Language: UR
حضرت چوہدری سرمحمد ظفراللہ خان صاحب کے خود نوشت حالات زندگی ’’تحدیث نعمت‘‘ کے نام سے شائع شدہ ہیں۔حضرت چوہدری صاحب کی سب سے بڑی خوش نصیبی بلاشبہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی زیارت اور بیعت کی سعادت پانا تھا، اس کے ساتھ ساتھ آپ برصغیر میں اور پھر عالمی سیاست و قیادت میں بلندترین مناصب پر بھی سرفراز رہے، اس تفصیلی کتاب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ دیگر بہت سے اوصاف حمیدہ سمیت عاجزی اور پردہ پوشی کے بھی پیکر تھے۔ یوں قریباً ایک صدی پر محیط واقعات کا یہ دلکش بیان ایک سیر جہان بھی ہے ، تاریخ ہندوپاکستان، تاریخ عالم اورمعاصر مشاہیر عالم کا درست ترین فوٹو اور انسائیکلو پیڈیا بھی ہے۔ مصنف نے پنجاب سے شروع ہوکر یورپ وامریکہ میں گزرے اپنے مصروف ترین مہ و سال کا خارق عادت یادداشت کی مدد سے دلچسپ اور معلومات سے بھرا ایمان افروز بیان درج کیا ہے۔ یوں یہ صرف ایک فرد کی آپ بیتی نہیں بلکہ جماعتی، ملکی اور عالمی تاریخ کا مستند ترین باب ہے۔ 1971ء میں ڈھاکہ کے ایک فلاحی ادارہ کی طرف سے شائع کردہ اس کتاب کے 700 صفحات ہیں اور آخر پر اسماء کا انڈیکس بھی موجود ہے۔
الله ي الحر الحيمة خَرَدَة وَنَصَلَّى عَلَى سُول الكريم وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدث تحدیث نعمت خاکساریم و سخن از رو غربت گوییم یعلم اللہ که به کسی نیست مہارے مارا محمدظفر اللہ خاں ļ
i چند معروضات محترم چودھری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے بعض احباب کے اصرار پر اپنے حالات زندگی قلمبند فرمائے ہیں.اللہ تعالٰی نے جہاں انہیں اور بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے وہاں حافظہ کی نعمت بھی وافر عطا فرمائی ہے چنا نچہ اس کتاب کا مسودہ چودھری صاحب نے صرف اپنی یاداشت سے قلم برداشتہ تحریر فرمایا.اشاعت کے لئے چودھری صاحب نے یہ پابندی عاید کی تھی کہ کتاب صرف ایک جلد تک محدود رہے.اس شاد کی تعمیل میں مسودہ کا معتد بہ حصہ حذف کرنا پڑا.اس کاٹ چھانٹ کی وجہ سے ممکن ہے چودھری صاحب کے اسلوب بیان اور اس کی روانی میں کہیں کچھ فرق محسوس ہو.اس کے لئے ہم معذرت خواہ ہیں.محترم چودھری صاحب نے اس کتاب کے جملہ حقوق تصنیف ڈھا کہ بے نیولینٹ ایسوسی ایشن DACCA BE ) کو جو ایک فلاحی ادارہ ہے عطا BENEVOLENT ASSOCIATION) فرما دیئے ہیں.فجزاہ اللہ احسن الجزاء - کتاب کی طباعت کے سلسلہ میں محترم سید بابر علی صاحب مینجنگ ڈائرکٹر سیکھے لیٹیڈ بابر ( PACKAGES LTD ) لاہور نے فلاحی ادارہ مذکورہ بالا کی ہر طرح اعانت فرمائی ہے.اس کے لئے ہم ان کے شکر گزار ہیں.اللہ تعالے انہیں جزائے خیر عطا فرمائے.اعجاز احمد بشیر احمد تمبر الماء
عنوان حرف اول خاندانی حالات و فہرست مضامین صفحه عنوان گورنمنٹ کالج لاہور کے اساتذہ صف ۱۳ گورنمنٹ کالج لاہور کے بعض ہم عصر طلباء ما میری پیدائش ابتدائی تعلیم آشوب چشم کا عامر هنر " پروفیسر وادن کی مشفقانہ رہ نمائی حضرت خلیفہ المسیح اورکل کی خدمت میں حاضری کی سعادت حضرت خلیفہ المسیح اول کی خدمت میں مزید تعلیم کیلئے والدین کا دین کی طرف رجحان اور سلسلہ احمدیہ میں بیت ، انگلستان جانے کی اجازت کی درخواست 4 مزید تعلیم کے لئے انگلستان جانے کا فیصلہ 10.17 ۲۱ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی زیارت سے مشرف ہونا بی اے کے امتحان میں اول درجے میں کامیابی امریکن مشن سکول سیالکوٹ میں تعلیم والد صاحب کی خواہش پر قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنا سفر انگلستان پر روانہ ہونے سے پہلے حضرت خلیفہ ۲۲ المسیح اوگی کی ہدایات گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بیعت کا شرف روانگی سے قبل صاحبزاد مرزا بشیر الدین محمود احمد مانین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کا سانحہ کی خدمت میں حاضری A حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب خلیفة الميح ۱۰ انگلستان کا سفر مرسی سے بمبئی تک پہلا سفر بن ابیوردیل اول کا انتخاب جہانہ کا پہلا سفر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حیات میں حضور کی یہی یورپ میں ریل کا پہلا سفر میں حاضری لندن میں ورود صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب کا گورنمنٹ کا بجای خالی ۱۳ ۲۱ کر امویل روڈ لندن میں اور ان سے متعلق اخوت سٹامس آرنڈہ کی شخصیت جود عربی شمشاد علی صاحب مرحوم کا گورنٹ کھولی می داند و می بیک مس چودھری سردار محمد صاحب سرٹامس آرنلڈ سے پہلی ملاقات ۳۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶
عنوان انڈیا آفس بینائی کے لئے طبعی بورڈ کا معائنہ قاضی ظہور حسین صاحب کا مشورہ اور امداد اور قانون کی PA صف عنوان صفح وینیس ۲۹ میلمان لوگانو سردار محمد اکبرخان کی محبت میں سویڈن ، فنلینڈ اور تعلیم کے لئے گنگنہ کالج میں داخلہ بیرسٹری کیلئے لنکنز ان میں داخلہ ۳۱ روس کا سفر سرا یا شفقت خاتون مستر فائنزن ۳۴ سٹاک ہوم Al مس لائینزا پارستنر مستر الملی بین سبرنج کرنل دستر ما ورڈ ۳۶ سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے سیلینگ فورس (فنلینڈ) ۴۲ سابق پیٹرز برگ مال لینن گراڈ Apar ^< SHOOTING THE RAPIDS خواجہ کمال الدین صاحب کی لندن تشریف آوری ۴۵ نلینڈ در کنگ مشن کا قیام م خواجہ کمال الدین صاحب کے بیان کردہ انکے دو خواب ۳۸ مرمی ۹۳ تیام لندن کے دوران سیر و سیاحت آسکور میز تیر سے پہلی ملاقات ۵۰ چودھری شمشاد علی صاحب کے متعلق میرا ایک خواب ۵۳ میرا چودھری فتح محمد صاحب سیال کی انگلستان تشریف آوری حضرت خلیفہ المسیح اول کی وفات کا سانحہ مسٹر یوسف امام کی معیت میں فرانس پہلجیم ، ہالینڈ بور نمتھ کی سیر جہاد ٹائی ٹینک کی تباہی ۵۴ اور عمر منی کی سیر ۵۵ پیرس، بر سلنه مسٹر جان لیوٹیمیں جلینسز سے پہلی ملاقات ۵۷ عمر منی ۹۵ 44 ۹۸ ۹۸ ۹۹ ☑ ناروے کی سیر پر دیس میں علالت سردار محمد اکبر خان سردار محمد اکبر خان کی معیت میں البیسٹ اوران کی سیر سوئٹرز لینڈ اور شمالی اٹلی کی سیر جنود ، پنیرا ، فلور نہیں ཙྭ ་ 74 < ہائیڈل برگ رائٹر ڈیم ، ایمسٹرڈیم ہینگ H ۱۰۲ حضرت مرزا البشر الدين محمود احمد خليفة المسيح الثاني ۱۰۳ ا کی بیعت بذریعہ خط حج کرنیکے میرے انتظامت میں جنگ کی وجہ سے رکاوٹ | ۱۰
عنوان انگلستان سے والہ پسی کے سفر کی تیاری.ایل ایل بی کا آخری امتحان صفحہ عنوان صفحہ 1.4 مسٹر بار تھاسار تھی آئینگر اسٹ ای ایرانی کیتی احمد حضرت خلیفہ السمیع اول کی مشفقانہ عنایات والد صاحب کا خدمت دین کیلئے پر لیٹی ترک کرنا ۱۳۲ به لندن سے روانگی اور وطن میں واپسی ۱۱۳ کار سازه ما به تکبیر کاربر ما قادیان میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں ۱۱۴ سید میر ا فصل علی صاحب ۱۴۵ ما باریابی اور دستی سبعیت کی سعادت چودھری شمشاد علی خان صاحب سیالکوٹ واپسی }} پٹنہ ہائی کورٹ میں پہلے کیس کی پیروی ایل ایل بی لندن یونیورسٹی کے امتحان میں آنرینہ سید العام اللہ شاہ صاحب کے ساتھ اول در بعد میں کامیابی دانہ زیادہ کا اپنے نصال کا سفر چودھری بشیر احمد صاحب عدالت میں پیش ہونے کا سپہلا تجبہ بہ سردار جیت سنگھ صاحب IM ۱۲۰ ۱۴۹ ۱۵۰ ۱۵۲ پٹنہ ہائی کورٹ سم الله بنارس اور الہ آباد کی سیر سید حیدر امام لکھنو میں مہاراحمد صاب محمود آباد کی خدمت میں حاضری ۱۵۶ ۱۵۷ 146 اکٹر علی نقوی صاحب خلف الرتب شمس العلماء مولوی 4 سیالکوٹ میں پریکٹس کا آغانہ میر حسن صاحب سٹر اپنے سے روز اور سٹر بار کر ڈسٹرکٹ سیشن جج ۱۲۲) نان بهادر محمدحسین صاحب نمشن بیچ کا نپور مرا میٹ آئی سی.ایس.ڈپٹی کمشنر ا مسرور اور کوٹوں کے سلامی بنارسی کی حالت میں لاغری سید میر حامد شاہ صاحب سیرحامدشاہ را پٹنہ ہائی کورٹ کا فیصلہ رائے بہادر کیشو داس مجسٹریٹ سیشیخ عبدالرحمن ص ۱۲۵ والد صاحب کا وکالت ترک کرکے قادیان میں سلسلہ اری میر عباداللہ صاحب سینیر سب ج- دیوان سیتین احمدیہ کی خدمت کیلئے سکونت اختیار کرنا چیف کورٹ لا ہور میں پہلے کیس کی پیروی رام صاحب منصف یالکوٹ میں پریکٹس کے زمانے میں ان کے بعض سرکردگان ۱۹ سید افضل علی صاحب ایم اے کے امتحا کے لئے بیرم خان دھر مسالہ کا سفر ابتدائی عدالتوں میں پریکٹس کرنے سے بے رغبتی قادیان کے سالانہ جلسہ مشالہ میں شرکت انڈین کمیسنر کی اسسٹنٹ ایڈیٹری THESIS بستان " 149 " 16.521 ۱۳۱ آئینی اصلاحات کے سا اصلاحات کے سلسلہ میں سرما میگو کا سفر بند ۱۷۳ 1 ping سید حکومت پنجاب کی طرف سے پیلیسی کمیٹی کا قیام ایک دلچسپ دیوانی مقدمه 165 160
عنوان حکومت کے خلاف سیاسی مظاہرے اور مارشل لاء کا نفاذ صفح عنوان A صفحه جنگ کے اختتام کے ایک سال بعد اس کی باریکی خیریت کی خبر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی لندن مذاہب کا انفرنس مر کو بیول ڈار کے ہوشیانہ احکام جنہوں نے ہندوستان میں آسکر سے منے کیلئے یورپ کا سفر برطانوی حکومت کی بنیا دکھوکھلی کردی مارشل لاء کے ہندوستانیوں کی تذلیل کرنیوالے احکام ۱۹۸۳ میں شرکت مارشل لاٹری یونان میں لیڈران کے خلاف سنگین مقدمات ن متقدما ۱۸۵ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا ورود لندن سردار حبیب اللہ خان اور سید حسن شاه صاحبان کیوان حضرت نعمت اللہ خالص شب کی کابل میں شہادت سے مارشل لا ر ٹریبیونل میں پرودی لاد کین الصاحب ڈاکٹر گوکل چند نارنگ صاحب لاء کالج لاہور میں بطور لیکچرا نہ تقریر شیخ اعجانه احمد صاحب مسٹرایکو میتھ سرکو [AY ۲۱۹ مذاہب کا نفرنس میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا مضمون ۲۲۰ روز مذاہب کا نفرنس میں خاکسارہ کا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ۱۸۷ کا مضمون پڑھکر سنانا ۹۰) انگلستان سے دالیپسی 191 حضور کی محبت میں دو نہیں کی سیر مدراس ہائی کورٹ میں ایک جماعت کیس کی پیروی ۱۹۱ حضور کی معیت میں جہانہ کا سفر جماعت احمدیہ کے افراد کے متعلق ارتداد کا سوال کئی ۱۹ کشمیر کا پہلا سفر ۱۹۴ عدالتوں میں اٹھایا گیا میرا سیلا سیشن کیسی د و سبق آموزه تجمه بات پنجاب کونسل کے انتخاب میں حصہ لینے کی تیاری تمان بهادر عبد الغفور خانصاحب نحان آن زید کشتی ۲۰۳ والد صاحب کی وفات میابی احسان الحق صاحب منشن حج پنجاب کونسل کے انتخاب میں کامیابی سید افضل علی صاحب کا محکمہ انکم کیس میں تنفر پنجاب کونسل میں یونینسٹ پارٹی رکزی اسمبلی کی رکنیت کیلئے انتخاب میں حصہ لینا ۲۰۰ میابی سمر سه می فضل حسین صاحب رین آن ویلی حال ڈیوک آن دنیاسر کی نامور شریفی دریا ۲۰۱۰ مسٹر جسٹس بخشی یک چنصاحب الم الان کی طرف سے کتاب کی لال مسی مها جن صاحب میں قبول اسلام کی دعوت.جماعت احمدیہ انہوں کے میر کے طورپر تقریر ۲۰ سرشاری ال صاحب چین کیس جسٹس یہ ۲۲۱ ۲۳۲ کر کو ۴۲۳ ۲۲۴ ۳۳۰ " ۲۳۳ ۲۳۸ ۲۴۳ ر احمد علی کرام کا قادیان میں جلسہ منعقد کرنا ۲۱۳ جس پر شادی لا س سے جوگندر سنگھ کی ستم ظریفی سر | ۲۳۵
۲۸۴ ۲۸۵ ۲۸۹ را ۲۹۰ ۲۹۵ ۲۹۸ 4 عنوان سٹر جسٹس ایڈمین ٹر جسٹس بیرون تعلیفہ حکومت رائے وکیل مسٹر جسٹس آغا سیدہ سفر انگلستان سائمن کمشن کا تقری راجعه نمر بند به نا تخص صاحب پہلی گول میز کانفرنس صفحه عنوان ۲۴۶ ٹریبیونل میں کیس کی کاروائی ۲۴۸ میاں نسیم حسین صاحب مقدمہ سازش دیلی میں عدالتی کاروائی 4 ۱۲۵۳ ۲۵۷ در سری گول میز کانفرنس میں شرکت دوسری گول میز کانفرنس کے موقع پرلندن میں گاناھی جی اور سلم وند کے مابین مذاکرات ۲۵۹ علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب ۲۶۲ سررسید علی امام صاحب صوبہ پنجاب میں وزارت کی پیش کش ۲۶۳ مسلم لیا مسلم لیگ کی صدارت پنجاب کو فل میں ایک انگریویٹی کمشنر کے طرز عمل کے ۲۶۴ موٹر کا حادثہ کے طاری متعلق تحقیقات کے مطالبہ کیلئے تحریک التواء نواب صاحب محدوٹ کی دراشت کے مقدمہ کی پیروی سیلی گول میز کانفرنس " مسٹر یعنیتا سنی سر یسری نواس ساستری 4 چودھری شمشاد علی خان صاحب کی وفات گول میز کانفرنس کی مشاورتی کمیٹی وائسرائے کی کونسل پر عارضی تقرر گول میز کانفرنس کے دوران فرقہ دارانہ سائل کے متعلق ۲۰۰ مقدمہ سازیش دہلی کے ملزمان مقاسمت کی کوشش مولانا محمد علی صاحب کی وفات کا سانحہ پر بیوی کونسل میں پہلا کیس سپل گول میز کانفرنس کا آخری اجلاس کارڈ بلیز برگ فنڈ لیٹر سٹورٹ انگلستان سے واپسی والی سازش کیس سازش کیس ٹربیونل کے اراکین ره ۲۸۰ خان بهادر ڈنشا نادرشاه پرسنل اسسٹنٹ کے لئے تیاری ٣٠٠ وائسرائے کی کونسل کے اجلاس میں پہلی مرتبہ شرکت وائسرائے کی کونسل کے اجلاس میں طریق کانہ دانہ لیٹے کی کونسل کے اجلاس میں پہلی مرتبہ شمولیت ۳۰۴ حکمہ جات کےافسران اور کارکنان سے ملی تعارفی طلاق 4 CAPITATION RATES, TRIBUNAL MAI " میں حکومت ہند کی طرف سے پیروی کی پیش کش محکمہ تعلیم ، صحت و اراضیات کے سیکر سٹریٹ میں انگریز اوالی ۲۸۲ کی سجاتے آند دوستانی افسران کا تقریر
عنوان صفحه عنوان ڈائریکٹر جنرل آئی ایم ایس کے حکم میں سے ہندوستانی ان مشترکہ کمیٹی.کا تقریر پارلیمنٹ کی مشترک کمیٹی کے رو برو شہادت ہیں.صلاحات کے متعلق وزارت داخلہ کے راسلہ نام و یا ۲۰۱۹ مشترک کمیٹی کے سامنے سر پر چلی کی شہادت.سند یہ میری اختلافی رائے.مسٹر یہ چپل پر سردار بوٹا سنگھ کی جرح - حل فرقہ دارانہ نیابت کے سلسلہ میں حکمت ہند کی سفار است ۳۰۹ مسٹر پور پیل پر میری تجرح - - ادی کرنے کی وزیر اعظم ٹرین میک ان کی طرف مشترک کمیٹی کے سامنے سرمائیکل اور واٹر کی شہادت.سے کوشش.مر حسین شہید سہروردی کامن ویلتھ ریلیشنز کانفرنسی مار ٹیمیں شرکت - ۳۱ نیو یارک کا پہلا سفر - انچھوت اقوام کو بعدا گانہ نیابت کی تجویز کے خلاف شکاگو کا پہلا سفر اور را ۱۳۲۵ " ۳۲۶ " شکاگو کا سیلا سفر اور WORLD FAITHS ۳۳۰ CONGRESS میں شمولیت.کا ندھی جی کا ہرت اور معاہدہ ہونا.تیسری گول میز کانفرنس کے مسلم مند و بین.۳۱۳ مسٹر مائیکل پاولند تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت.کامن ویلتھ کانفرنس - نئے آئین میں ہندوستان کے مالیات پر حکومت برطانیہ (۳۶) پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی کے سامنے شہادت کا اختام آئین کا اختیارہ بدستور قائم رکھنے کی تجوینی.ستہ میں سرش دی لال کی طرف سے ہائی کورٹ کی جھی ۳۱۸) کی پیش کش.وسم اسمسم م السلام سلام (۳۳۳ پنڈت نانک چند صاحب.انگلستان میں ریلوے کے عمل کی خوش اخلاقی.دائر ہے کیطرف سے پنجاب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے ۳۵ ۳۲۰ عہدہ کی پیش کش.سٹر گلس بیگ کا بطور چیف جسٹس پنجاب ہائیکورٹ ۳۲۲ سرد لارڈ بلیز سرگ شادی لال کے آخری ایام.پنڈت نانک چند صاحب - ۳۲۳ میں تقریر.منان بهاور قلی خان صاحب - 4 دہلی سے لندن تک سہلا ہوائی سفر مقدمہ سازش دیلی کا انجام.پارلیمنٹ کے ایوانوں کی مشترکہ کمیٹی کے اراکین سے گول میز کانفرنسوں کے نتیجے میں ہندوستان میں آئینی ۳۴ غیر رسمی ملاقاتیں.ا کی تجاویہ کے متعلق حکومت برطانی کارای این کارڈ زٹلینڈ سے فرقہ وارانہ نیابت کے متعلق گفتگو.اور ان پر غور کرنے لئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی لارڈ ڈار جی سے گفتگو.۳۳۹ ۳۴۲
عنوان ش صفح عنوان لارڈ ہارڈنگ سے سندھ کی بھٹی سے علی کی گرفتگا - ۳۴ کی جدو جہد کی ابتداء.روز یہ مہند کی طرف سے میاں سر فضل حسین کے ریٹائر ۳۴ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام.ہونے پر وائسراے کی کونسل کی رکنیت کی پیش کش گلیسی کمیٹی اور اس کی رپورٹ.لارڈ والنگڈن والے لئے ہند کی طرف سے کونسل کی رکنیت ۳۴۵ حکومت پنجاب کے ایک طبقہ کی طرف سے غلط کی پیش کش.ائے ہے کی کونسل میں میرے قری کی ایک طبقہ کی طرف ۳ ایذا رسانی.اسے مخالفت.۳۵۳ 4 فہمی کی بنیاد پر جماعت احمدیہ کی مخالفت اور سر پر برٹ ایمرسن گورنر پنجاب اور جماعت ۳۵۴ ۳۴۸ قادیان میں اسرارہ کی تبلیغی کانفرنس.موکو رمیاں فضل حسین کی جگہ پر نور سر گایش پرشاد القری احمدیہ - انگلستان سے والی.سوائے عالم راج پال کی دریدہ دینی اور اس کا انجام امام جماعت احمدیہ کی اپنے خطبات جمعہ میں ضرت علی البیع الثانی کی بیت النبی کے جلسوں ۳۴۹ حکومت پنجاب کے احکام متذکرہ بالا پر کڑی کی سختر یک.تعزیرات ہند میں ترمیم جس کے رو سے بانیان ۳۴۹ گورنر پنجاب کی خواہش پر ان سے میری ملاقات مذاہب کی توہین قابل تعر یہ قرار دیگئی.گورنر پنجاب اور امام جماعت احمدیہ کی ملاقاتیں مسلم ارٹ لک کے مالک اور ناشتہ پر پنجاب کا میرے وطن مالوف ڈسکہ میں اعتماد کی مخالفت کے اور ہائی کورٹ کی طرف سے توہین عدالت کا اور پولیس کا میرے بھائی اور دیگر احمدیان کے متقدمه.خلاف جھوٹا مقدمہ.توہین عدالت کے کیس میں مسئول علیہم کی ۳۵۰ امام جماعت احمدیہ کی طرف سے تحریک جدید کا طرف سے پردی کے لئے میرا انتخاب.اجراء - ہائی کورٹ میں توہین عدالت کے کیس کی ۳۵۰ سر جونزن بصور ممبر ریلوے و تجاریت کی طرف سے ناکام کوشش کہ میرے چارج لینے سے سماعت - ۳۵۹ ی طرف (۱۳۶۲) ور تمان “ امرتیہ کی دریدہ دمہنی.۳۵۵۱ پہلے ریلوے کے محکمہ کا علحدہ قلمدان سن جائے مسٹر اورگلوی ڈپٹی کمشنر لاہور سے تھڑپ.اور مجھے صرف محکمہ تجارت کا چارج ملے.ریاست کشمیر میں حصول بنیادی حقوق ۳۵۲ وال نے کی خواہش پر سر جوزف بھور پسر
توان ص صفحها عنوان صغ فر ینیک نویس اور سر این این سه کاره کامن ویلتھ وزرائے عظام کی کانفرنس میں ۱۳۸۴ اراکین کونسل سے ملاقات.شمولیت وائسرائے کی خواہش پر سر جیمز گرگ رکن ۱۳۶۳ حکومت برطانیہ کے ساتھ معائدہ تجارت کی کونسل سے ملاقات.ترمیم کی بات چیت.چیف جسٹس بنگ کی عدالت میں مقدمات کی ۳۶۷ سر یا گھودان پہلے آئی.سی.ایس ب بینگ پیروی - خان بهادره نادرشاه - یورپ کے مختلف ممالک کا سفر اور ان ممالک کے وزرائے عظام و افسران محکمہ تجارت سے س جیمز گرگ کی صاف دلی.کرکے ملاقا تہیں.کوئٹہ کا قیامت نجیز نہ لزله - ۳۷۴ سر شادی لال کی جگہ پر بیوی کونسل کی پیشکش ستید العام اللہ شاہ صاحب کی وفات - قانون خلع - " کہ میرے افسران کی کانفرنس میں شمولیت اور ۳۷۵ والدہ صاحبہ کی وفات.۱۳۸۵ MAY ۱۳۹۲ را انگلستان کے ساتھ نیا تجارتی معائدہ اسمبلی میں ام ان سے خطاب.ائر کنڈیشن ڈبے چلانے کی تجوینید - ۳۷۹ لارڈ لنلتھگو کی وزارت کے قلمدانوں کی نئی تقسیم ہم حکومت برطانیہ سے آٹو رائٹریڈ اگر مینٹ کی ترمیم پر لیوی کونسل کی پیش کش.کے لئے گفتگو.سر راما سوامی مالیار کا تقر بطور وزیر (۴۰۴ اه جازن نیم کی وفات پر پرنس آف ویلیز کی ۳۸۰ تجارت - ب نشینی اور سر سمپسن سے شادی پر اصرانہ سر عبد الرحیم صاحب صدر اسمبلی.کی وجہ سے تخت و تاج سے دست بر دالہ کی.دوسری عالمی جنگ شروع ہونے پر محکمہ ۴۱۳ لندن میں سر فیروز خان نون کا تقریر بطور ۳۸۰ سپلائی کا سچارج - ہائی کمشنر ڈومنین منسٹرز کا نفرنس میں شرکت کے لئے.لارڈ نہ ٹلینڈ وزیر ہندہ کا سر حوزف بھورہ ۳۸۳ عندن کا سفر - ڈور کو لندن میں ہائی کمشنر بنانے پر نا کام اصراری در سنین منسٹر کا نفرنس میں ڈومنین کے فائندگان مراسم شاہ جارج مغربی یورپ کے محاذ جنگ پر.شادی برطانوی سند شمولیت.مجنیو لائن -
عنوان.صفحا لارو ليسو ڈکیٹ م عنوان PACIFIC RELATIONS صفحه لیگ آف نیشنز کی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت ۳۲۲ CONFERENCE میں بطور نمائندہ وائسرائے کی کونسل میں دوبارہ تقرر ۴۲۴ ہندوستان شرکت - جنگ کے متعلق حضرت خلیفہ المسیح الثانی ۴۲۵ کنیڈا کا سفر - کی بعض رویا.ذیا بطیس کے مرض کا لاستی ہونا ١٤٤٦ پریزیڈنٹ روز ویلٹ کے ساتھ ملاقات ۴۵۰ ۴۲۸ جسٹس فریک فرشمہ ڈاکٹر وشوا نا تھ صاحب لاہور سے مشورہ انسٹر ا مریکن بار ایسوسی ایشن سے خطاب سرگر ماشنکر باجپائی کے خدشات اور ان کا تجویز کردہ علاج.تقرر بطور جج فیڈرل کورٹ ۴۳۰ ڈاکٹر جو سلن 4 ۱۴۵۲ سر سوری مودی اور سلطان احمد کا تقرر الطور ۴۳۲ امریکہ سے لندن کا سفر بمبر جہانہ پر ۴۵۵ اراکین کو مسل - اراکین کونسل - لندن پر بمباری کے دوران دو ماہ قیام ہے سے قصیر بیڈ منٹن میں یک روزہ قیام کی چین میں بطور ایجنٹ جنرل تقرر.۴۳۴ دعوت به نگ کنگ کا سفر - ۴۳۵ هندوستان کو آزادی دیئے جانے کے سلسلہ 104م ٹینگ کنگ میں قیام.۴۳۶ میں میری ایک تجوینہ.سور چھو ٹا ئیخمین ۴۳۸ وزیر اعظم چر سیل سے لارڈ لنلتھگو کے ۴۶۲ چین کی مسلم آبادی.جنگ کنگ سے واپسی.انقلاب سچین کے تعجب خیز اثرات - ۴۴۱ جانشین کے تقریر کے متعلق گفتگو.نظر بندی - وائسرائے سے چین کے متعلق اپنے تاثرات ۴۴۳ آسمہ کی نظر بندی کے دوران ان سے ملاقات ۴۶۶ کا اظہار.فلسطین کے سلسلہ میں لارڈ لیٹن کی مجھ سے 49 سم ٹچنگ کنگ سے ہندوستان کی آزادی کے آزردگی.۱۴۴۴ متعلق دائسرائے کو میری یاداشت.سر ماریں گو ائر چیف جسٹس ہندوستان ۴۴۲ جنگ کے دوران برطانیہ میں آسکر بی نظر کی له الله
عنوان کی جگہ سے پیٹرک سپنسر کا تقریر.ہندوستان واپسی کا سفر - صفح ط عنوان کے مندوبین کی مہمان نواندی.صفح ام انگلستان میں سحر معنی کی شکست کے بعد ۴۸۴ سجد منی کی الالم لیگوس میں جامعہ احمدیہ کی عمارت کا سنگ ۴۰۲ پارلیمنٹ کے انتخابات اور لیبر پارٹی کا بر سر اقتدار آنا - بنیاد رکھنے کی تقریب.سوڈان کے دو متمانه مذ ہبی اور سیاسی بیماری سیم پنڈت نہرو کی طرف سے مجھے اقوام متحدہ کے مہم سے شرف ملاقات.فیڈرل کورٹ آف انڈیا.۱۴۷۳ اجلاس میں مہندوستانی مندوب کی حیثیت ۴۷۳ میں شرکت کی پیشکش.سر ماریں گواٹر چیف جسٹس آف انڈیا.ہم ہم قضیہ فلسطین.۴۸۴ ۴۸۵ مہالہ سجہ نامسجد کی اہلیہ صاحبہ کا حکومت مدارس ٧٧م علامه الشيخ عبد القادر المغربي اور اس کے چند پولیس افسران کے پنڈت نہر کی تجویز پر حکومت ہند کی طرف سے انٹر نیشنل کورٹ میں بجھی کے لئے میری (۴۸۹ خلاف دعوئے.انڈین انسٹی ٹیوٹ آف انٹر نیشنل افیرز وی نامزدگی.کینٹ مشن کا تقریر.۴۹۰ کا قیام - اسلامی پردے کے متعلق غلط فہمی کا ازالہ ۴۸۰ کیبنٹ مشن کا تجویز کردہ منصوبہ ہے، جسے یتیم ہاؤس لندن میں رائیل انسٹی ٹیوٹ ۸۱ کانگریس اور مسلم لیگ نے منظور کر لیا ؟ آن انٹر نشیل انیٹرنہ کی کانفرنس میں مولانا آزاد کا کانگریس کی صدارت سے اوسم ہندوستان کی آزادی کے حق میں میری استعفے اور ان کی جگہ پنڈت نہرو کا تقرير انتخاب - حکومت برطانیہ کی طرف سے رائل انسٹی ۴۸۲ گاندھی جی اور پنڈت نہرو کی کینٹ مشن کے ۴۹۱ ٹیوٹ آف انٹر نیشنل افیرز کا نفرنس منصوبے کی بعض شقوں کی اپنی تعبیریں کے مندو بلین کو دعوت اور اس میں آزادگی شد پریشان خواب من از کثرت تعبیر یا - مند کی تائید میں میری تقریر.وزیر اعظم امیلی کی ہندوستان کی سالمیت ۳۹۲ کی کی لارڈ ایسٹور صدر رائل انسٹی ٹیوٹ آف ۳ بر قرار رکھنے کی آخری ناکام کوشش.انٹر نیشنل افیرز کی طرف سے کانفرنس حکومت برطانیہ کی طرف سے تقسیم ملکا اعلان (۳۹۳
Б عنوان صفحها عنوان ملک خضر حیات صاحب وزیر اعظم نخاب اسم مسلم لیگ کیطرف سے تحریری بیان پیش کا استعف.۴۹۳) کر دیا گیا لارڈ مونٹ بیٹن کا تقریر بطور وائسرائے ،۴۹ سعد بندی کمیشن کے رد برد بحث لا حاصل.تقسیم ملک کے اعلان پر میرا انڈین فیڈرل سر سید مراتب علی صاحب مرحوم کی بے غرض کورٹ سے استعفے.عمر داشتی مهمان نواندی - قائدا عظم کا اظہار خوشو دی.۵۰۸ 9 سوره یسید ۵۰۹ پنجاب باؤنڈری کمشن کے سامنے مسلم لیگ ۹۸ پنجاب کی دنیا کے متعلق ریڈکلف کا غیر نصا فیصلہ سربندی غیرمنصفا " کا کیس پیش کرنے کے لئے قائد اعظم کا مونٹ بیٹن کی پاکستان دشمنی کے محرکات ارشاد اور میری طرف سے اس کی تعمیل.اعلیٰ حضرت نظام کی طرف سے بطور صدر ۵۱۸ ریڈ کلف کا تقرر بطور چیرمین سید بندی A.." اعظم حیدر آباد جانے کی پیش کش.اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کی قیادت کرنے ، پنجاب حد بندی کمشن کے رو برد حاضری کے لئے ہم انا اعظم کا ارشاد -.٥٠١ قائد ۵۱۸ اقوام متحدہ کے اجلاس میں شمولیت کے 019 مسلم لیگ کی طرف سے تحریری بیان کی تیاری میری مضطر بانہ دعاء کا جواب ۵۰۲ لئے مہیلا پاکستانی وفد - بے لوث اور رضا کارانہ خدمت کرنے والے والے احباب - " فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کا قیام - ۵۲۰ قائد اعظم کی خواہش کہ میں وزارت خارجہ میرا نفر بطور وزیر خارجہ پاکستان - ۵۲۸ ملحقہ اکثریت کے علاقوں کی تشخیص کے ۵۰۳ پاکستان کا قلمدان سنبھالوں.لئے یونٹ کا تعین.حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی طرف سے ۵۰۰ برما کے جشن آزادی میں بطورنمائندہ پاکستان مسلم لیگ کے کیس کی تیاری میں گرا بقدر شرکت.امداد - اقوام متحدہ کی مجلس امن میں قضیہ کشمیر جسٹس دین محمد صاحب کا انکشاف کہ پنجاب ۵۰۰ کی پیروی کے لئے نیو یارک کا سفر.0.4 کی حد بندی کی لائن بالا بالاطے پا چکی ہے مسٹر کرشنا مینن تھا اور حد بندی کمشن کی کاروائی ایک ڈھونگ ہے سر کو پالا سوامی آئینگی." ۵۲۹ ۵۳۴
i ! عنوان صفحه ع عنوان صفحه اقوام متحدہ کی کشمیر کمیشن کے اراکین.۵۲۲ وزیر اعظم - ڈاکٹر جوزف کو سیل رکن کشمیر کمشن ۵۴۳ ترکی ، لبنان اور شام کا سفر.پاکستان اور ہندوستان کے مابین ۵۵۰ حضرت مولانا جلال الدین رومی کے پانیوں کا تنازعہ.قائد اعظم کی وفات.مزار یہ حاضری اور دعاء.قاہرہ میں قیام یجزل نجیب کی نجابت پاکستان کے اقوام متحدہ کی سرگرمیوں میں ۵۵۳ بغداد میں قیام.حصہ لینے سے پاکستان مختلف ممالک سے متعارف ہوا.السید نوری سعید وزیر اعظم سے تبادلہ ۵۷۹ ۵۸۱ ۵۸۱ ۱۵۸۲ خیالات - اطالوی فورآبادیوں کا مسئلہ ۵۵۴ حضرت سید عبد القادر جیلانی کے ۵۸۲ لیبیا کی آزادی.مزار پر حاضری اور دعاء را انیہ ٹیریا کا ابی سینیا سے الحاق ۵۶ نجف اشرف اور کربلائے معلی کی ۵۶۱ زیارت اور راجہ صاحب محمود آباد سومالیہ کی آنها دی.سوڈان کی آزادی ۵۶۴ کی مہمان نوازی - ۵۸۲ تونس اور مراکش کی آزادی کے مسئلہ کو ۱۹۵۳ء کے فسادات اور مارشل لاء ۵۸۳ اقوام متحدہ میں لانے کی کوشش.پیرس میں فرحت عباسی صاحب اور دیگر قائدین الجند ائمہ کے ساتھ الجزائر کی آزادی کے متعلق گفتگو.079 ۵۶۹ میری طرف سے خواجہ ناظم الدین صاحب ۵۷۰ وزیر اعظم کی خدمت میں وزارت سے استعفے کی پیش کش اور ان کا اسے قبول کرنے سے انکار.تونس اور م اور مراکش کی آنزا دری کا مسئلہ - ۵۷۲ گورنروں کی کانفرنس..۱۵۸۶ الستید احمد بالا فریج کے پاکستانی پاسپورٹ کا معاملہ.الجزائر کی آزادی.۵۷۳ ناظم الدین کا منہ کی برطرفی - نٹی کا بلیہ کی تشکیل.۵۷۵ حضرت تعلیقہ المسیح الثانی کا ایک منڈر شہید ملت نواب زادہ لیاقت علی ۵۷۷ نخواب اور حضور کی طرف سے صدقہ کی خان صاحب پاکستان کے پہلے تحریک - ۵۹۰
عنوان غ صفحه عنوان صفحه شہنشاہ ایران کی خدمت میں باریانی ۵۹۱ سیٹو کا نفرنس میں پاکستان کی طرف سے ۶۰۵ جنرل نہ اہدی وزیر اعظم ایران سے ۵۹۲ نمائندگی.ملاقات - اصفہان اور شیرانہ کا سفر - اصفهان - بین الاقوامی عدالت کی رکنیت کے لئے میرا حالات ۵۹۲ انتخاب - بین الاقوامی عدالت کی رکنیت.۶۰۷ پارسگار.شاہ فورس کا مقبرہ - ۵۹۳ جنوب مغربی افریقہ کے مینڈیٹ کے ۶۰۸ تخت جمشید - شیرانه.شاہ حسین اور ان کی حکومت کی طرف سے اردوین آنے کی دعوت.اردن کا سفر.۵۹۴ مسائل ۱۵۹۵ V یونیسکو کے چار امریکن افسران کا تنازعه ۱۰ 41.حکومت فرانس اور حکومت نامہ وے کا تنا زین ۶۱۱ حکومت سوئٹرز لینڈ اور حکومت ریاستہا ۶۱۲ ۵۹۶ متحدہ امریکہ کا تنانه عه - شاہ حسین کی خدمت میں باریابی.حکومت پر نگال اور حکومت ہندوستان کا تنازعہ.سم الله قدس کا سفر.اردن میں دوسری مرتبه شاه حسین ترکیه انتخاب بطور نائب صدر بین الا قوامی سما کی خدمت میں باریابی- عدالت پیٹرا کی سیر.096 حکومت ہالینڈ اور حکومت سویڈن ریل کا خطرناک عاد شہر جس سے اللہ تعالٰی ۵۹۸ کا تنازعہ - نے معجزانہ طور پر محفوظ رکھا.وزارت خارجہ سے استعفیٰ.حکومت اسرائیل اور حکومت بلغاریہ ۶۱۵ ۶۰۱ کا تنازعہ وزارت خارجہ کا چارہ ج چھوڑنے سے قبل ۲۰۳ حکومت بلجیم اور حکومت ہالینڈ کا ونہ پیر اعظم کے اصرار پر عالمی بنک تنازعہ - 414 سے مذاکرات کے لئے امریکہ کا سفر.IMCO کی بحری سحفاظتی کمیٹی کے بین الاقوامی عدالت کی رکنیت کے لئے ۶۰۴ اراکین کے انتخاب کا تنانہ عہ.میری نامزدگی.وسطی امریکہ کے دو ممالک ٹانڈور اسی اور ۶۱۷
ف عنوان صفحه نکار گوا کا نتنازعہ - عنوان صفحه کی سعادت.بین الا قوامی عدالت کے چھ بار عرصہ ۶۱۸) ایک امریکی ادارے کی خواہش پر انگریزی میں رکنیت میں بعض دوسرے اراکین عدالت میرے چھوٹے بھائی عبداللہ خان کی زفات 419 وزیر خارجہ پاکستان کی طرف سے صومالیہ موسم بھائی کی ہ میں ہونے والے انتخاب اراکین ۶۲۰ میں اقوام متحدہ کے نمائندے کے عہدہ کی عدالت میں ناکامی.پیش کش.امریکہ کی ڈیوٹر یو نیورسٹی سے پروفیسری حکومت سپین کو ان کے ایک تنازعہ میں کی پیش کش.لہ فضائے عدالت سے تعلقات - فرانس کے جج بارے واں.نار دے کے جج کلی ٹاڈ.۶۲۰ ۶۲۱ 4 ۶۲۳ تجو بین الاقوامی عدالت میں تھا قانونی مشوره - ۱۶۳۳ فیلڈ مارشل محمد ایوب صدر پاکستان کی طرف سے سے اقوام متحدہ میں پاکستان کے منتقل نمائندے محترمہ بیگم رعنا لیاقت علی خاں - ۶۲۴ کے عہدہ کی پیش کش.بیگم رعنا لیاقت علی خان کی اسلامی اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی.غیرت کی دو مثالیں.ہیگ میں مسجد احمدیہ متر به عزیزہ والٹر ایک ولندیزی نومسلمہ خاتون - ۶۲۵ ید منجی سلیم سیفی تونس کا اسمبلی کے سولہویں سید اجلاس کے لئے صدر اسمبلی منتخب ہونا.لائبیریا اور ابی سینیا کے جنوبی افریقہ کے ۱۹۳۴ ساتھ جنوب مغربی افریقہ کے قضیہ میں نامزد ۶۳۴ بین الاقوامی عدالت کی رکنیت کے عرصہ ۲۲ حجم مقر کئے جانے کی پیش کش.میں عمرہ کرنے کی سعادت.مکہ معظمہ میں خانہ خدا پر حاضری کی سعاد قضیہ کشمیر پھر مجلس امن میں ۶۲۷ اقوام متحدہ کے سترھویں سالانہ اجلاس کی عبد الوہاب عزام صاحب سے ریاض میں ۶۲۹ صدارت کے لئے میری نامزدگی.طلاقات - ۱۶۳۷ ہم ٹرینیڈار کے بجشن آزادی میں بطور نمائندہ ۶۴۱ مدینہ منورہ میں در حبیب خدا پر حاضری ۶۳۰ پاکستان شرکت..
عنوان انجمن اسلامیہ ٹرینیڈاڈ کی طرف.ق عنوان سے ۶۴۲ سترھویں اجلاس کا اختتام - صفحہ ۶۵۳ دعوت اور اسلام پر تقریر کا اہتمام.پر وفیہ ملالا سیکریا کی شرافت - ٹرینیڈاڈ میں جماعت احمدیہ کے مبشر سے ۶۴۲ حکومت پاکستان کی طرف سے شمالی اور شعر تی ۶۵۴ افریقہ کے ممالک کے سفر کی ہدایت.ملاقات - ٹرینیڈاڈ کے وزیر اعظم اور معینی نسل کے ۶۴۳ محمد علی صاحب بوگرا کی علالت اور وفات.- ۶۵۴ گورنر جنرل.سومالیہ ۱۹۶۲ء کے اجلاس میں میرا بطور صدر اسمبلی ۶۴۳ کینیا - انتخاب.گر به کشتن روز اول - ۶۴۵ روس اور دیگر مشرقی یورپین ممالک کا تعاون ۶۴۹ ٹانگانیکا.روس کے وزیر خارجہ کی طرف سے روس آنے کی دعوت.شمالی افریقیہ کے اسلامی ممالک کی طرف سے ۶۴۹ یوگنڈا.وہاں آنے کی دعوت.400 4 ۱۶۵۸ 409 مٹر جو کیا اور مٹر ام موبیا اور دیگر قائدین ، کینیا سے ملاقاتیں.شیخ عمری عبیدی.صدر نائمہ ہیرے کے ہاں قیام.یوگنڈا کے صوبہ یوگانڈا کے بادشاہ سرفیڈرک.در پیر اعظم ڈاکٹر او لوٹے کی طرف سے استقبالی و ۶۶۲ کمالہ کی مسجد احمدیہ کے افتتاح کی سعادت.الجزائر کے پہلے وزیر خالہ بعد محمد حمیتی صاحب میسا سے ملاقات.44.پریذیڈنٹ کینیڈی سے ملاقات..۶۵۱ صدر کینیڈی سے ملاقات میں قصیدہ کشمہ کا ذکر دعوت.گور نہ میری میں.مسٹر جان راک فیلمہ کی خوش فہمی.۶۵۲ نیروبی کی پنجابی ادبی انجمن میں پنجابی میں تقریم ۶۶۴ مسر راک فیلم کی بیان کرده مشر کرشنا مین سوڈان - کی بد خلقیاں..سترھویں اجلاس کا خصوصی امتیاز - ۶۵۲ قاہرہ میں صدر مملکت کمر نل جمال عبد الناصر و دیگر قائدین سے مذاکرات.سابق صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کا اسمبلی ۶۵۳ ۰ ٹریپولی - سے خطاب.ڈاکٹر اسید فاضل جمالی - 4 ۶۶۴ ۶۶۵
صفحہ عنوان سفیر ارشد حسین کی طرف سے وزیر خارجہ کی عنوان صفحه تونس - السید فاضل جمالی سے ملاقات.ضور کی دعوت طعام - صدرہ بورہ قیبہ سے ملاقات.۶۶۶ مسٹر نور و شیف سے ملاقات.الجزائر کے وزیر خارجہ حمد خمینی.صدر مملکت کی دعوت افطار اطفال الشہداء کے لئے دار الاقامہ مراکش - شاہ مراکش کے دربار میں حاضری.وزیر خارجہ گرد سیکو کی طرف سے روس آنے کی دعوت کی تجدید - ។។។ 4 ۶۶۷ 4 تاشقند (ازبکستان) مفتی ضیاء الدین بابا مخانوف - تاشقند کے قریب ایک کا لخوذ - ۶۶۸ سمرقند - ۶۶۹ ماسکو دالیسی - ۲۷۲ وارسا (پولینڈ) پراگ (چیکوسلواکیہ ) ادارہ خوراک و زراعت کی کانفرنس منعقدہ ۶۷۲ زیورک میں مسجد محمود کا افتتاح - روم میں صدر اسمبلی کی حیثیت سے شرکت.اسمبلی کے اسبلاس خاص کا اختتام.یوب جان ۲۳ - ۶۷۲ ۶۷۳ کینیڈا کی سیر.- مجلس امن کے مستقل اراکین کا حق دوسیو.عالمی عدالت کی رکنیت کے لئے میرا دو بارہ ڈاگ پیر شولڈ کی وفات کے بعد مراد تھان ۴ ۶ انتخاب.سم ۲۷ جمائمہ فیجی اور نیوزی لینڈ کا سفر - کا انتخاب لطور سیکر یٹری سبنرل.وزیر خارجه الجزائر محمد خمینی کی دردناک دنات ۱۷۵ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا وصال - اقوام متحدہ کی اسمبلی کا خاص اعلاس اور اس مرگ نیوزیلینڈ.کی صدارت.حج بیت اللہ شریف کی سعادت.۶۸۰ ۲۸۱ ۶۸۴ ۱۶۸۵ SSR ن کا سفر لیفین گرائو سابق پیٹرز برگ.عالمی عدالت کی صدارت کے لئے میرا انتخاب حرف آخر ماسکو.مزوروں کا رہائشی قصبہ.وزیر خارجہ سر گر میو کی طرف سے دعوت طعام - ✓ " مرکه " 491 ۱۶۹۲ 499
بسم اللہ الر من انت بینم حمَدَة ووَنُصَلِى عَلى رَسُولِه الكريم حرف اول •• اله العالمين.میں تیرا مہایت عاجزا اور پر خطابندہ ہوں تو میری ہر کمزوری سر لغزش اور اور تقصیر کو خوب جانتا ہے.میں تیرے بے پایاں احسانات اور اپنی لا تعداد تقصیروں اور خطاؤں کے بوجھ کے نیچے دبا ہوا ہوں.تیری رحمت کی انتہا نہیں اور میری کمزوریوں کا شمار نہیں.ساقیا شرمنده ام از لطف بے پایان تو ہے تو مرا پیر کی رہی من بانه خالی می دهم تو جانتا ہے کتنی بارہ مجھ سے کہا گیا کہ میں تیرے انعامات.تیری پردہ پوشیوں تیری ذرہ نواز یوں کا کچھ ذکر ضبط تحریرہ میں لے آئیں اور ہر بار میری کمزوریوں کا احساس اور یہ خوف کہ میں تیری نظروں میں نہیں بے جا نمائش کا مرتکب نہ ٹھہروں میرے رستے میں روک بنتا رہا.تیرے فضلوں اور انسانوں کو میں شمار میں نہیں لا سکتا.تو جانتا ہے کہ جو کچھ تیرے کرم نے مجھے بخشا وہ خالص تیری عطا ہے میلا اس میں کچھ بھی دخل نہیں.ذہن تو نے عطا کیا.حافظہ تو نے دیا.قوئی سب تیری عنایت ہیں.وسائل سب تیری بخشش ہیں.خدمت کے موقعے تو نے پیدا کئے.خدمت کی توفیق تو نے عطا فرمائی.شفیق، ہمدرد، بہت محبت کر نیو ائے.مخلص بینک میزاج.تجھ پر پختہ ایمان رکھنے والے اور توکل کرنے والے.بڑی خوبیوں والے والدین کو میری تربیت کی توفیق تو نے عطا کی.ہدایت کا رستہ تو نے دکھایا.اس پر لڑکھڑاتے ہوئے ہی سہی لیکن تاہم چلنے اور بڑھنے کی توفیق تجھی سے پائی.اپنے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم
کی محبت تو نے ہی دل میں ڈالی.ان کے غلام مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شناخت اور حضور کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت تو نے ہی نصیب کی.غرض تیرے فضلوں اور انسانوں کا شمارہ نہیں.تو اپنے خاص فضل و کرم سے اس عاجز کو توفیق عطا فرما کہ تیرے فضلوں کے ذکر میں خالص تیری درضا مقصود رہے.تومیرے قلم کی نگرانی فرما کہ وہ راہ حق و انصاف پر قائم رہے اور ٹھیکنے نہ پائے.سق کی تائید اور باطل کی تمدید میں چلے.تیرے بندوں میں سے کسی کی دل آنداری کا موجب نہ بنے بلکہ ان کی دلجوئی اور ہدایت کا باعث ہو.میرے ذہن کو روشن رام اور محافظ کو تازہ کرتا کہ جو کچھ تحریم میں آئے اس کی صحت میں شک کی گنجائش نہ ہو.مجھے توفیق عطا فرما کہ میں اس مہم کو جو میں نے تیری رضا کے حصول کی خاطر شروع کی ہے مکمیل تک پہنچا سکوں.میری سعی میں برکت دے اور اسے اپنی ذرہ نواندی سے قبول فرما.آمین یا الرحم الراحمین محمد ظفر اللہ خاں
خاندانی حالات میرا آبائی مسکن ڈسکہ ضلع سیالکوٹ ہے.ہماری قوم ساہی کہلاتی ہے.کہا جاتا ہے کہ کسی وقت من قوم کی پنجاب کے ایک علاقہ پر حکومت تھی.واللہ اعلم بالصواب.یہ قوم زیادہ تر امیوال رسابق منظمری کے علاقہ میں آباد تھی.ہمارے خاندان کی دو شاخیں اب تک ہندو ہیں.باقی یا سکھ ہیں یا مسلم.ہماری شاخ بارہ تیرہ پشت سے مسلمان ہے.میرے دادا چودھری سکندر خاں صاحب مرحوم اپنے علاقے کے بڑے بارسوخ زمیندار تھے.ان کے والد چودھری فتح دین صاحب عین جوانی میں فوت ہو گئے تھے.اس وقت میرے دادا ابھی کم سن تھے.ان کی کم عمری اور شر کاء کے مخالفانہ منصوبوں کے نتیجے میں خاندان کی تنگی سے گذر ہوتی تھی.ان کی پرورش نامسئلہ حالات میں ہوئی.لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی طبیعت میں حرم و دانش ودیعت کی تھی.اس لئے باوجود شرکاء کی مخالفت اور معاندانہ منصوبوں کے انہوں نے اپنا نہ مانہ نہایت خوش اسلوبی سے گزارا.اگرچہ ور زمانہ پر رنگ میں تاریکی اور جہالت کا زمانہ تھالیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیوی عقل و دانش کے علاوہ دین کا علم دہم بھی عطافرمایا تھا.جہاں تک مجھے معلوم ہو سکا ہے وہ اہل حدیث فرقے سے تعلق رکھتے تھے احکام شریعت کی سختی سے پابندی کرتے اور کرواتے تھے.شرک سے انہیں خصوصیت سے نفرت تھی ہر قسم کی بدعات سے احتراز کرتے تھے.مہماں نوازی اور غریب پر دری ان کا شعار تھا.اگرچہ خود تنگی سے گذر ہوتی تھی لیکن اس کا اثر مہمانوں کی تواضع پر نہیں پڑنے دیتے تھے.ان کا معمول تھا کہ عشاء کی نماز کے بعد رات کے کپڑے پہن کر مہمان خانے میں چلے جاتے اور ایک خادم کے طور پر مسافروں اور مہمانوں کی خدمت کرتے.تہجد کی نماز کے بعد بھی مہمانوں کی خبر گیری کے لئے مہمان خانے میں جو مسجد کے ملحق تھا چلے جاتے تھے.ایک دن فجر کے وقت مہمان خانے کے خادم نے اطلاع دی کہ ایک مسافر جس نے رات مہمان خانے میں بسر کی تھی غائب ہے اور جو بہتر سے رات بسر کرنے کیلئے دیا گیا تھا اس کا لحاف بھی موجود نہیں.تھوڑی دیر کے بعد پر کیدار اور دو ایک آدمی جو اس کی تلاش میں گئے ہوئے تھے مسافر کو لحاف سمیت پکڑے ہوئے میر داد امضا کے پاس لے آئے.انہوں نے دریافت کیا میاں ! تم نے یہ حرکت کیوں کی ؟ مسافر نے جواب دیا ہم گھر میں بچوں سمیت چارہ نفوس ہیں.سردی کا موسم ہے اور گھر میں صرف ایک لحاف ہے.میرے دادا صاحب نے وہ نوین اور تین روپے نقد دیگر اسے رخصت کر دیا.ان کی مہمان نوازی اور سخاوت کی وجہ سے تمام علاقے میں ملک اردگر
کے اضلاع میں بھی لوگ ان کا نام عزت و احترام کے ساتھ لیا کرتے تھے.حکام کے ساتھ ان کا برتاؤ تواضع لیکن فرقانہ کا ہوا کرتا تھا.اور حکام بھی ان کا احترام کرتے تھے.انہیں اس زمانہ میں جب حجانہ کا سفر نہایت دشوار ہوتا تھا ج کی سعادت بھی نصیب ہوئی.میری پیدائش میں ہر ضروری تالیہ کوسیالکوٹ میں پیدا ہوا.میری پیدائش سے پہلے میرے والدین کے تین چار بچے کم عمری میں فوت ہو چکے تھے.شاید یہ بھی ایک وجہ تھی کہ میری والدہ مجھے بہت عزیز رکھتی تھیں.میرے والد چودھری نصر اللہ خعلی صاحبہ اس وقت سیالکوٹ میں وکالت کرتے تھے میری پیدائش کے وقت میرے والدین کی عمر تیس سال کو پہنچ چکی تھی.میرے نبھال کا خاندان نسبتا خوش حال تھا.لیکن میرے والد صاحب نے اپنی طالب علمی کا زمانہ بہت تگی میں گذارا تھا.میری پیدائش سے دو تین سال قبل بفضل تعالیٰ فراخی اور کشائش کا دورہ شہر جمع ہو چکا تھا.ابتدائی تعلیم میری والدہ بتاتی تھیں کہ میں چار سال چار مہینے اور چار دن کا تھا جب مجھے مدرسہ میں داخل کرایا گیا.پہلے پھر سال میں نے میونسپل بور ڈ سکول میں تعلیم حاصل کی.ساتویں سال میں میرے والد صاحب نے مجھے امریکن مشن ہائی سکول میں داخل کرا دیا.اس تبدیلی کی غالباً ایک وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک میرے والد صاحب کو سلسلہ احمدیہ کی نسبت حسن ظن پیدا ہو چکا تھا.اور امرک مشن سکول میں اس وقت تین چارہ اساتذہ احمدی تھے.آشوب چشم کا عارضہ مدرسے کی تبدیلی کے جلد بعد مجھے آشوب چشم کا عارضہ لاحق ہو گیا اور تکلیف اتنی بڑھ گئی کہ ہر سال گرمیوں کا اکثر حصہ مجھے اندھیرے کمرے میں گزارنا پڑتا تھا.یہ عارضہ میرے لئے تو باش الم تھا ہی لیکن میری والدہ کیلئے مجھ سے بھی بڑھ کر تکلیف دہ تھا.میرا جتنا وقت اندھیرے کمرے میں گذرتا اس کا اکثر حصہ وہ بھی میرے ساتھ وہیں گزارتی تھیں.اس رفاقت نے ہمارے دلوں میں پیوند محبت کو اور بھی منٹو کر دیا.یہاں تک کہ ان کے آخری دم تک میری جدائی ان کے لئے سخت کرب اور بے چینی کا موجب بن جاتی تھی اور ان کی جدائی میں میرے دل کی کیفیت بھی ویسی ہی ہوتی تھی.میرے والد صاحب کو بھی میرے ساتھ بہت محبت تھی.لیکن ان کی طبیعت بہت سنجیدہ تھی اور وہ اپنے جذبات کو بہت کم ظاہر ہونے دیتے تھے.ان کے مجھ پر لا انتہا احسانات ہیں اور انہوں نے میری خاطر بہت قربانیاں کیں.جزاهم الله في الدارين خيراً يغفر الله لهما و يجعل الجنة العليا شواهماً والدین کا دین کی طرف رجحان میری والدہ کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل ورحم سے سچے خوابوں اور یہ یوں اور سلسلہ احمدیہ میں بیعت سے نوازتا تھا.بہت سا حصہ ان کی روحانی تربیت کا خوابوں کے
پر ذریعے عمل میں آیا.انہیں شروع سے ہی دعا پر بہت اعتماد تھا.اور اللہ تعالیٰ ان کی دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا تھا.ان کی وجہ سے ہمارے گھر میں روحانی اقدار ک اکثر ذکر نہا تھا.اس ذریعے سے میں نے ان سے بہت کچھ پایا.اور بہت کچھ سیکھا.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعیت بھی اپنے خوابوں کی بنا پہ کی در ایسے وقت میں کی جب میرے والد صاحب سلسلہ کی طرف مائل تو ہوچکے تھے لیکن ابھی بیعت کرنے کا فیھا.نہیں کر پائے تھے.والدہ صاحبہ کے بعیت کرنے کے چند دن بعد انہوں نے بھی بیعت کر لی.یہ وہ دن تھے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام آخیر ستمبر در شروع اکتو بر کشادہ میں سیالکوٹ میں حلوہ افروز تھے.والدہ صاحبہ کی بعیت کے وقت میں ان کے ہمراہ تھا.اور والد صاحب کی بعیت کے وقت بھی میں موجود تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ، مجھے حضور علیہ السلام کی زیارت کی سعادت پہلی مرتبہ سورستمبر یر کی زیارت سے مشرف ہونا سخنشہ کو نصیب ہوئی تھی.جس دن حضور کی موجودگی میں حضور کا لیکچر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لاہور میلا نام کے منڈو نے میں پڑھ کر سنایا تھا اس موقعہ پر میرے والد صاحب لیکچر سنے کیلئے سیالکوٹ سے لاہور گئے تھے.اور میری خوش نعیمی سے مجھے بھی ساتھ سیگئے تھے.میری نشست پلیٹ فارم پر حضور کے قدموں کے قریب ہی تھی.اور میں سارا وقت حضور کے مبارک چہرے پریکٹکی لگائے رہا تھا مجھے اس دن سے حضور کے جملہ دعاوی پریختہ ایمان اور حضور کے دعاوی کی نسبت کبھی کسی قسم کی الجھن میرے دل میں پیدا نہیں ہوئی.فالحمد للہ علی ذالک حضور کے قیام سیالکوٹ کے دوران میں مجھے کئی بار حضور کی زیارت کی سعادت حاصل ہوئی.اپنی دونوں مجھے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ المس الخشانی المصلح الموعود کی زیارت بھی پہلی بانہ نصیب ہوئی.امریکن مشن سکول ( امریکن مشن سکول حسب اساتذہ میرے ساتھ شفقت سے پیش آتے تھے.جب میں نویں سیالکوٹ میں تعلیم جماعت میں داخل ہوا تو ریاضی سانی اور ان کے استاد بار غلام محمد صاحب مرحوم تھے سکول کے سب طلبا ان سے بہت ڈرتے تھے کیونکہ ان کی طبیعت سخت گیر تھی.میری تعلیم کی طرف وہ خاص توجہ دیتے اور میری حوصلہ افزائی بھی فرماتے تھے.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے آمین.ان کے اکلوتے صاحبزادے عبد الحمید بٹ صاحب میرے ہم جماعت تھے.لیکن آٹھویں جماعت میں وہ لمبا عرصہ ہمارہ ہے اور ان کے والد صاحب نے خود ہی انہیں ایک سال کیلئے اسی جماعت میں روک لیا اور اس طرح وہ مجھ سے ایک سال پیچھے رہ گئے.جب میریکولیشن امتحان کے لئے داخلہ بھیجنے کا وقت قریب آیا تو میرے والد صاحب نے
ماسٹر غلام محمد صاحب سے کہا کہ اسے ایک سال کیلئے روک لیا جائے کیونکہ یہ آشوب چشم کی وجہ سے پڑھائی کی طرف پوری توجہ نہیں دے سکا والد صاحب یہ بھی چاہتے تھے کہ مجھے کچھ وقت کیلئے پڑھائی سے کامل غرات مل جائے.ماسٹر صاحب نے کہا کہ اس کا ذہن صاف ہے.اور باوجود اس کے کہ گرمیوں میں یہ پڑھ نہیں سکتا جماعت میں اچھا چلتا ہے.آپ اسے امتحان میں بیٹھنے دیں.اگر پاس ہو جائے تو پھر آپ چاہیں تو اسے ایک سال فارہ نغ رہنے دیں.اگر پاس نہ ہوا تو بہر حال اسے آئندہ سال ہی امتحان میں میٹھنا ہوگا.چنانچہ میرا داخلہ بھیج دیا گیا.اور اللہ تعالی کا ایسا افضل ہوا کہ میں اول درجہ میں پاس ہو گیا.اور اپنے مدرسے میں اول رہا.نتیجہ معلوم ہونے کے بعد نہ مجھے خیال آیا کہ ایک سال فارغ رہا جائے اور یہ میرے والد صاح نے کوئی ایسا خیال ظاہر کیا میٹریکولیشن کے امتحان کے وقت میری عمر ۱۴ سال تھی.والدہ صاحب کی خواہش پر والد صاحب کی بڑی خواہش تھی کہ مجھے قرآن کریم کا ترجمہ آجائے چنانچہ کی قرآن کریم کا نہ جمہ سیکھنا اہدایت کے ماتحت میں قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنے کیلئے مولوی عبدالکریم قصاب کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا.جو کچی مسجد کے امام تھے بسلسلہ احمدیہ میں بعیت ہونے کے بعد والد صاحب نے فرمایا کہ اب تم قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنے کے لئے جناب مولوی فیض الدین صاحب رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں کبوتراں والی مسجد میں حاضر ہوا کرو.مولوی صاحب موصوف بھی انہی ایام میں بیعت ہوئے تھے وہ مجھے بڑی شفقت سے پڑھایا کرتے تھے.لیکن میں آشوب چشم کی وجہ سے باقاعدہ حاضر نہیں ہو سکتا تھا اس لئے میری ترجمہ سیکھنے کی رفتار سست تھی.جب میٹر کولیشن کے امتحان میں تقریباً چھ مہنے باقی رہ گئے تو والد صاحب نے دریافت فرمایا کہ قرآن مجید کا ترجمہ کہاں تک پڑھ لیا ہے.میںنے عرض کی کہ ساڑھے سات پارے ختم کئے ہیں.اس پر انہوں نے فرمایا کہ اس رفتار سے تو تم کا لج جانے تک شاید درس پاسے بھی ختم نہ کر سکو اور میری بڑی خواہش ہے کہ کالج جانے سے پہلے تم سارے قرآن کریم کاکم سے کم سادہ ترجمہ ضرور سیکھ لو.اس سے آگے تمہارے اپنے ذوق اور اخلاص پر منحصر ہے لیکن اس قدر سکھا دیا میرا فرض ہے.اب وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے.تم دن میں فراغت کے وقت دو تین رکوع کا تر جمہ دیکھ لیا کرو اورشام کو مجھے نادیا کرد.چنانچہ اس طریق سے انہوں نے امتحان تک مجھ سے قرآن کریم کا نہ جمہ سن لیا.جہاں تلفظ یا ترجمے میں مجھے سے غلطی ہوئی آپ مجھے بتا دیتے.اولاد پر ماں باپ کے احسانات کا سلسلہ لامتناہی ہوتا ہے.مجھ پر میرے والد صاحب کے بے پایاں احسانات میں سے ایک احسان عظیم یہ تھا کہ انہوں نے مسلسل توجہ فرما کر مجھے قرآن کریم کے سادہ ترجمے سے شناسا کرا دیا.اور اس کے نتیجہ میں قرآن کریم کے ساتھ میری اجنبیت دور ہوگئی اور میرے دل میں قرآن کریم کا احترام اور عظمت قائم ہوگئے.اور مجھے قرآن کریم سے محبت ہوگی.جنابہ اللہ احسن الجزاء.1
گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ.میٹرو کولیشن میں کامیاب ہونے پر مجھے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل کرا دیا گیا.لاہور میں پہلے چند دن میں چودھری شہاب الدین صاحب کے ہاں ان کے مکان واقعہ بازار حج محمد لطیف میں ٹھہرا.کالج میں داخل ہو جانے کے ایک دو دن بعد میں کا بج کے ہوسٹل میں پھلا گیا.اور مجھے ڈار مسٹری عثہ میں جگہ مل گئی.مجھ سے جدائی والدہ صاحبہ پر بہت شاق تھی اور ان کے اصرارہ پر میں ہر دور سے ہفتے اتوار کا دن ان کے ساتھ گزارنے کیلئے سیالکوٹ چلا جاتا تھا.انٹر میڈیٹ کے دونوں سال گرمیوں میں مجھے آشوب چشم کی وجہ سے بہت تکلیف رہی.اس دوران میں پانچے آزمائشی امتحانات ہوئے جن میں سے دو میں تو بیٹھ ہی نہ سکا.باقی تین میں میں انگریزی اور عربی میں تو پاس ہوتا ہ با ر گومیرے نمبر پاس کے درجے سے تین چار ہی نزاید ہوا کرتے تھے ، لیکن ایک میں میں ریاضی میں فیل ہو گیا.دوسرے میں سائنسیس میں اور آخری امتحان میں ان دونوں مضامین میں فیل ہو گیا.یونیورسٹی کے امتحان کی تیارہی کے لئے مجھے سردیوں کے تین چار مہینے میسر آگئے.ان آخری مہینوں میں میں اوسطاً دس بارہ گھنٹے روزانہ توجہ کے ساتھ مطالعہ کر لیتا تھا.اللہ تعالیٰ نے اپنے کمال فضل اور رحم سے مجھے یونیورسٹی کے امتحان میں کامیابی عطاء فرمائی میں دوسرے درجے میں اچھے نمبروں سے پاس ہو گیا.اس زمانہ میں سلسلہ احمدیہ کی سخت مخالفت ہو رہی تھی.ڈامسٹری میں میں اکیلا احمدی تھا.ہم کل آٹھ السلم اس کمرے میں تھے.دو تین ان میں سے کبھی شرارت پر آتے تو مجھے دق کرتے.پہلے سال گرمی کی تعطیلوں میں جب میں گھر گیا تو میں نے والد صاحب کی خدمت نہیں گذارش کی کہ میری رہائش کا انتظام سیویل سے باہر کر دیا جائے.وجہ معلوم ہونے پر انہوں نے فرمایا تم ابھی سے گھبرا گئے ہو زندگی میں تو تمہیں اس سے بہت بڑی مشکلوں کا سامنا ہوگا.اگر ابھی سے برداشت کی عادت نہیں ڈالو گے تو آگے چل کر کیا کرو گے میں خاموش ہوگیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی سال گرمی کی تعطیلوں میں والد صاحب کے نام حضرت خلیفہ اول سے بعیت کا شرف مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ کا خط آیا جس کا مضمون فقط اتنا تھا کہ اب آپ اپنے بیٹے کی بیعت کرا دیں.میں نے بھی وہ خط پڑھ لیا.میں صدق دل سے حضور علیہ السلام پر ایمان رکھتا تھا.بیعت کرنے میں مجھے کسی قسم کا تامل نہیں تھا.میں تو اپنے تئیں اس وقت سے ہی احمدی سمجھتا تھا جب میرے والدین نے نشہ میں بیعت کی تھی.حضرت مولوی صاحب کے خط سے البتہ یہ علوم ہوا کہ مجھے خود بھی بیعت کرنی چاہئے.ضلع کی عدالتوں میں ستمبر کا مہینہ تعطیل کا مہینہ ہوا کرتا تھا.والد صاب ہر سال ستمبر میں قادیان حاضر ہوا کرتے تھے اور مجھے بھی ساتھ لے جایا کرتے تھے.حضرت مولوی صاحب کا
n خط آنے پر میں نے میں نے ارادہ کر لیا کہ ستمبر میں جب والد صاحب کے ہمراہ حاضر ہوں گا تو والد صاحب کے فرمانے والا حاضریوں والدصاحب کےفرمانے پر میں بیعت کر لوں گا.لیکن قادیان پہنچنے کے بعد نصف ستمبر گزر گیا اور والد صاحب نے مجھے اس بارے میں کوئی ارشاد نہ کیا.چنانچہ میں نے دل میں فیصلہ کیا کہ میں خود ہی حضرت مولوی صاحب کے ارشاد کی تعمیل میں بیعت کر لیتا ہوں.حضور علیہ السلام صبح سیر کیلئے تشریف لے جایا کرتے تھے.اس وقت بھی خدام کو حضور کی خدمت میں حاضر رہنے اور حضور کے کلمات طیبہ سے مستفید ہونے کا موقعہ میسر آجاتا تھا.پھر ظہر ادھر کی نمازوں کے بعد بھی حضور کچھ وقت کیلئے مسجد مبارک میں تشریف فرما نہ ہتے تھے.اس وقت بیعت بھی ہو جاتی تھی.میں نے ار ستمبر الہ کو بعد نمانہ ظہر مسجد مبارک میں حضورہ کی خدمت میں گذارش کی کہ میری بیعت قبول فرمائی جائے.حضور نے اجازت بخشی اور میں حضور کے دست مبارک پر بیعت ہوا.فالح من له على الالت حضرت مولوی نورالدین صاحب کے بیشمار احسانات میں سے جن کا یہ عاجزر مورد ہوا یہ ایک بہت بڑا احان تھا کہ آپ نے والد صاحب کو یہ تحریک فرمائی اور اس سے فائدہ اٹھا کر میں نے حضور علیہ اسلام کے دست مبارک مجھے پر سبعیت ہونے کی سعادت حاصل کی.کان ذالک فضل الله على فسبحان الله والحمد لله.ان ایام میں میرے ایک ہم مدرسہ دوست نے مجھے کہ رکھا تھا کہ اگر تم نے سلسلہ احمدیہ میں بیعت کی تو میرا تمہارا دوستانہ ختم ہو جائے گا.حضور کی بیعت کرنے کے بعد میں نے پہلا کام یہ کیا کہ انہیں خط لکھا کہ آج میں نے حضور علیہ اسلام کے دست مبارک پر بعیت کرتی ہے.لہذا آپ کے کہنے کے مطابق اب ہمارا دوستان ختم ہو گیا.کچھ عرصہ کے بعد خود انہوں نے بھی بیعت کر لی.لیکن عملاً جماعت کے ساتھ منسلک نہ ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام مئی نشانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام لاہور تشریف لائے اور کی وفات کا سانحہ احمدیہ بلڈنگس میں قیام فرمایا.کچھ عرصہ پہلے سے حضور علیہ السلام کے میں الہامات میں متواتر آپ کی وفات کی طرف اشارہ ہو رہا تھا.لیکن طبعا آپ کے خدام میں سے کسی کا ذہن اس دردناک تصویر کا متحمل نہ ہوتا تھا کہ حضور کے وصال کا وقت قریب ہے یعنی کہ اگر جیل مما لرحيل والموت قريب جیسے چونکا دینے والے الفاظ سے بھی اکثر زنان نے میں مراد اخذ کی کہ اس میں ہر انسان کو انجام سے تنبہ کرنا مقصود ہے.حضور نے بھی کسی قسم کی پریشانی کا اظہار نہ فرمایا اور متواتر اعلائے کلمۃ اللہ کی سعی میں بشاشت اور اطمینان کے ساتھ مصروف رہے.گورنمنٹ کالج میں ہم پانچ کچھ احمدی طالب علم تھے.شیخ محمد تیمور صاحب ، چودھری فتح محمد سیال صاحب ، چودھری ضیاء الدین صاحب، میرے استاد نہا دے عبد الحمید بٹ صاحب وغیرہ ہم اور ہم سب بالالتزام حضور علیہ السلام کی قیام گاہ پر حاضر ہوتے رہتے تھے.۲۶ رمٹی کو میں حسب معمول دو پر کا کھانا اول وقت میں ہی کھا کر لیٹ گیا تھا.دفعتہ شیخ تیمور صاحب نے میرا پاؤں ہلایا اور پریشانی کی "
حالت میں کہا اور میرے کمرے میں آو.میں جلدی میں اٹھ کران کے پیچھے ہولیا.اپنے کمرے میں پہنچ کر انہوں f ” نے بتایا کہ حضرت مسیح موعود فوت ہو گئے ہیں.انا للہ وانا الیہ راجعون باقی احمدی دوست بھی ان کے کمرے میں جمع ہو گئے تھے.یہ دل ہلا دینے والی خبرای غیر متوقع تھی کہ دل مان ہی نہ تھا کہ یہ صحیح ہوسکتی ہے.لیکن تسک کی گنجاش بھی نظر نہ آتی تھی.جب ہوش ٹھکانے آئے تو ہم سب جلدی میں ہراساں اور پریشاں احمدیہ بلڈ گلس پہنچے.وہاں مکان کے اندر تو وہی سماں تھا جس کی توقع کی جا سکتی تھی اور جس کا اندازہ ہر مخلص اور دردمند دل کر سکتا ہے.لیکن مکان سے باہر سٹرک پر مخالفین سلسلہ جس قسم کے مظاہروں سے اپنے اخلاقی فقدان کا اعلان کر رہے تھے.وہ نہایت اندر سناک اور قابل افسوس تھا.نماز جنازہ کے بعد ہم میں سے اکثر قادیان جانے کیلئے یوسے اسٹیشن پر پہنچے اور ہوگاڑی عصر کے وقت لاہور سے بٹالہ جاتی تھی اور جس کے ساتھ ایک خاص ڈبے میں حضور یہ اسلام کی نعش مبارک کریلے جانے کا انتظام کیا گیا تھا.اس میں سوار ہو گئے.دوسرے بزرگوں کے متعلق تو مجھے پوری طرح یاد نہیں، لیکن حضرت مولوی نور الدین صاحب کے متعلق یاد پڑتا ہے کہ آپ تیسرے درجے کے ڈبے میں ہمارے ساتھ ہی سفر کر رہے تھے.گفتگو کا تو کوئی موقع نہیں تھا سب لوگ دعا اور درود شریف کے درد میں مصروف تھے.حضرت مولوی صاحب نے سارا وقت سر جھکائے مراقبے کی حالت میں نظر آتے تھے.امرتسر پہنچنے تک مغرب کا وقت ہو گیا تھا.پلیٹ فارم کے اس حصے میں جہاں اور پر چھت نہیں تھی اور سینیٹ فارم بھی کچھ کھلا تھا حضرت مولوی صاحب نے نماز پڑھائی.امرتسر کی جماعت کے لوگ بھی شامل ہو گئے تھے.کچھ رات گئے گاڑی بٹالہ سنچی.یہاں جہاں کہیں کسی سے ہو سکا ایک دو گھنٹے سستا لیا.آدھی رات کے کچھ بعد یہ محزون قافلہ پا پیادہ قادیان روانہ ہوگیا.چونکہ گرمی کا موسم تھا اور ہجوم کی کثرت سے گرد اڑتی تھی اسلئے رفتار بہت دھیمی تھی تا کہ احباب کو تکلیف نہ ہو.اور نعش مبارک کو کندھا دینے والے آرام اور سہولت سے مفر طے کر سکیں.قادیان کی سڑک پر احباب ٹولیوں میں بکھر گئے تھے اور قافلہ انداز اور میل تک پھیل گیا تھا.راستے میں جہاں فجر کا وقت ہوا اور وضو کے لئے پانی میسر آسکا احباب نے باجماعت نمانہ ادا کرنے کا انتظام کر لیا.طلوع آفتاب کے وقت قافلہ قادیان پہنچا وہاں پہنچ کر نعش مبارک کو حضور کے باغ والے مکان کے دالان میں لکھ دیا گیا.جوں جوں باہر کی جماعتوں کو حضور کے وصال کی اطلاع ملتی گئی، احباب دور و نزدیک سے قادیان جمع ہوتے گئے.اور خاموشی سے زیر لب درود شریف پڑھتے ہوئے اور دعائیں کرتے ہوئے حضور کے چہرہ مبارک کی زیارت کرتے رہے.
حضرت مولانا مولوی نورالدین جان بعد مشورہ جس میں اراکین صدر انجمن شمل تھے.یہ طے پایا کہ حضرت خلیفة المسیح اول کا انتخاب مولوی نور الدین صاحب نے حضور علیہ السلام کے خلیفہ ہوں اور آپ کی اطاعت جماعت پر ایسے ہی واجب ہو گی جیسے حضور علیہ السلام کی واجب تھی.حضرت مولوی صاب نے یہ درخواست منظور فرمائی اور ایک مختصر تقریر فرمائی ہیں میں جماعت کو نئے حالات میں اپنے فرائض کی طرف توجہ دلائی اور پھر جماعت کی بیعت لی.اور باغ کے اس حصہ میں جو آموں والا باغ کہلاتا تھا حضور کا جنازہ پڑھایا.اور حضور کی تدینین مقبرہ بہشتی میں عمل میں آئی.صَلَى اللَّهِ عَلِيهِ وَعَلَى سَيْلِ وَأَلَمَ وَصَحَابِةً خَلَفَهُ اجمَعِينَ - ۲۷ مئی مسلہ کی بات قادیان ٹھہر کر ۲۸ مٹی کو میں لاہور واپس آگیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ستمبر تلہ سے لیکر حضور علیہ السلام کے وصال تک خاک رکو کئی دفعہ حیات میں حضور کی مجالس میں حاضری حضور علیہ اسلام کی مجلس میں حاضر ہونے کی سعادت حاصل ہوئی ستمبر کی تعطیلات میں اور سالانہ جل کے ایام میں میں اپنے والد صاحب کے ہمراہ قادیان محاضر مودا کرتا تھا حضور علیہ السلام جب سیر کو تشریف لے جاتے تو خاک بھی خدام کے زمرے میں رہا کرتا.اور ظہر اور عصر کی نمازوں کے بعد مسجد مبارک میں بھی حضور کی مجلس میں حاضر رہتا.کسی خاص مہمان کے آنے یا رخصت و دو حصونه باہر تشریف لاتے یا مسجد مبارک میں تشریف فرما ہوتے تو زیارت کا شرف حاصل ہو جاتا.جب میاں فضل حسین صاحب انگلستان سے تعلیم کی تکمیل کے بعد واپس اپنے وطن بٹالہ تشریف لائے تو ان کے والد صاحب جن کے حضور علیہ السلام کے ساتھ خاندانی مراسم تھے.انہیں ساتھ لیکر حضور علیہ اسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے لئے دعا کی درخواست کی.خاکسار اس موقعہ پر بھی حاضر تھا.میاں فضل حسین صاحب نے آریہ سماج کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کی نسبت کچھ تشویش کا اظہار کیا.جس پر حضور نے فرمایا.آریہ سماج مذہبی جماعت کی حیثیت سے زیادہ دیر قائم نہ رہ سکے گا کیونکہ اس کی بنیاد روحانیت پر نہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو عمر عطاء فرمائے تو آپ اپنی زندگی میں ہی آرمیدہ سماج کا بطور مذہبی جماعت کے زوال دیکھ لیں گے.چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا.میاں صاحب کی وفات سوائے میں ہوئی، اس وقت تک آریہ سماج کی مذہبی حیثیت ختم ہو چکی تھی.صاحبزادہ میاں مبارک احمد صاحب کی وفات کے وقت بھی خاکسار قادیان میں حاضر تھا.اس وقت مہمان خانے سے جو رستہ ڈھاب کے بند پر سے حضور کے باغ اور بہشتی مقبرے کو جاتا ہے اس کے درمیانی حصے میں ڈھاب پریل نہیں تھا.صاحبزادہ مبارک احمد کا جنازہ مقبرے تک لیجانے کیلئے ایک عارضی پل کی ضرورت پیش آئی جو جلدی میں سکول کے بچوں اور میزوں کے ساتھ تیارہ کیا گیا.خاک رنے بھی اس کی تیاری میں حصہ لیا.جنازے کے بعد تدفین میں کچھ وقفہ تھا کیونکہ برا بھی تیار نہ ہوئی تھی.اس عرصے میں حضور اس قطعہ میں تو بعد میں خاص
مجھے صحابہ کیلئے مخصوص کر دیا گیا تھا شریف فرما ہے.اور تمام کو وعظ و نصیحت فرماتے رہے.آپ کے چہرہ مبارک پر غم کے کوئی آثار نہ تھے.اور نہ آپ کے کلام کے انداز سے یا آوانہ سے ظاہر ہوتا تھا کہ آپ اپنے فرزند ارجمند کے جنازے کے بعد اس کی تدفین پر دعاء کے انتظارہ میں تشریف فرما ہیں.آپ کے کلام کا اندانہ بالکل یہی تھا جو روز مرہ کی مجلس میں ہوا کرتا تھا.حضور علیہ السلام صبر جمیل کا کامل نمونہ تھے...مسجد مبارک کی توسیع سے پہلے کا واقعہ ہے.چند مہمان جن میں حضرت سید حامد شاہ صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور والد صاحب شامل تھے، مسجد مبارک میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے خاکسار بھی کھانے ہیں شامل تھا.میری نشست اس دروازے کے عین سامنے تھی جس سے حضور اپنے مرکان سے مسجد میں داخل ہوا کرتے تھے.دروازے کی زنجیر مسجد کی طرف سے لگی ہوئی تھی حضور کے مکان کی طرف سے دروازہ کھٹکھٹایا گیا تومیں نے زنجیر کھولدی.دروازہ کھلنے پر دیکھا کہ حضور دست مبارک میں ایک طشتری لئے کھڑے ہیں جس میں گوشت کی بریان ران رکھی ہوئی ہے.حضور نے السلام و علیکم فرما کر شتری خاکابر کو دیدی اور تنور واپس تشریف لے گئے.حضور کی مشفقانہ مہمان نوازی اور خدام پروری اور اس بریاں گوشت کی لذت زائد انہ ساٹھ سال کے بعد بھی خاکسانہ کی یادمیں ایسی ہی تازہ ہیں کہ گویا یہ کل کا واقعہ ہے.حضور کا لباس سادہ ہوا کرتا تھا.عمامے کے اندر حضور گرم رومی ٹوپی پہنتے تھے.کرتا جو عموما کمل کا ہوتا تھا صدری اور لمبا کوٹ اور ملکی تنگ موری کی شلوار گرم موسم میں بھی صدری اور کوٹ عموماً گرم کپڑے کے ہوا کرتے تھے.جب حضور باہر تشریف لیجاتے تو ہاتھ میں چھڑی رکھتے تھے.ایک دفعہ ستمبر کے مہینہ میں خاکسا نے دیکھا کہ دوپہر کے وقت کھانے کے بعد اور ظہر سے پہلے حضور صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب والے مکان کے دروازے سے جو مستقف گلی میں کھلنا تھا یا ہر تشریف لائے اور گلی میں سے ہو کر اس زیر تعمیر مکان کے ضمن میں تشریف لے گئے جس میں بعد میں سیدہ ام طاہر احمد صاحبہ کی رہائش رہی.اس وقت معمار اور مردود کھانے کیلئے گئے ہوئے تھے اور کام بند تھا.حضور تھوڑی دیر تک عمارت کو دیکھتے رہے اور پھر اسی راستے واپ تشریف لے گئے.خاکسار نے حضور کو گلی میں تشریف لاتے وقت سے لیکر واپس تشریف لیجاتے وقت تک دیکھا.حضور اس وقت صرف رومی ٹوپی پہنے ہوئے تھے اور صدر ہی زیب تن تھی.حضور نے کوٹ نہیں پہنا ہوا تھا.دست مبارک میں چھڑی تھی.خاکسار کچھ فاصلے پر حضور کے پچھے پیچھے رہا مخل نہیں ہوا.حضور کے چھا مرز انظام الدین صاحب حضور کے سخت مخالف اور معاملہ تھے.انہوں نے طرح طرح کی تحقیر اور ایذا دہی کو اپنا مسلک بنارکھا تھا.حضور کا ایک الہام تھا ينقطع مِن احبائك وبيد منك.ان کا ایک بچہ بیمار ہوا اور بیماری زور پکڑ گئی.حضرت مولوی نور الدین صاحب معالج تھے.حضور جب مجلد مبارک
میں رونق افروز ہوتے تو بعض دفعہ توریت مولوی صاحب سے اس بچے کی صحت کے متعلق بھی دریافت فرماتے.ایک دفعہ جب حضرت مولوی صاحب نے بچے کی حالت کے متعلق تشویش کا اظہار کیا تو حضو نے فرمایا.مولوی صاحب اللہ تعالٰی اپنی مصلحتوں کو خود جانتا ہے.ہمارے لئے ہمدردی اور خدمت لازم ہے آپ پوری توجہ سے علاج جاری رکھیں اور جو کچھ بھی ضروری ہو عمل میں لائیں.صاحبزادہ مرزا بشیر محمد صاحب کا گورنمنٹ منی نکلہ میں صاحبزادہ مربہ الشیر احمد صاحب بتا سکول کالج میں داخلہ اور ان سے تعلق اخوت کی تعلیم ختم کر کے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوگئے اس طرح خاکسارہ کو کالج کے آخری سال میں آپ کی رفاقت کی سعادت حاصل ہو گئی.اور یہ تعلق ایسا حکم اور مضبوط ہوتا چلا گیا کہ کامل یگانگت کا رنگ کیر گیا.یہ تعلق نصف صدی سے نہائد عرصہ تک آپ کے وصال تک قائم کرتا.آپ کا لج میں داخل ہو جیسے پہلے ہی ایک باوقار تقوی شعار راضی بہ رضا شخصیت بن چکے تھے.کالج کی زندگی کے ہر شعبے میں آپ کو ایک امتیازہ حاصل ہوا.طلباء اور اساتذہ سب آپ کو احترام کی نظر سے دیکھتے تھے.خاکسار کے ساتھ آپ نے ہمیشہ مشفقانہ اور کریمانہ اخوت کا سلوک روا نہ کھا پیسچ تو یہ ہے کہ آپکے نہایت اعلیٰ خلق کے مالک تھے.اور جس کسی کو بھی آپ کے ساتھ کسی رنگ میں سابقہ پڑا وہ ضرور آپ کی عنایات کا موٹر ہوا.فجزاء الله خير او يغفر الله له ويجعل الله الجنة العلياء مثواه چودھری شمشاد علی صاحب مرحوم اسی سال چودھری شمشاد علی خاں صاحب مرحوم بھی گورنمنٹ کا لچ کا گورنمنٹ کالج میں داخلہ میں داخل ہو گئے اور صاحبزادہ صاحب نے موصوف کے ہم جماعت ہونے کا شرف حاصل کیا.چونکہ دونوں اصحاب کی رہائش بھی کالج کے پہلے سال کے دوران میں ایک ہی بڑے کرے میں تھی اس لئے دونوں کے در میان گرا رابطہ قائم ہوگیا.اور یہ تعلق بھی مضبوط سے مضبوط نہ ہوتا گیا، اور چودھری شمشاد علی خانصاحب کی وفات 4ار جنوری تسلہ تک قائم رہا.چودھری سردار محمد صاحب صاحبزادہ صاحب اور چودھری شمشاد علی خاں صاحب کے دوستوں میں سے ایک چودھری سروالہ محمد صاحب بھی تھے.جو میرے بھی مخلص اور گہرے دوست تھے وہ مجھ سے دو سال بعد اور صاحبزادہ صاحب سے ایک سال پیشتر کا لہی میں داخل ہوئے سلسلہ عالیہ احمدیہ سے تو تعلق نہیں کہتے تھے لیکن طبیعیت کے نہایت شریف اور بہت با اخلاق انسان تھے.کالج سے کیمیا د کیمسٹری میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد پشاور کالج میں کیمیا کے پر وفیہ ہوئے اور چند سال بعد زراعتی کالج لائل پور میں منتقل ہو گئے.وہ جناب صاحبزادہ صاحب کے حسن اخلاق کے گرویدہ تھے.انہوں نے آخر تک عہدِ وفا نبھایا، تقسیم کے بعد جب ربوہ میں سلسلہ کا مرکز قائم ہوا ت حال میں ایک دو بار ضرور صاحب زادہ صاحب 1
کی زیارت کیلئےکہ ابوہ حاضر ہوتے رہے.جناب صاحبزادہ صاحب اور چودھری شمشاد علی خاں صاحب دونوں فٹ بال کے کھلاڑی سی بھی تھے.چودھری شمشاد علی خاں صاحب تو جلد ہی کالج کی فٹ بال کی ٹیم میں شامل کر لئے گئے تھے اور اجد میں ٹیم کے سیکر بڑی اور کھپتان بھی ہوئے.MR گورنمنٹ کالج لاہور کے اساتذہ میرے طالب علمی کے زمانے میں گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل مسٹر رابن MR ROBSON اور وائس پرنسپل مسٹر سیمی ME HEMMY تھے.ME HEMMY تھے.اول الذکر انگریزی اور موخر الذکر طبیعات پڑھاتے تھے.ان کے علاوہ قابل ذکر اساتذہ میں لفٹنٹ کرنل سٹیفنسن (CLIENT : COL: STEPHEN SON - مسٹر بریٹ ) MR BRET) مسٹر وادن ( MR : WATHEN مسٹر جونز ( MR : JONES ) مسٹر گولک ناتھ چیٹرجی، لالہ جیا رام شیخ نور الہی ، مرزا محمد سعید ، لالہ ریچی رام ، مسٹر چاولہ ، مسٹر مکند لعل ، لال چنین انند، مسٹرلنگ ، بارین ( MR: LANCHORN) مسٹر رام پر شاد کھوسلہ ، مسٹر تاج محمد نعمال اور ڈاکٹر سرمحمد اقبال کے نام یاد ہیں.مسٹر پیٹ کے کالج چھوڑنے کے بعد ان کی جگہ ڈاکٹرر خدا تبال فلسفے اور انگریزی کے پروفیسر مقرر ہوئے تھے.وہ بیرسٹری کی پریکٹس بھی کرتے تھے اور شاد سے یہ تک کالج میں بھی پڑھاتے تھے.فلسفہ تو میرے مضامین میں شامل نہ تھا لیکن در سال مجھے ڈاکٹر صاحب سے انگریزی پڑھنے کا خر حاصل ہو گیا.ڈاکٹر صاحب نہیں انگریزی نظم پڑھاتے تھے.1911 اور بہت محنت اور توجہ سے پڑھاتے تھے مشکل مقامات کو اچھی طرح واضع فرما دیتے تھے.میں پروفیسر جونز کے ٹیوٹوریل گروپ میں تھا شاہ کے تعلیمی سال کے پہلے سہ ماہی امتحان میں میں عربی اور تاریخ میں بفضل اللہ دل رہا اور انگریزی میں بھی میں نے اچھے نمبر نے اس سہ ماہی کی رپورٹ کے نیچے میرے ٹیوٹر پر فیسر ونیز نے لکھا کہ پڑھائی میں اچھا چلتا ہے لیکن کھیلوں اور ورزش میں کوئی حصہ نہیں لیتا.رپورٹ ملنے پر والد صاحب نے مجھے طلب فرمایا.رپورٹ مجھے پڑھنے کو دی اور دریافت فرمایا کہ تم کھیلوں میں کیوں حصہ نہیں لیتے ؟ میں نے کمال ادب سے لیکن ڈرتے ڈرتے عرض کیا کہ یہ سوال مجھ سے نہیں ہونا چاہیے.فرمایا.کس سے ہونا چاہیے ؟ میں نے عرض کیا ان سے ہونا چاہئے جن کے تجویز کردہ پروگرام کے مطابق مدرسے کے ابتدائی درجوں میں ہی ملازم صبح ہوتے ہی مجھے ٹیوٹر کے پاس چھوڑ آتا، وہیں سے میں مدرسے چلے جاتا، میر کھانا مدرسے بھیج دیا جاتا ، میرے سے میں پھر ٹیوٹر کے پاس چلا جاتا ، وہیں میرے لئے گھر سے دود ھ آجاتا ، شام کو میں کھانے کے لئے گھر آنا ، کھانا ختم ہوتے
میں ملازم مجھے ٹیوٹر کے پاس چھوڑ آتا اور رات کو مجھے واپس گھر لے آنا.کھیل کود کے زمانہ میں میانہ معمول رہا بعد میں میری آنکھیں دکھنا شروع ہو گئیں.یہ پہلا سال ہے کہ مجھے آشوب چشم کی تکلیف نہیں ہوئی، میں کھیلوں میں حصہ لینا کب سیکھتا ؟ والد صاحب میری جمرات پر حیران تو ضرور ہوئے ہوں گے لیکن چونکہ خود وکیل تھے میری دلیل شاید انہیں معقول معلوم ہوئی، خاموشی سے سن لی اور جب میں نے بات ختم کی تو فرمایا اچھا جاؤ.میں نے خیال کیا کہ میں نے اپنا پہلا کیس جیت لیا ہے.جب میں انگلستان جانے کو تھا تو مٹر جونز نے مجھے چند ہدایات لکھ کر بھیجیں جن کے آخر میں یہ فقرہ تھا.IN SHORT AVOID WINE AND WOMEN AND WORK HARD AND you WILL NEVER REGRET HAVING GONE TO ENGLAND • ان کی یہ ہدایت اسلامی تعلیم کے عین مطابق تھی.اور میری طبیعت کی افتاد کے بھی موافق تھی.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحم سے مجھے اس پر پوری طرح عمل کرنے کی توفیق بخشی.فالحمد لله على ذالك گورنمنٹ کالج کے میں جب کالج میں داخل ہوا تو سنیئر مسلمان طلبا میں دو نام منانہ تھے ایک ڈاکٹر بعض ہم عصر طلبا ولی محمد صاحب جو کیمیا میں ایم ایس سی کی تیاری کر رہے تھے اور دوسر سے شیخ فیروز دین مراد صاحب تو طبیعات میں ایم ایس سی کی تیاری کر رہے تھے.جالندھر کے خان احمد حسین خاں صاحب میرے داخل ہونے سے عین پہلے اپنی تعلیم مکمل کرکے کالج چھوڑ چکے تھے.کالج میں ان کے حسن کردار کا عام شہرہ تھا.اس وقت بی اے کلاسز میں چودھری غلام رسول صاحب (مرید والہ ضلع گجرات ، پیر اکبر یچودھری سلطان احمد صاحب، چودھری غلام قادر صاحب دلپسر اکبر جناب چودھری سردار خان صاحب فیروز والہ ضلع گجرانوالہ ، شیخ غلام دستگیر صاحب (جالندھر، مسلمان طلبا میں پیش پیش تھے.چودھری غلام رسول صاحب کے منجھلے بھائی چودھری ذکاء اللہ صاحب کیمیا میں بہت قابل شمار کئے جاتے تھے لیکن قضائے الہی سے جلد فوت ہو گئے.احمدی طلبا میں شیخ محمد تیمور صاحب، چودھری فتح محمد سیال صاحب اور چودھری ضیاء الدین صاحب میرے سینٹر تھے.میں ان سب کی شفقت کا مورد رہتا.فجزاء الله احسن الجزاء ان دنوں غیر مسلم اور مسلم طلبا کے درمیان زیادہ مراسم نہ تھے.میرے ہم جماعتوں میں ایک مسٹر شو تم لال ڈیرہ غازی خاں کے رہنے والے نہایت شریف کم گو اور قابل طالب علم تھے.آخری سال انگریزی کے مضمون میں اول انعام کے لئے میرا اور ان کا مقابلہ ہو گیا.پہلے دو امتحانوں میں ہمارے مجموعی نمبر برا یہ تھے.تیسرے امتحان کے نمبروں پر انعام کا فیصلہ ہونا تھا.میرا اندازہ تھا کہ وہ انگریزی مجھ سے بہتر جانتے ہیں.ان کا خط بہت ہی صاف تھا اور پر اس پڑھا جاسکتا تھا.متن پرونیہ دادن تھے.جن کی رائے میری نسبت اچھی تھی.نتیجہ
۱۵ 1917 لکھنے کا وقت قریب تھا.میں فٹ بال گراؤنڈ کی جانب کرسی بچھائے پڑھ رہا تھا کہ مں نے پروفیسر وادن کو اپنے بنگلے سے ہوسٹل کی طرف آتے دیکھا.جب قریب پہنچے تومیں تعظیماً کھڑا ہوگیا سلام کیا اور دریافت کیا.آپ نے پر چے دیکھ لئے.انہوں کہا دیکھ لئے ہیں اور میں حیران ہوں کہ میں نے تمہیں اتنے نمبر کیسے دیدیے؟! میں نے دریافت کیا مجھے کتنے نمبر تے ہیں ؟ انہوں نے کہا یہ تومجھےیا نہیں لیکن تم اول ہو شرتم لال کے متعلق دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ تم سے اس کے پانچ نمبر کم ہیں.اگر چہ ہمارے کمرے بالمقابل تھے لیکن ہیں وقت تک ہمارے درمیان بات چیت کا کوئی موقع پیدا نہیں ہوا تھا.لیکن انعام کا مقابل ختم ہو جانے پرایا معلوم ہوا جیسے ایک روک دُور ہو گئی ہو.اور ہر روز کوئی نہ کوئی موقعہ بات چیت کا پیدا ہونے لگا.یونیورسٹی کا امتحان ختم ہونے پر تم گھر چلے گئے.برسوں بعد ایک وفعہ ان سے ملاقات ہوئی وہ اس وقت پیشن ج تھے اور میں دلی میں فیڈرل کورٹ کا بج تھا.کچھ عرصہ بعد وہ فوت ہوگئے.زندہ رہتے تو قوی اسکانیا کہ ہائی کورٹ کے بیچ ہو سجاتے.اپنی الغامات کی تقسیم کے تعلق میں میری واقفیت مسٹریم سین سے ہوئی ہو مجھ سے جو نیر تھے اور قابل طالب علم تھے.کچھ عرصہ انگلستان سے میری ان کے ساتھ خط و کتابت بھی رہی.وہ اقتصادیات میں ایم اے کرنے کے بعد پوسٹل سروس میں لے لئے گئے اور محکمہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ہوئے شاہ میں مجھے الہ آباد میں ان کا مہمان ہونے کا اتفاق بھی ہوا.چند سالوں سے پیشن یافتہ ہیں اور میرٹھ میں مقیم ہیں.ان کے ساتھ تولہ کے بعد ملاقات کا موقعہ میسر نہیں آیا.لیکن نومبر الہ میں ان کے صافراد جو منگ کاک میں بین الاقوامی ادارہ ہے عمال کے نمائیندے ہیں.ادارہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر منزل مٹر جنکس کے ہمراہ لاہور تشریف لائے اور ان سے ان کے والد محترم کی خیریت معلوم ہوگئی.تقسیم انعامات کے موقعہ پر نٹنینٹ گورنہ سر لوئی ڈین نے اپنی تقریر یں میرا نام لیکر مجھے مضمون میں اول انعام حاصل کرنے پر مبارک باد دی اورمزید ترین الفاظافر نے ان کی تقریر کالج میگزین رای این چی زادی کے ایڈیٹر مسٹر گورودت سوندھی تھے.جو بعد میں کالج کے پرنسپل بھی ہوئے.رادتی میں ہو تقریر شائع کی گئی اس میں وہ الفاظ حذف شدہ تھے جو لفٹینٹ گورنہ نے میرے متعلق فرمائے تھے.صرف اتنا لکھا گیا کہ ہنر آنر نے ایک طالب علم کو بہت سے الخام حاصل کرنے پر مبارک باد دی.پروفیسر وادن کی مشفقانہ رہنمائی.پروفیسر دادن میری بہت حوصلہ افزائی فرماتے تھے بی اے کے امتحان کے بعد میں نے ان سے مشورہ کیا کہ اگر پاس ہو جاؤں تو ایم اے میں داخل ہونے کی صورت میں کو لنا مضمون انتخاب کروں.انگریزی کے متعلق انہوں نے فرمایا کہ تمہاری ضروریات
{ کے لئے بنی در کار ہو گی اتنی تم نے سیکھ لی ہے.البتہ اگر انگریزی پڑھانے کا ارادہ ہو تو انگریزی میں ایم اے کر لو ورنہ اقتصادیات کا مضمون زیادہ مفید رہے گا.میں نے دریافت کیا کہ ایک سال میں اقتصادیات میں اول درجہ حاصل کر سکوں گا ؟ انہوں نے کہا کہ ایک سال میں سات ہی مہینے پڑھائی کے ہوں گے اتنے تھوڑے عرصہ میں پاس ہوتا تو ممکن ہے.لیکن اول درجہ میں پاس ہوئے کی امید میں ظفر اللہ خان کی بھی نہیں دلا سکتا البتہ دو سال کے بعد اول در سیر حاصل ہونے کی امید دل سکتا ہوں.عربی کے متعلق کہا کہ اگر تم آئنہ نہ میں اول آجاؤ اور عربی میں ایم اے کر لو تو کالج میں عربی کے پروفیسر ہو سکتے ہو.راس وقت تک عربی ، فارسی ، سنسکرت پڑھانے کے لئے اساتذہ اور منٹل کالج سے متعار لئے جاتے تھے.لیکن آئیندہ ان مضامین کے لئے باقاعدہ پر دیر مقدر کرنیکا فیصلہ ہو چکا تھا، جب میرے انگلستان جانے کا فیصلہ ہوگیا تو پر و فیسر وادن نے مجھے کیمرج کے دو پروفیسروں کے نام تعارفی خط دیئے جن میں میرے متعلق بہت تعریفی الفاظ استعمال کئے.بعد میں دادن صاحب خالصہ کالج امرتسر کے پرنسپل ہو گئے تھے.ہندوستان میں سروس ختم کرنے کے بعد انہوں نے لندن میں ایک سکوں کھولا.میں جب لندن جاتا انہیں ضرور ملنا یاء میں جب میرا لفرز وائسرائے کی کونسل کے رکن کے طور پر ہوا.تو میں لندن ہی میں تھا.اعلان کے چند روزہ بعد میں ان کے مکان کے قریب سے گزر رہا تھا.میں نے پیچھے سے بلند آوازہ میں شاباش شاباش کے الفاظ سنے.مڑ کر دیکھا تو مسٹر وا دن جلد جلد آرہے تھے میں رک گیا اور کہا.آپ کی چھٹی مبارکباد کی ملی تھی.میں نے شکریہ کا خط بھیجا تھا.کہا شکریہ کا خط مجھے مل گیا تھا لیکن اس موقع پر میں اپنی خوشی کے اظہار کو روک نہ سکا.آخر میمہاری کامیابی میں میرا بھی تو کچھ حصہ ہے.میں نے کہا کیوں نہیں آپ کا بہت بڑا حصہ ہے.حضرت خلیفہ المسیح اول کی خدمت میں حاضری کی سعادت.اوائل لاء میں حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ کو گھوڑے سے گرنے کا حادثہ پیش آیا جس سے آپ کی دائیں کنپٹی پر زخم ہو گیا جو بعد میں ناسورہ کی شکل اختیار کر گیا.حادثے کے صدمے سے فوری طور پر ان کی طبیعت بہت کمزور ہو گئی.آپ نے کاغذ کے ایک پرزے پر کچھ لکھا اور اسے ایک لفافے میں بند کر کے لفافے پر کچھ لکھا اور اسے دوسرے لفافے میں بند کر کے یہ لفافہ شیخ محمد تیمور صاحب کے سپرد کر دیا.اور فرمایا یہ میری وصیت ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے آپ کو شفا دیدی بعد میں جب آپ کے وصال کا وقت قریب آیا.تو آپ نے نے اپنی وفات سے دو تین دن قبل ایک باقاعدہ وصیت لکھ کر مولوی محمد علی صاحب ایم اے کو دی.اور فرمایا یہ پڑھ لیں اور پڑھ کر سنا دیں.یہ وصیت شائع بھی ہو گئی.اندریں حالات اس لفانے کے کھولنے
16 1911 کی ضرورت پیش نہ آئی.تو آپ نے لاء میں گھوڑے سے گرنے کے حادثے کے بعد شیخ محمد تیمور صاحب کے سپرد کیا تھا.لیکن آپ کے وصال کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ شیخ صاحب نے وہ لفافہ کھولا.اندر کے لفافے پر لکھا تھا کہ جس شخص کا نام اس لفافے کے اندر ہے.اس کی بیعت کرنا.اور لفافے کے اندر کاغذ کے پرزے پر محمود لکھا تھا یہ کے حادثے کے وقت میں لاہور تھا قادیان میں نہ تھا.اور حضرت خلیفہ المسیح اقول رضی اللہ کے وصال کے وقت لندن میں تعلیم حاصل کر رہا تھا.مندرجہ بالا روایت پختہ سماعی شہانیوں کی بنا پر درج کی گئی ہے.اس بات کی شہادت خود مولوی محمدعلی کی تحریروں میں بھی موجود ہے کہ سلالہ میں حضرت خلیفہ المسیح اول نے صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمد احمد صاحب کی بعیت کی وصیت کی تھی.مارچ، اپریل شاہ میں بی اے کے امتحان سے فارغ ہو کر اور چند دن سیالکوٹ بھر کر میں قادیان حضرت خلیفتہ المسیح اول کی خدمت میں حاضر ہو گیا.ابھی حضور حادثے کے اثرات سے پوری طرح صحت یاب نہیں ہو پائے تھے اورآپ کا وقت زیادہ تراپنے رہائشی مکان کے مردانہ دالان میں گذرتا تھا.نمازیں بھی آپ وہیں ادا فرماتے تھے.اور وہیں درس و تدریس اور صد در احکام کا سلسلہ جاری رہا تھا.خاکسار بھی دن کا اکثر حصہ دہمیں آپ کی خدمت میں حاضر نہا تھا مغرب کے وقت حضور والان سے صحن میں تشریف لے جاتے تھے اور مغرب کی نمازہ صحن میں ادا فرماتے تھے، ظہر اور عصرکی نمازوں کے وقت حضور بلنگ کے ساتھ قبلہ پی ہوکر بیٹھ جاتے تھے اور بیٹھے ہوئے ہی نماز ادا فرماتے تھے عمومیشیخ محمد میرصاحب کو ارشاد ہوتا کہ نماز پڑھائی اگر شیخ صاحب موجود نہ ہوتے تو اپنے کی اور شاگرد کو نماز پڑھانے کے لئے فرماتے.پہلے دن جب خاکسار حاضرموا اور ظہر کی نمانہ کی اذان ہونے پر آپ نے حاضرین کو ارشاد فرمایا.جائیں نماز پڑھیں.تو خاکسار بھی تعمیل ارشاد میں اٹھ کھڑا ہوا.آپ نے خاکسارہ کی طرف دیکھ کر فرمایا.میں تم میں نماز پڑھ لیا کر دیا.چنانچہ عرصہ قیام قادیان میں خاکسار ظہر و عصر اور مغرب کی نمازیں آپ کے ساتھ ہی اور کرتا رہا.ظہر عصر کی نمازوں میں آپ کی بائیں طرف تو پلنگ ہوا کرتا تھا اور دائیں طرف خاکسار کھڑا ہو جانا تھا.اور لوجہ ادب اور اسلئے بھی کہ زیادہ قریب کھڑا ہونا آپ کیلئے تکلیف کا باعث نہ ہو، ذرا فاصلہ چھوڑ کر کھڑا ہوتا تھا.لیکن آپ نے خاکسار کو اپنے قریب کھڑا کر لیا کرتے تھے.مقتدیوں کی تعداد چھ سات ہوا کرتی تھی.ایک روز عصر کی نماز کے وقت شیخ محمد تیمور صاحب موجود نہ تھے آپ نے نظر اٹھا کر حاضرین کا جائزہ لیا اور خاکسار کو فرمایا.میاں تم نے قرآن پڑھا ہے تم نماز پڑھاؤ یہ ان ایام میں آپ ایشیخ محمد تیمور صاحب کو صحیح بخاری پڑھایا کرتے تھے شیخ صاحب ایک حدیث پڑھتے اور اگر کیسی بات کو وضاحب طلب سمجھتے تو آپ نے سے استصواب کرتے یا اگر آپ خود کچھ بیان فرمانا چاہتے تو بیان فرما
A دیتے.لیکن آپ کا دربار تو ہر وقت ہر کس وناکس کیلئے کھلا ہوتا تھا.درمیان میں کوئی سائل یا حاجتمند آناتو اس کی طرف توجہ فرماتے.اگر دفترسے کوئی کاغذ آجاتا تو اس پر حکم صادر فرماتے.غرض ایک سلسلہ تمام وقت جاری رہتا.ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ شیخ صاحب نے ایک حدیث پڑھی اور اس کے متعلق کوئی سوال کیا.اتنے میں حضور کی توجہ کسی اور طرف ہو گئی تھی.آپ نے وہ سوال نہ سنا.جب آپ فارغ ہوئے اور شیخ صاحب کی طرف متوجہ ہوئے تو شیخ صاحب نے اگلی حدیث پڑھ دی.آپ نے فرمایا پچھلی حدیث میں فلاں بات قابل غور تھی.شیخ صاحب نے کچھ شکوے کے رنگ میں کہا میں نے دریافت تو کیا تھا آپ نے جواب نہ دیا میں نے خیال کیا بتانا نہیں چاہتے.خاکسار کو شیخ صاحب کی اس حرکت پر تعجب ہوا.لیکن حضور کرا دیئے اور کہا.شیخ شفا ہو گیا تھوڑی دیر کے بعد ایک اور واقعہ ہوا.جو بالکل اس واقعہ کی ضد اور کمال ادب کی مثال تھا.مولوی غلام بنی مصری صاحب جو آپ کے ایک ممتاز شاگرد تھے دالان کے پائین میں صحن کی جانب سے داخل ہوئے اور اسلام علیکم کہ کرانے کی دیوار میں تو الماری تھی اس کی طرف بڑھے.الماری سے کوئی کتاب لیکر میں دروازے سے داخل ہوئے تھے اس کی طرف لوٹے.دروازے کے قریب پہنچے توحضرت خلیفتہ المسیح نے آپ کو دیکھ کر فرمایا مولوی احب السلام علیکم.مولوی صاحب نے "حضور وعلیکم السلام “ کہہ کر کمال انکسار کے ہجے میں عرض کی.نگا کسار نے السلام علیکم کہا تھا لیکن حضور تک پہنچانہ سکای" برسوں بعد مولانا روم کا یہ شعر نظر سے گذرا.از خدا جوئیم توفیق ادب ہے بے ادب محروم ماند از فضل رب آنکھیں نم ہوئیں اور دل حسرت سے بھر گیا کہ معلوم نہیں غفلت اور نادانی میں کتنے مواقع جذب فضل کے گنوادیے.ربَّنَا لَا تَوَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَانَا - دوپہر کے وقت ڈاکٹر صاحبان آپ کے زخم پر مرہم پٹی کیلئے حاضر ہوتے اور مجلس یہ خاست ہو جاتی.ڈاکٹر صاحبان کے رخصت ہو جانے کے بعد آپ کچھ دیر استراحت فرماتھے.اس وقت آپ کے شاگردوں میں سے کوئی ایک آپ کی پیٹھ کی طرف پلنگ پر بیٹھ جانا اور آہستہ آہستہ آپ کا بدن دیا تا.ایک روزہ ایسا اتفاق ہوا کہ ڈاکٹر صاحبات کے رخصت ہو جانے پر صرف خاکسار ہی دالان میں حاضر رہ گیا.شوق اور اخلاص کہتا تھا کہ یہ موقع خدمت کا غنیمت ہے.حجاب اور ادب روک رہے تھے.خاکسار کو کبھی بدن دبانے کا اتفاق بھی نہیں ہوا تھا یوں تھا کہ بجائے حضور کیلئے آرام کا موجب بننے کے بیزاری کا باعث نہ بنوں.آخر ہجرت کر کے حصول ثواب کی نیت سے خاکسار نے حضور کا بدن دبانا شروع کیا.چند منٹوں کے بعد خیال آیا کہ شاید حضور کی آنکھ لگ گئی ہے اور میرا بان دباتے رہنا حضور کے آرام میں مخل ہو گا.اس خیال سے خاکسر نے دبانا بند کر دیا.ابھی خاکسار نے پلنگ سے
لنے کے لئے کوئی حرکت نہیں کی تھی کہ حضور نے کروٹ پر لیٹے لیٹے ہی اپنا بازو اٹھا کر خاکسارہ کے چہرے کو اپنے مبارک چہرے کے قریب کر لیا اور دو تین منٹ تک اسی حالت میں رکھا.پھر اپنا بازو ٹالیا اور فرمایا.یہاں ہم نے تمہارے لئے بہت بہت دعائیں کی ہیں." حضرت خلیفہ المسج اول کی خدیت مزیتعلیم کیے انگلستان جانیکی اجازت کی درخواست.اپنی دونوں میں میرے والد صاحب نے اپنے خط میں مجھے ارشاد فرمایا کہ حضرت خلیفہ المسیح کی خدمت میں گذارش کرد کہ مجھے بفضل اللہ امتحان میں کامیابی کی امید ہے اور کامیابی کی صورت میں میرے والد صاحب کی خواہش ہے کہ اگر حضورا اجازت عطافرمائیں تو مجھے مزید تعلیم کیلئے انگلستان بھیج دیں اسلئے ا حضور کی خدمت میں اجازت کی اور دعا کی درخواست ہے.میں نے یہ عرض داشت لکھ کر حضوں کی صفات میں پیش کر دی.آپ نے مزید تعلیم کیلئے انگلستان جانے کے متعلق فرمایا.آپ بھی اور آپ کے والد صاب بھی استخارہ کریں.پھر اگر اطمینان ہو تو اجازت ہے؟ انہیں ایام میں سیالکوٹ کے دو اور طلبا نے بھی محفور سے انگلستان جانے کی اجازت چاہی.لیکن حضور نے پسندنہ فرمایا.میں نے قادیانیہ میں استخارہ شروع کردیا دوسری یا تیسری رات کو ابھی سو یا ہی تھا کہ ایسے محسوس ہوا کہ کوئی شخص میری چار پانی کے پاس کھڑا ہے.اور مجھے مخاطب کر کے اس نے کوئی بات کہی ہے جس کا پہلا حصہ تومیں سن نہیں سکالیکن آخری الفاظ جو سنے وہ تھے.توپھر انگلستان جاؤ.اس سے مجھے تو اطمینان ہوگیا کہ بفضل اللہ میرا انگلستان جانا فائدہ مند ہو گا.اس بات میں میری اپنی خواہش کا چنداں دخل نہیں تھا کیونکہ مجھے انگلستان جانے کا کوئی شوق نہ تھا.بلکہ میں والدہ مخرمہ کی پریشانی کا خیال کر کے انگلستان جانے سے کچھ گھبراتا تھا.ایک بالکل نئے ماحول اور نئی معاشرت کے خیال سے بھی طبیعت میں پریشانی ہوتی تھی.بی اے کے امتحان میں اول درجے میں کامیابی.میں ابھی قادیان ہی میں تھا کہ ایک روز حضرت خلیفہ المسیح اول کی مجلس سے دو پہر کے کھانے کیلئے صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے مکان پر رجہاں میرا قیام تھا، پہنچتے ہی مجھے شیخ مبارک اسماعیل صاحب کا خط ملا جو انہوں نے لاہور سے لکھا تھا کہ امتحان کا نتیجہ نکل گیا ہے اور تم پاس ہو گئے ہو.خط میں انہوں نے میرے نمبر بھی درج کئے تھے جس سے معلوم ہوا کہ میں بفضل الله اول درجے میں پاس ہوا تھا.فالحمد للہ علی ذالک.میں خط پڑھتے ہی الٹے پاؤں حضرت خلیفة المسیح اول کی فرودگاہ پر حاضر ہوا اور خط حضور کی خدمت میں پیش کر دریا حضور دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور دعادی.اس دن سہ پہر کی مجلس میں جو کوئی بھی حاضر ہو تا حضور اسے فرماتے.آج ہم بہت خوش میں یہ امتحان میں پاس ہو گئے ہیں اور تعجب ہے کہ انہیں پہلے ہی معلوم تھا کہ پاس ہو جائیں گے " بعد میں
یہ بھی معلوم ہوا کہ خاکسار عر بی آنرز میں بھی پاس ہوگیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے عربی میں یو نیورسٹی بھر میں اول رہا ہے.یہ عجب اتفاق ہے کہ جب میٹر کولیشن کا نتیجہ نکا تو مجھے نتیجہ کی اطلاع میرے ایک دوست نے دی جن کا + نام غلام قادر تھا.والد صاحب تو امتحان کے لئے اس سال میرا نام بھی بھیجنے میں مقامل تھے.لیکن اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل اور اپنی قدرت سے کامیابی بخشی.اول درجہ بھی عطافرمایا اور اپنے سکول میں اول رہنے کا اعزاز بھی.ایف اے کے دو سالوں میں پانی آزمائشی امتحان ہوئے.دو میں تو میں آنکھوں کی تکلیف کی وجہ شامل ہی نہ ہو سکا.ایک میں ریاضی میں فیل ہو گیا، ایک میں سائنس میں فیل ہو گیا اور تیرے میں ان دونوں میں فیل ہو گیا.یونیورسٹی کے امتحان کی تیاری کیلئے مجھے اتنا تھوڑا وقت میسر آیا کہ میں نے یہ یا منی ، اس ٹیمیں میں بعض حصوں کی تیاری کی کوشش بھی نہ کی.پھر بھی اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل وکرم سے دوسرے درجے میں اچھے نمبروں سے کامیابی عطا فرمائی.ایف اے کے امتحان کے نتیجے کی اطلاع میرے ایک دوست نے دی جن کا نام فضل کریم تھا.جس میں یہ اشارہ بھی تھاکہ امتحان کیلئے تیاری کا حال تو تم جانتے ہو لیکن ہم نے اپنے فضل و کرم سے تمہیں کامیابی عطا فرمائی ہے.بی اے کے امتحان کے نتیجے کی اطلاعے شیخ مبارک اسمعیل صاحب نے دی.جن کے نام میں مبارکبادی اور آئیندہ کی ترقیات کے متعلق دعاؤں کی قبولیت کی طرف اشارہ تھا.واللہ اعلم بالصواب عصر کے بعد حضرت خلیفہ المیہ نے صحن میں رونق افروزہ تھے.باہر سے ایندھن کی لکڑی ڈیوڑھتی نیک پہنچائی گئی.ایک دو نوجوان شاگردوں نے لکڑی کو ڈیوڑھی سے اٹھا کر باورچی خانے میں لانا شروع کیا باورچی خانہ صحن کے دوسری طرف تھا.میں بھی ان شاگردوں میں شامل ہو گیا.ایک دو لکڑیاں اٹھائے با در چی خانے کی طرف جاہ نا تھا کہ حضور کی نگاہ پڑگئی فرمایا.میاں یہ تمہارا کام نہیں تم چھوڑ دو.“ ایک روز مغرب کی نمانہ میں تھے کہ حضور کے بچوں میں سے ایک آکر گودمیں میٹھ گیا.جب حضور نمانہ سے فارغ ہوئے اور بچے کی طرف شفقت سے متوجہ ہوئے تو بچے نے جوش کے ساتھ رونا شروع کر دیا.اور ساتھ ہی اپنے تمھنے سے ہاتھ کو زور سے حضور کے رخار پر مارنا شروع کیا.حضور سنتے بھی جانتے تھے اور کچے کی تسکین کی کوشش بھی کرتے جاتے تھے.بچے کی طبیعت دیر کے بعد نعلی لیکن حضور کی شفقت میں فرق نہ یا ایک روز مجلس میں حضور نے ذکر فرمایا کہ ہمیں پیاس کی تکلیف رہتی ہے.حضور خود اعلیٰ درجے کے طبیب تھے اور حضور کے مشیروں میں ڈاکٹروں اور اطباء کی کمی نہ تھی.خاکسارہ ایک نادان نو عمر تھا.و فورا خواص میں سادگی سے عرض کر دیا کہ اگر حضور چائے میں الائچی اور دار چینی استعمال فرمائیں تو
ممکن ہے فائدہ ہو مسکرا کر فرمایا.میاں میں اگر دو دھر یا دودھ ملی ہوئی کسی شے کا استعمال کروں تو مجھے تکلیف ہو جاتی ہے.اور ساتھ ہی کسی خادم کو ارشاد فرمایا.اندر کہ دو ہمارے لئے چائے تیارہ کر کے بھیج دیں جس میں الائچی اور حوالہ چینی ہو " بی الے کا نتیجہ معلوم ہونے کے بعد چند دن ٹھہر کر میں نے سیالکوٹ واپس جانے کی اجازت سیاہی.آپ نے اجازت دی اور میں سیالکوٹ چلا گیا.میری واپسی سے ایک دو دن قبل ایک روزہ آپ نے مغرب کے دقت فرمایا.میں تم تمام دن یہاں بیٹھتے ہو شام کے وقت سب لڑکے کھیل اور ورزش کیلئے با ہر میدان میں پہلے جاتے ہیں.تمہارا دل کھیلنے کو نہیں چاہتا ہے خاک رنے گذارش کی حضور مجے کھیل کود کا شوق نہیں سیالکوٹ واپسی پر میں نے والدہ صاحبہ کی خدمت میں ذکر کر دیاکہ میں نے والد صاحب کی ہدایت کے ما تحت حضرت خلیفہ المسیح سے انگلستان تعلیم کیلئے جانے کی اجازت چاہی تھی.حضور نے استخارہ کرنے کا ارشاد فرمایا تھا اور استخارہ کرنے پر مجھے انگلستان جانے کی تحریک ہوئی ہے لیکن والدہ صاحبہ کی طبیعت تین ال کی مبی جدائی کو برداشت کرنے پر آمادہ نہ ہوسکی.مزید تعلم کیلئے انگلستان جانے کا فیصلہ واپسی کے چند دن بعد والدصاحب نے مجھ طاف الا میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حاجی چودھری سلطان محمد خالصاحب بیرسٹر ایٹ لاء اور چودھری محمد امین صاحب کو سیل آپ کے پاس تشریف رکھتے ہیں مجھے بیٹھنے کا اشاد ہوا اور چودھری سلطان محمد خاں صاحب نے دریافت فرمایا.کیوں عزیہ ! تم انگلستان کیوں نہیں جاتے ؟ میں نے عرض کیا کہ جیسے والد صاحب فرمائیں.اس پر انہوں نے گلس ٹریولر گزٹ کا پرچہ نکالا جو وہ ساتھ لائے تھے اور تینوں صاحبان نے مشورہ کرکے طے کیا کہ میں آسٹرین لائیڈ کے جان کر ہر پر مٹی سے کم نمبر کوروانہ ہوکر ٹری ایسٹ تالا تھا.انگلستان کا سفر شروع کروں.میں نے والدہ صاحبہ کی خدمت میں حاضر ہو کر انہیں اس فیصلے کی اطلاعے دی.ساتھ ہی سفر کی تیاری شروع ہوگئی.بعض اشیاء کی تحدید کیلئے مجھے لاہور جانا پڑا جہاں والد صاحب کی ہدایت کے تحت میں انگلش ویہ ہاؤس لاہور میں شیخ رحمت اللہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہو گیا.انہوں نے کمال شفقت سے میرے لئے خود مناسب اشیاء کا انتخاب کیا اور سفر اور قیام انگلستان کے متعلق مناسب ہدایات دیں.اور مشورہ دیا.فناء اللہ احسن الجزاء - جب سفر کے شروع ہونے کا وقت قریب آیا تو یہ طے پایا کہ والد صاحب، والدہ صاحبہ ، میرے ماموی چودھر عبداللہ خاں صاحب ، میاں جہاں صاحب ہو ہمارے دادا صاحب کے وقت سے ہماری ڈسکہ کی اراضیات کی کاشت وغیرہ کا انتظام کرتے تھے، اور میں قادیان حاضر ہوں.اور وہاں سے واپسی پر
والد صاحب اور میں تو امرتی پیسے بھٹی پہلے جائیں اور والدہ صاحبہ، ماموں صاحب اور میاں محمان سیالکو لوٹ آئیں.والد صاحب نے ارشاد فرمایا کہ سفر کا پروگرام ایسا ہونا چاہیے کہ امرتسر سے سیالکوٹ کی طرف جانے والی گاڑی بیٹی کی طرف جانے والی گاڑی سے پہلے روانہ ہو.اور ہم دونوں والدہ صاحبہ کو امرت سے رخصت کر یں وہ ہمیں بھٹی کی طرف روانہ ہوتے نہ دیکھیں.چنانچہ اسی کے مطابق پروگرام بنایا سفر انگلستان پر روانہ ہونے سے پہلے حضرت خلیفۃ المسیح اول کی ہدایات.اس موقعہ پر قادیان میں ہمارا قیام صرف ایک دن یہ با ت رخصت ہوتے وقت حضرت خلیفہ المسی اول نے جو ہدایا خاکسارہ کو دیں ان میں سے جو خاکسار کو یاد رہ گئی ہیں درج ذیل ہیں.فرمایا.I ا.اس دعاء کا درد رکھنا.اللهم الرزقنی جلیسا صالحاً.۲.جب کسی سفر کے آخر میں منزل مقصود کے قریب پہنچا اور شہر ریاستی کی آبادی نظر آنا شروع ہو تو یہ دعاء کیا کرد.اللهم رب السموات السبع وما اطلان ورب الارضين السبع وما اقلان ورب الرياح وما ز دين ورب الشياطين وما أضللن إني اسألك خير هذه القومية وخير اهلها وخير ما فيها وأعوذ بك من شر هذه القرية وشراحلها وشر ما فيها اللهم ارزقنا حياها واعل نا من و باها اللهم حبنا إلى أهلها و حيث الحي اهلها البینا.اے اللہ جو رب ہے ساتوں آسمانوں کا اور اس کا بھی جو کچھ ان کے سائے میں ہے، اور رپ ہے ساتوں نہ مینوں کا اور ہر اس چیز کا جو اس پہ قائم ہے اور سب ہے ہواؤں کا اور ہر اس چیز کا جسے وہ لئے پھرتی ہیں.اور رہب ہے سب سرکشوں کا اور ان کا جنہیں وہ گمراہ کرتے ہیں.میں طالب ہوں تجھ سے اس آبادی کی سر بھلائی کا اور اس میں رہنے والوں کی طرف سے ہر بھلائی کا.اور جو کچھ اس کے اندر ہے اس کی طرف سے ہر بھلائی کا.اور نیز کی حفاظت کا طالب ہوں اس بستی کے ہر شر سے اور اس میں رہنے والوں کے ہر شہ سے اور جو کچھ بھی اس کے اندر ہے اس کے ہر شر سے.یا اللہ تو اس کی ہر خوشگوار چیز ہمیں عطا فرما.اور اس کی ہر حربہ رساں پیز سے ہماری حفاظت فرما.اے اللہ تو اس میں رہنے والوں کے ولوں میں ہماری محبت ڈال کرے اور اس میں رہنے والوں میں سے نیک بندوں کی محبت ہمارے دل میں ڈال دے.کہا جاتا ہے کہ انگلستان چونکہ ایک سرد ملک ہے.اسلئے وہاں سردی کے دفاع کیلئے مشراب کے استعمال کی ضرورت ہوتی ہے.ہم طبیب ہیں اور ہم جانتے ہیں یہ بات بالکل غلط ہے.اگر تمہیں سردی کی مدافعت کی ضرورت محسوس ہو تو کو کر استعمال کریں.اس میں خورا کیت بھی ہے اور سردی کے اثر کو بھی نہ ائل کرتی ہے ہم.ہمیں خط لکھتے رہنا ہم تمہارے لئے دعا کریں گے.۵ - انگلستان میں ہندوستانی طلبا سے زیادہ میل جول نہ بڑھانا وہاں کے شریف طبقہ سے میل جول رکھنا I
۲۳ خاکسار نے حتی الامکان آپ کی فرمودہ ہدایات کی پابندی کی اور بغض الل ان سے بہت فائدہ اٹھایا.میاں حتمال صاحب اس وقت تک مسلہ احمدیہ میں بیعت نہیں ہوئے تھے.اس موقعہ کو غنیمت جان کر انہوں نے حضور کی خدمت میں جمعیت کی درخواست کی حضور نے فرمایا آپ ابھی چند دن یہاں ٹھہریں.انہوں نے اپنی دیہاتی سادگی سے عرض کیا حضور مجھے تو کل چودھری صاحب (والد صاحب) کے ساتھ واپس جانا ہے.آپ نے مسکرا کر فرمایا ، تو پر آ بیعت بھی بچودھری صاحب کی کریں ہماری کیوں کرتے ہیں روانگی سے قبل صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کی خدمت میں حاضری صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب نے اریت دفرمایا کہمیں صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صانعت کی خدمت میں بھی حاضر ہو کر دعاء کیلئے گذارش کردیں.چنانچہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور دعاء کی یہ درخواست کی.آپ نے بھی خاکسار کو نصائح فرمائیں.دوسرے دن دوپہر کا کھانا ہمارے لئے حضرت ام المون نے کمال شفقت سے اپنے مبارک ہاتھوں سے تیار فرمایا.فجزاها الله في الدارين خير و يجعل الله الجنة العليا ثواها.والد صاحب کا یہ قادیان کا پہلا سفر تھا.- انگلستان کا سفر امرتسر مینی تک پہلا سفر بذریعہ دیں.امرت کے سٹین پر والدہ صاحبہ سے کو رخصت کیا.بعد میں معلوم ہوا کہ گاڑی کے رو انہ ہوتے ہی وہ بیہوش ہو گئیں اور چند گھنے اس حالت میں گذرے.ان کی محبت اور شفقت کا سمندر بے پایاں اور میں تھا.میں نے اس سے قبل لاہورا در مرسد سے آگے ریل کا سفر بٹانے تک تو کیا تھا لیکن امر تسر سے آگے جالندھر کی طرف یہ میرام بالندھر کی طرف یہ میرا مہیلا سفر تھا.پھلور لدھیانہ، انبالہ سہماری پور، غازی آباد ، دلی وغیرہ سب میرے لئے نئے مقام تھے.دلی کے اسٹیشن پر چودھری شمشاد علی خاں صاحب سے ملاقات ہوئی.دلی سے آگے بھیٹی کا لمبا سفر جی آئی پی ریلوے کے رستے شروع ہو گیا.والد صاحب کی محبت میرے لئے بہت تسکین کا موجب تھی لیکن دوران سفروہ بھی خاموش تھے اور میں بھی خاموش تھا.امرتسر سے روانہ ہوکر دوسری صبح ہم دلی پہنچے اور اس کے دوسرے ون سر پر کو بھٹی پہنچ گئے.کلیان کے اسٹیشن پر کٹ کٹر آیا اور مجھ سے ٹکٹ لیکر چلا گیا.گاڑی چل پڑی تو میں کچھ شان ہوا کہ کٹ ککڑ نے ٹکٹ واپس نہیں کئے میں نے والد صاحب سے اپنی پریشانی کا ذکر کیا لیکن انہوں نے کچھ نہ فرمایا.ان کے لئے بھی سفر کا یہ حصہ ویساہی نیا اور غیر معرو نقل جیسا میرے لئے وکٹوریہ ٹرمینس پہنچے ٹکٹوں کا عقدہ حل ہوگیا.گاڑی جہاں کی وہاں سے اتر کر مسافر پیدل یا وکٹوریہ غیر میں سوال ہو کر اپی اپنی جگہ کو روانہ ہو گئے کسی پھاٹک سے گزرنے کی ضرورت پیش نہ آئی اوپر نہ کہیں ٹکٹ دکھانا پڑا.میرے لئے یہ ایک نیا تجربہ تھا.ان ایام میں ہندوستان سے باہر جانا ای نئی
دنیا میں داخل ہونا تھا.جس کے متعلق مجھے کچھ بھی علم نہ تھا.انگریزی لکھنے پڑھنے کی کسی قدر مہارت توسکوں اور کالج میں حاصل ہوگئی تھی لیکن بولنے کی بہت کم مشق تھی.یورپ کے تمدن اور معاشرت سے دور کی آشنائی بھی نہ تھی یہاں تک کہ میں نے کبھی چھری کانٹے کا استعمال بھی نہیں کیا تھا اور نہ سی کو استعمال کرتے دیکھا تھا ان دنوں تو ہمارے نوجوان طالب علم خصوصا بڑے شہروں میں رہنے والے بہت حد تک مغربی تمدن اور معاشرت کے طور طریقوں سے واقف ہو چکے ہوتے ہیں.لیکن اس زمانے میں تم ان کو چوں سے قطعا نا آشنا تھے.ہم کمیٹی میں ایک سلم ہوٹل میں ٹھہرے جس کا نام شاہ جہاں سیلیس ہوٹل تھا.اس کے مالک اور منجول میاں کے ایک خواجہ صاحب تھے.اس زمانے کے اندازے کے مطابق یہ ایک صاف سخری آرام دہ قیام گاہ مخفی بیٹی پہنچنے کے دوسرے دن ٹامس لک کے دفتر جاکر یکٹ وغیرہ کے انتظامات جو پہلے سے طے شدہ تھے مکمل کئے اور جہاز کے اور سفر کے متعلق ضروری معلومات حاصل کیں، پہلی عالمی جنگ سے پہلے یورپ کے صرف دو ممالک نہ کی اور روس کیلئے پاسپورٹ درکار ہوتا تھا.باقی ممالک کیلئے پاسپورٹ کی ضرورت نہ تھی.البتہ بنک وغیرہ میں شناخت کیلئے حاکم ضلع کا دستخطی ایک سرٹیفکیٹ احتیاط سے کیا جاتا تھا.جہاز کی روانگی کا وقت بارہ بجے دو پہر تھا اور مسافروں کو ہدایت تھی کہ وہ کم سے کم ایک گھنٹہ قبل پہنچ جائیں.اس جہاز نے اگر نیند ڈاکس سے روانہ ہونا تھا.ہم بروقت پہنچ گئے سیکنڈ کلاس کے مسافروں کیلئے تختہ بہانہ پہنچنے کیلئے تو جگہ مفر تھی وہاں پہنچ کر الہ صاحب نے اسلامعلیکم ایک ماہ کیلئے ان بڑھایا.میں نے جلدی میں مصافحہ یا اور وہ رخصت ہو گئے.مصافحہ کرتے وقت میں نے دیکھا کہ ن کا چہرہ میری طرف نہیں تھا.انہوں نے عمداً اپنا چہرہ دوسری طرف کر لیا تھا شاید انہیں اداریہ تھا کہ اگر انہوں نے میری طرف دیکھا تو ان کے چہرے پر جدائی کے احساس کے اثرات نظر آئیں گے جن سے میری طبیعت افسردہ ہو جائے گی.واللہ اعلم بالصواب ی مجھے علم تھاکہ میری جدائی ان پر شاق ہوگی سیالکوٹ سے روانہ ہونے سے پہلے بھی کبھی کبھی ایسے اثرات ظاہر پرشان ہو جاتے تھے.بہانہ کا پہلا سفر.جہاز میرے لئے ایک بالکل نئی دنیا تھی.یہ دیکھ کر مجھے کچھ اطمینان ہوا کہ میرے کمرے کے دوسرے مکین میرے ایک ہم جماعت ہی تھے.یعنی مولوی محمد علی صاحب جو مولوی عبد القادر صاحب قصوری کے صاحبزادے تھے.میرے ایک اور ہم جماعت بھی ہمارے ہمسفر تھے.شیخ محمد سعید صاحب (یہ بھی تصور کے رہنے والے تھے ، مسٹر گور ددت سوندھی ایم سے بھی اسی جہانہ پر سفر کر رہے تھے لیکن وہ اول درجے میں تھے.کوٹر بر ساڑھے چار ہزارن کا بہانہ تھا اور اسکی رفتار بھی اسی کے مطابق تھی جب جہان روانہ ہوا تو ہم عرشے کی آرام کرسیوں پر بیٹھ کر بیٹی کا نظارہ کرنے لگے.ابھی یہ نظارہ سامنے نہی تھا کہ جہانہ
نے طول و عرض دو لونی سمتوں میں حرکت شروع کر دی.چند منٹ تو ہم نے اسے قابل توجہ نہ سمجھا اور اس انتظار میں رہے کہ بمبئی کا منظر نظروں سے اوجھل ہو تو کھانے کے کمرے میں جاکر دوپہر کا کھانا کھائیں لیکن جلد ہی اس حرکت سے سرچکہ پانے لگا اور طبیعت میں امتلا شروع ہوا.جب کھانے کی گھنٹی بھی توطبیعت کھانے کی طرف با لکل راغب نہ تھی.مجھے کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ یہ کس بات کا اثر ہے.میں نے مرض البحر کا نام تک نہ سنا تھا لیکن جلد ہی معلوم ہو گی کہ یہ نہایت ہی تکلیف دہ کیفیت ہے.تفاصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں متواتر چارون نہایت کرب میں گذرتے ایک لحظہ کیلئے بھی سکون نصیب بنے ہوا چلنے پھرنے یا اٹھ کر میٹھنے کی ہمت نہ پڑتی تھی کھانے پینے کے تصور ہی سے وحشت ہوئی تھی سموکنگ سالون میں پڑے ہوئے ایک ایک منٹ گزارنا مشکل تھا.اس تمام عرصے میں ایک بادہ بھی اٹھ کراپنے کمرے میں جانے کی ہمت نہ پڑی کہ وہاں پہنچ کر بستر پر لیٹ ہی جائیں میں عباس میں جہاز پر آئے تھے اسی میں یہ چار دن کسے کھائے گذرے.میں انگریزی لباس کا عادی بھی نہ تھا.اڑھائی اپنی پھوڑا سخت (ہارڈ) کا لیپینے تھا جو گلے کا طوق بن رہا تھا.پیاس کی شدت ہر لحظہ بے قرار رکھتی تھی اور کچھ پینے کی جرات اختیار سے باہر معلوم ہوتی تھی.خدا خدا کر کے دن گذرنہ تا تو رات کے تصور سے وحشت ہوتی مولوی محمد علی صاحب کی حالت مجھ سے بھی بدتہ تھی.ایک دو بار انہوں نے کہا کہ عدن سے واپس چلے جائیں گے میں نے کہا یہی مصیبت واپسی کے سفر میں بھی برداشت کرنا ہوگی.ابھی عدن پہنچنے میں ڈیڑھ دن باقی تھا کہ طبیعت سنبھلنا شروع ہوئی جیسے جیسے سمندر کے تلاطم میں تخفیف ہوتی گئی بہانہ کی حرکت کم ہوتی گئی.اوربیت اعتدال پر آئی گئی.تین چار گھنٹوں کے عرصے میں مرض البحر کے سب آثار رفع ہو کر طبیعت ضمان ہوگئی اور بہانہ کی زندگی بہت خوشگوار معلوم ہونے لگی.پوریٹ سعید سے لیکر ٹری السیٹ تک کا سفر بہت پر لطف رہا.ٹری الیٹ اس زمانہ میں مملکت آسٹریا میں شامل تھا.بہانہ بعد دوپہر ٹری السیٹ پہنچا.شہر کا اکثر حصہ.بلندی پر واقع ہے.بندر گاہ سے شہر کا نظارہ بہت خوشنما ہے.یورپ میں ریل کا پہلا سفر - ریل کا اسٹیشن بندر گاہ کے قریب ہی تھا.جب ہم اسٹیشن پر پہنچے تو میونخ جانے والی گاڑی چھوٹنے کا وقت قریب تھا.مولوی محمد علی صاحب ، شیخ محمد سعید صاحب اور میں دورگر درجے کے ایک ہی خانے میں سوار ہو گئے.چونکہ مولوی محمد علی صاحب ہم تینوں میں سے ہوشیار تمرین تھے اسلئے ہم دونوں نے خاموشی سے ان کی قیادت کو تسلیم کر لیا.اور لندن پہنچنے تک ان کی ہدایات پر طلا چون وچھڑ عمل پیرا رہ ہے.اس جذبہ اطاعت کا پہلا اجرہ تو ہمیں یہ ملا کہ اس رات ہمیں فاقہ کر نا پڑا ، مولوی صاحب نے فرمایا کہ ہمیں یورپ کی ریلوں میں سفر کا تجربہ نہیں والد علم ان پر کھانے کا کیا انتظام ہوتا ہے.پھر حرام و ہلال کی تمیز بھی بھی پختہ طور پر معلوم نہیں بہتر ہے آج یونہی گزارا کر لیا جائے.سو ایسا ہی کیا گیا.جہت تک
۲۶ دن کی روشنی نے ساتھ دیاہم یورپ کے خوشنما مناظر سے لطف اندوز ہوتے رہے اور اسے کھانے کا بدل شمار کر لیا ۱۵ ستمبر کو صبح 4 بجے بیل گاڑی میونخ پہنچی.یہاں گاڑی بدلی اور ہم آسٹنڈ جانے والے ڈبوں میں سے ایک میں سوارہ ہو گئے.ساڑھے سات بجے صبح میونخ سے روانہ ہو کر رات کے دس بجے اسٹینڈ پہنچے.گاڑی ڈرور جانیوالے جہانہ کے سامنے آکھڑی ہوئی اور ہم گاڑی سے انتہ کہ جہاز پر سوار ہو گئے.۱۶ ستمبر صبح ۴ بجے کے قریب ڈور پہنچے.ابھی اندھیرا تھا اور ملکی ملکی بوندا باندی ہو رہی تھی.سامان کے معائنے وغیرہ سے فارغ ہو کہ ہم لنڈن جانے والی گاڑی کے دوسرے درجے کے ایک ڈبے میں سوالہ ہو گئے.اس ڈبے میں ایک انگر یہ میاں بیوی پہلے سے بیٹھے تھے.جب ہم اطمینان سے بیٹھ گئے تو مولوی محمد علی حساب نے فرمایا.ڈویے میں ایک خاتون بھی سیٹیں نہیں اسلئے اپنی ٹوپیاں سروں سے اتار لو.میں نے کہا.جو مرد ان کے ساتھ بیٹھا ہے وہ توٹوپی پہنے ہوئے ہے.مولوی صاحب نے فرمایا وہ آداب نہیں جانتا.ہم نے مولوی صاحب کی ہدایت کی تعمیل میں ٹوپیاں اتار دیں.ایل کے تمام سفر میں ہم نے ڈبل روٹی اور پھل پہ گزارہ کیا، کیونکہ کھانے کی گاڑی میں جانے کے خلاف مولوی محمد علی صاحب کا رولنگ قائم کرنا.ڈور سے روانہ ہونے کے دو گھنٹے بعد ہم لندن چیرنگ کر اس اسٹیشن پہنچ گئے.لندن میں درود - فیروز پور کے چودھری عبد الحق صاحب جو گورنمنٹ کالج کے طالب علم رہے تھے او مجھے بھی جانتے تھے.مولوی محمد علی صاحب اور شیخ محمد سعید صاحب کے استقبال کیلئے اسٹیشن پر تشریف لائے ہوئے تھے.انہوں نے مجھ سے دریافت کیا آپ کہاں جائیں گے ؟ میں نے کہا میرے پاس سرٹامس آرنلڈ کے نام کی چھٹیاں میں پہلے تو میں اس کرد مویل روڈ پر ان کی خدمت میں حاضر ہوں گا.پھر جہاں وہ فرمائیںگے چلا جاؤں گا.چودھری صاحب مسکرائے اور فرمایا.یہ تو ان کے دفتر کا پتہ ہے اور دفتر کے کھلنے میں تو ابھی دیکہ ہے آپ ہمارے ساتھ ہی آجائیں.میں بخوشی ان کے ساتھ ہو لیا اور اللہ تعالی کا بہت شکر ادا کیا کہ اس نے اپنے فضل و رحم سے خود ہی میرے لئے سامان مہیا فرما دیا کیونکہ میں دل میں کچھ پریشان ہو رہا تھا کہ لندن تو پہنچ گئے اب آگے کیا ہو گا؟ چودھری عبد الحق صاحب ہم سب کو سیکسی میں بٹھا کر اپنی جائے قیام پر (۵) دی گرد و سیر سمتھ ) لے گئے جہاں ہم سب کیلئے رہنے کی گنجائش ہوگئی.وہاں پہنچے تو ناشتے کا وقت قریب تھا.ہم ہاتھ منہ دھوکہ ہم تو تھا.منہ ناشتے کیلئے تیار ہو گئے.۳۶ گھنٹے سے زائد ریل کے سفر کے بعد جس کے دوران ہم نے مولوی محمد علی قصاب کی ہدایت کے ماتخت ڈبل روٹی اور پھل پر گزارہ کیا تھا.یہ ناشتہ میں نہایت لذیذ معلوم ہوا اگر چہ بہانہ کے بہت ممنوع کھانوں کے مقابلے میں یہ بالکل سادہ تھا.
۲۱ کر امویل روڈ لندن میں ناشتے سے فارغ ہو کر ملتان کے رہنے والے شیخ عبد الرزاق قصاب تو قریب ہی رہتے تھے ہیں ۲۱ کر امویل روڈے گئے.یہ عمارت لندن میں ہندوستانی طلباء کا مرکز تھی میرا اندازہ ہے کہ وہ تمام ادارے جن کے دفاتہ اس عمارت میں تھے انڈیا آفس کی زیر نگرانی کام کرتے تھے غالباً یہ وجہ تھی کہ تو ہندوستانی طلباء سیاسیات میں عملی دلچسپی رکھتے تھے وہ ان اداروں اور ان کی سرگرمیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان سے دورہ دو کہ رہتے تھے.چودھری عبدالحق صاحب غالباً اسی گروہ میں سے تھے اس لئے انہوں نے یہاں جانے کیلئے ہمیں شیخ عبدالرزاق صاحب کے سپرد کیا.سرٹامس آرنلڈ کی شخصیت.ہندوستانی طلبا کے مشیر سر مس آرنلڈ کا دفتراسی عمارت میں تھا سوٹا مس یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر بھی تھے.وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں پروفیسر اور ایم اے اور کالج علی گڑھ کے پر نہیں بھی رہ چکے تھے علی گڑھ کے قیام کے زمانے میں مولانا شبلی کی صحبت سے سفید ہونے رہے تھے.انہیں اسلام کی ایک بہت بڑی خدمت ادا کرنے کی توفیق ملی تھی جس کی وجہ سے میرے دل میں ان کا بہت احترام تھا.انہوں نے تبلیغ اسلام پہ ایک مستند کتاب تصنیف کی تھی جس کا نام دہی پر ایک آن لام" ہے اس کتاب میں انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ اسلام کو تلوار کے زور سے پھیلانے کا الزام نہ صرف واقعات کے ہی خلاف ہے بلکہ اسلام کی تعلیم کے بھی خلاف ہے یہ تصنیف اس لحاظ سے بھی بہت قابل قدر ہے کہ یہ ایسے مانے یں لکھی اور شائع کی گئی جب کی انگریز کے قلم سے کلی مین لکھا جانا ایک استثنائی امر تھا.فناه امس الجراء میں بیک - ایسٹ انڈیا ایسوسی ایشن کا دفتر بھی اسی عمارت میں تھا.اس ایسوسی ایشن کی سکرٹیری مس بیک تھیں جن کے بھائی مسٹر بیک ایم اے او کالج علی گڑھ کے بہت ہردلعزیز پر نسپل رہ چکے تھے.یہ خاتون نہایت حلیم طبع مشفق اور ہمدرد تھیں.بہت سے ہندوستانی طلبا السیسوسی ایشن کے مبر تھے پنڈ سالانہ پانچ شانگ تھا مہینے میں دو ایک بار ایسوسی ایشن کی طرف سے کوئی نہ کوئی تقریب ایسی منعقد کی جاتی تھی تھیں میں ہمیں ایک دوسرے سے اور ہندوستان کے معاملات میں دلچسپی رکھنے والے انگریز شرفاء سے ملنے کا موقعہ میسر آجاتا تھا.نارتھ بردک سوسائٹی کا دفتر بھی اسی عمارت میں تھا.کبھی کبھی یہ سو ئی بھی ایسٹ انڈیا ایسوسی نشین کے ساتھ ملک مشترکہ تقریب کا انتظام کرتی تھی.بعد میں ہماری تحریک پر طلبا کی سہولت کیلئے یہاں ایک مختصر سی لائبریری کا انتظام بھی ہو گیا.جس سے میں نے بہت فائدہ اٹھایا.قانون کے طلباء کی مساعی سے کبھی کبھی کسی قانونی مسئلہ پہ موٹ (مجلس مباسہ کا انتظام بھی ہو جاتا تھا.ایک مختصر مطعم بھی قائم کیا جہاں مناسب قیمت پر پہنچ اور بچائے میسر آجاتے تھے.
i سٹامس آرنلڈ سے پہلی ملاقات شیخ عبد الرزاق صاحب ہمیں ساتھ لئے فراخ خوبصورت سیڑھیاں پڑھ کر ایک وسیع کمرے میں داخل ہوئے اور ہم سب وہاں بیٹھ گئے.دو تین منٹ کے اندر ایک دراز قامت با دقت به خاتون اپنا چشمه دائیں ہاتھ میں تھامے کمرے میں داخل ہوئیں اورشیخ المطلق صاحب کی طرف متوجہ ہوئیں شیخ صاحب نے ان کے سلام کا جواب دیتے ہوئے انہیں مس بیک کہہ کر خطاب کیا.جس سے مجھے حیرت ہوئی کہ شیخ صاحب نے انہیں فوراً کیسے شناخت کر لیا.اس وقت مجھے تو سب انگریزی چہرے ایک جیسے ہی دکھائی دیتے تھے.شیخ صاحب نے ہمارا تعارف کرایا اور بتایا کہ تم مینواسی صبح ہندوستان سے لندن پہنچے ہیں اور سٹرا مس آرنلڈ سے ملنے کیلئے حاضر ہوئے ہیں.اتنے میں ٹلس نے ہمیں بلالیا اوریم ان کی خدمت میں خار ہو گئے.ہم تینوں اپنے اپنے کورس کیلئے کیمرج جانا چاہتے تھے مولوی محمدعلی فضائی اور میری نسبت تو سرما میں نے فرمایا کہ داخلے میں کوئی وقت نہیں ہونی چاہیے.کیونکہ ہم دونوں نے بی اے اول درجے میں پاس کیا تھا شیخ محمد سعید صا د کے متعلق انہوں نے فرمایا کہ یقین تو نہیں لیکن امید کی جاسکتی ہے کہ دا خلیل جائے گا.چنانچہ انہیں بھی داخلہ مل گیا.میں نے عرض کیا کہمیں کیمبرج میں تاریخ اور قانون میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد انڈین سول سروس کے امتحان میں بیٹھنا چاہتا ہوں لیکن میری دائیں آنکھ کی بینائی کمزور ہے.اگرمیں سول سروس کے مقابلے کے امتمان میں فضل اللہ کامیاب ہو جاؤں تو ایسا نہ ہو کہ طبی معائنے میں رد کر دیا جاؤں اور میری محنت بر کار جائے سٹامس نے فرمایا ہم تمہیں ایک خط دیدیتے ہیں جسے تم انڈیا آفس کے جاؤ، وہ میڈیکل بورڈ کا انتظا کرینگے اس بورڈ کی رائے کسی بعد کے بورڈ پر قابل پابندی تو نہیں ہوگی لیکن اس سے تمہاری بنیائی کی حالت معلوم ہو جائے گی اور آئیندہ کے متعلق اندازہ ہوسکے گا.چنانچہ سرٹامس آرنلڈ نے مجھے خط دیدیا اور ان کے اسٹنٹ نے مجھے انڈیا آفس پہنچنے کا رستہ بتا دیا.اور میں فوراً انڈیا انس روانہ ہو گیا.انڈیا آفس لنڈن میں یہ میرا پہلا دن تھا اور لندن پہنچنے کے چند گھنٹوں کے بعد مجھے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی عطا کردہ فراست پر بھروسہ کرتے ہوئے زبانی حاصل کردہ ہدایات کے مطابق ۲۱ کر امویل روڈ سے انڈیا آفس پہنچنا تھا.ساؤتھ کنسنگٹن اسٹیشن قریب ہی تھا.وہیں سے اتر کر یم کرد مویل رو گئے تھے.اسٹیشن پر پہنچ کر میں نے ویسٹ منسٹر ٹی ایکٹ لیا اور ڈسٹرکٹ ریلوے لائن کی مشرق کو بھاتی ہوئی گاڑی پر سوارہ ہو گیا.بجلی سے چلنے والی زیمہ زمین گاڑیاں میرے لئے اچنبھا تھیں.میں نے ہیمر سمتھ سے ساؤتھ کنسنگٹن تک آتے ہوئے پہلی بار ایسا عجوبہ دیکھا تھا.لیکن اس وقت میرے ساتھ تین ہمرا ہی تھے.جن میں سے شیخ عبد الرزاق صاحب ان سب باتوں کا خوب تجر بہ رکھتے تھے اور اب میں اکیلا تھا.اور مجھے
۲۹ کا ننگی کسی اجنبی انگریز کے ساتھ بات کرنے کا بھی تجربہ نہیں تھا.بہر حال نترسال و لرزاں لیکن بفضل الله بغیر کسی چوک کے اور بغیر کسی تفضیع اوقات کے میں ریل پر ویسٹ منسٹر اور وہاں سے پیدل انڈیا آفس پہنچ گیا.جب میں نے انڈیا آفس کو وہیں پایا جہاں میں اپنے اندراندے سے قیاس کر چکا تھا تو مجھے ایسا اطمینان ہوا کہ گویا میں نے انگلستان میں اپنا پہلا امتحان پاس کر لیا ہے.سر ٹامس آرنلڈ کی چھٹی چپڑاسی کے حوالے کی اور میں انتظار کے کمرے میں بیٹھ گیا.وہاں تین سکھ صاحبان دیہاتی لباس میں بیٹھے ہوئے تھے.ایک صاحب آئے اور ان سے انگریزی میں بات کرنے لگے.انہوں نے عذر کیا کہ وہ انگریزی نہیں سمجھتے.وہ صاحب کچھ پریشان ہوئے اور میری طرف دیکھ کر کہا شاید تم ان صاحبان کی زبان سمجھتے ہو میرا اثباتی جواب سنکہ کہا کہ تم مہربانی سے انہیں میری بات سمجھا دو گے ؟ میری ترجمانی سے جو بات واضح ہوئی وہ یہ تھی کہ وہ صاحبان لدھیانے کے ضلع کے کاشت کار تھے.ان دنوں پنجاب کی آبادیا میں زمین تقسیم ہو رہی تھی.انہوں نے بھی درخواست دی مگر انہیں زمین نہ ملی.گاؤں میں سے کسی نے عمرزی یا عناد سے انہیں مشورہ دیا کہ لندن با کروز یہ ہند سے شکایت کرو وہ تمہیں زمین دیئے جانے کا حکم دیا ہے یہ لوگ بھوٹے پن میں اپنی اراضیات گروی رکھ کر یا بیع کرکے اور اس طرح لندن پہنچنے کا خرج مہیا کرکے لندن پہلے آئے اور یہاں پہنچ کر وزیر بند کی خدمت میں درخواست گزار دی.یہ صاحب انہیں سمجھانا چاہتے تھے کہ دور یہ مہند اس معاملہ میں دخل نہیں ہے سکتے.اتنے میں مجھے اطلاع ملی کہ میرے معائنہ کیلئے سر جن جنرل برین فٹ کی صدارت میں تین بجے بعد دو پہر بورڈ منعقد ہو گا.اس وقت قریباً بارہ بجے تھے ،اگر مجھے لندن کے گلی کوچوں اور راہ درسم سے کچھ واقفیت ہوتی تو میں کہیں قریب ہی دو پہر کا کھانا کھالیتا اور پارک میں پل بھر کے بقیہ درمیانی وقت گذار لیتا.لیکن مجھے ان امور کی کچھ بھی واقفیت نہیں تھی ساتھی یہ فکر بھی تھی کہ مالک مکان اور میرے ساتھی انتظار میں ہونگے اور میرے وقت پر نہ پہنچنے سے پریشان ہونگے.میں نے پھر ویسٹ منسٹر سٹیشن کا رستہ لیا وہاں سے ہر سمتھ کبراڈوے تک ریل میں آیا اور وہاں سے پیدل مکان تک پہنچا.مکان سے سٹیشن تک تیز تیز چلنے والے کے لئے دس منٹ کا وقت درکار تھا.میرے مکان پہنچنے تک کھانے کا وقت ہو چکا تھا اور کھانا شروع ہوگیا تھا.مالکہ مکان مستر فنانسن نے مجھے شفقانہ تنبیہ کی اور میں مناسب معذرت کر کے اپنی جگہ پہ بیٹھ گیا.بینائی کے لئے طبی بورڈ کا معائنہ.کھانے سے فارغ ہوتے ہی میں واپس انڈیا آفس پہنچا.ابھی تین بجنے میں چند منٹ باقی تھے.پورے تین بجے مجھے بورڈ کے کمرے میں بلایا گیا اور معائنہ ہوا.آخری مجھے بتایا گیا کہ ایک تو تمہارا وزن کم ہے اور عام صحت بھی کچھ کمزور ہے لیکن یہ کوئی فکر کی بات نہیں تم اپنے گھر "
i سے متواتر تین ہفتے سفر کے بعد آج ہی یہاں پہنچے ہو کچھ اس کا بھی اثر ہے.اب تم تین چار سال میاں یہ ہو گے اس آب ہوا میں مناسب خوراک سے کمزوری رفع ہو جائے گی.لیکن تمہاری دائیں آنکھ کی بینائی اس قدر کمزور ہے کہ کوئی میڈیکل بورڈ تمہیں پاس نہیں کرے گا.اس لئے ہمارا مشورہ یہ ہے کہ تم کوئی ایسی لائن اختیار نہ کرو جس میں کامیابی کیلئے میڈیکل بورڈ کے معائنہ میں پاس ہونا لازمی ہو.میں نے بورڈ کا شکریہ ادا کیا اور واپس مکان پر آگیا.والد صاحب کی خدمت میں خط لکھا.اور بورڈ کی رائے ان کی خدمت میں ارسال کر دی.ان کا نہایت مشفقانہ جواب آیا یتم بالکل پریشان نہ ہونا.یونیورسٹی میں قانون کی ڈگری کے لئے اور انہ آف کورٹ میں سے کسی میں بیرسٹری کیلئے داخلہ لے لو یہی کافی ہے.تعلیم کے لئے انگلستان میں قیام قاضی ظهور مین جناب مشورہ اور امداد اور قانون کی تعلیم کیلئے کنگز کالج میں داخلہ.کچھ دنوں کے بعد مجھے قاضی ظہور سین صاحب سے ملنے کا اتفاق ہوا.جو گورنمنٹ کالج لاہور میں مجھ سے دو سال سینٹر تھے اور اس وقت لندن میں انجنیئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہے تھے.ان کے مکان پر مسلمان طلباء کا آنا جانا رہتا تھا.ظہور حسین صاحب نے مجھے مشورہ دیا کہ بجائے کی جانے کے میں لندن یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کر دیں.قاضی صاحب نے میرے ساتھ جا کر مجھے لنگر کالے میں داخل کرادیا.ایک نوار د کو جن ہدایات اور مشوروں کی ضرورت ہوتی ہے.وہ بھی کمال شفقت سے دیئے اور بعض چھوٹے چھوٹے کام جن کے سرانجام دینے کیلئے لوکل واقفیت کی ضرورت ہوتی ہے اپنے قصے لے لئے.مثلاً میرے نام کے ملاقاتی کارڈ چھپوانے کا خود ہی انتظام کیا اور ان پر میرے نام کے ساتھ نہایت ہی محبوب اور مبارک نام "محمد" کا اضافہ کر دیا جو میرے لئے بڑی بہ کنت کا موجب ہے.قاضی صاحب تعلیم کی تکمیل کے بعد آپ آئے تو ریلوے کے انجنیئرنگ کے محکمے سے وابستہ ہو گئے باد میں جب میں حکومت ہند میں تجارت اور ریلوے کا وز یہ مو اتو اس زمانے میں قاضی صاحب آسام بنگال ریلوے کے چیف انجنیر مقرر ہوئے.قاضی صاب کے صاحبزادے قاضی افضل حسین صاحب پاکستان انٹر نیشنل ایر دیز میں ایک بڑے عہدے پر ہیں اور میرے ساتھ ویسی ہی محبت سے پیش آتے ہیں جیسی ان کے والد بزرگوار میری طالب علمی کے زمانے میں میرے ساتھ پیش آتے رہے ہیں.فجزاهم الله خیرانی الدنیا والآخرہ.میں نے سٹامس آرنلڈ کو اطلاع
کردی کہ میں نے لندن میں داخلہ لے لیا ہے اور اب کیمرج جانے کی ضرورت نہ ہو گی.ہوگی بیرسٹری کیلئے لنکنران میں داخلہ.بیرسٹری کیلئے مینے شکران میں داخلہ لے لیا اس طرح میری قانون کی تعلیم کا دور شروع ہوگیا.کنگز کالج میں داخلے کے بعد مجھے قانون کی ڈگری کے کورس کے لئے علاوہ اس کالج کے یونیورسٹی کالج اور لندن سکول آف اکنامکس میں بھی لیکچروں کے لئے جانا ہوتا تھا.اس وقت تو میں نے کیمرج میں داخلہ نہ لیا.لیکن اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ چھبیس سال بعد میں کیمبرج یونیورسٹی نے مجھے ایل ایل ڈی کی اعزانہ کی ڈگری عطا کی.اسی سال کنگنہ کالج لندن نے مجھے اپنی مجلس عاملہ کا مبر یعنی فیلو بنایا.اور شاہ میں لنکستر ان نے مجھے اپنا آئمہیدی پینچر بنایا.چونکہ لندن میں داخلہ لے لینے کی وجہ سے کیمرج جانے کی ضرورت نہ رہی.اسلئے طالب علمی کے نذرانے میں میری مستقل رہائش لندن میں رہی.لندن پہنچنے پر چودھری عبدالحق صاحب مجھے جس مکان میں لیگئے تھے وہی میری مستقل جائے قیام بن گیا.اس مکان کے مالک تو ایک یونانی صاحب تھے.ان سے سرفانیان نے مکان کرائے میرے رکھا تھا اور وہ اسے بطور بورڈنگ ہاؤس چھلاتی تھیں.وہ ایک پادری کی بیٹی تھیں اور ان کے میاں لندن یونیورسٹی کے ایم اے تھے.دونوں میاں ہوئی ایک پلاٹویٹ سکول چلا یا کرتے تھے جب مسٹر فائنزن فوت ہو گئے تو نا چار سکول بند کرنا پڑا اور مسٹر فائندن نے مکان کو بور ڈنگ ہاؤس بنا لیا.ہمارے لندن پہنچنے کے چند دن بعد مولوی محمد علی صاحب اور شیخ محمد سعید صاحب تو کیمبرج چلے گئے اور چودھری عبدالحق صاحب نے بھی مکان بدل لیا.پہلے مجھے مکان کا ہے پچھوٹا کمرہ ملا تھا.کیونکہ درن و ہی کمرہ خالی تھا.لیکن ان صاحبان کے پہلے بجانے کے بعد مجھے ایک بڑا کمرہ مل گیا اور جتنا عرصہ میں اس مکان میں رہا میں اسی کمرے میں مقیم رہا.میرے قیام کے عرصے میں بہت کم وقت کیلئے کوئی دوسرا ہندوستانی اس مکان میں آکر ٹھہرا اور اس لحاظ سے میرے لئے حضرت خلیفہ المیے اودل کی اس ہدایت پر عمل آسان ہوگیا کہ انگلستان کے قیام کے دوران نگر یز شیرنی کے ساتھ میل جول رکھنا مکان بہت صاف تھا.کھانا اچھا تھا، کرایہ واجبی تھا، سٹرک پر دو رویہ درخت تھے جس کی وجہ سے سٹرک خوشنما معلوم ہوتی تھی ، زیر زمین ریل کے اسٹیشن کو بہت قریب نہیں تھے لیکن زیادہ دور بھی نہیں تھے، میں گولی ہے روڈ پر بہت قریب سے گزرتی تھیں.ہمارے یونیورسٹی کے اکثر لیکچر شام کو ہوا کرتے تھے چونکہ یونیورسٹی کے لیکچروں میں حاضری لازم تھی اور انٹر آف کورٹ کے لیکچروں میں لازم نہ تھی اور میں ایک وقت میں ایک ہی جگہ حاضر ہو سکتا تھا.اس لئے میں یونیورسٹی کے لیکچروں میں تو بڑی باقاعدگی اور پابندی سے حاضر ہوتارہا.لیکن انٹر آف کورٹ
پھیروں میں جاسکا.ان میں ہر ایک شرم میں شام کے تین کھانوں میں شمولیت لازم تھی ان میں شامل شامل ہونے میں بینے کبھی کو تا ہی نہ کی.انٹر میڈیٹ کے بعد ایل ایل بی کا کورس مزید دو سال کا تھا.ان سالوں میں کا من لاء کے پروفیسر مسٹر گرفتھ تھے.ان کا طریق تھا کہ جب کوئی مسئلہ واضع فرما دیتے تو اس کے متعلق فور سوال کرتے تاکہ معلوم ہو جائے کہ مسئلہ طلباء کے ذہن نشین ہو گیا یا نہیں.ان کے سوال کرنے پر میں ہمیشہ ہاتھ کھڑا کر دنیا اوروہ اگر مجھ سے ہی جواب پوچھ لیتے.میرا جواب عضلات ہمیشہ صحیح ہوتا.جس پر خوش ہو کہ میری حوصلہ افزائی فرماتے.میں اور توجہ سے انکی بات سنتا کبھی کبھی تحریری سوال جواب بھی ہوتے.میرے جواب پر ہمیشہ کوئی خوشنودی کا جملہ لکھتے.ایکوئٹی کے پروفیسر مسٹر ہرسٹ تھے.اپنے مضمون میں بڑے طاق تھے اور بڑی توجہ سے پڑھاتے تھے.درمیانی سال کے دوران ہی میں مجھے فرمایا.بابر کا آخری امتحان جلد ختم کر لوتاکہ یونیورسٹی کے آخری امتحان کی طرف زیادہ توجہ کر سکو در کوشش کرد که آنرز میں اول درجہ حاصل کر سکو تہ سے سے یہ بڑا امتیاز ہوگا.میں نے ان کے مشورے کے مطابق آپ پروگرام بنا لیا.آخری سال میں انہوں نے میرے ہم جماع میسر نمیرسین سے اد مجھے فرمایا کہ اگرتم تین چار دفعہ میرے چیمبر میں آسک تومیں تمہیں کچھ مزید ہدایات بھی دوں اور بعض مقامات کے متعلق مزید وضاحت بھی کر دوں.یہ انکی حد درجہ کی عنایت تھی کیونکہ بہت مصروف رہتے تھے.پروفیسری کے کام کے علاوہ ان کے پاس بہت قانونی کام ہوتا تھا.اس کے باوجود انہوں نے دو غیر ملکی طالب علموں کیلئے اپنے نہایت قیمتی وقت میں سے کئی گھنٹے نکال کر ہمیں امتحان کی تیاری میں بہت قیمتی مدد دی.کسی نیس وغیرہ کا کوئی سوال ہی نہیں تھا.محض ہماری ہمت افزائی کی خاطر انہوں نے یہ تکلیف گوارا فرمائی.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر ہے.ہمارے ایل ایل بی کے امتحان کے نو پر چھے تھے.پانچ مضامین کا ایک ایک پر چہ اور چار مضامینمیں آمنہ کا ایک ایک زائد پہ چپہ پروفیسر سرسٹ ان نو پر چوٹی میں سے چار پر چوں اور پاس اور دو آنرنہ ) کے جائنٹ ممتحن تھے.ان کی توجہ سے مجھے تو بہت ہی فائدہ پہنچا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل رحم سے ان کی توقع بھی میر سے تعلق پوری کر دی.اہل ہیں نی کے امتحان میں محض اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور اس کی ذرہ نوانی سے میں اول درجہ کی آزی مینی یوٹی بھر میں اول رہا.فالحمد للہ علی ذالک.یہ اعزا نہ مجھ سے پہلے کسی ہندوستانی طالب علم کو حاصل نہیں ہوا تھا.بعد کا حال میں نہیں جانتا.رئیل پراپرٹی مضمون کے پروفیسر مسٹر میکے تھے.جو بہت قابل تھے لیکچر بہت محنت سے تیار کر تے تھے.جماعت میں داخل ہوتے ہی اپنی نوٹ بک کھول کر لکھوانا شروع کردیتے تھے اور پیریڈ ختم ہونے تک ایک ہی رفتار سے لکھواتے پہلے جاتے تھے.میں جلدی جلدی مپنسل سے پوری
۳۳ عبارت جیسے بن پڑتا نوٹ کر لیتا.دوسری صبح صاف کر کے اور پوری طرح سمجھ کر نقل کر لیا.ایک گھنٹے کے لیکچر کوصاف کرنے اور لکھنے پر دراڑھائی گھنٹے صرف ہوتے لیکن اس کے بعد کسی اور مطالعہ کی حاجت نہ رہتی.وہی صاف کردہ نوٹ تو جہ سے پڑھ لینا کافی ہوتا.جورکس پرو ڈنس.ضابطہ دیوانی اور شہادت کے مضامین کے پروفیسر ڈاکٹر مل بیٹ تھے.وہ بھی نوٹ لکھوانے پر ہی اکتفا کرتے.ان کے اول الذکر مضمون کے نوٹ تو میرے بہت کام آئے شہادت اور ضابطہ دیوانی پر ان کے لیکچر میں محض بار کے امتحان کی خاطر ستارہا.درینہ یہ ایل ایل بی کورس میں میرے مضامین میں شامل نہیں تھے.کمرشل لا میں سے النالو عنسی کے پروفیسر سہ آرتھر ہیچ تھے.اور بقیہ حصے پر وفیسر مسٹر رائٹ تھے.بعد میں وہ لارڈ آف اسپیل ہوئے اور مجھے پر لوری کو غسل میں ان کے سامنے پیش ہونے کا اتفاق بھی ہوا.ایک دفعہ تعطیل میں تفریح کے لئے پاکستان بھی تشریف لائے.لمبی عمر پائی فوت ہوئے پچند سال ہی گزرے ہیں.کورس کے آخر میں مجھے تو سرٹیفکیٹ دیا اس میں بڑے تعریفی الفاظ استعمال فرمائے بشرع محمدی کے پروفیسر سٹرنیل تھے.تو سہندوستان کے صوبہ متوسط میں جوڈیشنل کمشنر رہ چکے تھے.طبیعت کے علیم تھے مزاج بہت شریفانہ تھا نوٹ لکھوانے پر اکتفا کرتے تھے.بار کے انسانوں کے لئے میں نے شروع میں ہی ایک پروگرام تجویز کرلیا تھا اس کے مطابق بفضل اللہ میں نے ستمبر تک بار کے امتحانوں کا پہلا حصہ مکمل کر لیا.صرف آخری امتحان رہ گیا تو میں نے بفضل الله ستجبر اء میں پاس کر لیا.یونیورسٹی کے امتحانوں میں سے انٹر میڈیٹ سولائی اہ میں اور فائنل اکتو بر شاہ میں پاس کیا.یونیورسٹی کے لیکچروں کی تقسیم اس طور پر تھی کہ فائنل امتحان کے اکثر مضامین کی تیاری سہ کے اکتوبر تک مکمل ہو سکتی تھی.اور کچھ مزید کوشش سے باقی مضامین بھی اس وقت تک مکمل کئے جاسکتے تھے.اس اندازے کے مطابق میرے ہم جماعت مسٹر محمد حسن حباب (امرتس نے اور میں نے یونیورسٹی میں درخواست دی کہ ہمیں اکتو بر تشدید میں فائنل امتحان میں میٹھنے کی اجازت دی جاے لیکن در خواست منظور نہ ہوئی.جون 1910ء میں مجھے بیرسٹری کی سند مل گئی.لیکن ایل ایل بی کے فائنل امتحان کے لئے مجھے اکتو بہ تک لندن میں ٹھہر نا تھا.اس اثنا میں اگست کے شروع میں پہلی عالمی جنگ بپھر گئی.پائل آمد درخت پر بہت کی پابندیاں عائد ہو گئیں.میرا ارادہ تھا کہ میں واپسی کے سفر کے دوران میں فریضیہ می ادا کردوں اور روضہ نبوی پر حاضر ہو کہ دعا کرنے کی سعادت حاصل کروں.اس نیت سے میں نے جون ء میں ہی جاتے تک سفر کرنے کا انتظام کر لیا تھا.اور ٹکٹ بھی خرید لئے تھے.استخان ارا کتو بہ کو ختم ہونے والا تھا.اور اس سال حج کی تاریخیں اس اکتوبر، یکم نومبر اور ۱۲ نومبر تھیں.اپنی کیمطابق میں نے سفر کا انتظام کیا تھا.لیکن جنگ چھڑ جانے کی وجہ سے لندن سے مار سلیز تک ریل کا سفر بند ہو گیا
ور جہازی سفر پر بھی پابندیاں عاید ہوگئیں.اگر ہم ریلیز سے پورٹ سعید اور پھر وہاں سے جاتے تک کے سفر کے انتظامات قائم بھی رہ سکتے تو بھی لندن سے مار سلیر نک بحری سفر کے لئے چھ سات دن مزید دور کا یہ ہوتے اور میں بر وقت تجاہ نہ پہنچ سکتا.اسلئے ناچار مجھے یہ ارادہ ترک کرنا پڑا اور ٹکٹ واپس کردیئے.سرا با شفقت خاتون مستر فائزن شرع محمدی کے علاوہ بار باقی مضامین کے لیکچرا کے چھ سے شرع ہوتے تھے.میں جانے کے بعدہ جگر ۲۰ منٹ پر گھر سے روانہ ہوتا تھا.اور جس کالج میں پہنچنا ہو تاوقت سے کچھ پلے وہاں پہنچ جاتا تھا.واپسی کبھی آٹھ بجے سے پہلے ہوئی کبھی نوبجے کے بعد کوئی شام در میان میں خالی بھی ہوتی جب کالج میں حاضری نہ ہوتی جس دن مجھے کا بج جانا ہو تا اس دن میری والبسی تک شام کا کھتا ختم ہو چکا ہوتا.لیکن مسنر نائزن کمال شفقت سے میرے لئے کھانا گرم رکھیں اور میرے گھر پہنے پر مجے کھانا دے دیتیں.اور جب تک میں کھانا ختم کرتا کھانے کے کمرے میں میرے ساتھ بیٹھیں عموما تو کچھ نہ کچھ کام کر رہی ہو نہیں سوئی دھاگے وغیرہ کا بکس سامنے ہوتا، عینک چڑھائے ہوئیں.کام بھی کرتی جائیں اور میرے ساتھ باتیں بھی جاری رہیں مجھے کسی امر کے متعلق کچھ معلوم کرنا ہوتا تو میں ان سے پوچھ لیتا.انہیں نخود احساس ہوتا کہ مجھے کچھ بتانا چاہیے یا کسی ام کے متعلق آگاہ کرنا چاہیئے تو تبادر ہیں.حالات حاضرہ کے متعلق کچھ تذکرہ ہو جاتا میرے وطن کے اور گھر کے حالات دریافت کرتیں، اسلامی معاشرت یا تعلیم کا ذکرہ بچھڑ جاتا.عرض یہ آدھ پون گھنٹہ میرے لئے بڑی دلچسپی کا وقت ہوتا.میری تربیت میں ان کا بہت بڑا حصہ تھا.شریف طبقے کی خاتون تھیں، خیالات سمجھے ہوئے تھے ، ان کا اپنا نمونہ ایک دیانتدار منت کرنے والی خود دار خاتون کا تھا جنہیں میں احترام کی گو سے دیکھتا تھا.میں ایک اجینی نو وار د نوجوان تھا جو ملک کے سم و رواج سے ناواقف تھا.ان کا ہر مشورہ میرے لئے نہایت مفید ثابت ہوا.پردیس میں ان کی ہمدردی میرے لئے لیکن کا موجب تھی.میرے ساتھ ان کی غیر معمولی شفقت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کا ایک ہی بیٹا تھا جو مر مں مجھ سے ایک مہینہ چھوٹا تھا.وہ میرے لندن پہنچنے سے تھوڑا عرصہ پہلے روڈ کی یا چلا گیا تھا.ماں کو اکلوتے بچے کی جدائی کا طبعاً احساس تھا.ان کی مامتانے یہ بھی محسوس کر لیا ہو گا کہ مجھے اپنے وطن اپنے والدین سے جدائی کا شدید احساس ہے.اس حالت نے ہمارے درمیان ایک ہمدردی کا رشتہ قائم کر دیا.یہ بھی اللہ تعالے کا خاص فضل تھا.تیسرے چوتھے مہینے کبھی انہیں اپنے بیٹے کا خط آتا تھا.آہستہ آہستہ یہ وقفہ اور لمبا ہوتا چلا گیا.جنگ شروع ہونے کے بعد تو بند ہی ہو گیا بہ کے موسم سرما میں مسر فائزون اپنی بڑی ہمشیرہ کو منے کیلئے امیر بن گئیں وہاں سے واپسی کے سفرمیں انہیں سردی لگ گئی جو لندن پہنچتے پہنچے نمونیہ کی شکل اختیار کر گئی اور اس سے ان کی موت واقع ہوئی میرے لندن
۳۵ کے قیام کے دوران ان کی والدہ زندہ نہیں کو بہت ضعیف تھیں ان کی عمر نو نے سال سے تجاوز کر چکی تھی.اور وہ اپنے وقت کا بیشتر حصہ مبستری میں گزارہ کی تھیں میسر فائندن کی بڑی بہن مس و مسٹر اور ایک چھوٹی بہن مس بیلی ونٹر اپنی والدہ کی خبرگیری کرتی تھیں.ان کی ایک اور بہین مسری اسن برائین کے قریب رہتی تھیں.ان کے دونوں بیٹے جب لندن آئے تو کبھی کبھی اپنی خالہ کو ملنے بھی آتے ان میں سے ایک کے ساتھ میری اچھی واقفیت ہوگئی تھی اور کبھی کبھی میں انہیں خط بھی لکھا کرتا تھا.ساتھ مسنر فائدن مہینہ میں ایک بار اپنی والدہ سے ملنے جایا کرتی تھیں.ایک بارہ مجھے بھی ساتھ لے گئی تھیں ان کی والدہ بالکل یک گیر یا معلوم ہوتی تھیں چہرہ بالکل بچوں کی طرح معصومانہ تھا.میں نیلی و نٹر کبھی کبھی اپنی ہمیشرہ سے ملنے آتی تھیں.وہ ادبی مذاق رکھتی تھیں ان کے ساتھ بھی میری خط و کتابت رہی ہیں شاہ اور شہد میں جب میں انگلستان گیا توان سے ملاقات بھی ہوئی.مسٹر فائندن کے ایک ہی بھائی فریڈ.جی.ونٹر تھے.وہ ادبی اور شاعرانہ مذاق رکھتے تھے.ایک لحاظ سے انکی زندگی بڑی امیدہ تھی.آغاز شباب میں انہیں ایک لڑکی سے محبت ہو گئی وہ بھی انہیں عزیز رکھتی تھیں.نسبت بھی کوئی لیکن شادی سے پہلے انہیں کوئی اعصابی عارضہ لاحق ہو گیا جو العلاج قرار دیا گیا اور مستقل طور پر پینی کے لا علاج مریضوں کے ہسپتال میں داخل ہو گئے.شادی کا تو اب کوئی سوال بھی نہ تھا لہذا نسب یسون ہوگئی اور کچھ عرصہ بعدان کی منصوبہ نے ایک اور صاحب سر فیلڈ سے شادی کر لی اور اپنے میاں کے ساتھ نوبی افریقہ چلی گئیں.فریڈ چلنے پھنے کے قابل تھے انہیں اتوار کوہسپتال سے باہر جانے کی اجازت ہوتی تھی.کبھی کبھی پنی ہمشیرہ کو ملنے آتے تھے اور دوپہر کا کھانا ہمارے ساتھ کھاتے تھے.ایک دفعہ جب مسٹر فیلڈ انگلستان آئی ہوئی تھیں تو انہیں بھی ہمارے ہاں ساتھ لائے اور مجھے بھی ان سے ملنے کا موقع مل گیا.فریڈ نے اپنی محبت کی ناکامی پر اپنے احساسات کا اظہار ایک بڑی در وانگیز نظم میں کیا تھا.اس نے ابھی اس نظم کو شائع نہیں کیا تھا اور ایک کا غذ پر لکھ کر اپنے بٹوے میں رکھا ہوا تھا.ایک دن رو پیکاڈلی سرکس کے مشہور مطعم لائنز یا پول میں دوپہر کا کھانا کھانے گئے کھانا ختم کرنے پر بل کی ادائیگی کے لئے بوہ جید سے نکالا اور کھانے کی قیمت ادا کر کے چلدیئے بٹوہ میز پر رکھا ہ گیا.مطعم سے کچھ فاصلے پر یاد آیا تو واپس گئے بٹوہ تو ل گیا لیکن نظم والا کاغذ غائب تھا.تھوڑے عرصہ کے بعد ہ نظم کسی اور شخص کے نام پر پی چھپ گئی اور اس کا بہت چھہ چا ہوا.نظم کا عنوان ڈی روز ری تھا.بعد میں اس نظم کے نام فلارنس بار کلے نے ایک ناول بھی شائع کیا.فریڈ کی ایک نظم ایک ادبی رسالے میں چھپی تھی اسکی ایک چھپی ہوئی نقل انہوں نے مجھے بھی بھیجی اس نظم کے پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ وہی روز ری" بھی انہیں کئی
ہے.پاکیزگی سلاست ، نزاکت اور شفقت دونوں نظموں کا خاصہ تھے.چونکہ مستر قائدین کے میاں لندن یونیورسٹی کے طالب علم رہ چکے تھے.اس لئے جب انکی وفات کے بعد مسٹر فائزان نے اپنے مکان میں بورڈنگ ہاؤس جاری کیا تو ان کی خواہش پر یونیورسٹی نے اپنے طلبا کی اطلاع کیلئے ان کے مکان کو بھی ان مکانوں کی فہرست میں شامل کر لیا جس میں طلبا کی رہائش کا انتظام ہو سکتا تھا.اس ذریعے سے بھی بعض دفعہ غیر ملکی طلبا ان کے مکان میں رہائش کے لئے آجاتے تھے.انکے ہاں ملازم کا کام ایک جرمن نو جوان کرتا تھا.جو زبان سیکھنے کی خاطر انگلستان محنت مزدوری کرنے آیا ہوا تھا.منس لائیزا پارسنز | میرے قیام کے دوران میں جو لوگ کچھ عرصہ کیلئے اس مکان میں ٹھہرے ان میں سے سب سے لمبا عرصہ ٹھہرنے والی ایک خاتون مس لائنزا پارسنز تھیں.ان کے والد کیمبرج میں سکونت پذیر تھے وہ خود ہر سمتھ کے علاقہ کی تبلیغ انجیل کی ایک سوسائٹی کی سکریڑی تھیں.بہت نیک خاتون تھیں مسٹر فائزن کی طرح میرے ساتھ بہت شفقت سے پیش آتی تھیں.معاشرتی طور طریق اور راہ دردم کے متعلق ان کی رائے بہت صائب تھی اور ان کا مشورہ میرے لئے بہت مفید ہوتا تھا.ان کی ایک چھوٹی بہن میں اپنی پارسنز الیسٹ لندن ہسپتال میں نرس تھیں.یہ بہت بڑا ہسپتال تھا اور وہاں کی نرسوں کی بیرون ملکہ وکٹوریہ آنجہانی کی دور کی رشتہ دار تھیں میں اپنی پارسنز نے دو ایک بار ہمیں ہسپتال میں چائے کی دعوت دی اور میٹرن کے ساتھ ہمارا تعارف بھی کرایا.ہم نے ہسپتال کے مختلف دارد دیکھے آنکھوں کے وارڈ میں ایک بڑی طاقت کا مقناطیس تھا.اگر کسی شخص کی آنکھوں میں لوہے کا ریزہ پڑ جائے تو اس مقنا طیس کی کشش سے اسے آنکھ سے نکالا جا سکتا تھا.جب میں پارسنز نے اس مقنا طیس کا بٹن دبایا تو میں بالکل قریب کھڑا تھا.اتفاق سے میں نے اپنی گھڑی جہ سے نکالی جس کا کیس گن میٹل کا تھا.اگر چہ گھڑی چمڑے کے تسمے کے ساتھ میری واسکٹ کے بٹن سے بندھی ہوئی تھی.پھر بھی ایک مجھکے کے ساتھ اچک کر مقناطیس کے ساتھ چمٹ گئی.مقناطیس کا بٹ بند کرنے پر آزاد تو ہوگی لیکن اسے کچھ لیا مقناطیسی اثر ہوگیا کہ میرے پوتے مہینے اس پر گویا دیوانگی کا دورہ پڑ تا اور یکایک اسکی رفتار دومین گناتیز ہو جاتی.دو تین پر ن بعد پھر ہوش میں آجاتی اور اپنی اصل رفتاری پر قائم ہو جاتی.یہ گھڑی میں نے بال پائیک جیولر کے ہاں سے خریدی تھی جین کی دوکان سنٹرل لنڈن ریلوے کے اسٹیشن کے بالکل سامنے تھی.میں گھڑی ان کے پاس لے گیا کہ وہ اس مرض کا کچھ مداوا کریں.انہوں نے بعد شخص کہا کہ مقناطیسی اثر آہستہ آہستہ رفع ہوگا اور مجھے صبر کا مشورہ دیا.وہ گھڑی مجھے عزیز تھی اسے چھوڑ کر نی گھڑی خرید کرنا مجھے دو بھر تھا.
اسلئے ناچار ان کے مشورے پر عمل پیرا ہونا پڑا اوروہ مشورہ صحیح ثابت ہوا.مستر بیلی بلین برج مس پارسنز کی ایک اور بہن تھیں ان کی داستان حیات ایک افسانہ الم تھی.وہ خوش شکل تنک مزاج ، ہمدرد ، شفیق اور شرافت کی پہلی تھیں.کرنل فرنیک بین برنج سے شادی ہوئی جو ڈرہم کے علاقے کے ایک شریف زمیندار خاندان کے چشم و چراغ تھے.بظاہر تمام حالات نهایت خوش آئند تھے.شادی کے جلد بعد مستر بین بمزح کو اپنے میاں کے بعض اطوار سے شبہ ہونے لگا کہ ان کا دماغی تواندن درست نہیں.مثلاً مس لائنرا پارکت نے مجھے بتایا کہ وہ ایملی کی شادی کے چند مہینے بعد ان کے یہاں مہمان ٹھہری ہوئی تھیں.ایک دن فرنیک دونوں بہنوں کو گھوڑا گاڑی میں سیر کے لئے لے گئے.واپسی کے دوران گھوڑے کو روک کر خود گاڑی سے اتمہ گئے.راسیں انکی طرف پھینک دیں اور گھوڑے کی پیٹھ پر ایک ہنر رسید کیا جس کی ضر ہے وہ بے تحاشا گاڑی کو لیکہ بھا گا.دونوں بہنیں دہشت سے ایک دوسری سے لیٹ گئیں.خیر ہوئی کہ گھوڑا گاڑی سمیت بغیر کسی حادثے کے گھر پہنچ گیا.آخر کرنل مین برج کا مرض آشکار ہوگیا اور انہیں برٹش کو لمبیا (کینیڈا کے ساحل کے قریب ایک جزیرے میں بھیج دیا گیا.جہاں وہ ایک چینی خادم کی نگرانی میں نظائر آرام سے زندگی بسر کرنے لگے.انہیں موسیقی کا شوق تھا.ایک عمدہ پیا تو با حجہ ان کے لئے مہیا کر دیا گیا.ایمیلی اگر چاہتیں تو ان سے طلاق حاصل کر کے دوسری شادی کر لیتیں.لیکن انہیں یہ گوارا نہ ہوا.برسوں بعد کبھی مجھ سے ذکر آنا تو ہمیں فرینک کے عزیز تو اسے بھول گئے لیکن میں نہیں بھولی مجھے وہ عزیز تھے.ان کی یاد مجھے اب بھی عزیز سے مجھے ان سے کوئی شکوہ نہیں.اگر مجھے کوئی شکوہ ہو سکتا ہے تو ان کے عزیزوں سے جنہیں علم تھا کہ ان کا دماغی توازن درست نہیں اور انہوں نے مجھے نہ بنایا.لیکن مجھے ان سے بھی کوئی شکوہ نہیں.شادی کے وقت جو انتظام ایملی کے لئے ہوا تھا اس میں ان کا گزارہ بڑی اچھی طرح ہوتا تھا.وہ خود بھی آرام سے عبیر کرتی تھیں اور دوسے یوں کی مدد کے لئے بھی ان کا ہاتھ کھلا رہتا تھا.ان کی رہائش میدہ ویل میں تھی جو ان ایام میں لندن کا ایک خوشگوار علاقہ خیال کیا جاتا تھا.میرے قیام کے دوران میں وہ پہلی بار جب اپنی ہمشیرہ سے ملنے ہمارے ہاں آئیں تو میری بھی ان سے ملاقات ہوئی.جلد بعد انہوں نے اپنی ہمشیرہ کے ساتھ مسٹر فائندن کو اور مجھے بھی اپنے ہاں چائے کی دعوت دی.بہت تواضع سے پیش آئیں.شروع مئی سایہ کا زمانہ تھا سڑا بہ منیبہ کے موسم کا آغا نہ تھا.ایک پھوٹی سی ٹوکری ایک گنی میں آتی تھی اور گئی ان دنوں آج کے چار پونڈ کے برابر تھی.علاوہ ایک مٹھائی وغیرہ کے انہوں نے ہمارے لئے سٹرا یہ یہ بھی مہیا کی تھیں.کچھ دن بعد ایک افواہ
۳۸ کی صبح وہ ہمارے ہاں آئیں.ہم ناشتے سے فارغ ہو کر کھانے کے کمرے میں بیٹھے تھے ت چیت ہورہی مخفی تھوڑی دیر بیٹھ کر مجھ سے پوچھا تم آج فارغ ہو ؟ میں نے کہا فارغ ہی ہوں.کہنے لگیں تو پھر اگر مرنے ساتھ چلو تو میں تمہیں لندن کی کچھ سیر کرا دوں.میرا یہ معمول تھا کہ میں سوموار کی صبح سے جمعہ کی شام ملک تو کالج کا کام کرتا ، ہفتے کے دن بارہ کے امتحان کی تیاری کرتا ، اتوالہ کا سارا دن تفریح کیلئے تاریخ رکھتا یا اگر کام کا کچھ بقایا رہ گیا ہوتا تو ناشتے اور دو پر کے درمیان کام کرتا.لیکن سہ پہر اور شام لان ما فارغ رکھتا.میں جلد تیار ہوکر ان کے ساتھ ہو لیا.پہلے ہم کنسنگٹن گارڈ نہ گئے اور تھر کنسنگٹن کے اس حصے کے کمرے دیکھے جن میں پبلک کو جانے کی اجازت تھی اور جو بطور عجائب گھر کے سجائے ہوئے تھے.بادشاہ ، ملکہ اور شاہی خاندان کے شہزادوں شہزادیوں اور دیگر افراد کے تاجپوشی شادی وغیرہ کے فاخرہ لباس دیاں لہ کھے ہوئے تھے.بچپن کے لباس اور پاؤں کے بوڑے بھی تھے اور بہت سی اشیاء تھیں جو مختلف اوقات میں ان کے استعمال میں رہ چکی تھیں.وہاں سے ہم ٹائٹڈ پارک گئے ادھر جاتے ہوئے البرٹ میموریل بھی ایک نظر دیکھ لیا.ان دنوں مئی، جون اور جولائی کے مہینوں میں رسو لندن کا سیزن کہلاتا ہے ، ہائڈ پارک امراء اور شریف طبقے کی سیر گاہ تھا اور اتوار کے دن تو وہاں خوب رونق ہوتی تھی شاہ جارج پنجم اپنی بیٹی شہزادی میری کے ساتھ اکثر پارک میں سواری کرتے تھے.اور ان کے علاوہ امیر طبقے کے اکثر نواب بگیات اور شر نا سوار یا پیدل پارک میں سیر کیلئے آتے تھے.ہائیڈ پارک سے ہوتے ہوئے مسز بین برنج کی کلب یں ہم نے دوپہر کا کھانا کھایا.وہیں میںنے نماز ادا کی.اس کے بعد مجھے البرٹ ہال میں کانسرٹ سنے کیلئے لے گئیں.اس ہال میں دس ہزارہ آدمیوں کے بیٹھنے کی جگہ ہوگی.لیکن اس کی ترکیب تعمیر ایسی مناسب ہے کہ اتنے بڑے ہجوم کو اندر جانے، اپنی اپنی نشستوں تک پہنچنے اور پروگرام کے ختم ہونے پر باہر آنے میں کسی قسم کی کی وقت کا سامنا نہیں ہوتا.یہ کانسرٹ لندن فل ہار مونک آلہ کسٹرا کی طرف سے تھا.بس کے کنڈکٹر موسیقی کے ماہر سر اس کو کن تھے.میرے لئے مغربی موسیقی سنے کا یہ پہلا موقعہ تھا.ہمارے مکان میں کبھی کبھی کسی دعوت کے موقعہ پر پیانو بجتا تھا اور گانا بھی سنایا جاتا تھا.گانے سے تو مجھے کبھی دلچسپی نہ ہوئی.نہ گھرمیں نہ گھر سے باہر یہ موسیقی میں کبھی کبھار کوئی حصہ ایسا ہونا جو کانوں کو خوشگوار معلوم ہوتا اس کانسرٹ کے موقع پر میں تمام پروگرام کسی قدر دلچسپی سے سن سکا.بعد کے تجربے سے معلوم ہوا کہ کلاسیکل موسیقی تو کچھ میری توجہ کا باعث ہوتی لیکن باقی تمام مغربی موسیقی مجھے بالکل شور معلوم ہوتی.اپرا میں ایک بار گول میز کانفرنس کے ایام میں جانے کا اتفاق ہوا اور میرے لئے وہاں ہنسی روکنا مشکل ہو گی طبیعت سنقد وتی ہوئی کہ میں درمیان میں ہی اٹھ کر چلا آیا.تھیٹر کے کھیلوں میں سے مجھے صرف ڈراما کبھی پسند آتا اور چھ
سمجھ بھی آئی متفرق کھیل تماشہ مجھے پسند آتا.اس کی غرض ہی مہنسی مذاق ہوتی سینما پہلے سال میں تو میں نے دیکھا ہی نہیں اس کی ایک وجہ تو یہ بھی تھی کہ مجھے یہ معلوم ہی نہ تھا کہ سینما ہے کیا شے شیخ خورشید حقی صاحب نے جو مجھے گورنمنٹ کالج کے دنوں سے جانتے تھے مجھے ایک روز شام کے کھانے پر بلایا اور کھانے کے بعد کہا چلو تصویر یں دیکھیں.میں نے کہا مجھے تو نہیں معلوم تصویر یں کیسے دیکھی جاتی ہیں وہ ہنسے اور کہا وہاں کچھ بھی کر نا نہیں ہوتا.سب کچھ خود بخود صفانی سے سجھ میں آجاتا ہے.تم چلو اگر کچھ بتانے کی ضروری ہوئی تو میں بتا دوں گا لیکن میں اپنے عذر پر قائم رہا اور نہ گیا.آخر ستمبر سال میں جب میں رومن طلاء کا بار کا امتحان نے بیکا اور امتحانوں میں سے صرف فائنل امتحان باقی رہ گئے تو ایک سوس ڈاکٹر صاحب کے کہنے پر تھو ہمارے مکان میں ٹھرے ہوئے تھے میں ان کے ساتھ اپنی زندگی میں پہلی بار سینما دیکھنے گیا.طالب علمی کے تین سال کے عرصہ میں میرا اندازہ ہے کہ میں شاید دس بارہ دفعہ سینما، تھیٹر وغیرہ گیا ہوں گا.اس نہ مان بھی میں امام جماعت کی طرف سے سینما ، تھیٹر سجانے پر کوئی بندش نہیں تھی.لیکن مجھے طبعاً ہی ایسے کھیل تماشوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی.البتہ می باریس شو اور رائل نیول اینڈ ملٹری ٹورنامنٹ دیکھنے پر سال شوق سے جایا کرتا تھا.فروری شاید میں میں ایک مرتبہ اپنے عزیز دوست آسکر نبیلہ کو ساتھ لیکر دی مرسے کئی دیکھنے اولمپیاگیا.یہ تمام کھیل خاموشی سے کھیلا جاتا تھا.البرٹ ہال کے کانسرٹ کے بعد مسز بین برنج مجھے ایک کیفے لے گیئں جہاں ہم نے بچائے پی اور پھر مجھے مکان پر واپس لے آئیں.یہ سارے دن کا پروگرام ان کی طرف سے ایسی شفقت کا اظہارہ تھا کہ اس نے میرے دل پر گہرا نقش چھوڑا.بعد میںبھی وقتاً فوقت میرے منہ قیام یں تشریف لاہیں اور کبھی کس باغ میں کبھی کسی پاک میں سر کیلئے لے جائیں، یا کوئی عمل یا عجائب گھر دکھانے کیلئے لے جائیں.ان کی گفتگو نہایت شستہ اور میرے لئے دلچسپی اور معلومات کے بڑھانے کا موجب ہوتی تھی به طانوی رسم و رواج اور طریق و اطوارہ کے متعلق مجھے ان سے بہت کچھ معلوم ہوا جو میرے لئے پی پی کا موجب بھی ہوا اور مفید بھی ثابت ہوا.پہلی عالمی جنگ کا ان کی مالی حالت پر یہ اثر ہوا کہ پہلے سی فراخی کی حالت جاتی یہی کہا کرتی نہیں کہ میری ضروریات کیلئے تو میرے پاس کافی ہے اور شکر ہے کہ مجھےکسی کی محتاجی نہیں لیکن افسوس ہے کہ اب میں پہلے کی طرح دوسروں کی مدد نہیں کر سکتی اور نہ مہمان نوازی کے فرائض دل کھوں کرادا کر سکتی ہوں.مجھے جب بھی بعد می انگلستان جانے کا اتفاق ہوتا میں انہیں ضرور ملتا.درمیان میں خط و کتابت بھی رہتی.میری بیٹی عزیزہ امتہ الھی کی پیدائش ا کے لئے بڑی خوشی کا موجب ہوئی کسی مغربی خاتون کی عمر کا صحیح اندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے.ایملی کے متعلق میرا اندازہ ہے کہ جب ہم کی پہلی ملاقات ہوئی ان کی عمر ۳۵
١٩٣٩ پینتیس سال کے لگ بھگ تھی.اس اندازے کے مطابق ۵۵ - ، ۵ سال کی عمر میں ان پر فالج کا حملہ ہوا جو کچھ اثر ان کے چہرے اور ایک آنکھ پر چھوڑ گیا.اس وجہ سے انہوں نے لندن کی رہائش نزیک کر دی اور کہ رنگ میں ساحل سمندر کے بالکل قریب ایک مختصر سا فلیٹ اپنی ضروریات کے مطابق کرائے پہرے لیا اور وہاں رہائش اختیار کر لی.کچھ عرصہ بعد ان کی بڑی بہن میں لائینزا پارسنز نے بھی وہیں ان کے قریب ہی ایک کمر و لے لیا.میں اپنی پارسنز نے کئی سال قبل ایسٹ لندن ہاسپٹل کو چھوڑ کر بائی گیٹ کے علاقہ میں اپنا نرسنگ ہوم چھلے پارک نرسنگ ہوم کے نام سے جاندی کہ لیا تھا.جسے وہ کامیابی کے ساتھ چلارہی تنیس مستربین برج کے دور دنگ منتقل ہو جانے کے بعد جب میں لندن جانا تو انہیں در دنگ جا کر ضرور ملتا جب مجھے کار میسر ہوتی میں کار میں جانا اور دونوں بہنوں کو گھنٹے دو گھنٹے کیلئے کا میں سیر کے لئے لے جاتا ہو ان کے لئے بہت فرحت کا موجب ہوتا.اگر کار میسر نہ ہوتی تو میں ریل میں جانا اور گھنٹہ دو گھنٹ ٹھر کہ چلا آتا مسٹر بین برج مطعم میں کھانے کے لئے جانا پسند نہیں کرتی تھیں اور میں انہیں اس تکلیف میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا کہ میرے لئے کھانا تیار کرنے کی زحمت اٹھا اسلئے میں عموماً دوپہر کے کھانے کے بعد لندن سے روانہ ہوتا اور شام کے کھانے تک واپس پہنچ جاتا.لیکن کبھی ان کا اصرار ہوتا کہ کھانا میرے ساتھ کھاؤ تو میں ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے دوپہر کے کھانے کے وقت پہنچ جاتا ء کے نومبر من جب میں ڈومینینز کے وزراء کی کا نفرنس میں ہندوستانی نمائندے کی حیثیت سے لندن گیا تو عزیز انور احمد بطور سکریٹری میرے ساتھ تھے.میں انہیں ور دنگ لے گیا.مستر بین بمدح کی طرف سے دوپہر کے کھانے کی عورت تھی موسم کے لحاظ سے بھی دن چھوٹا ہونے کی وجہ سے لندن سے سوہرے روانگی مناسب تھی.گو میری طبیعت میں تامل بھی تھا کہ ہم دو شخصی مسرزمین بنج کے مہمان ہوں.کیونکہ راشن بندی کی وجہ سے ان پر تنگی ہونا لانہم تھا.بہر حال ان کی خواہش کا احترام فرض تھا.کھانے کے دوران میں نے عزیز انور احمد سے کہا آپ کو اپنی ٹرینگ کیلئے ایک سال لندن ٹھہرنا ہوگا.جنگ کانہ مانہ ہے ادھر ادھر آنا جانا آسان نہ ہوگا ایک طریق یہ ہو سکتا ہے کہ اقوالہ یاکسی اور چھٹی کے دن جب چاہو یہاں آجاؤ.دوپہر کے کھانے کیلئے کچھ ساتھ نے آیا کرد اور یہاں مسربین بزن کے ساتھ بیٹھ کر کھا لیا کرو.چائے یا کافی یہ تیار کر دیا کریں گی.جب میں ذرا کمرے سے باہر گیا تو سر مین بینچ نے عزیز انور سے کہا.تم حجب جی چاہے آجایا کر نامیں کہیں باہر تو جاتی نہیں لیکن ساتھ کچھ لانے کی ضرورت نہیں میں تمہارے پینے کا خود انتظام کیا کروں گی.یہ ہماری آخر می طلاقات تھی.ان کی صحت اس وقت بھی کمز در سو رہی تھی بعد میں اپریشن کے لئے ہسپتال میں داخل ہونا پڑا.اپریشن کے چند دن بعد ہسپتال سے ہی بستر میں بیٹھے بیٹھے سنیل سے مجھے خط لکھا، پریشن کا I
ذکر کیا اور لکھا کہ میں اچھی ہو رہی ہوں لیکن اچھا ہونا مقدر نہیں تھا.ان کی بڑی بہن ان کی زندگی میں فوت ہو چکی تھیں.بوب لندن سے نقل مکان کر کے در دنگ گئی تھیں تو ایہ جات وغیرہ اور ذاتی نہیں کی چیزوں کے علاوہ بہت تھوڑی اشیاء ساتھ لے گئی تھیں.ان میں ایک میری والدہ کی تصویر بھی کہا کرتی تھیں.انہیں دیکھ کہ مجھے بڑا حوصلہ ہوتا ہے اور ہمت بڑھتی ہے.ایک رنگین کارٹون ان کا اور ان کے شوہر فرنیک بین بزرح کا تھا.ہجو اس زمانے کی یاد گار تھا جب زندگی کی امنگیں ابھی انٹرگی کی قباء میں ملبوس نہ ہوئی تھیں.ایک چاندی کا چائے کاسٹ تھا اور ایسی ہی متفرق اشیاء و یادگار کے طور پر تھیں.مجھے کہ رکھا تھاکہ میں ہدایت چھوڑ جاؤں گی کہ تمہاری والدہ کی تصویہ ، فرنیک کا اور میرا کارٹون بچائے کے سٹ میں سے دودھ دان امتہ الحی کیلئے تمہیں بھیج دیئے جائیں.ان کی وفات کے بعد ان کی بہن اپنی کا خط میرے نام آیا جس میں ان کی وفات کا ذکرہ تھا اور لکھا تھا.اکیلی کی ہدایت نفی کہ یہ اشیاء تمہیں بھیج دی جائیں.تم جیسے لکھو میں بھیج دوں.میں نے انہیں افسوس اور تیمداری کا خط لکھا اور لکھ دیا کہ میرے پتے پر اپنی بہن کی نشانی مجھے بھیج دیں.جنگ کا زمانہ تھا معلوم نہیں میرا خط انہیں ملایا نہیں.اگر ملا اور انہوں نے وہ اشیاء روانہ کردیں جیسے کہ توقع ہے کہ انہوں نے ضرورہ روانہ کر دی ہوں گی تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ رستے میں تلف ہو گئیں.وللہ اعلم بالصواب.لیکن میرے دل میں اکیلی بین بمرج کی یاد تازہ رکھنے کیلئے کسی تصویر یا کارٹون کی حاجت نہ تھی میرے ان کے درمیان سوائے ہماری مشترک انسانیت کے اور کوئی رشتہ واسطہ نہیں تھا.مجھے کسی نے ان کے نام کوئی تعارفی خط نہیں دیا تھا.بیشک ان کے بڑے بھائی فرینک پارسنز مدراس میں انڈین سول سروس میں تھے اور نیشن پر جانے سے پہلے مدراس کے گورنہ کی کونسل کے رکن رہ چکے تھے لیکن کجا مدراس اور کیا پنجاب.نہ وہ مجھے جانتے تھے نہ میں انہیں جانتا تھا.ان کا نام بھی میں نے انکی بہنوں ہی سے سنا تھا.ان کے چھوٹے بھائی نارفوک میں سلوسٹر تھے اور قانون پیشہ تھے.میں قانون کا طالبعلم تھا اور ان سے بھی میر التعارف نہیں ہوا.میرے ساتھ جو اکیلی بین بمنح تعارف کے وقت سے اپنے آخری سانس تک قریباً تیس سال کے عرصے میں کمال شفقت اور اخلاص سے پیش آتی رہیں اس کا موجب نکی ذاتی شرافت اور حسن اخلاق تھے وہ بہت خوش شکل اور ٹبری باوقارہ خاتون تھیں لیکن اس سے بہت بڑھ کر خوش خلق تھیں.اور یہ زیورہ انہیں بہت ہی سمجھتا تھا.میرے ایک ہندوستانی رفیق کو ہمارے مکان میں ان سے ملنے کا اتفاق ہوا.انہوں نے کھانے کی دعوت دی.املی نے قبول کر لی یہ جانتے ہوئے کہ مسٹر بین بر ج اچھے طبقے میں میل جول رکھتی ہیں میرے
رفیق انہیں کسی اعلیٰ درجے کے مطعہ میں لے جانا چاہتے تھے لیکن مستر بین بنچ نے ایک درمیانی درجے کے مطعم کا انتخاب کیا اور کھانے کے آخر میں جب خادمعہ بل لائی تو بڑے اصرار سے خود بل ادا کیا اور ان سے سکرا کر کہ تم ظفر اللہ کے دوست ہو اسلئے میرے بھی دوست ہو لیکن تم طالب علم ہو اور اپنے وطن سے باہر مناسب نہیں کہ تم میری خاطر کچھ خرج اپنے دیتے ہو.میں اس بات کی قدر کرتی ہوں کہ تم نے مجھے دعوت دی اور تمہاری ممنون ہوں کہ اپنے قیمتی وقت میں سے تم نے ایک شام میرے لئے صرف کی جو میری خوشی کا باعث مند ہے.تمہاری استقدیر تواضع ہی کافی ہے.میرے رفیق نے واپسی پہ یہ بات مجھے سنائی اور باقی گی ذکر کیا لیکن بار بار یہ کہتے کہ میں تم سے پہلے کا اس ملک میں آیا ہوں اور میری واقفیت کا حلقہ خاصا وسیع ہے.لیکن میں نے ایسی شریف اور خوش اخلاق خاتون یہاں نہیں دیکھی.انہوں نے اپنی تو تصویر مجھے دیکھتی اس سے ہر دیکھنے والا ہی قیاس کرتا کہ یہ کسی ملکہ یا شہزادی کی تصویر ہے.بایں ہمہ صفات نہایت منکسر مزاج تھیں میں نے انہیں کبھی بلند آواز سے کام کرتے نہیں سنا نہ کبھی کوئی لفظ کس کی تحقیر یا مخالفت کا ان کے نے کا آغانہ شباب میں خاوند سے علیحدگی ہوگئی ہمہ صفت موصوف اور صاحب شردت تھیں، چاہنے والوں کی کمی نہ ہوگی.چالیس سال سے زائد عرصہ عمل ہو گی میں گزارا.کوئی حرکت اعلیٰ درجہ کی شرافت اور کامل عفت اور عصمت کے متضاد بھولے سے بھی سرزد نہ ہوئی.زندگی افسردہ لیکن چہرہ ہر لحظہ میناش ہونٹوں پر ہر وقت مسکراہٹ، میں انکی نظر میں کیا حیثیت رکھتا تھا ؟ پنجاب کے زمیندار طبقے سے لندن جیسے شہر میں ہو اس وقت تہذیب، علوم اور شردت کا مرکز شمار ہوتا تھا بالکل نو وارد.وہاں کے طور طریق اور آداب تک سے ناواقف.میری عمران سے نصف ، میرا تجربہ ان کے مقابل میں صفر، میری گفتگو ان کے لئے پھینکی اور بے مزہ ، انہیں میں خیال آتا ہو گا کہ یہ نوجوان اپنے وطن اور عزیزوں سے دور اکیلا ہونے کی وجہ سے ضرور افسردہ دہ سنا ہو گا.میں جو اکیلے پن کا ذاتی تجربہ رکھتی ہوں اور افسردگی سے واقف ہوں کسی حد تک اپنی شفقت سے اس کی اداسی کو ہلکا کرسکتی ہوں.اور کچھ ایک مجھ پر سی موقوف نہ تھا.ایملی میں بمدت نے دوسروں کی دلجوئی اور غمخواری کو اپنا شعار بنالیا تھا.اور اس طرح اپنی افسردگی پر دوسروں کی خوشی اور پیشانت کا غلاف چڑھا لیا تھا.اللہ تعالی جو بہت ہی قدردان آتا ہے اور اپنے ہر بندے کے دل کی گہرائیوں پر نظر رکھتا ہے اور انہیں خوب پہچانتا ہے.ایلی بین بزر کے ساتھ اس سے بہت بڑھ کر رحمت اور شفقت کا سلوک فرماتے ہو انہوں نے اس کے بندوں کے ساتھ روا رکھا کہاس الرحم الراحمین کی رحمت کی کوئی انتہا نہیں.آمین کرنل و مسٹر ہاورڈ کچھ عرصہ کیلئے کرنل اور سر نادر ڈ بھی جو کینیڈا سے سیر کیلیئے آئے تھے اس مکان میں ٹھرے.وہ پرانٹ فورڈ انٹاریو کے رہنے والے تھے.یہ شہر آبشار نیاگر اسے قریے.چونکہ انہیں لندن کی سیر
مقصود تھی اسلئے دن بھر تو وہ سیر گاہوں اور عجائب خانوں میں صرف کرتے.شام کے وقت عموماً گھر پرہتے بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا کہ شام کو کرنل نا ورڈ کو کہیں باہر جانا ہوتا اور مسر با ورڈ گھر پر ہی ٹھہرتیں وہ اپنے تین بیٹے گائی ، والٹر اور جیک پیچھے چھوڑ کر آئی تھیں.شام کا وقت ہوتا تو بچوں کی بھدائی کے احساس سے اداس ہو جاتیں.ان کے بیٹوں میں سے منجھلا یعنی والٹر میرا ہم عمر تھا.شام کے وقت جب بھی مجھے فراغت ہوتی وہ میرے ساتھ بات چیت میں وقت صرف کرنا پسند کر تیں کبھی اپنے وطن شہر اور گھر کا ذ کہ کر میں کبھی اپنے بچوں کا اور کبھی مجھ سے میرے گھر کا اور میرے والدین کا ذکر سنتیں.اپنے بیٹوں کو بھی میرے متعلق لکھا.اور انہوں نے مجھے تصویری کارڈ بھیجنا شروع کر دیئے.والٹر کے ساتھ تو میری باقاعدہ خط و کتابت شروع ہوگئی جو کرنل اور مسز نا درڈ کے کینیڈا واپس جانے کے بعد اور پھر میرے وطن واپس آنے کے بعد بھی کچھ عرصہ تک جاری رہی.نیاگرا کے علاقے میں پھیل بہت کثرت سے ہوتا ہے.مسر با ورڈ مجھے کہاکہ میں ظفراللہ تم ہمارے ہاں ہو تو تمہیں اتنے بڑے بڑے آڑو کھلاؤں کہ ہر آڑو ایک کھلے منہ والے گلاس کا ڈھکنا بن سکتے میں جب میں کامن دیلیتھ ریلیشنز کا نفرنس کے سلسلے میں ٹون ٹو گیا تو ہمارا قیام وہاں کی یونیورسٹی کے رہائشی حصے مں ہوا.کالجوں میں تعطیل تھی لیکن بعض طالب علم رضا کارانہ طور پر کانفرنس کے سلسلے میں کام کر رہے تھے.ایک شام کھانے کے بعد مجھے پیغام ملا کہ کوئی صاحب ٹیلیفون پر مجھ سے بات کرنا چاہتے ہیں.میں گیا تو ٹیلیفون پر یہ گفتگو ہوئی :.THIS IS Howard SPEAKING WHICH OF THEM ? GUY, WALTER OR JACK ? ASA MATTER OF FACT IT IS WALTER BUT HOW DID YOU KNOW? THOSE ARE THE ONLY THREE HOWARDS, ONE OF WHOM COULD HAVE WISHED TO SPEAK TO ME THEN YOU ARE THE ZAFRULLA WHOM MY PARENTS MET IN LONDON ? AND WHO CORResponded WitTH YOU HOW ARE YOUR PARENTS ? FATHER DIED SOME TIME BACK BUT MOTHER LIVES ON IN BRANTFORD.IN FACT SHE READ YOUR NAME IN THE LIST OF DELEGATES TO THIS CONFERENCE AND CALLED ME UP AND ASKED ME TO MAKE SURE.MAY I COME ROUND? SURELY.Do COME ATO NCE.ފ گئیں اور ڈبول رہا ہوں.کونسا نا درڈ ؟ گائی ، والٹر یا جیک ؟".میں والٹر نا در ڈہوں لیکن آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا ؟.یہاں صرف میں تین یا در ڈہیں جن میں سے کوئی ایک مجھے ٹیلیفون کر سکتا تھا " •
مهم مهم پھر تو آپ وہی ظفر اللہ ہیں جو میرے والدین سے لندن میں ملے تھے.اور جو آپ کے ساتھ خط و کتابت رہا.آپ کے والدین خیریت سے ہیں ؟".والد صاحب کچھ عرصہ ہوا فوت ہوگئے، والدہ پر ینٹ فورڈ میں رہتی ہیں.انہوں نے کانفرنس کے ڈیلیگیوں کی فہرست میں آپ کا نام پڑھا اور مجھے کہا کہ میں پتہ لگاؤں کہ کیا یہ وہی نظر اللہ ہے ہوا انہیں لندن میں ملاتھا.کیا میں حاضر ہو سکتا ہوں ہے.ضرور مزدور خیری تشریف لائیں." اس طرح اکیس سال بعد میری ملاقات والٹر سے ہوئی.شام میں جب میں ٹورنٹ گیا تو ایمپائر پالیمنٹری ایسوسی ایشن کی وہاں کی شاخ نے مجھے شام کے کھانے کی دعوت دی.میرے بائیں طرف ایک مسٹر میکڈانلڈ بیٹھے تھے جو برانٹ فورڈ کےحلقے سے کنیڈا کی پارلیمنٹ کے مبر تھے.میں نےان سے مسن با ورڈ کا ذکر کیا انہں نے کہادہ میرے قریب ہی رہتی ہیں میں انہیں خوب جانتا ہوں.ان کی نظر بہت کمزور ہوگئی تھی.حال ہی میں انہوں نے آنکھوں کا اپریشن کرایا ہے جو کامیاب رہا ہے.میں نے ان کے ذریعے اپنا سلام مسنر نارڈ کو بھیج دیا.اس وقت ہماری لندن کی ملاقات پر تئیس برس گزر چکے تھے.اس کے بعد مجھے عشاء میں پھر ٹورنٹو جانے کا اتفاق ہوا.رات کے وقت وہاں پہنچے.دوسری شام بعض دوست مجھے کھانے اور سیر کیلئے نیا گرائے گئے راستے میں میں نے ان سے مسٹر نا ورڈ کے ساتھ اپنی ملاقات کا ذکر کیا.انہوں نے کہا برانٹ فورڈ ہمارے راستے سے تھوڑا ہی ہٹ کر ہے واپسی پر ہم وہاں ٹھہر سکتے ہیں.کھانا ہم نے جنرل ہر اک ہوٹل میں کھایا.وہاں کھانے کا کمرہ سہے او رجہ کی منزل پر ہے اور وہاں سے آبشار کا رنگین نظارہ بہت بھلا معلوم ہوتا ہے.کھانا شروع کرنے سے پہلے میزبانوں میں سے ایک نے ٹیلیفون والی خاتون کو ہدایت دی کہ وہ برانٹ فورڈ کی ٹیلیفون ڈائر کٹڑی دیکھ کر پرستر ہاورڈ نام کی خاتون سے دریافت کرے کہ ان میں سے کونسی خاتون تین بیٹوں کی ماں ہے جن کے نام گائی والٹر اور جیک ہیں.جب ہم کھانے سے فارغ ہو چکے تو معلوم ہوا کہ ٹیلیفون کی کتاب میں دس اندراج مستر ہاورڈ کے نام کے ہیں.یمین کی طرف سے تو کوئی جواب نہیں ملا اور تین سات کے ساتھ بات ہوئی ان میں سے کسی کے تین بیٹے ان ناموں والے نہیں.دوسری صبح میرا نام اخبار میں دیکھ کر والٹر نے مجھے ٹیلیفون کیا ور میں نے اسے بتایا کہ کیسے من مسر با ورڈ کا پتہ معلوم کرنے کی کوشش کی تھی.وال نے کہاکہ میری ویڈ تو در سال ہوئے فوت ہو گئیں.والٹر مجھے ملنے آیا.تھوڑا عرصہ پہلے اس کی شادی ہو سکی تھی اپنی بیوی ہوں بھی ساتھ لایا.اس نے بتایا کہ وہ دونوں رائٹ فورڈ میں رہائش اختیار کرنے کا قصد کر چکے ہیں جلدورات منتقل ہو جائیں گے.اس کے بعد دالر کی اور میری خو د کتابت پھر شروع ہو گئی اور جو کہ شاہ سے مجھے
۴۵ سا میں اوسط دو بار نیو یارک جانے کا اتفاق ہوتا رہا اور ٹورنٹو جانے کی بھی کوئی نہ کوئی تقریب پیدا ہو جاتی تھی ان مواقع پر والٹر اور اس کی بیوی سے ملاقات ہو جاتی تھی.میاں بیوی دونوں بہت تو ان سے پیش آتے.ایک بار عزیزہ امتہ الحمی میرے ساتھ امریکہ گئیں اور میں انہیں آبشار در کھانے نیا گر لے گیا.نیو یارک سے ٹورنٹو تو ہم ریل میں گئے.وہاں سے میرے ایک دوست تو وا کر ہمیں اپنی کار میں نیا گرائے گئے دوپہر کا کھانا ہم نے وہیں کھایا.دن خاصا گرم تھا اور امتہ الحی ہر قعہ پہنے تھیں.واپس روانہ ہوئے تو عزیزہ امتہ الھی کو سر درد کی شکایت ہوگئی اور اعضا اسکن محسوس ہونے لگی.برانٹ فورڈ بالکل قریب تھا.ہم والڑ کے مکان پر چلے گئے.ایولین نے بڑی شفقت سے عزیزہ کے آرام کرنے کا سامان کر دیا اور عزیزہ اسپرین کی کمی کا کر سوگئی.دو گھنٹہ بعد بیدار ہوئی تو بیعت بفضل الله با لکل صاف تھی.ہم بخیریت و ٹورنٹو الیس پہنچ گئے.ایک مرتبہ عزیزہ چودھری نبی احمد صاحب بھی اس علاقے کی سیر میں میرے ساتھ تھے.آبشار سے ہو کر ہمارا پروگرام را برانٹ فورڈ ٹھہرنے کا تھا.پھل کا موم تھا اور سڑک کے دونوں طرف پھل کے بڑے بڑے ڈھیر فروخت کیلئے لگے ہوئے تھے.ایک جگہ بھر کر ہم نے آرومی کی ایک ٹوکری خریدنے کیلئے منتخب کی.قیمت تور تا کرنے پر فروخت کرنے والی لڑکی نے کہا ایک ڈالمیہ میں تو سمجھ گیا لیکن چودھری نبی احمد صاحب نے میر سے در فیت کیا ایک ڈالر فی آرد ؟ یہاں تو پھل بہت مہنگا ہے.لڑکی نے مسکرا کر کہا ایک ڈالر ساری ٹوکری کی قیمت ہے اس پر انہیں حیرت ہوئی کہ یہاں پھل استقدر سستا ہے.برانٹ فورڈ پہنچ کر ہوٹل سے میں نے والٹر کو لیون کیا.میاں بیوی نے اصرارہ کیا کہ ابھی آ جاؤ اور شام کا کھانا ہمارے ہاں کھاؤ ہم نے پھل کی ٹوکری انہیں پیش کر دی ایولین نے اس کا کچھ حصہ ہمارے لئے کھانا تیار کرنے میں استعمال کیا.خواجہ کمال الدین صاحب کی تشریہ میں خواجہ کمال الدین صاحب لندن تشریف لائے لندن تشریف آوری.ان دنوں ڈاکٹر عباداللہ صاحب امرتسر والے بھی لندن میں تشریف فرما تھے.خواجہ صاحب کے لندن پہنچنے پر وہ انہیں اس مکان پر لے گئے جہاں وہ خود رہتے تھے.پچونکہ اس وقت اس مکان میں کوئی تعالی کمرہ نہ مل سکا انہوں نے اپنا کمرہ خواجہ صاحب کو دے دیا اور جب تک دوسرا کمرہ نہ علاوہ خود ہ مین پر سوتے رہے.تھوڑے عرصے بعد خواجہ صاحب اس مکان میں آگئے جس میں یں بہتا تھا اور مجھے روزانہ کچھ وقت انکی صحبت میں گذارنے کا موقعہ مل گیا.دوران گفتگو سلسلہ احمدیہ کا ذکر بھی آتا تھا.ایک دفعہ ہم دونوں سیر کیلئے جارہے تھے کہ فرمایا.گورالدین کے بعد خلافت کے متعلق بھی رونا ہی پڑے گا و گفتگو پنجابی زبان میں تھی اور محبت کے رنگ میں خواجہ صاحب اکثر خلیفہ المیے ترقی
رضی اللہ عنہ کا نم اکثر اسی بے تکلفی سے لیتے تھے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر بعض دفعہ صرف "مرزا کہ کرکرتے تھے میاں محمود بھی بچہ ہے.محمد علی بہت حساس ہے.بات بات پر درود پڑھتا ہے اور میں ہوں لیکن مجھ میں یہ نقص ہے کہ میں سچی بات نہ یہ کہ دیتا ہوں.مجھ سے لوگ نصفا ہو جاتے ہیں ؟ میں نے عرض کیا خواجہ صاحب خلافت کے متعلق حضرت خلیفہ المشلح اپنی لاہور کی تقریروں میں بہت کچھ وضاحت فرما چکے یں آپ کیوں فکر کرتے ہیں.وقت آنے پراللہ تعالی سے پسندفرمائے گا کھڑا کردے گا.اس پر فرمایا مینی صادق کمبخت ہمارے خلاف سب کچھ شائع کر دیتا ہے بہانے حق کی کوئی بات نہیں لکھتا.“ خواجہ صاحب ابھی ہمارے مکان میں ہی ٹھہرے ہوئے تھے کہ بہائی لیڈر عبد البہا صاحب لنڈن نشتریت لائے اور میں نے سنا کہ وہ اتوار کے دن دو کنگ کی مسجد کا افتتاح کریں گے.اس مسجد کی تعمیر اس طرح ہوئی تھی کہ جب ڈاکٹر سہنری لائٹز ہوں ہور میں اور نیل کا لج کے پرنسپل تھے فارغ ہو کہ واپس انگلستان سجانے لگے تو انہوں نے انگلستان میں ایک مسجد کی تعمیر کے متعلق تحریک کی اور سلمان رؤساء اور فری استطاعت اصحاب سے اس کار خیر میں حصہ لینے کی اپیل کی.ہزہائی نس بیگم صاحبہ بھو یال اور نواب سرسالا مینگ صاب حیدرآباد نے اس غرض کے لئے معقول رقوم عنایت فرمائیں اور غالب قیاس ہے کہ اور بہت سنے ہی نشانات مسلمانوں نے بھی اس تحریک میں حصہ لیا ہوگا.ڈاکٹر لائٹیز نے انگلستان واپسی پر ایک وسیع قطعہ زمین درنگ میں خریدا جو لندن سے ۲۴ میل دور مغرب کی طرف ہے.دو کنگ ایک بڑی ریلوے لائن پر واقعہ ہے اسلئے لندن سے دو کنگ آنے جانے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی.اس قطعہ زمین پر ڈاکٹر لائٹر نے تین عمار ہیں تعمیر کر دائیں ایک مسجد جس کا نام علیا حضرت بیگم صاحبہ بھوپال کے اسم گرامی پر مسحدت ہجہاں رکھا.ایک بالشی مکان جس کا نام س سالار جنگ میموریل ناموس رکھا اور ایک عالیشان عمارت جس میں اور منٹل انسٹی ٹیوٹ علائم کی مسجد اور میموریل ہا ؤس تو پاس پاس ہیں اور ان کا ایک مشترکہ باغیچہ بھی ہے.انسٹی ٹیوٹ کے گرد بہت سی کھلی زمین باغ کے طور پہ ہے.ڈاکٹر ائیر کی وفات کے بعد ان کے ورثاء نے اس تمام جائیداد براین الصرف جمالیا اور اسے اپنی ذاتی ملکیت ظاہر کرنا شروع کیا.جب رائٹ آنرز بیل سید امیر علی صاحب پر بیوی کونسل کی جھی پر تعینات ہو کہ لندن پہنچے تو انہوں نے اس معاملے میں ویسپی لینا شروع کی اور کچھ دیگر سرکردہ مسلمانوں مثلاً نیز مانس آغا خان اور مرزا عباس علی بیگ بود زیرہ ہند کی مشاورتی کونسل کے رکن تھے) کو بھی اپنے ساتھ شامل کیا اور اس تمام جائیداد کو واگذار کرنے کے لئے جدو جہد شروع کر دی.آخر بعض شرفاء کے بیچ بچاؤ سے یہ فیصلہ ہوا کہ مسجد ، میموریل ہاؤس اور ان کے سامنے اور ایر دگر در باغ کا حصہ وگذار کردیا جائے اور انسی ٹیوٹ اور اس کے ارد گرد کی زمین ڈاکٹر رائٹرز کے ورثاء کے تصرف میں رہے.
