Language: UR
محترم صاجزادہ رفیع احمد صاحب کے زمانہ صدارت مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ میں مولانا موصوف کا یہ قیمتی اور خیال افروز مقالہ مجلس نے شائع کیا تھا جس میں مصنف نے اس حقیقت کو مثالوں اور دلائل سے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے جانے والوں پر ان کے مخالفین کے اعتراضات ہمیشہ یکساں نوعیت کے ہی ہوتے ہیں اور اصلاح خلق کے لئے بھیجے جانے والے یہ پاکباز لوگ ایک ہی چشمہ سے پینے والے اور ایک ہی منبع سے نکلنے والے ہوتے ہیں۔ مصنف نے اپنے کثرت مطالعہ سے مشرق و مغرب کی مختلف مثالیں لاکر اس آیت کریمہ <span class="arabic">ما یقال لک الا ما قد قیل للرسل من قبلک </span>کی تشریح و توضیح کردی ہے۔ اور صداقت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پر ایک مزید قیمتی کتابچہ تیار مہیا کردیا ہے۔
تحريك الحديت اور اس کے ماد 1 مؤلفة مولوی دوست محمدرضا شاہد شعبہ اشاعت مجلس خدام الاحمدیہ مقامی راجه
بسم الله الرحمن الرحيم پیش لفظ انه حضرت صاحبزادہ مرزا رفیع احمد اما به دلیل خام مالا مار کر دیا مجلس خدام الاحمدیہ ربوہ مکرم برادرم مولوی دوست محمد فضا کا ایک قیمتی اور خیال افروز مقاله را تحریک احمدیت اور اس کے نقاد کے نام سے ہدیہ ناظرین کہ رہی ہے.میں امید کرتا ہوں کہ یہ قیمتی مقالہ احباب جماعت کے علم میں قیمتی اضافہ کا موجب ہوگا.اور تبلیغ احمدیت میں بھی بہت محملہ ثابت ہوگا.یہ ایک عالم کی تاریخ گواہ ہے.کہ خدا تو نام ہے جس پر والوں پر طرف ایک ہی قسم کے اعتراضات کئے جاتے ہیں.جو اہل علم کے لئے اس بات کا مزید ثبوت ہوتا ہے.کہ یہ پاکباز ایک ہی منبع سے نکلنے والے اور ایک ہی سر چشمہ سے پینے والے ہوتے ہیں.جیسا کہ اللہ تعالے قرآن کریم میں فرمایا ہے.مَا يُقَالُ لَكَ إِلَّا مَا قَدْ قِيلَ لِلرُّسُلِ من قبلك - یعنی تجھ پہ جو اعتراضات کئے جاتے ہیں :
وہ رہی ہیں جو تجھ سے پہلے انبیاء پر کئے جاتے تھے.جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مجھے ان انبیاء گذشتہ سے اور تیرے دشمنوں کو ان انبیاء کے مخالفوں سے مشابہت ہے.اس مقالہ کے مطالعہ سے آپ پر قر آن کریم کے اس بیان کی صداقت ثابت ہو جائے گی.کیونکہ بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السّلام پر جو اعتراضات کئے گئے ہیں.اگر ان کو قبول کیا جائے.تو کوئی نبی ایسا نہیں.جو اِن اعتراضات کی زد سے بچ جائے.یہ اس بات کا ثبوت ہے.کہ احمدیت کے نقاد تعصب اور عناد سے کام لیتے ہیں.اور حق جوئی اورحق طلبی ان کے مد نظر نہیں ہوتی.میں احباب جماعت خصوصا مجالس خدام الاحمد سے درخواست کروں گا.کہ وہ اس مفیدہ مقالہ کی اشاعت میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیں.اور خود بھی پڑھیں اور دوسروں کو بھی پڑھنے کے لئے دیں! اللہ تعالے سے دعا ہے کہ وہ برادرم مکرم مولوی دوست محمد
صاحب کو ان کی اس محنت کی جزائے خیر دے.اور اس کے اعلیٰ نتائج پیدا فرمائے.اور ان کا یہ مقالہ بہتوں کے لئے ہدایت پانے اور قبول کرنے کا ذریعہ ثابت ہو.والسلام مرزا شیخ احمد
بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرحيم وَعَلى عبده المسيح الموعود لى رسوله الكرتير تریک احمدیت اوراس کے نقاد احمدیت ایک بین الاقوامی اسلامی بین الاقوامی اسلامی تحریک ا استخر یاک ہے جو انیسویں صدی کے آخر میں خدا تعالے کے حکم اور اس کے قدیم نوشتوں کے مطابق قائم ہوئی.یہ تحریک عین اُس وقت معرض وجود میں آئی جب کہ نیکی ، تقوی ، پاکیزگی اور ان پرت کے اوصاف مفقود ہو گئے تھے اور اسلام کے دشمن مکہ اور مدینہ سیلیب کا جھنڈا لہرانے کے خواب دیکھ رہے تھے.اور سلمان مفکر اسلام کا مرشد پڑھتے ہوئے بڑے دردناک لہجہ میں کہہ رہے تھے کہ ہے وہ دین ہوئی بزم جہاں جس سے چراغاں اب اس کی مجالس میں نہ بنتی نہ دیا ہے فریاد ہے اسے کشتی امت کے نگہباں بیڑا یہ تب ہی کے قریب آن لگا ہے.دھاتی) یتی ده درد ناک حالت ا ا جبکہ دمشق کے عین مشرق اور شمالی ہند کی ایک گمنام بیستی قادیان سے یہ پر شوکت آواز بلند ہوئی کہ محمد مصطفے
صلے اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا دم بھرنے والو! کفر و شلیت کے تسلط اور استیلاء سے دلگیر مت ہو.خدا نے مجھے اسلام کے قالب میں زندگی اور تازگی کی نئی روح پھونکتے اور مسلمانوں کو پھر سے عہد رفتہ کی شان و شوکت سے ہمکنار کرنے کے لئے مبعوث فرمایا ہے.اب کفر کا جھنڈا سرنگوں ہونے والا اور اسلام کا پرچم لہرانے والا ہے.اور خدا کی یہ تقدیر ہے کہ یہ دنیا ختم نہیں ہو سکتی.جب تک ایک دفع پھر سلام کا جھنڈا پوری شان سے ہر ملک ہر قوم پرستی ہر شہر بلکہ ہر دل میں ہرانا نشر و یخ نہ ہو جائے.یہ آواز امام الزمان حضرت میرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ الصلوة والسلم کی تھی.جن کا کلمہ لا إله إلا الله مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله جن کا مسلک آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی غلامی اور جن کا عمل اشاعت اسلام کے سوا کچھ نہیں تھا.چنانچہ حضور فرماتے ہیں :- نہ مجھے اللہ جل شانہ کی قسم ہے کہ لا إله إلا الله محمد رسول اللہ میرا عقیدہ ہے.اور رَسُولُ وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّين پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت میرا ایمان ہے.میں اپنے اس بیان پر اس قدر رسمیں کھاتا ہوں جس قدر خدا تعالے کے پاک نام ہیں.اور جس قدر قرآن کریم کے حروف ہیں اور جس قدر
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا تعالے کے نزدیک کمالات ہیں کہ له پس آپ وہی اسلام لے کر آئے تھے آج سے چودہ سو سال پہلے فخر کائنات سید الموجودات قائد المرسلین خاتم النبین حضرت احمد مجتبی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا تھا.مگر یہ السلام چونکہ قرنوں اور صدیوں کے اثرات کے نتیجے میں اپنی اصلی شکل میں باقی نہیں رہا تھا.اس لئے آپ کی تحریک بد قسمتی سے ایک نیا السلام سمجھ لی گئی.اس الم انگیز صورت حال کی وضاحت کے لئے ایک ہادی مثال عرض کرتا ہوں.وہ لوگ جنھیں دریائے چناب کا منبع دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے.بیان کرتے ہیں.کہ یہ دریا جس خیمہ سے نکلتا ہے.وہ اتنا صاف و شفاف ہے کہ اس میں گری ہوئی سوئی بھی بآسانی نظر آ سکتی ہے.مگر ربوہ کی پہاڑی کے دامن میں بہنے والے جناب میں اگر ہاتھی بھی غرق ہو جائے تو دکھائی نہیں دے گا.اس لئے کہ اصل چشمہ کا پانی سینکڑوں میل کی مسافت طے کرنے کے بعد اور کٹی ندیوں اور نالوں کے پانی سے ملنے اور مختلف طرز کے میدانوں کی مٹی اپنے ساتھ بہا لانے کی وجہ سے اپنی رنگت ہی نہیں ملکہ ذائقہ بھی کھو بیٹھتا ہے.اس صورت میں اگر کوئی شخص اس کے اصلی حسیمہ سے پانی کرامات الصادقين" ص ۲۵ 1.
لے آئے اور یہ دخونی کر ے.کہ یہی چناب کا پانی ہے تو لوگ اسے یا تو غلطی خوردہ قرار دیں گے یا دیوانہ ! حضرت مسیح موعود کا دعوی رسید ناحضرت سیح موعود علیہ السلام وجہ.اسی وجہ سے ارشاد فرماتے ہیں:.این آتشم زاتش چهر محمدی است دیں آپ من و آب زلال محمد است این چشمه روال که بخلق خداد ہم یک قطره زبحر کمال محمد است یعنی میں تو براہ راست حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم دنداہ ابی داقتی و روحی و جنائی کے سمندر سے پانی لایا ہوں اس سمندر کے کمالات کا یہ کرشمہ ہے کہ وہاں سے حاصل کیا ہوا ایک قطرہ چشمہ رواں کی صورت میں بہہ رہا ہے.اور میں اُسے تشنگان اقوام عالم کو سیراب کرنے کے لئے پیش کر رہا ہوں.عمل اس عظیم الشان دعوئی کا طبعی طور پر یہی رد عمل ہونا چاہیئے روں تھا اور یہی ہوا کہ حضور کے خلاف پوری دنیا میں ایک زبر دست طوفان اُٹھ کھڑا ہوا.حق یہ ہے کہ خود مسلم زعماء کی نگاہ میں بھی مسلمانوں کا سواد اعظم مرکز ہدایت و صداقت سے اس قدر دور جا چکا تھا کہ اگر اس وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم بھی بنفس نفیس تشریف لے آتے تو آپ کے گائے ہوئے اسلام کی سخت مزاحمت کی جاتی
چنانچہ انیسویں صدی کے مشہور مسلمان سیاسی مصلح سرسید احمد خان مرحوم لکھتے ہیں:.اگر آج خدا کی توحید کا سبق دینے والا اور دنیا میں وحدت و گائی پھیلانے والا تھوڑی ہی دیر کے لئے ہمارے ہاں آئے اور اپنی امت کا حال دیکھے تو قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری اور سارے عالم کی جان ہے.کہ وہ مشکل سے پہچانے گا کہ یہ اس کی وہی اقت ہے جس کو اس نے توحید کا سبق سکھایا تھاتا ہے اسی طرح عراق کے ایک مشہور عالم شیخ محمد رضا شیبی فرماتے ہیں :- الاكيت شعرى ما تَرَى رُوح (احمد) إذا طالعتْنَا مِنْ عَل أو اطلب واكبر طي لَوْ أَنَّا نَا مُحَمَّد) للائى الذِي لَا كَاهُ مِنْ أَهْلِ مَلة عَدَ لمَّا عَنِ النُّورِ الَّذِي جَاء نَابِهِ كَمَا عَدَلَتْ عَنْهُ قُرَيْشَ فَضَلت اذَنَ لَقَضَى لَا مَنْهَجَ النَّاسِ مَنْهَجِي وَلَا مِلةُ القَوْمِ الأَوَاخِرِ مِلَّتِي له ے تہذیب الاخلاق جلد اول - سه روز نامه کو مستان ، ۲ تیره و روط
یعنی اگر حضرت الحر مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح عالم بالا پر ہمارے حالات سے واقف ہو جائے یا ہمیں جھانکے اور دیکھ پائے تو معلوم نہیں ہمارے متعلق کیا رائے قائم کرے کہ میرا گمان غالب ہے.کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم آج ہمارے پاس تشریف لے آئیں تو آپ کو آج بھی اس قوم کے ہاتھوں اسی طرح مصائب اور انکا ریقی سے دوچار ہوتا پڑے گا.جس طرح آپ پہلے اہل مکہ کے ہاتھوں دو چار ہوئے تھے.کیونکہ ہم اس نورحق سے جیسے آپ لے کر مبعوث ہوئے تھے اسی طرح روگردانی کر چکے ہیں.جس طرح قریش نے منہ پھیر لیا تھا اور گمراہی کے گڑھے میں جا پڑے تھے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہماری دیوں عالی اور راہ حق سے بیزاری دیکھ کر یقینا یہ فیصلہ فرمائیں گے.کہ یہ کہ یہ لوگ جس راستند پر چل رہے ہیں.یہ میرا بتایا ہوا راستہ نہیں ہے اور آخری زمانہ کے لوگوں نے جو مذہب اختیار کر لیا ہے وہ ہرگز میرا مذہب نہیں.امام مہدی کی مخالفت آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی دوبارہ سے متعلق پیش گوئیاں تشریف آوری یا سیم موجود کی آمد کے تسلسلہ میں سب سے زیادہ جن اصحاب سے پرجوش استقبال کی توقع ہو سکی تھی وہ علماء وقت اور مشائخ عصر تھے مگر اُن کی نیت سرتاج الصوفیاء حضرت محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ نے پیشگوئی فرمائی.
اذَا خَرج هذا الامام المهدى فَلَيْسَ لَهُ عدومينَ إِلَّا الفُقَهَارُ خَاصَّةٌ فَاتَهُ لا يبقى لهم رياسة "ل یعنی جب امام مہدی کا ظہور ہوگا.تو علمائے زمانہ سے بڑھے کہ ان کا کوئی کھلا دشمن نہیں ہوگا.کیونکہ ان کا اثر ورسوخ جاتا رہے گا.اسی طرح حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ نے یہ خبر دی : علمائے ظواہر مجتہدات أورا على نبينا وعليه الصلوة و السلام از کمال وقت و شخوص ما خذ انکار نمایند و مخالف کتاب و سنت دانند یه سه یعنی علمائے ظواہر مهدی موعود کے اجتہادات کا انکار کر کے ان کو قرآن و سنت کے خلاف قرار دیں گے.کیونکہ ان کے اجتہادات کے ماخذ نہایت لطیف و دقیق ہوں گے.فتوی کفر کی بنیادی وجہ ) تقابل توجہ امر یہ ہے کہ حضرت سیم موجود اور اس کا علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف اقہ سوہ یہ ہے کفر دیا گیا اس میں بنیادی وجہ نظر یہ وفات مسیح اور دعوئی مثیل مسیح قرار دی گئی حالانکہ ارباب علم و دانش لفظ مسیح کا اطلاق مماثلت کی وجہ سے فتوحات مکیه جلد سوم ما ۳۷ - سه مکتوبات جلد ۲ مه مکتوب ۵۵
مختلف افراد پر کرتے رہے ہیں.حتی کہ مسیح الملک ایک خطاب بن گیا ہے جو حاذق طبیبوں کو دیا جاتا ہے.چنانچہ مسیح الملک حکیم اجمل خاں کے الفاظ اس کی واضح مثال ہیں.اسی طرح علامہ اقبال قائد اعظم حمد علی جناح کی نیت لکھتے ہیں.لنڈن کے عرش نادرہ فن سے پہاڑ پر اترے سیج بن کے ، محمد علی جناح کے اسی طرح ایک المحدیث شاعر جناب مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ با غبان گلشن توحید و سنت آپ نے ہے کیا ! آپ کے دم سے دیکھتی تھی ہری ہے شمس العلماء جناب مولوی محمد حسین صاحب آزاد آب حیات میں لکھتے ہیں کہ مشہور شاعر شیخ امام بخش ناشیخ ایک دفعہ نواب نصیر الدین حیدر کے دربار میں حاضر تھے.حلقہ سامنے تھا.نواب صاحب نے کہا.شیخ صاحب ! اس پر کچھ کہئے.چنانچہ انہوں نے فی البدیہ یہ قطعہ کہا.ہے حظہ جو ہے حضور معلیٰ کے ہاتھے ہیں گویا کہ کہکشاں ہے ثریا کے ہاتھ میں ناشیخ یہ رب بجا ہے لیکن تو عرض کر ه را درمیان اپریل شیر شالی اسلام راز مولوی یا امید تا سور کردوانی ساله ۱۲۰ ۱۷ امت
بے جان بولتا ہے سجا کے ساتھ میں آہ ! کیا عجیب بات ہے کہ حقہ پینے والوں کو توسیع نے تشبیہ دی جاسکتی ہے.مگر عرش کا خدا کسی شخص کو مسیح ابن مریم کے نام سے موسوم نہیں کر سکتا.& این چه بوالعجبی است؛ وهنا صلے اللہ علیہ وسلم نے تو بات ہی واضح فرما دی تھی.کیونکہ حضور نے آنے والے موعود کو ہائی عیسی بن مریم کا نام دے کر اسے چار دفعہ نبی الله کہا وہاں یہ بھی تصریح فرما دی کہ لا المهدى الا عيسى ابن مريم یعنی حضرت عیسے ہی امام مہدی ہیں.نیز فرمایا: امامُكُمْ مِنْكُمْ ناتكم منكم له یعنی یہ عیسی بن مریم بنی اللہ امت محمدیہ کا ایک فرد ہوگا.چنانچہ مولوی عبد القیوم صاحب ندوی نے اپنی کتاب خطبات نبوی کے مال پر حدیث نزول عیسے کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ اس کے بعد عیسی ابن مریم علیہ اسلام میری امت میں انصاف کرنے والے حاکم کی حقیقت میں پیدا ہوں گے یہ شے له آب حیات ۳۶۳۳۶۲ - ۵۳ - ابن ماجه - ۵۳ بخاری شریعت سے مسلم شریف.مجھے خطبات نبوئی ۲۲۰ -
۱۴ پس انت کو صرف اور صرف اس عیسی بن مریم کی آمد کا وعدہ دیا گیا ہے جو امت محمدیہ میں پیدا ہو گا.امام مہدی کو عیسی بن مریم در اصل امام مہدی کو لینے بن مریم کہنے مریم کہنے میں ایک عظیم الشان علفہ میں سے نہ صرف آنحضرت صلی الہ علیہ ایک میں ایک عظیم الشان فلسفہ کار فرما ہے جس نہ وسلم کی زبردست قوت قدسیہ اور فیضان کا پتہ چلتا ہے.بلکہ رسول خدا صلے اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ایک چمکتا ہوا نشان ظاہر ہوتا ہے.کیونکہ حضور نے امام مہدی کو بیٹے بن مریم سے محض تشبیہ نہیں دی.عباس کی شخصیت کو عیسی بن مریم ہی سے موسوم فرمایا ہے.جیسا کہ کوئی شخص کسی کو چاند کی طرح کہنے کی بجائے چاند کہہ دیتا ہے.حضور نے محض تشبیہ کی بجائے استعارہ کا یہ انداز اختیار فرما کے نہایت لطیف پیرایہ میں یہ بے نظیر شینگوئی فرمائی ہے کہ آنے والے امام مہدی کہ کیسے بن مریم سے معمولی مشابہت نہیں ہوگی.بلکہ اس کے وجود میں عیلی بن مریم کے حالات و سوانح اتنی کثرت سے پورے ہوں گے کہ دنیا کو محسوس ہوگا کہ سچ مچ یروشلم والا مسیح دوبارہ کوعہ کی کہتی ہیں نمودار ہو گیا ہے.چنانچہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحفہ گولڑویہ رعت (۲) حاشیہ) اور تذکرۃ الشہادتین (صا تا قدس میں حضرت مسیح علیہ السلام سے اپنی متعد د حیرت انگیز مماثلتیں بیان فرمائی ہیں.جوہ نہایت درجہ ایمان افروز ہیں.خاکسار نے نمبر شہر میں جبکہ یہ عاجبنہ
جامعہ احمدیہ کا طالب علم تھا.ریویو آف ریلیجیز، اردو میں اس موضوع پر اکتیس صفحات پرشتمل ایک مضمون لکھا تھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے ساتھ انٹی کے قریب مشابہتیں بیان کی تھیں.اور حقایق دو اقعات کی روشنی میں ثابت کیا تھا کہ مسیح موسوی اور سیح محمدی اپنی ولادت سے لے کر وفات تک ہر ایک اہم مرحلہ پر ایسے غیر معمولی رہ ناگ میں مماثل ومشابہ ہیں کہ اس میں انسانی دخل کا تصور نہیں ہو سکتا.بلکہ اس کے پیچھے خدا تعالے کی زبر دست قدر لوں کا ہاتھ صاف طور پر کام کرتا نظر آتا ہے.اس حقیقت کی وضاحت کے لئے ہیں یہاں عطور ایک عجیبت بہت نمونہ ایک عجیب واقعہ بیان کرتا ہوں.انجیل رمتی باب ہم میں لکھا ہے کہ شیخ بنجد تھی یعنی شیطان نے حضرت مسیح علیہ السلام سے یہ مطالبہ کیا کہ اگر تو خدا کا بیٹا ہے.تو میکیل کے کنگرے سے اپنے تئیں نیچے گرا دے کیونکہ لکھا ہے.کہ وہ تیری بابت اپنے فرشتوں کو حکم دے گا.اور وہ تجھے ہاتھوں پر اٹھا لیں گے مگر حضرت مسیح نے اس سے انکار کر کے جواب دیا کہ بھی تھا ہے کہ خداوند اپنے خدا کی آزمائش نہ کر عجیب بات ہے کہ بالکل اسی قسم کا واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی پیش آیا.اس اجمال کی تفصیل یہ ہے.کہ شیخ شبیری لقب شیطان است (غیاث اللغات )
