجبور تھے.وہ براہ راست بائبل کی تعلیم دیئے بغیر ان کا عیسائی نام رکھ کر انہیں چپکے سے عیسائی بنا لیتے تھے.جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے وہاں پرائمری، مڈل اور ہائر سیکنڈری سکول کھولنے کی توفیق دی.
366 اس طرح وہاں مسلمان بچوں کی تعلیم کا انتظام ہوا.نصرت جہاں منصوبہ کے تحت سولہ نئے ہائر سیکنڈری سکول کھولنے کا وعدہ کیا گیا تھا.خدا تعالیٰ نے وہاں اس سے زیادہ تعداد میں سکول کھولنے کی توفیق عطا کر دی.غلبہ اسلام کی مہم کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے مضبوط بنیادوں کی ضرورت تھی.سو اللہ تعالیٰ نے نصرت جہاں منصوبہ کے تحت یہ بنیادیں فراہم کر دیں.اب وہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری اس خدمت کا اتنا اثر ہے کہ نائیجیریا میں ہماری جماعت کے جلسہ سالانہ میں ملک کے صدر نے جس کا تعلق مسلم نارتھ سے ہے جو پیغام بھیجا اس میں جماعت کی خدمات کو سراہتے ہوئے لکھا کہ میں تمام مسلمان فرقوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ انہیں بھی ملک وقوم کی اسی طرح خدمت کرنی چاہئے.جس طرح جماعت احمد یہ نائیجیر یا کر رہی ہے.(دورہ مغرب ص 24) خدمات کا اعتراف: سیرالیون کے مسلمانوں کی سب سے بڑی اور با اثر تنظیم سیرالیون مسلم کانگرس کے صدر اور ملک کے وزیر مملکت جناب مصطفی سنوسی صاحب نے جماعت احمدیہ کی خدمات کو سراہتے ہوئے فرمایا:.میں ہمیشہ احمدیت کا مداح اور خیر خواہ رہا ہوں بعض لوگ میری اس عقیدت اور محبت کو پسند نہیں کرتے.میں انہیں بتاتا ہوں کہ احمدیت ایک سچائی ہے اور سچائی کے لئے دن رات ہماری بے لوث خدمت کر رہی ہے.12 سیکنڈری سکول اور 50 پرائمری سکول چلا نا معمولی بات نہیں.یہ کام صرف اخلاص ، جذ بہ اور نیک نیتی جیسی خوبیوں سے آراستہ لوگ ہی سرانجام دے سکتے ہیں“.نیز فرمایا:.(الفضل 19 اپریل 1980 ء ) طب کے میدان میں جماعت احمدیہ کی خدمات آب زر سے لکھی جانی چاہئیں“.تعلیمی اداروں میں بھی خدا تعالیٰ نے غیر معمولی برکت کے سامان پیدا فرمائے.یہ ادارے ہر ملک میں روشنی کے مینار بن کر لوگوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا موجب بنے اور بن رہے ہیں وہاں کے لوگ فخر سے بیان کرتے ہیں کہ ہم نے احمد یہ سکول سے تعلیم حاصل کی ہے ان سکولوں سے فارغ التحصیل طلباء آج اپنے اپنے ملکوں میں اہم عہدوں پر فائز ہیں اور خدمات بجالا رہے ہیں.اس تحریک کی کامیابی کے بارہ میں سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے فرمایا:.
367 نصرت جہاں سکیم کو اللہ تعالیٰ نے ایسی عظیم الشان کامیابی عطا کی ہے کہ ساری دنیا کے دماغ مل کر بھی اس کا تصور نہیں کر سکتے“.نمایاں امتیاز تقریر جلسہ سالانہ 27 دسمبر 1980ء) عیسائیت بھی محبت اور خدمت کا پیغام لے کر افریقہ میں داخل ہوئی مگر اس کے مقابلہ پر نصرت جہاں سکیم کے ذریعہ احمدیہ خدمات کو ایک نمایاں امتیاز حاصل ہے.جسے حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے اہل افریقہ کے سامنے بار ہا بیان کیا.ایک موقع پر فرمایا:.میں انہیں ہمدردی و غمخواری اور پیار و محبت کی بہت سی مثالیں دیتا تھا جماعت احمدیہ کا عمل ان کے سامنے پیش کرتا تھا.اپنی پچاس سالہ تاریخ ان کے رو برود ہرا تا تھا اور میں انہیں بتا تا تھا کہ یہ تو درست ہے کہ آج سے چند صدیاں قبل مسیحیت تمہارے ملک میں یہی نعرے لگاتے داخل ہوئی تھی کہ ہم پیار کا ، Love کا پیغام لے کر آرہے ہیں لیکن محبت کے اس پیغام کے جھنڈے ان تو پوں پر گاڑے گئے تھے جو یورپ کی مختلف اقوام کی فوجوں کے پاس تھیں اور ان تو پوں کے مونہوں سے گولے بر سے پھول نہیں بر سے اور وہ محبت کا پیغام کامیاب نہیں ہوا نہ اسے ہونا چاہئے تھا نہ وہ ہوسکتا تھا کیونکہ اس سے بہتر ، اس سے زیادہ پیارا پیغام حضرت محمد رسول ﷺ کے ذریعہ دنیا کی طرف نازل ہو چکا تھا.اب ہم تمہارے پاس محبت کا پیغام لے کر آئے ہیں اور قریباً پچاس سال سے مختلف ملکوں میں تمہاری خدمت کر رہے ہیں اور تم میں سے ہر شخص بڑا بھی اور چھوٹا بھی ، حاکم بھی اور محکوم بھی رعایا بھی اور ان کے افسر بھی جانتے ہیں کہ اس پچاس سالہ تاریخ میں نہ ہم نے تمہاری سیاست میں کبھی دلچسپی لی اور نہ اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ، نہ تمہارے مالوں کی طرف ہم نے حرص کی نگاہ اٹھائی تم جانتے ہو ہم نے جو کچھ کمایا وہ تمہارے ملکوں ہی میں لگا دیا اور تم نے جو کچھ نہیں کمایا بلکہ کسی اور نے کسی اور ملک میں کما یاوہ بھی یہاں لائے اور اسے بھی تمہاری خدمت پر لگا دیا.(خطبہ جمعہ 12 جون 1970 ء.خطبات ناصر جلد 3 ص 113
368 نصرت جہاں تنظیم نو سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے 1988ء میں افریقہ کا دورہ فرمایا اور 22 جنوری 1988 ء کو خطبہ جمعہ میں نصرت جہاں سکیم میں نئے اضافے فرمائے.آپ نے فرمایا:.افریقہ کو جب تاریخی نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو افریقہ کے ساتھ جو سلوک ہوا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ باہر سے بہت سی قومیں آئیں اور ترقی کے نام پر انہوں نے یہاں بہت سے کام کئے لیکن ان کی اس ساری جد و جہد کا خلاصہ یہ تھا کہ انہوں نے افریقہ میں کمایا اور باہر کی دنیا پر یہاں کی کمائی خرچ کی.خدا تعالیٰ نے میرے دل میں بڑے زور سے یہ تحریک پیدا فرمائی کہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ اس تاریخ کا رخ بدل دیا جائے اور تمام عالمگیر جماعت احمد یہ دنیا میں کمائے اور افریقہ میں خرچ کرے.غیروں نے جو آپ کو زخم لگائے ہیں احمدیت کو خدا توفیق بخشے کہ ان زخموں کے اند مال کا سامان پیدا کرے.غیر جو آپ کی دولتیں لوٹ چکے وہ لوٹی ہوئی دولتیں آپ کو واپس نہیں کریں گے لیکن خدا جماعت احمدیہ کو تو فیق عطا فرمائے گا کہ ان کی لوٹی ہوئی دولت جماعت احمد یہ آپ کو واپس کر رہی ہوگی.میں تمام دنیا کی احمدی جماعتوں کو سر دست پہلی ہدایت یہ کرتا ہوں کہ وہ کمر ہمت کسیں اور افریقہ کی ہر میدان میں پہلے سے بڑھ کر محض اللہ خدمت کرنے کی تیاری شروع کر دیں.مثلاً امریکہ کی احمدیہ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن جلد از جلد اپنے نمائندے بھجوائے جو سارے افریقہ کے ان ممالک کا دورہ کریں جن میں جماعت احمد یہ خدمت کی توفیق پا رہی ہے وہ جائزہ لے کر اور واپس جا کر اپنی مجلس میں معاملات رکھیں اور پھر ان کی مجلس کی طرف سے یعنی احمد یہ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن امریکہ کی طرف سے مجھے یہ سفارشات ملیں کہ افریقہ میں خدمت کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے یہ یہ تجاویز ہم پیش کرتے ہیں اور ان میں ہماری طرف سے یہ تعاون ہو گا.اسی طرح انگلستان، یورپ اور دیگر ممالک کی احمد یہ ڈاکٹرز ایسوسی ایشنز بھی مجھ سے رابطہ کریں اور بتائیں کہ وہ اس ضمن میں کیا خدمت کرنے کے لئے تیار ہیں.ڈاکٹروں کی تو میں نے ایک مثال دی ہے اس کے علاوہ بھی دنیا میں جس پیشے سے یا جس علمی مہارت سے تعلق رکھنے والے احمدی موجود ہیں.ان سب کو اپنے اپنے حالات کا جائزہ لے کر یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ وہ افریقہ کی مظلوم انسانیت کی خدمت کے لئے اپنا کتنا وقت پیش کر سکتے ہیں اور ان کی
369 کیا کیا صلاحیتیں ہیں جنہیں وہ افریقہ کی خدمت کے لئے احسن رنگ میں استعمال کر سکتے ہیں.میرا مطلب یہ ہے فنی مہارت رکھنے والے بلکہ مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگ مثلاً تاجر ہیں.صنعتوں والے ہیں جن کو کسی خاص صنعت کاری کا تجربہ ہے وہ سب آگے آئیں اور اپنی خدمات پیش.اسی طرح جو پہلی تحریکیں چل رہی ہیں اس میں بھی ہمیں شدید ضرورت ہے کہ کثرت سے نئے نام آئیں.ہر معیار اور ہر سطح کے اساتذہ کی ضرورت ہے.اسی طرح ہر معیار اور ہر سطح کے ڈاکٹرز کی ضرورت ہے.خدمت کے مطالبے بڑھتے چلے جارہے ہیں.اس لئے ان سارے امور میں نصرت جہاں تحریک نو کا میں اعلان کرتا ہوں.ایک نئے جذبے اور ایک نئے ولولے کے ساتھ ساتھ نصرت جہاں کے کام کو مزید آگے بڑھانے کے لئے ایک نیا شعبہ نصرت جہاں تحریک نوان سارے امور پر غور کرے گا اور ان سارے امور کو مرتب کرے گا اور انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کو نئے میدانوں میں افریقہ کی خدمت کرنے کی توفیق بخشے گا.(ضمیمہ ماہنامہ مصباح مارچ 1988ء) حیرت انگیز کار کردگی نصرت جہاں سکیم کے تحت اگست 2007 ء تک افریقہ کے 12 ممالک میں 56 مقامات پر ہسپتال قائم ہوئے.4 ہسپتال اس کے علاوہ ہیں جو مجلس کے قیام سے قبل افریقہ میں جاری تھے اور اب مجلس کے زیر انتظام ہیں.ان 60 ہسپتالوں میں سے 19 ہسپتال ملکی فسادات یا دیگر وجوہات کی بناء پر بند ہوئے یا زیادہ بہتر جگہ پر منتقل کر دیئے گئے.اس طرح ستمبر 2007 ء تک 41 ہسپتال کام کر رہے تھے.ممالک اور ان میں قائم شدہ ہسپتالوں کی تعداد درج ذیل ہے.ہسپتال اور میڈیکل سنٹرز 1 LO 5 له 2 2 غانا 12 یوگنڈا آئیوری کوسٹ 1 کینیا کانگو تنزانیہ 1 1 لائبیریا گیمبیا
سیرالیون بینن 370 3 3 برکینا فاسو نائیجیریا سکولز ستمبر 2007 ء تک مجلس کے 58 سیکنڈری سکولوں کی ملک وار تعداد ی تھی.غانا سیرالیون یوگنڈا 7 41 1 نائیجیریا لائبیریا گیمبیا سیکر ٹریان مجلس نصرت جہاں ریکارڈ کے لئے سیکر ٹریان مجلس نصرت جہاں کے اسماء درج ذیل ہیں :.1 - مکرم مولا نا محمد اسماعیل منیر صاحب 2 _ مکرم مسعود احمد صاحب جہلمی 3.مکرم مولا نا عطاءاللہ صاحب کلیم 4 - مکرم چوہدری محمد شریف صاحب -5 مکرم چوہدری اللہ بخش صادق صاحب 6.مکرم مبارک احمد طاہر صاحب 4 6 4 1 4
371 احمد یہ صد سالہ جوبلی منصوبہ سیدنا حضرت مسیح موعود نے 1889ء میں اپنے مقدس ہاتھوں سے جماعت کی بنیاد ڈالی اور 1914ء میں خلافت ثانیہ قائم ہوئی.1939ء میں خلافت ثانیہ کے 25 سال پورے ہونے پر (جس کے ساتھ جماعت احمدیہ کے پچاس سال پورے ہورہے تھے ) جماعت نے سلور جوبلی منائی.حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت کے 100 سال پورا ہونے پر صد سالہ جو بلی منانے کی تلقین کرتے ہوئے خطبہ جمعہ 10 جنوری 1958ء میں فرمایا:.100 سال کی جو بلی بڑی جو بلی ہوتی ہے جب جماعت کو وہ دن دیکھنے کا موقع ملے تو اس کا فرض ہے کہ وہ یہ جو بلی منائے اس وقت جماعت کا فرض ہوگا کہ ایک عظیم الشان جوبلی منائے“.الفضل 16 جنوری 1958 ء ص 4) سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے جلسہ سالانہ 1973ء پر 28 دسمبر کو جماعت کی صد سالہ جو بلی کے لئے ایک عظیم منصوبہ کا اعلان فرمایا.جو دنیا کی تاریخ میں نہایت منفرد اور انوکھا منصوبہ تھا.جس کا تعلق محض دنیاوی خوشیوں کے اظہار سے نہیں بلکہ خدمت دین اور غلبہ اسلام کی عظیم سکیموں سے تھا.آپ فرمایا کرتے تھے کہ جماعت کی پہلی صدی غلبہ اسلام کی تیاری کی صدی ہے اور دوسری غلبہ کی صدی ہے.اس غلبہ کی صدی کے استقبال کے لئے آپ نے جو بلی منصوبہ کے تین پہلو جماعت کے سامنے رکھے.تبلیغی حصہ 1.دنیا بھر میں مساجد، مشن ہاؤسز کی تعمیر.اشاعت قرآن.100 زبانوں میں اسلامی تعلیم پر مشتمل لٹریچر کی اشاعت اور دنیا کو امت واحدہ بنانا.مالی حصہ 2.اس کے لئے حضور نے جماعت سے اڑھائی کروڑ روپیہ کا مطالبہ کیا اور امید کی کہ یہ 5 کروڑ تک پہنچ جائے گا.
372 عظیم دعائیہ پروگرام: 3.مندرجہ بالا مقاصد کی تکمیل کے لئے حضور نے ایک دعائیہ منصوبہ کا بھی اعلان فرمایا اس کی تفصیل یہ ہے.1.جماعت احمدیہ کے قیام پر ایک صدی مکمل ہونے تک ہر ماہ احباب جماعت ایک نفلی روزہ رکھا کریں.جس کے لئے ہر قصبہ شہر یا محلہ میں مہینہ کے آخری ہفتہ میں کوئی ایک دن مقامی طور پر مقرر کر لیا جائے.2.دو نفل روزانہ ادا کئے جائیں جو نماز عشاء سے لے کر نماز فجر تک یا نماز ظہر کے بعد ادا کئے جائیں.3 کم از کم سات بار روزانہ سورۃ فاتحہ کی دعا پڑھی جائے اور اس پر غور و تدبر کیا جائے.4- درود شریف، استغفار اور تسبیح وتحمید کاور دروزانہ 33,33 بار کیا جائے.5.مندرجہ ذیل دعائیں کم از کم گیارہ بار پڑھی جائیں.1- ربنا افرغ علينا صبراً و ثبت اقدامنا وانصرنا على القوم الكفرين 2- اللهم انا نجعلك في نحورهم و نعوذبك من شرورهم ان کے علاوہ حضور نے اپنی زبان میں بھی بکثرت دعائیں کرنے کی بھی تاکید فرمائی.حضور نے جو بلی کے عظیم روحانی منصوبہ کے لئے دعاؤں ، روزہ ، تلاوت اور نوافل پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے خطبہ جمعہ 8 فروری 1974ء میں فرمایا: روزے کے اندر دعا بھی شامل ہے.روزہ حقیقتاً ہے ہی دعا اور پھر تلاوت قرآن کریم ہے.میں نے کہا ہے کہ روزے کی شرائط اختیار کی جائیں.روزے میں صدقات کی طرف توجہ کرنا بھی شامل ہے اور بہت سی شرائط ہیں.ان تمام شرائط کے ساتھ ایک روزہ آدمی رکھے.عام طور پر بھوکے کا خیال رکھے.ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کی طرف توجہ ہو.وہ دن ایسا ہو جس میں اگر روزانہ ایک شخص مثلاً ایک ربع کی تلاوت کرتا ہے تو اس دن ایک سپارہ کی کرے ایک سپارہ کی تلاوت کرنے والا اس دن دو تین سپاروں کی تلاوت کرے اور اگر اس طرح کیا جائے تو قرآن کریم کی تلاوت بھی اس نیت کے ساتھ کہ اس منصوبہ میں خدا سے ہم نے برکت حاصل کرنے کے لئے ایک عاجزانہ سعی اور
373 جہاد کرنا ہے.قرآن کریم کے بھی لاکھوں دور ہو جائیں گے.پس فی ماہ ایک روزہ مہینہ کے آخری ہفتہ میں کسی دن جس کا فیصلہ شہر یا محلہ یا قصبہ یا گاؤں کرے.اس دن علاوہ روزے کے (وہ دعاؤں کا دن ہے جس طرح ہماری) رمضان کے آخر میں اجتماعی دعا ہوتی ہے جس دن جو علاقہ مہینے کے آخری ہفتہ میں روزے کے لئے مقرر کرے اس دن عصر کے بعد یا مغرب کے بعد جو بھی ان کے لئے سہولت ہو وہ اپنے علاقے کی اپنے حلقے کی اپنے گاؤں کی اپنے قصبے کی اپنے محلے کی اجتماعی دعا کا بھی انتظام کریں اور اپنی زبان میں جو ہم نے دعائیں کرنی ہیں.علاوہ ان دعاؤں کے جن کا میں ابھی ذکر کروں گا ) اپنی زبان میں خدا تعالیٰ کے حضور جھک کر اس سے دعائیں مانگیں..اگر پانچ لاکھ احمدی بڑا اور چھوٹا مردوزن اس روزے کی طرف ( جو میں تحریک کر رہا ہوں عبادات میں سے نمبر ایک) اس کی طرف توجہ کرے تو نو کروڑ روزے اس منصوبہ کے زمانہ میں رکھے جائیں گے اور نو کروڑ دنوں میں اس کے لئے خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور اجتماعی دعائیں ہوں گی.دوسری تحریک نوافل کی ہے یعنی با قاعدہ جس طرح نماز پڑھی جاتی ہے.نماز میں فرض بھی ہیں اور سنتیں بھی ہیں اور نوافل بھی ہیں.نوافل کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہر احمدی جس پر نماز فرض ہے ( بعض تو ایسے بچے ہوتے ہیں جن کو شوقیہ اور شوق پیدا کرنے کے لئے اور نماز کی عادت ڈالنے کے لئے ہم نماز پڑھاتے ہیں ایک ایسی عمر ہے جہاں نماز فرض ہو جاتی ہے.تو ہر وہ احمدی بچہ یا بڑا یا عورت جن دنوں میں اس پر نماز فرض ہے.جس پر بھی نماز فرض ہے وہ دو رکعت نفل روزانہ پڑھے.اس منصو بہ میں برکت پیدا کرنے کے لئے دعائیں کرنے کی غرض سے اور روزوں کے متعلق میرا اندازہ پانچ لاکھ افراد کا تھا لیکن نفلوں کے متعلق میرا اندازہ دس لاکھ افراد کا ہے اور دس لاکھ احمدی اگر روزانہ دو نفل پڑھ رہا ہو تو فی روپیہ نو کروڑ رو پیدا اگر آجائے اس کے لحاظ سے فی روپیہ) ایک سو بائیس نوافل بنتے ہیں.خدا تعالیٰ کے حضور جو ایک روپیہ قربانی کے لئے پیش کیا جائے ایک سو بائیس نوافل پڑھ کر دعائیں کر کے پیش کریں.(خطبات ناصر جلد 5 ص 419 حضور نے اس منصوبہ کو صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ اور مالی فنڈ کو صد سالہ جو بلی فنڈ کا نام دیا اور اس
374 منصوبہ کے لئے حمد اور عزم کا مائو تجویز فرمایا.جماعت نے حضور کی آواز پر لبیک کہا اور ہر قسم کی جانی و مالی قربانی پیش کرنے کے لئے تیار ہوگئی.تبلیغ اسلام، احمدیت میں ایک نیا جوش پیدا ہو گیا اور اس کا بجٹ اللہ کے فضل اور جماعت کی غیر معمولی قربانی سے 10 کروڑ سے زائد ہو گیا.منصوبه منصوبہ کی تکمیل اللہ تعالی کے فضل سے 1989ء میں حضرت خلیفہ المسیح الرابع کی قیادت میں تکمیل کو پہنچا.مگر خلافت ثالثہ کے اختتام تک اس سلسلہ میں جو شیریں ثمرات جماعت کو مل چکے تھے ان پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا مناسب ہوگا.1 - منارة المسیح قادیان پر سنگ مرمر لگوایا گیا.2.حضرت عیسی علیہ السلام جہاں مدفون ہیں یعنی سرینگر کشمیر میں مسجد اور مشن ہاؤس کی تعمیر کی گئی.3.بھارت میں اڑیسہ کی ریاست میں بھونیشور کے مقام پر مسجد اور مشن ہاؤس کی تعمیر.-4 بھارت میں کیرالہ کی ریاست میں کالی کٹ کے مقام پر مسجد اور مشن ہاؤس کی تعمیر.5.یورپ کے ملک سویڈن کے مشہور شہر گوٹن برگ کے وسط میں ایک پہاڑی مقام پر سات ہزار مربع میٹر رقبہ میں مسجد ناصر اور مشن ہاؤس کی تعمیر کی گئی.خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں ایک مضبوط جماعت قائم ہو چکی ہے اور سینکڑوں یوگوسلاوین اور سویڈش حق کو قبول کر چکے ہیں.6.ناروے کے دارالخلافہ اوسلو میں دو ہزار مربع میٹر رقبہ خرید کر مسجد نور اور مشن ہاؤس قائم کیا گیا.7.سپین میں پید رو آباد کے مقام پر چودہ کنال پر مشتمل رقبہ خرید کر تاریخ ساز مسجد بشارت تعمیر کی گئی.اس مسجد کا سنگ بنیاد 9 را اکتوبر 1980ء کو حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے مختلف ممالک سے آئے ہوئے نمائندگان کی موجودگی میں رکھا اور مسجد کی تعمیر کی تکمیل کے بعد 10 ستمبر 1982 ء کو حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے اس کا افتتاح فرمایا.8.انگلستان میں پانچ نئے مراکز بریڈ فورڈ، ہڈرز فیلڈ، مانچسٹر، برمنگھم اور ساؤتھ ہال میں قائم ہوئے جن کا افتتاح 1980 ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے فرمایا.9.جاپان میں ایک شاندار احمد یہ سنٹر کے لئے ایک مکان خریدا گیا ہے.
375 10.تثلیث کے قلب شہر لندن میں کسر صلیب کا نفرنس (31 مئی 1978 ء تا 2 جون 1978 ء ) منعقد کی گئی.11 - قرآن کریم کا گورمکھی زبان میں ترجمہ بھارت میں شائع کیا گیا.12 - قرآن کریم یورو با زبان میں نائیجیریا میں شائع کیا گیا.13 - قرآن کریم انگریزی ترجمہ مع مختصر تفسیری نوٹ شائع کیا گیا.14.دیباچہ قرآن مجید مصنفہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا فرانسیسی ترجمہ (Saint Coran) کے نام سے شائع کیا گیا.15 - حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے مختلف اقتباسات کتاب The Essence of" "Islam کے نام سے دو ضخیم جلدوں میں شائع ہو چکی ہے.16.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی کا انگریزی ترجمہ "The Philosophy of the Teachings of Islam" کے نام سے شائع ہو چکا ہے.17 - اسلامی اصول کی فلاسفی، نائیجیریا میں یورو باز بان میں شائع ہو چکی ہے.18.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب "مسیح ہندوستان میں کا انگریزی ترجمہ Jesus in) (India شائع ہو چکا ہے.19.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی کتاب "Deliverance from the Cross" 20 - کسر صلیب کانفرنس کے موقع پر پڑھا جانے والا ایک مقالہ Truth about the" "Crucifixion کے نام سے شائع ہو چکا ہے.21.مندرجہ ذیل زبانوں میں فولڈر ز بھی شائع ہو چکے ہیں.انگریزی ، جرمن، نارویجن، جاپانی، البانین ،فرنچ ، اٹالین ، رومانش اور ڈچ سپینش ،اردو.22.حضور کے دورہ مغربی افریقہ، پین کی سب سے پہلی 0.V.D فلم تیار کی گئی جس کو پاکستان اور بیرون پاکستان ہزار ہا افراد نے دیکھا.23.بیرونی ممالک کی جماعتوں کے آپس میں اور مرکز سے رابطہ کے لئے ٹیلیکس (Telex) کا انتظام شروع ہو چکا ہے.
376 24.حضور نے 23 مارچ 1982 ء کو صد سالہ احمد یہ جوبلی فنڈ کی نئی عمارت کا سنگ بنیا درکھا.چنانچہ جماعت احمدیہ نے 1989ء کے سال کو جشن تشکر کے سال کے طور پر منایا.حضرت خلیفہ ابیح الرابع نے 1988ء ، 1989ء میں براعظم یورپ، افریقہ، امریکہ اور ایشیا کے متعدد ممالک کے دورے فرمائے اور حق کا پیغام پہنچایا.جوبلی تقریبات 22 مارچ 1989ء کو مغرب سے قبل حضرت خلیفہ المسیح الرائع نے اپنے دست مبارک سے بیت الفضل لندن میں بجلی کے قمقموں کا سوئچ آن کر کے جشن تشکر کی تقاریب کا باقاعدہ آغاز فرمایا.23 مارچ کو حضور نے بیت الفضل لندن کے سامنے لوائے احمدیت لہرایا.حضور نے کل عالم کے لئے ایک وڈیو پیغام جاری فرمایا.جلسہ سالانہ برطانیہ 1989 ء تک جماعت 120 ملکوں میں قائم ہو چکی تھی اور جلسہ میں 64 ممالک کے 14 ہزار احباب تشریف لائے.اس جلسہ نے وحدت اقوام کا عظیم تصور پیش کیا اس جلسہ میں متعدد حکومتوں نے اپنے نمائندے بھجوائے.جوبلی سال میں ایک لاکھ بیعتیں ہوئیں جو تاریخ احمدیت میں ایک نیا سنگ میل تھا.20 سے زائد زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع کئے گئے.117 زبانوں میں قرآن کریم کی منتخب آیات احادیث اور اقتباسات مسیح موعود کے تراجم شائع کئے گئے.بیسیوں نئے مشن ہاؤسز حاصل کئے گئے.1984 ءتا1989ء ، 1308 نئی جماعتیں قائم ہوئیں.600 مساجد تعمیر کی گئیں اور 201 بنی بنائی ملیں.اللہ تعالیٰ نے حضور کو السلام علیکم ورحمتہ اللہ کا الہام نئی صدی کے تحفہ کے طور پر دیا.حضور نے نئی صدی کا پہلا خطبہ جمعہ 24 مارچ 1989ء) کو اسلام آبا دلندن میں ارشاد فرمایا جو ماریشس اور جرمنی میں بذریعہ ٹیلی فون سنا گیا.الغرض صد سالہ جشن تشکر نے دنیا میں دعوت حق کا غلغلہ مچادیا اور جماعت کو ترقی کے نئے سنگ میل ئے.
377 ریڈ یوٹیشن کے قیام کی تحریک حضرت خلیفہ مسیح الثالث کی ایک دلی تمنا یا اک خواب احمد ید ریڈ یوٹیشن کا تھا جس کی تعبیر خلافت رابعہ میں ایم ٹی اے کی شکل میں ظاہر ہوئی.حضور نے خطبہ جمعہ 9 جنوری 1970ء میں پہلی بار یہ اعلان کرتے ہوئے فرمایا.جلسہ سالانہ سے کچھ روز پہلے ( کوئی القاء اور خواب کی صورت نہیں ویسے ) بڑے زور سے میرے دل میں یہ خیال پیدا کیا گیا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ دو چیزیں ہمارے پاس اپنی ہوں.ایک تو ہمارے پاس ایک بہت اچھا پر لیس ہو...دوسری خواہش جو بڑے زور سے میرے دل میں پیدا کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ایک طاقتور ٹرانسمیٹنگ سٹیشن (Transmitting Station) دنیا کے کسی ملک میں جماعت احمدیہ کا اپنا ہو.اس ٹرانسمیٹنگ سٹیشن کو بہر حال مختلف مدارج میں سے گزرنا پڑے گا لیکن جب وہ اپنے انتہاء کو پہنچے تو اس وقت جتنا طاقتو ر روس کا شارٹ ویوٹیشن (Short Wave Station) ہے جو ساری دنیا الله میں اشتراکیت اور کمیونزم کا پر چار کر رہا ہے.اس سے زیادہ طاقتور سیشن وہ ہو جو خدا کے نام اور محمدی کی شان کو دنیا میں پھیلانے والا ہو اور چوبیس گھنٹے اپنا یہ کام کر رہا ہو اس کے متعلق میں نے سوچا کہ امریکہ میں تو ہم آج بھی ایک ایسا سٹیشن قائم کر سکتے ہیں وہاں کوئی پابندی نہیں ہے جس طرح آپ ریڈیو رسیونگ سیٹ (Radio Receiving Set) لائسنس لیتے ہیں اسی طرح آپ براڈ کاسٹ Broad Cast) کرنے کا لائسنس لے لیں وہ آپ کو ایک فریکوئنسی (Frequency) دے دیں گے اور آپ وہاں سے براڈ کاسٹ کر سکتے ہیں لیکن امریکہ اتنا مہنگا ہے کہ ابتدائی سرمایہ بھی اس کے لئے زیادہ چاہئے اور اس پر روز مرہ کا خرچ بھی بہت زیادہ ہوگا اور اس وقت ساری دنیا میں پھیلی ہوئی اس روحانی جماعت کی مالی حالت ایسی اچھی نہیں کہ ہم ایسا کر سکیں یعنی میدان تو کھلا ہے لیکن ہم وہاں نہیں پہنچ سکتے.دوسرے نمبر پر افریقہ کے ممالک ہیں.نائیجیریا، غانا اور لائبیریا سے بعض دوست یہاں جلسہ سالانہ پر آئے ہوئے تھے.غانا والوں سے تو میں نے اس کے متعلق بات نہیں کی لیکن باقی دونوں
378 بھائیوں سے میں نے بات کی تو انہوں نے آپس میں یہ بات شروع کر دی کہ ہمارے ملک میں یہ لگنا چاہئے اور وہاں اجازت مل جائے گی جس کا مطلب یہ ہے کہ گو پستہ تو کوشش کرنے کے بعد ہی لگے گا کہ کہاں اس کی اجازت ملتی ہے لیکن ان ممالک میں سے کسی نہ کسی ملک میں اس کی اجازت مل جائے گی اور چونکہ ہماری طرح یہ ملک بھی غریب ہیں اس لئے زیادہ خرچ کی ضرورت نہیں ہوگی.شروع میں میرا خیال تھا کہ صرف پروگرام بنا کر انا ونس کرنے والے ہی ہمیں دس پندرہ چاہئیں پہلے مرحلے میں چاہئے کہ یورپ اور مشرق وسطی کی زبانوں میں پروگرام نشر کیا جاسکے اسی طرح عرب ممالک اور پھر ترکی، ایران، پاکستان اور ہندوستان سب اس کے احاطہ میں آجائیں گے، انشاء اللہ.جہاں تک پیسے کا سوال ہے میرے دماغ نے اس کے متعلق اس لئے نہیں سوچا کہ مجھے پتہ ہی نہیں کہ اس کے لئے کتنے پیسے چاہئیں لیکن جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ کتنے پیسے چاہئیں" کے متعلق دریافت کیا جائے تو اس کے متعلق میں نے انتظام کر دیا ہے.جلسہ پر بعض دوست بیرونی ممالک سے آئے ہوئے تھے ان میں سے ایک دوست کینیڈا سے آئے ہوئے تھے وہ وہاں ٹیلی ویژن میں کام کرتے ہیں میں نے ان کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ وہاں جا کر فوری طور پر اس کے متعلق ضروری معلومات حاصل کریں.پاکستان میں اس سٹیشن کی اجازت نہیں مل سکتی کیونکہ ہمارا قانون ایسا ہے کہ یہاں کسی پرائیویٹ ادارہ کو ریڈیوٹیشن قائم کرنے کی اجازت نہیں لیکن بعض ممالک ایسے ہیں جن میں اس پر کوئی قانونی پابندی نہیں جیسے امریکہ اور بعض ایسے ممالک ہیں جن میں گویا قانونی پابندی تو ہے لیکن اس کی اجازت آسانی اور سہولت کے ساتھ مل جاتی ہے جیسے مغربی افریقہ کے ممالک میں سے نائیجیریا، گیمبیا، غانا یا سیرالیون ہیں امید ہے کہ ان ممالک میں سے کسی ایک ملک میں ریڈ یوٹیشن قائم کرنے کی اجازت مل جائے گی.اس وقت دنیا کے دلوں کا کیا حال ہے اس کا علم نہ تو صحیح طور پر مجھے ہے اور نہ آپ کو ہے لیکن میرے دل میں جو خواہش اور تڑپ پیدا کی گئی ہے اس سے میں یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہوں کہ اللہ کے علم غیب میں دنیا کے دل کی یہ کیفیت ہے کہ اگر اللہ اور اس کے محمد علیہ کا نام ان کے کانوں تک پہنچایا جائے تو وہ سنیں گے اور غور کریں گے ورنہ یہ خواہش میرے دل میں پیدا ہی نہ کی جاتی.دوست دعا کریں کہ اللہ
379 تعالیٰ ایسے سامان جلدی پیدا کر دے دل تو یہی چاہتا ہے کہ اسی سال کے اندراندر یہ کام ہو جائے لیکن ہر چیز ایک وقت چاہتی ہے بہر حال جب بھی خدا چاہے یہ کام جلد سے جلد ہو جائے اور ہم اپنی آنکھوں سے یہ دیکھیں کہ کام ہو گیا ہے اور ہمارے کان چوبیس گھنٹے عربی میں اور انگریزی میں اور جرمن میں اور فرانسیسی میں اور اردو وغیرہ وغیرہ میں اللہ اور اس کے رسول کی باتیں سننے والے ہوں ، گانا وغیرہ بدمزگی پیدا نہ کر رہا ہو اور اسی طرح کی اور فضولیات بھی بیچ میں نہ ہوں.انشاء اللہ یہ کام تو ہم کریں گے لیکن گانے اور ڈرامے اور اس قسم کی دوسری جھوٹی باتیں وہاں نہیں ہوں گی اور اس طرح ایک ریڈیو دنیا میں ایسا ہو گا جہاں اس قسم کی کوئی لغویات نہیں ہوں گی اور شاید بعض لوگ اس ریڈ یوٹیشن کو ھم عن اللغو معرضون کہنا شروع کر دیں.خطبات ناصر جلد 3 ص 28,26,244 ) اس ضمن میں مختلف کارروائیاں جاری ہیں.خطبہ جمعہ 21 نومبر 1975ء میں حضور نے فرمایا:.ایک براڈ کاسٹنگ سٹیشن جس کا میں نے اعلان کیا تھا کی اجازت ملی تھی لیکن اس اجازت میں بعض ٹیکنیکل نقائص تھے اس لئے ہم فائدہ نہیں اٹھا سکے.اب ویسے وہاں کی حکومت بدل گئی ہے لیکن دنیا کے تغیرات ہمارے لئے ہیں ہمارے خلاف نہیں.انشاء اللہ.اس لئے آج نہیں تو کل اجازت ملے گی اس کے اوپر بھی لاکھ دولاکھ پاؤنڈ ابتداء میں خرچ ہو گا تا کہ ہم ایک خاص علاقے کو اپنی آواز سے معمور کر دیں اور مہدی معہود کی آواز ان کو پکارے کہ جاء اسیح جاء اسیح.(خطبات ناصر جلد 6 ص 217) اگلے سال حضور نے 22 اکتوبر 1976 ء کے خطبہ میں امریکہ سے ایک ریڈیوٹیشن کے قیام کا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:.اس وقت دنیا میں جو حقیقی معنے میں آزاد ممالک ہیں اور پورے طور پر آزاد ہیں ان میں سے سرفہرست امریکہ ہے بڑی آزادی ہے.آدمی ان کی آزادی دیکھ کر حیران ہوتا ہے مثلاً ان کے ہاں پرائیویٹ براڈ کاسٹنگ سٹیشن ہیں.لاکھوں لاکھ کی تعداد میں افریقی خاندان جو امریکہ میں بستے ہیں مختلف شہروں میں ان کے اپنے براڈ کاسٹنگ سٹیشن ہیں اور اپنے انتظام ہیں.ان کے اوپر کوئی پابندی نہیں وہ اپنے گھروں کو اپنی آواز پہنچاتے ہیں.ان کی ضروریات تو سیاسی ہیں ہم مذہبی طور پر کام لینا چاہتے ہیں کچھ اور بڑی جماعت ہوگئی یا Concentrate ہوگی یعنی ایک جگہ زیادہ احمدی ہو گئے تو وہ
380 جب کہیں گے حکومت کہے گی ٹھیک ہے تم اپنا براڈ کاسٹنگ سٹیشن تیار کرو اور اپنے علاقے کو ہر وقت ریڈیو پر خبریں دیا کرو، درس قرآن کریم دیا کرو.بڑا اچھا انتظام ہو جائے گا“.خطبات ناصر جلد 6 ص 530 دنیا کے مختلف ممالک میں ریڈیو اور ٹی وی پر جماعت کے پروگرام نشر ہوتے رہے مگر اپنے ریڈیو سٹیشن کے قیام کا خواب خلیفتہ اسیح الرابع کی ہجرت لندن کے بعد ایم ٹی اے کی شکل میں پورا ہوا.
381 احمد یتعلیمی منصوبه سیدنا حضرت خلیفۃ امسح الثالث خلافت سے قبل بطور پرنسپل تعلیم الاسلام کا لج طلباء کی جسمانی صحت اور ذہنی نشو ونما کا بہت خیال رکھتے تھے.منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد بھی آپ نے روحانی تعلیم کے ساتھ عام دنیاوی تعلیم کا معیار بلند کرنے اور طلباء کو ہر میدان میں آگے بڑھانے کی خاص کوشش فرمائی.کوئی بچہ ضائع نہ ہو حضور نے احمدی بچوں کو تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے کی تحریک کرتے ہوئے خطبہ جمعہ 29 اگست 1975ء میں فرمایا :.اگر ہم بین الاقوامی سطح پر ستر پچھتر فیصد سے اوپر نمبر لینے والے دو تین سو بچے پیدا کرنے لگیں تو اس کا بہت اثر ہوسکتا ہے اور بین الاقوامی سطح پر اس کے بہت اچھے نتائج رونما ہو سکتے ہیں.اس کے لئے ایک تو یہ ضروری ہے کہ احمدی بچے اپنی ذمہ داری کو سمجھیں دوسرا ضروری امر یہ ہے کہ جماعتی سطح پر اس امر کی کوشش کی جائے کہ کوئی بچہ جسے اللہ تعالیٰ نے ذہنی دولت عطا کی ہے جماعت اس دولت کو ضائع نہیں ہونے دے گی.ایسے بچوں کی ذہنی نشو ونما ضروری ہے اور یہ نشو ونما نہیں ہو سکتی جب تک کہ دو طرفہ کوشش بروئے کار نہ لائی جائے.اول یہ کہ بچے اپنی ذہنی استعدادوں اور صلاحیتوں کو ضائع کر کے اللہ تعالیٰ کی ناشکری کے مرتکب نہ ہوں اور اس طرح نہ اپنا نقصان کریں نہ جماعت کا نقصان کریں اور نہ اپنے ملک کو نقصان پہنچانے کا موجب بنیں.دوسرے یہ کہ جماعتی سطح پر ایسا انتظام ہونا چاہئے کہ کوئی ایک ذہن بھی ترقی کرنے سے نہ رہ جائے.انگلستان میں اب ایک بڑی جماعت بن چکی ہے.یہاں کے حالات کے مطابق ایک کمیٹی بن جانی چاہئے جو اس امر کا جائزہ لیتی رہے کہ بچوں کی ذہنی نشو و نما اور ترقی خاطر خواہ طریق پر ہورہی ہے یا نہیں اور اگر نہیں ہو رہی تو کیا اقدامات ضروری ہیں.اگر صحیح خطوط پر کام کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ بچوں کی ذہنی نشو ونما کا خاطر خواہ انتظام نہ ہو سکے.بہر حال ساری جماعت میری اس نصیحت کو یا در کھے اور عہد کرے کہ کوئی ایک ذہن بھی ضائع
382 نہیں ہو گا نہ بچہ کی اپنی غفلت کی وجہ سے اور نہ جماعت کی غفلت کی وجہ سے.علم کے میدان میں آگے بڑھو خطبات ناصر جلد 6 ص 137 ) اسی طرح حضور نے خطبہ جمعہ 16 جولائی 1976 ء میں فرمایا:.علموں کے میدان میں آگے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو.علموں میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ بہت سارے علوم یعنی سائنسز ہیں.اللہ تعالیٰ بڑا فضل کرتا ہے نسبتی لحاظ سے آج آپ دوسروں سے آگے نکل رہے ہیں لیکن مجھے یہ اندیشہ ہے، میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو جتنے ذہن دیئے ہیں کچھ اپنی غفلت کے نتیجہ میں اور کچھ اپنے ماحول کی غفلت کے نتیجہ میں ، سارے کے سارے پنپ نہیں رہے ترقی نہیں کر رہے نشو و نما نہیں حاصل کر رہے.میں نے اعلان کیا اور بار بار اعلان کیا کہ جو اچھا دماغ ہے اگر وہ جماعت کے علم میں آجائے میرے علم میں آجائے تو ایک سیکنڈ کے لئے بھی کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ یہ ضائع ہو جائے اس کے لئے پیسے کہاں سے لا ئیں بلکہ اس کے لئے ہم فوری انتظام کرنے کے لئے سوچتے ہیں اور خدا تعالیٰ ہی انتظام کرتا ہے وہی دینے والا ہے.اگر تم جماعت احمدیہ کے فرد ہو اور امام جماعت نے کہا ہے کہ تم آگے پڑھو گے تو تم کیسے نہیں پڑھ سکتے ؟ پڑھو گے! چنانچہ کئی لڑکے باہر بھی گئے خدا نے ہمیں بڑے اچھے دماغ دیئے ہیں وہ غیر ملکوں میں گئے اور انہوں نے بڑا Shine کیا.خطبات ناصر جلد 6 ص 491,489) جوبلی منصوبہ اس سلسلہ میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے 1979ء میں نوبیل انعام حاصل کیا.حضور نے انہیں جلسہ سالانہ 1979ء کے سٹیج پر بلا کر خطاب کا موقع عطا فرمایا اور فرمایا کہ مغربی اقوام کو شکست دینے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں تعلیمی میدان میں شکست دی جائے.حضور نے فرمایا کہ اگلے 100 سال میں ہمیں ڈاکٹر عبدالسلام کی قابلیت کے 1000 سائنسدان
383 حضور نے اس مقصد کے لئے ایک عظیم تعلیمی منصوبہ جماعت کے سامنے رکھا.یہ منصوبہ مندرجہ ذیل امور پر مشتمل تھا.1.جماعت کا ہر بچہ آئندہ دس سال کے اندر کم از کم میٹرک اور ہر بچی کم از کم مڈل ضرور پاس 2.کوئی بھی اچھا ذ ہن ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا اور یہ کہ جماعت ہر قیمت پر ہر ذہین بچہ کو سنبھالے گی.چنانچہ اس کے لئے آپ نے وظائف ادا ئیگی حقوق طلباء کا اعلان فرمایا اور اس فنڈ میں سوالاکھ روپے سالانہ رکھے گئے تا طلباء کو وظائف دیئے جاسکیں.حضور نے اس عزم کا اظہار فرمایا کہ اگر خدا ہمیں ایک ہزار ذہین بچے بھی دے گا تو جماعت کم کھا کر بھی ان کے پڑھانے کا انتظام کرے گی.3.ہراحمدی طالب علم اور طالبہ اپنے سالا نہ امتحان کے نتیجہ کی اطلاع خلیفہ مسیح کو دیا کرے گا.اس سلسلہ میں حضور نے فرمایا:.”ساری جماعت کے لئے اعلان ہے کہ پہلی کلاس ( کنڈرگارٹن) سے لے کر پی ایچ ڈی تک امتحان دینے والا ہر بچہ ( لڑکا اور لڑکی ) مجھے خط لکھے.میں وعدہ کرتا ہوں کہ ہر ایک کے لئے خاص طور پر دعا کروں گا اور دفتر کی طرف سے ان کو جواب بھی دیا جائے گا“.(الفضل 29 اپریل 1980ء) انعامات و تمغہ جات اس منصو بہ کا ایک اہم جز و امتحانات میں اعلیٰ کامیابی حاصل کرنے والے طلباء کے لئے انعامات اور تمغہ جات ہیں.حضور نے یونیورسٹی یا بورڈ کے امتحانات میں اول ، دوم اور سوم آنے والے طلباء و طالبات کے لئے بھی سونے کے تمغہ جات کا اعلان فرمایا.نیز ایسی طالبات کے لئے بھی ان تمغوں کا اعلان فرمایا جوطالبات کے گروپ میں اول، دوم یا سوم آئیں.بشرطیکہ وہ طلباء وطالبات میں پہلی میں پوزیشنوں میں آتی ہوں.نیز آنرز کے امتحانات میں بھی اول، دوم، سوم آنے والے طلباء و طالبات کے لئے تمغے دینے کا فیصلہ فرمایا بشر طیکہ وہ اس سال کے بی ایس سی کے امتحان میں اول، دوم، سوم آنے والوں کے کم از کم برابر فیصدی نمبر حاصل کریں.
384 اس کے علاوہ پرائمری کے وظیفہ کے امتحان ، مڈل اور میٹرک کے امتحانات میں پہلی تین تین سو پوزیشنیں ، انٹر میڈیٹ اور بی اے، بی ایس سی کے امتحان میں پہلی دو دو سو پوزیشنیں اور ایم اے، ایم ایس سی ، میڈیکل اور انجینئر نگ کے (Final) امتحان میں ہر مضمون کی اوپر کی سات پوزیشنیں حاصل کرنے والے طلباء کو تفاسیر سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودا اور تفسیر صغیر دینے کا اعلان کیا.ادا ئیگی حقوق طلباء سکیم کے تحت حضور کی زندگی میں 126 طلباء وطالبات نے 2,98,280 روپے کے وظائف حاصل کئے.تمغہ جات سکیم کے تحت پہلی تقریب تقسیم تمغہ جات 13 جون 1980ء کو منعقد ہوئی.حضور کی زندگی میں اس طرح کی 7 تقاریب منعقد ہوئیں جن میں 32 تمغے تقسیم کئے گئے.اول 17.دوم 10.سوم 5 الفضل خلیفہ ثالث نمبر 38,37) ہزاروں ہزار طلباء وطالبات کے خطوط ملنے پر حضور کی طرف سے انہیں جوابات دیئے جاتے رہے اور میٹرک سے اوپر تک کی تمام کلاسوں میں اول، دوم اور سوم آنے والے طلباء و طالبات کو حضور کی طرف سے ہزاروں روپے کے انعامی تمغہ جات اور انعامی کتب بھی حوصلہ افزائی کے لئے دیئے گئے.میٹرک سے اوپر تک کی کلاسوں میں ٹاپ کے 200 اور 300 طلباء و طالبات کو حضور انور کے دستخطوں سے جوابات ارسال کئے گئے.حضور کے دور خلافت میں احمدیہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن بھی قائم کی گئی.حضور نے 10 نومبر 1980ء کو اس کے پہلے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ احمدی طالبعلم تحقیق اور علم کے میدان میں ساری دنیا سے آگے نکل جائیں.حضور نے احمدی طالب علموں کو دماغی قومی بڑھانے کے لئے سویا یستھین کپسول استعمال کرنے کی تحریک فرمائی اور بہت سے طلباء کو تحفہ بھی عطا فرمائے.برکت سے بھرا منصوبہ (ماہنامہ مصباح دسمبر 1982ء ص 96) احمد یہ تعلیمی منصوبہ کی غیر معمولی اہمیت اور عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے.مولوی عبدالرحیم اشرف ایڈیٹر ” المنبر ، فیصل آباد نے اپنے رسالہ میں احمدیہ تعلیمی منصوبہ کا پروگرام حضور کے الفاظ میں
385 جماعت احمدیہ کے ایک ماہنامہ مصباح سے نقل کرنے کے بعد لکھا کہ یہ الفاظ و عبارت قادیانی امت کے شعبہ مستورات کے بقول ان کے علمی ، مذہبی اور ادبی رسالہ ماہنامہ مصباح ربوہ کے تازہ شمارہ بابت اگست سے ماخوذ ہے.ایک بار ان الفاظ کو پھر سے پڑھئے اور پھر اگر توفیق الہی ہو تو حسب ذیل سوالات کا جواب اپنے آپ سے، اپنی سیاسی جماعت کے قائدین، اپنے مذہبی فرقوں کے مبلغین سے، فرقہ واریت کی بنیاد پر ایک دوسرے کو سب وشتم کرنے والے واعظین سے معلوم کیجئے اور پھر ایک مرتبہ سوچئے کہ جو جماعت، جو تنظیم اور جس جماعت اور تنظیم کی قیادت اس انداز سے سوچنے اور منظم طریقے پر عمل کرنے کا مستحکم ارادہ رکھتی بلکہ عمل شروع کر چکی ہو، چاہے وہ سر تا قدم کفر و الحاد کی علمبر دار ہی کیوں نہ ہو، اسے شکست دینے یا اس کے غلط عقائد سے دوسروں کو بچانے کے لئے صرف پُر جوش تقریریں، نعرے اور وقتی جذبات کے تحت شدید سے شدید تر چلائی جانے والی تحریکات مؤثر ثابت ہوسکیں گی“.(ہفت روزہ ”المنبر ، فیصل آباد 10 ستمبر 1980ء) یہ منصوبہ آغاز کی نسبت بہت وسعت اختیار کر چکا ہے.اس کے علاوہ کئی احباب نے خلفاء سلسلہ کی اجازت سے سکالرشپس دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے جو نظارت تعلیم کے زیر اہتمام ہر سال منعقد ہوتا ہے.1.میاں محمد صدیق بانی میٹرک سکالرشپ 2.میاں محمد صدیق بانی گولڈ میڈل وسکالرشپ انٹر میڈیٹ 3- صادقہ فضل سکالرشپ 4.خورشید عطا سکالرشپ 5.سندس باجوہ سکالرشپ 23 مارچ 2008 ء کو ان سکیموں کے تحت 16 انعامات دیئے گئے.(الفضل 28 مارچ 2008 ء ) آہستہ آہستہ یہ منصوبہ عالمگیر حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے اور اب کئی ملکوں میں احمدی طلباء وطالبات کو اعلیٰ تعلیمی پوزیشنیں حاصل کرنے پر انعامات کے لئے تقریبات منعقد کی جارہی ہیں.
386 صحت وصفائی کے بارہ میں تحریکات مجلس صحت کا قیام حضرت خلیفہ المسح الثالف نے یکم مارچ 1972ء کو تعلیم الاسلام کانچ کی سالانہ کھیلوں سے تقسیم انعامات کے موقع پر مجلس صحت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:.آج میں سارے ربوہ کو ایک مجلس میں منسلک کرنے کا اعلان کرتا ہوں.اس مجلس کا نام مجلس صحت ہوگا.اس کے جملہ انتظامات آپ لوگوں نے خود سرانجام دینے ہیں اس سلسلے میں ایک کمیٹی قائم کی جائے گی.جس میں دو نمائندے تعلیم الاسلام کا لج تعلیم الاسلام ہائی سکول اور جامعہ احمدیہ کے طلباء میں سے لئے جائیں گے.دو خدام الاحمدیہ کے اور دو انصار اللہ کے نمائندے بھی اس میں شامل ہوں گے اس کے علاوہ ایک کمیٹی کا صدر ہوگا.ربوہ کے تمام باشندوں کے لئے کھیلوں اور ورزش جسمانی کا انتظام کرنا اور اس کے لئے گراؤنڈز مہیا کرنا بھی اس کمیٹی کی ذمہ داری ہوگی.(الفضل 7 مارچ 1972ء) مجلس صحت نے ربوہ میں باسکٹ بال، ہاکی، فٹ بال، والی بال ، میروڈ بہ، باڑی، کبڈی وغیرہ کی ٹیمیں تیار کیں.ان کے لئے گراؤنڈز مہیا کیں.ربوہ کے محلہ جات میں مختلف گراؤنڈ مہیا کرنے کے بعد ربوہ کی ممتاز شخصیتوں کو ان کا نگران مقرر کیا گیا اور ربوہ کی ٹیمیں ربوہ سے باہر جا کر فٹ بال اور کبڈی وغیرہ کے میچ کھیلنے کے لئے جاتی رہیں.حضور نے اس مجلس اور کھلاڑیوں کے لئے ایک کالا اور سفید دھاریوں والا رومال تیار کر وایا اور ایک رنگ میں اس کو پر و گر گردن میں ڈالنے کا ارشاد فرمایا.بعد میں یہ رومال اور چھلا حضور نے خدام الاحمدیہ کے لئے ضروری قرار دے دیا.سیر کی تحریک 3 مارچ 1972 ء کے خطبہ جمعہ میں حضور نے تمام اہل ربوہ کو سیر کرنے کی تلقین کی اور مجلس صحت کو ہدایت کی ربوہ کی تمام کھلی جگہوں کو سیر گاہوں اور باغوں میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنا ئیں.حضور نے
387 فرمایا کہ سیر کے بعد مضمون نویسی کا مقابلہ ہوگا جس میں پوزیشن حاصل کرنے والے احباب میں انعامات تقسیم کئے جائیں گے.الفضل 17 اپریل 1972 ء ) حضور کے ارشاد کی تعمیل میں 12 مئی 1972ء کو سیر کا مقابلہ ہوا اور مضمون نویسی پر انعامات بھی دیئے گئے.ربوہ میں سیر گاہوں کی تیاری کے لئے وقار عمل کا سلسلہ 10 مارچ 1972 ء سے شروع ہوا اور شجر کاری کا منصوبہ بنایا گیا.حضور نے خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کو تلقین فرمائی کہ وہ حسب ضرورت کدالیں ، ٹوکریاں وغیرہ خرید لیں.حضور نے خطبہ جمعہ 17مارچ 1972ء میں فرمایا:.پوری جدوجہد سے تم ربوہ کی شکل اس نیت سے بدل دو کہ باہر سے آنے والے دوست اسے دیکھ کر یہ کہہ سکیں کہ صفائی اور نفاست کے لحاظ سے اسلام نے کسی شہر کا جو معیار مقرر کیا ہے.ربوہ اس پر پورا اترتا ہے اور ساتھ ہی یہ نیت بھی ہونی چاہئے کہ ہم اپنی صحتوں کو برقرار رکھنے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد ہونے والی بڑی عظیم اور بڑی بھاری ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوسکیں.(خطبات ناصر جلد 4 ص 118) شجر کاری کی تحریک خطبہ جمعہ 24 نومبر 1972 ء میں حضور نے فرمایا کہ ہمیں ربوہ میں 15, 20 ہزار درخت لگانے چاہئیں جس سے شہر کی شکل بدل جائے گی.ان درختوں کی حفاظت کی ذمہ داری اطفال پر ہوگی.نیز آپ نے درختوں کو کاٹنے کی سختی سے ممانعت فرمائی.آپ نے فرمایا میرے دل میں یہ شدید خواہش ہے کہ ہمارار بوہ ایک باغ بن جانا چاہئے.(الفضل 24 جنوری 1973ء) نتزئین وصفائی حضور نے ربوہ کی صفائی اور تزئین کے لئے کئی تحریکات فرمائیں.آپ کا یہ جملہ زبان زدعام ہے.ربوہ کو غریب دلہن کی طرح سجا دو.خطبہ جمعہ یکم نومبر 1968ء میں آپ نے صفائی کے ضمن میں دو امور کی طرف توجہ دلائی.
388 1 کوڑے کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کا انتظام کیا جائے.2.کپڑوں کی صفائی کا اہتمام کیا جائے.3.بازار کی صفائی کا خاص خیال رکھا جائے.حضور فرماتے تھے.(خطبات ناصر جلد 2 ص 367 ) ربوہ میں ایک مہمان کو اگر ایک کا نٹا بھی چبھ جائے تو ہمارے لئے دکھ اور شرم کی بات ہوگی.سائیکل سواری کی تحریک حضور نے مجلس مشاورت 1973ء کے موقع پر 31 مارچ کو فر مایا:.صحت کو برقرار رکھنے کے لئے سائیکل چلانا بہت مفید ہے.میں چاہتا ہوں کہ جماعت میں مہم چلائی جائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سائیکل چلائیں.یہ ورزش بہت مفید ہے.میرے خیال میں پاکستان میں ایک لاکھ احمدی ایسا ہونا چاہئے جن کے پاس سائیکل ہوں.اگر آہستہ آہستہ سائیکل چلایا جائے تو ایک دن میں ایک سو میل سائیکل چلانا کچھ بھی مشکل نہیں.مشاورت کے موقع پر جو رضا کار باہر کی جماعتوں سے آتے ہیں اس دفعہ میں نے خدام الاحمدیہ کو کہا کہ وہ رضا کا رسائیکلوں پر آئیں.چنانچہ لاہور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، سرگودھا، لائکپور اور جھنگ سے 95 سائیکل سوار خدام مشاورت کے موقع پر یہاں پہنچے ہیں اور انہیں کوئی تکلیف نہیں ہوئی.آرام سے سائیکل چلا کر یہاں آگئے ہیں.ایک لاکھ احمدی اگر ایک سو میل سائیکل چلائیں تو وہ ایک دن میں ایک کروڑ میل سائیکل چلالیں گے اور ضرورت پڑنے پر ان سے بہت مفید کام لئے جاسکیں گے.انہیں سائیکل چلانے کی عادت ہوگی تو قومی ضرورت کے پیش آنے پر وہ فوراً اٹھ کھڑے ہوں گے.کاروں اور موٹروں کی طرف نہیں دیکھیں گے.انہیں کہا جائے گا کہ سائیکل پکڑو اور جاؤ اور وہ فورا چلے جائیں گے.امراء جماعت اپنے اپنے اضلاع میں تحریک کریں کہ احباب جماعت سائیکل خرید ہیں.چھ مہینہ کے اندراندرا کتوبر کے آخر تک میرے پاس رپورٹ آجانی چاہئے کہ کتنے سائیکل ان کے پاس ہو گئے ہیں.پھر وہ تحصیل وار ایسا انتظام کریں کہ تین تین آدمیوں کا وفد ہر تحصیل کے ہر گاؤں میں جس کا نقشہ
389 میں نام ہے جائے اور وہاں کی تین دکانوں کے پتے نوٹ کر کے لائے اور یہ بھی بتائے کہ اس گاؤں کی بطور خدمت خلق ہم کس نوعیت کی مدد کر سکتے ہیں.حضور نے فرمایا جو ضلع اس مہم میں اول آئے گا اس کو ہم ایک ہزار روپیہ انعام دیں گے.رپورٹ مجلس مشاورت 1973ء ص 34 تا 45 ) اسی سال مئی میں خدام الاحمدیہ کی سالانہ تربیتی کلاس کے موقع پر عملی تربیت کا پروگرام مرتب کیا گیا جس میں سومیل سائیکل سفر اور 5 میل پیدل سفر شامل تھا.سالا نہ اجتماع خدام الاحمدیہ کے موقع پر 693 خدام سائیکلوں پر آئے اور یہ سلسلہ 1983 ء کے سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ مرکز یہ ربوہ تک جاری رہا.انصار نے بھی ہمت کی.مجلس انصاراللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1983ء پر 85 سالہ بزرگ فیصل آباد سے سائیکل پر آئے اسی طرح ایک ٹانگ سے معذور دوست تر گڑی ضلع گوجرانوالہ سے سائیکل پر ربوہ آئے حضور نے ان دونوں کو انعام سے نوازا.(الفضل 2 نومبر 1983 ء ص 1 ) یہ سلسلہ بیرون ممالک بھی کافی پھیل چکا ہے مثلاً بین کے جلسہ سالانہ 2007ء میں شرکت کی غرض سے 4 ریجنز کے 23 افراد سائیکلوں پر آئے جن میں بعض نے 117 کلومیٹر کا دشوار گزار سفر طے کیا.(الفضل 22 /اکتوبر 2007ء) 15 جولائی 1973ء کو حضور نے برطانیہ میں ایک لاکھ مستعد سائیکل سواروں کی تحریک فرمائی.حضور نے سالانہ اجتماع انصار اللہ کے موقع پر 10 نومبر 1973ء کو اعلان فرمایا کہ آئندہ سات برس کے اندر بیس ہزار سائیکل سوار انصار اللہ میں سے دس ہزار اطفال الاحمدیہ میں سے اور 70 ہزار خدام الاحمدیہ میں سے تیار ہونے چاہئیں تا کہ یہ وسیع پیمانے پر رفاہی کاموں میں حصہ لے سکیں.دیہات سے رابطہ قائم کریں اور لوگوں کی مشکلات کو دور کرنے کی کوشش کر سکیں.حضور نے فرمایا یہ ہم صحتوں کو برقرار رکھنے کے لئے بھی مفید ثابت ہوگی اور دیگر بہت سے فوائد بھی اس سے انشاء اللہ حاصل ہوں گے.(الفضل 11 نومبر 1973ء) چنانچہ جماعت نے اس طرف بڑی خوش دلی سے توجہ کی اور انصار اور خدام نے سائیکل سواری شروع کر کے خدمت خلق کے میدان میں نئے کاموں کا آغاز کیا.
390 گھوڑے پالنے کی تحریک دنیا میں رونما ہونے والے واقعات و تغیرات دنیا میں ہونے والی ساری ترقی کے نتیجہ میں ایسی ایسی ایجادات ہونی شروع ہو گئی ہیں کہ تیل اور بجلی سے چلنے والی ٹرانسپورٹ کو الیکٹرانک ہتھیاروں سے جام کیا جاسکے.اس خطرے کو بھانپتے ہوئے حضور نے جماعت کو گھوڑے پالنے کی تحریک فرمائی تا کہ اس وقت گھوڑوں سے کام لیا جا سکے اور دنیا کے دور افتادہ علاقوں میں پھیلے ہوئے احباب کو ایک دوسرے سے رابطہ قائم کرنے میں سہولت رہے.23 اپریل 1971ءکو حضور نے فرمایا:.مجھے تو فکر ہے کہ جنگ اور ایٹمی لڑائی کے نتیجہ میں سب اسباب رسل و رسائل کے برباد ہو جائیں گے اس لئے ابھی سے پاکستانیوں کو گھوڑوں میں دلچسپی لینی چاہئے تاکہ بوقت ضرورت سواری کا سامان میسر ہو.میری سکیم ہے کہ جماعتیں کم از کم دس ہزار گھوڑے Pak Arab نسل کے رکھیں.اس سکیم کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے چند سال لگیں گے لیکن Pak Arab گھوڑوں کی نسل کی افزائش کا آغاز ہو چکا ہے.(الفضل 8 مئی 1971ء) حضور نے آنحضرت ﷺ کی حدیث مبارکہ سے گھوڑوں کی اہمیت جماعت پر واضح فرمائی اور اس سلسلہ میں ربوہ میں خیل للرحمن گھوڑ دوڑ ٹورنا منٹ کا آغاز فرمایا جو ہر سال ربوہ میں منعقد ہوتا رہا.حضور خود اس ٹورنامنٹ کو دیکھنے کے لئے تشریف لاتے اور مفید ہدایات سے نوازتے اور انعامات تقسیم فرماتے.سب سے زیادہ گھوڑے لانے والے قائد ضلع کے لئے اپنی طرف سے ایک ہزار روپے انعام مقرر فرمایا.صد سالہ احمد یہ جوبلی کے جلسہ سالانہ کے موقع پر جماعت سے چالیس ہزار گھوڑوں کا مطالبہ کیا ہے.حضور نے گھوڑوں کی پرورش اور نگہداشت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:.میرا ارادہ ہے کہ ربوہ میں بھی اور باہر کی جماعتوں میں بھی ایسے کلب جاری کراؤں جہاں گھوڑوں کی نگہداشت اور سواری وغیرہ کی تربیت دی جایا کرے.ناصرات کے لئے بھی ایسے کلب ہوں گے ان کے نام خولہ کی مناسبت سے ”خولہ کلب ہوں گے.حضرت خولہ نہایت اعلیٰ درجہ کی شہسوار تھیں.(الفضل 16 مئی 1971 ء ) فروری 1974 ء میں گھوڑوں کے تیسرے سالانہ مقابلے منعقد ہوئے جس کے لئے حضور نے 4 سو
391 گھوڑوں کی شمولیت کی تحریک فرمائی تھی مگر ربوہ میں اتنے گھوڑوں کے قیام وغیرہ کا کوئی انتظام نہیں تھا.اس لئے حضور نے خطبہ جمعہ 15 فروری 1974 ء میں گھوڑوں کی رہائش کے مناسب انتظام کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا: پس اگر چار سو گھوڑوں نے ایک وقت میں ربوہ میں ٹھہرنا ہے چارسو گھوڑوں کے لئے پرانے طرز ایک یا ایک سے زائد سرائے ہونی چاہئیں جہاں گھوڑے بھی رہیں اور ان کے مالکوں کے ٹھہر نے کے لئے کمرے بھی ہوں.میں نے منتظمین کو اس طرف توجہ دلائی ہے اس کا جلد انتظام ہونا چاہئے.ایک حصہ کا تو ( یعنی کچھ گھوڑوں کے لئے تو انشاء اللہ جلد ہی انتظام ہو جائے گا کیونکہ دوستوں کو جب گھوڑے رکھنے اور ان کے استعمال کا شوق پیدا ہو گا تو گاؤں کے رہنے والے دوست چھپیں تھیں میل سے گھوڑوں پر جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے یہاں آجایا کریں گے اس لئے ایسی جگہ کا انتظام ہونا چاہئے جہاں پندرہ بیس گھوڑے جمعہ والے دن باندھے جاسکیں اور ان کی خوراک کا انتظام ہو یہ بھی دارالضیافت کا ایک حصہ ہے“.متوازن غذا کی تحریک خطبات ناصر جلد 5 ص 428) حضور نے مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے 23 راکتوبر 1981 ء کو فرمایا:.آنے والا زمانہ ہم سے جو مطالبات کرتا ہے ان میں سے اول یہ ہے کہ جماعت احمد یہ دنیا میں سب سے زیادہ صحت مند جماعت ہونی چاہئے.آنے والے زمانے میں انصار اور خدام سب اس کی طرف توجہ دیں.اس کی عملی شکلیں یہ ہیں.(1) طیب غذا کھائی جائے یعنی جو اچھی بھی ہو اور ہر شخص کے جسم کے لحاظ سے اس کے لئے مناسب ہو.(2) غذا متوازن ہو یعنی صرف آٹا یا صرف ترکاریاں یا صرف گوشت یا صرف دودھ وغیرہ کافی نہیں بلکہ ہر قسم کی غذا کا ایک توازن مقر ر ہو تب ہی صحیح صحت قائم رہ سکتی ہے.(3) ہر عمر کا احمدی مناسب ورزش کرے تا کہ جو کھایا پیا ہے وہ جسم کو فائدہ بھی دے.
392 (4) اخلاقی بدیوں سے بچو کیونکہ جوشخص ذہنی آوارگی میں مبتلا ہے وہ بھی اور جو جسمانی بدیوں میں مبتلا ہے اس کی بھی صحت قائم نہیں رہ سکتی.حضور نے فرمایا کہ دوسرا مطالبہ ذہنی قوتوں کو ترقی دینے کا ہے.اس کی عملی صورتیں یہ ہیں کہ (1) ذہنی آوارگی یعنی دوستوں میں بیٹھ کر بلا مقصد گئیں ہانکنے سے بچا جائے.(2) مجاہدہ سے بتدریج ذہن کو زیادہ سے زیادہ کام کرنے کا عادی بنایا جائے.حضور نے فرمایا کہ یورپ کی نوجوان نسل روزانہ بارہ تیرہ گھنٹے پڑھتی ہے اگر ہم نے اس نوجوان نسل کا مقابلہ کرنا ہے تو کم از کم اتنا ہمارے طالب علموں کو بھی پڑھنا پڑھے گا اس کے ساتھ ان کی اپنی دعائیں شامل ہوں گی تو ہم ان سے آگے نکل جائیں گے.(3) چوکس اور بیدار رہنا پڑے گا.(4) تیز نظر پیدا کرنی ہوگی.(5) صفات باری تعالیٰ کے جلووں کو دیکھ کر ان سے پیار کرنے اور ذہنی لذت اور خوشی محسوس کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے.حضور نے فرمایا کہ جب تک ہم دنیا کی تمام مہذب قوموں کو علم کے میدان میں شکست نہیں دے دیتے اسلام کو غالب نہیں کر سکتے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہر احمدی کا ذہن کامل نشو ونما حاصل الفضل 26 اکتوبر 1981ء ص 2) ے.کلبوں کے قیام کی تحریک اکتوبر 1981ء میں ہی لجنہ اماءاللہ اور خدام الاحمدیہ کے اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے حضور نے ورزشی کلب بنانے کی تحریک فرمائی.خداداد استعدادوں کی نشو ونما کے پروگرام کے ایک عملی پہلو کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے سویا بین استعمال کرنے کی طرف توجہ دلائی.حضور نے فرمایا کہ میں بیس سال سے جماعت کو اس کی طرف توجہ دلا رہا ہوں.سو یا بین کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کے استعمال سے دل پر کبھی بیماری حملہ نہیں کرتی.حضور انور نے صحت کو ٹھیک رکھنے اور بہتر بنانے کے لئے فرمایا کہ ہر اس جگہ جہاں پر لجنہ قائم ہے
393 لجنہ کی کھیل کی کلب ہونی چاہئے.حضور نے لجنات کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ تیار ہو جائیں میں جو مطالبہ کروں گا.آپ کو اسے پورا کرنا ہوگا.حضور نے فرمایا کہ ایک سال کے اندر اندر اگلے اجتماع سے قبل سارے پاکستان میں تحصیل لیول پر یعنی ایک تحصیل میں جس ایک جگہ سب سے بڑی لجنہ ہے وہاں پر یہ کلب قائم ہو جائے.حضور نے فرمایا کہ اس مقصد کے لئے زمین کا حصول ایک مسئلہ ہے.چنانچہ زمین نو سال کے لئے کرائے پر لے لیں اور نو سال کا کرایہ مجھ سے لے لیں.ایک کچھی اونچی دیوار اس کے گرد بنادیں.جھولا لگا ئیں یہ بڑی اچھی ورزش ہے.چھوٹے بچوں کے لئے پھسلنے والی جگہیں بنا دیں.اس طرح کی دیگر چیزیں بنا ئیں اس کے لئے چار کنال جگہ کافی ہے.عورتوں کو جب وقت ملے وہ اس جگہ آئیں ورزش کریں، کھیلیں کودیں.خدام بھی کلب بنا ئیں حضور نے لجنات کے علاوہ خدام کو بھی متوجہ کیا کہ وہ بھی ایک سال کے اندر اندر ہر تحصیل کی سطح پر کلب قائم کریں جس میں میروڈ بہ، کبڈی وغیرہ کھیلیں کھیلی جائیں.حضور نے فرمایا میر وڈ بہ ورزش والی بڑی اچھی کھیل ہے.میں خود بھی کھیلتا رہا ہوں.حضور نے فرمایا اس کے علاوہ سائیکل چلانا بڑی اچھی ورزش ہے.سویا بین کی طرح یہ بھی دل کی بیماریوں کے لئے بڑی اچھی ہے.اس کے علاوہ ان کلبوں میں ڈنڈ پیلینا اور طاقتور ہونے کی دیگر ورزشیں کرائی جاسکتی ہیں.حضور نے فرمایا کہ یہ طاقت دنیا کو دکھ پہنچانے کے لئے نہیں ہے بلکہ سکھ پہنچانے کے لئے ہے.نیز فرمایا کہ خدام کو میں یہ پروگرام اس لئے دے رہا ہوں کہ ورزشی کھیلیں تنظیم کی عمدہ مثال ہیں.اس لئے عملی پر وگرام یہ ہوگا کہ ہر مہینے دو تحصیلوں کا مقابلہ ہو.ہر سہ ماہی میں ضلع کا مقابلہ ہو.ہر چھ ماہ میں ایک بار کمشنری کا اور سال میں ایک بار یہاں پر اجتماع میں ملکی سطح کے مقابلے ہوں.حضور نے فرمایا کہ کھانا اتنا کھاؤ جو ہضم کر لو اور اتنا ہضم کرو کہ طاقت حاصل ہو اور اتنی طاقت حاصل ہو کہ دنیا کی کوئی قوم تمہیں مدد کے لئے بلائے تو تم فوراً پہنچ سکو.اخلاقی استعدادوں کی ترقی حضور نے اپنے پروگرام کے عملی حصہ میں اخلاقی استعدادوں کی ترقی کے ضمن میں فرمایا ہ مجلس میں
394 3 سے 9 تک ایسے خدام ہوں جو یہ عہد کریں کہ مر جائیں گے لیکن بد اخلاقی نہیں کریں گے اور یہ بھی عہد کریں کہ اپنی جان دے دیں گے لیکن کسی اور کو بداخلاقی نہیں کرنے دیں گے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ آپ کو اس پر قائم رہنے کی توفیق عطا کرے.(الفضل 31 اکتوبر 1981ء) تحریک جدید کے متعلق تحریک جدید دفتر سوم کا اجراء تحریک جدید کے ابتدائی چندہ دہندگان جنہوں نے 1934 ء تا 1944ء میں شرکت کی وہ دفتر اول کے مجاہدین کہلائے یہ 5 ہزار تھے.1944ء میں حضرت مصلح موعود نے دفتر دوم کا اجراء فرمایا اور نئے شاملین اس کے ممبر بنتے گئے.ان کی تعداد 1965ء تک 20 ہزار تک پہنچ گئی.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے 22 اپریل 1966 ء کو تحریک جدید کے دفتر سوم کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:.میں چاہتا ہوں کہ اب دفتر سوم کا اجراء کر دیا جائے لیکن اس کا اجراء یکم نومبر 1965ء سے شمار کیا جائے گا، کیونکہ تحریک جدید کا سال یکم نومبر سے شروع ہوتا ہے.اس طرح یکم نومبر 1965ء سے 31 را کتوبر 1966 ء تک ایک سال بنے گا.میں اس لئے ایسا کر رہا ہوں تا کہ دفتر سوم بھی حضرت مصلح موعود کی خلافت کی طرف منسوب ہو اور چونکہ اللہ تعالیٰ مجھے اس اعلان کی توفیق دے رہا ہے اس لئے میں اپنے رب سے امید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے بھی اپنے فضل سے ثواب عطا کرے گا اور اپنی رضا کی را ہیں مجھ پر کھولے گا“.( خطبات ناصر جلد اول ص 228) پھر فرمایا:.تمام جماعتوں کو ایک باقاعدہ مہم کے ذریعہ نو جوانوں نئے احمدیوں اور نئے کمانے والوں کو دفتر سوم میں شمولیت کے لئے تیار کرنا چاہئے.الفضل 27 اپریل 1966 ء )
395 وقف جدید کے متعلق تحریکات معلمین کے لئے تحریک 1966 ء تک وقف جدید میں 81 معلمین تھے جن میں زیر تعلیم واقفین بھی شامل تھے.حضور نے خطبہ جمعہ 17اکتوبر 1966ء میں یہ تعداد 100 تک پہنچانے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:.میں چاہتا ہوں کہ اگلے سال واقفین وقف جدید کی کلاس میں جو جنوری 1967 ء سے شروع ہوگی.کم از کم ایک سو واقفین ہو جائیں اور جماعت کو چاہئے کہ وہ اس طرف متوجہ ہو.اساتذہ کی ایک تعداد ہر سال ریٹائر ہوتی ہے.اگر وہ خاص طور پر اس طرف توجہ دیں تو وہ بہت مفید ہو سکتے ہیں.اگر پنشن یافتہ اساتذہ اپنی بقیہ عمر وقف جدید میں وقف کریں تو ہمیں زیادہ اچھے اور تجربہ کار واقفین مل سکتے ہیں.بشرطیکہ وہ خلوص نیت رکھنے والے ہوں اپنے اندر قربانی کا مادہ رکھنے والے ہوں.دنیا کی محبت ان کے دلوں میں سرد ہو چکی ہو.وہ خدا تعالیٰ کی طرف منہ کر کے اپنی بقیہ زندگی گزارنے کی متمنی اور خواہاں ہوں اور دنیا، شیطان اور دنیوی آرام اور آسائشوں کی طرف پیٹھ کر کے اپنی بقیہ زندگی کے دن گزارنے کے لئے تیار ہوں.وہ باپ کی طرح تربیت کرنے والے ہوں.یعنی محبت، پیار، اخلاص، ہمدردی اور غمخواری کے ساتھ تربیت کرنے والے ہوں.ایسے اساتذہ اگر ہمیں مل جائیں تو ممکن ہے ہم انہیں یہاں ایک سال کی بجائے چند ماہ تعلیم دے کر جماعتوں میں کام کرنے کے لئے بھجوا سکیں.خطبات ناصر جلد اول ص 418 اسی ضمن میں حضور نے بجٹ میں اضافہ کا بھی مطالبہ فرمایا.وقف جدید دفتر اطفال 7 اکتوبر 1969 ء کو حضور انور نے وقف جدید کے دفتر اطفال کے قیام کا اعلان کیا.اس کا پس منظر بیان کرتے ہوئے فرمایا:.میں آج احمدی بچوں (لڑکوں اور لڑکیوں) سے اپیل کرتا ہوں کہ اے خدا اور اس کے رسول
396 کے بچو! اٹھو اور آگے بڑھو اور تمہارے بڑوں کی غفلت کے نتیجہ میں وقف جدید کے کام میں جو رخنہ پڑا گیا ہے اسے پر کر دو اور اس کمزوری کو دور کر دو جو اس تحریک کے کام میں واقع ہو گئی ہے.کل سے میں اس مسئلہ پر سوچ رہا تھا.میرا دل چاہا کہ جس طرح ہماری بہنیں بعض مساجد کی تعمیر کے لئے چندہ جمع کرتی ہیں اور سارا ثواب مردوں سے چھین کر اپنی جھولیوں میں بھر لیتی ہیں.وہ اپنے باپوں ، اپنے بھائیوں، اپنے خاندان اپنے دوسرے رشتہ داروں یا دوسرے احمدی بھائیوں کو اس بات سے محروم کر دیتی ہیں کہ اس مسجد کی تعمیر میں مالی قربانی کر کے ثواب حاصل کر سکیں.اسی طرح اگر خدا تعالیٰ احمدی بچوں کو توفیق دے تو جماعت احمدیہ کے بچے وقف جدید کا سارا بوجھ اٹھا لیں لیکن چونکہ سال کا بڑا حصہ گزر چکا ہے اور مجھے ابھی اطفال الاحمدیہ کے صحیح اعداد و شمار بھی معلوم نہیں اس لئے میں نے سوچا کہ آج میں اطفال الاحمدیہ سے صرف یہ اپیل کروں کہ اس تحریک میں جتنے روپے کی ضرورت تھی اس میں تمہارے بڑوں کی غفلت کے نتیجہ میں جو کمی رہ گئی ہے اس کا بار تم اٹھا لو اور پچاس ہزار رو پید اس تحریک کے لئے جمع کرو.خطبات ناصر جلد 2 ص 419) پھر فرمایا:.پس اے احمدیت کے عزیز بچو! اٹھو اور اپنے ماں باپ کے پیچھے پڑ جاؤ اور ان سے کہو کہ ہمیں مفت میں ثواب مل رہا ہے.آپ ہمیں اس سے کیوں محروم کر رہے ہیں.آپ ایک اٹھنی ماہوار ہمیں دے دیں کہ ہم اس فوج میں شامل ہو جائیں.جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ دلائل و براہین اور قربانی اور ایثار اور فدائیت اور صدق وصفا کے ذریعہ اسلام کو باقی تمام ادیان پر غالب کرے گی.تم اپنی زندگی میں ثواب لوٹتے رہے ہو اور ہم بچے اس سے محروم رہے ہیں.آج ثواب حاصل کرنے کا ایک دروازہ ہمارے لئے کھولا گیا ہمیں چند پیسے دو کہ ہم اس دروزاہ میں سے داخل ہو کر ثواب کو حاصل کریں اور خدا تعالیٰ کی فوج کے ننھے منے سپاہی بن جائیں.(خطبات ناصر جلد 2 ص 421 ) چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دفتر اطفال وقف جدید مضبوط بنیادوں پر قائم ہو گیا اور باقاعدہ اس میدان میں بھی مقابلہ ہوتا ہے.چنانچہ 12 جنوری 2007ء کو وقف جدید کے نئے سال کا اعلان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ پاکستان میں دفتر اطفال میں اول لا ہور دوم کراچی اور سوم ربوہ رہا.الفضل 6 مارچ 2007 ء ص 6 )
397 سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ 12 جنوری 2007ء میں وقف جدید کے نئے سال کا اعلان کرتے ہوئے دفتر اطفال کو پاکستان سے باہر وسیع کرنے کا اعلان الفضل 6 مارچ 2007 ء ) کیا.ایک لاکھ روپے کی خصوصی تحریک: حضور نے 18 جنوری 1974ء کے خطبہ جمعہ میں سندھ میں ہندوؤں میں تبلیغ کے لئے جماعت کو معمول سے زیادہ ایک لاکھ روپیہ پیش کرنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:.گذشته سال وقف جدید کے چندہ میں پچاس ہزار کچھ سوروپے کا اضافہ تھا.میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت ہمت کرے اور اس سال یعنی سال رواں میں جو یکم جنوری سے شروع ہوا ہے.جس کا اس وقت میں اعلان کر رہا ہوں.ایک لاکھ روپیہ مزید دے دے اور وقف جدید کو میں کہوں گا کہ جو آپ کی زائد آمدنی ہوا سے اس علاقہ میں خرچ کریں جہاں ہندو مسلمان ہورہے ہیں تو آپ کے لئے بڑی برکت کا باعث ہے اور اسلام کے لئے بڑی خوشی کا باعث ہے.پس اس اعلان کے ساتھ میں وقف جدید کے نئے سال کی ابتداء کا اعلان کرتا ہوں اس امید پر کہ جماعت ایک لاکھ روپیہ زائد چندہ اس وقف جدید کے انتظام کو دے گی اور اس ہدایت کے ساتھ کہ وقف جدید والے اس کا بڑا حصہ اس علاقے میں خرچ کریں گے جہاں ہندو بستے ہیں اور اس وقت ان کی توجہ اسلام کی طرف ہے اور اس تو کل اور امید کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ہماری اس کوشش کو قبول کرے گا اور ان اچھوتوں پر رحم کرے گا جن کو ان کے اپنے مذہب والوں نے دھتکار دیا اور جن کو اپنی آغوش میں لینے کے لئے اسلام اپنے بازو پھیلائے ان کی طرف بڑھ رہا ہے.خطبات ناصر جلد 5 ص 391,390 ) رضا کار معلمین کے لئے تحریک حضور نے خطبہ جمعہ 2 جنوری 1976ء میں وقف جدید کے رضا کار معلمین کے لئے تحریک کرتے ہوئے فرمایا:.جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑھ رہی ہے اور نئی جماعتیں قائم ہو رہی ہیں.ابھی ہم پرانی جماعتوں کو بھی ان کی تعداد کے لحاظ سے پورے معلم نہیں دے سکے.اس وقت جتنے معلم ہیں ان پر جو
398 خرچ ہورہا ہے اگر ہمارے معلموں کی تعداد بڑھ جائے اور اسی نسبت سے ان پر خرچ ہو یعنی ضرورت کے مطابق اگر ہم ہر جماعت میں ایک معلم رکھیں تو اس کام پر ہمیں 25, 30لاکھ روپیہ خرچ کرنا پڑے گا.موجودہ حالات میں وقف جدید اس بار کی متحمل نہیں ہو سکتی.اس لئے آج میں وقف جدید کا ایک نیا دفتر ایک نیا باب کھولتا ہوں اور اس کا اعلان کرتا ہوں.ہر جماعت کا ایک یا ایک سے زائد فرد جو کہ کچھ لکھا پڑھا ہو اپنے آپ کو پیش کرے اور جو گزارہ ہم معلمین کو دیتے ہیں وہ گزارہ بھی وہ نہ لیں.بلکہ اپنا کام کریں اور اپنے گاؤں میں رہ کر اپنی جماعت کو علمی معلومات بہم پہنچا ئیں.وہ شاید ا کٹھا ایک سال مرکز میں رہ کر تعلیم حاصل نہ کر سکیں لیکن وہ ایسے واقفین رضا کارتین مہینے کے لئے یہاں آئیں اور تین مہینے کا ایک کورس کر کے واپس چلے جائیں پھر دو یا تین مہینے کے لئے آئیں اور ایک اور کورس کر لیں اور اس طرح ہم ان کو کم از کم اس معیار پر لے آئیں جس معیار پر آج وقف جدید کا معلم پہنچا ہوا ہے اور میرے نزد یک وقف جدید کا معلم بھی اس معیار پر نہیں ہے جس معیار پر جماعت احمدیہ کے معلم کو ہونا چاہئے.بہر حال ہر گاؤں سے اور ہر جماعت سے اس قسم کے آدمی نکلیں اور اگر بعض جماعتیں چھوٹی ہیں تو ان کے گرد جو بڑی جماعتیں ہیں وہ ایک سے زائد آدمی دیں اور ان کے ذمہ یہ لگایا جائے تم ہفتے میں کم از کم ایک دن ساتھ والی جماعت میں جاؤ وہ کوئی دن مقرر کر لیں بہر حال ساتواں دن وہ ساتھ والی جماعت میں دیں.ان کے لئے ایسے دینی نصاب ہونے چاہئیں کہ ہم ان کو کم از کم اتنا نصاب سکھا دیں کہ جب وہ دوسری دفعہ ایک مہینے کے لئے آئیں تو اس عرصہ تک وہ گزارہ کر لیں کیونکہ آداب اور اخلاق سکھانے کی جس مہم کا اور جس عظیم علمی جہاد کا میں نے جلسہ سالانہ پر اعلان کیا ہے اس کو ہم ایک دو دن میں تو پورا نہیں کر سکتے.اس کی تو تیاری کے لئے بھی وقت لگے گا اور پھر چوکس رہ کر اس کے لئے محنت کرنی پڑے گی“.خطبات ناصر جلد 6 ص 274 ) چنانچہ وقف جدید نے 3,3 ماہ کی کلاسیں جاری کیں اور احباب جماعت نے تربیت پا کر اپنی جماعتوں میں تعلیم و تربیت کے سلسلہ کو عمدگی سے آگے بڑھایا.
