Tehrik-eWaqf-eNau

Tehrik-eWaqf-eNau

تحریک وقف نو

خطبات
Author: Hazrat Mirza Tahir Ahmad

Language: UR

UR

حضرت مرزا طاہر احمد، خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے تائید الٰہی سے ایک نہایت بابرکت تحریک کا اجراء فرمایا جو تحریک وقف نو سے موسوم ہے۔ اس کتاب میں حضورؒ کے ان پانچ خطبات جمعہ کو مرتب کیا گیا ہے جن میں واقفین نو اوران کے والدین اور تربیت پر مامور احباب کےلئے خاطر خواہ رہنمائی کا سامان موجود ہے ۔اسلام انٹرنیشنل پبلی کیشنز کی شائع کردہ اس 118صفحات کی کتاب میں  سہولت کی خاطر ہر خطبہ جمعہ سے مضامین کا خلاصہ آغاز میں بطور فہرست درج کیا گیا ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وقف کی کیا اہمیت ہے اور واقفین زندگی کی تربیت، دینی و دنیاوی تعلیم ، مختلف زبانیں سیکھنے اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں مہارت پیداکرنے کی کتنی خاص اہمیت ہےالغرض حضور ؒ نے اپنے خطبات میں آئندہ برسوں کا جامع پروگرام مہیا فرمایاہے۔


Book Content

Page 1

ایک عظیم الشان تحریک تحریک وقف نو خطبات سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ

Page 2

پیش لفظ ۳ اپریل ۱۹۸۷ء کا دن جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس روز سید نا حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تائید الہی سے ایک بے حد بابرکت تحریک کا آغاز فرمایا جو تحریک وقف نو کے نام سے موسوم ہے.ایک مجلس عرفان میں فرمایا کہ حضور انور کے دل میں اللہ تعالٰی نے بڑے زور سے یہ خیال ڈالا کہ احمدیت کی آئندہ صدی میں اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے بے شمار راہیں کھلنے والی ہیں اور اس وقت بے شمار واقفین زندگی کی ضرورت ہوگی جو زندگی کے ہر شعبہ سے منسلک ہو کر ہمہ وقت تبلیغ اسلام میں مصروف ہوں اس عظیم مقصد کے پیش نظر تحریک وقف نو کا آغاز فرمایا گیا اپنے آقا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے دنیا کے ملک ملک سے احباب جماعت نے والہانہ انداز میں بڑے خلوص اور محبت کے جذبہ کے ساتھ اپنے اپنے جگر گوشوں کو خدا تعالیٰ کے حضور اس عظیم مقصد کے لئے پیش کرنے کی سعادت پائی وہ والدین بڑے خوش نصیب اور قابل رشک ہیں جنہیں سنت ابراہیمی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اس عظیم الشان تحریک کے تحت اپنی اولا دوں کو شامل کرنے کی سعادت حاصل ہوئی کیونکہ احمدیت کی دوسری صدی میں یہی بچے بڑے ہو کر تبلیغ اسلام کے لئے ملک ملک میں نکلیں گے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو پھیلانے اور اسلام کے جلال اور اس کی شان کے اظہار کے لئے کام کرنے والے ہوں گے اس لحاظ سے یہ بچے بہت قیمتی ہیں کیونکہ سید نا حضور انور نے انہیں ایک عظیم الشان مقصد کے لئے اپنے رب عظیم سے مانگا ہے.یہ بچے اس وقت والدین کے پاس اور یکساں طور پر نظام جماعت کے پاس خدا تعالیٰ کی ایک قیمتی امانت کے طور پر سپرد ہیں اس امانت کی حفاظت اور تعلیم و تربیت والدین اور نظام جماعت کی ذمہ داری ہے.سیدنا حضور انور نے والدین اور نظام جماعت کی ان ذمہ تحریک وقف نو “TAHRIK-E-WAQF-E-NAU SERMONS DELIVERED BY HADHRAT KHALIFATUL MASIH IV (Urdu) First published in U.K.in 1994.Present edition 1999.© ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD.Published by: ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD.Islamabad, Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ United Kingdom Printed by: Raqeem Press, Islamabad, Tilford ISBN 1 853725498

Page 3

****: داریوں کو بڑی تفصیل سے اپنے خطبات میں بیان فرمایا ہے.وقف کی اہمیت، پرورش، تربیت دینی و دنیاوی تعلیم، مختلف زبانوں کے سیکھنے کی اہمیت اور پیشوں کے انتخاب.غرضیکہ آئندہ بیس سے تیس سالوں پر محیط پروگرام عطا فرمایا ہے.احباب کی خدمت میں درخواست ہے کہ ان واقعین تو کو ہمیشہ اپنی دعاؤں میں یا درکھیں کہ یہ بڑے ہو کر وقف کی کچی روح کے ساتھ اسلام کی سربلندی اور عظمت کے لئے کام کرنے والے ہوں اور سیدنا حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تمناؤں پر پورا اترتے ہوئے خدمات دینیہ کے مقام محمود پر فائز ہوں.آمین جولائی ۱۹۹۴ء ڈاکٹر شمیم احمد انچارج شعبه وقف نو ( لندن ) ******* کیلئے ہوئے ہو رشان دقت ہیں ① *****

Page 4

صفحہ نمبر 2 3 S 6.7 9 9 11 12 14 15 17 18 20 نمبر شمار -1 2 -3 4 -6 فهرست مضامین مضامین آنحضور کی پیروی سے خدا کی محبت حاصل ہوتی ہے اطاعت رسول کی تفصیلات اور اس کا منطقی نتیجہ محبت رسول کا فقدان فسق ہے جہاد سے محبت کا اصل مفہوم محبت کی اعلی نشانی محبت رسول کی اعلیٰ حسین اور کامل تعلیم آنحضرت کے محاسن کا بکثرت ذکر ہونا چاہئے آنحضرت کی پیروی کا ایک اور مہتم بالشان پہلو آنحضرت سے کامل محبت اور آپ کی کامل پیروی کی تعلیم امیدوں کی آخری مقام تک رسائی آنحضرت سے حضرت مسیح موعود کی کامل محبت محبت الہی کی وسیع اور کامل تعلیم آنحضرت کی محبت اٹلی کا درجہ کمال وقف کامل اور اس کا ثمرہ اگلی صدی کے استقبال کیلئے ایک نہایت مبارک تحریک، تحریک وقف نو 22 جماعت کے ہر طبقہ سے لکھو کھاوا تعین آنے چاہئیں 23 -10 -11 -12 -13 -14 -15 -16 :

Page 5

1 بسم الله الرحمن الرحیم خطبہ جمعہ فرموده سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مورخه ۳ اپریل ۱۹۸۷ء مطابق ۳ شهادت بش ۱۳۹۶ بيت الفضل لندن اگلی صدی کے حقیقی استقبال کی اہمیت پیدا کرنے والی ایک نہایت مبارک تحریک آئندہ دو سالوں میں پیدا ہونیوالے بچوں کو خدا اور اس کے دین کی خاطر ابھی سے وقف کریں تاکہ واقفین بچوں کی ایک عظیم الشان فوج محمد رسول اللہ ان کے خدا کی غلام بن کر انگلی صدی میں داخل ہو رہی ہو یہ ایک تحفہ ہے جو ہم نے اگلی صدی کیلئے خدا کے حضور پیش کرتا ہے جماعت کا ہر طبقہ اس تحفہ کیلئے تیار ہونا چاہئے.دنیا بھر میں بلا استثناء جماعت کے ہر طبقہ سے لکھوکھا وا تعین زندگی آنے چاہئیں آئندہ صدی میں دین حق کو بکثرت ہر جگہ پھیلانے کے لئے لاکھوں تربیت یافتہ واقفین درکار ہوں گے در ستاد رفته

Page 6

3 2 سمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيم تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی قُلْ إِن كَانَ أَبَاؤُكُمْ وَابْنَا لَكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتَكُمْ وَأَمْوَالَ إِبْتَر وها وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَاءَهَا وَ مَسكِن مَد ب اليْكُمْ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ وَ جهاد في حنيلِهِ فَتَرَ بموا دى القوم الفقين (التوبه (۳۳) اور پھر فرمایا :- گذشتہ خطبہ میں میں نے قرآن کریم کی ایک اور آیت تلاوت کی تھی: قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله اے محمد ! یہ اعلان کر دے کہ اگر تم واقعی حقیقی اللہ سے محبت کرتے ہو یا واقعی خدا محبت کرنا چاہتے ہو فاتبعوني يُحبكم الله تو تم میری پیروی کرد یقینا خدا تم سے محبت کرنے لگے گا.اس مضمون کے کچھ پہلو میں نے گذشتہ خطبے میں بیان کئے تھے کچھ آج بیان کروں گا.لیکن اس سے پہلے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس دوسری آیت کے تابع جو میں نے ابھی تلاوت کی ہے.جب اللہ تعالیٰ کی محبت کے دعوتی کے نتیجہ میں آنحضرت ﷺ کی اتباع اور پیروی کا حکم ملا ہے تو سوال یہ ہے کہ اس میں کیا منطقی جوڑ ہے اور پھر یہ پیردی کس طرح ہو سکتی ہے کس رنگ میں پیروی کی تاکید فرمائی گئی ہے.ایک انسان ایک ملک کے قانون کی بھی اطاعت کرتا ہے اور بعض دفعہ اپنے انسٹرکٹر کی بھی پیروی کرتا ہے خواہ وہ جس موضوع پر بھی مقرر ہوا ہو اس کی نقل اتارتا ہے اور یہ دونوں قسم کی اطاعتیں محبت کے بغیر ہوتی ہیں.بسا اوقات ان میں محبت کا نہیں بلکہ نفرت کا پہلو بھی پایا جاتا ہے.چنانچہ دنیا میں بڑے بڑے ظالم ڈکٹیٹر گزرے ہیں اور آج بھی موجود ہیں جن کی کروڑوں کی تعداد میں قوموں کے افراد اطاعت کر رہے ہیں اور نفرت کے ساتھ اطاعت کر رہے ہیں.پس اگر یہ اسی قسم کا حکم ہے جیسے ایک جابر آدمی حکم صادر کر دیتا ہے کہ تم میرے قبضہ قدرت میں ہو تمہاری مجال نہیں کہ میرے حکم کی نافرمانی کر سکو اس لئے اگر تمہیں مجھ سے محبت ہے تو پھر محمد مصطفی ﷺ کی پیروی کرو.کیا نَعُوذُ بِاللهِ مِن ذلك یہ مضمون بیان ہوا ہے؟ یہ مضمون ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ آغاز اس بات سے کیا گیا ہے إن كنتم تحبون الله اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو.اس میں ڈکٹیٹر شپ اور مغلوب کے تعلقات کا کوئی تصور ہی نہیں پایا جاتا.تحبون اللہ کی شرط نے واضح کر دیا کہ جو کچھ بھی کرو گے محبت کی وجہ سے کرو گے.اس لئے خدا کی محبت کا یہ ایک منطقی رشتہ ہے جسے محمد مصطفی ہے کی غلامی اور اطاعت میں تبدیل کیا جا رہا ہے.پس اس اطاعت میں بھی محبت ہی کا پہلو غالب رہنا چاہئے اور محبت ہی کے نتیجہ میں وہ اطاعت ہونی چاہئے.اطاعت رسول کی تفصیلات اور اس کا منطقی نتیجہ: اب اگلا سوال یہ ہے کہ حکماء بھی محبت ہو سکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کیا مجھ سے تمہیں محبت ہے؟ ہم کہتے ہیں ہاں ہمیں محبت ہے ، ہم نے دنیا میں تیرا حسن جلوہ گر دیکھا، پھر تیرے اتنے بے انتہا احسانات ہیں جو صبح دوپہر اور شام ہم پر ہو رہے ہیں دن اور رات کا لمحہ لمحہ ہم تیرے فضلوں کو دیکھتے ہیں.غرض یہ کہ ہر لمحہ اور ہر آن کا ئنات کے حسن میں تیرے فضلوں کو ہم جلوہ گر دیکھتے ہیں اور ہم تجھ پر عاشق ہوتے چلے جا رہے ہیں.اور پھر ہر روز تو نے ہمیں سامان زندگی مہیا فرمائے ہیں.پیار اور محبت کے ساتھ ہر قسم کی نعمتیں عطا کیں، زندگی کے نظام کی حفاظت کیلئے ہر قسم کے سامان بخشے، ترقیات کے قوانین ایسے بنائے جن کے نتیجہ میں انسان مسلسل آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے.غرضیکہ اس مضمون کا احاطہ تو نہیں ہو سکتا لیکن خلافتہ " ایک انسان یہ کہ سکتا ہے کہ ہم تجھ سے محبت کرتے ہیں اس لئے کہ تیری محبت کی وجوہات اور تیرے حسن کی

Page 7

5 4 شہادتیں ساری دنیا میں نکھری پڑی ہیں.پھر تیرے حکم سے ہم کیسے محبت کرنے لگیں.چونکہ اس حکم کے اندر خدا تعالٰی حکمت کاملہ رکھتا ہے اس حکم کے اندر کوئی غیر منطقی بات نہیں ہو سکتی اس لئے ہمیں اس بات کو تو بہر حال کلیتہ ” فراموش کر دینا پڑے گا کہ خدا تعالی حکم کے نتیجہ میں محبت چاہتا ہے اگر آپ کو کسی سے محبت ہے تو اس کے جواب مین وہ بھی محبت کا ایک اظہار کرتا ہے اور ایک ایسی چیز کی طرف یا ایک ایسی ہستی کی طرف جو ابا اشارہ کرتا ہے کہ اگر تمہیں مجھ سے محبت ہے تو یاد رکھو میں اپنی محبت کا ایک ظاہری عکس انسانوں میں بھی تمہیں بتاتا ہوں.جس طرح تم کائنات کا مشاہدہ کرتے ہو اور اس میں ہر طرف حسن دیکھتے ہو اور اس پر عاشق ہوتے چلے جاتے ہو اس طرح میں تمہیں ایک ایسی محبوب ہستی بتاتا ہوں کہ جو میرے عشق کی وجہ سے سنوری ہے میری محبت کے نتیجہ میں اس میں حسن پیدا ہوا ہے.تم اس کو دیکھو اور اس پر عاشق ہو جاؤ اور عاشقانہ اس کی اطاعت کرو.یہ مضمون ہے جو اس آیت میں مخفی ہے اور دوسری آیات میں کھلا کھلا اظہار فرما دیا گیا ہے.پس خدا کی طرف سے گویا جواب یہ ہے کہ تمہیں مجھ سے محبت تو ہے یا ارادہ ہے یا خواہش ہے کہ کچی اور حقیقی محبت کرو لیکن کوئی ایسا عاشق صادق تمہیں معلوم نہیں جس کے ساتھ میں نے محبت کی ہو اس لئے اگر تم اس کے پیچھے چلو جس کے ساتھ میں نے محبت کی ہے تو لازمی اور قطعی طور پر میں تم سے بھی محبت کرنے لگوں گا اور جس سے خدا محبت کرتا ہے وہ لازماً حسین ہو گا کیونکہ قابل نفرت وجود سے خدا محبت نہیں کرتا.جس شخص کے متعلق خدا یہ کہتا ہے کہ میں نے اس سے محبت کی ہے یہ اس کے اندر مضمر ہے کہ وہ شخص لازماً حسین ہے اس کے بغیر کوئی بات بنتی ہی نہیں.اس لئے لازماً اس کے اندر مخفی اور پوشیدہ پیغام کے طور پر آپ کو یہ دیکھنا پڑے گا اور نہ کوئی منطقی بات نہیں بنتی کہ اگر تم محبت کے دعویدار ہو اور محبت چاہتے ہو تو میں تمہیں ایک ایسے شخص کا پتہ بتاتا ہوں جو مجھ سے محبت میں انتہا کر گیا.وہ خود بھی بہت زیادہ حسین تھا لیکن میری محبت کے نتیجہ میں اس کا حسن مزید چپکا کیونکہ میں نے اس سے بہت محبت کی.پیس تم ان رستوں پر چل پڑو جن رستوں پر وہ چلتا ہے.پھر تم میں بھی وہ حسن پیدا ہونا شروع ہو جائے گا اور میں تمہارے حسن سے بھی محبت کرنے لگوں گا.محبت رسول ﷺ کے فقدان کا نام فسق ہے: یہ ہے وہ مکمل جواب جو اس آیت میں دیا گیا ہے.اس کی تائید قرآن کریم کی مختلف آیات کرتی ہیں ان میں سے ایک آیت جس کی میں نے ابھی تلاوت کی تھی وہ اس مضمون کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کرتی ہے.فرمایا : قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجِكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَأَمْوَالَ اقْتَرَفْتُمُوهَا ويجارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَلَكِن تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَ جهاد في سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِي اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لا يَهْدِى الْقَوْمَ الْفَقِينَ (التوبي : ۳۳) + کہ اے محمد ال ایہ بھی اعلان کر دے کہ اگر تمہارے آباؤ اجداد اور تمہاری اولادیں تمہاری آئندہ نسلیں اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے قبائل اور قومیں اور وہ اموال جن کو تم کماتے ہو اور محنت کے ساتھ حاصل کرتے ہو اور وہ تجارتیں جن کے متعلق خوف دامن گیر رہتا ہے کہ کہیں نقصان نہ ہو جائے اور وہ رہتے کے گھر جن سے تم راضی ہو یعنی وہ محلات اور مکانات جو تمہاری تمناؤں کے مطابق بنائے گئے ہوں اب اینکه مِنَ اللهِ وَرَسُونِ ہے تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے زیادہ پیارے ہیں اور خدا کے رستے میں جہاد سے زیادہ پیارے ہیں فشر بصو ا حتی با تی اللہ با مره پھر تم انتظار کرو یہاں تک کہ خدا اپنا فیصلہ صادر فرما دے یعنی ایسا فیصلہ صادر فرما دے جس سے تمہاری محبت کا جھوٹا ہونا ثابت ہو جائے اور خدا کا پیار پانے کی بجائے تم

Page 8

7 6 اس کی ناراضگی کے مورد بن جاؤ.فرمایا والله لا يَهْدِي القدم التقني خدا تعالیٰ فاستوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا.قرآن کریم نے فسق کی تعریف فرمائی ہے اور فسق کی یہ تعریف آپ کو دنیا کی کسی اور کتاب میں نہیں ملے گی.فسق سے تو ہم عموماً یہ سمجھا کرتے تھے کہ گناہ کرنا یا واضح طور پر ناپسندیدہ حرکت کرنا لیکن قرآن کریم نے فسق کو محبت کے مضمون میں داخل فرما کر عدم محبت کو فق قرار دیا.فرمایا خدا کے بعد محمد مصطفی اے کی محبت لازم ہے.اگر تم اس وجود سے نہیں کرتے تو تم فاسق ہو.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محبت نہ کرنے کا تعلق فق سے کیا ہے؟ یہ تعلق حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے بیان فرمایا.آپ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ا کی زندگی کا ہر لمحہ خدا تعالٰی کی اطاعت میں تھا ایک ذرہ بھی ایسا نہیں جس میں کوئی نقص ہو اگر کوئی نقص ہوتا تو خدا تعالیٰ ہمیں کامل پیروی کا حکم نہ دیتا.جب خدا نے کامل پیروی کا حکم دیا تو معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کی زندگی کا ہر لمحہ خدا کی رضا کے نیچے ہے.اور جو عمل خدا کی رضا سے باہر ہے وہ فتق ہے.پس قرآن کریم نے فتق کی تعریف محبت کے مضمون میں لپیٹ کر بیان کی ہے.لیکن حیرت انگیز ہے.اگر تمہیں محمد رسول اللہ اللہ اور آپ کی جہاد والی زندگی سے پیار نہیں ہے یعنی رسول اکرم ﷺ نے زندگی بھر جو جہاد کر کے دکھایا ہے اس کی تمہارے دل میں قدر نہیں ہے تو پھر تمہاری حالت فاستوں جیسی ہے اور جہاں جہاں تم اس سنت سے بنتے ہو رہاں فسق میں داخل ہو جاتے ہو اور اللہ تعالٰی فاستوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا.جہاد سے محبت کا اصل مفہوم: اب یہاں جہاد فی سبیل اللہ کی محبت کا ذکر فرمایا حالانکہ بظاہر انسان یہ سوچ نہیں سکتا کہ جہاد سے بھی محبت ہو سکتی ہے.یہاں صرف کموار کا جہاد مراد نہیں ہے محبت کے نتیجہ میں محبوب کو حاصل کرنے کے لئے ہر کوشش کا نام قرآن کریم نے جہاد رکھا ہے.چنانچہ کی محبت کے بعد جہاد فی سبیل اللہ کا ذکر اس تعلق میں یہ مضمون ظاہر کر رہا ہے کہ محمد مصطفی ﷺ نے جس طرح زندگی گزاری اس زندگی کا ہر لحہ جہاد تھا.ہر وقت تو آنحضرت ا تلوار ہاتھ میں نہیں لئے پھرا کرتے تھے.ہر وقت تو تیر کمان ہاتھ میں نہیں ہوا کرتا تھا.شاؤ کے طور پر جب غزوات میں آپ شامل ہوئے تو عملاً دشمن سے دو بدو لڑنے کا موقع بھی آپ کو میسر آیا مگر آپ کا جہاد اس وقت بھی تھا جب تیرہ سال کی کمی زندگی میں انتہائی مظلومیت کی حالت میں زندگی گزار رہے تھے.پس جہاد صرف مارنے کا نام نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر مار کھانے کا نام ہے اور خدا کے رستے میں دن رات اس کی محبت میں مگن ہو کر زندہ رہنے کا نام ہے اس کے متعلق فرمایا اگر تمہیں ان چیزوں سے محبت نہیں ہے تو پھر خدا تعالٰی سے تمہارا محبت کا دعویٰ کرنا نہ صرف غلط بلکہ خدا تعالٰی کے نزدیک زندگی فاسقانہ ہے.محبت کی اعلی نشانی: اب یہاں پہنچ کر بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکم تو بہت سخت لگایا گیا ہے مگر محبت حکما کیسے پیدا ہو سکتی ہے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی یہ سوال اٹھایا تھا محبت اور حکم کا آپس میں کوئی جوڑ نہیں.آپ کو کوئی آدمی کتنا ہی پیارا ہو اس کو آپ کہیں کہ تم فلاں چیز سے محبت کرنے لگ جاؤ وہ سمجھے گا کہ اس کو کیا ہو گیا ہے اس کے دماغ میں کوئی نقص ہے؟ دنیا والے تو شاید یہاں تک کہتے ہیں! تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں میرا دل پھیر دو مجھے سے جھگڑا ہو نہیں سکتا عجیب شرطیں نگا رہے ہو تم.کہ تم سے محبت کروں ساتھ ان سے بھی محبت کرنے لگ جاؤں جو تمہارے چاہنے والے ہیں میرا دل پھیر دو مجھے میرا دل واپس کر دو یہ جھگڑا

Page 9

9 8 مجھ سے ہو نہیں سکتا.پس اللہ کی شان دیکھیں کہ میں فرما رہا ہے مجھے چاہو میرے چاہنے والوں کو بھی چاہو اور اگر میرے چاہنے والوں کو نہیں چاہو گے تو تم فاسق ہو تمہاری محبت مردود ہے یہ ہے اصل حکیمانہ کلام.حقیقت میں محبت کی اعلیٰ نشانی اور اس کی سچائی کی دلیل یہ ہے کہ جس سے آقا پیار کرے اس سے بھی پیار ہو جائے اور جو اپنے محبوب سے پیار کرتا ہو اس سے بھی محبت بڑھے نہ کہ اس سے دشمنی بڑھے.چنانچہ قرآن کریم نے اس مضمون کو اور جگہ بھی کھول کر بیان فرمایا.ایک دعا سکھائی کہ اے خدا ! ہمارے دلوں میں مومنوں کے لئے علی نہ پیدا کر جو ہم سے ایمان میں سبقت لے گئے پہلے آگئے ہم تجھ سے التجا کرتے ہیں کہ کسی بناء پر کسی غلط فہمی کی وجہ سے بھی ان کے لئے ہمارے دل میں کوئی ٹیڑھا پن نہ پیدا کر.اس آیت میں شیعہ غلط فلسفے کا جواب ہے ہمیشہ کے لئے ان میں سے بعض ہمیں آج ایسی باتیں بتاتے ہیں جن کے نتیجہ میں ایمان میں سبقت لے جانے والوں سے نفرت پیدا ہوتی ہے.اور قرآن کریم نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے کہ وہ لوگ جو سبقت لے گئے اول دور کے ایمان لانے والے تھے اے خدا ! ہمیں ان سے نفرت نہ ہونے دینا.غلط فہمی سے تاریخ کے غلط سمجھنے کے نتیجہ میں یا غلط روایات کے پہنچنے کے نتیجہ میں ہو سکتا ہے ہمارے دل میں کبھی پیدا ہو جائے ان کے لئے سختی پیدا ہو جائے تو دعا سکھائی کہ اے اللہ ! ان کے لئے ہمارے دل کو نرم رکھتا.وجہ کیا ہے؟ یہی کہ وہ خدا کو چاہنے والے تھے.اور وہی مضمون ہے کہ مجھے چاہتے ہو تو میرے چاہنے والوں کو بھی چاہو اس کے بغیر وحدت نہیں پیدا ہو سکتی ہے.یہ ہے اس کا فلسفہ.اگر خدا سے عشق کے نتیجہ میں رقابت پیدا ہوتی اور رقابت کی اجازت ہوتی تو جتنے خدا سے محبت کرنے والے تھے اتنی ہی تعداد میں خدا کی خدائی کے تصور بٹ جاتے.امت واحدہ کے پیدا ہونے کا سوال ہی باقی نہ رہتا.ہر خدا سے محبت کرنے والا دوسرے خدا سے محبت کرنے والے سے جل رہا ہو تا ، حسد کر رہا ہوتا ، نفرت کر رہا ہوتا کہ وہ کون ہوتا ہے اس خدا سے محبت کرنے والا جس سے میں کر رہا ہوں.محبت رسول ﷺ کی اعلیٰ حسین اور کامل تعلیم : یہ جہالت کا عشق تو صرف دنیا کے لئے خدا نے رہنے دیا اپنے لئے وہ عشق چنا جو وحدت کالمہ پیدا کرتا چلا جاتا ہے اور اس وحدت کا دائرہ بڑھتا چلا جا رہا ہے یہ وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ سے محبت کی تعلیم اس رنگ میں خدا تعالٰی نے دی اور جس وسعت کے ساتھ اور جس حکمت باہمی رابطے کے ساتھ قرآن کریم میں محبت کی تعلیم ہے آپ جائزہ لے کر دیکھ لیں دنیا کے کسی اور مذہب میں آپ کو اس جیسی اتنی حسین اتنی کامل اتنی مربوط تعلیم دکھائی نہیں دے گی.آنحضرت ﷺ سے محبت پہلی بات یہ کہ کسی حکم یا جبر کی وجہ سے نہیں، اس لئے ہے کہ وہ محبت کے لائق وجود ہیں.اور خدا تعالٰی نے نشاندہی فرما دی اور گواہی دے دی کہ اس سے بڑھ کر تمہیں اور کیا دلیں چاہئے کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں.اگر انسان زیادہ حسین ہو تو کم تر حسن سے محبت کرنے کے کم امکانات ہوتے ہیں جتنا زیادہ کوئی حسین ہو اتنا اس کا معیار حسن پڑھتا چلا جاتا ہے.ہیں آنحضرت ﷺ کے حسن کی سب سے بڑی دلیل اس آیت میں رکھ دی گئی ہے کہ وہ اتنا حسین ہے کہ میں اس سے محبت کر رہا ہوں اور اتنی محبت کرتا ہوں کہ اگر اس کی پیروی کرو گے ، تم اس سے محبت کرو گے تو میں تم سے بھی محبت کرنے لگ جاؤں گا.آنحضرت اللہ کے محاسن کا بکثرت ذکر ہونا چاہئے: پس آنحضرت ا میں ذاتی حسن موجود ہے اور یہ حسن جو ہے اس کا بیان ہوتا چاہئے اس کا تذکرہ چلنا چاہئے.اس کی مجالس ہونی چاہئیں.بڑیوں اور چھوٹوں کو اس سے زاتی واقفیت ہونی چاہئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.

Page 10

11 10 بن دیکھے کسی طرح کسی مہ رخ پر آئے دل کیسے کوئی خیالی متم لگائے دل پس آنحضرت ﷺ کی محبت کا جب قرآن کریم نے حکم دیا جب قرآن کریم نے احسان فرمایا ہم پر یہ تھا کر کہ بہت ہی محبوب ہستی موجود ہے اس کا پیار تمہارے دل میں خدا کا پیار پیدا کرے گا اور خدا تم سے پیار کرنے لگے گا.تو محض یہ کہنا تو کافی نہیں کہ بن دیکھے کسی طرح کسی مہ رخ پہ آئے دل آنحضرت ام کا دکھانا ضروری ہے.اس لئے میں نے گذشتہ سال یہ تاکید کی تھی کہ جوں جوں ہم غلبہ اسلام کی صدی میں داخل ہونے کے لئے قریب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں سیرت کے موضوع پر جلسوں کی کثرت ہونی چاہیئے تاکہ اس صدی میں اللہ اور رسول اے کے عاشقوں کا ایک قافلہ داخل ہو ، محض اسلام کے غالب آنے کے بڑے بڑے نعرے بلند کرتے ہوئے خالی دل لوگ نہ ہوں بلکہ ایسے جن کے دل عشق الہی اور عشق محمد مصطفی سے بھرے ہوئے ہوں جن کے خون میں یہ عشق و محبت جاری ہو چکی ہو اس زاد راہ کے بغیر آپ اپنی اگلی صدی کی نسلوں کی زندگی میں کوئی عظیم الشان تبدیلی نہیں پیدا کر سکتے.بہت بڑی صدی ہے جو ہمارا انتظار کر رہی ہے.اس میں بہت بڑے بڑے کام ہونے والے ہیں.انہوں نے ہم سے رنگ پکڑتے ہیں اور وہ رنگ لے کر انہوں نے آگے بڑھنا ہے اس سے اگلی صدی کی طرف پیس پیشتر اس کے کہ وہ وقت پہنچ جائے اور ہم اس صدی میں داخل ہو رہے ہوں ہمیں چاہئے کہ ہم اس حسن کامل سے مزین ہونے کی کوشش شروع کر دیں جو اللہ اور رسول ﷺ سے محبت کے نتیجے میں ظاہر ہوتا ہے اس کے نتیجے میں عطا ہوتا ہے.آنحضرت ا کی پیروی کا ایک اور مھتم بالشان پہلو : آنحضرت ا کی پیروی کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ خدا تعالٰی نے خود حضور اکرم ا ہے کو اپنی پیرومی سکھائی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے الله ما اوحى إِلَيْكَ مِن ريكَ لَا إِلَهَ إِلَّاهُوَ وَاعْرِضْ عَنِ المُشركين - (سورۃ الانعام آیت ۱۴۷) کہ جو کچھ خدا تعالٰی تجھ پر وحی کی صورت میں نازل فرما رہا ہے وہ کرتا چلا جا.اور مشرکوں سے اعراض کر، اور کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ ، پس حضرت رسول اکرم ﷺ کی پیروی میں کوئی ثانویت نہیں ہے.کوئی یہ نہ سمجھے کہ خدا کہتا ہے کہ مجھے سے پیار کرتے ہو تو ایک اور تیسرے شخص سے بھی پیار شروع کردے.ایک ایسے شخص کے پیار کا حکم دیا جا رہا ہے جس کو خدا نے خود تربیت دے کر اپنے رنگ اس پر چڑھائے ہیں اور اپنے حسن کو زیادہ ہماری دسترس میں پہنچا دیا ہے انسان کا جہاں تک تعلق ہے انسان کو انسان سے کوئی ملتی جلتی شکل نظر آنی چاہئے جس کے نتیجہ میں وہ اس سے محبت کرے.چنانچہ اس سلسلہ میں ایک روایت آتی ہے کہ آنحضرت ا ایک دفعہ خانہ کعبہ میں داخل ہوئے وہاں کچھ لوگ بتوں کو سجا رہے تھے انہیں کھڑا کر کے بندے پستا رہے تھے ان پر لباس چڑھا رہے تھے اور پھر وہ خود ہی ان و سجا کر ان کو سجدے کر رہے تھے.آنحضرت ﷺ نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا حرکتیں کر رہے ہو.انہوں نے جواب دیا ہم اس لئے ان کی عبادت کرتے ہیں ان سے پیار کرتے ہیں کہ یہ ہمیں خدا کا پیار سکھاتے ہیں ان کے پیار کے ذریعہ ہمیں اللہ کا پیار حاصل ہوتا ہے.اس دن یہ آیت نازل ہوئی قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ الله نَاتَّبِعُونِي يُحْببكم اللہ کتنی بے وقوفی ہے بتوں سے تم کس طرح خدا کا پیار سیکھ سکتے ہو وہ تو نہ پیروی کرنے کی اہمیت رکھتے ہیں اور نہ ان کی پیروی کی جاسکتی ہے.خدا کا پیار تو اس سے سیکھا جا سکتا ہے جسے خود خدا نے اپنا پیار سکھایا ہو چونکہ مجھے خدا نے اپنا پیار سکھا دیا ہے اس لئے تم میری پیروی کرو.اگر یہ تمہارا دعوئی ہے تو پھر بتوں کی پیروی سے