الم مسجد دو کنگ جب واگذارہ ہو چکی تو اب اسے آباد کرنے کا بھی سوال اٹھا.اس اثناء میں عبد البہاء صاحب امریکہ سے واپسی پر انگلستان تشریف لائے.ان کے دوستوں اور ہم خیالوں نے ان کے اعرانہ میں مسجد و کنگ میں ایک تقریب منعقد کی جسکو انہوں نے افتتاح مسجد کا نام دے لیا.لیکن دعوت ناموں کو بہائی اور بہائیت کے ہمدرد اصحاب تک محدود رکھا.تقریب کا علم ہونے پر سجدہ کے تعلق کی وجہ سے چند مسلمان طلباء اور دوسرے مسلمان افراد بھی دو گنگ پہنچ گئے.خواجہ صاحب بھی تشریف لے گئے اور میں بھی ان کے ہمراہ گیا.دوسرے طلباء میں سے جو اس موقعہ پر دوکنگ گئے مجھے شیخ مختصا دق صاحب (امر فسر ، اور خان محمد نوانه خال صاحب فیرونہ پور کے نام یاد ہیں سرسالہ جنگ میموریل ہاؤس میں دوپہر کے کھانے کا انتظام تھا.لیکن کھانے میں جناب عبد البہا صاحب کے ساتھ وہی اصحاب شریک تھے جنہیں منتظمین کی طرف سے دعوت تھی.باقی جو لوگ گئے ہوئے تھے انہوں نے سٹیشن پر جو کچھ میسر آسکا تھا یا اگر کوئی صاحب اپنے ساتھ کھانے کو کچھ سے آئے تھے تو اس پہ گزارہ کر لیا.جو اصحاب عورت پہ آئے تھے اور جو اپنے شوق سے آگئے تھے سب کی مجموعی تعداد چالیس پچاس کے قریب تھی.ہم سب جو شوق سے آگئے تھے وضو کر کے مسجد میں جمع ہوگئے.جب اندازہ ہوا کہ مہمان اصحاب کھانے سے فارغ ہو چکے ہوں گے تو خواہبہ صاحب نے عبد البہا صاحب کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ نماز ظہر کا وقت ہے آپ نماز کیلئے مسجد میں تشریف لائیں.انہوں نے کہلا بھیجا میں اپنی جائے قیام پر نماز ادا کر کے آیا ہوں.چنانچہ لوگوں نے خواجہ صاحب کی امامت میں ظہر کی نمانہ ادا کی سردیوں کا موسم تھا دن بہت چھوٹا تھا.جلد عصر کا وقت ہوگیا.خواجہ صاحبنے پھر عبد البہاء صاحب کی خدمت میں پیغام بھیجا.نماز عصر کا وقت ہے تشریف لائیں.الیکی بار وہ تشریف لے آئے اور خواجہ صاحب کی اقتداء میں نمازہ ادا کی.نماز کے بعد مسجد کے دروانہ میں کھڑے ہو کر انہوں نے نہایت صاف بلیس اور سادہ فارسی میں مختصر سی تقریہ کی ہمیں ان کے مین پیچھے کھڑا تھا اور گومیں فارسی زبان بہت کم جانتا ہوں.مجھے ان کی تقریر کے سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہ آئی.وہ ایرانی لباس پہنے تھے، قد در میانہ کھلا چہرہ ، سفید ریش ، بزرگ صورت ، کلام میں کوئی لفتح نہیں تھا، خلاصہ تقریر یہ تھا.ہمارا مسلک صلح کل ہے کیسی سے پر خاش نہیں.امن کے حامی ہیں.میں ابھی امریکہ سے ہو کہ آیا ہوں.میں نے وہاں عیسانی گرجوں میں اور سیہودی معبدوں میں بھی عبادت کی ہے اور ہر جگہ یہی پیغام دیا ہے.دو کنگ مشن کا قیام | اس کے بعد خواجہ صاد نے کوشش شروع کردی کہ ورکنگ کی مسجد کا انتظام ان کے سپرد ہو جائے.اسی اثناء میں نقل مکان کر کے آپ اپنے نبستی بھائی کے پاس رچمنڈ میں کیو گارڈ
مسم روڈ نشریف کے گئے مسلم انڈیا اور اسلامک ریویو جاری کیا اور جب ورکنگ مسجد کا انتظام آپ کے سپرد کرنے کا فیصلہ ہو گیا تو آپ نے سر سالا بیجنگ میموریل ہاؤس میں رہائش اختیار کر لی اور دو کنگ مشن کا قیام عمل میں آیا.جمعہ کی نماز کے لئے لندن سے آنے جانے میں چونکہ وقت صرف ہوتا تھا اسلئے جمعہ کی نماز کیلئے ٹوٹنگ کا میں ایک بال کرائے پر لینے کا بھی انتظام ہو گیا.خواجہ کمال الدین صاحب کے سارہ برن ہارٹ ایک مشہور فرانسیسی ایکٹرس تھی اور گو خاصی بیان کردہ ان کے در خواب معمر ہو چکی تھی لیکن اپنے فن کے لحاظ سے بڑی شہرت رکھتی تھی.ملکہ اول ال مسجد کے ڈرامے میں اس نے ملکہ کا پارٹ ادا کیا.اس ڈرامے کی فلم بھی تیار کی گئی.اس فلم کی بھی بہت شہرت ہوئی.خواجہ صاحب بھی اسی مکان میں اقامت پذیہ تھے جہاں میں رہتا تھا کہ ایک دن ہمارے گھر میں ذکر ہوا کہ یہ فلم ایک قریب کے سینما میں دکھائی جار ہی ہے اور قابل دید ہے.خواجہ صاب نے اسے دیکھنے کا شوق ظاہر کیا اور ہم دونوں اسے دیکھنے گئے سردیوں کا موسم تھا.اور وہ شام خاصی سرد تھی.میں تو اپنا اور کوٹ پہن کر گیا لیکن خواجہ صاحبنے اور کوٹ نہ پہنا.فرمایا کرتے تھے مجھے یہاں کی سردی تکلیف دہ محسوس نہیں ہوتی.فلم کے ایک حصہ میں وہ منظر آنا تھا جس میں ارل آن ایکس تو آئر لینڈ کا وائسرائے رہ چکا تھا اور وہاں سے واپسی پر بغاوت کے الزام میں مانوز ہوکر موت کا سزا دارد قرار دیا گیا تھا کواس ا سر قلم کرنے کیلئے مقتل میں لایا جاتا ہے.جب یہ منظر سامنے آیا اور ارل آف الیکس نے اپنا سر لاک پر رکھ دیا اور جلانے اپنا کاٹا اٹھایات خواجہ قصاب کی طبیعت لیکا یک سخت پریشان ہو گئیاور مجھ سے یہ کہ کر کہ اٹھو اٹھو فورا چون سراسیمگی میں لانول پڑھتے اور استغفار کرتے باہر کو چل دیے میں بھی ان کی حالت دیکھ کر سخت پریشان ہوا اور ھر اس میں ان کے بجھے بجھے باہر آگیا.مجھے یہ اندیشہ ہو کہ خواجہ صاحب کو سردی لگ گئی ہے اور فوراً تکلیف بڑھ گئی ہے.یہ سینما ہم سمتھ براڈوے کے پاس ہی تھا.ہم باڑے سے گزر کر بجائے اپنے گھر کی طرف جانے کے ہمیر سمتھ برنج روڈ پر ہوئے اور دریا کے پل کی طرف چلا ہیے.خواجہ صاحب بہت تیزی سے چل رہے تھے اور استغفار اور عادوں میں مصروف تھے اسلئے میں کچھ پوچھنے کی جرات بھی نہیں کرسکتا تھا.پل پر پہنچ پل کر ان کی طبیعت میں کچھ سکون ہوا تو میں نے دریافت کیا کہ کیا آپ کو کچھ سردی محسوس ہو رہی ہے فرمایا نہیں مجھے تو سردی کا احساس ہی نہیں ہوتا.اس وقت بھی پسینہ آرہا ہے.اسلئے میں کھلی ہوا کی طرف نکل آیا ہوں تھوڑی دور جا کر خواجہ صاحب نے اصل حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا مجھے اپنے دو خواب یاد آگئے تھے جن میں سے ایک میں مجھ پر وہی کیفیت دارد ہوئی تھی تو فلم کے اس منظر میں اول ایکس پر دارد ہونے والی تھی.
وسم بیسی دشت خواب میں مجھ پر طاری ہوئی تھی ویسی ہی اس منظر کے سامنے آنے پر میں نے محسوس کی اور میں اسے برداشت نہ کر سکا اور اسی گھبراہٹ میں اٹھ کر چلا آیا.فرمایا پہلا خواب میں نے ان ایام میں دیکھا تھا جب حضرت صاحب (حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) آخری بارہ لاہور تشریف لائے تھے اور ہمارے مکانات واقعہ احمد یہ بلڈنگس می ٹھہرے ہوئے تھے میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اور مولوی محمد علی صاحب اور تین چار اور افراد اگر خواجہ صاد نے کوئی نام لئے تو مجھے وہ یاد نہیں رہے گرفتار کرلئے گئے ہیں اور ہم سے کہا گیا کہ تم نے بغاوت کی ہے تمہیں بادشاہ کے حضور پیش کیا جائے گا.چنانچہ ہمیں پیش کیا گیا.کمرہ ایسا تھا جیسا لا ہور چیف کورٹ میں فرسٹ پنچ کے اجلاس کا کمرہ ہے.میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ چو کو چھتری (خواجہ صاحب نے لفظ CANOPY کہا تھا) کے نیچے جہاں مجھ بیٹھتے ہیں تخت بچھا ہوا ہے اور اس پر مولوی صاحب (حضرت مولانا نور الدین صاحب تشریف فرما ہیں.انہوں نے ہمیں مخاطب کر کے کہا، تم نے ہمارے خلاف بغاوت کی ہے بتاؤ تمہیں کیا سزادی جائے ؟ میں نے کہا اب آپ کا راج ہے آپ جو چاہیں حکم دیں.مولوی صاحب نے کہا ہم تمہیں ملک بدر کرتے ہیں.میں نے خواب حضرت صاحب ( حضرت مسیح موعود علیہ اسلام ) کو سنایا.جس خواب میں انسان کی اپنی موت کی طرف اشارہ ہو بعض دفعہ اس کی تغییر ذہن میں نہیں آتی کریہ خواجہ صاحب کے الفاظ تھے معلوم نہیں خواجہ صاحب نے یہ قیاس کیوں نہ کیا کہ حضور علیہ اسلام تعبیر تو خوب سمجھ گئے ہوں گے لیکن مصلحتاً بیان کرنا مناسب خیال نہ فرمایا ، آپ نے کہا مبارک ہو شاہی قیدی ہونا کوئی بہ می بات نہیں.اس کے بعد میں مولوی صاحب کے پاس گیا اور انہیں وہ خواب سنایا.انہوں نے نہ کچھ دیر تو سر جھکائے رکھا اور پھر سراٹھا کر کہا.کسی سے کہنا نہیں.اس کے دو چار دن بعد حضرت صاحب کی وفات ہو گئی.میں مولوی صاحب کے پاس گیا اور کہا حضرت میرا خواب پورا ہو گیا، اور اپنے ہاتھ کو بڑھا کہ کہا کہ بیعت بیجئے.مولوی صاحہ نے کہا نہیں.نہیں انتظار کرو.قادیان چلو.ام المومنین سے پوچھو.نواب محمد علی سے پوچھو.محمود سے پوچھو.ناصر نواب سے پوچھو..دوسرا خواب میں نے کچھ عرصہ بعد دیکھا کہ ہم پھر کڑے گئے ہیں اور مولوی صاحب کے سامنے پیش کئے گئے ہیں.مولوی صاحب نے کہا تم نے پھر ہمارے خلاف بغاوت کی ہے ہم حکم دیتے ہیں کہ سر قلم کیا جائے.چنانچہ مں نے دیکھا کہ میں مقتل میں لے جایا گیا ہوں اور عین اسی طرح جیسے ہیں فلم کے منظر مں ایکس کے ساتھ ہوا میں نے اپنا سر بلاک پر رکھ دیا اور جلاد نے کلہاڑے کا دارہ میری گردن پر کیا جس سے مجھ پر سخت دہشت طاری ہوئی اور میری نیند کھل گئی.ویسی ہی حالت میری ہوئی.
قیام لندن کے دوران سیر و سیاحت ایسے میں ذکر کر چکا ہوں میں بفضل اللہ بڑی باقاعدگی سے اور تو جہ سے اپنے مطالعہ میں مصروف رہتا تھا لیکن تعطیلوں کے ایام کا اکثر حصہ میں لندن سے باہر گزارتا تھا.کبھی انگلستان میں کبھی انگلستان سے باہر میں 7 ستمبر اللہ کو لندن پہنچا تھا شروع اکتوبر میں باقاعدہ پڑھائی شروع ہوگئی.دسمبر کا آخری عشرہ کرسمس کی تعطیل تھی میستر فائرن اور گھر میں دوستہ لوگوں سے مشورہ کر کے میں نے تعطیل کے دنوں میں ٹارہ کی جانے کا فیصلہ کیا جو جنوبی ڈیون شائم میں ساحل سمندر بچہ ایک خوشنما منتقام ہے مسٹر ہر من فاسٹن میرے ساتھ چلنے کو تیار ہوگئے ٹار کی کی ہوا پہ ہے.بہت صاف اور معتدل تھی، سماں بہت خوشگوار تھا، اگر چہ موسم سرما کا وسط تھا لیکن ہر طرف سبزہ تھا ٹار کی کا پہلا نظارہ ہی مجھے بہت دلکش معلوم ہوا.اس تاثر کی وجہ سے یہ شہر مجھے آتنک بہت بھلا معلوم دیتا ہے مجھے کئی مرتبہ وہاں جانے کا اتفاق ہوا ہے اور ہر بار میں وہاں سے خوش لوٹا ہوں.ٹار کی میں اور اس کے ارد گرد بہت سے سیر کے مقامات ہیں.پلٹن کے ساتھ ملتے ہوئے حصے میں ہی کا کنگن کورٹ، اس کا باغ اور تالاب وغیرہ ہیں.باغ کے ایک کونے میں چھوٹا سانا من وقتوں کا گر جا ہے.گاؤں کے پورا ہے میں پرانے وقتوں کی لوٹار کی بھٹی ہے.جو اتنیک امریکن زائرین کی دلچسپی کا مرکز ہے.اب تو پاس ہی ایک کیے اور مطعم اور کار پارک بھی مہیا کر دیئے گئے میں بلا لاء میں سب ماحول ایک گاؤں کا تھا.سیر کیلئے شہر کے مشرقی حصے میں لب ساحل دو بہت خوشنما مقام تھے.ایک میرین ڈرا ہو اور دوسرا نبشپ واک، اول اندر کے اس پاس تو اب خوشنما مکانات اور بنگلے بن گئے ہیں اور یہ حصہ ہائشی لحاظ سے ایک چھوٹے پیمانے پر فرانس کے جنوبی ساحل کا مقابلہ کرتا ہے.موخر الذکر ابھی تک اپنے نام کے مطابق خاموش طبع افراد کیلئے چلنے پھرنے اور مناظر قدرت پر غور وفکر کرنے کے مواقع مہیا کرتا ہے.اتفاق سے ہمارے تمام عرصہ قیام میں موسم بہت خوشگوار رہا.بارش بالکل نہیں ہوئی نہ سردی کا کوئی احساس ہوا اور ہم جی بھر کر مچل پھر سکے.فا الحمد للہ ٹار کی سے لندن واپسی کا سفر دن کے وقت ہوا اور ہم انگلستان کے دیہاتی مناظر کا خوب لطف اٹھا سکے.دو عالمی جنگوں کی وجہ سے انگلستان کی معاشرت اور بودو باش میں زمین و آسمان کا فرق پڑ گیا ہے.اور جو تبدیلیاں ہوئی ہیں ان کے بعض خوشگوار پہلو بھی ہیں.لیکن دیہاتی مناظر آج بھی ویسے ہی دلکش ہیں اور میرا دل ان سے لطف اند ورنہ ہونے سے کبھی نہیں بھرتا.لندن چونکہ انگلستان کا تجانہ کی اور مالی مرکز تھا بعد میں برطانیہ کا.پھر تمام بر طانوی مملکت کا اور انیسویں صدی میں ساری دنیا کا مرکز بنا.اور سال تک اس حیثیت کا مالک رہنا ، اسلئے اپنی اس حیثیت کی حفاظت کی خاطر قرون وسطی اسے شاہی اقتدار اور اختیارات کو محدود اور پابند کرنا یا *
۵۱ وں کی جھلک اتنک کہیں کہیں نظر آجاتی ہے.چنانچہ ایک یہ رسم ہے کہ جب بادشاہ بابلکہ اپنی تخت نشینی کے بعد پہلی مرتبہ شہر کے اندر جائیں تو شمیل بار پر جو ابتدائی ایام میں لندن شہر کی حد فاصل تھی لارڈ میٹر ان کا استقبال کرتے ہیں اور بادشاہ یا ملکہ اپنی طرف سے شہر کے حقوق اور مراعات کی تصدیق کرتے ہیں.اور اس کے بعد لارڈ میرا نہیں شہر میں داخل ہونے کی اجازت دیتے ہیں.یہ کریم ان وقتوں کی یاد گار ہے جب بادشاہ یا ملکہ لارڈ میٹر کی دعوت کے بغیر شہر میں داخل نہیں ہوسکے تھے آسکر یہ نماز سے پہلی ملاقات ہر سال نو نومبر کے دن لارڈ میٹر کا جلوس شہر کی طرف نکلتا ہے جو واپسی پر کنگز کالج کے قریب سے گذرتا ہے.کالج کی عمارت سمرسٹ ہاؤس کا ہی حصہ ہے جو کرنی ہے میں شاہ ایڈور ڈششم کے ماموں ڈیوک آف کرسٹ کا محل تھا.کالج کا تو بھاٹیک اپ استعمال ہوتا ہے وہ تو سٹر ینڈ میں ہے لیکن اس کا ایک پرانا پھانک دریا کی طرف بھی ہے.کالج کے پرنسپل صاحت کے رہائشی حصے کا رخ بھی دریا کی طرف ہے.اس چبوترے کے عین نیچے سے لارڈ میٹر کا جلوس گذرتا ہے ور نومبر اللہ کے دن گنگنہ کالج کے پرنسپل صاحب ریور رینڈر آن نظر سہی لم نے جو بعدمیں بشپ آن کلوسٹر ہوئے چند طلباء کو اپنے مکان کے چبوترے سے لارڈ میٹر کا جلوس دیکھنے کی دعوت دی جلوس کے گذر جانے کے بعد پرنسپل صاحب نے مہمانوں کی جن میں یہ طلباء بھی شامل تھے مکان کے اندر چائے، کافی ایک وغیرہ سے تواضع کی.مجھے بھی پر سنیل صاحب کی طرف سے دعوت تھی.جلوس دیکھنے اور بجائے وغیرہ سے پانچ بجے تک فراغت ہوگئی.میں پرنسپل صاحب کے مکان سے نکل کر کالج کی طرف جاہ ہاتھا کہ میری ملاقات ایک سیلون کے بہنے والے طالبعلم سے ہوئی جن کے ساتھ میری شناسائی ہوچکی تھی.ان کا نام سٹارونا چائم تھا وہ انجنیئرنگ کے آخری سال میں تعلیم حاصل کر رہے تھے.وہ بھی پرنسپل صاحب کے مکان سے نکلے تھے انہوں نے دریافت کیا تمہاری آج کسی لیکچر میں حاضری ہے ؟ میں نے کہا چھ بجے ایک لیکچرمیں جانا ہے.انہوں نے کہا ابھی کچھ دیہ تو تم فارغ ہو قریب ہی انڈیا کلب ہے ہم وہاں جا رہے ہیں تم ہمارے ساتھ چلو کچھ بجے کا لج واپس آجانا.ان کے ساتھ دو اور یور مین طالب علم تھے.ایک ان کے ہم جماعت تھے جو انگریز تھے اور دوسرے ایک جرمن جو انجینئرنگ کے پہلے سال میں تھے.میں ان کے ساتھ ہو لیا اور ہم کلب پچھلے گئے جو دراصل ایک عیسائی مشنری سوسائٹی کا ادارہ تھا.لیکن طلبا کو یہاں کچھ سہولتیں میر تھیں ہماری غرض دیہاں صرف فارغ وقت کا کچھ حصہ گذارنے کی تھی.چنانچہ ہم نے نصف گھنڈیاں گذارا.اس اثناء میں دونوں سنیٹر طار علم تو آپس مں باتیں کرتے رہے اورمیں اور ترین طالبعلم خاموش.بیٹھے رہے.شاید اس وجہ سے مجھے اپنے خاموش ساتھی سے کچھ ہمدردی محسوس ہونی یا یہ وجہ ہو کہ وہ بھی.
.لندن میں نو وار د تھے اور میں بھی نو دارد تھا اور ہم دونوں غیر ملکی تھے جب ہم کا ہسے نکل کر کالج کے پٹھانک پر واپس پہنچے اور ایک دوسرے سے رخصت ہوئے تو میں نے ان کا نام اور یہ دریافت کر لیا.دوسرے دن میں نے انہیں خط لکھا اور آئندہ بدھ یا جمعہ یا ہفتہ کے دن اپنے ہاں چائے نوشی کی دعوت دی.ان تین دنوں میں مجھے لیکچروں سے فراغت تھی بدھ اور جمعہ گزر گئے نہ وہ تشریف لائے نہ انکی طرف سے کوئی اطلاع ہی ملی.میں نے خیال کیا شاید خط پہ نا یا پتہ ٹھیک نہ لکھا گیا ہو اور میرا خطا نہیں نہ ملا ہو.ہفتے کے دن تک یہ بات میرے ذہن سے بھی نکل چکی تھی.اس دن سہ پہر کو موسلا دھار بارش ہو رہی تھی اور میں اپنے کمرے میں مطالعہ میں مصروف تھا کہ خادم نے دروازے پر دستک دیگر در ورانہ کھول اور کہا ایک صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں.ساتھ ہی وہ صاحب کمرے میں داخل ہوئے ٹوپی سے جو ان کے ہاتھ میں تھی اور اور کوٹ سے جودہ پہنے ہوئے تھے پانی گر رہا تھا.میں کھڑا ہوگیا کوٹ اور ٹوپی ان سے لیکر ٹیکا دیئے اور میرے منہ سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے.سمجھے تو آج آپ کے آنے کی توقع نہیں تھی تعجب وہ آرام سے بیٹھ گئے تو انہوں نے بتایا کہ انہیں میرا خط مل گیا تھا گو اس پر ان کا نام صیح نہیں لکھا ہوا تھا.بدھ اور جمعہ کے دن تو وہ نہ آسکتے تھے کیونکہ انہیں لیکچر میں سجانا ہوتا ہے.ہفتے کی سہ پہر ان کا ارادہ تھیٹر جانے کا تھا.انہوں نے سکٹوں کے لئے کہا ہوا تھا اور توقع تھی کہ اگر کسی نے پہلے سے خریدے ہوئے ٹکٹ واپس کر دیئے تو انہیں مل جائیں گے.لیکن انہیں اطلاع ملی کہ ٹکٹ ملنے کی کوئی امید نہیں لہذا ہفتہ کی سہ پہر تاریخ ہوگئی.مگر مجھے اطلاع دینے کا وقت نہیں رہا تھا ان ایام میں بہت شاد کسی پرائیویٹ مکان میں ٹیلیفون ہوا کرتا تھا.کہنے لگے مجھے تو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ یہ دعوت کس کی طرف سے آئی ہے.اگرچہ خط میں تم نے اپنا نام اور پتہ تو لکھ دیا تھا لیکن جب ہماری ملاقات ہوئی تھی اس دن تم نے میرا نام اور پتہ تو دریافت کر لیا تھا لیکن اپنا نام مجھے نہیں بتایا تھا.میرا ذہین تو تمہارا اخط پڑھنے پریس..طرف جاتا تھا کہ یہ خط تمہاری طرف سے ہوگا.لیکن یہ محض قیاس تھا.آخرہ میں نے خیال کیا کہ چل کر دیکھیں کون صاحب ہیں.ان کے اپنے کوائف یہ معلوم ہوئے.پورا نام آسکہ میر نظر فرائی ہر نان آلسن ان کے والدہ میکسیکو میں جرمنی کے سفیر رہ چکے تھے.خاندانی وطن جرمنی کے شمالی صوبے میں تھا.اپنے صوبے کے موروثی شرفاء میں سے تھے.باپ کے اکلوتے بیٹے تھے لیکن چار بہنیں تھیں ، والدہ فرانسیسی نژاد تھیں اسلئے مادری زبان فرانسیسی تھی اور گھر میں فرانسیسی ہی بولی جاتی تھی.اسلئے بھی کہ ان دنوں رہ ہائش برسلز میں تھی جہاں ان کے واللہ کا صنعتی اور یوقتی کاروبار تھا.جرمنی میں انجینرنگ کی تعلیم کے لئے اس لئے نہیں گئے تھے کہ وہاں داخلے کے لئے جو امتحان پاس کرنا ضروری تھے وہ انہوں نے بعد منی
AF سے باہر رہائش ہونے کی وجہ سے پاس نہیں کئے تھے.لندن داخلہ مل سکتا تھا اسلئے یہاں آگئے اور لندن پر یلیز سے کچھ دور بھی نہیں تھا.یہ سب تفاصیل بیک وقت نہیں بلکہ دو تین ملاقاتوں کے دوران معلوم ہوئیں.انہوں نے اپنے خاندانی رہنے کا خود کوئی ذکر نہیں کیا تھا اور مجھے بھی کوئی ایسی دلچسپی ان امور سے نہیں تھی.ہماری واقفیت کو شروع ہوئے چار پانچ مہینے ہو چکے تھے اور ملاقا تنوں اور خط و کتابت کا سلسلہ قائم ہو جوکا تھا کہ ایک صبح ڈاک آنے پر مسٹر با دوش (جو اس وقت تک منتر فائرن کے ہاں اگر مقیم ہو چکے تھے نے جاکر ڈاک دیکھی اور میرے خط لا کہ مجھے دیدیئے.ان میں ایک خط آسکر کا بھی تھا.جب میں وہ خط پڑھ چکا تو مسٹر بارش نے کہا یہ لفافہ مجھے دکھاؤ.میں نے انہیں لفافہ دیدیا.اس کی پشت پہ ایک کریسٹ تھی اور اس کے نیچے حروف وی اے تھے مسٹر بارش نے کچھ حیرانی سے پوچھا تمہیں معلوم ہے کہ مسٹ یہ نلہ فرائی ہر ہیں ؟ میں نے پوچھا وہ کیا ہوتا ہے.انہوں نے کہا جر من نو ملٹی کا ایک درجہ ہے جیسے انگلستان میں والی کونٹ.پہلے دن جب آسکر ہمارے ہاں آئے اور دراصل میں ہماری پہلی ملاقات تھی تو انہوں نے میرے سیاست بھی دریافت کئے.اور یہ بھی دریافت کیا کہ تمہارا مذہب کیا ہے.میں نے بتلایا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرے جو اس سے انہیں کچھ تسلی ہوئی.بعد میں میں نے ان سے اس سوال کی وجہ معلوم کی تو انہوں نے کہا کہ میں یہودیوں کا مداح نہیں اور میں اطمینان کرنا چاہتا تھا کہ تم من سبا یہودی تو نہیں.وہ قریباً دو نے ٹھرے اور یہ معلوم کرکے کہ منگل اور جمعرات کو میرے لیکچر نگرہ کالج میں چھ بجے شام شروع ہوتے ہیں انہوں نے کہا میرا آخری لیکچر پانچ بجے ختم ہوتا ہے.اورمجھے کچھ دیہ لائبریری میں کام کرنا ہوتا ہے یتم چھ بجے سے کچھ پہلے پہنچ جایا کرو اس طرح ہمیں ہفتے میں دو بار چند منٹوں کے لئے کالج میں ملنے کا موقعہ مل جایا کریگا.ہنتے یا اتوار کے دن اور بعض دفعہ دونوں دن وہ مجھے ملنے کیلئے ہمارے مکان پر آجاتے.ان کی درستی اور یہ فاقت میرے لئے ایک نعمت تھی.وہ میرے قیام انگلستان کے عرصہ میں میرے لئے ایک نہایت شفیق بھائی ثابت ہوئے.بجز اء الله فی اللہ ارین خیرا وہ اللهم الرزقني جليساً صالحا راے اللہ مجھے صالح ہمنشیں عطا فرما) کی قبولیت کا عملی ثبوت تھے.دوستی کا جو عہد انہوں نے شملہ میں باندھا اسے آخر تک نبھایا.یہ عرصہ چالیس سال سے کچھ اوپر تھا.چودھری شمشاد علی صاح بجے شروع جنوری ۱۹۱۱ء میں میں نے ایک خواب دیکھا کہ کسی نے متعلق میرا ایک خواب مجھے ایک کاغذ کا پرزہ دیا ہے جس پر یہ عبارت لکھی ہوئی ہے.دیا شمشاد علی خاں جس کی ذات کے ساتھ اتنی امیدیں وابستہ نھیں ۶ ار ماہ مال کو چل بسا.اسے نوٹ کر لیں
۵۴ ساحل اس میں بہت سے نشان ہیں.چنانچہ میں نے یہ خواب ایک نوٹ بک میں دوستی کر لیا.چو دھری شمشاد علی خاں صاحب کا خط مجھے ہر دوسرے ہفتے با قاعدہ آیا کرتا تھا.اب کچھ پریشانی کے ساتھ ان کے خط کا انتظار رہنے لگا.جب ان کا 14 جنوری کے بعد کا لکھا ہو انخط مجھے مل گیا ان دنوں لاہور سے لندن ڈاک ۱۷ - ۱۷ دن میں پہنچتی تھی تو کچھ اطمینان ہوا.بور نمنتھر کی سیر | اپریل لشراء میں ایسٹر کی تعطیات میں مسٹ باؤ اور میں اور من گئے ہو جنوبی نمنتھ جو ساحل پہ ایک بہت خوشنما شہر ہے.لندن سے بور منھ تک قریب ایک سو میل کا فاصلہ ہے.لندن سے روانہ ہونے سے پہلے ہم نے اپنے ٹھہرنے کا انتظام ایک بورڈنگ ہاؤس میں کر لیا تھا جس کا نام سلوری تھا اور جو ویسٹ کلف گارڈنر میں واقعہ تھا.دو بڑے مکانوں کو اندر سے ملا کر ایک مکان بنا لیا گیا تھا.قریب چالیس افراد کے ٹھہرنے کی گنجائش تھی.مجھے اور مسٹر بارش کو ایک بڑا کمرہ مل گیا تھا تو خاصہ فراخ تھا اور جس میں ہم بہت آرام سے رہے.یہ کمرہ تیسری منزل پر سامنے کی طرف تھا اور گو مکان اب بال نہیں تھا لیکن ہمارے کمرے سے سمندر کا نظارہ صاف نظر آتا تھا.بلکہ میرے پلنگ سے لیٹے لیٹے بھی سمندر نظر نا تھا.اور نتھ اپنی بعض خصوصیات کی وجہ سے بہت پسندیدہ مقام سمجھا جاتا ہے.ایک تو فاصلہ مندی زیادہ نہیں.واٹر ٹو سٹیشن سے ریل دو گھنٹوں میں بور منتھ پہنچا دیتی تھی.دوسرے سمندر کی جانب ایک سلسلہ ٹیلوں کا ہے جن کے نیچے رسیلا ساحل ہے.ٹیلوں پر اور سائل کے ساتھ ساتھ سیر کے لئے کھلی جگہ ہے.جس کی وجہ سے سیر کیلئے آنیوالوں کی کثرت کے اوقات میں بھی بھیڑ کا احساس نہیں ہوتا.تیسرے شہر کے بیچوں بیچ خاصے فاصلے تک باغات کا ایک سلسلہ چلا جاتا ہے جس کی وجہ سے سیر کے مقامات میں ایک قسم کا تنوع پیدا ہو جاتا ہے.چوتھے سردیوں میں موسم اعتدال پر رہتا ہے اور دھوپ کے اوقات کی اوسط دوسرے مقامات کی نسبت زیادہ ہے.ہمارے قیام کے دوران موسم یاں بھی خوشگوا رہا.دو تین با سر باش اور میں بائیسکل کرئے پر لیکر یونارسٹ کی سیر کو گئے ایک دن ہم نے ناشتے کے بعد اور دوپہر کے کھانے کے وقت تک ۴۴ میں سفر بائیسکلوں پر کیا ایسی پہ میں نے مسٹر بانوش سے کہا مجھے پیاس لگی ہے.پانی پیا تو ہے لیکن پاس بھی نہیں وہ باورچی خانے سے ایک پلیٹ میں دو ٹماٹر ےئے اور کہا یہ کھلا ان کے کہے پر پہلی باری نے کچھ ٹاٹر کھایا جس سے میری پیاس بجاتی رہی.اتنے میں دو پہر کے کھانے کی گھٹی ہوئی اور ہم کھانے کے کمرے میں پہلے گئے.کھانا ختم ہونے کے قریب آیا لیکن میں ابھی سیر نہ ہوا تھا مسٹر بارش کی نشست میرے ساتھ ہی تھی میں نے آہستہ سے انہیں کہا میں تو ابھی سیر نہیں ہوا.انہوں نے کہا سامنے غیر مکھن اور روٹی رکھے ہیں جس قدر چاہوٹھا
۵۵ میں نے پہلی بارہ بغیر اس دن کھایا.اس کے بعد تو جب موقعہ ہوتا اور اشتہا ہوتی خوب شوق سے کھانا.ایک دن ہم دوپہر کے کھانے کے بعد بائیسکلوں پر سیر کیلئے نلکے نیو فارسٹ میں چائے کا وقت ہو گیا.ایک جو نبیڑا نظر آیا توسڑک سے کچھ فاصلے پر تھا.ہم وہاں چلے گئے.کھڑکی کے اندر پائے مل سکتی ہے کا اعلان لٹک رہا تھا چائے کے ساتھ کھانے کیلئے مکھن روٹی اور گھر کابنا ہوا ساری تیم تھا.شاید کیک بھی ہو گا.لیکن اس مکھن روٹی اور سٹابری جیم کا مزہ میں اتنک نہیں بھولا.بھوک اور پھر صحت کے زمانے کی بھوک ہر شے کو لذیذ بنا دیتی ہے میری عمر اسوقت ۹ سال تھی اور زیابطیس کے ساتھ میر التعارف ربع صدی بعد ہوا.جب ذیا بیطس کے پر سیز عاید ہو گئے تو اس کے بعد میری طبیعت کبھی ان چیزوں کیلئے نہیں لائی جن کا کھانا پین میرے لئے ممنوع اور غیر طبیب ہو گیا.ملکہ کبھی انکی طرف مائل بھی نہیں ہوئی.فالحمد للہ.اب تو پر نہیر کا دائرہ اور بھی وسیع اور طبیبات کا حلقہ اور بھی محدود ہو گیا ہے.لیکن پھر بھی اتنا وسیع ہے اور اتنی نعمتیں میسر ہیں کہ کبھی محرومی کا احساس نہیں ہوا اور ہر تھمے کے ساتھ شکر وامتنان کے جذبات کا ہجوم ہوتا ہے.جہاز ٹائی ٹینک کیا ا ا ا ا ا اور نہ ہی یہ ہے کہ کالا یا ایک بار کے سلے سے ردانگی کی تاریخ کا اعلان ہوا.اس جہانہ کی بہت شہرت ہو چکی تھی یہ جہانہ اس وقت دنیا کا س سے بڑا جہاز تھا.ہر ستم کے آرام بلکہ تعیش کے سامانوں سے آراستہ تھا.اس کے متعلق دعوی کیا گیا تھا کہ ہیں کی ساخت میں ایسی حفاظتی تدابیر اختیار کی گئیں ہیں کہ یہ عرق ہونے سے محفوظ رہے گا.یہ بھی توقع تھی کہ ساد تھیئین اور نیو یارک کے درمیان تیز رفتاری کا سہرا بھی اس کے سرہے گا.بعد میں اندازہ کیا گیا کہ میں ہوس غالباً اس کے غرق ہونے کا باعث ہوئی.بہت سے مشاہیر امراء شرفاء اور فضلاء اسکے مسافرتی میں شامل تھے.اس کے پیسے نچلے حصے کو جو پانی کے اندر تھا اس طور پر علحدہ علحدہ حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا کہ اگر کسی ایک حصے کو کوئی نقصان پہنچے تو اسے فوراً باقی توی سے علیدہ سر بمہر کر دیا جائے تاکہ بغیرکسی دوسرے حصے پر اثر ہونے کے اس حصے کی مناسب مرمت کرائی جاسکے اور اس اثناء میں جہاز کے بقیہ حصوں اور اس کی رفتار پر کوئی مخالف اثر نہ پڑے.بور نمتھ سے تماشائیوں کا ایک جہاز ساؤتھ میٹن اس جہانہ کی روانگی کا منظر دیکھنے گیا.اس دن کے اخبارات اس جہاز کے مختلف عرشوں اور ان پر میباشد آن نشوں کی عکسی اور لفظی تصاویر سے پر تھے مسٹر باؤنش اور میں ساؤ تھیمپئن تو نہ گئے.لیکن جو کچھ اخباروں میں چھپا ہم نے بہت دلچسپی سے پڑھا.ٹائی ٹینک پر سفر کرنے والے مسافر تو انگلستان کے سب علاقوں سے تھے.ڈائٹ سٹار لائن یعنی جہاز کی مالک کمپنی کے ایکٹے امر کر مسٹر امیری بھی ان میں شامل تھے.لیکن حملے میں کثرت بوی نم تھے
سمتھ کے قریب کے قریب کے شہروں اور علاقے کے لوگوں کی تھی ہو سینکڑوں کی تعداد میں تھے ٹائی ٹینک نے لنگر اٹھایا اور سو تھیمپٹن کی بندہ گاہ میں جتنے بہاز اس وقت لنگر ڈالے تھے رہنے سلامی کے بگل بجائے.اور نعروں اور شادیانوں کے فلک شگاف شور میں یہ بد قسمت جہانہ اپنے پہلے اور آخری سفر پر روانہ ہوا.اس شام اور دوسری صبح کے اختبار اس کی روانگی کی خبروں اور تصویروں سے پر تھے صبح کی اخباروں میں اس کی رفتار اور مختلف مقامات سے گذرنے کی خبرس تھیں.تین دن تک پر اخبارہ میں اس عروس البحر کے سمندر کی لہروں پر خرام نازہ کی خبریں متواتر چھپتی رہیں.اور دنیا اسکی ہر حرکت سے مطلع ہوتی رہی.نصف سے زیادہ مسفرطے ہو چکا تھا اور ٹائی ٹینک ہر ساعت امریکہ کے ساحل کے قریب ہوتا جا رہا تھا.موسم بہارہ تھا.اس موسم میں شمالی برفانی سمندروں سے برف کے پہاڑ کے پہاڑ گرم پانیوں کی طرف بہتے آتے ہیں.اس لئے یورپ سے شمالی امریکہ جانے والے جہاز بجاے سیدھے کنیڈا یا نیو یارک کا رخ کرنے کے جنوب کی طرف حلقہ ڈال کر اپنی مقصو بندر گاہ کی طرف بڑھتے ہیں.بعد میں جو تحقیقاتی کمیشن بٹھایا گیا وہ اس امر کے متعلق کسی بچینہ فیصلے پر نہ پنچ سکا کہ ٹائی ٹینک نے جنوبی حلقے کا رستہ کیوں نہ لیا.اور کیوں نسبتاً سیدھی سمت میں نیو یارک کی طرف بڑھتا گیا.غرض تو واضح تھی کہ سفر کو لمبانہ کیا جائے اور ٹائی ٹینک تیز رفتاری کا سہرا جیت ہے.لیکن یہ معلوم نہ ہوسکا کہ یہ ماشالی رستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کپتان سمتھ نے اپنی زمہ داری پر کیا تھا ا سٹرابیری کی ہدایت پر کپتان سمتھ نے تو ٹائی ٹینک کی گود میں ہی سمندر میں دفن ہونا پسند کیا.اسلئے وہ تو کمیشن کے رو برو آئے ہیں.مسٹرا بیری کو سمندر کی لہروں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور وہ شہادت میں پیش ہوئے.اتناتو انہوں نے تسلیم کیا کہ ان کی خواہش تھی کہ ٹائی ٹینک تیز رفتاری کا سہرا جیت سے اور انہوں نے کپتان سمتھ سے ہاں خواہش کا ذکر بھی کیا تھا.لیکن شمالی استنے کے اختیار کرنے کے متعلق انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا.چو تھے روز و فعتا یہ شہر سنی گئی کہ رات کے پچھلے پہر میں ٹائی ٹینک ایک برف کے بیٹے کے ساتھ ٹکرا کر نصف گھنٹے کے اندر غرق ہو گیا.جلد ہی اس دہشتناک خبر کی تصدیق ہوگئی.معلوم ہوا کہ جب قت نکتہ ہوئی بہانہ پوری رفتار پر جارہا تھا برفانی ٹیلے کے بالکل قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ مکہ اگر یہ ہے.اس وقت کوئی میلہ کارگر نہ ہوسکتا تھا جب نکرہ ہوئی تو برفانی ٹیلے کی نوک نے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جہانہ کا پیٹ چاک کر دیا.تحقیقات سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جان بچانے والی کشتیوں کی جتنی تعداد قانونا لازم تھی اس سے بہت کم کشتیاں جہانہ پر موجود تھیں.اور رات کے اندھیرے اور اچانک آنت میں گرفتا ہو جانے سے جو سراسیمگی پھیل گئی اس میں کئی کشتی الفرق ہو گئیں.عرض یکایک ایک قیامت بر پا ہوگی
بہانہ کے بینڈ والوں نے جب دیکھا کہ اب بچنے کی کوئی صورت نہیں تو مینڈ پر NEARER MY COD" TO THE E کی دھن بجانا شروع کر دی اور اسے بجاتے بجاتے جہاز کے ساتھ ہی سمندر کی تہ میں پہلے گئے.ٹائی ٹینک کے عرق ہونے کی خبر پہنچتے ہی اور منھ میں ایک کہرام مچ گیا.اور متھ سے پورٹ سمتھ تک کے سب شہروں قصبوں اور دیہات میں بیشمار گھروں میں ماتم کی صفین بچھ گئیں.اتوار کے دن سب گریتوں میں اسی موضوع پر وعظ ہوئے.یہ حادثہ ایسا المناک تھا کہ سخت سے سخت دل بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا.ہمارے لندن واپس آنے کے بعد بھی چند دن میں تذکرہ رہا کرتا تھا میس پارسنتر نے ذکر کیا کہ جب ان کے والد نے یہ خبرسنی تو کہا ہیں یہ دعوی کہ ایسا بہا کبھی رن نہیں ہوسکتا یہ تو خدا کوآریانا ہوا بھلا خلا بھی آزمایا جاسکتا ہے.بعد میں کئ بار مجھے اور تمھے جانے کا اتفاق ہوا ہے.گو پھر کبھی سو ہو میں ٹھہرنے کا موقعہ نہیں ہوا.اکثر چائن ہوٹل میں ٹھہرتا رہا ہوں جو PER سے کچھ ہٹ کر بلندی پر واقع ہے جس کے کھانے کے کمرے اور لونج سے سمندر کا نظارہ بہت بھلا معلوم ہوتا ہے.اکتوبر سائر کے آخرہ یا نومبر کے شروع میں میں دہلی میں نھا کہ ایک دن بیٹھے بیٹھے یہ نظارہ ایک جھلک کی طرح ذہین سے گذرا گویا عزیز انور احمد اور میں پائن ہوٹل کے لانچ میں سمندر کی جانب کھڑکی کے پاس بیٹھے ہیں اور دوپہر کے کھانے کے بعد قہوہ پی رہے ہیں اور سمندر کا نظارہ بھی کر رہے ہیں.سمندر بالکل ساکن معلوم ہوتا ہے.سورج چمک رہا ہے.اور سورج کی روشنی کا عکس سمندر پر بہت خوشنما معلوم ہوتا ہے.میں نے عزیز انور احمد سے اس عجیب افعہ کا ذکر کیا اور کہا کہ جنگ کا زمانہ ہے اور بظاہر کوئی ایسا امکان تو نظر نہیں آتا کہ مستقبل قریب میں ہمیں اس ہوٹل میں جانے کا اتفاق ہو لیکن اللہ تعالٰی ہر شے پر قادیر ہے.قریباً ایک ماہ بعد یعنی سر دسمبر کو عین ایسا ہی ہوا.ہم دونوں پائن ہوٹل بور منھ میں پینے کے بعد لونی میں سمندر کی جانب کھڑکی کے پاس بیٹھے قہوہ پی سے تھے اور سمندر کا نظارہ کر رہے تھے.سمندر بالکل ساکن نظر آنا تھا.سورج چمک رہا تھا اور روشنی کا عکس پانی پر بہت بھلا معلوم ہوتا تھا.نسبحان اللہ العلی العظیم.مسٹر جان لیوٹیس چیز سے پہلی ملاقات | مجھے ابھی لندن پہنچے تھوڑا عرصہ ہی ہوا تھا کہ اوائل اکتوبر 191 ء میں ایک سہ پہر جب موسلادھار بارش ہو رہی تھی مکان کے باہر والی گھنٹی بجی الفات سے میں نے ہی دروازہ کھولا.ایک صاحب جو عمر میں مجھ سے ۵ - ۶ سال بڑے معلوم ہوتے تھے بائیکل سنبھالے کھڑے تھے.مجھ سے پوچھا مسٹر خان گھر پر ہیں ؟ میں نے کہا میں ہی ہوں آپ اندر تشریف لا ہے ان کا نام جان لیو میں جلینز تھا اور وہ ویزلین کالج رچمنڈ میں میتھوڈ ٹیسٹ فرقے کا پادری بنے کیلئے
تعلیم یاسے تھے.انسے معلوم ہوا کہ میرا نا اور پینا انہیں اس کرد مویل روڈ سے بھیجا گیا تھا اور خواہش کی گئی تھی کہ وہ وقت نکال کر مجھ سے ملیں کیونکہ میں انگلستان میں ایک نو وایہ دہندوستانی طالب علم ہوں جس کی ابھی یہاں کسی سے واقفیت نہیں.میں نے ان کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے میری خاطر اس قدر تکلیف خصوصاً ایسے موسم میں گوارا فرمائی.چائے کا وقت قریب تھا.انہوں نے چائے کیلئے ٹھہر نامنظور کیا.ان سے معلوم ہوا ان کے والدین لندن کے شمال کی طرف بارنیٹ میں کھیتی باڑی کرتے ہیں.رخصت ہونے سے پہلے انہوں نے مجھے اپنے کالج کا پتہ اور مقام بتایا اور.نے اور اور مجھے چائے کی دعوت دی.تاریخ مقررہ پر میں رچمنڈ گیا.مسٹر بیلیز مجھے سٹیشن پر مل گئے.اسٹیشن پر سے ان کے کالج کا فاصلہ ایک میں سے زائد تھا اور تیز بارش ہو رہی تھی.ان دونوں چھتری کا بہت کم رواج تھا شہر میں کام کرنے والے پچھتری استعمال کرتے تھے.باقی لوگ سردیوں میں اوور کوٹ تو اوڑھتے ہی تھے سر پر بولر ٹوپی پہنے کا رواج تھا.اس ٹوپی پر چھ مہینے بارش پڑتی رہے تو بھی اس کا کچھ نہیں بگڑتا تھا.گرمیوں میں ہر شخص رواٹر پروف کوٹ اپنے باز پہ ڈالے گھرسے نکلتا تھا.ہم دونوں نے اپنے کوٹ کے بٹن گھنے تک بند کر لیے اور چھڑیاں ہاتھ میں لئے کالج کی طرف پھل پڑے آخری نصف میل ریمنڈ بل کی پڑھائی تھی اور بارش کی شدت تیز ملنے پر مجبور کرتی تھی ہم نے یہ سارا فاصلہ گویا ڈبل مات کرکے لئے کیا.ان کا کمرہ خاصا آرام دہ تھا انگیٹھی میں آگ بھل رہی تھی کوٹ تو ہم نے لیک رویے اور کرسیاں آگ کے سامنے کھینچ کر آرام سے بیٹھ گئے.چائے کے ساتھ ان کے گھر سے آیا ہوا کیک بھی منھا.باد سجود بارش میں مارچ کرنے کے ہمارا وقت بہت دلچسپی میں گذرا.چائے کے بعد مسٹر جلینز نے مجھے کالج کے بعض حصے دکھائے.میری واپسی کے وقت تک بارش تھم گئی تھی.اس کے بعد ہمارے درمیان خط و کتابت کا سلسلہ بھی جاری رہا اور جب تک مسٹر جلینر کا لج میں رہے دو دین بار سال میں ہمارے ہاں آتے رہے اور میں ان کے کالج میں جا کہ انہیں ملتا رہتا.مجھے جب بلاتے تو لکھتے کہ گھر سے کیک آیا ہے تم فلاں دن آجاؤ تو خوب ہو.مجھے کیک کا کوئی خاص شوق نہیں تھا.لیکن وہ اکرام ضعیف کے طور پر ایسا لکھ دیا کرتے تھے سالہ کی گرمیوں میں اور سائے کی گرمیوں میں میں ان کے ہاں بارنٹ بھی گیا.ان کے والدین اور بہنیں بہت تباک اور تواضع سے پیش آتے رہے.ان دونوں ابھی بجلی کی ریل بارنسٹ تک نہیں جاتی تھی.گولڈ نہ گرین سٹیشن سے بس پر سجانا ہوتا تھا.ایک مرتبہ تیز بارش ہو رہی تھی شاید مسٹر جلیز کے ساتھ بارش کو خاص رابطہ تھا) نہیں کے اور پر کے عرشے پر چھت نہیں ہوا کرتی تھی.دستور تھا کہ بارش کے وقت خواتین نیچے بیٹھیں تاکہ بارشیں
۵۹ i b سے محفوظ رہیں اور مردار پر بیٹھیں اور بارش کا لطف اٹھائیں.اوہ بارش سے حفاظت کا صرف اتنا سامان ہوا کر تا تھا کہ بدن کے نیچے حصے کو ڈھانکنے کیلئے چمڑے کے اسپرین ہوا کرتے تھے.اوپر کے حصے کی حفاظت اور کوٹ اور بولہ ٹو پی کیا کرتے تھے.ہمارا سفر ایک گھنٹے کے قریب تھا.سارا وقت تیز بارش ہوتی رہی.ان کے گھر پہنچنے پر ہمیں اپنے کپڑے جو بھیگ چکے تھے اتار کر مطلع میں لٹکانے پڑے ایک دن ہم بارنٹ سے سینیٹ البنر گئے وہاں ایک مشہورا ہے ہے.اس دن موسم بہت خوشگوارہ تھا.ہم ان کے ہاں سے دوپہر کا کھانا کھاکر روانہ ہوئے میں نے وضو کر لیا تھا.ہم ہیں پر اوپر کے عرے کی دائیں طرف کی ویسے اگلی نشستوں پر بیٹھے تھے جب نمانہ کا وقت ہوا تو میں نے جیب سے کہا میں اب نمانہ پڑھوں گا اور وہیں بیٹھے بیٹھے میں نے نماز ادا کی کئی سال بعد انہوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ وہ اس بات سے بہت متاثر ہوئے تھے.ساہ کے آخری مہینوں میں انہیں مارا نہ یوں (کار نوال ) میں بطور میتھوڈیسٹ پادری مقر کیا گیا.اس سال کرسمس کی تعطیلات میں میں فالمونتھ کارنوال) گیا.بھیک نے لکھا تم فالموتھ کے قیام کے بعد دو تین دن میرے پاس بھی ٹھہر وہ چنانچہ فالموتھ سے میں ن کے پاس چلا گیا مارا نہ یوں سے سب سے قریب کا ریلوے سٹیشن تین میل کے فاصلے پر تھا.لندن واپسی کیلئے مجھے بہت سویرے ریل پر سوار ہونا تھا.پہلی رات ہم نے پروگرام طے کیا کہ صبح فلاں وقت تک تیار ہو کر ناشتہ کرینگے اور پھر سیدل روانہ ہو جائیں گے میں نے کہا میرا سنگ اٹھانے کیلئے ایک آدمی کی ضرورت ہو گی ابھی سے انتظام کر دنیا چاہیے.بیک نے کہا انتظام کر دیا ہے سال کا آخرہ تھا دن بہت بچھوٹے تھے.ابھی اندھیرا ہی تھا کہ ہم ناشتے سے فارغ ہو کر تیار ہو گئے.میں نے جیک سے پوچھا آدمی آگیا ہے.انہوں نے کہا حاضر ہے اور میرا بیگ اٹھا لیا.میں نے خیال کیا مزد در دروازے کے باہر منتظر ہوگا.باہرآئے تو بیک نے اپنی موٹی چھڑی سنگ کے سینڈل میں سے نکال کر بیگ کو اپنے کندھے پر ڈال لیا.بیگ خاصا بو قبل تھا.میں نے اصرار کیا کہ یہی صورت ہے تو تم باری باری بیگ کو اٹھاتے چپلیں لیکن انہوں نے ایک نہ مانی اور اسٹیشن تک اسی طرح بیگ کو اٹھائے پہلے گئے.بعد میں جب کبھی مجھے انگلستان جانے کا اتفاق ہوتا میں جہاں کہیں ان کی تعیناتی ہوئی ان کے پاس جاتا.ان کی بیوی اپنی منہایت خلیق اور متواضع تھیں اور ہمیشہ بہت تپاک سے پیش آتی تھیں.جیک کو ہندوستان دیکھنے کی بہت خواہش تھی.اس سفر کے لئے موسم سرما موروں ہوتا ہے لیکن ان کے فرائض کے مدنظر انہیں اس موسم میں رخصت ملنے کا امکان نہ تھا.جس میں انہوں نے فیصت کا انتظام کیا.پی اینڈ اور بہانہی کمپنی نے رعائتی شرح کرائے پر ان کے واپسی ٹکٹ کا انتظام کر دیا.ان کے عرصہ قیام ہندوستان میں مینے
++ ہر جگہ یہ انتظام کیا کہ انہیں کہیں بھی ہوٹل میں ٹھہرنے کی ضرورت پیش نہ آئے اور میرے کسی دوست کے ہاں مہمان ہوں تاکہ وہ ہندوستان میں اسلامی معاشرے سے بھی کسی قدر واقف ہو جائیں میسٹ بلیزر جب جنوبی اور وسطی ہند کی سیر کر چکے توہمارے پاس شملے آگئے.کچھ دن وہاں ٹھہرنے کے بعد میں انہیں ے ساتھ پنجاب کشمیر اور صوبہ سرحد کی سیر کیئے لے گیا.ان کی خواہش خالص دیہاتی علاقہ دیکھنے کی بھی تھی.چنانچہ میں انہیں اپنے تنہاں دا تہ زید کا سیالکوٹ لے گیا.جمعہ کا دن تھا چونکہ بہت سے احباب.اردگرد کے مواضعات کے نمازہ جمعہ کیلئے تشریف لے آئے تھے اسلئے نمانہ کا انتظام بجائے مسجد کے در نیتوں کے سائے میں ایک کھلی جگہ میں کیا گیا.جیک کیلئے ایک طرف کرسی رکھ دی گئی.نمانہ کے بعد انہوں نے کہ آج میں نے پہلی بار انسانوں کو اپنے رب کے حضورہ کوع اور سجدہ کرتے دیکھا ہے ہماری عبادت میں تو سر جھکانا نہ یادہ سے زیادہ گھٹنے ٹیک دنیا کافی سمجھا جاتا ہے.کشمیر سے لوٹتے ہوئے ہم ایک رات اوری کے بنگلے میں ٹھہرے.شام کا کھانا کچھ تکلف سے تباہ کیا گیا تھا.شاید خانساماں کو اپنے فن کی نمائش منور تھی.زرمے میں نہ عفران تو استعمال کیا ہی گیا تھا اوپر سونے کے ورق بھی لگائیے گئے تھے.پادری صاحب کو بڑی حیرت ہوئی کہ سونا بھی کھایا جاتا ہے.پہلے تو انہیں یقین ہی نہیں آیا تھا کہ یہ بھی کوئی کھانے کی چیز ہے.ان کا قیاس تھا کہ یہ زردے کی نشتر یا! نرسمہ رکھی گئی ہیں.لیکن جب ہم سب تھیوں کو کھاتے دیکھا تو خود بھی کھالیا.کشمیر کے سفر می کشمیری چائے بھی ان کے لئے ایک عجوبہ تھی.ایک دو گھونٹ پی لیتے تھے لیکن انہیں مرغوب نہیں تھی.دس ہفتے ہندوستان میں گزار کر واپس گئے کیمرہ ساتھ لائے تھے پرانی عمار ہیں اور باغات وغیرہ ان کے لئے بڑی دلچسپی کا موجب تھے.دلی اور آگرے کی شاہی عمارتیں تو ان کے لئے تعجب اور دلچسپی کا باعث ہوئیں.جو تصویریں انہوں نے اتاریں ان کے سلائنڈ تیار کروائے.جہاں جہاں ان کی تعیناتی ہوتی سلائڈوں کے ذریعے اپنے حلقہ احباب میں ہندوستان کے تمدن اور معاشرت میں دلچسپی پیدا کرتے.ان کی آخری تعیناتی نارتھمپٹن میں تھی.ریٹائر ہو کر و این مستقل رہائش اختیار کر لی اور وہیں فوت ہوئے.ناروے کی سیر استاد کی گرمیوں کی تعطیلات کے پہلے حصے میں میں نارے گیا یہ سفر دس گیا؟ دن کا تھا.میں ٹامس کلک کی ایک زائرین کی پارٹی میں شامل تھا.ولسن لائین کے ایک بہانہ پر سوار ہو کر یہ گن پہنچے اور وہاں گرینڈ سہوٹل میں ٹھہرے.بہانہ پر میری شناسائی مسٹر ڈا بیسن اور ڈاکٹر کورٹ سے ہو گئی تھی.اول الذکر ایک سولیسٹر تھے موخر الذکرہ بارک شائر کے رہنے والے تھے اور ڈاکٹری !
کی پریکٹس کرتے تھے.نام کے جانے کے بعد ہم تینوں سیر کیلئے نکلے اور شہر سے باہر ایک جھیل کے کنائے میٹھے کچھ دیر باتیں کرتے ہے مجھےاس سے پہلے اتنی دور شمال کی طرف آنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا ہ تو معلم تھا کہ خط استوا سے شمالاً جنوبا جسقدر دور ہوتے جائیں اس قدر گر میوں میں دن لیے اور سردیوں میں دن چھوٹے ہوتے جاتے ہیں.اس کا کچھ تجر بہ انگلستان میں ہو چکا تھا.ناروے میں دن انگلستان سے بھی لمبا تھا.اگر بچہ ہم ناروے کے جنوبی حصے میں تھے اور یہ زمانہ پہلی عالمی جنگ سے پہلے کا تھا جب گرسیونی گھڑی ایک گھنٹہ آگے کر لینے کی رسم ابھی شروع نہیں ہوئی تھی.پھر بھی جولائی کے وسط میں اسکے وقت اندھیرا نہیں ہوتا تھا اور رات کی نیم روشنی بہت بھلی معلوم ہوتی تھی.دوسرا احساس ہو مجھے اس شام ہوا یہ تھا کہ اگر چہ اندھیرا تو نہیں ہوتا لیکن شام کے بعد بالکل خاموشی ہو جاتی ہے.روشنی کے لحاظ سے طبیعت میں احساس ہوتا ہے کہ ابھی دن کا ہی عمل ہے اور خاموشی رات کی یاد دلاتی ہے.اس حالت میں آوازہ بہت دور دور تک سنائی دیتی ہے اور اس سے طبیعت میں یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنے معمول کے ماحول سے نکل کر ایک اجنبی ماحول میں آگئے ہیں پردیس میں علالت | دوسے دن فجر سے کچھ پہلے ہی مجھے بیعت میں بے چینی محسوس ہونے لگی.نیند کھلنے پر یہ بھی احساس ہوا کہ شاید بخار بھی ہے.میں نے اپنے آپکو بستر سے اٹھنے کے قابل نہ اکہ تھوڑی دیں تو انتظار کیاکہ عارضی نکلی ہے تو شاید کچھ افاقہ محسوس ہونے لگے.لیکن بے چینی اور درجہ حرارت دونوں بڑھنے محسوس ہوئے.اس پر میں نے خادمہ کیلئے گھنٹی بجائی اور اس کے آنے پر اس سے کہا کہ میری طبیعت ناسانہ ہے.مہربانی سے منیجر صاح سے کہیں کہ وہ مجھ سے اگر مل لیں.دو جلد آگئے اور میں نے اپنی کیفیت بیان کی.انہوں نے کہا ہوٹل میں ڈاکٹر موجود ہے میں اسے فوراً بھیجتا ہوں.ڈاکٹر ھاں تھے تونو جوان لیکن انہوں نے توجہ اور ہمدردی سے میرا معائنہ کیا اور نسخہ لکھا اور کہا میں دوائی بھجوا دوں گا.میں نے شکریہ ادا کیا اور نہیں ان کے حوالے کی.دوائی آنے پر میں نے حسب ہدایت دوائی کا استعمال شروع کر دیا.کچھ دیر تومجھے بے چینی اور حرارت میں کوئی فرق محسوس نہ ہوا بلکہ کچھ نہ باری ہی محسوس ہوئی.اس اثنا میں مسٹر ڈاسن اور ڈاکٹر کورٹ مجھے دیکھنے آئے اور ڈاکٹر کورٹ نے میرا معائنہ بھی کیا اور تلی کے الفاظ کہے.ان کے پہلے بجانے کے بعد علاوہ بے چینی اور بخار کی تکلیف کے مجھے شر سے تنہائی کا احساس ہونے لگا اور میرے خیالات کی اور کچھ یوں چلنے لگی :- پچھلے سال میں اپنے ماں باپ بہن بھائیوں دوستوں رفیقوں سے جدا ہو کر انگلستان آیا.بیشک وطن اور عزیزوں سے جدائی کا احساس تھا لیکن بفضل اللہ مجھے کوئی ایسی مشکل پیش نہ آئی جس سے میں
پریشان ہوتا.فالحمد للہ.اپنے مطالعہ کے لحاظ سے میری رفتار تسلی بخش رہی ہے.سرٹامس آرنلڈ میرے متعلق میرے والد صاحب کو اچھی رپوٹ بھیجتے رہے ہیں.والد صاحب ضرور مجھ سے خوش ہوں گے کہ میں اپنے وقت کا ٹھیک ستعمال کر رہا ہوں.والدہ صاحبہ اپنی بے اندازہ محبت کی وجہ سے میرے لئے بہت دعائیں کرتی ہوں گی.حضرت خلیفتہ المیشہ میرے عریضوں کے جواب مجھ ناچیز کو نوازتے ہیں اور بہت ہی شفقت کے والا نا مے ارسال فرماتے ہیں.اب میں انگلستان سے بھی آگے ایک اور ملک میں آگیا ہوں.میں نے انبک حتی الوسع اسلام کے احکام کی پابندیکی ہے میرے خلیفہ المسیح کی ہدایات پریل پیرا رہا ہوں ڈاکٹر صاحبکا خیال ہے کہ مجھے جہانہ پر سردی لگ گئی ہے ممکنہے ایسا ہی ہو.یا کل شام تھیل کے کنارے سردی لگ گئی ہو.لیکن میری طبیعت بہت بے چین ہے.معلوم نہیں اس کی کیا وجہ ہے.بخار تو مجھے پہلے بھی کئی بار ہوا ہے لیکن یہ حالت تو کبھی نہیں ہوئی.سردی لگجانے سے نمونیہ کا آغا نہ بھی ہوسکتا ہے.اس صورت میں مجھے یہاں پچند دن پڑے رہنا ہو گا اور میں آج شام اپنے ساتھیوں کے ہمراہ نارے کے فورڈ نہ کی سیر کیلئے زائرین کے جہان ما را پر نہیں جاسکوں گا.پھر باید ی پر خرچ بھی ہو گا.ہوٹل کا ، ڈاکٹر کا، درائیوں کا امیر پارس زیادہ روپیہ بھی نہیں پھر مں اکیلا ہوں.کوئی ہمدرد ساتھی نہیں.نمونیہ سے لوگ مرتے بھی ہیں ، گھر بار، وطن ، عزیزوں سے بہت دور کس مپرسی اور سیکسی کی موت ہو گی ، ایک بھی تو جاننے والا پانس نہیں ہو گا، جہاں چاہیں گے اٹھا کر پھینک دینگے کسی کو شبہ تک نہ ہوگی ، میری ماں کو معلوم ہو گا تو ان کا کیا حال ہوگا، میں نے تو کبھی گھر خط لکھنے میں ناغہ نہیں کیا ، اب خط نہ ملے گا تو پریشان ہونگی.میرے بیٹے نے پولیس جا کر اتنی جلدی مجھے بھلا دیا، وہ الی تو نہیں تھا معلوم نہیں کسی مشکل میں پھنس گیا ہے، دعائیں کرینگی یا اللہ میرے معصوم پر دیسی کی حفاظت کیجیوں پھر جب اطلاع ملے گی تو غم واندوہ کے درمیان ایک گونہ تیرت بھی ہوگئی، بھلا ولایت تو میں نے سنا ہواہے انگریزوں کا ملک ہے، یہ ناروے کی ہے اور میرا بیٹا یہاں کیا کرنے گیا تھا، معلوم نہیں کسی نے اسے کیا کر دیا، آخر صبر کر کے بیٹھ جائیں گی.مجھ سے پہلے بچوں کی وفات پر صبر کیا تھا.اب اس پر بھی اللہ تعالیٰ صبر دیگا، ہاں مغفرت کی دعا کرتی رہیں گی اور درمیانی عرصہ خواہ کتنا لمبا ہو جائے آخر ملاقات ہوگی اور اس کے بعد بجدائی نہ ہوگی، یہی حال میرے باپ کا ہو گا ، منہ سے تو کچھ نہ کہیں گے لیکن حیران وہ بھی ہوں گے کہ نار سے بھانے کی کیا ضرورت پیش آگئی تھی ، خدا کی رضا کو وہ بھی صبر سے قبول کریں گے.بھائی ابھی چھوٹے ہیں اس خبر سے انہیں صدمہ تو ہو گا لیکن جلد بھول یں گانا یاد رہا جائے گا ہمارا بڑا بھائی تعلیم کیلئے انگستان گیا تھا ادھری کہیں فوت ہوگیا، بہن اٹھارہ سال کی ہیں، وہ شائد زیادہ عرصہ یاد کرتی رہیں شمشاد علی خان کو غم ہو گا، ایک باوفا دوست بدا
۶۳ بعدا ہوگیا.آسکر کو افسوس ہو گا ایک ایشیائی بود دستی کے قابل تھا رخصت ہو گیا.میں گھر سے تعلیم انگلستان آیا تھا ایک سال بھی پورانہ کرنے پایا، تعلیم پوری کر لیا، واپس جانا ، کامیاب بیرسٹر ہو تا ، شادی کرتا بچے ہوتے، ان کی اچھی پردیش کرتا ، نیک نام ہوتا، پھر بوڑھا ہوتا، پھر کیا ؟ پھر بھی یہی ہوتا جو آج سامنے نظر آرہا ہے، کوئی اتنا بڑا فرق تو نظر نہیں آتا کہ ہو ایک دن ہو کر ہی رہنا ہے ، وہ آج ہو یا پچاس سال بعد، بس اتنی ہی حقیقت سے نا زندگی کی ! تو اے اللہ میں تیری رضا پہ راضی ہوں، ہاں تجھ سے اتنی عاجزانہ التجا ہے کہ تو میرے ماں باپ کے دل کی ڈھارس ہو جائیں، ان کی باقی اولاد کو ان کیلئے پیشیوں کا موجب بنائیو، اے اللہ میں تجھ سے راضی ہوں تو مجھ سے راضی ہو جائیں" ہوں ہوں میں اپنے تحمیل میں اپنی عزیز ترین ہستیوں سے رخصت ہوتا گیا زندگی اور موت کی حقیقت اور قدر مجھ پرکھلتی گئی میری مینی سکون سے بدلتی گئی.اس دو تین گھنٹوں کے عرصے میں جب یہ خیالات میرے دل و دماغ سے آہستہ آہستہ گذرتے رہے مجھے اپنی حالت پر ترس آیا نہ میرے دل میں کوئی محنت پیدا ہوئی نہ کوئی آخری تمنا میرے ولیمیں ابھی نہ ماں باپ اور عزیزوں کی یاد سے میری آنکھ تم ہوئی.میں ایک ایک سے رخصت ہوا اور جس جس سے خصت ہونا گیا پھر میرا خیال اس کی طرف نہیں لوٹا.آخر میں میں تنہا بے یار و مدد گا نہ بے کس اور بے بس اپنے رب کے حضور کھڑا ہو گیا اور میرے دل نے بغیر کسی تامل کے کہا.اے اللہ میں حاضر ہوئی اور میں تیری مینا پر راضی ہوں.اس کے ساتھ ہی میں آرام کی نیند سوگیا.شایدمیں گھنٹہ بھر سویا ہوں گا.بیدار ہوا تو میں نهایت نحیف ہو رہا تھا.لیکن مجھے بے چینی کا احساس تھا نہ بخانہ کا.میں آہستہ آہستہ بستر سے اٹھا منہ ہاتھ دھو یا وضو کیا.نماز ادا کی پھر لیٹ گیا.پھر اٹھا اورسمان باندھنا شروع کیا.تمام دن کچھ کھایا پیا نہیں تھا.اسلئے تمام عمر کات نہایت آہستہ اور حد درجہ کمزوری کی تھیں.سامان درست ہوا تو شام کے کھانے کا وقت ہو رہتا تھا.نیچے گیا.اونچے میں مسٹر ڈائین اور ڈاکٹر کو ریٹ مل گئے.تھوڑی دیمان کے ساتھ بیٹھا.دونوں نے بہت اطمینان کا اظہار کیا کہ میں ان کے ساتھ سفر کرنے کے قابل ہو گیا ہوں.ڈاکٹر کورٹ نے کہا میں تمنا سے متعلق متفکر تھا.جب میں نے تمہیں دیکھا تمہاری حالت اچھی نہ تھی.درجہ حرارت تو کچھ ایسا پریشان کن نہ تھا.لیکن تمہاری نبض بے تحاشا تیز اور موجب تشویش تھی.ہم تینوں کھانے کے کمرے میں گئے.انہوں نے تو پورا کھانا کھایا اور میں نے شور ہے اور پھل پر اکتفا کیا.9 بجے شب ہم جہاز پر پہنچ گئے اور میںنماز سے فارغ ہو کر آرام کی نیند سوگیا.فجرکو بیدار ہوا تو فیض الله جابری کا کوئی اثر باقی نہ تھا.جہاز کا نگر نور میں شکر ڈالے تھا.ناشتے کے بعد ہم اوڈا کے قریب ایک آبشار دیکھنے گئے بہانہ پر واپس آنے تک میں بفضل اللہ اپنے آپ کو بالکل توانا اور تندرست محسوس کرتا تھا.فالحمد للہ علی ذالک.
۶۴ میری بیماری کا باعث سردی لگنا ہو یا کچھ اور.میری صحت کی بحالی کے مادی اسباب ڈاکٹر کی توسیہ انکی تجویز کردہ دوائی کی مناسبت اور ناروے کی ہوا کی صفائی ضرور ہوں گے.لیکن جیسے ہر بات کے روحانی اسباب بھی ہوتے ہیں میری بیماری اور بھائی صحت کے روحانی اسباب بھی تھے.اس واقعہ کو ۸ ۵ سال ہونے آئے اس لیے عرصہ میںمجھے ان تمام مراحل سے گذرنا پڑا ہے جوانانی زندگی کے لوازمات میں سے ہیں لیکن موت اور حیات کے مسئلے کے متعلق مجھے کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی نہ میرا دل کبھی موت کے عوف سے ہراساں ہوا ہے.ہاں بعد میں جب خطاؤں اور تقصیروں کا بوجھ بڑھنے لگا تو کبھی کبھی حرفت کے ساتھ زمین میں آتا کہ اسوقت حساب شاید آسان رہتا لیکن ساتھ ہی دل میں آتا کہ تم کون ہو اللہ تعالٰی کے غفران اور رحمت کی حد بندی کرنے والے جس کے ہاتھ میں فیصلہ ہے اس کا اختیار ہے.جب چاہے جس کو چاہے طلب فرمائے.اسکی بخشش ایک پردہ پوشیاں.اسکی ذرہ نوانہ یاں اس کے انعام و افضال کیا بعبادى الذين أسرفوا على النفسيهم لا تقنطوا من رحمت الله ان الله يغفر الذنوب جميعا انه هو الغفور الرحيمہ كا ثبوت نہیں ہیں ؟ اس کی بخشش اور رحمت پر نظر رکھو.جب تک وہ یہاں دیکھنا چاہیے اس کا فضل ہے.جب وہ بلالے اسکی رحمت ہے.نہ تو جانے میں عجلت بچا ہو کہ آخر تمہارے پاس کونسی پونجی ہے جس کے بہتے یہ تم محاضری کی خواہش کرو اور سری روٹی کے ساتھ بار یا بی کی امید رکھو.نہ ہی یہاں دل لگاؤ کہ اس کے بلانے پر تامل، ملال یاحت کا شائبہ بھی پیدا ہو لبيك اللهم لبيك لا شريك لك لبيك كہتے ہوئے اور اس کی رحمت پر یقین داشت رکھتے ہوئے محاضر ہور بھاؤ.اے رب العالمین اسے الرحم الراحمین میرا ہر ذرہ تیری بخشش اور تیرے انسانوں کے بوجھ کے نیچے دبا ہوا ہے.میں تجھ سے بہت بہت راضی ہوں تو اپنی لا انتہا بخشش اور رحمت سے مجھے ایسی گھڑی میں بلا ہو جب تو بھی مجھ سے راضی ہو اور مجھے اپنی بارگاہ میں رسوا نہ کیجیو آئیں.گیارہ سال بعد مجھے ایک کسی قدر مجھے اپریشن کے لئے کلوروفارم دیا گیا جس کا اثر اعصاب پر پڑتا ہے اور کچھ دیر کیلئے اعصاب پر ضبط ڈھیلا پڑ جاتا ہے.طبیعت آہستہ آہستہ ہوش کی طرف لوٹے رہی تھی.میرے آنسو بہہ رہے تھے.دو تین دوست ہو میرے کمرے میں موجود تھے ان میں سے ایک نے پوچھا کیا درد ہو رہا ہے ؟ میں نے سر ہلا دیا کہ نہیں.انہوں نے پھر پوچھا.کیا بیہوشی میں رہتے ہو.اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اللہ تعالی کی رحمت سے نا امید مت ہو.اللہ تعالیٰ سب گناہ بخشتا ہے.وہ بہت ہی بخشنے والا بڑا مہربان ہے.
۶۵ میں نے کہا نہیں ہوش میں آنے پر رورہا ہوں اور یہ شعر پڑھا.ما در پیاله عکس رخ یار دیده ایم اے بے بخیر ز لذت شرب مدام ما اس نیم بیہوشی میں بھی یہی احساس تھا کہ زندگی کی قید سے نکل گئے تھے پھر واپس آگئے.بعد دو پہر جہاز نے لنگر اٹھایا اور فورڈ کی دوسری طرف کو روانہ ہوا.فورڈ کا نظارہ بہت ہی پر لطف تھا.یہ فورڈ نہ سمندر ہی کی شاخیں ہیں جو دور تک خشکی کے اندر پہاڑوں کے بیچوں بیچ چلی جاتی ہیں.ان کے اندر سمندر کے بجوار بھاٹے کا اثر تو پہنچتا نہیں اسلئے بہانہ میں کوئی حرکت محسوس نہیں ہوتی اور پہاڑوں اور درمیان کی وادیوں کے مناظر بہت دلفریب ہوتے ہیں تین چار گھنٹوں کے بعد یکم فورڈ کی ایک اور شاخ میں عید کے مقام پر پہنچے اور یہاں جہاز سے اتر کیر ایک ایک منزلہ ہوٹل میں پہلے گئے.یہ وادی بہت خوبصورت تھی.اور موٹل کے ارد گرد کا منظر بہت دلکش تھا.دوسری صبح ناشتے کے بعد ہم گھوڑا گاڑیوں پر دادی سے پہاڑ کی طرف پڑھنا شروع ہوئے.یہ گاڑیاں ہمارے ملک کے پرانے بمبو کاریٹ کی طرح کی تھیں.فرق یہ تھا کہ علاوہ دو سواریوں کے بہو گھوڑے کی طرف منہ کر کے بیٹھتی تھیں.ایک سیٹ ان کی سیٹ کے پیچھے کو جو ان کیلئے بھی تھی.گھوڑے کی اسیں کو پیو ان کے ہاتھ میں ہو تیں اور وہ اپنی سیٹ سے میٹھے میٹھے گاڑی ہانکتا.راسیں دونوں سوار یونکے درمیان سے گزرتیں.صبح کے وقت ہوا میں کچھ خنکی تھی لیکن ہوا نہایت لطیف اور صاف تھی میٹرک بل کھاتی ہوئی جنگل میں سے بلندی کی طرف جارہی تھی اور سارا سماں بہت ہی پر لطف تھا.دوپہر کے وقت ہم کو اس پہنچے.لب سڑک ایک ہوٹل تھا.جس کی عمارت لکڑی کی بنی ہوئی تھی، چاروں طرف جنگل کا سبزہ اور درخت تھے.کوئی اور آبادی یہاں سے نظر نہیں آتی تھی.ہم گاڑیوں سے اتر کہ تھوڑی دیر ادھر ادھر ٹہلتے رہے.پھر ہاتھ منہ دھو کر دوپہر کے کھانے کیلئے تیار ہو گئے.کھانا تھا تو بالکل سادہ (ابلی ہوئی مچھلی ، گرم کئے ہوئے مکھن کی ساس ، ابلے ہوئے آلو ، تازہ سٹابری اور کریم، لیکن ہر نے نہایت لذیذ تھی جسے بھوک نے لذیذ تر بنا دیا تھا.کھانے کی افراط تھی.ہوٹل والوں کو ضرور علم ہو گا کہ منگل کی صاف ہوا اور پہاڑ کا منظر بھوک کو بہت تیز کر دیتے ہیں.اس احساس کے ماتحت سٹابری کیلئے بھیٹی قشتریاں نہیں بلکہ گہری مشتریائی مہیا کی گئی تھیں.مہمانوں نے بھی میز بانوں کی تواضع کی خوب داد دی.معلوم ہوا اس ہوٹل کے کھانے کی بڑی شہرت ہے.دیواروں پر بجا بجا بادشا ہوں ، شاہی خاندانوں کے افراد اور مشاہیر کے تعریفی خطوط آویزاں تھے جن میں بہت پسندیدگی
۶۶ کا اظہارہ کیا گیا تھا.یہاں کچھ ستالینے کے بعد ہم پھر روانہ ہو گئے.گھنٹہ ڈیڑھ کی مزید پڑھائی کے بعد ہم ایک نہایت خوشنما وادی میں پہنچے جو ایک میدان کی مانند کشادہ اور ہموار تھی.انش کی وادی کے وسط میں ایک قصبہ فرامنوس تھا جہاں ہم چائے کیلئے ٹھہرے.اور گھنٹہ بھر کے مزید سفر کے بعد ہم وادی کے دوسرے سرے پہرہ تو کسی قدر بلندی پر تھا شمال سیم پہنچے اور اسی نام کے ہوٹل میں اتر پڑے.اسوقت یہ ہوٹل بھی لکڑی کا بنا ہوا تھا.سچند سال ہوئے میں نے اخبار میں ہوئی کی عمارت کے مل جانے کی خبر ٹی بھی.اب اس کی نئی عمارت غالباً پتھر کی ہے.پھر بھی بہت سا حصہ لکڑی کا ضرور ہوگا.کیونکہ ناروے کے مضافات میں اثر عمان میں ابھی تک لکڑی کی ہیں.اس ہوٹل کے چاروں طرف نظارہ نہایت پر فضا تھا.ہم کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد بہت دیہہ تک ارد گرد کے مناظر سے لطف اندوز ہوتے رہے اور میرے دل سے صانع قدرت کی تبیع اور حمد بند ہوتی رہی سبحان الله وبحمل لا سبحان الله العظيم - اگلی صبح ہم ناشتے کے بعد گڈو انجن جانے کیلئے روانہ ہو گئے سڑک اتنی ڈھلوان تھی کہ جلد ہی ہم گاڑیوں سے اتر گئے اور پیدل چلنا پسند کیا.ڈھلوان کے ختم ہونے پر گاڑیوں میں میٹھے گئے اور گڈو انجن پہنچ کر پھراپنے جہانہ پر سوار ہو گئے.اب ہم سوگن فورڈ میں سے جارہے تھے.اس فورڈ کے نظارے بار ڈنگر فورڈ کے نظاروں سے مختلف تھے.ارد گرد کے پہاڑ زیادہ بلند تھے تھوڑے " تھوڑے فاصلے پر بلندی سے گرتی ہوئی آبشاریں سامنے آتیں اور غائب ہو جاتی تھیں.شام کے کھانے سے پہلے تم قبل پولین پہنچ گئے.ہوٹل کے سامنے کچھ فاصلے پر وار میں جرمنی کے قیصر وسیم ثانی کا YACHT 7 لنگر ڈالے تھا.قیصر خود اس میں فروکش تھے.دور ہے دن سہ پہر کو ہم تینوں سیر سے ہوٹل کی طرف واپس آرہے تھے کہ سامنے سے بری در دریوں میں پانچ چھ افراد آتے دکھائی دیئے تین آگے تھے اور دو یا تین پیچھے تھے.راستہ تنگ تھا اور صرف تین آدمی ایک قطار میں سہولت سے پھل سکتے تھے.اگلی قطار کے وسط میں جو صاحب تھے وہ اپنے دونوں ساتھیوں سے نصف قدم آگے آگے تھے.قریب پہنچنے پر ہم نے پہچان لیا کہ قیصر ولیم ہیں.جب ہم بالکل قریب آگئے تو ان کے ساتھیوں میں سے ایک جو قیصر کی بائیں طرف پھل رہے تھے مجھے ہٹ گئے.ہم ایک دوسرے کے آگے پیچھے ہو گئے اور اس طرح سہولت سے دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کے پاس سے گزر گیئیں.جرمن پارٹی کی آوازوں سے معلوم ہوتا تھا کہ ان کی آپس کی گفتگو بے تکلفانہ تھی.اس ہوٹل کے باغیچے میں بڑے خوبصورت سفید گلا کے پھول کھلے ہوئے تھے.میں نے اتنے بڑے گلاب کے پھول پہلے نہیں دیکھے تھے.ان میں
مہک تو بالکل نہیں تھی لیکن رنگ بہت خوشنما تھا.دورات اور ایک دن یہاں گزار کہ ہم عام مارو کے بہانہ سے یہ گن واپس آگئے.یہاں سے پارٹی کے بعض افراد ریل پر آسکو پچھلے گئے اور باقی میں رستے سے آئے تھے انگلستان واپس ہو گئے.میں ہل سے بذریعہ ریل ایک ڈسٹرکٹ کے علاقے میں نسٹن چلا گیا اور مسٹر اور مسز کو وارڈ کے ہاں ٹھہرا.چند دنوں کے بعد مسٹر محمد حسن بھی لندن سے آکر میرے ساتھ شامل ہو گئے.ہمارا یہ معمول ہوگیا کہ ہم ناشتے اور دوسپر کے کھانے کا درمیانی وقت تو مطالعہ میں صرف کرتے اور دوپہر کے کھانے کے جلد بعد سیر کے لئے نکلتے.آٹھ دس میل تیز پینے کے بعد کہیں چائے کے لئے ٹھہرتے اور وہاں سے واپس آجاتے.شام کا کھانا گھر پہنچ کر کھاتے انگلستان کے مشہور فلاسفر ریکن کامکان تجھیل کانسٹن کے کنارے پر واقعہ ہے.ایک دن تم نے ائیر پر جھیل کی سیر کی اور اس مکان کے قریب سے گذرے جب کانسٹن میں ٹھہرے ہوئے ہم قریب کے مکانات دیکھ سکے تو ہم نے اپنی جائے رہائش کر اس میر میں منتقل کر لی.یہ جگہ لیک ڈسٹرکٹ کے وسط میں ہے.اور ایک خوبصورت وادی میں واقعہ ہے.مشہور عر ولیم ورڈ سورتھ نہیں رہا کرتے تھے.ہمارا امکان ان کی جائے کہ ہائش روز کالج کے بالکل قریب تھا جیسے ورڈ سورتھ کے مداح بڑی تعداد میں ہر روز دیکھنے آتے تھے.گو اس میٹر تک ریل نہیں آتی تھی.قریب ترین ریلوے اسٹیشن آٹھ میل کے فاصلے پر تھا.ہمارے مکان میں ایک خادمہ ایسی بھی تھی میں نے ابھی تک ریل نہیں دیکھی تھی.اگر چہ بائیکل اس کے پاس تھی اور اگر چاہتی تو اتوار کے دن آسانی سے سہ پہر کے دوران میں اس کمی کو پورا کر سکتی تھی.لیکن ایک لحاظ سے خوش سخت تھی کہ اس کی تمام دلچسپیاں اس کے گاؤں تک محدود تھیں اور وہ اپنے حال میں خوش تھی.بڑی بشاشت سے اپنے فرائض کو سرانجام دیتی تھی ہم نے کبھی اس کے چہرے پر ملال یا افسردگی کے آثار نہ دیکھے.گر اس میٹر سے تین چار میل کے فاصلے پر شمال مشرق کی طرف ایک پہاڑ ہے.ہم نے سر ہو گنوک کا واقعہ سنا ہوا تھا.اور نظم میں تھی پڑھا تھاکہ ایک سر پر وہ اس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنے کے شوق میں نکلے.ان کا کتا بھی ان کے ساتھ تھا.ہوٹی پر پہنچے تو ایک ایک ایک یہ خانی با دل نمودار ہوا.برف گرنا شروع ہوئی اور راستہ دیکھنا دشوار ہوگیا.پہاڑ کی چوٹی پر کسی قسم کی اوٹ یا جائے پناہ نہ تھی.بہ باری بڑھتی گئی اور ساتھ ہی سردی کی شدت بھی پڑھتی گئی اور اندھیرا ہونا شروع ہو گیا.سر سویٹ گئے اور ان کا کتا ان کے اوپر لیٹ گیا کہ اپنے جسم کی عمارت سے اپنے آقا کے جسم کو گرمی پہنچا سکے لیکن.." بہ خباری تمام رات جاری رہی اور صبح ہونے تک آقا اور کتا دونوں مرچکے تھے.سال بھر میں متعدد
۲۸ " ایسے واقعات اس پہاڑ کی چوٹی پر یا اس کے آس پاس ہوتے رہتے تھے.لیکن زیادہ تہ سردیوں کے موسم میں ہمارا قیام گرا سمیٹ میں آخر اگست شروع ستمبر میں تھا.ہمیں بھی شوق ہوا کہ اس پہاڑ کی چوٹی پر جائیں.ایک سہ پہر جب مطلع بالکل صاف تھا.بادل کا کہیں نام و نشان نہ تھا.درجہ حرارت نسلی بخش تھا اور سب حالات موافق نظر آتے تھے.ہم نے بھی پہاڑ کی چوٹی کا قصد کیا اس خیالی سے کہ جب پڑھائی مشروع ہوگی تو گرمی سے طبیعت پریشان ہوگئی ہم نے چاہا کہ اپنے بارش والے کوٹے ساتھ نہ لے جائیں.لیکن عادت کی پابندی نے ساتھ دیا اور ہم انہیں لیتے گئے.سڑک چھوڑ کر پگڈنڈی پر ہو لئے اور چڑھائی شروع ہو گئی.ہوئے اور راستہ کوئی الیسا د شوالہ گزارہ نہیں تھا لیکن پڑھائی خاصی تھی.پسینہ آنا شروع ہوا اور کوٹ کا اٹھانا زحمت معلوم ہونے لگا.لیکن اب انہیں کہیں چھوڑنے کی صورت نہ تھی.ہم چوٹی پر پہنچے.ہوا میں کچھ خنکی تھی لیکن سورج چمک رہا تھا.اور الہ دگردہ کا نظارہ دلفریب تھا.ہمیں چوٹی پر پہنچے چند منٹ ہی ہوئے تھے اور ابھی ہم پوری طرح ادھر ادھر دیکھ بھی نہیں پائے تھے کہ ایک ایک ایک بادل اٹھا اور تیزی سے پچوٹی کی جانب بڑھ کر اس کے اوپر بچھا گیا اور اولوں کی سخت بو جھاڑ ہونے لگی.ہم نے جلدی سے کوٹ پہن لئے.ہوا استقدر تیز تھی کہ ہم کھڑے نہ رہ سکتے تھے.جس جگہ ہم کھڑے تھے وہ جگہ چٹیل تھی کوئی اوٹ میسر نہ تھی.ناچارہ ہم پاوں کے بل بیٹھ گئے اور پیٹھ ہوا کی طرف کر دی.اولوں کی بوچھاڑ میں اسقدر شدت تھی کہ دو تین منٹ بعد جب میں نے اپنا ہا تھ چہرے پہ رکھا تو نہ ہاتھ میں کوئی جس کھتی نہ چہرے ہیں.یہ کیفیت کوئی چارہ پانچ منٹ ہی رہی پھر دفعتنا بدل گئی.اولوں کی بوچھاڑہ ختم ہو گئی، بادل غائب ہو گیا سورج چکھنے لگا.ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم نے سب ڈ کی کافی سیر کر لی ہے.اب جلد سے جلد نیچے اترنا چاہیے.چنانچہ ہم نے سیدھے سڑک کی طرف اتنہ ناشروع کیا.پگڈنڈی کو الگ چھوڑ دیا.اولوں کی وجہ سے سردی.کی ایسی شدت ہو گئی تھی کہ ہمارے ہا تھ اور چہرے شل ہو گئے محسوس ہوتے تھے.اور ہماری ایک ہی خواہش تھی کہ ہم جلد نسبتا گرم ہوا میں مہنچ جائیں.سیدھے اترنے کا کوئی راستہ تو تھا نہیں.ہم کو دیتے پھاندتے پھیلتے چٹانوں کے گرد ہو کر تیزی سے نیچے آگئے.دو تین منٹوں میں مجھے ایسا محسوس ہونے لگا کہ میرے چہرے سے شعلے نکل رہے ہیں.کچھ تو ہوا کی تنگی کم ہو رہی تھی.کچھ تیزی سے اترنے سے خون کا دورہ تیز ہور ہا تھا.اور کچھ اولوں کے تھپیڑوں کا ردعمل تھا.تخمینا دس پندرہ منٹ کے اندر ہم سڑک پر پہنچ گئے.اور تیزی سے گرا سمیٹر کی طرف پانچ کرنا شروع کر دیا.ابھی ایک سینہ پھلے ہوں گے کہ سٹرک کی بائیں جانب سٹرک سے تین چار فرلانگ ہٹ کر ایک کائی نظر آئی.مسٹر محمد حسن نے کہا امید ہے یہاں چھائے بل سکے گی.میری طبیعیت نڈھال ہو رہا ہے گرم چائے سے بحال ہو جائے گی اور کچھ سنتا بھی لیں گے.میںنے
49 کہا آپ میشک جائیں لیکن میں چاہتا ہوں کہ جلد مکان پر پہنچ کر گرم پانی سے غسل کروں اور کپڑے بدل لوں میری جرابیں اور جوتا بھیگ گئے ہیں.انہیں بہت جلد انار دینا چاہتا ہوں.چنانچہ انہوں نے کا بٹ کا رخ کیا اور میں اور بھی تیزی سے گرا سمیٹر کی طرف بڑھتا گیا.مکان پر پہنچ کر غسل کیا کپڑے ہد سے اور چائے منگائی میں بڑے آرام سے بیٹھا چائے پی رہا تھا کہ مسٹر محمد حسن بھی پہنچ گئے.چہرے پر شگفتگی کے کوئی آثار نہ تھے.میں نے دریافت کیا چائے مل گئی تھی ؟ کہا وہاں تو وقت ہی ضائع ہوا وہ ایک دہقان کا جھونپڑا تھا.چائے تو مل جاتی لیکن وہ ہفان کی بیوی حالت نہ لگی میں تھی اور وہ لوگ معذورہ تھے میری طرف توجہ کرنے کی انہیں فرصت نہ تھی.اب سامنے بچائے دیکھ کر مطمئن ہوئے.اور میرے ساتھ شامل ہو گئے.گیا سمیٹر کے گردو نواح میں جو مقامات دیکھنے یا سیر کے تھے جب ہم دیکھ سکے.تو ہم کانسٹن واپس چلے گئے.ایک رات ٹھہر کہ مسٹر محمد حسن تو واپس لندن پہچلے گئے اور میں ڈگلس (آئل آف مین چلا گیا جہاں میں مسنر کہ سیچان کے ہاں ٹھہرا.اس سارے بنہ میرے میں آبادی کے کم سے کم ایک چوتھائی حصے کا نام کر سیچین تھا.ان ایام میں مسٹر ہال کین ناولسٹ کی اچھی شہرت تھی اور وہ وہیں کے رہنے والے تھے.ان کا مکان ڈگلس سے چند میل کے فاصلے پر تھا.اندر سے دیکھنے کا تو مجھے موقعہ نہیں ملا صرف باہر سے ہی دیکھ سکا.کوچ او نہ بجلی کی لدیل سے میں نے اس بند میجرے کے سب قابل دید مقامات دیکھ لئے اور بحری جہانہ سے بت بیرے کے گرد بھی ہو آیا.گرمیوں میں مانچسٹر اور لورہ پول کے علاقے سے بڑی کثرت سے لوگ یہاں آتے ہیں اور جنہیرے کی آبادی میں بہت اضافہ ہو جاتا ہے.اس بات کا ہمہ ہیرے کی خوشحالی میں بہت دخل ہے.میں شاید چند دن اور یہاں ٹھہرتا لیکن میں پاری سنز نے لندن سے لکھا کہ تمہیں گئے دو مہینے ہو گئے.تم نے بہت لمبی چھٹی منالی ہے اب واپس لندن آجاؤ اور ساتھ ہی دھمکی دی کہ اب ہم تمہاری ڈاک تمہیں نہیں بھیجیں گے میں ان کا خط ملنے کے دوسرے دن ہی واپس لندن روانہ ہو گیا.چند دن بعد میں بار کے رومن لاء کے امتحان میں شامل ہوا اور بفضل اللہ پاس ہو گیا اور اس طرح انگلستان میں میری تعلیم کا پہلا سال مکمل ہو گیا.سردار محمد اکبر خاں صاحب سردار محمد اکبر خان صاحب نے بیرسٹری کا کورس مجھ سے ایک سالی پہلے شروع کیا تھا.ان کے بڑے بھائی محمد صدیق باہر صاحب بھی ان کے ساتھ ہی بیرسٹری کیلئے انگلستان گئے تھے.یہ دونوں شیخ اصغر علی صاحب آئی سی ایس کے بھانجے تھے سردار محمد اکبر صاحب خوش شکل اور وجیہہ جوان تھے.نہایت خوش معلق تھے.اور میرے ساتھ بڑی محبت سے پیش آتے تھے.اپنے لباس
اور دومنع قطع کا خاص خیال رکھتے تھے.مطالعہ کی طر استقدر توجہ نہیں تھی بار کے ایک امتحان کی تیاری کیلئے انہوں نے خیال کیا کہ اگر ہمارے مکان میں آجائیں تو انہیں کچھ سہولت ہو جائیگی.انہوں نے مستر فائزن سے دریافت کیا.کوئی کمرہ خالی ہے یا جلد خالی ہونیوالا ہے ؟ مسنر فائزن نے کہا کمرہ تو ایک خالی ہونے والا ہے لیکن میں نے ظفر اللہ سے کہ رکھا ہے کہ میں اس سے پوچھے بغیر کسی ہندوستانی طالب علم کو اپنے ہاں نہیں رکھوں گی.اسلئے اگر تم یہاں آنا چاہتے ہو تو میں اس سے دریافت کروں گی.مستر فائرین نے مجھ سے پوچھا.مجھے انگلستان آئے ایک سال سے زائد ہو گیا تھا.کچھ نیک وبد کی تمیز بھی ہوگئی تھی.انگریزی شرفاء سے میرا میل جول تھا.ہندوستانی طلباء سے زیادہ تعلقات نہیں تھے.حضرت خلیفہ المیے کی نصیحت پر کاربند تھا.سردار محمداکبر خانصاحب کو اچھی طرح جانتا تھا.وہ شریف گھرانے کے خوش اخلاق نوجوان تھے.بورڈنگ ہاؤس کا کا ردو بار سن فائین کا ذریعہ معاش تھا.مناسب تھا کہ میں ان پر کوئی بے جا پابندی عاید کرتا.چنانچہ مں نے ان سے کہہ دیا کہ وہ بڑی خوشی سے سردار صاحب کو کمرہ دیدیں بند دن بعد وہ نقل مکان کر کے ہمارے ہاں آگئے.سردار محمد اکبر خاں صاحب کی کرسمس شاہ کی تعطیلات کے دن قریب آئے تو سردار معیت میں البیسٹ بورن کی سیر صاحب نے مجھ سے پو چھا کہاں جانے کا ارادہ رکھتے ہو.بہتر ہو اکٹھے کہیں چلیں.میں نے کہا میں تو کار نوال جانے کا ارادہ رکھتا ہوں.غالباً فالمو تھ جاؤنگا اگر آپ بھی پسند کریں تو بڑی خوشی سے میرے ہمراہ چلیں.انہوں نے کچھ نام کیا اور کہا کان نال بہت دور ہے کوئی قریب کا مقام انتخاب کرد.دو تین دن بہ تذکرہ ہائے کہاں ہوتا کہ ہا.ان کی خواہش الیسٹ بورن جانے کی تھی اور میر کی طبیعت وہاں جانے پہ مائل نہ تھی.آخر انہوں نے کہا چلو ہیٹینگز چلے چلیں.میں مان گیا.جو سنی میں نے بیٹنگز کے متعلق رضامندی ظاہر کی تو مسکرا کر کہنے لگے اب تم نے فالموتھ جانے پر تو اصرار چھوڑ دیا پھر وہیں کیوں نہ چلیں جہاں میں جانا چاہتا ہوں.کیوں ایک تیسری جگہ جائیں ہو نہ کہیں پسند تھی نہ مجھے پسند ہے.مجھے ان کی اس جھالا کی پر ہنسی آئی اور میں نے کہہ دیا اچھا الیسٹ بورن ہی پہلے میںنے پلتے ہیں.الیسٹ بورن میں ہم ساحل سمندر پر ایک پرائیویٹ ہوٹل میں ٹھہرے ہم دو ہفتے ٹھہرنے کے ارادہ سے گئے تھے.لیکن میری طبیعت مجلد اکتا گئی اور میں ایک ہفتہ ٹھہر کر واپس لندن چلا گیا.دو تین دن بعد..سردار صاحب بھی واپس آگئے.امتحان کرسمس سے پہلے دے پچکے تھے.کامیاب نہ ہوئے.مجھے پوچھا تمہیں معلوم ہے میں کیوں پاس نہیں ہوا ؟ میں نے کہا آپ ہی بتائیے.کہنے لگے وجہ تو ظاہر ہے اس مکان کا نمبر ۱۷۵ ہے.میں نے دریافت کیا اس کا امتحان کے نتیجہ کے ساتھ کیا تعلق ہوا ؟ کہا صاف تعلق ہے ۷۶۵؛ اگل
تیرہ ہوئے ہو منحوس نمبر ہے ! میں نے کہا میں نے تو ایک سال کے دوران اس مکان میں رہنے ہوئے پانچ امتحان پاس کئے ہیں.چار بار کے پہلے حصے کے اور ایک انٹر میڈیٹ ایل ایل بی کا.جب بھی امتحان میں بیٹھتا ہوں فضل اللہ پاس ہوتا رہا ہوں.ایک بار بھی فیل نہیں ہوا، کہنے لگے تم ان باتوں کو مانتے نہیں ہو اسلئے تم پر اثر نہیں ہوتا.میں نے کہا تو آپ بھی نہ مانا کریں.اس پر سر ہلا کر خاموش ہو گئے لیکن مکان بدل لیا تا ہم ہماری رفاقت جاری رہی.سوئٹزر لینڈ اور شمالی اٹلی کی سیر سی کی ایسٹر کی تعطیلات میں میں ٹامس لک کے ایک زائرین کے قافلہ کے ہمراہ سوئٹر نہ لینڈ اور شمالی اٹلی کی سیر کو گیا.لندن سے ایک شام روانہ ہو کر ہم دوسری صبح B ASLE پہنچے.یہاں ناشتہ کیا ہو انگلستان کے ناشتے سے ہلکا تھا.صرف قہوہ ، رولز ، مکھن ،ماشہد یا مرتبہ.یہاں کے رولنہ انگلستان کے ٹوسٹ کی نسبت زیادہ لذیذ تھے.ناشتے کے بعد ہم شہر کی سیر کو گئے ، بلندی سے دریائے لائین کا نظارہ بہت بھلا معلوم دیتا تھا اور پانی بہت شفاف تھا.جنودا - مرد پیر کو ہم پھر ریل پر سوار ہو گئے اور جنودا (اٹلی ) گئے یہ شہر کرسٹوفر کولمبس کا مولد ہے.ریل کے اسٹیشن کے باہر کو لمبس کا ایک بہت بڑا مجسمہ نصب ہے.یہاں ہوٹل میں ہمارا قیام ہوا.دوسرے دن شہر کے قابل دید مقامات دیکھے.قصر ابیض، قصر احمر ، ولانا ڈی نیگری ، میدان مقدس یعنی قبرستان جس میں سنگ مرمر کی بہت سی خوبصورت اور قابل دید یاد گاریں ہیں.یہ شہر آگئی کی مشہور بندر گاہ بھی ہے.بعد میں مجھے موٹر پر اس شہر سے گذرنے کا اتفاق تو ہو ا ہے لیکن پھر بیاں ٹھہرنے کا موقعہ نہیں ملا.پیزا - جنودا میں دورات اور ایک دن ٹھہرنے کے بعد ہم پھر روانہ ہوئے اور پیرا ٹھہرے.یہ بہت پیرانا شہر ہے.صرف گر جا اور LEANING TOWER قابل دید آثار ہیں.اس ٹاور کے متعلق اب خدشہ ہے کہ گرنے کو ہے.اسے مضبوط کرنے کی بجو نہیں ہو رہی ہیں.مجھے بعد میں کبھی میرا جانے کا اتفاق نہیں ہوا.فلور نیں.پیزا سے ہم اسی دو سپر فلور نیں پہنچ گئے اور ہوٹل میٹرو پول میں قیام ہوا.یہ شہر شائقینِ فنونِ لطیفہ کیلئے بہشت سے کم نہیں.فلور میں میڈیچی سخاندان کی فیاضی اور عظمت کی یاد گار ہے یہ خاندان صرافے کے پیشے سے DUCAL رہتے تک پہنچا.فلوری نہیں کی حکومت سنبھالی.اس کے افراد کلیسا کے سردارہ ہوئے اور بعض ان میں سے پاپائے اعظم کے تخت پر بھی ممکن ہوئے.شاہی خاندانوں
۷۲ ** کے ساتھ رشتے داریاں ہوئیں.کیتھرین دی میڈ یکی کے چھاپاپائے اعظم تھے.اس کی شادی فرانس کے شاہی خاندان میں ہوئی.خاوند اور تین بیٹے یکے بعد دیگرے فرانس کے تخت پر بیٹھے.داماد لبعد میں فرانس کا مشہور شاہ مہینری چہارم ہوا.جس سے بور بون خاندان کی ابتداء ہوئی.اگر چہ نیری چہارم کی نسل کیتھرین کی بیٹی شہزادی مارگریٹ سے نہیں چلی ملکہ اسکی در سمری ہیوی میری دی سیڈی کی سے چلی کیتھرین ایک بد طالع عورت ثابت ہوئی.اس کے ہاتھوں بہت ظلم ہوئے اور اسے بہت سے صدمات اٹھانے پڑے.وہ نہایت سخت دل اور متعصب خاتون تھی.یوم سینٹ بار تھیلو میو پر پیرس اور فرانس کے چند اور شہروں میں ہو جو نو فرقے کے عیسائیوں کا قتل عام ہوا وہ اسی کے سیاہ کا یہ ناموں میں سے ہے.تاریخ میں اس نے اچھا نام نہیں چھوڑا.فلور نیں کے شہر میں قدم قدم پر میڈیجی خاندان کی فنون لطیفہ کی فیاضانہ سر پرستی کا ثبوت ملتا ہے.مصوری کے دل لبھانے والے نمونوں سے محلات یو فیزی اور بیٹی کی کئی منزلیں اٹی پڑی ہیں.فن سنگتراشی میں پیا ز اسگنوریا کانانی دنیا بھر میں کہیں نہیں ملتا.فن تعمیر میں شہر کا گر بھا اور دوسرے محلات توسعہ کے جاذب بنتے ہیں.دریائے آلہ نو کے پی بھی اپنی نوع کے عمدہ نمونے ہیں.پیٹی اور یو فیزی محلات کے درمیان کا دو منزلہ پل ایک عجوبہ ہے.شارع کولی کے مختلف مقامات سے شہر کے پر لطف مناظر نظر آتے ہیں.پیازا مائیکل انجلو محنت نگاہ ہے.اس کے پاس ہی مائیکل انجلو کے فن سنگ تراشی کے مشہوارم شاہکار ڈیوڈ کا مشنی بارہ بارہ توجہ کو اپنی طرف کھینچ کر محو حیرت کرتا ہے.فلورنہیں کے مضافات میں ائی کو بھی ایک قابل دید مقام ہے.یہاں پرانے رومن وقتوں کے تھیٹر اور دیگر عمارتوں کے آثار موجود ہیں.اور یہاں سے بھی خوبصورت مناظر نظر آتے ہیں.پیانہ اسگنورہ یا شہر کے بالکل وسط میں ہے اور شہر میں پھرتے ہوئے بار بار یہاں سے گزرنا ہوتا ہے.اور ہر بار نگاہ یہاں کسی نئے جس سے دو چار ہوتی ہے.بعض دفعہ روشنی کا زاویہ بدلنے سے ہی ایک نیا حسن ظاہر ہو جاتا ہے.فلوریں کا وسطی حصہ نہمانہ حال کی جدت طرازیوں کی دستبرد سے محفوظ ہے.اور امید کی جا سکتی ہے کہ محفوظ ہی رہے گا.سوائے اس کے کہ ایٹمی طاقت کی بے پناہ یورش اسے اور اس کی تمام مادی میتوں کو کسی وقت مجید برزا چٹیل میدان) بنا کہ رکھدے.موجودہ حالت میں اس کا ہر منچھر اور اسکی ہر انیٹ فلور نہیں کی تاریخ کے شاہد ہیں.اور فلور نیس کی تاریخ قرون وسطیٰ کی اطالوی تاریخ کا مرقع اور خلاصہ ہے.انسانی طبیعت کی ادنیٰ سے ادنی میں سے ہر ایک اور اعلیٰ میں سے بعض کی تو انہوں کے حیرت انگیز کرشموں کی یادگار ان اینٹوں اور پتھروں پر ثبت اور ان میں مرکوز ہے.دیدۂ عبرت نگاہ کے دو
۷۳ لئے یہاں کا ہر پھر سبق آموز ہے.اٹلی کے مشہور شاعر ڈانٹے فلور نہیں کے رہنے والے تھے شہر کے گھر جا کے گنبد کی بلندی سے بھی شہر کا اور مضافات کا بہت عمدہ اور وسیع منظر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے گودیاں تک پہنچنے کے لئے صبر اور ہمت در کار ہے.گنبد کی گولائی کے حصے کے اندر کی سیڑھیوں میں روشنی بھی کم ہے اور یہاں چوڑائی اور اونچائی بھی کم ہے تاہم میں آفت یک گیا اور ارد گردے کے پر تنوع منظر سے بہت محفوظ ہوا.جہاں تک میں شمارہ کر سکا فرش سے لیکر گنبد کی چوٹی تک ۳۶۱ سیڑھیاں تھیں.واللہ اعلم بالصواب.اطالوی زبان یورپ کی زبانوں میں سے سہل ترین اور نہایت شیریں نہ بان ہے.تلفظ اور گرامر درو نوں آسان ہیں.انگریز کی یا فرانسیسی جانے والا اسے آسانی سے سیکھ سکتا ہے.ہمارے ہوٹل کے قریب ملکہ اس کے ایک حصہ میں ہی سنیما تھا.میں ایک بار وہاں تصویر دیکھنے گیا.وہ زمانہ خاموش تصویر وں کا تھا.تصویر کے نیچے وضاحتی عبارت اطالوی میں تھی.مجھے طلب اخذ کرنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوئی ناموں میں اور تلفظ میں انگریزی کی نسبت کچھ فرق ہے.لیکن جو قاعدہ اطالوی زبان میں تلفظ کیلئے مقرر ہیں ان سے تفاوت نہیں ہوتا بخلاف انگریزی زبان کے کہ تلفظ کے لئے کوئی قاعدہ مقر نہیں جو رواج پا گیا دہی صحیح ہے ایک غیر ملکی کو اس سے بہت پریشانی ہوتی ہے.وینیس VENICE | فلور نہیں سے ہم و منیس گئے.یہ شہر ایک عجوبہ رونہ گار ہے.املی کے شمال مشرق میں بحیرہ ایڈریاٹک کے شمال مغربی کونے میں واقع ہے.سمندر کے اور اس شہر کے درمیان جزیری کیا ایک قطار حائل ہے اور سمندر کی لہروں کو روک دیتی ہے.لیکن بڑے بڑے جہاز ان جزیروں کے گرد ہو کہ اس وسیع سمندری جھیل میں داخل ہو جاتے ہیں.جس میں یہ شہر واقع ہے.اس سمندری جھیل لیگون کی گہرائی کافی ہے.جہازوں کے نکلنے اور داخل ہونے کے لئے راستے بنے ہوئے ہیں.یہ راستے ان نشانوں جو پانی ہی میں لہراہ سے میں پہچانے جاتے ہیں شہر میں اسی جھیل میں بنا ہوا ہے خشکی سے شہر کا فاصلہ میل ڈیڑھ میل ہوگا.ریل اور سڑکی دونوں ایک محراب دار بند کے اوپر سے گزر کر وٹنیس کے عقب تک پہنچ جاتے ہے یا روما میں ایک کھلی اور ایک مسقف سات منزلہ کار پارک ہے.موٹریں اس سے آگے نہیں جاسکتیں.البتہ کارفیری پر سوار کر کے اور ونیس کے گرد ہو کہ لیڈر جزیرے پر لیجائی جاگتی ہیں یہ تجزیہ تین چار میل لمبا اور ا سکا میں بھر یا اس سے کچھ کم چوڑا ہے.اور خوب آباد ہے.یہاں ہوٹل بڑی کثرت سے ہیں.پرائیوٹ مکان کم ہیں.سٹرکی بھی ہیں جن پر موٹریں، گھوڑا گاڑیاں بامشکل اور ریم چلتے ہیں.اس جزیرے کے کھلے سمندروالے تھے کی طرف بنانے کے مقامات بھی ہیں.لیگون والی سے
ا طرف پانی میں حرکت نہیں سمندر والی طرف لہریں ساحل کے ساتھ آکر زور سے ٹکراتی ہیں مینہیں محلات کا شہر کہلاتا ہے اور عروس البحر کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے.یہ ایک بڑی بندہ گاہ بھی ہے اس کی سسے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی تمام عمار میں پانی میں بنی ہوئی ہیں.جہاں عمارت گلی یا چوک نہیں وہاں پانی ہی پانی ہے.اس طرح شہر کے بیچوں بیچ سینکڑوں نہیں گلی کو چو کا کام دیتی ہیں.ان میں سے سب سے فراخ ہو شہر کے وسط سے گزرتی ہے گرینیڈ کنال کہلاتی ہے اس کے علاوہ بڑی چھوٹی سینکڑوں نہریں شہر کے ہر حصے سے گذرتی ہیں.محلوں اور مکانوں کے درمیان یا ساتھ ساتھ فرشی گلی کوچے بھی ہیں.اور چوک اور بازارہ بھی نہیں رہے بڑا چوک سینٹ مارک کا چوک ہے کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا سر سے خوبصورت چوک ہے.اس کے تین طرف و نہیں کی بہتریں دوکانیں ہیں.دینیس شیشے ، چمڑے اور رشیم کی دستکاری اور صنعت کیلئے مشہو ہے اور اس صنعت کا ہایت نفیس سامان یہاں تیار ہوتا ہے.سینٹ مارک کا چوک و منیں کی سب سے با ر وفق سیر گاہ بھی ہے.ومینس میں چونکہ موٹر گھوڑا گاڑی ، بائیسکل ، گھوڑا نا خچر ، گدھا وغیرہ کچھ نہیں ہوتا اس کے بازاروں کی سیر اور چوکوں کے میلوں میں یہ چیزیں مخل نہیں ہو تیں لوگ اطمینان سے چلتے پھرتے ہیں اور ونیس کی نہیٹ نہ بیت سے محظوظ ہوتے ہیں.سینیٹ مارک کے گرجے کے پہلو میں سود جی کا محل ہے.قرون وسطی میں ڈوجی یہاں کا حاکم اعلیٰ ہوا کرتا تھا.اور میں کی ریپبلک یورپ کی طاقتوں میں سے شمار ہوتی تھی.خشکی کا بہت سا علاقہ اس کے زیر نگیں تھا.مشرقی ممالک کے ساتھ تجارت کا بہت بڑا حصہ دینیس کی معرفت سرانجام پاتا تھا.دوجی اپنے انتخا کے بعد کشتیوں کے ایک پر شوکت جلوس کے ساتھ سمندر کی جانب نکلتا اور اپنی انگوٹھی سمندر میں پھینک کر سمندر کو دینیس کی زوجیت میں لانے کی رسم ادا کرتا.ڈوجی کے محل کا بڑا اور دانہ سینٹ مارک کے چوک میں کھلتا ہے.لیکن اسکی دوسری منزل کے ایوانوں کے دروازے گرینڈ کینال کی طرف کھلتے ہیں.گرینڈ کینال کا یہ حصہ بہت فراخ اور نہایت پر رونق ہے.یہ منظر میں کا سب سے دلچسپ منتظر ہے.شام کے وقت سینیٹ مارک کے چوک میں اور اس کے قریب کے گرینڈ کینال کے کنارے پر بہت چھیل سپیل ہوتی ہے.دینیں کے لوگ زائرین کا تماشا کرتے ہیں اور زائرین و منیں کے ساکن اور متحرک مناظر اور حسن سے بہرہ اندوزہ ہوتے ہیں.دنیس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ شہر کے ہر حصے سے ہر دور سر حصے تک پیدل بھی جاسکتے ہیں.اس کی سیکڑوں چھوٹی بڑی بہنروں پر ہزاروں پل بنے ہوئے ہیں اور گلی کوچوں میں تمام وقت پا پیادہ ساکنین اور زائرین کا ہجوم رہتا ہے.گرینڈ کینال کے دونوں →
60 طرف محلات اگر بچوں، اور بڑے بڑے ہوٹلوں کا سلسلہ چلا جاتا ہے.ان میں سے اکثریہ نگا رنگ سنگ مرمر کے بنے ہوئے ہیں.کینال کے تخمیناً وسط میں مشہور نہ یا ٹوپی ہے.اس پل پر دو ہدیہ دو کا نیں ہیں جن کی کل تعداد چو نہیں ہے.چونکہ پل کے نیچے سے دخانی جہاندوں اور دیگر آبی پائل آمد ورفت نے گذرنا ہوتا ہے اس لئے اس پل کی (اور و منیں کے تمام پلوں کی ، ساخت محراب دار ہوتی ہے.گزرنے والے ایک طرف سے سیڑھیاں چڑھتے ہیں اور دوسری طرف اتر جاتے ہیں.سینیٹ مارک کے علاوہ دینیس میں کئی اور گرجے دیکھنے کے قابل ہیں.پھر اکیڈمی ہے سینٹ مارک کا پوک ہے ، شیشے کی صنعت کے کارخانے ہیں، ڈوجی کا محل ہے ، دراصل ومنیں سارے کا سارا ایک عجائب گھر ہے جہاں ہر چینی الی اور ہر چیز دیکھنے کے لائق ہے.میں چونکہ لیگوں میں بناہوا ہے اسلئے سمندر کی لہروں کی یورش سے محفوظ ہے.سمندر کے بوانہ بھائے جزیرہ دن تک پہنچ کر رک جاتے ہیں.لیگون کا پانی ساکن ہے.اسلئے ولیس کی تنگ ہنروں میں سے گذرنا فرحت بخش ثابت نہیں ہوتا بڑی ہنروں میں تو جہانوں اور کشتیوں کی آمد و رفت سے کچھ نہ کچھ حرکت ہوتی رہتی ہے.لیکن چھوٹی ہروں میں جو کچھ ارد گرد کے مکانوں سے پھینکا جائے پانی کی سطح پر پڑا رہتا ہے.جب تک محکہ صفائی کی کشتی دورے پر آئے اور اٹھا کر لے جائے.دینیس کی سیر کیلئے اپریل مئی کے مہینے یا ستمبر اکتوبر کے پہ مہینے موزوں ہیں.سردیوں میں دھند اور گرمیوں میں حبس کی شکایت ہو جاتی ہے.کہا جاتا ہے کہ دو نہیں کے محلات اور بڑی بڑی عمارتیں آہستہ آہستہ پانی میں دھنس رہی ہیں.اندازہ ہے کہ سو سال میں اپنے ڈیڑھ انچ کا فرق پڑتا ہے.واللہ اعلم بالصواب.میلان MILAN | وینس سے ہم میلان گئے.یہ شمالی اٹلی کا سب سے بڑا شہر ہے اور تجارتی لحاظ سے املی کے تمام شہروں میں اول نمبر پر ہے.میلان بجاتے ہوئے ریل میں میرے کمرے میں دو امین خواتین تھیں.انہوں نے مجھے اجنبی دیکھ کر ہمدردانہ رنگ میں گفتگو شروع کردی.ذاتی اور ملکی کوائف کی دریافت کے بعد انہوں نے مذہب کے متعلق سوال کرنا شروع کئے.آخہ پوچھا تمہارے مذہب میں کونسی دعانہ یادہ رائج ہے.میں نے الحمد شریف پڑھ کر سنائی اور انگریزی میں ترجمہ اور مفہوم بنایا سنکر ان میں سے بڑی نے کہا.ایسی دعاء کا تو ضرور جواب ملنا چاہئے.“ اس خاتون کو اسلام کے ساتھ کچھ دلچسپی پیدا ہو گئی اور اس نے پوچھا اسلام کے متعلق کوئی کتاب انگریزی میں مل سکتی ہے.میں نے ٹیچنگنز آف اسلام کا ذکرہ کیا اور لندن میں ملنے کا پتہ نہیں لکھدیا.انہوں نے کہا وہ ضرور منگوا کر پڑھیں گی.میلان کی سے مشہور عمارت وہاں کا گر بھا ہے.ہو سنگ سرخ کی نہایت شاندار اور اس •
14 عماریت ہے.اب تو گرجے کی حجیت تک جانے کیلئے بجلی کا لفٹ لگا دیا گیا ہے.لیکن ساء میں جب تو چھت میں پہلی بار گیا تو او پر جانے کا راستہ سیڑھیوں کے ذریعے ہی تھا.پھر چھت سے اوپر بھی کچھ بلندی تک سیڑھیاں جاتی تھیں.میں جہاں تک سیڑھیاں جاتی تھیں پڑھتا گیا میرا اندازہ ہے کہ وہ سیڑھیاں تھیں.واللہ اعلم بالصواب.اس گرجے کے پہلو میں ایک بہت بلند خوشنما آرکیڈ ہے.جس کے وسطی حصے میں ایک عمدہ مطعم اور کیفے ہے اور دونوں طرف بہت سجی ہو ئی دو کا نہیں ہیں.میلان کے سینٹ میریا کے گرجے کی ایک دیوانہ پر مشہور مصور گیوناہ ڈوڈا دیجی کا شہرہ آفاق شاہکار عشائے ربانی نقش کیا ہوا ہے.کہا جاتا ہے کہ عیو نالہ ڈو نے کئی سالوں میں اسے مکمل کیا.جب بوش آتا کئی کئی گھنٹے اس پر برا بر محنت کرتے چلے جاتے.جب یہ حالت نہ درستی مفتوں بلکہ مہینوں توجہ نہ کرتے.جب تصویر مکمل ہوگئی تو معلوم ہوا کہ دیوار کے مسالے میں نقص کی دیتے کہ یادہ عرصہ قائم مندرہ سکے گی.لیکن تھوڑی بہت کوشش کے ساتھ اب تک قائم چلی جا رہی ہے.کہا جاتا ہے کہ جب یہ تصویر نقش کی گئی ان دنوں یہ گر یجا ایک کا نونٹ کا حصہ تھا اور یہ کمرہ کھانے کا دالان تھا.بعد میں ایک دفعہ میں میلان کا قبرستان بھی دیکھنے گیا تھا.میلان کے قبرستان میں میں نے ایک نئی چیز دیکھی وہ ایک بالکل جدید طرز کا کہ بیاوریم (مردوں کے جلانے کی جگہ ہے ، وہاں مرنے والے یا اسن کے ورثاء کی خواہش کے مطابق جلانے کیلئے آگ ، بجلی یا گیس تینوں میسر ہیں.مجھے تعجب ہوا کہ موت میں بھی اسقدر تکلف اور تنوع.لگانو LUGANO | میلان سے ہم لگانو گئے.یہ کوہ الپس کے جنوب کی جانب سوئٹزر لینڈ کا ایک شہر ہے جو اسی نام کی جھیل کے کنارے واقعہ ہے.ہمارا قیام ہوٹل وکٹوریہ اولاک میں ہوا ہو اپنے کے مطابق لب آب واقعہ ہے.لگا تو اپنے مقام وقوع کے لحاظ سے ایک نہایت خوشگوار اور یہ فضا ہے.سوئٹزر لینڈ کا حصہ ہونے کی وجہ سے سیاسی لحاظ سے پرامن ہے.اٹلی کی حد یہ ہونے کی وجہ سے طعام اور کلام اور تمدن میں اطالوی رنگ رکھتا ہے.گلی کوچے بہت صاف ہیں.شہر کی آبادی پیاری اپنے نیچ کی بدولت اور جھیل کا کنارہ میسر مونیکی وجہ سے دلفریب نظر آتی ہے.جھیل کے گرد پہاڑوں کا حلقہ ہے اور بہت سے مقامات سیر کے ہیں.پہاڑ کا عکس تھیل کے پانیوں کے اندر ایک دلکشی پیدا کر دنیا ہے.مگانو کے شمال کی طرف بھاتے ہوئے ریل سینیٹ کو تھارڈ نام کی سرنگ سے گزرتی ہے جو یورپ میں ریل کی ہے لمبی سرنگ ہے سرنگ پارہ کرنے میں قریباً آدھ گھنٹہ صرف ہوتا ہے.ان دنوں ریل کے انجنوں میں کوئلہ جلنا تھا.ساری سرنگ دھوئیں سے بھر جاتی تھی.اگر کہیں ریل کی کوئی کھڑکی کھلی رہ جاتی تویل
44 اس کے اندر بھی دھواں بھر جاتا تھا جو بہت تکلیف کا باعث ہوتا تھا.اب سارے سوئٹزرلی ریلین بجلی سے چلتی ہیں اور دھوئیں کی اذیت سے مخلصی ہو گئی ہے.ہم چند گھنٹے لوزان میں ٹھہرے یہ بھی اپنے نام کی تھیل کے کنا سے ایک بہت پر فضا مقام ہے.اس جھیل کے ارد گرد بہت سے مقامات سیر کے میں جنہیں دیکھنے کا بعد میں اتفاق ہوتا رہتا ہے.اس سفر کے دوران میں ایک خاتون بنام مسرویٹ سے تعارف ہوا ہو یارک شائر انگلستان کے علاقے میں لیڈنہ کے مضافات کی رہنے والی تھیں وہ بیوہ تھیں اور متوسط درجہ خوشحال تھیں.انہوں نے مجھ سے وعدہ لیا کہ میں گرمی کی تعطیلوں میں ایک دو دن کیلئے ان کے ہاں آؤں گا.میں وعدہ کے مطابق ان کے ہاں گیا.بہت تواضع سے پیش آئیں.ان کے ملنے والوں میں سے ایک ڈاکٹر یا ئیڈ تھے میری بھی ان سے ملاقات ہوئی.باتوں باتوں میں کچھ عقائد کا ذکر بھی آگیا.میں نے تثلیث کے عقیدے پر کچھ تنقید کی تو انہوں نے مسکرا کر کہا میں تو پہلے ہی اس عقیدے کو خلاف عقل سمجھتا ہوں.مجھے یہ سنکر حیرت ہوتی کیونکہ اس وقت تک میں میں سمجھتا تھا کہ ہر یورپین عیسائی عقائد میں پختگی سے تثلیث اور کھائے اور الوہیت سیح پھر قائم ہے.لندن میں ہمارے گھر میں بھی بعض دفعہ عقائد اور دینی اور روحانی اقدار پر گفتگو ہوتی تھی.ایک دن میں اپنے کمرے میں مطالعہ میں مصروف تھا کہ مجھے مستر قائدین اور میس پارسنز کے باتیں کرنے کی آوانہ سنائی دی.وہ تمھیں تو میرے کمرے سے ایک منزل نیچے لیکن کمرے کے اندر سنہیں تھیں.اور ان کی آوازہ مجھے تنک پہنچ رہی تھی.شاید انہیں یہ خیال بھی نہ ہوکہ میں اپنے کمرے میں ہوں.میں نے سر فائندن کا یہ فقرہ سنا تو کچھ یہ کہتا ہے اسے تو یہی معلوم ہوتا ہےکہ اسلم کی تعلیم عیسائیت کی تعلیم کے مقابلہ میں زیادہ عقول ہے.یہ مس پارسنز نے جواباً کچھ کہا لیکن میں اسے سن سکا.میری بیوی پر مولانا اشرار گیا کہ انہیں سر ماندن کے ساتھ اتفاق نہیں تھا.ایک دن کھانے کے کمرے میں کسی دینی موضوع پر گفتگو پوری بھی مس پارسنتر کو مسئلہ زیر بحث پر کوئی جواب توین نہ آیا لیکن کہا.میں اپنے عقائد کو دلائل سے ثابت کر سکوں یا نہ سکن میں ان کے لئے جان دینے کو تیار ہوں.مجھے ان کے اخلاص کی یہ کیفیت بہت پسند آئی اکثر لوگ عقائد پر بحث کرنے میں تو بہت تیز ہوتے ہیں لیکن ان کا عمل ان کے دعاوی کی تصدیق نہیں کرتا.مس پارسنز سے یہ فقرہ سن لینے کے بعد میں اس بات کی بہت احتیاط کرتا تھا کہ مذہبی امور پر گفتگو میں کوئی بات ایسے الفاظ میں اور ایسے طریق پر نہ کی جائے جو ان کے احساسات پر گراں ہو.
1 1 LA سردار محمد اکبر خان صاحب کی معیت میں ساہ کی گرمیوں کی تعطیلات قریب آئیں تو میرا سویڈن، فنلینڈ اور اردس کا سفر ارادہ ہوا کہ میں سویڈن اور فنلینڈ جاؤں اور سینٹ پیٹرز برگ ریو ان دونوں ممکت روس کا دارالحکومت تھا ، سے بھی ہوتا آؤں.اس سفر کیلئے مجھے ایک ساتھی کی تلاش تھی.میں نے سردار محمد اکبر خاں صاحب سے ذکر کیا اور وہ رضامند ہو گئے.لیکن وہ اتنی جلدی روانہ ہونے پہ آمادہ نہیں تھے جتنی جلدی میں سفر یہ روانہ ہونا چاہتا تھا.چنا نچہ طے پایا کہ میں سویڈن سے ہوتا ہوا ایک سنگ مورس پہنچوں اور وہ تین چار دن بعد روانہ ہو کر سیدھے وہاں اگر میرے ساتھ شامل ہو جائیں.اس زمانے میں فنلینڈ بھی آزاد نہیں ہوا تھا.گو اسے خاص آئینی مراعات حاصل تھیں لیکن پھر بھی مملکت روسی میں شامل تھا.فنلینڈ کی علیحدہ پارلیمنٹ تھی.اور اس زمانے میں بھی 19 خواتین پارلیمنٹ کی رکن تھیں.ملک کے سالے باشندے مرد و زدن خواندہ تھے.فنش قانوں کے مطابق کوئی شادی نہیں ہوسکتی تھی جب تک دولہادلہن یہ ثبوت نہ پیش کریں کہ دونوں خواندہ ہیں.تمدن اور معاشرت میں فنلینڈ ریوس کی نسبت ہر شعبے میں بہت آگے تھا لیکن سیاسی لحاظ سے روس کے نہ یہ اقتدارہ تھا.روس جانے کیلئے پاس سے پر پا کی ضرورت تھی.لیکن پاسپورٹ حاصل کرنے میں کوئی وقت نہیں ہوتی تھی کسی دن وزارت غار سجدہ کے محکمہ میں جاکہ درخواست دیدی بھائی اور دوسے دن وہ یہ خارجہ کے نام سے جاری کردہ پاسپورٹ مل جاتا.ان دنوں پاسپورٹ کتاب کی شکل میں نہیں ہوتا تھا بلکہ ایک فل سکیپ سائنہ کا دوہرا در ق ہوتا تھا.چنانچہ میں نے اور سردار محمد اکبر خاں صاحبجے پاسپورٹ حاصل کرلئے.اور میں پوری ہدایات حاصل کرنے کے بعد تاریخ مجوزہ پر روانہ ہو گیا.میں لندن سے ریل پہ تارپیچ گیا اور وہاں سے بحری جہانہ پر گوٹھن برگ پہنچے گیا جو سویڈن کے مغربی ساحل پر ایک بندر گاہ اور مشہور تجارتی مرکز ہے.سردار محمد اکبر خانصاحب لندن سے مبل تک ریل میں سفر کرنے والے تھے اور وہاں سے بحری جہانہ پر سیلنگ فورس آنے والے تھے.سویڈن SWEDEN | ان دونوں گوٹھن برگ سے سٹاک ہوم بجانے کا ایک آبی راستہ ملک کے بیچوں بیچ بھی تھا دو ہی راستہ میں نے انتخاب کیا تھا.جب میں بحری جہاز سے گو ختن برگ پہنچا تو دریافت پر معلوم ہوا کہ دریائی بہانہ کے روانہ ہونے کا مقام شہر سے باہر کچھ فاصلے پر ہے.چونکہ میں بالعلا جنی تھا اسلئے ایک ٹیکسی کرائے پر لی.اور ٹیکسی والے سے کہا مجھے دریائی جہانہ کے روانہ ہونے کے مقام پیسے چلو مجھے انگلستان آئے تقریباً دو سال ہو چکے تھے اور یہ پہلا موقعہ تھا کہ میں نے اپنی ضرورت کیلئے ٹیکسی کراتے پر فی کیونکہ اور کوئی وسیلہ میسر نہ تھا.جب دریائی مجہان تک پہنچ گئے تو مجھے کچھ پریشانی ہوئی کہ شاید
<9 ٹیکسی والے کو میں اپنا مفہوم نہیں سمجھا اسکا اور وہ مجھے صحیح مقام تک نہیں لایا ، جہازہ تو ایک موجود تھا.بچھوٹا سا اور کھلونے کی مانند خوبصوت.اور چونکہ جہانہ تھا اس لئے قیاس تھا کہ پانی میں ہی کھڑا ہو گا.لیکن اس کے ارد گرد تمام سبز کاہی تھی.دریا کہیں نظر نہیں آتا تھا.قریب کوئی عمارت تھی نہ کسی دفتر کا نشان تھا.میں ٹیکسی سے اتر کر ادھرادھر نظر دوڑانے کے بعد ایک چھوٹی سی سیڑھی کے ذریعے عرشے پر پہنچا میاں کچھ میل میل اور رونق تھی.ایک دو بارہ گھنٹی کی آوا نہ بھی سنائی دی جس سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ کھلونا جہانہ حرکت کرنے کو ہے میرے پاس ٹامس لک کے لندن کے دفتر سے خریدا ہوا ٹکٹ تو تھالیکن انہوں نے مجھے بتا دیا تھا کہ یہ تعطیلات کا موسم ہے اور ان جہازی پر بھی ہوتی ہے مکن ہے تمہیں علم کین یا کین میں جگہ تو ن مل سکے لیکن کچھ نہ کچھ انتظام وہ کردینگے آخر میں کپتان تک پہنچا.انہوں نے کہا اچھا ہوا تم پر وقت پہنچ گئے ہم تو بس اب چلنے والے ہی ہیں.کمرہ تو کوئی خالی نہیں.لیکن میں اپنے پچیف انجنیر سے کہہ دیتا ہوں وہ اپنی کیبین تمہیں خالی کر دیگا.عام طور پر تو برکین میں دو مسافر سفر کرتے ہیں تمہیں اکیلے ہی کی ان مل جائے گی.یہ اطمینان ہوتی ہے کے بعدمیں نے جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ دریا کا پاٹ تو خاصا پوڑا ہے لیکن سارا نظر نہیں آتا کیونکہ بہت سے حصے میں لبی کا ہی اگی ہوئی ہے.اور اس حصے میں سے تو پانی گذرتا ہے وہ نظر نہیں آتا.جیسے جیسے تہاز پانی کی رد کے خلاف اور پر کی طرف حرکت کرتا گیا کا ہی غائب ہوتی گئی اور دریا کا پویا پاٹ نظر آنے لگا.مجھے بعد میں بھی کوٹن برگ جانے کا اتفاق تو ہوا ہے لیکن اس رستے سفر کرنے کا اتفاق پھر نہیں ہوا.گوٹن برگ کے شہر اور بندر گاہ دونوں میں اب بہت وسعت ہو چکی ہے.اور میں سمجھتا ہوں کہ ان دریائی بہانوں کیلئے بھی ٹھہرنے کا مقام بن چکا ہو گا.اس وقت تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جہانہ ایک کاری کے کھیت میں لنگر ڈالے ہے.اگر چہ جہا نہ میں سب کمرے رکے ہوئے تھے لیکن مسافروں کی کل تعداد نہیں تھیں سے زائد نہیں تھی.ان دنوں جہانہ ہفتے میں تین بار گوٹن برگ سے روانہ ہوتا تھا.اگر میں بروقت نہ پہنچتا تو مجھے دورات گوٹن برگ میں دوست جہانہ کا انتظار کرنا پڑہتا.ایک دو گھنٹے کے اندر ہی سب مسافر ایک دوسرے سے شناسا ہو گئے اور تمہیں یوں محسوس ہونے لگا کہ تم ایک ہی کنبے کے افراد ہیں.جہانہ کا سفر نہایت خوشگوار تھا کھانا نہایت لذیذ اور افراط تھا.ہوا لطیف اور فرحت افزا نتھی.اگر چہ ہماری سواری پانی پر چلتی تھی لیکن میں احساس ہیں تھا کہ ہم ایک ہموار سطح پر خشکی میں سفر کر رہے ہیں کیونکہ دونوں طرف دیہاتی زندگی کے مناظر اور سرگرمیاں نظر کے سامنے تھیں.
1.نے دو تین گھنٹوں میں تم آبشار کے نیچے پہنچ گئے.بہانہ یہاں سے Locks کے ایک لمبے سلسلے میں سے گذرہ کر کشادہ سے اوپر کے حصے میں پہنچتا تھا.غالباً اٹھارہ یا بیس LOCKS ہوں گے اور جہانہ کو ان سے گذرنے میں کوئی ڈیڑھ گھنٹہ صرف ہوتا تھا.اس عرصے میں مسافر جہانہ سے انتہ کہ آبشارہ کا نظارہ کرتے اور جہانہ کے Locks سے گذرنے کے عمل کا مشاہدہ کرتے.اور ساتھ ہی پیدل بلندی کی طرف پڑھتے بھی جاتے.آبشار کے پانی کے گرنے کی طاقت کو بھلی میں بدلنے کا کار خانہ بھی دریا کی ایک جانب تھا.میں نے سنا ہے کہ اب اس کا رہ خانے کو اتنا وسیع کر دیا گیا ہے کہ دریا کا بہت کم پانی آبشار میں سے ہو کر گرتا ہے.گویا آبشاراب غائب ہو گیا ہے.صنعت اور انہیں کئے مقابلے میں قدرتی منظر اور قدرت کی بو قلمونیاں میں پا ہو رہی ہیں.جب جہانہ آبشار کے اوپر پہنچ گیا تو ہم پھر سوارہ ہو گئے.نظارہ دریا کے نچلے حصے کی نیت زیاده د لغریب معلوم ہونے لگا.ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سورج کے غروب ہونے کا وقت قریب آریا تھا اور قدرت کے چہرے پر کچھا فسردگی سی چھا رہی تھی.شام کے کھانے کے بعد کچھ اندھیرا ہونے لگا لیکن رات چاندنی تھی.دریا کے قریب شہر تو الگ کوئی بستی یا آبادی بھی نہیں تھی.بالکل خاموشی کا سماں تھا.بہانہ ایک ایسے مقام پر پنچا جہاں دریا ایک چکمہ کاٹتا تھا.کپتان نے کہا کہ اگر تم لوگ چاندنی میں سیر کا لطف اٹھانا چا ہو تو یہاں اتر کر پیدل سیر کرتے ہوئے چکر کے آخر میں پھر جہانہ کو آملو.ہم سب نے ان کی تجویزہ کے ساتھ الفاق کیا اور استہ کہ چل پڑے.باتوں میں مشغول ہم دور دو تین تین کی ٹولیوں میں آگے پیچھے پک ڈنڈیوں پر جارہے تھے کوئی سٹرک تو تھی نہیں.جہانہ چکہ کاٹنے میں ہم سے دُور ہوتا گیا اور جہانہ کی سرچ لائیٹ ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئی.چاندنی کا سماں تو بیشک دلفریب تھا لیکن ہم میں سے کسی کو پختہ طور پر معلوم نہیں تھا کہ کونسی پگڈنڈی ہیں اس مقام تک پہنچائے گی جہاں دریا کا چکر ختم ہوتا ہے.ہمیں کچھ اندیشہ ہو نے لگا.کہ اگر ہم زیادہ دور ہو گئے تو جہانہ پر انہیں پہنچنے میں شاید کچھ مشکل پیش آئے.گو ہمیں یہ تواطمینا تا کہ اگر موت پر مقرہ مقام پر پہنچے تو ان کی بیٹی ماری رہنمائی کے لئے بھائی جائے گی ور جہانہ سرچ لائیٹ بھی ارد گرد گھمائی جائے گی.پھر بھی ہم نے مناسب سمجھا کہ ہمیں صحیح راستہ معلوم کرنے کی کوشش کرنا چاہئے.اس کی ایک ہی صورت تھی کہ اگر کسی مکان یا جھونپڑے کا سراغ مل جائے تو ہم راستہ دریافت کر لیں.تھوڑی دیر بعد ہمیں ایک روشنی نظر آئی اور ہم نے اسکی طرف پڑھنا شرودی کیا.چند منٹوں میں ہم ایک فارم ہاؤس پر پہنچ گئے بیس کی ایک کھڑکی سے روشنی اگر ہی تھی کھڑکی کے را
پیچھے ایک صاحب مجھے کچھ پڑھ یا لکھ رہے تھے.ہم میں سے کسی نے کھڑکی کے شیشے پر انگلیوں سے ان صاحب کو متوجہ کیا اور درہ باہر آئے.چہرے اور لباس سے تعلیم یافتہ معلوم ہوتے تھے.انگریزی تو نہیں جانتے تھے لیکن ہم نے ان پر اپنی مشکل واضح کردی.وہ ہنسے ، سر بلایا ، اندر واپس جا کر اپنی ٹوپی اور چھڑی لے آئے اور ہمارے ساتھ ہو لئے.ہم لوگ مقام انفصال پر جہانہ کے سے چند منٹ پہلے ہی پہنچ گئے.جہاز کے پہنچنے پر جہانہ کے عملے نے اس مشفق رہنما کی میز وغیرہ رہنما سے تواضع کی اور فریقین خوشی خوشی ایک دوسرے سے رخصت ہوئے.سٹاک ہولم اس موقعہ پر میں سٹاک ہولم صرف دو دن ہی ٹھہر سکا.بہت خوشنماشہر ہے اور شمال کا نہیں کہلاتا ہے.ارد گرد کے جزیروں کی سیر بہت دلچسپ رہتی ہے.میں جہانہ پر سٹائٹسجو بیڈن گیا.وہائی گرینڈ ہوٹل میں لنچ کھایا اور کلی کی ریل میں واپس آیا.شام کوشکان سین گیا تو یہاں کا نیشنل پارک ہے.اس کے ایک حصے میں یہاں کے قومی لباس کی ایک قسم کی نمائش بھی ہوتی ہے.ایک بعد کے موقعہ پر میں آپ کا یونیورسٹی دیکھنے گیا.وہاں کے عربی کے پرو وغیر سے طلاقات ہوئی.ٹیم پر گیا اور جہاز سے واپس آیا.یہاں کا محل اور اس کا باغ سیر کے مقامات ہیں.یہاں ں کے گر جائیں ڈیزری کی قبر ہے.جو موجودہ شاہی خاندان کے مورث اعلی فرانسیسی جنرل بہ نا ڈوٹ کی اہلیہ تھیں.انیسویں صدی عیسوی کے شروع میں جب سویڈن کا تخت عالی ہوا اور ملک کو ایک بادشاہ کی ضرورت ہوئی تو نگہ انتخاب نیولین کے ایک حمر نیل سمرنا روٹ پر پٹڑی جو فرانس کے مارشل بھی تھے.جب سویڈش وفد نے سویڈن کا تخت جنرل بر نا ڈوٹ کو پیش کیا تو انہوں نے نیولین سے اس پیشکش کے متعلق استصواب کیا.نپولین نے انہیں قبول کرنے سے منع تو نہ کیا لیکن اتنا ظہار ضرور کر دیا کہ ان کے نزدیک فرانس کے ایک مارشل کیلئے سویڈن کا تخت کوئی بڑا اعزانہ نہیں سب باوجود اس کے جنرل بر ناڈوٹ نے سویڈش پیشکش منظور کر لی تو نپولین آزردہ ہوا.چند سال بعد نپولین تو سینٹ سہیلیا میں عمر بھر کیلئے نظر بند کر دیا گیا اور اس کے بھائیوں کو اس کے عطا کر تخت جلدی میں چھوڑنے پڑے.لیکن جنرل بر ناڈوٹ کا پڑپوتا آج بھی سویڈن کا بادشاہ ہے.ڈینی سری جنرل یہ نا ڈورٹ کی رفیقہ حیات تھیں.کہا جاتا ہے کہ اس کی بہین اور غالباً وہ خود بھی ایک وقت پولین کی منظور نظر رہی تھیں.جنرل پر ناڈوٹ کے ساتھ شادی ہو جانے کے بعد ان کے متعلق اس قسم کا کوئی شبہ نہیں کیا گیا.جنرل بر ناڈوٹ کے سویڈن کا بادشاہ بن جانیکے بعد وہ زیادہ عرصہ فرانس ہی میں رہیں.آخر عمر میں کچھ عرصہ سویڈن میں مقیم ہوئیں ورنہ تھوڑے عرصہ کیلئے آتیں اور واپس چلی جائیں
AY دہ خاوند کی تاجپوشی میں شریک نہیں تھیں اسلئے کبھی سویڈن کی ملکہ نہ کہلائیں.قبر کے تعویذ پر صرف ایک لفظ ڈیز سے رہی سہی سنہری حروف میں کندہ ہے.سٹاک ہولم پہنچنے کے دوسرے دن صبح کے وقت میں متعلقہ جہانہی کمپنی کے دفتر گیا تا کہ مہیلنگ فورس جانیوالے جہانہ پر کین کا بندوبست ہو جائے لیکن نہ ہو سکا.اسدن شام کے چھ بجھے بجھان کی روانگی تھی.مسافروں کو ایک گھنٹہ قبل جہانہ پر پہنچنے کی ہدایت تھی.بہانہ پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ جن مسافروں کو کیبن میں جگہ نہیں مل سکی ان کے لئے کھانے کے سیلون میں بستر بنا دیے جائیں گے مجھے بتایا گیا کہ میرا لہتر کھانے کے سیلون میں ہوگا سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے جہانہ پر ایک روسی صابو سے واقفیت ہوگئی جو پیٹرزبرگ (حال لینن گراڈ میں جواہرات کی تجارت کرتے تھے.ان کا نام نکولا و سالیوچ ڈیگلنگ تھا جب انہیں معلوم ہوا کہ اس سفرمیں میرا اور میرے ایک دوست کا ارادہ پیٹر نہ برگ جانے کا بھی ہے تو مجھے اپنا پتہ دیا اور تاکید کی کہ ان سے ضرور ملوں.جب سردار محمد اکبر خان اور میں میٹر ریگ گئے تو ان سے ملے.انہوں نے ہمیں اپنے ہاں کھانے پر بلایا.کھانا ہمارے مزاج کے بالکل موافق تھا سردار صاحب نے کہا آج تین سال بعد گوشت میں کر لیے پیکے کھاتے ہیں.وطن یاد آگیا.کھانے کے بعد ہمارے میزبان ہمیں موٹر میں سیر کے لئے لے گئے.دریائی بہانہ پر دریائے گنوا کے جنہیوں کی سیر کرائی.بڑی تواضع اور شفقت سے پیش آئے.میں دہی جہانہ پر کئی واقفیت تھی.ہم دونوں طالع قیم تھے ہمارے ساتھ انہیں کوئی غرض نہ تھی اور نہ انہیں تم سے کسی قسم کا نفع پہنچ سکتا تھا.وہ ایک معمر خوشحال نا جہ تھے.ہمارے ساتھ مسافر نوازی کا سلوک ان کی شرافت اور اعلیٰ خلق کی وجہ سے تھا.فجزاللہ پچاس سال بعد جب میں اقوام متحدہ کی اسمبلی کے صدر کی حیثیت میں روس کے وزیر خارجہ مسٹر گرومیکو کی دعوت پہ روس گیا تو گولین گراڈ ر سابق پیٹرز برگ میں میرا قیام صرف ایک دن ریا پھر بھی میں اس شریف جو ہری نکولا و سالیوں کی شرافت، تواضع اور مہمان نوازی کی یاد میں نمبر ۲۶ نوسکی پر اسپیکٹ یہاں پاسال پہلے ان کا کاروبارہ تھاکو پھر دیکھے آیا.ہیلینگ فورس (فنلینڈ) | جہاز سیلینگ فورس شام کے چھ بجے پہنچا.سورج ابھی نصف النہا سے کچھ بی نیچے معلوم ہوتا تھا.ان علاقوں میں گرمیوں میں دن بہت لمبا ہوتا ہے اور جنوبی فنلینڈ میں بھی سورج سولہ سے منتیں گھنٹے چمکتا ہے.میں نے ہوٹل فیمینیا میں ایک کمرہ لے لیا.دوسرے دن صبح سیر کیلئے نکلا اسپلینڈ سے ہوتے ہوئے اندرونی بندر گاہ کی طرف گیا مارکیٹ کی رونق دیکھی جہاں کھلی ہوا میں سبزی اور دیہات میں پیدا ہونے والی خوردنی اشیاء کی خرید و فروخت ہو رہی تھی
THE SHIPWRECKED وہاں سے رصد گاہ کی پہاڑی پر گیا جہاں سے شہر کے قری کے حصوں.بندرگاہ اور سمندر کا نظا کیا جا سکتا ہے.وہاں سیاہ سنگ مرمر کا سنگ سازی کا ایک شہر کا رنہ ہے جو کے نام سے موسوم ہے.درمیان میں خاوند کھڑا ہے جو عزم مستعدی اور ذمہ دالہی کی تصویہ نظر آتا ہے اس کے ارد گر یہ اس کے بیوی بچے اس سے چھٹے ہوئے ہیں جن کے چہروں پر سخت خوفزدہ اور ہراساں ہونے کے آثار ہیں.بیرونی بندر گاہ میں خوب رونق تھی.یہاں سے چھوٹے چھوٹے جہاز پر سمت کو جاتے تھے.ہیکنگ فورس کے ارد گرد بھی سٹاک ٹائم کی طرح بہت سے چھوٹے بڑے جزیر ہیں.گرمیوں میں بہت سے لوگ ان بجزہ یہ دل میں پہلے جاتے ہیں.یہ بہانہ شہر اور جمہیر وں کے درمیان چکر لگاتے اور اس طرح ایک قسم کی کسی سروس مہیا کرتے تھے.میں بھی ایک جہانہ پر سوار ہوا جو تریکے جزیرے کو جاتا تھا.اس جزیرے میں ایک پارک تھی جس کے اندر پچھڑ یا گھر اور مطعم وغیرہ بھی تھے میلنگ فورس میں قیام کے دوران موسم خوشگوار تھا.میں سیر کو نکل جاتا اور وہ مقام پسند ہوتا ریال بیٹھ کر گھنٹہ دو گھنٹے مکالے کی ایک کتاب ہو میں ساتھ لے گیا ہوا تھا پڑھ کر مکانے کی سختہ بہ سے لطف.اٹھانا کبھی کتاب بند کر دنیا اور پیش نظر منظر سے لطف اندوز ہوتا.تیسرے دن سردار محمد اکبر صاحب تشریف لے آئے اس وقت تک میں اس قابل ہو گیا تھا که قابل دید مقامات کی جانب ان کی رہبری کر سکوں علاوہ ان مقامات کے جن کا ذکر آپ کا ہے تیم نے طالب علموں کی کلب کی عمارت دیکھی اس عمارت کے دردانہ سے پر لاطینی میں یہ عبارت کنندہ تھی: "SPEI SUAC PATRIA DEDIT, HELSINGFORS" (CIVEN BY FATHERLAND TO ITS HOPE) دہ دن اور دوسرا دن ٹھہر کر ہم دوپہر کو بذریعہ ریل سیلنگ فورس سے پیٹرز برگ روانہ ہو گئے ہوگئے سابق پیٹرز برگ حال لینن گراڈ ا ہم کوئی دس بجے رات میٹر نہ بہ گ پہنچے.سٹیشن سے ہم نے ایک دروزہ کی ( گھوڑا گاڑی کرایہ بچہ لی اور کو پھر ان سے کہا کہ ہمیں سینٹ آئزک سکوٹر میں ہوٹل انگلے ٹیر پہنچائے.وہ انگریزی تو مجانشانہ تھا لیکن اس نے سینیٹ آئزک کے الفاظ سے شاید کچھ اند کر لیا.وہ پھر سے تو نوجوان معلوم ہوتا تھا لیکن باوجود گرمی کے موسم کے اس نے کپڑے اتنے نہیں رکھے تھے اور وہ بھی کر دی بھرے لحاف کے بنے ہوئے کہ وہ خود بھی روٹی کا ایک بڑا تخصیلہ نظر آنا تھا.یہ لباس کوئی اس کی خصوصیت نہیں تھا.وہاں سب کو چھو ان ویسے ہی لباس میں روٹی کے تنقیلے نظر آتے تھے.اس لباس کے پہنے کی وجہ یہ معلوم ہوئی کہ موسم سرما میں پیٹرز برگ میں بڑی شدت کی سردی
پڑتی ہے.کو بچو ان کی نشست کھلی ہوتی ہے اور اسے سردی سے بچنے کیلئے روئی سے بھرے ہوئے کپڑے پہننا پڑتے ہیں.وہ اس لباس کا اس حد تک عادی ہو جاتا ہے کہ گرمیوں میں بھی وہی لباس پہنے رکھتا ہے.یہ بھی ممکن ہے کہ اس زمانے میں وہ گرمیوں اور سردیوں کے لئے علیحد علیحدہ لباس بنوانے کی استطاعت بھی نہ رکھتا ہو.جب ہم نے ہوٹل کا نام اور پتہ بتایا تو کو چھوا نے اپنی نشست پر میٹھے میٹھے ہماری طرف دیکھ کہ اپنا سر اثبات میں ہلایا.مسکراہٹ سے اس کی باچھیں کھلیں اور اس نے گھوڑے کی پیٹھ پر ایک سپانگ رسید کی.گھوڑ اچل پڑا اور دروزہ کی حرکت میں آئی.یہ وکٹوریہ کی شکل کی گاڑی تھی جس کے پیٹے چھوٹے چھوٹے تھے سردیوں میں جب نہ میں پر برف جم جاتی ہے تو یہ بیٹے اتار دیئے جاتے ہیں.اور ان کی جگہ سکینز لگادی جاتی ہیں.جن سے یہ وکٹوریہ گاڑی ایک مسیح بن جاتی ہے جیسے گھوڑا بڑی آسانی سے کھینچ لیتا ہے.ان دنوں پیٹرز برگ کے عام بازاروں اور سڑکوں پر رات کے وقت مدھم سی روشنی ہوا کرتی تھی.لیمپ دور و در نصب تھے اور ان کی روشنی تیز نہیں تھی.کوچوان شاید فاصلہ کم کرنے کی خاطر ہمیں غیر معروف اور تنگ سڑکوں پر سے لئے جار ہا تھا.پیٹ نہ برگ کی شہرت اچھی نہ تھی اور رات کا اندھیرا ہو چکا تھا.ہمیں کچھ کر ہوئی کہ یہ ہمیں کہاں لئے جارہا ہے.سردار صاحب کسی وقت اسے پنجابی میں گالی دیکر پوچھتے تم نہیں کہاں لئے جار ہے ہو ؟ اس کے کان پنجابی اور انگریزی دونوں سے نا آشنا تھے.لیکن سردار صاحب کی بلند آوازہ اور استفہامیہ لہجے سے وہ اتنا سمجھ جاتا کہ اسے مخاطب کیا بھارتا ہے.وہ پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھتا، مسکرا تا سر جاتا اور ہوٹل کا نام لیکہ گول شائیا موریس کائیا الفاظ دہرا دیتا.جس سے اسوقت نہ تو کچھ ہمارے پلے پڑتا ہ ہماری تسلی ہوتی.بعد میں معلوم ہوا کہ بول شائیا موریس کا ٹیا بڑی نہر کو کہتے ہیں جس کے قریب ہمارا ہوٹل تھا سردار صاحب اسے مسکراتے ہوئے دو تین اور گالیاں سنا دیتے اور اپنا موٹا بید کا ڈنڈا میں کا ہینڈل چاندی کا تھا اور جو انگلستان کیلئے روانہ ہوتے وقت ان کے ماموں شیخ اصغر علی صاحب نے انہیں بطور تحفہ دیا تھا اٹھا کہ اس کے چہرے کے سامنے ہلا دیتے.آسخہ ہم ایک نیم اندھیری سٹرک سے نکل کر ایک روشن چوک میں داخل ہوئے اور ہمارتی وکٹوریہ مول انگلے ٹیر کے سامنے آکر رک گئی.کو جوان اور سردار محمد اکبر خالصاحب ہنستے ہنستے ایک رویے سے رخصت ہوئے.ہم میٹ نہ برگ میں ڈرتے ڈرتے آئے تھے کیونکہ زار کی خفیہ پولیس کے کئی قصے سنے اور
۸۵ پڑھے ہوئے تھے لیکن ہم نے اسے ایک دلچسپ شہر پایا.جس میں جگہ جگہ پر مشرق و مغر کے امتزاج کی بہت و غریب تھلک نظر آتی تھی.تو سکی میں ایکٹ کے عین وسط میں نہار سکندر ثالث کا یاد گارہ رنگا رنگ گنبدوں والا گر یجا تھا.دریائے نینوا کے اس پار پطرس اور پولوس کے قلعے کے بالمقابل ایک عالیشان مسجد نئی تعمیر ہوئی تھی.گو اس کی اندرونی تکمیل بھی جاتی تھی ہم اسے دیکھ دیکھنے گئے.ایک مزدور مسجد کے احاطے میں کام کر یہ نا تھا.میں نے اس سے سوال کیا :- مسلمان ؟ اس کا چہرہ کھل گیا اور زور سے سر اثبات میں ہلاتے ہوئے کہا.دا - دا - الحمدالله میں نے کلمہ شریف پڑھا.اس نے دہرایا.جانبین نے پہچان لیا ہم بھائی بھائی ہیں.سینٹ آئزک کا گر جاتو ہمارے ہوٹل کے سامنے ہی تھا اس کی عمارت تو مغربی طرنہ کی ہے.لیکن اندر مغربی تو ممالک کے گھر جوں کی طرح نشستوں کا کوئی انتظام نہیں ہوتا.لوگ دوران عبادت کھڑے رہتے.اور یا پھر گھٹنوں کے بل ہو جاتے.نشستیں نہ ہونے کی وجہ سے روسی گرجے اندر سے اسلامی مساجد سے کچھ مشابہت رکھتے لیکن یہ مشابہت یہیں پر ختم ہو جاتی تھی.کیونکہ روسی گر توں میں دیواروں اور چھت پر مذہبی مقدس تصاویر بنی ہوتی تھیں اور جا بجا آئی کانز کہ کھلے ہوتے تھے.ہم نے گرتے میں گئی آئی کا نز دیکھے جن کی قیمت کا اندازہ کرنا ہمارے لئے مشکل تھا.ایک میں حضرت مریم کے دل کی جگہ ایک بڑا العمل جڑا ہوا تھا آنکھیں بڑے بڑے سبزے یا زمرد کی تھیں بعض چوکھٹے سونے کے معلوم ہوتے تھے.واللہ اعلم با الصواب.ہ میں پیٹرنہ برگ رحال مین گراڈ میں مسلمانوں کی آبادی ایک لاکھ سے زیادہ تھی ان میں سے اکثر نا نا رہی تھے جو ہ دوسی امراء کے محلات میں پہرے اور نگرانی پر متعین تھے.آکی یہ وجہ بتائی جاتی تھی کہ چونکہ وہ شراب نہیں پیتے اسلئے پرے اور نگرانی کے فرائض بہت اچھی طرح نبھا سکتے ہیں.پچاس سال بعد جب میں اس شہر میں دوسری دفعہ گیاتو اگر چہ میرا قیام ایک ہی دن کا تھا لیکن میں مسجد کو بھی دیکھنے گیا.مسجد آباد اور نہ یہ استعمال تھی مسجد اندر سے تو اچھی حالت میں تھی لیکن احاطے میں نشیب و فرا نہ تھے اور مرمت کی ضرورت تھی.امام صاحب اس وقت کہیں باہر تشریف لیگئے ہوئے تھے اسلئے ان سے ملاقات نہ ہو سکی.پیٹرز برگ رحال لینن گراڈا میں سے بڑھ کر قابل دید مقامات ونٹر سپلیس (سرمائی محل ، اور ہر میچ ہیں یہ دونوں محملات دریائے نیوا کے کنارے ایک دوسرے سے معلق واقعہ ہیں اور کیتھرائن اعظم کی یاد گار ہیں.اب تو یہ دونوں عمارات عجائب گھر میں اور عجائبات سے بھری پڑی ہیں.شاہ
14 میں سرمائی محل زالہ کی قیام گاہ تھا.یہ محل اتنا وسیع ہے کہ جب یہ ندارہ کی قیام گاہ تھا تو سب سے اویر کی منزل پر جہاں خدام شاہی رہا کرتے تھے چھت پر انہوں نے گائے اور دیگر پالتو جانور ر کھے ہوئے تھے.ان محلات کے عجائبات میں سے رسے قیمتی شاہی خاندان کے جواہرات اور نہ یورات ہمیں ان محلات میں اب تو زائرین کا ہر وقت خوب جھمگھٹا رہتا ہے.ساء میں زائرین کا استقدیر نجوم نہیں ہوا کرتا تھا.سواء میں دینیٹر پلیس اور ہر بیٹیج کا باہر کا پلستر گہرے سرخ رنگ کا ہوا کرتا تھا اب سفید اور ہلکا سبز ہے جو نسبتاً بہت خوشنا معلوم ہوتا ہے.گریجے اور محلات کے درمیان نار پطرس اعظم کا ایک مجسمہ ہے جس میں وہ گھوڑے پر سوار ہے.مجھتے کا رخ دریائے نینوا کی طرف ہے.ماہرین فن اس کی بہت تعریف کرتے ہیں.گھوڑا اور سوار دونوں نیز حرکت کی حالت میں نظر آتے ہیں.گھوڑے کے اگلے دونوں پاؤں زمین سے اٹھے ہوئے ہیں اور گھوڑے اور سوالہ دونوں کا سارا بوجھ گھوٹے کے پچھلے دو پاؤں اور دم پر ہے.دم بہت بھاری بنائی گئی ہے.اور پچھلے دونوں پاؤں کی مانند زمین پر لگی ہوئی ہے.اس طرح پچھلے دونوں پاؤں اور دم کا ایک نکونہ بن گیا ہے.جو محبتے کا سارا بو مسجد سہما سے ہوئے ہے.سردار محمد اکبر خالصاحب اور میں پیٹر نہ رگ سے باہر پیر ناف میں زائد کا محل دیکھنے بھی گئے.یہ محل بھی فیلج فنلینڈ کے کنا سے پر ہے اور اس کے باغات اور فواروں کا نظارہ بہت دلفزا ہے.پیٹر نہ برگ سے ہم ریل پر گئے.یہ ریل بالٹک ریلوے اسٹیشن سے روانہ ہوتی تھی.اسٹیشن پر گاڑی کے روانہ ہونے سے پہلے ہم نے ایک فوجی افسر کو اپنے دو ساتھی افسروں کے رو بہ وایک سپاسی سے حجر ان کے لئے کوئی پاریس لایا تھا نہایت مہتک آمیز سلوک کرتے دیکھا.سپاہی کے رویئے سے ظاہر ہوتا تھا کہ اسے اس سے بہتر سلوک کی توقع نہیں تھی.ہمیں اس سے تعجب ہوا.اور ہم نے یہ اشتہ لیا کہ ان دنوں روسی فوج میں افسران اور سپاہیوں کے درمیان اخلاص اور احترام کے بعد بیات کی فراوانی نہیں تھی.ہم پیریان کے محل کے اندر تو نہ گئے کیونکہ وہاں پرے وغیرہ کے انتظام سے الیسا معلوم ہوتا تھا کہ ندار اور شاہی خاندان کے افراد وہاں سکونت پذیمہ ہیں.باغ کی سیر سے ضرور لطف اندوز ہوئے اسٹیشن پر واپس آنے تک شام کے کھانے کا وقت ہورہا تھا.ہم نے چاہا کہ کھانا اسٹیشن پری کھائیں.پیٹ نہ برگ واپس پہنچنے کا انظار نہ کریں.ہم کھانے کے کمرے میں چلے گئے نین و بال انگیزی کوئی نہیں سمجھتا تھا.مینجر نے ہمیں اشارے سے سمجھایا کہ ذرا انتظارہ کرد.وہ جاکر ایک افسر کو لے آیا مجھو انگریزی سمجھتا تھا.اس نے ہماری ترجمانی کی.جلد ہمارا مطلوبہ کھانا مل گیا.ہجوم نے بہت پسند کیا قیمت بھی مناسب تھی.کھانا ختم کرنے کے جلد بعد ہماری کوڑی آگئی اور ہم بآرام والپس پیٹرز برگ پہنچ گئے..
16 فنلینڈ پیٹرز برگ سے تم گوائی بورگ ہوتے ہوئے نشلاٹ گئے.فنلینڈ میں ان دنوں رواج تھا کہ گرمی کی تعطیلات میں جب زائرین کے آنے کا موسم ہوتا تو سیر کے مقامات پر زائرین کی سہولت کیلئے دفاتر کھول دیے جاتے پڑھے لکھے نوجوان اور نخوامین رضا کارانہ طور پر ان میں ختلاف خدمات بجالاتے بیس سے زائرین کو بہت ملی ملی اور ہر قسم کی سہولت میسر آجاتی.ان دونوں نشان میں اس دفتر کی انچارج ایک نہایت سلجھی ہوئی طبیعت کی خاتون مس نینا تھیں.جو ہمارے ساتھ بہت خوش خلقی سے پیش آئیں اور یہیں اپنا پر دگرام بنانے کیلئے جن معلومات کی ضرورت تھی بہم پہنچائیں.نشلات سے ہم اما تم گئے میاں کا ہوٹل نہایت خوشنما جگہ پر واقعہ ہے.ہوٹل کے عین نیچے دریا بہتا ہے.میرے کمرے سے انتہا کی ابشار کا نظارہ بڑا دلفریب تھا.ہوٹل سے دریا تک اترنے کیلئے راستہ بنا ہوا تھا.اگرچہ اس مقام پر بھی پانی زور سے اور بڑی بڑی چٹانوں کے گرد ہو کہ بتا تھا پھر بھی وہاں ایک محتاط آدمی کیلئے بنانے میں کوئی ایسا خطرہ نہیں تھا.ہم دور اس ہوٹل میں ٹھہرے اور دونوں صبح دریا میں بنانے کا لطف اٹھایا.پانی پنج کی مانند ٹھنڈا تھا اور ہم ایک وقت میں چند لحظوں سے زیادہ پانی کے اندر ٹھہرنا برداشت نہیں کر سکتے تھے.میں نے سنا ہے کہ اب انا ترا میں کوئی آبشار نہیں.کیونکہ دریا کا پانی بجلی پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے.تجو ٹر با عنیز میں سے ہو کہ یہ بجاتا ہے.ترقی کے معبد یہ ایک اور بھینٹ ! اما تم اسے ہم پھر ولمین سٹرینڈ گئے اور وہاں سے جہانہ پیر کو ہو گئے.یہ تمام سفر تھیل میں سے تھا اور نہایت پر لطف رہا.فنلینڈ میں ایک لمبا سلسلہ جھیلوں ، جزیروں اور جنگلات کا چلا جاتا ہے.جہانہ کے اس سفر کے کسی حصے میں بھی ایک وقت نصف بلکہ پو تھائی میل سے زیادہ پانی کی سطح نظر نہیں آتی.جہانہ چاروں طرف سبز تجمد یروں سے گھرا ہوا نظر آتا ہے.اور سہہ پہروں کے بیچوں بیچے اپنا رستہ تلاش کرتا ہے.کو سپور سے ہم پریل پیر کھانا گئے.ریل کی یہ شاخ یہاں ختم ہو جاتی تھی.یہ شہر اسی نام کی وسیع تجھیل کے جنوب مغربی کنارے پر واقعہ ہے.آبادی کے لحاظ سے تو اس وقت اس کی حیثیت ایک بڑے گاؤں یا ایک جھوٹے قصے سے بڑھ کر نہیں تھی.لیکن فنلینڈ کے شمالی حصے کی جنگلاتی پیداوارہ کا مخرج ہونے کی وجہ سے اسے بڑی اہمیت حاصل تھی.سب عمارتیں لکڑی کی تھیں ہمارا مختصر سا ہوٹل بھی سب لکڑی کا بنا ہوا تھا.ہوا چڑا اور سمجھ قسم کے در نعتوں کی خوشبو سے لدی ہوئی محسوس ہوتی تھی.ہوٹل جھیل کے کنارے پر تھا.اور اس کے عین نیچے جھیل کے جہانوں کے مسافروں کے اترنے اور پڑھنے کی جگہ تھی.ہم چانہ کے بعد دو سپر نیچے تھے.آرام سے بیٹھ کر جھیل کا نظارہ کر
AM ؟ رہے تھے کہ سردار صاحب نے دریافت کیا کل کا کیا پروگرام ہے.انہیں ایک دن سے زیادہ کا پروگرام زمین میں رکھنے کی زحمت گوارا نہ تھی.ہر روز اس دن کا پروگرام ختم ہونے پر دوسرے دن کا پروگرام دریافت فرمالیتے تھے.اور اس کے مطابق ہر صبح نیا نہ ہو جاتے تھے.میں نے بتایا کل کا پروگرام ہے تو لمبا لکین ہے بہت دلچسپ.کل صبح ہمیں چین کے روانہ ہوتا ہے.کہا اتنی جلدی کیا ہے ؟ میں نے کہا جہانہ کی روانگی کا وقت پچھ بچے ہے اتنی سہولت ہے کہ جہانہ اس ہوٹل کے نیچے سے روانہ ہو گا.اور ناشتہ بہاز پر ہوگا.دریافت کیا تم کہاں جائیں گے؟ میں نے بتایا کہ جہانہ پر تو صرف سھیل کی دوسری جانب بھائیں گے جس میں چار گھنٹے صرف ہوں گے.وہاں سے کشتی میں بیٹھ کر دریائے الیاء میں ساحل کی طرف سفر کریں گے.تین مقامات پر تیز پانیوں میں سے گزر کمہ جوب شام کے قریب دریا کے ہموارہ حصے میں پہنچیں گے تو وہاں سے دنخانی بہانہ پر گولیا بورگ" صلے جائیں گے.کہنے لگے اس میں خاص دلچسپی کیا ہوئی ہے میں نے کہا دریا کے RA PIDS میں سے کشتی بہت تیز گذرتی ہے اور وہ حصے خطرے سے بھی تعالی نہیں.بہت لطف کا سفر ہے.پوچھا خطرہ کیا ہے ؟ میں نے کہا خطرہ دو قسم کا ہے ایک توان شمالی علاقوں میں دھند بہت جلد چھا جاتا ہے.اگر دھند اس وقت پھیل جائے جب کشتی RAPID میں سے گزر رہی ہو تو کنارے سے یا درمیان میں کسی بیٹیان سے مسکرا کر کشتی کے ڈوب جانے کا شدید اندیشہ ہوتا ہے.دوسرے آخری RAPID کے انتقام پر دریا ایک پہاڑ سے ملا کر اس کے گرد چکر لگاتا ہے اور اس تصادم کی وجہ سے دریا میں بہت زور کے بھنورہ پڑتے ہیں.یہ مقام بہت خطرے کا ہے اگر کشتی کو عین وقت پر چکیہ نہ دیا جائے اور ایک لحظے کی بھی تاخیر ہو جائے توکشی پہاڑ سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے اور اگر ایک لحظه قبل از وقت چکر دیدیا جائے تو بھنور میں الجھ کر غرق ہو جائے.کہنے لگے تو لطف کسی بات کا ہوا ؟ میں نے کہا یہی تو لطف ہے کہ ایسے پر خطر مقامات میں سے انسان اتنی تیزی سے صحیح سلامت گذر جائے.اس پر سردار صاحب خوب قہقہ مار کر ہنسے اور کہا اسے بھائی ایسے خطرے میں ہم پڑیں ہی کیوں ؟ میری بیوہ ماں نے مجھے پڑھنے کیلئے بھیجا ہے اس قسم کی شعبد بازیوں کے لئے نہیں بھیجا ہمیں کیا مجبوری ہے کہ ہم اپنی جانیں خطرے میں ڈالیں.میں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ پہاڑی برف پر پھیلنے اور اونچے اونچے پہاڑوں پر پڑھنے کی طرح SHOOTING THE RAPIDS بھی ایک قسم کا کھیل ہے.لیکن وہ آمادہ نہ ہوئے.آخر پر چھا اس کھیل میں خطرے کے عنصر کا کچھ اندازہ بھی ہے.میں نے بتایا کہ کتابوں میں لکھا ہے کہ منیش سے لیکر تمہیں
".فیصدی تک کشتیاں تلف ہو جاتی ہیں سنتے ہی کہا پھر تو اس ہم پہ جانا خالص دیوانگی ہے میں تو ہر گز نہیں جاؤں گا اور تمہیں بھی نہیں جانا چاہیے.لیکن اگر تمہیں اصرار ہے تو تم جاؤ اور میری واپسی کا کوئی اور انتظام کرو.ہم ریلوے اسٹیشن پر گئے تا کہ ان کے واپسی کے سفر کا کوئی اور راستہ معلوم کریں لیکن سٹیشن کی عمارت پر فقل لگا ہوا تھا.یہ بات بھی ان کی مسنی کا موجب ہوئی.ایک ملازم اسٹیشن کی عمارت کے سامنے جھاڑو دے رہا تھا.وہ ہماری بات نہ سمجھ سکا.ہم اس کی بات نہیں سمجھتے تھے.صرف اشاروں اور چند جر من الفاظ کی مدد سے اتنا معلوم ہوسکا کہ دن بھر میں ایک ہی گاڑی جس پر ہم آئے تھے یہاں تک آتی ہے اور واپس چلی جاتی ہے.ناچار ہم ہوٹل واپس چلے آئے اور سردار صامو نے کہا اچھا بھائی اب جو قسمت ہے.SHOOTING THE RAPIDS دوسری صبح ہم چھ بجے جھیل کے جہانہ پر سوار ہوئے اور دس بجے دریائے الیا کے منع پر پہنچے جہاز نے جھیل کے درمیان ہی لنگہ ڈال دیا اور ایک کشتی جو جہانہ کے انتظارہ میں تھی جہانہ کے ساتھ آلگی - اندا نہ اچارفٹ چوڑی اور میں فٹ لمبی ہوگی نیشتی کے ایک سرے پر ملاح بیٹھا تھا.دوسرے پر ایک گیارہ بارہ سال کا لڑکا جو اس کا بیٹا با شاگرد تھا.اور اس کا معاون بھی تھا.مسافرود درود کی قطار میں کشتی میں بیٹھ گئے ہمارے منہ کشتی کے اس سرے کی طرف تھے.جہاں لڑکا بیٹھا تھا.ہمارے بیگ ہمارے پاؤں میں لکھدیے گئے.اور ملاح نے ایک چھوٹے سے چھوٹی مد سے کشتی کو پانی کی اس درد کی طرف لیجانا شروع کیا ہو تجھیل میں سے ایک جانب بہتی نظر آرہی تھی آہستہ آہستہ یہ روتیز ہوتی گئی اور کشتی نے اس میں تیزی سے بہنا شروع کر دیا.چار پانچ منٹ نہ گذرے ہوں گے کہ سامنے ایک پتھر کا بلند کٹہرا نظر آنے لگا.جس کی طرف کشتی تیزی سے ہر خطہ رہی تھی.اس کٹہرے کے اندر جو بھلا تھے ان میں سے پانی بڑی سرعت کے ساتھ جھیل سے خارج ہو رہا تھا.سب سے بڑے خلا کی چوڑائی پانچ چھ فٹ سے زیاد نہ تھی.اس میں سے کشتی تیر کی طرح نکل کر دریا میں داخل ہوگئی.یہ پہلے RAPID کی ابتدا تھی جو چھ میل لمبا تھا.پانی کی رفتار نہایت تیز تھی اور کشتی اس کی نا ہموار سطح پر رقص کرتی جارہی تھی.دریا کے کنارے اونچے تھے اور تیز رفتار سے مخالف سمت بھاگتے نظر آتے تھے.ایسا معلوم ہوتا و یا کشتی تو پانی کی سطح پر ایک ہی مقام پر رقصاں ہے اور دریا کے کنارے بھاگتے جار ہے ہیں.یہ چھ میل کا فاصلہ چند منٹوں میں طے ہو گیا.کشتی دریا کے ہموار حصے میں پہنچ گئی.انک منظر وخانی کشتی نے رہتی پھینک دی جسے ہمارے ملاح نے کشتی کے سرے سے باندھ لیا اور درخانی کشتی
ز رفت مارو نے ہماری کشتی کو کھینچنا شروع کر دیا.یہاں دریا کا پاٹ چوڑا ہو گیا اور کنارے بھی نیچے ہو گئے ارد گرد کا علاقہ بالکل سنسان تھا.معلوم ہوتا تھاکہ یہاں آبادی بہت ہی کم ہے کسی قسم کی آن کا سلسلہ دریا کے کناروں پر نظر نہ آتا تھا.دخانی کشتی آہستہ آہستہ جاتی تھی.RAPID کے مقابلے میں سفر کا یہ حصہ بہت سست رفتاری سے طے ہوا اور کوئی امر دلچسپی کا نہ تھا.RAPID میں سے گزرتے ہوئے ہماری تمام تنہ تو جہ اس عجیب کیفیت کی طرف تھی جس میں سے ہم گزر رہے تھے اور جس کا ہمیں پہلے تجربہ تھا نہ صحیح اندازہ.بات چیت کا نہ موقع تھانہ طبیعت بات چیت پر مائل تھی یوں بھی ہدایت تھی کہ RA PID میں سے گذرنے کے دوران کوئی مسافر ملاح سے کوئی بات نہ کرے.ملاح کی ساری توجہ کشتی کی طرف تھی.وہ اپنے چھو کی خفیف کی حرکت سے کشتی کو پٹانوں اور بھنوروں کی زد سے بچاتے ہوئے نسبتنا گہرے پانی کی رو میں سے لئے جاتا تھا.ایسے معلوم ہوتا تھا کہ اس کا چہرہ اور سیم شیخ کی حالت میں ہیں.آنکھیں پانی کی رو پر جمی ہوئی تھیں اور پیشانی کی رگیں ابھری ہوئی تھیں.ہماری پیٹھ اس کی طرف تھی اور اگر چہ ہم اس طور پر پھینچ کر میٹھے ہوئے تھے کہ زیادہ ملنے جلنے کی گنجائش نہ تھی.پھر بھی کبھی کبھی گردن موڑ کر ہم اسے دیکھ لیتے تھے کیونکہ جہاں تک انسانی ہز اور احتیاط کا تعلق تھا ہماری سلامتی اس کے ہاتھوں میں تھی سردار صاحب اور میں کبھی کبھی آپس میں بات چیت کر لیتے تھے.اگر چہ وہ اس حصہ سفر کے متعلق مطمئن نہ تھے اور حالات سے مجبور ہو کر رضامند ہوئے تھے.لیکن جب سفر شروع ہو گیا تو انہوں نے کسی مرحلے پر بھی پریشانی کا اظہار کیا ہے آرامی کی شکایت کی ملکہ جیسے ان کی عادت تھی ہر بات پر ہنستے رہے اور خطرے کے پہلو کو مذاق میں ٹالتے رہے.ہمارے آگے جو دو مسافر بیٹھے تھے ان میں سے ایک تجارتی گماشتہ تھا.وہ انگریزی سے تھوڑی سی واقفیت رکھتا تھا.نو جوان تھا اور ہلکے جسم کا تھا.جب ہمیں کچھ چلا کرنے کی ضرورت ہوتی تو وہ خود ہمیں تبا دیتا یا ہم اس سے دریافت کر لیتے.دوسرا ادھیڑ عمر کا بھاری بھر کم لانے قد کا تھا سردار صاحب اکثر وقت پنجابی میں اس کا مذاق اڑاتے چلے گئے.یہاں ذرا خطرے کا احساس ہونا کہتے خدا خیر کرے یہ ریمین ہیں لے ڈوبنے گا.دوپہر کے وقت دریا کے ہموار حصے ہی کی تھوڑی دیر کے لئے کنارے لگی.کنارہ اونچا تھا کیشی ملنے جلنے کی گنجائش نہیں تھی.ہم نے یہ موقع غنیمت جان کشتی سے اتھہ کر اوپر چڑھ گئے اور چند منٹ کنا سے کے قریب گھوم لئے کنارے کے قریب ہی ایک بڑھیا سیاہ قہوہ اور باسی پیسٹری بیچ رہی تھی.قہوے کیلئے تو چینی میسر نہ تھی لیکن خلاف توقع دودھ بھی نہ تھا.حالانکہ فلینڈ میں دودھ عام معلوم
ملتا ہے اور چھوٹے قصبات اور دیہات میں تو کھانے کے ساتھ دودھ اور کستی پانی کی طرح بیٹے جاتے ہیں اور ان کی قیمت نہیں لی جاتی.ہمیں بتایا گیا تھا کہ دو پہر کے کھانے کا دن بھر میں کوئی موقعہ نہیں ہو گا.جھیل کے جہانہ پر سجنے سیر ہو کر ناشتہ کر لیا تھا.اب دوپہر کے کھانے کی جگہ کڑوے سیاہ قہوے اور باسی میٹی پہ اکتفا کیا.جب ہم دوسرے RA PID کے قریب پہنچے تو ہمارے ملاح نے دوخانی کشتی والی رہتی کھولدی اور ہماری کشتی پانی کے بہاؤ کے ساتھ RAPID کی طرف بڑھنا شروع ہوئی اور جلد ہی اس کی تیز نا ہموار سطح پر محور قص ہوگئی یہ RAPID نوبیل لمبا تھا اور یہاں بھی وہی کیفیت رہی ہو پہلے RAPID میں پیش آئی تھی.یہ نومیل کا فاصلہ بہت جلد طے ہو گیا اور RAPID سے نکلنے پر پھر مار کی کشتی ایک دخانی کشتی کے ساتھ باندھ دیگئی.آخر کار ہم تیسرے اور آخری RAPID میں داخل ہو گئے.اس کے اختتام پر ایسے معلوم ہوتا تھا کہ دریا چاروں طرف سے پہاڑ کے اندر گھر کر اس کے نیچے غائب ہو جاتا ہے.کشتی بہت تیزی سے پہاڑ کی طرف بڑھتی گئی.یوں محسوس ہونے لگا کہ پہاڑ کے ساتھ ٹکراؤ میں کوئی مضر نہیں.لیکا یک تمارے بائیں ہاتھ کے کنا رہے اور پہاڑ کے درمیان ایک پاٹ نظر آیا اورکشتی جو پہلے ہی مجنونانہ رقص کر رہی تھی نہایت تیزی سے چار کھانے لگی.بعض مسافروں کی تو بے اختیار چیخین نکل گئیں.یہیں یوں محسوس ہوا کہ طلاح کے پھپو کی کسی حرکت کے نتیجے میں دونوں کنائے اور سامنے کا پہاڑ تیزی سے کشتی کے گرد چکر لگا رہے ہیں.یہ کیفیت چند کا سیکنڈر ہی اور دفعتاً گنا ہے اور پہاڑ سب غائب ہو گئے اورکشی ہموار سطح پر کسی قدر تیزی سے بڑھتی معلوم ہوئی.یہاں دریا کا یا پھر جوڑا ہو گیا تھا.اور کہا ہے اگر چہ اب بھی اونچے تھے لیکن کچھ فاصلے پہ ہونے کی وجہ سے دریا ان میں گھرا ہوا نہیں تھا.اور پھر علی چٹانوں کی جگہ مٹی نے لے لی تھی کشتی ایک درخانی جہانہ کی طرف بڑھ رہی تھی جو کنارے کے قریب لنگر ڈالے تھا.ہمارا اندازہ تھاکہ ہم اس بہانہ پر آگیا لوگ جائیں گے لیکن ہماری کشتی کے مسافروں کی حرکات اور دفعتنا گفتگو کا سلسلہ تیز ہو جانے سے ہم نے قیاس کیا کہ کوئی خلاف توقع بات ہوگئی ہے.ہمارے تاجر مسفر نے بتایا کہ ہم دیر سے پہنچے ہیں.اکیا بورگ جانیوالا جہانہ جا چکا ہے.اور یہ بہانہ جو کھڑا ہے کل صبح جائیگا ہم نے دریافت کیا کہ رات بسر کرنے کا کوئی سامان ہو گا.اس نے کہا قریب ہی ایک فارم میں سنگہ مل بجائے گی.اتنے میں کشتی کنارے آلگی اور ہم اپنے سامان سمیت اتنہ آئے.ہمارے ہمسفر نے ادھرادھر نگہ دوڑائی اور ہمیں ذرا ٹھہر د کہہ کردہ پھرتی سے دائیں طرف لیکے اور بندہ گھر جا کہ ایک سہ پہیہ ریسٹری کو جو الٹی پڑی ہوئی تھی سیدھا کیا اور اسے دھکیلتے ہوئے لے آئے.کوئی لفظ کہے بغیر اپنا اور ہمارے دونوں
۹۲ بیگ اس میں لاہ لئے.اور اسے کنا سے کے اوپر کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا.سامان اٹھائے اسی طرف جارہے تھے.کنا ہے پر چڑھ کر دیکھا کہ علاقہ سرسبز ہے اور کہیں کہیں کھیتوں کے درمیان کاشت کاروں کے مکان نظر آتے ہیں.ہم سے ایک مکان کا رخ کیا ہو یہ بھی نظر آتا تھا اور حیثیت میں بھی ممتاز معلوم ہوتا تھا.مکان پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ پہلے سے ہی یہاں مسافروں کے ٹھہرنے کا انتظام ہے.کمرے کشادہ ہوا دارہ اور نہایت صاف تھے.سامان سادہ تھا.لیکن ہر ضروری چیز مہیا تھی.معلوم ہوا کہ اگیا بورگ آتے جانے والے جہانہ چونکہ یہاں ٹھہرتے ہیں اور کئی دفعہ مسافروں کو یہاں رات میسر کہ نیکا اتفاق ہوتا ہے.اس لئے اس مکان والوں نے انہیں ٹھہرانے کا انتظام کیا ہوا ہے.جب ہم منہ ہاتھ دھوکر تیار ہو گئے تو ہمارے ہمسفر نے کہا کھانے کا انتظام ایک قریب کے فارم ہاؤس میں ہے سو وہاں چلیں.ہم کھیتوں میں سے ہوتے ہوئے وہاں گئے کوئی نصف میل کا فاصلہ تھا.دن کا اکثر حصہ ایک تنگ کشتی میں جکڑے ہوئے گزارنے کے بعد یہ مختصر سی سیر بہت خوشگوار معلوم ہوئی.یہ مکان بھی نہایت صاف ستھرا تھا.اسے بڑے کمرے میں کھانے کا میز مرتسم کے ٹھنڈے اور گرم کھانوں سے لدا ہوا تھا.انڈے ، مچھلی ، گوشت ، تہ کاری ، سلاد ، قسم قسم کی روٹی، در دوستی سب با افراط موجود تھے ،شیریں پھل، چائے، قہوہ کی کمی نہ تھی.ہم سب دن بھر کے بھوکے تھے.خوب سیر ہو کر کھایا.گھر کی دو فرامین بطور میزبان کمرے میں موجود تھیں.وہ آرام سے کر یوں پر میٹھی سلائی یا کشیدے کے شغل میں مصروف تھیں اور ساتھ ساتھ مہمانوں کے ساتھ بات چیت بھی جاری تھی.ساراما توں گھر یلو تھا.کسی قسم کا اجنبیت کا احساس نہیں تھا.شام بہت آرام اور و چینی میں گذری.کھانے کے دام اسقدر کم تھے کہ مجھے اس سے پہلے کبھی اتنا عمدہ کھانا اتنے سستے دامول کھانے کا اتفاق نہ ہوا تھا.ہم ایسے بلا امتیا ز صرف ایک ایک فنش مارک طلب کیا گیا جس کی اسوقت کی قیمت انگریزی سکے میں دس پنس تھی.ان دنوں فنلینڈ میں ہر چیز بہت وایسی قیمت پر مل جاتی تھی اور نجی اور فنلینڈ یورپ کے ممالک میں سر سے سنتے سمجھے جاتے تھے.دوسری صبح ہم دونمانی بہانہ یہ کیا بورگ پہنچ گئے.ہمارے اس سفر میں یہ رسے شمالی مقام تھا.ہمارے پہلے پروگرام کے مطابق تو نہیں یہاں سے شمال کو جانا تھا اور خلیج پوتھیا کے گرد ہو کر سویات میں سے ہوتے ہوئے انگلستان واپس لوٹنا تھا.لیکن بعد میں ہم نے یہ پروگرام بدل دیا اور ایک دن الیا اور ٹھہر کہ بذریعہ دریل واپس جنوب کی طرف روانہ ہو گئے.اگیا لورگ میں ہمیں دو تین لیپ لینڈ
۹۳ کے رہنے والے.بھی نظر آئے.ایک ان میں سے کو سچو ان تھا.دو مین شائید اپنی ضروریات خرید نے شہر میں آئے ہوئے تھے.ہمارا ریل کا سفر لمبا تھا لیکن سفر کے دوران میں ہمیں ملک کے دیکھنے اور لوگوں کے طور طریق ملاحظہ کرنے کا موقعہ مل گیا.ان دنوں فنلینڈ میں ریل کے انجنوں میں زیادہ تریکی بطور ایندھن استعمال ہوتی تھی.کوٹلہ بہت کم استعمال کیا جاتا تھا.فائر مین کا کام کرنے کیلئے کسی رضا کار مسافر کو انجن میں سوار کر لیا جاتا تھا.اسے کرا یہ بچ جاتا تھا.اور ریل کے محکمے کو اس کی مزدوری بچ جاتی تھی.اس سفر میں ریل کے ساتھ کھانے کی گاڑی نہیں تھی.لیکن کھانے کے اوقات پر سیل کسی ایسے سٹیشن پہ رک جاتی تھی جہاں کھانا میسر ہو تا تھا.مسافر آرام سے کھانا کھالیتے تو ریل پھر روانہ ہو جاتی ان اسٹیشنوں پر کھا عمدہ ملتا رہا اور قیمت سب جگہ نہایت واجبی تھی ہم دوسرے درجے میں سفر کر رہے تھے.ہمارے ساتھ کے ڈبے میں سفر کر نیوالے ایک صاحب ہمیں یعنی دیکھ کر جہاں گاڑی کھڑی ہوتی ہمارے ساتھ ہو جاتے اور اگر بچہ انگریزی نہیں جانتے تھے لیکن ہماری ہر ضرورت کا قیاس کر کے اسے پورا کرنے میں ہماری مرد کرتے.کھانے کے کمرے میں بھی ہمارے ساتھ یہ ہتے کھانے کے انتخاب اور قیمت ادا کرینے میں ہماری مدد کرتے اور ہرطرح سے ہمارے آرام کا خیال رکھتے.فجزاہ اللہ احسن الجزاء - شام کے کھانے کیلئے جب گاڑی کھڑی ہوئی اور ہم کھانا کھا کر اپنے کمرہ ہیں واپس آئے تو ہم نے دیکھا کہ ہمارے کمرے کے نچلے اور اوپر والے دونوں بنچوں پر بستر لگا دیئے گئے ہیں " جس سے ہمیں بہت اطمینان ہوا.ہمارا اندازہ تھا کہ ہمیں رات بیٹھ کر یا بغیر ستر کے گدوں پہ لیٹے گزارنا ہوگی.معلوم ہوا کہ بغیر زائد کرایہ وصول کئے رات کے سفر کے لئے بستر مہیا کر دیا جاتا ہے.یہ تجربہ مجھے صرف فنلینڈ میں ہوا.بہتر بہت صاف ستھرے تھے اور ہر ضروری چیز مہیا تھی.ہماری رات نہایت آرام سے کئی.فالحمد للہ ہمارا یہ سفر بڑا دلچسپ رہا اور ہم بخیریت لندن واپس آگئے.متر می | اس سال گرمیوں کے شروع میں میرے ہم جماعت مسٹر محمد حسنی تحریک کی تھی کہ میں ان کے ساتھ نمبرسم لان کر سینٹ کیو گارڈ نہ میں رہائش منتقل کر لوں.مجھے اس میں کچھ تامل تھا.وہ عالی تو مجھے بہت پسند تھا اور میں کئی دفعہ اس باغ کی سیر کے لئے جاتا بھی رہا تھا.گرمیوں کے موسم میں تو اکثر جانے کا اتفاق ہو تا تھا.لیکن مسٹر فائنڈن کے ہاں میری رہائش کا انتظام لتسلی بخش تھا اور میری طبیعت بے سبب رہائش تبدیل کرنے پر مائل نہ تھی میسٹر محمد حسن نے اصرار کیا کہ ایک شام ہمارے ہاں کھانے پر تو آؤ.میں گیا تو مکان مجھے بہت پسند آیا.کھانا بھی بہت عمدہ تھا مکان کی مالکہ مسری بہت تواضع سے پیش آئیں.مکان ان کی اپنی ملکیت تھا.اور ساتھ کے مکان کی بھی دہی مالک تحقیق
۹۴ ان کے میاں کسی بینک کی ایک لوکل شاخ کے منیجر تھے اور اپنی وفات پرا نہیں خاصا خو شحال چھوڑ گئے تھے.ان کی کوئی اور اولاد نہیں تھی ان کی طبیعت بہت بشاش اور متواضع تھی.مکان کا ماحول بورڈنگ ہاؤس کا سانہیں تھا.بالکل ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے اپنے ہی گھر میں ہیں.مکان کا سازندون بھی نہایت عمدہ تھا.ان دنوں اکثر مکانوں میں گیس کی روشنی ہوا کر تی تھی مسترمی کے ہاں بجلی کی روشنی تھی.سے بڑھ کر یہ آرام تھا کہ دو کمرے میسر تھے ایک سونے کا دوسرا بیٹھنے اور پڑھنے کا.اور بھی بعض سہولتیں تھیں گرمیوں کے موسم کا آغازہ تھا.کیو گارڈ نہ کا قرب بھی کشش کا موجب تھا.میں نقل مکان پر رضامند ہوگیا اور رفتہ دس دن بعد مسٹر فائزون کے ہاں سے مسنرمی کے ہاں اٹھ آیا.تھوڑا ہی عرصہ بعد مٹر محمد حن وہاں سے کسی نجی مصلحت کی وجہ سے نقل مکان کر گئے.سرمی کسی لحاظ سے بھی لندن کی لینڈ لیڈی ثابت نہ ہوئیں.لینڈ لیڈی ایک کاروباری خاتون ہوتی ہے.جس کا فرض اولین اپنی روزی کمانا ہوتا ہے.مستر قائمزن اپنے حسن انتظام، دیانت ، محنت ، توجه ، اخلاق اور تو اصنع کے لحاظ سے اپنی صنف کا اعلیٰ نمونہ تھیں.میں جتنا عرصہ ان کے ہاں ر ہا ر کیو گارڈ نہ چلے جانے سے پہلے بھی اور وہاں سے واپسی پر بھی ، ان کی شفقت کا مورد رہا.فجزاہ اللہ احسن الجزا وہ اپنا و قاری قائم رکھتی تھیں اور مکان کا انتظام بھی خوبی اور تو سبہ سے کرتی تھیں.طبعاً انہیں پیسے پیسے کا حساب بھی رکھنا ہوتا تھا.اور خیال بھی رکھنا پڑتا تھا.ورنہ ان کا ذریعہ معاش مخدوش ہو جاتا مسنرمی اس قید سے آزاد تھیں.علاوہ دو مکانوں کے ان کے میاں اور بھی جائداد چھوڑ گئے تھے.وہ اپنے گھر مں کرایہ دار مہمان رکھنے پر مجبور نہ تھیں.اور یہ کہا یہ ان کا ذریعہ معاش نہ تھا.دو عمد سجے ہوئے کمروں کا کرایہ ان کے ناں مستر قائدین کے ناں کے ایک کمرہ کے کرایہ سے بھی کم تھا.کھانا بھی مسٹر قائمدن کے ہاں کے کھانے سے اعلیٰ معیارہ کا تھا.خط و کتابت کیلئے وہ بہایت عمدہ سٹیشنرزی مہتا کرتی تھیں.جس پر مکان کا پتہ تو شما چھپا ہوا تھا.کرایہ بجائے مہفتہ وار ادا ہونے کے ما ہوا ر ادا ہوتا تھا.جب پہلے مہینے کے کرایہ کی ادائیگی کا وقت آیا تو میں نے دیکھا کہ ہل میں صرف کرائے کی مقررہ قیم درج تھی.متفرقات میں سے کچھ بھی درج نہیں تھا.میں نے کہا آپ بعض رقوم بل میں درج کر نا بھول گئی ہیں.کیا کونسی رقوم میں نے کہا میرے دوست مسٹر بہ نظر ہفتہ یا اتوار کے دن آتے رہے ہیں اور کبھی دونوں دن بھی آتے ہیں.دو سپر یا شام کا یا دونوں وقت کا کھانا ہمارے ساتھ کھاتے پیتے ہیں اور سہ پہر کا ناشتہ یہاں کرتے رہے ہیں.آپ نے اس مہمان نواندی کی رقم بل میں درج نہیں کی.اس پر کچھ حیرانی سے کہا میں نے تو آپ لوگوں کی باتوں سے بھی اخذ کیا ہے کہ اپنے ملک میں تم لوگ مہمانوں
90 کی تواضع کرتے ہو اور اس تواضح کی کوئی قیمت نہیں لیتے تم یہاں میرے ہاں مقیم ہو.تمہاسے مہمان میرے بھی مہمان ہیں میں ان کی مہمان نواندی کی قیمت کیوں لوں.میں نے فرق بنانے کی کوشش کی اور مرار بھی کیا لیکن وہ نہ مانیں.میں جب لنکنز ان میں کھانا کھانے جانا یا کسی دوست کے ہاں دعوت پر جاتا تو واپسی پر کھانے کے کمرے میں پورا ٹھنڈا کھانا بھنا ہوا پاتا.مجھے تنہا نہ ہوتی اسلئے وہ کھانا ویسے ہی پیٹا رہتا.دوسری صبح مستر می رنجیدہ نظر آئیں.دریافت کرنے پر جواب ملتا تمہیں میرا کھانا پسند نہیں میں کہتا آپکو یہ وہم کیوں ہوا یہ فرمائیں رات جو کچھ مں نے میز پر رکھ دیا تھا اس میں سے کسی چیز کو بھی تم نے پسند نہیں کیا.میں بہتر کہتا.میں کھا کھانے کی تو باہر گیا تھا.مزید کھانے کی ضرورت نہ تھی.نہ میری عادت ہے لیکن ان کا شکوہ قائم یہ بتا کہتیں تم لوگ اپنے وطنوں سے دور غیر ملک میں رہتے ہو تمہاری مائیں ضرور پریشان ہوں گی کہ انکے بیٹوں کو پورا کھانا بھی ملتا ہے یا نہیں.میں ان کے ہاں بہت آرام سے تھا اور وہیں سے سویڈن اور فنلینڈ کے سفر پر گیا تھا.اور وہیں واپس لوٹا.چودھری فتح محمد صاب سیال | سفر سے واپس آنے پر معلوم ہوا کہ محترم چودھری فتح محمد سیال کی انگلستان تشریف آوری | صاحب دو کنگ پہنچ چکے ہیں.میں ان سے ملا تو انہیں بہت ملول پایا.ایک تو انہیں آشوب چشم کی تکلیف تھی دوسرے کھانے کا انتظام خاطر خواہ نہ تھا.اور سانول بھی موافق نہیں تھا.حقیقت یہ تھی کہ خواحد کمال الدین صاحب نے حضرت خلیفتہ المسیح اول کی عادت میں یہ تو لکھدیا کہ وہ کام کرتے کرتے نڈھال ہو جاتے ہیں.اور یہ ہو گا بھی درست لیکن ایسا لکھنے سے ان کی غرض یہ نہیں تھی کہ حضور ان کیلئے کوئی مدد گار بھیج دیں اور مدد گار کبھی چودھری فتح ہے سیال صاحب مجیب مخلص خادم سلسلہ انہیں اگر ضرورت تھی تو ایسے معاون کی تھی جو ان کا مخلص خادم ہو.بچنا نچہ انہوں نے لاہور سے اپنے منشی صاب شیخ نور احمد صاحب کو بلوالیا تھا جو بہت نیک سیرت بزرگ تھے.اور گو انگریزی کی مہارت نہیں رکھتے تھے.لیکن خواجہ صاحب کی ذاتی خدمت شوق سے ادا فرماتے تھے اور ان کے لئے بہت سہولت کا موجب تھے.ضعیف ہونے کی وجہ سے وہ دودھ ڈبل روٹی پر گزارہ کر لیتے تھے.جو لباس وہ اپنے ساتھ لائے تھے وہی انہیں کفایت کرتا رنا.چونکہ انہیں کہیں ملاقات وغیرہ کے لئے جانا نہیں ہوتا تھا.اس لئے انگریزی لباس کی انہیں ضرورت نہیں تھی.اور وہ یورپین لباس اور وضع قطع سے مانوس بھی نہیں تھے.چودھری فتح محمد صاحت سے راجہ جاب کو توقع تھی کہ وہ شیخ نور احمد صابے نام کے طور پہ کام کریں گے اور انہی کی طرح بود و باش رکھیں گے.یہ صورت ہو دھری صاحب کو بہت ناگوارہ تھی.لیکن اس کی اصلاح کا بھی
۹۶ کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا.خواجہ صاحب سے انگریزی لباس کیلئے ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا آیکو کہیں باسر تو جانا نہیں سلئے سوٹ وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں.کھانے کے متعلق تو جہ دلائی تو فرمایا شیخ نور احمد صاحب با وجود پیرانہ سالی اور ضعف کے میں خوراک کو کافی سمجھتے ہیں وہ آپ کے لئے بھی کافی ہونی چاہیے.میں اپنے لاہور کے طالب علمی کے زمانے سے چودھری صاحب کو اچھی طرح جانتا تھا اور ان کا بہت احترام کرتا تھا.میں جانتا تھا کہ کالج کے زمانے میں بھی دو اچھی غذا کے عادی تھے.کمپین کے در وقت کے کھانے کے علاوہ دودھ اور پھل وغیرہ باقاعدہ استعمال کرتے تھے.ان کی طبیعت میں شوقینی نہیں تھی.بہت سادہ مزاج تھے لیکن زمیندار طبقہ میں سے تھے.اور ہاتھ کھلا تھا.سے بڑھ کر ان کیلئے یہ امر پریشانی کا موجب تھاکہ خواجہ صاحب انہیں تبلیغی کام میں شامل نہیں کرتے تھے بلکہ احتیاط کرتے تھے کہ انہیں اس میں کوئی دخل نہ ہو.خواجہ صاحب مغربی ممالک میں حضرت علیه مسیح موعود علیہ السلام کے ذکر کو سم قاتل سمجھتے تھے.اور چودھری صاحب کے نزدیک بغیر حضو صلہ اسلام اور حضور علیہ سلام کی تعلیم کو پیش کرنے کے اور کوئی ذریعہ تبلیغ اسلام کا نہیں تھا.ان حالات میں دونوں اصحاب کے درمیان تعاون اور استحاد عمل کی بہت کم گنجائش تھی.خواجہ صاب نے دو کنگ میں مشن تو قائم کیا.لیکن اس کے کرتا دھرتا وہ خودی تھے.چودھری صاحب کی معروضات پر وہ کوئی توجہ نہیں فرماتے تھے.اور چودھری صاحب حضرت خلیفہ المسیح اول کی خدمت میں یہ حالات گزارش کر کے حضور کی پریشانی کا موجب ہونے سے گھبراتے تھے.ان حالات میں میں نے ان کی خدمت میں گذارش کی کہ وہ دو تین ہفتے لندن میں میرے پاس گزاریں.وہ رضامند ہو گئے اور خواجہ صیب سے اجازت لیکر میرے پاس آگئے.میں نے ان کے لئے کمرے اور کھانے کا انتظام کردیا.اور مناسب پارچات بنوانے کا بھی.کھانا مسنرمی کے ہاں بہت عمدہ ملتا تھا پھل وغیرہ بھی میسر تھے.مکان کے باغ میں عمدہ ناشپاتی اور سیب کے درخت بھی تھے.اگست ستمبر کا موسم پھیل کا تھا.یہاں ان کی طبیعت بہت شگفتہ رہی.کچھ لندن آنے جانے سے شہر اور سوسائٹی کے حالات کا بھی اندازہ ہو گیا.ہندوستانی مسلمان طلباء سے ملاقات اور واقفیت ہوئی.اُن میں سے بعض کو وہ پہلے سے ہی گورنمنٹ کالج میں جانتے تھے.مرزا بدر الدین صاحب امریکن مشن ہائی سکول سیالکوٹ میں استاد تھے میں ان کا شاگرد رہ چکا تھا.بعد میں وہ سیالکوٹ میونسپلٹی کے افر صفائی ہوئے اور پھر میونسپلٹی کے سکریٹری ہو گئے چند سال بعد انگلستان برسٹری کی تعلیم کیلئے تشریف لائے
94 جب حضرت خلیفتہ المسیح اول کی وفات پر حضرت خلیفہ ایسی نانی کی باری کے تحت پو ری فتح محمد سیال صاحب ود کنگ سے لندن آگئے تو مرزا بدر الدین صاحب سے بھی ان کی ملاقات ہوئی.مرزا صاب جماعت احمدیہ میں تو شامل نہیں تھے لیکن حسن ظن رکھتے تھے.چودھری صاحب کے بڑے مداح تھے.میں نے کئی دفعہ ان سے چودھری صاحب کی نسبت سنا کہ یہ شخص انسان نہیں فرشتہ ہے.ستمبر سلالہ میں میں نے بیرسٹری کا آخری امتحان دیا اور بفضل اللہ کامیاب ہو گیا.فالحمد للہ علی ذالک - اکتوبر میں میں نے محسوس کیا کہ مسنرمی کے ہاں رہتے ہوئے میری طبیعت بہت زیادہ آرام کی عادی ہوتی جارہی ہے.اور ممکن ہے یہ بات میرے لئے بعد میں تکلیف کا باعث ہو.پھر یہ بھی خیال تھا کہ ایک طالب علم کی زندگی بہت سادہ ہونی چاہئیے.مالی لحاظ سے تو مسنرمی کے ہاں رہتے ہوئے میرا خرج مسنر فائمدن کے ہاں سے کم تھا.لیکن ان کے ہاں کی بالا نشینی میری طبیعت : دو بھر ہونے لگی تھی.آخر بہت سوچ بچار کے بعد میں نے ہی فیصلہ کیا کہ مجھے سر فامنین کے ہاں داناں پہلے جانا چاہئیے.میں مسنرمی کا نہایت ممنون تھا.ان سے نقل مکان کی وجہ بیان کرنا مشکل تھا گر نمی بیان کرتا تو وہ ضرور خیال کرہ نہیں کہ مں اصل بات ان سے پچھپاتا ہوں جس سے ممکن ہے کہ انہیں کن ہوتا.اور پریشانی نو ضرور ہوتی وہ غالبا یہی مجھیں کہ مجھے ان کے ہاں پورا آرام نہیں ملا.حالانکہ میں حد سے زیادہ آرام سے ہی بھاگ رہا تھا.میں نے ان کا تہہ دل سے شکریہ اداکیا اور انہیں یقین دلانے کی کوشش کی کہ میں ان کے ہاں بہت آرام سے رہا ہوں.غور کیا کہ سرما کے موسم میں شہر کے قریب رہائش میرے لئے سہولت کا موجب ہو گی ( یہ عذر واقعہ میں بھی صحیح تھا اور ان سے اجازت کیا ہی انہوں نے بغیر کسی شکوے کے اجازت دی اور میں مسٹر فاتمدن کے ہاں واپس چلا آیا.کریسمس کی تعطیلات میں نے فالموتھ اور نارازیون در کار نوال ، میں گزاریں فروری سم میں میں نے اپنے دستور کے مطابق حضرت خلیفۃ المسیح اول کی خدمت میں عریضیہ لکھا کہ خاکسار کو الیسٹر کی تعطیلات میں فرانس ، بلجیم ، ہالینڈ اور جمہ منی کے دریائے رائین کے علاقے میں سیر کیلئے جانے کی اجازت عطا فرمائی جائے.حضور کی اجازت آنے پر میں نے اس سفر کی تیاری کرلی.حضرت حضرت خلیفۃ المسیح اول سفر پر روانہ ہونے سے پہلے چودھری فتح محمد صاحب بال کی وفات کا سا نسخہ نے ایک خواب کا ذکر کیا تو شیخ نور احمد صاحب نے دیکھا جو اور خواجہ صاحب کی خدمت میں بیان کیا.شیخ صاحب نے خود ہی اپنے خواب کی تعبیر بھی بیان کی که حضرت خلیفہ اول کے وصال کا وقت قریب ہے اور صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ۱۹۱۴
بیم 44 آپ کے بعد خلیفہ ہوں گے.دو چار دن کے بعد حضرت خلیفہ المسیح اول کے وصال کی خبر بذریعہ نامہ خواجہ صاحب کو پہنچ گئی اناللہ وانا الیہ راجعون میں نے خواجہ صاحب سے دریافت کیا کیا خبر آئی ہے؟ انہوں نے فرمایا کچھ پتہ نہیں چلتا.ایک نامہ آیا ہے مولوی صاحب فوت ہو گئے ہیں.دوسرا نامہ آیا ہے میاں صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ ہوئے ہیں.تیسرا نامہ آیا ہے اختلاف ہو گیا ہے.مسٹر یوسف امام کی معیت میں فرانس میری تعطیلات شروع ہوگئیں.اور میں سفر پر تالینڈ، اور حجر منی کی سیر روانہ ہو گیا.اس سفر میں میرے رفیق مسٹر یوسف امام تھے تو کسفورڈ میں پڑھتے تھے اور ساتھ بیرسٹری کے امتحان کی تیاری بھی کر رہے تھے.مرزاپور (یو پی) کے رہنے والے تھے.نہایت شریف طبع تھے مزاج کسی قدر امیرانہ تھا.ہندوستان واپسی پر انہیں سیاست سے گہری دلچسپی ہو گئی.قوم پرستی شعار ہوا اور کھدر پوشی اختیار کرلی.مرکزی امیلی کے رکن منتخب ہو گئے.لیکن عمر نے وفا نہ کی چند سال بعد فوت ہو گئے.پیرس | ہم لندن سے براستہ سو تھمپٹن ، نادر پیرس گئے.شانز الیزے کے قریب ہوٹل بالنزاک میں قیام ہوا.ہفتہ بھر ٹھہرے اور سب قابل دید مقامات دیکھے.بر سلمہ پیرس سے بر سلنا گئے.جہاں ہمارا قیام سٹیشن کے قریب ایک ہوٹل میں ہوا جس پوک میں یہ ہوٹل واقعہ ہے وہ بہت قابل دید عمار توں کا مجموعہ ہے.تو یہ انے فلیمش طرز تعمیر کے دلکش نمونے ہیں.قریب کی وہاں کا بڑا گہ بجا ہے.شارع رائل سارا قابل سیر ہے.ہمارے قیام کے دوران میں پارلیمنٹ کا اجلاس ہو رہا تھا.ہم دیکھنے گئے.ہماری کسی رگین کے ساتھ شناسائی تو تھی بہنیں پارلیمنٹ کے ایک کارکن نے ہمارے نام پارلیمنٹ کے ایک رکن کو بھجوائیے.ان کا اسم گرامی سٹرڈ میلان تھا اور وہ سوشلسٹ پارٹی کے لیڈر تھے.وہ تشریف لے آئے اور ہمارے داخلے کے ٹکٹ بنوا کر تمہیں خود ساتھ لیکر مناسب جگہ پر بٹھا دیا.ہم کوئی آدھ گھنٹہ ٹھہرے.اس دوران میں مسٹر ڈیمبلان نے بھی تقریر کی.وہ اچھے مقررہ تھے اور جوش سے بولتے تھے.ان کی تقریہ توجہ سے سنی گئی.شہر سے چند میل باہر WATER LOO کی لڑائی کا میدان بھی دیکھا.میدانِ جنگ تو ان دنوں زیر کاشت تھا.اس کے وسط میں لڑائی کی یاد گار ہے جس کے سر یہ بیلجین شہر ہے.برطانوی زائرین اسے بر طانوی شیر تصویر کر کے خوش ہو لیتے ہیں.میرے دوست آسکر مجہ نلر اپنے والدین اور بہنوں کے ساتھ دیہات میں تھے لیکن ہمیں ملنے کیلئے شہر آئے اور چند گھنٹے ہمارے ساتھ گزارے.جب ہم
49 گرد وره بریسلرز اور مضافات کی سیر کر چکے کر چکے تو سمنے بیلجین ریلونیہ کا ایک ہفتے کا ٹکٹ خرید لیا اور آر ن کاٹکٹ خرید لیا اور آسٹنڈ پروگس ) گھنیٹ کی سیر کو گئے.ہم صبح پر سر سے پروانہ ہو جاتے اور شام کو واپس آجاتے.اس کے بعد تم پر سلز سے براسته نامور ایک نہایت خوشنا مقام دینیانٹ پر دو دن کیلئے جا ٹھہرے.یہ جگہ آرڈینز کے علاقے میں ہے.ان دنوں یہ ایک چھوٹا سا قصبہ میوند دریا کے دائیں کنا سے پر تھا.اب اچھا خاصا شہر ہے اور دریا کے دونوں طرف پھیل گیا ہے.اور اسکی تمام دلکشی جاتی رہی ہے.البتہ امور سے اوپر ڈینیان" تک دریا کا منتظراب بھی دلفری ہے.ڈینائٹ سے پھر نامور اور پیچ وغیرہ ہوتے ہوئے تم کولون پہنچے.سجد منی | کولون دریائے RHINE کے بائیں کنارے پر واقعہ ہے.اور شام کے وقت دریا کا منظر بہت دلفریب ہوتا ہے.ہم دریا کے کنا ہے جارہے تھے اور بجلی کی روشنی میں دریا کے منظر کا لطف اٹھا رہے تھے کہ مسٹر یوسف امام یک تخت رک گئے اور کہا بھائی کہاں جارہے ہو؟ میں نے کہا کہیں خاص تو نہیں بیس دریا کی سیری مقصود ہے.کہنے لگے سیر تو ہو گئی.بس دیکھ لیا.پانی ہے.بہہ رہا ہے.اب الیس چلیں ! اسی طرح جب ہم دو تین دن بعد وائمہ بیڈن میں شہر سے باہر سر کر رہے تھے تو رک کر پوچھا بھائی کہاں جاتے ہو ؟ کہا سیر کو جارہے ہیں.کہنے لگے سیر تو ہوگئی.بس درخت ہیں اور سبزہ ہے اب واپس چلیں.دراصل انہیں پیدل چلنے کی عادت نہیں تھی.تھوڑی دور چل کر تھک جاتے تھے.اور پریشان ہونے لگتے تھے.کولوں سے ہم ریل پر ہوں گئے جو اس زمانے میں اپنی یو نیورسٹی کی دیجہ سے مشہور تھا.شام کو واپس کو لون پہلے آئے.پھر وہاں سے دوخانی جہانہ پر لائین دریا کے اوپر کی طرف روانہ ہوئے.یہ سیر کاحصہ بہت پر لطف رہا.جہانہ کے کین آرام دہ تھے.کھانا بھی عمدہ تھا.گویا بہانہ ایک رواں ہوٹل تھا.جہاں جہاں جہاز ٹھہر نائم اتر کر سیر کو چلے جاتے.کہیں زیادہ وقت ملتا کہیں کم.کون سے گزرنے کے بعد یہ شہر کو بلنز آیا.یہاں دریائے موزیل آکر بائین میں شامل ہو جاتا ہے.عین مقام اتصال پر منتصر نیم کامجسمہ نصب تھا.موزیل کی وادی بہت خوشنما اور قابل دید ہے.بعد میں دو تین بار مجھے اس وادی میں سے گذرنے کا اتفاق ہوا اور ہر بار یہ سفر بہت پر لطف رہا.یورپ کے سب دریاؤں کے کناروں پر عموما متواتر آبادی چلی جاتی ہے.دریائے لائین بھر لیورپ کی تاریخی اور بہت بارونی آبی شاہراہ ہے اسکی توسط پہ بھی جہاندوں اور رشتوں کا آمد ورفت کا سلسلہ نہا ہے.اور دونوں کناروں پر بھی سڑکوں اور بریلوں پر ہر وقت کثرت سے آمدورفت رہتی ہے.کو بلنز اور مینز کے درمیان دریا کے کنارے پہاڑ ہی شکل اختیار کرلیتے ہیں.اور منتظر اور بھی دلچسپ ہو جاتا ہے.
پہاڑی چوٹیوں پر جا بجا پر انے امراء کے قلعہ نما محل کھڑے ہیں.ان میں سب سے خوشنما اور نا یہ کمی بیشیت بجا رکھنے والا سٹونزن فیلہ ہے.انگریز شاعر بائرن کی مشہور نظم چائلڈ ہیرلڈ میں رائین کے اس حصے کا بہت پر لطف بیان ہے.واپسی کے دوران میں میں نے اس تنظیم کا وہ حصہ نکال کر سامنے رکھ لیا اور ہر مقام کو حبس کا نظم میں ذکر تھا شناخت کرتا گیا.اس طرح سیر کا لطف اور دلچسپی دوبالا ہو گئے.پایا ہائیڈل برگ | مینز سے بہانہ میں مہم گیا.ہم نے شہر کی سیر بھی کی اور اسے بہت خوشنما یا یا مہم اور یہاں سے سٹیم سے چلنے والی ٹریم پر ہم ہائیڈل برگ بھی گئے تجر بہا سے اس دریائی کے سفر کالری چیس ترین مقام ثابت ہوا.یہ شہر دریائے نیکر کے دونوں طرف واقعہ ہے.یہ دریا چند میل نیچے مکین ہم کے قریب جاکر برائین میں شامل ہو جاتا ہے.ہائیڈل برگ سے ادھر اس دریا کی وادی بھی بہت خوشنما ہے.بعد میں بھی مجھے اس دادی کی سیر کا دو تین یا یہ اتفاق ہوا ہے اور ہر بار وہ سیر پرتکلف رہی ہے.تائیڈل برگ کی یو نیورسٹی یون کی یونیورسٹی سے زیادہ شہرت رکھتی ہے.بون کی جنگی روایات غالباً ٹائیڈل برگ سے زیادہ روشن ہیں.لیکن ہائیڈل برگ کی علمی شہرت کون سے بہت زیادہ ہے.ہائیڈل برگ کا طرہ امتیانہ ایک پاکستانی اور خصوصاً ایک سیالکوٹ کے کا رہنے والے کے لئے یہ ہے کہ اسے علامہ سر محمد اقبال کی درسگاہ ہونے کا فخر حاصل ہے..ہائیڈل برگ آج بھی اپنی یو نیورسٹی کی وجہ سے ممتاز حیثیت رکھتا ہے.اور جرمنی کی صنعتی ترقی سے اس حد تک متاثر نہیں ہو ا کسی حد تک جرمنی کے دوسرے بڑے شہر ہوئے نہیں.پہاڑہ کی چوٹی پر قصر ہائیڈل برگ اور دامن میں دریائے نیکہ ابھی تک زائرین کیلئے باعث کشش ہیں.مین ہیم سے جہاز نے واپس دریا کے اترا کی طرف سفر شروع کر دیا.اور واپسی کے سفرمیں ہماری دلچسپی میں کوئی کمی نہ آئی ملکہ نہ یادتی ہوتی گئی.ہمارا واپسی کا سفر کولوں پر ختم نہ ہوا ہم اس جہاز میں رائٹر ڈیم تک آئے.کولون سے نیچے دریا بہت ہموار علاقے میں سے گذرتا ہے.ڈونرل ڈارن شہر کا پھیلاؤ اب تو بہت بڑھ گیا ہے.اس وقت جرمنی کے صنعتی شہروں میں ممتاز حیثیت رکھتا تھا.دوسط شہر مں پھولوں کی خوشنما کیا ریاں تھیں یہاں سے ایلیبر فیلڈ تک ایک بہتی گاڑی چلتی تھی.جس کا ایک پہیہ چھت کے اوپر تھا جس سے گاڑی ٹکی ہوئی چلی جاتی تھی.اس زمانہ میں یہ گاڑی ایک عجوبہ سمجھی جاتی تھی.
راسٹر ڈیم | رائٹر ڈیم میں ہمارا قیام صرف ایک رات ہوا.ہم شہری علی کے ہوٹل میں ٹھہرے رائٹر ڈیم ان دونوں بھی یورپ کی بڑی بندر گاہوں میں شمار ہوتا تھا.لیکان تو تین سال سے یہ دنیا کی سے بڑی بندر گاہ ہے.دنیا کے مختلف ممالک سے بحری جہانہ میاں علیم، فرانس، سوئٹر لینڈ، مغربی جمہ منی اور ہالینڈ کیلئے ہر قسم کا سامان لاتے ہیں اور ان علاقوں سے سامان لے جاتے ہیں.رائٹر ڈیم سے یہ سامان درخانی کشتیوں یا جاکہ جبہ کے ذریعے ان علاقوں میں پہنچتا ہے اور اسی طرح وہاں سے لایا جاتا ہے.ایمسٹرڈیم ارائر ڈیم سے تم ایمسٹر ڈیم گئے.یہ شہر ابھی تک ہالینڈ کا دارالحکومت شمار ہوتا ہے.گور ایک عرصے سے حکومت کے تمام ادارے بیگ میں منتقل ہو چکے ہیں.ایمسٹر ڈیم کی بنیادیں لکڑی کے بڑے بڑے شہتیروں اور گیلیوں پر جمی ہوئی ہیں.شہر کے اندر بہت سی نہریں بہتی ہیں.جن کے ذریعے بہت سا سامان ملک کے ایک حصے سے دوسرے حصوں تک منتقل ہوتا ہے.ان ہنروں میں سے بھی ایمسٹرڈیم کی سیر کی جاتی ہے.ہالینڈ کے مغربی علاقے کا اکثر حصہ سمندر کی سطح سے نیچا ہے.اور اس تمام علاقے میں مہروں کا ایک جال پھیلا ہوا ہے.سمندر سے بیچا ہونے کی وجہ سے ان علاقوں سے بارش کے پانی کے نکاس کا خاص اہتمام کرنا پڑتا ہے.اس مہم کو بخوبی سر انجام دینے کیلئے حکومت نے ایک علیحدہ محکمہ قائم کیا ہوا ہے.بارش کا پانی چھوٹی چھوٹی مہنروں کے ذریعے بڑی شہروں میں پہنچتا ہے.ان شہروں سے اس زمانے میں ہوائی چکیوں کی طاقت سے پانی کو بلند کر کے دریاؤں میں ڈال دیا جاتا تھا.یہاں سے وہ پانی سمندر میں پہنچ جاتا تھا.اب یہ کام بجلی کی طاقت سے لیا جاتا ہے.سمندر کے پانی کو روکنے کے لئے بڑے بڑے بند بنے ہوئے ہیں.جن کا سلسلہ بہت وسیع ہے.ہالینڈ کی تاریخ میں اس کے باشندوں کی سمندر کے ساتھ کشمکش کی داستان ایک نہایت شاندارہ با ہے.جس پر ہولند یوں کو بجا نانہ ہے.ایمسٹرڈیم بھی یورپ کی بڑی بندر گاہ ہے بہ یہ میں ایسٹر ڈیم کو کھلے سمندر تک براہ راست ریسائی حاصل تھی.اس کے بعد ایک بہت بڑا بند تعمیر کر کے جس کی لمبائی میں میں ہے.بہت سے حصے کو شیر کر کے ملک کے گیارہ صوبوں میں بارھویں صوبے کا اضافہ کر دیا گیا ہے.اب ایمیسٹریم کو براہ راست کھلے سمندر تک پائی نہیں رہی.لیکن اس کی بندر گاہ کی سرگرمیوں میں کوئی کمی نہیں آئی.بحری بھان دے کے ایمسٹر ڈیم آنے جانے کا رستذاب بحر شمال کی ہنر کے ذریعہ ہے.ہو کئی میل لمبی ہے.اور جھیلے ہیں کے نام سے ظاہر ہے ایمسٹرڈیم کے بحیرہ شمالی کے ساتھ رابطے کا ذریعہ ہے.شاہ میں ایمسٹر ڈیم میروں کے کاٹنے کا اور صاف کرنے کا سب سے بڑا یورپین مرکز تھا.اور ہیروں کی تجارت اور بہروں کے کاٹنے کا 1
1 i ہنر زیادہ تر یہودیوں کے ہاتھوں میں تھے.لیکن اب یہ فن ایمسٹرڈیم کے ساتھ مخصوص نہیں رہا.ایمسٹرڈیم میں ہم بڑے ریلوے اسٹیشن کے قریب ہی ایک نہایت صاف آرام دہ بور ڈنگ ٹاڈس میں ٹھہرے جہاں ہماری سب ضروریات کا سامان مہیا تھا.ہالینڈ فن مصوری میں ایک تاریخی اور ممتانہ حیثیت رکھتا ہے.اس فن کے سر سے مشہور پولیندی فنکار مشہور عالم رامبراں تھے ان کا سب سے بڑا شہ کا نہ دی نائٹ راج " ایمیٹر ڈیم کے میوزیم میں ہے.یہاں ہالینڈ کے دیگر مشہور مصوروں اور خود را مبران کے فن کے بہایت دلکش نمونے کثرت سے جمع کئے ہوئے ہیں.یہ عجائب گھر ایمیٹرڈیم کی سب سے ممتانہ قابل دید جگہ ہے.ہالینڈ میں ہم نے دیکھا کہ مریم بعض دفعہ ایسی جگہ بھی کھڑی ہو جاتی یہاں کوئی سوالہ ہونیوالا یا اترنے والا نہ ہونا.البتہ لائن کے ساتھ تازہ دودھ کے کنتر رکھے ہوئے ہوتے جن کے ساتھ لیبل لگا ہوتا.ٹیم کا کنڈکٹر یه کنستر اٹھا کر ٹیم میں رکھ لیتا.ٹالینڈ میں ہر قسم کی کاروباری دیانت اور امانت کا معیار ان دنوں بھی بہت بلند تھا اور اب بھی اسی درجے پر ہے.اگرچہ یورپ کے بعض اور علاقوں میں وہ صورت قائم نہیں رہی.ہیگ | ہماری ایسٹر کی تعطیلات سے اب صرف ایک دن باقی تھا.مجھ ہم نے ہینگ کی سیر کے کیلئے رکھا تھا.لیکن مسٹر یوسف امام آکسفورڈ سے اتنے لمبے عرصے کی جدائی سے افسردہ ہو گئے تھے اور انہوں نے فورا واپس جانے کا فیصلہ کر لیا.دوسری صبح میں اکیلا ایمسٹرڈیم سے بیگ گیا اور بیگ اور سخے دے تنگن کی سیر میں دن گزار کر شام کو ایمسٹرڈیم پہنچا اور اسی رات کے جہانہ پر لندن واپس چلا گیا.ہیگ میں بھی ان دنوں ابھی سٹیم ٹریم چلتی تھی شہر کے اندر PEACE PALACE دیکھا جس کی کار نیگی فونڈیشن کے اہتمام کے ماتحت دو سال قبل ہی تکمیل ہوئی تھی.جیسا کہ فونڈیشن کے نام سے ظاہر ہوتا ہے اس عمارت کے مصارف کیلئے اور فونڈیشن کے قیام کے لئے روپیہ سٹراینڈریو کارنیگی نے عطا کیا تھا.مسٹر کا رنگی ایک مفلس سکاچ گھرانے میں پیدا ہوئے تھے.مدر سے جانیکے لئے انہیں کئی میں ننگے پاؤں سردیوں میں برف پر چل کر جانا پڑتا تھا.ذرا بڑے ہوئے تو امریکہ چلے گئے وہاں آہستہ آہستہ اپنی صنعت میں اقتدار پیدا کیا اور کروڑ پتی ہو گئے.اپنی دولت کا بہت سا حصہ انہوں نے امین عالم کے استحکام ، عام انسانوں کی معاشرتی بہبودی اور اپنے اصل وطن سکاٹ لینڈ کے نادار طلبا کی تعلیم اور وہاں کی یونیورسیٹوں کے مختلف شعبوں کی ترقی کے لئے وقف کر دیا.نیویارک کا کارنگی بال اور وہاں کی کارنیگی : اور میگ کی کا رنگی IENDOWMENT FOR PEACE
I a poster فونڈیشن ان ہی کی فیاضی کے مرہون ہیں.ہیگ کا میں پلیس جب تیارہ ہو گیا تو کئی حکومتوں نے اپنی طرف سے اس کی زیبائش کیلئے تحائف پیش کئے.جرمن کے قیصر ولیم ثانی نے محل کے گردا گرد آہنی جنگلا اور محل کے آہنی پھاٹک ارسال کئے.جب پہلی عالمی جنگ شروع ہو گئی تو کہا جانے لگا کہ قیصر ولیم نے PEACE PALACE تیار ہونے پر کہا.یہ لو اب اس کے گردہ پہ آہنی جنگل اور منی پھانک لگا دو کیونکہ میں ا جنگ کی تیاری کر رہا ہوں.میں جب پیس سپاس دیکھنے گیا تو اس وقت میرے دہم میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی ذرہ نواندی سے چالیس سال بعد میں عالمی عدالت کا حج منتخب ہو کہ اس عدالت کے اجلاس میں شامل ہوں گا.اور تم ہم سال بعد اس عدالت کا نائب صدر اور ۵۶ سال بعد اس کا صدر منتخب ہو جاؤنگا نہ ہی اس وقت یہ تصورہ میں آسکتا تھا کہ معین اپنی ایام میں جس عظیم مرتبت شخصیت کو اللہ تعالیٰ نے سلسلہ احمدیہ کی امامت اور مسیح محمدی کی خلافت کے مقام پر فائز کیا.اس کی مساعی حسنہ کے نتیجے میں اور اس کی غلامی کی وجہ سے مجھے ہیگ میں مسجد کی بنیاد رکھنے اورمسجد کی تعمیر کی تکمیل پر اس کے افتتاح کی سعادت بفضل اللہ نصیب ہو گی.فالحمد للہ علی ذالک.اس وقت تو یہ بھی دین میں نہیں آتا تھا کہ بیرسٹری کی سند حاصل کرنے کے بعد جب وطن واپسی ہو گی تو کبھی یورپ آنے کا اتفاق بھی ہو گا یا نہیں.حضرت مرزا بشیر الدین محمد احمد لندن واپس آیا تو تین ہفتوں کی ڈاک جمع تھی.علاوہ خلیفہ المسیح ثانی کی بیعت بذریعہ خط خطوط قادیان سے بہت سے اخبار ، اعلان اور پمفلٹ حضرت خلیفۃ المسیح اول کے وصال اور جماعت میں اختلاف کے متعلق آئے ہوئے تھے.جبس صبح میں لنڈن پہنچا اسی دن سہ پہر کو ڈاک ہندوستان روانہ ہونیوالی تھی.ڈاک نکلنے کے وقفت سے پہلے تمام اعلانات در سائل کے تفصیلی مطالعہ کا تو رفت نہ تھا.لیکن ان سے اتنا معلوم ہو گیا کہ بنیادی اختلاف اس بات پر ہے کہ جماعت کا روحانی پیشوا کوئی فرد ہو یا بغیر کسی روحانی پیشوا کے جماعتی امور کی سرانجام دہی صدر کمین کے سپرد ہو اور انجمن کی قیادت جماعت کیلئے کافی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی کی نوعیت کے متعلق بھی کچھ اختلاف پیدا ہوا تھا.لیکن اصل اختلات ایک واجب الاطاعت امام کی ضرورت کے متعلق تھا.مجھے قادیان سے رخصت ہوئے اور وطن سے دور رہتے اڑھائی سال ہو چکے تھے.اس عرصے میں جو اندرونی اختلافات پیدا ہوئے ان کا مجھے علم نہیں تھا.نہ مجھے یہ معلوم تھا کہ جماعت کی سرکردہ شخصیتوں میں سے کون کسی خیال کا حامی ہے
لیکن با وجود اپنی نو عمری کے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعادی کو فضل اللہ خوب سمجھتہ تھا.اور یہ بات کسی صورت میری سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ ایک دینی اور روحانی جماعت کی قیادت ایک انجمن کر سکتی ہے.پھر اس مسئلے کو حضرت خلیفہ المسیح اول کی لاہور کی تقریروں نے بھی خوب واضح کر دیا ہوا تھا.اور خواجہ کمال الدین صاحب کی تلقین نے میرے موقف کو بجائے کسی بھی لحاظ سے کمزورہ کرنے کے اور مضبوط کر دیا تھا.چنانچہ جولائی سالہ میں ایک خط میں میں نے اپنے خیالات کا اظہار اپنے ماموں صاحب کچودھری عبداللہ خالصا حب سے کر دیا تھا.اختلاف کے بارے میں والد صاحت نے مجھے لکھا کہ یہ ایمان کا معاملہ ہے میں اس میں نہیں کوئی حکم نہیں دیتا صرف یہ مشورہ دیتا ہوں کہ فیصلہ کرنے میں محبت سے کام نہ لینا.اور جو فیصلہ بھی کرو غورو فکر اور دعاؤں کے بعد کرتا.والدہ صاحب نے لکھوایا کہ جماعت میں بہت خار پیدا ہو گیا ہے.میں نے اپنی بیعت اور تمہارے بہن بھائیوں کی بیعت کا خط لکھوا دیا ہے.تم بھی اس خط کے ملنے پر فوراً بیعت کا خط لکھ دو.چنانچہ میں نے اپنی سبعیت کا خط اور والد صاحب اور والدہ صاحبہ کے خطوں کے جواب تو فوراً لکھ کر ڈاک میں ڈال دیئے اور پھر فراغت سے بیٹھ کر ڈاک کا تفصیلی مطالعہ شروع کر دیا.اس مطالعہ کے بعد مجھے اطمینان ہو گیا کہ جو فیصلہ میں نے کیا وہ درست ہے اور خلافت کے ساتھ وانستنگی لازم ہے.جب چودھری فتح محمد سیال صاحب سے ملاقات ہوئی تو ان سے کچھ تفاصیل.اور یہ بھی معلوم ہوا کہ انہوں نے فوراً اپنی بیعت کا خط ارسال کر دیا تھا.اور چونکہ میرے خیالات سے خوب واقف تھے اس لئے میرے متعلق لکھ دیا تھا کہ وہ سفر سپہ گیا ہوا ہے بھی معلوم ہو لندن واپس آنے پر بعیت کا خط لکھ دیگا.فجزاہ اللہ احسن الجزاء.ی کے موسم گرما کا وہ دن مجھے خوب یاد ہے جب آسٹریا کے آر ڈیوک فرانہ فرڈینینڈ اور انکی بیگم کے سیرا جو میں قتل کئے جانے کی خبر اخباروں میں شائع ہوئی.نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے.لیکن اعتبار بیچنے والے لڑکے کی صدا ابھی تک میرے کانوں میں ویسے ہی محفوظ ہے.گویا میں نے صدا ابھی ابھی سنی ہے.وہ چین پہنچ کر کہ رہا تھا.آج ڈیوک فرانز فرڈینینڈ قتل کر دیا گیا.اس وقت وہ واقعہ ہولناک تو معلوم ہوا لیکن اس کے تباہ کن نتائج کا کوئی تصویر فوری طور یہ دو ملین میں نہ آیا.کچھ دنوں کے بعد مستر فائزن نے ۱۷۵ دی گرود کی ر ہائش ترک کردی اور ایک اور مکان کنسنگٹن گار ڈنر سکوئر میں چلی گئیں.میں اور دیگر مہمان تجبر ان کے ہاں مقیم تھے ان کے ساتھ
۱۰۵ ہی نقل مکان کر گئے.یہ مکان پہلے مکان سے دگنا وسیع تھا اور اس کی جائے وقوع بھی نہ یادہ اہمیت کا موجب تھی.لیکن طبیعت پہلے مکان اور وہاں کی طرز رہائش سے مانوس ہو چکی تھی.ہم سب تجو وہاں منتقل طور پر رہتے تھے ایک کنبہ کے افراد کی مانندہ تھے.ایک دوسرے کے مزاج اور عادات سے خوب واقف ہو گئے تھے.نئے مکان میں نصف سے زاید ر ہنے والے ہمارے لئے اجنبی تھے.سالہا ما سول ہمارے لئے غیر مانوس تھا.پھر جنگ شروع ہو گئی.سارے مکان میں ہم دو ہی ہندوستانی تھے.دوسرے صاحب ہوشیار پور کے مسٹر محمد طفیل تھے وہ بھی قانون کا مطالعہ کر رہے تھے.جنگ اور سنگی سرگرمیوں کے متعلق ہمارے جذبات ویسے نہ تھے جیسے بر طانوی بورڈرز کے تھے.ہر چند میں مسنر فائنزن کا نہایت ممنون تھا اور انگلستان کے عرصہ قیام کے آخر میں ان کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہتا تھا.لیکن میرا ایل ایل بی کا آخری امتحان قریب آرہا تھا.اور مجھے یکسوئی چاہیے تھی جو اس نے مکان اور نئے ماحول میں اس حد تک میسر نہیں تھی جس حد تک مجھے مطلوب تھی.اس لئے تا چاہے کے مہینے میں نقل مکانی کر کے میں نمبر وایکین ایونیو چلا گیا.یہ مکان آرام دہ سنتھا.دو خواتین اس کا انتظام کرتی تھیں.ایک کا ایک بیٹا تیرہ چودہ سال کا تھا اور میں اکیلا مہمان تھا.یہ جگہ ڈسٹرکٹ ریلوے کے ایک اسٹیشن کے بالکل پاس تھی اس کے قریب کا علاقہ وہی تھا جو ۱۷۵ دی گردو کے مغرب کی طرف تھا.اور جس سے میں خوب واقف تھا.اس مکان سے بھی صبح کی سیر کیلئے میں ریو سسر کورٹ پارکٹیں to نه گھومنے پھلا جاتا تھا.جب میں ۱۵ کنسنگٹن گارڈنر سکوٹیہ میں رہتا تھا تو ایک تجرد من طالب علم نے جو اسی مکان میں رہتے تھے مجھ سے کہا کہ اگر تم پسند کرو تو ہم صبح ناشتے سے پہلے دریائے سرین ٹائین میں بنانے کیلئے چلے جایا کریں اور وہاں تم تیرنا بھی سیکھ لینا.اس طرح تمہاری سیر بھی ہو جایا کریگی اور کچھ دریش بھی ہو جائے گی.مجھے کھلی جگہ میں بنانے کی عادت نہیں تھی اسلئے حجاب تھا.انہوں نے کہا اتنی سویرے بہت کم لوگ وہاں ہوں گے اور کچھ پر سے کا انتظام بھی ہے.چنانچہ میں نے غسل کا سوٹ خرید لیا اور ہم صبح ہی صبح سرین ٹائین میں بنانے گئے.مجھے یہ دیکھ کر کچھ اطمینان ہوا کہ بنانے کیلئے ہو جگہ مخصوص نخفھی وہاں نوٹس لگا ہوا تھا کہ کوئی شخص بغیر غسل کا لباس پہنے نہ بنائے.عورتوں کیلئے کوئی اور جگہ ہوگئی.یہ جگہ صرف مردوں کیلئے تھی.اگر یہ قوم ان دو قانون کی بہت پابند تھی.وشخص بھی پانی میں داخل ہوتا غسل کے لباس میں ملبوس ہوتا.لیکن ہو ہی پانی سے باہر نکلتا غسل کے لباس کو انا نہ پھینکتا اور تولیہ لیکر بدن کو صاف کرنے میں مصروف ہو جاتا اور اپنے ہم جولیوں کے ساتھ بہاتے یحیت میں لگ جاتا.غسل تو غسل کے لباس میں ہوتا لیکن جب پانی سے باہر آتے تو چونکہ غسل ختم ہوچکا..