399 ذیلی تنظیموں کے متعلق تحریکات حضور نے جماعت کی ذیلی تنظیموں کو مضبوط کرنے اور ان کی کار کردگی کو بہتر بنانے کے لئے سالانہ اجتماع انصار اللہ 1973ء کے موقع پر بعض اہم انتظامی تبدیلیاں فرمائیں.حضور نے 10 نومبر 1973ء کو فرمایا: انصار الله صف دوم: آئندہ انصار اللہ کے اراکین دو حصوں پر مشتمل ہوا کریں گے یعنی (الف) صف اول جس میں 55 سال سے زائد عمر کے انصار شامل ہوں گے.(ب) صف دوم جو 40 سال سے 55 سال تک کی عمر کے انصار پر مشتمل ہوگی.صدر مجلس انصاراللہ مرکزیہ کے ساتھ میں ایک عہدہ نائب صدر کا مقرر کرتا ہوں جس کی عمر 40 اور 47 برس کے درمیان ہونا ضروری ہوگی.حضور نے فرمایا کہ ایک خادم چالیس سال کے بعد اگلے دن جب انصاراللہ میں شامل ہوتا ہے تو وہ اپنے آپ کو بوڑھا سمجھنے لگتا ہے اس لئے 40 سے 55 سال تک کی عمر کے انصار کی ایک الگ تنظیم ہوگی.ان کے سپر دو ہی کام کئے جائیں جو خدام الاحمدیہ کے سپرد ہیں مثلاً ورزش میں با قاعدگی اور سائیکل سفر میں حصہ لینا اور سروے سیکیم میں خدام کے ساتھ جانا.حضور نے ان کے لئے ”جوانوں کے جوان کی اصطلاح وضع فرمائی.نیز انصار اللہ کی تنظیم اور ان کے کاموں کو تیز سے تیز کرنا ان کی ذمہ (الفضل 11 نومبر 1973ء) داری قرار دیا.اطفال معیار کبیر : اسی اجتماع پر حضور نے اطفال الاحمدیہ کی تنظیم کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا 7 سال سے 11 سال تک کے اطفال کے لئے معیار صغیر اور 12 سال سے 15 سال تک کے اطفال کے لئے معیار کبیر مقرر فرمایا.معیار کبیر کے اطفال کے لئے سائیکل سفر اور سائیکل سروے اور وقار عمل میں حصہ لینا ضروری قرار دیا گیا.اس معیار کو حضور نے خدام الاحمدیہ کے لئے نرسری قرار دیا.تا کہ تین سال کے عرصہ میں وہ خدام الاحمدیہ کے کاموں اور ذمہ داریوں سے پوری طرح واقف ہو جائیں اور جب وہ خادم بنیں تو ان کو نئے سرے سے ٹریننگ نہ دینی پڑے بلکہ وہ پہلے ہی سے تربیت یافتہ ہوں.
400 جلسہ سالانہ کے متعلق تحریکات مہمان خانہ کی تحریک 1972ء میں ربوہ کے جماعتی تعلیمی اداروں کے قومیائے جانے کی وجہ سے جلسہ سالانہ کے ایام میں جلسہ کے مہمانوں کو ٹھہرانے کے لئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ربوہ کے تعلیمی اداروں کے قیام کے وقت جلسہ سالانہ کے مہمانوں کی وہاں رہائش کی ضرورت بھی مد نظر تھی.قومی تحویل میں لئے جانے کے بعد حضور نے جلسہ سالانہ کے مہمانوں کی رہائش کے لئے بیر کس تعمیر کرنے کی تحریک فرمائی.حضور نے خطبہ جمعہ 2 جنوری 1976ء میں فرمایا:.میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کو جلسہ کے مہمانوں کے لئے آئندہ جلسہ سے پہلے کئی ہزار مربع فٹ جگہ شاید 50,40 ہزار مربع فٹ جگہ تعمیر کرنی پڑے گی.خواہ وہ عارضی بیرکوں کی شکل میں ہی کیوں نہ و.اس سلسلہ میں ابھی سے سوچ کر اور جو سکیم بھی بنے اس کے مطابق جلسے سے قبل اس کو تیار کر دینا چاہئے کیونکہ اس سال مہمان جو کہ اہل ربوہ کے لئے برکتوں اور رحمتوں کی یاد دلانے والے ہیں وہ اپنے کناروں سے اس طرح چھلکے ہیں کہ سال میں عام طور پر جس شرح سے مکان بنتے ہیں اور جتنے مکان بنتے ہیں وہ ان کو نہیں سنبھال سکے...دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہماری راہ سے ان روکوں کو دور کر دے اور ہمارے ملک میں پیار کی فضا پیدا کرے اور جماعت کو یہ توفیق دے کہ وہ آنے والوں کے لئے مکانیت کی جو کم سے کم ضرورت ہے اس حد تک تو تعمیر کریں خواہ وہ ہٹس (Huts) ہوں یا بیر کس ہوں یا جو مرضی ان کا نام رکھ لیں.بڑی بڑی عمارتیں اور منٹل کی چھتیں نہ ہوں“.مکانیت میں اضافے کی تحریک خطبات ناصر جلد 6 ص 271 اسی طرح 1974ء میں جب پاکستان میں جماعت احمدیہ کو بیخ و بن سے اکھاڑنے کی کوششید شروع ہورہی تھیں.حضرت خلیفتہ المسح الثالث کو الہام ہواوســع مـكـانـك انــا كـفـيـنـاك
401 المستهزئین یعنی اپنے مکان کو وسیع کر ، ہم استھز اء کرنے والوں کے مقابلہ میں تیرے لئے کافی ہیں.حضور نے خطبہ جمعہ یکم نومبر 1974ء میں فرمایا:.میں اُمید کرتا ہوں کہ جلسہ پر آنے والوں کی تعداد پچھلے سال کی نسبت زیادہ ہوگی انشاء اللہ اور ان ہنگاموں کے دنوں میں جنہوں نے مکان بنانے تھے وہ بھی نہیں بنوا سکے ہر سال مکان بنتے رہتے ہیں.بیسیوں، بعض دفعہ سینکڑوں بن جاتے ہیں اس لئے میں یہ تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ ہر وہ شخص جس کے پاس زمین ہو لیکن اُس نے ابھی تک مکان نہ بنایا ہو وہ قانونی اجازت لے کر فوری طور پر جلسہ سے قبل اپنی زمین میں اگر ممکن ہو تو دو تین فٹ کی چار دیواری بھی بنالے اور اگر یہ اُس کے لئے ممکن نہ ہو تو ایک کمرہ بنالے اس نیت کے ساتھ کہ جلسہ کے مہمان وہاں ٹھہریں.اللہ تعالیٰ آپ کے اس مکان میں اس خلوص نیت کی وجہ سے بہت برکتیں دے گا.پس آج ہی یہ کام شروع کر دو یعنی آج سے مراد ہے جس کے کان میں جس دن یہ آواز پہنچے.کمرہ بنانا ہے بے شک ایسا بنا دیں جس کی آپ کو بعد میں ضرورت نہ ہو یا جو امیر لوگ ہیں وہ اپنے کام کرنے والوں کے لئے کمرے بناتے ہیں.بے کچے کمرے بنادیں مگر مہمانوں کے لئے بنائیں اور قانونی اجازت لے کر بنا ئیں.میری اس تحریک کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس دن قومی اسمبلی کے سارے ایوان پر مشتمل خصوصی کمیٹی بنی اُس دن جب اعلان ہوا کہ اس کمیٹی کا اجلاس In-camera یعنی خفیہ ہو گا.اس بات نے کہ اجلاس خفیہ ہو گا مجھے پریشان کیا اور اس اطلاع کے ملنے کے بعد سے لے کر اگلے دن صبح چار بجے تک میں بہت پریشان رہا اور میں نے بڑی دُعائیں کیں.یہ بھی دُعا کی کہ اے خُدا خفیہ اجلاس ہے پتہ نہیں ہمارے خلاف کیا تدبیر کی جائے.تیرا حکم ہے کہ میں مقابلہ میں تدبیر کروں تیرا حکم ہے میں کیسے مانوں.مجھے پتہ ہی نہیں اُن کی تدبیر کیا ہے تو ان حالات میں میں تیرا حکم نہیں مان سکتا.بتائیں کیا کروں.سورۃ فاتحہ بہت پڑھی اهدنا الصراط المستقیم بہت پڑھا.ان الفاظ میں دُعا بہت کی اور صبح اللہ تعالیٰ نے بڑے پیار سے مجھے یہ کہا وَسِعُ مَكَانَكَ إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ.کہ ہمارے مہمانوں کا تم خیال کرو اور اپنے مکانوں میں مہمانوں کی خاطر وسعت پیدا کرو اور جو یہ منصوبے جماعت کے خلاف ہیں ان منصوبوں کے دفاع کے لئے تیرے لئے ہم کافی ہیں تو تسلی ہوئی.وَسِعُ مَكَانَكَ جو خاص طور پر کہا گیا اس لئے میرا فرض تھا کہ جماعت کو کہوں کہ
402 وسعتیں پیدا کرو.جو اپنے مکانوں میں کمرے بڑھانا چاہتے تھے وہ بنائیں اور ہر پلاٹ میں جلسہ کے مہمانوں کو ایک کمرہ بنا دو.رہائش کے لئے عارضی طور پر انہیں تحفہ دو اور عارضی تحفہ کے نتیجہ میں اپنے لئے ابدی ثواب کے حصول کے سامان پیدا کرو.(روز نامه الفضل ربوہ 11 دسمبر 1974ء صفحہ 2 تا 6.خطبات ناصر جلد 5 ص 709) جلسہ سالانہ پر ممالک بیرون سے وفود کی آمد کی تحریک حضور نے 19 /اکتوبر 1973ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:.آج میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں بسنے والی تمام احمدی جماعتیں جلسہ سالانہ کے موقع پر اپنی اپنی جماعت کی طرف سے وفود بھجوایا کریں جو جلسہ سالانہ میں شریک ہوں.یہاں کی تصاویر لیں یہاں کے حالات دیکھیں ، جماعت احمدیہ پر خدا تعالیٰ کی جو بے شمار رحمتیں نازل ہو رہی ہیں ان کو دیکھیں ، ان کے متعلق سنیں اور ان کو نوٹ کریں اور پھر اپنے اپنے ملک میں جا کر ان کو بیان کریں.یعنی اپنی اپنی جماعت کے احباب کو بتائیں کہ ہم جلسہ سالانہ پر گئے وہاں ہم نے یہ دیکھا اور یہ سنا کہ کس طرح دنیا میں ایک حرکت پیدا ہو رہی ہے کتنی خوش کن تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں اور کس طرح اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو غلبہ اسلام کی مہم میں کامیاب کرنے کے لئے اپنے فضل سے اس پر اپنی عنائیتیں اور رحمتیں نازل کر رہا ہے....اس سلسلہ میں کچھ ہمیں بھی یہاں انتظام کرنا پڑے گا.مثلاً سلائیڈز کا انتظام کرنا پڑے گا.کچھ ان لوگوں کو انتظام کرنا پڑے گا مثلاً بڑی سکرین کا جس پر ٹرانس پیرنسی یعنی خاموش تصاویر دکھائی جاتی ہیں.دیکھیں اور حالات معلوم کریں.جلسہ سالانہ والوں کو چاہیئے کہ وہ پہلے سے ایک چھوٹا سا رسالہ چار ورقہ ہو یا اس سے زیادہ کا ہو کیونکہ کاغذ وغیرہ کی کمی نہیں ہے ) شائع کریں اور باہر سے آنے والوں کے لئے اسے انگریزی میں طبع کروا ئیں.جس میں جلسہ سالانہ کے سارے انتظامات کا تعارف کروایا گیا ہو مثلاً اتنے لنگر خانے ہیں، اتنے آدمیوں کو پچھلے سال کھانا کھلایا گیا تھا اور اب اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سے بڑھ کر کھلایا جائے گا وغیرہ وغیرہ تا کہ جو دوست باہر سے آئیں وہ یہ اطلاعات لے کر جائیں.پھر اس کے علاوہ جو کچھ وہ خود دیکھیں.عقائد کے متعلق دلائل سنیں.
403 واقعات کے متعلق میرا تبصرہ سنیں جو ساری جماعت کے بارہ میں میری پہلی تقریر میں ہوتا ہے.پھر علوم قرآنی جو موجودہ مسائل کو حل کرنے والے ہیں.وہ ان کے کانوں میں پڑیں اور واپس جا کر اپنی اپنی جماعت میں اپنے تاثرات بیان کریں.اسی ضمن میں حضور نے ان کے لئے ترجمانی اور مناسب قیام و طعام کا انتظام کرنے کا بھی ارشاد فرمایا.گیسٹ ہاؤسز کی تحریک حضور نے خطبہ جمعہ 7 دسمبر 1973ء میں فرمایا: خطبات ناصر جلد 5 ص 267 تا 278 ) بیرون ممالک سے آنے والے وفود کے لئے ان کے مناسب حال گنجائش ہونی چاہئے...ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے مرکز کی طرف سے مہمان خانہ ان لوگوں کے مناسب حال بنوانے کا ارادہ رکھتے ہیں جس میں کھانے اور بیٹھنے کے کمروں کے علاوہ آٹھ رہائشی کمرے ہوں گے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر مجالس انصاراللہ اور خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کوشش کریں اور ہمت کریں تو یہ بھی تین یا چارسونے کے کمروں والے مہمان خانے اپنی تنظیم کے ماتحت ایسے بنا سکتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر یا بعض دیگر ضروریات کے مواقع پر انہیں بھی سلسلہ کے کاموں کے لئے استعمال کیا جاسکے.خطبات ناصر جلد 5 ص 353 اسی ضمن میں حضور نے خطبہ جمعہ 5 نومبر 1976ء میں فرمایا: میں امریکہ کا دورہ کر کے آیا ہوں وہاں سے جلسہ سالانہ پر وفود آتے ہیں اس سلسلہ میں بعض باتیں مجھے بتائی گئیں.بعض کی اصلاح کی ضرورت تھی ان کے متعلق میں نے بات کی.میں نے ان سے کہا کہ تم اگر ہزاروں کی تعداد میں آؤ تب بھی تم ہمارے سینوں کو وسیع پاؤ گے.ہم تمہاری میز بانی کریں گے ہم تمہارا خیال رکھیں گے.جن چیزوں کی تمہیں عادت ہے ہم اس میں تمہیں سہولت پہنچانے کی کوشش کریں گے لیکن بعض چیزیں ایسی ہیں کہ وہ ہم نہیں کر سکیں گے اور تم بھی خوش ہو گے مثلاً اب ہم تمہیں چار پائی دیتے ہیں لیکن جب تم کثرت سے آؤ گے تو ہم تمہیں کہیں گے کہ دوسرے ریوں کی طرح زمین پر کسیر بچھا کر تم بھی لیٹو تم بھی لیٹو گے اور خوشی سے لیٹو گے اور شکر کرو گے واپس
404 جا کر کہ ہمیں خدا تعالیٰ کی باتیں سننے کی خاطر خدا نے ہمیں یہ چھوٹی سی تکلیف برداشت کرنے کی توفیق خطبات ناصر جلد 6 ص 572) دے دی.حضور کی تحریک پر نہ صرف ربوہ کے عام رہائشیوں نے اپنے مکانوں میں اضافہ کیا.بلکہ جماعتی طور پر بھی نئی تعمیرات ہوئیں.اسی طرح غیر ملکی مہمانوں کے لئے جدید طرز کے گیسٹ ہاؤسز تعمیر کئے گئے.ان کی کسی قدر تفصیل یہ ہے.سرائے محبت نمبر 2،1 گیسٹ ہاؤس صدرانجمن احمدیہ.سرائے فضل عمر.گیسٹ ہاؤس تحریک جدید سرائے خدمت.گیسٹ ہاؤس خدام الاحمدیہ سرائے ناصر.گیسٹ ہاؤس انصاراللہ گیسٹ ہاؤس لجنہ ، وقف جدید دار الضیافت کی توسیع مردانہ مہان خانہ.بیرکس عقب مسجد اقصیٰ زنانه مہمان خانہ.برائے مستورات مہمان خانہ جماعت کراچی و راولپنڈی ان کے علاوہ قصر خلافت میں مہمانوں کے لئے وسیع ہال تعمیر کئے گئے ربوہ میں نئی مساجد اور دفاتر تعمیر ہوئے.ہجرت کے پُر آشوب دور میں ان سب عمارات میں اضافہ اور وسعت پیدا ہوئی ہے جو الہام الہی کی سچائی کا منہ بولتا ثبوت ہے.ممالک بیرون میں بھی مساجد اور مشن ہاؤسز میں معتد بہ اضافہ ہوا.جلسہ کے لئے بیرون ربوہ سے رضا کاروں کی تحریک جلسہ سالانہ پر مہمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے مطابق ربوہ کے رضا کاروں میں اضافہ نہیں ہورہا.تھا اس لئے حضور نے خطبہ جمعہ 5 نومبر 1976ء میں فرمایا:.
405 افسر صاحب جلسہ سالانہ نے مجھ سے بات کی ہے کہ ربوہ کے رضا کا راب پورے نظام جلسہ کو سنبھال نہیں سکتے.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ احمدی جور بوہ سے باہر رہتے ہیں ٹوکن کے طور پر بحیثیت جماعت اس انتظام میں شامل ہوں اور وہ احمدی بھی جو پاکستان سے باہر رہتے ہیں اور یہاں وفود کی شکل میں آتے ہیں وہ رضا کارانہ طور پر کام کریں لیکن تنظیم کے ماتحت یعنی ان کا اپنے آپ کو پیش کرنا رضا کارانہ ہوگا اور جب ان کی فہرست یہاں پہنچے گی تو وہ ایک نظام کے ماتحت ہوگی.مثلاً کراچی کے نوجوان رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات جلسہ کے کام کے لئے پیش کریں لیکن کراچی کی جماعت احمدیہ میں انصار کو نہیں کہہ رہا اور نہ خدام سے کہ رہا ہوں ) ان رضا کاروں کی فہرست مرکز میں بھجوائے گی.وہاں کے رضا کار جماعت احمدیہ کراچی کو اپنے نام لکھوائیں گے اور جماعت احمد یہ کراچی ہمارے پاس ان کے نام بھیجے گی.ہمیں زیادہ رضا کاروں کی ضرورت نہیں.تھوڑے سے رضا کار چاہئیں.کوئی چار پانچ سو کے درمیان رضا کاروں کی ضرورت ہے جو باہر سے آئیں گے اور ان کے حالات کے مطابق یہاں کے منتظمین ان کی ڈیوٹیاں لگائیں گے.ایک ہدایت میں نے کی ہے ضرور اور وہ یہ کہ اگر کھانا کھلانے کی ڈیوٹی ان کو دینی ہو تو سیالکوٹ کے جو رضا کار ہوں گے ان کی ڈیوٹی سیالکوٹ کی جماعتوں پر نہ لگائی جائے بلکہ سرگودھا کی جماعت پر لگائی جائے یا جھنگ کی جماعت پر لگائی جائے یا لائلپور (فیصل آباد ) کی جماعتوں کو کھانا کھلانے پر لگائی جائے.اس طرح ان کی واقفیت اور تعارف اور تعلقات بڑھیں گے.میل ملاقات زیادہ ہوگی اور یہ بھی ہم ان سے ایک فائدہ اٹھائیں گے.(خطبات ناصر جلد 6 ص 573 ) مجالس موصیان کا قیام حضور کو وسط 1966ء میں یہ نظارہ دکھایا گیا کہ قرآن کا نور تعلیم القرآن اور وقف عارضی کی سکیموں کے ذریعہ دنیا میں پھیلایا جارہا ہے.اس پر حضور نے 5 اگست 1966ء کے خطبہ میں فرمایا :.پس چونکہ وصیت کا یا نظام وصیت کا یا موصی صاحبان کا ، قرآن کریم کی تعلیم ، اس کے سیکھنے اور اس کے سکھانے سے ایک گہرا تعلق ہے.اس لئے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تعلیم القرآن اور وقف عارضی کی تحریکوں کو موصی صاحبان کی تنظیم کے ساتھ ملحق کر دیا جائے اور یہ سارے کام ان کے سپرد کئے جائیں.
406 اس لئے آج میں موصی صاحبان کی تنظیم کا ، خدا کے نام کے ساتھ اور اس کے فضل پر بھروسہ کرتے ہوئے اجراء کرتا ہوں.تمام ایسی جماعتوں میں جہاں موصی صاحبان پائے جاتے ہیں ان کی ایک مجلس قائم ہونی چاہیئے.یہ مجلس باہمی مشورے کے ساتھ اپنے صدر کا انتخاب کرے.منتخب صدر جماعتی نظام میں سیکرٹری وصایا ہوگا.ممکن ہے بعد میں ہم اس کا نام بھی بدل دیں لیکن فی الحال منتخب صدر ہی سیکرٹری وصا یا ہو گا اور اس صدر کے ذمہ علاوہ وصیتیں کرانے کے یہ کام بھی ہوگا کہ وہ گا ہے گا ہے مرکز کی ہدایت کے مطابق وصیت کرنے والوں کے اجلاس بلائے.اس اجلاس میں وہ ایک دوسرے کو ان ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کریں جو ایک موصی کی ذمہ داریاں ہیں.یعنی اس شخص کی ذمہ داریاں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کی بشارت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ خدا کے سارے فضلوں اور اس کی ساری رحمتوں اور اس کی ساری نعمتوں کا وہ وارث ہے.(خطبات ناصر جلد اول ص 346) 1969ء میں حضور نے مجلس موصیان کو تعلیم القرآن کی یاددہانی کراتے ہوئے فرمایا :.کچھ عرصہ ہوا موصیوں اور موصیات کی تنظیم قائم کی گئی تھی اور میرا ارادہ تھا کہ بعض کام اس تنظیم کے سپر د کروں لیکن کچھ روکیں بیچ میں پیدا ہوتی رہیں اور صرف تنظیم ہی قائم ہوئی اور شائد اس میں بھی کچھ سستی پیدا ہو گئی ہو.کیونکہ ابھی تک ان سے کوئی خاص کام نہیں لیا گیا خدا چاہتا تھا کہ یہ تنظیم قرآن کریم کے پڑھنے اور پڑھانے سے اپنا کام شروع کر.....موصیوں کے صدر اور نائب صدر کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے حلقہ کے موصیوں کا جائزہ لے کر ایک ماہ کے اندر اندر ہمیں اس بات کی اطلاع دیں کہ کس قدر موصی قرآن کریم ناظرہ جانتے ہیں اور جو موصی قرآن کریم ناظرہ جانتے ہیں ان میں سے کس قدر موصی قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہیں اور جو موصی قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہیں ان میں سے کس قدر قرآن کریم کی تفسیر سیکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ ہر موصی کو تینوں معنی میں جن کی تشریح میں پہلے کر چکا ہوں اب دہرانے کی ضرورت نہیں ) قرآن کریم آتا ہو اور تیسری ذمہ داری آج میں ہر اس موصی پر جو قرآن کریم جانتا ہے یہ ڈالنا چاہتا ہوں کہ وہ دو ایسے دوستوں کو قرآن کریم پڑھائے جو قرآن کریم پڑھے ہوئے نہیں اور یہ کام باقاعدہ ایک نظام کے ماتحت ہو اور اس کی اطلاع نظارت متعلقہ کو دی جائے.خطابات ناصر جلد 2 ص 560 تا 564)
407 وقف زندگی کے متعلق تحریکات وقف بعد از ریٹائرمنٹ جماعت میں وقف زندگی کی سکیم تو مدت سے جاری تھی مگر حضور نے اس میں اضافہ کرتے ہوئے وقف بعد ریٹائرمنٹ کی سکیم جاری کی.جس کا مقصد یہ تھا کہ جو دوست ملا زمتوں اور کاروبار وغیرہ سے فارغ ہو چکے ہوں وہ اپنی بقیہ زندگی خدمت دین کے لئے وقف کریں.یہ تحریک حضور نے 21 دسمبر 1965ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر کی.اس تحریک میں ایک سو سے زائد افراد حصہ لے کر مختلف میدانوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں.25 جنوری 1974 ء کے خطبہ جمعہ میں حضور نے وقف کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:.ہمیں اُن بڑی عمر کے احمدیوں کی ضرورت ہے جو اگر چہ جامعہ احمد یہ یا اس قسم کے کسی ادارہ میں تو نہ پڑھے ہوں لیکن اُن کی زندگی صحیح اور حقیقی اسلام کے مطالعہ میں خرچ ہوئی ہو اور جن کے دل خدا تعالیٰ کی محبت سے معمور ہوں اور جن کا اپنے رب سے اخلاص کا تعلق ہو اور جن کی ہمت جوان ہوا گر چہ عمر کے لحاظ سے وہ جواں نہ ہوں وہ آگے آئیں.وہ ریٹائر ہو گئے دنیوی کاموں سے.وہ جو ریٹائر ہو سکتے ہیں.(ملازمت کا ایک ایسا حصہ جس میں انسان اپنی مرضی سے ریٹائر ہو جاتا ہے اور اسکی پنشن پر خاص فرق نہیں پڑتا یا بعض دفعہ بالکل ہی فرق نہیں پڑتا ) ایسے لوگ اپنی زندگیوں کو وقف کریں تا کہ ہم انہیں ان ممالک میں بھجواسکیں ایسے لوگ جن کی خصوصیات اور اہلیت کے کچھ پہلو تو میں نے ابھی بتائے ہیں لیکن زبان کے لحاظ سے انہیں انگریزی زبان اچھی طرح آنی چاہئے کیونکہ یہ ہر جگہ غیر ممالک میں کام دے جاتی ہے.اسے وقف کرنا چاہئے.ایسے سینکڑوں ہزاروں احمدی جماعت احمدیہ میں موجود ہیں.آج میں اُن کو آواز دے رہا ہوں کہ اسلام کی خاطر دُنیا کے مختلف ممالک میں بھیجوانے کے لئے مجاہدین کی آج ضرورت ہے اور اس قسم کے لوگ ہی آج کے حالات میں اس ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں.اس لئے وہ آگے آئیں اور اپنے ناموں کو پیش کریں.اگر وہ ریٹائر ہو چکے ہوں اور اپنی ملازمتوں سے فارغ ہو چکے ہوں تب بھی ، اگر وہ آسانی سے فارغ ہو سکتے
408 ہیں تب بھی ہر قسم کے انگریزی دان افراد خواہ وہ ڈاکٹر ہوں انجینئر ہوں ، ٹیچر ہوں، پروفیسر ہوں ، وغیرہ وغیرہ اپنے آپ کو پیش کریں لیکن شرط یہی ہے کہ وہ لوگ اس گروہ سے تعلق رکھنے والے ہوں جن کی زندگیاں اسلامی تعلیم اور قرآن کریم کے مطالعہ میں گزری ہیں اور جو دوسروں سے تبادلہ خیالات کرتے رہے ہیں.خطبات ناصر جلد 5 ص 397,396 ) | گریجوایٹ کو وقف کرنے کی تحریک 1975ء میں حضور نے اشاعت اسلام کے لئے گرایجویٹ احمدی نوجوانوں کو وقف کرنے کی تحریک فرمائی.حضور نے فرمایا مجھے ایسے گریجوایٹ نوجوانوں کی ضرورت ہے جو اچھی طرح انگریزی پڑھ اور بول سکتے ہوں وہ اپنے آپ کو وقف کریں وہ دینی تعلیم بھی حاصل کریں اور غیر ممالک میں جا کر اپنی روزی بھی کمائیں اور اشاعت اسلام کی مہم میں بھی حصہ لیں اور غیروں کی غلط فہمیوں کو دور کریں ایسے نوجوانوں کو چند ضروری مسائل کی تعلیم دے کر غیر ممالک میں بھجوایا جائے.حضور کی اس تحریک پر احمدی نوجوان دیوانہ وار آگے آئے اور اپنے آپ کو امام کے حضور پیش کر دیا.بد رسوم کے خلاف جہاد کی تحریک جماعت احمد یہ پوری دنیا میں غالب معاشروں کے اندر زندگی گزار رہی ہے اس لئے ماحول کے دباؤ سے متاثر ہونا ایک طبعی امر ہے اس لئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے بد رسوم کے خاتمہ کے لئے بڑی وسعت اور جرات کے ساتھ قدم اٹھائے.حضور نے بد رسوم کے خلاف نظام جماعت کو متحرک ہونے کا ارشاد کرتے ہوئے 9 ستمبر 1966ء کو فرمایا:.میں نظارت اصلاح و ارشاد کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ جتنی بد رسوم اور بدعات ہمارے ملک کے مختلف علاقوں میں پائی جاتی ہیں ان کو اکٹھا کیا جائے اور اس کی نگرانی کی جائے کہ ہمارے احمدی بھائی ان تمام رسوم اور بدعات سے بچتے رہیں.( خطبات ناصر جلد اول ص 384 )
409 حضور نے 23 جون 1967ء کے خطبہ جمعہ میں بد رسوم کے خلاف جہاد کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:.میں ہراحمدی کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اور جماعت احمدیہ میں اس پاکیزگی کو قائم کرنے کیلئے جس پاکیزگی کے قیام کیلئے محمد رسول اللہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیا کی طرف مبعوث ہوئے تھے ہر بدعت اور بدرسم کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ آپ سب میرے ساتھ اس جہاد میں شریک ہوں گے“.(الفضل 2 جولائی 1967ء) حضور نے اس سلسلہ میں متعدد خطبات دیئے جن میں آپ نے بد رسوم اور ان کے اثرات کو بیان کر کے احباب کو ان سے کلیۂ اجتناب کی تلقین فرمائی اور ان بد رسوم کو چھوڑ دینے کے نتیجہ میں جو فوائد حاصل ہوئے ہیں ان سے جماعت کو آگاہ فرمایا اور سلسلہ کے مربیان اور امراء اضلاع اور پریذیڈنٹ صاحبان کی ذمہ داری قرار دی کہ وہ بدر سوم کو ختم کرنے کا انتظام کریں.نیز فرمایا کہ اگر کوئی فردان رسوم کو چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہو تو امراء اضلاع مجھے اطلاع دیں تا کہ میں اس کا مناسب انتظام کروں.اس سلسلہ میں حضور نے مزید فرمایا:.میں ہر گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر اور ہر گھرانہ کو مخاطب کر کے بد رسوم کے خلاف جہاد کا اعلان کرتا ہوں اور جو احمدی گھرانہ بھی آج کے بعد ان چیزوں سے پر ہیز نہیں کرے گا اور ہماری اصلاحی کوشش کے باوجود اصلاح کی طرف متوجہ نہیں ہو گا وہ یہ یادر کھے کہ خدا اور اس کے رسول اور اس کی جماعت کو اس کی کچھ پرواہ نہیں ہے.66 فولڈر شائع کرنے کی تحریک (خطبات ناصر جلد اول ص 762 ) 1978ء میں جب حضور یورپ تشریف لے گئے تو آپ نے جماعت احمدیہ کے تعارف اس کے مقاصد اور اس کے کاموں پر مشتمل فولڈر مختلف زبانوں میں شائع کرنے کی تحریک فرمائی.حضور نے اس امر کی خواہش فرمائی کہ ہر شخص کو اس کی زبان میں فولڈر ملنا چاہئے.مثلاً ایک سپینش جب جاپان کی سیاحت کے لئے آئے تو جاپان میں اس کو سپینش زبان میں فولڈر ملنا چاہیئے اس طرح ہم ایک ملک کے لوگوں کو مختلف ملکوں میں ان کی زبان میں فولڈر دے سکتے ہیں.حضور کی اس تحریک پر لبیک کہتے
410 ہوئے.بیرونی مشن اب تک کئی لاکھ فولڈرز دنیا کی مختلف زبانوں میں شائع کر کے تقسیم کر چکے ہیں.مجلس ارشاد مرکزیہ کا قیام حضور نے جماعت احمدیہ کے نو جوانوں میں علمی تحقیقی ترقی کے لئے مجلس ارشاد مرکز یہ کا قیام فرمایا.اس کا مقصد یہ تھا کہ اہل علم احباب تحقیقی مقالہ جات تیار کریں جن کے عنوانات حضور کی طرف سے تجویز ہوتے اور وہ مقالہ جات مجلس ارشاد کے اجلاسات میں پڑھ کر سنائے جائیں تاکہ نوجوان اور احمدی مقررین تحقیقی کام سے واقف ہوں.ان سے استفادہ کرتے ہوئے خود بھی تحقیقی کام کریں.حضور بنفس نفیس ان اجلاسوں کی صدارت فرماتے احباب جماعت کو کلمات طیبات سے مستفیض فرماتے.حضور کے ارشاد کے تحت مرکز سلسلہ کے علاوہ پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں بھی مجلس ارشاد کے اجلاس منعقد کرنے کا انتظام کیا گیا.چنانچہ کراچی، حیدر آباد، کوئٹہ، ملتان، ساہیوال، لاہور، فیصل آباد، سرگودھا، سیالکوٹ، راولپنڈی اور پشاور میں با قاعدہ مجلس ارشاد کا قیام عمل میں آیا اور اس کے اجلاس ہوتے رہے.قلمی دوستی کی تحریک 19 /اکتوبر 1973ء کے خطبہ جمعہ میں حضور نے جماعت کے مابین قلمی دوستی کو رواج دینے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:.ایک اور بات جس کا میں اس وقت اعلان کرنا چاہتا ہوں وہ قلم دوستی ہے اور یہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں سے ایک ہے جو ملک ملک کے درمیان قرب پیدا کرنے کے لئے ہیں.قلم دوستی ایک منصوبے کے ماتحت عمل میں آنی چاہئے.سارے ممالک میں رہنے والے احمدی قلمی دوستی کی مجالس میں شامل ہونے کے لئے اپنے نام پیش کریں.پھر ایک منصوبہ کے ماتحت ان کی آپس میں دوستیاں قائم کی جائیں گی.اس قسم کے قریبی اور دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کی مثال ایک شاندار رنگ میں اور شاندار پیمانے پر آنحضرت کی زندگی میں ملتی ہے.اب چونکہ امت محمد یہ دنیا کے مختلف ملکوں میں پھیلی ہوئی ہے اس صور
411 میں ان میں دوستانہ اور قریبی تعلقات پیدا کرنے کی ایک راہ یہ ہے کہ ان کی آپس میں قلم دوستی ہو.حضور نے فرمایا کہ اس سے احمدیوں کا علم بھی بڑھے گا.ایک دوسرے سے مختلف علوم سیکھیں گے.جماعت اور دنیا کے مختلف حالات اور واقعات سے آگاہ ہوں گے اور ایک بھائی چارہ کا ماحول پیدا ہوگا.حضور نے اس منصو بہ کو اپنی نگرانی میں چلانے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :.قلم دوستی کے ضمن میں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے ایسے آدمیوں کی تلاش ہے جو میری ہدایت کے مطابق کام کریں لیکن اس خطبہ کے ذریعہ غیر ملکوں میں اور خود اپنے ملک میں جہاں جہاں بھی میرا یہ پیغام پہنچے.دوست رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کریں اور اپنے نام مجھے بھجوا دیں.اصل منصوبہ یہیں سے بنے گا.خطبات ناصر جلد 5 ص 270 تا 280) اتحاد بین المسلین کی تحریک 1967ء میں جب حضرت خلیفتہ المسیح الثالث اپنے پہلے سفر یورپ سے واپس تشریف لائے تو آپ نے 22 اگست کو کراچی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا مسلمانوں کے سامنے اتحاد بین المسلمین کی تحریک پیش فرمائی تاکہ مسلمان متحد ہو کر غلبہ اسلام کی مہم میں حصہ لیں اور عالم اسلام کے خلاف کی گئی سازشوں کا مقابلہ کریں.حضور کی اس پر یس کا نفرنس کی خبر دیتے ہوئے اخبار جنگ کراچی لکھتا ہے.احمدیہ فرقہ کے سر براہ مرزا ناصر احمد نے تجویز پیش کی ہے کہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں کو سات سال کی مدت کے لئے یہ طے کر لینا چاہئے کہ وہ آپس کے اختلافات بھلا کر دنیا میں اسلام کی تبلیغ کے لئے سر توڑ کوشش کریں گے اور اس عبوری دور میں ایک دوسرے پر کسی قسم کی نکتہ چینی نہیں کریں گئے“.(روز نامہ جنگ کراچی مورخہ 23 راگست 1967 ء ) اور اخبار تعمیر راولپنڈی نے لکھا:.احمدیہ فرقہ کے سر براہ مرزا ناصر احمد نے دنیا کے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ بنی نوع انسان کی بہبود کے لئے متحد ہو کر کام کریں.آج یہاں ایک پریس کا نفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں
412 نے کہا کہ مسلمان ایک انتہائی نازک دور سے گزر رہے ہیں.اب وقت ہے کہ متحد ہو کر اس چیلنج کا مقابلہ کیا جائے.احمد یہ فرقہ کے سربراہ نے تجویز کیا ہے کہ پاکستان کے مختلف فرقوں کا ایک مشترکہ اجلاس بلایا جانا چاہئے تاکہ مسلمانوں کی ترقی کے لئے کوئی مشترکہ پروگرام تیار کیا جاسکے اپنے دورے کے متعلق انہوں نے کہا کہ دنیا میں مسلمانوں کے خلاف ایک مہم شروع ہو چکی ہے اور اس کا مقابلہ زیادہ سے زیادہ مشن غیر ممالک کو بھیج کر کیا جاسکتا ہے.(اخبار تعمیر 123اپریل 1967ء) کمیونٹی سنٹر اور عید گاہ کے قیام کی تحریک حضور انور نے مغربی ممالک کے دورہ جات میں اس بات کا جائزہ لیا کہ وہاں کا ماحول احمدی بچوں کو بھی خراب کر رہا ہے اس لئے احمدی بچوں کی اخلاقی اور روحانی تربیت کے لئے ان کے لئے ایک الگ ماحول قائم کیا جائے جس میں یہ بچے کچھ عرصہ رہیں اور اس کے روحانی ماحول سے مستفید ہوں.اس سلسلہ میں حضور نے خطبہ جمعہ 22 اکتوبر 1976ء میں سب سے پہلے امریکہ میں کمیونٹی سنٹرز کے قیام کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:.جو ابتدائی کام کرنا ہے وہ یہ ہے کہ پندرہ صوبوں ( امریکہ میں ان کو States کہا جاتا ہے ) میں سے ہر ایک میں کم از کم بیس سے تیں ایکٹر زمین کا رقبہ جماعت کی اجتماعی زندگی کے لئے یعنی Community Center بنانے کے لئے خریدو.چنانچہ بڑی لمبی بحث کے بعد اور بغور جائزہ لینے کے بعد اور وہاں کی جماعتوں کے سارے امراء سے ملاقاتیں کر کے (وہ سب واشنگٹن میں بھی آئے.نیو یارک میں بھی آئے.میرے خیال میں ڈیٹن میں بھی آئے وہاں بھی ان کی میٹنگ ہوئی) بہت سارے پروگرام بنے تھے.ان میں سے ایک یہ تھا کہ بیس سے تمہیں ایکٹر زمین کمیونٹی سنٹر کے طور پر پانچ سال کے اندر اندر خرید لیں.مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ وہ ضرور خرید لیں گے ویسے تو وہاں ہر سٹیٹ یعنی ہر صوبے میں احمدی ہیں لیکن کہیں زیادہ تعداد ہے اور کہیں کم ہے.ان پندرہ سٹیٹس میں کافی بڑی تعداد ہے.چھوٹے بچے ہیں ان کی فکر ہے اتنی فکر ہے جماعت ہائے احمد یہ امریکہ کو اپنے بچوں کی.خدا کرے یہاں بھی اتنی ہی فکر والدین کو ہو کہ میرے سامنے بیٹھ کر آنسوؤں کی جھڑیاں بہتی تھیں ماؤں کی اور وہ مجھے سے یہ مطالبہ کرتی تھیں کہ اس اندھیری دنیا کے بداثرات سے ہمارے بچوں کو محفوظ
413 کرنے کا انتظام کریں.اسی سلسلہ کی ایک کڑی یہ کمیونٹی سنٹرز ہیں جہاں چھٹیوں میں بچے اکٹھے ہوں گے اور ان کو اسلامی تعلیم بتائی جائے گی.ان کی عمر کے لحاظ سے دلچسپی پیدا کر کے وہاں کے ماحول میں (خطبات ناصر جلد 6 ص 529) اسلام سکھانے کا انتظام کیا جائے گا“.پھر فرمایا:.آخر میں تو ہر شہر کے لئے کمیونٹی سنٹر ہونا چاہئے جہاں ہمارے احمدی بچے چھٹیوں کے اوقات گزار میں اور وہاں ان کو بڑے خوشگوار ماحول میں رکھا جائے.بچے خوش ہیں اور انتظار کر رہے ہیں کہ کب چھٹیاں آتی ہیں اور کب ہمیں موقع ملتا ہے وہاں جانے کا.وہ تو ایک لمبی سکیم ہے جب ان کے ساتھ باتوں باتوں میں بہت ساری چیزیں سامنے آئیں تو میں نے ان کو ہدایتیں دیں لیکن بہر حال ایک نہایت اعلیٰ درجہ کا دلچسپی رکھنے والا سنٹر جس میں چھوٹی عمر کے بچے چھلانگیں مارتے جائیں اور وہاں اسلام کی باتیں سیکھیں اور بڑے جائیں اور ان کے ریفریشر کورسز ہوں.یہاں تو جس سال اجازت ہو جائے اطفال اور خدام تین دن کے لئے آیا کرتے ہیں اور وہاں تو وہ تین ہفتے کے لئے جا کر ٹھہرا کریں گے اور بہت کچھ سیکھیں گے.(خطبات ناصر جلد 6 ص 532) اسی طرح حضور نے 1980ء میں لندن میں فرمایا: زمین میں جنگل اگانے کے علاوہ بچوں کے لئے پھلدار درخت لگا دیئے جائیں اس عید گاہ اور اس سے ملحقہ زمین میں بچوں کو لے جا کر ان کے تربیتی اجتماعات منعقد کئے جائیں.نیز تفریح کی غرض سے وہاں پکنک وغیرہ منائی جائے اور دوستوں کے بچوں کو بھی مدعو کیا جائے کہ وہ ہمارے بچوں کے ساتھ مل کر اس جگہ پکنک منائیں.اس طرح ہمارے بچوں اور دوسرے بچوں میں اور خود بڑوں میں میل ملاپ بڑھے گا اور دونوں کے درمیان جو Barrier ہے جس کی وجہ سے یہاں کے لوگ ہم سے دور دور رہتے ہیں اور ہمارے قریب نہیں آتے ٹوٹنا شروع ہو جائے گا.(دورہ مغرب ص 271) بھوکوں کو کھانا کھلانے کی تحریک کرہ ارض پر اس وقت ساڑھے 6 ارب انسان آباد ہیں اور خدا کا قانون پورے انسانوں کے لئے کافی خوراک پیدا کرتا ہے مگر اس کی غیر منصفانہ تقسیم ار ظالمانہ نظام کی وجہ سے اسی کروڑ افراد مسلسل
414 بھوک کا شکار ہیں.ان میں سے روزانہ 25 ہزار افراد غذائیت کی کمی کی وجہ سے ہلاک ہو رہے ہیں.اقوام متحدہ ہر سال 16 اکتوبر کو دنیا بھر میں خوراک کا عالمی دن مناتی ہے.اس کی رپورٹ کے مطابق ساڑھے 8 کروڑ افراد بھو کے سوتے ہیں.خبریں میگزین 21 اکتوبر 2007 ء ) 17 دسمبر 1965ء کو حضور نے جماعت کے سامنے یہ تحریک رکھی کہ جماعت کے عہدیداران اس بات کا جائزہ لیں اور وہ اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ جماعت کا کوئی فرد بھوکا نہ سوئے.حضور نے ایک ایسی سکیم جماعت کے سامنے رکھی کہ جس کے نتیجہ میں طبقاتی کشمکش کی تحریک دم تو ڑ جاتی ہے اس وقت دنیا میں طبقاتی کشمکش اس لئے جاری ہے کہ امیر طبقہ غریب طبقہ کا خیال نہیں رکھتا بلکہ غریبوں کو غریب بنا کر ان کی دولت حاصل کرنا چاہتا ہے حضور کی دور اندیشی اور فراست نے اس بات کو بھانپ لیا تھا اس سکیم کا اعلان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.کوئی احمدی رات کو بھوکا نہیں سونا چاہئے سب سے پہلے یہ ذمہ داری افراد پر عائد ہوتی ہے.اس کے بعد جماعتی تنظیم اور حکومت کی باری آتی ہے کیونکہ سب سے پہلے یہ ذمہ داری اس ماحول پر پڑتی ہے جس ماحول میں وہ محتاج اپنی زندگی کے دن گزار رہا ہے.احمد یوں میں عام طور پر یہ احساس پایا جاتا ہے کہ کوئی احمدی بھوکا نہ رہے لیکن میرا احساس یہ ہے کہ ابھی اس حکم پر کماحقہ عمل نہیں ہورہا.اس لئے آج میں ہر ایک کو جو ہماری کسی جماعت کا عہدیدار ہے متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ذمہ دار ہے اس بات کا اس کے علاقہ میں کوئی احمدی بھوکا نہیں سویا.دیکھو میں یہ کہہ کر اپنے فرض سے سبکدوش ہوتا ہوں کہ آپ کو خدا کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا.اگر کسی وجہ سے آپ کا محلہ یا جماعت اس محتاج کی مدد کرنے کے قابل نہ ہو تو آپ کا فرض ہے کہ ،اطلاع دیں میں اپنے رب سے امید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے توفیق دے گا کہ میں ایسے ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کردوں.انشاء اللہ تعالی.(الفضل 10 مارچ 1966ء) اس تحریک پر لبیک کہتے ہوئے احباب جماعت نے اپنے محتاج اور غریب بھائیوں کی ضرورتیں پوری کرنے کی پوری پوری کوشش کی.
415 دعاؤں کی تحریکات دعاؤں کی متعد د عمومی تحریکات کے علاوہ حضور نے تسبیح وتحمید کے لئے بعض دعاؤں کا انتخاب کر کے انہیں پڑھنے کی تحریک فرمائی.چنانچہ حضور نے خطبہ جمعہ 15 مارچ 1968ء میں فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ وہ اسلام کو تمام دنیا پر غالب کرے گا انشاء اللہ یہ اس کی تقدیر ہے جو ہمارے ذریعہ یا ایک اور ایسی احمدی قوم کے ذریعہ سے جو ہم سے زیادہ اپنے اللہ کی آواز پر لبیک کہنے والی ہو پورا کرے گا.اس سلسلہ میں بہت سی ذمہ داریاں ہم پر عائد ہوتی ہیں ایک بڑی اہم بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے اور محمد رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجنے والے ہوں.اس لئے آج میں جماعت کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ وہ سارے کے سارے آئندہ پورے ایک سال تک جو یکم محرم سے شروع ہو گا کم از کم مندرجہ ذیل طریق پر خدا تعالیٰ کی تسبیح، تحمید اور نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاما یہ بتایا تھا کہ کئی بَرَكَةٍ مِنْ مُّحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم ہر برکت نبی اکرم ﷺ کے ذریعہ اور آپ کی اتباع سے حاصل کی جاسکتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاما ایک ایسی تسبیح اور تحمید اور درود کی راہ بھی دکھائی کہ جو ذ کر بھی ہے درود بھی ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاما یہ دعا سکھلائی سُبْحَانَ اللهِ وَ بِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ - اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّالِ محمد.اس میں تسبیح تجمید اور درود ہر سہ آ جاتے ہیں.میں چاہتا ہوں کہ تمام جماعت کثرت کے ساتھ تسلی تحمید اور درود پڑھنے والی بن جائے اس طرح پر کہ ہمارے بڑے، مرد ہوں یا عورتیں کم از کم دوسو بار یہ تهی تحمید اور درود پڑھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام ہوا سُبْحَانَ اللهِ وَ بِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيم - اللَّهُمَّ صَلَّ مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّد اور ہمارے نوجوان بچے پندرہ سال سے 25 سال کی عمر کے ایک سو بار یہ تسبیح اور درود پڑھیں اور ہمارے بچے سات سال سے پندرہ سال تک 33 دفعہ یہ تسبیح اور درود پڑھیں اور ہمارے بچے اور بچیاں ( پہلے بھی بچے اور بچیاں ہیں ) جن کی عمر سات سال سے کم ہے جو ابھی
416 پڑھنا بھی نہیں جانتے ان کے والدین یا ان کے سر پرست اگر والدین نہ ہوں ایسا انتظام کریں کہ ہر وہ بچہ یا بچی جو کچھ بولنے لگ گئی ہے لفظ اُٹھانے لگ گئی ہے.سات سال کی عمر تک ان سے تین دفعہ کم از کم یہ تسبیح اور درود کہلوایا جائے.اس طرح پر بڑے (25 سال سے زائد عمر ) دوسو دفعہ، جوان کم از کم ایک سو بار اور بچے تینتیس (33) بار اور بالکل چھوٹے بچے تین بار تسبیح اور تحمید کریں.ساری جماعت پر میں فرض قرار دیتا ہوں کہ اس طریق پر کہ بڑے کم از کم دوسو بار ، جوان سو ، بچے تینتیس بار اور جو بہت ہی چھوٹے ہیں وہ تین دفعہ دن میں تحمید اور درود پڑھیں اس طرح کروڑوں صوتی لہریں خدا تعالیٰ کی حمد اور نبی اکرم ﷺ پر درود پڑھنے کے نتیجہ میں فضاء میں گردش کھانے لگ جائیں گی.ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعا بھی مانگنی چاہئے کہ اے خدا! ہمیں توفیق عطا کر کہ ہماری زبان سے تیری حمد اس کثرت سے نکلے اور تیرے محبوب محمد علیہ پر ہماری زبان سے درود اس کثرت سے نکلے کہ شیطان کی ہر آواز ان کی لہروں کے نیچے دب جائے اور تیرا ہی نام دنیا میں بلند ہو اور ساری دنیا تجھے پہچاننے لگے.استغفار کی تحریک خطبہ جمعہ 28 جون 1968ء کو حضور نے استغفار کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ: ہماری جماعت کے ذمہ تمام دنیا میں اسلام کے جھنڈے کو بلند کرنا ہے.اتنی بڑی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہماری تمام بشری کمزوریاں اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی چادر کے نیچے دبی رہیں اور ان کا ظہور نہ ہو اس غرض کے لئے ضروری ہے کہ جماعت کے تمام مرد اور تمام خواتین جن کی عمر 25 سال سے اوپر ہے وہ دن میں کم سے کم سو بار جن کی عمر 25 سال اور 15 سال سے درمیان ہے وہ دن میں 33 بار جن کی عمر 15 سے 7 سال کے درمیان ہے وہ دن میں گیارہ بار اور چھوٹے بچے جن کی عمر سات سال سے کم ہے وہ روزانہ کم از کم تین بار استغفار کیا کریں.(خطبات ناصر جلد 2 ص 202) مزید دعاؤں کی تحریک اس کے علاوہ حضور نے تعداد مقرر کئے بغیر مندرجہ ذیل دعا کثرت سے پڑھنے کا ارشاد فرمایا:.
417 رب كل شئى خادمك رب فاحفظنا وانصرنا وارحمنا خطبات ناصر جلد 2 ص 505 جب اس تحریک پر ایک سال پورا ہونے لگا تو حضور نے خطبہ جمعہ 14 فروری 1969 ء کو ان دعاؤں کو جاری رکھنے کا ارشاد کرتے ہوئے فرمایا: چونکہ سال ختم ہونے والا ہے دوست دعا ئیں چھوڑیں نہ! بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں جو حالات رونما ہورہے ہیں ان کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان دعاؤں کو کم کرنے کی بجائے اور بھی زیادہ کریں.کم سے کم کی تعداد تو میں وہی رکھنا چاہتا ہوں بڑھانا نہیں چاہتا لیکن خدا تعالیٰ جن لوگوں کو ہمت اور توفیق دے اور جن کے دلوں میں اسلام کی محبت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا شعلہ پہلے سے زیادہ شدت سے بھڑک رہا ہو وہ پہلے سے زیادہ کثرت کے ساتھ حمد اور تسبیح اور درود کا ورد کریں.اس کے علاوہ میں آج ایک نئی دعا بھی ان دعاؤں میں شامل کرنا چاہتا ہوں دوست اس دعا کو بھی کثرت کے ساتھ پڑھیں اور وہ یہ ہے.رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ جو بلی کی دعائیں (البقره: 251) جلسہ سالانہ 1973ء میں جماعت کی صد سالہ جوبلی منانے کا اعلان کیا اور مالی قربانی کے علاوہ 8 فروری 1974ء کو آپ نے ایک عظیم روحانی پروگرام کا اعلان بھی فرمایا اس کی تفصیل یہ ہے.1.جماعت احمدیہ کے قیام پر ایک صدی مکمل ہونے تک ہر ماہ احباب جماعت ایک نفلی روزہ رکھا کریں.جس کے لئے ہر قصبہ شہر یا محلہ میں مہینہ کے آخری ہفتہ میں کوئی ایک دن مقامی طور پر مقرر کر لیا جائے.2.دو نفل روزانہ ادا کئے جائیں جو نماز عشاء سے لے کر نماز فجر تک یا نماز ظہر کے بعد ادا کئے جائیں.3.کم از کم سات بار روزانہ سورۃ فاتحہ کی دعا پڑھی جائے اور اس پر غور و تدبر کیا جائے.
418 4- درود شریف، استغفار تسبیح وتحمید کاور روزانہ 33,33 بار کیا جائے.5.مندرجہ ذیل دعائیں کم از کم گیارہ بار پڑھی جائیں.1 - ربنا افرغ علينا صبراً و ثبت اقدامنا وانصرنا على القوم الكافرين 2- اللهم انا نجعلك في نحورهم و نعوذ بك من شرورهم ان کے علاوہ حضور نے اپنی زبان میں بھی بکثرت دعائیں کرنے کی بھی تاکید فرمائی.توحید کی منادی حدیث رسول ہے.افضل الذکر یعنی بہترین ذکر الہی لا اله الا اللہ ہے.(جامع ترمذى كتاب الدعوات باب دعوة المسلم مستجابة حديث نمبر 3305) حضرت مسیح موعود کو 1882ء میں الہام ہوا.لا اله الا الله فاكتب وليطبع وليرسل في الارض لا اله الا اللہ کو لکھ لے.اسے شائع کرایا جائے اور پھر اسے زمین میں پھیلا دیا جائے.( تذکره ص40) حضور کے دور خلافت میں 1980ء میں امت مسلمہ چودھویں صدی عبور کر کے 15 ویں صدی ہجری میں داخل ہو رہی تھی اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے اس الہام کو پورا کرنے کے عجیب سامان پیدا فرمائے.حضور کو اپنے دورہ یورپ و امریکہ میں ایک کشف دکھایا گیا.حضور فرماتے ہیں:.میں رات کے وقت اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے لا الہ الا اللہ کا ورد کر رہا تھا.میں نے دیکھا کہ ساری کائنات میرے ساتھ حمد کر رہی ہے اور حمد باری تعالیٰ کی موجیں لہر در لہر آگے سے آگے بڑھ رہی ہیں.یہ عجیب کیفیت کا عالم تھا.میں نے اس کی یہ تعبیر مجھی کہ تو حید باری کے قیام کا وقت آ گیا ہے اور دہریت، اشتراکیت اور شرک اور خدا سے دوری کے تمام طریقے ختم ہو جائیں گے اور یہ سلسلہ عنقریب ایک صدی کے اندر اندر قائم ہو جائے گا.انشاءاللہ اس کے لئے حضور نے احباب جماعت کو اجتماع انصار اللہ مرکز یہ 1980ء کے موقع پر اپنی اختتامی
419 تقریر میں لا الہ الا اللہ کا ورد کرتے رہنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:.چند دنوں تک چودھویں صدی ختم ہورہی ہے.اس صدی کو خدائے واحد یگانہ کی تو حید کے ورد کے ساتھ الوداع کہیں.لا الہ الا اللہ کا ورداتنی کثرت سے پڑھیں کہ کائنات کی فضا اس ترانہ کے ساتھ معمور ہو جائے.دن رات اٹھتے بیٹھتے بالکل خاموشی کے ساتھ اونچی آواز میں بھی نہیں اس طرح ( حضور نے دھیمی آواز میں لا الہ الا اللہ متعدد بار دہرا کر دکھایا اور پھر فرمایا لا الہ الا الله - لا الہ الا الله - لا الہ الا اللہ.اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے پڑھتے رہیں.اس ندا کے ساتھ اس صدی کو الوداع کہیں اور اسی ندا کے ساتھ ہم اگلی صدی کا استقبال کریں گے.انشاء اللہ تعالیٰ“ الفضل 24 دسمبر 1980ء جلسہ سالانہ نمبر ) چنانچہ جماعت احمدیہ نے نہ صرف کثرت کے ساتھ لا الہ الا اللہ کا ورد کیا بلکہ ان کلمات کو مختلف سائزوں، رنگوں اور بینروں کی شکل میں شائع کیا گیا اور دنیا بھر میں توحید کی منادی کی گئی.
421 حضرت خلیفہ اسیح الرابع کی تحریکات خلیفہ امسیح دور خلافت 10 جون 1982 ء تا 19 را پریل 2003 ء
423 قیام عبادت اور تعمیر مساجد کے متعلق تحریکات حضرت خلیفتہ المسیح الرابع کے دل میں نماز کے قیام کا جذ بہ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندروں کی طرح موجزن تھا اور کئی دفعہ اس موضوع پر آپ نے خطبات کا سلسلہ جاری کیا.8 نومبر تا 20 دسمبر 1985ء کو حضور نے قیام نماز سے متعلق خطبات دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ذیلی تنظیمیں ہر ماہ مجلس عاملہ کا ایک اجلاس قیام نماز پر غور کرنے کے لئے منعقد کریں.تنظیمیں اور قیام نماز حضرت خلیفة المسیح الرابع نے خطبہ جمعہ 8 نومبر 1985ء میں فرمایا:.قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے کہ نماز کے قیام کا آخری کارخانہ خاندان ہی ہوگا اس کارخانے تک پہنچنے کے لئے اسے بیدار کرنے کے لئے اسے حرکت دینے کے لئے جماعت کی مختلف تنظیمیں قائم ہیں.پس لجنہ عورتوں کو تو متوجہ کرے اور آخری نظر اس بات پر رکھے کہ اہل خانہ کے اندر نماز قائم کرنے کی ذمہ داری خود اہل خانہ کی ہے.لجنہ عورتوں سے کہے کہ آپ ہم سے سیکھیں اور پھر اپنے بچوں کو سکھائیں، اپنے خاوندوں کو اپنے بیٹوں کو اپنی بیٹیوں کو بار بار پانچ وقت نماز کی طرف متوجہ کرتی رہیں.جو مردیا بچے نماز کے وقت گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں عورتیں ان کو اٹھا ئیں کہ تم نماز پڑھنے جاؤ نماز پڑھ کروا پس آؤ پھر آرام سے بیٹھ کر کھانا کھا ئیں گے اسی طرح بچوں کو بھی نماز کے لئے تیار کریں اور گھر کی بیٹیوں پر نظر رکھیں کہ وہ نماز ادا کر رہی ہیں.والدین میں سے باپ کی اول ذمہ داری ہے مگر بیٹیوں کے معاملہ میں باپ کے اوپر کچھ مشکلات بھی ہوتی ہیں اس کو یہ پتہ نہیں لگتا کہ اس نے کب نماز پڑھنی ہے کب نہیں پڑھنی اس لئے وہاں جب تک ماں مدد نہ کرے اس وقت تک باپ پوری طرح اپنے فرائض کو ادا نہیں کر سکتا اور بھی بہت سے مسائل ہیں نماز سے تعلق رکھنے والے جو ماں سکھا سکتی ہے.اسی طرح خدام نو جوانوں کو صرف یہ تلقین نہ کریں کہ تم نماز میں آؤ بلکہ یہ تلقین کریں کہ تم خود بھی آؤ اور اپنے بھائیوں کو بھی نماز پر قائم کرو اور اپنے والدین کو بھی نماز پر قائم کرنے کی کوشش کرو.انصار کو یہ توجہ دلانی چاہئے اپنے ممبران کو کہ تم اس عمر میں داخل ہو گئے ہو جس میں جواب دہی کے قریب تر
424 جار ہے ہو.ویسے تو ہر شخص ایک لحاظ سے ہر وقت ہی جواب دہی کے قریب رہتا ہے لیکن انصار بحیثیت جماعت کے اپنی جواب دہی میں قریب تر ہیں اور جو وقت پہلے گزر چکا ہے اس میں اگر کچھ خلا رہ گئے ہیں وہ ان کو بھی پورا کرنا شروع کریں، اس طرح ان کا کام اور ذمہ داری دہری ہو جاتی ہے.ان کو چاہئے کہ وہ موجودہ وقت کی ذمہ داریاں بھی پوری کریں اور گزشتہ گزرے ہوئے وقت کے خلا بھی پورے کریں انصار اپنے ساتھیوں کو بتا بتا کر اس طرح بیدار کریں کہ ان کو اپنی فکر پیدا ہو.تنظیمیں نسبتاً زیادہ بیدار رہ سکتی ہیں اگر وہ ایک معین پروگرام بنالیں ہر ہفتے یا ہر مہینے میں ایک دفعہ خاص نماز کے موضوع پر غور کرنے کے لئے اکٹھے مل کر بیٹھا کریں گے، ہمیشہ کے لئے مجلس عاملہ کا ایک اجلاس مقرر ہو جائے جس کا موضوع سوائے نماز کے کچھ نہ ہو.اس دن لجنہ بھی نماز پر غور کر رہی ہو.خدام بھی نماز پر غور کر رہے ہوں ، انصار بھی نماز پر غور کر رہے ہوں.سب اپنی اپنی جگہ ہمیشہ کے لئے یہ فیصلہ کر لیں کہ اب ہم نے ہر مہینہ میں کم از کم ایک مرتبہ ضرور اس موضوع پر بیٹھ کر غور کرنا ہے.جہاں حالات ایسے ہیں کہ ہر مہینے اکٹھے نہ ہو سکتے ہوں.وہاں دو مہینے میں ایک اجلاس مقرر کر لیں ، تین مہینے میں مقرر کرلیں مگر جب مقرر کر لیں پھر اس پر قائم رہیں، اس پر صبر دکھا ئیں ہر دفعہ جائزہ لیا کریں کہ ہمیں اس عرصہ میں کتنا فائدہ پہنچا ہے.اس عرصے میں کتنے نئے نمازی بنے ، کتنوں کی نمازوں کی حالت ہم نے درست کی، کتنوں کو نماز میں لطف حاصل کرنے کے ذرائع بتائے اور ان کی مدد کی اور بہت سے پہلو ہیں وہ ان سب پہلوؤں پر غور کیا کریں اور ہر دفعہ اپنا محاسبہ کریں کہ ہم کچھ مزید حاصل کر سکے ہیں یا نہیں.اگر اس جہت سے اس طریق پر وہ کام شروع کریں گے تو امید ہے کہ ہم بہت تیزی کے ساتھ اپنے اس مقصد کی طرف بڑھ رہے ہوں گے جس کی خاطر ہمیں پیدا کیا گیا ہے، انشاء اللہ تعالیٰ اور جب ہم مقصد کی طرف بڑھ جائیں اور جب ہم مقصد کو حاصل کر رہے ہوں تو پھر فتح ایک ثانوی چیز بن جاتی ہے.عددی اکثریت کے نصرت اور ظفر کے جو خواب آپ اب دیکھ رہے ہیں اس سے بڑھ کر یہ خواب آپ کے حق میں آپ کی ذاتوں میں پورے ہو چکے ہوں گے.پھر یہ خدا کا کام ہوگا کہ آپ کی حفاظت فرمائے.پھر یہ خدا کا کام ہو گا کہ اس دن کو قریب تر لائے جو ظاہری فتح کا دن بھی ہوا کرتا ہے.الفضل 24 اگست 1998 ء )
425 خصوصی تحریک اور کلاسز 1988ء میں مباہلہ کے چینج کے بعد حضور نے 17 جون 1988ء کو ایک رویا کی بناء پر قیام عبادت کی طرف خصوصیت سے توجہ دلائی.2 سال بعد 1990ء میں حضور نے سورۃ فاتحہ کی روشنی میں خطبات کا طویل سلسلہ شروع کیا.جو ذوق عبادت اور آداب دعا کے نام سے شائع ہو چکا ہے.حضور نے بچوں کی اردو کلاس میں بھی تدریس نماز کے دلنشیں اور سلیس اسباق شروع کئے اور بڑوں کو بھی ان سے استفادہ کی ہدایت فرمائی.جمعہ پڑھنے کی تحریک (خطبہ جمعہ 17 اکتوبر 1997ء) یکم جنوری 1988ء کو حضور نے یورپین ممالک کے احمدیوں کو جمعہ پڑھنے کی خاص تحریک فرمائی خواہ نوکری سے چھٹی لینی پڑے یا استعفیٰ دینا پڑے.ایک اور موقعہ پر حضور نے فرمایا کہ ہر تیسرا جمعہ ہر قیمت پر پڑھنا چاہئے.چنانچہ بیسیوں لوگوں نے نوکریوں کی قربانی دے کر بھی اس تحریک پر لبیک کہا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے بہتر رزق کے سامان پیدا کر دیئے.تعمیر مساجد پاکستان اور دیگر ممالک میں مخالفین نے احمد یہ مساجد کے انہدام کا سلسلہ شروع کیا.پاکستان میں خلافت رابعہ میں 20 کے قریب مساجد شہید کی گئیں.اسی طرح اگست 1987ء میں بیت النور ہالینڈ کو بعض شریر اور شر پسند عناصر نے نقصان پہنچایا اور عمارت وغیرہ کو جلانے کی کوشش کی اور قیمتی دستاویزات اور اشیاء ضائع کر دیں.اس واقعہ کا ذکر کر کے حضور نے 21 اگست 1987 ء کے خطبہ جمعہ میں ہالینڈ کی مسجد نور کو دس گنا بڑا بنانے کا اعلان کیا اور 18 ستمبر 1987ء کے خطبہ جمعہ میں منہدم شدہ مساجد کی مرمت اور از سر نو تعمیر کے لئے فنڈ کی تحریک کی
426 اور فنڈ کا قیام اپنی طرف سے ایک ہزار پونڈ کی رقم کا وعدہ فرما کر کیا.چنانچہ خلافت رابعہ میں اللہ تعالیٰ نے جماعت کو 13065 نئی مساجد تعمیر کرنے کی توفیق دی نیز ہزاروں وہ بھی ہیں جو مقتدیوں سمیت جماعت کو ملیں.حضور کی تحریک توسیع مساجد کے تحت سینکڑوں مساجد کی از سر نو تعمیر ہوئی اور اضافے کئے گئے.امریکہ اورکینیڈا کے علاوہ براعظم یورپ میں بیسیوں مساجد تعمیر ہوئیں.100 مساجد سیکیم 1989ء میں حضور نے جرمنی میں 100 مساجد بنانے کی تحریک فرمائی.22 مئی 1997 ء کو حضرت سیدہ مہر آپا حرم حضرت مصلح موعودؓ کی وفات ہوئی.23 مئی کو حضور نے سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ جرمنی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت مہر آپا کی طرف سے جرمنی کی 100 مساجد سکیم میں 3 لاکھ ( بعد میں بڑھا کر 5 لاکھ کر دیا ) جرمن مارک پیش کئے جائیں گے نیز اپنی طرف سے 50 ہزار مارک ( بعد میں ڈیڑھ لاکھ مارک) دینے کا اعلان فرمایا.چنانچہ اس سکیم کے تحت 25 نومبر 1998ء کو پہلی مسجد کا سنگ بنیا درکھا اور 9 جنوری 2000ء کو اس کا افتتاح فرمایا.بعد ازاں حضور نے کئی افریقن ممالک کو بھی سو مساجد تعمیر کرنے کی سکیم عطا کی.چنانچہ کئی ممالک میں اس پر کام جاری ہے.کینیا میں اس سکیم کے تحت خلافت رابعہ میں 70 مساجد اور تنزانیہ میں 33 سے زائد مساجد تعمیر ہوئیں.کئی ممالک ایسے ہیں جہاں پہلی دفعہ بیت تعمیر کی گئی.مثلاً جزائر طوالو کی پہلی مسجد 1992ء میں مکمل ہوئی.مسجد بیت الفتوح حضور نے برطانیہ کی نئی اور وسیع مسجد کے لئے 24 فروری 1995ء کو 5 ملین پاؤنڈ کی تحریک فرمائی.28 مارچ 1999ء کو حضور نے بیت الفتوح کی مجوزہ جگہ پر نماز عید الاضحیٰ پڑھائی اور اسی سال 19 اکتوبر کو حضور نے بیت الفتوح کا سنگ بنیا د رکھا.
