Language: UR
جماعت احمدیہ مسلمانان عالم کی خادم جماعت ہے جس کی تاریخ دینی اور ملی کارناموں سے بھری پڑی ہے۔ خصوصاً تحریک پاکستان کے ملی جہاد میں اس نے جو عظیم الشان خدمات سرانجام دی ہیں وہ ہمیشہ سنہری حروف سے لکھی جائیں گی۔ مگر افسوس کہ وہ کانگریسی اور احراری علماء جو ہمیشہ تحریک پاکستان کے مخالف رہے وہ جماعت کی روز افزوں ترقیات سے خوف زدہ ہوکر اور اپنی سیاسی وسماجی دوکانداری کو مٹتا ہوا دیکھ کر نہایت بے دردی کے ساتھ اصل حقائق کو مسخ کرکے یہ پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں کہ احمدی قیام پاکستان کے مخالف تھے، حالانکہ یہ بات حقائق سے سراسر منافی ہے۔ مولانا دوست محمد شاہد کی مرتب کردہ اس مختصر کتاب کا مطالعہ مخالفین کے ناپاک اور ظالمانہ پروپیگنڈا کی قلعی کھولنےکے لئے کافی ہوگا۔ ایڈیشنل نظارت اشاعت و وکالت تصنیف کی طرف سے لندن سے شائع کئے جانے والے اس مختصر کتابچہ سے یہ اندازہ لگانا نہایت سہل ہوجائے گا کہ قیام پاکستان میں جماعت احمدیہ کاکردار کتنا عظیم اور فقید المثال تھا۔
تحریک پاکستان اور جماعت احمدية محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد مؤرخ احمدیت
عرض ناشر جماعت احمدی کا مسلمانان عالم کی خادم جماعت ہے جس کی تاریخ دینی اور بلی کارناموں سے بھری ہوئی ہے.خصوصاً تحریک پاکستان کے بھی جہاد میں اس نے جو عظیم خدمات سرانجام دی ہیں وہ ہمیشہ سنہری حروف سے لکھتی جائیں گی.مگر افسوس وہ کانگریسی اور احراری علماء جو ہمیشہ تحریک پاکستان کے مخالف رہے اور جنہیں قائد اعظم نے " کانگریس کے سدھائے ہوئے پرندے “ قرار دیا تھا ان دنوں نہائت بے دردی کے ساتھ اصل حقائق کو مسخ کر کے یہ پراپگینڈہ کرنے میں سرگرم عمل ہیں کہ احمدی قیام پاکستان کے مخالف تھے حالانکہ یہ سراسر خلاف واقعہ بات ہے ہمیں یقین ہے کہ یہ مختصر رسالہ اس ناپاک اور ظالمانہ پراپیگنڈا کی قلعی کھولنے کیلئے کافی ہوگا اور معزز قارئین اس سے بآسانی اندازہ لگا سکیں گے کہ تحریک پاکستان میں جماعت احمدیہ کا کردار کتنا عظیم اور فقید المثال ہے.وہ اہل علم اور محقق حضرات جو مزید تفصیلات معلوم کرنا چاھیں ان سے ہم درخواست کریں گے کہ وہ فاضل مؤلف کی کتاب "تاریخ احمدیت جوار قسم کا ضرور مطالعہ فرمائیں.مبارک احمد ساقی یڈیشنل انظر اشاعت و وکیل التصنيف الندن
بسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّى عَـ لى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ س قائد اعظم کی لنڈن سے ایسی کیلئے تحریک I قائد اعظم محمد علی جناح ہندو ذہنیت اور کانگرس میں شامل علماء کے مسلم کش رویہ سے گول میز کانفرنس کے دوران ہی سخت مایوس ہو گئے اور ہندوستان کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہنے کا فیصلہ کر کے انگلستان میں رہائش اختیار کر لی.قائد اعظم خود اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :.میں حیران ہوں کہ میری ملی خود داری اور وقار کو کیا ہو گیا تھا میں کانگرس سے صلح و مفاہمت کی بھیک مانگا کرتا تھا.میں نے اس مسئلہ کے حل کے لئے اتنی مسلسل اور غیر منقطع مساعی کیں کہ ایک انگریز اخبار نے لکھا مسٹر جناح ہند و مسلم اتحاد کے مسئلہ سے کبھی نہیں تھکتے.لیکن گول میز کانفرنس کے زمانہ میں مجھے اپنی زندگی کا سب سے بڑا صدمہ پہنچا.جیسے ہی خطرہ کے آثار نمایاں ہوئے ہندویت دل و دماغ کے اعتبار سے اس طرح نمایاں ہوئی کہ اتحاد کا امکان ہی ختم ہوگیا.اب میں مایوس ہو چکا تھا مسلمان بے سہارا اور ڈانوائی ول ہو رہے تھے کبھی حکومت کے وفادار ان رہنمائی کے لئے میدان میں آموجود ہوتے تھے کبھی کانگریس کے نیاز مندان خصوصی ان کی قیادت کا فرض ادا کرنے لگتے تھے.مجھے اب ایسامحسوس
ہونے لگا کہ میں ہندوستان کی کوئی مدد نہیں کر سکتانہ ہندو ذہنیت میں کوئی خوشگوار تبدیلی کر سکتا ہوں نہ مسلمانوں کی آنکھیں کھول سکتا ہوں.آخر میں نے لندن ہی میں بودو باش کا فیصلہ کر لیا." قائد اعظم اور ان کا عہد صفحہ ۱۹۱-۱۹۲ مؤلفہ مولانا نیس احمد جعفری ) قائد اعظم کے اس فیصلہ سے کانگریسی ہندو اور کانگرس نو از مسلمانوں کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانانہ تھا مگر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ کا درد مند دل اس صورتحال کو دیکھ کر تڑپ اُٹھا کہ مسلمانان ہند اپنے ایک محبوب سیاسی لیڈر کی براہ راست قیادت سے محروم ہو گئے ہیں اور مسلم سیاست پر وہ لوگ مسلط ہو رہے ہیں جو مسٹر گاندھی کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں.اس مرحلہ پر حضور نے مبلغ انگلستان مولانا عبدالرحیم صاحب درد کو ہدایت فرمائی کہ وہ قائد اعظم کو واپس ہندوستان آنے اور مسلمانان ہند کی سیاسی قیادت سنبھالنے کی تحریک کریں چنانچہ مولانا در دنے مارچ ۱۹۳۳ء میں اُن کے دفتر واقع کنگز پہنچ والو لنڈن میں آپ سے ملاقات کی اور تین گھنٹوں کی بحث و تمحیص کے بعد آمادہ کر لیا کہ و مسلمانان ہند کی خدمت کے لئے پھر پبلک میں آئیں نیز بیت الفضل ۶۳ میلروز روڈ لنڈن میں ہندوستان کا مستقبل “ کے موضوع KING'S BENCH WALK LONDON پر لیکچر دینے کے لئے بھی رضامند ہو گئے.قائد اعظم نے اپنی تقریر کا آغاز ان الفاظ سے کیا کہ :- "THE ELOQUENT PERSUASION OF THE IMAM LEFT ME NO ESCAPE".امام صاحب لی یچ و بیع رجیب سے میرے لئے کوئی راہ بچنے کی نہیں چھوڑی.یہ تقریر برطانوی اور ہندوستانی پریس کی خاص توجہ کا مرکز بنی اور چوٹی کے اخبارات میں اسکی وسیع اشاعت ہوئی مثلاً :- (1) MADRAS MAIL 7TH APRIL 1933.(2) HINDU MADRAS 7TH APRIL 1933..