រ ។ ۱۸۹۶ء میں ایک صاحب نے جن کا نام شیخ محمد رضا طہرانی تیفی تھا.حضرت مسیح موعود کے نام اشتہار دیا.کہ آئیے ہم دونوں ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر مسجد شاہی لاہور کے مینارے سے چھلانگ لگائیں ہو صادق ہوگا وہ محفوظ رہے گا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی طرح یہ تجویز پائے استغفار سے ٹھکرا دی اور وہی جواب دیا.جو حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے دیا تھا.یعنی مجھے اپنے خدا کی آزمائش منظور نہیں.چنانچہ حضور نے اپنے ہوا بی اشتہار میں تحریر فرمایا.ا عجیب سوال است که در دنیا صرف دو مرتبه واقعه شده از عیسی بن مریم شیخ سیدی این سوال کرده بود و ازین شیخ بخفی ہے مناسبت پس جواب ما ایمان است که عیسی علیہ السلام شیخ سجدی را داده بود - انجیل را به سیند تسلی خود فرمائیندا یه ماه یعنی یہ عجیب سوال ہے جو دنیا میں صرف دو بار کیا گیا ہے.حضرت عیسے علیہ السلام سے شیخ نجدی نے یہ سوال کیا تھا اور مجھ سے شیخ نجفی کر رہے ہیں.کیا عجیب مناسبت ہے !! پس میں بھی وہی جواب دیتا ہوں جو تیلئے علیہ السلام نے شیخ سیدی کو دیا تھا اور جسے آپ انجیل دیکھ کر اپنی تسلی فرما سکتے ہیں.نه تبلیغ رسالت جلور شام ها بشیر صفحه 11
16 یہ تو میں نے صرف ایک مثال عرض کی ہے.در نہ جیسا کہ میں اشارہ کر چکا ہوں دونوں سیجوں کے حالات و وقائع میں بکثرت اور بے نظیر اشتراک پایا جاتا ہے.اور مجھے یقین ہے کہ جوں جوں تحقیقات کا دائرہ وسیع ہوتا جائے گا.متعدد نئے نئے پہلو منکشف ہوں گے.دعوی مثیل مسیح کا واقعاتی شہادتوں کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دعوئی مثیل مسیح کے ثبوت میں برت روحانی ثبوت ایک زبر دست روحانی ثبوت یہ دیا ہے کہ خدا کی محجوب باتوں میں سے جو مجھے ملی ہیں ایک یہ بھی ہے جو میں نے عین بیداری میں جو کشفی بیداری کہلاتی ہے.بیسویچ میں سے کئی دفعہ ملاقات کی ہے.اور اس سے باتیں کر کے اس کے اصل دعوئی اور تعلیم کا حال دریافت کیا ہے.یہ مکاشفہ کی شہادت ہے دلیل نہیں ہے بلکہ میں یقین رکھنا ہوں کہ اگر کوئی طالب حق نیت کی صفائی سے ایک مدت تک میرے پاس رہے اور وہ حضرت مسیح کو کشفی حالت میں دیکھنا چاہے تو میری توجہ اور دعا کی برکت سے وہ ان کو دیکھ سکتا ہے.ان سے باتیں بھی کر سکتا ہے.اور ان کی نسبت ان سے گواہی بھی لے سکتا ہے.کیونکہ میں وہ شخص ہوں جس کی زوج میں بروز کے طور پر یسوع مسیح کی رُوح سکونت رکھتی ہے بات تحفة قيصرية ملا
ویر واقعہ اس موقعہ پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعال بنصرہ العزیز کا بیان فرموده ایک واقعہ پیش کر دینا چسپی سے خالی نہ ہوگا.آپ فرماتے ہیں کہ :- و حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا.آپ نے دعوی کرنے میں غلطی سے کام لیا ہے.اگر آپ پہلے مولویوں کے سامنے یہ بات پیش فرمانے کہ اسلام کی حالت حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات کے عقیدہ سے سخت خطرہ میں ہے مسلمان روز بروز کم ہو رہے ہیں اور عیسائی بن رہے ہیں اس کا علاج بتائیں.تو اس وقت رب کے سب یہ کہ دیتے کہ اس کا علاج آپ ہی سوچیں.پھر آپ ان کو اس کا علاج یہ نہاتے کہ قرآن مجید سے حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات ثابت ہے اس پر کسب مولوی کہتے کہ بہت اچھی بات آپ نے سوچی ہے.پھر دوسرا ایران مولویوں کے سامنے پیش فرمائے کہ حوثیوں میں میٹی کے آنے کا ذکر ہے.غیرمسلم قو میں اگر اس پر معترض ہوں تو اس کا کیا جواب ہوگا ؟ اس وقت بھی یہ علماء کہتے کہ آپ ہی اس کا جواب ہمیں بتائیں.آپ جواب میں یہ فرماتے کہ عینی سے مراد وہ عیسے نہیں جو ایک دفعہ دنیا میں آچکا ہے بلکہ پیسے سے مراد شیل مسیح ہے.پھر تیسرا امریہ پیش فرماتے.کہ حدیثوں میں عیسی کے زمانہ کے متعلق جو علامات بیان ہوئی ہیں
19 ان میں سے بعض اس زمانہ میں نظر آتی ہیں.پس کیوں نہ علماء امت میں سے ایک شخص کے متعلق کہا جائے کہ وہی مثیل میسج ہیں.تو سب علماء اس پر کہتے کہ یہ بالکل درست ہے اور آپ سے زیادہ مستحق اس دعونی کا کوئی نہیں ہو سکتا.اس کے بعد آپ دعوئی کر دیتے.حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے فرما یا کہ بے شک اگر انسانی منصوبہ ہوتا توئیں ایسا ہی کرتا نان تحریک احمدیت کی خیر یہ بات تو برسبیل تذکرہ آگئی.ہمیں یہ عرمن کر رہا تھا کہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ زبر دست مزاحمت السلام چونکہ رہی حقیقی اسلام نے کو تشریف لائے جو زمان و مکاں کے تغیرات و حوادث کی وجہ سے اس دنیا سے اُٹھ چکا تھا.اور لایبقى من الاسلام الا اسمه کی وعید ہر جہت سے پوری ہو چکی تھی.اس لئے آپ کو مسلمانوں کے ہر حلقے اور ہر طبقے کی طرف سے زبر دست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا.اس مزاحمت کا آغاز کرنے والوں میں سر فہرست جناب مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی ایڈووکیٹ اہلحدیث تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعونی مسیحیت سنتے ہی پورے ملک کا ایک موعود علیہ له الفضل الا ما رح ۱۹۳۶ء 4
طوفانی دورہ کیا.اور آپ کو عقائد قدیمیہ اسلامی کا رہ ہرن قرار دے کر ایک استفتاء تیار کیا اور علماء سے آپ کے خلاف کفر و ارتداد کے فتوے حاصل کئے.اور اسے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں شائع کر کے مخالفت کا زبردست طوفان برپا کر دیا.جس نے دیکھتے ہی دیکھتے سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا.سوشل بائیکاٹ ، ایزا دہی ، تقریری دسترری حملے، قتل کے منصوبے الزامات بغاوت میں ماخوذ کرانے کی سازشیں، غرضیکہ تحریک احمدیت کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کا کوئی طریق ایسا نہیں تھا جو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور ان کے ہمنواؤں نے استعمال نہ فرمایا ہو.مگر خدائی سنت کے مطابق تیز نظر رکھنے والے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دامن سے وابستہ ہونے لگے.البتہ ایک طبقہ ایسا بھی تھا.جس اپنے اپنے ظرف اور اپنی استعداد کے مطابق اس خالص سونے کی جھلک تو دیکھے لی.اور پھر اس کا قولاً اشعوری یا غیر شعوری طور پر استفادہ کر کے یا عملاً اقرار بھی کیا.** گر انہیں کھلم کھلا احمدیت کا اعلان کرنے کی توفیق نصیب نہ ہوئی.میں انہیں حضرات کو نقاد کہتا ہوں اور انہی کا تذکرہ اس وقت مجھے کرتا ہے.الغوی اعتبار سے نقاد کا ماخنہ تنقید گفت اور یہ طلاح کی روشنی میں نقد ہے اور نقد پرکھنے کو کہتے ہیں.ناقد اور نقاد اس شخص کو کہا جاتا ہے.جو علمی امور کے معنوی
۲۱ شن ولیج کی جانچ پڑتال کر کے دیانتدارانہ رائے قائم کرے.کیونکہ تنقید کا اصل مقصد یہ ہے کہ تازہ تازہ کلیوں سے خطر و جو ہر پھینچ کر دیدہ زیب میشوں میں بھر دیا جائے.اور اس کے پہلو میں زہریلے کانٹوں اور خراب پھولوں کا عرق بھی مصفی ظروف میں رکھ دیا جائے تا دیکھتے اور سونگھنے والا خود لطیف و نفیس ننگ وٹو کو کثیف رنگ دیو سے علیحدہ کرلے تنقید کی اس تعریف سے ظاہر ہے کہ اس کے مفہوم میں تعریف اور تنقیص دونوں پہلو شامل ہیں.اسی لئے ادباء اس بات پر متفق ہیں.کہ تنقید بڑی ذمہ داری کا کام ہے جسے شرعی انجام دینے کی اہلیت نہیں رکھتا.ایک ناقد کے لئے جہاں تجر علمی ، اور غیر جانبداری کی شرط ہے وہاں علم کلام ، علم اللسان، قواعد روزمره لغات، مصطلحات اور محاورات سے پوری طرح واقف اور باخبر ہوتا بھی ضروری ہے.ان عمومی خصوصیات کے علاوہ دینی تحریکات پر قلم اٹھانے یا لب کشائی کرنے والے ناقد کو خدا ترس چنین ، منصف متوازن باوقار سنجیدہ وسیع القلب اور بڑے دل گردہ کا مالک ہونا چاہیئے قلم و انسان کی تیزی ، جذباتیت پسندی ، مفاد پرستی ، جنبه داری اور اشتعال انگیزی ، سیاسیات حاضرہ کے لئے خواہ کتنی ہی مفید کیوں نہ ہوں ایک دینی نقاد کے لئے بلا مبالغہ زہر ہلاہل اور رستم قاتل ہیں..میں اپنے اس دعوئی کی تائید میں شہ ہور صاحب کشف و الہام بزرگ حضرت مولانا عبد الله غزه نوسی رحمتہ اللہ علیہ کا ایک واقعہ بیان
۲۲ کرتا ہوں.کہتے ہیں کہ حضرت مولانا عبد اللہ غزنوی رحمہ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک شخص صحت کے لئے حاضر ہوا.آپ نے فرمایا.کہ بڑے شوق سے بحث کیجئے.شرط صرف یہ ہے کہ نیت نیک ہو.اس شخص پر اس نصیحت کا ایسا گہرا اثر ہوا کہ وہ مناظرہ سے ہی دستکش ہو گیا.حتی یہ ہے کہ اس دین میں تنقید برائے تنقید کی گنجائش ہی کہاں ہو سکتی ہے جس کی آسمانی کتاب الذينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ احسن کی زریں ہدایت دیتی ہو.جس کے نبی کا مل نے قدمَة الحِكْمَةِ صالة المُومِنِ" کا زریں اصل بیان فرمایا ہو.اور جس کے صلحاء انظروا إلى مَا قَالَ وَلا تَنْظُرُوا إلى مَنْ قَالَ" کا مسلک رکھتے ہوں.انکہ ہمارے معاشرہ میں فری انتقاد کا جو معیار ہمارا معاشرہ اور قائم ہو چکا ہے.اس کا اندازہ سیرت کمیٹی فن انتقاد کے بانی جناب عبدالمجید فضا قرشی مرحوم کے ایک تمدید واقعہ سے بخوبی کیا جا سکتا ہے.چنانچہ آپ کا بیان ہے کہ ایک بوڑھا شخص بازار سے گزر رہا تھا.ایک شخص بولا نیو کیسی نورانی صورت ہے.وکاندار نے کہا.اچھی یہ تو مرزائی ہے.اب تعریف کرنے والا چپ ہو گیا.اور دو ایک منٹ کے بعد بولا.تبھی اس کے منہ پر
۲۳ پھٹکار برس رہی ہے کیا ملے یہ نہ مجھ لیجئے کہ یہ صورت حال صرف عوامی حلقوں تک محدود ہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ بالخصوص وہ اصحاب علم و فہم جنھیں مسند خطابت اور منیر موعظت پر قدم رکھنے کا فخر حاصل ہے.اسی رنگ میں رنگین نظر آتے ہیں.الا ماشاء اللہ) یہ اسلوب مشکر محض اتفاقی نہیں.بلکہ تحریک احمدیت کے سب سے پہلے نقاد مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی باقیا" کا ایک حصہ ہے.چنانچہ حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے اپنی کتاب تذکرۃ المہدی میں لکھا ہے.کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے مباحثہ لدھیانہ کے ایام میں یہانتک کہ ڈالا تھا.کہ اگر قرآن سے مرزا کا دھوٹی ثابت ہو جائے.تومیں قرآن چھوڑ دونگا مگر مرزا کو ہر گز نہیں مانوں گا یہ ہے بظاہر یہ بے حد تعجب خیز امر ہے کہ ایسا انسان جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقدس بچپن اور خُدا نما شباب اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو.اور جو آپ کے بے مثال اسلامی کارناموں کو پر جو کش خراج عقیدت پیش کر چکا ہو.وہ ایسی بات کیسے منہ پہلا سکتا ہے.مگر انسان جب بصیرت کی نگاہ سے محروم ہو جائے.تو بڑے سے بڑے دلی غوث اور قطب بلکہ بنی کے نورانی چہرہ کو بھی شناخت رسالہ ایمان پٹی - ۰ ارجون ۹۳۹ائر مثلا ل تذكرة المهدي " حصہ اول ص ۳۳ -
۲۴ نہیں کر سکتا.جناب رحمت اللہ صاحب سبحانی لودھیالوی نے اس سلسلہ میں اپنی کتاب مخزن اخلاق میں حضرت ابو الحسن شرقانی " کا یہ عجیب واقعہ لکھا ہے کہ ایک دفو سلطان محمود غزنوی نے ان سے کہا کہ کچھ با یزید کی باتیں سنائیے فرمایا کہ با یزید نے کہا ہے کہ جس شخص نے مجھے دیکھا شقاوت سے محفوظ رہا.محمود غزنوی نے کہا.کیا وہ پیغمبر خدا صلے اللہ علیہ وسلم سے بھی افضل تھے.کہ ابو جہل اور ابو لہب نے ان کو دیکھا اور شقی کے شقی ہیں.ہے ؟ حضرت ابو الحسن خرقانی نے فرمایا.ابو جہل نے اپنے بھتیجے محمد ابن عبد اللہ کو دیکھا تھا.نہ کہ محمد رسول اللہ کو لے اسی طرح یکی بھی کہتا ہوں کہ مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی نے اپنے ایک ہم مکتب مرزا غلام احمد کو دیکھا.اگر وہ مرزا غلام احمد سیح موعود کو دیکھتے تو ایسا ہر گز نہ کہہ سکتے تھے.احمدیت کے مختصر تعارف ، اس کے خلاف طوفان کا پس منتظر اور حقیقیت تنقید پر روشنی ڈالنے کے بعد اب میں اپنے مضمون کے اس دوسرے اور اہم حصہ کی طرف آتا ہوں کہ تحریک احمدیت کے مشہور نقاد کون سے ہیں ؟ اور ان کا انداز انتقاد اور اس کی روح کیا ہے ؟ سویا د رہے جیسا کہ میں ابتداء عرض کر چکا ہوں کہ احمدیت چونکہ ایک بین الاقوامی تحریک ہے.اس لئے اس کے نقادوں کا دائرہ بھی عامل گیر وسعت رکھتا ہے.مگر چونکہ مجھے صرف اجمالی رنگ میں ایک خاکہ پیش کرنا ہے
۲۵ لہذا میں سینکڑوں ناقدین میں سے بطور نمونہ پہلے بعض غیر مسلوں کا اجمالی اور پھر بر صغیر پاک و ہند کے مسلمان ناقدین کا ذرا تفصیلاتذکرہ کروں گا وَمَا تُوْلِيَتِي إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيُّ الْعَظِيمِ غیر مسلم نقادوں میں سے میرے نزدیک بعض مشہور سیحی نقاد یہ ہیں :.لارڈ یشپ آفت گلا سٹرار یونٹ چارس ایلی کوٹ، مسٹر والٹر ایم.اے سیکر ٹری کر یمین ایسوسی ایشین مسٹر لیوکس (پرنسپل فورمین کرسچین کالج لاہور، مسٹر ز و میر ، مسٹر اینچے کہ یمت مسٹر ایل بیون جونہ، مسٹر لارنس ایمی براؤن پروفیسر مذہبیات امریکہ.مسٹر گین، پروفیسر ٹائن ہی، اب میں بطور نمونہ ان کی آراء پیش کرتا ہوں.لارڈ بشپ آن گلاسٹر ریڈ یشپ آن گل سڑ نے 110 میں تحریک احمدیت پر ناقدانہ نظر ڈالتے ہوئے اس کی نسبت یہ رائے دی کہ اسلام میں ایک نئی حرکت کے آثار نمایاں ہیں.مجھے ان لوگوں نے جو صاحب تجربہ میں بتایا ہے کہ ہندوستان کی برطانوی مملکت میں ایک نئی طرز کا اسلام ہمارے سامنے آرہا ہے.اور اس جزیرے میں بھی کہ میں کہیں اس کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں.......یہ ان بدعات کا سخت مخالف ہے.جن کی بناء پر محمدؐ کا مذہب ہماری نگاہ
میں قابل نفرین قرار پاتا ہے اس نئے اسلام کی وجہ سے محمد کو پھر وہی پہلی سی عظمت حاصل ہوتی جارہی ہے.یہ نئے تغیرات آسانی شناخت کئے جا سکتے ہیں.پھر یہ نیا اسلام اپنی نوعیت میں مدافعانہ ہی نہیں بلکہ چار خانے حیثیت کا بھی حامل ہے.افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم میں سے بعض کے ذہن اس کی طرف مائل ہو رہے ہیں " سے پادری والٹر ایم.اے نے لکھا؟.والٹرا بہت پادری والٹر میں نے سر میں قادیان جاکرہ...ایک ایسی جماعت دیکھی.جس میں مذہب کے لئے وہ سچا اور زیر است ، جوش تھا جو مہندوستان کے عام مسلمانوں میں بالکل مفقود ہے یا سنے الیو کس نے آج سے چھیالیس برس پیشتر کو لہو میں مسٹر لیوس ایک لیکچر دیا.جس میں انہوں نے تحریک احمدیت کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے عیسائیوں سے کہا :- آپ لوگ شاید یہ سمجھتے ہوں گے کہ عیسائیت کی جنگ بڑے بڑے شہروں یا بڑی بڑی یو نیو رسٹیوں میں لڑی جائیگی The official Report of the Missionary I Confrence of the Anglican communion 1894.Page 64- سے احمد کو منٹ بیان اور قادیان ماه
لیکن میں آپ لوگوں کو بتاتا ہوں کہ عیسائیت اور اسلام کے درمیان جو جنگ جاری ہے اس کا فیصلہ کسی بڑے شہر میں نہیں ہوگا.ملکہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں ہو گا.جس کا نام قادیان ہے.(مفہوم) کے مسٹر زد و غیر اسٹرز دیر نشہور مستشرق نے قادیان کے عظیم اشان وعمیر اداروں اور تحریک احمدیت کا لٹریچر دیے بعد یہ نظر یہ قائم کیا کہ ردیکھنے یہ ایک اسلحہ خانہ ہے جو ناممکن کو ممکن بنانے کے لئے تیار کیا گیا ہے.اور ایک زبردست عقیدہ ہے جو پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہلا دیتا ہے" سے پادری این کریمی پادری ای که مرا تمرین مشتری کے تاثرات ہیں کہ را په جماعت اس زمانہ میں مسلمانوں کی نہایت عجیب جماعت ہے اور مسلمانوں میں صرف یہی ایک جماعت ہے جس کا واحد مقصد صرف تبلیغ اسلام ہے اگر چہ اس کی طرز تبلیغ میں کسی قدر سختی پائی جاتی ہے.تاہم ان لوگوں میں قربانی کی روح اور تبلیغ اسلام کا جوش اور اسلام به تغير كبير- سورة الكوثرمت و از حضرت خلیفہ اسیح الثانی ابی اللہ تعالی سے چہ چہ مشنری ریویو لندن حوالہ تاثرات قادیان مدها را از ما فضل حسین قنا