427 16 فروری 2001ء کو حضور نے اس مسجد کے لئے مزید 5 ملین پاؤنڈ کی تحریک فرمائی.سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 3 اکتوبر 2003 ء کو اس کا افتتاح فرمایا.جہاں ایک وقت میں دس ہزار افراد نماز ادا کر سکتے ہیں اور یہ مغربی یورپ کی سب سے بڑی مسجد ہے.احمد یہ مسجد واشنگٹن کی تحریک حضرت خلیفہ المسیح الرائع نے اپنے خطبہ جمعہ بمقام لاس اینجلس امریکہ فرمودہ 7 جولائی 1989ء میں واشنگٹن میں مرکزی مسجد کی تعمیر میں احباب جماعت کو حصہ لینے کی تحریک فرمائی.اس سلسلہ میں حضور نے لجنہ نیویارک کی طرف سے پیش کیا جانے والا تمیں ہزار ڈالرز کا چیک اور ڈاکٹر حمید الرحمن صاحب کی طرف سے پیش کیا جانے والا پچاس ہزار ڈالرز کا چیک بھی اس مسجد کے لئے وقف کرنے کا اعلان کیا اور فرمایا جو بلی کے اس سال میں امریکہ نے جو روپیہ مجھے دیا وہ اس مسجد کے لئے ہی دے دوں گا.لیکن اس کے علاوہ عمومی تحریک کی ضرورت ہے کیونکہ پچیس لاکھ ڈالرز کے اخراجات کا اندازہ ہے.اگر جماعت امریکہ اس سال کو مسجد واشنگٹن کا سال منائے تو جتنی رقم اکٹھی ہو جائے وہ ابتدائی ضروریات کے لئے پوری ہو جائے گی.اس کے ساتھ ساتھ میں تمام دنیا کی جماعتوں سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ وہ بھی واشنگٹن کی بیت الذکر میں حصہ ڈالیں.(الفضل 19 اگست 1989ء) الحمد للہ کہ بیت الرحمن کے نام سے ایک خوبصورت بیت الذکر میری لینڈ میں تعمیر ہو چکی ہے جو جماعت امریکہ کی مرکزی مسجد کے طور پر استعمال ہو رہی ہے.قطب شمالی کی پہلی مسجد حضور نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 8 /اکتوبر 1993 ء میں فرمایا کہ: جماعت احمدیہ ناروے کے متعلق یہ بتانا چاہتا ہوں کہ انہوں نے نارتھ کیپ میں مسجد بنانے کی حامی بھری تھی اور ان کے سپر د میں نے یہ کام کیا تھا کہ چندوں کی اپیل سے پہلے وہاں زمین لیں اور جماعت قائم کریں پھر ساری دنیا سے چندوں کی اپیل کی جائے گی اور آپ کی جو کمی ہے وہ پوری ہو جائے گی.خوشخبری یہ ہے کہ ایک ایکڑ جگہ بیت الذکر کے لئے پیش کر دی گئی ہے.دوسرا کام کرنے
428 کے لئے ان کا وفد گیا ہے جو دعوۃ الی اللہ کے ذریعہ جماعت قائم کرے گا.جب یہ دونوں شرطیں اکٹھی ہو جائیں گی تو پھر انشاء اللہ چندہ کی عام تحریک بھی کر دی جائے گی.حضور نے فرمایا میرے ساتھ کے قافلے نے ایک ہزار پونڈ کا وعدہ کیا ہے.ایک ہزار اپنی طرف سے پہلے ہی کر دیا تھا اور کچھ خطبہ کے نتیجہ میں از خود بھی لوگوں نے وعدے لکھوا دیئے یار تم ادا کر دی.عام تحریک کے بعد مسجد کے کام کا آغاز ہو جائے گا.اخبار بدر قادیان 25 نومبر 1993ء) کینیڈا کے شہر مسی ساگا کی مسجد کے لئے مالی تحریک حضور نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 30 اکتوبر 1992ء کو کینیڈا کے شہر مسی ساگا میں مسجد کی تعمیر کے لئے چندہ کی تحریک فرمائی اور اس ضمن میں اپنی طرف سے حضور نے 12 ہزار ڈالرز دینے کا اعلان فرمایا.حضور نے فرمایا کہ باہر کے ممالک میں سے جو صاحب حیثیت لوگ ہیں وہ بھی اس مسجد کی تعمیر میں مالی طور پر حصہ لیں.(الفضل یکم نومبر 1992ء) مسی ساگا میں 15ایکڑ رقبہ پر 28 ہزار مربع فٹ کی تعمیر شدہ عمارت چند سال قبل خریدی گئی اور مشن ہاؤس قائم کیا گیا.اس وسیع عمارت میں جامعہ احمدیہ کینیڈا بھی قائم کیا گیا ہے.بیلجیئم کی مسجد 3 مئی 1998ء کو لیجیئم کے جلسہ سالانہ سے اختتامی خطاب کرتے ہوئے حضور نے بیلجیئم میں ایک عظیم الشان مسجد کی تحریک فرمائی.(الفضل 28 مئی 1998ء)
429 دعوت الی اللہ کے متعلق تحریکات دعوت الی اللہ کی تحریک تو آغاز سے ہی جماعت میں جاری ہے.مگر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے اس تحریک کونئی زندگی اور شان عطا کی.حضور نے 28 جنوری 1983ء کو مسجد اقصیٰ ربوہ میں خطبہ جمعہ میں تمام جماعت احمدیہ کو داعی الی اللہ بنے کی تحریک کی.فرمایا:.تمام دنیا کے احمدیوں کو میں اس اعلان کے ذریعہ متنبہ کرتا ہوں کہ اگر وہ پہلے مبلغ نہیں تھے تو آج کے بعد ان کو لازماً مبلغ بننا پڑے گا.اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے کے لئے بہت وسیع تقاضے ہیں اور یہ بہت بڑا بوجھ ہے جو جماعت احمدیہ کے کندھوں پر ڈالا گیا ہے..آج کے بعد اگر ہر احمدی یہ سوچ لے کہ وہ جس ملک میں اور جہاں بھی ہے وہ لازماً دنیا کمائے گا کیونکہ اس کے بغیر گزارہ نہیں ہے اور دین کی خاطر کچھ پیش کرنے کے لئے اسے دنیا کمانی چاہئے لیکن وہ ہمیشہ اس بات کو پیش نظر رکھے کہ اس کا مال کمانے کا مقصد بھی اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینا ہوگا اور اس کی زندگی کے ہرلمحہ کا جواز اس بات میں مضمر ہوگا کہ وہ خدا کی خاطر جیتا ہے اور خدا کی طرف بلانے کے لئے جیتا ہے اس عہد کے ساتھ جب وہ کام شروع کرے گا تو آپ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دنیا میں کس کثرت کے ساتھ اور کس تیزی کے ساتھ وہ انقلاب پیدا ہونا شروع ہو جائے گا جس کی ہم تمنا لئے خطبات طاہر جلد 2 ص 62,57 ) بیٹھے ہیں.پھر حضور نے دعوت الی اللہ کے موضوع پر خطبات کا ایک سلسلہ شروع کیا جس میں ہر پہلو - داعیان الی اللہ کی راہنمائی کا سامان موجود تھا.حضور نے فرمایا کہ میرے لئے آپ کا بہترین نذرانہ یہ اطلاع ہے کہ میں داعی الی اللہ بن گیا ہوں.(خطبات طاہر جلد اول ص 62) یہی تحریک دعوت الی اللہ حضور کی ساری خلافت کا محور تھی.اسی تحریک نے خلافت رابعہ کا ہر اول دستہ بن کر نئی نئی قوموں اور علاقوں کو فتح کیا اور دنیا میں ایک عظیم الشان انقلاب کی بناڈالی.ملکوں کے ذمہ کئی ممالک لگائے گئے.معین ٹارگٹ دیئے گئے اور حضور کی دعاؤں سے ہزار ہاداعیان الی اللہ نے فتوحات کے جھنڈے گاڑے.کمزور افراد اور جماعتوں میں حوصلوں اور جراتوں نے جنم لیا.توانائیاں
430 باہمی کشمکش کی بجائے غیروں کا دل جیتنے پر صرف ہونے لگیں.نیا لٹریچر وجود میں آیا.دماغوں نے نئے نئے طریق سوچے.حکمت کے نئے گر ایجاد کئے گئے.ذہنی اور قلبی صلاحیتوں کو جلا ملی.دعاؤں سے عرش کو ہلایا گیا تو پھل گرنے لگے اور یہ نظام مستحکم بنیادوں پر قائم ہو گیا جس پر مستقبل میں فلک بوس عمارتیں تعمیر ہونی مقدر ہیں.نئے ممالک میں نفوذ 1982ء میں خلافت رابعہ کے آغاز کے وقت جماعت 80 ممالک میں قائم تھی.1984ء میں حضور کی ہجرت کے وقت جماعت 91 ممالک میں قائم ہو چکی تھی اور 2003ء میں حضور کی وفات کے وقت جماعت 175 ملکوں میں مضبوطی سے قدم جما چکی تھی اور اب جماعت احمدیہ 189 ملکوں میں قدم جما چکی ہے.خلافت رابعہ میں جن ممالک میں احمدیت قائم ہوئی.حضور کی ہجرت لندن کے بعد ان کی تفصیل سن وار پیش خدمت ہے.1985ء: موریطانیہ، روانڈا، برونڈی ، موزمبیق 1986ء: بورکینا فاسو، طوالو، کیری باس ، ویسٹرن سمووا، روڈرگ آئی لینڈ، برازیل، تھائی لینڈ ، بھوٹان، نیپال، یوگوسلاویہ، زنجبار.1987ء کونگو (براز ویلیا)، پاپوانیوگنی، فن لینڈ ، پرتگال،Nauro اور آئس لینڈ.1988ء: ٹونگا، ساؤتھ کو ریا، جزائر مالدیپ، گیپون ،سولومن آئی لینڈز.1990ء: مارشل آئی لینڈ، مائکرونیشیا،Tokelau میکسیکو.1991ء:Ne Caledonia ،منگولیا.1992ء:Chuukis، Guam لتھوانیا ، بیلور شیا.1993ء بنگری، کولمبیا، ازبکستان، یوکرین، تا تارستان 1994ء: البانیہ، رومانیہ، بلغاریہ ، چاڈ، کیپ ورڈ ، قازقستان، Norfolkis.1995ء :کمبوڈیا، ویتنام، لاؤس، جمیکا،Grenada ایکیٹوریل گئی ،Macedonia.
431 1996ء:Slovenia،El Salvador، بوسنیا، قرغیزستان.1997ء: کروشیا.1998ء:Nicaragua ، مایوٹی آئی لینڈ.1999ء: چیک ریبلک، سلووک ریپبلک،Ecuodor Lesotho.2000ء بسنٹرل افریقن ریپبلک ، ساؤ ٹومے، سیشلز ، سوازی لینڈ، بوٹسوانا، نمیبیا، ویسٹرن صحارا، جبوتی، اریٹریا، کوسوو، مونا کو، اندورا 2001ء: وینز ویلا سائپرس، مالٹا ، آذربائجان.2002ء: مالدووا.عالمی بیعت اس تحریک سے پہلے کل دنیا میں سالانہ چند ہزار بیعتیں ہوا کرتی تھیں.وہ تعداد بڑھ کر لاکھوں میں تبدیل ہوگئی اور 1993 ء سے حضور نے جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقع پر عالمی بیعت کا سلسلہ شروع فرمایا: عالمی بیعت کی بنیاد دراصل جلسہ سالانہ قادیان 1992 ء سے پڑی.حضور نے 26 تا 28 دسمبر کے جلسہ سے سیٹلائٹ کے ذریعہ افتتاحی اور اختتامی خطابات ارشاد فرمائے.اختتامی اجلاس میں 8 افراد کی بیعت بھی ہوئی.یہ پہلی بیعت تھی جو عالمی رابطوں پر نشر کی گئی.اسی طرح 30 مئی 1993ء کو حضور نے خدام الاحمدیہ جرمنی کے اجتماع کے موقع پر 13 ممالک کے 71 افراد کی بیعت لی جو سیٹلائٹ کے ذریعہ نشر کی گئی.عالمی بیعت کا باقاعدہ نظام جلسہ سالانہ برطانیہ 1993ء سے شروع ہوا.حضور نے اپریل میں عالمی بیعت کی تیاری کے لئے پہلا پیغام جاری فرمایا اور یکم اگست کو جلسہ سالانہ برطانیہ کے تیسرے دن 2 لاکھ افراد بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.حضور کی وفات تک عالمی بیعت کی 10 تقاریب میں قریباً ساڑھے 16 کروڑ نو احمدی سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.یہ بیعت کا نظام بھی ان پیشگوئیوں کے مطابق ہے جن میں کہا گیا ہے کہ آسمان سے آواز آئے گی کہ امام مہدی کی بیعت کرو اور
432 پھر دنیا میں عظیم انقلاب بر پا ہوگا.چنانچہ 10 سالوں میں 16 کروڑ 48لاکھ 75 ہزار 605 نئے افراد جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے سال وار تفصیل یہ ہے.2,04308 $1993 4,21753 $1994 8,47725 $1995 16,02721 $1996 30,04585 $1997 50,04591 $1998 1,08,20226 $1999 4,13,08975 $2000 8,10,06721 $2001 2,06,54000 $2002 16,48,75,605 میزان غیر زبانیں سیکھنے اور غیر ممالک میں وقف عارضی کی تحریک دعوت الی اللہ کی تحریک کو زیادہ وسیع اور ہمہ گیر بنانے کے لئے حضور نے احمدیوں کو خاص طور پر خدام اور انصار کو غیر ملکی زبانیں سیکھنے کی تحریک فرمائی اور اس سلسلہ میں مرکز میں ایک جامع ادارہ کے قیام کا بھی اعلان فرمایا.18 اکتوبر 1982ء کو حضور نے احمدی طلباء سے خطاب کرتے ہوئے اسی سکیم کے ایک ذیلی حصہ یعنی سپینش سیکھنے کی تحریک کا ذکر فرمایا اور اس کے مقاصد پر روشنی ڈالی.جو حضور نے اپنے پہلے دورہ یورپ میں احباب کے سامنے رکھی تھی.حضور نے فرمایا: میں اب یورپ خصوصاً انگلستان میں ایک عام تحریک کر کے آیا ہوں کہ دوست سپینش سیکھنے کی طرف خصوصیت سے توجہ کریں.
433 سکیم یہ ہے کہ دوست اپنے طور پر سپینش زبان سیکھیں اور ہر سال چھٹیاں سپین کے مختلف علاقوں میں گزاریں اور وہاں ان کے سپرد معین علاقہ کر دیا جائے.مثلاً یہ کہا جائے کہ فلاں دیہات فلاں دوست کے ذمہ ہو گئے ہیں اور فلاں دیہات فلاں دوست کے ذمہ ہو گئے ہیں.وہاں وہ تعلقات قائم کریں ٹوٹی پھوٹی زبان جتنی بھی آتی ہے اس میں سخی گفتگو کریں اور پھر اپنے مشن کے ساتھ ان کا تعارف کروائیں اور اسی طرح یورپ کے دوسرے علاقوں کے متعلق بھی یہ تحریک کی گئی ہے کہ وہ بھی اندلس کا کوئی نہ کوئی حصہ اپنے لئے چن لیں تو انشاء اللہ اس طرح پر رضا کار مبلغین بکثرت تیار ہو ا (ماہنامہ خالد جون 1986ء) جائیں گے..پس یہ وہ تحریک ہے جس پر امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ اچھی Response ہو گی.نوجوان کثرت کے ساتھ آگے آئیں گئے.اسی طرح مارچ 1987ء میں حضور نے جنوبی امریکہ کے ممالک میں وقف عارضی کے لئے پوری دنیا کے احمدیوں کو تحریک کی.فرمایا کہ جو لوگ خود خرچ برداشت کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں وہ وکالت تبشیر سے رجوع کریں اور جو اخراجات کی استطاعت نہیں رکھتے وہ بھی اطلاع دیں.(ضمیمہ ماہنامہ مصباح اپریل 1987 ء ) قلمی جہاد 2 دسمبر 1982ء کو حضور نے تمام دنیا کے اہل علم احمدیوں کو تحریک کی کہ وہ اسلام پر جدید علوم کے نام پر جو حملے ہورہے ہیں ان کے جوابات تیار کریں.اس سلسلہ میں مرکز سے بھی راہنمائی حاصل کر کے اپنے آپ کو اس علمی جہاد کے لئے تیار کریں.( الفضل 7 دسمبر 1982ء) 9 فروری 1983ء کو حضور نے یاد دہانی کراتے ہوئے فرمایا کہ تمام دنیا میں اسلام پر جدید علوم کے نام پر اس کثرت سے حملے ہورہے ہیں کہ صرف مرکز سلسلہ ان کا جواب نہیں دے سکتا.اس لئے تمام اہل علم اور مطالعہ کا شوق رکھنے والے احمدی اپنی اپنی جگہوں پر موجود رہتے ہوئے ان اعتراضات کا جواب تیار کرنے کے لئے مرکز کی راہنمائی میں کام کریں.فرمایا: ساری دنیا میں عیسائیت کی طرف سے اسلام پر جو حملے ہور ہے ہیں ان کے دفاع کے لئے
434 دوست اپنے پنے آپ کو پیش کریں...ہمارے بہت سے ایسے دوست ہیں جو علمی ذوق رکھتے ہیں اور انگریزی دان بھی ہیں ان کی ضرورت ہے اس سلسلے میں وہ بہت بڑی خدمت گھر بیٹھ کر کر سکتے ہیں.مقصد یہ ہے کہ جہاں جہاں اسلام پر حملے ہوتے ہیں ان کا جواب دیا جائے“.ادارہ تحریک جدید میں وکالت تصنیف کے تابع باقاعدہ ایک Cell قائم کیا جا چکا ہے.وکالت کو ان اہل علم احمدیوں کے نام چاہئیں.شعبہ تصنیف جو مواد اکٹھا کر رہا ہے اسے وہ ان علماء میں تقسیم کرے گا.یہ تقسیم بطور مصنف ، بطور کتاب اور بطور زبان کے ہوگی.مثلاً فرانسیسی زبان یا سپینش زبان میں اسلام پر اعتراضات اسی طرح ساری دنیا میں ہر قسم کے اعتراضات کا جواب دینے کے لئے مختلف موضوعات مختلف زبانیں اور مختلف مصنفین تقسیم کئے جائیں گے.پس میں تمام دنیا کے اہل علم احمد یوں سے کہتا ہوں کہ جس حد تک ممکن ہو اپنے وقت کو بچا کر وہ اپنے آپ کو علمی مجاہدے کے لئے تیار کریں.8 اگست 1986ء کو حضور نے پھر اس تحریک کی یاددہانی کرائی.ناموس رسالت کی حفاظت کے لئے عظیم الشان تحریکات 1988ء میں رسوائے زمانہ سلمان رشدی نے ایک نہایت توہین آمیز کتاب لکھی تو اس پر عالم اسلام سراپا احتجاج بن گیا مگر ان کا احتجاج بالکل سطحی نوعیت کا تھا اس پر حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے جماعت میں کثرت سے صحافی پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی کہ احمدی کثرت سے اس فیلڈ میں آئیں تا دنیا کو حضرت محمد مصطفی عملے کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کرواسکیں.صحافی پیدا کرنے کی تحریک: چنانچہ آپ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 24 فروری 1989ء بمقام بیت الفضل لندن میں فرمایا: اپنی نئی نسلوں کو مقامی زبان میں ماہر بنائیں اور نئی نوجوان نسلوں میں سے کثرت کے ساتھ اخبار نولیس پیدا کریں کیونکہ صرف زبان کا محاورہ کافی نہیں ، اخبار نویسی کی زبان کا محاورہ ضروری ہے اور اس نیت سے کریں کہ ساتھ ساتھ یہ اسلام کا گہرا مطالعہ بھی کریں گے تاکہ ان کی زبان دانی اسلام کے حق میں اور محمد مصطفی اے کے دفاع میں استعمال ہو....اس نیت سے ادب پر اور کلام پر دسترس حاصل
435 کرنی چاہئے اور قادر الکلام بننا چاہئے.خود انہی کے ہتھیاروں سے، انہی کے انداز سے ہم ان کے متعلق جوابی کارروائی کریں گے اور اسلام کا دفاع کریں گے اور حضرت اقدس محمد مصطفی میں لے کے تقدس کی حفاظت کریں گے اور یہ جنگ آج کی چند دنوں کی جنگ نہیں ہے.یہ لوگ اس حملے کو بھول جائیں گے اور یہ تاریخ کی باتیں بن جائیں گی اور پھر ایک بد بخت اٹھے گا اور پھر حملہ کرے گا اور پھر صلى الله ایک بد بخت اٹھے گا اور پھر حملہ کرے گا اس لئے احمدیت کو چاہئے کہ وہ ہمیشہ کے لئے آنحضور کے کے سامنے سینہ تان کر کھڑی ہو جائے تمام تیر جو ہمارے آقا محمد رسول اللہ ﷺ پر چلائے جار ہے ہیں.اپنے سینوں پر لے اور وہ سارے مضامین جو اس کتاب میں کہانی کے رنگ میں چھیڑے گئے ہیں ان کا متفقین اور اہل علم مطالعہ کریں اور ان کے دفاع پر کثرت کے ساتھ مضامین شائع کروائیں.(الفضل 28 مارچ 1989 ء ) اسی خطبہ میں حضور نے فرمایا کہ جن ملکوں یا کمپنیوں نے سلمان رشدی کی کتاب شائع نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ان کو شکریہ کے خطوط لکھے جائیں.3 مارچ 1989ء کو بھی اسی مضمون پر پر جلال خطبہ میں فرمایا کہ: دنیا بھر کے احمدی رشدی کی شیطانی کتاب کے خلاف اپنا اثر ورسوخ استعمال کریں نیز اس کتاب پر مغربی دنیا کے ردعمل کے جواب میں اقتصادیات اور رائے عامہ کا ہتھیار استعمال کیا جائے.عالمی مشاورت کی تحریک: فرمایا: آپ نے عالم اسلام کے لیڈروں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ: نبی اکرم ﷺ کی عزت کی حفاظت کے لئے عالمی مشاورت بلانے کی ضرورت ہے.حضور نے آج مسلمانوں کی اندرونی دشمنیاں اس بات کی راہ میں حائل ہوگئی ہیں کہ اسلام کے خلاف شدید ترین اور غلیظ ترین حملوں کے مقابل پر بھی وہ اکٹھے ہونے سے انکار کر رہے ہیں.پس ایک ایسی عالمی مشاورت کے بلانے کی ضرورت ہے، جو خواہ مکہ یا مدینہ میں بلائی جائے یا اسلام آباد، پاکستان میں بلائی جائے یا ایران میں بلائی جائے یا دنیا کے کسی اور خطے میں بلائی جائے.کوئی بلانے والا ہو اور کوئی وہ مقام ہو جہاں اکٹھا ہونے کی دعوت دی جائے.آج خدا اور محمد مصطفیٰ
436 کی غیرت کا تقاضا ہے کہ تمام عالم اسلام لبیک لبیک کہتے ہوئے اس مقام پر اس دعوت کو قبول کرتے ہوئے اکٹھا ہو جائے اور یہ فیصلہ کرے کہ کس طرح ہم نے حضرت محمد ﷺ کی حرمت اور عزت کا دفاع کرنا ہے اور اس راہ میں جو بھی تعلیم قرآن کریم نے ہمیں دی ہے، اس تعلیم کے اندر رہتے ہوئے دفاع کرنا ہے، اس سے ایک قدم باہر نکال کے دفاع نہیں کرنا.(الفضل 5 اپریل 1989ء) اپنے اثر کو استعمال کریں: پھر احمد یوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.میں امید رکھتا ہوں کہ احمدی جہاں جہاں بھی اثر و رسوخ رکھتے ہیں وہ اس ساری صورتحال کو جس رنگ میں میں ان کو سمجھا رہا ہوں، اس طرح اور کھول کھول کر ، قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں دنیا کے سامنے پیش کریں گے اور جہاں جہاں حکومتوں میں کسی جگہ بھی احمدیوں کا اثر اور نفوذ ہے.کسی رنگ میں.بعض ایسے بھی احمدی ہیں جو...ڈاکٹر ہیں ، سرجن ہیں..وہ کام کر رہے ہیں.چونکہ وہ با اخلاق ہیں اور اپنے فن میں بڑی مہارت رکھتے ہیں.اس لئے تمام طاقتور شہزادے ان کی عزت کرتے ہیں اس علم کے باوجود کہ وہ احمدی ہیں، ان کو کوئی تکلیف نہیں تو یہ خیال نہ کریں کہ آپ کمزوروں کی ایک جماعت ہیں جن کا کوئی اثر نہیں.احمدی اپنے اخلاق کی طاقت سے ، اپنے کردار کی عظمت کی طاقت سے دنیا میں بہت نفوذ رکھتا ہے.امریکہ میں بھی بڑے بڑے لوگوں پر احمدی اپنے اخلاق اور کردار کی طاقت سے نفوذ رکھتے ہیں اور اثر رکھتے ہیں اور اسی طرح دنیا کی بڑی بڑی حکومتوں میں جہاں احمدیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں، اس کا بھی سوواں حصہ ہوگی ، وہاں بھی بعض احمدی اپنی عظمت کردار کی وجہ سے ایک اثر رکھتے ہیں تو اس سارے اثر کو اسلام کے حق میں اور حضرت اقدس محمد مصطفی عملے کے حق میں استعمال کریں اور دنیا میں ایک شور مچادیں.وہ شور جوان کی آوازوں کو مزید بلند کرنے کا موجب نہ بنے.بلکہ ان کی آوازوں کو اس طرح دبا دینے کا موجب بنے کہ کسی بے غیرت کو کبھی اسلام پر آئندہ حملہ کرنے کی جرات نہ ہو.(افضل 5 را پریل 1989 ء ) پر مظلوموں کی امداد: حضور نے یہ اعلان بھی فرمایا کہ شیطانی کتاب کے خلاف مظاہروں میں شہید ہونے والوں کے لواحقین کی مالی کفالت جماعت احمدیہ کرے گی.حضور نے فرمایا:
437 یہ معاملہ ایسا ہے جس میں حضرت محمد مصطفی عمل اللہ کی عزت اور احترام کا تعلق ہے.آپ کی محبت اور غیرت کا تعلق ہے اس لئے ہر جگہ جماعت احمدیہ کو میں ہدایت کرتا ہوں کہ جہاں جہاں ایسے لوگ شہید ہوئے ہیں جو اس نام پر شہید ہوئے ہیں اگر چہ وہ غلط تعلیم معلوم کرنے کے نتیجے میں شہید کئے گئے.لیکن وہ ان کے گھروں تک پہنچیں، معلوم کریں کہ ان کا کیا حال ہے، کوئی ان کا پرسان حال ہے بھی کہ نہیں اور اگر یہ معلوم کریں کہ اقتصادی لحاظ سے ان کو امداد کی ضرورت ہے تو جماعت تحقیق کے بعد فوری طور پر مجھے رپورٹ کرے کہ ہندوستان میں یا پاکستان میں یا دوسری جگہوں پر کتنے ایسے مظلوم مسلمان ہیں جن کے پسماندگان کا کوئی پوچھنے والا نہیں.وہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی عاشق ایک جماعت ہے جو ضرور ان کا حال پوچھے گی اور آپ کی راہ میں شہید ہونے والوں کے پسماندگان کو ذلیل نہیں ہونے دیا جائے گا.خدا ہماری وسعتیں بڑھائے اور ہم آنحضرت ﷺ کے احترام کی خاطر جس قربانی کا عہد کر چکے ہیں، ہمیں اب اس عہد پر پورا رہنے کی توفیق بخشے.میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہماری توفیق کو بڑھاتا رہے گا اور اپنے فضل سے ہمیں یہ تو فیق عطا فرمائے گا کہ ان غریبوں، معصوم بچوں، ان یتیموں ، ان بیواؤں کی خبر گیری کریں اور اپنے آقا محمد مصطفی ﷺ کے نام پر ان کی خبر گیری کریں جو دنیا میں سب سے بڑھ کر یتیموں کی خبر گیری کرنے والا تھا.جو کائنات میں سب.بڑھ کر یتیموں کا والی تھا.جن کا کوئی دیکھنے والا نہیں تھا ان کا دیکھنے والا ہمارا آقا محمد مصطفی می تے تھا.اس لئے آج آپ کی غیرت اور آپ کی محبت اور آپ کے عشق کا تقاضا ہے کہ وہ جنہوں نے آپ کی راہ میں جانیں دی ہیں، ان کے بھی تو دیکھنے والے ہوں اور وہی ان کے دیکھنے والے ہوں گے جو آنحضرت ے سے دائمی از لی اٹوٹ محبت رکھتے ہیں کوئی دنیا کی طاقت اس محبت کو نقصان نہیں پہنچاسکتی“.الفضل 5 اپریل 1989 ء ) دونئے یورپی مرا کز بنانے کی تحریک 18 مئی 1984ء کو سیدنا حضرت خلیفہ لمسح الرابع نے ایک عظیم الشان جامع پروگرام کا اعلان فرمایا.جس کا مقصد دعوت الی اللہ کے کام کو وسیع کرنا تھا.اس مقصد کو پورا کرنے کی غرض سے حضور ایدہ اللہ نے دونئے یورپین مراکز کے قیام کی تحریک کی جن میں سے ایک انگلستان میں اور ایک جرمنی میں
438 بننا تھا.حضور نے فرمایا:.دو نئے مراکز یورپ کے لئے بنانے کا پروگرام ہے ایک انگلستان میں اور ایک جرمنی میں.انگلستان کو یورپ میں ایک خاص حیثیت حاصل ہے اس لئے انگلستان میں بہر حال بہت بڑا مشن چاہئے.اس لئے انگلستان میں بہت بڑا مرکز قائم کرنا ہے اور ایک جرمنی میں کیونکہ جرمنی کی جماعت بہت مخلص اور تبلیغ میں دن رات منہمک ہے.ایسا اللہ نے ان کو اخلاص بخشا ہے کہ جب چندہ کی ضرورت پڑی تو جرمنی کا مشن بہت سے دوسرے مشنوں کے لئے کفیل بن گیا تھا اور حیرت انگیز قربانی کے مظاہرے انہوں نے کئے اس کے لئے اللہ تعالیٰ روپیہ اپنے فضل سے مہیا کرے گا.میں نے پہل کی ہے دس ہزار پونڈ میں اس کام کے لئے پیش کر رہا ہوں.اس کے علاوہ ایک ہمشیرہ ہیں ہماری سعیدہ بیگم نام ہے انہوں نے اس علم سے پہلے ہی کہ میں کیا سکیم پیش کرنے والا ہوں انہوں نے چھ ہزار کچھ سو پونڈ جو ایک لاکھ روپے کے برابر رقم بنتی ہے از خود مجھے بھجوادی ہے چیک کی شکل میں اور کہا کہ اس کو جماعت کی نئی ضروریات سامنے آرہی ہیں ضرور پیدا ہوں گی اس لئے میں ان کے لئے پیش کرتی ہوں.پہلے تو حضور نے یہ سکیم صرف یورپین ممالک کے سامنے رکھی پھر 29 جون 1984 ء کو اس کو پوری دنیا کے لئے وسیع کر دیا.الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ دونوں مشن قائم ہو گئے.ناصر باغ جرمنی اور اسلام آباد ٹلفور ڈسرے انگلینڈ میں.اس کے بعد سارے یورپ میں نئے مراکز کے قیام کا سلسلہ جاری ہو گیا اور خلافت رابعہ میں یورپ کے درج ذیل ممالک میں پہلی بار مشن ہاؤسز اور مراکز خریدے گئے.فرانس، پرتگال، آئر لینڈ ، حکیم ، پولینڈ، ترکی، البانیہ، بلغاریہ، کوسوو، بوسنیا.خلافت رابعہ کے آخر تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے 18 یورپین ممالک میں مشن ہاؤسز اور مراکز کی مجموعی تعداد 148 ہوگئی جبکہ 1984ء میں یہ تعداد کل 8 ممالک میں صرف 16 تھی.افریقہ میں 1984ء میں 14 ممالک میں مشنز اور مراکز کی تعداد 68 تھی جو اپریل 2003 ء تک 25 ممالک میں 656 ہوگئی.
439 مشرقی یورپ میں مشنوں کا قیام حضور نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 27 دسمبر 1996 ء میں مشرقی یورپ کے ممالک کے لئے 15 لاکھ ڈالر کی مالی تحریک کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا.مشرقی یورپ کے ممالک میں مساجد قائم کرنے ہمشن ہاؤس تعمیر کرنے اور ان ممالک کے لوگوں کی تربیت کے لئے ان ہی کے افراد کو تربیت دینا ایک اہم ضرورت ہے.حضور نے فرمایا حسب معمول اس چندے کا دسواں حصہ میں خود ادا کروں گا.نیز فرمایا کہ اس تحریک کی مدت دو سال ہوگی اور پہلے سال دو تہائی ادائیگی کرنی ہوگی.(الفضل 30 نومبر 1996ء) امریکہ میں نئے مشنوں اور مساجد کی تحریک ریاستہائے متحدہ امریکہ عالمی افق پر ایک عظمت کا حامل نام ہے.یہاں جماعت کا آغا ز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص فدائی حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے ذریعہ حضرت مصلح موعودؓ کے دور میں ہوا.اس عرصہ میں جماعت میں ترقی ہوئی تاہم مساجد اور مشنوں کی تعداد میں ضروریات کے مطابق اضافہ نہیں ہوا.بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر 15 دسمبر 1982ء کو احباب جماعت کے نام اپنے ایک پیغام میں اڑھائی ملین ڈالر جمع کرنے کی تحریک کی اور اپنی طرف سے 5 ہزار ڈالر عطا فرمائے.حضور نے فرمایا: میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم پانچ مشن ہاؤسز کی تعمیر کو پیش نظر رکھ کر کام شروع کر دیں اور اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے عاجزی اور انکساری کے ساتھ دعائیں کرتے ہوئے تو فیق بڑھانے کی کوشش کریں تو بعید نہیں کہ ہم ان پانچ مشن ہاؤسز کا بوجھ برداشت کر سکیں“.روزنامه الفضل مورخہ 31 مارچ 1983 ء ) اس تحریک پر احباب جماعت نے والہانہ لبیک کہا اور 1983ء (جولائی) کی رپورٹ کے مطابق تقریباً ڈیڑھ ملین ڈالرز کے وعدہ جات موصول ہو گئے اور پانچ لاکھ ڈالرز مالیت کی زمین کے عطیہ کی وصولی کے علاوہ نقد وصولی ایک لاکھ ستائیس ہزار ڈالرز ہوگئی اور یکم اگست 1987ء کو جلسہ سالانہ لندن
440 کے دوسرے دن خطاب میں حضور نے اس تحریک کے ضمن میں فرمایا : میں نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ذمہ داری پانچ کی ڈال رہا ہوں مگر میری دلی تمنا ہے کہ دس ہو جائیں تو بہتر ہے.چنانچہ دس مقامات پر نہ صرف زمین لے لی گئی بلکہ گیارہواں مرکز بھی قائم ہو گیا.اب سال رواں میں جو مزید مراکز قائم کئے گئے یا جگہیں خریدی گئیں یا عمارتیں لی گئیں ان کو شامل کر کے یہ تعدا د خدا تعالیٰ کے فضل سے سترہ ہو چکی ہے اور بعض جگہ بڑے بڑے وسیع قبے حاصل کئے گئے ہیں اور امید ہے کہ اللہ کے فضل سے وہاں بعض نئی اور بڑی مساجد منصہ شہود پر ابھریں گی.(ضمیمہ ماہنامہ انصار اللہ ستمبر 1987ء) اکتوبر نومبر 1987 ء میں حضور نے دورہ امریکہ کے دوران 3 مساجد کا افتتاح فرمایا اور 5 کا سنگ بنیا درکھا.جن میں واشنگٹن اور لاس اینجلس کی مساجد کا سنگ بنیاد بھی تھا.14 اکتوبر 1994ء کو حضور نے امریکہ میں مسجد الرحمان اور 23 اکتوبر کو مسجد صادق کا افتتاح فرمایا.1994 ء میں ہی شکاگو میں ایک عمارت 85 ہزار ڈالر کی مالیت سے خریدی گئی.خلافت رابعہ میں امریکہ میں مساجد اور مشن ہاؤسز کی کل تعداد 6 سے بڑھ کر 36 ہوگئی.کینیڈا میں پانچ مشنز کے قیام کی تحریک 20 اپریل 1983ء کو حضور نے جماعت احمدیہ کینیڈا کے نام پیغام ارسال کیا اور اس میں جماعت کینیڈا کو تحریک فرمائی کہ جماعت امریکہ کی طرح وہ بھی آگے بڑھیں اور ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے کمر ہمت کس لیں اور تین سال کے اندر اندر مبلغ چھ لاکھ ڈالر کینیڈا میں نئے مشن ہاؤسز اور مساجد کے قیام اور موجودہ مشن ہاؤسز کی توسیع کے لئے پیش کریں اور ہر فرد اپنی توفیق کے مطابق قربانی پیش ( الفضل یکم جون 1983ء) احباب جماعت نے اس تحریک میں والہانہ حصہ لیا.11 مئی 1983 ء تک 204335 ڈالرز کے وعدے ہو گئے اور اب خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ تحریک کامیابی کے مراحل طے کر چکی ہے.1988ء کے جلسہ سالانہ پر حضور نے کینیڈا کی بابت فرمایا: کینیڈا میں جو پہلے مشن موجود تھے ان کو وسعت دی گئی ہے اگر چہ نئی جگہ میں مشن بنانے کی توفیق
441 نہیں ملی لیکن جہاں مشن بہت چھوٹے تھے یا ان کی زمین بہت تھوڑی تھی ان کو وسعت دینے کی توفیق (ضمیمہ ماہنامہ تحریک جدید اگست 1988ء) ہے.پھر یکم جولائی 1988ء کو حضور نے کینیڈا میں نئی مساجد کی تعمیر کے لئے 25 لاکھ ڈالر جمع کرنے کی تحریک فرمائی.چنانچہ 12 سے زائد مقامات پر نئے مراکز اور مشن ہاؤسز قائم ہو گئے.1984 ء میں کینیڈا میں پانچ مشن ہاؤسز تھے.دور ہجرت میں پانچ نئے مشن ہاؤسز کا اضافہ ہوا.وہاں کے بعض پرانے مشن ہاؤسز کوفروخت کر کے ان کی جگہ بیسیوں گنا بڑے مشن ہاؤسز خریدے گئے.مثلاً 1984 ء تک ٹورانٹو میں ایک تین بیڈ کا مشن ہاؤس تھا.اب صورتحال یہ ہے کہ یہاں تین منزلہ مشن ہاؤس ہے جس میں 11 دفاتر ، 2 بڑے ہال اور تین بیڈ روم کا رہائشی یونٹ شامل ہے.علاوہ ازیں 125 یکٹر زمین لی گئی ہے اور چار ملین ڈالر کی لاگت سے مسجد تعمیر ہوئی.17 اکتوبر 1992ء کو حضور نے مسجد بیت الاسلام ٹورانٹو کا افتتاح فرمایا:.5 اپریل 1999ء کو کینیڈا کی مسجد بیت الاسلام کے ساتھ رہائشی کالونی (Peace Village) کی تعمیر کا آغاز ہوا.جس میں 1200 سے زیادہ احمدی آباد ہیں جس کی سڑکوں، چوراہوں اور اہم مقامات کے نام احمدی بزرگوں کے نام پر رکھے گئے ہیں اور ایک چھوٹار بوہ نظر آتا ہے.حضور کی توجہات کے نتیجہ میں یہاں حکومتی حلقوں میں بھی جماعت بہت نیک نام اور وسیع اثر و رسوخ کی مالک ہے.حضور کے سفروں کے دوران کئی شہروں کے میئرز نے اس دن اور ہفتہ کو احمدیہ د یک اور احمدیہ مسجد کا دن قرار دیا.1999ء میں ”مسی ساگا (Missisaga) میں ایک نہایت ہی با موقعہ اور خوبصورت عمارت مناسب قیمت پر خریدنے کی توفیق عطا ہوئی.جس میں 1200 افراد نماز ادا کر سکتے ہیں.40 دفاتر ہیں جن میں ہر قسم کا فرنیچر موجود ہے.ساری عمارت ایئر کنڈیشنڈ ہے اور نہایت اچھی حالت میں ہے.یہ عمارت 19 لاکھ پچانوے ہزار ڈالر میں خریدی گئی ہے.اس عمارت کی خرید کے لئے جماعت احمدیہ کینیڈا نے تین ماہ کے عرصہ میں 20 لاکھ ڈالر سے زائد رقم اکٹھی کی.عورتوں نے اپنے زیورات کثرت سے پیش کئے.USA اور Canada کے علاوہ برازیل اور گوئٹے مالا میں بھی جماعت کو مشن ہاؤسز بنانے کی
442 توفیق ملی ہے.گوئٹے مالا میں مشن کے علاوہ ایک خوبصورت مسجد اور کلینک بھی تعمیر ہوا.افریقہ اور ہندوستان کے لئے پانچ کروڑ روپے کی مالی تحریک جلسہ سالانہ پر برطانیہ 1989 ء کے دوسرے دن کے خطاب میں حضور انور نے افریقہ اور ہندوستان کے لئے پانچ کروڑ روپے کی مالی تحریک کا اعلان فرمایا اور فرمایا کہ: میں امید رکھتا ہوں کہ اس طرح سے ہم پہلے سے بڑھ کر افریقہ اور ہندوستان کے بعض خصوصی علاقوں میں خدمت کرنے کے اہل ہو جائیں گے.حضور نے فرمایا افریقہ میں ہم خدا کے لئے اس وقت گئے تھے جب اور کوئی نہ گیا تھا اور اس احسان کو افریقہ نے بھی نہیں بھلایا پس اس احسان کے بدلہ میں احسان کرتے ہوئے ان کی مزید خدمت کے لئے ہم تیار ہیں.روزنامه الفضل 19 اگست 1989 ء ) جلسہ ہائے سیرۃ کی تحریک حضور نے مسجد فضل لندن میں 8 اگست 1986ء کو تمام دنیا میں سیرۃ کے جلسے دوبارہ شروع کرنے کی تحریک کی تا کہ اس طرح دین کی سچی تعلیم قابل عمل اسوہ کے ساتھ پیش کی جاسکے اور جماعت کی اگلی صدی میں اللہ اور اس کے رسول کے عاشقوں کا ایک قافلہ داخل ہو جو حضور کے حسن کامل سے مزین ہو.تحریک شدھی کے خلاف جہاد 22 اگست 1986ء کو حضور نے بھارت میں جاری کی جانے والی شدھی کی نئی تحریک کے خلاف جہاد کا اعلان کیا اور فرمایا کہ ساری دنیا کے احمدی خصوصاً بھارت کے احمدی اس طرف خاص توجہ کریں.اللہ تعالیٰ نے حضور کو فرانسیسی بولنے والے علاقوں میں غیر معمولی تیز رفتاری سے احمدیت کے پھیلنے کی خبر دی جو حیرت انگیز شان سے پوری ہو رہی ہے.
443 تحریک وقف نو وقف زندگی کا سلسلہ تو الہبی جماعتوں کی اتباع میں حضرت مسیح موعود کے زمانہ سے جماعت احمدیہ میں جاری تھا.لیکن حضرت خلیفتہ امسیح الرابع نے اس باب میں ایک ایسا اضافہ کیا جو تاریخ عالم میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے.اور وہ حضرت مریم کی والدہ کی سنت میں اولاد کو پیدائش سے پہلے خدا کے حضور وقف کرنا ہے.چنانچہ اس وقت جب جماعت صد سالہ جو بلی 1989ء کے کنارے پر کھڑی تھی حضور نے اللہ تعالیٰ کی منشاء سے 3 اپریل 1987ء کو اعلان کیا.مجھے خدا نے یہ توجہ دلائی کہ میں آپ کو بتا دوں کہ آئندہ دو سال کے اندر یہ عہد کر لیں جس کو بھی جوا ولا دنصیب ہوگی وہ خدا کے حضور پیش کر دئے“.پس میں نے سوچا کہ ساری جماعت کو میں اس بات پر آمادہ کروں کہ اگلی صدی میں داخل ہونے سے پہلے جہاں ہم روحانی اولاد بنانے کی کوشش کر رہے ہیں.دعوت الی اللہ کے ذریعے وہاں اپنے آئندہ ہونے والے بچوں کو خدا کی راہ میں ابھی سے وقف کر دیں اور یہ دعا مانگیں کہ اے خدا!! ہمیں ایک بیٹا دے لیکن اگر تیرے نزدیک بیٹی ہونا مقدر ہے تو ہماری بیٹی ہی تیرے حضور پیش ہے.مافی بطنی جو کچھ بھی میرے بطن میں ہے.یہ مائیں دعائیں کریں اور والد بھی ابراہیمی دعائیں کریں کہ اے خدا! ہمارے بچوں کو اپنے لئے چن لے ان کو اپنے لئے خاص کر لے.تیرے ہو کر رہ جائیں اور آئندہ صدی میں ایک عظیم الشان واقفین بچوں کی فوج ساری دنیا سے اس طرح داخل ہورہی ہو کہ وہ دنیا سے آزاد ہورہی ہو اور محمد رسول اللہ ﷺ کے خدا کی غلام بن کر اس صدی میں داخل ہو رہی ہو چھوٹے چھوٹے بچے ہم خدا کے حضور تحفہ کے طور پر پیش کر رہے ہوں اور اس وقف کی شدید ضرورت ہے.آئندہ سوسالوں میں جس کثرت سے اسلام نے ہر جگہ پھیلنا ہے وہاں لاکھوں تربیت یافتہ غلام چاہئیں جو محمد رسول اللہ ﷺ کے خدا کے غلام ہوں.واقفین زندگی چاہئیں کثرت کے ساتھ اور ہر طبقہ زندگی سے واقفین زندگی چاہئیں ہر ملک سے واقفین زندگی چاہئیں.(خطبہ جمعہ 3 را پریل 1987 ء ) حضور نے فرمایا:.
444 علی تربیت کے ساتھ ان کو بچپن ہی سے اس بات پر آمادہ کرنا شروع کر دیں کہ تم ایک عظیم مقصد کے لئے ایک عظیم الشان وقت میں پیدا ہوئے ہو جبکہ غلبہ اسلام کی ایک صدی غلبہ اسلام کی دوسری صدی سے مل گئی ہے.اس سنگم پر تمہاری پیدائش ہوئی ہے اور اس نیت اور دعا کے ساتھ ہم نے تجھ کو مانگا تھا خدا سے کہ اے خدا تو آئندہ نسلوں کی تربیت کے لئے ان کو عظیم الشان مجاہد بنا“.آغاز میں اس تحریک کا عرصہ 2 سال اور تعداد 5 ہزار واقفین تھے.جماعت نے حضور انور کی اس خواہش پر بھر پور انداز میں لبیک کہتے ہوئے اپنے ہونے والے بچوں کو اس تحریک میں پیش کیا.چنانچہ بعض مخلصین کی بار بار درخواست پر حضور نے اس تحریک میں مزید دو سال کا اضافہ فرما دیا.1991ء میں حضور نے اس تحریک کو مستقل حیثیت دے دی لیکن ایک استثناء کے ساتھ کہ یہ صرف پیدائش سے قبل ہی وقف نو میں شامل کیا جا سکتا ہے.گو کہ قبل ازیں پیدائش کے بعد بھی وقف نو میں شامل کیا جاسکتا تھا.چنانچہ یہ تحریک آج بھی جماعت میں جاری ہے اور جولائی 2007ءتک 34800 کے قریب بچے اور بچیاں اس تحریک میں شامل ہو چکے تھے.اس میں 22800 لڑکے اور 12 ہزارلڑ کیاں شامل ہیں اور والدین اب بھی بچے پیش کرتے چلے جارہے ہیں.اس وقت دنیا کے 81 ممالک میں پھیلے ہوئے ہر رنگ ونسل اور ہر قوم وقبیلہ کے 34 ہزار کے قریب بچے اس تحریک میں شمولیت کی سعادت پا کر وحدت اقوام کا ایک حسین منظر پیش کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے 20 واقفین نو بچے جامعہ احمدیہ سے تعلیم مکمل کر کے میدان عمل میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں.601 بچے جامعہ احمد یہ ربوہ میں اور 226 بچے بیرون ممالک کے جامعات میں ( کل 827) زیرتعلیم ہیں.50 کے قریب ڈاکٹری کی تعلیم کے آخری مراحل میں داخل ہو چکے ہیں.تجدید وقف کے بارہ میں ارشاد: حضور نے فرمایا:.وہ بھی ایک گیٹ جماعت میں آنے والا ہے جب ان بچوں سے جو آج وقف ہوئے ہیں ان سے پوچھا جائے گا کہ اب یہ آخری دروازہ ہے پھر تم واپس نہیں جاسکتے اگر زندگی کا سودا کرنے کی ہمت ہے، اگر اس بات کی توفیق ہے کہ اپنا سب کچھ خدا کے حضور پیش کر دو اور پھر کبھی واپس نہ لو پھر تم آگے آؤ ورنہ تم الٹے قدموں واپس مڑ جاؤ تو اس دروازے میں داخلے کے لئے آج سے ان کو تیار کریں.
445 وقف وہی ہے جس پر آدمی وفا کے ساتھ تادم آخر قائم رہتا ہے.ہر قسم کے زخموں کے باوجود انسان گھسٹتا ہوا بھی اسی راہ پر بڑھتا ہے واپس نہیں مڑا کرتا ، ایسے وقف کے لئے اپنی آئندہ نسلوں کو تیار کریں“.(خطبہ جمعہ 10 فروری 1989 ء ) واقفین نوکی راہنمائی اور تربیت کے لئے حضرت خلیفہ امسیح الرابع اور پھر حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے تفصیلی ہدایات دی ہیں جن پر وکالت وقف نو کے ذریعہ عملدرآمد کروایا جاتا ہے.حضور خود بھی ان بچوں کے لئے کافی وقت دیتے ہیں.چنانچہ ایم ٹی اے پر حضور انور لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے الگ الگ پروگراموں میں جلوہ گر ہوتے ہیں.ان واقفین کی ایک بڑی تعدا داب جامعہ احمدیہ اور دیگر کئی شعبوں میں زیر تعلیم ہے اور میدان عمل میں داخل ہونے کی تیاریوں میں مصروف
446 تعلیم القرآن کے متعلق تحریکات حضرت خلیفة المسیح الرابع کا دور خلافت قرآن کے اعتبار سے ایک زریں دور تھا.آپ نے قرآن کریم کا اردو تر جمہ سورتوں کے تعارف کے ساتھ تحریر فرمایا جو قرآنی مفاہیم کے ساتھ اردو کی ادبی چاشنی بھی لئے ہوئے ہے.متعد دزبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع ہوئے.117 زبانوں میں قرآن کریم کی منتخب آیات کے تراجم صد سالہ جو بلی کے تحفہ کے طور پر شائع کئے گئے.آپ نے ایم ٹی اے پر 305 گھنٹے کی قرآن کلاسز ریکارڈ کروائیں جن میں ترجمہ کے ساتھ تفسیری معارف بھی بیان فرمائے.آپ نے قرآن کریم پڑھنے اور سیکھنے سے متعلق متعدد تحریکات فرمائیں اور بیشمار مرتبہ اس مقصد کے لئے خطبات ارشاد فرمائے.تلاوت کرنے اور ترجمہ سیکھنے کی تحریک 4 جولائی 1997 ء کو حضور نے کینیڈا میں ایک جامع خطبہ ارشاد فرمایا اور تعلیم القرآن کی طرف خصوصی توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:.کلام الہی سے محبت ایک ایسی چیز ہے جو نسلوں کو سنبھالے رکھتی ہے.قرآن کریم پر زور دینا اور تلاوت سے اس کا آغاز کرنا بہت ہی اہم ہے.مگر تلاوت کے ساتھ ان نسلوں میں ، ان قوموں میں جہاں عربی سے بہت ہی ناواقفیت ہے ساتھ ترجمہ پڑھنا ضروری ہے.ترجمے کے لئے مختلف نظاموں کے تابع تربیتی انتظامات جاری ہیں مگر بہت کم ہیں.جو اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں یا اٹھا سکتے ہیں.اس لئے جب میں ایسی رپورٹیں دیکھتا ہوں کہ ہم نے فلاں جگہ قرآن کریم کی کلاس جاری کی یا فلاں جگہ قرآن کریم کی کلاس جاری کی تو میں ہمیشہ تعجب سے دیکھتا ہوں کہ اس کلاس میں سارے سال میں بھلا کتنوں نے فائدہ اٹھایا ہوگا اور جو فائدہ اٹھاتے بھی ہیں تو چند دن کے فائدے کے بعد پھر اس فائدے کو زائل کرنے میں باقی وقت صرف کر دیتے ہیں.وہی بچے ہیں جن کو آپ نے قرآن کریم سکھانے کی کوشش کی چند دن بعد ان سے پوچھ کے دیکھیں تو جو کچھ سیکھا تھا سب بھلا چکے ہوں گے.
447 بڑی وجہ اس کی یہ ہے کہ ہماری جو بڑی نسل ہے اس نے قرآن کریم کی طرف پوری توجہ نہیں دی اور اکثر ہم میں بالغ مرد وہ ہیں جو دین سے محبت تو رکھتے ہیں لیکن ان کو یہ سلیقہ سکھایا نہیں گیا کہ قرآن سے محبت کے بغیر دین سے محبت رکھنا کوئی معنے نہیں رکھتا اس کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہے..پس تلاوت قرآن کریم کی عادت ڈالنا اور اس کے معانی پر غور سکھانا یہ ہماری تربیت کی بنیادی ضرورت ہے اور تربیت کی کنجی ہے جس کے بغیر ہماری تربیت ہو نہیں سکتی اور یہ وہ پہلو ہے جس کی طرف اکثر مربیان، اکثر صدران، اکثر امراء بالکل غافل ہیں.ان کو بڑی بڑی مساجد دکھائی دیتی ہیں، ان کو بڑے بڑے اجتماعات نظر آتے ہیں.وہ دیکھتے ہیں کہ بڑے جوش سے اور ذوق و شوق سے لوگ دور دور کا سفر کر کے آئے اور چند دن ایک جلسے میں شامل ہو گئے لیکن یہ چند دن کا سفر تو وہ سفر نہیں ہے جو سفر آخرت کے لئے محمد ہو سکتا ہے.سفر آخرت کے لئے روزانہ کا سفر ضروری ہے اور روزانہ کے سفر میں زاد راہ قرآن کریم ہے.ہر گھر والے کا فرض ہے کہ وہ قرآن کی طرف توجہ دے، قرآن کے معانی کی طرف توجہ دے، ایک بھی گھر کا فرد ایسا نہ ہو جو روزانہ قرآن کے پڑھنے کی عادت نہ رکھتا ہو اور قرآن کریم کو پھر مضامین سمجھ کر پڑھے اور جو بھی ترجمہ میسر ہو اس کے ساتھ ملا کر پڑھے.قرآن کریم کے ترجمے کے ساتھ پڑھنے کی طرف ساری جماعت کو متوجہ ہونا چاہئے کوئی بھی ایسا نہ ہو جس کے پاس سوائے اس کے کہ شرعی عذر ہو جو روزانہ قرآن کریم کی تلاوت سے محروم رہے.تلاوت کا آغاز تلاوت کے برتن قائم کرنے سے ہوتا ہے اور برتن سے میری مراد یہ ہے کہ شروع کر دیں تلاوت پھر رفتہ رفتہ علم بڑھائیں اور تلاوت کو معارف سے بھرنے کی کوشش کریں، معارف سے پہلے علم سے بھرنے کی کوشش ضرور کریں.میں چاہتا ہوں کہ اس صدی سے پہلے پہلے ہر گھر نمازیوں سے بھر جائے اور ہر گھر میں روزانہ تلاوت قرآن کریم ہو.کوئی بچہ نہ ہو جسے تلاوت کی عادت نہ ہو.اس کو کہیں تم ناشتہ چھوڑ دیا کرونگر سکول سے پہلے تلاوت ضرور کرنی ہے اور تلاوت کے وقت کچھ ترجمہ ضرور پڑھو، خالی تلاوت نہیں کرو اور جب آپ یہ کام کرلیں گے تو پھر اردگرد....بنانے کی کوشش ریں اور ان نمازیوں کو گھروں سے کی طرف منتقل کریں کیونکہ وہ گھر جس کے بسنے والے خدا کے گھر نہیں بساتے قرآن کریم سے اور آنحضرت ﷺ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ ایسے گھروں کو ویران کر دیا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے کہ ان تقاضوں کو پورا کریں.الله الفضل انٹر نیشنل 12 اگست 1997 ء )
448 قرآن کا عرفان حاصل کریں خطبہ جمعہ 11 جولائی 1997ء میں پھر حضور نے جماعت کینیڈا کو مخاطب کر کے فرمایا:.آپ دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اگلے دو سال میں ضرور اللہ تعالیٰ ایسے حیرت انگیز نظارے دکھائے گا جن کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے.لیکن ساری جماعت کو اس وقت کے لئے دعا کرنی چاہئے.کیونکہ جتنے زیادہ تیزی کے ساتھ احمدی پھیلیں گے اتنے ہی زیادہ خطرات ہیں اور ان کو سنبھالنے کا کام بہت اہم ہے.اس ضمن میں میں نے گزشتہ خطبہ میں جماعت احمد یہ کینیڈا کو اور اس کی وساطت سے آپ سب کو نصیحت کی تھی کہ ساتھ ساتھ بعض بنیادی علمی کمزوریاں ہیں ان کو دور کرنے کی کوشش کریں.ان میں سے سب سے پہلے قرآن کریم کی طرف توجہ ہے.جن گھروں میں با قاعدہ روزانہ قرآن کریم کی تلاوت ترجمے کے ساتھ نہیں ہوتی اور ترجمے کے ساتھ قرآن کریم نہیں پڑھایا جاتا آپ بودی نسلیں آگے بھیجیں گے.نام کے احمدی رہیں گے اللہ بہتر جانتا ہے کہ کب تک رہیں اور کام کے کبھی بن بھی سکیں گے یا نہیں.مگر جن کو بچپن سے قرآن سکھایا جائے اور قرآن کا علم ہو.یہ وہ لوگ ہیں جن کا قرآن باقی بستی پر غالب آیا کرتا ہے.قرآن کو اپنے گھروں پر غالب کر دیں اپنے بچوں پر غالب کر دیں.ہر بچے پر یہ فرض کر دیں کہ وہ قرآن کریم کو سوچے سمجھے اور روزانہ کچھ نہ کچھ اتنا ضرور قرآن کا عرفان حاصل کرے کہ اس کے نتیجے میں اس کی اپنی تربیت شروع ہو جائے.الفضل انٹر نیشنل 29 راگست 1997 ء ) اساتذہ تیار کرنے کی تحریک تعلیم القرآن کے ضمن میں آپ کی ایک منفرد تحریک اساتذہ کی تیاری کی تحریک تھی جو صرف قرآن پڑھنے والے نہ ہوں بلکہ صحیح تلفظ کے ساتھ آگے قرآن پڑھا ئیں.اس کی تفصیل آپ نے انٹر نیشنل مجلس شوری اسلام آبادلندن 1991ء میں بیان کی.فرمایا:.میں نے اگلے چار پانچ سال کا منصوبہ بڑے غور و فکر کے بعد بنایا ہے.ہم قرآن کریم کی تلاوت سکھانے کا آغاز آڈیو ویڈیو کی مدد سے کریں گے لیکن یہ کلاسیں اپنی نوعیت کے اعتبار سے بالکل مختلف
449 ہوں گی.میں نے ذیلی تنظیموں کو ہدایت دی ہے کہ وہ ایسے افراد کو طلب کریں جو استاد کے طور پر خدمت کے لئے تیار ہوں خواہ ان کی تعداد تھوڑی ہو.اپنی متعلقہ ذیلی تنظیموں سے انصار، لجنات اور خدام وغیرہ کا انتخاب کریں.وہ اس کے لئے آگے آئیں.مثلاً پندرہ دن کے لئے انہیں صرف اتنا کچھ پڑھایا جائے ( اور اس سے زائد ہر گز نہیں ) جسے وہ پوری اہلیت کے ساتھ اخذ کرسکیں.یہاں تک کہ اس قدر علم وہ نہایت مہارت سے دوسروں کو سکھا سکیں نیز آڈیو ویڈیو کے آلات سے انہیں متعارف کرایا جائے اور یہ کہ ان سے کس طرح استفادہ کیا جاسکتا ہے.یہ بھی ایک ٹریننگ ہے جس کی ہم سب کوضرورت ہے.یہ سب کچھ کر لینے کے بعد اگلا مرحلہ اس وقت آئے گا جب وہ تربیت یافتہ استاد اپنے قصبوں اور علاقوں میں واپس جائیں گے.وہاں جا کر ان کا کام ہوگا کہ اس قسم کی کلاسیں جاری کریں اور دوسرں کو تعلیم دیں، عام شاگردوں کی طرح نہیں بلکہ جس طرح ٹریننگ کالجوں کے طلباء کو تعلیم دی جاتی ہے....اور جب ان کے بارے میں یقین ہو جائے کہ اب یہ آگے دوسروں کو اسی قدر پڑھا سکتے ہیں تو یہ حسب دستور کلاسیں جاری کر کے مزید شاگردوں کو وہ کچھ پڑھا ئیں جو انہوں نے سیکھا ہے اور ان کے استاد اپنے پہلے استادوں کے پاس جائیں جنہوں نے اب تک مزید علم حاصل کر لیا ہوگا اور وہ یہ مزید علم حاصل کریں اور اچھی طرح حاصل کرنے کے بعد اپنے پرانے شاگردوں کے پاس جائیں اور انہیں یہ زائد علم پڑھا ئیں اور یہ سلسلہ جاری رہے.ہر جگہ مناسب طور پر اس سکیم کے نفاذ کی صورت میں آپ کو متنبہ کرتا ہوں کہ ترقی کی رفتار آہستہ ہوگی اور اسے آہستہ ہی ہونا چاہئے کیونکہ اس معاملہ میں ہمیں آہستہ اور محتاط آغاز کی ضرورت ہے.رپورٹ فارم کو بے ضابطہ قسم کی مساعی سے بھرنا اس پروگرام کے لئے خود کشی کے مترادف ہوگا.حتی کہ شروع کے تین ماہ میں ، مثال کے طور پر آپ لندن بھر کے لئے جو بہت بڑی جماعت ہے صرف دس اساتذہ تیار کر سکتے ہیں.میں اس صورتحال پر زیادہ خوش ہوں گا بہ نسبت اس کے مجھے بتایا جائے کہ ہم نے ایک ہزار بچوں کے لئے کلاسوں کا انعقاد کیا.جو کلاسوں میں شریک ہونے کے لئے آئے مگر بعد ازاں پڑھائی سے ان کا رابطہ منقطع ہو گیا یا یہ کہ وہ سب کچھ بھول گئے جو انہوں نے کلاسوں میں چند دنوں یا چند ہفتوں کے دوران سیکھا تھا.....
450 خدام، لجنات اور انصار کی کمیٹیاں صرف اس خاص مقصد کے لئے قائم کی جائیں اور وہ ہمیشہ سارے مواد کو توجہ سے سنتی رہیں.جو قرآن کریم کے مطالعہ یا نماز سے متعلق ہے اور پھر وہ مجھے اپنی ماہانہ یا سالانہ رپورٹوں کے ذریعہ بوا پسی اطلاع دیں کہ انہوں نے ان سب ہدایات کو بخوبی سن لیا ہے اور یہ کہ وہ ان ہدایات پر عمل کرنے میں پوری طرح مستعد ہیں.کلاسوں کے بارہ میں ادھر ادھر کی باتوں پر مبنی لمبی رپورٹوں کی بجائے بہتر ہے کہ آپ اپنا اور میرا وقت بچائیں اور مستقبل کی نسلوں کے مفاد کا تحفظ کریں.(ماہنامہ انصاراللہ جولائی 1993 ء ص 33,32) منتخب حصوں کے حفظ کی تحریک ایک تحریک حضور انور نے یہ فرمائی کہ قرآن مجید کی چھوٹی سورتیں اور بعض آیات حفظ کی جائیں.حضور کو قرآن مجید کے مختلف مضامین پر مبنی آیات کے حفظ کا بہت خیال تھا اور خود بھی خلافت سے قبل بھی اور بعد میں بے انتہا مصروفیات کے باوجود بھی اس کا تعہد فرماتے رہے اور نمازوں میں بدل بدل کر مختلف حصوں کی تلاوت فرماتے.ان منتخب حصوں کو حفظ کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:.بچوں کو خصوصیت سے اور بڑوں کو بھی وہ آیتیں یاد کر لینی چاہئیں.جن کی نمازوں میں میں تلاوت کرتا ہوں اور اکثر میں فجر ، مغرب اور عشاء کی نمازوں میں بدل بدل کر تلاوت کرتا ہوں.یہ آیتیں جو میں نے چنی ہیں کسی مقصد کے لئے چینی ہیں.اگر ان کا ترجمہ آتا ہو تو اس کا دل پر اثر پڑے گا.اگر مطلب نہ آتا ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں“.الفضل انٹر نیشنل لندن 7 جون 1996 ء ) ترجمہ قرآن کی کلاسز سننے کی تحریک حضور کا ایک منفرد کارنامہ ایم ٹی اے پر سارے قرآن کا ترجمہ اور تفسیری وضاحتیں تھیں جو 305 گھنٹے کی آڈیو، ویڈیوریکارڈنگ کی شکل میں موجود ہیں اور قرآن سیکھنے اور سمجھنے کے لئے عظیم تحفہ ہے.حضور نے جماعت کو تحریک فرمائی کہ ان کلاسوں سے استفادہ کرے اور اگر ایم ٹی اے پر سنا ممکن نہیں تو اس کی ویڈیو ٹیسٹس کا استعمال کیا جائے.خطبہ جمعہ 19 جون 1998ء میں حضور نے فرمایا:.آجکل میں بہت زور دے رہا ہوں کہ خصوصاً بچوں کو قرآن کریم پڑھنا لکھنا سکھایا جائے اور اس
451 کے معانی بھی ساتھ ساتھ سکھائے جائیں.اکثر لوگ جو ناظرہ پڑھا دیتے ہیں وہ کافی نہیں ہے.اگر ناظرہ قرآن کے ساتھ ساتھ آپ اس کے معانی بھی کچھ سکھاتے چلے جائیں تو قرآن کریم سے محبت ہونا ایک لازمی بات ہے.اب مجھے علم نہیں کہ آپ میں سے کتنے ہیں جو میری قرآن کریم کی کلاس کو غور سے سنتے ہیں یا سن سکتے ہیں یا ان تک پہنچتی بھی ہے کہ نہیں.مگر اس کلاس میں جو آنے والے ہیں ان میں کم علم عورتیں بھی ہیں، بڑے بڑے صاحب علم مرد بھی ہیں لیکن جب قرآن کریم کو سمجھا کر پڑھایا جائے تو اس سے محبت ہونا ایک لازمی بات ہے، آدمی رک ہی نہیں سکتا محبت کئے بغیر.قرآن کریم پڑھانا اور خشکی یہ دو چیزیں اکٹھی ہو ہی نہیں سکتیں.چنانچہ میں اپنی کلاس کو سمجھاتا ہوں اور بسا اوقات دیکھتا ہوں کہ جب میں قرآن کریم سے فطرت کے راز ان کو سمجھاتا ہوں ، قرآن کریم نے کن کن رازوں سے پردہ اٹھایا ہے، کیا کیا معرفت کی باتیں کی ہیں ، میری نظر اٹھتی ہے تو میں ان کو بھی روتے ہوئے دیکھتا ہوں اور میری اپنی آنکھیں بھی آنسو بہا رہی ہوتی ہیں.اب خشک تعلیم سے تو آنسو نہیں جاری ہوا کرتے.لازماً اللہ تعالیٰ کی محبت کے چشمے بہہ رہے ہیں قرآن کریم میں اور وہی چشمے ہیں جو سننے والوں کی آنکھوں سے اور سنانے والے کی آنکھوں سے جاری ہو جاتے ہیں.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب قرآن کریم کے متعلق اس کو نعمت بیان فرماتے ہیں تو ہرگز ایک ذرہ بھی مبالغہ اس میں نہیں ہے.ایسی ایسی معرفت کی باتیں قرآن کریم میں بیان ہیں کہ ناممکن ہے کہ قرآن کریم پڑھیں اور اس سے محبت نہ ہو جائے اور اگر قرآن سے محبت ہو جائے تو زندگی کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے.جن لوگوں کو محبت ہوتی ہے ان کی ساری برائیاں دور ہو جاتی ہیں ، ان کو ایک نئی زندگی نصیب ہوتی ہے اور بکثرت لوگ مجھے لکھتے ہیں کہ اگر چہ ہماری اپنی تعلیم زیادہ نہیں تھی مگر قرآن کریم کی کلاس میں بیٹھنے کا موقع ملا اور ہم نے ایک نئی زندگی پالی ہے.اب یہی کتاب ایک عام کتاب نہیں ہے جو اسے پڑھتے وقت مشکل ہو، جا گنا مشکل رہے اس کو تو پڑھنے کے ساتھ ساتھ ہی تمام خوابیدہ جذبات اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور قرآن کی تائید میں اور اس کی حکمتوں کی تائید میں فطرت کا لفظ لفظ بولتا ہے..عجز اور انکساری کے ساتھ قرآن کریم کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی ضرورت ہے، اپنا سر جھکا دیں اور غور سے پڑھیں اور آیات کے تسلسل پر غور کریں تو حیران رہ جائیں گے کہ قرآن کریم کی آیات ایک
452 دوسرے سے اس طرح منسلک ہیں کہ پہلے انسان کے وہم میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ کس طرح تعلیم مسلسل آگے بڑھ رہی ہے اور ایک بات اگلی بات سے منسلک ہوتی چلی جارہی ہے یہ ڈوریاں ہیں جو آپس میں بٹی جا رہی ہیں.اور اس کا ایک علاج میں آپ کے سامنے یہ رکھ رہا ہوں کہ اگر آپ کو ایم ٹی اے کے ذریعہ سننا ممکن نہیں تو غالباً یہاں امریکہ میں ان قرآن کریم کی کلاسز کی ویڈیور ریکارڈنگ ہو چکی ہوگی.اگر ہو چکی ہے تو لازما گھروں کو مہیا کرنی چاہئے.یہ بھی کرتے ہیں اور کر سکتے ہیں کہ کسی ایک وقت ان میں ویڈیوز کو چلا دیا جائے مگر ہر ایک کے اوقات الگ الگ ہیں اور ضروری نہیں کہ ہر روز اس وقت وہ گھر ہی ہو سارا خاندان بھی کہیں سفر پر جا سکتا ہے.اس لئے لازم ہے کہ ان کا ریکارڈ اپنے گھروں میں رکھیں اور ترتیب کے ساتھ آپ سب لوگ مل جل کر بیٹھیں اور سننا شروع کریں.اگر اس دس سبق بھی آپ اس طرح پڑھ لیں گے تو پھر آپ کے لئے ان سبقوں سے الگ رہنا ممکن ہی نہیں رہے گا.طلب کریں گے کہ کب ہم اگلا سبق شروع کریں مگر پڑھیں اکٹھے اور بچوں کو ساتھ شامل کر کے پڑھیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو قرآن کریم کے متعلق روحانی دعوت ، فرمایا اور مزے مزے کے کھانے بتائے وہ آج بھی مل سکتے ہیں.صرف پڑھنے کا طریقہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں جو قرآن کریم کی محبت ڈالی ہے اس دور میں میں سمجھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہدایات پر عمل کروانے میں یہ محبت ضروری تھی اور جب اس کلاس میں آپ قرآن کریم کو پڑھیں گے تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اصل مقام ظاہر ہوگا.کتنے عظیم الشان معلم تھے.الفضل 24 /اگست 1998 ء )
453 خدمت خلق کے متعلق تحریکات بيوت الحمد قرآن کریم نے مذہب کا خلاصہ دو باتوں کو قرار دیا ہے.1.عبادت الہی.2.بنی نوع انسان سے ہمدردی خلافت رابعہ میں ان دونوں پہلوؤں نے تاریخی شکلیں اختیار کیں.حضور نے 10 ستمبر 1982ء کو سپین میں سات سو سال بعد اللہ کے پہلے گھر مسجد بشارت کا افتتاح فرمایا جو جماعت کے لئے انتہائی مسرت اور خوشی کا موقع تھا اور خدا تعالیٰ کی بے انتہا حمد کی گئی.حضور نے پاکستان واپسی پر 29 اکتوبر 1982ء کو بیت اقصیٰ ربوہ میں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے حمد باری تعالٰی کو مل شکل میں ڈھالنے کے لئے بیوت الحمد سکیم کا اعلان کیا.حضور نے فرمایا:.ساری دنیا میں جماعت احمد یہ اللہ کی حمد کے ترانے گا رہی ہے اور سب دنیا پر یہ حقیقت واضح کر رہی ہے کہ مسجد بشارت کی تعمیر کی جو تاریخ ساز سعادت ہمیں نصیب ہوئی.یہ محض ہمارے رب کی رحمانیت اور رحیمیت کے طفیل ہے اس نے ہمیں اس مہم کا آغاز کرنے کی توفیق بخشی اور اسی نے تعمیل کے مراحل تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائی یعنی جو کچھ بھی ہم نے کیا محض اس کی رحمانیت اور رحیمیت کے عظیم فضلوں کے تابع کیا ہمارے دل بھی اس ولولہ کو اور رحمن اور رحیم خدا کے احسانات کو بڑی شدت سے محسوس کر رہے ہیں اور اس کے احسانات کا تصور دل میں محبت کے طوفان اٹھا رہا ہے اور ہر احمدی کا دل پہلے سے بڑھ کر رحمن اور رحیم خدا کی محبت کا جوش محسوس کرتا ہے میں نے سوچا کہ حمد کی یہ دو شرطیں تو ہم نے پوری کر دیں.تیسری شرط کس طرح پوری کریں.یعنی اعمال میں اس حمد کو کس طرح جاری کریں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بہت سے مضامین مجھ پر روشن فرمائے جن کے نتیجہ میں یورپ میں بھی بعض اقدامات کئے گئے اور یہاں آ کر بھی ان اقدامات کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے.اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک ایسا مضمون بھی سمجھایا جس کا میں اب یہاں اعلان کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اللہ کے گھر بنانے کے شکرانہ کے طور پر خدا کے غریب بندوں کے گھروں کی طرف بھی توجہ کرنی
454 چاہئے.اس طرح یہ حد کی عملی شکل ہو گی جو ہم اختیار کریں گے اور اپنے اعمال سے گواہی دیں گے کہ ہاں واقعہ ہم اللہ کی اس رضا پر بہت راضی ہیں کہ اس نے ہمیں اپنا گھر بنانے کی توفیق بخشی.پس ہم اس کے غریب بندوں کے گھروں کی تعمیر کی طرف توجہ کر کے اس کے اس عظیم احسان کا عملی اظہار کریں گے.ہمارا فرض اور حق ہے کہ ان کے لئے کچھ نہ کچھ کریں.جتنی توفیق ہے.تھوڑی سہی تھوڑی کریں لیکن اللہ تعالیٰ کی حمد کا عملی صورت میں ایک یہ اظہار بھی کریں کہ ہم اس کے بندوں کے گھروں کی طرف کچھ توجہ دے رہے ہیں.ویسے تو یہ اتنی بڑی ضرورت ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی حکومتیں بھی اس کو پورا نہیں کر سکتیں.مگر مجھے اللہ کے فضل سے توقع ہے کہ چونکہ جماعت احمد یہ اس زمانہ میں وہ واحد جماعت ہوگی جو محض رضاء باری تعالیٰ کی خاطر یہ کام شروع کرے گی.اس لئے اللہ اس میں برکت دے گا اور کروڑوں روپوں کے مقابل پر ہمارے چند روپوں میں زیادہ برکت پڑ جائے گی اور اس کے نتیجہ میں جماعت کے غربا کا ایمان بھی ترقی کرے گا اور اللہ کے فضل بھی ان پر نازل ہوں گے.خطبات طاہر جلد اول ص 242,240 یہ خلافت رابعہ کی سب سے پہلی مالی تحریک تھی.حضور نے اس سلسلہ میں کم قیمت مکانوں کا نقشہ تیار کرنے کے لئے انجینئر ز میں مقابلہ کا اعلان بھی کیا.اللہ تعالیٰ نے اس تحریک کو غیر معمولی مقبولیت عطا فرمائی.سلسلہ کے مخلصین نے اس میں دل کھول کر حصہ لیا اور ذیلی تنظیموں اور مرکزی انجمنوں نے بھی اپنی بچت سے اس میں حصہ لیا.جلسہ سالانہ 1982ء پر حضور نے جماعت کو مطلع فرمایا کہ:.جماعت نے اس منصوبے کی طرف بڑی تیزی سے توجہ کی اور بعض دوستوں نے قربانی کے بڑے شاندار مظاہرے کئے.مثلاً اس وقت تک دو افراد نے ایک ایک لاکھ روپیہ دیا ہے.اس کے علاوہ میرے دل میں جن لوگوں کی قدر ہے ان میں خصوصیت کے ساتھ غربا ہیں ان میں سے بعض ایسے ہیں جن کو خود بھی مکان مہیا نہیں لیکن وہ اس منصوبے میں حصہ لے رہے ہیں اگر کسی کو سوروپیہ کی توفیق ہے تو وہ سو روپے پیش کر رہا ہے اگر کسی کے پاس اپنی ضرورت کے لئے بچائی ہوئی کل رقم دوسو رو پیتھی تو اس نے وہی پیش کر دی“.( الفضل 22 مئی 1983ء) 1983ء میں مسجد بیت الھدی آسٹریلیا کا سنگ بنیاد رکھا گیا تو حضور نے 11 نومبر 1983 ء کو پھر
455 اس تحریک کو دہرایا اور جماعت کو بتایا کہ گو اس تحریک پر زور نہیں دیا گیا تھا یہ عام تحریک تھی پھر بھی جماعت کو خدا تعالیٰ نے ساڑھے چودہ لاکھ روپے کے لگ بھگ رقم ادا کرنے کی توفیق دے دی.حضور نے اس سکیم کو مزید وسعت دینے کا ذکر کیا اور فرمایا کہ:.میں چاہتا ہوں کہ جلسہ جو بلی تک ہم کم از کم ایک کروڑ روپے کی لاگت سے مکان بنا کر غربا کو مہیا کردیں.خود حضور نے اپنا وعدہ دس ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ کر دیا.ایک سال کے اندراندر جماعت کے وعدے ایک کروڑ سے اوپر نکل گئے.ایک نوجوان کا تذکرہ کرتے ہوئے جلسہ 1983 ء پر حضور نے فرمایا:.میں ایک غریب کی قربانی کا ذکر بتاتا ہوں.ایک نوجوان بچہ ہے جو کہ سکول کا طالبعلم ہے وہ لکھتا ہے میری والدہ بیوہ ہے.وہ گھروں میں کام کرتی ہے نوے روپے ملتے ہیں میرے پاس کاپی خرید نے کے لئے پانچ روپے تھے جب میں نے بیوت الحمد کی آواز سنی تو میں وہ پانچ روپے آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.اللہ کی یہ جماعت ہے جو اس نے مسیح موعود کو عطا کی ہے.کوئی ہے اس کی نظیر دنیا میں“.الفضل 14 اپریل 1984 ء ) مورخہ 11 نومبر 1987ء کو بیوت الحمد منصوبہ کے تحت بیوت الحمد کالونی کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور آج الحمد للہ ربوہ میں بیوت الحمد کا لونی ربوہ میں سینکڑوں لوگ سکونت پذیر ہیں اور کالونی میں 100 کوارٹرز کے علاوہ ایک مسجد، سکول اور خوبصورت پارک بھی موجود ہے.اس سکیم کے تحت سینکڑوں افراد کو تعمیر مکان کے لئے لاکھوں روپے کی امداد دی جا چکی ہے.اس بیوت الحمد کالونی کے درمیان ایک خوبصورت پارک بھی بنایا گیا ہے.اسی طرح قادیان میں بھی غربا کے لئے کوارٹرز بنائے گئے ہیں.عید کے موقعہ پر غربا کے ساتھ سکھ بانٹنے کی تحریک حضور نے عید منانے کے انداز میں ایک غیر معمولی تبدیلی پیدا کرنے کی طرف جماعت کو توجہ دلائی.12 جولائی 1983 ء کو حضور نے خطبہ عید الفطر میں فرمایا کہ جو لوگ عید کی لذتوں سے محروم رہتے
456 ہیں اس کی وجہ ان کی عید کی حقیقت سے ناواقفیت ہے.عیدالفطر دراصل شجر رمضان کا ایک شیریں پھل ہے.رمضان کے دو بڑے گہرے سبق ہیں.عبادت الہی اور بنی نوع انسان کے ساتھ سچی ہمدردی.پس عید کا حقیقی سرور حاصل کرنا ہے تو عبادت پر زور دیں اور دوسرے غربا کے دکھ میں شریک ہوں اور اپنے سکھ ان کے ساتھ تقسیم کر یں.اس کی عملی شکل بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.آج عید کی نماز کے بعد ضروری امور سے فارغ ہو کر اگر وہ لوگ جن کو خدا نے نسبتا زیادہ دولت عطا فرمائی ہے زیادہ تمول کی زندگی بخشی ہے وہ کچھ تحائف لے کر غریبوں کے ہاں جائیں اور غریب بچوں کے لئے کچھ مٹھائیاں لے جائیں بچوں کے لئے جو ٹافیاں یا چاکلیٹ آپ نے رکھے ہوئے ہیں وہ لیں اور بچوں سے کہیں آؤ بچو آج ہم ایک اور قسم کی عید مناتے ہیں.ہمارے ساتھ چلو ہم بعض غریبوں کے گھر آج دستک دیں گے.ان کو عید مبارک دیں گے.ان کے حالات دیکھیں گے اور ان کے ساتھ اپنے سکھ بانٹیں گے“.اس طرح اگر آپ غریب لوگوں کے گھروں میں جائیں گے اور ان کے حالات دیکھیں گے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ بعض لوگ ایسی لذتیں پائیں گے کہ ساری زندگی کی لذتیں ان کو اس لذت کے مقابل پر بیچ نظر آئیں گی اور حقیر دکھائی دیں گی کچھ ایسے بھی واپس لوٹیں گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہوں گے اور وہ استغفار کر رہے ہوں گے.ان آنسوؤں میں وہ اتنی لذت پائیں گے کہ دنیا کے قہقہوں اور مسرتوں اور ڈھول ڈھمکوں اور بینڈ باجوں میں وہ لذتیں نہیں ہوں گی.ان کو بے انتہا ابدی لذتیں حاصل ہوں گی اور زائل نہ ہونے والے بے انتہا سروران کو عطا ہوں گے.یہ ہے وہ عید جو محمد مصطفی ﷺ کی عید ہے یہ ہے وہ عید جو در حقیقت سچے مذہب کی عید (الفضل 26 جولائی 1983ء) 66 ہے.اس تحریک پر لبیک کہتے ہوئے جماعت نے خوشیوں کے نئے چمن دریافت کئے ہیں اور بہت سے احباب ذاتی تجربات کے ذریعہ حضور کے فرمان کی سچائی کے گواہ بن چکے ہیں.تحریک کے اثرات اور بیویوں سے حسن سلوک کی تاکید اس تحریک کے ثمرات کا ذکر کرتے ہوئے اور بیویوں سے حسن سلوک کی تاکید کرتے ہوئے خطبہ
457 جمعہ 5 اپریل 1992ء میں فرمایا:.ایک دفعہ عید کے موقع پر میں نے یہ نصیحت کی تھی کہ بچی عید تو وہی ہوتی ہے جس میں خوشیوں والا اپنی خوشیوں میں دوسرے کو شریک کرے اور کسی کا دکھ اس طرح بانٹے کہ اس کے دکھ میں کمی واقع کرے اس کی کچی ہمدردی محسوس کرے اور غریبوں کے ساتھ اپنی خوشیاں ملا دے.ان کی خوشیوں کا معیار بلند کر دے خواہ اس میں اپنی خوشیاں کچھ کم ہی کرنی پڑیں.اس نصیحت کو جماعت نے بہت ہی عمدہ طریقے پر قبول فرمایا اور ساری دنیا میں ہماری عید کی خوشیوں کے ساتھ یہ مضمون داخل ہوا.بہت سے لوگ بعد میں بھول گئے لیکن بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے اس کو یا درکھا ہوا ہے اور اکثر عید کے بعد مجھے خطوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ بھی اس نصیحت کو یادر کھے ہوئے ہیں اور اس پر مستقل عمل کر رہے ہیں ان کی عید عام عیدوں کے مقابل پر بہت ہی زیادہ پُر لطف اور عظیم روحانی کیفیات کی حامل ہو جاتی ہے اور ہمیشہ لکھنے والے لکھتے ہیں کہ جب ہمیں یہ بات یاد آتی ہے اور تلاش کر کے محلے والوں کے پاس پہنچتے ہیں.اپنی خوشیاں غریبوں کی خوشیوں میں ملانے کی کوشش کرتے ہیں.ان کے بچوں کے لئے کوئی تحفہ لے کر جاتے ہیں.گھر میں کوئی اچھا کھانا پہنچا دیتے ہیں تو جو کیفیت ہم دیکھتے ہیں وہ ایک ایسی عظیم جزا ہے کہ اس کی کوئی مثال نہیں ہے.دنیا کی کوئی دوسری لذت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.بعض خطوں میں ایسے دردناک نظارے ہوتے ہیں جو خوشی کی دردناکیاں ہیں.خوشی سے بھی تو آنسو آ جایا کرتے ہیں.مجھے ایک خط کا مضمون یاد ہے.جس میں وہ کہتے ہیں کہ جب ہم ایک غریب کے گھر پہنچے تو ان کے ہاں واقعی ضرورت تھی.ایسی عید منارہے تھے کہ جس میں کھانے کی کوئی اچھی چیز تھی.نہ گوشت تھا نہ کوئی اور چیز.نہ کپڑے تھے ، کہتے ہیں وہ واری واری جاتے تھے.دعا بن گئے بار بار کہتے تھے کہ یہ کیا واقعہ ہو گیا.اللہ کی شان کہ آپ ہماری ضرورتیں لے کر پہنچے اور ہماری عید ہوگئی.ہمارے بچوں کی عید ہو گئی.اس طرح دعائیں بے اختیار ان کے دلوں سے نکلتی تھیں.انہوں نے کہا کہ ساری عمر کی عیدوں کا اتنا مزا نہیں آیا جتنا اس ایک عید کا مزا آ گیا تو میں اس نصیحت کو بھی دوبارہ یاد کراتے ہوئے آج ایک اور نصیحت کا اضافہ کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اپنی بیویوں سے حسن سلوک کیا کرو.ہر سچے احمدی کو ایک نصیحت: ایسی بیویاں جو خاوندوں کے ظلموں تلے زندگی بسر کرتی ہیں وہ بے بس اور بے اختیار ہوتی ہیں اور
458 ان کی زندگیاں بڑی کرب کی حالت میں بسر ہوتی ہیں.خاوند بدخلق ہو.چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھنا تو درکنار، بدزبانی سے کام لے.تنگیاں دے طعنے دے اور اس غریب کے ماں باپ کو بھی تکلیف دے.آزار دے، پر آزار باتیں کر کے اس کے دل کو چھلنی کر دے.ایسا خاوند اپنی بیوی کے لئے مسلسل عذاب کا موجب بنا رہتا ہے اور وہ مجبور و بے اختیار کچھ نہیں کرسکتی.اگر کوئی سچا احمدی ہے، میری بات سن رہا ہے اور میری بات کا اس کے دل پر اثر ہو سکتا ہے تو اس عید کے وقت میں اسے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی زندگی میں ایک انقلاب برپا کرے.پھر اسے کچی عید نصیب ہوگی.ایک مظلوم لڑکی جو کسی کی بیٹی ہے، کسی کے ناز کی پالی ہوئی بیٹی ہے کسی اور کے گھر میں جا کر اس کے رحم و کرم پر آجائے اور اسے ظلم کا نشانہ بنایا جائے یہ بہت بڑا گناہ ہے کوئی معمولی گناہ نہیں ہے.ایسا شخص اگر باز نہیں آئے گا تو اسے عذاب الیم کی خوشخبری دیتا ہوں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ مرنے کے بعد اس کی زندگی درد ناک عذاب میں مبتلا ہوگی.اس دنیا میں بھی اگر ہوش آ جائے تو ہوش آنے پر انسان کو بہت تکلیف ہوتی ہے.خدا کرے یہ عید ہمیں نصیب ہو تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اسلام کی فتح کی عید بھی اس عید کے ساتھ گہرا تعلق رکھتی ہے.اگر احمدی معاشرہ گھروں کو جنت نشان بنا دے گا تو خدا کی قسم ! آپ ضرور غالب آئیں گے اور دیر کی بجائے جلد غالب آئیں گے.کیونکہ یہی وہ عملی نمونہ ہے جس کی آج دنیا منتظر ہے اور سوائے احمدی گھروں کے کسی اور گھر سے یہ ان کو نصیب نہیں ہو سکتا.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.(الفضل 17 جون 1992ء) غریبوں میں تحائف کی تحریک 1999ء میں حضور نے غربا کو عید کی خوشیوں میں شامل کرنے کی تحریک میں ایک اور اضافہ کیا اور 19 جنوری 1999ء کے خطبہ عید الفطر میں فرمایا:.عید کی خوشیوں کو کس طرح منایا جاتا ہے؟ اس سلسلہ میں میں نے گزشتہ سال جماعت کو نصیحت کو تھی کہ غریبوں کی عید بنائیں اور اپنی عید منائیں.جب آپ غریبوں کی عید بنائیں گے تو اللہ آپ کی عید بنا دے گا اور سچی عید کی خوشی تبھی نصیب ہوگی جب آپ غریبوں کے دکھ درد میں شامل ہو جائیں اور جہاں تک خدا توفیق عطا فرماتا ہے ان کی عید بنانے کی کوشش کریں.اسی ضمن میں اس سال ایک نئی تحریک
459 میں نے یہ کی تھی کہ عیسائی دنیا عیسائی بچوں کو اپنے کرسمس کے تھنے بھیج رہی ہے.اگر چہ ہم اس طرح تحفے بنا نا کر تو نہیں دیتے مگر اس سے بہت زیادہ بنی نوع انسان کی خدمت اس رنگ میں کر رہے ہیں کہ ہم گھر گھر جاتے ہیں اور اپنے ماحول میں غریبوں کی عید بنانے کی کوشش کرتے ہیں.مگر اس دفعہ میں نے یہ نئی ہدایت کی تھی کہ دور کے ملکوں میں پھیلے ہوئے غریب مسلمان بچوں کے لئے جن میں سے بھاری اکثریت غیر احمدی بچوں کی ہے لیکن مسلمان ہیں، رسول اللہ ﷺ کو مانتے ہیں اور آپ ہی کے نام پر وہ عید کی خوشیوں میں شامل ہورہے ہیں ان کے لئے بھی پارسل بنا بنا کر مختلف تھے بھیجیں، کچھ نقدی ساتھ ڈالیں تا کہ ان کو خوشی ہو کہ ہمارا بھی کوئی پرسان حال ہے اور رسول اللہ ﷺ کی خاطر ان کا پرسان حال جماعت احمد یہ ہوگی.اس پہلو سے جو نصیحت کی تھی مجھے بے حد خوشی ہے کہ خدا تعالیٰ کے ضل سے اس پر جماعت نے بہت عمدگی سے عمل کیا ہے اور باقاعدہ مرکز سے مشورے کے بعد اس قسم کے تھے یا براہ راست بھجوا بھی دیئے یا ہم سے پوچھ کر اس کا متبادل طریق اختیار کیا.بہر حال یہ تھے اب ہر جگہ تقسیم ہو چکے ہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ لاکھوں ایسے ہوں گے جنہوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے.اس کے بعد حضور نے نمونہ کے طور پر مختلف ممالک کی جماعتوں کی طرف سے دیئے جانے والے تحائف کی تفصیل بیان کی جس کا خلاصہ یہ ہے.1.انگلستان نے 93,300 پاؤنڈ کے تحائف تقسیم کئے.2.جرمنی نے 1250 پیکٹ البانیہ روانہ کئے.2 ہزار گھروں کے بچوں میں عیدی کی رقم تقسیم کی.کل خرچ 51 ہزار مارک ہے.3 کینیڈا میں 14,500 کینیڈین ڈالرنقدی اور ایک کنٹینر بوسنیا کے لئے بھجوایا.4.امریکہ نے 5900 ڈالر نقدی اور 950 ڈالر کے تحائف تقسیم کئے.5.فرانس نے 40 افراد اور 10 بچوں کے لئے تحائف بھجوائے.(خطبات طاہر.عیدین ص 321) اس تحریک پر فوری طور پر لبیک کہتے ہوئے صرف 1999ء میں مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کی طرف سے 10 ہزار مستحقین میں دس لاکھ روپے کے اخراجات سے تحائف تقسیم کئے گئے.الفضل 12 مارچ 1999 ء )
460 اسی طرح دیگر تنظیموں نے بھی بھر پور خدمت کا حق ادا کیا.اس کی کسی قدر تفصیل الفضل 9 فروری اور 4 مارچ 1999ء میں موجود ہے.انفرادی خدمت کا دائرہ اس کے علاوہ ہے.یہ سلسلہ بھی مستقل اہمیت اختیار کر گیا ہے.اسیران کی خدمت کی تحریک حضور نے 4 دسمبر 1987ء کومسجد فضل لندن میں نظام شفاعت پر ایک پر مغز اور روح پرور خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور بتایا کہ انسان فرشتوں کے ساتھ ان کی صفات اور کاموں میں ہم آہنگی پیدا کر کے تعلق قائم کر سکتا ہے اور پھر وہ فرشتے اس فرد کے لئے خدا کے اذن سے اس کے حضور شفاعت کرتے ہیں.خطبہ کے آخر پر فرمایا:.اس پہلو پر غور کرتے ہوئے مجھے اسیران راہ مولیٰ کا خیال آیا.بہت دعائیں کی ہیں ان کے لئے.ساری جماعت دعائیں کر رہی ہے اور دلوں میں بہت درد ہے اور ساری دنیا کی جماعت کے دلوں میں درد ہے اور ابھی تک ان کا ابتلا لمبا ہورہا ہے.مجھے اس شفاعت کے مضمون پر غور کرتے ہوئے خیال آیا کہ کیوں نہ ان کی خاطر ہم ہر دوسرے اسیر سے تعلق رکھنا شروع کر دیں.اسیران خواہ راہ مولیٰ کے ہوں یا کسی اور قسم کے ہوں.اسیران کی بہبود کے لئے کچھ نہ کچھ کریں تا کہ خدا کے فرشتوں سے ہمارا تعلق قائم ہو جائے.ان فرشتوں سے ہمارا تعلق قائم ہو جائے جن کو اسیری کے مضمون پر مامور فرمایا گیا ہے جو اسیروں کی رستگاری کا موجب بنا کرتے ہیں.خدا کے ہاں جو مختلف قوانین جاری ہیں ان میں ایک یہ بھی قانون ہے کہ غلامی کو دور کرنے کے لئے خدا کے بعض نظام جاری ہیں.ان کا دور بعض دفعہ ہزاروں سال کی حرکت کے بعد مکمل ہوتا ہے اور بعض دفعہ چھوٹی حرکتوں میں ان کا دور مکمل ہو جاتا ہے.لیکن یہ بھی اپنی ذات میں ایک بہت وسیع مضمون ہے.بہر حال یہ تو قطعی بات ہے کہ اسیروں کی رستگاری کا جو نظام ہے وہ بھی ایک معین نظام ہے اتفاقی حادثات کا نتیجہ نہیں اور اس میں خدا کے بعض فرشتے ملاء اعلیٰ پر مامور ہیں.ان کے تابع ان گنت فرشتے بعض دوسرے کام کر رہے ہیں.تو ہم ان کے لئے دعائیں تو کرتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا
461 ان فرشتوں سے واقعتا تعلق ہے.ہم تو ان کے لئے دعائیں اپنی محبت کے نتیجہ میں کر رہے ہیں جو ہر احمدی کو دوسرے احمدی سے ہو چکی ہے اور یہ محبت اتنی بڑھ چکی ہے کہ ذی القربی کا مضمون اس میں آجاتا ہے.یعنی ہماری محبت اسی نوع کی ہو گئی ہے جیسے ماں کو بچے سے محبت ہوتی ہے.اس لئے ایک نفسانی تمنا بھی تو داخل ہوگئی.ہم مجبور ہیں.ہمیں اختیار ہی کوئی نہیں.ہم ان کے لئے غم کرنے اور دعائیں کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں.لیکن خدا کے کتنے اور بندے ہیں لکھوکھہا بندے ہیں جو اسیری کے دکھ سہہ رہے ہیں.ان میں مجرم بھی بہت ہوں گے کچھ معصوم بھی ہیں.بلکہ بعض ممالک میں تو خدا کے لاکھوں معصوم بندے ہیں.ان کی اسیری خدا کی خاطر نہیں اس لئے اجر کا بھی کوئی وعدہ نہیں.بڑے ہی مظلوم لوگ ہیں.جماعت احمدیہ کو اگر ساری دنیا میں اس طرف توجہ پیدا ہو اور جیل خانوں میں جو لوگ جاسکتے ہیں وہاں اسیروں سے رابطے پیدا کئے جائیں ان کے دکھ معلوم کئے جائیں.میں جانتا ہوں کہ سمندر میں قطرے کے برابر کوشش ہوگی.مگر ہمارے قطرے کے دائرے میں ہمارے مسائل تو حل ہو جائیں گے.جو ہمارا مقصد ہے وہ تو پورا ہو جائے گا.ایک اور مقصد بھی پورا ہوگا جس سے ہمارے اندر جلا پیدا ہوگی.ہماری انسانی قدریں پہلے سے زیادہ چمک اٹھیں گی.لیکن نیت یہ رکھیں کہ ہم اسیروں سے براہ راست تعلق قائم کریں تا کہ ان فرشتوں کی نظر میں آجائیں جو اسیری کے کاموں پر مامور ہیں اور جس طرح ہم نے عملاً دنیا میں مشاہدہ کیا ہے کہ جس خدمت کے کام پر کوئی خاص تعلق سے اپنے دائرہ خدمت کو سیع کرتا ہے خدا کے فرشتوں کالا زما اس سے تعلق قائم ہو جاتا ہے اور وہ اس کے حق میں معجزے دکھاتے ہیں.اس طرح خدا تعالیٰ کے وہ فرشتے جو اس کام پر مامور ہیں ہمارے ان بھائیوں کے لئے اعجاز دکھائیں اور اس حد تک آپ اس مضمون کو آگے بڑھائیں کہ یہ شفاعت کے مضمون میں داخل ہو جائے اور آسمان پر خدا کے فرشتے خدا کے حضور شفاعت کریں کہ راہ مولیٰ میں اسیری کے دکھ اٹھانے والوں کے دن اب آسان فرما دے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.(ماہنامہ خالد جنوری 1988ءص13) جماعت نے اس تحریک پر بھی لبیک کہا اور خصوصاً پاکستان کی جیلوں میں اسیران کی بہبود کے لئے کوششیں کی گئیں عیدین وغیرہ کے موقع پر ان کو خصوصی تحائف بھجوائے جاتے ہیں.