(3) EVENING STANDARD 7TH APRIL 1933.(4) EGYPTIAN GAZETTE ALEXANDRIA WEST AFRICA 15TH APRIL 1933.(5) STATESMAN CALCUTTA 8TH APRIL 1933.(6) SUNDAY TIMES LONDON 9TH APRIL 1933.اس تقریر پر نواب زادہ لیاقت علی خاں اور اُن کی بیگم قائد اعظم کی خدمت میں لنڈن پہنچے.آپ انگلستان کو خیر باد کہ کر واپس ہندوستان تشریف لے گئے اور پھر آپ کی قیادت میں چند سال کی جدو جہد کے بعد پاکستان معرض وجود میں آگیا.چنانچہ پاکستان کے بزرگ صحافی اور تحریک پاکستان کے ممتاز لیڈر جناب میاں محمد شفیع (م) بش ) تحریر فرماتے ہیں :- "SO DISGUSTED WAS MR.JINNAH WITH WASHING OF THE DIRTY LINEN INDIAN POLITICS IN PUBLIC BY THE LEADERS OF INDIAN PUBLIC OPINION THAT HE DECIDED TO RETIRE FROM INDIAN POLITICS AND IN TOKEN THEREOF TOOK HIS ABODE IN LONDON---ALMOST PERMANENTLY.IT WAS MR.LIAQUAT ALI KHAN AND MAULANA ABDUR RAHIM DARD, AN IMAM OF LONDON MOSQUE, WHO PERSUADED MR.M.A.JINNAH TO CHANGE HIS MIND AND RETURN HOME TO PLAY HIS ROLE IN THE NATIONAL POLITICS.CONSEQUENTLY, MR.JINNAH RETURNED TO INDIA IN 1934 AND WAS ELECTED TO THE CENTRAL ASSEMBLY, UNOPPOSED.' It ترجمہ :.مسٹر جناح ہندوستان کی گندی سیاست سے اِس قدر بد دل ہو گئے اور رائے عام کے ہندوستانی لیڈروں سے اتنے سیاست مہ خاطر ہوئے کہ انہوں نے ہندوستا سے ریٹائر ہونے کا فیصلہ کر لیا اور اس علامت کے طور پر انہوں نے لندن میں قریباً ہمیشہ کے لئے قیام کر لیا.یہ مسٹر لیاقت علی خان اور مولانا عبد الرحیم در و امام لندن ہی تھے جنہوں نے مسٹر محمد علی جناح پر زور دیا کہ وہ اپنا ارادہ بدلیں اور وطن واپس آکر قومی سیاست میں اپنا کردارادا کریں.اس کے نتیجہ میں مسٹر جناح ۱۹۳ ء میں ہندوستان واپس آئے اور مرکزی اسمبلی کے انتخاب میں بلا مقابلہ منتخب ہوئے.پاکستان ٹائمز ا استمبر صفحہ ۲ کالم را سپلیمینٹ)
۱۹۴۵ انتخابات کے دوران کلم لیگ کی پر جوش حمایت قائد اعظم کی قیادت کا اہم ترین واقعہ قرار داد پاکستان ہے جو ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو لاہور میں پاس ہوئی.اس قرار داد کے بعد سر سٹیفورڈ کر پس ہندوستان آئے اور ہندوستان کی آزادی کا ایک جدید فارمولا پیش کیا جسے سلم لیگ اور کانگرس دونوں نے مسترد کر دیا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان کی آزادی قطعی محال اور بالکل ناممکن دکھائی دینے لگی بھین اس تاریک اور گھٹاٹوپ ماحول میں حضرت امام جماعت احمدیہ نے ۱۲ جنوری ۱۹۳۷ء کو ایک خطبہ جمعہ کے ذریعہ انگلستان اور ہندوستان دونوں کو مفاہمت و مصالحت کی دعوت دی.( الفضل ۱۷ جنوری ۶۱۹۴۵ ) G اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کی زبان کو بسا اوقات اپنی زبان بنا لیتا ہے.یہی صورتِ حال یہاں ہوئی.آپ کے خطبہ کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے خود بخود یہ سامان پیدا کر دیا کہ چوہدری محمد ظفر اللہ خان کو جو ان دنوں فیڈرل کورٹ آف انڈیا کے حج تھے کامن ویلتھ ریلیشنز کا نفرنس میں ہندوستانی وفد کے قائد کی حیثیت سے انگلستان جانا پڑا جہاں آپ نے سرکاری نمائندہ ہونے کے باوجود انگلستان کے سامنے ہندستان کی آزادی کا مطالبہ ایسے زور دار اور پر شوکت و قوت الفاظ میں رکھا کہ دنیا بھر میں تہلکہ مچ گیا اور انگلستان کے سر بر آوردہ اخبارات کے علاوہ ہندوستان کے مسلم وغیرمسلم پوری نے بھی اس پر بکثرت تعریفی مضامین لکھے چنانچہ اخبار انقلاب نے " سر ظفر اللہ خان کی صاف گوئی“ کے عنوان سے لکھا :." چوہدری سرمحمد ظفر اللہ خان نے کامن ویلتھ کی کانفرنس منعقدہ لندن میں جو تقریر فرمائی وہ ہر انگریز اور اتحادی ملکوں کے ہر فرد کے لئے دلی توجہ کی مستحق ہے.کیا اس ستم ظریفی کی کوئی مثال مل سکتی ہے کہ جس ہندوستان کے پچیس لاکھ بہا در مختلف جنگی میدانوں میں جمعیتہ اقوام برطانیہ کی آزادی کو ملحوظ رکھنے کی خاطر لڑ رہے ہیں وہ خود آزادی سے محروم
