Tehrik-ePakistan Jamaat Ahmadiyya Ka Kirdar

Tehrik-ePakistan Jamaat Ahmadiyya Ka Kirdar

تحریک پاکستان میں جماعت احمدیہ کا کردار

Author: Other Authors

Language: UR

UR
متفرق کتب

ضیاء الاسلام پریس ربوہ سے نظارت اشاعت لٹریچر و تصنیف صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی شائع کردہ اس کتاب میں ان تاریخی حقائق پر سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ روز اول سے تحریک پاکستان کی تائید میں کون کھڑا تھا، اس تحریک کو کامیاب بنانے میں کس جماعت نے اپنا فرض نبھایا، اور اس ملک کی بنیادوں میں کس جماعت کی دعاؤں اور قربانیوں اور خدمات کا وسیع ترین سلسلہ ہے۔ الغرض یہ کتاب دو قومی نظریہ کی ترویج  اور الگ مسلم ملک کی جدوجہد کی درست تاریخ پیش کر رہی ہے۔


Book Content

Page 1

تحریک پاکستان میں سماعت احمدیہ کا کردار احمدیہ الناشر مؤلفه مولمن دوست محمد ناتاکہ مورخ احمدیت نظارت اشاعت لٹریچرد تصنیف ریوہ

Page 2

مدیہ کا کردار *

Page 3

تمهید عنوان صفحه بیل فصل دو قومی نظریہ کی ترویج و اشاعت دوسری نفصل مسلم لیگ کا قیام اور جماعت احمدیہ تعبیری فصل جدا گانہ نیابت کا بنیادی مطالبہ اور سلمانوں کی یکجہتی کے لیے مساعی پوتھی فصل نہرو رپورٹ کے تعلاف مجد وحید پانچویں فصل راونڈ ٹیبل کانفرنس میں مسلم اقلیت کے حقوق کیلئے چھٹی فصل مونه آوانه قائد اعظم کی لندن سے واپسی کیلئے کامیاب تحریک ساتویں فصل قرار داد پاکستان کی تائید میں مرکزی اور صوبائی انتخابات د کے دوران مسلم لیگ کی پرجوش حمایت آٹھویں فصل مسلم لیگ کی عبوری حکومت میں شمولیت کیلئے جد وجہد خضر وزارت کے استعفاء کی کامیاب کوشش ل فضل باونڈری کمیشن میں علم حقوق کی ترجمانی نویس فصل ۲۵ ۲۹ I i ۲۰ سم الله ۵۸ گیارہویں نسل قیام پاکستان اور حضرت امام جماعت ، حمدی کا پر شوکت بیان ۲۸

Page 4

يشهد الله الرحمين نَحْمَدُهُ وَنُصَلّى عَـ تحریک پاکستان ایک عظیم الشان جدو جہد اور مسلسل قانونی و آئینی جنگ کا نام ہے ، جو مسلمانان بر خیر کو دو قومی نظریہ کی بنیاد پر اپنی اجتماعی زندگی کے بقا اور اپنے اقتصادی و سیاسی حقوق کی حفاظت کے لیے سادہ سے لیکر ۱۹۴۷ یہ ایک لڑنا پڑی اور بالآخر ایک عظیم ایک اور اسلامی مملکت پاکستان کی شکل میں منزل مراد تک پہنچی.اس جنگ کا آغاز اینگلو محمڈن ڈیفینس ایسوسی ایشن سے ہوا جس کے اجلاس اول منعقده بار اپریل سمانہ میں مسلمانوں کے لیے یہ لائحہ عمل تجویز کیا گیا کہ وہ :.ہمیشہ گورنمنٹ کے کام میں خیر خواہی اور وفاداری کے ساتھ دیتے رہیں اور اپنے حقوق کی حفاظت کرتے رہیں :.ر انتہار عام لاہور ۱۴ را پریل سه صفحه ۱۸۱۶ یہ انجمن ہندوستان کے مسلمانوں کی پہلی ملک گیر سیاسی تنظیم تھی جو علیگڑھ میں قائم ہوئی اور اس کے قائد سرسید احمد خاں مرحوم تھے بین کو حضرت بانی جماعت احمد بیر، بهادر زیرک فراست رکھنے والا اور پولی کل مسالہ شناس بزرگ کے القاب سے یاد فرمایا کرتے تھے فریاد در صفحه ده طبع اورال، جبکه در میانه گنگوه ، سهارنپور ، دہلی ، دیوبند اور دیگر منتقد

Page 5

کے علاوہ مدینہ منورہ اور بغداد شریف کے بعض نامی گرامی علماء نے سرسید مرحوم پر کفر و ارتداد کے فتوے دیئے اور ان کی ایسوسی ایشن میں شمولیت کو نہ ام اور ہند دنوں کی آل انڈیا نیشنل کانگریس سے وابستگی کو مباح قرار دیا.یہ سب فتر سے نصرت الابرار منظور شد میں شائع شدہ ہیں.سرسید خاں مرحوم کے بعد تحریک پاکستان کے اکثر و بیشتر معرکے مسلم لگی عماد بالخصتیں قائد اعظم محمدعلی جناح کی سرکردگی میں لئے ہوئے اور اس سلسلے میں آخری لڑائی باونڈری کمیشن میں بحث کی شکل میں لڑی گئی.تحریک پاکستان کے چونسٹھ سالہ دور میں تو بیشمار مراحل میں سے کاروان تربیت کو گزرنا پڑا مگر خاص طور پر یعیش ایسے انقلابی مراحل بھی پیش آئے جن میں سے ہر ایک اپنی ذات میں منتقل اہمیت کا حامل تھے اور جس کی بدولت مسلم قوم نہایت تیزی سے آگے بڑھنے میں کامیاب ہوتی رہی اور اپنوں اور بیگانوں کی شدید مزانمتوں کے باوجود اپنا ایک قومی دین بنانے میں کامیاب ہوئی.تاریخ قیام پاکستان پر گہری نظر ڈالنے سے مندرجہ ذیل دن ایسے انقلاب انگیز مراحل کی نشان دہی ہوتی ہے :.-1 دو قومی نظمہ پیر کی ترویج و اشاعت.مسلم لیگ کی بنیاد اور سلم قوم کا واحد میبیسٹ فارم.جدا گانہ نیابت کا بنیادی مطالبہ.نہرو رپورٹ کے مخلاف سید وحید - راونڈ ٹیل کا نفرنس میںمسلم اقلیت کے حقوق کے لیے موثر آواز -

Page 6

- قائد اعظم کی لنڈن سے واپسی کے لیے تحریک او مسلم لیگ کی نشاہ ثانیہ.قرار داد پاکستان کی تابید اور مرکزی اور علی بینی و من نایا مسلم لیگ کی بے مثال حمایت.-1- مسلم لیگ کی عبوری حکومت میں شمولیت.خضر حیات وزارت کے استعفاء کی کامیاب بہار و بہار.باؤنڈری کمیشن میں مسلم حقوق کی حفاظت کے لیے جد و جہد.جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ مخزن اصل ہے کہ واحد مذہبی حجامت ہے جسے من حیث المجماعت تحریک پاکستان کے ان سب مراحل میں بھرنوپر حسنہ لینے اور ملت اسلامیہ کی منند در کبیر خدمت بہیمالا نے کا شرف حاصل ہوا.اس اجمال کی تفصیل ایک مبسوط کتاب کا تقاضا کرتی ہے مگر میں صرف اشارات ہی پر اکتفاء کروں گا.نعل الله يُحْدِثُ بَعْدَ دِنكَ امراه ات ولت

Page 7

پہلی فصل دو قومی نظریہ کی ترویج واشاعات حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام نے زندگی بھر مسلمانوں کی مستقل اور جدا گانہ زندگی کے تمام دلبقا کے لیے جد وجہد فرمائی اور ہندو کانگریس کے نظریہ قومیت متحدہ سے اپنی جماعت کو ہمیشہ الگ رکھا.چنانچہ جناب مولانا ظفر علی خاں صاحب فرماتے ہیں.جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی....کی زندگی کا ایک بڑا مقصد آپ کے متعدد دعاوی کے لحاظ سے جو یہ تحریر میں آپکے ہیں مسلمانوں میں وحدت قائم کرنا تھا.ر ستاره صبح در دسمبر ۱۹۱۶ء بحوالہ مولانا ظفر علی خان کی گرفتاری احت از خان کا بلی ماری امام اسی طرح بنا سیہ مہ لوک انشاء اللہ خاں ایڈ میٹر وطن کے بھائی مولوی محمد شجاع اللہ صا سیب نے اپنے اختیار ملت" (لاہور امین اعتراف کیا کہ ہم جناب مرزا غلام احمد مرحوم و مغفور کے پیرو نہیں ہیں اور مرحوم کے کئی خیالات سے ہم کو اختلاف رہا ہے مگر میں اصول پر انہوں نے اپنے مشن کی بنیاد قائم کی تھی اس سے کسی باخبر اور ذی ہوش مسلمان کو اختلافت نہیں ہو سکت، ان کی تمام جد و جہد کا انتہائی مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں میں

Page 8

نا انس اسلامی سپیرٹ از سر نو پیدا کر دیا جائے تاکہ اُن کی قومیت محفوظ رہے بے شاہ کا سال مسلمانان ہند کی سیاسیات میں ایک نئے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ یہ پہلا سال ہے جبکہ انہیں ہند وڈنی کے مقابل اپنی جداگانہ ہستی کے تحفظ کا احساس پوری شدت سے پیدا ہوا.بات یہ ہوئی کہ لارڈ کرزن و اسرائے ہند نے نمبر شام میں بنگال کے وسیع صوبہ کو صوبہ مشرقی اور مغربی دو حصوں میں تقسیم کر دیا اس تقسیم سے مسلمانوں کو صوبہ مشرقی بنگال میں زبر دست اکثریت اور بداری مال ہو گئی اور آئیندہ کے لیے اُن کی سیاسی طاقت وقوت کے ابھرنے کا قیمتی موقعہ میر گی ہندو جو ایشیا انگریز کا سیاسی جانشین بننے کا خواب دیکھ رہے تھے تقسیم بنگال کے فیصلہ سے بھڑک اُٹھے.اکتوبر شن اللہ کو بنگالی ہندوؤں نے ماتمی جلسے کئے مگر اس دن مسلمانوں نے بجا بجا اظہار مسرت کیا یہ آل انڈیا نیشنل کانگرس کے ہندو لیڈروں نے اجلاس کھنکتہ میں حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ یہ فیصلہ واپس لے ، لیکن مسلمانوں نے حکومت کے فیصلہ کی پر جوش تائید کی.بنگالی ہندو یہ نہیں چاہتے تھے کہ سوا دو کروڑ مسلمان اُن کی سیاسی وسماجی غلامی سے آزاد ہو جائیں اور سلمان یہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ پھر سے ہندوؤں کے حوالے کر دیئے جائیں، لاہور کے اخبار" ابن رورا نے اُن دنوں ایک فصل نوت میں ہندوؤں کے مظالم اور مسلمانوں کی آل انڈیا نیشنل کانگرس اور اس کی ے بحوالہ ، خیار الحکم تا دیدن ۲۸ نومبر سن ۱۹ صفحه ۱۴ تقسیم بنگال سے متعلق سرکاری اعلان الحکم ، استمہ.میں بھی چھپا ہوا ہے.سے اخبار کمر زن گیٹ و نومیر شاه صفی ۱۱ کالم -۲

Page 9

ایجی ٹیشن سے علیحدگی کے اسباب پر مفصل روشنی ڈالی جس کا نہ حمد قادیان کے بہت وزہ الحکم نے بھی اپنی اور اگست شاہ کی اشاعت میں دیا.ملک بحجر کی تمہارتوں اور ملازمتوں پر چھائے ہوست : ہند ڈروں نے اپنے مفاد کے لیے سودیشی تحریک چلائی حضرت بانی جماعت احمدیہ نے اپنی جماعت کو اس سے علیحدہ رہنے کا ارشاد فرمایا اور اس کی تعمیل میں احمدیوں نے دوسہ سے مسلمانوں سے پڑھکر امن قائم رکھنا.آریہ لوگ قادیانہ میں سودیشی تحریک کی تائید میں جلسہ کرناچاہتے تھے اور وہ حضور کی خدمت میں حامہ کبھی ہوئے کہ اس میں محمد یوں کو بھی شرکت کی اجازت دیں اگر آپ نے صاف انکار کر دیاہے اسی طرح لدھیانہ میں ایک ہندو نے آپ سے سود لیتی تحریک میں شرکت کے لیے درخواست کی تو حضرت اقدس نے فرمایا :- اس تحریک کی ابتدا دمکی اشیاء کی ہمدردی سے نہیں ہے بلکہ تقسیم بنگالہ پر بنگالیوں کی ناراضگی اس کی جڑ ہے اس واسطے یہ امر منحوس معلوم ہوتا ہے بلے اخبار بده ۲۴ نومبر شه صفحه به کالم ۳ موسوم نور الموز

Page 10

دوسری فصل مسلم لیگ کا قیام اور بات احمدیہ مشر مارے وزیر بند جولائی 19 سہ کے اجلاس دار العوام میں میرا نیہ ہند میں کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ وائسرائے ہند ایک کمیشن مقرر کرنے والے ہیں جو اس بات پر غور کرے گا کہ سول اور فوج میں انگریزوں کی طرح ہندوستانیوں کو پہلے سے زیادہ عمل دخل دینے کے لیے آئین ہند میں کونسی اصلاحات ضروری ہیں جو اس تقریر کے جلد بعد گورنمنٹ انڈیا نے خاص اسی مقصد کے لیے کمیٹی مقرر کر دی.اس موقع پر مسلمانان ہند نے خاموش رہنا قومی خودکشی کے مترادف سمجھا چنانچہ ہندوستان کے تمام صوبوں کے سرکردہ مسلمانوں پرمشتمل ایک وناد تیار کیا گیا جس میں بہتر ہائی نس آغا خان نواب قسمون الملاک صاحب حکیم محمد اجمل خان صاحب نواب نصیر حسین صادر خیال رفیع الدین احمد صاحب ، نواب سر حد مال الله خان صاحب ، اسید لی ، امام شناسی میالی کمد شفیع صاحب اور دیگر مسلمان رؤساء ، جاگیر دار ، و کل اور تاجر شامل تھے کے به وفا یکم اکتو بر اس کو بمقام شملہ ہز ہائی نس سر آغا خان کی سرکردگی میں لارڈ منٹو وائسرائے ہند کی خدمت میں پہنچا اور ایک مفصل ایڈر میں پیش کر کے واضح شفین حیات صفحه ۱۸ موقفه منشی غلام قادر صاحب فرخ.دارای شاعت امر اسیدها اخبار گرزان گزٹ دیلی ۲۳ اکتوبر سنت الله صفحه ۱۳ کال ۳ - را