1.4 تخت ہوتا اسلئے قانون کی پابندی بھی ختم ہو جاتی.یہ دیکھ میرا وہاں نسل کیلئے جانا ختم ہو گیا.البتہ گریں کے موسم میں میں وہاں کئی با کشتی چلانے کیلئے جار ہا جیسے اس سے پہلے بھی جایا کرتا تھا.۲۱ کرامول روڈ میں ہم قانون کے طلبا نے MOOTS و مجلس بحث کا طریق بھی بھارہی کیا ہوا تھا.پہلے Mo7 کیلئے جو قانونی مسئلہ بحث کیلئے چنا گیا اس کا فیصلہ کلکتہ نائی کورٹ میں مسٹر جنٹس MOOT امیر علی نے موہری بی بی نام دھر مود اس گھوش کے مقدمے میں کیا تھا.ان کا فیصلہ اپیل میں بھی بجھال رہا تھا.اپیل پہنچ کے فیصلے کے خلاف پر یوی کونسل میں بھی اپیل ہوا.اور وہاں بھی سید امیر علی صاحب کا فیصلہ بحال رہا.اب رائٹ آنہ بیل سید امیر علی خود پر یوری کونسل میں جج تھے.انہوں نے MOOT میں جی بنا منظور کیا، ان کے ساتھ دوسرے بی سر سوز شیو شیپرڈ ہوئے جو تھوڑا عرصہ قبل مدراس ہائی کورٹ کی مجھ سے فارغ ہوئے تھے.فریقین کی طرف سے دو دو وکیل تھے.سینئر وکیل تو دو ایسے ظالم تھے جو بیرسٹری کا آخری امتحان پاس کر چکے تھے.لیکن ابھی بیرسٹری کی سند نہیں نہیں ملی تھی.اپیلاٹ کی طرف سے سینئر وکیل گجرات کے چودھری عبدالغنی صاحب تھے.اور ان کے ساتھ ہو نیر میرے ہم جاتے مسٹر محمد حسن تھے.رسپاڈنٹ کی طرف سے سنیئر وکیل ایک بنگالی صاحب تھے اور میں ان کے ساتھ ہونیر تھا.یہ تو ظاہر تھا کہ فیصلہ پر بیوی کونسل کے فیصلے کے مطابق درسپاڈنٹ کے حق میں ہی ہو گا.غرض یہ تھی MOOT میں حصہ لینے والوں کو عدالت میں بحث کرنے کی مشق ہو جائے.اتفاق ایسا ہوا کہ دونوں طرف کے سینٹر کچھ گھبرائے ہوئے رہے اور اپنا کیسں واضح طور پر پیش نہ کر سکے اور دونوں طرف سے کہیں پر اصل بحث جونئیر وکیلوں نے کی بحث کے آخر میں سید امیر علی صاحب نے فیصلہ سنایا اور بڑی وضاحت سے متنازعہ امور اور مسائل بیان کر کے فیصلے کی تائید میں دلائل بیان کئے.ان کا فیصلہ ہمارے لئے ایک نہایت مفید سبق تھا.فیصلے کے دوران میں انہوں نے فریقین کی طرف سے جو بحث کی گئی اس کے متعلق کچھ تعریفی کلمات بھی کہتے MOOT کی کاروائی کے بعد ساتھ کے بڑے کمرے میں بچائے وغیرہ کا انتظام تھا.حاضرین کی خاصی تعداد تھی.بیگم امیرعلی و بو بر طانوی نشاد نھیں ) بھی موجود تھیں.سید امیر علی صاحب نے کمال شفقت سے میرا تعارف بیگم صاحبہ سے کروایا اور فرمایا یہ نو جوان بہت ترقی کرے گا.چائے کی تقریب کے دوران میں بھی دو تین بار یہ جملہ انہوں نے میرے متعلق دہرایا.جس سے طبعاً مجھے خوشی بھی ہوئی اور ساتھ ہی بڑی تضرع کے ساتھ میری روح آستانہ الہی پر گری.یا اللہ تیرے فضل و رحم سے ان کے دل میں میرے متعلق حسن ظن پیدا ہوا ہے.میں تو نہایت نا پچیز ہوں اور مستقبل مشکلات سے پر نظر آتا ہے.تو اپنے فضل سے سب مشکلات آسان کرنا اور ان کے حسین من کو
صحیح ثابت کرنا.میرا سہارا تھی یہ ہے.اء میں جب میں گرمیوں کی تعطیلات کے سفر کے بعد لندن واپس آیا اور سر ٹامس انٹڈ سے ملاقات ہونے پر ان سے اپنے سفر کا نہ کہ کیا تو انہوں نے فرمایا.اگر تم جانے سے پہلے میرے ساتھ ذکر کرتے تو میں تمہیں ماسکو اور کاندان جانے کا مشورہ دیتا.کانیان یو نیورسٹی ایک تاتاری دارد معلوم ہے.وہاں کے عربی کے پر ونیسر میرے دوست ہیں.ہمتیں ان سے ملکر خوشی ہوتی.اس وقت میں نے الیا وہ کیا کہ ۱۹ ء کے گرما کی تعطیلات میں میں وارسا ، ماسکو اور کانہ ان بھاؤں گا.لیکن جنگ شروع ہو جانے کی وجہ سے اس ارادہ کی تکمیل نہ ہوسکی.ایک لحاظ سے یہ اچھا ہی ہوا.گرمیوں کی تعطیلا میں نے لندن میں ہی گزار ہیں اور مجھے ایل ایل بی کے آئندی امتحان کی تیاری کا اچھا موقعہ مل گیا.حج کرنیکے میرے انتظامات میں میرا سه سالہ قیام انگلستان جب ختم ہونے کے قریب آیا تو وطن جنگ کی وجہ سے رکاوٹ واپسی کا شوق تیز ہونے لگا اور والدین اور عزیزوں سے ملنے کی خوشی کی توقع دل میں موجزن ہونے لگی.لیکن شروع اگست میں جب انگلستان بھی کچھ نائل کے بعد جنگ میں شال ہوگیا تو جنگ کے نتیجہ میں پیدا ہونیوالی مشکل کے تصور نے دین پر تسلط جمانا شرع کر دیا.اس سال کی تاخیں کم دور تین نومبر تھیں.میر امتحان دس اکتوبر کو ختم ہونے والا تھا.جون کے مہینے میں میں نے ارادہ کیا کہ وطن والپس جاتے ہوئے میں حج کرتا جاؤں.میں نے ٹامس لک کی معرفت لنڈن سے مارسلینز تک ریل کے سفر کا اور وہاں سے پورٹ سعیدہ تک جہانہ کے سفر کا اور پورٹ سعید سے خالہ یو میل اسٹیمر پہ جانے کا کے سفر کا انتظام کرکے ٹکٹ بھون میں خرید لئے ہوئے تھے.بجنگ شروع ہونے سے سفر کی سب سہولتیں ختم ہو گئیں.لنڈن سے مار سلیز تک ریل کا سفرنا ممکن ہو گیا.اگر باقی سہولتیں میسر بھی آئیں تو بھی لندن سے لیتر تک بحری رستے سے سفر کرنے کے لئے ایک ہفتے کا زائد وقت درکار تھا.جس کی گنجائش نہیں تھی اسلئے بصد حسرت حج کا ارادہ ملتوی کرنا پڑا.ٹامس لک نے ٹکٹ واپس لے لئے اور ان کی رقم واپس کردی ، تاروں وغیرہ کے خروج کے بدلے ایک پونڈ و وضع کر لیا.انگلستان سے واپسی کے سفر کی تیاری | ہندوستان کے سفر کے متعلق بھی پریشانی ہونے لگی.کیونکہ تمام بحری وسائل سفر حکومت کے ضبط میں آگئے.ڈاک کا بہانہ ہر ہفتے بمبئی جانا تھا اور بجائے مار سلیز سے ہندوستان کی ڈاک لینے کے لندن سے ہی ڈاک لیکر روانہ ہوتا تھا.لیکن اب اس پر انڈیا آفس کی معرفت ہی جگہ مل سکتی تھی.مجھے اندیشہ ہوا کہ انڈیا آفس تو شاید سرکاری افسروں ہی کو جگہ دے العجلان کی انہیں کیا پرواہ ہوگی.لیکن ان سے درخواست کئے بغیر کوئی صورت بھی نہیں تھی.چنانچہ میں انڈیا اس مجھے
گیا اور متعلقہ افسر کی خدمت میں اپنی ضرورت بیان کی.وہ بہت ہمدردی سے پیش آئے اور بعد در فیت بتایا کہ دار اکتوبر کو روانہ ہو نیوالے جہانہ کے دور کے درجے میں ایک مسافر کی گنجائش ہے.میں تے کرائے کا چیک ان کے حوالے کیا اور یہ جگہ اپنے لئے محفوظ کر لی.میں نے یہ ذکر مسٹر محمد حسن سے کیا اور کہا کہ وہ بھی انڈیا آفس جاکر ار اکتوبر کو روانہ ہونے والے جہانہ تقریبات میں جگہ لینے کی کوشش کریں.وہ گئے اور واپس آکر بتا یا کہا تو کوئی جگہ اس جہانہ میں خالی نہیں.لیکن ان کا نام نوٹ کر لیا گیا ہے اور اگر کوئی جگہ ہوئی تو انہیں مل جائے گی.تین چار دن بعد انہیں اطلاع ملی کہ انہیں ایک خالی ہونیوالی جگہ دریادی گئی ہے.وہ بھی جا کٹر کٹ خرید لائے.ہم دونوں کو سہون میں بیرسٹری کی سن مل چکی تھی.اب صرف ایل ایل بی کا آخری امتحان باقی تھا.اس کے متعلق یہ وقت تھی کہ ہمارا آخری پرچہ ۱۰ را اکتو بہ کو تھا اور جہانہ بھی اسی دن قبل دو پر روانہ ہونیوالا تھا.یہ امکان تو تھا کہ ہم بجائے لندن کی بندرگاہ سے جہانہ پر سوار ہونے کے ریل پر پلائی موتھ جاکر وہاں جہاز پر سوار ہو جاتے.لیکن ہم سے کہا گیا کہ لندن کی سوار مونانا ہوگا کیونکہ جنگ کے نتیجے میں روزانہ حالات بدلتے ہیں.اور یہ یقینی بات نہیں کہ جان فر در پلائی موقف ضرور ٹھہر سکے گا.ہم دونوں یونیورسٹی کے جبڑا سے جاکر ملے اور یہ مشکل بیان کر کے گذارش کی کہ " راکتور کو ہمارا بچہ چہ شرع محمدی کا ہے.شروع محمدی کی کلاس میں ہم دو ہی طالبعلم ہیں.اسلئے اغلباً ہم دوبی اس پرچے میں امتحان کیلئے بیٹھنے والے ہوں گے.اس صورت میں اگر اس پرچے کے امتحان کی تاریخ دودن پہلے کر دی جائے تو ہماری مشکل حل ہو بہائے گی.انہوں نے فوراً اس امر کی تصدیق تو کند می که شرع محمدی کے امتحان میں صرف ہم دوسی میٹھنے والے ہیں.اور ہمارے فارغ اوقات بھی نوٹ کرلئے اور امید دلائی کہ شرح محمدی کے پرچے کی تاریخ بدلنے میں کوئی مشکل نہیں ہوگی جلدی ہمیں اطلاع مل گئی کہ یہ تبدیلی کر دی گئی ہے.نئے ٹائم ٹیبل کے مطابق ہمارا امتحان در اکتوبر کو ختم ہونیوالا تھا.جنگ شروع ہوتے ہی جو پابندیاں عاید کردی گئیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ بنک سے نقد روپیہ ملنا بند ہو گیا.سب ادائیگی چیک کے ذریعے ہوتی تھی.اس پابندی میں پسند دن کے بعد کچھ تخفیف ہو گئی.لیکن بڑی رقوم نقد نہ مل سکتی تھیں.سونے کے سکے (پونڈ اور دس شلنگ بھی پھیلنے بند ہو گئے.ان کی جگہ سمہ کاری نوٹ ایک پونڈ اور نہ مس شلنگ کے بھاری ہوگئے اس سے پہلے صرف بنک آف انگلینڈ کے نوٹ چلتے تھے.اور سب سے کم قیمت کا نوٹ پانچ پونڈ کا تھا.جیسے جیسے جرمن افوان بلجیم میں پڑھنا شروع ہوئیں.برطانوی آبادی اور بہت سے
1.9 بلجہ کے لوگ بھی برطانیہ آنا شروع ہو گئے.ہمارے لندن سے روانہ ہونے سے عین قبل امیوں سے پہ جرمنوں کا قبضہ ہو گیا تھا..تھا ایل ایل بی کا آخری امتحان اللہ تعالیٰ کے فضل سے امتحان میں میرے پرچے بہت اچھے ہو گئے.الحمد للہ.پانچے پرچے تو پانچوں مضامین میں پیاس کے درجے کے تھے اور چار مضامین میں چارہ پرچے آنماز کے درجے کے تھے مجھے کسی سوال کے جواب میں کوئی دقت پیش نہ آئی.جہاں.ممتحنوں نے اختیار دیا تھا کہ سات سوالوں میں سے پانچ کے جواب لکھو.دہاں مجھے سونچنا یا کہ کو نسے پانچ سوالوں کے جواب لکھوں.کیونکہ فضل اللہ سب سوالوں کے جواب آتے تھے.میں سوالوں کے جواب لکھنے سے پہلے ہر سوال کا جواب لکھنے کیلئے وقت مقرر کر لیا تھا اور اس تقسیم وقت کے مطابق جواب لکھتا تھا.اس طریق سے مجھے بہت سہولت رہی.امتحان کے ٹال میں ہمارے سامنے ہی بیٹا اکلاک لگا ہوا تھا جس سے وقت کی کہ ختار معلوم ہوتی کہ متی تھی کبھی کبھی یہ خواہش بھی ہوئی کہ وقت کی رفتار ذرا آہستہ ہو جائے.تاکہ سوالوں کے تفصیلی جواب لکھے جاسکیں.مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے امتحان کے کمرے میں کبھی ممتحن کی مراد سمجھنے یا سوال کی تہ تک پہنچنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی.میں ہر امتحان میں پہلے تو سوالات اطمینان سے پڑھنا اور ہر سوال کا پورا مطلب سمجھ لینے کے بعد جواب لکھنا شروع کرتا.اس سے بھی مجھے ہمیشہ بہت فائدہ ہوا.ایل ایل بی کے آخری امتحان میں میرے پہنچے تسلی بخش ہوئے اور میں انگلستان سے اس اطمینان کے ساتھ رخصت ہوا کہ جہاں تک میرے بس میں تھا میں نے اللہ تعالی کے فضل اور اسکی عطا کردہ توفیق سے اپنے فرائض کو پوری طرح ادا کیا ہے.میرا دل اللہ تعالی کے شکر اور اس کے فضل اور ذرہ نوازیوں اور عنایات کے احساس سے پہر تھا.فالحمد للہ.حضرت خلیفہ المسح اول کی مشفقانہ عنایات لندن کے قیام کے دوران میرے لئے یہ احیا ہیں بہت تسکین اور اطمینان کا موجب لہ پا کہ حضرت خلیفۃ المسیح اول اور میرے والدین میری حفات اور ترقی کے لئے بہت دعائیں کرتے ہیں.حضرت خلیفہ اول میرے ہر ع لینے کا تو اپنے مبارک قلم سے لکھتے اور اس میں بڑی شفقت کا اظہار فرماتے.خاکسانہ بھی اپنی ہر دلچسپی کا اظہار حضور کی خدمت میں.و بلا تکلف گذارش کر دیا.ایک دفعہ میرے عزیز دوست مسٹر سکہ بہ نگر نے ذکر کیا کہ میرے اعصاب لو تھ محسوس ہوتا ہے.جس کی وجہ سے میں پوری توجہ سے مطالعہ نہیں کر سکتا اور نیند بھی اچھی طرح نہیں آتی.میں نے حضور کی خدمت میں گزارش کر دیا.حضور نے کمال شفقت سے ان کیلئے
کچھ ہدایات تحریم فرمائیں جو میں نے انہیں بتا دیں.جن میں سے ایک جو مجھے یاد رہ گئی ہے وہ یہ تھی کہ پڑھتے وقت روشنی کی طرف منہ کر کے نہ بیٹھیں بلکہ ایسے طور پر بیٹھیں کہ روشنی بائیں کندھے روشنی کے اوپر سے کتاب یا کاغذ پر پڑے شاید یہ بھی تحریر فرمایاکہ رات کو نہ تو پیٹ بھر کر کھائیں نہری عالی پیٹ سوئیں لیکن پختہ یاد نہیں کہ یہ ہدایت ان کیلئے لکھی یا کسی اور تعلق میں خاک رنے حضور سے سنی یا تحریر فرمائی.اس کے بعد خاک رسے کو تا ہی ہوگئی کہ آسکر کے متعلق حضورہ کی خدمت میں اطلاع نہ بھیجی تو حضور نے خود کمال شفقت سے اپنے والا نا مے میں دریافت فرمایا کہ آپ کے دہ جرمن دوست کیا ہوئے؟ میں جب بھی انگلستان سے باہر سفر پر جاتا تو حضور سے اجازت حاصل کر کے جاتا.حضور کا خاک در کے نام آخری شفقت نامہ وصال سے صرف چند دن پہلے کا لکھا ہوا ہے.میں ایک نادان نوجوان تھا شدہ میں تو ابھی میری عمر بھی چودہ سال کی تھی.آپ نے اس وقت کمال شفقت اور ذرہ نوازی سے میرے والد صاحب کو توجہ دلائی کہ مجھے اب بیعت کرنی چاہیے اور اسد ن سے حضورہ کے وصال تک یہ عاجز آپ کی پیہم شفقت اور عنایات کا مور دریا - فجزاه الله احسن الجزاء وجعل الله لجنة العليا مثواہ.اور میری کوئی خصوصیت نہیں تھی.آپ کے فیض کا چشمہ پر ایک کیلئے یکساں بہتا تھا.اللہ تعالی نے اپنے فضل و رحم سے آپ ک شامانہ مرتبہ عطافرمایا تھا اور نہایت پر شوکت اور باغیب شخصیت عطا فرمائی تھی لیکن آپ کا دربارہ ہر کس و ناکس کیلئے کھلار مہتا تھا.ہر کہ خواہد گو بیا و ہر کہ خواہد گو به دو والی کیفیت تھی.گیرد وارد حاجب و در بال در ریس در گاه نیست آپ کی بڑی صاحبزادی آپ کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں بیعت ہونے سے بہت پہلے مولوی عبید احمد صاحب غزنوی امرتسری کے عقد میں آئی تھیں.ان کے صاحبزادے مولوی محمد اسمعیل صاحب غزنوی آپ کے نواسے تھے بی اے میں جب میں بی اے کا امتحان دینے کے بعد آپ کی خدمت میں حاضر تھا وہ بھی امرتسر سے تشریف لائے.پہلے بھی آیا کرتے تھے گو سلسلہ سے منسلک نہ تھے.ابکی بارا انہوں نے آپکی خدمت میں گذارش کی کہمیں کچھ عرصہ مھم کہ آپ سے علم حاصل کرنا چاہتا ہوں.آپ نے فرمایا تیک چاہیں ٹھہریں.لیکن جو علم آپ پڑھنا چاہتے ہیں وہ آپکے گھر مں بھی بہت ہے.اس پر انہوں نے ایک رقعہ لکھ کر آپ کی خدمت میں پیش کیا جس میں اپنی درخواست دہرائی اور عربی کا ایک شعر لکھا میں کا ترجمہ یہ تھا.تیری بخشش سے بہت بعید ہے کہ تو ایک نافرمان کو مایوس کرے اور اگر میں تیرے دردانہ تو اور
سے لوٹا دیا جاؤں تو کونسا دروازہ کھٹکھٹاؤں.آپ پڑھ کر مسکرائے اور فرمایا کہ شعر تو اللہ نے تعالی ہی کے شایان شان ہے.ہاں اگر آپ کو اتناہی شوق ہے تو جو پڑھنا چاہیں پڑھ لیں.آپ کا لباس وضع قطع ، کھانا پینا نہایت سادہ تھے.آپ نے علم وعرفان کے سمندر تھے.طب میں ید طولی نہ کھتے تھے.قادیان جیسی بستی میں رہتے ہوئے بھی غیرانہ جماعت امراء آپ کی خدمت میں طبی مشو سے کیلئے حاضر ہوتے تھے.اور بڑی بڑی رقوم آپ کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کرتے تھے.لیکن یان آپ غریب اور امیری کوئی تمیز ہوا نہیں رکھتے تھے.آپ صبح جب مجلس میں رونق افروز ہوئے تو زائرین اور حاجتمند لوگوں کا تانتا بندھ جاتا.کوئی نہ بانی گذارش کرتا کوئی تحریری - درس تدریس مطب ، خلافت کے فرائض کی سرانجام دہی ، وعظ و نصیحت سب جاری رہتے ، ہدیئے ، تخالف، نذرانے پیش ہوتے رہتے.حاجت مندوں کی حاجت روائی ہوتی نہ ہی.جس جیب میں ہدیوں اور تقدیرانوں کی رقوم بغیر انتفات کے رکھی جائیں.اس میں سے سائل اور حاجتمند کی حاجت روائی کمال فیاضی سے ہوتی چلی جاتی.خالی جیب ہی آکر بیٹھتے اور جہاں تک حاشیہ نشین اندازہ کر سکتے مجلس بدنتان کرنے پر خالی جیب کی تشریف لے جاتے.میرے تجرمین دوست آسکر نے ایک دفعہ مجھ سے کہا میں چاہتا ہوں کہ تمہاری معاشرت کا اپنی معاشرت کے ساتھ موازنہ کروں.تم اپنے ذہین میں کسی ایسی زندہ شخصیت کا نام رکھ لوجو تمہارے خیال میں تمثیل شخصیت ہو اور میں بھی ایک ایسی شخصیت کا نام اپنے ذہن میں رکھ لوں گا.میں تم سے سوال کروں گا کہ فلاں حالات میں تمہارے تجویز کردہ شخص کا کیا طرز عمل ہوگا.تم مجھے بتاتے جانا.میں تمہارے جواب سے اندازہ کر سکوں گاکہ کس کا معیار بلند ہے.جب میں نے انہیں بتایا کہ میں نے اپنے فرمین میں ایک شخصیت کا انتخاب کر لیا ہے تو انہوں نے سوال کیا کہ اگر ان صاحب کو کوئی شخص ملنے کے لئے آئے اور وہ اسے نہ ملنا چاہیں تو اطلاع ہونے پر وہ اسے کیا کہلا بھیجیں گے ہے.میں نے کہا اول تو اطلاع کی ضرورت نہ ہوگی.ان کا دربار عام ہوتا ہے.لیکن اگر وہ کسی سے نہ ملنا چاہیں تو صاف کہیں گے ہم آپ سے نہیں ملنا چاہتے.اس پر آسکر نے کہا تو پھر وہ بھیتے.میں نے کہا کیسے ؟ کہا اسلئے کہ ہوشخصیت میرے ذہن میں ہے وہ صاحب اطلاع ہونے پہ کہلوا دیں گے کہ وہ گھر یہ نہیں ہیں اور یہ لفظاً صیح نہیں ہوگا.انہوں نے دریافت کیا تمہا سے ذہن میں کون صاحب تھے ؟ میں نے کہا حضرت خلیفہ المسلح قتل میں نے پوچھا آپ کے ذہن میں کون صاحب تھے ؟ انہوں نے کہا میرے والد.لندن سے وطن واپسی کے وقت میرے دل میں یہ بڑی حسرت تھی کہ اس ہمہ تن شفقت سہتی کا دیدار نہ ہو گا.
ماں باپ کی شفقت کا صحیح اندازہ کون کر سکتا ہے.ماں کی مامتا تو ایک بحر نا پیدا کنار ہوتا ہے.وطن سے دور ایک بالکل اجنبی ماحول میں میرے لئے یہ امر بہت ہی تسکین و اطمینان کا موجب تھا کہ میرے والدین صبح و شام ، دن رات آستانہ الہی پر میرے لئے تضرع اور خشوع سے دست بدعا ہیں.اللہ تعال نے اپنے کمال فضل و رحم سے انکی عاجزانہ التجاؤں کو شرف قبولیت سے نوازا اور ہر خطہ اور ہر حالت میں حفاظت فرمائی.بعض دفعہ ایسے حالات میں اور ایسے طور پر اس کی ذرہ نوانہ یوں کی کیفیت ظہور میں آتی که دل تسبیح اور حمد سے بھر جاتا اور بے اختیار سجدت لك روحی و جنانی کا گیت گانے لگ جاتا کئی بار ایسا ہوا کہ میں لندن کے پر شور بازاروں میں سے بلند آواز سے قبیح اور حمداد قرآن کریم کی وعاوں کو وجدان کیفیت میں پڑھتا ہوا تیزی سے گنتا چلا جاتا اورپھر بھی دلکوتی نہ ہوتی کا لال کے شمال اوای انت مانیوں کا کچھ بھی کردا ہو سکتا ہے میں نے قیام انگلستان کے دوران یہ التزام رکھا کہ والد صاحب کی خدمت میں عریضہ ارسال کرنے میں کبھی ناغہ نہ ہو.جب جنگ شروع ہونے پر ڈاک ریل کے ذریعہ مار سلیز تک جانا بند ہوگئی تو میرا عریضہ والد صاحب کی خدمت میں پہنچنے میں ایک ہفتہ کی تاثیر موگئی.والدہ صاحبہ کو معلوم ہوا کہ اس ہفتے کی ڈاک ایک ہفتہ بعد ملے گی تو غش کھا گئیں.جن دنوں میں لندن سے روانہ ہونے والا تھا نبریں آنا شروع ہوئیں کہ ایک جر من آمد وہ جس کا نام ایڈن تھا بحیرہ اب میں ہندوستان جانیوالے برطانوی جہازوں کو اپنے تارپیڈوں کا نشانہ بنا رہا ہے اور بہت سے جہانہ اس نے غرق کر دیئے ہیں.بحیرہ متوسط بھی خطرے سے خالی نہیں تھا.مجھے خیال ہوا کہ اگر میں نے قبل از وقت والد صاحب کی خدمت میں لکھا کہ میں فلاں تا ریخ فلاں جہا نہ پہ لندن سے روانہ ہوں گا تو میرے وطن پہنچنے تک میرے والدین کا وقت بہت پریشانی میں گزرے گا.اس خیال سے ہمیں نے اپنی روانگی کے پروگرام کے متعلق انکی خدمت میں کوئی اطلاع نزدی.البتہ ۱۸ اکتوبر کو خط لکھا کہ میرا امتحان ختم ہو گیا ہے.پہچے بفضل اللہ اچھے ہو گئے ہیں اور اب میں تبلد یہاں سے روانہ ہونیوالا ہوں.مجھے معلوم تھا کہ یہ خط بھی میرے ساتھ ہی جہانہ غریبیا، پھر جائے گا اگر یہ خط ان کی خدمت میں پہنچ گیا تو میں بھی فضل اللہ پہنچ جاؤں گا.اور انہیں لمبا عرصہ میرا انتظار نہ کرنا پڑے گا.اپنے ماموں صاحب کی خدمت میں میں نے وضاحت سے لکھ دیا کہ جس جہانہ پر یہ خط آ رہا ہے اس پر میں بھی سفر کروں گا اور جب نیہ آپ کی خدمت میں پہنچے گا میں بھی فضل اللہ گھر پہنچ چکا ہوں گا.ان دنوں ان کا ڈاکخانہ ستراہ تھا جودانہ زید کا سے آٹھ میل کے فاصلے پر ہے.وہاں سے دانہ نہ یاد کا کی ڈاک ان دونوں ہفتے میں ایک یا دو بار تقسیم ہوتی تھی.میرا اندازه متفا کر میرا خط انہیں میرے سیالکوٹ پہنچنے کے بعد ملے گا.
لندن سے روانگی استخر بعد انتظار روانگی کا دن آیا جہاز نے لنگر اٹھایا.اکبر متوسط میں ایک دریا نہ اندازہ ہوا کہ دشمن کی زیر آب جنگی کشتیوں نے ہمارے جہاز متارپیڈو چھوڑا لیکن فضل اللہ خطا گیا.جیرہ عرب میں بھی ایسا ہی تجربہ ہوا ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے یکم نومبر کو بیرت بیٹی پہنچ گئے.بحیرہ قلزم میں جوں جوں جہاز جدہ کے قریب ہوتا گیا دل میں حسرت بڑھتی گی کہ کاش کعبتہ اللہ کی زیارت اور ہی کی سعادت نصیب ہو جاتی.دعاؤں کے ذریعے جو التجائیں ہو سکیں حضرت احدیث کے حضور گذاری جاتی رہیں.بمبئی پہنچنے کا دن عید کا دن تھا.ہم اگر چہ ابھی گھر نہیں پہنچے تھے لیکن ساحل وطن پڑا ترسے تھے اور یہ بھی بہت خوشی اور اطمینان کا موجب تھا.فالحمد للہ علئے نہالک.وطن میں واپسی | بیٹی سے ہم اسی شام بی بی ایڈ سی.آئی ریلوے کی نئی نئی جاری کردہ نامہ دردون ایکسپریس پہ جو بعد میں رفرنیٹر میل کہلائی) لاہور جانے کے لئے کولا با اسٹیشن پر گئے ہو ان دلون کمیٹی میں ریگو کا بڑا اسٹیشن تھا.دوسرے درجے کے ٹکٹ خریدے جس علی نے ہمار ے سامان کی ذمہ داری کی تھی اس نے وزن کرنیوالے کانٹے کے قریب پہنچ کر دی نہ ان میں مجھے کہا صاحب آپ کا سامان کم تلوا دوں ؟ مجھے کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ ہمارا سامان کم کیوں تولا جائے.میں نے پوچھا کیوں ؟ کہا صاحب کم وزن پیر کا یہ کہ اور آپ مجھے کچھ انعام دیں گے.میں نے جھنجھلا کر کہا ہر گنہ نہیں.مجھے سخت صدمہ ہوا کہ وطن پہنچتے ہی میلا تجربہ بد دیانتی کی نہ غیب کا ہوا.ہم تین سال ایسے ملک میں گزارہ کر آئے تھے جہاں ان دنوں کسی کو ایک کم سن بچے کو بھی مہینے کا خیال تک نہیں ہوتا تھا.تیسرے دن صبح لاہور پہنچے.مسٹر محمد حسن صاحب کے بہنوئی عبد الحمید صاحب ریلوے پولیس میں انسپکٹر تھے اور ان کا دفتر بھی پلیٹ فارم نمبر۲ پر ہی تھا.جہاں ہماری گاڑی کھڑی ہوئی.وہ ہمیں پہنچتے ہی ملے.ان کے ساتھ مکر می ڈاکٹر عباد اللہ صاحب بھی تھے.مسٹر محمد حسن تو گاڑی بدل کر امرتسنہ جانیوالے تھے اور میرا ارادہ بھی اسی گاڑی سے قادیان بجائی کے لئے بالے جانے کا تھا.میں نے ڈاکٹر عباداللہ صاحب سے کہا کہ قادیان پلیں.انہوں نے فرمایا میں امرتہ سے ایک ضروری کام کے لئے لاہور آیا ہوں.آج میں وہ کام کر لوں تو کل اکٹھے قادیان چلیں گے.میں ان کی یہ فافت کی خواہش میں رضامند ہو گیا.اسٹیشن سے تانگہ کہا یہ کر کے گورنمنٹ کالج کے برانچ مہوٹل واقعہ شیش محل گیا.چودھری شمشاد علی خانصاحب کا کمرہ دریافت کر کے ان کے پاس پہنچا.وہ مجھے دیکھ کر حیران رہ گئے.انہیں میرے آنے کے متعلق کوئی اطلاع نہیں تھی.دن بھر ان کے ساتھ گزارہ کر دوسری صبح ڈاکٹر عباد اللہ صاحب کے ساتھ قادیان گیا.لاہور میں انہوں نے دن کا اکثر حصہ میرے ساتھ ہی گزارا تھا.میں نے دریافت کیا آپ جس کام کے لئے لاہور تشریف لائے تھے وہ ہو گیا ؟ کہنے لگے
مهما اس کام کیلئے فرصت ہی نہیں ملی اب پھر کسی وقت آکر کروں گا.امرتسر کے بیٹیشن پر انہیں کوئی واقف مل گیا دوکان کی سچائی اس کے حوالے کی اور کہا یہ ہمارے ہاں پہنچا دیا.اور کہ دینا کہ میں ظفر اللہ خان کے ساتھ قامه یان جارہا ہوں کل واپس آجاؤں گا.قادیان میں حضرت خلیفتہ امی نانی کی قادیان میں ہم ایک دن ٹھہرے بہشتی مقبرے میں خدمت میں باریابی اور دوستی بیعت کی سعادت دعا کی مسجد مبارک میں شکرانے کے فل گزارے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی خدمت میں شرف باریابی حاصل ہوا.دست مبارک پر بیعت کی سعادت نصیب ہوئی.احباب کی ملاقات سے لطف اندوز ہوئے.دوسرے دن واپس لوٹے.ڈاکٹر عباد اللہ صاحب تو امرتہ ٹھہر گئے اور میں لاہور پہنچا.چودھری شمت در علی خالصاحب اسٹیشن پر مل گئے ان کے پاس ٹھہر کہ درستہ دن بعد دو پر کلکتہ میل پر سیالکوٹ روانہ ہو گیا.مجھے رخصت کر کے جب وہ واپس ہوسٹل پہنچے تو انہیں والد صاب کا نام ملاکہ اگر ظفراللہ خاں لاہور میں ہو تو اسے وہیں روک لو اور ہمیں اطلاع دو انہوں نے جواب میں نا ر دیا کہ میں ابھی اسے اسٹیشن سے رخصت کر کے آیا ہوں.سیالکوٹ واپسی میں نے وزیر آباد گاڑی بدلی اور سیالکوٹ پہنچا میں نے اپنا بڑا ٹینک بذریعہ دیل سیالکوٹ بھیجوا دیا تھا.اسے لینے کیلئے گیا تو کلرک نے پوچھا آپ کہاں سے آئے ہیں.میں نے کہاں حور سے کہا نہیں اس سے پہلے.میں نے کہا بیٹی سے.اس جواب سے بھی اسکی تسلی نہ ہوئی.ٹرنک پر جہاز کے لیبل لگے ہوئے تھے.ان کی طرف اشارہ کیا.میں نے کہا اگر آپ کو اس بات پر حیرت ہے کہ میں انگلستان سے آیا ہوں اور اسٹیشن پر میرے استقبال کے لئے کوئی شخص موجود نہیں تو اسکی وجہ یہ ہے کہ میں نے کسی کو اپنے آنے کی اطلاع نہیں دی.اسٹیشن سے تانگہ کرایہ کر کے میں گھر کی طرف روانہ ہو گیا.کوئی چوتھائی رستہ طے کیا ہوگا کہ دیکھا متقابل سمت سے میرے خالہ زاد بھائی سچودھری غلام نبی صاحب اور ان کے چھوٹے بھائی سلطان علی اور میرے بھائی شکر اللہ ناں اور عبد اللہ خاں اپنی گھوڑا گاڑی یہ آر ہے ہیں انہوں نے مجھے تانگے پر میٹھے ہوئے پہچان لیا.گاڑی ٹھہرائی اور شوق سے لپک کر میرے ساتھ مصافحہ کیا اور مجھے تانگے ہی میں چھوڑ کر گاڑی واپس کر کے تیزی سے گھر کو لوٹ گئے.انہیں شوق تھا کہ وہ جلادی گھر پہنچ کر والدہ صاحبہ کو میرے آنے کی خبر دیں.ان دنوں رواج تھا کہ جب کوئی تو جوان انگلستان یاکسی اور بیرونی ملک سے تعلیم کی تکمیل کر ک واپس آتا تو ریلوے سٹیشن پر اس کا استقبال کیا جاتا.والد صاحب کی بھی خواہش تھی کہ میری واپسی پر اب انتظام کیا جائے.لیکن ان کی خواہش دلکی لچھیں رہ گئی.میرا خط ملنے پر والد صاحب نے قیاس کیا کہ میں انگلستان سے روانہ ہونے کو ہوں والدہ صاحبہ
۱۱۵ اوروہ خود کچھ پریشان ہوئے کہ مجھے بھی سفر کا پر خطر مرصد در پیش ہے.جب ماموں صاحب کو دانہ دیا میں میرا خط ملا تو وہ خط پڑھتے ہی سیالکوٹ پہنچے اور والد صاحب کو مبارکباد دی.والد صاحب نے کہا کہ کس بات کی مبارکباد ؟ کہا ظفر اللہ خاں کے بحریت واپس پہنچنے کی.انہوں نے کہا کہ اسکی تو ابھی یہی اطلاع آتی ہے.کہ وہ لندن سے روانہ ہو نیوالا ہے.ماموں جان نے کہا کہ جب اس نے خط لکھا تھا تو وہ روانہ ہو نیوالا تھا.لیکن جس جہانہ میں خط آیا ہے اسی میں وہ بھی آگیا ہے.میرے نام تو اس کا خط آیا ہے.اس میں وضاحت سے میں لکھا ہے.اس سے میرے والدین کو یہ اطمینان تو ہو گیا کہ میں فضل اللہ جبریت دواپس پہنچ گیا ہوں.لیکن اب یہ جستجو ہوئی کہ میں رستے میں کہاں رک گیا ہوں.والدہ صاحبہ نے ماموں صاحب سے کہا اب تو وہ سیالکوٹ پہنچنے والا ہی ہو گا.اگر آپ میرے ساتھ چلیں تو ہم وزیر آباد پہنچ کر اس کا خیر مقدم کریں.چنانچہ والدہ صاحبہ ،ماموں صاحب اور عزیز شکراللہ خان وزیر آباد چلےگئے اور لاہور سے آنیوالی گاڑیوں کے مسافروں کی پڑتال کرتے رہے.جب تمام رات کی بیداری سے والدہ صاحبہ کی طبیعت نڈھال ہونے لگی تو ماموں صاحب نے انہیں تو عزیزہ شکر اللہ خان کے ساتھ سیالکوٹ واپس بھیج دیا اور خود وزیر آباد ٹھہرے کہ جب میں آؤں تو مجھے وہاں روک لیں اور والد صاحب کو اطلاع دیں پھر جیسے وہ ارشاد فرمائیں اس کے مطابق ہم دونوں سیالکوٹ پہنچ جائیں.اتنے میں والد صاب نے اسٹیشن پر میرے غیر مقدم کیلئے دعوتی کارڈ چھپنے دیئے جن میں وقت اور تاریخ لکھنے کیلئے جگہ خالی ** رکھی.ان کے ایک منشی صاحب مطبع سے یہ کارڈ لیکر مکان پر پہنچے ہی تھے کہ ساتھ ہی میں بھی پہنچے ؟ ماموں صاحب ابھی وزیر آباد اسٹیشن پر انتظار ہی میں تھے.والدہ صاحبہ کو تو مجھے دیکھتے ہی اطمینان اکبھی اند ہو گیا.اور انہوں نے شکرانے کے نوافل ادا کرنے شروع کر دیئے.والد صاحب کو طبعاً وشی تھی ہوئی اور اطمینان بھی لیکن ان کی خوشی اس خیال سے کچھ ادھوری سی رہ گئی کہ وہ اپنی خواہش کے مطابق غیر مقدم کی تقریب نہ منا سکے.دوہے دن جب کچری تشریف لے گئے تو ان کے احباب میں سے ہیں جس کو میرے واپس آنے کی خبر ملی انہوں نے والد صاحب کو مبارکباد پیش کی.مرزا ظفر اللہ خال صاحب جو وزیر آباد کے مشہور رئیس خاندان میں سے تھے ان دنوں سیالکوٹ میں سب حج درجہ اول تھے ده اگر تپه انگریزی نہیں جانتے تھے لیکن نہایت قابل اور فہمیدہ بزرگ تھے.انہوں نے والد صاحب سے کہا سنا ہے کہ ظفر اللہ خاں واپس پہنچ گیا ہے.والد صاحب نے کہا اللہ تعالے کا شکر ہے لیکن ہمیں تو اس نے اطلاع بھی نہ دی.انہوں نے فرمایا معلوم ہوتا ہے بڑا محتاط اور سعادت مند نوجوان ہے.ایک تو ایسے خطرے کے وقت میں سفر پر روانہ ہونے کی اگر آپ کو پہلے سے اطلاع ہوتی تو آپ اس کے سفر کے
114 دوران پریشان رہتے اور درس کہ اس نے آپ کے احباب کو اسٹیشن پر جانے کی نہ حمت سے بچا لیا.میری وانست میں تو اس نے بہت اچھا کیا اور آپ ڈہری مبارکباد کے مستحق ہیں.ماموں صاحب بھی جب وزیرآباد کے اسٹیشن پہلا ہور سے آنیوالے مسافروں کی پڑتال کرتے کرتے تھک گئے تو جس سہ پہر کو میں سیالکوٹ پہنچا تھا اسی رات کو وہ بھی سیالکوٹ آگئے.مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور دریافت کیا تم نے دریل میں کس لباس میں سفر کیا.میں نے کہا اسی لباس میں جو میں اسوقت پہنے ہوئے ہوں رحمتیں ، شلوارہ ، کوٹ ترکی ٹوپی، بہت ہنسے اور فرمایا میں توکسی تر کی ٹوپی اور شلوار پہنے ہوئے داڑھی والے مسافر کی طرف متو یہ ہی نہ ہوا.میں تو کوٹ پتلون ہیٹ والوں ہی میں تمہیں دیکھتا رہا.کچھ دنوں کے بعد میں لا ہورہ گیا چیف کورٹ میں پر کیس کی اجازت کیلئے درخواست دی.سچند دن بعد لائسنس مل گیا.ایل ایل بی لندن یونیورسٹی کے امتحان کچھ دنوں کے بعد لندن سے ایل ایل بی کے امتحان میں آزرینہ کے ساتھ اول درجہ میں کامیابی کا نتیجہ آیا.میں نے جلدی سے چھپے ہوئے پرچے پنی نگاہ دوڑائی.لیکن مجھے اپنا نام کامیاب امیدواروں کی فہرست میں نظر نہ آیا.مجھے حیرت بھی ہوئی اور پریشانی بھی کہ پرچے تو بفضل اللہ اپنے اندازے کے مطابق بہت اچھے ہوگئے تھے.پھر کیا ہوا ہو میرا نام آمنہ کی فہرست پچھوڑ محض پاس ہو نیوالوں کی فہرست میں بھی نہیں ہے.نتیجے کے پرچے میں کامیاب امید واروں کے نام بیچارہ در ہجوں میں لکھے ہوئے تھے.اول دور بجہ آنروز - دوئم در به آنمرند - سوئم در سجده آمدند اور پاس اول درجہ آمدند میں صرف دو نام تھے.ان کی طرف یا تو میری توبہ نہ ہوئی اس خیال سے کہ اگر یو نیورسٹی بھریں صرف امیدوار ہی اول در بجہ آمیز حاصل کر سکے ہیں تو میر نام ان میں کہاں شامل ہوگا.یا میں جلدی میں باوجود تمام ناموں پر نگاہ دوڑانے کے میں خیال کرتا رہا کہ اول درجہ میں میرا نام درج نہیں اور میں اپنا نام اس سے نچلے درجوں میں تلاش کرتا رہا.جب میں نے یہ سمجھ لیاکہ وجہ کچھ بھی ہو میں کامیاب نہیں ہوا تو میں نے نتیجے کے پر چہ کو پھر دیکھنا شروع کیا تا کہ اپنے ہم جماعت طلباء اور بالخصوص مسر محمد حسن کا نتیجہ معلوم کروں اب میں تھے " ** شروع سے نام پڑھنا شروع گئے.تو سیلابی نام خان تھا.میں نے سوچا یہ خان کون ہے.ہماری جماعت میں تو کوئی خان نہیں تھا.یہ کوئی بیرونی امیدوارہ ہوگا.اتنے میں میری نگہ پورے نام پر پڑی تویوں لکھا تھا KHAN ZAFRULLA اور میں چونکا کہ یہ تو میرا ہی نام ہے.میں تو سمجھ بیٹھا تھاکہ میں کامیاب نہیں ہوا اللہ تعالی کا کیا فضل اور کیسی ذرہ نوانہ ہوئی کہ مجھے نہ صرف نہ نہیں اول درجہ عطا فرمایا بلکہ یونیورسٹی بھر میں اول رکھا.فالحمد لله ثم الحمد للہ یہ ان مواقعہ میں سے ایک تھا اللہ تعالیٰ کے فضل بے پایاں سے میری زندگی میں کئی ایسے مواقع پیدا ہوئے ، جن پر بے اختیار میرے دل سے صدا
114 احتي سجلات لك روحی و جنانی رسجدے میں میں تیرے حضور میری روح اور میرا دل اور باد بار با نداشتی چلی جاتی.دانہ زید کا اپنے ننھال کا سفر | ماموں صاحب کی طرف سے اصرار تھا کہ میں عہد ان کی خدمت میں دانہ نہید کا حاضر ہوں مجھے بھی اپنے نانا جان ، نانی صاحبہ اور دیگر برسد گان اور عز بیان سے ملنے کا اشتیاق تھا.سیالکوٹ سے دانہ نہید کا کا فاصلہ تو صرف با تمہیں میں تھا لیکن سفر یا مشکل تھا بس اللو سے پسرور تک تو سڑک تھی لیکن کچی.وہاں تک اکے پلتے تھے سیالکوٹ میں اڈہ پر واریاں ایک معروف مقام شیبہ جالیاں کے پاس تھا.وہاں سے اکے کر دانہ ہوتے.نصف فاصلے پر میڈیا نے کے مقام پر اکے گھوڑے کو بہاری دینے ٹھہرتے اور مسافر چند منٹ سستا لیتے.اکے میں بیٹھنے کی ترکیب بنہایت تکلیف دہ تھی.اور کبھی سڑک پر تو چند میل بھی آگئے میں سفر کرنا شدید عقوبت کا باعث ہوتا تھا.پختہ سڑکوں رٹم ٹمی ٹانگہ میسر آجاتا تھا.لیکن کچی سڑک پر عموماً اگتے ہی چلتے تھے.کہا جاتا تھا کہ اسکے کی ساخت اگر چہ مسافروں کیلئے بہت تکلیف کا موجب تھی لیکن گھوڑے کیلئے آسانی رہتی تھی.میرے انگلستان سے واپس آنے تک پسر در تک سڑک پختہ ہو چکی تھی.پسرور سے دانہ نہ یاد کا کے پہلے تین میل تو سٹرک تھی لیکن باقی حصہ دومیانی راستہ تھا.جہاں اگہ بھی نہیں چل سکتا تھا.اسلئے پر دور سے ہی گھوڑے کا انتظام ہوتا تھا.دانہ نہید کا اسے گھوڑا بھیج دیا جاتا اور پر در پہنچتے ہی اکے سے اتر کر گھوڑے کے سفر شروع ہو جاتا.اس طرح اس میں بائیں میل کے سفر میں دن کا اکثر حصہ صرف ہو جاتا.بارہ میں اسے میں جکڑے ہوئے اور دس میل گھوڑے کی پیٹھ یہ ایک ایسے شخص کیلئے ہو تین سال کا عرصہ ایک ایسے ملک میں گزارہ چکا تھا جہاں سفر کیلئے ہر سہولت میسر تھی ایک مہم تھی لیکن میری عمر اور شوق کے مقابلے میں یہ صعوبت کوئی وقعت نہیں رکھتی تھی.پس در تک سڑک پختہ ہو جانے سے کچھ فرق تو پڑ گیا تھا لکین باقی حصہ سفر کی وہی حالت تھی.چودھری بشیر احمد صاحب | پچودھری بشیر احمد صاحب کی عمر اس وقت پچودہ سال تھی میرے انگلستان جانے کے وقت وہ قادیان تعلیم الاسلام ہائی سکول میں پڑھا کرتے تھے.ہتھوڑا عرصہ قبل ان کی والدہ محترمہ کا انتقال ہو گیا تھا.اللہ تعالی نے اپنے فضل سے چھوٹی عمر مں ہی انہیں غیر معمولی رشدہ اور ذہانت عطا فرمائے تھے.والدہ کے انتقال پر انہوں نے اپنے والد صاحب کی خدمت میں تعزیت نامہ لکھا اور انہیں صبر جمیل کی تلقین کی لاء کی تعطیلات شروع ہونے پر جب کول بند ہوا تو قادیان سے اپنے گاؤں جانے کیلئے وہ سیالکوٹ آئے اور ایک رات ہمارے ہاں ٹھرے میری والدہ صاحبہ
A کو ان کے والد صاحب سے بہت انس تھا.وہ بچپن میں ہمارے گاڑی ڈسکہ میں تعلیم کیلئے گئے تھے اور تمہارے ہی ہاں ٹھہرے تھے.میری والدہ نے انہیں اپنا بھائی بنا لیا تھا پہلے بھی دونوں خاندانوں کے درمیان قرابت کے تعلقات تھے.اس درجہ سے اور کبھی مضبوط ہو گئے.چودھری بشیر احمد صاحب کا ہمارے ہاں آنا ایک ہی تھا جیسے ایک بھائی کا تعطیل میں اپنے گھر آنا.میرے دل میں ان کے لئے ان کی والدہ کی وفات کی وجہ سے نہایت گہرا جذبہ ہمدردی کا پیدا ہو چکا تھا.ان کے آنے سے مجھے بہت خوشی ہوئی.میرے انگلستان جانے کے ایک سال بعد ان کے والد صاحب کی بھی وفات ہوگئی اور یہ غیر مرے لئے بڑے صدمے کا موجب ہوئی.انہیں قادیان کا تعلیم الاسلام اسکول چھوڑنا پڑا اور دور ہائی سکول میں آگئے.دانہ نہید کا جاتے ہوئے میں انہیں طلا ، سکول کا وقت تھا اور وہ اپنے استناد سے اجازت لیکر مجھے ملنے کیلئے آئے.چند منٹ ہی ملاقات ہوئی.تین سال کے عرصے میں قدر خاص لمبا ہو گیا تھا.چہرے پردہ رونق اور آنکھوں میں وہ چمک نہ رہی تھی.میں نے ان سے وعدہ لیا کہ وہ مجھ سے ملتے یہ ہیں گے.اور اپنے دل میں یہ عہد کیا کہ جہاں تک ممکن ہو گا ان کے دل سے افسردگی اور رشتہ کے احساس کو نہ امل کرنے کا اہتمام کیا جائے گا.وباللہ التوفیق.اس کے بعد جب تک وہ پرور سکول میں تعلیم پاتے رہے اوسطا مہینے میں دوبارہ ہمارے ہاں سیالکوٹ آتے رہے.ہمارا گھر ان کے لئے اپنا ہی گھر تھا اور انہیں بھی یہی حساس تھا.14 جنوری شر کو نارووال سیالکوٹ ریلوے کا افتتاح ہوا اور پرور اور سیالکوٹ کے درمیان سفر آسان ہو گیا.کسی مغربی ملک میں ایک دیہاتی علاقے میں ریل کا جاری ہونا اور اس طریق سے اس علاقے کا باقی دنیا کے ساتھ الحاق ہونا ایک ایسی تقریب شمار کیا جاتا.حبس کے منانے کیلئے سکولوں میں تعطیل کی جاتی اور منتظمین کی طرف سے انتظام کیا جاتا کہ سکول کے بچے دل پر کچھ فاصلہ سفر کر لیں اور اس تقریب یہ خوشی منائیں.لیکن میاں ردعمل اس کے بر عکس تھا.میں نے بشیر احمد کو لکھا کہ ریل کے جاری ہونے پر تو وہ مزدور سیالکوٹ آئیں گے.میں انہیں اسٹیشن پر مل جاؤں گا وہ آگئے لیکن ان سے معلوم ہوا کہ دہ میرے لکھنے پر آگئے ہیں لیکن سکول کی طرف سے ممانعت تھی کہ کوئی طالب علم اس دن ریل پر سفر نہ کرے اور پسر دور سے باہر نہ جائے لہذا خلاف ورزی موجب تعزیہ ہوگی.واپس جانے پر انہوں نے لکھا کہ 1914.تعزیہ بھگتنا پڑی.عدالت میں پیش ہونے کا پہلا تجربہ | دسمبر کا منک مجھے پر کیس کا لائسنس مل چکا تھا لیکن والد صاحب نے فرمایا کہ کرسمس کی تعطیلات کے بعد باقاعدہ کام شروع کرنا.تعطیلات سے چند دن قبل والد صاحب کی طبیعت ایک دن علیل ہو گئی اور عدالت تشریف نہ لے جاسکے.مجھے فرمایا تم چلے جاؤ.
119 کچھ شیخ حسین بخش کے مقدمے میں میری جگہ اپنی حاضری لکھوا دنیا شیخ ظہور الہی صاحب بھی ہمارے ساتھ وکیل ہیں.آج اس مقدمے میں کوئی کاروائی نہیں ہو گی سنیٹر سب جج صاحب نے راضی نامے کیلئے مہلت دیاری تھی.راضی نامہ نہیں ہوا.آج صرف مزید کاروائی کے لئے تاریخ مقر ہوگئی.اگر کوئی بات چیت کرنا ہوئی تو شیخ ظہور الہی صاحب کر لیں گے.میں نے مقدمے کے کاغذات دیکھے تو مجھے احساس ہوا کہ ہمارے فریق کو راضی نامے کیلئے کوشش کرنے کی ضرورت نہیں شیخ حسین بخش سیالکوٹ شہر میں بڑے بازار میں دوکان کرتے تھے.اور اپنی دکان کے مالک تھے.ان کی دوکان اوراس پاس کی دوکانوں کی چھتیں جو انہیں اور ان کے اوپر کوئی عمارت نہیں تھی.ان چھتوں کے ساتھ ساتھ ایک گلی جاتی تھی جس پر چند مکانوں کے دروازے کھتے تھے.یہ کھلی چھتیں ان مکانوں کے رہنے والوں کیلئے ایک قسم کا صحن نظر آئی تھیں.ان مکانو میں رہنے والے سب ہندو تھے.کسی اجتماع کے موقعہ پر ان چھتوں پر بہت سے لوگ جمع ہو گئے شیخ حسین بخش صاحب نے کہا کہ ان کی دوکان کی چھت پر جمع نہ ہوں.ایسانہ ہو کہ چھت کو نقصان پہنچے.مقابل کے مکانوں والوں نے کہا انہیں دوکانوں کی چھتوں پر شادی غمی کی تقریبوں کیلئے جمع ہونے کا حق آسائیش حاصل ہے.اور دوکانوں کے مالک نہ صرف اس حق میں مزاحم نہیں ہو سکتے.بلکہ پابند ہیں کہ دوکانوں کی چھتوں کو اچھی حالت میں رکھیں اوران پر کسی قسم کی عمارت تعمیر نہ کریں بشیخ صاحب نے بندر اس او تا کی تردید کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ محلہ والوں کی طرف سے شیخ حسین بخش صاحب کے خلاف دعوی استقرار یہ دائم کیا گیاکہ ان کا موعودہ حق تسلیم کیا جائے اور مدعاعلیہ کے نام حکم امتناعی جاری کیا جائے کہ وہ اس میں مام نہ ہو اور کسی قسم کی کوئی عمار اپنی دو کان کی چھت پر نہ بنائے.اول تو وعود نہیں آ ئیش ہی بالکل غیر معین قسم کا تھا.جو قانو نا قابل قبول اور قابل نفانہ نہیں تھا.پھر واقعات اس کی تائید میں نہیں تھے مدعیان کی طرف سے تائیدی شہادت بہت کمزور اور تنفاد تھی.ایسی صورت میں شیخ حسین بخش کو راضی نامے کی کوئی ضرورت نہیں تھی.میں شیخ ظہور الہی صاحب کو اپنے طالبعلمی کے زمانے سے جانتا تھا.وہ شیخ فیروز الدین مراد صاحب کے برادر اکبر تھے.ان کے بھتیجے شیخ عنایت اللہ صاحب ڈسٹرکٹ بورڈ سکول سیالکوٹ میں میرے ہم جماعت تھے.اور میں کئی بار ا سے ملنے کیلئے ان کے آبائی مکان پر جایا کرتا تھا.میں کچھری پہنچ کر شیخ ظہور الہی صاحب سے ملا اور مقدمے کے متعلق اپنے تاثمہ کا ذکر کیا.انہوں نے فرمایا تمہاری رائے بالکل درست ہے.ہماری طرف سے مقدمہ بہت مضبوط ہے.مدعیان کی کامیابی کی کوئی صورت نہیں اس لئے ہم کسی راضی نامے پر رضامند نہیں ہو سکتے.میں نے دریافت کیا.پھر راضی نامے کی تجو یہ کیسے ہیں ہوئی.کہنے لگے سنیٹر سب مجھ صاحب سیالکوٹ ہی کے رہنے والے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ مدعیان کا کچھ نہ
۱۲۰ کچھ حق تسلیم کرلیا جائے.لیکن ہم اس پر رضامند نہیں ہیں.سردار جیت سنگھ صاحب | سیر سب بچ سردار پریت سنگھ صاحب تھے وہ اپنی ملازمت کی میعاد کے آخر کو پہنچے ہوئے تھے اور چند مہینوں میں پیشن پر سجانیوالے تھے.جب مقدم بلایا گیا اور فریقین کے وکلا پیش ہوئے.تو مج صامو نے دریافت فرمایا راضی نامے کی کوئی صورت پیدا ہوئی یا نہیں.مدعیان کے وکیل صاحب نے گذارش کی کہ مدعا علیہ کچھ بھی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں.جی صاحب نے شیخ ظہور الہی صاحب کی طرف مخاطب ہو کہ فرمایا.آپ جانتے ہیں ہم اس شہر کے رہنے والے ہیں.ہمیں دونوں فریق سے ہمدردی ہے.ہم چاہتے ہیں کہ مقدمہ باندی خواہ مخواہ طول نہ پکڑے.اگر راضی نامے کی کوئی صورت نہ ہوئی تو ہم یہ دعویٰ تو خارج کر دیں گے لیکن پھر اپیل ہوگی اور بات بڑھے گی.آئندہ تنازعات کا درداندہ کھلے گا فریقین مقدمہ باندی کے چکہ میں پھنس کر یہ با د ہوں گے.بہتر ہو کہ کوئی نہ کوئی صورت راضی نامے کی ہو جائے.میں حیران ہو ر ہا تھا کہ جج صاحب کسقدر سادہ اور بھولی طبیعت کے مالک ہیں.لیکن شیخ ظہور الہی صاحب حج صاحب کے ہر جملے پر.آپ بجا فرماتے ہیں.آپ تو فریقین کیلئے بارہ یہ ماں باپ کے ہیں.آپ کی ہمدردی میں کیا شبہ ہو سکتا ہے." کا راگ الاپنے رہے.آخرج مصاب نے آئیندہ تاریخ مقرر کی اور فرمایا کہ اگر اس اثناء میں راضی نامہ ہو گیا تو بہتر ورنہ ہم اس تاریخ پر فریقین کی بحث سنیں گے.یہ میرا ضلع کی ابتدائی عدالتوں کی کاروائی دیکھنے کا پہلا تجربہ تھا.اور اس کا اثر بہت عرصے تک میری طبیعت پر رہا.میں نے نہیں مہینے اپنے والد صاحب کے زیر ہدایت سیالکوٹ ضلع کی عدالتوں میں وکالت کا کام کیا لیکن میری طبیعت پر ہو نقش پہلے دن ثبت ہوا وہ مٹ نہ سکا کو کھو اور میری طبیعت ضلع کی علامتوں میں وکالت کے کام کی طرف مائل نہ ہوسکی.بالکوٹ میں پریکٹس کا آغا نہ / جنوری شاہ میں میں نے والد صاحب کے زیر ہدایت وکالت کا کام شروع کر دیا.والد صاحب کا کام زیادہ تر دیورانی تھا.زمین کے مقدمات میں انہیں خاص مہارت اور شہرت حاصل تھی.جب میں نے پریکٹس شروع کی والد صاحب سیالکوٹ میں دیورانی کے کام میں چوٹی کے وکیل شمار کئے جاتے تھے.فرمایا کرتے میں فو تعدادی کام سے تو لیتا ہوں لیکن یہ کام میری طبیعت پر گراں ہوتا ہے.میری طبیعت میں ذمہ داری کا احساس بہت تیز ہے.زمین کے مقدمات میں یہ سہولت ہے کہ زرعی اراضیات کے متعلق تمام ضروری تفاصیل بر طانوی عملداری کے ابتداء سے مال کے کاغذات میں محفوظ شدہ موجود ہیں.ہر قطعہ کے متعلق کو ائف اور حقوق ان کا غذات سے مل جاتے ہیں اور اپنی پر مقدمات کے فیصلے
کا دائرہ دار ہوتا ہے.زبانی شہادت صرف رسمی ہوتی ہے.البتہ مال کے کاغذات مسلہ بند دوست جمع بندی وغیرہ کے اندراجات میں سے متنازعہ یرقبہ کے متعلق ضروری کو الف معلوم کر نیکے لئے کسی قدیر واقفیت اور مشق کی ضرورت ہے.وہ تم مجھ سے سیکھ سکتے ہو.جہاں تک قانون کا تعلق ہے.زرعی اراضیات کے مقدمات کا فیصلہ پنجاب لانہ ایکٹ کی دفعہ ھ کے ماتخت رواج کے مطابق ہوتا ہے.تم تھوڑی سی تو سب سے رواج کے اصولوں اور قواعد سے واقفیت میدا کہ سکتے ہو.اور حیف کورٹ کے فیصلہ جات پر نگاہ رکھنے سے رواج کے متعلق اپنی واقفیت تازہ رکھ سکتے ہو.مجھے زمین کے مقدمات کے متعلق یہ اطمینان یہ متا ہے کہ میری ستی یا غفلت کی وجہ سے میرے کسی موکل کو نقصان نہیں پہنچے گا.اگر بچ غلطی کرے تو اس کی اصلاح اسپیل میں ہوسکتی ہے.اور اگر کسی وجہ سے موکل کو کچھ نقصان برداشت کرنا ہی پڑے تو اس نقصان کی نوعیت مائی ہوتی ہے.اس کی جان - آبرو یا آزادی خطرے میں نہیں پڑتی.فوجداری مقدمات میں ملزم کی جان ، آزادی اور آمر پہ آنچ آنے کا اندیشہ ہوتا ہے.اور فیصلے کامدار بہت مانک استغاثے کی شہادت پر ہوتا ہے.جس میں دشمنی ، عند ، دھڑے بندی جیسے عناصر کا بہت دخل ہوتا ہے.میرے جیسے حساس طبیعت والے پر یہ ذمہ داری بہت بو جھل ہوتی ہے.فوجداری مقدمے کے دوران میں بعض دفعہ میرے لئے نیند مشکل ہو جاتی ہے.والد صاحب کے ساتھ کام کرنے کے سلسلے میں بعض پابندیاں ان کی طرف سے مجھ پر عائد کی گئی تھیں.انہوں نے فرمایا ہمارا کام مشترک ہو گا.اور آمد بھی مشترک ہوگی.اور آمد کا مصاب تمہار ہے سپرد ہو گا.اسے باقاعدگی سے رکھنا ہو گا.تمہارے اخراجات پر میں کوئی پابندی عاید نہیں کرتا.جود مناسب سمجھو خرج کردو.اس سلسلے میں انہوں نے بتایا تمہارے انگلستان کے قیام کے عرصے میں تمہارے اخراجات کا مجھ پہ کوئی بوجھ نہیں پڑا.اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ر نا کہ میقدر اخراجات تمہارے انگلستان کے سفر اور وہاں کے قیام پر ہوئے اس قدیسا اضافہ میری آمد میں ہونا نہ نا.کام مشترک ہونے کے متعلق فرمایا میں یہ بالکل پسند نہیں کہ تاکہ کسی مقدمے میں ہم ایک دوسرے کے خلاف عدالت میں پیش ہوں باپ بیٹے کے درمیان یہ صورت کبھی پیدا نہیں ہونی چاہئیے.پنڈت بیلی رام وکیل اور ان کے صاحبزادے مسٹروہ نجیت رائے بریسٹر ایک دوسرے کے خلاف مقدمہ لے لیتے ہیں.لیکن مجھے یہ طریق پسند نہیں.تم پر مقدمے کے کاغذات اچھی طرح دیکھ لیا کر دی.میرے ساتھ جب چاہو عدالت میں پہلے جایا کرو تا کہ تمہاری واقفیت میں اضافہ ہوتا رہ ہے.جو مقدمہ اپنی ذمہ داری پہ کرنا چا ہو
بے شک کرو.مجھ سے جو مشورہ اور رہنمائی چاہو میں دیدیا کروں گا.دیوانی مقدمات میں عرضیہ کوئی یا جواب دعوی جیسے بھی صورت جو ہر مقدمے میں تباہ کر کے مجھے کھا لیا کرو تاکہ تمہیں مشتق ہو جائے.بیرسٹر لوگ عموماً دستاویزات کے تیارہ کرنے سے جی چراتے ہیں.لیکن یہ وکالت کے کام کا بڑا اہم حصہ ہے بہت دفعہ فیصلے کا انحصار عرضی عولی یا جوانی دعوی کی عبارت پہ آٹھرتا ہے.یہ بہت احتیاط کا کام ہے.کام کے جس حصے کا تعلق زیادہ تنہ انگریزی کے ساتھ ہو وہ بتدریج تمہاری طرف منتقل ہوتا جائے گا.تم میرے ساتھ ابتدائی کام میں شریک ہونگے.لیکن اپیل کا کام میں تمہاری طرف منتقل کرتا جاؤنگا اپیل میں انگریزی میں بحث کرنا آسان رہتا ہے.میں نے والد صاحب کی ہدایات کا خلاصہ ایک جگہ بیان کر دیا ہے.لیکن یہ تمام امور انہوں نے بیک وقت ارشاد نہیں فرمائے.باوجود وکالت پیشہ ہونے کے وہ بہت خاموش طبیعت اور بہایت کم گو تھے.بات بہت آہستہ کرتے تھے مختصر الفاظ میں مطلب بیان فرماتے تھے.بعض دفعہ تو سوال کا جواب دینے میں استفدن تاخیر کرتے کہ میرے جیسی عجلت پسند طبیعت بے صبر ہونے لگتی.مقدمے کی بحث کے دوران میں اگر مخالف وکیل کوئی سوال کرتا یا مچ کوئی بات دریات کرتا تو معاملہ خواہ کتنا واضع ہوتا تا تل اور تزکیہ کے ساتھ جواب دیتے.جلدی نہ کرتے.ان کا نمونہ اور ان کی ہدایات میرے لئے مشعل راہ تھیں.میں نے ان سے بہت فائدہ اٹھایا.فجزاہ اللہ احسن الجزا لیکن طبائع کی افتقاد کا فرق رہا.میں جلدی اور تیزی سے بات کرنے کی عادت کو بدلنے میں کامیاب نہ ہوسکا بعد میں جب میں نے چیف کورٹ میں کام کرنا شروع کیا تو بعض دفعہ جج صاحبان فرماتے آہستہ بات کرد تم اتنا تیز ہوتے ہو کہ تمہارا ساتھ دینا مشکل ہو جاتا ہے.عدالت میں تو بحث کو طول دنیا میں کبھی معمول نہیں رہا.لیکن اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں بعض مسائل پر مجھے بہت لمبی تقریب یکہ نے کی ضرورت پیش آئی.وہاں میرے رفقا میری لمبی تقریر وں سے دق تو ضرور آتے ہونگے لیکن یہ عنایت انکی ہمیشہ مجھ پر رہی کہ سنتے تو جہ کے ساتھ تھے.والد صاحب جو مقدمہ میرے سپرد فرمائے اس کی پیروی عدالت کے کمرے میں میں خود ہی کرتا.والد صاحب اس اثناء میں عدالت کے کمرے میں تشریف نہ لے جاتے.گو کچھ عرصہ بعد مجھے اپنے ایک منشی سے معلوم ہوا کہ شروع شروع میں جب میں ڈسٹرکٹ حج کی عدالت میں اپیل میں پیش ہوتا تو والد صاحب اسبلاس والے کمرے کے بغل کے کمرے میں جا بیٹھتے اور وہاں سے بحث سنتے.مسٹر ایچ اتے روز اور سٹر بار کہ جب میں نے سیالکوٹ میں کام شروع کیا تو وہاں پریکٹ ڈسٹرکٹ و سیشن جج اور سیشن جج مسٹر ایچ اے.روز تھے ان کا مزاج کچھ
کا تلخ اور تیز تھا اور کسی قدر ضدی بھی تھے.جی کے فرائض کی سر انجام دہی میں یہ صفات ستیہ راہ تھیں.ان کا جلد تبادلہ ہو گیا.ان کی جگہ مسٹر یا نہ کر آئے تو طبیعیت کے علیم تھے اور بہت سوچ سمجھ کر چلتے تھے.میں دوبارہ ان کے سامنے بحث کر چکا تھاکہ ان کی ملاقات کسی تقریب میں والد صاح سے ہوئی انہوں نے والد صاحب سے کہا ظفر اللہ خاں بہت محنت سے کام کرتا ہے اور بحث میں اپنا مطلب خوب واضح کر دیتا ہے.والد صاحب نے یہ فر کر مجھ سے کیا جس سے میں نے اندازہ کیا کہ مسٹر بارکر سے میرے حق میں تعریفی کلمات سنکر انہیں خوشی ہوئی.فالحمد للہ.مسٹر ایبٹ آئی سی ایس ڈپٹی کمشنر | ان ونوسیا لکوٹ کے ڈپٹی کمشنر مسٹرای آمد ایبٹ تھے.گفتگو میں ان کا لہجہ سخت معلوم ہوتا تھا.لیکن یہ محض ان کا طرز کلام تھا.طبیعت کے نہایت شریف تھے.پہلی عالمی جنگ کا نہ ما نہ تھا اور حکومت کی طرف سے جنگی قرصہ اور فوجی بھرتی حاصل کرنے پر بہت زورہ دیا جارہا تھا.بعض مقامات پر انہیں حاصل کرنے کیلئے سختی کئے جانے کی شکایت بھی سنی جاتی تھی.لیکن مسٹرا بیٹ نے سیالکوٹ کے ضلع میں ایسی شکایت پیدا ہونیکا کوئی موقعہ نہ دیا.پسرور میں نگی قرمنے کے سلسلے میں ایک جلسہ ہوا.مسٹر ایبٹ صدر تھے.ان کی تقریر کے بعد بدوملہی کے فریلدانہ مسٹر سدھ می ملہی نے اپنی طرف سے دس ہزار روپیہ کی پیش کش کی.مسٹر بیٹ نے انہیں سختی سے یہ کہتے ہوئے مردک دیا.اپنا قرضہ اتا ر نہیں سکتے اور حکومت کو قرضہ دیتے ہیں بیٹھ جائیے.سید میر حامد شاہ صاحب | سید میر حامد شاہ صاحب نے ڈپٹی کمشنر کے فارسی دفتر کے سینٹنڈنٹ تھے.مسٹر ایسٹ ان کا بہت احترام کرتے تھے.ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ میں کسی سلسلہ میں ڈپٹی کمشنر صاحب کے اجلاس کے کمرے میں موجود تھا.شاہ صاحب کچھ کاغذات پیش کر کے ان پر احکام نے رہے تھے.ایک رپورٹ پڑھی کہ آپ کی عدالت کے احاطے میں تو آم کے درخت ہیں ان کا مچل اتنی رقم پر نیام ہوا.آپ کی منظوری کیلئے پیش ہے.مسٹر بیٹ نے اپنے مخصوص درشت لہجے میں کہا.حامد شاہ کیا حکومت مجھے اڑھائی ہزار روپیہ ماہوار اس کام کیلئے دی ہے کہ میں ان چند رویوں کے متعلق رپورٹیں سنوں.اور انکی منطوری دوں بے شاہ صاحب نے ان سے بھی بلند آوانہ میں بھجواب دیا.مجھے اس سے غرض نہیں تو اعد میں لکھا ہے کہ آپ کی منظوری ضروری ہے اور قواعد آپ کی منظوری سے بنے ہوئے ہیں.یہاں دستخط کیجئے دستخط کر دیئے اور میری مسٹر بیٹ نے دیکھ کر اور مسکرا کر کہا.شاہ صاحب خفا ہو گئے ہیں.ای سال کے آخری تحصیلدار امی نے بطورانکم ٹیکس افسر والد صاحب کی آمد پر انکم ٹیکس تشخیص کیا.اور با تو اس وضاحت کے کہ میں والد صاحب کے ساتھ کام کرتا ہوں اور میری کوئی علیحدہ آمد نہیں میری مفروضہ
مهم ۱۲ آمد پر بھی انکم ٹیکس تشخیص کر کے ٹیکس کا مطالبہ کیا.والد صاحب نے فرمایا اس مطالبے کے خلاف ڈیپٹی کمشنر کے پاس عند داری که دو - ور نہ آئندہ سال یہ مطالبہ بڑھ جائے گا.اور یہ عزیر سماعت نہ ہوگا کہ تمہاری کوئی علیحدہ آمد نہیں.بچنا نچہ میں نے عزیہ داری کی در سفر است ڈپٹی کمشنر کی خدمت میں پیش کردی.اور نہ بانی بھی کہ دیا کہ میں اپنے والد صاحب کے ساتھ ہی کام کرتا ہوں اور میری کوئی علیحدہ آمد نہیں.ہماری جملہ مشتر کہ آمد پر شکی تشخیص ہو چکا ہے.مسٹرایٹ نے قلم اٹھایا اور درخواست پر چند لفظ لکھ کر اپنے سرشتے دار کو درخواست دیدی.میں نے دریافت کیا آپ نے کیا حکم دیا ؟ کہا تیلدار صاحب سے یہ پورٹ طلب کی ہے.میں نے کہا تحصیلدار صاحب اس پر کیا رپورٹ کریں گے.یہ اردو تر کا سوال ہے.اور یہ ام میرے علم میں ہے.میں کہتا ہوں میری کوئی الگ آمدہ نہیں آپ میری بات تسلیم کرتے ہیں یا نہیں کرتے.اگر تسلیم کرتے ہیں تو درخواست منظور کیجئے اور اگر تسلیم نہیں کرتے تو درد کیجئے.مسٹرایٹ مسکرائے اور سے رشتہ دار سے کاغذ واپس لیکر پہلے الفاظ کاٹ دیئے اور ان کی جگہ منتظور لکھ یا.میں شکریہ ادا کرکے چلا آیا را وقت ابھی انکم ٹیکس کا علیحدہ مرکزی محکمہ قائم نہیں ہوا تھا.نائب تحصیلدار اور تحصیلداری انکم ٹیکس کا کام کرتے تھے.مسٹرایٹ بعد میں کمشنر اور پر فاش کمشنر و وجوب پینشن پر گئے تو آکسفورڈ کے قریب ایک مکان جس کا نام LA VIC ERAGE تھا خرید کر اس میں سکونت اختیارہ کر لی.شاہ میں جب میں انگلستان گیا تو مجھے اپنے ہاں دعوت دی اور بہت تواضع سے پیش آئے.ار میں جب میں مرکزی حکومت ہند میں وزیر تجارت تھا تو حکومت پنجاب کے شملہ کے دفاتہ کے بہ آمدے میں سے گذرتے ہوئے ایک درس و انڈے پر مسٹرا بیٹ کا نام دیکھا.میں سن چکا تھا کہ مسٹر کی آگہ ایبٹ کے ایک صاحبزادے انڈین سول سروس میں منتخب ہو کر پنجاب میں متعین ہیں.میں چپک ہٹا کہ کمرے میں داخل ہو گیا.اور سلام کیا.حیران ہوئے کہ یہ شخص بلا اطلاع کیسے آگیا اور ہے کون.میں نے ان کے والدین کی خیریت دریافت کی اور ذکر کیا کہ میں OLD VICERAGE میں ان سے ملا ہوں.اس پر اور بھی حیران ہوئے اور کہا پھر آپ اپنا نام نشان بھی بتائیں.میں نے نام بتایا تو فوراً کھڑے ہو گئے اور معذرت کی کہ پہلے ملاقات نہیں ہوئی اس لئے پہچان نہ سکا.میں نے کہا معذرت مجھے کرنا چاہئے کہ میں علا اطلاع کمرے میں گھس آیا.ان کی شادی سہ آٹور نمیارہ مشہور ماہر مالیات کی بیٹی سے ہوئی.سول سروس سے استعفا دیکہ کچھ عرصہ تو لندن میں مالی تعلقوں میں دلچسپی پیدا کرنے کی سعی کرتے رہے اور اب سچند سالوں سے ٹرنٹی
۱۲۵ ہاؤس کیمین کے BURSAR ہیں..رائے بہادر کیشو د اس مجسٹریٹ | ان دنوں سیالکوٹ میں فوجداری صیغے میں سینیٹر مجسٹریٹ یا اختیارات زیر دفعہ ۳۰ ضابطہ فوبعدار می رائے بہا در کیشو ر اس تھے.بہت خوش پوش با وضع اور بارعب اندر تھے.تو جہا اور سلیقے سے کام کرتے تھے اور جلد کام ختم کر لیتے تھے.بڑے صفائی پسند تھے.ان کی گاڑی، گھوڑا ، ساز و سامان سب نستعلیق تھے.ایک گھوڑے کی بانکی گاڑی تھی جسے خود چلاتے تھے.لیکن دو گھوڑے بوڑی کے تھے.جنہیں باری باری ہوتا جاتا تھا.شیخ عبدالرحمن صاحب مجسٹریٹ | شیخ عبدالرحمن صاحب ریما در اصفر شیخ حمدالله صاحب مالک انگلش ویہ ٹاؤس لاہور ) سیالکوٹ یں میری در ریال بھی تھے اور درجہ اول بھی لینی ہیں ور بیداری اور دیوانی دونوں قسم کے اختیارات تفویض تھے.نہایت خلیق اور منکسر مزاج تھے.گفتگو میں خواجہ حافظ شیرانہی کے مقولے فاش می گوئیم دانہ گفته خود دل شادم" کے قائل تھے.اپنا کام بہت توجہ ، محنت اور دیانتداری سے سرانجام دیتے تھے.بہت زود نویں اور خوشنویں سے میر عبادہ اللہ صاحب سینیٹر سب حج | دیوانی صیغے میں سینٹر سب بچ سردار پرت سنگھ صاحب تھے.ان کے پیشن پر جانے کا زمانہ قریب تھا.ان کے بعد میر عباد اللہ صاحب سینیٹ سب جی ہو کہ آئے.وہ بھی نہایت شریف طبیع اور منکسر مزاج تھے.ان کے بڑے صاحبزادے میر مقبول محمود صاحب نہایت قابل اور ہونہار تھے.تقسیم سے قبل والیان ریاست کی چیمبر کے سکریٹری ہوئے.تقسیم کے بعد پاکستان میں ضرور بہت ترقی کرتے لیکن عمر نے وفا نہ کی.ایک نہایت المناک ہوائی حادثے کا شکار ہو گئے سردار سر سکندر حیات خاں صاحب میر عباد اللہ صاحب کے داماد تھے.اورسہ دار شوکت حیات خاں صاحب ان کے نواسے اور اپنے ماموں میر مقبول محمود صاحب کے داماد ہیں.دیوان سیتا رام صاحب منصف | دیوان سیتا رام صاحب سیالکوٹ میں منصف تھے نہایت قابل اور بیدار مغزاف تھے.اپنے فرائض کی ادائیگی میں کسی قسم کی رو رعایت روا نہیں رکھتے تھے.بعد میں سب حج اور سفیر سب جج ہوئے.میرا خیال ہے کہ مشن پر جانے سے پہلے ڈسٹرکٹ ** & اور سیشن بھی بھی ہو گئے تھے.لباس اور وضع قطع میں بہت سادہ تھے.لیکن پختہ کار اور تھے.ہمارے گاؤں کے رقبے میں سے ہرا پہ چناب کی ایک شارخ نکالی گئی تھی جس کا نام اب بھیانوالہ رادی بیدیاں ہنر ہے.اسی رقبے میں ایک سائفن بنایا گیا جہاں نہر کا پانی نیچے سے ہو کر گزرتا تھا.گیا اور بارش کے مہینے میں بارش کا پانی سطح پر سے گزر جاتا تھا.چونکہ سائفن کا قطر ضرورت سے کچھار کی کیا
اسلئے بارش کے موسم میں پانی رک جاتا تھا اور ارد گر کے رتبے میں فصل خراب ہو جاتی تھی یہ رقبہ والد صاحب کی ملکیت تھا.پہلی بار جب ایسا ہوا تو والد صاحب نے متعلقہ محکمہ کو نوٹس دیا کہ سائفن کے نظر کو بڑھانے کا انتظام کیا جائے اور فصل کے نقصان کی تلافی کی جائے.محکمہ نے مناسب اصلاح کا وعدہ کیا لیکن عملاً کوئی اقدام نہ کیا.دوسرے سال پھر وہی صورت پیش آئی.مچھر نوٹس دیا گیا اور نقصان کا معاوضہ طلب کیا گیا لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا.تیسرے سال پھر ویسا ہی ہوا.انکی بار ۸ ضابطہ دیوانی کے مطابق نوٹس دیکمہ والد صا سونے پر جانے کی وصولی کا دیوانی در عولی دائر کہ دیا جو دیوان سیتا رام صاحب کے سپرد ہوا حکومت کی طرف سے ہر طرح کے عذرا ٹھائے گئے لیکن پوری تحقیقات کے بعد دیوان صاحب نے ڈگری صادر کر دی.اس مقدمے کے آخری مراحل کے دوران میں انگلستان سے واپس آیا تھا.سیالکوٹ چھاؤنی میں مستری جھنڈا صاحب کی فرنیچر کی دوکان تھی وہ خود بڑے اعلیٰ درجے کے کا ردیگہ تھے.کچھ کا دیگر ملازم بھی رکھے ہوئے تھے.انگریز افسران ان کے ہاں کی نجی ہوئی اشیاء کی بہت قدر کرتے تھے.وہ بہت سنجیدہ مزاج.شریف طبع انسان تھے.ان کی ر ہائش شہر میں شبہ معماراں کے محلے میں تھی.ان کا ایک نو جوان پیر دسی تو ان کا رشتہ دار بھی تھا.سچالاک اور شوخ طبع تھا.اور ان سے بلا وجہ بچہ ناش یہ کھتا تھا.کئی طریق سے انہیں رق کرتا تھا.آئنہ اس نے ان کے خلاف ایک بے بنیاد استغاثہ دائر کر دیا.مستغیث کی طرف سے چودھری محمد امین صاحب وکیل تھے میستری تھنڈا صاحب نے والد صاحب کو اپنی طرف سے گیل کیا اور انہوں نے مجھے پیروی کرنے کا ارشادہ فرمایا.شہادت استغاثہ لینے کے بعد مجسٹریٹ نے استغاثه خارج کر دیا.لیکن اس سے مستغیث کے رویہ میں کوئی اصلاح نہ ہوئی.وہ مثل سابق مستری صاحب کے خلاف شرارت اور ایذا دہی کے طریق اختیار کرتا رہا مستری صاحب نے مجھ سے مشورہ کیا کہ اس کی شرارہ توں کا کس طریق سے سد باب کیا جائے.میں نے انہیں مشورہ دیا کہ اس کی تادیب کیلئے اس کے خلاف بدنیتی سے جھوٹا استغاثہ دائمہ کرنے کی بنا پر ہر جانے کا دیوانی دعوی کیا جائے.مستری صاحب نے کہا میں تو قانونی باریکیاں نہیں جانتا جو مشورہ تم دود میں اسپر عمل کرنے کو تیار ہوں.ان کی اجازت اور ہدایت کے مطابق میں نے ہر جانے کا دعومی دائر کر دیا.مدعا علیہ نے پھر چودھری محمد امین صاحب کو اپنی طرف سے وکیل مقرر کیا.چودھری صاحب والد صاحب کے دوست بھی تھے اور کچھ دورہ کا رشتہ داری کا تعلق بھی تھا.میرے لئے وہ ہر طرح
سے واجب لاحترام شخصیت تھے کھری میں والد صاحب کا اور ان کا دفتر بھی ایک ہی کمرے میں تھا کچہری کے اوقات میں میرا فراغت کا بیشتر حصہ ان کی صحبت میں گذرتا تھا.جب وہ اس مقدمہ میں ہا علیہ کی طرف سے وکیل مقر ہوئے تومجھ سے کہا تم نے یہ دعوی محض مدعا علیہ کو دق کرنے کیلئے کیاہے یا سنجیدگی سے کیا ہے ؟ میں نے کہا بہت سنجیدگی سے کیا ہے.دن کرنا تو آپکے موکل نے شعار بنایا ہوا ہے.ہم تو سکی شرارت کو یہ رکھنا چاہتے ہیں.کہنے لگے ایساد عولی تو قابل سماعت کی نہیں کئی استغاثے ہری و نہ مخارج ہوتے ہیں اگر ہر متعیت پر ہر جانے کا دعوی ہونے لگے تو ایک مذاق بن بھائے.میں نے کہانہ بد نیتی اور دشمنی کی دستبر سے جھوٹا استغاثہ کیا جائے اور وہ مخارج ہو سجائے تو مستعاث علیہ ضرور ہر جانے کا حقدار ہوتا ہے.یہ علیہ بات ہے کہ یہاں الیسا د عمومی کرنے کا رواج نہیں اور الیسا د عو ملی آپ کو اچنبہ معلوم ہوتا ہے.لیکن ایسے دعوئی میں کامیابی تھوٹے استغاثوں کی روک کا موجب ہوسکتی ہے.فرمایا اچھا دیکھیں گے.ہجواب ٹوٹی میں علاوہ واقعاتی عذرات کے یہ عذر بھی کیا گیا کہ السیاد عومی قانو نا قابل پذیرائی نہیں.یہ مقدمہ بھی دیوان ستیا رام صاحب کے سپرد ہوا.اور آخر میں مدعی کے حق میں ڈگری ہوگئی.میں نے عمدا نزیادہ ہر سجا نہ طلب نہیں کیا تھا.غرض تو مدعا علیہ کی تادیب تھی تاوہ شرارت میں بڑھتا نہ بجائے مستری جھنڈا صاحب کو اندیشہ تھا کہ وہ ایک استغاثہ تھا رج ہونے کے بعد ایک اور جھوٹا استغاثہ دائر کر دے گا.ہمارے دعوٹی کا اصل مقصد یہ تھا کہ مدعا علیہ کو یہ احساس ہو جائے کہ ایسے اقدامات کی کچھ قانونی پاداش بھی ہوسکتی ہے.دیوان صاحب نے ہماری مطلوبہ رقم ہرجانہ کی ایک شق میں تھوڑی سی تخفیف کردی اور بقیہ حملہ مطلوبہ ریتم کی ڈگری دیدی.مدعا علیہ نے اپیل دائر کی جس کی سماعت مسٹر بیاہ کرنے کی اور اپیل خارج کر دی جیب مدعا علیہ کو تاوان اور دونوں عدالتوں کے فخریہ کی رقم ادا کر نی پڑی اور بہادری کی نظروں میں خفت بھی ہوئی تو اس نے مستری صاحب کو دق کرنا چھوڑ دیا.اس طرح ایک مرنجان مریخ شریف ان ن مزید پریشانی سے بچ گیا.موضع آلو مہار ضلع سیالکوٹ کے ایک بزرگ نے جو سادات میں سے تھے اور جن کی اولاد نرینہ نہیں تھی رواج کے مطابق اپنے نواسے کو اپنا نبی بنایا اور اسے اپنا وارث قرار دیا ان کے قریبی یکجری کوئی نہیں تھے.ان کی وفات پر ان کے دور کے عدلیوں نے دعوی کیا کہ متوفی رواج کے پابند نہیں تھے.شمع محمدی کے پابند تھے اور شرع محمدی میں تینیت جائز نہیں.اسلئے وہ شروع محمدی کے مطابق ان کی وراثت میں اپنا حصہ پانے کے مستحق ہیں.ابتدائی عدالت میں مدعیان کی طرف سے نچودھری محمد امین صاحب وکیل تھے اور مدعا علیہ کی طرف سے والد صاحب.اس عدالت
۱۲۸ نے قرار دیا کہ ہر چند کہ متوفی سید تھے لیکن ان کا خاندان پشتوں سے اکو مہار میں کب ہوا ہے.اور زراعت پیشہ ہے.اور وراثت وغیرہ کے معاملات میں ہر موقعہ پر رواج کا پابند رہا ہے اسلئے متونی بھی رواج کے پابند تھے.اور اپنے نواسے کو متبنی بنانے کے مجانہ تھے.مدعیان نے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی جس کی سماعت بھی مسٹر بارہ کرنے کی.والد صاحہ نے اپیل کی پیروی میرے سپرد کی.مقدمہ کی تیاری کے دوران میں مجھے خیال ہوا کہ اس کیس کے واقعات کے تحت شرع محمدی کے مطابق بھی غالباً متوفی کے تمہ کے کا کثیر حصہ مدعا علیہ کو ہی پہنچتا ہے.چنانچہ میں نے کچھ وقت صرف کر کے شروع محمدی کے مطابق حصہ کشی کی تو معلوم ہوا کہ شرع محمدی کے مطابق بھی مدعیان صرف ایک نہایت تخفیف حصہ بجائداد کے مقدایہ ہوتے ہیں اور بقیہ تمام جائداد کا حقدار یا مدعا علیہ خود ہے یا اس کے وہ قریبی رشتہ دار ہیں جو اسکی بہنیت کے موئید ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہی اپنے نانا کا وارث ہو.اس نتیجہ پر پہنے کیلئے مجھے ایک لمبا حساب کا سوال حل کرنا پڑا لیکن میں نے یہ تمام تفصیل نوٹ کر لی.جب اپیل کی سماعت شروع ہوئی اور چودھری محمد امین صاحب امرزید تنازعہ کو بیان کر چکے کہ متوفی مشروع محمدی کے پابند تھے رواج کے پابند نہیں تھے تو میں نے کہدیا کہ میں یہ تسلیم کرنے کو تیار ہوں کہ شریع محمدی کے مطابق مدعیان کا تو حصہ وراثت میں بنتا ہے وہ انہیں دیدیا جائے.پچودھری محمد امین صاحب کچھ حیران ہوئے کہ میں نے بحث کے بغیر سی ان کا موقف تسلیم کر لیا ہے.مسٹر بار کرنے ان سے کہا اب آپ مجھے لکھا دیں کہ مدعیان شرع محمدی کے مطابق کس قدر کے حقدار ہیں.چودھری صاحب نے چونکہ تفصیلی حصہ کشی نہیں کی ہوئی تھی انہیں اس میں کچھ مشکل پیش آئی.مسٹربار کرنے مجھ سے پوچھا تم نے یہ تمام قضیہ حل کیا ہے ؟ میرے اثباتی تجواب یہ کہا پھر تم مجھے لکھا دو.چنانچہ میں انہیں لکھواتا گیا اور چودھری صاحب ساتھ ساتھ پڑتال کرتے گئے.جب حصہ کشی کا سلسلہ آخر کو پنچا تو مٹر بار کہے نے پینسل ہاتھ سے رکھ کر کہا میراتو ریکہ اگیا ہے اور مدعیان کا حصہ اتنا کم نکلا ہے ؟" مشروع محمدی کا اطلاق تسلیم کر لینے سے میری فرض یہ تھی کہ مقدمہ بازی کا سلسلہ ختم ہواور رضامندی سے تصفیہ ہو جائے.اگر چہ وکالت میرا پیشہ رہا ہے لیکن مجھے مقدمہ باندی سے ہمیشہ نفرت رہی ہے.عرصہ ہوا میں ابھی یہ مکٹس کرتا تھا کہ جماعت احمدیہ کے سالانہ جلسے میں میری تقریر اصلاح معاشرہ پر ہوئی.اس میں میں نے یہ بھی ذکر کیا کہ ہمارے ملک میں دیہاتی طبقہ ** خصوصیت سے مقدمہ بازی کے مرض میں مبتلا ہے.اس سے حتی الوسع بچنا چاہئے.میری تقریر کے 1
۱۲۹ ختم ہونے پہ ہمارے نوجوان وکلا ء سب میرے گرد جمع ہو گئے.کہنے لگے تم نے یہ کیا کہہ دیا.اگر تمہاری نصیحت پر عمل شروع ہو گیا تو ہمارا کاروبار تو ختم ہو جائے گا.میں نے کہا رزق تو اللہ تعالی اعطا فرماتا ہے.میں بھی آپ کی طرح پریکٹس کرتا ہوں اور مجھے تو بہت خوشی ہو اگر ملک میں غیر ضروری مقدمہ باندی بند ہو جائے.خواہ میری پریکٹس بھاری ر ہے یا نہ رہے.اگر قانون کی پریکٹس نہ رہے گی تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے کوئی اور راستہ کھول دیگا.آپ بتائیں کیا ایک ڈاکٹر کی یہ خواہش ہونی چاہیے کہ ملک میں ہماری بڑھے یا کم محرم؟ سیالکوٹ میں پریکٹس کے زمانے | دیوانی وکلاء میں پنڈت بیلی رام صاحب پیش پیش میں وہاں کے بعض سرکردہ وکلاء تھے.وہ والد صاحب سے ایک دو سال سنئیر تھے.میرے انگلستان جانے سے دو تین سال قبل ان کے صاحبزادے مسٹریہ جیت رائے بیرسٹری کی سند حاصل کر کے آئے تھے اور سیالکوٹ میں پریکٹس شروع کی تھی.ان کا کام بھی بڑھتا گیا لیکن فوجداری میں زیادہ دیوانی میں کم.شروع میں ہی انہوں نے شہر سے باہر ایک عالیشان بنگلہ تعمیر کیا تھا.پنڈت بیلی رام صاحب نے بہت لمبی عمر پائی اور شاید ۶۵ سال سے زائد عرصہ پر ملٹیں کی.سردار سنت سنگھ صاحب کی پریکٹس دیوانی ہی میں تھی.نہایت شریف طبع کم گو تھے.اپنے کام سے کام رکھتے تھے.فضولیات میں قطعا حصہ نہیں لیتے تھے.بہت محنت سے کام کرتے تھے.قانونی کتب اور نظائمہ کا بڑا ذخیرہ ان کے پاس تھا.لالہ اننت رام صاحب بھی ان کے نقش قدم پر چلنے والے تھے.انہوں نے خالص اپنی محنت اور توجہ سے اپنی پریکٹس کو فروغ دیا تھا.ان کے والد عدالت میں پیر سی تھے انکے پر کئی شہر دعا کرنے کے بعد بھی ان کے والد صاحب نے اپنا کام ترک نہ کیا.باپ بیٹے دونوں کی خود داری کی یہ ایک درخشاں مثال تھی.نہ بیٹے کو یہ احساس تھا کہ ان کے والد اپنی روزی خود کھانے پر مصر ہیں تو یہ امر ان کے لئے خفت کا موجب ہے.نہ باپ کو یہ احساس تھا کہ میرا بیٹا ایک کامیاب وکیل ہے اسلئے مجھے اب اپنا کام چھوڑ دینا چاہیئے تاکہ میرے بیٹے کیلئے خفت کا باعث نہ ہو.جب میں نے پریکٹس شروع کی دیوان چیدن و اس صاحب بہت سی جائداد پیدا کر چکے تھے ریلوے چوک میں ان کا عالیشان بنگلہ اور وسیع باغ تھا.ان کا مزاج امیرا نہ تھا.وکالت بھی امیرانہ طریق پر کرتے تھے.خوش باش تھے.طبعیت بشاش تھی.بہت ملنا ر تھے.خان بہادر حاجی چودھری سلطان محمد خانصاحب بیرسٹر ایٹ لاء.زندگی کے اتار چڑھاؤ کا بہت تجربہ رکھتے تھے.مملکت افغانستان میں میرفتی رہ پچکے تھے.جس محفل میں تشریف فرما ہوتے اس کے روح رواں ہوتے.جہاندیدہ ہونے کی وجہ سے ان کے
فراتی تجربات اور واقعات کا ذخیرہ لامتناہی تھا.میں نے جب سیالکوٹ میں کام شروع کیا تو مجھے سے فرمایا قانون تو تم اپنے والد سے سیکھنا لیکن بات کرنے کا ڈھنگ مجھ سے سیکھنا.بہت حاضر جواب تھے.بار روم میں پھیڑ خوانی کا سلسلہ جاری رہتا ہے لیکن جو صاحب حاجی چو دھری صاح سے چھیڑ خانی پر آتا وہ ہوتے وہ پہلے ہی قدم پر بری طرح پچھاڑے جاتے.ملک کے نامورث عر فیض احمد فیض حاجی تو دھوتی صاحب کی یاد گار ہیں.چودھری سردار خاں صاحب ایک متین سنجیدہ مزاج ، عبادت گذار ، کثیر العیال قدامت پسند ، پابند و ضع بزرگ تھے.والد صات کے ساتھ بہت دوستانہ مراسم تھے.دونوں گھروں میں آپس میں بہت میں بھول اور آنا جانا تھا.والد صاحب نے جب سلسلہ احمدیہ میں دلچسپی لینی شروع کی تو یہ امر چودھری صاحب کو ناگوا نہ ہوا.کبھی گفتگو میں بحث کا رنگ بھی آجانا.والد صاحب کا سلسلہ عالیہ احمدیہ میں منسلک ہونا چودھری صاحت کے لئے بہت ریخ کا موجب ہوا والد صاحب کی بیعت کا شہر بھر میں بہت چرچا ہوا اور سارے شہر میں فورا نثر پھیل گئی والد صاحب کچہری گئے اور چودھری صاحب سے ملاقات ہونے پر اسلام علیکم کہا.چو دھری صاحب نے جواب میں فرمایا وعلیکم السلم ان گنت مسلما الوعلیکم السلام اگر تم مسلمان ہو ) والد صاحب نے قریب کے حاضرین کو گواہ ٹھہرایا کہ چودھری صاحب نے میرے مسلمان ہونے میں شک کیا ہے.اب مجھ پر سلام میں سبقت واجب نہیں البتہ چودھری صاحب اگر چاہیں تو یہ سلسلہ پھر شروع ہو سکتا ہے.اور میں پہلے کی طرح سلام میں سبقت کرنا شروع کر دوں گا.چودھری مناب کا مکان لب سڑک تھا اور کھلے موسم میں بعض دفعہ وہ اپنے دفتر کے کمرے کے باہر لب سڑک کر یہی پر تشریف فرما ہوا کھتے تھے.ان کا مکان مسجد احمدیہ کو جانیوالی گلی کے کونے پہ تھا.مجھے بارہا وہاں سے گذر نا ہونا تھا میں ابھی مدرسے میں پڑھتا تھا.میں نے والد صاحب سے دریافت کیا کہ میں چودھری صاحب کی خدمت میں مثل سابق سلام عرض کیا کروں یا نہ.فرمایا وہ تمہا ہے بزرگ ہیں تمہیں جب بھی موقعہ ہو تم ضر در سلام کہا کرو وہ جواب دیں یا نہ دیں.مجھ سے دو تین سال سنیٹر شیخ نو ابدین مراد صاحب بیرسٹرایٹ لاء تھے.اپنے کام میں دلچسپی لیتے تھے.محنت سے کام کرتے تھے.طبیعت بہت بشاش تھی.توقع تھی کہ اپنے پیشے میں ترقی کرتے لیکن چند سال ہی پریکٹس کی بھی کہ داعی اجل کو لبیک کہا.ابتدائی عدالتوں میں پریکٹس کر جیسے بے رغبتی | سیالکوٹ میں پریکٹس کے لحاظ سے مجھے ایک نهایت میش قیمت سہولت یہ حاصل تھی کہ والد صاحب جیسا شفیق ہمدرد ، صاحب تجربه استناد میسر تھا.دفتر، لائبریری ، مکان ، سواری، سب موجود تھے.پھر ج اور مجسٹریٹ ایسے نہیں تھے کہ مجھے ان سے شکایت ہوتی.ضلع بھر میں برادری اور رشتہ داری کے تعلقات تھے.جو کام والد صاف میرے
سپرد کرتے رہے میں نے اسے دلچسپ پایا اور میں اسے تو جہ سے کرتا رہا.علاوہ وکالت کے کام کے شہر سیالکوٹ میں اور ضلع کے مختلف حصوں میں سلسلہ احمدیہ کی فعال اور مخلص جماعتیں تھیں.شہر کی جماعت کی سرگرمیوں میں میں شوق سے حصہ لیتا تھا.سیالکوٹ کی جماعت میں محاسب کی خدمت میرے سپرد تھی جسے میں بڑے شوق سے ادا کرتا رہا.جماعت کے بزرگوں کی صحبت میرے لئے مشعل راہ کا کام دیتی تھی اور موجب سعادت تھی.مجھے کوئی ایسی عادت نہیں تھی کوئی ایسا شوق نہیں تھا کوئی ایسی مرغوب دلچسپی نہیں تھی جسے میں سیالکوٹ میں پورا نہ کر سکتا.والدہ صاحبہ کی محبت اور شفقت ایک انمول نعمت تھی.جس کی قدر و منزلت میرے انگلستان کے سہ سالہ قیام نے دوبال کریں کے ابتدائی عدالتوں کی پر کمیٹی کے ساتھ مجھے دلی رغبت پیدانہ ہوسکی.چیف کورٹ کی پر کائی کا نہ مجھے کوئی انلاندہ تھانہ تجربہ.لاہور میں وکالت کا کام شروع کرنے کیلئے مجھے نہ ضروری معلومات حاصل تھیں نہ ذرائع میسر تھے.میں نے معلومات حاصل کرنے کی کوشش بھی نہیں کی.میں سیالکوٹ کو چھوڑ کر کسی نئے ماحول میں منتقل ہونے کے خیال سے پریشان بھی ہوتا تھا.دھرم سالہ کا سفر اس کی گرمیوں چودھری حاکم دین صاحب اور ڈاکٹر لال دین صاب کے والد جو بڑے مخلص، متقی اور بڑے متواضع بزرگ تھے دھرم سالہ میں گو ر کھا رجمنٹ میں ٹیلر ماسٹر تھے.ان کے دونوں صاحبزادگان گرمیوں میں ان کے پاس گئے ہوئے تھے.ڈاکٹر لال دین صاحب نے مجھے بھی ستمبر کی تعطیلات میں دھرم سالہ آنے کی دعوت دی.میں نے والد صاحب سے اجازت لیکر دعوت منظور کرلی اور اگست کے آخر میں دھرم سالہ کیلئے روانہ ہوا.لاہور سے پٹھانکوٹ کی گاڑی.رات کے 4 بجے روانہ ہوئی.سیکنڈ کلاس کے ایک بڑے خانے میں ہم دو مسافر تھے.دوسرے صاحب ایک نبیا معمر بزرگ تھے جو رات کے وقت بھی رنگین چشمہ پہنے ہوئے تھے.ان کے ٹرنک پر ان کا نام اور عہدہ یوں لکھا ہوا تھا، گیر سیل آرک ڈیکن احسان الحق.میں نے سمجھ لیا کہ آپ کلیسا کے بزرگ عہدے دار ہیں.وہ مجھ سے پہلے کمرے میں تشریف فرما تھے اور اپنے بستر پر آرام سے لیٹے ہوئے تھے.میں پہل کی روانگی سے تقریباً بیس منٹ پہلے پہنچا تھا.اتنے تھوڑے سے وقفے میں سوڈا برف والا دور بار لیونڈ اور برف لیکر آیا اور آرک ڈیکن صاحب کو پلا گیا.معلوم ہوا کہ آرک ڈیکین صابر نے اسے ہدایت دے کر بھی ہے کہ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد انہیں لیمونیڈ اور برف مہیا کرتا رہے.جب مغل پورہ اسٹیشن پر گاڑی کھڑی ہوئی تو وہ برف لیمونیڈ لئے حاضر ہو گیا.اٹاری، امرتیہ ، ٹیالہ ، گور اسپور ، دنیا نگمہ کے
اسٹیشنوں اس نے برف لیمو نیڈ کا مر کیا.آخر جب گالری پہنچی تو آخری بار برد لیمونیٹڈ لئے حاضر ہوا اور آرک ڈیکین صاحب نے اس کا حساب ادا کر دیا.گاڑی تین تجھے قبل فجر پٹھانکوٹ پہنچی ان کچھ گھنٹوں میں آرک ڈیکن صاحب سو سکے یا نہیں میں نہیں کہ سکتا.مجھے لفضل اللہ آسانی سے نیند آجاتی ہے.لیکن ہر بار صاحب لیونیڈا کی آواز سے آنکھ کھل جاتی اور مجھے تعجب ہوتا کہ دینیر پیل ارک ڈیکن صاحب نے اپنے متبرک معدے میں کس قسم کی بھٹی سلگا لہ بھی ہے میں نے انہیں تشنہ ودائم کی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے.پٹھانکوٹ کے اسٹیشن کے باہر ہی ڈاک کا تانگہ تیا بہ کھڑا تھا اور ڈاک کے تھیلے اس پہ لادے جا رہے تھے.معلوم ہوا کہ آرک ڈیکن صاحب بھی اسی تانگے پر سفر کرنے والے ہیں.میری نشست آگے کو چور ان کے ساتھ تھی اور آرک ڈیکن صاحب کی نشست سمجھے تھی جو ان کیلئے آرام دہ تھی کیونکہ ابن عمر اور وزن کے لحاظ سے پچھلی نشست میں سوار ہونا ان کے لئے آسان تھا.کوچوان صاحب سکھ تھے جب تم شہر سے نکل کر پالم پور والی سڑک پر ہو لئے اور ذرا اسمال ہونے لگا تو کو چوان صاحب نے میرے ساتھ بات چیت شروع کر دی.وہ کال کا ، شملہ ، راولپنڈی ، مری ، سرینگر کی سڑکوں پر ڈاک کا تانگہ چلاتے رہے تھے.باتوں باتوں میں انہیں معلوم ہو گیا کہ میں سیالکوٹ کا رہنے والا ہوں چودھری جلال دین صاحب کا ذکر آگیا ہو اس وقت سپر نڈنٹ ڈاکخانہ جات تھے.میں نے بتایا وہ برادری میں میرے بھائی ہیں.کہا وہ بہت نیک شریف انسان ہیں.ہر ایک سے خوش خلقی سے پیش آتے ہیں.پہاڑی علاقوں میں ڈاک کے تانگوں کا سفر بہت دلچسپ ہوتا تھا.تانگہ بہت مضبوط ساخت کا ہوتا تھا.تین سوارہ یوں ، ان کے سامان اور ڈاک کے تھیلوں کے لئے کشادہ جگہ ہوتی تھی.دو گھوڑے بجتے تھے.میدانی حصے میں ہرچھ میل پر گھوڑوں کی بدلی ہوتی تھی.سپہاڑی علاقے میں ہرتین میل بعد گھوڑے بدے بجاتے تھے.تمام سفر سرپٹ طے ہوتا تھا.چوکی کے قریب پہنچنے پر کو بچو ان کے بنگل بجانے پر دو سائیں دوستانہ کسے ہوئے گھوڑوں کو لیکر کھڑے ہو سجاتے تھے.جو نہی تانگہ کھڑا ہوتا ہھتے ہوئے گھوڑے مٹائے جاتے اور تازہ گھوڑے بوت دیئے جاتے کو جوان دیا جاتا اور دائیں ہاتھ والے گھوڑے کو ایک سچا یک رسید کرتا اور گھوڑے سرپٹ دوڑنا شروع کر دیتے.گھوڑوں کی تبدیلی میں نصف منٹ سے زیادہ صرف نہ ہوتا.ہر دس بارہ میل پر بنگلہ ہونا یہاں تانگہ چار پانچ منٹ کیلئے رکھا.سواریاں اتر کر چند قدم ٹہلتیں یا چائے پانی پی لیتیں.گھوڑے بہت اچھی سالت میں رکھے جاتے تھے.اور ان کی مناسب دیکھ بھال ہوتی تھی.کبھی کوئی گھوڑا شوخی کرتا تو کو چوران
جلد ضبط میں لے آ ب لے آتا.ایسے موقعہ پر کو چو ان اپنے مزاج کے مطابق مظاہرہ کرتا.کوئی گھوڑے پیچکانہ تا اور پیار کے لفظ استعمال کرتا.کوئی تیزی کرتا اور گھوڑے کو گالی دیتا.ہمارے یہ کو جوان کچھ تیز طبیعت کے تھے.گالی دشنام ان کے منہ سے ایسے نکلتے تھے جیسے پھل پھڑی سے شرارے مجھے یہ احساس ہو رہا تھا کہ ان کا یہ اسلوب آرک ڈیکن صاحب کی طبعیت پر گراں ہو رہا ہے.ایک چوکی پر گھوڑے بدلنے کے بعد تانگہ روانہ ہوا تو دائیں ہاتھ کا گھوڑر شرارت پر اتر آیا.کو حیران نے گالی دی اور ایک سیا یک رسید کی گھوڑے نے پچھلے پاؤں اٹھا کر دوستی لگائی.کوچوان صاحب غصے میں آگئے گا لیوں اور چابک دونوں کی رفتار تیز ہوگئی.گھوڑے کی رات میں کمی نہ آئی بلکہ اور بڑ ھوگئیں تو جوان نے دو تین چابک ندور سے جلدی جلدی میں لگائے.گھوڑے کی غیرت بھی تجوش میں آئی.اب کی بارہ اس کی پچھلی ٹانگیں خاصی بلند ہورٹی اور نیچے آنے میں بائیں ٹانگ سجائے نہ مین پر آکر نے کے درمیانی پوٹی تیر یہ آرہی اور گھوڑے کا سہالہ باقی تین ٹانگوں پردہ گیا.اب کو چوان صاحب تانگہ روکنے پر مجبور ہو گئے اور تانگہ سے اتم کہ گھوڑے کی ٹانگ آزاد کرانے میں مصروف ہوئے.کوئی سائیں بھی قریب نہ تھا جو ہاتھ بٹاتا.گھوڑے کی ٹانگ کو نقصان پہنچتا تو ان پر حرف آتا - تانگے سے اتر کر معروف پر کار ہونے سے ان کے وقالہ میں بھی فرق آیا.ان کے غصے کا پایہ اور بھی چڑھ گیا اور گالیوں کی بوچھا کیفیت اور کیمیت میں اور بھی بڑھ گئی.گھوڑے کی شرارت کی وجہ سے تانگے کی رفتار میں تو کمی نہ آتی تھی لیکن اس کے توازن میں ضرور فرق آگیا تھا.آرک ڈیکین صاحب کو پھیلی نشست سے سامنے کا ڈرامہ تو نظر نہیں آتا تھا لیکن کو پروان کی درشت کلامی اور تانگے کے چکولوں کی وجہ سے وہ ہزار ہو رہے تھے اور جب گھوڑے اور اس کے خاندان کے خلاف کو پوران کی دشنام طرازی معمول سے بڑھ گئی تو آکر رکین صاحب نے نہایت سنجیدہ لہجے اور کچھ منانت آوانہ میں احتجاج کیا.ارے بھائی وہ تو تھا نور ہے تم کیوں گالیوں سے اپنی زبان گندی کرتے ہو.شریفوں کے کان گندے کرتے ہو اس سے کیا فائدہ ؟ اتنے میں کو جو ان صاحب گھوڑے کی ٹانگ آزاد کروا کے اپنی نشست پر واپس آگئے تھے.بگل بجایا اور تانگہانی رفتار پر پر روانہ ہوگیا.گھوڑے کی شرارت بھی کچھ ضبط میں آگئی.کوچوان صاحب کا مزاج اعتدال پر آیا تو مجھ سے پوچھا اسیہ کچھے کون لئے یہ مجھے کون بیٹھا ہے ، میں نے کہا پادری صاحب ہیں.پوچھا ޕ ایہدا کیہناں ایں ؟ " ( اس کا کیا نام ہے ) میں نے کہا احسان الحق - پوچھا کہانی ہے ؟ " کیا عیسائی ہے ؟ میں نے کہا ہاں عیسائی ہیں.اور گرجے کے بڑے افسر ہیں.کوچوان نے بڑانا شروع کیا.لیا جاندی اے.ناں جہان الحق تھے ہے ہائی ! بھارا شریف بنیا پھردا اے میریاں.
۱۳ گالیاں نال ایہدے کن گندے مہندے نہیں.ہوں.ہاں میں مسائی تھے ناں میرا میسان الحق چنگا شریف ہے.(ہت تیرے کی.نام احسان الحق ہے اور ہے عیسائی بیٹا شریف بنا پھرتا.میری گالیوں سے اس کے کان گندے ہوتے ہیں.ہوں ! ہوں میں عیسائی پر نام ہے میرا احسان کو اچھا شر یف ہے.میں پریشان ہو ر ہا تھا کہ کہیں آرک ڈیکین صاحب کو بچو ان کی پیڈ بڑا اہٹ بیٹن لیں لیکن تانگے کے شور میں غالباً آوانہ پیچھے سنائی نہیں دیتی تھی.کو سیچوان صاحب کبھی خاموش ہو جائے کبھی میرے ساتھ کوئی بات کر لیتے لیکن دفعتہ پھر بڑبڑانے لگ جاتے ہوں ! ناں جہان الحق ہاں 3" میں سہائی.بھارا شریف کار ہوں ! نام احسان الحق.ہوں میں عیسائی.بیٹا شریف ) نو بجے کے قریب ہم شاہ پور پہنچے.یہاں سے ایک سڑک تو سید ھی پالم پور بجاتی ہے اور دوسری بائیں طرف دھرم سالہ جاتی ہے.یہ تانگہ تو پالم پور جانیوالا تھا اور یہاں سے دوسرا تا نگہ دھرم جانے کیلئے تیار تھا.میں نے تانگہ بدل لیا اور مختصر سے ناشتے کے بعد یہ دوسرا تانگہ دھر مسالہ کی طرف روانہ ہو گیا.آرک دیکین صاحب نے بھی ناشتہ کیا اور پہلے تانگے میں پالم پور تشریف لے گئے.مجھے ان کے متعلق کچھ پریشانی رہی.کوچوان صاحب کا بیڑی اتنا تو کچھ ایسے نکمہ کی بات نہیں تھی لیکن ایک حرکت اس نے ایسی کی تھی جس سے مجھے اندیشہ تھا کہ پال پور کے راستہ میں معزز پادری صاحب کو کوئی تکلیف نہ پہنچائے.ہوا یہ کہ ایک مقام پر پانی کا چشمہ مہاڑ کی جانب سے بہتا تھا اور سڑک کے کنارے ایک حوض میں اس کا پانی جمع ہوتا تھا.پانی بہت صاف ، ٹھنڈا اور شیریں تھا.کو سیوان نے تانگہ ٹھہرایا اور پادری صاحب سے کہا کہ اگر چاہیں تو پانی پی لیں.وہ شوق سے اترے اور سیر ہوکہ پانی پیا.تانگے کی طرف واپس آئے لیکن ابھی سوارہ نہ ہونے پائے تھے کہ کو پچر ان صاحب نے تانگہ چلا دیا.مجھے بہت پریشانی ہوئی اور میں نے انہیں سمجھایا کہ انہیں ایک معزنہ انسان کے ساتھ الیسا یہ تاؤ نہیں کرنا چاہیے.انہوں نے تانگہ روک لیا اور یوں بھی چند قدم پر روکتے ہیں کیونکہ یہ تو انکی نیت ہو نہیں سکتی تھی کہ آرک ڈیکن صاحب کو سٹرک پر چھوڑ کر پہلے جاتے.لیکن اس قسم کا مذاق بھی نا واجب تھا.اس کے بعد اس کی بیڑیا ہٹ بھی کسی حد تک رک گئی شاید اپنے غصہ کے اس عملی اظہار کے بعد ان کی طبیعت صاف ہو گئی ہو بلکہ ندامت کا کچھ احساس پیدا ہو گیا ہو.▲.لویه د هر مالہ پہنچنے پر چودھری عالم دین صاحب، میاں حکیم الدین اور ڈاکٹر لال دین صاحب مل گئے.اور ہم سب اکٹھے پر دھر مسالہ پہلے گئے.ان دنوں لوئر د ھر مسالہ میں تو کچھ آبادی تھی اور چیند
۱۳۵ سرکاری دفاتہ بھی تھے.لیکن اپر دھرم سالہ کی کیفیت ایک چھوٹے سے گاؤں کی تھی.کوئٹہ دھر مسالہ میں خالصاحب اللہ بخش صاحب نے اپنا خوشنما بنگلہ بنایا ہوا تھا.وہ جنگلات کے محکمہ کے میشن یافتہ افسر تھے اور دھر مسالہ ہی میں بس گئے تھے.بعد میں بھی میری ملاقات ان سے ہوئی مبہت خلیق اور متواضع تھے.اپر دھر مسالہ میں لال دین صاحب کے والد نبیند گواہ ماسٹر محمد دین صاحب کی رہائش تو رجمنٹ میں تھی لیکن ہمارے لئے انہوں نے مکان قصبے کی آبادی میں لے رکھا تھا.ہر شام وہ کھانا بہار ساتھ کھاتے تھے اور کچھ وقت ہمارے ساتھ گزارتے تھے.اپر دھرمالہ کی ملندی سطح سمندر سے تقریب نو ہزار فٹ ہے اور شمالی جانب اونچے پہاڑوں کا سلسلہ ہے جو تمام وقت برف سے ڈھکے رہتے ہیں.ایمر در محرم سالہ سے پیار ہزار فٹ اوپر منتقل کرنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے.وہاں تک پہنچنا کچھ مشکل نہیں تھا اور میرے ساتھیوں نے دو ایک بار برف دیکھنے کیلئے جانے کا ارادہ بھی ظاہر کیا لیکن مجھے کوئی ایسا شوق نہیں تھا اسلئے یہ تو یہ عمل میں نہ آسکی.قصے کے عقب میں کچھ مہندی پر سے ایک پہاڑی نالہ بہت شفاف پانی کا برف کی مانند سرد بہتا تھا.جب دھوپ نکلی ہوئی معمولی اور موسم سرد نہ ہوتا تو ہم اس نامے میں نہانے کیلئے جاتے.اس کے درمیان بڑی بڑی چٹانیں تھیں جن کے گرد پانی بہتا تھا.پانی کے اندر تو چند سیکنڈ سے زیادہ بیک وقت پھر ناممکن نہیں تھا.ہم کنارے سے اتر کر پانی میں سے جو کہ ایک بڑی چٹان پر دھوپ میں بیٹھ جاتے.پڑھتے یا بات چیت میں وقت گزرتا.ان دنوں ایک کھیل کا رواج تھا جسے لوڈر کہتے تھے کبھی دیکھیئے.کھیل کے دوران میں اگر یوڈو کا چھوٹا سا کوردانہ جس پر نشان لگے ہوتے تھے پانی میں گر جاتا تو چودھری عالم دین صاحب فوراً حکم دیتے لال دین کو د جائے دہ کچھ دن تو ہوتے کہ ہر بات یخ بستہ پانی میں اتر نے کو انہیں ہی کہا جاتا ہے.لیکن برادر خور د تھے الیافت کے سوا چارہ بھی نہیں تھا.پانی اسقدر شفاف تھا کہ میں چٹان پر سے بیٹھے ہوئے بھی پانی کی نہ دیں دانہ صاف نظر آتا تھا کہ کس جگہ گیا ہے.چار ہفتے کا عرصہ بہت لطف میں گذرا لیکن رات کے وقت کچھ محصول تازہ خون کی صورت میں پلنگ کی پھولوں میں رہنے والوں کو اداکرنا پڑتا تھا.لال دین صاحب نے کینگز پاور خشک تنباکو یا اور تو کچھ کسی نے بتایا چادروں پر پھڑ کا ، البتا پانی منگوں کی پولوں میں ڈالا، لیکن اس اذیت سے مخلصی نہ ہو سکی.ستمبر کے آخر میں ہم لاہور واپس آگئے.اگر چہ ان دنوں گرمی کی شدت کم ہو چکی تھی لیکن ہمیں نو ہزار فٹ کی بلندی سے اترنے پر عمارت کا درجہ ابھی تکلیف دہ معلوم ہوتا تھا.نہ ہو.
1910 قادیان کے سالانہ جلسہ دسمبر 11ء میں میں سالا یہ قادیان گیا خلافت تا نسبید ۱۹۱۵ء میں شمولیت کے پہلے جیسے پری حضرت خلیفہ المسیح ثانی کے عرفان علم ، تفقہ فی الدین ، وسعتِ نظر اور فکر کی گہرائی موجب حیرت ہوئی تھی.اس دوسرے جلسے پر به نقش اور بھی گہرا ہوگیا اور میں اس وثوق کے ساتھ لوٹا کہ سلسلہ حقہ کی حفاظت ، جماعت کی بہبودی اور ترقی ، اسلام کا متقبل مسلمانان عالم کے حقوق کی نگہداشت ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی بہ تری اور کلمہ اللہ کا اعلاء سب اس بطل جلیل کے ہاتھوں میں محفوظ ہیں، ایدہ اللہ بصرہ العزیز، ہمارا فرض اسکی کامل اطاعت اور اسکی آوانہ پر بیک کہنا اور محکم کو بجالانا ہے.وباللہ التوفیق سالانہ جلسے کے بیشمار فواید یں بہت بڑے معاشرتی فوائد بھی شامل ہیں.بہت سے اسلامی شعارہ اور اقدار ہو نظر سے ارتجیل ہو گئے تھے اور جن پر سلمانان ہند کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں تعامل نظر نہیں آتا تھا پھر سے تازہ ہونا شروع ہو گئے اور ان کا نمونہ قائم ہونا شروع ہو گیا.فالحمد للہ.انڈین کیسیز کی اسسٹنٹ ایڈیٹری | شاید کے آخر میں میری پر کیس کامپل سال ختم ہوگیا پریکٹس کے لحاظ سے تو میرے لئے کوئی وجہ بے اطمینانی کی نہیں تھی.لیکن اپنی زندگی کو اس سانچے میں ڈھالنے کے متعلق مجھے اطمینان نہیں تھا.ادھر میرے ذہن میں کوئی اور منصوبہ بھی نہیں تھا.میں یہ تو محسوس کرتا تھا کہ مجھے اس طریز زندگی میں تبدیلی کی خواہش ہے لیکن اس کے بادل کے طور یر میں کیا چاہتا ہوں یہ میرے ذہن میں ابھی واضح طور پر نہیں آیا تھا.والد صاحب نے سکول کی تعلیم در نیکر سکول میں مکمل کی تھی.مختاری اور وکالت کے امتحان بھی الہ درد میں پاس کئے تھے.ورنہ اس دوران میں انہوں نے کچھ واقفیت انگریزی سے پیدا کی تھی لیکن انہیں اپنے انگریزی کے لفظ کہ پورا اعتماد نہیں تھا اسلئے انہوں نے انگریزی بولنے کی کبھی مشتق نہ کی.وکالت کا کام شروع کرنے کے بعد انہیں انگریزی کے ساتھ زیادہ سابقہ پڑنے لگا اور اس تقاضے کو انہوں نے اس حدتک تھے پورا کیا کہ انہوں نے انگریزی پنجاب ریکارڈ منگوانا شروع کیا جس میں چیف کورٹ کے نظائر اور چیف کورٹ سے جو اپیل پر لوری کونسل میں جاتے تھے ان کے فیصلہ جات پچھپ کرث لع ہوتے تھے.بعد میں جب چودھری شہاب الدین صاحب نے کہ میل لا جنرل سے قدم آگے بڑھا کہ انڈین کیسنر بھاری کیا تو والد صاحب نے اسے بھی منگوانا شروع کیا.انڈین کیر میں ملک مھبر کی اعلیٰ عدالتوں کے دیوانی اور فو بعداری فیصلے اور پر لوی کونسل کے فیصلے تو ہندوستان سے تعلق رکھتے ہوں سب چھیتے تھے.سال عمر میں انڈین کینسر کی چھ ضخیم جلدیں شائع ہوتی تھیں.اپنے ابتدائی سالوں میں ہندوستان
۱۳۷ بھر میں یہ اپنی قسم کا واحد رسالہ تھا اور بہت اعلیٰ معیار پر بڑی کامیابی کے ساتھ بھاری تھا.چودھری شہاب الدین صاحب خود ایڈیٹر تھے.اور علاوہ ادارتی عملے کے ہر صوبے کی عدالت اعلیٰ میں ایک ایک قانون پیشہ صاحب رپورٹر تھے اور ایک رپورٹر لندن میں تھے.یہ اصحاب اپنی اپنی عدالتوں کے منتخب فیصلہ جات کی نقول حاصل کر کے اور ان کے بیڈ نوٹ تیارہ کر کے انڈین کیسنر کے دفتر میں بھیج دیتے تھے.پنجاب چیف کورٹ (بعد میں لاہور ہائی کورٹ ) کے رپورٹر ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین صاحب تھے 1914 جولائی یہ میں انڈین کیسینز کے ایک شمارے کے سرورق کے ساتھ سفید کاغذ کی ایک چھیپی ہوئی مسلپ چسپاں تھی.جس میں ایڈیٹر صاحب کی طرف سے یہ اعلان تھا کہ انہیں انڈین کیسیز کے مرتب کرنے میں ایک قانون دان اسسٹنٹ کی ضرورت ہے.خواہشمند اصحاب ان کے ساتھ خط و کتابت کے ذریعے شرائط لے کر لیں.مجھے خیال ہوا کہ میری طبیعت میں ابتدائی عدالتوں میں پریکٹس کے متعلق جو بے اطمینانی کا احساس ہے ممکن ہے اس سے خلاصی پانے کا یہ رستہ ہو.چودھری شہالدین صاحب میرے والد صاحب کے دوست تھے اور مجھے بھی جانتے تھے.میں نے ان کی خدمت میں لکھا کہ میں نے یہ اعلان پڑھا ہے.مجھے اس کام کا کوئی تجربہ نہیں لیکن آپ مجھے جانتے ہیں اور میں اس خط کے ذریعے آپ سے مشورہ چاہتا ہوں.اول کیا آپ کا اندازہ ہے کہ میں یہ کام کر سکتا ہوں دور ہے کیا آپ کی رائے میں اگر میں یہ کام کرنے کے قابل ہوئی تو مجھے پریکٹس چھوڑ کر یہ کام کرنا چاہیے چودھری صاحب نے کمال شفقت سے جلد ہی میرے خط کا جواب لکھا.جس میں انہوں نے فرمایا یہ کام قابلیت بھی چاہتا ہے اور خاص مشق اور مہارت بھی چاہتا ہے میرا اندازہ ہے کہ تم یہ کام جلد سیکھ لو گے اور اچھی طرح کر لو گے.پوری مہارت حاصل کرنے کیلئے ایک سال کی مشق درکار ہوگی.تمہیں پریکٹس چھوڑ کر یہ کام کرنا چاہیے یا نہیں اس کے متعلق مشورہ دنیا آسان نہیں.پریکٹس اگر بانہیں چل نکلے تو اس کا میدان وسیع ہے.اور ایک کامیاب وکیل کیلئے بہت سے ترقی کرنے کے رستے کھل جاتے ہیں.لیکن پریکٹس کے رستے میں بہت سے اونچ نیچ بھی ہیں.اگر تمہاری طبیعت اس کام کو پسند کرے تو تمہارے اوسط گزارے کی ایک مستقل صورت نکل آئے گی تم نخود غور اور فکر کے بعد فیصلہ کر یو.چودھری صاحب نے ایک اندازہ مشاہرے اور سالانہ اینزادی کا بھی لکھا.چودھری صاحب کا جواب آنے پر میں نے والد صاحب سے ذکر کیا اور آپ سے مشورہ طلب کیا.انہوں نے فرمایا طبیعت کی موافقت کے متعلق تو تم نخود بہتر سوچ سکتے ہو لیکن مشاہرہ کم ہے
میری رائے میں ابتدائی مشاہرہ بھی زیادہ ہونا چاہیئے اور مشاہرے کی آخری حصہ بھی زیادہ ہونی چاہیے اس سے میں نے اندازہ کیا کہ اگریت ہرے میں ایزادی ہو جائے تو والد صاحب کو اس تجویز پر کوئی تعرض نہ ہو گا.چنانچہ میں نے پچودھری شہاب الدین صاحب کی خدمت میں لکھا کہ میں آپ کے مشورے کا ممنون ہوں.میری طبیعت اس کام کے کرنے پر مائل ہے.لیکن فیصلہ کرنے سے پہلے ایک تو آپ کے تو یہ کردہ مشاہرے میں کچھ ترسیم چاہتا ہوں.اور دوسرے کام کی نوعیت اور اسسٹنٹ ایڈمیر کے فرائض اور مراعات کی نسبت کچھ تفصیل معلوم کرنا چاہتا ہوں جس سے مجھے فیصلہ کرنے میں مدد مل سکے.اس خط و کتابت کے دوران میں پچودھری صاحب ڈلہوزی میں تشریف فرما تھے.انہوں نے جواب میں تحریر فرمایا مجھے تمہاری تو یہ مشاہرے کے متعلق منظور ہے.تفاصیل عند المطلاقات ملے ہوسکتی ہیں.میں ۲۲ اگست کو دو تین دن کیلئے لا ہو جاؤں گا اگر تم مجھے وہاں ہیں لوتو بالمشافہ گفتگوں سب کچھ سمجھا دوں گا.ان کا جواب ملنے پر میں نے استخارہ کیا اوریہ اپنے تئیں مطمئن پاکر میں ۲۳ اگست کی صبح کو دس بجے کے قریب ان کی خدمت میں لاہورہ حاضر ہو گیا.انڈین کیسینز کا دفتر اور چودھری صاحب کا رہائشی مکان بانارہ جم محمد لطیف میں واقعہ تھے.دفتر کی عمارت دو منزلہ تھی.رہائشی مکان کے پچلے کمرے دفتر اور پریس کیلئے استعمال ہوتے تھے.چودھری صاحب دفتر کی عمارت کی اوپر کی منزل میں ہو ان کے اپنے استعمال کے لئے مخصوص تھی یہ آمد ہے میں تشریف فرما تھے اور اپنے کام میں مصروف تھے.چودھری صاحب نے مختصر طور پر مجھے میرے فرائض سے آگاہ کیا.میں ماہ کی پریکٹس کے عرصے میں مجھے انڈین لا لہ پورٹس.پنجاب کہ یکارڈ، انڈین کیسیز وغیرہ سے واقفیت ہو چکی تھی.ہر ماہ پنجاب یہ کارڈ کا شمار ا جب آنا تو میں شام کے وقت اس میں درج شدہ نظائر میں سے تین چار پر روزہ والد صاحب کو پڑھ کر سنایا کرتا تھا.تیس سے مجھے اعلیٰ عدالتوں کے فیصلہ حیات اور قانونی مسائل کی باریکیوں اور پیچیدگیوں سے کسی قدر واقفیت بھی ہو گئی تھی اور ان میں دلچسپی بھی پیدا ہو گئی تھی.اس لئے ایڈیٹری کے کام کا یہ حصہ تو مجھے کچھ مشکل نظرنہ آیا.البتہ طباعت کے کام کی نگرانی اور پروف پڑھنا اور ان کی اصلاح کرنا میرے لئے ایک نئی بات تھی.چودھری صاحب نے اس ابتدائی وضاحت کے ساتھ ہی اپنے دفتر سے دریافت کیا کہ پنجاب چیف کورٹ کے کوئی نئے فیصلے آئے ہیں ؟ معلوم ہوا اس دن یا ایک دن قبل چیف کورٹ کے سولہ فیصلے دفتر میں پہنچے ہیں.چودھری صاحب نے دفتر کو ارشاد فرمایا کہ پورٹ کے تیار کردہ ہیڈ نوٹ ان سے علیحدہ کر لو اور فیصلہ جات کی نقول تو آئی ہیں وہ بھیج دو.یہ نقول میرے سپرد کیں اور فرمایا ان میں سے جتنے فیصلوں کے ہیڈ نوٹ 14
تیار کرسکو آج تیار کرلیا.میں انہیں شام کو دیکھ لوں گا اور کل تو کچھ ان کے متعلق کہنا ہو گا بتادوں گا.یہی طریق اس کام کے سیکھنے کا ہے.میرا خیال تو یہ تھا کہ اس دن چودھری صاحب کے ساتھ اصولی بات چیت ہوگی اور اس کے بعد اگر میرا اور اطمینان ہو گیاتو میں زبانی گذارش کروں گا کہ میں آمنہ ستمبر با شروع اکتوبر میں حاضر ہو کہ کام شروع کر دوں گا ورنہ یہ عرض کر دوں گا کہ میں اس وقت رخصت ہوتا ہوں.تحر یا آپ کی خدمت میں تو کہنا ہے گذارش کر دوں گا لیکن چودھری ماسی نے فوراً میرے عملی امتحان کی صورت پیدا کردی.میں نے تخیال کیا آج کا دن تو لا ہو ر ٹھہرنا ہی ہے.کل پوری بات چیت کر کے دھرم سالہ چلا جاؤں گا جہاں میرا ارادہ ستمبر کا مہینہ گزارنے کا تھا.فیصلوں کی نقول لیکر میں ساتھ کے کمرے میں چلا گیا جہاں میرے لئے میز اغذ قلم وغیرہ مہیا کر دیے گئے تھے دعاء کی اہلی تو نے خاص فضل سے مجھے اس کام کی سمجھ عطا فرما اور اسے میرے لئے آسان کر دے.دو چار فیصلے پڑھے تاکہ اندازہ ہو جائے کہ جو کام میرے سپرد ہوا ہے وہ مجھے آسان نظر آتا ہے یا مشکل.یہ تو مجھے پہلے ہی احساس تھا کہ چیف کورٹ کے فیصلے نستنا سادہ اور آسان ہوتے ہیں.ہمارے بیج صاحبان بلا ضرورت پیچیدگیوں میں نہیں الجھتے.لیکن ساتھ ہی یہ بھی احساس تھا کہ چودھری صاحب نے فرمایا ہے.ہیڈ نوٹ نوٹ تیارہ کرنا ایک فن ہے.جس میں مہارت پیدا کرنے کے لئے لمبی مشق کی ضرورتہ ہو گی.میں نے جب تین چانہ فیصلے پڑھے تو خیال ہوا کہ ان کے ہیڈ نوٹ تیار کرنا تو کوئی مشکل کام نہیں ہونا چاہیے.اس سے مجھے کچھ حوصلہ ہوا اور مں نے اللہ تعالیٰ اسے توفیق طلب کرتے ہوئے قلم اٹھایا اور توبہ سے اپنے کام میں لگ گیا.ابھی دو تین سینڈ نوٹ تیار کئے ہوں گے کہ سچودھری صاحب نے آواز دی آؤ کھانا کھاؤ.میں حاضر ہوگیا.ہاتھ دھو کر کھانے میں شامل ہو گیا.چودھری صاحب نے دریافت کیا یہیں ٹھہرو گے نا ؟ میرے ذہن میں تو لاہورہ ٹھہرنے کا کوئی پروگرام تھا ہی نہیں.بوب شاید میں گورنٹ کالج میں داخل ہونے کیلئے آیا تھا تو چودھری صاحب کے ہاں ٹھہرا تھا.بعد میں بھی دو تین بار ان کے ہاں ٹھہرنے کا اتفاق ہوا تھا.لاہور میں ایک دن تواب ٹھہر نا پڑ ہی گیا تھا.لیکن میرے دل میں خیال آیا کہ اگر میں نے پو دھری صاحب کے ساتھ کام کرنا ہے تو مجھے ان کا مہمان نہیں ہونا چاہیے.میں نے کہا آپ اجازت دیں تو میں آسانی سے اور انتظام کر لوں گا.انہوں نے پھر فرمایا میں ہمارے پاس ہی ٹھہر دیم نہیں سہولت رہے گی.میں نے عذر کر دیا.کھانا ختم ہونے کے بعد چند منٹ متفرق گفتگو رہی.پھر میں اجازت لیکر واپس اپنے کمرے میں چلا گیا اور اپنے کام میں مشغول ہو گیا.سوائے نماند کی ادائیگی کے میں نے کسی اور طرف توجہ نہ کی.چار بجے تک میں نے بفضل اللہ سولہ فیصلہ جات کے ہیڈ نوٹ تیار کر لئے چودھری صاحب اس وقت تک کہیں یا ہر تشریف لے جا چکے تھے.میں نے سب فیصلہ جات ہیڈ نوٹ سمیت چودھری
۱۴۰ صاحب کی میز پر یہ کھ دیئے اور پھر اس سوچ میں پڑ گیا کہ چو دھری صاحب کے ہاں ٹھہرنے سے تو میں نے انکار کر دیا ہے اب رات بسر کرنے کی کیا صورت ہو گی.بہت سوچ بچار کے بعد خیال آیا کہ محترم مولوی سید ممتانہ علی صاحب ایڈیٹر تہذیب النسواں کے بڑے صاحبزادے سید حمید علی صاحب کے ساتھ سید افضل علی صاحب اور سید انعام اللہ شاہ صاحب کے واسطے سے میری کچھ واقفیت ہے.ان کے مکان واقعہ یہ ہیلوے روڈ کا مردانہ حصہ خاصا کشادہ ہے.ایک ہی دن کی تو بات ہے.آج میں ان کے ہاں ٹھہر جاؤں کا تو صورت ہو گی دیکھی جائے گی.چنانچہ میں نے تانگہ منگوایا اور اپنا مختصر مان لیکم میں سید حمید علی صاحب کے ہاں چلا گیا.حسن اتفاق سے حمید علی صاحب اپنے در دولت پر تشریف فرما تھے.بڑی خندہ پیشانی سے ملے اور فوراً میرے لئے کمرے کا انتظام کر دیا اور فرمایا تمہارا اپنا گھر ہے.جتنا عرصہ چاہو ٹھہرو کستی تکلف کی ضرورت نہیں.اس طرح اللہ تعالیٰ نے رات بسر کرنے کا سامان تو کر دیا لیکن یہ شام اور آنے والی رات مجھے یہ بڑی بہو تھی تھیں.مجھے بار بار اپنے آپکو یا دردلانا پڑتا تھا کہ مشکلات ہی کامیابی کا نہ مینہ ہیں مجھے ان کے مقابلے کے لئے تیارہ یہ مہنا چاہیئے اور ہمت نہیں بانیا چاہیے.ایک بات کسی حل نک میری تسلی کا موجب تھی اور وہ یہ کہ جو کام مجھے دیا گیا تھا اسے میں نے کچھ مشکل نہ پایا تھا.میں نے اپنے دل کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اکیلا پن اور دا سی وقتی تاثرات ہیں زیادہ دیر قائم نہیں رہیں گے لیکن سونے تک میں اپنی طبیعت کو ان تاثرات سے آزاد کرنے میں کامینا نہ ہو سکا.آخر میں اپنی مشکلات اور الجھنوں کو اللہ تعالٰی کے سپرد کر کے اور اسکی نصرت اور اس کے ندگی فضل کو عاجزی سے طلب کرتے ہوئے سو گیا.کھے صبح ناشتے کے بعد میں دفتر کے لئے روانہ ہوا.ریلوے روڈ سے باردانہ جی محمد طیف کوئی دور میں کا فاصلہ ہو گا.میں پیدل چلنے کا عادی تھا نصف گھنٹے میں دفتر پہنچ گیا.چودھری صاحب دفتر میں موجود دفتر تھے.میرے پہلے دن کے کام کی نظر ثانی فرما چکے تھے.خوشنودی کا اظہار کیا اور فرمایا تمہارا کام میری توقع سے بہت بہتر ہے.میرا اندازہ ہے کہ تم جلد اسکی تفاصیل پر عادی ہو جاؤ گے.کل میں نے تمہیں سولہ فیصلہ جات کے ہیڈ نوٹ تیار کرنے کو کہا تھا.تم نے سب تیار کر لئے.میں نے انہیں دیکھ لیا ہے.بار میں تو مجھے کسی اصلاح کی گنجائش نظر نہیں آئی.پیار میں میں نے بعض مقامات پر خفیف سی اصلاح کی ہے دوہ تم دیکھ لینا.آج جو کام تم کرو گے وہ میں شام کو دیکھ لوں گا اور اگر اس کے متعلق کسی عدایت کی ضرور ہوئی نفر نوٹ کردوں گا.ہیڈ نوٹ تیارہ کرنے کے علاوہ کام کے آخری پروف پڑھنا بھی تمہارے ذمے ہو گا.تمہارے پڑھ لینے کے بعد پروف میرے پاس آیا کرے گا.تمہارے تیار کردہ ہیڈ نوٹ مجھے بھیج دیئے جایا کریں
اسم جہاں ضرورت ہوگی میں اصلاح کردوں گا.دفتر کی عام نگرانی بھی تمہارے ذمے ہو گی.میں آج شام ڈلہوری واپس جارہا ہوں.میری غیر حاضری میں دفتر کے تم ذمہ دار ہو گے.بس بات کے متعلق ضروری سمجھو مجھ سے دریافت کر لیا کرنا ورنہ خود فیصلہ کرنا.چودھری صاحب کی گفتگو سے معلوم ہوا کہ وہ تو میرے تقرر کا فیصلہ فرما چکے ہیں اور میرے لئے اب مزید غورہ کی گنجائش نہیں.میں نے اتنا کہنے کی جرات کی کہ بعض تفاصیل کے متعلق مجھے دریافت کرنا ہے.فرمایا پوچھ لو.میں نے دریافت کیا دفتر کے اوقات ، تعطیلات شخصیت وغیرہ کی کیا صورت ہوگی.فرمایا دفتر کے مقررہ اوقات کا میں تمہیں پابند نہیں کرتا.دیر سے آؤ جلدی پہلے جاو یہ تمہاری مرضی پر ہے.کام وقت پر اور توجہ سے سر انجام پاتا رہے یہ تمہاری زمہ دارہی ہے.اوقات کا فیصلہ تم پر ہے.یہی حال تعطیلات اور رخصت کا ہے.جب تم کہیں جانا چاہو خوشی سے جاؤیر اجازت کی ضرورت نہیں لیکن مجھے اطلاع کرد داور یہ اندازہ کر لو کہ کام میں برج یا تا خیر نہ ہو یہ صوت چودھری صاحب کیلئے تو موجب اطمینان ہوگی.لیکن میرے لئے باعث اطمینان نہ تھی.ان کی طرف سے سمندر اعتماد کا اظہار اور ہر بات کا میری ذمہ داری پہ چھوڑنا مجھ پر بہت بو جھیل تھا.میں سمجھتا تھا کہ اس انتظام کے ماتحت مجھے کبھی آنہادی نہیں ہوگی.ہر وقت ذمہ داری کی نہ بخیرمیں جکڑا نہ ہوں گا.لیکن میرے لئے کچھ کہنے کی گنجائش نہیں رہی تھی اور حجاب بھی مانع تھا.ساتھ ہی یہ بھی احساس تھا کہ چو دھری صاحب نے خود ہی سب فیصلہ کر دیا اور فوراً مجھے زمہ دار بھی کر دیا.میرے مجوزہ پروگرام کو کہ میں آخر ستمبر یا شروع اکنونہ سے کام شروع کروں گا عملاً منسوخ کر دیا.میں خاموش ہو ر نا کہ اچھا ہوندا کو منظور ہوگا.علیہ توکلت والیہ انیب.راس پر میرا تو کل ہے اور اسی کی طرف میں تھکتا ہوں.) مسٹر یار تھا سارہ تھی آئینگیر | انڈین کیسینز میں ایک اور اسسٹنٹ ایڈمیر مسٹر یار تھا سا بھتی یا تھاسار اسسٹنٹ ایڈیٹر انڈین کییز آئینگر تھے.وہ مجھ سے بہت زیادہ تجربہ رکھتے تھے اور کچھ عرصے سے انڈین کمیسیز کے دفتر میں کام کر رہے تھے.مدراسی یہ مین تھے اور مدراس ہائی کورٹ کے ایک کیٹ تھے.پچودھری صاحب نے ہمارے درمیان تقسیم کار اس طرح کی کہ بعض عدالتوں کے متصلہ جات کو طباعت کیلئے وہ تیار کریں اور باقی عدالتوں کے فیصلہ جات میں تیارہ کردوں، میرے کام کی نظر ثانی جودی صاحب خود فرمایا کریں اور پارہ تھا سا تھی صاحب کا کام پروف میں میری نظر سے گند نا ر ہے.اگر میں ان کے کام میں کسی اصلاح کی ضرورت محسوس کروں تو ہم دونوں آپس میں مشورہ کر کے لے کرلیں.اگر اختلاف ہو تو بود مصری صاحب فیصلہ فرمائی.بعض قانونی رسائل کے ساتھ یہ انتظام سنا کہ کہ کوئی فیصلہ ان میں پہلے چھپ جائے تو ہم اسے نقل کر لیں اور ان کا میڈ نوٹ بھی نقل کر لیں.اور اگر 1
۱۳ کوئی فیصلہ انڈین کیسیز میں پہلے چھپ جائے تو وہ انڈین کینر سے نقل کر لیں.ان رسائل میں سے ایک اور ھر کیز بھی تھا.اس کے ایڈیٹر پنڈت بشیشہ ناتھ سری واستو اصا تھے جو بعد میں اوردو تور شین کمشنری کے جوبعد چیف کو ریٹ بن بجانے پر اور دو چیف کورٹ کے حج اور پھر چیف جسٹس ہوئے.سری داستوا صاحب نہایت قابل قانون دان تھے.چودھری صاحب کی نگاہ میں اودھ کی یہ نہایت ممتا نہ رسالہ تھا.انکی ہدایت تھی کہ تو فیصلہ جات اودھ کیسینز میں پہلے چھپ جائیں ان کے سیڈ نوٹ بدون نظر ثانی اور ان بل ترمیم انڈین کبیر میں نقل کرلئے جائیں.ہر عدالت کے رپورٹر صاحب بھی جو فیصلہ چھپنے کیلئے انتخاب کرتے اس کی مصدقہ نقل حاصل کر کے اس کا ہیڈ نوٹ تیار کرتے اور نقل کے ساتھ اپنا ہیڈ نوٹ شامل کر کے دفتر میں بھیج دیتے.مسٹر پارہ تھا سالہ تھی اور میں ان ہیڈ نوٹس پر غور کر کے ان کی حسب ضرورت ترمیم کر دیتے یا با تہ سیم چھینے کے لئے دیر تے یا خود نیا سٹڈ نوٹ نیا نہ کرتے.والد صاحب کا خدمت دین اپنے پروگرام میں اس تبدیلی کے نتیجے میں مجھے بعض پر یشانیوں کیلئے پریکٹس ترک گھر نا کا سامنا بھی ہوا.سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ تھی کریں والد صاحب کے ساتھ آخری مشورہ نہ کر سکا تھا.میں سمجھتا تھا کہ انہیں لا نہ مانیہ حساس ہو گا کہ مں نے ایک ایسے اہم معاملے میں بغیر ان کی آخری رضا مندی کے فیصلہ کر لیا.اور نہ صرف اپنے لئے آند ادانہ طور پر ایک طریق کار کا انتخاب کر لیا بلکہ ان کے ساتھ وکالت کا کام کرنا بھی بند کر دیا.مجھ سے جیسے بھی بن آیا میں نے تو صورت پیش آگئی تھی ان کی خدمت میں گذارش کردی.والد صاحب کے پہلے والا نامے سے مجھے کچھ اطمینان ہوا اس میں رنجید گی کا کوئی اظہار نہیں تھا بلکہ خط شفقت سے لکھا ہوا تھا.البتہ ایسا نہ شرح ہوتا تھا کہ اگر میں سیالکوٹ سے لاہور منتقل ہونے میں چندماہ کی تاخیر کہ عینا تو انہیں سہولت رہتی.ان کا اپنا ارادہ پر کیش ترک کرکے اپنی زندگی کا بقیہ حصہ عبادت ، ذکر الہی اور خالص خدمت دین میں گزارنے کا تھا.شاہ میں سلسلہ میں بیعت ہوتے ہی انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ السلام کی خدمت آمریک میں گذارش کی تھی کہ اگر حضور ا جازت بخشیں تو پر سیٹیں ترک کر کے حضور کی خدمت میں حاضر ہو جائیں حضور نے فرمایا اقامت فی ما اقام الله (قائم کر نا اس بات پر جس پر اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہو ) کے مرفقیہ پریکٹس جاری رکھیں اور اس پیشے میں تقوی کا نمونہ قائم کرنے کی کوشش کریں اور استغفار بہت کرتے ہیں.اور اپنی آمد سے اللہ تعالیٰ کے رستے میں فراخی سے خرچ کرتے رہیں.والد صاحب حضور کی نصیحت بیر تا حد استطاعت بفضل الله عامل رہے.خلافت اولی کے قیام پر حضرت خلیفہ المسیح اول رضی اللہ تعالی کی خدمت میں بھی دی گزارش کی.حضور نے فرمایا حضرت مسیح موعود نے جس بات کی اجازت نہیں دی ہم
کو 1914 کیسے دیں.آپ پر کیس جامہ یادرکھیں.اس دوران میں والد صاحب نے قرآن کریم کو حفظ کرنا شدی کر دیا تھا.جب اس مبارک عزم کی تکمیل ہوگئی تو حضرت خلیفہ المسیح اول نمی خدمت میں اطلاع کی حضور ثبہت خوش ہوئے اور فرمایا ظفر اللہ خان نے باہمی محبت حاصل کرنے کی خوب تقدیر کی ہے ہمارے محبوب کو اپنے دل میں رکھ لیا ہے کہ اب تو نور الدین مجھ سے محبت کر دیگا ی امر کے دوران جب والد صا ستے پر کٹیں ترک کرنے کا خیال ظاہر کیا تو والدہ صاحبہ نے اور خاک رہنے مشورہ دیا کہ ابھی پریکٹس سجاری رکھیں.ان کی عمر اس وقت ۵۳ سال تھی.صحت اچھی تھی.پریکٹیں چھی چلتی تھی.دیوانی کام میں اور خصوصاً نزمین کے مقدمات میں آپ پچوٹی کے وکیل شمار کئے جاتے تھے.شہر اور مضلع میں آپ بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے.باد بود زمیندار خاندان کا فرد ہونے کے شہر میں آپ کا بہت رسوخ تھا برسوں شہر کی میونسپلٹی کے رکن رہ چکے تھے.تین سال دانش پریذیڈنٹ بھی لہ ہے.(ان دنوں میونسپلٹی کے صدر سرکاری حیثیت سے ڈپٹی کمشنر صاحب ہوا کرتے تھے، آخر خود اپنی مرضی سے میونسپلٹی کی رکنیت ترک کردی تھی.اور اب پریکٹیس ترک کرنے کا بھی فیصلہ کر چکے تھے.والدہ صاحبہ اور میرے مشورے کے جواب میں فرمایا اُن ان کی ترص کی تو کوئی حد نہیں لیکن قناعت بہت قابلِ قدر صفت ہے.تمہاری اعلیٰ تعلیم کا اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انتظام فرما دیا تم اب اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکتے ہو.پر کٹیس کے علاوہ میرے اور وسائل اتنے ہیں کہ میری سادہ نہ ندگی کی ضروریات کے علاوہ تمہا رہے چھوٹے بھائیوں کی تعلیم کے لئے کفالت کرسکتے ہیں.تمہاری بہن اپنے گھر میں خوش ہے.اس کے علاوہ میری اور کوئی ذمہ داری نہیں.پر پلیٹیں اس لئے جاری رکھنا کہ یہ میں جاری رہے لا حاصل ہے.اب میری بینائی کچھ کمزور ہوتی جارہ ہی ہے نئے انگریزی ڈان وکلاء سے مقابلہ ہے.میری انگریزی کی مہادت محدود ہے.آج نہیں تو کل میری پر اثم شروع ہو جائے گا.بہتر ہے کہ میں ایسے وقت میں پریکٹس چھوڑ دوں جب میری پر ٹکٹس اچھی چل رہی ہے.ورنہ کسی وقت پر مکیں مجھے چھوڑ جائے گی.علاوہ یہ ہیں جس بات کا مری طبیعت پر سب سے بڑھ کر اثر ہے وہ یہ ہے کہ اگر تمام عمر روزی کمانے ہی میں صرف ہو جائے تو حاصل کیا ہوا.میں چاہتا ہوں کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے میری ضروریات کا انتظام فرما دیا ہے تو اب میں اپنے وقت کا اکثر حصہ خدمت دین میں صرف کروں ؟ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی نے فرمایا ہے کہ حضرت خلیفہ المسیح اول کے وصال پر جماعت میں جب 1
تم ۱۴ اختلاف ہوا تو ان ایا میں میں نے دو شخصوں کے متعلق نام لیکر دعا کی کہ اللہ العالی ان میں سے کم سے کم ایک کو سبعیت کی توفیق عطا فرمائے.اللہ تعالٰی نے میری دعا قبول فرمائی اور چودھری نصر اللہ خانصاب نے بیعت کر لی.خاک ، کا اندانہہ سے کہ شاہ کے آسنہ میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے والد صاب کو ارشاد فرمایا کہ اب خدمت دین کیلئے اپنے آپ کو فارغ کر لیں.چنانچہ آپ نے طے کر لیا کہ اپریل شد تک پریکٹس کا کاروبار بند کر کے قادیان حاضر ہو جائیں گے.انڈین کیسیز کے کام میں تو فضل اللہ مجھے کوئی وقت پیش نہ آئی.پچودھری صاحب کے ڈلہوزی واپس تشریف لے جانے کے بعد ان کی ہدایات کے مطابق کام ہوتا رہ ہا.ہفتہ دس دن بعد اردھ کیمیز کا ایک شمارہ آیا جس میں چارہ فصلے ایسے تھے جو ابھی انڈین کیسیز میں نہیں چھپے تھے.سابق دستور تو کہی تھا کہ یہ چاروں فیصلے سیڈ نوٹ سمیت انڈین کمیسیز میں نقل کر لئے جاتے.لیکن میں نے ان چارے فیصلہ جات کے ہیڈ نوٹ خود تیار کئے.جب یہ رسالہ میرے پیڈ نوٹوں کے ساتھ چودھری صاحب کی خدمت میں ڈلہوزی پہنچا تو انہوں نے میرے تجو یہ کردہ سیڈ نوٹوں کو پسند فرمایا اور ہدایت بھیجی کہ انڈین کین میں میرے تیار کردہ لیٹ شائع کئے جائیں.ساتھ ہی لکھا کہ اب ظفر اللہ خاں کا کام نظر ثانی کیلئے میرے پاس بھیجنے کی ضرورت نہیں.سو محض اللہ تعالٰی کے فضل اور ذرہ نوازہ ہی سے ایک سال کا عرصہ جس میں مجھے نوٹ تیار کرنے کی مہارت حاصل کرنی تھی دو ہفتے میں ختم ہو گیا.فالحمد للہ.اس کے بعد میرا یہ طریق سٹاک میں سر فصیلہ تو جہ سے پڑھتا.اگر یہ پورٹر کے تجویہ کردہ ہیڈ نوٹ میں یا ایسے قانونی رسائل کے کسی ہیڈ نوٹ میں جسے نقل کیا جاسکتا میں اصلاح کی گنجائش دیکھتا تو بلا تامل اصلاح کر دنیا یا خود دنیا سیڈ نوٹ بخونید کمرتا.انہی ایام میں آخری پہر دن پڑھتے وقت کلکتہ ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے سیڈ نوٹ میں مجھے کوئی سقم نظر آیا اور میں نے اس میں مناسب اصلاح بخونیمہ کی.یہ میٹڈ نوٹ ہمارے کلکتہ کے ریو پر کا تیار کردہ تھا.کلکتہ ہائی کورٹ کے متعلق ادارتی ذمہ داری مسٹر پار تھا ساتھی کی تھی.مٹر ہار تھاسارہ تھی نے اسے بلانہ میم پاس کر دیا تھا.جب لالہ کشن چند صاحب ہیڈ پر دن ریڈ میری تجویز کردہ ترمیم مرا نہ تھا سا بھی کے پاس لیکہ گئے تو انہوں نے فرمایا کہ یہ ترسیم تو منا س ہے لیکن اگر پیڈ نوٹ ترمیم کیاگیا تو ہمارے یہ پور ٹر خفا ہو جائیں گے.وہ میرے کمرے میں تشریف لائے گرمی کا موسم تھا.میں نے پوچھا کچھ پینے کو منگواؤں ؟ مسکرائے اور جلدی سے کہا نہیں تکلف کی ضرورت نہیں.میں نے کہا تکلف تو آپ کر رہے ہیں کچھ پسند ہو تو فرما دیجئے.اس پر کچھ جھینپ کر تو فرما دیجئے کہا اچھا تو پھر لیمونیڈ سہی کون دیکھتا ہے ؟ میں نے تھونیڈ منگوایا اور انہوں نے کچھ تامل سے پیالیا
۱۴۵ مختصر گفتگو کا یہ تھا کہ بیا ان کے نام سے ظاہر ہے مسٹ یارہ تھاسا نہ تھی آئینگ مادران کے یہ معنوں میں اعلیٰ پائے کے بہ یمن تھے اور ذات پات کے لحاظ سے کھانے پینے اور دیگر معاشرتی معاملات میں ان پر شدید پابندیاں تھیں.جب شد درع شروع میں لاہور تشریف لائے تھے تو اپنے دستورہ کے مطابق ہوتا بھی نہیں پہنتے تھے کیونکہ ان کے عقائد کے مطابق چھڑہ ناپاک ہونے کی وجہ سے جسم کو نہیں چھونا چاہیے.لیکن پنجاب کی سردی سے محبوبہ ہو کہ آخر چہل کا استعمال شروع کر دریا تھا.سیڈ نوٹ میں ترمیم کے متعلق مسٹر بارہ تھا سا ریختی نے مسکراتے ہوئے فرمایا تمہاری جو نیہ کردہ ترمیم بہت مناسب ہے اور مجھے اس سے اتفاق ہے لیکن کلکتے کے رپورٹر بہت نازک طبع ہیں میں ان کے بیڈ نوٹ میں کبھی کبھی ترمیم کیا کرتا تھا.انہوں نے چودھری صاحب کی خدمت میں احتجاج کیا جس پر چودھری صاحب نے یہ ہدایت دی کہ کلکتہ کے رپورٹروں کے سپیڈ یونٹ میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے.تب سے میں نے ان کے ہیڈ نوٹ کی نظر ثانی ترک کر دی ہوئی ہے.میں نے کہا میرے خیال میں تو یہ ایسا سکم ہے کہ اس کی اصلاح ضرور ہونی چاہیے.لہذا یہ معاملہ ہمیں چودھری صاحب کی خدمت میں ڈلہوزی بھیج دینا چاہئے.مسٹر یا ر تھا سار بھی اس پر بھی رضامند نظر نہ آئے تو میں نے کہا اگر آپ اس تہ نیم کے ساتھ متفق ہو جائیں تو اس کی ذمہ داری میں لے لوں گا اس پر بخوشی رضامند ہو گئے کار ساز ما به فکیره کار ما | شروع اکتوبر میں جب چودھری شہاب الدین صاحب لاہور واپس تشدید لائے تو دو ایک دن کے بعد مجھ سے فرمایا تم کچھ مول نظر آتے ہو.میں نے والد صاحب کے متعلق ذکر کیا کہ وہ اب اپنا کام بند کرنے والے ہیں اور اس مرحلے پر مجھے ان کا ناتھ بٹانے کیلئے ان کے پاس ہونا چاہئے تھا.چودھری صاحب نے ذرا سوچ کر فرمایا تم نے یہاں کا کام تو خوب سمجھ لیا ہے اور تمہاری رفتار بھی تیز ہے.تم ہر ہفتے میں تین دن سو موالہ، منگل اور بدھ سیالکوٹ پہلے جایا کرو وہاں یہ انتظام کر لینا کہ زیادہ مقدمات کی تارہ بیخیں ان تین دنوں میں مری ہو جایا کریں باقی چار دن یہاں ٹھہر کہ یہاں کا کام کر لیا کرو.مجھے ان کے اس ہمدردانہ مشورے اور اجازت سے بہت اطمینان ہوا اور میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے محض اپنے فضل سے چودھری صاحب کے دل میں یہ تحریک کردی اور بغیر میرے سوال کرنے کے یہ مشکل جو مجھے نا قابل حل معلوم ہوتی تھی ایک لحظے میں حل ہو گئی.سچودھری صاحب کے متعلق بھی میرا دل شکر سے لبریز ہو گیا کہ انہیں میری پریشانی کا پورا احساس ہوا اور انہوں نے فوراً اس کا مناسب مل بخونید کہ دیا.اگر چودھری صاحب میرے مشاہرے میں نصف کی تخفیف بھی کر دیتے تو میں بخوشی قبول کر لیا اور کام میں بھی کسی پہلو سے غفلت نہ ہونے دیتا.لیکن انہوں نے کوئی ایسا نہ کر نہ کیا ہیں..
نے خیال کی مہینے کے آخر پر معلوم ہو جائے گا کہ چودھری صاحب کا کیا منشا ہے.والد صاحب کی خوشنودی کے مقابل مجھے کسی اور بات کی پرواہ نہ تھی.یکم نومبر کوجب مجھے اکتوبہ کی تنخواہ بھی پوری ادا ہوئی تو میں جناب نچودھری صاحب کا اور بھی ممنون ہوا.فجزاہ اللہ احسن الجزاء شروع اکتوبر سے میرا پرو گرام ہوگیا کہ میں اتوارہ کی رات کو سیالکوٹ چلا جانا اور تین دن وہاں کام کر کے بدھ کی رات یا جمعرات کی صبح کو واپس لاہور آ جاتا.اس اثناء میں کالج بھی کھل گئے تھے.اور یودھری شمت و علی نھاں صاحب تو گورنمنٹ کا لج میں ایم ایس سی کیمیا کی تیاری کر رہے تھے اور شیش محل ہوٹل میں مجھتے تھے.سید فضل علی صاحب نو زمین کرسچین کالج میں ایم.اسے تاریخ کی تیار ی کر رہے تھے اور کالج کے نئے ہوسٹل یونگ ہال میں فروکش تھے.ان دوستوں کے لاہور آجانے سے میرا اکیلے پن کا احساس بہت حدتک رخ ہو گیا.اکتور یہ ہی میں کسی وقت اللہ تعالی کے فضل سے میری سائش کا بھی خاطر خواہ انتظام ہوگیا.چو دھری صاحب کے یہ ناکشی مکان کے مغرب کی طرف ایک اور مکان چودھری صاحب کی ملکیت تھا.جو سچودھری صاحب نے شیخ رکن دین صاحب سینیٹر سب ج لا ہوریہ کو رہائش کے لئے دے رکھا تھا.شیخ نصاب بھی ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے اور پو دھری صاحب کے ساتھ ان کے دوستانہ مراسم تھے.اکتوبر میں شیخ صاحب کا تبادلہ ہو گیا اور وہ مکان تعالی ہو گیا.چودھری صاحب نے خود ہی مجھ سے کہا کہ اگر یہ مکان تمہاری ضروریات کے مطابق ہو تو تم اس میں آجاؤ.مکان بہت اچھا نیا ہوا تھا.مجھے بہت پسند آیا مکانیت خاصی تھی.میں نے اس مکان میں رہائش کرلی.میں نے مکان کے کرائے کا کوئی ذکر چودھری صاحب کے ساتھ نہ کیا.تو کیا یہ بھی وہ فرماتے مجھے بخوشی منظور ہوا اسکین انہوں نے خود ہی فرما دیا کہ کرائے کا کوئی سوال نہیں.اس وقت شہر کے اندر بھی بجلی کا انتظام نہیں تھا کچھ عرصہ بعد اندرون شہر بجلی میسر آنے لگی اور چودھری صاحب نے دفتر کی عمارت میں اور اپنے رہائشی مکان میں بجلی کا انتظام فرمایا تو ساتھ ہی میرے رہائشی مکان میں بھی یہ انتظام فرمایا ادرایت و فرمایا کہ اس مکان کا بجلی کابل بھی دفتر کی طرف سے ادا ہوا کرے گویا میرے لاہور پہنچنے سے دو مہینے کے اندر مجھے مفتے میں تین دن سیالکوٹ رہنے کی اجازت مل گئی.رہائش کیلئے بلا کر یہ مشکان مل گیا اور مکان کے ساتھ بجلی اور پانی کا انتظام بھی کر دیا گیا.فالحمد للہ.پچند دنوں میں میں نے مکان کا سامان وغیرہ مہیا کر لیا اور ایک ملازم کا انتظام بھی ہو گیا.سید میرا فضل علی صاحب | ان دنوں شام کے وقت ہفتے میں تین چار دن سید افضل علی صاحب کے کمرے میں مجمع احباب ہوتا اور محفل جمتی تھی.میں جب بھی ممکن ہوتا اس میں شریک ہوتا
۱۴۷ چودھری شمشاد علی خان صاحب بھی تشریف لاتے.سید احمد شاہ صاحب بنجاله ی ماسید محمد شاہ صاحب بھی تشریف فرما ہوتے.جب موقع ملتا سید انعام اللہ شاہ صاحب سیالکوٹ سے تشریف لاتے.گاہ گاہ بعض اور احباب بھی جمع ہو جاتے.بہت لطف کی صحبت رہتی یونگ بال سے مولوی محمد شریف صاحت مل ہوتے.سید افضل علی صاحب مراد آباد کے ایک چوٹی کے سید خاندان کے چشم و چراغ تھے.پنجاب میں بر طانوی عملداری کے قیام پر صوبہ بجات متحدہ سے بہت سے افسران پنجاب میں تعینات ہوئے میرے بچپن کے زمانے تک ان افسران اوران کے افراد خاندان کو ہندوستانی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا.اس وقت تک ان سب خاندانوں کی زبان اور معاشرت ہندوستانی تھی.پنجابی زبان یا معاشریت کا اشتران میں دیکھنے میں نہیں آتا تھا.ان کے لباس کی طرز بھی ہندوستانی تھی.خوراک کا بھی یہی حال تھا.اس وقت تک پنجاب کے وسطی اضلاع میں پان کا استعمال انہیں تک محدود تھا.سچائے بھی زیادہ تر انہیں گھرانوں میں استعمال ہوتی تھی.رشتہ ناطہ بھی ان خاندانوں کا آپس میں ہوتا تھا.انکی رہائش ایک ہی محلے میں یا قریب قریب کے محلوں میں جوا کر تی تھی.فوجی چھاؤنیوں میں ملازمت پیشہ اور نوکر طبقہ بھی ہندوستانی ہوا کرتا تھا.سید افضل علی صاحب کے دادا صاحب محترم ایک وقت میں لا ہورہ کے کو توال تھے.ان کے نانا ڈپٹی قائم علی صاحب گورداسپور میں ریونیو افسر تھے.ان کے والد محترم سید فضل علی صاحب سیالکوٹ میں ڈسٹرکٹ جج کے ریڈر تھے اور ان کی رہائش میں نہ پورہ میں تھی.ان کے بڑے ماموں سید فیض العسکری صاحب تحصیل دار تھے اور چھوٹے ماموں سید نذر الباقر صاحب کمسری میں افسر تھے.ان کے دونوں ماموں ان کے پھو بھا بھی تھے.سید افضل علی صاحب کی پہلی شادی سید کی نذیر الباقر صاحب کی چھوٹی صاحبزادی سے ہوئی اور ان کی وفات کے بعد دوسری شادی سید فیض العسکری صاحب کی بڑی صاحبزادی سے ہوئی.سید نذر الباقر صاحب کی بڑی صاحبزادی کی شادری سید سجاد سید یلدرم صاحب سے ہوئی.میاں بیوی دونوں بڑے پائے کے ادیب تھے.ادب اور انشا پردازی اس گھرانے کا خاصہ تھے.والدہ سید افضل علی کا ناول گوڈر میںکا لحل مشہور ادبی شاہکار ہے.سید افضل " علی صاحب کے ادبی مضامین کا مجموعہ تخیلات پنجاب یونیورسٹی کا کورس ہے.سید فضل علی صاحب مدد سے کے ابتدائی درجے ہی میں میرے ہم جماعت تھے.ان دنوں ان کے والد صاحب کی رہائش قلعہ کے نیچے زنانہ مشن ہسپتال کے قریب تھی.جب وہ نقل مکان کر کے میانہ پورہ میں چلے گئے تو سید فضل علی صاحب کو امریکن مشن سکول میں داخل کروا دیا تو ان کے نئے مکان کے قریب تھا.جب شہنشاہ میں والد صاحب نے مجھے بھی اسی مدرسے میں داخل کروا دیا تو ہم پھر ہم جماعت ہو گئے.
۱۳۸ اور ہمارا دوستانہ تعلق ان کی وفات تک قائم کرہا.وہ نہایت مخلص اور با وفا دوست اور ایک انمول موتی تھے.ان کی رفاقت اور محبت کا نقش بردم میرے دل میں تازہ ہے اور ہر ر نہ کئی بار مجھے ان کے لئے دعا کی توفیق ملتی ہے.نشہ میں جب ہم دوسری بارہ ہم جماعت ہوئے تو ہم دونوں سن شعور کو...پہنچ رہے تھے بستید افضل علی گو عمر میں مجھ سے دو سال بڑے تھے لیکن شروع سے ہی ان کا سلوک میرے ساتھ الیسا را گویا میں ان سے بڑا ہوں.فجزاہ اللہ احسن الجزاء.میں احمدی تھا وہ ابتداء میں شیعہ تھے.لیکن اختلاف عقائد ہمارے دوستانہ تعلقات میں ہار ج نہ تھا.ان کا مکان مدرسے کے قریب تھا.تفریح کے وقفے میں ہم ان کے مکان پر جا کہ ظہر کی نماز ادا کرتے تھے شیعہ اصحاب کسی مجتہد بزرگ کی امامت میں نمانہ باجماعت ادا کرتے ہیں ورنہ فرداً فرد آ پڑھتے ہیں.سید فضل علی صاحب مجھے امام کرتے لکین مانہ میں ہا تھ کھلے پھوڑتے اور سجدہ کے مقام پر خاک شفا رکھ لیتے.ہم دونوں لاغر بدن تھے.لیکن ان کا قد مجھ سے بڑا تھا.ورزش کی گھنٹی میں اکثریم زور آن مانی کرتے جو اس وقت تک جاری رہتی جب تک وہ مقابلہ نہ چھوڑ جاتے.اس مقابلے کے دوران میں ہم دونوں ہنستے رہتے اور شاید زیادہ مہینے کے سبب ہی وہ مقابلے سے جلد عالیہ آجاتے.نشہ میں ہم دونوں نے انٹرنیس کا امتحان پاس کیا.ہماری جماعت میں چالیس طلبا تھے.ان میں سے صرف آٹھ پاس ہوئے.خواجہ محمد ابراہیم صاحب لالہ المین چند صاحب اور میں اول درجے میں فیروز الدین صاحب ، عبد الرحمن صاحب، خواجہ رحمت اللہ صاحب اور سید مشتل علی صاحب د ستر درجہ میں اور خانصاحب، احمد دین صاحب تیسرے درجے میں ، ان میں سے لالہ امین چند صاحب اور خواجہ رحمت اللہ صاحب اس سال دوسری بار امتحان میں بیٹھے تھے.میں نے تو گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لے لیا اور سید ۱۹۱ افضل علی سیالکوٹ مرے کالج میں جو اسوقت سکان مشت کا لج کہلاتا تھا داخل ہوگئے، اسی سال انہیں تپ دق کا عارضہ لاق ہو گیا جس میں وہ قریب پانچ سال مبتلا رہے.جوں توں کر کے 19 میں انہوں نے انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کیا اور شملہ میں بی اے کیا.نومبر سہ میں جب میں انگلستان سے واپس آیا تو میرا فضل علی نوز من کرسچن کالج میں بی اے کے امتحان کی بنیاد ہی کر رہے تھے.ان کی رہائش نیوٹن ہال میں تھی.دسمبر کے مہینے میں میں اپنے لائنس کے سلسلے میں لا ہور گیا ہوا تھا کہ انہیں دفعتا اطلاع ملی کہ ان کے والد محترم حرکت قلب بندہ ہونے کی وجہ سے وفات پاگئے ہیں.وہ نهایت شریف طبع پابند و ضع بزرگ تھے.میرے والد صاحب کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے اور میرے ساتھ ہمیشہ بہت شفقت سے پیش آتے تھے.ان کی وفات کا صدمہ سید ا فضل علی صاحب کیلئے طبقا نجا نگاہ تھا لیکن ساتھ ہی معاش کے وسائل بند ہو جانے کی دستہ
1914..ا افضل علی صاح سے انتہائی پریشانی کا باعث بھی تھا.سید افف پختہ عزم کیے متوکل نوجوان تھے ہر بات کی دیکھ بھال کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہدہ اپنی تعلیم کی بہر حال تکمیل کریں گے.شہ میں بی اے میں کامیاب ہو گئے اور ایم اے میں داخلہ لے لیا.خواجہ محمد امہ اہم نصاب کا اور سید افضل علی صاحب کا معدہ سے میں بہت دوستانہ تھا.دونوں ایک ہی کا لج میں داخل ہوئے.دونوں ٹی بی کے مریض ہوئے.اکٹھے انٹر میڈیٹ پاس کیا ایک ہی وقت میں بی اے پاس کیا.بتو دهری شمشاد علی خاں صاحب | چودھری شمشاد علی خالصاحب کا نہور ضلع تیک کے راجپوت خاندان کے سپوت تھے.ان کی والدہ ان کے بچپن میں ہی قوت ہو گئی تھیں.ان کے والد چودھری تاج محمد شمال صاحب فوج میں ارسالانہ تھے اور ملازمت کے سلسلے میں ان کی تعیناتی طویل عرصہ کیلئے ملک سے باہر یہ ہی.چو دھری شمشاد علی خالصاحب نے یہ عرصہ نہ یادہ تھر اپنے تایا زاد بھائی چودھری حبیب اللہ خانصاحت کے پاس گذار اوہ بھی رسالے میں انس تھے شہ اور نہ میں ان کی تعیناتی سیا لکوٹ چھاؤنی میں تھی.ان کی رجمنٹ کے سیڈ کلرک مرزا احمد بیگ صاحب تھے جو نہایت منفی بزرگ اور بڑے جوشیلے اور مخلص احمد ہی ہیں.وہ بعد میں انکم ٹیکس ان ہو گئے تھے اور اب فیشن کے بعد مہیوال میں مقیم ہیں.پچودھری شمشاد علی خانصاحب کا ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھا.ان کے نیک نمونے سے متاثر ہوکر چودھری صاحب نے بھی سلسلہ احمدیہ کی طرف توجہ کی اور اس کا کچھ مطالعہ بھی کیا اسی دوران میں ان کی واقفیت سید العام لله " شاہ صاحب سے ہو گئی اور ان کا ماحول احمدیت کا ہو گیا.طبیعت میں سعادت تھی اور اخلاص کی صفت سے متصف تھے.جب ان پر حقیقت کھل گئی تو سلسلہ احمدیہ میں بیعت ہو گئے.اگر چہ اس وقت وہ اپنے خاندان میں پہلے احمدی تھے.نہ میں انہوں نے میٹریکولیشن کا امتحان اول درجے میں پاس کیا اور وظیفہ حاصل کیا.گورنمنٹ کالج لاہور میں ایف ایس سی میں داخلہ لیا اخبار مرزا بشیر احمد صاحب کے ہم جماعت ہوئے اور ہوسٹل میں ایک ہی ڈار میٹری میں جگہ ملی.میرے ساتھ يف بھی دوستانہ تعلق ہو گیا.گرمیوں کی تعطیلات میں سیالکوٹ چھائی اپنے تایا زاد بھائی کے پاس شیرین لے گئے.اور بجتنا عرصہ ان کے پاس ٹھہرے مجھ سے بھی ملاقات ہوتی نہ ہی پھر اپنے وطن کا ہور تشریف لے گئے.کاہور پہنچ کر چودھری صاحب نے بحریت پہنچنے کی اطلاع دی اور تعطیلات کے دوران میں ہمارے درمیان خط و کتابت جاری رہی تعطیلات ختم ہونے والی تھیں کہ چودھری شمشاد علی خالصاحب
10° کے خط سے معلوم ہوا کہ ان کے والد صاحب ان کے کالج کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے اسنے اپنی رجمنٹ میں بطور جمعدار بھرتی کرانے کیلئے اپنے پاس بلایا ہے.لہذا وہ اب واپس کالج نہیں آئیں گے.میں نے انہیں فوراً جواب میں لکھا آپ کو اپنی تعلیم ضروصہ جاری رکھنی چاہیئے اور انہیں مشورہ کیلئے سیالکوٹ آنے کو کہا.ان کے سیالکوٹ آنے پر ہم نے مشورہ کیا اور ایک ایسی تجویز پر اتفاق کرلیا جس پر عمل کرنے سے وہ کالج میںاپنی تعلیم جاری رکھ سکے." ونکہ مجھ پر نہتے میں میں دن کے لے سیالکوٹ جانا ہوا تھا اور انڈین کینز کا کام باقی چار دنوں میں سر انجام دینا ہوتا تھا اسلئے ایک تو مجھے سویرے کام شروع کر کے دینک کام کرنے کی عادت ہوگئی اور دوسرے اتوار بھی میرے لئے کام کا دن بن گیا.میں صبح ناشتے سے فارغ ہو کر آٹھ بجے یا اس سے بھی قبل کام شروع کر دیتا تھا.ایک بجے دو پر کاکھانا کھانا اور ظہر کی نمازہ سے فارغ ہو کر پھر کامیں مصروف ہو جاتا.عصر کی نمانہ کے بعد عمو ، چائے اور سیر اور شام کے کھانے اور مغرب کی نماز کیلئے وقت فارغ رکھتا.اس کے بعد پھر کام میں لگ جاتا اور نصف شب یا اس کے بعد تک کام کرتا.میری طبیعت پر یہ پروگرام بو قبل نہیں تھا.مجھے کام میں لچسپی تھی اور میں شوق سے کام کی طرف متوجہ رہتا تھا.پٹنہ ہائی کورٹ میں سونگھیر (بہار شہر میں اور بھاگل پور میں اور ان کے مضافات میں کچھ ) پہلے کیس کی پیروی اصحاب جماعت احمدیہ میں داخل ہو چکے تھے.مونگیر یں حکیم خلیل احمد | صاحب جماعت کے ایک معززہ اور نہایت مخلص رکن تھے.ایک مسجد کی تولیت اور امامت ان کے خاندان میں چلی آتی تھی.ان کے جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کے بعد جماعت کے دیگیا احباب بھی انکی امامت میں اس مسجد میں نماز ادا کرنے لگے.محلہ دار اس پر معترض ہوئے انہوں نے حکیم صاحب کی اہمت اور تولیت سے یہ کہ کر انکار کر دیا کہ جاعت احمدیہ میں شامل ہونے سے حکیم صاحب اسلام سے مرند ہو گئے ہیں اور مسجد کی تولیت اور امامت کے اہل نہیں رہے.اور جماعت احمدیہ کے افراد بھی مسجد میں داخل ہونے اور وہاں فرد اگرد آیا با جماعت نمانہ ادا کرنے کا حق نہیں رکھتے.معاملہ ودیوانی عدالت میں گیا.ابتدائی عدالت میں محمد ابراہیم صاحب سب ج نے قرانہ دیا کہ احمدی جماعت کے افراد کا فر نہیں مسلمان ہیں گو ان کے عقائد بدعتی ہیں.چونکہ محلہ داروں کی کثرت ان عقائد کو تسلیم نہیں کہ تی اس لئے جماعت احمدیہ کے افراد مسجد میں فرداً فردا تو مانہ ادا کر سکتے ہیں لیکن اپنے میں سے کسی فرد کی امامت میں نماز ادا نہیں کر سکتے.اس فیصلے کے خلاف دونوں فریق نے ڈسٹرکٹ جج کی عدالت میں اپیل دائمی کی ڈسٹرکٹ جج نے سب برج صاحب کا فیصلہ بحال رکھا.فریقین نے پیشہ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی فریق بنا
کا مطالبہ تھا کہ جماعت احمدیہ کو کافر قرار دیا جائے اور انہیں مسجد میں داخل ہونے سے روکدیا جائے.حکیم خلیل احمد صاحب کا مطالبہ تھا کہ انہیں مسجد میں باجماعت نمازہ ادا کرنے کی اجازت ہونی چاہیے.حکیم صاحب اور جماعت احمدیہ کو ہائی کورٹ میں اپیل کی پردی کے لئے وکیل مقرر کرنے میں دقت پیش آئی.کوئی مسلمان وکیل جماعت کی طرف سے اپیل کی پیروی کرنے پہ رضامند نہ تھا.آخر خورشید حسین صاحب الجو اہل تشیع میں سے تھے) رضامند ہو گئے اور ایک ہند و مختار صاحب کو مختار مقرر کر لیا گیا.بحث کی تیاری خورشید حسنین صاحب کی ہدایت کے ما تخت مکه می سید وزارت حسین صاحب (سکنہ اور ینی ) نے بہت محنت اورہ تو سجہ سے کی پیشہ وع دسمبر میں دونوں اپیلیں سماعت کیلئے چیف جسٹس صاحب سرایڈورڈ نے میرا اور میٹر جٹس رو کے اجلاس کی ہفتہ وار فہرست میں درج ہو گئیں.تحکیم خلیل احمد صاحب اور سید وزار حسین صاحب نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت اقدس میں عریضہ انال کیا کہ فریق مخالف نے سٹر مظہر الحق صاحب اور مولوی فخر الدین صاحب گورنمنٹ پلیڈر کی سرکردگی میں سب متان و کلا کو اپنی طرف سے وکیل مقرر کر لیا ہے.صرف سید حسن امام صاحب نے اس نا کہ انکار کیا ہے کہ یہ مذہبی معاملہ ہے اور ہم اس میں کسی فریق کی حمایت یا مخالفت نہیں کرنا چاہتے.ویسے بھی سید حسن امام صاحب کا کام زیادہ تنہ فوجداری تھا اور وہ بہت کم دیوانی کام اپنے ذمے لیتے تھے.ان حالات میں دونوں بزرگوں نے حضور سے مشورہ طلب کیا کہ کیا مناسب نہ ہو گا اگر خورشید حسین صاحب کے ساتھ جماعت کی طرف سے بھی کم سے کم ایک اور کیل مقرر کیا جائے.اس عریضہ یہ حضوریہ نے جماعت کی طرف سے مجھے پیٹنہ ہائی کورٹ میں پیروی کرتے کیلئے ارشاد فرمایا.اس ارشاد کے ملنے پر ایک طرف تو میرا دل حضور کی شفقت اور عنایت کے اندازنے سے لطف اندوز ہوا کہ حضور نے اس حقیر خادم کو ایسے اہم معاملے میں جماعت کی نمائندگی کے قابل گردانا اور دوسری طرف اپنی کم مائیگی، بے بضاعتی اور ناتجربہ کاری کے احساس سے پریشان ہوا کہ اتنی بھاری ذمہ داری کما حقہ نباہنے کی کیا صورت ہوگی.مجھے پریکٹس شروع کئے ابھی دوسوال کا عرصہ بھی نہیں ہوا تھا.کو تھوڑا بہت کام میں نے اس وقت تک گیا تھا وہ کلیہ ضلع کی ابتدائی عدالتوں میں تھا.چیف کورٹ میں میں کبھی پیش نہیں ہوا تھا.مجھے عدالت ہائے عالیہ کے ضابطے اور رسم و رواج کا کوئی علم تھا نہ تجریہ.جس قضیے کے سلسلے میں مجھے پیروی کرنا تھی اس کے واقعات کا مجھے سرسری علم بھی نہیں تھا.صرف اتنی اطلاع تھی کہ مونگیر کی ایک مسجد کی تولیت اور امت
۱۵۲ کا تنازعہ ہے اور اس تنازعہ کی تہد میں یہ مسئلہ ہے کہ احمدی جماعت کے افرادہ مسلمان ہیں یا نہیں.اس تنازعہ کے متعلق فقہی اور قانونی مسائل کے ساتھ مجھے کوئی واقفیت نہیں تھی.ادھر تاریخ سماعت استقدیر قریب تھی کہ مجھے فوراً کی ہور سے روانہ ہونا تھا.میں نے چودھری شہاب الدین صاحب سے اجازت طلب کی جو انہوں نے کمال شفقت سے بلا تامل عطا فرمائی سید انعام اللہ شاہ صاحب میری تحریک پر فوراً میرے ہمراہ پہلنے پر تیار ہو گئے.فجر اسما الله احسن الجزاء سید انعام اللہ شاہ صاحب | سید انعام اللہ شاہ صاحب سیالکوٹ کے مشہوراد است خاندان کے نو منہاں تھے بشمس العلماء مولانا سید میرحسین صاحب جن کی شاگردی کا فخر علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کو حاصل تھا اس خاندان کے بزرگ تھے.سلسلہ احمدیہ کے سرکردہ بزرگ سید میر عامدثه صاحبین سید العام اللہ شاہ صاحب کے پھوپھا تھے.سید العام اللہ شاہ کے صاحب کی طبیعت میں ظرافت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی.نہایت منوا صنع تھے اور دوست نوازی کو سنجر و ایمان سمجھتے تھے.کبر اور رعونت کے شدید دشمن تھے.غم اور پریشانی کو پاس پھٹکنے نہیں دیتے تھے.سفر اور حضر میں بشاشت کے ضامن تھے.سکول سے ان کی طبیعت بلد اکتا گئی تلاش روند گار میں پہلے سیالکوٹ شہر کے پچونگی کے محکمے میں ملانہ مت کر لی.ادبی مذاق نہ کھتے تھے ہیں سینگی خانے میں ان کی تعیناتی ہوتی وہی شہر کے ادبی مذاق رکھنے والے نو جوانوں کا مرکز بن جاتا.وہاں ہر اتوار کو پر لطف محفل ہوتی.میری عمران کی عمر سے چارہ پانچ سال کم تھی.انگلستان جانے سے پیشتر میری ان کے ساتھ شناسائی تو ہوگئی تھی.لیکن کوئی ایسی بے تکلفی نہیں تھی.لاہور سے پیغام صلح اخبار کے جاری ہونے پر وہ پیغام صلح کے ادارے میں شامل ہو گئے.کچھ عرصے کے بعد پیغام صلح کے ارباب حل و عقد کی پالیسی سے دل بہ داشتہ ہو کر سیالکوٹ کے محکمہ ہونگی میں واپس پہلے گئے حضرت خلیفتہ المسیح اوان کے وصال پر جماعت میں ہوا اختلاف ہوا اس میں با وجود فریق لا ہو سکے بزرگ اصحاب کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے حضرت خلیفہ المسیح الثانی سن کے ہاتھ یہ بیعت کی اور اس عہد کو آخر تک پورے اخلاص کے ساتھ نبھایا.میری انگلستان سے واپسی پر سیالکو کے محکمہ چورنگی میں ہی کام کر رہے تھے.تھوڑا عرصہ بعد ملازمت ترک کر کے کھیلوں کے سامان کی تجارت شروع کر دی.اس تبدیلی کا محرک جلب منفعت نہ تھا بلکہ جذبہ حریت و خود داری تھا.وہ شہر کی انجمن شیان المسلمین کے فعال رکن تھے.ہو صاحب اس مجلس کے صدر تھے د ہی بلدیہ کے نائب صدر تھے.انجمن کی مجلس انتظامیہ میں جب کوئی مسئلہ نہ یہ بحث آتا تو سید
۱۵۳ صاحب اپنی افتاد طبیعت سے محبوبہ نہایت آزادانہ طور پر اپنے خیالات کا اظہار فرماتے.بعض دفعہ ان کا موقف صدر صاحب انجمن کے موقف کے موافق نہ ہوتا اور سید صاحب کا طرز بیان صدر صاحب کی طبع یہ ناگوا نہ ہوتا اور وہ اس کا اظہارہ ایسے طور پر کرتے کہ سید صاحب کی طبع ناندک پیر گراں گزرتا.آخر انہوں نے یہی مناسب سمجھا کہ ان دو نا موافق اور متضاد رشتوں میں سے ملانہ مت کے رشتہ کو قطع کردیا جائے.چنانچہ انہوں نے اپنا استعفے تیار.کیا.اگر صرف استعفے داخل کرنا مقصود ہوتا تو دو سطروں میں لکھا جا سکتا تھا.لیکن یہ استعفی چونکہ اعلان آنہ ادمی تھا اسلئے اس میں تمام وسجدہ شرح وبسط سے درج کی گئیں اور بلدیہ کی تمام سرگرمیوں ، نامیوں ، غفلتوں ، خطا کاریوں پر مسبوط اور نمک پاش تبصرہ کیا گیا اور ناب صدر بلدیہ بھی تنقید سے نہ بچ سکے.بلدیہ کی مجلس میں نہ یہ صدارت نائب صدر صاحت جب یہ وستاد یہ تمام و کمال پڑھ کر سنائی گئی تو مجلس نے بلا تامل اور بالاتفاق سید صاحب کا استعفی نا منظور کیا اور سید صاحب کو یہ مجرم گستاخی ملازمت سے علیحدہ کرنے کا حکم صادر کر کے سید صاحب کی محوریت ادبی قابلیت اور ندرت پر مہر تصدیق ثبت کردی، استعفے کی دستا ویہ کے آخری الفاظ یہ تھے.بایں وجوہ.نہیں ہوتی بندے سے طاعت زیادہ.بین خانہ آباد دولت زیادہ " سید صاحب ملازمت کی قیود سے آزاد ہوئے تو لاہور کی آمد ورفت کے لئے بھی وقت میسر آنا آسان ہو گیا ، سید افضل علی صاحب کے ساتھ ان کا گہرا دوستانہ تھا.میرے ساتھ بھی رشتہ اخوت و عقیدت مضبوط ہوتا جا رہا تھا.جب میں نے بیٹے کے سفر کا ذکر کیا تو کمال شوق سے نیا نہ ہو گئے.پٹنہ ہائی کورٹ | پٹنہ پہنچتے ہی سید وزارت حسین صاحب سے ملاقات ہوئی ڈاک بنگلے میں میں قیام ہوا.اس کے عین مقابل منظہر الحق صاحب کا بنگلہ تھا.ڈاک بنگلے میں پہنچ کر ہیوسٹیشن کے بالکل قریب تھا سید وزارت حسین صاحب سے مقدمے کے کوائف معلوم کئے.سید صاحب قانون پیشہ نہیں تھے لیکن انکی مقدمہ کی تیاری نہایت مکمل تھی.انہوں نے بڑی احتیاط اور ترتیب سے واقعات تنقیحات، فقمی او به قانونی مسائل، کتب فقہیہ، قانونی دلائل اور نظائر کا مرقع تیار کر لیا تھا، ماتحت عدالتوں کے فیصلے پڑھنے کے بعد جو بت بھی میں دریافت کرتا اس کا مکمل اور شافی جواب فورا مہیا فرما دیتے.ان کی نوٹ بکس میں تمام امور کا خلاصہ اور ضروری حوالہ جات نہایت خوش خط با ترتیب درج تھے.ایک گھنٹے کے اندر اندر مقدمے کے تمام پہلو لفضل اللہ صفائی سے میرے ذہن
۱۵۴ کا میں آگئے اور مجھے اطمینان ہوگیا کہ میںاللہ تعالیٰ کی عطا کردہ توفیق سے ایک دن کی محنت اور توجہ سے اپنی تباہ کی مکمل کرلوں گا.سید صاحب نے کمال دور اندیشی سے ضروری کتب فقہیہ اور اور قانون اور نظائر ڈاک بنگلے میں مہیا کر لی ہوئی تھیں.مجھے کسی لائبریری میں جانے کی ضرورت نہ پڑی کتب قانون اور نظائر انہوں نے خورشید حسین صاحب سے حاصل کی تھیں.سید صاحب نے اطمینان دلایا کہ ضرورت پڑنے پر خورشید حسین صاحب مزید کتب وغیرہ مہیا فرما دیں گے.ہم مہفتہ کے روز پٹنہ پہنچے تھے.واقعات کے متعلق تو میری تیاری اسی روز مکمل ہو گئی فقہ اور قانونی مسائل کے متعلق حوالہ جات کا دیکھنا باقی رہ گیا.اس کے بعد تیاری کا سب سے ضروری حصہ خالصہ میرا کام تھا یعنی دلائل کا نہ تیب دنیا اور اس ترتیب کا نوٹ کرنا.اسی دن میں سیدہ وزارت حسین صاب کی معیت میں خورشید حسین صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کے ساتھ مختصر طور پر تبادلہ خیالات کیا.ان سے دو ایک مفید باتیں بھی معلوم ہوئیں.ایک تو انہوں نے بتایا کہ منظر الحق صاحب نہ یادہ نہ فوجداری کام کرتے ہیں.دیوانی کام میں انہیں زیادہ دلچسپی نہیں.سید فخر الدین صاحب کے متعلق بتایا کہ وہ بہت قابل وکیل ہیں اور دیوانی کام کا انہیں بہت تجربہ ہے.لیکن انہیں بحیثیت گورنمنٹ پلیڈر سرکاری کام کی طرف استقدر توجہ کرنی پڑتی ہے کہ وہ اس مقدمے میں باقی وکلاء کے ساتھ صرف بطور عام مشیر کے شامل رہے ہیں.خود انہوں نے تیاری میں کوئی حصہ نہیں کیا.اور بحث میں بھی کوئی حصہ نہیں لیں گے.بحث مظہر الحق صاحب ہی کریں گے.مقدمہ کی تیاری میں ان کے مدد گانہ سٹرمحمد یونس اور مولوی محمد طاہر صاحبان رہے ہیں اور وہی اجلاس میں بھی ان کے مشیر اور مدد گار ہوں گے.باقی تین چار وکلاء نے اپنی خدمات اسلئے پیش کر دی ہوئی ہیں کہ ان کے نام بھی ریکارڈ میں شامل ہو جائیں.انہوں نے یہ بھی بتایا کہ منظر الحق صاحب اور چیف جسٹس صاحب کے تعلقات گو دوستانہ ہیں لیکن منظر الحق صاحب کی طبیعت کچھ تصنیع کی طرف مائل ہے اور چیف جسٹس صاحب سادگی پسند کرتے ہیں.ان سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مظہر الحق صاحب نے چیف جٹس صاحب کی خدمت میں گذارش کی تھی کہ اس مقدمے میں مجیدہ مفتی اور دینی مسائل پر بحث ہوگی اس لئے مناسب ہو گا کہ مسلمان بچے یعنی مسٹر سیٹس شرف الدین اجلاس میں شامل ہوں.اس پر چیف جسٹس صاحب نے سید شرف الدین صاحب سے استصواب کیا تو انہوں نے فرمایا کہ چونکہ انہیں جماعت احمدیہ کے عقائد سے سخت اختلاف ہے اس لئے ان کا اجلاس میں شریک ہونا مناسب نہ ہوگا.تاریخ ساعت کے متعلق بتلایا کہ میں آئندہ ہفتے کی فہرست میں تو درج ہے لیکن ہمارے کیس سے پہلے ہو کہیں درج
۱۵۵ ہیں ان کی سماعت آئندہ ہفتے کے دوران میں ختم نہ ہوسکے گی اسلئے ہمارے کیس کی سماعت تو شاید ابھی دو ہفتے تک نہ ہو سکے گی.مجھے یہ سنکر پریشانی ہوئی کہ میں ڈیڑھ دو ہفتے پینے میں بیٹھا کیا کروں گا.خورشید حسین صاحب نے فرمایا تم سوموار کے دن ر جبر ا ر صاحب سے مل لینا شاید وہ کوئی معمل بخونید کر سکیں.میں نے دریافت کیا مجھے پر ردی کیلئے تحریری درخواست پیش کرنا ہوگی یا اجلاس میں زبانی گذارش کرنا کافی ہوگا.اس کے متعلق بھی فرمایا کہ سربراہ صاحب سے دریافت کر لینا مناسب ہو گا.اتوار کے دن کا اکثر حصہ تیاری میں گذارا لیکن سب مراحل اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میرے لئے سید وزارت حسین صاحب کی سابقہ محنت اور توجہ کے نتیجے میں آسان ہو گئے اور میں نے عصر کے وقت تک اپنی تیاری مکمل کرلی.سید وزارت حسین صاحب نهایت متین اور سکبھی ہوئی طبیعت کے مالک ہیں.یہ فیصلہ سایہی جماعت کے لئے ہی اہم تھا لیکن جماعت ہائے صوبہ بہار کے لئے اور خصوصاً مونگھی اور بھا گلپونہ کی جماعتوں کے لئے تو بہت ہی اہم اور نانی ک تھا.جب تحکیم خلیل احمد صاحب اور سید و ندارت حسین صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کی خدمت میں استصوابی عریضیہ ارسال کیا تھا تو یہ دونوں بزرگ تو شاید میرے نام سے بھی واقف نہ ہوں گے انہیں توقع ہو گی کہ حضور ان کے عریضے کے جواب میں الہ آبادیا یا کلکتہ یا لاہور کے کسی نامور وکیل کے تقریر کا مشورہ دیں گے.لیکن مرکز سے اطلاع بھیجی گئی کہ حضور نے خاک رہ کا انتخاب فرمایا ہے.اور خاک رحضورہ کے ارشاد کے ماتحت جلد یہ حاضر ہو جائے گا.علم لیاقت اور تجربہ کا تو کیا ذکر میری تو عمر بھی ابھی تئیس سال ہی تھی.فریتی مخالف کے وکلاء میں سے سب سے جو نیر سے بھی میں کہیں جو نیٹر تھا اور سب سے کم عمر سے کہیں کم عمر تھا تجربہ کا تو کوئی سوال ہی نہیں تھا.میرا چیف کورٹ یا ہائی کورٹ کا تجربہ صفر تھا.لیکن یہ بزرگ اور جماعت کے دیگر احباب خوب سمجھتے تھے کہ ظاہری اسباب تو مشخص ایک آلہ میں نتیجہ تو اللہ تعالیٰ کے فضل ورحم سے ہی پیدا ہوتا ہے.رعایت اسباب بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت ضروری ہے لیکن سہا را خدا تعالیٰ کے فضل پر چاہیئے.میرے پٹنہ پہنچنے پر یہ بزرگ اور دیگر کتاب بڑی بشاشت اور خندہ پیشانی سے ملے اور سید وزارت حسین صاحب تو سارا وقت پورے اعتماد کے ساتھ نہ صرف تعاون کرتے رہے بلکہ اپنے تو کل اور تقویٰ کے مقام کے لحاظ سے میری ہمت افزائی کا موجب بنے رہے.مقدمے کی تیاری کے متعلق بھی انہوں نے مجھے پر پورے اعتماد کا ثبوت دیا.جو کچھ میں دریافت کرتا نہایت خوش اسلوبی سے واضح فرما دیتے لیکن خود میری
104 تیاری میں کوئی دخل نہ دیتے.میری طبیعت ان کے اوصاف حمیدہ سے بہت متاثر ہوئی.تقسیم ملک تک جماعت کے جلسے سالانہ پر ان سے ضرور ملاقات ہوتی.تقسیم کے بعد ملاقات کا موقعہ تو نہیں ہوا لیکن ان کی نہایت خوشگوار محبت کی یا دانیک میرے دل میں تانہہ ہے.ان کی خیریت کی • اطلاع ملتی رہتی ہے.اور جب موقعہ مسیر آتا ہے میں اپنا نیا نہ مندانہ سلام ان کی خدمت میں بھجوادیتیا ہوں.حکیم خلیل احمد صاحب سے ملاقات کے زیادہ مواقع میسر آتے رہے ہیں.یہ بند لوگ بھی بڑی خوبیوں کے مالک تھے اور میرے ساتھ بڑی شفقت سے پیش آتے تھے.نہایت لبشاش طبع تھے.ان کی زندگی با تی ان نوں کی طرح یقینا آکام ان نی سے خالی نہیں رہی ہوگی.لیکن میں نے انہیں کبھی طول خاطر نہیں دیکھا.افسوس کہ دسمبر تک میں رحلت فرما گئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.تیاری مکمل ہو جانے کے بعد تم بانکی پور، مراد پورہ اور دریا کی سیر کو گئے مشہور کتب خانہ خدا بخش دیکھا.لب دریا ما لا احبه در بھنگہ کا محل دیکھا.سول سٹیشن میں پبلک عمارات اور روسا اور وکلاء کے عالیشان مکانات دیکھ کر طبیعت محفوظ ہو ئی.سوموالہ کی صبح کو ہائی کورٹ گئے اور یہ جبڑا نہ صاحب سے ملاقات کی.تاریخ سماعت کے متعلق تو انہوں نے دہی فرمایا تو خورشید حسنین صاحب سے معلوم ہو چکا تھا.لیکن میری مشکل کا اندازہ کر کے کہا اس ہفتے کے دوران میں تو سماعت کی کوئی صورت نہیں ہو سکتی لیکن آئندہ ہفتے کی فہرست میں اس کیس کو پہلے خبر پر رکھ دیا جائے گا متفرق کام کے بعد اسی دن اسکی سماعت شروع ہو سکے گی.مجھے پیروی کی اجازت ملنے کے متعلق کہا تم برسٹر ہو اور پنجاب چیف کورٹ کے ایڈوکیٹ ہو اور خورشید حسین صاحب تمہارے ساتھ شامل ہیں.اجازت ملنے میں کوئی وقت نہیں ہونی چاہیے.تحریری درخواست کی ضرورت نہیں پیش ہونے پر ان امورہ کا ذکر کر کے اجازت طلب کرنا اسی وقت اعجازت مل جائے گی.بنارس اور الہ آباد کی سیر | اب کچھ دن کی فراغت تھی یہ عرصہ اتنا نہ تھا کہ میں لاہور تا کہ وہاں ایک دو دن ٹھہر سکتا.سفر اتنا لمبا تھا کہ بہت سا وقت تو سفر میں گذر جاتا اور کوفت کے مقابلے میں کام بہت کم ہو سکتا.دوسری طرف پٹنہ میں بیکا نہ بیٹھے رہنا بھی طبیعت پر بوجھ تھا.سید نعم الله شاہ صاحب نے تجویز کیا کہ تین چار دن میں بنارس اور الہ آباد دیکھ آئیں ریلوے ٹائم ٹیل دیکھنے کے بعد میں نے لالہ پدم سین صاحب کو جو گورنمنٹ کالج لاہور سے اقتصادیات میں ایم اے کرنے کے بعد الہ آباد یونیورسٹی میں ریڈر ہو گئے تھے اطلاع کر دی کہ ہم دون کیلئے الہ آباد آئیں گے آپ بھاگے قیام کا بندو سبت کر دیں.
104 سید حید ر امام | سوموالہ کا باقی وقت فراعت کا تھا.سہ پہر کو ہم مراد پور کے بڑے بانوالہ میں سے بھا رہے تھے کہ نینگ منتر انسٹی ٹیوٹ کے سامنے سے گزر ہوا.ایک نظر دیکھنے کے لئے اندر پچلے گئے وہاں سید مہدی قلی صاحب اور سید حیدر امام صاحب سے ملاقات ہوئی.سید جیدہ امام صاحب ، سید اشرف امام صاحب کے اکلوتے فرزند اور خان بہادر سید فضل امام صحاب کے پوتے تھے سید فضل ام جب نواب سید مراد اما اثرہ کے برادر اکر تھے جو رسید علی امام اور سید حسن امام صاحبان کے والد بزرگوار تھے.سید حیدر امام صاحب ان دنوں ابھی کالج میں تحصیل علم کر رہے تھے لیکن اپنے والدین کی واحد اولاد ہونے کے باعث خاندانی امورہ کے انصرام میں ان کا بہت کچھ دخل تھا اور ابھی سے حرم و احتیاط اور معاملہ فہمی ان کی طبیعت کا جنم دین پچکے تھے.مزاج بیشک امیرانہ تھا لیکن سادگی اور تواضع شعار تھے.اسی رات سید العام اللہ شاہ صاحب اور میں پٹنہ سے روانہ ہو کہ دوسرہ کی صبح بنارس پہنچے.چھاؤنی کے اسٹیشن پر گاڑی سے اترے.یہاں کسی سے واقفیت یا شناسائی نہ تھی کرائے کے ایسے پر شہر گئے.یہاں کے اکتے پنجاب کے اکتوں کی نسبت سادہ قسم کی سواری تھے اور سبک رفتار تھے پنجاب میں اسے صرف کچی سڑکوں پر استعمال ہوتے تھے.دلی اور یو پی میں اگر شہری سوالہ کی تھی.اسلئے یہاں کے اسکے ملکی ساخت کے تھے گو نشستوں کا طریق دونوں میں ایک ہی تھا.شہر میں پہنچ کہ گھاٹ پر گئے اور کشتی کرایہ پر لیکہ دریا کی سیر میں کچھ دقت صرف کیا.دریا سے شہر کا منتظر بہت پھیلا معلوم ہوتا تھا.گو شہر کے بانداروں اور گلی کو پچوں میں پھرتے ہوئے شہر کی کوئی مخصوصیت نظرنہ آئی.لیکن یہ شکار کی بات ہے اور اس کے بعد نصف صدی کے عرصے میں مجھے باریس شہر میں سے گزرنے کا اتفاق نہیں ہوا.ممکن ہے اس دوران میں شہر کی ہیت میں خوشنما تبد یلی ہو چکی ہو یہ مرکزی حکومت ہند کی وزارت کارکن ہونے کے زمانے میں میں ایک بہانہ بنارس گیا لیکن اس موقعہ پشیر کی ایک جانب سے گذر کر ہندو یو نیورسٹی میں گیا تھا.شہر کے اندر جانے کا موقعہ نہ ہوا.دریا کی سیر کے دوران میں سید العام اللہ شاہ صاحب کو کھانے کی شدید اشتہا محسوس ہونے لگی.دریا کی نچلی طرف بائیں جانب مہارا یہ صاحب بنارس کے خوبصورت محل کا نظارہ نہ دریا کے اوپر کی طرف محبت متظام شہنشاہ محی الدین اورنگ زیب عالمگیر کی بنا کردہ مسجد کے نازک فلک شگان مینانہ ان کی بے چینی کا کچھ بھی مداوا کر سکے، دریا کے کنارے دو ایک بتاؤں پر جو نظر پڑی تو فورا واپس چلنے پر مصر رونے چنا نچہ کشتی بان کو ہدایت ہوئی کہ جلد سے جلد میں گھاٹ پر واپس پہنچا دے.بازار میں پہنچتے کیا
۱۵۸ مطعم کی تلاش شروع ہوئی ایک سوڈالیمین کی دوکان پر میمون جو سلوک ہندو دوکاندار کی طرف سے ہمارے ساتھ مردانہ کھا گیا اس سے ہمیں یقین ہو گیا کہ اس مشترک ہندو شہر میں ایک مسلمان مسافر عزت نفس قائم کر کھتے ہوئے اپنی سادہ ضروریات بھی پوری نہیں کر سکتا.ہم سٹیشن واپس جانے والے تھے تا کہ وہاں جاکر معلوم کریں کہ وہاں کوئی ریفرشمنٹ روم ہے یا نہیں جہاں کھانامل سکے کہ ہمیں ایک مسلمان نانبائی کی دوکان نظر آئی.سید انعام اللہ شاہ صاحب کی طبعیت شدت اشتہا سے بے قابو ہو رہی تھی لہذا ہم نے فیصلہ کیا کہ مزید انتظار کی زحمت نہ اٹھائی جائے.اور جو کچھ بھی میسر ہو اسے بصد شکر قبول کیا جائے.یوں تو سید النعام اللہ شاہ صاحب بہت خوش نوید تھے لیکن ساتھ ہی بھوک برداشت کرنے کی طاقت نہ رکھتے تھے کھانے کی اشتہا انہیں بے چین کر دیتی تھی.کھانے سے فارغ ہو کر ہم شہنشاہ اور رنگ تہذیب کی مسجد کی نہ بارت کو گئے اور تھوڑی دیر شہر میں گھوم کر چھاؤنی کے سٹیشن پر واپس آگئے بعصر کے بعد وہاں سے روانہ ہو کر رات ہوتے ہم الہ آباد پہنچے.پدرم سنین صاحب نے ہماری رہائش کا انتظام مسٹر کر یوال کے نکلے پر کیا ہوا تھا.وہ بھی میری طالب علمی کے زمانے میں گورنمنٹ کالج لاہور میں طالب علم تھے.ہمارے کھانے کا انتظام پیم سین صاحب کی مختصر رہائش گاہ میں تھا.مسٹر یاد حسین حسینی تھے اور ان کے والد اور گھر کے لوگ جین مت کے ہم ورواج کے پورے پابند تھے.ان حالات میں ان کا ہمیں اپنے ہاں کھانے کیلئے مہمان کرنا حد درسیہ کے اخلاص اور عنایت کا ثبوت تھا.کھانا تو وہی تھا جو ایک مبینی گھرانے میں تیار ہوتا.اسلئے سید انعام اللہ شاہ صاحب جیسے خوش خور کیلئے یہ دو دن سخت آزمائش کے دن ثابت ہوئے ہوں گے.قمر در دیش به جان در ویش والی کیفیت تھی.چونکہ مسٹر یادم حسین نے ہمارے قیام کے دوران اپنا سارا وقت فارغ رکھا تھا کہ ہمیں الہ آباد کی سیر کرا دیں اور تمہیں کوئی وقت اکیلے نہ گزارنا پڑے.اور وہ سارا وقت ہمارے ساتھ رہتے تھے.اسلئے سید العام اللہ شاہ صاحب کو یہ موقعہ تھی نہیں ملتا تھا کہ کہیں نان کباب کے نقل کی تلاش کر لیں.میں ان کے چہرے سے ان کی اندرونی کیفیت کا اندازہ کر سکتا تھا.لیکن اس کا علاج میرے لسی میں نہ تھا.مجھے ان کی حالت پر رحم بھی آتا اور ان کے پہرے و دیکھ کہ ہنسی بھی آئی.ایک سہ پر تم گنگا، جن کا سنگھم دیکھنے گئے.ریل کے پل کے نیے ہم جن کے گھاٹ پر کشتی میں سوار ہوئے.ہم کل کچھ افراد تھے اور ساتواں کشتی بان سیسنگھم کی سیر بہت پر لطف رہی جمنا کا پانی بالکل صاف ہے اور گنگا کا مٹیالا سنگھم سے کچھ دور نیچے تک دونوں دریاؤں کے دھار سے الگ الگ نظر آتے ہیں اور آہستہ آہستہ ایک دو سے میں مل جاتے ہیں.ہمارے واپس جمنا
۱۵۹ ہوتے ہوتے سورج غروب ہو گیا.لیکن اس رات پوری چاندنی تھی.جمنا کا پانی چاند چاندی کی طرح چمکتا نظر آتا تھا.پانی کی رو تو خاموش تھی لیکن بہت گہری تھی کشتی علین من میں چل رہی تھی اور چونکہ بہار کے مخالف سجاد کی تھی اسلئے رفتار بہت دھیمی تھی.میں تھی.میں نے سید النعام اللہ شاہ صاحب سے کہا میر صاحب اگر کشتی بان کہے کہ کشتی میں کو تجھ زیادہ ہے اور میں اسے سنبھال نہیں سکتا.ضروری ہے کہ آپ میں سے ایک شخص پانی میں کود جائے تاکہ بوجھ ہلکا ہواور میں باقی سبک سلامتی سے کنار سے لگا سکوں تو کیا آپ ہم سب کی خاطر یہ قربانی دنے کیلئے تیار ہو جائیں گے ؟ سید العام اللہ صاحب کے چہرے کی حالت قابل دید تھی.سراسیمگی سے جھنجھلا کر کہا.بھلا یہ بھی کوئی مذاق کا موقعہ ہے کیسے لطف کی کیفیت کو تم نے بدمزہ کر دیا.کھائے پہ پہنچ کر ہم گاڑی میں سوار ہو گئے اور شہر کو چلائیے.سید صاحب خلاف عادت بالکل خامیوں تھے.جب ہم دریا سے کوئی دو میل دور جا چکے تو دفعتا چونک کر کہا ظفر اللہ خاں تمہارا کیا خیال ہے کیا میں ن کود جاتا ہے" میں نے کہا ناں آپ ضرور کو د جاتے.الا آباد سے پٹنہ واپسی کا سفر رات کے وقت ہوا صبح جب گاری پٹنہ پہنچنے کو تھی اور میں تیارہ ہولی تو میں نے سید صاحب سے دریافت کیا ہمارے اور کوٹ کہاں ہیں ؟ کہنے لگے اوریہ کی سیٹ پر رکھے ہیں.میں دیکھ چکا تھاکوٹ اور پر کی سیٹ پر نہیں تھے.اس ڈبے میں صرف تم دونوں سفر کر رہے تھے ہم نے سمجھ لیا کہ کوٹ رات میں پوری ہو گئے.ہم نے فیصلہ کیا کہ پولیس کو اطلاع دنیا بے کار ہے.وار سوموالہ کے دن ہم وقت پر اجلاس میں حاضر ہو گئے ضابطہ دیوانی کے آرڈر اہم قاعدہ کے ماتحت متعدد درخواستیں فہرست میں درج تھیں ان کے بعد مطبوعہ فہرست میں چور تھے یا پانچویں نمبر پہ مارا کہیں تھا لیکن اس کے گرد سرخ حلقہ کھینچ کر سے پہلے نمبر پر ظاہر کیا گیا تھا.ہم اجلاس میں ہی بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگے ایک تو اس وجہ سے کہ میں وہاں کسی کو جانتا نہ تھا اور خورشید حسین صاحب بھی ہمارے نزدیک نہ بچھکے تھے کہ ان کی سربر پستی میں میں بارہ روم میں جا بیٹھنا دوسرے اس لئے بھی کہ اجلاس میں بیٹھنے سے بچ صاحبان کے مزاج کا کچھ اندازہ ہو جائے گا اور یہ بھی معلوم ہو سکے گا کہ پہنچ کو خطاب کرنے کا کیا طریق ہے اور عدالت کے کیا آداب ہیں.میں گاؤن ، وگ وغیرہ تو پہنے ہوا تھا لیکن اجلاس میں بیٹھے ہوئے وکلاء کو دیکھ کر احساس ہوا کہ میرے سوٹ کی بیکٹ سیاه ہونی چاہئے تھی اور میں عام روز مرہ کا سوٹ پہنے ہوئے تھا.اسی دوران میں اجلاس میں تشریف لائے اور بڑی شفقت سے میرے کندھے پہ ناتھ نہ کھ کر اور میری طرف ٹھیک کہ
14" فرمایا ذرا با ہر معلومیں تم سے بات کر نا چاہتا ہوں.میں ان کے ساتھ ہو لیا وہ درانہ قد اور بائیب انسان تھے اور خوش پوش یور میں معلوم ہوتے تھے.رنگ بہت گورا تھا.کسی عام شخص سے بات کرتے تو یور میں بھجے میں اردو بولتے تھے اور تکلف سے بات کرتے معلوم ہوتے تھے.میرے ساتھ انگریزی میں بات کرتے رہے.انگریزی بہت سلیس بولتے تھے لہجے اور تلفظ میں کوئی مکلف نہیں تھا.مجھے ساتھ لیکر سید فخر الدین صاحب کے کمرے میں تشریف لے گئے اور میرا ان سے تعارف کرایا.سید صاب ایک متین طبع متبرک صورت بزرگ تھے اپنے کام میں مصروف رہے.ہماری گفتگو میں انہوں نے کوئی در خل نہ دیا.مظہر الحق صاحب نے مجھ سے فرمایا یہ مقدمہ بہت اہم ہے اور ہم سب تمہارہ کی بحث سننے کے ہایت مشتاق ہیں.ہم امید کرتے ہیں کہ تمہیں بحث کرنے کی اجازت ملنے میں کوئی روک پیدا نہیں ہونگی مجھے تو ہر صورت کوئی اعتراض نہیں ہو گا.لیکن ممکن ہے ہائی کورٹ کے متعلقہ قواعد کی تعبیر می شکل پیدا ہو.میں نے خیال کیا کہ میں تمہیں تو جہ دلا دوں.کیا تم نے متعلقہ قواعد کا مطالعہ کیا ہے ؟ میں نے کہا میں نے قواعد تو نہیں دیکھے لیکن رجبرار صاحب کے ساتھ مشورہ کیا تھا وہ فرماتے تھے کوئی وقت پیش نہیں آنی چاہئیے.فرمایا بہتر ہو کہ تم خود متعلقہ قواعد ایک نظر دیکھ لو.چنانچہ سر مظار الحق نے سید فخرالدین صاحب سے قواعد کی کتاب لیکر متعلقہ قاعدہ مجھے دکھایا.اس میں درج تھا کہ کسی چارٹرڈ انڈین ہائی کورٹ کے ایڈوکیٹ کو محبت کی اجازت دی جا سکتی ہے بشر طیکہ میٹنہ ہائی کورٹ کا کوئی ایڈوکیٹ اس کے ساتھ نمائندگی میں شامل ہو.مسٹر مظہر الحق نے فرمایا پنجاب چیف کورٹ ضابطہ دیوانی کے نشا کے مطابق ہائی کورٹ کا درجہ تو رکھتی ہے لیکن چارٹرڈ ہائی کورٹ نہیں تم لنڈن ہائی کوٹ کے بھی ایڈوکیٹ ہو.لیکن وہ انڈین ہائی کورٹ نہیں.اسلئے بظاہر تم پہ اس قاعدے کا اطلاق نہیں ہوتا.میں تو کوئی مشکل پیدا نہیں کروں گا لیکن ممکن ہے بج صاحبان یہ سوال اٹھائیں تمہیں سورچ لینا چاہیے کہ ایسی صورت میں تمہارا کیا جواب ہونا چاہیے.میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اگر یہ سوال پیدا ہوا تو اول تو میں یہ درخواست کروں گا کہ بجے صاحبان میری محبث لطور A MICUS CU RIA E (مشیر عدالت سن لیں جس کا انہیں پورا اختیار ہے ورنہ میں اپنے موکلوں سے مختارہ نامہ خاص حاصل کر لوں گا.بہر صورت میں آپ کا منون ہوں کہ آپ نے بر وقت مجھے متنبہ کر دیا.عدالت کا منتفرق کا ایک بجے ختم ہوا اور اجلاس دو بجے تک ملتوی ہوگی.اجلاس کے دوبارہ شروع ہونے پر ہمالہ میں بلایا گیا.چیف جسٹس صاحب نے فرمایا ہماری فہرست پر تو اس کیس کا پہلا نمبر نہیں.پیش کار صاحب نے عرض کیا کہ تو جبرانہ صاحب نے یہ کہیں اول نمبر پہ اسلئے رکھا ہے کہ ایک • 1
141 فریق کا وکیل لاہور سے آیا ہے اور ایک مفتہ سے سماعت کا منتظر چیف جٹس.اچھا یہ وہ کیس ہے جس کے متعلق مجھ سے کہا گیا تھا کہ غیر مسلم حج ان مسائل کی پیچیدگی کو سمجھ سکتا ہے نہ ان کے متعلق کسی فیصلے پر پہنچ سکتا ہے.مسٹر مظہر الحق.جناب من ! میں نے ہی آپ کی خدمت میں یہ گذارش کی تھی.لیکن میں نے صرف یہ کہا تھا کہ مناسب ہو گا اگر عدالت کے واحد سلم حج سماعت میں شریک ہوں.چیف جسٹس.اچھا تو دوسرے فریق کی طرف سے کون پیش ہے ؟ - ظفر اللہ خان.جناب عالی میں تحکیم خلیل احمد وغیرہ کی طرف سے پیش ہونے کی اجازت چاہتا ہوں.میں لیکنر ان کا بیرسٹر ہوں ، لنڈن ہائی کورٹ اور سر پنجاب چیف کورٹ کا ایڈوکیٹ ہوں.مسٹر نور شہید جنین میرے ساتھ نمائندگی میں شامل ہیں.چیف جسٹس.ہمیں اجازت دینے میں کوئی روک نظر نہیں آتی.مسٹر مظہر الحق.جناب عالی میں کوئی اعتراض نہیں کرنا چاہتا.لیکن بادب آپ کی تو یہ متعلقہ قاعدے کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں.چیف جسٹس قاعدے کی شرائط تو پوری موجود ہیں.مسٹر مظہر الحق - سجناب عالی ! قاعدے میں چارٹرڈ انڈین ہائی کورٹ کا ایڈوکیٹ ہونے..کی شرط ہے اور میرے فاضل دورست پنجاب چیف کورٹ کے ایڈوکیٹ ہیں.چیف جسٹس.پنجاب چیف کورٹ کا درجہ بھی ہائی کورٹ کا ہے.مسٹر منظر الحق - ضابطہ دیوانی کی رو سے بیشک پنجاب چیف کورٹ ہائی کورٹ شمار ہوتی ہے لیکن وہ عدالت چارٹر کی بنا پہ قائم نہیں ہوئی.اسلئے چار ٹر ٹر ہائی کورٹ نہیں.ظفر اللہ خاں.جناب عالی میرے فاضل دوست کیا فرماتے ہیںپنجابی کو اور ان کو ایک رات پایایی چیف جسٹس.پھر تم کیا کہتے ہو ؟ ظفر اللہ خال - جناب عالی عدالت کو اختیار ہے کہ وہ کسی ایڈوکیٹ کی بحث بحیثیت مشیر عدالت سن لے.چیف جنسی.اگر متعلقہ قاعدے کے الفاظ رستے میں روک ہوں تو مشکل ہوگئی.لیکن مجھے یاد پڑتا ہے کہ ہم نے حال ہی میں اس قاعدے میں کچھ ترمیم کی ہے.پیشکار جبرا ر سے وہ کا غذات منگوالو اور اتنے عرصے میں اگلے کیس کے دکار کو بلا لودہ کیس مختصر سے زیادہ وقت نہیں لگے گا.اگلے کیس کی سماعت شروع ہوگئی اور اس کی سماعت کے دوران میں مطلوبہ کا غذات بھی
چیف جسٹس صاحب کے سامنے پیش کر دیے گئے.جب چیف جسٹس صاحب کا اطمینان ہو گیا کہ جو کا غذات انہوں نے طلب فرمائے تھے وہ مہیا کر دیے گئے ہیں.تو انہوں نے پیش کارہ صاحب سے فرمایا یہ کاغذات مسٹر مظہر الحق کو دیدیں وہ خود بھی دیکھ لیں اور اپنے دوست کو بھی دکھلاویں مسٹر مظہر الحق نے خود دیکھ لینے کے بعد کا غذات مجھے دیدیئے.ان کا غذات سے معلوم ہوا کہ متعلقہ قاعدے کی عبادت میں سے لفظ چارہ ٹروڈ سمزن کر دیا گیا ہوا ہے.نسبحان الله والحمد لله تھوڑی دیر بعد زیر سماعت متقدمے کی بحث ختم ہو گئی اور چیف جسٹس صاحب نے مٹر مظہر الحق صاحب سے دریافت کیا اب تو کوئی عذر نہیں.انہوں نے کہا اب کوئی روک نہیں.اس پر چیف حبس صاحب نے فرمایا پیروی کرنے کی اجازت دیجاتی ہے.اب چار بجنے کو ہیں.اجلاس کل صبح دس بجے تک ملتوی کیا جاتا ہے کل پہلا کیس یہی ہو گا.دوسری صبح اجلاس شروع ہونے پر چیف جسٹس صاحب نے مجھ سے دریافت کیا تم بحث کرنے کیلئے تیارہ ہو.ظفر اللہ خاں.سناب عالی ! میری ایک گزارش ہے.آپ کے سامنے دو بالمقابل اپیل ہیں دونوں ماتحت عدالتوں نے قرار دیا ہے کہ جماعت احمدیہ کے افراد مسلمان ہیں اور مسجد میں فرداً فرد یا دور ہے نمازیوں میں شامل ہو کر با جماعت نماز ادا کر سکتے ہیں.لیکن احمدی امام کی قیادت میں علیحدہ با جماعت نماز ادا نہیں کر سکتے.ہمارا مطالبہ اپیل میں صرف اس قدر ہے کہ ہمیں مسجد میں احمدی امام کی اقتدا میں نمازہ یا جماعت کی بھی اجازت ہونی چاہئے.فریق مخالف ماتحت عدالتوں کے فیصلے کے کسی حصے کو بھی تسلیم نہیں کرتا.ان کا مطالبہ اپیل میں یہ ہے کہ احمدی جماعت کے افراد مسلمان ہی نہیں اسلئے مسجد میں داخل ہونے کے مجازہ نہیں.اور مسجد میں کسی صورت میں نماز ادا کرنے کے حقدار نہیں.یہ واضح ہے کہ اگر فریق مخالف اپنے مطالبے میں کامیاب ہو جائے تو ہمالہ کی اپیل لانہ ہا ساقط ہو جاتی ہے اگر احمدی مسلمان ہی نہیں تو ان کا مسجد کے ساتھ کیا واسطہ.اس لئے مناسب ہوگا کہ عدالت پہلے فریق مخالف کے اپیل کی سماعت کرے.اگر بحث سماعت کرنے کے بعد عدالت کی رائے ہو کہ احمدی مسلمان نہیں تو ہماری اپیل کی سماعت پر وقت صرف کرنا غیر ضروری ہوگا.چیف جس.معقول تجویز ہے.مسٹر منظر الحق آپ بحث شروع کریں.مسٹر مظہر الحق.جناب عالی ہم نے ابھی یہ طے نہیں کیا کہ ہم اپنی اپیل پر زور دیں گے یا نہیں چیف جیسی.بالفاظ دیگر آپ ابھی بحث کیلئے تیاری نہیں.(مجھ سے مخاطب ہو کہ کیا تم 1 i
تیار ہو.؟ ظفر اللہ خاں.جناب میں تیار ہوں.بحث شروع ہوئی.میں یہ کر سکتا تھا کہ اس مرحلے یہ اپنی بحث کو اس فقہی مسئلے تک محدود رکھتا کہ ایک مسجد میں ایک نمانہ کیلئے دو جماعتیں ہو سکتی ہیں یا نہیں.اور اس مسئلے پر کہ احمدی مسلمان ہیں یا نہیں بحث کی ابتداء مظہر الحق صاحب کے ذمے چھوڑ دیتا لیکن میں نے یہ طریق اختیار کرنا پسند نہ کیا.عدالت پر یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ مظہر الحق صاحب اس بنیادی زیر ستارہ مسئلے پر بحث کرنے سے ہچکچاتے ہیں.میری طرف عدالت کا رویہ اس وقت تک مہمدردانہ تھا.اس بنیادی مسئلے پر ہمارا موقف مضبوط اور قرین الضان تھا.میرے لئے موقعہ تھا کہ میں ججوں کے خالی فرمین میں پہلے اپنا نقش حمالوں.اور دونوں مسائل پر بیک وقت اپنے دلائل پیش کر دوں منظہر الحق صاحب جوابی تقریہ دونوں مسائل پر کریں اور مجھے دونوں کے متعلق جواب الجواب کا موقعہ ہو.یہ طریق اسلئے بھی لازم ہو گیا تھا کہ طبعاً مجوں کے ذرمین اس مسئلے پر روشنی کے خواہاں تھے کہ احمدی جماعت کے عقائد کیا ہیں اور کیوں یہ کہا جاتا ہے کہ احمدی مسلمان نہیں.میری بحث کو عدالت نے تو جہ سے سنا اور جوں کا رویہ منقوا تمہ ہمدردانہ رہا.ممکن ہے اس کی وجہ یہ بھی ہو کر دیکھتے تھے کہیں ایک تجربہ کار مبتدی وکیل ہوں اور تن تنہا.(خورشید حسین صاحب بحث شروع ہو جانے کے بعد چند منٹ کیلئے تشریف لائے تھے اور پھر اپنے دور سے کام کی پیروی کیلئے تشریف لے گئے تھے.تجربہ کار وکلاء کی ایک مضبوط ٹیم کے مقابل کھڑا ہوں.فریق مخالف کی جانب منظہر الحق صاحب ، محمد یونس صاحب، محمد طاہر صاحب، سند اور وکلاء اور ایک گردہ علماء کرام کا جم کر بیٹھا ہوا تھا.اور میرے ساتھ فقط سید وزارت حسین تھے اور وہ بھی ایک جناب تشریف رکھتے تھے.مظہر الحق صاحب نے اپنے جواب میں انتہائی زور اسی مسئلے پر دیا کہ جماعت احمدیہ کے عقائد مخلاف اسلام اور مستلزم یہ کفر ہیں.یہ ان کا بنیادی مطالبہ تھا اور لانہم تھا کہ وہ اس پر زور دیتے.لیکن ان کی ایک دلیل پر مجھے کچھ حیرت ہوئی جس سے ان کی غرض صرف جوں کی طبیعت میں بانی سلسلہ احمدیہ کے خلاف مخالفت اور غصے کا جذبہ پیدا کرنا تھی.کسی قدر یہ تصنع ہوش پر سے انہوں نے فرمایا کہ ہم مسلمان ہو حضرت علی علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کا انتہائی احترام کرتے ہیں ایسے شخص کو اور اس کے متبعین کو مسلمان کیسے گردان سکتے ہیں جو حضرت علی کی شان
کم ۱۶ میں ایسے گستاخانہ اور خلاف ادب کلمات کہنے کا مجرم ہو.جس کا انگریزی تر جمہ میں آپ کو پڑھ کر سناتا ہوں.اس پر انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں میں سے بعض فقروں کا انگریزی نہ جمہ پڑھ کر سنایا.عین سے جوں کی طبائع میں ہوش پیدا ہونا لازم تھا.ان کے چہروں سے تھی ایسا مترشح ہوتا تھا لیکن میں سمجھتا ہوں ان کی طبائع پر یہ اثرہ بھی ہوا ہو گاکہ و وکیل جھوں کی طبیعت میں جوش پیدا کر کے کام نکالا چاہتا ہے وہ دلائل سے تہی دست ہے.جواب الجواب میں میرے لئے منظہر الحق صاحب کے تمام دلائل کا جواب ضروری تھا.بعض کے متعلق تو جج صاحبان میں کہہ دیتے کہ ان کے جواب کی ضرورت نہیں.باقیوں کے متعلق ان کا اطمینان کرنا میرے لئے بفضل اللہ کچھ شکل ثابت نہ ہوا.البتہ حضرت مسیح کی مفروضہ اہانت کے الزام کی تردید میں مجھے کچھ وقت صرف کرنا پڑا.میں نے عرض کیا مجھے انتہائی افسوس ہے کہ میرے فاضل سیست نے ایک ایسی مغالطہ میں ڈالنے والی دلیل سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے جو دراصل بے بنیاد ہے.انہیں یہ بھی مد نظر یہ کھنا چاہیے تھا کہ یہ دلیل فاضل ججان کی طبعیت پر ناگوار گزرے گی.اس لئے انہیں انتہائی احتیاط سے کام لینا چاہیے تھا.ان کے لئے واجب تھا کہ ان تخریبات کا حسین میں سے بعض فقروں کا ترجمہ انہوں نے پڑھ کر سنایا ہے پس منظر اور سیاق و سباتی خوب اچھی طرح سمجھ لیتے اور اگر اپنے فرائض کی سرانجام دہی میں وہ پھر بھی ان تحریر وں کے کسی حصے کا پڑھ کر سنانا اگریہ سمجھتے تو ساتھ ہی ان کا سیاق وسباق بھی پڑھ کرسنا دیتے.یا ان کا خلاصہ بیان فرما دیتے تاکہ سی غلط فہمی کی گنجائش باقی نہ رہتی.اگر وہ ایسا کرتے تو کوئی الجھن پیدا نہ ہوتی اور مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہ رستی، لیکن انہوں نے ایسانہ کیا اسکے مجھے یہ وضاحت کرنے کے لئے چند منٹ آپ کی توجہ طلب کرنا ہوگی.میرے فاصل دوست کی مفروضہ دلیل کا ایک تو اصولی اور بنیادی زرد ہے اور وہ یہ ہے کہ جماعت احمد صدق دل سے یہ ایمان رکھتی ہے کہ قرآن کریم کا ہر لفظ اللہ تعالی کا کلام ہے.قرآن کریم حضرت مسیح علیہ السلام کا ذکر ایک سچے نبی اور رسول ہونے کے لحاظ سے نہایت احترام سے کرتا ہے بلکہ ان کی والد کا ذکر بھی احترام سے کرتا ہے.پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ جو عاشیق قرآن اور خادم قرآن کھتے وہ حضرت مسیح علیہ السلام کا پورا احترام نہ کرتے.آپ نے بارہ بارہ فرمایا ہے کہ ہم سیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا سچا اور برگزیدہ رسول مانتے ہیں.اور آپ کا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا ہے.یعنی یہ کہ آپ حضرت میسج کے روحانی مشیل ہیں.جیسے یونانی (حضرت بھی) ایلیا نی کے مثیل تھے.یہ کیسے کن ہے کہ حبس صادق نبی کے آپ مثیل میں اس کی شان میں کوئی کلمہ گستاخی کا یا سوئے ادب کا کہتے." "
190 پس منظر ان تحریروں کا یہ ہے کہ بد قسمتی سے عیسائی پادریوں کا یہ وطیرہ ہو گیا ہے کہ وہ بانی اسلام حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سخت بد نہ بانی کرتے رہتے ہیں.اور طرح طرح کے سجھوٹے اور ناپاک الزامات کا نشانہ آپ کی ذرات مطہر کو بتاتے ہیں.وہ حقیقت کی پر واہ کرتے ہیں نہ مسلمانوں کی دل آزاری کا احساس ان کے رستے میں روک ہوتا ہے.اس حالت کو دیکھ کر اور ان کے ظلم سے تنگ آکر بانی سلسلہ احمدیہ نے چاہا کہ ان کو ان کے اپنے گھر کی حقیقت کے بعض حصوں کی طرف توسعہ دلائی جائے جس سے ممکن ہے کہ ان کے طرز عمل کی اصلاح ہو سکے.چنانچہ آپ نے فرمایا عیسائی پادری رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس اور قرآن کریم حبیبی پاکیزہ وحی پر حملہ کرنے میں نہ صرف اپنا اخلاقی پستی کا ثبوت پیش کرتے ہیں ملکہ پرلے درجے کی احسان فراموشی کے مرتکب ہوتے ہیں.ہم تو حضرت مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا سچا رسول اور سیر گزیدہ نبی مانتے ہیں اور آپ کی والدہ کا عد درجہ احترام کرتے ہیں.تو یہ اس لئے ہے کہ قرآن کریم میں نہیں سکھاتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمیں بھی تعلیم ہے.حضرت مسیح علیہ السلام کا تو ہماری نگاہ میں د کا درجہ ہے جو قرآن کریم میں بیان شدہ ہے.لیکن یہ میسوع حبس کا ذکر انجیلوں میں ہے اس کو تم نہیں جانتے نہ ہم اسے پہچانتے ہیں نہ قبول کرتے ہیں.اس کی اور اس کے اعداد کی جو تصویر انجیلوں میں درج ہے، اس سے تو یہ لوگ راستبانہ اور باخلاق بھی ثابت نہیں ہوتے.اور اس بات کے ثبوت میں اس تصویر کے بعض رخ ہم پیش کرتے ہیں.چنانچہ جو کچھ میرے فاضل دوست نے آپ کو پڑھ کر سنایا ہے.وہ بانی سلسلہ احمدیہ نے حضرت میے کے متعلق نہیں کہا اور نہ کہہ سکتے تھے.یسب بیانات میسوع کی نسبت یا تو لفظ انجیل کے بیانات ہیں یا ان بیانات کا جو انجیل میں ہیں صحیح خلاصہ اور مطلب ہیں.ان میں سے ایک لفظ بھی جناب بانی سلسلہ احمدیہ کی طرف سے نہیں.اگر یہ عبارتیں قابل اعتراض یا ناگواہ ہیں تو ان کی ذمہ داری انجیل نویسوں پر ہے.بانی سلسلہ احمدیہ نے صاف فرمایا ہے کہ ہم ان باتوں کو حضرت مسیح کی شان کے منافی سمجھتے ہیں اور ہر گنہ تسلیم نہیں کرتے کہ ان کا اطلاق کی حضرت مسیح یہ ہو سکتا ہے.میرے فاضل دوست کو چاہئے تھا کہ یہ تمام پس منتظر اور سیاق سباق ہو ان تحریروں میں موجود ہے پیش کر دیے تاکہ کسی غلط نہی کی گنجائش نہ رہ ہیں.میرے جواب الجواب پر بحث ختم ہوگئی.چیف جسٹس صاحب نے فرمایا ہم فیصلہ محفوظ رکھتے ہیں اور میرا نام لیکر اور مجھے مخاطب کر کے اپنی طرف سے اور مسٹر جسٹس رو کی طرف سے بھی کچھ تعریفی الفاظ میری نسبت فرمائے.فجزاهم الله - میں کیا اور میری باطل کیا.میری حیثیت یہ مقابلہ اس ذمہ داری کے
194 جو مجھ پر ڈالی گئی تھی ایک ٹوٹی ہوئی چھڑی کی بھی نہیں تھی.اگر میں کسی حد تک اس ذمہ داری کو نبھا سکا تو یہ خالصتا اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی ذرہ تو انہی تھی.حبس کی جاذب حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی دعائیں ہوئیں.فالحمد لله - اجلاس بر خاست ہوا مظہر الحق صاحب نے میری طرف بڑھ کر کمال شفقت سے میرے ساتھ مصافحہ کیا اور دریافت فرمایا کب تک ٹھہر د گے ہیں نے عرض کیا میں آج رات ہما روانہ ہو جاؤں گا.فرمایا کہاں ٹھہرے ہو ؟ میں نے کہا ڈاک بنگلے میں.فرمایا وہ تو میرے مکان کے سامنے ہی ہے.اگر اسٹیشن پر جانے سے پہلے چند منٹ کے لئے آسکو تو میرے لئے خوشی کا باعث ہو گا.میں نے کہا ضرور حاضر ہوں گا.شام کے کھانے کے بعد میں مظہر الحق صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.اس زمانے میں وہ سیاسیات ہند میں بڑی مستعدی سے حصہ لیتے تھے اور کانگریس کی قیادت میں ایک بار سوخ شخصیت تھے.میں کسی لحاظ سے کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا وہ بڑی شفقت سے پیش آئے.کہا تم نے بڑی قابلیت سے بحث کی.واقعات ، قانون ، عقائد ، فقہی مسائل سب پر تمہیں عبور تھا اور ہر بات کو تم نے احسن طریقی سے پیش کیا ہم سب نے تمہاری بحث کو بڑے شوق اور دلچسپی سے سنا.میں نے شکریہ ادا کیا اور کہا یہ آپ کا حسن ظن ہے.تیاری کیلئے تو مجھے کوئی نہ ہمت نہ اٹھانا پڑی.سید وزارت حسین صاحب نے سب کچھ تیار کر رکھا تھا میرا توبہت کم حصہ تھا.کہا پھر بھی تم نے ہر بات بڑی خوبی سے اور بڑے موتہ طریق پر پیش کی.میں نے عرض کیا کہ ایک بات ضرور تھی شاید اس سے کچھ مدد ملی ہو.اور وہ یہ کہ آپ سب صاحبان کے لئے تو یہ صرف ایک کیس تھا گو اہم ہی سہی لیکن مجھ نو آموز کے لئے یہ ایک اہم کیس بھی تھا اور میرے اپنے عقائد اور ایمان بھی زیر بحث تھے اور جماعت کے حقوق بھی خطرے میں تھے.اس کے بعد کبھی میری ملاقات مظہر الحق صاحب سے نہیں ہوئی.آخر عمرمیں پر سیٹیں ترک کر کے اور سیاسات سے دست کش ہو کہ انہوں نے گوشہ نشینی اور نہ ہر اختیار کر لئے تھے.چودھری شمشاد علی خان صاحب جب انڈین سول سروری کے انتخاب میں کامیابی کے بعد صوبہ بہانہ میں تعینات ہوئے تو مظہر الحق صاحب کے ساتھ ان کے دوستانہ مراسم ہو گئے تھے.ان کے ذریعے مجھے مظہر الحق صاحب کی طرف سے سلام پیام پہنچتا تہا تھا اور ان کی زندگی کی افتاد میں انقلابی تغیر کی تفصیل معلوم کر کے حیرت ہوئی تھی کہ سوٹ بوٹ انگریزی ٹوپی، سگرٹ سگار ، بنگلہ موٹر ، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر رویش بڑھا کر گیروے کپڑے پہن کر ایک آشرم میں دھونی رما کر بیٹھ گئے." i
142 لکھنو میں مہاراجہ صاحب ) اسی رات پٹنہ سے روانہ ہو کہ دوسرے دن سید العام الله محمود آباد کی خدمت میں حاضری | شاہ صاحب اور میں لکھنو سپنے سید سجاد حیدر یلدرم شاہ لکھنے صاحب کے ہاں قیام کیا.وہ ان دونوں مہارا یہ صاحب محمود آباد کے پرائیویٹ سکریٹری تھے.مہاراجہ صاحب نے اند راہ عنایت کھانے پر مدعو فرمایا اور ملاقات کا شرف بخشا.اللہ تعالیٰ نے انہیں شاہانہ مزاح اور یہ خلق عطا فرمائے تھے.میری کیا حیثیت تھی وہ بادشاہوں کے عمبر تھے لیکن نہایت اکرام سے پیش آئے جناب ڈاکٹر علی نقی صاحب خلف الرشيد | شمس العلماء مولانا سید میر حسن صاحب کے شمس العلماء مولوی میر حسن صاحب بڑے صاحبزادے ڈاکٹر علی کلفتی صاحب فوجی ڈاکٹر تھے اور ان کی رجمنٹ ان دنوں لکھنو میں تھی.وہ میرے بڑے کریم فرما تھے.دس سال قبل کر نل پریسین سول سرجن بھاؤنی سیالکوٹ نے میری دائیں آنکھ کے پیوٹے کا اپریشن کیا تھا.ڈاکٹر علی نفتی صاحب کی تعیناتی ان دنوں بچھاؤنی سیالکوٹ میں تھی.اپریشن کے بعد مجھے اپنے رجمنٹل کالا میں لے گئے تھے اور جب تک مجھے صحت ہوئی اپنا مان رکھا تھا.اور بڑی شفقت سے بغیر گیری فرماتے رہے.وہ میرے والد صاحب کے دوست تھے اور سید انعام اللہ شاہ صاحب کے عزیز اور بزرگ تھے.ہم دونوں کھو چھاؤنی میں ان کی خدمت میں حاضر ہوئے.بہت شفقت اور تواضع سے پیش آئے.پٹنہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب بنے ہو تعریفی کلمات میری نسبت فرمائے تھے وہ اخبارات میں شائع ہو گئے تھے.ڈاکٹر صاحب نے بھی پڑھے.مجھ سے فرمایا ہم تو تمہیں بچپن سے جانتے ہیں اللہ تعالٰی نے تمہیں ذہانت اور فراست عطا فرمائی ہے.بہت ترقی کرو گے لیکن افسوس ہے کہ تم نے دینی لحاظ سے اپنے آپ کو ایک نہایت تنگ حلقے میں محدود کر لیا ہے.اس لحاظ سے تم ایک قیدی ہو کر رہ گئے ہور میں نے کہا ڈاکٹر صاحب میں بڑے ادب کے ساتھ خواجہ حافظ شیرانی کے الفاظ میں عرض کرتا ہوں کہ ے عقل گرداند که دلی در بند ز لفش چون خوش است عاقلان دیوانه گیر دندانہ بیٹے زنجیر ما خان بہادر محمد حسین صاحب | ایک دن لکھنو ٹھہر کریم کا نور گئے اور چند گھنٹے خان بہادر میشن حج کا نیور محمد حسین صاحب سیشن ج لر والد محترم ڈاکٹر محمد سیم صاحب بریسٹر ایٹ لاء) کے ہاں قیام کیا.سید انعام اللہ شاہ صاحب نے مجھے آگاہ کر دیا تھاکہ خان بہادر صاحب کے ہاں سالن میں بہت تیز مرچ استعمال ہوتی ہے.چونکہ مجھے مرچ کھانے کی عادت نہیں تھی لہذا انہوں نے مشورہ دیا کہ میں خان بہادر صاحب کی خدمت میں ذکر کردوں.میں نے ایسا ہی کیا.خان بہادر صاحب
نے فرمایا یہ توتم نے بہت اچھا کیا کہ فرکم کر دیا بیشک ہمارے ہاں تیز مریح کا ہی رواج ہے.میرے گھر سے تو بہت تیز مرچ کھانے کی عادی ہیں لیکن اتفاق سے وہ ان دنوں وہ لی گئی ہوئی ہیں.پھر بھی میں بادر چی کو تاکید کہ دیتا ہوں.چنانچہ باورچی کو طلب فرمایا اور تاکید کی کہ دو پر کے کھانے کے سالن میں مرح بہت کم صرف برائے نام ہو.یہ صاحبان مراح کھانے کے عادی نہیں.ہمارا اطمینان ہو گیا.ہم شہر کی سیر کو چلے گئے جب دو پر کا کھانا چنا گی تو دیکھا کہ خان بہادر صاحب کے سامنے ایک چھوٹی طشتری میں چھوٹی سبز مرچ لکھی ہیں میرے دلمیں کچھ ندامت کا احساس ہوا کہ میں نے اپنے آرام کی خاطر میزبان کا کھانا بے مزہ کر دیا.میں نے پہلا ہی نوالہ منہ میں رکھا تو میرا چہرہ سرخ ہو گیا اور آنکھیں بہنے لگیں اور یہی کیفیت سید العام اللہ صاحب کی ہوئی.خان بہادر صاحب برا بہ نوائے کے ساتھ سبز مرچ کھاتے پہلے گئے ؛ اسی امکانپور سے روانہ ہو کہ دوسرے دن دو مہر ہم لفض اللہ بخیریت لاہور پہنچ گئے.کام تو بہت جمع تھا لیکن میری دو ہفتوں کی غیر حاضری بظا ہر چودھری شہاب الدین صاحب کیلئے باعث ملال نہ ہوئی تھی.اختبارات میں یہ پڑھ کر کہ چیف جسٹس صاحب نے میری بحث کے متعلق تعریفی کلمات فرمائے خوش معلوم ہوتے تھے.میں اپنے کام کا لبقایا صاف کرنے میں مصروف ہو گیا.مسروقہ اور کوٹوں کے سلسلہ تین چار دن بعد رسید النعام اللہ شاہ صاحب ابھی لاہور ا ا د د د د د د د ا میں بنارس کی عدالت میں حاضری میں میرے ساتھ ہی مقیم تھے ) یوپی پولیس کے ایک سب انسپکڑ صاحب تشریف لائے.ہمارے مسروقہ اور کوٹ ان کے پاس تھے جن کی شناخت نہوں نے تم سے کرائی اور بلیک مغل سرائے اسٹیشن پر یہ کوٹ عبد اللہ نامی ایک ریلو نے علی نے ریل سے چھ الٹے تھے.وہ انہیں ایک بورے میں بند کر کے لے جالہ نا تھا کہ سب انسپکٹر صاحب نے اسے دیکھ لیا.اور دریافت کیا کہ یہ کیا ہے ؟ وہ گھبرا کر بھاگا.سب انسیکٹر صاحب نے تعاقب کیا اور اسے پکڑ لیا بورے میں سے اور کوٹ نکلے سید النعام اللہ شاہ صاحب کے کوٹے کی جیب میں ایک کارڈ ان کے نام کا تھا جس بچہ ان کا سیالکوٹ کا پتہ لکھا تھا.سب انسپکٹر صاحب تکمیل تفتیش میں سیالکوٹ تشریف لے گئے.وہاں معلوم ہوا کہ سید صاحب لاہور میں میرے پاس ہیں.کوٹ شناخت کرنے کے بعد ہماری توقع تھی کہ کوٹ ہمارے حوالے کر دیئے جائیں گے اور قصہ ختم ہو جائے گا.لیکن سب انسپکڑ صاحب نے ہم دونوں کے نام سمن لطور گواہ سماد ہے.حوالے کئے.بہن میں حکم تھا کہ ہم دو جنوری شاہ کو نیا ریس میں مجسٹریٹ درجہ اول کی عادات میں گواہی کے لئے حاضر ہوں.بنارس میں جو پچند گھنٹے ہم نے گزارے تھے ان کی یاد کوئی ایسی
199 خوشگوارہ نہیں تھی اور الٹے پاؤں اتنا لمبا سفر بھی ایک رحمت تھا لیکن چارہ بھی نہیں تھا.اسی شام ہم بنارس روانہ ہو گئے بنارس میں ہمیں زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا مجسٹریٹ صاحب نے اجلاس شروع ہوتے ہی کیس بلالیا اور ہماری شہادت قلمبند کرنے کے بعد حکم صادر فرمایا کہ کوٹ ہمارے حوالے کر دیئے جائیں.عدالت سے فارغ ہوتے ہی ہم اسٹیشن پر پہلے گئے اور پہلی گاڑی سے لاہور روانہ ہو گئے.پیٹنہ ہائی کورٹ کا فیصلہ میری غیر حاضری میں چودھری شہاب الدین صا سر ب نے حکم صادرہ فرمایا کہ یکم جنوری سے میرے مشاہرے میں پچاس روپے ماہوارہ کا اضافہ ہوگا.گویا ہوا اضافہ ۲ اگست کو ہونے والا تھا وہ یکم جنوری سے ہو گیا.اس سے مجھے یہ بھی اطمینان ہوا کہ باوجود میرے ہر ہفتہ سیالکوٹ جانے کے اور بیٹینہ اور بنارس کے دو سفروں کے جناب پچودھری صاحب میرے کام سے خوش ہیں نالحمد للہ شروع سال میں میٹر ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ صادر کیا اور عدالت ما تخت کے فیصلے کو سجال رکھا فیصلہ سناتے وقت چیف جسٹس صاحب نے خورشید حسنین صاحب سے فرمایا کہ اس کھیس میں اہم اور مشکل فقمی سوال اٹھائے گئے ہیں.اگر ہمارے فیصلے کے خلاف کوئی فریق پر بیوی کونسل میں اپیل کرنا چاہے تو ہمیں اجازت دینے میں تامل نہ ہو گا.اس اطلاع کے ملنے پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے خاک کو مشورہ کے لئے طلب فرمایا اور بعد مشورہ فرمایا کہ بنیادی سوال پہ تینوں عدالتوں کا فیصلہ ہمارے تھی میں ہے کہ ہم محمد اللہ مسلمان ہیں.نمانہ کے لئے علیحدہ جماعت قائم کرنے کا فقہی مسئلہ کچھ بھی ہو عدالت کا فیصلہ ترین الفاف ہے کہ جب محلہ والوں کی کثرت غیر احمدی ہے توا محمد یوں کو الگ با جماعت نمانہ اس مسجدیں پڑھنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے.اصولاً یہی طریق امن کا طریق ہے.ہمیں مزید چارہ جوئی کی ضرورت نہیں والد صاح کانے کالت ترک کر کے قادیان میں 1 اپریل سال میں والد صاحب نے سیالکوتی سلسلہ احمدیہ کی خدمت کیلئے سکونت اختیار کرنا میں اپنا د کالت کا کاروبار بند کر دیا اور قادیان حاضر ہو گئے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے کمال لطف و شفقت سے نظاریت اعلی و نظارت بہشتی مقبرہ کے فرائض آپ کے سپرد فرمائے.والد صاحب نے اپنے طور پر حضرت مسیح موعود کی کتب کا انڈیلیں بھی تیار کر نا شروع کیا.آپنے نے بھائی عبدالرحیم صاحب سے ان کا مکان واقعہ محلہ دار العلوم (سو تعلیم الالم سکوں کے موسٹل کے جنوب کی جانب تھا، خرید لیا یہ مکان دو منزلہ تھا.نچلی منزل آپ نے پچودھری فضل احمد صاحب روالد محترم چودھری عصمت اللہ خان صاحب ایڈوکیٹ) کو رہائش کے لئے دیدی اور اور پر کی منزل کے دونوں کمرے اپنا ر ہائش کے لئے رکھ لئے.سال میں تین بیچارہ بارہ والدہ صاحبہ چند دنوں کے لئے قادیان حاضر ہوتیں باقی وقت ڈسکہ میں یا میرے پاس گزارہ نہیں ہو میرے لئے بہت " 1914
14.نوشی اور بہ کنت کا موجب تھا.سال کے شروع میں میرے گھر سے لاہور آپکے تھے اور گھر کا انتظام انہوں نے سنبھال لیا تھا.میرے خالہ زاد بھائی چودھری غلام نبی صاحب مردانے کے تمام امور کے ذمہ دار ہو گئے اور مجھے خانہ داری کے انتظام سے کلی طور پر فراغت ہوگئی.اب ہفتہ میں تین دن سیالکوٹ جانے کی ضرورت بھی مندر ہی.چیف کورٹ لاہور میں اسی دوران میں میرے ماموں صاحب نے ایک نو جدار ی نگرانی کے پہلے گیس کی پیروی خواہشمند سائل کو میرے پاس بھیج دیا.میں نے چیف کورٹ میں کام شروع کرنے کے امکان کی طرف ابھی کوئی توجہ نہیں کی تھی.انڈین کیز کے کام کے ساتھ میں مانوس ہو گیا تھا اور مجھے اس میں پوری دلچسپی تھی.چودھری شہاب الدین صاحب میرے کام سے خوش تھے اور میری ہمت افزائی کرتے رہتے تھے.چیف کورٹ میں قدم رکھنے سے ابھی میری طبیعت حجاب محسوس کرتی تھی.اب یہ کیس مہینے آیا تو میں نے ماتحت عدالتوں کے فیصلے پڑھے اور میری رائے ہوئی کہ چیف کورٹ میں کامیابی کی گنجائش ہے.یہ احساس بھی میرے لئے ایک قسم کا وہ منی چیلنج بن گیا.لیکن وقت یہ تھی کہ میں ابھی چیف کورٹ بارہ ایسوسی ایشن کا رکن نہیں ہوا تھا نہ میرا کوئی منشی ہی تھا.جو دفتری کا روائی اپنے ذمے لیتا.کچھ تامل اور سوچ بچار کے بعد میں نے یہ کیس لے لیا اور تو کلاً علی الله نگرانی کی درخواست کا فارم حاصل کر کے چیف کورٹ میں نگرانی دائر کر دی.ٹائپ وغیرہ کے کام کی سہولتیں مجھے انڈین کیسینز کے دفتر میں میر تھی ان کے متعلق کوئی دقت پیش نہ آئی.نگرانی کی پختہ پیشی مقرر ہو گئی اور بعد سماعت فیصل رسائل کے حق میں ہو گیا فالحمدللہ اس سے مجھے کچھ تو صلہ ہو گیا کہ چیف کورٹ کا کام کوئی ایسا مشکل نہیں.اس کے بعد کبھی مہینہ میں ایک دو کیس کسی تعلق کی وجہ سے میرے پاس آجاتے اور میرالتعارف چیف کورٹ کے حلقوں سے ہو گا لاہور میں قانونی پریکٹس کا آغازہ | چودھری شہاب الدین صاحب نے ایک دن مجھ سے فرمایا ظفراللہ خان خدا نے تمہیں بڑا مان زمین عطا فرمایا ہے.میں نہیں چاہتا کہ تم سارا وقت انڈین کینر کے دفتر میں بند نہ ہو.اگر تمہیں عدالت کا کام ملے تو تم شوق سے لے لیا کرو.چیف کورٹ میں کام کا تجربہ تمہارے انڈین کیبیز کے کام میں محمد ہوگا.اور انڈین کینر کا کم نہیں.پر ملٹس میں مدد لیگا.ان کے اس ارشاد سے مجھے بہت سو صلہ ہوا.میں نے سید العام اللہ شاہ صاحب کو سیالکوٹ سے بلا لیا کہ وہ میرے ساتھ پر سکیٹس کے کام میں معاون ہوں.اور میں چیف کورٹ بار ایسوسی ایشن کا میر بھی بن گیا.سید انعام اللث ، صاب کا قیام لاہور میں میرے ساتھ ہی تھا.””