ہے.د انقلاب ۲۲ فروری ۶۱۹۴۵ ) حیدر آباد دکن کے روزنامہ پایم (۲۲ فروری ۶۱۹۴۵ ) نے لکھا :- سر ظفر اللہ کی آواز میں ایک گرج ہے ایک دھما کا ہے جس کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے یا هند و اخبار پر جبهات (۲۰ فروری ۶۱۹۲۵ ) نے یہ نوٹ شائع کیا :- " ایک ایک ہندوستانی کو سر ظفر اللہ خان کا ممنون ہونا چاہیے کہ انہوں نے انگریزوں کے گھر جا کر حق کی بات کہہ دی یا اخبار پرتآپ (۲۲ فروری ۶۱۹۴۵ ) نے لکھا :.ہندوستان کے فیڈرل کورٹ کے بج سر ظفر اللہ خاں آج کل لنڈن گئے ہوئے ہیں.آپ کامن ویلتھ ریلیشنز کانفرنس میں ہندوستانی ڈیلی گیشن کے لیڈر ہیں.لنڈن میں آپ نے جو تقریریں کی ہیں ان سے ہندوستان تو کیا ساری کامن ویلتھ میں تہلکہ مچ گیا ہے......آپ نے برطانوی حکمرانوں کو وہ کھری کھری سنائیں کہ سُننے والے دنگ رہ گئے.برطانوی حکومت کے جنوں تنخواہ دار ایجنٹوں کے کئے کرائے پر آپ کی تقریر نے پانی پھیر دیار" چوہدری صاحب کی ان حریت پرور اور انقلاب انگیز تقریروں کا فوری اثر برطانیہ کے عوامی اور صحافتی حلقوں سے بڑھ کر براہ راست برطانوی حکومت پر یہ ہوا کہ اس نے لارڈ ویول وائسرائے ہند کو كو نتقال اقدار کا نیا فارمولا تجویز کرنےاورمسلم و غیرمسلم زعاء و مصالحت کی پیشکش کرنے کے لئے لندن طلب کا کر لیا.لارڈ ویول برطانوی وزیر اعظم میٹر چرچل اور کابینہ کے دوسرے ارکان سے مشورہ کے بعد ہ جون کو نئی تجاویز لے کر ہندوستان میں پہنچے گئے.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد نے ۲۲ جون ۱۹۴۵ء کے خطبہ جمعہ میں مسلمان اور ہندو لیڈروں کو نہایت درد دل کے ساتھ یہ پیغام دیا کہ انگلستان صلح کے لئے ہاتھ بڑھا رہا ہے.دوسو سال سے ہندوستان
غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے وہ اس کریں حضور کا یہ کیش کو قبول کر کے آئندہ نسلوں پر احسانِ علی خطبہ جمعہ اور اس کا انگریزی ترجمہ دونوں ہندوستانی لیڈروں تک پہنچا دیا گیا.! مشہور اہلحدیث عالم جناب مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے اخبار اہلحدیث میں اس خطبہ کے بعض اقتباسات دے کر یہ تبصرہ فرمایا : " یہ الفاظ کس جرات اور حیرت کا ثبوت دے رہے ہیں.کانگرسی تقریروں میں اس سے زیادہ نہیں ملتے.چالیس کروڑ ہندوستانیوں کو غلامی سے آزاد کرانے کا ولولہ جس قدر خلیفہ جی کی اس تقریر میں پایا جاتا ہے وہ گاندھی جی کی تقریر میں بھی نہیں ملے گا " (المحدیث امرتسر ۶ جولائی ۶۱۹۳۵ مت) سیاسی لیڈروں کی کانفرنس ۲۵ جون سے لے کر ۱۶ جولائی ۱۹۴۵ء تک جاری رہی.قائد اعظم محمدعلی جناح صدر آل انڈیا مسلم لیگ نے انتہائی کوشش کی کہ کسی طرح کانگرسی لیڈر لا ہور ریزولیوشن کے مطابق مسلمانوں کے حق خود ارادیت کی گارنٹی دیں اور ملک میں ایک عارضی قومی حکومت قائم ہو جائے مگر کانگرس اس پر آمادہ ہونے کے لئے تیار نہ ہوئی.قائد اعظم کی طرح حضرت امام جماعت احمدیہ کا بھی خیال تھا کہ اگر ہند و کانگرس مسلمانوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرلے تو ملک میں ایک قومی حکومت قائم ہوسکتی ہے.الفضل ۲۲ اکتوبر ۶۱۹۴۵ ص ) د المختصر جب مفاہمت کی کوئی صورت باقی نہ رہی تو وائسرائے ہند لارڈ ویول نے 19 ستمبر ۱۹۲۵ء کو ملک میں نئے انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا.اس پر قائد اعظم محمدعلی جناح نے مسلمانان ہند کے نام پیغام دیا :- را " ہمارے پیش نظر اہم مسئلہ آئندہ انتخابات کا ہے موجو دہ حالات میں انتخابات کو خاص اہمیت حاصل ہے.انتخابات ہمارے لئے ایک آزمائش کی صورت رکھتے ہیں......ہم
رائے دہندگان کی اِس امر کے بارے میں رائے دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ کیا وہ پاکستان چاہتے ہیں یا ہندو راج کے ماتحت رہنا چاہتے ہیں...مجھے معلوم ہے کہ ہمارے خلاف بعض طاقتیں کام کر رہی ہیں اور کانگرس ارادہ کئے بیٹھی ہے کہ ہماری صفوں کو ان مسلمانوں کی امداد سے پریشان کر دیا جائے جو ہمارے ساتھ نہیں ہیں.مجھے افسوس ہے کہ وہ مسلمان ہمارے ساتھ نہیں ہیں بلکہ ہمارے دشمنوں کے ساتھ ہیں.یہ سلمان ہمارے خلاف مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے کام میں بطور کارندے استعمال کئے جارہے ہیں.یہ سلمان سدھائے ہوئے پرندے ہیں.یہ صرف شکل و صورت کے اعتبار سے ہی مسلمان ہیں " اخبار انقلاب لاہور ۱۸ اکتوبر ۶۱۹۴۵ مث ) قائد اعظم کی یہ بات سو فیصدی درست نکلی.