Page 11

کیا کہ مسلمان ہندوؤں سے علیحدہ ایک منتقل قوم میں انہیں سرکاری ملازمتوں ، کونسلوں ہائی کورٹوں اور حیف کورٹوں ، میونسپل بورڈوں اور ڈسٹرکٹ بورڈوں میں ان کیتے ناسب کے مطابق جدا گانہ نیابت دیگر اُن کے حقوق محفوظ کئے جائیں، ایڈریس میں آخری گذارش یہ تھی کہ مینز میجسٹی کی مسلمان رعایا کی اس طریق سے مدد کرنے ہے.اور اکیسی لمینی ان کی کاروائی لائیٹی کو جو تخت کے ساتھ ہے مضبو دا کریں گے اور ان کی پولی کل ترقی اور قومی بہبودی کی بنیاد ڈالیں گئے اور یو الکی ہنسی کا نام اُن کی نسلیں شکر گذاری کے ساتھ یاد رکھیں گی مسئلے شملہ کے معلم وقد سے لارڈ منٹو کی ملاقات بہت کامیاب رہی اور حکومت نے مسلمانوں کو ایک مستقل، اور علیحدہ قوم تسلیم کریٹک ان کو ملک کے اعلیٰ عہدوں میں معقول حنفتہ دینا منظور کر لیا یہ فیصلہ مسلمانوں کے لیے جشن عید سے کم نہ تھا.حکومت کے اس اقدام سے سلمانان ہند کے اندر خوشی اور مسرت کی زبر دست امر دور گئی اور سلم پر ہیں نے ادارے لکھے جن میں برطانوی حکومت مشخصو عا مسٹر جان مارے اور لارڈ منٹو کی مسلم نوازی پر زبر دست خراج تحسین ادا کیا اور سلمانوں نے ہندوستان بھر میں شاندار جیسے منعقد کئے اور یہ ریزولیوشن پاس کیا کہ :- مسلمان حکومت کے نہایت شکر گذار ہیں کہ اس نے مسلمان قوم کے امیر اور لوکل میسیڈ کونسلوں میں جدا گانہ ریاست کے سائز اصولی کو مدبرانہ طریقہ ا اخبار گوندن گزٹ دہلی ۱۵ اکتوبر ست اشه صفحه ۱۰ ۱۱ ٹے تفصین کے لیے ملاحظہ ہو اخبار پیسہ اخبار الامور واستمر شنا شده را دارید ) و ستمبر د صفو ۵ - ۶ ملخصاً ۱۹۷

Page 12

} سے تسلیم کیا ہے بل ان تعلیموں میں دوس نے مسلمانوں کے دوش بدوش احمدیوں نے بھی شرکت کی : بیہ انداز خوشی کا اظہار کیا" میسہ اخبار نے جیسشہ لا ہور کی رو دادمیں لکھا کہ :- : تا ہور کئے اس مہینے میں یہاں کی اسلامی آبادی کے تمام فرقوں کے قائم مقام شریک ہوئے اور اعلی درجہ کے مقتدر وذی وجاہت اصحاب سے لیکر غربا ء تک سب نے کمال عقیدہ تماری و گرمجوشی سے شکر گزاری کے ریزولیوشن پاس کرانے ہیں حصہ لیا اور کسی گوشہ سے کوئی دھیمی آواز بھی اختلاف کی سنائی بند کی جس سے نہ پتہ لگتا تھی کہ یوں بچا ہے لاہور مسلمانوں کی فرقہ بندیوں اور حنفی ، اہلحدیث ابل قرآن ، هر زائی دخیره جماعتوں کے جھگڑوں میں بدنام ہو اور بعض نهای ناگوار ومضرت رساں طوالت اختیار کر کے عدالت تک پہنچ جائیں گر برٹش گورنمنٹ کو اس ملک کے لیے موجب خیر و برکت مانتے ہیں وہ قریباً یکساں خیال رکھتے ہیں اور سرکار کی کسی مہربانی کا شکر یہ ادا کرنے کی خاطر اُن کے سب فرقے بآسانی متحد کئے جا سکتے ہیں.سے اس ماحول میں ۳۰ دمیر شاہ کو ڈھا کہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد پڑی میں کے حسب ذیل اغراض و مقاصد قرار پائے.- مسلمانوں میں گورنمنٹ کی نسبت وفادارانہ خیالات کو ترقی دی جاوے.اپنے اغراض و مقاصد کو اعتدال کے ساتھ گورنمنٹ میں پیش کیا جاوے.تے اخبار پلیسیه اخبار ۱۹ اکتوبر نائه صفحه ۸ کالم ۱-۲ اخبار پیدا خبازی جور ۲۱ اکتوبر ۱۹ارد صفحه ۲

Page 13

-۳ مندرجہ بالا مقاصد کو محفوظ رکھ کر ہندوستان کی دوسری اقوام سے روانہ - اتحاد کو ترقی دی جاوے.یکم دسمبر کولاہور میں پنجاب پراونش مسلم لیگ قائم کی گئی جو کہ کی اصل ما مسلم لیگ کی صوبائی شارخ تھی لیے جس کے ابتدائی ممبروں میں خان بہادر سر محمد شفیع جہاں چوہدری شہاب الدین صاحب ، موادی احمد دین صاحب بی.اسے و سیل اور موادی محمد علی صاحب ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنڈ بھی تھے ، مقدم الذکر تینوں حضرت مسیح موعود کے گہرے عقیدتمندوں سے ہیں اور موخر الذکر آپ کے مریدوں میں انسان تھے.مرکزی مسلم لیگ کے قیام کے بعد بنگالی ہندوؤں کی سنورش میں اضافہ ہوائیں، پر حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ اسلام نے ۲۲ را پیریل نشده گوار شاد فرمایا : - ان کے خیالات و حرکات سے میں قطعی نفرت ہے ہماری جماعت کو بالکل ان سے الگ رہنا چاہیے تجب کی بات ہے کہ جو قوم حیوان کو انسان پر ترجیح دیتی ہو اور ایک گائے کے ذبح سے انسان کا خون کر دیا کچھ تفصیل پیسہ اخباری ہور ۳ دسمبر شاید میں موجود ہے.ہ بیسیه اخبار ۲۳ دسمبر ، صفحہ ۶ کالم ۳ - سے اس حقیقت کا واضح ثبوت یہ ہے کہ حضرت اقدس کے لیکچر "پیغام صلح کا اثر شائع کرنے والوں میں ان سب مشاہیر کا نام ہے (ملاحظہ ہو پیغام صالح)

Page 14

! : ۱۴ بات سمجھتی ہو وہ حاکم ہو کر کیا انصاف کرے گئی ہے اس سے بڑھکر یہ کہ حضور نے اپنے عہد مبارک کے آخری سالانہ جلسہ کے موقع پر واضح انتباہ فرمایا :- ہندووں سے بالکل جوڑ نہ رکھیں اگر انگریز آج یہاں سے نکل بھاویں تو یہ مہند و مسلمانوں کی بوٹی بوٹی کر دیں، سے حضرت بانی جماعت احمدیہ کے مندرجہ بالا اثرات سے مسلمانان ہند کی جداگانہ تنظیم کی ضرورت اور تحریک پاکستان کے پس منظر پر کمال روشنی پڑتی ہے سی...کے جلسہ سالانہ کے بعد حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام نے اپنی وفات سے قبل آخری تصنیف ”پیغام صلح میں دو قومی نظریہ کی زبر دست تائید کی اورمسلم لیگ کی ضرورت واہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا :- " یہ بات ہر ایک شخص بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ ۱۹۰۷ ن اخبار بدر و می شن 19 ئه صفحهہ کالم ۳ ۲ اختبار الحکم ۱۰ جنوری ۱۹ شه ! 19 سے حضرت بانی جماعت احمدیہ نے شہر میں ہندؤوں خصوصاً بنگالی ہندوئوں کی نسبت جس رائے کا اظہار فرمایا تھا اس کی حقانیت پر سقوط ڈھاکہ اور بنگلہ دیش کے روح فرسا حالات نے مہر تصدیق ثبت کر دی ہے.

Page 15

۱۵ مسلمان اس بات سے کیوں ڈرتے ہیں کہ اپنے جائز حقوق کے مطالبات میں ہندووں کے ساتھ شامل ہو جائیں اور کیوں آج تک اُن کی کانگریس کی شمولیت سے انکار کرتے رہے ہیں اور کیوں آخر کار ہندوؤں کی درستی رائے محسوس کر کے اُن کے قدم پر قدم رکھا مگر الگ ہو کہ اور اُن کے مقابل پر ایک مسلم انجمن قائم کر دی مگر اُن کی شراکت کو قبول نہ کیا.صاحبو! اس کا باحث در اصل مذہب ہی ہے اس کے سوا کچھ نہیں: ) پیغام صلح صفحه ۲۸-۲۹) آپ کے اس واضح مسلک کے مطابق احمدیوں کی تمام قومی ہمدردیاں جو ابتدا ہی سے سلم لیگ کے ساتھ وابستہ ہوگئی تھیں حضرت حاجی الحرمین مولانا نور الدین مضر 19./ ١٩١٢ کے زمانہ خلافت رمئی شاشه تا ماریچ ۹ہ ہیں اور زیادہ نمایاں ہو گئیں اور میں اور زیادہ احمدیہ پولیس اور خصوصاً حضرت میر قاسم علی صاحب کی ادارت میں دہلی سے نکلنے والے جماعتی آرگن الحق نے تو مسلم لیگ کی تائید وحمایت میں ایسے ایسے پرزور اور شاندار ادار لیے اور نوٹ شائع کئے جو اپنی نظیر آپ تھے اور جو تحریک پاکستان کی تاریخ

Page 16

14 میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھے جائینگے ، قادیان سے شائع ہونے والے جرائد رسائل میں سے اخبار بدر نے بھی مسلم لیگ کے حق میں آواز بلند کی.(ملاحظہ ہو بدر ۵ اکتوبر ۱۹ شه 1911 عـ , اس اخبار نے قائد اعظم محمد علی جناح کے اس بل کا ترجمہ بھی شائع کیا جو آپ نے ۱۷ مارچ سنہ کو وائسرائے کی کونسل میں مسودہ قانون وقفت علی الاولاد کے تعلق میں پیش فرمایا تھا علاوہ ازیں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس ۱۹۱۳ شمہ کی منظور شده قرار دادوں کا مکمل نفن بھی شامل اشاعت کیا.ر اخیار بدر ۲۴ را پریل صفحه ۱۳، ۱۲ ) مسلم لیگ کے قیام و بنیا د کے وقت کسی مسلمان کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ مسلم لیگ ایک ایسے زمانہ میں جبکہ مسلمانوں کو اپنی مستقل اور جداگانہ تنظیم کی سب زیادہ ضرورت ہو گی اپنی انفرادیت کو نظر انداز کر کے کسی وقت محض آل انڈیا میں کانگریس کی تابع مهمل بن کر رہ جائیگی ، مگر حضرت بانی جماعت احمدیہ کی کنفی قوت ملاحظہ ہو کہ آپ نے شاہ میں فرمایا کہ مسلم لیگ بھی کانگرس کا رنگ اختیار کرے گی نیز پیغام صلح میں پیشگوئی فرمائی کہ ممکن ہے کہ منافقانہ طور پر سہندو مسلم کا میل جول بھی ہو جائے مگر یہ مصالحت و اتحا د ہرگز دیر پا نہیں ہوگا جب تک مذہبی لحاظ سے دلوں کی کدورتیں ختم نہ ہوں.ر صفحه (۳۰۲۹ 14+6 واء چنانچہ آپ کی یہ فراست مستقبل میں سو فیصدی درست ثابت ہوئی، 93 کے اجلاس لکھنو میںمسلم لیگ نے کانگرس کا رنگ اختیار کر لیا اور کانگریس کی ہمنو انگر ایسے وقت میں اپنا نصب العین سلیف گورنمنٹ قرار دے دیا جبکہ مسلم قوم کا کوئی ے سیرت مسیح موعود از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ

Page 17

- اور نہ مضبوط اور متحدہ سیاسی مرکز موجود نہ تھا اور اس صورت میں بند و بستان کی آزادی کا نتیجہ سوائے اس کے کچھ برآمد نہ ہوسکا کہ مسلمان منتقل طور پر ہندؤوں کے غلام بن جاتے بالفاظ دیگر مند و بس جد وجہد کو آزادی کا نام دے رہے تھے وہ اُن حالات میں مسلمانوں کے لیے صریحا تحریک بربادی تھی چنانچہ مسلم لیگ کے صف اول کے لیڈر نواب وقار الملک نے ایک بار فرمایا : - + "اگر خدانخواستہ کسی وقت ہندوستان میں انگریزی حکومت نہ رہے تو ہمیں ہندوؤں کا محکوم ہو کر رہنا پڑے گا اور ہماری بمان و مال و آبره وسب خطرے میں ہوں گئے ہے یہ بات اتنی واضح ہے کہ جناب مودودی صاحب جیسے انسان جنہوں نے اس زمانہ میں گاندھی جی کی مہرت پر کتاب لکھنے کا شرف حاصل کیا تھا اب کھیلے لعنفوان میں اعتراف کر رہے ہیں کہ ہند وسلم اتحاد ہوا اور کانگریس کے ساتھ مل کر مسلمانوں نے کام شروع کیا اور سے راج کی آوازیں ہر طرف بلند ہو نے لگیں.ہند مسلم کے لیے یہ بات سب سے زیادہ مفید تھی کیونکہ وہ اکثریت میں تھے وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کے تمام باشندوں کو ایک قوم نہ دے کہ جو جمہوری نظام بھی قائم ہوگیا اس کا سارا انیل پاکستان اور اسلامی حکومت کی تشکیل محمد اسماعیل صاحب نظامی ) ناشر نظامی پبلشنگ کمپنی مزنگ لاہور نوید.نه خود نوشت سوانح مشمولر مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظر میں عدالت ہے