121 را فضل علی صاحب کا ایم اے کے سید افضل علی صاحب نے ایم کے امتحان کے لئے بیرم نان امتحان کے لئے بیرم خان پر THESIS پیر THESIS لکھنا تھا.انہوں نے بیڑی کا رش سے مواد جمع کیا مستودہ تیار کر کے مجھے پڑھنے کیلئے دیا.میں بیرم خان کے متعلق صرف اتنا ہی جانتا تھا کہ ہمایوں کے وزیر تھے.ان کے ساتھ ہی ہندوستان سے نکل کر ایران گئے.ان کی وساطت اور تذبہ کا ہی کا نہ نامہ تھا کہ شاہ طہماسپ صفوی ہمایوں کے لئے فوج مہیا کرنے پر رضامند ہو گئے.ہمایوں کی وفات پہ بیرم خان اکبر کے وزیر بھی ہوئے اور انا لیق بھی اور اکبر کے عہد کے ابتدائی سالوں میں بڑی دانشمندی سے تو عمران شہنشاہ کی رہنمائی کرتے رہے.سید افضل علی صاحب کے مستودے سے میری معلومات میں بہت اضافہ ہوا.بیرم خان کی شاعری کا باب تو میرے لئے بالکل نیا علم تھا.میں نے سید افضل علی صاحب سے کہا کہ ان کا نتیارہ کردہ مسودہ نہ صرف تاریخی لحاظ سے بلکہ ادبی لحاظ سے بھی نہایت قابل قدر ہے.لیکن موجودہ صورت میں کسی قدر اصلاح کا محتاج ہے.اگر وہ پسند کریں تو ہم دونوں اکٹھے بیٹھ کر ہر رونہ گھنٹہ بھر مسودے کی اصلاحی نظر ثانی پر صرف کریں.دو ہفتے میں اصلاح شدہ مستودہ ممتحن صاحب کی خدمت میں بھیجنے کیلئے تیار ہو جائے گا.دہ رضامند ہو گئے اور ہم دونوں نے یہ وقت مستودے کی ترتیب میں مناسب تبدیلی کرنے اور نہ بان چیست کرنے میں صرف کیا ممتحن پرو فیسر جادو نا تھ سرکار تھے.امتحان سے چند ہفتے قبل سید افضل علی صاحب نے بتایا کہ انہیں اپنے پروفیسر صاحب سے معلوم ہوا ہے کہ پروفیسر مجادو نا نتھ سرکار نے ان کے مضمون کی بہت تعریف کی ہے اور اسے اول نمبر یہ پرکھا ہے.میں نے مبارک باد دی لیکن وہ کچھ تفکر تھے کہ میرے لئے مشکل پیدا ہو گئی ہے.تم نے زبان کی اتنی اصلاح کر دی اور اسے الیا چیست کرد یا که پر و فیسر جادو ناتھ سرکار جیسے تاریخ دان بھی متائثر ہوئے.اب سجد میں امتحان میں بیٹھوں گا اور میرے پہ چھے میری پھیکی زبان میں ہوں گے جو میرے مضمون کے اصل مستودے کی نہ بان تھی تو ممکن ہے کسی ممتحن کو شک گزرے کہ THE SIS اس شخص کا تیا رہ کر وہ نہیں جو امتحان میں بیٹھا ہے.اور میں گرفت میں آجاؤں.میں نے سمجھایا کہ THE SIS پر ساری محنت تو آپ نے کی تھی.میں نے تو کہیں کہیں آپ ہی کے الفاظ کی ترتیب بدل کر زبان میں کچھ چینی پیدا کرنے کا مشورہ دیا تھا.سارے مضمون میں ایک پورا جملہ بھی تو میرا و صنع کردہ نہیں.آپ خواہ مخواہ پریشان نہ ہوں.جس شخص نے اپنی لگاتار محنت اور کوشش کے نتیجے میں بیرم خان کے اصل مقام کو بجو اسے تاریخ ہند میں اور ادبیات ہند میں ملنا چاہیے واضع کر دیا ہے اسے امتحان کے **
147.متعلق کچھ بھی پریشانی نہیں ہونی چاہیے.لیکن وہ مطمئن نہ ہوئے.چند دن بعد مجھ سے کہا میں اس سال امتحان میں نہ بیٹھوں تو ٹھیک رہے گا.میں نے بڑے زور سے احتجاج کیا کہ عشاء میں ہم نے میری کوتین کا امتحان اکٹھے پاس کیا تھا.اس کے بعد چار سال تو آپ کے بماندی کی دستہ سے ضائع ہو گئے.بی اے کے امتحان سے چند ماہ پیشتر آپ کے والد ما بعد کا انتقال ہو گیا.بی اے میں اللہ تعالٰی نے کامیابی عطا فرمائی تو آپ نے ایم اے کی ٹھان لی.ان دو سالوں میں جو کچھ تھوڑا بہت پس اندوختنہ آپ کے والد مرسوم چھوڑ گئے تھے اس کا اکثر حصہ آپ نے دوست نوازی میں صرف کر دیا.اب ایم اے کے امتحان سے آپ فقط اسلئے جی چراتے ہیں کہ نہ ندگی کی ذمہ دارہ یہاں ایک سال اور التوا میں پڑ جائیں اور 15 THE S کے معاملے کو بہانہ بنانا چاہتے ہیں.میں کہتا گیا وہ ہنستے رہے.میں نے خیال کیا مجھے چھیر کر لطف اٹھا رہے ہیں.ورنہ یہ ان کے ذہن میں کیسے آسکتا ہے کہ THE SIS میں اعلیٰ کامیابی کی وجہ سے امتحان میں نہیں بیٹھنا چاہیئے.بات آئی گئی ہو گئی.امتحان قریب آگیا.میں مطمئن تھا کہ انہوں نے پھر التوا کا ذکر نہیں کیا تیاری میں مصروف ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ضرور کامیاب ہوں گے."..امتحان کے پہلے دن عین پہنچے کے وقت میرے پاس تشریف لائے اور فاتحانہ اندانہ میں فرمایا.دیکھ لو امتحان ہو رہا ہے اور میں تمہارے پاس بیٹھا ہوں اب تور باور کرو گے کہ میں امتحان میں نہیں بیٹھا.جو میں چاہتا تھا میں کر گزرا.اب جو تم چاہتے ہو تم کر لو.میں بہت سٹ پٹا یا میری پریشانی اور بے لسبی پر وہ بے اختیار ہنستے رہے.سید العام اللہ شاہ صاحب بھی آگئے.وہ اپنی ہنسی روکنے کی کوشش میں تھے لیکن ان کے چہرے کی کیفیت سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس سازش میں شریک تھے کہ سید افضل علی صاحب امتحان میں شریک نہ ہوں.آخر میں نے کہا پچاس روپے فیس داخلہ بھی ضائع کی کہنے لگے نہیں نہیں وہ بچ گئے.اگلے سال کام آئیں گے.میں نے پوچھا وہ کیسے ؟ کہا میں نے ڈاکٹری سرٹیفکیٹ داخل کر دیا تھا کہ مجھے اختلاج قلب کی تکلیف ہے میں امسال امتحان میں شریک نہیں ہو سکتا.سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی تفصیل ایسے مزاحیہ طور پر بیان کی کہ میں بھی سہنس پڑا.آمنہ کہا اب امتحان تو آئیندہ سال ہی دینا ہو گا میری تقصیر کی تعزیر کیا تجویز ہوئی ہے میں نے کہا آپ کی تعزیہ ایک سال قید با مشقت.آپ یوٹنگ ہال کا عشرت کدہ چھوڑ کر میرے ہاں درمیانی منزل کے بغل والے کمرے میں قیام فرمائیے.خوان یعنی نان کباب یک قلم ترک کر کے غریب خانے کی دعوت شیراز یہ قانع ہو جائیے.آئینڈ سال کے امتحان کی تیاری ابھی سے پھر شروع کر دیجیئے.امتحان میں کامیابی اس قید خانے سے رہائی کا پیغام ہو گی.انہوں نے ناک بھوں چڑھائے حسرت کی آہیں کھینچیں.مذاق میں ٹالنے کی کوشش کی آخرہ سمجھ گئے کہ جائے مغفر
نہیں.گو دل میں یہ بھی سمجھے ہوں گے کہ سستے چھوٹے.چند دن بعد چار و نا چارہ گر ندان میں بسیرا کر لیا سیڑھیوں سے دوسری طرف سید النعام اللہ شاہ صاحب کا کمرہ تھا.اس سے انہیں کچھ ڈھارس تھی.اسمی سال چودھری بشیر احمد صاحب میٹر کو لیشن کے امتحان میں کامیاب ہو گئے اور اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لے لیا.یوں تو انہوں نے ہوسٹل میں بھی کمرے لیالیکن بالعموم ہر شام گھر آتے اور ہفتے میں تین چار یوم گھر پر ہی ٹھہر جاتے.ادھر چودھری شمشاد علی خان صاحب ایم ایس سی (کیمیا ) میں کامیاب ہو گئے اور انہیں محکمہ آب و ہوا کے سائنس کے صیغے میں علاقہ مت مل گئی اور وہ اس سلسلے میں آگرہ تشریف لے گئے.تھوڑا عرصہ بعد سہ مائیکل اوڈو ایہ گونی پنجاب نے اپنے صوبے سے ایک ڈبل کمپنی اسگنلنہ ، بھرتی کرنے کا اعان کیا اور چودھری شمشاد علی خاں صاحب اس میں بھرتی ہو کہ عراق چلے گئے.آخر جون شاشہ میں چودھری شہاب الدین صاحب نے حکم صادر کیا کہ یکم جولائی سے میرے مشاہرے میں پچاس روپے اضافہ ہو گا.مجھے انڈین کینز میں کام کرتے ابھی دس ماہ ہی ہوئے تھے کہ میرے مشاہرے میں درس سالانہ ترقیوں کے بعد ابرا فسانہ ہو گیا.رہائشی مکان اور اس کے بجلی پانی کا خرچ مستزاد تھا.فالحمد للہ.اس کے بعد میں نہ رفتار بھاری یہ ہی اور یکم جنوری شاہ سے میرا مشاہرہ دگنا ہو گیا آئینی اصلاحات کے سلسلہ میں بیس اگست شیر کو دور یہ من مسٹر مانگو نے پارلیمنٹ میں مسٹر مائیگو وزیر سند کا سفر سندوستان | اعلان کیا کہ ملک معظم کی حکومت کا مقصد ہندوستان کو نوآبادیا کے پورے درجے تک پہنچانا ہے.اس مقصد کے لئے وزیر مہند نے ہندوستان تشریف لاکر وائسرائے لارڈ چیلنمس فورڈ کی شمولیت میں رائے عامہ کا رجحان معلوم کرنے کا اعلان بھی کیا.ان کی تشریف آوری پر دہلی میں مختلف انجمنوں، پارٹیوں اور مجالس کے نمائندگان ان کی اور وائٹس رائے کی خدمت میں پیش ہوئے اور ہندوستان کی آئینی تنہتی کے متعلق اظہار رائے کیا اور تجاو نیہ اور منصوبے پیش کئے.یہ جماعت احمدیہ کی طرف سے بھی ایک وفد پیش ہوا اور اپنا ایڈرس پیش کیا.حضرت خلیفہ المسبحان بھی اس موقعہ پر دلی تشریف لے گئے.اور وزیر مند اور وائسرائے کے ساتھ علیحدہ ملاقات کی.اور تباہ خیالات کیا.وزیر ہند کے ساتھ ملاقات کے دوران میں تہ جمانی کے فرائض ادا کرنے کی سعادت حضورہ کے ارشاد کے ماتحت خاک بہ کو حاصل ہوئی.وزیر مہند نے بہت تپاک اور احترام سے حضورہ کا خیر مقدم کیا اور کہا آپ کی جماعت کی طرف سے جو ایڈرس آج پڑھا گیادہ نہایت مفید سجادیہ پرمشتمل تھا.چار پانچ نکات کو تو میں نے خاص طور پر نوٹ کیا ہے.اور میں اپنی رپورٹ میں ان سے فائدہ اٹھاؤں گا.ان نکات کا وزیر سند نے مختصر ذکر بھی کیا اور دریافت کیا یہ ایڈریس
۱۷۴ کس کا لکھا ہوا ہے.حضور نے فرمایا میں نے اردو میں لکھا تھا اور رخاک ار کی طرف اشارہ کر کے فرمایا؟ اس نے انگریزی میں ترجمہ کیا وہ یہ مہند نے کہا ترجمہ بھی بہت اچھا تھا اور اگر بچہ سبط دستا ویزہ تھی اس نے پڑھی بھی بڑی عمدگی سے.ایک گھنٹے کے قریب گفتگو رہی اور مختلف مسائل پر تبادلہ خیالات ہوتا رہا.وزیہ ہند جو کچھ کہتے رہے اس کے ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ حضور انگریزی خوب سمجھتے تھے لیکن چونکہ حضور خود اردو میں اظہار خیال فرماتے تھے.حضورہ کے ارشادات کا نتہ جمعہ خاک در کر دیا تھا.خاک رہ حضورہ سے اجازت لیکر اسی رات رتی سے رخصت ہو گیا.وائسرائے کے ساتھ حضور کی طاقات دوسرے دن تھی.اس موقعہ پر تہ جمانی کے فرائض صاحبزادہ مرنہ البشیر احمد صاحب نے ادا کئے.حکومت پنجاب کی طرف سے عالمی جنگ کے دوران میں رائے عامہ کی تائید حاصل کرنے اور پیسٹی کمیٹی کا قیام جنگی سرگرمیوں میں تعاون کی روح کو مضبوط کرنے کیلئے حکومت نے ایک پالیسی کمیٹی قائم کی اور جماعت احمدیہ کو بھی دعوت دی کہ وہ اپنا نمائیندہ اس کمیٹی پر نامزد کیے حضرت خلیفہ المسیح اللہ ہی نے خاک لہ کو نامزد کیا.کمیٹی کا افتتاحی اجلاس شملہ میں حکومت پنجاب کے مرکزی درفاتنہ انگیزیر لی " میں ہوا.میں اجلاس میں شامل ہونے کیلئے شملہ گیا.اس سے پہلے مجھے ایک بار شملہ جانے کا اتفاق ہوا تھا.ان د نومی حضرت خلیفہ المسیح الثانی شملہ میں تشریف فرما تھے اور خاکسار کو طلب فرمایا تھا.خاک رسید انعام اللہث و صاحب کی رفاقت میں حاضر ہوا تھا اور ہفتہ عشرہ خدمت اقدس میں گزارنے کی بے بہا نعمت سے مشرف ہوا تھا.حضورہ اور حضورہ کے رفقاء اور خدام نواب محمد علی خاں صاحب کے مہمان تھے.ان ایام میں بھی جب کوئی ایسے صاحب حضورہ کی طلاقات کے لئے تشریف لاتے.جن کے لیئے انگریزی میں بات چیت کر نا موجب سہولت ہوتا تو خاک کو تہ جمانی کا ارشاد ہوتا.ایک موقعہ پر حضور نے فرمایا.اس کی ترجمانی نہیں مجھے یہ اطمینان رہ بنتا ہے کہ یہ میری بات اچھی طرح سمجھ لیتا ہے اور پھر وضاحت سے سمجھا دیتا ہے.حضورہ کا اظہا خاکار کے لئے بہت بہمت افزائی کا موجب ہوا.کیونکہ تہ جمانی یوں بھی آسان نہیں ہوتی اور حضور کی ترجمانی میں ایک تو ذمہ داری کا احساس شدید ہوتا.دوسرے حضور پسند فرماتے تھے کہ مسئلہ نہ یہ بحث کے ایک پہلو پر حضور اپنا ایا د مکل فرما لیں تو ترجمہ کیا جائے جس سے لازم آتا تھا کہ نہ صرف حضور کے ارشادات کا مفہوم پوری طرح زمین میں آجائے.بلکہ حضور کے استدلال کی ترتیب بھی ذہن میں محفوظ رہے تیرے حضور خود انگریزی خوب سمجھتے تھے اور ترجمہ کے دوران میں ترجمان کو یہ احساس رہتا تھا کہ اگر کہیں ہم کی ادائیگی میں تفاوت ہوا تو حضورہ فوراً فرما دیں گے میرا یہ مطلب نہیں.خوشنودی
148 پبلسٹی کمیٹی کے اجلاسوں میں ہو فیصلے ہوئے منجملہ ان کے ایک یہ بھی سنتھا کہ ایک اخبار جاری کیا سجائے.جس میں علاوہ مخبروں کے جنگ کے مختلف پہلوؤں پر اور اس کے نتائج اور آئندہ پیش آنے والے معالات پر اہل دانش اور تدبیر کے نتائج فکر بھی شائع ہوئی.خان صاحب شیخ عبد العزیز صاحب سیلیسٹی کمیٹی کے سکریٹری مقرر ہوئے اور پیلیٹی کے مختلف شعبوں کی نگرانی ان کے سپرد ہوئی.انہوں نے اپنے معاونین کے طور پر دو ایسے اصحاب کا انتخاب کر کے اپنی ہو ہر شناسی کا ثبوت دیا ہجو بعد میں علاوہ ان فرائض منصبی کی سرانجام دہی کے علم و ادب کے میدان کے بھی شہسوار ہوئے.اول حکیم احمد شجاع صاب پنجاب لیجسلیٹو کونسل میں پہلے ترجمان، پھر اسسٹنٹ سکہ بیڑی اور پھر سکریٹری ہوئے.دور سید افضل علی صاحب جنہوں نے تھوڑا عرصہ پہلے ہی ایم اے کا امتحان پاس کیا تھا.ایک دلچسپ دیوانی مقدمہ سیالکوٹ میں ہمارا ر ہائشی مکان محلہ تنخاس میں تھا.اس محلے کی آبادی لوہاروں کی تھی.بعین میں سے اکثر تو آہنگری پیشہ کرتے تھے لیکن بعض معمار تھے اور بعض ملا ندم تھے.ایک کہنے کے افراد نے جراحی کے اوزار بنانے میں استقدر مہارت حاصل کر لی تھی کہ ان کے تیار کردہ اوزاروں کی شہرت اور مانگ دور دورہ تک پھیلی ہوئی تھی.یہ سب لوگ آپس میں رشتے دار تھے.گویا سالیا.ق محلہ ایک وسیع کنبہ تھا.جیسے عام طور پر ایسے پیشہ وروں کے متعلق دیکھنے میں آیا ہے یہ سب لوگ بار اعلان دیندار ، شریف ،کردار ، پابند احکام شریعیت، ہمدرد اور با وفا تھے.ہمارے ساتھ ان سب کا سلوک نہایت شریفانہ اور ہمدردانہ رہا.جب ستمبر سنشلہ میں میرے والدین سلسلہ احمدیہ میں بحیت ہوئے تو ہمارے آپس کے تعلقات میں کچھ فرق نہ آیا.محلے والوں میں سے مستری اللہ دتا صاحب کا گھرانہ سرکردہ گھرانہ تھا.ان کا مکان لب سڑک تھا.اس کی تقسیم اس طور پر تھی کہ سٹرک کی طرف (جس کا نام سندر انوالہ باز انہ تھا) نچلی منزل میں ان کی دو کا میں نقص جن میں وہ آہنگری کا کام کرتے تھے ان کے پیچھے ان کا رہائشی مکان تھا جس کا دروانہ ہ سڑک کی طرف نہیں بلکہ ساتھ والی گلی میں کھلتا تھا.دوکانوں کی چھت رہائشی مکان کی اوپر کی منزل کے صحن کے طور پر استعمال ہوتی تھی.اس کے گرد چہ دے کی دیوا نہ تھی اور اس پر مختصر سی کوئی عارضی عمارت غسل خانہ وغیرہ کی بھی تھی.مستری صاحب کے تین فرزنہ ندمتری غلام حسین ، مستری علی محمد اور مستری محمد علی صاحبان تھے.اور پھر آگے ان کی اولاد تھی.کثرتِ عیال کے ساتھ ضروریات میں بھی اضافہ ہوتا گیا اور کاروبار میں بھی وسعت ہوتی گئی.ایک مرحلے پر انہیں کچھ سرمائے کی ضرورت پیش آئی ان کے ایک دوست شیخ میران بخش صاحب تھے جو ایک وقت میں ریاست جمہوری میں ایک معزنہ
144 عہدے پر فائز رہے تھے.ان کی رہائش محلہ دور دروازہ میں تھی لیکن وہ اکثر مستری صاحبان کی ملاقات کے لئے ان کی دوکان پر تشریف لایا کرتے تھے.اپنی ضروریات کے پیش نظر مستری صاحبان نے کچھ کہ تم شیخ میران بخش صاحب سے قرض لیکر دوکانیں ان کے پاس رہن کر دیں.قبضہ منتری صاحبان کا ہی رہتا لیکن دوکانوں کا کہا یہ با قاعدہ شیخ صاحب کو ادا ہوتا رہ ایشیخ صاب کی وفات پر دو کانوں کا ستی مرتہنی اُنکے صاحبزادے شیخ عبدالرحیم کے حصے میں آیا.یہ صاحب کو امیرانہ حق طبیعت کے تھے انہیں نقد روپے کی ضرورت پیش آئی اور انہوں نے سنتری صاحبان سے مطالبہ کیا کہ زمین کی رقم ادا کر کے جائداد فک کرالیں.بستری صاحبان کے پاس رقم موجود نہ تھی پیشیخ عبدالرحیم صاحب نے بھی مرتہنی سردانہ تارا سنگھ صاحب کے پاس فروخت کر دیا.مستری صاحبان کو اس سے صدمہ ہوا کیونکہ جب تک مرتہن کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے.پریشانی کی کوئی وجہ نہ تھی.اب حق مرستہی ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں چلا گیا جس سے حسن سلوک کی کوئی توقع نہیں ہو سکتی تھی چنانچہ وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا.نئے مرتہن نے انہیں دق کرنا شروع کیا.مقدمہ بازی شروع ہوگئی سردارہ تارا سنگھ صاحب نے دعوئی دخل دائمہ کر دیا اور ان کے حق میں ڈگری ہو گئی.اسرائے ڈگری میں انہوں نے دوکانوں کا دخل ہے کیا.متری صاحبان نے دوکانیں خالی کر دیں اور بازار کے دوسری طرف کی دوکانوں کے عقب میں ایک کھلی جگہ کرایہ پرہے کہ اور اس پر ایک عارضی شیڈ کھڑا کر کے دہان اپنا کاروبار شروع کر دیا.سردار تارا سنگھ صاحب کی غرض یہ تھی کہ مستری صاحبان کو دوکانوں کی پچھت کے استعمال سے جو سہولت اور آسائش حاصل تھی اس سے محروم کر دیں اور وہ ایک خطیر رقم سردار صاحب کو قیمت کے طور پر ادا کر کے در کا میں واپس لیں لیکن یہ غرض پوری نہ ہوئی.دوکانوں کا قبضہ تو انہوں نے لے لیا لیکن چھت پر مستری صاحبان کا قبضہ بدستور رہا.درد کائیں کرایہ پر بھی نہ دی سجا سکیں.محلے میں سے کوئی انہیں لینے پر تیارہ نہ ہوا اور محلے سے باہر بھی یہ احساس تھا کہ سردار صاحب نے خواہ مخواہ ایک شریف خاندان کے لئے مشکل پیدا کی ہے.آخر سر دا لہ صاحب نے اپنے وکیل صاحب کی طرف رجوع کیا اور انہوں نے اجرائے ڈگری کی صورت میں ایک درخواست پیش کردی کہ احمد لئے ڈگر ی ابھی تک نامکمل ہے.دوکانوں کا قبضہ تو مجھے مل گیا ہے لیکن چھت کا قبضہ نہیں ملا.چھت پر سے پردے کی دیوار اور غسل خانے وغیرہ کی عامر منفی عمارت گرا کر مجھے چھت کا قبضہ دلایا جائے والد صاحب مستری صاحبان کی طرف سے وکیل تھے.اس مرحلے پر میں نے والد صاحب کے ساتھ سیالکوٹ پریکٹس شروع کی اور والد صاحب نے مستری صاحبان کی طرف سے اس درخواست کی جواب وہ ہی میرے
144 سپرد کی.میں نے عذر داخل کیا کہ چھت اور دوکانیں علیحدہ علیحدہ نہیں دوکانوں کے دخل کی ڈگری ہوئی اس ڈگری کے ابتدائی میں دوکانوں کا دخل دلایا گیا اور سیلف نے رپورٹ کی کہ اسٹریٹی مکمل ہو چکی ہے اس پر عدالت نے تکمیل اجرائی کی تصدیق کر کے مثل داخل دفتر کر دی.اگر ڈگری والہ کو اس حکم کہا عتراض تھا تو اس حکم کی نظر ثانی کی درخواست کرتا یا اس کے خلاف اپیل کرتا.اہل کی میعاد گذر جانے پر یہ حکم قطعی ہو گیا اب اجرائی ڈگری کے متعلق کوئی مزید کاروائی نہیں ہوسکتی دیوان سیتا رام صاحب نے عدیہ منظور کیا اور درخواست خارج کردی.اس پر سردار صاحب نے نیاد عومی چھت کا دخل حاصل کرنے کیلئے دائر کر دیا اور ساتھ ہی حکم امتناہی حاصل کرینے کی در خواست دی کہ مدعا علیہ کو چھت کے استعمال سے روک دیا جائے.مدعا علیہم کی طرف سے اس کی پیروی بھی والد صاحب نے میرے سپرد کی.میں نے جواب دعوی میں عذر کیا کہ چھت دوکانوں سے الگ نہیں چھت کا دخل حاصل کرنے کیلئے علیحدہ دعوئی نہیں ہو سکتا.آرڈر نمبر ٢ قاعدہ نمبر ضابطہ دیوانی عارض ہے.یہ عذر قبول ہو کر دعوی خارج ہوا.سردار صاحب نے ڈسٹرکٹ جج کی عدالت میں اپیل دائر کی.عدالت ابتدائی کا فیصلہ بحال رہا اور اپیل خارج ہوئی کہ مدعی نے چیف کورٹ میں اپیل کی.اس دوران میں میں لا ہور جاچکا تھا.مستری غلام حسین صاحب لاہور تشریف لائے اور اپنی اور اپنے بھائیوں کی طرف سے مجھے وکیل کیا.میں نے انہیں مشورہ دیا کہ اس مرحلے پہر معاملے کی نزاکت کے پیش نظر ہمیں ایک قابل سنیئر ایڈوکیٹ اپنی طرف سے کھڑا کرنا چاہیئے.انہوں نے فرمایا میری طرف سے تمہیں پورا اختیار ہے جیسے تم چاہو کرو.میں میاں سر فضل حسین صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے درخواست کی کہ وہ مسئول علیہم کی طرف سے سیر وکیل ہوں.انہوں نے فرمایا معاملہ دلچسپ ہے اور مسول علیہم کا موقف معقول معلوم ہوتا ہے.تم خود ہی کیوں پیش نہیں ہو جاتے.میں نے عرض کیا مسئول علیہم میرے سابق محلہ والہ ہیں اور مجھے اس معاملے میں گویا ذاتی دلچسپی ہے.میں چاہتا ہوں کہ اس مرحلے پر ہر مناسب احتیاط کمر لی جائے.انہوں نے پیروی کرنا قبول فرما لیا.اور میں نے دوسرے دن ایک مفصل ٹائپ شدہ مقدمہ کا بیرلیف ان کی خدمت میں پیش کر دیا جس کے بعد انہیں کسی مزید تیار ہی کی زحمت اٹھانا نہ پڑی.اپیل کی سماعت مسٹر جسٹس مارٹینو کے اجلاس میں ہوئی.اپیلانٹ کے وکیل کی بحث سننے کے بعد حج نے اپیل خارج کر دی.ہماری طرف سے بحث کی نوبت نہ آئی.منتری غلام حسین صاحب طبعاً بہت خوش تھے.لیکن میرے لئے اس قبیٹے کا یوں طے پانا کئی وجوہ سے بہت اطمینان کا موجب تھا.
1LA ایک تو مجھے شیخ عبدالرحیم صاحب کی حرکت ناپسند تھی کہ انہوں نے اپنے والد صاحب کے دوستانہ تعات کا ہومتری صاحبان کے ساتھ تھے پاس نہ کیا اور محض اپنے اصراف کی خاطر دو کانات سیدانہ تارا سنگھ کے حوالے کر دیں.سردانہ تارا سنگھ نے حق مرتہنی صرف اس نیت سے خرید کیا تھا کہ مستری صاحبان کو دق کر کے ان سے کوئی بڑی لہر تم وصول کریں.مستری صاحبان اس مشکل میں تھے کہ اگر دو کانہیں ان کے ہاتھ سے نکل جاتیں تو ان کے رہائشی مکان کا صحن غائب ہو جانا اور اس سے متعلق تمام سہولت اور آپ کش ختم ہو جاتی.اگر مردانہ تارا سنگھ دوکانوں کو گرا کر دو منزلہ یا سہ منزلہ عمارت ان کی جگہ کھڑا کر دیتے تو متری صاحبان کا رہائشی مکان قابل به مائش نہ رہتا.مستری صاحبان بے بس تھے.اس مشکل سے رہائی کی ان کے لئے قانونی صورت کوئی نہیں تھی.سردانہ تارا سنگھ نے انہیں وق کرنے کے لئے جو راستہ اختیار کیا اسی سے اللہ تعالٰی نے مستری صاحبان کی مخلصی کا راستہ نکال دیا.سرد از تارا سنگھ جب اجرائے ڈگری میں دوکانوں کا دخل لے سکے تو انہیں کسی مزید قانونی کاروائی کی ضرورت نہیں تھی اگر وہ دوکانوں کے اوپر عمارت بنانے کے لئے نقشہ تیارہ کر دراتے اور بلدیہ سے اجازت طلب کرتے تو مستری صاحبان کو درد کانوں کی چھت پر حق آپ کش ثابت کرنے کیلئے عدالت کی طرف رجوع کرنا پڑتا اور ان کے لئے یہ مرحلہ بہت دشوار ثابت ہوتا.لیکن سردانہ صاحب نے منتری صاحبان کو دق کرنے کی نیت سے ابتدائے ڈگری کی کاروائی کو دوبارہ حجامہ کی کرنے کی کوشش کی اور اپنے رستے میں تقود مشکلات پیدا کر لیں.چیف کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں سردا نہ تارا سنگھ صاحب کی ناواجب کاروائیوں کا سد باب ہو گیا اور آخر انہوں نے جو قیمت شیخ عبد الرحیم صاحب کو ادا کی تھی مستری صاحبان سے وصول کر کے دوکانیں ان کے نام منتقل کر دیں.جس دن چیف کورٹ میں اپیل کی سماعت ہوئی والدہ صاحب بھی اتفاق سے لاہور میں تشریف فرما تھے.عدالت سے واپسی پر جناب مستری غلام حسین صاحب نے چاہا کہ شام کے کھانے کی دعوت ان کی طرف سے قبول کی بجائے.وہ میرے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے اور مہمان کی طرف سے میزبان اور اس کے دیگر مہمانوں کی دعوت مجھے کچھ تکلف محسوس ہوا اور میں نے انہیں ٹال دیا.پھر انہوں نے ہم سب کو سینما دیکھنے کی دعوت دی.ہمارے مکان کے قریب ہی ایک بہت بڑی تھیٹر کی عمارت تھی جس میں سینما کی تصویر میں دکھائی جاتی تھیں.احمد یہ جماعت کو سینما دیکھنے کی ابھی مانعت نہیں ہوئی تھی.لیکن والد صاحب نے فرمایا مجھے سنیا کے ساتھ کوئی رغبت نہیں.مستری صاحب کی دونوں " نجا دینیہ پر عمل نہ ہو سکا.والد صاحب نے فرمایا بجائے سینما دیکھنے کے شاہی مسجد کے جنوبی طرف والے
149 میدان میں نمازہ مغرب ادا کریں.کچھ سیر بھی ہو جائے گی اور درستری صاحب کے مقدمے میں کامیابی پر اللہ تعالٰی کے شکر کا موقعہ بھی میسر آجائے گا.والد صاحب کی اس تجونیہ کی تہ میں شاید یہ خواہش بھی ہو کہ اس موقعہ پر ہم سب اس مقام کے قریب نمانہ ادا کریں جہاں انہوں نے لاہور میں اپنی طالب علمی کے زمانے کا اکثر حصہ اس حالت میں گذارا تھا کہ کسی ایک وقت بھی سیر ہو کر کھانا نہ کھایا.اس زمانے میں والد صاحب کی رہائش اور منٹل کالج کے ہوسٹل میں ہوا کہتی تھی جو حضوری باغ کے گری کے حجروں میں تھا.ان حجروں کے جھرو کے اس میدان کی طرف کھلتے تھے جس میں والد صامو نے خانہ مغرب ادا کرنا تجویز کیا.چنانچہ مستری غلام حسین صاحب، سید النعام اللہ شاہ صاحب ، سید افضل علی صاحب ، پچودھری بشیر احمد صاحب اور میںنے والد صاحب کی اقتداء میں نماز مغرب اس مقام پر ادا کی جہاں ان کی خواہش تھی.نانہ ختم ہونے پر ہم نے دیکھا کہ لمبی کی طرف آگ کے شعلے اٹھ ر ہے ہیں.ہم جلد اپنی قیام گاہ کی طرف لوٹے اور قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ سینما کی عمارت تمام کی تمام آگ کی لپیٹ میں ہے.اس وقت تک آگ کے شعلے اسقدر بلند ہو رہے تھے کہ اردگرد کی تمام عمارہ ہیں روشن ہو رہی تھیں اور حرارت استفار تھی کہ سو سو گز تک برداشت نہ ہو سکتی تھی.جب عمارت میں آگ شروع ہوئی.سینما بھاری تھا اور عمارت تماش بینوں سے بھری ہوئی تھی.تماش بینوں کو بڑی سرائیکی اور ہر اس کی حالت میں بھاگنا پڑا.آگ کے شعلوی کی روشنی ہمارے مکان تک آتی تھی.نصف شب کے بعد کہیں جاکہ آگ کے شعلے دیے ہوئے اور آگ قابو میں آئی.دوسرے دن دیکھا کہ عمارت کی شدت 1919 سے مسمار شدہ اعمارت کے بھاری آہنی گالہ ڈر بک کر نیچے گر چکے تھے.مارچ ء میں میری طبیعت میں بڑے زور سے خیال پیدا ہوا کہ گرمیوں کے موسم میں اگر راہش زور سے خیال کہ کے موسم کا انتظام شہر سے باہر کسی کھلی جگہ ہو جائے تو نسبتاً آرام دہ ہو گا.انہیں دنوں اخبارہ میں ایک اشتہا دیکھا کہ ڈیوس روڈ پر ایک نبنگلہ کچھ مہینے کے لئے بارعایت کرائے پر مل سکتا ہے.اس کے کرا یہ جہانہ ایک رئیس زادے تھے جو چیفینس کالج میں تعلیم حاصل کر رہے تھے ان کے چھوٹے بھائی بھی رہیں تو م پاتے تھے اور ان کے ساتھ ہی بنگلے میں رہتے تھے.اب دونوں بھائی چیفس کالج سے تعلیم ختم کر کے پانے والے تھے.بنگلے کے کرایہ داری کی میعاد میں ابھی کچھ ماہ باقی تھے اس عرصے کے لئے وہ نکلے کو کرایہ پر دینے کے خواہشمند تھے اور واجبی کرا یہ لینے پر رضامند تھے.سید افضل علی صاحب نے جب پالیسی کمیٹی میں کام شروع کیا تو انہوں نے اپنی رہائش کا علیحدہ انتظام کر لیا تھا.میں نے انہیں تحریک کی کہ درہ میرے ساتھ شامل ہو جائیں.انہیں کچھ تامل تھا لیکن رضامند ہو گئے.ڈیوس روڈ سے ہمارے
{A.افضل دفاتر دور تھے اسلئے سواری کا انتظام ضروری تھا.ہم نے ایک پرانی ملکی گاڑی خریدی.سیدان علی صاحب کے ماموں سید فیض العسکری صاحب اس وقت فیروز پورہ میں تحصیلدار تھے انہوں نے مہربانی سے ایک عمدہ گھوڑا بھیج دیا اور ہماری سواری کا انتظام ہو گیا.یکم اپریل سے ہم ۲۶ ڈیوس روڈ میں منتقل ہو گئے.یہ بنگلہ سٹرک سے بہٹ کر کچھ نا صلے پر تھا اور اس کے گرد فراغ قطعہ بطور با نیچے وغیرہ کے تھا...حکومت کے خلاف سیاسی | 4 اپریل کو لاہور میں اور پنجاب کے بعض دیگر شہروں میں مظاہرے اور مارشل لا کا نفاذ حکومت کے خلاف سیاسی مظاہرے ہوئے جلوس نکلے اور بعض مقامات پر پولیس کے ساتھ تصادم بھی ہوا.لاہورہ میں طلباء کا ایک جلوس انار کلی اور نیلے گنبد سے گذر کر ٹھنڈی سڑک پر پہنچانار کلی بازار میں جلوس کا جھنڈ ایشیخ اعجاز احمد صاحب بلند کئے ہوئے تھے.ٹھنڈی سڑک پر پہنچنے سے پہلے جھنڈا ان سے مراے ایم جان نے لے لیا.ٹھنڈی سڑک پر پولیس نے مبلوس کو رد کرنا چاہا.اس پہ تکرار ہوگیا اور پولیس نے گولی چلائی ایک گولی مسٹر اے ایم جان کو گھٹنے کے نیچے لگی.جلوس منتشر ہو گیا لیکن عوام میں جوش اور بہیجان کم ہونے کی بجائے بڑھتا گیا.جب دوسرے شہروں سے بھی ایسی خبریں آنا شروع ہوئیں تو جوش اور بھی بڑھ گیا.پبلک جلسے اور سیلوس چاروں طرف شروع ہو گئے.جب پنجاب کے بہت سے شہروں میں امن عامہ کی حالت مخدوش ویگن اونا یا ان کی کایا جنرل ڈائر کے وحشیانہ احکام جنہوں نے ۱۳ اپریل کو خاکار کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی ہندوستان میں برطانوی حکومت کی بنیاد کھوکھلی کردی کارت د موصول ہوا کہ چند گھنٹوں کے لئے مشورے کے لئے قادیان حاضر ہوں.والد صاحب اور والدہ صاحبہ ان دنوں خاک ار کے پاس تشریف فرما تھے.میں سمار کی صبح کی گاڑی قادیان گیا اور عرض کرتا گیا کہ رات کی گاڑی سے انشای اللہ واپس آٹھاؤں گا.اسی دن امرتسر میں بجلیانوالہ باغ کا تو میں واقعہ ہو گیا.لاہور میں بھی مارشل لاء کا نفاذ ہو گیا.بہت سی پابندیاں نقل و حرکت پر عاید کی گئیں.کرفیو کا عمل جاری ہو گیا ، شہر کے اندلہ نہ زندگی دوبھر ہو گئی سول سٹیشن میں چونکہ بہت سے یورہ مین اور اینگلو انڈین بھی رہتے تھے اسلئے وہاں بہت کم پابندیاں عاید کی گئیں.ایک شہر سے دوسرے شہر تک جانے پہ کٹڑی پابندی عاید کی گئی.ہر بات کے لئے مارشل لاء کے افسروں سے پاس حاصل کرنا ضروری ہو گیا.امرت ہمیں تو جلیانوالہ باغ کے حادثے کے علاوہ بہت سے اور مظالم روا رکھے گئے جن کی غرض عقوبت کے علاوہ تذلیل بھی تھی.ان میں سے ایک رینگنے کا حکم بھی تھا.وہاں کے فساد میں ایک اینگلو انڈین خاتون بیگناہ قتل ہوئی تھی.بیشک یہ ایک وحشیانہ فعل تھا اور
..قانون کے ماتحت موجب تعزیہ تھا.لیکن علاوہ مجرموں کی تعزیہ کے جنرل ڈائر نے حکم دیا کہ جس بازار میں یہ جرم ہوا تھا وہاں سے جو ہندوستانی گذرے وہ ہاتھ پاؤں پہ ر سینگتا ہوا گزرے.یہ حکم اس بازار کے رہنے والوں پر بھی عادی تھا جو اپنے مکانوں سے نکلتے وقت اور واپس آتے وقت اس حکم کی پابندی پر مجبورہ تھے اور اس ذلت اور رسوائی کو برداشت کرنے کے بغیر انہیں کوئی چارہ نہیں تھا.برطانوی استبداد سے ہندوستان کو آنها دی تو ۲۸ سال بعد حاصل ہوئی لیکن اس میں شک نہیں کہ ر کے مارشل لاء اور خصوصاً جنرل ڈائمہ کی وحشیانہ کاروائیوں نے ہندوستان سے بر طانوی راج کی صف لپیٹ دی.مارشل لا کے دوران جو نہایت ذلت آمیز امتیانہ گورے اور کالے کے درمیان کیا گیا وہ ہندوستانی دلوں پر ایک نہ مٹنے والا نقش چھوڑ گیا.بیشک سنٹر کمشن نے اپنی رپورٹ اور سفارشتوں سے ہندوستانیوں کے نہ خمی اورہ آریہ درہ دلوں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی لیکن بے سود.اب ہندوستانی برطانیہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم رکھنے اور نباہنے کے لئے تیار تو تھے لیکن آزادی اور مساوات کی سطح پہ نہ کہ غلامی در محکومیت کی بناء پر.میں سما را پریل کو قادیان حاضر ہوا.اور اسی شام شالہ واپس آگیا لیکن اسٹیشن پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ بالہ اور امرتسر کے درمیان ریلوے لائن توڑ دی گئی ہے.اور ریل گاڑی کا سلسلہ آمد و رفت بند ہو گیا ہے.میں اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر حیران کھڑا تھا کہ حسن اتفاق سے مکر می شیخ فضل الحق صاحب تشریف لے آئے اور کیفیت معلوم کر کے ریلوے کے ایک افسر سے ملے اور دریافت کیا کہ مجھے امرتسہ پہنچانے کی کوئی صورت ہو سکتی ہے یا نہیں.انہوں نے فرمایا اگر رات کے دوران میں انہیں فوری طور پر کہیں جانا نہ پڑ گیا تو صبح ہوتے ہی وہ ٹرالی پہ امرتسر جائیں گے اور مجھے ساتھ لیتے جائیں گے.مجھے فجر کے وقت اسٹیشن پر پہنچ جانے کو کہا.شیخ صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ اندریں حالات آپ میرے مکان پر ملیں اور وہیں قیام کریں قبیح جو صورت ہوگی اس کے مطابق عمل کیا جائے گا.پیشیخ صاحب کے دولت کدے پر میں نے بہت آرام سے رات بسر کی.فجر کی نمازہ کے وقت انہوں نے فرمایا کہ آدھی رات کے قریب ان ریلوے افسر صاحب کا پیغام آیا تھا کہ انہیں فوری طور پر روانہ ہونا پڑا ہے اسلئے افسوس کرتے ہیں کہ آپ کو ساتھ نہیں لے جا سکے.اب آپ آرام سے تیار ہوں.ناشتے کے بعد ا اسٹیشن پر جاکر صورت حال معلوم کریں گے.اسٹیشن پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ ریل گاڑی تو ابھی تک بند ہے لیکن مسافر کم کم پر مرتہ جارہے ہیں.میں بھی ایک تم پر سوار ہو گیا.ہم صبح 9 بجے کے قریب بٹالہ سے روانہ ہوئے ۱۲ بجے دوپہر کے لگ بھگ ویہ کا سے گزرے.امرتہ کی جانب سے لوگ کثیر تعداد میں پیدل اور ہر قسم کی سواری پر تیراکی --
(AF کی حالت میں آرہے تھے.عورتیں ، مرد ، بچے ، بوڑھے خالی ہاتھ اور گھر یلو سامان اٹھائے عجیب پریشانی کی کیفیت میں پہلے آتے تھے.یوں معلوم ہوتا تھا کہ امرت میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ہے.اور لوگ شہر چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں.ایک صاحب نے جو تم کم کیپر آکر ہے تھے مجھے پہچان لیا اور بڑی ہمدردی سے نہایت الحاج کے ساتھ کہا.برائے ندا آگے مت جاؤ امرتسر میں کل فوج نے بڑی بے رحمی سے گولی چلا کر لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے اور اب شہریوں پر ہر قسم کا ظلم توڑا جارہا ہے.ذرا ذرا سی بات پر کوڑے لگتے ہیں اور دھڑا دھر گرفتاریاں ہو رہی ہیں.میں نے کہا مجھے بہر صورت لاہور پہنچنا ہے اور امرتسر سے گزرنے کے بغیر چارہ نہیں.میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور سفر جاری رکھا.امرتسر پہنچے کمر ہم سیدھے ریلوے اسٹیشن پر گئے شہر کے اندر جانے پر پابندی تھی اور ہمیں نشہر کے اندر داخل ہوتے کی ضرورت بھی نہیں تھی.اسٹیشن پر معلوم ہوا کہ لاہور کوئی گاڑی نہیں بارہ ہی کیونکہ امرتسر اور لاہور کے درمیان بھی سہیل کی لائن توڑ دی گئی ہے.یہاں سے بھی مسافر نم ہم پر لاہور جارہے تھے میں بھی ایک ٹم ٹم پر سوارہ ہو گیا اور سواریوں کی تعداد پوری ہونے پر ہم روانہ ہو گئے.رستے میں ایک مقام پر کھورے کو سستانے کے لئے چند منٹ بھرے پینے کے لئے پانی میسر آگیا.وہی بعد شکر پی لیا.صبح ناشتے کے بعد یہی چند گھونٹ معلق سے اترے تھے.پانچ بجے شالامامہ پہنچے یہاں پولیس نے روک دیا کہ لاہور میں مارشل لاء نافذ ہو چکا ہے اور باہر سے آنے والوں کو شہر میں داخلے کی اجازت نہیں.میں نے کہا کہ میری لہ تائش لاہورہ میں ہے میں باہر سے آنے والا نہیں.پولیس افسر نے کہا ئم تم کو تو آگے جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی تم چاہو تو پیدل پہلے جاؤ لیکن کچھ بجے سے کرفیو کا عمل شروع ہو جائے گا اور یہ جو شخص اپنے گھر سے باہر پایا جائے گا اسے کوڑے لگیں گے.میرے ساتھ کوئی نہ زیادہ سامان تو تھا نہیں فقط ایک ہلکا سا بیگ تھا.اور ہاتھ میں چھڑی تھی.اس وقت مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ سول اسٹیشن کرفیو کی حدود سے باہر ہے.یہ سہولت ضرور تھی کہ شالامارہ سے آتے ہوئے ۲۶ ڈیوس روڈ ریلوے پل سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا پھر بھی یہ پریشانی تھی کہ تین چار میل کا فاصلہ بہت جلد طے کرنا لازم ہے.میں با غبان پورہ سے کچھ آگے نکلا تھا کہ ایک صاحب نے جوشہر کی جانب سے اپنے تانگے کو بہت تیز چلاتے ہوئے آرہے تھے مجھے بلند آواز سے ٹھہر ٹھہر کہ کہ دو کا اور اپنے تانگے کوبھی روکا.میں نے خیال کیا شاید مری حالت سے متاثر ہو کہ مجھے تانگے پیر مٹھا کہ اپنے ہاں باغبانپورسے لے جانا چاہتے ہیں کہ رات ہمارے ہاں سبر کر لو صحیح لا ہو ر پہلے جانا لیکن انہوں نے بد حواسی میں فقط اتنا کہا تم پاگل ہوئے ہو اس وقت کہاں جار ہے ہو ؟ آگے مت جاؤ.لاہور میں تو بڑی سختی ہو رہی ہے.یہیں کہیں ٹھکانا تلاش کرو.نہیں نے ان سے
تو کچھ نہ کہا آگے چلدیا.لیکن دل میں حیران ہوا کہ ان کی نیت تو ہمدردی کی تھی لیکن عملاً میرے نہایت قیمتی پانچ منٹ ضائع کئے.جب میں ریلوے کے پل پر پہنچا توپ کی پڑھائی متیزی سے چڑھنے کی کوشش میں میرا پسینہ بہنا شروع ہو گیا یہاں تک کہ میرے سر سے پینے کے قطرے بارش کی طرح گرنے لگے.پل گذر کر مجھے کچھ حوصلہ ہوا که غروب آفتاب میں ابھی کچھ وقفہ ہے اور میں اب مکان کے قریب پہنچ رہا ہوں.فوج یا پولیس کا پہرہ کہیں دکھائی نہیں دیتا تھا.گڑھی شاہو سے گزر کر میں چودھری شہاب الدین صاحب کی رہائش گاہ اگمتانہ کے عقب میں کھیتوں میں سے ہو لیا اور اپنے مکان پر پہنچ گیا.عین اس وقت والد صاحب نے مغرب کی نمانہ کی امامت شروع کی تھی.جلد نوکر کے میں نمازہ میں شامل ہو گیا اور اللہ تعالیٰ کی حمد کی.والدہ بہت پریشان ہو رہی تھیں.میرے خیریت سے پہنچنے سے انہیں بہت اطمینان ہوا.مارشل لا کے ہندوستانیوں کی مارشل لا کے ماتحت ایک حکم یہ بھاری ہوا کہ سب ہندوستانی تذلیل کرنے والے احکام اپنی موٹریں اوریہ گالیاں مارشل لا کے محکمے کے سپرد کردیں بھی ایک امتیازی حکم تھا.اور تمیز کی نباء افسر اور رعایا نہیں تھی.اگر محض حاکم اور محکوم میں تمیز کی جاتی تو اس علم میں پھر بھی سختی کا پہلو تو قائم کر متالیکن تذلیل اور تحقیر کا پہلو اتنا نمایاں نہ ہوتا.یہ حکم بھی صرف ہندوستانیوں پر عادی تھا.یوسین اور اینگلو انڈین اس سے مستثنیٰ تھے.مثلاً ایک ہندوستانی ڈپٹی کمشنر یا کشت و مجبور تھا کہ پنی موٹر یا اپنی گاڑی حوالہ کر دے، اور کرائے کے تانگے پر دفتر جائے ملکین اس کے دفتر کا اینگلو انڈین سپر نٹنٹ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر جہاں چاہتا سما سکتا تھا.سر شادی کا لال ہو ان دنوں چیف کورٹ کے بچے تھے اور بعد میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہوئے اپنی موٹر گاڑی میں بیٹھ کہ مارشل لا کے افسر علی کر نل جانسن کے دفتر میں گئے جو پنجاب کلب میں قائم کیا گیا تھا اور کرنل سائن سے کہا میں عدالت اعلیٰ کا جج ہوں اور مجھے اپنے فرائض کی ادائیگی کے لئے موٹر کی ضرورت ہے مجھے اس حکم سے متنی کیا جائے.کریل جانسن نے کہا مجھے کسی کی ضرورت سے غرض نہیں میرا مقصد امن کا قیام ہے.اس غرض کے حصول کے لئے پیش آمدہ حالات میں ضروری ہے کہ سب موٹر گاڑیاں اور گھوڑا گاڑیاں حوالہ کی جائیں.آپ اپنی گاڑی لے آئے ہیں اب اسے حوالہ کر دیں.سرشادی لال صاحب نے کہا بہت اچھا میں عدالت میں پہنچ کر گاڑی بھیج دوں گا.کرنل جانسن نے کہا گاڑی تواب نہیں رہتے گی آپ جیسے چاہیں عدالت پہلے جائیں.ہمارے پاس بھی ایک پہیوں پر حرکت کرنے والی سواری مفتی جو قانو نا گاڑی کی تعریف میں آتی تھی.ہم نے سائیں سے کہہ دیا اسے نے جاؤ اور سوائے کردو.اسے یہ گاڑہ میں شہر کے اندر واٹر ورکس کے تالاب
۱۸۴ کے قریب والی مارشل لاء کی چوکی پر حوالے کرنا تھی.ہمیں ہمارے دفاتر میں پہنچا کریں ٹیمیں گاڑی چوکی پیہ لے گیا.مارشل لاء افسر نے بڑھی تریشی کے لہجے میں پوچھا تم کیوں یہاں آئے ہو ؟ اس نے کہا محصورہ گاڑی حوالے کرنے آیا ہوں.پوچھا کہاں ہے گاڑی جو میں نے گاڑی کی طرف اشارہ کیا افسر نے گاڑی کی طرف دیکھا اور غصے سے کہا یہ گاڑی ہے ہے بھا گو اسے لیکر اس کی ہمیں ضرورت نہیں.ہمارا ہر یہ بھیری ہی سہی بڑی حقارت سے رد کر دیا گیا.اور تمہیں فضل اللہ یہ سہولت میسیسی بھی تھی مارشل لاء کے دوران میں بھی حاصل رہی.فالحمد للہ.اگر کاری ضبط ہو جاتی تو ڈیوس روڈ پر رہائش جاری رکھنا نہایت مشکل ہو جاتا گرمی کی شدت ہو رہی تھی اور کرائے کی سواری کا ملنا مشکل تھا.ڈیوس روڈ سے سید فضل علی صاحب کے دفتر بھی دو میل سے زائد فاصلے پر تھا اور میرا دفتر بازانہ بے محمد لطیف میں تو تین میں سے بھی زاید فاصلے پر تھا.اگر ر ہائش شہر کے اندر پہلے مکان میں پھر منتقل کی جاتی تو مارشل لاء کی پابندیوں کی وجہ سے وہاں زندگی دو بھر ہجر بھائی.ایک اور طریق سیاسی دباؤ گا اور قومی قیادت کو حکومت کی نظروں میں معتوب ظاہر کرنے کا یہ اختیار یا گیا کہ جن شخصیتوں کو حکومت مشتبہ شمار کرتی تھی انکے مکانوں کی دیواروں پر لکڑی کے تختے آویزاں کئے گئے جن پر مارشل لاء کے اعلانات اطلاع عام کیلئے چپکائے جاتے.ان تختوں اور اعلانوں کی حفات صاحب مکان کے ذمے ہوتی.اگر شرارت بھی کوئی شخص ان تختوں یا اعلانوں کو نقصان پہنچاتا تو صاحب مکان مستوجب تغذیہ گردانا جاتا.دن کے وقت تو بھلا صاحب مسکان بورڈ کے پاس کوئی پہرہ دار مقرر کر دیا لیکن رات کے اندھیرے میں اس فرض سے سرخروئی حاصل کرنا مشکل امر تھا.میاں فضل حسین صاحب کے بنگلے کے باہر بھی یہ بورڈ لگا ہوا تھا.انہوں نے تو یہ ترکیب کرلی کہ بورڈ اس طریقی سے آویزاں کیا جائے کہ جب بچائیں دونوں طرف کی رسیوں کو کھنچے کہ بورڈ کو زمین سے ۹ - ۱۰ فٹ کی بلندی تک اوپر کھینچ لیا جائے.دن بھر تو بورڈ اتنی بلندی پر لٹکا ر تبا ہ گذرنے والا اگر چاہے تو اعلانات کو آسانی سے پڑھ سکے اور غروب آفتاب کے بعد اسے بلند کر دیا جاتا.نقل و حرکت پر پابندی اتنی کڑی ہوگئی کہ بغیراشد ضرورت کے کوئی شخص سفر یہ آمادہ نہ ہوتا مجھے ایک ون کا جو سے ڈسکہ جانے کی ضرورت پیش آگئی، پاس حاصل کیا.گوجرانوالے تک بیل کا سفر تھا پھر شرک کا.اگر چہ گوجرانوالہ شہر میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں تھی لیکن سٹیشن سے آتے اور بجاتے سول سٹیشن سے گندہ نا اہم تھا اور وہاں پاس دکھانا اور اجازت حاصل کرنا ضروری تھا.واپسی پر میں مارشل لاء کے دفتر میں گیا.مارشل لاء انسیہ انگریز فوجی افسر تھا.بنگلے کے ہمہ آمدے کے پہلو میں اس کا دفتر تھا.چند مرد
۱۸۵ عورتیں اپنے پاس پر تصدیقی مہر حاصل کرنے کے منتظر تھے.مٹی کا مہینہ تھا، دوپہر کا وقت تھا، گرمی کی شدت تھی، باری آنے پر میں اندر گیا.فوجی افسر نے کوئی جیل حجت نہ کی تو کچھ مزدوری تھا خاموشی سے کر کے پاس واپس میرے حوالے کر دیا.اگر بچہ میں تمین سال انگلستان میں رہ چکا تھا.پھر بھی یہ امر میری طبیعت پر بہت شاق گذرا کہ وہ نوجوان افسر ہو نظاہر شریف طبع معلوم ہوتا تھا کہ سی پہ بالکل ننگا بیٹھا ہوا تھا.صرف کپڑے کا ایک ٹکڑا پانی میں بھیگا ہوانات کے نیچے رکھ لیا تھا.اسی حالت میں مرد بھی اس کے سامنے پیش ہو نے تھے اور مستورات بھی.مارشل لاء ٹر یونکہ میں لیڈران مارشل لاء کے قواعد کی خلاف وربه ندی پر تو فوری اگر سمری کاردائی کے خلاف سنگین مقدمات ہو کہ کوڑے یا مجرمانہ یا قید کی سزا دیدی جاتی تھی.لیکن ایشال کے جاری ہونے سے بین پہلے جو فسادات ہوئے تھے ان کے سلسلے میں مفروضہ جرائم کی سزا دہی کے لئے مارشل لاء ٹربیونلز قائم کئے گئے تھے.ٹریبونل میر کیا ہے جو میں رکھا گیا اس میں لالہ ہرکشن لال صاحب ، ڈاکٹر کو کل پند نامہ نگ صاحب اور چھ سات اور معززین زمرہ ملزمان میں شامل تھے.ان میں دو مسلمان ملزمان سردار حبیب اللہ خاں صاحب اور سید محسن شاہ صاحب بھی تھے نہ ملنہ مان پیر علاوہ دیگی.التزامات کے ملک معظم کے خلاف جنگ کرنے اور جنگ پر اک نے کا الزام بھی تھا جس کی سزا موت بھی ہوسکتی تھی.ٹریبونل کے صدر مسٹر جسٹس غیز لی جونز تھے.ان کے ساتھ ایک انگریز سیشن ج مر مرسین اور ایک ہندوستانی نسب بیج شیخ دین محمد تھے.سب ملزمان زیر حراست تھے.ان مارشل لاء کی علالتوں میں سر کارہ کی طرف سے جو د کلاء پیروی کرتے تھے ان میں خان بہادر کہ شیخ عبد القادر.صاحب بھی تھے جو اُن دنوں لائل پور میں سرکاری وکیل تھے اور وہاں سے بلائے گئے تھے.سردار حبیب اللہ خان اور سید حسن شاہ | ٹریبیونل نمبرا کے اجلاس شروع ہونے کو تھے کہ صاحبان کی طرف سے مارشل لائم بیونل میں پیروی مسٹر محمد حسن صاحب نے مجھ سے ذکر کیا کہ مردانہ حبیب اللہ خان صاحب کی والدہ محترمہ بہت پریشان ہیں.عام طور پر وکلاء مارشل لاء کی عد النقوی میں ملزمان کی طرف سے پیروی کرنے سے خائف ہیں.انہوں نے سردار حبیب اللہ خانصاحب کی طرف سے مسٹر مورٹن کو وکیل کیا ہے.لیکن وہ ضعیف ہونے کے علاوہ اردو اچھی طرح نہیں سمجھتے اور انہیں ایک قابل جونیر کی ضرورت ہے.سردار صاحب کے بھائی مسٹر یو کہ امت میرے پاس آئے تھے.اور کہتے تھے ان کی والدہ محترمہ چاہتی ہیں کہ میں تم سے کہوں کہ تم مردانہ صاحب کی طرف سے مسٹر مورٹن کے ساتھ بطور جونیر کام کرو.میں نے کہا میں ہر طرح خدمت کے لئے تیار ہوں.
لیکن میں علاوہ جونیر مونے کے پر کیس کا زیادہ تجربہ نہیں رکھتا.وہ اچھی طرح سویت نہیں کہ کیا میری بجھائے کسی زیادہ تجربہ کار کھیل کا انتخاب بہتر نہ ہو گا.مسٹر محمد حسن نے کہا تم سپر انہیں اعتماد ہے اور ساتھ ہی یہ بھی وقت ہے کہ زیادہ تجربہ کار شرکاء میں سے کوئی پیروی کے لئے تیار بھی نہیں.سب ڈرتے ہیں کہ خود کسی پیسٹ میں نہ آجائیں.تم جو مناسب نہیں چاہو انہیں منظور ہوگی.میں نے کہا میں اپنے تعلقات کی وجہ سے فیس خود تجویزہ نہیں کرنا چاہتا جو وہ مناسب سمجھیں تجویز کر دیں مجھے عذر نہ ہوگا.مسٹر مارکس صاحب نے خود ہی بات چیت کر کے نفیس تجوید کی اورمیں نے بانامل ان کی تجویز منظور کرلی.عاله سرکشن لال صاحب لالہ ہرکشن لال صاحب سے میرا ذاتی تعارف نہ تھا.ٹریبیونل کی کا نہ والی کے دوران میں انہیں قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملتانہ یا جس کے نتیجے میں میرے دل میں ان کی بڑی عزت ++ قائم ہوگئی باقی ملزمان کے ساتھ وہ بھی عدالت میں لائے جاتے.خاموشی سے اپنی سیٹ پر بیٹھ جاتے جیب سے کتاب نکال کر بیٹھنا شروع کر دیتے.عدالت کی کاروائی کی طرف قطعاً متوجہ نہ ہوتے نہ کسی قسم کی دلچسپی کا اظہار کرتے.کاروائی ختم ہونے پہ باقی ملزمان کے ساتھ اٹھ کہ پہلے جاتے.ان کے چہرے پر کسی وقت بھی کوئی آثار پریشانی با ملال کے دیکھتے ہیں نہ آتے.جہاں تک آپ کا تعلق تھا ایسے معلوم ہوتا کہ علالت کی تمام کاروائی ایک کھیل ہے جس میں انہیں قطعا گوئی کو بچسپی نہیں اور وہ اسے تضیع اوقات خیال کرتے ہیں.ڈاکٹر کو کل چند نارنگ صاحب | ڈاکٹر کو کل چند نارنگ صاحب کو میں کسی قدر بجانتا تھا.قابل وکیل تھے.چیف کورٹ میں کسی حد تک ناموری حاصل کر چکے تھے.آریہ سماج کے ایک ممتاز رکن شمالہ کئے جاتے تھے.سیاست میں بھی دلچسپی لیتے تھے.لاہور کے فسادات میں ان کا ذکرہ اس رنگ میں آثار رہا تھا کہ ان ایام میں انہوں نے قیام امن میں سعی کی اور ایک دو مقامات پر شاید کسی پولیس افسر ہی کے گھوڑے پر سوار ہو کہ معلوس کو روکنے کی کوشش کی اور واپسی کا مشورہ دیا.لیکن وہ بھی ملزمان میں شامل تھے.عدالت کی کاروائی کے دوران میں طبعاً بہت دلچسپی لیتے رہے اور اپنی صفائی منفورد کرتے رہے.ان کی جائزہ کوشش میں تھی کہ استغاثے کی شہادت سے ہی یہ امت ثابت کمی در کھائیں کہ ایام زیر بحث میں ان کی تمام تریسی پولیس اور حکام کے ساتھ قیام امن میں تعاون اور تائید کی تھی اور ان کا دامن ہر فتنم کی با غباند ار میفراند سرگرمیوں کے دیتے سے پاک رہا.استغاثے اور عدالت کی تخریجہ زیادہ تنہ ان ملزمان کی طرف تھی جو باغیانہ سرگرمیوں کے سرغنہ گردانے گئے تھے.سردار حبیب اللہ خان صاحب اور سید محسن شاہ صاحب کا ذکر کسی جلسے میں شرکت یا تعمیر کرنے
" کے تعلق میں کبھی آ جانا تھا.مسٹر مورین کی رائے تھی اور مجھے اس سے اتفاق تھا کہ ہمیں بے تعلق سریع کر کے اپنے موکلان کو عدالت کے نوٹس میں نہیں لانا چاہئے.جہاں کسی امر کی وضاحت کے ان کے حق میں جانے کا انسان ہوتا مسٹر مورٹن یا میں ایک دو سوال کر کے وضاحت کروا دیتے بردار صاحب اور سید صاحب کو بھی کوئی خواہش ناموری محاصل کرنے کی نہ تھی.عدالت کی کاروائی کے متعلق شروع ہی میں اندازہ ہو گیا تھا کہ توقع سے زیادہ لمبی ہو جائے گی.پچار پانچ دن کے بعد مسٹر محمد حسن صاحب نے مجھ سے کہا کہ عدالت کی کاروائی لمبی ہو رہی ہے.کیا تم یہ کر سکتے ہو کہ سید محسن شاہ صاحب کی وکالت بھی اپنے ذمے لے لو.اس سے تمہارے کام اور تمہاری ذمہ داری میں کوئی زیادہ اضافہ نہیں ہو گا.اگر تم رضامند ہو جاؤ تو تمہاری موجودہ روزانہ نہیں سردانہ صاحب اور سید صاحب مل کر ادا کر دیا کریں.اس طرح سردانہ صاحب کا بو سمجھ ہلکا ہو جائے گا.میں نے ان کی تجویز کو خوشی سے قبول کر لیا.عدالت کی کاروائی اندازہ النصف تک پہنچی ہوگی کہ مسٹر محمد حسن صاحب نے پھر نمونیہ کی کہ اب بقیہ عرصہ کیلئے تم نصف نہیں پر کام کرنا منظور کر لو میں نے یہ ترمیم بھی بلا تامل قبول کر لی خصوصاً اس لئے بھی کہ سید حسن شاہ صاحب پر مقدمہ کی کاروائی ناقابل برداشت بو مجھ ہو رہی تھی.علاوہ مقدمے کی پریشانی اور متعلقہ اخراجات کے ان کی پریکٹیس جو ان کا ذریعہ معاش تھی بالکل بند تھی.سردار صاحب کا انحصا پریکٹس پر نہیں تھا لیکن ان پر بھی اخراجات بار ہو رہے تھے.آخر عدالت کی کاروائی اختتام کو پہنچی اور ٹر یونینل نے اپنا فیصلہ سنایا.لالہ ہرکشن لال صاحب اور دیگر ممتاز ملزمان کو عمر قید اور ضبطئی جائداد کی سزادی گئی.ایک دور ملزمان کو دس دس سال قید با مشقت کی سزادی گئی.سردانہ صاحب اور سید صاحب یہی کئے گئے.ٹریبیونل کا فیصلہ دیر تک قائم نہ رہا اور باقی ملزمان بھی جلد رہا ہو گئے.اسی سال دسمبر میں کانگہ کہیں کا سالانہ اجلاس بڑی دھوم دھام سے امرنہ میں ہوا.برطانوی عملداری ہندوستان میں ۲۸ سال بعد جا کر ختم ہوئی لیکن اللہ کے واقعات نے ثابت کر دیا کہ اس کی کیفیت اب چراغ سحری کی ہے.ان واقعات کے دو سال کے اندر ہی آئینی اصلاحات کی پہلی قسط کا نفاذ ہوگیا اور میاں فضل حسین صاحب اور لالہ ہرکشن لال صاحب پنجاب کی صوبائی حکومت کے پہلے وزراء مقرر ہوئے.لاء کالج لاہور میں بطور لیکچرار تنقرر | شانہ کی گرمیوں میں میاں فضل حسین صاحب نے مجھے طلب فرایا اور کہاکہ لا کالج لاہور میں گرمیوں کی تعطیلات ے بعد دو لیکچراروں کی ضرورت ہوگی.ایک سلم کا انتخاب کیا جائے گا اور ایک غیرمسلم کا.تم درخواست دیدو.یونیورسٹی کی لاء کالج کمیٹی کے چیر مین سر جان مینارڈور نانش کمشنر ، بحیثیت وائس سپانسر تھے اور سیکریٹری میاں فضل حسین صاحب تھے.سر شادی لای صاحب اور کر تل سٹیفن پرنسپل گورنمنٹ کا بھی بھی کمیٹی کے مبر تھے.میاں صاحب نے دریافت فرمایا کیٹی کے میران میں سے نہیں کی
کی تائید کی توقع ہے ؟ میں نے کہا میں دو تین بار سر شادی لال صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں.وہ میرے تعلیمی ریکارڈ کی تعریف کرتے تھے ان سے ضرور کچھ تو قع ہو سکتی ہے.میاں صاحب مسکرائے اور فرمایا اچھا تو اب ان سے ملکہ انہیں بتا دیا کہ تم نے درخواست دی ہے.سرجیان مینا ر ڈ سے مل کر بھی فقط اتنا کہہ نیا کہ تم نے درخواست دی ہے.کریل سٹیفنسن سے کہ دنیا میں گورنمنٹ کالج کا طالب علم ہوں اور اگر کسی اور میڈی کا ریکارڈ میرے ریکارڈ سے بہتر نہ ہو تو میں امید کرتا ہوں آپ میری تائید کریں گے.چنانچہ میں نے میاں صاحب کے اشیاء کی تعمیل کردی.سرش دوی لال نے فرمایا تمہاری موزونیت کے متعلق تو کوئی شک ہی نہیں ہو سکتا تمہارا ریکارڈ انتہائی طور کا اچھا ہے.دو ہفتے بعد میاں صاحب نے مجھے پھر طلب فرمایا اور کہا گو میاں تمہا ہے تقریر کا تو فیصلہ ہو گیا ہے.صرف شادی لال نے تمہارے تقریر کی مخالفت کی تھی.کمیٹی کا اجلان شروع ہوتے ہی سرجان مینا ر ڈ نے مجھ سے پو چھا کہ درخواست کنندگان میں کوئی نمایاں طور پر منانہ بھی ہے؟ میں نے تمہارا نام لیا.اس پر سرحان نے کہا تو کیا اس پر کمیٹی کا اتفاق سمجھ لیا جائے ؟ شادری لال نے کہا اس کا تعلیمی ریکار ڈ تو اچھا ہے لیکن ابھی تجربہ نہیں.میں نے کہا پانچ سال کی پر کیسی ہے میرے ساتھ بھی اس نے کام کیا ہے.میری رائے اس کی نسبت بہت اچھی ہے.پانچ سال ہوئے لندن یونیورسٹی کے ایل ایل بیا کے امتحان میں آئنہ نہ میں یو نیورسٹی بھر میں اول رہا.میری رائے میں کالج میں کام کرنے کے لحاظ سے یونیورسٹی کا نانہ تجربہ ہونا اس کے لئے مفید اور محمد ہو گا.کرنل سٹیفنسن نے کہا اگر میاں صاحب اسے ذاتی طور پر جانتے ہیں اور ان کی رائے میں یہ بہترین امیدوارہ ہے تو تامل کی کوئی وجہ نہیں، کمیٹی نے اس پر اتفاق رائے کا اظہارہ کیا اور معاملہ طے ہو گیا.شادی لال نے اس خیال سے کہ دوسری اسامی کے متعلق معلدی رائے ظاہر کر دیتے پر کمیٹی ان سے اتفاق کرے گی فوراً کہا دوسری اسامی کے متعلق میں کہنا چاہتا ہوں کہ اگر کمرشل لاء پر لکچر دینے کے لئے ایک قابل تجربہ کار قانون دان کی ضرورت ہو تو لالہ ہر گوپال بہترین امیدوار ہے.میرے سامنے اسے بہت دفعہ پیش ہونے کا اتفاق ہوا ہے.میں نے اسے ہر لحاظ سے قابل پایا ہے.اس پر میں نے کہا میری رائے میں پایا پایا پر چونی لال اند نه یادہ موزوں ہو گا رہ بیرسٹر ہے اور لندن یونیورسٹی کا ایل ایل بجا ہے.لالہ ہر گوپال کو تعلیمی ماستول ترک کئے ہوئے عرصہ ہو گیا ہے اور اسی تعلیم بھی سب ملکی ہے.اسے باہر جانے کا اتفاق نہیں ہوا.لیکچر دینے میں قوت بیان کا بھی بہت دخل ہوتا ہے.لازم بات ہے کہ جو شخص تین سال انگلستان میں تعلیم یا تار ہا ہے اور اس نے وہاں کی اعلیٰ ڈگری حاصل کی ہے وہ اچھا لیکچر انہ ثابت ہوگا.میں تجزیہ کرتا ہوں کہ کمیٹی اس بات پر اتفاق کرے کہ میں ان دونوں امیدواروں سے کہدوں کہ وہ وائس چانسلہ کی خدمت میں حاضر ہو جائیں.دونوں میں سے جیسے دائیں چانسلہ موزوں ترخیال کریں اس کا تقرر ہو جائے.اس پر کیٹی نے اتفاق کر لیا.اب یہ یقینی بات ہے کہ وائس چانسلہ "
1*9 } [Z] دونوں کو ایک نظر دیکھ کر ہی آمنہ کے حق میں رائے قائم کریں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور مسٹر سی ایل آئندہ دوسرے لیکچرار مقرر ہوئے.بعد میں مسٹر چپٹر جی کے ریٹائر ہونے پر پورے وقت کے پروفیسر ہوئے اور کنور سین صاحب کے استعفیٰ دینے پر کالج کے پرنسپل ہوئے.ان ہر دو مواقع پر سر شادی لال صاحب نے مجھ سے فرمایا اگر تم چاہو تو تمہا.تقرر ہو سکتا ہے.میں نے عرض کیا مجھے خواہش نہیں.پرنسپل کی جگہ خالی ہونے پر مجھ سے مشورہ کیا کہ میں ایک قابل آدمی در کار ہے تمہاری رائے میں کیا کرنا چاہیے.میں نے کہا ایک تو آپ تنخواہ میں اضافہ کریں موجودہ.۱۰۰۰ پر قابل آدمی ملنا مشکل ہے.انہوں نے پوچھا تمہاری رائے میں کیا تنخواہ ہونی چاہیے.میں نے کہا میری رائے میں کم از کم ۱۰۰۰.۱۲۵۰ ہونی چاہیے.کہا اگر تنخواہ اس کے مطابق ہو جائے تو تم کام کرنے کے لئے.- - 1.14 107110 تیار ہو گے.میں نے شکر یہ ادا کر تے ہوئے کہا کہ اول تو میں اپنے آپ کو اس کام کے لئے موزوں خیال نہیں کرتا اور.دوسرے میں اپنی پریکٹس جیسی بھی ہے چھوڑنا نہیں چاہتا.میں نے تو لیکچرادری سے بھی استعفیٰ دیدیا ہے کیونکہ میرے پاس اب وقت نہیں.میری رائے میں مسٹر سی ایل آنند قابل بھی ہیں اور موزوں بھی ہیں.ان کا تقریرہ ہو جائے تو خوب ہو گا.اکتو بر شاہ میں ڈیوس روڈ والی کو بھی کے کرائے ک میعاد ختم ہوگئی اور میں بانانہ ام محمد لطیف والے مکان میں واپس آگیا.سید افضل علی صاحت بنے گئی بانہار کے قریب ایک مکان کرائے پر لے لیا تو سو ملی نواب محبوب سبحانی کے نام سے مشہور تھا.جب تک میں ڈیوس روڈ پر رہ با چودھری شہاب الدین صاحب نے بازار مچ محمد لطیف والامتنان شیخ دین محمد صاحب مبر مائیکل لاء سٹر یونی کو رہائش کے لئے دیدیا تھا.میری واپسی تک ٹربیونل کا کام ختم ہوکر مکان پھر خالی ہو چکا تھا.یہ اللہ تعالے کا خاص میم تھا کہ اپنی اپنے فضل سے سید افضل علی صاحب اور خاک راپنے رویے ہیں اور عاجز بندوں کو اور ان کے متعلقین کو مارشل لاء سے متعلق پریشانیوں سے محفوظ رکھا.فالحمد للہ.لاء کالج میں ضابطہ فوجداری اور رومن لاء کا پڑھانا میرے سپرد ہوا.ان دو مضامین کا آپس میں کوئی سجھوٹے نہیں تھا.لیکن پرانے پر وفیسروں اور لیکچراروں نے جو مضامین اپنے لئے چین رکھے تھے ان سے توجہ کچھ بچا دہ مسٹر آنند کے اور میرے درمیان تقسیم کر دیا گیا.ضابطہ فوجداری لیکچرار اور طلباء دونوں کے لئے آسان مضمون تھا رومن لا طلباء کے لئے ایک بالکل نیا مضمون تھا جس سے وہ بالکل ناآشنا تھے.اس کے پڑھانے میں مجھے لندن یونیورسٹی کے پروفیسر میور سین صاحب کے طریق اور ان کے لیکچروں سے تیار کردہ خلاصے سے جو میرے پاس محفوظ تھا بہت مدد علی اور میں بہت سی نہ حمت سے بچ گیا.جو پانچ سال (۲۴- ۱۹۱۹ء) میں لاء کالج میں لیکچرار رہا یہی دونوں مضامین میرے سپر د ر ہے.
19.شیخ اعجاز احمد شیخ اعجاز احمد صاحب فرزند اکبر شیخ عطاء محمد صاحب جو علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے برادر اکبر تھے اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے پاس کرنے کے بعد لاء کالج میں میں داخل ہوئے.مجھے شیخ عطاء محمد صاحب سے نیا نہ حاصل تھا.علامہ ممدوح کا تو میں شاگرد بھی نتھا اور اب ان کا جو تیر کم میشہ بھی تھا.لیکن شیخ اعجانہ احمد صاحب سے اس وقت تک دور کی صعاب سلامت تھی.پچودھری بشیر احمد صاحب کے ان سے گہرے دوستانہ مراسم تھے.شیخ اعجانہ احمد صاحب جب ایل ایل بی کلاس میں تھے تو انہوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ مضامین کی تیاری میں کبھی مدد کی ضرورت ہوتی ہے اور اسکی کوئی صورت نہیں.اگر آپ کچھ وقت دے سکیں تو میں آپ کے پاس آکر مشکل مقامات حل کر لیا کروں.میں نے کہا کہ کوئی خاص وقت مقرہ کہنا تو مشکل ہے آپ اپنی رہائش ہی میرے ہاں منتقل کر لیں.جب بھی وقت میسر آجایا کرے گا میں آپ کی مدد کر دیا کروں گا.چنانچہ ان کی رہائش کا انتظام دفتر کی عمارت کی غیری منزل میں کر دیا گیا جہاں ایک آرام دہ کرہ میر تھا.مسٹرالی کو ستھ | چودھری شہاب الدین صاحب نے ایک روزہ مجھے بلایا.ایک انٹیگلو انڈین صاحب ان کے پاس تشریف فرما تھے.چودھری صاحب نے ان کا تعارف کرایا اور فرمایا انہیں اپنے ساتھ کام میں شامل کر لو اور مناسب آنہ مائش کے بعد مجھے بتانا کیسے کام کرتے ہیں اور کیا ان کے تعاون سے تمہارا بو جھ کچھ لکا ہو سکتا ہے.ان صاحب کا نام مسٹر ایکو سجھ تھا.چیف کورٹ سے ڈپٹی رجسٹرار کے عہدے سے ریٹا ئیہ ہوئے.ریٹائر ہو نے پر جج صاحبان نے ان کے حسن خدمت کے صلے میں انہیں بچہ کیس کی اجازت مرحمت فرمائی چند سال پر کیس کی.قابل اور محنتی تھے.مزاج کے منکہ اور شریف طبیعت تھے میرے ساتھ کام کرنا شروع کیا تو خود ہی مجھے تنبیہ کی کہ میرے ہاتھ میں روپیہ نہ دنیا میں اس معاملے میں بہت کمزور ہوں.اس کمزور ی ہی کا نتیجہ تھا کہ عبائی تنظیم سالویشن آرمی کی شکایت پہ ان کا پر کمیٹی کرنے کا لائیسنس ضبط ہو گیا تھا.پمیشن پر گزارہ مشکل تھا.چودھری شہاب الدین صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے انہیں میرے سپرد کیا.ان کی بیوی فوت ہو چکی تھیں دو بیٹے تھے بڑا بیٹا صحت عامہ کے ڈائر کٹڑ کے دفتر میں بطور اسسٹنٹ کام کرتا تھا.چھوٹا ابھی سکول میں پڑھتا تھا.مسراب کو نیند پنجابی خوب جانتے تھے لیکن لفظ اور لہجے سے ظاہر ہو جاتا تھا کہ کچھ یو ر مین ملونی ہے.میں نے جو کام ان کے سپرد کیا انہوں نے بہت توجہ اور سرعت سے کیا اور مجھے اس میں اصلاح کی بہت کم ضرورت محسوس ہوئی.بہت جلد میں چودھری صاحب کی خدمت میں گزارش کرنے کے قابل ہو گیا کہ مسٹرائیکو مجھے بہت توجہ سے کام کرتے ہیں.ان کا کام نہایت مستلی بخش ہے.وقت کے بہت پابند ہیں.محنت سے کام کرنے کے عادی معلوم ہوتے ہیں.مجھے ان کے کام کے j
141 متعلق ہر طرح سے اطمینان ہے میری رپورٹ پر سٹرالی کو تیھ انڈین کیز کے عملے کے منتقل رکھی ہو گئے اور ایڈیٹری کے کام میں میرے منہایت قابل قدر معادن ثابت ہوئے.بہت جلد ہمارے تعلقات گہرے دوستانہ ہو گئے.میں ان کا نہایت ممنون تھا.اگر مجھے سے کسی قسم کی اعانت طلب کرتے تو مجھے دریغ نہ ہوتا.صرف ایک بار کسی ضرورت پر کچھ قرض طلب کیا.پھوٹی سی رقم تھی کا میں نے فوراً پیش کردی.انہوں نے کبھی دوبارہ ایسا مطالبہ نہ کیا اورمیں نے ان سے کبھی یہ رقم طلب نہ کی.مسٹر ایک بھر کی گفتگو بہت دلچسپ ہوتی تھی.وہ پنجاب کی تاریخ سے خوب واقف تھے اور چیف کورٹ کی تو چلتی پھر تی تاریخ تھے.ابھی میرے ساتھ کام کرتے تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا کہ انہوں نے زور دینا شروع کیا کہ تم پر کمیٹی کی طرف زیادہ توجیہ کرو تمہارا کام بہت جلد بڑھ جائے گا.لاہور میں قابل مسلمان کے لئے بہت گنجائش ہے.ہمار کی ملاقات اقوالہ کے سوائے ہر رونہ ہوتی تھی.اور ہر روز کسی نہ کسی تعلق میں وہ ضرور اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے.ادویہ مجھے ترغیب دیتے رہتے تھے.ایک دن کہا میں صبح عموما مسٹر جسٹس بارہ مینوں کے ہمراہ سیر کو جانتا ہوں.آج صبح سیر کے دوران میں پانی کورٹ بار کا ذکر آ گیا.بچ صاحب نے کہا سلمانوں میں اچھے وکلاء کی کمی ہے میں نے پوچھا نو جوانوں میں کوئی آگے بڑھنے والے ہیں.انہوں نے کہا ایک کے متعلق اندازہ ہو سکتا ہے کہ وہ جلد آگے آجائے گا اس کا طریق استدلال بہت موثر ہوتا ہے.میرے پوچھنے پہ کہ کیا مسر عزیز احمد سے بھی زیادہ کہ عزیز احمد کا تجر بہ بیک زیادہ ہے لیکن ظفر اللہ خاں کا طرنہ بیان عزیز احمد سے بہتر ہے.یہ سنا کر کہنے لگے دیکھو اب تو یہ بھی تمہارا ذکر کرنے لگے ہیں تمہیں چاہیئے پریکٹس کی طرف زیادہ توجہ کرد روسٹر عزیز احمد مجھ سے کسی سال سنیر تھے راولپنڈی میں کئی سال پر پکٹس کرنے کے بعد لاہور آگئے تھے.مسٹر جبس ما ریٹینو راولپنڈی میں سیشن بج رہ چکے تھے ان کے اور میسر عزیہ احمد کے درمیان گہرے دوستانہ مراسم تھے) مدراس ہائی کورٹ میں ایک جماعتی کیس کی پیروی اسی دوران میں مجھے حضرت خلیفہ البیع الثانی کا اشار ایک موصول ہوا کہ میں مدر اس ہائی کورٹ میں ایک فو بعدا که نگرانی کی پیروی کروں.جس کا اللہ جماعت احمدیہ کے حقوق پر پڑھتا تھا.جنوبی ہند کے مالابار کے علاقے میں مسلمان آبادی کا ایک طبقہ مالا کہلاتا ہے.یہ لوگ ان عرب تا عبر وں کی اولا ہیں جو مالا بار میں اگر میں گئے اور اسی علاقے کی عورتوں سے شادیاں کر لیں.ماپلا قوم کے مسلمان بہت مقر تک ملکی سیوم و رواج کے پابند ہیں.اس علاقے میں مادری نظام رائج ہے اور یہی صورت کو سپین اور ٹرا نکویر میں بھی ہے.ماپلا لوگ بھی اسی نظام کے پابند ہیں.اس نظام کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ وراثت کا سلسلہ اور نسب کا سلسلہ باپ کے ذریعے نہیں بلکہ ماں کے ذریعے چلتا ہے.عورت خاوند کو بیاہ لاتی ہے اور عورت ہی مشترکہ خاندان کی سردار ہوتی ہے.گو جائداد اور اختیارات مرد کے ہاتھ میں ہوتے ہیں.لیکن بیٹا باپ کا وارث نہیں ہوتاماں کا وارث ہوتا ہے.اس کے مرنے پر دراشت اس کے بیٹوں کی طرف منتقل نہیں ہوتی بلکہ اس کا چھوٹا بھائی کیحیثیت اس کی مال کا بیٹا ہونے کے صدارت
۱۹۲ ہوتا ہے.اور اگر چھوٹا بھائی نہ ہو تو ہمشیرہ زادہ وارث ہوتا ہے.اگر ہمشیرہ زادہ نہ ہو تو نخالہ زادہ وارث ہوتا ہے.اگر وہ بھی نہ ہو تو نانی کا بیٹا یعنی ناموں اور وہ بھی نہ ہو تو نانی کی والدہ کی دختری نسل میں سے سب سے معمر مرد وغیرہ.مالا بارہ میں مختلف مقامات پر احمدی جماعتیں قائم ہیں اور تبشیر کے ذریعے نئے افراد جماعت میں شامل ہوتے رہتے..ہیں.ایک شادی شدہ نو جوان ما پلا کے جماعت میں داخل ہونے پر اس کی بیوی کے بھائیوں نے اسے خاندان مشترکہ سے خارج کر دیا اور قامتی مدراس سے فتویٰ حاصل کر کے کہ احمدی ہونے سے وہ مرتد ہو گیا ہے اور اس کا نکاح فسخ ہوگیا.ہے اپنی بہن کی شادی کسی اور شخص سے کر دی.خاوند اگر اس مرحلے پر سلسلہ احمدیہ کے مرکز سے مشورہ کرتا تو غالباً یہ مشورہ دیا جاتا کہ وہ دیوانی عدالت کی طرف نہ جوع کرے اور وہ عولی حق استقرار دائر کرے کہ جماعت احمدیہ میں داخل ہونے سے نکاح فسخ نہیں ہوا اور مدعا علیہا شرعا اور قانوناً اس کی زوجیت میں ہے.لیکن خاوند نے مقامی وکیل کے مشورے سے بیوی، اس کے بھائیوں اور اس شخص کے خلاف فوجداری استغاثہ دائر کیا جس کے ساتھ بیوی کے دوسرے نکاح کی رسم ادا کی گی منفی ، استغاثے کی سماعت سیشن ج نے کی جو مدراسی پر ہی تھے اور تصفیہ طلب فقہی امور اور مسائل کا کوئی علم نہیں رکھتے تھے.انہوں نے قرامہ دیا کہ جمہور مسلمانوں اور احمدیہ حمایت کے مابین عقائد میں اختلاف ہے.اسلئے مستغیث مسلمان نہیں شمار ہو سکتا اور اس کے از نداد کی وجہ سے اس کا نکاح فسخ ہو گیا ہے.اور اگر اب نہ بھی ہو تو چونکہ متاث علیہم نے نکاح ثانی میں قاضی مدیر اس کے فتوی پر عمل کرنے میں نیک نیتی سے کام لیا ہے اس لئے ان کا یہ فعل مجرم نہیں گردانا جاسکتا.اور وہ کسی سزا کے مستوجب نہیں.چنانچہ فاصل سیشن جج صاحب نے استغاثہ خارج کر دیا اور ملزمان کو بری قرار دیا.بہ بیت کے خلاف اپیل کا حق صرف حکومت کو ہے.حکومت سے درخواست کرنے پر جواب ملا کہ اس معاملے میں چونکہ بنائے نشانہ عہ اختلاف عقاید ہے اور مذہبی امور میں دخل دینیا حکومت کے لئے مناسب نہیں اسلئے حکومت اپیل کی ذمہ داری نہیں لے سکتی.نگرانی کے متعلق مدراس ہائی کورٹ کے اجلاس کامل کا فیصلہ تھا کہ بہ بیت کے حکم کے خلاف ہائی کورٹ نگرانی کی سماعت نہیں کرے گی.ان سب باتوں کے باوجود حضرت خلیفہ المسیح ثانی نے ارشاد فرمایا کہ چونکہ چارہ جوئی کا اور کوئی راستہ کھلا نہیں اسلئے نگرانی ہر صورت داخل کر دی بجائے.چنانچہ نگرائی دائر کی گئی اور اس کی سماعت کی تاریخ مقربہ ہونے پر خاک ر کو پیروی کا ارشاد ہوا.اس سفر میں چودھری بشیر احمد صاحب میرے ہم سفر ہوئے.مدر اس پہنچنے پر معلوم ہوا کہ سماعت میں ابھی چند دن تاخیر ہوگی اسلئے ہم اس وقفہ میں سکندر آباد چلے گئے اور وہاں حضرت عبداللہ بھائی اللہ دین کے ہاں مہمان ہوئے.ان فرشتہ سیرت بزرگ کے ہاں یہ تین چار دن کا قیام بہت دلچسپ رہا.حیدر آباد ان دنوں ملی تندی اور تمدن کی جھلک پیش کرتا تھا.نگرانی کی سماعت مسٹر جیٹس اولڈ فیلڈ اور مسٹر جسٹس کو شنن کے اسلام میں ہوئی ی مسئول علیہم کی طرف سے
۱۹۳ مسترد ہون ناشر وکیل تھے جوسر کر تائید سابق رکن مجلس انتظامیہ وائسرائے ہند کے داما در اوران دونوں کو نینٹ پلیٹر تھے بعد میں حج ہائی کورٹ مدراس ہوئے اور پھر پر لوی کونسل میں جو مقرر ہوئے ان کے ساتھ ایک مسلمان کیویں بطور جو نیر تھے حکومت کی طرف سے مسٹر اینڈ مس پبلک پراسیکوٹر پیش تھے.مسٹر جٹس اولڈ فیلڈ نے مسٹر ایڈمس سے پوچھا تمہارا اس معاملے میں کیا موقف ہے.مسٹر ایڈمس نے جواب دیا کہ انہیں غیر جانبدار رہنے کی ہدایت ہے.مسٹر جسٹس اولڈ فیلڈ نے فرمایا مذہبی مسئلے کے متعلق حکومت کا غیر جانبدار لہ منا و مناسب ہے لیکن اس کیس میں ایک اہم قانونی سوال بھی پیدا ہوتا ہے.اور وہ یہ کہ سیشن بھ کی رائے کہ اگر مسئولی علیم کا فعل نیک نیتی پر مبنی ہو تو اسے مجرم نہیں قرار دیا جا سکتا ہے قابل پذیرائی ہے یا نہیں اس کے متعلق تمہارا کیا موقف ہے.مسٹر ایڈ میں نے کہا کہ اس مسئلے کے متعلق بھی مجھے غیر جانبدار رہنے کی ہدایت ہے.اس پر مسٹر جسٹس اولڈ فیلڈ نے کہا تو پھر تا ہے لئے تو تمہارا اجلاس میں حاضر رہنا نہ رہ بنا یا یہ ہے.مسٹر ایڈ میں بولے تو جناب پھر رخصت ہوتا ہوں.اور وہ تشریف لے گئے.میں بحث کے لئے کھڑا ہوا تو مجھے خیال تھا کہ مسول علیہم کی طرف سے ابتدائی عذر پیش کیا جائے گا کہ فل بنچ کے فیصلے کے رو سے بریت کے حکم کے خلاف نگرانی قابل سماعت نہیں.لیکن مسئول علیہم کی طرف سے کوئی ایسا عذر پیش نہ کیا گیا.اس طرح وہ امر جیسے میں اپنے رستے میں سب سے کڑی مشکل سمجھتا تھا اللہ تعالیٰ کے فضل سے پیدا ہی نہ ہوا.بنیادی مسئلہ زیرہ تنازعہ میرے لئے کوئی ایسا مشکل نہیں تھا.جیسے جیسے میں اسکی وضاحت کرتا گیا سنٹر مج صاحب فرماتے گئے درست ہے معقول ہے اس حد تک تو ہماری رائے مہتا کہ نائید میں ہے اور اس طرح میری حوصلہ افزائی فرماتے رہے.جب میں نے اس مسئلے پر بحث کرنا چاہا کہ نیک نیتی کا سوالی غیر متعلق ہے تو جج صاحب نے یہ کہہ کر روک دیا کہ یہ امر واضح ہے اور کسی بحث کا محتاج نہیں.آمنہ ملیں مجھ سے سوال کیا کہ اگر ہماری رائے ہو کہ سشن حج کا فیصلہ غلط ہے اور قائم نہیں رہ سکتا تو نگرانی کے ضابطے کے ماتحت ہم مستغاثت علیہم کو خود سزا دینے کا اختیار نہیں رکھتے.ہم صرف کی حکم دے سکتے ہیں کہ مقدمے کی از سر نو کا روائی ہو.کیا تمہیں اصرارہ ہو گا کہ ان پر دوبارہ مقدمہ پہلایا جائے ؟ میں نے کہا ہماری غرض مستغاث علیہم کو سزا دلوانا نہیں.ہمارا مقصد اپنے حقوق کی وضاحت اور حفاظت ہے.یہ مقصد حاصل ہو جائے تو ہم مستغاث علیہم کی تعزیہ یہ مصر نہیں.ان کے لئے یہی مشکل کافی ہے کہ مستغیث کا نکاح بہ قرار ہے اور دوسرا نکاح نا جائز ہے.چنانچہ ہائی کورٹ نے اسی کے مطابق فیصلہ صادر کیا.نگرانی کی بحث کے دوران میں پٹنہ ہائی کورٹ کا فیصلہ ہمارے لئے بہت تقویت کا موجب ہوا.
۱۹۴ جماعت احمدیہ کے افراد کے متعلق ارتداد جماعت احمدیہ کے افراد کے متعلق ارتداد کا سوال کا سوال کئی عدالتوں میں اٹھایا گیا کئی بار عدالتوں میں آیا ہے.غالباً پہلی بار یہ سوال سیالکوٹ میں چھاؤنی کی جامع مسجد کی تولیت اور امامت کے سلسلے میں عدالت کے روبرو آیا تھا.مولوی مبارک علی صاحب کے سلسلہ احمدیہ میں بعیت ہونے پر چھاؤنی کے مسلمانوں کی طرف سے انہیں جامع مسجد کی تولیت اور امامت سے علیحدہ کرنے کیلئے دیوانی عدالت میں چارہ جوئی کی گئی.اس وقت سیا لکوٹ میں کوئی احمدی وکیل نہیں تھا.والد صاحب ابھی سلسلہ احمدیہ میں بیعت نہیں ہوئے تھے.مولوی مبارک علی صاحب کی طرف سے والد صاحب کو وکیل کیا گیا.عدالت ابتدائی میں حج لالہ دھنیت رائے صاحب تھے انہوں نے قرار دیا کہ جماعت احمدیہ کے افراد مسلمان ہیں اور دعوئی خارج کر دیا.مدعیان نے ڈویہ تل حج کی عدالت میں اپیل دائر کی.ڈوثیر نل ج مسٹر بیوی تھے جو بعد میں چیف کورٹ کے جج ہوئے.انہوں نے عدالت ابتدائی کا فیصلہ بحال رکھا اور اپیل خارج کی.مدعیان نے اس فیصلے کے خلاف چیف کورٹ میں اپیل کی.چیف کورٹ نے قرار دیا کہ دھوئی چونکہ مولوی مبارک علی صاحب کے سلسلہ احمدیہ میں بیعت ہونے کے چھ سال کے اندر دائر نہ کیا گیا اسلئے زائد المیعاد ہے اور اس بناء پر اپیل خارج کر دی.چونکہ چیف کورٹ نے مدعا علیہ کے عقائد کی نسبت کوئی فیصلہ نہ دیا اسلئے چیف کورٹ کا یہ فیصلہ اصل بنائے تنارعہ پر نظر نہ ہوا.میں امرتسر میں ایک شخص بنام سراج دین کے سلسلہ احمدیہ میں بیعت ہونے پر اسکی بیوی کی طرف سے دعوئی دائرہ کیا گیا کہ میرا خاوند سلسلہ احمدیہ میں بیعت ہونے کی وجہ سے مرتد ہو گیا ہے.اسلئے قرار دیا جائے T که میرا نکاح فسخ ہو گیا ہے.مدعیہ کی طرف سے مولانا ابوالوفاثناء اللہ صاحب ایڈیٹر اہل حدیث مختار خاص پیروی کرتے تھے اور ڈاکٹر سیف الدین کچلو صاحب پر سٹرایٹ لا وکیل تھے.مقدمے کی سماعت مسٹر سیمور سب مج در رتبه اول امر فسر نے کی.میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے ارشاد پر مد علیہ کی طرف سے پیروی کے لئے امرتسر جایا کرتا تھا.مدعیہ کے گواہان کے زمرے میں مولانا عبدالاحمد غزنوی صاحب (والد ما بعد مولانا اسمعیل غزنوی صاحب) بھی اپنے تحریری فتوی کی تصدیق کے لئے پیش ہوئے.ان کا فتوی تھا مرزائے قادیان کا فراست و همه مریدان اور کافر انند وبر که در کفایشان شک آرداد سیم کا فراست ؟ - ظفر اللہ خاں.جناب مولانا اگر کوئی شخص ایسے شخص کو کا فرشمار نہ کرے جو جناب مرزا صاحب کے مریدان کے کفر میں شک کرتا ہو تو اس کے حق میں کیا ارشاد ہے ؟ مولانا عبد الاحد غزنوی صاحب.وہ بھی ویسا ہی کا فر ہے.ظفر اللہ خاں.اور جو اس کے گھر میں شک کرے اس کے متعلق کیا ارشاد ہے ؟
۱۹۵ جناب مولانا صاحب.وہ بھی دی ہی کافر ہے.- اس پر سب جج صاحب نے فرمایا.چلو اب سب کا فر ہو چکے قصہ تمام ہوا.ہماری طرف سے سلسلہ احمدیہ کے کچھ علماء پیش ہوئے جنہوں نے شہادت دی کہ جماعت احمدیہ کے عقائد عین اسلام ہیں.اور جموع میں جو اعتراضات پیش کئے گئے ان کے مناسب جواب دیئے اور کچھ غیرنہ جماعت مسلمان مغرزین پیش ہوئے جنہوں نے جماعت احمدیہ کے افراد کے متعلق شہادت دی کہ ان کا عمل عین ارکان اسلام کے مطابق ہے اور ہم انہیں مسلمان سمجھتے ہیں.ان میں مرزا بدر الدین صاحب بیرسٹر ایٹ لاء اور سردار محمد اکبر خان صاحب پر سٹرایٹ لاء بھی شامل تھے.جب ان گواہوں کی شہادت ہو چکی جنہیں ہماری طرف سے بذریعہ عدالت طلب کیا گیا تھا تو مج صاحب نے مجھ سے دریافت فرمایا کیا شہادت ختم ہے ؟ میں نے کہا جناب ایک گواہ باقی ہے.پوچھا وہ کون ہے ؟ میں نے کہا جناب مدعیہ کے مختار مولانا ثناء اللہ صاحب.اس پر مولانا شاء اللہ صاحب نے فرمایا سمجھے تو طلب نہیں کیا گیا.میں نے کہا آپ عدالت میں موجود ہیں طبی کی ضرورت نہیں.مولانا صاحب نے فرمایا لیکن مجھے خرچ خوراک ملنا چاہیے.میں نے کہا عدالت میں موجود ہونے کی صورت میں آپ خروج خوراک کا مطالبہ کرنے کے مچانہ تو نہیں لیکن مجھے آپ کے ساتھ بحث مقصود نہیں بیٹھے تین روپے حاضر نہیں قبول فرمائیے اور اقرار صالح کیجئے.جب مولانا صاحب شہادت دینے کھڑے ہوئے تو میں نے ان کے اخبار اہلحدیث کا ایک پرچہ جیب سے نکالا اور اس میں مندرجہ ایک نوٹ کی طرف مولانا صاحب کو توجہ دلائی اور دریافت کیا کیا یہ آپ کا لکھا ہوا ہے؟ فرمایا میرا لکھا ہوا ہے.میں نے پوچھا درست ہے ؟ فرمایا درست ہے.میں نے وہ پرچہ بطور شہادت پیش کر دیا.اس نوٹ کا مضمون یہ تھا.ایک صاحب نے ہم سے سوال کیا ہے کہ آپ نے احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور سے ملکر ات عت اسلام کا ادارہ قائم کیا ہے.اگر اس ادارے کی تبلیغی سرگرمیوں کے نتیجے میں کوئی غیرمسلم مرزائی ہو جائے تو کیا آپ کے نزدیک وہ مسلمان ہو گا ؟ - ہماری طرف سے اس سوال کا جواں یہ ہے کہ مسلمان ہونا دو لحاظ سے ہے ایک اخروی نجات کے لحاظ سے اس کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے.اور فیصلہ اس کیے ہاتھ میں ہے.ہم اس کے متعلق کچھ نہیں کہ سکتے.دوسرے عرف عام کے لحاظ سے اس لحاظ سے ہم ہر کلمہ گو گومانی سمجھتے ہیں مرزائی بھی کلمہ گو ہیں اسلئے کوئی اعتراض پیدا نہیں ہوتا.ڈاکٹر کھلونے مولانا سے کوئی سوال کرنا چاتا تو جج صاحب نے فرمایا مدعا علیہ کے وکیل نے صرف ایک دستاویز کی گواہ سے تصدیق کرائی ہے اس کے مضمون کے متعلق کوئی سوال نہیں کیا اسلئے آپ اس دستاویز کے مضمون کے متعلق جرح کرنے کے مجاز نہیں.اگر کچھ کہنا ہو تو محبت کے دوران میں کہہ لیں.بحث کے لئے میں فلاں تاریخ مقریر کرتا ہوں.اس پر اجلاس بر خاست ہو گیا.اس دن کا اجلاس منوائی کئی گھنٹے جاری رہاتھا.ج صاحب اور وکلاء سب تھکے ہوئے تھے.عدالت کے کمرے
144 سے سب اکٹھے باہر آگئے.تین روپے ابھی مولانا صاحب کے ہاتھ میں ہی تھے انہوں نے انہیں چھن کا یا اور مسکرا کر مجھے فرمایا مرزا صاحب سے ہمیں کچھ نہ کچھ حاصل ہوتا ہی رہتا ہے.بحث ہوئی اور چند دن بعد سب بج صاحب نے فیصلہ سنایا.پٹنہ نانی کورٹ کے فیصلے اور مدعا علیہ کی طرف سے ہو شہادت پیش ہوئی تھی اس پر حصر کرتے ہوئے رانہ دیا کہ مدعا علیہ کا نکاح فسخ نہیں ہوا اور دعوتی خارج کر دیا.مدعیہ کی طرف سے اپیل دائمہ کی گئی جس کی سماعت گورداسپور میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ بیج امرتہ کی عدالت میں ہوئی.خاک راس تاریخ پر حضرت خلیفة المسیح الثانی کی خدمت میں وزیر سند کی آمد کے موقعہ پر حاضر تھا اسلئے اپیل کی پیروی کے لئے گورداسپور حاضر نہ ہو سکا.غالباً حضور کے ارشاد کے ماتحت میاں محمد شریف صاحب رسپانڈنٹ کی طرف سے پیش ہوئے اپیل میں عدالت ما تخت کا فیصلہ بحال رہا اور اپیل خارج ہو گئی.سیالکوٹ شہر میں حضرت مولوی فیض الدین صاحبہ کے سلسلہ احمدیہ میں بیعت ہونے پر مخالفین نے مولوی صاحب جیسے نیک خصلت اور فرشتہ سیرت انسان پر ایک سراسر بے بنیا و عین کا الزام عاید کر کے فو بیداری استخانہ وانہ کر دیا.حضرت مولوی صاحب کا خاندان پیشت در پشت سے اپنے علم و فضل کے باعث سیالکوٹ میں ممتا بینیت رکھنا تھا اور شہر کی دو بڑی مساجد کی تولیت مولوی صاحب کے سپرد تھی ان میں سے ایک مسجد تعرلب سڑک واقعہ تھی اور اس کے احاطہ میں ایک بزرگ کا مزار بھی تھا.ساتھ کی گلی کے اندر ایک دور کان اس مسجد کے زیہ میں تھی.دوسری مسجد گلی کے اندر سڑک سے کچھ فاصلے پر مولوی صاحب کے رہائشی مکان کے مقابل واقعہ تھی اس کی عمارت سڑک والی مسجد کی نسبت وسیع تر تھی.اس کے احاطے میں بائیں جانب ایک قبرستان تھا اور یہ ہیں جانب ایک کھلی جگہ اور اس سے ہٹ کر دو تین پرانی طرز کی کوٹھڑیاں تھیں جن میں سے ایک میں ایک کو لہور چلا کرتا تھا.مولوی صاحب خود اس مسجد میں امامت کرتے تھے.یہیں میں ان کی خدمت میں قرآن کریم کے درس کے لئے حاضر ہو اکرتا تھا.دونوں مساجد کا نام کبوتراں والی مسجد تھا.سٹرک والی مسجد بیرونی کہلاتی تھی اور گلی والی اندرونی.مولوی صاحب کے خلاف جو استغاثہ دائر کیا گیا اسکی بنیاد اس فرضی بیان پر رکھی گئی کہ بیرونی محمد کے سامان میں سے ایک سائبان اور کچھ اور اشیاء مولوی صاحب نے بین کرتی ہیں سارا شہر جاننا تھا کہ یہ بیان سراسر بے بنیاد ہے اور استغاثے سے غرض محض مولوی صاحب کی ایذا رسانی ہے.آخر اس بات پر راضی نامہ ہوا کہ مولوی صاحب بیرونی مسجد کی تولیت سے دست بہ دائرہ ہو جائیں اور ملحقہ دوکان کے کرائے کی وصولی کا حق اور بیرونی مسجد کے نظم ونسق کی ذمہ داری مستغیشان کے مقرر کردہ متولی کے سپرد کر دیں اور اندرونی مسجد کی تولیت اور امامت بدستور مولوی صاحب کے سپرد ر ہے اور اندرونی مسجد میں جماعت احمدیہ کے ساتھ کسی قسم کا تعرض نہ کیا جائے.چنانچہ اس کے مطابق عمل ہوتا رہا.جماعت احمدیہ کی طرف سے اندرونی مسجد کے کنویں پر 1
194 پمپ لگایا گیا ستارے بنائے گئے.وضو خانہ اور ڈیوڑھی کی تعمیر کی گئی.کولہو والی کوٹھریوں کی جگہ اور ان کے سامنے کی کھلی جگہ پر مہمان خانہ تعمیر کیا گیا اور بعد میں مدرسہ النبات کی عادت تعمیر ہوئی پھیلی میسر آنے پر مسجد اور متعلقہ عمارات میں بجلی کی روشنی اور سنکھوں کا انتظام ہوا.ان تمام امور کے متعلق بلدیہ کے دفتر میں مناسب اند را بجات اجازت طلبی اور اجازت دہی کے ہوتے رہنے بجلی کے مطالبات کی ادائیگی کی رسیدیں ی جاتی ہیں حضرت مولوی فیض الدین صاحب کے حسین حیات میں تو کسی قسم کا لفرضن جماعت کے ساتھ نہ ہوا.مولوی صاحب کی وفات کے کچھ عرصہ بعد لاء میں مخالفین نے جماعت احمدیہ کے اندرونی مسجد میں نمانہ ہیں ادا کرنے میں مزاحمت شروع کی اور آخر ایک درخواست زیر دفعہ ۱۴۵ ضابطہ فوجداری دائر کر دی کہ مسجد کے ساتھ جماعت احمدیہ کا کسی وقت کوئی تعلق نہیں رہا.مولوی فیض الدین صاحب کے سلسلہ احمدیہ میں بیعت ہونے کے دن سے لیکر مسجد پر درخواست کنندگان کا قبضہ رہا ہے اور وہی مسجد کو نمازوں اور دیگر دینی اغراض کیلئے متواتر استعمال کرتے پہلے آئے ہیں.چند مفتوں سے جماعت احمدیہ کے افراد نا جائز طور پر مسجد پر قابض ہونے کی کوشش کر ر ہے ہیں.اور در خواست کنندگان اور ان کے رفقاء کی عبادات میں مخل ہوتے ہیں.لہذا نہ میر دفعہ ۱۲۵ ضابطہ فوجداری درخواست کنندگان کے قبضے کی تصدیق کی جائے اور مسئول علیہم کو حکم دیا جائے کہ وہ اوران کے رفقاء اس میں مخل نہ ہوں.یہ درخواست سرسری کا روائی کے بعد خارج ہوگئی اور درخواست کنندگان کو بدات ہوئی کہ وہ عدالت دیوانی میں اپنے حقوق کے اثبات کے لئے چارہ جوئی کریں.چنانچہ ان کی طرف سے دیوانی چھوٹی دائرہ ہوا اور مجھے جماعت کی طرف سے پیروی کا ارشاد ہوا.اس مقدمے میں کوئی قانونی سوال زیر بحث نہیں تھا.واقعات ہی نہ یہ بحث تھے.لیکن تنازعہ فرضی تھا.شہر کا بچہ بچہ جانتا تھا کہ اصل واقعات کیا ہیں.جماعت احمدیہ کی طرف سے بائیس سال کے لمبے عرصے میں کئی بار مسجد میں جلسے ہوتے رہے تھے.معین میں غیر مسلم اصحاب بھی شریک ہوتے رہے.خود مدعیان اور ان کے گواہ بیرون عدالت تسلیم کرتے تھے کہ مسجد پر شاہ سے جماعت احمدیہ کا قبضہ چلا آتا ہے.مقدمے کی سماعت پنڈت اون کار نا تھے نہ قشی صاحب سنیٹر سب بج کر رہے تھے.جب گواہ کے بعد گواہ پیش ہوتا اور اول سے آخر تک فرضی کہانی بیان کرتا چلا جاتا اور سنجیدگی سے محض اپنے تخیل سے فرضی واقعات کا طوالہ کھڑا کر دیتا تو سب جج صاحب اپنا حیرت کے اظہار کو نہ روک سکتے.گواہان میں سے اکثر کو میں خواتی طور پر جانتا تھا.عدالت سے باہر جب میں ان کی دروغ بیانی پر تعجب کا اظہار کرتا تو وہ بغیر کسی پشیمانی کے سہنس کر کہ دیتے صاحب یہ جھوٹ تھوڑا ہے.یہ تو باطل کے مقابلے میں حق کو سر بلند کرنے کا ایک ذریعہ ہے.یہ تو ثواب کا کام ہے ہم اپنے ذاتی فائدے کے لئے تھوڑے الیسا کر رہے ہیں.آخر جب عدالت سے باہر بار روم میں اور دیگر مجلسوں میں ان کی اس حرکت پر نفرین ہونے لگی اور غیر از جماعت معززین نے بھی مدعیان کو ملامت کرنا شروع کیا تو
14A مدعیان نے اس شرط پر دعوئی واپس لے لیا کہ خرچے کا بار ان پر نہ ڈالا بھجائے.اسی سلسلے میں چند سال بعد سابق ریاست بہاولپور میں ایک مقدمہ ہوا جس میں شوہر کے سلسلہ احمدیہ میں بیعت ہونے پر اس کے ارتداد اور تنسیخ نکاح کا سوال اٹھایا گیا.ابتدائی عدالت سے لیکر عدالت عالیہ ریاست بہاولپور تک متفقہ طور پر قرار دیا گیا کہ مطابق فیصلہ جات پٹنہ ہائی کورٹ و مدراس ہائی کورٹ جماعت احمدیہ کے فراد مسلمان نہیں اور دعوئی خارج ہوا.مدعیہ کی طرف سے وزیر اعظم تعان بہادر نبی بخش مرمین صاحب کی خدمت میں درخواست نظرثانی گذاری گی.وزیرا عظم صاحب نے حکم صادر فرمایا کہ ریاست کی عدالتیں بر طانوی ہند کی عدا لیتے عالیہ کے فیصلوں کی پابند نہیں ہیں.یہ مسئلہ شرعی ہے.ریاست کی عدالتوں کو شریعیت کے اصولوں کے مطابق اس کا فیصلہ کرنا چاہئے.فیصلہ زیر نظر منسوخ کیا جاتا ہے اور ہدایت کی جاتی ہے کہ ڈسٹرکٹ ج کی عدالت میں اس قضیے کی اند سر نو سماعت ہو.چنانچہ محمد اکبر خان صاحب ڈسٹرکٹ جج کی عدالت میں مقدمے کی از سر نو سماعت شروع ہوئی.فریقین کی طرف سے تمام مسائل متنازعہ فیہا پر شہادت شریعی ہوئی اور مقدمہ ایک مذہبی معرکے کی شکل اختیار کر گیا.حفظ امن کی غرض سے عدالت کے اندر اور با ہر پولیس کا پہرہ مقرر ہوا.مدعا علیہ شوہر کی طرف سے میرے چھوٹے بھائی پچودھری اسد اللہ خان صاحب بیرسٹر پیرو کار تھے.علمائے سلسلہ احمدیہ کی شہادت سلسلہ کے عقائد کے متعلق ہوئی.ایسے مسائل پر شہادت بھی بحث کا نہنگ پکڑ جاتی ہے.شہادت کے دوران میں ہی عدالت کے اندر تو دو کا نسٹیل سپره پر مقرر تھے ان میں سے ایک نے سلسلہ احمدیہ میں بیعت کرلی ! ایک مرحلہ پر مدعیہ کے ایک گواہ پر جموح کے دوران میں چودھری اسد اللہ نامی صاحب نے ایک سوال کیا جس پر ڈسٹرکٹ جج صاحب نے قلم ہاتھ سے لکھ دیا اور فرمایا اس سوال کا جواب تو ہم مسل پر ثبت نہیں کریں گے اس سے تو اعلیٰ حضرت والی ریاست کی مہک ہوتی ہے اور ہم یہ جرأت نہیں کر سکتے کہ ایسی کو ئی بات مسل پر آنے دیں.عزیزم اسد اللہ تعالی نے گذارش کی کہ جواب سے تو صرف یہ ظاہر ہو گا کہ مدعیہ کا ادعا بالکل باطل ہے اور گواہ کا موقف غلط ہے.اعلیٰ حضرت کی ذات پہ تو کوئی مصرف نہیں آتا لیکن ڈسٹرکٹ حج صاحب مصرہ ہے کہ وہ بخواب مسل پر ثبت نہیں فرمائیں گے.اس گواہ نے بیان کیا تھا کہ جماعت احمدیہ کے افراد کا فر ہیں لہذا ایک مسلمان خاتون کا نکاح احمدی کے ساتھ نہیں ہو سکتا اور اگر کوئی مسلمان خاتون احمدی کی زوجیت میں آئے تو وہ زنا کی مرتکب ہوگی.چودھری اسد اللہ خان صاحب نے گواہ سے دریافت کیا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اعلی حضرت والی بہاولپور کی پھوپھی بیگم صاحبہ محترمہ مرحومہ کا نکاح خان عبد الحمید خان صاحب فرزه مذاکبر خان بہادر خان عبدالغفور خالی صاحب خان آف زیدہ کے ساتھ ہوا تھا اور اس نکاح سے بفضل الله
١٩٩ اولاد بھی ہوئی ہو حین حیات ہے ؟ گواہ نے اثبات میں جواب دیا.چودھری الہ اللہ تعالی صاحب نے پو چھا کیا آپ کو معلوم ہے کہ خان عبد الحمید خان صاحب بوقت نکاح احمدی تھے اور اب تک بفضل اللہ جماعت احمدیہ کے مخلص رکن ہیں ؟ اس پر جناب ڈسٹرکٹ بیج صاحب نے فرمایا ہم ان سوالوں کا جواب ہرگز قلمبند نہیں کریں گے یہ تو اعلیٰ حضرت کی توہین ہے.چودھری اسد اللہ خاں صاحب نے عرض کیا کہ سوال کی غرض تو یہ ثابت کرتا ہے بستہ ہائی کورٹ اور مدیر اس ہائی کورٹ کے فیصلے تو الگ رہے.خود اعلیٰ حضرت اور آپ کے مشیر علمائے کرام کا فیصلہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے افراد پکے مسلمان ہیں ورنہ یہ رشتہ کیسے طے پاتا ؟ رجح صاحب تو ان سوالوں کا جواب سل پر تحریر کرنے میں اعلیٰ حضرت کی بینک تصور کرتے تھے در حالیکہ اعلی حضرت کی مہک یہ قرار دینے یا تصور کرنے میں ہوتی کہ آپ ایک خلاف شریعیت فعل کے مرتکب ہوئے ! ضلع کی عدالتوں میں وکالت کے کام کو میں نے اپنی طبیعت کے موافق نہ پایا جب میں نے انڈین کیز میں کام شروع کیا تو اس وقت میری طبعیت پر کٹیں سے کچھ اکتائی ہوئی تھی.چودھری شہاب الدین صاحب سے ہو خط و کتابت ہوئی اس میں میں ملحوظ تھا کہ جب تک میں انڈین کیسز میں کام کروں گا عدالتی کام کام نہیں کروں گا.لیکن لاہور پہنچنے کے بعد آہستہ آہستہ میں عدالتی کام کی طرف کھچتا چلا گیا.• " اس تبدیلی میں سب سے بڑا حصہ تو حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا تھا.حضور نے بھا کار سے یہ تو نہیں فرمایا کہ تم پریکٹس کی طرف توجہ کر دیا زیادہ توجہ کر لیکن حضورہ کا اعتمادہ خاک رکے لئے بہت ہمت افزائی کا موجب ہوا.ابھی میں نے کسی ہائی کورٹ میں حاضری نہیں دی تھی کہ حضور نے پٹنہ ہائی کویر میں ایک نہایت اہم اپیل کی پیروی خاک رہ کے سپرد کی.پھر امرتسر کے کیس میں پیروی کا ارشاد فرمایا التی اس کیس کا فیصلہ بفضل خدا جماعت کے حق میں ہو گیا تو امرتسر کے ایک دوست نے حضورہ کی خدمت میں کہیں کا ذکر کرتے ہوئے گذارش کی کہ ظفر اللہ اپنے خرچ پر پیروی کے لئے لا ہو یہ سے امر سنہ آتا رہتا ہے.جماعت امرتسر نے فیصلہ کیا ہے کہ اسے سفر خرچ کے طور پر ایک مناسب رقم پیش کی جائے.حضور نے فرمایا یہ مناسب نہیں اس طرح قوم کی خاطر قربانی کرنے کی روح ماری جاتی ہے ) ایک ذاتی مقدمہ کی پرودی کا ارشاد بھی خاک ر کو فرمایا اگر چہ احباب کا مشورہ تھا کہ میاں محمد شفیع صاحب یا مسٹر یمین کو وکیل کیا جائے.بعد میں مدراس ہائی کورٹ میں نگرانی کی پیروی کا ارث د فرمایا.چودھری شہاب الدین صاحب نے بھی حو صلہ افزائی فرمائی.اول تو شروع میں خود ہی بجوینیہ فرمائی کہ میں ہر ہفتے میں تین دن والد صاحب کی سہولت کے لئے سیالکوٹ چلا جایا کروں پھر خود ہی فرمایا میں نہیں چاہتا کہ تم انڈین کینیر ہی کے حوکم رہ جائہ عدالت کا کام ملے تو لے لیا کرو.عدالتی کام میں جب میرا زیادہ وقت صرف ہونے لگا تو ان کی
پیشانی پر کبھی بل نہ آیا اور ان کی شفقت میں کوئی کمی نہ ہوئی.خود عدالتی کام بہت کم لیتے تھے.جب لیتے تو اس پر بہت محنت کرتے اور مجھے بھی ساتھ مل کر لیتے.جس سے مجھے بہت کچھ سکھنے کا موقعہ مل جاتا مثلا نواب سر فتح علی خان صاحب قزلباش کی وفات پر ان کی وصیت کے جواز کے متعلق جو دعوئی سردار محمد علی خالی صاحب قزلباش نے دائر کیا اس میں مدعی کی طرف سے پچودھری صاحب وکیل تھے اور اس میں بطور مشیر کے مجھے شامل یہ کھتے تھے.جب غالباً ء میں امرتسر میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے اور فریقین کے چالان ہوئے.تو مسلمان ملزمان کے خلاف تو سب سے اہم چالان تھا اس کی سماعت مسٹر بورن نے کی.اس مقدمہ میں بھی چودھری شہاب الدین صاحب نے میاں محمد شریف صاحب سود اگر چرم امرتبیر کو مشورہ دیا کہ مجھے صفائی کی طرف سے سینئر وکیل کیا جائے.میاں محمد شریف صاحب نے صفائی کے اخراجات کا اکثر حصہ اپنی جیب سے ادا کیا.مجھےکئی دن متوا تم پر روزہ اس سلسے میں امن نہ جانا پڑا.میری پریکٹس بعض الله بڑ ھو رہی تھی شہداء سے میرے وقت کا اکثر حصہ عدالتی کام کی مصروفیتوں میں صرف ہونے لگا.جس کی وجہ سے یں نے انڈین کینر کے دفترمیں کام کرنا بندکر دیا.چودھری شہاب الدین صاحب اس بات پر رضامند ہوگئے کہ جو کام مجھے گھر پر بھیج دیا جائے وہ میں کر دیا کروں اس کام کے معاوضے کی ہوشرح مقرر ہوئی اس کے بین سے اوسطا مجھے اس کام سے اسقدر آمد ہو جاتی تبقدرمت اہرہ مجھے انڈین کیز سے شہر میں مل کر تا تھا اسی سال میں نے اپنی رہائش نسبت روڈ پر مجیٹھ ہاؤس میں بطور کرایہ دار منتقل کر لی.یہ ذکر آپ کا ہے کہ مسٹر ایکو ستھے مجھے متواتہ ترغیب دیتے رہتے تھے کہ مجھے عدالتی کام کی طرف زیادہ تھے توجہ دینی چاہئیے.ان کی رائے بھی میرے لئے تو صلہ افزائی کا موجب ہوئی.میرے ماموں پچودھری عبداللہ نعاں صاحب دردانہ زید کا ، نے مجھے چیف کورٹ میں سب سے پہلا کیس بھیجا.اس سے ایک طرف تو مجھے چیف کورٹ کے دفتری ضابطے کے ساتھ تعارف ہو گیا اور دوسرے یہ احساس ہونے لگا کہ عدالت عالیہ میں کام کا طریق میری طبیعت پر گراں نہ ہوگا.چند سال بعد میرے ماموں صاحب نے ہی مجھے پہلا سیشن کیس کرنے کا موقعہ ہم پہنچایا تاء میں جب میں والد صاحب کے ساتھ کام کر رہا تھا مجھے ان کے ساتھ دو تین سیشن کے مقدمات کا ابتدائی تجربہ ہو چکا تھا.لیکن اس وقت میں بطورت گر ے کام کر رہا تھا اور زمہ داری کا زیادہ تر بوجھے جب کہ کندھوں پر تھا.جب مجھے تن تنہا اپنی ذمہ داری پر قتل کے مقدمے میں ملزمان کی صفائی کا بارہ اٹھانا پڑا تو مجھے اس ہوا کہ ذمہ داری کے لحاظ سے دیوانی مقدمات اور سیشن کے مقدمات میں کو سوی کا فرق ہے.کسی انسان کے گلے میں پھانسی کا تہ کیا جانا یا ڈھیلا ہو جانا رونگٹے کھڑے کرنے والی متیناک حقیقت ہے.ملزم قصور وار ہو یا بے قصویر اپنی جان ہتھیلی پر لئے ہوتا ہے.لیکن عدالتی ڈرامے میں مرکز کی حیثیت صفائی کے وکیل کی ہوتی ہے ** "..
اسے بھی ہر لحظہ یہ احساس ہوتا ہے کہ ایک انسانی جان یا جائیں بہت حد تک اس کے علم اس کی فراست اور اس کے ضبط پر انحصار کئے ہوئے ہیں.وہ جانتا ہے کہ نتیجہ تواللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے جسے ہر قدرت ہے لیکن ملزم یا ملزمان کے ساتھ اسکی اپنی جان بھی شکنجے میں ہوتی ہے.اہل کے مرحلے پر یہ احساس استقدرت دید نہیں ہوتا کیونکہ واقعات کے ثبوت اور تردید کا مرحلہ گذر چکا ہوتا ہے.شہادت کی تجرید و تنقید اور واقعات سے نتائج اخذ کرنے پر بحث ہوتی ہے.سیشن میں تجورج پر بہت کچھ انحصار ہوتا ہے.بعض دفعہ ایک غیر مزدوری یا غیر متا سوال ملزم کو موت کے منہ میں دھکیل دیتا ہے.یاکسی ضروری سوال کے متعلق غفلت یا کوتا ہی ملزم کے خلاف قیاس مضبوط کہ دیتی ہے.اور کاروائی کے دوران میں سوچ بچارہ کا نہ یادہ موقعہ نہیں ہوتا - میرا پہلا سیشن کہیں میرے پہلے سیشن کیس میں آٹھ ملزمان پر جو آپس میں چیرے بھائی تھے، اپنے ایک چا کے قتل کا الزام تھا.مختصر واقعات یہ تھے کہ جیسے بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اکثر ہوتا ہے خاندان میں کاشت اراضیات کے سلسلے میں باہمی تکرار ہو جاتی تھی اور مقتول ہو کہنے میں سرکردہ ہونے کی حیثیت رکھتا تھا اپنے بھتیجوں کیساتھ سختی سے پیش آنا تھا ایک ایسے موقعہ پر مقتول ملزمان کے کوئیں پر اپنے بیٹوں سمیت آگیا.انہیں کنواں چلانے سے روکدیا کنوئیں کی ماہل کاٹ دی جس کے نتیجے میں آبپاشی کا تمام سامان کنوئیں میں گر گیا اس کے بعد اپنے بیٹوں سمیت ملزمان میں سے جو موجود تھے ان پر دھاوا بول دیا.ان کی بیان پر آہنی.انہوں نے بھی ڈانگ سوٹا جو کچھ میسر آیا ہاتھ میں لے لیا اور مقابلے پر ڈٹ گئے.زردکوب میں چھا کے سرپر ضربات لگیں.دونوں فریق کا جوش ٹھنڈا ہوا.چا کے بیٹوں نے گھر جا کر ہے کی تیمار داری میں سعی کی.اوہلے جلا کر گرم راکھ اس کے سر کی مزبات پہ باندھی.گرم دودھ میں گھی ملاکر بلایا بھتیجوں نے معافی طلب کی بیبہ سے میاں نے معاف کیا اور طرفین کو نصیحت کی کہ آپس میں اتفاق سے رہنا چاہیئے.پولیس کو واقعہ کی اطلاع ہوئی سب انسپکٹر صاحب معہ عملہ کے تشریف لائے.بڑے میاں سے پوچھا کیا واقعہ ہوا ؟ وہ ہوش میں آئے اور کہا بھائیوں بھائیوں میں تکرار ہو جایا کرتی ہے ہمیں آپس میں کوئی شکوہ نہیں.آپ کی یہاں کوئی مضرورت نہیں.ہم مقدمہ بازی میں پھنس کر عدالتوں میں خواہ نہیں ہونا چاہتے.آپ کا یہاں کچھ کام نہیں آپ تشریف لے جائیں.سب انسپکٹر صاحب چلے گئے.تیسرے دن بڑے میاں کے زخموں میں درد شروع ہوا اور خون بہنے لگا.ایک دو گھنٹوں کے اندر حالت خراب ہو گئی اور داعی اجل کو لبیک کہا، پولیس کو اطلاع ہوئی، تفتیش ہوئی چالان ہوا، مقدمہ سیشن سپرد ہوا، میں ملزمان کی طرف سے پیروی کے لئے لاہور سے سیالکوٹ گیا.لالہ منالال صاحب سیشن جج تھے.چودھری محمد امین صاحب سرکاری وکیل تھے.ملزمان میں سے دو تین تو بوقت وقوعہ موجود نہیں تھے.باقیوں کی طرف سے میں نے جرح میں حق خود حفاظتی کی بنیاد یہ کھنا شروع کی اور تین واقعات کا بیان کیا ہے شہادت استغاثہ سے ان کی تائید حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا.بحث میں اس بات سے بہت مددی
۲۰۲ کہ مقتول اپنے بیٹوں سمیٹ فتے اور جوش کی حالت میں ڈانگوں سے مسلح ہو کر ملزمان کے کنوئیں پر ان کی تادیب کیلئے گئے تھے.ماہل کاٹ ڈالی تھی اور حملے میں ابتداء کی تھی.اگر زیا دتی ملزمان کی طرف سے ہوتی تو بڑے میاں انہیں آسانی سے معاف نہ کرتے نہ پولیس کو واپس کرتے.چونکہ ملزمان کے موقف کی تائید شہادت استغاثہ سے ہی ہو جاتی تھی ہم نے کوئی شہادت صفائی پیش نہ کی اور اس کے نتیجے میں محبت میں اول تقریر سمہ کاری وکیل صاحب کی ہوئی اور جوابی نظریہ میری ہوئی.اس طریق سے حرف آخر کا فائدہ ہمیں حاصل ہوا.اگست کا مہینہ تھا مجھے لاہور جانے کی جلدی بھی تھی.فیصلے کے انتظار میںمیں سیالکوٹ بھر گیا.شیخ اعجاز احمد صاحب ان دنوں سیالکو میں پریکٹس کرتے تھے.میں ان کے ہاں مہمان تھا.میں نے خواب دیکھا کہ سیشن بیج صاحب میں اور دھوتی پہنے پلنگ پر اوندھے پڑے ہوئے بے چینی کی حالت میں کراہ رہے ہیں.میں نے شیخ صاحب کو خواب سنایا اور کہا تغییر واضح ہے کہ جمع صاحب کا ذہن الجھن میں ہے خدا کرے اسم بامسمی ثابت ہوں.پنجابی میں منا سے مراد نین کچھ تھائی لی جاتی ہے، آٹھ ملزمان میں سے کچھ کو بہ می کردیں خواہ دو کوستی خود حفاظتی کی نہ یادتی میں چند سال قید کی سزا دیدیں.فیصلہ سنائے جانے میں کچھ دیر ہوگئی.اتفاق سے جج صاحب کے ریڈر صاحب سے ملاقات ہوئی تو میں نے دریافت کیا فیصلے کی کب تک توقع کی جائے.انہوں نے کہا صاحب ابھی کچھ نہیں کہ سکتے تین با نرمج صاحب نے فیصلہ لکھوایا ہے لیکن ابھی ان کا اطمینان نہیں ہوا بہت پریشانی میں ہیں.لکھواتے ہیں پھر بدل دیتے ہیں.میں نے شیخ صاحب سے کہا حج صاحب کی تو وہی کیفیت معلوم ہوتی ہے جو مجھے خواب میں دکھائی گئی.خدا خیر کرے.آخر فیصلہ سنایا گیا.کچھ ملزم بری ہوئے دو کو حق خود حفاظتی سے متجاونہ کرنے کی وجہ سے پانچ پانچ سال قید با مشقت کی سزا ہوئی.ملزمان ، ان کے متعلقین اور ماموں صاحب نے اسے کامیا بی شمار کیا اتفاق سے پچودھری محمد امین صاحب کے ساتھ اسی روز ملاقات ہوئی.فرمایا لو تمہیں مزید فیس دلوانے کا انتظام کرتے ہیں.میرے نزدیک فیصلہ بالکل غلط ہوا ہے.میں حکومت کو تحریک کر رہا ہوں کہ اس فیصلے کے خلاف حکومت کی طرف سے اپیل کی جائے.میں نے یہ ذکر ماموں صاحب سے کیا ملزمان اور متوفی کے کہنے کے ساتھ ان کے دوستانہ تعلقات تھے.ملبہ ماں کا گاؤں اُونچا جہ دانہ زید کا سے دو تین میل کے فاصلے پر تھا.وہ نہیں چاہتے تھے کہ ملزمان کو مزید مشکل کا سامنا ہو.مجھ سے پوچھا کیا کوئی صورت ہو سکتی ہے کہ حکومت اپیل کرنے سے رک جائے میں نے کہا ایک صورت ہے کہ بین دو ملزمان کو سنیا ہوئی ہے ان کی طرف سے فورا ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی جائے.چونکہ میں نہیں جانتا سمیشن جی نے اپنے فیصلے کی بنا کسی بات پر رکھی ہے.لہذا فیصلہ پڑھنے کے بعد ہی صحیح رائے قائم ہوسکتی ہے کہ اسہیل میں کامیابی کی کسی حد تک توقع کی جاسکتی ہے.لیکن اگر اپیل خارج بھی ہو جائے تو سیشن جج صاحب کے فیصلے پر نائی کورٹ کی تصدیق ہو جائے گی اور اگر حکومت بعد میں اپیل دائر بھی کریسے تو وہ اپیل بے نتیجہ ہوگی.ہم اگر مبدا پیل..ان
ال دائر کر دیں تو اسکی سماعت کچھ ہفتوں تک ہو جائے گی.حکومت کے اپیل دائر کرنے کی میعاد کچھ ماہ ہے.سرکاری وکیل صاحب اپنی رائے ڈپٹی کمشنر صاحب کو بھیجیں گے اگر وہ اتفاق کریں گے تو وہ کاغذات کمشنر صاحب کو بھیجیں گے اگر انہیں اتفاق ہوا تو وہ لیگل ریمیر لیسر کو بھیجیں گے اور وہ گورنمنٹ ایڈوکیٹ کے ساتھ مشورہ کرنے کے بعد طے کریں گے کہ اپیل دائر کی جائے یا نہ اس تمام کار وائی کی تکمیل سے کہیں پہلے ہماری اپیل کا فیصلہ ہو جائے گا.چنانچہ اسی مشورہ کے مطابق اپیل دائر کر دی گئی.سیشن بی صاحب کا فیصلہ پڑھنے سے مجھے اور اطمینان ہوگیا کہ بفضل الله اپیل منظور ہو گی.انہوں نے اپنے فیصلے میں مجمل طورپر تجویز کیا تھا کہ ان دو ملزمان نے حق خود حفاظتی کی حدود سے تجاونہ کیا ہے اور یہ تجو یہ انہیں مجرم قرار دینے کے لئے کافی نہیں تھی.اگر چند اشخاص میں سے بعض خود حفاظتی کی حدود سے تجا نہ کریں توان میں سے کسی کو مجرم قرار دینے کے لئے یہ ضروری ہے کہ نجی یہ تجویز کیسے کہ علال ضرب با ضربات حد سے نجادو تھیں.اور وہ خاص ضرب یا ضربات فلاں ملزم نے رسید کیں اگر شہادت سے یہ ثابت نہ ہو سکے تو کسی ملزم کہ جرم عاید نہیں کیا جاسکتا.اپیل کی سماعت کے دوران میں میں نے میں عذر پیش کیا اور اس کی بنا پر دونوں اپیلانٹ بھی یہ کی کئے گئے.اور حکومت کی اپیل کی گنجائش نہ رہی.مجھے اپنی پر کمیٹی کے دوران میں 14 سولہ سیشن کیس کرنے کا موقعہ ہوا ان میں سے فضل اللہ خوردہ ہیں پوری کامیابی ہوئی.ایک میں سولہ ملزمان میں سے تیر کا سیری ہوئے ایک کو پھانسی کی سندا ہو ئی محدود کو عمر قید کی.دوسرے میں ملبہ مان کو عمر قید کی سزا ہوئی.خان بہادر عبد الغفور پیچاں صاحب ] بن حج صاحبان کی عدالت میں میں سیشن میں پیش مان آن زیده میشن حج ہوا ان میں سے دوا اپنے اپنے رنگ میں بہت ممتاز تھے.ان میں سے ایک خان بہادر خان عبد الغفور خاں صاحب خان آن زیدہ تھے.ان کی عدالت میں گوہ کام بڑی تیزی سے نہیں ہوتا تھا لیکن نہایت احتیاط سے ہوتا تھا.اور ملزمان اور ان کے وکلاء کو کوئی موقع شکایت کا نہیں ہوتا تھا.بارہ ثبوت نہ صرف قانوناً بلکہ عملاً استفاقے پر رہتا.ملزم کو ہر سہولت مسیر آتی اور معقول شک کا فائدہ ملتا.بیج صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بہت زہیر ک دماغ عطا فرمایا تھا.اور امیرانہ مخلق بخش تھا.اگر چہ ان کا رعب بھی بہت تھا لیکن وکلاء اپنے فرض کی ادائیگی میں پوپر ہی آمنہ ادی محسوس کرتے تھے اور حج صاحب کے مزاج میں کبھی تیزی نہ آنے پاتی تھی.ان کے روبرو میرے پہلے کہیں میں دو ملزم تھے سردارا اور خوشیا.پہلے کی طرف سے میں وکیل تھا دور سیسے کی طرف سے میرے مشورے سے میرے شاگردہ اور دوست لالہ پر تاب چند پوری کو وکیل کیا گیا تھا.سرکاری وکیل شیخ عطاء محمد صاحب یہ گیا بر اور اکبر شیخ دین محمد صاحب حج ہائی کورٹ تھے.عدالت کا اعلاس گجرات میں تھا.میں نے کاغذات **
- ۲۰۴ 34 2 کے مطالعہ کے دوران میں نوٹ کیا تھا کہ مقتول کی موت کا سبب ایک سونٹے کی ضرب تھی جو اس کے ماتھے پر لگی جس سے اس کے دماغ کے گرد کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی.شہادت استغاثہ میں بالاتفاق نہ وہ اس بات پر دیا گیا تھا کہ سردارا نے مقتول کے سر کے وسط میں ایک خوفناک بھاری کلہاڑے سے ضربات رسید کی تھیں.مقتول کے سر کے وسط میں ایک ضرب تیز دھار والے آلہ کی بھی تھی جس سے چند قطرے خون کے بھی نکلے تھے لیکن یہ ضرب محض سلمی تھی اور خفیف تھی.اجلاس شروع ہوتے ہی میں نے درخواست پیش کی کہ سول سرجن صاحب کو مزید یجمہح کے لئے طلب کیا جائے.سرکاری وکیل صاحب.سول سرجن کی شہادت مجسٹریٹ کی عدالت میں ہوئی وہاں مجروح ہو چکی ان کا وہ بیان ضابطہ فوجداری کے مطابق مشین کی مثل پہ لایا گیا ہے کوئی وجہ نہیں کہ انہیں دوبارہ طلب کیا بجائے.سیشن جج صاحب.سینیٹے صاحب - ہمارا اختیار سول سرعین کو طلب کرنے کا ہے یا نہیں ؟ سرکاری وکیل صاحب.بیشک آپ کا اختیار ہے لیکن آپ اختیا یہ اصول کی بنا پر استعمال کریں گے اور یہاں کوئی اصولی بات پیش نہیں کی گئی.سیشن بج صاحب - وکیل صفائی سولی سرعین کے بیان کی وضاحت چاہتے ہیں.ر ریڈر سے مخاطب ہو کہ ، سول سرجن کو سرسوں کے لئے بلالو.سردا را قوی ہیکل جوان تھا اور گاؤں میں اپنے گروہ کا سرغنہ تھا.لیکن یہ حقیقت تھی کہ وہ اس دواراتا کے وقت موقعہ پر موجود نہیں تھا.اس لئے استفانے کی طرف سے اسے پھانسنے کے لئے قتل کی زیادہ تر ذمہ داری اس پر ڈالنے کی کوشش کی گئی تھی.جب سول سرمین صاحب حاضر ہوئے تو میں نے ان سے سوال کیا مقتول کی موت کسی ضرب کے نتیجے میں واقعہ ہوئی ؟ سول سرجن صاحب.ماتھے کی ضرب سے..ظفر اللہ خاں.اس ضرب کی کیا لو زعیت تھی ؟ سول سرمین صاحب.یہ ضرب کسی کند آئے سے لگائی گئی تھی.اس کے نتیجے میں ماتھے کے اندر کی ہڈی پھٹ گئی تھی جس کے نتیجے میں موت واقعہ ہوئی.ظفر اللہ خاں.کیا مفتوں کے سر پہ کوئی مضرب تیز دھار والے آلے کی بھی تھی کہ اگر منفی تو اس کی نوعیت کیا تھی ؟ سول سرجن.ایک ایسی ضرب بھی جو سطحی ملتی اور جلد سے نیچے نہیں گئی تھی جلد کے پھٹنے سے کچھ خون
۲۰۵ بھی نکلا ہوا تھا.یہ ضرب خفیف تھی.اس مرحلے پر میں نے سردارے کو کھڑا ہونے کو کہا وہ اپنا کمبل جو وہ اور ہے ہوئے تھا چھوڑ کر کھڑا ہو گیا.چھ فٹ سے لیا قد، چوڑا چکلا سینہ ، وہ قوت اور مردانگی کی تصویر تھا.ظفر اللہ خان.ڈاکٹر صا حب آپ اس شخص کو دیکھیں اور اس کلہاڑے کو بھی ملاحظہ کریں اور فرمائیں کہ اگر یہ شخص لڑائی کے دوران میں غصے اور جوش کی حالت میں مقتول کے سرچہ اس کلہاڑے کے ساتھ الٹی یا سیدھی ضرب لگانا تو کیا اس ضرب کی نوعیت اور کیفیت وہی ہوتی ہو مقتول کے ماتھے کی ضرب با سر کی ضریب کی نفی.سول سر حین صاحب.اگر یہ شخص اس کلہاڑے کے ساتھ مقتول کے سر سپہ ذرا سی طاقت سے بھی ضرب رسید کرتا تو ضرب کے مقام کی ہڈی بالکل چور ہو کر ریزہ ریزہ ہو جاتی.مقتول کے سر کی ضرب سلمی اور خفیف تھی ما تھے کی شدید تھی لیکن بڑی صاف پھٹی ہوئی تھی.ان دونوں عزبات میں سے کوئی مزب اس کلہاڑے سے لگی ہوئی نہیں.زبانی شہادت سے بھی مترشح ہوتا تھا کہ سردا را واردات میں شامل نہیں تھا.جب بحث کی نوبت آئی تو میں نے جج صاحب کی خدمت میں گزارش کی کہ سول سرجن صاحب کی شہادت انگریزی میں ہوئی ہے.مناسب ہوگا کہ ان کے بیان کا اور دور نتیجہ میر صاحبان کو سنا دیا جائے.جج صاحب نے ریڈر کو ایث دو فرمایا کہ سول سرعین کے بیان کا اردو ترجمہ پڑھ کر سنا دیں.ریڈر صاحب نے اردو بیان پڑھنا شروع کیا لیکن اس میں بھی طبی اصطلا میں انگریزی میں درج تھیں ابھی ریڈ کہ نے تین چار سطرس کی پڑھی تھیں کہ جج صاحب نے انہیں روک دیا.چ صاحب.امیر صاحبان سول سرجن صاحب کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ سردارا ملزم نے اس کلہا ہے کے ساتھ مقتول کو نہیں مارا.سرکاری وکیل صاحب اور میں جب اپنی تقریریں ختم کر چکے تو جہ صاحب نے اسیر صاحبان سے یوں خطا نے بیا اسیر صاحبان ہمارا قاعدہ ہے کہ بحث نختم ہونے کے بعد ہم واقعات اور قانون پر مختصر سا خطاب اسیر صاحبان سے کرتے ہیں.جس سے انہیں اپنی رائے قائم کرنے میں مدد ملے.لیکن اس مقدمے میں ابھی ابھی جو تقریہ عزیزیان کی طرف سے وکیل صفائی نے کی ہے وہ اتنی واضح اور اتنی بے رود رعایت ہے کہ اب ہمارے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں.اب آپ اپنی اپنی رائے بیان کریں.اسیر صاحب نمبرا - جناب عالی شہادت استغاثہ اور ڈاکٹری شہادت سے معلوم ہوتا ہے کہ سردا را تو دارہ رات میں شامل نہیں تھا.سیشن جج صاحب - اور خوشیا ؟
۲۰۶ امیر صاحب.جناب عالی خوشیے کے متعلق تو ظاہر ہوتا ہے کہ وہ موجود تھا.سیشن ج صاحب.ارے صاحب ہو شہادت سعی دارے کے خلاف ہے وہی خوشیے کے خلاف ہے اگر وہ نہیں تھا تو یہ بھی نہیں تھا.ایسر صاحب.جناب عالی خوشیے کے متعلق تو خیال ہوتا ہے کہ وہ موجود تھا.سیشن جج صاحب.اچھا صاحب آپ کی مرضی.ایسر صاحبان نمبر ۲ ، ۳ ، ہم نے اسیسر صاحب نمبر کے ساتھ اتفاق ظاہر کیا.مج صاحب نے حکم دیا کہ ملزمان کو دو دن بعد فیصلہ سننے کے لئے جہلم ان کی عدالت میں پیش کیا جائے.فیصلے میں دونوں کو بیری * کر دیا.اس پانی میں سردارے اور خوشیے کے علاوہ تین چار اور بھی ملزم درج تھے.لیکن وہ مغرور تھے.خوشیے کی طرف سے بھی بھی عذر تھا کہ وہ دائروات میں شامل نہیں تھا.بعد میں معلوم ہوا کہ اسیسر مصائب نمبرا واردات کے تین چار گھنٹے کے اندر اتفاقا اپنے کسی کام کی خاطر منڈی بہاؤ الدین گئے تھے جہاں یہ والہ دات ہوئی تھی اور انہیں یہ معلوم ہو گیا تھا کہ سر داراث مل نہیں تھا.لیکن اسے پچھتانے کی کوشش ہو رہی ہے ہے.غالب قیاس ہے کہ یہ ذکر انہوں نے دوسرے اسیسر صاحبان سے کیا ہو گا.میں نے اس واردات سے پہلے سردارے کو لاہور میں دیکھا تھا.ایک دیوانی اپیل میں اس نے مجھے وکیل کیا تھا.اس موقعہ پر میں نے اسکی شکل و شباہت کے متعلق مذاقاً اسے کہا تھا اگر کبھی تمہارے خلاف قتل کا مقدمہ کھڑا کر دیا گیا تو جج صاحب تمہاری شکل دیکھتے ہی قیاس کر لیں گے کرتم نے جرم کا ارتکاب کیا ہے.چند مہینے بعد یہ واردا ہو گئی اور جب مقدمہ سیشن میں گیا تو اس کی طرف سے پیغام آیا کہ میرے خلاف قتل کا مقدمہ کھڑا کر دیا گیا ہے اب آکر میری صفائی کرو.خان آف زیدا کا روائی کے دوران میں بھی اپنی رائے کے اظہار سے نہیں رکھتے تھے.اور شہادت اور وکلاء کی بحث کے بعد جب اسیسر صاحبان سے خطاب کرتے تو اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرتے ایک سیشن کیس میں تین ملزم تھے (میں اس کیس میں وکیل نہیں تھا ، ایک عورت تھی ایک نوجوان لیڈ کا اور ایک پوری عمر کا مرد اس کیس میں جج صاحب نے امیر محاسبان سے یوں مخطاب فریبا اسیر صاحبانی اس میں ان تینوی مسلمہ مان پہ قتل کا الزام ہے.ان میں سے ایک عورت ہے.آپ جانتے ہیں اور ہم بھی جانتے ہیں اور گاندھی جی نے بھی کہا ہے کہ عورت کا کام ہے کہ گھر میں بیٹھے اور چہ منہ کاتھے.عورت کو مردوں کی لڑائی بھرائی کے ساتھ کیا واسطہ ؟ پھر پولیس نے اس عورت کا چالان کیسے کر دیا.آپ نے دیکھا ہے کہ یہ بک بک بہت کرتی ہے.معلوم ہوتا ہے دوران تفتیش میں بھی پولیس
کو اپنی بک بک سے دق کرتی رہی.انہوں نے خیال کیا یہ ضرورہ واردات میں شریک ہوگی اس کا بھی مترویہ چان کر نا چاہیے.اور یہ دوسرا یہ تو ابھی بچہ ہے یہ کیسے قتل میں شامل ہو گا.البتہ تیسرے کے متعلق مضبوط شہادت ہے کہ اس نے مقتول کو مارا.اب قتل دو ستم کا ہے ایک بڑا اقتل ہے ایک چھوٹا قتل بما اقتل یہ ہے کہ ایک شخص دوست کو مارنا چاہتا ہے اور اسے مار ڈالتا ہے.اور چھوٹا قتل یہ ہے کہ مار نا تو نہیں چاہتا لیکن اتفاقاً وہ مر جاتا ہے.اس بات کی تو کوئی شہادت نہیں کہ یہ ملزم مقتول کو مانہ ڈالنا چاہتا تھا.اس لئے یہ اقتل تو اس نے کیا نہیں اب آپ بتائیں کہ اس نے کیا جرم کیا ہے ؟ اس بخطاب کے بعد اسیسر صاحبان سوائے چھوٹے قتل کے اور کیا کہہ سکتے تھے.میاں احسان الحق صاحب سیشن جج | دوسرے سیشن بھی جو اپنے کام میں بہت ممتا نہ تھے میاں احسان الحق صاحب تھے.میرے سیالکوٹ میں پریکٹس کرنے کے زمانے میں میاں صاحب نسیالکوٹ میں سمہ کا ہی وکیل تھے.وہیں سے سیشن بچے ہوئے مجھے کیل پور میں تھوڑے تھوڑے وقفے پر تین سیشن کیسنر ان کی عدالت میں کرنے کا اتفاق ہوا.وہ پوری تیاری کے بعد عین وقت پر اجلاس شروع کرتے اور بہت جلد مجلد لیکن کامل توجہ کے ساتھ کام کرتے.مجھے جبر کو لمبا کرنے کی عادت نہیں تھی.میں بھی اپنی تیاری میں بیٹھے کر لیتا تھا کہ شہادت استغاثہ سے کن امور کی تائید میرے مقصد میں مدہوگی اور اسی کے متعلق گواہوں سے سوال کرتا.یہ طریق انہیں بھی پسند تھا مجھے اس سے بہت فائدہ ہوا.تینوں مقدمات میں شہادت اور محبت تین چار گھنٹوں میں ختم ہو جاتی نہ ہی اس کے فوراً بعد میاں صاحب فیصلہ لکھوا دیتے.سید فضل علی صاحب کا محکمہ انکم ٹیکس می ترا جب پہلی جنگ یورپ کے اختتام کے بعد حکومت بنانے پالٹی صاحب کے محکمہ کو بند کرنے کا فیصلہ کیا تو سید فضل علی صاحب کو نئے سرے سے تلاش روند گالہ کی فکر ہوئی.عین اس وقت حکومت بہن نے کام میں کا محکمہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا.اس انکم ٹکیں کٹ اور الم میں انسپکٹر کی آسامیوں کے لئے در سفر استیں طلب کیں.میں نے سید فضل علی صاحب کو مشورہ دیا کہ ہ کلکٹر کی آسامی کے لئے اپنی درخواست بھیج دیں.انہوں نے کہا کلکٹر کی اسامی کیلئے میرا انتخاب غیر اغلب ہے الیسانہ ہو لکڑی کے پیچھے دوڑوں اور انسپکٹڑی بھی ہاتھ سے بجائے.میں نے زور دیا کہ کلٹڑی کے لئے درخواست دیں.آپ ایم اے میں معقول مشاعرے پر سیلیٹی کے محکمہ میں ذمہ دارانہ خدمات انجام دیتے رہے ہیں آپ کے محکمے کے ان اعلی مرور زور دار سفارش کریں گے لیکن وہ رضامند نہ ہوئے انکم سکیس انسپکٹر کی اسامی کے لئے درخواست بھیجے دی.انہی دنوں میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کیا ہور تشریف لائے اور خاکسار کو غریب خانہ پر قیام کا فخر بخشا.سید فضل علی صاحب کو اپنی درخواست کے سلسلے میں مسٹر کنگ فنانشل کمشنر کے سامنے پیش ہونے کی اطلاع شملہ سے مل چکی تھی.انہیں حضرت صاحب کے حضور نیاز تو حاصل تھا لیکن بوجہ حجاب
۲۰۸ اور احترام خود دعا کے لئے عرض کرنے کی بجائے مجھ سے کہا کہ تم عرض کردو.میں نے ان کی موجودگی میں گذارش کی اور حضور نے کمالی شفقت کے لہجے میں فرمایا دعا کریں گے.تاریخ مقررہ پر سید فضل علی صاحب شملہ گئے.واپسی یہ بتایا مٹر کنگ نے ابتدائی رسمی گفتگو کے بعد فرمایا افسوس ہے انسپکٹر کی اسامیاں تو پچہ ہو چکی ہیں.مجھے حیرت ہوئی کہ اگر مرن میں بتانا تھا تو مجھے شملہ جانے کی کیا ضرورت تھی.مجھے زحمت بھی ہوئی اور اخیرا جات کی زیہ باری بھی ہوئی.پھر بھی میں نے سیم تشکر بیٹے کے الفاظ کے ساتھ رخصت طلب کی اس پر مسٹر گنگ مسکرائے اور کیا انسپکٹر کی اسامیاں تو پتہ ہو چکی ہیں لیکن کلکٹر کی اسامیوں میں ابھی گنجائش ہے اگر تمہیں منظور ہو تو اس پہ تمہارا تقریر کر دیا جائے.(بعد میں اس عہدے کا نام بدل کر انکم یکی افیسر کر دیا گیا، چنانچہ سید فضل علی صاحب کا تقری بطور انکم ٹیکس کلکڑ ہو گیا اور ر ہتک میں تعیناتی ہوئی.اس کے جلد بعد مجھے ایک مقدمے کی پیروی کے سلسلے میں رتیک جانے کا اتفاق ہوا.میر قیام انہیں کے ہاں تھا.مغرب سے پہلے ہم دونوں سیر کو نکلے تو میں نے دیکھا ن کا الہ دلی ہمارے پیچھے پیچھے آتا ہے.میں نے سید صاحب سے کہا واپس چلیں کہنے لگے کیوں کیا بات ہوئی میں نے کہا آپ کی کٹڑی ہماری نگرانی کر رہی ہے اور میں فضل علی کی رفاقت چاہتا ہوں نکم ٹیکس ٹکڑے مجھے سر کا نہیں.کہنے لگے یہ خود ہی میرے پیچھے چلا آتا ہے میں اسے منع نہیں کرتا کہ اسکی دل شکنی نہ جواب اسے کہ دیتا ہوں تم میرے ساتھ ہواسکی ضرورت نہیں! میں نے دریافت کیا کام کیسے میں رہا ہے ؟ کہنے لگے میں قانون تو جانتا نہیں اور مجھے وکلاء کی حیث سنکر مفصلہ کرنا ہوتا ہے.ابھی تو یہ حالت ہے کہ ایک وکیل بحث کرتا ہے تو میں سمجھتا ہوں یہ ٹھیک کہتا ہے دوسرا اس کا جواب دیتا ہے تو خیال کرتا ہوں یہ ٹھیک کہتا ہے بحث کے آخر میں میری طبیعت کا نہ جان آخری تقریم کرنے والے کے حق میں ہوتا ہے ! میں نے کہا تھوڑے سے بجتیے کے بعد وکیلوں کا رعب جاتا رہے گا.کہنے لگے وکلاء کی بحث سے اتنا فائدہ ہوتا ہے کہ مجھے اطمینان ہو جاتا ہے کہ دونوں طرف سے جو کچھ کہا جا سکتا ہے بن لیا ہے.جب وکیل نہیں ہوتے تو مشکل بڑھ جاتی ہے.سائل دکھائی دیتا ہے.حضور کے بیوی بچے بھوکے مر جائیں گے.حضور کے بیوی بچوں کے تن ڈھانپنے کو کپڑا نہیں رہے گا.پہلے تومیں خیال کرتا تھا مجھے بد دعائیں دیتے ہیں پھر میں سمجھا کہ عجز اور انکساری کے طور پر اپنے بیوی بچوں کو میرے بیوی بچے کہ کہ تو جہ دلاتے ہیں کہ اگر ٹیکس میں تخفیف نہ ہوئی تو ان کا برا حال ہوگا.سید افضل علی صاحب نے اپنے محکمے میں دیانت قابلیت اور فرض شناسی کا بہت اعلیٰ معیار قائم کیا اور بہت نیک نام افسر ثابت ہوئے.سچندسالوں کی خدمت کے بعد اسسٹنٹ کمتر ہو گئے اور اگر عمر ونا کرتی تو یقین ملازمت کی میعاد پوری کرنے سے پہلے کمشنر ہوتے لیکن قضا نے مہلت نہ دی اور آج سے زائد از تئیس سال قبل داعی اجل کو لبیک کہا.یغفر الله له ويجعل الله الجنة العلياء مثواه - ہمارے درمیان اوائل ایام طفولیت میں دوستی کا رشتہ قائم ہوا اور ان کے آخری
دم تک قائم رہا کبھی بھولے سے بھی ہمارے درمیان یہ بخش چھوڑے غلط نبی بھی پیدا نہ ہوئی.وہ عمر میں مجھ سے دو تین سال بڑے تھے.لیکن ان کا سلوک میرے ساتھ ہمیشہ بڑے بھائی کی شفقت کے ساتھ ساتھ چھوٹے بھائی کے • احترام اور اطاعت کا نمونہ رہا.یہ سب انکی صفائی قلب اور اعلیٰ خلق کا تقاضا تھا.میری کسی خوبی کا اس میں دخل نہ تھا ان کی وفات پر تیس سال سے زائد عرصہ گذر چکا ہے لیکن ان کی یاد میرے دل میں ہر لحظہ تازہ ہے اور قبیل اللہ کوئی دن نہیں گذرے تا کہ اس میں میری طرف سے ان کے لئے دعائے مغفرت میں ناغہ یا کوتاہی ہو وہ بڑی خوبیوں کے مالک تھے.لیکن عجز انکار، تواضع اور حیا ان کے خاص ہو سر تھے.اعلیٰ درجے کے ادیب اور انشا پردا نہ تھے ان کے مضامین کا مجموعہ تخیلات بلند پایہ اور مایہ نانداد یہوں سے خراج تحسین حاصل کر چکا ہے.١٩٢٣ء مرکزی اسمبلی کی رکنیت کیلئے انتخاب میں حصہ لینا | ارء میں پنجاب کونس کا دوسرا انتخاب ہوا.مجھے کونسل میں جانے کا کوئی ایسا شوق نہیں تھا.چودھری شہاب الدین صاحب نشد میں مرکزی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اور اب وہ چاہتے تھے کہ پنجاب کونسل میں آجائیں.ان کا اصل وطن بھی ضلع سیالکوٹ میں تھا.انہوں نے مجھ سے اس خواہش کا ذکر کیا اور کہا کہ ہ سیالکوٹ سے منتخب ہونا چاہتے ہیں بشرطیکہ میں اس حلقے سے کھڑانہ ہونا چاہو میں نے ان سے کہہ دیا کہ مجھے تو کوئی شوق نہیں لیکن اگر حضرت خلیفہ المسیح نے ارشاد فرمایا تو مجھ پر تعمیل واجب ہوگی.جناب چودھری صاحب نے حضرت صاحب کی خدمت میں تحر یہ گذارش کی کہ انہیں سیالکوٹ سے کھڑے ہونے کی اجازت دی جائے.حضور نے ارشاد فرمایا کہ چونکہ ظفر اللہ خان کے کھڑے ہونے کے متعلق کہ مضامندی دے چکا ہے اسلئے ہم بھی رضا مند ہیں لیکن یہ رضامندی صرف اس انتخاب کے متعلق ہے آئندہ انتخابات پر اس کا اثر نہ ہو گا.خاک کے متعلق حضور نے فرمایا کہ یہ پبلک ذمہ داری کے کاموں سے گھبراتا ہے اسے ان امور کی عادت ڈالنے کے لئے ہدایت دی جائے کہ اختیار کیا ہور، امرتی ، گورداسپور، فیروز پور کے حلقے سے مرکز ی اسمبلی کی رکنیت کے لئے کھڑا ہو.اس حلقے سے تین امیدوار تھے.حلقے میں شہر اور دبیات دونوں شامل تھے اور شہری رائے دہندگان کی بھاری کثرت تھی.شیخ صادق حسن صاحب امرتہ سے امیدوار تھے شہر امرتہ میں علاوہ ان کے خاندانی اور کا ردباری رسوخ کے ان کی کشمیری برادری کے بہت سے روٹ تھے.اور شہر ی مہور میں بھی یہی صورت بھی یوں بھی قیاس میں تھا کہ دہ کامیاب ہو جاتے لیکن ساتھ ہی انہوں نے علمائے کرام سے فتویٰ پر دستخط حاصل کر کے بڑے بڑے اشتہار شہروں اور قصبوں کی دیواروں پر جابجا چسپاں کرا دیئے کہ ظفر اللہ خان کو ووٹ دنیا نا جائز ہے کیونکہ دہ قادیانی ہونے کی وجہ سے کافر ہے.قواعد انتخاب کے لحاظ سے یہ کاروائی نا جائمہ اور انتخاب کو باطل کرنے والی تھی شیخ صادق حسن صاحب انتخاب میں کامیاب ہو گئے.میں دوسرے نمبر پر آیا باقی دونوں امیدوار میرے اور چو تھے نمبر پر آئے.شیخ صاحب کی حمایت میں نشر کردہ اشتہاروں نے ایک اصولی سوال کھڑا کر دیا تھا جس کے عمل
کرنے کی یہی صورت تھی کہ انتخابی ٹربیونل کے سامنے یہ سوال لایا جائے اور انتخاب کو باطل قرار دیئے جانے کی درخواست کی جائے.درخواست کا علم ہونے پر پیشیخ محمد صادق صاحب ( برادر اصغر شیخ صادق حسن صاحب) میرے پاس لاہور تشریف لائے اور منت سماجت سے مجھے درخواست کی پیروی سے دست کش ہونے پر آمادہ کرنے کی سعی کرتے رہے.میں نے ان سے تو کوئی وعدہ نہ کیا لیکن ان کی تشریف آوری کا ذکر اور انکی گفتگو کا خلاصت نفرت خلیفہ المیشم کی خدمت میں گذارش کر بھیجا.حضور نے ارشاد فرمایا کہ شیخ محمد صادقی صاحب کا یہ کہنا کہ یہ اشتہامہ بازی ان کے ایما سے نہیں ہوئی تو با بداہت غلط ہے اور یہ کہنا کہ یہ اشتہار بازی بعضی بعض لوگوں کی طرف سے ایک قسم کا مذاق تھا سنجیدہ باتوں سے تمسخر ہے جو بہت قابل افسوس ہے.لیکن ان کی منت سماجت سے ظاہر ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ ان کی اس غلط حرکت کے نتیجے میں انتخاب باطل قرار دیا جائے گا.اور انہیں پریشانی صرف اس وجہ سے ہے کہ جو چیز اتنی تگ و دو کے بعد حاصل کی ہے وہ ہاتھ سے نکل جائے گی.ان کی طرف سے کسی قسم کا اظہار نہیں ہوا کہ ان کی یہ حرکت نادا جب بھی اور وہ اس پر نادم ہیں.باس تہ جب وہ اپنے برادری اکر کی طرف سے اور لانہ ماں کے ارشاد کے ما تحت امرت سے چلکہ تمہارے پاس آئے تو یہ عمل ندامت کا اظہار ہے.پھر وہ انگلستان میں تمہارے ساتھ رہے ہیں اور تمہارے درمیان دوستانہ تعلقات بھی رہے ہیں تمہاری طرف سے حسین سلوک مناسب ہے.چنانچہ حضور کے ارشاد کی تعمیل میں میں نے درخواست کی مزید پیروی ترک کردی.پریس آف ویزہ حال ڈیوک آف ونڈسر کی لاہور تشریف آوری پر شہزادہ دینی درحال ڈیوک آن بیس انی کی طرف کتاب تحفہ شہزادہ ولیز میں قبول اسلام کی دعوت تم میں ہندوستان کی سیاست کیلئے تشریف لائے اور اس دوران میں ان کا دور و دلاہورمیں بھی ہوا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے جماعت احمدیہ کی طرف سے شہزادہ میلہ کے لئے ایک نہایت قابل تقدیر تحفہ کتاب کی شکل میں تیار کیا جس میں اسلام کی حقانیت اور اس کے زندہ مذہب ہونے کے دلائل پیش کر کے اور عبد ایت کی موجودہ تعلیم اوراسلم کی تعلیم کا موانہ نہ کرتے ہوئے شہزادے کو قبول اسلام کی دعوت دی.یہ کتاب حضور نے اردو میں تحریر کی اور اس کا مسودہ خاکسار کو انگریزی میں ترجمہ کرنے کے لئے ارسال فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ پانچ دن کے اندر ترجمہ تیارہ کر کے قادیان سے آو یہاں نظر ثانی کی جائے گی.مجھے ان دنوں دن بھر مصروفیت رہتی تھی ترجمے کے لئے فقط شام کا وقت میسر آتا تھا.جیسے جیسے میں ترجمہ کرنا ساتھ.....ساتھ انگریزی مسودہ ٹائپ کر دیا جاتا.محض اللہ تعالے کے فضل ورحم سے بی اہم ذمہ داری حضور کی تقریرکردہ میٹا کے اندر پوری ہوگئی اور خاک از ترجمہ کہ حضور کی خدمت میں حاضر ہو گیا.دو دن میں نظر ثانی بھی کم ہوگئی اور مسودہ طباعت کے لئے تیار ہوگیا.خاک رجب حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضور نے فرمایا ایک بات نہیں ہنا یا دو نہ ہٹا کہ انگریزی عبارت کا اندانہ انجیل کے اندازہ پر ہونا چاہیے.خاک رہنے گذارش کی کہ اصل تحریر کے اندازہ 1
سے ہی مخاک ارنے یہ قیاس کر لیا تھا اور بخاک رہنے حضور کے منشاء کے مطابق نہ بان کو ڈھالنے کی کوشش کی ہے.تم مجھے کی نظر ثانی میں حضور خود شامل تھے اور حضورہ کے ساتھ صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے ایم اے مولوی شیر علی تھا جب ایم اے اور ماسٹر محمد دین صاحب بی اے بی ٹی شریک تھے.اس مجلس کا اجلاس فجر کی نمازہ کے بعد شروع ہو جاتا تھا.اور عشاء کی نماز کے بعد تک جاری رہتا تھا صرف نمازوں اور کھانوں کیلئے توقف ہوتا تھا.گوردونوں دن مد د رابعہ کی مصروفیت رہی اور کام بھی پوری توجہ اور احتیاط کا طالب تھالیکن اس پاکیزہ محبت اور صالح مصروفیت کے دوران میں طبیعت ایک لمحہ کے لئے بھی اکتائی نہیں نہ کسی وقت کوئی کوفت محسوس ہوئی حضرت صاحب کی بشاش طبیعت نے حضور کے سب رفقاء کو بشاش اور خرم رکھا.کتاب وقت پر تیار ہوگئی اور اس کی ایک خاص معبد چاندی کے وی توں یکس میں شہر ادہ و علینہ کو پیش کر دی گئی.چالیس سال بعد اقوام متحدہ کی اسمبلی کا سترھواں اجلاس نیو یارک " میں ہو رہا تھا جس کا میں صدر تھا.ایک دن دوپہر کے کھانے کی دعوت سے لوٹنے پر میں جلدی میں اپنے رے کی طرف جارہا تھا کہ دیکھ اقوام متحدہ کے قانونی مکہ کے ڈائر کٹر ایک صاحب کے ساتھ کھڑے گفتگو میں مصروف ہیں.میں نے ان سے پہلو بچا کر نکلنا چاہا انہوں نے ہاتھ بڑھا کر مجھے ٹھہرا لیا اور کہا صاحب صدر اتنی جلدی کیا ہے ذرا یہ کیئے میں آپ کا تعارف ہر رائل ہائی نس ڈیوک آف ونڈہ سے کرا دوں.میں نے ان سے ذکر کیا کہ جب آپ لا ہور تشریف لائے تھے تو مجھے آپ سے شرف نیا نہ حاصل ہوا تھا.کہنے لگے مجھے لاہور جانا خوب یاد ہے میں نے وہاں بہت اچھا وقت گزارا میں نے کہا مجھے یہ بھی فخر حاصل ہے کہ جو کتاب جماعت احمدیہ کی طرف سے بطور تحفہ آپ کی خدمت میں پیش کی گئی تھی اس کا ترجمہ اردود سے انگریزی میں میں نے کیا تھا.انہوں نے بلانا مل اور بے ساختہ کہا وہ کتاب ابھیجا تک میرے پاس ہے.جماعت احمدیہ لاہور کے امیر کے طور پر تقریر | خلافت ثانیہ کے دور کی ابتداء میں جب جماعت میں اختلاف ہوا میرے والد صاحب اس وقت جماعت سیالکوٹ کے پریذیڈنٹ تھے.میں نے انگلستان کی واپسی پر سیالکوٹ کے قیام کے زمانے میں کچھ عرصہ جماعت کے محاسب کی خدمت سر انجام دی.خلافت ثانیہ کے ابتدائی سالوں میں حضرت خلیفہ المسیح نے بعض جماعتوں میں امارت کا نظام جاری فرمایا.خان قصاب مولوی فرنه ناد علی نعال صاحب الله امیر فیرونہ پور میں مقرر ہوئے.تھوڑا عرصہ بعد حضرت خلیفہ المیے لاہور تشریف لائے اور ایمپریس روڈ پر احمدیہ ہوسٹل میں قیام فرمایا.والد صاحب بھی قادیان سے تشریف لائے اور ماموں صاحب دانہ نزیر کا سے آئے میں ان دونوں بانہ ان مج محمد لطیف میں رہنا تھا در نونی بزرگ و مہیں قیام فرما تھے.ایک شام جب دونوں احمدیہ پوسٹس حضور کی خدمت میں حاضری کیلئے..
FIF تشریف لے گئے تو میں غالبا دفتر کے کامکی مصروفیت کی وجہ سے ان کی عمر ہی سے اور حضرت خلیفتہ المسیح کی خدمت میں حاضری سے محروم رہا واپسی پر والد صاحب نے کسی قدر کرے کے لہجے میں کہا آج تم حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر نہیں تھے.حضور نے جماعت لاہور کے افراد سے مشورہ طلب کیا تھا کہ لاہور میں کسے امیر مقرر کیا ہے ماموی صاحب نے جلدی سے کہا مشورے کے بعد حضور نے تمہیں امیر مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے.مبارک ہو.اس پر والد صاحب نے فوراً فرمایا لیکن تمہارے حق میں صرف ایک رائے تھی.حقیقت یہ تھی کہ میں لا ہورہ میں نسبتا گو وار د تھا اور جماعت کے سرگرم کارکنان کے مقابلے میں نوعمر بھی تھا.نقوی عبادت ، علم قرآن، خشیت اللہ ، حسن کردار، تواضع، اخلاق ، روحانیات ، میل جول ، مہمان نواندی، سلسلے کی خدمات ، قربانی غرض ہر صفت کے لحاظ سے کئی بزرگ جماعت میں مجھ سے بہت درجے بلند تھے.ان کے سامنے میری کوئی حیثیت نہیں تھی اور مجھے ان کے ساتھ کوئی بھی نسبت نہیں تھی.میاں چراغ الدین صاحب بڑے پائے کے بزرگ اور حضرت میسج موعود علیہ السلام کے پرانے صحابی تھے.ان کے خاندان کے بہت سے افراد جماعت میں بلند مرتبہ یہ کھتے تھے.ان کے صاحبزادے میاں عبد العزیز مغل صاحب بہایت مخلصی اور مستعد خادم سلسلہ تھے.حکیم محمد حسین صاحب قریشی موسعد مفرح عنبری بھی پرانے صحابی ، بڑے عبادت گذار اور تقوی شعار بند رگ تھے سلسلے کے کاموں میں جوانوں سے بڑھ کر مستعد اور سر گرم تھے.سید دلاور شاہ صاحب بناین مخلص اور سرگرم کارکن تھے سلسلے کی تبلیغ کا خاص ہوش رکھتے تھے.بابو عبدالحمید صاحب آڈیٹر نہایت مخلص اور بڑی پابندی اور با قاعدگی مورخ سے کام کرنے والے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اہل بیعت کے ساتھ انہیں خاص عقیدت تھی.حضرت حمایت نے جب جماعت سے مشورہ طلب فرمایا کہ لاہورہ کی جماعت میں امیر کسے مقرر کیا جائے تو حسب توقع جماعت کی رائے دو بند رگوں قریشی محمد حسین صاحب اور سید د لادرشاہ صاحب کے حق میں تھی.میں تو کسی شمار میں نہ تھا.مجھے تو اس پر بھی حیرت ہوئی کہ ایک صاحب نے میرے حق میں رائے دی.دار الامان واپسی پر حضور نے بعض ہدایات خاک رہ کو ارسال فرمائیں جن کا خلاصہ یہ تھا کہ میر کو جماعت کی انفرادی اور اجتماعی بہبودی کے تمام پہلوؤں پر نظر رکھنا چاہیئے.اور جماعت کو مناسب تحریک کرتے رہنا چاہیے.جن امور کا فیصلہ جماعت کو کرنا ہو ان کے متعلق مشورے کا یہ اسلوب در منا چاہیے کہ اختلاف نہ ہو.اور تمام امور اتفاق رائے سے طے ہوں.اگر اتفاق رائے نہ ہو تو زیادہ سے زیادہ کثرت رائے سے فیصلہ ہونا چاہیے.امیر کو چاہیے کہ اتفاق رائے یا کثرت رائے سے فیصلہ کرے لیکن جہاں اسکی رائے میں اتفاق رائے یا کثرت رائے کے مطابق فیصلہ سلسلے کے مفاد کے خلاف مودہ ایسی رائے کو رد کر سکتا ہے لیکن ایسی صورت میں اسے مرکز میں رپورٹ کرنا ہو گا ہ کن وجوہ کی بنا پر اس نے جماعت کی رائے ہے.کو رد کیا ہے.جماعت کے کارکن امیر کے رو بہ و ذمہ دار ہوں گے اور امیر حمل امور کے متعلق مرکز کے سامنے
۲۱۳ غیر احمدی علمائے کرام کا اشارہ میں صنفی اور اہل حدیث مسلک کے علماے کرام نے مشترکہ اعلان کیاکہ وہ قادیان میں جلسہ منعقد کرنا مقادیانیت کو مغلوب کرنے اور قادیان کو فتح کرنے کیلئے قادیان میں ایک زبر دست مشترکہ طلبہ کریں گے چنانچہ اس غرض کے لئے لائے کرام کا ایک نظم اجتماع قادیان میں ہوا.دیگر علامات ساتھ یہی کہا گیاکہ مرزا صاحب کی تر کھو کر دیکھیں گے گرا کے جسم کو تیری کوئی گیند ہ پہنچا ہو وہیں ان کے دعونی کی صداقت کو تسلیم کر لیں گے.ورنہ ثابت ہو جائے گا کہ ان کا دعوی نعوذ باللہ تھوٹا ہے.ایسے اعلانات کی وجہ سے حفظ امن اور شعار اللہ کی حفاظت کے متعلق جماعت پر بری بھاری ذمہ داری عاید ہوگئی.خصوصاً اس امر کے مد نظر کہ حکومت کی طرف سے جو جماعت احمدیہ کو اس کے ضبط اور نظام کے باعث شک کی نگاہ سے دیکھتی تھی اور جماعت کے متعلق بالینی رکھتی تھی کسی موثر اقدام یا انتظام کی میں نہیں تھی.جلسہ کی تاریخ سے ایک دن پہلے خاکسار کو حضرت خلیفہ المین کا ارشاد موصول ہوا کہ احمدیہ ہوسٹل کے طلباء کو ساتھ لیکر فوراً قادیان پہنچے جاؤ.میں پورٹل کا وارڈن بھی تھا.جمعہ کا دن تھا میں نے جمعہ کی نمانہ میں اعلان کیا کہ ہوسٹل کے تمام طلبا عرشام کی گاڑی سے قادریان جانے کیلئے اسٹیشن پر پہنچ جائیں.چودھری بشیر احمد بھی اگر چہ ہوٹل میں نہیں رہتے تھے آگئے بیشیخ بشیراحمد صاحب ر حال ایڈوکیٹ لاہور سابق حج ہائی کورٹ ، ہوسٹل میں رہتے تھے لیکن اس دن کسی کام سے اپنے وطن گوجر انوالہ گئے ہوئے تھے شام کو واپس آئے تو اسٹیشن پر اپنے مجولیوں کو دیکھ کران سے سب دریافت کیا اور معلوم ہونے پر دہ بھی شامل ہو گئے.گاڑی نصف شب کے قریب بٹالہ پہنچی.بعض طلباء نے خواہش ظاہر کی کہ دو چار گھنٹے اسٹیشن پر آرام کرنے کے بعد قادیان روانہ ہوں.میں نے کہا میرے نام جو ارث در آیا ہے اس میں فوراً پہنچنے کا حکم ہے توقف کی گنجائش نہیں.ہم فوراً نہ دانہ ہو گئے.تین چار میں مچلنے کے بعد شہری طلباء میں سے بعض نے تھکان کی شکایت کی اور کہا کچھ سستا لیں.میں نے کہا ستا نے بیٹھ گئے تو منزل بہت دور ہو جائے گی.ہمت سے بڑھتے چلو.فجر کی اذان ہو دسی نفتی کہ ہم مسجد مبارک کے چوک میں پہنچ گئے.دفاتر سب کھلے تھے اور ہر طرف روشنی تھی میں نے اپنے ساتھیوں نا ہر سے کہا متعلق دفتر میں اپنے پہنچنے کی اطلاع کر دو اور وضوکر کے خانہ میں شامل ہو جاؤ.بعد میں معلوم ہوا کہ نماز کے فوراً بعد سب کی ڈیوٹی لگا دی گئی اور سب اپنے اپنے مقررہ مقام پر چلے گئے.مجھے ارشاد ہو کہ علمائے کرام کے جلسے میں حاضر ہوں اور اگر کوئی اشتعال انگیز بات کی جائے تو مجسٹریٹ صاحب کو توجہ دلادوں.میرے علاوہ حضرت خلیقہ المسیح ثانی نے پولیس کے نمائندگان اور کچھ رضا کاروں کو جلسہ میں جانے کی اجازت دی.جماعت کے افراد کو ملبہ گاہ میں جانے یا اس کے قریب سے گذرنے کی ممانعت کر دی گئی تاکہ کس قسم کے تصادم کا امکان پیدا نہ ہو.قصبے کے اندری اور بیرون احمدیہ محلوں میں پہرے.حفاظت اور خبر رسانی کا انتظام تھا.ہر فرد چوکس تھا.نمازوں اور دعاؤں میں خاص سوزد گدازه تھا، باہمی محبت اور ہمدردی کا سجر بکریاں ہر طرف موسندن تھا.
جلسہ کی کاروائی صبح ہوتے ہی شروع ہو جاتی تھی اور دوپہر کے وقت کھانے اور نمازوں کا وقفہ چھوٹے کہ پھر شروع ہو کہ پہر رات گئے تک جاری رہتی تھی.علمائے کرام کثیر تعداد میں تشریف لائے تھے اور سب کو ذقت دینے کیلئے ضروری تھا کہ اجلاس لمبے ہوں.نتیجہ میری حاضری بھی سلسے میں صبح سے رات تک لازم تھی.جب اس امان اور کھانے کیلئے ملتوی ہوتا تو میں واپس جاکر جلد میں کچھ کھا لیا در سبد مبارک میں ان میں شال ہونے کا موقعہ بھی میسر آجاتا اور مختصر رپورٹ بھی حضرت خلیفہ المسیح کی خدمت میں گزارش کر دیتا.رات کا اعلاس ختم ہونے کے بعد حضور دن بھر کی تمام رپورٹیں سننے کے بعد انتظامات کے معائنے کے لئے تشریف لے جاتے خاک ربھی اردل میں حاضر رہتا.واپسی پر مجھے دو تین گھنٹے نیند کیلئے میسر آجاتے.اللہ تعالی ہی جانتا ہے کہ ان تین دنوں میں امام جماعت کو نیند کیلئے کوئی وقت میسر آیا کہ نہیں اور اگر میسر آیا تو کتنا ؟ معائنے کے دوران میں بھی عجب کیفیت دیکھنے میں آتی ہر مقام اور ہر جو کی پر ڈیوٹی والے مستعد اور چوکس تھے.احمدیہ محل میں ہر جگہ روتی تھی اور کس قسم کی پریشانی نہیں تھی.ہر فردی استاد اپنی مفروضہ ڈیوٹی کولوپر سے شوق اور انہماک سے ادا کر رہا تھا.حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب نے ایسے جید عالم اور واجب الاحترام بزرگ بیت المال کے دروازے پر پہرہ دار کے طور پر جوانوں کی طرح مستعد استادہ متھے.آنکھوں میں وہی چمک، لبوں پر وہی تقسیم ، چہرے پر وہی بشاشت ہو قرآن کریم کا درس دیتے وقت ہوا کرتی تھی.وہ قرآن کریم کا درس یہ قرآن کریم پر عمل - اصبروا وصابروا ور الطبوا واتقوا الله لعلکم تفلحون.سب سے زیادہ خطرے اور بدین دیجہ سب سے زیادہ اعزانہ کی ڈیوٹی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر پہرہ کی ڈیوٹی تھی.حفاظت کی سہولت کی خاطر حضور کے مزالہ اور حضرت خلیفتہ المسیح اول کے مزار کے گرد جلدی میں ایک کچی دیوار چاروں طرف کھڑی کر کے اس پر چھت ڈال دی گئی تھی دیوار کے گردہ اور پچھت پر پہرہ تھا.احمد یہ ہوسٹل کے طلباء میں سے بعض کی ڈیوٹی اس مقام پر تھی ان طلبا میں میاں عطاء اللہ صاحب بھی شامل تھے.جو بعد میں جماعت راولپنڈی کے امیر ہوئے.پچھت پر شیخ بشیر احمد صاحب ایشیخ یوسف علی صاحب ، شیخ محمد احمد صاحب اور مرا عبدالحق صاحب پہرے پر متعین تھے.علمائے کرام کے سلسے میں فضل اللہ کوئی نا گوارہ واقعہ رونمانہ ہوا.فالحمد للہ تقریریں تو بیشک سلسلے کی مخالفت میں تھیں.جلسے کی غرض ہی سہی تھی.لیکن کوئی بات عملاف و، اشتغال یا شر انگیزی کی نیت سے کی گئی معلوم نہیں ہوتی تھی.مولوی شاء اللہ صالہ نے اپنی تقریر کی تمہید کے طور پر چند استعا حضرت مسیح الموعود علیہ السلام کی مشہور تنظیم سے
۲۱۵ جمال وحسن قرآں نور جان ہر مسلمان ہے قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے پڑھے.لازم ہے کہ جماعت احمدیہ کے مکمل مضبوط اور نظم کا بھی اثر منتظمین جلسہ اور علمائے کرام پر ہوا ہو.جس کے نتیجے میں کوئی نا گوارہ بات معرض ظہور میں نہ آئی.پہلی رات کا معائنہ مکمل کرنے کے بعد حضور نے انتظامات کے متعلق مشورہ کیا اور مزید ہدایات جاری فرمائیں.حضور نے فرمایا کہ بعض مقامات پہ انتظام کی مضبوطی کی ضرورت ہے جس کے لئے ارد گرد کے علاقے سے جماعتوں کے کچھ افراد کو بلانا ہوگا اور حضور نے مشورہ طلب کیا کہ کون مستعد قابل اعتماد صاحب رضو خرم و احتیاط نوجوان میسر آسکتا ہے جو حضور کا ارشاد جیسے اسے سمجھا دیا جائے جماعتوں تک پہنچاؤ دو تین نام محصولہ کی خدمت میں پیش گئے.لیکن حضور مطمئن معلوم نہ ہوئے.میں نے چودھری بشیر احمد صاحب کا نام پیش کیا فرمایا وہ ٹھیک ہیں.رات کے تین بجے کا وقت تھا چودھری بشیر احمد صاحب کو طلب فرمایا اور تفصیلی ہدایات دیں چار بجے کے قریب پچودھری صاحب دارد لامان سے گھوڑے پر نکلے اور جوا موران کو تفویض کئے گئے تھے سیکی انجام دہی کے بعد ایک گھنٹہ قبل دو پر واپس پہنچے کہ حضور کی خدمت میں رپورٹ پیش کردی.اس عرصے میں وہ کھورہ پر سے نہیں اترے.موضع بھنگوں یعنی تنہاں میں گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے ی ناشتہ کر لیا.نجراء الله جلب ختم ہونے کے دوسرے دن میں اپنے طلباء کے قافلے کے ساتھ لاہور روانہ ہوگیا.قادیان سے بٹالہ تک کا سفر ہم تم پر ہوا.ایک کم کم راستے میں الٹ گئی ایک نوجوان کے بازو کو چوٹ آئی بٹائے سے لاہورہ تک اس کے لئے لیٹنے کاسامان کر دیا گیا.جنگ کے اختتام کے ایک سال بعد پہلی عالمی جنگ ختم ہونے کے ایک سال بعد میرے عزیز دوت آسکر بر نظر کی خیریت کی خبر آسکر برنالہ کے یہ خیریت ہونے کی خبر ملی ان کا آخری خط مجھے اگست شدہ میں برسلز سے لکھا ہو املا تھا کہ وہ اپنی رجمنٹ میں شامل ہونے کے لئے بعد مینی جار ہے ہیں.جنگ (41 کے دوران مجھے ان کے متعلق بہت تشویش رہی اور میں ان کی حفاظت اور سلامتی کے لئے دعا کرتا رہا.ان کے خط سے معلوم ہوا کہ ان کے والدین فوت ہو چکے ہیں.مال و جاہ وحشم سب ختم ہو چکے ہیں.وہ جنگ میں دو تین بار رضی ہوئے ایک گھٹنہ ٹوٹ جانے کی وجہ سے ایک ٹانگ ایک اپنے چھوٹی ہو گی لیکن سچلنے پھرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں جنگ میں بڑی بہادری سے لڑے اور مشکلات و مصائب کا مقابلہ بڑی جوانمردی سے کیا نائٹ آف ہو مین زائرین کا رتبہ اور آئرین گراس کا اعزانہ ملا.