Page 11

13 12 خدا کا پیار تو نہیں آسکتا.آنحضرت ا سے کامل محبت اور آپ کی کامل پیروی کی ت ایک اور موقع پر اللہ تعالی نے آنحضرت ﷺ کی محبت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے یا پیروی کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے قل بعبادی الذین اسرفوا علی انفسهم کہہ دے اے میرے بندو ! یہاں لفظی ترجمہ ہے اے میرے بندو! محمد مصطفیٰ اس کو کہا جا رہا ہے کہ اعلان کرد "بنی نوع انسان سے کہہ دو اے میرے بندو ! " بعض تغییر کرنے والے بڑی مشکل اور الجھن میں پڑ گئے کہ آنحضرت ا تو توحید کامل کا پیغام لے کر آئے خدا آپ کو یہ سکھا رہا ہے کہ کہو اے میرے بندو ! حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اس موضوع پر ایک سے زیادہ مرتبہ لکھا اور ہر موقع پر بہت ہی لطیف تغییر فرمائی ہے.ایک موقع پر آپ فرماتے ہیں یہاں عبادی سے مراد غلام ہے مخلوق نہیں پر تذ لعبادي الذين اسر نوا على التسلیم سے مراد یہ ہے کہ اے محمد ! یہ اعلان کر کہ اے میرے غلامو ! تو پیروی کا مضمون تصویری زبان میں ہمیں سکھایا جا رہا ہے یہاں جب خدا کہتا ہے اتبعونی کا اعلان کرو تو مراد یہ ہے کہ میرے غلامانہ عاشق ہو جاؤ.جس طرح غلام آقا کی پیروی کرتا ہے اور اس پیروی سے سرمو انحراف کی طاقت نہیں پاتا ایسی کامل محبت کرد که محمد مصطفی اس سے کہ تم میں استطاعت نہ رہے نافرمانی کی گویا کہ طومی طور پر تمہاری ساری طاقتیں پورے طور پر آنحضرت ا کے سپرد ہو جائیں.کیوں ہو جائیں؟ اس کی دلیل قرآن کریم دوسری جگہ دے رہا ہے فرماتا ہے کل ان صلاتي و تشيكي ومحياي ومماتي لله رب العلمین کہ میں تجھے کہتا ہوں کہ میرے غلام بن جاؤ.سب کچھ میرے سپرد کردو اور عاشقانہ رنگ میں میری پیروی کرنا شروع کر دو اس لئے نہیں کہ میری ذات میں کچھ رکھا ہے.میں تو اپنا سب کچھ لٹا چکا ہوں، میں نے اپنا کچھ بھی باقی نہیں چھوڑا یہ بھی اعلان کروا رہا ہے خدا تذ ان صلاتي وتسکی میری ساری عبادتیں اور ان کا ایک ایک پہلو میرے سارے روزے اور قربانیاں اور ان کا ہر پہلو ، میرا مرتا اور میرا جینا سب کچھ خدا کے لئے ہو چکا ہے.پس آنحضرت ﷺ کے متعلق جب خدا تعالٰی یہ فرماتا ہے کہ ان کے سپرد ہو جاؤ ا تو اس لئے نہیں کہ ایک بشر کو دوسرے بشر کے سپرد ہونے کا حکم دیا جا رہا ہے بلکہ اس لئے کہ ایک بشر کو ایک ایسے وجود کے سپرد ہونے کا حکم دیا جا رہا ہے جس نے اپنی بشریت کو شاکر کے کلیتہ اپنے آپ کو خدا تعالٰی کے سپرد کر دیا تھا.یہ اگر ہو تو پھر تمام انعامات کے دروازے کھلے ہیں.مگر اس موقع پر انعامات کا ذکر نہیں.ایک اور پہلو بیان کیا جا رہا ہے.فرمایا الَّذِيْنَ أَسْرَكُوا عَلَى الْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ الله وہ لوگ جنہوں نے بڑے انلوده بڑے گناہ کئے ہیں پہاڑوں کے برابر بھی خواہ گناہ کئے ہوں ان کے لئے بھی کوئی خوف نہیں ہے.اگر وہ محمد مصطفی پیر کے پیچھے لگ جائیں گے اور غلاموں کی طرح پیچھے لگیں گے تو ان کے سارے گناہ بخش دئیے جائیں گے.کیونکہ خدا تمام گناہ بخشنے کی طاقت رکھتا ہے شرط یہ ہے کہ محمد مصطفیٰ لینے کے عباد بن جاؤ چنانچہ یہ جو تثلیث کا مسئلہ اور ہماری خاطر ایک نجات دہندہ نے اپنے آپ کو نعوذ باللہ من ذالک لعنت میں ڈالا یہ جو تصور پیش کیا جاتا ہے اس سب کا بطلان کر دیا اس آیت میں فرمایا رہ وجود جو خدا کے سپرد ہو گیا کلیتہ کامل طور پر اس کا ہو گیا.اگر تم اس کے پیچھے آنا چاہتے ہو تو یہ خوف دامن گیر نہ رہے کہ ہم گناہ گار ہیں ہم کیسے پیچھے چلیں گے.ہم کون ہوتے ہیں محمد مصطفی کی پیروی کرنے والے یہ خیال ولی میں پیدا ہو سکتا ہے فرمایا نہیں.اگر اس وجود کی پیروی کرو گے تو تم دیکھو گے کہ بات اللہ بشیرال انوب جميعاً محمد رسول اللہ ﷺ کی سنت اور آپ کے طرز زندگی سے خدا کو اتنا پیار ہے کہ آپ کی خاطر اس حسن و ادا کی خاطر جو تم اختیار کرو گے محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی میں.اللہ تعالٰی تمہارے ہر قسم کے گناہ معاف فرماتا چلا جائے گا.ان الغفور الرحيم (الزمر: ۵۳) یقیناً وہ بہت ہی بخشنے

Page 12

15 والا اور بہت ہی مہربان ہے.14 امیدوں کی آخری مقام تک رسائی : پھر ایک اور مقام پر منفی لحاظ سے جو خوف تھے وہ دور کئے مثبت لحاظ سے امیدوں کو آخری مقام تک پہنچا دیا فرمایا: وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَ الرَسُولَ فَاوَلكَ مَعَ الَّذِينَ الْعَمَا اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصَّدِقِينَ والشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِيْنَ وَحَسُ أُولَيكَ زنيقاً ( النساء ما كہ جب محمد مصطفیٰ کی پیروی کا حکم دیا جاتا ہے محبت کے نتیجہ میں اور پیار کی وجہ سے تو فرمایا اس کے بعد جب میں کہتا ہوں تم میرے محبوب بن جاؤ گے تو اس طرح محبوب بنا کر میں تمہیں کیا دوں گا ، کوئی وعدہ میں وضاحت بھی تو ہونی چاہیئے کہ محبوب کے ساتھ خدا کیا سلوک فرمائے گا.فرمایا اگر تم محمد مصطفی ﷺ کی پیروی کرو اس وجہ سے کہ یہ خدا کی پیروی کرنے والا ہے من یطیع الله والرسول میں ایک بریکٹ میں باندھ دیا ہے.ایک کی پیروی دوسرے کی پیروی سے الگ نہیں ہو سکتی یہ مضمون بیان ہو رہا ہے) فرمایا ومن تعلیم الله وَالرَّسُولَ فَاربَكَ مَعَ الَّذِينَ الْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ تم دیکھو گے کہ خدا کے انعامات کی بارشیں برستی ہیں تم پر اور تم دیکھو گے کہ کوئی انعام بھی ایسا نہیں جو اس پیروی کے نتیجہ میں نہ پاسکو.فرمایا من النبيين والصدیقین کتنے عظیم الشان بلند پہاڑوں کی طرح انعام ہیں.نبیوں کا انعام ہے فرمایا تمہاری اطاعت کا درجہ یہ طے کرے گا کہ تم اس پیروی کے نتیجہ میں خدا کے کتنے محبوب بنتے ہو.اگر صالحیت تک ہی پہنچے ہو تو وہ انعام بھی خدا نہیں روکے گا اور اگر آگے بڑھ کر شہادت کے مقام تک پہنچ جاتے ہو تو تمہیں محمد مصطفی کی غلامی سے شہادت کا مقام نصیب ہوگا.اگر اس سے آگے قدم رکھنے کی ہمت ہے اور صد قیمت کی شان اپنے اندر پیدا کرتے ہو تو یقین جانو کہ محمد مصطفیٰ اس کی غلامی صد حقیت کے مقام تک پہنچائے گی اور یہ انعام بھی تم پر نازل ہوگا.اور اگر اس ، سے بھی آگے بڑھنے کی طاقت ہے اور اپنا کامل وجود محمد مصطفی ﷺ کے لئے کھو دینے کی عظمت پاتے ہو تو پھر یقین جانو کہ تمہیں علی ثبوت بھی عطا ہوگی جو محمد مصطفی کی غلامی کے نتیجہ میں عطا ہو سکتی ہے یہ محبت لا متناہی انعامات کے دروازے کھولتی چلی جا رہی ہے.یہ محبت اس محبت کا آغاز اس دعوے اس تمنا اور اس اقرار سے ہوا کہ ہم خدا سے محبت کرتے ہیں.سارے رستے کھول دیئے اور اس کے سارے پہلو بیان فرمائے لیکن یہ مضمون تو جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا قرآن کریم پر حاوی ہے.قرآن کریم میں ہر طرف پھیلا پڑا ہے.اس موضوع کے تمام پہلوؤں پر تو چند خطبات میں روشنی ڈالی نہیں جاسکتی صرف ایک دو امور ان خطبوں میں بیان کرنے کے لئے چیتے ہیں.شخص آنحضرت ا سے حضرت مسیح موعود کی کامل محبت: آخر پر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا اقرار آپ کے سامنے رکھتا ہوں.ایک ایسے اقرار جس نے اپنے آپ کو سپرد کیا محبت کی اور آنحضرت ا کو محبوب پایا.اس قدر عشق آپ کے دل میں حضرت رسول اکرم ﷺ کا موجزن تھا کہ اس کی کوئی مثال آپ کو اور کہیں دکھائی نہیں دیتی.نہ دنیا کے عاشقوں میں اور نہ محمد رسول اللہ ہے کے بعد روحانی عاشقوں میں آپ یہ نظارہ دیکھیں گے ایک موقع پر فرمایا.اگر خواهی دلیلی عاشقش باش : محمد است برہان محمد تم صداقت محمد مصطفی ﷺ کی دلیل مانگتے ہو تو ایک ہی دلیل ہے تم عاشق ہو جاؤ اس پر.اب ایک ایسا شخص جو اس عظیم الشان عرفان کے تجربے سے نہ گذرا ہو وہ یہ بات کہہ ہی نہیں سکتا.فرمایا محمد مصطفیٰ ﷺ کو پانا جو ہے یہ تو حسن کے رستے ہے پانا ہے تم منطقی دلائل کیا ڈھونڈ رہے ہو.ایک حسین وجود ہے اس کو دیکھو اور عاشق ہو جاؤ ب محمد بہت برہان محمد محمد ﷺ خود اپنے حسن کی دلیل ہے.اس سے زیادہ اور کوئی دلیل نہیں دی جاسکتی پھر فرماتے ہیں:.ان

Page 13

17 16 میں نے محض خدا کے فضل سے نہ اپنے کسی ہنر سے اس نعمت سے کامل حصہ پایا ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی.اور میرے لئے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر میں نے اپنے سیدو موٹی فخر الانبیاء اور خیر الورٹی حضرت محمد مصطفی ﷺ کی راہوں کی پیروی نہ کرتا.سو میں نے جو کچھ پایا اس پیروی سے پایا اور میں اپنے بچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اس نبی ﷺ کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفت کاملہ کا حصہ پا سکتا ہے.اور میں اس جگہ یہ بھی بتلاتا ہوں کہ وہ کیا چیز ہے کہ بچی اور کامل پیروی آنحضرت ہی ہے کے بعد سب باتوں سے پہلے دل میں پیدا ہوتی ہے" اور میں اس جگہ یہ بھی بتاتا ہوں کہ یہ ہے راز ساری باتوں کا جس پر اگر ہر چیز کی تان ٹوٹتی ہے.میں نے اس سے پہلے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر پڑھ کر سنائی تھی اس میں یہ نکتہ بیان فرمایا گیا تھا کہ اللہ تعالٰی کی اطاعت کا آخری نقطہ دل میں پیدا ہوتا ہے، اس کا دماغ سے تعلق نہیں ہے اور وہی بات رسول اکرم ﷺ کی پیروی کے متعلق آپ بیان فرماتے ہیں:.سو میں نے جو کچھ پایا اس پیروی سے پایا اور میں اپنے بچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بیجز پیروی بی سی کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفت کا ملہ کا حصہ پا سکتا ہے اور میں اس جگہ یہ بھی بتلاتا ہوں کہ وہ کیا چیز ہے جو کچی اور کامل پیروی آنحضرت ﷺ کے بعد سب باتوں سے پہلے دل میں پیدا ہوتی ہے.سو یا د رہے کہ وہ قلب سلیم ہے یعنی دل سے دنیا کی محبت نکل جاتی ہے اور دل ایک ابدی اور لازوال لذت کا طالب ہو جاتا ہے.پھر اس کے بعد ایک منفی اور کامل محبت الہی باعث اس قلب سلیم کے حاصل ہوتی ہے اور یہ سب نعمتیں آنحضرت الارے کی پیروی سے بطور وراثت ملتی ہیں." ( حقیقتہ الوحی صفحہ ۱۳۷) اس مضمون کے جو چند پہلو میں آج بیان کرنا چاہتا تھا.ایک تو وقت تھوڑا ہے دوسرے ان میں سے چند کا بیان بھی سر دست ممکن نہیں ہے.لیکن میں نے آپ سے گذشتہ خطبے میں ذکر کیا تھا کہ میں ایک تحریک جماعت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جس کا اس مضمون سے تعلق ہے.محبت الہی کی وسیع اور کامل تعلیم : حقیقت یہ ہے کہ محبت کے نتیجہ میں انسان، تحائف پیش کرتا ہے اور قرآن کریم نے بھی ہر اس چیز کے ساتھ جو خدا کی راہ میں پیش کی جاتی ہے محبت کی شرط لگا دی بلکہ نیکی کی تعریف میں محبت کے تھے کو بطور شرط کے داخل فرما دیا.فرمایا: لَن تَنالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا ما تحبون تم نیکی کی گرد کو بھی نہیں پاسکتے نیکی کی باتیں کرتے ہو تمہیں پتہ کیا ہے کہ نیکی کیا ہے.تم نیکی کی گرد کو بھی نہیں پا سکو گے.اگر یہ راز نہ جان لو کہ خدا کے رستے میں وہ چیز پیش کرو جس سے تمہیں محبت ہے.اپنی محبوب چیزوں کو خدا کی راہ میں پیش کرنا سیکھو.پھر تم کہہ سکتے ہو کہ ہاں ہم نے نیکی کا مفہوم سمجھ لیا ہے یہاں بھی محبت ہی کا مضمون جاری ہے.مجھے حیرت ہوتی ہے بعض دفعہ عیسائیوں کے اس ادعا پر کہ اسلام کو محبت کا کیا پتہ محبت کی تعلیم تو عیسائیت نے سکھائی ہے.اس ضمن میں حضرت مسیح کی تعلیم کے کچھ اقتباسات میں ساتھ لے کر آیا تھا مگر اب ان کو پڑھ کر سنانے کا وقت نہیں ہے.آپ خود ان کو پڑھ کر دیکھیں آپ کو نمایاں فرق محسوس ہوگا کہ اسلام کی محبت کی تعلیم اتنی وسیع

Page 14

19 18 اور اتنی کامل ہے کہ اگرچہ صحیح کی محبت کی تعلیم بھی بہت ہی حسین ہے بہت دلکش ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن جب مقابلے پر پر رکھتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ اس چہرے پر نور نہیں رہا.پھیکی پڑنے لگ جاتی ہے اسلام کی تعلیم کے مقابل پر لیکن ہرگز اپنی ذات میں وہ حسن سے خالی نہیں بہت ہی پیاری بہت ہی دلکش تعلیم ہے اس سے کوئی انکار نہیں مگر اسلام نے محبت کی تعلیم اس انسانی زندگی کے ہر جزو میں داخل کر دیا ہے.اس تفصیل کے ساتھ آپ کو کسی اور مذہب میں محبت کے فلسفے کا بیان نہیں ملے گا.فرمایا : لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون تم نیکی کو جانتے ہی نہیں تمہیں پتہ ہی کیا ہے نیکی کیا ہوتی ہے اگر یہ بات نہ سیکھو کہ خدا کی راہ میں سب سے اچھی چیز سب سے پیاری چیزنہ قرآن کرنی شروع کر دو یا خدا کی راہ میں اپنی سب سے پیاری چیز دینے کی تمنا اگر تمہارے دل میں پیدا نہیں ہوتی تو تم نیکی کو نہیں جانتے.آنحضرت ا کی محبت الہی کا درجہ کمال: اس کسوٹی پر جب ہم انبیاء کو پر کھتے ہیں اور خصوصاً حضرت محمد مصطفی ﷺ کی زندگی کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو آنحضرت ﷺ کی زندگی میں یہ چیز درجہ کمال کو پہنچی ہوئی دکھائی دیتی ہے.بہت سے انسان ایسے ہیں جو محبت کرتے ہیں سمجھتے ہیں کہ ہمیں اچھی چیز پیش کرنی چاہئے اور پھر سوچتے ہیں اور مترور رہتے ہیں کہ یہ پیش کروں یا وہ پیش کروں یہ پیش کروں کہ وہ پیش کروں.چنانچہ صوفیاء کے بھی بہت دلچسپ واقعات اس میں ملتے ہیں اور عام دنیا میں محبت کرنے والوں کے بھی بہت سے واقعات ملتے ہیں ایک خیال آیا کہ یہ مجھے چیز زیادہ پیاری ہے.پھر خیال آیا کہ نہیں یہ زیادہ پیاری ہے پھر خیال آیا کہ یہ زیادہ پیاری ہے اور پھر آخر میں وہی پیش کی.چنانچہ ہمایوں کے متعلق بھی باہر نے جب یہ سوچا کہ ہمایوں کی زندگی بچانے کے لئے میں خدا کے سامنے اپنی کوئی پیاری چیز پیش کروں تو کہتے ہیں کہ باہر اس کے گرد گھومتا رہا اس نے سوچا کہ میں یہ ہیرا جو مجھے بہت پیارا ہے دے دوں پھر خیال آیا کہ ہیرا کیا چیز ہے میں یہ دے دوں پھر خیال آیا کہ پوری ساخت مجھے بہت پیاری ہے میں پوری سلطنت دے دیتا ہوں اور پھر سوچتا رہا.پھر آخر اس کو خیال ایا اس کے نفس نے اس کو بتایا کہ تجھے تو اپنی جان سب سے زیادہ پیاری ہے اس وقت اس نے یہ عہد کیا اور خدا سے دعا کی کہ اے خدا واقعی اب میں سمجھ گیا ہوں کہ مجھے سب سے زیادہ پیاری چیز میری جان ہے.اے خدا ! تو میری جان لے لے اور میرے بیٹے کی جان بچالے تاریخ میں لکھا ہے کہ واقعہ اس وقت کے بعد سے پھر ہمایوں کی صحت سدھرنے لگی اور بابر کی صحت بگڑنے لگی.تو لوگ یہ سوچتے رہتے ہیں کہ کیا چیز پیاری ہے اور کیا کم پیاری ہے.آنحضرت نے یہ نہیں سوچا بلکہ اپنا سب کچھ پیش کر دیا.اپنا سونا جاگنا اٹھنا اور بیٹھنا کیونکہ امر واقعہ یہ ہے کہ انسان کو اپنی ہر چیز پیاری ہوتی ہے اور جب وہ زیادہ پیارٹی چیز دیتا ہے تو اس کے دل میں ایک المیت این رو جاتا ہے کہ کچھ کم میں نے اپنے لئے بھی روک لی ہے.اس سے کم جب پیاری دے دیتا ہے تو پھر اس کو کچھ نہ کچھ اپنے ہاتھ میں بھی دکھائی دیتا ہے اور وہ پھر اس کے بعد سب سے پیارا ہو جاتا ہے جو چیز پیچھے بہتی چلی جاتی ہے وہ زیادہ پیاری ہوتی چلی جا رہی ہوتی ہے کسی ماں کا سب سے لاڈلہ بچہ مرجائے تو دوسرے بچے سے پہلے سے بڑھ کر پیار ہو جاتا ہے اور یہ مضمون انسانی فطرت کے ہر پہلو پر حاوی ہے.پس آنحضرت نے یہ سودا نہیں کیا کہ اے خدا ! میں نے اپنی سر زیادہ پیاری چیز پیش کر دی یعنی اپنی جان دے دی اس لئے اب باقی چیزیں میری رہ گئیں بلکہ فرمایا قُلْ إِنَّ صَلاتِي وَنُكَي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي الله رب العلمین کہ اے محمد اتو ایک محبت کرنی سکھا ان غلاموں کو یہ تیرے غلام بن چکے ہیں مگر نہیں جانتے کہ کس طرح مجھ سے محبت کی جاتی ہے.تو محبت کے راز بتا ان کو.اس سے پتہ چلتا ہے کہ خدا کا حکم

Page 15

21 20 نہ ہوتا تو آنحضرت ا در پردہ عشق کے راز نہ بتاتے کسی کو.یہ بھی ایک عجیب حسین پہلو ہے جو میری نظر میں ابھرا اور بے ساختہ دل اور بھی زیادہ فریفتہ ہو گیا.بعض جگہ حکما خدا تعالیٰ نے اپنے راز و نیاز کی باتیں بنی نوع انسان کو بتانے پر پابند فرما دیا آنحضرت ان کو ورنہ وہ بتاتے تو لوگوں کو پتہ چلتا کہ اتنا حسین ہے اس شان کا نبی جو اس قدر منکسر المزاج ہو اس کی زندگی کا ایک نمایاں پہلو یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے حسن پر پر دے ڈالتا چلا جاتا ہے اور اپنی کمزوریوں کو چھپاتا نہیں یہی بنیادی فرق ہے مادہ پرست اور خدا پرست میں.مادہ پرست اپنی کمزوریوں پر پردے ڈالتا چلا جاتا ہے اور اپنے معمولی سے حسن کو بھی اچھالتا ہے اور دکھاتا اور اس کی نشو نما کرتا ہے اور پلیٹی اس کی زندگی کے ہر شعبے کا ایک جزو لا ینفک بن جاتی ہے.وقف کامل اور اس کا ثمرہ : خدا تعالٰی نے حکما رسول اکرم ا کو پابند فرمایا کہ تیری بعض خوبیاں جو میری نظر میں ہیں تیرے غلاموں کا بھی حق ہے کہ ان کو پتہ چلے اس لئے کہ تاکہ وہ تمہاری پیروی کر کے مجھ تک پہنچنا سیکھ جائیں.ان میں سے ایک یہ تھا کہ اپنا سب کچھ دیدے چنانچہ انبیاء کی یہ سنت ہے کہ وہ اپنا سب کچھ دینے کی خاطر یہ سوچتے سوچتے کہ ہم اور کیا دیں اور کیا دیں اپنی اولادیں بھی پیش کرتے ہیں بعض دفعہ ابھی اولاد پیدا بھی نہیں ہوتی کہ وہ پیش کر رہے ہوتے ہیں.ار کی بھی یہ سنت ہے انبیاء کے علاوہ جیسے حضرت مریم کی والدہ نے یہ التجا کی خدا سے: رب الى نَذَرْتُ لَكَ مَا نِي بَطْنِي مُعَذَا فَتَقبل مني إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (سورة آل عمران آیت (۳) کہ اے میرے رب ! جو کچھ بھی میرے پیٹ میں ہے میں تیرے لئے پیش کر رہی ہوں.مجھے نہیں پتہ کیا چیز ہے لڑکی ہے کہ لڑکا ہے اچھا ہے یا برا ہے.مگر جو کچھ ہے میں تمہیں دے رہی ہوں فتقبل منی مجھ سے قبول فرما.إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ تو بہت ہی سننے والا اور جانے والا ہے یعنی سنتا ہے اور علم رکھتا ہے اس مضمون کا الگ تعلق ہے اس لئے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے.بہر حال یہ دعا حضرت مریم کی والدہ جو آل عمران سے تھیں کی خدا تعالی کو ایسی پسند آئی کہ اسے قرآن کریم میں آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ کر لیا.اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اپنی اولاد کے متعلق اور دوسرے انبیاء کی دعائیں اپنی اولاد کے متعلق یہ ساری قرآن کریم میں محفوظ فرمائیں.بعض جگہ آپ کو ظاہر طور پر وقف کا مضمون نظر نہیں آئے گا جیسا کہ یہاں آیا ہے محررا اے خدا میں تیری راہ میں اس بچے کو وقف کرتی ہوں.لیکن با اوقات آپ کو یہ دعا نظر آئے گی کہ اے خدا ! جو نعمت تو نے مجھے دی ہے وہ میری اولاد کو بھی دے اور ان میں بھی انعام جاری فرما.حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے اس رنگ میں دعا کی.لیکن حقیقت میں اگر آپ غور کریں تو جو انعام مانگا جا رہا ہے وہ وقف کامل ہے.کامل وقف کے سوا نبوت ہو نہیں سکتی اور سب سے زیادہ چنانچہ بنی نوع انسان سے آزاد یعنی محرر اور خدا کی غلامی میں جکڑا جانے والا نبی ہوتا ہے.تو امر واقعہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص یہ دعا کرتا ہے کہ میری اولاد میں نبوت کو جاری فرما تو اس دعا کا حقیقی معنی یہ ہے کہ میری اولاد کو ہمیشہ میری طرح غلام در غلام در غلام بناتا چلا جا.اپنی محبت میں اور اپنی اطاعت میں جکڑتا چلا جا اتنا کامل طور پر جکڑنے کو ان میں کوئی بھی آزادی کا پہلو نہ رہے.تو محررا کے مقابل دنیا سے آزاد کر کے میں تیرے سپرد کرتی ہوں.یہ مضمون اور بھی زیادہ بالا ہے وقف کا کہ میری اولاد کو تو اپنی غلامی میں جکڑ لے اور ان کا کوئی پہلو بھی آزاد نہ رہنے دے.بہر حال یہ بھی ایک پہلو ہے کہ جو کچھ تھا وہ تو دیا خدا کی راہ میں لیکن جو ابھی ہاتھ میں نہیں آیا وہ بھی پیش کرنے کی تمنا رکھتے تھے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو چلہ کشی کی تھی وہ بھی اسی مضمون کے تحت آتی ہے.آپ چالیس دن یہ گریہ و زاری

Page 16

23 22 کرتے رہے دن رات کہ اے خدا ! مجھے اولاد دے اور وہ دے جو تیری غلام ہو جائے میری طرف سے ایک تحفہ ہو تیرے حضور اگلی صدی کے استقبال کے متعلق ایک نہایت مبارکبا تحریک: پس میں نے یہ سوچا کہ ساری جماعت کو میں اس بات پر آمادہ کروں کہ اگلی صدی میں داخل ہونے سے پہلے جہاں ہم روحانی اولاد بتانے کی کوشش کر رہے ہیں دعوت الی اللہ کے ذریعہ وہاں اپنے آئندہ ہونے والے بچوں کو خدا کی راہ میں ابھی سے وقف کردیں اور یہ دعا مانگیں کہ اے خدا ! ہمیں ایک بیٹا دے لیکن اگر تیرے نزدیک بیٹی بھی ہونا مقدر ہے تو ہماری بیٹی ہی تیرے حضور پیش ہے.ماضی بطنی جو کچھ بھی میرے بطن میں ہے یہ ائیں دعائیں کریں اور والد بھی ابراہیمی دعائیں کریں کہ اے خدا اہمارے بچوں کو اپنے لئے چن لے ان کو اپنے لئے خاص کرلے تیرے ہو کر رہ جائیں.اور آئندہ صدی میں ایک عظیم الشان را تعین بچوں کی فوج ساری دنیا سے اس طرح داخل ہو رہی ہو کہ وہ دنیا سے آزاد ہو رہی ہو اور محمد رسول اللہ ان کے خدا کی غلام بن کے اس صدی میں داخل ہو رہی ہو چھوٹے چھوٹے بچے ہم خدا کے حضور تحفہ کے طور پر پیش کر رہے ہوں.اور اس وقف کی شدید ضرورت ہے آئندہ سو سالوں میں جس کثرت سے اسلام نے ہر جگہ پھیلتا ہے وہاں لاکھوں تربیت یافتہ غلام چاہئیں.جو محمد رسول اللہ کے خدا کے غلام ہوں واقفین زندگی چاہئیں کثرت کے ساتھ اور ہر طبقہ زندگی سے واقفین زندگی چاہئیں.ہر ملک سے را تعین زندگی چاہئیں.اس سے پہلے بھی ہم تحریک کرتے رہے ہیں بہت کوشش کرتے رہے لیکن بالعوم بعض خاص طبقوں نے عملاً اپنے آپ کو وقف زندگی سے مستنی سمجھا ہے عملا جو واقعین سلسلہ کو ملتے رہے ہیں وہ زندگی کے ہر طبقے سے نہیں آئے بعض بہت صاحب حیثیت لوگوں نے بھی اپنے بچے پیش کئے لیکن بالعموم دنیا کی نظر میں جس طبقے کو بہت زیادہ عزت سے نہیں دیکھا جاتا درمیانے درجہ کا جو طبقہ ہے غریبانہ اس میں سے بچے پیش ہوتے رہے ہیں اس طبقہ سے واقفین زندگی کا آنا ان را تضمین زندگی کی عزت بیٹھانے کا موجب ہے عزت گرانے کا موجب نہیں.لیکن دوسرے طبقوں سے نہ آنا ان طبقوں کی عزت گرانے کا ضرور موجب ہے.پس میں اس پہلو سے مضمون بیان کر رہا ہوں کہ کسی کو ہرگز کوئی یہ غلط فہمی سے نہ مجھے کہ نعوذ باللہ من ذالک جماعت محروم رہ جائے گی اور جماعت کی عزت میں کمی آئے گی اگر ظاہری عزت والے لوگ اپنے بچے وقف نہ کریں.یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان کی عزتیں باقی نہیں رہیں گی جو بظاہر دنیا میں معزز ہیں خدا کے نزدیک وہ اپنے آپ کو آئندہ ذلیل کرتے چلے جائیں گے اگر انہوں نے خدا کے حضور اپنے بچے پیش کرنے کا گر نہ سیکھا اور یقین نہ کر لیا انبیاء کے بچوں سے زیادہ اور کوئی دنیا میں معزز نہیں ہو سکتے انھوں نے اس عاجزی سے وقف کئے ہیں اس طرح گریہ و زاری کے ساتھ دعائیں کرتے ہوئے اور روتے ہوئے وقف کئے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے ان کو دیکھ کر.جماعت کے ہر طبقہ سے لکھو کھا واقفین آنے چاہئیں: اگلی صدی میں واقفین زندگی کی شدید ضرورت ہے کہ جماعت کے ہر طبقہ سے لکھو کہنا کی تعداد میں واقفین زندگی اس صدی کے ساتھ ہم دراصل خدا کے حضور تحفہ پیش کر رہے ہوں گے لیکن استعمال تو اس صدی کے لوگوں نے کرنا ہے بہر حال.تو یہ تحفہ ہم اس صدی کو دینے والے ہیں اس لئے جن کو بھی توفیق ہے وہ اس تحفے کے لئے بھی تیار ہو جائیں.ہو سکتا ہے اس نیت سے اس نذر کی برکت سے بعض ایسے خاندان جن میں اولاد نہیں پیدا ہو رہی اور ایسے میاں بیوی جو کسی وجہ سے اولاد سے محروم ہیں اللہ تعالی اس

Page 17

25 24 قربانی کی روح کو قبول فرماتے ہوئے ان کو بھی اولاد دیدے خدا تعالی اس سے پہلے یہ کر چکا ہے.جو انبیاء اولاد کی دعائیں مانگتے ہیں وقف کی خاطر با نگتے ہیں تو بعض دفعہ پڑھا ہے میں بھی ان کو اولاد ہو جاتی ہے.ایسی صورت میں بھی ہو جاتی ہے کہ بیوی بھی بانجھ اور خاوند بھی.حضرت ذکریا کو دیکھیں کس شان کی دعا کی یہ عرض کرتے ہیں کہ اے خدا!! میں تو بوڑھا ہو گیا ہوں میرا سر بھڑک اٹھا ہے بڑھاپے کے شعلوں سے ہڈیاں تک جل گئی ہیں اور میری بیوی بانجھ ہے عاقر ہے بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت ہی کوئی نہیں لیکن میری یہ تمنا ہے کہ میں تیری راہ میں ایک بچہ پیش کروں میری یہ تمنا قبول فرما دله ان بی تابوت تبقيا اے میرے رب ! میں تیرے حضور یہ دعا کرتے کرتے کبھی بھی مایوس نہیں ہوا.کبھی بھی کسی دعا سے بھی تیرے حضور مایوس نہیں ہوا شفیا کا لفظ حیرت انگیز فصاحت و بلاغت رکھتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اے خدا میں ایسا بد بخت تو نہیں کہ تیرے حضور دعا کر رہا ہوں اور مایوس ہو جاؤں اور تھک جاؤں اس عظمت کی اس درد کی دعا تھی کہ اسی وقت دعا کی حالت میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ ہم نے تجھے بیٹی کی خوشخبری وی خود اس کا نام رکھا اس میں بھی عظیم الشان خدا کے پیار کا اظہار ہے عجیب کتاب ہے قرآن کریم ایسی ایسی پیار کی ادائیں سکھاتی ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے.آپ کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے.آپ سوچتے ہیں کس سے نام رکھوائیں اور اسی جذیہ سے جو لکھی محبت جماعت احمدیہ کو ہر خلیفہ وقت سے ہوتی ہے بعض لوگ بنکہ بڑی کثرت سے لوگ مجھے لکھتے ہیں تو اللہ تعالٰی نے پیشتر اس کے کہ حضرت ذکریا کہتے ہیں میں اس کا کیا نام رکھوں یا سوچتے کہ میں کیا نام رکھوں خوشخبری کے ساتھ ہی فرمایا اسمه يعني ہم رکھ رہے ہیں نام یہ پیار حضرت ذکریا سے تھا یہ حضرت ذکریا کی دعا سے پیار تھا.اگلی صدی میں خدا کے حضور پیش کیا جانے والا تحفہ: میں اس رنگ میں آپ اگلی صدی میں جو خدا کے حضور جو تحفے بھیجنے والے ہیں یا مسلسل بھیج رہے ہیں مسلسل احمدی اللہ تعالی کے فضل کے ساتھ بے شمار چندے دے رہے ہیں.مالی قربانیں کر رہے ہیں ، وقت کی قربانیاں کر رہے ہیں.را تضمین زندگی ہیں ایک تحفہ جو مستقبل کا تحفہ ہے وہ باقی رہ گیا تھا.مجھے خدا نے یہ توجہ دلائی کہ میں آپ کو تا دوں کہ آئندہ دو سال کے اندر یہ محمد کرلیں جس کو بھی جو اولاد نصیب ہوگی وہ خدا کے حضور پیش کر دے اور اگر آج کچھ مائیں حاملہ ہیں تو وہ بھی اس تحریک میں اگر پہلے شامل نہیں ہو سکی تھیں.تو اب ہو جائیں یہ بھی مدد کریں لیکن ماں باپ کو مل کر عہد کرنا ہو گا دونوں کو اکٹھے فیصلہ کرنا چاہئے تاکہ اس سلسلہ میں پھر یک جہتی پیدا ہو اولاد کی تربیت میں اور بچپن ہی سے ان کی اعلیٰ تربیت کرنی شروع کر دیں اور اعلیٰ تربیت کے ساتھ ان کو بچپن ہی سے اس بات پر آمادہ کرنا شروع کریں کہ تم ایک عظیم مقصد کے لئے ایک عظیم الشان وقت میں پیدا ہوئے ہو جبکہ علیہ اسلام کی ایک صدی علیہ اسلام کی دوسری صدی سے مل گئی ہے.اس سنگم پر تمہاری پیدائش ہوئی ہے اور اس نیت اور دعا کے ساتھ ہم نے تجھ کو مانگا تھا خدا ہے کہ اے خدا تو آئندہ نسلوں کی تربیت کے لئے ان کو عظیم الشان مجاہد بنا.اگر اس طرح دعائیں کرتے ہوئے لوگ اپنے آئندہ بچوں کو وقف کریں گے تو مجھے یقین ہے.کہ ایک بہت ہی حسین اور بہت ہی یاری نسل ہماری آنکھوں کے سامنے دیکھتے دیکھتے اپنے آپ کو خدا کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائے گی.اللہ تعالٰی ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 18

*** ** *********** ن بچوں کے متعلق ہمیں کرتا کیا ھے ؟؟ ****

Page 19

IF ۱۳ 14 > IA ۲۲ 29 نمبر شماره مضامین فهرست مضامین واقفین نو سے متعلق بہت ہی اہم تیاری کی ضرورت وقف نو کی تاریخی تحریک میں مزید دو سال کا اضافہ -1- واقفین کے والدین پر عائد ہو نیوالی ذمہ داری مختلف ادوار میں پیش کئے جانیوالے واقفین اور انکی اقسام والدین واقفین پر گہری نظر رکھیں -11 بچوں میں اخلاق حسنہ کی آبیاری کی اہمیت واقفین تو کی تعلیم و تربیت کا اہتمام واقفین کی تعلیم میں وسعت پیدا کریں واقفین ٹو کو منضبط رویہ اپنانے کی تربیت دیں واقفین تو کو مالی امور میں خصوصی احتیاط کی تربیت دیں واقفین کو ٹھوکر سے بچانے والی بعض ضروری احتیاطیں آئندہ صدی کی عظیم لیڈرشپ کا اہل بنانے والی تربیت دیں واقفین بچوں میں وفا کا مادہ پیدا کریں ○

Page 20

31 خطار جمعہ فرموده دار فروری خاتملا کے فضل وقت نو کی تاریخی تحریک میں ۱۲۰۰ گئے بارہ سو سے زائد بچے پیش سے جا چکے ہیں سو میری خواش تیم کمک کے اپنی برا کے الین کے ور ر ا کے من میں کریں شرکت کے خان میری وادی کی اس تحریک میں مست سال اضافہ کیا جاتا ہے ائی خصوصی تربیت کی نیت سے دختر دار عام ہوتی ہے اکی اس نہج پر ریت ضروری ہے کہ اس صدی کی عظیم لیڈر شپ کے اہل بن سکیں.