Page 18

A فائدہ اپنی کو حاصل ہوگا اور آخر کار مسلمان ان کے ماتحت بلکہ ایک طرح سے اُن کے عملاً علام بن کے رہ جائیں گئے یہ لئے المختصر سلم لیگ نے جب قومی تنظیم اور مرکزیت کو مستحکم کئے بغیر سیلف گورنمنٹ گاری در مواد میں ہی اپنالیا تو دونوں پارٹیوں میں صرف نام کا فرق رہ گیا، چنا نچہ منشی غلام قادر فرج آل انڈیا مسلم لیگ کی ابتدائی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں.اس کے جیسے مختلف شہروں میں اس انداز سے ہوتے رہے جیسے کانگریس کے مطالبات بھی تقریباً ایک سے ہوتے تھے فرق صرف نام کا تھا وہ نیشنل کانگریس پی مسلم لیگ پر لکھتے ہیں :.نصب العین آزادی کے بعد سلم لیگ اور نیشنل کانگریس کا چولی دامن کا ساتھ ہوگیا اور عموماً ایک ہی مقام پر جلسے اور ایک ہی قسم کے ریزولیوشن منظور ہونے لگے اس تخطر ناک پالیسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندو کانگریس مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی الد سلمان ہند ڈوں کی چھلائی ہوئی خلافت عدم موالات اور ہجرت جیسی شورش انگیز تحریکوں میں شامل ہو کر تباہ برباد ہو گئے، تحریک پاکستان کے موتزن خمیاں محمد مرزا دعوی لکھتے ہیں:."جماعت اسلامی کے وہاسال " صفحہ ۹-۱۰ طبع اول ستمبر شد ct " نیز حیات صفحہ ۶۴ ۲،

Page 19

14 کچھ دنوں کے بعد جب مورخ کا بے رحم فلم اس ایجی ٹیشن کے جذبی اثر سے آزاد ہو کہ اس کا جائزہ لے گا اور تخالص سیاسی نقطہ نظر سے.اسے جانچے گا تو ایجی ٹیشن کا یہ سارا دور اپنی ہنگامہ خیزیوں کے باوجود اسے ایک ایسا بے نتیجہ سیاسی بحران نظر آئے گا جس نے سلمانوں کی قومی خوداری کا خاتمہ کرکے رکھ دیا.ہندوؤوں کا پروگرام تھا ہندو ہی اس کے رہنما تھے مسلمانوں کی حیثیت ما جبہ اس ایجی ٹیشن میں ان کے آلہ کار سے زیادہ نہیں تھا.I اس وقت تک ان سے کام لیا جب تک انہیں ضرورت رہی " 1 اس حقیقت پر شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال نے اپنے ۱۸ مارچ ۱۹۲۸ء کے خط میں بایں الفاظ روشنی ڈالی :- اسلام کا ہندوؤں کے ہاتھوں پک جانا گوارا نہیں ہو سکتا افسوس اہل خلافت اپنی اصلی راہ سے بہت دور جاتیر سے وہ ہم کو ایک ایسی قومیت کی راہ دکھا رہے ہیں جس کو کوئی مخلص مسلمان ایک منٹ کے لیے بھی قبول نہیں کر سکتا : 2 ے مسلمانان ہند کی حیات سیاسی صفحه ۱۰۹ اقبال نامہ حصہ اول صفحہ ۱۵۸

Page 20

ایک اور مکتوب میں فرماتے ہیں :- ہندی مسلمانوں کے کام اب تک محض اسی وجہ سے بگڑے رہے کہ یہ قوم ہم آہنگ نہ ہو سکی اور اس کے افراد اور بالخصوص علماء اوروں کے ہاتھوں کٹ پتلی بنے رہے ،اسہ ۱۹۱۳ء سے ۹۲ مد تک کے اس دور میں جبکہ مسلمان عوام اور علماء اور دنی اما کے ہاتھوں کھیل رہے تھے ، ملک میں تمنا جماعت احمدیہ ہی ایک دینی جماعت تھی جو ثابت قدمی سے اپنے محبوب امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کی زیر قیادت مسلم لیگ کی حقیقی روح اور بنیادی اغراض و مقاصد کی علمبر دار بیگز مسلم قومیت کا پرچم لہراتی رہی اور نہ صرف خود مہندوؤں کے اٹھائے ہوئے فتنوں سے کلیتہ الگ رہی بلکہ اس نے دوسر نے سلمانوں کو بھی ان شراروں سے بچانے کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا.یہی وہ ہیجان نیز دور ہے میں میں حضرت امام جماعت احمدیہ مرزا بشیر الدین محمود احمد نے معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا رویہ ترک موالات اور اسلام “ جیسی بے نظیر کتابیں لکھ کر مسلمانان ہند کی بر وقت راہ نمائی فرمائی اور اُن کی صحیح منزل کو متعین کر دیا.اگر مسلمان زعماء اس مرد مجاہد کی آوازہ پر لبیک کہتے تو ملک کا نقشہ ہی کچھ ڈر ہوتا اور مسلمانوں کی آزادی کی منزل بہت نزدیک آجاتی مگر افسوس جب دشمنان اسلام کے ہاتھوں ان کا قافلہ حیات نہایت بیدردی سے لٹ چکا، اور سایہ میں شدھی اقبال نامه دهانه

Page 21

* اورسنگھٹن کی تحریکوں نے ہندو کے خوفناک عزائم کو بے نقاب کر دیا تو مسلمانوں کی ہے کھلنا شروع ہوئیں، یہاں تک کہ سال میں کتاب " ننگیلا رسول اور رسالہ "ورتمان" کی اشاعت نے اُن پر زلزلہ سلطاری کر دیا اور مسلم لیگی زعماء بھی جو کانگرس کے پلیٹ ، ورد فارم سے مسلم قوم کی ترقی اور بہبود کی امیدیں لگائے بیٹھے تھے بالآخر حالات کے تقاضے اور حضرت مصلح موعود اور جماعت احمدیہ کی کوششوں سے دوبارہ جدا گانہ نیا بہت کی منزل کی طرف پلٹنے پر مجبور ہوگئے.یک بعد از خرابی بسیار :

Page 22

تیسری فصل جدا گانہ نیابت کا بنیادی مطالبہ " اور مسلمانوں کی یک جہتی کے لیے ساعی اس باب میں حضرت امام جماعت احمدیہ اور آپ کی زیر ہدایت احمدیوں نے ہونا قابل فراموش خدمات انجام دیں وہ اپنی نظیر آپ ہیں.حضرت مرزا بشیر الدین محمود اتوار نے ۱۲ جون سناٹے کو اجلاس مسلم لیگ کے لیے اور 14 جولائی شیشہ کو بان سلیم پارٹیز کانفرنس منعقدہ امرتسر کیئے دو بیش قیمت مضامین ) سپرد قلم فرمائے جن میں سلم اقلیت کی قومی حیات کے لیے نہایت قیمتی منائیے فرمائیں پھر ۱۹۲۷ء میں شملہ کا نفرنس کے دوران قائد اعظم محمد علی جناح اور دوسرے سیاسی رخمان پر سلمانوں کی جداگانہ نیابت کی ضرورت روز روشن کی طرح نمایاں کر دکھائی پھر یہ جماعت احمدیہ کے مقدس امام ہی تھے جنہوں نے مسلم لیگ کے اربا سب مل و تند کی توجہ اس اہم انقلابی نکتہ کی طرف مبذول کرائی کہ :- مسلم کی تعبیر مذہبی خیال سے اور ہے اور سیاسی

Page 23

نقطہ خیال سے اور مذہبی نقطہ خیال تو مختلف فرق اسلام کے نزدیک وہ لوگ مسلم ہیں جو ان اصولی مسائل میں جن پر وہ اپنے نزدیک بنائے اسلام رکھتے ہاں تشفق ہوا اور سیاسی نقطۂ خیال کے مطابق مہر شخص جو رسول کریم پر ایمان لانے کا مدعی ہے اور آپ کی شریعیت کو منسوخ نہیں قرار دیا اور کسی جدید شریعت کا قائل نہیں ہے لفظ مسلمہ کے دائرہ کے اندر آجاتا ہے.پس ضروری ہے کہ مسلم لیگ کے دروازے ہر ایک اس فرقہ کے لیے کھلے ہوں جو اپنے آپ کو مسلم کہتا ہے خواہ اس کو دوسرے فرقوں کے لوگ مذہبی نقطہ نگاہ سے کافر ہی سیکھتے ہوں اور اس کے کفر پر تمام علماء کی مرتب ثبت ہوں ! ) اساس الاتحاد صفحه ۴۰۳ ) سلم کی بھی تعریف آئیندہ چل کرسلمانیان بند و سلم لیگ کے واسلم پیسٹ فارم پر جمع کرنے کا موجب بنی جس کے نتیجہ میں تحریک پاکستان کی منزل کامیابی سے ہمکنار ہوئی، چنانچہ مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی نے مسلم لیگ کا نفرنس میرٹھ میں فرمایا

Page 24

I ۲۴ اس مسلم لیگ نے اپنے دستور میں اعلان کر دیا ہے کہ ہماری مراد سلم کے لفظ سے صرف اس قدر ہے کہ اس میں شریک ہونے والا اسلام کا دعویٰ رکھتا ہو اور اس کا کلمہ پڑھنا ہو کیونکہ سلم لیگ کوئی مفتیوں کی جماعت نہیں علماء کے فتادی اپنی جگہ پر قائم رہیں گے صرف غیر کلمہ گویوں کے مقابلہ میں قدر سے توسیع کیا گیا ہے؟ خطبہ صدارت صفحه ۱۵ ۱۶۰ حضرت امام جماعت احمدیہ نے سلم لیگ کو مضبوط بنا نے کے لیے ہمیشہ ہرممکن اخلاقی ، آئینی اور مالی ذرائع سے اعانت فرمائی اور صدرا نجمین احمدیہ کا ریگانہ اور مطبوعہ لڑ نیچر اس کی منہ بولتی شہادت دیتا ہے ، ارجن سنگھ صاحب عاجز ایڈیٹر اخبار نگین امرتسر نے اپنی کتاب میر قادیان میں لگی." جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے ہم وثوق سے کہ سکتے ہیں کہ احمدی جماعت مسلم لیگ کے طرز عمل کی حامی ہے چنانچہ ذمہ دار احمدیوں سے تنبول خیالات کرنے کے بعد ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ان لوگوں نے سلم لیگ کے مقاصد کی تکمیل کی خطر بزار با روپیہ خرچ کرنے کے علاوہ اپنی تمام نہیں تبادلہ مسلم لیگ کی کامیابی کے پیسے وقعت رکھی ہوئی ہیں: F "

Page 25

WA پچوتھی فصل نہرو رپورٹ کے خلا تجدوجہد نہرو رپورٹ نے ملک میں وحدانی طرز حکومت کی تائید کر گئے مسمانوں کو مستقل پر ہندؤوں کا غلام بنانے کی سازش کی تھی ہی سے ناکام بنانے کا سمر العضرت امام جماعت احمدیہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کے سر ہے جنہوں نے تالے میں مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ کے نام سے ایک باطل شکن، کتاب لکھی ، اور مسلمانوں کے مطالبات کا ناقابل تردید دلائل کے ساتھ معقول ہونا ثابت کیا.نیز مسلمانوں کو تیمینی نصیحت فرمائی ہے.نہیں یہ نہیں کہتا کہ ہندوستان کی آزادی کے لیے کوشش نہ کرو کہ جبکہ انگلستان نے فیصلہ کر دیا ہے کہ ہندوستان کو نیابتی حکومت کا متقی ہے اس کے لیے ہو جا کر کوشش کی بجائے اس میں اپنے دوسھر سے بھائیوں کا شریک ہوں، مگر جو چیز مجھ پرگراں ہے اور میرے دل کو بٹھائے دیتی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے حقوق کی حفاظت کئے بغیر آئندہ طریق حکومت پر راضی ہو جائیں.اس کے نتائج نہایت تلخ اور نہایت خطرناک نکلیں گے اورمسلمانوں کوچا بیٹے کہ جب تک کہ دو نو مسلم لیگ کی پیش کر دو: تجاویز کو قبول نہ کر لیا جائے اُس وقت تک وہ کسی صورت میں بھی سمجھوتے پر

Page 26

راضی نہ ہوں ، وریز به خطر ناک صورت پیدا ہوگی اس کا لنفتی کر کے بھی دل دله " کا نپتا ہے.د مسلمانوں کے حقوق اور شہر ور پورٹ م ) : اس زمانہ میں تمہیں الاستمرار مولانا محمد علی صاحب جو تہبر نے اپنے اظہار ہمدرد مام است به رنامه ی جه دست امام جماعت احمدیہ اور آپ کی جماعت کی اسلامی خدمات پر زبر دست خراج تحسین ادا کیا.چنانچہ انہوں نے لکھا:.انسکر گذاری ہو گی کہ جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد اور ان کی اس منظم جماعت کا ذکر ان سطور میں نہ کریں جنہوں نے اپنی تمام تر توجهات بلا اختلاف عقیدہ تمام مسلمانوں کی بہبودی کے لیے وقف کر دی ہیں.یہ حضرات اس وقت اگر ایک جانب مسلمانوں کی سیاست میں دلچسپی لے رہے ہیں خود و سری طرف مسلمانوں کی تنظیم تبلیغ و تجارت میں بھی انتہائی بد جہد سے منہمک ہیں اور وہ وقت دور نہیں جبکہ اسلام کے اس منظم فرقہ کا طرز عمل سواد اعظم اسلام کے لیے بالعموم اور اُن اشخاص کے لیے بالخصوص جو سم الله کے گندوں میں بیٹھ کر نی میت اسلام کے بلند بانگ ودر بالن بیچ دعادی کے خوگر ہیں مشعل راہ ثابت ہوگا.