۲۸ کے لئے سچی محبت کو دیکھ کہ بے تحاشہ صد آخرین نکلتی ہے.وہ اسلام کی محبت میں اس قدر اندھے اور ممنون ہو رہے ہیں کہ جس قدر انسانی قلب کے لئے ممکن ہو سکتا ہے.وہ اس بات کے تکرار سے بھی نہیں تھکتے.کہ اسلام بنی نوع انسان کو مساوات، امن و امان اور مذہبی آزادی کا سبق دیتا ہے.جماعت کا اثر اس کے اعداد و شمار سے بہت زیادہ وسیع ہے.مذہب میں ان کا طرز استدلال بہت سے تعلیم یافتہ مسلمانوں نے اختیار کر لیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں میں رہتے ہوئے احمدیوں کا علم کام عقلاً ماننا پڑتا ہے کا نہ مسٹر ایل بیون جونز ہیں.اسے (ویلز، بی ڈی دلنڈن) مسٹر بیون جونتہ نے اپنی کتاب' The people of Mongue میں احمدیت کی نیت یہ نظریہ قائم کیا ہے کہ یہ تحریک عیسائیت سے انتقام کے لئے قائم ہوئی ہے.پروفیسر ٹائن بی لکھتے ہیں کہ مغرب سے تصادم کے نتیجہ پرفیسر مائن ہی میں اب اسلام میں پھر جوش پیدا ہورہا ہے اور اس میں ایسی روحانی تحریکات جنم لے رہی ہیں جو ممکن ہے مستقبل میں عالمگیر مذہب اور تہذیب کی بنیاد بن جائیں.مثلاً احمد یہ تحریک - سے ئے مسلم ورلڈ اپریل سے ترجمہ و تلخیص 204 Goliyatim am thail"
..۲۹ یہ ترسیمی نقادوں کے چند اقتباسات میں ان کے علاوہ دوسرے اہلِ مذہب مثلاً سناتن دھرمیوں ، سکھوں ، آریہ سماجیوں اور پر سمجھو سماجیوں نے بھی تنقیدی نگاہ سے احمدیت کا جائزہ لیا ہے.مثلاً ایک غالی اور متعصب آریہ جماعت احمدیہ کا مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ ا بلامبالغہ احمد یہ تحریک ایک خوفناک آتش فشاں پہاڑ ہے جو بظا ہر اتنا خوفناک معلوم نہیں ہوتا.لیکن اس کے اندر ایک تباہ کن اور سیال آگ کھولی رہی ہے جس سے بچنے کی کوشش نہ کی گئی تو کسی وقت موقع پا کہ ہمیں بالکل جھلس دے گی یا اے شری بریم دست تحریک احمدیت کی نسبت شری برہم دست کی رائے ہے احمدیہ جماعت مسلمانوں میں ایک ترقی پسند جماعت ہے.جملہ مذاہب کے ساتھ رواداری اس کی بنیادی تعلیم میں شامل ہے......چالیس سال بیشتر یعنی اس وقت جبکہ مہاتما گاندھی ابھی ہندوستان کے افق سیاست پر نمود 1 نہ ہوئے تھے کہ حضرت مرزا غلام احمد (علیہ السلام نے اہ میں دعوی مسیحیت فرما کر اپنی تجاویز رسالہ پیغام صلح کی شکل میں ظاہر فرمائیں جن پر عمل کرنے سے ملک کی مختلف قدروں له اختبار تیج دہلی ۲۵ جولائی ۱۹۲۶، بحوالہ تاثرات قادیان ص۲۲
۳۰ کے درمیان اتحاد و اتفاق اور محبت و مفاہمت پیدا ہوتی ہے آپ کی یہ شدید خواہش تھی کہ لوگوں میں رواداری ، اخوت اور محبت کی روح پیدا ہو.بے شک آپ کی شخصیت لائق تحسین اور قابل قدر ہے کہ آپ کی نگاہ نے مستقبل بعید کے کثیف پر وہ میں سے دیکھا.اور (صحیح ) رستہ کی طرف ہنمائی فرمائی.اگر لوگ اپنی خود غرضی اور غلط لیڈر شپ کی وجہ سے اس سیدھے رستہ کو نہ دیکھ سکے.تو یہ ان کی اپنی غلطی تھی.اور نفرت و حقارت کے جو کھیت انہوں نے بولتے تھے اُن کی فصل کاٹنے کے وہ اب ضرور مستحق ہیں یا اے ڈاکٹر شنکر اس وسیر کی شنکر اس پر بی ایس سی ایم بی بی ہیں لکھتے ہیں :- ونسل انسانی کی یہ قیمتی ہے کہ جب بھی کوئی تحریک اس کی ترقی اور یہودی کے لئے قائم ہوئی اس نے اس کی مخالفت کی.یہی حال تحریک احمدیت کا بر صغیر سہندوستان میں ہوا.ہندوستانیوں نے اس بات کا احساس نہیں کیا.کہ احمدیہ حیات کو اپنانے سے وہ سیاسی اعتبار سے ہندوستان کی ڈوڈی اخبار فرنیٹر میل ۱۲ دسمبر شاہ.بحوالہ تحریک احمدیت بھا ر د اسیوں کی نظر مي راز مولانا برکات احمد صاحب مرحوم) صفحه ۱۲
قوموں یعنی بند و دلی اور مسلمانوں کو متحد کرنے کا باعث ہونگے اور اس طرح مشرق وسطی اور افریقہ میں متفرق سیاسی حالات کے باوجود ایک متحدہ قومیت وجود میں آجائے گی.اور اس سے امن عالم کے لئے ایک موثر اقدام کرنے کے سامان پیدا ہوں گے اسے بطور نمونه چند غیر سلم نقادوں کا ذکر برصغیر پاک ہند کے کم نقاد کرنے کے بعداب میں بر صغیر کے مہند کے مسلمان ناقدین کی طرف آتا ہوں.برصغیر پاک و ہند کے علم نقادوں کا سلسلہ سینکڑوں سے بھی متجاوز ہے.اس لئے کہ خدائی تغذیہ کے مطابق یہی خطہ تحریک احمدیت کا مرکز اور تجربہ گاہ بنا اسی سرزمین نے سب سے پہلے مامور وقت کی آواز شنی اور اپنوں اور بیگانوں کو باقی دنیا کے مقابل اس تحریک کا قریب سے مطالعہ کرنے کے نسبتا زیادہ مواقع میسر آئے.بر صغیر کے مسلم نقادوں میں علماء، انگریزی دان، مورخ، شاعر فلسفی سیاسی لیڈر مقرر مناظر، واعظ، وکلاء، سجاده نشین ، صحافی نا دل نوئیں.افسانہ نگار غرضکہ ہر طبقہ کے لوگ شامل ہیں پھر ۱۹۴۹ نے ڈاکٹر صاحب کے مراسلہ ۲۶ دسمبر ٹسٹ سے اقتہ اس بحوالہ تحریکی احمدیت بھارت واسیوں کی نظر میں - صفحہ ۱۴-۱۵
۳۲ مذہبی مکاتیب فکر کے لحاظ سے ان میں مختلف نظریات اور ملک کے حامل موجود ہیں.اور ہر نا فذ احمدیت کے بارہ میں اپنی ذاتی اور تنتقل رائے رکھتا ہے.بالفاظ دیگر احمدیت پر نقد و نظر کرنے والی ہر آنکھ کا شیشہ دوسرے سے قطعی مختلفت ہے.یہی وجہ ہے کہ ان کی تنقیدی تحریریں میں بھی حیرت انگیز تضاد و اختلاف پایا جاتا ہے.اور اس کے تعاد د اختلاف میں زمانہ اور ماحول کے علاوہ سیاسی مصلحتیں بھی کار فرنہیں.میں پہلی دلچپ مثال جناب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی پیش کی جاسکتی ہے.اجو اول الناقدین ہونے کے علاوہ قادیان کے قریب ہی بٹالہ میں رہنے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات و سے سب سے زیادہ واقف تھے ، آپ اپنی عمر کے آخر تک انگریزی حکومت کو اپنے رسالہ اشاعت السنہ کے ذریعہ توجہ دلاتے رہے کہ گورنمنٹ کو اس کا اعتبار کرنا مناسب نہیں اور اس کے پیر عذر رہنا ضروری ہے.ورنہ اس مہدی کا دیانی سے اس قدر نقصان پہنچنے کا احتمال ہے جو مہدی سوڈانی سے نہیں پہنچانے اسی طرح مولونی کرم دین صاحب آف بھیں نے انگریزی حکومت کو اشاعة السنة" حاشیہ جلد ۷ صفحه ۱۶۸
اشتباہ کرتے ہوئے لکھا کہ گورنمنٹ کو اپنی وفادار مسلمان رعا یا براطمینان ہے.اور گورمنٹ کو خوب معلوم ہے کہ مرزا جی جیسے مہدی صیح وغیرہ بننے والے ہی کوئی نہ کوئی آفت سلطنت میں برپا کیا کرتے ہیں......مبرزا جی نے تو مسلمانوں میں یہ خیال پیدا کر دیا ہے.کہ مہدی وسیع کا یہی زمانہ ہے اور قادیان ضلع گورداسپور میں وہ مہدی وسیح بیٹھا ہوا ہے وہ کسر صلیب کے لئے مبعوث ہوا ہے.تاکہ عیسویت کو محمو کر کے اسلام کو روشن کرے اور یہ بھی برملا کہتا ہے کہ خدا نے اسے بتا دیا ہے کہ سلطنت بھی اسی کو ملنے والی ہے.چنانچہ اس نے اپنی متعدد تصانیف ہیں یہ الہام و کشف شنایا ہے.کہ خدا نے اُسے نہلا دیا ہے.کہ بادشاہ اس کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.بلکہ یہ بھی لکھدیا ہے.کہ وہ بادشاہ اسے دکھائے بھی گئے ہیں.اور یہ بھی کہتا ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہت مرزائیوں کی جماعت کو کسی زمانہ میں ملے گی.اب خیال فرمائیے کہ یہ خیال کہانتک خوفناک خیال ہے.جبکہ مرزا جی نے یہ الہام ظاہر کر کے پیش گوئی کر دی ہے کہ بادشاہ اس کے حلقہ بگوش ہوں گے اور بادشاہت مرزائیوں کو ملے گی.کیا عجب کہ ایک
۳۴ زمانہ میں مرزائیوں کو جو اس کی پیش گوئیاں پورا کرنے کے لئے اپنی جانیں دینے کو تیار ہیں...یہ جوش آجائے کہ اس پیشگوئی کو پورا کیا جائے.اور وہ کوئی فتنہ و بغاوت برپا کریں.اس میں کوئی شک نہیں کہ مرزا جی نے مسلمانوں کو نصاری سے سخت بدظن اور مشتعل کر رکھا ہے وہ درقبال سمجھتے ہیں تو نصاری کو.خیر دجال کہتے ہیں تو ریلوے کو.اب سوال یہ ہے کہ یہ ریلوے کس نے جاری کر رکھی ہے جب یہ خیر در قبال ہے تو اس کے چلانے والے بادشاہ وقت کو ہی یہ دستمال کہتے ہیں.اور مسلمانوں کو اس کے خلاف سخت مشتعل کر رہے ہیں.گورنمنٹ کو ایسے اشخاص کا شہرقت.کو خیال رکھنا چاہیے " سے اسی نظریہ کے مطابق جناب ابوالقاسم صاحب دلاوری مؤلف رئیس قادیان" اخبار آزاد میں لکھتے ہیں:.گومرزا صاحب نے تقدس کی دکان ابتداء محض شکم پروری کے لئے کھولی تھی.لیکن ترقی کر کے سلطنت پر فائز ہونے کا لائحہ عمل بھی شروع سے ان کا پیش نظر تھا.اور انھیں آغاز کار لئے تازیانه عبرت طبع دوم ماه ۹۴ از شیر اسلام مولوی محمدکرم دین صاحب دبیران مطبوعه سلم پرنٹنگ پریس لاہور.
۳۵ سے اس مطلب کے الہام بھی ہوا کرتے تھے.چنانچہ بقول میاں بشیر احمد ایم اے مرزا صاحب کا پہلا الہام جوانه یا دی میں ہوا یہ تھا.کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے......خودمرزا صاحب نے نہ صرف الہام کا بڑے طمطراق سے براہین میں تذکرہ فرمایا.ملکہ عالم کشف میں وہ بادشاہ بھی مرزا صاحب کی مقدس بارگاہ میں پیش کر دیئے گئے..گو بادشاہوں کی متابعت کا کشف یا خواب کبھی پورا نہ ہو.لیکن اس سے کم از کم قادیانی صاحب کی ذہنی کیفیت، ان کے خیالات کی بلند پروازی اور ان کی اولو العرومی کا ضرور پتہ چلتا ہے اور اس سے یہ بھی متبادر ہوتا ہے.کہ قیام سلطنت کے اصل داخی و محرک میں نا صاحب ہی تھے.آخر کیوں نہ ہو.قوم کے مغل تھے اور رگوں میں تیموری خون دوڑ رہا تھا.میرے خیال میں میرزا صابت نے قیام سلطنت کی جن آرزوئیں کو اپنے دل میں پرورش کیا.وہ قابل صد ہزار تحسین تھیں " نے لیکن اب اس کے برعکس یہ نظر پیش کیا جا رہا ہے کہ یہ تحریک در اصل انگریز کا خود کاشتہ پودا ہے.اور مرزا صاحب اس کے ایجنٹ اور جاسوس تھے.اس سلسلہ میں ایک مشہور ادیب اور اخبار نویس جناب چراغ حسن صاحب حرکت اس امر کا اقرار بھی کرتے ہیں کہ ه آزاد ۴ ۲ نومبر شواه
میرزا صاحب کے حلقہ ارادت میں سب سے پہلے وہی لوگ شامل ہوئے.جو فرنگی دشمنی کے باعث ہندوستان بھر میں مشہور تھے یعنی وہابی جماعت کے لوگ جوق در جوق ان کے مریدوں میں شامل ہونے لگے یہ ہے احمدیت کو انگریزوں کا خود نوشتہ پورا قرار دینے والے تیاریخی حقیقت بالکل نظر انداز کر جاتے ہیں.کہ انگریزی حکومت نے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو تو ان کی خدمات کے صلہ میں چار مریعے زمین عطا کی تھی.جیسا کہ انہوں نے اشاعۃ السنہ میں تسلیم کیا ہے یہ مگر اس کے مقابل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آباء و اجداد کی باقیماندہ جاگیر بھی ضبط کر لی گئی.اگر واقعی حضرت میرزا صاحب ہی برطانوی ایجنٹ تھے تو مریعے آپ کو دیئے جاتے.لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا.بایں ہمہ ہمارے انی منصف مزاج " نقادوں کی نگاہ میں حضرت سیچ موجود علیہ السلام انگریزوں کے جاسوس تھے.اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سب سے بڑے مجاہد اور سب سے بڑے محافظ ختم نبوت !! جنوں کا نام خود رکھ دیا عود کا جنہوں جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت جماعت احمدیہ کو طانوی آئینیٹ سے مجھے تحت یہ بتانا ضروری ہے قرار دیئے جانے کا نظریہ کہ جماعت احمدیہ کو برطانوی سامراج ه ارمغان قادیان صفحه س (از ظفر علی خان کے اشاعۃ السنہ علیہ 19 نمبر و مت ال
کا ایجنٹ ثابت کرنے کا نظریہ ہمارے ملک کی مشہورہ جماعت مجلس احرار اسلام کے بعض دماغوں کی پیدا وار ہے.جو ۱۹۲۷ء میں معرض وجود میں آئی.اور جین نے ہماری ملکی خطابت و سیاست پر کسی نہ کسی رنگ میں گہرا اثر ڈالا ہے.اس نظریہ کے پیچھے کون سے عوامل کار فرما تھے؟ مجلس کا مشہور آرگن اس پر ان الفاظ میں روشنی ڈالتا ہے کہ جب حجتہ الاسلام حضرت علامہ انور شاہ صاحب کا شمیری حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی اور حضرت مولستا ثناء اللہ صاحب امرت سری وغیرہم رحمہم اللہ کے علمی اسلحہ فرنگی کی اس کا شتہ داشتہ نبوت کو موت کے گھاٹ نہ آثار سکے.تو مجلس احرار اسلام کے مفکرا کا بر نے جنگ کا رُخ بدلا نئے ہتھیار لئے اور علمی بحث و نظر کے میدان سے ہٹ کر سیاست کی راہ سے فرنگی سیاست کے شاہکار پر حملہ آور ہو گئے یا اے ہو.صادف ظاہر ہے کہ سیاست کی راہ میں آنے کے بعد تنقید کے نے ادیے بدل جاتے ہیں.علمی بحث و نظر کے مقابل سیاسی رنگ کی تنقید کا انداز بالکل مختلف ہوتا ہے.سیاسی رنگ کی تنصیب میں متافت شائستگی اور 1901 ه آزاد ۳۰ را پریل ۱۹۵۷ نه مدا
٣٨ معتدل مزاجی کا بہت کم امکان ہوتا ہے.اس لئے مجلس سے وابستہ بعض حضرات کا اعتراف ہے کہ ت یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مجلس احرار کے خطیبوں میں تجربات پھکڑ بازی اور اشتعال انگیزی کا عنصر غالب ہے یہ ٹھیک ہے.مگر یہ بھی تو دیکھئے کہ ہماری قوم کی ذہنیت اور مذاق کیا ہے....آپ ذرا حقیقت پسند سنجیدہ اور رتین بن جائیں.پھر آپ مسلمانوں میں مقبول ہو جائیں.اور کوئی تعمیری پھر آپ مسلموں میں ہوجائیں.اور ابی و اصلاحی کام کر لیں.تو ہمارا ذمہ.یہی تو ہماری سب سے بڑی کمزوری ہے کہ ہم حقائق و واقعات سے کوئی تعلق نہیں رکھتے آپ بڑے بڑے دیانتدار، بالاخلاق اور سعید متین پہاڑوں کو کھو دیں.تو اشتعال کا چوہا نکلے گا.الیکشن بازی میں تو دیندار اور ہے دین سب کے سب اشتعال انگیزی ہی سے کام لیتے ہیں.ہاں یہ ضرور ہے.کہ اس سے کوئی کم کام لیتا ہے.اور کوئی زیادہ.ہمارے احراری بزرگ اس میں سب سے آگئے ہیں.اسی لئے وہ رشک و حسد کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں یا نہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اس میں کا سرکاری آرگن کی صفائی نے سلیم 16-14 ه اخبار آزاد کار تمبر حوله، ما
۳۹ کر رہا ہے کہ اس نے احمدیت کو شکست دینے کے لئے سنجیدہ اور علمی فرائع سے کام لینے کی بجائے ہمیشہ پھکڑ بازی اور اشتعال انگیزی کا سہارا لیا اور مذہبی میدان میں مقابلے سے عاجز ہو جانے کے بعد بقول خود سیاسی میدان میں آکر اسے زک دینے کی کوشش کی لیکن ہر صاحب نظر اندازہ کر سکتا ہے.کہ تنقیدی زادئیے جب سیاست کی عینک سے تجویز کئے جائیں اور اس عینک کے شیشوں میں جذباتیت.پھکڑ بازی اور اشتعال انگیزی کا رنگ غالب ہو تو واقعات و حقایق کا حلیہ میری طرح بگڑ جاتی ہے.اپ کچھ عرصہ سے احرار کے قائم کردہ نظر یہ پر دوسرے ناقدین حکمت نظر ثانی کر رہے ہیں.چنانچہ ملک لمحمد جعفر خانصاحب ایڈووکیٹ لکھتے ہیں.جماعت احمدیہ کی شروع زمانہ کی ترقی میں انگریزی حکومت کی سرپرستی کو بہت کم دخل ہے.مرزا صاحب اپنی زندگی میں اپنے معتقدین کو ایک منظم اور کرو یہ ترقی جماعت کی صورت میں قائم کر چکے تھے.مرزا صاحب شنگالہ میں فوت ہوئے تھے.اس وقت تک مہندوستان میں تحریک آزادی نے صحیح معنوں میں جنم ہی نہ لیا تھا اور انگریزوں کو اپنی رعایا میں وفا پیشہ افراد اور جماعتوں کی خاص طور پر حاجت نہ ہوئی تھی.مرزا صاحب کے زمانے میں ان کے مشہور مقتدر
مخالفین مثلاً مولوی محمد حسین بٹالوی.پیر مہر علی شاہ گولڑوی مولوی ثناء اللہ صاحب، سرسید احمد خاں یہ سب انگریزوں کے ایسے ہی وفادار تھے جیسے مرزا صاحب.یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں ہو کر پھر مرزا صاحب کے تو ہیں لکھا گیا.اس میں اس امر کا کوئی ذکر نہیں ملتا.کہ مرزا صاحب نے اپنی تعلیمات میں غلامی پر رضا مند رہنے کی تلقین کی ہے سینے فرقہ اہلحدیث کا ملکہ وکٹور یا جناب ملک جعفر خاں صاحب کے اس خیال کی تائید میں درجنوں ناقابل کے حضور ایڈریس تردید شواہد و حقائق پیش کئے و جا سکتے ہیں.مگر نہیں بطور مثال فرقہ اہلحدیث کے اس ایڈریس کا متن پیش کرنا چاہتا ہوں جو ملکہ وکٹوریہ کی پنجاه سالہ جوبلی کے موقعہ پر شاہ میں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ ملکہ کو پیش کیا گیا تھا.ایڈریس گروه مسلمانان المحدیث بحضور فیض گنجور کو تین وکٹوریہ ملکہ گریٹ برٹن و قیصرہ ہند بارك الله في سلطنتها؟ ہم ممبران گروہ اہلحدیث اپنے گروہ کے کل اشخاص کی طرف سے حضور والا کی خدمت عالی میں جشن جو بلی کی دلی مسرت سے مبارکبا د عرض کرتے ہیں.برٹش رعایا ئے ہند میں سے لے احمدیہ تحریک مد ۲۲ شائع کردہ سندھ ساگیہ اکادمی لاہور.