Page 21

33 32 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ فرموده سید نا حضرت خلیفة المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مورخه - در تبلیغ به المطابق ار ضروری شده اید بمقام بيت الفضل لندن تشهد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا : آئندہ صدی کی کمزور حالت میں تھا اور افریقہ کے ممالک اور ایسے دیگر ممالک جہاں اردو زبان نہیں سمجھی جاتی ہے اور بعض علاقوں میں انگریزی بھی نہیں سمجھی جاتی وہاں ترجمہ کر کے کیسٹیں پھیلانے کا عملاً کوئی ھے انتظام نہیں تھا.اس وجہ سے وہ جو براہ راست پیغام کا اثر ہو سکتا ہے اس سے بہت سے احمدی علاقے محروم رہ گئے.بعد ازاں موثر رنگ میں اس تحریک کو پہنچانا بھی انتظامیہ کی ذمہ داری تھی مگر بعض جگہ اس ذمہ داری کو ادا کیا گیا اور بعض جگہ یا تو ادا نہیں گیا یا تیم دلی کے ساتھ ادا کیا گیا ہے صرف پیغام پہنچانا کافی نہیں ہوا کرتا.کسی جذبے کیساتھ پیغام پہنچایا جاتا ہے، کسی محنت اور کوشش اور خلوص کے ساتھ پیغام پہنچایا جاتا ہے یہ پیغام کے قبول کرنے کیساتھ گہرا تعلق رکھتا ہے.دنیا میں مختلف وقف تو کی تاریخی تحریک کے عرصہ میں مزید دو سال کا اضافہ سکھر آئے.پیغمبر واقفین نوسے متعلق بہت ہی اہم تیاری کی ضرورت تیاری کے سلسلہ میں بنیادی طور پر ان کا ایک ہی پیغام تھا یعنی خدا کا پیغام بندوں کے نام لیکن میں شان کے ساتھ ایک بہت ہی اہم تیاری کا تعلق واقفین تو سے ہے.میں نے وقف تو کی جو تحریک کی تھی اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بارہ سو سے زائد ایسے بچوں کے متعلق اطلاع مل چکی ہے جو وقف تو کی نیت کے ساتھ دعائیں مانگتے ہوئے خدا سے مانگے گئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انکی خیر و عافیت کے ساتھ ولادت کا سامان فرمایا.یہ چھوٹے چھوٹے بیٹے آئند ھندی کے واققین تو کہلاتے ہیں.اس کے علاوہ اور بھی بہت سے خطوط مسلسل ملتے چلے جارہے ہیں.اس سلسلہ میں دو طرح کی تیاریاں میرے پیش نظر ہیں ، مگر اس سے پہلے کہ میں اُس تیاری کا ذکر کروں میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ وقف تو کیلئے جتنی تعداد کی توقع تھی اتنی تعداد ہلکہ اُسکا ایک حصہ بھی ابھی پورا نہیں ہو سکا.اور جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے اسمیں پیغام پہنچانے والوں کا قصور ہے.بہت سے ایسے ممالک میں جہاں عامتہ الناس تک یہ پیغام پہنچایا ہی نہیں گیا اور جن دنوں میں یہ تحریک کی گئی تھی ان دنوں کیسٹ کا نظام آج کی نسبت بہت وہ پیغام حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہنچایا اس شان سے کوئی اور پہنچا نہیں سکا اور جس عظمت اور قدر اور قربانی کی روح کے ساتھ آپ کا پیغام قبول کیا گیا تاریخ انبیاء میں اس عظمت اور قدر اور قربانی کی روح کے ساتھ کسی اور نبی کا پیغام قبول نہیں کیا گیا.اس لیے پیغام پہنچانا کافی نہیں.کسی رنگ میں اور کس جذبے کے ساتھ کس خلوص کیسا تھ ، کس درجہ ثبت اور پیار کے ساتھ دعائیں کرتے ہوئے پیغام پہنچایا جاتا ہے ، یہ وہ چیزیں ہیں جو پیغام کی قبولیت یا عدم قبولیت کا فیصلہ کیا کرتی ہیں.اس لیے میری خواہش یہ تھی کہ کم سے کم پانچ ہزار بچے اگلی صدی کے واقفین ٹو کے طور پر ہم خدا کے حضور پیش کریں.اس تعداد کو پورا کرنے میں ابھی کا فی سفر باقی ہے.بعض دوست یہ لکھ رہے ہیں کہ جہاں تک ان کا تاثر تھا یا میں نے شروع میں خطے میں بات کی تھی اس کا واقعہ یہی نتیجہ نکلتا ہوگا کہ جو اس صدی سے پہلے پہلے بیچے پیدا ہو جائیں گے وہ وقت تو میں لیے جائیں گے اور اس کے بعد یہ سلسلہ بند ہو جائے گا.لیکن

Page 22

35 34 حسین طرح بعض دوستوں کے خطوط سے پتہ چل رہا ہے وہ خواہش رکھتے ہیں لیکن یہ سمجھ کر کہ اب وقت نہیں رہا وہ اس خواہش کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتے ان کیلئے اور مزید تمام دنیا کی جماعتوں کیلئے جن تک ابھی یہ پیغام ہی نہیں پہنچا میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ وقف تو میں شمولیت کیلئے مزید دو سال کا عرصہ بڑھایا جاتا ہے اور فی الحال یہ عرصہ دو سال کیلئے بڑھایا جارہا ہے تا کہ خواہشمند دوست اس پہلی تحریک میں شامل ہو جائیں ورنہ یہ تحریک تو بار بار ہوتی ہی رہے گی لیکن خصوصا وہ تاریخی تحریک جس میں اگلی صدی کیلئے واقفین بچوں کی پہلی فوج تیار ہو رہی ہے اس کا عرصہ آئندہ دو سال تک بڑھایا جارہا ہے.اس عرصے میں جماعتیں کوشش کر لیں اور جس حد تک بھی ممکن ہو، یہ فوج پانچ ہزاری تو ضرور ہو جائے اس سے بڑھ جائے تو بہت ہی اچھا ہے.مقداری بہت سے والدین بھے واقفین کے والدین پر عائد ہونیوالی ذمہ داری لکھ رہے ہیں کہ انھ بچوں کے متعلق ہمیں کرتا کیا ہے تو جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا اس کے دو حصے ہیرے.اول یہ کہ جماعت کی انتظامیہ نے کیا کرتا ہے.اور دوسرا یہ کہ بچوں کے والدین نے کیا کرتا ہے ؟ جہاں تک انتظامیہ کا تعلق ہے اس کے متعلق وقتاً فوقتاً میں ہدایات دیتارہا ہوں اور جو جو نئے خیال میرے دل میں آئیں یا بعض دوست مشورے کے طور پر لکھیں ان کو بھی اس منصوبے میں شامل کر لیا جاتا ہے.لیکن جہاں تک والدین کا تعلق ہے آج میں اس ذمہ داری سے متعلق کچھ باتیں کوئی چاہتا ہوں.خدا کے حضور بچے کو پیش کرتا ایک بہت ہی اہم واقعہ ہے.یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے.اور آپ یاد رکھیں کہ وہ لوگ جو خلوص اور پیار کے ساتھ قربانیاں دیا کرتے ہیں وہ اپنے پیار کی نسبت سے ان قربانیوں کو سجا کر پیش کیا کرتے ہیں.قربانیاں اور تھے دراصل ایک ہی ذیل میں آتے ہیں.آپ بازار سے شاپنگ کرتے ہیں، عام چیز جو گھر کیلئے لیتے ہیں اسے باقاعدہ خوبصورت کاغذوں میں لپیٹ کر اور نیتوں سے باندھ کر سجا کر آپ کو پیش نہیں کیا جاتا.لیکن جب آپ یہ کہتے ہیں کہ یہ ہم نے تحفہ لیتا ہے تو پھر دکاندار بڑے اہتمام سے اسکو سجا کر پیش کرتا ہے.پس قربانیاں تحفوں کا رنگ رکھتی ہیں اور ان کے ساتھ سجاوٹ ضروری ہے.آپ نے دیکھا ہو گا بعض لوگ تو مینڈھوں اور بکروں کو بھی خوب سجاتے ہیں اور بعض تو ان کو زیور پہنا کر پھر قربان گاہوں کی طرف لے کر جاتے ہیں پھولوں کے ہار پہناتے ہیں اور کئی قسم کی سجاو میں کرتے ہیں.انسانی قربانی کی سجاوٹیں اور طرح کی ہوتی ہیں.انسانی زندگی کی سجاوٹ تقوی سے ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیار اور اسکی محبت کے نتیجہ میں انسانی روح بن ٹھن کر تیار ہوا کر تی ہے پیس پیشتر اس کے کہ یہ بچے اتنے بڑے ہوں کہ جماعت کے سپرد کیے جائیں ان ماں باپ کی بہت وختہ داری ہے کہ وہ ان قربانیوں کو اس طرح تیار کریں کہ اُن کے دل کی حسرتیں پوری ہوں جس شان کے ساتھ وہ خدا کے حضور ایک غیر معمولی تحفہ پیش کرنے کی تمنا رکھتے ہیں وہ تمنائیں پوری ہوں.مختلف ادوار میں پیش کئے جانیوالے واقعین اور ائی اقدام اس سے پہلے مختلف ادوار میں جو واقعین جماعت کے سامنے پیش کئے جاتے رہے انکی تاریخ پر نظر رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ کئی قسم کے واقفین ہیں.کچھ تو وہ تھے جنہوں نے بڑی عمروں میں ایسی حالت میں اپنے آپ کو خود پیش کیا کہ خوش قسمتی کے ساتھ ان کی اپنی تربیت بہت اچھی ہوئی تھی اور وقف نہ بھی کرتے تب بھی وہ وقف کی روح رکھنے والے لوگ تھے.وہ صحابہ کی اولاد یا اول تابعین کی اولاد تھے ، انہوں نے اچھے ماحول میں اچھی پرورش پائی اور وہ خدا تعالے

Page 23

37 36 کے فضل کے ساتھ اچھی عادات سے بچے ہوئے لوگ تھے.واقفین کا یہ گروہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر پہلو سے زندگی کے ہر شعبہ میں نہایت کامیاب رہا.پھر ایک ایساد در آیا جب بچے وقف کرنے شروع کئے گئے یعنی والدین نے اپنی اولاد کو خود وقف کرنا چاہا.اس دور میں مختلف قسم کے واقفین ہمارے سامنے آئے ہیں.بہت سے وہ ہیں جن کے متعلق والدین سمجھتے ہیں کہ جب ہم ان کو جماعت کے سپرد کریں گئے تو وہ خود ہی انکی تربیت کریں گے اور اس عرصہ میں انہوں نے ان پر نظر نہیں رکھی پس جب وہ جامعہ احمدیہ میں پیش ہوتے ہیں تو بالکل ایسے RAW MATERIAL.RAW MATERIAL یعنی ایسے خامال بنانے کا خیال آجاتا ہے.حالانکہ تھانیداری سے تو ایسے بچوں کا تعلق ہو سکتا ہے وقف کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہو سکتا.یہ لوگ بہت بعید کی بات سوچتے ہیں.تھانیداری والا تو لطیفہ سے لیکن یہ تو دردناک واقعہ ہے.وہ تو ایک ہفتے والی کہاوت کے طور پر مشہور ہے لیکن یہ تو زندگی کا ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ خدا کے حضور پیش کرنے کیلئے آپ کو لبس گندہ بچہ ہی نظر آیا ہے ، ناکارہ محض بچہ نظر آیا ہے جو ایسی گندی عادتیں لیکر نکلا ہے کہ آپ اس کو ٹھیک نہیں کر سکتے.لیے بچوں تازہ والدین واتین پر گری نظر میں اس سے ہوں کی یہ جوان کیپ آنے والی ہے اس میں ہمارے کے طور پر پیش ہوتے ہیں جس کے اندر مختلف قسم کی بعض ملاوٹیں بھی شامل ہو چکی ہوتی ہیں پاس خدا کے فضل سے بہت سا وقت ہے اور اگر اب ہم انکی پرورش اور تربیت سے ان کو صاف کرنا ایک کار وارد ہوا کرتا ہے اُن کو وقف کی روح کے مطابق ڈھالنا بعض دفعہ مشکل بلکہ محال ہو جایا کرتا ہے.اور بعض یہ عادتیں وہ ساتھ لیکر آتے ہیں جاعت تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتی لیکی غافل رہے تو خدا کے حضور مجرم ٹھہریں گے.اور پھر ہر گز یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اتفاقاً یہ مر واقعہ یہ ہے کہ بعض لڑکوں کو جامعہ میں چوری کے نتیجہ میں وقف سے فارغ کیا گیا ہے.کسی کو جھوٹ کے نتیجہ میں وقف سے فارغ کیا گیا ہے.اب یہ باتیں ایسی ہیں کہ جن کے متعلق تصو بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اچھے نیک صالح احمدی میں پائی جائیں کجا یہ کہ وہ واقفین زندگی میں پائی جائیں.لیکن معلوم یہی ہوتا ہے کہ والدین نے پیش تو کر دیا لیکن تربیت کی طرف توبہ نہ کی یا اتنی دیر کے بعد ان کو وقف کا خیال آیا کہ اس وقت تربیت کا وقت باقی نہیں رہا تھا.بعض والدین سے تو یہ بھی پتہ چلا کہ انہوں نے اس وجہ سے بچہ وقف کیا تھا کہ عادتیں بہت بگڑی ہوئی تھیں اور وہ سمجھتے تھے کہ اس طرح تو ٹھیک نہیں ہوتا ، وقف کر دو تو خود ہی جماعت سنبھائے گی اور ٹھیک کرے گی.جس طرح پرانے زمانے میں بعض واقعہ بگڑے ہوئے بچوں کے متعلق کہتے تھے اچھا ان کو تھا تب دار بنوا دیں گے.تو جماعت میں چونکہ نیکی کی روح ہے اس لیے ان کو تھانیداری کا تو خیال نہیں آتا لیکن واقعی زندگی واقعات ہو گئے ہیں.اسلئے والدین کو چاہیے کہ ان بچوں کے اوپر سب سے پہلے خود گری نظر رکھیں اور جیسا کہ میں بیان کروں گا لبعض تربیتی امور کی طرف خصوصیت سے توجہ دیتے اور اگر خدانخواستہ وہ سمجھتے ہوں کہ بچہ اپنی افتاد طبع کے لحاظ سے وقف کا اہل نہیں ہے تو ان کو دیانتداری اور تقویٰ کے ساتھ جماعت کو مطلع کرنا چاہئیے کہ میں نے تو اپنی صاف نیست سے خدا کے حضور ایک تحفہ پیش کرنا چاہا تھا مگر بد قسمتی سے اس بچے میں یہ یہ باتیں ہیں اگر ان کے باوجود جماعت اس کو لیتے کیلئے تیار ہے تو میں حاضر ہوں اور نہ اس وقت کو منسوخ کر دیا جائے.پس اس طریق پر بڑی سنجیدگی کے ساتھ اب ہمیں آئندہ ان واقفین نو کی تربیت کرنی ہے.بچوں میں اخلاق حسنہ کی آبیاری کی اہمیت یہاں تک اخلاق حسنہ کا تعلق ہے اس سلسلہ میں

Page 24

39 38 جو صفات جماعت میں نظر آنی چاہئیں وہی صفات واقفین میں بھی نظر آتی چاہئیں بلکہ اُن میں وہ بدرجہ اولی نظر آنی چاہئیں.ان صفات حسنہ یا اخلاق سے متعلق میں مختلف خطبات میں آپ کے سامنے مختلف پروگرام رکھتا رہا ہوں.ان سب کو ان بچوں کی تربیت میں خصوصیت سے پیش نظر رکھیں.خلاصہ ہر واقف زندگی بچہ جو وقت تو میں شامل ہے بچپن سے ہی اسکو سچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت ہونی چاہیے اور یہ نفرت اس کو گویا ماں کے دودھ میں ملنی چاہیے جس طرح RADIATION کسی چیز کے اندر سرایت کرتی ہے اس طرح پرورش کرنے والی باپ کی بانہوں میں سچائی اس بچہ کے دل میں ڈوبتی چاہیے.اسکا مطلب یہ ہے کہ والدین کو پہلے سے بہت بڑھ کر سچا ہوتا پڑے گا.ضروری نہیں ہے کہ سب واقفین زندگی کے والدین سچائی کے اُس اعلیٰ معیار پر قائم ہوں جو اعلیٰ درجہ کے مومنوں کے لیے ضروری ہے اس لیے اب ان بچوں کی خاطر ان کو اپنی تربیت کی طرف بھی توجہ کرنی ہوگی اور پہلے سے کہیں زیادہ احتیاط کے ساتھ گھر وقف کے ساتھ پہلو بہ پہلو نہیں مل سکتی.ترش رو واقفین زندگی ہمیشہ جماعت میں ھے مسائل پیدا کیا کرتے ہیں اور بعض دفعہ خطر ناک کتنے بھی پیدا کر دیا کرتے ہیں.اس لیے خوش مزاجی اور اس کے ساتھ متحمل یعنی کسی کی بات کو برداشت کرنا یہ دونوں صفات و انفین بچوں میں بہت ضروری ہیں.مذاق یعنی مزاح اچھی چیز ہے لیکن مزاح کے اندر پاکیزگی ہو تھے چاہیے اور مزاح کی پاکیزگی کئی طرح سے ہو سکتی ہے لیکن میرے ذہن میں اس وقت خاص طور پر دو یا تیں ہیں.ایک تو یہ کہ گندے لطائف کے ذریعہ اپنے یا غیروں کے دل بہلانے کی عادت نہیں ہونی چاہئیے.اور دوسرے یہ کہ اس میں لطاقت ہو.مذاق اور مزاح کے لیے ہم لطاقت کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں لینی اسکو لطیفہ کہتے ہیں.لطیفہ کا مطلب ہی یہ ہے کہ یہ بہت ہی نفیس چیز ہے.ہر قسم کی کرختگی اور بھونڈا پن لطافت سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ کثافت سے تعلق رکھتا ہے.چنانچہ ہندوستان کی اعلیٰ تہذیب میں جب بھی ایسے خاندانوں میں جہاں اچھی روایات ہیں کوئی بچہ ایسا عظیفہ بیان کرتا تھا جو بھونڈا ہو تو اسے کہا جاتا تھا کہ یہ نطقہ نہیں ہے یہ کثیفہ ہے یہ تو بھانڈیں ہے.تو بھانڈین اور اچھے متراح میں بڑا فرقے میں گفتگو کا انداز اپنانا ہوگا اور احتیاط کرنی ہوگی کہ لغو باتوں کے طور پر یا مذاق کے طور پر بھی وہ آئندہ جھوٹ نہیں بولیں گے کیونکہ یہ خدا کی مقدس امانت اب آپ کے گھر میں پل رہی ہے.اسلئے جو مزاح ہمیں آنحضرت صلی الہ علیہ و آلہ وہم اور آپ کے صحابہ کی زندگی میں کہیں کہیں نظر آتا ہے.کیونکہ اکثر اور اسے ہے اور اس مقدس امانت کے کچھ تقاضے ہیں جن کو بہر حال آپ نے پورا کرتا ہے.اس لیے ایسے گھروں کے ماحول سچائی کے لحاظ سے نہایت صاف سترے اور پاکیزہ ہو جاتے سے ان بچوں کو قانع بنانا چاہیے اور حرص و ہوا سے بے رغبتی پیدا کرنی چاہئیے.عقل اور ره مزاج کے واقعات اب محفوظ نہیں ہیں.اسمیں پاکیزگی پائی جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام اور آپ کے صحابہ کی زندگی میں بھی مزاح نظر آتا ہے اور حضرت خلیفتہ المسیح چاہئیں.قناعت کے متعلق میں نے کہا تھا، اس کا واقفین سے بڑا گہرا تعلق ہے.بچپن ہی الثانی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طبیعت میں بھی بڑا مزاج تھا لیکن اس مزاح کے ساتھ دونوں قسم کی پاکیزگی تھی.لیکن بعض ایسے دوستوں کو بھی میں نے دیکھا ہے جنہوں نے مزاج سے نہم کے ساتھ اگر والدین شروع سے تربیت کریں تو ایسا ہوتا کوئی مشکل کام نہیں ہے.عرض یہ رخصت تو حاصل کر لی کہ مزاح میں کبھی وقت گزار لیتا کوئی بری بات نہیں ہے لیکن وہ مفرق نہیں کر سکے کہ مزاح کے ساتھ پاکیزگی ضروری ہے.چنانچہ وہ بعض نہایت گندے اور بھونڈے دیانت اور امانت کے اعلیٰ مقام تک ان بچوں کو پہنچانا ضروری ہے.علاوہ ازیں بچپن سے ایسے بچوں کے مزاج میں شگفتگی پیدا کرنی چاہیے.ترش روئی لطیفے بھی اپنی جلسوں میں بیان کرتے رہے ، اور بعض لوگوں نے اس سے سمجھ لیا کہ کوئی سمجھ

Page 25

41 40 فرق نہیں پڑتا حالانکہ بہت فرق پڑتا ہے.اپنے گھر میں اچھے مزاج کو جاری کریں قائم کریں لیکن ٹہرے مزاج کے خلاف بچوں کے دل میں بچپن سے ہی نفرت اور کراہت پیدا کریں یہ بظاہر چھوٹی سی بات ہے اور اس پر میں نے اتنا وقت لیا ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ انسانی زندگی میں خصوصاً وہ زندگی جو تکلیفوں سے تعلق رکھتی ہو جو ذمہ داریوں سے تعلق رکھتی ہو اور جس میں کئی قسم کے اعصابی تناؤ ہوں وہاں مزاح قبض دفعہ بہت ہی اہم کردار ادا کرتا ہے اور انسانی ذہین اور انسانی نفسیات کی حفاظت کرتا ہے.غنا کے متعلق میں پہلے بیان کر چکا ہوں.قناعت کے بعد پھر غنا کا مقام آتا ہے اور غنا کے نتیجہ میں جہاں ایک طرف امیر سے حسد پیدا نہیں ہوتا وہاں غریب سے شفقت ضرور پیدا ہوتی ہے.غنا کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ غریب کی ضرورت سے انسان غنی ہو جائے انسان اپنی ضرورت سے غیر کی ضرورت کی خاطر غنی ہوتا ہے.اسلامی غنا میں یہ ایک خاص پہلو ہے جسے نظر انداز نہیں کرتا چاہیے.اس لیے واقفین بچے ایسے ہونے چاہئیں جو غریب کی تکلیف سے غنی نہ بنیں لیکن امیر کی امارت سے غنی ہو جائیں اور کسی کو اچھا دیکھ کر انہیں تکلیف نہ پہنچے لیکن کسی کو تکلیف میں دیکھ کر وہ ضرور تکلیف محسوس کریں.جہاں تک انکی تعلیم کا تعلق ہے کی قرآن خوانی سکھا سکتے ہیں اور پھر قرآن کے مطالب سکھا سکتے ہیں کیونکہ قاری دو قسم کے ہوا کرتے ہیں.ایک تو وہ جو اچھی تلاوت کرتے ہیں اور انکی آواز میں ایک کشش پائی جاتی ہے اور تجوید کے لحاظ سے وہ درست ادائیگی کرتے ہیں لیکن محض پرکشش آواز سے تلاوت میں جان نہیں پڑا کرتی.ایسے قاری اگر قرآن کریم کے معنی نہ جانتے ہوں تو وہ تلاوت کا بت تجھ بنا دیتے ہیں تلاوت کے زندہ پیکر نہیں بنا سکتے.لیکن وہ قادری جو سمجھ کر تلاوت کرتے ہیں اور تلاوت کے اس مضمون کے نتیجہ میں اُن کے دل پگھل رہے ہوتے ہیں، ان کے دل میں خدا کی محبت کے جذبات اُٹھ رہے ہوتے ہیں ، ان کی تلاوت میں ایک ایسی بات پیدا ہو جاتی ہے جو اصل روح ہے تلاوت کی.تو ایسے گھروں میں جہاں واقفین زندگی ہیں وہاں تلاوت کے اس پہلو پر بہت زور دینا چاہئیے.خواہ تھوڑا پڑھایا جائے لیکن ترجمہ کے ساتھ.وه مطالب کے بیان کے ساتھ پڑھایا جائے اور بچے کو یہ عادت ڈالی جائے کہ جو کچھ بھی تلاوت کرتا ہے وہ سمجھ کر کرتا ہے.ایک تو روز مرہ کی صبح کی تلاوت ہے اُس میں تو ہو سکتا ہے کہ بغیر سمجھ کے بھی ایک لمبے عرصہ تک آپ کو اسے قرآن کریم پڑھانا ہی ہوگا لیکن ساتھ ساتھ اس کا ترجمہ سکھانے اور مطالب کی طرف متوجہ کرنے کا پروگرام بھی جاری رہنا چاہیئے نماز کی پابندی اور نماز کے جو لوازمات ہیں انکے متعلق بچپن سے تعلیم دینا اور سکھانا یہ بھی واقفین نو کی تعلیم و تربیت کا اہتمام جامه ی تقسیم کازمان تو بعد میں | جامعہ کی میں جامعہ میں آکر سیکھنے والی باتیں نہیں.اس سے بہت پہلے گھروں میں بچوں کو اپنے ماں آئے گا لیکن ابتداء ہی سے ایسے بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم کی طرف سنجیدگی سے متوجہ باپ کی تربیت کے نیچے یہ باتیں آجانی چاہئیں.کرنا چاہئیے.اور اس سلسلہ میں انشاء اللہ یقیناً نظام جماعت بھی ضرور کچھ پروگرام بنائے گا.ایسی صورت میں والدین نظام جماعت سے رابطہ رکھیں اور جب بچے اس عمر میں پہنچیں کہ جہاں وہ قرآن کریم اور دینی باتیں پڑھنے کے لائق ہوسکیں تو اپنے علاقے کے نظام سے یا براہ راست مرکز کو لکھ کر ان سے معلوم کریں کہ اب ہم کس طرح ان کو اعلیٰ درجہ اس کے علاوہ تعلیم میں وسعت تعلیم میں وسعت پیدا کرنے کی اہمیت پیداکرنے کی طرف توقیر کرنی چاہئیے اور دینی تعلیم میں وسوت پیدا کرنے کا ایک طریق یہ ہے کہ مرکزی اختبار و رسائل کا مطالعہ کرتا ہے.بد قسمتی سے اس وقت بعض ممالک ایسے ہیں جہاں مقامی

Page 26

43 42 اختیار نہیں ہیں.اور بعض تو باتیں ایسی ہیں جن میں مقامی اخبار نہیں ہیں.لیکن ابھی ہمارے پاس وقت ہے اور گزشتہ چند سالوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتوں میں اپنے اپنے اخبار جاری کرنے کے رجحان بڑھ چکے ہیں.تو ساری جماعت کی انتظامیہ کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ جب آئندہ دو تین سال میں یہ بچے سمجھنے کے لائق ہو جائیں یا چار پانچ سال تک سمجھ لیں تو اس وقت واقفین تو کیلئے بعض مستقل پروگرام ، بعض مستقل نیچر آپ کے رسالوں اور اخباروں میں شائع ہوتے رہنے چاہئیں کہ وقت تو کیا ہے ؟ ہمہمان سے کیا توقع رکھتے ہیں ؟ اور بجائے اس کے کہ اکٹھا ایک دفعہ ایسا پروگرام دے دیا جائے جو کچھ عرصہ کے بعد بھول جائے ، یہ اخبارات چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تربیتی پروگرام پیش کیا کریں اور جب ایک حصہ رائج ہو جائے تو پھر دوسرے کی طرف متوجیہ ہوں، پھر تیسرے کی طرف متوجہ ہوں.واقفین بچوں کی علمی بنیاد وسیع ہونی چاہئیے.عام طور پر دینی علماء میں یہی کمزوری دکھائی دیتی ہے کہ دین کے علم کے لحاظ سے تو ان کا علم کافی وسیع اور گہرا بھی ہوتا ہے لیکن دین کے دائرہ سے باہر دیگر دنیا کے دائروں میں وہ بالکل لاعلم ہوتے ہیں علم کی اس کمی تے اسلام کو شدید نقصان پہنچایا ہے.وہ وجوہات جو مذاہب کے زوال کا موجب بنتی ہیں اُن میں سے یہ ایک بہت ہی اہم وجہ ہے.اس لیے جماعت احمدیہ کو اس سے سبق سیکھنا چاہئے اور علم کی وسیع بنیاد پر قائم دینی علم کو فروغ دینا چاہیے یعنی پہلے بنیاد عام دنیا وی علم کی وسیع ہو پھر اُس پر دینی علم کا پوند لگے تو بہت ہی خوبصورت اور با برکت ایک شجرہ طیبہ پیدا ہوسکتا ہے.تو اس لحاظ سے بچپن ہی سے ان واقفین بچوں کو جنرل نالج بڑھانے کی طرف متوجہ کرنا چاہئیے.آپ خود متوجہ ہوں تو ان کا علم آپ ہی آپ پڑھے گا یعنی ماں باپ متوجہ ہوں اور بچوں کے لیے ایسے رسائل، ایسے اختبارات لنگولیا کریں مین جائیں تو ایسے مضامین کا انتخاب ہو جس سے سائنس کے متعلق بھی کچھ واقعیت ہو.عام دنیا کے جو آرٹس کے سیکوٹر مضامین ہیں مثلاً معیشت ، اقتصادیات ، فلسفه، نفسیات محراب تجارت وغیرہ ایسے جتنے بھی متفرق امورہ ہیں ان سب میں سے کچھ نہ کچھ علم بچے کو ضرور ہونا چاہیے.علاوہ ازیں پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہیے کیونکہ سکولوں میں تو اتنا زیادہ انسان کے پاس اختیار نہیں ہوا کرتا یعنی بچہ پانچ مضمون چھ مضمون، سات مضمون رکھ لے گا ، بعض دس بھی رکھ لیتے ہیں لیکن اس سے آگے نہیں جا سکتے.اس لیے ضروری ہے کہ ایسے بچوں کو اپنے تدریسی مطالعہ کے علاوہ مطالعہ کی عادت ڈالنی چاہیئے اب یہ چیزیں ایسی ہیں جو ہمارے واقفین زندگی بچوں کے والدین میں سے اکثر کے بس کی نہیں.میں جانتا ہوں کہ بہت سے بیچارے ایسے ہیں افریقہ میں بھی اور ایشیا یورپ اور امریکہ میں بھی جن کے اندر یہ استطاعت نہیں ہے کہ اس پر وگرام کو وہ واقعہ عملی طور پر اپنے بچوں میں رائج کر سکیں.اس لیے یہ جتنی باتیں ہیں تحریک جدید کے متعلقہ شعبہ کو یہ نوٹ کرنی چاہئیں اور اس خطبہ میں جو نکات ہیں اُن کو آئندہ جماعت تک اس رنگ میں پہنچانے کا انتظام کرنا چاہیئے کہ والدین کی اپنی کم علمی اور اپنی استطاعات کی کمی بچوں کی اعلیٰ تعلیم کی راہ میں روک نہ بن سکے.چنانچہ بعض جگہوں پر ایسے بچوں کی تربیت کا انتظام شروع ہی سے جماعت کو کرنا پڑے گا.بعض جگہ ذیلی تنظیموں سے استفادے کئے جا سکتے ہیں، مگر یہ بعد کی باتیں ہیں، اس وقت تو جو ذہن میں چند باتیں آرہی ہیں وہ میں آپ کو سمجھ رہا ہوں کہ ہمیں کسی قسم کے واقفین بچے چاہئیں.منتضبط رویہ اپنانے کی تربیت ایسے دو تین بچے چاہئیں جن کو واقعین | شروع ہی سے اپنے غصے کو ضبط ایسی کتابیں پڑھنے کی انکو عادت ڈالیں جس کے نتیجہ میں ان کا علم وسیع ہو اور جب وہ سکول کرنے کی عادت ہونی چاہیے جن کو اپنے سے کم علم کو حقارت سے نہیں دیکھنا چاہیئے.