462 مصیبت زدگان کے لئے تحریکات ان اصولی اور دائمی تحریکات کے علاوہ آپ نے حسب حالات ہر خطہ ہائے ارض کے مصیبت زدگان کے لئے امداد کی تحریکات فرمائیں.مثلاً 9 نومبر 1984ء.افریقہ کے قحط زدگان کے لئے 17 اکتوبر 1986ء.ایل سلواڈور کے زلزلہ زدگان اور یتامیٰ کے لئے 18 جنوری 1991ء.افریقہ کے فاقہ زدہ ممالک کے لئے 26 اپریل 1991 ء.لائبیریا کے مہاجرین کے لئے 30 اکتوبر 1992ء.صومالیہ کے قحط زدگان کے لئے 29 جنوری 1993ء.بوسنیا کے آفت زدگان کے لئے 1992ء میں بوسنیا کی جنگ سے بے گھر ہونے والے لوگوں کے لئے جماعت نے غیر معمولی خدمت کی توفیق پائی.ان کے اہل خانہ کی تلاش کے لئے حضور نے احمد یہ ٹیلی ویژن پر خصوصی پروگرام نشر کر وائے نیز بوسنیا کے جہاد میں احمدیوں کو حتی الوسع حصہ لینے کی تحریک فرمائی.30 را کتوبر 1992ء کو حضور نے بوسنیا کے یتیم بچوں کی امداد اور 19 فروری 1993 ء کو بوسنین خاندانوں سے مؤاخات قائم کرنے کی تحریک فرمائی.جنوری 1995 ء میں جاپان کے شہر کو بے میں زلزلہ آیا جس میں حضور کے ارشاد کے تابع جماعت نے شاندار خدمات سرانجام دیں.اسی طرح اگست 1999ء میں ترکی اور 2001ء میں بھارت میں زلزلہ کے موقعہ پر جماعت نے ہر قسم کی امداد میں حصہ لیا.ہیومینیٹی فرسٹ کا قیام حضور نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اگست 1992ء بمقام بیت الفضل لندن میں جماعت احمدیہ کے زیر انتظام خدمت خلق کی ایک عالمی تنظیم قائم کرنے کا اعلان فرمایا.حضور نے فرمایا اب وقت آگیا ہے کہ جماعت احمد یہ عالمگیر سطح پر ریڈ کر اس وغیرہ کی طرز پر خدمت خلق کی ایک ایسی تنظیم بنائے
463 جو بغیر رنگ ونسل کے امتیاز کے انسانوں کی خدمت کرے.اس میں صرف احمدیوں کو ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے شریف النفس انسانوں کو شامل کیا جائے گا اور سب کی مالی مدد سے اس کو چلایا جائے گا.الفضل 30 راگست 1992 ء ) چنانچہ 1993ء میں ہیومینیٹی فرسٹ کے نام پر ایک بین الاقوامی تنظیم کا قیام عمل میں آیا.جواب تک 19 ممالک اور یو این او کے کئی اداروں میں رجسٹر ہو چکی ہے.(الفضل 10 مئی 2005ء) اس نے یورپ، افریقہ اور برصغیر کے آفت زدہ علاقوں میں خدمات کا آغا ز کیا.دنیا بھر میں آسمانی آفات کے موقعہ پر ریلیف کیمپ قائم کئے.افریقہ میں مستقل بنیادوں پر تعلیم کے فروغ ، غربت کے خاتمہ اور طبی میدان میں خدمات کا سلسلہ جاری ہے.حضور نے 30 مئی 1997 ء کے خطبہ میں یہ بھی تحریک فرمائی کہ احمدی خدمت خلق کرنے والی عالمی تنظیموں کے ممبر بنیں.ہیومینیٹی فرسٹ کی خدمات: گزشتہ چند سال میں ہیومینیٹی فرسٹ نے جو شاندار کارنامے انجام دیئے ہیں ان کا صرف خلاصہ پیش کیا جاتا ہے.1.جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق بعید کا علاقہ 2004ء میں سونامی کے تباہ کن طوفان کا نشانہ بنا.اس میں خدمات سرانجام دیں.برطانیہ میں انڈو نیشین ایمبیسی نے سرکاری طور پر ہیومینیٹی فرسٹ کو امداد جمع کرنے اور انڈونیشیا بھجوانے کا کام سپرد کیا.2.آغاز 2005 ء میں گیانا کے سیلاب میں خدمات.3.اگست ستمبر 2005ء میں امریکہ میں قطرینہ اور ریٹا نامی سمندری طوفانوں نے تباہی مچائی.4.1999ء میں ترکی کے زلزلہ زدگان کے لئے خدمات 5.بھارت کے صوبہ گجرات میں زلزلہ زدگان کی مدد.6.پاکستان میں 8 اکتوبر 2005 ء کے زلزلہ میں خدمات 7 - سیرالیون 1991ء میں شروع ہونے والی خانہ جنگی سے متاثر ہونے والوں کے لئے امدادی خدمات.
464 8.1993 بوسنیا کی جنگ اور مہاجرین کے لئے خدمات 9.گیمبیا میں 128 یکٹر پرمشتمل تعلیمی ادارہ کا قیام.طلباء کو وظائف.10.بورکینا فاسو، سیرالیون بین ، گھانا اور گیمبیا میں کمپیوٹر کی تعلیم کے مراکز کا قیام.عورتوں کو سلائی کی تربیت اور سلائی مشینوں کی تقسیم.11.برطانیہ اور افریقہ میں ایک خاندان کی نگہداشت پروگرام کے تحت خدمات.12.افریقہ میں آنکھوں کے علاج کی سہولت.سیرالیون میں ایک ہزار افراد کا علاج.13.مغربی افریقہ کے دور دراز علاقوں میں واٹر پمپس کا کام کیا جارہا ہے.(تفصیل کے لئے الفضل 20 ستمبر 2006 ء فضل عمر ہسپتال کے توسیعی منصوبے فضل عمر ہسپتال ربوہ خدمت خلق کا بہت بڑا ادارہ ہے.حضور نے کئی بار اس خواہش کا اظہار فرمایا که فضل عمر ہسپتال ربوہ ہر لحاظ سے دنیا میں اعلیٰ درجہ کا ہسپتال بن جائے.چنانچہ آپ کے دور خلافت میں ہسپتال کی عمارت اور سہولتوں میں بہت وسعت پیدا ہوئی.14 اکتوبر 1985 ء کو ہسپتال کے نئے تعمیراتی مرحلے کا افتتاح ہوا.31 جنوری 88ء کو نواب محمد الدین بلاک کا سنگ بنیاد رکھا گیا.نواب صاحب نے ربوہ کی تعمیر کی بہت اہم کردار ادا کیا تھا.4 مارچ 1991ء کو فضل عمر ہسپتال کی جدید لیبارٹری کا افتتاح ہوا.جس میں اب جدید ترین مشینری نصب کی جاچکی ہے.8 نومبر 1992ء کو ہسپتال میں نئے وارڈوں اور نرسز ہاسٹل کا افتتاح ہوا.جنوری، فروری 1994 ء میں شعبہ ریڈیالوجی کی نئی عمارت اور دونئے شعبوں ICU اور CCU کا افتتاح ہوا.21 مارچ 2002 ء کو ہسپتال میں واقع بیت یادگار کی تزئین نو کا افتتاح ہوا.20 فروری 2003ء کو فضل عمر ہسپتال میں زبیده بانی ونگ کا افتتاح ہوا جو خواتین کے علاج کے لئے بہت عمدہ اور جدید ترین سہولیات فراہم کرتا ہے.
465 آپ کی خواہش تھی کہ ربوہ میں دل کے علاج کے لئے بہت اعلیٰ درجہ کا ادارہ بنایا جائے.آپ کی یہ خواہش اور تمنا خلافت خامسہ میں پوری ہوئی اور طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ نے 15 ستمبر 2007 ء سے کام شروع کر دیا ہے.سیدنا بلال فنڈ الہی جماعتوں کے ساتھ ابتلا کا تعلق ایک لازمی تعلق ہے اور زندہ جماعتیں ابتلاؤں کے وقت گھبرایا نہیں کرتیں اور نہ ہی ابتلاء کے ایام میں اپنے زخمیوں، اسیروں اور جان کا نذرانہ دینے والوں سے منہ موڑا کرتی ہیں.اس عظیم الشان حقیقت کے پس منظر میں سیدنا بلال فنڈ کی تحریک کا آغاز ہوا.حضور نے فرمایا:.الہی جماعتوں کی زندگی کی ضمانت اس بات میں ہے کہ ان کے قربانی کرنے والوں کو اپنے پسماندگان کے متعلق کوئی فکر نہ رہے اور یہ حقیقت اتنی واضح اور کھلی کھلی ہے کہ ہر ایک کے پیش نظر رہنی چاہئے کہ ہم بطور جماعت کے زندہ ہیں اور بطور جماعت کے ہمارے سب دکھ اجتماعی حیثیت رکھتے ہیں.اگر کسی جماعت میں یہ یقین پیدا ہو جائے تو اس کی قربانی کا معیار عام دنیا کی جماعتوں سے سینکڑوں گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے.آپ نے سید نابلال فنڈ میں حصہ لینے والوں کے لئے فرمایا :.” جو شخص اس میں حصہ لے گا وہ اس بات کو اعزاز سمجھے گا کہ مجھے جتنی خدمت کرنی چاہئے تھی اتنی نہیں کی...اس لحاظ سے سب باتیں سوچنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا ہے اور آج اس تحریک کا اعلان (خطبہ جمعہ 14 مارچ 1986 ء ) | کرتا ہوں“.اس تحریک میں حضور نے اپنی طرف سے دو ہزار پاؤنڈ دینے کا اعلان فرمایا نیز بتایا کہ انگلستان کی جماعت کے ایک دوست پہل کر گئے ہیں کہ باقی تو اس کی بابت مشورے دیتے رہے لیکن انہوں نے ایک ہزار پاؤنڈ کا چیک بھیجوا دیا.9 جون 1986ء کو خطبہ عید الفطر میں حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے فرمایا کہ سیدنا بلال فنڈ کی تحریک میں نے کی تھی.جماعت نے والہانہ لبیک کہا.کئی اسیران کو اس فنڈ سے امداد دی گئی مگر انہوں نے
466 اسے واپس بلال فنڈ میں دے دیا اس لئے مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس طرح جماعت کی محبت کا تحفہ ان کو پہنچاؤں.پھر فرمایا:.قرآن کریم کی اشاعت کے اس پروگرام کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے میرا دل کھول دیا اور ایک بہت ہی پیارا خیال میرے دل میں پیدا ہوا کہ سیدنا بلال فنڈ سے ایک سو زبانوں میں ساری دنیا کو قرآن کریم کا یہ تحفہ پیش کیا جائے اور یہ سارے اسیر اور یہ سارے راہ مولیٰ میں تکلیف اٹھانے والے لازماً اس میں شامل ہو جائیں گے ان کی طرف سے دنیا کو یہ تحفہ ہوگا اس سے بہتر جواب ان کے اوپر مظالم کا اور الہی جماعتیں دے ہی نہیں سکتیں“.کفالت بیتامی کی تحریکات ( خطبات طاہر عیدین ص 60) حضور نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 17 اکتوبر 1986ء بمقام مسجد فضل لندن میں ایل سلواڈور میں آنے والے زلزلہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہاں جو تباہی آئی ہے اس کے نتیجہ میں بہت سے بچے یتیم ہو گئے ہیں اس لئے احباب جماعت کے افراد ان کی کفالت کی ذمہ داری لیں اور بیتامی کی حفاظت کریں.اس ضمن میں حضور نے بتایا کہ ایک مخلص احمدی نے چالیس لاکھ روپے دیئے ہیں کہ اس سے جماعت جس طرح چاہے یتیم خانہ کھولے.(ضمیمہ ماہنامہ تحریک جدیدا کتوبر 1986ء) جوبلی منصوبہ کے تحت سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے جنوری 1991ء میں کفالت یتامی کی ایک نہایت مبارک تحریک جاری فرمائی.اس تحریک کا نام کفالت یکصد یتامی کمیٹی رکھا گیا.اس تحریک میں خدا کے فضل سے مخلصین جماعت نے بشاشت قلبی کے ساتھ حصہ لیا اور دل کھول کر طایا پیش کئے اور اب بھی کر رہے ہیں.یہ تحریک مرکزی انتظام کے تحت ربوہ میں کام کر رہی ہے اور اگر چہ اس کا نام یکصد یتامی تھا لیکن یہ فیض خدا کے فضل سے جنوری 2008 ء تک 2500 بتامی تک پہنچ چکا ہے اور اس کمیٹی کی نگرانی میں یہ بچے نہ صرف اپنے اخراجات حاصل کر رہے ہیں بلکہ ان کی روحانی تربیت کا انتظام بھی اس کمیٹی کی نگرانی میں کیا گیا اور مربیان کرام پاکستان بھر کے احمدی یتیم بچوں کی دیکھ بھال اور نگرانی کے لئے دورے کرتے اور ان کی دینی و دنیاوی تعلیم کا جائزہ لیتے ہیں.اس تحریک پر احباب جماعت نے دل کھول کر لبیک کہا ہے اور یہ فیض جاری ہے جس کے ذریعہ سے
467 جہاں یتامی کی کفالت ہو رہی ہے وہاں یہ تحریک عطا یا دینے والے احباب کے لئے قرب الہی کا حصول پانے کا موجب بن رہی ہے.1989ء میں سلمان رشدی کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں بہت سے بچے یتیم ہو گئے.ور نے محض محبت رسول میں ان کی کفالت کا اعلان فرمایا (الفضل 5 اپریل 1989 ء ) اس کی تفصیل حضور کی دعوت الی اللہ کی تحریکات میں گزر چکی ہے.حضور نے 29 جنوری 1995ء کے خطبہ میں سیرالیون میں یتامی اور بیوگان کی خدمت کی طرف خصوصی طور پر جماعت کو متوجہ کیا.29 جنوری 1999ء کو حضور نے افریقن ممالک خصوصاً سیرالیون کے مسلمان یتامی اور بیوگان کی خدمت کی عالمی تحریک کی اور فرمایا یتامیٰ کو گھروں میں پالنے کی رسم زندہ کریں.5 فروری 1999 ء کو حضور نے عراق کے تیموں اور بیواؤں کے لئے خصوصی دعاؤں اور خدمت خلق کی تحریک فرمائی.مریم شادی فنڈ سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 21 فروری 2003ء بمقام مسجد فضل لندن میں غریب بچیوں کی شادی کے انتظامات کے لئے ایک فنڈ قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:.میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جن کی بیٹیاں بیاہنے والی ہیں اور انہیں مدد کی ضرورت ہے حسب توفیق اپنی طرف سے بھی کچھ ان کو پیش کرتا ہوں اگر میرے اندر اتنی توفیق نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدا تعالی کی جماعت غریب نہیں ہے بہت روپیہ ہے جماعت کے پاس ان کی بیٹیاں خیر و خوبی کے ساتھ اپنے گھروں کو روانہ ہوں“.الفضل 29 اپریل 2003 ء ) | حضور کی اس تحریک پر جماعت نے والہانہ لبیک کہا اور صرف ایک ہفتہ میں ایک لاکھ نو ہزار سے زائد پاؤنڈ ا کٹھے ہو گئے.بعض خواتین نے اپنے زیور پیش کر دیئے.اس فنڈ کا نام آپ کی والدہ ماجدہ کے نام پر مریم شادی فنڈ رکھا گیا اور حضور نے فرمایا ”امید ہے اب یہ فنڈ کبھی ختم نہیں ہوگا اور ہمیشہ غریب بچیوں کو عزت کے ساتھ رخصت کیا جا سکے گا“.(الفضل 6 مئی 2003ء)
468 احمدی شاعر عبدالکریم قدسی نے اس کا کیا خوبصورت نقشہ کھینچا ہے.ایک محبت کا ہے دریا مریم شادی فنڈ دریا وہ جو ختم نہ ہو گا مریم شادی فنڈ ہر اک مفلس زادی رخصت ہو گی عزت سے اک باعزت روشن رستہ مریم شادی فنڈ اجڑے پیڑے لوگوں پر رکھے شفقت کا ہاتھ سے کرے کفالت مریم شادی فنڈ خاموشی ایسی کوئی مثال نہیں ہے اس دنیا کے پاس ماں کا پیار اور باپ کی شفقت مریم شادی فنڈ غربا کی خدمت کا جذبہ: الفضل 2 اپریل 2003ء ) حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :.میں تو آپ سب کے بارے میں ہمیشہ پریشان رہتا ہوں.بیماری کی حالت میں بھی سب کے لئے دعائیں کرتا ہوں.جس حد تک ممکن ہے یتیموں ، غریبوں ، بیواؤں ، مسکینوں کی مدد کے لئے انتظام کرنے کی کوشش کرتا ہوں.کیونکہ سب پیسہ جماعت ہی کا ہے لیکن وہ پیسہ جو جماعت مجھے دے دیتی ہے ذاتی طور پر وہ بھی اب تمام کا تمام میں کی خدمت میں ہی لگا دیتا ہوں تا کہ شاید اسی طرح میری بخشش کا سامان ہو.آپ بھی میرے لئے یہی دعا کیا کریں.(الفضل 16 نومبر 1999ء) ہو میو پیتھی سے متعلق تحریکات جماعت احمدیہ میں ہومیو پیتھی کو متعارف کرانے کا سہرا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے سر ہے.آپ نے فروری 1923ء میں احمدی خواتین کو معلومات افزا لیکچر دیتے ہوئے ہو میو پیتھی کا تذکرہ فرمایا اور کئی احمدیوں کو اس طریق علاج کی طرف توجہ پیدا ہوگئی اور انہوں نے بیسویں صدی کے چوتھے عشرہ میں پرائیویٹ کلینک بھی کھول لئے.
469 وقف جدید کی ڈسپنسری: دسمبر 1959 ء میں ربوہ میں فضل عمر ہو میو پیتھک ریسرچ ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا جس کے صدر حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب تھے.1960ء میں آپ نے ہومیو پیتھی کی مفت ادویہ دینے کا سلسلہ شروع کیا.آغاز میں آپ نے یہ کام گھر میں جاری کیا.1968ء میں وقف جدید میں با قاعدہ ڈسپنسری کے قیام تک آپ تمام اخراجات خود برداشت کرتے تھے.وقف جدید میں آپ کے علاج سے ہزاروں مریض فیض یاب ہوئے اور آپ نے بہت سی بیماریوں کے متعلق نئے نئے تجربات کئے جن میں خدا نے آپ کو کامیابی عطا فرمائی (اس کی تفصیل آپ کی کتاب ہو میو پیتھی یعنی علاج بالمثل میں موجود ہے) ہومیو پیتھی کلاسز 1982ء میں منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد آپ نے خدمت خلق کا یہ سلسلہ مزید وسیع کر دیا سلسلہ میں ایک انقلابی موڑ اس وقت آیا جب آپ نے ایم ٹی اے پر 1994 ء میں ہو میو پیتھی کلاسز کا آغاز فرمایا.جس میں آپ نے نہایت سادہ زبان میں ہو میو پیتھی کے اصول وضوابط اور تجربات کا ذکر کیا اور گھروں میں بیٹھے ہوئے ہزاروں احمدی مردوزن ہومیو پیتھی کی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے لگے اور گھر گھر میں ہومیوڈ سپنریاں کھل گئیں اور احمدی نہ صرف اپنی ضروریات پوری کرنے لگے بلکہ فیض کا یہ سلسلہ بیرونی احباب تک وسیع ہو گیا اور کثرت کے ساتھ فری ہو میو ڈسپنسریاں قائم ہونے لگیں.آپ نے ضروری دواؤں کے باکسز بنا کر کئی ممالک میں بھجوائے اور گشتی ڈسپنسریاں وجود میں آگئیں.آپ نے متعدد خطبات و خطابات میں ایمان افروز تجربات بیان کئے.جس سے احمدیوں کو مزید تحریک ہوئی.صفت رحمانیت کے تحت قائم ڈسپنسریاں: خطبہ جمعہ 23 اگست 2001ء میں آپ نے ہومیوڈسپنسریوں کے قیام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.خدا تعالیٰ نے صفت رحمانیت کے تابع جو شفا کا مضمون پیدا کیا ہے جس کا ذکر حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں ان میں ایک ہومیو پیتھی شفا کا نظام بھی ہے اور یہ الہی نظام شفا کے قریب تر ان معنوں میں
470 ہے کہ اس کی اتنی باریکیاں ہیں کہ ان پر غور کرنے سے انسان خدا کی ہستی کا لازماً قائل ہو جاتا ہے.نا ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کے بغیر یہ شفا کا مضمون سکھایا جاتا.بہر حال اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے مجھے اس مضمون پر کام کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.ہومیو پیتھک علاج کے لئے تحقیق ہونی چاہئے پورے غور وفکر کی ضرورت ہے.اس کے دوحل ہیں.ایک تو یہ کہ جو میری کتاب ہے ہو میو پیتھی کی وہ آپ خود لے لیں اور اس میں اشارے موجود ہیں ان کو دیکھ کر خود اپنا مطالعہ کریں.سب سے بہتر علاج انسان خود کر سکتا ہے جو جانتا ہے کہ مجھے کیا بیماری ہے لیکن جن کو یہ سلیقہ نہیں اور اکثر کو نہیں ہے، بہت مشکل کام ہے کہ ہو میو پیتھک علاج کرنے کے لئے کوئی خود کتاب سے فائدہ اٹھا سکے.اس لئے ان کے لئے دنیا بھر میں خدا تعالیٰ کی رحمانیت کی مظہر ڈسپلنریاں قائم کر دی گئی ہیں جو بلا مبادلہ کام کرتی ہیں.اس کثرت سے ڈسپنسریاں قائم ہیں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ اب دنیا میں کتنی بیشمار ڈسپنسریاں قائم ہیں جو بنی نوع انسان کا علاج کرتی ہیں مگر محض رحمانیت کے طور پر.اس کا کوئی متبادل نہیں لیتیں، مفت کی ڈسپنسریاں ہیں اور ان میں لوگ وقف ہیں...اب میں آپ کے سامنے ایک مختصر فہرست رکھتا ہوں کہ کس کثرت کے ساتھ دنیا میں احمدیت کے طفیل مفت علاج کی سہولتیں موجود ہیں.ہندوستان ، جرمنی، امریکہ، کینیڈا غرضیکہ دنیا بھر کے ممالک میں یہ ڈسپنسریاں کام کر رہی ہیں.اب امراء کا فرض ہے کہ وہ احباب جماعت کو واقفیت کروائیں.اب امریکہ سے، لاس اینجلس سے جو خط آتے ہیں کہ میرا علاج کریں وہیں لاس اینجلس میں ہی ہمارے مربی موجود ہیں جو ہومیو پیتھک علاج کر سکتے ہیں.اڑیسہ سے خط آتا ہے وہاں بھی نظام جماعت مقرر ہے کوئی نہ کوئی ہو میو پیتھک ڈسپنسری موجود ہے جو بلا مبادلہ ان کی خدمت کے لئے تیار ہے.اب ربوہ میں تو کثرت سے ہیں اور ربوہ سے بھی خط آتے ہیں.عجیب بات ہے کہ ان کو یہ نہیں پتہ کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں ہو میو پیتھک کلینک با معاوضہ بھی موجود ہیں، بہت سے معاوضہ لے کر کرتے ہیں لیکن جماعت کی طرف سے مفت علاج کی اتنی سہولتیں ہیں کہ دنیا کے کسی شہر میں یہ سہولتیں نہیں ہوں گی..ملک کے امیر کا فرض ہے کہ وہ تمام جماعتوں کو مطلع کرے کہ آپ کے قریب ترین کون سی ڈسپنسری ہے جس سے آپ استفادہ کر سکتے ہیں اور اگر اس شہر میں نہیں ہے تو شہر بتائیں کہ
471 کس جگہ جائیں کیونکہ ان کو لازماً پھر وہاں جانا پڑے گا اور ہومیو پیتھک ڈاکٹر موجود ہو گا جو ان کو دیکھ کر پوری تحقیق کرنے کے بعد پھر ان کے لئے علاج تجویز کر سکتا ہے.اب مختصراً میں آپ کو بتا دیتا ہوں.ہندوستان میں مجموعی طور پر 70 کے لگ بھگ ڈسپنسریاں کام کر رہی ہیں جن میں قادیان میں تین، پنجاب میں چھ، ہماچل پردیش میں ایک، ہریانہ میں چار راجستھان میں تین ، آندھرا پردیش میں دو صوبہ جموں و کشمیر میں دس، گجرات میں ایک، یوپی میں تین ، کیرالہ میں چھ، تامل ناڈو میں دو، مدراس میں دو، بنگال میں سولہ، آسام میں چار ، اڑیسہ میں دو.یہ ساری ڈسپنسریاں وہاں کام کر رہی ہیں اور مفت علاج کر رہی ہیں..تمام امراء صوبائی وضلع یہ ذمہ داریاں اپنے اوپر ڈال لیں کہ ہر احمدی کو معلوم ہو جانا چاہئے کہ (الفضل 16 اکتوبر 2001ء) ڈسپنسری کہاں ہے اور کیسے کام کر رہی ہے.ظاہر ہومیو پیتھک ہسپتال: وقف جدید کی چھوٹی سی ڈسپنسری سے جن فری ہومیوڈسپنسریوں کا آغاز ہوا تھا اس کی ایک ترقی یافتہ شکل ” ظاہر ہومیو پیتھک ہسپتال اینڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ ہے جو حضور کی اجازت اور ہدایت سے قائم ہوا اور اس میں ماہانہ ہزاروں مریضوں کا علاج مفت کیا جاتا ہے.مارچ 2007 ء کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 6 سالوں میں پاکستان بھر اور باقی دنیا سے آنے والے پانچ لاکھ اکیاسی ہزار پانچ سو تر بین مریضوں کا بلا معاوضہ علاج کیا گیا.ان میں ربوہ اور پاکستان کے دیگر 198 شہروں سے آنے والے چار لاکھ چھیالیس ہزار چارسو پچاس اور 40 مختلف ممالک سے آنے والے پانچ ہزار چار سو پچپن مریض شامل ہیں.مریضوں کو بذریعہ کوریئر سروس ادویات بھجوانے کا بھی کوئی معاوضہ نہیں لیا جاتا.ظاہر ہومیو پیتھک ہاسپٹل اینڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی تعمیر کے لئے حضرت خلیفہ امسح الرابع نے دار الرحمت ربوہ میں چھ کنال آٹھ مرلے پر مشتمل قطعہ عنایت فرمایا.اس پر تعمیر ہونے والی عمارت بیسمنٹ ت چار منزلوں پر مشتمل ہوگی.اس میں دو بڑے ویٹنگ رومز، استقبالیہ، رجسٹریشن سیکشن ، ریکارڈ روم اور OPD کے علاوہ کلینیکل لبارٹریز بھی ہوں گی.نیز چار وارڈ ز ، ICU، پرائیویٹ رومز کے علاوہ ریسرچ لیبارٹریز، میوزیم اور جدید ساؤنڈ سسٹم کے ساتھ ایک بڑا کانفرنس ہال ہوگا.دیگر
472 سہولیات میں لفٹ، ایئر کنڈیشننگ اور بجلی کے متبادل انتظام کے لئے ہیوی جنز یر بھی شامل ہیں.خدا کے فضل سے طاہر ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں گزشتہ پانچ سالوں میں اب تک 20 نئی ادویات تیار ہو چکی ہیں جن کی وسیع پیمانے پر پر دونگ اور تجربات جاری ہیں.ادویات کی بڑے پیمانے پر تیاری کے لئے ایک جدید فارمیسی بھی بنائی جارہی ہے.نیز ایک ہومیو پیتھک کالج بھی اس نئی عمارت میں قائم کیا جائے گا.نصرت جہاں ہومیو پیتھک کلینک لجنہ اماءاللہ ربوہ نے حضور کی اجازت سے ہومیو پیتھک کلینک قائم کیا جس کا باقاعدہ افتتاح 30 دسمبر 1996ء کو ہوا.جہاں علاج مکمل طور پر فری ہوتا ہے.19 فروری 2003 ء کو اس کی نئی عمارت کا سنگ بنیا د رکھا گیا اس وقت تک 77247 مریض استفادہ کر چکے تھے.ان مریضوں میں سے ایک ( الفضل 29 مارچ 2003ء) (الفضل 27 اپریل 2005ء) بڑی تعداد غیر از جماعت کی ہوتی ہے.اس کلینک کا افتتاح 16 اپریل 2005 ء کو ہوا.ہمہ گیر اور ہمہ جہت فیضان: ہومیو پیتھی کا فیضان جو حضرت خلیفہ المسیح الرابع کے دست مبارک سے جاری ہوا وہ کئی جہتوں اور سمتوں پر محیط ہے.چنانچہ اس فیضان کے ذریعہ کئی روحانی مسائل کو سمجھنے میں مدد ملی.علاج معالجہ عام آدمی کی بھی دسترس میں آگیا اور مہنگے علاج سے نجات ملی.عالمی سطح پر پھیلنے والی امراض سے بچنے کے لئے علاج کی طرف راہنمائی ہوئی.ایٹمی تباہ کاریوں سے بچنے کے لئے علاج اور حفاظتی ادویات کے بارے میں آپ نے ہدایت فرمائی.ہومیو پیتھی کا احیاء نو ہوا.صحیح ہو میو پیتھک فلسفہ کی ترویج ہوئی.جدید تحقیقات کی روشنی میں ہومیو پیتھک طریق علاج کا کردار واضح ہو کر ابھرا.ہومیو پیتھی میں کئی نئی ادویات کا آپ کے ذریعہ اضافہ ہوا.آپ نے ہومیو پیتھی کو اتنا آسان فہم بنا دیا کہ گھروں میں بھی عام امراض کا علاج ہونے لگا اور چھوٹی چھوٹی بات پر ہسپتال بھاگنے سے نجات ملی.کئی افراد ہو میو پیتھی کی طرف آئے اور اس شعبہ میں ترقی کر کے انہوں نے اپنے مالی حالات بہتر کئے.تحقیقات کی تحریک: فی پر آپ کا بہت بڑا احسان یہ ہے کہ آپ نے اس کی تحقیقات کے لئے رستے کھول دیئے
473 ہیں اور کئی نئی ادویات کی آزمائشیں لیں.ہومیو پیتھی میں تحقیقات کے سلسلہ میں کئی ایک میدانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ احمدی ہو میو پیتھس کو ان ان میدانوں میں تحقیقات کرنی چاہئیں.خواہش اور دعا: حضور نے فرمایا:.” میری خواہش ہے کہ ساری دنیا میں احمدی روحانی طور پر بھی شفا پہنچانے والے بن جائیں اور جسمانی طور پر بھی اور یہ دونوں شفاؤں کا ٹھیکہ احمدیت کو مل جائے.اللہ نے تو دے دیا ہے اب ہم نے اس ٹھیکہ کا ٹھیکہ دار خود بننا ہے.اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے“.(الفضل 12 اکتوبر 2007ء) خدمت خلق کے چند متفرق ادارے بلڈ بینک اور آئی بینک: حضرت خلیفہ المسیح الرابع کی اجازت سے خدام الاحمدیہ پاکستان نے پہلے 20 جولائی 1994 ء کو احاطہ بیت المهدی گولبازار ربوہ میں مرکز عطیہ خون قائم کیا.بعد ازاں احاطہ ایوان محمود میں اس کارخیر کے لئے ایک مستقل عمارت تعمیر کرنے کی توفیق پائی.پھر کام میں مزید وسعت پیدا ہوگئی.عطیہ خون کے ساتھ ساتھ عطیہ چشم کی نہایت کارآمد تحریک بھی حضور کی منشاء اور اجازت سے نومبر 2000ء میں مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان نے شروع کی جس کا بنیادی مقصد کارنیا ( آنکھ کے بیرونی دے) کی بیماری کا شکار نابینا افراد کو بینائی فراہم کرنا ہے جس کے تحت اب تک 14 ہزار سے زائد احباب جماعت عطیہ چشم کی وصیت کر کے باقاعدہ آئی ڈونرز بن چکے ہیں.گزشتہ پانچ سالوں میں کارنیا کی پیوند کاری کے کل 99 آپریشنز ہو چکے ہیں جن کے مجموعی نتائج تسلی بخش ہیں.اس کے علاوہ ہیموفیلیا اور تھیلیسیمیا کے بعض مریضوں کا مفت علاج کیا جارہا ہے.نیز ہر ماہ تقریباً 35 فیصد مریضوں کا علاج اور ٹیسٹ مفت کئے جاتے ہیں.اللہ کے فضل سے فضل عمر ہسپتال کے بالمقابل ایک وسیع ، خوبصورت اور تمام جدید سہولتوں سے آراستہ تین منزلہ عمارت کی تعمیر کی گئی ہے جو بلڈ اینڈ آئی بینک کے لئے استعمال ہو رہی ہے.اس عمارت میں لیبارٹریز ، ڈونر امیر یا، ڈاکٹر رومز، لاؤنج، کچن، ٹک شاپ
474 مین ہال، ایک گیراج برائے ایمبولینس، جنریٹر روم، ایک آپریشن تھیٹر ، نرسنگ آفس ، آئی ہسپتال جس میں دو عدد آئی وارڈ نور آئی ڈونرز ایسوسی ایشن کے دفاتر مسجد ، کانفرنس ہال تھیلیسیمی سنٹر اور دو کوارٹرز کے علاوہ کئی جدید سہولیات موجود ہیں.اس کا نام حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نورالعین دائرة الخدمت الانسانیہ عطا فرمایا ہے.دار الصناعة: ایک لمبے عرصہ سے ربوہ میں بے روز گار خدام کو ہنر سکھانے کے لئے کسی مستند ادارے کی ضروت محسوس کی جارہی تھی.جس کی سفارشات چند سال قبل مرکزی مجلس شوری نے بھی حضرت خلیفہ اسیح الرابع کی خدمت میں پیش کی تھیں.اس پر حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ناظر اعلی (خلیفه اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) کی خواہش پر مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کے زیرا ہتمام ایک ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کا قیام عمل میں لایا گیا.جس کی منظوری حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے عطا فرمائی اور از راہ شفقت اس ادارے کا نام ”دار الصناعة “ رکھا.فوری ضرورت کے تحت 5 فروری 2004ء کو ایک عمارت کرایہ پر حاصل کر کے کام کا آغاز کیا گیا.دار الصناعة ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کو مستقل بنیادوں پر جاری رکھنے کے لئے محلہ دارالفضل میں 10 کنال اراضی حاصل کی گئی ہے.جس پر انشاء اللہ جلد ہی ایک وسیع و عریض عمارت تعمیر کرنے کا ارادہ ہے.اسی عمارت میں انشاء اللہ بیرون از ربوہ طلباء کی رہائش کے لئے ہوٹل کا بھی انتظام ہوگا.فی الحال عارضی طور پر ایک گھر کرایے پر حاصل کر کے ضرورت پوری کی جارہی ہے.اب تک ادارہ سے 345 طلباء مختلف ہنر سیکھ کر فارغ ہو چکے ہیں.اس وقت 83 طلباء مختلف سیکھ رہے ہیں.اس وقت ادارہ میں آٹو مکینک ، آٹو الیکٹریشن ، جنرل الیکٹریشن ، وڈورک، ریفریجریشن ، ایئر کنڈیشننگ ، پلمبنگ ، ڈرائی کلینگ اور کوکنگ کے ہنر سکھائے جارہے ہیں.آٹو مکینک کے طلباء کی عملی تربیت کے لئے فائر سٹیشن کی بلڈنگ میں ایک آٹو ورکشاپ قائم کی گئی ہے جس میں تجربہ کار ماہرین کی نگرانی میں مختلف ادارہ جات کی گاڑیوں کے علاوہ پرائیویٹ گاڑیوں کی مرمت بھی کی جاتی ہے.یہ ورکشاپ دراصل آٹو موبائل کے طلباء کو عملی کام سکھانے کے لئے بنائی گئی
ہے.475 ٹف ٹائلز بنانے کا ایک پلانٹ بھی اس ادارہ کے تحت محلہ دارالفضل میں لگایا گیا ہے.جو مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کے تحت تعمیر ہونے والی عمارات کے علاوہ تجارتی بنیادوں پر نہایت اعلیٰ معیار کی نائل بنا کر مارکیٹ میں سپلائی کر رہا ہے.ناصر فائر اینڈ ریسکیو سروس: ناصر فائر اینڈ ریسکیو سروس کا قیام بھی خدمت کے سلسلے کی ایک کڑی ہے.اس سروس کا بنیادی مقصد ربوہ اور گردونواح کے مقامات پر آتشزدگی یا دیگر حادثات کے مواقع پر فائر فائٹنگ اور ریسکیو ورک کی خدمات مہیا کرنا ہے.مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کے تحت مورخہ 19 اگست تا 7 ستمبر 2000ء کو پہلی فائر فائٹنگ کلاس کا انعقاد ہوا.نومبر 2000ء میں یہ فائر سروس تنظیمی طور پر فعال ہوئی.فائر سروس کا ابتدائی دفتر ایوان محمود میں مرکز عطیہ خون کی پرانی عمارت کی بیسمنٹ میں قائم کیا گیا تھا جواب الحمد للہ نی دومنزلہ عمارت میں منتقل ہو گیا ہے.جس میں استقبالیہ، سٹنگ لاؤنج، سپرنٹنڈنٹ آفس، فائر فائٹرز کے لئے ایک کلاس روم ، گیسٹ روم ، ریسٹ روم ، کچن ، فائر ٹرکس کے لئے ہال اور ایک سٹور بنایا گیا ہے.ناصر فائر اینڈ ریسکیو سروس کے پاس اس وقت تین عدد فائر ٹرکس اور فائر فائٹنگ اور فرسٹ ایڈ کا ضروری سامان موجود ہے.عملے میں ایک فائر سپرنٹنڈنٹ، پانچ فائر مین، چار ڈرائیور ایک اکاؤنٹنٹ اور ایک مددگار کارکن کے علاوہ چھ دوسرے کارکن بھی شامل ہیں.جبکہ 40 سے زائد رضا کار فائر فائٹرز آن کال ہوتے ہیں.اکتوبر 2003ء میں حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس فائر سروس کا نام ”ناصر فائر اینڈ ریسکیو سروس“ رکھنے کی منظوری مرحمت فرمائی.فائر سٹیشن کے ساتھ خوبصورت سکوائش اور ٹینس کورٹس کے علاوہ ایک ہیلتھ کلب ”فضل عمر“ بھی بنایا گیا ہے.
476 تحریک جدید اور وقف جدید کے متعلق تحریکات تحریک جدید کے دفتر اول اور دفتر دوم کو ہمیشہ زندہ رکھنے کی تحریک 5 نومبر 1982ء کو مسجد اقصیٰ ربوہ میں خطبہ جمعہ میں حضور نے تحریک جدید کے پس منظر پر بہت دلنشیں انداز میں روشنی ڈالی اور فرمایا کہ تحریک جدید کا آغاز 1934ء میں ہوا اور آغاز میں اس میں شامل ہونے والے احمدی دفتر اول میں شمار کئے گئے پھر فرمایا: دفتر اول دس سال تک بلا شرکت غیر جاری رہا.یعنی 1934ء سے 1944 ء تک کوئی اور دفتر اس کا رقیب نہیں تھا.جو لوگ بعد میں شامل ہوئے وہ بھی اسی دفتر میں شامل ہوتے تھے لیکن 1944 ء میں ایک نئے دفتر کا آغاز ہوا جسے دفتر دوم کہا جاتا ہے.دفتر دوم کے جاری ہونے کے بعد دفتر اول میں داخلے کے رستے بند ہو گئے اور نکلنے کے رستے جاری رہے یعنی پانچ ہزار یا اس سے کچھ زائد چندہ دہندگان جو دفتر اول میں شامل تھے ان کو اللہ کی تقدیر بلاتی رہی..اور آج ان میں سے صرف دو ہزار زندہ باقی ہیں.جنہوں نے دفتر اول میں حصہ لیا تھا.میری خواہش ہے کہ یہ دفتر قیامت تک جاری رہے اور جو لوگ ایک دفعہ اسلام کی ایک مثالی خدمت کر چکے ہیں ان کا نام قیامت تک نہ مٹنے پائے اور ان کی اولادیں ہمیشہ ان کی طرف سے چندے دیتی رہیں اور ایک بھی دن ایسا نہ آئے جب ہم یہ کہیں کہ اس دفتر کا ایک آدمی فوت ہو چکا ہے خدا کے نزدیک بھی وہ زندہ رہیں اور قربانیوں کے لحاظ سے اس دنیا میں بھی ان کی زندگی کی علامتیں ہمیں نظر آتی رہیں“.( خطبات طاہر جلد اول ص 255,254 ) دفتر دوم کا آغاز 1944ء میں ہوا اور دفتر اول میں داخلے کے رستے بند ہو جانے کے بعد ا کیس سال تک یہ دفتر جماعت کے چندہ دہندگان حاصل کرتا رہا.یہاں تک کہ 1965ء میں اس دفتر کو بھی بند کر دیا گیا اور دفتر سوم کا آغاز ہوا.حضور نے دفتر دوم کو زندہ رکھنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:.اس دفتر کو بھی میں یہی نصیحت کرتا ہوں کہ جو دوست فوت ہو چکے ہیں دفتر دوم کی آئندہ نسلیں ان کے نام کو زندہ رکھنے کی خاطر یہ عہد کریں کہ کوئی فوت شدہ دوست اس لسٹ سے غائب نہ ہونے دیا جائے گا اور ان کی قربانیاں جاری رہیں گی تاکہ ہمیشہ ہمیش کے لئے اللہ کے نزدیک وہ فعال شکل میں
477 خطبات طاہر جلد اول ص 256 ) زندہ نظر آئیں.حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس طرف خصوصی توجہ مبذول کرائی اور اب اللہ کے اسے دفتر اول کے تمام مردہ کھاتے جاری ہو چکے ہیں.حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے دفتر سوم کی خاطر خصوصی جد و جہد کا کام لجنہ اماءاللہ کے سپرد کرنے کا اعلان فرمایا.جیسا کہ اس سے پہلے دفتر اول مجلس خدام الاحمدیہ اور دفتر دوم مجلس انصار اللہ کی خصوصی تحویل میں تھے.تحریک جدید کے دفتر چہارم کا اجراء 25 /اکتوبر 1985ء کو مسجد فضل لندن میں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے حضور نے تحریک جدید کے نئے مالی سال کا اعلان کیا اور پھر فرمایا:.دفتر سوم پر بیس سال گزر چکے ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ ہم دفتر چہارم کا اعلان کریں..خاص طور پر پاکستان سے باہرا بھی بہت گنجائش ہے تحریک جدید کے چندہ دہندگان کی تعداد بڑھانے کی اس لئے آج میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ساتھ اس کی دی ہوئی توفیق کے مطابق دفتر چہارم کا بھی اعلان کرتا ہوں.آئندہ سے جو بھی نیا چندہ دہندہ تحریک میں شامل ہوگا وہ دفتر چہارم میں شامل ہوگا اور باہر کی دنیا میں خصوصیت کے ساتھ بچوں کو ، نئے احمدیوں کو ، نئے بالغ ہونے والوں کو اس میں شامل کریں.بہت معمولی قربانی کے ساتھ ایک بہت عظیم الشان اعزاز آپ کو نصیب ہو جائے گا.وکالت مال ثانی کا قیام وکالت مال تحریک جدید بیرون پاکستان کے تمام چندوں کا حساب رکھتی تھی.حضور نے اس کا بوجھ کم کرنے کے لئے وکالت مال ثانی قائم فرمائی اور اس کا مقصد یہ بیان فرمایا کہ وہ بیرونی دنیا میں صرف چندہ تحریک جدید کے لئے وقف ہوگی.(خطبات طاہر جلد اول ص 258)
478 وقف جدید کی تحریک کو ساری دنیا تک وسیع کرنے کا اعلان 27 دسمبر 1985ء کو حضور نے مسجد فضل لندن میں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے وقف جدید کے نئے مالی یعنی 29 ویں سال کا اعلان فرمایا.حضور نے وقف جدید کی دینی خدمات خاص طور پر ہندوستان کی وقف جدید کے شیریں ثمرات کا بہت احسن رنگ میں تذکرہ فرمایا اور پھر ہندوستان اور پاکستان میں وقف جدید کے پھیلتے اور بڑھتے ہوئے تقاضوں کو پورا کرنے کی خاطر وقف جدید کی تحریک کو ساری دنیا تک وسیع کرنے کا اعلان کیا.حضور نے فرمایا :.اس غرض سے کہ ہندوستان میں وقف جدید کی تحریک کو مضبوط کیا جائے اور اس غرض سے کہ پاکستان میں بھی جہاں کام پھیل رہا ہے اور نئی ضرورتیں پیدا ہوتی ہیں.اس کام کو تقویت دی جائے.میں اس سال وقف جدید کی مالی تحریک کو پاکستان اور ہندوستان میں محدودر کھنے کی بجائے ساری دنیا میں وسیع کرنے کا اعلان کرتا ہوں.اس سے پہلے وقف جدید صرف پاکستان تک محدود تھی اور باہر سے اگر کوئی شوقیہ چندہ دینا چاہے تو اس سے لے لیا جا تا تھا، لیکن کبھی تحریک نہیں کی گئی.میں سمجھتا ہوں کہ اگر باہر کی دنیا کو موقع ملے تو ایک عظیم الشان وقت کی ضرورت ہے جسے پورا کرنے کی توفیق ملے گی اور دوسرے یہ کہ کوئی وجہ نہیں کہ باہر کے احمدی پاکستان اور ہندوستان کی دینی خدمتوں سے محروم رہیں.جبکہ ہندوستان اور پاکستان کے احمدی کبھی بھی بیرونی خدمتوں سے محروم نہیں رہے، بلکہ ساری دنیا میں جو احمد بیت خدا کے فضل سے قائم ہوئی ہے اس میں سب سے بڑا کردار ، سب سے نمایاں کردار پہلے ہندوستان کے احمدیوں نے اور پھر ہندوستان اور پاکستان کے احمدیوں نے ادا کیا تو باقی دنیا میں پھیلے ہوئے احمدیوں کو بھی یہ طلب ہونی چاہئے طبعا کہ ہم کیوں ان علاقوں کی خدمت سے محروم رہ جائیں جنہوں نے ایک زمانے میں عظیم الشان قربانیاں کر کے ساری دنیا میں (اسلام) کا بول بالا کیا ہے.اس قدرتی جذبے کا بھی تقاضا یہی ہے کہ ان تحریکوں کو ساری دنیا میں پھیلا دیا جائے اور ہے بہت معمولی رقم مثلاً انگلستان کے لئے میں سمجھتا ہوں کہ ایک پونڈ فی آدمی دینا سال بھر کے لئے کوئی مشکل کام نہیں اور یہ جو کم سے کم معیار ہے اس میں بچے ایک ایک پونڈ دے کر شامل ہو سکتے ہیں اور بڑے اپنے شوق سے اس میں زیادہ دے سکتے ہیں..
479 میں امید کرتا ہوں کہ ایک پونڈ والے تو بکثرت انشاء اللہ تعالیٰ باہر کی جماعتوں میں پیدا ہو جائیں گے اور ایسے خاندان بھی ہو سکتے ہیں جو اپنے ہر بچے کو اس تحریک میں شامل کر لیں اور جن ملکوں میں پونڈ کرنسی رائج نہیں ہے وہ اپنے حالات دیکھ کر کوئی تخمینہ لگا کر پونڈ کے لگ بھگ کوئی رقم مقرر کر سکتے ہیں کوشش یہ ہونی چاہئے اس میں کہ تعداد زیادہ ہو.کثرت کے ساتھ احمدی بچے عورتیں ، بوڑھے اس میں شامل ہوں اور رقم اتنی رہے عام چندے کے لحاظ سے کہ خاندانوں پر زیادہ بوجھ نہ پڑے.تحریک وقف جدید میں شاملین کی تعداد بڑھانے کی تحریک حضور نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 2 جنوری 1998ء بمقام مسجد فضل لندن میں وقف جدید کے سال نو کا اعلان فرماتے ہوئے یہ تحریک فرمائی کہ وقف جدید کو آئندہ نسلوں کو سنبھالنے کے لئے استعمال کریں اور کثرت سے وقف جدید میں شامل ہونے والوں کی تعداد بڑھائیں.حضور نے نو مبائعین کو کثرت کے ساتھ اس تحریک میں شامل کرنے کی بھی تحریک فرمائی اور اس مقصد کے لئے ایک الگ سیکرٹری وقف جدید مقرر کرنے کی ہدایت کی جونو مبائعین پر کام کریں.(افضل 16 مارچ 1998ء) مجاہدین وقف جدید کی تعداد جنوری 2008 ء تک دنیا کے 100 سے زیادہ ممالک میں 5 لاکھ 10 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے.(الفضل 26 فروری 2008ء) MTA کے متعلق تحریکات پروگرام تیار کرنے کی تحریک حضور کے دور کا ایک تاریخ ساز کارنامہ عالمی احمد یہ ٹیلی ویژن MTA کا قیام ہے جس کی نشریات کا با قاعدہ آغاز 7 جنوری 1994ء سے ہوا اور اب یہ 24 گھنٹے خدمت دین کے لئے وقف ہے.اس بارہ میں حضور نے یہ تحریک فرمائی کہ تمام دنیا کی جماعتیں اپنے علاقوں میں تربیت اور اصلاح وارشاد کی خاطر ایسے پروگرام اپنی اپنی زبانوں میں بنا کر بھجوائیں جو ان کے مخصوص ماحول میں مؤثر ثابت ہو سکیں.اس سلسلہ میں حضور نے بہت تفصیلی ہدایات دیں.اس طرح یہ ٹیلی ویژن اپنی نشریات کے لحاظ سے ہی عالمگیر نہیں بلکہ پروگراموں کی تیاری کے لحاظ
480 سے بھی عالمگیر ہے.اس تحریک پر لبیک کہتے ہوئے ایم ٹی اے کے مرکز لندن کے علاوہ تمام دنیا میں ہزاروں رضا کار پروگرام بنانے میں مصروف عمل ہیں اور بیشمار برکات سے جھولیاں بھر رہے ہیں.حضور نے فرمایا:.مثال کے طور پر مجھے خیال آیا کہ اگر دنیا میں جہاں جہاں بھی احمدی مختلف نیشنیلٹی کے لوگ موجود ہیں اگر ان کے مربی ان پر کام کر کے ان میں سے اچھی آواز والے مرد تلاش کریں تو بیشمارمل جائیں گے عورتیں ہی ضروری تو نہیں جتنی نیشنیلیٹیز (Nationalities) ہوں اتنا ہی زیادہ بہتر ہے.اس طرح ہر زبان میں حضرت مسیح موعود کا کلام پڑھا جائے گا.یہ آئیڈیا ہے جو اس سے مجھے بہت پسند آیا ہے.لندن میں بھی یہ ہو سکتا ہے لندن والے خدام اور انصار یہاں کوشش کر لیں اور لجنہ والیاں بھی یہاں کوشش کر لیں Maximum Nationalities کی نمائندگی ہو جائے.ہوسکتا ہے کہ یہ سلسلے پھیلتے پھیلتے دنیا کے ہر ملک میں پھیل جائے اور حضرت مسیح موعود کی ہر زبان میں اچھی آواز میں نظمیں پڑھی جائیں.(اردو کلاس 26 مئی 1999 ء.الفضل 14 مئی 1999ء) اردو میں کارٹون بنانے کی تحریک: 28 مئی 1999ء کو حضور نے ایم ٹی اے کے لئے اردو زبان میں کارٹون بنانے کی تحریک فرمائی جس کا ایک مقصد تربیت کے ساتھ اردو سکھانا بھی تھا.فرمایا: ” میں نے سوچا کیوں نہ ہم اپنے کارٹون بنائیں.اردو کارٹون اور اردو کارٹون بچے غور سے دیکھیں گے.ایم ٹی اے پر لگیں گے تو ان کو آپ ہی آپ اردو آئے گی.مجبور ہوجائیں گے.اور اردو کارٹونوں میں ایسا سبق ہو.کسی کارٹون میں بھی Violence نہ ہو.یعنی بچوں میں کارٹون دیکھ کے طبیعت میں نرمی پیدا ہو.پیار پیدا ہو.کمزوروں کی ہمدردی پیدا ہو اس قسم کے کارٹون بہت سے میں نے سوچے ہیں.لیکن میں دعوت دیتا ہوں انگلستان میں جتنے بھی دانشور موجود ہیں اور جن کو کمپیوٹر گیمز کا بھی پتہ ہے.ایک تو مشورہ یہ ہے کہ جو کمپیوٹر سپیشلسٹ ہیں ان کو استعمال کیا جائے اور کمپیوٹر کے بنائے ہوئے کارٹون بنائیں.اب کارٹون لکھنے کے لئے بھی تو ایک سکرپٹ چاہئے.جس کی مزاح کی روح بھی اچھی ہو.ہنسنے
481 یعنی اس کا لطیفوں کا ذوق اچھا ہو اور دلچسپی پیدا کرنے کا اس کو پتہ ہو کارٹون بنانے والے اور ہوتے ہیں.لکھنے والے اور ہوتے ہیں.کبھی کبھی بنانے والے بھی خود لکھنے والے ہوتے ہیں مگر اکثر لکھنے والے لکھ دیتے ہیں اور کارٹون ان کے مطابق بنائے جاتے ہیں تو کارٹون لکھنے والے بھی ہمیں اچھے اچھے چاہئیں.ایک ٹیم بنانی پڑے گی.ایم ٹی اے ایک ایسی ٹیم بناسکتی ہے.پھر ایسے کارٹون بھی ہو سکتے ہیں جن میں بچے بھیس بدل کر ایسالباس پہن کر واقعۂ حرکت کریں.کارٹون بنانے کی ضرورت نہ پڑے اور ان کی حرکتوں کے ساتھ کوئی بلا بنا ہوا ہے کوئی شیر بنا ہوا ہے کوئی کچھ بنا ہوا ہے.ایسے ایسے لباس یہاں عام مل جاتے ہیں جن کو پہن کر بالکل کوئی اور انسان لگتا ہے اور اس کو اتار دو تو ایک دم اصل آدمی نکل آتا ہے.فرمایا یہ بھی ایک کارٹونوں کا مضمون ہے جس پر عمل کیا جائے پھر دنیا میں بہت سے کارٹون ایسے ہیں جن کا تعلق پرندوں سے یا جانوروں سے ہے.یہ بنا کے مجھے بھجوائیں تو اس کو ہم اپنی ایم ٹی اے پہ خاص کر دیں گے، یہ ایم ٹی اے کارٹونوں کا نشان بن جائے گا اس سے پھر انگریزی ترجمے بھی کریں گے تا کہ انگریزی جانے والے بچوں کے لئے انگریزی کے علاوہ اچھا مضمون کارٹون کامل جائے.کارٹونوں کے نغمے بھی بنیں.بعض کارٹونوں کے نغمے مشہور ہیں.جب اس کی ٹیون آئے فوراً وہ کارٹون دماغ میں آجاتا ہے ان نغموں سے کارٹون مشہور ہو گئے ہیں.یہ نغمے ہماری وجیہہ بنا سکتی ہے اور اس قسم کے بچے اور بچیاں.بعض مرد بھی بنا سکتے ہیں لڑکے اچھی آواز والے.تو بہت مزے دار پروگرام بن جائے گا.یہ ابتدائی سوچ ہے جب اس پر عمل ہوگا اور اچھے اچھے نمونے تیار ہوں گے ایم ٹی اے پر دکھائے جائیں گے تو آپ لوگوں کو بھی بہت اچھا مضمون اردو سیکھنے کا ہاتھ آ جائے گا اردو کلاس سب دنیا کو کارٹونوں کے ذریعے اردو سکھائے گی.( الفضل 30 جون 1999ء)
482 صد سالہ جوبلی کے متعلق تحریکات نئے احمدی احباب شامل کرنے کی تحریک حضور نے مورخہ 23 جنوری 1987ء کو مسجد فضل لندن میں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :.جماعت میں ایسے نوجوان ہیں جو بعد میں آکر برسر روزگار ہوئے ہیں.نئی نسلیں بارہ سال میں نئی نسلوں میں سے بہت سے نوجوان بر سر روزگار ہوئے اور غلطی سے وہ اس تحریک میں شامل نہیں ہو سکے اور لاعلمی کی وجہ سے شامل نہیں ہو سکے.بہت سے نئے احمدی ہوئے ہیں اور ان کو مالی قربانی میں شامل کرنا ان کی زندگی کے لئے ان کی بقا کے لئے ضروری ہے ان کی طرف فوراً توجہ دینا ضروری ہے.ان کو بتانا چاہئے کہ کتنی عظیم الشان تحریک جو سو سالہ جشن سے تعلق رکھتی ہے اور گزشتہ سوسال کی تاریخ میں آپ کی قربانی شامل ہو جائے گی.احمدیت کے پہلے دن سے لے کر اس جشن کے سال تک خدا تعالیٰ آپ کی قربانی کو سارے سالوں پر پھیلا دے گا.لیکن جو فوت ہو چکے ہیں ان سے بھی وصول کرنا چاہئے اس رنگ میں کہ ان کی اولاد کو توجہ دلائی جائے کہ آپ کے والدین ایک نیک ارادہ کو لے کر وفات پا گئے اور توفیق نہیں پاسکے اس وعدہ کو پورا کریں یادگار عمارت بنانے کی تحریک اس ضمن میں حضور نے فرمایا:.تمام دنیا میں اس جشن کی تعمیرات کے لئے نئی تعمیرات کی ضرورتیں پیش آئیں گی.ضروری نہیں کہ ہر ملک میں ایک ہی معیار کی عمارت ہو گر نقشہ کم و بیش وہی ہوگا....جہاں تک ممکن ہو مقامی ذرائع سے ان عمارتوں کو بنانے کی کوشش کرنی چاہئے اور وقار عمل میں اس کا بہت دخل ہونا چاہئے اور ایسا انتظام ہونا چاہئے کہ جماعت کا ہر طبقہ اس وقار عمل میں کسی نہ کسی طرح شامل ہو جائے اور سب کو جو خدا تعالیٰ کے فضل سے توفیق ملے کہ اس مرکزی نمائندہ عمارت میں ہم نے اپنی محنت کا بھی کچھ حصہ ڈال دیا ہے.ہر ملک اپنی توفیق کا معیار دیکھ کر عمارت کا معیار بنائے“.( خطبه جمعه فرموده 6 فروری 1987 ء بمقام بیت الفضل لندن)
483 توسیع مکان بھارت فنڈ 28 مارچ 1986ء کو مسجد فضل لندن میں خطبہ جمعہ میں اس تحریک کا اعلان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.”ہندوستان کی جماعتوں میں خدا تعالیٰ کے فضل سے تعداد کے لحاظ سے بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے اور اموال کے لحاظ سے بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر رنگ میں برکت نصیب ہوئی ہے اس کے باوجود ہندوستان کی جماعت اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہوئی.اب جماعت کی طرف سے جو فوری ضروریات سامنے آئی ہیں ان میں کچھ تو مقامات مقدسہ کی ضروری مرمتیں ہیں.اس کے علاوہ دہلی میں جماعت کا شاندار مرکز بننے والا ہے.کانپور میں جماعت کو مرکز کی ضرورت ہے اور بھی بہت سی ضرورتیں ہیں.میں نے جو اندازہ لگایا ہے میرے خیال میں چالیس پچاس لاکھ روپے تک کی ضرورت ہے مگر میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان کو واپس اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ بیرون ہندوستان عام تحریک نہ کی جائے.اس لئے اس تحریک کی جو میں کرنے لگا ہوں دو تین صورتیں ہیں.جن کو ملحوظ رکھ کر جن لوگوں کو قربانی کرنی ہے.قربانی پیش کریں.ایک تو یہ کہ ہندوستان کی جماعتیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کریں اور گزشتہ کوتاہیوں اور غفلتوں سے معافی مانگیں اور قربانی کے معیار میں دنیا کی باقی جماعتوں کے ساتھ چلنے کا عزم کر لیں.اگر وہ عزم کریں گے اور دعا کریں تو اللہ تعالیٰ توفیق بھی عطا فرمادے گا اور میں جانتا ہوں کہ ہندوستان کی جماعتوں کو یہ توفیق ہے اگر چاہیں تو بہت آسانی کے ساتھ یہ معمولی رقم پوری کر سکتی ہیں.دوسرے درجہ پر وہ لوگ ہیں جو ہندوستان کی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن باہر چلے گئے ہیں اگر یہ سارے چاہیں تو چالیس لاکھ کیا سارے چندوں کے علاوہ بھی کروڑوں روپیہ پیش کر سکتے ہیں....میں اپیل کرتا ہوں ان ہندوستانی نژاد احمدیوں سے کہ وہ اس مالی قربانی میں آگئے آئیں اور ہندوستان کی ساری ضرورتیں پوری کریں.اور تیسرے درجہ پر میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اگر کوئی انفرادی طور پر اپنا یہ حق جتلائے (جماعتی تحریک نہیں ہوگی) کہ قادیان کا تعلق ساری دنیا کی جماعتوں سے ہے.ہمیں بھی تعلق ہے ہم اپنے دل
484 کے جذبے سے مجبور ہو کر انفرادی طور پر یہ حق مانگتے ہیں کہ ہمیں شامل کر لیا جائے تو ایسے شخص کی قربانی کو رد نہیں کیا جائے گا.کسی جماعت کو یہ حق نہیں کہ وہ یہ سمجھے کہ چونکہ عام تحریک نہیں کی گئی تھی اس لئے ان سے قبول نہیں کرنا.ان تین اصولوں کے تابع میں اس تحریک کا اعلان کرتا ہوں کہ ہندوستان کی ضرورتوں اور فوری ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے جماعت کو چالیس لاکھ رو پیدا کٹھا کرنا چاہئے“.نو مبائعین کی تربیت کی تحریک 1993 ء سے عالمی بیعت کے نظام کے ساتھ ہی حضور نے نو مبائعین کی تربیت کی طرف خصوصی توجہ فرمائی اور کل عالم کے احمدیوں کو تحریک فرمائی کہ وہ نئے آنے والوں کو جلد از جلد اپنے معاشرہ میں جذب کرنے کی کوشش کریں.اس ضمن میں حضور نے انہیں مالی قربانی کے نظام میں بتدریج شامل کرنے کی بھی ہدایت فرمائی.نیز حضور نے فرمایا کہ ان کی تربیت کا بہترین طریق یہ ہے کہ انہیں مبلغ بنادیا جائے.اس مقصد کے لئے ان کے منتخب نمائندوں کو مقررہ مراکز میں بلا کر تعلیم دی جائے اور وہ باقی افراد تک یہ پیغام پہنچائیں.اس ضمن میں حضور نے فرمایا کہ نئی عالمی بیعت کے بعد شروع کے 3 ماہ خاص طور پر نو مبائعین کی تربیت کی طرف توجہ کی جائے.ان کے نمائندہ وفود مرکز میں بھجوائے جائیں جو دینی علم سیکھ کر واپس جا کر سکھائیں.19 اگست 1994ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا: کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے انعامات کے پھلوں کی بارش ہورہی ہے کہ انہیں سنبھالنا ایک بہت بڑا کام ہے اور جو بھل سنبھالا نہ جائے وہ ضائع ہو جایا کرتا ہے اس لئے ایسی تربیت گاہیں کھولنا ضروری ہیں جو تمام سال کام کرتی رہیں.پھر فرمایا:.”جہاں جہاں سے بھی تو میں احمدیت میں داخل ہورہی ہیں ان کی نگرانی کرنے والوں میں سے ہر ایک کو میں تاکید کرتا ہوں کہ ان آنے والوں کو روز مرہ کچھ قربانی کی عادت ڈالیں اور جن کو عادت پڑ جائے گی ان کا ہاتھ خدا کے ہاتھ میں تھمایا جائے گا.خدا ایسے ہاتھ سے ان کو رزق دے گا جس میں آپ کے ہاتھ کی ضرورت باقی نہیں رہے گی پھر ان کا تعلق براہ راست اللہ تعالیٰ سے ہو جاتا ہے اور تحریک جدید کے تعلق میں میں یہ گزارش کروں گا کہ تحریک جدید کا جو کم سے کم معیار ہے ان نئے آنے
485 والوں کی سہولت کے پیش نظر اور قرآن کی اصولی تعلیم کے پیش نظر اس معیار کو نظر انداز کر دیں کوئی پیسہ دے تو پیسہ قبول کر لیں.آنہ دے تو آنہ قبول کر لیں.لیکن ان کو بتادیں کہ تم ایک عظیم عالمگیر جہاد میں حصہ لے رہے ہو جس کے یہ پھل ہیں سب جو ہم آج کھا رہے ہیں.(الفضل اند نیشنل 9 دسمبر 1996ء ) خطبہ جمعہ 19 راگست 1994ء میں فرمایا:.کلاسیں لگائیں اور مستقل جماعت ان کلاسوں کے لئے دعا کرے اور ان کے لئے کوشش کرے.اس کے لئے چونکہ ہمارے پاس ابھی وہ فوج تیار نہیں ہوئی جس کا نام وقف نو کی فوج ہے اس لئے ضروری ہوگا کہ عارضی طور پر صاحب علم اپنے آپ کو وقف کریں اور صاحب علم خواتین اپنے آپ کو وقف کریں اور ہر جگہ عورتوں کے لئے بھی مراکز ہوں اور مردوں کے لئے بھی اور ان کی تربیت اس جذبے سے کی جائے کہ ایک بات اتنی اچھی طرح سے سمجھ جائیں کہ پھر ناممکن ہو دشمن کے لئے کہ اس پر حملہ کر سکے اور پھر وہ اس بات کو لے کر نکل کھڑے ہوں ہر جگہ پھیلاتے چلے جائیں“.(الفضل انٹرنیشنل 23 ستمبر 1994ء) حضرت خلیفہ المسح الرابع رحمہ اللہ نے ایک خط میں فرمایا: یہ کام بہت اہمیت کا حامل اور خصوصی توجہ چاہتا ہے.اس لئے دعوت الی اللہ والے سب ناظران اور ذیلی تنظیموں کے متعلقہ سیکرٹریان اپنا اپنا ایک نائب رکھیں جو صرف نو مبائعین کو آرگنا ئز کرے اور آئندہ جلسے اور اجتماعات ان علاقوں میں صرف ان کے بھی الگ ہوا کریں.ان کے عہدیدار بھی اپنے ہوں.انتظامی امور میں بھی ایک پرانا تجربہ کار افسر ہو اور باقی ان میں سے ہی ہوں تو تب ان میں زندگی پڑے گی اور یہ فعال ہوں گے ورنہ خانہ پُری ہی رہے گی اور عملاً ( ان کی تعداد ) کسی کام نہیں آئے گی.ان کے جلسے اور اجتماعات جماعتی حیثیت سے سالانہ یا ششماہی الگ ہوں اور ان کی مکمل رپورٹیں تیار کر کے بھجوائی جائیں.ان جلسوں میں ان کے ہی آدمی تقریر میں کریں اور بتائیں کہ ہم کیسے احمدی ہوئے.ان جلسوں کے لئے مرکزی نظام کی طرف سے برکات الدعا اور معجزات وغیرہ سے متعلق مضامین بھی بیشک لکھ کران کو دئیے جائیں جو وہ وہاں پڑھ کر سنائیں.( مکتوب حضرت خلیفتہ امسیح الرابع محرره 97-1-24 بنام ناظر صاحب اعلی ربوہ )
486 چنانچہ نظارت اصلاح وارشاد میں تربیت نو مبائعین کا الگ شعبہ قائم کیا گیا ہے اور مربیان مسلسل دورے کر کے تربیت کے فرائض سرانجام دیتے ہیں.خصوصی وقف کی تحریک 5 نومبر 1982ء کو مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع پر افتتاحی خطاب میں حضور نے انصارا ور خدام کو خصوصی رضا کارانہ وقف کی تحریک فرمائی.حضور نے فرمایا: وقف زندگی سے متعلق میں آج انصار اللہ کو تحریک کرنا چاہتا ہوں.وہ خصوصیت کے ساتھ وقف کی طرف توجہ کریں...ہمارے بہت سے ایسے انصار ہیں جو ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچنے والے ہیں بہت......سے ایسے بھی ہیں جو ریٹائر منٹ کو پہنچ چکے ہیں.ان میں سے کچھ ایسے بھی ہوں گے جن کو ذریعہ معاش کی کچھ اور صورتیں حاصل ہوگئی ہوں گی.روزی کمانے کے کچھ نئے نئے رستے میسر آگئے ہوں گے لیکن کچھ ایسے بھی ہوں گے اور غالباً زیادہ تعداد ایسے دوستوں کی ہوتی ہے جن کو ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی کام نہیں ملتا.پس جن کو کام نہیں ملتا ان کی اس سے زیادہ خوش نصیبی اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی بقیہ عمر خدا کے دین کی خدمت کے لئے رضا کارانہ طور پر وقف کریں ( یہ وقف خصوصی وقف ہے.اس لئے یہ رضا کارانہ طور پر ہوگا اس میں سلسلہ ان کو مالی لحاظ سے کچھ بھی نہیں دے گا ) ایسے واقفین بھی چاہئیں جو یہ تو فیق رکھتے ہوں کہ مرکز سے باہر جا کر بھی خدمت دین کر سکیں.یہ بھی اسی قسم کا رضا کارانہ وقف ہوگا.وقف کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ نو جوان آگے آئیں.یہ ایک عمومی تحریک ہے جس میں انصار سلسلہ کی بہت بڑی مدد کر سکتے ہیں.گھر گھر چرچا کر سکتے ہیں اور ایک نئی رو چلا سکتے ہیں.پانچ سو دیگوں کی تحریک : جلسہ سالانہ کے موقعہ پر بڑھتی ہوئی تعداد اور جلسہ جو بلی پر متوقع حاضری کے مدنظر انتظام جلسہ سالانہ کے لئے حضور نے 4 فروری 1984ء کو 500 دیگوں کی رقم مہیا کرنے کی تحریک کی.ایک دیگ پر تقریباً 2000 روپیہ کا اندازہ لگایا گیا.(الفضل 8 فروری 1984ء) جماعت نے جلد ہی یہ رقم مہیا کر دی اور چندہ دہندگان کے لئے حضور نے خاص دعا کی.