کوئی فرقہ ایسا نہ ہو گا.جس کے دل میں اس مبارک تقریب کی مسرت جوش زن نہ ہو گی.اور اس کے بال بال سے صدائے مبارکباد نہ اٹھتی ہوگی.مگر خاصکہ فرقہ اہل اسلام میں کو سلطنت کی اطاعت اور فرمانروائی وقت کنی عقیدت اس کا مقدس مذہب سکھاتا اور اس کو ایک فرض مذہبی قرار دیتا ہے.اس اظہار مسرت اور ادائے مبارکباد میں دیگر مذاہب کی رعایا سے پیش قدم ہے.علی الخصوص گروہ اہلحدیث منجملہ اہل اسلام اس اظہار مسرت و عقیدت اور دعائے برکت میں چند قدم اور کبھی سبقت رکھتا کیا ہے.جس کی وجہ یہ ہے کہ جن برکتوں اور نعمتوں کی و جیسے یہ ملک تاج برطانیہ کا حلقہ بگوش ہو رہا ہے از استجملہ ایک بے بہا نعمت مذہبی آزادی سے یہ گروہ ایک خصوصیت کے ساتھ اپنا نصیبہ اٹھا رہا ہے وہ خصوصیت یہ ہے کہ یہ مذہبی آزادی اس گروہ کو خا مکر ایسی سلطنت میں حاصل ہے.بخلاف دوسرے اسلامی فرقوں کے کہ ان کو اور اسلامی سلطنتوں میں بھی یہ آزادی حاصل ہے.اس خصوصیت سے یقین ہو سکتا ہے.کہ اس گروہ کو اس سلطنت کے قیام داستحکام سے زیادہ مسرت ہے
۴۲ اور ان کے دل سے مبارکباد کی صدائیں زیادہ زور کے ساتھ نعرہ زن ہیں.ہم بڑے جوش سے دُعا مانگتے ہیں.کہ خدا وند تعالے حضور والا کی حکومت کو اور بڑھائے اور تا دیر حضور والا کا نگہبان رہے.تاکہ حضور والا کی رعایا کے تمام لوگ حضور کی دسیع حکومت میں امن اور تہذیب کی برکتوں سے فائدہ اٹھائیں یا کہ میں یہ بتارہا تھا کہ ناقدین احمدیت کے تنقیدی دوسری مثال جائز دن میں زبر دست تضاد ہے اس سلسلہ میں بعض اور تنقیدات کے نمونے بھی پیش کرتا ہوں.جو آپس میں کھلم کھلی متصادم ہیں.چنانچہ آج سے پچاس سال قبل مولوی کرم دین کتاب بھیں کا نظریہ تھا کہ انگریزی حکومت ایسی عادل اور قابل تعریف حکومت ہے کہ اس کے عہد میں کسی مہدی کے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.چنانچہ انہوں نے لکھا:.بعثت مہدی علیہ السلام کا زمانہ ہی وہ ہو گا.جبکہ دنیا ظالم اور جفا کار بادشاہوں کے ہاتھ سے نالاں ہوگی.اور زمین پر بدامنی اور فساد پھیلا ہوا ہوگا.اور اس وقت مہدی معہود اس فتنہ و فساد کو دور کر کے امن قائم کرینگے نے رسالہ اشاعۃ السنہ جلد و مک ۳۰۵-۲۰۶ حاشیه
۴۳ حالانکہ اس وقت ہمارے سر پر ایک ایسے امن پسند بادشاہ املاک معظم قیصر سند کا ہاتھ ہے جس کے انصاف د عدل اور امن گستری کے مخالف و موافق قائل ہیں اور مسلمان اس کے سایہ میں امن وامان سے اپنے مذہبی فرائض بجا لاتے ہیں.جمعے، عیدین اطمینان سے پڑھتے ہیں.بیوت الله (مساعد) کو آباد کئے ہوتے ہیں.یعنی ہم کو اپنے مذہبی امور کی بجا آوری سے بالکل آزادی ہے.پھر اگر مسلمان اس زمانہ میں کسی مہندی کی ضرورت سمجھیں تو وہ حدیث رسول کی تکذیب کرنے والے ٹھہرتے ہیں پہلے مگر موجودہ نقادوں کا رہے بڑا اعتراض یہی ہے.کہ مرزا صاحب نے سکھ حکومت کے مظالم کے مقابل انگریزی حکومت کی مذہبی آزادی کی کیوں تعریف کی ؟ حالانکہ حضور نے انگریزی حکومت کے بارے میں وہی موقف اختیار کیا تھا جو حضر سید احمد صاحب بریلوی حضرت مولانا اسمعیل شہی.مولانا عبد الحی صاحب لکھنوی کی نواب صدیق حسن جنان فنوجی شیشه شیخ الکل سید نذیر حسین صاحب و بلوی کلیه مولوی محمد حسین مهتاب نے تازیانہ عبرت " مش - لاله سوانح احمدی ملت از مولوی محمد جعفر ه صاحب تھا غیری - سے ایضاً ص ۱۳۲ - سه مجموعه فتاوی جلد دوهم مره ۳۳۵ شه تر جهان وا بیر صفحه ۱۵ تا ۸۴ - شه فتاویٰ نذیریہ عید و صفحه
۴۴ بشالومی پایه سرسید احمد خانصاحب بله شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمدرضا دہلوی کی مولوی چراغ علی صاحب ہے، اور مکہ کے چاروں مفتیوں اور ترکی کے خلیفہ المسلمین شعری تھا.اس سلسلہ میں ایک دلچسپ بات یہ ہے.کہ ہمارے نقاد ایک طرف جہاد بالسیف کے التوا کی بناء پر تحریک احمدیت کو مطعون کرتے ہیں.اور دوسری طرف اس دلی آرزو کا اظہار کرتے ہیں کہ سے بانه در عالم بیا ایام مصلح جنگ جو یاں را بده پیام صلح علامه اقبال استحارب و متخالف تنقیدات کی اور بھی متعدد عجیب قیری مثال مثالیں موجود ہیں.مثلاً ایک گوشہ سے یہ الزام عاید کیا جاتا ہے کہ تم آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی شان میں مبالغہ کرتے ہو.اور اسے بڑھا چڑھا کہ بیان کرتے ہو اور دوسرے گوشہ سے آواز اٹھتی ہے کہ احمدی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان ہی نہیں کھتے.چوتھی مثال اور آگے چلئے حضرت مسیح علیہ اسلام کے مصلوب یا مقتول ہونے کی نیت یہود کو کیسے اشتباہ ہوا ؟ اس له رساله الاقتصاد فی مسائل الجہادیہ سے رسالہ اسباب بغاوت ہندا صفحه ۶۵ سه نصرت الابرار ما - سکه تحقیق الجہاد نہ کرتا ہے سید عطاء اللہ شاہ بخاری را از جناب شورش کاشمیری، صفحه ۱۳۱
۴۵ بارے میں دلچسپ تضاد ہے.ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ قصہ یہ ہوا کہ جب یہودیوں نے حضرت مسیح کے قتل کا عزم کیا.تو پہلے ایک آدمی ان کے گھر میں داخل ہوا.حق تعالے نے ان کو تو آسمان پر اٹھا لیا اور اس شخص کی صورت حضرت مسیح علیہ السلام کی صورت کے مشابہ کر دی.جب باقی لوگ گھر میں گھس آئے تو اس کو مسیح سمجھ کر قتل کر دیا ہے اس کے مقابل دوسرا گروہ یہ نظریہ رکھتا ہے کہ جبیل کے رومی سپاہیوں کے لئے رب یہودی اجنبی ہی تھے اور اس لئے یا ہر گھر ہم شکل اور یکساں یہ انہیں ایک اسرائیلی ربوع ناصری، اور دوسرے اسرائیلی رشمعون کرینی) کے در میان اشتباہ نہایت آسان تھا.انہیں دونوں کے دریان کوئی نمایاں فرق ہی نہیں نظر آسکتا تھا شمعون نے یقینا داریل مچایا ہوگا.لیکن ادھر مجمع کا شور و ہنگامہ اُدھر جبیل کے سپاہیوں کی اسرائیلیوں کی زبان سے ناواقفیت اور پھر سولی پر لٹکا دینے کی جلدی.اسی افرا تفری کے عالم میں اسی شمعون کو پکڑ کر سولی پر چڑھا دیا گیا.اور وہ چیخیت چلاتا رہا.حضرت مسیح قدر شنا اس ہر یونگ میں لے کسی قرآن مجید مترجم من الشيخ البته الان ما و شبیر احمد مها عثمانی
دشمنوں کے ہاتھ سے رہا ہو گئے ، اسہ تیر ا گر وہ یہ کہتا ہے کہ ، قرآن اور بائیبل کے بیانات کا متقابل مطالعہ کرنے سے ہم یہ سمجھتے ہیں.کہ غالبا پیلاطوس کی عدالت میں تو پیشی آپ ہی کی ہوئی تھی.مگر جب وہ سزائے موت کا فیصلہ سنا چکا.تب اللہ تعالے نے کسی وقت آنجناب کو اٹھا لیا.بعد میں یہودیوں نے جس شخص کو صلیب پر چڑھایا.وہ آپ کی ذات مقدس نہ تھی.ملکہ کوئی اور شخص تھا.جس کو نہ معلوم کس وجہ سے ان لوگوں نے عیسی بن مریم سمجھ لیا...اپنے یہ معلوم کرنے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ معاملہ کس طرح ان کے لئے مشتبہ ہو گیا.چونکہ اس باب میں کوئی یقینی ذریعہ معلومات نہیں ہے.اس لئے مجرد قیاس دیگان اور افواہوں کی بناء پر نہیں کہا جا سکتا.کہ اس شہر کی خوبیت کیا تھی ؟ واقعہ مصلیب کے بعد حضرت مسیح کے رفع الی السماء پانچویں مثال اور سیمانی زندگی کا خیال زیر غور آتا ہے.اس سلسلہ ان تغییر ماجدی " شائع کرده تاج کمپنی من : سے تفہیم القرآن جلد مام راز جناب سید ابوالا علی صاحب مودودی امیر جماعت اسلامی پاکستان)
میں بھی نافذین احمدیت کے متعدد فریق نظر آتے ہیں.ایک فریق حضرت مسیح کی آسمان پر جسمانی زندگی پر منش دانہ عقید رکھتا ہے.اور اس کے خیال میں حیات مسیح کے نظریہ کو اسلام میں ایسی بنیادی حیثیت حاصل ہے کہ اس کا منکر واجب القتل ہے ایسے دوسرا فریق یہ کہتا ہے کہ حیات مسیح ابتدا سے مختلف فیہ مسئلہ رہا ہے اور ایسے لوگ مرزا صاحب سے پہلے موجود تھے توسیع کی موت کے قائل تھے...حیات و ممات سیح کے متعلق ہر مسلمان مطالعہ کے بعد اپنی دیانتدارانہ رائے قائم کرنے میں آزاد ہے.اس کی یہ رائے نہ اس کو کا فرینا سکتی ہے کہ مومن یا سلے تیسرا فریق یہ کہتا ہے کہ قرآن میں نہ حضرت مسیح کی وفات کی وضاحت ہے.نہ رفع الی اعتماء کی چنانچہ جناب سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی لکھتے ہیں:.ما قرآن نہ اس کی تصریح کرتا ہے کہ ال ان کو جسم در روح کے ساتھ کرہ زمین سے اٹھا کر آسمانوں پر کہیں لے گیا اور نہ یہی صاف کہتا ہے کہ انہوں نے زمین پر طبعی موت پانی اور صرف ان کی رُوح اُٹھائی گئی ہے.....پس قرآن کی لے المنبر لائل پور لله تحریک قادیان کا راز جناب سید حبیب صاحب مدیر سیاست
روح سے زیادہ مطابقت اگر کوئی طرز عمل رکھتا ہے تو وہ صرف یہی ہے کہ رفع جسمانی کی تصریح سے بھی اجتناب کیا جائے.اور موت کی تصریح سے بھی :- چوتھا فریق جس کی قیادت اس وقت محترم غلام احمد صاحب پر رویہ کر رہے ہیں.سرے سے حضرت سیج کے رفع الی السماء ہی کا قائل نہیں.اور اس کا نقطہ نظر یہ ہے کہ چونکہ حضرت مسیح کی وفات قرآن سے ثابت ہے.اس لئے مرزائیت کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وفات میچ کا اعلان کر دیا جائے لیے اور...جن حدیثوں میں کسی مہدی مسیح کے آنے کی پیش گوئی ہے.وہ قابل التفات ہی نہیں ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال بھی کسی زمانہ میں اسی نظریہ کے حامی تھے چنانچہ ان کا ایک شعر ہے سے مینار دل یہ اپنے نزول مسیح دیکھ اور انتظار مہدی و عیسی تھی چھوڑ دے مگر اس کے بعد انہوں نے اس خیال سے رجوع کر کے کہا اسے وہ کہ تو جہدی کے تخیل سے ہے بیزار نومید نہ کہ آہوئے مُشکیں سے فتن کو چھٹی مثال پھر مہدی ریح کی آمد کا نظریہ رکھنے والے کئی خیانت التفسير القرآن جلد ۳۲۱ سال طلوع اسلام ام اما
۴۹ فہرست میں بٹے ہوئے ہیں.موجودہ جمہور علماء کا عمو کا نقطہ خیال یہ معلوم ہوتا ہے کہ مہدی ظاہری علامات کے مطابق فوڈا پہنچانا جائے گا.اور ڈنکے کی چوٹ اعلان جہد ورت کرے گا.مگر جناب مودودی صاحب کا اندازہ یہ ہے کہ مہدی ایک جدید قسم کا لیڈر ہو گا.اور اس کی موت کے بعد اس کے کازامون کا لیڈر ہوگا اور کی موت کے سے پتہ چلے گا کہ وہ مہدی موجود ہے.اے بالفاظ دیگر مسلمان آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا اسلام تندی کی قبر کو پہنچائیں گے کیونکہ جیتے جی انھیں اس کی شناخت نصیب نہ ہو سکے گی.جب مر گئے تو آئے ہمارے مزار پر پتھر پڑیں صنم ترے ایسے پیار پر لیکن مشکل یہ آپڑی ہے.کہ جناب سیدابوالاعلیٰ صاحب مودودی کے نظریات کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کے کس نظریہ کی عمر کتنی ہے اور کس وقت ایسے اضطراری حالات رونما ہو سکتے ہیں.جن میں اپنے پہلے نظریہ کے متعتاد وہ دوسرا نظریہ وضع فرمالیں!! اسی لئے ان کے ایک سابق رفیق جناب این احسن صاحب لئے تجدید و احیائے دین " را از جناب سید ابوالد علی صاحب مودودی )
اصلاحی نے جماعت اسلامی اور ان کو حال ہی میں بیشوره دیا ہے کہ اپنی تمام کتابوں پر سرخ رنگ سے یہ ہدایات لکھوا دیں کہ فلاں کتاب کی تاریخ تک قابل اعتنا رہے گی.اور کس تاریخ کے بعد منسوخ بھی جاگی باہر کے ملکوں سے جو دوائیں اور کھانے پینے کی چیزیں شیشیوں اور بند ڈیوں میں آتی ہیں.ان بچہ اس قسم کی ہدایات درج ہوتی ہیں.جن سے لوگوں کی بڑی رہنمائی ہوتی ہے.اگر جماعت نے اس طریقے کو اپنا لیا.تو اس سے لوگ غلط فہمیوں سے بھی محفوظ رہیں گے.اور یہ اپنی ندرت اور طرفگی کے اعتبار سے خصوصا مذہبی لیر کر کی تاریخ میں ایسی چیز ہو گی.کہ ہماری آئندہ نسلیں ؟ اس کو جماعت اسلامی کی اولیات میں شمار کر نیگی نہ ملے اب میں اس تضاد پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں ساتویں مثال ہر مسئلہ نبوت کے بارے میں ماہرین تنقید کے.جو افکار و خیالات میں پایا جاتا ہے.ان حضرات کی نگاہ میں لفظ خاتم نبین کے معنی آخری بنی کے ہیں.مگر اس کے ساتھ ہی وہ حضرت مسیح کی آمد ثانی کا نظریہ قبول کر کے عملاً حضرت مسیح کو آخری نبی قرار دیتے ہیں.لة المنبر ۳ راکتو بر من
۵۱ ایک گروہ کی رائے میں تکمیل دین اور آفتاب محمدی کے طلوع ہونے کے بعد اب ٹمٹماتے ہوئے چراغوں اور لڑکھڑاتی ہوئی شمعوں کی ضرورت نہیں یعنی اب خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں کسی قسم کی نبوت کا تصور سراسر باطل ہے.لیکن ایک دوسرے مکتی فکر کے علمبردار جناب محمد حنیف صاحب ندوی مرزائیت نئے زاویوں سے نامی کتاب میں فرماتے ہیں کہ عصر حاضر کے لئے اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے میرا مستقبل کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے نئی شریعت کا امکان تو خیال میں آسکتا ہے.العینہ ملکی اور بروزی نبوت کا امکان ہرگز نہیں نانا جا سکتا.ہمارے ناقدین کا علم اجرائے نبوت کے عقیدہ پر تنقید کرتے ہوئے اشتعال کی معراج تک پہنچ جاتا ہے.یہ حضرات ایک طرف تو بنی کے آنے کا تصور کرنا بھی گناہ عظیم سمجھتے ہیں.اور دوسری طرفف لفظ انہی کے بے جا استعمال میں بڑی سخاوت کا مظاہرہ فرماتے ہیں.چنانچہ کہیں شاعر مشرق علامہ اقبال کو پیغمبر گلشن اور رسول حمین کہا جا رہا ہے ہے کہیں معاذ اللہ معاذ اللہ.جناب سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری رحمۃ للعالمین سے موسوم کئے جاتے ہیں ہیے کہیں امانت لکھنوی کو خاتم المرسلین" کے لقب سے نواز اخبار ہا ہے.کسے کہیں مولوی یا اللہ له قندیل ۲۲ را پریل ۱۹۵۵ء سے ترجمان اسلام ۱۵ ستمبر راه ها کے شعر الہند حصہ دوم ( از مولوی عبید السلام ضایت ندویی)
۵۲ صاحب امرت سری کو نامور قرار دیا جارہا ہے لیے کہیں پنڈت نہرو کے لئے رسول اسلام کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے.اور گاندھی کو بالقوۃ بنی تسلیم کرنے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں کیے اور کہیں اطالوی حسینہ کو پیغمبر جمال اور پروردگار عشق" کا خطاب دیا جا رہا ہے بلکہ یہی نہیں مومن کی تعریف میں ہمارا قومی اور فلسفی شاعر یا نشک کہتا ہے.ما ہنوز اندرظام کائنات اد شریک اہتمام کائنات أريح وأو كليم وأو فليل أو محمد، او کتاب، او جبرئیل پھر کہتا ہے.3.عالم ہے فقط مومن جانیا نہ کی میراث مومن نہیں ہو صاحب لولاک نہیں ہے کہ اس باب میں امیر شریعت جناب سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کی روش بے حد نا قابل فہم اور انتہائی نجیب و غریب ہے.کیو نکہ ایک طرف ان کا ارشاد یہ تھا کہ اگر خواجہ غریب نوانہ اجمیری ، سید عبد القادر جیلانی ے سیرت ثنائی " سے اختبار ذو الفقار ۱۶ را پریل ۱۱۹۲۷ - سه ارمغان قادیان من - شده بالِ جبریل -
۵۳ امام ابوحنیفه - امام مالک، امام شافعی ، ابن تیمیہ ، غزالی حسن بصری بنبوت کا دعوی کرتے تو کیا ہم انہیں بنی مان کیتے.علی دعوی کرتا کہ جیسے تلوارحی نے دی اور بیٹی نبی نے دی.عثمان دعونی کرتا ، فاروق اعظم دعواتے کرتا ، ابو بکر صدیق دخوئی کرنا.تو کیا بخاری اسے بان لیتا ریعنی ہرگز نبی نہ ماننا.ناقل ہے مگر دوسری طرف انہوں نے اور جولائی 1924ء کو ملتان کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے یہاں تک اعلان فرما دیا کہ یکن ممتاز صاحب دولتانہ کو اس لئے اپنا لیڈر جانت ہوں کہ ایک تو وہ صور سلم لیگ کے صدر ہیں.اور دوسرے وہ صوبہ پنجاب کی حکومت کے وزیر اعلیٰ ہیں اگر دولتانہ صاحب کہدیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت پر ایمان لے آؤ تو میں اس پر ایمان لے آؤں گا اور مرزا بشیر الدین محمود کو خلیفہ اسیح مان لوں گا.ہے غرض احدیت پر تنقید کے نام سے ایک ایسی معجون مرکب چیز ہمار ہے سامنے آتی ہے کہ ایک معقول سنجیدہ اور متین مسلمان حیرت زدہ ہو جاتا ہے ے اخبار آزاد که ارمنی 10 سے اشتہار سید عطاء اللہ شاہ فضا بخاری کی سیاسی قلابازی شائع کرده سید زین العابدین گیلانی سابق صدر ڈسٹرکٹ مسلم لیگ ملتان
۵۲ اور ان گوناگوں اور مختلف النوع خیالات و نظریات اور قول و عمل کے تقادات دیکھ کر بے ساختہ پکار اُٹھتا ہے.خداوندا یہ تیرے سادہ دل ہند سے کدھر جائیں.وں بت مگر بات یہیں ختم نہیں ہو ہمارے نقادوں کی چند نمایا خصوصی جاتی.ہمارے ناقدین کی کچھ نمایاں خصوصیات بھی ہیں.بین کا ذکر کرنا ریسپی سے خالی نہ ہوگا.ہمارے بعض عظیم نقاد جب کسی مرحلہ پر یا جو بہت پہلی خصوصیت ہو جاتے ہیں.توان معتقدات کا بھی انکار کر دیتے ہیں.جو گزشتہ چودہ سو سال سے مسلمات کی حیثیت رکھتے ہیں.مثلاً حدیث مجدد کی صحت سے بھلا کون مسلمان انکار کر سکتا ہے ؟ مگر آپ حیران ہوں گے.کہ امام الہند جناب ابو الکلام فنا آزاد نے یہ دیکھی کہ کہ حضرت مرزا صاحب کے دعوئی مجدد گیت کو از روئے دلائل چیلنج کرنا ممکن نہیں ہے سرے سے حدیث مجدد ہی کا انکار کر دیا اور فرمایا.ہم نہیں جانتے کہ مجدد کیا ملا له ہوتی ہے یہ طے اس پر مشہور المحدیث عالم جناب میر محمد ابراہیم منا سیالکوٹی نے نوٹس لیا اور جناب آزاد کو مخاطب کرتے ہوئے لکھاہ." پیغام ہدایت اور ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا م ما را با این ها را اوای