کانگرس نے اپنے زرخرید علماء کو تحریک پاکستان مسلم لیگ اور قائد اعظم کے خلاف پروپیگنڈا کے لئے پورے ملک میں پھیلا دیا.جہاں قائد اعظم کی اصطلاح کے مطابق) کانگریس کے سدھائے ہوئے علماء نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ مرکزی اور صوبائی انتخابات کے ذریعہ تحریک کا نام و نشان تک مٹا ڈالیں وہاں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ نے ۲۲ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو ایک مفصل مضمون میں اعلان کر دیا کہ :- "آئندہ الیکشنوں میں ہر احمدی کو مسلم لیگ کی تائید کرنی چاہئیے تا انتخابات کے بعد مسلم لیگ بلاخوف تردید کانگرس سے یہ کہہ سکے کہ وہ مسلمانوں کی نمائندہ ہے.اگر ہم اور دوسری (مذہبی) جماعتیں ایسانہ کریں گی تو مسلمانوں کی سیاسی حیثیت کمزور ہو جائے گی اور ہندوستان کے آئندہ نظام میں ان کی آواز بے اثر ثابت ہوگی اور ایسا سیاسی اور اقتصادی دھتکا مسلمانوں کو لگے گا کہ اور چالیس سال تک ان کا سنبھلنا مشکل ہو جائے گا اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی عقلمند اس حالت کی ذمہ داری اپنے پرلینے کو تیار ہو (افضل ۲۲ اکتوبر ۶۱۹۲۵ مت) ہویا ص
١٠ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ اس جماعتی پالیسی کے اعلان سے قبل اپنے ایک خط میں بھی مسلم لیگ کی تائید میں ہدایت جاری فرما چکے تھے.اس خط کی نقل قائد اعظم محمد علی جناح کی خدمت میں بھیجوائی گئی تو آپ نے امام جماعت احمدیہ کے اس فیصلہ پر خوشی و مسرت کا اظہار فرمایا اور امام جماعت احمدیہ کے الفاظ پریس میں بغرض اشاعت بھجوا دئیے جو ایسوسی ایٹڈ پریس آف انڈیا کے حوالے سے مسلم اخبار ڈان (دہلی) نے اپنی در اکتوبر ۱۹۴۵ ء کی اشاعت میں چھاپے.مسلم لیگ کی عبوری حکومت میں شمولیت کیلئے جد و جہد - تحریک پاکستان کے اعتبار سے مسلم لیگ کا عبوری حکومت میں شامل ہونا.۴.۱۹۳۵ء کے انتخابات لمہ کے بعد سب سے نمایاں اور سب سے اہم واقعہ ہے کیونکہ مسلم لیگ نے اس کے نتیجہ میں صرف چار پانچ ماہ کے اندر اندر پاکستان کی آئینی جنگ جیت لی اور ملک میں متحدہ دستور ساز اسمبلی کے امکانات ختم ہو جانے پر برطانوی وزیر اعظم مسٹرائیلی نے ۲۰ فروری ۱۹۴۷ء کو ہندوستان کی مکمل آزادی کا اعلان کر دیا.اس طرح کانگریس کا یہ دیرینہ خواب کہ وہ مسلم لیگ کو نظر انداز کر کے اپنی کثرت کے بل بوتے پر پورے ملک کے نظام حکومت کو چلائے گی دھرا کا دھرا رہ گیا اور برطانوی حکومت کو بالآخر مطالبہ پاکستان کے سامنے ہتھیار ڈال دینا پڑے مگر حقیقت یہ ہے کہ عبوری حکومت میں مسلم لیگ کی شرکت انتہائی مخالف اور مایوس کُن حالات میں ہوئی جن میں نیا خوش گوار انقلاب حضرت امام جماعت احمدیہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کی دعاوں اور توجہات ہی کی برکت سے ہوا.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ پارلیمینٹری میشن نے وائسرائے ہند کے مشورہ سے ۱۶ جون ۱۹۴۶ء کو ملک میں ایک عارضی حکومت کے قیام کا اعلان کیا اورسلم لیگ اور کانگریس کے زعماء کے نام دعوت نامے جاری کئے کہ وہ اس عارضی حکومت کے مرکن کی حیثیت سے یہ قومی ذمہ داری قبول کر لیں.اعلان میں یہ بھی
11 واضح کیا گیا کہ جو سیاسی جماعت عارضی حکومت میں شامل نہ ہوگی اس سے صرف نظر کر کے دوسری جماعت کے اشتراک سے عارضی حکومت بنادی جائے گی لیے مسلم لیگ نے ایک قرارداد کے ذریعہ عبوری حکومت میں شرکت پر آمادگی ظاہر کر دی مگر کانگرس نے یہ دعوت رد کر دی.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد نے اس موقع پر بیان دیا کہ : دومشن نے اعلان کیا تھا کہ اگر عارضی حکومت کے متعلق کسی پارٹی نے ہماری تجاویز منظور نہ کیں تو پھر ہم حکومت قائم کر دیں گے.اس اعلان کے مطابق اب اس کا فرض ہے کہ وہ کانگریس کو چھوڑ کر باقی پارٹیوں کے ساتھ عارضی حکومت قائم کر دے ا سکے مگر افسوس وائسرائے ہند لارڈ ویول نے دعوت واپس لے لی جس پر مسلم لیگ کو نسل کو بھی اپنے اجلاس مبئی میں بطور احتجاج اپنی رضامندی منسوخ کرنا پڑی.