Page 27

۲ سین اصحاب کو جماعت قادیان کے اس جلسہ عام میں جس میں مر موسوعہ نے اپنے عزائم اور طریق کار پر اظہار خیالات فرمایا شرکت کا شرف می فصل ہوا ہے وہ ہمارے نبیا ان کی تائی کئے بغیر نہیں رہ سکتے.ا مادر دو الی ۲۶ ستمبر میان اند اسی طرح اخبار مشرق " گورکھپور نے لکھا.جناب امام صاحب جماعت احمدیہ کے احسانات تمام مسلمانوں پر ہیں آپ ہی کی تحریک سے ورتمان پر مقدمہ چلا یا گی آپ کی ہی جماعت نے رنگیلا رسول کے معاملہ کو آگے بڑھایا ، سرفروشی کی اور یہیں نمانے جانے سے خوف نہیں کھایا ، آپ ہی کے پمفلٹ نے جناب گورنر جیب بہادر پنجاب کو عدل و انصاف کی طرف مائل کیا آپ کا پمفلٹ ضبط کر لیا مگر اس کے اثرات کو زائل نہیں ہونے دیا اور لکھ دیا کہ اس پوسٹر کی مد بطلی محض اس لیے ہے کہ اشتعال نہ بڑھتے اور اس کا تدارک نهایت عادا نہ فیصلے سے کر دیا اور اس وقت ہندوستان میں بھتنے فرقے مسلمانوں کے میں حب کسی نہ کسی وجہ سے انگریزوں یا ہندووں یا دوسری قوموں سے مرعوب ہو رہے ہیں صرف ایک احمدی جماعت ہے جو قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں

Page 28

۲۸ کی طرح کسی فرد یا جمعیت سے مرعوب نہیں ہے اور خاص اسلامی کام سر انجام دے رہی ہے یہ (مشرق ۲۲ ستمبر ۱۵۲ ہے اکیلا کفر سے زور آندما احمدی کی روح ایمانی تو دیکھے ہ زرد

Page 29

با نوری اصل راونڈ میں کا نفرنس میں مسلم اقلیت ٹیبل کانفرنس کے حقوق کے لیے موثر آواز نومبر : میں پہلی گول میز کانفرنس لنڈن میں شروع ہوئی ، اس کا نفرنس میں مسلم اقلیت کے حقوق کی موثر تر جمانی کا حق حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد نے تہندوستان کے موجودہ سیاسی مسئلے کا حل میبینی محرکة الآرا د کتاب لکھکر ادا کیب - جس پر علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال ، ڈاکٹر ضیاء الدین علی گڑھے اور سیٹھ سماجی عبداللہ بارون جیسے چوٹی کے سلمان لیڈروں نے نہایت عمدہ پیرایہ میں تبصرے گئے.اخبار سمت لکھنو نے 0 دسمبر کے پر چلتے ہیں یہاں تک لکھا کہ : هر "ہمارے خیال میں اس قدر ضخیم کتاب کا اتنی قلیل مدت میں اردو میں لکھا جانا ، انگریزی میں ترجمہ ہو کہ طبع ہونا ، اغلاط کی درستی حروف کی صحت اور س سے متعلقہ سینکڑوں دقتوں کے باوجود تکمیل پانا.+ ד "

Page 30

دة اور فضائی ڈاک پر لندن روانہ کیا جانا اس کا بین ثبوت ہے کہ مسلمانوں میں بھی ایک ایسی جماعت ہے جو کہ اپنے نقطہ نظر کے مطابق اپنے فرائض سمجھ کر وقت پر انجام دیتی ہے اور نہایت مستعدی اور تندہی کے ساتھ " تعمال منہد کے مشہور مسلمان اخبار سیاست کے در پر شیر مو اینا سایه ریاست کے پر تشہیر صاحب قہر نے لکھا :- من میں اختلافات کی بات چھوڑ کر دیکھیں تو جناب بشیر الدین محمود احمد صاحب نے میدان تصنیف تالیف میں جو کام کیا ہے وہ بلحاظ ضخامت و افادہ بر تعریف کا مستحق ہے اور سیاسیات میں اپنی جماعت کو عام مسلمانوں کے پہلو بہ پہلو چلانے میں آپ نے میں اصول عمل کی ابتدا کر کے اس کو اپنی قیادت میں کامیاب بنایا ہے وہ بھی ہر مصنف مزاج مسلمان اور حق شناس

Page 31

انسان سے خراج تحسین وصول کر کے رہتا ہے آپ کی سیاست کا ایک زمانہ قائل ہے اور شہر ور پورٹ کے خلاف مسلمانوں کو مجتمع کرنے میں مسائل حاضرہ پر اسلامی نقطہ نگاہ سے مدلل بحث کرنے اور سلمانوں کے حقوق کے متعلق استدلال سے مملوک میں شائع کرنے کی صورت میں آپ نے بہت ہی قابل تعریف کام کیا ہے " اسیاست ۲ دسمبر ) ! یر صغیر کے ممتاز و معروف صحافی علامہ عبدالمجید خاں سالک نے اس کتاب کی نسبت بہ رائے دی کہ : - جناب مرزا صاحب نے اس تبصرہ کے ذریعہ بہت بڑی خدمت انجام دی ہے بڑی بڑی اسلامی انجمنوں کا کام تھا تو مرزا صاحب نے انجام دیا" انقلاب از نومبرس بر 210

Page 32

چھٹی فصل قائد اعظم کی لندن واپسی کیلئے کام یا تحریک گوا ائداعظم محمد مل جنات ہندو ذہنیت اور کانگرس میں شامل علماء کے علم کش علی ردیہ سے گول میز کانفرنس کے دوران ہی سخت مایوس ہو گئے اور ہندوستان کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہنے کا فیصلہ کر کے انگلستان میں رہائش اختیار کرلی.قائد اعظم خود اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ : تیں حیران ہوں کہ میری کی خود داری اور تار کو کیا ہوگیا تھا میں کانگریس سے مسلح و مفاہمت کی بھیک مانگا کرتا تھا میں نے اس مشالہ کے حل کے لیے اتنی مسلسل اور غیر منقطع مساعی گئیں کہ ایک انگریز اخبار نے ملکی مسٹر جناح ہند و مسلم اتحاد کے مسئلہ سے کبھی نہیں تھکتے لیکن گول میزر کا نفرنس کے زمانہ میں تجھے اپنی زندگی کا سب سے بڑا صدمہ پہنچا، جیسے ہی خطرہ کے آثار نمایاں ہوئے ہندویت در ادب و دماغ کے اعتبا ر ہے.اس طرح نمایاں ہوتا کہ اتحاد کا امکان ہی ختم ہو گیا.اب میں مایوس ہو چکا تھا مسلمان ہے سہار اور ڈانوا ڈ دل ہو مخف رہے تھے کسی حکومت کے یانہ وفاداران رمینجانا کے لیے میدان میں آ موجود ہوتے تھے کبھی کانگریس کے نیاز مندان بخصوصی اُن کی قیادت کا

Page 33

کا فرض ادا کرنے گئے تھے مجھے اب ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں ہندوستان کی کوئی مدد نہیں کر سکتانه بند دو جنسیت میں کوئی خوشگوار تبد یلی گورگانا ہوں نہ مسلمانوں کی آنکھیں کھول سکتا ہوں آخر میں نے لندن ہی میں بود و باش کا فیصلہ کر لیا : ر قائد اعظم اور ان کا هر صفحه ۱۹۱ -۱۹۲ مولفہ مولانا انیس احمد جعفری ) قائد اعظم کے اس فیصلہ سے کانگریسی ہندو اور کانگریس نواز مسلمانوں کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا مگر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ کا دردمند دل تھا اس صورت حال کو دیکھ کر تڑپ اٹھا کہ مسلمانان ہند اپنے ایک محبوب سیاسی لیڈر گی براہ راست قیادت سے محروم ہو گئے ہیں اور سلم نسیاست پر وہ لوگ مسلط ہو رہے میں جومسٹر گاندھی کو پالتو بنی مانتے ہیں چنانچہ امیر شریعیت احرار میده عطا اللہ شاہ بخاری نے مسجد خیرالدین امرتسر میں گیا میں مسٹر گاندھی کو بنی بالنقود منت ہوں (اخبار اتفاق و ذوالفقار بحوالہ رہنمائے تبلیغ صفحه ۱۳۹-۱۴۰ مولف سید محمد طفیل شاہ صاحب ) ایک اور موقعہ پر مهاتما گاندھی کو موسی وقت قرار دیتے ہوئے کہا :- با تشبیہ اور بے تمثیل مہاتما کا میم اور سوسنی کا میم برا بر ہے ہر فرعونے راموشی ر متقدمات امیر شریعت صفحہ ۲۸۰۲۷ ناشر مکتبہ (دیار) بعد ائیاں امیر شریعیت احرار نے تو ایک بار کس کر اپنے خطرناک عزائم کا یوں اظہار بھی کر دیا ؟.بلاشبہ پنڈت جواہر لال نہرو جی نے بھی یہ آزادی کا جھنڈا بند کیا

Page 34

اندا انہیں استقامت دے اور دن دگنی اور رات چوگنی ترقی ے گر یہ نعمت چونکہ ہم نے چھینی ہے اس لیے ہمارا فرض ہے کہ اسے حاصل کر کے پنڈت جی کی خدمت میں پیش کریں....کوشش کرو کہ ہر مسلمان جواہر لال نهر و جیا خطبہ پڑھے مسلمانوں کا حق ہے کہ آزادی حاصل کر کے دیگر اقوام کے سامنے بطور تحفہ پیش کریں اور خود خدمت خلق میں مصروف ہو جائیں ہم کو کسی چیز پر قابض ہو کر تسلط جما کر بیٹھنا نہیں چاہیئے.ر اخبار مجاہد منی ۱۹۳۶ء صفویم کالم ۱-۲) دوسری طرف اُن کی رائے یہ تھی کہ :- '.جو لوگ مسلم لیگ کو ووٹ دیں گے وہ سوڑ ہیں اور مور کھانیوالے ہیں : LA ا چمنستان صفا از مولانا ظفر علی شمال شاہ جی کی ہمنوائی میں مولوی حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی صدر احرار به عقیده بھی رکھتے تھے.

Page 35

دس ہزار جبینا اور شوکت اور نظر جواہر لال نہرو کی جوتی کی نوک پر قربان کئے جا سکتے ہیں.چمنستان از مولانا ظفر علی خمال ص ) ر ان لوگوں کا واضح مسلک یہ تھا کہ خطرہ نہ ہود سے ہے یہ نہ مہنود سے بلکہ خطرہ خود ان نیک دل اور سادہ لوح تیمار داروں سے ہے جومت اسلامیہ کے مرد بسیار کے مداوا کے لیے سلم لیگ اور اس کے رہنماؤں کی جد وجہد اور عملی پروگرام پر اس لگائے بیٹھے ہیں.ر مجلس احراز او مسلم بیگ مث شائع کرده مجلس احرار اسلام با غبان پوره ) ظاہر ہے کہ یہ صورت جان ہندووں کے لیے انتہائی مفید اور ملت اسلامیہ کے لیے سخت ملک اور ضرر رساں تھی چونکہ حضرت امام جماعت احمدیہ جناب قائد اعظم محمدعلی جناح ہی کو اُن کی غذبات کے باعث تقابل عزت اور قابل ادب سمجھتے تھے انکی شملہ صفحہ ۱۹-۲۰ ) اس لیے آپ نے بینم ارادہ کر دیا ک کسی نہ کسی طرح قائد اعظم کواپنا میلہ بدلنے اور پھر دوبارہ بند دوستان گر مسلمانان ہند کی قیادت کے فرائض بھجانا نے پر آمادہ کیا جائے اس کے بعد حضرت امام جماعت احمدیہ کی ہدایت پر مولانا عبدالرحیم صاحب ورد نے مارچ میں اُن کے دفتر واقع کینگز پنچ دیو لندن 14

Page 36

London) Kines BENCH WALU LONDON میں طلاقات کی اور انہیں مسلمانان بندر ) کی خدمت کے لیے پبلک میں آنے ، لنڈن کی احمدیہ مسجد میں ہندوستان کا مستقبل کے موضوع پر تقریر کرنے اور انہیں دوبارہ ہندوستان واپس تشریف سے بہانے پہ آنا ورد کرنے میں کامیاب ہو گئے بلد ہندوستان پہنچ کر قائداعظم نے مسلم لیگ کی قیادت دوبارہ اپنے ہاتھ میں سنبھال لی جس کے نتیجہ میںمسلم لیگ کی قلی زندگی میں ایکسانی روز پیدا ہوگئی جس نے قرار داد پاکستان کی شکل میں مسلمانان ہند کیلئے ایک واضح منزل متعین کی اور اس کے سنسول کی خاطر عظیم الشان جد وجہد کا آغا نہ کر دیا.ل - تقین کیلئے ملاحظ ہوتا ریخ احمدیت جلد منتم صفحه ۱۰۰ تا ۱۱۰ و ۵۷۴ تا ۵۷۶ عید ۱۰تا به :

Page 37

ساتویں فصل رداد پاکستان کی امید می کرزی و پایانی ۳۳۵ کے دوران مسلم لیگ کی پر جوش حمایت م کی بات کا بہترین واقعه قرارداد پاکستان ہے، ہماری نشده کولا جور میں پاس ہوئی، اس قرار داد کے بعد سریہ نور ڈاکہ پی ہندوستان آئے اور ہندوستان کی آزادی کا ایک ، جدید فارمولا پیش کیا جسے سلم لیگ اور کانگریس دونوں نے مسترد کر دیا نتیجہ یہ ہواکہ ہندوستان کی آزادی قطعی محال اور بالکل ناممکن دکھائی دینے لگی، معین اس تاریک اور گھٹاٹوپ ماحول میں حضرت امام جماعت احمدیہ نے 17 جنوری کو ایک خلیہ جمعہ کے ذریعہ انگلستان 1909 اور بند دستان و دنوں کو مفاہمت و مصالحت کی دعوت دی (الففعل ، جنوری شام) و در اللہ تعالیٰ اپنے برگہ دیدہ بندوں کی زبان کو بسا اوقات اپنی زبان بنا لیتا ہے یہی صورت یہاں ہوئی آپ کے خطبہ کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے خود بخود یہ سامان پیدا کر دیا کر چو ہدری محمد ظفر اللہ ماں کو جو ان دنوں فیڈ سول کورٹ آف انڈیا کے نیچے نتھنے کا من و میتھ ریلیشنر کانفرنس میں ہندوستانی وفد کے قائد کی حیثیت سے انگلستان جانا پڑا جہاں آپ نے سرکاری نمائندہ ہونے کے باوجود انگلستان کے سامنے ہندوستان کی آزادی کا مطالبہ ایسے زور دار اور پر شوکت وقوت الفاظ میں رکھا کہ دنیا بھر میں تہلکہ پے گیا در انگلستان کے سر بر آوردہ اخبارات کے علاوہ ہندوستان کے مسلم وغیرمسلم پولیس نے اس پر کثیرت 47

Page 38

VA تحویل الامین تھے چنانچہ اخبار انقلاب نے سر ظفراللہ خان کی صاف گوئی کے عنوانات لکھیا : - H تو پوری سرمحمد ظفر اللہ خاں نے کامن ویلتھ کی کانفرنس منعقدہ لندن میں جو تقریر فرمائی وہ ہنر انگریز اور انتی دی منگوں کے ہر فرد کے سے دلی توجہ کی سنت ہے کیا اس ستم و اینی کی کوئی مثال مل سکتی ہے کہ میں ہندوستان کے پچیس لاکھ بہا دہ مختلف جنگی میدانوں میں جمعیتہ اقوام بر طا نیہ کی آزادی کو محفوظ رکھنے کی خاطر لڑ رہے ہیں وہ خود آزادی سے محروم ہے : و انقادتین به بار فروری ۱۱۲۵ حیدر آباد دکن کے روزنامہ پیام اور فروری ۱۹۳۵ ، نے لکھا:.سر ظفر اللہ کی آواز میں ایک گرج ہے ایکٹ نما کا ہے ہیں کو جمعہ نظر انداز نہیں کر سکتے.} هند د اخبار پر بهانه از ۲۰ فروری شاہ نے یہ نوری شائع کی ایک ایک بند کر سنانی گو سر ظفر اللہ خان کا ممنون ہونا چاہیئے کہ انہوں نے انگریزوں کے گھر جا کر حق بات کر دی : اخبار پیتا پی کر ۱۲ ضروری شاہ نے لکھا :- ہندوستان کے فیڈرل کورٹ کے بن میر ظفر اللہ خال آجکل انڈین