۵۵ جناب والا یہ حدیث با تفاق کل حفاظ حدیث صحیح ہے.(مجمع الکرامہ) لیکن احمدیوں کے مقابلہ میں آپ عاجز آگئے.اور جلالت و خفگی میں اگر حدیث کی تحقیر کر دیا ہے دوسری خصوصیت ہمارے محترم ناقدین کی دوسری قابل ذکر خصوصیت یہ ہے کہ انتقاد کے دوران یہ حقیقت فراموش کر جاتے ہیں.کہ معیار صدق و کذب کیا ہے.اور کیا نہیں ہم نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پوری عمارت ایک مفرور منہ پر اترا کی جاتی ہے.مثلاً شاعر مشرق ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کا مشہور شعر ہے:.محکوم کے الہام سے اللہ پنچانے سے غارت گر اقوام ہے وہ صورت چنگیز جناب علامہ حافظ اسلم صاحب جیرا چوری اس شعر یہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں.یہ خالص شاعرانہ استدلال ہے.غالب کی طرح جس کہا کیوں رو قدح کرے ہے زاہد مے ہے یہ مگس کی تھے نہیں ہے ه پیغام ہدایت در تائید پاکستان مسلم لیگ ، مثلا
۵۶ جس طرح مگس کی تھے کہدینے سے شہد کی لطافت اور شیرینی میں فرق نہیں آسکتا.اسی طرح حکومت کی نسبت سے الہام بھی اگر حق ہو تو غارت گرا قوام نہیں ہو سکتا.خود حضرت بیٹے علیہ السلام رومی سلطنت کے محکوم تھے بین کی نسبت ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ہے.سے فرنگیوں کو عطا خاک سوریا نے کیا بنی عفت و غمخواری و کم آنهاری بلکہ اکثر انبیاء کرام علیہم السلام محکوم اقوام ہی میں مبعوث کئے گئے جس کے خاص اسباب و علل تھے جن کے بیان کی یہاں گنجائش نہیں.دراصل نبوت کی صداقت کا معیا حاکمیت یا محکومیت پر نہیں ہے.بلکہ خود الہام یا پر کی نوعیت پر ہے کہ اے شاعر مشرق نے اپنے اس مفروضہ کی بناء پر دوسرا مفروضہ اپنے مخصوص فلسفیانہ انداز میں بایں الفاظ قائم فرمایا ہے.ر اقوام کی تاریخ حیات بتلاتی ہے کہ جب کسی قوم کی زندگی میں انحطاط مشروع ہو جاتا ہے.تو انحطاط ہی الہام کا ماخذ بن جاتا ہے سے رت ه نوادرات ۱۳۳- ۱۲۲ - سه حرف اقبال ۱۵ ۱۵۸ بحوالہ قادریا (۱۹)
عجیب بات یہ ہے کہ علامہ اقبال جن کی نگاہ میں زوال اہم ہی الہام کا ماخذ ہے.اپنی کتاب جاوید نامہ کی نسبت لکھتے ہیں.میری رائے میں میری کتابوں میں سے صرف جاوید نامہر ایک ایسی کتاب ہے جس پر مصور طبع آزمائی کرے تو دنیا میں نام پیدا کر سکتا ہے.مگر اس کے لئے پورے مہارت فن کے علاوہ الہام الہی.....کی ضرورت ہے یانہ کیا طرفہ تماشا ہے کہ ایک طرف تو الہام انحطاط کا ماخذ ہے.اور دوسری طرف جاوید نامہ کو مصور بنانے کے لئے اسی ماخذ الخطاط الالہام سے کام لینے کی تلقین فرمائی جا رہی ہے !! تیسری خصوصیت ہمارے نقادوں کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اصحاب تنقید صرف اپنا مسلک ثابت کرنے کیلئے اقتباسات کو مسخ کر کے تصرف کرنے سے بھی دریغ نہیں فرماتے.اس حقیقت کی متحد مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں.مگر میں بطور نمونہ صرف دو پر اکتفا کرونگا.-۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کتاب نور الحق میں ان عیسائی پادریو پر جو حضرت خاتم النبیین صلے اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے اور اپنی روش سے باز نہیں آتے تھے.ہزار لعنتیں کی ہیں.مگر ہمارے ایک نقاد ا جو خطیب پاکستان کا منصب رکھنے کے علاوہ حج بیت اللہ سے بھی ے اقبال نامہ حصہ اول ۳۰ ۳۰۵۰
۵۸ مشرف ہو چکے ہیں ، تنقید کرتے ہوئے حضور کی طرف یہ الفاظ نسوب کہ نتے ہیں کہ بو شخص میری تحقیر کرتے ہیں ان پر میری طرف سے ایک ہزارہ مرتبہ منت ہے.اس.انہی صاحب کا کہنا ہے کہ مرزا صاحب خطبہ الہامی میں لکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ کوم تو پہلی رات کا چاند تھے اور میں چودھویں رات کا چاند ہوں ؟ اگلے حالا کا خطبہ الہامیہ میں تو یہ بتایا گیا ہے کہ كان الاسلام بدَء كالهلال وكان قدر الله سيكون بدراً في أخر الزمان والمال له یعنی اسلام کا آغازہ ہلال کی طرح ہوا.مگر آخری زمانہ میں یہ مقدر ہے کہ وہ بدر کامل بن کر پھیکے گا.گھر بین تفاوت راه از کجاست تا بیکا یہ حضرات اگر صرف بیجا تصرف پر اکتفا کرتے تب بھی کچھ افسوسناک بات نہ تھی مگر اس سے بڑھ کہ یہ درد ناک المیہ ہمارے سامنے آتا ہے.کہ ستخر یک احمدیت کی طرف وہ باتیں منسوب کی جاتی ہیں.جو سر سے سے ہانکل کہ آزاد کانفرنس نمبر ۹ ۱۹ ص۲۳ کا لم ۲ - ۲ ایضاً ص ۲۲ سے خطیر الهامي
۵۹ بے بنیاد اور سرتا پا بے حقیقت ہیں.چنانچہ ایک نقاد جو فاتح قادیان کہلاتے ہیں لکھتے ہیں:.با مرزا غلام احمد قادیانی نے قرآن و حدیث کو منسوخ قرار دیدیا.مرزائیوں کے قرآن کا نام تذکرہ ہے اور ان کی حدیث سیرت المہدی ہے یا شه ایک اور صاحب جو مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری کے بیرت نگار اور مشہور اہلحدیث لیڈر گزرے ہیں.تحریک احمدیت کے عقائد پر روشنی ڈالتے ہوئے تخریہ کرتے ہیں.ا جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو روحانی معراج ہوا.لیکن مرزائے قادیان اسی جسم عنصری کے ساتھ عرش عظیم پر گیا.توحید کا مسئلہ غلط ہے سورۂ اخلاص ناقابل قبول اور بے بنیاد ہے اور قل هو الله....کی آیات بینات بے سروپا ہیں.اس لئے کہ مرزا خدا کا شریک اور ساجھی ہے خدا کا باپ اور بیٹا ہے اس نے خدا کو جینا خدا نے اس کو جیا وہ خدا کی نسل سے ہے خدا اس کے خاندان سے ہے.مرزا کی کتا ہیں صحف آسمانی کی حیثیت رکھتی ہیں ان کا درجہ قرآن کے پر ا یہ ہے کہا کہ آزاد کا نفرنسی غیر مے سے سیرت ثنائی ص۱۶ ۱۶۸
۶۰ یہ اس مقدس گروہ کی راست گوئی کے چند نمونے ہیں جسے منبر و محراب سے وابستہ ہونے کی وجہ سے دنیا بھر کی اصلاح اور امت کی روحانی قیادت و پیشوائی کا ادعا ہے.میرے خیال میں غلط بیانی کے ایسے شاہکار ازمنہ قدیم وجدید کے کسی بڑے سے بڑے نقاد کے یہاں بھی نہیں مل سکتے.پھر سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ یہ سب کچھ اسلام کے دفاع اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے تحفظ کے لئے کیا جارہا ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ يُجِعُوْنَ ہمارے نقادوں کی جو بھی خصوصیت یہ ہے کہ وہ نبی" چوتھی خصوصیت کے تصور کے ساتھ ہی نئی شریعیت کی آمد کو بھی وابستہ کر لیتے ہیں.حالانکہ صرف گنتی کے چند انبیاء نئی شریعت لے کر آئے ہیں.بنی تو ایک لاکھ چوبیس ہزار مبعوث ہوئے.مگر اجمہور مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق کتاب میں صرف چارہ نازل ہوئیں.اس نقطہ نگاہ کو نظر اندازہ کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ ظلی نبوت کا نظریہ تکمیل دین کے منافی قرار دیتے ہیں.حالانکہ اس میں کسی کو اختلاف نہیں کہ قرآنی شریعیت کا قانون مکمل ہے.اب اس میں نہ کسی کمی کی گنجائش ہے نہ اضافہ کی.اصل مسئلہ یہ درپیش ہے کہ اس مکمل قانون کی ایک ایک دفعہ پر بہتر ہی نہیں ہزاروں و کلار آپس میں اسمجھے ہوئے ہیں.اب اس خطرناک کشمکش کے ختم ہونے کی یہ تو صورت پر کیف مکن نہیں کہ ہائی کورٹ
۶۱ یا سپریم کورٹ کے دروازے ہمیشہ کے لئے مقفل کر دیئے جائیں.اور وکلاء کی کوئی ایسوسی ایشن اپنی کثرت رائے سے شاہی فرمان اور اس کے دستور کی تشریح و توضیح کرے.بلکہ صحیح طریق صرف اور صرف یہ ہے کہ خدا تعالئے جو اس قانون کا نافذ کرنے والا بادشاہ ہے.اپنے قانون کی توضیح کے لئے اپنی طرف سے ایک جج مقرر کرے.یہی جج حدیث کی اصطلاح میں امام المهدی حکم عدل اور کیسے بن مریم کے نام سے موسوم کیا گیا ہے.چنانچه مسند احمد بن حنبل کی مشہور حدیث ہے.يُوشِكُ مَنْ عَاشَ مِنْكُم ان يلقى عيسى ابن مریم اما ما مهديا حكما عدلا ء له یعنی قریب ہے کہ جو تم میں سے زندہ ہو وہ پیسے بن مریم سے اس کے امام اور مہدی اور حکم و عدل ہونے کی حالت میں ملاقات کرے.ہمارے نقادوں کی پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ وہ پانچویں خصوصیت اپنے ذوق تنقید کی تسکین کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عمو گا ایسی پیشگوئیاں انتخاب کر لیتے ہیں جو انداری اور مشروط تھیں.حالانکہ اسلامی لٹریچر سے ثابت ہے کہ وعید کی خبریں رخواہ ان کو تقدیر مبرم کا نام بھی دیا جائے) صدقہ دعا تو یہ بلکہ معمولی که مستند احمدین جنیول جلد ۲ صلاح
رجوع سے بھی مل سکتی ہیں اور مل جاتی ہیں.اس کے مقابل انہیں اُن سینکڑوں پیش گوئیوں کا ذکٹر تک کرنے کی توفیق نہیں ہوتی جو خدا کے فضل سے پوری ہو چکی ہیں اور اگر کہیں مجبوراً ذکر کر پالتے ہیں تو اسے محض اتفاق کا نتیجہ بتاتے ہیں.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی " زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی با حال زار پہلی جنگ عظیم میں اس شان سے پوری ہوئی کہ ایک محقق کے لئے صرف یہی ایک نشان حق و صداقت کی طرف رہنمائی کے لئے کافی ہے صاف دل کو کثرت اعجانہ کی حاجت نہیں اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہو خوف کر دگار مگر جناب مولوی ظفر علی خان اس پیشگوئی کے ظہور کو محض اتفاق قرار دیتے ہوئے کہا ہے زار کی لفظی رعایت نے یہ سمجھایا تھا قول زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی با حال ندارد بعد مُردن اتفاقاً چھڑ گئی جنگ فرنگ رنگ لائی مدتوں میں گردش لیل و نہار زار سے چنوا دیا قسمت نے اس کا تخت تاج کیوں کے قسمت کا نہیں دنیا میں کچھ بھی اعتبار عال اس کو غیب کے اسرار کا معلوم ہے.نه بادشاہی اور گدائی پر ہے جس کا اختیار - له ارمغان قادیان من 19
۶۳ یر اعظم مذاہب (لاہور) کے موقعہ پر دوسرے نمائندوں کے مقابل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیش گوئی کے مطابق مسلمہ طور پر آپ ہی کا مضمون سب سے بالا رہا.جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ پہلے دن کے حصہ مضمون کی غیر معمولی مقبولیت دیکھی کہ منتظمین جلسہ کو پورا ایک دن بڑھانا پڑا.پولیس نے اس پر شاندار تبصرہ کیا.اور اسے بالاتفاق سب سے فائق قرار دیا.مگر مصنف محمدیہ پاکٹ بک اس عظیم الشان پیشگوئی پر یوں تنقید کرتے ہیں.ا مرزا صاحب نے یہ چھالا کی کی کہ گھر میں بیٹھ کر کئی دنوں میں ایک طول طویل مضمون لکھا جس کے لئے بانیان جلسہ کو وقت مقرہ سے چار گنا وقت دینا پڑا.مزہ تب تھا کہ باقی لیکچراروں کی طرح یہ بھی قواعد جلسہ کی پابندی کرتے اور وقت مقررہ میں اپنے مضمون کو ادا کرتے.پھر اگر یہ مضمون فائق رہتا تو ہم علی الاعلان اعتراف کرتے کہ گو مرزا صاحب کا اپنی کسی قیاسی پیش گوئی ہیں سچا نکلنا اس کے بنی اللہ ہونے کی دلیل نہیں..تاہم یہ پیشگوئی ضرور بہ ضرور شیطانی الہام ہے یا نہ ہمارے نقادوں کی چھٹی خصوصیت یہ ہے.کہ یہ چھٹی خصوصیت اصحاب حدیث میں بیان شده علامات جدی و محمدیہ پاکٹ یک ملت
۶۴ میسج کو جو اکثر خواب و کشف کی قبیل سے ہیں.بہر نوع ظاہری رنگ میں دیکھنا چاہتے ہیں.حالانکہ خواب اور کشف کے ہر امر کا عالم مادرت پر چسپاں ہونا ضروری نہیں.پھر پیش گوئیاں عموما اخفا کے پہلو پر مشتمل ہوتی ہیں اور ان کی حقیقی تعبیر موعود کے آنے سے قبل پوری طرح نہیں کھل سکتی.چنانچہ امام الہند جناب ابو الکلام صاحب آزاد اینی کتاب مسئلہ خلافت میں تخریہ فرماتے ہیں :- پیش گوئیوں کا یہ حال ہے کہ جب تک ان کا ظہور کامل طور پر نہ ہو جائے ان کے معانی و مطالب کی نسبت کسی قطعی بات کا اختیار کرنا مشکل ہوتا ہے اجتہاد و قیاس کے لئے کسی چیز میں اتنی وسعت نہیں جس قدر پیشگوئیوں میں ہوتی ہے.علی الخصوص جبکہ عموما پیش گو بیوی کا ایک خاص مہم انداز بیان ہوتا ہے.اور نہایت احتمال و اختصار کے ساتھ محض اشارات کئے جاتے ہیں.جب تک ان کا ظہور نہ ہو جائے اشارات کی تفصیل اور اوصاف کے انطباق میں طرح طرح کی لغزشیں پیش آسکتی ہیں اے ہمارے ناقدین کی ساتویں خصوصیت یہ ہے کہ وہ ساتویں خصوصیت احمدت تنقید کرتے ہوئے تشید بازی پر تشبیہ، استعارہ ، کنایہ اور کشف واڈیا کو ظاہر پر محمول کر کے عوامی حلقوں کیلئے ه مثل خلافت ما
۶۵ تفریح کا دلچسپ سامان فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں.مریم ، حیض ، در ویژه اور حمل وغیرہ کے الفاظ قدیم بزرگوں نے کئی مواقع پر روحانی استعارات کے رنگ میں استعمال کئے ہیں.جن میں مولانا رومی یہ حضرت شیخ سہر وردی حضرت ابو بکر واسطی " حضرت با نوید بسطامی وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں.علاوہ ازیں زمانہ حال کے مشہور فلسفی اور مفکر ڈاکٹر اقبال کا بھی بیان ہے کہ :.مجھ میں فکر شعر کی جو تحریک پیدا ہوتی ہے.اس کو جنسی تحریک یا سے بھی ماثل قرار دیا جا سکتا ہے.اور حالت حمل سے بھی ہے اب اگر کوئی پرلے درجے کا باد ذوق اور کور باطن طنزاً کہے.کہ بانگ را نبال جبریل ضرب کلم ، مثنوی پس چه باید کرد ادرار مغان حجاز ان سب کی ولادت علامہ موصوف کے وضع حمل کے نتیجہ میں ہوئی ہے تو اس کے عقل و فکر پر ہمیں ماتم ہی کرنا پڑے گا تے کیونکر خدا کے عرش کے قائل ہوں یہ عزیز جغرافیے میں عرش کا نقشہ نہیں ملا رست ہمارے نقادوں کی آٹھویں خصوصیت یہ ہے آٹھویں خصوصیت کہ وہ بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الزامی جوابات کو جو عیسائی مسلمات کی بنا پر دیئے له ذكر اقبال" م
۶۶ گئے حقیقی جوابات کی صف میں شامل کر دیتے ہیں جو ہر بجا تحکم ہے دشمنان اسلام کو ساکت و صامت کرنے کے لئے اسلامی علم کلام میں ہمیشہ اس طریق سے فائدہ اٹھایا گیا ہے.اور متکلمین اسلام کے اس باب میں متعدد واقعات تاریخ میں محفوظ ہیں جن میں سے بطور نمونہ صرف ایک بیان کر تا ہوں.حضرت شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کی نیت لکھا ہے کہ ایک دفعہ ایک پادری صاحب شاہ صاحب کی خدمت میں آئے اور سوال کیا کہ کیا آپ کے مغمر حبیب اللہ ہیں ؟ آپ نے فرمایا.ہاں وہ کہنے لگا.تو پھر انہوں نے بوقت قتل امام حسین فریدہ ندگی.یا یہ فریاد سنی ندگئی شاہ صاحب نے کہا کہ بنی صاحب نے فریاد تو کی لیکن انہیں جواب آیا کہ تمہارے نواسے کو کو قوم نے ظلم سے شہید کیا ہے لیکن ہمیں اس وقت اپنے له بیٹے علینے کا صلیب پر چڑھنا یاد آ رہا ہے یا نہ صاف ظاہر ہے کہ حضرت شاہ عبد العزیز کا یہ جواب عیسائی مسلمات کی بناء پر ہے ورنہ یہ لازم آئے گا.کہ آپ معاذ اللہ حضرت سیئے کے ابن اللہ ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے.حالانکہ یہ سراسر باطل ہے یہی حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان تحریرات کا ہے جین.سٹ رود کوثر از شیخ محمد اکرم ایم اے.۵۷۸-۵۶
۶۷ تامین حضرت لیئے علیہ السلام کا نتیجہ نکالا جاتا ہے بجا لیکہ حضور کی وہ تحریر میں عیسائیوں کے مسلمات کی بناء پر ہیں.در اصل انجیلی مسیح اور ہے اور قرآنی اور حقیقی مسیح اور.چنانچہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نا تو کوئی ہدیہ الشیعہ میں لکھتے نصاری جود قومی محبت حضرت عیسے علیہ السلام کرتے ہیں تو حقیقت میں ان سے محبت نہیں کرتے کیونکہ دار و مداران کی محبت کا خدا کا بیٹا ہونے پر ہے.سو یہ بات حضرت علینی میں تو معلوم البتہ ان کے خیال میں مفتی اپنی تصور پر نیب کی ومعلوم الفقیہ ان میں اپنی تصر آئی اے کو پوچھتے ہیں یا شد اسی طرح سید ابوا نا علی صاحب مودودی عیسائیوں کی نسبت لکھتے ہیں :- ر حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اس تاریخی مسیح کے قائل ہی نہیں ہیں جو عالم واقعہ میں ظاہر ہوا تھا بلکہ خود اپنے وہم و گمان سے ایک خیالی رح تصنیف کر کے اسے خدا اپنا لیا ہے بہتے مسیح لیا نقادوں کی پناہ خصوصیات بنانے کے بعد مجھے اس امرکی بھی اقرار کرنا چاہیے کہ بعض ناقدین نے سلسلہ احمدیہ کے علم کلام کا باریک نظر سے مطالعہ له مه له تقسيم القرآن جلد اول ملام
ул کرنے کے بعد ایسی عمدہ آراء کا بھی اظہار کیا ہے جن سے تحریک احمدیت کی حقیقت سمجھنے کے لئے کافی رہنمائی حاصل ہو سکتی ہے.اس ضمن میں ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کا ایک اہم ایک اہم نظریہ نظر پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے ایک موقعہ پر رائے ظاہر کی کہ کاش کوئی ماہر نفسیات ایسا کھڑا ہو جو بانی سلسلہ کے الہامات کا قرآن شریف کی آیات کی روشنی میں تجزیہ کرنے ریاست اسی نقطہ نظر کو جناب غلام احمد صاحب پرویز نے ایک دوسرے رنگ میں یوں بیان کیا ہے.ساٹھ ستر برس سے میرزائیوں کے ساتھ مناظرے اور مباحثے ہو رہے ہیں.لیکن یہ مسئلہ گرداب میں پھنسی ہوئی لکڑی کی طرح اپنے مقام سے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھا.اگر اس مسئلہ پر خالص قرآن کی روشنی میں بحث کی جاتی تو سارا قصہ چند منٹ میں لکھے ہو جاتا.لیکن ہمارے علا قرآن خالص کو اس لئے سامنے نہیں لاتے.کہ اس کی رو سے اگر مرزائیت ختم ہو جاتی ہے.تو اس کے ساتھ طائیت بھی ختم ہو جاتی ہے.ے جو الہ اخبار آفاق لاہور کے مزاج شناسی سول صفحه ۴ ۴ ۴ -