۲۱۶ آسکر سے ملنے کیلئے یورپ کا سفر کیاء میں میں نے دار کا ہی کی لیکچراری سے استعفی دید بیان دین کیبیز کی ایڈیٹری کے فرائض سے میں سبکدوش ہو چکا تھا گو تو کام مجھے گھر پہ بھیج دیا جاتا تھا وہ میں کہ دنیا تھا.اس عرصے میں میں متواتہ مصروف رہا.انگلستان سے واپس آئے مجھے دس سال ہونے آئے تھے.عالمی جنگ نے اقدار حیات میں انقلابی تفاوت پیدا کر دیا تھا.یورپ کی تہذیب تمدن، سیاست پر ایک نہ لزار عظیم آچکا تھا.ہندوستان مفضل اللہ جنگ کی نہ دیں نہیں آیا تھا.لیکن جنگ کے نتیجے میں ایک انقلابی دور میں داخل ہو چکا تھا.میں نے چاہا کہ میں دو تین مہینے فراغت حاصل کر کے یورپ سے ہو آؤں اپنے عزیه دوست آسکر یہ نامہ سے جو ان دنوں یہ منی میں قیام پذیر تھے دوبارہ ملنے کی خواہش کا بھی اس پروگرام میں بہت دخل تھا.میں نے پاسپورٹ کی درخواست دی پاسپورٹ تو مل گیا لیکن محکم متعلقہ نے اس میں جمہ منی کا نام شامل کرینے سے انکار کر دیا.میں نے اطالوی کمپنی کے بجہاز سے بھیٹی سے دمنیں جانے کا انتظام کیا تھا.وہیں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ وہاں برطانوی نائب کو نسل کا دفتر ہے.و منیس میں ماں لک کے دفتر کی معرفت مجھے آسکہ کا برلین سے لکھا ہوا خط بھی مل گیا.وہ خط لیکہ میں کونسل خانے میں گیا اور بتایا کہ مجھے ان دوست کو ملنے کے لئے بعد مبنی بجانا ہے اور پاسپورٹ میں حجر منی کا نام درج کراتے کی ضرورت ہے.افسر متعلقہ نے خط پڑھ کہ اسٹریا اور حجم منی کے نام پاسپورٹ میں درج کر دیئے.پہنیں سے میں بذر بعد ریل دی آئینا گیا وہاں تین دن ٹھہرا.ان دنوں آسٹریا کے سکے کی قیمت بہت گری ہوئی تھی.آسٹرین سکے کے لحاظ سے میں دو تین دن لکھ پتی بنا ر یا دو جوڑے جوتوں کے محمد یارے جن کی قیمیت پانچ لاکھ کر اؤن اوا کی.بر طانوی کے میں میں کل رقم تین پاؤنڈ پانچ شلنگ بنی.جوتے بہت عمدہ تھے میرے بہت کام آئے.دی آئینا سے میں بذر بعہد ندیل براستہ پراگ بہ بن گیا اور وہاں آسکر کے پاس بارہ دن ٹھہرا.ان کی ہمشیرہ ایس بھی ان کے ساتھ رہتی تھیں.میر قیام برلن کے دوران آسکر نے فیصلہ کیا کہ وہ میرے ہمراہ انگلستان چلیں گے اور انہیں اس سفر کیلئے اور لندن میں عارضی قیام کیلئے اجازت نامہ مل گیا." حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی سہ کے موسم گرما میں لندن میں ایک کانفرنس برٹش ایمپائر لندن مذاہب کا نفرنس میں شرکت کے مختلف مذاہب کے نمائندوں کی ہونے والی تھی حضرت خلیفہ المسیح الثانی ماکو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی جو حضور نے منظور فرمائی تھی.کانفرنس کے سلسلے میں حضور نے احمدیت یا حقیقی اسلام تصنیف فرمائی تھی اس کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کا ایشاد بھی خاک رکھ ہوا تھا.خاک یہ انگلستان کے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے تین چھ تھائی حصہ مسودے کا ترجمہ کر سکا تھا
۲۱۷ لکھا حضور نے خاک رکو سفر کی اجازت مرحمت فرمائی اور بقیہ حصہ مسودے کا تمر حمد حضرت مولوی شیر علی است اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے سپرد فرمایا.میں ابھی بہرین میں ہی تھا کہ مولوی عبدالر حیم نیر صاحب نے جو ان دنوں لندن میں سلسلہ احمدیہ کے مبلغ اور لندن مسجد کے امام تھے مجھے کہ حضور کا ارشاد ہے کہ حضور اور حضور کے رفقاء کے قیام کا انتظام میرے مشورے کے ساتھ کیا بجائے اس لئے مجھے جلد لندن پہنچنا چاہئے.نیر صاحب کے ارشاد کی تعمیل میں آسکر اور میں لنڈن پہنچ گئے حضور کے قیام کے لئے نمبر ، چیشم پلیس کرایہ کیا گیا تو ہر لحاظ سے موزوں ثابت ہوا.اس سال دیکھیلے میں ایک بڑی نمائش بھی ہوئی تھی لیکن مذاہب کی کانفرنس کا نمائش سے کوئی تعلق نہ تھا.مذاہب کانفرنس کا انتظام ایمپیرئیل انسٹی ٹیوٹ میں کیا گیا تھا جوں ڈتھ کنسنگٹن میں واقع ach * ہے اور اس زمانے میں لندن یونیورسٹی کے مرکزی در قانتہ کا صدر مقام تھا.ممکن ہے مذاہب کانفرنس کے منتظمین نے کا نفرض کے انعقاد کے لئے اس موقعہ کا اسلئے انتخاب کیا ہو کہ نمائش کی وجہ سے بہت سے مذہب سے دلچسپی رکھنے والے لوگ بھی لندن میں موجودہ ہوں گے.اس کے علاوہ کانفرنس اور نمائش کا آپس میں کوئی تعلق نہ تھا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا ورود لندن | لندن مشن میں ان دنوں مولوی عبد الرحیم نیر صاحب نے کے ساتھ ملک نواب الدین صاحب مرحوم اور سمه دار مصباح الدین صاحب معادن تھے.ماسٹر عز ینه دین صاحب مرحوم تجارتی صیغے کے انچارج تھے.ماسٹر محمد دین صاحب امریکہ سے تشریف لائے ہوئے تھے اور حکیم فضل الرحمن صاحب مغربی افریقہ سے ، حضرت حافظ روشن علی صاحے ، خره حضرت خان ذو الفقار علی خان صاحب ، چودھری فتح محمد سیال صاحبت ، حضرت صاحبزاده برنزیا شریف احمد صاحب ، حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ، حضرت مولوی عبدالرحیم درد صاحب حضر بھائی عبدالرحمن قادیانی صاحب ، حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب، چودھری محمد شریف صاحب ایڈوکیٹ رضی اللہ تعالی عنہم شیخ عبدالرحمن مصری صاحب اور چو دھری علی محمد صا حب حضور کی معیت میں تشریف لائے حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور چودھری محمد شریف صاحب ایڈوکیٹ اپنے مصارف سفر خود برداشت کر رہے تھے.مسٹر آسکہ بجرنیلہ اور خاک ارہ کو بھی حضور کی تشریف آوری پر حضور کے دیگر خدام میں شامل ہونے کا فخر حاصل ہو گیا.ان دنوں شیخ اعجانہ احمد صاحب کے صوبجاتی مجوڈیشل سروس میں لئے جانے کا معاملہ زیر غور تھا.انہوں نے لکھا کہ حضرت صاحب کے لندن پہنچنے پر حضور کی خدمت میں میرے لئے دعا کی درخواست کرتا.حضور کی تشریف آوری پر خاک اپنے شیخ صاحب کی درخواست کا ذکر کیا.حضور نے کمال شفقت کے لہجے میں
PIA فرمایا کہ دعاکریں گے.خاکسار نے شیخ صاحب کی خدمت میں یہ کیفیت لکھ دی اور اپنا وثوق ظاہر کیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ضرور کامیابی ہو گی.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایسا ہی کیا.حضور کے قیام انگلستان کے دوران میں اخبارات میں حضور کے وردد اور قیام کا بہت چہ بھا تھا.مکان پہ ملاقاتیوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا.بعض اوقات اور خصوصاً مفتہ اور اتوار کی سر پر کو ملاقاتیوں کا سلسلہ اتنا وی ہو جاتا کہ حضور ملاقاتیوں کو بامرا کھانے کے لئے بھر لیتے.جو کھانا یہ ہوتا ملاقاتیوں کو کھلا دیا جاتا.حضور اور حضور کے رفقاء روٹی ، پنیر اور چائے پر گزارا کرتے.آٹھ دس مفتوں کے قیام کے دوران میں حضور دو بار نمائش دیکھنے ویلے تشریف لےگئے اور ایک بارہ مہل قدمی کے لئے ٹانڈ پارک بھی تشریف لے گئے.ایک دفعہ بلدیہ کی دعوت پر برائٹن تشریف لے گئے.ایک دفعہ جماعت کے ایک انگر یہ فرد کی دعوت پر پورٹ سمنتھ تشریف لے گئے.باقی سارا وقت کا نفرنس کے سلسلہ میں اور سنجی طور پہ بلا واسطہ اعلائے کلمۃ اللہ میں گزارا.حقیقت تو یہ ہے کہ حضور کا تمام وقت بلکہ تمام شعوری زندگی ہی اسی دھن میں گزری کہ دنیا بھر میں اللہ تعالی کا نام بلند ہوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قبولیت پھیلے ، اسلام کا جھنڈا ہر بلندی پر لہرائے.حضور نے ایک مضمون کا نفرنس میں پڑھنے کے لئے تیار کیا.جس کا انگریزی ترجمہ کرنے کیلئے خاکے کو ارشاد ہوا.جس تقریب میں حضور شمولیت فرماتے حضور کے کلمات طیبات اور حضور کی تقریہ کی ترجمانی کی سعادت خاکسار کو نصیب ہوتی.الحمدلله.یک موقعہ پر چندغیرمسلم ہندوستانی طلباء نے حضور کو چائے کی دعوت دی حضورت نے مقبول فرمائی.حضور کے ساتھ ذکر کئے بغیر ان کی طرف سے اس موقعہ پر حضور کی خدمت میں ایک ایڈرس پیش کیا گیا جس سے مترشح ہوتا تھا کہ انہیں یہ خیال ہے کہ حضور حکومت بر طانیہ کی دعوت پر حکومت کے مہمان کے طور پہ تشریف لائے ہیں.اور حکومت برطانیہ کی غرض یہ ہے کہ حضور ہندوستانی طلباء کو حکومت کی وفاداری کی تلقین کریں.غالباً ان کے زمین میں یہ نقشہ ہو گا کہ قادیان میں کوئی بڑی خانقاہ ہے اور حضور اس کے مجادر علی ہیں.ایڈریس پڑھے جانے کے بعد حضور نے ایڈریس کے جواب میں آزادی اور اس کے حصول کے طریق کے متعلق الیا اطمینان کن خطاب فرمایا کہ میزبانوں کے چہروں سے پہلے حیرت اور پھر مسرت کے جذبات بیساختہ ظاہر ہونے لگے.اور مجھے یقین ہے کہ انہیں اپنے سراسر غلط اندارئیے پر ندامت بھی ضرور محسوس ہوئی ہوگی.حضورہ کے خطاب کے بعد ان میں سے ہر ایک کی ہر حرکت سے اپنے معز مہما کا انتہای احترام واکرام ظاہر ہوتا رہا.چودھری غلام مصطفی الہی صاحب مرحوم ایڈوکیٹ گوجرانوالہ ان دنوں لندن میں بیرسٹری کی تعلیم حاصل کر رہے تھے.اگر چہ وہ سلسلہ احمدیہ میں شامل نہ تھے لیکن اپنی جیلی شرافت اور اخلاق کی وجہ سے انہوں نے حضور اور حضور کے سب رفقاء کی آکسفورڈ سٹریٹ کے لائنتر کارنہ اس میں وسیع پیمانے پر چائے کی دعوت کی.اس سال میرے والدین حج کیلئے تشریف لے گئے تھے.میں نے لاہور سے روانہ ہونے سے پہلے انہیں حج کے
۲۱۹ سفر پہ رخصت کیا تھا.اس سال حج کے دوران میں پانی کی قلت کی خبر اخباروں میں شائع ہوئی تھی اس نمبر سے خاکی کو بھی پریشانی تھی اور حضور بھی پریشان تھے.جب تک ان کی بخیریت واپسی کی خبر ملی حضور متواتہ ان کی خیریت اور حفاظت کے لئے دعافرماتے رہے اور خاک کو تسلی دیتے رہے.حضرت نعمت اللہ خاں صاحب قیام انگلستان کے دوران میں حضرت نعمت اللہ خالصاحب کی کابل کی کابل میں شہادت میں سنگساری سے شہادت کی خبر پہنچی میں سے حضورہ اور حضور کے رفقاء کے دل دردہ اور غم سے نڈھال ہوئے انا للہ وانا الیہ راجعون.لندن کے ایکس مال میں ایک احتجاجی جلسہ ہوا.جس میں سرکردہ اصحاب نے اس ظالمانہ فعل کے خلاف نفرت کا اظہارہ کیا.اس درد ناک واقعہ کی طرف توجہ دلانے کے لئے میں نے افغانستان کے سفیر متعینہ پیرس کے نام ایک خط لکھا ان دنوں لندن میں افغانستان کا کوئی سفیر متعین نہ تھا، اس خط کی ابتداء میں نے قرآن کریم کی سورہ البروز کی پہلی گیارہ آیات سے کی جین کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو عذاب میں مبتلا کیا.ر اپنے فعل سے، تو یہ بھی نہ کی انہیں یقیناً جہنم کا عذاب ملے گا.اور اس دنیا میں بھی ، انہیں رول کو ، جلا دینے والا عذاب ملے گا یہ میرا خیال تھا کہ یورپ میں رہتے ہوئے جناب سفیر اپنی حکومت کے اس وحشیانہ اقدام کیا اگر نادم نہیں تو دل میں متاسف ضرور ہوں گے.مجھے یہ توقع تو نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ اپنی حکومت کے اس سیلک اور سرکاری فعل پر یہ لا اظہار افسوس کریں گے لیکن یہ مزدر امید تھی کہ وہ خاموش رہ کر کم سے کم اپنی ذاتی بے تعلقی کا اظہار کریں گے.لیکن ان کی طرف سے مجھے ایک نہایت خشم ناک جواب ملا حبس کے آخر میں انہوں نے یہ لکھ کر اپنے شعله غیض و غضب کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی تھی.تم نے تمہاری گستاخانہ پھٹی کے پرندے رتری کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں کہ وہ اسی لائق تھے.خاک رنے بیڑے غور اور بہت دعاء کے بعد حضرت خلیفہ المسیح کی خدمت میں درخواست کی کہ اگر حضور پسند فرمائیں تو خاک کو تبلیغ کے سلسلہ میں افغانستان بھیج دیں لیکن یہ درخواست منظور نہ ہوئی.اس واقعہ کے تھوڑے عرصہ بعد اعلی احضرت امیر امان الله خالصاحب شاہ افغانستان سیاحت یورپ کے لئے تشریف لے گئے.جہاں جہاں وہ گئے وہاں حکومتوں اور رعایا نے ان کا پر جوش خیر مقدم کیا اور آپ کے شایان شان اخزانہ و احترام کیا.یورپ کے طول و عرض میں خاص وعام اس بات سے آگاہ ہوئے کہ آپ دره شاہ والا قشم ہیں کہ جن کے فرمان کے تخت ایک معصوم نوجوان کو اختلاف عقائد کی بناء پر سنگسار کیا گیا شاہ امان اللہ اور ان کی ملکہ کا سفر یورپ ہر پہلو سے کامیاب رہا اور آپ شاداں و فرحاں اپنی مملکت کو واپس لوٹے یہاں الہی تقدیر تعز من تشاو تنزل من تث کا نقشہ دکھانے کے لئے ان کی منتظر تھی.ان کی مراجعت کے چند ی ماہ بعد ایک غیر معروف بے حیثیت بچہ سنفا لیکا یک بگولے کی طرح اٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے شاہ امان اللہ کے اقتدار
اور ان کی بادث بہت کا تختہ الٹ دیا.شاہ امان اللہ خاں نہایت بے سروسامانی کی حالت میں ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے.انہوں نے اپنی حیات دنیوی کا بقیہ حصہ ہے وطنی میں ایسی حالت میں گذارا جمہ قرآن کے الفاظ میں معيشتاً ضنكا تکلیف دہ زندگی ) کی عبرتناک مثال تھی اور حسن کی کیفیت لا يموت فيها ولا یحیی آکنه زنده نہ مردہ کی تھی.فاعتبروا یا اولی الابصار مذاہب کانفرنس میں حضرت جس دن کا نفرنس کے اجلاس میں حضورہ کا مضمون پڑھا جانے والا تھا.خلیفة المسیح الثانی کا مضمون اس سے پہلی شب خاکسار بعد نماز عشاء اپنے کمرہ میں جاکر سوگیا تھا کہ حضور نے یاد فرمایا.ناک رہ حاضر ہوا.بانی بزرگان اور احباب بھی حاضر تھے.حضور نے فرمایا امرنہ یہ غور یہ ہے کہ کل کا نفرض کے اجلاس میں مضمون پڑھ کہ کون بنائے بعض احباب کی خواہش ہے کہ مضمون میں خود پڑھوں.بعض کا مشورہ ہے کہ کوئی اور پڑھ کر سنائے.تمہارا نام بھی لیا گیاہے.تمہیں اسلئے جایا ہے کہ جن دوستوں کے نام اس سلسلے میں لئے گئے ہیں ان سب سے کچھ حصہ مضمون کا سنا جائے تاکہ اندازہ کیا جا سکے کہ ان میں سے کون اس کام کے لئے موزوں ترین ہوگا.دو تین اصحاب کو مکان کے مختلف حصوں میں کھڑے ہونے کا اریا و ہوا اور درمیانی دروازے کھول دیئے گئے جن دو تین اصحاب کا نام لیا گیا تھا انہوں نے باری باری مضمون کی چند سطری بلند آواز سے پڑھ کر سنائیں.اپنے متعلق تو حضور نے فیصلہ فرما دیا تھا کہ مضمون خور نہیں پڑھیں گے.مشورے کے بعد حضور نے فیصلہ فرمایا کہ کانفرنس میں مضمون خاک رپڑھ کر سنائے.میری آواز کے متعلق کہا گیا تھا کہ تھرائی ہوئی معلوم ہوتی ہے.ڈاکٹر حمہ اللہ صاحب کو ارشاد ہوا کہ وہ میرے گے کی ٹنکچر آئیوڈین کے ساتھ مرمت کرتے رہیں.ڈاکٹر صاحب نے اس فرض کو ایسی مستعدی اور اسقدر تکرار کے ساتھ ادا کر نا شروع کردیا کہ دوسری صبح ناشتے پر مجھے خدمت اقدس میں فریاد کرنی پڑی کہ اگر ڈاکٹر صاحب اسی طور پر خاکسار کے مظلوم گلے پر توجہ مرکونہ فرماتے رہے تو خاک مہ کا نفرنس کے اجلاس کے وقت تک بالکل معذور ہو چکا ہو گا.حضور نے ارشاد فرمایا کہ ناکارہ کی مزید عقوبت بند کر دی جائے.مذاہب کانفرنس میں خاکسار کا حضرت ) جب حضور کا نفرنس میں تشریف لے گئے تو حاضرین نے کمال | خلیفہ المسیح الثانی کا مضمون پڑھ کر سنانا احترام سے حضور کا غیر مقدم کیا.ہرشخص کی خواہش اور کوشش تھی کہ حضور کے ساتھ مصافحہ کرنے کا شرف حاصل کرے.ایک پادری صاحب نے جو دہلیہ سے تشریف لائے تھے حضور کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر کہا میں آپ کی تصنیف احمدیت یا حقیقی اسلام “ یہاں سے خرید کرلے گیا تھا اور راتوں رات اسے ختم کر لیا.جب میں نے اسے پڑھنا شروع کیا تو میری طبیعت یہ برداشت نہ کر سکی کہ میں بغیر ختم کئے اسے ہاتھ سے رکھ دوں.جب حضور کا مضمون پڑھا جانے کا وقت آیا تو حضور نے خاک کر کی طرف تھک کر بیڑی شفقت سے فرمایا گھبرانا نہیں میں دعاکرتا رہوں گا.حال میں سب نشستیں پیر ہو چکی تھیں.کر گیا
۲۲۱ اور بہت سے لوگ کھڑے رہ گئے تھے.سارا مضمون کامل نخاموشی سے سنا گیا.ہال میں بالکل سناٹا تھا جب مضمون ختم ہوا توں معین میں سے اکثر کار گی اسٹیج کی طرف لپکے ہر ایک کی کوشش تھی کہ مصالحہ کا شرف حاصل کرے.خواجہ نذیر احمد صاحب فرزند خواجہ کمال الدین صاحب بھی اسی ہجوم میں شامل تھے.اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم سے مضمون ہر لحاظ سے کامیاب رہا اور بالا اتفاق کا نفرنس میں پڑھے جانے والے مضامین میں سے سب سے اعلی شمار کیا گیا.حضور نے لندن کے قیام کے دوران لندن کی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا جس کی عمارت کی تکمیل پر رسم افتاح کی سعادت شیخ سر عبد القادر صاحب کو حاصل ہوئی.انگلستان سے واپسی | حضورہ کے واپسی کے سفر پر یہ دانہ ہونے سے چند دن پہلے میں حضور کی اجازت سے ایمسٹرڈیم گیا.لنڈن سے ایمسٹرڈیم تک کے ایل ایم کی ہوائی سروس تھوڑا عرصہ پہلے شروع ہوئی تھی.ہمیں نے اسی سروس سے یہ سفر کیا.ہوائی سفر کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا.پچھوٹا سا جہانہ تھا جس میں فقط پانچ مسافروں کی گنجائش تھی.نشست کے لئے بید کی کرسیاں تھیں.تین پچھلی قطاریں اور دو ان کے آگے.مسافروں اور پائلٹ کے در میان فقط ایک تختے کی اوٹ تھی.سب کیلئے جہاز کے اندر جانے اور نکلنے کا ایک ہی مشتر کہ دروازہ تھا، پروانہ کوئی زیادہ بلندی پر نہ تھی.مطلع صاف تھا.اور نیچے سب کچھ صفائی سے نظر آتا تھا.لندن سے روانہ ہو کہ جہاز چند منٹ کے لئے رائٹر ڈیم ٹھرا اور تھوڑی دیر بعد ایمسٹرڈیم پہنچے گیا.تین چار دن بعد چودھری محمد شریف صاحب بھی ایمسٹرڈیم تشریف لے آئے.ایمسٹر ڈیم سے چودھری صاحب اور میں برسلز گئے.اور دو دن وہاں ٹھہر کہ پریس میں حضور کے قافلے کے ساتھ شامل ہو گئے.پیرس میں حضور کا قیام گودانہ کے قریب گرینیڈ ہوٹل میں تھا.یہاں لندن جیسی مصروفیت تو نہ تھی لیکن یہاں بھی حضور کے وقت کا اکثر حصہ ملاقاتوں میں صرف ہوا.صرف ایک دن حضور وارسائے کا محل دیکھنے تشریف لے گئے.خلیفہ تقی الدین صاحب اور ناک "+ ہمراہ تھے.پیرس کے قیام کے دوران میں حضور نے خاکسار سے فرمایا تم نے تو ہوائی جہاز کا سفر کر لیا اب کوئی ایسا انتظام کرد کہ ہم بھی یہ تجربہ کر سکیں.خاک رنے گذارش کی کہ حضور کے رفقاء تو یہ منظور نہ کریں گے کہ حضور یہ اس نئی سواری کا تجربہ کریں جس میں ابھی کچھ خطرے کا عنصر بھی ہے.فرمایا انہیں پہلے نہ بتایا جائے.خاک رتے عرض کیا بعد یں جب انہیں معلوم ہو گا تو سخاک کر ہادی علامت ہوگا کہ خاک رہنے حضور کو کیوں یہ مشورہ دیا اور خاک رکا کوئی در قابل پذیرائی نہ ہو گا.ناکارہ کو احساس تھا کہ حضورہ کی خواہش ہے کہ کوئی موقعہ ہوائی سفر کا پیدا ہو جائے لیکن میری اپنی طبعیت یہ ذمہ داری لینے سے گریہ کہتی تھی میرا قیاس ہے کہ حضور میرے تذبذب کو بھانپ گئے اور اصرار نہ فرمایا.پیرس سے بیٹی کے سفر کے انتظامات کی نگرانی محضور نے میرے سپرد فرمائی اور بفضل اللہ یہ سفر بخیر و خوبی طے ہو گیا.کوئی امر حضور کے لئے پر یشانی کا باعث نہ ہوا - فالحمد لله
۲۲۲ 14 حضور کی معیت میں وغیس کی سیر | حضور کا قافلہ بذریعہ ڈیل نہیں روانہ ہوا.وہیں میں قیام کا انتظام میٹرو پول ہوٹل میں تھا جو سینیٹ مارک کے چوک کے قریب نہر کیر کے کنارے واقعہ ہے.جہانہ کی روانگی میں ابھی دو دن کا وقفہ تھا.حضور کو یہ دودن فراغت کے میسر آگئے.موسم خوشگوار تھا سینٹ ماری کا پوک شہر کا مرکز ہے اور ہر لفظ نکتہ درس طبائع کے لئے ان کی فطرت کے مختلف پہلوؤں کی نئی نئی تصویریں میشی کرتا ہے.پہلی بار جب حضور چوک دیکھنے تشریف لے گئے تو خاک رنے گذارش کی کہ یہ چوک دنیا کا خوبصورت ترین چوک کہا جاتا ہے.فرمایا یہ تومی نہیں کہ سکتا کیونکہ میںنے دنیا کے تمام چوک نہیں دیکھے البتہ یہ کرسکتا ہوں کہ جو بچوک میں نے دیکھے ہیں ان سب میں سے خوبصورت ترین یہ چوک ہے.چوک کے ایک طرف ڈور جی کا محل اور سینٹ مارک کا گر جا ہیں.اور باقی تین طرف دو کا میں اور قہوہ خانے ہیں.ہر دوکان ایک عجائب گھر معلوم ہوتی ہے.میں میں شیشے اور میرے اور ریشم ہر قسم کا نہایت نفیس سامان خرید کے لئے ملتا ہے.حضور نے بہت سی چھوٹی چھوٹی اشیا ء اعزا اور احبا کے لئے مخالف کے طور پر خرید کیں.بارہ اشخاص کے لئے ایک چائے کا سیٹ حضور کو بہت پسند آیا لیکن حضور نے اپنے لئے خرید نا پسند نہ فرمایا.خاک سے فرمایا تم خرید لو.خاک رہنے گذارش کی به چیز خاک ان کی حیثیت سے بہت بڑھ کر ہے.فرمایا تمہیں اس کی ضرورت پڑتی رہے گی.خاک در حضور کے فرمان کو تفادل سمجھ کر خریدنے پہ آمادہ تو ہوگیا لیکن پوری قیمت پاس نہیں تھی.حضور نے فرمایا بقدر ضرورت ہے ہم قرض دیدیتے ہیں.خاک رکے لئے تعمیل ارشاد میں کسی غدیر کی گنجائش باقی نہ رہ ہیں.حضور کی معیت میں جہاز کا سفر بہانہ پر حضور اول درجے میں تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب، حضرت حافظ روشن علی صاحب، حضرت نمان ذو الفقار علی شمالی صاحب ، چودھری محمد شریعت صاحب رضى الله عنہم اور خاکار دوسرے درجہ میں تھے.باقی تمام اصحاب عرشے کے مسافر تھے ان کے لئے اسد وغیرہ وہیں سے خریدی گئی تھی.باورچی ساتھ تھا اسلئے انہیں کھانے کے متعلق کوئی دقت نہیں تھی.انہوں نے عرشے کے اپنے حصے پر اپنے لئے خوب آرام دہ انتظام کر لیا تھا.ہملوگ کھانے یا وضو کیلئے اپنے درجوں میں بجاتے تھے ورنہ سارا وقت عرشے پہ احباب کے ساتھ گزرتا تھا.وہیں نمازیں ادا ہوتی تھیں.وہیں حضور کے جلوہ افروز ہونے کے باعث محفل عرفان قائم ہوتی تھی.تمام سفر کے دوران موسم فضل اللہ خوشگوارہ رہنا - فالحمد لله حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب حضور کے ارشاد کے ماتحت کچھ عرصہ قاہرہ قیام کرنے کیلئے پورٹ سعید سے رخصت ہوئے.حضور نے بہت دعاؤں کے ساتھ پر نم آنکھوں سے آپ کو رخصت کیا.بحیرہ قلزم سے گزرتے ہوئے ایک چاندنی رات میں حضور امعہ رفقاء دوسرے درجے کے اوپر کے عرشے پر تشریف فرما تھے کسی خادم کی گذارش یہ ارشاد ہوا کہ حاضرین مجلس میں سے ہر ایک دو بچارہ شعر سنائے.باقی تمام مدام تو تعمیر
ارشا دئیں کا میاب ہو گئے صرف خاک اریو بعد شدید حجاب کے قاصر رہا.آخر میں جملہ خدام کی گذارش پر حضور یہ بھی شعر سنانے پر رضامند ہو گئے لیکن ارشاد فرمایا کہ سب احباب قریب ہو جائیں میری آمد از زیادہ فاصلے پرسینی نہ بھجائے گی.خاک نہ تو پہلے ہی حضور کے دست راست پر بیٹھا تھا باقی احباب سب قریب ہو گئے اور حضوری نے غالب کی غزلی اسے تازہ واردانِ باط ہوائے دل، کچھ ایسے درد انگیز لہجہ مں سنائی کہ سب آنکھیں ہوگئیں.بمبئی پہنچنے پر خاک حضور سے رخصت حاصل کر کے اسی شام لاہور روانہ ہوگیا.فیروز پورہ کے باشن پر قبلہ والد صاحب اور سید انعام اللہ شاہ صاحب منتظر تھے وہاں سے لا ہو نہ تک اکھٹے سفر ہوا.کشمیر کا پہلا سفر نہ کی گرمیوں میں والد صاحب اور والدہ صاحبہ کی خواہش کشمیر جانے کی ہوئی.چودھری بشیر احمد صاحب ہمارے ساتھ شامل ہو گئے.پروگرام یہ طے ہوا کہ ہم سب پہلے کوہ مری جائیں.دو چار دن ٹھہر کر میں واپس لاہور آکر بقیہ کام سے فارغ ہو جاؤں اور پھر کوہ مری واپس آکر ان کے ساتھ شامل ہو جاؤں اور وہاں سے ہم سب کشمیر جائیں.میری لاہور واپسی کے بعد والد صاحب کی طبیعت ناسازہ ہو گئی.چودھری بشیر احمد صاحب نے خدمت اور تیمار داری کا حق بڑے اخلاص اور نندھی سے ادا کیا والد صاحب کی کمزوری کے مدنظر یہ ہائش کا ارمینی انتظام بدل کر نیڈی پائنٹ پر نون کا بے کرایہ پر لے لیا گیا.سپنا نچہ تعطیل کا اثر حصہ ہم نے وہیں گزارا.اور اللہ تعالیٰ کے فضل و رحیم سے ہمارا وقت بہت اطمینان اور خوشی میں گذرا.والد صاحب کی طبیعت بفضل اللہ جلد بحال ہوگئی اور ستمبر کے وسط میں منم عازم کشمیر ہو گئے.کوہ مری سے ہم دوپہر کے کھانے کے بعد روانہ ہوئے عصر کے وقت ڈو میں پہنچے پر معلوم ہوا کہ آگے پتھر کرنے کی وجہ سے شرک بند ہے اور کاریں بھی رکی ہوئی تھیں.ہم نے فیصلہ کیا کہ رات ہم مظفر آباد میں بسر کریں.پل سے پا نہ ہو کہ ہم منظر آباد چلے گئے.ڈاک بنگلے میں تو گنجائش نہیں تھی لیکن سرائے کی چھت پھر تمہیں جگہ مل گئی.نانی بائی کی دوکان سے گرم نان اور کباب میسر آگئے جو ہم نے شوق سے کھائے.رات چاندنی تھی.سماں بہت سہانا تھا.رام گنگا کا پانی چاندنی کی طرح چمکتا اپنے سریلے راگ گاتا مہتا چلا جاتا تھا.صبح ہونے تک سڑک کھل گئی.ہم سویرے ہی روانہ ہو کہ دس بجے تک سرینگر پہنچ گئے.مولوی نذیر احمد صاحب کے ہاں قیام ہوا.وہ اس وقت حکومت کشمیر میں نہ یہ تھے.ہمارے کوہ مری سے روانہ ہوتے وقت مہاراجہ صاحب کشمیر بیمارہ تھے.جس دن ہم سر بیگہ پہنچے اسی دن ان کا انتقال ہو گیا اور ان کے ماتم میں سب دنیائیں کاروبار اور سب ادارے بند ہو گئے.ہم نے ایک ہاؤس بوٹ کر امیہ پر لی اور نیم باغ پہلے گئے.ہمارا قیام مہفتہ بھر رہا.اس دوران میں ہم نے خطہ کشمیر کے مختلف مقامات کی سیر کی.نشاط ، شالا مالہ ، بارون تو جھیل کچھ کے اس پار ہی تھے.دور کے مقامات تک ہم کالہ پر گئے.سری نگر کے محلہ خان یا ر میں حضرت میمے کی
کم ۳۲ قبر کی زیارت کی جب ہماری کار محلہ خان یار کے چوک میں جا کر کھڑی ہوئی تو محمد کے چند نوجوان ہمارے گرد جمع ہوگئے ان کے چہروں کے نقش بالکل اسرائیلیوں کے تھے.بارہ سال بعد جب مجھے دارسے جانے کا اتفاق ہوا تو سہوری محلے میں میں نے بالکل ویسے ہی چہرے دیکھے جو محلہ خان یا سری نگر میں دیکھے تھے.وادی کشمیر کے پہاڑہ اور چشمے سبزہ زار اور باغات، لطیف ہوائیں اور شیری پانی دل کو موہ لینے والے ہیں.کشمیر کا سحر دل پر آہستہ آہستہ تسلط جان ہے لیکن اسے ہمیشہ کیلے اپنا نا نیا ہے.ہمارا واپسی کا سفر بانہاں کے راستے ہو اس میرے سر پر کاروان ہو کر اور بانہال کی چوٹی سے گزارہ کر رات ہم نے بانہال کے بنگلے میں گزاری یہ سڑک کوہ مری اور بارہ مولے والی سٹرک سے نسبتا شوالہ گزار ہے لیکن منتظر کے لحاظ سے بہت زیادہ دلکش ہے.ویری ناگ کا چشمہ بہت ہی پر فضا منظر پیش کرتا ہے.د و سبق آموز تجربات | اسی سال اور پھر ایک سال بعد مجھے ہائی کورٹ میں دوا ایسے تجربات ہوئے جن سے میرا یہ یقین محکم سے محکم نہ ہوگیا کہ گو رعایت اسباب تو تبشیک لازم ہے لیکن عاقبتہ الامور اللہ تعالی ہی کے ہاتھ میں ہے.ایک باپ اور بیٹے کو قتل کے جرم میں سیشن کی عدالت سے پھانسی کی سزا ہوئی باپ نے افزایہ جرم کر لیا تھا بیٹے کی طرف سے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی اس کی طرف سے میں وکیل تھا.تاریخے سماعت پر چیف جسٹس سرشاری فعل اور ان کے رفیق حج کے اجلاس میں اپیل کا پہلا نمبر تھا.جن وکیل صاحب کا کیس دوسرے نمبر پر تھا انہوں نے اجلاس شروع ہونے سے قبل مجھ سے دریافت کیا تمہارا کیں اندازہ اتنا وقت لیگا.میں نے کہا قریباً آدھ گھنٹہ.پوچھا کیا ایسا ہی مختصر کہیں ہے ؟ میں نے کہا واقعہ قتل کا ایک ہی چشم دید گواہ ہے.چیف جسٹس صاحب اڑ جائیں گے کہ اس کی شہادت کو رد کرنے کی کوئی وجہ نہیں اس پر اپیل نا منظور ہو جائیگی اتنے میں بیج صاحبان تشریف لے آئے.لیکن چیف جسٹس صاحب کی جگہ مسٹرلی یا سینیل صاحب اجلاس میں شریک ہوئے.وجہ یہ معلوم ہوئی کہ چیف جسٹس صاحب مہارا سید ہری سنگھ کی تاجپوشی کی تقریب میں شمولیت کے لئے مجھوں تشریف لے گئے ہیں.میں نے دوسرے وکیل صاحب کے کان میں کہا میرا کیس تواب بھی آدھے گھنٹے میں ہی ختم ہو جائے گا لیکن اب بفضل اللہ اپیل منظور ہو جائے گی اور سال رہا ہو جائیگا.اس کیس میں مقتولین میاں بیوی تھے.ان کی شادی کو چند دن ہی گذرے تھے.گرمیوں کا موسم تھا.جیسے کئی دیہات میں ہوتا ہے ان کی جائے سکونت ایک احاطے کے اندر تھی.احاطہ میں چاروں طرف رہائشی کو ٹھے تھے اور درمیان میں وسیع مشتر کہ صحن تھا.اس صحن میں احاطے کے اندر رہنے والوں کی چار پائیاں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بھی نھیں.یہ میاں بیوی ایک ہی چار پائی پر ایک درخت کے نیچے سو رہے تھے.ان کی چار پائی سے کچھ فاصلے پر شوہر کی ماں اپنی چار پائی پر سورہی تھی.رات کی کے اندھیرے میں پچھلے پر کسی شخص نے تیز دھانہ دار آلے کے ساتھ میاں بیوی کو شدید ضربات پہنچائیں تین سے وہ جانبر نہ ہوسکے.ان کے دہائی دینے سے شوہر کی ماں اور دوسرے لوگ بھی جاگ اٹھے.پولیس کے آنے پر ماں نے بیان کیا
۳۳۵ کہ تب اس نے چیخ پکار کا شور سنا تو وہ جاگ گئی اور دونوں ملزمان کو بھاگتے ہوئے دیکھا.دوسرے لوگوں نے کہا کہ جب وہ جاگے تو مجرم بھاگ گئے ہوئے تھے.وہ اندھیرے کی وجہ سے کسی کو شناخت نہ کر سکے.پولیس نے عدالت میں وقوعہ کے گواہ کے طور پر صرف مقتول شوہر کی ماں کو پیش کیا.شناخت کے متعلق ماں نے عدالت میں بیان کیا کہ ملزم آپس میں باتیں کر رہے تھے.میں نے انہیں ان کی آوازوں سے شناخت کر لیا.اور درخت سے ایک لالٹین بھی لٹک رہی تھی جس کی روشنی سے بھی میں نے ان کو شناخت کر لیا.میں نے جان کی خدمت میں عرض کیا کہ ملزمان کی شناخت کا کوئی قابل اعتماد ثبوت نہیں.مقتول شوہر کی والد کے بیان سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ اسے خود بھی شناخت کا یقین نہیں.وہ پہلے کہتی ہے میں نے ملزمان کوانکی آواز سے پہچانا.اگر فرض بھی کیا جائے کہ اس فعل میں ایک نہیں دو شخص شامل تھے تو یہ نہایت غیر غلبہ ہے کہ وہ حملہ کے وقت آپس میں بانہیں کر رہے ہوں.معلوم ہوتا ہے اس کمزوری کے احساس کے ماتحت گواہ کو ترغیب دیگئی کہ وہ اپنے بیان کو مضبوط بنانے کے لئے لالٹین کا ذکر کرے.لیکن اس اینمادی نے اس کے بیان کو اور بھی کمزور کر دیا ہے.اول تور پوسٹ ابتدائی میں لالٹین کا کوئی ذکر نہیں.لائٹین کا ذکر پہلی بارہ پولیس کی ضمنیوں میں آنا شروع ہوا جس سے صاف ظاہر ہے کہ لائین کی ضرورت پولیس کو محسوس ہوئی اور ان کی ترغیب پر گواہ نے لالٹین کو اپنے بیان میں داخل کیا.دوسرے یہ بالکل خلاف فطرت اور خلاف دستور بات ہے کہ چند دن پہلے کا شادی شدہ ہوڑا کھلے صحن میں سوتے ہوئے یہاں قریب ہی اور لوگ بھی سورہے تھے اپنی چارپائی پر روشنی ڈالنے کے لئے ایک ملتی ہوئی لالٹین او یہ لٹکا دے.اندرین حالات اسپلانٹ کی شمولیت اس وقوعے میں بالکل قرین قیاس نہیں.اور اسے بری ہونا چاہئے.مسٹر جسٹس کی راسینیوں نے پبلک پراسیکیوٹر سے اس دلیل کا جواب سننے کی خواہش کی.پبلک پراسیکیوٹر مسٹر دیں راج ساہنی نے کہا کہ مقتول کی والدہ کا بیان واضح ہے.اس کی کوئی تردید مسل پر نہیں کوئی وجہ نہیں کہ کیوں اس پر اعتماد نہ کیا جائے.مسٹر جیٹس نی راسی نیول نے مسٹر ساہنی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ایک تو بیان بالکل غیر اغلب ہے پھر لالٹین کا ذکر رپورٹ ابتدائی میں نہیں، آپ ہمیں یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ مقتولین جیا کے احساس سے بیان تک نا آشنا تھے کہ انہوں نے اپنی چار پائی کے عین اوپر جعلی لالٹین لٹکائی ؟ مسٹری منی نے کہا جناب عالی ان دریاتی لوگوں کے جیا کے معیار کچھ اور ہی ہوتے ہیں.مسٹر یٹس کی راسپینیوں نے کچھ یہ ہم ہو کہ کہا مرے اہنی اگر آپ کوئی معقول بات نہیں کر سکتے تو بہتر ہے کہ خاموش رہیں.ہم اپیل منظور کرتے ہیں اور اسپلانٹ کو بری کرتے.ہیں.یہ قیاس آرائی کہ جو کچھ ہوا وہ اگر یہ ہوتا تو اسکی جگہ کیا ہوتا.اگر حالات میں ایک بے نتیجہ مغل ہوتا ہے مثلاً اس کیس میں اگر باپ نے سمیشن کی عدالت میں اقرار جرم نہ کر لیا ہوتا در سیشن کی عدالت دونوں ملزمان کو مقتول شوہر کی والدہ کی شہادت کی بنا پر پھانسی کی سزا دیتی اور دونوں کی طرف سے اپیل کی جاتی اور اسہیل
کی سماعت وہی پہنچ کرتا تو دونوں کو بھی قرار دیا جاتا.وجہ قتل یہ بیان کی گئی تھی کہ مقتولین کی شادی سے پہلے مقتولہ کا رشتہ اسپلانٹ کے لئے طلب کیا گیا تھا.لیکن مقتولہ کے والدین نے الکانہ کر دیا تھا اور اس کا رشتہ مقتول کے ساتھ کر دیا تھا اس رینج سے ملزمان نے دونوں میاں بیوی کو قتل کر دیا.اگر یہی وجہ جرم کے پس پردہ سختی تو قیاس غالب ہے کہ اپسیلانٹ بھی اس فعل میں شامل تھا.بلکہ ہو سکتا ہے کہ قتل اکیلے اسپلانٹ نے ہی کیا ہوا در تریب دونوں ماخو نہ ہو گئے تو باپ نے اپنے بیٹے کی جان بچانے کی خاطر اقبال جرم کر لیا ہو.اللہ تعالے نے جوارحم الراحمین ہے یہ بندر بہ قبول فرماتے ہوئے بیٹے کو رہائی دلائی.یہ بھی تو ظا ہر محض اتفاق ہی تھا کہ اپیل کی سماعت کے دن سر شادی لال اجلاس میں شامل نہ ہو سکے.اپیل کی سماعت اس دن سے پہلے یا اس دن کے بعد ہوتی تو سر شادی لال اسملاس میں موجود ہوتے اور پہل نامنظور ہو جاتی.اس واقعہ کے ایک سال بعد سر شادی لال اور مسٹر جیٹس آغا حیدر کے اجلاس میں ایک اپیل کی سماعت ہوئی جس میں عبداللہ نامی اپیلانٹ کو سیشن کی عدالت سے پھانسی کی سزا دی گئی تھی.چندسال قبل ضلع فیروز پورہ کے ایک گاڑی میں ایک نئے کو قتل کر دیا گیا تھا.تین اشخاص پر شبہ ہوا ان میں سے عبداللہ تو مضرور ہو گیا اور باقی دو گرفتار ہوگئے.کیس سیشن سپرد ہوا سیشن کی عدالت میں پیشی سے پہلے دونوں ملزمان میں سے ایک مرکبیا سیشن کی عدالت میں استفادے کی طرف سے تین چشم دید گواہ پیش ہوئے سیشن بج صاحت نے ان کی شہادت کو ناقابل اعتبار قرار دیکر رد کر دیا.اور ملزم کو بری کر دیا.کچھ سال بعد عبدالله نگیری حال ساہیوال کے ضلع میں گرفتار ہوا جہاں اس نے مستقل سکونت اختیار کر لی ہوئی تھی.اس پہ قدمہ پہلا سیشن کی عدالت میں استغاثے کی طرف سے وہی تین چشم دید گواہ پیش کئے گئے اور مزید شہادت یہ پیش کی گئی کہ ملزم نے اپنی نئی بجائے سکونت میں ایک سکھ سے کہا تھا کہ میں تو اپنے گاڑی سے ایک بنٹے کے قتل کی وجہ سے مغرور ہوں.سیشن بی صاحب نے اپنے پیش رو کی طرح چشم دید شهادت تو رد کر دی لیکن ملزم کے بیان کردہ اقبال مجرم پہ الخصالہ کر کے ملزم کو مجرم قرار دیدیا اور پھانسی کی سزا کا حکم صادر کیا.اپیلانٹ کی طرف سے میں نے اپنی بحث میں عدالت کو اقبال جرم کی شہادت کی کئی خامیوں کی طرف توجہ دلائی مین کی وجہ سے بیان کردہ اقبال جرم کی کہانی بالکل نا قابل اعتبار ٹھہرتی تھی.سرکاری وکیل صاحب سے ہوا یا کچھ بن نہ آیا.عدالت نے فیصلہ محفوظ رکھا.چند دن بعد جب فیصلہ صادر ہوا تو بالکل خلاف توقع طارات نے مزید شہادت کے لئے وقعہ ۴۲۸م ضابطہ فوبعد انہی کے ماتحت کیس عدالت سیشن میں واپس کیا.گویا عدالت نے یہ تو قسیم کیا کہ بوشہادت پیش کی جاچکی ہے اس کی بنا پر پلانٹ کے خلاف جرم ثابت نہیں ہونا اس صورت میں انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ اپیل منظور ہو کر پلانٹ کو یہی کیا جاتا.مگر عدالت نے میری بیان کردہ خامیوں کی طرف توجہ دلا کہ مزید شہادت قلمبند کئے جانے کا حکم صادر کیا.جب کسی ہائی کورٹ میں واپس آیا تو پھر تفصیلی
بحث ہوئی اور عدالت نے یہ قرار دیتے ہوئے کہ اب کوئی نعامی باقی نہیں رہی اپیل خانہ ج کر دی.پچند ماہ بعد ایک دن گرمی کی شدت کے موسم میں عدالت ہائی کورٹ میں بجلی کی درد بند ہوگئی.میں اس وقت مسٹر جسٹس آغا سید کے اجلاس میں پیش تھا.روشنی اور سیکھے بند ہو گئے.بخس کی ٹیٹوں میں سے ہوا گزارنے والی مشین بھی بند ہوگئی اور شدید حیس محسوس ہونے لگا.مسٹر جسٹس آغا حیدر لحیم شحیم بھاری بھر کم سپہلوان تھے.چند منٹوں میں بچپن ہو گئے.میری طرف مخاطب ہو کہ فرمایا یہ بھی کوئی عدالت ہے ؟ عمارت ایسی ہے کہ گرمیوں میں شدید گرم اور سردیوں میں سخت سردیاں کام کیسے ہو اور یہاں انسان بھی کیا ہوتا ہے.تمہیں یاد ہے وہ عبداللہ کا کیس اس میں کیا ہوا تھا.میں ان کے آخری فقرہ کو سنکر ششدر رہ گیا.ان کی واضع مراد تھی کہ عبد اللہ کے کیس میں الفنان نہیں ہوا تھا یا اسے نائی پھانسی دیدی گئی.لیکن باوجود اس احساس کے کہ ان بچ صالون نے نہ صرف اس فیصلے میں شرکت کی تھی بلکہ پھانسی کے وارنٹ پر دستخط بھی کئے تھے ! اگر انہیں چیف جٹس کے ساتھ اتفاق نہیں تھا تو اپنا اختلافی فیصلہ لکھتے اس صورت میں اپیل کی سماعت کسی تمیرے حج کی عدالت میں ہوتی اور آخری فیصلے کی ذمہ داری اس پر ہوئی.لیکن انہیں چیف جسٹس سے اختلاف کرنے کی ہدائت نہ ہوئی اور اپنے ضمیر کا خون کمرنا گھرا برا ہو گیا.پنجاب کونسل کے انتخاب میں نشہ کے اگست میں والد صاحب ڈسکہ میں تشریف فرما تھے کہ حصہ لینے کی تیاری ان کی طبیعت پھر نا سا نہ ہو گئی.اس سال بھی مجالس قانون سانہ کے انتخابات ہونے والے تھے.19ء کے انتخابات میں چودھری سرشہاب الدین صاحب ضلع سیالکوٹ کے حلقے سے چود ھر جہان خاں صاحب گورایہ کے مقابلے میں پنجاب کو غسل کے رکن منتخب ہوئے تھے اور بعد میں کونسل کی صدارت پر فائمہ ہوئے تھے.وہ میں انکی خواہش تھی کہ وہ ضلع سیالکوٹ سے بھی امیدوارہ ہوں اور ضلع گورداسپور سے بھی.اور دونوں حلقوں میں کامیاب ہو جانے کی صورت میں ایک نشست خالی کر دیں.اس سلسلے میں انہوں نے پھر حضرت خلیفتہ المسیح کی خدمت میں عریضیہ ارسال کیا اس میں علاوہ دیگر امور کے یہ بھی ذکر کیا کہ ظفر اللہ خاں کو کچھ نہ کچھ فائدہ مجھ سے پہنچتا رہتا ہے.حضور نے - خاک از کو قادیان طلب فرمایا.حاضر خدمت ہونے پر چودھری صاحب کا غریضہ پڑھنے کے لئے دیا اور دریافت فرمایا که اگر چودھری صاحب تم سے یہ نجیدہ خاطر ہوئی تو تم کس قدر مالی فائدے سے محروم ہو جاؤ گے خاک ارنے عرض کیا کہ انڈین کینز کے دفتر سے جو کام بھیجا جاتا ہے اس سے چند سو روپے ماہوار کی آمد ہواتی ہے.لیکن رزق تو اللہ تعالیٰ دنیا ہے.پچودھری صاحب ہمیشہ ناکارہ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے ہے ہیں اس لئے خاک ران کا ممنون ہے اور ان کا احترام کرتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے خاک ران کا
۲۳۸ کسی رنگ میں محتاج نہیں.حضور نے فرمایا.چودھری صاحب نے سلسلہ میں پختہ وعدہ کیا تھا کہ وہ آئیندہ ضلع سیالکوٹ سے انتخاب کے لئے امیدوارہ نہیں ہوں گے.اس الیکشن میں ان کا ارادہ ضلع گورداسپور سے امبر دار ہونے کا بھی ہے.اس حلقے میں ہم ان کی ہر طرح سے مدد کرنے کو تیار ہیں اور ممکن ہے یہاں سے وہ بلا مقابلہ ہی منتخب ہو جائیں.لیکن ضلع سیالکوٹ کے متعلق انہیں اپنے عہد پر قائم رہنا چاہیے.فرمایا کہ انہیں یہ جواب لکھنے سے پہلے میں چاہتا تھا کہ تم سے بھی دریافت کرلوں.لاہور واپس آنے کے بعد جب انڈین کیستر کے دفتر سے مجھے کچھ کام بھیجا گیا تو میں نے واپس کر دیا اور کہ دیا کہ آئندہ مجھے کام نہ بھیجا کہ میں.دوسرے دن نخود هری صاحب میرے مکان پر تشریف لائے اور دریافت فرما یا ظفر اللہ خا کیا وجہ ہوئی تم نے انڈین کینز کے کام کے متعلق کہلا بھیجا ہے کہ آئندہ تمہیں نہ بھیجا جائے میں نے عرض کیا میں آپ کے ساتھ کار میں بیٹھ جاتا ہوں آپ کہ ڈرائیور کو ارشاد فرمائیں کہ کار نہر کے کنارے کنارے سے پہلے وہاں میں کسی قدر تفصیل کے ساتھ آپ کے سوال کا جواب عرض کردوں گا لیکن اگر آپ نے کچھ فرمانا ہو تومیرا جواب سن لینے کے بعد فرمائیں.مسکرا کہ فرمایا بہت اچھا.میں نے ان کے اس خط کا ذکر کیا جو انہوں نے حضرت خلیفہ المسیح کی خدمت میں ارسال کیا تھا اور کہا کہ اس میں آپ نے فرمایا کہ مجھے آپ سے فائدہ پہنچتا رہتا ہے اس بت سے مجھے کوئی ر ی تونہیں ہوا کیونکہ جو کچھ آپ نے لکھاہ امر واقعہ ہے لیکن آپ کے اس فقرے نے میرے ذہن میں خیالات کی ایک مباری کردی.انسان کا اندازہ اپنی ذات کے متعلق صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی.میرا اندازہ اپنے متعلق یہ ہے کہ میں سنی الوسع حفظ مراتب کا خیال رکھتا ہوں اور جس شخص کو اللہ تعالے نے جس مقام پر کھڑا کیا ہو اس کے کچھ واجبات مجھ پر عاید ہوتے ہیں انہیں مناسب طور پر ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں.مثلاً سر شادی لال چیف جسٹس ہیں.بہت سے امور میں مجھے ان کے طرز و طریق سے اختلاف ہے.ان کی بعض کمزوریاں تو آشکارہ ہیں.میں ان کی عدالت میں پریکٹس کرتا ہوں.سال میں اوسطاً ایک مرتبہ میں چند منٹوں کے لئے ان کی خدمت میں حاضر جو آتا ہوں.ممکن ہے ان کو اس سے حیرت بھی ہوتی ہو کہ میں نہ ان کی خوش امد کرتا ہوں نہ کوئی غرض پیش کرتا ہوں.لیکن میں کسی خوف یا طمع کی وجہ سے ان کی خدمت میں حاضر نہیں ہوتا.میرے دل میں کسی انسان کا خوف ہے نہ کسی سے کوئی طمع ہے.آپ میرے بچپن سے میرے ساتھ حسن سلوک کرتے رہے ہیں.میں اس کی قدر کرتا ہوں اور آپ کا ممنون ہوں.آپ نے مجھے آپ سے فائدہ پہنچنے کے متعلق جو کچھ لکھا اس سے مجھے خیال پیدا ہوا کہ میں خود اپنا امتحان کر لوں کہ کیا جیسے میں سمجھتا ہوں میرے دل میں آپ کا احترام آپ کے گذشتہ حسن سلوک کی وجہ سے والد صاحب کے دوست ہونے کی دستہ سے ہے.کہیں ایسا تو نہیں کہ جسے میں احترام سمجھتا ہوں اس کی حقیقت آئیندہ کے طمع کی خاطر خوشامد کی ہے.میں نے انڈین کینر کا کام اسلئے بند کر دیا ہے کہ حلب منفعت کا پہلوہ ہمارے تعلقات سے خارج ہو جائے.اگر آئیندہ :
۲۲۹ بھی میرے جذبات آپ کے متعلق وہی رہیں جو اتنک ہیں تو میں سمجھ لوں گا کہ میرا اندانہ اپنے متعلق صحیح تھا.اور اگر ان میں فرق آگیا تو میں سمجھوں گا میرا نفس مجھے قریب دیتا تھا.چودھری صاحب نے میری بات خاموشی سے سنی اور جب میں ختم کر چکا تو صرف اتنا فرما یا ظفر اللہ خان کاش سب لوگ تمہاری طرح ہوں.جب شاہ کے انتخابات کا سلسلہ شروع ہوا تو معلوم ہوا کہ میرا مقابلہ چودھری جهان خانصاحب گورایہ کے ساتھ ہو گا.چودھری صاحب ضلع سیالکوٹ کے ایک خوش خلق ، مہمان نواند، با رسوخ نہ میدانہ تھے.ڈسٹرکٹ بورڈ کے رکن ہونے کی وجہ سے ضلع بھر کے سرکردہ زمینداروں کے ساتھ ان کا متواتر میل ہوں اور باہم مشورہ یہ تنہا تھا.ان کے رشتہ داری اور بہادری کے تعات بھی بہت وسیع تھے.ء میں کچھ دھری سرشہاب الدین صاحب کا مقابلہ کرنے کی وجہ سے انہیں انتخاب کے سلسلہ میں معتد بہ اخراجات برداشت کرینے پڑے تھے اس لئے انہیں یہ احساس ضرور ہوگا کہ انتخاب میں امیدوار کو بہت کچھ گرم سرد حالات سے دو چال ہونا پڑتا ہے.میرا انداندہ ہے کہ ان کی طبیعت اس طرف مائل تھی کہ اگر آپس میں سمجھوتے کے ساتھ کسی فیصلے کی صورت پیدا ہو جائے تو یہ طریق مناسب ہو گا.اس انتخاب میں اگر چہ امید وارہ تو میں تھالیکن پچودھری کہان خان صاحب جانتے تھے کہ میری تائید مسبقیہ ہوگی وہ میرے والد صاحب کے تعلقات اور رسوخ کی وسبہ سے ہوگی.ضلع سیالکوٹ کے نارووال کے علاقے میں چودھری فتح دین صاحب ذیلدار مدد کا لواں ایک بار سوخ اورر باند بیر نہ میندار تھے.انہوں نے کسی ملاقات کے دوران میں چودھری جہان خالصاحب سے کہا کہ انتخاب کی سردردی کی بجائے کیوں نہ کوئی صورت سمجھوتے کی اختیارہ کر لی جائے.پچودھری صاحب نے فرمایا اگر آپ کے ذہن میں کوئی صورت ہو تو فرمائیں.چودھری فتح دین صاحب نے کہا قرعہ اندازی سے فیصلہ کر لیا جائے.چودھری جہان خالصا حب نے فرمایا مناسب ہے.لیکن قرعہ اندازی ڈپٹی کمشنر صاحب کہیں.چودھری فتح الدین صاحب نے جواب میں کہا کہ اس میں کوئی وقت نہیں ہونی چاہیے.اس کے بعد چودھری فتح الدین صاحب نے والد صاحب سے کہا.میں نے چودھری جہاں خالصاحب کو قرعہ انداندی پر رضامند کر لیا ہے.آپ بھی رضامندی دریان والد صاحب نے فرمایا مجھے تو یہ طریق پسندیدہ معلوم نہیں ہوتا.لیکن چونکہ آپ پچودھری یہان خاں صاحب کو اس طریق پر آمادہ کر چکے ہیں اور میرے انکار کر دینے سے آپ کی سبکی ہو گی اسلئے میں بھی رضامندی در بدنیا ہوں.چنانچہ والد صاحب نے خاک رکوارت و فرمایا کہ چودھری جہان خان صاحب کے ساتھ ڈپٹی کمتر احد کے پاس جا کر قرعہ اندازی کر لونا میں نے جب مسٹر ہرن ڈپٹی کمشنر کے ساتھ ذکر کیا تو وہ بہت خوش ہوئے.ہم دونوں کو اپنے بنگلے پر بلوایا دور دیا سلائی کی ڈبیہ خالی کر کے ایک میں میرے نام کا پر نہ ڈال دیا دوسری میں چودھری
۲۳۰ جہاں خاں صاحب کے نام کا.اپنے جمعد الدار دلی سے کہا ان میں سے ایک اٹھالو اورہ اس میں تو یہ نہ ہے وہ نکالو جو پرندہ جمعدار نے نکالا اس پر میرا نام تھا لہذا چودھری جہان خاں صاحب انتخاب سے دستکش ہو گئے.والد صاحب کی وفات اس کے تھوڑا عرصہ بعد والد صاحب کی طبیعت ناسانہ ہو گئی حرارت کے ساتھ | کھانسی رہنے لگی.والدہ صاحبہ کے اطلاع دینے پر میں ڈسکے گیا اور والد صاحب اور والدہ صاحبہ کو لاہور لے آیا ڈاکٹر محمد یوسف صاحب نے معائنہ کیا اور WET PLUAESY تشخیص کی.بہت توجہ سے علاج کرتے رہے فجزا اللہ احسن الجزاء - کچھ دن بعد پھیپھڑے سے پانی نکالا جس سے بفضل اللہ کچھ افاقہ ہوا لیکن پھر تکلیف بڑھنا شروع ہو گئی.اس مرحلے پر ڈاکٹر محمد یوسف صاحب کو بعض فرائض کی ادائیگی کے سلسلے میں شملے کا سفر پیش آگیا.ان کی غیر حاضری میں ڈاکٹر یار محمد خالصاحب علاج کرتے رہے.دو تین دن بعد پھر پانی نکالنے کی تجویز ہوئی.لیکن اب کی بانہ بجائے افاقے کے کمزوری بڑھنا شروع ہو گئی.اسور اگست منگل والہ کی صبح کو بعد نمانه فجر والدہ صاحبہ نے مجھے بنا ایک خواب سنایا خواب کی تعبیر واضح تھی اور والدہ صاحبہ نے بھی یہی تعبیر بتائی کہ تمہارے والد جمعہ کا دن شروع ہوتے ہی فوت ہو جائیں گے.انہوں نے فرمایا کہ ابھی سے سب تیاری کر لی جائے.چنانچہ تفصیلی ہدایات دیں جن کی تعمیل کر دی گئی.یہ دن ہم سب کے لئے سبق آموز بھی تھے اور اللہ تعالٰی کے فضل و رحم کے نشانات کے ظاہر کرنے وال بھی تھے.دل درد سے پر بھی تھا اوراللہ تعالی کی رضا پر کلین راضی بھی تھا.کچھ تفصیل ان ایام کی میری کتاب میری والدہ میں بیان کی گئی ہے.یہاں اعادہ کی ضرورت نہیں.اور مجھے ہمت بھی نہیں پڑتی.والدہ صاحبہ کے خواب کے مطابق ۲ ستمبر امه بعد نماز مغرب جب اسلامی شمار سے جمعہ کا دن شروع ہی ہوا تھا ہم اس سیما پا شفقت بزرگ ہستی کی ہدایت اور نہ فاقت سے محروم ہو گئے يغفر الله له ويجعل الجنة العليا مثواه - والدہ صاحبہ کی ہدایات کے مطابق سب انتظام ہو چکا تھا دو بجے شب ہم ان کے جنازے کو لیکہ روانہ ہوئے طلوع آفتاب کے وقت قادیان پہنچے.اسی رات حضرت خلیفہ المین با وجود یہ سنتے کی خرابی کے ڈہوندی سے قادیان تشریف لائے.ہم رستمیر 9 بجے صبح اپنے ناظر اعلیٰ کا جنازہ پڑھایا اور سلسلہ کے پہلے ناظر علی امقبرہ بہشتی میں خاص صحابہ کے قطعہ میں دفن ہوئے.پنجاب کونسل کے انتخاب میں کامیابی | والد صاحب کی وفات کے بعد مجھے اطلاع ملی کہ چودھری اکبری خای صاحب سکنہ کوٹلی نوناں تحصیل ڈسکہ انتخاب میں امیدوار ہونے کا ارادہ نہ کھتے ہیں.پہلے تو میں نے اسن اطلاع کو باور نہ کیا.پچودھری صاحب کے میرے ساتھ خاندانی اور ذاتی بہت دوستانہ تعلقات تھے اور وہ میرے معاف مین میں سے تھے بینک ان کی طبیعت مزاح کی طرف مائل تھی لیکن یہ معاملہ سنجیدہ تھا اور بہر صورت انہیں کامیابی کی کوئی امید نہیں ہو سکتی تھی.معلوم ہوا ان کا موقف یہ ہے کہ قرعہ اندانی سے فیصلہ کرنا کہ
۲۳۱ • کون امید والہ ہو درست نہیں اور رائے دہندگان کو اپنی رائے کے اظہار کا موقعہ ملنا چاہیے.وہ تسلیم کرتے تھے کہ انہیں کامیابی کی توقع نہیں وہ یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ میرا انتخاب ہی مناسب ہو گا لیکن وہ قرعہ اندانہی کے طریق کو پسند نہ کرتے تھے.اصولاً تو ان کا موقف درست تھا اور جب وہ انتخاب میں حصہ لینے پر مصر تھے تو انہیں بانہ رکھنے کا کوئی طریقیہ نہ تھا.وقت آنے پر انہوں نے درخواست دیدی.اسلئے انتخاب کی کالر والی لانہم ہو گئی اور ہمیں انتخاب کا بکھیڑا جھیلنا پڑا.اس سے مجھے یہ فائدہ ضرور ہوا کہ ضلع سیالکوٹ کے سرکردہ زمیندارہ اصحاب کے ساتھ میرے ذاتی تعلقات مضبوط ہو گئے.انتخاب کی بھاگ دوڑ کے سلسلہ میں ایک لطیفے کا ذکر دلچسپی کا باعث ہوگا.ماہرہ کلاں کے سفید پوش چودھری جہان خاں صاحب نے خواہش کی کہ میں ان کے ہمراہ ان کے گاڑی جب کہ وہاں کے رہئے مہندگان سے ملوں.چنانچہ ایک شام میں اور بچودھری قاسم علی خان صاحب ذیلدا یہ ان کے ہمراہ ان کے گاؤں گئے اور ہر رات ان کے ہاں مہمان رہے.دوسری صبح انہوں نے ذہیہ کے مالکان کو اپنے دیوان خاصے میں لیا لیا اور میرا ان سے تعارف کرایا اور میرے آنے کی غرض بیان کی اتنے میں ناشتہ آگیا.میزبان نے فرمایا تمہارا وقت قیمتی ہے ناشتہ کر لیں گفتگو جاری رہے گی ناشتہ ختم ہوا تو ماکان دسہرہ میں سے ایک نے مسکراتے ہوئے حاضرین سے کہا بھائیوں میں تو کہتا ہوں پر چھا (روٹ ، اسی پر دھری کو دینی سپاہیے حاضرین میں سے کسی نے کہا کہ لائے تو ہماری بھی رہی ہے لیکن تمہارے مشورے کی کوئی خاص وجہ ہے اس نے کہا وجہ یہ ہے کہ ہم سب نہ بیدار ہیں اور جب ممیں سہیل خرید نا ہوتا ہے تو علاوہ اور باتوں کے ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ بیل پھر نے (کھانے میں کیسا ہے سو بیل اچھی طرح پچہتا ہے وہ کلمہ رانی بھی خوب کرتا ہے.میں اس چودھری کو کھاتے دیکھتا نہ تا ہوں یہ بچہ تا خوب ہے پہلے کا بھی نوب".اس پر ایک قہقہہ " بلند ہوا اور ہنستے ہنستے محفل بہ نفاست ہوئی.چودھری اکبر علی صاحب صرف اتنا ، دعا کرتے تھے کہ ان کی ضمانت ضبط نہیں ہو گی.انتخاب کا نتیجہ نکلا تو اس کے بر عکس ان کی تائید میں آراء کی اسقدر کمی لہ ہی کہ ان کا نہ سر ضمانت ضبط ہو گیا.پنجاب کو نسل میں یونینسٹ پارٹی | میاں سر فضل حسین صاحب 9ء میں پنجاب کی حکومت میں وزیر مقررہ ہوئے تھے.ء میں وہ ریونیو ممبر ہوئے.اپنی وزارت کے زمانے میں انہوں نے چودھری لال چند صاحب کو اپنے ساتھ شامل کر کے یونینسٹ پارٹی قائم کی تھی.چودھری لال چند صاحب کے انتخاب پر ذور داندی ہوئی اور ان کا انتخاب منسوخ ہوا.ان کی جگہ چودھری چھوٹو رام صاحب منتخب ہو کر یونینسٹ پارٹی کے نائب لیڈر ہوئے.یہ پارٹی اقتصادی اصولوں کی بنا پہ قائم کی گئی تھی.اس کے اراکین
۲۳۲ میں کثرت مسلمانوں کی تھی.لیکن ہندو اور سکھ بھی اس میں شامل تھے.اگر چہ یہ پارٹی دیہاتی پار ٹی شمار کی جاتی تھی اور اس میں شک نہیں کہ صوبے کی دیہاتی آبادی کی خوشحالی کو فروغ دنیا اس کے مقاصد میں شامل تھا لیکن اس کا اصل مقصد صوبے کی آبادی کے نام مزدور اور پسماندہ ناصر کی خوشحالی کو ترقی دنیا تھا.ان عناصر میں دیہاتی آبادی رعیسائی، ہندو، سکھ ، مسلمان) کا سب سے بڑا حصہ تھا.مسلمان من حیث القوم دیگر اقوام کی نسبت کمزور اور پسماندہ تھے.میاں سر فضل حسین صاحب کی دور بینی دور اندیشی اورسیاسی سوجھ بوتھ کانتیجہ تا کہ یہ تجویز نہیں سو بھی جو کارگر ہوئی.ظاہر ہے کہ دو عمل کے دور میں اگر چہ تعلیم ، صحت ، زراعت ، سینکلات بلدیات، وغیرہ کے محکمے وزرا کے سپرد کر دیے گئے تھے.لیکن امن عامہ اور مالیات کے نہایت اہم محکمے معہ چند دیگر محکمہ جات کے محفوظ ر کھے گئے تھے اور ان کا الحرام میران عاملہ کے سپرد تھا جو کلیہ گورنہ کے ماتحت تھے علاوہ ان میں گورنہ کو وزراء کے محکموں کی نگرانی کے متعلق بھی بعض اختیارات حاصل تھے.اس صورت حالات میں گور نر اور مہران عاملہ کی نگاہ میں وہی وزراء حقیقتا قابل قدر سمجھے جاسکتے تھے اور انہی کی ہے کو وزن دیا جاسکتا تھا نیکو مجلس قانون سانہ میں اکثریت کی تائید اور حمایت حاصل ہو.تعمیری محکمہ جات کو خوش اسلوبی اور کامیابی کے ساتھ چلانے اور انہیں رفاہ عامہ کو فروغ دینے کا آلہ بنانے کے لئے علاوہ دیگر عوانہ مات کے روپے کی ضرورت تھی.اور خدا نے پہ اختیار وزراء کا نہیں میر عالمہ کا تھا.اسلئے لازم تھا کہ میاں سر فضل حسین صاحب کو اپنے تعمیری منصوبوں کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے مجلس قانون سانہ کی تائید حاصل ہوں.اس وقت کے حالات کے ماتحت یونینسٹ پارٹی کا قیام ایک سیاسی شاہکار تھا.اس پار ٹی پر نہ توبہ اعتراض ہوسکتا تھا کہ یہ فرقہ وارانہ پا رہی ہے.اس لئے اس سے یہ توقع نہیں ہوسکتی کہ یہ صوبے کے دوسرے فرقوں کے حقوق کا تحفظ کر سکے یا ان کی موثر نمائندگی کر کے اور نہ ہی یہ اعترامن ہو سکتا تھا کہ یہ ایسی اقتصادی پیار کی ہے جو شہرمی طبقہ کے خلاف ہے اور ان کے حقوق کی طلفاف کی اس سے توقع نہیں ہو سکتی.علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب اپنی سہ سالہ درکنیت محلس کے دوران میں اس پارٹی کے رکن رہے.شیخ مر عبد القادر صاحب ، شیخ دین محمد صاحب اور کئی دیگر معزز بین شہری طبقہ میں سے وقتاً فوقتاً اس پارٹی کے قابل احترام رکن رہے.جن حالات میں اس پارٹی کا قیام عمل میں آیا اور جو کام اس نے کر دکھلایا ان کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کا جائزہ لیا جائے تو ہر صائب غیر جانبدار رائے یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو گی کی مبین سال کے عرصے میں صوبہ پنجاب اگر ہندوستان کے ایک پسماندہ صوبے کی حیثیت سے بڑھ کر ایک ترقی یافتہ صوبہ شمارہ ہونے لگا تو اس قلب ماہیت کی داد کی مستحق یونینسٹ پارٹی تھی.اور اس پار ٹی کی بنیاد رکھنے والے اور ر درج کر والد میاں سر فضل حسین صاحب پر پنجابی کے مخلصانہ شکریہ کے مستحق تھے.فجزاہ اللہ.آج کے کئی نخود ساختہ مورخ اس سادہ حقیقت کو نظر اندازہ کئے ہوئے ہیں کہ بیسویں صدی کا تیسرا اور چوہ تھا عشرہ
۳۳۳ ایک دور تھا.چوتھے عشرہ کے وسط میں وہ دور بدلنا شروع ہوا اور بہت جلد مقیات ہند ایک نئے انقلابی دورہ میں داخل ہو گئی.1970 میاں سر فضل حسین صاحب | میاں سر فضل حسین صاحب ہ سے ا ء تک بطور وزیر اور بطور مبر عامہ حکومت پنجاب میں سرگرم عمل رہے.نسلہ سے شام تک حکومت ہند میں وائسرائے کی مجلس عاملہ کی زنیت رہے مئی سند میں جب وہ پنجاب واپس لوٹے تو صحت کی یہ حالت تھی کہ سانس کی بیا دشوار تھا.میں یاس کی بنا پر نہیں بلکہ اتنی پختہ مل کی بنا پر کہ سکتاہوں کہ وہ ہرگز ہرنہ نہیں چاہتے تھے کہ اپنی نحیف ناتوان جا کو تیسری بار بالکل بدلے ہوئے حالات میں وقف ریخ دمحمن کے ہیں.لیکن پرانے رفقاء میں سے بر سر اقتدار عنصر ن شروط پیش کی کہ اگر ان کی قیادت اس مرحلے پر میسرنہ ہو گی تودہ بھی خدمت عامہ سے دست کش ہو جائیں گے.ان سے بہ اصرار کیا گیا کہ وہ قوم کی ضرورت کو ذای آرام پر تر جیح دیں اور پرانے رفقاء کو اپنا مہمانی ہے محروم نہ فرمائیں.میاں صاحب خوب جانتے تھے کہ یہ شرط اور یہ دعوی اخلاص و وفا ہاتھی کے دانت نہیں.انکی ڈائری کے اندراجات اس پر ہی میں لیکن میرا علم ان کی ڈائری سے حاصل کردہ نہیں بلکہ خودان سے حمل کیا ہوا ہے.لیکن وہ آخرہ فضل حسین تھے.جانتے ہوئے کہ یہ دعوت محض قریب ہے.آپ نے اسے قبول فرمایا.شاید یہ بھی خیال ہو کہ اس کے پردے میں ہو چال چلی جا رہی ہے آپ اس کا تدارک فرما سکیں گئے لیکن قومی اور استعدادیں سب تخدمت قوم میں صرف ہو سکی تھیں.پندرہ سال سے ایک سانس کے بعد دو سر اسانس مہیشہ کل ہو رہا تھا.آخری چند سالوں میں بہت کم اب اتفاق ہوا کہ ہفتہ بھر لگاتار درجہ برماله الينا اعتدال پر رہا ہو.پیمان عمر لبریز ہوچکا تھا.واعلی اجل کو لبیک کہا.اور جبان جبان آفرین کو سپرد کر دی غفر اللہ لہ بہ حمتہ.اس پندرہ سال کے عرصے میں پنجاب اور ہندوستان نے بہت مخلص خادم ملت پیدا کئے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل ور حم سے ان سب کی سعی مشکور فرمائے.اور انہیں سجائے جبریل عطا فرمائے اور اپنی رحمت سے وافر حصہ بنتے آمین.اگر آج قوم میں نہ ندگی کے آثار نظر آتے ہیں.اور قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہے.تو یہ تمام واجب الاحترام تعادمان ملت کی مساعی اور ان کی مسلسل قرنوں کا کمرہ ہے.میاں سر فضل حسین صاحب اس گروہ میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے اور ۱۱ تا ۱۹۳۶ کے دورہ میں ان کی تعمیری خدمات مسلمانان ہند کے لئے عموماً اور سلمانان پنجاب کے لئے خصوصاً ان کے مستقبل کے لحاظ سے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں.اس صدی کے چھٹے اور ساتویں عشرے کے سیاسی نقاد اور مورخ بھول جاتے ہیں.کہ صدی کے آغانہ میں سلمان با وجود پنجاب میں اکثریت رکھنے کے دردسری قوموں کے مقابلے میں صوبے میں کیا حیثیت رکھتے تھے.اور صوبہ پنجاب صوبجات ننگال
17 کم ۲۳ " کمیٹی اور مدار اس کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا تھا.اگر اس کے بعد بھی وہی عالمات جاری ہے تو نہ تھی کے راستے کھلنے پر غیر مسلم عناصر کا قدم تر قی کی شاہراہ پر سلمانوں کے مقابلے میں تیز سے تیز تہ ہوتا جاتا اور ہرسال سلمانوں کی نسبتی حالت گرتی چلی جاتی.قیاس غالب ہے کہ ان نقادوں اور مورخین میں سے اکثر کو کا لج میں داخلہ بھی نصیب نہ ہو سکتا.پنجاب کا درجہ بجائے دو سے صوبوں کے مقابل میں تدریج بلند ہونے کے تدریج گرتا چلا جاتا.میاں سر فضل حسین صاحب کی مساعی کے نتیجے میں تمام سرکاری اعلی تعلیمی درسگاہوں میں مسلمان طلباء کے لئے کم سے کم ہم فیصدی نشستیں محفوظ ہوئیں.صوبہ بھر میں سکولوں اور کالجوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا.صوبہ بھر ی تعلیم کا معیار ، کیفیت اور کمیت کے لحاظ سے بلند ہونا شروع ہوا.ابتدائی تعلیم کے لحاظ سے پنجاب نے اول بڑے صوبوں کی ہمسری کی طرف قدم بڑھانا شروع کیا اور جلد ہی انہیں پچھے چھوڑ دیا.صحت اور طبی محکموں اور اداروں میں چستی پیدا ہوئی شہروں اور دیہات میں شفا خانوں اور ڈسپنسریوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہونے لگا.صوبے کی زندگی کے ہر شعبے کی نبض نیز سہلنے لگی.میاں سر فضل حسین صابو بینی اور دور اندیشی کے اوصاف سے متصف تھے جن نذیر سے کام لیتے تھے ، دردمند دل لہ کھتے تھے، نفرت کو بھی العام سمجھتے تھے، دوسروں سے کام لینے کا ڈھب انہیں آتا تھا.بایں ہمہ وہ ایک انسان تھے اور اتنا ہی کر سکتے تھے جتنا ایک انسان سے ہو سکتا ہے.ان کی قیادت میں بیشما را صحاب نے علی قدیر مراتب ملک اور قوم کی خدمت کو اپنا شعار بنایا اور مخلصانہ تعاون کے ذریعے ان منصوبوں کو کمیل تک پہنچایا اور وہ سب اللہ تعالیٰ کے ہاں اجرہ کے مستحق ٹھہرے.بہ تا شاہ کے دور میں میاں سر فضل حسین کی یونینسٹ پارٹی بہت کار آمد اور کارگر ثابت ہوئی.ترقی کے منصوبوں کے لئے روپیہ کی ضرورت تھی.اس پارٹی نے اراضیات پر شرح محاصل کی انزادی کی تائید میں رائے دیکھ روپیہ فرائم کرنے کا سامان کیا.یہ کسی پر احسان نہیں تھا.پارٹی کے اراکین جانتے تھے کہ یہ روپیہ بلا واسطہ ان کی بیہوری والے منصوبوں پر خرچ ہو گا.ار سے عوام تک میاں صاحب وائسرائے کی مجلس عاملہ کے رکن رہے.جب لالہ ڈارون ) ۱۹۳۰ جو بعد میں اپنے والد کی وفات پر لارڈ سہیلی فیکس ہوئے ، وائسرائے ہند نے میاں صاحب کو سر حبیب اللہ صاحب کی جگہ وائی رائے کی مجلس عاملہ میں شامل ہونے کی دعوت دی اور میاں صاحب نے میرے ساتھ اس کھ کا ذکر کیا تو میں نے عرض کیا کہ وائسرائے ہند کی دعوت قبول کرنا تو ناگزیر ہے.لیکن پھر صوبے میں ایک غلا پیدا ہو جائے گا.آپ نے فرمایا جب وائسرائے نے میرے ساتھ نہ بانی ذکر کیا تو میں نے تامل کا اظہارہ کیا **
۲۳۵ وائسرائے نے کہا آپ ہمیشہ زور دیتے ہیں کہ ہر شعبہ میں ہندوستانیوں کو آگے بڑھایا جائے.اب یہ موقعہ ہے آپ مرکزی حکومت کے رکن کی حیثیت سے اپنی تجاویہ کوعملی جامہ پہنانے کی خود سعی کرسکیں گے.اس پیل کو رد کرنا مشکل تھا.پھر یہ بھی ہے کہ میں نو سال سے صوبے میں کام کر یہ تا ہوں میرے ساتھ کام کرنے والے توقع یہ کھتے ہیں کہ مں جگہ خالی کمروں تو وہ میری جگہ ہیں.جگہ تو ایک ہی ہے اور ایک ہی کومل سکتی ہے.اگر میں اس سے چمٹارہ ہوں تو کئی رفیق ہیں جن کو یہ ناگوارہ ہو گا.باپ بڑھاپے کو پہنچتا ہے تو بیٹوں کی خواہش ہوتی ہے کہ جائداد کا نظام اب ہمارے سپرد ہونا چاہیے اور یہ تومید ان سیاست ہے.حکومت ہند میں کام کرنے کے دوران میں میاں صاحب نے ہندوستانیوں اور بالخصوص مسلمانوں کی بہبودی کے لئے جو کوششیں کیں ان کی فہرست بہت طویل ہے.نمونے کے طور پر ایک کا ذکر مناسب ہو گا.آپ سے پہلے سرسید علی امام صاحب ، سرمایی محمد شفیع صاحب، سر محمد حبیب اللہ صاحب وائسرائے کی مجلس عاملہ کے رکن رہ چکے تھے.اور سب نے علی قدر مراتب گرانقدر خدمات انجام دیں.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے.لیکن ہر مرحلے پر خدمت کا میدان کھلا ہوتا ہے.اور نئے نئے مواقع خدمت کے میسر آتے رہتے ہیں میاں سر فضل حسین صاحب نے ایک واضح مقصد اپنے سامنے رکھا ہوا تھا.اس کے حصول کے لئے وہ صوبے میں کوشاں رہے اور وہی مقصد وہ اپنے ساتھ مرکز میں لے گئے.ہمیشہ ان کی بھی کوشش رہی کہ ملک اور اہل ملک ہر شعبے میں آگے قدم بڑھائیں اور یہ تقی کی * اس جدو جہد میں مسلمان پورا حصہ لیں اور اس میں انہیں ان کا پورا حق دیا جائے.اپنی رکنیت کی میعاد کے پہلے نصف میں ہی آپ نے اپنے محکمے کے سکریٹریٹ میں جو اونچے عہدے تھے ان پر ہندوستانیوں کا تقریر کر لیاتھا سیکریڑی سرگہ جاشنکہ باجپائی صاحب تھے.بجائنٹ سیکریٹری مٹر رام چندرہ صاحب عیسائی تھے.ڈپٹی سیکرٹری صالح اکبر حیدری صاحب تھے.کچھ عرصے کے لئے خان بہادر شیخ خورشید محمد صاحب انڈر سیکریڑی رہے.اس وقت تک وائسرے کی کونسل کے کسی دوسریے ہندوستانی یا غیر مند دوستانی رکن کو ایک کرنے کی توفیق نہیں ہوئی تھی.میاں صاحب کے متعلقہ محکمہ جات میں سے آثار قدیمہ کے ڈائرکٹر جنرل رائے بہادر دیا رام ساہنی ہوئے.انڈین میڈیکل سروس کا مرکزی ادارہ ہندوستانی عنصر سے بالکل خالی تھا اور اس کے ڈائریکٹر منزل جنرل میگا صاحب آن اسنے کے لئے بھی تیار نہیں تھے کہ ماسب موقعہ پہ مرکز میں کسی ہندوستانی افسر کا تقریر زیر غور آئے.میاں صاحب نے اپنی میعاد ختم ہونے سے پہلے لفٹنٹ کرنل گنا پتی کے تنفر بطور پبلک ہیلتھ کمتر ڈپٹی ڈائر کٹر جنرل آئی ایم ایس کی منظوری واٹس ایٹے سے لے لی.میاں صاحب کے مرکزی حکومت کارکین جون سے پہلے تک مرکز ہی اعلیٰ علامہ متوں میں خال خالی ہی کوئی مسلمان نظر آتا تھا.آپ نے مطالبہ کیا کہ اس صورتِ حال کی اصلاح ہونی چاہئے.چنانچہ سر مربوٹ امیرسن کے سپرد یہ کام کیا گیا کہ وہ اس سلسلے میں تفصیلی
رپورٹ پیش کریں.سر سر برٹ اس وقت ہوم سیکہ بیڑی تھے بعد میں پنجاب کے گور نہ ہوئے.جون سالہ میں جب میاں صاحب نے کمزوری صحت کے سبب چار مہینے کی رخصت کی اور ان کی جگہ میرا ارمنی تقریر ہوا تو آپ نے مجھے ارشاد فرمایا کہ سرسر بیسٹ ایمرسن کی رپورٹ پیش ہونے والی ہے.اس پر بحث تو کچھ عرصہ بعد ہو گی لیکن تم اس رپورٹ پر اپنا نوٹ ضرور لکھ دنیاتا کہ بحث کے وقت میں اپنا تائید میں تمہارے نوٹ سے بھی فائدہ اٹھا سکوں.یہ ایک چھوٹی سی بات تھی لیکن اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ مسلمانوں کے مفاد کی حفاظت کیلئے کسقدر پو کس تھے.انکی صحت کی حالت سے کوئی دیکھنے والا اندازہ نہیں کر سکتا تھا کہ آپ کسی بات کیطرف توجہ کرنے کے قابل ہیں.لیکن اس حالت میں بھی یہ نکتہ آپ نے فراموش نہ کیا کہ ان کی جگہ عارضی طور پر کام کرنے والا بھی ان کے موقف کی تائید میں نوٹ لکھ جائے تاکہ وہ یہ کہ سکیں کہ ہم دنوں کی یہ رائے ہے بالآخر حکومت ہند نے ہم جولائی کسی کو یہ ہدایت جاری کی کہ مرکزی اعلی ملانہ منوں میں مسلمانوں کو کم سے کم ۲۵ فیصد حصہ عنا چاہئیے.اگر مقابلے کے امتحان میں مسلمان ۲۵ فیصد سے نہ ایڈ حصہ حاصل کریں تو وہ ان کا متن ہوگا.لیکن اگر ان کا حصہ ۲۵ فیصد سے کم رہ جائے تو کمی و نامزدگی سے پورا کیا جائے.گول میز کانفرس کے مباحثات کے دوران میں ایک نہایت اہم اور پیچیدہ مسئلہ جو پیدا ہوا وہ فرقه دارانہ نمائندگی کا تھا مسلمانوں کا مطالبہ تھا کہ مجالس قانون سانہ میں ہمیں محفوظ نشستوں کے ذریعے حق نمائندگی ملنا چاہیے.جن صوبوں میں ہماری اکثریت ہے ان کی مجالس میں تو ہماری اکثریت ہونی چاہئے لیکن جہاں ہم اقلیت میں ہیں وہاں بھی تمہیں آبادی کے تناسب سے کچھ نہاید حصہ ملنا چاہیئے.اس قضیئے کا فیصلہ آخر یہ طانیہ کی حکومت کے ذمے ڈالا گیا.برطانوی حکومت نے حکومت ہند کی رائے طلب کی.والٹر کی مجلس عاملہ میں اس پر تفصیلی بحث ہوئی.سابق سندھ اور صوبہ سرحد کے متعلق تو کوئی مشکل پیش نہ آئی ان در صوبوں میں مسلمانوں کا تناسب آبادی اتنا تھا کہ اقلیت کو زائد نمائندگی دینے کے بعد بھی مسلمانوں کی کثرت قائم رہ سکتی تھی.لیکن پنجاب میں مسلمانوں کا تناسب آبادی میں صرف ۵۶ فیصد تھا اور چھوٹی میلیو کو چھوڑ کر دو بڑی اقلیتیں ہندوں اور سکھوں کی تھیں.پنجاب کے متعلق بھی مجلس عاملہ میں اتفاق ہو گیا جب کے نتیجے میں مسلمانوں کے لئے خفیف کی اکثریت مجلس قانون ساز میں قائم رہی.لیکن بنگال میں ایک اور شکل تھی وہاں مسلمانوں کا تناسب آبادی صرف ۵۴ فیصد ہونے کے علاوہ یورپین اقلیت ہو تعداد میں بہت قلیل مگر تجارتی ، صنعتی اور مالی لحاظ سے نہایت اہم تھی انہیں معتد بہ نمائندگی دینے کا فیصلہ تھا.اس غرض کیلئے جو طریق بھی اختیار کیا جاتا، مسلمانوں کی اکثریت قائم نہ رہتی.اور مہندؤں کو نہ ایک نمائندگی تو الگ تناسب آبادی کے مطابق بھی نمائندگی نہ مل سکتی آخر مجلس عاملہ کی اکثریت نے میں بجوینیہ کی سفارش کی اس کے مطابق
مسلمانوں کو ۴۸ فیصدی نمائندگی محفوظ نشستوں کی صورت میں اور 8 فی صدی مزدور دل کی نشستوں سے متوقع صورت میں دی گئی.گویا مسلمان ۴۸۰۸۰ فیصدی نمائندگی کے حقدار ٹھہرے.کثرت کی اس تجویز سے میاں صاحب نے مسلمانوں کی طرف سے اور سربی این متر نے ہندؤں کی طرف سے اختلاف کیا حکومت برطانیہ نے فرقہ وارانہ نمائندگی کے فیصلے میں اس تناسب کو قائم نہ کھا.ہندوؤں کو اس تجوید کے تخت تناسب آبادی کے مقابلے میں کم نمائندگی دیگئی.میثاق لکھنو کی رو سے مسلمانوں کو بنگال میں عام نشستوں میں سے ہم فیصدی دیا گیا تھا.چونکہ خاص نشستوں کی تعداد ۳۰ فیصدی تک پہنچ جاتی تھی.رپوربین، صنعت و حرفت ، تجارت ، مزدور یونیورسٹی اور اس میں سے مسلمانوں کو کوئی نشست حاصل نہیں ہوتی تھی.عمل مسلمانوں کی نمائندگی ۲۸ میاد رہ جاتی تھی.حکومت کے متذکرہ بالا فیصلے سے مسلمانوں کی نمائندگی ہم فیصدی ہو گئی جو میاں سر فضل حسین صاحب کی مساعی کا ہی ثمرہ تھا.تصویر کے تمام نقوش کو انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اگر سر فضل حسین ایک محکم اور مضبوط بنیاد نہ قائم کر گئے ہوتے تو سر کے بعد کی نہایت قابل فدیہ اور قابل احترام قیادت کو پاکستان کی عمارت تعمیر کرنے میں بہت دشواری پیش آئی اس کا اندانہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر مرکزی اعلی ملانہ منتوں میں مسلمانوں کے تناسب کے متعلق حکومت ہند کی کم جولائی کہ والی ہدایات جاری نہ ہو چکی ہو میں تو شاہ میں کتنے مسلمان ان علامتوں میں ہوتے اور کیادہ تعداد ایک آزاد ملک کی حکومت کے صیغہ جات کو خوش اسلوبی کے ساتھ چلانے کے قابل ہوتی ؟ ہ میں جب میں پنجاب کی کونسل کیلئے منتخب ہو گیا تو حضرت خلیفتہ امیں نے مجھے ہدایت فرمائی کہ میں کونسل میں اور سیاسی میدان عمل میں میاں سر فضل حسین کے ساتھ پو ر المعادن کروں.حضور نے فرمایا کہ مسلمانوں میں قیادت کی کمی تو ہے ہی اپر مستزاد یہ کمزوری ہے.کہ جب کوئی کام کا شخص آگے آتا ہے تو بجائے اس کے ساتھ تعاون کرنے کے اور اس کی پوزیشن مضبوط کرنے کے اس کی مخالفت کر کے اسے کمزور کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں.میاں صاحب اس وقت قوم کی دانشمندانہ اور مخلصانہ خدمت کر رہے ہیں.اس لئے ان کی تائید اور ان کے ساتھ تعاون لازم ہے.میں تو پہلے ہی میاں صاحب کے ملاح اور ممنونِ احسان تھا اس لئے حضور کے ارشاد کی تعمیل میرے لئے آسان تھی.میاں صاحب یونینسٹ پارہ ٹی کے بانی اور لیڈر تھے.ان کی تائید اور ان کے ساتھ تعاون کا موثر ذریعہ یہی تھا کہ میں یونینسٹ پارٹی میں شامل ہو جانا.اور حقیقت یہ ہے کہ اور کوئی صورت تھی بھی نہیں.ایوان مجلس میں نشستوں کی جو تمہ نیب تھی اس کے مطابق میری نشست علامہ سر محمد اقبال صاحب اور مولوی سر یہ حیم بخش صاحب کے درمیان تھی.مجلس کا پہلا اجلاس جنوری
۳۳۸ اہ کے اوائل میں شروع ہوا.چودھری سرشہاب الدین صاحب صدر مجلس تھے مے ی فضل حسین صاحب تائی مجلس تھے.اگر چہ وزارت چھوڑ کر گورنہ کی مجلس عاملہ کے رکن ہو چکے تھے.لیکن بارتور یونینسٹ پارٹی کے لیڈر تھے جیسے وزارت کے زمانے میں تھے.کونسل کے اجلاس شروع ہوئے ابھی تھوڑا عرصہ ہی ہوا تھا کہ جود مصری سرشہاب الدین صاحب نے ایک دن مجھ سے کہا میاں صاحب کہتے ہیں ظفر اللہ خاں کا نہ مین تو صاف ہے اور کام کی طرف توجہ بھی کرتا ہے.لیکن کبھی کبھی اپنی مرضی چلاتا ہے.میں نے کہا میں ایک وقت محسوس کرتا ہوں.ہر چند کہ میںہر معاملے میں میاں صاحب کے منشاء کے مطابق قدم اٹھانا چاہتا ہوں لیکن بعض کامنت.اوقات ان کا منشاء معلوم نہ ہونے کی وجہ سے تفادت بھی ہو جاتا ہے.میاں صاحب بہت کم اپنے منشاء کا اظہار فرماتے ہیں.اکثر امور میں ان کے منشاء کے متعلق قیاس کرنا پڑتا ہے.مجھے ان امور کا تجربہ نہیں اسلئے قیاس غلط بھی ہو سکتا ہے.میاں صاحب لیڈر ہیں.ان کا حق ہے کہ جو فیصلہ وہ فرمائیں اس کی تعمیل ہو لیکن فیصلے کا علم ہونا ضروری ہے.میں اس سے نہ یادہ کا خواہاں نہیں کہ اگر کسی معاملے میں میں کچھ گذارش کرنا چاہوں تو وہ سن لیں.اس کے بعد اگر ان کا فیصلہ میری رائے کے خلاف بھی ہو تو میری طرف سے تعمیل میں انشاء اللہ کو تا ہی نہ ہوگی.معلوم ہوتا ہے میری یہ گزارش چودھری صاحب نے میاں صاحب کی خدمت میں پہنچا دی.کچھ دن بعد میاں صاحب نے مجھے اپنے مکان پہ پانچ بجے صبح طلب فرمایا.جاڑے کے دن تھے پانچ بجے ابھی خاصا اندھیر تھا میں حاضر ہو گیا.میاں صاحب پالنگ میں بیٹھے ہوئے کام میں مصردن تھے.بغیر کسی تمہید کے فرمایا میں آج دوسرے پہر جا رہا ہوں.پہلے گورنہ صاحب سے ملاقات ہے.وہیں سے روانہ ہو جاؤں گا.گورنہ صاحب نے سر گندے سنگھ صاحب کو بھی بلایا ہے.وہ فلاں معاملے کو سلجھانے کی کوشش کریں گے اگر بات سمجھ گئی تو فبہا.میں فال صاحب کو ٹیلیفون پر اطلاع کر دوں گا.وہ تمہیں بتادیں گے.اگر تصفیہ نہ ہوا تو تماس تو نہ کی اور ایک پرچے پر اپنے دستخطی تحریر شدہ تو یہ دی) درس نقلیں کروا کر اور پارٹی کے دس اراکین سے دستخط کر دار مجلس کے دفتر میں بھیجوا دنیا.اس کے بعد در ایک اور امورہ کی وضاحت فرمائی.دو ایک امور کے متعلق ہدایات فرمائیں اور مجھے خصیت کر دیا.میں نے سمجھ لیا کہ تو گذارش میں نے چودھری صاحب کی خدمت میں کی معنی وہ میاں صاحب نے منظور فرمالی میری سیاسی تربیت کا دورہ ایک آزمودہ کا رسیاستدان کی نگرانی میں شروع ہو گیا.مسٹر جسٹس بخشی ٹیک چند اسلام کے انتخاب میں بخشی ٹیک چند صاحب بھی پنجاب کو نسل کے رکن منتخب ہوئے تھے.بخشی صاحب نہایت قابل قانون دان تھے اور اس وقت لاہور ہائی کورٹ بار میں چھوٹی کے وکیل تھے عام سیاسی سرگرمیوں میں انہوں نے کبھی کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی تھی.ان کی عدالتی مصرو فیات کسی اور کام کے لئے انہیں فرصت بھی نہیں دیتی تھیں.ان کا کونسل میں آنا ایک معمہ تھا جس کا حمل جلد ہی معلوم ہو گیا.شاہ
۳۳۹ کے اوائل میں لاہور ہائی کورٹ میں عارضی حج کی ایک جگہ خالی ہونے والی تھی سر شادی لال صاحب (چیف جٹس) نے اس کے لئے بخشی ٹیک چند صاحب کا نام گورنہ صاحب (سر میلکم ہیلی کو بھیج دیا گورنہ صاحب نے لکھا کہ ایک اسامی کے لئے صرف ایک نام بھیجنے سے یہ مراد ہو سکتی ہے کہ تقریر کا اختیار گورنر یا گور نہ منزل کو نہیں بلکہ چیف جسٹس کو ہے.مناسب ہوگا کہ کم سے کم ایک نام اور بھیجا جائے.چیف جسٹس صاحب نے دوسرا نام رائے بہادر جے لال قلاب ا بھی دیا اور ان کا تقر خالی اسامی پہ ہوگیا.چیف جبس صاحب اور بخشی صاب کو وقتی طور پر زک پہنچی.اسی سال انتخابات ہوئے اور بخشی صاحب کو نسل کے رکن منتخب ہو گئے.وزراء کے تقریر میں گورنہ صاحب کو مشکل کا سامنا ہوا.سر میلکم ہیلی کی طبیعت اقتدار پسند تھی وہ ایسے وزراء کے متلاشی تھے جواپنی مرضی پر اصرار کرنے کی بجائے ان کے مشورے پر عمل کرنے والے ہوں.انہوں نے ایک ترکیب تو یہ سوچ کہ کونل کی تین بڑی پارٹیوں میں سے ایک ایک وزیر بنا جائے اور اس طرح یونینسٹ پارٹی کو کمزور کیا جائے.اس ترکیب کے رستے میں یہ مشکل پیدا ہوگئی کہ نبخشی صاحب کی موجودگی میں بندوں میں سے کوئی اور رکن وزارت قبول کرنے کو تیار نہ تھا.اور اگر کوئی نیا نہ ہو بھی جاتا تو باقی ہند داراکین اس کے خلاف ہو جاتے اور یہ بات وزارت کے لئے کمزوری کا باعث ہوتی اگر بخشی صاحب کو وزیر مقرر کیا جاتا تو ان کی نہ یہ دوست شخصیت گورنہ صاحب کے ہر مشورے کو قبول کرنے کیلئے تیار نہ ہوتی.اس مشکل کا حل گورنہ صاحب کو بھی نظر آیا کہ چارونا چار بخشی صاحب کو ٹائی کورٹ کی بھی پیش کی جائے اتفاق سے ایک حج ریٹائر ہونے والے تھے.اور اس سلسلے میں ایک عارضی اسامی خالی ہونے والی تھی.چنانچہ آنر دسمبر میں بخشی صاحب کو یہ اسامی پیش کی گئی و بخشی صاحب ان دنوں کرسمس کی تعطیلات میں اپنے وطن نور پور ضلع کانگڑہ میں تشریف فرما تھے.وہاں ان کے نام دستی پیغام بھیجاگیا اور فوری جواب کی خواہش ظاہر کی گئی.انہوں نے جواب بھیجا کہ ہم تعطیلات کے بعد لاہور آنے پر جواب دیں گے.تعطیلات کے بعد لاہور پہنچ کیا انہوں نے چیف جسٹس صاحب سے مشورہ کیا اور گورنہ صاحب کو جواب دیا کہ ہمیں بھی کی کوئی ایسی خواہش نہیں اور عارضی اسامی قبول کرنے کیلئے تو ہم کسی صورت نیاہ نہیں.اگر منتقل اسامی جو خالی ہونے والی ہے اس پر تنقیہ کی بخونیہ ہو تو یم اس پر غور کرنے کے لئے تیا نہ ہیں.چنانچہ مستقل اسامی پن بجائے سنیٹر عار منی حج کا تقرر ہونے کے بخشی صاحب کا تقرر ہوا اور بخشی صاحب پہلے دن سے ہائی کورٹ کے مستقل بج ہو گئے اور چابہ عامر منی جوں سے بہن میں جھے ہاں صاحب بھی شامل تھے سینڈ ہو گئے.چیف جسٹس صاحب اور بخشی صاحب کی عار منی زک چند مہینوں کے اندری فتح سے بدل گئی اور نیک آخر کار گورتر صاحب ہی کو ہوئی.بخشی صاحب نے کونسل کے پہلے اجلاس میں صرف رکنیت کا حلف اٹھایا اور پھر چند دنوں کے اندر ہی ہائی کورٹ کی تھی کی کرسی پر رونق افروزہ ہو گئے.قریب میں سال اس کرسی پر متمکن رہے اور ان میں سالوں کا ہر لحظہ مہد و افراد اور ہندو قوم کو تقویت دینے اور مسلمانوں کو
انتہائی حد تک کمزور کرنے میں صرف کیا.وہ نہایت قابل قانون دان تھے.کمزور دلیل کو مضبوط اور مضبوط دلیل کو کمزور کر دکھانا ان کا ذہنی مشغلہ تھا.انہوں نے جو طریق کار اپنے لئے بخو نہ کیا اس پر منوانہ کا بند ہے.جب میاں سر فضل حسین صاحب نے سرکاری اعلی تعلیمی اداروں میں مسلمان طلباء کے لئے پالیس فیصدی نشستیں محفوظ کرائیں تو بخشی صاحب جو ان دنوں پریکٹس کرتے تھے کہا کرتے تھے فضل حسین چالیس فیصدی مقدمات بھی مسلمان د کلا و کو بھجوانے کا انتظام کرے! جی کی کرسی پر بیٹھتے ہی آپ نے جیسے تہیہ کر لیا کہ ان کے اجلاس سے کوئی مسلمان فرق مقدمہ ہندو فریق کے خلاف کامیاب نہ ہو سکے گا.نہ کوئی مسلمان وکیل کسی مندد وکیل کے مقابلے میں کامیاب ہو سکے گا.اور آخر تک انہوں نے اس قاعدے سے کبھی انحراف نہ کیا.بخشی صاحب کا طریق کار یہیں تک محدود نہیں تھا.ان کا منصوبہ ایک مکمل منصوبہ تھا جس کے موٹے اصول ہی تھے.(۱) اگر فریق مقدمہ ایک جانب المان اور دوسری جانب غیر مسلمان ہو تو فیصلہ غیرمسلمان کے حق میں ہوگا.(۲) اگر دونوں فریق مسلمان ہوں اور ایک فریق کی طرف سے ہندو وکیل ہوا اور دوسرے کی طرف سے مسلمان تو فیصلہ ہندو کیل کے حق میں ہو گا.(۳ ) اگر دونوں فریق مسلمان ہوں اور دونوں کے وکلاء مسلمان ہوں تو فیصلہ اس فریق کے حق میں ہو گا جس کے وکیل کو دوسرے فریق کے وکیل کے مقابلے میں بخشی صاحب کم قابلیت کا سمجھتے ہوں.سرشادی لال مبنا عرصہ چیف جسٹس رہے مسلمانوں کو ان کے ہاتھوں بہت نقصان پہنچا اور بہت نا انصافیاں ان کے ساتھ ہوئیں.لیکن مقدمات کے فیصلے میں وہ کھلے بندوں بخشی صاحب کی سی حیات اور حوصلے کے ساتھ انسان کے گلے پر چھری نہیں پھرتے تھے.سر شادی لال کے فیصلوں میں ممکن ہے تلاش کرنے پہ کچھ مثالیں نبشی صاحب کے وضع کرده تین قوائد کے خلاف مل جائیں.لیکن ان کے ہاتھوں سب سے بڑا ظلم ہو مسلمانوں اور اصول انصاف کے ساتھ ہوا ده بخشی صاحب کو کرسی عدالت پر بٹھانے ہی محمد ہونا تھا.بخشی صاحب کو بیچ مقرر ہوئے ابھی تھوڑا عرصہ ہی ہوا تھا کہ چودھری بشیر احمد صاحب نے جو اس وقت تک ہائی کورٹ کے ایڈوکیٹ ہو چکے تھے اور میرے ساتھ کام کرتے تھے کہنا شروع کیا کہ منشی صاحب کبھی کوئی فیصلہ تمہارے حق میں نہیں کر یں گے.میں انہیں ہر بارہ ان کے ایسا کہنے پر کھانا کہ ایک حج کے متعلق ایسی رائے قائم نہیں کرنی چاہیئے کہ وہ تعصب سے کام لیتے ہیں.بشراحمدمسکرا کر کہ دیتے اچھا دیکھ لینا کچھ عرصہ بعد ایک دیوانی اول اپیل کی جس میں میں رسپانڈنٹ کی طرف سے وکیل تھا.بخشی صاحب اور مسٹر جسٹس سجانسٹن کے اجلاس میں سماعت ہوئی اسپلانٹ کی طرف سے سرموتی ساگر وکیل تھے.اجلاس کو جاتے ہوئے چودھری بشیر احمد صاحب نے مجھ سے کہا تمہارا کیا اندازہ ہے اس کیس میں کیا ہو گا.میں نے کچھ دق ہو کہ جواب دیا ہمارا کیں ایک مضبوط ہے کہ کوئی عدالت یہ کیں مہارے خلف فیصلہ نہیں کر سکتی.چودھری صاحب نے پھر مسکرا کہا اچھا
دیکھیں گے یا عدالت ابتدائی میں اس کیس کا فیصلہ ایک مندرجج نے کیا تھا.دونوں فریق مسلمان تھے.عدالت ابتدائی میں مدعیان کا جواب اسپلانٹ تھے، وکیل ہندو تھا.بلکہ اس نے مدعیان کو دعوی دائرہ کرنے پہ آمادہ کیا تھا.ہائی کورٹ میں بھی ان کے وکیل مندر تھے.سرموتی ساگر نے کوئی گھنٹہ بھر بحث کی ان کی بحث ختم ہونے پر مجھے اطمینان تھا کہ اس کیس میں بخشی صاحب کی باریک بیں نگاہ بھی ہمارے خلاف کوئی بات تلاش نہ کر سکے گی.میں نے بحث شروع کی اور بخشی صاحب نے ہر قدم پر ہمارے کیس میں عیب اور ستم دیکھنے شروع کئے.میں ایک بات کا جواب دنیا.وہ میری دلیل کے تین جواب دیتے.بحث لمبی ہو گئی.اور یقینی لمبی ہوتی گئی بخشی صاحب کا عزم نمایاں ہوتا گیا بخشی صاحب کے قاعدہ نمبر کے ماتحت اپیل منظور ہو گئی.جائیداد منتانہ عہ کی اہمیت اتنی تھی کہ ہم استحقاقا پر پیری کونسل میں اپیل کرنے کے مجاز تھے.پریوی کونسل کے حج اعلاس میں اپیل کی سماعت ہوئی اس کے صدر لارڈ الیکن تھے جو اپنے وقت کے قابل تمرین جھوں میں شمار ہوتے تھے.لارڈ میکمان ، لارڈ رائٹ اور سرلا سبیلٹ سانڈریسن بھی اس اجلاس میں شریک تھے.میں نے واقعات بیان کئے لارڈ اٹیکین نے کہا دونوں عدالتوں کے فیصلے پڑھ کر سناؤ.فیصلے پڑھ دینے کے بعد جب میں سحبت شروع کرنے کو تھا.تو دار ڈائیگن نے کہا تمہاری بحث سننے کی ضرورت نہیں.وکیل مخالف سے کہا آپ بتائیں ہائی کورٹ کا فیصلہ کیسے قائم رہ سکتا ہے.آدھ گھنٹے کے قریب وکیل صاحب اپنی طرف سے ہائی کورٹ کے فیصلے میں جان ڈالنے کی بے سود کوشش کرتے رہے.میرے جواب کی نوبت ہی نہ آئی.فیصلہ محفوظ ہوا.چند دن بعد اطلاع مل گئی که اپیل منظور ہو کر ہائی کورٹ کا فیصلہ منسوخ اور عدالت ابتدائی کا فیصلہ بحال ہوا.فیصلے کی اطلاع مل جانے کے بعد ایک تقریب میں کارڈائین سے میری ملاقات ہوئی.انہوں نے دریافت کیا تمہیں کچھ معلوم ہے کہ اس کیں میں پس پردہ کیا بات تھی جو ہائی کورٹ میں اس فیصلے کا باعث ہوئی.میں نے کہا مجھے معلوم تو ہے لیکن میں کہنا نہیں چاہتا.مسکرائے اور فرمایا ضرور کوئی لوکل تعصب ہو گا.سردار سر محمد نوانہ خان صاحب کوٹ فتح خان اسٹیٹ کے مالک اعلیٰ کی حیثیت سے اپنے مزارعان اور دیگیر مالکان سے بعض و اسبات کی وصولی کا فتق رکھتے ہیں.اسٹیٹ میں ایک ڈھیری (سکھ مذہبی ڈیرہ ، ہے جس کے مہنت صاحب نے دوران بند دوست عزیہ کیا کہ سردار صاحب ڈھیری سے متقی بوھا وصول کرنے کے حقدار نہیں.یہ عذر ر د ہوا.مہنت صاحب نے عدالت مال میں چارہ جوئی کی لیکن فناشل کمشنر کی عدالت تک فیصلان کے خلاف رہا.پھر انہوں نے عدالت ہائے دیوانی کی طرف رجوع کیا کہ قرار دیا جائے کہ سردانہ صاحب ڈھیری سے حق بورھا وصول کرنے کے مجانہ نہیں.سردار صاحب کی طرف سے عذر کیا گیا کہ ان واجبات کے متعلق فیصلے کا اختیار صرف عدالت ہائے مال کو ہے.دیوانی عدالت کو اختیار سماعت نہیں ڈھیری ہمیشہ سے یہ واجبات
۲۴۲ ادا کرتی رہی ہے اور اب بھی ادا کرنے کی ذمہ دار ہے.عدالت ابتدائی تے قرایہ دیا کہ دیوان عدالت کو اختیار سماعت نہیں.اور واقعات پر بھی مدعی مستوجب ادائیگی ہے.ڈسٹرکٹ جج کی عدالت سے اس فیصلے کے خلاف مہنت صاحب کی اپیل خارج ہوئی.ہائی کورٹ میں اپیل ثانی کی گئی وہ بھی خارج ہوئی.مہنت صاحب نے لیٹر ز مینیٹ کے ما تخت اپیل کی.لیٹرز پینٹ پہنے میں سینٹر ج بخشی ٹیک چند صاحب تھے.اس مہنتے ہیں اس اپیل کی سماعنہ کی باری نہ آئی.لیٹر نہ پینٹ بیچے جب پھر تشکیل ہوتا تو اس اپیل کی سماعت ہوتی.لیکن دوسرے ہفتے میں ان پنج لیٹرز مینٹ اسیلوں میں سے جن کی باری نہیں آئی تھی صرف ایک یہ اپیل خلاف دستور سابق اس نئے بینچ کے اجلاس میں لکھاری گئی جس کے سینیٹر بچے بخشی ٹیک چند صاحب تھے.بخشی ٹیک چند صاحب کے قاعدہ نمبر کے ماسخت مال کی تین عدالتوں اور دیوانی کی تین عدالتوں کی تجوینیہ کے خلاف اپیل منظور ہو کر قرار دیا گیا کہ عدالت ہائے دیوانی کو اختیار سماعت ہے اور ڈھیری حق بوھا" کی ادائیگی کی مستوجب نہیں.سردار صاب کے مختار میرے پاس تشریف لائے کہ پریوی کونسل میں اپیل کی اجازت طلب کی جائے.ہم نے اجازت طلب کی لیکن ہماری درخواست اسی بنا پر رد کر دی گئی کہ دو روپے سالانہ کا تو تنازعہ ہے اس لئے یہ تنانہ عہ پر لوری کونسل میں لے جانے کے لائق نہیں.ہم نے پریوی کونسل میں درخواست بھیجوائی کہ عدالت تائے دیوانی کو اختیار سماعت ہی حاصل نہیں اور یہ اصولی سوالی ہے اس لئے اپیل کی اجازت خاص دیجائے پر لوری کونسل نے اجازت خواص عطا کی.اپیل کی سماعت ہوئی.پر یوری کو غسل نے قرانہ دیا کہ پنجاب ریونیو ایکٹ کی واضح دفعہ کے ماتحت ان امور میں انتیار سماعت صرف عدالت ہائے مال کو ہے.عدالت ہائے دیوانی کو اختیار سماعت نہیں.ہائی کورٹ کا فیصلہ منسوخ ہو کر ڈھیری کا دعونی خارج ہوا.بخشی ٹیک چند صاحب کے بھی کے عہدے پر سر فرانہ ہونے کے بعد میں نے پا ۸ سال ٹائی کورٹ میں پرکیٹیں کی محض اللہ کے فضل اور اس کی ذرہ نواندی سے مقدمات میں میری کامیابی کی شرح بہت بلند تھی.خالی شد لیکن اس تمام عرصے میں بخشی صاحب کے اجلاس سے میرے حق میں صرف ایک فیصلہ ہوا.اس کیس میں دونوں فریق اور دونوں طرف کے وکلاء مسلمان تھے.میں رسپاڈنٹہ کی طرف سے وکیل تھا.اور امر ز یہ تنازعہ العنہ امر واقعہ تھا.جس میں عدالت ماتحت کے فیصلے میں اپیل ثانی میں دخل انداندی نہ ہو سکتی تھی.یہ بھی ممکن ہے کہ اس کیس پر جناب بخشی صاحب کی رائے میں ان کا قاعدہ نمبر ۳ عائد ہوتا ہو.ابخشی صاحب کا رویہ جو اوپر بیان کیا گیا ہے استقدر ظاہر اور باہر تھا کہ محض ہندو وکلاء کیس کے فیصلے کے متعلق شرط باندھ کر بڑی بڑی فیس وصول کرتے تھے.پودھری محمد اسمعیل صاحب اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر اور ان کے بیر اور ان کی اپیل اول ایک ترقیہ نہری الہا نی کی خرید کے متعلق ہائی کورٹ میں دائرہ تھی جو بخشی صاحب کے اجلاس کی فہرست f
۲۴۳ اور میں گئی.چودھری صاحب ان ہندو وکلاء میں سے ایک کے پاس گئے کہ ہم آپ کو وکیل کرنا چاہتے ہیں.واقعتاً سنکر وکیل نے فرمایا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ خرید اراضی پر آپ کی ادا کر دوہ رقم واپس مل جائے تو میری نہیں استقدر ہوگی.اگر آپ مصر ہیں کہ رقبہ متنازعہ کی ڈگری آپ کے حق میں ہو جائے تو میری فیس مر گئی ہوگی.چودھری صاحب نے موخهم الذکر رقم ادا کر دی اور رقبہ متنارعہ کی ڈگری ان کے حق میں ہوگئی.لیکن کیوا سوال کر سب ایک جیسے نہیں ) والی کیفیت تھی سارے ہند روج بخشی صاحب کے رنگ میں رنگین نہیں تھے.مسٹر سیٹس جے لال صاحب | مسٹر جسٹس جے لالی مذہبی عقائد اور تمدنی کے لحاظ سے کٹر ہندو تھے ر شکل و شباہت میں بھی بخشی صاحب سے بڑھ کر ہندو دکھائی دیتے تھے.لیکن اپنے فرائض منصبی کی اداکی میں حق و انصاف کے تقاضے سے سرمو ادھر ادھر نہیں ہوتے تھے.قانونی قابلیت میں وہ بخشی صاحب کے ہم پلہ نہیں تھے لیکن جہاں بخشی صاحب نے اپنی مسلمہ قابلیت و سلم آزادی کا ہر بار کیا تھا.وہاں مسٹر جسٹس جے لال شرافت کے پہلے شریف نواز اور بے لاگ انصاف کرنے والے تھے.مسٹر جسٹس زندگی لال صاحب | دوسری مثال مسٹر جیٹس زندگی لال صاحب کیا دی جاسکتی ہے وہ سب بیج سے سیشن ج اور پھر بائی کورٹ کے بج ہوئے.کہا جاتا تھا کہ سرشادی لال سے ان کی قرابت واردی ہے.اگر بھی بھی تو ان کے اطوار سرش دی لال کے نہ تھے.بہت قابل اور بیدار مغزج تھے.بہت جلد ات کی تہ کو پہنچتے تھے.مقدمات کے فیصلوں میںکسی قسم کی طرفدار ی کے روادار نہیں تھے.بہن خو بیوں کے خود حامل تھے جہاں انہیں پاتے تھے ان کی قدر کرتے تھے.جسٹس مہر چند مہاجن صاحب | میں نے مسٹر جس مہر چند مہاجن صاحب کی بھی کا زمانہ بہت کم دیکھا لیکن ان کی پریکٹس کے زمانے میں انہیں اچھی طرح جانتا تھا.ان کی قابلیت مسلمہ تھی لیکن نبخشی صاحب کے پھیلے اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے تھے.سر شادی لالی صاحب چیف جٹس | سر شادی لال کی پالیسی کا ایک نمایاں پہلو یہ بھی تھا کہ وہ ہائی کورٹ کی بھی پر کسی قابل مسلمان کا تقر گوارا نہیں کرتے تھے.مسٹر جسٹس شاہ دین تو ان سے سینیٹر تھے اور ایک درخشندہ گوہر تھے.افسوس کہ چیف کورٹ کے ہائی کورٹ ہونے سے پہلے ہی فوت ہو گئے.سریش دی لال کے چیف جسٹس کو جانے کے بعد اگران کا بس چلتا تو کوئی مسلمان ہائی کورٹ کا جمع ہونے نہ پاتا لیکن یہ ان کے عبس کی بات نہ تھی.ایک ایسے صوبے کی ٹائی کورٹ میں جس کی آبادی میں کثرت مسلمانوں کی تھی مسلمان بجوں کا تقریر لازم تھا.شیخ عبدالقادر صاحب اپنی مرجان مریخ طبیعت اور شیریں گفتاری کی وجہ سے ہر طبقے میں ہر بخرید تھے ایک عارضی اسامی پر ان کے تقریر پر رشادی حال رضا مند ہو گئے.تین مہینے کے بعد پھر دو سال کے لئے
کم کم ان کا تقریر ہوا.اس کے بعد اگر عارضی تقریر جاری رہا تورہ جلد منتقل آسامی پہ نائنہ ہو جاتے لیکن سمر شادی لال کو شبہ تھا کہ مسلمانوں کی طرف سے جو کبھی ان کی شکایت میں آوانہ اٹھتی ہے.اس میں شیخ صاحب کا ضرور دخل ہے.لہذا جب پھر ان کے تقریر کا سوال اٹھا تو اس بہانے انکار کر دیاکہ ان کا کام تسلی بخش نہیں رہا.سید عبدالاری کا تقریر الہ آباد سے ہوا.مسٹر حبس عبدالروف نہایت شریف طبع پابند و صنع خوش اخلاق بزرگ تھے.میرے ساتھ تو بہت شفقت سے پیش آتے رہے.ہر ایک ان کے حسن سلوک کا راج تھا.لیکن انہیں ہر دم نہایت احتیاط سے اٹھانا پڑتا تھا.سر شادی لال کی عینک کے شیشے تو بہت موٹے تھے لیکن نگہ بہت باریک اور دور مین تھی.سید صاحب اپنا وقت نیک نامی سے گزارتے رہے.ان کی میعاد ختم ہونے پر سر جٹس آغا حیدر کا کا تقریر سہارنپور سے ہوا وہ کچھ مہینوں کے لئے الہ آباد ہائی کورٹ میں عارضی بھی رہ چکے تھے.ان کی بڑی خوبی یہ تھی کہ سرشادی لال کو کبھی آشفتگی کا موقع نہیں دیتے تھے.اس واحد مقصد میں اپنی میعاد کے آخر تک کامیا رہے.ان کی جانشینی مرزا ظفر علی صاحب کو حاصل ہوئی.ہو سب حجی اور سیشن مجھی کے مراحل طے کرنے کے بعد ڈائی کورٹ کی جی پر فائز ہوئے.بہت متدین عابد وزاہد نیک نام بزرگ تھے.سرشادی لال کے نام سے کانپتے تھے پہنچے کے اجلاس میں سینیٹ حج کی رائے سے اختلاف کرنا الحاد کے مترادف شمار کرتے تھے.آخر میں پھر شیخ سرعبدالقادر کا تقریر ہوا.لیکن اب میعاد اتنی میسر نہ تھی کہ منیشن کے مقدار ہو سکتے.میاں عبدالرشید صاحب کے تقریر کے فرقت سر شادی لال کا راج اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا.بیشیخ دین محمد صاحب کا نظریہ تو اس راج کے آخری دنوں میں ہوا.الہ کے ابتداء میں سر پر برٹ ایمرسن پنجاب کے گورنہ تھے وہ اپنے آپکو بہت ہوشیار تصور کرتے تھے پسر شادی لال کے ہتھکنڈوں سے واقف تھے.ہائی کورٹ کے سینیر پورہ میں جوں سے بھی کچھ تفصیل نہیں پہنچتی رہتی ہوں گی.مسٹر ٹسٹس براڈوے تو اس معاملے میں غیر جانبدار شمار نہیں ہو سکتے تھے.وہ بیرسٹر تھے اور لاہور چیف کورٹ میں برسوں پر مکیں کرتے رہے تھے.جب ان کا نفرنہ جھی پر ہو گیا تو انہوں نے سلامتی اور دانش اس میں سمجھی کہ اگر مس شادی لال شیر بنا چاہوتی وہ گیر نا منظور کر لیں.لیکن مسٹر جیٹس بریرین اور مسٹر جسٹس ایڈسین اس قماش کے نہیں تھے.وہ انڈین سول سروس کے سینیٹر افسہ تھے.خود داری اور خود اعتمادی کے حامل تھے.سری شادی لال اور بخشی ٹیک چند کی چالاکیوں کو خوب سمجھتے تھے.اور ان کے شاہد تھے.سر شادی لال مئی کاء میں ساٹھ سال کی عمر کو پہنچنے والے تھے.جب ان کا تقرر چیف کورٹ کی جی پر ہوا اس وقت اعلیٰ عدالتوں کے بچوں کے عرصہ ملازمت کی میعاد مقرر نہیں تھی.الہ آباد ہائی کوٹ کے دور حج ستر سال سے زائد عمرتک جی کی کہ سی پر متمکن رہے.سر پی سی بیر جی بہتر سال کے ہو گئے شنوائی میں فرق آگیا لیکن پیشن پر جانے کا ذکر سننے کے لئے تیار نہیں تھے.آخر چیف جسٹس سرگر موڈ میر ز نے اس طرح
۲۴۵ انہیں رضا مند کیا کہ ان کی جگہ ان کے صاحبزادے کا فقرہ مطوبہ حج ہائی کورٹ ہو جائے.اسی طرح سرجان نا کس بھی ستر سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد منشن لینے پہ آمادہ کئے جاسکے.آئندہ کے لئے اس مشکل کا حل یہ تجوید کیا گیا کہ مستقل اسامی پر تقریر کے وقت جج صاحبان سے تحریری عہد سے لیا جاتا کہ وہ ساٹھ سال کی عمر نہتے پر پنشن لے لیں گے.سرشاری لال کے تقریر کے وقت کوئی آپ افرایہ نامہ نہیں لیا گیا تھا.اس لئے وہ اپنے آپ کو ساٹھ سال کی عمر ہو بھلانے پر ملازمت چھوڑ دینے کا پابند نہیں سمجھتے تھے سر پر بیٹ ایمرسن نے ان سے دریافت کیا کہ آپ اپنے جانشین کے متعلق کوئی مشورہ پیش کرنا چاہیں تو فرما دیں بسر شادی لال نے کمال سادگی سے کہہ دیا کہ جب وقت قریب آئے گا میں اپنی رائے کا اظہارہ کہ دوں گا.اس سے گو یہ نہ صاحب بھانپ گئے کہ شادی لال ساٹھ سال کی عمر ہو نے پر میشن پر نہیں جائیں گے.اتفاق سے پریوی کول میں ایک ہندوستانی جی کی جگہ خالی ہونے والی تھی.سر پر بیٹ نے گورنر جنرل کی وساطت سے وزیر مہند کو رضا مند کیا کہ سر شادی لال کا تقریر پر لوی کونسل میں ہو جائے اور سر شادی لال کو یہ پیشکش کی یہ شادی لال نے غدیر کیا کہ ان کے لئے لندن کی رہائش تکلیف دہ ہوگی اور ان کی صحت بھی اجازت نہیں دیتی.گورنہ صاحب نے کہا، بادشاہ سلامت کی پریوی کو غسل کا رکن ہونا بڑا اعزانہ ہے اور اس سے انکار مناسب نہیں.صحت کا عذر تو بہر صورت مشکل پیدا کرے گا اگر آپ نے یہ عذر پیش کیا تو آپ کو چیف جسٹس کا عہدہ بھی چھوڑنا ہوگا غرض سرشادی لالی نے چار دنا پچانہ پہ بیوی کونسل میں جانا منظور کر لیا.آخری دن وکلا سے رخصت کی تقریب میں جو تقریر آپ نے کی اس میں حکومت پر بھی کڑی تنقید کی.آپ ٹائپ شدہ تقریر پڑھتے جاتے تھے اور سختی ٹیک چند صاحب رومال سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے.جٹس سر شادی لال سے سر | آخری ایام میں آپ نے مختلف گروہوں سے الوداعی ایڈریس لینا ہو گندر سنگھ کی ستم ظریفی شہر دیے گئے.ان دنوں بالو فضل الدین صاحب آپ کے ریڈر تھے.انہوں نے ایک دن مجھے ایک ایڈریس کی چھپی ہوئی کاپی دکھلائی ہوسکھ وکلاء نے چیف جسٹس صاحب کی خدمت میں پیش کیا تھا.ایڈریس انگریزی میں تھا جس میں چیف جسٹس صاحب کی خوب مدح سرائی کی گئی تھی.لکھا تھا کہ آپ نے ہمیشہ سب کو ایک نگاہ سے دیکھا اور سب کے ساتھ یکساں سلوک کیا، ہر ایک کو اس کا مناسب حق دلوایا.اور سب سے انصاف کیا.انگریزی میں اس مدح سرائی کے بعد خواجہ حافظ شیرازی کا یہ شعر درج تھا عمرتان با درا سلام اے سافیان ببرم حجم گریچه سجام مانند پیر سے بد و در این شما ؟
سرت دی لال فارسی جانتے تھے.ایڈرس پیش کرنے والوں کو یہ توقع تو نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ اس ستم ظریفی کو سمجھ نہ سکیں گے.اس لئے غالب قیاس بھی تھا کہ ایڈرس پیش کرنے والے خود کسی کی ستم ظریفی کا شکار ہوئے ہیں.کچھ دنوں بعد مسٹر جسٹس دلیپ سنگھ نے اپنے مکان پر سر شادی لال کے اعزانہ میں رخصتی ڈنر دیا جس میں میں بھی مدعو تھا.دنہ راء میں سے سر جگندر سنگھ مدعو تھے.وکلاء میں سے مسٹر بھگت رام پوری اور میں.باقی سب ہندوستانی بج صاحبان تھے.مختصر سی پارٹی تھی.جب ہم کھانے کے کمرے میں گئے تو دیکھا کہ دو تین کرسیوں کے پیچھے سفید رومال بندھے ہوئے ہیں.کسی نے میزبان سے پو چھا کہ اس سے کیا مراد ہے.انہوں نے کہا کہ میں نے ملازموں کو واضح طور پر سمجھا تو دیا ہے کہ فلاں فلاں مہمان گوشت نہیں کھاتے لیکن پھر بھی غلطی کا استعمال رہتا ہے.اسلئے ایسے مہمانوں کی کرسیوں کے پیچھے نشان کے طور پر سفید رومال باندھ دیئے ہیں.اس پر سہ دار ہو گندر سنگھ نے بے ساختہ فرمایا ہاں ٹھیک ہے.ہمارے گورو جانے فرمایا ہے بعض لوگ جانور کا گوشت تو نہیں کھاتے لیکن انہیں انسان کا نعون سوسنے میں کوئی باک نہیں ہوتا.ان کے یہ کہنے پر مجھے یاد آگیا کہ سر جو گندر سنگھ فارسی اچھی جانتے ہیں اور خواجہ حافظ کے کلام سے واقف ہیں.سیب کھانا ختم ہوا تو مہا باہر با نیچے میں نکل آئے.میں نے موقعہ پاکر علیحد گی میں سر جوگندر سنگھ سے کہا.خالصہ جی اسکھ وکلاء نے جو ایڈریس سرشاری لال کو پیش کیا ہے اس میں خواجہ حافظ کا شعر کیسے جوڑ دیا گیا.وہ ہنسے اور فرمایا وہ الو میرے پاس آئے تھے اور چاہتے تھے کہ میں ان کے ساتھ ایڈریس میں شامل ہوں.میں نے کہا میرا تو کوئی تعلق نہیں اور میرا سرش وی نان نے کچھ سنوارا نہیں.تمہیں اگر ان کی خو د منظور ہے تو جاؤ اور ایڈرس پیش کرتے پھرو.انہوں نے جواب دیا ہماری تو کوئی ایسی نیت نہیں تھی.لیکن چیف جسٹس صاحب نے خود خواہش ظاہر کی ہے کہ انہیں ہاری طرف سے ایڈریس دیا جائے.آپ اگر شامل نہیں ہوتے تو ایڈریس تو لکھ دیں.میں نے ایڈریس لکھنے سے بھی تو انکار کیا.وہ لوگ پہلے گئے اور پھر ایڈریس لکھ کرنے آئے اور کہا، اسے دیکھ تو لیں اور جہاں اصلاح کی ضرورت ہو اصلاح کر دیں.میں نے انگریزی عبارت کی مناسب اصلاح کر دی اور درمیان میں حافظ کا شعر بھی لکھ دیا.مریٹس ایڈین | مسٹر جسٹس ایڈین ہائی کورٹ کے حج مقرر ہونے سے عین پہلے 19ء میں انتخابا کیٹر میونل کے پریذیڈنٹ مقر ہوئے تھے.پیراکبر علی صاحب وکیل فیروز پور کا میں بھی ٹرمینل کے سپرد تھا میں پیر صاحب کی طرف سے اس کیس میں وکیل تھا.فریق مخالف کی طرف سے میاں عبدالرشید صاحب وکیل تھے.پہلی پیشی کے دن پریڈ ٹڈنٹ صاحب نے فریقین کو ضابطے کے متعلق کچھ ہدایات دیں.میں نے ایک امر کے متعلق وضاحت چاہی.اس کی تعبیر میرے خلاف کی.میں نے دوسرا سوال کیا.پھر ویسے ہی کیا.میں نے قیا
سوال کیا.پھر وہی ہوا.اور ساتھ ہی پریذیڈنٹ صاحب نے کہا تمہارے بار بار سوالات کی وجہ سے یوں ہوا ہے.اور بار بار کے سوالات کے لئے ایک ایسا لفظ استعمال کیا جسے میں نے نا مناسب اور نانت میں خیال کیا.میں نے انہیں ڈانٹا اور باد لایا کہ حج اور وکلاء ایک ہی نظام کی کڑیاں ہیں اور دونوں پر لازم ہے کہ ایک دوسرے کا احترام کریں اور اصرار کیا کہ وہ اپنا لفظ واپس لیں.انہوں نے وضاحت کی کہ ان کی نیت کسی قسم کی تحقیر کی ہیں تھی ہیں اس وقت ہوش میں تھا میں نے کہا یہ لفظ یقینا تحقیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے.اور اگر آپ کو یہ معلوم نہ تھا تو آپ کو اس لفظ کے استعمال سے پر ہیز لازم تھا.انہوں نے ٹریبیونل کے دوسرے ارکان جو سے دریافت کیا کہ کیا میں نے ناواجب لفظ استعمال کیا ہے ؟ دوسرے اراکین مسٹر مورٹن اور مسٹر والی پناه دونوں بیرسٹر تھے.دونوں نے کہا یہ لفظ نامناسب تھا.مسٹر مورٹن نے تو حیرت کے لہجے میں میری طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا.تم نے یہ لفظ اس سے کہا ؟ اس پر پریڈنٹ صاحب نے تاسف کا اظہار کیا اور کہا مجھے ہاں لفظ کے ایسے معنوں میں استعمال کئے جانے کا علم نہیں تھا.اس کے بعد انہوں نے میاں عبدالرشید صاحب کو توجہ دلائی کہ ایک امرسیہ ان کی طرف سے ضابطے کے مطابق عمل نہیں ہوا.اور ساتھی مجھے کہا.تم نے صحیح طریق اختیارہ کیا ہے.میں نے کہا.پھر مجھے مخاطب کرنے کی ضرورت نہیں.آخر میں میں نے ان کے ریڈر سے کوئی سوال کیا اہوں مسل ریڈر سے لیکہ خود نہایت نرمی کے لہجہ میں مجھے جواب دیا.میں شکریہ ادا کر کے رخصت ہوا.اس دن جب ٹریبیونل کا اجلاس یہ خواست ہوا تو مسٹر رالی بارہ روم میں آئے اور جو دو کلا موجود تھے ان سے کہا.بار میں سے جو بھی ٹریبیونل کے سامنے پیش ہوا ہے پریذیڈنٹ نے اس کے ساتھ درشت کلامی کی ہے اور وہ سب خاموشی سے برداشت کرتے رہے ہیں.آج اس نے ظفراللہ سے ایک لفظ کہ دیا جو اسے ناگوار ہوا اور اس نے اسے فوراً ڈانٹ دیا اور آخر اسے اظہار تاسف کرتے ہی بنی.اس نے آج تم سب کی لاج نہ کھلی ٹرمینوئل کا کام ختم ہوا تو مسٹر ایڈمین نے ہائی کورٹ میں بطور جج کام شروع کر دیا.مجھے انتظار تھا کہ دیکھیں یہاں ان کا رویہ کیا انتہا ہے.لیکن یہاں انہوں نے پہلے دن سے ہی میرے ساتھ پوری شرافت کا بہ نا درد رکھا اور ہمیشہ خوش خلقی سے پیش آتے رہے.میں نے بھی ٹریبیونل والے واقعہ کو دل سے نکال دیا.وہ بڑے قابل تھے اور کام تیزی سے کرتے تھے.آہستہ پہنے والے وکیلوں کو بعض دفعہ وقت کاسامنا ہوتا تھا.لندن میں ایک بار ہم کھانے پر اکٹھے تھے مجھ سے دریافت کیا تم شراب کبھی نہیں پیتے؟ میں نے کہا کبھی نہیں.کہنے لگے لیکن قرآن نے شراب قطعا حرام تو نہیں کی.میں نے کہا آپ بطور حج قانونی معاملات میں کوئی فیصلہ صادر کریں تو اس کی پابندی قانون لازم فرار دنیا لیکن قرآن کریم کی تفسیر کرنے بیٹھ جائیں تو وہ قابل قبول نہیں.میں عالم نہیں ہوئی لیکن قرآن کریم کو آپ کی نسبت بہتر سمجھتا ہوں.قرآن کریم نے شراب کے استعمال کی قطعاً ممانعت کی ہے اور بڑے سخت الفاظ میں کی ہے ؟! ہے.
۲۴ مسٹر جسٹس ہیرین | مسٹر جٹس پیرین ایک قابل اور نقطہ میں بھی تھے.لیکن مزارع نازک تھا اور اس پر طرہ یہ کہ شراب کے استعمال میں عدا عتدال کو قائم نہ رکھ سکتے تھے.جب مزاج برہم ہوتا تو قابو مں نہ رہنا.چھوٹے سے چھوٹے وکیل سے لیکر سیر و کلا تک بشمول بخشی ٹیک چند صاحب ان کی بہر ہم مزاجی کا نشانہ بنے سے نہ بچ سکے محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں شروع سے آختہ تک مستنے رہا.اس کی ظاہری وجہ تو یہ تھی کہ وہ وکلاء بھی جنہیں اپنے کیس کے مطالعہ اور تیاری کا شوق ہوتا ہے جج کی طبیعت کے مطالعہ کی طرف توجہ نہیں کرتے مسٹر جٹس پریسین بعض باتوں سے بہت پڑھتے تھے.مثلا اگر کوئی وکیل واقعات کے بیان کرنے میں غلطی کرے تو بہت برہم ہوتے تھے.اگر کوئی بہت بڑھا کہ بات کیسے تو انہیں نا گوارہ ہوتا تھا.اگر وہ کوئی سوال کریں تو ضروری تھا کہ مختصر سے مختصر الفاظ میں ان کے سوال کا جواب فوراً دیا جائے.اور اگر کسی وضاحت کی ضرورت ہو تو وہ بعد میں الگ کی بجائے لمبی تقریر سے آشفتہ ہوتے تھے.بات کی ہندہ کو بہت جلد پہنچے جاتے تھے اسلئے بھی تقریر کی ضرورت نہ ہوتی تھی تکرار پسند نہیں کرتے تھے.ایک بار صفائی سے بات کر دینا کافی ہوتا تھا.مجھے ان کی ذہانت اور انکی طبیعت کا اندازہ شروع شروع میں ہی ہوگیا تھا.جس پرسین و عداری اپیل با نگرانی میں نا جائزہ کشید شراب کے معاملہ یں بہت نرمی کرتے تھے کہا کرتے تھے اس معاملہ میں قانون نا واجب طور پر سخت ہے.جس شخص کے پاس روپیہ ہو اور غیر ملکی شراب کا شوق رکھتا ہو وہ اپنا ہہ خانہ فرش سے چھت تک تیر مکی شراب کے سکوں اور بوتلوں سے بھرے تو اس کے ساتھ قانون کوئی تعرض نہیں کرنا.لیکن اگر کوئی دیہاتی اپنی عادت سے مجبور ہو کر ایک مکا ستی دیسی شراب کا کشید کرلے تو اسے جیل خانے جانا پڑتا ہے.میں قانون کو بدلنے کا اختیار تو نہیں رکھتا لیکن سزا میں تخفیف کرنے کا مجھے اختیار ہے.ایسے مقدمات میں اکثر خلیفہ حکومت رائے صاحب سائل کی طرف سے وکیل ہوتے اور مقدمہ یوں طے ہوتا.مسٹر جسٹس پیرین.مسٹر حکومت رائے یہ کیس تو بالکل صاف ہے.ملزم کے مجرم میں شک کرنے کی گنجائش نظر نہیں آتی.خلیفہ حکومت رائے.بجا ہے جناب عالی لیکن سزا بہت سخت ہے.سٹر جسٹس پرسن.بیشک سزا میں سختی کی گئ ہے تین مہینے کی یا ان کے تقاضے کو پورا کرنے کیلئے کافی ہے.میں میں سر انجونیہ کرتا ہوں.خلیفہ حکومت رائے وکیل خلیفہ حکومت رائے بھی اپنی مثال آپ تھے.طبیعت رنگیلی تھی ماتھے کے علاقے کے جرائم پیشہ سب ان کے مرید تھے.جرم کرتے ہی ان کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اور سب کیفیت بیان کر کے استمداد کرتے دہ اپنی عقل دوڑاتے اور کوئی نہ کوئی رستہ مخلصی یا تخفیف تعزیر کا ڈھونڈ نکالتے.ایک واقعہ خود مجھ سے بیان کرتے ہوئے کہا انسانی تحریر سے بچانے کی سعی تو ہم کر لیتے ہیں اور کئی دفعہ کامیاب بھی ہو جاتے ہیں لیکن خدا کی تعزیہ سے
۲۴۹ بچنے کیلئے کوئی تدبیر کام نہیں آتی.واقعہ کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا ایک دفعہ کا منہ کا اچھے کے قریب ایک گاؤں کا رہنے والا میر ایک موکل سردیوں کے موسم میں رات دس گیارہ بجے کے درمیان میرے پاس لاہور آیا اور کہا میں نے اپنے گاؤں سے باہر اپنے ایک تعریف کو قتل کر دیا ہے.اور سیدھا تمہارے پاس آیا ہوں اب تم کوئی تدبیر کر لو.میں نے کہا دلی دروازے جا کر ایک تو تل دیسی شراب کی خرید اور اتے ہی کو والی کے اسے کسی اگر نے کا ارادہ گالی گلوچ کرد کو تو الی والے تمہیں رات بھر کے لئے سوالات میں دیدیں گے.ان کے دریافت کرنے پر اپنا نام بتہ صحیح لکھوا دنیا.صبح ہونے پر تمہیں چھوڑ دیں گے تم سید ھے اپنے گاؤں لے جانا.اگر تم پر قتل کا شک کیاگیا اور تمہیں گرفتارکیا گیا تو اپنے والد توں سے کہنا میرے پاس آجائیں.اس نے ایسا ہی کیا.جب اپنے گاؤں واپس پہنچا تو پولیس موجود تھی اور اس کی تلاش ہو رہی تھی اسے گرفتار کیا گیا.مجسٹریٹ کی عدالت میں اس نے بیان دیا میں بیگناہ ہوں میں تو اس رات گاؤں میں ہی نہیں تھا.مقتول کی نعش روشنی ہونے پر کھیت میں پائی گئی تھی.رپورٹ میں درج تھا کہ صبح فجر سے قبل ابھی اندھیرا تھا کہ رپورٹ کنندہ کا گذر کھیت کے قریب سے ہوا اس نے مقتول اور ملزم کی آواز سنی کہ آپس میں گالی گلوچ ہو رہے ہیں اور ایک دوستے پر حملہ آور ہیں.وہ جلدی سے آگے بڑھا اتنے میں مقتول زمین پر گر گیا تھا اور دوسرا شخص بھاگ گیا.اس نے نیم اندھیرے میں مقتول کے جسم کو ٹول اور محسوس کیا ہ اسے سانس نہیں آتا.روشنی ہونے پر معلوم ہوا مر چکا ہے.وہ گاؤں گیا اور نمبردار کو اطلاع دی.نمبردار نے کہا تھانے جا کہ رپٹ درج کراؤ.مجبریٹ نے مقدم سیشن کی عدالت میں بھیج دیا.سیشن میں ملزم نے بیان دیا میں اس رات گاؤں میں نہیں تھا.اس شام مجھے لاہور میں خلال کام تھا اس کی خاطرمیں لاہور گیا کام ختم کرنے کے بعد میری ایک را نگیر سے تکرار ہوگئی.کوتوالی قریب تھی کو توالی والوں نے مجھے حوالات میں دیدیا.رات بھر سوالات میں رکھا صبح رہا کمرہ دیا میں سیدھا گاؤں آگیا.وہاں پہنچنے کے تھوڑی دیر بعد پولیس نے مجھے گرفتانہ کر لیا.مجھے قتل کے واقعہ کا کوئی علم نہیں.صفائی میں کو توالی کار تیبا در محر طلب کئے گئے ان کی شہادت سے ملزم کے بیان کی تصدیق ہوئی ملایم مہدی ہو کہ رہا ہوا.رہائی ہونے پہ گاؤں واپس گیلا ایک ہفتے کے اندر پلیگ کا حملہ ہوا.چار دن بعد مرگیا.خلیہ کومت رائے صاحب سے معلوم ہوا کہ وہ تین بھائی ہیں ان کے والد صاحب علم دوست تھے اور قرآن کریم کا بہت احترام کرتے تھے.تینوں بیٹوں کو انہوں نے قرآن کریم سبقاً پڑھایا تھا.خلیفہ صاحب نے مجھے کہا میں تمہارا احترام اس لئے کرتا ہوں کہ تم علم دوست ہو اور قرآن کریم جانتے ہو.ایک دن میں اور خلیفہ صاحب ایک قتل کے مقدمے کی پیروی کے سلسلے میں لاہور سے فاضل کا جا ر ہے تھے ، ماتھے کا علاقہ تھا میں سٹیشن پر گاڑی ٹھہرتی خلیفہ صاحب در دانے میں کھڑے ہو جاتے برائٹیشن پر اپنے تین چار موکلوں کے ساتھ ان کی صاحب سلامت ہو تی فیروز پور سنچتے تک شام ہو ئی ہم نے گاڑی بعد لی اس واقعے میں خلیفہ صاحب ریفرشمنٹ روم میں جا کر اپنی تفریح کا سامان کر آئے.جب فیروٹ یہ
۲۵۰ سے گاڑی روانہ ہوئی اور اندھیرا ہونا شروع ہوا تو خلیفہ صاحب کی طبیعت پر رقت غالب آنے لگی انہیں تو یہ استغفار کی طرف توجہ ہوئی پہلے آہستہ اور پھر بلند آواز سے اور جوش سے کہنا شروع کیا یا اللہ ! میں بہت عاجز انسان ہوں.مجھ سے بہت گناہ سرزد ہوئے ہیں.میں بہت کمزور ہوں.اور پھر یہ پیشہ ہی ایسا ہے.میں کیا کروں.لا اله الا انت سبحانك انى كنت من الظالمین یہ آیت پڑھتے اور زور سے دو بہتر اپنے سر پہ مارتے اور پھر آہ دنہاری اور استغفار میں لگ جاتے.اسی کیفیت میں ہم فضلکا پہنچے.ان کے موکل پیشوائی کو آئے ہوئے تھے.وہ انہیں اسٹیشن سے اپنے ساتھ لے گئے.جیٹس ہیرین مختصر بحث پسند کرتے تھے.میری ایک اپیل ان کے اجلاس میں تھی جس میں تین ملزمان میں سے ایک کو سات اور دور کو پانچ پانچ سال کی قید بامشقت کی سزا ہوئی تھی.امر واقعہ کے اٹھارہ چشم دید گواہ استغاثہ کی طرف سے پیش ہوئے تھے ان کے بیانات میں کوئی تفاوت یا تضاد نہیں تھا.اگر میں مروجہ طریقے کے مطابق ساری شہادت پڑھ کر سناتا تو ڈیڑھ دو گھنٹے اسی میں صرف ہوتھے اور مسٹر جیٹس پیرین جیسے نازک مزاج جج کی طبیعت پر بہت بوجھ ہوتا استغاثے کی کہانی کی تائید اٹھارہ بار سنکر ان کے دماغ میں یہ بات محکم ہو جاتی کہ تینوں ملزمان کا جرم ثابت ہے اور ان کی طرف سے کسی بحث پر غور کرنا ہے کا ر ہے.میں نے مختصر اوا فعات بیان کئے اور کہا کہ اٹھارہ گواہ استغاثے کی ہانی کی تائید کرتے ہیں جن کے بیانات میں کوئی ایپ اختلاف نہیں جو آپ کی توجہ کے لائق ہو.میری معروفت یہ ہیں.ملزم نمبرا کو دوسرے ملزمان سے زیادہ سخت سزا اس بناء پر دیگئی ہے کہ لڑائی کے دوران میں وہ بھاگ کر گاؤں گیا اور کچھ اور لوگوں کو لڑائی میں شامل ہونے پر آمادہ کر کے لے آیا.بیشک ایک گواہ نے ایسا کہا ہے لیکن ایک دوسرے گواہ نے بحرین میں تسلیم کیا ہے کہ یہ ملزم لڑائی کے دوران میں سارا وقت جائے وقوعہ پر موجود رہا.ملاحظہ ہو ر یکارڈ کا صفحہ فلاں سطر فلاں میری گزارش ہے کہ اس کی سزا میں تخفیف ہونی چاہیے.ملزم نمبر 1 کے متعلق میری گزارش ہے کہ اس کا چچا ملزمان کے مجھے کا سردار سمجھا جاتا ہے.لیکن چھا بھتیجھے دونوں کا اس معاملے کے ساتھ کوئی تعلق بیان نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے یہ لڑائی ہوئی.باوجود اس کے نہ صرف بھتیجے کو زمرہ ملزمان میں شامل کر لیا گیا ہے بلکہ جھا کو بھی ملوث کرنے کی شوش کی گئی چھپا کا نام ریورسٹ ابتدائی میں زمرہ ملزمان میں شامل ہے لیکن جب بعد میں معلوم ہوا کہ وہ تو اس دن ۲۰ - ۲۲ میل کے فاصلے پر سیشن جج کی عدالت میں مشہادت دینے کے لئے گیا ہو ا تھا تو گواہان نے عدالت میں اس کا نام نہیں لیا.اس سے صاف ظاہر ہے کہ چھا کو ناحق شامل کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور شبہ پیدا ہوتا ہے کہ ممکن ہے بھتیجے کو بھی اسی طرح شامل کیا گیا ہو.اسلئے لازم ہے کہ شہادت استغاثہ کونہایت
۲۵۱ احتیاط سے جانچا جائے آپ کا یقینا یہ تجربہ ہے کہ ایسے مقدمات میں جب کسی شخص کو نا حق مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے تو شہادت میں دیگر ملزمان کی نسبت اس پر زیادہ بوجھ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے.یہاں بھی یہی صورت ہے.بیان کیا جاتا ہے کہ اس ملزم کے ہاتھ میں کلہاڑہ اتھا.لیکن ڈاکٹری شہادت میں مقتول کپیسی تیز دھامرہ آئے کا نشان نہیں اس اعتراض ا ر یہ بنایا گیا کہ ملزم کلہاڑے کو الٹا چلاتا ہی نا.مسٹر جسٹس پیرین.تم نے کبھی کلہاڑا اللہ چلانے کی کوشش کی ہے ؟ ظفر اللہ خاں.نہیں جناب ! مرحبٹس ہیرین.کمبھی کوشش کر کے دیکھنا بھاری کلہاڑے کو الٹا چلا نا سیدھا چلانے کی بت شکل ہے.کلہاڑے کی ساخت ہی ایسی ہوتی ہے کہ تیز دھار والی طرف پتلی اور ملکی ہو اور کھیل کی طرف موٹی اور بھاری ہو.تا کہ جب زور سے وار کیا جائے تو تیز دھار دور تک لکڑی کے اندر گھسی ہے اور اسے توڑ دے اور اس میں جوڑا شگاف کر دے.اس وجہ سے کلہاڑے کا الٹی طرف سے چلانا مشکل ہوتا ہے.بحث ختم کرتے ہوئے میں نے گذارش کی کہ ملزم نمبر 1 کی نسبت شک کی گنجائش ہے کہ اسے نامی لزمان میں شامل کیا گیا ہے.اسے شک کا فائدہ ملنا چاہیئے.تیسرے ملزم کی نسبت میری کوئی گزارش نہیں.استغاثے کی طرف سے میاں محمد رفیع صاحب وکیل تھے.انہوں نے میری بحث کے جواب میں کہا کہ ایک شخص مارا گیا ہے.اٹھارہ گواہ چشم دید شہادت دیتے ہیں.ان کے بیانات میں کوئی اختلاف نہیں حالت ماتحت کے فیصلے میں کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں.مسٹر جٹس پیرین.ملزمان کے وکیل نے یہ سب باتیں خود ہی تسلیم کر لی ہیں جو ہر وہ اس نے بیان کی ہیں ان کا اگر کوئی جواب آپ دنیا چاہتے ہیں تو کہیئے ؟ میاں محمد رفیع - جناب عالی ره و حجره نہایت کمزور ہیں اور شہادت استغاثہ اسقدر قوی ہے.کہ اس کے مقابلے میں وہ وجوہ قابل نہ پیدائی نہیں.جج صاحب نے اسی وقت فیصلہ لکھوا دیا.میری بیان کردہ وجوہ کا خلاصہ دیکر کہا مجھے ان سے اتفاق ہے.ہمیں ملزم نمبر کو شک کا فائدہ دیکہ برمی کرتا ہوں.ملزم نمبرا کی ستر سات سال سے تخفیف کر کے پانچ سال کرتا ہوں.ملزم نمبر ۳ کا اپیل خارج کرتا ہوں.ہم عدالت کے کمرے سے باہر نکلے تو چو دھری بشیر احمد صاب نے جو ان دنوں بطور جو نیٹر کے میرے شریک کار تھے کہا یہ کس قسم کی وکالت ہے کہ تم نے ایک ملزم کی طرف سے
کچھ کہا ہی نہیں.ایک کے لئے صرف سزا میں تخفیف کی استدعا کی اور ایک کی سمریت چاہی.تمہیں تو تینوں کی طرف سے وکیل کیا گیا تھا.تمہیں چاہیئے تھا کہ مینوں کی رہائی کی کوشش کرتے.میں نے کہا مجھے تینوں کی سٹائی کا کوئی اسکان نظر نہیں آتا تھا.اگر میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا کہ تینوں بے گناہ ہیں.بالفاظ دیگہ استغاثے کا بیان کردہ وقوعہ ہوا ہی نہیں.یا اگر ہوا ہے تو فرشتوں کے ہاتھوں ہوا ہے انسانوں کے ہاتھوں نہیں ہوا.یا اگرانسانوں کے ہاتھوں ہوا ہے تو ان میں ان تین ملزمان میں سے کوئی بھی شامل نہیں تھا تو یہ ایسی غیر معقول بات ہوتی کہ اپیل کلیہ خارج ہوئی.اور تینوں ملزمان کی سند سجالی رہتی.بیشک مجھے تینوں کی طرف سے وکیل کیا گیا تھا اور میرا فرض تھا کہ میں ملزمان کے زیادہ سے زیادہ فائدے کی کوشش کرتا میل کے مطالعہ کے بعد اور پورے غور و فکر کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ یہی طریق سب سے زیادہ فائدے کا ہے.اور فیصلے نے ثابت کردیا کہ میرا اندازہ صحیح تھا.مسٹریٹس سیرین اغوا اور کچھ قسم کے الزامات کے متعلق بہت احتیاط برتے تھے.ایک مقدمے میں ایک زمیندارہ خاندان کے دو نو جوانوں پر نہنا بالجبر کا الزام تھا.دونوں کو پانچ پانچ سال قید بامشقت کی سندا ہوئی.مجھے ان کی طرف سے اپیل میں وکیل کیا گیا.سماعت کی تاریخ پر چین صاحب نے مجھے وکیل کیا تھا تشریف لائے.میں نے ان کی خدمت میں گزارش کی کہ مسل کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ملزمان کی طرف سے یہ کہا جاتا کہ ہماری اس عورت کے ساتھ آشنائی تھی اور اس تعلق کی بنا پر ہم اس کے ہاں گئے تھے تو عین مکن ہے کہ مجسٹریٹ صاحب اس بات کو تسلیم کر لیتے اور اگر وہ نہ کرتے تو اپیل میں یہ بات تسلیم کر لی جاتی.ان صحاب نے کہا وکیل صاحب تو میں کہنا چاہتے تھے لیکن میرا بیٹ اور بھتیجہ کی کردار نوجوان ہیں وہ کیسے اب گندہ الزام خود اپنے ذمے عائد کرتے.یہ تمام تصفیہ تو عداوت کی بنا نچہ کھڑا یا گیا ہے.یہ صاحب خود نیک سیرت معلوم ہوتے تھے.مجھے ان کی یہ بات پسند آئی اور مجھے یہ یقین ہوگیا کہ اگر ملزم بیگناہ ہیں تو ضرور بفضل اللہ بری ہوں گے میں نے ان سے کہا آپ جاکر دعاء میں لگ جائیں اور اللہ تعالی سے رحم کے خواستنگانہ ہوں اور دعاء مں لگے رہیں جب تک چودھری فضل داد صاحب آگر آپ کو فیصلہ کے متعلق اطلاع دیں.اپیل کی سماعت مسٹر جیٹس سیرین کے اجلاس میں تھی.استغاثے کی کہانی مختصر طور پر بیان کرنے کے بعد میں نے کہا میں صرف تین امور کی کی طرف آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.اول عورت کا بیان ہے کہ اس نے دونوں ملزمان کو شناخت کر لیا تھا کیونکہ اس کی چار پائی کے پاس لائین رکھی ہوئی تھی.یہ نہایت غیر اغلب بات ہے.اگر یا سٹین ہوتی بھی تو ملزمان پہلی بات یہ کرتے کہ لالٹین کو وہاں سے ہٹا دیتے یا اسے گل کر دیتے.دوئم عورت کے خاوند کا بیان ہے کہ وہ اس رات ٹھیکری پرے پر تھا.اس نے اپنی بیوی کی چیخ پکار سنی اور فورا بھاگ کر گھر آیا.راستے میں
۲۵۳ علیہ مان بھاگتے ہوئے اس کے پاس سے گذرے ان میں سے ایک نے اپنا نیلے رنگ کا ہتہ بند کندھے پر ڈالا ہوا تھا.اس نے انہیں شناخت کر لیا.آپ پولیس کے تیار کر وہ نقشہ موقعہ پر نظر ڈالیں.اس میں اس مقام پر نشان ہے یہاں گواہ نے اپنی بیوی کی پہنچ پکار سنتی اور اس مقام پر بھی نشان ہے جہاں گواہ کہتا ہے کہ ملزمان بھاگتے ہوئے اس کے پاس سے گزرے.لیکن نقشے کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر گواہ پہلے مقام سے جلد ترگھر پہنچنا چاہتا اور نزدیک ترین رستے سے گھر آتا تو دوسرے مقام سے اس کا گذر ممکن نہیں تھا.وہاں سے گذرنے کے لئے اسے چکر کاٹ کر آنا پڑتا تھا تیرے رات اندھیری تھی بھاگتے ہوئے شخص کی شناخت ہو سکتی تھی نہ رنگدار کپڑے کا رنگ شناخت ہو سکتا تھا.گواہ کاکہنا کہ الا ملزم نے اپنا نیلے رنگ کا تہ بند کندھے پر ڈالا ہوا تھا ثابت کرتا ہے کہ وہ جھوٹا ہے مسٹر جیٹس ہرلین.اس ملک میں یہ رواج ہے کہ گواہ ہر سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہے.خصوصاً جرح کے دوران میں اگر گواہ نے نہ بند کا رنگ بجرح میں بتایا ہے تو یہ امر قابل التفات نہیں اگر اپنے پہلے بیان میں بتایا ہے تو وہ جھوٹا ہے.ظفر اللہ خاں.تہ بند کے رنگ والی بات اس نے پہلے بیان میں کہی ہے اور بیان کے اول حصہ میں کہی ہے مریٹس ہیرلین.تو پھر گواہ دروغ گو ہے.وکیل استغاثہ کو سننے کے بعد جج صاحب نے اپنا فیصلہ لکھوا یا اور میری تین معروضات کی بنا ئیہ انہیں بری قرار دیا.عدالت سے باہر نکلنے پر چودھری فضل داد صاحب موکل کی تلاش میں گئے دیکھا کہ عدالت کے کمرے سے کچھ فاصلے پر گھاس کے فرش پر دہ نیک بزرگ نیا و مافیہا سے بے خبر سجدے میں پڑے ہوئے کمالی میں کی درگاہ میں رحم کی التجا میں مصروف ہیں.پچودھری صاحب نے ان کے شانے کو بلا کر کہا اٹھے ؟ انہوں نے اپنا سرزمین سے اٹھایا اور دریافت کیا کیا ہوا ؟ منشی فضلداد صاحب نے کہا اللہ تعالی نے رحم فرمایا ہے لڑکے بری ہو گئے ہیں.انہوں نے کہا الحمد للہ.مسٹر جسٹس آغا سیدر | سٹریٹس آغا سیدہ کا وطیرہ اس قسم کے مقدمات میں اس کے برعکس ہوتا تھا.ہوا وغیرہ کے الزامات کو وہ عورت کے بیان کی بنا پر ہی ثابت شدہ قرار دیتے تھے.اور کسی تائیدی شہادت کی ضرورت نہیں سمجھتے تھے.ایسے جرائم کی سزا میں بھی سختی روا رکھتے تھے.عموماً ایادی سزا کا نوٹس جاری کر کے مزائی بھابھی دیتے تھے اور ساتھ کوڑوں کی سزا بھی شامل کر دیتے تھے.البتہ جہاں عورت کی بدچلنی کا سوال ہونا تو سزا دینے میں بہت نرمی کرتے تھے.ڈیرہ غازی خان کے ضلع کے ایک گاؤں کے باہر ایک کاشتکار کی رہائش آبپاشی کے کنوئیں پر بھی ایک رات اس کی نیند کھلی تو اس نے دیکھا کہ اس کی ہو ہی اپنی چارپائی پر نہیں.تلاش کرنے پر اسے اپنے آشنا
۲۵۴ کے ساتھ مویشیوں کے جھونپڑے میں پایا.قریب ہی لکڑی کا ایک بھاری ٹکڑا پڑا تھا وہ اٹھا کر ان دونوں کو ہلاک کر دیا جھونپڑے کا دروازہ اندر سے بند کر دیا صبح ہونے پر جو پہلا شخص کنوئیں پر آیا اسے آوا نہ دی اور کہا میں نے گھتے اور کتی کو مار دیا ہے.جاکہ پولیس کو بلا لاؤ.پولیس کے سامنے واقعہ بیان کیا مجسٹریٹ اور رمیشین کی عدالتوں میں اپنے بیان پر قائم کرنا بیشن مہم نے ہر ایک قتل کی سزا شال قید با مشقت بخونید کی اپیل میں مجھے وکیل مقریر کیا گیا.درجہ ایل ایک ہی تھی کہ سرا نا واجب طور پر سخت ہے.اپیل کی سماعت مسٹر جسٹس آغا سیدر کے اجلاس میں ہوئی سرکاری وکیل مسرویس راج ساہنی تھے.میں نے واقعات بیان کئے.مسٹر جسٹس آغا حیدر.مجھے یہ بتائیے کہ کیا ملزم نے عورت اور اس کے آشنا دونوں کو وہیں مار ڈالا ظفر اللہ خاں.جی ہاں دونوں کو مار ڈالا.مسٹر جٹس آغا حیدر.تو پھر آپ کو کچھ مزید کہنے کی ضرورت نہیں سزا کا معاملہ مجھ پر رہنے دیں میٹر ساہنی آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟ مسٹر ساہنی.سناب عالی.ملزم نے دو اشخاص کو کمال بے رحمی سے قتل کیا.دس سال قید کی مجموعی سرا کو سخت نہیں قرار دیا جا سکتا.مسٹر جسٹس آغا حیدر.لیکن آپ نے واقعات پر بھی غور کیا ؟ ان حالات میں میں تو ملزم کے فعل کو حجیم بھی قرار نہیں دیتا.لیکن قانون کہتا ہے یہ جرم ہے.اس لئے میں مجبور ہوں کہ کچھ سنا انجونیہ کر دوں.اس سے بڑھ کر اشتعال کیا ہو سکتا ہے ؟ مسر سا ہنی.سناب عالی.اس طبقے کے لوگوں کو ایسی باتوں پر آتنا اشتعال نہیں ہوتا.مسٹر جسٹس آغا حیدر - کتا اشتغال نہیں ہوتا ؟ اشتعال کے درجے کا اندازہ تو ملزم نے اپنے فعل سے بنا دیا.مسٹر ہتی.لیکن جناب عالی.ملزم نے یہ ساری کاروائی نہایت ٹھنڈے دل سے اور پورے عزم کے ساتھ کی اشتعال کا اس میں کوئی دو مخل نہ تھا.مسٹر سیٹس آغا سیدر - (کچھ برہم ہو کر ) مسٹر ساہنی بتائیے اگر آپ ملزم کی جگہ ہوتے تو کیا کرتے ؟ روسٹر سائی کو خاموش پا کر ، اچھا.تو میں آپ کو بتاتا ہوں.اگر آپ وہی کچھ نہ کرتے ہو کچھ ملزم نے کیا تو آپ شرافت کے دعو بلراہ نہ ہو سکتے ! جج صاحب نے ایک ایک سال قید بامشقت کی سندہ انجونیہ کی مسٹر ساہنی بہت بڑبڑاتے رہے.میری رائے میں اتنی سنہ ابھی حالات کے لحاظ سے سخت تھی.
۲۵۵ ایل کے فوراً بعد میری ایک اور اپیل کی سماعت شروع ہوئی.کیمپل پور کے ضلع کے ایک گاؤں س کا ایک شخص راولپنڈی میں پولیس کنسٹیبل تھا.اس نے سپرینڈنٹ پولیس کی خدمت میں درخواست دی کہ میرے گھر میں فلاں شخص نے بہت فاو بہ پا کر رکھا ہے.مجھے دس دن کی رقصت عطاء کی جائے میں گھر جاکمہ اس کا تدارک کروں رخصت ملنے پر وہ اپنے گاؤں گیا.رات کے وقت پہنچا.اپنے گھر جانے کی بجائے اپنے چازاد بھائی کے گھر گیا.وہاں اپنے چند اور رشتہ داروں کو جمع کیا.اور سب لاٹھیوں اور کلہاڑیوں سے مسلح ہوکر کٹیل کے گھر گئے دروازہ کھٹکھٹایا دروازہ کھلنے پراندرگئ اوردیکھاکہ علاوہ سٹیل کی بیوی کے دو شخص بھی موجود ہے جس کا نام اس نے رخصت کی درخواست میں درج کیا تھا.سب نے مل کر دونوں پر حملہ کر دیا اور دونوں کو شدید فریبا پہنچائیں جن کے نتیجے میں وہ غیر شخصی تو وہیں مرگیا لیکن عورت کی جان بچ گئی سیشن جے نے سب منہ مان کو زیر رفات ۳۲۵ ، ۳۲۶ ، ۱۳۹ محرم قرامہ دیگر جوسزائیں دیں ان کا مجموعی عرصہ چودہ سال قید با مشقت بنتا تھا.میں نے واقعات بیان کئے.مسٹر جسٹس آغا حیدر.مسٹر ظفر اللہ خاں میری رائے میں تو جرم دفعہ ۳۰۴ الف کی زد میں آتا ہے.تمہاری کیا رائے ہے ؟ ظفر اللہ خان.جناب عالی مجھے آپ کے ساتھ اتفاق ہے.لیکن پھر بھی سزا کا سوال ہے.واقعات کے مد نظر سزا بہت سخت ہے.مٹر جٹس آغا سیدر.بے شک بے شک سزا کی تجویز مجھ پر رہنے دیں.مسٹر ساہنی سزا کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں.مسٹر سائنی.جناب عالی.اس کیس میں تو کسی اشتعال کا بھی سوال نہیں.ملزمان کے سرغنے نے اپنی رخصت کی درخواست میں لکھاکہ در منقول کی بیخ کنی کے لئے گھر جانا چاہتا ہے.راولپنڈی سے وہ یہ عزم کرکے چلا.گاؤں میں پہنچ کر اس نے اپنے رشتہ داروں کو جمع کیا اور وہ قتل کا منصوبہ بنا کر حملہ آور ہوئے.یہ برم تو واضح طور پر قتل عمد ہے.پیشین بج کو چاہیے تھا وہ حملہ ملزمان کو دفعہ ۳۰۲ تعزیرات ہند کے ماتحت مجرم قرار دیکر سب کو پھانسی کی سزا دنیا.ملزمان بہت خوش قسمت ہیں کہ ان کی جان بخشی ہوئی.چودہ سال قید بامشقت تو پھانسی کے مقابلے میں بڑی نرم سزا ہے.میں حیران ہوں کہ میرے فاضل دوست تخفیف سزا کے خواہشمند ہیں معلوم نہیں کس بنا پہ.! مسٹر جسٹس آف میدہ - اشتعال کی بنا پر.مقتول کا اس شخص کے گھر میں کیا کام تھا اور پھر رات کے وقت.؟
۲۵۶ مسٹر ساہنی.لیکن جناب عالی اس صورت حال کا تو خاوند کو پلے سے علم تھا جیسے اس کی رخصت کی درخواست سے ظاہر ہے.یہ صورت تو عرصے سے چلی آرہی تھی پھر یہ اشتعال کیسے ہوا ؟ مسٹرسٹس آغا سیدر - مسٹر ساہنی آپ نے ضرور سنا ہے کہ آخری تنکا اونٹ کی کمر توڑتا ہے.یہ صورت حال اتنی لمبی ہوگئی کہ اس شخص کی حد برداشت سے باہر ہو گی.میرے نزدیک یہ تحریم اشتعال کے نتیجے میں ہوا.در دو سال قید با مشقت قرین انصاف ہوگی.بیچارے مسٹر ساہنی ! اکثر تو وہ اس حد تک سختی کی حمایت کرتے کہ جج صاحبان دق آجائے.اور اس کیس میں یہ کیفیت تھی کہ جب ان کا موقف خالص قانونی لحاظ سے قابل التفات بھی تھا تو جج صاحب ان کی بہت پر غور کرنے کو تیارنہ تھے.ان کی رائے تھی کہ ایک منظوم خاوند نے ایک عام کو کیفر کردار تک پہنچایا.اس نے خوب کیا.قانونی کہتا ہے یہ جرم ہے.بہت اچھا جرم ہی سہی لیکن عقوبت کی مرحوم کی نوعیت کے مطابق ہونا چاہیئے حقیقی انصاف کا یہی تقاضا ہے.سفر انگلستان | عشرہ میں پنجاب کونسل کا بیٹ کا اجلاس نوا ہور میں ہوا اور دوسرا اجلاس گزریں میں شعلے میں ہوا.اس وقت تک یہ طے ہو چکا تھا کہ شہداء میں حسیں شاہی کمیشن کے تقریر کا وعدہ کیا گیا تھا کہ آئینی 1969 اصلاحات کے عملی تجربے کے دس سال بعد مقر ہوگا اس کا تقریر شاہ کے آخری مہینوں میں ہو جائے گا.اس کے پیش نظر پنجاب کو نسل کے مسلم اراکین نے فیصلہ کیا کہ ان کا ایک نمائندہ انگلستان جائے اور وہاں اراکین پارلیمنٹ اور دیگر اہل الرائے اصحاب سے ملکہ ہندوستان کے آئیندہ آئینی دستور کے متعلق مسلمانوں کا نقطہ نگاہ ان پر واضح کرے.یہ تجویز میاں سر فضل حسین صاحب کی تھی اور آخر انہی کے مشورہ سے اس خدمت کو سرانجام دینے کیلئے مجھے منتخب کیا گیا.میاں صاحب اس سال لیگ آف نیشنز کی اسمبلی کے اجلاس کے لئے ہندوستانی وفد میں تشریف لے جانیوالے تھے.میں ایک اطالوی جہانہ میں نیپلز گیا.ایک دن وہاں ٹھہر کر اور علاوہ دیگر مناظر کے پمپی آئی کے عبرت انگیز کھنڈرات دیکھ کر روم گیا.تین دن دہاں ٹھہرا.نصف دن پا پیادہ اور نصف دن ایک ٹورسٹ ایجنسی کے نظام کی سرپرستی میں اس قریباً تین ہزارسال سے متواتہ آباد شہر کے تاریخی مقامات کی سیر کی.روم سے جنیوا گیا.میاں فضل حسین صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور ہدایات حاصل کیں.جنیوا سے لندن پہنچا.ڈاکٹر شفاعت احمد خانصاحب پرپی کونسل کے مسلم اراکین کے نمائندے کی حیثیت میں لندن پہنچے ہوئے تھے.ان سے تعار ہوا.رہائش کیلئے مجھے سیز وائر کے علاقے میں دو عمدہ کمرے میسر آگئے.اور حسن اتفاق سے ایک با سلیقہ عمدہ تربیت یافتہ نو د نویس ٹائپسٹ کی خدمات بھی میسر آگئیں.ان دنوں لندن میں مسجد احمدیہ کے انچارج مولانا عبدالرحیم درد صاحب تھے.ان کا پورا لتعاون بھی مجھے حاصل رہا.ان کی مشفقانہ تو جہ سے مجھے اپنے کام میں بہت مدولی "
۲۵۷ میرے عزیز دوست ڈاکٹر آسکر بر ظلم کی یہ مائش بھی میرے قریب ہی تھی.ان کا مشورہ بھی بعض امور میں میرے نئے مفید ثابت ہوا.کبھی فرصت کی گھڑی میسر آتی تو می ان کے ساتھ گزاریا.سارا دن ملاقاتوں، مجالس میں تقریروں اور نوٹ لکھوانے میں صرف ہوتا.بہت سی سرکاری اور غیر سرکاری شخصیتوں سے ملنے کا موقعہ میر آیا ان دونوں پہلے لارڈ سہنا پر بیوی کونٹ میں جج تھے.اور لندن میں مقیم تھے.ان کی رہائش گاہ پر ان کی خدمت میں بھی حاضر ہوا.بڑی مہربانی سے پیش آئے سیاسی مستقبل کے متعلق فرمایا.میاں میں تو ان لوگوں میں سے ہوں کہ اگر آن انگریز اعلان کردیں کہ ہم ہندوستان کو چھوڑتے ہیں.تومیں گھٹنوں کے بل گر کر ان سے التجا کرد کہ القیامت کرو.اس مرتبہ مجھے رائٹ آن میل سید امیر علی صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کی سعادت بھی نصیب ہوئی.بہت ضعیف ہو چکے تھے.سیکیسی کے علاقہ میں ایک مکان میں مقیم تھے جو ان کے چھوٹے مابزار سید طارق امیر علی صاحب کی ملکیت تھا.سید طارق امیر علی اپنے محترم والد کی طرح کلکتہ ہائی کورٹ کے بھی ہوئے اور وہاں سے پیشن پا کر وزیر سند کے مشیر قانون ہوئے.سید امیر علی صاحب نے خاکسار کو دوپہر کے کھانے پر مدعو فرما یا اور بڑی شفقت سے پیش آئے سارا وقت گفتگو اردو میں رہی فرمایا تمہارا MOOT میں بحث کرنا ہمیں یاد ہے.میرے لندن کے کام کے متعلق بہت مفید مشورے دیئے.میرا دل ان کی صحبت سے جذبات شکر کے ساتھ برینہ لوٹا.وہ ہ میں فوت ہوئے.اسلام کا درد رکھتے تھے.اسلام کی اورمسلمانوں کی سنهایت مخلصانہ اور بڑی قابل قدر خدمات سرانجام دیں.فجزاه الله ونیز ولد في رحمته بشهر محمدی با تاریخی اسلام اور اسلام کی تعلیم پر اپنی بیش بہا تصانیف اپنی باد گاہ تھوڑے گئے.میں ہر صبح پہلے دن کی ملاقاتوں اور تبادلہ خیالات کا خلاصہ نوٹ کروا دیا تھا.جہاں تک مجھے یا دیر تا ہے میں نے صرف اس موقع پر باقاعدہ ڈائری رکھی.ہندوستان واپسی پر میں نے یہ نوٹ میانی فضل حسین صاحب کی خدمت میں پیش کر دیئے.اس سفر میں میں اس مقصد میں کہاں تک کامیاب ہوا جو میرے گیا تھا اس کا تو میں اندازہ نہیں کر سکتا لیکن خود میرے لئے یہ تجربہ بہت فائدے کا موجب ہوا.سائمن کمشن کا تقریر میں بھی ان کا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ن کے تار کا اعلان ہوگیا.سرجان من دسپر مین ) کے علاوہ میجر کلیمنٹ اٹلی میبر پارلیمنٹ کی کمیشن کے ایک ایسے رکن تھے بو لحد میں پبلک ذمہ داری کے اونچے منصب پر فائز ہوئے ا ء میں وزیر اعظم ہوتے ہی انہوں نے ہندوستان کو آزادی دینے کا اعلان کیا.اور عین دو سال بعد اس اعلان کی تکمیل ہوگئی.کمشن کے اراکین میں کوئی ہندوستانی شامل نہیں تھا.اس فرد گذاشت کی وجہ سے ہندوستان کے ہر طبقے کی طرف سے سخت مایوسی کا اظہار کیا گیا.اور جب کمشن عملہ اور پھر شاہ میں ہندوستان آیا تو ہر جگہ کشن کے خلاف مظاہرے کئے گئے.بعد میں حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ کشن کے ۱۹۴۵
ساتھ ایک مرکزی کیٹی شامل کی جائے گی جس کے اراکین مرکز کی اسمبلی اور کونسل آف سٹیسٹ منتخب کریں گی اور پر صوبے میں کمشن کے اجلاسوں کے دوران ایک صوبائی کمیٹی جسے صوبے کی کونسل منتخب کرے گی کمشن اور مرکزی کمیٹی کے ساتھ شامل رہے گی.لیکن اس اعلان سے بھی ہندوستان کا ماری کوئی خوشگوار اثر نہ ہوا، بیشک یہ کہا گا تا کہ مرکزی اور صوبائی کمیٹوں کوگوا نان پر جبر کرنے کی پوری آزادی ہوگی اور پرکیٹ اپنی اپنی رپورٹ بھی پیش کریگی سکین ہرکوئی جانتا تھاکہ یہ کلیاں محضی اشک شوئی کے طور پر مقر کی جارہی ہیں اور کمشن کی رپورٹ پر ان کا کوئی اثر نہیں ہو گا.خود کمشن کے متعلق بھی یہ تاثر تھاکہ یہ نام کانوکشن ہے لیکن دراصل اس کی تمام باگ ڈور ایک شخص واحد کے ہاتھویں ہے.یعنی اس کے پھیر میں سرحان سائمن کے ہاتھ میں جو ابتداء میں تو بول سیاستدان تھے.مسٹر اس کو شفقہ کی وزارت میں اٹارنی جنرل رہے تھے.لیکن آہستہ آہستہ قدامت پسندی کی طرف رجعت کرتے گئے تھے.ہندوستان کے آئینی مستقبل کے متعلق ان کا نظریہ نہایت رجعت پسندانہ تھا.ان خدشات کی تصدیق کمشن کی رپورٹ نے کر دی.کے آخر میں کشن نے ہندوستان کا ابتدائی دورہ کیا مشن نے تحقیقاتی کاروائی اپنے دوسرے دوسرے کے دوران شاہ میں کی.کانگریس نے نوکشن کے ساتھ تعاون کیا لیکن مرکزی اور مبائی کمیاں کمشن کی کاروائی میں شامل رہیں.پنجاب کونسل میں جب کمیٹی کے انتخا کی توبہ پیش ہوئی تو محبت کے دوران میں تجویز کے خلاف بہت سے دلائل پیش کئے گئے میں نے اپنی تقریر می ان دلائل میں سے اکر کے ساتھ اتفاق کا اظہارہ کی اور بڑے زور سے اس ات کی تردید کی کہ مرکزی اور صوبائی میاں کسی رنگ میںبھی کمشن کی ہندوستانی رکنیت کا بدل ہوسکتی ہیں.میں نے اس ات پر بھی زور دیا کش میں ہندوستانی اراکین کوشام نہ کرنے کی کوئی جان ہی نہیں سکتی اور میں کشن کی رپورٹ کے متعلق کوئی امید افزا توقعات قائم نہیں کرنی چاہئیں.بایں ہمہ میں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ ہمیں کشن کی کاروائی سے عدم تعاون نہیں کرنا چاہئیے.ہمارے تعاون سے کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں ہو سکتا اور کسی نفع کی کو پختہ امید نہیں لیکن ایک تو شہادت کے دوران میں ہم ایسے امور کشن کے رو برد نا سکتے ہیں جو مکن ہے ہمارے نمائندگان کی عدم موجودگی میں نمایاں طورپر ظاہر نہ ہوں اور دوسرے صوبائی کمیٹی پنی پور میں اپنا نظریہ وضاحت سے بیان کر سکتی ہے جس سے ممکن ہے کچھ فائدہ ہو سکے.تجویہ منظور ہوئی اور صوبائی کمیٹی قائم ہوگئی اس کمیٹی کے سات ارکان تھے.جن میں یورپین بھی تھے، سکھ بھی اور ہندو اور مسلمان مجھی.سردار سکندر حیات خانصاحب اور میں دونوں اس کمیٹی میں شامل تھے.کمیٹی نے سردار سکندر حیات خان صاحب کو چیر مین منتخب کیا.کمیٹی کے انتخاب سے پہلے کہا جانے لگا کہ تینوں وزراء کمیٹی میں شامل ہونے چاہئیں.اس وقت ملک فیروز خان نونی صاحب ، لالہ منوہر لال صاحب اور سردار جگندر سنگھ صاحب وزراء تھے.کہا جاتا تھا کہ وزراء کو کمیٹی میں شامل کئے جانے کی تجویزہ کو میاں سر فضل حسین صاحب کی
۲۵۹ تائید حاصل ہے.ممکن ہے ایسا ہو لیکن اراکین پنجاب کو نسل میں اس تجویز کا کوئی عامی نہیں تھا.اسلئے انتخاب کے وقت کو نسل میں کوئی ایسی تجویز پیش نہ ہو سکی.راجہ نریندر ناتھ صاحب | راجہ نریندر نا تھ صاحب کا خاندان سپنجاب کا ایک نہایت ممتانہ کشمیری بهر یمین خاندان تھا.راتبه صاحب ہنهایت و ضعداره خوش اخلاق اور با مروت بزرگ تھے.راجہ نریندر ناتھ صاحب پہلے پہل اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے پر مقرر ہوئے تھے اورکمشنر کے عہدے سے پنشن یاب ہونے کے بعد پنجاب کو نسل میں ہندو پارٹی کے لیڈر تھے.طبیعت بڑی شگفتہ پائی تھی اور بہت فراخ دست تھے.فارسی عربی میں خوب دسترسی تھی.قرآن کریم کا نہ جمہ بھی جانتے تھے.اسلامی تمدن سے متاثر تھے.لیکن خاندانی روایات اور سیاسی اور معاشرتی ماحول انہیں جکڑے رکھتے تھے.گھرمیں ان کا کھانا سلمان باورچی تیار کرتا تھا.مصدقہ خیرات بھی ہند و مستحقین تک محدود نہیں رکھتے تھے.ان کے صاحبزادے اندر کمار گورنمنٹ کالج میں ہمارے تم حیات نہ ہے تھے.کونسل میں انکی ہندو پارٹی کی ایک رکن ایک خاتون لکھ وتی جنین تھیں انہوں نے ایک دن مجلس میں ایک تحریک التوا کا نوٹس دیا جس سے رابعہ صاحب بہت پریشان ہوئے.چائے کے وقت بڑے جوش سے فرمارہے تھے خدا ان عورتوں سے بچائے تم نے دیکھا آج اس نے کیا حرکت کی ہے ؟ میرے دریافت کرنے پر فرمایا کہ لکھوتی کی تحریک التوا اس سخت سلوک کے خلاف ہے جو بقول لکھ وتی پولیس نے وکٹور یہ ڈائمنڈ جوبلی انسٹی ٹیوٹ کے پهرتانی طلباء کے ساتھ روانہ کھا حالانکہ واقعہ یوں ہے کہمیں انسٹی ٹیوٹ کی گورننگ باڈی کا چیئر مین ہوں.مجھے آج لبعض طلباء کے متعلق ٹیلیفون پر اطلاع دی کہ وہ ہڑتال میں شامل نہیں اور کلاسوں میں حاضر ہونا چاہتے یین کنندگان انہیں روکتے ہیں اور اندرجانے نہیں دیتے.اس پرمیں نے ڈپٹی کنز کو شیفون پر کہا وطالب علم حاضر ہونا چاہتے ہیں ان کے اندر جانے کا نظام ہونا چاہیے.اس نے دو چارہ کا میل بھیج دیئے جنہوں نے ہڑتال کنندگان کو روک دیا کہ جو طالب علم حاضر ہونا چاہتے ہیں ان کے رستے میں مزاہم نہ ہوں.اب اس خبطی نے اس پر تحریک التوا کا افق نوٹس دیکھ میرے لئےوقت پیدا کر دی ہے.میں نے کہا آپ ان محترمہ کو سمجھادیں.فرمایا وہ سمجھے گی کیسے ؟ من ناقصات العقل والدین.میں نے کہا پھر آپ نے انہیں اپنی پارٹی کارکن کیوں بنایا ہوا ہے ؟ بے ساختہ کہا میاں مشاور واهن و خالفوا هُن !.نہ میں پہلی گول میز کانفرنس میں شرکت کیلئے حسین جہان سے میں سفر کر یہ ناتھ راجہ صاحب بھی اسی جہانہ سے سفر کر رہے تھے.ایک روز مجھ سے دریافت فرمایا کہ تصوف کی با قرآن کریم کی کس آیت پر رکھی جاتی ہے.میں نے کہا میں نے تصوف کا مطالعہ نہیں کیا اس لئے نقی کے ساتھ کچھ نہیں کہ سکتا لیکن میرا خیال ہے کہ جو آیات صوفیائے کرام کے مد نظر ہوں گی ان میں یہ آیت کریمہ اللہ نور السموت والارض والی ضرور ہو گی.سن کر فرمایا یہ تو تصوف کا نچوڑ ہے.لندن میں گول میز کانفرنس
۲۶۰ خلاف کے دوران میں ایک شام مجھے کھانے پر بلایا اور کوئی مہمان نہیں تھا.میں سمجھ گیا کوئی خاص بات کرنا چاہتے شام ہیں.آخر بر سر مطلب آئے.فرمایا سارے ملک کے قضیے تو کانفرنس میں نہ یہ بحث رہیں گے.پنجاب کے متعلق و تم آپس میں کچھ لے کر لیں میں نے کہ فرمائے.ایک ایسا نہیں کہ ہم فردا انا اختصات کو خواہ مخواہ سیاست میں نہ گھیٹیں.میں نے کہا بہت مناسب ہوگا.کہنے لگے اس کی ابتدا تور یوں ہوسکتی ہے کہ موجودہ قوانین میں سے جو ان اختلافات کو بھڑ کانے والے ہوں ان کی اصلاح ہو جائے.میں نے کہا بڑی اچھی تجویز ہے.پو چھا کیا تم رضامند ہو کہ ہمارے ان قوانین کی جن کے نتیجے میں ایسے امتیازات پیدا ہوتے ہیں تنسیخ یا مناسب ترمیم ہو جائے ہے میں نے عرض کیا کہ فرقہ دارانہ امتیازات کے متعلق تو رضامند ہوں لیکن حین قوانین یا قواعد کی غرض پسماندہ طبقات کی اقتصادی حالت کی اصلاح یا اس کا تحفظ ہو ان پر کوئی آنچ نہیں آنی چاہیے.پوچھا مثلاً؟ میں نے کہا مثلا ایکیٹ انتقال اراضیات - پر مرد گی کے لہجے میں فرمایا تو پر حاصل کیا ہوا؟ میں نے کہا کچھ بھی نہیں ڈیرہ ضائع کیا ؟ اس پر کھلکھا کہ ہنس پڑے.میں نے رخصت طلب کی ہنستے ہنستے مجھے رخصت کیا.پنجاب اصلاحات کمیٹی نے خوب محنت سے کام کیا.جب سائمن کمشن لاہور آیا اور پبلک اجلاس شروع ہوئے تو طبعا پالک کو کمشن کی کاروائی میں بہت دلچسپی پیدا ہوئی.ان دنوں یونینسٹ پارٹی کی سریر پستی میں ایک ہفتہ وار اخبار بنام دور جدید نیا نیا جاری ہوا تھا.اس کے ایڈیٹر سید انعام اللہ شام صاحب تھے اور پارٹی کی طرف سے پالیسی وغیرہ کی نگرانی میرے ذمہ تھی.سائمن کمشن کی کاروائی کے متعلق ہفتہ وار آرٹیکل تیارہ کرنا بھی میرے ذمے تھا.ایک دن ڈاکٹر کو کل چند نارنگ صاحب نے مجھ سے کہ تمہاری پارٹی کا جو نیا اخبار جاری ہوا ہے اس کا پر یہ مجھے بھی آتا ہے کمیشن کی کاروانی کے متعلقی ہو آرٹ شکیل اس میں چھپتا ہے بہت دلچسپ ہوتا ہے.میرا ذ کر تو اس میں بڑے ادب سے کیا جاتا ہے لیکن مجھ پر تنقید بھی سخت ہوتی ہے.ایڈیٹر بہت ہوشیار آدمی معلوم ہوتا ہے.سر جوگندر سنگھ بظاہر تو یونیسٹ پارٹی کے ساتھ ہمدردی رکھتے تھے لیکن پالیسی اپی چاہتے تھے.وہ کمشن کے رو بر و بطور گواہ پیش ہوئے تو میاں سر فضل حسین صاحب خاموشی سے آکر ان کے پیچھے بیٹھ گئے بسر جوگندر کو گویا اب دو محاذ پر جنگ کرنی پڑی.سامنے کمشن اور سمجھے سر فضل حسین تھوڑی ہی دیہ میں ان کے چہرے پر پریشانی کے آثار ظاہر ہونے شروع ہوئے.دوپہر کو جب اجلاس ملتوی ہوا تو ان کی شہادت ابھی جاری تھی.پینے کے بعد اعلاس شروع ہوا تو چیئر مین نے بتایا کہ سر ہو گندر سنگھ کی طبیعت ناسانہ ہوگئی ہے وہ بقیہ شہادت کے لئے کمشن کے روبہ و پیش نہیں ہو سکیں گے.
ہم میں سے بعض نے کمشن پر زور دیا کہ عدالتی اور انتظامی محکمہ جات کو الگ الگ کر دینا چاہیے اس مسئلے پر غور کرنے کیلئے سر جان سائمن نے ایک سب کمیٹی نجونیہ کی اور اس کا اعلاس شام کے وقت گورنمنٹ ہاؤس میں طلب کیا.حکومت کی طرف سے غدیر کیا گیا کہ مجسٹریٹ صاحبان کو عدالتی اور انتظامی فرائض دونوں سر انجام دینے ہوتے ہیں الگ الگ محکمہ جات کے لئے افسران کی تعداد بھی بڑھانا پڑے گی اور اخراجات بھی بڑھ جائیں گے.میں نے تجویز پیش کی کہ اس مرحلہ پر ایک معمولی سی تبدیلی کر دی بجائے بجھر ہمارے لئے اطمینان کا موجب ہو جائے گی.وہ یہ کہ جو مجسٹریٹ عدالتی فرائض سر انجام دیں ان کے کام کی رپورٹ سشن جج صاحب نائی کورٹ کو کیا کریں.اور ان کے تبادے تفویض اختیارات اور ترقی کے احکام بھی بانی کورٹ سے صادر ہوا کہ یں.ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کمشنز اور حکومت کا ان میں دخل نہ ہو.چیف سیکر ٹی صاحب نے منور کا وعدہ کیالیکن کوئی نتیجہ یہ آمدن ہوا.پنجاب کمیٹی نے اپنی رپورٹ تیار کی.یہ رپورٹ زیادہ تر سردار سکندر حیات خان صاحب کے فکر اور حنت کا نتیجہ تھی بیٹی کے یورین کین مراد آن را برٹس کمیٹی کی اکثریت کے ساتھ پوری طرح متفق تھے جن امور می کیٹی کے دوستہ اراکین میں اختلاف تھا مسٹر را پریس یونینسٹ پارٹی کے ساتھ متفق تھے.جب کشن کے صوبائی اجلاس ختم ہو گئے تو تمام صوبائی کمیٹیوں کے ساتھ رتی میں کمشن نے تبادلہ خیالات کیا.کمشن کی اپنی رپورٹ خالصہ سر جان سائمن کا نتیجہ فکر تھی.پہلی جلد کی تیاری میں تو یقیناً کمشن کے سیکریٹریٹ کا بہت سا حصہ ہوگا لیکن یہ جلد محض تاریخی تبصرہ بھی گو اس لحاظ سے نہایت مفید اور قابل قدر تھی.کمشن کے دونوں سیکر یٹری سید فنڈ لیٹر سٹورٹ اور سر جوزف بھور نہایت قابل تھے.سرفنڈ لیٹر سٹورٹ انڈیا آفس کے سینئر افسر تھے.جو بعد میں نائب وزیر بند ہوئے.دوسری عالمی جنگ کے دوران جنگی محکمے میں انہوں نے نہایت قابل قدر خدمات سرانجام دیں.سر جوزف بصویرہ انڈین سول سروس کے سنیٹر انسہ تھے.بعد میں گورنہ جنرل کی مجلس عاملہ کے رکن ہوئے رپورٹ کی دوسری جلد نہایت مایوس کن تھی.جہاں تک ہندوستان کے آئینی مستقبل کا سوال تھا یہ رپورٹ بالکل بیکار ثابت ہوئی اور عملاً ردی کی ٹوکری میں پھینک دی گئی.دو ضمنی تائیے کمشن کی سرگرمی سے حاصل ہوئے اول برطانیہ میںاور ہندوستان میں ان تمام امور میں گہری دلچپی پیدا ہو گئی اور تو امور کشن کے روبرو زیر بحث آئے ان کے متعلق سنجیدہ غور وفکر شروع ہو گیا.دو سے بر طانیہ یہ واضح ہوگیا کہ برطانیہ اور ہندوستان کے با کمی تعلقات کا آخری باب شروع ہو چکا ہے.اصلاحات کا در رختم ہو رہا ہے اور آزادی کا دور شروع ہونے والا ہے.ہندوستان کی آزادی کا مسئلہ اب اس مرحلے پر تو یہ کارہ نہیں سکتا تھا.نہ میں لیبر پارٹی ستانی دوسری بار انگلستان میں بر سر اقتدار تھی.مٹر ریزے میکڈانلڈ وزیر اعظم تھے.انہیں شروع سے ہی بنادی
۲۶۲ ی عزائم کے ساتھ ہمدردی تھی.کانگریس کے ساتھ ان کے دوستانہ تعلقات بھی تھے ان کے وزیر مند مسٹر ویکو ڈبلین پہلے برل پارٹی کے رکن تھے.بعد میں لیبر پارٹی میں شامل ہو گئے انہیں بھی سند دوستانی سیاسی انگویں کے ساتھ ہمدردی تھی.وہ بعد میں لارڈسٹینز گیٹ ہوئے.ان کے صاحبزادے نے یہ ہم شروع کی کہ درانت جوی شخص ہاؤس آن لالہ ڈنہ کا رکن ہو اسے اختیار ہونا چاہیے کہ وہ ا شر کو ترک کر کے پاس آپ کا منت کے انتخابت میں حصہ لے سکے.اس مہم میں وہ کامیاب ہوئے.مناسب آئینی ترمیم کے دیگئیں.پہلی گول میز کانفرنس انتشار میں وزیر اعظم مہینے میکڈانلڈ نے ہندوستان کے آئینی مستقبل پاز سرنو غور کرنے کے لئے لندن میں ایک گول میز کانفرنس طلب کی.اکتوبر میں اس کا نفرنس کے اجلاس سینیٹ جیمز پلیس میں شروع ہوئے.کانگریس نے شرکت سے انکار کردیا تھا.مندوبین حکومت کے نامزد کئے ہوئے تھے.والیان ریاست کی خاصی تعداد شامل تھی.برطانوی نمائندگان میں دونوں ایوانوں کے اراکین اور تینوں سیاسی پارٹیوں کے نمائندے شامل تھے.اگر یہ کانگریس کے نمائندے شامل نہیں تھے اور یہ لینا بہت بڑا خلا تھا در تمام مندوبین حکومت کے منتخب کردہ تھے.پھر بھی مسٹر شاستری، سرتیج بہادر سپرد ، مٹر بکار ، سر من لای سیلواو ، مٹر فیروز سیٹھنا، سر مالک جی دادا بھائی ، مٹر یقینا منی ، سراے پی پیٹرو ، سر راما سوامی مدلیانه ، سر آغا خان ، مولانا شوکت علی ، مولانا محمد علی سرمیاں محمد شفیع ، مٹر جناح (قائد اعظم ، سرسید سلطان احمد ، نواب صاحب پچھتاری ، خان بهادر محافظ ہدایت سین، سر عبد الحليم غزنوی ، مولوی ابوالقاسم فضل الحق ، سر غلام حسین ہدایت اللہ، نواب سر عبد القیوم خان ، بیگم شاهنوانه ما سر دار اجمل سنگر ، سردار سمپورن سنگھ ، مٹر کوشی ، مسٹر امبیدکار، نواب صاحب بھوپال، ہمارا یہ بیکانیر، سر اکبرحیدری ، سر مریدا اسمعیل، سمر لیاقت حیات خان اور کئی دیگر نماز شخصیتوں کی موجودگی اس امر کی ضامن متی کہ ہر نقطہ نگاہ کے اظہار کے لئے کانفرنس میں پورا موقعہ میسر ہو گا.کانفرنس کا دفتری انتظام نہایت اعلیٰ تھا.فرتی لحاظ سے کانفرنس کے دوران میں اور بعد میں مشتر کہ لیکٹ کمیٹی کے اجلاسوں کے دوران میں کسی قسم کی کوئی دقت پیش نہیں آئی.پہلی گول میز کانفرنس میں خان بہادر میاں عبدالعزیز ملک کیا اور مسٹر آلما لطیفی سیکرٹریٹ میں شامل تھے مر لطیفی بعد کے اجلاسوں میں بھی شامل رہے اور مسلم رند کے لئے بہت مفید ثابت ہوئے سید امجد علی صاحب اپنے خرچ پر تمام اجلاسوں میں شامل رہے اور سلم وند کے سیکریڑی کے طور پر بہت مفید خدمات سرانجام دیتے رہے.فرزا م اللہ مسلم وفد کے نبی اجلاس عموماً ہر ٹائی من سر آغا خان کی صدارت میں ان کے رٹز ہوٹل کے کمرے میں ہوتے رہے."
۲۶۳ صوبہ پنجاب میں وزارت کی پیش کش مجھے بھی گول میز کانفرنس میں شرکت کی دعوت علی جومیں نے قبول کی اور وقت آنے پر سفر کیلئے تیار بھی ہوگیا لیکن ایک غیر متوقع رکاوٹ پیدا ہوگئی انسداد میں مجلس قانون سانے کے انتخابات کا اعلان ہونے پر مں نے ضلع سیالکوٹ کے مسلم کا بدین اور با رسوخ اہل الرائے کے ایک اجتماع میں عرض کیا کہ میں نے پنجاب کونسل میں قریب چارسال ضلع کے مسلم حلقے کی نیابت کی ہے اگر آپ صاحبان سمجھتے ہیں کہ میں نے توجہ اور اخلاص کے ساتھ اپنے فرائض کی ادائیگی کی کوشش کی ہے اور میرے کام سے مطمئن نہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ خدمت میرے سر در نی چاہئے قومی اس خدمت کی مزید سر انجام دہی کو اپنے لئے وہ فخر سمجھ چکا اور آپ کے اعتماد کی میرے دل میں بہت قدیم ہوگی.لیکن اگر آپ کی رائے جو کہ یہ خصومت اب کسی اور کے سپرد ہونی چاہیے ومیں آپ کی رٹے کا احترام کرتے ہوئےاپنے آپ کو انتخاب کے لئے پیش نہیں کروں گا.اورمجھے کسی قم کا شکوہ نہیں يفضل الله لا مقابلہ منتخب ہو گیا.فالحمد للہ یونینٹ پارٹی کے سلم اراکین کا ایک گروپ ملک سر فیروز خان نون کے وزیر مقرر کئے جانے پر متفق نہیں تھا.کہا جاتا تھا کہ نسلیہ کے انتخابات میں ان میں سے بعض اراکین کے انتخاب میں ملک صاحب اور ان کے والد نہ گوارہ نواب ملک محمد حیات خاں نون صاحب نے جو ان دنوں کمشنر تھے ان کی مخالفت کی تھی.ان میں سے جو حضرات انتخاب میں کامیاب ہو گئے وہ طبعا ملک صاحب سے آزردہ تھے.کچھ اور اراکین بھی مختلف وجوہ سے ملک صاحب کے وزیر مقرر کئے جانے کے خلاف تھے.چودھری سرشہاب الدین صاحب بھی منتخب ہوگئے تھے اوریہ یقینی امرتا کہ وہ پر مجلس کے صدرمنتخب ہوں گے.وہ اپنے لئے وزارت کے قطعاً واہاں نہیں تھے لیکن ملک بروز خان ون کے ویرہ ہونے کے مخالف تھے انہوں نے دوتین بار پارٹی کے علم ارکین کو اپنے دولتکدے پر مشورے کیلئے طلب فرمایا لیکن یہ فیصل نہ ہوسکا کہ زات کیلئے کس رکن کا نام پیش کیا جائے میرے تعلقات چودھری صاحب کی تھ گہرے دوستانہ تھے اور انہیں مجھ پیا تا تھا.انہوں نے مجھے اس بات پر رضامند کرنے کی کوشش کی کہ میرا نام گور نہ صاحب کی خدمت میں وزارت کیلئے پیش کیا جائے مجھے معلوم تھا کہ گورنہ سر تیرے ڈی مونٹ مور مینی میری نسبت حسن ظن رکھتے ہیں کیونکہ اسی سال کے ابتداء میں میاں فضل حسین صاحب نے مجھ سے ذکر کیا تھا کہ گورنہ صاحب کہتے ہیں ہائی کورٹ میں حج کی ایک عام منی جگہ خالی ہو نیوالی ہے اور میں نے سر شادی لال سے کہا ہے کہ وہ ظفر اللہ خان کے تقرر پہ رضامند ہو جائیں لیکن دہ نہیں مانتے.میری نسبت سر جیفرے کی یہ رائے میرے لئے خاص طور پر موجب اطمینان تھی کیونکہ اس سے پہلے ایک ایک واقعہ ہو چکا تھا.جس کی وجہ سے ان کے مجھ سے آزردہ خاطر ہونے کا امکان تھا.وہ واقعہ یہ تھا.!
پنجاب کو نسل میں کے متعلق تحقیقات کے مطالبہ کیلئے تحریک التوا | چودھری عبدالرحمن خالصاحب رہا ہوں ضلع جالندھر) نے بیان کیا کہ مسرور سلے ڈپٹی کمشنز جالندھرنے کسی معالم میں نہیں جاکر دھمکایا چودھری عبدالرحمن صاحب آزاد پارٹی کے رکن تھے جس کے لیڈ کہ چودھری افضل حقی صاحب تھے.میں نے چودھری افضل متقی صاحب سے کہا کہ آپ کی پارٹی کے ایک رکن کے ساتھ اگر ایک افسر نے ایسا سلوک کیا ہے تو آپ کو چاہئے کہ حکومت کو توجہ دلانے کیلئے التوا کی تحریک پیش کریں.انہوں نے فرمایا ہم ایک چھوٹی سی پارٹی ہیں.ہمارے احتجاج کا حکومت پہ کیا اثر ہو گا ! میں نے کہا یہ پارہ ٹی کا سوال نہیں بلکہ کونسل کے وقار کا سواں ہے.اگر تحریک التوا کے ذریعے یہ مطالبہ کیا جائے کہ چودھری عبد الرحمن خالصا حب نے جو واقعہ بیان کیا ہے اس کی تحقیقات کی جائے تو میں امید کرتا ہوں کہ اراکین کونسل کی کثرت تائید میں ہوگی.البتہ یہ احتیاط لاندام ہے کہ اسے ایک پارٹی کا سوال نہ بنایا جائے بلکہ ایک رکن کونسل کے احترام کے سوال کے طور پر پیش کیا جائے.چودھری افضل حق صاحب نے دریافت کیا کیا تم نے اپنی پارٹی کے اراکین کے ساتھ مشورہ کیا ہے ؟ میں نے کہا نہیں.لیکن اگر آپ تحریک پیش کرنے پر آمادہ ہوں تومیں انفرادی طور پر اپنی پارٹی کے اراکین کی رائے معلوم کرنے کی کوشش کروں گا.چودھری صاحب نے فرمایا.اگر ہمیں یہ معلوم ہوسکے کہ دوسری پاریوں میں سے بھی ہمیں تائید کی امید ہو سکتی ہے تو سم التوا کی تحریک پیش کر دیں گے.میں نے اپنی پارٹی کے بعض اراکین مورد فردا بات کھی اور اکثر کو اس حد تک تائید پر آمادہ پایا کہ بیان کردہ واقعہ کی تحقیقات ہونی چاہیے.مولوی سر رحیم بخش صاحب نے فرمایا ہم حکومت کے خلاف رائے تو نہیں دیں گے لیکن غیر جانبدار رہ جائیں گے.ایسے معاملے میں مجھے ان سے اتنی بھی توقع نہیں تھی.ان کے اس اظہار رائے سے مجھے اندازہ ہوا کہ تحریک التوا کامیاب ہو جائے گی.ہندو پارٹی میں سے میں نے پنڈت نانک چند صاحب سے بات کی.انہوں نے فرمایا تم نہیں پھٹانا چاہتے ہو اور خود خلاف رائے دوگے میں نے انہیں یقین دلایا کہ یہ پارٹی کا سوال نہیں.میں خود تو ضرور تائید میں رائے دوں گا اور امید کرتا ہوں کہ یونینسٹ پارٹی کے اور اراکین بھی تائید میں رائے دیں گے.چنانچہ تحریک پیش کی گئی.میاں سرفضل حسین صاحب قائد الحیران تھے.انہوں نے تحریک کی مخالفت کی اور نہ یادہ زور اسبات پر دیا کہ ڈپٹی کمشنر صاحب سے ٹیلیفون پر دریافت کیا گیا ہے.وہ چودھری عبدالر حمن صاحب کے بیان کی صحت کو تسلیم نہیں کرتے.اب ایک طرف رکن مجلس کا بیان ہے دوسری طرف ڈپٹی کمشنر کا بیان.تیرا کوئی شخص موجود ہیں تھا.لہذا جب تحقیقات سے مزید کچھ معلوم نہیں ہو سکے گا تو تحقیقات کرنے سے کیا فائدہ ہو گا.چونکہ تحریک التوا پیش کرنے کا مشورہ چودھری افضل حق صاحب کو میں نے دیا تھا اس لئے مجھے یہ احساس ہوا کہ میاں صاب ڈیوٹی کمشنر کے طرز عمل پنجاب کو نسل میں ایک تقریر کے دوران میں
۲۶۵ کی تقریر کا جواب مجھے دینا چاہیے.میں نے کھڑے ہو کہ اس امر کی وضاحت کی کہ یہ سوال کسی پارٹی سے متعلق نہیں کونسل کے اور کونسل کے اراکین کے احترام کا سوال ہے ہم نہ رکین کونسل کے بیان کو ر ذکر تے ہیں نہ ہ کمشنر صاحب کے بیان کو ہمارا مطالبہ فقط یہ ہے کہ اس واقعہ کی حقیقت معلوم کی جائے.بیشک ایک بیان کے مقابل دو سر ابیان ہے تغیر کوئی شخص موجود نہیں تھا.لیکن یقیناً قائد ایوان کا اور ہم میں سے کثر کا یہ تجربہ ہے کہ مناسب غیر جانبدارانہ تحقیقات سے ایسے قرائن روشنی میں آجاتے ہیں تین پر غورہ کرنے سے اصلیت کا صحیح اندازہ کیا جاسکے.ایک ذمہ دار رکن کونسل نے کونسل کے اجلاس میں یہ بیان کیا ہے کہ ڈپٹی کمشنر صاحب نے انہیں بلا کہ دھمکایا.انہوں نے وہ الفاظ دہرائے ہیں جو ڈ پٹی کمشنر صاحب نے استعمال کئے.ان حالات میں کونسل کا فرض ہے کہ وہ حکومت سے مطالبہ کیے کہ اس واقعہ کی مناسب غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائے.یہ مطالبہ ن صرف جائز اور معقول ہے بلکہ اسے کسی صورت گریز نہیں کیاجاسکتا ایالاہیں چھوڑ دیا جائے واندیش ہے کہ یا اور اراکین کونین کے احترام اور انار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا جب میں نے تقریم کی تومولوی سر ی ی نیش صاحب نے فرمایا.انشاء اللہ ماشاء اللہ ہم تائید می رائے دیں گئے.رائے شماری پر تحریک التوا منظور ہوگئی.ایک دو روز بعد میاں صا نے مجھ سے فرمایا.تم نے جوش میں آکر تحریک تومنظور کر لی.اب اسکا نتیجہ بھی دیکھو تم جانتے ہو مجرے کس قدر ہمدرد گورنہ ہیں.اور ہر جائز بات میں ہمارے مطالبات کی تائید کرتے ہیں.انہوں نے مجھ سے کہا کہ کونسل کے می اختیارات میں اینزادی کا مسئلہ زیر غور ہے.مجھے ان معاملات میں کونسل اور ان کے مطالبات کے ساتھ پوری ہمدرد ے اور میں ہر جائز مطالبے کی تائی کے لئے تیار ہوں لیکن اس قسم کی تحریکات کو اس بات کی تائید میں بطور دلیل میں کیا جائیگا کہ کونسل اپنے موجودہ اختیارات کو ذمہ دارانہ طریق پر استعمال نہیں کرتی.میں نے میاں صاحب کی خدمت میں گذارش کی کہ حالات پیش آمدہ میں اگر کونسل اتنا مطالبہ بھی نہ کرتی تو اپنی ذمہ داری کے نبھانے میں ناصر شمار کی جاتی مسٹر در سلے میک سینی انفرمی لیکن یہ تسلیم کرناکہ ہر حالت میںایک سیر فر کا بیان ایک ناقابل تردید حقیقت کا درجہ رکھا میں ہے بڑی خطرناک مثال قائم کرنا ہو گا.میاں صاحب مطمئن نہ ہوئے.چند دن بعد مسرور سلے نے بغی انتظار کئے کہ حکومت کی طرف سے تحقیقات کا حکم صادر ہوتا ہے یا نہیں محض تحریک التوا کی منظوری کو شہک شمار کرتے ہوئے قبل پیش بھٹی پر پاے کی درخواست دے دی.- اس واقعہ کے بعد گورنر صاحب کا چیف جسٹس صاحب کو میرے ہائی کورٹ کی جی پر تقری کیلئے رضامند کرنے کی کوشش کرنا ان کی انتہائی مشرافت اور میری نسبت ان کے حسن ظن کا ثبوت تھا لیکن یہ جانتے ہوئے بھی میں وزارت کا میلہ نے پہ رضامند نہ تھا.چودھری سر شہاب الدین صاحب اپنی دھن کے پکے تھے جو بجو نبی ان کے ذہن میں پختہ ہو جائے اسے آسانی سے ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے تھے.مجھ سے دریافت کیا کیا حضرت مرزا صاحب قادیان تشریف رکھتے ہیں
میں ان کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا ہوں.میں نے بتلایا حضور شعلے میں تشریف فرما ہیں اور فلاں دن قاریان واپس پہنچنے کا پروگرام ہے.اس دن صبح کے وقت پر دھری صاحب نے مجھے اور میاں احمد بابر خان دولتانہ کو اپنے ساتھ مرند چھلنے کو کہا.ہم دونوں کار میں چودھری صاحب کے ساتھ امرتسر کیئے.کارکاسے آنیوالی گاڑی میں حضرت خلیفتہ الیشیم تشریف لائے.حضور ایک چھوٹے سیلوں میں جس میں دو بڑے درجے کے خانے تھے اپنے رفقاء کے ساتھ سفر کر رہے تھے.امرت میں وہ سینیون قادیان جانیوالی گاڑی کے ساتھ لگا دیا گیا.چودھری صاحب نے حضور کے ساتھ بات چیت شروع کی.بھی گفتگو جاری تھی کہ گاڑی کی روانگی کا وقت ہو گیا چودھری صاحب نے اپنے شور کو پیغام بھیجا کہ وہ کارویہ کا ایشین پر لے آئے اور تین ٹکٹ دیرہ کا کے منگوا لئے ویہ کا سے ہم حضورہ سے رخصت ہو کیا ہورہ واپس آگئے.گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ پچودھری صاحب نے مختصر آیا روٹی کے اراکین کے درمیان ہو مشورے ہوئے تھے ان کا لب لباب بیان کیا اور کہا ہم چاہتے ہیں کہ ظفر اللہ خال وزارت کا امید دار ہوں حضور نے دریافت فرمایا پھر یہ کیا کہتے ہیں ؟ چودھری صاحب نے کہا یہ تو نہیں مانتا.حضور نے دریافت فرمایا کہ آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں ؟ چودھری صاحب نے کہا ہم آپ کی خدمت میں اسلئے حاضر ہوئے ہیں کہ آپ اسے ارشاد فرمائیں کہ یہ ہماری بات مان جائے.حضور نے فرمایا جب یہ نہیں چاہتے تو میں کیسے مجبور کردی زید فرمایا کہ کون میں علم اراکین پہلے ہی کوئی مضبوط حیثیت نہیں رکھتے آپس میں اتا ہے انکی حیثیت اور کمزور ہو جائے گی میری رائے میں بہتر یہ ہوگا کہ پارٹی کے سلمان اراکین سب مل کر آپس میں اتفاق کے ساتھ مناسب فیصلہ کر لیں اور پھر اس کی پابندی کریں.ممکن ہے چودھری شہاب الدین صاحب نے اس دوران میں میاں سر فضل حسین صاحب کے ساتھ بھی اس معاملے کے متعلق خط و کتابت کی ہولیکن مجھے اس کا علم نہیں.یہ بھی ممکن ہے کہ چودھری ماں نے گورنہ صاحب کے ساتھ بھی کوئی بات کی ہو یا پارٹی کے بعض اراکین گو رہ نہ سے ملے ہوں لیکن مجھے اس کا بھی علم نہیں میں گول میز کانفرنس کے سلسلے میں لندن جانے کو تیارہ تھا کہ گورنہ صاری نے مجھے طلب فرمایا اور کہا مجھے معلوم ہوتا ہے کہ یونینسٹ پارٹی کے مسلم اراکین کے مابین وزارت کے متعلق اختلاف ہے.میں چاہتا ہوں کہ تم وزارت میں شامل ہو جائیہ میں نے شکریہ ادا کی اور کہا افسوس ہے میں تعمیل ارشاد سے قاصر ہوں.ایک تو میں گول میز کانفرنس میں شرکت کی دعوت قبول کر چکا ہوں.وہ بھی خدمت کا ایک موقعہ ہے اور میں وہاں جانا چاہتا ہوئی.درست پارٹی کے اندر جو اختلاف ہے میں اسے بڑھانے کا موجب نہیں بنا چاہتا.گورنہ صاحب نے پوچھا تم لندن کے سفر یہ کب روانہ ہو گے ؟ میں نے کہا تین چار دن میں.فرمایا کیا یہ ہوسکتا ہے کہ تم یہ سفر ایک ہفتہ کیلئے ملتوی کردو ؟ میں نے کہا کا نفرنس کے افتتاح کی تاریخ کے لحاظ سے تو ہوسکتا ہے.کیونکہ میں ایک ہفتہ بعد روانہ ہو کہ بھی ہر وقت لندن پہنچ سکتا ہوں لیکن اس التوا سے آپ کی مشکل میں کمی ہونے کی توقع نہیں ہوسکتی میرا اندازہ ہے کہ جب تک میں موجود ہوں یہ کشمکش جاری رہے گی.ملکہ میرے التوائے سفر سے شاید پڑھ
جائے کیونکہ اس کی یہ تعبیر کی جاسکتی ہے کہ میں وزارت کی خواہش یا امید کی وجہ سے رک گیا ہوں.اگر میں چلا جاوں تو ملک فیروز خان نون کے لئے میدان خالی ہو جائے گا.اور ممکن ہے پارٹی کے مسلم اراکین ان کے تقریر پر رضامند ہو جائیں.گورنر صاحب نے فرمایا تم مجھ سے یہ وعدہ کرتے جاؤ کہ اگرمیں بالآخر میں فیصلہ کروں کہ تمہیں ملک اور قوم کی خدمت کی خاطر وزارت کی ذمہ داری سنبھالنی چاہیے اور میں بذریعہ نا ر اطلاع دوں تو تم عدن سے واپس آجاؤ گے.میں نے عرض کیا کہ اگر آپ پورے غور کے بعد اسی فیصلے پر پہنچیں تو تعمیل ارشاد کروں گا ملکین ایک گذارش کرنا چاہتا ہوں کہاب کی بار تعلم وغیرہ کے محکمہ جات کا قلمدان پھر سے مسلمان وزیر کے سپرد ہونا چاہیے فرمایا یہ بات میرے ذہن میں رہے گی.اسی سر پر می سر سکندر حیات خاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور نہ صحت کے ساتھ تجربات ہوئی انکی خدمت میں گذارش کردی اور کہا کہ گورنر صاحب آپ سے ضرور مشورہ کریں گے (سردار صاحب شاہ سے میانی سرفصل حسین صاحب کی جگہ گویہ نہ کونسل کے رکن عاملہ تھے ، آپ انہیں یقین دلائیں کہ می گول میز کانفرنس میں کام کرنے کا متمنی ہوئی اور وزارت کا ہر گنہ خواہشمند نہیں اور یہ صورت پیدا نہ ہونے دیں کہ وہ مجھے عدن سے واپس طلب فرمائیں سردار صاحت سے رخصت ہو کہ میں ملک فیرونہ خانصاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے سب ماجرا بیان کر کے گذارش کی کہ میرا ندازہ ہے کہ گورستہ صاحب آپ کی کو وزارت کی پیش کش کریں گے آپ مزور ان سے کہیں کہ آپ کو تعلیم وغیرہ کے محکمہ جات کا قلمدان پر کیا جائے.یہ اربھی پارٹی کے سلم اراکین کی دلجوئی کا موجب ہو گا ملک صاحب نے فرمایا ارے بھائی تم لوگوں کو اصرار ہے تو میں یہ بھی کہ دونگا.لیکن بیا موجودہ قلمدان لوکل سیلفی گرفت) - بڑے مزے کا ہے.پہلی گول میز کانفرنس | لندن پہنچ کر میں نے ایک فلیٹ کرایہ پر لے لی.میرے چھوٹے بھائی چودھری اسد اللہ خاں صاحب اس وقت لندن میں بیرسٹری کے سب امتحان ختم کر چکے تھے اور پریٹی کی سند کے انتظار میں تھے.میرے کہنے پر وہ میرے ساتھ آٹھرے لیکن میری غرض اس سے پوری نہ ہوئی.مجھے تمام دن کا نفرنش میں حاضری دنیا ہوتی شام کو کچھ فرصت میسر آئی کو بعض دفعہ شام کو بھی کسی دعوت یا تقریب میں جانا ہوتا.انہیں شام کے وقت اپنے احباب سے ملنا ہوتا تھا.نتیجہ یہ کہ جو شام مجھے گھر پہ گزارنی ہوتی وہ اکیلے ہی گزرتی.اپنی مصر فوت کے لحاظ سے یہ مجھ پر کچھ درد بھر نہ تھا.لیکن دور انھیں ایسی آئیں کہ مجھے تیز بنجارہ ہو گیا.میں جانتا تھا یہ میرا پیرانا نیق ملیریا ہے.اور کونین کے استعمال سے اکی اصلاح ہو جائے گی اسلئے مجھے چنداں پریث فی نہیں تھی لیکن ایسی حالت میں تنہائی مجھ پہ گراں تھی اسلئے میں نے عزیز اسد اللہ خاں سے کہا کوئی ایک مکان تلاش کریں جہاں اور لوگ بھی رہتے ہوں تاکہ ان کی عدم موجودگی میں مجھے بالکل تنہا نہ رہنا پڑے.چند دن بعد ہم ۲۳ ہیتھ فیلڈ گارڈنز میں منتقل ہو گئے
۳۶۸ جہاں ایک فائدہ یہ بھی تا کہ اردگر گنی آبادی نہیں تھی اور فارغ اوقات میں کھلی ہوا میں چلنے پھرنے کے مواقع میسر آجاتے تھے وٹان بجلی کی ریل کا سٹیشن با لکل قریب تھا اسلئے آمد و رفت میں سہولت تھی.ہرنائی کی سر آغاخان کی قیادت ملم اراکین کا نفرن کے لئے بیشمار فوائد کا موجب ہوئی، فجزاہ اللہ آپ کی با وقا اور قابل احترام شخصیت محتاج تعارف نہیں تھی.کانفرنس کے تمام حلقوں میں آپ نہایت عزت کی نگہ سے دیکھیے جاتے تھے.ارباب حکومت میں شاید ہی کوئی ہو جس کے ساتھ آپ کا ذاتی تعارف نہ ہو.انگریزی محاورہ میں سب دروازے بغیر دستک کے آپ کے لئے کھل جاتے تھے.ہفتے میں دوتین با اسلم اراکین آپ کی قیادت میں جمع ہو کہ کانفرنس کے پروگرام اور کاروائی کے متعلق مشورہ کرتے تھے.یہ اجتماع اگر یہ فریمی ہوا کرتے تھے لیکن مسلم وند ی کمیتی کو قائم رکھے اورمسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے سلسے میں تدابر سوچنے اور انہیں عمل میںلانے میں نہایت محمد تھے دوست اجتماع می گفتگو شر وع ہوجیسے پہلے ڈاکٹر شفاعت احمد خاں صاحب نے ایک ریٹر سامنے رکھ لیا اور فرمایا مجھے اجازت دیجئے کہ بحیثیت سیکہ ٹیڈی وند می پچھلے اجلاس کی کاروائی کی رپورٹ پڑھ کر سنادوں ، اس پر قائد اعظم مسٹر جنات نے در ترش لیہ میں فرمایا آپ کو سیکریٹری کس نے ترکی تھا.ہم کوئی کر پورٹ سنتا نہیں چاہتے کسی رپورٹ کے مرتب کرنے کی اجازت دیکھتے ہیں.رسمی افتتاح اور خوش آمدید کی تقریروں کے بعدسب پہلا فیصلہ جو پلی گول میز کانفرنس نے کیا وہ یہ تھا کہ یہ ما ی ہندوستان سے علم کی کوا و اقلیم کر لیا گیا.اس فیصلے کے تھے میں یہ بھی مانوں نے کانفرنس کے اجلاسوں میں شرکت بند کردی اور بر ما کے آئینی متقبل پرغور کرنے کیلئے ایک برمیگول میز کانفرنس علیحدہ قائم کردی.یہ مالکی دندان سے علیحدگی یکم اپریل سہ سے عمل میں آئی اور ہم جنوری مواد کو برا کی آزادی کا اعلان ہوا.کانفرنس نے دوسرا اقدام ہ کیا کہ مختلف آئینی مائل پر غور کرنے کیلئے کمیاں تو نہ کی گئیں اسی دن کا نفرنس کے دنا نہ کے کمروں میں سے ایک ی سیم وند کا اجتماع اس غرض سے ہوا کا کمیونی مسلم وند کیطرف سےنمائندگی کیلئے اراکین نامزد کئے جائیں اس تباہی میں بھی ڈاکٹر شفاعت احمد خانصاحب نے سیکریٹری کے فرائض خود اپنے ذمے لے لئے.میری نشست ڈاکٹر صاحب کے بالکل ساتھ تھی.جو نام تجویہ تو اڈاکٹر صاحب متعلقہ کمیٹی کے عنوان کے نیچے اسے درج فرمالیتے.میاں سر محمد شفیع صاحب کی تحریک ر میرا نام تین بیٹیوں کے لئے تجویز ہوالیکن ڈاکٹرا نے کہیں دور نہ فرمایا جب نامزدگی کی کاروائی ختم ہوگئی توتیاں ر محمد شفیع صادر نے ڈاکٹر ماہ سے فرمایا جس جس کیٹی کے لئے و جو نام تجویز ہونے میں رہ پڑھ کر سنا دیجئے.جب ایمان ہے کیا میرا نام کی کیٹی کے لئے درج نہیں کیاگیا تو بڑے جوش سے ڈاکٹری سے فریای من تین میٹیوں کے نے ظفراللہ خاں کانام تجویز کی گی ہے ان کے لئے اس کا نام روت کرد ورنہ ہم تمہارا نام برای کسی می سے کاٹ دیں گے ڈاکٹر صاحب کو پارونا چار تعمیل کرنا پڑی.جن کیٹوں میں مجھے نامزد کیا گی ان میں سے دو کے چیر مین لارڈز ٹیلنٹڈ تھے
19 ۲۶۹ جو لارڈ رونالڈینٹے کے نام سے بنگال کے گوربند رہ چکے تھے اور شہداء میں سرسیموئل پور کے فرسٹ وزیر بنار مقرر ہوئے.میری کمیٹی کے چیئر مین مسٹر مینڈرسن تھے جو اسوقت وزیر خارجہ تھے اور بعد میں COMMISSION DI SARMAMENT کے چیرمین ہوئے.برطانوی مدیرین، والیان ریاست اور سند دوستان بھر کےا نه موده کار صاحب تجر بہ سیاسی رنجاؤں کے اس اجتماع عظیم می میں ایک نو آموز طفل مکتب تالو کسی شماری نہ تھا.ڈاکٹر شفاعت احمد خان صاحب نے میرا نام کمیٹیوں کی فہرست میں شام نہ کرنے میں میری نا تجربہ کار کا صیح اندازہ کیا تھا.سکین جہاں پختہ کار صاحب تجربہ اصحاب مفید اور کارآمد تجاویز پیش کر سکتے تھےاور قیمتی مشورے دے سکتے تھے.وہاں ایک کودک نادان کے لئے نئے نئے تجربات حاصل کرنے اپنی صدا گاہ کو وسعت دینے اور اہل دانش کے فہم وادراک سے فائدہ اٹھانے کے بہت سے مواقع تھے.ہزمانی منی سر آغا خان صاحب متقبل کے قائد اعظم اور بانی پاکستان مسٹر جناح ، مولانا محمد علی صاحب دوسری اور تیری کا نفرنس کے دوران میں علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب ، میاں سر محمد شفیع صاحب ، سرسید سلطان احمد صاحب ، مولوی ابوالقاسم فضل الحق صاحب کی صحبت کا میسر آنا بھی میرے لئے غنیمت اور باعث فخر تھا.ان کے علاوہ ہر نئی نسن نواب صاحب بھوپال ، نواب سر اکبر حیدری صاحب، سرمرزا اسمعیل صاحب جیسے حکمرانوں اور مدبروں کے سا تھا اگر تبادلہ خیال نہیں تو کم سے کم ان کے نتائج فکر سے آگاہی.پھرسے پنجے بہادر سپروا در سر جے کار جیسے آزمودہ کالی قانون اور سیاست کے ماہرین کی کانفرنس میں شمولیت میرے جیسے مبتدی کے لئے ان سے کچھ سیکھنے کے نادر مواقع بتا کرے تے مسٹر سپنتا منی | میری سب سے پہلی حوصلہ افزائی بالکل غیر متوقع طور پر سر چنتا منی کی جانب سے ہوئی.مسٹر نیتا منی کا اصل وطن غالباً مدراس تھا.لیکن وہ بولی میں نہیں گئے تھے.وہ نہایت آزمودہ کا راور بڑے بار سورن صحافی تھے ادر سیاست میں بہت آزاد خیال تھے.میں نے کانفرنس میں کس مسلے پر اظہار خیال کیا.انہوں نے کمال شفقت سے مجھے ایک پرندے پر پنسل سے لکھ کر بھیجا.IN THIS GATHERING OF REACTIONARIES It is so RefresHING To Hear SomeONE SPEAK OUT WITH COURAGE سرسرینواس سانتری | ایک دو دن بعدا اجلاس بر خاست ہونے پر میں نے اپنے کوٹ ٹوٹی کی تلاش میں تھا کہ سر سر مینو اس ساستری نے نہایت انک رکے لہجے میں جس سے میں بہت مجبل موا محمد سے فرمایا.WILL YOU FORGIVE ME IF I WERE TO SAY HOW MUCH I APPRECIATE YOUR VALUABLE CONTRIBUTIOns To OUR DISCUSSIONS جھے جیت ہوئی کہ ایسی عظیم المرتبت شخصیت کا اخلاق بھی کس قدر بلند ہے.میں نے سر سرینواس شاستری کا اہم گرمی برسوں سے سنا ہوا تھا.اور ہندوستان اور برطانیہ میں کون شخص تھا جو سیاست میں کچھ بھی دلچسپی رکھتا ہو اوران کے ہم گرامی 1 1
سے واقف نہ ہو.وہ سرونش آن انڈیا سوسائٹی کے روح رواں تھے اور اپریل لیجسلیٹو کونسل کے مان کن رہے تھے.انگریزی زبان پر قدرت نام رکھتے تھے اپنے خیالات کو بڑے سادہ لیکن نہایت موثر الفاظ میں بیان کرنے کے عادی تھے.ایک مرتبہ گور نہ منزلی کے سوال پر کہ جو بات آپنے پیش کی ہے اس کی تائید میں کیا دلیل ہے کمال سادگی سے فرمایا.BECAUSE My Lord This is our COUNTRY AND WE WISH TO RULE IT میں نے ان کا شکر یہ ادا کیا انہوں نے پوچھا تم کدھر جارہے ہومیں نے عرض کیا پکا ڈلی کی طرف.فرمایا میں بھی اد عربی جارہتا ہوں.رٹز ہوٹل کے قریب بس ٹھہرتی ہے.وہاں سے عبس پر سوار ہوں گا.اگر اجازت دو تو تمہارے ساتھ پھلوں.میں نے کہا یہ میرے لئے باعث فخر ہو گا.وہ آہستہ چلتے تھے اور بعض دفعہ کمال شفقت سے میر بازو کا سہارالے لیتے تھے.اس کے بعد یہ معمول ہوگیا کہ اجلاس بر خاست جوتے پر میں انکا منتظر رہتا اور ہم بینی ہوٹل تک اکٹھے جاتے.ان کی ہر بات سادہ سنجیدہ اور پر حکمت ہوتی.ایک موقعہ پر بری پارٹی کی طرف سے کانوش کے بعض اراکین کو ایوان پارلیمنٹ میں دعوت دیگئی.میں بھی مدعو تھا میز بانوں کی طرف سے مسٹری ایڈ جاریہ نے خوش آمدید کی تقریہ کی اور مسٹرے استری نے مہمانوں کی طرف سے شکریہ ادا کیا.دونوں اصحاب نہایت فصیح البیان تھے اور انگریزی زبان میں قادر الکلام.محبت بہت پر لطف رہی.گول میز کانفرنس کے دوران فرقہ وارانہ کانفرنس کے دوران میں وزیر اعظم برطانیہ نے فرقہ وارانہ مال مسائل کے متعلق مفاہمت کی کوششیں کو سلجھانے کی خاطر پنجاب کے نمائندوں کو طلب کیا اور دو تین اجلاسوں میں کوشش کی کہ کوئی صورت مقاہمت کی پیدا ہو جائے لیکن کوئی نتیجہ مترتب نہ ہوا اس گفتگو کے دوران میں ہند ونمائیندگان نے سکھ نمائندگان کو پیش پیش رکھا جن کے مطالبات اتنے غیر متناسب تھے کہ وزیراعظم سارا وقت اپنی کے ساتھ الجھے رہے اور آخر اپنی کوشش ترک کرنے پر مجبور ہوگئے.سکھ نمائندگان اور ان اپنی کے مطالبات کے متعلق انہوں نے فرمایا.THESE DELIGHTFUL PEOPLE ARE QUITE WILLING TO BE CONTENT WITH THE MAXIMUM ہندو نمائندگان میں سے سر چمن لال سیلواڈ نے کانفرنس کے دوران میں اپنی طرف سے ایک بخونیہ فرقہ دارانہ سمجھوتے کی تیار کی اور اسے سنجی طور پر تمام نمائندگان کو بھیج دیا.اس تجو یہ میں انہوں نے اس اصل پر نہ دہ دیا تھا کہ اکثریت کی کوشش ہونی چاہیئے کہ اقلیتوں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیابی ہو اور اس مقصد کے حصوں کے لئے پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ اقلیتوں کے جائز مطالبات پر ہمدردانہ غور کیا جائے.مثلاً گرفته داران نمایندگی
کا اصول اگر چہ اکثریت کی نگہ میں ملک اور اکثریت اور اقلیتوں کے لئے یک لی طور پر نقصان دہ ہے پھر بھی چونکہ اقلیتوں کی طرف سے یا ان میں سے بعض کی طرف سے اس پر اصرار ہے اور وہ اسے اپنے حقوق کے تحفظ کا موثر ذریعہ سمجھتے ہیں تو انہیں مطمئن کرنے اور ان کا اعتماد حاصل کرنے کی خاطر اکثریت کو چاہیے کہ وہ اس پر رضا مند ہو جائے.ممکن تھا کہ سر میں لال سیلواڈ کی تجوید کی بنا پر کوئی صورت سمجھوتے کی پیدا ہو سکتی لیکن اکثریت کی طرف سے کسی قسم کے رد عمل کا اظہار نہ ہوا اور بات وہیں کی وہیں رہ گئی.یلی گول میز کانفرنس میں شروع سے ہی یہ جان نمایان و پیرا ہوا کہ ہندوستان کا آئینی نظام رقاقی ہونا چاہیے اور یہ طانوی اور ریاستی مہند دونوں اس نظام میں منسلک ہونے چاہئیں.والیان ریاست کی طرف سے اس نظریے کی تائید کی گئی جس سے اسے بہت تقویت پہنچی اور وفاقی نظام کا تر تیب دنیا کا نفرنس کا مقصد قرار پایا.چونکہ اس مقصد کے حصول کے لئے والیان ریاست کی رضا مندی لازم تھی اور والیات ریاست طبعاً وفاقی نظام کے اندر اپنے حقوق، اختیارات اور خصوصی مراعات کے ہر پہلو سے تحفظ کے خواہشمند تھے اسلئے پہلی کا نفرنس میں جو آوازہ ان کی طرف سے اٹھائی بھاتی تھی اور وہ بظاہر ایک منفقہ اور مضبوط آوانہ * تھی، وہ بہت توجہ سے سنی جاتی تھی اور اسے بہت اہمیت دی جاتی تھی.کانفرنس کے اجلاسوں میں جن دو جملوں کی کثرت سے نگرا نہ ہوتی تھی وہ YOUR HIGHNESSES اور THEIR HIGHNESSE تھے شام کی دعوتوں میں ٹی ٹوسٹ ماسٹر پہر بارہ ان الفاظ کے ساتھ مہمانوں کی توجہ کا طالب ہوتا تھا.YOUR HIGHNESSes, YourigracES, YOUR EXCELLENCIES, MY LORDS, LADIES AND GENTLEMEN, PRAY Silence For مولانا محمد علی صاحب کی وفات کا سانحہ | مولانا محمد علی صاحب نے ایک دن اجلاس میں اس تکرار سے..OUR اکتا کر فرمایا مسٹر چیر مین THEIR HIGHNESSES TH کی طرف سے تو ہم بہت کچھ سن چکے اب LOWN ESSES کو بھی کچھ کہنے کا موقعہ ملنا چاہئیے ! مولانا صاحب کی صحت لندن تشریف آوری سے پہلے ہی تشویش کا موجب بن رہی تھی.یہاں پہنچ کر تکلیف میں اضافہ ہوتا رہا.کرسمس کی تعطیل میں ضعف بڑھنا شروع ہو گیا.آخری ایام میں اپنا سیاسی وصیت نامہ لکھوایا اور سہم جبوری اس کو داعی اجل کو لبیک کہا.انا للہ وانا الیہ راجعون بیت المقدس میں مسجد اقصی کے ایک حجرے میں مرقد بنا.اللہ تعالیٰ مغفرت کرے اور رحمت کا سلوک فرمائے آمین.پر بیوی کونسل میں پہلا کیس | جنوری کے آخرمیں کا نفرنس کا اعلاس ملتوی ہوا.اجلاس کے دوران میں مجھے پر لوی کونسل کے روبرو پیش ہونے کا موقعہ میں آگیا.ضلع گوجرانوالہ کے ایک قریشی زمیندار خاندان کے ایک
I دارند و توان مالک اراضی کا انتقال ہوگیا متوفی کی ہمشی گن اس کی سند کہ اراضی پر راضی ہوگئیں متونی کے بعبیدی یک جدیان نے اس کی وراثت کا دعوی اس بنا پہ کیا کہ متوفی کا خاندان امور وراثت میں رواج کا پابند ہے اور روح کی رو سے یک جریان کا مق وراثت بمقابلہ ہمشیرگان فائق ہے.ہمشیرگان کی طرف سے عزیہ کیا گیا کہ مدعیان متوفی کے یک جدی نہیں اور اگر یک جدی ثابت بھی ہوں تو متوفی کا خاندان رواج کا نہیں بلکہ شرح محمدی کا پابند ہے.جسکی رو سے ہمشیرگان کا حق بمقابلہ یک جریان فائق ہے.عدالت ابتدائی امیر عباد اللہ صاحب غیر سب چھ گوجرانوالہ نے قرار دیا کہ مدعیان متوفی کے نویں پشت کے یک جریان ہیں اور متوفی کا خاندان رواج کا پابند ہے اسلئے مدعیان کا ستی وراثت بمقابلہ ہمشیرگان فائق ہے.اور مدعیان کے حق میں ڈگری دیدی.مدعا علیہم نے ہائی کورٹ میں اپیل دائمہ کی اپیل کی سماعت مسٹر جسٹس مار مینو اور سٹر جسٹس ظفر علی نے کیا.مدعیان کی طرف سے ڈاکٹر خلیقہ شجاع الدین صاحب وکیل تھے اور میں ان کے ساتھ جو نیٹر تھا.مدعیان نے متوفی کے ساتھ اپنا رشتہ ثابت کرنے کے لئے ایک خاندانی شجرہ نسب پیش کیا تھا جو ان کے خاندان کی ایک قلمی تاریخ مرتب شاہ نوانہ الدین کے ساتھ شامل تھا اور جس سے ان کا متوفی کا ایجدی ہونا ظاہر ہوتا تھا.کچھ نہ بانی شہادت بھی پیش کی گئی تھی جس میں خاندانی میرانی کی شہادت بھی شامل متی جان ہائی کورٹ نے شجرہ نسب تو اس بناء پر رد کر دیا کہ اس میں بعض اندرا جات کی تحیہ یہ اس تغیریہ سے مختلف ہے ہ شاہ نوانہ الدین کی بیان کی جاتی ہے.اور بعض اندراجات پیدائش و اموات ایسے لوگوں کے ہیں جو شاہ نواز الدین کی موت کے بعد پیدا ہوئے یا فوت ہوئے اور تین کی پیدائش یا وفات کا علم شاہ نواز الدین کو نہیں ہوسکتا تھا.زبانی شدند اس بنا پر رد کردی کہ نویں پشت تک کی رشتہ داری کاعلم صرف سماع ہوسکتا ہے جو قابل پذیرائی ہیں.اس تجویز کے مطابق قرار دیا گیا کہ مدعیان کا رشتہ متوفی کے ساتھ ثابت نہیں.اور مشیرگان متوفی کے خلاف جوار منی متفانہ عہ پر..قابض ہیں مدعیان کا دعویٰ نہیں چل سکتا مد عاعلیہم کی اپیل منظور ہو کر دعوی و عیان خارج ہوا.مدعیان نے پریوی کونسل میں اپیل بھجوانے کے لئے مجھے وکیل کیا.مقدمہ کی مالیت کے لحاظ سے مدعیان استحقاقا پر وی توں میں اپیل دائر کر سکتے تھے.چنانچہ ہائی کورٹ سے سرٹیفکیٹ مل گیا اور میں نے لندن کے ڈگلس گریٹ اینڈ ویڈ سولسروں کو اپیل کے کاغذات بھجوادیے.جب میں پہلی گول میز کانفرنس کے سلسلے میں لندن ٹھہرا ہوا تھا تو ایک روزہ مسٹر ڈولڈ نے ٹیلیفون پر مجھے کہا کہ اس اسپیل کی سماعت آئندہ ہفتے میں ہونے والی ہے.اگر تم وقت نکال سکوتومیں تمہارا نام بطور تو نیٹ وزن کردیتا ہوں.اس حیثیت میں تمہیں پر لوری کوسن میں حاضری کا موقع مل جائیگا جو تمہارے لئے دلچسپی کا موجب ہوگا.دوسرے ہفتے کے شروع میں انہوں نے مجھے بتایا کہ اہل کی ساعت کل ہوگی.مناسب ہو گا گیہ تم اجلاس شروع ہونے سے نصف گھنٹہ پہلے پہنچ جاؤ تاکہ نیر وکیل تمہارے ساتھ مشورہ کر سکے اور ہماری رائے ہے فائدہ اٹھا سکے مشورے کے دوران میں اس بات پر بھی غور ہوا کہ اگر پر بیوی کونسل نے ہمارے پیش کردہ شجرہ نسب کو
۳۷۳ تسلیم کر لیا تو کیا دور ہے سوال پر بھی بحث کی نوبت آئے گی کہ فریقین رواج کے پابند ہیں یا شرع محمدی کے سینیئر وکیل اور سود بسٹر دونوں کی رائے تھی کہ یہ نوبت نہیں آئے گی.ہائی کورٹ نے اس سوال کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا.اس لئے اگر پر لوری کونسل نے مدعیان کو مستوفی کا یکجدی قرار دیا تو انہ کا معاملہ ہائی کورٹ میں واپس جائے گا کہ وہ اس قانونی سوال کے متعلق فیصلہ کریں.پہلوی کونسل کے اجلاس ڈاوننگ اسٹریٹ میں واقع ایک عمارت میں ہوتے تھے جس کے متعلق باہر سے دیکھنے والا ہرگز یہ اندازہ نہیں کرسکتا تھا کہ اس عمارت کے اندر مملکت برطانیہ کے بیرونی علاقوں کی سے بڑی عدالت بحث سماعت کرتی اور فیصلے صادر کرتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ اگر چہ پہلوی کونسل کی جوڈیشیل کمیٹی کے اجلاسوں میں بڑے عالی مرتبت جج شامل ہوتے اور وہ ایک عدالت کی حیثیت سے وکلاء کی بحث سماعت کر کے فیصل مصادر کرتے.لیکن جوڈیشل کمیٹی جیسے اس کے نام سے ظاہر ہے پر یوی کونسل کی ایک کمیٹی تھی جو لفظا فیصلہ صادر نہیں کرتی تھی بلکہ فرمانروا کی خدمت میں مشورہ پیش کرتی تھی جو فیصلہ نہیں کہلاتا بلکہ رپورٹ کہلاتا ہے.یہ رپورٹ پر یلوی کونسل کے ایک با قاعدہ رسمی اجلاس میں پیش ہوتی میں فرمان د نبات خود موجود ہوتا اوروہاں سے آریان پول جاری ہوتا جس میں ہائی کورٹ متعلقہ کو ہدایت دیجاتی کہ جوڈیشیل کیٹی کی رپورٹ کے مطابق عمل کیا جائے.چونکہ تو دیل کمیٹی فرمانروا کی کونسل کی ایک کمیٹی منفی اسلئے سورج اسکی عدالت میں شریک ہوتے وہ اجلاس میں اپنے روزمرہ کے عام لباس میں میٹھتے.ان کے اور وکلا کے درمیان صرف ایک چوڑی میز ہوتی.وکلاء اپنا مخصوص لباس اور روگ گون وغیرہ پہنے ہوتے.جوڈیشل کمیٹی کی رپورٹ چونکہ مشورہ ہوتی اسلئے اس سے یہ ظاہر نہیں ہو تا کہ اجلاس میں جو بیج شامل تھے وہ متفق الرائے تھے یا ان کے درمیان اختلاف رائے تھا.مشورے میں اختلاف رائے کی گنجائش نہیں پس پردہ اگر کوئی اختلاف ہو بھی تو وہ رپورٹ میں ظاہر نہیں ہوتا.جوڈیشنل کمیٹی ایک ہی وقت میں دریا تین الگ الگ اجلاسوں میں بھی مقدمات کی سماعت کرتی.یہ اعلاس بورڈ کہتے.جس بورڈ نے اس اپیل کی سماعت کی اس میں لارڈ بلین برگ، لارڈ میکیان ، سرجازت لاؤنڈرز اور سروانیان سانڈریسن شامل تھے.سرجانت لاؤنڈ بھی ہائی کورٹ میں پریکٹس کر چکے تھے اور پولی کونسل میں بھی پریکٹس کرتے رہے تھے سرانسپلاٹ سانڈرسن کلکتہ ہائی کورٹ کے چیف جسں رہ چکے تھے.بحث شروع ہوئی سینئر وکیل نے واقعات مختصراً بیان کرنے کے بعد شجرہ نسب کی طرف توجہ دلائی، اور شہادت پڑھ کر سنانا شروع کی.جوں نے طبع شدہ شجرہ نسب سامنے رکھا ہوا تھا.نہ بانی شہادت اور شجرہ نس کے اندراجات یں تطابقت نہ پاکر کہنا شروع کیا کہ نہ بانی شہادت سے تو شجرہ نسب کی تائید نہیں ہوتی.سنیٹر وکیل کچھ وضاحت کی کوشش کرتے لیکن جوں کا اطمینان نہ ہوتا.میں سمجھ رہا تھا کہ جوں کو کیا مشکل پیش آرہی ہے اور اس کا کیا حل ہے بسیر وکیل پریشان ہو رہے تھے اگر میں انہیں کچھ لکھ کہ دینا بھی تو پریشانی میں وہ میرا مطا نے سمجھ پاتے اور جو شکل جج صاحبان کو حیران کر رہی تھی اس کا حل ان کے نہیں کی
بات بھی نہیں تھی.جوں نے سر ہلا کر کہنا شروع کیا کہ یہ بات تو بتی نظر نہیں آتی.مجھے گھیرا ہٹ ہوئی کہ بات تو آسان ہے لیکن اسے واضح کیسے کیا جائے میں نے ایک آدھ بار چند لفظ لکھ کر نیٹ وکیل کودیئے بھی لیکن وہ توجہ نہ دے سکے سٹر ڈولڈ بھی قریب ہی بیٹھے تھے میں نےانہیں بھی کچھ لکھ کر دیا.اتنے میں جوں نے اپنی نوٹ کیوں نہ کرنا شروع کیں.حسن اتفاق سے لارڈ لینیز برگ نے میری طرف دیکھا اور میرے چہرے سے میری گھبراہٹ کا اندازہ کر کے فرمایا.شاید تم معادی کچھ مد کر سکو.میں نے گذارش کی اگر آپ اجازت دیں تو میں کوشش کروں.فرمایا مزور ضرور اور مجھے اشارہ کیاکہ تم بحث کرد.میں نے عرض کیا جناب عالی پیشتر اس کے کہ میں شجرہ نسب اور نہ بانی شہادت میں تطابق کی کوشش کردی چند تمہیدی الفاظ گذارش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں.جو شکل آپ محسوس کر رہے ہیں اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس مقدمے میں گواہان کے بیانات پنجابی زبان میں ہوئے اور اردو زبان میں لکھے گئے ان کا انگریزی میں ترجمہ ہوا جو لندن میں آپکو سنایا جارہاہے اور آپ اسے ترجمہ نہ سمجھتے ہو اصل سمجھ کر اسکی تعبیر اس طور پر کرتے ہیں گویادہ الفاظ ایک انگریزی نے لندن میں بیان دیتے ہوئے کہے ہیں.ان الفاظ کو جب آپ شجرہ نسب کے اندراجات پر چسپاں کرتے ہیں تو ان میں تطابق نہ پا کر پریشان ہوتے ہیں.اور اس نتیجے کی طرف مائل ہوتے ہیں کہ یا شجرہ نسب فرضی ہے یا شہادت جھوٹی ہے.مثلا گواہ کا بیان ہے کہ شخص الف شخص ب کا بھائی تھا آپ شجرہ نسب میں الف اور رب کو تلاش کرتے ہیں.الف کا نام شجرہ نسب کے دائیں کنارے پر درج ہے اور ب کا نام اس سے کہیں ہٹ کر بائیں جانب درج ہے.الف کا باپ آج درج ہے.اور ب کا باپ د لکھا ہوا ہے.آپ سوچتے ہیں یہ دونوں بھائی کیسے ہوئے ان کے تو باپ مختلف ہیں بلکہ ان کے تو باپ بھی آپس میں بھائی نہیں یہ تو دور کے COUSINS ہیں اور ایسا تفاوت صرف ایک جگہ نہیں کہ اسے اتفاقیہ غلطی سمجھ لیا جائے یہ تفاوت بار بار سامنے آتا ہے.میری گذارش ہے کہ یہ تفاوت محض ظاہری ہے اور انگریزی اور پنجابی زبانوں کا تفاوت ہے شہادت اور شجرہ نسب کا تفاوت نہیں.اگر ایسا ہوتا.تو اول تو عدالت ابتدائی ہی جس کے رو برد اشتہار دیگئی تھی شجرہ نسب کو اس وجہ سے رد کر دیتی.درنہ ہائی کورٹ اپنے فیصلے کی تائید میں اس کا ذکر کرتی مگر الیسا نہیں ہوا.تو پھر اس معتمے کا حل کیا ہے ؟ انگریزی زبان میں بھائی سے مراد ہوتی ہے ایک ماں باپ کے بیٹے.پنجابی زبان میں ایک ماں باپ کے بیٹوں کو بھی بھائی کہتے ہیں دو بھائیوں کے بیٹوں کو بھی بھائی کہتے ہیں.دو چا زاد بھائیوں کو بھی بھائی کہتے ہیں.اور سب ایسے بھائیوں کے بیٹے بھی ایک دوسرے کے بھائی کہلاتے ہیں.پنجابی میں COUSIN کا مترادت کوئی ایک لفظ ہے ہی نہیں.اگر وضاحت کی ضرورت پڑ ہی جائے تو چاند او بھائی ، خالہ زاد بھائی ، پھوپھی زاد بھائی ، ماموں زاد بھائی کہ لیا جائے گا.لیکن کہلائے گا وہ بھائی ہیں.یہ تو ہر زبان کا اپنا اپنا اسلوب ہے.مثلاً انگریزی میں S ROTHER - IN - LAW کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے.بیوی کا بھائی.