Page 27

45 44 جن کو یہ حوصلہ ہو کہ وہ مخالفانہ بات سنیں اور تحمل کا ثبوت دیں.جب ان سے کوئی بات پوچھی جائے تو تحمل کا ایک یہ بھی تقاضا ہے کہ ایک دم منہ سے کوئی بات نہ نکالیں بلکہ کچھ غور کر کے جواب دیں.یہ ساری ایسی باتیں ہیں جو بچپن ہی سے طبیعتوں میں اور عادتوں میں رائج کرنی پڑتی ہیں.اگر بچپن سے یہ عادتیں پختہ نہ ہوں تو بڑے ہو کر بعض دفعہ ایک انسان علم کے ایک بہت بلند معیار تک پہنچنے کے باوجود بھی ان عام سادہ سادہ باتوں سے محروم رہ جاتا ہے.عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب کسی سے کوئی سوال کیا جاتا ہے تو قوراً جواب دیتا ہے خواہ اس بات کا پتہ ہو یا نہ ہو.پھر بعض دفعہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ ایک بات پوچھی اور جس شخص سے پوچھی گئی ہے اس کے علم میں یہ تو ہے کہ یہ بات ہونے والی تھی لیکن یہ علم میں نہیں ہے کہ ہو چکی ہے.اسکے باوجود بسا اوقات وہ کہہ دیتا ہے کہ ہاں ہو چکی ہے.واقفین زندگی کے اندر یہ چیز بہت بڑی خرابی پیدا کر سکتی ہے.میں نے اپنے انتظامی تجربہ میں بارہا دیکھا ہے کہ اس قسم کی خبروں سے بعض دفعہ بہت سخت نقصان پہنچ جاتا ہے مثلاً لنگر خانے میں میں تنا ظلم ہوتا تھا تو فون پر پوچھا کہ اتنے ہزار روٹی پک چکی ہے ؟ تو جواب ملا کہ جی ہاں پک چکی ہے.اس پر تسلی ہو گئی.جب وہاں پہنچا تو پتہ لگا کہ ابھی کئی ہزار کی کمی ہے.میں نے کہا آپ نے یہ کیا ظلم کیا ہے، یہ جھوٹ بولا ، غلط بیانی کی اور اس سے بڑا نقصان پہنچا ہے وہ آدھا گھنٹہ کام ہی نہیں ہو رہا تھا.تو یہ عادت عام ہے.میں نے اپنے وسیع تجر ہے میں دیکھا ہے کہ ایشیا میں خصوصیت کے ساتھ یہ علوت بہت زیادہ پائی جاتی ہے کہ ایک چیز کا اندازہ لگا کر اس کو واقعات کے طور پر بیان کر دیتے ہیں اور واقفین زندگی میں بھی یہ عادت آجاتی ہے یعنی جو پہلے سے واقفین آئے ہوئے ہیں ان کی رپورٹوں میں بھی بعض دفعہ ایسے نقص نکلتے ہیں جس کی وجہ سے جماعت کو نقصان پہنچتا ہے.اس لیے اس بات کی بچپن سے عادت ڈالنی چاہئیے کہ جتنا علم ہے اس کو علم کے طور پر بیان کریں یقینا اندازہ ہے اس کو اندازے کے طور پر بیان کریں.اور اگر بچپن میں آپ نے یہ عادت نہ ڈال تو بڑے ہو کر پھر دوبان بڑی عمر میں اسے رائج کرتا بہت مشکل کام ہوا کرتا ہے کیونکہ ایسی باتیں انسان بغیر سوچے کرتا ہے.عادت کا مطلب ہی یہ ہے کہ خود بخود منہ سے ایک بات نکلتی ہے اور یہ بے احتیاطی بعض دفعہ پھر انسان کو جھوٹ کی طرف بھی لے جاتی ہے اور بڑی مشکل صورت حال پیدا کر دیتی ہے.کیونکہ ایسے لوگوں میں سے بہت سے میں نے ایسے دیکھتے ہیں کہ جب ان سے پوچھا جائے کہ آپ نے یہ کیوں کیا تو بجائے اس کے کہ وہ صاف صاف بیان کریں کہ ہم سے غلطی ہوگئی ہم نے اندازہ لگایا تھا، وہ اپنی پہلی غلطی کو چھپانے کے لیے دوسری دفعہ پھر جھوٹ بولتے ہیں اور کوئی ایسا مندر تلاش کرتے ہیں جس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی.جب اس مندر کو پکڑیں تو پھر ایک اور جھوٹ کہنے لگے کہ نہیں جی جب میں نے بات کی تھی اس سے آدھا گھنٹہ پہلے اتنے ہزار ہو چکی بولتے ہیں.خجالت الگ ، شرمندگی الگ ، سب دنیا ان پر ہنس رہی ہوتی ہے اور وہ تھی تو آدھے گھنٹے میں اتنی تو ضرور بننی چاہیئے تھی.یہ فارمولا تو ٹھیک ہے.لیکن واقعاتی بیچارے جھوٹ پر جھوٹ بول کر اپنی عزت بچانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں.یہ چیزیں بچپن سے شروع ہوتی ہیں.چھوٹے چھوٹے بچے جب کسی بات پر گھر میں پکڑے جاتے ہیں کہ آپ نے یہ کہا تھا یہ نہیں ہوا، اس وقت وہ ایسی حرکتیں کرتے ہیں اور ماں باپ اُس کا نوٹس نہیں لیتے.اس کے نتیجہ میں مزاج بگڑ جاتے ہیں اور پھر بعض دفعہ دنیا میں فارمولے تو نہیں چلا کرتے.واقعہ ایسی صورت میں یہ بات نکلی کہ وہاں کچھ خرابی پیدا ہوگئی.مزدوروں کی آپس میں کوئی لڑائی ہوگئی ، گیس بند ہو گئی کئی قسم کی خرابیاں ایسی پیدا ہو جاتی تھیں تو جس آدھے گھنٹے میں اس نے کئی ہزار کا حساب لگایا ہوا تھا

Page 28

47 46 ایسے بگڑتے ہیں کہ ٹھیک ہو ہی نہیں سکتے عموماً وہ یہ کام شروع کر دیتے ہیں یعنی جھوٹ نہیں ہوا کرتا ، عادت ہے کہ تخمینے یا اندازے کو حقیقت بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے.تو ایسے واقفین اگر جامعہ میں آجائیں گے تو جامعہ میں تو کوئی ایسا جادو نہیں ہے کہ پرانے بگڑے ہوئے رنگ اچانک درست ہو جائیں.ایسے رنگ درست ہوا کرتے ہیں غیر معمولی اندرونی انقلابات کے ذریعہ.وہ ایک الگ مضمون ہے.ہم ایسے انقلابات کے امکانات کو تو نہیں کر سکتے لیکن یہ دستور عام نہیں ہے.اس لیے ہم جب حکمت کے ساتھ اپنی زندگی کے پروگرام بناتے ہیں تو اتفاقات پر نہیں بنایا کرتے بلکہ دستور عام پر بنایا کرتے ہیں.پیس اس پہلو سے بچوں کو بہت گہری تربیت دینے کی ضرورت ہے.پھر عمومی تعلیم میں واقفین بچوں مالی امور میںخصوصی احتیاط کی تعلیم کی بنیاد ویسی کرن کی خاطر اپ کی جو ٹائپ ، سیکھ سکتے ہیں ان کو ٹائپ سکھانا چاہیے.اکاؤنٹس رکھنے کی تربیت دینی چاہیئے دیانت پر جیسا کہ میں نے کہا تھا بہت زور ہونا چاہیے.اموال میں خیانت کی جو کمزوری ہے.یہ بہت ہی بھیانک ہو جاتی ہے اگر واقفین زندگی میں پائی جائے.اس کے بعض دفعہ نہایت ہی خطرناک نتائج نکلتے ہیں.وہ جماعت جو خالصتا طوعی پھندوں پر چل رہی ہے اس میں دیانت کو اتنی غیر معمولی اہمیت حاصل ہے.گویا دیانت کا ہماری شاہ رگ کی حفاظت سے تعلق ہے.سارا مانی نظام جو جماعت احمدیہ کا جاری ہے وہ اعتماد اور حیات کی وجہ سے بھاری ہے.اگر خدانخواستہ جماعت میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ واقفیق زندگی اور سلسلہ کے شعبہ اموال میں کام کر نیوالے خود بد دیانت ہیں تو ان کو چندے دینے کی جو توفیق نصیب ہوتی ہے اس توفیق کا گلا گھونٹا جائے گا.لوگ چاہیں گے بھی تو پھر بھی انکو واقعہ چندہ دینے کی توفیق نہیں ملے گی.اس لیے واقفین کو خصوصیت کے ساتھ الی لحاظ سے بہت ہی درست ہوتا چاہیے اور اس لحاظ سے اکاؤنٹس کا بھی ایک گہرا تعلق ہے جو لوگ اکاؤنٹس نہیں رکھ سکتے ان سے بعض دفعہ مالی غلطیاں ہو جاتی ہیں اور دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ بددیانتی ہوئی ہے.اور بعض دفعہ مالی غلطیوں کے نتیجہ میں وہ لوگ جنکوا کا خوش کا طریقہ نہ آتا ہو ید دیانتی کرتے ہیں اور افسر متعلقہ اس میں ذمہ دار ہو جاتا ہے.وہ لوگ جو اموال پر مقرر ہیں خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کا مالی لحاظ سے دیانت کا معیار جماعت احمدیہ میں اتنا بلند ہے کہ دنیا کی کوئی جماعت بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.لیکن خرابیاں پھر بھی دکھائی دیتی ہیں.عمداً بد دیانتی کی مثالیں تو بہت شاذ ہیں یعنی انگلیوں پر گینی جاسکتی ہیں لیکن ایسے واقعات کی مثالیں بہت سی ہیں (یعنی بہت سی سے مراد یہ ہے کہ مقابلہ بہت ہیں ) کہ جن میں ایک شخص کو حساب رکھنا نہیں آتا ، ایک شخص کو یہ نہیں پتہ کہ میں دستخط کرنے لگا ہوں تو اسکے نتیجہ میں میری کیا ذمہ داری ہے ؟ مجھے کیا دیکھنا چاہیے ؟ جس کو جمع تفریق نہیں آتی اس بیچارے کے نیچے بعض دفعہ بد دیا نگیان ہو جاتی ہیں اور بعد میں پھر الزام اس پر لگتے ہیں اور بعض دفعہ تحقیق کے نتیجہ میں وہ تمبری بھی ہو جاتا ہے.بعض دفعہ معاملہ اٹھا ہی رہتا ہے پھر ہمیشہ ایہام باقی رہ جاتا ہے کہ پتہ نہیں بددیانت تھا یا نہیں.اس لیے اکاؤنٹس کے متعلق تمام واقفین بچوں کو شروع سے ہی تربیت دینی چاہئیے.تبھی میں نے حساب کا ذکر کیا تھا کہ ان کا حساب بھی اچھا ہو اور ان کو بچپن سے تربیت دی جائے کہ کس طرح اموال کا حساب رکھا جاتا ہے.روز مرہ سودے کے ذریعہ سے نہی ان کو یہ تربیت دی جاسکتی ہے.اور پھر سودا اگر ان کے ذریعے کبھی منگولیا جائے تو اس سے انکی دیانتداری کی نوک پلک مزید درست کی جاسکتی ہے.مثلاً بعض بچوں سے ماں باپ سودا منگواتے ہیں تو وہ چند پیسے جو بچتے ہیں وہ جیب میں رکھ دیتے ہیں ، بد دیانتی کے طور پر نہیں اُن کے ماں باپ کا مال ہے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ

Page 29

49 48 یہ پیسے کیا واپس کرتے ہیں.وہ وقت ہے تربیت کرنے کا.اس وقت ان کو کہنا ں کرنی چاہیے کہ سودا منگوانے میں اگر ایک دھیلا، ایک دمڑی بھی باقی بچی ہو تو واپس چاہیے.پھر چاہے دھیلے کی بجائے دس روپے مانگو اسکا کوئی حرج نہیں.لیکن بغیر بتائے کے جو دھیلا جیب میں ڈالا جاتا ہے کہ یہ بچ گیا تھا اس کا کیا واپس کرتا تھا.اس نے آئندہ بد دیانتی کے بیج بو دیے ہیں ، آئندہ بے احتیاطیوں کے بیج بو دیتے ہیں.تو وہیں جو گویا تی اور بنتی ہیں وہ در اصل گھروں میں ہی بگڑتی اور بنتی ہیں.ماں باپ اگر باریک نظر سے اپنے بچوں کی تربیت کر رہے ہوں تو وہ عظیم مستقبل کی تعمیر کر رہے ہوتے ہیں سے گولی چلائی جائے اتنی دیر تک سیدھی رہتی ہے.خدام کی حد تک اگر تربیت کی نالی لمبی ہو جائے تو خدا کے فضل سے پھر موت تک وہ انسان سیدھا ہی چلے گا إِلا ما شاء اللہ.تو اس پہلو سے بہت ضروری ہے کہ نظام کا احترام سکھایا جائے.پھر اپنے گھروں میں کبھی ایسی بات نہیں کرنی چاہیئے جس سے نظام جماعت کی تخفیف ہوتی ہو یا کسی عہدیدار کے خلاف شکوہ ہو.وہ شکوہ اگر سچا بھی ہے پھر بھی اگر وہ آپ نے اپنے گھر میں کیا تو آپکے بچے ہمیشہ کیلئے اس سے زخمی ہو جائیں گے.آپ تو شکوہ کرنے کے باوجود اپنے ایمان کی حفاظت کر سکتے ہیں لیکن آپ کے بچے زیادہ گہراز خم محسوس یعنی بڑی شاندار تو میں ان کے گھروں میں تخلیق پاتی ہیں.لیکن یہ چھوٹی چھوٹی بے احتیاطیاں کریں گئے.یہ ایساز خم ہوا کرتا ہے کہ جس کو لگتا ہے، اسکو کم لگتا ہے جو قریب کا دیکھتے بڑے بڑے عظیم اور بعض دفعہ سنگین نتائج پہ منتج ہو جایا کرتی ہیں.پس مالی لحاظ سے واقفین بچوں کو تقویٰ کی باریک راہیں سکھائیں.یہ جتنی باتیں میں کہہ رہا ہوں ان سب کا اصل میں تقویٰ ہی سے تعلق ہے.تو تقوی کی کچھ موٹی راہیں ہیں جو عام لوگوں کو آتی ہیں.کچھ مزید باریک راہیں ہیں اور واقفین کو ہمیں نہایت لطیف رنگ میں تقوی کے تربیت دینی چاہیئے.ٹھوکر سے بچا نیوالی بعض ضروری احتیاطیں اس کے علاوہ واقفین بیچوں میں سخت جانی کی عادت ڈالنا ، نظام جماعت کی اطاعت کی بچپن سے عادت ڈالنا - اطفال الاحمدیہ سے وابستہ کرنا ، ناصرات سے وابستہ کرتا ، خدام الاحمدیہ سے وابستہ کرتا بھی بہت ضروری ہے.انصار اللہ کی ذمہ داری تو بعد میں آئے گی لیکن ۱۵ سال کی عمر تک ، خدام کی حد تک تو آپ تربیت کر سکتے ہیں.خدام کی حد تک اگر تربیت ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھر انصار کی عمر میں بگڑنے کا امکان شاد کے طور پر ہی کوئی ہوگا ورنہ جتنی لمبی تالی والا ہے اس کو زیادہ لگتا ہے اس لیے اکثر وہ لوگ جو نظام جماعت پر تبصرے کرتے میں بے احتیاطی کرتے ہیں انکی اولادوں کو کم و بیش ضرور نقصان پہنچتا ہے اور بعفر ہمیشہ کے لیے ضائع ہو جاتی ہیں.واقفین بچوں کو نہ صرف اس لحاظ سے بتانا چاہیئے بلکہ یہ بھی سمجھانا چاہیے کہ اگر تمہیں کسی سے کوئی شکایت ہے خواہ تمہاری تو قعات اس کے متعلق کتنی ہی عظیم کیوں نہ ہوں اس کے نتیجہ میں تمہیں اپنے نفس کو ضائع نہیں کرنا چاہیے.اگر کوئی امیر جماعت ہے اور اس سے ہر انسان کو توقع ہے کہ یہ کرے اور وہ کرے اور کسی توقع کو اس سے ٹھوکر لگ جاتی ہے تو واقفین زندگی کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ان کو یہ خاص طور سمجھایا جائے کہ اس ٹھو کر کے نتیجہ میں تمہیں ہلاک نہیں ہوتا چاہیے.یہ بھی اسی قسم کے زخم والی بات ہے جس کا میں نے ذکر کیا ہے یعنی دراصل ٹھوکر تو کھاتا ہے کوئی عہدیدار اور لحد میں اتر جاتا ہے دیکھنے والا.وہ تو ٹھو کر کھا کر پھر بھی اپنے دین کی حفاظت کر لیتا ہے.اپنی غلطی پر انسان استغفار کرتا ہے اور سنبھل جاتا ہے وہ اکثر ہلاک نہیں ہو جایا کرتا سوائے اس کے کہ بعض خاص غلطیاں ایسی ہوں لیکن

Page 30

51 50 جن کا مزاج ٹھوکر کھانیوالا ہے وہ ان غلطیوں کو دیکھ کر بعض دفعہ ہلاک ہی ہو جایا کرتے ہیں، دین سے ہی منتظر ہو جایا کرتے ہیں اور پھر جراثیم پھیلانے والے بن جاتے ہیں مجلسوں میں بیٹھ کر جہاں دوستوں میں تذکرے ہوتے ہیں وہاں کہدیا جی فلاں صاحب نے تو یہ کیا تھا اور فلاں صاحب نے یہ کیا تھا اس طرح وہ ساری قوم کی ہلاکت کا موجب - بن جاتے ہیں.تو بچوں کو پہلے تو اس بلا سے محفوظ رکھیں.پھر جب ذرا بڑی عمر کے ہوں تو ان کو سمجھائیں کہ اصل محبت تو خدا اور اُس کے دین سے ہے.کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جس سے خدائی جماعت کو نقصان پہنچتا ہو.آپ کو اگر کسی کی ذات سے تکلیف پہنچی ہے یا نقصان پہنچا ہے تو اسکا ہرگز یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ آپ کو حق ہے کہ اپنے ماحول، اپنے دوستوں ، اپنے بچوں اور اپنی اولاد کے ایمانوں کو بھی آپ ترقی کرتا شروع کر دیں.اپنا زخم حوصلے کے ساتھ اپنے تک رکھیں اور اس کے اندمال کے جو ذرائع باقاعدہ خدا تعالیٰ نے جیا لڑتے ہیں انکو اختیار کریں لیکن لوگوں میں ایسی باتیں کرنے سے پر ہیز کریں.ہمارے ساتھ یہ ہوا ہے، وہ قصے بیان کرنے شروع کئے.خود تو اس طرح پیچ کے واپس اپنے ملک میں چلے گئے اور پیچھے کئی زخمی رو میں چھوڑ گئے ان کا گناہ کس کے سر پہ ہوگا.یہ بھی ابھی طے نہیں ہوا کہ انتظامیہ کی غلطی تھی بھی یا نہیں.اور جہاں تک میں نے جائزہ لیا ، غلطی انتظامیہ کی نہیں تھی.بدھنی سے سارا سلسلہ شروع ہوا لیکن اگر غلطی ہوتی بھی تب بھی کسی کا یہ حق نہیں ہے کہ اپنی تکلیف کی وجہ سے دوسروں کے ایمان ضائع کرے.پیس سچا و قلیا وہ ہوا کرتا ہے جو خدا تعالیٰ کی جماعت پر نظر رکھے.اسکی صحت پر نظر رکھے.پیار کا وہی ثبوت سچا ہے جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے تجویز کیا تھا اور اس سے زیادہ بہتر قابل اعتماد اور کوئی بات نہیں.آپ نے سنا ہے بار ہا مجھ سے بھی سنا ہے پہلے بھی سنتے رہے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت سلیمان کی عدالت میں دو دعویدار ماؤں کا جھگڑا پہنچا.جن کے پاس ایک ہی بچہ تھا کبھی ایک گھسیٹ کر اپنی طرف لے جاتی تھی کبھی دوسری گھسیٹ کر اپنی طرف لے جاتی تھی اور دونوں روتی اور شور چاتی تھیں کہ یہ میرا بچہ ہے.کسی صاحب قہم کو سمجھ نہیں آئی کہ اس مسئلہ کو کیسے طے آئندہ صدی کی عظیم لیڈر شیک اہل بنان والی تربیت آج بھی جاعت کیا جائے.چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی عدالت میں یہ مسئلہ پیش کیا گیا تو آپ میں ایسی باتیں ہو رہی ہیں اور ایسے واقعات میری نظر میں آتے رہتے ہیں.مثلاً ایک شخص کو کوئی تکلیف پہنچی ہے اور اس نے بعض مخلصین کے سامنے وہ باتیں بیان کیں.وہ باتیرے اگرچہ سچی تھیں لیکن اس نے یہ نہیں سوچا کہ ان مخلصین کے ایمان کو کتنا بڑا نقصان پہنچے سکتا ہے.بعض واقفین زندگی نے بھی ایسی حرکتیں کیں ، ان کو انتظامیہ سے یا تبشیر سے شکوہ ہوا غیر ملکوں کے تو احمدی مخلصین بیچارے ساری عمر بڑے اخلاص کے ساتھ جماعت سے تعلق رکھتے تھے ان کو اپنا ہمدرد بنانے کی خاطر یہ بتانے کیلئے کہ دیکھیں جی نے فرمایاکہ برطے کرنا تو بڑا مشکل ہے کہ یہ کس کا بچہ ہے.اگر ایک کا بچہ کا ہوا اور دوسری کو دے دیا گیا تو بڑا ظلم ہوگا اس لیے کیوں نہ اس بچے کو دو ٹکڑے کر دیا جائے اور ایک ٹکڑا ایک کو دے دیا جائے اور دوسرا ٹکڑا دوسری کو دے دیا جائے.تاکہ نا انصافی نہ ہو.چنانچہ انہوں نے جلاد سے کہا کہ آؤ اس بچے کو عین بیچ سے نصف سے دو ٹکڑے کر کے ایک، ایک کو دے دو.اور دوسرا دوسری کو دے دو.جو ماں تھی وہ روتی چیختی ہوئی بچے پر گر پڑی کہ میرے ٹکڑے کر دو اور یہ بچہ اسکودے دو لیکن خدا کے لیے اس بچہ کو کوئی گزند نہ پہنچے.اس وقت حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا

Page 31

53 52 کہ یہ بچہ اس کا ہے.پیس جو خدا کی خاطر جماعت سے محبت رکھتا ہے ، کیسے ممکن ہے کہ وہ جماعت کو ٹکڑے ہوتے دے اور ایسی باتیں برداشت کر جائے کہ جس کے نتیجہ یں کس کے ایمان و گزند پہ یا ہو.وہ اپنی جان پر سب وہاں سے لیگا اور یہی اسکی سچائی کی علامت ہے.لیکن اپنی تکلیف کو دوسرے کی روح کو زخمی کرنے کیلئے استعمال نہیں کریگا پس واقفین میں اس تربیت کی غیر معمولی ضرورت ہے.کیونکہ یہ ایک دفعہ واقعہ نہیں ہوا، دو دفعہ نہیں ہوا بیسیوں مرتبہ پہلے ہو چکا ہے اور اس کے نتیجہ میں بعض دفعہ بڑے فتنے پیدا ہوئے ہیں.ایک شخص سمجھتا ہے کہ میں نے خوب چالاکی کی ہے خوب انتقام لیا ہے، اس طرح تحریک جدید نے مجھ سے کیا اور اسطرح پھر میں نے اس کا جواب دیا.اب دیکھ لو میرے پیچھے کتنا بڑا گروہ ہے.اور یہ نہیں سوچا کہ وہ گردہ اس کے پیچھے نہیں وہ شیطان کے پیچھے تھا.وہ بجائے متقیوں کا امام بننے کے منافقین کا امام بن گیا ہے اور اپنے آپکو بھی ہلاک کیا ہے اور اپنے پیچھے پیلنے والوں کو بھی ہلاک کیا.پس یہ چھوٹی چھوٹی باتیں سہی لیکن غیر معمولی نتائج پیدا کر یوالی باتیں ہیں.آپ بچپن سے ہی اپنے واقفین تو کو یہ باتیں سمجھائیں اور پیار محبت سے ان کی تربیت کریں تاکہ وہ آئندہ صدی کی عظیم لیڈرشپ کے اہل بن سکیں.| اور بہت سی باتوں میں جو آخر واقفین بچوںمیں وفا کا مادہ پیدا کریں سے ایک ہم بات کہ میں از پر کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ واقفین بچوں کو وفا سکھائیں.وقف زندگی کا وفا ہے بہت گہرا تعلق ہے.وہ واقف زندگی جو دتا کے ساتھ آخری سانس تک اپنے وقف کیساتھ نہیں چھٹتا وہ جب الگ ہوتا ہے تو خواہ جماعت اسکو سزادے یا نہ دے وہ اپنی روح پر غداری کا داغ لگا لیتا ہے.اور یہ بہت بڑا داغ ہے.اس لیے آپ نے جو فیصلہ کیا اپنے بچوں کو وقف کرنے کا یہ بہت بڑا فیصلہ ہے.اس فیصلے کے نتیجہ میں یا تو یہ بچے عظیم اولیاء نہیں گے یا پھر عام حال سے بھی جاتے رہیں گئے اور ان کوشدید نقصان پہنچنے کا بھی احتمال ہے.جتنی بلندی ہو اتنا ہی بلندی سے گرنے کا خطرہ بھی تو بڑھ جایا کرتا ہے.اسلیئے بہت احتیاط سے انکی تربیت کریں اور ان کو وفا کے سبق دیں اور بار بار دیں.بعض دفعہ ایسے واقفین جو وقف چھوڑتے ہیں وہ اپنی طرف سے چالاکی سے چھوڑتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب ہم جماعت کی حد سے باہر نکل گئے ، اب ہم آزاد ہو گئے ، اب ہمارا کچھ نہیں کیا جاسکتا.یہ چالا کی تو ہوتی ہے لیکن عقل نہیں ہوتی.وہ چالاکی سے اپنا نقصان کر نیوالے ہوتے ہیں.ابھی کچھ عرصہ پہلے میرے سامنے ایک ایسے واقف زندگی کا معاملہ آیا جسکی ایسے ملک میں تقرری تھی کہ اگر وہاں ایک معین عرصہ تک وہ رہے تو وہاں کی HATTONALITY کا حقدار بن جاتا تھا.بعض وجوہات سے میں نے اس کا تبادلہ ضروری سمجھا.چنانچہ جب میں نے اس کا تبادلہ کیا تو چھ یا سات ماہ ابھی اس مدت میں باقی تھے جس کے بعد وہ نیشنیلٹی کا حقدار بنتا تھا تو اس کے بڑے لجاجت کے اور محبت اور خلوص کے خط آنے شروع ہوئے کہ مجھے یہاں قیام کی کچھ مزید مہلت دی جائے میں نے وہ مہلت دے دی.بعض صاحب فہم لوگوں نے سمجھا کہ وہ مجھے بیوقوف بنا گیا ہے.چنانچہ انہوں نے لکھا کہ جناب یہ تو آپ کے ساتھ چالا کی کر گیا ہے.اور یہ تو چاہتا ہے کہ عرصہ پورا ہو اور پھر وقف سے آزاد ہو جائے پھر اس کو پر واہ کوئی نہ رہے.میں نے ان کو بتایا یا لکھا کہ مجھے سب پتہ ہے.آپ کیا سمجھتے ہیں کہ میرے علم میں نہیں کہ یہ کیوں ایسا کر رہا ہے.لیکن وہ میرے ساتھ چالا کی نہیں کر رہا وہ اپنے نفس کے ساتھ چالا کی کر رہا ہے.وہ ان لوگوں میں سے ہے جن کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے.تخدِمُونَ اللَّهَ وَالَّذِيْنَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ

Page 32

55 54 ل انفسهم اس لیے میں اس کی ڈور ڈھیلی چھوڑ رہا ہوں تا کہ یہ جو مجھے قطن ہے اور آپ کو بھی ہے یہ کہیں برتی نہ ہو.اگر وہ اس قسم کا ہے جیسا آپ سمجھو رہے ہیں اور جیسا تجھے بھی گمان ہے تو پھر وقف میں رہنے کے لائق نہیں ہے.بدظنی کے نتیجہ میں یعنی اس فن کے نتیجہ میں جو برفتی بھی ہو سکتی ہے بجائے اسکے کہ ہم اسکو بدلتے پھریں اور اس کو بچاتے پھریں اس کو موقعہ ملنا چاہیے.چنانچہ وہ حیران رہ گیا کہ میں نے اسکو اجازت دیدی ہے.پھر اس نے کہا اب مزید اتنا عرصہ مل جائے تو اتنا روپیہ بھی مجھے مل جائے گا.میں نے کہا بیشک تم وہ بھی لے لو.اور جب وہ واپس گیا تو اس کے بعد وہی ہوا جو ہونا تھا.کیسی بے وقوفوں والی چال کی ہے.بظاہر سمجھ کی وہ بات جو تقوی سے خالی ہوا کرتی ہے اس کو ہم عام دنیا میں چالا کی کہتے ہیں.ہیں اپنے بچوں کو سطحی چالاکیوں سے بھی بچائیں.بعض بچے شوخیاں کرتے ہیں اور چالاکیاں کرتے ہیں اور ان کو عادت پڑ جاتی ہے وہ دین میں بھی پھر ایسی شوخیوں اور چالاکیوں سے کام لیتے رہتے ہیں اور اسکے نتیج میں بعض دفعہ ان شوخیوں کی تیزی خود ان کے نفس کو ہلاک کر دیتی ہے.اس لیے وقف کا معاملہ بہت اہم ہے.واقفین بچوں کو یہ سمجھائیں کہ خدا کے ساتھ ایک عہد ہے جو ہم نے تو بڑے خلوص کے ساتھ کیا ہے.لیکن اگر تم اس بات کے متحمل نہیں ہو تو تمہیں اجازت ہے کہ تم واپس چلے جاؤ.ایک گیٹ اور بھی آئے گا جب یہ بچے بلوغت کے قریب پہنچ رہے ہوں گے.اسوقت دوبارہ جماعت ان سے پوچھے گی کہ وقف میں رہتا چاہتے ہو یا نہیں چاہتے.ایک دفعہ امریکہ میں ڈزنی لینڈ میں جانے کا اتفاق ہوا وہاں ایک RIDE ایسی تھی جس میں بہت ہی زیادہ خوفناک موڑ آتے تھے اور اسکی رفتار بھی تیز تھی اور اچانک بڑی تیزی کے ساتھ مڑتی تھی تو کمزور دل والوں کو اس سے خطرہ تھا کہ ممکن ہے کسی کا دل ہی نہ بیٹھ جائے.چنانچہ انہوں نے WARNINGS لگائی ہوئی تھیں کہ اب بھی واپس جا سکتے ہو.اب بھی واپس جا سکتے ہو اور پھر آخری ایک وارنگ تھی سرخ رنگ میں کہ اب یہ آخری ہے اب واپس نہیں جا سکو گے.تو وہ بھی ایک گیٹ جماعت میں آنے والا ہے جب ان بچوں سے جو آج وقف ہوئے ہیں ان سے پوچھا جائے گا کہ اب یہ آخری دروازہ ہے پھر تم واپس نہیں جا سکتے.اگر زندگی کا سودا کرنے کی ہمت ہے ، اگر اس بات کی توفیق ہے کہ اپنا سب کچھ خدا کے حضور پیش کر دو اور پھر کبھی واپس نہ لو، پھر تم آگے آؤ ورنہ تم اُلٹے قدموں واپس مڑ جاؤ.تو اس دروازے میں داخلے کیلئے آج سے انکو تیار کریں.وقف وہی ہے جس پر آدمی وقا کے ساتھ تادم آخر قائم رہتا ہے.ہر قسم کے زخموں کے باوجود انسان گھسٹتا ہوا بھی اسی راہ پر بڑھتا ہے.واپس نہیں مڑا کرتا.ایسے وقف کے لیے اپنی آئندہ نسلوں کو تیار کریں.اللہ آپ کے ساتھ ہو.اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم واقفین کی ایک ایسی فوج خدا کی راہ میں پیش کریں جو ہر قسم کے ان ہتھیاروں سے مزین ہو جو خدا کی راہ میں جہاد کرنے کیلئے ضروری ہوا کرتے ہیں اور پھر اُن پر انکو کامل دسترس ہو.“ مرتبہ : ک - س - م ) (کتابت : م - ا.خ )