۶۹ در اصل جناب پرویز صاحب کا قرآنی فکر بالکل جدا گانہ نوعیت کا ہے ان کے نزدیک رب سے مراد خدا کا قانون ربوبیت.حق سے مراد کسی عمل کا تعمیری پہلو.باطل سے مراد کسی عمل کا نتخریبی پہلو.تقویٰ سے مراد معاشی پروگرام کو مستقل اقدار کے ساتھ ہم آہنگ کرنا اور الحمد للہ میں اللہ سے مراد قرآنی معاشرہ ہے.پس اگر پورے قرآن مجید کی تفسیر ان کے مخصوص ڈھنگ کے مطابق کی جائے تو مرزائیت اور ملائیت ہی نہیں اسلام بھی معاف اللہ ختم ہو جائے گا.لیکن اگر خالص قرآن سے مراد واقعی خالص قرآن ہی ہے تو احمدیت کا ایک ایک نام لیوا اس دن کے لئے بڑی بے تابی سے چشم براہ ہے جبکہ مسلمان قرآن کو اپنی دینی تحقیقوں اور دینی انتقاد کی بنیاد بنانے کا فیصلہ کر لیں گے.اگر ایسا ہوا تو دنیا دیکھ لے گی کہ وہ دن احمدیت کی شاندار فتح کا دن ہو گا.کیونکہ قرآن مجید ابتداء سے آخر تک تحریک احمدیت کے نظریات کی پوری پوری تائید کرتا ہے.عرصہ ہوا ایک صاحب سے میری ملاقات ہوئی.دوران گفتگو میں انہوں نے مجھ سے کہا کہ احمدیت کی تمام تر بنیاد روایات اور احادیث پر ہے.قرآن مجید سے کسی بھی مہدی مسعود و مسیح موعود کے آنے کا اشار ے نظام ربوت صلاح تا ۸۸ ۱۷۲۱
تک نہیں ملتا.میں نے عرض کیا.کہ میں قرآن مجید کی پہلی سورۃ ہی سے مہدی ویج کے ظہور کی خبر بتاتا ہوں.آپ اھدنا کے معنے کیجئے.کہنے لگے اسے خدا ہمیں ہدایت دے کہ میں نے پوچھا.ہدایت پانے والے کو عربی میں کیا کہتے ہیں.بے ساختہ ان کی زبان سے نکلا " مہدی ".میں نے کہا حضرت ! امت محمدیہ چودہ سو برس سے مہدی بننے کے لئے دعائیں کر رہی ہے.اور آپ فرماتے ہیں.کہ مہدی کا تو قرآن مجید میں ذکر ہی نہیں ہے.میں نے مزید کہا کہ آگے غَيْرِ الْمَغْضُوبِ لَيْهِمْ کی دعا بھی ہے.آپ نے کبھی اس پر بھی غور فرمایا.تائیے معصوب کون تھے ؟ کہنے لگے یہود تھے.میں نے سوال کیا.وہ معصوب کیوں ہے.کہنے لگے انہوں نے خدا کے ایک مسیح کا انکار کیا تھا نا میں نے کہا ہمیں جو یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ الہی ہمیں مغصوب نہ بنا ئیو تو کیا اس میں یہ کھلی اور واضح پیش گوئی نہیں تھی کہ خدا کا ایک اور رسی آیا اور لوگ اس کا انکار کریں گے ؟ پس سورۂ فاتہ میں نہ صرف مہدی موعود کی آمد کا واضح تصور موجود ہے بلکہ اس کے انکار کیلئے جانے کی خبر بھی پائی جاتی ہے.یہ بات شنکر انہوں نے اپنی گفتگو کا رخ بدلا.اور خاموش ہو گئے.پس ہمارے لئے اس سے بڑھ کر کوئی خوشی کی بات نہیں ہوسکتی.کہ خالص قرآن کی روشنی میں تحریک احمدیت کا تجزیہ کرنے کا فیصلہ کر لیا جائے.کیونکہ اس فیصلہ سے بے شمار خود ساختہ نظریات پاش پاش
ہو جائیں گے.مثلا بنی کسی کا شاگرد نہیں ہوتا.بنی جہاں وفات پاتا ہے وہیں دفن ہوتا ہے.بنی کسی غیر اسلامی حکومت کی سیاسی اطاعت نہیں کرتا اور نہ اس کی مذہبی آزادی کی تعریف کرتا ہے.بنی کو صرف اپنی زبان میں الہام ہو سکتا ہے.بنی شاعر نہیں ہو سکتا.بنی مصنعت نہیں ہو سکتا.بنی مناظر نہیں ہو سکتا.بنی اجتہادی غلطیوں سے منزہ ہوتا ہے.نبی نئی شریعت لے کر آتا ہے.بنی کا نام مرکب نہیں ہوتا پہنی ہمارے ملک میں پیدا نہیں ہو سکتا.بنی کے لئے کستوری اور مشک کا استعمالی جائز نہیں.نبی کا ورثہ نہیں ہوتا.بنی کے آتے ہی امت بھی بدل جاتی ہے.بنی وہ ہوتا ہے جس پر دیوبند.دہلی.تھانہ بھون شاہجہانپور بریلی، ندوہ اور گولڑہ شریف کی مہر تصدیق ثبت ہو وغیرہ وغیرہ.یہ اور اس قسم کے تمام مصنوعی معیار قرآن شریف کی روشنی میں ایک سیکنڈ کے لئے بھی نہیں ٹھہر سکتے.امزید وضاحت کے لئے ملاحظہ ہو تفہیمات ربانیہ تالیف منیف مولانا ابو العطاء صاحب فاضل سابق مجاہد بلا ( عربیه) پھر ہمارے نقاد کیا چاہتے ہیں ؟ یہ بھی ہمارے نقاد کیا یا ہیں؟ ایک تقابلی خود با ہے جس کی طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے سے حضرت ناصح گر آئیں دیدہ و دل فرش راہ کوئی مجھے کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھائیں گے کیا؟
جناب ڈاکٹر غلام جیلانی صاحب برق نے حرف محرمانہ لکھی ہے اس کتاب کا مفصل جواب مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل نے حال ہی میں تحریر فرمایا ہے جو تحقیق عارفانہ کے نام سے منظر عام پر آچکا ہے.لیکن اس وقت اس سلسلہ میں صرف یہ تحریرہ کرنا چاہت جنوں کہ ڈاکٹر صاحب موصوف نے تحریک احمدیت پر مفصل تنقید کرنے کے بعد احمدیوں کو ناصحانہ انداز میں یہ تلقین فرمائی ہے کہ وہ سواد اعظم میں شامل ہو جائیں.یہ ہدایت ان کی تمام کا دوش علمی وفکری کی حقیقی مقصود اور قافلہ تنقید کی آخری منزل ہے.یہاں آپ احمدیوں کو لے جانا چاہتے ہیں.اب آئیے ڈاکٹر صاحب اور دوسرے نافذین سے دریافت کریں کہ آپ کی نگاہ میں سواد اعظم کی شان مبارک" کیا ہے؟ اس اہم سوال کے جواب میں ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ ہمارے ہر فرقہ کا اسلام و قرآن الگ ہے.ایک اسلام و قران تو وہ ہے جو چودہ لاکھ حدیثوں کے بوجھ تلے دبا ہوا کراہ رہا ہے دوسرا وہ ہے جو مختلف فقہی سکولوں کے نرغے میں پھنسا ہوا ہے.اور بچ نکلنے کے لئے فریاد بھی نہیں کر سکتا.اور ایک تمیرا اسلام وہ ہے جو حضرات اہل بیت کرام کے لکڑی اور کاغذوں کے تعزیوں کے ساتھ بندھا ہوا کوچہ و بازارہ میں سالانہ گردش کرتا نظر آتا ہے.ایک چو تھا اسلام وہ ہے
جو استخوان فروش مجاہدوں اور پیر زادوں کے حلقے میں ہو تی کے نعرے لگانے اور حال وقال کی بزم آرائی کے لئے مجبو ہے.ان کے علاوہ ایک اور اسلام بھی ہے جس کے بطن سے نئی نئی ہوتیں اور خلافتیں جنم لیتی ہیں.کہاں تک گنواؤں مدت ہوئی : مذہب اسلام کے نام سے حیدر آباد کی چھپی ہوئی ایک کتاب دیکھی تھی جو کم و بیش ہزار صفحات پر مشتمل ہو گی.اس میں عجیب و غریب قسم کے بے شمارا اسلام تائے گئے ہیں.یہ کثرت اسلام ہا " ایک عالمگیر مرض ہے.جس میں تمام مسلمانانِ عالم میتلا ہیں.اور ہر خطہ ارض میں ہماری پستی وذلت کا یہی واحد سبب ہے.اتنے بے شمار اسلام کہاں سے آگئے یقینا محمد رسول اللہ نے ان سب کی طرف دعوت نہیں دی ان کے پاس بالاتفاق ایک ہی اسلام تھارات جناب برتن صاحب خود ہی فرمائیں.کہ کیا اب احمدی ایک اسلام کو چھوڑ کر سواد اعظم کے بے شمار اسلاموں میں جذب ہو جائیں ؟؟ سواد اعظم کے خد و محال کی نمایاں تصویر جناب علامہ اقبال نے جو ہے شکوہ میں خوب کھینچی ہے.فرماتے ہیں ہے اه کتاب دو اسلام صفحہ ۲۷ و ۲۸
۷۴ وضع میں تم ہو نصاری تو تمدن میں سہود یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود اسی طرح جناب ابو الکلام صاحب آزاد تذکرہ میں لکھتے ہیں.یہودیوں کی معصویریت ، نصاری کی ضلالت مشرکین کی بت پرستی ائمہ مضلین کی کثرت دجاجلہ فتن ودعاة بدشت کا احاطہ، اقتداء بغیر سفت ، استدا ء بغیر بدى الأنبياء تفرق و تمذہب مثل یہود اور غلو و اطراء مثل نصاری فتنہ شبہات یونان اور فتنہ شہوات عجم - ختنہ تماثیل عبد الاصنام اور فتنہ قبور عاکفین کنائش.ان میں سے کوئی نحوست اور ہلا کی ایسی نہیں ہے.جو مسلمانوں پر نہ چھا چکی ہو.اور کوئی گزاری نہیں جو اپنے کامل سے کامل اور شدید سے شدید درجہ تک اس امت میں بھی نہ پھیل چکی ہو.اہل کتاب نے مراہی کے جتنے قدم اٹھائے گن گن کر مسلمانوں نے بھی وہ سب اٹھائے حتی کہ کو دخلوا جحر ضب لدخلتموها کا وقت بھی گزر چکیں.اور آج ہم اپنی آنکھوں سے رب کچھ دیکھ رہے ہیں.وہ وقت بھی کب کا آچکا کہ ملحق قبائل من امتی تعبد اللات والعزى " ہماری جانیں اور ہماری روحیں اس صادق مصدوق په قربان کہ واقعی اور سچے بچے مشرکوں سے ملحق ہو گئے
LA اور دین توحید کا دعوے کرنے والوں نے بت پرستی کی ساری ادائیں اور چالیں اختیار کر لیں.اور جس رات اور عزئی کی کچھ جیا سے دنیا کو نجات دلائی گئی تھی.اس کی پوجا پھر سے شروع ہو گئی یا نہ یہ ہے وہ سوادِ اعظم جس کے معتقدات و افعال میں رنگین ہونے کی ہمارے معزز و محترم نقاد وحدت افکار کے نام سے ہمیں عوت دے رہے ہیں.....ایک نے دوست قرآنی قسم یا قرآن مجید نے عظیم الشان صداقت بیان کی ہے کہ انزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاء فَسَأَلْت أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا الا و الرعد، یعنی خدائی ستحریکات سے ہر شخص اپنے اپنے ظرف اور استعداد کے مطابق شعوری یا غیر شعوری طور پر فائدہ اٹھاتا ہے.اور اس کے علم کلام سے متاثر ہوتا ہے.یہ علیحدہ امر ہے کہ اس کے اقرارہ کی اُسے اخلاقی جرات ہو یا نہ ہو.چنانچہ جناب مولوی شبیر احمد صاحب عثمانی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :- راجب و حی آسمانی دین حق کو لے کہ اُترتی ہے تو قلوب بنی آدم اپنے اپنے ظرف اور استعداد کے موافق فیض حاصل کرتے ہیں که تذکره صفوعش ۲۷
پھر حق اور باطل با ہم بھڑ جاتے ہیں تو میں ابھر آتا ہے.بظاہر باطل جھاگ کی طرح اس حق کو دبا لیتا ہے لیکن اس کا یہ ایان عارضی اور بے بنیاد ہے.تھوڑی دیر کے بعد اس کے جوش و خروش کا پتہ نہیں رہتا ہے احمدی علم کلام کے اند ی ناقدین احمدیت کے لڑیچر کا اگر اس نقطہ نگاہ سے غائر مطالعہ کیا جائے تو بڑے اہم انکشافات وسیع اثرات ہوتے ہیں لیے جناب ابو الکلام صاحب آزاداحمد لٹریچر کے اثر سے تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ حیات مسیح کا عقیدہ اپنی نوعیت میں ہر اعتبار سے ایک مسیحی عقیدہ ہے.اور اسلامی شکل و لیاس میں نمودار ہوا ہے راست مشہور خاکسار لیڈر علامہ عنایت اللہ خان مشرقی نے تذکرہ میں کھلے الفاظ میں حضرت مسیح ناصری کے صلیب پر زندہ اتارے جانے اور شفایاب ہو کر ہجرت کر جانے کو تسلیم کیا ہے.شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے کلام سے بھی ه ترجمه قرآن مجید صفحه ۳۲۵ سے غیر مسلم ناقدین خصوصا عیسائیوں نے احمدیت کے علم کلام سے متاثر ہو کہ کیا کیا تبدیلیاں کی ہیں ؟ اس کی تفصیل کے لئے ایک الگ مستقل مضمون کی ضرورت ہے فی الحال زیر نظر مقالہ میں صرف اسلامی دنیا کا تذکرہ کیا گیا ہے.سے مت.سه نقش آزاده
،، احمد یہ تحریک کے اثرات نمایاں ہیں.مشکل آپ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے جمالی ظہور کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :.ہے ابھی باقی مگر شان جمالی کا ظہور یا جوج وماجوج کے بارے میں ان کا نظریہ احمد بیس سے ہی چنانچہ ان کا شعر ہے :- کھل گئے یا جوج اور ماجوج کے لشکر مقام چشم مسلم دیکھ لے تفسیر حرف ینسلون ستعار ؟ سید نا و امامنا و مرشدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم اب بھی اس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار جناب اقبال اس نظریہ کو اپناتے ہوئے لکھتے ہیں :.مثل کلیم ہو اگر معرکہ آزما کوئی اب بھی درخت طور سے آتی ہے بانگ لا تخف پھر شرماتے ہیں :.تم میں توروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں جلوہ طور تو موجود ہے مو سے ہی نہیں مسئلہ وفات مسیح کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کا نظریہ یہ ہے کہ مرزائیوں (احمدیوں.ناقل ) کا یہ عقیدہ کہ حضرت سیچے ایک فانی انسان کی مانند جام مرگ نوش فرما چکے ہیں.اور نیز یکہ
ان کے دوبارہ ظہور کا مقصد یہ ہے کہ روحانی اعتبار سے اُن کا ایک مثیل پیدا ہوگا.کسی حد تک معقولیت کا پہلو لئے ہوئے ہے یانہ جناب سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی کی تحریرات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کی میں وسیع پیمانہ پر عکاسی ہوتی ہے اس کی تفصیل میں، اپنے ایک مقالہ کے علاوہ مطبوعہ تقریر میں بھی بیان کر چکا ہوں.اسی طرح مسئلہ قتل مرتد میں جناب مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری نے جماعت احمدیہ کا موقف ہی اسلامی مزاج کے مطابق قرار دیا.چنانچہ آپ نے لکھا:.را ہم علی الاعلان کہتے ہیں کہ صورت موجودہ میں سنگسار کرنے کا حکم نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں نہ کتب فقہ حنفیہ میں نہ شافعیہ وغیرہ میں اگر اس کا نام سیاسی حکم رکھا جائے له تو ہمیں اس پر بحث نہیں کا ہے پھر جیتا مولوی احمد علی صاحب بانی انجمن خدام الدین شیرانوالہ گیٹ لاہور سے خلاصتہ المشکواۃ کے حاشیہ پر کہ صلیب کی جو تا دیل به اخبار مجاہد ۱۳؍ فروری ۱۹۳۵ء سے مطبوعہ رسالہ الفرقان" سے بعنوان جماعت اسلامی پر تبصرہ سے اہلحدیث ۳ راکتور سه مت
69 کی ہے.وہ احمد یہ علم الکلام کے مطابق ہے.آپ لکھتے ہیں کہ مسیح موجود دین نصرانیت کو باطل کریں گے.اور ملت خفیہ پر حکم کریں گے ہے حیدر آباد دکن کے ایک مشہور محقق و فاضل ابو الجمال احمد مکرم صاحب عباسی چہ یا کوئی رکن رکین مجلس اشاعت العلوم کافی تحقیق کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ یا جوج ماجوج سے مراد مغربی سیاسی طاقتیں دجال سے مراد پادری اور خیر دجال سے مراد ریل گاڑی ہے.اور ممکن ہے کہ نزول مسیح کی حدیث میں کسی مثیل مسیح کے آنے کی خبردی گئی ہو.یہ پوری تحقیق ایک عرصہ ہوا وہ اپنی ضخیم کتاب حکمت بالغہ میں شائع بھی کر چکے ہیں.اس مسئلے کا ایک اور پہلو بھی قابل توجہ ہے اور وہ یہ کہ احمدیت چونکہ صداقت و حقانیت کا پرچم کے کہ اٹھی ہے.اس لئے اس کے ناقدین آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کی بندشان اور اسلام کی صحیح تعریف کرتے ہوئے حضرت سیح موعود علیہ السلام کی تحریروں سے استفادہ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں.جس کی کئی واضح مثالیں موجود ہیں.چنانچہ مجلس احرار اسلام کے ترجمان اختبائہ آزاد نے اپنی ایک اشاعت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیشہور شعر شائع کیا.اگر خواهی دلیل عاشقش باش محمد هست بربان محمد له خلاصة المشكوة صفحه ۴۳
نیز اقرار کیا کہ تمام انبیاء و مرسلین اور محمد دین نے حضور علیہ الصلوۃ و السلام کی تعریف کی ہے.مگر حضور علیہ السلام کی حقیقی تعریف مندرجہ بالا شعر میں ہی بیان ہوئی ہے.لہ مدر اس کے ایک عالم مولوی زین العابدین صاحب نے تعلیم و ترجمۃ القرآن کے نام سے ایک رسالہ لکھا.جس میں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی مشہور نظم ه اسلام سے نہ بھا گو راہ ہوئی یہی ہے اے سو نیوا لو جا گو شمس الضحیٰ ہی ہے میں کچھ تصرف کر کے اپنے نام سے شائع کی.اس تصرف شدہ نظم کے چند اشعار بطور مثال عرض کرتا ہوں :- قرآن سے نہ بھا گو راہ خدا یہی ہے.4 اے سو نیوا لو جیا گو شمس الضحیٰ یہی ہے مجھ کو قسم خدا کی جو ہے ہمارہ اخالق ارض و سما کے اندر دین خدا یہی ہے قرآن کی شان و شوکت یا رب ہمیں دکھا دے سب جھوٹے دیں مٹادے میں مدعا یہی ہے اسی طرح جماعت اہلحدیث کے خصوصی ترجمان تنظیم اہلحدیث رہا ہو) اه آزاد و در دسمبر ۹۵ مست
Al نے سر جوان سالہ کی اشاعت میں حضور کی تعلیم سے اک نہ اک دن پیش ہوگا تو خدا کے سامنے معمولی تبدیلی کے ساتھ ایک شاعر المتخلص بہ ندیم کے نام سے شائع کی اور پوری نظم نقل کرنے کے بعد آخری شعر یوں درج کیا ہے راستی کے سامنے کب جھوٹ پھیلتا ہے ندیم قدر کیا پتھر کی لعل بے بہا کے سامنے جناب بدرالدین صاحب بد کرنے الانسان " کے نام سے ایک کتاب شائع کی ہے.جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محرکة ال را کتاب براہین احمدی حصہ پنجم سے سورۃ مؤمنون کی پوری کی پوری تفسیر اپنے لفظوں میں درج کی ہے یہ کتاب تاج کمپنی کی مطبوعات میں سے ہے اس سے بڑھ کر یہ کہ ایک اور عالم سید المتکلمین ابوالبیان سید ظہور الحسن شاہ صاحب بریلوی نے حقیقت حدیث قرطاس میں اسلام کی تعریف بیان کرتے ہوئے آئینہ کمایا ہے.اسلام اور براہین احمدیہ حصہ پنجم کی عبارتوں کی عبارتیں نقل کی ہیں اور ان کو آپس میں مربوط کرنے کے لئے ان کو حضور ہی کے یہ دو شعر درج کرنے پڑے ہیں.اسلام چیز کیا ہے خدا کے لئے فنا ترکب رھنا کے خویش بیٹے مرضی خدا جو مر گئے انہی کے نصیبوں میں ہے حیات اس راہ میں زندگی نہیں عتی بجز ممات یہ رسالہ فارورڈ بلاک صادقیہ اثنا عشریہ سیالکوٹ شہر نے طبع کرایا ہے.