۲۷۵ بہن کا خاوند بیوی کی بہن کا خاوند ، پنجابی زبان میں ان سب رشتوں کے لئے الگ الگ لفظ ہیں یہی حال UNCLE اور AUNT کا ہے ، باپ کا بھائی ، ماں کا بھائی، پھوپھی کا خاوند، نالہ کا خاوند انگریزی نی بان میں سب UNCLE ہیں.پنجابی اور اردو زبان میں علی الترتیب.چچا ، ماموں ، پھوپھا اور خالو ہیں.اسی طرح AUNT پھو بھی خالہ ماچی اور ممانی ہیں.بھائی کے لفظ کے اطلاق کے متعلق اصول یہ ہے کہ جو شخص مورث مشترک کی نرینہ اولاد کے سلسلے میں اسی پشت میں ہے جھیں میں ہوں وہ میرا بھائی ہے.جو مجھ سے ایک نشبت وہ ہو مجھ وہ اوپر ہے وہ چاہے کیونکہ میرے والد کا بھائی ہے.تو مجھ سے ایک پشت نیچے ہے وہ میرا بھتیجہ ہے کیونکہ میرے بیٹوں م کا بھائی ہے.اب آپ مجھے اجازت دیں تو میں شہادت آپ کو پڑھ کر سناتا ہوں.آپ شجرہ نسب سامنے رکھ کہ دیکھتے جائیں کہ شہادت اور شجرہ نسب میں نظامی ہے یا نہیں.جیسے جیسے میں شہادت پڑھتا گیا ہر فقرے کا شجرہ نسب کے ساتھ مطابق پا کر مجھ صاحبانی بہت محظوظ ہوتے گئے.سر جارج لاؤنڈ نہ اور سر لانسپلانٹ سانڈرسن نے تو میری تائید بھائی کے مفہوم کے متعلق بھی کردی تھی اب لارڈ لیز برگ نے بھی کہنا شروع کیا.OH, HOW FASCINATING! HOW INTERESTING ! ON PREY GO ON جس سے مجھے بہت حوصلہ ہوا.بحث جاری رکھتے ہوئے میں نے عرض کیا کہ فاضل ججان ہائی کورٹ نے شجرہ نسب کو اسی بنا پہ سر کیا ہے کہ اس میں چند اندراجات کی تحریمہ اس تحریرہ سے مختلف ہے جو شاہ نواز الدین کی تخمیہ بیان کی جاتی ہے.نیز اس میں ایسے لوگوں کی پیدائش اور وفات کے اندرا حجات ہیں جو شاہ نواز الدین کی وفات کے بعد پیدا ہوئے یا فوت ہوئے.یہ دونوں باتیں درست ہیں.لیکن جان ہائی کورٹ نے ان سے غلط نتیجہ اخذ کیا ہے.جو اندراجات شاہ نواز الدین کی قلم کے نہیں ہیں وہ رہی ہیں جن کے درج کرنے کا موقعہ شاہ نواز الدین کی دونا کے بعد پیدا ہوا.اس بات سے تو شجرہ نسب کے صحیح ہونے کی تصدیق ہوتی ہے.اگر یہ اندراجات بھی اسی قلم سے ہوتے جس قلم سے باقی اندراجات ہیں تو یہ یقینی ثبوت اسبات کا ہوتا کہ شجرہ نسب شاہ نواز الدین کا تیار کردہ نہیں.جو لوگ شاہ نواز الدین کی وفات کے بعد پیدا ہوئے ان کی پیدائش کے اندراجات شاہ نواز الدین کے قلم سے نہیں ہو سکتے تھے وہ کسی اور کے قلم سے ہیں.معلوم ہوتا ہے شاہ نواز الدین کی وفات کے بعد خاندان کے کسی دیگر قرد یا افراد نے وقتاً فوقتاً پیدائشوں اور اموات کے اندراجات شجرہ نسب میں درج کئے ہیں.تاکہ شجرہ نسب کی تکمیل ہوتی رہے.لارڈ میکملن.یہاں بھی ایسا ہی ہوتا ہے.خاندانی بائیل میں وقتا فوقتا ایسے اندراجات کر دیے جاتے ہیں.تا کہ خاندانی شجرہ نسب مکمل رہے.ظفر اللہ خان - جناب عالی به بانی شهادت بیشک بہت حد تک سماعی ہے لیکن ایک دو پشتوں کے عبور سیاگی
شہادت ہیں میسر آسکتی ہے.یہ شہادت پشت در پشت زبانی روایت کے ذریعے ہی قائم ہوسکتی ہے.زبانی شہاد شجرہ نسب کی تصدیق کرتی ہے.اور شجرہ نسب زبانی شہادت کی تصدیق کرتا ہے.میرائی کی شہادت بھی متعلق اور قابل پذیرائی ہے.میرانی اگر چہ خاندان کا فرد نہیں لیکن خاندان کا شجرہ یاد رکھنا اس کا فرض منصبی ہے.میراثی نام ہی خاندان کے سلسلہ وراثت کو محفوظ رکھنے والے کا ہوتا ہے.ان لوگوں کا سلاً بعد نسلاً یہی کام ہوتا ہے اور دہ خاندان میں ہر شادی کے موقعہ پر یہ شجرہ نسب بلند آواز سے بیان کرتے ہیں.اس بیان کو کلان کرنا کہا جاتا ہے.لالہ ڈبلیز برگ.کیا ان کے پاس شجرہ نسب لکھا ہوا ہوتا ہے ؟ ظفر اللہ خاں نہیں جناب عالی یہ لوگ تو عمو با لکھ پڑھ نہیں سکتے لیکن یہ ان کا پیشہ ہے.ان کا حافظہ بہت تیز ہوتا ہے اور یہ بچپن میں پرانے موکل خاندان کا شجرہ نسب حفظ کرنا شروع کر دیتے ہیں.لارڈ بلیز برگ کے دلچسپی کے اظہار پر مں نے تھان کرنے کا طریق بیان کیا اور اپنے خاندان سے اس کی مثال دی لارڈ بلیز برگ نے اپنے رفقاء سے مشورہ کرنے کے بعد فرمایا بشجرہ نسب کے متعلق سمارا اطمینان ہے کہ مدعیان متوفی کے یک بعدیان ہیں اور سیر وکیل صاحب کو ارشاد فرمایا کہ قانونی مسئلے کے متعلق بحث کریں.انہوں نے گذارش کی کہ ہائی ورٹ نے قانونی مسئلے پرکسی رائے کا اظہار نہیں کیا بہتر ہو اگر اس مسلے کے فیصلے کے لئے مقدمہ ہائی کورٹ میں واپس بھیج دیا جائے.ارڈ بلیز برگ.اس مقدمے کو دائر ہوئے دس سال کا عرصہ ہو چکا ہے اور قانونی مثل کالے کرنا سما رہے لئے ویسے ہی آسان ہے جیسے ہائی کورٹ کے لئے.اگر آپ پسند کریں تو اپنے جونیر کو قانونی مسئلے پر محبت کرنے کی بھی اجازت دیدیں.قانونی مسئلے پربحث کیلئے سنٹر وکیل تیار تھے نہ میں تیار تھا.ہمارا اندازہ تھا کہ اگر شجرہ نسب پر بورڈ کا اطمینان ہو گیا تو مقدمہ ہائی کورٹ میں واپس ہو گا.اور در اصل میں نے تو کوئی تیاری کی نہیں تھی.میں تو محض پر بیوی کونسل کا اجلاس دیکھنے گیا تھا.جب لارڈ بلیز برگ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ قانونی مسئلے پر بھی میں بحث کروں تو سیر وکیل ضاحت نے فورا کر ضامندی دیدی اور میرے لئے کوئی چارہ نہ رہا.میں نے عرض کیا جناب عالی پنجاب لاند ایکٹ کی دفعہ ۵ کی رو سے صوبہ پنجاب میں درانت اور بعض دیگر معاملات کے متعلق تنازعات کا فیصلہ رواج کے مطابق ہونا چاہئے.اگر کوئی رواج ثابت نہ ہو اور فریقین مسلمان ہوں تو شریع محمدی کا اطلاق ہوگا.اور فریقین سہندو ہوں تو دھرم شاستر کا فریقین مقدمہ قریشی ہیں لیکن ان کی یہ ہائش دبیات میں ہے اور وہ عرصہ سے مالکان الا منی چیلے آتے ہیں اور ان کا گذارہ بھی کاشت اراضی پر ہے.تین بہشت سے دراشت بروئے کا غذات مال مطابق رواج تقسیم ہوتی چلی آئی ہے جس کا پختہ ثبوت یہ ہے کہ کسی پشت میں بیٹوں کی موجودگی میں بیٹیوں کو حصہ نہیں ملا اگر شروع محمدی کا اطلاق ہوتا توبیٹیاں
بھی وارث ہوتیں اور انہیں بھی حصہ ملتا.متوفی کے والد کی وفا پر متوفی اپنے باپ کی حملہ امداد کا وارث ہوا.مامامعلیم کو بیٹیاں ہوتے ہوئے کوئی حصہ نہیں ملا.کا غذات مال بر طانوی عملداری سے پہلے کے دستیاب نہیں ہو سکتے لیکن قیاس یہی ہے اور قرائن سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ اس عملداری سے پہلے بھی بیٹیوں کو وراثت میں کبھی حصہ نہیں ملا.تمام دیہ مں کوئی عورت مالک نہیں.جسقدر شہادت مسل پر موجود ہے سب رواج کی پابندی کی تائید میں ہے.رواج کے خلاف یا شریع محمدی کی کے اطلاق کی تائید میں کوئی ایک مثال بھی نہیں.اس سے بھی نتیجہ اخذ کی جانا چاہیے کہ فریقین رواج کے پابند ہیں.عدالت ابتدائی کے فیصلے میں دو نظائر درج ہیں جن میں قرار دیا گیا ہے کہ رواج کے مطابق یکجریوں کے مقابلہ پر خواہ کتنے عیدی ہو ہمشیرگان کا حق دورات فائق نہیں.سوائے اس کے کہ کسی خاندان یا قبیلے میں خاص رواج ان کے حق میں ثابت ہو.اس منفر میں نہ خاص رواج پیر الحصارہ کیا گیا ہے نہ اس کی تائید میں کوئی ثبوت پیش کیا گیا ہے.دس وجوہ گذارش ہے کہ اپیل منظور ہو کر عدالت ابتدائی کا فیصلہ محال ہونا چاہیئے.کوئی دو ہفتے بعد مٹر ڈولڈ نے مجھے تلیفون پر بتایا بریلوی کونسل کے دفتر سے فیصلہ جات کی تو اطلاع آئی ہے اس میں درج ہے کہ ہماری اپی منظور ہوئی لیکن یہ وضاحت نہیں کہ پہلے سوال پر ہائی کورٹ کا فیصلہ منسوخ ہو کر مقدمہ ہائی کورٹ کو واپس ہوا یا دونوں سوالوں کا فیصلہ ہمارے تھی میں ہو کر عدالت ابتدائی کا فیصلہ محال ہوا.میں کل پر پوری کونسل کے دفتر میںجاکہ معلوم کروں گا اور تمہیں اطلاع دوں گا.اسی شام مہاراجہ در کھنگہ کی طرف سے ہو صوبہ بہار کے بڑے زمیندار تھے اور گول میز کانفرنس کے رکن تھے اپنے کیوں جنم دن کی تقریب پر بڑے پیمانے پر سوائے ہوٹل میں ڈنہ دیا گیا جس میںگول میز کانفرنس کے اراکین کے علاوہ بہت سے اور مغرند مہمان بھی مدعو تھے.ان میں لارڈ بلیز بیر بھی تھے.میںنے سلام کیا تو انہوں نے میری طرف غور سے دیکھا اور پہچان کہ بڑے تپاک سے کہا.تم وہی نوجوان ہو جس نے کچھ دن پہلے پر لوری کونسل میں ہماری علمی کوعلم کی روشنی میں بدل دیا تھا.سے نہیں علم ہوا کہ ہم نے کا فیصلہ صادر کیا ہے ؟ میں نے جوکچھ مٹر ڈولڈ سے معلوم ہوا تھا گذارش کیا.فرمایا انہیں م نے کیں واپس نہیں کیا ہم نے اپیل منظور کر کے ہائی کورٹ کا فیصلہ منسوخ کیا ہے اور عدالت ابتدائی کا فیصلہ بحال کیاہے اور تمام عدالتوں کا خیر چه مدعیان کو دلایا ہے.ہم نے دو سب کچھ کیا ہے جوتم نے کہا کسی بات میں ہم نے تمہاری استند عار نہیں کی.پھر شفقت سے میرا بازو پکڑ لیا اور کہا آؤ میں تمہارا تعارف لارڈشا سے کراؤں جنہیں ہم پر لوری کونسل میں اپنا گرد مانتے ہیں ، ان کے سامنے بھی میرے متعلق تعریفی کلمات کہے اور فرمایا.اگر تم بدھ کی صبح کو مرے ساتھ ناشتہ کردو تو میرے لئے بڑی خوشی کا بانت ہو گا.بدھ کے دن پریوی کونسل کا اجلاس نہیں ہوتا اور ہم فراغت سے گفتگو کر سکیں گے.اس موقعہ پہ لارڈ میکملن سے بھی میری ملاقات ہوئی انہوں نے بھی کوئی تعریفی جملہ کہا.میں نے ایک رانہ جواب دیا تو انہوں نے اس رنگ میں کہ گویا میں نے ان کی رائے سے اختلاف کرنے میں بے جا عورت کی ہے فرمایا.
۲۷۸ NONSENSE! WE KNOW A GOOD THING WHEN WE SEE ONE ان عالی مرتبہ شرفاء کا خلق مستند بلند اوران کی فیاضی کا سمندر کسقدر وسیع تھا مجھ ایسے نو آموز کے متعلق اتنا ذرہ نوازی میرا دل اللہ تعالی کے شکر اور حمد سے ھر گیا در میری اپنی ہستی کا ہر وہ اسکی درگاہ عالی کی دہلیز پر یہ کہتے ہوئے سجدے میں گرگیا.میں کیا اور میری بساط کیا.کانفرنس میں برطانوی نوا ہوں ، وزرا اور سیاستدانوں ، شہرستانی انستان والمیان نه یاست اور سیاسی راہنماؤں کے درمیان ایک مہندی.مملکت عظمی کے اس نقار خانے میں ایک طوطی کی حیثیت بھی ند رکھنے والا.مبصروں اور آزمودہ کا ر ہنماؤںکے درمیان نو آموز ! تو نے محض اپنے لطف وکرم سے مجھے توفیق بخشی کر میں بھی کوئی کام کی بات کہ سکوں.پریوی کونسل میں میں ایک نوار و تونے مجھے محض اپنے فضل و رحم سے اس معمے کی چابی سمجھادی جو جوں کے ذہن کو پریشان کر ر ہا تھ اور ان کے دلوں کو میری طرف مائل کر دیا محلات لك روحی و جنانی.پہلی گول میز کانفرنس کا آخری اجلاس کا نفرنس کے آخری اجلاس میں وزیر اعظم میڈ انڈہ خود صدارت فرما رہے تھے.حاضری سو فینیسادی تھی.ہال کے وسطی حصہ میں بہت بڑے بڑے کمرے رکھے تھے ان کیمروں کے لئے خاص روشتنیکا انتظام تھا.جس کی وجہ سے مال میں حسیں ہو رہا تھا اور خاصی گرمی محسوس ہو رہی تھی صرف چند نمائندوں کیلئے چند جملے کہنے کا موقعہ تھا.مجھے کوئی خواہش نہیں تھی کہ میں اس اجتماع عظیم میں لب کشائی کروں اگر ایسی خواہش ہوتی بھی تو کوئی توقع نہیں ہوسکتی تھی کہ وزیر اعظم صاحب جن کی نگ میں ڈر کوئی شخصی حیثیت نہیں تھی اور جو یقینا گیرا نام بھی نہیں جانتے تھے مجھے بولنے کا موقعہ عنایت کریں.لیکن میرے دل میں ایک خلش تھی کا نفرنس کے دوران میں کمیٹیوں کے اجلاسوں میں طبعاً مسلم نمائندگان تحفظ حقوق کی خاطر اپنے مطالبات پر زور دیتے رہے تھے ان کا موقف یہ رہا کہ ہم آزادی اور مساوات کی طرف جلد جلد قدم اٹھانا چاہتے ہیں لیکن یہ آزادی حرف بیرونی اقتدار سے آزادی تک محدود نہیں رہنی چاہیے.بلکہ اندرون ملک بھی جائنہ آزادی حاصل ہونی چاہئیے.اور یہ عادات صرف بیرونی اور بین الاقوامی ہی نہیں ہونی چاہیے بلکہ ملک کے تمام طبقوں کے درمیان مسودات ہونی چاہئیے.اور یہ صورت حلات عملاً قائم کرنے اور مضبوط کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اقلیتوں کسیاسی، معاشرتی، تمدنی اور ثقافتی حقوق اور اقتدار کی آئینی حفاظت کا سامان کیا جائے لیکن ہمارے موقف کو بعض بر طانوی اور ہندوستانی عناصر کی طرف سے بگاڑ کر پیش کیا جاتا تھا اور یہ تاثر پریس کے ذریعے اور دیگر ذرائع سے پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی تھی که مسلمان آزادی کے رستے میں روک بن رہے ہیں.میں چاہتا تھا کہ اس آخری اجلاس میں ہمارے موقف کی وضات میں ایک دو فقرے کہ دیئے جائیں جو اس تاثر کو نہ مل کرنے میں محمد ہوں.میں انتظار میں رہا لیکن میری یہ خواہش پوری ہوتی نظر نہ آئی آر میں نے اپنا ہاتھ اٹھایا کرتایر وزیرا عظم کی قل انتخاب مجھ پر بھی پڑے.حسن اتفاق سے مٹر مینڈرسن (جن کی صدارت میں میں کام کر چکا تھا اور بود زیرا عظم کے ساتھ ہی بیٹھے ہوئے تھے کی نظر مجھ پر پڑی
۲۷۹ اور انہوں نے وزیر اعظم کے کان میں کچھ کہا جس پر وزیر اعظم نے مجھے بولنے کی اسحجائت عنایت فرمائی میں نے گذارش کی کہ مسلم نمائندگان جہاں وطن کی آئینی تر قی کے بہ رعت ظہور میں آنے کے شدت سے متمنی اور نواباں ہیں وہاں ان کی یہ بھیا آرزو ہے کہ ہندوستان کا جو آئینی قصر تیار ہو اس کی وصنع اور نقش و نگار کی رنگینیاں اور بو قلمونیاں ایک ہی ثقافتی رنگ لئے ہوئے نہ ہوں.بلکہ ہندوستان کی متعدد ثقافتوں کی جھلکیاں ان میں نمایاں ہوں اور ان کے حسن کو دوبالا سہ بالا کرنے میں محمد ہوں.ساتھ ہی ان کی یہ بھی تمنا ہے کہ اس قصر کے تعمیر کرنے میں اور ملک کے تمام تعمیری منصوبوں میں تعاون ، خدمت اور قربانی کے مناسب مواقع انہیں بھی میسر آتے رہیں.اور وہ اس فخر سے محروم نہ ہوں.یہ ایک ایسی معائنہ خواہش ہے کہ اس سے اختلاف کی کوئی وعید نہیں ہو سکتی.لارڈ بلیز برگ | مقررہ وقت پر میں لارڈ بلیز برگ کے مکان پر حاضر ہوا بہت تواضع اور شفقت سے پیش آئے ان کا خاندانی نام YOUNGER تھا.فرمایا ہم کچھ بھائی تھے میں سب سے چھوٹا ہوں.میرے بھائی سمیر زندہ ہیں جو مجھ سے کچھ سال بڑے ہیں سکاٹ لینڈ میں رہتے ہیں.لارڈ بلیز برگ کو اپنی والدہ سے بہت محبت تھی.انہیں عبد معلوم ہو گیا کہ مجھے اپنی والدہ بہت عزیزہ ہیں.اور یہ قدر مشترک ہمارے درمیان ہمدردی اور دوستی کے گہرے پیوند کا موجب ہوگئی.انہوں نے عمر بھر شادی نہیں کی تھی.اس کی وسعہ مجھے چند سال بعد اسنی کی زبانی معلوم ہوئی.انہیں جوانی کے آغانہ میں ایک شریف زادی سے محبت ہوگئی.تمام حالات موافق تھے لیکن ان دنوں انہیں ایک عارضہ لاحق ہو گیا ان کی جلد یہ مچھلی کے چاندوں کی طرح چاندے بن جاتے تھے اور کچھ عرصہ بعد گر جاتے تھے.انہوں نے ڈاکٹر نامین واکر سے ہو یونیورسٹی میں ان کے ہم جماعت رہے تھے مشورہ کیا کہ ایسی حالت ہیں انہیں شادی کرنی چاہیے یا نہیں.نارمن نے کہا را بہٹ مجھے کچھ وقت دو میں اس عار منے کے متعلق کچھ کتب بینی کروں اور دو ایک رفقاء کے ساتھ تبادلہ خیال کرلوں.چند دن کے بعد اس نے کہا.میری پختہ رائے ہے کہ یہ عارضہ لاعلا ہے اور تمہیں شادی نہیں کرنی چاہیے اسلئے انہوں نے شادی کا خیال ترک کر دیا.میں نے دریافت کیا آپکو بعد میں کبھی اس فیصلے یہ تاسف ہوا.فرمایا ظفر اللہ کی بار تاسف ہوا اور بہت تاسف ہوا.لیکن پھر میری طبیعت شادی کرنے پر کبھی مل نہیں ہوئی.وہ مفروضہ طور پر لاعلاج عارضہ قابل علاج بھی ہو گیا اور ان کی اس سے رہائی بھی ہو گئی لیکن وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا.مجھے سولہ سال ان سے گہرے دوستانہ مراسم کی سعادت حاصل یہ ہی اور بہت سا وقت ان کی صحبت میں گزارنے کاموقعہ ملتا رہا میں نے انہیں کبھی افسردہ نہ پایا و سنجیدہ طبع تھے لیکن بشاشت ان کا خاصہ تھی.وہ پہلے برسٹر ہوئے پھر ۹۰۰ پھر چانسی کے بیج ہوئے پھر لارد جسٹس نیگیر ہوئے آخر کار ڈر آف اپیل ہونے پہ لارڈ بلیز برگ نام اختیار کیا.اس ناشتے کی محبت میں ہی فرمایا
YA میں چاہتا ہوں تم میرے ماں ڈنر پر آؤ اور میں چند احباب کو تمہاری ملاقات کے لئے بلاؤں.میں نے عرض کیا کہ یہ میرے لئے فخر کا موجب ہو گا کچھ دن بعد میں بموجب ارشاد شام کے کھانے پر حاضر ہوا.راجہ نریندر ناتھ صاحب سردانہ انیل سنگھ صاحب اور سردار نی صاحبہ بھی مہمان تھے.یورپین مہمانوں میں ڈسپس آن رچمنڈ اینڈ گارڈن اور لارڈ چیمسفورڈ سابق وائسرائے ہند بھی تھے.کھانے سے فارغ جو کہ تب مہمان گول کمرے میں جانے لگے تو لارڈ بلیز برگ نے میرا ہاتھ پنے ہاتھ میں لیکر اپنے بازو کے نیچے سے گزار لیا سردار مبل سنگھ قریب ہی تھے انہوں نے کچھ تجیب کی نگاہ سے دیکھا.لارڈ بلیز برگ نے اپنے دوسر ہا تھ سے میرا ہاتھ تھپک کر فرمایا.سردار صاحت کے سکرا کر فرمایامیں انہیں جانتا ہوں ، ہم دونوں پنجاب کونسل کے رکن ہیں.لارڈ بلنتر برگ نے بیساختہ کہا.f A GREAT GREAT ADVOCATE - I MEAN - ON WHATAN HONOUR پھر یہ سمجھ کر کہ سردار صاحب کو شاید یہ بات ناگوار ہو فوراً کہا.FOR BOTH OF YOU BOTH of you کس قدر کریمانہ الطاف تھا.اور کتنا دوسروں کے احساس کا پاس تھا فنڈ لیٹر سٹورٹ | کانفرنس کے اجلاس کے دوسرے یا تیسرے ہفتے میں انڈیا آفس کی طرف سے مندرہ بلین کے اعزاز میں بڑے پیمانے پر ایک استقبالیہ دیا گیا.میں یہاں در میان انجمن تناسم کی کیفیت میں تھا.ایک صاحب میرے پاس اگر کھڑے ہو گئے اور فرمایا میں تم سے لاہور میں مل چکا ہوں میرا نام نہ ایڈیٹر سٹور ہے.میں سائن کشت کا سیکہ بڑی تھا.میں نے کہا مجھے آپ سے دوبارہ مل کر مسرت ہوئی.اب آپ کی تعیناتی کسی کام پر ہے اورنہوں نے مسکرا کر اور کچھ حجاب کے ساتھ کہا اب مجھے انڈیا آفس کا رئیں بنادیا گیا ہے.ایک دو رسمی باتوں کے بعد ہم جدا ہو گئے دو ایک بار بعدمیں بھی رسمی مزاج پر سی ہوئی.صالح اکبر حیدری انڈین سول سروس ( فرزند اکبرسه اکبر حیدری دار المهام رویا حیدر آباد) میدہ آباد کے سیکریڑی تھے.ایک دن انہوں نے مجھ سے کہا کہ فنڈ یٹر سٹورٹ کہتے ہیں میں نے دو تین باز ظفر اللہ خان کے ساتھ بات چیت کی کوشش کی ہے لیکن کامیاب نہیں ہو سکا.میں نے کہا دو ایک بار ان سے صاحب سات تو ہوئی ہے.وہ مستقل نائب وزیر بند ہیں اسلئے میں نے حجاب کی وجہ سے از خود ن کے ساتھ زیادہ گفتگو نہیں کی مجھے افسوس ہے انہیں روکھے پن کا احساس ہوا.یہ میری طبیعت کا نقص ہے جسکی اصلاح کرنے میں میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکا اور اسی وجہ سے دوستوں کو اکثر میرے متعلق شکایت کا موقع مقالہ متا ہے.حیدری صاحب نے کہا میں نے سرفنڈ لیٹر سے کہ دیا تھا کہ تمہاری طبیعیت میں بہت مجا ہے میں سے شروع میں ملنے والے کو سرد مہری یا روکھے پن کا گمان ہوتا ہے بسر منڈیر خود بہت قابل قدر شخصیت ہیں اور میرے والد چاہتے ہیںکہ ہمارے متعلق ان کی خلا میں واقع ہو جائے.اس کی انہوں نے یہ صورت تجویہ کی ے کہ تمہیں اور ہنڈیٹ کو اک شام کھانے پر بلائیں تم دونوں کے علاوہ صرف میری والدہ میری بیوی پسر فنڈ لیٹر کی بری صاحبزادی اور میں موجود ہوں گے تاکہ بلا تکلف بات چیت ہوسکے.چنانچہ بانڈ پارک ہوٹل میں جہاں سراکبر حیدری صاحب کا قیام تھا یہ اجتماع ہوا اور شام بہت لطف میں گزرنی پسرنڈ لیٹر سٹورٹ کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم ہو گئے
٢٨١ ور پھر یہ تعلقات مرور زمانہ کے ساتھ حکم سے محکم تر ہوتے چلے گئے میں توان کی خدمت میں سوائے اخلاص کے کچھ بھی پیش نہ کر سکا لیکن ان کیطرف سے پیہم نوازشوں سلسلہ جاری ہوگی اور انکی زندگی بحران میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی.ان کے مجھ پر بہت احسان ہیں اللہ تعالیٰ انہیں جبہ ائے بغیر دے.انگلستان سے واپسی | عزیز اسد اللہ خاں اور میں لندن سے پریس گئے دو دن وہاں ٹھہرے.پریس سے سردار سمپورن سنگھ صاحب ہمارے ساتھ شامل ہو گئے.ایک دن نوزان ٹھہرے بیاں سردانہ آنا شا سنگھ صاحب بھی ہمارے قافلے میں شامل ہو گئے.ایک رات میلان ٹھہرے.میں سے اطالوی بہانہ پر وار جو کہ بیٹی پہنچ گئے دہلی سازش کیس | میاں سر فضل حسین صاحب نے ایک روز فرمایا کچھ ملزمان پر دلی میں ایک سازش کا مقدمہ چلنے والا ہے جس کی سماعت کے لئے ایک سپیشل ٹریبیونل قائم کیا جائے گا سر جیمز کم پیر رکن داخلہ ) نے مجھ سے کسی قابل قانون دان کا نام پوچھا تھا توحکومت کی طرف سے اس کیس کی پیروی کرسکے.میں نے اسے تمہارا نام بتایا ہے.اگر حکومت کی طرف سے تمہیں یہ پیشکش کی جائے توتم اس پر غور کر لیا.کچھ دنوں کے بعد پنجاب کونسل کے اجلاس کے دوران میں سرڈونلڈ ٹائیڈ نے تو گورنہ کی مجلس عاملہ کے رکن تھے مجھ سے دریافت کیا کہ دتی میں ایک سازش کے مقدمے کی سماعت کیلئے ایک ٹرمینٹل قائم ہونیوالا ہے.کیاتم بطور رکن ٹرمپیوتل کام کرنا منظور کر لو گے ؟.میں نے جواب نفی میں دیا.دو روز بعد پھیلے اور فرمایا مجھے رکتی حکومت کے پیغام کے متعلق غلط فہمی ہوئی تھی.وہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ کیا تم بطور کراون کونسل کام کرنے پر رضامند ہو اور رضامندی کی صورت میں تمہاری فیس کیا ہوگی ؟ میں نے رضامندی کا اظہارہ کیا اور نہیں تبادی.چند دن بعد انھوں نے بتایا مرکزی حکومت نے تقریر منظور کر لیا ہے.ان کا اندازہ ہے کہ تمہیں کیس کی تیاری کے لئے ایک مہینہ درکار ہوگا.توقع ہے کہ ٹریبیونل مٹی کے شروع میں کام کی ابتداء کر سکے گا اسنے اگر تم اپریل کے شروع میں دلی پہنچ جاؤ تو تمہیں تیاری کے لئے کافی وقت مل جائے گا.پریل اسلام کے شروع میں میں مقدم رساندن کی تیاری کیلئے دلی چلا گیا.پرانی دلی میں سوس ہوٹل میں قیام کیا اس ہوٹل کے کمرے کشادہ اور آرام دہ تھے.گرمیوں میں گرمی سے آپ کش رہتی تھی جب میں مقدمہ کے واقعات پر مصور حاصل کر چکا تو میں نے سرجمیں کرنی کو مشورہ دیا کہ اس مقدمے کیلئے ٹربیونل قائم کر نامناسب نہیں ملزمان میں کثرت ایسے نوجوانوں کی ہے جن سے کوئی نہ کوئی جرم سرزد ہوا معلوم ہوتا ہے.لیکن صرف دو تین ہی ایسے ملزم ہیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ سازش میں شریک تھے اور ان کے خلاف کسی وقوعہ میں شامل ہونے کی کوئی شہادت نہیں.ن میں سے ایک کے متعلق خود استاد تسلیم کرتا ہے کہ ایک مرحلے پاس نے سازش میں شرکت ترک کر دی تھیں.ان دو تین ملزمان پر فرد جرم عاید کئے جانے کیلئے استغاثہ نہ ور نہیں دے سکے گا.اور اگر زور دے بھی تو ٹر میمونل غالبا فرد حریم عاید نہیں کرے گا.میری رائے تھی کہ سازش کا الزام ترک کر کے تو جرم ہر ایک سے صادر ہونا بیان
PAY کیا جاتا ہے اس الزام کے تحت ان پر عام عدالتوں میں کاروائی کی بجائے ٹریبیونل قائم کرنے سے ملک کی توسعه ان نوجواں کی طرف منعطف ہوگی اور انہیں قومی ہیرو بنالیا جائے گا.کاروائی طول کھینچے گی حکومت کو بھاری اخراجات.برداشت کرنے ہوں گے اور نتیجہ معلوم سر جی نے میری گذارش تو توجہ سے سن لیکن میرے مشورے پر عمل نہ کیا.گایا لیکن سازش کیس ٹریبیونل کے اراکین | سازش کیس کی سماعت کیلئے جوڑ یو بل مقرر کیا گیا اس کے صدر سر ونائیٹ صوبہ متحدہ کے ایک سیشن جج تھے.اور درست در داراکین خان بہادر شیخ امیر علی صاحب ریٹائرڈ سیشن ج پنجاب اور رائے بہادر لال کنور سین صاحب ریٹائرڈ چیف جسٹس جموں وکشمیر تھے.جب یں لا کالج لاہورمیں لیکچر ہوا تو ان دنوں لال کنور سین صاحب لاء کالج کے پرنسپل تھے.ان کے والد محترم لال کھیم سین صاحب سیالکوٹ میں وکالت کرتے تھے.شیخ امیر علی صاحب ٹربیونل میں شریک ہونے سے برسوں پہلے پنشن یاب ہو چکے تھے.وہ ٹرم میونل کی کاروائی کی طرف تمام وقت پوری توجہ بھی قائم نہیں رکھ سکتے تھے.رائے بہادر کو سین صاحب کی تو رائے ہوتی اس پر اتفاق فرماتے.نتیجہ یہ تھاکہ عمل پر معاملہ رائے بہادر کورسین صاحب کی رائے کے مطابق طے پاتا اور ان کی رائے بود درخواست بھی ملزمان کی طرف سے دیجاتی اس کی تائید میں ہوتی.ٹریبونل میں نہیں کی کاروائی ملزمان پر الزام یہ تھا کہ وہ ایک ایسی سانہ ش میں شریک ہوئے جس کا مقصد ہندوستان میں برطانوی حکومت کو نیدور ختم کرتا تھا اور اس سازش کے مقصد کے حصول کیلئے انہوں نے ایک کثیر مقدار کرناتھا بارود کی تیار کی اور بہت سے اور جرائم مثلا ڈکیتی وغیرہ کے مرتکب ہوئے.سب ملزمان تعلیمیافتہ نوجوان تھے.دو تین انی میں سے گریجویٹ تھے.مسٹر و تسیانہ صنعتی کیمیا میں ڈگری حاصل کر چکے تھے اور طلائی تمغہ لے چکے تھے.ان کا خفیہ نام اپنے رفقاء میں سائنٹسٹ تھا.ظاہر ہے کہ ملزمان کوعوام کی ہمدردی حاصل تھی.پریس اور پبلک کو مقدمہ کی کاروئی سے بہت دلچسپی تھی.ملزمان کو اس مقدمہ کی پیروی کیلئے حکومت کی طرف سے اخراجات مہیا کئے جاتے تھے.جو اندازاً دس ہزار روپے ماہوار تھے.ابتداء میں ملزمان کی طرف سے سنیر وکیل سٹر آصف علی صاحب تھے ان کے ساتھ دو تین جونیئر وکیل تھے.جب کاروائی نے طول کھینچ تو مٹر آصف علی صاحب کی جگہ ڈاکٹر سیف الدین کچلو اس نے لی.ٹر پیوٹنل کے اجلاس حکومت ن کے سیکریٹریٹ کی جو عمارت کے کسی حصے میں نئی دہلی میں شروع ہوئے.ان دونوں حکومت ہند کے دفاتر شما منتقل ہو سکے تھے.جب دفاتہ کے دلی واپس آنے کا وقت قریب آیا تو ٹربیونل کے اجلاس پھرانے وائٹر شکیل راج واقعہ پرانی دہلی میں منعقد ہونے لگے.ٹریبیونل کے اجلاس شروع ہونے تک میری تحریک پر چو دھری محمد امین صاحب کو جو اس وقت شیخو پوره میں سرکاری وکیل تھے میرا شریک کا مقرر کر دیا گیا تھا.چونک کر میونل کے اجلاس نئی دہلی میں ہوتے رہے میری رہائش ایک قریب کے سرکاری بنگلہ میں رہی.جب ٹریول کی عدالت پرانے رائٹر لیگل لاج میں منتقل ہوئی تو مجھے قریب ہی ایک جنگلہ جو کسی وقت میں وائسر دیگل ڈسپنسری ہوا کرتا تھا ر ہائش کے لئے مل گیا.
VAN میاں نسیم حسین من ہم حسین صاحب | اس زمانے میں گرمیوں کے موسم میں نئی دہلی سنسان ہو جایا کرتی تھی.ہمارا سنگہ مختصر مگر آرام دہ تھاجس کی مٹیوں اور بجلی کے پنکھوں کی مدد سے گرمی سے آسائش رہتی تھی.میاں سرفضل حسین صاحب کے بڑے صاحبزادے میاں نیم حسین صاحب نئے نئے گوڈ گاؤں میں مجسٹریٹ مقررہ ہوئے تھے.وہ ہمالہ نکلے سے سول میل کے فاصلے پر رہتے تھے.میں ہفتے میں دوتین بارہ وہاں جاکر انہیں ساتھ سے آتا وہ شام کا کھانا میرے ساتھ کی کہ واپس جاتے.میں ساتھ جاکر انہیں چھوڑ آتا.اتوار کا دن وہ اکثر ہمارے ساتھ گزارتے تھے انہی دنوں وہ سلسلہ احمدیہ میں بیعت ہوئے تھے.میاں نسیم حین صاحب کی شادی پشاور کے ایک نہایت معزنہ اور علم دوست نماندان میں ہوئی.محترمہ بیگم نسیم حسین فضل اللہ حسن اخلاق اور علم دین کے بیش قیمت ندیور سے آراستہ تھیں.شادی کے چند سال بعد میاں نسیم حسین صاحب کا تقر بطور پرائیویٹ سیکریٹری ملک سر فیروز خان نون صاحب ہوا ہو اس وقت لندن میں ہندوستان کے نائی کمتر تھے.میاں صاحب نے اپر چمن روڈ پر آرمونڈ کورٹ میں سانش اختیار کی.دیالی سے ہائی کمشنر صاحب کا رہائشی مکان جو پٹی پل پر تھا اور نہ تھا اور لنڈن کی احمدیہ مجد بھی قریب بھی تھی.محترمہ بیگم نسیم حسین نے خواہش ظاہر کی کہ وہ سلسلہ احمدیہ کے عقائد اور تعلیم کا تفصیلی مطالعہ کرنا چاہتی ہیں.نسیم حسین نے مولانا جلال الدین شمس صاحب سے جو ان دنوں مسجد درشن کے انچا رہے تھے درخواست کی کہ وہ مہفتے میں ایک دوبار ان کے مکان پر تشریف لاکر ان امور کی وضاحت فرما دیا کہ ہیں جن کے متعلق ان کی بگم صاحبہ معلومات حاصل کرنا چاہتی ہیں.مولانا صاحب نے بخوشی یہ خدمت اپنے ذمے لی اور باقاعد میاں صاحب کے ہاں حاضر ہوتے رہے.جب محترمہ بیگم صاحبہ کو مسلہ احمدیہ کی صداقت کے متعلق پورا اطمینان ہوگیا تو انہوں نے بعد مشوق سلسلہ احمدیہ میں بیعت ہونے کا فیصلہ کیا اور اللہ تعالیٰ کے کمال فضل اور ذرہ نواندی سے ان کی زندگی کا ہر پلو اسلام کی تعلیم کی عملی تصویر بن گیا.جو عہد بعیت انہوں نے کیا اسے پورا اخلاص کے ساتھہ کما حقہ پورا کیا.اور الہ تعالیٰ کی عطا کردہ توفیق سے پورا کرتی چلی جارہی ہیں.اس راستے میں تو شکل بھی انہیں پیش آئی وہ ان کے اخلاص میں اینزادی اور استقامت میں مضبوطی کا باعث ہوئی.میاں نسیم حسین صاحب پاکستان کے قیام پر وزارت خارجہ میں شامل کئے گئے.تہران ، بغداد ، بیروت میں بطور سیکریٹری ، کونسلر ، سفیر متعیین رہے.ملازمت کا عرصہ نہایت نیک نامی سے گذارا بھی کو بھی آپ سے ملنے کا اتفاق ہوا وہ آپ کے حسن اخلاق کا مدح سرا ہوا.بیروت کی تعیناتی پردہ خاص طور پر خوش اور مطمئن تھے.لبنان اور ارون دو نوں آپ کے حلقہ سفانہ میں تھے.جب بھی عمان جانے کا موقعہ ہو تا قدس پہنچ کر مسجد اقصٰی میں نماند یں اور نوافل ادا کر تھے اور ہم شکل کامل اپنے مولا سے طلب کرتے.جب موقع ملتا چھٹی لیکن ج یا عمرہ کے لئے مکہ شریف حاضر ہوتے مدینہ شریف حاضر جو کہ مسجد نبوی میں نمازہیں اور نوافل ادا کرتے.جب ممکن ہوتا محترمہ بیگم صاحبہ ان متبرک مقامات کے سفروں
میں ان کے ساتھ شریک ہوتیں.اللہ تعالی کا بھی ان کے ساتھ خاص سلوک تھا.میاں بیوی دونوں کو اللہ تعالیٰ کی ذات اور اسکی ستاری غفاری اور قدرت پر کامل بھروسہ اور اعتماد تھا.اور اللہ تعالیٰ کا سلوک بھی ان کے ساتھ اسی اعتماد اور بھروسے کے مطابق تھا.میں پاکستان جاتے ہوئے بیروت سے گذرا میاں نسیم حسین صاحب مطار پر تشریف فرما تھے.دوران گفتگو میں ایک پریشانی کا ذکر فرمایا اور ارشاد فرمایا خاص طور پر دعا کرنا.میں نے کہا میاں اب ریٹا کا ہی چارہ باقی ہے آپ بھی دعاء کرتے رہیں میں بھی انشاء اللہ کروں گا.پاکستان سے واپسی پر پھر ملاقات ہوئی.میں نے اس امر کے متعلق دریافت کیا نہتے ہوئے فرمایا بس وہ معاملہ تو خود بخود ہی صاف ہو گیا اور جیسے ہماری خواہش تھی ویسے ہی طے ہو گیا.اللہ تعالی نے بڑا فضل کیا.ان کی صحت کچھ عرصہ سے کمزور میلی اگر ہی تھی طبی مشورے کے لئے لندن تشریف لے گئے اتفاق سے میں بھی ان دنوں لندن میں تھا.اکثر ملاقات ہوتی رہتی.بیروت میں ان کی میعاد ختم ہو چکی تھی وہ رخصت پر تھے اور بطور ہائی کمتر مانا جانے کے احکام صادر ہو چکے تھے صحت کے متعلق ڈاکٹروں نے تو اطمینان دلایا لیکن بیروت جانے کے بعد دل پر پھر بیماری کا حمل ہوا لکھا کہ اس حالت میں غانا جانے کے خیال سے پریشانی ہوتی ہے.میں نے لکھا اللہ تعالیٰ آپ کو پریشان نہیں کرے گا.آپ کو مانا نہیں جانا ہو گا.وہ احکام منسوخ ہو گئے ہیں لیکن ساتھ ہی اللہ تعالی کے حضور سے حاضری کا حکم جاری تہرایا ابنتها النفس المطمنة الرجعي إلى ربك راضية مرضية فادخلي في عبادت را دخلی جنتی اور وہ اللہ تعالٰی کا مسکین لیکن نہایت فیر اور راضی به رضا خادم اور بنده لبيك اللهم لبيك لا شريك لك لبيك کہتا ہوا اپنے مولا کے حضور حاضر ہو گیا - يغفر الله له و يجعل الجنة العليا نوره مقدمہ سازش دہلی میں عدالتی کاروائی سازش کے مقدمے کی سماعت شروع ہوئی ابتداء سے ہی عزیان اور ان کے وکلاء کی روش سے ظاہر تھا کہ وہ کاروائی کو طول دینا اپنے لئے مفید سمجھتے ہیں ایک تو مبینہ سانرش کا جالی کافی وسیع تھا اسلئے گواہان استغاثہ کی فہرست بھی تھی.تین تو سلطانی گواہ تھے.دوستی اور تیرے گواہ کا بیان تو ایسا لمبا نہیں تھا لیکن پہلے گواہ کا بیان سترہ دن میں ختم ہوا اور اس پر جرح تو تو مہینوں میں جا کر ختم ہوئی.اس کے علاوہ جب بھی ملزمان مقدمہ کی کاروائی روک دنیا چاہتے تو ان میں سے کوئی ایک پیٹ درد یا سر در دیا کسی ایسے ہی عارضے کا بہانہ بنا کہ عدالت میں حاضر ہونے سے انکار کر دنیا اور کاروائی رک جاتی تب نتوانم یہ پال چلی جانے لگی تو حکومت نے آرڈینینس کے ذریعے اس کی روک تھام کر دی.ملزمان نے کاروائی کو طول دینے کیلئے اور چالیں سوچ لیں.کسی نہ کسی عذر لنگ کی نا پیر التوا کی درخواست پیش ہو جاتی اور ٹر میونل کی کثرت رائے سے منظور ہو جاتی.عملاً دو تہائی وقت کاردانی مقدم مل رہی نتیجہ یہ ہوا کہ ایک سنگین مقدمے کی عدالتی کاروائی ایک کھیل اور تماشہ بن کررہ گئی.عدالت کے اجلاس کا وقت ملزمان کے لئے تفریح کا وقت ہوتا.اجلاس شروع
۲۸۵ ہوتے ہیں ملزمان پہلے تو آزادی کا گیت گاتے پھر کی نہ کی سنجیدہ یا غیر سنجیدہ عذر کی سماعت ہوتی.بی محل طے پا تو گواہ سلطانی پر جرح جاری ہو جاتی.گواہ سلطانی نہایت ہوشیار تھا اور اس کا حافظہ بہت صاف تھا طویل اور تفصیلی تجرح بھی اس کے بیان کے کسی حصہ کو کر دریا مشکوکنہ کرسکی.نو مہینے کی جرح کے عرصے میں اس نے پریشانی کا اظہار کیا نہ ھلکان کا کسی وقت جھنجھلایا نہ ہوش میں آیا ایک ہی پنج پر پورسے سکون سے ہر سوال کا جواب دیتا چلا گیا.ملزمان چونکہ پڑھے لکھے نوجوان تھے اسلئے جب وہ عدالت کے کمرے میں موجود ہوتے اور عالمی کاروائی نہ ہورہی ہوتی تو کبھی کبھی وہ مجھے اپنے کٹہرے کے پاس بلا لیتے عموما تو انکی عرض کسی تکلیف کا اظہار ہوتی کہ اس کی اصلاح کرادی جائے.یاکسی سہولت کا مطالبہ ہوتا.کبھی کبھی وہ کسی عام دلچسپی کے معاملے پر اظہار رائے بھی کرتے.شروع کیا میں انہوں نے مجھے کہا کہ جیل میں ان کا وقت مشکل سے کھتا ہے.کوئی مشغلہ نہیں.میں جو میگنہ بن یا کتاب اپنے پڑھنے کیلئے خرید تا پڑھ کر انہیں دید تھا.جو جائز سہولت وہ طلب کرتے اس کا انتظام کروا دیا.حسین تکلیف سے انہیں پریشانی ہوتی وہ رفع کرا دی جاتی.میرے اس طریق سے چودھری محمد امین صاحب کو پریشانی ہوتی.فرماتے ملزمان کے ساتھ ایسانہی کا سلوک انہیں اک نے کا موجب ہوتا ہے.میں نے پوچھا کس بات پر اک نے کا ؟ کہنے لگے وہ کوئی بے جا حرات کہ بیٹھیں تو ؟ میں نے کہا اس کا تدارک ہو سکتا ہے ملزمان ہی تو ہیں نا ؟ ابھی مریم توان کے خلاف ثابت نہیں ہوا.مجرم ہوتے تو الگ بات تھی.دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت بھی پہلے گوا سلطانی پر جرح جاری تھی کہ مجھے دوسری گول میز کانفرنس میں شمولیت کی دعوت آگئی.اس اثناء میں گاندھی ارون سمجھوتے کے نتیجے میں کانگریس نے گول میز کانفرنس میں شامل ہونا منظور کر لیاتھا.اور گاندھی جی کو اپنا وارد دو نامزد کیا تھا.یہ مرے ہو جانے کے بعد کانگریس کی طرف سے یہ تجویز پیش کی گی کہ ڈاکٹر انصاری صاحب کو بطور ایک مسلمان نمائندے کے کانفرنسیں شمولیت کی دعوت دی جائے.یہ تجویز مسلمانوں اور کانگریس کے درمیان ایک بڑے زرایع کا باعث بن گئی مسلمانوں کا موقف تھاکہ کانگریس نے کانفرنس میں شامل ہو نا منظور کر لیا ہے.کانگریس چاہے تو دس بیس مندوبین کا ایک وقد کانفرنس میں شمولیت کیلئے بھیج ہے.گاندھی جی بیشک اس وند کے رئیس ہوں اور اگر کانگریس چاہے تو باقی تمام مندر بین کانگریس مسلمانوں سے انتخاب کرے جن میں بیشک ڈاکٹر انصاری بھی شامل ہوں چشم ما روشن دل ما شاد یا اگر انگریس کا ایصاریہ ہوکہ کانگریس کے دادا نے گاندھی جی ہوں گے تو گاندھی جی تو ہوئے تما کانگریس کے نمائندے کانگریسی سندوں کے بھی اور کانگریسی مسمانوں کے بھی جن میں ڈاکٹر انصاری صاحب شامل ہیں.اس صورت میں اگر ڈاکٹر انصاری صاحب بھی نامزد کئے جائیں تو وہ کس کے نمائیندے ہوں گے ؟ اندریں حالات اگر ڈاکٹر انصاری کو نامزد کیا گیاتو مسلمان مندوبین کا نفرنس میں شمولیت سے انکار کردیں گے.نتیجہ یہ ہوا کہ کانگریس کی یہ خون کامیت
۲۸۶ نہ ہوسکی براس تجویز کی مخالفت میں پیش پیش مولانا شفیع داؤدی صاحب تھے دوسری گول میز کانفرنس کے موقعہ پر لندن میں مرز سروجنی نائیڈ اگرچہ کانفرنس میں شریک نہیں گاندھی جی اور مسلم وفد کے مابین مذاکرات تھی لیکن لندن میں موجود تھیں اور سہندوستان کے آئینی مستقبل میں طبعا گہری دلچسپ رکھتی تھیں یہ جانتے ہوئے کہ اس گھی کا تلی بخش طریق پر سلمان بند مسلم مفاہمت پر موقوف ہے انہوں نے یہ کوشش شروع کی کہ گند می اورمسلمان کے درمیان سمجھنے کی کوئی صورت پیدا ہوجائے نانچہ یہ قرار پایا کہ گاندھی جیسلم وند کے ساتھ تبادلہ خیالات کے لئے ہزہائی نس سر آغا خان کے ہاں ریٹز ہوٹل میں شام کے کھانے کے بعد تشریف لائیں گے مسلم درد کے سب اراکین بروقت گاندھی جی کے نظارمیں پیشم براہ تھے.روز کھلا اور گاندھی میں تشریف لائے.تمام حاضرین تعظیم کھڑے ہو گئے.ہزہائی نو سر آغا خاں نے سب کی طرف سے عظیم المرتبت مہمان کو خوش آمدید کہا.اور آرام کرسی آپکے بیٹے کیلئے پیش کی گاندھی جی نے انکار میں سرہلایا کرئے اور فرمایا مجھے فرش پر بیٹھنا پسند ہے.آپکے دائیں ہاتھ میں ساگوان کا ایک خوبصورت کیس تھا جو آپ نے فرش پر اپنے سامنے رکھ لیا اور قالین پر تشریف فرما ہوگئے.حاضرین میں سے بعض اراکین معزز مہمان کے احترام میں قالین پر میٹھے گئے لیکن سرکے لئے فرش پر بیٹھنے کی گنجائش نہیں تھی اسلئے باقی لوگ کرسیوں اور صوفا پہ سمجھ گئے.گاندھی جی نے بڑے اطمینان سے اپنا بکس کھولا میں اس انتظارمیں تھا کہ دیکھیں اسمیں سے کیا بر آمد ہوتا ہے.کیس کھنے پر اس میں سے ایک چھوٹا س بہت خوبصورت چنبیل کا پر نہ نکلا جو نہ کیا ہوا تھا.گاندھی جی نے اسے احتیاط سے کھول کر فرش پر رکھا اور خاموشی سے پریچہ کا نا شروع کر دیا.جب دو ایک تاریخ نکال چکے تونگہ اوپر اٹھائی اورمسکراتے ہوئے اشارہ کیا کہ ہم گفتگو پہ آمادہ ہیں.اس اثناء میں حاضرین کی توجہ تمام تر چرنے پر مرکوز رہی.مجھے گو جلد سو جانے کی عادت ہے اور میں مہابھی کچھ فاصلے پر تھالیکن یہ موقع بہت اہم تھا بزرگوں کی موجودگی میں مجھے کچھ کہنا تو تھا نہیں لیکن میرے لئے بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ تھا اس لئے میں ہمہ تن گوش تھا دو گھنٹے سے زائد گفتگو جاری رہی مسٹر جناح کے پودہ نیاست زیر بحث تھے.گاندھی جی نے فرمایا ان میں سے بعض مطالبات و نہ صرف میں تسلیم کرتا ہوں بلکہ ان کی تائید میں ہوں مثلاً سندھ کی بیٹی سے علیحدگی اور دوسرے صوبوں کے ساتھ سرحدی صوبے کی آئینی یا ابری ایسے مطالبات ہیں جن سے کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا.بعض مطالبات ایسے میں جن پر مجھے اعتراض نہیں اگر آپ انہیں ضروری سمجھتے ہیں تو مجھے انہیں قبول کرنے میں کوئی قائل نہیں.جو مطالب شکل پیش کرتا ہے وہ مجالس قانون سانہ میں نمائندگی کا مسئلہ ہے.اس کے متعلق پہلی شکل یہ ہے کہ میں نے ہندوستان سے روانہ ہونے سے قبل ڈاکٹر النصاری صاحب سے وعدہ کر لیا تھا کہ میں ہیں مسئلے کے متعلق کوئی فیصلہ ان کی غیر حاضری میں نہیں کروں گا.اسلئے اس مسئلے پر گفتگو صرف ان کی موجودگی میں ہوسکتی ہے.اب بحث اس امر پر شروع ہوئی کہ بیشکل مل کیسے ہو.آخر گاندھی جی نے فرمایا کہ اس کال کوئی ایسا مشکل نہیں آپ صاحبان }
PAZ وزیہ ہند سے کہیں کہ دو ڈاکٹر انصاری صاحب کو لندن بلائیں.ان کے آنے پر اس مسئلے پر گفتگو ہوسکے گی دیر تک اس پر کی ہوئی میل ون کیلئے یہ تجویز بالکل ناقابل قبول تھی.گاندھی جی کی اس تجویہ سے صریحا یہ مرا بھی کریم لوگوں نے زور دیا تھا کہ ڈاکٹر البخاری صاحب کو کانگریس کے وفد سے الگ کا نفرنس میں شمولیت کیلئے دعوت نہ دیجائے.اب تم میں وہ یہ سنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرو کہ ہم سے سخت غلطی ہوئی.اب ہمیں معلوم ہوگیا ہے کہ ڈاکٹر انصاری کی لندن میں موجود گی نہایت ضروری ہے.اسلئے ہم آپ سے بادب استدعا کرتے ہیں کہ آپ ڈاکٹر صاحب کو بذریعہ تار کانفرنس میں مولیت کی دعوت دیں.جب اس ابتدائی مشکل کا کوئی محل سرقت نظریہ آیات میں نے کچھ کہنے کی اجازت چاہی.اور بادی گزارش کی کہ کیا یہ بہترنہ ہوگا اگر فی الحال اس مسئلے کو ایک طرف رہنے دیا جائے.اگر باقی سب مسائل پر مجھوتا ہو جائے تو گاندھی جی اور ہم سب ملکر ڈاکٹر انصاری صاحب کی خدمت میں بذریعہ تار در خواست کریں کہ وہ تشریف لاکر گفتگو می شامل ہوں.یہ طریق یقینا ڈاکٹر صاب کیلئے زیادہ موجب اعرانہ ہو گا بہ نسبت اس کے کہ ان کو ملوانے کے لئے ایسی حکومت کے وزیر خارجہ سے درخواست کی جائے جیسے گاندھی جی شیطانی حکومت شمار کرتے ہیں.میری گذارش پر گاندھی جی مسکرائے اور سر بلا کہ اس تجوید سے اتفاق کا اظہار کیا.گاندھی جی اور سلم وند کے در میان گفت وشنید کاسلسلہ دو تین نشستوں میں جاری در ماه فرقه داران نیابت کے مسئلے کے علاوہ کسی اور مسئلے پر کوئی نا قابل حل اختلاف نمودار نہ ہوا.نیابت کے مسئلے پر گاندھی جی کا دہی موقف رہا کہ میلہ نجر ڈاکٹر انصاری صاحب کی موجودگی کے حل نہیں ہوسکتا.انہوں نے اپنی رائے یہ ظاہر کی کہ جدا گانہ نیابت کے طریق کو ملک اور خود مسلمانوں کیلئے حد درجہ مصر اور نقصان دہ تلقین کرتے ہیں.البتہ اگرمسلمان پورته غور و فکر کے بعد اسی بات پر مصر ہوں کہ ان کے حقوق کے تحفظ کیلئے یہ طاقت ضروری ہے اور اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں تو وہ بادل ناخواستہ اپنی رائے کے خلاف اس طریق کے قبول کرنے پر رضامند ہو جائیں گے بشرطیکہ ڈاکٹر انصاری بھی اسے قبول کرنے پر تیار ہوں.سوال کیا گیا کہ اگر ڈاکٹر صاحب بجدا گانہ نیات کے طریق کو قبول رنے پر تیارنہ ہوں توکیا موت ہوگی.گاندھی جی نے فرمایا ایسی صورت میں میں انہیں رضامند کرنے کی کو شش کروں گا اور آپ صاحبان کی طرف سے وکالت کروں گا.اس مرحلے پر مزید وضاحت کیلئے میں نے کچھ سوال کرنے کی اجازت چاہی گاندھی جی نے اجازت دیدی.میں نے گذارش کی کہ جب آپ ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں پوری وکالت کر لیں اور ڈاکٹر احب بتا یا کہیں کہ جدا کان یان کاری یک کیلیے بھی اورمسلمانوں کیئے بھی سم قاتل کا حکم رکھتا ہے اس لئے وہ اس مسئلے میں آپ کے فرمان کی تعمیل سے قصر میں تو آپ کی پوزیشن کیا ہوگی ہے فرمایامی ڈاکٹر صاحب کا ساتھ دوں گا.میں نے دریافت کیا اگر ڈاکٹر صاحب آپکی وکالت کے نتیجے میں علا مانہ نیابت
کے طریق کو قبول کرنے پر رضامند ہو جائیں لیکن باقی کانگریسی سلم متفقہ طور پر اس کے خلاف اظہار رائے کریں تو آپ کسی کے ساتھ ہوں گے ؟ فرمایا ڈاکٹر ھات کے ساتھ.میں نے دریافت کیا اگر کانگر کیسی ہم سب متفقہ طور پر فرقه دارانہ معاہت کی خاطر جدا گانہ نیابت کے طریق کو قبول کرنے کے حق میں ہوں لیکن ڈاکٹر انصاری صاحب اس کے خلاف مصر موں تو آپ کا کیا موقف ہو گا ؟ فرمایا میں ڈاکٹر انصاری کے ساتھ ہوں گا.جب قائد اعظم مسٹر تاج کے باقی تیرہ لکت کے متعلق گاندھی جی نے اتفاق رائے کا اظہار کر دیا اور صرف جدا نہ نیابت کا مسئلہ ڈاکٹر انصاری صاحب کی ہاں یا نہ کا محتاج رہ گیا تومسلم وفد نے گاندھی جی سے درخواست کی کہ اس مفاہمت کی تکمیل کیلئے اب جو کچھ لم وند کو کرنا ہر اس سے مطلع فرمائیں.گاندھی جی نے فرمایا کہ دین دن تک اس سوال کا جواب بھجوا دیں گے.دو تین دن بعد گاندھی جی کی طرف سے ایک کاغذ کا پرندہ موصول ہوا جو نیل کھایا اور میں نہ کوئی کاری رات تھی نہ کو منوا ا ا ا ا استری کا یہ ایک مقامات کی صورت میں گاندھی بی یلم درد سے یہ توقع رکھیں گے کہ مسلم وقد کانفرنس میں ان کی طرف سے پیش کردہ تمام مطالبات کی تائید کرے.ان مطالبات کی کسی قدر وضاحت اس تحریر میں تھی.مثلا یہ کہ کامل آزادی کے مطالبے میں فوج اور مالیات پر کامل اختیار شامل ہوگا.بیان تک تومسلم رند کے لئے کوئی وقت نہیں تھی.ان کے حقوق کا تحفظ ہو جانے کی صورت میں وہ کامل آزادی کا مطالبہ کرنے میں گاندھی جی کے دوش بدوش تھے.لیکن گاندھی جی کی تحریر میں یہ مطالبہ بھی درج تھا کہ مفاہمت کی یم اما انا انا اقوام کے لے مراعات کی تائید نہیں کرے گا مکان کے خلاف موقف اختیار کرے گا.اس مطالبے پر مسلم وفد نے پورا غورکیا اور و فلاس نتیجے پر پہنچ کہ یہ مطالبہ اس شکل میں قابل قبول نہیں.گاندھی جی نے تحریمہ فرمایاتھا کہ اچھوت اقوام کے لئے خاص مراعات تجویز کرنے کا نتیجہیہ ہو گا کہ ہندو سوسائٹی میں تفرقہ پیدا ہو جائے گا جو اس کی کھیتی کو یہ باور کر دے گا.مسلم وند نے طے کیا کہ جب اچھوت اقوام کے مقابلے میں تعداد میں زیادہ اور تعلیم ، تجارت، صنعت ر سرفت میں ان کی نسبت کہیں آگے ہوتے ہوئے مسلمانوں کی طرف سے علم وند کو تحفظ حقوق پر اصرار ہے تو وہ کس منہ سے کہہ سکتے ہیں کہ اچھوت اقوام کسی تحفظ کی محتاج نہیں.البتہ علم دند یہ موقف اختیار کر سکتا ہے کہ بچھوت اقوام کے حقوق کے تحفظ کا سوال ہند و سوائی کا نجی مسئلہ ہے.اس مسئلے پر پند و نمایندگان کی جو مفاہمت اچھوت اقوام کے ساتھ قرار پائے ملم ونفاس کی تائید کردیگا.چنانچہ اس فیصلے کے مطابق گاندھی جی کی خدمت میں جواب بھیج دیا گیا.اچھوت اقوام کی نیت یہ موقف گاندھی جی کو منظور نہ ہوا اور گفتگو کاسہ اس مسلے پر پہنچ کر رک گیا.کانگریس کی شمولیت کی دوری سے دوسری گول میز کانفرنس کے متعلق جو توقعات پیدا ہوئی تھیں وہ تو پوری نہ ہوئیں.گاندھی جی کی موجودگی کا فرانش ی افتاد در رفتار میں کوئی انقلاب پیدا نہ کرسکی.گاندھی جی کی آمد پرلندن کے بعض حلقوں میں کانفرنس مں کچھ دچی پیدا ہوئی تھی.لیکن وہ بہت جلد ختم ہو گئی.
۲۸۹ هم می مثل سابق نمائندگان کے لئے استقبالیہ دعوت دیگئی.سناگیا کہ گاندھی جی نے دعوت تو قبول کر لی ہے لیکن اس تقریب میں شمولیت کی خاطر اپنے لباس میں کوئی تبدیلی یا اضافہ کرنے پر رضامند نہیں ہوئے.اور آخر کار تا ابدار برطانیہ کچھ تامل کے بعد انہیں ان کے روز مرہ کے لباس میں خوش آمدید کہنے پر رضا مند ہو گئے.واللہ اعلم بالصواب یہ ہم نے بھی دیکھا کہ گاندھی جی اپنے روزمرہ کے لباس میں ہی تھے.ہر میجسٹی نے مسکراتے ہوئے ان سے مصافحہ کیا اور دو تین منٹ آپس میں گفتگو رہی.شاہ جارج پنجم کی آوانہ کی گونج در تک پہنچتی تھی.ڈاکٹر امبید کار صاحب کے ساتھ مصافحہ کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا.ڈاکر امید کار مجھے تو آپ سے مصافحہ کر کے بڑی خوشی ہوئی ہے ان دوسرے لوگوں کو آپسے مصافحہ کرنے میں کیوں تا تل ہوتا ہے ؟ واقعہ یہ تاکہ گول میز کانفرنس میں من ہے مہارا ہے اور کو ڈاکٹر امید کار صاحب کے ساتھ مصافحہ کرنے میں نام ہوتا ہوں لیکن کسی اور مندوب کی طرف سے ڈاکٹر امبید کارتاب کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جاتا تھا.مسلمان مندوبین تو طبعاً ڈاکٹر امبید کار صاحب کا دیسے ہی احترام کرتے تھے جیسے باقی اراکین کانفرنس کا اور وزیراعظم کے تودہ منظور نظر تھے.علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب دوسری گول میز کانفرنس میں علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب بھی مسلم وند کی زینت تھے.لندن میں ان کا دور دور وہاں کے فلسفی، ادبی اور متشر تین حلقوں میں بہت دلچسپی کا موجب رہا واند ارف ہوٹل میں آپکے اعزاز میں وسیع پیمانے پر استقبالی دعوت کا انتظام ہوا.ڈاکٹر صاحب اپنے پرانے اور نئے احتبا کی طاقاتوں سے بہت محفوظ ہوئے لیکن کا نفرنس کی سست رفتاری سے ان کی طبیعت بہت اکتائی رہی.( قائد اعظم مسٹر جناح نے پہلی گول میز کانفرنس کے اختتام پر ہندوستان واپسی کا ارادہ ترک کر دیا تھا.اور عندن میں ایک پر فضا مقام پر ایک مکان میں رہائش اختیار کر کے پر لوی کونسل میں پریکٹس شروع کر دی تھی پہلی گول میز کانفرنس کی کاروائی سے وہ مطمئن نہیں تھے.دوسری گول میز کانفرنس کی کاروائی بھی ان کے لئے زیادہ درپی کا موجب نہ ہو سکی.سرسید علی امام صاحب دوسری گول میز کانفرنس میں سرسید علی امام صاحب بھی شریک تھے.میں ابھی کالج میں پڑھتا تھا جب وہ آسمان سیاست کو روشن کر رہے تھے ان کے ساتھ ملاقات میں گئے بڑی خوشی اور فخر کا موجب بھی وہ بڑے اعلیٰ تعلق کے مالک تھے.کمال شفقت سے پیش آئے نوہیری طرف بڑھ کر مجھے مصافحہ کی عزت بخشی اور فرمایا مدت سے ملاقات کا اشتیاق تھا.حید ر امام سے اکثر تمہارا ذکر سنا ہے.دوسری گول میز کانفرنس کی کاروائی میں فرقہ دارانہ نیابت کا مسئلہ ایک عقده لا تنجل بنا رہا.اس سال برطانیہ کی اقتصادی حالت میں منعف آجانے سے برطانیہ طلائی معیار ترک کرنے پر مجبور ہوگیاتھا اس ایک نتیجہ یہ ہوا کہ ان مضوابط کے جاری کرنے کے مسلے پر برطانیہ کی وزارت میں اختلاف ہوگیا اور وزیراعظم میڈ ان مشتر کہ وزارت بنانے پرمجبورہوگئے
۲۹۰ قدامت پسند حزب TOARIES نے ان کی قیادت میں کام کرنا منظور کرلیا.وزارت میں جو تبدیلیاں ہو گئیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ مسٹر و جوڈ بن کی جگہ سرسیموئل مور وزیر مند مقرر ہوئے.ان کی خواہش بھی کر گول میز کانفرنس کی کاروائی کا جلد کی میتی لیکن فرقه داران نیابت کاملی برقدم پر رکاوٹ پیدا کرتا.آخر کار با کی مفاہمت نہ سکتے کی وجہ سے اس امر کا فیصلہ برطانوی حکومت نے اپنے ذمے لے لیا اور دوسری گول میز کانفرنس کے اختتام کے بعد سلمانوں کو بر طانوی حکومت کے فیصلے کا انتظار رہنے لگا.مارچ اء میں لارڈ بلیز برگر نے ایک سنہری پلیٹ ہو HON BLE COMPANY OF COLDSMITHS کے زیر اہتمام تیارکی گئی تھی مری والدہ صاحبہ کو تحفتہ بھجوائی تھی اور بلیز ریگ اس کمپنی کے پائم وارون تھے اس پلیٹ پر یہ عبارت کندہ تھی:.HOMAGE A DEVOTED From To INDIAN of ENGLAND Mother A DISTINGUISHED INDIAN Son FEBRUARY 31 ۱۹۳) جب میں اکتور را شاد میں دوسری گول میز کانفرنس میں شمولیت کیلئے لندن گیا تو والدہ صاحب نے ایک اسمانی قالین وایک میز جس پر میل کاری کا کام تھا یارڈ لیر ترک کیلئے بھجوائے.جنہیں دیکھ کر دہ بہت خوش ہوئے اور والدہ صاحبہ کی مدت میں بڑے تپاک اور شکریے کا خط لکھا.اس کے بعد وقتاً فوقتاً وہ اپنے اخلاص کے اظہار کے طور پر والدہ صاحبہ کی خدمت میں مختلف مخالف ارسال کرتے رہتے تھے برا ہار میں گول میز کانفرنس کے سلسلے میں میرے قیام لندن کے دوران میں مجھے کئی بار ان سے ملاقات کی مسرت حاصل ہوئی.انہوں نے مجھے GOLDSMITHS COMPANY کے کورٹ ڈنہ میں شمولیت کی دعوت بھی دی.اس موقعہ پر علاوہ ایسی کمینوں کے صدیوں پرانے رسوم و رواج کے مظاہرے کے ان کے میتی با سونے اور جواہرات کے تاریخی نمونے دیکھ کر حیرت ہوئی.ملکہ اہلیہ مقر اول کا طلائی آنجورہ ، شاہ جیمز اول کا شراب پینے کا سیٹ اور بیشمار ایسی ہی دیگر اشیاء جن کی قیمت کا کوئی اندازہ نہیں ہو سکتا.جب مہمان رخصت ہوئے تو ہر مہمان کو رخصت ہوتے وقت دروازے پر ایک خاصا ورزنی تکس دیا گیا جس میں مختلف اقسام کے چاکلیٹ بڑے قرینے سے سجائے ہوے تھے.یہ مکس میں نے دوست ون ایمیلی بینی رح کی خدمت میں پیش کر دیا.مسلم لیگ کی صدارت اس پر اس دور میںمسلم لیگ کاسالانہ اجلاس تھا.لیگ کونسل کی طرف سے مجھے صدارت کی دعوت دی گئی اور میں نے قبول کرلی.ان دونوں مسلم لیگ کے علاوہ مسلمانوں کی ایک اور سیاسی پا سٹی آل پارٹیز مسلم کانفرنس بھی تھی.لیکن دوسیاسی پارٹیاں مسلم قوم کیلئے ضعف کا باعث تھیں.ادھر کا نگر کی مسلمانوں
کی سیاسی طاقت اور جمعیت کو کر دی کہ نیکے درپے تھی میرے مسلم لیگ کی صدارت کرنے کے خلاف جماعت احرارا اور دیگر مخالف عناصر نے عوام کے جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کی یہ کوشش تو نعرہ باندی اور فساد کی دھمکیوں سے آگے بڑھنے نہ پائی لیکن اصل کمزوری سلم قیادت میں اختلافات، با کمی شکر رنجیاں ، اور رزق نہیں تھیں جن کے نتیجہ میں قوم میں ایک حد تک سیاسی جمود پیدا ہو گیا تھا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس نئی دہلی میں ہوا.خطبہ صدارت پڑھا گیا، تقریریں ہوئیں ، تجاو نہ پاس ہوئیں ، لیکن سیاسی فضامیں کوئی بیجان پیدانہ ہوا یشہ کے اول نصف میں بحیثیت صدر مسلم لیگ میری یہ کوشش رہی کہ آل پارٹیز سلم کانفرنس کا مسلم لیگ میں ادغام ہو جائے اور اس کے کچھ مکانات بھی پیدا ہوگئے لیکن سال کے وسط میں میاں فضل حسین صاحب کے رخصت پر جانے کے سلسے میں ان کی جگہ میرا عار من ق م میں آیا اور مجھے لیگ کی صدارت سے متعفی ہونا ہے اور یہ تحریک رک گئی.دو ایک سال کے اندر آل پارٹیز سلم کا نفرنس کی سرگرمیاں سرد پڑ گئیں اسلم کی ازسرنوتانہ کی پکڑنے لگی.موٹر کار کا حادثہ سمر استاد میں کرسمس کی تعطیلات کا اکثر حصہ مں نے لاہور کی والدہ صاحبہ کی خدمت میں گذارا کچھ عرصہ قبل والدہ صاحبہ نے میرے متعلق ایک خواب دیکھا تھا جس کے لئے مجھے ارشاد فرمایا کہ حضرت صاحب کی خدمت میں تحریر کر کے تغیر دریافت کردہ میں نے تعمیل ارشاد کی.حضور نے فرمایا پہلے کوئی جسمانی تکلیف پہنچے گی اس کے بعد دنیا او مرتبے میں بلندی ہوگی.اس دسمبر کی سہ پہر کو والدہ صاحبہ کے ساتھ چائے پر سید النعام اللہ شاہ صاحب نے مجھے آہستہ سے کہا والدہ صاحبہ بہت افسردہ نظر آتی ہیں اس کا سبب دریافت کرو.میں والدہ صاحبہ کے بالکل قریب بیٹھا تھا.لیکن مجھے ان کا چہرہ نظر نہیں آتا تھا.جب میں نے ان کی طرف دیکھا تورف اسے آنسو پونچھو رہی تھیں.میں نے سبب دریافت کیا.فرمایا کوئی خاص بات نہیں کل تم دلی ہار ہے ہو اسلئے طبیعت افسردہ ہے.میں نے عرض کیا آپ سے ساتھ تشریف لے چلیں فرمایا اس وقت تو تم جاؤ میں بعد میں آجاؤں گی.یکم جنوری شاہ کو میں دلی واپس جانےکے لئے اپنے مکان سے موٹر کار میں روانہ ہوا.رستے میں ایک دوست سے رخصت ہونے کے لئے چند منٹ نیڈوز ہوٹل ٹھہرا.وہاں سے روانہ ہوتے وقت میں نے کار میں بیٹھنے کے لئے پچھلے حصے کا دروازہ کھولا تو میرے دوست نے کہا لمبا سفر ہے تمہیں اگلی نشست میں آرام رہیگا.بہتر ہے تم وہاں بیٹھو.میں نے ان کا مشورہ صائب سمجھا اور اگلی نشست پر بیٹھ گیا امرت سے گذر کر باس سے پار ہوئے تو میں نے وقت دیکھا وہ بجھنے میں میں منٹ تھے.میں نے خیال کیا جالندھر اسیشین پر رک کرد دوپہر کا کھانا کھائیں گے یم جالندھر سے ۲ میل کے فاصلے پر تھے کہ ایک کار ہو ہم سے آگے جارہی تھی سڑک کے پختہ حصے سے ہٹ کر کچھے حصے پر ہوگئی باتیں نہیں ہوئی تھیں موسم بہت خشک تھا کچے حصے پر بہت گرم تھی.کار کے اس حصے پر جانے سے گرد کا ایک گھنا غبار اٹھا میں میں کچھ نظر نہیں آتا تھا.میرے شوق سید عبدالکریم صاحب نے گاڑی کوٹھہرانے کیلئے رفتار کو آہستہ بھی کرلیا اور اسے سڑک کے بالکل بائیں کنار ے ک لیے گئے دفعتہ کار کی تکر ایک بیل گاڑی سے ہوئی جو بالکل ہمارے سامنے سے آرہی تھی لیکن جیسے ہم گرد کی وجہ سے دیکھ نہیں سکے تھے.بیل گاڑی کا درمیانی تی موٹر کا شیشہ توڑتے ہوئے پورے زور سے میرے بائیں رخسار پر..
آگرینگا.بیل گاڑی کا ایک میل وہیں مرگیا.کار کا RADIATOR بالکل شکستہ اور بے کار ہو گیا.میرے چہرے کے بائیں طرف شدید زخم آیا ایک لحظے کیلئے تو مجھے یوں احساس ہوا ایسے زندگی کا چراغ گل ہوگیاہے لیکن اللہ تعالی کی کمال دره نوانی سے دماغ نے پھر کام کرنا شروع کر دیا میرے اوپر اور نچے کے سامنے کے دانت نکل گئے اوپر کا ہونٹ درمیان کئے گی بائیں آنکھ کے گرد کی ہڈی بائی کونے سے ٹوٹ گئی اور جلد دو تین اپنے تک کٹ گئی.سید عبدالکریم صاحب کو فضل اللہ کوئی چوٹ نہیں آئی تھی.کار البتہ بے کار ہوگئی تھی.جالندھر کی طرف سے ایک خالی لاندی آرمی تھی اسے بھیا کہ ڈرائیور کو مینامند کیا گیا کہ مجھے جالندھر کے سول ہسپتال میں پہنچا دے.ہسپتال پہنچنے تک خون جاری رہتا لیکن میں فضل اللہ پورے ہوش میں رہا.ہسپتال پہنچنے پر پر لیا گیالیکن میں نے کہا اگر کوئی اس مرا ہاتھ پکڑ کر راستہ بتاتے جائیں تومیں پیدل عمل جراحی کے کمرے تک پہنچ سکتا ہوں.عمل جراحی کی میز پہ بیٹھ کر مں نے ورتار لکھوائے.ایک چیف کمشنر و علی کے نام کہ مجھے دو ہفتے کی رخصت دیجائے.دوسرائر یونل کے صدر کے نام کر دینے تک حاضر عدالت نہیں ہو سکوں گا.جالندھر میں ان دنوں کنور دلیپ سنگھ صاحب حج ہائی کورٹ کے بھائی کیپٹن شمیر سنگھ آئی.ایم ایس سول سرجن تھے لیکن وہ نئے سال کی گھوڑ ورڈ دیکھنے کا ہو تشریف لے گئے ہوئے تھے.اسسٹنٹ سرجن ڈاکر لو وصاحب تھے انہوں نے فرمایا چہرے پر زخم پھیلا ہوا ہے میں مناسب مقامات پہ ٹانکے لگا کر پٹی کر دیتا ہوں دو دن میں تم کا ہورہ کا سفر بر داشت کرنے کے قابل ہو جاؤ گے وہاں مناسب عمل جراحی کر دیا جائیگا میں نے کہا آپ مجھے کلورو فارم دیر نہ غم کو اچھی طرح صاف کریں اور جو عمل ضروری ہے سب اسی قویت مکمل کر دیں.انہوں نے کہا میں یہ ذمہ داری لینے سے ڈرتا ہوں.میں نے عرض کیا ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں آپ کی رائے میں جو عمل ضروری ہے آپ اس کی تکمیل کریں.وہ رضامند ہوگئے اور میں نے دعا کرتے ہوئے کلوروفارم سونگھنا شروع کر دیا.شیخ غلام دستگیر صاحب کا مکان ہسپتال کے بالکل قریب تھامیں نے ان کی خدمت میں پیغام بھجواد باک میں ہسپتال میں اس حالت میں ہوں.چھٹی کا دن تھاوہ مستی تشریف لے گئے ہوئے تھے انہیں وہاں پیغام پہنچا دیا گیادہ جالندھر تشریف نے آئے اور فورا ایک عمدہ برا در ضروری سامان ہسپتال بھجوا دیا.جب اپریشن کے بعد مجھے ہوش آیا تو میرے کرے میں میرے پلنگ کے پاس تشریف فرما تھے.ضربات میرے چہرے پر تھیں اعصاب پر بہت اللہ تھا.شیخ صاحب کی موجودگی اور ان کی تو جہ میرے لئے بہت تسکین اور اطمینان کا موجب ہوئی.شیخ صاحب جالندھر میں چوٹی کے دیوانی وکیل تھے.ور بلدیہ کے صدر بھی تھے.انہوں نے پھڑ کا والی موٹر گاڑی حادثے کے مقام پربھیج دی تومیری کار کوکھینچ لائی اور سید عبدالکریم صاحب کو بھی لے آئی.سید صاحب میرے کمرے میں داخل ہوئے تو اسلام علیکم کہہ کر مجھ سے مصافحہ کیا اور رونے لگے.میں نے انہیں تسلی دی کہ ضربات کوئی ایسی شدید نہیں اور حادثے کی ذمہ داری ان پر نہیں پیشیخ غلام دستگیر صاحب نے میرے آرام کا سامان کرنے اور میرے ساتھ عملی مدیر دی کے اظہارہ میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا.پچیس سال قبل گورنمنٹ کالج لاہور میں بھی ان کا سلوک میں ساتھ بہت مشفقانہ تھا.بعدمی بھی جب کبھی مجھے جالندھر جانے کا اتفاق ہوتا بہت
۲۹۳ تھا میں ان کا مہمان ہوتا تھا اور ان کے ہاں ہر طرح کا آرام پاتا تھا.میں ان کی تہیم نواز نشوں کا کسی صورت میں کوئی بات ان کی خدمت میں پیش نہ کر سکا.اللہ تعالیٰ انہیں دونوں جہانوں میں بہترین بدلہ عطافرمائے.آمین.لاہور میں اس خاتو " کی اطلاع ہوتے ہی چود کر شہاب الدین صاحب تشریف لے آئے.کرے میں داخل ہوتے ہی سوال کیا ظفر اللہ خال رباع کو تو چوٹ نہیں آئی ؟ میں نے عرض کیا اللہ تعالٰی نے رحم فرمایا ہے دماغ کا کوئی صدمہ نہیں پہنچا اور جہان تک اندازہ ہوتا ہے بائیں آنکھ بھی مدرسے سے محفوظ رہی ہے.تھوڑی دیر بعد سید العام اللہ شاہ صاحب اور والدہ صاحبہ بھی تشریف طنت لے آئے.والدہ صاحبہ میری حالت دیکھ کہ متواتہ اللہ تعالی کی حمد کرتی ہیں کہ اس نے اس خطرناک حادثے میں ایسی تلفات فرمانی سید انعام اللہ شاہ صاحب کی طبیعت بہت نفاست پسند تھی.ہسپتال کے کمرے کی حالت کے متعلق نا پسندگی کا اظہار کیا.میں نے مذاق میں ٹال دیا.بہت متعجب ہوئے کہنے لگے ظفر اللہ خان تم عجب جسم کے آدمی ہو ہی تو را سر درد کی بھی تکلیف ہو تیم استقدر چیختے چلاتے ہیں کہ ایسے محل کو ہزار کرتے ہیں.ہم تو اسے ان تک سمجھتے ہیں کرتا تکلیف میں ہوں اور محلہ ھر میںکوئی شخص آرام کی میں سے دادیم تو کہ یہ تمام پیوں میں لیٹا ہوا ہے.ہون کیا گیا ہے غم کے ٹانکوں کی وجہ سے اور دانت نکل جانے سے بات کرنے کے قابل نہیں اور اس حالت میں بھی مذاق کرتے ہو.خود تو ہنس نہیں سکتے لیکن دوسرو کو نہاتے ہو.میں نے کہا میر صاحب اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ایسی بلا کا سامنا ہوا اور اس نے محض اپنے رحم اور ذرہ نوازی سے جان بخشی فرمائی اور کاری ضرب سے محفوظ رکھا.سننے اور شکر کرنے کا ہی مقام ہے رونے اور واویلا کرنے کی تو کوئی وجہ نہیں.والدہ صاحبہ کو جب میری حالت کے متعلق اطمینان ہو گیا تو فرما یا کل میری افسردگی کا سبب یہ تھا کہ میں نے اس سے پہلی رات نخواب دیکھا کہ سیاہ بادل اٹھا ہے اور آسمان پر چھا گیا ہے اس اندھیرے میں بجلی گرمی اور دہشتناک کڑک کی آوانہ آئی ساتھ ہی بادل چھٹ گیا اور روشنی ہوگی لوگوں نے کہا تیر رہی، غیر ر ہی میں تمہارے کمرے کے دروازے کے پاس ایک سیا لکیر بجلی گرنے کے نشان کے طور پر باقی رہ گئی.میں اس خواب سے ہراساں تھی اور سارا وقت دست بدعا ہی کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحم سے تمہیں محفوظ رکھے.اللہ تعالیٰ کا بہت بہت شکر ہے کہ اس نے خطرہ ملا دیا.دو دن بعد میں سفر کے قابل ہوگیا اور ہم لاہور چلے گئے جہاں میو ہسپتال کے سپیشیل وارڈ میں کمرہ لے لیاگیا.نفسٹ کر نیل بروم بڑی توجہ اور شفقت سے میری خبر گیری کرتے رہے.پہلے دن ہی زخموں کے معائنے کے بعد انہوں نے فرمایا ڈاکٹر لو سونے بہت توجہ اور اختیا سے زخموں کو سیا ہے اور ہرممکن ضرورت کا لحاظ رکھا ہے.فکر کی ضرورت نہیں.چند دن کے بعد میں ہسپتال سے اپنے مکان ماڈل ٹاؤن چلا گیا.میں ابھی کام کاج کے قابل نہیں تھا.چہرے کے زخم اچھے ہو رہے تھے منہ کے اندر کا حصہ بھی ناز حالت میں تھا.دانت اور بھیڑوں پر زور دینے سے درد محسوس ہوتا تھا.سیالی خوراک پر گزارہ تھا.
۲۹۴ نواب صاحب ممدوٹ کی وراثت کے مقدمہ کی پیروی اسند سال قبل نواب غلام قطب الدین خانصاحب تین ممدوٹ کی وفات پران کے چازاد بھائی شاہ نواز خالصامت نے جو ریاست حیدر آباد میں سرنڈنٹ پولیس تھے.نواب صاحب کے وارث کی حیثیت سے ریاست ممدوٹ اور متعلقہ جائداد کا دعوی حکومت ہند کے سیاسی محکمے میں کیا تھا.اور اس کی پرچی کیلئے مجھے وکسل مقرر کیا تھا.حکومت ہند نے نوابی کے خطاب اور سیاسی جگر کا فیصلہ حتی نواب شاہ نواز تعال صاحب کیا لیکن ذاتی جائداد کے متعلق تداری کی اراضیات کے داخل خارج کا فیصد فناشل کمشنر صاحب خود کریں.فنانشل کمشنر صاحب نے داخل خارج کے متعلق بحث کی سماعت کیلئے ، ار جنوری تاریخ مقر کی.۱۲؍ جنوری کو نواب صاحب میر مکان پر تشریف لائے اور فرمایا فریق مخالف نے سید سن امام صاحب کو وکیل مقر کیا ہے اور وہ سینہ سے لاہور تشریف لے آئے ہیں.میری حالت کو دیکھتے ہوئے نواب صاحب کی ائے ہوئی کہ ہمیں میت کے التوا کی درخواست کرنی چاہیئے میں ابھی تک اس قابل نہیں تھا کہ زیادہ دیر کھڑا رہ سکوں اور یہ آسانی سے تقریر کر سکتا تھا.تاہم میں نے نواب صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ ہماری طرف سے التوا کی درخواست مناسب نہ ہوگی.خصوصاً جب فریق مخالف کے لائق اور قابل اعزام کیل پٹنہ سے لاہور آنے کی زحمت اٹھا چکے ہیں.نواب صاب نے پو چھا کہ اسحال میں تم عمل میں کیسے اسکو گے ؟ از نفت میں کیسے حصہ لے سکو گے ؟ میں نے عرض کیا اللہ تعالی اپنے فضل سے تو فیق عطا فرمائے گا آپ پریشان نہ ہوں.نواب صاب کے تشریف لے جانے کے بعد چار بجے سہ پہر کے قریب سید مراتب علی صاحب اور سید محمد علی صاحب تشریف لائے اور میں مکان کے چمن میں ان کی خدمت میں حاضر مہر گیا.سورج چمک رہا تھا اور موسم اعتدال پر تھا.ہم نے وہیں ناشتہ کیا محترم سید صاحبان کے رخصت ہونے پر ہمیں کمرے میں واپس آیا تو مجھے اعضاء شکتی اور لرزہ محسوس ہونے لگا اور ملیریا کے حملے کے آثار نمودار ہوئے.کمرے میں آگ جلائی گئی میں نے ۳۰ گرین کو مین کھائی مجو ایسی حالت میں تحریر سے میرے لئے ہمیشہ مفید ثابت ہوتی رہی تھی.والدہ صاحبہ میرے کمرے میں تشریف لائیں اور میری حالت دیکھ کر بہت پریشان ہوئیں.میں نے انہیں اطمینان دلانے کی کوشش کیکو گود درجہ حریت علدی بڑھ گیا ہے لیکن میری طبیعت میں قرار ہے اور میں اندازہ کرتا ہوں کہ نیم شب تک درجہ حرارت اعتدال پر آجائے گا.ان کی بے چینی میں اس سے کوئی کمی نہ ہوئی اور وہ بہت اضطراب کی حالت میں دعا کرتی رہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل و رحیم سے نصف شب تک میرا اخبار اترگیا والدہ صاحبہ کی طبیعت میں بھی سکون آگیا اور میں آرام کی نیز سو گیا صبح کے وقت والدہ صاحبہ میرے کمرے میں تشریف ائیں اور یہ دیکھ کہ کہ میں فضل اللہ اچھی حالت میں ہوں انہیں اطمینان ہوا.فرمایا کل شام ہو میں استقدر مضطرب تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ جو خواب میں نے تمہیں جالندھر میں سنایا تھا اس کا ایک حصہ میں تھے اس وقت بیان نہیں کیا تھا.اور خواب کا وہ حصہ میری پریشانی کا باعث ہو رہا تھا.خواب میں بجلی گرنے کے بعد جب مطلع صاف ہوا اور لوگوں نے کہا تیر رہی غیر رہی تو ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ تھے والے مکان پر بجلی گری ہے اور اس کی چھت اٹھ گئی ہے.یہ سن کر ہم لوگ اپنے 1
۲۹۵ مکان کی چھت پر گئے اور وہیں سے ساتھ والے مکان کی طرف دیکھا کہ بیت اڑ گئی ہوئی ہے اور شہتیر یاں تنگی ہوگئی میں یہ حالت دیکھکر میں نے کہا کیا خوبصورت مکان تھا اور اب کیا حالت ہو گئی ہے.کل شام جب تمہیں تکلیف شروع ہوئی اور تیز بخار ہوگیا تو مجھے گھبراہٹ ہوئی کہ کہیں یہ میرے خواب کا دوسرا حصہ نہ ہو.الحمدللہ کہ اللہ تعالی نے ہم بے کسوں پر رحم فرمایا.اور تمہاری تکلیف رفع ہو گئی.سمجھ چودھری شمشاد علی خالصاحب کی وفات | چودھری شما علی خاں مامون نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم ایس سی کی سند حاصل کی اپنی دونوں سرما شکل اور وائر لفٹنٹ گورنر پنجاب کی تحریک پر صوبہ پنجاب کی طرف سے سگنلنہ کی ایک ڈیل کمپنی بھرتی ہوئی.چودھری شمشاد علی خالصاحب اپنی خاندانی روایات کو قائم رکھتے ہوئے اس میں بھرتی ہو گئے.ڈبل کمپنی عراق میں سنگی فوجی خدمت کرتی رہی جنگ کے ختم ہونے پر سے بھی ختم کر دیا گیا.چونکہ جنگ کے دوران میں انڈین سول سروس کے مقابلے کا امتحان التوا میں رہا تھا لہذا اس کمی کو پورا کرنے کیلئے ایک افسر صوبہ پنجاب سے نامزد کرنے کا فیصلہ کیا گیا.چودھری شمشاد علی خالصامت نے بھی درخواست دی انتخابی بورڈ نے اپنی فہرست میں ان کا نام اول نمبر پر رکھا لیکن ان کے انتخا کے رستے میں ایک رکاوٹ یہ تھی کہ جتنی عمر اس انتخاب کے لئے مقررکی گئی تھی چو دھری صاحب کی عمر اس سے زیادہ تھی.انہوں نے آئی سی ایس کے فوائد کی بناء پر استدعا کی کہ مقتنا عرصہ انہوں نے ڈبل کمپنی میں جنگی فوجی ندارمت میں صرف کیا وہ انہیں مجری دیا جائے.بورڈ نے قرار دیا کہ نامزدگی کیلئے جو قواعد وضع کئے گئے ہیں ان کی رو سے یہ عرصہ میری نہیں دیا جا سکتا لیکن بورڈ نے وزیر بند کی خدمت میں حجرہ پورٹ بھیجی اس میں سفارش کی کہ وزیر شہید اپنے اختیارات سے یہ عرصہ اگر میری دیدیں تو سود هری شمشاد علی خالصاحب کو نامزد کیا جائے.اور اگر عمر کا معاملہ ان کے رستے میں روک ہو تو حمید اصغر صاحب ( فرزند شیخ اصغر علی صاحب ) کو نامزد کیا جائے.وزیرہ مہر نے فیصلہ کیا کہ نامزدگی کے قواعد میں ترمیم کرنا ان کے اختیار میں نہیں لیکن جو امتحان یورپین اور ہندوستانی فوجی خدمت کرنے والوں میں سے انڈین سول سروس کے افرانتخاب کرن کے لئے ہندوستان میں لیا جانا قرار پایا ہے.اس میں شامل ہونے کی چودھری صاحب کو اجازت دیجاتی ہے.پچودھری صاحب اس امتحان میں شامل ہوئے اس کے نتیجے میں اٹھارہ امید وار آخری انتخاب کے لئے لندن بلائے جانے والے تھے.جن میں سے کچھ کا انتخاب ہونا تھا.چودھری شمشاد علی خانصاحب اٹھاروی نمبر پر آئے اور آخری انتخاب کیلئے لندن بلائے گئے.انتخاب میں فضل اللہ کامیاب ہوئے.انہیں طبعاً خواہش تھی کہ ان کی تعیناتی پنجاب میں ہولیکن تعیناتی بہار میں ہوئی وطن واپسی پر جب تمام کیفیت مجھ سے بیان کی تو کہ یہ اطلاع ملتے یہ کہ مری قیاتی بہارمیں ہوئی ہے مجھے بالکل یہی محسوس ہواسے کسی نے میرانے میں گئی ارادہ ہے اورمیں بالکل ہے اور جو کہ رونے لگ گیا یہ کیفیت دو تین گھنٹے تک جاری رہی اور پھر جاکر میری طبیعت سنبھلی.بہار میں انہیں اپنے کام میں خوب دیسی ہوگئی اکثر تعجب کا اظہار کیا کرتے تھے کہ بہار میں تعیناتی کی اطلاع ملنے پر ان کی طبیعت میں اس قدر رنج کیوں پیدا
۲۹۶ ہوا تھا.سید انعام اللہ شاہ صاحب سید افضل علی صاحب ، یو د هری بشیر احمد صاحب اور شیخ اعجانه احمد مات کے ساتھ بھی ان کے گہرے دوستانہ تعلقات ہو گئے تھے اور ہم تھے دوست آپس میں ایک مضبوط رشتہ اخوت میں منسلک تھے.١٩٢٦ء چودھری شمشاد علی خالصاحب کی شادی ان کے کالج میں داخل ہونے سے پہلے ہو چکی تھی.ان کی ٹیری ما برادری کی ولادت تالہ میں ہوئی یاء میں جب چودھری شمشاد علی تھا لصاحب بھاگلپور کے حاکم ضلع تھے ان کی ٹیری صاحبزادی میرے نکاح میں آئیں اور اس تعلق سے ہمارا رشتہ آپس میں اور بھی گہرا اور مضبوط ہو گیا شاد کے شروع میں چودھری شمشاد علی خالصاحب چھپرہ کے حاکم ضلع تھے مسافت کے لحاظ سے تو ہمارے درمیان سینکڑوں میلوں کا فاصلہ تھا لیکن تعلق محبت اور اخلاص کے رو سے بہانے گھر دیوار برلیاہ ہی تھے.والدہ صاحبہ کو ان کے ساتھ ان کے کالج کے زمانہ سے ہی بیٹوں کی طرح انس تھا اور انہیں بہت عزیز رکھتی تھیں.انہیں بھی والدہ صاحبہ کے ساتھ بہت محبت تھی.فرمایا کرتے تھے میں بچہ تھا جب میری والدہ فوت ہو گئیں.مجھے ان کا ہوش نہیں.مجھے ماں کی محبت کا تجربہ والدہ صاحبہ کی محبت سے ہوا ہے.انوی شاہ کی صبح کو والدہ صاحب نے اپنے خواب کا دوسرا حصہ سنایا ہی تھا اور وہ ابھی میرے کمرے ہی میں تشریف فرما تھیں کہ ایک تار آیا جس میں یہ اندوہناک خبر تھی کہ شمشاد علی نعال گولی لگنے سے فوت ہو گئے انا للہ وانا الیہ را جعون فيض الله له ويجعل الجنة العليا مثواه - والدہ صاحبہ کے سترہ دن پہلے کے منتظر نخوا کے دونوں تھے پورے ہو گئے.ان کی وفات کی تاریخ میرے بیس سال پہلے کے خواب کے مطابق تھی جس کا ذکر پہلے آچکا ہے بتاء میں جب وہ پنجاب تشریف لائے تھے تو مجھ سے ذکر کیا کہ وہ انڈین سول سروس کے فیملی فنڈ میں شامل ہیں اب اس فنڈ کو انگلستان منتقل کر دینے کی تجویز ہے.جو ہندوستانی افراس فنڈ میں شامل ہیں انہیں اختیار دیا گیا ہے کہ چاہیں تو انی ادا کردہ رقم معہ منافع واپس لے لیں اور چاہیں تو فنڈ کے انگلستان منتقل ہو جانے پر بھی بدستور فنڈ میں شامل رہیں.فرمایا مجھے اس وقت فنڈ سے سولہ سترہ ہزار روپے کی رقم واپس مل سکتی ہے اور میں نے لکھ دیا ہے کہ میری رقم واپس کر دی جائے.میں نے بڑے اصرار سے کہا کہ آپ رقم واپس نہ لیں اور فنڈ میں شامل رہیں.چنانچہ انہوں نے اپنی چھٹی واپس لے لی اور منڈ میں شامل رہے.ان کی وفات کے وقت ان کے تو بچے تھے.پانچ بیٹیاں اور چار بیٹے ان میں سے صرف بڑی صاجزادی شادی شدہ تھیں.باقی سب بچے اور ان کی بیگم فنڈ سے پنشن پانے کے حقدار تھے.ان سب کی نمیشن چودھری صاحب کی وفات کے وقت بیس ہزار روپے سالانہ کے قریب بنتی تھی جو ادا نہ ہی شروع ہوئی.جیسے جیسے بچوں کی شادیاں ہوتی گئیں ان کے حصے کی پیشن ختم ہوتی گی ہی سے چھوٹا بچہ تو چھوٹی عمرمیں وقت ہو گیا.منجھا بیٹا شام میں فوت ہوگیا دوسرے دونوں بیٹوں کی میشن اکیس سال کی عمر ہونے پر ختم ہوگئی.بڑھا ابزادہ
۲۹۷ نصراللہ خان فوج میں لفٹنٹ کرنل ہوا.اور فوج سے مستعفی ہونے کے بعد اب انٹر کانٹینٹل ہوٹل کی انتظامیہ میں ہے.بچھوٹا سعید اللہ خان اب فضائی میں ایک کموڈور ہے.چودھری صاحب کی بیگم صاحبہ محترمہ کی پیشین اب تک جاری ہے سنوری شاہ کا نصف اول اپنے ساتھ بہ مری آن ا ا ا ا ا ا ا نور کی می کومیں مانی اور بنیاتی دونوں لحاظ سے سخت مجروح اور نڈھال تھا، بدن میں سک نہیں تھی، دماغ پریشان تھا.تقریر کرنے کی طاقت نہیں تھی، گویائی کی قوت معمل تھی، لیکن عدالت میں حاضری لازم تھی اور ریاست ممدوٹ کی دراشت کے اہم مسئلے پر محبت کا آغاز مجھے کرنا تھا.فناشل کمشنر سر مائیلیز ارونگ تھے.عدالت کے کمرے سے باہر سید حسن امام صاحب سے ملاقات ہوئی.وہ چودھری شمشاد علی خان صاحب کی وفات کی خبر اخبارہ میں دیکھ چکے تھے مرحوم کے ساتھ ان کے دوستانہ مراسم تھے میرے ساتھ انسویں اور ہمدردی کا اظہار کیا اور فرمایام سے ہی نڈھال ہو رہے تھے.اب تو بالکل بحث کے قابل نہ ہو گے.بہتر ہو م دونوں نال کمر سے کہ کر تاریخ سماعت منوی کی لیں میں نے کہ آپ اتنی دور سے تشریف لائے ہیں اور کس کے لئے تیار ہو کر آئے ہیں اس مرحلے پر التوا مناسب نہیں میں کسی طور انشاء اللہ نباہ کر لوں گا.البتہ میری یہ کوشش ہوگی کہ محبت آن ختم ہو جائے.کیونکہ کل صبح مجھے شمشاد علی خانصار کے جنازے کے امرتیہ پہنچنے پر ماں موجود ہوتا ہے تاکہ دریاں سے جنازے کے ساتھ انہیں دفن کرنے کے لئے قادیان جاسکوں.بحث کے دوران میں مجھے بہت آہستہ ہونا پڑانا کہ میری بات آسانی سے سمجھی جاسکے.دس بجے بحث شروع کر کے ایک بجے تک میں نے ختم کر لی دو بجے سید حسن امام صاحب نے بحث شروع کی اور چار بجے ختم کردی، نانش کمتر مارنے کا جواب کل صبح سنیں گے.اس پر یدان امام مانتے کہ اگر آپ ایک گنہ میرا عباس جای کرک میں عنایت ہوگی در جواب بھی آن ہی ختم ہو جائے گا.کل صبح ظفر اللہ خان کو ایک نہایت اندوہناک فرض کی ادائیگی کیلئے امر تر پہنچنا ہے.وہ فوراً رضا مند ہو گئے.اور میں نے ایک گھنٹے میں جواب ختم کر لیا.فجاء ھم اللہ خیرا.اس تنازعے کا فیصلہ آخر با می راضی نامے سے ہوگیا.نواب شاہ نوانہ خالص و ی نے ممدوٹ ہاؤس لاہور اور ضلع منٹگمری کی اراضیات مرحوم نواب صاحب کی جوہ کو دینا منظور کر لیا.اور ریاست کی بانی تمام جائداد نواب صابر کے نام منتقل ہوگئی.میں ۱۸ کی صبح امرلتہ پہنچا اور شمشاد علی خاں کے بنانے کے ساتھ قادیا گیا.تدفین سے فارغ ہو کر اسی شام دہلی کیلیئے ردانہ جوکر بیچ ٹر یونین کی عدالت میں حاضر ہو گیا.جب میں لندن کے سفر پر روانہ ہوا تھاتو پہلے سلطان گواہ پر مورچ ہو رہی تھی واپس آیا تو اس پر مجروح بھاری تھی.چودھری شمشاد علی خالص و کے گھر کے لوگ چھپرہ سے میرے پاس دتی آگئے.اپنے ماڈل ٹاؤن والے مکان کے اوپر ہم نے دوسری منزل تعمیر کر لی اور انہوں نے اس میں رہائش اختیار کر لی حسن اتفاق سے ہمارے مکان سے ملحق قطعہ زمین ابھیج تک خالی تھا.اس کے مالک اسے فروخت کرنے پر رضا مند ہو گئے.کچھ عرصہ بعد محترمہ باجی
۲۹۸ نے اس قطعہ پر اپنا مکان تعمیر کر لیا اور وہ ان کی مستقل رہائش گاہ بن گیا.گول میز کانفرنس کی مشاورتی کمیٹی گول میز کانفرنس کے کام کو ہندوستان میں جاری رکھنے کیلئے ایک مشاورتی کمیٹی زیر صدارت کارٹرو لنگڈن وائسرائے ہند قائم کی گئی تھی.مجھے بھی اس میں نامزد کیا گیا تھا اس کا اجلاس دائرے کی صدارت میں دلی میں بلایا گیا مسلمانوں کو انتظار تھا کہ حکومت برطانیہ فرقہ وارانہ نیابت کے متعلق اپنا فیصل صادر کرے، ہمیں تاخیر سورہی تھی.اس لئے مسلمانوں میں یہ تحریک شروع ہوئی کہ سلمان نمایند مشاورتی کمیٹی کے اجلاس میں شامل نہ ہوں.اس سلسلے میں مولانا شفیع داودی صاحب میرے پاس تشریف لائے اور ارشاد فرمایاکہ تم کمیٹی کے اجلاس میں شامل نہ ہونا.میں نے دریافت کیا کہ کیا یہ زیادہ موثر نہ ہو گا اگر شامل ہوکر کمیٹی کی مزید کاروائی کا اعلان فیصلہ فرقہ وارانہ ثابت بند کرا دی جائے.فرمایا بیشک یہ زیادہ موثر ہو گا لیکن اس کی کیا ضمانت ہے کہ کاروائی بند کر دی جائے گی.میں نے عرض کیا میں ضامن ہوں.چنانچہ کمیٹی کا اجلاس ہوا.مجوزہ ریلوے اتھارٹی پر غور شروع ہوا.میری باری آئی تومیں نے کہا جب تک ہمیں یہ نہ معلوم ہو کہ املی میں ہمارا کیا تناسب ہو گا ہم کسی معاملے پر غور میں حصہ نہیں لے سکتے.مختصر بحث کے بعد دائر ایے نے اجلاس ملتوی کر دیا اور اس طرح مشاورتی کمیٹی کا خاتمہ ہو گیا...وائسرائے کی کونسل پر عارضی تقرر اپریل اسلام میں ایسٹر کی تعطیلات میں میں والدہ صاحبہ سے ملنے کیلئے لاہور گیا.وہاں مجھے ٹیلیفون پر پیغام ملا کہ میاں سر فضل حسین صاحب کا ارشاد ہے کہ دلی واپس جاتے ہوئے میں شملے میں ان کی خدمت میں حاضر ہوں.کا لکا سے شملے جاتے ہوئے بار بارہ موٹر کاٹا ٹر خراب ہوا اور میں اپنے اندازے کی نسبت تین گھنٹے دیر سے پہنچا.میں پریشان تھا کہ میاں صاحب دق ہوں گے کہ میں وقت پر نہیں پہنچا.اور ممکن ہے دو پر کے کھانے پر بھی میرا انتظار کیا ہو.میاں نسیم حسین صاحب نے بتایا کہ میاں صاحب تو دو ہفتوں سے مناسبت فراش ہیں.بہت کم نیچے تشریف لاتے ہیں.مجھے اپنے کمرے ہی میں طلب کیا اور فرمایا میری حالت دیکھ لو.میں نے لاچار ہو کر دائرے سے کہ دیا ہے کہ مجھے از ما چار مہینے رخصت پر جانا ہو گا.میں نے دریافت کیا کہاں جانے کا ارادہ ہے.فرمایا ابیٹ آبادمیں انتظام کیا ہے.میں نے عرض کیا ایبٹ آباد بلندی اور آب و ہوا کے لحاظ سے تو موزوں ہوگا کیونکہ زیادہ بلندی پر نہیں اور آب و ہوا معتدل ہے.لیکن اگر چند دن بارش نہ ہو تو سڑکوں پر گرداٹر نے لگتی ہے لہذا مکان ایسی جگہ ہونا چاہیے جہاں گردے کی تکلیف نہ ہو.فرمایا ملک پورے میں ایک مکان مل گیا ہے جو ٹرک سے ہٹ کر واقعہ ہے اور ارد گرد باغیچہ بھی ہے.اب گفتگو اس نہج پر چلنے لگی کہ میاں صاحب کوئی الیسا جملہ فرما دیتے جس کا تعلق ان کے رخصت پر جانے کے ساتھ ہوتا اور میں اس کا لفظی جواب عرض کر دیا.مجھے احساس ہونے لگا کہ وہ چاہتے ہیں میں یہ دریافت کروں کہ انکی غیر حاضر میں انکی جگہ کون کام کریگا.میں نے
۴۹۹ یہ کرلیاکہ میں یہ سوال نہیں کروں گا.اگر وہ بتانا پند فرمائیں گ تو خود فرمائیں گے.اتنے میں چائے کا وقت ہو گیا تو میرے لئے بجائے اپنے کمرے میں منگوائی.آخر فرمایا مں نے تمہیں اس کے لایا ہے کہ وزیر سند کا امر ہے کہ تم میری گول میز کانون میں ضرور شال ہو اسلئے تم دلی جاؤ تو حیف کمر سے کہ دنیا کہ تمہیں اب ساندنش کے مقدمے کی پیروی ترک کرنا ہوگی وہ ابھی سے سوچ لیں کہ تمہاری جگہ کس کا تقر مناسب ہو گا.میں نے عرض کیا آپ کا ارث رہے تو میں ایس ہی کردوں گا لیکن مقدمے کی سماعت کی رفتار تو بہت ہی سست ہے.پچھلے سال جب میں گول میز کانفرنس میں شمولیت کیلئے لندن گیا تھا تو میری واپسی پر دہی گواہ سلطانی زیر جورج تھا جسے میں زیرہ جورج چھوڑ گیا تھا.چودھری محمد امین صاحب کو میری غیر حاضری میں کوئی دقت پیش نہیں آئی تھی.فرمایا کیا تمہاری غیرحاضری ہی ہوگی.پہلے چار سینے میری جگہ کام کرناہو کا پرگول میز کانفرنس میں جانا ہوگا.مناسب ہی ے کہ تم مقدمے کی ذمہ داریوں سے آزاد ہو جاؤ میں نے کہا اگر آپ کی یہ کام کرنا ہو تو ہر تو مجھے مقدمے سے علیحدہ ہو جانا چاہے فرمایامیں نے والا ہے سے بات کر لی ہے.وہ رضامند ہے لیکن تم اس نظام کو پختہ بہی سمجھنا جب تمہیں وائٹ ہے کی طرف سے اطلاع ہے.میں نے شکریے کے اظہارمیں کچھ کہا جاتالیکن آپنے ٹال دیا اورمجھے اور رخصت کر دیا.میری روانگی کا وقت بھی قرب تھا.دوسری میں میں دلی پہنچ گیا.اسی صبح ٹریبیون اخباریں یہ برائی ہوئی کہ میں سر فضل حسین صاحب چار مہینے کی رخصت پر جانے یں اور اندازہ ہے کہ ن کی جب اس عرصے کیلئے ہور کے ایک وکیل کا تقری ہوگا.یہ تر بود در صدر علی اور ایسٹ جیا نے جو تقدیر سازش کے ملزمان کو جیل سے عدالت لانے اور ے جاتے تھے یوں مجھے اکابر کو معلوم ہوا ہے میں ان کی جا تیار ریم نوالہ میں انہیں یہ کہ کیا دیا کہ برص کوئی نام درج نہیں.دوسری صبح انہوں نے پر تلیفون کیا کہ آ نام چپ گیا ہے لیکن ڈاکٹر محمد قال کانام ہے تمہارا نہیں میں نے کہا ڈاکٹر صاحب میری نسبت کہیں زیادہ اس کے اہل ہیں.اس کے تیرے دن مجھے وائسراے کا خط ملا.چونکہ معاملہ ابھی تک بصیغہ راز تھا اسلئے لازم تھا کہ جیسے انہوں نے مجھے اپنے ہاتھ سے خود لکھا تھا میں بھی انہیں اپنے ہاتھ سے جواب لکھوں اور پھر خود ہی ڈاکھانے جاکر خط کو ذریعہ بڑی بھیجنے کا انتظام کروں.اگر یہ کام کسی اور کے سپردکرتا و اندیشہ تھاکہ بات ظاہر ہو جاتی.جواب لکھ کرمیں نے گاڑی کیلئے آواز دی.دوپہر کا وقت تھا میری المیہ نے بھی میری آواز سن لی اور پو چھا گرمی میں کہاں جارہے ہو؟ میں نے کہاور اڈا کھانے تک ایک اور بیٹری کرانے جا رہاہوں کہ الایم کو کیوں نہیں دیتے ؟ میں نے کہا یہ کام عبدالکریم کے کرنے کا نہیں ان دنوں میڈ ستر ہوٹل کے پھاٹک کے برج میں ایک چھوٹا سا ڈاکخانہ تھا میں خط وہاں لے گیا اور رجسٹری کرنے کیلئے پیش کیا.مجھے رجسٹری کے قواعد کا علم تھانہ خط پر بری کرنیکا تجربر با او صاحب خط دیکھ کر برافروختہ ہوئے.شاید یہ پڑھ کر خیال کیا ہوکہ یہ کوئی منگتا ہے جس کے بگڑے ہوئے دماغ میں خیال آیا ہے کہ چلوائی ہے ہی سے کچھ مانگ لیں خو میری طرف واپس پھینک کر غصےکے لیے میں کہا آجاتے ہیں کہیں کے نہ عقل نہ مجھے یہ بلوفارم اسے پر کر کے لاؤ میں نے ان سے معذرت کی اور فارم پر کر کے پیش کردیا.کچھ دنوں بعد جب سرکاری اعلان ہو گیا تو درگا و اس صاحب نے جو شملہ مں ٹڑیوں کے نمائیندے تھے اخبارمیں لکھا.میاں صاحب کی جگہ ایک اپنے درجے کے وکیل کا فقر ہو اہے
۳۰۰ ایسے واقعات بعد میں بھی کبھی کبھی ہوتے رہے اور ہر بارمیں اپنے فن کو تنبیہ کرنا دیکھنا نہیں گھن میں نہ آ جانا ہوتی منگتے ہی لیکن اپنے پیدا کرنے والے کے دور کے منگتے ہی رہنا ان نوںسے کبھی حاجت روائی نہ چاہا تم وکیل رہو یا کچھ اد بنو ہو تم اونی ہی اعلی وہی ہے جسے اللہ بلند کرے، تم اونی ہو اور عاجز ہو اس کے آگے ہر وقت تھکے رہو.درگار اس مصاب کو میں اس سے پہلے بھی جانتا تھا.بعد میں تو اکثر مجھ سے ملتے رہے.میرے مکان پر بھی کئی بار تشریف لاتے تھے.میں نہیں نہایت کرام اور تواضع سے ملتا اور دو بھی میرے ساتھ خوش خلقی سے پیش آتے.تنقید کے طور پر کچھ کہتے تو ہنس کر کہتے.کئی سال بعد جب میں فیڈرل کوریٹ کا جہ تھا.ایک دن میڈ نر ٹوٹل کے ڈاکخانے والے بابو صاحب جو ملازمت کی میعا داوری کہ چکے تھے اپنی کسی ذاتی ضرورت کے سلسے میں مجھے ملنے کیلئے میرے مکان پر تشریف لائے میں کچھ بھی ہوا کہ انہیں یاد آتا ہوگا کہ اسے تو خط رجسٹری کرانے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا تھا.وہ معمر تھے.میں ادب اور تواضع سے پیش آیا اور جو ارشا د ا نہوں سے فرمایا میں نے اس کی تعمیل کردی.مقدمہ سازش کے ملزمان سازش کے مقدمے کے دورا میں ملزم گیان سرا و پو یار کی صحت گرنے لگی اس کی طرف سے ڈاکٹر کھلو صاح بے ضمانت کی درخواست دی.ڈاکٹری رپورٹ تھی کہ اسے سر میں 10 MASTO کی تکلیف ہے عدالت نے چھو پینے کیلئے ضمانت منظور کرلی اور اس عرصے کیلئے عدالت میں حاضری سے بھی منتشے کر دیا.جب چھ مہینے کے بعد وہ عدالت میں حاضر ہوئے تو صحت اچھی ہونے کی ڈاکٹری رپورٹ پر انہیں پھر حوالات بھیج دیا گیا.تین چار ہفتے کے بعد انکی صحت پر گرنا شروع ہوگئی، وہ بہت خاموش طبع نوجوان تھے.شہادت سے ظاہر ہوتا تھا کہ ابتداء میں سازش میں شریک ہوئے تھے لیکن بعد میں الگ ہو گئے کسی خاص تحریم میں انہوں نے حصہ نہیں لیا تھا.میرا ارادہ تھا کہ وقت آنے پر میں ان کے خلاف فرد حمام عائد کئے جانے پر زور نہیں دوں گا.وہ دوسرے ملزمان کے ساتھ عدالت میں آتے ایک طرف بیٹھ کر کوئی کتاب پڑھتے تھک جاتے تو ملزمان کے کٹہرے کے اندر ہی نرش پر لیٹ کر سو جاتے.ان کی صحت دن بدن گرتی جارہی تھی، میں فکر مند تھا اسلئے ایک رزین ڈا کٹ کھلو ماں سے کہا، پوڈار کی صحت پھر گر رہی ہے آپ دوبارہ اس کی ضمانت کیلئے درخواست کیوں نہیں کرتے ؟ ہوں نے ہنستے ہوئے فرمایا میں کے ڈاکٹر کو دینے کیلئے پیسے نہیں ہیں.میں نے کہا حکومت ہزار روپے ماہوار صفائی کے اخراجات کے لئے دیتا ہے آخر وہ ساری دلم شبت ، مٹھائی پر تو خرچ نہیں ہوجاتی.خیر و کچھ بھی ہے آپ ضمانت کی در خواست دیں آمنہ ڈاٹ کو کچھ تور پورٹ کرنا ہوگی.درخواست پیش ہوئی، عدالت نے مجھ سے دریافت کیا میں نے کہاڈا کٹری رپورٹ طلب ہونی چاہیے.ریورسٹ آئی.ایک نقرہ ادھر دوسرا او مقرا در طبی اصطلاحات کے جھمیلے میں مطلب نخبط البتہ آخر میں لکھا تھا کہ اس کا دندان کم ہو رہتا ہے.عدالت نے محمد سے دریافت کیا تم کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا اس ملزم کو پہلے ضمانت پر اس لئے رہا کیا گیا تھا کہ اسے MAST019 کی تکلیف ہے.اس عارضے کا علاج عموماً عمل جراحی سے ہوتا ہے.اس امر کے متعلق ڈاکٹر کی رپورٹ میں کچھ رنج نہیں کہ کوئی عمل بہرام ہوا یا نہیں اور اب 010 MAST کی کیا کیفیت ہے اکثر حصہ ر پورٹ کا اہم ہے STOD 僮
جس سے میں تو کس نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا.میرامشاہدہ اسبات کی تائید کرتا ہے اسلام کی صحت گریہ ہی ہے ڈاکٹری رپورٹ کہ سے ظاہر ہے کہ اس کا وزن کم ہو رہا ہے.اندریں حالات میں حکومت کی طرف سے یہ ذمہ داری لینے کیلئے تیار ہیں کہ اسے توات میں رکھا جائے.اس پر عدالت کیلئے سوائے ضمانت منظور کرنے کے اور پھارہ نہ رہا.جب ٹریبیونل کی عدالت میں میرے آخری دن کی کاروائی ختم ہوئی تو پریذیڈنٹ صاحب نے چند رسمی الوداعی کلمات فرمائے.ڈاکٹر کچلو صام نے بھی ان کی تقلید کی.اس پر ملزمان میں سے دو صاحب کھڑے ہوگئے.مجھے اندیشہ ہوا کہ شایہ میرے خلاف کچھ احتجاج کیا چاہتے ہیں.تو کچھ انہوں نے کہا اس کا خلاصہ یہ تھا.ٹریبیونل کے صدر صاحب اور ہمارے وکیل صاحب نے جو کچھ کہا ہے ہم اس کی تائید کرتے ہیں.ہم ظفراللہ خان کی قانونی قابلیت کا اندازہ تو نہیں کر سکتے لیکن ہم یہ ضرور کہنا چاہتے ہیں کہ اس نے سرکار کی طرف سے اس مقدمہ کی پیروی پوری شرافت کے ساتھ کی ہے.اللہ تعالیٰ کی شانِ بے نیازی ہے کہ مجھے گوشہ گمنامی سے اٹھا کر دائرے کی مجلس عاملہ یں محض اپنے لطف و کرم اور ذرہ نواندی سے بٹھا دیا ساتھ ہی ڈاکخانے کے بالوصاحب سے میری عقل اور سمجھ کا معبر مجھے بتاکر در درگا داس صاحب سے میری تابلیت کا اندازہ ائم کر کر مجھے بے جاخر اور گھمنڈ سے بچالیا.پھر ا ارحم الراحمین کی شفقت ہوش میں آئی اور دو نو جوان ملزمانکے کے منہ سے بین پر دہشت پسندی اور سازش کے الزام تھے اور جنہیں میں حکومت کے وکیل کی حیثیت میں زندان میں کرانے کی سعی کرتا رہا تھا ایسے الفاظ کہلوا دیئے جو ان حالات میں ملزمان کی طرف سے وکیل استغاثہ کے بھی میں شاہد ہی کبھی کہے گئے ہوں.شام کی گاڑی سے میں لاہور جانے کے لئے روانہ ہوا توملزمان میں سے پروفیسر نگھم اور ان کے ایک اور رفیق ہو پہلے سے ضمانت پر رہا تھے مجھے الوداع کہنے کیلئے اسٹیشن پر آئے اور پوٹیدار کی طرف سے پیغام لائے کہ اگر وہ آنے کے قابل ہوتے تو ضرور آتے.دوسرے دن لاہور میں یونینسٹ پارٹی کی طرف سے میاں صاحب کے اعزاز میں لینے دیا گیا.میں نے میاں صاحب کی خدمت میں گزارش کی کہ کام کے متعلق مجھے کچھ ہدایات فرما دیں.فرمایا میں ہر وقت تمہارے پہلومیں تو کھڑا نہیں رہ سکوں گا تم اپنی تہمت سے تیر سکوگے یا کم مہتی سے غرق ہو گے.البتہ ایک بات ہے، یا جپائی کے سیکر ٹری ہونے پر جائنٹ سیکریٹری کا عہدہ خالی ہو گا.میں نے کوشش کی تھی وائسرائے رامچندر کے تقری پر رضامند ہو جائیں لیکن چونکہ ریڈ سروس میں اور محکمے میں رامچندرہ سے سیر ہے وہ رضامند نہ ہوئے.وہ عارضی تقریر تھا اب تمہارے وقت میں منتقل تقرر کا فیصلہ ہوگا.اگر را مندرہ کا تقرر ہوسکے تو میرے لئے اطمینان کا باعث ہو گا.نمان بہادر ڈنشا نادرشاه پرسنل اسسٹنٹ اسی شام میں لاہور سے ملے روانہ ہوگیا میاں صاحب کے پرسنل اسسٹنٹ خان بہادر ڈنشا نادرشاہ میرے ہمراہ تھے.کالک سے ہم کرایہ کی موٹر پر مل گئے.جب پہاڑی سفر شروع ہوا تو میں نے خان بہادر صاح سے کہا آپ جانتے ہیں مجھے اس کام کا کوئی تجربہ نہیں اور میں شملہ اور
۳۰۲ دلی کے ارباب حل و عقد سے بھی شناسا نہیں، آپ جہاں تک ہو سکے مجھے کام کرنے کے طریق اور حکام سے میل ہوسکے حول کے آداب سے مطلع کر دیں.انہوں نے کچھ ضروری باتیں اس وقت بتلادیں بعد میں بھی بہت مفید رفیق کار ثابت ہوئے.ان کے تجربے سے میں نے بہت فائدہ اٹھایا.شملہ میں میری رہائش ریٹریٹ میں تھی جو میاں صاحب کا سر کاری نبنگلہ تھا.میاں صاحب اند راہ عنایت اپنا سب ذاتی سامان میرے استعمال کیلئے میری سہ روت کے لئے چھوڑ گئے تھے.مجھے اس بارے میں کوئی تم نہ کرنا پڑا اور میاں صاحب کی نوانہ ش سے بہت آرام ملا.فجزاه الله خیرا مکان پر پہنچنے کے چند منٹ بعد خان بہادر صاحب نے بتایا کہ مسٹر ہیڈ جو ان دنوں میاں صامعہ کے محکمہ کے قائمقام سیکر ٹری تھے دریافت کرتے ہیں کہ وہ کس وقت ملاقات کیلئے آئیں اور وہ کہتے ہیں کہ باقی افران محکمہ بھی یہی معلوم کرنا چاہتے ہیں.میں نے کہا کہہ دیجئے میں کل صبح دس بجے خود دفتر آؤں گا سیکر یٹری صاحب اس وقت میرے کمرے میں تشریف لے آئیں اور پھر میرے ساتھ چلیں، تا کہ میں محکم کے ہرافس نہ پینڈنٹ بانٹ اسسٹنٹ اور کلرک کے مرے میں جاکر ان سے ملوں.خان مہادر نادر شاہ نے کہا آپ جیسے کہتے ہیں میں ان سے کہے دیتا ہوں لیکن یہ یہاں کا دستور نہیں.افسروں کا فرض ہے کہ وہ آکر ملیں.میں نے کہا بیشک یہاں یہی دستور ہو گا لیکن میرا یہ دستور نہیں.میں باہر سے آیا ہوں وہ یہاں موجود ہیں میرا فرض ہے کہ میں خود جا کر اپنے تعارف کراؤں.وائس ریے کی کونسل کے اجلاس میں اسی شام والسائے کی کونسل کا اجلاس تھا.ان ایام میں تیری پہلی مرتبہ شرکت کے لئے تیاری گول میز کانفرنس کی تیاری کے سلسلے میں حکومت ہند کی طرف سے مختلف متعلقہ مائل پر تفصیلی مراسلات در یہ ہند کی خدمت میں بھیجے جارہے تھے.مراسلے کا مسودہ متعلقہ محکمہ تیار کرتا تھا.کون میں اس پر غور ہو کر اور اگر کوئی ترمیمات منظور ہوں تو انہیں عمل میں لا کہ مراسلہ لندن بھیج دیا جاتا تھا اس شام کے اجلاس میں محکمہ دفاع کے مراسلے کا مسودہ نہ یہ کب آنا تھا.مجھے اور دفاع کے متعلق کچھ ھی علم نہیں تھا پریشان ہوا کہ پہلے ہی دن ایک ایسا موضوع زیر غورہ آئیگا حسیں کے متعلق میں کچھ بھی تو نہیں جانتا.گو یہ ضروری نہیں تاکہ میں بحث میں حصیلی، لیکن یہ تو لازم ناکہ مجوزہ مراسلے کی بن جاریہ کی میں امید کردن ان کے سن و تیج پر مجھے کچھ اطلاع ہو.میں نے مسودے کا مطالعہ اس دعاء کے ساتھ شروع کیا.یا اللہ سب علم ہے اور سب قدرت ہے تو اپنے فضل و رحم سے میرے ذہن کو جلا بخش اور میری رہنمائی فرما مسودہ پڑھتے ہوئے میرا میں تاثر یہ تھا کہ حکومت کے مرکزی دفانہ کی کار کردگی بڑے اعلیٰ پیمانے کی ہے کیونکہ مسودہ میں امور متعلقہ کو بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا تھا.جیسے جیسے میں پڑھتا گیا مجھے کچھ اطمینان ہوتا گیا کہ یہ معاملہ الا من یدہ نہیں جیسے مجھے خدشہ تھا پڑھتے پڑھتے جہاں مجھے خیال ہوتا کہ یہاں اصلاح کی گنجائش ہے میں حاشیے پر پنسل سے خط کھینچ دنیا جب میں ختم کر چکا تو میرے دل مشکل
4 WELL, MY DEAR ? م میں الہ تعالی کے شکر کا ہر اساس تھا کہ اس نے مجھے ایک ایسے امرکے سمجھنے کا محض اپنے فضل سے فہم عطا فرمایا جسے میں مشکل گردانتا تھا.وائسراے کی کونسل کے اجلاس کے لئے وائسہ لیگل لاح حاضر ہوا.دستور یہ تھا کہ اجلاس کے دفنت سے اجلاس میں طریق کار چند منٹ پہلے اراکین کو فن اور کمانڈر انچیف وائسرائے کے اسے ڈی سی کے بڑے کمرے میں جو استقبالیہ کمرہ تھا پہنچ جاتے.وہاں سے ان کے ہمراہ پہلی منزل پر اجلاس کے کمرے میں جاکر اپنی اپنی نشست پر بیٹھ جاتے.دو تین منٹ بعد دوسری جانب سے دائر رائے تشریف لے آتے.لارڈ والنگڈن کے زمانے میں لباس کے متعلق کوئی پابندی نہیں تھی کمانڈر انچیف فوجی وردی میں ہونے اور سولین اراکین دن بھر کے معمولی لباس میں.لارڈ ولنگڈن آتے ہی اپنے رفقا کے ساتھ بے تکلفی سے دو چار منٹ عام گفتگو فرماتے.پھر یہ ٹویٹ سیکر یٹری سے دریافت فرماتھے.امیرک! آج کیا کام ہے ؟ سرایریک میں دائرے کے پرائیویٹ سیکریٹری (جو کمرے کے کونے میں اپنی الگ میز لگائے بیٹھے ہوئے) ایجنڈے میں جو امر غیر اول پر درج ہوتا اس کا نام کے دیتے.وائسرائے رکن متعلقہ کو ارشاد فرماتے.اس پر رکن متعلقہ مختصر طور پر معاملہ پیش کرتے.آٹھ دس منٹ میں باقی اراکین میں سے جو چاہتا اظہار راے کرتا دوس میں سے نو اور پاس اظہار رائے کے دوران ہی میں اتفاق ہو جاتا کہ کیا فیصلہ مناسب ہو گا کسی نہایت اہم معاملے پر یا ایسے معاملے پر جس کے متعلق آخر تک اختلاف قائم رہے رائے شماری کی نوبت آتی.لارڈ ولنگڈن نخود اپنی طرف سے بہت کم کسی رائے کا اظہار کرتے.صرف کبھی کبھی کوئی محمد رضاعت کے طور پر فرماتے جس سے فیصلے میں آسانی ہو جاتی ہو فصیلہ بھی ہوتاوہ اسے بشاشت سے انا لیتے.اس طریق سے اکثر مو بلد بالاتفاق طے پا جاتے جن میں اختلاف قائم رہنا ان کے ی ی ی ی ی یت کی کشیدگی پیدا نہ ہوتی اور نیا منگو کے نے پراس طریق کا میں بہت کچھ تبدیل ہوگئی.اس کے متعلق ہدایت جاری ہوئی کہ کونسل کے اجلاسوں میں مازینگ سوٹ لازمی لباس ہو گا.سر جیمز گرگ وزیر خزانہ ایسی پابندیوں کے سخت مخالف تھے اور ضیاع اوقات کو گناہ کبیرہ سمجھتے تھے.وہ اس بات پر بہت چھین نہیں ہوئے لیکن عمل کئے بغیر چارہ نہیں تھائی ؟ میں جب جنگ شروع ہوئی تو مجھ سے کہا اس فضول ہیم کو بند کریں مں نے کہا کیسے بند جو کہا اگرتم میرے ساتھ اتفاق کرد تو میں پرائیویٹ سیکریٹری سرگرٹ لیتھویٹ سے کہ دوں کہ ہم دونوں کو استقدر معروفیت ہے کہ ہم کونسل کے اجلاس کے لئے لباس پہنے کیلئے وقت نہیں پاتے.میں نے کہا ضرور کہ دیجیئے.اس پر یہ ہدات منسوخ ہوگئی.لیکن کونسل کے اجلاسوں میں وہ بے تکلفی کا ماحول پیدانہ ہوا جو لارڈ ولنگڈن کے زمانے میں ہوتا تھا.لارڈ لینا تھگو کسی رفیق کار کو اس کے نام سے نہیں پکارتے تھے.عہدے کا نا لیکر خطاب کرتے تھے طرز خطاب نہات خشک اور دکھی ہوتا تھا ہ رکن پنی باری پر بولتا تھا.ہر معالے میں رائے شماری ہوتی تھی نتیجہ یہ تھاکہ اکثر معاملات میں اختلاف ہوتا تھا.لارڈ لیلہ ھو اپنائے شروع میں ظاہر کر دیتے تھے جو اتفاق کا نہیں بلکہ اختلاف کا موجب ہو جاتی تھی.لالہ ڈولنگڈن نے ایک دفعہ مجھ سے کہا میں نے تواپنے لئے یہ قاعدہ نمونہ کیا ہوا ہے کہ میں متعلق
بهم مهم معاملے میں میرے تینوں ہندوستانی رفقاء متفق ہوں میری رائے ان کی تائید میں ہوگی وہ تینوں یورپین اراکین اور کمانڈر انچیف کی رائے خلاف بھی ہو.ایسی صورت میں چونکہ ہم چار ایک طرف اور وہ چار دوسری طرف ہوں گے لہندا مرا کاسٹنگ ووٹ فیصلہ کن ہوگا.میں نے لارڈولنگڈن کو ہمیشہ اس قاعدے کی پابندی کرتے دیکھا.لیکن بہت کم معاملات میں کاسٹنگ روسٹ کی نوبت آتی کیونکہ یورپین اراکین میں سے ایک دو لارڈ ولنگڈن کے ساتھ ضرور شامل ہوتے.کمانڈر انچیف سرفلپ سیٹیو ڈان کے ہم مکتب رہے تھے اور دونوں کا آپس میں بہت دوستانہ تھا وہ عام سیاسی یا اتظامی امورمیں بہت کم رائے زنی کرتے تھے.لیکن جب کچھ کہتے تو بہت کام کی بات کہتے.اگر دیکھتے کہ کونسل میں والیئے کی رائے سے اختلاف ہوتا ہے تو ان کی تائید کرتے یا کوئی ایسا حل تجویز کرتے جس پر اتفاق ہو جاتا.لارڈو لنگڈن کے وقت میں طریق کار یہ ہی رہی ان کی شخصیت بھی ایسی تھی کہ کونین کے اجلاسوں میں کام سہولت سے ہوتا.اس سے بڑھ کر یہ کہ ان کے عہد میں ہندوستانی نقطہ نظر در سند دوستانی امنگوں اور بینا کا بہت زیادہ خیال رکھا جاتا تھا.لارڈ نیلہ تھگو کے زمانے میں عملاً آئینی قدم تو آگے بڑھا لیکن ہندوستانی جذبات کا اتنا خیال نہیں رکھا جانا اعتبار رولنگڈن رکھتے تھے.لارڈ ولنگٹن پہلی ہی ملاقات میں ملاقاتی کے دل میں یہ تاثر پیدا کر نے میں کامیاب ہو جاتے تھے کہ انہیں ملاقاتی کا احترام ہے اور اس کے جذبات اور خواہشات کے ساتھ ہمدردی ہے.لارڈ لیلتھگو کے متعلق ضرور یہ تاثر رہتا تھا کہ خشک مزاج ہیں.میرے ذاتی تعلقات تو ان کے ساتھ بھی ہمیشہ اچھے رہے اور دائے ہونے کے عرصے میں اور بعد میںبھی ان کا سلوک میرے ساتھ بہت شفقانہ رہا لیکن وہ اپنی طبیعت کے ہاتھوں مجبور تھے.فرمایا کرتے تھے جہاں دوسرے امور میں سادات ہوئیں اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہ سکتا ہوں کہمیں ہر بار ہندوستانی کو ترجیع دیتا ہوں لیکن ان کی نگاہوں میں دوسرے امور میں مساوات شادی ہوتی تھی.وائسرائے کی کونسل کے اجلاس میں کونسل کے اجلاس میں شرکت کیلئے وائسر نگل راج پہنچا اپنے رفقاء کے ساتھ میں پہلی مرتبہ شمولیت میری پہلے سے شناسائی تھی.کمانڈر انچیف صاحب کے ساتھ پہلی بار ملاقات ہوئی ان کے چیف آف سٹاف جنرل سرکن تھے وگرم اس اجلاس میں ان کے ساتھ تھے کیونکہ محکمہ دفاع کے مراسلے کا مسودہ زبیر حبت آنیوالا تھا.اجلاس شروع ہوتے ہی پہلے میں نے حلف لیا اور پر محکمہ دفاع کے مسودے پر گفتگو شروع ہوئی.وزیر ہند کی خدمت میں جانے والے مراسلات چونکہ نہایت اہم امور پر شتمل ہوتے تھے اسلئے ان پر بہت توجہ دیجاتی تھی اور پر پیراگران پر علیحدہ علیحدہ غور کیا جاتا تھا.میر کونسل کے اجلاس میں شامل ہونے کا پہلا تجربہ تھا مسودہ زیر غور کے اکر پراگرافی پہ تو اتفاق رائے سے صادر ہو گیا.بعض پر اگر اس میں مجھے اصلاح کی ضرورت معلوم ہوتی تھی.چنانچہ اپنی باری پہ میں ان میں ہ میم کی تجویز پیش کرتا رہا اور منزل دگر سے مشورہ کرنے کے بعد کمانڈر انچیف میری ترمیم کو منظور کرتے رہے.کونسل کا اعلان ختم ہونے پر میں اللہ تعالی کا شکر کر تے ہوئے واپس آگیا.
محکمہ جات کے افسران دروسری صبح میں دفتر گیا میٹریڈ میرے کمرے میں تشریف لے آئے اور میرے محکموں کارکنان سے پہلی تعارفی ملاقات کے بر افسر سپر نٹنڈنٹ ، اسسٹنٹ اور کلرک کے کرے میں جاکر ایک ایک کے ساتھ میرا تعارف کرایا.دو سپر تک میں نے اپنے مختلف محکموں کے سینکڑوں کارکنان کے ساتھ ملاقات کی.میرے قلمدان میں تعلیم صحت اور اراضیات کے علاوہ تیرہ چودہ متفرق محکمہ جات شامل تھے مثلاً آثار قدیمہ ، سمندر پار لینے والے ہندوستانی سروے آف انڈیا وغیرہ وغیرہ.RATES TRIBUNAL..CAPITATION | ہندوستان میں جو بر طانوی فوج کے دستے رکھے جاتے تھے میں حکومت ہند کی طرف سے پیروی کی پیش کش ان کی تنخواہیں اور الہ اخراجات تو ہندوستان کی طرف سے ادا ہوتے ہی تھے لیکن ان کے علاوہ ان دستوں کی بھرتی اور ریٹنگ پر جو اخراجات حکمت برطانیہ نے برداشت کئے ہوتے تھے ان کا ایک حصہ بھی ہندوستان کوادا کرنا ہوتا تھا.ان واجبات کا نام CAPITATION CHARGES تھا.انکی بوشر تجویز شدہ تھی اس پر ہندوستان کی طرف سے عذر کیا گیا تھا کہ اس میں تخفیف ہونی چاہئے.اس قضیے کے تصفیے کیلئے ایک عدالت قائم کی گئی تھی جس میں دو برطانوی حج شامل تھے اور دو ہندوستانی مجھے سرشاہ سلیمان چیف جسٹس الہ آباد ہائی کورٹ اور سر شادی لالی چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ شامل کئے گئے تھے.ایک آسٹریلین مج صدر تھا.اس عدالت کا نام CAPITATION RATES TRIBUNAL تھا.اس کے اجلاس لندن میں ہونیو الے تھے میرے شملہ پہنچنے کے چند دن بعد وائسرائے نے میرے ساتھ ذکر کیا کہ کی نڈر انچیف چاہتے ہیں کہ اس عدالت کے روبردہ سہندوستان کی طرف سے تم دوکالت کرد.ادھروز یہ سند مر ہی کہ تم میری گول میز کانفرنس میں ضرور شامل ہو.دونوں کا وقت ایک ہی ہے تم جیسے چاہو انتخاب کر لوں مجھے سوچ کر بتا دیا.میں نے عرض کیا مجھے سوچنے کی ضرورت نہیں.میں کمانڈر انچیف کا ان کے انتخاب کیلیے نہایت ممنون ہوں لیکن میں گول میز کانفرنس میں جانا چاہتا ہوں کیونکہ اس سمجھتا ہوں رہاں میں اپنے ملک کی عموماً اور سانوں کی شخصیت زیادہ مفید خدمت کرسکوں گا میں نے سمجھ لیاکہ محکمہ دفاع کے مراسلہ کے مسودہ میں جو ترامیم کونسل کے اجلاس میں میں نے تجونیہ کی تھیں وہ کمانڈر انچیف کو مناسب معلوم ہوئیں اور اسی لئے ان کی طر سے محد یا اعتماد کا اطمانہ ہوا.گومیں کمانڈر انچیف کی اس تجویہ کے مطابق تو عمل نہ کر سکا لیکن وہ جب تک ملازمت میں رہے مجھے ہمیشہ انکا اعتماد حاصل رہا.منشن پر چلے جانے کے بعد بھی جب کبھی انگلستان میںملاقات کا اتفاق ہوتا وہ بہت تپاک سے ملتے اور بڑی تواضع سے پیش آتے.حکمہ تعلیم، صحت واراضیات کے سکریٹریٹ میں اسی سال کے اوائل میں میرے نفر سے پہلے مکہ تعلیم صحت و انگریز افسران کی بجائے ہندوستانی افسران کا تقریر داراضیات کے سکریٹری سرفر یک نوائیں وائٹ دینے کی مجلس عاملہ کے رکن مقرر ہوئے تھے.میں نے ایسے ہی میاں صاحب سے دریافت کیا کہ انکی جگہ سکریٹری کون ہو گا.انہوں نے فرمایا یا ہائی کو سیکی بڑی ذ کیا گیا تو بڑی بے انصافی ہوئی.چنانچہ آپنے سرگز با شکر یا جہائی کی سفارش کی وائسرائے نے کچھ "
تقال کیا.میاں صاحب کے زور دینے پر کہا باجپائی کی صحت اچھی نہیں خون کے دباؤ کا عارضہ ہے.آخری طے پایا کہ باجپائی صاحب وی اینا مجاکہ معائنہ اور علاج کرائیں اور جب صحت کی بحالی کا سرٹیفکیٹ پیش کریں توان کا تقریر طوسی کیریری کیا جائے.وہ رخصت پرگئے تو سوال پیدا ہوا کہ قائمقام سیکر یٹری کون ہو.میاں صاحب نے میسر رام مندرہ کی سفارش کی وائسرائے نے کہا یہ عارضی فقر ہے مسٹریڈ سروس میں بھی سنی ہیں اور محلے میں بھی سنی میں قائمقام سیکریٹری انہیں ہوتا چاہیے.جب میاں صاحب رخصت پر گئے تو مٹر ریڈ قائمقام سیکر ٹری تھے، مسر رام چندرہ قائمقام جائنٹ سیکر یٹری تھے اور مسٹر صالح اکبر حیدری تا ئمقام ڈپٹی سیکریٹری تھے.مجھے چارج لئے ابھی تین ہفتے ہوئے تھے کہ باجپائی صاحب نے وہی آنا سے بھائی صحت کا سر ٹیفکیٹ بھیج دیا.سول سرجن صاحب نے تصدیق کی کہ با بھائی صاحب کی صحت اب بالکل بجال ہو چکی ہے.میں نے وائسرائے سے ذکر کیا اور اجازت چاہی کہا میں ان کی تقرری کا حکم لکھ دوں انہوں نے فرمایا لکھ دو اگرچہ جھے سمجھ نہیں آتی فضل حسین کیوں اس کے اتنے گرویدہ ہیں.میں نے کہا اب جائنٹ سیکریٹری کی جگہ بھی خالی ہوگی اسے بھی پیر کرنا ہے واٹرے نے کہا میں تو چاہتا تھا کہ ریڈ کو جائنٹ سیکریڑی کیا جائے کیونکہ وہ سنٹر سے لیکن فضل حسین اسے پسند نہیں کرتے تمہاری کیا رائے ہے ؟ میں نے کہا مجھے کام کرتے تھوڑا عرصہ ہوا ہے میں ابھی ریڈ اور رامچندرہ کے کام کا صحیح اندازہ * نہیں کر سکا آپ دوسرے پر جارہے ہیں آپ کی واپسی پر کچھ عرض کروں گا.چند دن بعد مسٹر ریڈ نے میرے ساتھ ذکر کیا کہ مسٹر باجپائی کے واپس آنے پر جائنٹ سیکریٹری کے تقرر کا سوال پیدا ہو گا مجھے سرفضل حین نے کہا تھا کہ تم سیر و تا افق فضل ہے.امید ہے تم اس کے ساتھ اتفاق کروگے میں نے کہا مجھے تو میں اس نے ایسا نہیں کیا مری نے پوچھا کیا مجھے اجازت ہے کہ مں سر فضل حسین کو خط لکھوں اور ان سے وضاحت کر لوں.میں نے کہا بیٹی کھٹے میری طرف سے اجازت ہے.میں نے خود بھی میاں صاحب کی خدمت میں لکھ دیا کہ مجھے خوب یاد ہے آپ نے اس معاملے میں مجھے کیا ارشاد فرمایا تھا.لیکن چونکہ مسٹریڈ کو کچھ غلط نہیں ہے اس لئے میں نے اسے اجازت دیدی ہے کہ وہ آپ کی خدمت میں وضاحت کیلئے خط لکھ دیں.میابی صاحب کی طرف سے جواب آیا کہ مں نے ریڈ کے خط کے جواب میں وضاحت کر دی ہے.میاں صاحب اپنے والا ناموں میں مہمیشہ مجھے ڈیر ظفراللہ کے الفاظ سے مخاطب کیا کرتے تھے.اس خط میں انہوں نے ڈیڈ چو دھری صاحب لکھا.میں نے جواب میں لکھا کہ میں کسی تقصیر کی پاداش میں ظفر اللہ سے چودھری صاحب ہو گیا ہوں.جواب میں فرمایا اب تم بڑے عہد پر متعین مجود میں نے خیال کیا شاید اب نام سے مخاطب کیا جانا تم پہ گراں گذرے.میں نے اس پر احتجاج کیا تو مجھے تسلی دی کہ میرے دل میں تمہارے متعلق کوئی تبدلی نہیں.میں نے خیال کیا ممکن ہے میانی صاحب نے طرز خطاب میں تبدیلی میری آنہ مائش کے طور پر کی ہے.واللہ علم بالصواب.مسٹر ریڈنے مجھے بتایا کہ ان کے خط کے جواب میں سر فضل حسین نے انہیں رو خط لکھے ہیں.ایک سیمی جو ان کے خط کے جواب کے طور پر سل پر رکھا جائے گا.اس میں اتناہی لکھا تھا میں نے قائمقام وزیہ کواپنی رائے لکھ بھیجی ہے.دوسرا خط پرائیویٹ تھا جس میں میاں صاحب نے وضاحت کی تھی کہ ان کی قائمقام
تقرری ان کے سینٹر ہونے کے لحاظ سے ہوئی تھی لیکن منتقل تقرری کیلئے میاں صاحب کی رائے مسٹریام سندرہ کے ستی میں ہے.مسٹر ریڈ نے مجھ سے کہا اس سے میرے لئے مشکل پیدا ہوتی ہے.ایک طرف تو میں سر فضل حسین صاحب کیلئے کوئی وقت پیدا کرنا نہیں چاہتا.ان کی مرضی کے خلاف اگر میرا نظریہ ہو بھی جائے تو اس سے نہ صرف وہ ہی نا خوش ہوں گے میں بھی آنند وہ رہوں گا.دوسری طرف اگر میرا مندرہ کو مجھ پر تر جیح دیجائے تو مجھ پر حرف آتا ہے.اس مشکل کا ایک حل میرے ذہن میں آتا ہے اس میں تمہاری مدد درکار ہے.میرے دریافت کرنے پر کہا کہ مسٹر با چپائی کا راگست کو واپس آنیوالے ہیں.اس دن سے وہ سیکریٹری ہوں گے اور جائنٹ سیکر یٹری کا عہدہ خالی ہوگا.مسٹر رام چندره ۸ راگست سے ۱۹ اکتوبر تک رخصت لینا چاہتے ہیں اس عرصے میں تم وزیر ہو گے اگر تم مجھے در اگست سے جائنٹ سیکریٹری مقرر کر دو تو میں ۱۹ اکتوبر سے رخصت لے لوں گا اور رخصت سے واپسی پر اپنے صوبے میں واپس چلا جاؤں گا.19 اکتوبر سے مسٹرا مچند رہ جائنٹ سیکریٹری ہو جائیں گے.میں نے کہا اگر اس طرح آپ کی مشکل رفع ہوتی ہے تو میں خوشی یہ تجویز داٹرائے کی منظوری کیلئے پیش کر دوں گا.اور مجھے یقین ہے وہ منظوری دیدیں گے.جب وائسرائے دوسرے سے واپس آئے تو میں نے یہ بات ان سے چھیڑی انہوں نے پوچھا تمہاری کیا رائے قائم ہوئی ؟ میں نے کہا ریڈ شریف طبع افسر ہے.میں نیا ہوں مجھے ضرورت ہے کہ سیکیہ بیڑی اپنے نوٹ میں معاملے کی وضاحت کر کے اپنی رائے پختہ اور واضح طور پر بیان کرے.فیصل کر نا بیشک میرا کام ہے لیکن سیکر یٹری کا نوٹ مجھے معاملہ ریہ غور کے حسن وقبیح پر مطلع کرنے والا ہونا چاہیے.میں نے دیکھا ہے کہ اپنا نوٹ لکھنے سے پہلے سٹریڈ میرا قدریہ معلوم کرنا چاہتے ہیں اور جس طرف میرارہ جھان پاتے ہیں ویسا ہی نوٹ لکھ بھیجتے ہیں جس سے مجھے بہت کم مرد ملتی ہے میرا مندرہ بھی کام کے لحاظ سے غنیمت ہیں ریڈ سے کچھ بہتر ہیں لیکن الیس نمایاں فرق نہیں کہمیں انہیں ریڈ پر ترجیح دینے پہ نوردوں البتہ ایک فوقیت انہیں ضرور حاصل ہے.میرے قلمدان میں سمندر پار ہندوستانیوں کا مسئلہ ایک اہم مسئلہ ہے اور کام کی موجودہ تقسیم میں یہ مسئلہ جائنٹ سیکریڑی کے سپرد ہے مسٹر رامچندرہ اس کا تجربہ حاصل کر چکے ہیں میٹر ریڈ کو اس کا تجربہ نہیں.تاہم اگر مسٹر ریڈ نے میرے ساتھ ہی کام کر نا ہو تا تو میں ان کے ساتھ گزارہ کر دیتا لیکن میں تو ۲۰ اکتوبر کو یہ خصت ہو جاؤں گا.سرفضل حسین ریڈ کے تقریر کے حق نہیں ہیں.اگر ریڈ کا نقر ہو بھی جائے تو دونوں کیلئے مشکل ہو گی.ریڈ نے جو اس مشکل کا حل تجویز کیا تھا وہ میں نے بیان کیا.پوچھا تم اس پر راضی ہو ؟ میں نے کہا میں راضی ہوں تو فرمایا پھر الیسا ہی لکھ دو.میں نے کہا اس سلسلے میں ڈپٹی سیکریڑی کا عہدہ خالی ہو گا.صالح سید ری قائم مقام ڈپٹی سیکر یٹری ہیں قابل اور ہو سہارا افسر ہیں.آپ متفق ہوں تو ان کا تقرر ڈپٹی سیکر یٹری کے عہدے پر کر دیا جائے، کہا بڑی خوشی ہے.چنانچہ اس کے متعلق میں نے احکام دیدئیے.نارڈو لنگڈن کا طرق تھا کہ وہ نہ بانی گفتگومی تجاویہ کی منظوری دیدیتے ہو کچھ طے پاتا اس کے مطابق متعلقہ
کہ وزیر مسل رحیم لکھ دیا اور آخر میں دائرے کی منظوری کا ذکر کر دیا.والٹیرے کی تحریری منظوری کیلئے وا کیے پول کم کردیتا ذکر بھیجنے کی ضرورت نہ ہوتی.لارڈ لیلتھگونے یہ طریق بدل دیا ان کے ساتھ بھی معاملہ پہلے زبانی طے پاتا.متعلقہ ذریے اس کے مطابق سفارش لکھ کر مسل ان کی خدمت میں بھیج دیا اور وہ اپنے قلم سے سرخ سیاہی میں اپنی منظوری لکھتے اریہ سٹریڈکا معاملہ ان کی خواہش کے مطابق طے پاگیا تھا لیکن ملے کے یورپی حلقوںمیں اس کا بڑا چر چا سکیان کہ ایک غیر معروف داڑھی والے مولوی نے قائمقام وہ یہ ہوتے ہوئے ایک سینیٹر اور مین افسر کے مقابلے میں ایک ہندوی انسر کا تقرر عطونہ جائنٹ سیکر بڑی کروا دیا ! ڈائرکٹر جنرل آئی ایم ایس کے محکمہ ان دونوں انڈین میڈیکل سروس کے ڈائر یکٹر منزل، جنرل میگا تھے میں پہلے ہندوستانی افسر کا تقریر صحت عامہ کا کمشن انڈین میڈیکل سروس کا ڈپٹی ڈائرکٹر منزل بھی ہوا کرتا تھا.اس عہدہ کے خالی ہونے پر منزل میگانے سفارش کی کہ مدراس کے کرنل سیل کو اس عہدے پر مقرر کیا جائے.میں نے جنرلی میگا کو بلوایا اور کہاکہ ان کے مرکزی دفتر میں کوئی مہندوستانی انسر نہیں.اس کی طرف توجہ ہونی چاہیئے.میں نے پوچھا آئی ایم ایس کے ڈپٹی ڈائرکٹر جنرل کیلئے کن شرائط کا پورا کرنا ضروری ہے ؟ جنرل میگ نے کہا چونکہ ڈپٹی ڈائرکٹر جری پبلک ہیلتھ کمشنر بھی ہوتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ لفٹنٹ کرنل ہونے کے ساتھ اسے پبلک ہیلتھ کا ڈپلوما بھی حاصل ہو.میں نے کہا اس وقت انڈین میڈیکل سروس میں تین ہندوستانی میجر ایسے ہیں جن کے پاس پبلک ہیلتھ کا ڈیلوتا ہے.وہ جلد لفٹنٹ کرنل ہو جائیں گے.کیا آپ یہ کرسکتے ہیں کہ سل پرپوٹ کر دیں کہ آئندہ جب یہ اسلامی خالی ہو تو ان تین میں سے کسی کے تقریر پر غور کیا جائے.جنرل صاحب نے جواب دیا :- " " SIR I CANNOT BIND THE HANDS OF MY Successor" و جناب میں اپنے جانشین کے ہاتھ نہیں باندھ سکتا ، میں نے کہا :- Wery Good GENERAL! I SHALL DO THE BINDING" ر بہت خوب جنرل ہاتھ باندھنے والا کام میں کردوں گا ، میں نے وائسرائے سے ذکر کیا کہ یہ آسامی خالی ہونے والی ہے اور ڈائمہ کر منزل نے کہ نیل سیل کی سفارش کی کی ہے.واٹر ایے کہنے لگے میں کرنل رسل کو مدراس کی گورنری کے زمانے سے جانتا ہوں بہت قابل افسر ہے تمہیں تو اس پہ کوئی اعتراض نہیں ؟ میں نے کہا نہیں مجھے کہ نیل ریل پر تو کوئی اعتراض نہیں لیکن آئی ایم ایس کے مرکزی دفتر میں ابھی تک ایک بھی ہندوستانی کا تقریر نہیں ہوا.تین ہندوستانی افسر بو میجر ہیں اور پبلک ہیلتھ کا ڈپلوما بھی رکھتے ہیں بعد لفٹنٹ کرنل ہو جائیں گے.میں چاہتا ہوں کہ کرنل رسل کے تقریر کے حکم میں یہ لکھ دوں کہ محب آئیندہ یہ آسامی خالی ہو تو ان تین افسروں میں سے کسی ایک کے انتخاب پر بھی غور کیا جائے.فرمایا بیک بیتیک مزدور
لکھ دو.چنانچہ میں نے کرنل سیل کی تقرری کے حکم میں ان تین افسروں کے متعلق بھی ہدایت کر دی اور آخر میں لکھ دیا کہ وائسرائے اسے منظور کرتے ہیں.جب جنرل میگا نے میرا نوٹ پڑھا تو بہت سیخ پا ہوئے مسٹر صالح حیدری ڈپٹی سیکر بیڑی سے کہا میں وائسرائے کے پاس اہتمام کرنا چاہتا ہوں وزیر سے اجازت سے دو کہ میں وائسرائے سے مل لوں مسٹر حیدری نے ان سے کہا وزیہ تو بلا تامل اجازت دیدے گا لیکن آپ وائسرائے سے کہیں گے کیا؟ اور وائسرائے تو رضامندی دے چکے ہیں اور یہ حکم اب وائسراے کا کم ہے.جنرل میگا خاموش ہو گئے.اپنی میعاد ختم ہونے پر منزل یک روز یہ ہند کے بی شیر مقر ہو گئے تھے ستان انہوں نے آئی ایم ایس کے متعلق ایک کتاب بھی شائع کی ہی سند میں جب میں شاہ جارت ششم کی تاجپوشی کے موقعہ پر سندی کے نمائیندے کی حیثیت سے لندن گیا تو یہ کتاب مجھے تحفہ دی.اور بہت تپاک کے الفاظ اس میں درج کئے.جب ڈپٹی ڈائرکٹر جنرل کی جگہ پھر خالی ہوئی تو میاں صاحب نے اس آسامی پر لفٹنٹ کرنل گناپتی کا تقرر کیا جو ان تین افسران میں سے ایک تھے حین کے نام میں نے نوٹ میں درج کئے تھے.لفٹنٹ کرنل گنا پتی سر سری سنگھ گاڈڑ کے داماد تھے.اصلاحات کے متعلق وزارت و اخلال کے لیے آئینی اصلاحات پر وزارت داخلہ کے مراسلہ نام وزیر منہد کا بنام وزیر سند پر میری اختلافی رائے مسودہ جب وائسرائے کی کونسل میں زیر بحث آیا تو مجھے ایک پراگراف سے اختلاف ہوا.سوال یہ تھا کہ کسی صوبے میں ہنگامی صورت پید ہو جانے پر امن عامہ کی حفاظت اور قانون کی پابندی کی نگرانی کا اختیار اور زمہ داری کس کے پیر ہو.باقی سب اراکین کونسل کا سودے میں درج شدہ تجویز پراتفاق تھا.میں اپی بخونید پر مصر رہا.فیصلہ ہوا کہ میری اختلافی رائے مراسلے میں درج کر دی جائے اور مجھے ارشاد ہوا کہ تم خود ہی اختلافی رائے لکھ بھی دور میں نے ایک پیراگراف لکھ کر پرائیویٹ سیکریٹری کو بھیج دیا.اس کی ابتدا ان الفاظ سے تھی.ہم میں سے ایک کی رائے ہے کہ" پرائیویٹ سیکریٹری نے ٹیلیفون پر مجھ سے کہا کہ مناسب ہو گا اگر اس اختلافی پیراگران کے شروع میں تمہارا نام درج کر دیا ہے تا کہ وزیر سند کو معلوم ہو جائے کہ یہ اختلافی رائے کس کی ہے.میں نے کہا بیشک درج کر دیجئے ؟ چند دن کے بعد مراسلے رائے ! کے متعلق وزیر سند کاتار موصول ہوا.متنازعہ مسلے کے متعلق لکھا کہ اس مشکل اور پیچیدہ مسئلے کا موزوں اور قابل عمل حمل وہی ہے جو اختلافی رائے میں درج ہے.جب وزیر ہند کے تارپر کوس میں غور ہوا تو میرے رفقاء نے پھر دیاکہ میں ان کے ساتھ متفق ہو جائیں.میں نے کہایہ جب دعوت ہے کہ جب وزیر نیری جونی کو موں اور قابل عم سمجھتے ہیں تومیں پنی ائے چھوڑ کر آپکے ساتھ ال ہو جائیں اور کا کوں نے یہ ہند کی راے تسلیم کر لی.فرقہ دارانہ نیابت کے سلسلہ میں حکومت ہند کی سفارشات میں سر فضل حسین صاحب کے رخصت پر جانے سے میں تبدیلی کرانیکی وزیر اعظم مرور میکڈا میر نے کوشش سے کون و راداران نیات کے لیے پرانی تجویز پہلے فرقہ وزیر نیند کی خدمت میں بھی کی تھی.اس تجویز پیروز یہ ہند کی رائے میاں صاس کے رخصت پر جانے کے بعد وصول ہوئی.وزیہ ہنے تجویز کیا کہ اداس بیٹی اور صوبہ منت طے کی مجالس میں سمانوں کی نشستوں میں ایک دو نشستوں کا اضافہ کر دیا جائے تاکہ
مگر پنجاب اور بنگال کی مجالس میں مسلمانوں کی نشستوں میں کمی کی جائے.یہ تار دیکھتے ہی میں نے وائسرائے سے ملاقات کا وقت لیا اور وزیر بند کی تجویہ کے خلاف احتجاج کیا.وائس ایسے خود بھی سمجھ گئے کہ مدراس ہمیٹی اور صوبہ متوسط میں مسلمانوں کو ایک یا دو نشستیں زاہد مل جانے سے مسمانوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے اور پنجاب میں کمی ہونے سے ان کی خفیف کی اکثریت بھی جاتی ہے ی اور بنگال میں کمی ہونے سے ان کی نمائندگی ہم فیصد سے بھی گرجائے گی.اس سے میں نے واضح طور پر کہ دیا کہ اگر کوئی اسی تخفیف لیگی قومی کونسل سے مستعفی ہو جاؤں گا.کیونکہ ایسی صورت میں میں صیح طور پر نیا الزام آوں گا کہ جو تناسب سر فضل حسین قائم کروا گئے تھے وہ میرے قائمقام ہونے کے عرصے میں قائم نہ رہا.وائسرائے نے میرے موقف سے ہمدردی کا اظہارہ کیا اور تائید کا وعدہ کیا.کہا میں ابھی سر بہری ہیگ وزیر داخلہ اور کمانڈر انچیف سے بات کرتا ہوںاور انہیں اسبات پر پختہ کر لیتا ہوں کہ جو سفارش کم ے کر چکے ہیں اس پرقائم رہی.اس طر منی نہ ہونگے ہو تے م ہو جائے گیا اراکین ہمارے ساتھ مل نہ بھی ہوئے تومیں نے فیصلہ کن روسٹ استعمال کروں گا اور کماری کثرت ہو جائے گی.لیکن میں امید کرتا ہوں کہ ساری کونسل کا سہی موقف ہو گا تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں.اسی شام کونسل کا اجلاس ہوا.دائیے نے فرمایا.آپ سب جانتے ہیں کہ یہ کتنا پیچیدہ اور شکل مسئلہ ہے اور ہمیں اس پر کتنا وقت صرف کرنا پڑا تھا.میں چاہتا ہوں کہ ہم سب اس بات پر متفق ہو جائیں کہ ہم اپنی سیلی سفارش پر قائم کی ہیں گے سوائے اس کے کہ یہ ہند کی کوئی ایسی ترمیم موسی کی تائید یں کوئی معقول وجہ پیش کی گئی ہو.چنانچہ کونسل میں اسبات پر اتفاق ہو گیا.اس کے بعد ون یہ ہند کے تار پر غور شروع ہوا.وائسرائے نے پرائیویٹ سیکریٹری سے دریافت کیا مدراس کے وزیہ کے متعلق وز یہ سند کی کیا تخونہ ہے.ٹویٹ سیکہ بڑی.وزیر نیند تو نہ کرتے ہیں کہ مسمانوں کو مدراس میں ایک نشست زائد دی جائے.والا ہے.کوئی وجہ بیان کرتے ہیں.پیرا ٹویٹ سیکریٹری.کوئی وجہ بیان نہیں کی.وائسرائے.ظفر اللہ تم مدراس میں یہ زاید نشست لینا چاہتے ہو ؟ ظفر اللہ.اگر اس زائد نشست کی وجہ سے پنجاب اور بنگال میں ہماری مجوزہ نشستوں میں کمی کی جائے تو مجھے یہ زائید نشست منظور نہیں.وائسرائے.تو ہمیں دن یہ ہند کی یہ تجویز منظور نہیں.پرائیویٹ سیکریڑی.مدراس کے متعلق وزیر ین کی یہ بھی تجویز ہے کہ عورتوں کیلئے بو پارانشیں محفوظ کی گئی ہیں.ان میں سے ایک مسلمان عورت کے لئے محفوظ کر دی جائے.وائسرا ئے.یہ تجویز معقول معلوم ہوتی ہے.کیا اس پر کسی کو اعتراض ہے ؟ کسی نے اعتراض نہ کی اور یہ کتونی بالاتفاق قبول کرلی گئی.اس طرح وائسرائے نے مجھ سے کہلوالیا کہ پنجاب اور بنگال
۳۱۱ میں مسلم نشستوں یں کی کر کے بیٹی اور صوبہ متوسط میں مسلمانوں کیلئے زائد نشست منظور نہیں پنجاب کے متعلق تو بالاتفاق فیصلہ ہو گیا.بنگال کے متعلق سرلی ایل نرز نے پھر اپنا سابقہ اعتراض دہرایا کہ ہندوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے کم نیابت دی گی ہے جس کا میں نے تفصیلی جواب دیا.آخر فیصلہ ہوا کہ ہلے تو سفارش کی گی تھی وہ سریال ترکی ندوی کی نیابت کی کمی کی شکایت کے ساتھ دوہرائی جائے.آخر کار حکومت برطانیہ نے اس کے مطابق فرقہ وارانہ سیاست کے متعلق اپنا فیصلہ صاویر کر دیا.سرمان اینڈرس تھوڑا عرصہ پہلے بنگال کے گور زمقر ہوئے تھے.انہوں نے کلکتہ سے وائیٹے کی خدمت میں لکھا کہ میں تو میاں گورنمنٹ ہاؤس میں گویا محسوس بیٹھا ہوں.کوئی ہندو لیڈر مجھ سے ملتا ہے نہ مسلمان مسلمانوں کو تواب شکوہ نہیں ہونا چاہئے.فرقہ وارانہ نیابت کے فیصلے میں بنگال میں ان کی نیابت ۲۰ فیصد سے بڑھا کرہ اہم فیصد کر دی گئی ہے گو ابھی اس کا اعلان نہیں ہوا.لیکن اگر میرے ساتھ دہ رابطہ قائم کریں توی بغفر تفصیل مں جانے کے ان کا اطمینان کر سکونی.اگر ظفراللہ خاں دو تین دن کیلئے کلکتے آجائے تو ممکن ہے اس جمود کی حالت میں حرکت پیدا ہو سکے.وائسرائے نے میرے ساتھ ذکر کیا اور کہا اگر تم اسکو تو گورنر کے پاس ٹھہر جانا اور سلمان اہل الرائے اصحا سے ملنا میں نے کہا میں چلا جاتا ہوں لیکن میراگورنہ اوٹس میں ٹھہر نامناسب نہیں.اگر میں گورنر ا مہمان ہوا تو جو اصحاب مجھ سے ملنا چاہیں گے وہ آسانی سے آجا نہیں سکیں گے.میں سرعبدالحلیم غزنوی صاحب کے ہاں ٹھہر جاؤں گا اور وہیں سب اصحاب سے ملاقات کرد گا.غزنوی صاحب کے ہاں مجھے بہت آرام ملا.اس کے بعد جب بھی مجھے تقسیم سے قبل کلکتے جانے کا موقعہ ہوتا میں انہی کے ہاں ٹھہرتا اور وہ حد درجے کی تواضع سے پیش آتے رہے.فجزاہ اللہ خیرا.اس موقع پرمیں جنگل کی مسلم قیادت کے والا مولوی ابوالقاسم فضل الحق صاحب کوئی پہلے سے جانا اہ مہربانی فرماکر پانچ چھایا ہے ہمراہ میری قیام گاہ پر تشریف لائے.بظاہر بے تکلفی سے گفتگو ہوتی رہی اور بعد اطمینان تشریف لیگئے تھوڑی دیر بعد انہیں اصحاب میں سے تین چار کے ہمراہ پر تشریف لائے اور کچھ مزیدار کےمتعلق گفتگو فرمائی.آخر ایک روز تنہا تشریف ائے اور فرمایا میرے تمہارے درمیان کوئی تکلف تو ہے نہیں، ہند ہم پر زور دے رہے کہ ہم ان کے ساتھ سمجھوتہ کریں تم مجھے صاف صاف بلاد که اگر فرد داران نیات کی صورت می ہماری پوزیشن کمزور ہے تو ہم ہندوں کے ساتھ سمجھو نہ کی صورت کرلیں میں نے دریافت کیا آپ کے اندازہ کے مطابق مضبوط پوزیشن کیا ہوسکتی ہے ؟ کیا اس وقت بھی عام نشستوں کا ہے فیصد حاصل ہے جو کل نشستوں کا ۲۰ فیصد نتا ہے اگر میں کاوشوں کا ہم فیصد ی نے کی امید و تو تم بھی مہاری پوزیشن مضبوط ہے.ہندو شاید کہیں ہم نصیری مخلوط انتخاب کے اصول پر دینے پر رضامند ہو جائیں.گواھی وہ انے پر خاند نظر نہیں آتے.میں نے عرض کیا میرا اندازہ ہے کہ آپ ہم فیصدی سے زیادہ کی پختہ امید رکھ سکتے ہیں پوچھا کیا غلط انتخاب سے ؟ میں نے کہا نہیں جداگانہ انتخاب.فرمایا توپھر میں ندوی کی خوشامد کی کیا ضرورت ہے ہم نے
۳۱۲ کہا کہ اپنے تمام مفادکو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ آپ خود کریں.لیکن میں صرف یہ گذارش کردوں گا کہ تو فیصلہ بھی کریں منفقه طور پر کریں اور قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے کریں.ذاتیات کو درمیان میں نہ آنے دیں.کہنے لگے ہاں ہاں لیکن یہ تو تباد ہم فیصدی سے کس قدر زیادہ کی ہم امید رکھ سکتے ہیں ؟ ۲م کی ۵م کی ؟ میں نے کہا ہم سے بھی زیادہ کی.پوچھا کیا ان کا نیابت کے طریق سے؟ میں نے کہا بیشک.فرمایا سچ کہتے ہو ؟ عرض کی یقینا سچ کہتا ہوں.کہا تو بیس فیصلہ ہے ہمیں اور کیا چاہئیے ؟ میں نے مشورہ دیا کہ آپ اصحاب گورنز سے رابطہ پیدا کریں اور جو کچھ میں نے آپ سے کہا ہے اس کی تصدیق ان سے پائیں آپ کوان کے ساتھ کام کرنا ہوگا.اگر ھی سے آئین تعلقات ائم ہو جائیں گے اور اعتماد پدا ہو جائے گا تو آئندہ تعاون میں آسانی رہے گی.میں تین دن کھلتے ٹھہرا اور صبح سے شام تک اس مہم میں مصروف رہا.میرے دن گورز صاحب سے دو پیر کے کھانے پر ملاقات ہوئی اور میں نے مختصراً انہیں بتایا کہ مسلمانوں میں سے سریہ آوردہ اشخاص کی طرف سے وہ تعاون کی امید رکھ سکتے ہیں.اگر گورنر صاحب ان کی طرف قدم بڑھائیں گے تو انہیں تعاون پر آمادہ پائیں گے.مسٹرحسین شہید سہروردی | اس موقع پر کلکتے میں میری ملاقات مسرحسین شہید سہروردی سے بھی ہوئی بھی جوان تھے لیکن قابلیت ظاہر تھی میں نے وائس ایسے ذکرکیا او مشورہ دیا کہ ہائی کورٹ میں جگہ خالی ہونے پر نہ بھی پر ہو جاتا.لیکن نہیں سیاسی سر گر میانی زیادہ مرغوب تھیں.اچھوت اقوام کو جدا گانہ نیابت کی تجونیہ فرقہ دارانہ نیات کے متعلق حکمت برطانیہ نے جو فیصلہ صادر کے خلاف گاندھی جی کا برت اور معاہد ہونا کیا اس میں اچھوں کو علیحدہ نیات کا حق دیاگیا تھا.اس فیصلے کے خلاف گاندھی جی نے پونا میں بہت شروع کر دیا.جب گاندھی جی کی جسمانی حالت بہرت کے نتیجے میں کمزور ہونا شروع ہوئی تو ہندو لیڈران کی طرف سے بھاگ دوڑ شروع ہوئی کہ اچھی اقوام کے لیڈروں کے ساتھ کوئی سمجھوتے کی صورت نکالی جائے.آخر پونا میں ایک معاہدہ ہوا اور اسکی اطلاع وائسرائے کو موصول ہوئی مجلس عاملہ کا اعلاس طلب ہوا.وائسرائے نے فرمایا اس قصے کا فیصہ تو ہوگیا ہے لیکن گاندھی جی کی مال بہت کمزور ہو چکی ہے بلکہ ان کے بیان کی جاتی ہے.مناسب ہوگا اگر ہماری طرف سے فوراور یہ ہند کی خدمت میں سفارش بھیج دی جائے کہ اس فیصلے پر مل در آمد کافوراًا علان کیا جائے ، تاکہ گاندھی جی اپنا بیت ترک کر دیں اور کوئی ناگوار صورت پیدانہ ہو.میرے تمام رفقاء نے وائسرائے کی تجونیہ کے ساتھ اتفاق کیا میں نے کہا مجھے ایک درجہ سے کچھ تامل ہے.وائسرائے.یہ حیل و حجت کا موقع نہیں گاندھی کے بت کو بہت جلد ختم کرانا بہت ضروری ہے.ظفر اللہ خاں.آپ کیا فرماتے ہیں مجھے آپکو صر ا س کی طرف توجہ دلاتاہے کہ معاہدہ پونا میں بنا کے مندروں کا کوئی نماد شامل ہیں.فرد دارانہ بات کا جو فیصلہ بر طانوی حکومت نے صادر فرمایا ہے اس میں اچھوت اقوام کے
سم اسمه سے پنجاب میں کوئی نشست نہیں.معاہدہ پر نامیں ان کے لئے پنجاب میں نشستوں کی تخصیص کی گئی ہے.کل کو پنجاب کے ہند کہ سکتے ہیں کہ میں معاہدہ پونا کا یہ حصہ منظور نہیں اس صورت میں ایک نئی مشکل پیدا ہو جائے گی.وائسرائے.تم مشکلی ہی بیان کرتے ہو کوئی عمل تھی تو بتاؤ.ظفر اللہ - اجازت ہو تو حمل بھی عرض کر دیتا ہوں.والسرائے.کہو ! لیکن وقت بہت تنگ ہے....ظفر اللہ.آپ اس وقت اجلاس ملتوی کر دیں پرائویٹ سیکر ٹری صاحب کو ارشاد فرمائیں کہ وہ سر داد سکندر حیات خالصاحب کو (جو اس وقت تا مقام گورنہ پنجاب تھے) اس مشکل سے آگاہ کریں اور ان سے کہیں کہ مندر جہ ذیل تین ہندو لیڈران کو بھو اس وقت شمے میں موجود ہیں طلب فرمائیں.(1) ڈاکٹر گوگل چند نارنگ صاحب جو پنجاب کی وزارت میں ہندو زیمہ میں (۲) راجہ نریندر ناتھ صاحب جو پنجاب کو نسل میں ہندو پارٹی کے لیڈر ہیں.(۳) بھائی پر مانند صاحب تو مرکزی اسمبلی میں پنجا کے ہندؤں کے نمائیندے ہیں.ان حضرات سے دریافت کریں کہ وہ معاہد ونا و سلیم کرتے ہیں انہیں اگر وہ ہیں کہ سلیم کرتے ہیں تو غرض پوری ہوگی.اگر وہ کہیں کہ تسلیم نہیں کرتے توان پر واضح ردی کہ تاخیر کی ذمہ داری ان پر ہوگی اور اگر کوئی ناگوار صورت پیداہوگئی تو الزام ان پر آئے گا.میر انداز ہے کہ اس پر یہ اصحاب رضامند ہو جائیں گے اور یہ ذمہ داری اٹھانے پر تیار نہیں ہوں گے.لیکن اگر آج انہیں پابند نہ کیا گیا توکل معاہدہ پونا کے سرکاری طور پر منظور ہوانے کے بعد ممکن ہے وہ انکار کریں کہ ہم سے کسی نے پوچھا نہیں.آخر یہ تجویز منظور ہوگئی، اس وقت دور پر کا وقت تھا کونسل کا اجلاس چھ بجے تک ملتوی ہوا سر سکندر حیات مخالف جتنے رپورٹ کی کہ داعیہ نم نیاره نا تھ صاحب تو شملہ سے آج ہی لاہو یہ جانیکے لئے روانہ ہو چکے ہیں.اسلئے ان سے بات نہیں ہوسکی.ڈاکٹر گوکل چند صاحب نارنگ اور بھائی پر مانند صا حب سے بات ہوئی ہے.ڈاکٹریا سب تو چارونا چار رضامند ہوگئے لیکن بھائی پر انار مانو نے فرمایا کہمیں اس طریق کو صیح تسلیم نہیں کرتا جو گاندھی جی نے اختیار کیا ہے.قومی حقوق ایک شخص کے تیہ رکھ لینے یا ترک کر دینے سے طے نہیں کئے جاسکتے.یہ قوم کے حقوق کا سوال ہے پنجاب کے ہندوں کی اس میں سخت سحق تلفی ہے میں اس معاہدہ کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں.اس پر ڈاکٹر نارنگ صاحب نے بھائی پر مانند اس سے کہا میں آپے لیکن اسوقت بہت مشکل مرحلہ در پیش ہے.گاندھی جی کی زندگی کا سوال ہے.اگر ہمارے کسی مغل سے ایسی قابل انقرام ستی کی صحت کوکوئی گزند پہنچ گی توہم قوم کو کیا نہ دکھائیں گے ؟ کچھ دیر تو بھائی پر ماندانی مدیر قائم رہے لیکن آخر آبدیدہ ہو کر ڈا کر نارنگ سے کہا میرا دل تو نہیں مانتا لیکن آپ کے زور دینے سے میں ہاں کہہ دیتا ہوں.یہ رپورٹ ملنے پ کون نے معاہدہ ہونے کی تصدیق وزیر سند کی خدمت میں ارسال کر دی اور حکومت برطانیہ نے سے تلیم کر لیا گاندھی جی نے اپنا بیت ترک کر دیا.
لم اسم تیسری گول میز کانفرنس کے مسلم مندوبین | تیسری گول میز کانفرنس کے مندر بین کا انتخاب ان دنوں ہوا مندوبین جب میں میاں فضل حسین صاحب کی رخصت کے سلسلہ میں قائمقام ممبر وائٹ اسے کونسل تھا.وائسرائے کی کونسل کے اجلاس میں میں نے جو نام مسلم وند کی رکنیت کیلئے پیش کئے ان میں سے ایک تو وائسرائے نے نورا الا تا رد کر دیا.باقی ناموں پر میرے رفقاء نے اتفاق کیا اور ان کے نام غیر مسلم نمائندگان کے ناموں کے ساتھ وہ یہ مہند کی خدمت میں بھیج دیئے گئے.وزیر مند نے میرے تجویز کردہ ناموں میں نئے کے متعلق اختلاف کیا (قائد اعظم مسٹر جناح کے متعلق تو لکھا وہ ہربات پر تنقید توبہت کڑی کرتے ہیں لیکن کوئی اثباتی حل میں نہیں کرتے.اب انہوں نے مستقل طور پر لندن میں رہائش اختیار کر لی ہے.ہندوستان کے معاملات کے ساتھ ان کا براہ راست تعلق نہیں رہا.علامہ ڈاکٹرسر محمد اقبال صاحب کے متعلق لکھا.وہ دوسری گول میز کانفرنس میں تشریف لائے تھے لیکن انہوں نے کانفرن کے دوران میں ایک لفظ بھی نہیں کہا.میں نے دونوں اصحاب کی شمولیت پر پر زور اصرار کیا اور وائسرائے نے میری معروضات ذزیہ سند کی خدمت میں بھیج دیں.بالآخر وہ ڈاکٹر صاحب کو شامل کرنے پر تو رضامند ہو گئے لیکن (قائد مسٹر جناح صاحب کے متعلق میری سعی نا کام رہ ہی.تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت چار مہینے کیلئے میاں صاحب کی جگہ حکومت ہند میں کام کرنے کا جو موقعہ مجھے ملا اس سے تیسری گول میز کانفرنس میں زیر بحث آنیوالے امور پرمجھے حکومت ہند اور کسی حد تک زریہ ہند کے موقف کا علم ہو گیا.اور اس سے مجھے تیری گول میز کانفرنس میں بہت مدد ملی.جب ہم لندن میں ہرنائی نیں سر آغانماں کی خدمت میں حاضر ہوئے تو بعض اراکین وند نے سر آغا خاں کی خدمت میں گذارش کی کہ فرقہ وارانہ نیابت کا فیصلہ تو ہو گیا لیکن ہمارے باقی مطالبات کے متعلق ہمیں پختہ طور پر معلوم ہونا چاہئیے تاکہ ہم یہ فیصلہ کر سکیں کہ امور زیر بحث پر ہم کیا موقف اختیار کریں.آپ وزیرہ ہند سے ملیں اور ان سے کہیں کہ وہ بالمشافہ مارے تھے بات چیت کرکے ہمیں بتائیں کہ ہمارے مطالبات کو وہ کس حدتک منظور کرنے کیلئے تیار ہیں.برائی ان سر آغا خانصاحب نے میرے لندن پہنچنے پر مجھے ہدایت دی تھی کہ میں دن وفد کی ملاقات ان سے جو اس دن میں وقت مقررہ سے چند منٹ پہلے ان کی خدمت میں حاضر ہو جایا کروں اور ملاقات کے چند منٹ بعد بھی ٹھہر جایا کروں.اس ارشاد کے مطابق میں باقی اراکین کے رخصت ہو جانے پر آپ کی خدمت میں بھرا رہا.آپنے فرمایا یہ تو بی ٹیڑھا مطالبہ ہے.وزیربند تو کبھی اس پر رضامند نہیں ہوں گے اگر وہ اس طریق سے الگ الگ گفتگو کرنے لگے توچند دنوں میں کانفرنس کا سلسلہ ختم ہو جائے گا.کیونکہ کسی فریق کا ان پر اعتماد نہیں رہے گا.تمہاری اس کے متعلق کیا رائے ہے ؟ میں نے مشورہ دیا کہ وفد کی خوشنودی کی کی خاطر آپ وزیر سند سے ملیں اور ان کا رد عمل معلوم ہونے پر فیصلہ فرمائیں کہ رند کو کیا طریق اختیار کرنا چاہیئے.تین چار دن بعد ہر بائی کسی نے بتایا کہ وہ وزیر ہند سے ملے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ مشکل مرحلہ تو فرقہ وارانہ نیابت کے فیصلے کا تھا جو
طے ہو چکا ہے.باقی مطالبات کے متعلق جہاں تک میرا اندازہ ہے کسی دوسرے عنصر کی طرف سے کسی قسم کی مخالف نہیں اور حکومت کو کوئی دقت پیش نہیں آنی چاہیے.لیکن حکومت برطانیہ ان امور کا فیصلہ بیک وقت کرنے پر آمادہ نہیں ہو گی.اب کرنے کے یعنی ہوں گے کہ حکمت سلم وند کے ساتھ لگ سمجھوتا کرنا چاہتی ہے.یہ نامناسب بھی ہے اور سلم وند کے مفاد کے بھی خلاف ہے.کانفرنس کے نمائندگان میں سے جب کوئی مجھ سے ملنا چاہتا ہے میں انکار نہیں کرتا لیکن کسی درند کے خصوصی مطالبات کے متعلق مجھ سے گفتگو نہیں ہوئی مسلم وفد کے اراکین پہلے بھی مجھ سے ملتے رہے ہیں اور اب بھی خوشی مل سکتے ہیں مطالبات کے متعلق اطمینان کرنے کا طریق یہ ہے کہ کانفرنس کے دوران میں میں مختلف سائل کے متعلق حکومت کا نظریه بیان کرتا رہوں گا ایسے مواقع پر متعلقہ امور کی نسبت مزید وضاحت حاصل کرنے کے لئے مجھ سے آزادانہ سوال کئے رہتے ہیں.میں صفائی کے جواب دیا جاؤں گا.اگر وند کی طرف سے کسی ام کی وضاحت کرنے کی ضرورت محسوس ہو تو آپ خود مجھ سے مل لیا کریں یا ظفراللہ خان کو بھیج دیا کریں وہ پچھلے چند ماہ میں بہت حد تک حکومت کے نقطہ نگاہ سے واقف بھی ہو چکا ہے.میں نے ہزہائی نس کی خدمت میں گذارش کی کہ جو کچھ وزیر بنانے ان سے کہا ہے وہ وفد سے ذکر کر دیں لیکن اگر مناسب سمجھیں تو جو کچھ میری نسبت کہا گیا ہے اس کا ذکر نہ فرمائیں.تہائی نس نے وزیر سند کے ساتھ گفتگو کا خلاصہ وفد کے سامنے بیان کر دیا اور درند کا اطمینان ہو گیا.رقہ وارانہ نیابت کے فیصلے کے متعلق میرے دل میں ایک خلش سی تھی.دوسری گول میز کانفرنس کے دوران میں وزیر ہند کے متعلق مجھے یہ اندازہ ہوا تھا کہ وہ سلم مطالبات کو ہمدردی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جب فرقہ وارانہ نیابت کے معاملے میں حکومت ہند کی سفارشات کے متعلق انہوں نے اپنے تاریں ایسی تم میں تو نہ کیں تو بنگال اور پنجاب میں سلم پوزیشن کو کمزور کرنے والی نہیں تو مجھے اس سے صدمہ ہوا اور افسوس بھی جو کہ میرا نداز ان کے متعلق غلط نکلا تیری گول میز کا نفرنس کے دوران میں بھی مجھے ان کا رویہ ہمدردانہ ہی معلوم ہوا.اور ذاتی طور پر میرے ساتھ توان کا سلوک مشفقانہ تھا یہ تفاوت میرے لئے ایک الجھن بن گیا لیکن جلد ہی یہ عقدہ حل ہو گیا.تیسری گول میز کانفرنس کے ابتدائی ایام میں فدیہ اعظم میکڈانلد نے بعض نمائندہ گانی کو ہاؤس آف کامنز کی عمارت میںاپنے کمرے میں فرد فردا ملاقات کا موقعہ دریا مجھے بھی ان کی خدمت میں حاضر ہونے کا ارشاد ہوا.میں ملاتو فرمایا جب سے آپ لوگ دوسری گول میز کانفرنس سے فارغ ہو کر گئے ہیں میں بہت سے بھی قضیوں کا سامنا رہا ہے.اسلئے میں ذاتی طور پر ہندوستان کے معالمات کے لئے زیادہ وقت نہیں نکال سکا اس اثنا میں فرقہ وارانہ نیات کا قضیہ تو طے ہوگیا ہے.میں چھوت اقوام کی نمائندگی کے متعلق کچھ مزید اقدام کرنا چاتا تھا لیکن میرے رفقاء رضامند نہ ہوئے، پنجاب اور بنگال میں بھی اپنے رفقاء کے اصرار پر مسلمانوں کو میری اپی تجویز سے زاید نمائندگی دنیا پڑی ہے.میں امید کرتا ہوں کہ تم لوگ بشاشت سے اس پر رضا مند ہو جاؤ گے اور اب ملکہ باقی معاملات طے کر سکو گے ؟ " مجھے اس اس سے تو کوئی حیرت نہ ہوئی کہ وزیر اعظم مجھے مسلم نمائندہ سمجھ رہے ہیں.وہ پیش فرمانیاں
114 نواب صاحب بھوپال کو مہاراجہ بھوپالی کے نام سے یاد فرمایا کرتے تھے.لیکن ان کی بات سے مجھے یہ اطمینان ہو گیا کہ پنجاب اور بنگال میں ہماری نمائندگی میں تخفیف کی بخونیدان کی طرفسے ہوئی تھی نہ کہ دور یہ ہند کی طرف سے.نئے آئین میں ہندوستان کے مالیات پر تیری گول میز کانفرنس میں تسلیم شدہ اصولوں کو علی حکومت برطانیہ کا اختیار بدستور قائم رکھنے کی تونی جامہ پہنانے کی سعی ہوتی رہی.ایک مشکل سوال مجد در پیش تھا وہ ہندوستانی مالیات پر وزیر ہند کے اختیارات سے متعلق تھا.ہندوستانی مندوبین کا مطالبہ تھا کہ نئے آئین میں ہندوستانی مالیات پر حکومت ہند کو پورا اختیار حاصل ہونا چاہیے.برطانوی نمائندگان کی طرف سے اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اس صورت میں ہندوستان کی ساکھ کولندن کے مالی حلقوں میں صدر مسنجے گا اوریہ امر بتادی کے لئے مالی نقصان کا باعث ہوگا.مالی ذمہ داری کے لندن سے دہلی منتقل کرنے کے تعلق میں جو سوال پیدا ہوتے تھے ان پر غور کرنے اور ان کا حل سوچنے کیلئے وہ یہ بنانے کی مال کمیٹی قائم کی اور یکم دن سے مطالبہ کیا کہ وہ ان ایک نمائیندہ اس کمیٹی کے لئے نامزد کریں.ڈاکٹر شفاعت احمد خالی صاحت ہے مالی مسائل کا کسی حد تک مطالعہ کیا ہوا تھا ار فیڈرل مالی نظام پر ایک سالہ بھی شائع کر چکے تھے.میری تجویز پران کا نا اس کمیٹی کیئے بھیج دیا یہ دو تین دن بعد سر لطیف نے ہز ہائی حسن آغا خان کی خدمت میں گذارش کی کہ رزمیہ ہند نے خواہش ظاہرکی ہے کہ مال کمیٹی کیلئے لا الہ عالی کو نامزد کیا جائے.مجھے تو مالیات کا تجریہ تھانہ میں نے ان مسائل پر غور کیا تھا اور پھر وقت یہ تھی کہ ڈاکٹر صاحب کو نامزد کیا جا چکا تھا.ہز ہائی نس آغا خاں نے فرمایا میں نے شفاعت احمد خاں سے ذکر کیا ہے وہ رضامند ہیں کہ انکی سجائے تمہیں نامزد کر دیا جائے.نا چارہ مجھے اس کمیٹی میں شامل ہونا پڑا.اس کمیٹی کے باقی تمام اراکین الیات کے ہر یا کم سے کم مالیات میں تجربہ رکھنے والے اصحاب تھے.میری نشست سر پر شو تم اس ٹھاکر داس کے پہلو میں تھی.میں نے بحث میں بہت کم محل نے میں بہت حصہ لیا البتہ جو کچھ کہا جاتا رہا اسے تو جہ سے سنتانہ ہا.ابتدائی تبادلہ خیالات کے بعد وزیر ہن نے تجویہ کیا کہ سیٹی کے اراکین بک آن انگلین کے گورنری رایگان امن اور انگلستان کے پانچے پیسے بنکوں کے صدر افسروں سے بھی تبادلہ خیالات کر لیں.چنانچہ اس غرض کے لئے کیٹی کے اراکین بنک آن انگلینڈ میں گورینز صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے ان کے ساتھ انگلستان کے پانچ بڑے نیکوں کے افسران اعلیٰ بھی موجود تھے ان سب کی رائے سوید گورنر صاحب سے متفق تھی.گورنہ صاحب بات کرتے کرتے یہ کتنے اور اپنے رفقا سے سوال کرتے.کیوں صاحبان ایسا ہی ہے یا نہیں ؟ اور وہ اثبات میں سر ہلا دیتے.گورنر صاحب کی رائے کا خلاصہ یہ تھا.لندن کے مالی حلقوں میں مندوستان کی ساکھ بہت بلند ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان جو قرضہ لیتا ہے اس کے سود اور اصل کی ترقیت ادائیگی کی ضمانت وزیر بند دیتے ہیں اس کے نتیجے میں اس ملک کے ان طبقوں میں جو اپنا روسپی ان قرضوں میں لگاتے ہیں ہندوستان پر اعتماد ہے.ہندوستان کو اس سے یہ فائدہ پہنچتا ہے کہ جب بھی روپے کی ضرورت ہوتی ہے اسے قرضہ ملے میں
کوئی وقت پیش نہیں آتی اور بہت عائتی شرح پر قرضہ مل جاتا ہے.اب آپ لوگ ویسٹ منٹ میں بیٹھے ہندوستان کے آئینی مستقبل پر غور کر رہے ہیں.ہمیں آپ کے کام کے سیاسی پہلوؤں کانہ علم ہے نہ ان سے سروکار ہے آپ سیاسی لحاظ سے تجد چار میں فیصل کریں.ہماری سرگرمیاں مالی میدان تک محدومہ ہی بیانی سے ہمیں کوئی واسطہ نہیں نہ ہم س میں دخل دینا چاہتے ہی اہ کن باتوں کا میں تر ہے ان کی بنا پریم کی قدر وثوق س رائے دہکتے ہیں کہ جوسیاسی فیصلے علی حالت پر اثرانداز ہوں ن کاعلی نتیجہ کیا نکلے گا جیسے میں کہ چکا ہوں ہندوستان کی ساکھ کی لندن کی مالی منڈی میں مضبوطی کی بناور یہ مندر کی ضمانت ہے.اگر مہندوستان کے مالیات پر وزیہ ہند کا اختیار نہ رہے یا اس حد تک کمزور ہو جائے کہ ہندوستان کے قرضہ جات کی کشت پر وزیر سند کی ضمانت ہ ہو تو ہندوستان کی ساکھ گر جاے گی اور لندن میں ہندوستان کیلئے قرضے کا انتظام کرنا دشوار ہو جائے گا اور موجودہ رہ عالمی شرح پر قرضہ لیا تو ناممکن ہو جائے گا کیٹی کے اراکین میں سے بعض نے گور نر صاحب کے بیان میں رخنہ تاش کرنے یا کوئی امید فرا پلو ڈھونڈ نکالنے کے بہت جتن کئے لیکن بے سود انہوں نے فرمایا صاحبان یہ میری خوشنودی یا مرے رفقاء کی خوشنودی کا سوال نہیں.مالیات کے اپنے قواعد ہیں اور ان کا اپنا مقیاس الحمارت ہے.مالی بحران کو کسی کی خوشنودی رفع نہیں کر سکتی.ریاضی اور طبیعات کی طرح مالیات بھی اپنے قوانین میں ٹکڑے ہوئے ہیں اور قوانین کا عمل نو شوری یار جنید گی سے اثر پذیر نہیں ہوتا بسیاسیات کا فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے.آپ شوق سے ہو فیصلہ چاہیں کریں.آپ کے فیصلے کا لندن کی مالیت کی منڈی پر کیا ردعمل ہو گا اسکا اندازہ میں نے اور میرے رفقا نے آپ کی خدمت میں پیش کر دیا ہے.کیوں صاحبان ! کیا میں نے ٹھیک کہا.پانچوں یکبار کی اثبات میں ہے؛ اس دوران میں میں نے ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا.گورنر صاحب کا بیان با لکل واضح نها کسی غلط نہی کی گنجائش نہیں تھی.گور تہ صاحب میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا تم نے کوئی سوال نہیں کیا ؟ میں نے کہا تتباب میں نے آپ کے بیان کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ اگر آئینی اصلاحات کے نتیجے میں ہندوستانی مالیات پر بر طانیہ کے اختیارات کو کسی تخفیف تحریک بھی لندن سے دلی منتقل کیا گیا تو ہندوستان کی ساکھ لندن کی مالیات کی منڈی میں بالکل گر جائے گی.اور اس صورتہ میں ہندوستان کیلئے لندن کی منڈی میں قرضہ لینا نہایت دشوار بلکہ ناممکن ہو جائے گا.کیا میں ٹھیک سمجھا ہوں ؟ فرمایا میں نے ان الفاظ میں تو اپنا مطلب بیان نہیں کیا لیکن کم و بیش میرا مطلب ہی ہے." میں نے کہا.تو جناب اس صورت میں آپ کوئی مزیدیہ سوال کرنا آپ کا وقت ضائع کرنا ہے.آپ کی وضاحت کے ہم ممنون ہیں.باقی بحث ویسٹ منسٹر میں ہوگی.دوسری صبح کیٹی کا اجلاس ہوا.کمیٹی کے اراکین وزیر بند کے ساتھ بنک آف انگلینڈ کے گوری صاحب کی گفتگو کے متعلق تبادلہ خیالات کرتے رہے.میں خاموش رہا.وزیر ہند نے دریافت کیا تم کیا تاثیر سیکر لوٹے ؟ میں نے کہا سناب گوریتیہ صاحب کا کہا ہے کہ اگر مالیات ہند پر برطانوی حکومت کا اختیار خفیف مدتک بھی لندن سے دلی منتقل کیا گیا تو ہندوستان لندن میں اپنا ساکھ کھو بیٹھیے گا.میری گذارش ہے کہ اگر سیاسی اختیار لندن سے دلی منتقل ہو لیکن مالیات پر اختیار منتقل نہ ہو تو برطانیہ اور مہندوستان کے تعلقات میں الیسا شدید تلاطم پیدا ہو گا کہ اس کے نتیجے میں برطانیہ اپنی ساکھ ہندوستان میں کھو بیٹھے گا
۳۱۸ ان دونوں صورتوں کے درمیان انتخاب ہے تو شکل میکن کرنا ہی ہوگا میں بات ختم کر یوکا تو سر پر تم اس ٹھاکر داس نے میری طرف ٹھیک کر کہا.تم نے مالیات کا مطالعہ کہاں گیا تھا ؟ میں نے کہا میں تو تالیات کے متعلق کچھ بھی نہیں جاتا اور یہ بات تو مالیات کے متعلق ہے بھی نہیں عام فہم کی بات ہے کہ ایک ملک کی حکومت آزاد کیسے کہلاسکتی ہے اگر اس کے مانیا پر کسی اور حکومت کا اختیار ہے.پنڈت نانک پچند صاحب تیسری گول میز کا فرانس میں پنجاب کے مندر نمائندے پنڈت نانک چند صاحب تھے.کا وباتی خود اختیار کا مسلہ زیر بحث آیاتو انہوں نے بے ہوش سے بحث کی کہ دوسرے صوبات میں تو قانون اور انا کا مائی کو اختیاری ہونا چائے کی پنجاب میں ان کا ایمان کی ہے اورسلمان آبادی کا نہایت غیر ذمہ دار عنصر ہیں مسلمانوں کی غیر ذمہ داری کی مثال یہ دی کہ پنجاب کونسل میں ان کی پارہ ٹی کے ایک کین ایسے تھے جو سات بار قتل کے الزام میں نہ یہ حراست آچکے تھے.میں نے ان سے سوال کیا کہ یہ صاحب ہندو تھے یا مسلمانی رمایا کچھ بھی ہو وہ صاحب آپ کی پارٹی میں شامل تھے !! ان کا اشارہ یونیسٹ پارٹی کے ایک ہندو رکن کی طرف تھا.جو بار یا قتل کے الزام میں ماخوذ ہوئے تھے لیکن ہر بارہ بری قرار دیئے گئے.یہ قصہ ء کے پہلے کا تھا اس کی نسبت میرا علم بھی سماعی تھا.میری ان صاحب کے ساتھ ذاتی ملاقات نہیں تھی ، پنڈت صاحب کی بے ربط اور غر متعلق لکن نهایت پوشیلی تقریر سے کراراکین اکتاگئے تھے اور سپر مین ادارہ ڈنکی) کا مدیر تو ان کے چہرے سے ظاہر ہو رہاتھا دوسرے یہ تقریر دلپذیہ اسقدر طویل ہوگئی تھی کہ کانفرنس کا اعلاس معمول سے اہم منٹ لمبا ہو گیا.جب اسجلاس ختم ہوا اور ہم سب نیچے اتر کر اپنے کوٹے پھر یہاں سنبھالنے لگے پنڈت صاحب نے مجھ سے کہا نظر اللہ تم کل میری تقریر کا جواب دو گے ؟ میں نے کانہیں جناب کہنے لگے.نہیں نہیں ، کیوں نہیں ؟ " میں نے کہا میں آپ کی تقریہ کا جواب دینے لگ جاؤں تو مجھ میں اور آپ میں کیا فرق رہ جائیگا ؟ " ہمارے قریب دو تین انگریزیہ نمائندے بھی اپنے کو سنبھال رہے تھے وہ بے اختیار نہیں پڑے؟ دوسرے دن میں نے مسئلہ نہ یہ محبت پر اپنے خیالات کا اظہار کیا تقریر کے آخر میں صرف اتنا کہا.کتاب عالی ! کل ایک تقریر کے دوران میں یہ نہایت غیر معمولی سخیال ظاہر کیا گیا تھا کہ پنجاب میں قانون اور امن عامہ کا محکمہ دنیاء کے سپرد نہیں ہونا چاہیئے.اس کے متعلق میں اتناہی کہنا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی ایسی امتیاز کیاگیا تو ہماری یہ تمام محنت تو ہم برسوں سے کر رہے ہیں بالکل اکارت جائے گی میرے منہ سے یہ الفاظ نکلے ہی تھے کہ لارڈ سنکی نے بڑے جوش سے فرمایا.مجھے کلی اتفاق ہے ؟" تیسری گول میز کانفرنس کے اختتام پر ڈالر ڈسکی نے بعض ہندوستانی مندوبین کے متعلق چند تعریفی کلمات کہے مسلم وفد میں سے ہزہائی نس آغا خان کا تو حق ہی تھا.لیکن مجھے بھی انہوں نے یہ امتیاز بخشا.کچھ عرصہ بعد میں لندن میں تھا پارلیمینٹ کے ایک کمرے میں میری تقریر اسلام کے اقتصادی نظام پر ہوئی.لارڈ سکی
٣١٩ مجھی تشریف فرما تھے.تقریہ کے اختتام پر انہوں نے چڑ میں کو ایک پرنہ لکھ کر دیا ہمیں بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں موقعہ 7777 یے جانے پر فرمایا مجھے ظفراللہ خان کے ساتھ کام کرنے کافخر حاصل رہا ہے میں اس کے متعلق صرف کہنا چاہتا ہوں کہ جب یہ کوئی بات کہدے تو اس پر تنگی سے قائم رہتا ہے.اس کا لفظ ہی دستاویہ ہے.اس کے دستخط کی ضرورت نہیں رہتی.انگلستان میں ریلوے کے عملہ کی خوش اخلاقی تیسری کا نفرنس کا اجلاس طول کھینے گیا تھا پہلی کانفرن کی طرح مجھے کرسمس کی تعطیلات انگلستان ہی میں گذار نا پر ہی ملک عبداللہ خالد صاحب انڈین سول سروس کے انتخابی میں کامیاب ہو کر اپن ٹرینگ کیلئے لندن تشریف لائے ہوئے تھے.کرسمس کے موقعہ پر میں ان کے ہمراہ ٹار کی گیا اور دان سے واپسی پر ہم دونوں بیلیز برگ کی دعوت پر و چلسی میں ان کے مہمان ہوئے ان کی ہدایت تھی کہ ہم لندن سے سیٹینگے جائیں یہاں سے ان کی کار میں ونیلیسی لے جائے گی.ریل عندن سے براہ راست بھی ویکیپلیسی سجاتی ہے.لیکن اس رستے جانے سے وقت زیادہ صرف ہوتا ہے.سیٹنگز سے ونیسی و میل کے فاصلے پر ہے اور ٹرک بہت اچھی ہے.د خپلیسی اب تو بالکل ایک گاؤں رہ گیا ہے ایک وقت میں مشہور بندر گاہ تھی اور انگلستان کے جنوب مشرقی ساحل کی ان پانچے بندر گاہوں میں شمار ہوتی تھی جو انگلستان کے بحری دفاع کے لحاظ سے بہایت اہم سمجھی جاتی تھیں.اب سمندر پیچھے ہٹ گیا ہے اور خشک قطعہ سمندر سے یہ آمد ہوا ہے وہ رامنے مارش کہلاتا ہے اور میرا زرخیز اور آباد ہے.ملک صاحب اور میں وکٹوریہ اسٹیشن سے میٹنگی کی گاڑی پر سوار ہوئے اور اپنی باتوں میں مصروف رہے.ابھی ٹینگز نے کا وقت نہیں ہوا تھا کہ گاڑی کھڑی ہوی اور ایک تلی نے ہارے کمر کا دروازہ کھولا اور دریافت کی آپ اتنا نہیں چاہتے ؟ ہم نے کہا ہم میٹنگز جارہے ہیں.اس نے کہا سیٹنگز جانیوالا حصہ تو پولگیٹ پرکٹ کر میٹینگ.چلا گیا.یہ تو الیسٹ بورن ہے نا چاریم اتر گئے.اب توسب بیٹنگ جانیوالی گاڑیاں ایسٹ بوران ہو کر جاتی ہیں.اس وقت ہینگر جانیواں حصہ ہونگیٹ پر کٹ کر سیٹنگز جایا کرتا تھا) میں اسٹیشن ماسٹر ماں کے پاس گیا اور قصہ بیان کیا وہ معذرت کرنے لگے کہ آپکو رحمت ہوئی وکٹوریہ اسٹیشن والوں کو چاہئے تھاکہ آپکو گاڑی کے پچھلے حصے میں بیٹھنے کی ہدایت کرتے ہیں نے کہا کہ مجھے فکر ہے کہ ہمارے میزبان کی کار سٹینگ اسٹیشن پر ہمارا انتظار کر کے واپس علی جائے گی اور وہاں تمہیں زحمت کا سامنا ہوگا.انہوں نے کہا نہیں نہیں فکر نہ کریں.پولگیٹ جانیوالی گاڑی تیار ہے میں آپکو اس میں بٹھا دیتا ہوں وہاں سے چند منٹ کے بعد آپ کو میٹنگز جانیوالی گاڑی مل جائے گی.آپ سیٹنگز پالیس منٹ دیر سے پہنچیں گے میں سیٹنگز کے اسٹیشن ہر کو ٹیلیفون پر کہ دیتا ہوں وہ کار کو روک رکھیں گے.یہیں گاڑی میں بٹھا دینے کے چند منٹ بعد وہ پھر دوڑے دوڑے ہے اور کہا ٹیکر کے اسٹیشن ماسٹر کہتے ہیں بھی لارڈ بلیز بیگ کی کار نہیں آئی انہوں نے ایک پورٹر کو باہر کھڑا کردیا ہے کہ جب کار آ جائے تو ڈرائیور سے انتظار کرنے کو کہ دے.جب ہم میٹنگ پہنچے تو ماں کے اسٹیشن ہسٹری کے انتظار می بیشماری
۳۲۰ پر موجود تھے ساتھ جا کر تمہیں کار میں بٹھایا اور رخصت کیا.پردیس میں ریل کے عملے کی طرف سے یہ خوش انطلاقی کا سلوک میرے لئے بہت ہی خوشگوار تجربہ تھا.اپنے دیس میں تو کسی کو ماہر ی فکریہ ہوتی.وطن واپسی پر میں نے دور جدید کیلئے ایک مضمون دوئیں اور پر دیسی لکھا.جس میں پردیس میں ریلوے سفروں کے خوشگوار تجربات کا دلی کے ناگوار تجربات کے ساتھ موازنہ کیا.جب سلام میں میر مرکزی وزیر موسکا اعلان تھا اور بیان کیا گیا کہ تجارت اور ریلوے کا قلمدان میرے سپرد ہو گا تو یک انگریزی اخبار نے میرے اس مضمون کا انگریزی ترجمہ شائع کیا اور نوٹ لکھا کہ اب ہم دیکھیں گے کہ یہ اپنے زمانے میں کن اصلاحات کو جاری کرتا ہے ؟! لارڈ بلیز برگ اور بلیز بر حسب معمول بڑی تو ان سے پیش آئے اور ہم اسے دودن ان کے پال شہری مسرت میں کئے کارڈ بلیز برگ کا انداز گفتگو استقدیر دلچسپ تھا کہ ان کے ہوتے کسی اور کی موجودگی کی ضرورت محسوس نہ ہوتی تھی زبان نہایت ستری معلومات کا ذخیرہ اتنا وسیع کا سلسلہ کلام جاری رکھنے کیلئے موضوع تلاش کر نیکی ضرورت نہ ہوتی بات سے بات نکلتی چلی آئی بعض وضع سلسلہ کلام مذہب کی طرف ہو جاتا انہوں نے شروع میں ہی مجھے بتا دیا تھاکہ وہ کسی خاص عقیدے کے ساتھ وابستہ نہیں ہیں.وہ گریجے جانےکے عادی نہ تھے.فنون لطیفہ میں مصوری، موسیقی اور رنگین شیشے کی صنعت ( STAINED GLASS STAINEO) سے بہت دیسی لیتے تھےایک کثیر تم خرچ کرکے انہوں نے دیجیلسی کے گرتے کی دو کھڑکیوں کو رنگین شیشے STAINED) سے مزین کر دیا.ان کے دور بھتیجے پہلی عالمی جنگ میں کام آئے تھے ایک یک کر ایک یا ایک ایسی کھڑکی کی لال بوٹ کے انوکی یا کویر یا وی ہونا ایک ایوان میں پھنسے تو ایک جہارکے اروں کی جانی با کی روشنی میں ان میں ان کی نذر کردیتی تعداد اس گیت کی بنا کر کیوں کو یا رات کے شیشے سے مزین کرا دیا.ان کھڑکیوں کی رسم افتتاح بھی بڑی شان سے کی گئی اس سارے منصوبے پر انہوں نے پچھتر ہزار پونڈ صرف کئے ان کھڑکیوں کو دیکھنے کیلئے دور دور سے زائرین ریچلیسی جاتے ہیں.مصوری کے فن سے بھی انہیں بہت دلچی بھی نو جوان مصوروں کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے جب انہوں نے د خپلیسی کا سب سے بڑ امکان گریے فرائد نہ خرید لیا تو اس کی مرمت اور نیب زنیت پر ایک کثیر تم خرچ کی.اس مکان اور ان کے لندن کے مکان کے کمروں کی دیواریں مصوری کے اعلیٰ اور ادنی نمونوں سے ڈھکی ہوئی تھیں جودہ مصوروں کی ہمت افزائی کیلئے خریدتے رہتے تھے.اپنے ملازموں کے ساتھ ان کا سلوک بنات مشفقانہ تھا.انہیں کسی کام کو کہتے تو لفاظ اور لہجے سے ایک معلوم ہوتا کہ انکساری سے ان سے عنایت طلب کر رہے ہیں.ایک بار میں ان کے ہا ٹھہرا ہوا تھا شام کے کھانے کے بعد سیٹنگز میں ایک کنسرٹ میں جانے کا ارادہ کیا.مجھے بھی ساتھ چلنے کو کہا ٹیلیفون پر تین ٹکٹوں کا انتظام کیا.میں سمجھا کسی اور مہمان کو بلانے کا ارادہ ہو گا لیکن شنگن تک صرف میں ساتھ تھا وہاں پہنچنے پر ایک ٹکٹ جیک اپنے ڈرائیور کو دیا اور کہا کا نسٹ ختم ہونے پر اطمینان سے کار دیوانے..کی طرف لے آنا ہم تمہارا انتظار کریں گے یہ گرے فرائرز میرے لئے وطن سے اور اپنے گھر سے دور سے گھر بار ہا میں جب |
بی انگلستان جاتا اور رد بلیزر برگ و اطلاع ہوتی تومجھے اپنے لندن والے مکان میں لانے پہلی جانے کا پروگرام کو بتا کبھی ان کے ہمراہ ان کی کار میں جاتا کبھی ریل پر سٹنگر جاتا اور وہاں سے ان کی کار میں دن چلی جانا.مجھے کہ ریکھا تھا کہ جب آؤ میں دوست کو چاہو ساتھ لے آور تم نے دیکھ لی ہے مکان فراخ ہے اور مجھے کوئی وقت نہیں ہوگی بلکہ اطمینان ہوگیا کر تم یہاں اکیلے محسوس نہیں کرو گے.چنانچہ میرے کئی احباب کو میرے ساتھ کرے فرائر نہ میں مہمان ہونے اور لارڈ ملنیز برگ کی صحبت سے مستفید کونیکا موقعہ ملا ہے.مسٹرڈوائر رسولیٹر نے ان کے متعلق دو واقعات مجھے سائے تھے جوان کی سیرت پر روشنی ڈالتے ہیں.جب دہ پانسری بجے تھے تو ایک تنازعہ ان کے اجلاس میں پیش ہوا جسمیں مدعی کا مطالبہ تھا کہ مدعا علیہ نے معاہدہ شکنی کی ہے.اور مدعی ہر کھانے کا مستحق ہے.انہوں نے قرار دیا کہ مدعا علیہ معاہدہ کا پورا کرنا واجد ، تھا اور چونکہ اس کی طرف سے کوتاہی ہوئی اسلئے مدعی ہر جانہ وصول کرنے کا حقدار ہے.انہوں نے مدعی کے حق میں ہر جانے کی ڈگری صادر کر دی چند دن بعد کسی تقریب میں ان کی ملاقات مدعا علیہ کے وکیل سے ہوئی.دوران گفتگو اس مقدمے کا ذکر آگیا انہوں نے وکیل سے فرمایا کہ خلال مرحلے پر آپ کے موکل پر واجب تھا کہ وہ معاہدے کی تکمیل کی پیشکش مردمی کوکر تا وکیل نے کہا ہم نے پیشکش کی تھی.کہا تو پھر آپ نے بحث میں اس طرف توجہ کیوں نہ دلائی اس نے کہا اسلئے کہ بنے تو بیٹی مکھی تھی وہ PRETU DICE WITHOUT تھی اور اسلئے ہم اسے شہادت میں پیش کرنے کے مجاز نہیں تھے.دوست کے دن انہوں نے مدعا علیہ کے وکیل کو اپنے کمرے میں بلایا اور اسے ایک چیک دیا اور کہا یہ وہ رقم ہے جو آپ کے موکل کو میرے فیصلے کے درد سے فریقی ثانی کو واجب الادا ہے آپ ایسا انتظام کریں کہ آپکے موکل کو شبہ نہ ہو کہ یہ تمیمی نے دی ہے.بنگال کے ایک پولیس انسپکٹر پر کوئی فو جاری الزام ثابت ہو کر اسے سزا ہوئی اس کی اپیل اور نگرانی کی درخواست دونوں نا منظور ہوئیں اور وہ اپنی ملازمت سے علیحدہ کر دیا گیا.اس نے فیصلے کے خلاف پر لوی کونسل میں اپیل کرنے کیلئے خاص اجازت کی درخواست کی اور خود در خور است کی پیروی کیلئے پیش ہوا.بورڈ کے صدر اور بلیز برگ تھے.انہوں نے اسے سمجھایا کہ فوجداری معاملات میں پر بیوی کو مسل کے رو بہ و سماعت کی اجازت صرف ایسی استثنائی صورت میں دیجاتی ہے جب عدالت ماتحت نے کوئی الیسا حکم صادر کیا ہو جس کے صادر کرنے کا اسے اختیار ہی نہ ہو.تمہارے معاملے میں یہ صورت نہیں سائل آنسو بہاتا ہوا کرے سے چلا گیا.سر جان لاؤنڈ ان دنوں پر لوی کون میں پریکٹس کرتے تھے اور کمرے میں موجود تھے.لارڈ بلیز برگ نے جلدی میں ان سے کہا سر جانچ جلدی جانا اور اس شخص سے اس کا لندن کا پتہ دریافت کرنا.پتہ ملنے پر لارڈ بلیز برگ نے سائل کو ایک چیک بھیجا جس کی یہ تم اس کے کلر سے آنے ان کے اخراجات کیلئے کافی تھی.اس کے علاوہ ایک ذاتی چٹھی وزیر بند کو لکھی کہ اس شخص کے متعلقہ کا غذات منگوا کر اپنے مشیر ان کی معرفت اپنا اطمینان کر لیں کہ اس کے ساتھ بے انصافی تو نہیں یہ تی گئی.
۳۳۲ گرے فرائی یہ کی شام کی صحبتوں میں ہمارے درمیان بعض دفعہ الہیات کا ذکر چھڑ جاتا.مجھے تو تھوڑا بہت علم اسلامی تعلیم کے متعلق تھامیں بیان کرتا.میںنے محسوس کیا کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ حیات آخریت کے متعلق نکی دی چی رو رہی تھی.ایک بار لا الہ جو کچھ تم کسے ہوا معقول اور قابل قبول ہے کہ محسوس ہوتاہے ان امور پر زیادہ روشنی کیوں میر نہیں.میں نے کہا روشنی تو میر ہے دروازے کھڑکیاں اور روشندان کھولنے اور انی سے پردے ہٹانے کی ضرورت ہے.فرمایا ٹھیک کہتے ہو.ء میں جب جنگ چھڑ گئی تو انہوں نے لندن کے رہنے والے میں بچپن بچوں کے رہنے کے لئے گرے فرائی نہ میں جگہ کر دی تا کہ لندن کے باہر نسبتا محفوظ مقام پہ آجائیں.یہ بچے لندن سے ایک استانی کی نگرانی میں گئے.بیڈری ٹیوسٹاک نے مجھےبتایا کہ یہ تو چاہتے تھے کہ ان بچوں کو جو مفلس ترین گھروں سے آئے تھے مہمانوں والے کمروں میں رکھیں.لیکن میں نے مشورہ دیا کہ اس طرح تو آپ اپنا ساراسامان بر باد کر لیں گے اور بعد میں سارے مکان کی زینت کا نہ سر نو انتظام کرنا ہوگا.بہتر ہو اگر ان بچوں کو تیسری منزل کے کمروں میں جگہ دی جائے اور آپ کے خادم موسب ساز و سامان کی قدر و قیمت سے واقف ہیں اور اس کی صفائی اور حفاظت کرتے ہیں مہمانوں والے کمروں میں آجائیں سو ایسا ہی کیا گیا.لارڈ پلیز یہ کس نے سب بچوں کو بوسم کے مطابق نئے صاف ستھرے لباس خوا دیے اور مین کے کرکے فرائی نہ کے پر آسائش ماحول میں خوش و خرم رہنے لگے میں جب نومبر مں ایک کا نفرنس کے سلسلے میں لنڈن گیا تو و پالیسی بھی حاضر ہوا.چودھری انور احمد صاحب میرے ساتھ تھے.لارڈ بلنیز یہ گرنے بتایا کہ ہر اتوار کی صبح کو وہ ہر بچے کو ایک نہیں جیب خرچ دیتے ہیں.دوسری صبح میں نے کچھ نہیں فراہم کردیئے اور جب یہ بچے سیر سے واپس آئے تو میں نے بھی ایک ایک ایک نہیں انہیں دیا.بچے بہت خوش ہوئے.ان میں سے ایک نے کہا اس ہفتے میں تو دو اتوار آگئے ای یار یار یاری سر شادی لال کے آخر میں ایام ان پر شادی لال کے ذکر میں کہا.ظفراللہ مرے ساتھ جب وہ تمہارا ذکر کرتے ہی تو تمہاری تعریف ہی کرتے ہیں.میں نے کہا اسلئے کردہ جانتے ہیں کہ آپ کا سلوک میرے ساتھ مشفقانہ ہے.ایک دفعہ مجھے سے دریافت کی کیا سرشاری لال متمولی حیثیت کے ہیں ؟ میں نے کہا یہاں کے معیار سے تو کوئی ایسے متمول نہیں خوشیاں ہیں.لیکن ہمارے ہاں کے معیار کے مطابق مشمول شمار کئے جاتے ہیں.پوچھا اپنی دولت کیسے صرف کرتے ہیں ؟ میری مراد یہ ہے کہ کیا اپنے اموال کا کچھ حصہ ایسے کاموں پر بھی صرف کرتے ہیں جس کی غرض عام لوگوں کیلئے خوشی اور دلچسپی کے ذرائع مہیا کرنا ہو ؟ میں نے کہا میں نے تو کبھی ایسا نہیں سنا.جو کچھ سننے میں آتا ہے وہ یہی ہے کہ اپنے بیٹوں کے لئے بہت کی جائداد چھوڑنا چاہتے ہیں.فرمایا اگر یہ سچ ہے تو ظفراللہ بستر مرگ پر ان کے خیالات کی رو کیا ہوگی یا سرث دی لائی نے کے اکتوبر میں پریوی کونسل کی حجی سے استعفیٰ دیدیا تھا اور نئی دہلی میں اپنے بنگلے میں رہائش اختیار کر لی تھی ایک سال ہی میں ان کی صحت گرنا شروع ہو گئی.آخر میں لا چاری کی حالت میں صاحب فراش ہو گئے.رائے بہاور لالہ
اسم مسلم سلام رام سرین و اس صاحب کے ساتھ ان کے پرانے دوستانہ مراسم تھے.رائے بہادر صاحب دتی آئے تو مجھے بھی ملنے تشریف مجھے لائے.وہ پرانی وضع کے با اخلاق بزرگ تھے.بہت افسردہ نظر آتے تھے میں نے وجہ دریافت کی فرمایا پر پیشہ سے ہمیشہ ڈرتے رہنا چاہیے.ابھی ابھی سر شادی لال کے ہاں سے آیا ہوں.بہت ضعف کی حالت میں ہیں.مجھے پہچان بھی نہ سکے تو اس بھی قائم نہیں.تم جانتے ہو جب پنجاب کے چیف جسٹس تھے ان کا کسقدر عب ہوتا تھا.ہر کوئی خوشامد کرتا تھا.تمام عمر انہیں می فکریہ ہی کہ اپنے لڑکوں کیلئے کافی دولت چھوڑ جاؤں.اب بھی پیشین آتی ہے لڑکے بھی وصول کرتے اور خرچ کرتے ہیں.انہیں تو اب اپنا بھی ہوش نہیں برآمدے میں جو کمرہ کھلتا ہے اس میں ایک بوسیدہ چار پائی پر پڑے ہیں.کوئی ملازم پاس نہیں کہ پیاس لگے تو پانی کی چاہے مجھے رائے بہادر صاحب کے بیان سے لارڈ بلیز برگ کا سوال یاد آگیا کہ بستر مرگ پر سرش دی ڈال کے خیالات کی رد کیا ہو گی ؟ ایک بار میں لارڈ بلیز برگ کے ہمراہ کار میں لندن سے دنیپالیسی جار ہا تھا.انہوں نے وقت کا اندازہ کر کے جیک اپنے ڈرائیور سے کہا خبروں کے نشر ہونے کا وقت ہے ریڈیو لگا دو.خبروں میں سنا کہ سہلہ کی فوجیں آسٹریا میں داخل ہو رہی ہیں.خبریں سننے کے بعد ار ڈبلیز برگ نے فرمایا معلوم نہیں یہ شخص کہاں جا کر رکے گا.سچ یہ ہے کہ اسے روکنے کیلئے ہمیں ایک Buy درکار ہے.ہمارا OLLY 8 چہرہ چیل ہے لیکن پھر پھل کو کینٹ میں لانے سے سب اسلئے ڈرتے ہیں کہ اگر وہ کینٹ میں لیا گیا.تویس دہی کینٹ ہوگا..! پنڈت نانک چند صاحب تیری گول میز کانفرنس ختم ہونے پرمیں اہور واپس چلاگیا.نائیکورٹ کے باروم میں ایک دن میرے ایک ہند رفیق نے مجھ سے کہا کل شام ڈی نے دی کا لج میں تیری گول میز کانفرنس کے موضوع پر پنڈت نانک چند کی تقریہ تھی.تقریر کے دوران میں انہوں نے تمہارا ذکر بڑے تعریفی الفاظ میں کیا اور کہا کہ گول میز کانفرنس کے حلقوں میں اس نے بڑی نیکنامی حاصل کی ہے اور اس کا وجود پنجاب کیلئے بڑے فخر کا باعث ہے.تھوڑی دیر بعد پنڈت صاحب سے بھی ملاقات ہوگئی فرمایا تم نے سنا کل شام میں نے تمہارے متعلق کیا کہا ہے ہے مں نے کہا ہاں میں نے بھی ابھی سنا ہے اور میں آپ کا ہایت ممنون ہوں لیکن آپ نے میرے لئے ایک مشکل پیدا کردی ہے.پو چھا کیسی کہ میں نے کہا ا نے میری توی کی اب جو یہ بھی لازم ہواکہ میں بھی آپ کی تعریف کروں.میں سمجھتا ہوں کہ جو کچھ آپ نے میرے متعلق فرمایادہ سچ سمجھ کر ہی فرمایا لیکن میں سچ کہتے ہوئے آپکی کیا تعریف کروں ؟ بہت ہے.اس پر میں نے کہا ایک خدمت میں کر سکتا ہوں آپ جس مجلس یا مجمع میں بچا ہیں میں یہ بیان ینے کو تیا ر ہو کہ کانفرنس میں آپ نے میرا اک میں دم کر رکھا تھا کہنے لگے بہت خوب بہت نوب مجھے یہ منظور ہے تم اتنا کہ دو تو سب ہندو یہ سمجھیں گے میں نے کانفرنس میں ان کی بہت خدمت کی ہے اور آئندہ انتخاب میں سب مجھے ووٹ دیں گے ! - سنان مبها در قلی خان صاحب کچھ دنوں بعد اس کے مقابل کے نظریے کی بھی ایک مثال سامنے آگئی.سید افضل علی صاحب ان دنوں پشاور میں اسسٹنٹ کمشنر انکم ٹیکس تھے.میں پشاور ان کی ملاقات کیلئے گیا.عصر کے بعد انہوں نے فرمایا میر ایک
کریم فرماتم سے ملنے کے بڑے شائی ہیں وہ ہر روز کلب میں تشریف لاتے ہیں.ہم کلب چلتے ہیں وہاں ان سے بھی ملاقات ہوئیا گی کلب میں سید صاحب نے میر التعارف خان بہا در قلی خان صاحب سے کرایا.خان بہادر صاحب بڑے تپاک سے ملے.فرمایا ہم تو گول میز کانفرنس میں زیر بحث مسائل کی پیچیدگیوں سے واقف نہیں.اتنا جانتے ہیں کہ ہندو اخبارات آپ کے متعلق بہت برا بھلا لکھتے ہیں جس سے ہمیں پختہ یقین ہو گیا ہے کہ آپ کے مسلمان ہیں ! خان بہادر صاحب کے ساتھ پر بڑے دوستانہ مراسم ہوگئے تھے اء سے جب کبھی انہیں ملے بادلی آنیکا موقعہ ہوتا میرے ہاں قیام فرماتے اور بڑے اخلاص کے ساتھ تعلقات نبھاتے رہے.فجزاء اللہ چند سال پہلے جب میں ابلیس کو اغوا کیا گیا تو سرحد کی حکومت نے خان قلی خان صاحب کو ان کی رہائی کیلئے رستہ صاف کرنے کی مہم پر بھیجا تھا حبکو انہوں نے بہت خوش اسلونی سے سرانجام دیا.گو آخری مرحلہ پر یہ معاملہ خان بہادر مغل بانه خان صاحب کے ہاتھوں سے پایا.جب خان قلی خان صاحب نے یہ سرگذشت مجھے سنائی تو لی کے دریافت کیا خان بہادر صاحب اس کامیابی پر حکومت کی طرف سے کچھ خوشنودی کا اظہار بھی ہوا.فرمایا خودرو را صاحب مغل بانه خان کو تو بیت النعام و اکرام مل اور تمہیں صرف دو مربعہ زمین اور وہ تمغہ جو عورتوں کو ملتا ہے.میں نے پوچھا وہ کیا کیا تجمعہ قبر مسند یا کچھ ایسی بات.مقدمہ سازش ویلی کا انجام دائیہ نے دلی پہنچ کر مجھے بلایا اور دوران گفتگو فرمایا مد مدرسان ش کے متعلق اب ہم نے تمہارے مشورے کیمطابی ٹریول ختم کر کے ملزمان کے خلاف عام عدالتوں میں چالان دائمہ کردیے ہیں میں نے عرض کیا اگر شروع میں میں طریق اختیار کیا جاتا بہت سارو پہ اور وقفت بچ جاتا.گول میز کانفرنسوں کے نتیجے میں ہندوستان میں آئینی اصلاحات کی تجاویز کمتعلق حکومت برطانیہ کا قرطاس ابیضی اور انپر غور کرنیکے لئے پالمین کے دونوں ایوانوں کی مشترکہ کمیٹی.گول میز کانفرنسوں کے نتیجے میں حکومت برطانیہ نے اپنی تجاویز ایک قرطاس ابیض کی شکل میں پارلیمنٹ میں پیش کیں اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی ایک مشترکہ کمیٹی ان پر غور کرنے کیلئے قائم ہوئی اس کمیٹی کے صدر لارڈ سلمنگ تھے واعد میں وائسرائے ہند ہوئے اراکین میں تین سابق دائر کیے ، لارڈ ٹار ڈنگ، لارڈ ریڈنگ اور لار ڈارون شامل تھے.ان کے علاوہ مار کوئین آف سالسبری آرچ بشپ آن کنٹریری، سر آسٹن چیر مین ، لارڈ ڈار بی، لارڈن ٹین اور پارلیمنٹ کے اور بہت سے نمائیندے بھی اراکین میں تھے.شہادت کے مرحلےپر کمیٹی کے کام میں انت کرنے کیلئے ہندستان سے ایک وفد کمیٹی کے ساتھ شال کیا گیا.میں بھی اس وفد میں شامل تھا.مشترکہ کمیٹی کے اجلاس تا ء کے موسم بہار میں شروع ہوئے.لندن پہنچنے پر میں حسب معمول نہ بائی کن سر آغا خان صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.وہ کچھ آشفتہ نظر آئے.ایک تار مجھے دیا اور فرمایا اسے پڑھو وہ تار ان کے نام ڈاکٹر شفاعت احمد صاحب کی طرف سے تھا اس کا مضمون یہ تھا.مبارکبادہ مجھے آل پارٹیز مسلم کا نفر کے آئیندہ اجلاس کیلئے صدر منتخب کیا گیا ہے.اب مسلمانوں میں میری حیثیت رہی ہے جو گاندھی جی کی مندوں میں ہے.
اہوانی انس کی آشفتگی اس نامہ کی وجہ سے تھی.پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی کے روبرو شہادتیں اشتر کہ کمیٹی کے رو بہ ہندوستان سے بھی گواہ پیش ہوئے اور انگلستان سے بھی.بعض گواہان انفرادی حیثیت میں پیش ہوئے اور بعض جماعتی نمائندوں کی حیثیت میں کچھ گواہان قرطاس یض کی تجاویہ کی تائید یں تھے اور کچھ مخالفت میں.سر مائیکل اورڈوائر اور ان کے ہم خیالوں نے قرطاس ابین کے خلاف انگلستان میں ایک محاذ قائم کر رکھا تھا اور وہ مسٹر یہ بل کی تائید حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے.چنانچہ سرمائیکل اپنے چند رفقاء سمیت کمیٹی کے روبرو شہادت دینے کیلئے تشریف لائے اور سر کو پھل بھی بہ نفس نفیس شہادت دینے آئے سر جان ٹامسن نے جو دہلی کے چیف کمشزرہ چکے تھے قرطاس ابی کی تائید میں یک انجمن قائم کی اور خود اس کے وائس چیرمین نے کین اس انجمن کی طرف سے کمیٹی کے روبرو کوئی شہادت پیش نہ ہوئی.اسکی سرگرمی رائے عامہ کی تائید حاصل کرنے تک محدو دری سندوستان سے ایک وفد پیش ہوا جس کے لیڈر مہاراشٹر کے ایک معزی برہمن تھے.وہ ہندوستان کی آزادی کے تو امی تھے لیکن ان کا مطالبہ تا کہ آزاد ہندوستان کی پارلیمنٹ کو سی ایسے قانون کے بنانے کا اختیار نہ ہوتومذہب پر اثر اندان وجوان پر جرح کے دوران میں سر تیج بہادر سپرد اور مٹر بیکار نے بہت کوشش کی کہ انہیں قائل کر سکیں کہ قانون سازی کے اختیارات پر ایسی حدبندی ناقابل عمل ثابت ہوگی.لیکن وہ اپنی بات پر مصر ہے.آخر مسٹر جس کا رنے دق ہو کر پوچھا آپ مذہب کے اتنے حامی ہیں تو آپ یہ تو تسلیم کریں گے کہ آپ کے مذہب کے درد سے سمندر پارہ کا سفر روحانی نجات کو خطرے میں ڈالتا ہے.انہوں نے فرمایا میں یہ تسلیم کرتا ہوں.مسٹر بیکار نے پوچھا، پھر آپ نے مذہب کی تعلیم کے خلاف یہ حرکت کیوں کی ؟ انہوں نے جواب دیا.میں نے اپنی روح کی یہودی کو اس لئے خطرے میں ڈالنا منظور کیا کہ میں اپنے کروڑوں ہم جنسوں کی ارواح کی بہبودی کا تحفظ کر سکوں.یہ نقرہ انہوں نے ایسے ہوش اور اخلاص کے ساتھ کہا کہ کانفرض کے اراکین نے بی اختہ انہیں خراج تحسین پیش کیا ! مشترکہ کمیٹی کے سامنے مسرحہ پھل کی شہادت | اس میں شک نہیں کہ جو اصحاب کمیٹی کے رو بہ و شہادت دینے کیلئے تشریف لائے ان میں سے موثر ترین شخصیت مٹر یہ پل کی تھی.ان کی شہادت چار دن جاری رہی.مسٹر جو پل فراس ابعین کی پر خونیں اور اس سارے منصوبے کے سوفیصدی مخالف تھے.ان پر سوالات کے درمیان وزیر چند سرتیج بہادر پردہ مٹر جیکار ، سرسری سنگھ کاور وغیرہم سب جتنی کرکے تھک گئے.لیکن مسٹر چپہ چپل اپنے موقف سے ذرا بھی ادھر ادھر نہ ہوئے مسٹر چھ پھل اپنی سابقہ تقریروں میں ہندوستان کو نو آبادیات کا درجہ دیئے جانے کی حمایت کر چکے تھے جب انہیں ان کے وہ سابقہ اعلانات یاد دلائے جاتے تو فرماتے کو آبائیات کے درجے کا تو مں اب بھی موتیہ ہوں لیکن نو آبادیات کا درجہ تو ہندوستان حاصل کر چکا ہے.ہندوستان نے معاہدہ ورسائے پر دستخط کئے ، ہندوستان لیگ آن نیشنز کا رکن ہے.یہ نو آبادیات کا درجہ ہی تو ہے.لیکن درجہ اور بات ہے اور فور آبادی کے اختیارات اور بات !