Page 33

واتین کی نئی نسل کی تیاری محمد میں کو نصائح ☑ *****:

Page 34

فهرست مضامین مضامین واقعین نو کی بدنی صحت کا خاص طور پر خیال رکھیں ان کے علم کا دائرہ وسیع کریں انہیں گندے لڑیچر سے دور رکھیں صفحه نمبر 1 2 2 اپنے بچوں کو جو کچھ آپ پڑھاتے ہیں اس کے متعلق خوب متنبہ رہیں 5 سب سے زیادہ زور عربی زبان پر دینا چاہئے عربی کے بعد اردو بھی بہت اہمیت رکھتی ہے 5 6 7 7 آئندہ وا تین نسلوں کو کم از کم تین زبانوں کا ماہر بنانا ہوگا عربی اردو اور مقامی زبان وا تین بچوں کو خوش اخلاق بنائیں خوش اخلاق ان معنوں میں کہ لوگوں کو پیار سے جیت سکتے ہوں 8 آپ کی دلی خواہش یہی ہونی چاہئے کہ واقعین بچیاں وا تعین سے بیاہی جائیں را تعین بچوں کو ایجو کیشن ، میڈیکل ، کمپیوٹر، ٹا پنگ اور زبانوں کی تعلیم دیں 11 نمبر شمار -1 -2 -3 -5 -6 -7 -8 -10 -11

Page 35

61 بسم الله الرحمن الرحیم خطبہ جمعہ فرمودہ سید نا حضرت خلیفہ صبیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مورخہ یا فروری ۱۹۸۹ء بمقام ہالینڈ تشهد، تعوز اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : یہ خطبہ جمعہ جو آج میں احمدیہ مشن ہالینڈ میں دے رہا ہوں دراصل میرے گزشتہ خطبے کا ایک تمہ ہے اور اس خطبے میں نسبتاً آہستہ گفتگو کروں گا کیونکہ اس خطبے میں ساتھ ساتھ (ڈچ) زبان میں ترجمہ کیا جا رہا ہے اور جہاں تک میرا گزشتہ تجربہ ہے یہاں ڈچ ترجمہ کرنے والے جو انگریزی سے تو بہت اچھا اور ساتھ ساتھ رواں ترجمہ کر لیتے ہیں مگر ڈچ زبان میں باوجود مہارت کے ساتھ ساتھ تیزی سے ترجمہ کرنے کی استطاعت ابھی ہمارے مبلغین میں نہیں ہے.یعنی اردو سے براہ راست ترجمہ کرنے کی.اسلئے فقرے بھی چھوٹے بولنے پڑیں گے تاکہ مضمون کا کوئی حصہ ضائع نہ ہو جائے.میں نے گزشتہ خطبے میں واقفین کی نئی نسل کی تیاری کے سلسلے میں کچھ نصائح کی تھیں.یعنی واقفین کی اس نسل کی تیاری کے سلسلے میں جو انگلی صدی کے تحفے کے طور پر جماعت احمد یہ خدا تعالٰی کے حضور پیش کر رہی ہے.چونکہ یہ مضمون پوری طرح گزشتہ خطبے میں ادا نہیں ہو سکا بعض پہلو رہ گئے اور بعض مزید وضاحت کے محتاج تھے اسلئے آج مختصرا" میں ای کو بیان کرونگا.واقفین کی تیاری کے سلسلے میں ان کی بدنی صحت کا بھی خاص طور پر خیال رکھنا ضروری ہے.وہ وا تفسین جو مختلف عوارض کا شکار رہتے ہیں اگرچہ بعض ان میں سے خدا تعالی سے توفیق پا کر غیر معمولی خدمت بھی سرانجام دے مضمون

Page 36

88 62 سکتے ہیں لیکن با العموم صحت مند وا تعین ہمار و تعین کے مقابل پر زیادہ خدمت کے اہل ثابت ہوتے ہیں اسلئے بچپن ہی سے انکی صحت کی بہت احتیاط کے ساتھ نگہداشت ضروری ہے.پھر انکو مختلف کھیلوں میں آگے بڑھانے کی باقاعدہ کوشش کرنی چاہئے.ہر شخص کا مزاج کھیلوں کے معاملے میں مختلف ہے.پس جس کھیل سے بھی کسی واقف بچے کو رغبت ہو اس کھیل میں حتی المقدور کوشش کے ساتھ ماہرین کے ذریعے اسکو تربیت ولانے کی کوشش کرنی چاہئے.بعض دفعہ ایک ایسا مربی جو کسی کھیل میں مہارت رکھتا ہو محض اس کھیل کی وساطت سے لوگوں پر کافی اثر رسوخ قائم کر لیتا ہے اور نوجوان نسلیں اسکے ساتھ خاص طور پر وابستہ ہو جاتی ہیں.پس ہم تربیت کا کوئی بھی راستہ اختیار کریں.کیونکہ ہماری نیتیں خالص ہیں.اسلئے وہ رستہ خدا ہی کی طرف جائے گا.دنیاوی تعلیم کے سلسلے میں میں نے بیان کیا تھا کہ انکی تعلیم کا دائرہ وسیع کرنا چاہئے.انکے علم کا دائرہ سرچ کرنا چاہئے اس سلسلے میں قوموں کی تاریخ اور مختلف ممالک کے جغرافیہ کو خصوصیت کے ساتھ انکی تعلیم میں شامل کرنا چاہئے.لیکن تعلیم میں بچے کے طبعی بچپن کے رحجانات کو ضرور پیش نظر رکھنا ہوگا.اور محض تعلیم میں ایسی سنجیدگی اختیار نہیں کرنی چاہئے جس سے وہ بچہ یا تو با الکل تعلیم سے بے رغبتی اختیار کر جائے یا دوسرے بچوں سے اپنے آپ کو باالکل الگ شمار کرنے لگے اور اسکا طبعی رابطہ دوسرے بچوں سے منقطع ہو جائے.مثلا" بچے کہانیاں بھی پسند کرتے ہیں.اور ایک عمر میں جا کر انکو ناولز کے مطالعہ سے بھی دور نہیں رکھنا چاہئے لیکن بعض قسم کی لغو کہانیاں جو انسانی طبیعت پر گندے اور گہرے بد اثرات چھوڑ جاتی ہیں ان سے انکو بچانا چاہیے خواہ نمونے کے طور پر ایک آدھ کہانی انہیں پڑھا بھی دی جائے.بعض بچے (DETECTIVE STORIES) یعنی جاسوسی کہانیوں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں لیکن اگر انہیں اسی قسم کی نفو جاسوسی کہانیاں پڑھائی جائیں جیسے آجکل پاکستان میں رائج ہے.اور بعض مصنف بچوں میں غیر معمولی شہرت اختیار کر چکے ہیں جاسوسی کہانیوں کے مصنف کے طور پر تو پچائے اسکے کہ انکا ذہن تیز ہوا کی استدلال کی طاقتیں میٹل ہو جائیں اور زیادہ پہلے سے بڑھ کر ان میں استدلال کی قوت چکے وہ ایسے جاہلانہ جاسوسی تصورات میں جلا ہو جائیں گے کہ جسکا نتیجہ عقل کے ماؤف ہونے کے سوا اور کچھ نہیں نکل سکتا.شریک ہومز کو تمام دنیا میں جو غیر معمولی عظمت حاصل ہوئی ہے وہ بھی تو جاسوسی ناول لکھنے والا انسان تھا لیکن اسکی جاسوسی کہانیاں دنیا کی اتنی زبانوں میں ترجمہ ہوئی ہیں کہ آج تک کسی دوسرے مصنف کی اس طرز کی کہانیاں دوسری زبانوں میں اسطرح ترجمہ نہیں کی گئیں.چ طرح شیکسپیٹر کے نام پر انگریز قوم کو فخر ہے.اسطرح اس جاسوسی ناول نگار کے نام پر بھی انگریز قوم فخر کرتی ہے یہ محض اسلئے ہے کہ اسکے استدلال میں معقولیت تھی اگرچہ کہانیاں فرضی تھیں.اسلئے اس قسم کی جاسوسی کہانیاں بچوں کو ضرور پڑھائی جائیں جن سے استدلال کی قوتیں تیز ہوں لیکن احمقانہ جاسوسی کہانیاں تو استدلال کی قوتوں کو پہلے سے تیز کرنے کی بجائے ماؤف کرتی ہیں.اسی طرح ایک رواج ہندوستان میں اور پاکستان میں آجکل بہت بڑھ رہا ہے.اور وہ بچوں کو دیو مالائی کہانیاں پڑھانے کا رواج ہے.اور ہندوستان کی دیو مالائی کہانیوں میں اس قسم کے لغو تصورات بکثرت ملتے ہیں جو بچے کو بھوتوں اور جادو کا قائل کریں اور اس قسم کے تصورات اسکے دل میں جاگزیں کریں.کہ گویا سانپ ایک عمر میں جاکر اس قابل ہو جاتا ہے کہ دنیا کے ہر جانور کا روپ دھار لے اور اسی طرح جادو گرنیاں، اور ڈائنیں انسانی زندگی میں ایک گہرا کردار ادا کرتی ہیں.یہ سارے فرضی تھے اگر بڑا پڑھے تو جانتا ہے کہ یہ محض دل بہلاوے کی من گھڑت کہانیاں ہیں لیکن جب بچہ پڑھتا ہے تو ہمیشہ کے لیے اسکے دل پر بعض اثرات قائم ہو جاتے ہیں.

Page 37

65 64 جو بچہ ایک دفعہ ان کہانیوں کے اثر سے ڈرپوک ہو جائے اور اندھیرے اور انہونی چیزوں سے خوف کھانے لگے پھر تمام عمر اسکی یہ کمزوری دور نہیں کی جا سکتی.بعض لوگ بچپن کے خوف اپنے بڑھاپے تک لے جاتے ہیں.اسلئے کہانیوں میں بھی ایسی کہانیوں کو ترجیح دینا ضروری ہے جن سے کردار میں عظمت پیدا ہو، حقیقت پسندی پیدا ہو، بہادری پیدا ہو.دیگر انسانی اخلاق میں سے بعض، نمایاں کر کے پیش کیئے گئے ہیں.ایسی کہانیاں خواہ جانوروں کی زبان میں بھی پیش کی جائیں وہ نقصان کی بجائے فائدہ ہی دیتی ہیں.عربی کہانیاں لکھنے والوں میں یہ رحجان پایا جاتا تھا کہ وہ جانوروں کی کہانیوں کی صورت میں بہت سے اخلاقی سبق دیتے تھے اور الف لیلی کے جو قصے تمام دنیا میں مشہور ہوئے ہیں ان میں اگر چہ بعض بہت گندی کہانیاں بھی شامل ہیں لیکن ان کے پس پردہ روح میں تھی کہ مختلف قصوں کے ذریعہ بعض انسانی اخلاق کو نمایاں طور پر پیش کیا جائے مثلا یہ قصہ کہ ایک بادشاہ نے اپنی ملکہ کو ایک کتے کی طرح باندھ کر ایک جگہ رکھا ہوا تھا اور جانوروں کی طرح اس سے سلوک کیا جا رہا تھا اور کتے کو بڑے اہتمام کے ساتھ معزز انسانوں کی طرح محلات میں بٹھایا گیا تھا اور اسکی خدمت پر نوکر مامور تھے.یہ قصہ ظاہر ہے کہ بالکل فرضی ہے لیکن جو اعلیٰ طلق پیش کرنا مقصود تھا وہ یہ تھا کہ کتا مالک کا وفادار تھا اور ملکہ دنیا باز اور احسان فراموش تھی.پس ایسی کہانیاں پڑ مکر بچہ کبھی یہ سبق نہیں لیتا کہ بیوی پر ظلم کرنا چاہئے بلکہ یہ سبق لیتا ہے کہ انسان کو دوسرے انسان کا وفادار اور احسان مند رہنا چاہیئے.اسی طرح مولانا روم کی مثنوی بعض کہانیاں ایسی بھی پیش کرتی ہے جو پڑ سکہ بعض انسان سمجھتے ہیں کہ یہ کیسے مولانا ہیں جو اتنی گندی کہانیاں بھی اپنی مثنوی میں شامل کئے ہوئے ہیں جن کو پڑھ کر انسان یہ سمجھتا ہے کہ ان کی ساری توجہ جنسیات کی طرف ہے اور اسکے باہر یہ سوچ بھی نہیں سکتے.چنانچہ ایک دفعہ لاہور کے ایک معزز غیر احمدی سیاستدان نے مجھے مولانا روم کے مثنوی پیش کی جس میں جگہ جگہ نشان لگائے ہوئے تھے اور ساتھ یہ کہا کہ آپ لوگ کہتے ہیں کہ یہ بزرگ انسان تھا یہ اتنا بڑا مرتبہ تھا ایسا بڑا فلسفی تھا، ایسا صوفی تھا لیکن یہ واقعات آپ پڑھیں اور مجھے بتائیں کہ کوئی شریف انسان یہ برداشت کر لے گا کہ اسکی بہو بیٹیاں ان کہانیوں کو پڑھیں چنانچہ جب میں نے ان حصوں کو خصوصیت سے پڑھا تو یہ معلوم ہوا کہ نتیجہ نکالنے میں اس دوست نے غلطی کی ہے.یہ کہانیاں جنیات سے ہی تعلق رکھتی تھیں لیکن انکا آخری نتیجہ ایسا تھا کہ انسان کو جنسی بے راہ روی سے سخت منظر کر دیتا تھا اور انجام ایسا تھا جس سے جنسی جذبات کو ا نگیت ہونے کی بجائے پاکیزگی کی طرف انسانی ذہن مائل ہوتا تھا.پس یہ تو اسوقت میرا مقصد نہیں کہ تفصیل سے لٹریچر کی مختلف قسموں پر تبصرہ کروں.یہ چند مثالیں اسلئے آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ اپنے بچوں کو جو کچھ آپ پڑھاتے ہیں اسکے متعلق خوب متفبہ رہیں کہ اگر غلط لٹریچر بچپن میں پڑھایا گیا تو اسکے بداثرات بعض موت تک ساتھ چھٹے رہتے ہیں اور اگر اچھا لٹریچر پڑھایا جائے تو اسکے نیک اثرات بھی بہت ہی شاندار نتائج پیدا کرتے ہیں اور بعض انسانوں کی زندگیاں سنوار دیا کرتے ہیں جہاں تک زبانوں کا تعلق ہے.سب سے زیادہ زور شروع ہی سے عربی زبان پر دینا چاہئے کیونکہ ایک مبلغ عربی کے گہرے مطالعہ کے بغیر اور اسکے باریک در بار یک مفاہیم کو سمجھے بغیر قرآن کریم اور احادیث نبویہ سے پوری طرح استفادہ نہیں کر سکتا.اسلئے بچپن ہی سے عربی زبان کے لیے بنیاد قائم کرنی چاہئے اور جہاں ذرائع میر ہوں اسکی بول چال کی تربیت بھی دینی چاہئے.قادیان اور ربوہ میں ایک زمانے میں جب ہم طالبعلم تھے عربی زبان کی طرف تو توجہ تھی لیکن بول چال کا محاورہ نہیں سکھایا جاتا

Page 38

67 66 تھا یعنی توجہ سے نہیں سکھایا جاتا تھا.اسلئے اسکا بھی ایک نقصان بعد میں سامنے آیا.آج کل جو زواج ہے کہ بول چال سکھائی جا رہی ہے لیکن زبان کے گہرے معانی کی طرف پوری توجہ نہیں کی جاتی اسلئے بہت سے عرب بھی ایسے ہیں اور تجارت کی غرض سے عربی سیکھنے والے بھی ایسے ہیں جو زبان بولنا تو سیکھ گئے ہیں لیکن عربی کی گہرائی سے ناواقف ہیں اور اسکی گرائمر پر عبور نہیں ہے.پس اپنی واقفین نسلوں کو ان دونوں پہلوؤں سے متوازن تعلیم دیں.عربی کے بعد اردو بھی بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی کامل غلامی میں اس زمانے کا جو امام بنایا گیا ہے اسکا اکثر لٹریچر اردو میں ہے احمدیہ لٹریچر چونکہ خالصتا" قرآن اور حدیث کی تفسیر میں ہے اسلئے عرب پڑھنے والے بھی جب آپکے عربی لٹریچر کا مطالعہ کرتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں.کہ قرآن اور حدیث پر ایک ایسی گری معرفت اس انسان کو حاصل ہے کہ جوان لوگوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتی تھی.جو مادری لحاظ سے عربی زبان سیکھنے اور بولنے والے ہیں.چنانچہ ہمارے عربی مجلہ التقویٰ میں حضرت اقدس مسیح موعود کے جو اقتباسات شائع ہوتے ہیں.انکو پڑھ کر بعض غیر احمدی عرب علما کے ایسے عظیم الشان حسین کے مخط ملتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.بعض ان میں سے مفتیوں کے بیٹے ہیں.اس عظمت کے آدمیوں کے بیٹے ہیں جن کو دین پر عبور ہے اور دین میں معروف مفتی ہیں انکا نام لیتا یہاں مناسب نہیں لیکن انہوں نے مجھے خط لکھا کہ ہم تو حیران رہ گئے ہیں دیکھ کر اور بعض عربوں نے کہا کہ ایسی خوبصورت زبان ہے ایسی دلکش عربی زبان ہے حضرت مسیح موعود کی.ایک شخص نے کہا میں بہت شوقین ہوں عربی لٹریچر کا مگر آج تک اس عظمت کا لکھنے والا میں نے کوئی عرب نہیں دیکھا.پس عربی کے ساتھ ساتھ حضرت مسیح موعود کے اردو لٹریچر کا مطالعہ بھی ضروری ہے اور بچوں کو اتنے معیار کی اردو سکھائی ضروری ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود کے اردو لٹریچر سے براہ راست فائدہ اٹھا سکیں.جہاں تک دنیا کی دیگر زبانوں کا تعلق ہے خدا تعالٰی کے فضل سے اب دنیا کے اکثر اہم ممالک میں ایسی احمدی نسلیں تیار ہو رہی ہیں جو مقامی زبان نہایت شستگی کے ساتھ اہل زبان کی طرح بولتی نہیں اور یہاں ہالینڈ میں بھی ایسے بچوں کی کمی نہیں ہے جو باہر سے آنے کے باوجود ہالینڈ کی زبان ہالینڈ کے باشندوں کی طرح نہایت شستگی اور صفائی سے بولنے والے ہیں.لیکن افسوس یہ ہے کہ انکا اردو کا معیار دیا نہیں رہا.چنانچہ بعض بچوں سے جب میں نے پوچھا تو معلوم ہوا کہ ہالینڈش زبان میں تو وہ بہت ترقی کر چکے ہیں لیکن اردو زبان پر عبور خاصا قابل توجہ ہے یعنی عبور حاصل نہیں ہے اور معیار کا خاصہ قابل توجہ ہے پر آئندہ اپنی را تعین نسلوں کو کم از کم تین زبانوں کا ماہر بنانا ہوگا.عربی اردو اور مقامی زبان.پھر ہمیں انشاء اللہ آئندہ صدی کے لیے اکثر ممالک میں احمدیت یعنی حقیقی (دین حق کی تعلیم پیش کرنے والے بہت اچھے مبلغ مہیا ہو جائیں گے.آئندہ جماعت کی ضروریات میں بعض انسانی خلق سے تعلق رکھنے والی ضروریات ہیں جنکا میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا اور اب دوبارہ اس پہلو پر زور دینا چاہتا ہوں.پس واقعین بچوں کے اخلاق پر خصوصیت سے توجہ کی ضرورت ہے.انہیں خوش اخلاق بنانا چاہئے.ایک تو اخلاق کا لفظ ہے جو زیادہ گہرے فصائل سے تعلق رکھتا ہے اسکے متعلق میں پہلے کئی دفعہ بات کر چکا ہوں لیکن ایک اخلاق کا معنی عرف عام میں انسان کی میل جول کی اس صلاحیت کو کہتے ہیں جس سے وہ دشمن کم بناتا ہے اور دوست زیادہ کوئی بد مزاج انسان اچھا واقف زندگی ثابت نہیں ہو سکتا.اور کوئی خشک مزاج انسان ملاں تو کہلا سکتا ہے، صحیح معنوں میں روحانی انسان نہیں بن سکتا.ایک دفعہ ایک واقف زندگی کے متعلق ایک جگہ سے شکایتیں نہیں کہ یہ بد خلق

Page 39

69 68 ہے اور ترش روئی سے لوگوں سے سلوک کرتا ہے.جب میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تو اپنے یہ جواب دیا کہ سب جھوٹ بولتے ہیں میں تو بالکل درست اور صحیح چل رہا ہوں اور انکی خرابیاں ہیں جب توجہ دلاتا ہوں تو پھر آگے سے غصہ کرتے ہیں.میں نے ان سے کہا کہ خرابیوں کی طرف تو سب سے زیادہ توجہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے دلائی تھی اور جتنی دوری اس دنیا کے لوگوں کی آپ سے تھی اسکے ہزارواں حصہ بھی جماعت احمدیہ کے نوجوان آپ سے فاصلے پر نہیں کھڑے.آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کامل طور پر معصوم تھے اور آپ خود اپنے اندر کچھ خرابیاں رکھتے ہیں.جن سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب تھے وہ تمام برائیوں کی آماجگاہ تھے مگر یہ نوجوان تو کئی پسندوں سے سمجھے ہوئے، مجھے ہوئے اور باہر کی دنیا کے جوانوں سے سینکڑوں گنا بہتر ہیں.پھر کیا وجہ ہے کہ آپ جب نصیحت کریں تو وہ بدکتے ہیں اور متنفر ہوتے ہیں اور آنحضرت جب نصیحت فرماتے تھے وہ آپ کے عاشق ہو جایا کرتے تھے.دوسرے میں نے ان سے کہا کہ ایک آدھ شکایت تو ہر مبلغ کے متعلق ہر ایسے شخص کے متعلق آہی جاتی ہے جو کسی کام پر مامور ہو ہر شخص کو وہ راضی نہیں کر سکتا کچھ لوگ ضرور ناراض ہو جایا کرتے ہیں لیکن ایک شخص کے متعلق شکائیتوں کا تانتا لگ جائے تو اس پر غالب کا یہ شعر اطلاق پاتا ہے.سختی کسی کلام میں لیکن نہ کی جس سے بات اپنے شکایہ اسقدر ضرور کی پس اپنے بچوں کو خوش اخلاق ان معنوں میں بنائیں کہ بیٹھے بول بول سکتے ہوں.لوگوں کو پیار سے جیت سکتے ہوں.غیروں اور دشمنوں کے دلوں میں راہ پاسکتے ہوں.اعلیٰ سوسائیٹی میں سرایت کر سکتے ہوں کیونکہ اسکے بغیر نہ تربیت ہو سکتی ہے نہ تبلیغ ممکن ہے.بعض مباغوں کو اللہ تعالی نے یہ صلاحیت عطا فرمائی ہے اسلیئے اپنے ملک کے بڑے سے بڑے لوگوں سے جب وہ ملتے ہیں تو تھوڑی سی ملاقات میں وہ انکے گرویدہ ہو جاتے ہیں.اور اسکے نتیجے میں خدا تعالی کے فضل سے تبلیغ کی عظیم الشان راہیں کھل جاتی ہیں.جہاں تک بچیوں کا تعلق ہے اس سلسلے میں بھی بارہا ماں باپ سوال کرتے ہیں کہ ہم انہیں کیا بنائیں؟ وہ تمام باتیں جو مردوں کے متعلق یا لڑکوں کے متعلق میں نے بیان کی ہیں.وہ ان پر بھی اطلاق پاتی ہیں.لیکن اسکے علاوہ انہیں گھر گرہستی کی اعلیٰ تعلیم دینی بہت ضروری ہے اور گھریلو اقتصادیات سکھانا ضروری ہے کیونکہ بعید نہیں کہ وہ وا تعین، بچیاں وا تعین کے ساتھ ہیں بیائی جائیں.جب میں کہتا ہوں کہ بعید نہیں تو مراد یہ ہے کہ آپکی دلی خواہش یہی ہونی چاہئے کہ واقفین بچیاں واقفین سے بیاہی جائیں ورنہ غیر دا کے ساتھ انکی زندگی مشکل گزرے گی اور مزاج میں بعض دفعہ ایسی دوری و سکتی ہے.ایک واقف زندگی بچی کا اپنے غیر واقف خاوند کے ساتھ مذہب میں اسکی کم دلچسپی کی وجہ سے گزارا نہ ہو اور واقفین کے ساتھ شادی کے نتیجے میں بعض دوسرے مسائل اسکو در پیش ہو سکتے ہیں.اگر وہ امیر گھرانے کی بچی ہے.اسکی پرورش ناز و نعم میں ہے اور اعلیٰ معیار کی زندگی گزار رہی ہے تو جب تک شروع ہی سے اسے اس بات کے لیے ذہنی طور پر آمادہ نہ کیا جائے کہ وہ سادہ سخت زندگی اور مشقت کی زندگی برداشت کر سکے اور یہ سلیقہ نہ سکھایا جائے کہ تھوڑے پر بھی انسان راضی ہو سکتا ہے اور تھوڑے پر بھی سلیقے کے ساتھ انسان زندہ رہ سکتا ہے.پس ایسی لڑکیاں جن کو بچپن سے مطالبوں کی عادت ہوتی ہے وہ جب را تضمین زندگی کے گھروں میں جاتی ہیں تو انکے لیے بھی جنم پیدا

Page 40

71 70 کرتی ہیں اور اپنے لیئے بھی.مطالبے میں فی ذاتہ کوئی نقص نہیں لیکن اگر مطالبہ توفیق سے بڑ مکہ ہو تو پھر خواہ خاوند سے ہو یا ہاں باپ سے یا دوستوں سے تو زندگی کو اجیرن بنا دیتا ہے.اللہ تعالٰی نے اس معاملے میں ہمیں کیا خوبصورت سبق دیا جب فرمایا لا يكلف الله نشا الاوعها کہ خدا کسی کی توفیق سے بڑھ کر اس سے مطالبہ نہیں کرتا.تو بندوں کا کیا حق ہے کہ توفیق سے بڑھکر مطالبے کریں.پس واقعین زندگی کی بیویوں کے لیے یا واقفین زندگی لڑکیوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ یہ سلیقہ سیکھیں کہ کسی سے اسکی توفیق سے بڑھکر نہ توقع رکھیں نہ مطالبہ کریں اور قناعت کے ساتھ کم پر راضی رہنا سیکھ لیں.اس ضمن میں ایک اہم بات جو بتائی چاہتا ہوں کہ حضرت مصلح موعود نے واقفین کی تحریک کے ساتھ ایک یہ بھی تحریک فرمانی که امیر گھروں کے بچوں کے لیے گھر کے باقی افراد کو یہ قربانی کرنی چاہئے کہ اسکے وقف کی وجہ سے اسکے لیے خصوصیت کے ساتھ کچھ مالی مراعات میا کریں اور یہ سمجھیں کہ جتنا مالی لحاظ سے ہم اسکو بے نیاز بنائیں گے اتنا بہتر رنگ میں وہ قومی ذمہ داریوں کی امانت کا حق ادا کر سکے گا.اس نصیحت کا اطلاق صرف امیر گھرانوں پر نہیں بلکہ غریب گھرانوں پر بھی ہوتا ہے.ہر واقف زندگی گھر کو یعنی ہر گھر جس میں کوئی واقف زندگی ہے آج ہی سے یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ خدا ہمیں جس پر رکھے گا ہم اپنے واقف زندگی تعلق والے کو اس سے کم معیار پر نہیں رہنے دیں گے یعنی جماعت کے مطالبے کی بجائے بھائی اور بہنیں یا ماں باپ اگر زندہ ہوں اور توفیق رکھتے ہوں یا دیگر قریبی مل کر یہ ایسا نظام بنائیں گے کہ واقف زندگی بچہ اپنے زندگی کے معیار میں اپنے گھر والوں کے ماحول اور انکے معیار سے کم تر نہ رہے.چنانچہ ایسے بچے جب زندگی کی دوڑ میں حصہ لیتے ہیں تو کسی قسم کے (Complex Inferiority) یعنی احساس کمتری کا شکار نہیں رہتے اور امانت کا حق زیادہ بہتر ادا کر سکتے ہیں.جہاں تک بچیوں کی تعلیم کا تعلق ہے اس میں خصوصیت کے ساتھ تعلیم دینے کی تعلیم دلانا یعنی ایجو کیشن کی انسٹرکشن جسے (in Education Bachelor Degree) غالبا" کہا جاتا ہے یا جو بھی اسکا نام ہے مطلب یہ ہے کہ انکو استانیاں بننے کی ٹریننگ دلوانا خواہ انکو استانی بنانا ہو یا نہ بنانا ہو انکے لیے مفید ہو سکتا ہے.اسی طرح لیڈی ڈاکٹرز کی جماعت کو خدمت کے میدان میں بہت ضرورت ہے پھر کمپیوٹر سپیشلسٹ کی ضرورت ہے اور ٹائپسٹ کی ضرورت ہے اور یہ سارے کام عورتیں مردوں کے ملے جلے بغیر، سوائے ڈاکٹری کے باقی سارے کام عمدگی سے سر انجام دے سکتی ہیں.پھر زبانوں کا ماہر بھی انکو بنایا جائے یعنی لٹریری (Literary) نقطہ نگاہ سے ادبی نقطہ نگاہ سے انکو زبانوں کا چوٹی کا ماہر بنانا چاہئے تاکہ یہ جماعت کی تصنیفی خدمات کر سکیں.اسطرح اگر ہم سب اپنی آئندہ وا تین نسلوں کی نگہداشت کریں اور انکی پرورش کریں انکو بہترین واقف بنانے میں مل کر جماعتی لحاظ سے اور انفرادی لحاظ سے سعی کریں تو میں امید رکھتا ہوں کہ آئندہ صدی کے اوپر جماعت احمدیہ کی اس صدی کی نسلوں کا ایک ایسا احسان ہو گا کہ جسے وہ ہمیشہ جذبہ تشکر اور دعاؤں کے ساتھ یاد کریں گے.آخر پر یہ جانا ضروری ہے کہ سب سے زیادہ زور تربیت میں دعا پر ہونا چاہئے یعنی ان بچوں کے لیے ہمیشہ درد مندانہ دعائیں کرنا اور ان بچوں کو دعا کرنا سکھانا اور دعا کرنے کی تربیت دینا تاکہ بچپن ہی سے یہ اپنے رب سے ایک ذاتی گہرا تعلق قائم کر لیں اور اس تعلق کے پھل کھانے شروع کردیں.جو بچہ دعا کے ذریعے اپنے رب کے احسانات کا مشاہدہ کرنے لگتا ہے وہ بچپن ہی سے ایک ایسی روحانی شخصیت حاصل کر لیتا ہے جسکا مربی ہمیشہ خدا بنا