Page 39

گئے ہوئے ہیں آپ کا من دلبخند ریشنز کا نفرنس میں ہندوستانی اری گیٹ کے لیڈر میں لنڈن میں آپ نے جو تقریریں کی ہیں ان سے ہندوستان تو کیا ساری کامن وعلیجھے میں تہلکہ چ گیا ہے...آپ نے بر طانوی حکمرانوں کو وہ کھری کھری سنائیں کہ سننے والے دنگ رہ گئے برطانوی حکومت کے درجنوں تنخواہ دار ایجنٹوں کے کئے کرائے پر آپ کی ایک تقریر نے پانی پھیر دیا.چوہدری صاحب کی ان تربیت پرونز اور انقلاب انگیر فقر میرون کانورس اثر بریطانیہ کے عوامی اور صحافتی حلقوں سے بڑھکہ براہ راست برطانوی حکومت پر بر ہوا کہ اس نے لارڈ ویول وائسرائے ہند کو انتقال اقتدار کا نیا فارمولا تجویز کرنے اور مسلم درینہ مسلم زعماء کو مصالحت کی پیشکش کرنے کے لیے لنڈن طلب کر لیا لارڈ ولیول برطانوی وزیر اعظم مسٹر جو چل اور کابینہ کے دوسرے ان کا نیہ سے مشورہ کے بعد ه ر جون کونٹی نجا و بر لگی ہندوستان میں پہنچ گئے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد نے ۱۲۲ جون ۱۹۳۵ کے خطبہ جمعہ میں مار مسلمان اور ہندو لیڈروں کو نہایت درد دل کے ساتھ یہ پیغام دیا کہ انگلستان میں کے لیے ہاتھ بڑھا رہا ہے، دو سو سال سے ہندوستان غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے وہ اس پیشکش کو قبول کر سکتے ائندہ نسلوں پر احسان عظیم کریں ہفتہ کے یہ

Page 40

قید اوراس کا انگریزی ترجمہ دونوں ہندستانی لیڈروں تک پہنچا دیا گیا.مشهور بالحد من عالم جناب مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے اخبار ابا ا اس خطبہ کے بعض اقتباسات دے کر یہ تبصرہ فرمایا :- یہ الفاظ کسی حجرت اور حیرت کا ثبوت دے ہے ہیں.کانگریسی تقریروں میں اس سے زیادہ نہیں ملتے چالیس کروڑ ہندوستانیوں کو غلامی سے آزاد کرانے کا ولولہ جس قدر خلیفہ جی کی اس تقریر میں پایا جاتا ہے دو گاندھی جی کی تقریر میں بھی نہیں ملے گا :.المحدیث امرتسر با جولائی ۱۹۴۵ صفحه ۴) یاسی لیڈروں کی کانفرنس و درجوان سے لیکر وہ جواد سے ایک جاں کا رہی ۱۹۴۵ قائد اعظم محم عل جنان صدر آل انڈیامسلم لیگ نے انتہائی کوشش کی کہ کسی طرح کا گارسی اینڈ ر لا مورد بر دلیوشن کے مطابق مسلمانوں کے حق خود ارادیت کی گارنٹی دسے اور ملک، میں رباب عارض قومی حکومت قائم ہو جائے مگر کانگرس اس پر آماد د ہونے کے بیٹے بنیات نہ ہوئی ، قائد اعظم کی طرح حضرت امام جماعت احمدیہ کائی خیال تھا کہ اگر مہند کانگریس مسلمانوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرلے تو ملک میں ایک قومی حکومت قائم ہو سکتی ہے بلکہ آپ کا ایک عالمی تبلیغی جماعت کے پیشوا کی حیثیت سے یہ بین الاقوامی ملک انا کہ ساری دنیا کی ایک حکومت قائم ہونا با ہمی فسادات دور تھا

Page 41

ہوں اور انسانیت بھی اپنے جوہر دکھانے کے قابل ہوتا الفضل ۲۷ اکتوبر ۱۹۴۵ صفحه۱ ) اس ضمن میں آپ نے ہندوستان کی نسبت بالخصوص اس عزم کا اعلان فرمایا :- ل ہم ہندوستان کو نہیں چھوڑ سکتے یہ ملک ہمارا مہند ڈوروں سے زیادہ ہے ہماری شکستی اور غفلت سے عارضی طور پر یہ ملک ہمارے ہاتھ سے گیا ہے.ہماری تلوار میں جس مقام پہ جا که گند ہوگئیں وہاں سے ہماری زبانوں کا حملہ شروع ہوگا اور اسلام کے خوبصورت اصول پیش کر کے ہم اپنے بند و بجھائیوں کو خود اپنا جزو بنا لیں گے.والفضل بار اپریل ۱۹۲ المختصر جب مناہمت کی کوئی صورت پائی نہ رہی تو والشعار یہ ہند لارڈ ویول نے ا ستمبر کو ملک میں بنٹے انتی بات کرانے کا اعلان کر دیا.اس پر قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلمانان ہند کے نام پیغام دیا :- ہمارے پیش نظر اہم مسئلہ آئندہ انتخابات کا ہے موجودہ حالات میں انتخابات کو خاص اہمیت حاصل ہے انتخابات ہمار سے لیسے ایک آزمائش کی صورت رکھتے ہیں....ہم رائے دہندگان کی اس امر کے بارے میں دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ کیا وہ پاکستان چاہتے ہیں یا ہندوسان

Page 42

کے ماتحت رہنا چاہتے ہیں...مجھے معلوم ہے کہ ہمارے خلاف بعض طاقتیں کام کر رہی ہیں اور کانگرس ارادہ گئے بیٹھی ہے کہ ہماری صفوں کو ان مسلمانوں کی امداد سے پریشان کر دیا جائے تو ہمارے ساتھ نہیں میں مجھے افسوس ہے کہ وہ مسلمان ہمارے ساتھے نہیں ہیں بلکہ ہما ر سے دشمنوں کے ساتھ ہیں یہ مسلمان ہمارے خلاف مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے کام میں بطور کارندے استعمال کئے جا رہے ہیں یہ مسلمان سوجائے جار ہوئے پرندے ہیں یہ صرف شکل و صورت کے اعتبار سے ہی مسلمان ہیں.۱۹۴۵ید صفحه ر اخبارا انقلاب لامبور ۱۸ار اکتوبر ۴۵ ۵اید صمد قائد اعظم کی یہ بات سو فی بعدی درست نکلی کانگریس نے اپنے زر خرید علماء کو تحریک پاکستان مسلم لیگ اور قائداعظم کے خلاف پراد پیگنڈا کے لیے پور سے ملک میں پھیل دیا، چنانچہ کانگریس کے خود کاشتہ پود مجلس 71 لیڈروں نے بہا تک وعظ فرمایا :- کستوں کو بھونکتا چھوڑ دو کاروان احرار کو اپنی منکران کی طرت اپنے در احرار کا وطن بیگی سرما بہ دار کا پاکستان نہیں اتراہ اس پاکستان کو پلی استان سمجھتے ہیں نہ ر خلیات احدار صلاة 1 کے

Page 43

حراری اخبار آزاد نے اپنی نو نومبرت 20 کی اشاعت میں لکھا ہے.13 پاکستان ایک خونخوار سانپ ہے جو شاہ سے مسلمانوں کا خون چوس رہا ہے اور مسلم لیگ کا ہائی کمانڈ ایک پیرا ہے : احراریوں کے نزدیک قائد اعظیم کا تھے چنا : اک کا فرو کے واسطے اسلام کو کیڑا ہو جانا کم ہے یا ہے کافر اعظم کافرہ اختیار نے پاکستان کی نسبت جو و اصلی مسالک اختیار کر رکھا تھا وہ شیخ استام واضح الدین صاحب بی.اسے کے الفاظ میں حسب ذیل ہے :- اسلام کے باغی پاکستان سے ہم اس مہنے دو ہندوستان کو پسند کرینگے جہاں زمانہ روزہ کی اجازت کے ، ساتھ اسلام کے بانی عدل وانصاف کے پروگرام کے مطابق نظام حکومت ہوگا.یعنی ہر شخص کو صرف رسول که ریم صلی اللہ علیہ وسلم مصديقي اکبر اور فاروق اعظم کی زندگی پیروی میں محض ضروریات زندگی محبت کی جائینگی، اور کسی کو کسی در تمرے پر سیاسی یا اقتصادی فوقیت نہ ہوگی - انغام اسلامی کو چلانا اور امراء اور سلاطین کی ٹوسٹ گھوٹ سے لوگوں کو بچانا.پیامبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کا مشن تھا.

Page 44

۴۴ پس اگر محمد علی جناح اسلام کے اقتصادی اور سیاسی نظام کے خلاف کسی سرمایہ داری کے نظام کو چلائے تو فتح کیا اور اگر ہوا ہر لال اور گاندھی خلفائے راشدین کی پیروی میں سوسائی میں نابرابری کے سارے نقوش کو مٹاتے چلے جائیں پہلے تو بطور سلمان کے ہمیں نقصان کیا.شد ۲۰۰ رنامه بین احراری ء احرار پاکستان شمنی میں قائد اعظم محمدعلی جناح پر بھی شرمناک حملے کر رہے تھے در گھل کھلا کہتے تھے.ہم اس کے سخت خلاف ہیں کہ لاکھوں مسلمانوں کی قربانی دے کہ کسی مزید جیسے سلمان کے لیے تخت سلطنت بچھایا جائے.سید عطا اللہ شاہ نجاری ما مواقف جناب شورش کا شمیری) ص جمعیت علمائے ہند نے اُن دنوں تحریک پاکستان کے خلاف اپنی انتخابی میں بے شمار مفلٹ اور رسائل شائع کئے جن میں پراپیگینڈا گیا کہ :- مسلم لیگ کی تاریخ مسلمانان ہند کی پیشانی پر دارغ ذلت ہے.حقیقت یہ ہے کہ اس نام نہاد سلم جماعت پر رعونت پسند سرمائیداروں جاہ پرست نوابوں اور دشمن اسلام برطانیہ کے خطاب یافتہ غلاموں کا قبضہ ہے ؟ اے یف مسلم لیگ کے شاندار اسلامی کارنامے ، صفحہ 1 مرتبہ جمعیت علما و صوبہ دہلی.

Page 45

اور یہ کہ پاک سمنان انگریزی ایجنٹوں کا فریب ہے یا نیز بلاشبہ پاکستان کا یہ تخیل سیاسی الہام ہے مگر ربانی الهام نہیں ہے.بلکہ قصر بنگھم کا الہام ہے جو ڈاکٹر اقبال کو بھی جب ہی ہواتھا جب وہ لندن سے قریب ہی زمانہ میں واپس تشریف لائے تھے اور وه الهام و دبارہ اُس وقت پھر ہوا جبکہ مسلم لیگ کا وفد جو زیر مر کر دگی چوہدری خلیق الزماں مصر اور لندن کا حج کرنے گیا تھا......اور جس کو عرصہ کے بعد مسٹر جناح نے اپنایا اور لاہور میں پیش کرنے کی اجازت دی ہے احرار اور جمعیہ علم و ہند کی طرح مردو دی جماعت بھی پاکستان کے بدترین مخالفوں میں شامل تھی اور شروع ہی سے یہ پراپیگینڈا کرتی آرہی تھی کہ تحریک پاکستان ایک قوم پرستانہ پروگرام ہے اور پاکستان اسلامی مقصد کے لیے الٹا قدم ، غیرمسلم حکومت سے بھی بد تریہ خدا کی نگاہ میں میخونی و ملعون اور نا پاکستان شده بلکہ مسلمانوں ے اراکین مرکزی مسلم پارلیمنٹری بورڈ کے ایک پمفلٹ کا عنوان.تحریک پاکستان پر ایک نظر زمان محمد حفظ ایران و بر روی نام مالی مرکز به همین الات هند.مطبوعہ دہلی پر هنگ در کس دہلی.16 الله ه اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے ا 1 - کے ایضاً ص ۲۲۰۲ Al ے مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم عنش ۸۱.اور

Page 46

کی ایک کا فرا نہ حکومت ہو گی یاد اور قائد اعظم کی سیاست اسلام کے لیے ازالہ حیثیت عرفی سے کم نہیں یہ امہ کے انتخابات کے موقعہ پر احرار د جمعیتہ علماء ہند اور مودودی جماعت تینوں نے کانگرس کے فتحہ کالم کی حیثیت سے پاکستان اور مسلم لیگ کی ڈٹ کر مخالفت کی.فرق صرف یہ تھا کہ احرار اور جمعیتہ نے تحریک پاکستان کے خلاف الیکشن میں سرگرم حصہ لیا مگر جماعت اسلامی نے مسلمانوں کو سرے سے انتخاب ہی کا بائیکاٹ کرنے کی تلقین کی اور اس طرح تحریک پاکستان کا پرستہ روکنے اور اس کو ناکام بنانے کی شرمناک سازش کی ، چنانچہ مودودی صاحب نے فتوی دیا کہ جمہوری انتخاب میں شرکت اور رائے دہی حرام ہے سینے اور دعویٰ کیا کہ قرآن وسنت سے میرا موقف ہی حق ہے عید نیز اپنے مسلک پر اصرار کرتے ہوئے بتایا کہ قائد اعظم رجیل فاجر" اور پاکستان منت الحمقاء“ ہے جس کے حصول میں ہم اپنی قوت کیوں ضائع کریں فیه نیز کہا.اصولی تحریک دینی جما عت اسلامی، ناقل) کو یہ خیر دینا کہ تمہارے لیے ایک قوم پرستانہ تحریک نے بڑے اچھے مواقع پیدا کر دیتے ہیں کسی ے مسلمان اور موجودہ سیاسی تمکش حصہ سوم صلا اخبار کویر ۲۸ اکتوبر ۱۹۴۵ م - که رسانه ترجمان القرآن مئی ۶ ۵ ۳۲ تا ۳۴۲ مٹی سند 116 1 4.فروری ۶۱۹۴۶ ۱۵۳ تا ۱۶۰۰.