وائسرائے ہند نے جو اِسی موقع کی تاک میں تھے کانگرس سے گٹھ جوڑ کر کے پنڈت جواہر لال نہرو صدر آل انڈیا کانگریس کو عبوری حکومت کی تشکیل کی دعوت دیدی جو پنڈت جی نے فورا منظور کر لی اور اعلان پر اعلان کرنا شروع کر دیا کہ جو ہمارے ساتھ شرکت نہ کرنا چاہے ہم اُسے مجبور نہیں کر سکتے نہ اُس کا انتظار کر سکتے ہیں.ہم دستور سازی کا کام شروع کریں گے اور عبوری حکومت کو تنها کامیابی سے چلا کر دکھا دیں گے.ازاں بعد انہوں نے ۲ ستمبر ۱۹۴۶ء کو عبوری حکومت کا چارج بھی سنبھال لیا.اس طرح مسلمانوں کو نظر انداز کر کے اقتدار کی پوری باگ ڈور ہندو اکثریت کے سپرد کر دی گئی اور مسلمانوں کی جیتی ہوئی جنگ بظاہر شکست میں بدل گئی اور مسلم لیگ کے لئے آبرومندانہ طور پر عبوری حکومت میں داخلہ کے سب راستے مسدود ہو گئے.لے قائد اعظم اور دستور ساز اسمبلی صفحه ۲۳۶ - ۲۳۹ مؤلفہ محمد اشرف عطاء به PP- الفضل ۲۸ جون ۶۱۹۴۶ صفحه ۳ کالم ۴
١٢ مسلمانان ہند نے ملک بھر میں یوم احتجاج منایا اور قائد اعظم نے راست اقدام کی دھمکی دی مگر کانگریسی حکومت نے جو انگریز کا واحد جانشین بنے کی خواب کو پورا ہوتے دیکھ کر نشہ میں مخمور ہوچکی تھی اس دھمکی کا جی بھر کر مذاق اُڑایا اور کہا کہ مریض گیدڑ بھبکی ہے حکومت سے ٹکر لینا آسان نہیں یہ عیش و عشرت کے خوگر بھلا جنگ ہی کہاں کر سکتے ہیں اگر لڑیں گے تو ہار جائیں گے خود حکومت بھی ان کے مقابلہ کے لئے تیار اور چوکس ہے اور وہ ان نئے سرکشوں اور باغیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرے گی یہ له اس تاریک ترین دور میں جبکہ نہ صرف مسلم لیگ کا وقار معرض خطر میں پڑ گیا بلکہ تحریک پاکستان کا خاتمہ اور مسلمانوں کی تباہی اور بربادی کا منظر آنکھوں کے سامنے پھرنے لگا.اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت امام جماعت احمدیہ کو خبر دی گئی کہ اس مشکل مرحلے کا حل آپ کے ساتھ بھی وابستہ ہے چنانچہ آپ بعض خدام سمیت ۲۳ - ستمبر ۱۹۴۶ء سے لے کر ۴ اکتوبر ۱۹۴۶ء تک وتی میں تشریف فرمار ہے اور قائد اعظم محمدعلی جناح ، نواب صاحب بھوپال خواجہ ناظم الدین ، سردار عبدالرب صاحب نشتر، نواب سراحمد سعید خان پچھتاری کے علاوہ مسٹر گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہرو سے بھی تبادلہ خیال کیا.وائسرائے ہند لارڈ ویول کوچینی بھجوائی کہ جماعت احمدیہ ایک مذہبی جماعت ہے مگر موجودہ سیاسی بحران میں اس کی اصولی ہمدردی تمام تر مسلم لیگ کے ساتھ ہے.ایک دوسری مچھی، میں اُن پر واضح کیا کہ اگرمسلم لیگ اور کانگرس کی گفت و شنید نا کام ہوتی نظر آئے تو اسے التواء کی صورت قرار دیا جائے تا دونوں سیاسی حلقے مزید غور کر سکیں.حضرت فضیل عمر کی دعاؤں اور مادی تدابیر نے بالآخر کامیابی کی راہ کھول دی وائسرائے ہند نے یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اورمسلم لیگ ہائی کمان نے نہایت درجہ فہم و فراست کا ثبوت دیتے ہوئے اور کانگریس سے سمجھوتہ کئے بغیر عبوری حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا.اور ۱۳ اکتوبر کو اس کی " قائد اعظم اور ان کا عہد صفحه ۷۳۹ ، ۱۷۴۰ از مولانانیس احمد جعفری ) به سے تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب "تاریخ احمدیت جلد دهم صفحه ۳۱۹ تا ۳۲۱
1 اطلاع بھی وائسرائے ہند تک پہنچادی گئی.پر فیصلہ چونکہ انتہائی غیر موافق اور خلافِ توقع حالات میں ہوا اس لئے اس نے کانگرس کے حلقوں میں کھلبلی مچادی اور انہیں بھی پاکستان کی منزل صاف قریب آتے دکھائی دینے لگی چنانچہ ہند اخبار ملاآپ نے صاف لفظوں میں اس رائے کا اظہار کیا :- " میں سمجھتا ہوں کہ یہ جواہر لال جی اور ان کے ساتھیوں کے جوش آزادی کو تارپیڈو کرنے کا جتن ہے" (بحوالہ نوائے وقت ۱۶ اکتوبر ۱۹۴۶ء صفحہ ۳ کالم نمبرس) خضر وزارت کے استعفاء کی کامیاب کوشش برطانوی حکومت تمام اختیارات ہندوستان کو سپرد کر دینے کا اعلان کرچکی تھی مگر چونکہ ایلی حکومت کے اعلان اور وزارتی مشن کے فارمولا کے مطابق انتقالِ اقتدار ابتداء صوبوں کو ہونے والا تھا اور صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ کی بجائے یونینسٹ وزارت قائم تھی جس کی موجودگی میں اس صوبہ کے پاکستان میں آنے کا امکان قطعی طور پر مخدوش تھا اس لئے قائد اعظم اور دوسرے تمام ذمہ دار سلم لیگی اس صورت حال پر بے حد مشوش تھے.