At.غرض کہا نتاک بیان کیا جائے احمد یہ علم الکلام کا غلہ اس کے نقادوں کے دل و دماغ محسوس کرتے ہیں.اور وہ اپنے عمل سے اس کی عظمت کا اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکتے.تحریک احمدیت کی تبلیغی مگر تحریک احمدیت کا انقلابی اثر صرف ذہنوں اور دماغوں تک ہی محدود نہیں بلکہ بالغ نظر ناقدین خدمات کا اقرار کی نگا ہیں جب کبھی اس میں یہ عمل اور قیمتی جوہر کی جھلک دیکھ پاتی ہیں تو زبانوں پر کلمہ حق جاری ہو ہی جاتا ہے.اس سلسلہ میں صرف چند مثالیں میں عرض کرتا ہوں :- ڈاکٹر سر محمداقبال کی رہے استہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب نے حضرت - صدق " کہا اور ایک انگریزی مضمون میں رجور سالہ انڈین انیٹی کو میری جلد نمبر ۲۹ ستمبر نت شاہ ص ۲۳ پر شائع ہوا، آپ کو جدید مہندی مسلمانوں کے سب سے بڑے دینی مفکر کے نام سے یاد کیا.اسی طرح اپنے لیکچر اکت بینا پر ایک عمرانی نظر میں صاف کہا.پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جسے فرقہ قادیانی کہتے ہیں " پھرا پر پیلی ۱۹۳۲ء میں انہوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ اسلام کو دنیا میں پیش کرنے کے کئی طریق ہیں....میرے عقیدہ نا قصور میں جو طریق مرزا صاحب نے اختیار کیا ہے وہ زمانہ حال
کی طبائع کے لئے موزوں نہیں ہے.ہاں اشاعت اسلام کا جوش جوان کی جماعت کے اکثر افراد میں پایا جاتا ہے قابل قدر ہے ؟ دوسری طرف اشاعت و تبلیغ اسلام کی اہمیت کے بارے میں خود ہی لکھتے ہیں میرے نزدیک تبلیغ اسلام کا کام اس وقت تمام کاموں پر مقدم ہے اگر ہندوستان میں مسلمانوں کا مقصد سیاسیات سے محض آزادی اور اقتصادی یہودی ہے اور حفاظت اسلام اس مقصد کا عنصر نہیں ہے.جیسا کہ آج کل قوم پرستوں کے رویہ سے معلوم ہوتا ہے تو مسلمان اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہ ہوں گے یہ لئے ۲۰ - مولوی ظفر علی خانصاحب مدیر به وزناً مظفر مولوی ظفر علی خافضا کی رہے زمیندار نے اپنے اخبار ستاره صبح میں لکھا کہ جناب مرزا صاحب قادیانی جس کی زندگی کا ایک بڑا مقصد آپ کے دعاوی کے لحاظ سے جو چیز تحریر میں آچکے ہیں مسلمانوں میں ورم قدرت قائم کرنا تھا سے آپ جماعت احمدیہ کی نسبت رکھتے ہیں :.ه این اولو العزوم مباعت نے عظیم الشان خدمت اسلام کر کے دکھا دی ہے اسے سه مکاتیب اقبال حصہ دوم صفحه ۲۳۳ - سه مکاتیب اقبال حصہ دل ۱۳۹۵ سے ستارہ صبح دسمبر ۱۶ - سه زمیندار ۲۲ جون ۱۱۹۲۳ه.
۸۴ پھر لکھتے ہیں.گھر بیٹھ کر احمدیوں کو برا بھلا کہ لینا نہایت آسان ہے لیکن اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا.کہ یہی ایک جماعت ہے جس نے اپنے مبلغین انگلستان اور دیجہ اور مین ممالک میں بھیج رکھتے ہیں ا سکے..موجودہ زمانہ میں تبلیغ اسلام کتنا مشکل کام ہے.اس کا اندازہ کرنے کے لئے جناب مولوی ظفر علی خانصاحب ہی کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں ٹک کے نامور ادیب چراغ حسن حسرت اپنی کتاب مردم دیدہ میں لکھتے ہیں کہ : ایک دن زمیندار کے دفتر میں کسی نے کہا کہ چین جاپان جرمنی اور فرانس کے لوگ مسلمان ہونے پر آمادہ ہیں.لیکن انہیں تبلیغ کون کرے؟ اس پر مولوی ظفر علی خانصاحب نے فرمایا.بات تو آپ نے ٹھیک کہی.اچھا سالک صاحب اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کیجئیے.کہ اگر ہم ایک تبلیغی ادارہ کھول لیں تو کیسا ہے ذرا قہر صاحب کو بھی بلوا ہے.آگئے ہر صاحب ! ہاں تو میں کہ رہا تھا کہ اگر یہاں لاہور میں ایک مرکز کی تبلیغی ادارہ کھول لیا جائے اور اس کی شاخیں ساری دنیا میں پھیلا دی جائیں، تو کیا حرج ہے کوئی دس لاکھ روپیہ خرچ ہوگا.مہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی گفتنی ہے.سات کروڑ نہیں آٹھ کروڑ کے لگ بھگ ہوگی اگر ہر سلیمان سے ایک ایک پیسہ وصول کیا جائے.تو ه زمیندار دسمبر ۱۹۳۶ء بحوالہ کتاب رہنما نے تبلیغ منا
۸۵ کتنے روپے ہوئے ؟ ریاضی کا سوال تھا کسی سے حل نہ ہوا.سب ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے.اتنے میں مولانا نے کہا.آٹھ کروڑ پیسے ہوتے ہیں نا.آٹھ کروڑ کو 4 پر تقسیم کیجئے ساڑھے بارہ لاکھ روپے ہوئے.چلئے دس لاکھ ہی نہیں.دس لاکھ بہت ہے یہ مرحلہ تو طے ہو گیا.اب سوال یہ ہے کہ تبلیغ کا کام کن کن لوگوں کے سپرد کیا جائے لیکن مبلغ بھی چوٹی کے آدمی ہوں مثلاً مولانا ابوالکلام آزاد فرانس جرمنی وغیرہ میں تبلیغ کریں اور ڈاکٹر اقبال کو چین بھیج دیا جائے.سالک صاحب اور مہر منا مل کے اخبار سنبھالئے میں تو اب تبلیغ اسلام کا کام کرونگا دیر تو دفتر بھر میں سناٹا رہا.آخر ایک صاحب نے جی کڑا کر کے کہا.کہ مولینا اس میں کوئی شک نہیں کہ تجویز بہت خوب ہے لیکن روپیہ جمع کیسے ہوگا ؟ آخر مسلمانوں سے دس لاکھ روپیہ جمع کرنے کے لئے ایک لاکھ روپیہ چاہیئے.آپ کہیں سے ایک لاکھ روپے کا انتظام کر دیجئے.باقی کام ہم سنبھال لیں گے.مولانا نے فرمایا ہاں بھئی نہیں تومشکل ہے.یہ کہ کر منہ پھیر کر حقہ کی نے سنبھالی.انگوٹھا انگشت شہادت پر نیم دائرہ بنا تا گھومنے لگا.اور اس تبلیغی ادارہ کے اجزاء حقہ کے دھوئیں کے ساتھ فضا میں تحلیل ہو کے ہیں رہ گئے یا اے شه مردم دیده ۴ ۱۵۳ - ۱۵۶ از چراغ حسن حسرت کا شمیری دارالاشاعت پنجا ریا ہو ر ا
۸۶ مفکر احرار چودی فضل حق ۳- مفکر احرار چوہدری افضل حق صاحب تحریر کرتے ہیں :- صاحب کی رائے ، مسلمان پلاک کو چاہئے کہ فتوی بازوں سے مطالبہ کریں کہ وہ تیرا قوام میں تبلیغ کر کے غیروں کو اپنا ہم خیال مسلمان بنائیں.تاکہ ان پر یہ راز کھل جائے کہ مسلمان کو کافر بنانا آسان اور کافر کو مسلمان بنانا کتنا دشوار ہے....سینکڑوں نہیں ملیکہ ہزاروں دینی مکاتیب سہندوستان میں جاری ہیں.مگر سوائے احمدی مدارس کے اور مکاتب کے کسی اسلامی مدرسہ میں غیر اقوام میں تبلیغ و اشاعت کا جذبہ طلباء میں پیدا نہیں کیا جاتا.کسی قدر حیرت ہے کہ سارے پنجاب ہیں سوائے احمدی جماعت کے اور کسی فرقے کا بھی تبلیغی نظام موجود نہیں.......آریہ سماج کے معرض وجود میں آنے سے پیشتر اسلام حید ہے جان تھا.میں میں تبلیغی حس مفقود ہو چکی تھی.سوامی دیانند کی مذہب اسلام کے متعلق بدظنی نے مسلمانوں کو تھوڑی دیر کے لئے چوکنا کر دیا مگر حسب معمول جلدی خواب گراں طاری ہو گیا مسلمانوں کے دیگر فرقوں میں تو کوئی جماعت تبلیغی اغراض کے لئے پیدا نہ ہو سکی.ہاں ایک دل مسلمانوں کی غفلت سے مضطرب ہو کر اٹھا.ایک مختصر سی جماعت اپنے گرد جمع کر کے اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے بڑھا.اگر چہ مرزا غلام محمد صاحب کا دامن فرقہ بندی کے داغ سے پاک نہ ہوتا.تاہم اپنی جماعت میں وہ اشاعتی تڑپ پیدا کر گیا.جو نہ صرف مسلمانوں کے مختلف
فرقوں کے لئے بلکہ دنیا کی تمام اشاعتی جماعتوں کیلئے نمونہ ہے پہلے بن عبد المحدرضا دریا آبادی.اس سلسہ میں جو بھی مثال مشہور مسلمان مفکر جناب عبد الماجد صاحب مد برفت دق کی رائے دریا آبادی ایڈیٹر صدق جدید کی پیش کرتا ہوں جن کی سچی باتیں بر صغیر پاک وہندر کے متعدد اخبارات و رسائل میں شائع ہوتی ہیں.آپ لکھتے ہیں :- اکبر کا ایک ظریفانہ شعر تحریک موالات کے زمانہ شباب میں سواء کا کہا ہوا ہے سے صاحب میں سب برائی لیکن وہ خوب چوکس گاندھی میں سب بھلائی لیکن وہ محض سنیں موقع کچھ اس وقت بھی ایسے ہی شعر پڑھنے کا ہے قادیانیوں کے سارے غریب ایک طرف اور فعالیت اور تبلیغی جوش و سرگرمی کا ہر دوسری طرف تو بھاری دوسرا پتہ ہی نکلے گا نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے مزہ تو جب ہے کہ گرتوں کو تمام کسانی ان اقتباسات کے علاوہ جناب ابو الکلام آزاد، جناب دو سر مشهور اجماع محمدعلی صاحب جو ہر جناب شوکت علی صاحب، جناب ے فتنہ ارتداد اور پولٹیکل قلابازیاں - له صدق حدید ۳۰ جنوری ۶۱۹۵۹
^^ خواجہ حسن نظامی صاحب بمش العلماء مولوی ممتاز علی صاحب مولوی سراج اللون صاحب (ایڈیٹر زمیندار سید ریا من احمد صاحب ریا فن خیر آبادی - سر عبد القادر صاحب ، علامہ نیاز فتحپوری، ڈاکٹر سیف الدین کچکو، مولانا عبدالحلیم شرر لکھنوی، شیخ محمدا کردم صاحب، منشی محمد دین فوق مواخ کشمیر، جناب عبد الکریم صاحب بر هم مدیر مشرق منشی محبوب عالم صاحب مدیر پیدا اخبارہ اور دوسرے مشاہیر نے بھی تحریک احمدیت کی تبلیغی و علمی خدمات پر عمدہ آراء کا اظہار کیا ہے.جن کا ذکر جماعتی لٹریچر میں آچکا ؟ غیروں کا انداز فکر تحریک احمدیت کی ان زرین اسلامی خدمات کے مقابل اس پر تنقید کرنے والے عمار فقہاء کا انداز فکر و عمل کیا ہے ؟ اس کی نشان دہی جناب مظہر صدیقی کے ان الفاظ سے ہوتی ہے کہ تنقیب و تعریفین کا حق اسی جماعت کو پہنچتا ہے جو خود کوئی ٹھوکوں کام کر رہی ہو.یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی جماعت محض تنقیب را نہ زینہ چینی کیا کرے.اور خود ہاتھ پر ہاتھ دھرے بھٹی رہے لیکن علماء کی جماعت نے اپنا منصب بس یہ سمجھ رکھا ہے.کہ خود کچھ کریں یا نہ کریں.لیکن جو لوگ اسلام کی خدمات کا بار اپنے ذمہ ہیں.اور اس کی خدمات کو اپنا دین و ایمان تصور کریں.ان کی غلطیوں اور فروگذاشتوں کو اچھالا کریں.اور موقعہ ملے تو انہیں کا فر ملحد اور بے دین مشہور کریں پائے لیے رسالہ الجامعہ محمدی شریف ص ۶ ۶۹ موتمر نمبر اپریل ۹۷
19 علامہ شبلی نعمانی نے علماء کی اسی ذہنیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا:.کرتے ہیں شب وروز مسلمانوں کی تکفیر بیٹھے ہوئے کچھ ہم بھی تو بیکار نہیں ہیں کلام اقبال کے مشہور شارح جناب پروفیسر سلیم چشتی نے ایک قدم اور آگے بڑھ کر ان علماء کرام سے دو سوال بھی کئے ہیں.جو انہی کے الفاظ میں عرض کرتا ہوں.یورپ اور امریکہ میں تبلیغ کے دروازے اُن پر بکلی مسدود اور آج ان ملکوں میں تبلیغ اسلام کا کام وہ لوگ کر رہے ہیں جن کو وہ کا فر قرار دیتے ہیں.اس سلسلہ میں پہلا سوال یہ ہے کہ اگر یہ لوگ کافر ہیں.تو آپ نے ان کا فروں کو تبلیغ کی اجارت کیوں دے رکھی ہے ؟ آپ خود کیوں نہیں جاتے تا کہ یہ لوگ خاموشی کے ساتھ اپنی اپنی دکانیں بند کر دیں ظاہر ہے.کالے کے آگے چراغ نہیں مل سکتا.دوسرا سوال یہ ہے کہ جن لوگوں کو یہ کا فر کلمہ پڑھا رہے ہیں ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ وہ لوگ مسلمان ہیں یا نہیں ؟ اگر وہ مسلمان ہیں تو کافر کسی کو کیسے مسلمان کر سکتا ہے اور اگر نہیں تو آپ کا یہ دعوی باطل ہو گیا.کہ اگما یک شخص کلمہ پڑھ لے تو سان ہو جاتا ہے.اه انجامعه تعلیمی نمبر صفحه ۳۵
بالا خریہ بتانا ضروری ہے کہ ہمارے مصلح ربانی کیلئے ضرور زمان انتقاد تحریک حریت پرتنقید کرتے ہوئے اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتے کہ انیسویں صدی کا نصف آخر جس میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے دعوئی ماموریت فرمایا پکار پکار کہ ایک عظیم دینی مصلح کا تقاضا کر رہا تھا.چنانچہ جناب سید ابوالحسن علی صاحب ندوی لکھتے ہیں.اس عہد کا سب سے بڑا واقعہ جس کو کوئی مورخ اور کوئی مصلح نظر انداز نہیں کر سکتا.وہ یہ تھا کہ اس زمانہ میں یورپ نے عالم اسلام پر بالعموم اور مہند دستان پر بالخصوص پورش کی تھی..عالم اسلام ایمان، علم، مادی طاقت میں کمزکو ہو جانے کی وجہ سے اس نوخیز و سلح مغربی طاقت کا آسانی سے شکار ہو گیا.....دوسری طرف عالم اسلام مختلف دینی و اخلاقی بمیاریوں اور کمزوریوں کا شکار تھا.اس کے چہرہ کا سب سے بڑا داغ وہ شرک خیلی تھا.جو اس کے گوشہ گوشہ میں پایا جاتا تھا.قبریں اور تعزیے بے تحاشہ بیچ رہے تھے.غیر اللہ کے نام کی صاف صاف دہائی دی جاتی سنتی.بدعات کا گھر گھر چپ چا تھا.خرافات اور توہمات کا دور دورہ تھا یہ صورت حال ایک ایسے دینی مصلح اور داعی کا تقاضا کہ رہی تھی.جو اسلامی معاشرہ کے اندر جاہلیت کے اثرات
۹۱ کا مقابلہ اور مسلمانوں کے گھروں میں اس کا تعاقب کرے.ایک ایسے نازک وقت میں عالم اسلام کے نازک ترین مقام مند تون میں جو ذہنی و سیاسی کشمکش کا خاص میدان بنا ہوا تھا.مرزا غلامحمد صاحب اپنی دعوت اور تحریک کے ساتھ سامنے آتے ہیں " وقت تھا وقت سیمانہ کسی اور کا وقت میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا a مگر یہ حقیقت تسلیم کرنے کے باوجود ہمارے ایک افسوسناک فال گیری انار دنیا کو اس ملک انہی میں بتا کرتا چاہتے ہیں.کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ آسمانی بادی کے آنے کی ضرورت تھی بعدا نے معاذ اللہ ایک کا ذب اور مفتری کو بھیج دیا تا امت محمدیہ کو اور زیادہ گمراہی میں ڈال دے.حضرت مسیح موجود علیہ السلام اسی نکتہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں :- اور جب ان کو کہا جائے کہ عین ضرورت کے وقت میں عین صدی کے سر بہ عین علیہ صلیب کے ایام میں یہ محمد و آیا جس کا نام ان معنوں سے سیج موجود ہے کہ جو اس صلیبی فتنہ کے وقت میں ظاہر ہوا.تو کہتے ہیں کہ حدیثوں میں ہے کہ اس امت میں تمھیں دیبال نه قادیانیت" مثل ۲ ، ۲۲۱
.۹۲ آدیں گے.تا امت کا خاتمہ کر دیں.کیا خوب عقیدہ ہے.اسے نادانو ! کیا اس امت کی ایسی ہی پھوٹی ہوئی قسمت اور ایسے ہی بد طالع ہیں کہ ان کے حصہ میں نہیں دجال ہی رہ گئے ر قبال تو تیس مگر طوفان صلیب کے فرد کرنے کے لئے ایک بھی مجدد نہ آسکا.زہر سے قمت باخدا نے پہلی امتوں کے لئے تو پے در پے نبی اور رسول بھیجے لیکن جب اس امت کی نوبت آئی تو اس کو تیس دجال کی خوشخبری سنائی گئی......یہ بھی ظاہر ہے کہ اب تک لاکھوں آدمی مرید ہو چکے جنھوں نے دین اسلام ترک کر دیا.پس کیا اس درجہ کی ملالت تک ابھی خدا خوش نہ ہوا اور اس کے دل کو سیری نہ ہوئی جب تک اس نے خود اس امت میں صدی کے سر پہ ایک درخیال نہ بھیج دیا کیا کہ مذاب علم کی تاریخ کی گھا اور مذاہب عالم کی تاریخ کا ایک ایک ورق گواہ ہے کہ خدا کے ما موروں، برگزیدوں اور فرستادوں کا استقبال ہمیشہ تنقیدی نشتروں ، فتنوں اور مخالفت کے طوفان سے ہوتا رہا ہے.ا سلسلہ انبیاء میں ہمارے و مود یار ه نزول أسبح ص۳۳