Page 47

بصیرت اور محاطه نمی کا شیوہ نہیں ہے اس کی مثال تو بالکل ایسی ہے جیسے کسی عازم کلانہ کو یہ خبر دی جائے کہ کراچی میں تیار ہے لیے " مودودی صاحب نے نظر یہ نہیں کیا ہے کہ مطالبہ پاکستان محض ایک تو می جنگ ہے اور اسلام کی لڑائی اور قومی لڑائی ایک ساتھ نہیں لڑی جا سکتی : شد جماعت اسلامی نے انتخابات کے دوران تحریک پاکستان کے خلاف جو مورچہ بندی کی تھی اس کا عملی شکریہ ادا کرنے کے لیے کانگرس کے سب سے بڑے ہندو لیڈر گاندھی جی نے پیداہر تمنا میں تقریبہ کا پروگرام ترک کر دیا اور جماعت کے اجتماع پٹنہ ( منعقدہ ۲۶ را پیریل ۱۹۴۶ شہ) میں شرکت کی اور بہت اظہار مسرت کیا.پیٹنے کے کانگریسی اخبار تسرح الائمنٹ SEARC کے سنڈے ایڈیشن مورخہ Searchlight ار اپریل مد میں یہ سب واقعہ شائع ہو چکا ہے یہ جہاں رقائداعظم کی اصطلاح کے مطابق ) کانگرس کے سدھائے ہوئے علماء نے یری چوٹی کا زور لگایا کہ مرکزی اور صوبائی انتخابات کے ذریعہ تحریک کا نام ونشان تک ٹاڈالیں وہاں حضرت مرزا لب الدین محمود امام جماعت احمدیہ نے ۲ راکتو براہ کو یک مفصل مضمون میں اعلان کردیا کہ آئندہ الیکشنوںمیں احمدی مسلم لیگ کی تائی کرنی چاہیے انتخابات کے بندہ ایک بلا خوف تردید کانگرس سے یہ کہ سکے کہ وہ مسلمانوں کی نمائندہ ہے اگر ہم اور دوسری مسلمان جماعتیں ایسا نہ کریں گی تو مسلمانوں کی سیاسی حیثیت کمزور ہو جائے گی اور مہند دوستان ترجمان فروری ۱۹۳ در صفحه ام در تا ۱۶۰ - ه به درد اور جماعت اسلامی حصته پنجم صفحه ه ايضاً صفحه ۳ (بقیہ گلے صفحہ پہ ) 147 / P

Page 48

۴۸م د اور الیاسی کے امید ہ نظام میں ان کی آواز بے اثر ثابت ہوگی اور الہی سے سیاسی اور اقتصادی دستکا مسلمانوں کو لگے گا کہ اور چالیس پچاس سال تک انکا مفبھنا مشکل ہو جائے گا اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی عقل مند اس حالت کی ذمہ واری اپنے پر لینے کو تیار ہونا ) الفضل ۱۲۰ اکتوبر ۱۱۳ فر) حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ اس جماعتی پالیسی کے اعلان سے قبل اپنے ایک خط میں بھی مسلم لیگ کی تائید میں ہدایت جاری فرما چکے تھے.اس خط کی نقل قائد اعظم محمد علی جناح کی خدمت میں بھجوائی گئی تو آپ نے امام جماعت احمدیہ کے اس فیصلہ پر خوشی و مسرت کا اظہار فرمایا اور امام جماعت احمدیہ کے الفاظ پولیس میں بغرض اشاعت بھیجوا دیئے جو ایسوسی ایٹڈ پریس آف انڈیا کے حوالے.مسلم اخبار ڈان اوہلی نے اپنی د راکتو بر شہداء کی اشاعت میں مجھے.جماعت احمدیہ نے اپنے دینی پیشوا کی آواز پر کس طرح شاندار طریق سے والد نہ بیک کہا اورمسلم لیگ کو کامیاب کرانے کا روح پرور مظاہرہ کیا، اس کا انداز ملبس احرار اسلام قادیان کے ایک کتابچہ مسلم لیگ اور مرزائیوں کی آنکھ مچول پر مختصر تبصره سے بآسانی لگ سکتا ہے.یہ کتا بچہ کو تیری اور میں شائع کیا گیا اور اس میںمسلم لیگ اور جماعت احمدیہ کے قدیمی مراسم دروابط کا ذکر کرتے ہوئے لکھی ہے کہ :- بقیه صفحه سابقة مفوسا سے انتخابات کے موقعہ پر کانگرس نے کسی طرح اپنے احترام می ایجنٹوں پر روپیہ بھایا اور افراز ہوں نے بندر بانٹ کی ، اس کی تفصیل شورش صاحب کی کتاب بوئے گل نالہ دل دود چراغ ، محفل از صفحه با ۳۴ تا ۴ ۴ ماہ میں موجود ہیں.

Page 49

۴۹ ا صرف مسلم لیگ پارٹی بھی ایسی پارٹی تھی جس کے ساتھ مرزائیوں کو کچھ توقعات تھیں کیونکہ میر ظفر اللہ خاں مرزائی اس میں آل اہ انڈیا مسلم لیگ کے صدر رہ چکے تھے...کانگرس اور سلم لیگ میں تلخیاں بڑھیں اور پاکستان کا مطالبہ شروع ہوا...مرزا محمود اور اس کی پراپیگینڈا ایجنسی نے مسٹر جناح سے خط و کتابت کی مٹر جناح نے یہ نہ سوچا کہ پولیٹیکل پالیسی اسلام کو کیا نقصان پہنچائے گی آخر مسٹر جناح نے مرزائیوں کو مسلم لیگ میں شامل کر لیا ۳۰۰ جولائی ۱۹۴۴ کولا ہور میںمسلم لیگ کی آل انڈیا کونسل کا اجلاس ہوا، مولانا عبد الحامد بدایونی نے اس کونسل کے اجلاس میں ایک قرار داد پیش کرنے کا نوٹس دیا کہ مرزائی چونکہ مسلمان نہیں ہیں اس لیے ان کو نکال دیا جائے...جب یہ قرار داد پیش ہوئی تو مسٹر جناح نے اس پر بحث کی اجازت نہ دی ، بھلا ئیگی نقار خانے میں مذہبی باتیں کس طرح ، کامیاب ہو سکتی ہیں وہاں تو ہر بات میں جناح یا جناح نماینگی امراء کے م١٩ رحم پر لیگ میں رہنا پڑتا ہے.چنانچہ سال ۱۹۴۵ہ میں جب میں دیول کانفرنس کے بعد انتخابات کا زمانہ شروع ہوا تو مرزائیوں اور لیگیوں میں تخفیہ ساز باز شروع ہوئی...مرزا محمود خلیفہ قادیان نے اکتوبر کے مہینہ میں ایک اہم اعلان کیا آگے اس اعلان کے بعض نعرے درج.کرنے کے بعدلکھا یہ مقال کی تشریح کا محتاج نہیں اس کے بعد t

Page 50

مسٹر جناح نے کوئٹہ میں تقریر کی اور مرزا محمود کی پالیسی کو سراہا اس کے بعد سنڈل سمبلی کے الیکشن ہوئے تو تمام مرزائیوں نے مسلم لیگ کو ووٹ دیئے بہانتک کہ جب مولانا ظفر علی خاں ایڈیٹر زمیندار لاہور جو کسی زمانے میں مرزائیوں کے شدید ترین دشمن تھے اُن کا، میٹر گا یا کا مقابلہ ہوا تو دفتر ضلع لیگ گورداسپور نے مرزا محمود احمد قادیانی کو ایک پینٹی لکھی جس میں مرزائیوں کو صاف طور پر سلمان توم تسلیم کیا گیا کنانگ جیٹھی کی نقل کے بعد لکھتے ہے ، اس جیٹھی پر تمام مرزائی بٹالہ گئے.بٹالہ کے مسلم لیگی کارکنوں نے ان سے معانقے کئے دوسٹ مولانا ظفر علی خاں کے حق میں گزارے گئے.دیگر بعض مسلم لیگ کے لیڈر لاہور سے بذریعہ کار تشریف لاکہ اپنی آنکھوں سے یہ نظارہ دیکھتے رہے.ر صفحه ۱۹۱۸) ط جماعت احمدیہ نے اس محرکہ حق و باطل میں میں نشان سے دستہ لیا اس کا انداز و مورخ پاکستان مولانا رئیس احمد صاحب جعفری کے مندرجہ ذیل الفاظ سے بھی بخوبی لگ سکتا ہے.مولانا نے اپنی کتاب قائد اعظم اور اُن کا عہدہ میں زیر عنوان.اصحاب قادیان اور پاکستان حضرت امام جماعت احمادیہ کے بیان جاری فرموده ۲۱ به اکتوبر ۱۹۴۶ء کے اقتباسات نقل کرنے کے بعد لکھا:.11

Page 51

+ % مسلم قوم کی مرکز بیت پاکستان یعنی ایک آزاد اسلامی حکومت کے قیام کی تائید مسلمانوں کے پاس انگیم مستقبل پر تشویش ، عامتہ المسلمین کی صلاح و فلاح، نجارح و مرام کی کامیابی ، تعریق بین المسلمین کے خلاف برای اور فتنہ کا اظہار کون کر رہا ہے ؟ امر بالمعروف اور منفی عن المنکر اور جماعت حزب اللہ داعی اور امام السند یا نہیں.مچھر کون ؟ وہ لوگ جن کے خلاف کفر کے فتووں کا پشتارہ موجود ہے.جن کی نامسلمانی کا چہ چھا گھر گھر ہے، جن کا بیان این کا عقیدہ مشکوک ہمشتبہ اور محل نظر ہے.کیا خوب کہا ہے ایک شاعر نے سے : کامل اس فرقہ زہاد سے اُٹھا نہ کوئی کچھ ہوئے تو یہی رندان قدح خوار ہوئے " رقائد اعظم اور ان کا عمد صنام نامی ) جماعت احمدیہ نے تحریک پاکستان کے اس اہم ترین موٹر پر جو تاریخی رول ادا کیب یہ اُس کا اعتراف ممتاز اہل حدیث عالم جناب مولانا میر محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی

Page 52

BY بھی کرنا پڑا، چنانچہ انہوں نے اپنی کتاب "پیغام ہدایت در تائید پاکستان مسلم لیگ میں لکھا:- احمدیوں کا اس اسلامی جھنڈے کے نیچے آجانا اس بات کی دلیل ہے کہ واقعی مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے.وجہ یہ کہ احمد سی لوگ کانگرس میں تو شامل ہو نہیں سکتے کیونکہ وہ خالص مسلمانوں کی جماعت نہیں ہے اور نہ احرار میں شامل ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ سب مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ صرف اپنی احراری حجامت کے لیے لڑتے ہیں جن کی امداد پر کانگریسی جماعت ہے اور حدیث الدِّينُ النَّصِيحَةُ" کی تفصیل میں خود رسول مقبول نے عامہ مسلمین کی خیر خواہی کو شمار کیا ہے.(صحیح مسلم) ہاں اس وقت مسلم لیگ ہی ایک ایسی جماعت ہے جو خالص مسلمانوں کی ہے.اس میں مسلمانوں کے سب فرتھے شامل ہیں.ہیں احمدی صاحبان بھی اپنے آپ کو ایک اسلامی

Page 53

۵۳ فرقہ جانتے ہوئے اس میں شامل ہو گئے، جس طرح کہ اہل حدیث اور حنفی اور شیعہ وغیر ہم شامل ہوئے، اور اس امر کا اقرار کہ احمدی لوگ اسلامی فرقوں میں سے ایک فرقہ ہے مولانا ابو الکلام صاحب کو بھی ہے یہ ( صفحه ۱۱۲ و ۱۱۳ ( انتخابات میں جماعت احمدیہ نے تحریک پاکستان اور سلم لیگ کی جو زبر دست تائید حمایت کی اس سے کانگرسی حلقے سخت بو کھلا اٹھے اور نیشنلسٹ اور کانگریسی علماء نے قائد اعظم پر تنقید کرتے ہوئے یہاں تک لکھا:." آج مسٹر جناح بیرسٹر کی بجائے مفتی کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں اور سر ظفر اللہ قادیانی کو جو پاکستان کے حامی ہیں مسلمان دیانتدار قرار جو دیتے ہیں اور مولانا حسین احمد صاحب مفتی کفایت اللہ صاحب جیسے عمائدین ملت کو بددیانت بے ایمان کہ دیتے ہیں.تحریک پاکستان پر ایک نظر من از ناظم جمعیت علماء مہند)

Page 54

۵۴ آٹھویں فصل سلم لیگ کی عبوری حکومت میں شمولیت کے لیے جد و جہد تحریک پاکستان کے اعتبار سے کہ لیگ کا عبوری حکومت میں شامل ہونا نار کے انتخابات کے بعد سب سے نمایاں اور سب سے اہم واقعہ ہے کیونکہ مسلم بین اس کے نتیجہ میں صرف چار پانچ ماہ کے اندر اندر پاکستان کی آئینی جنگ جیت لی اور ملک نے میں متحدہ دستور ساز اسمبل کے امکانات ختم ہو جانے پر برطانوی ورینہ اعظم مسٹر آئیں ۲۰ فروری ۱۷۴ م کو ہندوستان کی مکین آزادی کا اعلان کر دیا.اس طرح کا نگر میں کیا یہ ویر دید خوب کہ وہ سلم لیگ کو نظر انداز کر کے اپنی کثرت کے بل بوتے پر پورے ملک کے بار نظام حکومت کو چلائے گی دھرا کا دسترارہ گیا اور برطانوی حکومت کو بالا خر من البہ پاکستان کے سامنے ہتھیار ڈال دینا پڑے.مگر حقیقت یہ ہے کہ عبوری حکومت ہیں مسلم لیگ کی شرکت انتہائی مخالف اور مالوس کن حالات میں ہوئی جن میں نیا خوشگوار انقلاب حضرت امام جماعت احمدیہ مرزا بشیر الدین محمود کی دعاؤں ، اور تو حیات ہی کی برکت سے ہوا.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ پارلیمنٹری مشن نے وائسرائے ہند کے مشورہ