Page 41

72 رہتا ہے اور دن بدن اسکے اندر وہ تقدس پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے جو خدا کے بچے تعلق کے بغیر پیدا نہیں ہو سکے.اور دنیا کی کوئی تعلیم اور کوئی تربیت وہ اندرونی تقدس انسان کو نہیں بخش سکتی جو خدا تعالٰی کی معرفت اور اسکے پیار اسکی محبت کے نتیجے میں نصیب ہوتا ہے.پس ان بچوں کی تربیت میں دعاؤں سے بہت زیادہ کام لیں.خود انکے لیے دعا کریں اور انکو دعا کرنے والے بچے بنائیں.میں امید رکھتا ہوں کہ ان ذرائع کو اختیار کر کے انشاء اللہ تعالٰی جماعت کے سپرد کرنے سے پہلے پہلے ہی یہ بچے ہر قسم کے حسن سے آراستہ ہو چکے ہوں گے اور ایسے ماں باپ بڑی خوشی کے ساتھ اور کامل اطمینان کے ساتھ ایک ایسی قربانی خدا کے حضور پیش کر رہے ہوں گے جسے انہوں نے اپنی توفیق کے مطابق خوب سجا کر اور بنا کر خدا کے حضور پیش کیا ہو گا اللہ تعالی ہمیں ان اعلیٰ تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین کہ یاد رکھیں کہ بچوں کی تربیت کیلئے آپکو اپنی تربیت ضرور کرتی ہوگی *******

Page 42

صفحہ نمبر I 2-3 5 7 8 12 13 14 15 16 نمبر شمار فهرست مضامین مضامین کردار میں عظمت کے بغیر نہ بات میں عظمت پیدا ہو سکتی ہے اور نہ دعائیں و بلش احمدی نعمان نیومین کے چہرے کی صداقت کا اثر ایک نعمان کی نہیں لاکھوں کروڑوں نعمانوں کی ضرورت ہے ہمارا کام دشمن کو شکست دینا نہیں.اس کا دل جیتنا ہے احمدی کی شرافت گونگی نہیں بلکہ بولنے والی ہو.خدا تعالیٰ کی تقدیر لوگوں اور قوموں کے دلوں کے دروازے کھول رہی ہے (خصوصا چینی اور روسی قوم کے) وا تین بچیوں کو کیا سکھائیں؟ ایسے ملکوں میں جہاں چینی اور روسی زبان سکھانے کی سہولتیں موجود ہیں وہاں بچپن سے را تعین تو کو یہ زبانیں سکھائیں.اگر پنگھوڑوں میں زبان سکھائی جائے تو سب سے اچھا ہے علمی کام میں ہمیں واقفین بیٹیاں بہت کام آسکتی ہیں بچپن میں کردار بنائے جاتے ہیں اگر تاخیر ہو جائے تو بہت محنت کرنی پڑتی ہے -2 -3 -4 -5 -6 -7 -8 9 7 -9 -10

Page 43

77 بسم الله الرحمن الرحیم خطبه جمعه فرمودہ سید نا حضرت خلیفہ ا صبیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مورخه ۸ ستمبر ۱۹۸۹ بمقام بیت الفضل لندن تشہیر ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : گزشتہ چند سالوں سے میں جہاں جماعت احمدیہ کو دعوت الی اللہ کی طرف مسلسل توجہ دلا رہا ہوں وہاں ساتھ ہی اس بات پر بھی زور دیتا چلا آرہا ہوں کہ اپنے کردار کو عظیم بنانے کی کوشش کریں کیونکہ قرآن کریم سے بار ہا متعدد جگہ یہ واضح ہدایت ملتی ہے کہ جب تک کردار میں عظمت نہ ہو نہ بات میں عظمت پیدا ہو سکتی ہے نہ دعا میں عظمت پیدا ہو سکتی ہے.ایک جگہ اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے.کہ تمہاری دعا آسمان کی طرف رفعت اختیار نہیں کر سکتی آسمان کی طرف بلند نہیں ہو سکتی جب تک تمہارا کردار اسے بلند نہ کر رہا ہو.اس میں قبولیت دعا کا بہت گہرا راز ہے اور دوسری جگہ ایک موقع پر فرمایا کہ قول حسن بہت اچھی چیز ہے اسکے بغیر دعوت الی اللہ ممکن نہیں.مگر شرط یہ ہے کہ ساتھ عمل اچھے ہوں تو در حقیقت یہ دونوں مضمون ایک ہی مرکزی فلسفے سے تعلق رکھتے ہیں یعنی دعا میں بھی کہ خدا بھی بات اس وقت سنتا ہے جب اسکے پیچھے عظمت کردار موجود ہو اور اس کے بغیر دعا میں طاقت پیدا نہیں ہوتی تو بندے کیسے تمہاری بات سن لیں گے.جو خدا کی نسبت کم رؤف اور رحیم ہیں کم توجہ کرنے والے ہیں خدا کی نسبت بہت ہی کم یعنی کوئی نسبت ہی نہیں در حقیقت تمہاری غلطیوں سے در گزر کرنے والے ہیں.اللہ تو بعض کمزوروں کی دعا بھی سن لیتا ہے.بعض دفعہ

Page 44

79 78 ہے کرداروں کی دعا بھی سن لیتا ہے.لیکن بندوں میں یہ بات کم دکھائی دیتی ہے خود ان کا کیسا بھی کردار ہو اگر کسی اچھے کام کی طرف بنانے والے میں معمولی سا نقص بھی پائیں تو اکثر وہ اس نقص کو ابھار کر پیش کرتے ہیں اور اسکی ساری اچھی باتوں کو اس وجہ سے رو کر دیتے ہیں کہ اس کہنے والے کے اندر یہ خرابی موجود ہے تو قرآن کریم سے جب یہ پتہ چلا کہ دعا کا بھی بنیادی طور پر عظمت کردار سے تعلق ہے اور استثنائی طور پر تو خدا کی رحمت لا محدود ہونے کی وجہ سے اللہ تعالی تو جب چاہے جسکی چاہے دعا سن لے یہ اسکی نفی نہیں ہو رہی مگر بندے بالعموم زیادہ سخت دل ہوتے ہیں زیادہ تنقید کرنے والے ہوتے ہیں اور ان پر وہی اچھا قول اثر کرتا ہے جس کے ساتھ عظمت کردار موجود ہو اس لئے مبلغ بننے کیلئے جماعت کو اپنے کردار کو بلند کرنے کی نہایت شدید ضرورت ہے اور جہاں دعوت الی اللہ کے وعدے ملتے ہیں وہاں مجھے یہی فکر شروع ہو جاتی ہے کہ دعوت الی اللہ کرنے والوں نے اپنے اندر کوئی پاک تبدیلی پیدا بھی کی ہے کہ نہیں جہاں کرتے ہیں وہاں پھل لگنے شروع ہو جاتے ہیں جہاں اس ضمن میں کوئی موثر اقدام نہیں ہوتا نہ جماعت کی انتظامیہ کی طرف سے نہ انفرادی طور پر وہاں فہرستیں تو بن جاتی ہیں مگر ان کو پھل نہیں لگتا اس معاملے کی اہمیت کا ایک مشاہدہ میں نے اپنے گزشتہ سفر ویلز (Wales) میں کیا.ویلز میں چند دن کیلئے گیا تھا وہاں جماعت نے علاقے کے معززین کو سوال و جواب کی ایک مجلس کیلئے بلایا ہوا تھا.میرے ساتھ بائیں ہاتھ وہاں کے شہر کے بہت ہی ہر دلعزیز دوست اور میٹر بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے مجھے کہا کہ آپ نے جو گزشتہ دفعہ یہاں تقریب منعقد کروائی تھی جس میں قرآن کریم کے ویلش ترجمے کی نقاب کشائی کی گئی تھی اس میں ایک لمبا سا آدمی جو انگریز تھا اور یارک شائر کی طرف سے آیا تھا وہ کون تھا میں نے ان کو غالبا" اس لحاظ سے تاریخی حیثیت رکھتے ہیں کہ پہلے و منش احمدی ہیں.اس کے بعد ایک لیے عرصے تک وہ مجھے بار بار یہی کہتا رہا کہ اس شخص کے چہرے پر ایسی صداقت تھی اور اس صداقت کا ایک ایسا گہرا اثر میرے دل پر پڑ رہا تھا کہ اس سے باتیں کرتے کرتے مجھے یہ یقین ہو گیا تھا کہ یہ شخص سچا ہے اور جو بات کہہ رہا ہے اس میں دھوکہ نہیں ہو سکتا.اس نے کہا میرے دل پر اتنا گہرا اثر چھوڑا ہے اس شخص نے.حالانکہ تھوڑی ہیں باتیں ہوئیں لیکن میں نے جب ان کی چال ڈھال دیکھی ان کی باتوں کی طرز دیکھی ان کی آنکھوں کے اندر روشنی پائی تو مجھے وہ سرتا پا سچائی دکھائی دیا انہوں نے بتایا کہ اس وقت سے لیکر اب تک میں ہر مجلس میں یہ کہتا ہوں کہ تم جو بعض مسلمان ممالک کے رویے کے نتیجے میں اسلام کو کنڈیم (Condemn) کرتے ہو.یہ درست نہیں ہے.اس جگہ میں ان کو کہتا ہوں کہ میں نے ایسے مسلمان دیکھے ہیں جن سے تم سبق سیکھ سکتے ہو.جو کردار اور اخلاق میں ایک معیار ہیں اور ایک نمونہ ہیں اس لئے سنجیدگی سے (دین حق) کے اندر اس کی تحقیق کی طرف توجہ کرو اور تمہیں اس میں بہت سی کچی باتیں دکھائی دیں گی.پھر انہوں نے مجھے بتایا کہ جو کتابیں مجھے دی گئی تھیں میں ان کا مطالعہ کر رہا ہوں اور آئندہ بھی میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں دلچسپی لوں گا باوجود اس کے کہ میرا سیاسی کردار مجروح ہو رہا ہے اور لوگ یہ کہنے لگ گئے ہیں کہ یہ تو مسلمانوں کی طرف مائل ہو گیا ہے اور باوجود اس کے کہ بعض لوگ یہاں ایسے جاہل ہیں کہ جب میں ان کو سمجھاتا ہوں تو وہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ تم Devil کے اثر کے نیچے آگئے ہو لیکن میں ان کو کہتا ہوں کہ بتایا کہ وہ نعمان نیومین ہیں اور ویلز سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور و پیش احمدی ہیں اور تمہاری یہ جہالت اصل میں Devil کا اثر ہے کیونکہ سچائی کی تلاش کا نہ ہونا جہالت ہے اور سچائی کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتا اور اس امکانی راستے کو ہمیشہ کیلئے بنھ کھو دیتا کہ

Page 45

81 80 تمہارے علاوہ بھی سچائی پائی جاسکتی ہے اس نے کہا میرے نزدیک یہ شیطانیت ہے اور وقتا یہ بات درست ہے.تو یہ جو نیک اثر اتنا اچھا چھوڑا.ہمارے ایک مخلص احمدی دوست نے یہ وہاں ختم نہیں ہوا اس شخص تک ختم نہیں ہوا جس پر یہ اثر پڑا تھا بلکہ آگے وہ اس اثر کا مشعل بردار بن گیا ہے اور بااثر ہونے کی وجہ سے خدا کے فضل سے بڑے بڑے اچھے حلقوں میں وہ باتیں پہنچ رہی ہیں اور اللہ تعالے کے فضل سے وہ دوست جواب اس مجلس میں آئے تھے ان کے اندر بھی ایک نمایاں تبدیلی میں نے دیکھی، دلچپسی پائی اور بھاری اکثریت نے اس بات کا اظہار کیا کہ ہم اس دلچسپی کو مستقل کرنا چاہتے ہیں اور عارضی ملاقات نہیں ہوتی بلکہ ہم انشاء اللہ (انشاء اللہ تو انہوں نے نہیں کہا تھا یہ میں اپنی طرف سے داخل کر رہا ہوں) کہ ہم ضرور جماعت کے لٹریچر کا مطالعہ کریں گے چنانچہ ایک دوست نے جب ہم دوسرے دن روانہ ہوئے ہیں تو رستے میں ایک جگہ تھوڑی دیر کیلئے رکے وہاں انہوں نے اپنے احمدی دوست کو کہا ہوا تھا کہ جب وہ آئیں تو مجھے ضرور ملا ئیں میں نے ساتھ تصویر بھی کھنچوانی ہے اور باتیں بھی کرتی ہیں چناچہ انہوں نے بھی اسی قسم کے نیک خیالات کا اظہار کیا تو جماعت کیلئے جو دلچسپی پیدا ہو رہی ہے وہ (دین حق) کیلئے ایک عظیم دروازہ کھل رہا ہے اور یہی وہ رستہ ہے جس سے لوگوں نے دراصل (دین حق) میں داخل ہوتا ہے ارد گرد دیوار میں کھڑی کر دی گئی ہیں بہت سے مسلمان ممالک نے اپنے جاہلانہ رویے کے نتیجے میں اسلام کو بدنام کیا ہے اور جگہ جگہ ان رستوں کو بند کر دیا گیا ہے جن رستوں سے لوگ اسلام میں داخل ہو سکتے تھے اس لئے اب دروازہ اگر کوئی ہے تو جماعت احمدیہ کا دروازہ ہے.لیکن اس دوازے کو وسیع کرنا یہ بنیادی مسئلہ ہے اور یہ دروازہ اس طرح تو نہیں ہے جس طرح ہماری مسجد کے سامنے دروازہ ہے یا آپ کے گھروں کے دروازے ہوتے ہیں یہ ایک تمثیلی دروازہ ہے جو وسعت اختیار کر سکتا ہے اور یہ وسعت احمدیوں نے اپنے عظمت کردار کے ذریعہ پیدا کرنی ہے ورنہ یہ دروازہ تنگ رہے گا اور کھلے گا نہیں ایک نعمان کی ضرورت نہیں ہے لاکھوں کروڑوں نعمانوں کی ضرورت ہے جو مختلف ملکوں میں پیدا ہوں اور اپنی عظمت کردار کے ذریعہ لوگوں کو دین حق کی طرف متوجہ کریں.اور ان کے دل کے راستے سے لوگ پھر (دین حق میں داخل ہونا شروع ہوں ان کی آنکھوں کی راہوں سے (دین حق) کے حسن کا مطالعہ کریں اس نقطہ نگاہ سے دا عین الی اللہ کی ضرورت کی شدت محسوس ہو رہی ہے.مگر اس نوع کے دائین الی اللہ جنکا میں بیان کر رہا ہوں کہ ان کے ساتھ ان کے کردار میں ایک حسن ایک کشش ہو.بعض لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا کردار ٹھیک ہے، ہم نمازیں پڑھتے ہیں ہم جھوٹ نہیں بولتے ہم کسی کا حق نہیں مارتے اور یہی تبلیغ ہے لیکن یہ غلط فہمی میں دور کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم نے عظمت اکردار کی اہمیت بیان کرنے کے باوجود قول حسن کو پہلے رکھا ہے وَمَنْ نَحْسُ قَوْلاً مِمَّن دقایق اللہ ، اور گونگی شرافت کا نام نہیں لیا اور انبیاء کی تاریخ جو ہمارے سامنے پیش کی ہے اس میں کہیں بھی گونگی شرافت دکھائی نہیں دیتی.بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ شرافت کو دیکھ کر اگر وہ گونگی ہو تو مخالفت ختم ہو جایا کرتی ہے اور لوگ یہ اصرار کرتے ہیں کہ تم شریفانہ زندگی بسر کرو لیکن منہ سے کچھ نہ بولو ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے تو دعول الی اللہ محض عظمت کردار سے نہیں ہوا کرتی اس کے لئے زبان کا حرکت میں آنا بہت ضروری ہے اور اس کے نتیجہ میں شرافت کے باوجود پھر کیا لفتیں پیدا ہوا کرتی ہیں لیکن جو شریف دل ہیں ان کو شرافت جیت لیتی ہے جو بد کردار لوگ ہیں یا کبھی رکھنے والے لوگ ہیں وہ اپنے دل کے مرض کا شکار ہو جایا کرتے ہیں لیکن بنیادی بات یہی ہے کہ ایسے

Page 46

83 82 وا حسین الی اللہ کی ضرورت ہے جن کی زبان بھی قول حسن پر قائم رہے اور قول حسن کی تعریف میں پہلے بارہا کر چکا ہوں اس میں دلیل کی بات نہیں ہے صرف اس میں حسن کلام کی بات ہے یعنی ایسے رنگ میں بات کی جائے جس میں دلکشی پائی جائے پس بات کے انداز میں دلکشی ہو اور کردار اعلیٰ اور مضبوط ہو اور کردار لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے والا ہو تو دنیا کی کوئی طاقت (دین حق) کا مقابلہ نہیں کر سکتی دو شرطیں خدا تعالٰی نے لگا دی ہیں اس کے بعد فرمایا ہے جاؤ میدان میں کامیابیاں تمہارے قدم چومیں گی وہ جو تمہاری جان کے دشمن ہیں، یہاں تک یہ آیت فرماتی ہے آگے جا کے وہ جاں نثار دوست بن جائیں گے.لیکن ایک اور شرط ساتھ یہ لگائی کہ صبر بھی ساتھ رکھنا.وہ لوگ جو صبر کے ساتھ ان باتوں پر قائم رہیں گے یعنی قول حسن کے ذریعہ.خوبصورت کلام کے ذریعے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتے رہیں گے اور ان کا کردار ان کے کلام کو جھٹلانے والا نہیں بلکہ تقویت دینے والا ہو گا ان کو یہ خوشخبری ہے کہ اگر وہ میر کے ساتھ استقامت کے ساتھ اس طریق پر کار بند ہوں تو ان کیلئے کامیابیاں ہی کامیابیاں ہیں اور دشمنی کا ذکر ضرور فرمایا کہ اس کے باوجود قول اور اعلیٰ کردار کے باوجود دشمنی ہوا کرتی ہے فرمایا تم اس پر قائم ہو جاؤ دشمنیاں تبدیل کرنا ہمارا کام ہے اور ہم دشمنوں کے دلوں سے رحمت کے چشمے پھوڑ دیں گے یہاں تک کہ وہ لوگ جو تمہارے خون کے پیاسے ہیں تم پر خون نچھاور کرنے میں اپنا فخر سمجھیں گے کتنا عظیم الشان پیغام ہے اور کتنے مختصر الفاظ میں خدا تعالٰی نے اس سارے مضمون کو وہ جو ایک سمندر کی طرح ہے ایک کوزے میں بند کر دیا پس را حسین الی اللہ کیلئے بڑا ضروری ہے کہ وہ فوری طور پر اپنے کردار کا محاسبہ کریں اور اپنی طرز کلام کا بھی محاسبہ کریں بہت سے مبلغین میں نے ایسے دیکھتے ہیں جو زندگیاں تبلیغ میں صرف کرتے ہیں لیکن ان کی بات کاٹنے والی ہوتی ہے.وہ جب آگے سے کوئی تختی کی بات سنتے ہیں یا تیزی دیکھتے ہیں تو جواب میں بھی وہ تیزی پیدا کرتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ دشمن کو شکست دینا ہمارا کام ہے حالانکہ دشمن کو شکست دینا ہرگز کام نہیں ہے دشمن کا دل جیتنا کام ہے قاد التهاي بينك وبينها مداوا وكانه ولي حميم ه مقصد بنا دیا خدا تعالی نے تبلیغ کا اور کتنا واضح مقصد ہے.یہ نہیں فرمایا کہ پھر تم دشمن کو شکست پر شکست دیتے چلے جاؤ گے.فرمایا کہ پھر یہ ہو گا اور یہ ہونا چاہئے کہ شدید دشمن بھی تمہارا صحب اور جہاں نثار دوست بن جائے.جس کو آپ نے دوست بنانا ہو اس کو تیز کلام کے ذریعے دوست نہیں بنایا جا سکتا گھروں میں بچوں میں میں نے دیکھا ہے جب گفتگو چلتی ہے اگر کوئی ایک بچہ دوسرے کو تیزی سے جواب دے تو دوسرا اور تیزی سے جواب دیتا ہے یہاں تک کہ بعض دفعہ لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں.ایک دوسرے کو جو ہاتھ میں آئے بارنا شروع کر دیتے ہیں.تو وہ لوگ جو پہلے ہی آپ کی جان کے دشمن ہیں قرآن کریم فرماتا ہے.ہیں جان کے دشمن.ان کے ساتھ آپ تیز کلامی سے کس طرح مقابلہ کریں گے.ان کے اندر جو ہد رجحانات ہیں ان کو اور بھی آپ آگ لگا دیں گے ان کے اندر جو مخالفتوں کا تیل ہے اس کو تیلی دکھائیں گے.اس لئے قرآن کریم نے بہت ہی حسین اور بہت ہی کامل کلام فرمایا ہے فرمایا یہ سب کچھ کرو لیکن مقصد یہ پیش نظر رکھنا کہ تم نے دشمنوں کے دل جیتنے ہیں اور قول حسن اس تعریف کے تابع ہے قول حسن کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم غالب آجاؤ بحث میں کیونکہ بحث میں غالب آنے کے نتیجے میں دل ضروری نہیں کہ جیتے جائیں گے بعض دفعہ مخالفتیں بڑھ جایا کرتے ہیں بعض دفعہ دشمن بیٹا محسوس کرتا ہے، اپنے آپ کو ذلیل محسوس کرتا ہے اور رد عمل میں اور زیادہ سختی کرتا ہے فرمایا : تمہاری طرز کلام حسین ہونی چاہئے یعنی دل جیتنے والی ہو اور عمل کے متعلق تو پہلے ہی میں

Page 47

85 84 : نے بتا دیا ہے و وَعَمَلَ صَابها جو اعمال حسین ہوں تو قول کے اندر نہ صرف یہ کہ مزید حسن پیدا ہوتا ہے بلکہ وزن پیدا ہو جاتا ہے اس کے بغیر حسین قول کھو کھلا ہوتا ہے اس میں جذب کی طاقت نہیں ہوتی.انفرادی طور پر تو ہمیں ضرورت ہے ہی لیکن اب قومی طور پر نئی صدی کے ساتھ اتنے بڑے بڑے رستے کھل رہے ہیں کہ صرف یہ سوال نہیں کہ ہم اپنے دروازے کھولیں خدا تعالیٰ کی تقدیر لوگوں اور قوموں کے دلوں کے دروازے کھول رہی ہے.اور بعض ایسی قوموں کی طرف سے جماعت احمدیہ کے ساتھ رابطے ہو رہے ہیں جن میں پہلے کبھی دعوت الی اللہ کیلئے کوئی دروازہ نہیں کھولا گیا تھا اور مطالبے شروع ہو گئے ہیں چین کی طرف سے بجائے اس کے کہ ہماری کوششیں کار آمد ثابت ہو تیں یا بار آور ثابت ہو تیں مسلسل ایسے لوگوں کی طرف.رابطے ہو رہے ہیں جن سے ہمارا کوئی رابطہ نہیں تھا لیکن اس کا آغاز بھی.ایک اچھے احمدی کے اعلیٰ کردار کے نتیجے میں ہوا ایک چینی افسر ایک چینی سکالر باہر آئے ہوتے تھے ایک پروفیسر ہا ہر آئے ہوئے تھے اس طرح رابطے ہوتے ہیں.اس نے ایک ایسے احمدی کو دیکھا جس کو اس نے مختلف پایا اور وہ ایسا احمدی تھا جس کی شرافت گونگی نہیں تھی بلکہ بولنے والا تھا.اس کی کردار میں دلچسپی ہوئی اس نے زبانی اس کو بتانا شروع کیا کہ میں کیوں مختلف ہوں ہمارا کیا اخلاقی ضابطہ ہے جس کے نتیجے میں، جس کی پیروی کے نتیجے میں تم میرے اندر ایک فرق دیکھ رہے ہو چنانچہ دن حق کا تعارف احمدیت کا تعارف اور اس کے نتیجہ میں ایک خاص مثال جو میرے سامنے ہے اس نے وسیع پیمانے پر چونکہ صاحب اثر آدمی تھا چین سے رابطے شروع کئے شروع میں ان رابطوں کا منفی نتیجہ نکلا اور اس کو بڑی سختی سے ہدایتیں آئیں کہ خبردار اس فرقے کے قریب نہ جاتا یہ تو بڑا خطرناک فرقہ ہے اور مرتد لوگ ہیں جو باتیں بھی انہوں نے سنی ہوتی تھیں وہ دوہرائی شروع کیں میں نے بھی ان سے رابطہ اپنا قائم رکھا ان کو کہا کہ آپ یکطرفہ باتیں سن کر ٹھنڈے نہ ہوں.دشمن کیا کرتے ہیں ایسی باتیں خدا تعالی نے ہدایت کے رستے میں شیطان بھی لگائے ہوئے ہیں وہ آوازیں دیتے چلے جاتے ہیں کہ نہیں یہ غلط رستہ ہے ادھر آؤ ادھر آؤ کان میں باتیں پھونکتے ہیں پس پردہ یا پیٹھ کے پیچھے باتیں کرتے ہیں اور اس کو کہتے ہیں کہ دوسروں سے بات کرنے کی ضرورت ہی کوئی نہیں تم ہماری بات سنو اور سمجھ لو کہ یہ شیطانی لوگ ہیں ان کے قریب بھی نہیں جانا اس لئے آپ لٹریچر کا مطالعہ ضرور کر لیں.ان کو موقع دیں ہمیں بھی موقع دیں.چنانچہ بعض چیزیں ان کو بھیجوائی گئیں.انہوں نے مطالعہ کیا اور ان کے دل کی کایا پلٹ گئی انہوں نے پھر دوبارہ رابطے کئے اور اب مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ ان رابطوں کے نتیجہ میں ان لوگوں نے بھی وہاں تحقیق کی اور ان کے بڑے بااثر راہنماؤں سے بعض نے ان کو لکھا ہے کہ ہم نے اب جو تحقیق کی ہے تو پتہ چلا ہے کہ یہی جماعت ہے دراصل جو در حقیقت (دین حق کی علمبردار ہے اور ہمیں اس تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ یہی جماعت ہے جو امن پرست ہے اور تلوار کے ذریعے نہیں بلکہ محبت کے ذریعے اور پیغام کے ذریعے دلوں کو فتح کرنے کا شعار رکھتی ہے یہ ان کا کردار ہے اس لئے ہمیں دلچسپی پیدا ہو رہی ہے اور بعض لوگ وہاں سے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ جس قدر جلد موقع ملے وہ یہاں آئیں کچھ عرصہ یہاں ٹھہریں اور جماعت کے متعلق مزید معلومات حاصل کریں اسی طرح روس میں بھی خدا تعالے کے فضل سے وسیع پیمانے پر رابطوں کے دروازے کھولے جا رہے ہیں ہمیں اللہ تعالٰی نے پہلے سے ہی توفیق عطا فرما دی کہ ان قوموں کیلئے جو لٹریچر کا خلا تھا اسے پورا کرنا شروع کریں اور اس وقت ہم خدا کے فضل سے پہلے اس مقام پر کھڑے ہیں کہ جب مطالبہ آئے ان کو کچھ نہ کچھ ضروری پہنچا دیں خصوصیت کے ساتھ

Page 48

87 86 قرآن کریم ان کی زبان میں.کیونکہ اس سے بہتر اور کوئی لٹریچر میا ہو ہی نہیں سکتا.دنیا بھر کے لٹریچر میں قرآن سے بہتر کوئی کتاب نہیں اس لئے قرآن کریم میں تو ہم خدا کے فضل سے اس معاملے میں خود کفیل ہو چکے ہیں کثرت کے ساتھ شائع ہو رہا ہے اور سٹاک میں بھی موجود ہے لیکن اس کے علاوہ بھی لٹریچر تیار کیا گیا ہے جو متفرق امور سے متعلق ان سے متعارف کروایا جائے تو اس ضمن میں میں آپ کو بتا رہا ہوں، خوشخبری دے رہا ہوں کہ باہر سے دروازے کھلنے شروع ہو گئے ہیں اور دیواریں ٹوٹ رہی ہیں آپ اپنے دروازوں کو کیوں تنگ رکھیں گے.اگر ان کھلتے ہوئے دروازوں کے مقابل پر آپ نے بھی اپنے دروازے کشادہ نہ کئے اور وسیع تر نہ کرتے چلے گئے تو پھر دین حق) کے نہ پھیلنے کی ذمہ داری آپ پر ہوگی تو پھر آپ خدا کے سامنے ضرور جواب دہ ہوں گے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ دروازے کھلنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے Points Contact زیادہ ہوں یعنی بجائے اس کے کہ ایک مبلغ یا دس یا سو مبلغ یا سودا عین الی اللہ یا ہزار را عین الی اللہ دین حق کیلئے کھلے رستے بن جائیں اور (دین حق) کیلئے لوگوں کے داخل ہونے کیلئے اپنے دلوں کے راستے پیش کریں.لاکھوں کی ضرورت ہے.اور ہر جگہ ان رابطوں کو بڑھانے کی ضرورت ہے اس ضمن میں جیسا کہ میں نے پہلے بھی بارہا کہا ہے ہمیں ان قوموں کی طرف ان ملکوں سے باہر توجہ کرنی چاہئے ملکوں کے جو دروازے کھلیں گے اور کھل رہے ہیں اللہ کے فضل سے ان سے تو ہم جماعتی اور انتظامی سطح پر رابطے کریں گے اور جہاں تک توفیق ہوگی ان رابطوں کو موثر بنائیں گے لیکن جب میں کہتا ہوں کہ ان قوموں کے دروازے کھل رہے ہیں تو مراد یہ ہے کہ ایسے دروازے بھی ہیں جو ان ملکوں سے باہر ہیں کروڑوں چینی ہیں جو چین سے باہر زندگی بسر کر رہے ہیں.اور لاکھوں روسی ہوں گے.یا مشرقی کمیونسٹ دنیا کے بسنے والے لوگ لکھو کھا ایسے ہیں جو اپنے ملکوں سے باہر زندگی بسر کر رہے ہیں اس لئے جو رجحانات وہاں پیدا ہو رہے ہیں اس سے بڑھ کر رحجانات ان ملکوں سے باہر پیدا ہونے کی عقلی امکانات ہیں پہلے تو جب آپ کسی چین سے تعلق رکھنے والے چینی سے بات کرتے تھے تو یہ خوف اس کو دامن گیر ہو جاتا تھا کہ اگر یہ سچائی بھی ہے اور میں اس کو قبول بھی کر لوں تو میرا ملک اسے برداشت نہیں کرے گا.ایک روسی سے جب آپ بات کرتے تھے تو رہ خوفزدہ ہو جایا کرتا تھا.مجھے یاد ہے کالج کے زمانے میں ، پارٹیشن کے معام بعد جب میں نیو ہاسٹل میں رہتا تھا ایک روسی وفد آیا ہوا تھا.ہم کچھ طلباء ملکر احمد یہ لڑیچ تقسیم کرنے کیلئے ان تک پہنچے روسی لڑ کچھ تو ہمارے پاس نہیں تھا مگر انگریزی اور بعض دوسرے لٹریچر کیونکہ وہ انگریزی جانتے تھے وہ ان کو دیا تو ہم سب نے محسوس کیا کہ وہ شخص خوفزدہ ہو گیا تھا اور اس کے ساتھ ایک اور شخص بھی اس کے نائب کے طور پر تھا.ہو سکتا ہے وہ انیلی جنس کا آدمی ہو کیونکہ ان دنوں میں خصوصیت سے جب روی وند باہر جایا کرتے تھے تو ان کے ساتھ انٹیلی جنس آفیسرز ضروری جایا کرتے تھے.اب نسبتا" بہت فرق پڑ چکا ہے وہ اس کی طرف دیکھتا تھا اس کی آنکھوں میں خوف تھا اور اس نے معذرت کی کہ نہیں میں قبول نہیں کر سکتک اس کے مقابل پر بہت سے دوسرے تھے جنہوں نے قبول کر لیا.جہاں تک مجھے یاد ہے رشین نے یا قبول کیا ہی نہیں تھا یا سرسری سے دلچپسی ایک آدھ چیتے میں کی ہوگی.مجھے تو یہی یاد ہے.قبول نہیں کیا اب وہ قبول کرتے ہیں، اب مطالبے کرتے ہیں اب جہاں جہاں برشین ابیسند سے ہمارے دوستوں سے رابطے کئے ہیں انہوں نے گرمی دلچسپی کا اظہار کیا ہے اور ایک ایمبیسند تو نہیں تھے مگر دورہ افریقہ کے دوران ایمبیسی کے ایک سینئر آفیسر تھے یا غالبا" ڈپٹی اسٹیسٹر تھے ان کو پہلے ہی پہنچ چکا