حد یہ ہے کہ قائد اعظم کے مشورے پر پنجاب سے مسلم لیگی اکا بر سر خضرحیات خان وزیر اعلی یونینسٹ حکومت سے مذاکرات کر چکے تھے مگر ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا تھا.اس انتہائی نازک اور ظفراللہ خان صاحب بنفس نفیس لاہور تشریف ن کن موقع پر چوہدری محمد لائے اور ملک خضر حیات خاں کو مخلصانہ مشورہ دیا کہ وہ مستعفی ہو کر مسلم لیگ اور پاکستان کے لئے رستہ صاف کر دیں چنانچہ آپ کی تحریک پر ۱۲ مارچ ۱۹۴۷ء کو خضر حیات وزارت سے ستعفی ہو گئے جس پر مسلمانان ہند نے جشن مسرت منایا.اخبار ٹریبیون“ نے ھر مارچ ۱۹۴۷ء کی اشاعت میں خبر دی کہ :- معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ خضر حیات خال صاحب نے یہ فیصلہ سر محمد ظفر اللہ خال منا کے مشورہ اور ہدایت کے مطابق کیا ہے"
۱۴ اخبار" ملاپ “ مورخہ ۲۰ فروری ۱۹۵۱ ء لکھتا ہے :." یہ ایک واضح بات ہے کہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے خضر حیات کو مجبور کر کے اس سے استعفاء دلایا.خضرحیات کا استعفاء مسلم لیگ کی وزارت بنے کا پیش خیمہ تھا.اگر خضر حیات کی وزارت نہ ٹوٹتی تو آج پنجاب کی یہ حالت نہ ہوتی یہ جماعت احمدیہ کی قیام پاکستان کے تعلق میں ان سب مجاہدانہ اور سرفروشانہ خدمات پر دہلی کے اخبار ریاست نے اپنے ایک ادارتی نوٹ میں طنز لکھا کہ احمدی آج پاکستان کی تائید کر رہے ہیں مگر جب پاکستان قائم ہوگیا تو دوسرے مسلمان ان کے ساتھ وہی سلوک روا رکھیں گے جو افغان حکومت نے کابل میں احمدیوں کے ساتھ کیا تھا.اس پر حضرت امام جماعت احمدیہ نے ۱۶ مئی ۱۹۴۷ء کو ایک پر شوکت تقریر فرمائی جس میں مختلف نقطہ ہائے نگاہ سے مطالبہ پاکستان کی معقولیت و ضرورت پر روشنی ڈالی نیز اعلان فرمایا کہ مسلمان مظلوم ہیں اور ہم تو بہر حال مظلوموں کا ساتھ دیں گے خواہ ہمیں تختہ دار پر لٹکا دیا جائے حضور کی یہ تاریخی اور یادگار تقریری اہمئی ۶۹۴۷ کے الفضل میں شائع شدہ ہے.باؤنڈری کمیشن میں کلم حقوق کی حفاظت کیلئے جدو جہد ۳۰ جون ۱۹۴۷ء کو پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے لئے ایک حد بندی کمیشن کے تقر کا اعلان کیا گیا جسکی صدارت سرئیرل ریڈ کلف کوسونپی گئی سکھوں نے مطالبہ کیا کہ اگر مین نے مشرقی پنجاب کی حد دریائے چناب مقر نہ کی توسکھ برطانوی سکیم کو ہرگز تسلیم نہیں کریں گے.باؤنڈری کمیشن نے ۱۴ جولائی ۱۹۴۷ء کے اجلاس میں فیصلہ کیا کہ جو جماعتیں کوئی میمورنڈم پیش کرنا چاہیں وہ ہار جولائی تک مع چار زائد نقول اور ایسے چارنقشوں کے پیش کر دیں جن سے یہ معلوم ہوسکے کہ صوبے کی حد کس جگہ مقرر کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے کمیشن نے صوبہ
۱۵ پنجاب کے جن پندرہ اضلاع کو متنازع فیہ قرار دیا ان میں گورداسپور اور لاہور کے اضلاع بھی شامل تھے حالانکہ جوان کی برطانوی سکیم یں ان کو قطعی طور پر مسلم اکثریت کا ضلع تسلیم کیا گیا تھا.کانگریس نواز علماء ۱۹۴۵ء کے الیکشن سے یہ پراپیگنڈا کر رہے تھے کہ احمدی مسلمان نہیں اور یہ خدشہ یقینی تھا کہ ہندو یا سکھ باؤنڈری کمیشن کے سامنے اپنی بحث کے دوران یہ سوال اُٹھا دیں گے کہ احمدمی چونکہ مسلمان نہیں اس لئے ضلع گورداسپور کی مردم شماری میں ان کو مسلمانوں سے الگ کر دیا جائے تو یہ ضلع لاز نا غیرمسلم اکثریت کا ضلع قرار پاتا ہے اس لئے اسے مشرقی پنجاب میں آنا چاہیے.اس تشویش ناک صورت حال کے پیش نظر مسلم لیگ کی ہدایت پر جماعت احمدیہ نے مسلم لیگ کے وقت میں ایک علیحدہ محضر نامہ پیش کیا محضر نامہ نہایت قیمتی بیش بہا اور مستند معلومات پرشتمل تاریخی دستاویز ہے جو شائع شدہ ہے جس میں زبر دست دلائل سے یہ ثابت کیا گیا کہ مغربی پنجاب کے تحفظ کے لئے ضروری ہے کہ گورداسپور کا ضلع مغربی پنجاب میں شامل ہوتا کہ دریائے بیاس کے اس طرف جو مشرقی پنجاب کے علاقے ہیں ان کو پاکستان پر حملہ کرنے کی کھلی چھٹی نہ بل جائے.