487 نستعلیق کتابت کے لئے کمپیوٹر کی تحریک جماعت کے لٹریچر کی اشاعت اور طباعت کا مسئلہ ایک اہم کام ہے.اس بڑھتی ہوئی ضرورت کے تحت ایک دقت کتابت کی تھی.کمپیوٹر پر نوری نستعلیق کتابت کا کام کرنے کے لئے ایک کمپنی نے ایک کمپیوٹر ایجاد کیا ہے جس میں خط نستعلیق پر کتابت کی جاسکتی ہے اور دوسری زبانیں بھی داخل کی جاسکتی ہیں.12 جولائی 1985ء کو مسجد فضل لندن میں خطبہ جمعہ ارشادفرماتے ہوئے حضور نے فرمایا:.سلسلہ کا کام اب اتنا بڑھ گیا ہے کہ ہم زیادہ انتظار نہیں کر سکتے.گو مشین کی قیمت زیادہ ہے یعنی صرف اردو نستعلیق کے لئے مکمل حالت میں اگر اس کو خریدا جائے تو ایک لاکھ پاؤنڈ خرچ آئے گالیکن جو ضرورتیں ہیں ان کے مقابل پر ایک لاکھ کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے چند ضروری اور اہم زبانوں کے لئے زائد رقم دینی پڑے گی اس طرح ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈ تک صرف پریس کا خرچ ہے اس کے علاوہ اس پر ماہانہ اخراجات بھی اٹھیں گے کیونکہ یہ بہت ہی Complex یعنی باریک اور الجھی ہوئی مشین ہے جسے ہر آدمی آسانی سے سمجھ نہیں سکتا.پس اشاعت لٹریچر کی اہمیت کے پیش نظر سر دست میں ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈ کی تحریک کرتا ہوں.صرف لندن کی جماعت کے امیر صاحب نے لندن کی جماعت کی طرف سے پچاس ہزار پونڈ کے وعدے کئے اور ان کی طرف سے چونتیس ہزار پونڈ کے انفرادی وعدے ہوئے.انگلستان کی دیگر جماعتوں کی طرف سے چودہ ہزار پونڈ کے وعدے آئے.30 اگست 1985ء کو حضور نے خطبہ جمعہ میں اس تحریک کا ذکر کر کے جماعت کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سوا دولاکھ پونڈ کے وعدے آچکے ہیں اور ابھی بہت سے ممالک کی طرف سے وعدے آ رہے ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے 6 اپریل 1987ء کو پیر کے روز اس کمپیوٹرائز ڈپریس کا افتتاح ہو گیا اس تحریک کے ایک ذیلی حصہ کے طور پر حضور نے اعلیٰ درجہ کے ٹائپسٹوں کو بھی زندگی وقف کرنے کی طرف توجہ دلائی.زبان پاک کرنے کی مہم چلانے کی تحریک سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے خطبہ جمعہ مورخہ 4 فروری 2000ء میں ارشاد فرمایا کہ:
488 اللہ تعالیٰ کی تعلیم ہے کہ جھوٹے بتوں کو بھی گالیاں نہ دو حالانکہ ان کا کوئی وجود نہیں مگر نادان اور ان کے پوجنے والے غصہ میں آکر پھر خدا کو گالیاں دیں گے جس کی تمہیں گہری تکلیف پہنچے گی تو اپنے ماں باپ کو گالی دینے سے مراد یہی ہے کہ کسی دوسرے کے ماں باپ کو گالی دینا.ہمارا معاشرہ خصوصاً پنجاب میں تو ایسا گند ہے کہ ہر وقت گالیاں دیتے ہیں.چھوٹے چھوٹے بچے گلیوں میں اپنے ماں باپ کو بھی گالیاں دیتے پھرتے ہیں اور ان کو پتہ ہی نہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں.نہایت غلیظ زبان استعمال کرتے ہیں یہاں تک کہ ہل چلانے والے زمیندار بیل کے ماں باپ کو بھی گالیاں دے رہے ہوتے ہیں تو اس گندے معاشرے سے ہمیں بہر حال باہر نکلنا ہے جماعت احمدیہ ہے جو زبانوں کو پاک کرنے کی ایک تحریک چلائے اور گلی گلی سے سلام کی آواز میں تو اٹھیں مگر گالیاں اور بدعائیں نہ اٹھیں“.روزنامه الفضل ربوہ 2 مئی 2000 ء ص 3) خصوصی دعاؤں کی تحریک 6 اپریل 1984ء کو حضور نے مندرجہ ذیل دعائیں بکثرت پڑھنے کا ارشاد فرمایا:.سبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم اللهم صل على محمد وال محمد اللہ تعالیٰ پاک ہے اپنی حمد کے ساتھ.اللہ تعالیٰ پاک ہے اور بڑی عظمت والا ہے.اے اللہ محمد پر اور آل محمد پر بڑی رحمتیں اور برکات نازل فرما.ہیں.یا حفیظ یا عزیز یا رفیق اے بہت حفاظت کرنے والے اے غالب اے رفیق ياحيي يا قيوم برحمتك نستغيث اے ہمیشہ زندہ رہنے والے! اے ہمیشہ قائم رہنے والے خدا ! ہم تیری رحمت سے مدد چاہتے رب كل شيءٍ خادمك رب فاحفظنا وانصرنا وارحمنا اے میرے رب ! ہر شئے تیری خادم ہے.اے میرے رب ! تو ہماری حفاظت فرما اور ہماری مددفر ما اور ہم پر رحم فرما.
489 ربنا اغفر لنا ذنوبنا واسرافنا فی امرنا و ثبت اقدامنا وانصرنا على القوم الكفرين.اے ہمارے رب! ہمارے گناہ بخش دے اور ہمارے معاملہ میں ہماری زیادتیاں بھی.اور ہمیں ثابت قدم رکھا اور ہمیں حق کے منکروں پر غلبہ عطا فرما.اللهم انا نجعلك في نحورهم ونعوذ بك من شرورهم اے اللہ ! ہم دشمنوں کے مقابلہ میں تجھے اپنی ڈھال بناتے ہیں اور ان کی شرارتوں سے تیری پناہ مانگتے ہیں.اللهم اهدقومي فانهم لا يعلمون.اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے کیونکہ وہ نہیں جانتے.14 فروری 1986ء کے خطبہ جمعہ میں حضور نے مندرجہ ذیل دعا کے مفہوم کو سمجھنے اور پڑھنے کی تلقین فرمائی:.ربنا هب لنا من أزواجنا وذريتنا قرة أعين واجعلنا للمتقين اماما.حضور نے منصب امامت پر فائز ہونے پر جماعت کے نام پہلے تحریری پیغام میں اہل فلسطین کے لئے خاص طور پر دعاؤں کی تحریک کی.اس کے بعد متعدد مواقع پر عالم عرب کے لئے عمومی دعاؤں کی تلقین فرمائی.حضور نے 27 مارچ 1987ء کو جماعت کے تمام افراد کو یہ دعا یاد کرنے اور اس کا ورد کرنے کی تحریک فرمائی:.اللهم انى اسئلك حبك وحب من يحبك والعمل الذي يبلغني حبك اللهم اجعل حبك احب الى من نفسى ومالى واهلى و من الماء البارد (ضمیمہ ماہنامہ خالد اپریل 1987 ء ) حضور نے 1999ء میں دعاؤں کے موضوع پر خطبات کا سلسلہ جاری کیا اور قرآن ، رسول کریم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی متعدد دعاؤں کے مطالب اور مفاہیم بیان کرنے کے بعد انہیں پڑھنے کی تلقین فرمائی.
490 متفرق تحریکات 10 جنوری 1986ء کو حضور نے مجلس عرفان میں تمام دنیا کے احمدیوں کو تحریک کی کہ وہ شہد کے بارہ میں تحقیق کریں اور قرآن حکیم کے اندر اس بارہ میں مخفی حقائق کو دنیا پر آشکارا کریں.( احمد یہ گزٹ ٹورانٹو ، فروری 1986 ء ) 11 نومبر 1984ء کو حضور نے لندن میں حفظ قرآن کریم کی تحریک فرمائی.27 دسمبر 1982ء کو حضور نے روزنامہ الفضل اور ماہنامہ ریویو آف ریلیجنز کی اشاعت دس ہزار تک پہنچانے کی تحریک کی.
491 حضرت خلیفة اریح الخامس اليده الله تعالى بنصرہ العزیز خلیفہ اسیح کی تحریکات آغاز دور خلافت 22 اپریل 2003 ء
493 تربیتی تحریکات قیام نماز کی تحریک حضور آغاز خلافت سے ہی جماعت کو نماز کی طرف مسلسل توجہ دلاتے رہے ہیں.خطبہ جمعہ 13 را پریل 2007ء میں خلافت اور عبادت کا تعلق بیان کرتے ہوئے اور خصوصاً اہل ربوہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:.نمازوں کے حوالے سے ہی میں ایک اور بات کہنا چاہتا ہوں ہمیشہ یادرکھیں کہ خلافت کے ساتھ عبادت کا بڑا تعلق ہے اور عبادت کیا ہے؟ نماز ہی ہے.جہاں مومنوں سے دلوں کی تسکین اور خلافت کا وعدہ ہے وہاں ساتھ ہی اگلی آیت میں اقیموا الصلواۃ کا بھی حکم ہے.پس تمکنت حاصل کرنے اور نظام خلافت سے فیض پانے کے لئے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ نماز قائم کرو، کیونکہ عبادت اور نماز ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والی ہوگی.ورنہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے اس انعام کے بعد اگر تم میرے شکر گزار بنتے ہوئے میری عبادت کی طرف توجہ نہیں دو گے تو نافرمانوں میں سے ہو گے.پھر شکر گزاری نہیں ناشکر گزاری ہوگی اور نافرمانوں کے لئے خلافت کا وعدہ نہیں ہے بلکہ مومنوں کے لئے ہے.پس یہ انتباہ ہے ہر اس شخص کے لئے جو اپنی نمازوں کی طرف توجہ نہیں دیتا کہ نظام خلافت کے فیض تم تک نہیں پہنچیں گے.اگر نظام خلافت سے فیض پانا ہے تو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کرو کہ یعبد و ننی یعنی میری عبادت کرو.اس پر عمل کرنا ہوگا.پس ہر احمدی کو یہ بات اپنے ذہن میں اچھی طرح بٹھا لینی چاہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس انعام کا ، جو خلافت کی صورت میں جاری ہے، فائدہ تب اٹھا سکیں گے جب اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہوں گے.گزشتہ دنوں پاکستان سے آنے والے کسی شخص نے مجھے لکھا کہ میں ربوہ گیا تھاوہاں فجر اور عشاء پر مسجد میں حاضری بہت کم لگی.یہ وہاں والوں کے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے.ربوہ تو ایک نمونہ ہے اور گزشتہ چند سالوں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس طرف بہت توجہ ہو گئی تھی.آنے جانے والوں کی بھی بڑی پورٹس آتی تھیں کہ ربوہ میں مساجد کی حاضری بڑھ گئی ہے.بلکہ بازاروں میں بھی کاروبار کے اوقات
494 میں دکانیں بند کر کے نمازیں ہوا کرتی تھیں.گو کہ مجھے اس شخص کی بات پر اتنا یقین تو نہیں آیا.میں تو ربوہ کے بارے میں حسن ظن ہی رکھتا ہوں لیکن اگر اس میں سستی پیدا ہو رہی ہے تو وہاں کے رہنے والوں کو اس طرف خود توجہ کرنی چاہئے.ایک کوشش جو آپ نے کی تھی، نیکیوں کو اختیار کرنے کا جو ایک قدم بڑھایا تھا وہ قدم اب آگے بڑھتا چلا جانا چاہئے.اللہ کرے کہ میرا حسن ظن ہمیشہ قائم رہے.اسی طرح عمومی طور پر پاکستان میں بھی اور دنیا کی ہر جماعت میں جہاں جہاں بھی احمدی آباد ہیں، نمازوں کے قیام کی خاص طور پر کوشش کریں.ہمیشہ یادرکھیں کہ افراد جماعت اور خلیفہ وقت کا دوطرفہ تعلق اس وقت زیادہ مضبوط ہو گا جب عبادتوں کی طرف توجہ رہے گی.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو پاک نمونے پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.( افضل 29 مئی 2007 ء ص 5.4 ) 13 ستمبر 2005ء کو سیکرٹری صاحب تربیت سویڈن کو ہدایت دیتے ہوئے سید نا حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:.آپ اپنی اصلاحی کمیٹی کو بھی Active کریں.اصلاح کا کام بہت بڑا ہے.کسی کی اصلاح کرنے میں ہر گز جھکنا نہیں بلکہ چار ہزار دفعہ بھی کہنا پڑے تو کہیں.نہ جھکنا ہے اور نہ مایوس ہونا ہے.نرمی سے سمجھاتے چلے جانا ہے.الفضل 30 ستمبر 2005 ء ص 6) اسی طرح 3 مئی 2006ء کو سیکرٹری صاحب تربیت نجی سے ان کے پروگراموں کا جائزہ لیتے ہوئے سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:.نماز با جماعت کی ادائیگی کی طرف توجہ دیں.آپ نے یہ جائزہ لینا ہے کہ کتنے لوگ آتے ہیں اور پانچوں نمازوں پر کیا حاضری ہوتی ہے.نمازوں کی حاضری بڑھا ئیں.جو نمازوں پر پہلے آتے تھے لیکن اب نہیں آتے ان کا پتہ کریں کہ کیا وجہ ہے.سب جماعتوں میں اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.آپ اس سلسلہ میں جو کوشش کر رہے ہیں.اگر جماعتوں سے اس کے نتیجہ کا آپ کو علم نہیں ہوگا تو آپ اپنا آئندہ کا پروگرام نہیں بنا سکتے“.الفضل 22 مئی 2006 ء ص 5) 3 مئی 2006ء کو نیشنل مجلس عاملہ نجی کو ہدایات دیتے ہوئے فرمایا:.گہرائی میں جا کر جائزہ لینا ہو گا کہ ہر جماعت میں کتنے لوگ ہیں جو نمازیں نہیں پڑھتے اور گھر میں بھی نماز نہیں پڑھتے.ان کا جائزہ لیں.پھر ان کی تربیت کے لئے پروگرام بنائیں.جو گھر میں نماز
495 نہیں پڑھتا اس کو گھر میں تو نماز پڑھائیں“.الفضل 22 مئی 2006 ءص5) بچوں کو نماز پڑھنے اور سلام کی عادت کی تحریک حضور نے 7 جون 2003ء کو لندن میں چلڈرن کلاس میں بچوں سے خطاب کرتے ہوئے ربوہ کے اطفال کے نام حسب ذیل پیغام دیا:.ربوہ کے بچے ماشاء اللہ آپ لوگوں کی طرح بہت ہی پیارے بچے ہیں.ان کے بارے میں حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ احمدیوں کو سلام کو رواج دینا چاہئے یعنی ہر احمدی کو یہ عادت ڈالنی چاہئے کہ وہ ہر ملنے والے کو سلام کہے اور اس کے لئے حضرت صاحب نے قادیان کی مثال دی تھی کہ وہاں ہر بڑا چھوٹا سلام کہتا تھا اور ایک بہت پیارا اور محبت والا ماحول تھا تو عمومی طور پر حضرت صاحب نے سارے بچوں کو اور بڑوں کو یہ کہا تھا کہ جب آپس میں ملیں تو سلام کہیں ، خوش اخلاقی سے ملیں، لیکن ربوہ کے بچوں کو خاص طور پر کہا تھا کہ وہاں کا ماحول ایسا ہے کہ سلام کی عادت ڈالیں.تو ربوہ کے بچوں کے لئے یہی میرا پیغام ہے کہ ربوہ کے ماحول کو ایسا بنادیں کہ ہر طرف سے سلام سلام کی آوازیں آرہی ہوں، بڑے بھی چھوٹے بھی بچے بھی.بعض دفعہ بڑوں سے سستیاں ہو جاتی ہیں تو بچے اس کی پابندی کریں کہ انہوں نے بہر حال ہر ایک کو سلام کہنا ہے اور سلام کرنے میں پہل کرنی ہے تو اس طرح ربوہ کے ماحول پر بڑا خوشگوار اثر پڑے گا.انشاء اللہ ایک تو یہ بات ہے.دوسرے مساجد کو آباد کرنے کے لئے جس طرح حضرت خلیفہ اسیح الرابع کی خواہش تھی کہ نئی صدی میں ہر گھر نمازیوں سے بھر جائے تو یہاں بھی آپ نمازیں پڑھنے کی طرف توجہ دے رہے ہیں اور دیں اور ربوہ کے ماحول میں جو خالصہ احمدیت کا ماحول ہے بچوں کو چاہئے کہ اپنے بڑوں کو بھی توجہ دلائیں اور خود بھی خاص توجہ کریں اور مساجد میں زیادہ سے زیادہ جائیں اور مساجد کو آباد کریں تا کہ احمدیت کی فتح کے نظارے جو دعاؤں کے طفیل ہمیں انشاء اللہ تعالیٰ ملنے ہیں ، وہ ہم جلدی دیکھیں.(الفضل 12 جون 2003ء ) اسی طرح خطبہ جمعہ 3 ستمبر 2004ء میں فرمایا:.پاکستان میں تو ہمارے سلام کہنے پر پابندی ہے، بہت بڑا جرم ہے.بہر حال ایک احمدی کے دل
496 سے نکلی ہوئی سلامتی کی دعا ئیں اگر یہ لوگ نہیں لینا چاہتے تو نہ لیں اور تبھی تو ان کا حال یہ ہورہا ہے لیکن جہاں احمدی اکٹھے ہوں وہاں تو سلام کو رواج دیں خاص طور پر ربوہ، قادیان میں اور بعض اور شہروں میں بھی اکٹھی احمدی آبادیاں ہیں اور ایک دوسرے کو سلام کرنے کا رواج دینا چاہئے.میں نے پہلے بھی ایک دفعہ ربوہ کے بچوں کو کہا تھا کہ اگر بچے یاد سے اس کو رواج دیں گے تو بڑوں کو بھی عادت پڑ جائے گی پھر اسی طرح واقفین نو بچے ہیں ہمارے جامعہ نے کھل رہے ہیں ان کے طلباء ہیں اگر یہ سب اس کو رواج دینا شروع کریں اور ان کی یہ ایک انفرادیت بن جائے کہ یہ سلام کہنے والے ہیں تو ہر طرف سلام کا رواج بڑی آسانی سے پیدا ہوسکتا ہے اور ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے بعض اور دوسرے شہروں میں کسی دوسرے کو سلام کر کے پاکستان میں قانون ہے کہ مجرم نہ بن جائیں.احمدی کا تو چہرے سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ یہ احمدی ہے اس لئے فکر کی یا ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے اور مولوی ہمارے اندر ویسے ہی پہچانا جاتا ہے.روزنامه الفضل 30 نومبر 2004ء) ادائیگی زکوۃ کی تحریک حضور نے خطبہ جمعہ 28 مئی 2004 ء میں فرمایا: ایک اہم چندہ جس کی طرف میں توجہ دلانی چاہتا ہوں وہ زکوۃ ہے زکوۃ کا بھی ایک نصاب ہے اور معین شرح ہے عموماً اس طرف توجہ کم ہوتی ہے.زمینداروں کے لئے بھی جو کسی قسم کا ٹیکس نہیں دے رہے ہوتے ان پر زکوۃ واجب ہے اسی طرح جنہوں نے جانور وغیرہ بھیڑ، بکریاں ، گائے وغیرہ پالی ہوتی ہیں ان پر بھی ایک معین تعداد سے زائد ہونے پر یا ایک معین تعداد ہونے تک پر زکوۃ ہے پھر بینک میں یا کہیں بھی جو ایک معین رقم سال بھر پڑی رہے اس پر بھی زکوۃ ہوتی ہے پھر عورتوں کے زیوروں پر زکوۃ ہے اب ہر عورت کے پاس کچھ نہ کچھ زیور ضرور ہوتا ہے اور بعض عورتیں بلکہ اکثر عورتیں جو خانہ دار خاتون ہیں جن کی کوئی کمائی نہیں ہوتی وہ لازمی چندہ جات تو نہیں دیتیں ، دوسری تحریکات میں حصہ لے لیتی ہیں لیکن اگر ان کے پاس زیور ہے، اس کی بھی شرح کے لحاظ سے مختلف فقہاء نے بحث کی ہوئی ہے.باون تولے چاندی تک کا زیور ہے یا اس کی قیمت کے برابر اگر سونے کا زیور ہے تو اس پر زکوۃ فرض ہے اور اڑھائی فیصد اس کے حساب سے زکوۃ دینی چاہئے اس کی قیمت
497 کے لحاظ سے.اس لئے اس طرف بھی عورتوں کو خاص طور پر توجہ دینی چاہئے اور زکوۃ ادا کیا کریں بعض جگہ یہ بھی ہے کہ کسی غریب کو پہنے کے لئے زیور دے دیا جائے تو اس پر زکوۃ نہیں ہوتی لیکن آجکل اتنی ہمت کم لوگ کرتے ہیں کسی کو دیں کہ پتہ نہیں اس کا کیا حشر ہو اس لئے چاہئے کہ جو بھی زیور ہے، چاہے خود مستقل پہنتے ہیں یا عارضی طور پر کسی غریب کو پہننے کے لئے دیتے ہیں احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اس پر زکوۃ ادا کر دیا کریں“.بد رسوم ترک کرنے کی تحریک : حضور نے خطبہ جمعہ 10 /اکتوبر 2003ء میں فرمایا:.روزنامه الفضل 24 اگست 2004 ء ) عورتوں کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہئے.صرف اپنے علاقہ کی یا ملک کی رسموں کے پیچھے نہ چل پڑیں.بلکہ جہاں بھی ایسی رسمیں دیکھیں جن سے ہلکا سا بھی شائبہ شرک کا ہوتا ہو ان سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے.اللہ کرے تمام احمدی خواتین اسی جذبہ کے ساتھ اپنی اور اپنی نسلوں کی تربیت کرنے والی ہوں.ہمارے ملکوں میں، پاکستان اور ہندوستان وغیرہ میں مسلمانوں میں بھی یہ روراج ہے کہ لڑکیوں کو پوری جائیداد نہیں دیتے.پوری کیا، دیتے ہی نہیں.خاص طور پر دیہاتی لوگوں میں، زمینداروں میں.اس کا ایک نمونہ ہے چوہدری نصر اللہ خان صاحب کا.چوہدری صاحب لکھتے ہیں کہ ہماری ہمشیرہ صاحبہ مرحومہ کو اس زمانہ کے رواج کے مطابق والد صاحب نے ان کی شادی کے موقع پر بہت سارا جہیز دیا اور پھر آپ نے یہ وصیت بھی کر دی کہ آپ کا ورثہ اسلام کے مطابق تقسیم بھی ہوگا، لڑکوں میں بھی اور لڑکیوں میں بھی.چنانچہ اس کے مطابق ان کی وفات کے بعد ان کی بیٹی کو بھی اسلام کے مطابق حصہ دیا گیا.( روزنامه الفضل یکم جون 2004 عص3) شادی بیاہ کے موقع پر لغویات سے بچنے کی تحریک: خطبہ جمعہ 25 نومبر 2005ء میں حضور نے شادی بیاہ پر لغو تقریبات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.” جو شکایات آتی ہیں ایسے گھروں کی ان کو میں تنبیہ کرتا ہوں کہ ان لغویات اور فضولیات سے بچیں.پھر ڈانس ہے، ناچ ہے، لڑکی کی جو رونقیں لگتی ہیں اس میں یا شادی کے بعد جب لڑکی بیاہ کر لڑکے کے گھر جاتی ہے وہاں بعض دفعہ اس قسم کے بیہودہ قسم کے میوزک یا گانوں کے اوپر ناچ ہورہے ہوتے ہیں اور شامل ہونے والے عزیز رشتہ دار اس میں شامل ہو جاتے ہیں تو اس کی کسی صورت میں
498 بھی اجازت نہیں دی جاسکتی.بعض گھر جو دنیا داری میں بہت آگے بڑھ گئے ہیں ان کی ایسی رپورٹس آتی ہیں اور کہنے والے کہتے ہیں کہ کیونکہ فلاں امیر آدمی تھا اس لئے اس پر کارروائی نہیں ہوئی یا فلاں عہدیدار کا رشتہ دار عزیز تھا اس لئے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی ، اس سے صرف نظر کیا گیا غریب آدمی یہ حرکت کرے تو اسے سزا ملتی ہے.اس بارے میں واضح کر دوں کہ ایسی حرکتیں جو جماعتی وقار کی اور اسلامی تعلیم اور اقدار کی دھجیاں اڑاتی ہوں.اگر مجھے پتہ چل جائے تو ان پر میں بلا استثناء بغیر کسی لحاظ کے کارروائی کروں گا اور کی بھی جاتی ہے.جماعتی نظام اور ذیلی تنظیموں کا جو نظام ہے یہ بھی ان بیاہ شادیوں پر نظر رکھے اور جہاں کہیں بھی اس قسم کی بیہودہ فلموں کے ناچ گانے یا ایسے گانے جو سراسر شرک پھیلانے والے ہوں دیکھیں تو ان کی رپورٹ آنی چاہئے اس بارہ میں قطعاً ڈرنے کی ضرورت نہیں کہ کس خاندان کا ہے اور کیا ہے.(روز نامه الفضل 28 فروری 2006 ص2) جادو ٹونے ٹوٹکے سے بچنے کی تحریک: حضور نے خطبہ جمعہ 22 /اکتوبر 2004ء میں فرمایا:.حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ : ” پیر بنیں.پیر پرست نہ بنیں.یہاں یہ بھی بتادوں کہ بعض رپورٹیں ایسی آتی ہیں، اطلاعیں ملتی رہتی ہیں، پاکستان میں بھی اور دوسری جگہوں میں بھی بعض جگہ ربوہ میں بھی کہ بعض احمد یوں نے اپنے دعا گو بزرگ بنائے ہوئے ہیں اور وہ بزرگ بھی میرے نزدیک نام نہاد ہیں جو پیسے لے کر یا ویسے تعویذ وغیرہ دیتے ہیں یا دعا کرتے ہیں کہ 20 دن کی دوائی لے جاؤ، 20 دن کا پانی لے جاؤ یا تعویذ لے جاؤ.یہ سب فضولیات اور لغویات ہیں.میرے نزدیک تو وہ احمدی نہیں ہیں جو اس طرح تعویذ وغیرہ کرتے ہیں.ایسے لوگوں سے دعا کروانے والا بھی یہ سمجھتا ہے کہ میں جو مرضی کرتار ہوں ، لوگوں کے حق مارتا رہوں، میں نے اپنے بزرگ سے دعا کر والی ہے اس لئے بخشا گیا ، یا میرے کام ہو جائیں گے.اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ مومن کہلانا ہے تو میری عبادت کرو اور تم کہتے ہو کہ پیر صاحب کی دعائیں ہمارے لئے کافی ہیں.یہ سب شیطانی خیالات ہیں ان سے بچیں.عورتوں میں خاص طور پر یہ بیماری زیادہ ہوتی ہے، جہاں جہاں بھی ہیں ہمارے ایشین (Asian) ملکوں میں اس طرح کا زیادہ ہوتا ہے یا جہاں جہاں بھی Asians اکٹھے ہوئے ہوتے ہیں وہاں بھی بعض دفعہ ہو جاتا ہے.اس لئے ذیلی تنظیمیں اس بات کا جائزہ لیں اور ایسے جو بدعات
499 پھیلانے والے ہیں اس کا سد باب کرنے کی کوشش کریں.اگر چند ایک بھی ایسی سوچ والے لوگ ہیں تو پھر اپنے ماحول پر اثر ڈالتے رہیں گے، نہ صرف ذیلی تنظیمیں بلکہ جماعتی نظام بھی جائزہ لے اور جیسا کہ میں نے کہا کہ چند ایک بھی اگر لوگ ہوں گے تو اپنے اثر ڈالتے رہیں گے اور شیطان تو حملے کی تاک میں رہتا ہے.اللہ تعالیٰ کی بات ماننے والے بننے کی بجائے اس طرح بعض شرک میں پڑنے والے ہو جائیں گے.اللہ تعالیٰ سب کو اس سے محفوظ رکھے.لیکن میں پھر کہتا ہوں کہ یہ بیماری چاہے چند ایک میں ہی ہو، جماعت کے اندر برداشت نہیں کی جاسکتی.اللہ تعالیٰ تو یہ دعا سکھاتا ہے کہ اپنے اپنے دائرے میں ہر ایک یہ دعا کرے کہ مجھے متقیوں کا امام خلیفہ وقت بھی یہ دعا کرتا ہے کہ مجھے متقیوں کا امام بنا اور یہ پیر پرست طبقہ کہتا ہے کہ ہم جو مرضی عمل کریں.ہمارے پیر صاحب کی دعاؤں سے ہم بخشے جائیں گے.انا للہ.یہ تو نعوذ باللہ عیسائیوں کے کفارہ والا معاملہ ہی آہستہ آہستہ بن جائے گا.وہی نظریہ پیدا ہوتا جائے گا.پس اس طرف چاہے یہ چھوٹے ماحول میں ہی ہو، بہت توجہ کی ضرورت ہے.ابھی سے اس کو دبانا ہوگا اور ہر احمدی یہ عہد کرے کہ اس رمضان میں اپنے اندر انشاء اللہ تعالیٰ انقلابی تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں.ہر احمدی یہ کوشش کرے اور ہر احمدی خودان دعاؤں اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے مزے چکھے الفضل 30 دسمبر 2004ءص4) بجائے اس کہ دوسروں کے پیچھے جائے“.سگریٹ نوشی ترک کرنے کی تحریک: سگریٹ نوشی کا رجحان دنیا بھر میں ترقی کر رہا ہے اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2025 ء تک سگریٹ نوشی نے 15 کروڑ افراد کی ہلاکت کا خدشہ ہے.ترقی پذیر اور نئے صنعتی ممالک میں بڑھتی ہوئی عادت کے سبب 70 فیصد سے زائد اموات متوقع ہیں.ایک عالمی تنظیم کے مطابق دنیا بھر میں 70 کروڑ بچے تمباکو نوشی کے دھوئیں میں مسلسل سانس لیتے ہیں.روزنامه دن 6 فروری 2008 ص 6 حضور نے خطبہ جمعہ 10 اکتوبر 2003ء میں سگریٹ نوشی ترک کرنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:.آجکل یہی برائی ہے حقہ والی جو سگریٹ کی صورت میں رائج ہے.تو جو سگریٹ پینے والے ہیں
500 ان کو کوشش کرنی چاہئے کہ سگریٹ چھوڑیں.کیونکہ چھوٹی عمر میں خاص طور پر سگریٹ کی بیماری جو ہے وہ آگے سگریٹ کی کئی قسمیں نکل آئی ہوئی ہیں جن میں نشہ آور چیزیں ملا کر پیا جاتا ہے.تو وہ نو جوانوں کی زندگی برباد کرنے کی طرف ایک قدم ہے جو دجال کا پھیلایا ہوا ہے اور بدقسمتی سے مسلمان ممالک بھی اس میں شامل ہیں.بہر حال ہمارے نو جوانوں کو چاہئے کہ کوشش کریں کہ سگریٹ نوشی کو ترک کریں.روزنامه الفضل یکم جون 2004 ص 4) 66 طاہر فاؤنڈیشن کے قیام کا اعلان حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ یو.کے 2003 ء کے موقع پر دوسرے دن کے خطاب میں فرمایا:.کی مختلف لوگوں نے توجہ دلائی ہے خود بھی خیال آیا کہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع کی جاری فرمودہ تحریکات ہیں اور غلبہ اسلام کے لئے آپ کے مختلف منصوبے تھے.آپ کے خطبات ہیں ، تقاریر ہیں، مجالس عرفان ہیں.ان کی تدوین اور اشاعت کا کام ہے.تو یہ کافی وسیع کام ہے جس کے لئے الگ ادارہ کے قیام کی ضرورت ہے.تو کافی سوچ کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ ایک ادارہ ”طاہر فاؤنڈیشن کے نام سے قائم کیا جائے اور اس کے لئے انشاء اللہ ایک مجلس ہوگی ، بورڈ آف ڈائر یکٹر ہوگا ، جو کہ ہیں ممبران پر پر مشتمل ہوگا اور اس کی ایک سب کمیٹی لندن میں بھی ہوگی.کیونکہ دنیا میں مختلف جگہوں میں پھیلے ہوئے مختلف زبانوں کے کام ہیں اور جہاں تک فنڈ ز کا تعلق ہے مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ تینوں مرکزی انجمنیں مل کر یہ فنڈز مہیا کریں گی لیکن کچھ لوگوں کی بھی خواہش ہوگی تو اس میں کوئی پابندی نہیں ہے جو کوئی اپنی خوشی سے، اپنی مرضی سے اس تحریک میں حصہ لینا چاہیں ، ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ، ان کو اجازت ہوگی ، دے سکتے ہیں اس میں چندہ.تو دعا کریں جو کمیٹی بنے گی اس کو اللہ تعالیٰ کام کرنے کی توفیق بھی دے اور ہر لحاظ سے وہ کام جو حضور کی تحریکات کے ہیں جو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضروت ہے ان کو مکمل کرنے کی توفیق ملے.الفضل انٹر نیشنل 19 ستمبر 2003ء ) طاہر فاؤنڈیشن حضرت خلیفہ المسیح الرابع حمہ اللہ تعالیٰ کے خطبات جمعہ کی تین جلدوں کے علاوہ خطبات عیدین اور حضور کی تقار بر قبل از خلافت شائع کر چکی ہے.
501 تعلیم القرآن کے متعلق تحریکات تلاوت کرنے کی تحریک حضرت خلیفہ اسی الخامس ایدہ اللہ نے خطبہ جمعہ 16 ستمبر 2005 ء میں فرمایا: اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کے لئے اور فرشتوں کے حلقے میں آنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک قرآن کریم پڑھے اور اس کو سمجھے، اپنے بچوں کو پڑھائیں ، انہیں تلقین کریں کہ وہ روزانہ تلاوت کریں.اور یاد رکھیں کہ جب تک ان چیزوں پر عمل کرنے کے ماں باپ کے اپنے نمونے بچوں کے سامنے قائم نہیں ہوں گے اس وقت تک بچوں پر اثر نہیں ہو گا.اس لئے فجر کی نماز کے لئے بھی اٹھیں اور اس کے بعد تلاوت کے لئے اپنے پر فرض کریں کہ تلاوت کرنی ہے پھر نہ صرف تلاوت کرنی ہے بلکہ توجہ سے پڑھنا ہے اور پھر بچوں کی بھی نگرانی کریں کہ وہ بھی پڑھیں ، انہیں بھی پڑھائیں.جو چھوٹے بچے ہیں ان کو بھی پڑھایا جائے“.الفضل 7 فروری 2006ء ) حضرت خلیفۃ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز احباب جماعت کو قرآن کریم کی تلاوت اور اس کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنے کی نصیحت کرتے ہوئے خطبہ جمعہ 24 ستمبر 2004ء میں فرماتے ہیں:.ہر احمدی کو اس بات کی فکر کرنی چاہئے کہ وہ خود بھی اور اس کے بیوی بچے بھی قرآن کریم پڑھنے اور اس کی تلاوت کرنے کی طرف توجہ دیں.پھر تر جمہ پڑھیں پھر حضرت مسیح موعود کی تفسیر پڑھیں..پس بچوں کو بھی قرآن کریم پڑھنے کی عادت ڈالیں اور خود بھی پڑھیں.ہر گھر سے تلاوت کی آواز آنی چاہئے.پھر ترجمہ پڑھنے کی کوشش بھی کریں اور سب ذیلی تنظیموں کو اس سلسلے میں کوشش کرنی چاہئے ، خاص طور پر انصار اللہ کو کیونکہ میرے خیال میں خلافت ثالثہ کے دور میں ان کے ذمے یہ کام لگایا گیا تھا.اسی لئے ان کے ہاں ایک قیادت بھی اس کے لئے ہے جو تعلیم القرآن کہلاتی ہے.اگر انصار پوری توجہ دیں تو ہر گھر میں باقاعدہ قرآن کریم پڑھنے اور اس کو سمجھنے کی کلاسیں لگ سکتی ہیں“.اللہ کرے کہ ہم خود بھی اور اپنے بیوی بچوں کو بھی اس طرف توجہ دلانے والے ہوں اور اپنے دلوں کو منور کرنے والے ہوں اور قبولیت دعا کے نظارے دیکھنے والے ہوں.جیسا کہ میں نے پہلے بھی
502 کہا تھا کہ انصار اللہ کے ذمہ خلافت ثالثہ میں یہ لگایا گیا تھا کہ قرآن کریم کی تعلیم کو رائج کریں ، قرآن کریم کی تلاوت کی طرف توجہ دیں.گھروں کو بھی اس نور سے منور کریں لیکن ابھی بھی جہاں تک میرا اندازہ ہے انصار اللہ میں بھی 100 فیصد قرآن کی تلاوت کرنے والے نہیں ہیں.اگر جائزہ لیں تو یہی صورتحال سامنے آئے گی اور پھر یہ کہ اس کا ترجمہ پڑھنے والے ہوں“.(روز نامہ الفضل 7 دسمبر 2004 ء ) ترجمہ سیکھنے کی تحریک حضور نے نیشنل تربیتی کلاس برطانیہ سے خطاب کرتے ہوئے 31 دسمبر 2003ء کو فر مایا:.قرآن شریف جب آپ پڑھیں پندرہ سولہ سال کی عمر کے جو بچے ہیں بلکہ چودہ سال کی عمر کے بھی.اب یہ بڑی عمر کے بچے ہیں ، Mature ہو گئے ہیں، سوچیں ان کی بڑی Mature ہونی چاہئیں.اس عمر میں آکے آپ لوگ اپنے مستقبل کے بارے میں ، Future کے بارے میں بھی سوچنا شروع کر دیتے ہیں.تو اس میں خاص طور پر یا درکھیں کہ قرآن شریف جب آپ پڑھ رہے ہیں تو اس کا ترجمہ بھی سیکھنے کی کوشش کریں.کیونکہ یہ بھی ایک حدیث ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ قرآن شریف جو ہے اس کا ایک سرا خدا کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور دوسرا سرا تمہارے ہاتھ میں.یہی مطلب ہے کہ اگر تم لوگ اس کو پڑھو اور اس پر عمل کرو، اس کو سمجھو تو تم نیکیاں کرنے کی کوشش کرو گے اور جب تم نیکیاں کرو گے تو اللہ تعالیٰ تک تم پہنچ سکو گے.دعائیں کرنے کا تمہیں موقع ملے گا.نمازیں پڑھنے کا تمہیں مزہ آئے گا اور پھر اللہ تعالیٰ کے جو حکم ہیں جو باتیں ان کو سمجھنے کی توفیق ملے گی“.مشعل راه جلد 5 حصہ 2 ص 179 180 ) قرآن کلاسز میں شمولیت کی تحریک حضور نے اطفال ریلی برطانیہ سے خطاب میں 10 اپریل 2005 ء کوفر مایا:." قرآن کریم پڑھیں.قرآن کریم پڑھیں گے تو آپ کو پتہ لگے گا کہ ہم نے کیا کیا کچھ کرنا ہے، کیا کیا کچھ اللہ میاں نے ہمیں حکم دیئے ہیں، کیا تعلیم دی ہے.تو اس طرح آپ کو بہت سارے فائدے ہوں گے.مجھے امید ہے کہ اکثر بچے ہمارے جو دس سال سے اوپر کے ہیں با قاعدہ قرآن کریم پڑھتے
503 ہوں گے.اگر نہیں پڑھتے تو پڑھنے کی عادت ڈالیں.روز کم از کم ایک رکوع پڑھا کریں اور کلاسوں میں بھی شامل ہوا کریں.خدام الاحمدیہ اگر کلاسیں لگاتی ہے تو بڑی اچھی بات ہے.نہیں لگاتی تو کلاسیں لگانی چاہئیں.تاکہ بچوں کو بتا ئیں تو جب آپ لوگ اس طرح تعلیم حاصل کریں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کے لئے بہت مفید وجود بن جائیں گے، جماعت کا ایک بہت مفید حصہ بن جائیں گے.مشعل راہ جلد نمبر 5 حصہ 2 ص 165 ) قرآن پر عمل کرنے کی تحریک خطبہ جمعہ 21 /اکتوبر 2005ء میں فرمایا:.آج ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس رمضان میں اس نصیحت سے پر کلام کو جیسا کہ ہمیں اس کے زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی توفیق مل رہی ہے، اپنی زندگیوں پر لاگو بھی کریں.اس کے ہر حکم پر جس کے کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کریں اور جن باتوں کی مناہی کی گئی ہے، جن باتوں سے روکا گیا ہے ان سے رکیں ، ان سے بچیں اور کبھی بھی ان لوگوں میں سے نہ بنیں جن کے بارے میں خود قرآن کریم میں ذکر ہے.فرمایا کہ يا رب ان قومي اتخذوا هذا القرآن مهجورا (الفرقان : 31) اور رسول کہے گا اے میرے رب ! یقیناً میری قوم نے اس قرآن کو متروک کر چھوڑا ہے.یہ زمانہ اب وہی ہے جب اور بھی بہت ساری دلچسپیوں کے سامان پیدا ہو گئے ہیں.پڑھنے والی کتابیں بھی اور بہت سی آچکی ہیں.اور بہت ساری دلچسپیوں کے سامان پیدا ہو گئے ہیں.انٹرنیٹ وغیرہ ہیں جن پر ساری ساری رات یا سارا سارا دن بیٹھے رہتے ہیں.اس طرح ہے کہ نشے کی حالت ہے اور اس طرح کی اور بھی دلچسپیاں ہیں.خیالات اور نظریات اور فلسفے بہت سے پیدا ہو چکے ہیں.جو انسان کو مذہب سے دور لے جانے والے ہیں...آج ہم احمدیوں کی ذمہ داری ہے، ہر احمدی کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآنی تعلیم پر نہ صرف عمل کرنے والا ہو، اپنے اوپر لاگو کرنے والا ہو بلکہ آگے بھی پھیلائے اور حضرت مسیح موعود کے مشن کو آگے بڑھائے اور کبھی بھی یہ آیت جو میں نے اوپر پڑھی ہے کسی احمدی کو اپنی لپیٹ میں نہ لے.ہمیشہ حضرت مسیح موعود کا یہ فقرہ ہمارے ذہن میں ہونا چاہئے کہ جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت
504 پائیں گے.ہم ہمیشہ قرآن کے ہر حکم اور ہر لفظ کو عزت دینے والے ہوں اور عزت اس وقت ہوگی جب ہم اس پر عمل کر رہے ہوں گے اور جب ہم اس طرح کر رہے ہوں گے تو قرآن کریم ہمیں ہر پریشانی سے نجات دلانے والا اور ہمارے لئے رحمت کی چھتری ہو گا.جیسا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وننزل من القرآن ماهو شفاء ورحمة للمومنين ولا يزيد الظالمين الا خسارا ( بنی اسرائیل: 83) اور ہم قرآن میں سے وہ نازل کرتے ہیں جو شفا ہے اور مومنوں کے لئے رحمت ہے اور وہ ظالموں کو گھاٹے کے سوا اور کسی چیز میں نہیں بڑھاتا“.وقف عارضی میں شمولیت کی تحریک (الفضل 11 نومبر 2005ء ) قرآن کریم کی تعلیم کو رانج کرنے اور جماعتی تربیت کی خاطر حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے 1966ء میں وقف عارضی کی تحریک فرمائی اور فرمایا کہ ہر سال 5 ہزار واقفین عارضی کی ضرورت ہے.حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مجلس مشاورت پاکستان 2004 ء کے ممبران کے نام اپنے پیغام میں وقف عارضی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:.گزشتہ سالوں میں کئی دفعہ وقف عارضی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ جماعتوں نے اس پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی.گو اس سال شاید یہ تجویز نہیں ہے لیکن میری ممبران شوری سے یہ درخواست ہے کہ یہ ارادہ کر کے جائیں کہ اس سال ہم نے ربوہ کے علاوہ باہر سے پانچ ہزار واقفین عارضی مہیا کرنے ہیں، جو وفود کی شکل میں مختلف جماعتوں میں جائیں.انشاء اللہ ان وفود کی اپنی تربیت بھی ہوگی اور جماعت کی تربیت میں بھی مدد ملے گی.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دے آمین.الفضل 5 اپریل 2004 ء ) حضور نے 3 نومبر 2006ء کوتحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:.ایک مطالبہ وقف عارضی کا ہے اس طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے.باہر کی دنیا میں (باہر سے مراد یورپ اور مغربی ممالک افریقہ وغیرہ) اگر آر گنائز کر کے اس مطالبے پر سارے نظام پر قائم کیا جائے تو اپنوں کی تربیت کے لحاظ سے بھی اور دعوت الی اللہ کے لحاظ سے بھی بہت بہتری پیدا ہوگی جماعتیں اس طرف بھی توجہ کریں.(الفضل 12 دسمبر 2006ء)
505 دعوت الی اللہ کے متعلق تحریکات دعوت الی اللہ کی تحریک حضور نے 8 اکتوبر 2004 ء کو سکاٹ لینڈ میں خطبہ جمعہ میں فرمایا:.دعوت الی اللہ کریں.حکمت سے کریں، ایک تسلسل سے کریں، مستقل مزاجی سے کریں اور ٹھنڈے مزاج کے ساتھ، مستقل مزاجی کے ساتھ کرتے چلے جائیں.دوسرے کے جذبات کا بھی خیال رکھیں اور دلیل کے لئے ہمیشہ قرآن کریم اور حضرت اقدس مسیح موعود کی کتابوں سے حوالے نکالیں.پھر ہر علم عقل اور طبقے کے آدمی کے لئے اس کے مطابق بات کریں.خدا کے نام پر جب آپ نیک نیتی سے بات کر رہے ہوں گے تو اگلے کے بھی جذبات اور ہوتے ہیں.نیک نیتی سے اللہ تعالیٰ کے نام پر کی گئی بات اثر کرتی ہے.ایک تکلیف سے ایک درد سے جب بات کی جاتی ہے تو وہ اثر کرتی ہے.تمام انبیاء بھی اسی اصول کے تحت اپنے پیغام پہنچاتے رہے اور ہر ایک نے اپنی قوم کو یہی کہا ہے کہ میں تمہیں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، نیک باتوں کی طرف بلاتا ہوں اور اس پر کوئی اجر نہیں مانگتا.یہی ہمیں قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے....ہر حال اس کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں.جو ہو چکا وہ ہو گیا ، جو گزر گیا وہ گزر گیا لیکن آئندہ کے لئے ہمیں نئے عہد کرنے ہوں گے اور جیسا کہ میں نے کہا حکمت اور دانائی کی باتیں سیکھنے کے لئے قرآن پڑھنے اور حضرت اقدس مسیح موعود کی کتب پڑھنے جو قرآن و حدیث کی تشریح اور مزید وضاحتیں ہیں، ان کی طرف توجہ دینی ہوگی اس کے بارے میں میں تفصیلی خطبات پہلے بھی دے چکا ہوں.آپ بھی ، جو لوگ باہر نکل سکتے ہیں باہر نکلیں ، دعائیں کرتے ہوئے یہاں کی جو چھوٹی جگہیں ہیں ان میں رابطے بڑھا ئیں اور ان لوگوں میں نسبتاً سادگی زیادہ ہوتی ہے.یہاں بھی چھوٹے قصبوں میں سادگی زیادہ ہے.تو پھر انشاء اللہ تعالیٰ ایک موقع ایسا آئے گا کہ باہر سے ہمارا پیغام اندر بڑے شہروں میں آنا شروع ہوگا پہنچنا شروع ہوگا.کیونکہ مقامی لوگ ہی اس کو پھیلائیں گے اور یہ میں نے مختلف ملکوں میں بھی دیکھا ہے کہ جہاں بھی احمدی چھوٹی جگہوں پر ایکٹو (active) ہیں.ان کے
506 رابطے بڑی جگہوں کی نسبت زیادہ ہیں اور وہاں مقامی لحاظ سے جو بڑے لوگ ہیں ، رابطوں میں ان کو بھی وہ لے آتے ہیں ، عوام کو بھی لے آتے ہیں، اوسط درجے کے لوگوں کو بھی لے آتے ہیں.لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ ہماری کوشش اور رابطوں میں اور دعاؤں میں بہت کمی ہے.یہ بڑھانے کے ساتھ ساتھ دعاؤں کی طرف بھی بہت توجہ دینی ہوگی....گزشتہ کو تا ہیوں پر خدا تعالیٰ سے معافی مانگیں اور مغفرت طلب کریں اور آئندہ ایک جوش اور ایک ولولے اور جذبے کے ساتھ احمدیت کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے آگے بڑھیں.ابھی دنیا کے بلکہ اس صوبہ کے، سکاٹ لینڈ کے بہت سے حصے ایسے ہیں جہاں احمدیت کا پیغام نہیں پہنچا کسی کو احمدیت کے بارے میں پتہ ہی نہیں ہے.پس بہت زیادہ کوششوں کی ضرورت ہے، دعاؤں کی بھی ضرورت ہے تبھی ہم اس دعوے میں بچے ہو سکتے ہیں کہ ہم تمام دنیا کو اسلام کے جھنڈے تلے لے کر آئیں گے انشاء اللہ.اور اسی لئے ہم نے حضرت مسیح موعود کی بیعت کی ہے اور آپ کی بیعت میں الفضل 21 دسمبر 2004ء صفحہ 4,3) شامل ہوئے ہیں.9 دسمبر 2005ء کو حضور نے ماریشس میں خطبہ جمعہ میں فرمایا:.اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کو خلافت سے وابستگی اور اخلاص ہے.لیکن دعوت الی اللہ کی طرف اس طرح توجہ نہیں دی جارہی جس طرح ہونی چاہئے اس لئے جماعتی نظام بھی اور ذیلی تنظیمیں بھی دعوت الی اللہ کے پروگرام بنا ئیں.روزنامه الفضل 7 مارچ 2006ء) لاکھوں کی تعداد میں وقف نو چاہئیں جامعہ احمد یہ لندن کے افتتاح کے موقعہ پر یکم اکتوبر 2005ء کو خطاب میں حضور انور نے فرمایا کہ حضرت خلیفہ مسیح الرابع نے جب وقف نو کی تحریک فرمائی تھی تو فرمایا تھا کہ ہمیں لاکھوں واقفین نو چاہئیں.اب تک تو واقفین نو کی تعداد ہزاروں میں ہے لیکن جس طرح جماعت کی تعداد بڑھ رہی ہے اور جس طرح والدین کی اس طرف توجہ پیدا ہورہی ہے، انشاء اللہ تعالیٰ لاکھوں کی تعداد ہو جائے گی.اور پھر ظاہر ہے کہ ہر ملک میں جامعہ احمدیہ کھولنا پڑے گا.اور یہ انشاء اللہ تعالیٰ ایک دن ہوگا.( روزنامه الفضل 7 دسمبر 2005ء )
507 حضور نے فرمایا:.واقفین نو زبانیں سیکھیں اس ضمن میں واقفین نو سے بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ واقفین نو جو شعور کی عمر کو پہنچ چکے ہیں اور جن کا زبانیں سیکھنے کی طرف رجحان بھی ہے اور صلاحیت بھی ہے خاص طور پر لڑکیاں وہ انگریزی، عربی اردو اور ملکی زبان جو سیکھ رہی ہیں جب سیکھیں تو اس میں اتنا عبور حاصل کر لیں (میں نے دیکھا ہے کہ زیادہ تر لڑکیوں میں زبانیں سیکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے ) کہ جماعت کی کتب اور لٹریچر وغیرہ کا ترجمہ کرنے کے قابل ہو سکیں تبھی ہم ہر جگہ نفوذ کر سکتے ہیں.(روزنامہ الفضل 2 جولائی 2004ء ) ہر احمدی دعوت الی اللہ کے لئے سال میں کم از کم دو ہفتے وقف کرے حضور نے خطبہ جمعہ 4 جون 2004ء بمقام ہالینڈ میں فرمایا:.دنیا میں ہر احمدی اپنے لئے فرض کر لے کہ اس نے سال میں کم از کم ایک یا دو دفعہ ایک یا دو ہفتے تک اس کام کے لئے وقف کرنا ہے.یہ میں ایک یا دو دفعہ کم از کم اس لئے کہہ رہا ہوں کہ جب ایک رابطہ ہوتا ہے تو دوبارہ اس کا رابطہ ہونا چاہیئے اور پھر نئے میدان بھی مل جاتے ہیں.اس لئے اس بارے میں پوری سنجیدگی کے ساتھ تمام طاقتوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے آپ کو ہر ایک کو پیش کرنا چاہئے.چاہے وہ ہالینڈ کا احمدی ہو یا جرمنی کا ہو.یا بیلجیئم کا ہو یا فرانس کا ہو یا یورپ کے کسی بھی ملک کا ہو یا دنیا کے کسی بھی ملک کا ہو چاہے گھانا کا ہوا فریقہ میں یا بورکینافاسوکا ہو، کینیڈا کا ہو یا امریکہ کا ہو یا ایشیائی کسی ملک کا ہو، ہر ایک کو اب اس بارے میں سنجیدہ ہو جانا چاہئے اگر دنیا کو تباہی سے بچانا ہے.ہر ایک کو ذوق اور شوق کے ساتھ اس پیغام کو پہنچائیں ، اپنے ہم وطنوں کو اپنے اس پیغام کو پہنچائیں ، اور جیسا کہ میں نے کہا دنیا کو تباہی سے بچائیں کیونکہ اب اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے بغیر کوئی قوم بھی محفوظ نہیں.اس لئے اب ان کو بچانے کے لئے داعیان الی اللہ کی مخصوص تعداد یا مخصوص ٹارگٹ حاصل کرنے کا وقت نہیں ہے.یا اسی پر گزارا نہیں ہوسکتا.بلکہ اب تو جماعتوں کو ایسا پلان کرنا چاہئے ، جیہ کہ میں نے کہا ہے کہ ہر شخص ، ہر احمدی اس پیغام کو پہنچانے میں مصروف ہو جائے.روزنامه الفضل 31 اگست 2004 ء )
508 اعتراضات کے جوابات کے لئے ٹیمیں تیار کرنے کی تحریک حضور نے خطبہ جمعہ 11 فروری میں اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: آج کل بھی بعض لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک کے بارے میں بعض کتابیں لکھی ہیں اور وقتا فوقتا آتی رہتی ہیں.اسلام کے بارے میں، اسلام کی تعلیم کے بارے میں یا آپ کی ذات کے بارے میں بعض مضامین انٹرنیٹ یا اخبارات میں بھی آتے ہیں، کتب بھی لکھی گئی ہیں.ایک خاتون مسلمان بن کے ان سائیڈ سٹوری (Inside Story) بتانے والی بھی آجکل کینیڈا میں ہیں.جب احمدی اس کو چیلنج دیتے ہیں کہ آؤ بات کرو تو بات نہیں کرتی اور دوسروں سے ویسے اپنے طور پر جو مرضی گند پھیلا رہی ہے.تو بہر حال آج کل پھر یہ مہم ہے.ہر احمدی کو اس بات پہ نظر رکھنی چاہئے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کا تقاضا یہی ہے کہ آپ کی سیرت کے ہر پہلو کو دیکھا جائے اور بیان کیا جائے ، اظہار کیا جائے.بلکہ مستقل ایسے الزامات جو آپ کی پاک ذات پر لگائے جاتے ہیں ان کا ذکر نے کے لئے ، آپ کی سیرت کے مختلف پہلو بیان کئے جائیں ان اعتراضات کو سامنے رکھ کر آپ کی سیرت کے روشن پہلو دکھائے جا سکتے ہیں.کوئی بھی اعتراض ایسا نہیں جس کا جواب موجود نہ ہو.جن جن ملکوں میں ایسا بیہودہ لٹریچر شائع ہوا ہے یا اخباروں میں ہے یا ویسے آتے ہیں وہاں کی جماعت کا کام ہے کہ اس کو دیکھیں اور براہ راست اگر کسی بات کے جواب دینے کی ضرورت ہے یعنی اس اعتراض کے جواب میں، تو پھر وہ جواب اگر لکھنا ہے تو پہلے مرکز کو دکھا ئیں.نہیں تو جیسا کہ میں نے کہا سیرت کا بیان تو ہر وقت جاری رہنا چاہئے.یہاں بھجوائیں تا کہ یہاں بھی اس کا جائزہ لیا جا سکے اور اگر اس کے جواب دینے کی ضرورت ہو تو دیا جائے.جماعت کے افراد میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے بارے میں جس طرح میں نے کہا مضامین اور تقاریر کے پروگرام بنائے جائیں.ہر ایک کے بھی علم میں آئے.نئے شامل ہونے والوں کو بھی اور نئے بچوں کو بھی.تا کہ خاص طور پر نو جوانوں میں ، کیونکہ جب کالج کی عمر میں جاتے ہیں تو زیادہ اثر پڑتے ہیں.تو جب یہ باتیں سنیں تو نو جوان بھی جواب دے سکیں.پھر یہ ہے کہ ہر احمدی اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرے.تا کہ دنیا کو یہ بتاسکیں کہ یہ پاک تبدیلیاں آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی کی
509 وجہ سے ہیں جو چودہ صدیوں سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی اسی طرح تازہ ہے.الفضل 14 جون 2005 ء ) اسی ضمن میں حضور نے خطبہ جمعہ 18 فروری 2005 ء میں فرمایا:.بہر حال ایسے لوگ جو یہ لغویات ، فضولیات اخبارات میں لکھتے رہتے ہیں.اس کے لئے گزشتہ ہفتے بھی میں نے کہا تھا کہ جماعتوں کو انتظام کرنا چاہئے.مجھے خیال آیا کہ ذیلی تنظیموں خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کو بھی کہوں کہ وہ بھی ان چیزوں پہ نظر رکھیں کیونکہ لڑکوں ، نو جوانوں کی آج کل انٹرنیٹ اور اخباروں پر توجہ ہوتی ہے، دیکھتے بھی رہتے ہیں اور ان کی تربیت کے لئے بھی ضروری ہے کہ نظر رکھیں اور جواب دیں.اس لئے یہاں خدام الاحمدیہ بھی کم از کم 100 ایسے لوگ تلاش کرے جو اچھے پڑھے لکھے ہوں جو دین کا علم رکھتے ہوں.اور اسی طرح لجنہ اپنی 100 نو جوان بچیاں تلاش کر کے ٹیم بنائیں جو ایسے مضمون لکھنے والوں کے جواب مختصر خطوط کی صورت میں ان اخبارات کو بھیجیں جن میں ایسے مضمون آتے ہیں یا خطوط آتے ہیں.آج کل پھر اخباروں میں مذہبی آزادی کے اوپر ایک بات چیت چل رہی ہے.اسی طرح دوسرے ملکوں میں بھی جہاں جہاں یہ اعتراضات ہوتے ہیں.وہاں بھی اخباروں میں یا انٹرنیٹ پر خطوط کی صورت میں لکھے جا سکتے ہیں.یہ خطوط گو ذیلی تنظیموں کے مرکزی انتظام کے تحت ہوں گے لیکن یہ ایک ٹیم کی Effort نہیں ہوگی بلکہ لوگ اکٹھے کرنے ہیں.انفرادی طور پر ہر شخص خط لکھے یعنی 100 خدام اگر جواب دیں گے تو اپنے اپنے انداز میں.خط کی صورت میں کوئی تاریخی ، واقعاتی گواہی دے رہا ہو گا اور کوئی قرآن کی گواہی بیان کر کے جواب دے رہا ہو گا.اس طرح کے مختلف قسم کے خط جائیں گے تو اسلام کی ایک تصویر واضح ہوگی.ایک حسن ابھرے گا اور لوگوں کو بھی پتہ لگے گا کہ یہ لوگ کس حسن کو اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ سے ماند کرنے کی کوشش کرتے ہیں.الفضل 21 جون 2005ء ) مضامین اور مخطوط کی تحریک: 2005 ء کے آخر میں ڈنمارک اور دیگر یورپی ملکوں میں رسول کریم ﷺ کے متعلق نا پاک کارٹون شائع کئے گئے جس پر عالم اسلام میں شدید رد عمل ہوا.اور 2006ء کے شروع میں پُر تشدد ہنگامے
510 شروع ہو گئے.اس پر حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 10 فروری 2006 ء سے خطبات کا سلسلہ شروع کیا جس میں اسلام اور رسول کریم ﷺ کے خلاف سازشوں کا ذکر کرتے ہوئے صحیح رد عمل کے لئے عالم اسلام کی راہنمائی کی.جماعت نے اس سلسلہ میں ماضی میں اور حالیہ واقعات پر جو خدمات سرانجام دیں ان کا تذکرہ کیا اور احمدیوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہ وہ پوری دنیا کو رسول اللہ کی سیرت سے آشنا کریں اور قلم اور زبان سے آپ کی شان کو دنیا میں اجاگر کریں.چنانچہ خطبہ جمعہ 10 فروری 2006ء میں فرمایا.خلافت رابعہ کا دور تھا جب رشدی نے بڑی توہین آمیز کتاب لکھی تھی.اس وقت حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے خطبات بھی دیئے تھے اور ایک کتاب بھی لکھوائی تھی.پھر جس طرح کہ میں نے کہا یہ حرکتیں ہوتی رہتی ہیں.گزشتہ سال کے شروع میں بھی اس طرح کا ایک مضمون آیا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بارے میں.اس وقت بھی میں نے جماعت کو بھی اور ذیلی تنظیموں کو بھی توجہ دلائی تھی کہ مضامین لکھیں خطوط لکھیں ، رابطے وسیع کریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی خوبیاں اور ان کے محاسن بیان کریں.تو یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حسین پہلوؤں کو دنیا کو دکھانے کا سوال ہے یہ توڑ پھوڑ سے تو نہیں حاصل ہوسکتا.اس لئے اگر ہر طبقے کے احمدی ہر ملک میں دوسرے پڑھے لکھے اور سمجھدار مسلمانوں کو بھی شامل کریں کہ تم بھی اس طرح پر امن طور پر یہ رڈ عمل ظاہر کر واپنے رابطے بڑھاؤ اور لکھو تو ہر ملک میں ہر طبقے میں اتمام حجت ہو جائے گی اور پھر جو ( افضل 7 اپریل 2006ء ) کرے گا اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے.صحافی تیار کرنے کی تحریک حضور نے اسی خطبہ جمعہ میں فرمایا:.ہر ملک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے.پہلے بھی میں نے کہا تھا کہ اخباروں میں بھی کثرت سے لکھیں.اخباروں کو ، لکھنے والوں کو سیرت پر کتا بیں بھی بھیجی جاسکتی ہیں.پھر یہ بھی ایک تجویز ہے آئندہ کے لئے، یہ بھی جماعت کو پلان (Plan) کرنا چاہئے کہ نوجوان
511 جائے.جرنلزم (Journalism) میں زیادہ سے زیادہ جانے کی کوشش کریں جن کو اس طرف زیادہ دلچسپی ہو تا کہ اخباروں کے اندر بھی ان جگہوں پر بھی ، ان لوگوں کے ساتھ بھی ہمارا نفوذ ر ہے.کیونکہ یہ حرکتیں وقتاً فوقتا اٹھتی رہتی ہیں.اگر میڈیا کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وسیع تعلق قائم ہوگا تو ان چیزوں کو روکا جا سکتا ہے، ان بیہودہ حرکات کو روکا جاسکتا ہے.اگر پھر بھی اس کے بعد کوئی ڈھٹائی دکھاتا ہے تو پھر ایسے لوگ اس زمرے میں آتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بھی لعنت ڈالی ہے اور آخرت میں بھی.آپ میں سے ہر بچہ، ہر بوڑھا، ہر جوان، ہر مرد اور ہر عورت بیہودہ کارٹون شائع ہونے کے ردعمل کے طور پر اپنے آپ کو ایسی آگ لگانے والوں میں شامل کریں جو کبھی نہ بجھنے والی آگ ہو، جو کسی ملک کے جھنڈے یا جائیدادوں کو لگانے والی آگ نہ ہو جو چند منٹوں میں یا چند گھنٹوں میں بجھ..ہماری آگ تو ایسی ہونی چاہئے جو ہمیشہ لگی رہنے والی آگ ہو.وہ آگ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کی آگ جو آپ کے ہر اسوہ کو اپنانے اور دنیا کو دکھانے کی آگ ہو.جو آپ کے دلوں اور سینوں میں لگے تو پھر لگی رہے.یہ آگ ایسی ہو جو دعاؤں میں بھی ڈھلے اور اس کے شعلے ہر دم آسماں تک پہنچتے رہیں.پس یہ آگ ہے جو ہر احمدی نے اپنے دل میں لگانی ہے اور اپنے درد کو دعاؤں میں ڈھالنا ہے.لیکن اس کے لئے پھر وسیلہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی بننا ہے.اپنی دعاؤں کی قبولیت کے لئے اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو کھینچنے کے لئے ، دنیا کی لغویات سے بچنے کے لئے ، اس قسم کے جو فتنے اٹھتے ہیں ان سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو دلوں میں سلگتا کھنے کے لئے ، اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کے لئے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بے شمار درود بھیجنا چاہئے.کثرت سے درود بھیجنا چاہئے.اس پرفتن زمانے میں اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ڈبوئے رکھنے کے لئے اپنی نسلوں کو احمدیت اور اسلام پر قائم رکھنے کے لئے ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی سختی سے پابندی کرنی چاہئے کہ ان الله وملائكته يصلون على النبي......(الاحزاب : 57) کہ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تم بھی اس پر درود اور سلام بھیجا کرو کیونکہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں.پس جہاں ایسے وقت میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی
512 ہوا ہے یقینا اللہ تعالیٰ کے فرشتے آپ پر درود بھیجتے ہوں گے ، بھیج رہے ہوں گے، بھیج رہے ہیں.ہمارا بھی کام ہے جنہوں نے اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق اور امام الزمان کے سلسلے اور اس کی جماعت سے منسلک کیا ہوا ہے کہ اپنی دعاؤں کو درود میں ڈھال دیں اور فضا میں اتنا در و د صدق دل کے ساتھ بکھیریں کہ فضا کا ہر ذرہ درود سے مہک اٹھے اور ہماری تمام دعا ئیں اس درود کے وسیلے سے خدا تعالیٰ کے دربار میں پہنچ کر قبولیت کا درجہ پانے والی ہوں.یہ ہے اس پیار اور محبت کا اظہار جو ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہونا چاہئے اور آپ کی آل سے ہونا چاہئے.الفضل 17 اپریل 2006 ء ) انگریزی زبان دانوں کو قلمی جہاد میں شامل ہونے کی تحریک جلسہ سالانہ لندن 2003ء کے دوسرے دن کی تقریر میں تراجم کتب کے بیان کے دوران حضور انور نے فرمایا کہ میں یہاں ایک تحریک کرنا چاہتا ہوں.جماعت میں زبان دانوں کی کمی نہیں ہے.ان سے رابطہ میں ستی واقع ہوئی ہے.جس تعداد میں کتب لٹریچر کے تراجم کا ہم سے مطالبہ ہو رہا ہے وہ ہم مہیا نہیں کر رہے اس لئے آج میں ان لوگوں کو جن کی انگریزی زبان اچھی ہے درخواست کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود کے قلمی جہاد میں شامل ہوں اور اپنے نام پیش کریں.حضرت مسیح موعود کی کتب انگریزی تراجم کے لئے ان کو دی جائیں گی تا جلد ان کی اشاعت ہو سکے.(الفضل 6.اگست 2003 ء )
513 نو مبائعین کے ساتھ رابطے زندہ کرنے کی تحریکات خلافت خامسہ میں نو مبائعین کو نظام جماعت کا فعال حصہ بنانے کی طرف خاص توجہ دی گئی.حضور انور نے اس سلسلہ میں امراء، مربیان اور تمام احمدیوں کے لئے کئی تحریکات فرمائیں.حضور نے فرمایا:.نومبائع کون ہے نومبائع صرف وہ ہے جس نے گزشتہ تین سال میں بیعت کی ہو.اس سے اوپر نو مبائع نہیں ہے.ہر بیعت کرنے والے کو تین سال بعد جماعت کا فعال حصہ ہونا چاہئے.اگر ایسا نہیں ہے تو یہ آپ لوگوں کی کمزوری اور ستی ہے.اس لئے استغفار کریں اور خدا سے اپنی سستی کی معافی مانگیں اور اب ان کو نظام میں شامل کریں.(الفضل15 فروری 2006ء) وو 70 فیصد واپس لائیں یکم اگست 2005ء کو ایک خطاب میں حضور نے فرمایا:.2008ء (صد سالہ خلافت جو بلی) تک ان گمشدہ نو مبائعین میں سے کم از کم 70 فیصد کو دوبارہ جماعت کے دائرہ میں لانا ہوگا.ان کو جماعت کے وسیع نظام میں لائیں.ان کو نظام جماعت کا حصہ بنائیں اور شامل کریں.یہ بہت ہی اہم مسئلہ ہے اور اسے بڑی احتیاط سے لینا ہوگا.اسے آپ کے پروگراموں اور سکیموں کا حصہ ہونا چاہئے“.حضور نے 2 دن بعد 3 اگست 2005 ء کو لندن میں مبلغین سلسلہ کی ایک میٹنگ میں فرمایا :.گزشتہ دس سالوں میں یا اس سے زائد عرصہ میں جو بیعتیں ہوئی ہیں.اس کے مطابق بیعتیں نظر نہیں آر ہیں.ہوئی تو ہوں گی یقیناً.لیکن ان میں ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ بیعتیں کروانے کے بعد ان کو چھوڑ دیا گیا ہے.ان سے رابطے نہیں رکھے گئے جس کی وجہ سے وہ ضائع ہو گئیں...طرف خاص توجہ کریں.اگر بیعتیں ہوئی ہیں تو سامنے نظر آنی چاہئیں.یہ تو نہیں کہ مبلغین کے
514 ہوں کہ ہم نے لاکھوں میں اور ہزاروں میں بیعتیں کروائی ہیں اور جلسے پر یا جس جگہ جاؤں وہاں حاضری صرف سینکڑوں میں ہو تو یہ چیز ظاہر کرتی ہے کہ آپ لوگ صرف بیعتیں کرواتے رہے ہیں.بیعت فارم توFill ہوتے رہے لیکن ان کو ضائع ہونے کے لئے چھوڑ دیا گیا.حالانکہ آپ کے سامنے قرآن کریم کی مثال موجود ہے کہ اگر ان کو چھوڑ دیں گے تو ضائع ہو جائیں گے اور یہ گناہ جو آئے گا آپ لوگوں کے سر پر ہے.....فرمایا: ”پھر ایک بات کی جاتی ہے کہ بعض لوگ اپنی جگہ بدل لیتے ہیں اس لئے پتہ نہیں لگتا.پاکستان میں بھی یہ عذر پیش کیا جاتا ہے.یہ کوئی عذر نہیں ہے.اگر آپ لوگوں کے رابطے با قاعدہ ہیں.ہفتہ میں ایک دفعہ.مہینے میں ایک دو مرتبہ رابطہ ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اگر آدمی ایک جگہ سے دوسری جگہ چھوڑ کر جا رہا ہو یا Migrate کر رہا ہو تو آپ کو اس کا ایڈریس پتہ نہ لگے یا اپنا رابطہ آپ کو نہ دے.اس کا پتہ نہیں چلتا کہ وہ کدھر گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مہینوں رابطہ نہیں ہوتا.اس شخص کا جماعت سے رابطہ ہی نہیں تھا.جس کے بارے میں آپ کہتے ہیں کہ چھوڑ کر چلا گیا اس لئے رابطہ نہیں رہا.دراصل اس لئے رابطہ نہیں رہا کہ آپ لوگوں نے اس پر توجہ نہیں دی.اس کو جماعت کے سسٹم میں با قاعدہ شامل نہیں کیا.اس لئے یہ ایک بہانہ ہے کہ لوگ ہمارے رابطے میں نہیں رہتے اور ایک دم چلے جاتے ہیں.راتوں رات تو کوئی غائب نہیں ہو جاتا.آخر جب کوئی جاتا ہے یا شفٹ کرتا ہے.اس نے اپنے بیوی بچوں کو لے کر جانا ہوتا ہے.اگر آپ کا رابطہ ہو تو ایسا شخص بتائے گا کہ بھئی فلاں جگہ جانے کا ارادہ ہے اور جب جائے گا تو بتائے گا کہ میں فلاں جگہ جارہا ہوں.اس لئے اس طرف خاص طور پر بہت توجہ دیں ایک دفعہ تعداد بتا کے کہ ہم نے اتنی بیعتیں کرلی ہیں اس کے بعد ان کو ضائع ہونے کے لئے چھوڑ دیا تو کوئی فائدہ نہیں.نہ وہ آپ کے ہاتھ میں رہے نہ ان کی آئندہ نسلوں کی کوئی ضمانت ہے کہ ان کا جماعت سے کوئی تعلق رہے گا.اس لئے ایک مہم کے طور پر یہ آپ کے پروگرام میں شامل ہونا چاہئے.2008ء میں جو آپ خلافت جو بلی منارہے ہیں اس میں صرف منہ سے کہہ دینے سے کہ ہم اتنے ہو گئے ہیں تو فائدہ نہیں ہوگا.کچھ Facts بھی نظر آنے چاہئیں Figures بھی نظر آنے چاہئیں.اس لئے کوشش کریں کہ جو بیعتیں آپ اپنے ملک میں Claim کرتے ہیں کہ اتنی ہوئیں ان میں سے کم
515 از کم 70 فیصد ایسی ہوں جو ہمیں نظر آ رہی ہوں“.نیز با قاعدہ علیحدہ ٹیمیں بنانے کا ارشاد کرتے ہوئے فرمایا:.حضرت خلیفہ المسح الرائع نے جب بیعتوں کا کہاتھا ساتھی بھی فرمایا تھا کہ تربیت کے لئے علیحدہ ٹیمیں بنا ئیں.وہ ٹیمیں تو جماعتی طور پر امراء کو بنانی چاہئے تھیں....اس طرح عاملہ کے ممبران کو توجہ دلانی چاہئے تھی.تربیت کے شعبے کو توجہ دلانی چاہئے تھی.تو اس پر کام نہیں ہوا اور یہی وجہ ہے کہ بہت ساری بیعتیں ضائع ہو گئی ہیں.یہ آپ لوگوں کو جو فیلڈ میں موجود ہیں ہر ایک کو پتہ ہے.آنکھیں بند کرنے سے حقائق نہیں چھپ جایا کرتے اس لئے آنکھیں بند کرنے کی بجائے حقیقت کو اپنے سامنے رکھیں اور فیلڈ میں جا کر مجھے یہ بتائیں کہ اس وقت جو بیعتیں ہوئی تھیں، کتنوں کے فعال رابطے جماعت کے ساتھ ہیں.کتنے ایسے ہیں جو وقتاً فوقتاً رابطہ رکھتے ہیں.کتنے لوگ ہیں جو ضائع ہو چکے ہیں اور کتنی جماعتیں یا جگہیں ، قصبے یا شہر ایسے ہیں جہاں آپ گزشتہ چھ یا دس سال میں گئے ہی نہیں؟ اور اس کے لئے اب کیا پروگرام بنایا ہے؟ کس طرح فعال کریں گے اس کو؟ باقاعدہ ٹیمیں بنائیں.مقامی لوگوں کے ساتھ مربیان کی ٹیمیں بھی شامل ہوں تو اس طرح امید ہے کہ اگر کوشش کریں گے.ہر ایک اپنے اپنے حالات کے مطابق پروگرام بنائے اور پھر مجھے لکھے کہ یہ پروگرام ہمارا بنا ہے اور ہم اس پر کوشش کر رہے ہیں.نئے آنے والوں سے پیار و محبت کا سلوک کریں حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ قادیان اور جلسہ سالانہ فرانس سے خطاب کرتے ہوئے 26 دسمبر 2004ءکو فرمایا:.فرانس میں جو مختلف قومیتوں کے لوگ جماعت میں شامل ہوئے ہیں.انہیں اپنے ساتھ چمٹائیں.وہ اپنے عزیزوں، رشتہ داروں اور اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر آئے ہیں یہ ان کی نیک فطرت اور پاک فطرت ہی ہے جس نے انہیں احمدیت کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی.اسی طرح ہندوستان میں بھی جو نئے احمدی ہوئے ہیں گو وہ مالی لحاظ سے غریب لوگ ہیں لیکن ان کے دل امیروں سے زیادہ روشن ہیں.ان میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور خشیت کا جذبہ دوسروں سے زیادہ ہے.