Page 55

00 سے ارجون سٹہ کو ملک میں ایک، عارضی حکومت کے قیام کا اعلان کیا اور مسلم لیگ اور کانگریس کے زعماء کے نام دعوت نامے جاری کئے کہ وہ اس عارضی حکومت کے رکن کی حیثیت سے یہ قومی ذمہ داری قبول کر لیں.اعلان میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ جو سیاسی جماعت عارضی حکومت میں شامل نہ ہو گی اس سے صرف نظر کر کے دوسری جماعت کے اشتراک سے عارضنی حکومت بنادی جائے گی بلے مسلم لیگ نے ایک قرارداد کے ذریعہ عبوری حکومت میں شرکت پر آماد کی ظاہر کردی مگر کانگرس نے یہ دعوت ته د کردی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد نے اس موقعہ پر بیان دیاکہ : - مشن نے اعلان کیا تھا کہ اگر عاریضی حکومت کے متعلق کسی پارٹی نے ہماری تجاویز منظور نہ کیں تو پھر ہم حکومت قائم کردیں گے اسیں اعلان کے مطابق اب اس کا فرض ہے کہ وہ کانگریس کو چھوڑ کر باقی پارٹیوں کے ساتھ عارضی حکومت قائم کر دیئے ہے گران سوس واٹر نے ہند لارڈ ولیوں نے دعوت واپس لے لی جس پر سلم لیگ، کونسل کو بھی اپنے اجلاس میٹی میں بطور احتجاج اپنی رضامندی منسوخ کرنا پڑی.وائسرائے ہند نے جو اسی موقعہ کی تاک میں تھے کانگرس سے گٹھ جوڑ کر کے پنڈت جواہرلال نہر د صدر ے قائد اعظم اور دستور ساز اسمبیل صفحه ۲۳۶ - ۲۳۹ مولفه محمد اشرف عطاء ت الفضل ۲۸ رجون ۱۹۳۳ ه صفحه ۳ کالم ٤ MATE

Page 56

191 آل انڈیا کانگریس کو عبوری حکومت کی تشکیل کی دعوت دے دی جو پنڈت جی نے فوراً منظور کرلی اور اعلان پر اعلان کرنا شروع کر دیا کہ جو ہمارے ساتھ شرکت نکرنا چاہے ہم اسے مجبور نہیں کر سکتے نہ اس کا انتظار کر سکتے ہیں ہم دستور سازی کا کام شروع کریں گے اور عبوری حکومت کو تنہا کامیابی سے چلا کر دکھا دیں گے ازاں بعد انھوں نے مانمبر ۱ کو عبوری حکومت کا چارج بھی سنبھال لیا اس طرح مسلمانوں کونظر انداز کرکے اقتدار کی پوری باگ ڈور مہندو اکثریت کو سپرد کر دی گئی اور سیانوں کی جیتی ہوئی جنگ بظا ہر شکست میں بدل گئی اورسلم لیگ کے لیے آبرومندانہ طور پر عبوری حکومت میں داخلہ کے سب راستے مسدود ہو گئے اور مسلمانانِ ہند مایوسی اور قنوطیت کے گھٹا ٹوپ بادل چھا گئے.مسلمانان ہند نے ملک بھر میں یوم احتجاج منایا اور قائد اعظم نے راست اقدام کی دھمکی دی گھر کانگریس حکومت نے جو انگریز کا واحد جانشین بننے کی خواب کو پورا ہوتے دیکھ کر نشہ میں محمور ہوچکی تھی اس دھمل کا جی بھر کہ مذاق اڑایا اور کہا کہ یہ محض گیڈر بھیکی ہے.حکومت سے ٹکر لینا آسان نہیں یہ عیش و عشرت کے خوگر بھلا جنگ ہی کہاں کر سکتے ہیں اگر لڑیں گے تو ہار جائیں گے خود حکومت بھی ان کے مقابلہ کے لیے تیار اور چوکس ہے اور : د ان نئے سرکشوں اور باغیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر سے گی بی اس تاریک ترین دور میں جبکہ نہ صرف مسلم لیگ کا وقار معرض خط میں پڑ گیا بلکہ تحریک پاکستان کا خاتمہ اور مسلمانوں کی تباہی اور یہ بادی کا منظر آنکھوں کے سامنے نے قائداعظم اور ان کا عمدہ صفحہ ۳۹ ۷ - ۴۰ ۷ f

Page 57

۵۷ ۱۹۴۶ じ پھرنے لگا.اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت امام جماعت احمد به کو خبر دی گئی کہ اس شکل مرحلے کا حل آپ کے ساتھ بھی والبتہ ہے، چنانچہ آپ بعض مدام سمیت ۲۳ ر تمہبر ۱۹۴۷ء سے لیکر ۱۴ اکتوبر شاہ تک دلّی میں تشریف فرما رہے اور قائد اعظم محمد علی جناح ، نواب صاحب بھوپال، خواجہ ناظم الدین ، سردار عبدالرب صاحب نشتر ، نواب سراحمد سعید خاں چھتاری کے علاوہ مسٹر گاندھی اور پنڈت جواہر لال نمرد سے بھی تبادلہ خیال کیا.وائسرائے ہند لارڈ ویول کو چٹھی بھجوائی کہ جماعت احمدیہ ایک تبلیغی جماعت ہے مگر موجودہ سیاسی بحران میں اس کی اصول ہمدردی تمام تر سلم لیگ کے ساتھ ہے.ایک دوسری چٹھی میں اُن پر واضح کیا کہ اگر مسلم لیگ اور کانگریس اگرمسلم کی گفت و شنید ناکام ہوتی نظر آئے تو اسے التواء کی صورت قرار دیا جائے " دونوں سیاسی حلقے مزید غور کر سکیں.حضرت مصلح موعوضو کی دعاؤں اور مادی تدابیر نے بالآخر کامیابی کی راہ کھول دی.وائسرائے ہند نے یہ معمہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور مسلم لیگ ہائی کمان نے نہایت درجہ فہم و فراست کا ثبوت دیتے ہوئے ارکانگریس سے جھونہ کئے بغیر عبوری حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ کرلیا اور اکتوبر کو اس کی اطلاع بھی وائسرائے ہند اری می بینید انتہائی غیر موافق اور خلاف توقع حالات میں ہوا اس لیے اُس نے کانگریس کے معنوں میں کھلی مچادی اور انہیں بھی پاکستان کی منزل صاف تقریب آتے دکھائی دینے لگی.چنانچہ ہندو اخبار" ملاپ نے صاف لفظوں میں اس رائے کا اظہار کیا :- بان سمجھتا ہوں کہ یہ جواہر لال جی اور ان کے ساتھیوں کے جوش آزادی کو تار پیڈو کرنے کا جتن ہے." ر ۱۹۴۱ حوالہ نوائے وقت: 4 ار اکتوبر ( 1 ع کالم ۳ ) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد دهم صفحه ۳۱۹ : ۳۳۱

Page 58

۵۸ تویں فصل حضر وزارت کے استعفاء کی کانیا کوشش برطانوی حکومت تمام اختیارات ہندوستان کو سپرد کر دینے کا اعلان کر چکی تھی مگر چونکہ ائیلی حکومت کے اعلان اور وزارتی مشن کے فارمولا کے مطابق انتقالِ اقتداء ابتداء صوبوں کو ہونے والا تخت اور صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ کی بجائے یو نیست وزارت قائم تھی جس کی موجودگی میں اس صوبہ کے پاکستان میں آنے کا امکان قطعی طور پر مخدوش تھا.اس لیے قائداعظم اور دوسرے تمام ذمہ دارسلم لیگی اس صورت حال بے حد مشوش تھے یہ ہے کہ قائد اعظم کے مشورے پر پنجاب کے مسلم لیگی اکابر نے مر خضر حیات نانی وزیر اعظم یونیسٹ حکومت سے مذاکرات کر چکے تھے مگر ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا تھا.اس انتہائی نازک اور پریشان کن موقع پر چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نفس نفیس لاہور تشریف لائے اور ملک خضر حیات خاں کو مخلصانہ مشورہ دیا گرد مستعفی ہوکر مسلم لیگ اور پاکستان کے لیے بستہ صاف کر دیں.چنانچہ آپ کی تحریک پر ۲ مارچ جس پر قائد اعظم کو خضر حیات وزارت سے سفی ہو م ۴۷ اور مسلمانان ہند نے جشن مسرت منایا.اخبار ٹریبیون" نے در مارچ ۱ کی اشاعت میں خبر دی کہ :

Page 59

٥٥ متر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ خضر حیات خاں صاحب نے یہ فیصلہ سہ محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے شورہ اور ہدایت کے مطابق کیا ہے.اختبار ملاپ مورخہ ۲۰ فروری شاہ لکھتا ہے : یہ ایک واضح بات ہے کہ چوہدری ظفر اللہ خاں نے خضر حیات کو مجبور کر کے اس سے استعفاء دلایا خضر حیات کا استعفا مسلم لیگ کی وزارت بننے کا پیش خیمہ تھا.اگر خضر حیات کی وزارت نہ ٹوٹتی تو آن پنجاب کی یہ حالت نہ ہوتی یہ جماعت احمدیہ کی قیام پاکستان کے تعلق میں ان سب مجاہدانہ اور سر فروشانہ خدمات پر دہلی کے اخبار ریاست نے اپنے ایک ادارتی نوٹ میں طنز آ لکھا کہ احمدی آج پاکستان کی تائید کر رہے ہیں مگر جب پاکستان قائم ہو گیا تو دوسرے مسلمان اُن کے ساتھ وہی سلوک روا رکھیں گے جو افغان حکومت نے کابل میں احمدیوں کیساتھے کیا تھا.اس پر حضرت امام جماعت احدی نے باور مٹی شاہ کو ایک پر شوکت تقریر فرمائی جس میں مختلف نقطہ ہائے نگاہ سے مطالبہ پاکستان کی معقولیت و ضرورت پر روشنی ڈالی.نیز اعلان فرمایا کہ مسلمان منظوم ہیں اور ہم تو ہر عمال مظلوموں کا ساتھ دیں گے خواد ہمیں تختہ دار پر لٹکا دیا جائے.حضور کی یہ تاریخی اور یاد گار تقریہ اور مئی ۱۹۴۷ کے الفصل میں شائع شدہ ہے.

Page 60

} دسویں فصل : - Amatur Rafiq Tahiro RABWAH باؤنڈری کمیشن میں سلم حقوق کی حفاظت کے لیے جد و جہد ر توان شدہ کو پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے لیے ایک حد بندی کمیشن کے ل کا اعلان کیا گیا.جس کی صدارت سر سیرل ریڈ کلف کو سونپی گئی سکھوں نے مطالبہ کیا کہ اگر کمیشن نے مشرقی پنجاب کی حد دریائے چناب مقرر نہ کی تو سکھ برطانوی سکیم کو ہرگز تسلیم نہیں کریں گے.باؤنڈری کمیشن نے ہمار جولائی ۱۹۴۷ء کے اجلاس میں فیصلہ کیا کہ جماعتیں کوئی میمورنڈم پیش کرنا چاہیں وہ مار جولائی تک مع چار زائد فقول اور ایسے چار نقشوں کے پیش کر دیں جن سے یہ معلوم ہو سکے کہ صوبے کی حد کسی جگہ مقرر کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے.کمیشن نے صوبہ پنجاب کے جن پندرہ اضلاع کو متنازع فیہ قرار دیا ان میں گورداسپور اور لاہور کے ضلع بھی شامل تھے حالانکہ رحجان کی برطانوی سکیم میں ان کو قطعی طور پریسلم اکثریت کا ضلع تسلیم کیا گیا تھا.کانگریس نواز علماء سائے کے الیکشن سے یہ پراپگینڈا کر رہے تھے کہ احمدی ء مسلمان نہیں اور یہ خدشہ یقینی تھا کہ ہندو یا سکھ باونڈری کمیشن کے سامنے اپنی بحث کے دوران یہ سوال اٹھا دیں گے کہ احمدی چونکہ مسلمان نہیں اس لیے ضلع گورداسپور کی

Page 61

مردم شماری میں اُن کو مسلمانوں سے الگ کر دیا جائے تو یہ ضلع لار یا غیرمسلم اکثریت کا ضلع قرار پاتا ہے اس لیے اسے مشرقی پنجاب میں آنا چاہیے.اس تشویش ناک صورت حال کے پیش نظرمسلم لیگ کی ہدایت پر جماعت احمدیہ نے مسلم لیگ کے وقت میں ایک علیحدہ محضر نامہ پیش کیا.یہ محضر نامه نهایت قیمتی بیش بہا اور مستند معلومات پر مشتمل تاریخی دستاویز ہے جو شائع شدہ ہے جس میں زبر دست دلائل سے یہ ثابت کیا گیا کہ مغربی پنجاب کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ گورداسپور کا ضلع مغربی پنجاب میں شامل ہوتا کہ دریائے بیاس کے اُس طرف جو مشرقی پنجاب کے علاقے ہیں اُن کو پاکستا پر حملہ کرنے کی کھلی چھٹی نہ مل جائے.جماعت احمدیہ کے وکیل شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ نے دوران بحث جسٹس تیجا سنگھ کے ایک سوال کے جواب میں کہا :- تمام احمدی اول سے آخر تک مسلمان ہیں اور وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کا ایک حصہ سكر سمجھتے ہیں.جماعت احمدیہ کے اس محضر نامہ اور وضاحت نے ہندوؤں اور سے کے اس خیال کو پاش پاش کر دیا کہ وہ کانگریسی علماء کے بل بوتے پر اس ضلع کو غیرمسلم اکثریت کا ضلع ثابت کر دکھائیں گے اور اگرچہ ریڈ کلف ایوارڈ اور کانگریس کے گٹھ جوڑ اور سوچے سمجھے منصوبہ کے نتیجے میں اس مسلم اکثریت کے صوبہ کی تین تحصیلوں تحصیل بٹالہ تحصیل بیٹھا نکوٹ و تحصیل گورداسپور) کو ظالمانہ طور پر ہندوستان کی جھولی میں ڈال دیا گیا.مگر ریڈ کلاف اپنی بد دیانتی اور فریب کاری کے جواز میں احمدیوں کے محضر نامہ کی وجہ سےیہ کوئی دلیل دینے کی جرات نہ کر سکا.جماعت احمدیہ نے ضلع گورداسپور اور قادیان کو پاکستان میں شامل کرنے کے لیے دن رات ایک کر کے صوبہ پنجاب اور گورداسپور کی مردم شماری کے تفصیل اعداد و شمار جمع کئے