۹۳ امام الاصفیاء ختم المرسلين فخر النبيين حضرت احمد مجتبی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس شخصیت سب سے نمایاں رہے ممتاز اور ر ہے منفرد ہے.دوسرے نبی اگر انسانیت کا کمال ہیں تو آپ نبوت کی اعلیٰ وارفع ترین معراج ، آپ وہ تاجدار اقلیم روحانیت ہیں جس کی کفش برداری تخت شاہی سے بڑھ کر ہے جس کے گھر کی جاروب کشی کے مقابلہ میں بادشاہت ہفت اقلیم نیچے ہے.جس کی غلامی پر بڑے بڑے بادشاہوں، مد تبروں اور جرنیلوں ہی کو نہیں بلکہ نبیوں کو بھی ناز ہے.جس کے محبتوں میں خدا ، اور دریانوں میں جبرائیل بھی شامل ہیں.جس کے ہاتھ محسم تقدیر جس کی آنکھیں انوار الہی کا طور، جس کی زبان خدا کی قرنا ، جس کا دل خدا کا عرش جس کی آواز خدا کی آوازہ اور جس کا آنا خدا کا آنا ہے.مگر افسوس که خدا تعالے کا یہ سب سے زیادہ شہنشاہ نبوت پہ محبوب کائنات کا مطلوب و مقصود محجم رحمت درد ناک مظالم شفقت ، آفتاب رسالت اور شہنشاہ نبوت جب مطلع عالم پر جلوہ گر ہوا تو انسانیت کے دشمن اور ظلم و بربریت کے خوگر آپ کے خون کے پیاسے ہو گئے.اور آپ کے مظلوم صحابہ کے علاوہ خود آپ پر بھی ایسے ایسے مظالم توڑے کہ آج بھی جبکہ دان لرزه خیز واقعات پر چودہ سو سال کا عرصہ گذر چکا ہے.ان کا تصور کرتے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.اور روح کا نیا اٹھتی ہے.آپ کی
۹۴ عزت و آبرو اور جان و مال پر حملہ کیا گیا.رستے میں کانٹے سمجھائے گئے تین سال تک ایک گھاٹی میں محصور کر کے بائیکاٹ کیا گیا.گردن مبارک پر او بھری ڈالی گئی.وطن سے نکال دیا گیا.غاروں میں پناہ لینے پر مجبور کئے گئے.تلواروں اور نیزوں سے حملے کئے گئے.حتی کہ طائف کے لوگوں نے آپ کے مقدس اور نورانی وجود پر پتھروں کی ایسی شدید بارش کی کہ آپ سر سے پاؤں تک خون سے تر بتر ہو کر بیہوش ہو گئے.ان بے شمار مصائب و شدائل سے دو چار ہونے کے بعد تب کہیں خدا کی آسمانی بادشاہت زمین پر قائم ہوئی.اقتدار کفر و باطل کے خان پس آپ کے بعد بھی کوئی ایسا مائیں روحانی و علمی جنگ نہیں آنکتا جس کا خیر مقدم عقیدت کے پھولوں ، گھی کے چرا خوں اور خوشی کے شادیانوں سے ہونے والا ہو.جس کے آتے ہی دُنیا کے سب مذاہب اقتدار کی کرسیاں آسانی کے ساتھ حضرت محمد مصطفے صلے اللہ علیہ وسلم کے کسی خادم کے حوالہ کر دیں.اور جس کا چہرہ دیکھتے ہی دنیا بھر کے مذہبی وسیاسی لیڈر فور حلقہ بگوش اسلام ہو جائیں.اور وہ روحانی انقلاب جس کے لئے بعض اوقات خدائی جماعتوں کے لئے قرنوں کی جد و جہد اور صدیوں کی قربانیاں بھی نا کافی ہوتی تھیں.چشم زدن میں پوری دنیا میں یہ پا ہو جائے یقیناً یقینا ایسا نہیں ہو سکتا.بلکہ جیسا کہ پہلے نوشتوں میں بتایا گیا ہے
۹۵ آنے والے مسیح و مہدی کو اپنوں کے تنقیدی نشتروں اور بیگانوں کی مرات کے درمیان سے اپنا رستہ بنانا پڑے گا.اور جب تک روئے زمین پر کفر، باطل اور بدعت کا اقتدار قائم ہے اس کے چپہ چپتہ پر روحانی و علمی جنگ جاری رہے گی : اسی خدائی سنت کے مطابق حضرت حضرت مسیح موعود کا نعرہ جہاد میں موجود مالیات کلام نے اپنے دعوئی مسیحیت کے ساتھے ہی اعلان فرمایا کہ سچائی کی فتح ہو گی.اور اسلام کے لئے پھر اس تازگی اور خوشی کا دن آئے گا جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے اور آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیسا کہ پہلے چڑھ چکا ہے.لیکن ابھی ایسا نہیں.ضرور ہے کہ آسمان اُسے پڑھنے سے رو کے جبتک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگہ خون نہ ہو جائیں اور ہم سارے آراموں کو اس کے ظہور کے لئے نہ کھو دیں اور اعرانہ اسلام کے لئے ساری ذلتیں قبول نہ کرلیں.اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ انگتا ہے وہ کیا ہے ہمارا اسی راہ میں مرنا.یہیں موت ہے جس پر اسلام کی زندگی مسلمانو کی زندگی اور خدا کی تجلی موقوف ہے نہ ملے 14 سے فتح اسلام ما ;
۹۶ وہ لوگ جو مسیح و مہدی کے ظہور کے ساتھ اپنی حکومت و بادشاہت کا خیال جمائے بیٹھے تھے.اس نعرۂ جہاد پر سخت جہ بڑ ہوئے اور تحریک احمدیت کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے ہر نا شائستہ اور خلاف اخلاق حربہ استعمال کرنے لگے.جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے نہایت دردمند دل کے ساتھ ان کو صلح کی پیش کش کرتے ہوئے فرمایا کہ آڈ اس بات کا معاہدہ کر لیں.کہ ہم میں سے کوئی فریق تحریر یا تقریرہ یا اشارہ کتابہ سے دوسرے کی عزت پر حملہ نہیں کرے گا.اور ایک دوسرے سے تہذیب اور شائستگی سے پیش آئے گا.اور فرمایا :- اگر یہ کاروبار هذا کی طرف سے نہیں ہے تو خود یہ سلسلہ تہاہ ہو جائے گا.اور اگر خدا کی طرف سے ہے تو کوئی دشمن اس کو تباہ نہیں کر سکتا.اس لئے محض قلیل جماعت خیال کر کے تحقیر کے در پے رہنا طریق تقولے کے بر خلاف ہے.یہی تو وقت ہے کہ ہمارے مخالف علماء اپنے اخلاق دکھلائیں.ورنہ جب یہ احمدی فرقہ دنیا میں چند کروڑ انسانوں میں پھیل جائے گا.اور ہر ایک طبقہ کے انسان اور بعض ملوک بھی اس میں داخل ہو جائیں گے جیسا کہ خدا کا وعدہ ہے.تو اس زمانہ میں تو یہ کینہ اور بعض خود بخود لوگوں کے دلوں سے دور ہو جائے گا.لیکن اُس وقت مخالفت اور مدارات خدا کے لئے نہیں ہوگی آئندہ جس فریق کے ساتھ خدا ہو گا.وہ خود غالب
96 ہوتا جائے گا.دنیا میں سچائی اقول چھوٹے سے تخم کی طرح ہوتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ ایک عظیم انشان درخت بن بجاتا ہے اور پھول لاتا ہے.اور حق جوئی کے پرندے اس میں آرام کرتے ہیں کہ سنہ وہ گھڑی آتی ہے جب عیسی پکاریں گے مجھے اب تو تھوڑے رہ گئے دقبال کہلا نیکے دن مصالحت نامہ کی اس دعوت کو ر ذکر کے اس کا ایک ہی جواب دیا گیا.اور وہ یہ کہ شائستگی و مدارات یا مصالحت کا کوئی سوال نہیں کیونکہ یہ جماعت مرتد ہے جو سیلمہ کذاب کے متبعین کی طرح عنقریب تباہ و پر یاد ہو جائے گی.ہے مگر چونکہ احمدیت کی عظیم الشان فتح کی بنیاد خود آسمان پر احمدیت کی الہ تالے کے انتھوں آسمان پر رکھی جا چکی تھی عظیم الشان فتح کی بنیاد اس لئے مسیح موعود کی وہ آواز جو آج سے پون صدی پیشتر قادیان کی لگنام بستی سے اٹھی تھی.اب خدا کے فضل سے پہاڑوں سے ٹکراتی اور دریاؤں کو چیرتی ہوئی ایشیا، افریقہ، امریکہ اور یورپ میں گونج رہی ہے.اور تثلیث و دہر میت کے ایوانوں میں ایک دلو لہ بہا ہے.اور دو استلام کی اُس ابھرتی ہوئی قوت و شوکت کو ریت تو الحکم، در تاریخ ارمان سے رسالہ اظہار مخادعات مسیلمہ قادیانی
۹۸ آتے ہوئے محسوس کر رہے ہیں جو تحریک احمدیت کی شکل میں ظاہر ہوئی ہے اور انشاء اللہ وہ دن بھی قریب ہیں.جبکہ اس کے جانباز سپاہی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کا جھنڈا لے کو اشتراکیت اللہ ہندومت، عیسائیت اور بدھ ازم کے خود ساختہ قلعوں کو پاش پاش کر دیں گے.اور لنڈن ، نیو یارک ، واشنگٹن، اور روما کے تمدن و تہذیب کی اینٹ سے اینٹ بجا دیجائیگی انگریزوں کے متعلق کہا جاتا تھا.کہ ان کی حکومت پر آفتاب غروب نہیں ہوتا.مگر ہم نے دیکھ لیا کہ یہ دعوی ہمیشہ کے لئے باطل ثابت ہو گیا.لیکن اس کے مقابل ہم پوری تحدی سے کہہ سکتے ہیں.کہ آج سلسلہ احمدیہ پر سورج غروب نہیں ہوتا.چنانچہ مولوی ظفر علی خاں صاحب نے اس حقیقت کا اقرار کرتے ہوئے آج سے تیس سال پیشتر صاف کہا تھا :- یہ ایک تناور درخت ہو چلا ہے اس کی شاخیں ایک طرف چین میں اور دوسری طرفت یورپ میں پھیلتی ہوئی نظر آتی ہیں " نیز لکھا کہ آج میری حیرت زدہ نگاہیں بحرت دیکھ رہی ہیں.کہ سے زمیندار اور اکتوبر ۶۱۹۳۶
٩٩ بڑے بڑے گریجوایٹ اور نوکیل اور پروفیسر اور ڈاکٹر جو کاؤنٹ اور ڈیکارٹ اور ہیگل کے فلسفہ تک کو خاطر میں نہیں لاتے تھے.غلام احمد قادیانی 10000 احمد پر اندھا دھند آنکھیں بند کر کے ایمان لے آئے ہیں بہاتے سه اک نظرہ اس کے فضل نے دریا بنا دیا میں خاک تھا اسی نے دریا بنا دیا اور اب تو خدا کے فضل سے احمدیت کا دریا طوفانوں کی صورت اختیار کر چکا ہے.جس کی لہروں کو بے مقصد نعروں اور اشتعال انگیز تقریروں سے ، د کا نہیں جاسکتا.اور نہ زمیندار ، آزاد قادیانی مذہب "تحریک قادیان ، عشرہ کا عملہ نے قادیانی مسئل"، عرف محرمانه " ، قادیا نیت اور دوسری کتابوں یا اخبار دی کے اوراق سے اس کی روک تھام کے لئے بند بنایا جا سکتا ہے.اس تحریک کے لئے اب آگے ہی بڑھنا مقدر ہو چکا ہے یہ وہ آسمانی تف ہو ہے جسے زمین کی بڑی سے بڑی طاقت بھی ناکام نہیں بنا سکتی تحریک احمدیت کے بعض نقاد اپنی تحریروں یا تقریروں سے غلط فہمیوں کا وقتی مال تو پھیلا سکتے ہیں.مگر وہ ان فرشتوں کو نہیں روک ه زمیندار و راکتو بر ۶۹۳۳
i سکتے.ہو خدائے عزوجل کے حکم سے احمدیت کی تائید و نصرت پر یا ھو ہیں.اور سید روحوں پر نازل ہو کہ حق و صداقت کی رہنمائی کر رہے.ہیں.ہاں وہ اس آسمانی ٹرانسمیٹر کو بھی بند نہیں کر سکتے.جس کی آواز آسمانی نوبت خانے کے ذریعے بلند کی جارہی ہے اسید نا حضرت مسیح موعود علیه ریح بود ک بغیر افروز خطاب السلام اسی لئے احمدیت کے ناقدین کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- ونیجو صدها دانشمند آدمی آپ لوگوں کی جماعت میں سے کل کر ہماری جماعت میں ملتے جاتے ہیں.آسمان پر ایک شور بر پا ہے.اور فرشتے پاک دلوں کو کھینچ کر اس طرف لا رہے ہیں.اب آسمانی کارروائی کو کیا انسان روک سکتا ہے." کہ پھر فرماتے ہیں :- خدا کے مامورین کے آنے کے لئے بھی ایک موسم ہوتے ہیں.اور پھر جانے کے لئے بھی ایک موسم.پس یقینا سمجھو کہ ہی نہ ہے موسم آیا ہوں اور نہ ہے موسم جاؤ کیا.خدا سے مت لڑو.یہ تمہارا کام نہیں کہ مجھے تباہ کر دوا سے جس بات کو کہے کہ کروں گا میں یہ ضرور ملتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے.رو اخر و غرينا آنِ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ) ه اربعین - سلے تحفہ گولڑویہ ص
H حضرت مولانا ابو العطاء صاحب مجاہد بلاد اسلامیہ و مدیر الفرقان کا مکتوب گرامی س را بنام مولوی دوست محمد صاحب شاہد ہے.یم ثيم المبدا المراح عزیز محترم مولسری - جالب جزاكم الله حسن الجزاء نہ است عمن انداز میں اور شستہ الفاظ میں آنے یہ دلکش مقاله مرتب فرمایا کے مسل چاشنی واب نہیں کر سکا اللہ تعالی یہ حال تھے کہ اسے مکمل طور پر پڑھے بغیر ہمیشہ اپنے خاص فضل سے نواز سے آمد
عنوان پیش لفظ ۱۰۲ فہرست مضامین عنوان صفحه ۲ کارڈ یشپ آف کاسٹر ۲۵ بین الاقوامی اسلامی تحریک ۵ پادری والٹر حضرت مسیح موعود کا دعوئی رد عمل سٹرلیونکس مسٹرن دیمر امام مہدی کی مخالفت سے تعلق پیشگوئی یا ۱۰ پادری اینچ کر میر فتوی کفر کی بنیادی وجہ اوراس کا نتجوبه 11 مسٹر بیون جونز آنحضرت صلی اللہ علی ولی کی وضاحت ۱۳ پروفیسر ٹائی پی امام مہدی کو عیسی بن مریم کہنے میں مشری یہ ہم دت ایک تعظیم الشان فلسفه ( ۱۳ ڈاکٹر شنکر د اس وہرہ 18 ۲۶ ۲۷ ۲۷ i ۲۸ ۲۹ ٣٠ صغیر پاک و ہند کے مسلم نقاد ۳۱ ایک عجیب ثابہت جود شمیل مسیح کا ز به و روحانی شیرت ۱۷ ناقدین کے نظریاتی نقاد کی پہلی مثال ۳۲ ایک دلچسپ واقعہ جماعت احمدیہ کو برطانوی آجینیٹ) کو تحریک احمدیث کی زبر دست مزاحمت 19 قرار دیئے جانے کا نظریہ (۳۶ تقید لغت اور اصطلاح کی روشنی میں ۲۰ فرقہ اہلحدیث کا ملکہ وکٹوری کے حضور ایڈریں ۴۰ ہمارا معاشرہ اور فن انتقاد نظریاتی قضاد کی دوسری مثال ۴۳۲ غیر مسلم نقاد ٢٥ ، تیری مثال سم
عنوان صفحه عنوان صفحه نظریاتی تضاد کی چو کی مثال ۲۵ شاعر مشرق ڈاکٹر سر محمد اقبال کی رہے پانچویں مثال ۳۶ مریز زمیندار مولوی ظفر علی خان کی ریاست چھٹی مثال مفکر احرار چو ہدی فضل حق تھا کی رائے " ، ساتویں مثال علامہ عیار یا چند تا دریا آبادی کی رائے ۵۰ ہمارے محترم نقادوں کی خصوصیات ۵۰ دوسرے مشہور زعماء " پہلی خصوصیت دوسری خصوصیت هه تیسری خصوصیت چوتھی خصوصیت پانچویں خصوصیت چھٹی خصوصیت ۶۳ ۸۲ ۸۳ ^^ غیروں کا انداز فکر مصلح زبانی کے لئے ضرورت زمانہ ۹۰ ایک افسوسناک مغالطہ انگیزی ۹۱ مذاہب عالم کی تاریخ کا کھلا ورق ۹۲ آنحضرت کا ارفع ترین مقام ۹۲ شہنشاہ نبوت پر درد ناک مظالم ۹۳ ساتویں خصوصیت ۶۴ اقتدار کفر و باطل کے خلات) آٹھویں خصوصیت ایک اہم نظر ہے ۶۵ روحانی و علمی جنگ ۹۴ ۶۸ حضرت مسیح موعود کا نعرہ جہاد ۹۵ ہمارا نقاد کیا چاہتے ہیں ؟ ا آسمان پر احمدیت کی ) ایک زیر توت قرآنی صداقت ایران امن کی بنیاد کی علیم الان فتح کی بنیاد 94 احمد یہ علم کام کے وسیع اثرات (4) حضرت مسیح موعود کا بیشتر افروز خطاب ۱۰۰ مریکی حدیت کی تبلیغی خدا کا افراد و خدمات ۱۸۲
۱۰۴ مطبوعا مجلس خدام الاحمر یہ مقامی ریوه - سیرت حضرت ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نصرة الحق - سیرت حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد رفتار عنی اللہ عنہ - حضرت مسیح پاک کی بیش بہا نصائح.....اقوالی نہریں ه دینی معلومات : جماعت اسلامی کا معنی اور حال - | - ۵۰ ۲۵ ۰۲۵ 19.ملنے کا پتہ چوہدری عبد العزیز واقف زندگی مہتم مقامی مجلس خدام الاحمدیہ.ربوہ اخرات اول ضیاء الاسلام بود تورا د اساعت ۱۰۰۰ • "