516 تبھی تو انہوں نے مسیح و مہدی کو مانا ہے.اس پر ایمان لائے ہیں اس لئے ان لوگوں سے بھی جو پرانے احمدی ہیں پیار و محبت کا سلوک کریں ان کا خیال رکھیں.ان کو سینے سے لگا ئیں اور بھائی چارے کی تعلیم سے آگاہ کریں.بڑی دور سے سفر کر کے آئے ہیں بڑی مشکلات میں سے گزر کر آئے ہیں ان کو ملیں.یہ نہ ہو کہ غریب اپنی ٹولیوں میں پھر رہے ہوں اور اپنے آپ کو ان سے اونچا سمجھنے والے ایک طرف سے ہوکر گزرجائیں اور اپنی ٹولیوں اور گروہوں میں پھر رہے ہوں اور ایک دوسرے کو سلام کرنے کے بھی روادار نہ ہوں.تو اس ماحول میں سلام کو رواج دینے کی بھی بڑی ضرورت ہے.یہ بھی ایک دعا ہے.یہ بھی اس دعا کے ماحول کو بڑھانے والا ایک ذریعہ ہے.اس وقت عہد یداروں کا بھی کام ہے کہ ان نئے آنے والوں کی تربیت کی خاطر ان کے قریب ہوں اور بھائی چارے کا تعلق پیدا کرنے کے لئے بھی ان سے قریب ہوں.الفضل اند نیشنل 21 جنوری 2005 ص 12) مسلسل رابطہ رکھیں حضور نے نیشنل مجلس عاملہ سویڈن کو ہدایات دیتے ہوئے 13 ستمبر 2005ء کو فرمایا:.تمام نو مبائعین کو جن کو بیعت کئے ہوئے تین سال کا عرصہ ہو چکا ہے نظام جماعت کا با قاعدہ حصہ بنائیں اور اس کے بعد وہ نو مبائع نہیں رہیں گے.جن سے رابطہ نہیں ہے ان سے بھی رابطہ کریں.جنہوں نے بیعتیں کروائی ہیں ان کے ذریعہ رابطہ کریں.ان کو ساتھ لے کر جائیں اور ایک دفعہ رابطہ کر کے پھر اپنے نظام میں لے آئیں اور خود ان سے رابطہ رکھیں اور یہ رابطہ ہر ہفتہ ہونا چاہئے.آجکل رابطے کے کئی ذریعے ہیں.ٹیلیفون پر کر لیں.EMail کے ذریعہ کر لیں.اگلے 2 ماہ میں سب لوگوں سے رابطہ ہو جانا چاہئے.(الفضل 30 ستمبر 2005ء) نظام جماعت میں پرودیں حضور نے ناظر صاحب اصلاح وارشاد کے نام ایک مکتوب میں فرمایا:.نو مبائعین کو جماعتی نظام میں پرونا اور ان کا جماعت سے تعلق مضبوط تر کرنا ایک نہایت ضروری امر ہے.ہر پہلو سے انہیں بتدریج نظام جماعت سے منسلک کریں.پہلے نماز جمعہ میں لائیں.پھر
517 چندوں کا نظام متعارف کرائیں اور اس طرح ان سے رابطوں کو مضبوط کرتے چلے جائیں تا کہ کوئی سعید روح ضائع نہ ہو جائے.اللہ آپ سب کو دعاؤں اور محنت سے خدمت کی توفیق عطا فرمائے.آمین مالی نظام میں شامل کریں......نو مبائعین کو مالی نظام کا حصہ بنائیں...یہ جو میں بار بار زور دیتا ہوں کہ نومبائعین کو بھی مالی نظام کا حصہ بنائیں یہ اگلی نسلوں کو سنبھالنے کے لئے بڑا ضروری ہے کہ اس طرح بڑی تعداد میں نو مبائعین آئیں گے تو موجودہ قربانیاں کرنے والے کہیں اس تعداد میں گم ہی نہ ہو جائیں اور بجائے ان کی تربیت کرنے کے ان کے زیر اثر نہ آجائیں.اس لئے نو مبائعین کو بہر حال قربانیوں کی عادت ڈالنی پڑے گی اور نو مبائع صرف تین سال کے لئے ہے.تین سال کے بعد بہر حال اسے جماعت کا ایک حصہ بننا چاہئے.خاص طور پر نئی آنے والی عورتوں کی تربیت کی طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے.الفضل 28 مارچ 2006ء ) 31 مارچ 2006ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:.ایک اور بات ہے جس کی طرف میں عرصے سے توجہ دلا رہا ہوں کہ نو مبائعین کو مالی نظام میں شامل کریں.یہ جماعتوں کے عہدیداروں کا کام ہے.جب نو مبائعین مالی نظام میں شامل ہو جائیں گے تو جماعتوں کے یہ شکوے بھی دور ہو جائیں گے کہ نو مبائعین سے ہمارے رابطے نہیں رہے.یہ رابطے ہمیشہ قائم رہنے والے بن جائیں گے اور یہ چیز ان کے تربیت اور ان کے تقویٰ کے معیار بھی اونچے کرنے والی ہوگی تو جیسا کہ میں نے کہا کہ قرآن کریم میں مالی قربانیوں کے بارے میں بیشمار ہدایات ہیں.تو اللہ تعالیٰ جو بھی فضل فرماتا ہے ان کو اس میں شامل کرنا چاہئے“.مربیان کو ہدایات مربیان کو ہدایات دیتے ہوئے فرمایا:.الفضل 25 / اپریل 2006 ء (i) جو بیعت کرتے ہیں مربیان ان سے مستقل رابطہ رکھیں.یہ نہیں ہونا چاہئے کہ وقتی طور پر جوش
518 ہوتا ہے اور ماحول کا اثر ہوتا ہے اس میں تو نئے آنے والے سے رابطہ رہا اور بعد میں بھول گئے.مربیان کا کام ہے کہ دعاؤں کے ساتھ ان کو سنبھالیں اور اپنے نوافل ان لوگوں کے لئے رکھ لیا کریں.(ii) ''اگر مبلغین کا رویہ اچھا ہو ، اچھا نمونہ ہو اور رابطہ ہو تو بہت سے لوگ رہ جاتے ہیں.الفضل 15 جولائی 2005ء) (iii) نومبائعین سے مسلسل رابطہ بہت ضروری ہے.ان کا ریکارڈ ہر مربی کے پاس ہو کہ کتنے نومبائعین آپ کے حلقہ میں ہیں.ان سے رابطہ کے لئے الگ ٹیم تیار کریں جو ان نو مبائعین کی تعلیم و تربیت کے لئے ہر جہت سے رابطہ رکھے.میری خواہش ہے کہ 10 سال تک شامل ہونے والوں سے رابطہ ٹوٹنا نہیں چاہئے.واقفین زندگی سے حضور انور کی توقعات ص 24) تحریک کے ثمرات حضور کی ان مسلسل تحریکات کے نتیجہ میں نو مبائعین سے رابطے زندہ کرنے کا سلسلہ ساری دنیا میں شروع ہو گیا ہے.چنانچہ حضور نے جلسہ سالانہ برطانیہ 2007ء کے دوسرے دن 28 جولائی کو اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا:.دوران سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے تینتیس ایسے ممالک میں بھی جہاں ہمارے مبلغین نہیں تھے.وہاں رابطے کمزور تھے، وفود بھجوا کر وہ رابطے زندہ کئے گئے اور تعلیمی تربیتی پروگرام بنائے گئے ، احباب کو منظم کیا گیا اور بعض ایسے ممالک میں مبلغین کا تقرر بھی عمل میں آیا ان میں سے ایک ملک ہنگری ہے، یہاں سے بھی جرمنی کے مبلغ حیدر علی صاحب اور عبد الغفار صاحب سیکرٹری تبلیغ وغیرہ گئے ، وقف عارضی کیا تو جہاں انہوں نے پرانے رابطے بحال کئے وہاں ان کی تربیت کا کام بھی کیا.ہنگری میں دوسری جنگ عظیم سے قبل جماعت کے مبلغ ہوتے تھے مشن ہاؤس تھا، حاجی ایاز خان صاحب کا تقرر ہوا تھا تو اب دوبارہ حالات سازگار ہونے پر قریباً ستر سال کے بعد ہمارے ایک مبلغ کا وہاں تقرر ہوا ہے اور وہاں مقامی زبان وہ سیکھ رہے ہیں دوسرا ملک مالٹا ہے یہ بھی جرمنی سے ڈاکٹر عبد الغفار صاحب نے دورہ کیا تھا یہاں بھی ہمارا با قاعدہ مشن قائم ہے یہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ ماہ جون میں ہمارے پہلے مبلغ پہنچ چکے ہیں.
519 نومبائعین جو گزشتہ سالوں میں ہوئے تھے ان سے رابطے بڑے کمزور تھے باوجود اس کے کہ بے شمار بیعتیں ہوئی تھیں، جماعتوں نے ان سے تعلق نہیں رکھا، رابطے قائم نہیں رکھے اس لئے میں نے کہا تھا کہ 2008 ء تک 70 فیصد رابطے جو ہیں وہ بحال کریں جماعتوں میں جائیں جماعتوں کو آرگنا ئز کریں ، ان کی تربیت کریں، بیعتیں کروا لینا اصل کام نہیں ہے، اصل میں اس کے بعد بہت بڑا کام تربیت ہے جس کی طرف جماعتوں نے توجہ نہیں دی اور پھر لوگ ضائع ہو گئے ، تو اس رابطے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے غانا نے بڑا اچھا کام کیا ہے اس سال انہوں نے 98 ہزار نئے نو مبائعین سے رابطے کئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ 3 سالوں میں جب سے میں نے کہا ان کو ، چھ لاکھ چار ہزار نو مبائعین سے رابطے بحال ہو گئے ہیں اور باقاعدہ آرگنائز جماعتیں وہاں بن چکی ہیں.نائیجیریا میں بھی امسال ایک لاکھ چوالیس ہزار نو مبائعین سے رابطے کئے 71 نئی جماعتیں قائم کر کے وہاں نظام جماعت قائم کیا، کچھ نے ان میں سے چندہ بھی دینا شروع کر دیا ہے اس طرح کل دولاکھ اڑسٹھ ہزار نو مبائعین سے رابطہ بحال ہو چکا ہے ابھی یہ بہت بڑا کام ہے جو جماعت کو کرنے والا ہے ہر جگہ.پھر برکینا فاسو ہے یہاں بھی گیارہ ہزار پانچ سو نو مبائعین سے رابطے بحال ہوئے ، تجنید مکمل کر رہے ہیں، بجٹ بن رہے ہیں اور کل ایک لاکھ اسی ہزار نو مبائعین سے رابطے بحال ہو چکے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے.آئیوری کوسٹ نے بھی رابطے بحال کئے سول وار کے بعد وہاں تعلق ختم ہو گیا تھا اور چونسٹھ ہزار نو مبائعین سے رابطے کر چکے ہیں، سیرالیون نے اکتیس ہزار نوسونو بائعین سے رابطے قائم کئے جن میں سے ایک بڑی تعداد چندے کے نظام میں شامل ہو چکی ہیں اور جب چندے کے نظام میں احمدی شامل ہو جائے تو وہ پھر اس کی یہ تسلی ہوتی ہے کہ اب یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ضائع ہونے والا نہیں.ہندوستان میں دوران سال رابطے ہوئے ، ان کی تعداد 27 ہزار ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے بنگلہ دیش میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے، یہ بڑے ڈر رہے تھے اور ان کے رابطے بڑے کمزور تھے، گزشتہ سال ان کو میں نے خاص طور پر کہا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے چھ ہزار سے زائد نومبائعین سے انہوں نے رابطہ کیا اور بڑے اللہ کے فضل سے مضبوط احمدی ہیں.کینیا نے 240 گاؤں کے 33 ہزار.چھ سونو مبائعین سے رابطے بحال کئے ہیں، ایتھوپیا نے بھی جا کر رابطے بحال کیے پچپیس دیہاتوں سے،
520 سات ہزار دوسونو مبائعین سے 35 تربیتی کلاسز یہاں منعقد کی گئیں بین نے اکاون دیہاتوں میں چھبیس ہزار نئے رابطے قائم کئے ، تنزانیہ نے چار ہزار چھ سونو مبائعین سے رابطے کئے جو پہلے بالکل تعلق ختم ہو چکا تھا، جماعت لائبیریا نے دوران سال 3 ہزار نو مبائعین سے رابطے بحال کئے مالی نے و دیہات کے ایک ہزار پانچ سو را بطے نئے بحال ہوئے برکینا فاسو کے مبلغ جو ہیں محب اللہ صاحب کہتے ہیں کہ وہ اپنے معلم کے ساتھ کا یا شہر سے ڈیڑھ صد کلو میٹر دور جنگل میں واقع ایک گاؤں میں گئے ، گاؤں کے سب لوگ ہمیں دیکھ کر جمع ہو گئے تو ہمیں خوشی تھی کہ اب خوب تبلیغ کا موقع ملے گا تبلیغ کریں گے مگر جب ہم نے انہیں بتایا کہ ہم جماعت احمدیہ کے مبلغ اور امام مہدی کا پیغام لے کر آئے ہیں تو کہنے لگے کہ آج سے گیارہ سال پہلے مربی طارق محمود صاحب آئے تھے اور ہم نے تو پیغام قبول کر لیا تھا ہم تو احمدی ہیں، تم لوگ کہیں غائب ہو گئے تھے اور آئندہ تمہارے سے درخواست ہے کہ اپنے رابطے منقطع نہ کرنا، یہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے رابطہ قائم ہوا ہے جماعت قائم ہوئی ہے اور رتربیت بحال ہو گئی، تو یہ بھی ان کے ایمان کی مضبوطی ہے کہ گیارہ سال تک کوئی احمدی مبلغ اور معلم وہاں نہیں گیا لیکن وہ لوگ اس پیغام پر قائم رہے جو انہوں نے قبول کیا تھا.
521 نظام وصیت کے متعلق تحریکات نظام وصیت کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی منشاء اور بشارات کے مطابق 1905ء میں نظام وصیت کی بنیاد ڈالی اور رسالہ الوصیت میں نظام خلافت کے قیام کی خبر دیتے ہوئے یہ تحریک فرمائی کہ احباب اپنے اندر خاص روحانی تبدیلی پیدا کر کے اپنے مالوں کا کم از کم 1/10 حصہ دین کی راہ میں پیش کر کے خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتوں کے وارث بنیں.حضور نے فرمایا:.مجھے ایک جگہ دکھلا دی گئی کہ یہ تیری قبر کی جگہ ہوگی.ایک فرشتہ میں نے دیکھا کہ وہ زمین کو ناپ رہا ہے.تب ایک مقام پر اس نے پہنچ کر مجھے کہا کہ یہ تیری قبر کی جگہ ہے.پھر ایک جگہ مجھے ایک قبر دکھلائی گئی کہ وہ چاندی سے زیادہ چمکتی تھی اور اس کی تمام مٹی چاندی کی تھی تب مجھے کہا گیا کہ یہ تیری قبر ہے اور ایک جگہ مجھے دکھائی گئی اور اس کا نام بہشتی مقبرہ رکھا گیا اور ظاہر کیا گیا کہ وہ ان برگزیدہ جماعت کے لوگوں کی قبریں ہیں جو بہشتی ہیں“.صلى الله پھر فرماتے ہیں کہ : میں دعا کرتا ہوں کہ خدا اس میں برکت دے اور اسی کو بہشتی مقبرہ بنادے اور یہ اس جماعت کے پاک دل لوگوں کی خوابگاہ ہو جنہوں نے در حقیقت دین کو دنیا پر مقدم کر لیا اور دنیا کی محبت چھوڑ دی اور خدا کے لئے ہو گئے اور پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کر لی اور رسول اللہ علیہ کے اصحاب کی طرح وفاداری اور صدق کا نمونہ دکھلایا.امین یارب العالمین.1905ء سے 2004 ء تک قریباً 99 سال میں 38 ہزار احمدی نظام وصیت میں شامل ہوئے.اس نظام میں شمولیت کے لئے خلفاء سلسلہ کی طرف سے کئی بار یاد دہانی کرائی گئی اور اس نظام میں دنیا کے 75 ممالک کے احمدی شامل ہوئے اور 12 ممالک میں 15 مقبرہ ہائے موصیان کا قیام بھی عمل میں آیا.بھر پور تحریک کا آغاز مگر اس نظام میں شمولیت کے لئے ایک بھر پور تحریک چلانا خلافت خامسہ میں مقدر تھا.چنانچہ
522 حضرت خلیفة اصبح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقع پر یکم اگست 2004 ء کو اختتامی خطاب میں یہ عظیم الشان تحریک پیش فرمائی جو حضور کے مقدس الفاظ میں پیش خدمت ہے.1905ء سے لے کر آج تک صرف اڑ میں ہزار کے قریب احمدیوں نے وصیت کی ہے.اگلے سال انشاء اللہ تعالیٰ وصیت کے نظام کو قائم ہوئے سو سال ہو جائیں گے.میری یہ خواہش ہے اور میں یہ تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ اس آسمانی نظام میں اپنی زندگیوں کو پاک کرنے کے لئے اپنی نسلوں کی زندگیوں کو پاک کرنے کے لئے شامل ہوں.آگے آئیں اور اس ایک سال میں کم از کم پندرہ ہزارنٹی وصایا ہو جائیں تا کہ کم از کم پچاس ہزار وصایا تو ایسی ہوں کہ جو ہم کہہ سکیں کہ سو سال میں ہوئیں.تو ایسے مومن نکلیں کہ کہا جا سکے کہ انہوں نے خدا کے مسیح کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کئے....میری یہ خواہش ہے کہ 2008ء میں جو خلافت کو قائم ہوئے انشاء اللہ تعالیٰ سو سال ہو جائیں گے تو دنیا کے ہر ملک میں، ہر جماعت میں جو کمانے والے افراد ہیں ، جو چندہ دہند ہیں اُن میں سے کم از کم پچاس فیصد تو ایسے ہوں جو حضرت اقدس مسیح موعود کے اس عظیم الشان نظام میں شامل ہو چکے ہوں اور روحانیت کو بڑھانے کے اور قربانیوں کے یہ اعلیٰ معیار قائم کرنے والے بن چکے ہوں اور یہ بھی جماعت کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے حضور ایک حقیر سانذرانہ ہوگا جو جماعت خلافت کے سو سال پورے ہونے پر شکرانے کے طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر رہی ہوگی اور اس میں جیسا حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا ہے ایسے لوگ شامل ہونے چاہئیں جو انجام بالخیر کی فکر کرنے والے اور عبادات بجالانے والے ہیں.جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے اس لئے خدام الاحمدیہ، انصار اللہ صف دوم جو ہے اور لجنہ اماءاللہ کو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے.کیونکہ ستر پچھتر سال کی عمر میں پہنچ کر جب قبر میں پاؤں لٹکائے ہوئے ہوں تو اُس وقت وصیت تو بچا کھچا ہی ہے جو پیش کیا جاتا ہے.امید ہے کہ احمدی نوجوان بھی اور خواتین بھی اس میں بھر پور کوشش کریں گے اور اس کے ساتھ ساتھ عورتوں کو خاص طور پر میں کہ رہا ہوں کہ اپنے ساتھ اپنے خاوندوں اور بچوں کو بھی اس عظیم انقلابی نظام میں شامل کرنے کی کوشش کریں.پس غور کریں ،فکر کریں.جو بستیاں، کوتاہیاں ہو چکی ہیں اُن پر استغفار کرتے ہوئے اور حضرت
523 مسیح موعود کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جلد از جلد اس نظام وصیت میں شامل ہو جائیں.اور اپنے آپ کو بھی بچائیں اور اپنی نسلوں کو بھی بچائیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے بھی حصہ پائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.مختلف طبقات کو دعوت ( الفضل 8 دسمبر 2005ء) جلسہ کے علاوہ بھی حضور نے متعدد مواقع پر اور جماعت کے مختلف طبقوں اور تنظیموں کو اس تحریک میں شمولیت کے لئے دعوت دی.چنانچہ جلسہ برطانیہ کے بعد اگلے خطبہ جمعہ 6 اگست 2004 ء میں حضور نے جلسہ کے کامیاب انعقاد پر خدا تعالیٰ کے شکر کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:.اس شکرانے کے ضمن میں ایک اور بات بھی کہنی چاہتا ہوں کہ جلسے کی آخری تقریر میں میں نے احباب جماعت کو وصیت کرنے اور اس بابرکت نظام میں شامل ہونے کی طرف بھی توجہ دلائی تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتوں اور احباب جماعت نے ذاتی طور پر بھی اس سلسلہ میں وعدے کئے ہیں اور وعدے آ بھی رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے اور انہیں توفیق دے کہ وہ اس عہد کو جلد از جلد نبھا سکیں اور جتنی تعداد میں میں نے خواہش کی تھی اس سے بڑھ کر اس بابرکت نظام میں وہ شامل ہوں.بعض دفعہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض اچھے بھلے کھاتے پیتے لوگ ہوتے ہیں جو دوسری جماعتی خدمات میں بعض دفعہ جب ان کو کوئی تحریک کی جائے تو پیش پیش ہوتے ہیں یا کم از کم اتنا ضرور ہوتا ہے کہ جتنا زیادہ سے زیادہ حصہ لے سکتے ہیں اس میں حصہ لیں لیکن وہ نظام وصیت میں شامل ہونے سے محروم ہیں.ان میں سے بھی کئی لوگوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اب اس نظام میں شامل ہوں گے.ایسے صاحب حیثیت لوگوں کو ایسے احمدیوں کو تو سب سے پہلے چھلانگ مار کر آگے آنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضل فرمائے ہیں.ان کے شکرانے کے طور پر ہم اس نظام میں شامل ہوں تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دروازے مزید کھلیں.اللہ تعالیٰ نے جو ان پر نعمتیں نازل فرمائی ہیں ان کا اظہار ہونا چاہئے اور وہ اپنے ذاتی اظہار کے.قربانیوں کی طرف توجہ دینے کا بھی اظہار ہونا چاہیئے.نیز فرمایا:.نظام وصیت کو اب اتنا فعال ہو جانا چاہئے کہ سو سال بعد تقویٰ کے معیار بجائے گرنے کے نہ صرف
524 قائم رہیں بلکہ بڑھیں اور اپنے اندر روحانی تبدیلیاں پیدا کرنے والے بھی پیدا ہوتے رہیں اور قربانیاں پیدا کرنے والے بھی پیدا ہوتے رہیں.یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والے پیدا ہوتے رہیں.جب اس طرح کے معیار قائم ہوں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ خلافت حقہ بھی قائم رہے گی اور جماعتی ضروریات بھی پوری ہوتی رہیں گی.عہدیداران کو شمولیت کی تحریک الفضل 28 ستمبر 2004ء) 6 ستمبر 2004ء کو حضور نے سوئٹزر لینڈ مجلس عاملہ کو ہدایات دیتے ہوئے فرمایا کہ سب سے پہلے اپنی مجلس عاملہ کو وصیت کے نظام میں شامل کریں.اسی طرح دوسری جماعتوں کے عہدیدار بھی وصیت کے نظام میں شامل ہوں.( الفضل 15 ستمبر 2004ء ص 3) 29 دسمبر 2004ء کو حضور نے فرانس میں نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ کو ہدایات دیتے ہوئے وصیت کے بارہ میں دریافت فرمایا کہ کتنے خدام ایسے ہیں جنہوں نے وصیت کی ہے.حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ پہلے اپنی مجلس عاملہ سے شروع کریں.جب تک عہد یدار خود وصیت نہیں کریں گے تو دوسروں کو کس طرح کہیں گے.الفضل 8 جنوری 2005ءص2) 4 مئی 2005ء کو کینیا میں نیشنل مجلس عاملہ سے ملاقات میں حضور انور نے موصیان کی تعداد اور ان کے چندوں کا بھی جائزہ لیا اور ہدایات سے نوازا.فرمایا مجلس عاملہ کے جن ممبران نے ابھی تک وصیت نہیں کی پہلے ان کو وصیت کے نظام میں شامل ہونا چاہئے.پھر دوسروں کو اس نظام میں شامل کریں.الفضل 18 مئی 2005 ء ص 3) 11 ستمبر 2005ء کو نیشنل مجلس عاملہ ڈنمارک کی میٹنگ میں سیکرٹری وصیت کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ جو مرد زیادہ کماتے ہیں ان کو توجہ دلائیں کہ وہ وصیت کے نظام میں شامل ہوں.حضور انور نے فرمایا تربیت اور اصلاح کے لئے موصیوں کی تعداد بڑھائیں.(الفضل 30 دسمبر 2005ء) ذیلی تنظیموں کو مہم چلانے کی تحریک مجلس انصاراللہ یو.کے کے سالانہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے حضور نے 26 ستمبر 2005ء کو
525 فرمایا:- میں نے جلسہ کی تقریر کے دوران آخری دنوں میں انصار اللہ کے ذمہ بھی یہ لگایا تھا کہ وہ نظام وصیت میں شامل ہونے کی طرف توجہ دیں، اس بارے میں بھی کوشش کریں.ایک بہت بڑی تعداد ہے جو صف دوم کے انصار پر مشتمل ہے.یادرکھیں کہ آپ کی تلقین بھی تبھی کامیاب ہوگی تبھی کارآمد ہو گی جب حضرت مسیح موعود کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس نظام میں بھی شامل ہوں گے.کیونکہ حضرت مسیح موعود نے اس میں شامل ہونے والوں کے لئے بہت دعائیں کی ہوئی ہیں.اور جس کو یہ دعا ئیں لگ جائیں اس کی دنیا بھی سنور جائے گی اور اس کی آخرت بھی سنور جائے گی.پس اس طرف بھی توجہ کریں اور سب سے پہلے میں یہاں کہوں گا کہ تمام عہدیداران جو ہیں ان کو اس نظام میں شامل ہونا چاہئے، نیشنل عاملہ سے لیکر نچلی سے نچلی سطح تک جو بھی عاملہ ہے اس کے لیول تک.ہر عاملہ کا نمبر اس نظام میں شامل ہو تبھی وہ تلقین کرنے کے قابل بھی ہوگا.الفضل 25 مارچ 2005 ء ص 4 ) جون 2005 ء میں ماہنامہ انصار اللہ نے وصیت نمبر شائع کیا اس کے لئے اپنے خصوصی پیغام میں حضور نے انصار کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:.میں اپنے انصار بھائیوں اور خاص طور پر صف دوم کے انصار کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس طرف خاص توجہ دیں.وہ انصار جو اپنے دلوں میں ایمان اور اخلاص تو رکھتے ہیں مگر وصیت کے بارہ میں سستی دکھلا رہے ہیں میری ان کو یہ نصیحت ہے کہ وہ اشاعت اسلام کی خاطر اور اپنے نفوس میں نیک اور پاک تبدیلیوں کے لئے وصیت کی طرف جلدی بڑھیں.زندگی بہت مختصر ہے اور نہیں معلوم کہ کس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے بلاوا آ جائے.بعض بڑے مخلصین بغیر وصیت کے نظام میں شامل ہوئے.وفات پا جاتے ہیں اور پھر حسرت پیدا ہوتی ہے کہ کاش یہ بھی مخلصین کے ساتھ مقبرہ موصیان میں دفن کئے جاتے.ہماری جماعت میں سینکڑوں ایسے قربانی کرنے والے ہیں کہ وہ اپنے اموال کے دسویں حصہ سے زیادہ چندہ دیتے ہیں اور مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں مگر وصیت کرنے میں سنتی کرتے ہیں ایسے دوستوں کو میرا یہ پیغام ہے کہ وہ سستیاں ترک کریں اور اس نظام میں شامل ہو جائیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.
526 انصار کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ اپنے گھروں میں اپنی بیویوں اور اپنی اولادوں کو بھی دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے لئے تیار کریں.اپنے بچوں کی بچپن سے ہی دینی ماحول میں تربیت کریں.نمازوں کی عادت ڈالیں.مالی قربانی کا جذبہ ان کے دلوں میں پیدا کریں.آنحضرت ﷺ حضرت اقدس مسیح موعود اور نظام خلافت سے محبت اور اطاعت کا جذبہ ان میں اجاگر کریں.اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ خدا تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوں گے.اپنی نسلوں کو دنیا کے عذاب سے بچانے والے ہوں گے.حضور نے 25 دسمبر 2006ء کو لجنہ جرمنی کی مجلس عاملہ کو ہدایات دیتے ہوئے فرمایا: یو.کے کی لجنہ کو میں نے کہہ دیا ہے کہ جو دینی احکامات پر عمل کرنے والی اور موصیبہ ہوا سے عہد یدار بنا ئیں.وصیت اس لئے کہ حضرت مسیح موعود نے اسے مومن اور منافق میں فرق کی علامت قرار دیا ہے اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اس موضوع پر با قاعدہ ایک تقریر بھی فرمائی تھی.آپ عہدیداران کو وصیت کی تحریک ضرور کریں.ٹھیک ہے وہ پابند نہیں ہے کہ ضرور وصیت کرے لیکن پھر آپ بھی پابند نہیں ہیں کہ اسے عہد یدار بنائیں، اس لئے کہ اس نے گریجویشن کی ہوئی ہے اور وہ عقل کی باتیں کر لیتی ہے.اس کی بجائے اسے عہد یدار بنائیں جو دینی احکامات پر عمل پیرا ہے، حضرت مسیح موعود کی بیعت کے بعد آپ کے جاری کردہ نظام وصیت میں بھی شامل ہے تو گو وہ کچھ کم الفضل 6 جنوری 2007ءص5) پڑھی ہوئی ہے، اسے عہد یدار بنا ئیں.حضور کا ایک اور ارشادان الفاظ میں ہے.تینوں ذیلی تنظیموں کو Push کریں اور صرف Youngster کے پیچھے نہ پڑے رہیں.تا کہ زیادہ سے زیادہ موصی حاصل ہوسکیں اور یہ بھی کوشش کریں کہ اکثر وصیت کرنے والے کمانے والے لوگ ہوں بجائے اس کے کہ خانہ دارخواتین اور طالب علم وغیرہ اس میں شامل ہوں.ان سے کہیں کہ وہ Easy Target نہ بنائیں بلکہ ایسا منظم کام کریں جس سے ٹھوس کوشش نظر آتی ہو“.حضور نے 3 اگست 2005 ءکو مربیان سے ملاقات میں فرمایا:.جن مربیان کی وصیت نہیں ہے وہ سارے وصیت کریں.چونکہ مربی نے وصیت کی طرف دوست احباب کو راغب کرنا ہوتا ہے اس لئے وصیت ہوگی تو لوگوں کو وصیت کے نظام سے منسلک ہونے کی تلقین کر سکتا ہے“.واقفین زندگی سے حضور انور کی توقعات ص 26 )
527 تمام جماعت کو تحریک 29 جولائی 2005ء کو الفضل انٹر نیشنل نے وصیت نمبر شائع کیا اس میں حضور نے تمام دنیا کے احمدیوں کے نام پیغام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے حوالہ سے فرمایا:.میرا تمام دنیا کے احمدیوں کے لئے یہ پیغام ہے کہ حضرت مسیح موعود کے ان ارشادات کی روشنی میں آپ کی خواہشات کے تابع ، آگے بڑھیں اور مالی قربانی کے اس نظام میں شامل ہو جائیں اپنی اصلاح کی خاطر اور اپنے انجام بالخیر کی خاطر اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے قدم آگے بڑھائیں اور اس کی جنتوں کے وارث بنیں.حضرت مسیح موعود کو ان برگزیدہ لوگوں کی قبریں بھی دکھائی گئیں جو اس نظام میں شامل ہو کر بہشتی ہو چکے ہیں.خدا نے آپ کو فر مایا کہ یہ بہشتی مقبرہ ہے بلکہ یہ بھی فرمایا کہ انزل فيها کل رحمۃ یعنی ہر ایک قسم کی رحمت اس قبرستان میں اتاری گئی ہے.پس جیسا کہ میں نے کہا ہے اس نظام میں پوری مستعدی کے ساتھ شامل ہوں.جو خود شامل ہیں وہ اپنے بیوی بچوں کو اور دوسرے عزیزوں کو بھی اس میں شامل کرنے کی کوشش کریں اور خدا کے مسیح کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کریں.الفضل انٹرنیشنل لندن 29 جولائی 2005 ص 1 ) اپریل 2006 ء میں حضور نے آسٹریلیا کا دورہ فرمایا اور خطبہ جمعہ 14 را پریل میں فرمایا کہ آسٹریلیا کے صوفی حسن موسیٰ صاحب بیرون ہندوستان نظام وصیت میں شامل ہونے والے اولین موصی تھے.جنہوں نے مارچ 1906ء میں وصیت کی اس حوالہ سے حضور نے جماعت آسٹریلیا کو خصوصی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:.100 سال کے بعد بیرون ہندوستان کے پہلے موصی کے ملک میں یہ میرا دورہ ہے اور اس سے پہلے میں وصیت کرنے کی تحریک بھی کر چکا ہوں.یہاں آنے سے پہلے مجھے علم بھی نہیں تھا کہ یہاں بھی حضرت مسیح موعود کے نظام وصیت کا پہلا پھل آج سے 100 سال پہلے لگ چکا ہے.حضرت مسیح موعود کے زمانے میں یہ پھل لگا اور آج سے پورے 100 سال پہلے ایک ایسا کامیاب پھل تھا جس کی اللہ تعالیٰ نے تسلی بھی کروائی کہ تمہارا انجام بھی بخیر ہوگا.تو کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ بیرون پاکستان اور
528 ہندوستان نظام وصیت کی طرف توجہ اس ملک کے احمدیوں کو اس لحاظ سے بھی خاص طور پر کرنی چاہئے کہ وہ ایک شخص تھایا چند ایک اشخاص تھے جو یہاں رہتے تھے ان میں سے ایک نے لبیک کہتے ہوئے فوری طور پر وصیت کے نظام میں شمولیت اختیار کی.آج آپ کی تعداد سینکڑوں، ہزاروں میں ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل بھی بہت زیادہ ہیں اور 100 سال بعد اور تقریباً اس تاریخ کو 100 سال بھی پورے ہو چکے ہیں اس لئے اس لحاظ سے آپ لوگوں کو جو کمانے والے لوگ ہیں جو اچھے حالات میں رہنے والے لوگ ہیں ان کو اس نظام میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے اور سب سے پہلے عہدیداران اپنا جائزہ لیں اور امیر صاحب بھی اس بات کا جائزہ لیں کہ 100 فیصد جماعتی عہد یداران اس نظام میں شامل ہوں ، چاہے وہ مرکزی عہدیداران ہوں یا مرکزی ذیلی تنظیموں کے عہدیداران ہوں یا مقامی جماعتوں کے عہدیداران ہوں یا مقامی ذیلی تنظیموں کے عہدیداران ہوں.گو کہ اللہ کے فضل سے مجھے بتایا گیا ہے کہ یہاں مومیان کی تعداد کافی اچھی ہے لیکن حضرت صوفی صاحب کے حالات پڑھ کر جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ یہاں کا ہر احمدی موصی ہو اور تقویٰ پر قدم مارنے والا ہو.یہ ایسا بابرکت نظام ہے جو دلوں کو پاک کرنے والا نظام ہے.اس میں شامل ہو کے انسان اپنے اندر تبدیلیاں محسوس کرتا ہے.اب سالو من آئی لینڈز (Soloman Islands) میں وہاں کے ایک نئے احمدی ہیں، انہوں نے بھی وصیت کی ہے تو جس طرح نئے آنے والے اخلاص و وفا میں بڑھ رہے ہیں اور انشاء اللہ بڑھیں گے ان لوگوں کو دیکھ کر آپ لوگوں کو بھی فکر ہونی چاہئے کہ کہیں یہ پرانے احمدیوں کو پیچھے نہ چھوڑ (الفضل 9 مئی 2006ءص5) جائیں.ٹارگٹ کے پہلے حصہ کی تکمیل حضور کی اس تحریک پر احباب جماعت نے والہانہ لبیک کہا اور ایک سال میں 15 ہزارنٹی وصایا کا ٹارگٹ پورا کر دیا.چنانچہ حضور انور نے جلسہ سالانہ یو.کے 2005ء کے دوسرے دن 30 جولائی کے خطاب میں فرمایا:.نظام وصیت کی جو میں نے تحریک کی تھی شامل ہونے کی گزشتہ سال کہ پندرہ ہزار شامل ہو جا ئیں تو
529 اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک 16148 نے درخواستیں جمع کروادی ہیں.ان پر پراسس ہو رہا ہے.انشاء اللہ تعالیٰ قبول ہو جائیں گی.اس میں سب سے زیادہ پاکستان سے شامل ہوئے ہیں.10200 سے اوپر.انڈونیشیا میں 1100 قریباً 1200 جرمنی میں کینیڈا میں 1000 انڈیا میں، اور میرا خیال ہے کہ اس سے بھی زیادہ ہو چکے ہیں.امریکہ سے بھی کافی تعداد آئی تھی.(الفضل 8 دسمبر 2005ء) ٹارگٹ کا دوسرا حصہ 26 دسمبر 2005ء کو جلسہ سالانہ قادیان سے افتتاحی خطاب میں حضور نے جماعت کو اس تحریک کے دوسرے حصے کی طرف بڑھنے کا ارشاد کرتے ہوئے فرمایا:.میں نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا تھا کہ سو سال پورے ہونے پر کم از کم پچاس ہزار موصیان ہو جائیں.اس کا مطلب یہ تھا کہ اس وقت جو تعداد تھی اس میں تقریبا پندرہ ہزار اور شامل ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے UK کے جلسہ تک درخواست دہندگان کی تعداد پوری ہو گئی تھی.سو سال تو آج دسمبر میں پورے ہورہے ہیں لیکن جو مجلس کار پرداز پاکستان کو درخواستیں پہنچی ہیں وہ تقریباً ساڑھے سترہ ہزار ہیں.میں نے پندرہ ہزار کہا تھا.ابھی بہت سے وصیت فارم جماعتوں میں پڑے ہوئے ہیں اور میرے خیال میں اس سے کہیں زیادہ درخواستیں آچکی ہیں جتنا کار پرداز کا خیال ہے.بہر حال جماعت نے اس تحریک پر لبیک کہتے ہوئے توجہ دی.حضور نے فرمایا: اب اگلا ٹارگٹ تھا کہ اس وقت جو کمانے والے ہیں یا 2008 ء تک جو بھی کمانے والے ہوں اس کا پچاس فیصد نظام وصیت میں شامل کرنا ہے.انشاء اللہ.حضور نے فرمایا: بعض چھوٹی چھوٹی جماعتوں نے یہ ٹارگٹ حاصل بھی کر لیا ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس نظام کو افراد جماعت سمجھنے لگ گئے ہیں اور اپنے تقویٰ کے معیار کو بڑھانے کی کوشش میں لگ گئے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ آج سے سو سال پہلے حضرت مسیح موعود نے جس نظام کا اعلان اس شہر میں فرمایا تھا اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور اس کی تقدیر کے تحت ہی اس شہر سے میں آپ کو اگلا ٹارگٹ جس کی گزشتہ سال تحریک کی گئی تھی اس کی طرف توجہ دلا رہا ہوں.حضور انور نے فرمایا کہ بہت سارے لوگ لکھتے ہیں کہ ہم اس فکر میں تو ہیں کہ وصیت کر لیں لیکن
530 اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتے.حضور انور نے فرمایا یا د رکھیں کہ میں نے حضرت مسیح موعود کی جو دعائیں پڑھی ہیں یہ اس لئے پڑھ کر سنائی ہیں کہ جب نیک نیتی کے ساتھ اس نظام میں وابستہ ہوں گے تو حضرت اقدس مسیح موعود کی دعاؤں کے طفیل آپ کو اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی طرف توجہ ہوگی.پس آگے بڑھیں اور اس پاک نظام میں شامل ہونے کی کوشش کریں.خدا کے مسیح کی آواز پر لبیک کہیں اور ان حقوق کی ادائیگی کے معیار حاصل کرتے جائیں جن کی طرف تقویٰ کی راہوں پر چلتے ہوئے حضرت مسیح موعود نے توجہ دلائی ہے.حضور نے فرمایا مجھے گزشتہ سال کسی نے یہ بھی لکھا تھا کہ ہجری قمری کے لحاظ سے 2005ء میں خلافت کو بھی سو سال پورے ہورہے ہیں.لیکن بہر حال اس لحاظ سے آج وصیت کے نظام کو سو سال پورے ہونے کے علاوہ قمری سال کے لحاظ سے خلافت احمدیہ کو بھی سو سال پورے ہو گئے ہیں...پہلے اس لحاظ سے سوچ کر یہاں آنے کا پروگرام نہیں بنا تھا اور باوجود ایسے حالات کے جن کو موافق نہیں سکتے.اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا فرمائے کہ دونوں لحاظ سے صدیوں کے پورا ہونے پر خلیفہ وقت وہاں موجود ہے جہاں سے یہ پیغام دنیا کو دیا گیا تھا جہاں سے خلافت احمدیہ کا آغاز ہوا تھا.الفضل انٹر نیشنل 3 فروری 2006ء ) مالی قربانی کا اعلیٰ معیار پیش کرنے کا ارشاد: حضور نے خطبہ جمعہ 31 مارچ 2006ء میں فرمایا: چندوں کے بارہ میں بعض جماعتوں کے بعض استفسار ہوتے ہیں جو بعض لوگوں کی طرف سے ہوتے ہیں جن کے بارے میں سمجھتا ہوں کہ وضاحت کر دوں.ایک تو یہ کہ آج کل وصیت کی طرف بہت توجہ ہے.اور وصیت کی طرف توجہ تو ہو گئی ہے لیکن تربیت کی کافی کمی ہے.اس لئے بعض موصیان یہ سمجھتے ہیں کہ کیونکہ ہم نے وصیت کی ہوئی ہے اس لئے ہم صرف وصیت کا چندہ دیں گے باقی ذیلی تنظیموں کے چندے یا مختلف تحریکات کے چندے ہم پر لاگو نہیں ہوتے.تو یہ واضح ہو، جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ اگر تو حالات ایسے ہوں کہ تمام چندے نہ دے سکتے ہوں تو اس کی اجازت لے لیں.ورنہ توقع ایک موصی سے یہ کی جاتی ہے کہ ایک موصی کا معیار قربانی دوسروں کی نسبت، غیر موصی کی نسبت زیادہ ہونا چاہئے.تو اگر وصیت کا صرف کم سے کم 1/10 حصہ سے دے کر باقی چندے نہیں
531 دے رہے تو ہو سکتا ہے کہ غیر موصی دوسرے چندے شامل کر کے موصیان سے زیادہ قربانی کر رہے ہوں.تو اس لحاظ سے واضح کر دوں کہ کوئی بھی چندہ دینے والا ، چاہے وہ موصی ہیں یا غیر موصی ہیں اگر توفیق ہے تو تمام تحریکات میں چندے دینے چاہئیں کیونکہ ہر تحریک اپنی اپنی ضرورت کے لحاظ سے الفضل 25 اپریل 2006ء ص 6,5) بڑی اہم ہے.حسابات صاف رکھنے کی تحریک: موصیان کو چندہ کا حساب رکھنے اور بر وقت ادائیگی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے خطبہ جمعہ 28 مئی 2004ء میں حضور نے فرمایا:.خاص طور پر موصی صاحبان کے لئے میں یہاں کہتا ہوں ان کو تو خاص طور پر اس بارے میں بڑی احتیاط کرنی چاہئے.اس انتظار میں نہ بیٹھے رہیں کہ دفتر ہمارا حساب بھیجے گا یا شعبہ مال یاد کروائے گا تو پھر ہم نے چندہ ادا کرنا ہے.کیونکہ پھر یہ بڑھتے بڑھتے اس قدر ہو جاتا ہے کہ پھر دینے میں مشکل پیش آتی ہے.چندے کی ادائیگی میں مشکل پیش آتی ہے.پھر اتنی طاقت ہی نہیں رہتی کہ یکمشت چندہ ادا کر سکیں.اور پھر یہ لکھتے ہیں کہ کچھ رعایت کی جائے اور رعایت کی قسطیں بھی اگر مقرر کی جائیں تو وہ چھ ماہ سے زیادہ کی تو نہیں ہو سکتیں.اس طرح خاص طور پر موصیان کی وصیت پر زد پڑتی ہے تو پھر ظاہر ہے ان کو تکلیف بھی ہوتی ہے اور پھر اس تکلیف کا اظہار بھی کرتے ہیں.تو اس لئے پہلے ہی چاہئے کہ سوچ سمجھ کر اپنے حسابات صاف رکھیں اور اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے عہد کو پورا کرنے کی کوشش کریں اور جب بھی آمد ہو اس آمد میں جو حصہ بھی ہے نکالیں ، موصی صاحبان بھی اور دوسرے کمانے والے بھی جنہوں نے چندہ عام دینا ہے، 1/16 حصہ، اپنا چندہ اپنی آمد میں سے ساتھ کے ساتھ ادا کرتے رہا کریں.(الفضل 24 /اگست 2004 ء ) نیکی کا عمدہ نمونہ بننے کی تحریک: 25 دسمبر 2006ء کو خدام الاحمدیہ جرمنی کی عاملہ کو ہدایات دیتے ہوئے فرمایا :.جو افراد وصیت کرتے ہیں ان سے مل کر یہ جائزہ لیں کہ اس نظام میں شمولیت کے بعد ان کی طبیعت ، تربیت اور جماعتی تعاون میں کیا فرق پڑا ہے.پھر ان باتوں سے دوسرے خدام کو آگاہ کر کے انہیں بھی اس نظام میں شامل کرنے کی کوشش کریں.( الفضل 6 جنوری 2007ء)
532 تعمیر مساجد کے متعلق تحریکات تعمیر مساجد کی طرف حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے خصوصی توجہ دی ہے.کئی ممالک میں مراکز نماز تو تھے لیکن باقاعدہ مسجد نہیں تھی.یا ایک آدھ مسجد بنے ہوئے طویل عرصہ گزر چکا تھا.حضور نے ان سب مقامات پر مساجد کی تعمیر اور ان میں اضافہ کی تحریکات فرمائیں.تعمیر مساجد کا مستقل نظام حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تعمیر مساجد کے لئے چندہ کا ایک مستقل نظام جاری کیا تھا اس کی یاد دہانی کراتے ہوئے حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے فرمایا.”ہمارے بچپن میں تحریک جدید میں ایک فنڈ مساجد بیرون کی بھی ہوا کرتی تھی.ہر سال جب بچے پاس ہوتے تھے تو عموماً اس خوشی کے موقع پر بچوں کو بڑوں کی طرف سے کوئی رقم ملتی تھی.وہ اس میں سے اس مد میں ضرور چندہ دیتے تھے یا اپنی جیب خرچ سے دیتے تھے.یہ مداب بھی شاید ہو.حالات کی وجہ سے پاکستان میں تو میں اس پر زور نہیں دیتا لیکن باہر پتہ نہیں، ہے کہ نہیں اور اسے اب بیرون کہنے کی تو ضرورت بھی نہیں.عموماً مساجد کی ایک مد ہونی چاہئے اس میں جب بچے پاس ہو جائیں تو اس وقت یا کسی اور خوشی کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے گھر کی تعمیر میں چندہ دیا کریں اور اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے کونے کونے میں بے شمار احمدی بیچے امتحانوں میں پاس ہوتے ہیں.اگر ہر سال ذیلی نظیمیں اس طرف توجہ دیں، ان کو کہیں اور جماعتی نظام بھی کہے کہ اس موقع پر وہ اس مد میں اپنے پاس ہونے کی خوشی میں چندہ دیا کریں تو جہاں وہ اللہ تعالیٰ کا گھر بنانے کی خاطر مالی قربانی کی عادت ڈال رہے ہوں گے وہاں اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کا فضل سمیٹتے ہوئے اپنا مستقبل بھی سنوار رہے ہوں گے.والدین بھی اس بارے میں اپنے بچوں کی تربیت کریں اور انہیں ترغیب دلائیں تو اللہ تعالیٰ ان والدین کو بھی خاص طور پر اس ماحول میں بہت سے فکروں سے آزاد فرما دے گا“.روزنامه الفضل 23 فروری 2006ء )
533 ہارٹلے پول برطانیہ کی مسجد کی تحریک خطبہ جمعہ 15 اکتوبر 2004ء میں ہارٹلے پول برطانیہ میں مسجد کی تعمیر کے اخراجات مجلس انصار اللہ یوکے کے ذمہ لگائے اور 5لاکھ پونڈ کی تحریک فرمائی، اسی طرح بریڈ فورڈ کی مسجد کے بارہ میں فرمایا کہ مقامی جماعت کام کرے اور خدام الاحمدیہ اور لجنہ ان کی مدد کرے.حضور نے 16لاکھ پاؤنڈ کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا سال کے اندر یہ دونوں مساجد (الفضل 11/اکتوبر 2005ء) مکمل ہو جائیں.چنانچہ 11 نومبر 2005ء کو حضور نے مسجد ناصر ہارٹلے پول کا افتتاح فرمایا.جرمنی میں 100 مساجد کی تعمیر کی تحریک حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے جرمنی میں 100 مساجد کی تعمیر کی تحریک کی تھی جس پر کام جاری ہے.حضرت خلیفہ المسیح الخامس نے خدام الاحمدیہ جرمنی کے سالانہ اجتماع پر 19 مئی 2004 ء کے خطاب میں خدام الاحمدیہ کو اس طرف توجہ دلائی.(الفضل 22 مئی 2004ءص2) دیا.چنانچہ اگلے ہی روز خدام الاحمدیہ جرمنی نے اپنا وعدہ اڑھائی لاکھ یورو سے بڑھا کر 10 لاکھ یورو کر الفضل 24 را گست 2004 ء ) حضور نے جماعت جرمنی کو 2004 ء میں 5 مساجد بنانے کا ٹارگٹ دیا تھا جو انہوں نے پورا کر دیا.7 ستمبر 2004 ء کو حضور نے 5 ویں مسجد بیت الھدی کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا:.امیر صاحب جرمنی نے فرمایا ہے کہ ہم نے یہ عہد کیا ہے کہ ایک بیعت ہر مسجد کے ساتھ پیش کریں گے اور خدا کرے کہ سو بیعتیں ہو جائیں جب سو مساجد بنہیں تو یہ اتنا Under Estimate نہ کریں امیر صاحب اپنے آپ کو بھی اور نہ جرمنی جماعت کو.حضورانور نے فرمایا کہ میں تو کہتا ہوں ہر مسجد جو بنے اس کے ساتھ ہزاروں بیعتیں آپ پیش کرنے والے ہوں تو اگر اس سوچ کے ساتھ بڑے ٹارگٹ آپ رکھیں گے.اللہ تعالیٰ پر امید رکھیں.اللہ تعالیٰ سے جو مانگتا ہے تو بڑھ کر مانگیں.اتنی چھوٹی چھوٹی حدیں کیوں مقرر کرتے ہیں.
534 حضور انور نے فرمایا دوسرے انہوں نے کہا ہے کہ اس خلافت کے دور میں مساجد کا وہ وعدہ جو خلافت رابعہ کے دور میں کیا تھا اس کو پورا کرنے والے ہوں.حضور انور نے فرمایا میں یہ کہتا ہوں کہ آپ یہ عہد کریں کہ سو مساجد کیا وہ تو ہم چند سالوں میں بنالیں گے.اگر خدا تعالیٰ توفیق دے.خلافت خامسہ کے اس دور میں تو ہم جرمنی کے ہر شہر میں مسجد بنائیں گے.تو یہ عہد آپ کریں تو اللہ تعالیٰ انشاء اللہ آپ کی مدد بھی کرے گا اور اللہ تو کہتا ہے کوشش کرو اور مجھ سے مانگو اور میں دوں گا.الفضل 15 ستمبر 2004 ء ص 5 ) حضور نے خطبہ جمعہ 26 اگست 2005 ء میں یاددہانی کراتے ہوئے فرمایا:." جرمنی نے آج سے 10 سال پہلے 100 مساجد کا وعدہ کیا تھا.اس کی رفتار بڑی سست ہے.تو خلافت جوبلی منانے کے لیے اب اس میں بھی تیزی پیدا کریں اور خدام، انصار لجنہ پوری جماعت مل کر ایک منصوبہ بنائیں کہ ہم نے سال میں صرف چار پانچ مساجد پیش نہیں کرنی بلکہ 2008 ء تک اس سے بڑھ کر مساجد پیش کرنی ہیں.اگر آپ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اس کام میں جت جائیں گے تو انشاء اللہ تعالٰی، اللہ تعالیٰ مدد فرمائے گا.اور آپ کی مساجد کی تعمیر کی رفتار بھی انشاء اللہ تعالی تیز ہوگی.جو روکیں راستے میں پیدا ہو رہی ہیں وہ بھی دور ہوں گی.لیکن بہر حال اس کے لیے دعاؤں پر زور دینے اور پختہ ارادے کی ضرورت ہے.(الفضل 9 جنوری 2006ء) چنانچہ 2006 ء کے اواخر اور 2007 ء کے شروع میں حضور نے دورہ جرمنی کے دوران 3 مساجد کا افتتاح اور تین کا سنگ بنیاد رکھا.3 جنوری 2007ء کو بیت الناصر کا افتتاح فرمایا جس کے ساتھ 31 ویں مسجد مکمل ہو گئی.ناروے کی مسجد کی تحریک جماعت احمد یہ ناروے نے دور خلافت رابعہ میں ایک مسجد کی تعمیر کا منصوبہ بنایا تھا اور کچھ ابتدائی کارروائی ہوئی بھی تھی.مگر بعض وجوہ کی بنا پر کام رک گیا.حضور نے دورہ ناروے کے دوران 23 ستمبر 2005 ء کو اس کی تعمیر کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:.میں نے آپ میں سے مردوں، عورتوں، بچوں، نوجوانوں کی اکثریت کے چہرے پر اخلاص و وفا
535 کے جذبات دیکھے ہیں.میں نہیں سمجھتا کہ آپ کے اخلاص و وفا میں کمی ہے یا کسی سے بھی کم ہیں.بعض ذاتی کمزوریاں ہیں اُن کو دور کریں.ایک دوسرے سے تعاون کرنا سیکھیں.مضبوط ارادہ کریں تو اللہ تعالیٰ پہلے سے بڑھ کر آپ کی مدد فرمائے گا.جو کمزور ہیں ان کو بھی ساتھ لے کر چلیں.اُن کو بھی بتائیں کہ خدا کا گھر بنانے کے کیا فوائد ہیں.جو قربانیاں کر رہے ہیں وہ پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اپنے عہدوں کی نئے سرے سے تجدید کرتے ہوئے ، نئے سرے سے پلانگ کریں ، سب سر جوڑ کر بیٹھیں ، ایک دوسرے پر الزام لگانے کی بجائے اپنے فرائض ادا کرنے کی کوشش کریں.آج جب دنیا میں ہر جگہ مساجد کی تعمیر ہورہی ہے، ہر جگہ جماعت کی ایک خاص توجہ پیدا ہوئی ہے.آج جہاں اللہ تعالیٰ کے پیغام اور اسلام کے نور کو پھیلانے کی ضرورت ہے.اگر بہتر حالات میسر ہونے کے بعد بھی آپ نے خدا کے اس گھر اور اس کے روشن میناروں کی تعمیر نہ کی تو یہ ناشکری ہو یا درکھیں اگر یہ موقع آپ نے ضائع کر دیا تو آج نہیں تو کل جماعت احمدیہ کی کئی مساجد اس ملک میں بن جائیں گی.لیکن احمدیت کی آئندہ نسلیں، اس جگہ سے گزرتے ہوئے آپ کو اس طرح یاد کریں گی کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں جماعت کو مسجد بنانے کا موقع میسر آیا لیکن اس وقت کے لوگوں نے اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہ کیا اور یہ جگہ ان کے ہاتھ سے نکل گئی.اللہ نہ کرے کہ کبھی وہ دن آئے جب آپ کو تاریخ اس طرح یاد کرے“.پرتگال میں مسجد کی تحریک (الفضل 14 فروری 2006ء) خطبہ جمعہ 28 جنوری 2005ء میں حضور انور نے فرمایا:.سپین کے دورے کے دوران ایک یہ بھی فائدہ ہوا کہ پرتگال سے، جو ساتھ ہی وہاں ملک ہے، جماعت کے احباب جلسے پر آئے ہوئے تھے.ان کی عاملہ بھی تھی ان سے میٹنگ ہوگئی.اب تک وہاں بھی مسجد نہیں ہے اور مسجد نہ ہونے کی وجہ سے نو مبائعین کو سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے کیونکہ اکثر افریقن اور عرب ملکوں کے مسلمانوں میں سے احمدیت میں داخل ہو رہے ہیں.وہ مسجد نہ ہونے کی وجہ سے مایوس ہو جاتے ہیں.تو وہاں بھی میں نے ان کو کہا ہے کہ جلد از جلد مسجد بنائیں اور وہاں اللہ تعالیٰ نے
536 ایسی صورت پیدا کر دی ہے، مجھے امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ اس میں کامیابی ہوگی کہ وہیں سے مسجد کے اخراجات کے سامان بھی مہیا ہو جائیں گے.ایک پرانا گھر ہے جس کو بیچ کر نئی جگہ خریدی جاسکتی ہے اور تعمیر بھی ہو سکتی ہے اور اگر تھوڑا بہت کچھ ضرورت ہوئی تو انشاءاللہ مرکز سے پوری ہو جائے گی“.(الفضل 10 مئی 2005ء ) ویلنسیا سپین میں مسجد کی تحریک پین میں 1982ء میں مسجد بشارت کا افتتاح ہوا تھا.حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے دورہ سپین کے دوران خطبہ جمعہ 14 جنوری 2005ء میں سپین میں ویلنسیا کے مقام پر مسجد کی تعمیر کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:.” میرے دل میں بڑی شدت سے یہ خیال پیدا ہوا کہ پانچ سوسال بعد اس ملک میں مذہبی آزادی ملتے ہی جماعت احمدیہ نے مسجد بنائی اور اب اس کو بنے بھی تقریباً 25 سال ہونے لگے ہیں اب وقت ہے کہ سپین میں مسیح موعود کے ماننے والوں کی مسجد کے روشن مینار اور جگہوں پر بھی نظر آئیں.جماعت اب مختلف شہروں میں قائم ہے.جب یہ مسجد بنائی گئی تو اس وقت یہاں شاید چند لوگ تھے.اب کم از کم سینکڑوں میں تو ہیں.پاکستانیوں کے علاوہ بھی ہیں.جماعت کے وسائل کے مطابق عبادت کرنے والوں کے لئے ، نہ کہ نام و نمود کے لئے اللہ کے اور گھر بھی بنائے جائیں.تو اس کے لئے میرا انتخاب جو میں نے سوچا اور جائزہ لیا تو ویلنسیا (Valencia) کے شہر کی طرف توجہ ہوئی.یہ کام بہر حال انشاء اللہ شروع ہوگا.اور جماعت کے جو مرکزی ادارے ہیں یا دوسرے صاحب حیثیت افراد ہیں اگر خوشی سے کوئی اس مسجد کے لئے دینا چاہے گا تو دے دیں اس میں روک کوئی نہیں ہے.لیکن تمام دنیا کی جماعت کو یا احمدیوں کو میں عمومی تحریک نہیں کر رہا کہ اس کے لئے ضرور دیں.یہ مسجد بن جائے گی چاہے مرکزی طور پر فنڈ مہیا کر کے بنائی جائے یا جس طرح بھی بنائی جائے اور بعد میں پھر سپین والے اس قرض کو واپس بھی کر دیں گے جس حد تک قرض ہے.تو بہر حال یہ کام جلد شروع ہو جانا چاہئے اور اس میں اب مزید انتظار نہیں کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق دے.کیونکہ اب تک جو سرسری اندازہ لگایا ہے اس کے مطابق دو تین سو نمازیوں کی گنجائش کی مسجد انشاء اللہ خیال ہے کہ
537 6-5لاکھ یورو (Euro) میں بن جائے گی.یہاں بھی اور جگہوں پر بھی مسجد بنانے کا عزم کیا ہے تو پھر بنا ئیں انشاء اللہ شروع کریں یہ کام.ارادہ جب کر لیا ہے تو وعدے کریں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے (روزنامہ الفضل 3 مئی 2005 ء ) اس میں برکت ڈالے گا.اس تحریک پر احباب جماعت کے رد عمل کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.سپین میں نئی مسجد کی تعمیر کا میں نے اعلان کیا تھا اور سپین کی جماعت کے محدود وسائل کی وجہ سے دوسروں کو بھی اس میں حصہ لینے کی تحریک کی تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے مخلصین نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.بڑی تعداد میں وعدے آئے.الحمد للہ اور کچھ احباب نے اپنے وعدے تو پورے بھی کر دیئے یا کچھ حصہ ادا کر دیا.لیکن ابھی کافی بڑی تعداد ایسی ہے جن کے وعدے قابل ادا ہیں.اب وہاں ایک جگہ پسند آئی ہے اور سودا ہو رہا ہے.ویلنسیا سے کوئی پندرہ سوکلومیٹر پر مین ہائی دے کے اوپر ایک چھوٹا سا قصبہ ہے اور ہائی وے کے اوپر ہی ایک پلاٹ ہے.اس میں تعمیر شدہ ایک چھوٹی سے مضبوط عمارت بھی ہے جو رہائش کے لئے استعمال ہو سکتی ہے.بہر حال وہاں خالی جگہ بھی کافی ہے.وہاں مسجد کا پلان انشاء اللہ بن رہا ہے.تعمیر شروع ہو جائے گی“.(الفضل 6 دسمبر 2005 ء) ہالینڈ میں مسجد کی تحریک حضور نے 5 جنوری 2007ء کو ہالینڈ میں خطبہ جمعہ میں فرمایا:.اس وقت تک ہالینڈ میں مسجد کی شکل میں جماعت احمدیہ کی صرف ایک مسجد ہے جو ہیگ (Hague) میں ہے اور اس کی تعمیر ہوئے بھی شاید انداز 50 سال سے زائد عرصہ ہی ہو گیا ہے.اُس وقت بھی اس مسجد کا خرچ لجنہ نے دیا تھا جن میں اکثریت پاکستان کی لجنہ کی تھی.پھر یہ ین سپیٹ کا سنٹر خریدا گیا جہاں اس وقت جمعہ ادا کر رہے ہیں یہ بھی مرکز نے خرید کر دیا ہے.ہالینڈ کی جماعت نے تو ابھی تک ایک بھی مسجد نہیں بنائی.اب آپ کی تعداد یہاں اتنی ہے کہ اگر ارادہ کریں اور قربانی کا مادہ پیدا ہو تو ایک ایک کر کے اب مسجد بنا سکتے ہیں.اگر ایمان ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر یقین رکھیں.اگر یہ ٹارگٹ رکھیں کہ ہر دو سال میں کم از کم ایک شہر میں جہاں جماعت کی تعداد اچھی ہے مسجد بنانی ہے ( یہاں دو تین تو شہر ہیں ) تو پھر اس کے بعد مزید جماعت پھیلے گی انشاء اللہ.جس طرر
538 میں نے کہا تبلیغ بھی کریں اور اس کے ساتھ ساتھ مساجد بناتے چلے جائیں تو یہ چھوٹا سا ملک ہے اس میں جب مساجد بنائیں گے، ان کے مناروں سے جو اللہ تعالیٰ کی توحید کی آواز گونجے گی اور آپ لوگوں کے عمل اور عبادتوں کے معیار بڑھیں گے تو یقیناً ان لوگوں کی غلط فہمیاں بھی دور ہوں گی اور آپ لوگ ان کی غلط فہمیاں دور کرنے والے بن جائیں گئے“.تعمیر مساجد کا حیرت انگیز سلسلہ ( الفضل یکم مارچ 2007 ء ) حضور کی مسلسل تحریکات کے نتیجہ میں خلافت خامسہ میں مساجد کی تعمیر کا ایک نیا دور شروع ہوا.اس کا ذکر کرتے ہوئے حضورانور خطبہ جمعہ 8 جولائی 2005ء میں فرماتے ہیں:.میں مساجد کا ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا کی مختلف جماعتوں میں مساجد کی تعمیر کی طرف یا بڑی عمارت خرید کر ان کو مسجدوں میں تبدیل کرنے یا نماز سینٹر قائم کرنے اور خرید کر قائم کرنے کی طرف رجمان کافی بڑھا ہے.چنانچہ اس دورے کے دوران بھی پہلے جو افریقہ کا دورہ ہوا.مختلف افریقہ کے ممالک میں مساجد کا سنگ بنیا درکھا.چار مساجد کا سنگ بنیاد رکھا اور چھ نئی مساجد کا افتتاح ہوا.افریقہ میں تو بہت غربت ہے، تھوڑا بہت اپنے وسائل سے لوگ اپنی مسجدوں کی تعمیر میں حصہ ڈالتے ہیں بہر حال اپنے لحاظ سے جس قدر قربانی اور اخلاص کا وہ اظہار کر سکتے ہیں کرتے ہیں.ان ملکوں میں زیادہ تر مرکزی طور پر یا یہ بھی ہوا ہے کہ بعض دوسرے ملکوں کے مخیر حضرات نے مسجدوں کی تعمیر میں حصہ لیا ہے.اور لے رہے ہیں.U.K کے بھی بعض افرادان میں شامل ہیں.مشرقی افریقہ میں مغربی افریقہ کی طرح عموماً احمدی اتنے خوشحال نہیں ہیں جیسے مغربی افریقہ میں ہیں.وہاں تو ایک ایک احمدی خود بھی بڑی بڑی مساجد تعمیر کروا دیتا ہے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا مشرقی افریقہ کے رہنے والے احمدیوں کے وسائل عموماً اتنے نہیں ہیں لیکن کینیا میں مثلاً ایشین احمدی یا پاکستانی، ہندوستانی Origin کے احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے رہا ہے اور وہ مساجد کی تعمیر میں حصہ لے رہے ہیں.بلکہ بعض مساجد جن کی میں نے بنیادیں رکھی ہیں ان کی تعمیر کا مکمل خرچ ان میں سے ایک ایک آدمی نے یا ان کی ایک فیملی نے برداشت کیا ہے.اسی طرح یوگنڈا میں کچھ نسبتا بعض احمدیوں کے حالات بہتر ہیں
539 تو وہاں بھی افریقن احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مالی قربانیوں میں بڑھ کے حصہ لے رہے ہیں.ایک افریقن احمدی نے ایک بڑی اچھی مسجد بنوانے کا وعدہ کیا ہے بلکہ شروع بھی کروادی ہے.اس کی بنیاد میں نے رکھی تھی.اللہ تعالیٰ ان سب قربانی کرنے والوں کو جزا دے ان کی تو فیقوں کو بڑھائے اور ان کے ایمان اور اخلاص میں ان کو ترقی دیتا چلا جائے.پھر اس کے بعد میں نے کینیڈا کا دورہ کیا ہے.کینیڈا میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے تین مساجد کے سنگ بنیادر کھے گئے.پہلا سنگ بنیا دو نیکوور (Vancouver) میں رکھا گیا یہ بھی سمندر کے کنارے پہاڑوں میں گھرا ہوا ایک خوبصورت شہر ہے دریا کے کنارے جماعت نے چند سال قبل ایک رقبہ خریدا تھا جس میں ایک عمارت بنی ہوئی تھی.اور اس میں ایک چھوٹا سا ہال بھی تھا جس میں آجکل نمازیں ادا ہوتی ہیں.یہاں با قاعدہ مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے.اس مسجد کا نام بیت الرحمن رکھا گیا ہے.اس مسجد کا خرچ برداشت کرنے کا وعدہ بھی ایک مخلص احمدی دوست نے کیا ہے اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے اور ان کے اموال ونفوس میں برکت عطا فرمائے.اس مسجد کا خرچ تقریباً ساڑھے تین چار ملین ہے یعنی پہنتیں، چالیس لاکھ ڈالرز اور وہ اکیلے آدمی نے برداشت کرنے کا وعدہ کیا ہے.اللہ تعالیٰ ان کو جلد سے جلد تکمیل کروانے کی توفیق عطا فرمائے.پھر کیلگری کینیڈا کا ایک بڑا شہر ہے.یہاں بھی مسجد کا سنگ بنیا د رکھا گیا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے سنگ بنیاد کے وقت ایک بڑی اچھی تقریب ہوئی اور ان کے ممبر آف پارلیمینٹ اور شہر کے معززین دوست آئے بلکہ صوبے کے گورنر بھی آئے ہوئے تھے تو اسی طرح وینکوور میں بھی دوست معززین اور پارلیمینٹ ممبران آئے ہوئے تھے.کینیڈا میں عموماً جماعت کا ایک اچھا اثر قائم ہے.اور ان دونوں شہروں میں بھی باقی کینیڈا کی طرح جماعت کا بڑا اچھا اثر قائم ہے.اللہ تعالیٰ یہ نیک اثر ہمیشہ قائم رکھے اور جماعت کو توفیق دے کہ اس میں مزید ترقی ہو اور اس نیک تاثر کے نیک اثرات بھی ظاہر ہوں اور وہاں کے احمدی ان لوگوں کو بھی اسلام کی روشنی سے منور کرنے کے قابل ہو سکیں.تو کیلگری مسجد کے سنگ بنیاد کا ذکر ہو رہا تھا.یہ بھی بڑا منصوبہ ہے میرا خیال ہے کینیڈا کی یہ سب سے بڑی مسجد ہو گی.تقریباً چھ سات ملین ڈالرز کا خرچ ہے اور اللہ تعالیٰ وہاں کے احمدی احباب کو توفیق دے.ان کی تو فیقوں کو بڑھائے اور جلد انہیں یہ مسجد تعمیر کرنے کی توفیق دے.بنیا د رکھی ہے انشاء اللہ
540 کام شروع ہو جائے گا.جس جوش اور درد کے ساتھ وہاں کے لوگوں نے اپنے وعدے پورے کرنے اور بڑھا کر پورے کرنے کا اظہار کیا اور دعا کے لئے کہا.مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ جلد ہی مسجد کی تعمیر بھی مکمل ہو جائے گی.اور کوئی مالی مسئلہ نہیں ہو گا.اس مسجد کا نام ”بیت النور" رکھا گیا ہے.پھر ٹورانٹو کے پاس ایک جگہ ہے.بریمپٹن (Brampton) ، یہاں بھی مسجد کا سنگ بنیا د رکھا گیا ہے.یہاں کچھ روکیں ابھی حائل ہیں.جیسا ان ملکوں میں ہوتا ہے.بعض اجازتیں لینی ہوتی ہیں.بعض ہمسایوں کی طرف سے روکیں ہیں.بہر حال بنیاد رکھ دی گئی ہے.دعا کریں اللہ تعالیٰ روکوں کو دور فرمائے اور یہاں بھی مسجد کی تعمیر جلد شروع ہو جائے.پھر کینیڈا کی جماعت نے ایڈمنٹن ، گلائیڈ منسٹرز ، سکاٹون وغیرہ میں مساجد کے لئے پلاٹ خریدے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی بڑے بڑے پلاٹ ہیں.دس ہیں اور تمیں ایکٹڑ کے.یہاں بھی جلد اللہ کرے ان کو مساجد کی تعمیر کی تو فیق ملے.تو جو پہلی جگہیں ہیں وینکوور اور کیلگری کیونکہ یہ شہر کے اندر ہیں.یہ پلاٹ میرا خیال ہے چار پانچ ایکڑ کے ہیں.باقی جگہ کھلی جگہوں کے پلاٹ ہیں.ان بڑے پلاٹوں کا یہ فائدہ ہے کہ بہت ساری چیزوں کے لئے ہمیں جو ضرورت پڑتی ہے، جماعت کے فنکشنز کے لئے وہ ضرورت پوری ہو جاتی ہے.پھر کینیڈا کی جماعت نے دوسنٹرز خریدے ہیں جہاں بڑی اچھی مضبوط عمارتیں بنی ہوئی ہیں.بلکہ ایک جگہ تو Darham تو ایک چھوٹا سا قلعہ نما گھر بنا ہوا ہے.کسی ہالینڈ کے باشندے نے بنایا تھا.اور.اس کے بعد اس نے دے دیا بڑا مضبوط بنا ہوا ہے اور اس کے ساتھ رقبہ بھی تقریباً سترہ اٹھارہ ایکٹر ہے.جیسا کہ میں نے کہا اچھی مضبوط عمارت ہے.اللہ تعالیٰ نے بھی جماعت کے پیسے کو، قربانی کرنے والوں کے پیسے کو اس طرح برکت دی ہے اور ان سے اس طرح استعمال کرواتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے.یہ قلعہ نما گھر جو ہے.18 ایکڑ زمین کے ساتھ یہ تقریباً ایک ملین ڈالر کا خریدا گیا ہے اور اس کا خرچ بھی صرف ایک آدمی نے دیا ہے.اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ایسے مخلص دوست دیئے ہیں جو خرچ برداشت کرتے ہیں اور جماعت کو بڑے سستے داموں یہ زمین مل گئی ہے جبکہ اس کی اب قیمت تقریباً اس سے ڈیوڑھی ہو چکی ہے تو ان سب خرچ کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ جزا دے اور ان کے اموال ونفوس میں برکت ڈالے.جیسا کہ میں نے کہا یہ عمارت بھی جو خریدی گئی ہے یہ اتفاق سے قبلہ رخ بنی
541 ہوئی عمارت ہے.اس لئے مسجد کے طور پر بھی فوراً اس کا استعمال شروع ہو چکا ہے.اور مزید تھوڑی سی تبدیلیاں ہوتی ہیں.اس میں علاوہ کمروں کے بڑے بڑے دو ہال ہیں اور ایک ہال تو خیر سوئمنگ پول کا ہے.اس میں کچھ تبدیلی کر کے اس کو نماز کے ہال کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے اور کر رہے ہیں اور انشاء اللہ کیا جائے گا اور ان دونوں میں تقریباً چار پانچ سونمازی نماز پڑھ سکتے ہیں.پھر کا رنوال میں ایک عمارت جس کو مسجد کی شکل دے دی جائے گی خریدی گئی ہے.یہ بھی ماریشس کے احمدی ڈاکٹر ہیں.انہوں نے خرید کے دی ہے.تقریباً 3 لاکھ ڈالرز ہیں.تو یہ کارنوال کا قصبہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے اس لئے یہاں اس ضرورت کے تحت تھوڑی زمین اور عمارت خریدی گئی ہے.اللہ تعالیٰ یہاں جماعت کو بھی توفیق دے کہ جو اپنے نیک نمونے قائم کرنے کا اصل مقصد ہے.اپنی عبادتوں کے معیار بڑھانے کا وہ قائم کریں اور قصبے میں مقامی لوگوں کی بھی ایک مضبوط جماعت قائم کرنے کے قابل ہوسکیں.تو بہر حال یہ عجیب نظارے جماعت کی قربانیوں کے دنیا میں نظر آتے آپ U.K والے بھی جو یہاں میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں، جو باتیں میں دوسری دنیا کی اپنے دوروں کی بیان کر رہا ہوتا ہوں، سن کر مایوس نہ ہو جایا کریں کہ ہم کیا کر رہے ہیں.آپ بھی ماشاء اللہ قربانیوں میں بڑھنے والوں میں شامل ہیں.حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے جب اس مسجد کو بنانے کی تحریک کی تھی تو U.K کی جماعت نے بھی ماشاء اللہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور پھر بعض وجوہ کی وجہ سے جب خرچ تقریباً دو گنے کے قریب ہو گیا زیادہ ہو گیا.دوبارہ تحریک کرنی پڑی تو آپ لوگ تھک کر بیٹھ نہیں گئے تھے.حضور کی تحریک پر دوبارہ اسی طرح بڑھ چڑھ کر آپ نے حصہ لیا اور یہ خوبصورت اور ایک شاندار مسجد یورپ کے دل میں بنادی.یہ ٹھیک ہے کہ اس میں باہر کی جماعتوں نے بھی حصہ لیا.ان کی بھی قربانیاں شامل ہیں لیکن U.K کی جماعت بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی.بلکہ بہت بڑا حصہ ان کا ہے اور ابھی تک بعض چھوٹے کام ہورہے ہیں اور مستقل خرچ ہو رہے ہیں تو دنیا کو پتہ ہونا چاہئے کہ یہ ابھی تک اس مسجد پر خرچ کر رہے ہیں.پھر برمنگھم میں گزشتہ سال ایک خوبصورت مسجد بنی.وہاں کی جماعت نے بھی اپنے شہر میں مسجد بنا کر ایک خوبصورت اضافہ کیا.پھر جب میں نے ہارٹلے پول اور بریڈ فورڈ کی مسجد کے لئے تحریک کی تو
542 پھر U.K کی جماعت نے غیر معمولی قربانیاں دیں انصار اللہ نے بھی لجنہ نے بھی اور دوسری جماعت کے افراد نے بھی.تو یہ جو ہر جگہ غیر معمولی قربانی کے نظارے ہمیں یہاں بھی نظر آتے ہیں“.خطبات مسر در جلد 3 ص 403 تا 410 ) مسجد برلن کی تحریک خلافت ثانیہ کی تحریکات میں مسجد برلن کا ذکر گزر چکا ہے.حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز نے 2006ء کے آخر اور 2007ء کے شروع میں جرمنی کا دورہ فرمایا اور 2 جنوری 2007 ء کو مسجد برلن کا سنگ بنیاد رکھا.حضور نے دورہ اور اس تقریب کا ذکر کرتے ہوئے خطبہ جمعہ 12 جنوری 2007ء میں فرمایا:.”سب سے بڑا بریک تھرو (Break Through) یا بڑی کامیابی جو ہے وہ مسجد برلن کا سنگ بنیاد تھا.وہاں مخالفت زوروں پر ہے.ابھی بھی مخالفین یہی کہتے ہیں کہ ہم اس مسجد کو بنے نہیں دیں گے اور اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں گے.گو کہ انتظامیہ کا خیال ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ ایسی کوئی بات نہیں ہوگی کیونکہ قانونی تقاضے پورے ہو رہے ہیں.تو اللہ تعالیٰ ہر طرح سے مددفرماتا ہے اور یہ نظارے ہم دیکھتے رہے.پہلے امیر صاحب کا خیال تھا کہ ایک مہینہ پہلے جلدی آ جاؤں تا کہ مسجد کا سنگ بنیاد رکھا جائے.لیکن جب دسمبر میں میں نے جانے کا فیصلہ کیا تو اس وقت تک ان کو مسجد کی تحریری اجازت نہیں ملی تھی.تحریری اجازت بھی میرے جانے کے بعد انہیں ملی ہے تو اس کے بعد کوئی قانونی روک نہیں تھی.اس کے بغیر اگر ہم جاتے تو کئی قباحتیں پیدا ہوسکتی تھیں اور بنیا درکھنا بھی ممکن نہیں تھا.پھر وہاں کے میئر اور MP آئے اور انہوں نے بھی جماعت کی تعلیم کو سراہتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ہمارے لوگوں کی ساری فکریں دور ہو جائیں گی.جس دن افتتاح تھا جب ہم وہاں گئے ہیں تو چالیس پچاس کے قریب مخالفین تھے جو نعرے لگا رہے تھے.لیکن جرمنی میں ایک دوسرا گروپ بھی ہمیں نظر آیا.جب ہم گئے ہیں انہوں نے بھی بینر اٹھایا ہوا تھا اور وہ جماعت احمدیہ کے حق میں تھا کہ یہاں جماعت ضرور مسجد بنائے اور اس میں کوئی روک نہ ڈالی جائے.جماعت نے ان کو نہیں کہا تھا.اور نہ وہ جانتے تھے.خود ہی کھڑے ہو گئے.یہ بھی اللہ تعالیٰ نے مخالفین کے توڑ کے لئے خود ہی وہاں
543 انتظام فرما دیا.پھر یہ جو ان کا چھوٹا سا جلوس تھا اس پر بھی تین چار شہریوں نے ان کے بینر چھیننے کی کوشش کی کہ یہ کیوں کر رہے ہو.اللہ تعالیٰ نے خود ہی ایسا سامان پیدا کر دیا کہ مخالفین کو ہمیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں پڑی.ان کے اپنے لوگ ہی ان کو روکنے والے تھے.جو مخالفین تھے ( لوگ اتنے زیادہ تو تھے نہیں) انہوں نے ایک ٹیپ ریکارڈر میں ایک آواز ریکارڈ کی ہوئی تھی.کسی ٹنل میں سے کوئی جلوس گزرا اس کی بڑی گونج تھی لگتا یہ تھا کہ بہت بڑا جلوس ہے اور آوازیں نکال رہا ہے.لیکن لگتا ہے ان کو بھی ملاؤں کی ٹریننگ تھی کہ ٹیپ ریکارڈر استعمال کرو.جو وہاں MP آئے ہوئے تھے انہوں نے بڑی حیرت سے اس بات کا اظہار کیا کہ میں تو ایک عرصے سے جماعت کو جانتا ہوں میرے خیال میں بھی نہیں تھا کہ جماعت احمدیہ کی مسجد کی مخالفت ہو رہی ہو گی.یہ تو بڑی امن پسند اور پیار کرنے والی جماعت اور پیار پھیلانے والی جماعت ہے.اخباروں اور ٹی وی نے بھی بڑی اچھی کوریج دی.جیسا کہ میں پہلے بھی جرمنی کے خطبہ میں بتا چکا ہوں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے برلن میں مسجد کی تعمیر کی خواہش کا اظہار فرمایا تھا اور آپ کی بڑی شدید خواہش تھی اور اس وقت ایک ایکٹر رقبہ کا قریباً سودا بھی ہو گیا تھا بلکہ میرا خیال ہے لیا بھی گیا تھا اور آج کل کے حالات میں اتنا بڑا رقبہ ملنا ممکن نہیں ، کافی مشکل ہے کیونکہ زمینیں کافی مہنگی ہیں.جرمنی میں عموماً جو پلاٹ مسجد کے لئے خریدے جارہے ہیں وہ بڑے چھوٹے ہوتے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ فضل فرمایا کہ یہاں تقریباً ایک ایکڑ سے زائد کا رقبہ برلن کی مسجد کے لئے مل گیا ہے اور اللہ میاں نے بڑی سستی قیمت پر دلا دیا.جبکہ باقی مساجد جو وہاں بن رہی ہیں اس سے چوتھے پانچویں حصے میں بن رہی ہیں.پہلے میں یہ بتا دوں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا جو اس وقت کا منصوبہ تھا وہ نقشہ دیکھ کے آدمی حیران ہوتا تھا.600 نمازیوں کے لئے ہال کی گنجائش تھی ، مشن ہاؤس، گیسٹ ہاؤس ، پھر اس میں 13 کمرے تھے جو سٹو ڈنٹس کے لئے ، طلباء کے لئے رکھے گئے تھے ، اب جو مسجد بن رہی ہے اس کے نقشے میں بھی تقریباً 500 نمازیوں کے لئے گنجائش ہو گی اسی طرح باقی چیزیں ہیں اور اگر فوری نہیں تو بعد میں کبھی جب بھی سہولت ہو، انشاء اللہ تعالیٰ اس کو وسعت دی جاسکتی ہے.1923ء میں جب تحریک ہوئی تھی تو لجنہ اماءاللہ نے تعمیر کے لئے رقم جمع کی تھی.حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا تھا کہ کیونکہ
544 یورپ میں عورتوں کے بارے میں یہ خیال ہے کہ ہم میں عورت جانور کی طرح سمجھی جاتی ہے.جب یورپ کو یہ معلوم ہو گا کہ اس وقت اس شہر میں جو دین کا مرکز بن رہا ہے اس میں مسجد عورتوں نے جرمنی کے نو مسلم بھائیوں کے لئے مسجد تیار کروائی ہے تو کس قدر شرمندہ اور حیران ہوں گے.تو جرمنی کی لجنہ کو جب یہ علم ہوا کہ پہلی کوشش مسجد کی تعمیر کی تھی اور عورتوں کی قربانیوں سے بنی تھی.تو لجنہ جرمنی نے کہا کہ ہم اس مسجد کا خرچ برداشت کریں گی جو تقریباً ڈیڑھ ملین سے 2 ملین یورو کے قریب ہے.اللہ تعالیٰ ان کو جزاء دے اور ان کے مال و نفوس میں برکت ڈالے اور جلد سے جلد اپنا یہ وعدہ پورا کر سکیں تا کہ اپنا وعدہ پورا کر کے دوسرے منصوبوں اور قربانی کے لئے تیار ہو جائیں.اس مسجد کا نام خدیجہ مسجد رکھا گیا ہے.پس لجنہ ہمیشہ یادر کھے کہ یہ مبارک نام اس پاک خاتون کا ہے جو سب سے پہلے آنحضرت ﷺ پر ایمان لائیں اور آپ پر اپنا سارا مال قربان کر دیا.پس جہاں یہ مسجد احمدی عورت کو قربانی کے اعلیٰ معیار کی طرف توجہ دلانے والی بنی رہے وہاں دنیا سے بے رغبتی اور تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی طرف بھی ہر احمدی کو توجہ دلانے والی بنی رہے تا کہ ہماری آئندہ نسلیں بھی تقویٰ پر چلتے ہوئے ہر قسم کی قربانی کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والی بنی رہیں، جو حضرت مسیح موعود کے مشن کو ہمیشہ آگے سے آگے بڑھانے والی ہوں.مشرقی جرمنی میں یہ جو برلن میں مسجد بن رہی ہے، یہ ایک مسجد ہی نہیں بلکہ آئندہ نسلیں اور مساجد تعمیر کرنے والی بھی ہوں اور کرتی چلی جائیں اور ان کو آباد کرنے والی بھی ہوں اور خدائے واحد کے نام کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلانے والی ہوں.حضرت مسیح موعود کے مقصد کو پورا کرنے والی ہوں اور اس میں مددگار بنیں.(الفضل 6 مارچ 2007ء )
545 خدمت خلق کے متعلق تحریکات خدمت خلق کی عمومی تحریک 12 ستمبر 2003ء کو نویں شرط بیعت کی تشریح کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ جماعت احمدیہ حسب توفیق انفرادی طور پر خدمت خلق کرتی ہے اور اپنے عہد بیعت کو نبھاتی ہے.پھر فرمایا:.جماعتی سطح پر یہ خدمت انسانیت حسب توفیق ہو رہی ہے مخلصین جماعت کو خدمت خلق کی غرض سے اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے، وہ بڑی بڑی رقوم بھی دیتے ہیں جن سے خدمت انسانیت کی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے افریقہ میں بھی اور ربوہ اور قادیان میں بھی واقفین ڈاکٹر اور اساتذہ خدمت بجالا رہے ہیں.لیکن میں ہر احمدی ڈاکٹر ، ہر احمدی ٹیچر اور ہر احمدی وکیل اور ہر وہ احمدی جو اپنے پیشے کے لحاظ سے کسی بھی رنگ میں خدمت انسا نیت کر سکتا ہے، غریبوں اور ضرورتمندوں کے کام آ سکتا ہے، ان سے یہ کہتا ہوں کہ وہ ضرور غریبوں اور ضرورتمندوں کے کام آنے کی کوشش کریں.تو اللہ تعالی آر کے اموال ونفوس میں پہلے سے بڑھ کر برکت عطا فرمائے گا انشاء اللہ.اگر آپ سب اس نیت سے یہ خدمت سرانجام دے رہے ہوں کہ ہم نے زمانے کے امام کے ساتھ ایک عہد بیعت باندھا ہے جس کو پورا کرنا ہم پر فرض ہے تو پھر دیکھیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور برکتوں کی کس قدر بارش ہوتی ہے جس کو آپ سنبھال نہیں سکیں گے“.(الفضل 13 جنوری 2004ء) احمدی ڈاکٹر ز کو وقف کی تحریک حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ یو کے 2003 ء کے موقع پر دوسرے دن اپنے خطاب میں فرمایا :.افریقہ میں جو ہمارے ہسپتال ہیں ان میں ڈاکٹروں کی بہت ضرورت ہے یہ بھی میں تحریک کرنا چاہتا ہوں.ڈاکٹر صاحبان کو کہ اپنے آپ کو وقف کے لئے پیش کریں اور کم از کم تین سال تو ضرور ہو.اور اگر اس سے اوپر جائیں 6 سال یا 9 سال تو اور بھی بہتر ہے.