Page 62

احمدی پروفیسر، ڈارمسٹمین اور نفتہ نویس پاکستانی حدود کے زیادہ سے زیادہ وسیع کرنے کے لیے سرتاپا جہاد بن گئے.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت نے امریکہ اور برطانیہ سے نہایت قیمتی باونڈری لٹریچر منگوایا جو بذریعہ ہوائی جہاز ہندوستان پہنچا جس کے ڈاک خرچ پر بھی ہزار روپے سے زائد رقم خرچ کرناپڑی جماعت احمدیہ نے برطانیہ کے ایک ماہر اور ممتاز جغرافیہ دان ڈاکٹر اوسٹر ایچے کے سیلیٹ ( OH-K.SPATE) کی خدمات بھی حاصل کیں جنہوں نے لندن سے ہند وستان پہنچ که باونڈری کمیشن کے دوران جماعت احمدیہ اورمسلم لیگ کے کے محضر ناموں اور بحث کی تیاری میں ہر ممکن مدد دی اور جو خاص طور مسلم لیگ کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئے.ڈاکٹر سینیٹ کے تمام اخراجات تنہا جماعت احمدیہ نے برداشت کئے.H جہاں تک مسلم لیگ کے کہیں کا تعلق ہے اس نازک ترین ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے قائد اعظم کی نظر انتخاب احمدیت کے مایہ ناز فرزند چوہدری محمد ظفر الدخان صاحب پر پڑی جیہنوں نے انتہائی مشکلات اور تیاری کے سخت ترین دقت کے باوجود مسلم اقلیت کے حقوق کی ترجمانی کا حق ادا کر دیا.آپ نے نہ صرف اپنے قلم سے سلم لیگی زعماء کے مشورہ سے محضر نامہ کا مکمل متن تیا ر کیا بنک و در جولائی سے اور جولائی ۱۹۴۶ اینک در بند می کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کا نقطہ نگاہ غیر معمولی قابلیت سے نمایاں کر دکھایا.آپ کی فاضلانہ اور مدیل سخت ریڈ کلف ایوارڈ کے ریکارڈ میں محفوظ ہے.۲۶ باونڈری کمیشن کے اختتام پر جناب حمید نظامی نے اپنی اختیار نوائے وقت لاہور ! k :

Page 63

کی کیمیہ اگست ۱۹۴۷ء کی اشاعت میں چوہدری صاحب کی اس فقید المثال تندرست کو سراہتے ہوئے لکھا:.حد بندی کمیشن کا اجلاس ہوا.سنسر کی پابندیوں کی وجہ سے ہم نہ اجلاس کی کارروائی چھاپ سکے نہ اب اس پر تبصرہ ہی ممکن ہے کمیشن کا اجلاس دو دن جاری رہا.ساڑھے پیار وان مسلمانوں کی طرف سے بحث کے لیے مخصوص رہے مسلمانوں کے وقت میں سے ہی اُن کے دوسرے حامیوں کو بھی وقت دیا گیا.اس حساب سے کوئی پیار دن سر محمد ظفراللہ خاں صاحب نے مسلمانوں کی طرف سے نہایت مدلل، ضایت فاضلانہ اور نہایت معقول بہت کی کامیابی بحث بخشنا خدا کے ہاتھ میں ہے مگر میں خونی اور قابلیت کے ساتھ سرمحمد ظفر اللہ خاں صاحب نے مسلمانوں کا کھیں پیش کیا اس سے مسلمانوں کو اتنا اطمینان ضرور ہو گیا کہ لہ یہ قطعی شہادت اس امر پر ہے کہ احمدیوں نے سمبورنڈم مسلم لیگ کی حمایت کے لیے پیش ه کیا تھا.

Page 64

۶۴ اُن کی طرف سے حق و انصاف کی بات نہایت مناسب اور احسن طریقہ سے ارباب اختیار تک پہنچا دی گئی ہے سر ظفر اللہ خان صاحب کو کھیس کی تیاری کے لیے بہت کم وقت ملا.مگر اپنے خلوص اور قابلیت کے باعث انہوں نے اپنا فرض بڑی خوبی کے ساتھ ادا کیا ہمیں یقین ہے کہ پنجاب کے سارے مسلمان بلالحاظ عقیدہ اُن کے اس کام کئے معترف اور شکر گزار ہوں گئے ؟ اخبار نوائے وقت لاہور نے ۲۴ اگست ۴ مہ کی اشاعت میں حسب.ویل نوٹ میں لکھا :.جب قائد اعظم نے یہ چاہا کہ آپ پنجاب باونڈری کمیشن کے سامنے مسلمانوں کے وکیل کی حیثیت سے پیش ہوں تو ظفر اللہ خاں نے فوراً یہ خدمت سر انجام دینے کی حامی بھری ---- اور اُسے ایسی قالبیت سے سرانجام دیا کہ قائد اعظم نے خوش ہوکر آپ کو یو.این.او

Page 65

۶۵ یاتھا میں پاکستانی وفد کا قائد مقرر کر دیا.جس طرح آپ نے مت کی وکالت کا حق ادا کیا تھا اس سے آپ کا نام پاکستان کے قابل احترام خادموں میں شامل ہو چکا تھا آپ نے ملک و ملت کی شاندار خدمات سرانجام دیں تو قائد اعظم نہیں حکومت پاکستان کے اس عہد سے پر فائز کرنے پر تیار ہو گئے جو باعتبار منصب وزیر اعظم کے بعد سب سے اہم اور وقیع عہدہ شمار ہوتا ہے.علاوہ اندین جسٹس محمد منیر صاحب نے جو ریڈ کلف ایوارڈ میں مسلمانوں کی طرف سے ۱۹۵۲ متاز رکن اور فسادات پنجاب شہ کی تحقیقاتی عدالت کے صدر تھے اپنی عدالتی رپورٹ میں لکھا:.عدالت ہذا کا صدر جو اس (باونڈری کمیشن کا مبر تھا اس بہادرانہ جدوجہد پر تشکر و امتنان کا اظہار کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے جو چو ہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے گورداسپور کے معام میں کی تھی یہ حقیقت باونڈری کمیشن کے

Page 66

کا غذات میں ظاہر وباہر ہے اور جس شخص کو اس مسئلہ سے دی پی ہو وہ شوق سے اس ریکارڈ کا معائنہ کرسکتا ہے دلچسپی چوہدری ظفر اللہ خاں نے مسلمانوں کی نہایت بے غرضانہ خدمات انجام دیں.ان کے باوجود بعض جماعتوں نے مالتی تحقیقات میں اُن کا ذکر میں انداز میں کیا ہے وہ قابل شرم ناشکرے پن کا ثبوت ہے.رپورٹ عدالتی تحقیقات صفر ۱۹) اس قابل شرم ناشکرے پن کا مظاہرہ کرنے والوں میں احراری طائفہ کے سرفہرست تھا جو تحریک پاکستان مسلمانان پاکستان اور قائد اعظم کا ازلی دشمن کانگرس کا ایجنٹ اور تقسیم پنجابکے معامہ میں ریڈ کلف ایوارڈ اور کانگریس کے ساتھ برابر کے ذمہ دار تھا اور احمدیوں کو تحریک پاکستان کی اٹھاون سالہ سنہری اور عدیم المثال خدمات ی سزا دلوانے اور ساتھ ہی ختم نبوت کے نام پر در پرده ختم پکستان کی تحریک چلا رہا تھا کیونکہ امیر شریعت کی نگاہ میں " پاکستان ایک بازاری عورت ہے جس کو ادرار نے مجبوراً قبول کیا ہے یا شہ تو ۲۰۹ له ندار کے بینکسی مودودی صاحب کے نزدیک بنگال پنجاب کی تقسیم در سرحدوں کی تعین کیلئے ریڈ کلاف یوارڈ کی نالی کے اصل ذمہ دارانہ نظم اوران کے سل می رفقاء میں ان کا یہ ہی کہا ہے کہ اسی قیادت کی ما غلطیاں اس سے بہت زیادہ ہیں کہ چند سطروں میںانہیں شمار کیا جاسکے.ترجمان القرون خون شده است رپوٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ شد اردو ۳۷۵ )

Page 67

حراری پاکستان کے مشہور و متاز صحافی میاں محمد شفیع صاحب مدیر اقدام کا بود اما من مصر کی پاکستان شان سرگرمیوں اور اس کے خون کی تاریخ پر پانی ڈالتے ہوئے نہایت تیم را فعل میں میتھیں محاط مجلس احرار اسلام میں میں شاہ صاحب ایک گرم اور تڑپتے ہوئے دل کی حیثیت رکھتے تھے اجتہادی غلطی کا شکار ہو گئے اور تحریک پاکستان کا ہراول دستہ بننے کی بجائے سیاسی پھیل بھوسوں میں گرفتار ہو گئے اگر اس وقت مسلم لیگ کو احرار اسلام ایسی فعال جهتہ بند اور جاندار جماعت کی تائید حاصل ہوگئی ہوتی تو کم ازکم پنجاب کی شہ رگ کے قریب سے تقسیم نہ ہوتی خارجی نام مولفه ند بریاری) شاهچی صدا.حضرت قائد اعظم وسین نوسنگی رواداری محبت اور شفقت کے مجسمہ اور فراخدلی او عضو کے پیگیر تھے مگر آپ نے پاکستان کے غداروں کا یہ شرمناک جرم رئیس نے ربع صدی سے بر صغیر کے کروڑوں مسلمانوں کیلئے بیشمار مسائل پیدا کر ڈالے ہیں ، عمر بھر معاف نہیں کیا جس کا اعتراف احراری شریعیت کے امیر سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو بھی ہے چنانچہ آپ نے ایک بار تو ہی بتایا کہ : میں نے قائد اعظم کے بوٹ پر اپنی ڈاڑھی رکھی پرواہ نہ بسیج " آزاد هم در تنومبر ۱۹۹۹ ) 1

Page 68

گیار نوین فصل قیام پاکستان اور حضرت امام جماعت احمدیہ د کار شوکت بیان الحمد للہ مسلم لیگ اور جی جماعت احمدیہ کی متحد د گوشت میں بالآخر جناب اما قبول ہوئی بودنم در پاکستان احمد کو پاک کو پاکستان دنیا کے اسلام کے افق پر ستارہ بن کر نمودار ہوگیا لگے جس طرح جما است حیات الی بیت بر صغیر کے دوسرے تمام مسلمان فرقوں سے بڑھکر قیام پاکستان کی جدو جہد میں حصہ لیا تھی.اسی طرح قیام پاکستان پر کانگریس اور انگریز کی ظالمانہ اور انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بھی سب سے بڑھ کر اسی کو بننا پڑا.بعد اسے جلد پاکستان کی بھی قیمت ادا کرنا پٹری یعنی کہ اس کا منسوب کرنے قادیان حسین پر ملک کے اسلام دشمن طبقوں کی باتوں سے نظر تھی پاکستان ہے.بدا کر دیا گیا ہوں قلعیان اور شرقی پنجاب کے ہزاروں احمدیوں کے علاوہ انہیروں کے رستگار ملت اسلامیہ کے کیل جلیل اور تحریک پاکستان کے عظیم جرنیل سید نا امنا و مرشد نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کو بھی ہجرت کر کے پاکستان آنا پڑا.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد جن کی قیادت میں جماعت احمدیہ نے تحریک پاکستان کی بے لوث اور مسلسل جنگ لڑی تھی پاکستان پہنچ کر اُن عموں کو بھول گئے جو

Page 69

ہندوستان میں جماعت احمدیہ اور آپ کو پیش آئے.اس لیے کہ آپ کا مکان گو آپ کے ہاتھ سے جاتا رہا گر آپ کے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکان مل گیا اور آپ کے مقدس نام پر ایک عظیم الشان اسلامی مملکت قائم ہوگئی جس نے مسلمانوں کے لیے ترقی کے وسیع دروازہ سے کھول دیئے اور ایک بین الاقوامی اسلامتتان کی بنیا د رکندی چنانچہ آپ نے پاکستان میں پہنچ کر یہ پر شوکت اعلان فرمایا :- پاکستان کا مسلمانوں کو مل جاتا اس لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ اب مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سانس لینے کا موقعہ میتر آگیا ہے اور وہ آزادی کیساتھے ترقی کی دوڑ میں حصہ لے سکتے ہیں.اب اُن کے سامنے ترقی کے اتنے غیر محدود ذرائع ہیں کہ اگر وہ اُن کو اختیار کریں تو دنیا کی کوئی قوم اُن کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکتی اور پاکستان کا مستقبل نہایت ہی شاندار ہو سکتا ہے.مگر پھر بھی پاکستان ایک چھوٹی چیز ہے.ہمیں اپنا قدم اس سے آگے بڑھانا چاہیئے اور پاکستان کو اسلامستان کی بنیاد بنانا چاہیے.بیشک پاکستان بھی ایک اہم چیز ہے بیشک

Page 70

I.عرب بھی ایک اہم چیز ہے بیشک حجاز بھی ایک اہم چیز ہے.بیشک مصر بھی ایک اہم چیز ہے.بیشک ایران بھی ایک اہم چیز ہے.مگر پاکستان اور عرب اور حجاز اور دوست اسلامی ممالک کی ترقیات صرف پہلا قدم نہیں اصل اصل چیز دنیا میں اسلامستان کا قیام ہے ہم نے پھر سے مسلمانوں کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنا ہے.ہم نے پھر اسلام.کا جھنڈا دنیا کے تمام ممالک میں اہرانا ہے.ہم نے پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام عزت اور آبرو کے ساتھ دنیا کے کونے کونے میں پہنچانا ہے نہیں پکستان کے جھنڈ سے بلند ہونے پر بھی خوشی ہوتی ہے ہمیں مصر کے جھنڈے ملین ہونے پر بھی خوشی ہوتی ہے ہمیں عرب کے جھنڈے بند ہونے پر بھی خوشی ہوتی ہے.ہمیں ایران کے جھنڈے بلند ہونے پر بھی خوشی ہوتی ہے، مگر تمہیں حقیقی خوشی تب ہوگی جب سارے ملک آپس میں اتحاد

Page 71

41 کرتے ہوئے اسلامستان کی بنیا درکھیں.ہم نے اسلام کو اس کی پرانی شرکت پر قائم کرتا ہے.ہم نے خدا تعالیٰ کی حکومت دنیا میں قائم کرنی ہے.ہم نے عدل اور انصاف کو دنیا میں قائم کرنا ہے اور ہم نے عدل وانصا پر مبنی پاکستان کو اسلامک یونین کی پہلی سیڑھی بنانا ہے یہی اسلامستان ہے جو دنیا میں حقیقی امن قائم کرے گا ور سہر ایک کو اس کا حق دلائیگا.جہاں روس اور امریکیہ فیل ہوا صرف مکہ اور مدینہ ہی انشاء اللہ کا میاب اور ہوں گے: 1904 ) الفصل ۲۳ مارچ ۱۹۵۶ منتش) فیا نے الا سلام کہ کیا یہ چودہ

Page 71