جماعت احمدیہ کے اس محضر نامہ اور وضاحت نے ہندوؤں اور سکھوں کے اس خیال کو پاش پاش کر دیا کہ وہ کانگریسی علماء کے بل بوتے پر اس ضلع کو غیرمسلم اکثریت کا ضلع ثابت کر دکھائیں گے اور اگرچہ ریڈ کلف ایوارڈ اور کانگریس کے گٹھ جوڑ اور سوچے سمجھے منصوبہ کے نتیجے میں اس مسلم اکثریت کے صوبہ کی تین تحصیلوں اتحصیل بٹالہ تحصیل پٹھان کوٹ و تحصیل گورداسپور) کو ظالمانہ طور پر ہندوستان کی جھولی میں ڈال دیا گیا مگر ریڈ کلف اپنی ید دیانتی اور فریب کاری کے جواز میں احمدیوں کے محضر نامہ کی وجہ سے کوئی دلیل دینے کی جرات نہ کر سکا.جماعت احمدیہ نے ضلع گورداسپور اور قادیان کو پاکستان میں شامل کرنے کے لئے دن رات ایک کر کے صوبہ پنجاب اور گورداسپور کی مردم شماری سے تفصیلی اعداد و شمار جمع کئے.احمدی پروفیسر، ڈرامین اور نقشہ نویس پاکستانی حدود کے زیادہ سے زیادہ وسیع کرنے کے لئے سرتا پا جہاد بن گئے.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدامام جماعت محمدیہ نے امریکہ اور برطانیہ سے نہایت قیمتی باؤنڈری لٹریچر منگوایا جو ذ ریعہ ہوائی جہاز ہندوستان پہنچا جس کے
14 ڈاک خرچ پر ہی ہزار روپے سے زائد رقم خرچ کرنا پڑی.جماعت احمدیہ نے برطانیہ کے ایک ماہر اور ممتاز جغرافیان ڈاکٹر اوسکر اینچ.کے سپلیٹ (DR.O...SPATE) کی خدمات بھی حاصل کیں جنہوں نے لنڈن سے بہندوستان پہنچ کر باؤنڈری کمیشن کے دوران جماعت احمدیہ اور مسلم لیگ کے محضر ناموں اور بحث کی تیاری میں ہرممکن مدد دی اور جو خاص طور پر مسلم لیگ کے لئے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئے.ڈاکٹر سپیٹ کے تمام اخراجات تنہا جاعت احمدیہ نے برداشت کئے.جہاں تک مسلم لیگ کے کیس کا تعلق ہے اس نازک ترین ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے قائد اعظم کی نظر انتخاب احمدیت کے مایہ ناز فرزند چوہدری محمد ظفراللہ خاں صاحب پر پڑی جنہوں نے انتہائی مشکلات اور تیاری کے مختصر ترین وقت کے باوجود مسلم اقلیت کے حقوق کی ترجمانی کا حق ادا کر دیا.آپ نے نہ صرف اپنے قلم سے مسلم لیگی زعماء کے مشورہ سے محضر نامہ کا مکمل متن تیار کیا بلکہ ۲۶ جولائی سے ۲۰ جولائی ۱۹۴۷ء تک حد بندی کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کا نقطہ نگاہ غیر معمولی قابلیت سے نمایاں کر دکھایا.آپ کی فاضلانہ اور دتل بحث ریڈ کلف ایوارڈ کے ریکارڈ میں محفوظ ہے اور شائع شدہ ہے.باؤنڈری کمیشن کے اختتام پر جناب محمید نظامی نے اپنے اخبار نوائے وقت لاہور کی یکم اگست ۶۱۹۴۷ کی اشاعت میں چوہدری صاحب کی اس فقید المثال خدمت کو سراہتے ہوئے لکھا :." کد بندی کمیشن کا اجلاس ہوا یسنسر کی پابندیوں کی وجہ سے ہم نہ اجلاس کی کارروائی چھاپ سکے نہ آب اس پر تبصرہ ہی ممکن ہے کمیشن کا اجلاس دن دن جاری رہا.ساڑھے چار دن مسلمانوں کی طرف سے بحث کے لئے مخصوص رہے مسلمانوں کے وقت میں سے ہی اُن کے دوسرے حامیوں کو بھی وقت دیا گیا.اس حساب سے کوئی چار د سرمحمد ظفر اللہ خاں صاحب نے مسلمانوں کی طرف سے لے یہ قطعی شہادت اس امر پر ہے کہ احمدیوں نے میمورنڈم مسلم لیگ کی حمایت کے لئے پیش کیا تھا ہے 1
16 نهایت مدتل ، نہایت فاضلانہ اور نہایت معقول بحث کی.کامیابی بخش ناخدا کے ہاتھ میں ہے مگر جس خوبی اور قابلیت کے ساتھ سرمحمد ظفراللہ خاں صاحب نے مسلمانوں کا کیس پیش کیا اس سے مسلمانوں کو اتنا اطمینان ضرور ہو گیا کہ ان کی طرف سے حق و انصاف کی بات نہایت مناسب اور احسن طریقہ سے ارباب اختیار تک پہنچا دی گئی ہے.سرظفراللہ خاں صاحب کو کیس کی تیاری کیلئے بہت کم وقت ملا مگر اپنے خلوص اور قابلیت کے باعث انہوں نے اپنا فرض بڑی خوبی کے ساتھ ادا کیا.ہمیں یقین ہے کہ پنجاب کے سارے مسلمان بلالحاظ عقیدہ اُن کے اس کام کے معترف اور شکر گذار ہوں گے " اخبار” نوائے وقت“ لاہور نے ۲۴ اگست ۱۹۴۸ء کی اشاعت میں حسب ذیل نوٹ بھی لکھا :." جب قائد اعظم نے یہ چاہا کہ آپ پنجاب باؤنڈری کمیشن کے سامنے مسلمانوں کے وکیل کی حیثیت سے پیش ہوں تو ظفر اللہ خاں نے فوراً یہ خدمت سر انجام دینے کی حامی بھری.....اور اسے ایسی قابلیت سے سر انجام دیا کہ قائد اعظم نے خوش ہو کر آپ کو یو این او میں پاکستانی وفد کا قائد - مقرر کر دیا.جس طرح آپ نے وقت کی وکالت کا حق ادا کیا تھا اس سے آپ کا نام پاکستان کے قابلِ احترام خادموں میں شامل ہو چکا تھا.