546 اسی طرح فضل عمر ہسپتال ربوہ کے لئے بھی ڈاکٹرز کی ضرورت ہے تو ڈاکٹر صاحبان کو آج اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں عارضی وقف کی تحریک کرتا ہوں اپنے آپ کو خدمت خلق کے اس کام میں جو جماعت احمد یہ سرانجام دے رہی ہے پیش کریں اور یہ ایک ایسی خدمت ہے جس کے ساتھ دنیا تو آپ کم ہی لیں گے دین کی بہت بڑی خدمت ہوگی اور اس کا اجر اللہ تعالیٰ آپ کی نسلوں تک کو دیتا چلا جائے گا.الفضل انٹر نیشنل 12 ستمبر 2003ء ص 3) پھر حضور نے 17 /اکتوبر 2003ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:.جلسے پر میں نے ڈاکٹروں کو توجہ دلائی تھی کہ ہمارے افریقہ کے ہسپتالوں کے لئے ڈاکٹر مستقل یا عارضی وقف کریں.اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے حالات بہت بہتر ہیں.وہ دقتیں اور وہ مشکلات بھی نہیں رہیں جو شروع کے واقفین کو پیش آئیں اور اکثر جگہ تو بہت بہتر حالات ہیں اور تمام سہولیات میسر ہیں اور اگر کچھ تھوڑی بہت مشکلات ہوں بھی تو اس عہد کو سامنے رکھیں کہ محض اللہ اپنی خداداد طاقتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچاؤں گا.آگے آئیں اور مسیح الزمان سے باندھے ہوئے اس عہد کو پورا کریں اور ان کی دعاؤں کے وارث بنیں.اسی طرح ربوہ میں فضل عمر ہسپتال کے لئے بھی ڈاکٹروں کی ضرورت ہے وہاں بھی ڈاکٹر صاحبان کو اپنے آپ کو پیش کرنا چاہئے.پھر پاکستان میں بھی اور دوسرے ملکوں میں بھی بچوں کی تعلیم اور مریضوں کے علاج کے لئے مستقلاً احباب جماعتی انتظام کے تحت مالی اعانت کرتے ہیں اور پاکستان اور ہندوستان جیسے ملکوں میں جہاں غربت بہت زیادہ ہے اس مقصد کے لئے مالی اعانت کرنے والے اس خدمت کی وجہ سے مریضوں کی دعائیں لے رہے ہیں.تو اس نیک کام کو بھی احباب جماعت کو جاری رکھنا چاہئے اور پہلے سے بڑھ کر جاری رکھنا چاہئے اور پہلے سے بڑھ کر کرنا چاہئے کہ دکھوں میں اضافہ بھی بڑی تیزی سے ہو رہا ہے.(الفضل 16 فروری 2004ء) طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے لئے تحریک خطبہ جمعہ 3 جون 2005 ء میں حضور نے فرمایا:.میں آج ایک تحریک کرنا چاہتا ہوں خاص طور پر جماعت کے ڈاکٹر ز کو اور دوسرے احباب بھی
547.عموماً، اگر شامل ہونا چا ہیں تو حسب توفیق شامل ہو سکتے ہیں، جن کوتو فیق ہو، گنجائش ہو.یہ طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے لئے مالی قربانی کی تحریک ہے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع کی ربوہ میں خلافت رابعہ کے شروع میں یہ خواہش تھی کہ یہاں ایک ایسا ادارہ ہو جو اس علاقے میں دل کی بیماریوں کے علاج کے لئے سہولت میسر کر سکے.اس دور میں کچھ بات چلی بھی تھی لیکن پھر اس پر عملدرآمد نہ ہو سکا.بہر حال میرا خیال ہے کہ آخری دنوں میں حضور کی اس طرف دوبارہ توجہ ہوئی تھی لیکن خلافت خامسہ کے شروع میں اس پر کام شروع ہوا.ایک ہمارے احمدی بھائی ہیں انہوں نے اپنے والدین کی طرف سے خرچ اٹھانے کی حامی بھری.پھر امریکہ کے ایک احمدی ڈاکٹر بھی اس میں شامل ہوئے.انہوں نے خواہش کی کہ میں بھی شامل ہونا چاہتا ہوں.بہر حال نقشے وغیرہ بنائے گئے اور بڑی خوبصورت ایک چھ منزلہ عمارت تعمیر کی جارہی ہے جو اپنی تعمیر کے آخری مراحل میں ہے اور اس فیلڈ کے ڈاکٹر ماہرین کے مشوروں سے یہ سارا کام ہوا ہے.وہ اس میں شامل ہیں.خاص طور پر ڈاکٹر نوری صاحب سے مشورہ لیا گیا ہے.ایک ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے لئے کیسی کیسی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے.ڈاکٹر صاحب مرکزی کمیٹی میں شامل بھی ہیں.مستقل وقت دیتے ہیں ماشاء اللہ.پھر جو نقشے انہوں نے بنوانے تھے جیسا کہ میں نے کہا وہ چھ منزلہ عمارت کے تھے جس میں تمام متعلقہ سہولتیں رکھی گئی تھیں جو دل کے ایک ہسپتال کے لئے ضروری ہیں.تو اس وقت انہوں نے جو تخمینہ دیا تھا، جو اندازہ خرچ دیا تھا اس وقت بھی اس رقم سے زیادہ تھا جس کی ان دو صاحبان نے (جن کا میں نے ذکر کیا ) دینے کی حامی بھری تھی.تو انتظامیہ کچھ پریشان تھی.میں نے انہیں کہا کہ یہ نقشے جو بنائے گئے ہیں جن کی میں نے منظوری دی تھی اسی کی منظوری دیتا ہوں.اللہ کا نام لے کر اسی کے مطابق کام کریں.انشاء اللہ، اللہ تعالی برکت ڈالے گا، فضل فرمائے گا.پھر کچھ اور لوگ بھی اس میں شامل ہوتے رہے اور اب جہاں تک عمارت کا تعلق ہے وہ قریباً مکمل ہو چکی ہے ،جلد چند مہینوں میں ہو جائے گی.اس تعمیر میں ( بتا چکا ہوں) کچھ لوگوں نے حصہ بھی لیا.اور فضل عمر ہسپتال کی انتظامیہ نے بڑی محنت سے اور ہر جگہ پر جہاں بچت ہو سکتی تھی جہاں ضرورت تھی ، انہوں نے بچت کرائی اور تعمیر کروانے میں احتیاط کی.خاص طور پر ڈاکٹر نوری صاحب کے ٹیکنیکل مشورے بھی باقاعدہ ہر قدم پر ملتے رہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے.لیکن اب جوایکو پمنٹ (Equipment) اور سامان وغیرہ ہسپتال کا
548 آنا ہے وہ کافی قیمتی ہے.میں نے انہیں کہا ہے کہ جیسے جیسے رقم کا انتظام ہوتا جائے گا یہ فیرز (Phases) میں خریدیں.لیکن ابتدائی کام کے لئے بھی کافی بڑی رقم کی ضرورت ہے.اس لئے میں احمدی ڈاکٹروں سے خصوصاً کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں پر بڑا فضل فرمایا ہے اور خاص طور پر امریکہ اور یورپ کے جو ڈاکٹر صاحبان ہیں.اسی طرح پاکستان میں بھی بعض ایسے ڈاکٹر ز ہیں جو مالی لحاظ سے بہت اچھی حالت میں ہیں.اگر آپ لوگ خدا کی رضا حاصل کرنے اور غریب انسانیت کی خدمت کے لئے اس ہارٹ انسٹیٹیوٹ کو مکمل کرنے میں حصہ لیں تو یقینا آپ ان لوگوں میں شامل ہوں گے جن کو خدا بے انتہا نوازتا ہے اور ان کے اس فعل کا اجر اس کے وعدوں کے مطابق خدا کے پاس بے انتہا ہے.کوشش کریں کہ جو وعدے کریں انہیں جلد پورا بھی کریں.اس ادارے کو مکمل کرنے کی میری بھی شدید خواہش ہے.کیونکہ میرے وقت میں شروع ہوا اور انشاء اللہ تعالی، اللہ تعالیٰ سے امید ہے وہ خواہش پوری کرے گا جیسا کہ وہ ہمیشہ کرتا آیا ہے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو یہ موقع دے رہا ہے کہ اس نیک کام میں ، اس کار خیر میں حصہ لیں اور شامل ہو جائیں اور اس علاقے کے بیمار اور دکھی لوگوں کی دعائیں لیں.آجکل دل کی بیماریاں بھی زیادہ ہیں.ہر ایک کو علم ہے کہ ہر جگہ بے انتہا ہو گئی ہیں اور پھر علاج بھی اتنا مہنگا ہے کہ غریب آدمی تو افورڈ (Afford) کرہی نہیں سکتا.ایک غریب آدمی تو علاج کروا ہی نہیں سکتا.پس غریبوں کی دعائیں لینے کا ایک بہترین موقع ہے جو اللہ تعالیٰ آپ کو دے رہا ہے.اس سے فائدہ اٹھا ئیں....جہاں تک انسٹیٹیوٹ کے لئے ڈاکٹرز کا تعلق ہے، ہمارے امریکہ کے ایک ڈاکٹر نے مستقل وقف کیا ہے.انشاء اللہ تعالیٰ وہ جلد ربوہ پہنچ جائیں گے.دوسرے یہاں بھی بعض نوجوان واقفین زندگی ڈاکٹر ز تعلیم حاصل کر رہے ہیں جو اپنی تعلیم مکمل ہونے پر وہاں چلے جائیں گے.اور پاکستان میں بھی بعض نوجوان ہیں جنہوں نے وقف کیا ہے ٹریننگ لے رہے ہیں.اور اسی طرح ڈاکٹر نوری صاحب کی سرپرستی میں انشاء اللہ یہ ادارہ چلتا رہے گا.اللہ تعالیٰ ان کی عمر اور صحت میں بھی برکت ڈالے.اور پھر یہ ادارہ مکمل ہونے کے بعد میں دوسرے سپیشلسٹ ڈاکٹروں سے بھی کہوں گا کہ وہ بھی وقف عارضی کر کے یہاں آیا کریں.اللہ تعالیٰ ، انشاء اللہ ان کی قربانیوں کے بدلے ضرور دے گا، اجر ضرور دے گا.اور دعا کرتے رہیں ، اللہ تعالیٰ اس ادارے کو بہت کامیاب ادارہ بنائے.(الفضل 6 دسمبر 2005ء)
549 چنانچہ اللہ تعالی کے فضل سے طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کا سنگ بنیاد 23 نومبر 2003ء کو رکھا گیا اور یکم رمضان المبارک 15 ستمبر 2007 ء سے مرحلہ وار مریضوں کا علاج شروع کیا گیا.پہلے 4 ماہ کے متعلق ہسپتال کی مطبوعہ رپورٹ میں لکھا ہے:.”سب سے پہلے شعبہ بیرونی مریضان میں مریضوں کا معائنہ شروع ہوا، اس کے ساتھ متعلقہ شعبہ جات (ECHO/ECG/ لیبارٹری را یکسرے فارمیسی رایمبولینس سروس) نے بھی کام کرنا شروع کر دیا.اس وقت تک قریباً 6 ہزار مریضوں کا معائنہ اور علاج کیا جا چکا ہے.دوسرے مرحلہ میں یکم اکتوبر 2007 ء سے شعبہ اندرونی مریضان میں سے ایمر جنسی اور CCU میں مریضوں کا داخلہ شروع کر دیا گیا اور اب تک 360 سے زائد مریضوں کا علاج کیا جا چکا ہے.تیسرے مرحلہ میں مورخہ 15 نومبر 2007ء کو کیتھ لیب میں دل کے پروسیجرز سنجوگرافی ، اینجیو پلاسٹی اور پیس میکر شروع کر دیئے گئے اور مورخہ 31 دسمبر تک کل 64 کامیاب پروسیجرز کئے جاچکے ہیں.ان چند ماہ میں محض خدا تعالیٰ کے فضل اور حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعاؤں سے کئی انتہائی Serious مریضوں کو معجزانہ طور پر شفاء ملی.کئی مریض اس حالت میں آئے کہ ان کو فوری طور پر مصنوعی سانس دے کر انتہائی نگہداشت میں رکھا گیا اور ضرورت پڑنے پر فورا ان کی انجیو پلاسٹی بھی کی گئی.گزشتہ دنوں ایک ایسا پروسیجر (Stem cell for heart repair) بھی کیا گیا جو پاکستان میں اپنی نوعیت کا منفر دطریقہ علاج ہے.عنقریب شعبه اندرونی مریضان میں فی میل کارڈیک وارڈ اور High Dependency Unit کا آغاز کیا جا رہا ہے.(الفضل 3 جنوری 2008ء) احمد یہ میڈیکل ایسوسی ایشن یو کے کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے 19 مئی 2007 ء کو حضور نے نور ہسپتال قادیان کے لئے ڈاکٹروں کو خدمت کی تحریک فرمائی.الفضل انٹر نیشنل 15 جون 2007 ص 9) عیادت مریضان کی تحریک خطبہ جمعہ 15 را پریل 2005ء میں حضور نے عیادت مریض آنحضرت علیہ کے اسوہ کا تفصیل
550 سے ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.مریضوں کی عیادت کرنا بھی خدا تعالیٰ کے قرب کو پانے کا ہی ایک ذریعہ ہے.ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہئے خاص طور پر جو ذیلی تنظیمیں ہیں ان کو میں ہمیشہ کہتا ہوں.خدمت خلق کے جوان کے شعبے ہیں.لجنہ کے، خدام کے، انصار کے ایسے پروگرام بنایا کریں کہ مریضوں کی عیادت کیا کریں، ہسپتالوں میں جایا کریں.اپنوں اور غیروں کی سب کی عیادت کرنی چاہئے اس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ یہ بھی ایک سنت کے مطابق ہے اور ہمیشہ اس کوشش میں رہنا چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے قرب پانے کے ذریعے ہم اختیار کریں.(روزنامه الفضل 8 نومبر 2005ء) امداد مریضان کی تحریک عالمی تنظیم آکسفیم کے مطابق دنیا کی 85 فیصد آبادی غربت کی وجہ سے مہنگی ادویات تک رسائی نہیں رکھتی.اور مہلک امراض کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے.(روز نامہ ایکسپریس 28 نومبر 2007ء) حضور نے خطبہ عید الفطر 13 اکتوبر 2007ء میں فرمایا :.امداد مریضان کی ایک مد ہے اس میں پاکستان میں تو باقاعدہ طریقہ اور نظام رائج ہے جس کے تحت مریضوں کو جو ہسپتال میں آنے والے ہیں، علاج سے مدد کی جاتی ہے قادیان میں بھی اور اس کے علاوہ دنیا میں بھی رائج ہے لیکن با قاعدہ قادیان اور ربوہ میں زیادہ ہے.دوائیاں اور علاج اب اتنی مہنگی ہوگئی ہیں کہ غریب آدمی کی پہنچ سے یہ معاملہ بہت دور ہو چکا ہے، بعض علاج اس لئے نہیں کرواتے کہ پیسے نہیں ہوتے تو باوجود خواہش کے بعض دفعہ محدود وسائل کی وجہ سے ایسے مریضوں کی پوری طرح مدد نہیں کی جاسکتی.ایسے احباب جو مالی حالت میں بہتر ہیں، وہ جن کو خود یا جن کے مریضوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے شفا دی ہے، مریضوں کی شفایابی پر اپنی حیثیت کے مطابق اگر مریضوں کے لئے مدد کیا کریں تو بہت بڑی تعداد ضرورت مند مریضوں کی جو ہے ان کی مدد ہو سکتی ہے، بچوں کی پیدائش کے مرحلے سے عورتیں گزرتی ہیں، بڑا تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے، اس شکرانے کے طور پر مریضوں کی مدد کا خیال آنا چاہئے ،صرف مٹھائیاں کھانا کھلا نا ہی کام نہ ہو.
551 احمدی انجینئر ز اور آرکیٹیکٹس کو خدمت کی تحریک 9 مئی 2004 ء کو حضور نے انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدی آرکیٹیکٹس اینڈ انجینئر ز کے یورپین چیپٹر کے پہلے سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے افریقہ میں مساجد ہمشن ہاؤسز ، سکولوں اور ہسپتالوں کی عمارت کی تعمیر کے لئے احمدی انجینئر زاور آرکیٹیکٹس کو خدمت کی دعوت دی.آپ نے فرمایا:.ہر ایک احمدی کو ہر وقت اپنے ذہن میں یہ رکھنا چاہئے کہ وہ اپنی تمام تر قابلیت اور صلاحیت کو جماعت کی بہتری کے لئے کام میں لائے اگر ہم میں سے ہر ایک اس قسم کی سوچ اپنے اندر تشکیل دے لے اور اس کے مطابق ہر انجینئر ، کمپیوٹر سائنٹسٹ، ریسرچ ورکر اور ڈاکٹر جماعت کی خدمت کے لئے آگے آئے تو آپ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ آپ پر فضل نازل کرے گا اور آپ کی کوششوں کو پہلے سے زیادہ برکت دے گا......اب میں مختصراً آپ کے سامنے ان خدمات کا ذکر کرتا ہوں جو جماعت افریقہ کے غریب لوگوں کی کرتی ہے اور جس کے لئے آپ کی ماہرانہ خدمات کی ضرورت ہے.افریقی ممالک کے حالیہ دورے میں میں نے محسوس کیا ہے کہ صاف پانی کا مہیا نہ ہونا ایک سنگین مسئلہ ہے.وہاں کے دور دراز علاقوں میں اگر چہ بین الاقوامی تنظیمیں اور NGOs وغیرہ نے ہینڈ پمپ لگانے کا کام شروع کیا ہوا ہے لیکن پھر بھی وہ ان سب لوگوں کی ضروریات کے لئے بالکل کافی نہیں ہے.ہماری جماعت بھی Humanity First کے ذریعہ سے انسانیت کی بھلائی کے اس کام میں مشغول ہے لیکن Technical Knowledge کی کمی اور بور کرنے کے لئے ڈرلنگ مشین (Drilling Machines) نہ ہونے کے باعث ہم اپنی اس خواہش کے باوجود ہم ان ممالک کے غریب لوگوں کی خدمت کریں اپنے ٹارگٹ حاصل نہیں کر سکے.جب ہم بور ہول ڈرل کروانے کی غرض سے ان ماہر کمپنیوں سے رابطہ کرتے ہیں تو وہ اتنی زیادہ رقم کا مطالبہ کرتے ہیں کہ آرڈر دینے کا فیصلہ کرنے کے لئے کئی دفعہ غور کرنا پڑتا ہے.یعنی ایک ہینڈ پمپ لگوانے کے لئے.4000 پاؤنڈ سے لے کر -/5000 پاؤنڈ تک کی رقم درکار ہوتی ہے.جبکہ پاکستان میں اسی قسم کا ایک ہینڈ پمپ لگانے کے لئے چالیس سے پچاس پاؤنڈ درکار ہوں گے.اتنی زیادہ
552 قیمت کی وجہ ماہرین کے مطابق یہ ہے کہ زمین میں بعض جگہ کچھ گہرائی پر جا کر گریفائیٹ کی چٹانیں ہیں اور ان چٹانوں کی وجہ سے ان جگہوں پر بور ہول کرنے کے لئے ڈائمنڈ (Diamond) کی Bit استعمال کرنی پڑتی ہے جو کہ بہت مہنگی ہوتی ہے اور بعض دفعہ ایک ڈائمنڈ ڈرل ایک بور ہول کے لئے کافی بھی نہیں ہوتی.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مجھے Technicalities کا تو بہت زیادہ علم نہیں ہے جو اس کام میں ہوتی ہیں یہ انجینئر ز اور جیالوجسٹ کا کام ہے لیکن اس سلسلہ میں جس بات میں مجھے دلچسپی ہے وہ یہ ہے کہ افریقہ کے پیاسے لوگوں کو پینے کا پانی مہیا ہونا چاہئے ایک احمدی کو اس پہلو سے بہت فکر مند ہونا چاہئے.اس مقصد کے لئے میں نے آرکیٹیکٹ اور انجینئر ز ایسوسی ایشن کے یورپین چیپٹر کو خصوصی طور پر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ایک تفصیلی سروے کر کے ایک Feasibility Report تیار کریں کہ ہم کس طرح سے کم قیمت پر ڈرلنگ کر کے افریقہ کے ان ممالک میں زیادہ ہینڈ پمپ لگا سکتے ہیں.دوسری بات یہ ہے کہ جماعت ان ممالک میں مختلف مقاصد کے لئے عمارات تعمیر کر رہی ہے.مثلاً مساجد ، مشن ہاؤسز، سکولز ، ہسپتال وغیرہ.اس کے لئے بھی سول انجینئر ز اور آرکیٹیکٹ کو ان ممالک میں خدمت کی غرض سے جانا چاہئے مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ میں سے اکثر سفر کے تمام اخراجات آسانی سے خود برداشت کر سکتے ہیں اور بعض ممالک میں تو ہمارے پاس کوئی انجینئر یا آرکیٹیکٹ بھی نہیں ہیں جو ہمیں یہ مشورہ دے سکیں کہ کس قسم کی عمارتیں ہمیں بنانی چاہئیں جس سے ہمارا خرچہ بھی کم ہو اور عمارت بھی بہتر ہو.مجھے امید ہے کہ آپ میں سے کچھ انجینئر ز اور آرکیٹیکٹ اپنے آپ کو پیش کرتے ہوئے وقف عارضی کے تحت ان ملکوں میں جائیں گے اور ہمیں یہ مشورہ دیں گے کہ ہم کس طرح کم خرچ پر یہ عمارات بنا سکتے ہیں جو کہ کم خرچ کے ساتھ ساتھ خوبصورت بھی نظر آئیں.اسی طرح جیسا کہ رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے کہ یورپ میں بھی تعمیر اور ڈیزائن کے لئے آپ کی ماہرانہ تجاویز کی ضرورت ہے.اکرم احمدی صاحب اور ایسوسی ایشن کے بعض دوسرے ممبران اس سلسلہ میں بہت مددگار ثابت ہوئے ہیں اور مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ مستقبل میں بھی اسی طرح مددگار ہوں گے.لیکن اب ایسوسی ایشن کے ممبران کو افریقی ممالک کے بارہ میں بھی سوچنا چاہئے.ایک اور بڑی دقت افریقی ممالک میں بجلی یا برقی طاقت کا میسر نہ آنا ہے.اس سلسلہ میں میرے
553 خیال میں ہمیں سورج سے حاصل کردہ توانائی کے متعلق غور کرنا چاہئے کیونکہ بعض علاقوں میں ڈیزل یا پٹرول سے چلنے والے جنریٹر (Generator) کا استعمال بھی آسان نہیں ہے بعض گاؤں سڑک سے 80,70 میل دور ہوتے ہیں یا ان جگہوں سے جہاں سے پڑول یا ڈیزل ملتا ہے بہت دور ہوتے ہیں اور دوسرے یہ کہ ان جنریٹرز کے بریک ڈاؤن کی صورت میں کوئی مکینک بھی نہیں مل سکتا جو مرمت کر سکے.میرے خیال میں ہمیں اس کے متعلق خوب غور کر کے بنیادی قسم کے Solar System بنانے کی کوشش کرنی چاہئے.اس وقت تک جو معلومات مجھے ملی ہیں وہ تو بہت حوصلہ پست کرنے والی ہیں کیونکہ Solar Cells بہت مہنگے ہیں بلکہ پورا سسٹم ہی بہت زیادہ قیمت کا ہے.اس لئے میں آپ میں سے ان کو جو اس فیلڈ کے ہیں یعنی Solar Energy System کی فیلڈ میں، ان کو کہتا ہوں کہ ایسے طریقے اور ڈیزائن تلاش کریں جن سے قیمت میں کمی کی جاسکے.یہ آپ کے لئے یعنی احمدی انجینئر ز کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے کیونکہ جہاں تک مجھے علم ہے فی الحال امریکہ نے سولر سیل کی Manufacturing کو مکمل طور پر اپنے قبضہ میں لیا ہوا ہے.اگر یہ بات درست ہے تو پھر ہمیں اور بھی زیادہ سنجیدہ ہونا چاہئے کیونکہ وہ وقت بہت تیزی سے قریب آ رہا ہے جب آپ دیکھیں گے کہ ہر وہ چیز جو امریکہ سے آئے گی وہ بہت کمیاب ہوگی“.فرمایا: روزنامه الفضل 30 جون 2004 ء ) جلسہ سالانہ یوکے 2006ء کے موقع پر حضور نے احمدی انجینئر ز کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے انٹر نیشنل احمدیہ ایسوسی ایشن آف آرکیٹیکٹس اینڈ انجینئر ز کے ذمہ میں نے کام لگایا تھا کہ افریقہ میں کم قیمت پر بجلی پیدا کرنے کے متبادل ذرائع تلاش کرنا، غریب ممالک میں پینے کے لئے صاف پانی مہیا کرنا، عمارات کی تعمیر اور ڈیزائن کے لئے انجینئر ز وقف عارضی کریں اور ڈیزائن کر کے دیں.چنانچہ ان ہدایات کی روشنی میں یورپین چیپٹر نے کافی کام کیا ہے، سولر سیل کی ٹیکنالوجی اور ونڈ ٹربائن کے غانا میں تین پائلٹ پراجیکٹ لگائے ہیں چائنا جا کر اس ٹیکنالوجی کی مزید معلومات حاصل کی گئیں اور 30 عد دسولر اور ونڈ سسٹمز چائنا سے خریدے گئے.کافی تعداد میں سولر لائٹس خریدی گئیں ، آسٹریلیا سے بھی معلومات حاصل کی گئیں.افریقہ میں پینے کا صاف پانی مہیا کرنے کے لئے عملی اقدامات کئے
554 گئے.غانا میں ڈرلنگ اور جیو فیزیکل ٹیسٹنگ وغیرہ کے کام کئے اور بورکینا فاسو میں ہینڈ پمپس وغیرہ لگائے گئے جو پرانے بند ہو گئے تھے ان کو دوبارہ چالو حالت میں کیا گیا اور کچھ نئے بھی لگائے گئے.کینیڈا کی انجینئر زعیم بھی اس میں شامل ہوئی تھی.پھر ہالینڈ، سپین، سوئٹزر لینڈ، سویڈن، پرتگال، ناروے وغیرہ کی جماعت تعمیرات میں انہوں نے کافی کام کیا ہے.اس کے علاوہ گیمبیا اور آئیوری کوسٹ کے پراجیکٹس میں بھی کام کیا قادیان کے بہشتی مقبرہ کے تعلق میں بھی کام کر رہے ہیں.اسی طرح مینارہ اسیح کے محفوظ کرنے کے لئے بھی یہاں کے انجینئر زکام کر رہے ہیں.(الفضل 4 /اگست 2006ء ) 2003ء میں ایران میں زلزلہ آیا اس موقع پر جماعت کو خدمت کی دعوت دیتے ہوئے حضور نے جلسہ سالانہ قادیان 2003ء کے اختتامی خطاب میں فرمایا:.گذشتہ دنوں ایران میں خوفناک زلزلہ آیا بڑی تباہی پھیلی ہے...ہمدردی کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے لئے دعائیں بھی کی جائیں اور مالی مدد بھی مختلف ملکوں میں میرا خیال ہے ایسے طریقہ کا رائج ہوں جوان تک پہنچ سکیں بہر حال ہر ملک میں جو امراء ہیں وہ اپنے اپنے حالات کے مطابق جائزہ لے کر کوئی لائحہ عمل تجویز کریں اور ان...آفت زدہ لوگوں کی خدمت کی کوشش کریں.بدر 27 جنوری 2004 ء ص 2 سونامی کے متاثرین کے لئے ریلیف فنڈ کی تحریک مخلصين 26 دسمبر 2004 ء کو براعظم ایشیا کے جنوبی ممالک سماٹرا ، تھائی لینڈ، انڈونیشیا، ملائشیا، سری لنکا مالدیپ اور بھارت سمیت 2000 کلو میٹر سے بھی زائد رقبہ پر مشتمل خطہ میں ہولناک سمندری زلزلہ اور سونامی لہروں کی قیامت نے یکلخت دولاکھ سے بھی زائد انسانی جانوں کو نگل لیا.انسانی ہمدردی کے ناطے امام جماعت احمدیہ سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مخل جماعت احمدیہ عالمگیر کو بھی آفت زدگان کی امداد کے لئے زیادہ سے زیادہ ریلیف مہیا کرنے کی تلقین فرمائی اور اس کام کو فوری طور پر شروع کرنے کے لئے از راہ شفقت مرکزی فنڈ سے دس لاکھ روپے کی رقم مرحمت فرمائی.جماعتی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا :.
555 ہیومینیٹی فرسٹ جو جماعتی ادارہ ہے خدمت خلق کا اس کے تحت مختلف ملکوں میں ذمہ داری سونپی گئی تھی.اس کے تحت جماعت جرمنی نے اور بھارت نے مل کر ہندوستان میں یہ خدمت خلق کی کارروائی کی اور علاج معالجے کی وہاں سہولتیں بہم پہنچارہے ہیں.ساڑھے چار ہزار کے قریب مریضوں کا علاج ہو چکا ہے اور تقریباً ساڑھے تین ہزار ایسے لوگ جن کو کھانے پینے کی ضرورت تھی ان کو خوراک مہیا ہوتی ہے اور ہیومینیٹی فرسٹ (Humanity First) کے ذریعے سے تقریباً سات لاکھ اور کچھ یو کے کی جماعت نے دیا.تو آٹھ لاکھ ڈالر سے اوپر.ان کا خیال ہے کہ ہم کم از کم ایک ملین ڈالر پیش کریں ، اس خدمت خلق کے لئے خرچ کریں.اس کے علاوہ دنیا کی جماعتوں میں بھی ہر ملک میں اپنے اپنے وسائل کے لحاظ سے وہاں کے ان ملکوں کے سفارت خانوں میں مدد کے چیک جماعت کی طرف سے دیئے ہیں.سری لنکا بھی ڈاکٹروں کا وفد بھجوایا گیا تھا.یہ بھی روزانہ خدمت کرتے رہے.پھر کچھ مچھیرے تھے جن کی کشتیاں تباہ ہو گئی تھیں.ان کشتیوں کی مرمت کی.پھر زونیشیا میں امریکہ اور یو کے، دونوں اس خدمت کا فرض سرانجام دے رہے ہیں.اور یہاں ایک جگہ Lamno سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ہے.اور یہاں اتنی اونچی لہریں آئی ہیں کہ تین تین منزلہ مکانوں کی چھتوں پر کشتیاں اور جہاز جا کے کھڑے ہو گئے.اور میل ہا میل تک سمندری لہروں نے انسانی آبادی کا نام ونشان مٹا دیا.صرف جماعت احمد یہ ہے جس نے یہاں متاثرین کے لئے خوراک کی صورت مہیا کی ہے.اور کوئی بھی تنظیم یہاں تک ابھی خدمت کے لئے نہیں پہنچی.پھر Lambaro میں یہاں بھی آٹھ سو سے ہزار افراد تک بچے ہوئے لوگوں کی روزانہ خدمت چالیس خدام کر رہے ہیں.تین وقت کا کھانا ان کو مہیا ہوتا ہے.اب انڈونیشیا کی جماعت کا پلان یہ بھی ہے، ان کو اس بات کی اجازت بھی دے دی ہے کہ آئندہ دو ماہ تک جب تک وہ سیٹل نہیں ہو جاتے وہاں ان لوگوں کے لئے جو بچے ہیں خوراک کا انتظام ہوتا رہے.اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس آبادی میں دوسرے تمام ادارے ہیومینیٹی فرسٹ کے تحت کام کر رہے ہیں.امریکہ نے وہاں پچاس واٹر پمپ لگانے کا وعدہ کیا ہے کیونکہ وہاں پینے کے پانی کی قلت ہے.انڈونیشیا، یو کے اور امریکہ سے 24 ڈاکٹر ، 6 ہو میو پیتھی ڈاکٹر ، اور 6 دوسرے افراد پر مشتمل عملہ اور 74 خدام یہاں کام کر رہے ہیں اور پہلے تو کافی تعداد میں مریض دیکھے تھے.اب
556 روزانہ 100، 150 مریض یہ لوگ دیکھ رہے ہیں.انڈونیشیا نے ہندوستان اور پاکستان سے جو مدد آئی تھی ، یہاں تقریباً اڑھائی اڑھائی سو فوجی تھے یہاں.وہاں انڈونیشیا کی حکومت ہیومینیٹی فرسٹ کے کام سے اس طرح متاثر ہوئی ہے، بلکہ یہ لوگ خود بھی کہ وہ ان کے ساتھ مل کے کام کر رہے ہیں بلکہ پاکستانیوں نے یہ بھی درخواست کی ہے کہ جب ہم فروری میں چلے جائیں گے تو صرف آپ ہی ہمارے ملٹری ہسپتال کو سنبھالیں.لیکن یہ بات اگر کو پہنچ گئی تو بڑا سخت اعتراض ہوگا.اسی طرح انڈونیشیا کے سفارتخانے نے ہیومینیٹی فرسٹ سے درخواست کی کہ ہمیں بہت سی امداد مل رہی ہے لیکن ہماری خواہش یہ ہے کہ آپ جس طرح افریقہ میں غریبوں کی امداد کرتے ہیں اسی طرح ہماری بھی مدد کریں.تو اس پروگرام کے تحت انڈونیشین سفارتخانے نے یہاں مقیم انڈونیشین باشندوں اور دوسرے مسلمانوں ، سب کو یہی ہدایت کی ہے کہ وہ جماعت یو کے سے رابطہ کریں.اور اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے چالیس فٹ لمبائی کے 13 کنٹینر کی اس جماعت کے ذریعہ سے امداد کی جا چکی ہے تقریباً2لاکھ 45 ہزار کلووزن کی یہ امداد تھی.جس میں 78 ہزار کھانے پینے کی ، ضروریات کی چیزیں تھیں.اور ایک سو تیس ہزار (130,000) کپڑے اور دوسری چیزیں تھیں.(الفضل 10 مئی 2005ء) آزاد کشمیر کے زلزلہ زدگان کے لئے تحریک 8 اکتوبر 2005ء کو پاکستان اور آزاد کشمیر میں تباہ کن زلزلہ آیا جس سے لاکھوں لوگ متاثر ہوئے.ان کی امداد کے لئے حضور نے 14 اکتوبر 2005ء کے خطبہ میں تحریک کرتے ہوئے فرمایا:.گو کہ اس زلزلے کے بعد سے فوری طور پر ہی افراد جماعت بھی اور جماعت احمدیہ پاکستان بھی اپنے ہم وطنوں کی ، جہاں تک ہمارے وسائل ہیں، مصیبت زدوں کی مدد کرنے کی کوشش کر رہی ہے.لیکن میں پھر بھی ہر پاکستانی احمدی سے یہ کہتا ہوں، ان کو یہ توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ ان حالات میں جبکہ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں، کھلے آسمان تلے پڑے ہوئے ہیں، حتی المقدور ان کی مدد کریں.جو پاکستانی احمدی باہر کے ملکوں میں ہیں، ان کو بھی بڑھ چڑھ کر ان لوگوں کی بحالی اور ریلیف (Relief) کے کام میں حکومت پاکستان کی مدد کرنی چاہئے.وہاں کی ایمبیسیوں نے جہاں جہاں بھی فنڈ کھولے
557 ہوئے ہیں اور جہاں ہیومینیٹی فرسٹ (Humanity First) نہیں ہے، ان ایمبیسیز میں جا کر مدد خطبات مسرور جلد 3 ص 612) دے سکتے ہیں.حضور انور نے ایک خط کے ذریعہ صدر اور وزیر اعظم پاکستان کو امداد کا یقین دلایا.اسی طرح ناظر اعلی صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے 10 لاکھ روپے حکومت کے فنڈ میں فوری طور پر جمع کرادیئے نیز انسانی ہمدردی کی مد کے تحت پورے ملک میں امدادی رقوم کی فراہمی شروع کر دی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ نے بے پناہ خدمت کی توفیق پائی.جس کی کسی قدر تفصیل حضور انور کے خطبات میں موجود ہے.جلسہ سالانہ یوکے 2006ء کے موقع پر حضور نے ان خدمات کا طائرانہ ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.جو پاکستان میں زلزلہ آیا تھا اس میں ہیومینیٹی فرسٹ نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا کام کیا ہے اور کینیڈا، امریکہ، جرمنی ، یو کے اور ہالینڈ وغیرہ سے وہاں ڈاکٹروں اور رضا کاروں وغیرہ کی ٹیمیں گئی ہیں.اور کام کرتی رہیں اور انہوں نے چھ مہینے سے زائد عرصہ تک کام کیا ہے.اسی کام کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے اس تنظیم کو رجسٹرڈ کیا ہے.75 ہزار زخمیوں اور مریضوں کو ہمارے ڈاکٹروں نے دیکھا ہے.پاکستان میں 5لاکھ 20 ہزار کلو گرام امدادی سامان دیا گیا.جس میں خوراک اور دوسری چیزیں شامل ہیں.39 ہزار متاثرین کو عارضی رہائش گاہ کی سہولت دی گئی.جن میں ٹینٹ اور جستی چادروں کے شیلٹرز وغیرہ شامل تھے.ہیومینیٹی فرسٹ نے اسلام آباد میں میڈیکل ریلیف سنٹر قائم کیا جہاں شدید زخمی متاثرین اور ان کے خاندانوں کو 132 دن تک رکھا گیا اور ہر ممکن دیکھ بھال کی گئی.125 شدید زخمیوں کو ان کے 850 را فراد خاندان کے ساتھ کھانا بھی مہیا کیا گیا.24 گھنٹے سہولتیں فراہم تھیں.3لاکھ 56 ہزار 400 سے زائد کھانے مہیا کئے گئے.ہیومینیٹی فرسٹ کے کل رضا کاروں نے 4لاکھ 81 ہزار 192 مین آورز فیلڈ آپریشن میں خرچ کئے.یہ انسانیت کا کام ہم نے کیا قطع نظر اس ( الفضل 4 اگست 2006ء) کے کہ وہاں کیا سمجھا جاتا ہے اور کیا کہا جاتا ہے.یتامی کی خدمت کی تحریک حضور نے خطبہ جمعہ 23 جنوری 2004ء میں فرمایا:.
558 اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں یتامیٰ کی خبر گیری کا بڑا اچھا انتظام موجود ہے.مرکزی طور پر بھی انتظام جاری ہے گو اس کا نام یکصد یتامیٰ کی تحریک ہے لیکن اس کے تحت سینکڑوں یتامیٰ بالغ ہو کر پڑھائی مکمل کر کے کام پر لگ جانے تک ان کو پوری طرح سنبھالا گیا.اسی طرح لڑکیوں کی شادیوں تک کے اخراجات پورے کئے جاتے رہے اور کئے جارہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت اس میں دل کھول کر امداد کرتی ہے اور زیادہ تر جماعت کے جو مخیر احباب ہیں وہی اس میں رقم دیتے ہیں.الحمد للہ ، جزاک اللہ ان سب کا شکریہ.اب میں باقی دنیا کے ممالک کے امراء کو بھی کہتا ہوں کہ اپنے ملک میں ایسے احمدی بیتامی کی تعداد کا جائزہ لیں جو مالی لحاظ سے کمزور ہیں، پڑھائی نہ کر سکتے ہوں ، کھانے پینے کے اخراجات مشکل ہوں اور پھر مجھے بتائیں.خاص طور پر افریقن ممالک میں ، اسی طرح بنگلہ دیش ہے، ہندوستان ہے، اس طرف کافی کمی ہے اور توجہ دینے کی ضرورت ہے.تو با قاعدہ ایک سکیم بنا کر اس کام کو شروع کریں اور اپنے اپنے ملکوں میں یتامیٰ کو سنبھالیں.مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ جماعت میں مالی لحاظ سے مضبوط حضرات اس نیک کام میں حصہ لیں گے اور انشاء اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے سنبھالنے میں جو اخراجات ہوں گے ان میں کوئی کمی نہیں پیش آئے گی.لیکن امراء جماعت یہ کوشش کریں کہ یہ جائزے اور تمام تفاصیل زیادہ سے زیادہ تین ماہ تک مکمل ہو جائیں اور اس کے بعد مجھے بھجوائیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو توفیق دے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم بیتامی کا جو حق ہے وہ ادا کر سکیں.(الفضل 19 نومبر 2004ء) غریب بچیوں کی شادی کے لئے امداد کی تحریک حضور نے شادی بیاہ کے موقع پر اسراف سے بچنے کی ہدایت کی اور فرمایا کہ ان مواقع پر غریب بچیوں کی شادی کے لئے رقم فراہم کی جائے.حضور نے خطبہ جمعہ 3 جون 2005 ء میں فرمایا:.جولوگ باہر کے ملکوں میں ہیں اپنے بچوں کی شادیوں پر بے شمار خرچ کرتے ہیں.اگر ساتھ ہی پاکستان ، ہندوستان یا دوسرے غریب ممالک میں غریب بچوں کی شادیوں کے لئے کوئی رقم مخصوص کر دیا کریں تو جہاں وہ ایک گھر کی خوشیوں کا سامان کر رہے ہوں گے وہاں یہ ایک ایسا صدقہ جاریہ ہوگا جو ان کے بچوں کی خوشیوں کی بھی ضمانت ہو گا.اللہ تعالیٰ نیکیوں کو ضائع نہیں کرتا.پھر بعض صاحب
559 حیثیت لوگوں میں بے تحا شا نمود و نمائش اور خرچ کرنے کا شوق ہوتا ہے.شادیوں پر بے شمار خرچ کر رہے ہوتے ہیں.کئی کئی قسم کے کھانے پک رہے ہوتے ہیں جوا کثر ضائع ہو جاتے ہیں.یہاں سے جب خاص طور پر پاکستان میں جا کر شادیاں کرتے ہیں اگر سادگی سے شادی کریں اور بچت سے کسی غریب کی شادی کے لئے رقم دیں تو وہ اللہ کی رضا حاصل کر رہے ہوں گے.کھانوں کے علاوہ شادی کارڈوں پر بھی بے انتہا خرچ کیا جاتا ہے.دعوت نامہ تو پاکستان میں ایک روپے میں بھی چُھپ جاتا ہے.یہاں بھی بالکل معمولی سا پانچ سات پینس (Pens) میں چھپ جاتا ہے.تو دعوت نامہ ہی بھیجنا ہے کوئی نمائش تو نہیں کرنی.لیکن بلا وجہ مہنگے مہنگے کارڈ چھپوائے جاتے ہیں.پوچھو تو کہتے ہیں کہ بڑا ستا چھپا ہے.صرف پچاس روپے میں.اب یہ صرف پچاس روپے جو ہیں اگر کارڈ پانچ سو کی تعداد میں چھپوائے گئے ہیں تو یہ پاکستان میں چھپیں ہزار روپے بنتے ہیں اور پچیس ہزار روپے اگر کسی غریب کو شادی کے موقع پر ملیں تو وہ خوشی اور شکرانے کے جذبات سے مغلوب ہو جاتا ہے.تو اس طرح بے شمار جگہیں ہیں جہاں بچت کی جاسکتی ہے.اور جن کو اتنی توفیق ہے کہ وہ کہیں کہ ہم بچیوں کی شادیوں میں بھی مدد کر سکتے ہیں اس لئے ہمیں اس قسم کی چھوٹی بچت کی ضرورت نہیں ہے تو پھر ایسے لوگوں کو کم از کم جو خرچ وہ اپنے بچوں کی شادی پر کرتے ہیں اس کا ایک فیصد تو غریب کی شادی کی مدد کے لئے چندہ دینا چاہئے.پاکستان میں بھی بہت سے لوگ ہیں جو بڑی فضول خرچی کرتے ہیں.کچھ باہر سے جا کر کر رہے ہوتے ہیں اور کچھ وہاں رہنے والے کر رہے ہوتے ہیں.یا جو فضول خرچی نہیں بھی کرتے ان کی ایسی توفیق ہوتی ہے کہ بچوں کی شادی میں مدد کر سکیں.ان سب کو آگے آنا چاہئے اور اس نیک کام میں حصہ لینا چاہئے.عموماً ایک غریبانہ شادی چھپیں تھیں ہزار روپے کی مدد سے ہو جاتی ہے.کچھ نہ کچھ تو انہوں نے خود بھی کیا ہوتا ہے.اتنی مدد ہو جائے تو لوگوں کی بڑی مدد ہو جاتی ہے.تو پھر یہ غریب آدمی کے لئے سکون کا باعث بن رہی ہوتی ہے اور آپ کو دعاؤں کا وارث بنا رہی ہوتی ہے.بہر حال ہر ایک کو حسب توفیق اس فنڈ میں ضرور حصہ لینا چاہئے.اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے.مریم شادی فنڈ پہلے سے قائم تھا اس میں شمولیت کی یاد دہانی کراتے ہوئے فرمایا:.میں بعض اور تحریکات کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں، ان کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں.ان میں (خطبات مسرور جلد 3 ص334)
560 ایک تو مریم شادی فنڈ ہے.حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی یہ آخری تحریک تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت بابرکت ثابت ہوئی ہے.بیشمار بچیوں کی شادیاں اس فنڈ سے کی گئی ہیں اور کی جارہی ہیں.احباب حسب توفیق اس میں حصہ لیتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ شروع میں جس طرح اس طرف توجہ پیدا ہوئی تھی.اب اتنی توجہ نہیں رہی جو لوگ مالی لحاظ سے اچھے ہیں، بہتر مالی حالات ہیں ان کو پتہ ہی نہیں کہ بچیوں کی شادیوں پر غریب لوگوں کے کتنے مسائل ہوتے ہیں.(روز نامہ الفضل 6 دسمبر 2005ء ) امراء کو پہلے بھی کہہ چکا ہوں اب بھی کہتا ہوں دوبارہ تحریک کر دیتا ہوں کہ مریم شادی فنڈ میں ضرور شامل ہوا کریں اور خاص طور پر جو صاحب حیثیت ہیں اور جب ان کے بچوں کی شادیاں ہوتی ہیں اس وقت ضرور ذہن میں رکھا کریں کہ کسی نہ کسی غریب کی شادی کروانی ہے.روزنامه الفضل 28 فروری 2005ء ) حضور انور نے خطبہ عید الفطر 13 اکتوبر 2007ء میں فرمایا :.حضرت خلیفہ المسیح الرابع کی ایک تحریک تھی مریم شادی فنڈ کی، اس میں اگر باہر کے ملکوں میں رہنے والے چندہ دیں تو کئی غریب بچیوں کی شادی میں مدد ہو جاتی ہے، شروع میں مختلف ممالک سے چندہ وعدے ہوئے جو انہوں نے حضرت خلیفہ المسیح الرابع کی خدمت میں پیش کئے لیکن وہ ایک دفعہ پیش کر کے ختم ہو گئے گو کہ جماعت اپنے وسائل کے لحاظ سے مدد کرتی رہتی ہے چاہے اس مد میں رقم ہو یا نہ ہولیکن پوری طرح پھر بھی نہیں کی جاسکتی اگر صاحب حیثیت اپنے بچوں کی شادیوں پر غریبوں کا خیال رکھیں تو جہاں اللہ تعالیٰ ان کو اللہ کی خاطر خرچ کرنے پر ثواب دے رہا ہو گا وہاں ان غریبوں کی دعاؤں سے ان کے اپنے بچوں کے گھروں میں بھی برکت پڑ رہی ہوگی کئی احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے ہیں جن کو اس بات کا احساس ہے جو اپنے ایک بچے کی شادی پر دس غریب بچیوں کی شادی کا خرچ اٹھاتے ہیں، بعض فضول خرچ ہیں دو دو لاکھ روپے کا جوڑا بنا لیتے ہیں جبکہ اس رقم سے پانچ غریب بچیوں کا جہیز بن جاتا ہے تو ایسے لوگوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اگر اتنے قیمتی جوڑے بنانے کی اللہ تعالیٰ نے انہیں وسعت دی ہوئی ہے تو پھر غریبوں کو کم از کم ایک مہنگے جوڑے کے برابر تو دے دیں تا کہ وہ بھی غریبوں کی خوشیوں میں شامل ہوسکیں اور غریبوں کی دعائیں لے سکیں، یہ اتنے مہنگے
561 جوڑے جو ہیں یہ تو ایک دفعہ پہن کے یا دو دفعہ پہن کے ضائع ہو جاتے ہیں، کام نہیں آتے لیکن غریب کی دعائیں اور اللہ کی رضا تو ہمیشہ ساتھ رہنے والی چیز ہے.بیوت الحمد سکیم میں شرکت کی تحریک حضور نے خطبہ عید الفطر 13 اکتوبر 2007ء میں بیوت الحمد سکیم کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:.پھر بیوت المد سکیم ہے، یہ بھی حضرت خلیفہ مسیح الرائع نے شروع فرمائی تھی جس سے شروع میں ربوہ میں سو گھر بنا کر غریب ، ضرورت مندوں کو دینے تھے تو اللہ کے فضل سے یہ کمل ہو گئی، اس کے علاوہ بھی مختلف جگہوں پر لوگوں کے گھروں میں ان کو بڑھانے میں یا گنجائش کے مطابق کمرے بنانے کے لئے مدد دی گئی ، قادیان میں بھی بیوت الحمد کے تحت گھر بنائے گئے ہیں پھر پاکستان میں اور مختلف ملکوں میں جیسا کہ میں نے کہا مکان بھی بنا کر دیئے گئے ہیں، مختلف جگہوں پر بھی مدد دی گئی ہے تو یہ بھی ایک ایسی جائز اور انتہائی ضرورت ہے جس کی طرف احمدیوں کو توجہ دینی چاہئے اپنے غریب بھائیوں کی ضرورت پوری کرنے کے لئے کئی احمدی جب اللہ کے فضل سے اپنے گھر بناتے ہیں تو اس تحریک میں حصہ لیتے ہیں، بعض نے اپنا بڑا قیمتی گھر بنایا تو بیوت الحمد کے ایک مکمل گھر کا خرچہ بھی ادا کیا تو اگر تمام دنیا کے احمدیوں کے گھر خریدنے یا بنانے پر کچھ نہ کچھ اس مد میں دینے کی طرف توجہ پیدا ہو جائے تو کئی ضرورت مند غریب بھائیوں کا بھلا ہو سکتا ہے.
562 تحریک جدید کے متعلق تحریکات تحریک جدید دفتر پنجم کا آغاز تحریک جدید کے دفتر چہارم کا آغاز حضرت خلیفہ مسیح الرابع نے 1985ء میں فرمایا تھا.خطبہ جمعہ 5 نومبر 2004ء میں حضرت خلیفتہ اسیح الخامس نے دفتر پنجم کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:.آج سے دفتر پنجم کا آغاز ہوتا ہے انشاء اللہ تعالیٰ.اب آئندہ سے جتنے بھی نئے مجاہدین تحریک جدید کی مالی قربانی میں شامل ہوں گے وہ دفتر پنجم میں شامل ہوں گے.ایک تو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا تھا کہ نئے بیعت میں شامل ہونے والوں کو احمدیت میں شامل ہونے والوں کو مالی قربانی کی عادت ڈالنی چاہئے.ایسے تمام لوگوں کو ، اب میں اس ذریعہ سے دفتر کو ہدایت کر رہا ہوں کہ چاہے جو گزشتہ سالوں میں احمدی ہوئے ہیں لیکن تحریک جدید میں شامل نہیں ہوئے ان سب کو اب تحریک جدید میں شامل کرنے کی کوشش کریں اور ان کا شمار اب دفتر پنجم میں ہو گا.جیسا کہ میں نے پہلے کہا اگر ان کو بتایا جائے کہ مالی قربانی دینی ضروری ہے اور ان کو بتائیں کہ تمہارے پاس جو یہ احمدیت کا پیغام پہنچا ہے یہ تحریک جدید میں مالی قربانی کرنے والوں کی وجہ سے ہی پہنچا ہے.اس لئے اس میں شامل ہوں تا کہ تم اپنی زندگیوں کو بھی سنوارنے والے بنو اور اس پیغام کو آگے پہنچانے والوں میں بھی شامل ہو جاؤ حصہ دار بن جاؤ.اور جیسا کہ میں نے کہا ہے میرے علم میں ہے کہ ہندوستان میں بھی اور افریقہ میں بھی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جن کو مالی قربانی میں شامل نہیں کیا گیا ان کو مالی قربانی میں شامل کریں.پھر اس دفتر پنجم میں نئے پیدا ہونے والے بھی یعنی جواب احمدی بچے پیدا ہوں گے.وہ دفتر پنجم میں شامل ہوں گے.تو بہر حال افریقہ میں جہاں بہت بڑی تعداد احمدیت میں شامل ہوئی ہے یہ ہماری سستی ہے کہ ان کو ہم مالی نظام میں شامل نہیں کر سکے.تو جماعتوں کو میں دوبارہ آج پھر توجہ دلاتا ہوں کہ ان رابطوں کو قائم کریں اور وسیع کریں اور تربیت کی طرف توجہ دیں.اپنی مستیاں دور کریں اور ان نئے لوگوں کو بھی مالی قربانیوں میں شامل کریں چاہے وہ ٹوکن کے طور پر ہی تھوڑا بہت دے رہے ہوں.اس طرح جیسا کہ میں نے کہا جو نئے
563 بچے ہیں ان کو بھی ماں باپ شامل کرنے کی کوشش کریں.اس مالی قربانی میں شامل کریں.اور خاص طور پر واقفین نو بچے تو ضرور، بلکہ ہر پیدا ہونے والا بچہ اس میں شامل ہونا چاہئے.بلکہ بعض احمد یوں کا ایمان تو اس سے بھی تازہ ہوتا ہے کہ کسی کے اولاد نہیں ہوتی تھی تو انہوں نے تحریک جدید میں اپنے بچوں کے نام پر بھی چندہ دینا شروع کر دیا.100 روپے بچے کے حساب سے 400 روپے دینے شروع کر دیئے (پاکستان کی بات ہے ) اور اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ کچھ عرصے بعد ان کے ہاں اولاد کی امید پیدا ہوئی اور اب چار بچے ہو گئے.جتنے بچوں کا چندہ دیتے تھے اتنے بچے اللہ تعالیٰ نے دے دیئے.اللہ تعالیٰ بعض دفعہ فوری طور پر نظارے دکھا دیتا ہے.جیسا کہ میں نے کہا ہے چاہے بچوں کی طرف سے معمولی رقم ہی دیں لیکن اخلاص سے دی ہوئی یہ معمولی رقم بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے بڑا اجر پانے والی ہوتی ہے.اور جماعت میں اللہ تعالیٰ بہت سوں کو یہ نظارے دکھاتا ہے.اور پھر اسی چندے کی وجہ سے، ان برکتوں کی وجہ سے پھر آپ کے گھر برکتوں سے بھرتے چلے جائیں گے.الفضل 4 جنوری 2005ء ) دفتر اول کے کھاتے زندہ کرنے کی تحریک سید نا حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 1982ء میں تحریک فرمائی تھی کہ تحریک جدید کے دفتر اول اور دوم کے کھاتے مرنے نہ پائیں اور ان کی اولادیں ان کی طرف سے چندہ دیتی رہیں.2004 ء کے آخر تک ابتدائی 5 ہزار میں سے 2900 کھاتے جاری ہو چکے تھے اور 2100 باقی رہ گئے تھے.حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے 5 نومبر 2004 ء کو ان کو زندہ کرنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:." حضرت خلیفہ امسیح الرائع نے یہ بھی فرمایا تھا کہ جن بزرگوں کے کھاتے کوئی زندہ نہیں کرتا ان کے حساب میں کوئی چندہ نہیں دیتا، ان کے اس وقت کے مطابق جو چند روپوں میں ادا ئیگی ہوتی تھی، پانچ دس روپے میں ) یا ویسے بھی ان کا نام زندہ رکھنے کے لئے ٹوکن کی صورت میں ہو سکتی ہے.فرمایا تھا کہ پانچ روپے کے حساب سے ایک ہزار کی میں ذمہ واری اٹھاتا ہوں.میں اپنے ذمے لیتا ہوں اگر ان کی اولادیں ان کے نام کے ساتھ چندہ نہیں دے سکتیں.آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اور اس
564 طرح لوگ آگے آئیں اور ذمہ واری اٹھا ئیں.اور اپنے بارے میں یہ فرمایا کہ میرے بعد میری اولاد امید کرتا ہوں اس کام کو جاری رکھے گی.تو بہر حال آپ کو بھی دفتر نے توجہ نہیں دلائی یا ریکارڈ درست نہیں رکھا، ہو سکتا ہے کہ اپنے چندوں میں شامل کر کے آپ ان لوگوں کے لئے چندے دیتے رہے ہوں لیکن بہر حال ریکارڈ میں یہ بات نظر نہیں آرہی کہ آپ کا وعدہ تھا.اس لئے ان کی اس خواہش کی تکمیل میں ان کا جو اکیس سالہ دور خلافت تھا جس حساب سے بھی حضرت خلیفتہ امسیح الرابع نے فرمایا تھا، اپنے خطبے میں ذکر کیا تھا.اب دفتر تحریک جدید کو میں کہتا ہوں کہ یہ حساب مجھے بھجوا دیں.مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ ان کی اولا د اس کی ادائیگی کر دے گی.جو بھی ان کا حساب بنتا ہے، ان ایک ہزار بزرگوں کا.بہر حال اگر اولا د نہیں بھی کرے گی تو میں ذمہ واری لیتا ہوں انشاء اللہ تعالیٰ ادا کر دوں گا.اور اسی حساب سے دفتر ایسے تمام لوگوں کے کھاتوں کے بارے میں مجھے بتائے جن کے کھاتے ابھی تک جاری نہیں ہوئے تاکہ ان کی اولادوں کو توجہ دلائی جاتی رہے.لیکن جب تک ان کی اولادوں کی اس طرف توجہ پیدا نہیں ہوتی ، اسی حساب سے جو حضرت خلیفہ مسیح الرابع نے فرمایا تھا کہ کھاتے ٹوکن کے طور پر زندہ رکھنے چاہئیں، ان لوگوں کی ادائیگی میں اپنے ذمے لیتا ہوں، انشاء اللہ تعالیٰ میں ادا کروں گا.اور جب تک زندگی ہے اللہ تعالیٰ توفیق دے ادا کرتا رہوں گا اس کے بعد اللہ میری اولا د کو توفیق دے.لیکن یہ لوگ جن کی قربانیوں کے ہم پھل کھا رہے ہیں.ان کے نام بہر حال زندہ رہنے چاہئیں.اللہ تعالیٰ ان سب کی اولادوں کو توفیق دے“.(الفضل 4 جنوری 2005ء) خطبہ جمعہ 11 نومبر 2005ء میں فرمایا:.گزشتہ سال میں نے اعلان کیا تھا کہ حضرت خلیفہ مسیح الرابع نے اپنی خلافت کے ابتدائی دور میں یہ توجہ دلائی تھی کہ دفتر اول کے پانچ ہزار مجاہدین کے کھاتے کبھی مردہ نہیں ہونے چاہئیں.ان بزرگوں کے لواحقین کو کوشش کرنی چاہئے ، ان کے ورثاء کو کوشش کرنی چاہئے کہ جو کھاتے ختم ہو گئے ہیں وہ دوبارہ زندہ ہوں لیکن اس وقت کیونکہ براہ راست سنے کا ذریعہ نہیں تھا اور ہر ایک تک خبر بھی نہیں پہنچی ہوگی.شاید اسی لئے اس اعلان کے باوجود لوگوں نے اس طرف توجہ نہیں کی تھی.لیکن گزشتہ سال میرے توجہ دلانے پر ان بزرگوں کی اولادوں نے بھی یا دوسروں نے بھی کافی رقوم بھیجی ہیں اور تقریباً ساڑھے تین ہزار کے قریب مردہ کھاتے زندہ ہو چکے ہیں اور یہ رقوم جو آئی ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے
565 اب ہر سال اس آخری ادائیگی کے مطابق جو ان مجاہدین نے کی تھی سوائے ان کے جن کے ورثاء نے خود کھاتے جاری کروائے ہیں باقی جو کھاتے ہیں وہ ان کی آخری ادائیگی کے مطابق جاری کر دیئے گئے ہیں اور انشاء اللہ جاری رہیں گے اور یہ تسلسل قائم رہے گا.(الفضل 23 فروری 2006ء) خطبہ جمعہ 9 نومبر 2007ء میں اسی حوالہ سے فرمایا:.پھر میں نے دفتر اول کے مرحومین کی تحریک کی تھی ، جن کی کل تعداد 3 ہزار 7 سو 43 تھی اس میں سے بھی 3 ہزار 4 سو 44 مرحومین کے کھاتے جاری ہو گئے جو ان کے ورثاء نے کروائے اور 299 کھانہ جات کو مجموعی مد سے مرکز میں جو لوگوں نے مد جمع کروائی تھی.اس میں سے دوبارہ جاری کیا گیا ہے.تو اس لحاظ سے تمام دفتر اول کے مرحومین کے کھاتے جاری ہو چکے ہیں.بچوں اور نو مبائعین کو شمولیت کی تحریک الفضل 27 دسمبر 2007 ء حضور نے خطبہ جمعہ 5 نومبر 2004ء میں فرمایا: حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ بچوں، کھلونوں وغیرہ پر خرچ کر دیتے ہیں تو دین کے لئے کیوں نہیں کئے جاتے.تو اس وقت بھی جب بچوں پہ خرچ کر رہے ہوتے ہیں اگر بچوں کو سمجھایا جاوے اور کہا جائے کہ تمہیں بھی مالی قربانی کرنی چاہئے اور اس لئے کہ جماعت میں بچوں کے لئے بھی، جو نہیں کماتے ان کے لئے بھی ایک نظام ہے.تحریک جدید ہے، وقف جدید ہے.تو اس لحاظ سے بچوں کو بھی مالی قربانی کی عادت ڈالنے کے لئے ان تحریکوں میں حصہ لینا چاہئے.اس کے لئے کہنا چاہئے ، اس کی تلقین کرنی چاہئے.جب بھی بچوں کو کھانے پینے کے لئے یا کھیلنے کے لئے رقم دیں تو ساتھ یہ بھی کہیں کہ تم احمدی بچے ہو اور احمدی بچے کو اللہ تعالیٰ کی خاطر بھی اپنے جیب خرچ میں سے کچھ بچا کر اللہ کی خاطر، اللہ کی راہ میں دینا چاہئے.اب عید آ رہی ہے.بچوں کو عیدی بھی ملتی ہے تحفے بھی ملتے ہیں.نقدی کی صورت میں بھی.اس میں سے بھی بچوں کو کہیں کہ اپنا چندہ دیں.اس سے پھر چندہ ادا کرنے کی اہمیت کا بھی احساس ہوتا ہے اور ذمہ داری کا بھی احساس ہوتا ہے.بچہ پھر یہ سوچتا ہے اور بڑے ہو کر یہ سوچ پکی ہو جاتی ہے کہ
566 میرا فرض بنتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر خرچ کروں ، قربانیاں دوں.پھر نو مبائعین کے بارے میں فرمایا کہ بیعت کرتے ہیں اور وہ چندہ نہیں دیتے.ان کو بھی اگر شروع میں یہ عادت ڈال دی جائے کہ چندہ دینا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اس کے دین کی خاطر قربانی کی جائے تو اس سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے تو ان کو بھی عادت پڑ جاتی ہے.بہت سے نو مبائعین کو بتایا ہی نہیں جاتا کہ انہوں نے کوئی مالی قربانی کرنی بھی ہے کہ نہیں.تو یہ بات بتانا بھی انتہائی ضروری ہے.حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا کہ ایسے لوگوں کا پھر ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے جو مالی قربانیاں نہیں کرتے.اب اگر ہندوستان میں ، انڈیا میں اور افریقن ممالک میں یہ عادت ڈالی جاتی تو چندے بھی کہیں کے کہیں پہنچ جاتے اور تعداد بھی کئی گنا زیادہ ہوسکتی تھی.(الفضل 4 جنوری 2005ء) اہل پاکستان کو اعزاز قائم رکھنے کی تحریک: تحریک جدید کے سال 06-2005ء میں بھی اہل پاکستان نے مالی قربانی میں دنیا بھر میں اول پوزیشن حاصل کی.حضور نے خطبہ جمعہ 3 نومبر 2006 ء میں اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ کی طرح تمام دنیا میں ہر احمدی کو خواہ کسی بھی ملک یا نسل کا ہے خلافت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہر قسم کی قربانیوں میں ایک دوسرے سے بڑھ کر قربانیاں پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائے گا.لیکن میں پاکستانی احمدیوں سے امید رکھتا ہوں کہ وہ جو یہ اعزاز حاصل کر چکے ہیں اور گزشتہ کئی سالوں سے کرتے آ رہے ہیں حتی المقدور کوشش کریں گے کہ یہ ان کے پاس ہی رہے.آپ کی قربانیوں کی تاریخ جماعت احمدیہ کی بنیاد کے دن سے ہے جبکہ باقی دنیا کی تاریخ احمدیت اتنی پرانی نہیں اور اسی طرح قربانیوں کی تاریخ اتنی پرانی نہیں.پس اس بات کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں.آپ کی ہر قربانی کو اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ پھل پھول بخشا ہے اور آئندہ قربانیاں بھی انشاء اللہ تعالیٰ پہلے سے بڑھ کر پھل پھول لائیں گی.آج سب سے زیادہ جان کی قربانیاں پیش کیں تو پاکستانی احمد یوں نے کیں.مسلسل پہنی ٹارچر اور تکلیفیں برداشت کی ہیں تو پاکستانی احمدیوں نے کی ہیں.باوجود نا مساعد حالات کے مالی قربانیوں میں بڑھنے کے معیار کو پاکستانی احمد یوں نے قائم رکھا ہے.اللہ تعالیٰ کبھی یہ قربانیاں ضائع نہیں کرے گا.انشاء اللہ.بلکہ کامیابیوں کے آثار بڑے واضح طور پر نظر آنے لگ گئے ہیں اور انشاء اللہ وہ دن دور نہیں کہ جب راستے کی ہر روک خس و خاشاک کی طرح اڑ جائے گی.لیکن
567 اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی قربانیوں کو دعاؤں میں سجا کر پیش کریں اور پیش کرتے رہیں اور رَبَّنَا تَقَبَّلْ مینا کی آواز ہر دل سے نکلتی رہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے“.مطالبات پر عمل کرنے کی تحریک: (الفضل 12 دسمبر 2006ء ) 3 نومبر 2006ء کے خطبہ جمعہ میں حضور نے تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کرتے ہوئے تحریک جدید کے مطالبات پر عمل کرنے کا ارشاد فرمایا.حضور نے فرمایا:.حضرت خلیفہ اسیح الثانی مصلح موعودؓ نے جب تحریک جدید کا آغا ز فرمایا تو اس وقت بھی اور اس کے بعد بھی مختلف سالوں میں اس تحریک جدید کے بارے میں جماعت کی راہنمائی فرماتے رہے کہ اس کے کیا مقاصد ہیں اور کس طرح ہم ان مقاصد کو حاصل کر سکتے ہیں.اس وقت شروع میں آپ نے جماعت کے سامنے 19 مطالبات رکھے اور پھر بعد میں مزید بھی رکھے.یہ تمام مطالبات ایسے ہیں جو تربیت اور روحانی ترقی اور قربانی کے معیار بڑھانے کے لئے بہت ضروری ہیں اور آج بھی اہم ہیں، جماعتوں کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہئے.اس ضمن میں حضور نے مندرجہ ذیل مطالبات کا خاص طور پر ذکر فر مایا:.1.سادہ زندگی.2 مخالفانہ لٹریچر کا جواب.3.وقف عارضی.4.وقف بعد از ریٹائر منٹ.(الفضل 12 دسمبر 2006ء) 5.بریکاری سے بچاؤ.مالی قربانی میں اضافہ کی تحریک خطبہ جمعہ 3 نومبر 2006ء میں حضور نے مالی قربانی میں اضافہ کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا :.ان لوگوں کی اولادوں اور ان خاندانوں سے وابستہ احمدیوں کو جو آج دنیا کے مختلف ممالک میں آباد ہیں اور مالی لحاظ سے بہت بہتر ہیں، ہمیں اس طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ آپ پر بہت بڑی ذمہ داری ہے اور آپ بھی ان انعامات کے وارث تبھی ٹھہریں گے جب اپنی قربانیوں کے معیار میں بہتری پیدا کریں گے اور اس روح کو اپنے اندر قائم کریں گے کہ آج دنیا میں اسلام کا جھنڈا گاڑنے کے لئے ہم نے ہر قسم کی قربانیاں دینی ہیں.اسی طرح دنیا کے مختلف ممالک میں وہاں کے مقامی باشندوں کو بھی
568.میں کہتا ہوں کہ آپ نے اگر حضرت مسیح موعود کو مانا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ میں سے بہت سوں نے ہر قسم کی قربانیوں کے اعلیٰ ترین معیار بھی قائم کئے ہیں تو اپنے ہم وطنوں میں جو احمدیت قبول کر کے آ گئے ہیں یہ روح پیدا کریں کہ اگر پہلوں سے ملنا ہے تو پھر آخرین کی جماعت کے لئے ان قربانیوں کو بھی ہنسی خوشی پیش کرنا ہو گا جن قربانیوں کا اللہ تعالیٰ ہم سے مطالبہ کرتا ہے.پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ بڑھ چڑھ کر اپنے مالوں کو اللہ کی راہ میں پیش کریں تا کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام تمام دنیا کو باحسن پہنچایا جا سکے.(الفضل 12 دسمبر 2006ء) وقف جدید کے متعلق تحریکات شاملین بڑھانے کی تحریک وقف جدید کی بنیاد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے 1957ء میں رکھی تھی جس کے شاملین کی تعداد 2007 ء میں 4لاکھ تک پہنچ گئی.حضرت خلیفتہ امسیح الخامس ایدہ اللہ نے خطبہ جمعہ 7 جنوری 2005ء میں احمدی عورتوں کی مالی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ وقف جدید میں اپنے بچوں کو بھی شامل کریں.فرمایا:.تو وقف جدید کے ضمن میں احمدی ماؤں سے میں یہ کہتا ہوں کہ آپ لوگوں میں یہ قربانی کی عادت اس طرح بڑھ بڑھ کر اپنے زیور پیش کرنا آپ کے بڑوں کی نیک تربیت کی وجہ سے ہے اور سوائے استثناء کے الا ماشاء اللہ جن گھروں میں مالی قربانی کا ذکر اور عادت ہوان کے بچے بھی عموماً قربانیوں میں آگے بڑھنے والے ہوتے ہیں.اس لئے احمدی مائیں اپنے بچوں کو چندے کی عادت ڈالنے کے لئے وقف جدید میں شامل کریں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث" نے پاکستان میں بچوں کے ذمہ وقف جدید کیا تھا.اور اس وقت سے وہاں بچے خاص شوق کے ساتھ یہ چندہ دیتے ہیں.اگر باقی دنیا کے ممالک بھی اطفال الاحمدیہ اور ناصرات الاحمدیہ کو خاص طور پر اس طرف متوجہ کریں تو شامل ہونے والوں کی تعداد کے ساتھ ساتھ چندے میں بھی اضافہ ہو گا اور سب سے بڑا مقصد جو قربانی کا جذبہ دل
569 میں پیدا کرنا ہے وہ حاصل ہوگا.انشاءاللہ.اگر مائیں اور ذیلی تنظیمیں مل کر کوشش کریں اور صحیح طریق پر کوشش ہو تو اس تعداد میں (جو موجودہ تعداد ہے ) آسانی سے دنیا میں 6لاکھ کا اضافہ ہو سکتا ہے.بغیر کسی دقت کے اور یہ تعداد آسانی سے 10 لاکھ تک پہنچائی جاسکتی ہے کیونکہ موجودہ تعداد 4 لاکھ کے (الفضل 26 اپریل 2005ء) ریب ہے.دفتر اطفال میں اضافہ کرنے کی تحریک حضرت خلیفہ لمسیح الثالث نے وقف جدید دفتر اطفال قائم فرمایا تھا اوراحمدی بچوں کو اس میں د لینے کی تحریک فرمائی تھی.حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ نے اس حوالہ سے خطبہ جمعہ 12 جنوری 2007ء میں فرمایا:.جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ ایمانی حالت کی بہتری کے لئے بھی قربانی کی ضرورت ہے.تو اپنے بچوں میں بھی اس قربانی کی عادت ڈالیں تا کہ جب وہ بڑے ہوں تو ان کی خواہشات کی جو ترجیحات ہیں ان میں اللہ کی خاطر مالی قربانی سب سے اول نمبر پر ہو.اس سے ایک تو شاملین کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا اور جو عفو کے معیار ہیں وہ ترجیحات بدل جانے سے بدل جائیں گے.جولوگ بچوں کو بھی جب جیب خرچ دیتے ہیں تو ان کو ان میں سے چندہ دینے کی عادت ڈالیں.عیدی وغیرہ میں سے چندہ دینے کی عادت ڈالیں، ان مغربی ممالک میں میں نے اندازہ لگایا ہے جیسا کہ پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں کہ بازار سے کھانا برگر وغیرہ جو ہیں اور بڑے شوق سے کھائے جاتے ہیں اور جو مزے کے لئے کھائے جاتے ہیں، ضرورت نہیں ہے.اگر مہینے میں صرف دو دفعہ یہ بچا کر وقف جدید کے بچوں کے چندے میں دیں تو اسی سے وصولی میں 25 سے 30 فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے.تو وقف جدید کو جس طرح حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے پاکستان میں بچوں کے سپرد کیا تھا.میں بھی شاید پہلے کہہ چکا ہوں نہیں تو اب یہ اعلان کرتا ہوں کہ باہر کی دنیا بھی اپنے بچوں کے سپر دو قف جدید کی تحریک کرے اور اس کی ان کو عادت ڈالے تو بچوں کی بہت بڑی تعداد ہے جو انشاء اللہ تعالیٰ بہت بڑے خرچ پورے کرلے گی اور یہ کوئی بوجھ نہیں ہوگا.جب آپ چھوٹی چھوٹی چیزوں میں سے بچت کرنے کی ان کو عادت ڈالیں گے اسی طرح بڑے بھی کریں اور اگر یہ ہو جائے تو ہندوستان کے
570 اخراجات اور کچھ حد تک افریقہ کے اخراجات بھی پورے کئے جاسکتے ہیں“.(الفضل 6 مارچ 2007ء) یادر ہے کہ ایک تحقیق کے مطابق برطانوی والدین اپنے ہر بچہ کو 12 پونڈ فی ہفتہ جیب خرچ دیتے ہیں جبکہ بعض علاقوں میں یہ شرح 16 پونڈ ہے.جائزہ کے مطابق بچے اپنے جیب خرچ کا اوسطاً 54 فیصد ہر ہفتے بچالیتے ہیں اور خرچ کردہ رقم ٹافیوں اور سنیکس کی خریداری پر استعمال ہوتی ہے.ننھے مجاہدین کا معیاری چندہ روزنامه دن 18 نومبر 2007 ء ) | حضور نے 25 دسمبر 2006 کو مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ جرمنی کو ہدایات دیتے ہوئے فرمایا:.حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اطفال اور ناصرات کی ڈیوٹی لگائی تھی کہ وہ وقف جدید کی زیادہ سے زیادہ مدد کریں، اس لئے انہیں زیادہ سے زیادہ وقف جدید میں حصہ لینا چاہئے.اطفال اور ناصرات کے چندوں کے اعتبار سے اول، دوم اور سوم معیار مقرر کریں.ننھے مجاہد کے لئے ہیں یور و چندہ کم ہے اس کا معیار کم از کم پچاس یورو ہونا چاہئے.بچوں کے کھانے پینے اور جیب خرچ کا حساب کر کے جائزہ لیں کہ بچے کتنا ادا کر سکتے ہیں“.25 دسمبر 2006ء کو حضور نے مجلس عاملہ لجنہ جرمنی کو ہدایات دیتے ہوئے فرمایا:.تمام ناصرات کو وقف جدید کے چندہ میں ضرور شامل ہونا چاہئے اور ان کے چندہ کے اعتبار سے معیار مقرر کریں اور جو ناصرات اس معیار کے مطابق چندہ ادا کریں ان کے نام کی فہرست بنا کر مجھے ( الفضل 6 جنوری 2007 ءص5) بھجوائیں.10 لاکھ شاملین کی تحریک (الفضل 6 جنوری 2007ء) حضور نے تحریک وقف جدید میں شاملین کی تعداد ایک کروڑ تک بڑھانے کی تحریک کرتے ہوئے خطبہ جمعہ 7 جنوری 2005ء میں فرمایا:.اگر کوشش کی جائے تو بچوں کے ذریعے سے ہی میرے خیال میں معمولی کوشش سے پوری دنیا میں 6 لاکھ کی تعداد کا اضافہ کیا جا سکتا ہے.تا کہ کم از کم وقف جدید میں 10 لاکھ افراد تو شامل ہوں.