ان کے لئے ہندوستان ابھی تیار نہیں.ہندوستان کی آبادی کے حصے کو ان امور میں دلچسپی بھی نہیں.وہ کیا جانیں خود اختیاری کسی جانور کا نام ہے اور اس کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور ا سے کس طریق یہ چلایا جاسکتا ہے ان کا مفاد تو اس میں ہے کہ امن قائم رہے، انصاف ہو اور انکی بہبودی کی نگہداشت کی جائے.اور یہ موجودہ صورت میں ہو رہتا ہے.یہ سیاسی مطالبات تو محض ایک شورش ہے جو خود غرضی سیاسی قیادت نے بر پا کر رکھی ہے.جہاں وزیرہ بند ہو قرطاس ابیض کے بنانیوالے تھے اور ہندوستان کے سیاسی میدان کے شہسوار ناکام رہے.وہاں مجھے مٹر کہ میں جیسے آند مودہ کا پہلو ان کے ساتھ نبرد آزمائی کی کوئی خواہش نہیں تھی میں کھٹی کا اجلاس شروع ہونے سے کچھ وقت پہلے پہنچ جایا کرتا تھا اور اپنی نشست پر مجھے لکھائی پڑھائی میں مصروف رہتا تھا.ایک صبح میں اسی شغل میں تھا کہ کسی نے میرے شانے پر ہاتھ رکھا.میں نے سراٹھا کر دیکھا تو وزہ یہ بند تھے انہوں نے دریافت فرمایا ظفراللہ ! آج شاید تمہاری باری آجائے کیا تمہارا ارادہ چہر چال سے کوئی سوال پوچھنے کا ہے ؟ " میں نے کہا میری کیا مجال ہے ؟ کہنے لگے ہم سب یہ غلطی کر رہے ہیں کر پیر جیل پر اسکی سابقہ تقریروں کی بنا پر جرح کرتے رہے ہیں چہ چل پڑا ہوشیار پارلیمنٹیرین ہے.تم نے دیکھا کیسی ہوشیاری سے اپنے سابقہ اقوال کی تعبیر کر کے ٹال جاتا ہے.وہ تجہ اور بات ہے اختیارات اور بات اس قسم کی حیرح سے کچھ حاصل نہیں.اگر تمہارا ارادہ چھہ پل سے کچھ سوال کرنے کا ہو تو تم اسے ہندوستان کی موجودہ حالت کے متعلق سوال کر دو جس کے متعلق اسے کچھ علم نہیں.وہ سمجھتا ہے ہندوستان آج بھی وہی ہے جو آج سے تین ۳ پینتیس سال پہلے تھا جب بچہ جیل منگلور میں فوجی خدمت کر یہ ہا تھا.یہ اوڈ واٹر کے ہم خیالوں کا پڑھایا ہوا سیاں آیا ہے خود اسے آج کے ہندوستان کے متعلق بہت کم علم ہے.تم اسے اس میدان میں دھکیل کرنے جاؤ میں کے متعلق تمہیں علم ہے اور اسے نہیں وہاں یہ تمہارے مقابل پر نہتا ہوگا " میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا میں کوشش کروں گا.مسرحمہ حیل پر سر وارہ بوٹا سنگھ کی جورج سہ پہر کے اجلاس میں مسٹر وہ پل پر سوالات کرنے کیلئے سردار بوٹا سنگھ درک کی باری آگئی.وہ شیخو پورہ کے ایک وکیل تھے جو پنجاب کو نسل کے نائب صدر تھے اور مشتر کہ کمیٹی میں سکھوں کے نمائیندہ تھے انہیں مٹر چھہ پل پر جرح کرنے کا بہت شوق تھا ان کی نشست میرے دائیں ہاتھ تھی وہ بہت خوب شخص تھے لیکن نامانوس ماحول میں تھے.انگریزی بالکل پنجابی لہجہ میں بولتے تھے لیکن بلند حوصلہ اور با ہمت تھے.جب چیر مین نے ان کا نام دیکا را تو فوراً اپنے کاغذات سنبھالے، عینک چڑھائی اور بڑے مشفقانہ تیجے میں مسٹر وہ پل کو مخاطب کر کے کہا.میں آپ سے کچھ سوال پوچھنا چاہتا ہوں.مٹر رہ چل نے انا سگار پہلا کہ مسکراتے ہوئے کہا.شوق سے شوق سے سردار صاحب نے پوچھا مسٹر چھہ میں آپ نے کہا ہے آہستہ آواز میں مجد " "
سے پنجابی میں دریافت کیا بھائی کیا کہا تھا اس نے M08 ؟ میں نے کہا نہیں MASSES ) ہاں ہاں آپ معمہ حل نے کہا نے کہا ہے MASSES یعنی عوام کو ان مسائل میں کوئی دلچسپی نہیں! کیا یہ ٹھیک ہے ؟ مسرحہ چلا.میں یہ ٹھیک ہے ! ہندوستانی عوام کو ان مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں." سردار صاحب نے پوچھا اچھا تو پھر کھلا آپ " کیا کہیں گے اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ میں MASSES (عوام ) ہوں یہ مسٹر رہ چل نے مسکرا کر جواب دیا :- MASSES I WOULD CONGRATULATE THE میں عوام کو مبار کیا کہوں گا ) اچھا ہوا کہ سر دارد صاحب اور مروجہ میل کے درمیان ایسے طائف کا سلسلہ کوئی میں منٹ جاری رہتا.اس سے کمیٹی کی کاروائی کی انتہائی سنجید گی کچھ ہلکی ہو گئی.جب میری باری آئی تو مسٹر یہ پہل نے سوچا ہو گا کہ ایک دائرہ ھی والے نے مضحکہ خیری کا مظاہرہ کر لیا اب دیکھیں دوسرا داڑھی والا کیا گل کھلاتا ہے.اتفاق سے ہم تھے بھی دونوں پنچائی بھاٹ.مرحمہ حل پر میری جموح | مسرحہ پھل اگر چہ کمیٹی کے رو برد گواہ کی حیثیت میں آئے تھے اور چندسالوں سے انہوں نے وزارت میں حصہ نہیں لیا تھا لیکن مسلم طور پر وہ برطانوی سیاست کے آسمان کے ایک درخشندہ ستارے تھے.ایک ڈیوک کے پوتے ، ایک وزیر خزانہ کے بیٹے.پہلی عالی جنگ میں برطانیہ کے سحری محکمہ کے وزیہ ، ایک صاحب تجربه سیاسی قاید، ایک بار رعب رکن پارلیمنٹ ، ایک بلند پایہ ادیب ، ایک نامور نقاد اور مورخ ، غرض ہر لحاظ سے دو ایک قابل احترام شخصیت تھے.اور ایسی کمیٹوں میں تو گواہ کی بھی وہی حیثیت ہوتی ہے جو ارکان کی ہوتی ہے.میں نے اپنے سوالات اور لب لہجہ میں ان کا پورا احترام مد نظر رکھا اور وہ بھی بہت خوش اخلاقی سے جواب دیتے گئے.پہلے پہلے تو میرے سوالات کا بلا نام جواب دیتے.جو بات تسلیم کرنے کے لائق ہوتی تسلیم کرتے اور جب اس کا اعتراف کرنا پڑتا عترت کرتے.لیکن جب انہوں نے اندازہ کیا کہ یہ تو میرے مسلمات سے یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ ہندوستان نہ صرف آزادی کا طاب لت ہے کہ آزادی کیلئے تیار بھی ہے توان کے رویہ میں تبدیلی ہوئی اور میرے سوالات کو ٹالنا شروع کیا ایک سوال کو جب دوبارہ ڈال چکے تومی نے عرض کیا سٹر ی میں مجھے ہی شکل در پیش ہے کہ انگریزی میں مادری زبان نہیں اور می با وجود روانہ کوشش کرنے کے اپا مطلب آپ پر واضح نہیں کر سکا اگر آپ اجازت دیں تو میں پھر کوشش کروں.چونکہ اب وہ محتاط ہوچکے تھے اسلئے مجھے اپنے سوالات کو اس طریق پر ڈھالنا تھا کہ جواب میں انہیں ٹانے کی گنجائش نہ ہو.مجھے یہ بھی فائدہ تھا کہ جیسے وزیر مہند نے مجھے بتایا تھا مٹر جیہ میں ہندوستان کی موجودہ حالت سے واقف نہ تھے.میں نے جب یہ ثابت کرنے کی وشش شروع کی کہ آزادی کیلئے جو معیار سر یہ میں نے خود پیش کیا ہے ہندوستان اسے بہت مدرک پورا کرتا ہے اور اس ادعا کے بوت میں وا تعالی تصویر کے نقوش کھنچنا شروع کئے بخصوص صوبہ پنجاب کے حالت کی بنا پر جن سے دو واقف نہیں تھے تو انہیں سلیم کئے بغیر چارہ نہ رہا.اگر وہ ہر سوال کے جواب میں کہتے مجھے اس کا علم نہیں تو دو تین بار عدم علم کا اعتراف
کرنے کے بعدان کی شہادت کا وزن بہت حدتک ہلکا ہو جاتا اور سوالات تسلیم کرتے جانے سے تو موقف ہندوستان کو مجوزہ آئینی اصلاحات دیے جانے کے خلاف انہوں نے کمیٹی کے سامنے پیش کیا تھ اس کی بنیاد کمزور ہو رہی تھی.اس دن ان پر میری چو ہے گھنٹہ بھر جاری رہی اور ختم نہ ہوئی تھی کہ اجلاس دوسرے دن پر ملتوی ہوگیا.دوسرے دن گھنٹہ بھی اور اسی پر صرف ہوا.جب میں نے مسرحہ چل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جدت ختم کی تو سر پر چل نے کمال قاضی سے فرمایا.اور پھر میں میں نے تو محسوس نہیں کیا کہ مٹر ظفراللہ ان کو انگریزی ان کی مادری زبان نہ ہونے کی وجہ سے کوئی مشکل پیش آئی ہو.جب ہو تے دن کے آخرمیں مسٹر یہ چیل کی شہادت مکمل ہو چکی تو ساری کمیٹی نے دیر تک چین کے ساتھ انہیں خراج تحسین پیش کیا مسٹر چر میں اپنی کرسی سے اٹھ کہ میرے پاس تشریف لائے مصافحہ کی اور مسکراتے ہوئے فرمایا.YOU HAVE GIVEN ME TWO MOST DIFFICULt Hours bef ORE ترجمہ.اس کمیٹی کے رویہ تم نے وہ گھنٹے میرا ناک میں دم کئے رکھا.) " THIS COMMITTEE دو ید اعتراف انکی بڑائی کا ثبوت تھا.اگر میں کسی خفیق حد تک مسرحہ عمل کے مخالفانہ موقف کا اشاراکین کمیٹی کے ذہنوں سے زائل کرنے میں کامیاب ہو سکا تو اس کا سہرا اول تو نہ یہ ہند کے سرے جنہوں نے مسٹر پر پل پر موئمہ جرح کا مجھے طریق سمجھایا در پھر میان سر فضل حسین صاحب کے سرسے جن کی مساعی کے نتیجہ میں پنجاب کا پسماندہ صوبہ سابقہ اصلاحات کے نظام کو ذمہ دارانہ طور پر چلانے میں ایسا کامیاب ہوا کہ چند ہی سالوں میں اس کا شمارہ ہندوستان کے ترقی یافتہ صوبوں میں ہونے لگا.میں نے مسٹر وہ پل پر جماع کے دوران میں صوبہ پنجاب کو سی بطور مثال پیش کر کے یہ ثابت کیا کہ مہندستان مزید اصلاحات کیلئے اور..تیار ہے.بعد میں مسٹری کی کئی بار مجھے ملاقات کا شرف حاصل ہوا.ہمیشہ بیٹے تپاک سے پیش آتے رہے.بھی کے سامنے سرمائیکل سرمائیکل اڈواٹر بھی اپنے رفقا کے ساتھ شہادت دینے کیلئے تشریف لائے.اور وائیر کی شہادت جب ان کے سمنے بھی میں نے پنجاب کی مثال پیش کی تو انہوں نے فرمایا مسر ظفر اللہ ان ! تم نے بہترین صوبے کو شال کے لئے چنا ہے.میں نے کہا مثال تو بہتری کی پیش کی جاتی ہے.جب میںنے انہیں ایسے منصوبوں کی طرف توجہ دلائی جو صوبہ پنجاب میں عوام کی یہودی کو ترقی دینے کی خاطر جاری کئے گئے تھے تو بعض کے متعلق انہوں نے فرمایا اس کی ابتدا تو میرے وقت میں ہوئی تھی.یا میرے وقت میں اس پر غور شروع ہو گیا تھانہ یا اس کی طرف تو میں نے توجہ دلائی تھی.میں نے کہا میری غرض یہ نہیں کہ آپ کی مساعی پر پردہ ڈالا جائے.میری غرضن تو یہ دکھانا ہے کہ بر صغیر می سیاسی ذمہ داری.خدمت خلق ، اقتصادی ، صنعتی اور معرفتی ترقی ، تعلیمی اور زمینی پیچی حفظان صحت اور طبی اداروں کے قیام اور فروغ کی مثالیں کثرت سے موجود ہیں اور دن بدن زیادہ ہو یہ ہی ہیں.کامن و لیتو در میشیز کا نفرنس ٹارنیٹو میں شرکت | وسم گرما میں کمیٹی کی کاروائی چند ہفتوں کیلئے مقوی ہوی ہندوستانی وفد کے اکثر اراکین اس عرصے کیلئے واپس ہندوستان چلے گئے رائل انسٹی ٹیوٹ آف انٹر نیشینل افیرز کے سیکرٹری
جنرل مسٹر اولین میکیڈم نے مجھ سے کہا کہ انٹی ٹیوٹ کی سری پستی میں ایک کامن ویلتھ ریلیشنر کا نفر نس کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں اگست کے مہینے میں ہونے والی ہے.مناسب ہوگا کہ ہندوستان کی طرف سے بھی ایک وفد اس کانفرنس میں شامل ہو.سرا اسامی مالیار میر مقبول محمود صاحب اور مجھے اس میں شمولیت کی دعوت دیگی.ہم اورلول سے وحین لائن کے جہانہ پر مانٹریال گئے.چند گھنٹوں کیلئے جہانہ کیوبک ٹھہرا.جہانہ سے شہر کا نظارہ بہت غریب تھا.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اٹھارویں صدی کے فرانس کا ایک ٹکڑا کاٹ کر سینیٹ لالہ حسن کے کنا رے پر رکھ دیا گیا ہے کیوبک سے جہاز نے لنگر اٹھایا تو سامنے دریا پر پیل نظر آر ہا تھا بظاہر یوں معلوم ہوتا تھا کہ جہان کے قریب پہنچنے پر ی تویل کا وسطی حصہ کی لائے گا یا اگر ایسانہ ہوا تو جہاز کے بادبان پل سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جائیں گے جہا نہ تندر کے پل کی طرف بڑھتا گیا لیکن پل کا کوئی حصہ نہ کھلا سب مسافر یہ نظارہ دیکھ رہے تھے.جہانزیل کے نیے پہنچا دکھائی دیا تو بعض مسافروں کی چیخیں نکل گئیں لیکن بادبانوں کا پل کے ساتھ تصادم نہ ہوا.آنکھ کو تو ایسے دکھائی دیا کہ بیل تک پہنچ که بادبان خود نیچے ہو کر سمٹ گئے اور پل کے نیچے گذر کر دوسری طرف پھر پہلے جیسی بلندی اختیار کر بی سکین در اصل یہ سب کیفیت ایک قریب نظر تھی.پل کی بلندی اتنی تھی کہ جہانہ آسانی سے نیچے سے گزر سکتا تھا البتہ آنکھ فریب کھا جاتی تھی.کیوبک سے مانٹریالی تک دریا کے دونوں طرف فرانسیسی عقل کے لوگوں کی آبادی ہے ، منتظر نہایت دلفریب ہے.یہ سارا دن بہت لطف میں گذرا ، غروب آفتاب کے وقت ہم مانٹریال پہنچے.رات میں فورڈ ہوٹل میں ٹھہر مانٹریال کی ہر بات میرے لئے انو کھی تھی.یہ شہر یورپ اور امریکہ اور خصوصاً انگلستان فرانس اور کینیڈا کا مرکب ہے نیا دنیامیں یہ میرا سہل اور دو تھا اور یہ دنیا مجھے سے بچے ہر لحاظ سے نئی معلوم ہوتی تھی بعد می کئی بار مجھے کیو بک اور مانٹریالی جانے کا اتفاق ہوا ہے اور میں نے ہر بار میاں کے نام کو خوشگوار پایا.سچ تویہ ہے کہ کینیڈ کے ہر شہر اور ہر خطے کے متعلق میری طبیعت پر یہی تاثر ہے.مانٹریال ایک دن ٹھہر کہ میں آٹووا گیا جو کینیڈا کا دارلحکومت ہے.چند گھنٹے وہاں ٹھہر کر ٹورنٹو چلا گیا.کانفرنس وہاں کی یو نیورسٹی کے ہارٹ ہاؤس میں ہونے والی تھی.ابھی کا نفرنس کے شروع ہونے میں کچھ دنوں کا وقفہ تھا.میںصرف ایک رات ٹورنٹو ٹھہرا ٹارٹ ہاؤس کے دارہ ڈن مسٹر بکر سٹتھ نے ٹارٹ ہاؤس ہی میں میرے قیام کا بہت آرام وہ انتظام کر دیا تھا.نیو یارک کا پہلا سفر | دوسری صبح میں نیو یارک روانہ ہو گیا.BUFFAL اسٹیشن پر گاڑی بدلی موسم گرم تھا مجھے سخت پیاس محسوس ہو رہی تھی اسٹیشن کے ET BUFFET سے میں نے بٹر ملک BUTTER MILK لیا اور اس میں اتناہی برف کا پانی ڈال کر مستی بنائی اور تھوڑا سا نمک ملا کہ سیر ہو کر پیا جس سے مجھے بہت تسکین ہوئی شام ہونے تک ہم نیو یارک پہنچ گئے.وہاں میری کسی سے واقفیت نہ تھی سفر کے آخری حصے میں ریل کی کھڑکی سے "
ھورے تھوڑے : یارک کے ہوٹلوں کے اشتہار نظر آتے رہے.انہیں دیکھ کر میں نے قیام کیلئے پر موٹ ہوٹل کا انتخاب کیا تو گرینڈر سنٹرل سٹیشن سے قریب ہی تھا.ہوٹل کے اندر ہوا ٹھنڈی کی ہوئی تھی جس سے گرمی کی زحمت سے بچاؤ کہ تا ان دنوں ریاستہائے متحدہ امریکہ میں بہت کساد بازاری تھی اور صدر روزہ ویلیٹ کی نیویل NEW DEAL کا بہت پھر چاتھا.اگر چہ دو سال قبل بر طانیہ کے سکے کی قیمت سونے کا معیار ترک کر نیکی وجہ سے گر گئی تھی لیکن پھر بھی ڈالر کے مقابلے میں سٹرلنگ مضبوط حالت میں تھا.ان دنوں ایک پونڈ کے پانچ ڈالر ملتے تھے اور نیو یارک میں سب اشیاء نستنا سستی معلوم ہوتی تھیں لوکل آمد و رفت کے ذرائع تو بہت ہی سنے تھے میں یا پبلی کی ریل پر جہاں سے جہاں چاہتے پہلے جاؤ کر یہ فقط پانچ سینٹ تھا اور سینٹ تھے ایک شکنگ کے ۲۵! البتہ فتنے ایوینیو کی سہوں پر کر ایو سن سینیٹ تھا یعنی پانچ نہیں سے کچھ کم نیو یارک کی سی کا ایک طرف یہ تھاکہ نتھ ایونو کی کسی بس پر سوار ہو کر دور کے رشتے پر بیٹے شہر کی آخری مدتک لے جائیں.میں نیو یارک صرف تین دن ٹھہرا لیکن سارا وقت سر می گذرا مجھے بعدمیں کئی بار نیو یارک جانا ہواہے اور کی و فعہ میرا قیام خاصے لمبے عرصے کیلئے ہوتا تھا.وسط اگست لہ سے شروع فروری تله متک تو میرا ستقل قیام نیو یارک میں بجا تھا لیکن بعض مقامات جو میں نے ان تین دنوں میں دیکھے پھر دیکھنے کا موقعہ نہیں ملا.مشکی آزادی کے بت تک گو میں ایک بار پھر گیا ہوں.لیکن سبت کے اندر جاکریت کی آنکھوں میں سے سمندر کا نظارہ میں نے ان تین دنوں کے قیام میں ہی کیا.نیو یارک سے میں واپسی ٹورنٹو کیا کیونکہ یں وہاں ایمپائہ پارلیمنٹری ایسوی ایشن کی کینیڈین شاخ میں تقریر کر نامنظو WORLD 1940 ٹورنٹو سے فارغ ہو کر میں شکاگو گیا جہاں ہوٹل مارلین میں کر چکا تھا.شکاگو کا پہلا سفر اور FAITHS CONGRESS میں شمولیت | مہاراجہ صاحب برود و عالی ندا یا اس کا اتار کرنے والے تھے اور اس میں مجھے بھی تقریر کرنا تھی.ان دونوں شکا کو میں صد سالہ نمائش بھی ہو رہی تھی جس کی وجہ سے وہاں غیر معمولی رونق تھی.صوفی مطیع الرحمن صاحب اس زمانے میں وہاں سلسلہ احمدیہ کے مبشر تھے وہ از راہ کرم اسٹیشن پر پیشوائی کیلئے آئے ہوئے تھے.ان کے ہمراہ ان کے چند امریکن دوست بھی تھے جو مجھے اتنے ہوش اور تپاک سے ملے گویا برسوں کے بچھڑے بھائی ہوں.مغربی ممالک میں پہلی ہی ملاقات پر استقدر تپاک اور بے تکلفی کا اظہار میرے لئے اچنبھا تھا اور کسی قدر وقت کا موجب بھی اسٹیشن سے ہم سب ہوٹل گئے.صوفی صاحب نے میرے لئے کانگہ میں ہوٹل میں کمر سے رکھا تھا.میں اس انتظار میں تھا کہ ہوئی پہنچ کر سوفی صاحب کے ساتھ تھیلے میں مٹھ کر گفتگو کاموقع ملے گا پر وگرام طے ہوگا.عالمی مذاہب کانگریس کے متعلق ضروری معلومات حاصل ہوں گی.منہ ہاتھ دھونے اور کپڑے بدلنے کاموقعہ ہو گا لیکن ہوٹل پہنچ کر ان میں سے ایک بات بھی نہ ہوسکی صوفی صاحب کے امریکن دوست کمرے میں بھی ہمارے ساتھ آگئے اور اطمینان سے کرے پر قابض ہوگئے کوئی کرسی پر بیٹھ گیا کوئی صوفے پر کوئی میز پر دو تین تو لنگ پر ھی بیٹھ گئے مجھ پر سوالوں کی بوچھاڑ جو اسٹیشن ہی سے شروع ہوگئی تھی.جب
جاری رہی میں ایک سوال کا جواب دے نہ چکنا تھا کہ دو مین اور سوال کر دیئے جاتے تھے.پانچ دس منٹ ہی گزرے ہونگے کہ تجویز ہوئی چلو مائش دیکھنے چلیں، میری طبیعت سکون چاہتی تھی لیکن سکون کا امکان ہر لحظہ دور سے دُور شہر ہو رہا تھا.ناچاریں نے طے کیا کہ میری مرضی کے ہونے کا توکوئی امکان نہیں پھر اپنی کی مرضی ہی صوفی صاحب خوش ہو رہے تھے کہ ان کے امریکن دوست بڑی بے تکلفی سے ان کے مہمان دوست کی آؤ بھگت کر رہے ہیں.ہم سب نمائش میں گئے جہاں آؤ بھگت بڑی بے تکلفانہ جاری رہی.یہ دیکھو! یہ کھاؤ! یہ چیو! آنا ان سے ملو یہ میرے BUDDY میں ! میں نے بڈی کا لفظ پہلے صرف کینڈی کے جز کے طور پر سنا ہوا تھا اور نہیں جانتا تھا کہ بڑی سے امریکن کون رشتہ مراد لیتے ہیں.آخر یم ہوٹل واپس لوٹے.اور میں نے اپنے مہربان دوستوں کا تہ دل شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں یہ کہ کر رخصت کیا کہ اب مجھے صوفی صاحب کے ساتھ کچھ باتیں کرنی ہیں.صوفی صاحب سے معلوم ہوا کہ یہ تاک اور اخلاص کا اظہار قطعا نمائشی نہیں تھا اور یہ تکلیفی امریکن طبیعیت کا خاصا ہے اس کا بعد میں مجھے وسیع پیمانے پر تجربہ ہوتا رہا.مسٹر مائیکل پاولز ان احباب میں سے مسٹر ایک پاولی شادی شدہ تھے اور ان کے دو بچے تھے جن میں سے بڑا لڑکا تھا.انہوں نے مجھے اپنے ہاں دعوت دی مستر با دلتہ اور بچوں سے ملاقات ہوئی کھانے کے بعد مائیکل نے اصرار کیا کہ میری ٹائٹیوں میں سے ایک ٹائی نشانی کے طور پر بھی لو.اس کے بعد جب بھی میں شکاگو گیا ان سے لاز ما ملاقات ہوتی اور بہت سا وقت اکٹھے گزرتا وہ پہلی ملاقات کے وقت شہر میں ایک اپارٹمنٹ میں رہتے تھے بعد میں شہر سے باہر کھلے حصے میں اپنامکان تعمیر کر لیا جہاں کئی بار مجھے اپنا مہمان رکھا.ان کی اہلیہ ڈوروتھی میری تمام عادات اور ضروریات سے واقف ہو گئی تھیں.جب کبھی میں ان کے ہاں مہمان ہوا مجھے کبھی دوسری بار کوئی بات بتانے کی ضرورت نہ ہوئی ان کے ما زاد میرے دیکھتے دیکھتے بڑے ہوئے سکول ختم کیا پیڈو یونیورٹی انڈیا میں انجن کی تعلیم کیے داخل ہوئے ایک بارمیں اس کو یں تھا.ایک نے کہا کی پرافٹ بال کا یہی الیانئے یونیورسٹی کے ساتھ ہے.گریم ملک کو تو مائیکل جونیرا کے بیٹے کے کیلئے بہت خوشی کا موجب ہو گا ہم میچ دیکھنے گئے.یونیورسٹی کے پریذیڈنٹ ہوے نے ہمیں ان کی دعوت دی.میچ دیکھتے وقت میری نشست مرز موڈے کے دائیں ہاتھ پر بھی کھیل دیکھتے دیکھتےجب کوئی مو و موش ظاہر کرنے کا ہوتا وہ میرے بائیں بازو کوپکڑ کر زور سے جھنجھوڑ میں اور جیب پر طبیعت سکون پر آئی تو معذرت کر ہمیں امریکی فٹ بال کا میچ دیکھنے کا یہ مراسل تجر یہ تھا.میں نے کھیلوں میں الیا توش پہلے کہیں نہیں دیکھا تھا.شہری سے گزرتے ہوئے دیکھا یونیورسٹی کے طلبا نے عجب عجب سوانگ بھرے ہوئے تھے ایک جگہ ایک کارڈ بورڈ کی وفٹ لمبی اور دو فٹ پوری عورت ایک کارڈ بورڈ کے لڑکے کو بالوں سے پکڑے ہوئے پانی کے فرضی موضی میں ڈبکیاں دے رہی تھی اور ادو پر بڑے بڑے حروف میں لکھا ہوا تھا.WELL DUCK THE ILLINOIS مجھے DUCK کے معنی اس دن معلوم ہوئے بامیں نے مسٹر موڑے سے دریافت کیا.آپ کو اپنی ٹیم کے جیتنے کی کوئی امید ہے ؟ انہوں نے کہا بالکل نہیں.الیانا ئے والے پھلے سال کے مہین
ہیں.اور ہم پچھلے سال ان سے بری طرح بارے تھے.مجھے امریکن فٹ بال کے قواعد کا کچھ علم نہ تھا اسے کھیل کی متعلق تو میں کوئی اندازہ نہ کر سکا جو کچھ سن ہوے بتادیتیں سن لیتا.لیکن ہجوم کے جوش و خروش اور پیٹر لیڈرس کی قلابازیوں سے اندازہ کرتارہا کہ ان یونین کونہ صرف کھیل میں دلچسپی ہے ملک وہ سب ایک طرح سے خود کھیل میں شامل ہیں.آخر پر دو نے الیانائے کو شکست دیدی؟ اس پر اتنا شور ہوا کہ الامان !؟ مائیکل اورمیں یونیورسٹی کے مہمان تھے کھانے کے بعد مائیکل اور جونیر مجھے مرے کمرے میں چھوڑ کر اور یہ اطمینان کر کے کہ باو جود دارد گرد کے شور د شغف کے میں آرام سے سو جاؤں گا.یونیورسٹی کی فتح کے شادیانوں میں شریک ہونے کو چلے گئے.چلتے ہوئے مائیکل نے اپنے بیٹے سے کہا ئیاں پہلے مجھے کوئی DATE (صنف نازک سے ایک رفیقہ تلاش کر دو پھر تم کہاں چاہئے صوفی مطیع الرحمن صاحب نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا.ایک سفید امریکن مسلمان وکیل نے ایک کتاب تاریخ عالم سپر خرید کی جو افاظ میں چھپ رہی تھی اس کا ایک عہدہ اسلام کی ابتدائی تاریخ پر ان صاحب کو بھیجا گیا مکن بجائے تاریخی واقعات کے اس میں دہی فرضی قصے کہانیاں درج تھیں جو مغرب میں اسلام کے متعلق مشہور ہیں انہوں نے اس بنا پر قیمت ادا کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ تاریخ کی کتاب نہیں بلکہ فرضی کہانیوں کی کتاب ہے.ناشران نے قیمت وصول کرنے کیلئے عدالت میں چارہ جوئی کی.خریدار نے وہی عذر عدالت میں کیا.شہادت ہوئی صوفی ماسیاں ڈاکٹر بریڈن اور بعض دیگر مستند مستشرقین شہادت میں پیش ہوئے.عدالت نے قرار دیا کہ یہ کتاب تاریخ کی کتاب نہیں فرضی قصے کہانیوں کی کتاب ہے.اسلئے مدعیان قیمت وصول کرنے کے حقدار نہیں.دعوئی خارج ہوا اور مدعا علیہ کا خرچہ مدعیان پر ڈالا گیا ! شکاگو سے میں بروقت اور نو پہنچ گیا مندوبین کانفرنس کی رہائش کا انتظام یونیورسٹی کے کالجوں می کیا گیا تھا اور بہت آرام وہ تھا.ہر نمائیے کیلئے ایک سونے کا کمرہ اور ایک نشست کا کمرہ مہیا کیا گا تھا کیا نوبی انتظام ہارٹ ہاؤس میں تھا.کنیڈین انسٹی ٹیوٹ آف انٹر نیشنل افیرز میزبان تھی.ان کے صدر مسٹررا اوے ایک کامیاب وکیل تھے تو بعد میں صوبہ اونٹاریو کے چیف جسٹس ہوئے.مسٹر اور مسز راوے نے اپنے مکان پر کانفرنس کے مندرد بین کے اعزازہ میں ایک گارڈن پارٹی کا انتظام کیا.میر مقبول محمود صاحب ایسی تقریبوں میں ہندوستانی لباس فاتحہ میں تشریف لے جاتے تھے اور چونکہ میر آف پرنسز کے سیکریٹری کی حیثیت سے والیان ریاست کے نمائیدے شمارہ ہوتے تھے اسلئے کا نفرنس کے حلقوں میں انہیں برتائی نس کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا ٹورنٹو کے مضافات میں مسٹر ڈ نلیپ نے اپنے نارم پر مند و مین کا نفرنس کے اعزاز میں وسیع پیمانے پر ایک شاندارہ گارڈن پارٹی کا انتظام کیا ان کے ہاں بہت پر لطف وقت گذرا.ان کے میاں نے وکالت کا امتحان پاس کیا تھا لیکن بجائے
انون کی پریکٹس کرنے کے سکول کی ٹیچر ہوگئے تھے.ان دنوں چند نچلے نو جوانوں نے چاندی کو دکھانے کی می میں ایک کمپنی بنائی اور سروری یہ ہے کہاکہ وہ ان کے قانونی کاغذات تیار کر دیں.اور کمپنی کے رجسٹریشن وغیرہ کے متعلق سب کا روائی سرانجام دیں.اس کام کی نفیس کے عوض انہیں معقول تعداد میں کمپنی کے حصص دید یئے جائیں گے.مسٹرڈ نکلیپ رضامند ہو گئے.کمپنی کو چاندی کا کھوج تو نہ ملا مگر سونے کا مل گیا اور مسٹرڈ کلیپ مالا مال ہوگئے.مسٹر ڈیلیپ کو نہراعتی فارم بنانے کا بہت شوق تھا کیونکہ ان کا سینہ کمزور تھا اور وہ کھلی ہوا میں رہائش اختیا کرنے کے خواہش مند تھے لیکن عمرنے وفانہ کی اور وہ جلد تپ دق سے فوت ہو گئے.ان کی یاد میں مسٹرڈ میپ نے بینام بنا یا.فارم کیا تھا مویشیوں کے لئے بہشت تھا.ہم مویشی خانہ دیکھنے گئے تو قریب پہنچنے پر میں سمجھا کہ سامنے کی مار میں فارم کے میر اور علے کے رہائشی نکلے ہیں دروازوں اور کھڑکیوں پر جالی لگی ہوئی تھی کھڑکیوں میں پھولوں کے بکس رکھے ہوئے تھے اندر جاکر معلوم ہوا کہ یہ سب مان فرحت و آسائش کو ماتا کیلیے مہیا کئے گئے ہیں یہ گائے کا الگ الگ تھان..ن تھا.نرم بستر عمدہ چارہ اور صاف پانی میسر تھے اور ریڈیو کے ذریعے موسیقی کا بھی انتظام تھا صبح وشام دودھ دوہتے وقت سر طی موسیقی کی تانیں ان مشیر دونوں کو محفوظ کرتی تھیں.ایک گائے کے متعلق بتایا گیا کہ اس کا تھان علی ریڈ لو گے نیچے تھا کسی ضرورت کے ماتحت اس کا تھا بدلا گیا تواس نے دو دن بند کر دیا.جب اسے پرانے تھان پر واپس لایا گیاتو درد ھو پھر پہلے ہی افراط سے جاری ہو گیا.ایک خاص نسل کا قیمتی بھیڑا PRAIRITE کے علاقے سے فارم کیلئے خریدا گیا.چونکہ علاوہ عالی نسب ہونے کے نازک اندام بھی تھا اسلئے اسے ہوائی جہاز سے لانے کا انتظام کیا گیا اور اسے پر چوٹ سے نارم یں اتارا گیا ان دنوں انسانوں میں سے بھی بھی کسی کس کو ہوائی جہا سے سفر کرنا نصیب ہوا تھا.فارم کے رہائشی کالا کے ایک وسیع کمرے کی تعیت اونچی رکھ کر اس کے اندر لکڑی کا وہ تھونڑا رکھا تھا جس میں مسٹر اور مسنر نلی نے شادی کے بعد انی الی زندگی شروع کی تھی مستر لیپ کا ایک مکان شہر میںبھی تھا.سردیوں میں ان کی رہائش شہری ہوتی.گرمیوں میں کچھ وقت شہر یں اور کچھ فارم میں بسر کر ہی ان کے ایک ہی صاحبزادے موفاٹ ڈنلیپ ان دنوں آکسفورڈ میں تعلیم پا رہے تھے.کامن ویلتھ کانفرنس کانفرنس کے مختلف PANELS میں کئی مسائل زیر بحث آئے ، ایک دلچسپ آئینی مسئلہ جس پر بہت بحث ہوئی یہ تھا کہ جنگ کی صور میں اگر کامن ویلتھ کے اکثر ملک جنگ میں شامل ہوں تو کیا کچھ مالک کا غر مانیک رہنا ممکن ہے ؟ اس وقت تو کسی نتیجے پر اتفاق نہ ہو سکا لیکن لاء میں جب دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تو انگلستان کے اتباع میں کامن ویلتھ کے باقی تمام مال تو جرمنی کے خلاف جنگ میں شامل ہو گئے لیکن آئرلینڈ غیرجانبدار رہنا اور اس پتھ کارکن بھی رہا.اس طرح یہ ملکہ عملاً حل ہو گیا.اس وقت تو کامن ویلین کی رکنیت کی راتی که بر کن تا جدار برطانیہ کو انا ا تسلیم کرے.ہندوستان اور پاکستان جمہوری ملکیت بنانے کے عادی کام یونین کے رکن ہے تویہ شرابی ساداتی اب تو بر برطانوی مقبوضہ خود مختار ہونے کے بعد جمہوری مملکت بن جاتا ہے اور کامن ولیمہ کا رکن بھی رہتا ہے البتہ ملکہ انگلستان
۳۳۴ ستان میں لوندو کا من و لینے کی رسمی رئیسہ ضرور سلیم کی جاتی ہیں لیکن یہ ایک بے حقیقت رشتہ ہے جس کے کوئی نے پاکستان پر جارحانہ حملہ کرکے یہ بھی ثابت کر دیا کہ ایک تیرے ملک کے خلاف جنگ میں غیر جانبدار رہنا تو الگ رہا کامن ویلتھے کے دو ملکوں کے درمیان عملاً جنگ بھی ہوسکتی ہے.سچ تو یہ ہے کہ اگر یہ کامن وینہ کانام تو ابھی تک باقی ہے.لیکن اس نام میں اب کوئی حقیقت باقی نہیں.برطانیہ اور کامن ویلتھ کے رہے پرانے مالک یعنی کنیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کامن ویلتھ کے نظریے کو گلے پڑے ہوئے ڈھول کی طرح بجائے چلے جارہے ہیں.اس کانفرنس کے دوران میں بین شخصیات کے ساتھ واقفیت ہوئی ان میں سے سٹرالی نوٹ بیکر کے ساتھ میرے دوستان تعلقات قائم ہو گئے اور مرور زمانہ کے ساتھ مضبوط ہوتے چلے گئے مسٹرونٹ میسی کو میں کچھ عرصہ پہلے سے جانتا تھا.وہ لنڈ میں کینیڈ کمائی کمر تھے اور بعد می کینیڈا کے لیے کینیڈین گورنر جنرل ہوئے.ہارٹ ہاؤس کی عمارت ٹو ٹویوٹی و انہیں کے خاندان کا طیہ ہے.ٹورنٹ یونیورسٹ کی طرف سے کانفرنس کے اعزاز میں انور کی میوزیم میں شام کے وقت استقبالہ دعوت دیگئی.اس موقعہ پر میری ملاقات پر وفیسر جی ایس بریٹ سے ہوئی تو گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ کے پر دغیر تھے احد چو بیس سال قبل وہاں سے استعفی دیکر ٹورنٹو یو نیورسٹی میں آگئے تھے.پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی کے کانفرنس کے اختتام پرمیں نون و پس آگیا اورمشترکہ کیٹی کے اجلاس دو بارہ سامنے شہادت کا اختتام شروع ہو گئے.نور میں کیٹی کے رو بہ و شہادت پیش ہونے کا مرحلہ ختم ہو گا ی کا کام میں ہندوستانی وند کی شرکت می ختم ہوگئی میں اور اس جانے سے پہلے وزیر سے اور ایک ذاتی مال میں گفتگو کی اجازت چاہی اجازت ملے پر میں نے کہا.سنا ہے ہندوستانی وند کے چند اراکین کی قدر دانی کے طور پر انہیں معظم کی طرف سے اعزازات دیے جانے کی تجویز ہے اور اس تعلق میں میرا نام بھی نہ یہ غور ہے.اگر یہ صحیح ہے تو آپ نے ہو نوانہ نشات مجھ پر کی ہیں دن میں ایک اور کا اضافہ فرمائیں اور میرا نام اس فہرست سے خارج کر دیں.ایک لحظہ خاموش رہنے کے بعد انہوں نے فرمایا کمیٹی کے چیدہ اراکین مثلا چیر من مار کو میں آف سالبری آسٹن عمیر الین، آرچ بشپ آف کنٹربری سب متفقہ طور پر کانفرنس کے سلسلہ میں تمہارے کام کو بڑی قدرکی نگہ سے دیکھتے ہیں اور تمہارے بڑے مداح ہیں کہ تمہارا نام شامل نہ کیا گیا تو انہیں تاسف بھی ہو گا اور حیرت ھی کہ یہ فرد گذاشت کیوں ہوئی.میں نے کہا آپ ان سے کہ دین کو میری درخواست پر ایس کیا گیا ہے.مشتر کہ کمیٹی کے پلک اجلاس ختم ہونے پر کمیٹی کے اراکین کے درمیان قرطاس امینی کی تجاویہ پر بحث کامرحلہ شروع ہوگا میں لاہور واپس چلا گیا اور اپنے عدالتی کام میں مصروف ہو گیا.۱۹۳۴ ء میں سر شادی لال کی طرف سہ کے شروع میں سر شادی لال نے چودھری شہاب الدین صاحب سے ہائی کورٹ کی جی کی پیشکش سے کہا.آپ چاہتے تھے اللہ ان کو ہائی کورٹ کی جھی کا موقعہ دیا ہے کا اب ایک جگہ خالی ہو نیوالی ہے.آپ اسے کہیں مجھے مل ہے.چودھری صامو نے مجھ سے اس بات کا فہ کر کیا تومیں نے کہا آپ
۳۳۵ چیف جسٹس صاحت ہے کہدیں کہ میں ان کا ممنون ہوں لیکن مجھے جی کی کوئی خواہش نہیں.جی تو میں یوں بھی قبول نہ کرتا لیکن جب مجھے معلوم ہوا کہ سر شادی لال چاہتے ہیں کہ میں ہائی کورٹ کا جج بن جاؤں.تو میری طبیعت میں یہ بات اور بھی پختہ ہوگئی کہ مجھے جی نہیں لینی چاہیئے.اگر سر دی لال صاحب مجھے ہائی کورٹ کا جم مقرر کرنے پر آمادہ تھے تو یہ اسبات کا ثبوت تھا کہ جی کا عہدہ میرے لئے موزوں نہیں رہا.کچھ دنوں کے بعد خان بہا در شیخ دین محمد صاحب میرے دفتر ملی تشریف لائے اور فرمایا ہائی کورٹ میں حج کی ایک جگہ خالی ہونے والی ہے حسیں یہ ایک مسلمان کا تقرر ہو گا.میں نے سر سبزی کہ ایک سے رہو اسوقت پنجاب میں رکن عاملہ تھے ) اپنے متعلق ذکر کیا ہے.وہ کہتے ہیں اگر غفراللہ کی خواہش جی پر تقرب کی ہوتو پر کسی اور ے متعلق غور کی گنجائش نہیں.لیکن اگردہ بھی نہیں چاہتے توان تصور میں میں تمہاری تائید کر دوں گا.تم صفائی سے مجھے تبادو تمہاری کیا مرمتی ہے تا کہ اگر منا رہی خواہش ہو تو میں اس سلسلے میں کوئی سعی نہ کروں.میں نے انکی خدمت میں گذارش کی کہ مجھے بھی کی کوئی خواہش نہیں اور مجھے ان کے فقر سے خوشی ہو گی.وائسرائے کی طرف سے پنجاب ہائیکورٹ کے متھوڑے عرصہ بعد مجھے دلی جانے کا اتفاق ہوا.والنشر چیف جسٹس کے عہدہ کی پیشکش سے ملاقات ہوئی.فرمایا تم چارسال سے گول میز کانفرنس کے سلسلہ میں کام کر رہے ہو.چار ماہ میرے ساتھ بھی تم نے کام کیا ہے.میں چاہتا ہوں اپنی دائر ریلی کی میعاد ختم کرنے سے پہلے تمہارے لئے کچھ کر سکوں میں نے عرض کیا ان کی یہی خواہش ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالی عزت کی روندی عطافرماتا جائے سودہ اپنے فضل رحم سے مجھے عطا کہ یہ ا ہے میں آپ کا ممنون ہوں کہ آپ کو میرا خیال ہے لیکن آپکو میرے متعلق فکر کرنے کی ضرورت نہیں.کہنے لگے اچھا یہ تباد سر شادی لال کے بھانے کے بعد تم لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس ہونا پسند کرو گے ؟ میں نے کہا یہ عہدہ بہت عزت اور ذمہ داری کا ہے اگر مجھ سے یہ خدمت لینا مطلوب ہو تو مجھے عذر نہیں ہو گا لیکن ہمیں اس کے لئے تگ و دو کرنا مناسب نہیں سمجھتا.فرمایا تم میں آنا کرو کہ ایمرسن سے بات چیت کر لو.(سر پر بیٹ ایمرسن اس وقت گورنر پنجاب تھے ) میں نے کہا میں بادب گذارش کرنا چاہتا ہوں کہ میرا ایسا کرنا اس عالی منصب کے وقار کے لحاظ سے نامناسب ہے اور اپنی طبیعت کے لحاظ سے بھی میں ایسا کرنے سے معذور ہوئی.انہی ایام میں ہر بائی سن سر آغا نمان دلی تشریف لائے اور تین دن وائسرائے کے ہاں مہمان رہنے کے بعد اس بنگلے میں تشریف لے گئے تو آپ کی رہائش کیلئے تیار کیا گیا تھا.میں بھی ملاقات کیلئے حاضر ہوا.دیکھتے ہی کمال شفقت سے بڑھ کر معانقے کا شرف بخت اور بڑی مسرت کے لہجے میں فرمایا مجھے تم پر فخر ہے.مجھے تم پر یہ فخر ہے.میں نے ان کا شکریہ ادا کیا.فرمایا میں وائسرائے کے ہاں کھڑا ہوا تھا یہ ہیں.معلوم ہے میری ان سے بڑی بے تکلفی ہے.دورانِ گفتگو میں وائسرائے نے مجھ سے کہا مجھے چودہ سال منادرستی
میں خدمت کرتے گزرے ہیں.تمہارا نام لیکر کہا کہ اس سارے عرصے میں مجھے ایک ایسے شخص کا تجربہ ہوا ہے جس نے رسوں ملکی خدمت کی ہے لیکن کبھی مجھ سے کسی بات کی خواہش نہیں کی اور حال ہی میں جب میں نے اس سے کہا کہ میں تمہارےلئے کچھ کرنا چاہتا ہوں تو اس نے کہا تم میرے لئے کیا کر سکتے ہو؟ میں نے عرض کیا میں نے وائسرائے کو توان الفاظ میں جواب نہیں دیا تھا.انہوں نے آپ سے اس رنگ میں بیان کرنا مناسب خیال کیا.سر ڈگلس بینگ کا بطور چیف جسٹس سی میاء میں سرشاری لال نے چیف جسٹس کے عہدے کا چاہت تھوڑ پنجاب ہائی کورٹ میں تقرر ! | اور سر کس بنیگ الہ آباد ہائی کورٹ سے انکی جگہ چیف جسٹس ہوئے سرشاری لال نے ہائیکورٹ بار کے اراکین کو فسٹ پینے کے اجلاس کےکمرے میں بلوایا تا کہ نئے چیف جسٹس سے ان کا تعارف کرا یا جائے.جب سرڈ کلکس بینگ نے میرے ساتھ مصافحہ کیا تو فرمایا چودھری صاحب میں چاہتا ہوں ہم جلد مل سکیں.میں نے کہا جب آپ کا ارشاد ہو میں حاضر ہوجاؤں گا مجھے کچھ تعجب بھی جو کہ انہوں نے میرے نام کی بجائے چودھری صاحب کہ کر خطاب کیا.وہ ایک دن قبل ہی لاہور پہنچے تھے اورپہلے سے مجھے جانتے بھی نہیں تھے.دوسرے بھی ان ان کا پیام ملا کہ آئندہ اور ہم سے لو اتوار کے دن میں چیف جسٹس کے ہاں جانے کے لئے کاریں بیٹھا تھا کہ شد سے سردار سکندر حیات خالصاحب کا ٹیلیفون آیا.انہوں نے فرمایا.میں خصت پر بجا رہا ہوں میں نے اپنی جگہ کام کرنے کیلئے سرائیلزارون کا نام تجویز کیا تھا.مگرگورنر سر ریٹ ایمرسن نے کہا ہے کہ پہلے تم سے دریافت کر لوں.اگر تم رضامند ہو تو اس عرصے کیلئے وہ تمہارا تقر مناسب سمجھتے ہیں.میں نے کہا میرا پروگرام انگلستان جانے کا ہے میں ان دنوں یہاں موجود نہیں ہوں گا.انہوں نے فرمایا سنا ہے تم ہر جون کو شملے آرہے ہو آؤ گے تو بات کریں گے.میں چیف جسٹس صاحب کی خدمت میں حاضر ہوگیا.بیٹھے ہی فرمایا چودھری صاحب آپ میرے ساتھ اجلاس میں کیوں شامل نہیں ہو جاتے ؟ میں نے کہا مجھے جی کی خواہش نہیں.پوچھ گر میوں کا کیا پروگرام ہے ؟ میں نے کہا انگلستان جانے کا ارادہ ہے.کہنے لگے میں بھی تعطیلات میں یورپ جھاؤں گا وہاں ملاقات ہوگئی.لیکن ایک وعدہ کرتے جائیں کہ اگر کسی وقت تمہاری رائے میں تبد علی مونت بلا تکلف مجھ سے کہدیں.میں پہلی مستقل آسامی کیلئے تمہارا نا بھیج دوں گا.میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے رخصت حاصل کی.ان کا سلوک میرے ساتھ ہمیشہ بہت مشفقانہ رہا.عدالت کے اعلاس میں بھی بے تکلفی سے مجھے چودھری صاحب کہ کر خطاب کرتے.عموماً فوجداری بنچ میں شریک ہوتے تھے.دیوانی کا کام بہت کم کرتے تھے دیوالئے کے کم میں البتہ دلچپی لیتے تھے.ان کے آنے سے پہلے یہ دستور تا کہ فوجداری اور خصوصا قتل کی اپیل میں سال کے کل سارا ریکارڈ پڑھ کر سناتے.کہیں کہیں شماریت استفادہ کے متعلق کوئی تنقیدی فقرہ بھی کہ دیتے اور آخر میں مختصر دلائل پیش کرتے جن کا جواب سرکاری وکیل دیتے، انہوں نے آتے ہی یہ طریق بدل دیا.پہلی اپیل کی سماعت کے وقت ہی کہ دیا.میرے شریک اجلاس اور میں ریکارڈ پڑھ کر آتے ہیں.ہمیں ریکارڈ پڑھ کر سنانے کی ضرورت نہیں.دلائل کی تائید میں ریکارڈ کے حسین حصے کی طرف توجہ دلانا مقصود ہو اس کا حوالہ
ا سمسم دید یاکریں.لال ہم تو جہ سے سن کریں گے.پہلے ہی دن چھالوں کی سماعت کرلی.میں مں سے صرف دو منظور ہوئیں چودھری فضل داد صاحت ہے کچھ پریشانی میں مجھے یہ کیفیت سنائی اور کہا بار روم میں بڑی گھراہٹ پھیلی ہوئی.معلوم ہوتا ہے یہ تو بڑی سختی کیا کریں گے.میں نے کہا مجھے توان کے طریق یہ کوئی اعتراض نہیں.وکیل صاحبان کو چاہیے تیاری کر کے اجلاس میں جایا کریں اور دلائل سے بج صاحبان کو قائل کرنے کی کوشش کریں.ریکارڈ کے پڑھنے میں استقدیر وقت صرف کرنے سے کیا حاصل ؟ اس دن میں سارا وقت مسٹر جسٹس ملین کے اجلاس میں چودھری پو پاپ سنگھ صاحب کی طرف سے ان کی اپیل پور میں بحث کرتا رہا تھا.کیس کہا تھا اور دو تین دن اور ملنے والا تھا.چودھری پو پاپ سنگھ صاحب گورنمنٹ کالج ++ لاہور میں میرے ہم جماعت رہے تھے.بعدمیں پنجاب کونسل کے رکن بھی ہے.چو دھری چھو ٹورام صاحب کے رفقاء اور دوستوں میں سے تھے اپنے حلقے کی انجمن امر رباعی کے نائب صدر تھے.اس حیثیت میں ان کے خلاف معین کے الزام میں مقدمہ چلا جس میں سیاسی جنبہ وادی کا بہت کچھ دخل تھا.انہیں پانچ سال قید بامشقت کی سزا ہوئی.ان تمام حالات کی دیجیے مجھے ی ایل کے تعلیمی معمولی فکر تھی.اتفاق ایا ہوا کہ درسی دو سر بس مین لاہور کی عدالتوں کے معائنے کے لئے انیوالے تھے اور اپیل کی ساعت تیس دن پر ملتی ہوئی لیکن ا دن میری ایک واداری اپل ال پی میں پانچوں نمبرپر لگ گئی.عدالت کا اجلاس ساڑھے تین بجے ختم ہوتا تھا.تین بجکر دس منٹ پر میری اپیل کی باری آگئی اجلاس ختم ہونےمیں فقط میں منٹ باقی تھے میرے کیس میں دوملزموں کو یشن کی عدالت سے پھانسی کا حکم ہوا تھا.میں من میں ایسے کہیں کا خوش اسلوبی سے ختم ہونا ذرا مشکل معلوم ہوتا تھا میں ملتوی کرایا جاسکتاتھاکیونکہ اگلی مسیر پر پودری پر پاپ سنگھ اوب کی اپیل کی سماعت شروع ہونیوالی تھی قتل کی اسی میں التوا کی درخواست کنے میں مجھے اسنے تامل تھا کہ چیف جسٹس نگ کے اجلاس میں وہ میرا پہلا کیس تھا.میرا غور تو معقول تھا کہ کل صبح ایک ایل میں وزیر سماعت ہے مجھے بحث جاری رکھنا ہے لیکن پھر بھی شاید چیف جسٹس صاحب خیال کرتے کہ مں نے بحث کیلئے تیاری نہیں کی.کچھ مجھے یہ ھی خیال نا کر سکتی ہے وری قفل دار صاحب ایک کریک کی تو کہا تھا کیل کو تیار کر کے مال میں جانا چاہیے تاکم مصر وقت می پنے دلائل بیان کرسکے اور آج موقع آنے پر انتواکی در وات کر دی ہے.میں نے فیصل کیا کہ میں چیف جسٹس صاب کے مجوزہ طریق کے مطابق کیس پیش کرنے میںاپنا امتحان کردیں، چنانچہ میں نے مختصر طور پرواقعات بیان کئے اور کہا بیر کی ہے کہ ایک سائل کے متعلق تو معقول شک کی گنجائش ہے کہ اس نے حرم میں حصہ لیا یا نہیں ایک گواہ کہتا ہے اس نے مقتول کو پکڑے رکھنا کہ دو سالم آسانی سے مل کر کے ریکارڈ کی صفیہ لال کر لیا ، درس گاہ کہتا ہے یہ دونوں کو لیڈ کرنے کی کوشش کرتا رہا.ریکارڈ کا صفحہ فلاں سطر نلاں ) اس اختلاف کی موجودگی میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کے خلاف جرم ثابت ہے.اسے شک کا فائدہ ملنا چاہیے.دوسرے سائل کے متعلق گذارش ہے کہ ملزم اور منقول دونوں نا نیا نی
کی دوکان پر مجھے کھانا کھا رہے تھے کسی بات پر جھگڑا ہو گیا اور وہ ایک دوسرے سے الجھ گئے ایک نے جو کچھ ہاتھ میں آیا پکڑ کر درست کہ حمل کر دیا اوراس کی موت واقع ہوگئی.ان حالت میں جرم قتل عمد کی حدتک نہیں پہنچنا ملزم کو اتنا کا فائدہ ملنا چاہیے.میری بحث دس منٹ میں ختم ہوگئی.سرکاری وکیل کا جواب سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ دیا کہ ملزم اول شک کے فائدے کا حقدار ہے لہذا وہ بری کیا جاتا ہے.ملزم شانی کا جرم قتل عمد قرار نہیں دیا جاسکتا اس کو دوسال قید کی سزا دیجاتی ہے.عین ہم سب کے اجلاس ختم ہو گی.دوسری صبح میں مسٹر جسٹس ہلٹن کے اجلاس میں چودھری پوتاپ سنگھ صاحب کی اپیل میں بحث جاری رکھ سکا چار دن کی بحث کے بعد وہ بہری ہو گئے.۲ جون کو میں ملے گیا ملاقات ہوتے ہی میاں فضل حسین صاحب نے دریافت فرمایا کی تم سے سکندر نے کہا تھا کہ وہ رخصت پر جانا چاہتا ہے اور تم اس عرصے میں اسکی جگہ کام کرو.میں نے کہا انہوں نے فرمایا تھا کہ انہوں نے سرائیلیہ اردنگ کا نام تو نہ کیا تھالیکن گورنہ چاہتے ہیں کہ وہ مجھ سے دریافت کریں کہ یں ان کی جگہ لینے پر تیار ہوں کہ نہیں میں نے جواب دیا کہ میں انگلستان جانے کا ارادہ کر رہا ہوں اور یہاں موجود نہیں ہوں گا.میاں صاحب نے فرمایا تم آج ہی اسے مل کر کی کہ تم اس کی جگہ کام کرنے کو تیار ہو.میری تو ہمیشہ کوشش رہتی ہے کہ ہاں بھی موقع ہے انگریزی کی جگہ ہندوستانی کوٹے اور یہاں ہندوستانی کی جگہ ایک ہندوستانی ی انگریزی کے سپرد کرنا چاہتا ہے.میں نے سردار سکندر حیات خان کو ٹیلیفون پر مطلع کیا کہ میں شملے پہنچ گیا ہوں اور ساڑھے چار بجے حاضر خدمت ہو جاؤں گا.میں ان کے ہاں جارہا تھا کہ راستے میں سرمائلہ اورنگ مل گئے.صاحب سلامت کے بعد انہوں نے فرمایا چودھری صاحب سنا ہے آپ انگلستا جار ہے ہیں.میں نے کہا ارادہ تو ہے.کہنے لگے آپ خوش قسمت ہیں میں اور میری بیوی بھی رخصت پر جارہے تھے.ان پر جگہ جی لے لی تھی لیکن مجھے سکندر کی جگہ کام کرنے کیلئے روک لیاگیا ہے میری بیوی بیٹی چلی گئی ہیں پ وہ اکیلے سفرکریں گی.میں سردار صاحب کی خدمت میں حاضر ہوگیا.گھنٹہ بھر بھرا.ناشتہ ان کے ساتھ کیا انہوں نے اپنا رخصت کے متعلق پروگرام کا ذکر کیا اور دوسرگئی اور کا تذکرہ بھی ہوا لیکن ان کی ریت کے زمانے میں نکی ائم مقام کے متعلق کوئی ذکر نہ آیا میری جرات سرمائیز اردن کے ساتھ ہو چکی تھی اس کی وجہ سے میں نے بھی اس ذکرہ کی ضرورت نہ سمجھی اور واپس آکر میاں صاحب کو بتلا دیا کہ سرمایہ کا تقرر ہو چکا ہے.دوسرے دن میاں سر فضل حسین صاحب سے گفتگو کے نتیجے میں بیٹے ہوا کہ میںاپنے خرچ پر لندن جاؤں اور غیر سمی ملاقاتوں سے کوشش کر دی کہ مشترکہ کمیٹی میرا مینی پر نور کے درمیان ما مواد کو نظرانداز نہ کر دیا ہے ریان ان کا جانا اور شرک کمیٹی ہمارے مطالبات یا کسی ایک مطلبے کے خلاف سفارش کردیتی تو سلم عوام کی شکایت کہ ہو سکتی تھی کہ جبتک سرکاری خرج پر وفد جاتے رہے ہر کوئی وند میں شامل ہونے کا شوق رکھتا تھا لیکن بے کاری طور پر وفد بھیجنے کا سلسلہ بند ہو گیا تو کسی نے اس بات کا خیال رکھنے کی پرواہ نہ کی مشترکہ کمیٹی مل مالیات
یا کسی ایک مطالبے کے خلاف سفارش نہ کر دے.میاں اس نے فرمایاکہ گول میز کانفرنس کے سلسلہ میں بار بار لندن جاے سے تمہارے وکالت کے کام کا خاصا نقصان ہوا ہو گا اوراب تمہیں ملک سے باہر بھیجنا اور تمہا رے اپنے خرچ پر بھیجنا تم کرنا واجب بوجھ ڈالنا ہے لیکن اس کے بغیر چارہ بھی نہیں میں نے عرض کیا کہ وکالت کے کام کے متعلق آپ فکر نہ کریں.باوجود سال کا اکثر حصہ ملک سے باہر رہنے کے مری آمد میں خدا کے فضل سے اضافہ ہوتا گیاہے کمی نہیں ہوئی اور اخراجات بھی کوئی ایس یو تھ نہیں ہوں گے کیونکہ میری عادات بالکل سادہ ہیں.ان دنوں ہائی کورٹ میں میری نور اسپلیں سماعت ہونیوالی تھیں.چیف جبس صاحب درخواست کی تو انہوں نے میرے انگلستان جانے سے قبل ان سب کی سماعت ہو جانے کا انتظام کر دیا.وہلی سے لندن تک پہلا ہوائی سفر | میں نے پہلا ہوائی سفر سہ میں لندن سے ایمسٹرڈم تک کیا تھا اس پر دس سال گذر چکے تھے بسکہ میں جب میں پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی کے اجلاس میں شمولیت کیلئے لندن گیا تو مار سلیز پہنچنے پہ میرے بعض رفقاء نے تجویہ کیا کہ مارسیلیز سے لندن کا سفر ہوائی جہانہ پر کریں.میں بھی ان کی تھی شامل ہو گیا.ہوائی جہانہ آج کے بہانوں کے مقابلے میں بہت چھوٹا تھا.مشن میں بھی تنگ تھیں کل اٹھارہ میں مسافروں کی گنجائش تھی.ماریلی سے روانہ جوکہ پریس کے مطارہ پہ ایسے اور آدھے گھنٹے ٹھہر کر روانہ ہو گئے.لندن کراین مطالہ پر اترے.اب 1955ء میں میں نے دہلی سے لندن ہوائی جہانہ سے سفر کرنے کا ارادہ کیا.اس اثناء میں ہندوستان میں انڈین ٹرانس کانٹی نیٹل ایرینہ کا جہری ہو چکا تھا.اس میں زیادہ حصہ اپریل ایرونیہ کا تھا.امیریل ایر دینہ کو بہتری او، اے سی کی پیش رو تھی دو ڈائریکٹر مقرر کرنے کا اختیار تھا جن میں سے ایک ہندوستانی ہونا لازم تھا اسپیرال ایرویز نے اپنی طرف سے مجھے انڈین ٹرانس کانٹی نینٹل ایرونیہ کا ڈائرکٹر مقرر کیا تھا.اس کے مینجنگ ڈائرکٹر مسٹرین نارین تھے.جب میں نے ان سے انگلستان ہوائی بہانے سے جانے کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا ہم انتظام کر دیتے ہیں کہ تم ہمارے ڈائر کٹ کی حیثیت سے سفرکر میں دلی سے این این کانی مای ایرانی کے جانے پر کراچی کیلئے روانہ ہو یہ جہانہ پہلے جودھپور ٹھہرتا تھا.یہاں اترتے وقت پائیلائٹ کے اندازے میں غلطی کی وجہ سے جہاز کے نچلے حصے کو کچھ نقصان پہنچا جسکی وجہ سے جہانہ کی مرمت ضروری ہوئی اور بہانہ کراچی جانے کے قابل نہ رہا.جودھپور کے مطالعہ پر ایک آرام وہ ہوٹل تیار ہو چکا تھا رات ہم نے وہاں بسمہ کی.دوسرے دن قبل دو پر کراچی سے اپر یل امر دینے کا بہانہ میں یہ ہم نے قاہرہ تک سفر کرنا تھا میں لینے کیئے جودھپور آگیا.یہ ایک بھاری بھر کم ٹائپ کا بہانہ تھا.جس کی رفتار پچھتر میل فی گھنٹہ تھی.جودھپور میں اسے تیل لینے کی ضرورت تھی اور وہاں جہانہ میں تیل بھرنے کا انتظام نہیں تھا.لکڑی کی سیڑھی لگائی گئی.مزدور دو دو گیلن کے مین ہاتھوں میں اٹھائے سیڑھی پر چڑھ کر تیل جہاز کے حوض میں ڈالتے تھے.دو اڑھائی گھنٹے میں تیل بھر گیا اور ہم دو کے بعد دو پر روانہ ہو کر شام کو کراچی پہنچے کارنی
۳۴۰ ہوٹل میں جس کانام اب پسی ہوٹل سے کھانا کھایا اور دو تین ھنٹے آرام کیا نصف شب کے بعد دو بجے کراچی سے روانہ ہوئے جیوانی، گوادر ، شارجہ ، برین ٹھہرتے ہوئے شام کے کھانے کے وقت تک بعد پہنچنے کی امیدیں تھے کہ پائلٹ نے اطلاع دی کہ بہانہ کو تیز با مخالف کا سامنا ہے اور برے کی جانب بڑھنا دشوار ہورہا ہے اس وقت ہم کویت کے اور پر ہیں.یہاں ہنگامی استعمال کیلئے ایک A۱۹ STA۱۴ ہے میں یہاں اترنے لگا ہوں.جہاز کویت اتندا.حجام صاحب والے نادر نگر کے بھتیجے اور میں دو ہی ہندوستانی مسافر تھے.باقی سب مسافر بویہ میں تھے کویت ان دنوں دیوار کے اندر گھر ہوا ایک گاؤں تھا کسی قسم کی سہولت میسر نہیں تھی.مجھے اور کنور صاحب کو و محمد النعام صاحب ان مہمان بنا کر اپنے کان پر لیگئے اور باقی مسافر کو پال میں پہلے گئے.غانم صاحب کا مکان ہمارے اس زمانے کے متوسط درجے کے شہری مکانوں کی طرز کا دو منزلہ مکان تھا جس کے چھوٹے سے صحن میں ایک پانی کا کنواں تھا اور اس کے ساتھ ہی غسل کے لئے ایک ستفادہ تھا.دوسری منزل پر ایک چبارہ تھا.ہمیں اس چو بارے میں اتارا گیا.فرش پر عمدہ قالین بچھے ہوئے تھے.اور ایک جانب ایک بڑا پلنگ تھا.میں بھی بہت تھکا ہوا تھا لیکن کنور صاحب تو بالکل نڈھال ہو رہے تھے.انہیں تپ دتی کی شکایت شروع - ہوچکی تھی اور علاج کیلئے یورپ جارہے تھے.خانم صاحب نے ایک طرف تو ہمارے لئے کھانے کی تیاری کی ہدایت دیدی تھی اور دوسری طرف پڑوسیوں کو اطلاع کردی تھی کہ ہمارے نای دو سندوستانی مہمان آئے ہیں.ان کے پڑوسی ایک ایک در دو کر کے ہماری علاقات کیلئے آنا شروع ہوئے.کنور ماں کے لئے آنکھیں کھلی رکھا دشوار ہورہا تھا.میں نے بہت کہا آپ بیٹنگ پر لیٹ جائیں اورکھانا تیار ہونے تک آرام کریں لیکن وہ وضع کو ہاتھ سے دین نہیں چاہتے تھے کہا مجھے کھانے کی تو پرواہ نہیں اسوقت نبندی غذا کا کام بھی دے سکتی ہے.لیکن یہ لوگ ہمارے میزبان کے اترام اور ہماری تواضع کی خاطر آرہے ہیں پر فرض ہے کہ ی بیدار ہوں اگر یہ میں انکی بات بھی نہیں سمجھتا اور آنکھ کھلی رکھنا دشوار ہورہا ہے اسلام ہوا کھانا آیا اور بہنے بعد فارغ ہوکر سونے کی تیاری کی ایک پلنگ میرے لئے بھی ڈال دیا گیا.میں مں نے سفارے میں غسل کیا میں ہے بہت فرحت ہوئی.طلوع آفتاب سے قبل روانہ ہوئے.بھرے پہنچ کر ناشتہ کیا.اور میں مسافروں نے منہ ہاتھ بھی نہیں ھو قبل دو سیم بغداد پہنچے.گرمی کی وہ شدت تھی کہ الامان.میں نے مطار پر یکے بعد دیگرے چھوڑے گلاس تازہ لیمونیٹڈ کے برف سے ٹھنڈے کئے ہوئے غٹ غٹ چڑھائے لیکن پیاس کی شدت میں فرق نہ آیا.ریگستان کے وسط میں رطبہ کے مقام پہنچے کھایا.پٹرول کی پائپ لائن کے ایک سٹیشن کے پاس اتنہ که در سمیری بانہ تیل لیا.غروب آفتاب کے بعد گیا پہنچے.یہاں سمندر کی جانب سے ٹھنڈی ہوا میں سانس لینا میسر آیا اور جہانی میں جان آئی.شام کا کھانا یہاں کھایا.نصف شب کے قبل ماہر پہنچے نبہانہ سے قاہرہ کا نظارہ بہت پر لطف تھا.ہوٹل میں آرام سے رات بسر کی گورات بیماں بھی گرم تھی.صبح ہوائی کشتی سے روانہ ہوے کریٹ اور میتھر ٹھہرتے ہوئے شام کے وقت برنڈی پہنچے اس دن کا سفر آرام سے بھی گزرا اور جب کشتی یونانی مینائی کے اوپر سے گذرنا شروع ہوئی تو منظر بھی دلچسپ ہو گیا.اٹلی کے اوپر سے امیریل ایہ ویز کو یہ دانہ کی اجازت نہیں تھی.اس لئے }
r * کا بینڈزی سے پریس کا سفر ریل پر ہوتا تھا.میری یہ دینیہ کی ہوائی کشتی کے پہنچنے کے دن رات کی شمالی و جانیوالی تیز کا یہ کو تیز گاڑی می سونے کے کمرے ہوائی مسافروں کیلئے محفوظ کرئے جاتے تھے.پرنڈی پہنچنے پر سامان تو کشتی سے ریل پر پہنچادیا جاتاتھا مسافروں کو ہوٹل میں سے جا کر کھانا کھلایا جاتا تھا.اور پھر ریل پر اپنے اپنے سونے کے کمروں میں پہنچا دیا جاتا تھا.تیرے دن صبح گاڑی پیرس پہنچتی تھی.یہاں پھر اسٹیشن سے ہوٹل سے جاکر ناشتہ کرنے کے بعد مطار پرامپریال ایرویز کے ہوائی جہاز پر سوار کیا جاتا تھا.اتفاق اب ہوا کہ لارڈ اور لیڈی ولنگڈن مسجد رخصت پر انگلستان جا رہے تھے اور راستے میں دو ہفتے فرانس کے جنوبی ساحل پر ٹھہرے تھے اس روز ہوائی میہانہ سے لندن تشریف لے جارہے تھے.ہوائی جہاز پران کے لئے ایک خاصی مہین محفوظ تھی.مجھے بھی انہوں نے وہیں بلالیا.ان کے فرزند اور ہو، لارڈ اور لیڈی ریٹن ڈین بھی ان کے ساتھ سفر کر رہے تھے کر ائیڈین کے مطار پر دن یہ بند ر سیموئل ہو اور ان کی مشاورتی کونسل کے اراکین وائیے اور لیڈی ولنگڈن کے استقبال کے لئے موجود تھے اس حسن اتفاق کے نتیجے میں مطالعہ پر ہی میری ملاقات وزیر ہند سے ہوگئی.وہ فضائیہ کے وہ یہ بھی رہ چکے تھے.اور انہیں ہوائی آمد و رفت میں بہت دلچسپی تھی.جب وائسرائے اور لیڈی دلنگڈن سے بات چیت کر چکے تو مجھ سے دوریت کیا.کیا یہ تمہارا پہلا ہوائی سفر ہے؟ میں نے کہا ہندوستان سے یہاں تک پہلا ہوائی سفر ہے.پو چھا تمہارہ کیا تاثیرات ہیں ؟ میں نے پوچھا صاف صاف بیان کر دی ؟ فرمایا مں میں چاہتا ہوں.میں نے کہا ہوائی جہا نہ یہ دہلی سے نکلے تو نیچے لا ہوتا نے کا ریگستان تھا.کراچی سے بھرے تک ایک طرف خشک پہاڑیوں کا سلسلہ دوسری طرف جلتی ریت کے ٹیلے بھرے سے بغداد تک کہیں کہیں دریا کے کنارے سبزہ تھا.بغداد سے گیزا تک عرب کا ریگستان ، قاہرہ سے جب یونانی خزائد کے اوپر پہنچے تو نیچے سبزے کا سلسلہ شروع ہوا.دوسری صبح اٹلی میں ریل یا خانہ کے ایک مجھے سلسلے میں سے تیز نکلتی جار ہا تھی.نتوانسته آبادی بھی شہروں کے اندر گر جاؤں کے کلس اور گنبد منتظر میں تنوع پیدا کرتے تھے.فرانس اٹلی سے بھی زیادہ سرسبز انگلستان کا جنوبی حصہ فرانس سے بھی بڑھ کر سرسبزہ میر غالب تاثر تو یہ تھا کہ قدرت کی طرف سے دنیا دی زندگی کی آسائشوں کے سامانوں میں سے آپ لوگوں کو بہت ہی وافر حصہ ملاہے اور کہیں بہت ہی محدود با لیکن آپ ہیں کہ آپیس میں صلح اور امن کے ساتھ ان سامانوں اوریہ آسائشوں سے پورا فائدہ نہیں اٹھاتے ہر وقت یہاں جنگ کا دھڑکا لگا رہتا ہے.پہلی عالمی جنگ میں کس قدر تباہی ہوئی اب پھر جنگ کی تیاریاں ہیں.پوچھا تمہارا خیال ہے جنگ ہو گی ؟ میں نے کہا یقینا ہوگی.شہر نے اپنی کتاب ۴ ۴ KAM تاب MEIN KAMP۴ میں اپنے سارے پر وگرام کو پیش کر دیا ہے لیکن آپ لوگ دے دیوانے کی بڑے زیادہ درجہ نہیں دیتے.مجھے تو نظر آتا ہے کہ یورپ کی حالت ایک ایسی کشتی کی ہے جو شام کے وقت دریا کی سطح پر ملتی جارہی ہے کشتی کے سافر عرشے پر شہ ایکے دور کے ساتھ موسیقی اور فرض میں جو ہیں اور کسی کو پیش نہیں کہ تھوڑے ہی فاصلے پر آگئے آیا ہے جہاں پہنچ کر کشی غرق ہو جاے گی اور تمام عیش ورسره ماتم اور نوی خوانی میں بدل جاے گا فرمایا تمہارے تاثرات تو بڑے ڈراونے ہی لیکن میں امید کرتا ہوں کہ یہ نوبت نہیں آئے گی اور ہم امن قائم رکھنے میں کامیاب ہو.
1 ۳۴۲ جائیں گے.میں نے کہا خد العالے ایسا ہی کرے.میں نے اپنا تاثیر بیان کر دیا ہے.پوسھاتم کب تک ٹھہر گئے ؟ میں نے کہا تین چار مہینے تو ٹھہروں کا ہی اس نیت سے آیا ہوں کہ مشترکہ کمیٹی کے کام کا کچھ اندازہ ہوتا ہے اور اس سلسے میں اگر کوئی اپنے ملک اور قوم کی خدمت ہوسکے توکر سکوں.فرمایا تم نے بہت اچھا کیا.کل صبح مجھے انڈیا اس میں ملنا آپس میں بات چیت کریں گے.یہ اللہ تعالے کا فضل ہوا کہ مطالہ پر پہنچتے ہی دزیہ بہار سے ملاقات ہوگئی اور جس غرض کیلئے میں آیا تھا اس کے متعلق مناسب بھی کرنے کا رستہ مطار بری کھل گیا.پارلیمنٹ کے ایوانوں کی مشترکہ کمیٹی | دسرے دن وزیر سند کی دم میں حاضر ہوا.انہوں نے میرے انگاشت کے اراکین سے غیر رسمی ملاقاتیں آنے پراطمینان کا اظہار کیا مشترک کمیٹی کے کام پر منفی تبصرہ کیا اور فرمایا ہفتے میں ایک بارمجھ سے ملتے رہا کرو میں تمہیں بتادیا کروں گا رکن اراکین سے تار را ما مفید ہوسکے گا.میرا نام ہے کہ مشترکہ کیلی اپنی رپورٹ میں قرطاس ابیض کی تجاویز سے اختلاف نہیں کریگی.لیکن بعض اراکین وقتا فوقتا بعض تجاوند کے متعلق کے اطمینانی کا اظہار کرتے ہیں.ان سے تمہارا ملتے رہنا اور ان تجاویز کے متعلق اپنا نا شا ور نقطہ نگاہ بیان کرنا ان کیلئے اطمینان کا موجب ہو سکتا ہے.چنانچہ میں نے اس پروگرام کے مطابق کام کرنا شروع کر دیا.وزیر ہندمشت کرکیٹی کے سین اراکین سے ملنے کا مشورہ دیتے میں ان سے ملنا اور انکی خاص دلچسپی کے موضوع پر ان سے بات چیت کرتا.اس کے بعد یہ ہند کے ساتھ ملاقات کے دوران میں گفتگو کا خلاصہ ان کی خدمت میں بھی پیش کر دتا.لارڈز ٹلینڈ سے فرقہ وارانہ نیات کےمتعلق گفتگو وزیر نے بتایا کہ انٹر ٹینڈ فرق داران نیابت کے فیصلے سے مطمئن نہیں وہ کہتے ہیں بنگال کے بندوں کے ساتھ اس معاملے میں زیادتی ہوئی ہے.میں لارڈ نہ ٹلینڈ کی خدمت میں حاضر ہوا.تفصیل سے گفتگو ہوئی وہ بار بار کہتے بنگال میں ہندوؤں کی نمائندگی میں نہیں فیصدی سے بھی زیادہ کمی کر دیگئی ہے.انہیں آبادی کے تناسب کے مطابق بھی نمائندگی نہیں دیگئی.مسلمان جہاں جہاں بھی اقلیت میں ہیں انہیں آبادی کے تناسب بڑھ کر نمائندگی دی گئی ہے.مجھے اس پر اعتراض نہیں لیکن میں سلوک بنگال کے بندوں کے ساتھ بھی ہونا چاہیے.اگر آبادی کے تناسب سے زیادہ نہیں تو کم سے کم آبادی کے تناسب کے مطابق تو انہیں نمائندگی ملنی چاہئیے اس سے کم دنیا تو انصاف نہیں ؟ میں نے ان کے ساتھ بہت سر کھایا کہ تصویر کا دوسرا رخ بھی تو ملاخطہ فرمائیے کہ تون فیصدی مسلمانوں کو صرف اٹھائی فیصدی نیابت دیگئی تھی.اتنی بڑی تفاوت کی اصلاح توری تبدیلی سے ہی ہو سکتی ہے.اگر ہندوؤں کو آبادی کے تناسب کے مطابق نیبات میں حصہ دیا جائے تو مسلمانوں کی مجوزہ نیابت جو باد جو ان کی اکثریت کے اہم فیصدی ہے اور بھی کم ہو جائے گی یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اکثریت کو نصف سے بھی کم نیابت دیجائے.اس تفاوت کی اصل وجہ تو یہ ہے کہ یور سینوں کو بنگال میں دس فیصدی نیابت دیگئی ہے.حالانکہ آبادی میں وہ ایک فیصدی بھی نہیں.انہیں دس فیصدی نیابت دینے کی وجہ سے
۳۴۳ مسلمان آبادی کے لحاظ سے اکثریت میں ہوتے ہوئے بھی نیابت میں اقلیت میں ہوں گے.اور ہندو اقلیت ؟ ہوئے نیابت میں اپنی آبادی کے تناسب سے کم حصہ پائیں گے.آپ یور مین نیابت کوان کی آبادی کے تار کے مطابق کر دیں تو سلمانوں کو نیابت میں اکثریت حاصل ہو سکے گی کو انکی آبادی کے تناس کے مطابق نہ ہو.اور سندوں کوانکی آبادی کے تنا س کے مطابق نیابت مل سکے گی اور ممکن ہے اس سے کچھ زیادہ بھی مل سکے.لیکن لارڈ زٹلینڈ مطمئن نہ ہوسکے.اور کرا کر فرمایا ظفراللہ تم مجھے قائل نہیں کرسکتے اور مں تمہیں قائل نہیں کر سکتا.میر اطمینان تو ت نہیں کر سکے.تمہارا اطمینان میں کر دیتا ہوں.میں نے کمیٹی کے اراکین پر بہت زور دیا ہے کہ سنڈی کی نمائندگی میں اس تفاوت کی اصلاح ہونی چاہیے لیکن وہ میری بات سلیم کرنے پر آمادہ نہیں سو نہیں سہانے میں فکر کی ضرورت نہیں.لارڈ ڈارپی سے گفتگو اسی طرح وزیر بہن نے فرمایا.لارڈ ڈار بی قانون اور امن کا محکمہ وزراء کے سپرد کئے جانے پر مطمئی نہیں.میں نے ہزہائی نس سر آغا خان کی خدمت میں گزارش کی کہ وہ کسی دین لارڈ ڈار می کوبن کے ساتھ ان کے دوستانہ مراسم تھے پیج پر مدعو کریں اور مجھے بھی یاد فرمائیں.پنچ پہ کھانا ختم ہونے کے بعد ان سے گفتگو ہوئی.انہوں نے اپنی بے اطمینانی کی وجوہات بتائیں.میں نے اس معاملہ کے حسن وقیح کے پہلو تفصیل سے پیش گئے.آخر انہوں نے کہا میں ایک تو اس تجوید کی مخالفت کرتا رہا ہوں اب وعدہ کرتا ہوں کہ مخالفت ترک کر دوں گا میں نے کہا یہ تو کافی نہیں.پوچھا پھر تم کیا چاہتے ہو ؟ میں نے کہا میں یہ چاہتا ہوں کہ اب آپ اس بخونید کی تائید کریں اور کہیں کہ آپ کو طمینان ہو گیاہے کہ قانون اور امن کے محکمے وزراء کے سپرد کرنے میںکوئی خطرہ نہیں.منے اور سر آغاخات سے کہا.ظفراللہ بہ امشاق سودے بازنہ معلوم ہوتا ہے.اور مجھ سے فرمایا اچھا جیسے تم کہتے ہو ویسا ہی کر دوں گا.لارڈ ہارڈنگ سے سندھ کی کمیٹی سے علیحدگی پر گفتگو | ایک دن وزیر ہند نے فرمایا لا ار ار رنگ سندھ کی صوبہ بیٹی سے علیحدگی پر مطمئن نہیں.میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا.بڑے تپاک سے ملے.ذکر آنے پر فرمایا جناب ظفر اللہ صاحب! یہ ان کا طریق گفتگو تھا انگریزی میں بھی ہندوستانیوں کو اسی طرح مخاطب کرتے تھے.مجھے تواب ہندوستان سے آئے عرصہ ہو گیا ہے.جب میں وہاں تھا سندھ بہت ہی پسماندہ علاقہ تھا مجھے اندیشہ ہے کہ کمیٹی سے علیحدہ ہو کر یہ صوبہ اپنے اخراجات برداشت نہ کر سکے گا اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے قابل نہیں ہو گا.مجھے آپ کے اعتماد ہے آپ بتائیں کہ آپ اس لحاظ سے مطمئن ہیں ؟ میں نے عرض کیا جناب میں نے اس مسئلے کا خاص طور پر مطالعہ نہیں کیا.لیکن سندھ میں بہت بڑا قبر الماضی قابل کاشت ہے.پانی کی کمی کی وجہ سے انتہک اس کا اکثر حصہ زیر کاشت نہیں لایا جا سکا.اب سندھ میں وسائل آپ پانی کو جلد جلد بڑھایا جا رہا ہے بڑے بڑے بند بنانے کے منصوبے بنا چکے ہیں کچھ تو تیار ہو کہ جاری بھی ہو چکے ہیں.اور کچھ باری ہونے کے قریب پہنچ رہے ہیں.آئیندہ ترقیات کے بھی عمدہ امکانات ہیں.
.مسلم " میں سندھ کی مالی حالت کے متعلق اپنے دل میں کوئی خدشہ نہیں پاتا.فر اطمینان و کیا مجھے آپکی رائے ریاستی انت وزیر ہند کی طرف سے میاں سر فضل حسین کے وسط جولائی میں ایک دن وزیر ریٹائر ڈ ہونے پر وائسرائے کی کونسل کی رکنیت کی پیشکش ہند نے دریافت فرمایا ظفراللہ اب تمہارا آئیندہ کیا پروگرام ہے ؟ میں نے کہا کمیٹی کا اجلاس چند ہفتوں کے لئے ملتوی ہونے والا ہے اور آپ اس عرصہ کے لئے سوئٹزر لینڈ جا رہے ہیں.میں نے بھی نامہ دے کی سیر کا ارادہ کیا ہے.کمیٹی کے اجلاس دوبارہ شروع ہونے پر میں لندن آجاؤں گا اور امید ہے کہ آخر اکتوبر تک ٹھہر سکوں گا.فر مایا تمہارے پروگرام سے میری مراد قیام انگلستان کے پروگرام سے نہ تھی.در سالی ہوئے تم نے سر فضل حسین کی جگہ کام کیا تھا.آئندہ اپریل میں انکی میعاد ختم ہونے والی ہے.تم دوبارہ خدمت عامہ کی ذمہ داری اٹھانے کیلئے تیار ہوگے.میں نے کہا اگر آپ کو اطمینان ہے کہ میں اس قابل ہوں تومیرے لئے تحر کا باعث ہوگا.فرمایا میں نے وائی اے سے بات چیت کی ہے ہم دونوں کی خواہش ہے کہ آئندہ سال تم وائسرائے کی کونسل میں سر فضل حسین کی جگہ ہو.میں نے کہا میں آپ دونوں کا ممنون ہوں لیکن چاہتا ہوں کہ آخری فیصلہ کرنے سے پہلے آپ میری دو تین معروضات پر غور فرمائیں.اول یہ کہ ابتک چار سمان والے کی کو مسل کے رکن ہو چکے ہیں.سرسیدعلی امام مہار سے تھے، میاں سرمحمد شفیع پنجاب سے تھے، سر محمد حبیب اللہ مدراس ے تھے ، میاں سر فضل حسین پنجاب سے ہیں.گویا چارمیں سے دور کا تقری پنجاب سے ہوا ہے.اگر اب پھر بیجا ہے ہی تقریر ہوا تو نبگال یونی اور بمبئی کے مسلمانوں کو شکوہ ہو گا کہ ان میں سے کیوں کسی کو منتخب نہیں کیا گیا.وزیر شہد.ہم کسی صوبہ دارانہ انتخابی قاعدے کے پابند نہیں.ہمیں جہاں سے مونہوں شخص ملتا ہے ہم انتخاب کرتے ہیں.پھر تمہاری خدمات تو کسی خاص صوبے سے متعلق نہیں.تم سارے ہندوستان کے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت میں مستعد رہے ہو.ظفر اللہ خاں.میں آپ کے حسن ظن کا ممنون ہوں لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ دو افراد کی موزونیت پر مینور فرمائیں.ایک نواب صاحب تھپیاری اور دوسرے سر سکندر حیات خال صاحب.یہ دونوں صاحبان اپنے صوبوں میں علی عہدوں پر فائز رہے ہیں.دونوں گورنر کے فرائض بھی ادا کر سکے ہیں.اور نواب صاحب تو میاں سر فضل حسین صاحب کی جگہ کام بھی کر چکے ہیں." " وزیر بند.ظفر اللہ! میں ان دونوں صاحبان کو جانتا ہوں اور انکی قدر کرتا ہوں.نواب قہاری تو گول میز کا نفرنس میں آتے رہے ہیں اور سردار سکندر حیات خاں حال ہی میں لندن میں تھے.کیا تمہارا خیال ہے کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب مونروی ہو گا ؟
۳۴۵ ظفر اللہ خان.جناب یہ سوال مجھ سے تو نہیں ہونا چاہئے یہ امرتو آپ کے لئے عوز طا وریہ ہند.تو پھر میں نے اپنا انتخاب تمہیں بتا دیا ہے.اب کیا تم رضامند ہو ؟ ظفر اللہ خاں.اپنی رضامندی تو میں پہلے ہی ظاہر کہ چکا ہوں لیکن میری ایک گزارش ابھی باقی ہے.اور وہ یہ ہے کہ میرا تعلق سلسلہ احمدیہ کے ساتھ ہے جس کے بعض عقائد کے ساتھ عام مسلمانوں کو اختلاف ہے.جب کہ میں میں نے سر فضل حسین صاحب کی جگہ کام کیا تھا تو اس وقت بھی اس بنا پر مسلمانوں کے ایک طبقے کی طرف سے میرے تقریر پر اعتراض کیا گیا تھا.اب بھی اعتراض ہو گا کہ جب وہ لوگ مجھے مسلمان ہی نہیں سمجھتے تو میرا تقر مناسب نہیں.آپ اس پر غور فرمائیں.وزیہ ہند.تم نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں جو خدمت سرانجام دی ہے اسکے بعد کوئی بہت ہی کوتاه اندیش سلمان ہو گا ہو تمہارے تقریر معرفی ہو.اگر یہی باتیں تمہارے رستے میں روک ہیں تو کیا میں یہ سمجھ لوں کہ تم پوری طرح رضامند ہو.؟ ظفر اللہ خاں.یہاں تک میری رضامندی کا سوال ہے میں نے شروع ہی میں کہہ دیا تھا کہ اس خدمت کا میر سپرد ہونا میرے لئے باعث فخر ہوگا اور میں آپ کا ممنون ہوں.میری ایک یہ بھی گذارش ہے کہ اس فیصلے کا اعلان ابھی نہ کیا جائے.میں پریکٹس کرتا ہوں اور اپنا نقطہ نظر عدالت کے روبرو زور سے پیش کرنے کا عادی ہوں.اس وقت تو ج صاحبان خیال کرتے ہیں کہ یہ میرا معمول ہے.اس تقریر کے اعلان کے بعد ممکن ہے کوئی بھی خیال کرے کہ ہمیں اپنے آئندہ منصب کے زعم میں ایسا کرتا ہوں اور یہ غلط فہمی میرے لئے وقت کا موجب ہو گی.وریہ ہند.عام طور پر چارج لینے سے کتنا عرصہ پہلے اعلان کیا جاتا ہے.؟ - ظفر اللہ خان.دو تین ماہ قبل.وریہ ہند.میں تمہاری خواہش وائسرائے کو پہنچا دوں گا.تو اب ہم آخر ستمبر یں ملیں گے.امید ہے تمہارا وقت خوشگوار رہے گا.لارڈ ولنگڈن وائسرائے ہند کی طرف اس دوران میں ہندوستان میں میاں سر فضل حسین صاحب سے کونسل کی رکنیت کی پیش کش کے جانشین کے انتخاب کے متعلق چہ مگوئیاں شروع ہوگئی تھیں اور کچھ آوازیں میرے فقر کے خلاف اٹھنے لگی تھیں.کچھ دنوں کے بعد میری طاقات وائسرائے سے ہوئی.دوران گفتگو انہوں نے فرمایا میں تم سے ایک عنایت کا متمنی ہوں.میں نے کہا ارشاد فرمائیں.کہا میری میعاد دو سال سے کم عرصے میں ختم ہو جائے گی میری جگہ جس شخص کا بھی تقری جو گا وہ خواہ کتنا ہی قابل پورس کا ہندستان کا تجربہ میرے تجربے کے برابر نہیں ہوگا.میں چاہتا ہوں کہ جب میں چارج چھوڑوں تو اپنے جانشین کیلئے ایسی کونسل چھوٹے
جاؤں جس کے مشوروں پر وہ پورا اعتماد کر کے نہیں معلوم ہے سرفضل حسین کی میعاد آئیندہ سال ختم ہوگی میں چاہتا ہوں کو ان کی جگہ بہترین مسلمان کا انتخاب کیا جائے.ظفراللہ خالی جا ہے.لیکن مجھے آپ کے ایسا کہنے سے کچھ ملال ہوا ہے.لارڈولنگڈن.وہ کیوں ؟ ظفر اللہ خاں.اسلئے کہ میں آپ کے ساتھ کام کر چکا ہوں.اور میرا اندازہ تھا کہ آپ میرے کام سے مطمئن ہیں اندرسی صورت مجھے خیال ہو سکتا تھا کہ آئندہ قر کے وقت آپ مجھے بھی زمین میں رکھیں گے.کار ڈولنگڈن.میری مراد تو تمہیں سے ہے ؟ ظفر اللہ خاں.لیکن آپ نے تو فقط استعمال کیا وہ تو مجھ پر یہاں نہیں ہوتا یا - لارڈ ولنگٹن.تم بہت شریر ہو.میں جانتا ہوں تم بت رو پر کھاتے ہو.لیکن کیا تم میری خواہش پوری کرنے پر رضامند ہو ؟ ظفر اللہ نالی میں کوئی انا کھانا نہیںاللہ تعالیٰ میری ضروریات سے بڑھ کر میرے لئے مہیا فرما دیا ہے میں آپ کے حسن خان اور کبھی رائے کا نہایت ممنون ہوں.اور اس خدمت کیلئے خوشی سے آمادہ ہوں، اگر یہ وزیر ہے پختہ طور پر مجھ سے فرما چکے تھے لیکن میں نہیں چاہتا تھا کہ خود اس رائے سے اس کا ذکر کروں.جب انہوں نے ذکرہ شروع کیا تو میں جانتا تھا کہ ان کی کیا مراد ہے.لیکن انہوں نے میرے متعلق اپنی رائے کا اظہار ایسے الفاظ میں کیا ہیں سے میں فیل ہوا اور میں نے نہ چاہتا کہ وہیہ خیال کریں کہ میںاپنے آپکو ان الفاظ کا مستحق خیال کرتا ہوں.لارڈونلڈن بڑے اعلی معلمی کے انسان تھے اور ہر شخص سے نہایت مہربانی اور تلطف سے پیش آتے تھے.جب ہندوستان میں مسلمانوں کے ایک طبقہ کی طرف سے یہ شور بڑھنا شروع ہوا کہ میاں سر فضل حسین کی جگہ ظفراللہ خان کا تقرر ہمارے لئے بہت ناگوار ہو گا تو سید انعام اللہ شاہ صاحب نے کچھ اضطراب میں مجھے لکھا ہیم یہاں اسقدر پریشان ہو رہے ہیں اور تم نے اس بارے میں ایک لفظ نہیں لکھا جو نسلی اور اطمینان کا باعث ہو.اس وقت تو الہ ائے بھی انگلستانی ہی میں ہے تمہیں وزیر بہن اور وائی لے سے منے کا اتفاق ہوتا ہوگا.کچھ تو میں بھی تباد ہوا کا رخ کسی طرف ہے.میں نے انکی خدمت میں لکھا آپ کیوں پریشان ہیں؟ دعا کرتے رہیں کہ للہ تعالی اپنے کال فضل رحم سے دیے کرے تو کم رکے لئے فائدہ مند ہو اور اس کی رضا کا موجب ہو، اگر وہ چاہے کہ مں یہ خدمت کردن تودہ راستہ کھول دیا اور کوئی مخالفت رستے میں روک نہ ہو سکے گی.اور اگر وہ چاہے کہ میں کسی اور طریق سے اسکی رضا جوئی کر دی تو چشم ما روشن دل ما شادی ہمیں ہر حالت میں خوشی ہے.البتہ مخالفین کی کوششیں اگر کارگر نہ لوٹی تو ان کے لئے کس قدر اذیت کا موجب ہوگا.والله المستعان وهو على كل شي قدير.
وائسرائے کی کونسل میں میرے تقریر اور اکتوریہ کی ملاقات میں وزیر ہند نے بتایا مجھے بہت سے نامہ کی ایک طبقہ کی طرف سے مخالفت اور مراسلات ہندوستان سے تمہارے تقریر کی مخالفت میں موصول ہوئے ہیں.میں نے کروفٹ اپنے پرائیویٹ سیکریڑی سے کہدیا تھا کہ ان سب کو ردی کی ٹوکری میں پھینکتے جاؤ تم کسے کہتے تھے.بعض عناصر تمہارے تقریر کے بہت ہی مخالف ہیں.یہ کیسے لوگ ہیں جو اپنا مفاد بھی نہیں پہنچے وائسرائے کا مشورہ ہے کہ اگر تمہارے تقریر کا اعلان ابھی سے کر دیا جائے تو یہ جوش ٹھنڈا پڑ جائے گا.تمہاری کیا رائے ہے ؟ میں نے کہا اگر وائسرائے یہ چاہتے ہیں تو مجھے کوئی عذر نہیں.اس پر مسٹر کروفٹ کو بلوا کر کہا والرائے کو اطلاع کرد و ظفر اللہ رضامند ہے کہ آئندہ ہفتے میں تقریر کا اعلان کر دیا جائے.پھر مجھ سے مخاطب ہوئے اور فرمایا ایک اور بات جو میں تم سے کہنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ دائم لینے کی اور میری دونوں کی خواہش ہے کہ تم تبجائے سر فضل حسینی کا قلمدان سمجھانے کے سر عورت بھور کا قلمدان اپنے ذمے لو جس میں تجارت اور یہ ہیلوے کے اہم محکمہ جات شامل ہیں.میں نے کہا بہت شکریہ ! لیکن یہ دونوی محکمے میرے لئے بالکل نئے ہوں گے اور ان دونوں میں اور خاص طور پر تجارت کے محکمے میں تو بعض بہت پیچدار مسائل کا سامنا ہو گا.کہا درست ہے محنت درکار ہو گی اور تم محنت سے جی چرانے والے نہیں.میں یہ ہدایت دیدوں گا کہ ان مسائل کے متعلق بجو مراسلات تمہارے قیام لندن کے دوران دلی سے موصول ہوں وہ تمہیں دیکھا دیئے جائیں.اور جب تم ہندوستان واپس جاؤ گے تو وائٹ ہے بھی یہی ہدایت دیدیں گے.تاکہ چاہتی لینے پر تمہارے لئے ان محکموں کے مسائل بالکل نئے نہ ہوں.ہاں ایک بات اور ہے.سر فضل حسین کی میعاد پہلے ختم ہوتی ہے اور سر جوزف بھور کی میعاد دو تین ہفتے بعد ختم ہوتی ہے.اسلئے یہ انتظام کر دیا جائے گا کہ تم سر فضل حسین سے ان کے محکمے کا چارہ لے لو.اور پھر سر جوزف بھور کی میعاد ختم ہونے یہاں سے چارج لے لو.میں نے کہا اس کی ضرورت نہیں.میں سر توزین بھور کی میعاد ختم ہونے پر ان کی سے چارج لے لوں گا.فرمایا ایسا ہونے سے جو صاحب رفضل حسین سے چارج لیں گے وہ کونسل میں تم سے سیر شمار ہوں گے.میں نے کہا اصول ایسا ہی ہونا چاہیئے اور مجھے اس کے کوئی اعتراض نہیں.سرمیاں فضل حسین صاحب کی جگہ ) میاں فضل حسین صاحب کے ریٹائر ہونے پر انی جلد کو سر گایش کنور سر مجگدیش پرشاد کا تقریر پر شاد صاحب کا تقر بود وہ لونی کے رہنے والے تھے اور اسی صوبے میں انڈین سول سروس کے سینٹرف تھے.وہ گورنہ کی عاملہ کونسل کے رکن تھے.ان سے میرا پہلے تعارف نہیں تھا ملاقات ہونے پر انہوں نے بتایا کہ اپنے نئے منصب کا جازت لینے سے پہلے دو کبھی ملے تشریف نہیں لائے.مرکزی حکومت کا نام کار خانہ اور کار با ران کے لئے ایک بالکل نیا تجہ ہی ہے.اپنے محکمہ جات کے معاملات کے متعلق بلالطاف مجھ سے مشورہ طلب فرماتے اور پیش آمدہ اہم مسائل کے متعلق توبغیر باہمی مشورے کے کوئی رائے قائم نہ کرتے ان کے ساتھ میرے تعلقات
ہمیشہ بہت دوستانہ رہے اور ہمارے درمیان کبھی کوئی اختلاف نہ ہوا جس کے نتیجے میں ہم دونوں کو تقویت پہنچتی رہی.ہم دونوں کے اہل خانہ کے درمیان بھی دوستانہ مراسم قائم ہوگئے اور یہ تعلقات آخر تک بہت گہرے اور مضبوط ار ہے.انگلستان سے واپیسی لندن سے ہندوستان واپسی کا سفر بھی اسی رستے ہو ا.لندن سے پیر سن تک ہوائی جہاز پر سفر ہوا پرس سے شام کے کھانے کے بعد ریل پر سوار ہوئے اور تیسری صبح ہینڈی پہنچے.سامان توریل سے ہی ہوائی کشتی پر بھیج دیا گیا.مسافروں کو ناشتے کیلئے ہوٹل لے جایا گیا ہم مناتے سے فارغ ہو کر ا انتظار میں تھے کہ ہوائی کشتی پر جائیں کہ اتنے میں ہم نے اپنا سامان ہوٹل واپس آتے دیکھا.وہ اسقدر بھیگا ہوا تھاکہ مکہوں سے پانی بہ رہا تھا.معلوم ہوا کہ جھ کشتی ہمارا سامان ہوائی کشتی پر لے جارہی تھی اس کی ایک اور کشتی سے بندرگاہ کے اندر ہی ٹکر ہوئی اور ہمارے سامان والی کشتی الٹ گئی سب سلمان پانی میں گر گیا اسے نکال تو لیاگیا لیکن پانی میں شال یہ ہورہاتھا.اور بندرگاہ کاپانی گندہ ہونیکی وجہ سے سخت بودار ہی تھی.اس وقت اور کوئی چارہ نہ تھا.ہوٹل کے سب کروں میں آگ جلائی گئی اور سامان یکسوں سے نکال کو خشک کرنے کیلئے پھیلا دیاگیا لیکن کچھ مادہ نہ ہوا.ہوائی کشتی بجائے نوبجے صبح روانہ ہونے کے پانچ بجے شام روانہ ہوئی اتنے میں موم میں ناخوشگوار تغیر دنیا ہو چکا تھا.روانگی کے تھوڑا عرصہ بعد ہوائی کشتی طوفان میں گھر گئی.جب یہ حالت نشاست سے باہر ہونے لگی تو میں نشست سے کھسک کر بلا تکلف فرش پر لیٹ گیا.میتھر پہنچنے تک متواتر یہی کیفیت رہی رات وہاں ٹھرے ہوٹل بہت آرام دہ تھا لیکن سامان کی حالت ایسی تھی کہ آرام نصیب ہونا مشکل تھا.صبح تک موسم تو صاف ہو گیا لیکن سامان کی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی تھی.کراچی پہنچنے تک میں نے فیصلہ کیا کہ کراچی سے ہوائی پیمانہ پر دلی جانے کی بجائے میں کراچی سے ایل پر لاہور چلا جاؤں.دلی جانے میں بھی وقت یہ تھی کہ جو کپڑے میں لندن سے بہنے آرہا تھا وہ دہلی کیلئے موزوں نہیں تھے اور سوٹ کیس کا سارا سامان گندے پانی میں لتھڑا رہنے کے باعث سخت بدبودار ہو رہا تھا.رسوائے عالم راج پال کی دریدہ دینی اور اسکا انجام | چند سالوں سے حکومت پنجاب کا ایک طبقہ جماعت احمدیہ کو مشتبہ نظروں سے دیکھنے لگا تھا اس کی ابتداء میں ہوئی کہ جب ایک دیدہ و من نیک انانیت شخص نے جس کا نام استان تھا ایک نہایت شرمناک کتابچہ نام رنگیلا رسول شائع کر کے اپنی دنیا اور عاقبت تباہ کرلیں.یہ کتابی مسلمانوں کیلئے شدید روحانی " اذیت کا موجب ہوا.حکومت کی طرف سے مصنف پر فوجداری مقدمہ چلایا گیا.ابتدائی عدالت سے اسے کچھ قید کی سزا ہوئی جو اپیل میں تو قائم رہی لیکن بائی کورٹ میں نگرانی کی درخواست پر مٹر جسٹس دلیپ سنگھ نے قرار دیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی توہین قانون کی زد میں نہیں آئی اور ملزم کو بری کر دیا.اس فیصلے سے مسلمانوں کے جذبات سخت مجروح ہوئے.ا الا را جوان کی جلدی ایک جوشیلے سلمان علم ین کے ہاتھوں کی آنکھوں میں یا ان کے فعل کی جیسے دنیا انذار ہورہی تھی کیفر کردار کو پہنچا.کو
۲۴۹ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی اس شدید بیان کے دور میںحضرت امام جماعت احمدیہ نے سلمانوں کو شوره سیرت النبی کے جلسوں کی تحریک دیا کہ راج پال کے علاشی کی ذمہ داری کسی تک ہم پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ ہم اپنے اولین فرض کی کیا حقہ ادائیگی سے انتیک غافل رہے ہیں.جو یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیشتر طبقہ اور حضور کے خلق عظیم کی صحیح تصویر فرمسلموں کے سامنے پیش کریں.چنانچہ آپ نے ملک کے طول وعرض میں سیرت النبی کے جلسوں کا سلسلہ ہماری فرمایا.جو انتیک جاری ہے.اور جس سے بہت نیک نتائج مترتب ہو چکے ہیں.اور آئندہ ہونے کی امید ہے.تعزیرات ہند میں ترمیم جس کی رو سے دوسرے آپنے ملک کے تعزیری قانون میں ترمیم کی ہم شہر دع بانیان مذاہب کی توہین قابل تعزیر قرار دگی کی جس کے تنے میں ان میں میں ترمیم کر دی گئی جس کے الفظ واضح طور پر بانیان مذاہ کی تحریر کیا تقریری تومین کو قابل تقدیر قرار دیتے ہیں.مسلم اوٹ لک کے مالک اور ناشر پر اس نام میں اور سے ایوان نے انگریزی زرنگ پنجاب ہائیکورٹ کی طرف سے توہین عدالت کا مقدمہ مسلم اوٹ لک میں ایک ادار یہ شائع ہوا جس میں سٹر جٹس دلیپ سنگھ کے فیصلے پر سخت تنقید کی گئی.اس پر اخبار کے مالک مولوی نور الحق صاحب اور پرنٹر سید دلاری اور اب احمد می کے نام ہائی کورٹ سے توہین عدالت کا نوٹس جاری ہوا مسلمان وکلاء کا ایک مشاورتی جلسہ میاں سرمحمد شیخ صاحب کے دفتر میں منعقد ہوا مسئول علیہم کی طرف سے یہ واضح کیا گیاکہ وہ یہ تسلی نہیں کرتے کہ اداریہ زیر بحث سے مسٹر سٹی کلیپ سنگھ کی تو میں لازم آتی ہے.اداریہ کا مضمون بجائز تنقید کی حد سے تجاونہ نہیں کرتا، کیونکہ تنقید کی شدت سے جی کی تو این لازم نہیں آئی اگر ہائی کورٹ قرار دے کہ اداریہ سے تو عین لازم آتی ہے تو وہ بصد شوق سزا بھگتنا قبول کریں گے.معافی طلب کرنا یا عدالت سے رحم کی درخواست کرنا انہیں ہرگز گوارہ نہ ہو گا.اب یہ سوال اٹھاکر مسول علیہم کی طرف سے وکیل کون ہو.سب نگا میں میاں سر محمد شفیع صاحب کی طرف اٹھیں.لیکن آپ نے فرمایا می معذور ہوں.لیڈی شفیع کی طبیعت سولن میں ناسانہ ہوگئی ہے اور میرے لئے آج رات سولن جانا ضروری ہو گیا ہے اس لئے میں کل عدالت میں مسئول علیہم کی طرف سے پیروی کیلئے حاضر نہیں ہو سکتا.اس پر متفقہ طور پہ خواہش ظاہر کی گئی کہ شیخ سرعبد القادر صاحب مسئول علیہم کی طرف سے پیروی کریں شیخ صاحب مولوی نور الحق صاحب کو ساتھ والے کمرے میں لے گئے اور کیسے بعد میں مولوی صاحب سے معلوم ہوا.فرمایا کہ گورنہ کی مجلس عاملہ میںان کے عار منی فقر کا فیصلہ ہوچکا ہے اس لئے ان کا ایک ایسے کیس میں پیش ہو نا مناب نہ ہو گا میں میں ایک طرف سلمانوں کے نازک جذبات تلاطم میں ہیں اور دوسری طرف ہائی کورٹ کی تو مین کا سوال ہے.چنانچہ کرے میں واپس اگر مولوی صاحب نے فرمایا کہ شیخ صاحب نے ان کا اطمینان کر دیا ہے کہ وہ پیروی سے معذور ہیں.
: ۳۵۰ توہین عدالت کے کیس میں مسئول علیہم اس مرحلے پر میاں محمد شفیع صاحب نے میری طرف اشارہ کی طرف سے پیروی کیلئے میرا انتخاب کر کے فرمایا، میری رائے میں میرے دوست نصراللہ خان رمیاں صاحب اکثر مجھے میرے والد صاحبکے نام سے بھی یاد فرمایا کرتے تھے اسے بہتر کوئی اس خدمت کو نباہ نہیں سکتا اس مجلسی میں بہت سے اصحاب ایسے موجود تھے جو لیاقت اور تجربے کے لحاظ سے مجھ سے کہیں آگے تھے.مثلا گیاں عبد العزیز صاحب ، مولوی غلام محی الدین صاحب، سید محسن شاه صاحب ، ملک برکت علی صاحب ما خلیفه شجاع الدین صاحب ، غلام رسول خان صاحب ، میاں عبد الرشید صاحب ، میاں محمد رفیع صاحب لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی ذرہ نوازی نے اس مرحلے پر اس سعادت کے حصول کیلئے اس عالیہ کا نام ہی میاں صاحب کی زبان سے نکلوایا.الحمد للہ.بہت سی نگاہیں میری طرف اٹھیں.ممکن ہے بعض ٹھیک ہے کہ یہ فخر ان کے حصے کیوں نہ آیا اور بعض شکر میںکہ انہیں اس امتحان میں نہ ڈالا گیا.میں نے عرض کیا میں اپنے بزرگوں کی موجودگی میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا لیکن اگر مجھے ارشاد ہو تو اس کیس کی پیروی میرے لئے باعث فخرہوگی اور میں یہ سعادت حاصل کرنے کیلئے حاضر ہوں.دوسے بجا دن پانچ جوں کے اجلاس میں اس کیس کی سمات تھی.تیاری کیلئے زیادہ وقت تو میسر نہ تھا لیکن دعاء کے مواقع ضرور میر تھے.ہائیکورٹ میں توہین عدالت اجلاس کے شروع ہونے سے پہلے ہی عدالت کے ہال میں پلک سامعین کا کے کیس کی سماعت ! ( حصہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا.د کار میں سے بھی بہت سے موجودہ تھے.میں نے پہلے تو یہ عذیر اٹھایا کہ عدالت کو توہین عدالت کے معاملے میں اختیار سماعت حاصل نہیں.یہ خاص اختیار کہ انا مزعومہ تو ملین کی سزا عدالت خود سی تجویز کری سے برطانوی عدالتوں کا خاص مسئلہ ہے.اور برطانیہ میں بھی یہ اختیارہ عد التہائے ریکارڈ تک محدود ہے.اس اصطلاح سے بر طانیہ میں جو مراد لی جاتی ہے اس کے مدنظری ہور ہائی کورٹ کورٹ آف ریکارڈ نہیں.اس نظریئے کی تائید میں میں نے بعض نظائرہ بھی پیش کئے.دو گھنٹے کے قریب تو اسی بحث میں صرف ہوئے.اس کے بعد میں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ سلم اونٹ کا زیر بحث اداریہ جائز تنقید کی مد سے تجاوز نہیں کرتا.اور تنقید خواہ کتنی شدید ہو توہین عدالت نہیں کہلا سکتی.ہر روز عدالت ہائے اپیل عدالتینا ابتدائی کے فیصلوں کو منسوخ کرتی ہیں اور بعض دفعہ عدالت ماتحت کے حج کے متعلق سخت الفاظ بھی استعمال کرتی ہیں لیکن اس سے ماتحت جی کی تو میں لازم نہیں آتی.آخر میںمیں نے کہا اگر بایں ہمہ آپ قرار دیں کہ اداریہ نہ ہی محبت سے بھی متعلقہ کی تو میں لازم آتی ہے تو رسول اکرم صلی الہ علیہ وسلم کی عزت کی حفاظت کی سعی میں اگر ہائی کورٹ کے تو ناگزیر ایک بجے کی تومیں لازم ہوگی تو یہ امر اگر یہ تھا میں کی پوری ذمہ داری مسول علیہم تسلیم کرتے ہیں.جب بحث ختم ہوئی ہم تو مولانا ظفر علی خا لصاحب سامعین کے حصے سے کٹہرے کو بہا کہ میری طرف لیکے اور اس ناچیز کے ہاتھوں کو بوسہ
۳۵۱ دیکر بلند آواز سے فرمایا.آج تم نے ان لوگوں کا منہ کالا کر دیا جو کہتے ہیں مسلمانوں میں قابل وکیل نہیں ملتا.جزاه الله عدات عالیہ سے ان دو خادمان رسول مقبول کو چھ چھ ماہ زندان میں یا د رسول اور ذکر الہی میں صرف کرنے کی مہلت عطا ہوئی.رہے ہندو ز ہے نہ ندان.ور تمان امرتہ کی دریدہ دہنی لاہورمیں یہ فتنہ بھی رونہ ہوا تھاکہ امرت سے ایک اور فتنے نے سر اٹھایا.در زمان نامی ایک رسالے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کا ایک اور مہندہ شائع ہوا.دورن کے اندر حضرت امام جماعت احمدیہ کا لکھا ہوا ایک مطبوعہ اشتہار بعنوان رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دعوی کرنے والے کیا اب بھی بیدار نہ ہونگے ، لاہور امرتسری اور بعض دیگر شہروں کی دیواروں پر چسپاں پایا گیا.فوراً دفع سم م نا فذ کردی گئی.پانچ یا پانچ سے زائد آدمیوں کا مجمع خلاف قانون قرار دیا گیا، ہر قسم کے اشتہارات اور رسالہ جات کی طباعت اور راشات بدون اجازت ڈپٹی کمشنر ممنوع قرار دیگئی.غرض امن عامہ کے محاظ سے ایک ہنگامی صورت پیدا ہوگئی.لیکن آخر حکومت کی مشین بھی حرکت میں آئی.ورتمان کے طابع اور ناشر کے خلاف حکومت کی طرف سے ہائی کورٹ کے دو جان کے روبہ واستغار ائر ہوا.سر کار کی طرف سے میاں سر محمدشفیع کو وکیل مقر کیا گیا.عدالت نے مسٹر جسٹس دلیپ سنگھ کے فیصلے کو منسوخ قرار دیا اور ملزمان کے خلاف تحریم قائم ہو کر انہیں قید کی سزا ہوئی.مسٹر اوگلوی ڈپٹی کمشنر لا ہور سے بھر پ اس اثناء میں حضر خلیفة المسیح الثانی ہور تشریف لائے.بات کی طرف سے ایک مختصر رسالے کے شائع کرنے کی ضرورت پیش آئی.خان ذالفقار علی خان صاحب کو اور خاکسار کو ارشاد ہوا کو ڈٹی کمشنر صاحب کی عدالت میں حاضر ہو کر رسالے کی طباعت اور اشاعت کی اجازت طلب کریں.ڈپٹی کمشنر مسٹر و گلوری تھے وہ بھرے بیٹھے تھے.فرمایا ورتمان کے مضمون کے متعلق مرزا صاحب کو ایلیا توش پیدا کر نیوالا اشتہار شائع کرنے کی کیا ضرورت ہمیش آئی تھی بے در تمان کا مضمون متقاضی تھا کہ حکومت ہر حال تابع اور ناشر کے خلاف مقدمہ چلائے.میں نے کہا جیسے راجپال کے خلاف چلایا تھا؟ کہنےلگے میرا بس چلتا تومیں ضرور پھر راجپال کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچاتا.میں نے عرض کیا لیکن آپ کالی تو نہ چلانا ڈپٹی کمر نے پوچھا یہ درمان والا اشتہاریا ہو کی دیواروں پر چسپاں کرنے کا کون ذمہ دار ہے ؟ میں نے عرض کیا مجھے ذاتی طور پرتو یہ سعادت نصیب نہیں ہوئی لیکن چونکہ میں نامور کی جماعت احمدیہ کا امیرموں اسلئے مرداری میری ہے.پوچھا حفظ امن کی ذمہ داری کس کی ہے ؟ میں نے کہا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی.کہنے لگے اگر شہر می ناد " ہو جاتا تو ؟ میں نے کہا تو اسے فروکرنا آپ کا فرض ہوتا امام جماعت احمدیہ کا فرض ہے کہ دینی غیرت کی حفاظت کریں اس قرض کی ادائیگی کے لئے قانون کے اندر رہتے ہوئے تو طریق وہ مناسب سمجھیں گے اختیار کریں گے.اگر وہ قانون کی خلاف ورزی کریں تو آپ بینک ان کے خلاف اقدام کریں.انگوری بولے خوب تو اگر تمہیں امام جماعت کی طرف سے قانون شکتی کا حکم ملے تو تم قانون شکنی کہ دگنے میں کیا یہ سوال نعول ہے اسلام قانون شکنی کی اجازت نہیں ! دیسی
۳۵۲ دنیا.امام جماعت احمدیہ یہ خادم اسلام ہیں اور احکام اسلام کے پابند ہیں دو ایسا حکم نہیں دے سکتے اسلئے پر وہ صورت پیدا نہیں ہو سکتی.اد گلوی نے کہا لیکن اگر کبھی یہ صورت پیدا ہو جائے ؟ میں نے کہا فضول سوال یہ ہے سے معقول نہیں تو جاتا لیکن اگر آپ کو جواب سنے پر اصرار ہے تو مجھے جواب دینے سے انکار نہیں.میں نے بیعت میں عہد کیا ہے کہ امام جماعت میں نیک کام کا حکم دیں گے میں ان کی اطاعت کروں گا.میں ضرور اس عہد کو تھاؤنگا کیا آپ اسی جواب کے منتظر تھے ؟ او گلوی نے کہا جواب بہت دلچسپ میرا فرض ہے کہ میں اسے ہزا یک کسی گورنر یک پہنچا دوں ؟ میں نے کہا آپ فرض کی ادائیگی میں تاخیر کیوں کر رہے ہیں.ٹیلیفون آپکے سامنے پڑا ہے اٹھائے اور گورنر کو اس دلچسپ تو اسے مطلع کیجئے ؟ اس پر ڈپٹی کمشنر مانے گفتگو کا رخ بدلا اور کہا اچھا آپ صاحبان کس کام کیلئے آئے ہیں ؟" میں نے رسانے کا مسودہ پیش کیا اور کہا اس کے چھپوانے اور شائع کرنے کی اجازت حاصل کرنے کیلئے انہوں نے مسودہ پڑھا دو ایک مقام کی وضاحت چاہی اور کہا تجھے تواس میں کوئی بات قابیل اعتراض نظر نہیں آتی.اور اجازت پر دستخط کر دیئے میں نے کہا شکر یہ اور مکھڑے ہو گئے.ڈپٹی کمشنر صاحب بھی کھڑے ہوئے.مصافحے کیلئے ہاتھ بڑھایا اور کہا.چودھری صاحب مجھے آپ کی یہ بات بہت پسند ہے کہ جودل میں ہوتا ہے آپ صاف کہہ دیتے ہیں.ان کے ساتھ بعد میں کئی بارسا بقہ پڑا ہمیشہ بہت شرافت سے پیش آتے رہے ہمارے تعلقات بہت دوستانہ رہے.حضرت خلیفہ المسیح کا بہت احترام کرتے تھے میں ڈیرہ میں وہ پنجاب کے قوم سکریٹری تھے.جب قادیانی میں احرار کا نفرنس کے سلسلہ میں گورنر پنجاب کے ساتھ الجھن پیدا ہوئی تو ہماری اتفاقیہ ملاقات ہوئی.خود اس معاملے کا ذکر چھڑا اور بیر کس کا نام لئے کہا.بہت افسوس ہے اس معاملے میں امام جماعت کی پوریشن ا خیال نہ رکھا گیا.مجھے ان کے اس فقرے سے کچھ حیرت بھی ہوئی کیونگ گفتگو کے سیاق سباق میں اس نفقرے کا مطلب صرف بھی ہو سکتا تھا کہ اس معاملے میں گورنہ نے غلط رویہ اختیارہ کیا.ریاست کشمیر میں حصول بنیادی خطہ کشمیر جہاں اپنے دلفریب مناظر اور گوناگون نوریوں کے باعث حقوق کی جدو جہد کی ابتدا اپنی جاذبیت میں لاثانی ہے وہاں اہل نقطہ با وصف اپنی اعلی نہ ہی اور في استعدادوں کے عرصہ دراز سے ستم ہائے روز گا کا تختہ مشتق بنے ہوئے ہیں.پچھلے ایک سو پچیس سال میں تو خاص طور پر ان پر عرصہ حیات تنگ رہا ہے.پہلے ڈوگرہ راج کے مظالم کی چکی انہیں نہایت باریک پیتی رہی اوراب ہندوستانی آمریت کی درخت کے پیسے انکاری ہی ہڈیاں توڑ کران کی علیحدہ ہستی کو معدوم کرنے کے درپے ہیں نیس شاہ سے کشمیر کی مظلوم آبادی نے اپنے بنیادی حقوق کے حصول کی جدو جہد جاری کر رکھی ہے.پہلے پہل جب ان کی طرف سے انسانی حقوق کے مطالبے کی صدا بلند ہوئی تو اس کا جواب ڈوگرہ حکومت کی طرت سے بندوق کی گولیوں سے دیا گیا جیسے مظلوم بجانی بازوں نے سیٹھوں پر نہیں اپنے سینوں پر لیا.
ال انڈیا کشمیر با کا قیام | حضرت امام جماعت احمدیہ نے شملے کے مقام پر سر کردہ بنائے کشمیر کو نہوں نے خود یا جن کے آبا د نے ترک وطن کر کے پنجاب میں سکوت اختیار کی ہوئی تھی جمع ہونے کی دعوت دی اور کشمیریں صورت حالات کی طرف توجہ دلا کر متحدہ اقدام کا فورت و واضح فرمایا.اس کےنتیجے میں ا نڈیاکشمی کیٹی کا قیام عمل میں آیا.اراکین کمیٹی کے اصرار پرامام جماعت احمدیہ نے اس کمیٹی کی صدارت منظور کر لی.کمیٹی کی طرف سے اس کے نتیجےمیں رامیان شیر کی جدوجہد آزادی کی سرگرمی سے تائید شروع ہوگئی.گلینسی کمیٹی اور اس کی رپورٹ | واندرا نے ریس کو تیار کردہ حالات کا جائزہ میرپوٹ کریں اور اصلاحی تجاویز پیش کریں.ان کی رپورٹ کے نتیجے میں بعض ابتدائی اصلاحات عمل میں آئیں.جناب صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے ارشاد کے ماتحت میں بھی متعدد بار سر ریکھنڈ سے ملا اور اس سلسلے میں وائسرائے کی خدمت میں بھی حاضر ہوا.جناب صدر کیٹی کے ارشاد پر دوائی نے کی خدمت میں پیش کرنے کیلئے سر پیجینڈ کی رپورٹ پر تبصرہ بھی تیار کیا.بعض اپیلوں کی پیروی کیلئے چیف جسٹس جموں کو شمیر ہائی کورٹ کے اجلاس میں بمقام جموں پیش ہوا.سرت کینیڈ گلینسی نے بتایا کہ انہوں نے جن باتوں پر زور دیا ہے ان میں سے دو کے متعلق مہارا حجہ صاحب قطعاً کسی اصلاح کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں بلکہ یہاں تک کہا ہے کہ وہ ریاست سے دستبردار ہو نا قبول کریں گے لیکن ان دو معاملات میں ہرگز کسی تبدیلی پر رضامند نہ ہوں گے.ان میں سے ایک تو ریاست میں گائے کے ذبیح کرنے کے سنگین جرم میں عمر قید کی سزا تھی.اور دوسرا وہ قانون تھا جس کے رو سے ریاستی ہندو مذہب تبدیل کر کے مسلمان ہو جانے پر مشتر کہ خاندانی جائداد میں اپنے حصے سے محروم ہو جاتا تھا.آخر کار امرا کی کے متعلق اس قدر تخفیف عمل میں لائی گئی کہ جرم کی متشاعر قید سے کم کر کے دس سال قید با مشقت کر دی گئی حکومت پنجاب کے ایک طبقہ کی طرف سے غلط فہمی جناب امام جماعت احمدیہ نے رنگیلا رسول کی اشات کی بناء پر جماعت احمدیہ کی مخالفت اور ایذارسانی کے بعد سیرت النبی کے جلسوں کا سلسلہ جاری کرنے اور درنمان کے مضمون کی اشاعت پر پوسٹر شائع کرنے اور بانیان مذاہب کی عزت کے تحفظ کے سلسلے میں قانون کی مناسب ترمیم کے متعلق سند دوستان اور انگلستان میں کامیاب جدو جہد کرنے اور اہالیان کشمیر کے بنیادی انسانی حقوق کے حصول کی خاطر آن انڈیا کشمیر کی تائم کرنے اور پر ضبط اور سرگرمی سے اس تحریک کو پلانے اور فروغ دینے کے سلسلے میں واقدام کئے ان سے حکومت پنچا سکے ایک طبقے کے ذہنوں پر یہ اثر پڑا کہ جماعت احمدیہ نے سیاسیات میں دخل دینا شروع کر دیا ہے اور وہ جماعت کو پہلے سے بڑھ کر شک کی نگہ سے دیکھنے لگے.ادھر خلافت ثانیہ کے دور میں جماعت احمدیہ کے اندرونی نظام کی مضبوطی بھی ان کے دلوں میں کھٹکتی تھی اور انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی.اس جماعتی نظام کے دو پہلو خاص طور پر اس طبقہ حکام کو ناپسند تھے.ایک تو وہ جماعت کے صیغہ قضا کو جس میں احمدیوں کے باہمی تنازعات فیصلہ پاتے ہیں شعبہ کی
م ۳۵ نگہ سے دیکھتے تھے.اس کے متعلق انہیں یہ غلط فہمی تھی کہ مسیحہ قضاء احمدیوں کے مابین فوجداری تنازعات کا فیصلہ کرتا اور تغریر عاید کرتا ہے جسے وہ حکومت کے اختیارات میں تصرف تغیر کرتے تھے.پیشہ بالکل بے بنیاد تھا.مینو قضاء کو جرائم اور ان کی تحریر کے ساتھ قطعا کوئی سروکار نہ ہے نہ بھی تھا.یہ صیغہ خالصتند دیوانی تنازعات کا فیصلہ کرتا ہے اور فریق متعلقہ سے ان فیصلہ جات کو مناسب ترغیب اور وعظ و نصیحت اور اخلاقی دباؤ سے منظور کراتا ہے اور یہ بات حکومت کی اعلان کردہ پالیسی کے عین مطابق ہے.لیکن اس کا کامیابی کے ساتھ ہماری رہنا حکومت کے اس طبقہ کو پسند نہیں تھا.دوسر سلسلے کے اندر صدر انجمن احمدیہ کے مختلف شعبوں کے الفرام کیلئے نظامہ توں کا قائم ہونا انہیں حکومت کے اندر حکومت کی شکل میں نظر آتا تھا.اور وہ بجائے اس کے کہ اس نظام کو تربیت اور امن کا قابلِ قدر نمونہ شمارہ کرتے اسے حکومت کا مد مقابل اور آئندہ کیلئے خطرہ سمجھنے لگے تھے.سر ہر بٹ ایمرسن گورنر پنجاب اور جماعت احمدیہ سر پر بیٹ المیرسن انڈین سول سروس کے ایک قابل افر تھے.لیکن اپنے آپ کو بے جاعت تک دور بین اور نقطہ شناس سمجھتے تھے.انہوں نے ذاتی طور پر جماعت اور سلسلہ کے صحیح حالات معلوم کرنے کی کوئی کوشش نہ کی تھی.ان کا انحصار سر کاری خفیہ رپورٹوں اور مخالفین سلسان خصوصاً احرار کے پروپیگنڈا پر تھا.جب مرکزی حکومت ہند کے ہوم سیکہ پٹری کے عہد سے ترقی پا کردہ پنجاب کے گورنہ ہوئے تو اس عزم کے ساتھ پنجاب آئے کہ صوبہ میں رعایا کے دو فریق شمار ہوئی گے.ایک حکومت کے تابعین دوسرے حکومت کے مخالفین اور مخالفین کو کمزور کرنے اور انہیں قابو میں رکھنے کی ایک تجویہ ان کے ذہن میں یہ بھی تھی کہ انہیں اپس میں الجھائے رکھنا چاہیے.جماعت احمدیہ کو اس کے عقائد ، اس کےاتحاد اس کے نظام اور اس کی عالمی تبلیغی سرگزی شیر کی وجہ سے وہ شبہ کی نگاہ سے دیکھتے تھے.انہیں جلد ایک موقعہ جماعت کی تادیث کا میسر آگیا.جماعت احرار نے جس کا تمام ریکارڈ ہنگا مے اور شورش پیدا کرنے کا تھا اور جو ہمیشہ جماعت احمدیہ کے خلاف عوام کو اشتعال دلانے کے مواقع کی تلاش میں رہتی تھی قادیان میں ایک تبلیغی کا نفرنس کے انعقاد کی اجازت حکومت سے چاہی.جماعت کی قادیان میں احتمالہ کی تبلیغی کانفرنس طرف سے حکومت پر واضح کیا گیاکہ اس کانفرنس کی غرض سوائے فساد کے اور کچھ نہیں ہو سکتی.قادیان جماعت احمدیہ کا مرکز ہے.قادیان کی آبادی کا 4 حصہ احمدی ہے باقی ہے حصے میں سے ایک ٹہری کثرت غیر مسلم ہے.غیر احمدی عنصر نہایت قلیل ہے.احمدی اور غیرمسلم تو کانفرنس میں شمل نہیں ہوں گے.غیر احمدی عنصرا حرارہ کی تبلیغ کا محتاج نہیں نہ اس سے کوئی قائدہ حاصل ہو سکتا ہے.ان حالات میں احمراری تبلیغ جماعت احمدیہ کے خلاف اشتعال انگیز تقریروں کا سلسلہ بن کر رہ جائے گی.لیکن حکومت نے ان عذرات کی طرف کوئی التفات نہ کیا اور کا نفرنس کی اجازت دیدی.جماعت کو سابقہ تجربے کی بنا پر علم تھا کہ احماری مقربین جماعت کے خلاف انتہائی درجے کا اشتغال پیدا کرنے کی سعی کریں گے جس سے امن کا قیام خطرے میں پڑ جائے گا.
" قادیان کی احمدی آبادی ایک وسیع رقبے میں بکھری ہوئی تھی.حکومت کی طرف سے قیام امن کا کوئی انتظام نہ تھا اور ن عام حالات میں کسی خاص انتظام کی ضرورت مفتی حالات پیش آمدہ کے مدنظر تو دھری فتح محمد سیال صاحب ناظر امور عامہ نے ارد گرد کی جماعتوں کے نام پٹھیاں لکھیں کر دہ ایک مقررہ تعداد ایسے افراد جماعت کی قادیان بھیج دیں جو کا نفرنس کے ایام میں حفظ امن کے سلسلے میں خدمت بجالائیں.اس طور یہ پہلے بھی جب کبھی حفظ امن کے متعلق خدشہ میں پیدا ہوتا رہا انتظام کیا جاتا تھا.اور فضل اللہ کی کوئی ناگوار واقعہ پیش نہیں آیا تھا.اس موقعہ پر ڈپٹی کمشنر صاحب نے ناظر امور عامہ صاحب کو ہدایت دی کہ یا ہر سے کسی کو نہ بلایا جائے.ناظر امور عامر نے کہا اگر حکومت حفظ امن کی ذمہ داری نخود لے لے اور اس کا خاطر خواہ انتظام کر دے تو ہم ممنون ہوں گے اور ہمیں کسی خاص انتظام کی فروند نہ رہے گی.ڈپٹی کمتر صاحب نے کہا حکومت کو حفظ امن کے متعلق کوئی خدشہ نہیں اور حکومت کسی خاص انتظام کی ضرور محسوس نہیں کرتی.ناظر امور عامر نے کہا.چونکہ کہیں اس بار ے میں خدشہ ہے اسلئے ہمیں اندراہ احتیاط با ہر سے بہرہ وغیرہ کیلئے آدمی منگوانے کی ضرورت ہے.جب ڈپٹی کمشنر صاحب کی طرف سے یہ ریوریٹ حکومت کو پہنچی تو حکومت کی طرف سے حضرت امام جماعت احمدیہ کے نام کریمینل اور اینڈمنٹ ایکٹ کے ماتحت نوٹس جاری کیا گیا کہ وہ باہر سے اراد جماعت کا کانفرنس کے دنوں میں قادیان آنا بند کر دیں اور اگر کوئی فر جماعت ان ایام میں با ہر سے قادریان آئے تو اس کے قیام و طعام کی کوئی سہولت ہم نہ پہنچائی جائے.یہ نوٹس نہ صرف فرعونیت کا مظہر تھا ملکہ وہ تورات ذیل نا واجب بھی تھا.دا ، قادیان میں جو اکنان عالم کی احمدیہ جماعتوی رنچھوٹی ہوں یا بیٹی کا مرکز تھا مجلس احرار کو جو مسلم طور پر جماعت احمدیہ کی دشمن بھی اور میس کی طرف سے بارہ با اعلان ہو سکا تھا کہ وہ مخمر یک احمدیت کو کچل کر رکھ دی گی ایک تبلیغی کا نفرنس کی اجازت دیدی گئی.(۴) اس کانفرنس میں شمولیت کی غرض سے (خواہ آنے والے کا حقیقی مقصد کی ہی مفدا نہ کیوں نہ ہوا ہر شخص قادیان آنے کا مجا نہ تھا کسی قسم کی پا بندی نہیں تھی.(۳) جس جماعت کا مرکزہ قادیان تھا اس کے افراد کو کانفرنس کے ایام میں قادریان آنے کی اجازت نہیں تھی خواہ ان کے دل کس قدر مضطرب اور بے چین ہوں کہ معلوم نہیں احرار کے کیا منصوبے ہیں اور قادیان میں کیا ہوتا د نوٹس ناظر امور عامہ صاحب کے نام جاری نہ کیا گیا منی کی طرف سے جماعتوں کے نام خطوط بھیجے گئے تھے بلکہ حضرت امام جماعت احمدیہ کے نام بھیجا گیا جن کا براہ راست ان کے بھیجے جانے میں کوئی حصہ نہیں تھا.اس..سے ظاہر تھا کہ اس ٹویٹ کی عرض حضرت امام جماعت احمدیہ کو گرفت میں لانا تھی.مجلس احمرار کی یہ نام نہاد تبلیغی کانفر نسن قادیان میں منعقد ہوئی.جماعت احمدیہ کا تو کوئی فرد کانفرنس کے نزدیک بھی نہ گیا.معلوم نہیں تبلیغ کا تختہ مشق کے بنایا گیا.گورینہ نے بعد میں خود مجھ سے کہا کہ کانفرنس میں
صرف جماعت احمدیہ کو گالیاں دی گئیں.جماعت کے خلان کھدا چھالا گیا اور اشتعال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی امام جماعت احمدیہ کی اپنے خطبات جمعہ کا نفرنس کے انعقاد کے بعد حضرت امام میں حکومت پنجا ئے احکام متذکرہ بالا پہ کڑی تنقید جماعت احمدیہ نے اپنے خطبات جمعہ میں احکام حکومت کے اس ناروا طرز عمل پر تنقید شروع کی ہر جمعہ کے دن سی آئی ڈی پولیس کے روانہ گو در اسپور سے موٹرسائیکل پر خطبہ جمعہ کے نوٹ لینے کیلئے قادیان آتے حضورہ کا ارشاد تھا کہ انہیں حضور کے قریب آرام سے بیٹھنے کی جگہ دی جائے تا کہ پوری طرح خطبہ سن سکیں اور اطمینان سے نوٹ لے سکیں.ایسا نہ ہو کہ نور مخطبه تر سن سکیں یا کوئی فقرہ ادھورا اسنے سے غلط فہمی ہو اور اپنے فرائض کو پوری طرح سرانجام دینے سے قاصر رہیں.خطبہ کے ختم ہونے پر یہ انسہ واپس گورداسپور جاتے اپنی رپورٹ تیار کر کے مٹر سرنگیں ڈیٹی کشتر کی خدمت میں پیش کرتے.رپورٹ کا ترجمہ انگریزی میں ہو کر راتوں رات لاہور گورنمنٹ ہاؤس پہنچایا جا تا صبح * کی صبح گورنزا سے ملاحظہ فرماتے.ہر ہفتے کے دن صبح کوگورنر صاحب حضرت امام جماعت احمدیہ کے پہلے دن کے خطبہ جمعہ کا انگریزی ترجمہ پڑھ لیتے.پڑھتے ہوئے کڑھتے تو ضرور ہوں گے کیونکہ حضور ہمیشہ بات وضاحت سے زمانے کے عادی تھے.اور ان خطبات میں حضور حکومت کے طرز عمل پر کڑی تنقید فرما رہے تھے لیکن گورینہ کو کہیں بھی ہاتھ ڈالنے کی گنجائش نظر نہ آتی.بعد می گورداسپور کے بور مین سپر نٹنٹ پولیس نے جناب شیخ بشیر احد صاحب ایڈوکیٹ لاہور (سابق حج ہائی کورٹ لاہورہ ) سے کہا جب میں خطبہ جمعہ کا ترجمہ پڑھتا تھاتو کسی مقام پرٹی سمجھتا کہ اب یہ پھپنے لیکن اگلے ہی فقرے میں ایسی وضاحت ہو جاتی کہ کوئی بات قابل گرفت نہ رہتی.گورنہ پنجاب کی خواہش پر ان سے میری ملاقات ہر صورت حال تھی جب شاہ میں میں لندن سے دائیں لاہور پہنچا.ریل کے لاہور پہنچنے کا وقت شام کا تھا.دوسرے دن صبح میں حضرت خلیفتہ المسیح کی خدمت اقدس میں قادیان حاضر ہوا اور جملہ حالات سے آگاہی حاصل کی.اسی شام لاہور واپس آیا.سید العام اللہ شاہ صاحب نے دریافت کیا کیا تم گورنر سے لو گے ؟ میں نے کہا نہیں! وہ حیران ہوئے اور کہا کیا منامناسب نہ ہو گا ؟ میں نے کہا میرے خیال میں مناسب نہیں ہو گا.اگر میں ورنہ صاحب سے ملوں تو وہ فرمائں گے کہو کیا کہتا ہے.اور مجھے ان سے کچھ کہنا نہیں.اسلئے میرے انہیں ملنے سے کیا حاصل ؟ ہاں اگر وہ مجھے بلائیں تو اور بات ہے.میں حاضر ہونے پر کہہ سکتا ہوں میں حاضر ہوں فرمائیے کیا ارشاد ہے ؟.دوسری صحیح سردار سکندر حیات خاں صاحب نے ٹیلیفون پر فرمایا گورنر صاحب چاہتے ہیں تم ان سے آج دس بجے قبل ور پر مل لو.اور اگر یہ وقت مناسب نہ ہو تو چار بجے بعد دو پر مل لو.میں نے کہا میں دس بجے ان کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں گا.میں حاضر ہوا گورنہ صاحب نے میرے تقریر پر مبارکباد دی.
۳۵۷ ظفر اللہ خان - آپ کا مار کبادی کانار مجھے مل گیا تھا اور میں نے جواب دیدیا تھا.آپ کو مل گیا ہو گا.گورنہ.مال مل گیا تھا.شکریہ مجھ سے جو مسلمان ملتے رہے میں ان سے کہتا رہا ہوں کہ آپ کے قریہ یہ اعراض کر نائیجری کو تاہ اندیشی ہے.ظفر اللہ خاں.شکریہ ! لیکن آپ کے تکلیف فرمانے کی ضرورت نہیں تھی.حکومت نے جیسے مناسب سمجھا انتخاب کر لیا.قصہ ختم ہوا.گورنہ.آئیے آرام کرسیوں پر مجھے کہ فراغت سے بات بہت کریں.آرام کرسیاں ساتھ ساتھ بچھیں تھیں.میں سمنے دیوار کی طرف ملکی لگا کر بیٹھا رہا اور گورنر صاحب پنے نقط نگاہ سے اس قضیے کی حکایت سناتے رہے.قریباً ایک گھنٹہ اس میں صرف ہوا.ان کی بات ختم ہو جانے پر بھی میں خاموش ہی بیٹھا رہا.یں سمجھتا تھا کہ آخر صرف یہ قصہ سنانے کیلئے توانہوںنے مجھے نہیں لایا.الٹے میں انتظار میں تھا کہ آخر انہیں مجھ سے کیا کہنا ہے.میرے خاموش رہنے اور کچھ بھی نہ کہنے پر انہوں نے پھر وی قصہ شروع کر دیا لیکن اک بار سلے کی نیت مختصر کیا.آخر میں کہامیں سمجھتا ہوں مرزا صاحب کو ایک حد تک شکوے کا حق ہے احرار نے حکومت کی اجازت کا بہت ہے جا فائدہ اٹھایا.اگر مجھے پہلے سے اندازہ ہوتا کہ وہ اس موقعہ کو محض دشنام طرازی اور اشتعال انگیزی کیلئے استعمال کرینگے تو انہیں کا نفرنس کی اجازت ہرگز نہ ملتی.میں نے کہا ان کے پہلے ریکارڈ سے تو حکومت کو بھی توقع ہونی چاہئے تھی لیکن اعجاز دینے کے بعد یہ کیسے ہوا کہ احمدیوں کو تو اپنے مرکز میں آنے سے رد کردیا جائے اور دوسری طرف سے کسی فساد کھڑا کر نیو الے کو بھی کوئی روک ہو.اتناکہ کریں پھر خاموش ان کا عذر ستار تا اور اس انتظارمیں رہاکہ ان کا کچھ نشاء معلوم ہوکر مجھے انہوں نے کسی غرض کیلئے طلب فرمایا ہے.آخر انہوں نے کہا مرزا صاحب نے اپنے رہنے اور شکوے کا کان اظہار کر لیا ہے میں سمجھتا ہوں اب ان کے خطبات کا یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے.میں نے کہا میں اس کے متعلق کیا کر سکتا ہوں ؟ فرمایا میرا خیال ہے اگر تم ان سے بند.کہا ہوں؟ اگر ان کوئی بات چیت کرو اور آپس کی غلط فہمی رفع ہو جائے تو یہ ایک مستحسن اقدام ہوگا.میں نے عرض کیا مجھے دوباتوں کے متعلق غیرت ہے اول یہ کہ اگر نوٹس جاری کرنا لازم ہی ہو گیا تھا تو ناظر امور عامہ کے نام جاری ہونا چاہیئے تھا.جنہوں نے احمد یہ جماعتوں کو آدمی بھیجنے کے لئے خطوط لکھے تھے.اس پر فرمایا ہم نام مجماعت احمدیہ کے سوئے جماعت کے اور کسی کارکن کو تسلیم نہیں کرتے.میں نے سمجھ لیا کہ یہ حکومت کے اندر حکومت والی رمتی ہے میں نے عرض کیا اچھی بات آپ تعلیم نہیں کرتے لیکن اس نوٹس میں کس حد تک معقولیت تھی کہ باقی تو ہر شخص کو کانفرنس کے دوران میں قادیانی جانے کی اجازت ہو.اور صرف جماعت احمدیہ کے افراد کو اجازت نہ ہو کہ وہ اپنے مرکز میں جاسکیں.یہ دونوں پہلو حضرت امام جماعت احمدیہ اور جماعت احمد کی تقرین کے ہیں اور مجھے سمجھ نہیں آتا کہ یہ طریق کیوں اختیار کیا گیا.گورنر صاحب نے فرمایا چودھری صاحب صرف آپکی ذکاوت حس ہے.میں نے کہا بیشک ہے.جہاں انسان کی جہان سے بڑھ کر محبوب مستیوں اور اقدار کے احترام کا سوالی ہو ہر غیرت مند
۳۵۸ انسان ذکی الحس ہوتا ہے.اور جن اشخاص کی ایسے جذبات سے شناسائی کی نہ جوہ ایسی ذکاوت حس کا اندازہ نہیں کر سکتے.میں آپ سے رخصت چاہتا ہوں.ایک دن چھوڑ کر میرے دن گورنہ صاحب نے چارہ بجے بعد دوپہر تھے پھر یاد فرمایا اور کہا آپنے کچھ سوچاکہ موجودہ المین کو کس طور سلجھایا جاسکتا ہے ؟ میں نے کہا یہ الجھن آپ کی پیدا کردہ ہے اور آپ ہی اسے سمجھا سکتے ہیں.فرمایا آپ بھی مد کر سکتے ہیں.میں نے عرض کیا علی کی حیثیت میں مدد کر سکتا ہوں.آپ سوائے امام جماعت احمدیہ کے کسی اور کی کوئی حیثیت جماعت میں تسلیم نہیں کرتے اور حضرت امام جماعت احمدین مجھے ان نمائندگی کا مر نہیں بنتا اور اس نے فرمایا آپ کو جماعت اور حکومت کے درمیان تعلقات کے استوار رہنے میں تو نیچی ضرور ہے.میں نے کہا یقینا ہے اور اگر اس غلط فہمی کے پیدا ہونے کا اندیشہ نہ جوکہ میں حضرت امام جماعت احمدیہ کے نمائندے کے طور پر دلچسپ لے رہا ہوں تو میں انی سی کوشش کرنے کیلئے حاضر ہوں.اس سے انہیں کچھ اطمینان ہو کہ میں انکے اور حضرت امام جماعت احمدیہ کے درمیان واسطہ بن سکتا ہوں.میں اس سلسلے میں تین چار بارہ قادیان حاضر ہوا.اب جو گورنر صاحب کو بلواسطہ ہی سہی حضرت خلیفہ المین کے ساتھ تبادلہ خیالات کا موقعہ ملا تو انہیں بار بار یہ تسلیم کر نا پڑا کہ حضور کا نقطہ نظر معقول ہے.مثلاً پہلی بار خاکسار کے حاضر ہونے پر حضور نے فرمایا کہ یہ تو وہ نہ صاحب چاہتے ہیں کہ میرے خطبات میں حکومت کی شکایت کا سلسلہ نید ہو جائے تومیں جو بار بار حکومت کے موقف کی غلطی واضح کر چکا ہوں اگر یک لخت خاموش ہو جاؤں تو اس سے یہ مراجع کی جا سکتی ہے کہ میرے اپنے موقف کی غلطی مجھ پر واضح ہوگئی ہے.یا حکومت نے مجھے کوئی دھمکی دی ہے جس سے ڈر کر میں خانوں ہوگیا ہوں.اگر پہلی بات ہو یعنی حکومت کی طرف سے میرے موقف کی غلطی مجھ پر واضح کر دیجائے تو میں آئندہ کے لئے نہ صرف اس موضوع پر خاموش ہو جاؤں گا بلکہ اعلان بھی کردوں گاکہ میرا موقف غلط تھا اور میں اپنی غلطی تسلیم کرتا ہوں مجھے اس میں کوئی باک نہ ہوگا.چونکہ دھمکی سے میں خاموش نہیں ہو سکتا اس لئے اگر میں ایسا سمجھے جانے کا موقعہ مہیا کر دی تو میں اپنے ہاتھوں اپنی توہین کرنے والا ہوں گا.ہاں ایک صورت یہ ہے کہ اگر حکومت میرے موقف کو می سمجھ کر اس کی صحت کو تسلیم کرلے تو میں یہ کہ سکتا ہوں کہ حکومت کو جو غلط فہمی ہوئی تھی وہ رفع ہوگئی ہے اور اب اس معاملے کو طول دینا ہے معنی ہے.میں حکومت کے وقار کو صدمہ پہنچانا نہیں چاہتا لیکن مجھے جماعت کے وقار کی بھی تو حفاظت کرنی ہے.میں نے یہ سب باتیں گورنہ صاحب کے گوش گذار کر دیں.گورنہ مانے فرمایا اچھا چیف سکریٹری مرزا صاحب کی خدمت میں ایک خط لکھ دیگا.خط کا مضمون طے ہوا.گورنر صامو نے کہا وہ خط شائع نہ کیا جائے بحضور نے فرمایا مجھے خط شائع کرنے کا کوئی شوق نہیں بلکہ میں تویہ بھی نہیں کہنا چاہتا کہ ھے کوئی خط لکھا گیا ہے.لیکن یہ تو مجھے کہا ہوگا کہ حکومت نے میرا نقطہ نظر سلیم کر لیا ہے اس لئے اب اس موضوع پر مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں.آخر گورنہ صاحب نے کہا چیف سیکر یٹری کی طرف سے خط لکھا جائیگا تو یہ بات تھی تو رہے گی نہیں.”
۳۵۹ احرار کونسل میں سوال کر کے بھی معلوم کر سکتے ہیں اسلئے انہیں خط کا مضمون ظاہر نہ کئے جانے پر اصرار نہیں.یہ قضیہ جو مٹر ایمرسن گورنر پنجاب نے کھڑا کر دیا تھا اس طرح وقتی طور پر فرو ہو گیا.لیکن معلوم ہوتا ہے کہ گورنر کے دل سے کدورت کی میل دھوئی نہ گئی کیونکہ استوار کی طرف سے جماعت کی ایذا نہ ربانی کا سلسلہ جاری رہنا ان کے حوصلے یہاں تک بڑھے ہوئے تھے کہ شہہ کے موسم گرمامیں قادیان میں رہنے والے ایک غیر احمدی شرارت پسند نوجوان نے صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب پر جبکہ وہ سائیکل پر سوار شہر سے دارالعلوم کی طرف تشریف بیجار ہے تھے اچانک لاٹھی سے حملہ کیا جس سے ان کے کندھے پر ضرب آئی.صاحبزادہ صاحب اپنی خوبیوں کی وجہ سے جماعت احمدیہ کی ایک نہایت کی محبوب شخصیت تھے اور اس حرکت کی غرض صریحا یہ تھی کہ جماعت کے افراد کو اشتعال دلایا جائے اور اس طرح قادیان میں ہنگامہ کھڑا کر کے جماعت کے خلاف کاروائی کا موقعہ پیدا کیا جائے.اگر چہ یہ واقعہ افراد جماعت کیلئے مریخ و اندوہ کا موجب ہو الیکن انہوں نے اپنی روایتی امن پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قانون کو اپنے ہا تھوں میں لینے سے احتراز کرتے ہوئے اس سازش کو ناکام بنا دیا.گورنر پنجاب اور امام جماعت احمدیہ کی ملاقاتیں کچھ عرصہ بعد حضرت خلیفہ المیے کل کے علاقے میں منالی کے مقام پر تشریف رکھتے تھے کہ گورنر صاحب شملہ سے سڑک کے راستے لاہور جاتے ہوئے چند دن کے لئے منائی ٹھہر جب انہیں معلوم ہواکہ امام جماعت احمدیہ نالی میں تشریف فرماہیں تو انہوں نے حضور کو سہ پہر کے ناشتے کی دعوت دی سے حضور نے قبول فرمایا اور اس طرح باہم تبادلہ خیالات کا وقعہ پیدا ہوگیا.گورنر نے کہا آپس میں بعض امور کے متعلق غلط فہمی رہی ہے.میں اس موقعہ سے فائدہ اٹھا کر چاہتا ہوں کہ ہم ان امور پر بالمشافہ تبادلہ خیالات کرلیں.بہتر ہو اگر پہلے آپ انا نقطہ نگاہ بیان فرما دیں.حضرت خلیفہ المسیح ابھی ان بات ختم نہ کرپائے تھےکہ شام ہوگئی.گورنرنے کہا آپ کو جب لاہور آنے کا اتفاق ہو تو اپنے سیکر یٹڑی سے فرما دیں وہ میرے سیکریٹری کے ساتھ ٹیلیفون پر ملاقات کا وقت طے کرلیں.چنانچہ کچھ عرصہ بعد دسری طاقات لاہور میں ہوئی.اور بہت حد تک دونوں اصحاب کو ایک دوسرے کے خیالات سے آگا ہی ہوگئی میرے وطن مالوف ڈسکہ میں اقتدار کی مخالفت اور پولیس اور ڈلنگ کی والہ ایلی کے باقی ماند عرصہ کا میرے بھائی اور دیگر احمدیان کے خلاف جھوٹا مقدمہ میں کوئی مزید ایسا واقعہ منی لعین جماعت احمدیہ کی طرف سے نہ ہوا جو ذاتی طور پر میرے لئے پریشانی کا موجب ہوتا.لیکن سواء میں ان کے جانے کے بعد ایک ناگوار واقعہ رونما ہوا.میرے وطن مالوف ڈسکہ میں احرار نے ایک جلسہ منعقد کیا.میرے بھائیوں میں سے صرف چودھری شکر اللہ خال مرتب ڈکے میں موجود تھے کیونکہ ان کی مستقل رہائش رہیں تھی.ان کے علاوہ گاؤں میں دس بالغ مرد جماعت احمدیہ کے ساتھ تعلق رکھنے والے تھے.ان میں سے کوئی احرارہ کے سلسے میں شامل ہوا نہ جلسہ گاہ کے قریب ہی گیا.مغرب کی نماز کے وقت
ایک مفید گروہ احمدیہ مسجد کے دروازے پر آر جمع ہوگیا اور نماز ختم ہونے پر جب انہی مسجد سے نکلے تو ان پرحملہ کر دیا.میرے بھائی کو سر پر چوٹیں آئیں جن سے کچھ خون بھی نکلا وہ دوڑ کر اپنے زنانہ مکان میں داخل ہو گئے اور کوار اندر سے بند کردیئے مفسدوں نے مکان کا محاصرہ کر لیا اور دروازہ توڑنے کی کوشش شروع کر دی.دروازہ بہت مضبوط تھا ان کی سعی کارگرنہ ہوسکی.یہ صورت حالات نصف شب تک رہی.اسی اثناء میں عزیزہ شکر اللہ خاں نے پولیس افسر کے نام ایک رقعہ لکھا جس میں صورت حالات بیان کی اور مکان کے عقب سے ایک ہمدرد پڑوسی کے ہاتھ تھانے بھجوا دیا.پولیس افسر نے بے اعتنائی سے رقعہ پھینک دیا اور کہا ہونے دو جو ہوتا ہے.لیکن ایسے واقعہ پر پردہ تو نہیں ڈالا جا سکتا تھا.پولیس والوں نے تفتیش شروع کی.ان کے رویے سے ظاہر تھا کہ وہ منبہ داری سے کام لے رہے ہیں.میں نے سر ڈونلڈ بائیڈر کین عاملہ پنجاب کو لکھا کہ ضلع سیالکوٹ کے سپرینڈنٹ پولیس کے سابقہ رویے سے ظاہر ہے کہ انہیں جماعت احمدیہ کے ساتھ اور خصوصا میرے خاندان کے ساتھ عناد ہے اور اس واقعہ کے دوران میں اور اس کے بعد لوکل پولیس افسر کا رویہ بھی جنبہ داری کا نہ ہا ہے.ان حالات میں مناسب ہو گا کہ اس واقعہ کی تفتیش کے دوران میں سپر انٹ یں اچھی پر لے جائیں ان کا تبادلہ کردیا جائے تاکہ یہ اطمینان ہے کہ تفتیش غیر جانبدارانہ طریق سے ہوگی.اس خط کے لکھنے کے چند دن بعد وائی ائے لارڈ لنلتھگونے مجھ سے دریافت کیا کیا کوئی آپ واقعہ ہوا ہے جس کے متعلق تم نے سر ڈونلڈ بائیڈ کو خط لکھا ہو؟ میں نے مختصر واقعہ بیان کیا اور کہا ان حالات میں میں نے اس مضمون کا خو سر ڈونلڈ کو کھا ہے.دائرے نے کہا آن گورنر پنجاب تمہار وہ خالیکر مرے پاس آیا تھا اور کہا تھا کہ اس خط میں اس کے پولیس افسروں پہنا واجب الزامات عاید کئے گئے ہیں.اور اب اس کے لئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ وہ ان الزامات کی اصلیت ظاہر کرنے کے لئے پبلک تحقیقات کا انتظام کرے.میں نے کہا مجھے یہ سنکر بہت اطمینان ہوا ہے گورنہ کو جماعت احمدیہ کے متعلق شبہ ہے کہ یہ ایک سرکش جماعت ہے جس سے حکومت کو خطرہ ہے.جماعت احمدیہ کو شامات ہے کہ گورنر اور حکومت کے بعض افسران کا رویہ جماعت کے متعلق غیر ہمدردانہ اور غیر منصفانہ ہے پلک تحقیقات کے نتیجے میں حقیقت واضح ہو جائے گی.اگر ہماری شکایت بے بنیاد ثابت ہوئی تو ہمارے لئے اطمینان کا موجب ہو گا.اگر گورنہ کے نشہ کی تائید ہوئی تو ہم اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں گے.آپ کے لئے بھی کوئی وقت نہیں ہوگی.جو نہی گورانہ تحقیقات کے فیصلے کا اعلان کریں گے میں کونسل سے مستعفی ہو کر جماعت احمدیہ کی طرف سے تحقیقاتی کمیشن کے رو برو سپری کردوں گا.وائسرائے نے کہا میں تمہاری مشکل کا اندازہ کر سکتا ہوں اور مجھے تم سے ہمدردی ہے.خود میرے خاندان کو سکاٹ لینڈ میں ایک لمبے عرصہ تک اپنے مذہبی عقائی کی خاطر سختی برداشت کرنی پڑی تھی اور مخالف حالات کا مقابلہ کرنا پڑا تھا میں نے گورنر سے کہہ دیا ہے کہ یہ حیثیت گور نہ منزل میں ایسی تحقیقات کی اجازت نہیں دے سکتا تم سے بھی کہتا ہوں کہ تم مخالف حالات کو بر سے برداشت کرتے جاؤ.میں جہاں تک مکن ہوگا تمہاری ہمدردانہ مرد در نای کردوں گا.جب ایسے الے
پیدا نہ ہو جائیں کہ تم بغیر اپنے ایمان کو خطرے میں ڈالنے کے خدمت عامہ کو جاری نہ رکھ سکو استعفے کا خیال مت کرو میں نے گرنے سے کہ دیاہے کہ جہان واقعات کا سوال ہے میں ہراس بات کوصحیح سمجھوں گا تو تم اپنے ذاتی علم سے بیان کرو.اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ تم بھی کسی پلک تحقیقات پر زور نہیں دو گے.میں نے کہا میں آپ کی ہمدردی کا منون ہوں.پبلک تحقیقات کا رستہ اگر بند ہے تو ایک اور دروازہ کھلا ہے ہم اسے کھٹکھٹاتے چلے جائیں گے اور الالعین سے داد خواہ رہیں گے.پولیس کی تفتیش کا نتیجہ یہ نکلا کہ میرے بھائی اور ڈسکہ کلاں کے حملہ بالغ احمدی افراد کا اس الزام کے تحت چالان کردیا گیا کہ نہوں نے بلوہ کرکے احرار پر حملہ کیا اورانہیں ضربات پہنچائیں.اس بہلوے اور حملے کا مقام اور وقت فرضی تجویز کئے گئے اور اصل واقعہ کا پولیس کی تفتیش اور رپورٹ میں ذکر تک نہ آیا.چالان ایک غیر مسلم میٹرٹ کے سپرد ہوا جس نے مکمل تحقیقات کے بعد قرار دیا کہ پولیس کی پیش کردہ کہانی فرضی اور بے بنیاد ہے.پولیس نے فرضی ابتدائی رپورٹ درج کی اور جعلی ضمنیات تیار کیں جن پر ہرگز اعتماد نہیں کیا جاسکتا.ملزمان کو غیرفرد جرم عاید کرنے کے المتزام سے بری قرار دیا گیا فالحمد لله مجسٹریٹ کے اس حکم کے بعد انسپکٹر جنرل پولیس نے ایک ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس کو محکمانہ تحقیقات کا حکم دیا کہ مجسٹریٹ نے جو الزام پولیس پر عاید کئے ہی ان کی کوئی بنیاد ہے یا نہیں.اب گویا ایک طور سے بیچارے مجسٹریٹ صاحب زیرہ الزام آگئے.اس تحقیقات میں مجسٹریٹ نے اپنے پہلے حکم سے بڑھ کر پولیس کے رویہ پر تنقید کی اور ان کی کوتاہوں ور فرضی اور اعلی کاروائیوں کا پردہ فاش کیا اس تحقیقات کانتیجہ صفیہ کا کہ مقامی پولیس اس کا ا سکے سے تبادلہ کردیا گیا.واٹس اے نے مجھ سے کہا تمہارا موقف کا مل طور پر درست ثابت ہوا.194ء میں سر پر بیٹ کے دو بارہ گورنہ پنجاب مقر ہونے کا اعلان ہوا.لیکن انہیں دوسری مرتبہ اس کرسی پر بیٹھنا نصیب نہ ہوا.وہ اپنی پہلی میعاد کے اختتام پر رخصت پر انگلستان گئے.ان کی رخصت کے دوران میں مٹی شہ میں مجھے بھی بعض سرکاری امور اور فرائض کی سرانجام دہی کے لئے انگلستان جانا پڑا.وہاں لارڈ ولنگڈن نے مجھے بتایا کہ سرسر ریٹ اور بارہ مینا کی گوریزی کا چارج لینے کے لئے واپس نہیں جاسکیں گے.معلوم ہوا وہ واپس جانے کی تیاری میں تھے کہ ایک دن سیر سے واپس آنے پر انہیں قضا صاحبت کے ساتھ خون آیا.انہوں نے ڈاکٹروں سے مشورہ کیا ڈاکٹر درجہ تو تشخیص نہ کر سکے لیکن چونکہ تکلیف جاری تھی انہوں نے مشورہ دیا کہ ان کا مہندوستان واپس جانا نخطرہ سے خالی نہ ہو گا.چنانچہ انہوں نے وزیمہ سند کو اطلاع دیدی کہ وہ گور ندی پر واپس نہیں جا سکتے.اس کے کچھ دن بعد وہ تکلیف بالکل رفع ہوگئی.لیکن اسوقت تک کسی اور کا تقر مون کا تھا.
۳۶۲ امام جماعت احمدیہ کی طرف سے تحریک تجدید کا اجراء کر کے تھنے کا ایک نہایت نیک اور تر اور تیر تحریک جدید کا اجرائے تھا جونہ صرف فضل الہ جات کی تنظیم کی مضبوطی کا باعث ہوا کہ اس کے تنے میں بیرون ملک میں تبشیر اسلام کے ایک نہایت شاندار باب کا آغازہ ہو الحمد للہ.مولانا روم نے کیا ہی خوب اور کیا ہی سے فرمایا پر بلا لیں قوم راستی داده اند زیر آن گنج کرم بنهاده اند جوزف بھور ممبر ریلوے د تجارت کی طرف نومبر سترہ میں میرے انگلستان سے واپس آنے کے کچھ سے ناکام کوشش کہ میرے چارج لینے سے دن بعد وائسرائے نے مجھے طلب فرمایا.میں حضر مودا پہلے ریلوے کے محکمہ کا علیحدہ قلمدان بین تو فرمایا اسی میں اور پین اراکین کچھ عرصہ سے مطالبہ جائے اور مجھے صرف محکمہ تجارت کا چارج ملے کر رہے تھے کہ مواصلات کا ایک الگ قلمدانی ہونا چاہئے جس میں ڈاک تار ٹیلیفون ریلوے سب محکمے شامل ہوئی پچھلے ستمبر مں جب میں چھٹی پر تھا حکومت کی طرف سے اسمبلی میں وعدہ کیا گیا کہ ان کے مطالبے پر ہمدردانہ غور کیا جائے گا.اب بھور، سرکانہ ، گرگ اور نو میں کاخیال ہے کہ بھور کی میعاد ختم ہونے پر یہ تبدیلی عمل میں لائی جائے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارا قلمدان تجارت کے محکمے تک محدود رہ جائے گا.تجویز یہ ہے کہ مواصلات کا محکمہ نویس کے سپرد کیا جائے.امید ہے تمہیں اس تبدیلی پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا.میں نے عرض کیا مجھے اس تبدیلی پر سخت اعتراض ہے اور میں ایسے قبول کرنے کیلئے تیار نہیں.ہندو اخبارات نے شور مچا رکھا ہے کہ حکومت کا سب سے بڑا قلمدان کونسل کے سب سے کم عمر رکن کے پرد کیا جارہا ہے.میری کم عمری تو ایک بہانہ ہے اصل نشایہ ہے کہ یہ قلمدان مسلمان رکن کے سپرد نہ ہوا اور یہ معاملہ ایک ہند وسلم سوال بن گیا ہے جو میرے لئے پریشانی کا موجب ہے.آپ جانتے ہیں میں نے یہ قلمدان طلب نہیں کیا تھا.وزیر بند کی اور آپ کی خواہش تھی کہ میں یہ قلمدان سنبھالوں اس کا اعلان ہوتے ہی سندوں کی طرف سے اس تجوید کی مخالفت شروع ہو گئی.ادھر مسلمانوں کا ایک طبقہ میرے تقریر ہی کا مخالف تھا.اب اگر میں اس تبدیلی پر رضا مند ہو جاؤں تو وہ طبقہ کہے گا اسے خدمت کی تو کوئی خواہش نہیں اسے تو فقط کو غسل میں لئے جانے کی خواہش ہے خواہ اسے کوئی بھی محکمہ دیا جائے.اور اگر کوئی کچھ بھی نہ کہے تو بھی میں خود اس میں اپنی خفت محسوس کرتا ہوں.وائسرائے نے فرمایا مجھے اندیشہ تھا کہ تمہارا رد عمل میں ہو گا لیکن تم بھور سر کار اور نوئیں سے مل لو اور انکی بات سن لو ۱ سر بوزن بجور مبر تجارت دریلوے ۲۰- سریز بیندرانا تھ سرکار ممبر قانون - ۳ - سر جیمز گمرگ مبر مالیات کہ سرفر نیک نوشیں ممبر صنعت ڈاک و تارہ وغیرہ
وسم بعد میں گرگ سے بھی مل لینا.میں نے کہا مجھے اس میں کوئی تامل نہیں وائسرائے کی خواہش پر سر سوزن بھور سر فرنیک | دائرے نے اپنے پرائیویٹ سیکر یٹری سے کہا بھور وغیرہ نوئیں اور سر این این سر کار اراکین کونسل سے ملاقات سے ظفر اللہ کی ملاقات کا انتظام کرد - سرمونز نابور نے کہا میں سرکار اور نوشی کو اپنے ہاں بلالیتا ہوں ظفراللہ سے کہ وہ میرے دفتر میں آجائے.میں وہاں گیا تینوں اصحاب موجود تھے لیکن بات چیت سر تو بہن بھور ہی کرتے رہے.اسمبلی کی کارروائی کی مجلد رپور ٹوں کا ڈھیر ان کے سامنے رکھا ہوا تھا.ان میں نشان کے طور پر کاغذ کے سلپ رکھے ہوئے تھے.جو بات دوائر نے نے مختصر الفاظ میں ا مجھے بتائی تھی انہوں نے تفصیل بتائی اور ساتھ حوالے بھی پڑھ کر سنائے.وہ ہر دو تین منٹ کے بعد رکتے اور میری طرف دیکھنے میں خاموش بیٹھا رہا.آخر ان کی بات ختم ہو گئی اورمیں پھر بھی ویسے ہی خاموش بیٹھا رہا بھور نے میری طرف دیکھا پھر اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا.آخر مجھ سے کہا والا ہے چاہتے تھے ہم یہ معاملہ تم پر واضح کر دیں.یں نے پھر بھی کچھ نہ کہا تو دوسری مرتبہ پھر کہا.وائسرائے کی خواہش تھی کہ یہ صورت وضاعت سے تمہیں تبادی جائے.می نے کہا بہت تقوب آپ نے وضاحت کر دی.کیا وائراے نے کچھ اوربھی کہا تھا ، پو چھا کا مطلب، میں نے کہا اپنے وضاحت کر دی کی والہ نے نے یہ بھی فرمایا تھا کہ وضاح کے بعد کیا کرتا ہے؟ کہا اسکے متعلق تو کچھ ہنس کیا لیکن کیا تم اس بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتے.میں نے کہا میں صر اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے اس قلمدان کی خود خوامش نہیں کی تھی.اور کتونیہ کو دنہ یہ ہند نے یہ کہ کہ کہ وائرلیئے اور وہ دونوں چاہتے ہیں کہ میں یہ قلمدان سمبھالوں مجھے اس پر راضی کیا تھا.اب آپ کہتے ہیں آپ آسمبلی میں اس کے متعلق کچھ وعدہ کر چکے ہیں.جو کچھ آپ نے اسمبلی میں کہا وہ سو اکتوبر سے پہلے کا ہے.باد بود آپ کے اسمبلی کے اعلان کے وزیر سہند اور وائسرائے کا مجھے یہ قلمدان پیش کرنا اور میرا اسے قبول کرنا آپ کے اعلان کو منسوخ کرنے کے مترادف ہے.اگر آپ کا اعلان ۳ اکتومیہ کے بعد کا بھی ہو تو میں اس کا پابند نہیں اس دن مجھے یہ قلمدان پیش کیا جاچکا تھا گر بعدمیں کوئی تبدیلی مقصود تی توکم از کم مجھ سے مشورہ تو ہونا چاہئے تھا.اس پر سر فرنیک نوئیں نے کہا ظفر اللہ میرا تو اس معاملے میں کوئی دخل نہیں میں آئندہ گرما میں رخصت پر جانا چاہتا ہوں میں تو صرف یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ رخصت سے واپسی پر میرا قلمدان کو فنا ہو گا.میں نے کہا سر فر نیک مجھے کسی سے کوئی شکوہ نہیں.سر جوزف نے مرا رد عمل معلوم کرنا چاہا سومیں نے بیان کر دیا ہے.رخصت ہونے سے پہلے میں نے سر حوزہ ، بہور سے دریافت کیا کیا وائسرائے نے کوئی ہدایت دی ہے کہ متعلقہ محکمہ جات کی اہم کاروائیوں کے متعلق مجھے اطلاع دیکھاتی رہے.فرمایا ضرور ضرور میں خود نہیں چاہتا کہ چارج لینے تک تم محکمہ کی اہم کاروائیوں سے بالکل نا واقف رہو تمہیں پوری اطلاع ملتی رہے گی.میں نے دریافت کیا کیا لندن میں آئندہ ہائی کمشنر کے تقریر کے متعلق کچھ فیصلہ ہوا بہ فرمایا کوئی رسمی اطلاع تو وزیہ ہند کی طرف سے نہیں آئی.لیکن یہ واضح ہے کہ اس منصب پر میرے علاوہ کسی اور کے تقریر
کا امکان نہیں.قلمدان میں تبدیلی کے متعلق جو گفتگو ہوئی اس کا خلاصہ میں نے وائسرائے کی خدمت میں گذارش کر دیا اور یہ بھی بتا دیا کہ سر توزف مصور نے مجھے اطمینان دلایا ہے کہ وہ اہم معاملات کے متعلق کا غذات مجھے بھیجتے رہیں گے فرمایا بیشک بیشک میں نے تصور کو تاکید کر دی ہے.اچھا اب تم گرگی سے بھی مل لو تمہیں پہلے اس سے ملنے کا کبھی اتفاق ہوا ہے؟ میں نے کہا نہیں جناب فرمایا اس کے طرز گفتگو پہ نہ جاتادہ بہت منہ پھٹ ہے.لیکن آدمی اچھا ہے.وائسرائے کی خواہش پر سر میز گرگ می سر میز گرگ کی دم میںان کی قیام گاہ پر حاضر ہوا کچھ تو اسے رکن کو غسل سے ملاقات نے ہی بتا دیا تھا.کچھ میںان کی شہرت پہلے سن چکا تھا.میں نے اسی کے مطابق گفتگو شروع کی.ظفر اللہ خاں.سر جیمز ! ہمیں اس سے پہلے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا.یہ پہلا موقعہ ہے.آپ مجھے جانتے ہیں لیکن آپ مجھے نا پسند کرتے ہیں.ممکن ہے اس کی یہ وجہ ہو کہ آپ کو مبیسویں صدی میں کسی شخص کا داڑھی رکھنا پسند نہ ہو میکنی یہ میرا ذاتی معاملہ ہے جس میں کسی اور کا دخل نہیں.کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ اس کے علاوہ آپ کی ناپسندیم کی کا سبب کیا ہے؟ سر میز گرگ - ( ذرا حیرت سے ) تم تو بڑے صاف گو معلوم ہوتے ہو.میں بھی صفائی سے بات کرنے کا عادی ہوں.وجہ یہ ہے کہ فضل حسین سخت فرقہ پرست ہے مجھے معلوم ہے تم اس کے گہرے دوست اور سیاسی شاگرد ہو.ریلی کوت نیند کا م سے بڑا سرمایہ میں تمہیں شاید معلوم نہ ہو کہ ریل کے محکمے کا بجٹ حکومت ہند کے سارے بجٹ سے نہیں میں فوج اور دفاع کے اخراجات بھی شامل ہیں زیادہ ہے.اس محکمے کو ایک فرقہ پرست کے سپرد کر دینے کے معنی ہیں کہ حکومت ہند کو دیوانے کا سامنا کرنا پڑے گا.ظفر اللہ خان.میں آپ کی صاف گوئی کا ممنون ہوں.چونکہ اب مجھے ناپسندیدگی کی وجہ معلوم ہوئی میں اس کا جو دینے کی کوشش کر سکتا ہوں.اس صاف گوئی کی تہ میں بہت کچھ گدلا پن ہے میں سے آپ آگاہ نہیں.سر فضل حسین یقینا ہر وقت کوشاں رہتے ہیں کہ ہندوستانیوں کا قدم مبقدر جلد ہو سکے آگے بڑھتا جائے اور اس دور میں مسلمانوں کو بھی ان کا سائمہ اور مناسب حصہ ملتا ہے.اگر یہ فرقہ پرستی ہے تو وہ ضرور فرقہ پرست ہیں.مجھے بیشک یہ فخر حاصل ہے کہ وہ میر ساتھ شفقت سے پیش آتے ہیں اور میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے لیکن ان کا یہ خاصا نہیں کہ وہ دوسرے شخص کے معاملات اور اور اس کی ذمہ داریوں کے نبھانے میں خواہ مخواہ داخل دیں کیاء میں جب میں نے ان کے رخصت پر جانے کے وقت ان کی جگہ کام شروع کیا تو مجھے پہلے ایسے کام کا کوئی تجربہ نہیں تھا.میں نے ان سے درخواست کی تھی کہ وہ مناسب ہدایات دی ہیں.جوابت میں انہوں نے فرمایا تھا میں ہر وقت تمہارے ساتھ تو کھڑا نہیں رہوں گا تم اپنی ہمت سے تیرو گے یا غرق ہو گئے ہو شخص اپنے محکمے کے متعلق اپنی جگہ کام کرنے والے کو الیسا کہتا ہے اس کے متعلق کسی کو یہ انداشتیہ نہیں ہو نا چاہئے کہ وہ کسی دوسرے
۳۶۵ کے کام میں خواہ مخواہ دخل دیگا.ایک بات میں اپنے متعلق بھی کہ دوں.اگر یں وائسرائے کی کونسل کا رکن ہو تو اس منصب کی ذمہ داریوں کو بھلا یا کیا نبھانے کی ذمہ داری بھی مجھ پہ ہو گی.نہ فضل حسین پر نہ جیمز گرگ پر.سر جیمز گرگ.میرے لئے یہ امر باعث اطمینان ہوگا.ظفر اللہ خان.شکریہ ! اب فرمائے میری فرقہ پرستی کس طرح حکومت ہند کو دیوالیہ کرے گی.؟ سر میز گرگ.ملا نہ متوں کے معاملے میں فرقہ واری برتنے سے.ظفر اللہ خان.بہت خوب! آپ کو معلوم ہے کہ اعلیٰ ملازمتوں پر تقر پبلک سروس کمیشن کے امتحان کے نتیجے کی باد پر ہوا ہے.والے کی کون کار کن افرد کےانتخا میں کئی والا نہیں دے سکتا یہاں تک فرد داران نمائندگی کا سوال ہے حکومت ہند نے اپنی ہم جولائی کی جاری کردہ ہدایت میں مسلم نمائندگی کی شرح ۲۵ فیصدی مقرر کر دی ہے بیک وقتا فوقتا مجھ پرمسلمانوں کی طرف سے زور دیا جا سکتا ہے کہ میں اس تناسب کو بڑھانے کی کوشش کروں.اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حکومت کی اس ہدایت پر مکمل کرنے کے رستے میں روکیں پیدا کی جائیں.لیکن جب تک حکومت اس ہدایت میں تبدیلی نہ کرے میرا فرض ہو گا کہ میں اس بات کی نگرانی کردی کہ اس ہدایت پر پورا پورا عمل کیا جارہا ہے.کیا آپ کو اس سے اتفاق ہے یا اس پر کوئی اعتراض ہے ؟ سر جیمز گرگ.مجھے اتفاق ہے حکومت کی ہدایت پر عمل ہونا چاہیئے خواہ مجھے وہ ہدایت پسند ہو یا نہ ہو.لیکن اس سے تفاوت نہ میشی کی طرف جویند کمی کی طرف.ظفر اللہ خاں.یہ تو ہی اعلیٰ ملازمتوں کی صورت.ریلوے کے محکمے میں اس سے نچلا دور بعد لوئر گنز میٹر سروس کا ہے.اس میں تقریر امتحان کے نتیجے میں ہوتا ہے جس کا اہتمام ریلوے بورڈ کی نگرانی میں ہوتا ہے.کونسل کے رکن کا اس میں دخل نہیں.سب سے نچلا اور یہ سیارہ ڈی نیٹ سروسہ کا ہے.اس میں تقریر کی ذمہ داری ہر ریلوے سٹم کے ایجنٹ پر ہوتی ہے اور وہ اسے ہرمحکمہ کے اعلیٰ افسر کے سپرد کرتا ہے.یہاں تو کچھ ہوتا ہے اس کی تو صدائے بازگشت بھی کونسل کے رکن کے کانوں تک نہیں پہنچتی اب اور کیا باقی رہا؟ سر جمیز گرگ.ترقیات اور تبادے.ظفر اللہ خاں.سر میز شاید آپ کو معلوم نہیں کہ میرا انتخاب کو نسل کی رکنیت کے لئے وزیرہ ہند نے وائسرائے کے ساتھ مشورہ کرنے کے بعد خود کیا تھا.میں چار سال سے متواتر ان کے ساتھ گول میز کانفرنس اور مشترکہ کمیٹی میں کام کرتا رہا ہوں.وائسرائے کی کونسل میں چار ماہ وائسرائے کے ساتھ کام کر چکا ہوں.اگر میں لیے فہم اور عقل کا مالک ہوتا کہ مثلاً اآسام اور بنگال ریلوے کے چیف انجینیر کی اسامی تعالی ہونے پر ریلوے بورڈ کے ساتھ اٹھ بیٹھتا کہ میرے ایک مسلمان دوست کو جو نام تھے ویسٹرن ریلوے میں فلاں دفتر کا سپرنٹڈنٹ ہے اس خالی ہامی
پر مقرر کیا جائے تو کیا ایسے فاطر العقل کا انتخاب وزیر بہتر کرتے ؟ بیشک اعلی مناصب پر تقرریلوے بورڈ کی سفارش پر اور ایک حد تک کونسل کے رکن کی منظوری سے ہوتا ہے اور اس سے اوپر وائسرائے کی منظوری سے.لیکن اگرو نہ یہ نا معقول طور پر ضد کرے تو چیف کمشنر کو حق ہے کہ ده خود حاضر ہو کر وائسرائے کو حقیقت حال سے آگاہ کرے.بیشک ایک مندی نا معقول انسان بہت سی شکلات پیدا کر سکتا ہے لیکن ایک شخص کو مندی اور بہٹ دھرم قرار دینے سے پہلے اس کے متعلق کچھ تجربہ ہونا چاہئے.یونی بے بنیاد رائے قائم کر لینا خود غیر معقول ہے.سر جمیز گرگ.درست ہے.اصل حقیقت تجربے سے بھی معلوم ہوسکتی ہے.میں ممنون ہوں کہ تم نے میاں آنیکی نرحمت اٹھائی اور میرے ساتھ بات کر نیکے لئے وقت نکالا.میں نے اس گفتگو کا خلاصہ بھی وائسرائے سے بیان کر دیا.وہ محفوظ ہوئے اور کہا کاش میں پردے کے پیچھے سے تم دونوں کی گفتگوسن سکتا.لاہور واپس آنے پر میں نے یہ ساری کیفیت مختصر الفاظ میں وزیر بند کی خدمت میں نکھرتی آخرمیں لکھامیں میدان میں مجوزہ تبدیلی پر رضامند نہیں لین میں وارے کیلئے اور آپ کیلئے کوئی الجھن بھی پیا نہیں کرنا چاہتا.میری رائے میں اس مشکل کا حل ہی ہے کہ آپ وائسرائے کی کونسل کی رکنیت کیلئے نیا انتخاب کر لیں کچھ دنوں بعد ان کا جواب آیا.تمہارا خط ملا ہے.میں نے وائسرائے کو خط لکھا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ تمہیں کسی مشکل کا سامنانہ ہو گا.مجھے وائسرائے نے پھر دہلی طلب کیا اور فرمایا : - My MY DEAR I SAMMY, HOAR HAS SENT ME A STINKER مائی ڈیہ سرسیموئل ہور نے مجھے سخت ڈانٹ کا خط لکھا ہے ) اگر تمہیں قلمدان میں تبدیلی منظور نہیں تو میں اس پہ زور نہیں دوں گا.میں نے تو بھور سے کہا تھا کہ یہ بات اچھی معلوم نہیں ہوتی کہ تمہارے وقت میں تمہارے پاس دونوں محکمے رہے اور تمہارے جانے پر تمہاری جگہ آنیوالے سے ایک محکمہ لے لیا جائے.اس نے کہا میں ریلوے کا محکمہ ابھی سے چھوڑ دیتا ہوں.پھر توظف اللہ کو شکایت نہ ہوئی.میرے پاس صرف تجارت کا محکمہ ہوگا وہ مجھ سے اس کا چارج سے لیگا.میں نے اس سے کہا یہ تو چال کی ہوگی کہ ساڑھے چار سال تک دونوں محلے اپنے پاس رکھ کر جاتے وقت تم ایک ملک کسی دوست کے سپر د کر دو تاکہ تمہا رے جانشین کے چارنت میں ایک ہی محکمہ جائے.اس وقت تو اس طور پر یہ بات مل گئی.معلوم ہوتا ہے سرسوزن بھور کو اس سے ملا ہوا کیونکہ با وجود داٹرائے کی تاکید کے اور اپنے دعارے کے انہوں نے درمیانی پانچ مہینوں سے نہ ائد عرصے میں مجھے ایک لفظ تک ان امور کے متعلق بال نہ کیا جو ان کے قلمدان میں شامل تھے اور جو نہ یہ غور بات یہ بحث آتے رہے اور میں نے جب چارج لیا تو میں بقول ان کے الدامورہ کے متعلق کورے کا کورا تھا.
مئی ۱۹۳۵ء میں میں نے قلمدان وزارت کا چارج لیا.جس میں تجارت SWEET | by میں مقدمات کی پیروی ریلوے کے محکمہ جات شامل تھے نومبر سے وزارت کا چارج لینے کے ایک دن پہلے میں نے اپنی قانونی پر سیٹیں جاری رکھی اور عدالتی کام میں مصروف رہا.اس عرصے میں میں نے نی دیوانی کاملنا بند کر دیا.کیونکہ ٹی دیوانی اپیلوںکی سماعت میرے بقیہ عرصہ پریکٹس میں مکن نہیں تھی.البتہ " الیسا دیوانی کام میں کرتا رہا تومیں پہلے سے لے چکا تھایا جس کی سماعت کا وقت قریب آنے پر مجھے اس میں وکیل مقرر کیا جاتا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کچھ ماہ کے عرصے میں میرے کام میں فوجداری کام کا تناسب پہلے کی نسبت بہت بڑھ گیا.اس کی ایک بڑی وجہ یہ ھی تھی کہ فوجداری اسپلیں اول اجلاس میں جس میں چیف جسٹس بیگ صاحت شمولیت فرماتے تھے سنی جاتی تھیں اور اس اجلاس میں میری متواتہ کامیابی کی شہرت بہت جلد پھیل گئی تھی.پھر تو اب بھی ہونے لگا کہ میں ماڈل ٹاؤن سے اپنے دفتر میں صبح آٹھ بجے پہنچتا جو ہائی کورٹ کے عقب میں تھا اور چودھری فضل داد صاحب ایک پھانسی کی سنہا کے خلاف اپیل کی طبع شدہ پیر بک میرے سامنے رکھ دیتے کہ یہ اپیل آج کی فہرست میں پہلے دوسرے یا تیسرے نمبر پر ہے.میں احتجاج کرتا کہ اتنے تنگ وقت میں پوری تیاری نہیں ہو سکتی.وہ فرمانے ملزمان کے وارث میرے کمرے میں آبدیدہ بیٹھے ہیں اور بعد مست ملتی ہیں کہ آپ انہیں مایوس نہ کریں.آپ تامل کریں گے تو وہ اس کمرے میں آکر دا د ملا کریں گے.آخر آپ مان جائیں گے.بہتر ہے کہ وہ وقت جو یوں صرف ہوگا تیاری میں صرف کریں.میں دروازہ بند کردیتا ہوں کسی کو آنے نہ دوں گا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے فضل سے تیز نیم عطا فرمایا ہے.بہت جلد تیاری ہو جائے گی.وہ مدد فرمائے گا.بیجھے میں جاتا ہوں اور ان کو تسلی دیتا ہوں کہ آپ تیاری میں مصروف ہیں.میں بیچاپر گئی میں نارمان لیتا.میں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ توفیق سے کسی کی پوری تیاری کرتا حسین کے دوران میں میں اس بات کا پورا لحاظ رکھتا کہ کونسی دلیل ، شہادت کا کونسا پہلو اور انسانی فطرت کی کونسی خامی چیف جسٹس کے مزاج پر اثر پیدا کر نیوالی ہوگی.اس کے مطابق میں ایک مختر نوٹ تیار کر لیا اوراپنے ذہن میں ان کو پیش کرنے کی ترتیب طے کرلیتا بفضل الله طریق را کامیاب ہوتا کبھی کبھی مجھے ادانہ ہوتا کہ شاید آج کے کیس میں میں کامیاب نہ ہوسکوں اور میں الہ تعالی کے حضور دعائیں اور زیادہ التجا اور الحاج کرتا.خاص مشکل کیس کے متعلق والدہ صاحبہ کی خدمت میں بھی دعاء کے لئے گذارش کرتا.عزیز اسداللہ خان بیرسٹر ان ایام میں میرے ساتھ کام کرتے تھے.اور ان کی رہائش دفتر کے اوپر کی دو منزلوں میں تھی.والدہ صاحبہ صبح میرے ساتھ ہی ماڈل ٹاؤن سے تشریف لے آتیں اور شام کو میرے ساتھ تشریف لے جاتیں.فرمایاکرتی تھیں بیٹا تمہارے موکل نہیں جانتے کہ جب وہ تمہیں وکیل کرتے ہیں تو ساتھ ہی میں بھی اللہ تعالی کے حضور ا کی طرف سے وکیل بن جاتی ہوں.تم عدالت میں جاتے ہو تو یں دعاوں میں مری ہو جاتی ہوں یا اللہ تواپنے فضل دور i
سے میرے بیٹے کو سر فروٹی سے واپس لائیو.والدہ صاحبہ مقدمات میں بھی دو میپی لیں.ایک دن شام کے کھانے کے بعد میں نے ایک کیس کا ذکر کیا جس کی سماعت دوست دن صبح کو ہونے وای تھی اور دعا کیلئے گذارش کی.یہ سنا کہ ملزم پر اپنی وی کے قتل کا الزام ہے میری بیوی نے کہا یہ ہواتو ضرور پھانسی پر لٹنا چاہیے.والدہ صاحبہ نے فرمایا مٹی میں تو ہر ایک کے لئے خدا سے دم کی ہی التجا کرنی چاہئے.ہمیں کیا معلوم اس نے یہ جرم کیا ہے یانہیں اور اگر کیا بھی ہے تو اس کے بھانی پر ٹھکنے سے اس کی بوی تو واپس آنہیں جائے گی.اللہ تعالی انتہار ہے.اس سے بخشش ہی کا طلبگار ہونا چاہیئے.مجھے دوسری شام جب میں نے ذکر کیا کہ آپ کی دعا قبول ہوی اور اللہ علی نے اس پر یہ فرمایا کہ اللہ تعالی بہت بخشنے والا ہے.چیف جسٹس بیگ پہلے دن سے یہ دیکھو کہ کہ میں ان کے نشا کے مطابق کیس تیار کرتا اور پیش کرتا ہوں میری گذارشات توجہ سے سنتے اور ساتھ ساتھ تائیدی جملے کہہ کر میری حوصلہ افزائی فرماتے.یہ تو مجھے یاد نہیں پڑتا کہ انہوں نے میری کسی گزارش کو کبھی تو کیا ہو.البتہ بعض دفعہ الی ضرور ہوا کہ نہوں نے میری گذارش سے بھی بڑھ کر میرے حق میں فیصلہ صادر کیا.ضلع گو جرانوالہ کے ایک گاؤں کے کچھ لوگ جب کبھی کے میلے سے اپنے گاؤں کو لوٹ رہے تھے.رستے میں ایک تحریف کے ساتھ تکرار ہوگئی ملزمان چارکس تھے.انہوں نے لاٹھیوں سے حریف کو زدو کوب کیا.اس کی تین بچارہ پسلیاں ٹوٹ گئیں اور بیٹھ کر ایک ضرب سے اس کا ایک گردہ پھٹ گیا جس سے اس کی موت واقع ہو گئی.چاروں ملزمان کو قتل عمد کے جرم میں پھانسی کی سزا ہوئی میں نے اپیل میں ان کی طرف سے دو گزارشات کیں.اول ان میں سے دو کے متعلق شہادت سے ثابت کیا کہ جس معاملے پر تکرار ہوئی تھی اس کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں تھا.اسلئے کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ متوفی کے ساتھ الجھتے.پھر شہادت سے یہ بھی ثابت کیا کہ بعض گواہان کو ان دو کے ساتھ سابقہ عداوت تھی.ان دو کے متعلق میں نے گذارش کی کہ انہیں شک کا فائدہ ملنا چاہئے اور انہیں بہری ہو کر رہا ہونا چاہیے.دوسرے میں نے متوفی کی ضربات کی بناپر گذارش کی کہ دوسرے دو ملزمان کا تم قتل عمد کی حد تک نہیں پہنچتا.پہلی کا ٹوٹنا ملک ضرب نہیں ہوتا اور متوفی کی موت پہلی ٹوٹنے سے نہیں ہوئی.گردے کا پھٹنا اتفاقیہ امر ہے.اگر مغرب دو اپنے ادھر ادھر لگتی تو ضرب خفیف قرار دی جاتی.اندریں حالات ان دو ملزمان کا محروم ضرب شدید قرار دیا جانا چاہئیے.یا زیادہ سے زیادہ مجرم زیمر دفعه ۳۰۰ حصہ دوئم تعزیرات ہند اور جو دفعہ بھی عاید تو پانچ سال قید با مشقت مناسب سزا ہونی چاہیئے.چیف جئیں.پہلی لوٹنا معمولی بات ہے.پرنس آف و لطیہ کئی دفعہ گھوڑے سے گر کر منسلی توڑ چکے ہیں.اور کئی لوگ ایک گردے کے ساتھ دوڑتے پھرتے ہیں ؟ ایڈوکیٹ منزل کی بحث سنتے کے بعد فرمایا.چودھری صاحب آپ نے ہمارے لئے ایک مشکل پیدا کر دی ہے مجھے مجھے اندیشہ ہوا کہ آج شاید میری دلیل تسلیم نہیں کی جائے گی ، آپ نے استغاثہ کی شہاد کو ماری نگہ میں مشتبہ کر دیا ہے ، اگر دو
ملزمان کے خلاف گواہوں نے جھوٹ بولا ہے.تو ہم دوس کے دو ملزمان کے خلاف اسی شہادت کی بنا پر جرم کیسے قائم رکھ سکتے ہیں.اس صورت میں ہم چاروں کو بری کرنے پر مجبور ہیں.میرے فاضل رفیق کی بھی یہی رائے ہے.چنانچہ چاروں ملزم پری ہو کہ یہ نا ہوئے.چیف جسٹس کے اجلاس میں ایک بارمجھے کچھ مشکل کاسامنا ہوا.ملک وال کے اسٹیشن کے چیف گدرس کاری پر توہندو تھے غلین کے تین الزام عائد کئے گئے میسر فیلیوس میریٹ درجہ اول گجرات کی عدالت میں مقدمہ چلا ملزم کے چھوٹے بھائی گجرات میں وکیل تھے.وہ بھی ملزم کی طرف سے پیروی کر رہے تھے اور ایک سیر وکیل بھی ان کے ساتھ شامل تھے جب بیٹے نے.ملزم کو بری کردیا.سرکار کی طرف سے ہائی کورٹ میں اپیل ہوئی.اپیل میں ایک الزام کو ترک کر دیا گیا.لیکن دو کو قائم رکھا گیا.ملزم کے چھوٹے بھائی میرے پاس آئے اور کہا میں چودہ سال پہلے لاء کالج میں تمہارا شاگرد رہ چکا ہوں.اس تعلق کی بنا پر تمہارے پاس آیا ہوں کہ تم اس مصیبت میں ہماری مد کرو.میں نے درد کیا کہ اس مقدمے میں کے پوسٹروں کی پڑتال کی ضرورت ہوگی اور میں اس فن سے دور کی شناسائی بھی نہیں رکھتا.آپ کسی ایسے وکیل کے پاس جائیں جسے ان امور کی واقفیت ہو اور جو پوری توجہ سے جبڑوں کی پڑتال کر سکے.وہ مصر موٹے کہ میں ان کے بھائی کی طرف سے ضرور محبت کر دی.آخر کار میں رضامند ہو گیا تا کہ ان کے دل میں یہ خیال نہ ہو کہ میں ان کے ہندو ہونے کی وجہ سے یہ ذمہ داری نہیں لینا چاہتا.میرا تامل اس وجہ سے بھی تھا کہ مجسٹریٹ کا فیصلہ بالکل بودا تھا میں کے پڑھنے سے زمین پر یہ اثر ہوتا تھاکہ ملزم کی ہے جبار عایت کی گئی ہے اپیل کی سماعت چیف جسٹس کے اجلاس میں تھی.ان کے ساتھ مٹر جسٹس زندگی لالی شامل تھے.سرکار کی طرف سے دیوان رام لال صاحب ایڈوکیٹ جنرل پر دی کر رہے تھے.ایڈوکیٹ جنرل نے کو الف بیان کئے.رجبڑوں کے اندرا جات کی طرف توجہ دلائی اور کہا جناب عالی ملزم کا تحریم واضح طور پہ ثابت ہے.چیف جسٹس.یہ بالکل واضح کہیں ہے.ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ اس شخص نے اتنی جرات کیسے کی ؟ ایڈوکیٹ جنرل.جناب عالی اب میں آپ کی توجہ دوسرے الزام کی طرف منعطف کراتا ہوں.چیف جسٹس - مٹر ایڈوکیٹ دوسرے الزام کے متعلق آپ کیوں زحمت اٹھاتے ہیں ؟ کیا ایک تجرم ثابت ہو جانا کافی نہیں ؟ ایڈوکیٹ جنرل.جناب عالی ایک تحریم بھی کافی ہے.لیکن دوسرا جرم بھی ثابت ہو تو سزا تجویز کرنے میں آپ کو مدد ملے گی.چیف جسٹس سرکاری روپیہ کا ملین سنگین جرم ہے آپ فکر نہ کریں.ہم سنا میں نمی نہیں کریں گے.چودھری صاحب آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں ؟ ظفر اللہ خاں.جناب عالی اگر ایڈوکیٹ جنرل مزید کچھ کہا نہیں چاہتے تو میری گذارش بہت مختصر ہے.
اور ملزم کے ارتکاب جرم کو معقول شبہ کی گنجائش کے بغیر سر ہلو سے محکم طور پر ثابت کرنا اتفاقے کا فرض ہے کریت کے حکم کے خلاف اپیل کرنے میں تو اس باد ثبوت میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے.میرے فاضل دوست نے صرف اتنا کیا ہے کہ مقدمے کے کوائف بیان کرنے کے بعد متعلقہ رجبرات میں سے چند اندریا جات کی طرف آپ کو تو جہ دلائی ہے بعین سے بادی النظر می ملزم کی فرمہ داری کا قیاس ہو سکتا ہے.لیکن جرم ثابت کرنے کیلئے اتنا کافی نہیں مجسٹریٹ نے بھی ان اندراجات پہ توجہ کی ہے اور اپنے فیصلے میں وجوہات دیئے ہیں کہ کیوں ان اندراجات کی بنا پر جرم ثابت ہونا قرار نہیں دیا جا سکتا.میرے فاضل دوست نے ان وجوہات کے متعلق ایک لفظ تک نہیں کہا جس سے لازم آتا ہے کہ میرے فاضل دوست ان وجوہات کی تردید سے قاصر ہیں.اس صورت میں اپیل خارج ہونا چاہیئے.مسٹر جسٹس زندگی لال.مسٹر ایڈوکیٹ جنرل ! میں بھی حیران ہو رہا تھا کہ آپ نے اپنا فرض پورے طور پر ادا نہیں کیا اور ہمارے فرضوں میں پختہ طور پر یہ تاثر پیدا نہیں کیا کہ فاضل مجسٹریٹ کا فیصلہ قطعی طور پر غلط اور بے جا ہے.جب تک ہم اس نتیجہ پر نہ نھیں آپ اپنی اپیل میں کامیاب نہیں ہو سکتے.فوجداری مقدمات میں تو اگر ملزم کی طرف سے بھی اپیل ہو جب بھی بار ثبوت استغاثے پر ہوتا ہے اور آپ کی اپیل ریت کے خلاف ہے.ایڈوکیٹ جنرل نے میری طرف ٹیڑھی نگاہ سے دیکھا اور مزید بحث کے لئے کھڑے ہوگئے.میری کوشش یہ تھی کہ وہ یہ جبڑوں کے اندراجات کے تھیلے میں الجھیں اور میری باری آنے تک جج صاحبان اس تھی سے پریشان ہو جائیں جس کا میں فائدہ اٹھا سکوں.ایڈوکیٹ جنرل کی چالی یہ ھی کہ یہ الجھن پیدا کرنے کی ذمہ داری مجھ پر ہوتاکہ مجھ صاحبان پر یہ اثر ہوکہ معاملہ توصاف ہے لیکن ملزم کا وکیل خواہ مخواہ الجھن پیدا کر رہتا ہے.انکی یہ چال کامیاب نہ ہوئی بلکہ حج صاحبان کی طبائع پر الٹا نہ ہوا کہ ایڈوکیٹ جنرل اپنی ذمہ داری نبھانے سے جی تجماتے ہیں ضرور ان کے کیس میں کچھ کمزوری ہے.تمہیں احتیاط کرنی چاہیئے کہ ہم ملزم کوکسی جائز فائدے سے جو قانون اسے دیتا ہے محروم نہ کر دیں.ایڈوکیٹ جنرل کو دن کا اکثر حصہ ریسٹڑوں کے اندراجات کی وضات کرنے اور نہ بانی شہادت اور اندرا حیات میں تطابق ظاہر کرنے میں صرف کرنا پڑا.جب انہوں نے بحث ختم کی تو میرا کام بہت حد تک ختم ہو چکا تھا.ایک تو چیف جسٹس پریشان ہو رہے تھے.کہیں بہت لمبا ہو گیا تھا.وہ اوسطاً دن میں چھ سات پھانسی کی اپیلیں فیصلہ کرنے کے عادی تھے اور یہاں چینی کی چند طوریوں کے کرائے کی رقوم کے عین کی گتھی سلجھاتے پورا دن صرف ہوگیا.اور ابھی صف ستانی کرنے بحث ختم ہوئی تھی.انکی طبیعت میں یہ تاثر پیدا ہونے لگا کہ اگر جرم ثابت کرنے کے لئے استغاثے کو اتنے پیچدار مراحل میں سے گذرنا لازم ہے تو ہر قدم پر شک کا امکان باقی رہ جاتا ہے.مسٹر جیٹس ننگی لال بحث کی طرف توجہ کر رہے تھے.لیکن مجھے انکی طبیعت کا تجربہ تھا کہ ذرا بھی "
شک کی گنجائش باقی رہ گئی تودہ چیف جسٹس پر سزا دینے کے لئے زور نہیں دیں گے.ظفر اللہ خان - سناب عالی میں اپنے فاصل دوست کا ممنون ہوں کہ انہوں نے آپ کی توجہ مسل کے ضروری حصوں کی طرف منعطف کرادی ہے جس سے آپ نے دیکھا کہ زبانی شہادت صرف ملزم کے دفتر کے بانی عملے کی ہے اور اس شہادت میں یہ کمزوری ہے کہ اس قیاس کا بہت امکان ہے کہ حملہ گواہان یا ان میں سے بعض خود اس مبین میں شریک تھے.کیونکہ غالب قیاس ہے کہ انکی شرکت یا کم سے کم ان کی مجرمانہ غفلت کے بغیریہ عین نہیں ہو سکتا تھا.رجسٹر کے جملہ اندرا جات کا مین پر استغاثے کا انحصار ہے یقینی طور پر ملزم کے قلمی ہونا ثابت نہیں.(زبانی شہادت کے بعض حصوں اور اندراجات میں سے بعض کی طرف توجہ دلانے کے بعد مں نے گذارش کی) جناب عالی اس تمام سردرد کی کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ممکن ہے ملزم نے اکیلے رقوم منین کی ہوں.ممکن ہے اس نے دفت کے محلے کے تمام یا بعض افراد کے ساتھ مل کر یہ رقوم معین کی ہوں اور ممکن ہے کہ دفتر کے عملے کے باقی افراد یا ان میں سے بعض نے یہ رقوم عین کی ہوں اور الزام ملزم کے سر تھوپ دیا ہو.میرا فرض نہیں کہ میں ملزم کو بے گناہ ثابت کروں.استغاے کا فرض ہے کہ اسے مجرم ثابت کرے.قیاس یا غالب قیاس کہ ملزم نے یہ جرم کیا ہے اسے مجرم ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں.ہو شہادت تحریری یا زبانی آپ کے سامنے موجود ہے اس سے ملزم کے خلاف تحریم ثابت نہیں ہوتا.بیشک امکان تحریم ظاہر ہوتا ہے.زیادہ سے زیادہ غالب قیاس پیدا ہوتا ہے کہ اس سے جرم سرزد ہوا.اور مں پورے وثوق سے یقین رکھتا ہوں کہ آپ محض غالب قیاس کی بنا پر ملزم کو مجرم قرار نہیں دیں گے.میں نے غالب قیاس کی محرک ملزم کے ملوث ہونے کو تسلیم کر کے ایک طرف تو جج صاحبان کے ضمیر کی نلی کردی اور دوسری طرف ان کی قانونی ذمہ داری کے احساس کو ابھا نہ دیا.جب ایڈوکیٹ جنرل نے جواب دینا شروع کیا تو جج صاحبان آرام سے بیٹھے اطمینان کا سانس لے رہے تھے کہ اس تھیلے سے خلاصی کا راستہ نکل آیا.جو سنی ایڈوکیٹ جی نے جواب تم کیا چیف جسٹس نے فرمایا.مسٹ ایڈوکیٹ جنرل ہم نے دو دن اس کیس پر ضائع کئے ہیںاور ہم اس نتیجے پر پنچے ہیں ک ریل کے محلے میں ہر کوئی جھوٹ بولنے کا عادی ہے.اس صورت میں ہم اس بد قسمت لزم کو سز کے لئے چن لیتے کی کوئی وجہ نہیں دیکھتے.ہم اپیل خارج کرتے ہیں.دیوان رام لال صاحب ایڈوکیٹ جنرل نے ایک دن مذاق میں مجھ سے فرمایا، ظفراللہ ! اب تمہارے وزارت کا عہدہ سنبھالنے کا وقت قریب آرہا ہے.یا توتم میرے ساتھ یہ دوستانہ مرد کا سلوک کرد که تم پر مکی بند کردو اور یا چرمی تمہارے یہاں سے رخصت ہونے تک رخصت لے لیتا ہوں.مقدمات کا فیصلہ تو ایک طرف ہو یا دوسری طرف اس سے مجھے پرا نی نہیں لیکن مجھے ان یہ ہے کہ اگرکسی رو تم نے یہ کہ دیا میرا نام تو گناہ ہے البتہ ایل ایڈوکیٹ جنرل نے کیا ہے تو چیف جسٹس پھانسی کا رسہ میرے گلے میں ڈال دیں گے.لاہور سے رخصت ہونے کے چند دن قبل گورنمہ اور وزن را کی طرف سے مجھے الوداعی ڈنہ دیا گیا.میزبانوں نے تو از راہ
اتلطف ریکی تعریفی کلمات کہنے ہی تھے لیکن چیف جٹس جنگ نے ایک رقعہ لکھ ر گورنر کو بھی کہ وہ بھی کچھ کہنا چاہتے ہیں.اپنی باری آنے پر انہوں نے بہت تعریفی کلمات فرمائے اور آنجہ میں کہا ایک لحاظ سے میں نے اطمینان کا سانس لیا ہے کہ یہ انتباہی سے جانیوالا ہے.کیونکہ اس کی یہاں موجودگی اس صوبے کے ان وامان کے لئے خطرے کا باعث ہو رہی تھی.جب یہ سیر اعلاس کے کمرے میں داخل ہوتا تھا تو میں چوکس ہو جاتا تھا مبادا اس کے زور خطابت کے اثر کے تحت مجھ سے سرکار کے حق میں کوئی بے انصافی سرزد ہو جائے.باوجود اس کے فوت یا تک پہنچ گئی تھی کہ کوئی شخص چاہے کسی بھی جرم کا مرتکب ہوا ہو اسے کہیں کر لیتا تو صاف بچ نکلتا تھا.جب تقریروں کا سلسلہ ختم ہو گیا اور مہمان اور میزبان کرسیوں سے اٹھ کہ بات چیت میں لگ گئے تو میں نے چیف جسٹس سے کہا آپ نے جو کچھ فرمایا میں اس کیلئے نہایت ممنون ہوں.لیکن آپ کی ایک بات پورے طور پر مجھے نہیں تھی.پوچھا وہ کونسی؟ میں نے کہا آپ نے فرمایا جو ملز مجھے وکیل کرتا تھا وہ ان کے نکلا تھا.فرمایا اس میں کیا لی تھی کیا میں نہیں میرے اس میں تم ہمیشہ کامیاب رہے ہو ؟ میں نے کہا یہ درست ہے لیکن میں آپکے اعلان میں قدم رکھنے سے پہلے ملزم پر خاصا حجرمانہ کرلیا کرتا تھا ہنس کر فرمایا ہاں مجھے کیا چاہیے تھا کہ سر عام پھانسی اور قید سے بچ نکلتا تھا.خان بہادر نادر شاہ میرے پرسنل اسٹنٹ خان بہادر نادرشاہ صاحب کی عمر چنین سال سے تجاوز کر سکی تھی اور میاں صاحب ان کی ملازمت کی میعاد یں توسیع بھی فرما چکے تھے.جب تک و اساس سال کی عمر کو پہنے میں بھی قواعد کے مطابق سال بسال ان کی ملازمت کی میعاد میں توسیع کرتا رہا اس کے بعد قواعد کی رو سے توسیع کی گنجائش نہ تھی.ملازمت ختم کرنے پر خان بہادر صاحب کراچی میں رہائش پذیر ہوئے مجھے جب بھی کراچی جانے کا اتفاق ہو ت میں ضرور ان کی خدمت میں حاضر ہوتا.وہ بڑے فرض شناس محنتی اور دیانتدار افسر تھے.سر جیمز گرگ کی صاف دلی مجھے شاپنا بھی دیتے ہوئے کہ ایک پر پانچ بجے کے قرب مرتی ارگ دفتر سے اپنے مکان کو لوٹتے ہوئے رہتے ہیں میرے مکان ریٹریٹ پر چند منٹ کیلئے رک گئے.میں نے ناشتے میں شامل ہوئے و کہا فرمایا مجھے جلدی ہے اس وقت زیادہ ہیں ٹھہر سکتا صرف دو باتیں کہنے کیلئے آیا ہوں.ایک تویہ کہ تمہارے عمران کی تبدیلی کے متعلق جو سازش بھور نے کی تھی میں اس میں شامل تھا.اب اس کی اصلیت مجھ پر کھلتی جارہی ہے.بھور بہت چالاک شخص تھا.اس کے جانے کے بعد مجھے اس کی چالاکیوں کاعلم ہونا شروع ہوا ہے.ایک میں اندھیرے میں ریلہ دوسری بات یہ ہے کہ تمہارے دونوں محکمے ایسے ہیں جن میں وزارت خزان کو منوانہ دلچسپی رہتی ہے.اور محکمہ تجارت کی مسلمیں تو ہر روز میرے پاس آتی ہیں.میرے تمہارے درمیان بہت دفعہ اختلاف ہوگا.یہ کوئی فکر کی بات نہیں.ہم آپس میں تبادلہ خیالات اور مقاسمت با ہمی سے فیصلے پر پہنچ جایا کریں گے.جو بات میں اس وقت کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں نے ہندوستانیوں میں یہ کمزوری دیکھی ہے کہ ذمہ داری لینے سے گھبراتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ آخری ---
۳۷۳ فیصلے کی ذمہ داری کسی اور کی طرف منتقل کر دی جائے.تمہارے چارج لینے کے وقت سے میں نے دیکھا ہے کہ کا تم نودہ ایک نتیجے پر پہنچتے ہو اور صفائی سے اسے بیان کرتے ہو اور اس کے متعلق ذمہ داری لیتے ہو.مجھے اس سے بہت اطمینانی ہوا ہے.اچھا پھر ملیں گے.مجھے ان کے ساتھ چار سال کام کرنے کا موقعہ ہوا یا ر ہا ہاہا آپس میں اختلاف بھی ہوا.بہت لوگ ان کے الفاظ کی نا ملائمت کے شاکی تھے مجھے کبھی ان سے یہ شکوہ پیدا نہیں ہوا.ہمارے اختلافات بہت طلبہ بات چیت سے ہموار ہو جایا کرتے تھے.وہ پنی بات کہنے کے بعد بہت جلد مناسب تصفیے کی طرف مائل ہو جانے تھے.جب میں نے چارج یا گندم کی درآمد پر محصول عاید تھا جس کے دو سخت مخالف تھے اس محصول کے متعلق پر ال غورہ ہوتا کہ جاری رہے یا ہٹا دیا جائے.زمیندار طبقے کی طرف سے بہت خدشہ ظاہر کیا جاتا تھا کہ محصول مہا دینے سے باہر سے سنتا غلہ آنا شروع ہو گا اور گندم کی قیمت ملک میں اتنی گر جائے گی کہ زمیندار طبقہ کو مصبیت کا سامنا ہو گا.سب حالات کا جائزہ لینے کے بعد میری رائے ہوئی کہ آئندہ سال یہ محصول تجاری رہنا چاہیئے.میں نے نسل پراپنی رائے لکھی اور مسل وزیر خزانہ کے سامنے رکھی.میرا نوٹ پڑھ کر مسکرائے اور فوراً لم اٹھا کر لکھ مجھے شدید اختلف ہے لیکن میں ہر ایک سے لڑائی مول لینا نہیں چاہتا اسنے نا چار اپنی رضامندی دنیا ہوں.جب اپنی میعاد ختم کر کے انگلستان چلے گئے تو بھی ہمارے دوستانہ تعلقات قائم رہے.وہ ہندوستان کے آئینی اور سیاسی مستقبل میں بہت دلچسپی لیتے رہے.مجھے چارج ملئے ابھی ایک مہینہ بھی نہیں ہوا تھا کہ وائسرائے کی کونسل کے ایک اجلاس کے ایجنڈے میں قلمدانوں کی تقسیم کا مسلہ درج ہو کہ پھر وہی قضیہ سامنے آگیا.میں اس رائے سے ملا.انہوں نے دریافت فرمایا اب تمہاری کیا رائے ہے.میں نے عرض کیا رہی ہو تو میر ھی تھی بلکہ اس سے بھی مضبوط تھے.اب تو میں چارج ہے چکا ہوں.اب اگر میرے قلمدان کو تراش کر نصف سے کم کر دیا جائے توبھی سمجھا جائے گا کہ میں اپنی ذمہ داری کو سنبھالنے میں پورا نہیں اترا.وائسرائے.تمہیں معلوم ہے تو میں رخصت یہ جانیوالا ہے.اس نے نہ درہ دیا ہے کہ اس کے جانے سے پہلے اسے معلوم ہونا چاہیئے کہ واپسی پر کونے محلے اس کے پرد ہوں گے.پھر سرکار کہتا ہے.اس کے پاس کام لنا کم ہے کہ اس کا اکثر وقت فارغ رہتا ہے.وہ ناول پڑھتے پڑھتے اکتا گیا ہے.اسے کچھ زائد کام منا چاہیئے.ظفر اللہ خان.میں آپ کو وقت میں نہیں ڈالنا چاہتا.اتنے عرصے میں کچھ بوجھ تو پ کا ہلکا ہو گیا ہے سر توزن بھر چلے گئے ہیں.اور گرگ اب کس تبدیلی کے خواں نہیں سکا اور اگر واقعہ میں کام کی کمی کی شکایت ہے
تو اس کے تدارک میں میں مدد کر سکتا ہوں.میرے تجارت کے لکھے میں اس وقت وہ اہم مسائل : COMPANYLA WINSURANCE LAW کی نمائیم ہیں.یہ دونوں پیچیدہ اور وقت طلب مسائل ہیں.میرے پاس وافر وقت نہیں اگر یس این این سر کار بند کر یں.تومی یہ دونوں مسائل ان ے سپرد کرنے کو تیار ہوں.دو تین سال تو ان کو ناول پڑھنے کی فرصت نہیں رہے گی.آپ سال بھر کے بعد تشریف لے جانے والے ہیں.آپ کے جانشین مکن سے معلمانوں کی نئی قسیم کرنا چاہی.کیا یہ بت نہ ہو ا کہ آپ کے وقت میں کوئی تبدیلی نہ ہو اور جب نئے وائسرائے آئیں تو وہ جیسے مناسب سمجھیں قلمدان تقسیم کردیں ؟ وائسرائے.تمہاری تجونیہ مجھے تو معقول معلوم ہوتی ہے اگرتم کمپنی او اور انشورنس لاء کی ترمیم کے مسائل ابھی سے سرکا ر کر دینے کو تیار ہو تو یہ مسئلہ آسانی سے طے ہو سکتا ہے.اسی شام کو نسل کا اجلاس ہوا.دو تین اراکین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا.اس پر کانٹڈ انچیف سرفلپ پیٹیوڈ نے واٹس اے سے کہا آپ نے اپنے رفقاء کے خیالات علوم کرتے ہیں.قلمدانوں کی تقسیم کا سوال آپ کے اختیار کی بات ہے.آپ بعد اور جو تجویز کریں آپ کے رفقاء کو اس پر عمل کرنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے.دوستے دن ہم سب کو وائسرائے کے فیصلے کی اطلاع مل گئی کہ وائسرائے اپنے وقت میں علمدانوں کی تقسیم میں کوئی تبدیلی کرنا پسند نہیں کرتے نئے وائسرائے حالات کا جائزہ لینے کے بعد جیسے پسند کریں عمل کریں.وزیر تجارت نے خواہش ظاہر کی ہے کہ کمپنی لاو اور انشورنس لاء کی ترمیم کے ماثل وزیر قانون اپنے ذمے لے لیں جسے وز یہ قانون نے منظور کر لیا ہے.کوئٹہ کا قیامت نیز نہ لزلہ اور مٹی کو کوئٹہ میں شدید زلزلہ آیا میں سے جان اور مال کا بہت نقصان ہوا نا للہ وانا الیہ راجعون.اس اطلاع کے ملتے ہی میں نے چیف کمشنز دہلو یہ سہ گھنری اس کو ہدایت دی کہ ریل کے محکمے کی طرف سے جسقد مدممکن ہو سکے دیجائے.اخراجات کی منظوری اور متعلقہ قواعد اور ضوابط کی ترمیم با تنسیخ کا انتظار نہ کیا جائے.جس قسم کے احکام کی ضرورت ہو گی بعد میں جاری کر دیئے جائیں گے.اس وقت فقط میں مقصد سامنے ہونا چاہیے کہ مصیبت میں مبتلا افسانوں کی تکلیف کو رفع کرنے اور انہیں آرام پہنچانے میں محکمہ کیا مرد کرسکتا ہے اس مقصد کے حصول کے لئے جو کچھ بھی ہو سکتا ہو کیا جائے.سید العام اللہ شاہ صاحب کی وفات | جب میں چارج لینے کیلئے لاہور سے ملے جانے کیلئے روانہ ہوا تھا سید انعام اللہ شاہ صاحب لاہور سے انبالہ تک میرے ساتھ تشریف لائے تھے.انبالہ مں مجھ سے رخصت ہو کہ اپنے اخبار دور جدید کے کام کے سلسلے میں حیدر آباد دکن روانہ ہوگئے.وہاں غذائی زہریت کی تکلیف میں مبتلاہوگئے نواب اکبر یار جنگ صاحب ہوٹل سے انہیں اپنے مکان پرلے گئے.علاج میں ہر مکن سعی کی گئی لیکن باہر نہ ہو سکے.انا اللہ و انا الیہ راجعون.نہایت مخلص اور باوفا دوست تھے.ہم سب کیلئے ان کی وفات شدید صدمے کا باعث
ہوئی بعیدہ آباد ہی میں انشاد فن ہوئے.چونکہ موصی تھے بعد میں میں نے ان کی نعش کو قادیان پہنچانے اورپشتی مقبرہ میں دفن کئے جانے کا انتظام کر دیا.یغفر الله له ويجعل الله الجنة العليا مثواه - ان کی یاد آج تک دل کو گرہ مانتی ہے اور لفضل اللہ ان کے لئے دعائے مغفرت میں کبھی ناغہ یا کوتاہی نہیں ہوئی.پیارے افسران کی کا نفرنس میں ہندوستان کی جملہ ریلونیہ کی کانفرنس ایسوسی ایشن کا اجلاس سال میں شمولیت اور ان سے خطاب دوبارہ ہوا تھا.ایک بار ملے میں ایک بارہ دلی میں میرے چارج لینے کے بعد جب شملے میں اجلاس ہوا تو سابق دستور کے مطابق میں بحیثیت وزیہ ریلوے ایسوسی ایشن کے بڑے ڈینز کے موقعہ پر مہمان خصوصی تھا.نارتھ ویسٹرن ریلوے کے ایجنٹ مسٹر ہائٹ اس اجلاس کے صدر تھے.میں نے حنیف شہر سے کہا کہ ڈنر کے موقعہ پر تو سمی تقریریں ہوں گی.میں چاہتا ہوں کہ کا نفرنس کے اجلاس کے دوران میں میں کا نفرنس کے اراکین سے خطاب کروں.آپ اس کا انتظام کر دیں.انہوں نے انتظام کر دیا.ساتھ ہی کہا کہ تم سے.ے وزرا و ریلوے کے محلے میں کوئی زیادہ دیسی نہیں لیتے ہے.ریلوے افسران کو یہ عمل کر کے یہ اطمینان ہوا ہے کہ تم ان سے خطاب کرنا چاہتے ہو اور وہ بڑے شوق سے تمہارے خطا کے منتظر ہیں.میں وقت مقررہ پر اجلاس میں حاضر ہو گیا.میں نے کہ رکھا تھاکہ میری تقریر کے وقت صرف افسران اسلامی کے کمرہ میں موجود ہوتی سیکہ بڑی سٹینو گرافر، چرا سی کوئی کمرے میں موجود نہ ہو.یہ سب افسران عمر میں مجھ سے بڑے تھے.ان میں بھاری کثرت یور این افسران کی تھی.خال خال کوئی ہندوستانی بھی تھا.ہر ایک ان میں سے اپنے اپنے فن میں ماہر اور صاحب تجربہ تھا.میں ہی ان میں ایک ایسا تھا اور میوے کے وسیع محکمے کے متعدد شعبولی میں سے کسی کا جزیہ نہیں رکھا تھا.ان کی نگہمی یہ بڑی جرات اور حوصلے کا کام تھا کہ مں ان سے کچھ سیکھنے یا معلوم کرنے کے ے ہیں کہ انہیں کھانے کیلئے مضر ہوا تھا مجھ سے پہلے مرے کسی پیش رونے ایسا نہیں کیا تھا.ایک وہ شوق سے منتظر تھے کہ دیکھیں یہ نابلد ہم سے کیا کہنا چاہتا ہے.میں نے انہیں کچھ اس طرح خطاب کیا.صاحبان ! میں آپ کا نہایت ممنون ہوں کہ آپ نے اپنے نہایت قیمتی اوقات میں سے جب آپ اہم امور ادر سائل کے متعلق تیارہ خیالات اور مشورے کیلئے جمع ہیں کچھ وقت میری باتیں سنے کیلئے نکال لیا ہے.میں آپ کی خدمت میں ان عوام کے نمائندے کے طور پر حاضر ہوا ہوں جن کے آپ اور میں خادم ہیں اور جو آپ کے گاڑی بانی کے کاروبار کے سب سے بڑے گاہک ہیں.یعنی تیسرے درجے میں سفر کر نیوالے سافر.ان خدا کے بندوں کے ساتھ آپ کی ریلوں پر کیا سلوک ہوتا ہے اس کا آپ یں سے کسی کو کوئی ذاتی تجربہ نہیں نہ والی علم ہے.ممکن ہے آپ کو یہ وہم ہو کہ آپ ان کے متعلق بہت کچھ جانتے ہیں لیکن جو علم بھی آپ کو ان کے متعلق ہے وہ شہید ہے اور سرسری ہے.اس لحاظ سے میں آپ کے مقابلے میں صاحب علم اور صاحب تجربہ ہوی.آپ سب ریلوے کی اعلیٰ ملازمتوں کے افسر و
ہیں.اور اسی درجے سے ملازمت شروع کر کے اپنے موجودہ معزز مناصب پر پہنچے ہیں.جس دن سے آپ نے ملازمت شروع کی آپ کو ریل کا سفر کرنے کیلئے اول درجے کا پاس میسر رہا.جیسے جیسے آپ کی ملازمت کا عرصہ گزرتا گیا آپ کو پہلے آٹھ پہیوں والا اور پھر سولہ پہیوں والا سیلون میسر آتا گیا.مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں پر شخص کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں مناسب سہولتیں میر آنی چاہئیں میں فقط یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جہاں میں ان شعیوں کے متعلق مین کا آپ کو یہ یہ ہے نابلد در کوبرا و دانی تو اس میں آپ کہنا چاہتا ہوں وہ آپ کیلئے نٹی اور چنا ہوں گی.لیکن میں تو کچھ بھی کہوں گا ذاتی تجربہ کی تاکہ کہوں گا اور واردات میری ذات پر گری ہوگی.یامیں نے اسے اپنی آنکھوں سے کسی اور پر گزرتے دیکھا ہو گا.مں محض شنید سے کچھ نہیں کہوں گا.میں نے ریل کے ہر درجے میں سفر کیا ہے اوراب بھی مجھے کسی درج میں سفر کرنے میں اک نہ ہوگا.میں موقعہ دیکھ کر میرے درجے میں بھی سفر جاری رکھوں گا.ایک تو اس لئے کہ میری عادت نہ بھاتی رہ ہے.دوستہ اس لئے کہ میں دیہاتی ہوں اور میرے بہت سے عزیز رشتہ دار اور دوست دیہاتی ہیں اور میرے درجے میں سفر کرنے کے عادی ہیں اور میں بعض دفعہ ان کے ساتھ سفر کرتا ہوں.اور میرے اسٹے بھی کہ اب مرا فرض ہے کہ یں دیکھتا ہوں کہ میر ہے درجے کے مسافروں کی طرف مناسب توجہ ہو رہی ہے یا نہیں.پہلی بات جو میں آپ صاحبان کی خدمت میں گذاری کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ ریل کا محکمہ بیشک حکومت کا ایک محکمہ ہے.لیکن ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ ہم تموت کے افسر نہیں اگر چہ بھی تویہی سکھایا گیا ہے کہ حکومت کا ہر افسر سیلک کا منادم ہے لیکن ریل کے افسروں پر تو خصوصیت سے یہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے.ہم گاڑی بان ہیں اور سہیل کے مسافروں کے خادم ہیں.ہم کہ سی پر حکومت کرتے کیلئے انہیں بیٹھے.خدمت کرنے کیلئے میٹھے ہیں.دوسری بات یہ ہے کر دل کے محکمے کو اچھی طرح چاہے سے صرف یہ مراد نہیں کہ گاڑیاں اچھی اور صاف ستھری ہوں.ریلیں تیز چلیں اور وقت پر روانہ ہوں اور وقت پر پنچایت یہ سب کچھ بھی بلاشبہ ضروری ہے.لیکن ان سے بڑھ کر یہ ضروری ہے کہ سر درجے کے مسافر جن میں سب سے بڑی تعداد تیسرے درجے کے مسافروں کی ہے آرام سے سفر کریں.اور انہی کسی قسم کی پریشانی کا سامنانہ و افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں تیسرے درجے کے مسافروں کی ایک بہت بڑی کرت اب تک ان پڑھ ہے.وہ آپکی ہدایتوں کے بور نہیں پڑھ سکتے سفر و ہر شخص کیلئے پریشانی کا باعث ہوتا ہے.لیکن ان ندا کے بندوں کے لئے بہت ہی پریشانی کا باعث ہوتا ہے.سٹیشن پر پہنچتے یں تو نہیں جانتے ان کی منزل مقصود کو جانیوالی گاڑی کی آئے گی ملک روانہ ہو گی ، الٹ گن کی کھلے ا کرایہ کیا ہوگا ، کتے کیش رستے میں ہوں گے ، زل پر پہنچے گی، اگریہ اور بی سیشن ہو تو انہیں یہ بھی علوم نہیں ہونا کہ کٹ کر کہاں ہے، پلیٹ فارم کدھر ہے، اسٹیشنوں پر میرے درجے کے ماروں کیئے جانظار کرنے کی جگہ بنی ہوتی ہے اس کے گرد اس قم کی باریں اور سانیں ہوتی ہیں کہ ساغروں کو خیال ہوتا ہے انہیں حوالات میں نے
دید یا گیا ہے.پھر وہ ہراساں ہوتے ہیںکر معلوم نہیں ہماری گاڑی کب چھوٹے گی ایسا نہ ہو ہم بیٹھے رہ جائیں اور کی چھوٹ جائے.بالو سے پوچھتے ہیں تو وہ جھڑک دیتا ہے.ابھی تمہاری گاڑی کا وقت نہیں ہوا.بندہ خدام اس بیچارے کو نرمی اور شفقت سے بتاؤ کہ گاڑی کے روانہ ہونے میں کتنا عرصہ باقی ہے.انھی وقت نہیں ہوا سے اس نے یہ تو مجھ لیا کہ گاڑی فوراً چھوٹنے والی نہیں لیکن اس کے اس خدشے کا تدارک تونہ ہوا کہ ایمی از گفتار و باوں اور گاڑی چھوٹ جائے.یہ تومیں نے ان مسافروں کی ایسی پریا نیوں کا ذکرکیا ہے جو انہیں لانا پیش آتی ہیں.لیکن اگر کوئی لٹ کھٹایا بابو دق کرنے یا اسے بٹورنے پر آمادہ ہو تو ان پریشانیوں میں بہت اضافہ ہو سکتا ہے.ایک ٹکٹ کلکٹڑھا ہو نے ی مرہم سے فخریہ کہا تھا ہم بھی انہ ہیں اور اردو پر ہمارا احترام لازم ہے.اگر کوئی فرگستاخی پر آمده ہوتو ہم نورا اس کا مزاج درست کر دیتے ہیں.میں دریافت کی آپ کیا کرتے ہیں کہ بالکل آسان بات ہے اس سے یا اور زمین پر گر کراس پر پاؤں رکھ دیا اور تم سے کہ جلد کو ٹکٹ والے کرو وہ کہتاہے میں نے بھی کٹے دیدیا ہے.تم کہتے ہیں جھوٹ سکتے ہو ٹکٹ دو ورنہ ساتھ جرمانہ بھی دینا پڑے گا اور نہیں تو کانسٹیل کے حوالے کئے جاؤ اس کے پوش عبد ٹھکانے آجاتے ہیں.ہمیں آپ صاحبان کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہم خادم ہیں.خدمت تمارا فرض ہے اور خدمت کا شوق ہمارا خاصہ ہونا چاہیئے.اب میں آپ کو اپنے ذاتی تجربے سے واقعات سناتا ہوں جس سے آپ اندازہ کر سکیں گے کہ اگر ایک پڑھے لکھے دوسرے یا اول درجے کے مسافر کے ساتھ ایسا غیر مردانہ سلوک ہو سکتا ہے تو ایک ان پڑھو میرے درجے کے مسافر کے ساتھ کیا بتاؤ ہوتا ہو گا.میں نے چند واقعات اپنے ذاتی تجربے سے بیان کئے پھر میں نے چند واقعات ایسے بیان کئے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ غیر مالک مثلا بہ لانہ میں مسافروں کے آرام کا استقدیر خیال رکھا جاتا ہے.ترمیم میں نے دوتین باتوںکی طرف خاص توجہ دلائی اول ماروی کو رقم کی اطلاع ہم پہنچا کا انتظام ہونا چاہیے.تاکہ اطلاع نہ ہونے کی وجہ سے انہیں کس قسم کی پریشانی نامی نہ وہ دوسرے مسافروں کی ہر مناسب مدد ہونی چاہئے تا کردیل پر سفر کر ان کے لئے ایک تکلیف دہ مجاہد نہ ہو کہ ایک خوشگوار تجربہ ہو.میرے دل کے نام حملے کا یہ شعار ہونا چاہیے کہ وہ ہر ایک مسافر کے ساتھ اور خصوصاً تیسرے درجے کے مسافروں کے ساتھ ہر موقعہ یہ خوش خلقی سے پیش آئیں.میں آپ صاحبان کا شکریہ اداکرتا ہوں کہ آپ نے میری معروفا کو توجہ سے نا اور امید کرتا ہے کہ آپ اپنے حلقہ اختیار میں انہیں عملی جامہ پہنانے کی کوشش بھی کریں گے.دوران تقریں حاضرین کے پیروں کو غور سے دیکھتا رہا.کچھ تو پوری تو جہ سے سن رہے تھے اور نوٹ کرتے جاتے تھے کچھ غور سے سن رہے تھے اور ان کے پیروں سے ظاہر تھا کہ شوق سے سن رہے ہیں.بعض کے ماتھوں پر شکن تھے اور پیروں ر حیرت کہ یہ کی ہو رہا ہے اور پریشانی کہ آئندہ کیا ہوگا.بعض پروں پر تیری بھی تھی کہ یہ داڑھی والا مولوی کہاں سے آگیا جو تم کو حکمت سکھانے کی بے سود بلکہ گستاخانہ کوشش کر رہا ہے.جی آئی پی ریلوے کے متعلق میرے کانوں تک
PLA کہ یور پی سیر نہ ہندوستانی افسروں کے ساتھ دوستانہ رواداری کا سلوک روا نہیں رکھتے لیکن میں نے دیکھا کہ میری باتوں کی طرف سے زیادہ توجہ جی آئی پی ریلوے نے کی.اس ریلوے کے ایجنٹ مسٹر ولسن محمد سے ملتے رہتے تھے.زبانی بھی بتاتے تھے اور رپورٹیں بھی بھیجتے رہتے تھے کہ انہوں نے کیا کیا اصلاحی اقدام کئے ہیں.جب سر اٹ رہوے بورڈ میں آگئے.اور کرنل کا رس ان کی جگہ نارتھ ویٹرن ریلوے کے ایجنٹ ہوئے تو انہوں نے بھی ان امور کی طرف و شروع کردی، دوسری بیوی پر بی هسته است کچھ توجہ ہونے کی، لیکن بہت حدتک اینٹ کی شخصیت یا محمد ہوتی یا روک بن جاتی.میں جب دورے پر جانا تو جو امور قابل اصلاح نظر آنے واپسی پران کا ذکر یف کشتر سرگستری ایل سے کرتا.وہ بہت اچھے رفیق ثابت ہوئے.ہم آپس میں آزادی سے تبادلہ خیالات کرتے.میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا اور وہ میری باتوں کو بڑی توجہ سے سنتے اور انکو عملی جامہ پہنانے کی تمام کرتے.چونکہ ہر شخص کو سیل پر سفر کرنے کا اتفاق ہوتا ہے اسلئے ہرشخص کو ریل کے محکمے میں دلچسپی ہوتی ہے.سمبلی میں بھی ریل کے محکمے پر سوالات کی بوچھاڑ ہوتی ن کے ذریعے بھی مجھے عوام کے احساسات اور ان کی شکایات کا علم ہوتا رہا ور جہاں اصلاح کی گنجائش ہوتی میں ملک کو توجہ دلانا.پروفیسر رنگا (مدراس نے ایک سوال کے ذریعے توجہ دلائی کہ جنوبی شہد کی ایک ایکسپریس گاڑی کے تیرے اور درمیانے درجے کے غسل خانوں کی حالت رات کے پچھلے حصے میں ناگفتہ بہ مورتی ہے ان کی صفائی کی طرف مناسب توجہ ہونی چاہیے.محکمے کی طرف سے جواب آیا کہ یہ شکایت بے بنیاد ہے.اسمبلی میں میں نے جواب میں کہ دیا کہ دریافت پر معلوم ہوا ہے کہ حالت ایسی نہیں جو قابل شکایت ہو لیکن توجہ کی جائے گی.اس کے بعد جب میں دورے پر جنوبی بن گیا تومیں نے ایک رات کا سفر اس ایک پریس گاڑی سے کیا اور رات کے پچھلے پر دو تین مقامات پر اپنے سیلونی سے نکل کرمیں نے تیسرے درجے کی گاڑیوں کے غسل خانوں کو دیکھا اور ان کی حالت کو بہت کچھ قابل اصلاح پایا ے واپسی پر میں جن اور کان کر تین کمتر ے کی ان میں ایک یہ بھی تھا.انہوں نے بورڈ کے ایک متعلقہ رکن اور ڈائرکٹر کو مشورے کیلئے جایا.شکایت کے متعلق تواب کہا نہیں جاسکتا تھاکہ بے نیا ہے کیونکہ یں خود دیکھ آیا تھا لیکن دونوں نے کیا فرید اصلاح کی گنجائش نہیں کیونکہ یہ تیزرفتار گاڑی ہے رات کے پچھلے جملے میں صرف تین چار مقامات پر تین چار منٹ ٹھہرتی ہے.ایک مقام پر تین چار منٹ میں دو یا زیادہ سے زیادہ تین ڈلوں کے غسل خانوں کی صفائی ہوسکتی ہے.اس سے زیادہ صفائی کے موجودہ سٹاف سے توقع نہیں کی جاسکتی اسے کوئی چارہ نہیں.میں نے کہا ہمدردی ہو اور تخیل پر کچھ زور دیا جائے تو سب کچھ ہو سکتاہے.کہنے لگے آپ کوئی ترکیب تائیں.میں نے کہا رات کے دو بجے سے لیکر صبح آٹھ بجے تک چھ سات بار تو گاڑی ٹھہرتی ہوگی ایک نقشہ تیار کروالیا جاے کہ سیلی بار ٹھہر نے پانجن کے عین چھے کے مین ڈالوں کے غسل خانوں کو اچھی طرح سے صاف کردیا جائے.دوسری بار ٹھہرنے پر ان کے بعد کے تین ارب ڈبوں کے غسل خانے مان کئے جائیں.اور اسی ترتیب سے صفائی ہوتی رہے ان چھ گھنٹوں میں دو تین بار سب غسل خانے مان ہو جا کریں گے
کہنے لگے ہاں اس طریق سے ضرور کچھ اصلاح ہو جائے گی.ہمارا خیال اس طرف نہیں گیا.ائیر کنڈیشن ڈبے پھیلانے کی تجونیہ سرگتری رول انجنیر تھے.میںنے ان سے مشورہ کیا کہ کیا کوئی ایسی صورت ہو سکتی ہے کہ ریل کے ڈبوں کے اندر مٹی نہ آئے اور گرمیوں میں ٹھنڈی ہوا کا انتظام ہوسکے.انہوں نے کہا دونوں باتیں ہوسکتی ہیں.میں غور کر کے منصوبہ تیار کروں گا.آخر با ہمی مشورے سے طے ہوا کہ شمالی ہند میں بدن سے ٹھنڈے کئے ہوئے ڈبوں کا تجربہ کیا جائے اور اگر یہ تجربہ کامیاب ہو تو اسے وسعت دی جائے.اگر چہ املی میں اس تو نہ ہی کچھ مخالفانہ تنقید ہوئی لیکن یہ تجربہ کامیاب ثابت ہوا اور ایسے ڈوبے شمالی ہند کی تیز گاڑیوں میں مہیا کر دیئے گئے سرگستری رسل کی یہ بھی جنونی تھی کہ ایک پوری ٹھنڈی ٹرین کا بھی تجربہ کیا ہے جس میں صرف دو درجے ہوں.ایک سونے والے ڈیوں کا اور دوسرا بیٹھنے والے ڈبوں کا.ان کا اندازہ تھا کہ سونیوالے ڈبوں میں فی کس کرایہ اول درجے کے کرائے سے کچھ زیادہ رکھنا پڑے گا لیکن بیٹھنے والے ڈبوں میں کرایہ درمیانے درجے کے کرایہ کے برابر ہوگا.ان کا خیال تھا کہ اگر پوری تمرین کو ان سے طاقت لیکر ٹھنڈا کرنے کا انتظام کیا جائے تو ٹھنڈا کرنے کا اوسط خرچ ہر بے کو برف سے ٹھنڈا کرنے کی نسبت کم ہوگا.سردیوں میں ٹرین کو گرم رکھا جاسکے گا.مجھے اس منصوبے میں بہت دلچسپی تھی کیونکہ اس سے عوام کیلئے آرام سے سفر کرنے کے انتظام کی ابتدا ہوسکتی تھی لیکن ایک تومیں نے شہداء میں ریل کے محلے کا چارج چھوڑ دیا پھر نہ میں دوسری عالمی جنگ شروع ہو گئی اور اس سم کے منصوبوں میں چھی کم ہوگئی اور توجہ زیادہ اہم امور کی طرف منتقل ہو گئی.افسوس ہے کہ جنگ ختم ہونے کے بیس سال بعد بھی ابھی عام مسافروں کے لئے یہ سہولت مہیا نہیں کی جاسکی.حالانکہ عت ہے یہ میں مبصرین کی رائے تھی کہ اس کے مہیا کرنے کے راستے میں کوئی نا قابل حل مشکل ہے نہیں.میرے نزدیک علاوہ آرام کے اس منصوبے کے جاری کرنے سے معاشرتی اور تمدنی فوائد بھی مرتب ہو سکت ہے حکومت بر طانیہ سے آٹو واٹریڈ تجارت کے محلے میں بہت سے دلچسپ اور اہم مسائل زید اگر یمینٹ کی ترمیم کے لئے گفتگو غور آتے رہتے تھے جن میں سے بعض پر اسمبلی میں بحث تھی چھڑ جاتی تھی اور سوال جواب کا سلسلہ مونسب کے متعلق مجاری رہتا تھا.سب سے اہم مسئلہ ہو مری وزارہ کے زمانے میں نہ یہ بحث آیا آٹو و استجارتی معاہدے کا مسئلہ تھا.تجارت کے محکمے کے سیکر یٹری مسٹر میں سٹوارٹ تھے ہو سرفنڈ لیٹر سٹوارٹ نائب وزیر بہار کے برادر اصغر تھے بعد میں وہ خود بھی کونسل کے رکن ہوئے.اور پھر صوبہ بہار کے گورنہ ہوئے، تجارت کے محکمے کے سکریڑی ہونے کے زمانے میں وہ بہت محنت سے کام کرتے تھے پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلے پر ان کا نوٹ بہت مفصل اور نہایت واضح ہوتا تھا.ان کا نوٹ پڑھ لینے کے بعد مجھے مزید مطالعہ کی بہت کم ضرورت رہ جاتی تھی.تجارتی معاہدے کی بحث کی تیاری میں انہوں نے بہت محنت کی
اور میرا کام بہت ہلکا کر دیا.میں نے قرار داد پاس کی ہ معاہدے کے بعض پہلوؤں کی ترمیم کیلئے کوشش کی جائے تاکہ معاہدے کے فوائد میں معتد بہ اضافہ ہو سکے.نیز یورپ کے دیگر ممالک کے ساتھ ہندوستان کی تجارت کو بڑھائے کے طریقے اختیار کئے جائیں.معاہدے کی تیہ میم کے سلسلے مں مرکزی مثلہ یہ تھا کہ انکا شائر کے تیار کردہ سوتی کپڑے کی درآمد پر جو رعائتی محصول عاید ہوتا ہے اس کی شرح بڑھائی جائے اور برطانیہ پر زور دیکر اسے پابند کیا جائے کہ وہ ہندوستانی کپاس زیادہ مقدار میں خرید کرے.اور بھی بہت سے اہم مسائل ہندوستان اور بر طانیہ کے در میان قابل حل تھے.لیکن یہ مسلہ اپنی نوعیت میں سے بڑھ کر تھا میٹی اور احمد آباد کے سوتی کار خانوں کے لک مصر تھے کہ برطانوی سوتی کپڑے پر محصول کی رعایت کواگر منسوخ نہ کیا جاسکے تو اسے سبق ہو سکے کم کیا جائے.زمیندار طبقہ زور دیتا تھا کہ ہندوستانی کپاس کی کھپت برطانیہ میں بڑھانے کی تدبیر کی جائے.شاہ جارج پنجم کی وفات پر پرنس آف و علی کی جانشینی اور سر جنوری شہد میں شاہ جان تیم فوت کمپن سے شادی پر اصرار کی وجہ سے تخت و تاج سے دستبرداری ہوئے اور ایڈورڈ ہشتم ان کے جانشین ہوئے مینز سیمپین کا قضیہ شروع ہو چکا تھا.شاہ ایڈورڈران کے ساتھ شادی کرنے پر مصر تھے.انداندہ کیا جاتا تھا کہ وہ اس تجویہ کو قبول کر لیں گے کہ مسز سمپسن کو شادی کے بعد تخت و تاج میں شریک نہ کیا جائے اور ان کی اولا تخت کی وارث نہ تو بیکن وزیراعظم مٹر بالڈون اس تجویہ کو قبول کرنے پر تیار نہ تھے.ادھر لیا کے لئے یہ وقت تھی کہ شاہ برطانیہ کلیائے انگلستان کے سربراہ ہیں.کلیب کے قواعد ایک مطلقہ عورت کے ساتھ جس کا میلا خاوند زندہ ہو شادی کی اجازت نہیں دیتے.اس قاعدے کی خلاف ورزی کر کے بادث و کلیسا کے سربراہ نہ رہ سکتے.غرض یہ معاملہ ایک نہایت نازک شکل اختیارہ کر گیا.آخر بادشاہ نے تخت سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا اور ان کی جگہ ان کے برادر اصغر ڈیوک آن با رک جازی ششم کے عقب کے ساتھ شاہ برطانیہ ہوئے.سفرڈ لندن میں سرفروز خان نون کا تقر بطورہ ٹائی کمشنر ا میں نے جب نومبر سلسلہ میں سر موندن بھور سے لندن میں ہائی کمشنر کے تقریر کے متعلق دریافت کیا تھا تو انہوں نے فرمایا تھا کہ وزیر ہند کے ریکمی احکامات تو صادر نہیں ہوئے لیکن ان کے اندازہ کے مطابق کوئی ایسا امیدوار میدان میں نہیں جو ان سے زیادہ اس منصب پر نقر کا حق رکھتا ہو میں شہر میں جب میں ان سے چارج لے چکا تو معلوم ہوا کہ سر جوزف کے کہنے پر وائسرائے نے و زیر بند کی خدمت میں سفارش کی تھی کہ ہائی کمشنر کا عہدہ خالی ہونے پر سر جوزف کا اس عہدے پر تقریر کیا جائے وزیر مہند نے جواب دیا کہ جلدی کیا ہے ابھی بہت وقت پڑاہے اور چونکہ بانی متن کامحکمہ تجارت کے حملے کے نیچے آتا ہے لہذا وزیر تجارت کی رائے معلوم کرنا بھی ضروری ہے.اسلئے ظفر اللہ خان جب چارج لے چکے تو میں اسکی رائے کا بھی انتظار کروں گا.شاہ کے دوران میں سر سیموئل اور فرسٹ لارڈ آف ایڈ پر لیٹی ہو گئے اور لارڈز ٹیلنٹڈ انکی جگہ
وزیہ ہند ہوئے.دسمبر شہر میں مجھے سر فضل حسین صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقعہ ہوا اور میں نے ان سے استصواب کیا کہ لندن میں ہائی کمشنر کے لئے موزوں ترین مسلمان کون ہو گا.آپ نے فرمایا امیدوار تو بہت ہیں، سر یافت حیات خان ، سه فروند خان نون و غیرہ لیکن سر عبد القادر کا انتخاب مناسب ہو گا.شیخ سر عبد القادر صاحب اس وقت وزیہ ہند کی مشاورتی کمیٹی کے رکن تھے اور لندن میں مقیم تھے.ان دنوں دستور تھاکہ کرسمس کے موقعہ پر اس لئے کلکتہ تشریف لے جاتے تھے اور کونسل کا ایک اجلاس آخر دسمبر یا شروع مجبوری میں دواں ہوتا تھا.اس اجلاس کیلئے میں پنجاب سے کلکتہ جانتے ہوئے ایک دن پٹنہ ٹھہرا.کونسل کے اجلاس کا ایجنڈا مجھے دیاں ملاحوں میں ایک مسلہ بائی کر کے انتخاب کا بھی تھا.میں اسمارات کنہ جانیوالا تھا کونسل کا اجلاس دوسرے دن صبح کو ہونا تھا اسلئے ایجنڈا پڑھ کرمجھے تشویش ہوئی کیونکہ اپنے رفقاء کے ساتھ مشورے کے لئے کوئی وقت نہیں تھا.کنور سر جگدیش پر شاد جن کے ساتھ میں بے تکلفی سے بات کر سکتا تھا پنی بیگم صاحبہ کی علالت کی وجہ سے بھٹی پر تھے اورانکی ملکہ سگر اشنکہ باجپائی کام کر رہے تھے.میں نے خان بہادر نادر شاہ سے کہا کہ اسٹیشن پر پہنچے ہی معلوم کریں کسی اور وزیر کا سیلون بھی اس میں ٹرین کے ساتھ کلکتہ جارہا ہے یا نہیں جس سے ہم جانیوالے ہیں.اسٹیشن پر پہنچ کر نہوں نے بتایاکہ سر ماشنکہ باجپائی کا سیلون کاری کے ساتھ آرہا ہے مجھے پیس کر کچھ اطمینان ہوا کہ ان سے کچھ پس منظر اس معاملے کا معلوم ہو جائے گا.وہ ۱۹۳۳ ء میں محکمہ تعلیم کے سیکریٹری کے طور پر مرے ساتھ کام کر چکے تھے اور مجھے معلوم تھا کہ وہ سر توزف بھور سے کچھ آزردہ تھے.سر توزن بھور شاہ جارج پنجم کے جشن سیمیں میں بطور نمائندہ حکومت ہند شامل ہوئے تھے.میاں سر فضل حسین نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ اس موقعہ پہ کامن ویلتھ کے تمام وزراء عظام لندن میں موجود ہوں گے اور بیرون مند رہنے والے ہندوستانیوں کیلئے مراعات اور مساوات کے حصول کی سعی کیلئے یا چھا موقع ہوگا.لہذا ہر ہواگر آپ سرگز جاشکر کو ساتھ لے جائیں.وہ اس معاملے میں آپ کے مشیر و معاون ہوں گے.سر جوزف نے کہا میں بڑی خوشی سے یہ کام اپنے ذمے لینے کو تیار ہوں لیکن سرگر جاشنکر کے میرے ساتھ جانے کی ضرورت نہیں ! طبعا یہ امر سرگہ جاشنکر کو ناگوار ہوا تھا جیب دریل پٹنہ پہنچی تو میں سرگر جاشتکار کے سیلون میں چلا گیا.وہ اپنے سونے کے کمرے میں جاچکے تھے اطلاع ہونے پر فوراً تشریف لے آئے اور باتوں باتوں میں انہوں نے خود ہی ہائی کمشنر کے فقر کا ذکر چھیڑ کر فرمایا کیا مناسب نہ ہوگا کہ ایک باله کسی موزوں سلمان کا تقرر ہو.میں نے کہا طبائیں تو اس بات کا خواہش مند ہوں لیکن مجھے معلوم ہوا ہے وائٹ لئے صاحب سر جوزف بھور کی سفارش کر چکے ہیں.باجپائی کہنے لگے سرسوزن بو تو اپنے آپکو ہر عہدے کیلئے موزوں ترین خیال کرتے تھے.انہیں یہ خیال بھی نہ آیا کہ وزیہ تجارت ہوتے ہوئے وائسرائے سے اپنی سفارش اپنے ایک ماتحت عہد کیلئے بھوانا نہا نا مناسب فعل ہوگا.میں نے پو چھا پھر تو آپکی رائے انکے حق میں نہ ہوگی ؟ کہنے لگے چودھری صاحب میرے لئے مشکل ہے
کر میں عامر منی طور پر کام کر رہا ہوں اور مناسب نہیں کہ ہمیں اس قضیے میں دخل دوں.میں غیر جاندا نہ نہ ہوں گا.اتنے میں خان بہادر نادرشاہ نے اطلاع دی کہ ہماراسیون بھی گاڑی کے ساتھ لگا دیا گیا ہے اور گاڑی اب روانہ ہو نیوالی ہے میں سر گر با شنکر سے رخصت ہو کر اپنے سیلون میں چلا گیا کونسل کا اجلاس B ELVEDERE میں ہوا جہاں وائسرائے قیام پذیر تھے.اجلاس سے قبل مجھے سرسبزی کریک اور سر جیمز گرگ سے بات کرنے کا موقعہ مل گیا.سر سبزی کریک تو سر عبد القادر کی تائید پر رضامند ہو گئے.سر میز گرگ نے کہا میں بھور کے تقریر کے سخت مخالف ہوں.اس کے علاوہ جو نام تم تجوید کرد مجھے منظور ہو گا.مجھے معلوم تھا کہ نوٹیں اور سر کار سر جوزف بھور کی تائید میں میں اسلئے ان سے بات کرنا بے سود تھا.اعلان میں وائسرائے نے کہا وہ یہ بند کونسل کی رائے لندن میں آئندہ ہائی کمشنر کے متعلق معلوم کرنا چاہتے ہیں.آپ اس معالے میں این آر بتادیں تاکہ یں انہیں مطلع کرد.سرفر نیک نویس نے کہا آپ پہلے سرسوزن بھور کی سفارش کم کے میں کی یہ کافی نہیں وائسرائے نے فرمایا مری رائے وہ یہ بہن کو معلوم ہے اب وہ کونس کی رائے معلوم کرنا چاہتے کمانڈر انچیف.مجھے ان معاملات کے ساتھ بہت کم سابقہ پڑتا ہے.میری اس معاملے میں کوئی پختہ رائے نہیں.سرفر نیک نو میں.مجھے آپ کے ساتھ اتفاق ہے.سر جوزف بھور نہایت قابل شخص میں اور انکی پہلی مرتا الیسی قابل قدر ہیں کہ میرے ذہن میں کوئی ایسا شخص نہیں تو ان کا مقابلہ کر سکے.سر ابن ابن سمرہ کالہ.مجھے نوٹ میں کے ساتھ اتفاق ہے.سر جمیز گرگ.میں بھور کے سخت مخالف ہوں.وائسرائے.آپ بھور کے خلاف ہیں لیکن کسی کے بھی میں ہیں ؟ سر جمیز گرگ.میں بھور کو کسی صورت نہیں چاہا اور کسی کا بھی تقریر ہو جائے مجھے اعتراض نہیں.سر سنہری کر یک.میں سمجھتا ہوں اس وقعہ کسی مسلمان کا تقرر ہونا چاہیے.میری رائے میں سر عبد القادر مورد ہوں گے.سرفر نیک نو میں.سرعبد القادر اور سر جوزف بھور کا بھلا آپس میں کیا مقابلہ ہے؟ سرسبزی کریک - سرعبد القادر قابل شخص ہیں اور صاحب نخرہ یہ ہیں.پنجاب میں وزیر ، رکن عاملہ ، کونسل کے صدر ، ہائی کورٹ کے جج رہ چکے ہیں ، اور اب وزیر مندر کی مثادوستی کو قتل کے رکن ہیں.سر جمیز گرگ.مجھے سر ہنری کریک کے ساتھ اتفاق ہے.میں نے کہا بائی مشترک و سے زیادہ میرے ساتھ کام کرنا پڑے گا اور مجھے اندیشہ ہے کہ سر توزف بجور کو مجھ پر اعتماد نہیں.آپ کو یاد ہو گا کہ آپ نے اور وزیر سنہا نے بھی
سمسم ہدایت دی تھی کہ میرے چارج لینے تک تو اہم معاملات سر جوزف بھور کے محکموں میں زیر غور آئیں ان کے ضروری کا غذات سرسوزن کاغذ میری اطلاع کے لئے مجھے بھیجے جائیں.میری لندن سے واپسی پر سر جوزف بھور نے بھی مجھے یقین دلایا تھا کہ ایس کیا جائے گا لیکن آپ کو یہ سنکر حیرت ہوئی کہ چھ ماہ کے عرصہ میں انہوں نے مجھے ایک سطرنک نہ بھیجی جب انکی بے اعتمادی کا یہ عالم ہے تو مجھے ان سے تعاون کی کیا امید ہوسکتی ہے ؟ سر جیمز گرگ.مجھے ظفر اللہ کے ساتھ اتفاقی ہے ہم دونوں کو بھور پر اعتماد نہیں.سرگیہ جاشنکہ یا جھائی.جناب عالی میں عارضی طور پر کام کر رہا ہوں.مجھے معلوم نہیں سر جگدیش پر شاد کی اس معاملے میں کیا رائے ہے.اسلئے میں اس معاملے کے متعلق کوئی رائے نہیں دینا چاہتا.وائسرائے.کونسل میں سے تین آرا ء سرعبد القادر کے حق میں ہیں.اور دوسر یوزن بھور کے حق میں ہیں میں سید اطلاع وز یہ سند کو بھیج دوں گا.سرفر نیک نوئیں.یہ کیسے ؟ آپ کی رائے بھی تو سر جوزف بھور کے حق میں ہے.دونوں طرف آراء کہا یہ ہو گئیں.اس صورت میں آپکو کاسٹنگ ووٹ کا اختیار ہے.ا با وائسرائے.اس وقت میری رائے غیر معلق ہے.وزیر مداراکین کونسل کی اے معلوم کرنا چاہتے ہیں.لارڈ ریلند و زیر سند کا سر سوزن بھور کو دی واپس پہنچنےکے بعد والے نے مجھے اب فرمایا اور بائی کاشر لندن میں ہائی کمشنر بنانے پر ناکام احرار کے قر یک میلیونی دنیا اور کھایا.وزیر نے لکھا تھا عبدالقادر کو بڑی قدر کی نگا سے دیکھتا ہوں میں تھے ہی میں کی انتظامی امور کا زیادہ تر یہ ہی کہتے اسلئے میری رائے میں ان کا تقر موزوں نہیں ہو گا مجھے علم ہے کہ نواب بختیاری، ڈاک اشاعت احمدخان ، اسکندر حیات خاں، نواب لیاقت حیات خاں مار مالی و غیر کی بھی خواہش ہوگی کہ انہیں زیر غور لایا جائے لیکن یں ان سب کو جانتا ہوں اور میری رائے میں ان میں سے کوئی بھی موزوں نہیں.آپ کوشش کریں کہ گرگ اور ظفراللہ ھور کے تقریر پر رضامند ہو جائیں.دائرے نے دریافت کیا تمہاری کیا رائے ہے ؟میں نے کہا میں تو سر وزن بھور کے تقریر پر رضامند نہیں.سر میز گرگ سے مشورہ کر کے مزید گذارش کروں گا.وائسرائے سے رخصت ہو کہ میں سر میز گرگ کے پاس گیا اور انہیں وزیر ہند کے تارکے متعلق بتلایا.انہوں نے کہامیں بھی بھور کے تقر پر پرند ماند نہیں سکتا لیکن ان کا تجویز کی جائے ؟ میں نے کہامیرا اندازہ ہے کہ موجودہ درزیر ہند لارڈز ٹیلینٹ کسی مسلمان کا تقر نہیں چاہتے اسلئے جتنے مسمانوں کے نام انہیں یا ر تھے.انہوں کو یک قلم ناموزوں قرار دیدیا ہے حالانکہ ان میں بعض ایسے بھی ہیں جن کو اگر یہ عہدہ ملیش بھی کیا جائے تو وہ اسے قبول کرنے کے لئے رضامند نہ ہوں.اب یہی ہو سکتا ہے کہ ہم والرائے کو کسی ایسے شخص کا نام پیش کریں جس کا ریکارڈ میلہ یونین سے وزیر من ذاتی طور پر نہ جانتے ہوں ورنہ وہ کہ دیں گے
م ٣٨ میں انہیں جانتا ہوں میری رائے میں وہ موزوں نہیں.سر جیمز نے دریافت کیا تمہارے ذہن میں کوئی ایک شخص ہے ؟ میں نے کہا سر فیروز خان نون ہیں.پوچھا وہ جانے کے لئے رضامند ہوں گے ؟ میں نے کہا شوق سے جائیں گے.سر میزنے کہا تو پھر ابھی چلو اک لینے سے بات کریں.وائسرائے نے بھی دریافت کیا کہ سرفراز خان نون رضامند ہوں گے ؟ میں نے کہا لیا ہوں گے.میں زور لیتا ہوں.وائٹریٹ نے وزیر بند کی خدمتمیں تاری دیا کہ رگ ان ظفراللہ عبود کے تقر ر نوسی صورت بھی رضامند نہیں وہ وزیر تعلیم پنجاب سرفروز خان نون کا نام پیش کرتے ہیں جو آکسفورڈ کے ایم اے ہیں ، بیرسٹر ہیں اور آٹھ سال سے پنجاب میں وہ یہ ہیں.مجھے اتفاق ہے کہ ن کا تقر موزوں ہو گا.آخر وزیر سند کو اپنی ضد ترک کرنی پڑی.اور مک سرفروز خان نون کا تقر بطور ای کمتر دن ہو گیا.جب ون پر ان کی رضامندی کا تار والے کو گیا تو انہوں نے کون میں اس کا ذکر کیا.سرفرنی ٹوٹیں کچھ پڑھے لیکن پھر یہ کیا با وزیر بند خاص کر کے ہماری رائے زنی بے کار ہے.شاہ جاری ششم کی تاجپوشی میں منی اور میں شہ جات شم کی تاجپوشی کی تقریب قرار پانی کیوت بطور نمائندہ برطانوی ہند شمولیت ہند کی طرف سے مجھے برطانوی ہند کا نمایندہ تجویز کیاگیا.ہرزبانی مسی مہاراجہ بروده والیان ریاست کے نمائندہ تجویز ہوئے بین تا بپوشی بڑی دھوم دھام سے منایا گیا اور بخیریت سرانجام پایا.کامن ویلتھ وزرائے عظام کی حسین تاجپوشی کے بعد کامن دینے کے وزرائے عظام کی کانفرنس کے اجلاس ہونی ہے کانفرنس میں شمولیت تھے.اس کے نمائندوں میں بھی مجھے شامل کیا گیا.اس کانفرنس میں کامن دینے کے وزرائے عظام سے شناسائی کا موقعہ میں آیا.کانفرنس کے دور میں ہی سر بالون برطانیہ کی وزارت عظمی سے مستعفی ہوگئے اور مسٹر نیول چیمبر لین نے انکی جگہ لی.حکومت برطانیہ کے ساتھ معاہدہ ان مصروفیتوں کے بعد برطانوی وزارت تجارت کے رند کے ساتھ معاہد تجارت کی ترمیم کی بات چیت تجارت کی ترمیم کے تعلق کو شروع ہونیوالی تھی.ہندوستانی وفد کی قیادت میرے سپرد ہوئی میرے ساتھ تھے غیر سرکاری مشیر تھے.نواب زادہ لیاقت علی خاں صاحب جو دس سال بعد پاکستان کے پہلے وزیر اعظم ہوئے ، سردار سرمانا سنگھ تو بعد می امپیریل کونسل آف ایگریکلچرل ریسر ان کے وائس چیرمین ہوئے سرایڈورڈ بنیتا جو بد می گورنر جنرل کی کونسل کے رکن ہوئے، ہمسر می شوم و اس ٹھاکر داس، مشرک تو بھا ئیتر ال بھائی اور مسٹری بڑی بولا.جب حکومت ہند کی طرف سے ان اصحاب کو میرے سات اور میرا کام کر یکی دعوت بگٹی تو پہلے تین اصحاب نے تو با نام یہ دعوت قبول کرلی لیکن آخری تین کی طرف سے سر پر شوتم داس بھاکر داس مجھے لے کے لئے شملے تشریف لائے اور کہا ہم یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ مارا تقر محفی زیبائشی ہے یا واقعہ مں ہم مشیر ہوں گے.میں نے کہا میری تو بی نیت ہے کہ آپ کے ساتھ ہر قدم پر پورا مشورہ ہو.اور آپ کے مشورے سے فائدہ اٹھایا جائے.حکومت کے
۳۸۵ 191ء اپنے نمائندے کی حیثیت سے آخری فیصلہ تو میرا ہو کرے گا لیکن یں امید کرتا ہوں کہ ہمارے سب فیصلے نہ صرف با می شوری سے ہوں گے ملکہ بالاتفاق ہو کریں گے.اس سے ان کا اطمینان ہوگیا اور ان تینوں اصحاب نے بھی حکومت ہند کی دعوت قبول کر لی.برطانیہ کے وزیر تجارت کرنیل آلیور ٹینلے تھے.پولارڈ ڈاری کے فرزند تھے.وزارت کے سیکریٹری مسٹر براون نہایت قابل اور زود ہم تھے.ہمارے ساتھ گفتگو کے لئے وزارت کی طرف سے ایک وفد مغر کیا گیا جس کے پیرین تو سر فریڈرک وائیٹ تھے لیکن باقی سب راکین سرکاری افسر در مبصرین تھے سر فریڈرک ہندوستان کی اسمبلی کے پہلے صدرہ چکے تھے اور غالبا یہ فرض کی گیا ہوگا کہ وہ ہندوستانی مسائل اور مزاج کو خوب سمجھتے ہیں.لیکن یہ مفروضہ محض وہم ثابت ہوا.ان کے مشیر بودند میں شامل تھے بیشک اپنے فرائض منصبی کی سرانجام دہی کے لحاظ سے نہایت قابل اور تجربہ کار اصحاب ہوں گے لیکن ہماری مشترکہ مہم کے لحاظ سے محض لکڑی کے محتے تھے.میرے ساتھ صرف ایک سیکریٹری تھے.سر راکھوان پہلے آئی سی ایس جب میں نے مور میں نے عہدے کا چارہ کیا تو مر صالح اکر میری نے ( مجھ سے ذکر کیا کہ انڈین سول سروس کے مٹر این آر پہلے جو ان دونوں کمیٹی میں کسٹمز کے کٹر تھے نہایت قابل افسر ہیں.اگر چہ سر جوزف بھور اور سر کے دونوں صوبہ اوراس کے رہنے الے تھے اور دونوں عیسائی تھے اور دونوں کی بیویاں انگریز ہیں یکن دونوں کے درمیان کوئی ایسا ربط نہیں تھا میں نے سریلے کواپنے ملک میں ڈپٹی سیکریٹری مقر کر دیا اور دو سے کیا قابل ثابت ہوئے جیسے سٹرحیدری نے کہا تھا کہ اس سے بھی بڑھ کر جائنٹ سیکریٹری کی جگہ خالی ہونے پر وہ جائنٹ سیکیر بڑی ہوئے.بعد مں وہ حکومت ہند کے ممتاز عہدوں پر فائز ہوئے اور ناٹ پٹ کا خطاب بھی پایا تجارتی دند میں وہ میرے واحد سرکاری مشیر اور سکیم پڑی تھے.وہ بڑی خوبی سے اپنے فرائض کو سرانجام دیتے رہے.دونوں وفود کے پہلے اجلاس میں ہی میں نے اندازہ کر لیا کہ وفود کے درمیان گفتگو کا سلسلہ تو بہت طویل ہو جائے گا اور ہم کسی خاطر خواہ نتیجے پر نہ پہنچ سکیں گے.دو چارا جلاسوں کے بعد میں سرفنڈ لیٹ سٹوارٹ نائب وزیکہ مہند سے ملا اور خاطر اجلاسوں کی کاروائی کی کیفیت ان سے بیان کی.انہوں نے میرے ساتھ اتفاق کیا کہ اس طور پہ کام کرنا نتیجہ خیرنہ ہوگا انہوں نے فرمایا میں براؤن سے کہوں گا کہ تمہاری آپس میں براہ راست بات چیت ہو تو زیادہ تسلی بخش صورت پیدا ہو جائے گی.جب وہ مسٹر براؤن سے بات کر چکے تو مجھے فرمایا اب تم خود برہان سے مل لو.میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہیں بہت بیدار مغز با یا.ہم نے آپس میں یہ طرق کا رے کیا کہ دور کے درمیان باہشات کا طریق ترک کر دیا جائے.ہم آپس میں کام کی ایک ترتیب طے کر لیں.اس ترتیب کے مطابق ہم دونوں آپس میں بات چیت کر کے جب کسی حصے پر مفاہمت کے قریب پہنچ جائیں تو میں اپنے وفد سے مشورہ کروں اور وہ اپنے وزیر صاحب سے مشورہ کریں اور اس کے بعد ہم ایک دو ملاقاتوں میں اس حصے کے متعلق فیصلہ کر لیا کریں.ہمارا کام پیچیدہ بھی تھا اور طویل بھی اگر بر و ز براہ راست آپس میں سب میں الجھے رہتے تو کئی سالوںمیں بھی ختم نہ ہو سکتا.