Page 49

89 88 تھا قرآن کریم انہوں نے مجھ سے بہت ہی تعریف کی کہ یہ تو ایسا اعلیٰ درجہ کا ترجمہ ہے کہ اس سے دل پر گہرا اثر پڑتا ہے اور آپ کو اس کو روس لیکر آنا چاہئے.تو روسی ہوں یا چینی ہوں یا وہ ان ملکوں کے لینے والے جہاں تک ہماری رسائی نہیں تھی اور ابھی تک پوری طرح نہیں ہے ان کے جگر گوشے جو باہر بس رہے ہیں ان تک تو آپ کی رسائی ہو سکتی ہے بہت سے احمدیوں کو جن کو بھی توفیق ملے ان علاقوں کے باہر کے احمدیوں کو ان کو اپنا یہ مشن بنانا چاہئے کہ ہمارے ذریعے ان قوموں سے (دین حق) کے رابطوں میں اضافہ ہو جائے اور ہم وہ دروازہ بن جائیں جن سے یہ (دین حق) میں داخل ہوں.پس اس طرح دین حق کا دروازہ وسیع ہوگا اور جتنے احمدی زیادہ اس میں شامل ہونگے اتنی ہی اس میں وسعت پیدا ہوتی چلی جائے گی.اس ضمن میں ایک اور بہت ضروری نصیحت یہ ہے، پہلے بھی کی تھی لیکن دوست عموما" بھول جاتے ہیں اس لئے بعض نصیحتیں بار بار کرنی پڑتی ہیں وہ مخلصین وہ سعادتمند احمدی جنہوں نے توفیق پائی کہ اگلی صدی کیلئے اپنے بچے ہدیتا (دین حق کو پیش کریں وہ بارہا مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہم ان کی تربیت کی طرح کریں؟ ان کو سمجھانے کیلئے ان کو طریقے سکھانے کیلئے ان کی مزید راہنمائی کیلئے با قاعدہ شعبہ قائم کر دیا گیا ہے اور تحریک جدید کو میں نے سمجھا دیا ہے کہ کس قسم کا لٹریچر تیار ہو کس قسم کی تربیتی نصائح ہونی چاہئیں ماں باپ کو.بچوں کو تو وہ کریں گے.ہم نے تو ماں باپ کو ابھی کرتی ہیں اور کیا راہنمائی ہونی چاہئے.وہ انشاء اللہ تعالی اس کے مطابق کام شروع کر دیں گے جلد ان کو یہ بھی سمجھایا کہ ان بچوں کیلئے اس کے دوسرے قدم کے اوپر لٹریچر تیار کرتا ہے اور مختلف زبانوں میں تیار کرتا ہے تاکہ شروع سے ہی جس رنگ میں ہم تربیت کرنا چاہتے ہیں ان کے گھروں میں وہ تربیت شروع ہو جائے.اس ضمن میں میں نے یہ نصیحت کی تھی کہ جن واقفین نو کی پیش کش کرنے والوں کے ہاں بیٹیاں پیدا ہوئیں ان کو کیا سکھائیں؟ بیٹیوں کیلئے وہ سہولت نہیں جو بیٹوں کے لئے ہو سکتی ہے کہ میدان میں جہاں مرضی ان کو پھینک دو ان کے اپنے کچھ حفاظت کے تقاضے ہیں کچھ ان کے اپنے نوعی تقاضے ہیں جن کے پیش نظر ہم ان سے اسی طرح کام نہیں لے سکتے جس طرح ہر واقف زندگی مرد سے کام لے سکتے ہیں.اس لئے ان کو میں نے یہ کہا تھا کہ ایسی بچیوں کو تعلیم کے میدان میں آگے لائیں.علمی کام سکھائیں اور علم تو بڑھانا ہی ہے لیکن علم سکھانے کا نظام جو ہے جس کو بی ایڈ یا ایم ایڈ کیا جاتا ہے ایسی ڈگریاں جن میں تعلیم دینے کا لیقہ سکھایا جاتا ہے ان میں ان کو داخل کریں.آئیندہ بڑے ہو کر.لیکن ابھی ان کی تربیت اس میں رنگ میں شروع کریں پھر ڈاکٹروں کی ضرورت ہے خواتین ڈاکٹروں کو خدا تعالٰی اگر توفیق دے تو وہ بہت بڑی خدمت کر سکتی ہیں اور بہت گہرا اثر چھوڑ سکتی ہیں اور اس رستے سے پھر وہ (دین حق) کا پیغام دینے میں بھی دوسروں پر فوقیت رکھتی ہیں.اس لئے احمد می خواتین کو ڈاکٹرین کر اپنی زندگیاں پیش کرنی چاہئیں یا ان بچوں کو ڈاکٹر بنایا جائے جو خدا تعالیٰ کے فضل سے وقف نو میں پیدا ہوئی ہیں.اسی طرح میں نے زبانوں کا کہا تھا اور جن زبانوں کی ہمیں ضرورت پڑنے والی ہے اس میں روسی اور چینی دو زبانیں خصوصیت کے ساتھ اہمیت رکھتی ہیں جماعت احمدیہ میں جن زبانوں میں کمی ہے ان میں ایک پینش ہے مثلا اس کی طرف توجہ شروع کر دی گئی ہے خدا کے فضل سے فرانسیسی میں ہمارے بہت سے فریج پیکنگ افریقی ممالک ہیں جہاں کثرت سے اچھی فرانسیسی بولنے والے مہیا ہو سکتے ہیں اور ہو رہے ہیں خدا کے فضل سے لیکن چینی زبان میں اور روسی زبان میں ہم بہت کمی محسوس کرتے ہیں اسی طرح اٹالین میں بھی کی ہے مگر سب سے بڑی ضرورت اس وقت اور عظیم ضرورت چینی اور روسی زبان جاننے والے احمدیوں کی ہے اس لئے جہاں نوجوان

Page 50

91 90 جن کو یہ سہولت حاصل ہو تعلیمی اداروں میں اس طرف توجہ کر سکیں ان کو بھی میری یہی نصیحت ہے کہ وہ توجہ کریں لیکن یہ جو نئے پیدا ہونے والے بچے ہیں ایسے ملکوں میں جہاں چینی اور روی زبان سکھانے کی سہولتیں موجود ہیں ان کو بچپن سے ان کو سکھانا چاہئے اور ان کی ایمبیسی سے رابطہ کر کے اگر کچھ کیسٹس وغیرہ سیا کی جاسکیں ، ویڈیوز مہیا کی جاسکیں، بچوں کے چھوٹے چھوٹے رسالے کہانیوں کی کتابیں وغیرہ یہ مہیا کی جائیں تو بہت بچپن سے اگر زبان سکھائی جائے تو وہ اتنے گہرے نقش دماغ پر قائم کر دیتی ہے کہ اس کے بعد بچے اہل زبان کی طرح بول سکتے ہیں.اور بڑی عمر میں سیکھی ہوئی زبان خواہ آپ کتنی محنت کریں وہ اہل زبان جیسی زبان نہیں بنتی، طوعی اور فطری طور پر جو ذہن سوچتا ہے وہ بچپن سے اگر سیکھی ہوئی زبان ہے تو وہ سوچ اس کی بے ساختہ ہوتی ہے.قدرتی اور طوعی ہوتی ہے لیکن اگر بعد میں زبان سیکھی جائے تو سوچ پر کچھ نہ کچھ قدغن رہتی ہے کچھ نہ کچھ پابندیاں رہتی ہیں.اور پھونک پھونک کر قدم آگے بڑھانا پڑتا ہے بعض لوگ نسبتا" تیز بھی بڑھاتے ہیں بعض آہستہ مگر جو طبیعی فطری روانی ہے وہ پیدا نہیں ہو سکتی اس لئے اہل زبان بنانے کیلئے بہت بچپن سے زبان سکھانی پڑتی ہے.اگر پنکھوڑوں میں زبان سکھائی جائے تو یہ بھی بہت اچھا ہے، بلکہ سب سے اچھا ہے.ایسی اگر دائی مل جائے نرس مل جائے اور جو توفیق رکھ سکتے ہیں نرسوں کے رکھنے کی وہ رکھیں.جو چینی نرس ہو تو بچوں کو بچپن سے گود میں کھلاتے کھلاتے ہی چینی زبان سکھا سکتی ہے.روی زبان جاننے والی اہل زبان کوئی عورت مل جائے تو بچے اس کے سپرد کئے جا سکتے ہیں.یہ تو باتیں حسب توفیق ہو گی مگر جن کو توفیق ہے ان کو چاہئے کہ وہ بہت بچپن سے اپنے بچوں کو چینی اور روسی زبان سکھانے کی کوشش کریں.اس سلسلے میں میں کوئی پابندی نہیں لگا تا کہ ہمیں سو (۱۰۰) کی ضروت ہے یا ہزار کی ضرورت ہے.واقعہ یہ ہے کہ یہ اتنی بڑی قومیں ہیں اور ان کو اتنی عظمت حاصل ہے اس وقت دنیا میں.کہ اگر یہ دونوں قومیں مثلا" دنیاوی لحاظ سے اکٹھی ہو جائیں تو ساری دنیا میں طاقت کا توازن بگڑ جائے یعنی ان کے حق میں ہو جائے اور باقی دنیا کے خلاف ہو جائے اور بہت سی بڑی بڑی سیاسی تبدیلیاں پیدا ہو جائیں.ان کا اس وقت الگ الگ ہونا ہی بعض قوموں کیلئے خوش قسمتی ہے اور وہ زبردستی بھی دخل اندازی کر کے اس خوش قسمتی کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں.اور بعض دفعہ غلطیاں کرتے ہیں اور الٹے نتیجہ نکلتے ہیں.مگر جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہمیں ان کے لڑنے یا نہ لڑنے دشمنی یا دوستی سے کوئی فرق نہیں پڑتا.(دین) حق) دونوں کیلئے برابر ہے اور ہم نے جو دین حق) کا پیغام پہنچاتا ہے اس کیلئے ہمیں زبان دانوں کی ضرورت ہے ہر قسم کے زبان دانوں کی ضرورت ہے جو تحریر کی مشق بھی رکھتے ہوں، بولنے کی مشق بھی رکھتے ہوں، ترجموں کی طاقت بھی رکھتے ہوں تصنیف کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں، اس لئے جتنے بھی ہوں کم ہوں گے.یعنی ایک ارب کے لگ بھگ یا اس سے زائد اب چین کی آبادی ہے اور روس اور روسی زبان جانے والوں کی آبادی بھی بہت وسیع ہے.مجھے اس وقت پوری طرح یاد تو نہیں لیکن پچاس کروڑ سے زائد ہوں گے جو روسی زبان جاننے والے بوگ ہیں بولنے والے اس لئے اگر سارے کا تعین بھی یہ زبان سیکھ لیں تو وہ کوئی زیادہ نہیں ہو گا مردوں کو بھی سکھائیں بچوں کو بھی سکھائیں لیکن بیٹیوں کو خصوصیت سے کیونکہ علمی کام میں ہمیں واقفین بیٹیاں بہت کام آسکتی ہیں.انہوں نے میدان میں بھی جاتا ہوگا لیکن وہ تصانیف کریں گی وہ گھر بیٹھے ہر قسم کی خدمت کے کام اس طرح کر سکتی ہیں کہ اپنے خاوندوں سے ان کو الگ نہ ہونا پڑے اس لئے ان کو ایسے کام سکھانے کی خصوصیت سے ضرورت ہے.بچوں کو تو ہم سنبھال لیں گے ہم ان کو کسی

Page 51

93 92 جامعہ میں داخل کریں گے کسی خاص ملک میں ان کا تعین ہوگا تو اس زبان کا ان کو ماہر بنانے کی کوشش کی جائے گی لیکن بچوں پر ہمارا ایسا اختیار نہیں ہو سکتا نہ مناسب ہے نہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے کہ اس طرح بچپن میں ان کو الگ کر کے پوری طرح جماعتی نظام کے تابع کیا جائے اس لئے والدین کا دخل بچیوں پر لازما جاری رہے گا یا بعد میں ان کے خاوندوں کا اس لئے اگر وہ زبانیں سیکھ لیں تو گھر بیٹھے بڑی آرام سے خدمت کر سکتی ہیں اور جب زبانیں سیکھیں تو جس وقت ان کے اندر صلاحیت پیدا ہو ان کو پھر ان زبانوں میں ٹائپ کرنا بھی سکھایا جائے.اور ان زبانوں کا لٹریچر ان کو پڑھایا جائے یہ نہ سمجھیں کہ زبان بولنا چالنا کافی ہوتا ہے یا لکھنے پڑھنے کا سلیقہ آجائے تو یہ کافی ہے لٹریچر جتنا زیادہ پڑھا جائے اتنا ہی زیادہ زبان میں وسعت پیدا ہوتی ہے.اس لئے پھر کثرت کے ساتھ ان کو رشین کلاسیکل ناول پڑھانے پڑیں گے.رشین کلاسیکل مضامین کلاسیکل شعراء ماڈرن شعر ، اور یہی حال چینی زبان میں بھی ہوگا تاکہ بچپن سے ہی ان کا علمی ذخیرہ اتنا وسیع ہو جائے کہ بڑی سہولت کے ساتھ ، ایک فطری رو کے ساتھ از خود علمی کاموں میں آگے بڑھتے چلے جائیں میں امید رکھتا ہوں کہ واقفین زندگی اس پیغام کو اچھی طرح ذہن نشین کریں گے اور آخری بات یہی ہے پھر بھی کہ اس کے ساتھ ان کی عظمت کردار کیلئے ابھی سے کوشش شروع کر دیں بچپن میں کردار بنائے جاتے ہیں دراصل اگر تاخیر ہو جائے تو بہت محنت کرنی پڑتی ہے.محاورہ ہے کہ لوہا گرم ہو تو اس کو موڑ لیتا چاہئے لیکن یہ جو بچپن کا لوہا ہے یہ خدا تعالٰی ایک لیے عرصے تک نرم ہی رکھتا ہے اور اس نرمی کی حالت میں اس پر جو نقوش آپ قائم کر دیتے ہیں وہ دائی ہو جایا کرتے ہیں اس لئے یہ وقت ہے تربیت کا اور تربیت کے مضمون میں یہ بات یاد رکھیں کہ ماں باپ جتنی چاہیں زبانی تربیت کریں اگر ان کا کردار ان کے قول کے مطابق نہیں تو بچے کمزوری کو لے لیں گے اور مضبوط پہلو کو چھوڑ دیں گے یہ دو نسلوں کے رابطے کے وقت ایک ایسا اصول ہے جس کو بھلانے کے نتیجے میں قومیں ہلاک بھی ہو سکتی ہیں اور یاد رکھنے کے نتیجے میں ترقی بھی کر سکتی ہیں.ایک نسل اگلی نسل پر جو اثر چھوڑا کرتی ہے اس میں گویا یہ اصول کار فرما ہوتا ہے کہ بچے ماں باپ کی کمزوریوں کو پکڑنے میں تیزی کرتے ہیں اور ان کی باتوں کی طرف کم توجہ کرتے ہیں اگر باتیں عظیم کردار کی ہوں اور بیچ میں سے کمزوری ہو تو بچہ بیچ کی کمزوری کو پکڑے گا اس لئے یاد رکھیں کہ بچوں کی تربیت کیلئے آپ کو اپنی تربیت ضرور کرتی ہوگی.ان بچوں کو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ بچو! تم سچ بولا کرو ، تم نے مبلغ بینا ہے.تم بد دیانتی نہ کیا کرو ، تم نے مبلغ بننا ہے.تم غیبت نہ کیا کرو.تم لڑا جھگڑا نہ کرو.اور یہ باتیں کرنے کے بعد پھر ماں باپ ایسا لڑیں جھگڑیں، پھر ایسی مغلقات بکیں ایک دوسرے کے خلاف ایسی بے عزتیاں کریں کہ وہ کہیں کہ بچے کو تو ہم نے نصیحت کر دی اب ہم اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں.یہ نہیں ہو سکتا جو ان کی اپنی زندگی ہے وہی بچے کی زندگی ہے.جو فرضی زندگی انہوں نے بنائی ہوئی ہے کہ یہ کرو! بچے کو کوڑی کی بھی اس کی پرواہ نہیں ایسے ماں باپ جو جھوٹ بولتے ہیں وہ لاکھ بچوں کو کہیں کہ جب تم جھوٹ بولتے ہو تو بڑی تکلیف ہوتی ہے تم خدا کیلئے سچ بولا کرو سچائی میں زندگی ہے بچہ کہتا ہے ٹھیک ہے یہ بات لیکن اندر سے وہ سمجھتا ہے کہ ماں باپ جھوٹے ہیں اور وہ ضرور جھوٹ ہوتا ہے.اس لئے وہ نسلوں کے جھوڑ کے وقت یہ اصول کار فرما ہوتا ہے اور اس کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں آپس میں خلا پیدا ہو جاتے ہیں.جن یورپین ممالک میں میں نے سفر کیلئے ہیں ہر ایک یہ شکایت کرتا ہے کہ ہماری نسل اور اگلی نسل کے درمیان ایک خلا پیدا ہو گیا ہے اور میں ان کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ یہ خلا تم نے پیدا کیا ہے تم

Page 52

95 94 نے زبانی طور پر ان کو اعلیٰ اخلاق سکھانے کی کوشش کی.تم نے زبانی طور پر ان کو اعلیٰ کردار سمجھانے کی کوشش کی.تم نے کہا کہ اس طرح خلط ملط نوجوانوں سے ٹھیک نہیں.اس طرح تمہیں یہ حرکتیں کرنا مناسب نہیں ہیں لیکن تمہاری زندگیوں میں اندرونی طور پر انہوں نے یہی باتیں دیکھیں جن کے اوپر کچھ طبع تھا کچھ دکھاوے کی چادرمیں پہنچائی گئیں تھیں اور در حقیقت یہ بچے جانتے تھے اور سمجھتے تھے کہ تم خود ان چیزوں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہو اس لئے وہ وہ بنے ہیں جو تمہاری اندرونی تصویر تھی اور تم جو خلا محسوس کر رہے ہو اپنی بیرونی تصویر سے محسوس کر رہے ہو وہ تصویر تم جو دیکھنا چاہتے تھے ان میں جو تمہارے تصور کی دنیا تھی تمہارے عمل کی دنیا بن گئی.لیکن تمہارے تصور کی دنیا کی کوئی تعبیر نہیں پیدا ہوئی اس لئے تم بظاہر اس کو خلا سمجھ رہے ہو حالانکہ یہ تسلسل ہے.برائیوں کا تسلسل ہے جس کی چوٹیاں بلند تر ہوتی چلی جارہی ہیں یا اگر گہرائی کی اصطلاحوں میں باتیں کریں تو تعرمذلت کی طرف بڑھتی چلی جارہی ہیں تو جماعت احمدیہ کو اگلی نسلوں کے کردار کی تعمیر میں اس اصول کو ہمیشہ یاد رکھنا ہوگا ورنہ وہ ہمیشہ دھوکے میں مبتلا رہیں گے اور اگلی نسلوں سے ان کا اختیار جاتا رہے گا وہ ان کی باتیں نہیں مانیں گے خصوصا" را تضمین نو بچوں پر بہت ہی گہری ذمہ داریاں ہیں یہ پانچ ہزار یا زائد بچے جتنے بھی اس دور میں پیش ہوئے ہیں انہوں نے انگلی دنیا سنبھالتی ہے اگلی نسلوں کی تربیت کرنی ہے نئے قوموں کے چیلنجوں کا سامنا کرنا ہے اور (دین حق کی زندگی کرتے ہوئے بڑے بڑے مقابلے کرنے ہیں بڑے بڑے معرکے سر کرتے ہیں آپ اگر اس مضمون کو بھول کر عام غفلت کی حالت میں اپنی سابقہ زندگی بسر کرتے چلے جائیں گے تو آئندہ پیدا ہونے والے وا تعین پر آپ کے براثرات مرتب ہو جائیں گے.اور پھر جماعت جتنا بھی کوشش کرے گی ان کی ایسی اصلاح نہیں کر سکتی.میں نے دیکھا ہے جامعہ میں جو بد عادتوں والے بچے آتے ہیں لاکھ زور ماریں استاد ان کی بد عادتیں کچھ نہ کچھ مدھم پڑ جاتی ہیں مٹتی نہیں.بد عادت کو مثانا بہت مشکل کام ہے ہاں اندرونی طور پر بعض لوگوں میں ایک دم تقوی کی حالت پیدا ہو جاتی ہے خدا کا خوف پیدا ہو جاتا ہے تو پھر اس اندرونی طاقت کے ذریعے خدا کے فضل سے اپنی ساری بدیوں کو اتار پھینکتے ہیں لیکن اس کو انقلاب کہا جاتا ہے میں اس وقت ایسے انقلاب کی بات نہیں کر رہا.میں تربیت کے اصولوں کی بات کر رہا ہوں جہاں تک تربیت کا تعلق ہے آپ نے اگر یہ وا تفین اچھی حالت میں، سنبھی ہوئی طبیعتوں کے ساتھ جماعت کے سامنے پیش کئے تو انشاء اللہ تعالی اس جوہر قابل سے بہت عظیم انقلابات برپا ہوں گے اور جماعت ان سے بڑے پڑے عظیم فوائد حاصل کر سکے گی لیکن اگر معمولی کھیوں والے بھی آئے تو بعض دفعہ وہ کچھیاں پھر پڑھنی شرع ہو جاتی ہیں.بعض دیواروں میں رخنے پڑتے ہیں وہ سطحی ہوتے ہیں.اور انجینئر دیکھتے ہیں کہ کوئی خطرے کی بات نہیں..مگر بعض گھرے ہوتے ہیں.اور وہ وقت کے ساتھ پھٹنے شروع ہو جاتے ہیں اور پھر چھتیں بھی ان کی وجہ سے گر جاتی ہیں.تو بنیادی اخلاقی کمزوریاں ان گہرے رختوں کے مشابہ ہوا کرتی ہیں ان کو اگر ایک دفعہ آپ نے پیدا ہونے دیا تو آئندہ نسلوں کی چھتیں گرا دیں گے.اس لئے خدا کا خوف کرتے ہوئے استغفار کرتے ہوئے اس مضمون کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کریں اور دل نشین کریں اور اپنے کردار میں ایک پاکیزہ تبدیلی پیدا کریں تاکہ آپ کی یہ پاکیزہ تبدیلی اگلی نسلوں کی اصلاح اور انکی روحانی ترقی کیلئے کھاد کا کام دے اور بنیادوں کا کام دے جس پر عظیم عمارتیں تعمیر ہوں گی.اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے (آمین)

Page 53

*******: ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے گود میں تیری رہائیں مثل طفل شیر خوار *** ** **:

Page 54

نمبر شمار -2 -8 -10 فهرست مضامین مضامین پاکستان سے انگلستان ہجرت کے فوائد کلیم خاور صاحب کا زندگی وقف کرنا کون دنیا کی طاقت ہے جو خدا تعالی کی محبت ہمارے دل سے نوچ پھینکے؟ وا تعین تو ہر آئندہ میں سالوں میں بڑی بڑی ذمے داریاں پڑنے والی ہیں صفحہ نمبر 1 3 6 8 وا تضمین نو پر پوری توجہ اس طرح دیں جس طرح ایک بہت ہی عزیز و چیز کو ایک بہت عظیم مقصد کیلئے تیار کیا جا رہا ہو اپنے وا تعین کے وجود کو خدا کے سپرد کردیں مجھے صرف ڈر یہ ہے کہ بچوں کو چھوٹا سمجھ کر دیر نہ کر دیں زبانیں بچپن سے ہی سکھانی شروع کر دیں.مغربی دنیا کے بچوں کو یہ بہت زیادہ سمولت حاصل ہے.کہ وہ زبانیں سیکھ سکیں تین زبانیں تو کم سے کم ہیں 10 12 12 14 لا يعلم الا ھو کوئی نہیں جانتا سوائے اس کے (حضور کی ایک رویا ) 16

Page 55

101 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تحمدَة وَتُصَلّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِي خدا کے فضل اور رحم کیساتھ هو الناصر خطبہ جمعہ فرمودہ سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالٰی تاریخ 89 - 12 -1 بمقام - مسجد فضل - لندن تشهد و تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: پاکستان سے انگلستان کی طرف عارضی ہجرت کرنے کے بہت سے فوائد ایسے تھے جو رفتہ رفتہ روشن ہوئے: اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اہمیت واضح ہوتی چلی گئی ان بہت سے فوائد میں سے جو خدا کی تقدیر کے مطابق ہمیں لانا اس طرح عطا ہوئے تھے جیسے بچے کو دوا دی جاتی ہے اور اس کی شفا کے لیے اس کی زندگی کے لیے اس کی بقا کے لئے وہ دوا ضروری ہوا کرتی ہے خواہ کیسی ہی کڑوی کیوں نہ ہو اللہ تعالی نے اپنے فضل سے اس طرح ہمیں رحمتیں گھوٹ گھوٹ کے پلائیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ بعض خدمت کے ایسے میدان نظر کے سامنے ابھرے جن کی طرف پہلے کوئی توجہ نہیں تھی مثلا" ایک لمبا عرصہ گزرنے کے باوجود مشرقی دنیا جو اشتراکی دنیا کھلاتی ہے یعنی مشرق کا وہ حصہ جو اشتراکیت کے قبضے میں ہے اس میں بسنے والے اربوں انسانوں کے لیے ہم نے کوئی تیاری نہ کی تھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالٰی نے الہاما" یہ خوشخبری عطا فرمائی

Page 56

103 102 تھی کہ میں تجھے روس میں اس کثرت سے مسلمان عطا کروں گا کہ آپ نے اس نظارے کو یوں بیان فرمایا جیسے ریت کے ذرے ہوں اور اس کے علاوہ روس کا عصا آپ کے ہاتھوں میں تھمایا گیا جو رویا میں یوں معلوم ہوا جیسے اس کے اندر دو نالی بندوق ہوتی ہے یعنی عصا ایسا جو دور بار ہو اور دور اثر ہو.جب تک انگلستان آنے کی تقدیر یا انگلستان لائے جانے کی تقدیر ظاہر نہیں ہوئی ان امور پر نظر ان معنوں میں تو تھی کہ یہ خدا کی طرف سے عطا کردہ خوشخبریاں تمھیں اور ہر احمدی کا دل مطمئن تھا کہ یقینا یہ پوری ہوں گی لیکن کیسے ہوں گی اور انہیں پورا کرنے کے لیئے مومن کو جو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے وہ ہم کیسے ادا کریں گے ان چیزوں پر نظر نہیں تھی نہ ان حالات میں ہو سکتی تھی یہاں آنے کے بعد سب سے پہلے کاموں میں سے ایک یہ کام کرنے کی توفیق ملی کہ اشتراکی مشرقی دنیا میں جتنے ممالک ہیں ان کی زبانوں میں اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے چھوٹے چھوٹے رسالے اور کتابیں تیار ہونا شروع ہوئیں اور قرآن کریم کے بعض مکمل ترجمے ان زبانوں میں کرنے کی توفیق علی اور بعض زبانوں میں اقتباسات شائع کرنے کی توفیق ملی اسی طرح احادیث نبویہ میں سے منتخب احادیث جو ھم نے سوچا کہ اس زمانے کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اور انسان کی ضرورتوں کے لحاظ سے پیاس بجھانے کے لیے اہمیت رکھتی ہیں ان کا ترجمہ کرنے کی اور ان کی اشاعت کی توفیق ملی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بہت سے اقتباسات جو قرآن کریم کی آیات اور احادیث کے مضمون سے مطابقت رکھتے تھے اور انہیں کی تفسیر تھے ان کو اس نقطہ نگاہ سے چنے کی توفیق ملی کہ ایک پڑھنے والا جب قرآن کریم کے مضامین سے گزر کر احادیث کے مضامین سے ہوتا ہوا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات تک پہنچتا ہے تو اسے پہلی دونوں تحریروں کا زیادہ لطف آنے لگے اور اس کا ذہن زیادہ عمدگی کیساتھ ان کے مطالب کو پا سکے اور اس کے اندر یہ احساس قوی تر ہوتا چلا جائے که قرآن کریم کی تفسیر حضرت رسول اکرم ﷺ کے کلام میں ہے اور آنحضرت کے کلام کی تغییر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام میں ہے تو اس طرح ان کے درمیان ایک تطبیق پیدا کرنے کی بھی کوشش کی گئی کسی حد تک اس کی توفیق ملی اور پھر ان کے تراجم کیے گئے اور کتابیں اشاعت کے لیئے تیار ہوئیں یہ سب کچھ ہو رہا تھا لیکن کچھ علم نہیں تھا کہ ان کتابوں کو اس لڑ پچر کو ان ملکوں تک پہنچانے کے سامان کیسے میسر آئیں گے صرف یہی نہیں اور بھی بہت سے مضامین پر رسالے شائع کیے گئے تراجم تیار کیے گئے اور ان کی طباعت کروائی گئی آپ شاید ہی اندازہ کر سکیں کہ یہ کام کتنا مشکل تھا اور کتنا ذمے داری کا کام تھا کیونکہ صحیح آدمی کی تلاش کرنا اور اس سے رابطہ کرنا اور اس کو تیار کرنا کہ ان کتب کا ترجمہ کرے یا ان رسائل کا ترجمہ کرے اور پھر یہ نگاہ رکھنا کہ وہ ترجمہ درست اور اصل کے مطابق ہے جب کہ ہم خود ان زبانوں سے نابلد ہیں اس کے لئے متبادل ماہرین کی تلاش کرنا ایسے جنمیں سے بہتوں کی عربی پر بھی نظر ہو اور اسلام کی اصطلاحات سے بھی واقف ہوں یہ ایک بہت ہی وسیع کام تھا لیکن اللہ تعالی نے آغاز ہی سے اس کو آسان فرمانا شروع کر دیا.ہمارے ایک نوجوان اسلام آباد میں روسی زبان سیکھ رہے تھے ان کے دل میں اللہ تعالی نے یہ بات ڈال دی کہ وہ اپنی زندگی اسلام کے لیے وقف کردین چنانچہ انہوں نے وقف کیا اور میں نے اسے قبول کر لیا پھر وہ یہاں انگلستان تشریف نے آئے اور مسلسل اس کے بعد سے ان کے ذریعہ سے ہمارے رابطے وسیع ہونے شروع ہوئے پہلا کام روی زبان میں قرآن کے ترجمے کا کام تھا اور اس کو ہم سب سے زیادہ

Page 57

105 104 اہمیت دے رہے تھے انکا نام خاور صاحب ہے خاور صاحب کہلاتے ہیں اگرچہ روسی زبان تو یہ کچھ سیکھ چکے تھے لیکن اتنا عبور کہ قرآن کریم کا ترجمہ کر سکیں اور ذمے داری سے کر سکیں یہ تو بہت بڑی بات تھی لیکن ابتدائی کاموں میں محمد اور مددگار بہت ثابت ہوئے پھر اللہ تعالٰی نے اسکا ایک اور سامان پیدا فرما دیا اور یہ چند مثالیں جو آپ کے سامنے رکھتا ہوں اس سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ کس طرح خدا کی تقدیر کام کرتی ہے بندوں کے ہاتھ حرکت تو کرتے ہیں مگر خدا کے ہاتھوں میں بندوں کے قدم آگے تو اٹھتے ہیں لیکن خدا کی طاقت سے آگے اٹھتے ہیں اور تمام وہ امور جو دین کیلئے سر انجام دینے کی توفیق ملتی ہے ان پر جب آپ آفاقی نظر ڈالتے ہیں تو آپ کو جابجا خدا تعالٰی کی تقدیر کار فرما دکھائی دیتی ہے نظر آنے لگتی ہے کہ کس طرح کسی موقع پر خدا کی تقدیر نے کیا ساہن پیدا فرمایا چنانچہ انگلستان میں روہی زبان کا ایسا ماہر ملنا جو عربی کا بھی ماہر ہو یا دینی اصطلاحات کو سمجھتا ہو یہ بہت مشکل کام تھا لیکن اللہ تعالی کی شان ہے کہ ہندوستان سے ایک ایسا ماہر احمدی عالم مل گیا جس نے روس میں روسی زبان میں پی ایچ ڈی کیا تھا ان کے والد صاحب اتفاق سے کراچی ان دنوں تشریف میں لائے جن دنوں میں میں بھی وہاں گیا ہوا تھا اور ان سے چند مجالس ہو ئیں وہ ویسے تو بڑے مخلص ندائی آدمی تھے لیکن اس کے بعد ان کے دل میں غیر معمولی طور پر یہ جذبہ پیدا ہوا کہ میرا یہ بیٹا جو روسی زبان سیکھ کے آیا ہے یہ بھی دین کی خدمت میں آئے چنانچہ انہوں نے مجھے خط لکھنے شروع کیے کہ یہ تو دین سے بالکل بے بہرہ ہو چکا ہے اور خالی ہو کے واپس لوٹا ہے اور میری بڑی تمنا ہے کہ کسی طرح یہ خدمت دین میں کام آئے چنانچہ ان کے لیے دعا کی بھی توفیق ملی ان سے رابطہ بھی ہوا اور وہ پروفیسر صاحب خود انگلستان تشریف لائے اپنا وقت وقف کیا اور ان کی کایا پلٹ گئی وہ جن کو ان کے والد کہتے تھے کہ مجھے ان کا دل خالی دکھائی دیتا ہے وہ نور ایمان سے بھر گیا اخلاص سے بھر گیا بہت ہی انہوں نے وقت قربان کیا لمبا عرصہ یہاں بھی ٹھہرے اور واپس جا کے بھی مسلسل قرآن کریم کے روسی ترجمے پر محنت کی اور اس کے بعد پھر ہمیں بعض پروفیسروں کو دکھانے کی توفیق کی تاکہ وہ اسے اور چمکائیں اور زبان کے لحاظ سے کوئی سقم رہ گئے ہوں تو وہ ان کو دور کریں.اس رنگ میں خدا تعالٰی نے ہمیں مختلف تراجم کی بھی توفیق عطا فرمائی اور جیسا کہ میں نے مثال دی ہے خود بخود سامان مہیا فرما تا رہا ہے خاور صاحب کلیم خاور ناہم ہے ان کا یہ کسی اور کام کے سلسلے میں کسی پروفیسر سے ملنے جاتے ہیں وہاں ان کا ایک دوست پروفیسر مشرقی یورپ کا کسی زبان کا ماہر آجاتا ہے تعارف ہوتا ہے تو اچانک یہ ان کو کہتے ہیں کہ بھئی ہمیں تو آپ کی تلاش تھی اور اس طرح ایک انسان کی تلاش کی دوسرا انسان مدد کرتا چلا جاتا ہے اور یہ رابطے اس طرح پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں گویا مقدر تھے معین طور پر ان کا منصوبہ بنایا گیا تھا اور ان سارے امور پر جب آپ نگاہ ڈالیں تو کوئی احمق سے احمق آدمی بھی یہ نہیں کہہ سکتا اگر اس کے دلمیں سچائی کا شائبہ ہو کر یہ سارے بے شمار اتفاقات ہمیں یہ تقدیر مرے چل رہی تھی اور اس تھوڑے سے عرصے میں حیرت انگیز طور پر کثرت کیساتھ مشرقی یورپ کی زبانوں میں اسلام کا لٹریچر تیار کرنے کی توفیق ملی روسی زبان میں لٹریچر تیار کرنے کی توفیق ملی چینی زبان میں لٹریچر تیار کرنے کی توفیق ملی اور ہم انتظار میں بیٹھے رہے کہ اب دیکھیں خدا آئندہ کیا سامان کرتا ہے؟ بہت بڑی بڑی دیوار میں رستے میں حائل تھیں لیکن اب دیکھیں کہ آپ کے دیکھتے دیکھتے وہ دیوار میں ٹوٹنی شروع ہو گئیں جب دیوار برلن کر رہی تھی اور ٹیلی ویمن پر لوگ دیکھ رہے تھے اور عجیب عجیب رنگ میں اپنی خوشیوں کے اظہار کر رہے تھے اور جوش کا اظہار کر رہے تھے تو میرا دل اللہ کی حمد کے ترانے گا رہا تھا وہ سمجھتے تھے کہ ان کی خاطر دیوار برلن گرائی جارہی ہے