571 تحریک جدید کی طرح نئے آنے والوں کو بھی اس میں شامل کریں.بچوں کو شامل کریں، خاص طور پر بھارت اور افریقہ کے ممالک میں کافی گنجائش ہے.اللہ تعالیٰ توفیق دے.ویسے تو میں سمجھتا ہوں اگر کوشش کی جائے تو ایک کروڑ کی تعداد ہو سکتی ہے.لیکن بہر حال پہلے قدم پر آپ اتنی کوشش بھی کر لیں تو بہت ہے.کیونکہ 1957ء میں جب حضرت مصلح موعودؓ نے یہ تحریک شروع کی تھی تو جماعت کی اس تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ خواہش فرمائی تھی کہ ایک لاکھ چندہ دہند ہوں.تو اس وقت کوائف تو میرے پاس نہیں ہیں کہ پاکستان میں کتنے شامل ہوئے لیکن یہ صرف تحریک پاکستان کے لئے تھی اور وہاں سے آپ ایک لاکھ مانگ رہے تھے تو اب تو پوری دنیا میں حاوی ہے“.(الفضل 26 اپریل 2005 ء )
572 اعلیٰ تعلیم کے حصول کے متعلق تحریکات یہ زمانہ علم اور قلم کا زمانہ ہے اور تحریر و تقریر کے ذریعہ دنیا پر حق کا غلبہ مقدر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے یہ بشارت پائی کہ میرے فرقہ کے لوگ علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے.چنانچہ قرآنی علوم کی خدمت کے لئے حضرت مسیح موعود نے علوم جدیدہ حاصل کرنے کی بڑے زور سے تحریک فرمائی.بیسویں صدی کے آغاز میں ہندوستان میں شرح خواندگی بہت کم تھی اور تعلیم حاصل کرنے کے ذرائع بھی بہت محدود تھے اس لئے خلافت ثانیہ میں تعلیم کا کم از کم معیار پرائمری اور مڈل قرار دیا گیا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ہر احمدی بچے کو میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کی تحریک فرمائی.دنیا روزانہ علم کے نئے اوراق پلٹ رہی ہے اور مغربی اقوام علم کے زور پر دنیا پر اپنا سیاسی اور معاشی تفوق بڑھاتی چلی جارہی ہیں.جس کے نتیجہ میں ان کا الحادی کلچر بھی بڑے زور کے ساتھ دنیا کے ہر خطے میں نشو و نما پا رہا ہے.اعدادوشمار کے مطابق 61 مسلم ممالک میں صرف 500 یونیورسٹیاں ہیں جبکہ صرف امریکہ میں 5758 اور ٹوکیو شہر میں ایک ہزار یو نیورسٹیاں ہیں.پوری عرب دنیا میں صرف 35 ہزار فل ٹائم ریسرچ سکالرز ہیں جبکہ صرف امریکہ میں ان کی تعداد 22 لاکھ ہے.پوری مسلم دنیا اپنے جی ڈی پی کا صرف 02 فیصد ریسرچ پر خرچ کرتی ہے جبکہ عیسائی دنیا اپنی آمدنی کا 5 فیصد حصہ تحقیق اور علم پر لگاتی ہے.دنیا کی پہلی 20 یو نیورسٹیوں میں 18 امریکہ میں ہیں.کمپیوٹر کے پہلے 10 بڑے ادارے امریکہ میں ہیں.دنیا میں سب سے زیادہ نوبیل انعام یافتہ سائنسدان امریکہ میں ہیں اور ان کی اکثریت (روز نامہ ایکسپریس یکم اگست 2006ء ) یہودی ہے.اس لئے حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے فرمایا تھا کہ مغرب اور امریکہ کو آپ اس وقت تک فتح نہیں کر سکتے جب تک کہ علم کے میدان میں ان کو شکست نہ دیں.اس پس منظر میں جماعت احمد یہ اپنے محدود وسائل کے ساتھ اپنی نئی نسل کو علمی میدان میں بلندیوں پر پہنچانے کے لئے کوشاں ہے.اس بارہ میں حضرت طلیقہ لمسیح الخامس ایدہ اللہ نے متعد تحریکات
573 فرمائی ہیں جن کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے.کم از کم تعلیمی معیار.ایف اے حضور نے خطبہ جمعہ 5 دسمبر 2003 ء میں فرمایا.پاکستان میں ہر بچے کے لئے خلیفہ المسح الثالث نے یہ شرط لگائی تھی کہ ضرور میٹرک پاس کرے بلکہ اب تو معیار بلند ہو گئے ہیں اور میں کہوں گا کہ ہر احمدی بچے کو ایف اے ضرور کرنا چاہئے.افریقہ میں جو کم از کم معیار ہے پڑھائی کا سیکنڈری سکول کا یا جی سی ایس سی، یہاں بھی ہے، وہاں بھی.اسی طرح ہندوستان اور بنگلہ دیش اور دوسرے ملکوں میں، یہاں بھی میں نے دیکھا ہے یورپ کے اور امریکہ کے بعض لڑکے ملتے ہیں وہ پڑھائی چھوڑ بیٹھتے ہیں.تو یہ کم از کم معیار ضرور حاصل کرنا چاہئے بلکہ یہاں تک تعلیمی سہولتیں ہیں بچوں کو اور بھی آگے پڑھنا چاہئے اور سیکرٹریان تعلیم کو اپنی جماعت کے بچوں کو اس طرف توجہ دلاتے رہنا چاہئے.اگر تو یہ بچے جس طرح میں نے پہلے کہا، کسی مالی مشکل کی وجہ سے انہوں نے پڑھائی چھوڑی ہوئی ہے تو جماعت کو بتائیں جماعت انشاء اللہ حتی الوسع ان کا انتظام کرے گی.خطبات مسر در جلد اول ص 520,519) سیکرٹریان تعلیم کو ہدایات اس سے قبل حضور نے سیکر ٹر یان تعلیم کو فعال ہونے کی ہدایات دیتے ہوئے فرمایا.عموماً سیکرٹریان تعلیم جماعتوں میں اتنے فعال نہیں جتنی ان سے توقع کی جاتی ہے یا کسی عہدیدار سے توقع کی جاسکتی ہے اور یہ میں یونہی اندازے کی بات نہیں کر رہا، ہر جماعت اپنا اپنا جائزہ لے لے تو پتہ چل جائے گا کہ بعض سیکرٹریان پورے سال میں کوئی کام نہیں کرتے.حالانکہ مثلاً سیکرٹری تعلیم کی مثال دے رہا ہوں ،سیکرٹری تعلیم کا یہ کام ہے کہ اپنی جماعت کے ایسے بچوں کی فہرست بنائے جو پڑھ رہے ہوں، جو سکول جانے کی عمر کے ہیں اور سکول نہیں جار ہے.پھر وجہ معلوم کریں کہ کیا وجہ ہے وہ سکول نہیں جار ہے.مالی مشکلات ہیں یا صرف نکما پن ہی ہے اور ایک احمدی بچے کو تو توجہ دلانی چاہئے کہ اس طرح وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے.
574 پھر فرمایا:.بعض بچوں کو عام روایتی پڑھائی میں دلچسپی نہیں ہوتی.اگر اس میں دلچسپی نہیں ہے تو پھر کسی ہنر کے سیکھنے کی طرف بچوں کو توجہ دلائیں.وقت بہر حال کسی احمدی بچے کا ضائع نہیں ہونا چاہئے.پھر ایسی فہرستیں ہیں جو ان پڑھے لکھوں کی تیار کی جائیں جو آگے پڑھنا چاہتے ہیں.ہائر سٹڈیز کرنا چاہتے ہیں لیکن مالی مشکلات کی وجہ سے نہیں پڑھ سکتے تو جس حد تک ہوگا جماعت ایسے لوگوں کی مدد کرے گی.لیکن بہر حال سیکرٹریان تعلیم کو خود بھی اس سلسلے میں Active ہونا پڑے گا اور ہونا چاہئے.تو یہ چند مثالیں ہیں.جو ذمہ داری ہے سیکرٹری تعلیم کی اور بھی بہت سارے کام ہیں اس بارہ میں چند مثالیں میں نے دی ہیں.اگر محلے کے لیول سے لے کر نیشنل لیول تک سیکر ٹریان تعلیم موثر ہو جائیں اور کام کرنے والے ہوں تو یہ تمام باتیں جو میں نے بتائیں ہیں اور ان کے علاوہ بھی اور بہت ساری باتیں ہیں ان سب کا علم ہو سکتا ہے.فہرست تیار ہوسکتی ہے اور پھر ایسے طلباء کو مدد کر کے پھر آگے پڑھایا بھی خطبات مسرور جلد اول ص 520,519) جاسکتا.ہے.کمزور بچوں کی مالی امداد مالی لحاظ سے کمزور بچوں کی تعلیم کے لئے جماعت کی طرف سے حضور نے بار بار مددفراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے.فرمایا:.اگر کوئی بچہ مالی حالت کی کمزوری کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر رہا تو جماعت کو بتائیں.مجھے بتا ئیں انشاء اللہ کوئی بچہ مالی کمزوری کی وجہ سے تعلیم سے محروم نہیں رہے گا.لیکن بچوں کو تعلیم سے محروم رکھنا ان پر ظلم ہے.( الفضل 6 جولائی 2004ء) 2004ء میں حضور افریقہ کے دورہ پر تشریف لے گئے.14 مارچ 2004 ء کو حضور نے ٹی آئی سیکنڈری سکول اکمنی ایسار چرغانا کا معائنہ فرمایا.حضور انور نے ایک طالب علم سے جو حضور انور کو شعبہ جغرافیہ کے چارٹس دکھا رہا تھا فرمایا : اگر تم فائنل امتحان میں 80 فیصد نمبر لے لوتو میرا تم سے وعدہ ہے کہ غانا سے باہر کسی بھی یو نیورسٹی میں اعلی تعلیم دلواؤں گا.اس خوش قسمت طالب علم کا نام Enock Yaw asamoah ہے جو سکول کے شعبہ
575 آرٹس میں فائنل ایئر کا سٹوڈنٹ ہے.حضور انور نے سکول کے ہیڈ ماسٹر Mr.Dimbie Mumuni Issah کو ایگریکلچر Department بھی کھولنے کا ارشاد فرمایا.حضور انور نے سکول کے کمپیوٹر سیکشن کا معائنہ فرمایا جو اس چھوٹے سے کمرہ میں ہے جہاں حضور کا بطور پرنسپل دفتر ہوتا تھا.کمپیوٹرز کی تعداد بہت کم تھی.اس پر حضور انور نے از راہ شفقت فرمایا.اپنے کمپیوٹر سیکشن کو وسیع کر کے مجھے اطلاع دیں تو میں اس میں پانچ کمپیوٹرز اور ایئر کنڈیشنر (الفضل 28 دسمبر 2004ء) لگوا دوں گا.27 مارچ 2004 ء کو حضور نے بورکینا فاسو کے جلسہ سالانہ سے اختتامی خطاب میں فرمایا :.بور کینا فاسو کے احمدی بچوں کو نصیحت ہے کہ تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دیں.کیونکہ احمدی بچے کا تعلیمی معیار دوسروں سے بلند ہونا چاہئے اور اگر آپ میں اتنا Talent ہے کہ ملک سے باہر کی یو نیورسٹیوں میں اعلی تعلیم کے لئے داخلہ مل سکتا ہے تو پھر اس راستہ میں آپ کے مالی مسائل کو جماعت روک نہیں بننے دے گی.الفضل 28 دسمبر 2004ء ص 53) 31 مارچ 2004ء کو کا یا بورکینا فاسو احمد یہ مشن ہاؤس کا سنگ بنیاد رکھنے کے بعد خطاب کرتے ہوئے فرمایا.ہر احمدی بچے کا یہ حق ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرے اور کوئی بچہ اس وجہ سے تعلیم نہ چھوڑے کہ اس کے پاس مالی وسائل نہیں ہیں اگر تعلیم کے حصول میں مالی روک ہو تو مجھے بتائیں.انشاء اللہ آپ کو مالی وسائل مہیا کئے جائیں گے.علم حاصل کرنے کی بڑی اہمیت ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا.علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے.فرمایا مراد یہ ہے کہ چاہے مشکلات ہوں پھر بھی تعلیم حاصل کرنا لازمی ہے.تعلیم حاصل کر کے ہی آپ ملک کی خدمت کر سکتے ہیں اور دینی کام کر سکتے ہیں.الفضل 28 دسمبر 2004 ء ص 57 اسی طرح دورہ بینن کے دوران 7 اپریل 2004 ء کو توئی شہر میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.تعلیم حاصل کرنا ہمارے بچوں کا حق ہے.اس کے لئے جتنی کوشش کی جائے کم ہے.اس کے لئے میں والدین سے ماؤں سے ، باپوں سے کہتا ہوں خواہ وہ پڑھے ہوئے ہوں یا ان پڑھ ہوں بچوں کی
576 تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دیں.آئندہ اس کے بغیر گزارہ نہیں.بچے صرف اس لئے نہیں ہونے چاہئیں کہ وہ بڑے ہو کر ہاتھ بٹائیں گے.Farming میں ہماری مدد کریں گے.بلکہ بچوں کا جو حق ہے وہ ادا کریں کہ ان کی تربیت کریں اور تعلیم دلوائیں.فرمایا اپنی مالی مجبوری کی وجہ سے والدین بچوں کو پڑھائی سے نہ روکیں.اگر مالی مجبوری کی وجہ سے بچے تعلیم حاصل نہیں کر سکتے تو مجھے بتائیں.کوئی بچہ اس وجہ سے پڑھائی سے محروم نہیں رہے گا.اس علاقہ میں جہاں نہ پانی ، نہ بجلی کی سہولت ہے اور نہ تعلیم کی.میں چاہتا ہوں کہ اس علاقہ کے بچے اتنا پڑھ لکھ جائیں کہ ملک کے لیڈر بن سکیں.الفضل 28 دسمبر 2004 ء ص 74) حضور نے 2005 ء میں دورہ یوگنڈا کے دوران Mibikko کے احمد یہ پرائمری سکول میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا.یہاں کی جو احمدی آبادی ہے ان کو اس بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ ان کے بچے ضرور تعلیم حاصل کریں اور پرائمری کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سیکنڈری سکول میں داخل ہوں.حضور انور نے فرمایا کہ بغیر کسی امتیاز کے جس کے بچے پڑھائی میں اچھے ہوں گے اور ان کے مالی حالات کمزور ہوں گے تو جماعت ان کی مدد کرے گی.جو بچے اچھے اور ذہین ہوں گے اور ان کو یونیورسٹیوں میں داخلہ مل جائے گا تو جماعت ایسے غریب بچوں کی مدد کرے گی.حضور انور نے فرمایا کہ میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جو بچے اچھی تعلیم حاصل کریں گے.اگر ان کو بیرونی یونیورسٹیوں میں داخلہ مل گیا اور ان کو مالی مدد کی ضرورت پڑی تو جماعت ان کی مدد کرے گی.اس لئے ہر بچہ جو تعلیم حاصل کر رہا ہے وہ پوری کوشش کرے اور ان کے والدین پوری کوشش کریں کہ بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں.صدر مملکت یوگنڈا سے ملاقات کے دوران حضور نے احمدی اور غیر احمدی کی تفریق کے بغیر ذہین طلباء کی مدد کرنے کی پیشکش کرتے ہوئے فرمایا :.یہاں بھی جو ذہین طلباء ہوں گے اور ٹاپ کریں گے اور بیرونی ممالک کی یونیورسٹیوں میں داخلہ ملنے کی صورت میں اگر انہیں مالی مدد کی ضرورت ہوئی تو انشاء اللہ جماعت مدد کرے گی.(الفضل 2 جون 2005ء) الفضل 8 جون 2005 ء )
577 امداد طلبہ کی تحریک حضور نے خطبہ عید الفطر 13 اکتوبر 2007 ء میں فرمایا:.طلباء کی مدد ہے ایک یہ بھی پرانی مد چل رہی ہے، یہ بھی بہت پرانی سکیم ہے جیسا کہ میں نے کہا جماعت میں رائج ہے بڑے عرصہ سے تعلیم بھی اتنی زیادہ مہنگی ہو چکی ہے اب غریب ملکوں میں بھی کہ بعض دفعہ ایک اوسط درجہ کے آدمی کی پہنچ سے باہر ہو جاتی ہے جس کے بچے زیادہ ہوں، اگر طلباء اور ان کے والدین بچوں کے امتحان میں پاس ہونے پر کچھ شکرانے کے طور پر اس مد میں دیں تو کئی غریب ضرورت مندوں کا بھلا ہو سکتا ہے مثلاً یہاں اگر پا ہونے والا ہر طالب علم اپنے غریب طالب علم بھائیوں کے لئے دس پندرہ پونڈ سال میں دین تو اتنی رقم کہ وہ شاید یہاں مہینہ میں بازار سے کچھ چیزیں کھا لیتے ہوں گے تو غریب ملکوں میں ایک طالب علم کا سال بھر کی کتابوں کا اور بعض دوسرے خرچ پورے ہو جاتے ہیں اس رقم سے اور یہی حقیقی خوشی اور حقیقی عید کا ہے اور یہی باعث بنی چاہئے حقیقی خوشی کا ہمارے لئے ، یہ احساس بچوں کے اندر پیدا کرنا چاہئے کہ غریبوں کی ضرورتیں پوری کریں.سائنسی علوم کی طرف توجہ کرنے کی تحریک علم کا ہر شعبہ علم ہی ہے مگر اس دور میں ہر قسم کی ترقی کے لئے سائنسی علوم کی طرف خاص توجہ نا گزیر ہے اور جس قوم کے پاس جتنے سائنسدان ، جتنی لیبارٹریاں اور جتنی سائنسی درسگاہیں ہوں گی وہ قوم اتنی ہی ترقی یافتہ کہلائے گی.اعداد و شمار کے مطابق اسلامی دنیا میں 21 لاکھ لوگوں میں سے صرف 230 لوگوں کو سائنس کا علم ہوتا ہے جبکہ امریکہ کے 10 لاکھ میں سے 4 ہزار اور جاپان کے 5 ہزار شہری سائنسدان ہوتے ہیں.چین اور بھارت علم اور ٹیکنالوجی میں نئی طاقت بن کر ابھر رہے ہیں.امریکی ماہرین کا خیال ہے چین 2045ء میں امریکہ کی جگہ لے لے گا، اس کی وجہ یونیورسٹیاں اور ٹیکنالوجی ہے، چین میں اس وقت 9000 اور بھارت میں 8407 یونیورسٹیاں ہیں.یہ دونوں ملک ہر سال 9لاکھ 50 ہزار انجینئر پیدا کرتے ہیں.اس کے مقابلے میں امریکہ میں ہر سال صرف 70 ہزار نئے انجینئر مارکیٹ میں آتے
578 ہیں.اس وقت دنیا میں 120 کیمیکل پلانٹس بن رہے ہیں ،ان میں سے 50 چین میں ہیں.(روز نامہ ایکسپریس یکم اگست 2006ء ) سائنسدانوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ 5لاکھ بچوں میں سے صرف 20 ہزار سائنس میں دلچسپی لیتے ہیں.ان میں سے صرف دو سو ایم ایس سی کی سطح تک پہنچتے ہیں.صرف 5 پی ایچ ڈی کر سکتے ہیں اور 100 پی ایچ ڈی کرنے والوں میں سے صرف ایک پروفیسر بین الاقوامی شہرت پاتا ہے جبکہ بین الاقوامی شہرت پانے والے دوسو پر و فیسروں میں سے کوئی ایک دنیا کونئی چیز بیانئی ایجاد پیش کرتا ہے.(روزنامہ ایکسپریس 11 جنوری 2003ء) ان حالات میں حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ نے سائنسی تعلیم کے حصول کی طرف خصوصی توجہ دلائی اور مجلس خدام الاحمدیہ UK کے نیشنل اجتماع منعقدہ 17 ستمبر 2006ء کے موقع پر اختتامی خطاب میں فرمایا:.......آج آپ طلباء اگر یہ ارادہ کر لیں کہ سائنس کے میدان میں اتنا آگے بڑھنا ہے کہ آئندہ اس ملک کو سائنسدانوں کی جو ضرورت ہے وہ آپ نے پوری کرنی ہے تو یہ کے نام کو روشن کرنے والا ایسا کام ہو گا جس سے جیسا کہ میں نے کہا یہ تو میں مجبور ہوں گی کہ پھر یہ کے خلاف کوئی بات نہ کرسکیں گے.حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے جو بلی کے سال میں فرمایا تھا، کچھ سائنسدانوں کی تعداد بتائی تھی ، میرا خیال ہے سو یا کتنی کہ مجھے احمدی بچوں میں سے ایسے سائنسدان چاہئیں جو ڈاکٹر سلام صاحب کا مقام حاصل کریں.تو ابھی تک تو وہ ہم حاصل نہیں کر سکے.تو آپ لوگ جو ان ملکوں میں پڑھ رہے ہیں، ان ملکوں میں رہ رہے ہیں.پڑھائی کی سہولتیں ہیں ، مواقع میسر ہیں، اس سے فائدہ اٹھائیں اور آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں.(ماہنامہ نورالدین جرمنی ستمبر 2007 ء ص 1) پھر نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ جرمنی کو ہدایات دیتے ہوئے فرمایا :.خدام الاحمدیہ یو.کے کے اجتماع پر میں نے توجہ دلائی تھی اور کل انصار اللہ کی میٹنگ میں بھی انہیں کہا ہے کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی خواہش تھی کہ جو بلی کا سال جب آئے تو جماعت احمدیہ کو ڈاکٹر عبدالسلام صاحب جیسے سوسائنسدان چاہئیں.تو ایسی صلاحیت رکھنے والے طلباء کو تلاش کریں ، ان کی راہنمائی کریں اور انہیں سائنس کے مختلف مضامین میں ریسرچ کرنے کی طرف توجہ دلائیں.(الفضل 6 جنوری 2007ء)
579 نیز 24 دسمبر 2006ء کو مجلس عاملہ انصار الله جر منی کو ہدایات دیتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ:.احمدی بچوں کو زیادہ سے زیادہ ریسرچ کے میدانوں میں آنا چاہئے اور اگلے پندرہ بیس سال میں اس تحقیق کے میدان میں احمدیوں کا بہت اچھا تناسب ہونا چاہئے تا کہ یہ ملک احمدیوں کو اپنے ملکوں میں رکھنے پر مجبور ہو جائیں.محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے حوالہ سے حضور انور نے فرمایا کہ فزکس، کیمسٹری اور میڈیکل کے میدانوں میں بھی احمدیوں کو آگے آنا چاہئے.اس ضمن میں حضور انور نے فرمایا کہ مجھے امید ہے اور میری دعا ہے کہ ڈاکٹر نعیم صاحب ایک دن انشاء اللہ نوبیل انعام حاصل کرلیں گے“.الفضل 6 جنوری 2007 ء ص 5) ان سب ہدایات کی روشنی میں جماعت احمدیہ کی توجہ تعلیم کی طرف بڑھ گئی ہے اور نادار طلباء کے لئے جماعت اپنی استطاعت کے مطابق بھر پور خرچ کر رہی ہے.تعلیمی تمغہ جات تعلیمی تمغہ جات کی جو سکیم خلافت ثالثہ میں شروع کی گئی تھی اسے بھی بہت وسعت دی گئی ہے.حضور نے جلسہ سالانہ قادیان 2005 ء کے موقع پر ہندوستان اور پاکستان کے 132 طلباء وطالبات کو تمغہ جات عطا فرمائے.الفضل 30 جنوری 2006 ء ص 4,3 ) یہ سکیم کئی ممالک میں جاری ہو چکی ہے.چنانچہ جلسہ برطانیہ 2007ء میں حضور نے متعدد طلباء اور طالبات کو میڈلز عطا فرمائے.اسی طرح جلسہ سالانہ جرمنی 2007 ء کے موقع پر تقسیم انعامات کی تیسری تقریب میں حضور نے 55 طلباء اور 32 طالبات میں تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والوں میں اسناد اور میر تقیہ الفضل 13 ستمبر 2007 می 4,3) فرمائے.
580 انٹرنیٹ وغیرہ کے مضر پہلوؤں سے بچنے کی تحریکات کمپیوٹر، انٹر نیٹ اور سینکڑوں رنگوں کی جدید ترین سائنسی ایجادات نے دنیا بدل کر رکھ دی ہے اور انسان کو راحت وسکون کے ساتھ باہم متحد کرنے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے مگر افسوس ہے کہ انسانوں کی ایک بڑی بھاری اکثریت اس سے نقصان اٹھانے میں پیش پیش ہے.چنانچہ 2006ء کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں فحاشی کی صنعت سے 57 ارب ڈالر کمائے جاتے ہیں.ویڈیو فلموں سے 20 ارب مخش رسالوں سے ساڑھے سات ارب پخش فون کال سروس سے ساڑھے چار ارب، انٹرنیٹ کی فحاشی سے اڑھائی ارب ڈالر ہی ڈی روم سے ڈیڑھ ارب ڈالر ، کلبوں سے 5 ارب ڈالر کمائے جاتے ہیں.ان کی کمائی دنیا کے تمام کھیلوں کی مجموعی آمد سے زیادہ ہے.رپورٹ بتاتی ہے کہ اس وقت 42 لاکھ فحش سائٹس موجود ہیں روزانہ 7 کروڑ لوگ ان تک رسائی حاصل کرتے ہیں.روزانہ اڑھائی ارب فخش ای میلز ہوتی ہیں.ہر ماہ ڈیڑھ ارب بخش صفحات لوگ اپنے کمپیوٹر پر ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں.جو کل مواد کا 35% ہے.روزانہ کمپیوٹر پر ہونے والی چیٹ 89% ایسی ہوتی ہیں جن میں جنسی ترغیبات دی جاتی ہیں.اس مکروہ کا روبار کا سب سے زیادہ شکار 8 تا 16 سال کی عمر کے 90% فیصد بچے ہیں.روزانہ ایک کروڑ عورتیں ایسی فحش سائٹس پر جاتی ہیں.( روزنامہ نوائے وقت 2 جون 2006ء) ان اعدادوشمار سے صاف ظاہر ہے کہ کس طرح عفت اور اخلاق کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں.اس کی ہزاروں مکر وہ مثالوں میں سے صرف ایک مثال راولپنڈی کی ہے.مکروہ نیٹ کیفے : راولپنڈی شہر کی ایک مارکیٹ میں کسی صاحب نے نیٹ کیفے بنایا، انہوں نے چھوٹے چھوٹے کیبن بنائے ، ان میں کمپیوٹر رکھے اور کیبن کو دروازے لگا دیئے.یہ دروازے اندر سے لاک ہو جاتے تھے، کیپینز کے اوپر انہوں نے لائٹیں لگائیں اور ان لائٹس میں خفیہ کیمرے چھپا دیے.کیفے کھلا تو چند ہی روز میں وہاں نوجوان لڑکے لڑکیاں آنا شروع ہو گئے.یہ نوجوان جوڑوں کی شکل میں آتے.کیبن میں جاتے اسے اندر سے بند کرتے ، کمپیوٹر پر گندی سائٹس دیکھتے.کیفے کی انتظامیہ نو جوانوں کی
581 حرکات ریکارڈ کر لیتی بعد ازاں ان جوڑوں کو یہ فلم دکھائی جاتی اور انہیں بلیک میل کر کے ان سے گھناؤنے کام لئے جاتے.یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ ایسے 25 نوجوان جوڑوں کی سی ڈی پاکستان سے دوبئی گئی وہاں وہ دس لاکھ روپے میں بکی.اس کی کا پیاں ہوئیں یہ کا پیاں برطانیہ، امریکہ، فرانس اور جرمنی گئیں اور وہاں سے واپس پاکستان آئیں.شروع شروع میں یہ سی ڈی کراچی ، لاہور اور اسلام آباد میں چار پانچ ہزار میں فروخت ہوتی رہی.اسی آمد و رفت کے دوران یہ سی ڈی کسی گینگ کے چڑھ گئی.اس گینگ نے ان 25 خاندانوں کا سراغ لگایا اور سی ڈی کی کا پیاں ان جوڑوں کے گھروں تک پہنچا دیں.بس اس حرکت کی دیر تھی تیل پر چنگاری آگری اور اس سکینڈل کی شکار تین لڑکیوں نے خود کشی کر لی.ایک کو والد نے قتل کر دیا، دوشادی شدہ خواتین کو طلاق ہو گئی جبکہ لڑکے گھروں سے بھاگ گئے.اس سی ڈی میں شامل چند نو جوانوں کا تعلق راولپنڈی کے انتہائی معزز گھرانوں سے تھا.یہ معزز گھرانے اس گینگ کا چارہ بن گئے اور اب مسلسل بلیک میل ہورہے ہیں.(روز نامہ جنگ 28 را پریل 2004 ء ادارتی صفحہ ) لغویات سے بچنے کی تحریک ان حالات میں ایک جماعت احمدیہ ہے جس کا سر براہ اور امام ان تمام بدنتائج پر نظر رکھتا اور جماعت کی راہنمائی کرتا ہے.چنانچہ وہ نہایت حکمت کے ساتھ سائنسی ایجادات سے استفادہ کی طرف جماعت کے قدم مسلسل آگے بڑھا رہا ہے.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ نے متعدد مرتبہ جماعت کو انٹرنیٹ کے نقصان دہ پہلوؤں سے آگاہ کیا.خطبہ جمعہ 20 راگست 2004ء میں فرمایا.انٹرنیٹ کا غلط استعمال ہے یہ بھی ایک لحاظ سے آجکل کی بہت بڑی لغو چیز ہے.اس نے بھی کئی گھروں کو اجاڑ دیا ہے.ایک تو یہ رابطے کا بڑا سستا ذریعہ ہے پھر اس کے ذریعہ سے بعض لوگ پھرتے پھراتے رہتے ہیں اور پتہ نہیں کہاں تک پہنچ جاتے ہیں.شروع میں شغل کے طور پر سب کام ہورہا ہوتا ہے پھر بعد میں یہی شغل عادت بن جاتا ہے اور گلے کا ہار بن جاتا ہے چھوڑ نا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ یہ بھی ایک قسم کا نشہ ہے اور نشہ بھی لغویات میں ہے.کیونکہ جو اس پر بیٹھتے ہیں بعض دفعہ جب عادت پڑ جاتی ہے تو فضولیات کی تلاش میں گھنٹوں بلاوجہ، بے مقصد وقت ضائع کر رہے ہوتے ہیں.تو یہ سب
582 لغو چیزیں ہیں.آجکل بعض ویب سائٹس ہیں جہاں جماعت کے خلاف یا جماعت کے کسی فرد کے خلاف گندے غلیظ پرا پیگنڈے یا الزام لگانے کا سلسلہ شروع ہوا ہوا ہے.تو لگانے والے تو خیر اپنی دانست میں یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں، اپنی عقل کے مطابق کہ یہ مغلظات بک کے وہ جماعت کو کوئی نقصان پہنچا رہے ہیں حالانکہ ان کی ان لغویات پر کسی کی بھی کوئی نظر نہیں ہوتی.جماعت کا شاید اعشاریہ ایک فیصد بھی طبقہ اس کو نہ دیکھتا ہو، اس کو شاید پتہ بھی نہ ہو.تو بہر حال یہ تمام لغویات ہیں اس لئے وہ جوان گندے غلیظ الزاموں کے جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں، بعض نوجوانوں میں یہ جوش پیدا ہو جاتا ہے تو اس جوش کی وجہ سے وہ جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں ان کو بھی اس سے بچنا چاہئے.جماعت کی اپنی ایک ویب سائٹ ہے اگر کوئی اعتراض کسی کی نظر میں قابل جواب ہو کسی کی نظر سے گزرے تو وہ اعتراض انہیں بھیج دینا چاہئے.انٹرنیٹ پر بیٹھے ہوتے ہیں پتہ ہے اس کا پتہ کیا ہے.اور اگر کسی کے ذہن میں اس اعتراض کا کوئی جواب آیا ہو تو وہ جواب بھی بے شک بھیج دیں.لیکن وہاں پر خود کسی کے اعتراض کا جواب نہیں دینا.ہو سکتا ہے آپ کو جواب دینا صحیح نہ آتا ہو کیونکہ جہاں آپ بھیجیں گے خود ہی چیک کر لیں گے.پہلی بات تو یہ ہے کہ اس اعتراض کا جواب دینا بھی ہے کہ نہیں یا اس معاملے میں پڑنا صرف لغویات یا صرف وقت کا ضیاع ہی ہے.کیونکہ اعتراض کرنے والے کی اصلاح تو ہونی نہیں ہوتی کیونکہ اگر ان کا یہ مقصد ہو، یہ نیت ہو کہ انہوں نے اپنی اصلاح کرنی ہے یا کوئی فائدہ اٹھانا ہے تو پھر اتنی غلیظ اور گندی زبان استعمال نہیں ہوتی ، شریفانہ زبان استعمال کی جاتی ہے اور بعض اعتراضوں کے جواب کا تو دوسروں کو فائدہ بھی نہیں ہوتا.پھر جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ اگر کسی کے پاس جواب ہو تو اس جماعتی نظام کے تحت جواب بھیج دیں خود ہی نظام اس کو دیکھ لے گا کہ آیا جو جواب آپ نے بھیجا ہے درست ہے یا اس سے بہتر جواب دیا جا سکتا ہے.تو بہر حال مقصد یہ ہے کہ جماعت کے کسی بھی فرد کا وقت بلا مقصد ضائع نہیں ہونا چاہئے اس لئے جس حد تک ان لغویات سے بچا جا سکتا ہے، بچنا چاہئے اور جو اس ایجاد کا بہتر مقصد ہے اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے.علم میں اضافے کے لئے انٹرنیٹ کی ایجاد کو استعمال کریں.یہ نہیں ہے کہ یا اعتراض والی ویب سائٹس تلاش کرتے رہیں یا انٹرنیٹ پر بیٹھ کے مستقل باتیں کرتے رہیں.آجکل چیٹنگ (Chatting) جسے کہتے ہیں.بعض دفعہ یہ چیٹنگ مجلسوں کی شکل اختیار کر جاتی ہے اس میں بھی پھر
583 لوگوں پر الزام تراشیاں بھی ہو رہی ہوتی ہیں، لوگوں کا مذاق بھی اڑایا جا رہا ہوتا ہے تو یہ بھی ایک وسیع پیمانے پر مجلس کی ایک شکل بن چکی ہے اس لئے اس سے بھی بچنا چاہئے.الفضل 12 اکتوبر 2004ء) انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے بچنے کی کوشش کریں حضور انور نے سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ یو.کے موقع پر 19 اکتوبر 2003ء کو اپنے خطاب میں فرمایا:.بعض لڑکے لڑکی بن کر بات چیت کر رہے ہوتے ہیں.جب جماعت کا تعارف ہو جائے تو لڑکی خوش ہو جاتی ہے کہ چلو تبلیغ ہورہی ہے.اگر آپ کی نیت صاف ہے تو دوسری طرف جولڑکا لڑکی بن کر بیٹھا ہوا ہے آپ کو کیا پتہ کہ اس کی کیا نیت ہے.پھر بعض اوقات تصویروں کے تبادلے شروع ہو جاتے ہیں بعض جگہوں پر رشتے بھی ہوئے ہیں اور بھیانک نتائج سامنے آئے ہیں.انٹرنیٹ ایک معاشرتی برائی بن کر سامنے آ رہا ہے اگر تبلیغ ہی کرنی ہے تو لڑکیاں لڑکیوں ہی کو تبلیغ کریں ،لڑکوں کو نہ کریں یہ کام لڑکوں کے لئے ہی رہنے دیں والدین اس بات پر نظر رکھیں کہ کھلے طور پر انٹرنیٹ کے رابطے نہیں ہونے چاہئیں جو شعور کی عمر کے ہیں وہ خود بھی ہوش کریں.“ نیز فرمایا ہوش کریں ورنہ یا د رکھیں کہ احمدی ماؤں کو کوکھ سے نکلنے والے بچے آپ غیروں کی گود میں دے رہی ہوں گی.خطبہ جمعہ 30 جنوری 2004ء میں فرمایا: (الفضل 8 مارچ 2004ء ) | ایسے ملازمین یا ملازمائیں جو رکھی جاتی ہیں ان سے احتیاط کرنی چاہئے اور بغیر تحقیق کے نہیں رکھنی چاہئی.اب اس طرح کا کام بری عورتوں والا انٹرنیٹ نے بھی شروع کر دیا ہے جرمنی وغیرہ اور بعض دیگر ممالک میں ایسی شکایات پیدا ہوتی ہیں کہ بعض لوگوں کے گروہ بنے ہوئے ہیں.جو آہستہ آہستہ پہلے علمی باتیں کر کے یا دوسری باتیں کر کے چارہ ڈالتے ہیں اور پھر دوستیاں پیدا ہوتی ہیں اور پھر غلط راستوں پر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے میں متعدد بار انٹر نیٹ کے رابطوں کے بارہ میں احتیاط کا کہہ
584 چکا ہوں.بعد میں پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا یہ باپوں کی بھی ذمہ داری ہے.یہ ماؤں کی بھی ذمہ داری ہے کہ انٹرنیٹ کے رابطوں کے بارے میں بچوں کو ہوشیار کر میں خاص طور پر بچیوں کو.اللہ تعالیٰ (الفضل 13 دسمبر 2005ء) ہماری بچیوں کو محفوظ رکھے.آمین مخفی شرک: اسی طرح کمپیوٹر اور دیگر مصروفیات کی وجہ سے نمازوں میں سستی کے بارہ میں حضور اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 16 ستمبر 2005ء میں فرماتے ہیں.و کسی سے بھی ضرورت سے زیادہ محبت یا اپنے کسی کام میں بھی ضرورت سے زیادہ غرق ہونا اس حد تک Involve ہو جانا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ہوش ہی نہ رہے ، یہ شرک ہے.کاروباری آدمی ہے یا ملا زمت پیشہ ہے.اگر نمازوں کو بھول کر ہر وقت صرف اپنے کام کی ، پیسہ کمانے کی فکر ہی رہے تو ی بھی شرک ہے.نوجوان اگر کمپیوٹر یا دوسری کھیلوں وغیرہ یا مصروفیات میں لگے ہوئے ہیں جس سے وہ اللہ کی عبادت کو بھول رہے ہیں تو یہ بھی شرک ہے.پھر گھروں میں بعض ظاہری شرک بھی غیر محسوس طریقے سے چل رہے ہوتے ہیں، اس کا احساس نہیں ہوتا.ایک طرف تو احمدی کہلاتے ہیں گو یہ بہت کم احمدی گھروں میں ہے جبکہ دوسرے لوگوں میں بہت زیادہ ہے لیکن پھر بھی ایک آدھے گھر میں بھی کیوں ہو.ایسے گھروں میں بعض دفعہ ایسی فلمیں دیکھ رہے ہوتے ہیں جن میں گند اور غلاظت کے علاوہ دیویوں اور دیوتاؤں کی پوجا کو دکھایا جا رہا ہوتا ہے.پھر ان مورتیوں کو جو پوجنے والے ہیں یہ لوگ اپنے گھروں میں ان چیزوں کو رکھتے ہیں، شیلفوں میں سجا کر رکھا ہوتا ہے یا بعض خاص جگہ پر رکھا ہوتا ہے.تو ڈراموں میں دیکھ دیکھ کر ان کے دیکھا دیکھی بعض اپنے گھروں میں بھی ان مورتیوں کو سجا لیتے ہیں.بازار میں ملنے لگ گئی ہیں کہ سجاوٹ کر رہے ہیں.اپنے گھروں میں ڈرائنگ رومز وغیرہ میں شیلفوں میں رکھ لیتے ہیں.تو پھر ان فلموں کو دیکھنے کی وجہ سے آہستہ آہستہ یہ احساس ختم ہو جاتا ہے.ان مورتیوں کو گھروں میں رکھنے کی وجہ سے، چاہے سجاوٹ کے طور پر ہی ہوں ، احساس مرجاتا ہے.اور اگر کسی گھر میں عبادتوں میں سستی ہے، نمازوں میں سستی ہے تو ایسے گھروں میں پھر بڑی تیزی سے گراوٹ کے سامان پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں.پس ہر احمدی کو نہ صرف ان لغویات سے پر ہیز کرنا ہے بلکہ اپنی عبادتوں کے معیار کو بھی
585 اوپر لے کر جانا ہے.ہم ہر نماز میں اياك نعبد واياك نستعین کی دعا مانگتے ہیں کہ اے خدا ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں یا تیری ہی عبادت کرنا چاہتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں کہ ہمیں عبادت کرنے والا بنا اور جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا ہے یقیناً اس کو ہر قسم کے شرک سے پاک ہونا چاہئے.پس اس لحاظ سے بھی ہر احمدی کو اپنے دل کو ٹولنا چاہئے کہ ایک طرف تو ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا بننے کی خدا تعالیٰ سے دعا مانگ رہے ہیں دوسری طرف دنیا داری کی طرف ہماری نظر اس طرح ہے کہ ہم اپنی نمازیں تو چھوڑ دیتے ہیں لیکن اپنے کام کا حرج نہیں ہونے دیتے.اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ میں رازق ہوں اور اپنی عبادت کرنے والوں کے لئے رزق کے راستے کھولتا ہوں.لیکن ہم منہ سے تو یہ کہتے ہیں کہ یہ بات سچ ہے حق ہے لیکن ہمارے عمل اس کے الٹ چل رہے ہیں.( الفضل 7 فروری 2006ء ) وڈیو فلمیں: اسی طرح بیہودہ وڈیوفلموں کے بارہ میں فرمایا: اب تو گانے وغیرہ سے بڑھ کر بیہودہ فلموں تک نوبت آ گئی ہے.اس بارے میں عورتوں اور مردوں دونوں کو یکساں احتیاط کی ضرورت ہے، دونوں کو احتیاط کرنی چاہئے.دکانیں کھلی ہوئی ہیں، جا کے ویڈیو کیسٹ لے آئیں یا سیڈیز لے آئیں، اور پھر انتہائی بیہودہ اور لچر قسم کی فلمیں اور ڈرامے ان میں ہوتے ہیں.جماعتی نظام کو بھی اور ذیلی تنظیموں کو بھی اس بارہ میں نظر رکھنی چاہئے اور اس کے نتائج سے لوگوں کو ، بچوں کو آگاہ کرتے رہنا چاہئے ، سمجھانا چاہئے.کیونکہ اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ یہ چیزیں بالآ خر غلط راستوں پر لے جاتی ہیں.(الفضل 13 دسمبر 2005ء) اسی طرح شادی کے موقع پر ڈانس کے متعلق فرمایا اگر کہیں شادی بیاہ وغیرہ میں اس قسم کی اطلاع ملتی ہے کہ کہیں ڈانس وغیرہ یا ناچ ہوا ہے تو وہاں بہر حال نظام کو حرکت میں آنا چاہئے اور ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے.(الفضل 13 دسمبر 2005ء ) خلافت رابعہ میں ایسوسی ایشن آف احمدی کمپیوٹر پروفیشنلز قائم ہوئی تھی جواب دنیا کے کئی ممالک میں فعال ہو چکی ہے.اس میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں جو ایم ٹی اے اور دوسرے کئی جماعتی
586 ہوں میں مفید خدمات سرانجام دے رہے ہیں.مفید جماعتی لٹریچر نظمیں اور دعوت الی اللہ سے مواد مل تیار کر کے احد یہ ویب سائٹ پر بھیج رہے ہیں نیز مختلف قسم کی سیٹس اوری ڈیز تیار کی جارہی ہیں.اسی تنظیم کی طرف سے سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الرابع کے خطبات کے علاوہ حضور کی درس القرآن کلاسز کی DVD کا سیٹ تیار کیا ہے جو دلوں میں پاک تبدیلیاں پید کرنے کا موجب ہے.25 دسمبر 2006ء کو حضور نے خدام الاحمدیہ جرمنی کی عاملہ کو ہدایات دیتے ہوئے فرمایا:.دنیا میں پڑھنے کا رواج کم ہو چکا ہے اس لئے جماعتی تعلیمات پرمبنی سی ڈی وغیرہ تیار کریں جولوگ سفر کے دوران اپنی گاڑیوں میں سن سکیں یا اپنے گھروں میں سن سکیں.(الفضل 6 جنوری 2007 ص6) چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کئی کتب کی آڈیو تیار ہو چکی ہے.جن سے احباب استفادہ کر رہے ہیں.
587 صفائی اور شجر کاری کے متعلق تحریکات ترقی کا پہلا زینہ صفائی اور نظافت ہے اسی لئے رسول کریم ﷺ نے اسے ایمان کا نصف حصہ قرار دیا ہے.آپ کا لایا ہوا دین پہلا مذہب ہے جس نے ماحول کی صفائی کو عبادت کا درجہ دیا اور شجر کاری کو معاشرے کا باقاعدہ حصہ بنایا.فرانس کا پہلا ٹائلٹ 1582ء میں بنا اور 1902ء میں پیرس کے لوگوں کو نہانے پر مجبور کرنے کے لئے با قاعدہ قانون سازی کی گئی جبکہ قرطبہ کی اسلامی حکومت نے 785ء میں شہر کا پہلا سیوریج سسٹم بنایا تھا اور اموی دور میں قرطبہ کے ہر گھر میں ٹائلٹ اور غسل خانہ ہوتا تھا.15 ویں صدی میں اندلس کی اسلامی ریاست کے زوال کے بعد غرناطہ کے محل سے بادشاہ فرڈینینڈ نے ایک غسل خانہ اکھاڑا اور ملکہ از ابیلہ کو تحفہ میں دیا تھا.(روز نامہ ایکسپریس 13 اکتوبر 2006ء) صفائی کی شاندار دینی روایات کو قائم رکھنے کے لئے خلفاء سلسلہ مسلسل تاکید کرتے رہے.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی صفائی کے متعلق متعدد بار تا کید فرمائی.مرکز سلسلہ کے لئے خصوصی تحریک قادیان اور ر بوہ سمیت تمام احمدی آبادی کو خصوصیت سے صفائی کی طرف متوجہ کرتے ہوئے حضور نے خطبہ جمعہ 23 راپریل 2004ء میں فرمایا:.ربوہ میں، جہاں تقریباً 98 فیصد احمدی آبادی ہے، ایک صاف ستھرا ماحول نظر آنا چاہئے.اب ما شاء اللہ تزئین ربوہ کمیٹی کی طرف سے کافی کوشش کی گئی ہے.ربوہ کوسرسبز بنایا جائے اور بنا بھی رہے ہیں.کافی پودے، درخت گھاس وغیرہ سڑکوں کے کنارے لگائے گئے ہیں اور نظر بھی آتے ہیں.اکثر آنے والے ذکر کرتے ہیں اور کافی تعریف کرتے ہیں.کافی سبزہ ربوہ میں نظر آتا ہے.لیکن اگر شہر کے لوگوں میں یہ حس پیدا نہ ہوئی کہ ہم نے نہ صرف ان پودوں کی حفاظت کرنی ہے بلکہ ارد گرد کے ماحول کو بھی صاف رکھنا ہے تو پھر ایک طرف تو سبزہ نظر آرہا ہوگا اور دوسری طرف کوڑے کے ڈھیروں سے بد بو کے بھبھا کے اٹھ رہے ہوں گے.اس لئے اہل ربوہ خاص توجہ دیتے ہوئے اپنے گھروں کے
588 سامنے نالیوں کی صفائی کا بھی اہتمام کریں اور گھروں کے ماحول میں بھی کوڑا کرکٹ سے جگہ کو صاف کرنے کا بھی انتظام کریں.تا کہ کبھی کسی راہ چلنے والے کو اس طرح نہ چلنا پڑے کہ گند سے بچنے کے لئے سنبھال سنبھال کر قدم رکھ رہا ہو اور ناک پر رومال ہو کہ بو آرہی ہے.اب اگر جلسے نہیں ہوتے تو یہ مطلب نہیں کہ ربوہ صاف نہ ہو بلکہ جس طرح حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے فرمایا تھا کہ دلہن کی طرح سجا کے رکھو.یہ سجاوٹ اب مستقل رہنی چاہئے.مشاورت کے دنوں میں ربوہ کی بعض سڑکوں کو سجایا گیا تھا.تزئین ربوہ والوں نے اس کی تصویریں بھیجی ہیں، بہت خوبصورت سجایا گیا لیکن ربوہ کا اب ہر چوک اس طرح سجنا چاہئے تا کہ احساس ہو کہ ہاں ربوہ میں صفائی اور خوبصورتی کی طرف توجہ دی گئی ہے اور ہر گھر کے سامنے صفائی کا ایک اعلیٰ معیار نظر آنا چاہئے اور یہ کام صرف تزئین کمیٹی نہیں کرسکتی بلکہ ہر شہری کو اس طرف توجہ دینی ہوگی.اسی طرح قادیان میں بھی احمدی گھروں کے اندر اور باہر صفائی کا خاص خیال رکھیں.ایک واضح فرق نظر آنا چاہئے.گزرنے والے کو پتہ چلے کہ اب وہ احمدی محلے یا احمدی گھر کے سامنے سے گزر رہا ہے.اس وقت تو مجھے پتہ نہیں کہ کیا معیار ہے، 91ء میں جب میں گیا ہوں تو اس وقت شاید اس لئے کہ لوگوں کا رش زیادہ تھا، کافی مہمان بھی آئے ہوئے تھے لگتا تھا کہ ضرورت ہے اس طرف توجہ دی جائے اور میرے خیال میں اب بھی ضرورت ہوگی.اس طرف خاص توجہ دیں اور صفائی کا خیال رکھیں اور جہاں بھی نئی عمارات بن رہی ہیں اور تنگ محلوں سے نکل کر جہاں بھی احمدی کھلی جگہوں پر اپنے گھر بنارہے ہیں وہاں صاف ستھرا بھی رکھیں اور سبزے بھی لگائیں ، درخت پودے گھاس وغیرہ لگنا چاہئے اور یہ صرف قادیان ہی کے لئے نہیں ہے بلکہ اور جماعتی عمارات ہیں ان میں خدام الاحمدیہ کو خاص طور پر توجہ دینی چاہئے کہ وہ وقار عمل کر کے ان جماعتی عمارات کے ماحول کو بھی صاف رکھیں اور وہاں پھول پودے لگانے کا بھی انتظام کریں اور صرف قادیان میں نہیں بلکہ دنیا میں ہر جگہ جہاں بھی جماعتی عمارات ہیں ان کے اردگرد خاص طور پر صفائی اور سبزہ اس طرح نظر آئے کہ ان کی اپنی ایک انفرادیت نظر آتی ہو.پہلے میں تیسری دنیا کی مثالیں دے چکا ہوں صرف یہ حال وہاں کا نہیں بلکہ یہاں یورپ میں بھی میں نے دیکھا ہے، جن گھروں میں بھی گیا ہوں پہلے کبھی یا اب، کہ جو بھی چھوٹے چھوٹے آگے پیچھے صحن ہوتے ہیں ان کی کیاریوں میں یا گھاس ہوتا ہے یا گند پڑا ہوتا ہے.کوئی توجہ یہاں بھی
589 اکثر گھروں میں نہیں ہورہی، چھوٹے چھوٹے صحن ہیں کیاریاں ہیں، چھوٹے سے گھاس کے لان میں اگر ذراسی محنت کریں اور ہفتے میں ایک دن بھی دیں تو اپنے گھروں کے ماحول کو خوبصورت کر سکتے ہیں.جس سے ہمسایوں کے ماحول پر بھی خوشگوار اثر ہوگا اور آپ کے ماحول میں بھی خوشگوار اثر ہوگا اور پھر آپ کو لوگ کہیں گے کہ ہاں یہ لوگ ذرا منفر دطبیعت کے لوگ ہیں، عام جو ایشینز (Asians) کے خلاف ایک خیال اور تصور گندگی کا پایا جاتا ہے وہ دور ہوگا.مقامی لوگوں میں کچھ نہ کچھ پھر بھی شوق ہے وہ اپنے پودوں کی طرف توجہ دیتے ہیں جبکہ ہمارے گھر کا ماحول ان لوگوں سے زیادہ صاف ستھرا اور خوشگوار نظر آنا چاہئے اور یہاں تو موسم بھی ایسا ہے کہ ذراسی محنت سے کافی خوبصورتی پیدا کی جاسکتی (الفضل 20 جولائی 2004ء) ہے.جماعتی عمارات کی صفائی کی تحریک حضور نے خطبہ جمعہ 23 /اپریل 2004ء میں فرمایا:.صفائی کے ضمن میں ایک انتہائی ضروری بات جو جماعتی طور پر ضروری ہے وہ ہے جماعتی عمارات کے ماحول کو صاف رکھنا.اس کا پہلے میں ذکر کر چکا ہوں.اس کا باقاعدہ انتظام ہونا چاہئے اور خدام الاحمدیہ کو وقار عمل بھی کرنا چاہئے اور اگر عمارت کے اندر کا حصہ ہے تو لجنہ کو بھی اس میں حصہ لینا چاہئے اور اس میں سب سے اہم عمارات مساجد ہیں مساجد کے ماحول کو بھی پھولوں ، کیاریوں اور سبزے سے خوبصورت رکھنا چاہئے، خوبصورت بنانا چاہئے اور اس کے ساتھ ہی مسجد کے اندر کی صفائی کا بھی خاص اہتمام ہونا چاہئے.چند سال پہلے حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے بڑا تفصیلی خطبہ اس ضمن میں دیا تھا اور توجہ دلائی تھی.کچھ عرصہ تک تو اس پر عمل ہوا لیکن پھر آہستہ آہستہ اس پر توجہ کم ہو گئی.خاص طور پر پاکستان اور ہندوستان میں مساجد کے اندر ہال کی صفائی کا بھی باقاعدہ انتظام ہو.تنکوں کی وہاں صفیں بچھی ہوتی ہیں.صفیں اٹھا کر صفائی کی جائے ، وہاں دیواروں پر جالے بڑی جلدی لگ جاتے ہیں، جالوں کی صفائی کی جائے.پنکھوں وغیرہ پر مٹی نظر آرہی ہوتی ہے وہ صاف ہونے چاہئیں.غرض جب آدمی مساجد کے اندر جائے تو انتہائی صفائی کا احساس ہونا چاہئے کہ ایسی جگہ آ گیا ہے جو دوسری جگہوں سے مختلف ہے اور منفرد ہے اور جن مساجد میں قالین وغیرہ بچھے ہوئے ہیں وہاں بھی
590 صفائی کا خیال رکھنا چاہئے.لمبا عرصہ اگر صفائی نہ کریں تو قالین میں بو آنے لگ جاتی ہے ہمٹی چلی جاتی ہے.خاص طور پر جمعے کے دن تو بہر حال صفائی ہونی چاہئے اور پھر حدیثوں میں آیا ہے کہ دھونی وغیرہ دے کر ہوا کو بھی صاف رکھنا چاہئے اس کا بھی باقاعدہ انتظام ہونا چاہئے.لیکن مساجد میں خوشبو کے لئے بعض لوگ اگر بتیاں جلا لیتے ہیں.بعض دفعہ اس کا نقصان بھی ہو جاتا ہے، پاکستان میں ایک مسجد میں اگر یتی کسی نے لگا دی اور آہستہ آہستہ الماری کو آگ لگ گئی نقصان بھی ہوا.ایک تو یہ احتیاط ہونی چاہئے کہ جب موجود ہوں تب ہی لگے.دوسرے بعض اگر بتیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں اتنی تیز خوشبو ہوتی ہے کہ دوسروں کے لئے بجائے آرام کے تکلیف کا باعث بن جاتی ہیں.اس سے اکثر کو سر درد شروع ہو جاتی ہے.تو ایسی چیز لگانی چاہئے یا دھونی دینی چاہئے جو ذرا ہلکی ہو.خدام الاحمدیہ کی ذمہ داری: الفضل 20 جولائی 2004 ء ) حضور نے 25 دسمبر 2006ء کو مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ جرمنی کو ہدایات دیتے ہوئے فرمایا :.جماعتی بلڈنگز میں خدام الاحمدیہ کو پھول پھلواڑیاں لگانے کا کام سنبھالنا چاہئے.جیسا کہ میرے توجہ دلانے پر خدام الاحمدیہ یو.کے نے اسلام آباد میں گھاس کی کٹنگ اور پھول پودوں کا انتظام سنبھالا ہوا الفضل 6 جنوری 2007ء) ہے.اطفال کے نام پیغام شجر کاری سے متعلق ربوہ کے بچوں کے نام ایک پیغام میں 7 جون 2003ء کوحضور نے فرمایا:.حضرت مصلح موعودؓ کی خواہش تھی کہ میں نے رویا میں دیکھا تھا.ربوہ کی زمین کے متعلق کہ باقی جگہ تو یہی لگتی ہے لیکن یہاں سبزہ نہیں ہے، Greenery نہیں ہے وہ امید ہے انشاء اللہ ہو جائے گی.حضرت مصلح موعودؓ نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس بارے میں ربوہ کے لوگ بہت کوشش کر رہے ہیں، خاص طور پر اطفال اور خدام نے بہت کوشش کی ہے انہوں نے وقار عمل کر کے، ربوہ کو آباد کرنے کی کوشش کی ہے.لوگ آکے حیران ہوتے ہیں.آپ جیسی چھوٹی عمر کے بچوں نے وقار عمل کر کے وہاں پودے لگائے ہیں اور ان کو سنبھالا ہے.تو اب میری بچوں سے یہی
591 درخواست ہے.یہی میں کہوں گا یہی نصیحت ہے کہ جو پودے آپ نے لگائے ہیں ان کی حفاظت کریں اور مزید پودے لگائیں.درخت لگائیں پھولوں کی کیاریاں بنائیں اور ربوہ کو اس طرح سرسبز اور Green Lush ( شاداب) کر دیں جس طرح حضرت مصلح موعودؓ کی خواہش تھی.یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں ان پر عمل کریں ایک تو یہ کہ ربوہ کے ماحول کو سر سبز کریں گے تو ماحول پر ایک خوشگوار اثر ہو گا.عمومی طور پر لوگوں کی توجہ ہوگی اور ایک نمونہ نظر آئے گا کہ یہاں کے بچے اور بڑے محنت سے اس شہر کو آباد کر رہے ہیں.جبکہ پاکستان میں باقی جگہوں پہ جب تک حکومت مدد نہ کرے کوئی اتنا سبزہ نہیں کر سکتا.بلکہ باوجود مدد کے بھی نہیں کر سکتا.(الفضل 10 جون 2003ء)
592 صد سالہ خلافت احمد یہ جو بلی کے لئے دعاؤں کی تحریک دورہ افریقہ سے واپسی پر حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 27 مئی 2005ء کو ایک معرکۃ الآراء خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں خلافت کے خلاف اٹھنے والے بعض فتنوں کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے خلافت احمدیہ کی صد سالہ خلافت جوبلی کے سلسلہ میں دعاؤں کے ایک عظ الشان منصوبے کا اعلان فرمایا.حضور نے خلافت کے متعلق جماعت کے اخلاص کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.حضرت مصلح موعودؓ ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ ”میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت احمد یہ ایمان بالخلافت پر قائم رہی اور اس کے قیام کے لئے صحیح جد و جہد کرتی رہی تو خدا تعالیٰ کے فضل سے قیامت تک یہ سلسلہ خلافت قائم رہے گا اور کوئی شیطان اس میں رخنہ اندازی نہیں کر سکے گا.پس ہر احمدی کو اس بات کو ہمیشہ سامنے رکھتے ہوئے دعاؤں کے ذریعہ سے ان فضلوں کو سمیٹنا چاہئے جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود سے فرمایا ہے.اپنے بزرگوں کی اس قربانی کو یاد کریں اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ انہوں نے جو قیام اور استحکام خلافت کے لئے بھی بہت قربانیاں دیں.آپ میں سے بہت بڑی تعداد جو میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں یا جو میری زبان میں میری باتیں سمجھ سکتے ہیں اپنے اندر خاص تبدیلیاں پیدا کریں.پہلے سے بڑھ کر ایمان و اخلاص میں ترقی کریں.ان لوگوں کی طرف دیکھیں جو با وجود زبان براه راست نہ سمجھنے کے، باوجود بہت کم رابطے کے، بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے زندگی میں پہلی دفعہ کسی خلیفہ کو دیکھا ہوگا اخلاص و وفا میں بڑھ رہے ہیں.مثلاً یوگنڈا میں ہی جب ہم اترے ہیں اور گاڑی باہر نکلی تو ایک عورت اپنے بچے کو اٹھائے ہوئے ، دواڑھائی سال کا بچہ تھا، ساتھ ساتھ دوڑتی چلی جارہی تھی.اس کی اپنی نظر میں بھی پہچان تھی ، خلافت اور جماعت سے ایک تعلق نظر آرہا تھا، وفا کا تعلق ظاہر ہو رہا تھا.اور بچے کی میری طرف توجہ نہیں تھی تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کا منہ اس طرف پھیر تی تھی کہ دیکھو اور کافی دور تک دوڑتی گئی.اتنا رش تھا کہ اس کو دھکے بھی لگتے رہے لیکن اس نے
593 پرواہ نہیں کی.آخر جب بچے کی نظر پڑ گئی تو بچہ دیکھ کے مسکرایا.ہاتھ ہلایا.تب ماں کو چین آیا.تو بچے کے چہرے کی جو رونق اور مسکراہٹ تھی وہ بھی اس طرح تھی جیسے برسوں سے پہچانتا ہو.تو جب تک ایسی مائیں پیدا ہوتی رہیں گی جن کی گود میں خلافت سے محبت کرنے والے بچے پروان چڑھیں گے اس وقت تک خلافت احمدیہ کو کوئی خطرہ نہیں.تو جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ تو کسی کا رشتہ دار نہیں ہے.وہ تو ایسے ایمان لانے والوں کو جو عمل صالح بھی کر رہے ہوں، اپنی قدرت دکھاتا ہے اور اپنے وعدے پورے کرتا ہے.پس اپنے پر رحم کریں ، اپنی نسلوں پر رحم کریں اور فضول بحثوں میں پڑنے کی بجائے یا ایسی بحثیں کرنے والوں کی مجلسوں میں بیٹھنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے حکم پر اور وعدے پر نظر رکھیں اور حضرت مسیح موعود کی جماعت کو مضبوط بنا ئیں.جماعت اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت پھیل چکی ہے اس لئے کسی کو یہ خیال نہیں آنا چاہئے کہ ہمارا خاندان ، ہمارا ملک یا ہماری قوم ہی احمدیت کے علمبردار ہیں.اب احمدیت کا علمبر دار وہی ہے جو نیک اعمال کرنے والا ہے اور خلافت سے چمٹا رہنے والا ہے.تین سال کے بعد خلافت کو 100 سال بھی پورے ہورہے ہیں.جماعت احمدیہ کی صد سالہ جو بلی ے پہلے حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے جماعت کو بعض دعاؤں کی طرف توجہ دلائی تھی تحریک کی تھی.میں بھی اب ان دعاؤں کی طرف دوبارہ توجہ دلاتا ہوں.(الفضل 5 جولائی 2005ء) اس کے بعد حضور نے دعاؤں کا منصو بہ بیان فرمایا اور بعد میں ان کی کم از کم تعداد بھی معین فرما دی.اس کی تفصیل یہ ہے.سورۃ فاتحہ (روزانہ کم از کم 7 مرتبہ ) رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتُ أَقْدَامَنَا وَانْصُرُنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينِ روزانہ کم از کم گیارہ مرتبه ) ( ترجمہ ) اے ہمارے رب! ہم پر صبر نازل کر اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور کا فرقوم کے خلاف ہماری مدد کرے.رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ (روزانہ کم از کم 33 مرتبہ ) الْوَهَّابِ
594 (ترجمہ) اے ہمارے رب! ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے بعد اس کے کہ تو ہمیں ہدایت دے چکا ہو اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر.یقینا تو ہی ہے جو بہت عطا کرنے والا ہے.اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نَحُوْرِهِم وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ (روزانہ کم از کم گیارہ مرتبه ) ( ترجمہ ) اے اللہ ہم تجھے ان (دشمنوں) کے سینوں میں کرتے ہیں ( یعنی تیرا رعب ان کے سینوں میں بھر جائے ) اور ہم ان کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں.اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّي مِنْ كُلِّ ذَنْبِ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ (روزانہ کم از کم 33 مرتبہ ) (ترجمہ) میں بخشش مانگتا ہوں اللہ سے جو میرا رب ہے ہر گناہ سے اور میں جھکتا ہوں اسی کی طرف.سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمّدٍ وَآلِ روزانہ کم از کم 33 مرتبہ ) مُحَمَّدٍ ( ترجمہ ) اللہ تعالیٰ پاک ہے اپنی حمد کے ساتھ اللہ پاک ہے اور بہت عظمت والا ہے.اے اللہ رحمتیں بھیج محمد علے اور آپ کی آل پر.اللهم صل على محمد و على آل محمد كما صليت على ابراهيم و على ال ابراهيم انك حميد مجيد اللهم بارك على محمد و على آل محمد كما باركت على ابراهيم و على آل ابراهيم انك حميد مجيد (روزانہ کم از کم 33 مرتبہ ) نیز ہر ماہ ایک نفلی روزہ رکھا جائے جس کے لئے ہر قصبہ، شہر یا محلہ میں آخری ہفتہ میں کوئی ایک دن مقامی طور پر مقرر کیا جائے.دو نفل روزانہ ادا کئے جائیں جو نماز عشاء کے بعد سے لے کر فجر سے پہلے تک یا نماز ظہر کے بعد ادا کئے جائیں.حضور نے فرمایا:.اس کے بعد اب میں پھر یہی کہتا ہوں کہ اگر کسی کے دل میں شر ہے تو استغفار کرے اور اسے نکال دے.حضرت مسیح موعود کی جماعت اس قدر پھیل چکی ہے اور ایمان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کر رہی ہے کہ باوجود رابطوں کی سہولیات نہ ہونے کے انشاء اللہ تعالیٰ خلافت سے دور ہٹانے کی کوئی سکیم،
595 کوئی منصوبہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا.ضمناً یہ بتادوں کہ گو میں مشرقی افریقہ کے تین ملکوں کا دورہ کر کے آیا ہوں اور وہاں اندرون ملک غریب جماعتوں تک پہنچنے کی کوشش بھی کی ہے.لیکن بعض دوسرے ممالک مثلاً ایتھوپیا، صومالیہ، برونڈی، کانگو ، موزمبیق، زیمبیا، زمبابوے وغیرہ کے لوگ بھی وفود کی شکل میں آئے ہوئے تھے اور ان سے بھی ملاقاتیں ہوئی ہیں.بعض لوگ تو سفر کی سہولتیں نہ ہونے اور کچی سڑکیں ہونے کے باوجود دو اڑھائی ہزار کلو میٹر کا سفر طے کر کے آئے تھے اور غربت کے باوجود اپنے خرچ کر کے آئے تھے.ان کی کوئی مدد نہیں کی گئی.دنیاوی لیڈروں اور بادشاہوں کے لئے بھی لوگ جمع ہو جاتے ہیں لیکن بعض جگہ ان کو گھیر کے لایا جاتا ہے.پاکستان وغیرہ میں تو اکثر اسی طرح ہوتا ہے، لے کر آجاتے ہیں اور جانے کے لئے پھر بیچاروں کے پاس پیسے نہیں ہوتے لیکن وہ اپنے ملک کے لوگ ہیں ان کے لئے اکٹھے بھی کر لیتے ہیں.لیکن ایک ایسا شخص جو نہ ان کی قوم کا ہے، نہ ان کی زبان جانتا ہے ، نہ اور کوئی چیز کا من ہے اگر مشترک ہے تو ایک چیز کہ وہ احمدی ہیں اور خلافت سے تعلق رکھنے والے ہیں.تو اسی لئے وہ اس قدر تردد کر کے آئے تھے اور یقیناً ان کو خلافت سے اور حضرت مسیح موعود سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے کی کوشش کی وجہ سے انہوں نے یہ اتنی تکلیفیں اٹھا ئیں.پس جب تک ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے اور انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے، اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق ان تمام نعمتوں سے حصہ لیتی رہے گی جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے.اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود نے ہمیں جن کے بارہ میں بتایا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر احمدی کو اخلاص و وفا اور اعمال صالحہ میں بڑھاتا چلا جائے اور ہمیشہ وہ خلافت سے جڑے رہیں.( الفضل 5 جولائی 2005 ء ) دعاؤں کی تشریح جلسہ سالانہ برطانیہ 2007 ء کے اختتامی خطاب میں حضور نے ان مقررہ دعاؤں کی تفصیل شرح و بسط سے بیان کی اور فرمایا:.پس خلافت احمدیہ کی نئی صدی میں داخل ہونے کے لئے بھی خالصتاً اس کا ہو کر دعاؤں میں وقت
596 گزارنا چاہئے تا کہ ہمیشہ اس کے انعامات کے وارث بنتے چلے جائیں.اس لئے میں نے تقریبا دو سال ہوئے خطبہ جمعہ میں خلافت کی نئی صدی کے استقبال کے لئے دعاؤں اور بعض نفلی عبادتوں کے ساتھ داخل ہونے کی تحریک کی تھی جس میں تقریباً دس ماہ کا عرصہ رہ گیا ہے جب جماعت پر اللہ تعالیٰ کے اس انعام کو سو سال پورے ہو جائیں گے.مجھے امید ہے کہ اس پر عمل بھی ہو رہا ہوگا.آج میں ان دعاؤں سے متعلق یاد دہانی کرواتے ہوئے ہر احمدی سے کہتا ہوں کہ بقایا عر صے میں ایک توجہ کے ساتھ ان دعاؤں کو پڑھیں تا کہ جب ہم اگلی صدی میں اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی کرتے ہوئے داخل ہوں تو اللہ تعالیٰ کے احسانات اور انعامات سے پہلے سے بڑھ کر جماعت احمد یہ فیض پا رہی ہو اور اللہ تعالیٰ اپنے احسانات جماعت پر نازل فرما رہا ہو.پس ہر احمدی پہلے سے بڑھ کر اپنی دعاؤں کے نذرانے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرنے والا بن جائے.ہر دعا جس کے پڑھنے کی تحریک کی گئی تھی اپنے اندر برکات سمیٹے ہوئے ہے اور خلافت کے (الفضل 29 دسمبر 2007ء) حوالے سے بھی اس کی بڑی اہمیت ہے.☆