آپ نے ملک و ملت کی شاندار خدمات سرانجام دیں تو قائد اعظم انہیں حکومت پاکستان کے اُس عہدے پر فائز کرنے پر تیار ہوگئے جو باعتبار منصب وزیر اعظم کے بعد سب سے اہم اور وقیع عہدہ شمار ہوتا ہے یہ علاوہ ازیں جسٹس محمد منیر صاحب نے جو ریڈ کلف ایوارڈ میں مسلمانوں کی طرف سے ممتاز رکن اور فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء کی تحقیقاتی عدالت کے صدر تھے اپنی عدالتی رپورٹ میں لکھا :." عدالت لہذا کا صدر جو اس ( باؤنڈری کمیشن کا مبر تھا اس بہادرانہ جد وجہد پرتش کرو امتنان کا اظہار کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے جو چو ہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے گورداسپور
IA کے معاملہ میں کی تھی حقیقت باؤنڈری کمیشن کے کاغذات میں ظاہر و باہر ہے اور جس شخص کو اس مسئلہ سے دلچسپی ہو وہ شوق سے اس ریکارڈ کا معائنہ کر سکتا ہے.چوہدری ظفر اللہ خاں نے مسلمانوں کی نہایت بے غرضانہ خدمات انجام دیں.اس کے باوجود بعض جماعتوں نے عدالتی تحقیقات میں ان کا ذکر جس انداز میں کیا ہے وہ قابل شرم ناشکرے پن کا ثبوت ہے، ( رپورٹ عدالتی تحقیقات صفحه ۲۰۹ ) پاکستان کے مشہور و ممتاز صحافی میاں محمد شفیع صاحب مدیر اقدام لاہور احراری عنصر کی پاکستان " دشمن سرگرمیوں اور اس کے خوفناک نتائج پر روشنی ڈالتے ہوئے نہایت محتاط الفاظ میں لکھتے ہیں :." مجلس احرار اسلام جس میں شاہ صاحب ایک گرم اور تڑپتے ہوئے دل کی حیثیت رکھتے تھے اجتہادی غلطی کا شکار ہو گئے اور تحریک پاکستان کا ہر اول دستہ بننے کی بجائے سیاسی جمیل بھوسوں میں گرفتار ہو گئے.اگر اس وقت مسلم لیگ کو احرار اسلام ایسی فعال متحدہ بند اور جاندار جماعت کی تائید حاصل ہوگئی ہوتی تو کم از کم پنجاب کی شہ رگ کے قریب سے تقسیم نہ " ہوتی " ؛ شاہ جی صفحه ۴۹ مؤلفه نذیر مجیدی) قیام پاکستان اور حضرت امام جماعت احمدیہ کا پر شوکت بیان الحمدللہ مسلم لیگ اور جماعت احمدیہ کی متحدہ کوششیں بالآخر جناب الہی میں قبول ہوئیں اور ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان دنیائے اسلام کے اُفق پرستارہ بن کر نمودار ہو گیا مگر جس طرح جماعت احمدیہ نے من حیث الجماعت قیام پاکستان کی جدوجہد میں بہت بڑھ چڑھ کرحصہ لیا تھا اسی طرح قیام پاکستان پر کانگرس او انگریز کی ظالمانہ اور انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بھی سب سے بڑھ کر اسی کو بننا پڑا اور اسے جہاد پاکستان کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی حتی کہ اس کا محبوب مرکز قادیانے جس پر ملک کے اسلام دشمن طبقوں کی مدتوں سے نظر
i 19 تھی پاکستان سے جدا کر دیا گیا اور قادیان اور مشرقی پنجاب کے ہزاروں احمدیوں کے علاوہ اسیروں کے رستگار اور تحریک پاکستان کے عظیم جرنیل سید نا و امامناو مرشد نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کو بھی ہجرت کر کے پاکستان آنا پڑا.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جن کی قیادت میں جماعت احمدیہ نے تحریک پاکستان کی بے لوث اور مسلسل جنگ لڑی تھی پاکستان پہنچ کر اُن نغموں کو بھول گئے جو ہندوستان میں جماعتِ احمدیہ اور آپ کو پیش آئے.اس لئے کہ آپ کا مکان گو آپ کے ہاتھ سے جاتا رہا مگر آپ کے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کو مکان مل گیا اور آپ کے مقدس نام پر ایک عظیم الشان اسلامی مملکت قائم ہوگئی جس نے سلمانوں کیلئے ترقی کے وسیع دروازے کھول دیئے اور ایک بین الاقوامی اسلامستان کی بنیاد رکھ دی.چنانچہ آپ نے پاکستان میں پہنچے کہ یہ پر شوکت اعلان فرمایا :- پاکستان کا مسلمانوں کو بڑھ جانا اس لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ اب مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سانس لینے کا موقع میسر آگیا اور وہ آزادی کے ساتھ تر تھے کی دوڑ میں حقہ لے سکتے ہیں.اب ان کے سامنے ترقی کے اتنے غیر محدود ذرائع ہیں کہ اگر وہ ارض کو اختیار کریں تو دنیا کے کوٹھی قوم ارض کے مقابلہ میں ٹھر نہیں سکتی اور پاکستان کا مستقبل نہایت ہی شاندار ہو سکتا ہے " NEWR