Page 58

107 106 میں جانتا تھا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی خاطر دیوار برلن گرائی جا رہی ہے اور اب اسلام کے ان ملکوں میں پھیلنے کے دن آرہے ہیں اور دہ تیاریاں جو خدا کی تقدیر نے ہم سے کروائی تھیں وہ رائیگاں نہیں جائیں گی ان کو خدا تعالٰی نے اس رنگ میں مکمل فرمایا اور ایسے وقت میں مکمل فرمایا جبکہ دوسری طرح سے روکیں توڑنے کے سامان بھی تیار تھے اور جونہی ہم یہاں خدمت کے لیے تیار ہوئے خدا تعالٰی نے وہ حائل روکیں ساری ر کرنی شروع کر دیں یہ وہ زندہ خدا ہے جو احمدیت کا خدا ہے جس نے ہمیشہ احمدیت کی پشت پناہی فرمائی ہے اور ہر قدم پر ہماری مدد فرمائی ہے.رور کون دنیا کی طاقت ہے جو اس خدا کی محبت ہمارے دل سے نوچ کر پھینک سکتی ہے: کون ہے جو ہمارے دل میں شکوک پیدا کر سکتا ہے ہم اس خدا کی تقدیر کو روز مرد ہمیشہ ظاہر ہوتے دیکھتے ہیں مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتے دیکھتے ہیں کبھی کبھی مختلف بکھری ہوئی صورتوں میں ظاہر دیکھتے ہیں اور کبھی کبھی ان صورتوں کا اجتماع ہوتا دیکھتے ہیں اور ایک نہایت ہی خوبصورت منظم مشکل نظر آتی ہے ان تدبیروں کی.اور اس وقتہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم جب سوئے ہوئے ہوتے ہیں جب ہم بعض باتوں سے غافل ہوتے ہیں تو ہمارا خدا واقعی جاگتا ہے اور واقعی ان کاموں کو ہمارے لیے کرتا ہے جن کاموں سے ہم غافل ہوتے ہیں جن کاموں کے کرنے کی ہم میں طاقت نہیں ہوتی.پس ایک طرف خدا کی تقدیر نے وہ کام ہمارے لئے آسان کر دیئے جو کام بہت مشکل تھے اور اب بھی جب ماہرین ان باتوں کو دیکھتے ہیں تو یقین نہیں کرتے کہ اتنے تھوڑے عرصے میں اتنے حیرت انگیز کام کیسے سرانجام دینے کی توفیق ملی لیکن ان کو نہیں پتہ کہ دراصل یہ اللہ کی قدرت کا ہاتھ ہے اس کی محبت اور رافت اور شفقت کا ہاتھ ہے جو ہر مشکل کو آسان کرتا چلا جاتا ہے اور اب جو نئے سامان پیدا ہوئے ہیں ان کے نتیجے میں میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالٰی کے فضل سے اسلام کے غلبے کا یہ دوسرا دور بڑی تیزی کے ساتھ اثر پذیر ہو جائیگا دوسرے دور سے مراد "آخرین" کا دور ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دور ہے اور تیزی کیساتھ اثر پذیر ہونے سے مراد میری یہ ہے کہ اب اس رفتار میں مزید تیزی پیدا ہو گی اور وہ علاقے جو اب تک خالی تھے اور وہ دنیا کی ایک بہت بڑی تعداد ہے ان علاقوں کی تعداد باقی دنیا کے علاقوں سے اگر زیادہ نہیں تو بہت کم بھی نہیں ہو سکتی کیونکہ انہی علاقوں میں سارے چین کی آبادی شامل ہے سارے روس کی آبادی شامل ہے سارا مشرقی یورپ ہے پھر اور ایسی مشرقی طاقتیں ہیں یا مشرقی ممالک ہیں جو اشتراکیت کے دام میں آئے ہوئے ہیں تو بہت بڑی وسیع آبادی ہے نصف دنیا کے قریب ایسی انسانوں کی آبادیاں ہیں جن تک پہلے اسلام کا پیغام پہنچنے کا کوئی ساہن نہیں تھے تو اس لئے جہاں ان باتوں کو دیکھ کر دل شکر اور حمد سے بھر جاتا ہے اور یقین ہو جاتا ہے کہ یہ کام خدا ہی کے ہیں خدا ہی نے کرنے ہیں وہاں ذمہ داریوں کا احساس بھی پڑھتا ہے اور انسان کی یہ تقدیر سامنے آجاتی ہے کہ ایک بوجھ اترتا ہے تو دوسرا سر پر آجاتا ہے ایک مشکل آسان ہوتی ہے تو دوسری مشکل سر پر آن پڑتی ہے اب فکر اس بات کی ہے کہ ان نئے کھیلتے ہوئے راستوں میں داخل کرنے کے لیے وہ کون سی فوج ہے ہمارے پاس جس سے ہم کام لیں گے اور وہ کون سے ایسے را تعین ہیں جو ان نئی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں سردست تو ہمارے پاس ان زبانوں کے ایسے ماہرین نہیں ہیں جو وہاں پہنچکر خدمتیں سر انجام دے سکیں اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس پہلے دور میں تو ہمیں اشاعت لٹریچر کے ذریعے وہاں دلوں کو آمادہ کرنا ہوگا اور جیسا کہ میں نے اس سے پہلے بارھا توجہ دلائی ہے باہر کی دنیا کے وہ لوگ جن میں ان ملکوں کے

Page 59

109 108 باشندے نقل مکانی کر کے بس چکے ہیں ان کا بہت بڑا کام ہے کہ ان سے روابط پیدا کریں ان سے تعلقات بڑھائیں اور انہیں میں سے وہ مجاہدین تلاش کریں جو خدا تعالٰی کے فضل اور رقم کیساتھ اپنے اپنے ممالک میں خدمت دین کے جذبے سے بھر جائیں اور اپنی زندگیاں پیش کریں پھر ان کو تھوڑی بہت تعلیم دیگر جس حد تک بھی ان کی ابتدائی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لئے ضروری ہے ہم ان کو اپنے اپنے وطنوں میں واپس بھجوا سکتے ہیں لیکن اس کے علاوہ جو واقفین نو کی فوج ہے اس پر آئندہ ہیں سال تک بہت بڑی بڑی ذمے داریاں پڑنے والی ہے اور اس پہلو سے میں جماعت کے اس حصے کو نصیحت کرتا ہوں جس کو خدا تعالٰی نے وقف تو میں شمولیت کی توفیق عطا فرمائی کہ وہ تحریک جدید کی ہدایات کے مطابق اپنے بچوں کی تیاری میں پہلے سے زیادہ بڑھ کر سنجیدہ ہو جائیں اور بہت کوشش کر کے ان را تعین کو خدا تعالی کی راہ میں عظیم الشان کام کرنے کے لیے تیار کرنا شروع کریں بچے تیار کرنا خدا کی خاطر اس سے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے جتنا عید پر قربانی کے لیے لوگ جانور تیار کرتے ہیں اور میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے ملک میں تو یہ رواج ہے کہ بعض لوگ دوسری نیکیاں کچھ کریں یا نہ کریں نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں لیکن عید کی قربانی کے لیے مینڈھا بڑے پیار سے پالتے ہیں اور بہت بہت اس پر خرچ کرتے ہیں بعض دفعہ ایسے مزدور بھی ہیں جو اپنے بچوں کا پیٹ پوری طرح پال نہیں سکتے لیکن اپنے مینڈھے کو چنے ضرور کھلائیں گے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ خدا کی راہ میں قربان کرنے کے لیے پیش کرنا ہے اور پھر اسے سجاتے ہیں اور اسپر کئی قسم کے زیور ڈالتے ہیں پھول چڑھاتے ہیں اس کو مختلف رنگ میں رنگ دیتے ہیں اور جب وہ قربانی کے لیے لیکر جاتے ہیں تو بہت ہی سجا کر جس طرح ولمن جا رہی ہو اس طرح وہ سجا کر لیجاتے ہیں.یہ بچے قربانی کے مینڈھے سے بہت زیادہ عظمت رکھتے ہیں اور ان کے ماں باپ کو اس سے بہت زیادہ محبت سے ان کو خدا کے حضور پیش کرنا چاہئے جتنی محبت سے خدا کی راہ میں بکرا ذبح کرنے والا اس کی تیاری کرتا ہے یا مینڈھے کی تیاری کرتا ہے ان کا زیور کیا ہے وہ تقویٰ ہے تقویٰ ہی سے یہ سجائے جائیں گے اس لیے سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ ان واقفین نو کو بچپن ہی سے متقی بنا ئیں اور ان کے ماحول کو پاک اور صاف رکھیں ان کے سامنے ایسی حرکتیں نہ کریں جن کے نتیجے میں ان کے دل دین سے ہٹ کر دنیا کی طرف مائل ہونے لگ جائیں پوری توجہ ان پر اس طرح دیں جس طرح ایک بہت ہی عزیز چیز کو ایک بہت عظیم است مقصد کے لئے تیار کیا جا رہا ہو اور اس طرح ان کے دل میں تقویٰ بھر دیں کہ پھر یہ آپ کے ہاتھ میں کھیلنے کی بچائے براہ راست خدا کے ہاتھ میں کھیلنے لگیں اور جس طرح ایک چیز دو سرے کے سپرد کر دی جاتی ہے تقویٰ ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعے آپ یہ بچے شروع ہی سے خدا کے سپرد کر سکتے ہیں اور درمیان کے سارے واسطے اور سارے مراحل ہٹ جائیں گے رسمی طور پر تحریک جدید سے بھی واسطہ رہے گا اور نظام جماعت سے بھی واسطہ رہے گا مگر فی الحقیقت بچپن ہی سے جو بچے آپ خدا کی گود میں لاڈالیں خدا خود ان کو سنبھالتا ہے اور خود ہی ان کا انتظام فرماتا ہے خود ہی ان کی نگہداشت کرتا ہے جس طرح کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدا نے نگہداشت فرمائی آپ لکھتے ہیں.

Page 60

111 110 ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے رات گئے گود میں تیری رہا میں مثل طفل شیر خوار آپ نے یقینا" بڑی وسیع نظر سے اور گہری نظر سے اپنے ماضی کا مطالعہ کیا ہوگا تب جا کر اس شعر کا مضمون آپ کے دل سے ہویدا ہوا ہے ظاہر ہوا ہے آپ نے غور کیا ہوگا بچپن میں دودھ پینے کے زمانے تک بھی جہاں تک یادداشت جاتی ہو کہ ابتداء ہی سے خدا کا پیار دل میں تھا خدا کا تعلق دل میں تھا ہر بات میں خدا حفاظت فرما رہا تھا ہر قدم پر اللہ تعالی راہنمائی فرما رہا تھا اور جس طرح ایک طفل شیر خوار ماں کی گود میں ہوتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عرض کرتے ہیں کہ اے خدا میں تو ہمیشہ تیری گود میں رہا پس ان بچوں کو خدا کی گود میں دے دیں.کیونکہ ذمے داریاں بہت بڑھی ہیں اور کام بہت زیادہ ہیں ہماری تعداد کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتی ان قوموں کی تعداد کے مقابل پر جن کو ہم نے اسلام کے لئے فتح کرتا ہے ہماری عقلیں ہمارے علوم ہماری دنیاوی طاقتیں ان قوموں کی عقلوں اور علوم اور دنیاوی طاقتوں کے مقابل پر کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتیں جن کو ہم نے خدا کے لئے فتح کرتا ہے پیس ایک ہی راہ ہے اور صرف ایک راہ ہے کہ ہم اپنے وجود کو اور اپنے واقفین کے وجود کو خدا کے سپرد کر دیں اور خدا کے ہاتھوں میں کھیلنے لگیں امر واقعہ یہ ہے کہ کوئی چیز خواہ کیسی بھی کمزور کیوں نہ ہو اگر وہ طاقتور کے ہاتھ میں ہو تو حیرت انگیز کام دکھاتی ہے کوئی چیز کیسی ہی بے عقل کیوں نہ ہو اگر صاحب فہم و عقل کے ہاتھ میں ہو تو اس سے عظیم الشان کام لیئے جا سکتے ہیں ہم تو محض مہرے ہیں اور اس حیثیت کو ہمیشہ کجھنا اور ہمیشہ پیش نظر رکھنا احمدی کے لیے ضروری ہے آپ نے دیکھا نہیں شطرنج کھیلنے والے ان مہروں سے کھیلتے ہیں جن میں اتنی بھی طاقت نہیں ہوتی کہ ایک گھر سے اٹھکر دوسرے گھر تک جا سکیں عقل کا کیا سوال شعور کا ادنیٰ احساس بھی موجود نہیں ہوتا کہ وہ یہ معلوم کریں کہ کس گھر میں جانا ہماری بقاء کے لیے ضروری ہے اور کس گھر میں جانا شکست کا اعلان ہوگا بے جان بے طاقت مرے جو مل بھی نہیں سکتے سوچ بھی نہیں سکتے اور ایک صاحب قسم اچھا شاطر شطرنج کا ماہر ان کو اس طرح چلاتا ہے کہ بڑے سے بڑے عقل والوں کو بھی شکست دے دیتا ہے اور شکست اور فتح کا فیصلہ ان بے جان مہروں کی بساط پر ہو رہا ہوتا ہے جو نہ طاقت رکھتے ہیں نہ عقل رکھتے ہیں پیس خدا کے عظیم کام بھی اسی طرح چلتے ہیں ہم ان بے جان مہروں کی طرح ہیں ہمارے سامنے بھی کچھ مرے ہیں لیکن ان مہروں کی طاقت شیطان کے ہاتھ میں ہے بے خدا اس کے ہاتھ میں ہے اور کچھ مرے ایسے بھی ہیں جو خود خدا سمجھ رہے ہیں اپنے آپ کو اور خود چلتے ہیں اور خود سوچنے کی بھی طاقت رکھتے ہیں اس کے مقابل پر ہم وہ بے جان مرے ہیں جن میں نہ کوئی طاقت ہے نہ کوئی دماغ ہے مگر ہم اپنے خدا کے ہاتھ میں ہیں یہ احساس انکساری جو کچا ہے جس میں کوئی ایسی بات نہیں جو انکساری کی خاطر گرا کر پیش کی گئی ہو امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا کے مقابل پر ہماری حیثیت اس سے زیادہ نہیں ہے ہاں خدا اگر چاہے اور وہ ہم سے کام لیتا شروع کرے اور ہم اپنے آپ کو اس کے سپرد کر دیں تو یہ شطرنج کی بازی یقین " اسلام کے حق میں جیتی جائیگی کوئی دنیا کی طاقت اس بازی کو الٹا نہیں سکتی اسلام کے خلاف اس پہلو سے ان بچوں کی تیاری کی ضرورت ہے ان کو خدا کے سپرد کریں اور جہاں تک تحریک جدید کا ان پر نظر رکھنے کا تعلق ہے جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا ان کو میں نے ہدایات دی ہیں وہ تیاری بھی کر رہے ہیں

Page 61

113 112 مجھے صرف ڈر یہ ہے کہ اس تیاری میں دیر نہ کر دیں یہ سمجھتے ہوئے کہ ابھی تو چھوٹے بچے ہیں ابھی انہوں نے بڑے ہوتا ہے حالانکہ بچپن ہی سے بچوں کو سنبھالیں گے تو وہ سنبھالے جائیں گے جب غلط روش پر بڑے ہو گئے تو اس غلط روش کو بعد میں درست کرنا بہت ہی محنت کا اور جان جوکھوں کا کام بن جاتا ہے یہ وقت ہے کہ جب یہ نرم نرم کو نپلیں ہیں اس وقت ان کو جس ڈھب پر چاہیں یہ چل سکتے ہیں اس وقت ان کی طرف توجہ کریں اور اس وقت ان کو سنبھالیں اور ساری دنیا میں ہر واقف نو کی زندگی پر جماعت کے نظام کی نظر رحتی چاہی اور ان کے والدین سے رابطے ہونے چاہیں اور ان کو پتہ ہونا چاہئے کہ ہم ایک زندہ نظام کے ساتھ میں ہیں جس کے ذریعے خدا کی تقدیر کار فرما ہے یہ احساس بہت ضروری ہے یہ احساس تیمی پیدا ہوگا جب تحریک جدید کا مرکزی نظام ان لوگوں سے فعال اور زندہ رابطے رکھے گا اور خبریں لے گا کہ بتاؤ! اس بچے کا کیا حال ہے جو تم نے خدا کے سپرد کیا ہے کتنی بڑی ذمے داری ہے کہ تمہارے گھر میں خدا کا ایک مہمان ہے ویسے تو ہم خدا کے ہیں لیکن ایسا مہمان ہے جس کو تم خدا کیلئے تیار کر رہے ہو کیا سوچ رہے ہو کس طرح ان کی پرورش کر رہے ہو ہمیں بتایا کرو ہمیں اس کے حالات سے باخبر رکھو اس کی صحت سے باخبر رکھو اس کے چال ڈھال اس کے انداز سے باخبر رکھو اور باقاعدہ ان کو ہدایتیں دیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ تم اس بچے سے یہ کام لو اور اس بچے سے یہ کام لو.اس ضمن میں میں سمجھتا ہوں کہ وہ بچے خصوصیت سے جو مغربی دنیا میں وقف ہیں ان کو اللہ تعالٰی کے فضل کیساتھ دوسری دنیا کے بچوں کے مقابل پر یہ بہت زیادہ سہولت حاصل ہے کہ وہ مختلف زبانیں سیکھ سکیں زبانیں سیکھنا بہت مشکل کام ہے اور بچپن یا سے شروع ہونا چاہیئے اور زبانیں سکھانا بھی بہت ہی مشکل کام ہے اور بڑے بڑے ماہرین کی ضرورت ہے جنہوں نے زندگیاں اس کام کے لئے وقف کر رکھی ہوں اور بڑی بڑی وسیع تحقیقات میں وہی نہیں بلکہ ان کے بہت سے ساتھی بھی ایک لمبا عرصہ تک مصروف رہے ہوں ایسی سہولتیں مغرب کے ترقی یافتہ ممالک میں میسر ہیں اس پہلو سے تحریک جدید کو چاہئے کہ مشرقی یورپ اور اشترا کی دنیا کے ان ممالک کے لیے جہاں عموما" مغربی زبانیں بولی جاتی ہیں اور پھر چین کے لیے اور دوسرے کو ریا ، شمالی کوریا اور ویتنام وغیرہ کے لیے جہاں مشرقی زبانیں بولی جاتی ہیں معین طور پر بچوں کو ابھی سے نشان لگا دیں جس کو انگریزی میں Ear Mark کرنا کہتے ہیں اور اگر فی الحال ان کی نظر میں دس کی ضرورت ہے تو ہیں یا تمہیں تیار کریں اب یہ تو اعداد و شمار دیکھ کر فیصلہ ہوگا کہ کس ملک کے لئے کتنے بچے تیار کیئے جاسکتے ہیں لیکن ابھی سے یہ کام کرنے کی ضرورت ہے مثلا " اگر پولینڈ کے لئے ہم نے کچھ بچے تیار کرنے ہیں تو ایسے ممالک سے جہاں پولش زبان سیکھنے کی سہولت ہے واقفین بچے لینے چاہئیں جرمنی میں اللہ تعالٰی کے فضل کے ساتھ جماعت کافی تعداد میں موجود ہے اور جرمنی کی جماعت چونکہ اللہ کے فضل سے قربانی میں بھی بہت پیش پیش ہے وہاں ایک بڑی تعداد ایسے جوڑوں کی ہے جنہوں نے اپنے بچے وقف کئے ہیں اور ابھی بھی کر رہے ہیں تو ایسے بچوں سے جو کسی خاص زبان سیکھنے کی سہولت رکھتے ہوں وہی کام لینے چاہئیں جو ان کے مناسب حال ہیں اس پہلو سے اور بھی بہت سی ایسی زبانیں ہیں جن کا جرمنی سے تعلق ہے اور جرمن قوم ان سے پرانے تاریخی روابط رکھتی ہے پھر انگلستان میں بھی بہت سی زبانوں کے سیکھنے کا انتظام ہے یہاں بھی کچھ بچے خاص زبانوں کے لئے تیار کئے جاسکتے

Page 62

115 114 ہیں شمالی یورپ میں سیکنڈے نیویا میں بھی بعض خاص زبانوں کے سیکھنے کا انتظام ہانی جگہوں سے زیادہ ہے وہاں خصوصیت سے بعض گروہ بعض خاص ملکوں کے لیئے تیار کیئے جاسکتے ہیں غرضیکہ یہ ایک ایسا کام ہے جس کو عمومی نظر سے دیکھ کر فیصلہ نہیں کیا جا سکتا تفصیلی نظر سے سب بچوں پر نظر ڈالتے ہوئے لڑکوں پر اور لڑکیوں پر یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم نے فلاں ملک کے لئے دس یا ہیں یا تھیں وا تفسین زندگی تیار کرتے ہیں ان میں سے اتنی لڑکیاں ہوں گی جو علمی کاموں میں گھر بیٹھے خدمت دین کر سکتی ہوں ان کو اس خاص طرز سے تیار کرنا ہو گا اتنے لڑکے ہوں گے جن کو ہم نے ان میدانوں میں جھونکتا ہے اللہ تعالی کے فضل اور رحم کیساتھ پھر ان کو صرف وہی زبان نہیں چاہئے جس زبان کے لیئے ان کو تیار کیا جا رہا ہے بلکہ اردو زبان کی بھی شدید ضرورت ہوگی تاکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا لٹریچر خود اردو میں پڑھ سکیں عربی زبان کی بنیادی حیثیت ہے کیونکہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ عربی میں ہیں عربی زبان بھی سکھانے کی ضرورت پڑے گی.پس تین زبانیں تو کم سے کم ہیں یعنی اس کے علاوہ کوئی زبان سیکھے تو چاہے جتنی چاہے سیکھے لیکن تین زبانوں سے کم کا تو کوئی سوال ہی نہیں اس لیے یہ بھی بتانا ہوگا کہ جہاں تم پولش سیکھ رہے ہو یا ہنگرین سیکھ رہے ہو چیکو سلواکین سیکھ رہے ہو یا پولش سیکھ رہے ہو یا رومانین سیکھ رہے ہو یا المینین اس پر سیکھ رہے ہو ساتھ ساتھ لازمانہ تمہیں اردو اور عربی بھی سیکھنی ہوگی اور اس کے بھی جہاں تک میرا علم ہے ان ممالک میں انتظامات موجود ہیں اگر نہیں ہیں تو تحریک جدید کو تو میں آغاز ہی سے یہ نصیحت کر رہا ہوں کہ اردو اور عربی سکھانے کے لیئے ویڈیو کیسٹس تیار کریں اور آسان طریق پر ایسی ویڈیو تیار کریں جن کا جماعت کے لٹریچر سے تعلق ہو اور اسلامی اصطلاحیں اس میں استعمال ہوتی ہوں کیونکہ اگر ہم بازار سے بنی بنائی زبانیں سیکھنے کی ویڈیوز لیں یا آڈیو کیسٹس لیں تو جو زبان اسمیں سکھائی جاتی ہے وہ اکٹر ہمارے کام کی نہیں ہے اس میں وہ تو یہ بتائیں گے کہ Pork کس طرح مانگا جائے گا اور شراب کس طرح مانگی جائینگی اور ہوٹل میں کس طرح جا کر ٹھہرتا ہے اور ناچ گانے کے گھروں کی تلاش کس طرح کرنی ہے روز مرہ کی اپنی زندگی کے مطابق انہوں نے زبان بنائی ہوئی ہے اس زبان سے ہمارے بچوں کو تبلیغ کرنی کیسے آسکتی ہے اس لئے زبان کا ڈھانچہ تو وہ سیکھ سکتے ہیں لیکن اس زبان کو معنی خیز الفاظ سے بھرنے کا کام لازما" جماعت کو خود کرنا ہوگا اور وہ ایک خاص منصوبے کے مطابق ہوگا تو دیر ہو رہی ہے اب یہ بچے کھیلنے لگ گئے ہیں ان کی بعض دفعہ تصویریں آتی ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ جو چار سال پہلے بچہ پیدا ہوا تھا جو وقف زندگی تھا اور وہ باتیں کرتا دوڑتا پھرتا اور ان کے ہاں باپ بڑی محبت کیساتھ ان کی تصویریں بھجواتے اور بعض دفعہ وہ اپنے ہاتھ سے چھوٹے موٹے خط بھی لکھتے ہیں مجھے بعض ایسے بھی خط لکھتے ہیں کہ شروع سے آخر تک صرف لکیریں ڈالی ہوتی ہیں اور کچھ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ میں نے خط لکھا ہے مگر اس خط کا بڑا مزا آتا ہے کیونکہ ایک واقف زندگی کو شروع سے ہی خلیفہ وقت سے محبت پیدا کرنے کا یہ بھی ایک گر ہے اس کے دل میں محبت ڈالنے کا ذاتی تعلق پیدا ہو جائے بہرحال یہ کام تو ہو رہے ہیں لیکن جلدی اس بات کی ہے کہ ان کو سنبھالنے کے لیے جو ٹھوس تیاری ہونی چاہئے اسمیں مجھے ڈر ہے کہ ہم پیچھے رہ رہے ہیں اس لیے اس کام کی طرف توجہ ہونی چاہیئے اور جب تک تحریک جدید معین طور پر واقفین زندگی کو مطلع نہیں کرتی کہ تم نے یہ کام کرتے ہیں دو کام تو ان کو پتہ ہی ہیں دو

Page 63

117 116 نہیں تین اول تقویٰ کی بات میں نے کی ہے بچپن سے ان کے دل میں تقویٰ پیدا کریں اور خدا کی محبت پیدا کریں اور دو زبانیں جو سیکھنی ہیں عربی اور اردو وہ تو سب پر قدر مشترک ہیں اس میں کوئی تفریق نہیں کوئی امتیاز نہیں ہر احمدی واقف تو عربی بھی سیکھے گا اور ارور بھی سیکھے گا اس پہلو سے جہاں جہاں انتظامات ہو سکتے ہیں وہاں وہاں وہ انتظامات کریں اور تیاری شروع کر دیں.اس مضمون پر غور کرتے ہوئے اور جب میں نے یہ سوچا کہ ہم تو خدا تعالٰی کے ہاتھوں میں بے طاقت اور بے مشکل وہ مرے ہیں جیسے شطرنج کی بازی یہ کھیلے جاتے ہیں تو مجھے اپنی ایک پرانی رویا یاد آگئی جس کا آج کل کے حالات سے تعلق ہے مجھے یاد نہیں کہ میں نے پہلے آپ کے سامنے بیان کی تھی یا نہیں لیکن دہ ہے دلچسپ اور اب اسکی جو تعبیر ظاہر ہوتی ہے وہ زیادہ واضح ہے جن دنوں میں ایران کا انقلاب آرہا تھا ابھی شروع ہوا تھا 1977-78 کی بات ہے افغانستان میں تبدیلیاں پیدا ہوئیں ایران میں یہ ان دنوں کی بات ہے میں نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک جگہ نظارہ کر رہا ہوں لیکن سب کچھ دیکھنے کے باوجود گویا میں اس کا حصہ نہیں ہوں موجود بھی ہوں دیکھ بھی رہا ہوں لیکن بطور نظارے کے مجھے یہ چیز دکھائی جا رہی ہے ایک بڑے وسیع گول دائرے میں نوجوان کھڑے ہیں اور وہ باری باری عربی میں بہت ہی ترنم کیساتھ ایک فقرہ کہتے ہیں اور پھر انگریزی میں گانے کے انداز میں اسکا ترجمہ بھی اسی طرح ترنم کیساتھ پڑھتے ہیں اور باری باری اس طرح او نا ہوتا ہے منظر پہلے عربی پھر انگریزی پھر عربی پھر انگریزی اور وہ فقرہ جو اس وقت ہوں لگتا ہے جیسے قرآن کریم کی آیت ہے لا يعلم الا هو لا يعلم الا ھو کوئی نہیں جانتا سوائے اس کے کوئی نہیں چاہتا سوائے اس کے اور یہ جو مضمون ہے یہ اس طرح مجھ پر کھلتا ہے کہ نظارے دکھائے جا رہے ہیں میں نے جیسا کہ کہا میں وہاں ہوں بھی اور نہیں بھی ایک پہلو سے سامنے یہ نوجوان گا رہے ہیں اور پھر میری نظر پڑتی ہے عراق کی طرف شام مجھے یاد ہے عراق یاد ہے اور پھر ایران کی طرف پھر افغانستان پھر پاکستان مختلف ملک باری باری سامنے آتے ہیں اور مضمون دماغ میں یہ کھلتا ہے کہ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے جو عجیب واقعات رونما ہو رہے ہیں جو انقلابات آرہے ہیں ان کا آخری مقصد سوائے خدا کے کسی کو پتہ نہیں ہم ان کو اتفاقی تاریخی حادثات کے طور پر دیکھ رہے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ اتفاقا" رونما ہونے والے واقعات ہیں مگر رویا میں جب وہ یہ مل کر گاتے ہیں تو اس سے یہ تاثر زیادہ قومی ہوتا چلا جاتا ہے کہ یہ اتفاقا" الگ الگ ہونے والے واقعات نہیں ہیں بلکہ واقعات کی ایک زنجیر ہے جو تقدیر بنا رہی ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں مگر ہمیں سمجھ نہیں آرہی کہ کیا ہو رہا ہے لا يعلم الا ھو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا جس کا ہاتھ یہ تقدیر بنا رہی ہے تو یہ وہ رویا تھی جو چوہدری انور حسین صاحب ان دنوں میں تشریف لائے ان کو بھی میں نے سنائی بعض اور دوستوں کو بھی کہ یہ کچھ عجیب سی بات ہے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بڑے بڑے عظیم واقعات ان واقعات کے پس پردہ رونما ہونے والے ہیں ان کے پیچھے پیچھے آئیں گے ہم جو اندازے کر رہے ہیں سیاسی ' یہ کچھ اور ہیں جو اصل مقاصد ہیں خدا کے وہ کچھ اور ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ افغانستان کے ساتھ روس کی تبدیل شدہ پالیسی کا گہرا تعلق ہے کچھ سبق انہوں نے وہاں سے سیکھے ہیں کچھ اور ایسی باتیں ان تجربوں میں ظاہر ہوتی ہیں کہ جن کے نتیجے میں یہ بعد کے عظیم انقلابات پیدا ہونے شروع ہوئے.پس یہ جتنے بھی واقعات آج کی دنیا میں رونما ہو رہے ہیں ایک دنیا کا متورخ ایک دنیا کا سیاستدان ان کو اور نظر سے دیکھتا ہے اور اور قسم سے سمجھتا ہے مومن کیلئے تو ہر انگلی خدا کی تقدیر کی

Page 64

118 طرف اشارہ کر رہی ہوتی ہے اور مومن ان سے اور پیغام لیتا ہے اور ان پیغاموں کی روشنی میں اپنے آپ کو مستعد کرتا ہے اور اپنے آپ کو تیار کرتا ہے پس خدا کی انگلی جو اشارے کر رہی ہے وہ اب واضح تر ہوتے چلے جا رہے ہیں اور وہ اشارے یہ ہیں کہ آگے بڑھو اور ساری دنیا کو محمد مصطفی ﷺ کے لئے فتح کر لو کیونکہ آج یہ دنیا اپنے دروازے تمہارے لئے کھول رہی ہے.ہیں اے (دن حق) کے جیالو! اور اے خدمت دین کا دعوی کرنے والو ان مواقع سے فائدہ اٹھاؤ اور آگے بڑھو اور تمام دنیا کو دین حق) اور (دین حق کے خدا کے لئے سر کر لو خدا ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے (آمین)

Page 65

The Initiative of Waqf-e-Nau A Collection of Friday Sermons by Hazrat Khalifatul Masih IV (In Urdu Language) On 13th April 1987 Hazrat Khalifatul Masih IV explained that very powerful divine inspiration suggests that with the dawn of the second century of Ahmadiyyat numberless venues will be opened for the domination of Islam and Ahmadiyyat for which a large numbar of upright devotees, well versed in spiritual and secular knowledge will be needed to cause a revolution in the field of preaching.To achieve this purpose Huzur announced a splendid initiative.This initiative is known as Waqf-e-Nau.In response many people hastened to offer their children and the initiative was well taken by the Community.Such children are the asset of the Jamaat, who are destined to play an unprecedented role in spreading the name and the faith of the Holy Prophet (P.B.U.H) all over the world.All the relevant Friday sermons by Huzur, have been collected in this book, in which Huzur has explained in detail the importance of this Tehrik, how to upbring these children, learning of different languages and selection of their future professions embracing programmes from 20 to 30 years.ISBN 1-85372-549-8 9781853 725494

Page 65