۳۸۶ مسٹر براؤن کے ساتھ یہ قرار پایا کہ پہلے مسلے میں ہم بیٹے کرنے کی کوشش کریں کہ ہندوستان کے برطانیہ سے کیا کیا مطالبات ہیں اور ان کے متعلق مفاہمت کی کیا صورت ہو سکتی ہے.ہندوستان کا سب سے بڑا اور اہم مقامی تو یہ تھا کہ برطانیہ ہندوستان سے زیادہ سے زیادہ مقدار میں کپاس خرید کرے.لیکن اس مطالبے کے متعدی سیکسی تصفیے پر پہنچنا اس بات کے ساتھ متعلق تھا کہ برطانوی سوتی کپڑے پر تشریع محصول کیا ہو.پہلے مرحلے پر یہ طے پایا کہ پیچیدہ مسئلے کو ایک طرف رہنے دیا جائے اور اس پر بعد میں غور کیا جائے.اول یہ کوشش کی جائے که باقی سب امور باہمی رضامندی سے طے ہو جائیں.مسٹر براؤن کے ساتھ میری ملاقات ہفتے میں دونین بالہ ہوتی.اپنے مشاورتی وفد کے ساتھ روزانہ مشورہ ہوتا.ہر مرحلے پر حکومت ہند کو اطلاع دیجاتی کہ کیلے پورا ہے جب کسی ملک کے متعلق کوئی فارمولا تجویز کیا جاتا اور اس میں کوئی ترمیم منظر ہوتی تو میں مرے کوچند منٹوں میں سمجھا دیتا اور وہ اپنے کمرے میں جاکر پچیدہ سے پیچیدہ تجویز کو بنات صاف اور آسان الفاظ میں قلمبند کر کے چند منٹوں میں لے آتے.مجھے حیرت ہوتی کہ کسی جادو منتر سے کام لیتے ہیں یا اللہ تعالی نے بہت صان ہم عطا فرمایا ہے اور ساتھ ہی سادہ الفاظ میں مشکل سے مشکل مطالب کو بیان کرنے کا ملکہ ودیعت کیا ہے.میں نے ایک دن ان سے کی جو کام آپ کرتے ہیں وہ ہزار تین کرنے کے باوجود مجھ سے تو نہ ہوسکے مارنے ور کہا میں بی جب دیکھتا ہوں کہ ان ہی مسائل پرگفتگو کے دوران تم کسی تجویز یا ترمیم کے متعلق کی ندر بلائے قائم کر لیتے ہو تو مجھے بھی حیرت ہوتی ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ مجھ سے تو کسی صورت الیسا نہ ہو سکے.میں نے کہا ی بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جو کام تمہارے سپرد ہوا ہے اس کے ایک حصے کے متعلق مجھے مناسب فہم عطافرما دیا ہے اور دوسرے حصے کے متعلق آپ کو اعلی ملکہ عطافرمایا ہے اور ہمیں اس کام میں شریک کر دیا ہے.یورپ کے مختلف ممالکا سفر اور ان ممالک سا جولائی میں انگستان میں تعطل کا موسم شروع ہوگیا کے وزرائے و افسران محکمہ تجارت سے ملاقاتیں اور برطانوی وزارت تجارت کے افسران باری باری شخصیت پر جانے لگے.لہذا تجارت کے معاہدے پر گفتگو اگست کے آخر تک ملتوی ہوگئی.میں نے دائرے کے پرائیویٹ سیکریٹری سرگرٹ لیتھوٹ کو تار دیا کہ والٹرے سے دریافت کر کے مطلع فرما دیں کہمیں تنے عرصہ کیلئے واپس آجاؤں یا انگلستان میں ہی ٹھہروں؟ ان کا جواب آیا کہ چونکہ واپس آنے جانے میں اتنا وقت صرف ہو جائے گا کہ تم یہاں دو ہفتے سے زیادہ نہ ٹھہر سکو گے لہذا وائٹریٹ کا ارشاد ہے کہ اسمبلی کی قرار داد کے دوسرے حصے کی تعمیل میں تم یورپ کے دیگر ممالک میں جاؤ اور ان کے ساتھ ہندوستانی تجارت کوفروغ دینے کے متعلق تبادلہ خیانت کرد - چنانچہ میں اس سفر پر روانہ ہو گیا اور بیگ، برین ، کوین میگن ، سٹاک ہولم ، بیلسنگفورس ، دار ، پراگ، ترلین ، وی اینا، بوڈا لپیٹ، روم نے سوئٹزر لینڈ، پرس میں ان ملکوں کے وزرائے تجارت اور افسرانی
محکمہ تجارت اور بعض مقامات پر وزراء خارجہ سے ملاقاتیں کیں.اور ہندوستان کی تجارت کے فروغ دینے کے متعلق تبادلہ خیالات کیا.چونکہ ان ممالک میں ہندوستان کی براہ راست کوئی نمائندگی نہیں تھی اسلئے ہر جگہ برطانوی سفارت خانے کی وساطت کی محتاجی تھی.کہیں کہیں میرے اپنے ذاتی تعلقات بھی محمد کوٹے سفر سے میری ذاتی توقیت میں بہت اضافہ ہوا.میرے سفر کا مقصد صرف ابتدائی معلومات حاصل کرنا تھا.میں اس نتیجے کیہ کہنا کہ مند دستان کی تجارت کو ان ملکوں میں فروغ دینے کے لئے مقوائم بعد وجہد اور بالخصوص ہندوستان سے تجارتی وفود بھیجنے کی ضرورت ہے.بوڈا اپسٹ میں حکومت کی طرف سے علاوہ دیگر معلومات ہم پہنچانے کے مجھے ان کا زراعتی عباب گھر دکھانے کا انتظام بھی کیا گیا.اسے دیکھ کرمجھے حیرت ہوئی کہ اس ملک نے جو سیلی عالمی جنگ کے بعد اپنی سابقہ دوست کے مقابلے میں ایک چھوٹا سالک ہوکر رہ گیا ہے اپنی پیار کی بر آمد کے متعلق کیا عمدہ انتظام کیا ہوا ہے.عجائب گھر کے اندر داخل ہوتے ہی ایک بڑے مال کی سامنے کی دیوار یہ بڑے پیمانے کا سارے ملک کا نقشہ بنا ہوا تھا جس پر مختلف مقامات پر چھوتے چھوٹے بجلی کے بلب مختلف رنگوں کے لگے ہوئے تھے جو افسر ہیں عجاب گھر دکھا رہے تھے وہ نقشے کے سامنے رکھی ہوئی میز کے پاس کھڑے ہو کر میز کے ساتھ لگے ہوئے بٹنوں میں سے ایک دبا دیتے تو ایک خاصی رنگ کے بلب مثلا سرخ یا سبز یا زرد پر روشن ہو جاتے اور وہ افسر ہمیں بتا دیتے کہ ان مقامات پر جو اس وقت روشن میں خالی جنس یا فلاں پھیل کی پیداوار ہوتی ہے جس کی کل مقدایہ اتنی ہے.اس میں سے اس قدر ملک کے اندر خرچ ہوتی ہے اور استقدر باہر بھاتی ہے.عجائب گھر کے دوسرے کمروں میں انہوں نے ہمیں بعض تفاصیل باہر جانیوالی پیداوار کے کے ضبط کے متعلق تبائیں.مثلاً ایک سادہ سالکڑی کا بورڈ دکھایا در تابی که بهای بهای سیب دوسرے مالک کوبھیجتے کیلئے مکسوں میں بند کئے جاتے ہیں وہاں اس قسم کے بورڈ لگے ہوئے ہوتے ہیں.ہر سب ایسے بورڈ کے سوراخوں میں سے گذرتا ہے اور ویب باہر کھینے کیلئے مقره وزن یا حج سے کم ہوتا ہے وہ چھانٹ کر الگ کردیا جاتاہے.ستائیس سال بعد میں جاپان میں بھی میںنے ایک سیبوں کی پیکنگ فیکری میں بڑے پانے پر یہ نظام دیکھا ہنگری میں مھے تایا گیا کہ کل سے باہر جانیوالی اجناس اور اشیاء پرحکومت اسقدر بنی ہے کہ کوئی ناقص پز با برنہیں جاسکتی.ری داس میں اگرپاکستان میں بھی ایسابی نظام کر دیاجائے پاکستان کی ساکھ بیرونی تجارتی حلقوں میں ہت بڑھ جائے.افسوس ہے کہ اس وقت پاکستانی تاجروں کی شہرت غیر ملک میں قابل رشک نہیں یتیم کے شروع میں پھر زی الوی وزارت تجارت کے ساتھ گفتگو کا ایسار شروع ہو گیا.اور وسط التوتر یک پہلے مراحل کے متعلق ہمارے نقطہ نگاہ سے خاطر خواہ سمجھوتہ ہوگیا لیکن دونوں جانب سے مشکل سال کامل انی باقی تھا.ان کے متعلق یہ قرار پایا کہ فی الحال گفتگو کا سلسلہ ملتوی ہو اور شروع سال میں پھر عابدی ہو.اس وقت لنکا شائر کے سوتی کارخانہ والوں سے بھی مشورہ لاندم ہو گا.
٣٨٨ ی جی ایس پینٹی پہنچا تومجھے خیال ہو کہ اس محلے پر قائد اعظم مرخان سے مل لینا بھی مناسب ہوگا.چنانچ میں ان کی خدمت میں حاضر جوا اور تجارتی معاہدے کی گفتگومیں پہنچ پر چل رہی تھی مختصرا گوش گزار کی میں جانتا تھا کہ تفصیل انہیں سری شوتم اس ٹھاکر داس سے معلوم ہو جائے گی کیونکہ بیٹی کے تجارتی حلقوں کے ساتھ ان کے تعلقات میرے دوستانہ تھے.میری بات سنکر انہوں نے فقط انا فرمایا کہ تم اپنی سی کوشش کئے جائے اگر نتیجہ ہندوستان کے خون میں فائدہ مند ہو گا تو مجھے نے معاہدے کی تائید می تامل نہ ہوگا.میں نے کہا بھی یہ ہی کہا جاسکتا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹے لیکن میں آپ سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ اگر نیا معاہدہ طے ہو جائے تو آپ اسکا جائزہ تجارتی نقطہ نگاہ سے اس کے سیاسی نقطہ نگاہ سے نہ لیں گے.فرمایا میں مسیح موقف ہے اور میں ایسا ہی کروں گا.شد اء میں میں پھر وند کے ساتھ لندن گیا.اس وقعہ ہندوستانی کپاس کی خرید کے مسئلے پر بحث شروع ہوئی.جب مسٹر براؤن کے اور میرے درمیان اس مسئلہ پر مفاہمت ہوگی اور اس پر میرے مشران بھی رضامند ہو گئے تو یہ طانوی وزیہ جارت کرنے کا نہیں یہ کونین کی موت معلوم نہیں تجویز یه تیکه بیانیه ارسال سن دوستان سے ایک منفرد مقداری کیا اس خرید کرے.اگر بر طانیہ کی خرید کپاس معاہدے میں درج شدہ مقدارہ کے مطابق ہو تو لنکاشائر سے ہندوستان در آمد ونیوالے سوتی کپڑے پر درآمدی محصول رعایتی شرح سے لگایا جائے اگر ریر کردہ اس کی مقدار کم ہے توکی کے مطابق درآمدی محصول میں اضافہ ہو جائے.برطانوی وزیر تجارت کرنل سینے کاکہنا تھاکہ یہ شرط تعمیری ہے اور ہمارے لئے تو مین کا بہت ہے، دوسرے انہیں مجوزہ مقدار پر بھی اعتراض تھاکہ یہ بہت زیادہ ہے اور مکن ہے برطانیہ میں اتنی کی اس کی کھپت نہ ہو یہ رکاوٹ پڑا ہونے پر ہی پھر مر فنڈ لیر سٹوارٹ سے ملا.انہوں نے فرمایا مٹرولسن وزیر اعظم کے مشیر خاص ہیں میں ان پیدا وزیراعظم کے ساتھ تمہاری ملاقات کا نظام کر دنیا ہوں.ان کا دفتر ھی نیز او منگ سٹریٹ ہی میں ہے.تم انہیں معاملہ سمجھا و و و و وزیر اعظم کو شوروی که به معلمین میں ہونا چاہے میں نے کار اون تو ہے میں کرنا مینے یہ معاملہ کینٹ میں لے جانے پر رضامند نہیں.انہوں نے فرمایا اگر زیرا علم کم یں گے تو انہیں چارہ نہیں ہوگا.وسن زیر اعظم کے ساتھ بات کرنے سے پہلے باؤن سے دور دریافت کرے اور جبران کو ماند پائے گا وزیر اعظم وتا ے گا ملک کو کوئی اعتراض نہیں البتہ وزیر تجارت کو تا ہے.یہ میری کارگر بوٹی مارکیٹ میں گی اور با وجود یہ تجارت کر لینے کے تال کے وزیر اعظم کی راے کے مطابق جو کچھ ٹر براؤن کے اور مرے درمیان طے ہوا تھا اس کی کیٹ نے منظوری دیدی.اب سے مشکل یہ محلہ ایا گیا ایک کی درآمد پرعایتی شرح حصول کیا مقر کی جائے میں نے مسٹر براؤن سے کہا کہ ہم دومرتبہ اسلے میں انگلستان آچکے ہیں.اب انکا شائر دالوں کو چاہئے کہ وہ شروع مٹی میں ملے آجائیں اور اس آخری مسئلے پر وہاں گفتگو ہو.انہوں نے کہا مناسب ہے میں شروع اپریل میں دالیں ولی پہنچ گیا.شروع مٹی میں لنکا شانہ کا دند ملے آیا.لیکن ہماری آپس میں مفاہمت نہ ہو سکی.البتہ ہمیں یہ انداده
ہو گیاکہ وہ کیا طالبہ کرتے ہیں اور چار دنا پارس تندر پر امن ہوسکیں گے.میں نے برطانوی وند کے ساتھ آخری گفتگو کا خلاصہ وائسرائے کی خدمت میں پیش کر دیا اوراپنا اندازہ بھی بتایاکہ میرے خیال میں اس بنچ پر معاملہ طے ہو سکے گا.ساتھ ہی میں نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ یہ طانوی وفد تو بحری جہانہ سے واپس ہو نیوالا ہے.بہتر ہو میں ہوائی جہانہ سے انگلستان چلا جاؤں.اگر چہ کی گفتگو تو نکا شائر کے وفد کے واپس پہنچ جانے پر ہی شروع ہوگی.اور اتنے میں ہمار مشاورتی دند بھی لندن پہنچ جاے گا لیکن مجھے موقع مل جائے گا کہ یں غیر رسمی گفتگومیں پنا نقطہ نظر پہلے پیش کرلوں گا.وائسرائے اس پر راضی ہو گئے اور میں شروع ہون میں لندن چلا گیا.میرے لئے اپے مشاورتی وند کے لحاظ سے ایک مشکل یہ تھی کہ عوامر طے کرنا باقی تھا اس کا اثر ہندوستانی سوتی کپڑے کے کارخانہ داروں پر پڑتا تھا.وہ چاہتے تھے کہ نکا شائر کے سوتی کپڑے پرور آمدی محصول میں اول کوئی رعایت دی ہی نہ جائے لیکن اگر رعایت دی لازمی ہو جیسے وہ بھی جانتے تھے کہ اندمی ہے، تو کم سے کم رعایت دی جائے.اس کا حل می نے میں سوچا کہ حسبقدر رعایت دینے پر میرامش درتی وند آمادہ تھا میں اس سے بھی کم رعایت دینے پر لنکا شائر والوں کے ساتھ اڑا رہ ہوں.اس طرح میرے پاس کچھ گنجائش رعایت کو نہ بادہ یکی ہی میں امیر تھا تا کہ خواہ لنکاشائر والے راضی نہ بھی ہوں.پھر بھی مٹر براؤن کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیں گے جس کے نتیجے میں رعایت کی منظور شدہ شرح اس شرح سے کچھ کرسی ہوگی جو میرے مشاورتی وفد کے کارخانہ دار اراکین کی آخری صدیقی سر پر شو تم اس ٹھاکر داس اور مٹر کستور بھائی لال بھائی کا موقف تو سارا وقت معقول رہا مٹیریا کا موقف بظاہر تو یہ تھا کہ ہم جو طلب کرتے ہیں وہ ہمیں پورا لنا چاہیئے اور تمھیں دوسری طرف کا کوئی مطالبہ منظور نہیں کرنا چاہئے لیکن دوسرے دونوں کے سمجھانے بجھانے سے مان جاتے تھے.آخر ایک دن ایک معاملہ پر وہ اڑ گئے.اب تک ہم سب کاردانی اتفاق رائے سے کرتے پہلے آئے تھے.میںنہیں چاہتا تھا کسی ایک محلے میں بھی ہمارے درمیان اختلاف اقی رہ جائے.آرم سر بہلانے کہا ایا می مان جاتا ہوں بشرطیکہ معاہدے کی اس شق کی تعبیرات آنے پر مجھ پر چھوڑ دیجائے.میں نے کہا میری تو یہ کوشش ہے کہ معاہدے کی ہر ایسی واضح ہو کہ تیر کی قوت ہی نہ آئے لیکن پھر بھی ہو سکتا ہے کہ ایک موقعہ پیدا ہو جائے.یہ معاہدہ دو حکومتوں کے درمیان ہوگا.اختلاف کی صورت میں کوئی طریقی ختلاف کے رفع کرنیکا بھی آپس میں لے یا جائیگا.سیکسے ہو سکتا ہے کہ تیرآپ پر چھوڑ دی جائے.مسٹر مہمانے فرما کانگریس میں تو جب بابوجی (گاندھی جی ) کے ساتھ اختلاف ہوتا ہے تو وہ آخرمیں کہ دیتے ہیں، انجام تمہارا فارمول ان لیا ہوں بشرطیکہ اس کی بغیر مجھ پر چھوڑدیجئے میں نے کہ کانگریس میں تویہ بات لی جاتی ہے کیونکہ آخ آپ کو گاندھی جی کی بات ماننے کے بغیر چارہ نہیں لیکن روحکومتوں کے درمیان تو یہ بات تسلیم نہس کی جاسکتی کہ اختلات کی صورت میں آپ کی غیر تسلیم کی جائے.اول تو کوشش یہ ہونی چاہئے کہ عبارت ایسی صاف اور واضح ہو کہ اس کے مطلب کے متعلق کوئی اختلاف پیداہی نہ ہو.اور اگر اختلاف پیدا ہو ہی جائے تو اس کا فیصلہ کسی غیر جانبدار تالت یا
۳۹۰ منصف کے پڑھو نا چاہئے.پہلے سے یہ نیت کر لیا دوسرا فریق تو ان الفاظ سے یہ مطلب لیگا لیکن ہم وقت آنے پہران الفاظ کی کچھ اور تغیر کریں گے دیانت کے خلاف ہے.مسٹر مہ لانے فرمایا بابو جی تو ایسا ہی کرتے ہیں.اس وقت تو مجھے خیال ہوا کہ مریلا کو گاندھی جی کی کسی بات سے غلط فہمی ہوئی ہوگی لیکن بعد می جب کئی بار کانگریس کی قیادت نے تعبیر کے بہانے معاہدات کو بدلنے کی کوشش کی اور اسی آڑمیں ان کی خلاف ورندی کی تو مجھے مسٹر بہ لا ی بات پر یقین کرنا پڑا کی کینٹ مشن کی تجویز مسلم لیگ اور کانگریس دونوں نے منظور کر لی تھی پنڈت جواہرال ریکی تیروں کا شکار ہوگی اور وزیراعظم ایل جیسے نسیم نے شادی امام ہی ہم نے ملک کی تقسم کے بغفر یار نہیں بھر کشمیرمیںآرا شماری کے متعلق تپیڈت جی کے متعدد وعدے اور اعلانا اور اقوام متحد اور کمشن کی قراردادی جنہیں وہ سیم لوچلے تھے بعد کا شکار ہو گئیں جس کے نتھے میں صغیر کا اس برسوں سے خدشے میں پڑا ہوا ہے اور میر شائر میں تو باہم جنگ تک بھی قوت پہنچ گئی.۱۹۶۵ یہ تو میرے مشاورتی وند کا حال تھا.ادھر کر نل ٹیلے سے ملاقات کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ بھرے بیٹھے تھے.علیک سلیک کے بعد فرمایا: ظفر اللہ ! میں تو سوچ رہتا ہوں کہ پچھلی مرتبہ اس مسئلے کا سو فیصد کینٹ نے میری مرضی کے خلاف کا تھا اس پر استجاج کرتے ہوئےمیں استعفی دیدوں! میں نے کہا سینے مجھے تویہ سنکر کوئی تر پیدا نہیں ہوا.اول توآپ نے استعفے دینا ہوتا تو ہی وقت دیدیتے.دوسرے یہ آپ کا اور وزیر اعظم یا کینٹ کا ملا ہے میرا اس میں کیا دخل ہے.تیرے آپ استعفیٰ دیدیں گے تو آپ کی جگہ بورڈ آف ٹریڈ کا کوئی اور مصادر مقر ہو جائے گا.میں اس سے بات چیت کر لوں گا.بیشک مجھے افسوس ہو گا کہ جس شخص کے ساتھ میرے آٹھ سال سے دوستانہ مراسم ہیں اس کے ساتھ اس معالم میں گفت و شنیدہ ہوگی لیکن یہ بھی کن ہے کہ جو اب کی جگہ مقر ہوں ان کو نکا شائر کی استقدر حمات منظور نہ ہو جتنی آپ کو اپنے خاندانی تعلقات کی وجہ سے ہے اور میرے کام کی مشکل کچھ کم ہو جائے.بہر حال ہم نے آپس میں دو حکومتوں کے نمائندوں کے طور پر بات چیت کرنا ہے.اس کے ساتھ آپ کے استعفے دینے یانہ دینے کا کوئی تعلق نہیں.وہ کچھ حیران ہوئے کہ اپنے زعم میں جس بات کو انہوں نے ایک اہم اور موثر ا علان خیال کرتے ہے مجھے تشویش میں ڈالنے کی خاطر بیان فرمایا تھا اس کا جو کہ کچھ بھی اثر نہیں ہوا.میں اتنی صفائی کے ساتھ ان سے بہتا نہ کرتا لیکن مجھے اندیشہ تھاکہ گرمی نے استعفے والے معاملہ ی رسمی طور پر بھی انوس یا تشویش کا اظہار کیا تو انہیں نے موقف پر اڑے رہنے کا حوصلہ ہو جائیگا.استعفے کا ذکر ان سے سنکہ مجھے یہ یہ اثر ہو کہ یہ صاحب کمزور طبعیت کے ہیں اور اپنی کمزوری سے خائف ہیں اور استعفے کی آڑ میں اپنی کمزوری ڈھانپتا چاہتے ہیں.واقعہ کے دو مہینے بعد استعفی دیے کے متعلق سوچنا مجھے یہ ان کی خودداری کے متعلق کوئی خوشگوار اثر پیدانہ کر سکتا تھا.اس مرتبہ بھی یہی صورت پیدا ہوئی.مٹر یادو اور میں پس کی گفت و شنید کے بعد مفاہمت کے قریب پہنچ گئے
جو فرق ہمارے درمیان باقی رہ گیا تھا اس کے متعلق میں نے انہیں لنکا شائر کے حق میں خفیف سی رعات پیش کردی.انہوں نے اپنے مطالبے کا بقیہ حصہ ترک کر دیا.کرنل سٹیلے نے ہماری مفاہمت کو تسلیم کرنے یا اسے کینٹ میں پیش کرنے سے صاف انکار کر دیا.میںپھر سر فنڈ لیٹر سٹورٹ کی خدمت میں حاضر ہوا مسٹر ونسن سے ملا.یہ آخری مرحلہ تھا.میں لالہ ڈار بی کی خدمت میں بھی حاضر ہوا کہ وہ اپنے فرزند کو کم نہیں انہوں نے فرمایا کہ بیچارہ آلیور تو بیمارہ ہو گیا ہے اور صاحب فراش ہے.میں آج لن کا شائد جارہا ہوں میں چار دن میں واپس آؤں گا.اس وقت تک اس کی طبعیت اچھی ہو گئی تو اس سے بات کروں گا لیکن کرنیل سٹینلے صاحب فراش ہی رہے اور معاملہ وزیر اعظم کی ہدایت کے ماتحت کینٹ میں پیش ہو گیا.دوسرے دن میں مسٹر براؤنی سے ملا انہوں نے بتایا کہ کینٹ نے تمہاری آخری پیشکش کے مطابق منظوری دیدی ہے.کینٹ میں کچھ اختلاف ہوا.بعض اراکین کی رائے تھی کہ ہمیں اپنے مطالبے پر اصرار کرنا چاہئے بحث کے آخر میں وزیر اعظم نے کہا اس معاملے میں برطانیہ یہ ملک ہے اور مند دوستان چھوٹا ہے اگر ظفر اللہ خان کی آخری کیش سے ہندوستان کو کچھ فائدہ ہوتا ہے تو کوئی ہرج نہیں ہمیں یہ پیشکش مان لینی چاہیے.مجھے کامن دیلیتھ سے بابر بہت سی پریشانیوں کا سامنا ہے.میں ہندوستان کے ساتھ ایک نیا تنازعہ کھڑا نہیں کرنا چاہتا.مین ظفر اللہ خان کو جانتا ہوں.اگر وہ کہتا ہے کہ وہ اس سے آگے نہیں جا سکتا تو پر جو کچھ وہ کہتاہے وہ بھی تسلیم کرنا ہو گا یا معاہدے کو ترک کر نا ہو گا اس سے کامن ویلتھ کے دوسرے ممالک پر خوشگوار اثر نہیں ہو گا اسلئے مناسب یہی ہے کہ اس کی آخری پیش کش کو منظور کر لیا جائے.میں نے یہ سنہ اللہ تعالی کا شکر ادا کیا کہ اس نے اپنے فضل در جم سے ایک ناچیز در ے کو کس قدر نواندا.سجدت لك روحی و جنانی.مٹر براؤن نے کہا فیصلہ تو میں نے تمہیں غیر رسمی طور پر بتادیا ہے لیکن پروٹو کول کا تقاضا ہے کہ کینٹ کا فیصلہ حکومت کا وزیہ ہی دوسوریا حکومت کے وزیرہ کو بتائے.میرے وزیمہ تو ابھی تک صاحب فراش ہیں.اسلئے کل صبح دس بجے تم اور میں وزیہ صحت کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور وہ تمہیں کینٹ کا فیصلہ سنا دیں گے.کرنل سٹیلے کی غیر حاضری میں یہ معاملہ کینٹ کے اجلاس میں وزیر صحت کے سپرد تھا.دوسری صبح ہم دونوں سر چارلس کنگلے دو وزیر صحت کی خدمت میں حاضر ہوئے.انہوں نے کینٹ کا فیصلہ مجھے پڑھ کر سنانا شروع کیا.انہوں نے ایک دو فقرے ہی پڑھے تھے کہ مجھے پا نی ہوئی کیونکہ وہ میری تجویز نہیں تھی بلکہ وہ مٹر یاؤں کی تجویز تھی.میں نے سربراؤن کی طرف دیکھا وہ بھی سمجھ گئے تھے اٹھ کر کبائر فیسر مجھے معاف کرنا یہ کینٹ کے فیصلے والا کاغذ نہیں ہے اور ان کے سامنے پڑی مسل سے اصل کا غذ نکال کران کے سامنے رکھی تو انہوں نے مجھے پڑھ کر سنایا.ہم ان کا شکریہ ادا کر کے واپس آگئے.اچھا ہوا کہ مجھے فیصلہ
۳۹۲ پڑھ کر سنانے کا نا گوار فرض کرنل سٹینلے کو نہ ادا کرنا پڑا.ورنہ ضرور ان کی تمہید یہ موتی ظفر اللہ اب تومیں ضرور استعفے دیدوں گا لیکن فیصلہ پڑھ کر نہیں سنا دیتا ہوں.ان کی طبیعت کی ناساندی نے انہیں استعفے دینے سے محفوظ رکھا.ان دنوں سر سومی مودی بھیٹی مل اونرز ایسوسی ایشن کے صدر تھے اور اس حیثیت سے اسمبلی کے رکن تھے وہ لندن تشریف لائے ہوئے تھے.انہیں سریر تو تم واس تھا کہ اس سے معاہدے کی تفاصیل معلوم ہو گئیں.مجھ سے ملاقات ہوئی تو کہا یں بورڈ آف ٹریڈ کے عملے میں سے کس سے ملوں گا تو ہوں گا کہ ظفر ال نے تم پر غور جاد کیا ہے.پھر مجھ سے پوچھا اچھا سچ بتاؤ تم نے کیسے انہیں ان شرائط پر پر ضامند کر لیا؟ وائسرائے لارڈ لنلتھگو ) رخصت پر آئے ہوئے تھے.جب معاہدہ طے ہوگیا اور میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو بڑے تپاک سے ے اور کھا لیا مشکل کام تھا لیکن تم نے خوب نبھایا..تھا سر شادی لال کی جگہ پریوی کونسل کی پیشکش | سرنڈائیر ٹورٹ سے رخصت ہونے گیا تو انہوں نے بتایا جگہ سر شادی لال سندوستان جاتے وقت کہی گئے تھے کہ وہ واپس نہیں آئیں گے.یوں تو وہ ہر سال ہی کہتے رہے ہیں.ان کامیاں دل نہیں لگتا صحت اچھی نہیں، آب وہوا ناموافق ہے لیکن اب کیا معلوم ہوتا تھا کا ارادہ واپس آنے کا نہیں.اگر انہوں نے اتنے بھی دیا تو کیا ان کی جگہ آنا چاہوگے ؟ میں نے دریافت کیا آپ کا کیا مشورہ ہے؟ میرا مشورہ ہے کہ تم ان کی جگہ آجاؤ.میں نے کہا کہ سر شادی لال نے استعفے بھیج دیا تو اس وقت سوچ لوں گا.قانون خلع میں جب ملے واپس پہنچا تو اسمبلی کا اجلاس ہو رہا تھا.قاضی محمد احمد کاظمی صاحب نے اسمبلی میں خلع کے متعلق ایک مسودہ قانون پیش کیا تھا.جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان شادی شدہ عورتوں کو ہندوستانی عدالتوں سے تخلع حاصل کرنے میں جو مشکلات پیش آتی ہیں ان کا ازالہ کیا جائے.اس مسودے میں ایک دفعہ یہ بھی تھی کہ امہ کوئی مسلمان عورت اسلام ترک کرکے کوئی ایسا مذہب اختیار کرے جین مذہب کی پیر عورت کے ساتھ ملان مردکان کات شرح محمدی کی رو سے جائز ہے تو ایسی صورت میں عورت کے ترک اسلام کی وجہ سے اس کا نکاح فسخ نہیں ہو گا.ہندو اراکین کی طرف سے اس دفعہ کی مخالفت کی گئی تھی.حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا تھا کہ یہ مذہبی معاملہ ہے اسلئے اسمبلی کے سرکاری اراکین اس میں غیر جانبدار رہیں گے.اگر یہ صورت قائم رہتی تو اسمیل میں مسونے کی یہ دفعہ منظور نہ ہوسکتی.سید غلام بھیک نیرنگ صاحب چند دیگر مسلم اراکین کے ساتھ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا تم اس معامے میں حکومت کا موقف بدلوانے کی کوشش کرو.میں نے عرض کیا میں حاضر ہوں لیکن ایک امر ور طا ہے، یہ مسئلہ اسی غلط مسئلے کی شاخ ہے کہ ارتداد کی سزائل ہے اور جہاں یہ سزا ای نہ کی جاسکے ہاں مرند کے دیوانی حقوق ساقط ہو جاتے ہیں.قرآن کریم سے واضح ہے کہ ارتداد ایک نہایت قبیح اخلاقی اور روحانی فعل ہے.جو اللہ تعالی کی شدید ناراضگی کا
۳۹۳ موجب ہے.لیکن گرار نداد تبدیلی عقیدہ تک محدود ہو اور اس کے ساتھ کوئی اور حریم شامل نہ ہو تو اسکی جسمانی سینا کوئی نہیں.قرآن کریم کی بہت سی آیات کر یہ اس پر دلیل ہیں.اس بنا پر میں مسودہ کی اس دفعہ کی سرکاری تائید کے حصول کی کوشش تو کر سکتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اس میں بفضل الہ کامیابی بھی ہو جائے لیکن آپ اراکین میں سے بعض اصحاب ایسے ہیں مثلا مولانا ظفر علی خان صاحب تو یقین رکھتے ہیں کہ ارتداد کی سلامت ہے اور ارتداد سے تنسیخ نکاح لازم آتا ہے ایسانہ ہوکہ سرکاری تائید حاصل ہونے کے بعد ایسے اصحاب اڑ بیٹھیں کہ یہ دفعہ اسلامی شریعت کے خلاف ہے.سید صاب ے فرمایا مولانا ظفرعلی خان دوتین دن کیلئے ایبٹ آباد تشریف لے گئے ہیں ان کی واپسی پران کے ساتھ مشورہ کرنے کے بعد پھر تم سے بات چیت کریں گے.تین چار دن کے بعد مولانا ظفر علی خالصاحب بھی ان اصحاب کے ہمراہ تشریف لائے.میں نے گذار کی کہ آپ نے اء میں حضرت مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی کابل میں سنگساری کے موقع پر چند مقالے زمینداری تائے کئے تھے.جن میں آپ کا موقف تھا کہ مرتد کی سزا قتل ہے.اگر اس موقعہ پر بھی آپ کا دہی موقف ہوا تو مسودہ قانون کی دفعہ مستانہ عنہ کی آپ مخالفت کریں گے اور آپس میں آڑا کا اختلاف ہو گا.اس پہلو پر ابھی سے غور ہو جانا چاہئے.مولانا انیس دیئے اور فرمایا وہ اور بات تھی یہ اور بات ہے آپ سرکاری اراکین کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کریں ہم سب آپ کے ساتھ میں میں نے کینٹ میں سوال اٹھایا کہ اس معاملہ میں سرکاری اراکین کے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ میری غیر حاضری میں کیا گیا تھا.میں چاہتا ہوں کہ میرے رفقاء میری بات سن لیں.پھر جو چاہیں فیصلہ کریں.وہ رضامند ہو گئے تومیں نے گذارش کی کہ نام آزادی ضمیر کا حامی ہے.تبدیلی عقیدہ بے شک گناہ اور اخلاقی اور روحانی حریم ہے.لیکن اس کی جسمانی سزا کوئی نہیں.گرایک مسلمان عورت اسلم کو ترک کرکے کوئی ایا دین اتار کرتی ہے کیا یعنی عورتوں کے ساتھ کیا جاتا ہے تو تبدلی عقیدہ سے خود بخود نکاح فسخ نہیں ہوتا.اگر ای ہو ت بہت باتیں لازم آتی ہیں.جن کی میں نے مثالیں دیں مزید بہ ایں یہ مسلہ فقہ کا ہے.یعنی اسلامی قانون کا اور اسلامی شریعت کی تعبی کی نامسلمانوں کا کام ہے.اگر موجودہ صورت میں کاری اراکین میری جاندار ہیں.اسمبلی میں چونکہ کثرت غیرمسلم اراکین کی ہے مسودہ قانون کی یہ دفعہ رد ہو جائے گی.ار و یا عمل اسلامی شریعت کی تغیر غیرمسلم اراکین کی رائے کے مطابق ہوگی تو ری نا الصافی اور زیادتی ہوئی میری گندگی سنے کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ سرکاری اراکین وقع متنا رعد کی تائید میں رائے دیں.حکومت کی طرف سے یہ معامل وزیر داخلا سرد کینیڈ میکسول کے سپرد تھا.انہوںنے مجھے کہا کہ مرے لئے مناسب نہیں ہمیں اسلامی شریعت کے ایک ایسے مسئلے پر تقریر کروں جس میں قرآن کریم کی آیات کی تعبیر لازم آتی ہے.مناسب ہوگا کہ اس معاملے میں حکومت کے موقف کی وضاحت تم اپنے ذمہ لو میں نے کہامجھے منظور ہے.چنانچہ وقت آنے پر میں نے آملی میں متعلقہ مسائل کی وضاحت کی.ان میں سے بنیادی مسئلہ مرتد کی سزا کا تھا.جس پر یس نے تفصیلی بحث کی.اجلاس کے ھا تم ہونے پر میں سالی کی عمارت سے باہر جارہا تا کہ مٹایم ایس نے نے مجھے بلایا اور مبارکبادی کہ آج تم نے اپنے
۳۹۴ دین کی وہ خدمت کی ہے جو یاد گار رہے گی.تم نے ہمارا تصور اسلام کے متعلق بالکل بدل دیا ہے.ہم اتنک بھی سمجھتے تھے کہ دین کے معامے میں اسلام میر ظلم کو روا رکھا ہے.آج تم نے اسلام کی وہ تصویر پیش کی ہے جو نبات دلکش ہے فالحمد للہ.جناب کاظمی صاحب کے مسودہ قانون نے فقہ اسلامیہ کے ایک اور متنازعہ مسئلے کوبھی واضح کر دیا.فخرز الشد فقہ حنفید می فقہا کی کثرت اس طرف بھی کہ بخیار البلوغ کا تق ایسے نکاح کے متعلق پیدا نہیں ہوتا جس میں عورت کا دلی اس کا باپ یا اس کا دادا ہو.اس قانون نے یہ وضاحت کردی کہ خیار البلوغ کاستی تب اس عورت کو حاصل ہے جس کا نان نا بالغی میں کیا جائے.والدہ صاحبہ کی وفات | وفات سے کئی سال پہلے والدہ صاحب کو خواب میں بتایا گیا کہ ان کی وفات پرپی کے مہینہ میں آخری بدھ دارہ کو ہوئی.انہیں اس بات پر یقین تھا کہ اطاع اللہ تعالی کی طرف سے ہے.لیکن ساتھ ہی جانتی تھی کر دیا اور خواب تعبیر طلب ہوتے ہیں اور اللہ تعالی بے نیاز ہے اور اس کی قدرت کی کوئی انتہا نہیں.جنوری ۱۹۳ء میں جب میں انگلستان جانے لگا تو والدہ صاحبہ نے دریافت کیا اپریل تک واپس آجاؤ گے ؟ میں نے جواب دریا امید کرتا ہوں انشاءاللہ آجاؤں گا.اس پرانہوں نے بہت اینان کا اظہار کیا ان کا ایک اپریل کی شام کو دی پہنچ گیا انگلستان سے میں نے والدہ صاحبہ کی خدمت میں لکھا تا کہ ان والد یکم اپریل کی شام کو دلی سنتی باڈی گا اور بارون جاؤں دہلی ٹھرنے کے بعد قادیان ھاؤں گا.اگر آپ پسند فرمائیں تو دہلی تشریف لے آئیں.اور اگر سفر کی تھکان اور تکلیف کا خیال ہو توپھر انا اللہ و ر ا پریل کو قادیان ملاقات ہوگئی.یکم اپریل کو گاڑی پونے دو گھنٹے دیرسے پہنچی سٹیشن پر پہنچتے ہی معلوم ہوا کہ والدہ صاحبہ موٹریں بیٹھی انتظار کر رہی ہیں.چنانچہ جب میں موٹرمیں پہنچا تو عادی اور پا بہ کی اور کہاتم ے یہ کیسے خیال کیاکہ میں بارہ دن اور انکار کرسکوں گی.ابھی ہم دلی میں ہی تھے کہ والدہ صاحبہ کوخون کے دباؤ کی تکلیف ہوگئی پہلے بھی بھی بھی انہیں یہ تکلیف ہو جایا کرتی تھی.چنانچہ علاج کرنے پر دباؤ کی اصلاح ہوگئی اور تکلیف رفع ہوگئی.نی ایام میں انہوں نے ایک رویا دیکھا.جس پر اپنی طبعت میں بہت خوشی محسوس کرتی تھیں اور گو اس کی تحر کو خوب سمجھتی تھی لیکن بار بار خوشی خوشی سے بیان کرتی تھیں.فرمایامیں نے دیکھاکہ حضرت سیح موعود علیہ الصلوة السلام ایک ایک شریف فرما ہیں اور بہت خوش نظر آتے ہیں.مجھے آپ کو دیکھ کر دل میں بہت خوشی محسوس ہوئی اور میں نے عرض کی حضرت اگر ور اجازت دیں تومیں تصویر کے پاؤں دباؤں.آپ نے سکرا کر بڑی شفقت سے اپنے پاؤں پلنگ کے ایک طرف کر لیئے تا کہ میرے میٹھنے کیلئے جگہ ہوجائے میں پلنگ پر بیٹھ گئی اور حضور کے پاؤں دبانے لگی.اس وقت میرے دل میں خیال آیا کہ مصور سوفت بہت خوش نظر آتے ہیںمیں کسی بت کیلئے دعا کیلئے عرض کروں.ابھی میں سوچ رہی تھی کہ کس بات کے لئے دعاء کیلئے عرض کروں کہ حضور نے اپنی دائیں طرف کسی شخص سے مخاطب ہو کر اور میر طرف اشارہ کر کے فرمایا ان کا مکان کشادہ بنانا پھر میں بیدار ہوگئی.جب سے میں نے یہ خواب دیکھا ہے میں بہت ہی خوش ہوں.
۳۹۵ جب ہم قادیان پہنچے تو والدہ صاحبہ نے اپنا یہ دریا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں بھی بیان کیا.حضورت نے فرمایا یہ جنت کے مکان کی طرف اشارہ ہے.اس موقع پر ہم آخر پر پل تک قادیان ٹھہرے.والدہ صاحبہ کے خواب کی وجہ سے ہی میں نے یہ انتظام کیا تھا کہ ہم اپریل کا آخری نصف قادیان میں گزار ہیں.اس عرصہ میں والدہ صاحبہ با د وتشوف پیری کے اور خون کے دباؤ کی شکایت کے تو پھر عود کر آئی تھی بدل جمعہ کی نماز کے لئے مسجد اقصی جاتی ہیں.اور حضرت ام المومنین اور حضرت خلیفہ المسیح کی خدمت میں حاضر ہوتی رہیں جمعہ کی نماز کے وقت چونکہ اچھی خاصی گرمی ہو جاتی تھی.سلئے جب مجھے معلوم ہوا کہ آ مد کی خانہ کیلئے مسجد اقصی گئی تھیں تومیں نے عرض کی اگر آپ مجھے اطلاع دیتی توی سواری کا انتظام کرتا.فرمایا نہیں بیٹا محمد تک جانے میں کیا تکلیف ہے.جب والدہ صاحبہ کو معلوم ہوا کہحضرت خلیفہ امی نے اور اپرای سند کی طرف روانی کا ارادہ فرمایا ہے تو کچھ افسردہ کی ہوگئیں.دو روز کے بعد جب معلوم ہوا کہ حضور ۲ را اپریل کو قادیان سے روانہ ہوں گے تو خوشی خوشی مجھے تایا کہ تم نے سنا حضرت صاحب ۲۷ کو روانہ ہوں گے؟ میں نے کہا ہاں میں نے بھی سنا ہے.پھر دوبارہ مجھ سے کہا روانگی ی و تاریخ ہے میں نے کہامیں سمجھتاہوں پر ان کی یہ تھی کہ اریل کے مہینے کا آخری بد دوار اور کوہے اور اگر اس سال ان کا خواب ظاہری رنگ میں پورا ہوا ہے تو حضرت صاحب ان کا جنازہ پڑھا کر قادیان سے روانہ ہوں گے.۲۷ کی صبح کودہ خری بار مر ہی گیں.اس دن مجھ سے شکایت کی کہ محسوس کرتی جو کہ مرے جس کے اندر حرارت ہے لیکن بظاہر کوئی تکلیف انہیں نہیں تھی.نی ایام میں والدہ صاحب نے بتایاکہ کی بار انہوں نے غنودگی کی حالت میں سناہے کہ کوئی شخص کہتا ہے کہ کچھ ہو نیوالا ہے اور دوسرا شخص جواب میں کہتا ہے اب کی بار تو ہو کر ر ہے گا.۳۰ را پر پل کو جبدن قادیان سے ہماری روانگی تھی والدہ صاحبہ نے زیادہ تکلیف کا اظہار کیا.ڈاکٹر صاحب کو بلوانے کی کوشش کی گئی، لیکن وہ کسی وجہ سے تشریف نہ لا سکے.میں نے عرض کی اس لیے ان کو ڈاکٹر الیں گے.انہوں نے کرا کر فرمایا اچھا شام کی گاڑی سے ہم قادیان سے روانہ ہو گئے.صبح انہوں نے اپنا ایک درد یا سنایا کہ تمہارے والد صاحب آئے ہیں اور کہتے ہیں آپ تو بہت بہیمانہ ہیں اچھامیں جا کہ ڈاکٹر کولاتا ہوں اپ ڈاکٹر جس کی ہر بادہ کی نہیں بنیں رویے ہوگی..شملہ پہنچ کر ڈاکٹر صاحب کو ملایا.انہوں نے کیا تکلیف تو خون کے دباؤ کی ہے.لیکن صحیح علاج اس قیمت تک نہیں ہو سکتا جب تک بیماری کے پہلے مراحل کی تفصیل معلوم نہ ہو.خون وغیرہ کا معائنہ کرنے سے معلوم ہوا کہ گردے بھی ٹھیک کام نہیں کر رہے بہر حال کو علاج تجو یہ ہوا وہ شروع کر دیا گیا ہے.لیکن کمزوری آہستہ آہستہ بڑھتی گئی.""
شملہ پہنچ کر سہی رات ہی والدہ صاحبہ نے رویا میں دیکھا کہ والد صاحب تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں میں آپ کے لئے پالکی لے آیا ہوں اب آپ جس وقت تیار ہو جائیں ہم روانہ ہو جائیں.والدہ صاحبہ نے کہا میں تو ستہجد کے وقت تیار ہو جاؤں گی اور اسی وقت چلنا بھی مناسب ہوگا.تاکہ زیادہ گرمی ہونے سے پہلے پہلے سفر طے کر لیا جائے.والد صاحب نے فرمایا بہتر ہو گا کہ بجے کے بعد روانہ ہوں جیسن کے ناشتہ سے فارغ ہو جائیں ورنہ بچوں کو تکلیف ہوگی.والدہ صاحبہ نے دوسرے دن خواب بیان کرتے ہوئے پالکی کی نہ بائش کی تفاصیل بھی بیان کیں کہ ایسی خوبصورت اور اس قسم کی لکڑی تھی اور فلاں حصے چاندی کے تھے.پانچ دن تو اسی صورت میں گزر گئے کہ کوکمزوری تھی لیکن کس قسم کی تشویش نہیں تھی تہجد کے لئے اورباقی نمازوں کے لئے خود ہی اٹھ کہ غسل خانہ میں وضو کے لئے تشریف لے جاتی تھیں اور جائے نماز پر نمازیں پڑھتی تھیں.اکثر وقت پلنگ پر بیٹھے ہوئے گزارتی تھیں.چوتھے روز گوڈاکٹر صاحب نے بینگ سے اتر نا منع کر دیا تھا لیکن پھر بھی 4 مئی جمعہ کے دن عصر کے وقت جب میں ان کے پاس گیاتو میں نے دیکھا کہ بر آمد میں جائے نماز پر نمانہ پڑھ رہی ہیں.جب نمانہ ختم کر چکیں تومیں نے عرض کی کہ ڈاکٹر صاحب نے تو پلنگ سے ہلنے کی اجازت نہیں دی آپ اس حالت میں ہیں.فرمایا نماز پڑھنے میں کوئی تکلیف نہیں.پھر میں نے کہا چلئے میں آپ کو بلینگ تک پہنچا آؤں اور میں سہارا دیکر ملنگ تک لے گیا انہوں نے اظہار شفقت کے طور پر سہارا لے لیا لیکن اس وقت ابھی نہیں سہارے کی ضرورت نہ تھی.مغرب کے بعد میں دفتر کے کرہ میں بیٹھ ہوا کام کر رہا تھاکہ مجھے اطلاع ملی کہ والدہ صاحب پرایک قسم کی بیہوشی کی حالت طاری ہو گئی ہے.میں فورا ان کے کرہ میں گیا.اس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ضعف کی وجہ سے کچھ تم بیہوش سی ہورہی ہیں.لیکن آہستہ آہستہ پاؤں دبانے سے پورا ہوش آگیا اور باتیں کرنی شروع کر دیں.ماری ہفتہ کے دن ان کی حالت پہلی شام کی حالت سے توبہتر تھی.لیکن کمزوری بہت محسوس کرتی تھیں دوران گفتگو میں انہوں نے کہا اگر ڈاکٹر لطیف یہاں ہوتے تو مجھے جلد صحت ہو جاتی.میں نے فوراً ڈاکٹر لطیف صاحب کو بلی تار دیدیا کہ والدہ صاحبہ آپ کو یاد فرماتی ہیں وہ دوسرے دن صبح شملے پنچ گئے.والدہ ماحول نہیں دیکھ کر بہت خوش ہوئی پلنگ پر اٹھ کر بیٹ گئیں ڈاکٹرصاحب کو پیار کیا اور سکرا کر کہا آ کے اچھی ہو جاؤں تو سمجھوں بڑے ڈاکٹر ہو.ڈاکٹر صاحب نے کہا اللہ تعالیٰ فضل کرے گا.دیکھئے میں آپ کا نار ملتے ہی گیا ہوں والدہ صاحبہ نے کہا میں نے تو تارہ نہیں بھجوایا اور میری طرف دیکھا میں نے عرض کی کہ کل آپ نے ڈاکٹر صاحب کو یاد کیا تھا.اسلئے میں نے تارہ دید یا تھا.ڈاکٹر صاحب نے معائنہ کرنے کے بعد فرمایا کہ ان کے لئے شملہ میں ٹھہر نا نہایت مضر ہے یہاں بلندی کی وجہ سے دل پہ بہت بوجھ ہے میں انہیں آج ہی اپنے ساتھ دلی لے جاتا نگا
اور اپنے مکان پر ہی رکھوں گا کیونکہ تین چار روز تک متواتر علاج کی ضرورت ہے.اور میرا ہر وقت قر اضروری ہے تاکروں کی حالت اور خون کے دباؤ کے مطابق علاج میں تبدیلی ہوتی رہے.ساتھ ہی والدہ صاحبہ کو تسلی دی کہ تین چار روز کے علاج کے بعداللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام تکلیف دور ہوجائے گی.چنانچہ سید ندوی کے سفر کی تیاری کرلی گئی انتہائی ی والدہ نے ارا کیا کہ وہ ضروروالدہ صاحبہ کےساتھ لی جائیں گی یہ انوار کادن تھا اور دوستی دن میری حاضری شملہ میں لازم تھی.اسلئے یہ انتظام کیا گیا کہ میں ان سب کو کا لنکا ریل میں سوار کرادوں اور پھر آنیوالے ہفتہ کے دن ولی والدہ ماتہ کی خدمت میں حاضر ہو جائیں.چنانچہ ہم سب شام کے وقت ان کا پہنچے گئے اور ان سب کو آرام سے ریل میں سوار کر دیا گیا.میں نے والدہ صاحبہ سے رخصت چاہی وہ لیٹی ہوئی تھی میں نے اجازت طلب کی تو اٹھ کھڑی ہو میں اور میری پیشانی کو بوسہ دیکر و عادی.ڈاکٹر صاحب نے انہیں کھڑے ہوئے دیکھ تو شور مچا دیا ہے یا بے لے جی! آپ کیا کر رہی ہیں فوراً لیٹ جائیں.آپ کو تو بیٹے لیے بھی حرکت نہیں کرنی چاہیے.والدہ صاحبہ نے بڑے اطمینان سے جواب دیا بیٹا لیٹے رہنے کیلئے تو بہت وقت ہے ظفر اللہ خاں کواب پھر ملناش ید ہویا نہ ہو.دوسرے دن شام کو دہلی ٹیلیفون کیا تو معلوم ہوا کہ حالت پہلے سے بہتر ہے البتہ دو پر کے وقت استلا کی شکایت ہوگئی تھی.جس سے دل پر کچھ پوچھ بڑھ گیا تھا لیکن یہ حالت ایک و گھنٹوں کے بعد رفع ہو گئی.امی منگل کے دن دوبار پہلی سیفون کیا.وہی جواب ملا تو پہلے دن کا تھا.ارمی بدھ کے دن صبح کو بھی وہی خوا ملابہ پر کو دہلی سے ملعون ہوا کہ دوپہر کے بعد دل کی حالت بگڑ گئی تھی مگر یکے سے پھر مل گئی.اب نسبتا آرام ہے جوش میں ہیں اور باتیں کر رہی ہیں لیکن حالت ایسی ہے کہ تمہیں عد دلی پہنچے جانا چاہئے.مجھے دور سے دن شملہ میں ایک ایسا ضروری ساری کام تھا کہ میں سہ پہر سے قبل روانہ نہیں ہوسکتا تھا.ول مٹی جمعرات کی صبح کو ٹیلیفون پر معلوم ہوا کہ سال پہلے سے بہتر ہے لیکن پھر بھی میں نے احتیاطی اپنے تینوں بھائیو ا دیا ہے کہ ایل این ائی اور میر صاحب کوبھی ساتھ لینے آئیں یا ال ای تو بدھ کی رات کوہی لاہور سے روانہ ہو گیا تھا اور جمعرات کی صب کو دہلی پہنچ گیا تھا.باقی م س ا ر ی جمعہ کی صبح کو ہی پہنچ گئے.ڈاکٹر لطیف صاحب نے بتایاکہ امتہ المنی کی والدہ نہایت جانفشانی کے ساتھ والدہ صاحبہ کی خدمت میں لگی رہی ہے وران صحت در آرام کا کچھ نیا نہیں کیا اور پرمیں نے خودبھی مشاہدہ کرلیاکہ ہم سب یوں ہوں اور بیٹی سے دو مق مت ادا نہ ہوسکا واستہ امی کی والدہ نے ادا کیا.الہ تعالی اسے برائے دار عطافرمائے آمین.انجے کے قریب والدہ صاحب نے مجھے فرمایا، اب پھر میں نے اسے استعمام تصور کر کے جلدی سے عرض کی اب پھراللہ تعالی کا فضل چاہیے.ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ پرسوں کی نسبت آپ کی حالت بہت اچھی ہے انشاء اللہ آپ کو بہت جلد بحت ہو جائے گی.والدہ صاحب نے فرمایا آپ پر مجھے قادیان سے چلو میں نے من کی د دا اعلان کا پورا نظام نہیں ہو سکے گا
| والدہ صاحبہ نے بہت حیرت سے کرا کر کہا، اچھا ؟" اس دن در پیر کو والد صاحب کو استلا ء کی تکلیف نہ ہئی اور یہ وقت کو تشویش کا ہوا کرتا تھا بیرت گذر گیا.جس سے کچھ امید ہونے لگی کہ اللہ تعالی اپنے فضل سے انہیں شفا دیگا.ارٹی ہفتہ کے دن دو بیر تک والدہ صاحبہ کی وہی الت رہی.دوپہر کے وقت سب لوگ تو چودھری بشیر احمد صاب کے ہاں کھانا کھانے کیلئے چلے گئے.والدہ انتہائی اورمیں والدہ صاحب کے پاس رہے.کھانا کھانے کے بعد دو بجے کے قریب میں وضو کر رہا تھا کہ مھے کسی نے آواز دی کہ والدہ صاحبہ یاد فرماتی ہیں.میں ن کے کمرہ میں گیا تو دیکھا کہ انہوں نے اپنی نبض پر ہاتھ رکھا ہوا ہے.مجھے دیکھ کرمسکرائیں اورکہا آو بیٹا ب آخری باتیں کرنیں اور اپنے بھائیوں اور بہن کو بھی بلا لو.ڈاکٹر صاحب اس وقت کمرہ ہی میں ٹیک تیار کر رہے تھے انہوں نے انگریزی میں مجھ سے کہا دل کی حالت بگڑ گئی ہے اور فیض بھی بہت کمزور ہوگئی ہے.لیکن میں نے والدہ صاحبہ سے کچھ نہیں کہا.انہوں نے خود می نبض سے شناخت کر لیا ہے.اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے ٹیکہ کیا اور سول سرمن صاحب کو بھی ٹیلیفون پر ملالیا.ٹیکہ کرنے کے تھوڑی دیر بعد ڈاکٹڑھاوں نے نبض دیکھ کر کہا ہے اب تو فیض ٹھیک چل رہی ہے.والد صاحب نے خود ہی دیکھ کر فرمایا ٹھیک تو نہیں چل رہی واپس گئی ہے لیکن ابھی کمزور ہے.اتنے میں وہ سب عزیز تو کھانا کھانے کیلئے گئے ہوئے تھے واپس آگئے اور چو ہدری بشیراحمد قصاب ار شیخ المجانا حمدصاحب بھی اطلاع ملنے پر تھوڑی دیر کے بعد چھری سے اگئے.والدہ صاحبہ نے فرمایا یہ وقت سب پہ آتا ہے اور اولاد کوجب والدین سے جدا ہونا پڑتا ہے تو انہیں کرب بھی ہوتا ہے.لیکن میںاللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہوں اور خوشی سے اس کے حضور چارہی ہوں.میں تم سب سے رخصت ہونا چاہتی ہوں سکتی چاہتی ہوں کہ تم لوگ رونے دھونے سے باندر ہو ، اسوقت بھی اور میرے بعد بھی ، پھر ہمشیرہ صاحبہ کے کان میں کچھ کہا ، پھر باری باری سے والدہ صاحبہ نے بیٹوں کو پیار کیا اور دعاری اور پھر یہودی سے اور ایسا ہی بشیر احمد اعجاز احمد سے اور ڈاکٹر صاحب سے اور امینہ بیگم سے اور احمدہ بیگم سےاور غلام نی اور عزیز احمد اور چودھری فضل داد صاحب سے رخصت ہوئیں پھر امت اٹلی کو بلایا اور اے پیار کیا ، پھر عبدالکریم کو بلوایا اور اسے دعادی ، غرض جو کوئی بھی موجود تھا اس سے رخصت ہوئیں ، غلام نیا اس وقت غم سے بہت مضطرب ہوا جار ہا تھا سے تسلی دی اور مجھے فرمایا دیکھوبیٹا اگر اس سے کبھی کوئی قصور سرزد ہو جائے تو اس وقت کو یاد کرتا اور اسے معاف کر دیا.پھر شکم اللہ خان کی بیوی سے دوریت یا مریم صدیقی نے آئی ہو؟ اس نے کچھ چیران ہو کر پو چھا کونی صندوقی به والدہ صاحب نے جواب دیا ، در حین میں سے کفن کی چادریں رکھی ہیں.بی بی نے کہا ہم نے توتا ملتے مجادلی آنے کی تیاری شروع کردی.جلدی میں کچھ اور سوتھاہی نہیں اور یہ بھی علم نہیں تھا کہ وہ مندر تھی ڈسکہ میں ہے، والدہ صاحب نے فرمایا میںنے تو کوئی تار نہیں دلوایا ہیں نے عرض کی تار میں نے دیئے تھے.
۳۹۹ الطف میرے دلی پہنچنے سے قبل والدہ صاحبہ والدہ استدالی سے فرما چکی تھیں کہ جب قادیان کے جاؤ گے تو مجھے البیلیر ی چلی منزل میں رکھنا اوپر کی منزل پر میرے اپنے کرے میں لے جانا اورمجھے فلاں مقام پر سل دینا، اب پھر مجھے ای رایا، اور والا انا امی نے عرض کی کہ جو جگہ نے مل کئے جو نیک و و و و کان نہیں اور پورا پردہ بھی نہیں کرا کر فرمایا بہت ھی ہے اور پردہ بھی ہے تم نے اچھی طرح س کا اندازہ نہیں کی.اتنے میں سو اس میں صاحب بھی آگئے انہوں نے ڈاکٹر لطیف صاحت کے ساتھ مشورہ کرکے کچھ اور میکے تو نہ کئے.میں نے ڈاکٹریا سے الگ دریافت کیا کہ اگر علاج کے لحاظ سے والدہ صاحبہ کا ر ہی رہنا ضروری ہو تو پارہ نہیں لیکن اگر علاج کے آخری مراحل ختم ہوگے ہوں تو آپ مجھے بتادی تاکہ میں کی یہ خواہش بھی پوری کرنے کی کوشش کردی اور انہیں قادیان کے جاؤں.انہوں نے کہا کہ ایک تو کسی نیکے کے نتیجے میں دل کی حالت کی اصلاح نہیں ہوئی لیکن ہم ایک دو اور ٹیکے لگانا چاہتے ہیں تین کا نتیجہ یوں گھنٹے تک معلوم ہوسکے گا اس وقت ہم بتا سکیں گے کہ کیا صورت ہے.یہ وقفہ گذر جانے کے بعد پانچے بجے کے قریب ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ کسی سکے کا خاطر خواہ اثر نہیں ہوتا.اب علاج کے سب مراحل ختم ہو چکے ہیں اور د کی یہ حالت ہے کہ اندازہ ہے کہ آدھ گھنٹ یا پون گھنٹے سے زیادہ کام نہیں کرسکے گا.یہ سنکر میں والدہ صاحبہ کے پاس گیا اور کہا اب میں آپ کو قادیان سے چلتا ہوں.بہت خوش ہوئیں اور مجھے دعا دی ہم نے اسی وقت تیاری شروع کردی اور شام کی گاڑی سے ہم سب قاریان روانہ ہوگئے.چودھری بیراحمد صاحب اور شیخ اعجاز احمد صاحب بھی ساتھ گئے.طبی لحاظ سے تو اسقدر مہلت لما موجب تیر تھا لیکن اللہ علی نے کی یہ خواہش بھی پوری کر دی، آہستہ آہستہ مزدوری بڑھتی گئی اور کس وقت کچھ بھینی بھی ہوجاتی تھی لیکن جو رات بھر قائم رہا.ابجے کے قریب عزی اسدالله خال کو اور مجھے پاس بیٹھے ہوئے دیکھ کر فرمایا "جاؤ بیٹیا اب سو جاؤ یہ آخری کلمہ تھا جو اپنی مرضی سے خود بخود اس پیارے منہ سے نکلا، ڈاکٹر اجنہ آپکے تھے علاج بند ہو چکا تھا.روح اپنے خالق کے سامنے پیش ہونے کی تیاری کری تھی لیکن ماں کی مامت کو اس وقت بھی نہ کر بنی کہ میرے بیٹوں کے آرام میں خلل نہ آئے تھوڑی دیر کے بعد جب میں اکیلا ہی ان کے پاس تھا تومیں نے بلایا جواب دیا بھوپتر.میں نے کہا آپ نے میرے ساتھ کوئی بات نہیں کی.فرمایا میں نے..دوسروں کے ساتھ بھی کوئی بات نہیں کی.میں نے کہا دوس سے تو صرف بیٹے ہی ہیں اور میرے اور آپ کے درمیان نو عشق کا رشتہ تھا.فرمایا ہاں.اس رات عجیب کیفیت تھی طبی لحاظ سے روح اور قسم کا تو ختم ہو چکا ہونا چاہیئے تھا لیکن روح اپنے خالق کے سامنے سجدہ میں پڑی ہوئی عرض کر رہی تھی کہ آپ کی رحمت سے بعید نہیں کہ آپ اس جوڑ کے ائم کرنے کاحکم فرمائیں جب تک آپ کی یہ عاجز اور ناتوان بندی اس سرزمین میں پہنچ جائے جو آپ کے ایک محبوب کی جائے قیام ہونے کی وجہ سے آپ کے انوار اور رحمت کی مہبط ہے.گاڑی تیز چل رہی تھی اور ہر لحظہ میں قادیان سے
یم قریب کر دی تھی اور ہم یہ نظارہ دیکھ رہے تھے :- مرا عہد لیست با جانان که تا بحال در بدن دارم ہوا دا بری کوشش را ایجان خویش من دارم دار مئی اتوار کے دن پونے دس بجے قبل دو مہر ہم قادیان پہنچے ہیں نے والدہ صاحبہ کی خدمت میں عرض کی قادیان آگیا ہے.فرمایا بسم الل بسم الله " میں نے کہ آپ کو کوٹ سے میں فرمایا ہا اپنی کوٹھی لے چلو بیت انفرینچ کہ آپ کا لنک نچلی منزل میں گول کمر میں بچھایا گیا.میں نے عرض کی آپ نے مکان پہچان لیا؟ فرمایا ہاں.پھر ٹس نے کہا آپ کا اپنگ تھیلی منزل میں ہی گول کرہ میں ہے.اس پر نظراٹھا کر کمر کی دیواروں کودیکھا اور فرمایا تم نے پہچان لیا ہے.اب روح کو اطمینان ہوگی کہ خدا کے مسیح کی تخت گاہ تک پہنچنے کی مہلت مل گئ اور کوئی اور خواہش باقی نداری عصر کے وقت ڈسکہ سے کفن کی چادریں بھی پہنچ گئیں وہی جو ۱۴ سال قبل زمزم کے پانی سے دھوئی گئی تھیں رات آئی اور کسی ایتالیا معلوم مونا خاکه کسی روحانی شہزادی نے ہارے گھر کو اک رات کیلئے اپنی قیام گاہ تجویز کر کے اسے فور سے بھر دیا ہے اور ہر لحظہ یہاں فرشتے نازل ہو رہے ہیں.نصف شب کے قریب جب بظاہر کئی گھنٹوں ے مہوشی کا علم تھا کس نے مجھ سے کہا تم جاؤ تو جواب دیں میں نے بلایا تو جواب دیا ہاں.تین بجے کے قریب جب نجد کا وقت ہوا تو کامل بیہوشی کی حالت ہوگئی.محض سائنس آنا تھاگویا اپنے رویا کے مطابق پالکی میں سوار ہونے اور سفر شروی کرنے کیلئے تیار ہوگئی تھیں.صبح ساڑھے سات بجے کے قریب میں نے والدہ امتہ الحمی سے کہا کہ سب لوگ ناشتہ کر لیں کیونکہ ان کا عہد ہے کہ بچے ناشتہ کر لیں گے تو روانہ ہوں گی.سانس روکو قوت ملے تیز ہوگیا تھا ساڑھے آٹھ بجے کے قریب بلکا ہونا شروع ہو گیا، اور جب گھر کے لوگ مہمان اور ملازم سب ناشتہ ختم کر چکے تو نو بجے کے قریب روج اپنے مولا کے حضور حاضر ہوگئی.یہ 14 مئی ۳ ء سوموار کا دن تھا.۱۲ بجے کے قریب جسم کو اس مقام پر سپرد خاک کردیا گیا جو پہلے سے اس کی آخری قیام گاہ نمونہ ہوچکا تھا.وكل من عليها فان ويبقى وجه ربك ذو الجلال والاكرام - وہ محبوب وجود ہمارے درمیان موجود نہ رہا.اسپیارے چہرے کو آنکھیں تلاش کریں گی لیکن نہ پاسکیں گی.ہم ان کی مسلسل درد بھری دعاؤں سے محروم ہو گئے لیکن ہم نے اللہ تعالی کی رضا کو خوشی سے قبول کیا.اور اس نسیال سے اطمینان حاصل کیا کہ ہماری والدہ نے اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور رضا جوئی میں گزاری.ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ان کے ساتھ وافر رحم کا سلوک فرما ہوگا اوراپنے لئے واکرتے ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں بھی انی رضا کے مطابق عمل کرنے کی توفیق بخشے اور امید رکھتے ہیں کہ ہمارا وقت آنے پر دہ ہمیں بھی اپنی رحمت میں داخل فرمائی کا آمین.میرے لئے جب وہ وقت آئے گا اوراللہ تعالٰی کی رحمت پھر یہ مکن کر دے گی کہ میری نظر پھر اس پیارے پرے
اہم پہ پڑے تو میری تمام محبت اور تمام حسرت اور تمام شوق اس ایک ہی لفظ میں ادا ہو جائیں گے.گہے ہے.اور ان کی طرف سے بھیو تر " پھر ایک بار میرے دل کو خوشی سے بھر دے گا.اسے نکلا به تربیت او بارش رحمت بیار داخلش کن اه کمالِ فضل در بیت النعيم ا ۱۹۳۹ انگلستان کے ساتھ نیا تجارتی انگلستان کے ساتھ نیا تجارتی معاہدہ اسمبلی کے 12 معاہدہ اسمبلی میں کے اجلاس میں پیش کیا گیا.کانگریس تو حزب مخالف تھی.انہوں نے تو معاہدے کی مخالفت کرناہی تھی سر روی مودی نے مجھے بتا یا کہ انا عظیم مر حیات نے ان سے معاہدے کے متعلق ان کی رائے دریافت کی تھی اور انہوں نے ان سے دہی کہا جو وہ لندن میں مجھ سے کہ چکے تھے.(قائد اعظم ، مٹر تبان نے ان سے دریافت کیا تم کسی طرف رائے دو گے میٹر مودی نے کہامیں مل اونرز ایسوی ایشن کا صدر ہوں ور میری ایسوسی ایشن چاہتی ہے کہ میں املی میں معاہدے کے خلاف رائے دوں کیونکہ انکی رائے میں اس معاہدے کا زیادہ فائدہ تو ملک کے زمینداروں کو ے بہن کی کپاس زیادہ مقدار میں اور اچھی قیمت پر خریدی جائے گی جس کے نتیجے میں مل کے اندر بھی کپاس کی قمیت بڑھ جائے گی اور میاں کے کارخانوں کا نا ہوا کپڑا مہنگا ہو جائے گا.ادھر لنکاشائر کے بنے ہوئے کپڑے پہد عائی شرح سے محصول عاید مونے کے نتیجے میں ان کے کپڑے کی قیمت کم ہو جائے گی اس طرح بند دوستانی مل اونہ نہ کو لنکاشائر والوں سے دونوں محاذ پر مقابلہ کرنا ہو گا اور زمینداروں کو جو فائدہ پہنچےگا اس کی قیمت انہیں ادا کرنی ہو گی میری ذاتی رائے یہ ہے کہ معاہدے کے اندر اس قسم کا توازن مدنظر رکھا گیا ہے کہ ہم اس قسم کے کپڑے میں مرد ہمارے کار خالی میں بنایا جاتا ہے پھر بھی نکا شائر کا مقابلہ کر سکیں گے.اس لئے باوجود کا نہ خانہ داروں کی خواہش کے میں معاہد کے خلاف رائے روں میں غیر جانبدار رہوں گا اور کسی طرف رائے نہیں دوں گا.مسٹر مودی نے مجھ سے کہا کہ میں نے یہ گفتگو نہیں سلئے تبادی ہے کہ نہیں میرا موقف معلوم ہو جائے اور یہ بھی معلوم ہوجائے کہ مں نے قائد اعظم، ہو ہمیں مسٹر جناح سے کیا کہا ہے.(قائد اعظم مٹر بیان آزاد پارٹی کے لیڈر تھے اور اسمبلی کا فیصلہ اس پارٹی کی رائے پر مصر تھا.اگر یہ پارٹی معاہدے کے حق میں رائے دیتی تو کانگریس پارٹی کی مخالفت ہے الم ہو جاتی.اور اگر وہ غیر جانبدار کانگریس دراصل مرمتی تو کا نگر میں پارٹی کی مخالفت کامیاب ہو جاتی.در اصل کانگریس پارٹی بھی سمجھتی تھی کہ یہ معاہدہ ملک کیلئے فائدہ مند ہے.لیکن انہیں یقین تھا کہ املی معاہدے کی تائید کرے یا نہ کرے حکومت ہر صورت میں معاہدے کا نقاذ کرے گی اور ملک کو تو فائدہ معاہدے سے حاصل ہوتا ہے وہ ہو جائے گا.لہذا اسمبلی میں معاہدے کی مخالفت
۴۰۲ سے کانگریس پارٹی کی سیاسی ساکھ بڑھانے میں کیا ہرج ہے قائد اعظم، مٹر بنان کی آزاد پارٹی کا موقف تھا کہ کانگریس ہمارے مخالف ہے اور حکومت ماری موید نہیں الزام نہ کانگریس کاساتھ دیں گے نہ حکومت کا اور غیر جانبدار رہیں گے.انہیں بھی اطمینان تھاکہ اسمبلی کافیصلہ کچھ بھی جو معاہدے کا نفاذ تو ہوکر رہے گا الندان کے غیر جانب رہنے سے اگر اسی میں معاہدہ رد بھی ہو جائے تو ل کے اس کے فوائد سے محرم ہو جانے کا کوئی اندیشہ نہیں.ایسی مجالس میں جہاں حکومت کے خلاف فیصلہ ہونے سے حکومت کو متعین نہ ہونا پڑتا ہ کئی دفعہ f ایسی صورت پیدا ہو جاتی ہے.اسمبلی میں جب قائد اعظم مسٹر جناح نے معاہدے کے متعلق تقریر کی تو جہاں انہوں نے معاہدے کی بعض شقوں پر تنقید کی وہاں ان روایتی انار کا ظاہر کرتے ہوئے تسلیم کیاکہ یہ معاہدہ پہلے معاہدے (معاہدہ آٹو را، سے بہت بہتر ہے اورمیری نسب از راه زیر نوازی فرمایا اگر چه ظفراله کی تعریف میں میرا کچھ کہنا ای ہی ہے جب ایک باپ کا اپنے بیٹے کی ستائیش کر نا لیکن اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ اس نے معاہدے کے متعلق اپنے فرض کو احسن طریقہ سے سرانجام دیا ہے اور اس کے لئے اسے مبارکیا و پیش کرتے ہوئے جو کچھ مختلف اطراف سے کہا گیا ہے میں اسکی پوری طرح تائید کر تا ہوں.اسمبلی میں رائے شماری ہوتے پر معاہدہ منتظر نہ ہو لیکن سب کی توقع کے مطابق حکومت نے معاہدے کا نفاذ کردیا.اس کے کچھ عرصہ بعد میں دورسے پر بمبئی گیا تو ر پر شوم و اس ٹھاکر داس نے تاج ہوٹل میںمجھے پینے کی دعوت دی.اس موقع پر کمیٹی کے سرکردہ تاجران اور کار خانہ داران بھی مدعو تھے اپنی استقبالی تقریر میں تجارتی معاہدے کے مشاورتی وفدمیں اپنی شمولیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا وفد میں شمولیت پر آمادگی ظاہر کرنے سے قبل میں اور میرے رفیق کار ظفر اللہ سے ملنے گئے تھے.اس ملاقات میں اس نے مشاورتی وفد سے معاونی طریق کار کی جو ضاعت کی وہ ہر سیلو سے سو فیصدی اس نے پوری کی.یہ مصر میرای تاثیر نہیں ملک سب رفتا“ کارہ کا یہی تا شہر ہے.ولتا تھگو کی وزارت کے شاہ میں میرے انگلستان سے واپس آنے پر لارڈ نیل ھنگو نے وزارت کے قلمدانوں کی نئی تقسیم قلمدانوں کی نئی تقسیم کا فیصلہ کیا.مجھے تجارت، صنعت ، پلک در کس اور غیر کے محکمہ جات کا قلمدان سپرد ہوا.میرے نئے ملکوں کے سیکریٹری سراینڈریو کو تھے اور جائنٹ سیکر ٹری مر فالح اکبر حیدری تھے.سر اینڈریو کلو کے وزیر ہونے پر مسٹر حیدری سیکریڑی ہوئے.مسٹر حیدری نے میرے ایما پر پبلک ورکس کے محکمے میں ایک منصوبہ تیار کروایا جس کے تکمیل پانے کی مجھے بڑی خواہش تھی.لیکن تشاء میں میرا قلمدان پھر تبدیل ہو گیا اور وہ منصو بہ وہیں کاوہیں رہ گی کیونکہ اسلام میں جنگ شروع ہوگئی اور ایسے امور کی طرف سے توجہ بھی ہٹ گئی اور ان کے لئے روپیہ بھی میسر نہ رہا.وہ منصوبہ مختصر یہ تھا کہ ریلوے کے
۴۰۳ پاس لیکر قریبیچ میں نیچے تک یعنی پہلی شہر کے مخرت تکدر یائے مینا کا دلی کی طرف کا کنارہ اس طور پر ترتیب دیا جائے کہ ایک تو طغیانی کے زمانے میں شہر کے نشیب میں سیلاب کا پانی جمع نہ ہو اور دوسرے لال قلعہ سے لیکر اس تمام رقبہ میں ایک خوشنما پارک بن جائے.جس میں پرانا قلعہ ، سمالوں کا مقبرہ اور دیگر سب پرانی عمارات شامل ہو جائیں تاکہ دلی کی بڑھتی ہوئی آبادی کے عوام کیلئے ایک سیر گاہ مہیا ہو جائے.مجھے اندیشہ تھا کہ خزانے کی وزارت کے ماہرین اخراجات کی بنا پر ہشتم کی رو پیداکریں گے.لیکن مجھے امید تھی کہ یں سر جیمز گرگ سے تو یقینا اور سوچری رسیمین سے اغلب منظوری لے لوں گا.لیکن جنگی امور حال ہو گئے.میرا ہمیشہ یہ احساس رہا ہے کہ حکومت کی طرف سے مرا کے لئے تو ہر آ ئیش کا سامان جلد ہوجاتا ہے لیکن عام کی تفریح اور آرام کی طرف بہت کم توجہ دیتا ہے.بریلوی کونسل کی پیشکش کی پیشکش شاد کے آخر مں وائٹ ایے نے میرے ساتھ ذکر کیا کہ شادی لال نے پروی کونسل کی عدالت سے استعفے دیدیاہے اور وزیر من دریافت کرتےہیں کہ کیا تم انکی جگہ لندن جانا چاہتے ہو؟ میں نے کہا سرفنڈ لیٹر اسٹورٹ نے میرے ساتھ اس امکان کا ذکر کیا تھا اور اس وقت میں نے نیم رضامندی ظاہر کی تھی.لیکن مسٹر سنی مین کے مشن متعلقہ چیکوسلواکیہ کے ناکام ہونے کے بعد مجھے یقین ہو گیا ہے کہ جنگ ناگزیہ ہے.اسلئے میں اب لندن جانا نہیں چاہتا.اسلئے نہیں کہ میں متوقع جنگ کی وسعہ سے لندن جانے سے ڈرتا ہوں وہاں سنگ کے دوران میں تو اور دوی کا حال ہو گا وہی میرا بھی ہو گا.لیکن میرے لئے اس منصب میں یہ کشش تھی کہ لندن میں رہتے ہوئےمیں ملک کی آئینی ترقی کیلئے کچھ کوشش کر سکوں گا.اور دوسرے ہندوستانی طلبا مقیم النگان کیلئے مزید سہولتیں بہم پنچانے میں مددکرسکوں گا.سجنگ کی صورت میں ان امور کی طرف کوئی تو یہ نہیں رہے گی.اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر مجھے رہنا مجھے پسند نہیں."" وائسرائے.یہ تو اچھا ہے کہ تم جانا نہیں چاہتے.مسٹر جبکہ بہت رنجیدہ ہیں کہ سرتیج بہادر سپرد کو تو پراوی کونسل کی رکنیت کا اعزاز عطاہوا نمکین ان کی خدمات کو نظر انداز کی گی ہے.وہ چاہتے ہیں کہ سرشاری لال کی محبہ ان کا انتخاب ہو جائے تمہارے انکار سے ایک تو مٹر جیکر کی خواہش پوری ہو جائے گی.دوسر ے میں چاہتا ہوں کہ تم سراین این سرکار کے جانے پر قانون کا قلمدان سنبھال لو اور میری میعاد کے پورے ہونے تک میرے رفیق کار ہو.ظفر اللہ خاں.آپ نے جو ارشاد فرمایا ہے اسکی تعمیل کے نتیجے میں مجھے ایک سال اپنی سجاد سے زائد ٹھہرنا ہوگا.عام طور پر وزارت کی میاد کے ختم ہونے پر گر میاد می چھ ماہ سال بھر کی توسیع کی جائے تو زیر متعلق اسے خوشی سے قبول کرتا ہے کیونکہ وزارت کے ختم ہونے پر اسکا مزید کام کرنے کا ارادہ نہیں ہوتا.میری عمر اس وت پنتالیس سال ہے.مجھے میاں کام ختم کرنے کے بد پرانی پریکٹس شروع کرنا ہوگی اور بقدر تاخیراس میں ہوگی اسی قدر میری وقت میں اضافہ ہوگا.لیکن میں آپ کے اعتماد کی قدر کرتے ہوئے آپ کے ارشاد کی تعمیل کے لئے حاضر ہوں.
تم ہم سر راما سوامی مرکیار کا تقریر اسی دن سر جیمز گرگ نے مجھ سے دریافت کیا والبراے نے تمہارے ساتھ بطور وزمه تجارت قلمدان وزارت کے متعلق کوئی ذکر کیا ہے ؟ میں نے جو کچھ وائسرائے نے کہا تھا انہیں بتا دیا.انہوں نے فرمایا میرا مشورہ ہے کہ تم یہ دریافت کرو کہ تمہاری جگہ وزیر تجارت کون ہوگا.مجھے تو معلوم ہے مگر مجھے بصیغہ راز بتایا گیا ہے.اسلئے تم خود دریافت کرو.میں نے سرگرٹ لیتھویٹ سے والد نے کی تجویہ کا ذکر کر کے دریافت کیا کیا نے وزیر تجارت کا انتخاب ہو چکا ہے؟ سر گرٹ نے کہا فیصلہ تو ہو چکا ہے مرت بادشاہ کی منظوری کا انتظار ہے.اس میں کچھ نا خیراس وجہ سے ہوئی ہے کہ بادشاہ سلامت سکاٹ لینڈ میں ہیں اور لندن سے کاغذ آنے جانے میں کچھ وقت لگتا ہے.ساگر جانگی با سیائی کا انتخاب ہوا ہے.میں نے کہا سرگر با شکریے دوست ہیں باء میں میرے سیکریٹری تھے جنہایت قابل ہیں.لیکن ان کا تقریر سر جگدیش پرشاد کے جانے پر کنور مات کی جگہ موزوں ہوگا کیونکہ حکومت ہند میں ان کا سارا وقت وزارت تعلیم میں گذرا ہے.اس وقت سر این این سه کار کے جانے پر سر گر جاشکر کا تقر فقط مینی کا باعث ہوگا.سر گلرڑ نے پوچھا وہ کیسے ؟ میں نے کہا اس وقت مجھے اراکین کونسل میں تین پور مین ہیں ، تمین سندوستانی ہیں، یور بین اراکین میں عموماً ایک براہ راست انگلستان سے مقرر کیا جاتا ہے.دور کا انتخاب انڈین سول سروس کے سینئر افسروں سے کیا جاتا ہے.مہندوستانی اراکین میں دو غیرسرکاری حلقوں سے بچنے جاتے ہیں.ایک سروس سے لیا جاتا ہے.اس وقت سمر این این سر کار اور میں غیر سرکاری اراکین بی سر جگدیش پر شاد سروس سے ہیں.پبلک کی نگاہ میں سروس سے منتخب شدہ ہندوستانی بھی نیم ور من بی شمار کیا جاتا ہے.سر این این سرکارہ کی جگہ سر گر جاشنکر کا انتخاب نہ جیت پسندی کی مثال سمجھا جائے گا اور سیلک کا رد عمل خوشگوا ر نہیں ہو گا.شاید آپ نہ جانتے ہوں کہ موجودہ وائسرائے کولار ڈولنڈن کے مقابلے میں رجعت پسند سمجھا " جاتا ہے.یہ تاثر بانہ ہے یانا جائزہ لیکن ہے ضرور سرگر اشک کے تقریر کا یہ یہ ہوگا کہ کونسل میں صرف میں ہی ایک غیر سرکاری رکن رہ جاؤں گا.وقت کا تقاضا تو یہ ہے کہ کونسل میں ہندوستانی غیر سرکاری عنصر کو بڑھایا جائے.اس تقریر کے نتیجے میں وہ عنصر اور بھی کم ہو جائے گا.اس لحاظ سے میری رائے میں یہ انتخاب اس وقت ناموزوں ہو گا.سر گلرٹے نے کیا.اب تو معاملہ بہت دور جا چکا ہے.بہتر مواگر تم خود ان کرنے کے ساتھ یہ ذکر کرد لیکن ایک وقت یہ بھی ہے کہ دائرے کی نظر میں اس وقت کوئی اور غیرسمہ کاری شخص ایسا نہیں جس کا نقر موزدن جوہ.میں نے کہا سراہا سوامی مدلیار ہر لحاظ سے موزوں ہیں.سمر جگد کیش پرشاد اور سر گر جاشنکہ دونوں یونی کے بہر یمین ہیں.سر راما سوامی مدراس کے غیر یہ بہن ہیں.اس لحاظ سے بھی ان کا انتخاب موزدی ہو گا.سر گلبرٹ نے کہا.لیکن وہ اس وقت وزیر سند کی مشاورتی کونسل کے رکن ہیں اور سند دوستان سے باہر ہیں.بیٹے
۰۵م کہا.یہ کوئی ایسی روک نہیں.ان کا مشاورتی کونسل کا تجربہ ان کی موزونیت میں اضافہ کرتا ہے کی نہیں کرتا یہ جگہ ابھی کچھ ماہ میں خالی ہو گی وہ کچھ نا ک بھی مشاورتی کونسل مں کام کر سکتے ہیں.سر گلٹ نے کہا میں یہ بات والا ہے کے گوش گذار کر دوں گا.لیکن تم خود بھی ان سے بات کرنا.میں نے تو کچھ سر گرٹ سے کہا تھا وائسرائے سے بھی کہ دیا " صرف ان کی رجعت پسندی کی شہرت کا ذکر چھوڑ دیا.ہفتہ بر بعد بیا ٹویٹ سکرٹری نے مجھے بتایا کہ سران این سرکار کی جگہ سر راما سوامی مالیار کی تقرری کا فیصلہ ہو گیا ہے اور وہ محکمہ تجارت کے وزیہ ہوں گے.کچھ دنوں بعد عید علیم غزنوی ولی تشریف لائے تو مجھ سے ذکر کیا کہ سر گر جاشنکر با حیائی کہتے ہیں کہ وائسرائے نے ان سے کہا تھا کہ سر این این سہ کار کے جانے پہ انکو کون کارین یا جائے گا اور تجارت کا محکمہ ان کے سپرد ہو گا.اس تقریری کی وزیر منانے بھی منظوری دیدی تھی اور کا غذات منظوری کیلئے ملک معظم کو بھیج دیئے گئے تھے.اب انہیں بلایا گیا ہے کہ سران این سرکارہ کی جگہ سر راما سوامی مدلیانہ کا لفقر ہوا ہے اور وہ وزیر تجارت ہوں گے.یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آخری مرحلے پر یہ تبدیلی کیسے ہوگئی بسر عبد الحلیم نے مجھ سے دریافت کیا تم نے کچھ اس کی بابت سناہے میں نے کہا سرگریا تم نے میں نے شکر خواہ مخواہ پریشان ہو رہے ہیں.ان کا تفریہ آئندہ سال سمر جگدیش پرشاد کی جگہ ضرور ہو گا.دیر آید درست آیات کتور سر جگدیش پرشاد صاحب کے ساتھ میرے تعلقات بہت خوشگوار تھے.اب سر راما سوامی کے آنے سے ہم تینوں یک جہتی کے ساتھ کام کرنے کے قابل ہو گئے.اپریل کشاء میں جب سے جگدیش پرشاد کی مکہ سرگر جا شنکر با جانی کا تفرز مل میں آیات و ال ایے کی کونسل کے تینوں ہندوستانی اراکین کی یک جہتی میں کوئی فرق نہ آیات فالحمد للہ.شام میں جب اسمبلی کا اجلاس دلی میں ہورہا تھا تو ایک دن سر جگدیش پرشاد تو کونسل آن سٹیٹ کے رکن تھے اسمبلی کے اجلاس میں تشریف لائے اور مجھ سے فرمایا اگر تم چند منٹ کے لئے فارغ ہو تو ذرا اپنے کرے میں چلو میں نے ایک ضروری بات کہنا ہے.میں ان کے ساتھ ہو لیا.وہ بہت پریشان ملکہ مضطرب نظر آتے تھے میرا کمره قریب ہی تھا.میٹھتے ہی فرمایا.میں ابھی وائسرائے سے ملکہ آیا ہوں ایک سخت مشکل پیش آگئی ہے میرے محکم میں دو سنیر منصب خالی ہونیوالے ہیں.ایک ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل آئی ایم ایس اور دوسری وائس چیر مین اپریل کونسل آن ایگری کلچرل ریسر ہے.میں نے ان دونوں کے لئے ہندوستانی افسروں کے نام پیش کئے ہیں وائسرائے دونوں پہر پور میں افسروں کے تقریر پر مصر ہیں.پچھلے ہفتے جب میں واٹر یٹ سے ملنے گیا تھا تو یہ ذکر بھی آیا تھا.میں نے وائسرائے سے کہا ان دونوی اسامیوں میں سے ایک پر تو آپ کو ضرور کی ہندوستانی کے تقریر پر رضامند ہونا چاہیے در یہ میرے لئے سخت مشکل پیدا ہو جائے گی اورمیں کونسل میں نہ مر سکوں گا میں یہ کہ کر چلا آیا.آنے پر میری ملاقات کا دن تھا.وائٹ ہے نے اس معاملے کا کوئی ذکر نہ کیا نہیں میں نے اس معاملے کو چھڑا.لیکن ایک اور معاملے کے سلسلے میں وائسرے نے کہاہاں مجھے اس اس ہے کہ یہ معاملہ حل طے ہونا چاہیے کیونکہ آپ نے اپنا گر میوں کا پر وگرام بھی طے..:
۴۰ کرنا ہو گا.اس سے ظاہر ہے کہ وائی لیے اپنی ضد پر قائم ہیں اور مجھے استعفے در کیا مشورہ دیتے ہیں ؟ یہ تو بڑی مشکل صورت ہوگئی.میں نے کہا کنور صاح آپ تو ہمیشہ ہر معلم کا ذکر میرے ساتھ فرما دیاکرتے ہیں کریہ معاملہ ایسی اہم صورت اختیار کر رہا تھا تو نے مجھ سے ذکر کیا ہوتا ت میں مناسب مشورہ پیش کرتا اور یہ تی.آپ کا موقف تو صحیح ہے بلکہ میری رائے میں تو ان دونوں اسامیوں پر بسند دوستانیوں کا تقرینہ ہونا چاہئیے.زراعتی دیسی آج کونسل کا وائس چیر مین تو مدت سے مہندوستانی ہوتا آرہا ہے.خود وائسرائے کو زراعت سے بہت دلچسپی ہے جس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ خود اس عہدے پر موزوں اور ہمدرد ہندوستانی کے تقریر کے تھی میں ہوتے.آج یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ ایس ہندوستانی میسر نہیں آسکتا.ڈپٹی ڈائرکٹر جنرل انڈین میڈیکل سروس کے عہدے پر بھی ایک مرتبہ ہندوستانی کا تقرر ہو چکا ہے.اور پالیسی کے لحاظ سے انڈین میدانتل سروس کے مرکزی ادارے میں ایک سہندوستانی کا ہونا اگر لازم نہیں تو مناسب ضرور ہے اور اب متعدد ہندستانی افسر اس عہدے کے لئے موزوں ہیں.آپ کے موقف کا مرید ہوتے ہوئے میں آپکو ضرور ایسا مشورہ دنیا میں واٹر آئے پر زور بھی پڑتا اور استعفیٰ کا سوال بھی پیدا نہ ہوتا.سر جگدیش پرشاد - یہ کوتاہی تو ضرور ہوئی لیکن اب کیا صورت ہو ؟ ظفر اللہ خاں.اب بھی مجھے تو اطمینان ہے کہ آپکو استعفی دینا پڑے گانہ وائسرائے کی بات مانا پڑے گی زراعتی کونسل کا وائٹ پیر من تو ہندوستانی ہی ہوگا.چاہے انڈین میڈیکل سروس کا ڈپٹی ڈائرکٹر جنرل یورپین ہو جائے.آپ ہر گنہ پریشان نہ ہوں.سہ جگدیش پر شاد.لیکن بھائی ہمیں بھی تو اپنے اطمنان کی کوئی وجہ تنہا.آج تو واٹس ایے بالکل پختہ معلوم ہوتے تھے.ظفر اللہ خاں.کنور صاحب میرے اطمینان کی دستہ یہ ہے کہ ایک ہندوستانی رکن کو نسل کا اس مرحلے یہ ایک ایسے اختلاف کی وجہ سے استعفی دنیا کوئی معمولی بات نہیں لہذا بغیر وزہ یہ سند سے مشورہ کیئے دائرا سے آخری فیصلہ نہیں کریں گے اور وزیر جن ہر گز تیار نہیں ہوں گے کہ پبلک پریس میں اور پھر یہ طانیہ میں اسبات کا مشورہ ہو کہ ایک ہندوستانی رکن کونسل نے اسلئے کونسل کی رکنیت چھوڑ دی کہ وائسرائے موزوں ہندوستانیوں کی موجودگی میں ان عہدوں پر لیور میں اشخاص کے تقریر پر مصر تھے.اگر خدانخواستہ میرا اندازہ غلط ثابت ہوا اور آپکو ان بات کو پورا کرنے کیلئے استعفے دنیای پرا تو آپ کا بیان میں تیار کروں گا جس کے شائع ہونے کے بعد وائسرائے کا یہاں رہنا بھی مشکل ہو جائے گا.آپ کیلئے یہ امر علی کا موجب نہ ہو لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ نوبت نہیں آئے گی.آپ اطمینان اور صبر سے
.انتظار کریں انشاء اللہ نتیجہ نیک ہو گا.ایک ہفتہ بعد تک ہی ہر ملاقات میں انہیں قتلی دیتا رہتا کہ پریشانی کی کوئی وجہ نہیں.دوسرے ہفتے وائسرائے کی ملاقات سے پھر سیدھے میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا مبارک این ہو وہی بات ہوئی جو آپ نے کبھی بھی دائ رائے نے زراعتی کونسل کے وائس چیر مین کے متعلق میری تجویز منظور کر لی ہے.سر عبد الرحیم صاحب صدر اسمبلی مٹی شاہ سے میرے قلمدان میں تبدیلی ہوگئی.میں نے سرائی کا سرکار سے قانون کے محکمے کا چارج لیا.اور اسمبلی میں سنیٹر وزیر ہونے کی حیثیت سے اسمبلی کے پروگرام اور اسمبلی میں سر کاری کام کے انتظامی پہلو کی نگرانی بھی میرے سپرد ہوئی.اسمبلی کے صدر سر عبدالرحیم تھے جو ایک نہایت قابل تجربہ کامه بارعب اور باوقار شخصیت تھے.میں انہیں اپنا بزرگ سمجھتا تھا اور وہ بھی میرے ساتھ بہت شفقت کا سلوک فرماتے تھے.فجزاه الله - نائب صدر مسٹر تھے جو کانگریس پارٹی کے رکن تھے.کانگریس نے اپنی کسی مصلحت کی بناء پر انہیں اس منصب کیلئے چنا ہو گا.ورنہ کانگریس پارٹی کے اراکین میں ان سے کہیں زیادہ قابل، تجربہ کار اور صاحب دانش اصحاب موجود تھے.ایک مرتبہ شملے کے اجلاس میں ایسا اتفاق ہوا کہ نائب صدر کی صدارت کے دوران میں کسی مسئلے پر رائے شماری ہوئی.نائب صدر نے کرنسی صدارت سے رائے شماری طلب کی اور پھر کرسی صدارت کو خالی چھوڑ کر دوڑے دوڑے اپنی پارٹی کے اراکین کے پچھے پچھے رائے شماری کی لابی میں سے ہو کر دوڑتے ہوئے واپس آئے اور پھر کرسی صدارت پر متمکن ہوکر رائے شماری کے نتیجے کا اعلان کیا.دو سیم اور بھاری بھر کم تھے.ان کا ایوان میں سے یوں سراسیمگی میں بھاگتے ہوئے رائے شماری کی لابی می جانا اور پھر اسی کیفیت میں ایوان میں سے بھاگتے ہوئے کہ سٹی صدارت پر واپس آنا ایک مضحکہ خیز منظر تھا جس سے ایوان میں ہنسی کی لہر دوڑ گئی.میں نے احتجاج تھی کیا کہ صدارت کے فرائض سر انجام دیتے وقت تو صاحب صدارت کی ذمہ داریوں کے حامل ہوں وہ رائے شماری میں حصہ نہیں لے سکتے.لیکن وہ اپنی چالا کی پر اسقدر سرورا اور فرما ہو رہے تھے کہ انہوں نے میرے احتجاج کو ایسی مثال دیا اسمبلی کے اراکین صاحب صدر کا پورا احترام کرتے تھے.اور ان کے ساتھ پورا لتعاون کرتے تھے.صاحب صدر استقدر دانش اور وقار کے ساتھ اپنے فرائض کو سرانجام دیتے تھے کہ اسی کے اجلاسوں میں کبھی کوئی نا گوار صورت پیدا نہ ہوئی." میرے زمانے میں وزارت قانون کے سیکہ بیڑی سر جارج سپنس تھے ، ڈپٹی سیکر یٹری مسٹر شیر یکیس لال تھے، اور سولیسٹر ایک بنگالی قانون دان تھے تینوں نہایت قابل افسر تھے.سوئسٹر کی ملازمت کی میعاد میرے وقت میں پوری ہوگئی لیکن مجھے ان کے صائب الرائے ہونے کی وجہ سے انکی بہت قدر تھی اسلئے میں نے ان کے دربارہ تقریر کی سفارش
۴۲۰۸ اور نائٹ ہڑ کے خطاب کے لئے بھی ان کا نام پیش کیا دو نوی سفارشیں منظور ہوئیں.حکومت ہند میں اپنی میعاد ختم ہونے کے بعد وہ لندن میں ہائی کمشنر کے مشیر قانون ہوئے.فیڈرل کورٹ کے قیام کے ساتھ ایڈوکیٹ جنرل ہند کا نقر بھی ہو گیا تھا.کہ بی این متراس منصب پر فائنہ ہوئے.ہو سمر این این سم کار کے تقریر سے پہلے حکومت سند میں وزیر قانون تھے.میرے اور ان کے تعلقات بہت دوستانہ تھے.باوجود ایڈوکیٹ جنرل کی موجودگی کے حکومت ہند و زیر قانون کے محکمے سے بھی قانونی مشورہ طلب کیا کرتی تھی.جن دنوں میں وزیر قانون تھا ان دنوں دو ایک ایسے کیس قانونی مشورے کیلئے آئے جن کا ذکر پچیسی سے خالی نہ ہو گا.جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی افواج نے بعض غداروں کی مدد سے سرنگا پٹم کے مقام پر سلطان ٹیپو شہید کی افواج کو پس پاکر کے سلطنت میسور پر اپنا اقتدار قائم کر لیا اور ریاست کا انتظام سابق شہد و حکمران کے سپرد کر دیا تو کمپنی نے جو معاہدہ مہاراجہ کے ساتھ کیا اس میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ سرکار انگریری کو ریاست کے اندر اپنی کسی چھاؤنی کی توسیع کیلئے پانی پچھاڑٹی قائم کرنے کے لئے زمین کی ضرورت ہوگی تو ریاست مطلوبہ رقبہ بلا معاوضہ سرکار انگریزی کو مہیا کرے گی.بعد میں جب کبھی ایک موقع پیدا ہوا ریاست کی طرف سے مطالبہ ہوتا رہا کہ اگر چہ کو گی.ا موقع معاہدے کے مطابق ریاست اپنے حقوق ترک کر دینے کے عوض تو کوئی معاوضہ طلب کرنے کی حقدار نہیں لیکن تیرے اشخاص کے جو حقوق رقبہ مطلوبہ میں ہوں ان کا معاوضہ سرکار انگریزی ادا کرنے کی ذمہ دار ہے.حکومت ہند کی طرف سے دربار کو ہمیشہ میں جواب ملتان یا کہ معاہدے کی متعلقہ دفعہ کی صحیح تی سی ہے کہ ایسی صورت میں تیرے اشخاص کو جو معاوضہ قابل ادائیگی ہو اس کی ادائیگی کی ذمہ داری بھی ریاست پر ہے.چنانچہ ریاست اس ' ** کے مطاب یہ معارض ادا کرتی رہی لیکن ریاست نے بھی اس تغیر کی صحت و تسلیم نہ کیا اور انا احتجاج اس تغیر کے خلاف قائم رکھا.آخری بار یہ سوال لارڈ کرزن کے عہد میںزیر غور آیا.پولٹیکل سیکریڑی صاحب نے تفصیل نوٹ لکھا اور جانبین کے دلائل کا خلاصہ درج کرنے کے بعد اپنی رائے درج کی حسبی کا آخری فقرہ یہ تھا:.< IN SHORT THOUGH THere Is SoMETHING TO BE SAID ON THE OTHER SIDE I AM OF THE VIEW THAT THE LANGUAGE OF THE ARTICLE Favours Our Stand" مسل جب وائسرائے لارڈ کرزن کی خدمت میں پیش ہوئی تو انہوں نے سرخ سیاہی میں حسب ذیل حکم ثبت فرمایا."I AGREE, EXCEPT THAT THERE IS NOTHINg To Be SAID ON THE OTHER SIDE " اہی موقعہ پیش آنے پر ریاست کی طرف سے پھر وہی سوال اٹھایا گیا.جب سیل قانونی مشورے کیلئے
ضاء میرے پاس آئی تومیں نے بلا تامل اس رائے کا اظہار کیا کہ ریاست کا موقف درست ہے ریاست کی ذمہ دالہی پر ہے کہ وہ بلا معاوضہ لئے رقبہ مطلوبہ مہیا کرے.ریاست نے قبہ مطلوبہ مہیا کر دیا ہے.ریاست کسی معاوضے کا مطالبہ نہیں کرتی.لیکن رقیہ مطلوبہ میں میرے اشخاص کے حقوق ہیں اور وہ معاوضہ پانے کے حقدار بہنوئی معاہدے میں یہ درج نہیں کہ ایسی صورت میں ریاست تیرے اشخاص کے حقوق کو اپنے پاس سے معاوضہ ادا کر کے حاصل کر یگی اور وہ حقوق حکومت انگریزی کو منتقل کرے گی.وائسرائے نے اس رائے کے ساتھ اتفاق کیا اور یہ پرانا تقیہ آخری حق وانصاف کے مطالق طے ہو گیا.دریاست برودہ ایک ساحلی ریاست ہو سکی حیثیت سے اس تجارتی سامان پر جو ریاست کی کسی بندرگاہ پر اترتا بحری محصول مطلہ کرنے کی حقدار تھی.بعض دفعہ اب بھی ہوتا کہ وہی تجارتی سامان بعد میں ریاست سے بر طانوی سند کے علاقے میں بھیجا جاتا ہیں پر حکومت ہند محصول کا مطالبہ کرتی اور اس طرح ایسے سامان پر دو حکومتوں کے محصول کی ادائیگی کی ذمہ داری عاید ہوتی.یہ امر ریاست اور حکومت ہند کے درمیان عرصے سے زیر تنازعہ چلا آتا تھا.آخر سر میز گرگ وزیر خزانہ کے زمانے میں اس نے کاریں یہ اک رات انار محصول حکمت ان کی شر کے مطابت رکھے اور ایسے سامان پہ تو ریاست کے محصول کی ادائیگی کے بعد برطانوی ہند میں داخل ہو.ریاست حکومت ہند کو الانہ تشخیص شدہ رقم ادا کر دیا کرے.اگر ایسے کسی امن کے متعلق تنازعہ پیدا ہو تو معاملہ ایک متفقہ نالے کے مطابق دونوں حکومتوں کے درمیان طے ہو جایا کرے.سامان کو انا مجھ کو ریاست کی ، برطانوی شہد کی حمد پہ نہ درد کا جائےاور نہ ان کے ساتھ کسی قسم کا نعرض کیا جائے.اس معاہدے کے مطابق مقرہ تاریخ سے ریاست میں عمل در آمد شروع ہو گیا لیکن برطانوی ہند کی سرحد یہ پہلی سی مشکلات قائم رہیں ریاست کی طرف سے شکایت ہوئی.مرکزی اوالدہ مالیات کے رکن مسٹر لیڈ نے ایک عالمانہ تفصیلی نوٹ لکھ کر معانگ کو ملک کے قانون کی حیثیت حاصل نہیں.اور جب تک معاہدے کی شرائط کو قانونی جامہ نہ پہنایا جائے ان کی تعمیل ماندہ می نہیں مسل محکمہ قانون میں مشورے کے لئے آئی قومیں نے لکھا کہ معاہدے کی شرائط کو تاریخ مقرہ سے قبل قانونی جامہ پہنانا ہمارا فرض تھا.اگریم نے اس فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کی ہے توسم مجاز نہیں کہ ان کو تاہی کا اس رنگ میں فائدہ اٹھائیں کہ فریق ثانی تو معاہدے کی عاید کردہ زمرد اریون کو ادا کرے اور تم ان کی ادائیگی سے گریز کریں.ہمارا فرض ہے کہ ہم معاہدے کی شرائط کو پورا کریں اور اپنے افسروں کے نام ہدایت جاری کریں کہ ان شرائط کے مطابق عمل کیا جائے.چنانچہ الیاتی کیا گیا.صوبجات متوسط کے ایک برطانوی ایگزیکٹو انجینیر نے صوبائی حکومت سے اس بناء پر معاوضے کا مطالبہ کیا کہ صوبے میں سپرنٹنڈنگ انجنیر کی تین اسامیوں میں سے ایک تخفیف کر دی گئی ہے.جس سے
۴۱۰ اس کی ترقی کے امکانات پر مخالفانہ اللہ پڑا ہے.صوبے کی حکومت نے تمام حالات کا جائزہ لیکر قرار دیا کر تین اسامیوں کے ہوتے ہوئے بھی اس افسر کے سپرنٹنڈنگ انجنیر کی اسی پر قائم ہونے کا کوئی امکان نہیں تھا.اسلئے وہ کسی معاوضے کا حقدار نہیں.اس حکم کے خلاف استہ بند گور نے حکومت ہند میں اپیل کی بیبیاں بھی محکمہ متعلقہ نے صوبائی حکومت کے ساتھ اتفاق کیا.مسل قانونی مشورے کیلئے وزارت قانون میں آئی.ہم نے بھی اتفاق کیا اور قرار دیا کہ معاوضے کی ادائیگی کی ذمہ داری حکومت پر عاید نہیں ہوتی.درخواست کنند و نے دن یہ ہند کی خدمت میں اپیل کی.وزیہ مند نے لکھا میرے میران قانونی کی رائے میں معاوضے کا مطالبہ کیا ہے اسلئے معاوضہ ملنا چاہئیے.واپسی پر مسل ہمارے پاس بھی برائے اطلاع آئی.میں نے اس پر لکھا اطلاع ہوئی.میری اب بھی بھی رائے ہے کہ ہمارہ کی رائے صحیح ہے اور وزیر بند کے مشیران قانون کی رائے غلط ہے.لیکن وزیر بند کا فیصلہ ناطقی ہے کیوں نہ ہو پنجابی کی مثل ہے :.رب نے دیتیاں گا جہاں نے دیتے کہ بنا کہ کھ.دوسرے دن سر جارنا سنت ہے جو محکمہ قانون کے سیکر یٹری تھے دریافت کیا کہ تمہارے کل کے نوٹ میں تو پنجابی مثل درج تھی اس کا کیا مطلب ہے.میں نے کہا آپ نے انگر نیزی مثل "MAKE HAY WHILE SUN SHINES توسنی ہوگی پنجابی مثل تو اسی مطلب کو ذرا نہ یادہ بلیغ الفاظ میں بیان کرتی ہے." پنڈت جواہر لال نہرو نے بنارس میں ایک تقریبہ کی جسے حکومت کے خلاف اشتعال انگیز سمجھا گیا ان کے خلاف فوجداری مقدمہ چلائے جانے کی تجونیہ ہوئی.وزارت داخلہ کی طرف سے مشورے کے لئے مثل محکم قانون میں آئی.محکمہ کے ڈپٹی سیکریٹری، سوئٹر اور سیکر یٹری تینوں نے اتفاق کیا کہ تقریبہ واضح طور پہ قانون کی نہ دیں آتی ہے اور مقدمہ چلائے جانے کی صورت میں سزا یا بی کا قیاس غالب ہے.میں نے لکھا مجھے قانونی نقطہ نگاہ سے تو اتفاق ہے.لیکن حکومت کا رکن ہونے کی حیثیت سے میرا مشورہ ہے کہ پنڈت صاحب کے خلاف عدالتی کاروائی نہیں ہونی چاہیے.بیشک انکی تقریر کے بعض حصے صراحتہ قانون کی مدد سے تجاوز کرتے ہیں لیکن تقریر کا لب لباب یہ ہے کہ ہندوستان کی سیاسی آزادی میں تاخیر ایک نا قابل برداشت نا انصافی اور ظلم ہے.اس موقف کے ساتھ ہر شخص کو اتفاق ہو یا نہ ہولیکن اس کے مقصد کے ساتھ ہر اہل وطن کو ہمدردی ہے.پنڈت صاحب کے خلاف مقدمہ چلانے سے ملک میں ہر ایک کی ہمدردی ان کے ساتھ ہو جائے گی اور عبدالسی تقریر کرنے سے پنڈت صاحب کی سی عرض ہو کہ حکومت مقدمہ چلائے تاکہ پلک کی ہمدردی کانگریس تحریک کے ساتھ ہو جائے وزیر داخلہ نے یہ مشورہ قبول کر لیا اور مقدمہ نہ چلایا گیا.سند یافتہ مجرموں کی طرف سے گورنر جنرل کی خدمت میں رحم کی درخواستیں وزارت داخلہ میں آتی تھیں راہ سرریکینیڈ میکسول.i
راسم اور وہاں سے براہ راست وزیر قانون کے پاس بھیجی جاتی تھیں.وزیر قانون ان پر غور کر کے اپنی رائے کا اظہار کرتا تھا.اگر وزیر قانون کی رائے ہوتی کہ در خواست رد ہونی چاہیے تو معاملہ میں ختم ہو جاتا اور درخواست نامنظور ہو جاتی.اگروزیر قانون تخفیف یا سند کی معافی کا مشورہ دنیا تو وزیر داخلہ مسل کے مطالعہ کے بعد اپنی رائے کا اظہار کرتے اگر دونوں وزیراء متفق ہوتے تونسل گور نہ منزل کی خدمت میں بھیج دیجاتی اور وہ عموماً متفقہ مشورے کو منظور فرما لیتے اور اس کے مطابق حکم جاری ہو جانا.اگر وزیر داخلہ وزیر قانون کی رائے سے اختلاف کرتے تو مسل ان کے نوٹ کے ساتھ وزیر قانون کے پاس واپس جاتی اور وہ وزیر داخلہ کے نوٹ کے متعلق اپنی رائے کا اظہارہ کرتے اس کے بعد مسل گور نہ جنرل کی خدمت میں بھیج دیجاتی.ایسی صورت میں وہ عموماً در خواست رد کر دیتے.جتنا عرصہ میں وزیر قانون رہا میری طرف سے اوسطا ہر مہینے میں تین چارہ درخواستوں پر تخفیف سزا کی سفارش ہوا کرتی تھی اور وزیر داخلہ شادی میری رائے سے اختلاف کرتے.کبھی کبھی میں سند کی معافی کا مشورہ بھی دیا.ایسے کسی کیس میں وزیر داخلہ نے میرے مشورے سے اختلاف نہ کیا.سزائے موت کے خلاف درخواستوں کی کثرت صوبہ مدر اس سے موصول ہوتی تھی.دو سر انبر پنجاب کا تھا اور تفسیر مرکبات متحدہ کا امیں نے شروع سے یہ اصول رکھا کہ اگر کسی مجرم کے حق میں کوئی گنجائش بھی نظر آئے تو موت کی بجائے عمر قید یا اس سے بھی کم سندا کی سفارش کی جائے.عمرقید سے مراد چودہ سال کی قید با عبور دریائے شور مراد لی جاتی تھی اور نیک چلنی کی رعایت سے پورا فائدہ اٹھانے والے کو ڈیڑھ سال کی مزید تخفیف مل جاتی تھی.موت کی سند کے متعلق ایک ہول ن نے یہ بھی کیا ہواتھا کہ اگر نا کا حکم صادر ہوےیک سال کام رہ گیا ہواور پانی نہ دی جاسکی ہو.تو ان تاخیر کو تخفیف سزا کیلئے معقول وجہ سمجھا جائے کیونکہ تو ملزم پھانسی پانے کے فون میں ایک سال گزار چکا ہے وہ اتنی عقوبت برداشت کر چکا ہے کہ اتنے عرصے بعد اسے پھانسی دینا ظلم ہوگا میرے اس نظریے کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ اور کا ہور ٹائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان نے وائسرائے کی خدمت میں احتجاج کیا.وائٹ ایٹ نے ان کے مراسالا مجھے بجھوا دیے.میں نے جواب دیا افسوس ہے واجب الاحترام چیف جسٹس صاحبان کو یہ نہیں سوچھا کہاس تاثیر کا علاج ان کے اپنے ہاتھ میں ہے اگر پھانسی کی سزا والے مقدمات کا آخری فیصلہ سنہا کے حکم کے ایک سال کے اندر ہو جایا کرے تو یہ صورت پیدا ہی نہ ہو.مناسب ہو گا اگر گورنہ جنرل صاحب انہیں توجہ دلائیں کہ وہ اپنی اپنی ہائی کور ی پانی کی اپیلوں میں اتے نے عرصے کی تاخیر کاعلاج تو نہ کریں تا کہ یہ موت آئندہ پیدانہ ہو.لاہور تائی کورٹ کے چیف جسٹس سرڈگلس بیگ نے مجھ سے ذکر کیا کہ بخشی یک چند صاحب کہتے ہیں کہ م نے ایک ایسے مجرم کی پھانسی کی سزا کو صرف تین سال قید میں بدل دیا جس کی پھانسی کی سزا کے خلاف اپیل انہوں نے بہت غور کے بعد رد کردی تھی.میں نے چیف جسٹس سے کہا آپ اس کیس کی مسل منگوا کر ہائی کورٹ کا فیصلہ پڑھو لیں اگر آپ کو اس فیصلے کے ساتھ الفان
وامم ہو تو میں اپنی غلطی تسلیم کرلوں گا.میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے ضرور اپ کیا ہو گا اور انہیں طمینان ہوگیا ہوگا کہ اگر وہ اپیل بخشی صاحب کی بجائے ان کے اپنے اجلاس میں پیش ہوتی تو وہ تین مہینے کی قید سے زیادہ سند ایک اور موقعہ پر چیف جسٹس بیگ نے مجھے کہا ظفر اللہ پھانسی کی سزا میں تخفیف ہونے پر مجھے تو کوئی افسوس نہیں ہوتا.اس ملک میں شہادت ایسی غیر تسلی بخش ہوتی ہے کہ مرے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے.اسلئے مجھے خود پھانسی کی سر بحال رکھنے میں تامل ہوتا ہے.لیکن جب تم بالکل معافی کی سفارش کر دیتے ہو تو اس سے جی میں بیچنی پیدا ہوتی ہے کیونکہ ایسی سفارش سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ جوں نے اپنے فرائض منصبی کو یا حقہ ادا نہیں یا وہ چاہتے ہی کار را دراخواستہ ہمارا یہ تاثر ہوکہ ملزم کے خلاف تحریم ثابت نہیں تو فیصلہ کرنے والے جج صاحبان کو موقعہ دیا جائے کہ وہ اپنے فیصلے کی صحت کی تائید میں اپنے دلائل بیان کر سکیں.میں نے کہا مج صاحبان ا یہ مطالبہ بالکل جائے.اگر آئندہ کسی در خواست پرایسی صورت پیدا ہوئی تومیں آپ ہی کروں گا مجھے عدالت ہائے عالیہ کے فیصلوں میں دخل اندازی کا شوق نہیں تھا.میں یہ بھی جانا تھا کہ رحم کی درخواستوں پر غور کرتے ہوئے میرا منصب عدالت امیل کا منصب نہیں.مثلا نشہ اتر کا وزن کرنا عدالت کا منصب ہے.کسی وزارت کو اس سے سرو کار نہیں ہونا چاہئے لیکن جہاں کسی مسلمہ اصول کی صریح خلاف ورزی ہوئی ہو یا اضح شہادت بالکل نظرانداز کردی گئی ہو گویا اس پر موجود ی نہیں یاکسی ایسی مفروضہ شہادت پر انحصار کیا گیا ہو تواس پر موجود نہیں لیکن کسی غلط فہمی کے نتیجے میں فرض کر یا گا ہو کہ مل پانسی کا گلا گھونٹنا ہو تو ایسی صورت میں فاضل جوں کے احترام کے باوجود اور متعلقہ کی بنا پر رائے قلم کرنا اور فیصلے پر پہنچا فرض منصبی کا تقاضا تھا جس سے گریہ کرنا میری نگہ میں خلاف دیات تھا.ایک آدھ فیصلہ تو میری نظر سے ہیں بھی گذرا که مبونوت عقل زیرت که این بعد لو العجمی است - ایک صوبے کے جوڈیشنل کمشنر صاحبان نے ایک اسپیل کی سماعت کی جس میں دو ملزمان کو قتل عمد کے جرم میں موت ک سنمار گئی تھی.ایک ملزم نے اقبال حرم کیا تھا.اس کے اقبال تحریم اور تائیدی شہادت کی بنا پہ دونوں ملزمان کے خلاف جرم ثابت شدہ قرار دیا گیا تھا.جوڈیشنل کمتر صاحبان نے اپنے فیصلے میں پہلے تو اس ملزم کے کیس پر غور کی جس نے اقبال جرم نہیں کیاتھا ور قرار دیا کہ قبلی ملزم کا اقبال جرم دوسرے ملزم کے خلاف ایکٹ شہادت کے رو سے بطور شہادت استعمال کیا جا سکتا ہے اور تائیدی شہادت کے ساتھ سپر غور کرنے سے دوسرے عزم کا تجرم ثابت ہے اسلئے اس کی اپیل خارج کی جاتی ہے.پھر عدالت نے اقبالی ملزم کے کیس پر غور کیا اور قرار دیا کہ اس کا اقبال مجرم قابل پذیرائی نہیں.اسلئے اس کی اپیل منظورہو کہ
اسے سوائم سے بری کیا جاتا ہے !!؟ اگر اقبال جرم ملزم کے خلاف قابل پذیرائی نہیں تو اس ملزم کے خلاف حسین نے اقبال تحریم نہیں کیا کیسے قابل پذیرائی ہو گی ؟ اگر میرا منصب عدالت اپیل کا ہوتا تو میرے لئے کوئی مشکل نہ تھی.میں تو شیل کمشنر صاحبان کی تجویز کو جس کی بنا پر انہوں نے اقبالی ملزم کو بری کیا تھا ظلم کرتے ہوئے قرامہ دنیا کہ اقبال تیم دوست عزم کے خلاف بھی قابل پذیرائی نہیں.اور اسے بھی بری قرار دیا لیکن مرا منصب علالت اپیل کا نہیں تھا مسل کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنا کہ دونوں ملزمان کے خلان جرم ثابت تھا.میری دانست میں اقبال حجم قابل پذیرائی تھا.اور اسے رد کرنے میں جوڈیشنل کمشران نے غلطی کی مفتی.لیکن اس غلطی کی اصلاح نہ تو میرے ذمے تھی اور نہ ہی مکن تھی.دوسری طرف الضان کا یہ تقاضا نہیں تھا کہ اگر ایک مجرم عدالت کی غلطی کی وجہ سے اسے پی گیا ہے تو اسے مجرم کوبھی لانہ ام اس غلط کا نامہ ملنا چاہئے ایک کرنا ہے لافانی ہی نہیں کہ ظلم ہوتا.میں نے یہ ساری مشکل اپنے نوٹ میں درج کر کے فقط یہ سفارش کی کہ درخواست کنندہ کی سند پالسی سے تخفیف کرکے عمر قید کردی جائے جو منظور ہوگئی.میری طبیعت کا میلان تو اسی طرف تھا کہ جہاں بھی نرمی کی گنجائش نظر آئے نرمی کی جائے.ہر سو عبد میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پڑھی کہ جہاں تک ہو سکے لوگوں پر عدوانہ در ہونے سے انہیں بچاؤ اور جہاں گنجائش ہو ان کیلئے مخلصی کا راستہ تلاش کرو، کیونکہ یہ بہتر ہے کہ ایک قصور وار سزا سے بچ جائے بجائے اس کے کہ ایک بے قصور پر عقوبت وارد ہو.اس کو پڑھ کر مجھے اطمینان ھی جو کہ اللہ تعلی نے اپنے فضل در حم سے مجھے ایسا موقعہ عطافرمایا کہ میں اس فرمان کے مطابق سعی کر سکا اور ساتھ ہی حسرت بھی ہوئی کہ کاش ہے اس فرمان کا علم ہو جاتا تو اس تعلق میں مزید مواقع نرمی کے تلاش کرتا.دوسری عالمی جنگ شروع ہونے شہ میں دوسری عالمی سنگ شروع ہونے پر دال ہے پر محکمہ سپلائی کا چارج نے ایک نیا مکہ سپلائی کا نام کیا اور یہ حکم میرے سپرد کیا گیا جس سے میرے فرائض میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا.اس سلسلہ میں ایک وار سپلائی کونسل بھی قائم کی گئی.ہر سونیہ کے جنوب اور مشرق کے سب برطانوی مقبوضات اور نو آبادیات کی حکومتوں کے نمائندے اس کو نسل میں شامل کئے گئے.وائسرائے اس کونسل کے صدر تھے اور میں چیرمین سپلائی کا محکمہ بہت جلدی وسعت اختیا کر گیا.اس کی سرگرمیوں کے نتیجے میں ہندوستان کی صنعت و حرفت کو بہت فروغ حاصل ہوا اور ملک نے جلد جلد اقتصادی ترقی کی طرف قدم بڑھایا، ہندوستان سے اسقدر یعنی اور دیگر ضروریات انان برطانیہ کو یا یا گیاکہ جنگ ختم ہونے تک ہندوستان کے ذمہ تو برطانوی قرضہ واجب تھاوہ ادا ہوگیا اور برطانیہ شہندوستان کا در سو کروڑ پونڈ کا مقروض ہو گیا.
ام سپلائی کے محکمہ کے پہلے ڈائرکٹر جنرل جنرل وڈ مقرر ہوئے.سر مہوڈو کو اس محکمہ کا پہلا سکریٹری مقرر کیا گیا.جب وہ سندھ کے گورنہ ہو گئے تو سرالیوں جنکینز محکم سپلائی کے سیکر یٹری مقرب ہوئے وہ بہت قابل افسر تھے.دفتری کام کے علاوہ اور کوئی ڈھپی نہ تھی.شادی نہیں کی تھی اسلئے بیوی بچوں کے دھندی سے آزاد تھے دفتر میں دیر تک بیٹھ کر کام کرتے رہتے تھے.جب اپنا کام ختم کرلیتے تو جائنٹ اور ڈپٹی سیکریٹریوں کے کمروں میں جاکر ان کی میزوں سے سلیں اٹھال تھے اور ان پر تناسب احکام صادر کر کے انکی میزوں پر واپس لکھ دیتے.دوسری صبح متعلقہ افسران محیران ہوتے کہ جو ملیں وہ ابھی دیکھ نہیں پائے ان پر سیکر یٹری صاحب کے احکام بھی صادر ہو چکے ہیں.چونکہ میں بھی آج کا کام کل پر ٹالنے کا عادی نہ تھا اسلئے سرابوں ایسے کام کے دھنی سیکریڑی کے ساتھ میر می نخوب گذرتی تھی.مسل پر ان کا نوٹ ایسا جامع اور واضح ہوتا تھا کہ مجھے ملک کسی اور کاغذ کے دیکھنے کی بہت کم ضرورت ہوتی سرالیوں بعد میں پنجاب کے گورنہ ہو گئے تھے محکمہ کا کام بڑھ گیا تو کلکتہ میں ایک انجینیرنگ کی ڈائر یکریٹ قائم کی گئی.جس کے پہلے ڈائرکٹر منبرای سر گھستری سیل ہوئے تو میرے ساتھ ریلوے بورڈ کے چیف کمشنر کی حیثیت سے کام کر چکے تھے.ڈومنین منسٹرز کا نفرنس میں اکتوری شاد کے آخر میں وائسرائے نے مجھ سے ذکر کیا کہ برطانیہ شرکت کے لئے لندن کا سفر کے وزیر اعظم مسٹر نیول چیر مین نے ڈومنیٹر کے وزراء کی ایک کا نفرنس طلب کی ہے.اور ہندوستان سے بھی ایک نمائندے کو شمولیت کی دعوت دی ہے.میں چاہتا ہوں کہ سنتان کی طرف سے تم اس کا نفرنس میں شرکت کرو.جنگ کا زمانہ ہے اور محکموں پر کام کا بہت بوجھ ہے.ساتھی افساد کی کمی ہے کیسی افسر کو تمہارے ساتھ بھیجنا مشکل ہو گا.جہاں تک معلومات اور مشورے کی ضروریت ہوگی وہ انڈیا آفس مہیا کر دے گا البتہ ایک ذاتی سیکریڑی کی تمہیں ضرورت ہوگی.اگر تم کسی ایسے شخص کو ساتھ لے جانے پر آمادہ کر سکو جو تمہارے لئے سہولت کا باعث ہو سکے توکر لو.اگرچہ میں تونہیں سمجھتا کہ جنگ کے خطرات کے پیش نظر کوئی شخص تمہارے ساتھ جانے پر رضامند ہو سکے گا.میں نے عزیزیم چودھری انور احمد کاہلوں سے ذکر کیا وہ شوق سے رضامند ہو گئے.ان ایام میں انگلستان کا سفر ہوائی کشتی سے ہوتا تھا.وہلی سے قریب ترین مقام جہاں سے وئی کشتی پر دانہ کرتی تھی گوالیار سے چند یل کے فاصلے پر تھا ہم دل سے ریل پر گوالیار گئے ریزیڈینسی میں بطورے اور ہوائی کشتی کے پروگرام کے مطابق روانہ ہوگئے.اسی گشت میں مروجہ ایسی حجاب لارڈ کیسی ہی اور آسٹریا کے گور نہ جنرل رہ چکے ہیں اور ان دنوں آسٹریلیا کے وزیرہ مالیات تھے اس کا نفرنس میں آسٹریلیا کے نمائندے کے طور پر شرکت کے لئے لندن جا رہے تھے.گوالیار سے روانہ ہو کہ ہوائی کشتی سے کراچی پہنچے رات کراچی میں قیام ہوا، دوس کے دن کراچی سے روانہ ہو کہ بحرین ٹھہرنے کے بعد بصرہ پہنچے اور رات وہاں قیام ہوا.تیرے
۴۱۵ دن اسکند یہ پہنچے تقیہ سفر می دن بھی چھوٹا تھا اور جنگی پابندی تھی کہ طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب کے بعد سفر نہ کیا جائے.اسکندریہ سے روانہ ہو کریم کا ر وانت ہے اور رات وہاں بسر کرنا پڑی دوسرے ون کار نو سے پسینز پہنچے.ہوٹل میں بیٹھے کھاناکھا رہے تھے کہ سرکیسی اپنی سر سے اٹھ کرتے ہیں آئے اور کہا ظفر اللہ میاں کے برطانوی قو نفل نے مجھے ابھی پیغام دیا ہے کہ ان کی حکومت کی ہدایت ہے کہ پہلو یہاں سے لندن تک ہوائی سفرنہ کریں بلکہ دل سے پیرس جائیں اور وہاں سے دریل سے ہی لندن جائیں.قونصل نے ہمارے لئے آج رات کی پریس جانیوالی ایک پریس پر سونے والے ڈبے میں کرنے محفوظ کر رکھے ہیں.اگر انور اور تم بھی اسی طریق سے سفر کرنا چا ہوتو وہ کہتے ہیں وہ تمہارے لئے بھی ہیں انتظام کر دیں گے.میں نے دریافت کیا کہ پروگرام میںاس تبدیلی کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ معلوم ہوا آسٹریلین حکومت نے برطانوی بحری وزارت کو تار دیا تھا کہ دمار ستیز سے لندن تک کے ہوائی سفر کے دوران میں سرکیسی اور ان کے رفقاء کی سو فیصدی حفاظت کی ذمہ داری لیں.انہوں نے جواب دیا کہ جنگ کا زمانہ ہے ہم تو ایک فیصد بھی کسی کی حفاظت کی ذمہ داری نہیں لے سکتے.اس پر آسٹریلین حکومت نے ہدایت کی ر گھی پارٹی کے سفر کا انتظام ریل کے ذریعے کیا جائے.میں نے دریافت کیا گیا ہوائی کشتی میں سے سوتی تھی تک جائے گی بتایا گیا کہ پروگرام تو ہی ہے.میں نے کہا پر ہم تو ہوائی کشتی سے ہی جائیں گے.دوسری صبح بوائی کشتی وقت پر روانہ ہوئی مجازی پر دانه فرانسیسی پیانوی سرحد کے متوانی جا رہی تھی کچھ عرصہ بعد ہوائی کشتی نے واپس اسیر کا رخ کر لیا.معلوم ہوا ایک انجن میں کچھ نقص پیدا ہوگیا ہے.اسی پہنچ کر گھنٹہ بھر انجن کی اصلاح میں صف ہوا اور پھر روانہ ہوئے اور چار کے بعد دو پر پوستیمان پہنچ گئے.میں آنکہ پہلی بار جنگی بندشوں سے سابقہ پڑا.بندر گاہ سے سیٹیشن تک ایک چھوٹی سی کھڑکھڑاتی ہوئی موٹر میں گئے ایک معمر پوری ٹر نے ہمارے سوٹ کیس سنبھال لئے اور دریافت کیا کہاں جائیں گے ؟ لندن کہ کہ میں نے دو شلنگ اس کے توالے گئے اور وہ شکریہ کہ کہ سوٹ کیس لئے غائب ہو گیا.ہمارے سٹیشن پہنچنے تک اندھیرا ہو چکا تھا اور روشنی کی ایک شعاع بھی کہیں نظر نہ آتی تھی.انور میاں کو سیکر ٹری کی حیثیت سے سامان کی فکر ہوئی.پوچھا یا کیا جائے ؟ میں نے کہا فکریہ کر و عندی پہنچنے پر مل جائے گا.لیکن انہیں اطمینان نہ ہوا.اتنے میں گھپ اندھیرا ہو گیا پہلی گاڑی آئی جو لندن جانے والی نہیں تھی.انہیں پریشانی ہوئی کہ ہمارا سامان اس میں نہ چلا جائے.میں نے تسلی دی لیکن وہ مطمئن نہ ہوئے.دوسری گاڑی آئی وہ بھی لندن جانیوالی نہیں تھی.تیسری گاڑی لندن جانیوالی تھی.لیکن اندھیرے میں کچھ نہیں سو جھتا تھا کہ کہاں جگہ مل سکے گی.میں ایک کمرے میں گھس گیا.اور میاں کسی اور کمرے میں جوں توی کر کے داخل ہوئے.گاڑی سمت "
واكم ? رفتار تھی اور بہت سے مقامات پر ٹھہری.اندانہ ساڑھے چھ بجے ہم سو تیمپٹن سے روانہ ہوئے ہوں گے ساڑھے دس بجے وائٹر لو پہنچے.یہاں اسٹیشن کے اندر کچھ روشنی تھی.انور نے میری طرف دیکھا اور کہا سامان ؟ میں نے کہا انجن کے ساتھ کے ڈبے میں چلے جاؤ وہاں سے اپنے دونوں سوٹ کیس اٹھا لاؤ.وہ مجھے میں مذاق کر رہا ہوں لیکن گئے اور سلمان اٹھائے ہوئے خوشی خوشی واپس آئے.اتنے میں حکومت کے میزبانی کے صیغے کی طرف سے کرنل کر نیک شاہمیں تلاش کرتے ہوئے پہنچ گئے.معذرت کرنے لگے کہ تمہیں بہت پریشانی ہوئی ہوگی میں نے انہیں اطمینان دلایا کہ اول تو ہیں کوئی ایسی پریشانی بھی نہیں ہوئی لیکن آخر جنگ کا زمانہ ہے اور ہم تو حیران ہیں کہ مشکلات کے باوجود ہم معہ سامان بخیریت پہنچ گئے ہیں.دائر لو سے ہم سرکاری موٹر پر گردو نہ ہاؤس پہنچے.ستے بالکل سنسان تھے اور گھپ اندھیرا تھا.لندن ایک تاریک شہر خموشاں تھا کسی کھڑکی یا دروازے سے روشنی کی جھلک تک دکھائی نہیں دیتی تھی.کہیں کہیں کوئی شخص تاریخ کی مددسے راستہ تلاش کرتا ہوا نظر پڑ جاتا تھا.لیکن جب ہوٹل کے اندر داخل ہوئے تو بالکل مختلف نقشہ تھا.ہوٹل اندر سے روشنی سے جگ مگ جگ مگ کر رہا تھا اور ہرطرف پھل میں تھی کمرے میں پہنچنے پر کال کر یک شانے کہا نہیں ہیں کھانے کو تو کچھ نہیں ملا ہوگا.انہوں نے گھنٹی بجائی اور خادم کے آنے پر اسے کھانا ان کو کہا گیارہ بن چکےتھے اورمیرا اندازہ نا کر سین و نادر ہوں میسر آجائیں تو بہت غنیمت ہوگا لیکن پندرہ میں ن کے ان ی پ کا کا مہیا کر دیاگیا.ان ایام میں عام خوردن اشیاء سے صرف تازہ انڈے آسانی سے نہیں ملتے تھے انڈوں کی کمی بھی صرف شہروں میں تھی دیہات میں انکی بھی کی نہیں تھی.باقی سب اشیا آسانی سے مل جاتی تھی اگر یہ ان کا منہ ای کی یونین پر نہ کر نے کے عالی تری کی طرف سے کوئی مزید اقدام نہیں ہوا تھا.کھانا آنے تک کرنل نے کانفرنس کے پروگرام کے متعلق ہمیں ضروری معلوات یت کیں، بتایا کہ مارے استعمال کیلئے سرکاری ڈیلی مور موجود ہے گی اور ایک دن چھوڑ کر وزیراعظم کی طرف سے دوپہر کے کھانے کی دعوت ہے وغیرہ وغیرہ.یہ اطمینان کر کے کہ ہمارے آرام کا پورا نظام ہے وہ ہم سے رخصت ہوئے کا نفرنس کے ایام میں ان کے محکمے کی طرف سے تمام انتظامات نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام پاتے رہے.ہمیں ہر طرح سے * ویای آرام ملتا ہ ہم جیسا ہم امن کی حالت میں توقع رکھے تھے اور کسی قسم کی پریشانی کاسامنانہ ہوا.جزاه الله مسٹر کیسی اور ان کے رفقاء ما ریلیز سے راتوں رات سفر کر کے پیرس پہنچ گئے.پیرس سے لندن کا سفر صرف رات کے وقت ہوتا تھا.پہلی رات سفر کا کوئی انتظام نہیں تھا.وہ رات انہوں نے پیرس میں بسر کی اور دوسری رات لندن کا سفر کیا.وزیرا عظم کی دعوت کے وقت تک لندن پہنچ گئے.کنیڈا کے ماندے مسٹر کریر تھے ، نیوزی لینڈ کے نمائندے ان کے وزیر اعظم مسٹر پیر فریزر تھے.بہت بھلی طبیعت کے آدمی تھے.میرا ان کے ساتھ بہت جلد دوستانہ ہو گیا.انہوں نے کہامیں لندن پہنچتے ہی انڈیا اس کا تھا اور وزیر ہند کے ساتھ ملاقات ہوتے ہی یہ سوال کیا تھا کہ ہندوستان
اسم کے آزاد ہونے میں کونسی بھر روک بن رہی ہے ؟ انے WAR BOEROS جنوبی افالیہ کے نمائند ے کرنل رئیس تھے جو جلد بعد نوبی افاقہ کے ہائی کمشنر و کر لندن آئے.وہ Bop An میں برطانیہ کے خلاف لڑتے رہے تھے.لڑائی ختم ہونے پر دل شکستہ ہوکر مڈغاسکر چلے گئے تھے اور ر ہیں لبس جانے کی ٹھان لی تھی.لیکن جنرل سمٹس کے سمجھانے پر واپس آگئے POER WAR کے حالات اور سنگ کے دوران اپنے کارناموں پشتمل انہوں نے ایک کتاب بنام کمانڈو (COMMANDO ) شائع کی تھی.جو بہت مقبول ہوئی پھر اس کے بعد کے حالات پر ایک اور کتاب گہOUTS PA " شائع کی.دونوں کی ایک ایک جلد مجھے تحفہ دیں.جہاں کہیں اکٹھے تصویر لئے جانے کا موقعہ ہوتا میں ان کے ساتھ کھڑا ہو جاتا اوراپنا بازوان کے بازو میں ڈال لیتا اور کہتا اب آپ اپنے ملک میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گئے.وہ مسکرادیتے اور کہتے نان سنس (NON SENSE) ں نے ایک دن اس سے کارنیل میں میں تونہ کرتا ہوں کہ اپنے دونوں لڑکوں کوایک سال کیلئے ہمارے ہاں سنتان بھیج دیں.وہ ہمارے مہمان رہ ہیں.جب وہ اپنے ملک واپس جائیں تو جنوبی افریقیہ کی ہندوستانی آبادی کے حقوق کے متعلق تو تجویز دہ کریں اسے قبول کر لیا جائے.کہا تجویز و معقول ہے.جنگ کے بعد ممکن ہے اس پر عمل بھی ہوسکے.میں اپنے بیٹوں کے ساتھ مشورہ کروں گا.لیکن بھی جنگ ختم نہ ہوئی تھی کہ ان کی وفات ہو گئی.وزیر اعظم کی دعوت میں پہنچنے پر مں نے اور احمد کوسٹر ڈبلیو ڈی کرافٹ کے سپرد کر دیا جنہیں میں گول میز کا نفرنس کے وقت سے جانا تھا وہ وزیر بن کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے.دو ختم ہونے پر انہوں نے تایا کہ جسے سند جیسے مہمان آئے گئے میں ان سے کہا گیا یہ لال صاحب ہیں یہ فلاں صاحب ہیں.جب وزیر اعظم آئے تو میں نے کہا انور ادھر دیکھودہ وزیرا عظم آرہے ہیں.انورنے کہ مجھے وزیراعظم کوئی ویسی نہیں میں چرسیل کے انتظارمیں ہوں.ان کی شخصیت اہم ہے.بعد شا د میں چرسی زیراعظم ہوگئے تو انوراحمد نے لندن سے مجھے لکھا آپکو یا د ہے می نے مسٹر کرافٹ سے کیا کہا تھا ؟ المرور "First Lord of Admirality جنگ شروع ہونے پر مسٹر یہ پھل کو تو D MIRA LI FIRST کا منصب پیش کیا گیا تھا اور انہوں نے قبول کر لیا تھا.پہلی عالمی جنگ کی ابتدا میں بھی وہ اسی منصب کیہ فائنہ تھے.کانفرنس کے دوران میں انہوں نے کامن ویلتھ کے نمائندگان کوشام کے کھانے پر ADMIRALTY HOUSE میں.میں مدعو کیا کھانے کے بعد کہیں P roon میں لے گئے اور برطانوی جری تجارت بڑے کے حفاظتی انعامات کی تفاصیل کی وفات کی.جب ختم کر چکے تو کرنل ریٹیں سے دریافت کیا آپ کی نا ر کیا کہ کرنل ریٹس نے جواب دیا میں سو رہا تھاکہ ہ کتنی توش نیسی تھی کہ جب آپ کے لیڈی سمتھ سےبھاگے تو ہارے کسی آدم نے آپ کو گولی کا نشانہ بنا د باب السر ا یاری می بوں کی جنگ کے دوران مسٹر یا والی ہیں (ص)
۴۱۸ پر چل اس جواب سے بہت مخفوظ ہوئے.مجھ سے دریافت کیا تمہارا کیا خیال ہے ؟ میں نے کہا :.مجھے ALL THIS IS Reassuring YES TAHT IS THE WORD Reassuring -: خوش ہوئے اور کہا : - ڈومینز منسٹرز کا نفرنس میں ڈومینینز کے کانفرنس کے پروگرام میں میں مغربی جنگی محاذ یہ لیجانے کی نمائندگان مغربی یورپ کے محاذ جنگ پر کوئی تجویز نہیں تھی.کرنل رئیس نے اصرار کیا کہ اس کا انتظام کیا جائے.کہا دنیا کے کناروں سے ہمیں بلایا ہے اور ہم کس منہ سے محاذ پر گئے بغیر واپس ہو جائیں میرے بیٹے تو میری جان عذاب میں کردیں گے.کہیں گے ! DADDY YOU FUNKED IT (ابا آپ مماز You is پر جانے سے ڈر گئے ، میں تو انہیں منہ نہ دوکھا کوں گا.آخر بیٹے ہو کہ ٹرائین جو اس دقت ڈومنیز سیکری پڑی تھے صرف نمائندگان کو مغربی محاذ پر لے جائیں.محاذ پر جانے کیلئے پہلے ہم لوگ لندن سے پیرس گئے.وزیراعظم فرانس مسٹرڈ لا ڈیر سے ملاقات ہوئی.افواج فرانس کا ہیڈ کوارٹہ پیرس سے چندمیل باہرتھا.فرانسیسی کا اڈوانی نے ہماری دو سر کے کھانے کی دعوت کی.ہر مہمان کے مینو کارڈ پر جس کے اندر کھانے کی فہرست ہاتھ سے لکھی ہوئی تھی اس کے ملک کا نقشہ بنا یا ہواتھا.یاد گار کے طور پر ہم نے ایک دوست کے کارڈ پر انے اپنے دستخط کر دیئے جب لعد میں ہم برطانوی محاذ پر گئے تو یہ طانوی کی نڈر انچیف لارڈ کورٹ نے بھی میرے اس کار ڈرانے دستخط کردیئے لارڈ گورٹ ہندوستان میں چیف آف سٹاف رہ چکے تھے اور میں انہیں پہلے سے جانتا تھا." HOTEL Crillion پیرس میں ہمارا قیام 1 407 میں تھا.ہمارے قیام کی پہلی رات ہوائی حملے کا الارم ہوا یہ میں نے ہدایات وغیرہ تو پڑھالی ہوئی تھیں اور مجھے معلوم تھا کہ ہوٹل میں رہنے والوں کیلئے پناہ گاہ ہوٹل کی نہ یہ زمین منزل میں ہے.اور مجھے وہاں پہنچنا چاہیے.لیکن میں نے سوچا کہ اول تو کوئی ایسا خطہ نہیں اور اگر ہے بھی تو جو کچھ یہاں ہوگا وہی نیچے ہوکر رہے گا.یہاں میں آرام سے بہتر میں لیٹا ہوں.نیچے شراب کے مٹکوں کے درمیان ٹھٹھروں کا بہتر ہے پہلی بیدار ہوں.میں نے کر دے بدلی اور پھر کام سے سو گیا.صبح ناشتے پر سٹرائیڈن کا مذاق اڑایا جارہا تھا کہ ہوس استیلی میں سنے کے سوٹ میں ہی نیچے بھاگ گئے.ڈریسنگ گاؤن تک اوڑھنے کا خیال آیا اور ان کی یہ ہیئت کذائی خواتین کی پریشانی کا موجب ہوئی مذاق میں انہیں چھیڑا جارہا تھا کہ انہوں نے عمداً اب کیا تھا.پیرس کے بازاروں میں رات کے وقت ایسا گھپ اندھیرا نہیں ہوتا تھا جیسے لندن میں ہوتا تھا بازاروں کے لیمیوں کی روشنی بہت دھیمی کر دی گئی مفتی ہیں جنگی قیدی کی حیثیت میں مفید تھے.وہاں سے کسی طرح بھاگ نکلے اور اپنی فوج میں آملے.
۴۱۹ تھا.اس سے آنے جانے والوں کو لندن کی نسبت بہت سہولت رہتی تھی.مجینیو لائن ہم مغربی محاذ کے جنوبی فرانسیسی صے میں بھی گئے جو کچھ ہم نے اس حصے میں دیکھا اس می سے دلچسپ ترین مجینو لائن کا نظام تھا.دوپر کا کھانا ہم نے مینوں ان کے ایک زیر زمین قلع میں کمانڈر کے ساتھ کھایا.کھانے کے آخر میں تقریروں کے خاتمے پر قلعے کے کمانڈر نے ہم میں سے ہر ایک کے سینے پر مجبتو بیج لگایا.یہ ایک تانبے کا تمغہ تھا جس کے گردیہ موٹو اعلان کندہ تھا: - N NE PASSE PAS یعنی وہ گذرنے نہ پائیں گے.مجینو لائن کا سارا نظام حیرت انگیز تھا اور اس کے زمین دوز قلعوں کو دیکھ کر تو واقعی یہ یقین ہوتا تھا کہ کسی غنیم کا ان سے گذر کر آگے نکل جانا محالات میں سے ہے.ان کے اندر سے بڑی بڑی تو یوں کے سرنگ کا دہانے قابل ی وادیوں کی طرف جھانکتے تھے جن میں گوے بھرنےکا کام ان ہاتھوں سے نہیں کہ نبی سے چلائی جانیوالی شینوں سے لیا جاتا تھا.غرض یہ نظام فن دفاع کا ایک حیران کن کارنامہ تھا.ہمارا آخری دن مغربی محاذ کے برطانوی حصے میں گذرا.ان ایام میں ملک معظم کے برادر اصغر ڈیوک آن گلوسٹر برطانوی کمانڈر انچیف کے افسر رابطہ تھے.وہ سارا دن ہمارے دورے میں ہمارے ساتھ رہے.ساتھ رہے.اپنی کار خود چلاتے تھے.ہم میں سے ہر ایک کو باری باری اوسطاً آدھ گھنٹڈ ان کی صحبت میں صر گری کا موقعہ ملا.جب میری ہار کی آئی تو شاید وہ دن بھر موٹر چلاتے تھک چکے تھے.موسم بھی خوشگوارہ نہیں تھا اور ان کی توجہ موٹر کو قابو رکھنے میں صرف ہورہی تھی اسلئے ہمارے درمیان کسی موضوع پر گفتگو کا سلسلہ جاری نہ ہو سکا شہر قریب آرہا تھا کہ انہوں نے اپنے آر ڈولی افسرسے دریافت کیا کیا پروگرام ہے.پچھلی نشست سے انہوں نے گذارش کی بلدیہ کے میٹر کی طرف سے استقبالی دعوت ہے اور پھر شام کا کھاتا ہے.اس کے بعد کانسرٹ ہے لیکن کائٹر میں آپ کا تشریف لے جانا لان میں نہیں.آپ نہ جانا چاہیں تونہ جائیں.اس پر ہر رائل ہائی نس نے فرمایا.12" WHAT I SAY IS DAMN THE CONCERT میں نے الفاظ میں تو کچھ نہ کہا لیکن میرے دل نے ان کے اس بے تکلفانہ اظہار وقت کی پر ن در نائیلہ کی اور انہیں مرحبا کہا.میں نے اطمینان کاسانس لیا کہ کاسٹ میں اگر یہ رائل ہائی میں کی موجودگی لازم نہیں تو اس ناکارہ کی حاضری بھی کوئی ضروری نہیں ہوگی.میرے لئے کھانے کے بعد نمانہ اور نماز کے بعد بتا.سرنڈ لیٹر سٹورٹ سے لندن میں طلاقات ہوئی تو انہوں نے محاذ جنگ کے دورے کے تاثرات دریافت زیبا میں نے کہا مینو لائن بیشک ایک دفاعی شاہکار ہے اور مجھے تو فنون حرب اور دفاع کے ساتھ دور کا بھی حوالہ نہیں رہا.لیکن اسے دیکھ کرمجھے تین باتوں کا خیال آیا.اول دفاع کی لاش خواہ کتنی مضبوط اور نا قابل عبور ہو اس سے دشمن کو شکست نہیں دی جا سکتی.دوسے تجنبو لائن فرانس اور سوئٹزر لینڈ کی سرحد سے شروع ہو کر فرانس
ور نجم کی حدتک پہنچ کر ختم ہو جاتی ہے سمندر تک ہیں جاتی اگر میں جنگ کی طرح ترین توان نے تعلیم میں سے جوکہ فرانس کی طرف بڑھنا شروع کیا تو یہ لائن انہیں کیسے روک سکے گی؟ تیرے ہوائی ملے کو بھی یہ انہیں روک سکے گی یا سرینڈ لیر نے دریافت کیا برطانوی محاذ سے تمکیا تاثر لیکر واپس آئے؟ میں نے کہا بر طانوی حصے میں توکہ ہمیں تو کسی تم ی کوئی حرکت دیکھنے میں نہیں آئی وہاں سب آرام سے بیٹھے میں یمن ہے جو منوں کے نظام میںکوئی اور مشغل نہ ہوا ملک معظم نے کانفرنس کے نمائندوں کو شام کے کھانے کی دعوت دی کھانے پر سادہ ڈی جیکٹ پہنے کی ہدایت تھی 2 " ولی واپس پہنچنے پر ڈاکٹر نے کبھی مجھے کھانے پر بلایا.یہاں بھی لباس کے متعلق میں ہدایت تھی لیکن وہ غیر رسمی موقعہ تھا کھانے پر دائسرائے اور لیڈی لنلتھگو تھے اور صرف میں ایک مہمان تھا.وائسرائے مجھ سے کا نفرنس کے کو الف سنتے رہے ہیں نے ملک معظم کی رسمی دعوت کے ذکر می دانست بیان کیا کہ ملک معظم خودبھی سادہ ڈنر جیکیٹ کا سوٹ پہنے ہوئے تھے اور مانوں کو بی اس اس میں آنے کی ہدایت تھی جب میں یہ کہا تو وارے نے رات کے اظہار کے طورپر اپنے اوپر چڑھائے لارڈ کیٹو) کانفرنس کے ایام میں میری ملاقات لارڈ کیٹو سے بھی ہوئی جو ہندوستان کی سب سے بڑی تجارتی فرم اینڈریو یول اینڈ کمپنی کے جس کا برا دفتر کلکتے میں تھاسربراہ رہ چکے تھے.ان سے میری پہلی ملاقات سے اء میں لندن میں ہوئی تھی جب وہ لندن کی مرکزی فرم یول کیٹو کمپنی کے سربراہ تھے.شاء میں وہ جنگی خدمات کے سلسلے میں روز یہ مالیات کے میر تھے.ملاقات پر میں نے دریافت کیا آپ کا صحیح منصب کیا ہے ؟ مسکرا کر کہا ظفر اللہ میں مالیات کے لحاظ سے گو یا آرچ بشپ آف کنٹربری کا پرائویٹ چھین ہوں یعنی وزیر مالیات مالی مشیر ہوں اور میرا کام یہ ہے کہ میں سے مشورہ دوں کہ میرے جیسے آدمیوں سے روپیہ کیسے نچوڑا جاسکتا ہے.میں نے ان سے انور حمد کا ذکر کیا اور دریافت کیا.کیا انہیں کلکتے کی فرم اینڈریو یول میں لیا جاسکتا ہے.انہوں نے کہا ہمارے بہت سے افسروں نے اپنی خدمات جنگ کے سلسلے میں پیش کردی ہیں اور کچھ تو ایسی خدمت پر چلے بھی گئے ہیں.ہمیں افسروں کی ضرورت تو پڑے گی اور میری خواہش بھی ہے کہ اعلی ماحول کے ہندوستانی نوجوانوں کو منسب ٹر جینگ و یکم کم انی فرم میں بنا شروع کریں اس وقت تک ہم نے صرف دو ہندوستانی لئے ہیں جن میں سے ایک شومئی قسمت سے فوت ہوگیا ہے.تم کل شام اورک ساتھ لیکر میرے ہاں کھانے پر آجاؤ.مجھے انور سے ملنے کا موقعہ بھی مل جائے گا اور میں اندازہ کرسکوں گا کہ آیا ہمارے ساتھ کام کرنا اس کی طبیعت کے موافق ہو گا.وہ ان دونوں سسکس کے علاقے میں ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتے تھے رمایا تم چاہو نہیں ان کیلئے میں کار تمہارے ہوٹل بھیج دوں گا اوردی کار تمہیں واپس بھی لے جائے گی.میں نے کہا کار تو حکومت کی عنایت سے ہمیں میسر ہے اسلئے آپ کو تکلیف فرمانے کی ضرورت نہیں.دوسرے دن شام کو ہم ان کے ارشاد کے مطابق ان کے ہاں گئے.کھانے کے بعد ہم گول کرےمیں مجھے باتیں کر رہے تھے.اس دوران میں مجھ سے کہا ذرا ابری میں چلو.میٹھے ہی کہانظر اللہ مجھے اور کے متعلق کچھ اور دریافت کرنے کی ضرورت نہیں ہمیں ایسے ہی نوجوان در کار ہیں.
میں صرف ایک بات تم سے پو چھنا چاہتا ہوں.اور جیسے تم کہو گے ویسے ہی میں کروں گا.جنگ کا زمانہ ہے ہم نہیں جانتے کس کہوگے ویسےہی رات لندن کو بموں سے اڑا دیا جائے.اگر انور لندن میں ہوا تو اس کے والدین کو اور تمہیں ہر وقت اس کے متعلق پریشانی ہو گی اور میں بھی اس کی خیریت کے متعلق ذمہ داری محسوس کروں گا.اسلئے اگر تم چاہو تو یں اس کی ٹرینگ کا انتظام کلتے یں کر دیتا ہوں.میں نے کہا یہ سوال آپ انور سے کریں.اس کے جواب پر غور کرنے کے بعد جیسے مناسب ہو فیصل کریں انہوں نے گول کمرے سے انور کو لایا اور تو بات مجھ سے کہی تھی انور سے کہی.اس نے ملا تامل کیا.جناب بیشک جنگ کا زمان ہے یہاں تو حال اوردو کا ہو گا وہ میرابھی ہو گا.اگر آپ مجھے ٹرینگ دینے کا فیصلہ کریں تومیں لندن میں ٹرینگ لینے کو تری دوں گا.جب اور گول کرے میں واپس چلا گیا تو ایڈوکیٹ نے مجھ سے کہا میں انور کی بات سے بہت متاثر ہوا مجھ سے ہوں.یہ روح ہے جسے ہم اپنے سب کام کرنے والوں کے لئے پسند کرتے ہیں.ہم نے آپس میں طے کیا کہ حب اور میرے ساتھ اپنی ڈیوٹی ختم کرے گا تو ول کی کمی کے ساتھ اپنی ٹرینینگ شروع کر دیا.بیٹے کر کے ہم دونوں بھی گول کمرے میں واپس آگئے اور چند منٹوں کے بعد اور اور میں لارڈ کیٹو سے رخصت ہو کہ لندن واپس پچھلے آئے.لارڈ کیٹو بعد میں بنک آف انگلینڈ کے گور نہ ہوئے.جب بھی میں انگلستان جاتا تو انہیں ملنے بینک آن انگلینڈ جانا.عا طور پر مجھے لینے کیلئے بلاتے.اس وقت تک جنگ زوروں پر بھی اور کھانے پینے کے مشعلی بہت کی پابندیاں تھیں.کچھ قانون اور کچھ اجزاء کی کمی یا رانی کی وجہ سے لیکن بنک میں کھانا نہایت لذیز اور با افراط ہوا کرتا تھا.کھانے کے بعد گورنر صاحب میرے ساتھ نیک کے موٹر خانے تک آتے اور شوفر کو ارشاد فرماتے.سرظفراللہ کو جہاں یہ جانا چاہیں لے جاؤ.جب تک وہ زندہ رہے بہت شفقت سے پیش آتے رہے.انور سے بھی بہت شفقت کا سلوک کرتے اور میرے پاس اس کے کام کی بہت تعریف کرتے تقسیم ہند کے بعد بھی اور کھلکتے میں اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کیلئے ٹھہرارہا ہوا ء میں ایک وقت کلکتے ہیں مسلمانوں کیلئے حالات بہت مخدوش ہو گئے.میں ان دونوں چند دنوں کیلئے لندن میں تھا.لارڈ کیٹو نے مجھ سے کہنا ظفراللہ میں نور کے متعلق بہت پریشان ہوئی.اب تو یور میں بھی کلکتے میں محفوظ نہیں.میں چاہتا ہوں کہ الوز کو ایک دو سال کیلئے لندن ہیڈ آفس میں بلالوں.جب حالات سدھر جائیں تو وہ کلکتے واپس جاسکتا ہے.ی نے کہامیں کراچی پہنچ کر انور کے والد سے بھی بات کروں گا اور ٹیلیفون پر انور سے بھی بات کروں گا پھر آپ کی خدمت میں اطلاع کروں گا.انور کے ابا جان نے کہا میں طبعا پریشا نی تو ہے لیکن انور سے پور پھلو جیسے وہ چاہے ویسے ہی ہونا چاہئیے.میں نے انور سے بات کی اس نے کہا آپ دعا کریں میں بھی دعا کروں گا اور کل آپ کو اطلاع کروں گا.درس ہے دن کہا کل بھی میری بھی رائے تھی لیکن آج میں زیادہ وثوق سے کہی سکتا ہوں
کہ حالات نا گوار تو ہیں لیکن خطرہ الیسا شدید نہیں جیسے ان عزیزوں کا اندازہ ہے جو فاصلے پر ہیں لیکن بہر حال میرے فرائض منصبی کا یہی تقاضا ہے اور اخلاقی فرض بھی ہے کہ میں اپنی جگہ نہ چھوڑوں اسلئے آپ لارڈ کیٹر کو لکھ دیں کہ میں ان کی شفقت کا ممنون ہوں.لیکن مناسب میں ہے کہ میں کلکتے میں ہی ٹھہروں.ابھی میں وزراء کی کانفرنس کے سلسلے میں لندن ہی میں تھا کہ وائٹریٹ کا تار آیا کہ فنلینڈ کی استدعا E پر لیگ آف نیشنز کی اسمبلی کا اجلاس ہو نیوالا ہے یہاں سے تو کسی کو جنیوا پہنچنے کا موقعہ نہیں تم وہیں سے وند تیار کرکے ہندوستان کی نمائندگی کیلئے جنیوا چلے جاؤ.انڈیا اس سے مشورہ بھی کر لو اور توند ضروری سمجھو ان سے طلب کر لو.میں نے سرفنڈ لیٹر سٹورٹ سے مشورہ کیا.انہوں نے فرمایا ہمارے دفتر میں مٹر ٹالنس لیگ آف نیشنز کا کام کرتے ہیں.تفاصیل ان کے ساتھ لے کر لو.دہی تمہارے ساتھ بطور سہندوستانی وفد کے سیکریڑی کے جینوا پلے جائیں گے.فلینڈ نے روس کے خلاف جرمانہ کاردانی کہی کی شکایت کی ہے.حالات واضح ہیں.ہم سب کی ہمدردی فنلینڈ کے ساتھ ہے.وہاں پہنچ کر دیکھ لیا کہ کس نوع کی کاروائی مناسب ہوگی اگر ضرورت سمجھو تو ہم سے مشورہ کر لیا.وفد کے قائد توتم خود ہی ہوگئے اپنے سیکر یٹری کو جسے تم ساتھ لائے ہو وفد کا ممبر نبا لو.! سٹرٹا مکنی بہت با تدبیر اور سکھی ہوئی طبعیت کے افسر نکلے.سب تفاصیل ان کے ساتھ طے ہوگئیں وزراء کی کانفرنس کی کاروائی آخر نومبرتک ختم ہوگئی.جنیوا جانے میں بھی چار پانچ دن باقی تھے.میں نے کریل کر نیکی سے دریافت کیا کہ حکومت برطانیہ کی میزبانی کا فائدہ ہم کب تک اٹھا سکتے ہیں ؟ انہوں نے کہا جنگ کا زمانہ ہے داسی سفر کے انتظامات فوری طور پر تو نہیں ہو سکیں گے.آخہ چار پانچ دن تو در کار ہوں گئے ہیں جب تک تم حکومت کے مہمان ہی ہو گئے.میں نے کہا میں تو یہاں سے لیگ آف نیشنز کے اجلاس کے لئے جنیوا جاؤں گا اور وہاں سے ہندوستان جاؤں گا.جنیوا جانے میں ابھی کچھ وقفہ ہے.میں چاہتا ہوں تین چار دن لندن سے باہر ہو آؤوں کیا یہ انتظام ہو سکتا ہے.انہوں نے فرمایا بیشک ہوسکتا ہے.کا ر لے جاؤ ہم پٹرول کے کوپن وغیرہ مہیا کر دیں گے.واپسی پر جنیوا جانے تک دی انتظام قائم رہے گا جو اس وقت ہے.تمہاری میزبانی تو نہایت آسان ہے تمنے توسم سے کسی قسم کا مطالبہ کیا ہی نہیں.یہ ان کا حسن اخلاق تھا.کیونکہ میں جانتا تھا کہ پول کے متعلق کڑی پابندیاں ہیں.لیگ آف نیشتر کی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت جنیوا کے سر کا یہ انتظام تھا کہ لندن سے ہوائی سہانہ پر پیرس اور وہاں سے ریل پر بجنیوا جائیں گے.مسٹر ٹا مکسی نے لندن سے پر مس تک کے ریل کے ہوائی سفر اور پرسی سے جنیو انک کے ریل کے سفر کیلئے بکنگ کا نظام کر لیا ہوا تھا.اور احتیاطاً دوسرے دن کے لئے بھی وہی بلنگ کرائی
۲۳ گرم ئی تھی نا کہ اگر کسی سے پہلے دن سفر ن کر سکیں تو دوسرے دن سفر کیا جاسکے.انکی اس دور اندیشی سے ہم پریشانی سے بچ گئے.کیونکہ پہلے دن جبکم ماہ پہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ بادلوں کی وجہ سے جہاند اس ون پر روانہ نہیں کرے گا.جنگی ضابطہ کی رو سے ان دنوں لازم تھا کہ پر ان کے دوران ہوائی جہانی سارا وقت زمین سے نظر آتا ہے اور آسانی سے شناخت کیا جاسکے.دوسرے دن مطلع صاف تھا اور ہم دو بجے بعد دو پر پیرس پہنچ گئے.دوسری صبح ہم جنیوا اسپنچے ہوٹل بوری دا میں قیام ہوا.لندن اور پرس کے مقابلے پر معنیوا میں بہت چہل پہل معلوم ہوتی تھی اور جھیل کا منظر بہت دلکش تھا.مہنہ بھر کے قریب اندھیرے میں گذارہ کر روشنی کی قدر بہت بڑھ گئی تھی.ہمارے ہوٹل کے قریب پی چینی موٹی میں سر پر بیٹ ایمرسن سابق گورنہ پنجاب بھرے ہوئے تھے.وہ ان دنوں لیگ آن بیشتر کے رنیومی کمتر تھے.مجھے اور انور کو کھانے پر بلایا چھ پرانی یادیں تازہ ہوئیں جن سے کچھ تلخی بھی البتہ تھیں.اس ہوٹل میں نیوزیلینڈ کے ہائی کمتر میم لندن مسٹر جاہ دین بھی ٹھہرے ہوئے تھے.جو اسمبلی کے اجلاس میں نیوزی لینڈ کی نمائندگی کیلئے تشریف لائے تھے.اجلاس میں جانتے اور وہاں سے آتے ہم اکثر نہیں ساتھ لے لیتے تھے.ان کا میرا بہت دوستانہ ہو گیا.بہت بھلے آدمی تھے.نیوزیلینڈ میں جا کہ آباد ہونے سے پہلے وہ لندن میں پولیس کانسٹیبل تھے.نیوزیلینڈ میں پارلیمنٹ کے نمبر ہوئے.میں بعد میں انہیں لندن میں ان کے دفتر جاکر ملا کرتا تھا.اس وقت ان کا دفتر سٹرینڈ میں تھا.جب میں پہلی بار ان سے جاکر ملا تو مجھے کھڑکی کے پاس لے گئے اورنیچے بازار کی طرف اشارہ کر کے کہا دیکھو جہاں وہ کانسٹیبل ڈیوٹی پر کھڑا ہے وہاں ایک وقت میں بھی ڈیوٹی پر میں کھڑا ہوا کرتا تھا.اسمبلی کے اجلاس میں مسٹر آرا سے ٹیٹر سے ملاقات ہوئی جو ان دنوں میر طانیہ کے نائب وزیر خارجہ تھے اور برطانوی وفد کی قیادت کر رہے تھے.اب وہ لارڈ قبلہ ہیں.میں انہیں گول بیڑا فرانسوں کے وقت سے جانتا تھا.ان کے والد سر انٹیگو ٹیلہ انڈین سول سروس میں تھے اور پنجاب میں تعنیات رہے.جب وہ ضلع ایک کے ڈیٹی کمشنر تھے ان دنوں مسٹر آر اے بلد اٹک کے قلعہ میں پیدا ہوئے.سرمانٹیگونی کونسل کے پہلے صدر ہوئے.بعد میں وہ صوبجات متوسط اور پھر یہ ماکے گور نہ ہوئے.لیگ کی کونل نے فنلینڈ کے احتجاج پر غور کرنے کے بعد سفارش کی کہ روس کو لیگ کی رکنیت سے خارج کیا جائے.معاملہ اسمبلی میں آیا.اسمبلی میں اگر تقریریں کونسل کی تجوید کی تائی میں ہی جو میں سکین سب دبے دبے الفاظ میں.اسکی وسعد روس کا احترام یا روس کی طرف سے کسی کا روائی کا اندیشہ نہیں تھا.
۴۲۴ یورپ کے سب ممالک ہٹلر سے خائف تھے.اور کوئی ایسا کہ منہ سے نہیں نکالنا چاہتے تھے جس کے ٹیلہ کی لہ طبع نا زک پر گراں گذرنے کا استعمال ہو.میں اس کیفیت کو دیکھ کر حیران ہوا اور کچھ رتی بھی ہوا اور میں نے مسٹر ٹلہ سے کہا کہ میں تو صاف صاف بات کروں گا انہوں نے فرمایا کہ خدا کیلئے ضرور کرنا کیونکہ ماری تو ہمت نہیں پڑتی ( FOR HEAVENS SAKE DO FOR WE DARE NOT“ چنانچہ جب میری باری آئی تو میں نے پہلے فنلینڈ اور روس کا سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی موازنہ کیا پھر دوس کی بلا وجہ اور راسر زیادتی کاتذکرہ کیا اور کون کی تجوید کی پر زور تائید کی اور آخر میں کہا صاحبان اس مسئلے پر لازم ہے کہ آپ سب یک بہتی اور اتفاق کے ساتھ ہرقسم کے ظلم اور زیادتی کے خلاف آواز اٹھائیں اور مناسب اقدام کریں.اگر آپ سب ملکہ اب نہیں کریں گے تو آپ کو ایک ایک کرکے کچل دیا جائیگا.اور تہذیب اور اخلاق کی شمع صدیوی کیلئے گل ہو جائے گی.معلوم ہوتا ہے اسمبلی کے صدر مسٹر ہیرو جو ناروے کے نمائندے تھے میری بے باکانہ حجرات سے خوفزدہ ہو رہے تھے.مجھے روک تو نہیں سکتے تھے لیکن بعد میری تقریر ختم ہوئی تو انہوں نے ترجمان سے کہا قواعد کے تحت ساری تقریر کا ترجمہ کرنا لازم نہیں صرف خلاصہ بیان کردینا کافی ہے.کون کی تجویز منظور ہوئی اور دس لیگ آف نیشنز کی رکنیت سے خارج کیا گیا سر آغا خان نے بعد میں مجھے بتایا کہ سوئٹزر لینڈ کے نمائندے نے ان سے کہا کہ سا ہے اجلاس میں کام کی تقریہ ہندوستان کے نمائندے کی ہی تھی.اتفاق کی بات ہے کہ جب جنگ کے ابتدائی اقدامات کے بعد میٹر کی انواج نے حرکت شروع کی تو ان کا سب سے پہلا شکار نا روسے ہی ہوا.میں جب میں پہلی بار پاکستانی وفدکے ساتھ اقوام متحدہ کی سمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے نیویارک یا تو ہمارا قیام با سکلے ہوٹل میں ہوا.دوستیہ دن میں ہوٹل کے ایوان استقبال میں کھڑا تھا ر ہیمر و تشریف لائے.وہ ناروے کے وفد کے رکن تھے اور اس وقت ہوٹل میں پہنچے تھے.بجب ہوٹل میں داخلے کی رسوم سے فارغ ہوئے تومیں بڑھ کر آداب بجا لایا اور کہا مجھے آپ سے معافی طلب کرنا ہے کیونکہ آٹھ سال قبل جینیوا میں میں آپ کی پریشانی کا باعث پورا تھا.انہوں نے فرمایا نہیں نہیں وہ بھی عجب وقت تھا اور تم بہت ٹھیک کہ رہے تھے.بجنیوا سے فارغ ہو کہ مسٹر ٹامنس اور انور احمد تواندن واپس چلے گئے اور میں ڈیل سے مائیکی گیا وہاں سے میں ہوائی کشتی پر دلی واپس پہنچ گیا.وائسرائے کی کونسل میں دوبارہ تقریر فروری کے آخر میں وائسرائے نے مجھے لکھا کہ وہ ملک معظم کی خدمت میں میرے دوبارہ تقریر کی سفارش کرنا چاہتے ہیں اور دریافت فرمایا کہ مجھے اس پر کوئی اعیری تو نہیں ؟ میں نے جواب میںان کا شکریہ ادا کیا اور کھال میں خوشی رضامند ہوں.چنانچہ ملا منظم کی
منظوری پر حکم صادر ہو گیا.برطانوی عمل داری میں وائسراے کی کونسل میں دوبارہ تقریر کی یہ سمل مثال تھی منا الاند پر حکم صادر ہوگیا.عملداری میں کی سلسلہ احمدیہ کی مجلس مشاورت کا اجلاس عموماً ایسٹر کی تعطیلات میں ہوا کرتا تھا.حضرت خلیفہ المسیح ای زیر رو تجاویز پر مانے کی ابتدا علی کی نام و ارشاد فرمایاکرتے تھے کہ حضور کے ساتھ سٹیج پر بٹھ کہ تقریروں کی ترتیب اور ان کے ضبط کی نگرانی کرے.اگر خاکسار مشاورت کے اجلاس میں حاضر ہو تاتو اس خدمت کی سعادت هم با خاک کو حاصل ہوتی.اس نوش نفیسی کا ایک ضمنی فائدہ یہ بھی ہوتا که دوران اجلاس حضور کے کلمات طیبات سے مستفید ہوتے رہنے کے مواقع میسر آتے رہتے.جنگ کمیتعلق حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی بعض رویا انتشار کی مجلس مشاورت کے دوران میں حضوری ے کا سارے فرمایا میں نے پچھلے اس میں رویا دیکھا کہ گویا ان شروع ہوچکی ہے اورمیں میر کے سامنے کرسی پر بیٹا ہوں ایسے ہی جیسے اب بیٹا ہوں اور میرے دائیں ہاتھ پر ذرا سے ہٹ کر ایک شخص کھڑ ے سے میں کھتا ہوں رشتہ ے اور وہ جنگ سے متعلق اہم دستار نیز میرے سامنے پیش کر رہا ہے.ایک دستاویہ اس نے میرے سامنے رکھی تھیں میں رطانیہ نے فرانس کودعوت دی ہے کہ متحد ہوکر ایک ہی مل اور ایک ہی حکومت اور ای سی قوم بن کر جنگ جاری رکھی بیدار ہونے پر میرے دل پر ان ناشرہ تھاکہ شاید برطانیہ فرانس کی نسبت جلد کمزوری محسوس کرنے لگے.کیونکہ اسی عورت عموماً کمزور طاقتوں کو دیا ہے.مجلس مشاورت کے اختام پر یں لے چلاگیا ہے کی افواج نے حرکت شروع کی میٹر یہ پل برطانیہ کے وزیر اعظم موئے فرانس نے لڑکھڑانا شروع کیا، حالت بہت نازک ہوگئی.اس مرحلے پر سر رہ چل نے فرانیسی وزیر اعظم کوایک مک ایک قوم اور ایک حکومت وکر جنگ جاری رکھنے کی دعوت دی جس کی مثال تاریخ میں اور میں نہیں ملتی.خاک رہنے حضرت خلیفہ المین کی خدمت مںلکھا کہ حضور کارو بالا پورا ہوگیا.حضور نے جواب میں حجر جود الامر رقم فرما اس میں تحریر فرمایا.تین دن ہوئے میں نے روم میں کس کو کہتے سناکہ برطانیہ کو دو ہزار آمود انی جان امریکیسے بھیجے گئے ہیں اس دانا نامہ کے وصل ہونے کے تین چاردن بعد انڈریو کل کے ہاں ارکان حکم اکھانا تھا جو ہردوسری جمعرات کو باری باری ایک رکنکے ماں ہوتا تھا.اسد ناشر کی تاریخبروں میں یک اطلاع میری ے آئی ٹی کی فرانسی خرید سان کے مشن نے تو آر ڈینگی وائی بہنوں کی خریدی کا دیا اور اب برطانوی مشن اپنے ے لے لیا اور کار برطانیہ کو دو بار پانچ جنگی ہوائی جہاز میں آجائیں گے.جنگ کے حالات کے تذکرے میںمیں نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے اگست شاہ والے رویا اور اس دوست کر دیا کا ذکر کیا اور اسٹرکی تا یہ خبر سنائی اس پر رانڈ کو کھونے کہا لیکن تعداد کا فرق ہے.رویا می تعداد دو ہزار آٹھ صد بتائی گئی اور تا برمی دو ہزار پانچ سے میں نے کہا تعبیر الرویا کے ماہروں کا کہناہے کہ سچے خواب اور رد یا میں تعداد کے لحاظ سے کچھ تفاوت قابل التفات نہیں.ہوتا اصل بات کو دیکھنا چاہیے.دومین دن کے بعد میں سفیر جانیوالا تھا.عین وقت پر تیار ہو کر نیچے اتر تو دیکھا کہ
صاحبزادہ مرزا اسنور احمد صاحب جو ان دنوں میرے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے اور میرے ساتھ ہی سفر کیہ جانیوالے تھے ایٹر جوان ہی سفر کے تازہ تاروں کا پلندہ پڑھ رہے ہیں.میں نے دریافت کیا میاں کوئی خاص بیر ہے ؟ انہوں نے تاریکے کا غذات میرے ہاتھ میں دیدیئے اور فریب کوئی خاص بات تو نہیں.میں نے جلدی میں ورق الٹے اور یونیک کر کیا آپ کے ابا جان کار دیا پورا ہوا ہےاور آپ کہتے ہیں کہ کوئی خاص خر نہیں.تار کے کاغذات لئے میں وقت کے کرہ میں گیا اور ٹیلیفون پر سرانڈ لو کل سے دریافت کیا سر پر کے تار پڑھ لئے؟ کہا نہیں بھی خادم نے لاکر میرے سامنے رکھے میں مں نے کہا دیکھئے.پڑھ کر انہوں نے کہا ایک حیرت کی بات ہے.امریکہ سے تار تھا دو ہزار آٹھ صد ہوائی جنگی جہانہ فلان برطانیہ کو بجھے گئے ہیں.میں نے فورا قادیان میںحضرت خلیفہ المسیح کی خدمت م اطلاع کی کہ حضور کا یہ روی بھی بلوط ہو گیا ہے.الحمدللہ.حضور نے فرمایا میرے خط کا ر م ی ی ی ی ی ر ا ا ا ا ا ا ا ا ا ل کر کے مجھے بھی دور دوسری صبح وہی کے اسٹیشن پر شیخ اعجاز احمد صاحب ملنے آئے توں نے یہ واقع بیان کیا اور حضور کا وانا مران کے سپرد کیا کہ متعلقہ حصے کی نقل کرکے حضور کی خدمت اقدس میں ارسال کردیں.جب " ج سرم میل کی پیشکش کی خبر آئی تو واٹ لیٹے نے مجھ سے دریافت کیا تمہارا اس کے متعلق کیا تاثر ہے.میں نے کہا یہ پیشکش قابل عمل بھی نہیں اور فرانس اسوقت ایسی پریشانی اور پراگندگی کی حال میں ہے کہ اس کے قبول ہونے کا امکان بھی نہیں لیکن مجھے اس خبر سے تسلی ہوئی ہے.پو چھا کس با کے متعلق؟ میں نے عرض کیا مسرحہ میں اتنی ہندوستان * کی آزادی کے کچھ خلاف رہے ہیں.اس مشکیش سے معلم ہوتاہے کہ واقعات کے دباؤ کے ماتحت وہ اب ہندوستان کو آزادی دینے پر بھی آمادہ ہورہے ہیں پوچھا وہ کیسے میں نے کہا یہ تواس پیشکش سے ہی ظاہر ہے.انکی یہ مرا تو نہیںہو ستی که اگر فرانس یہ پیشکش قبول کرنے اور برطانیہ فرانس ایک ملک ہو جائیں تو ہندوستان دونوں کی مشترکہ ملکیت بن جائے گا.اور آپ کے بعد کوئی فرانسیسی سیاستدان یا مدیر مندوستان کا واٹ رہے ہوکر آ جائے گا.اب وہ دن تو گئے کہ ہندوستان کی حیثیت برطانیہ کی ذاتی ملک کی سمجھی جائے.وائسرائے صرف UN ! INSENIOUS کہ کر چپ ہوگئے.اس کے بعد میں نے ان سے اس پیشکش کے متعلق حضرت خلیفہ الشیخ کے دوا کا ذکرکیا.انہیں بہت دلچسی ہوئی بعد میں خود بعض دفعہ مجھ سے فرماتے.مرزا صاحب نے کوئی اور رویا جنگ کے متعلق دیکھا ؟ جب شمالی افر لقد من رطانوی افواج نے پلی بار پیش قدمی کی تو اسرائے بہت خوش تھے مجھ سے کہا آخرت کی بھی ایک خبرآئی میں نے کہا ٹھیک ہے لیکن اس کے بعد پسپائی ہوگی اور دو ایک بار پڑھنا اور مجھے پہنا ہوگا لیکن آخر کار فتح ہوگی.پوچھا مرزا صاحب کا کوئی ردیا میں نے کہا ہاں اور حضور کا ایک رویا ستایا.بعد میںجب واقعات نے تصدیق کر دی تو اور بھی متاثر ہوئے.ہے..اپر یل نشاء میں نور جگدیش پرشاد صاحب کی میعاد ختم ہوگی اوران کی جگہ مگر جان کر باجپائی کونسل کے کن
مدلینه ہوئے میں سینیٹر رکن ہونے کی حیثیت سے کونسل کا وائس پریزیڈنٹ ہو گیا.سر گر جاشنکر سر بابا سوامی مالیا کے ساتھ اور میرے ساتھ پورا تعاون کرتے رہے.سجون شراء میں جب فرانس کی جمعیت پراگندہ ہوگی اور جرمنی نے فرانس پر قبضہ کر لیا اور کہا جانے لگا کہ بر طانیہ اب کیلئے جرمنی کا مقابلہ جاری نہیں رکھ سکے گا.تو گاندھی جی تک نے کہ دیا مجھے یقین ہے کہ جنگ کی ذمداری ٹیلر پر عاید ہوتی ہے اورمیں برطانیہ کی فتح کیے دعا کرتا ہوں لیکن جب چند مفقوں کے عد اثار ایسے ظاہر ہونے لگے اور کچھ اسی بندھنے گی کہ برطانیہ مقابلہ جاری رکھ سکے گا تو گاندھی جی او نا کریں ے پھر کہنا شروع کر دیا.ہمیں جنگ میں کوی ولچی نہیں.یہ ہماری جنگ نہیں.ہندوستان کو اس جنگ میں ہماری رضا مندی کے بغیر مل کر دیاگیا ہے ہم سے تعاون کی توقع نہیں کی جاسکتی.نومبر شاید میں وزیر مالیات سر بر می رسیمین نے تخمینہ بجٹ اسمبلی میں پیش کیا.بجٹ پر بحث کے دوران میں زیادہ تر نز در اس بات پر دیا گیا کہ ہم پر جنگ کیسرگرمیوں میں تعاون لا نزدم نہیں.وزیر مالیات نے مجھے سے کہا بحث کے دوران میں بجٹ پر بجٹ کے نقطہ نظر سے تو جرح قدح بہت کم ہوئی ہے.اس کا جواب تو میرے پر سے ذمہ ہے اور میں دوں گا.بحث زیادہ نہ توسیاسی نقطہ نگاہ سے کی گئی ہے.اس کا جواب قائد ایوان کی حیثیت سے تم دور میں نے کہا مناسب ہے.میں نے جواب میں کہا بحث میں بہت سے امور کا تذکرہ کیا گیا ہے ان میں سے پہلے میں ان امور کو لیتا ہوں جن پر ہمارا اصولی اتفاق ہے.ان میں سب سے اہم سوال ملک کی آزادی کا ہے.ہمیں اتفاق ہے کہ ملک کو جلد سے جلد آزاد ہونا چاہئیے.اختلاف صرف طریق اور رفتار کے متعلق ہے.آپ بھی تعلیم کریں گے کہ اس مرحلے پر آزادی کے حصول کیلئے ضروری ہے کہ جرمنی کوشکست ہو.اگر برطانیہ متقیانہ ڈالنے پر مجبور ہو جائے تو ملک کی آزادی ا ے سے کے التوا میں اڑ جائیگی.آزادی کی پوشاک تیار ہوچکی ہے بھی ملکہ کوشش کرنی چاہئیے اور دعاء بھی کرنی چاہیے کہ جلد وہ دن آئے جب ہندوستان عزت اور فخر کے ساتھ یہ پوشاک پہنے کے قابل ہو جائے.اس طرح میں نے مساوات، اقتصادی آزادی اور بہبودی وغیرہ مچھ سات بڑے بڑے مقاصد کے ساتھ حکومت کی طرف سے کامل ہمدردی اور اتفاق کا اظہار کیا.دوسری طرف منگ میں حصہ لینے کے متعلق کانگریس کے موقف کا کھو کھلا پن دلائل سے بھی اور کانگریسی لیڈروں کے سابقہ بیانات سے بھی ثابت کیا.دوران بحث میں نواب صاحب آف ڈیرہ نے مجھ سے کہا تھا.کانگریس کے اراکین این تقارہ یہ اول و دوم تیر ی اور اپنے دلائل کی نیتی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم بھی مجانہ ہیں کہ قرآن کریم کی آیات سے استدلال کریں.میں نے کہا آپ بھی ویسے ہی آزاد ہیں.خودمیں نےاپنی تقریم کے ہر فقط کی ایسی قرآن کریم سے سند پیش کی.میری تقریر کے خانے پرمولانا ظفر علی خا لصاحب اپنی جگہ سے اٹھ کر میرے پاس آئ اور ہے
۴۲۸ ہوش سے کہا آج آپ نے تبلیغ کاستی بو را ادا کر دیا.حکومت کے ملٹی کے محکمے نے میری خواہش یا اشارے کے بغیر مری تقریر کے اردو ترجمے کو ایک لاکھ کی تدا میں ھوا کر نہ کیا اور اسطرح ان یرقان کی کی تعلیم کے خاصے کی وسیع اشاعت ہوگئی اناللہ تقریر کے بعد سر ستا مورتی تو اسمبلی می کانگریس پارٹی کے نائب لیڈر تھے میرے پاس آئے اور دریافت کیا کیا مسٹر سٹر یل کی طرف سے ملک کی آزادی کے سلسے میں کوئی ہدایات موصول ہوئی ہیں جن کے نتیجے میں منے منقار واضح الفاظ میں حکومت کی پالیسی کا اعلان کر دیا ہے؟میں نے کہا ز یر اعظم کی طرف سے کو یہ بات تو وصول نہیں ہوئیں.لیکن جس رفتار سے برطانیہ کا اقتصادی خون بہ رہا ہے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جنگ کے بجا.برطانیہ کے بانوں میں اسی قوت باقی نہیں رہ جائیگی کر وہ برا ہندوستان پر اپنا قبضہ جمائے رکھے.فی الحال آپ کی کافی سمجھیں کہ میں نے قائد ایوان کی حیثیت سے حکومت کی پالیسی کا صاف لفظوں میں اعلان کر دیا ہے.اور اس سے جو فائدہ سپاہی اٹھائیں.یرے کام کا بوجہ دن بدن بڑھتا جا رہا تھا.جن کی وجہ سے دار لیے اور تمام اراکین کونسل کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہو گیا تھا.لیکن سپلائی کی وزارت میں تو ہر روز وسعت ہوتی جارہی تھی اور یہ حکم ایک درید کی پوری توجہ اور پورا وقت چاہتا تھا.پھر اس کے ساتھ ہی وزارت قانون کا کام اسمبلی کی قیادت اور حال ہے کو آئینی امور پر مشورہ دینا سب مل کر میرے لئے بار گراں بن گئے تھے.ذیا بیطیس کے مرض کا لاحق ہونا اسماء کے پہلے تین چار مہینوں میں میری توجہ اور میرے اوقات پر ) استفادہ بوجھ ہے نا کہ اپریل میںمجھے ذیا بطیس کی شکایت شروع ہوگئی اور ڈاکٹر مانے انسولین کا ملکہ تجویز کیا شروع ہون میں خان بہادر ڈاکٹر عبدالحمید بٹ پنجاب کے ڈائر کٹر صحت شملہ تشریف لائے.ان کا قیام میرے ہاں تھا.یہ معلوم ہونے پر کہ مجھے ذیا بطیس کا عار منہ لاحق ہو گیا ہے انہوں نے اصرار کیا کہ مجھے تفصیلی معائنے اور مشورے کیلئے لاہور کے ڈاکٹرو شوانا تھ صاحب کی خدمت میں حاضر ہونا چاہیے.میں تو شاید ستی کرتا لکین انہوں نے متواتر اصرار سے مجھے مجبور کر دیا.چنانچہ میں تھے توں کی سہ پہر کو شملے سے روانہ ہو کر ر کی صبح کو اہور پہنچا اور ڈاکٹر وشوانا تخص صاحب کی خدمت میں حاضر ہو گیا.ڈاکٹر وشوانا تھ صاحب لاہور سے ڈاکٹر صاحب نے ، ، ۸ اور ۹ ر بون کو بڑی توسعه ، محنت او وقفت مشورہ اور ان کا تجویز کردہ علاج سے میرا معائنہ کیا اور ور کو معائنے کے مکمل ہونے پر بڑی وضاحت سے مجھے سمجھایا کہ اس مرض کی کیا نومیت ہے اور مستند را ختیاط اور پر چیز کی ضرورت ہے.علاج کا کیا طریق ہے.اور کستوری پابندی لازم ہے.آخر میں فرمایا ا ایک بات اور باقی ہے لیکن وہ سے اہم ہے اور وہ یہ ہے * *
۴۲۹ Slow" ظفر اللہ خاں.اس سے آپ کی کیا مراد ہے ؟ ڈاکٹر وشوا نا تھے.مراد یہ ہے کہ کام کا بوجھ ہلکا کرو.ظفر اللہ خاں.ڈاکٹر صاحب یہ میرے نبی کی بات نہیں.جنگ کا زمانہ ہے اور میرا کام سے کا کام ہے جو میری پوری توجہ اور پورے وقت کا طالب ہے.میں کسی صورت یہ بوجھ ہلکا نہیں کرسکتا.یہاں اگر کھ س کا لٹریری سے ان مضر ہوکہ اپنی جان کی حفاظت ک خاطر مجھے مرد یہ وجہ ہلکا کرنا چاہئے تو چونکہ ان کی مطلق بھی اللہ تعالی کی طرف سے عاید کردہ ایک ذمہداری ہے میں اپنے منب سے تشفی دیکر پریکٹس شروع کر دونگا پر کمیٹی میں مجھے اختیار ہو گا کہ زیادہ کام اپنے ذمے نہ لوں.ڈاکٹر وشوا نا تھے.نہیں ایسے خطرے کی حالت تو نہیں لیکن احتیاط لازم ہے.تو پھر زندگی کے تفکرات کم کم درود.ظفر اللہ خاں.وہ کیسے ؟ دانا تھے.یہ تناؤ کہ جب تم کو جاتے ہو تو نیند نے میں کتنا عرصہ لگتا ہے ؟ ظفر اللہ خان - اوسطاً تین منٹ ڈاکٹر وشواناتھ کبھی ایسا تونہیں ہوتاکہ تم سچ میں پڑ جاؤ اور بینک نیند نہ آئے.ظفر اللہ خاں.کبھی کبھار لیکن بہت شاز - ڈاکٹر وشوانا تھے.ایسے وقت میں کیا کرتے ہو ؟ ظفر اللہ خاں اپنے تئیں سمجھاتاہوں کہ ن ا ا ا ا ا ال ا لی ہے تم نہیں جو آج تم نے ان توفیق ے مطابق کام کیا.کل میت تک زندہ رہوگے توپھراللہ تعالی کی عطاء کردہ توفیق کے مطابق کام شروع کر دنیا یہ وقت آرام کرنے کا ہے.اب سو جاؤ.ڈاکٹر وشوا نا تھے.یہ ترکیب کار گر ہوتی ہے ؟ ظفر اللہ خاں.ہریانہ.ڈاکٹروسٹوانا تھے.تو بس میری یہی مراد تھی.تفکرات کو سرونہ جاں نہ بنانا.ڈاکٹر وشواناتھ بہت دانشمند اور ہمدرد دوست ثابت ہوئے.سال میں دو بار بڑی تو بہ اور ہمدردی سے معائنہ کرتے اور مناسب ہدایات دیتے ہیں میں ادا کرنے پر مار کر ان کانوں پر ہاتھ دھرتے.افسوس کہ پانچ سال کے اندر گھٹنوں کے عارضے سے ان کی وفات ہوگئی اور میان کی وجہ سے محرم ہوگیا.لیکن انکی ہدایت پر کار بند کریں
ایک بفضل اللہ ان سے فائدہ اٹھارہا ہوں.۴۳۰ تقر سے پہنچ گیا.اس ر بطور جج فیڈرل کورٹ 14 جون کی شام کو لاہور سے روانہ ہوکر دس کی صبح کو میں واپ رات میں نے خواب میں دیکھا کہ میںاپنے دفتر کے کمرے میں بٹھا کام کرتا ہوں دروازہ کھل ہے اور میرے پھوپھی زاد بھائی چور عنایت اللہ صاحب بہلول پوری بنتے بنتے کمرے میں داخل ہوئے ہیں.اس خواب کا میری طبیعت پر اتنا اثر تھا کہ صبح بدر ہونے پر میں نے خیال کیا کہ عمل تیار ہوکر ناشتے کیلئے چلوں کیونکہ چودھری صاحب میرے انتظار میں ہوں گے.پھر یاد آیا کہ انہیں تو خواب میں دیکھا تھا.وہ خود تو تشریف نہیں لائے.دو دن بعد ار سجون کی رات کو سید العام الله شاہ صاحب مرحوم کو خواب میں دیکھا بیدار ہونے پر خیال آیا کر دن کے اندر دو مبشر خواب دیکھنا جن میں اسل کمیت میں پہلے کی نسبت بڑھ کر ہے کسی خاص اس کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے.ہار کی رات کو خواب دیکھا کہ میں چودھری سردار محمد صاحب کو مٹنے کے لئے لائل پور گیا ہوں ان سے ملاقات کرنے کے بعد دل میں خیال آیا کہ میرے منام اور کالج کے زمانے کے دوست چودھری ظفراللہ خان پر سٹریٹ کا بھی یہیں ہی ان سے بھی مل لوں اوران بھی ملا ایک بار بیدار ہونے پر بڑے زور سے خیل پیرامرا کہ تین بشر خوابوں کا تواتر اور ترتیب ظاہر کرتے ہیں کہ کوئی ایسا امر پیش آنے والا ہے جو تمکن ہے ظاہر مں ایسا نظر نہ آئے لیکن حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عنایت اور الغام اور کامیابی ہے.واللہ اعلم بالصواب.اسی دن یعنی هار جون کو قبل دور پر شیخ اعجانه احمد صاحب اور چودھری بشیر احمد صاحب ولی سے دس دن کی رخصت پہ آئے میں نے ان سے کہا معلوم ہوتا ہے میرے حالات میں کوئی تبدیلی ہو توالی ہے.انہوں نے دریافت کیا کوئی خواب دیکھا ہے ؟ میں نے تینوں خواب بیان کئے.۱۶ کو وائسرائے کے ساتھ میری ملاقات کا دن تھا.میں نے پرائیویٹ سیکریٹری کو ٹیلیفون پر بتایا کہ مجھے اسرائے کے ساتھ کوئی خاص کام نہیں اسلے میں ملاقات کیلئے نہیں ہونگا انہوں نے کہا اے ائے تمہارے ساتھ کسی اس کے متعلق بات کرنا چاہتے ہیں تم آجاؤ.اسی سال مارچ کے مہینے میں ہندستان کی فیڈرل کورٹ کے مسلمان حج سر شاہ محمد سلیمان صاحب کی وفات ہوئی تھی، مرقوم نہایت قابل ، خوش مزاج ، خوش اخلاق اور قابل قدرستی تھے.علاوہ اعلی درجہ کی قانونی قابلیت کے ریاضی میں خاص درک رکھتے تھے.اور ریاضی دانوں کی نگ میں ایک خاص در سیہ رکھتے تھے ان کی دنا مسلمانان ہند کیلئے بڑے صدمے کا باعت تھی.انالدو انا الیہ راجعون، اللہ تعالی انے فضل و رحم سے مغفرت فرمائے اور اپنی رضا اور خوشنودی سے نوازے.آمین.فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس سرباری گواٹر تھے.اور تیرے حج سر سر بنو اس وردا چاری تھے.سریا رس گوائر برطانیہ کے محکمہ خزانہ کے مشیر قانون رہے تھے اور گورنمنٹ آن انڈیا ایکٹ سر کا مسودہ ان کا تیار کردہ تھا.گول میز کانفرنس در پارلیمینٹری کیٹی کے علاسوں کے دوران میں ان کے اور میرے در میان دوستانہ مراسم قائم ہو چکے تھے.جب میں
۳۱م بال وال کرنے کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے سرشاہ محمد سلیمان صاحب کی وفات کا ذکر کر کے کیا کورٹ کے چیف جسٹس کے اور میرے درمیان ابھی تک اس بارے میں اختلاف چلا آرہا ہے کہ سرش پسلیمان کی جگہ فیڈرل کورٹ کا حج کسے مقرر کیا جائے.عارضی طور پر کمیٹی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرجان اونٹ کا فقر کہ کیا گیا تھا.لیکن اب چیف جسٹس مصر ہیں کہ متقل تقریر کا فیصلہ ہونا چاہیئے تاکہ عدالت کے اعلاض اکتو یہ میں شروع ہونے کے وقت نیا حج اجلاس میں شامل ہو سکے مشکل یہ ہے کہ چیف جٹس کہا ہے سواکسی ار کا نام تجوریہ کرنے پر رضامند نہیں اور میں بضد ہو کہ میں تمہیں کونسل سے فارغ نہیں کر سکتا.آخریم دونوں کا اس بات پر اتفاق ہو گیا ہے کہ ہم فیصلہ تم پر پھوڑ دیں.تم انتخاب کریو اگر کوسن میں رہنا چاہو توچینی بیش کسی اور مسلمن کی سفارش کریں گے.اور اگر عدالت میں جانا چا ہو تو مجھے تمہاری جگہ کسی اور کو تلاش کرنا ہوگا جب آئیندہ ملاقات کیلئے آؤ گے تو مجھے اپنے فیصلے سے مطلع کر دیا.میں نے کہا میں آپ دونوں صاحبان کا آئندہ آونگے ممنون ہوں.مجھے اس بات پر غور کرنے کیلئے ایک ہفتے کی مہلت کی ضرورت ہنٹس میں انھی آپ کو اپنی رائے با سکتا ہوں.وائسرائے.بہت خوب.میں بہت خوش ہوں کہ تم کونسل سے نہیں جانا چاہتے.ظفر اللہ خان - معاف فرمائیے گا میری رائے عدالت میں جانے کے حق میں ہے وائسرا ئے.اگر تمہارا اسی فیصلہ ہے تومیں چیف جسٹس سے اپنے اقرار کے مطابق اسے قبول کرنے پر چھوٹوں یکن کیا تم مجھے تا کتے ہوکہ جب تمہاری دوسری میعاد میں بھی چار سال باقی ہیں اور آئندہ تو غیرت ہو نیوانے ہی ان کے تیجہ میں اپنے لئے بہترین نتخاب کی امید کر سکتے ہو تو ایسے تم عدالت کی چار دیواری میں کیوں بند ہونا چاہتے ہو ؟ ظفر اللہ خاں.اس کی بڑی وجہ تو طبیعت کی افتاد ہے مجھے سیاسی سرگرمیوں اور مشاغل سے زیادہ غنیت نہیں.عدالت کا ماحول میری طبیعت کے زیادہ موافق ہے ممکن ہے میرا اندازہ غلط ہولیکن میراخیال ہے کہ یں دوسرے شخص کے نقطہ نگہ کا کسی حدتک انداندہ کر سکتا ہوں.اگریہ بھی ہے تو یہ ملکہ سیاست میںمیرے لئے کمزوری کا باعث ہو سکتا ہے.لیکن عدالت میں یہ میرے فرائض کی ادائیگی میں مد ہو سکتا ہے پھر اور بھی وجوہ ہیں لیکن وہ میرے ذاتی حالات سے متعلق ہیں.وائسرائے کی اس سے نقلی نہ ہوئی لیکن وہ چیف جس سے وعدہ کر چکے تھے کہ میرے انتخاب کو منظور فرما اس گئے صرف آنا کیا عدالت کا اسلوس اکتوبر میں شروع ہوگا.میں امید کرتا ہوں تم آخر ستمبر تک تو میاں کام دو کر سکو گے.
۴۳۲ انا دنوں میں نے ایک تجویز وائسرائے کی خدمت میں پیش کر دیکھی تھی کہ کونسل کے اراکین کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور کونسل میں کثرت ہندوستانیوں کی ہو.والرائے نے یہ تو ندانی تائید کے ساتھ وزیر سند کی خدمت میں بھیج دی تھی.اسکی منظوری آ گئی.وائسرائےنے مجھ سے مشورہ کیا کہ تمہارے جانے پر وزیر قانون اور وزیہ سپلائی کن اصحاب کو مقررہ کیا جائے.وزارت قانون کیلئے میں نے سرسید سلطان احمد صاحب کا نام پیش کیا اور وزارت سپلائی کیلئے سرعمومی مودی کا.انبیائے نے دونوں کے متعلق پسندیدگی کا اظہار کیا اور کہ ان دونوں سے دریافت کرلو کہ وہ نئی کونسل میں شامل ہونے کو تیار ہوں گے.سر سومی مودی اور سر سلطان احمد کا سر سومی مودی اسی دوران میں شملے آئے تھے.مجھ سے ملے اور تقریر بطور اراکین کونسل باتوں باتوں میں کہا تم سپلائی کے روز یہ سوال کیوں نہیں کرتے اور دیا کیوں نہیں کرتے.میں نے کہا میں آپ کی رائے کا احترام کرتا ہوں اور اس پر توجہ کردوں گا امین بعض مشکلات بھی ہیں.اس پر کہا اگر میں وہ یہ سپلائی ہوتا تو کوئی نہ کوئی رستہ نکال لیا.میں نے کہا ہے خوب آپ رستہ سوپ کیجئے ممکن ہے موقعہ نکل آئے.اس کے بعد جب وائسرائے سے میری بات ہوتی اور انہوں نے سرمہ میں مودی کے متعلق اپنی رضامندی دیدی تو سرمومی کے دوبارہ ملا تشریف لانے پرمیں نے ان سے پوچھا ہ آپ نے کوئی رستہ سوچ لیا کہنے لگے وائے کیا کیا نانا یا کریم میری بونی پل کرنے کا وعدہ کرو قومی تجھے سوچ کر تمہیں بتادوں گا.میں نے کہامیں وعدہ کرتا ہوں بشرطیکہ ایک بات آپ میری مان لیں پوچھا دہ کیا ؟ میں نے کہا وہ یہ کہ سپلائی کی وزارت کا چارج آپ خود ے ہیں.کہنے لگے میں یہ مصیبت کیوں سیڑیوں ؟ یں نے کہا اسکے کہ پچھلی ملاقات پر آپ نے کہا تھا کہ اگر میری جگہ ہوتے تو یوں کرتے.اب میری جگہ لینے کا موقعہ ہے آیئے اور جو تجاو نی آپ کے ذہن میں ہیں انہیں مل میں لائے.کہنے لگے مذاق کرتے ہو میں نے کہامیں ہرگزندان نہیں کر رہا.میں نے آپ کا نام وائسرائے کی خدمت میں پیش کیا ہے اور وہ رضامند ہیں.اس پر میں نے انہیں کونسل کی نئی تشکیل کا منصوبہ بتایا.انہوں نے کہا میرے لئے کونسل میں آنا بہت مشکل ہے.میں اپنی موجودہ زمہ داریوں کو چھوڑ نہیں سکتا میں نے کہا لیکن میںنے تو آپ کے پچھلی گفتگو کی بناء پر اشارے کو آمادہ کر رہا ہے.اب آپ پیچھے جائیں تومیری کسی ہوگی.کہا بڑی شکل میں ڈال دیاتم نے میں نے کہا کوئی مشکل نہیں ہونی چاہئے.آپ لوگ تنقید کرتے رہتے ہیں کہ یوں ہونا چاہئے اور یوں ہونا چاہئے اور اب جب موقعہ آیا ہے تو آپ کو مشکل نظر آتی ہے آئیے اور اس مرحلے پر قومی خدمت کو ذاتی مفاد پر مقدم کیجئے.آخر انہوں نے فرمایا میں بھٹی واپس جا کہ جواب دوں گا بچند دنوں کے اندر ان کی اطلاع مل گئی کہ انہیں منظور ہے.میں پینے جاکر سر سید سلطان احمد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.انہوں نے فرمایا میرے لئے یہاں سے نکلنا مشکل ہے لیکن اگر تمہاری خواہش ہے اور وائسرائے رضامند ہیں تو مجھے عذر نہیں
۳۳ سیر فیروز خان اور سر اکبر تیری کون میں دوسرے سلمان رکن کی تقریر کے سلسہ میں اس رائےکچھ عرصہ کا تقریر بطورہ اراکین کو نسل تذبذب میں رہے کہ سرسکندر حیات خان صاحب کو لیا جائے یا سر فیروز خان و صاحب کو آخر اب اسٹار میری ز یہ ہندکی رائے مک فروزان نون کے تم میں پختہ ہوگئی اوران کا انتخاب لقب وزیر دفاع ہوا.تیسرے مسلمان مین کونسل کیلئے مراکبر حیدری صاحب کا انتخاب وائٹریٹ نے خود کیا.جب مجھے طلاق ی توں نے مشورہ دیا کہ میرے سلمان رکن کا انتخاب بھی برطانوی ہندسے ہونا چاہیے.وائسرائے نے سر کبرحیدری کے ندیه ، دانش اور تجربے کی تعریف کی.میں نے کہ ان کی یہ خوبیاں تو سلمہ ہیں لیکن ابھی فیڈریشن کی تشکیل نہیں ہو سکی اور مرکزی حکومت میں ریاستوں کی نمائندگی قبل از وقت ہے.وائسراے اپنی بات پر مصر رہے.حقیق یہ تھی کہ گو وائسرائے یہ بھی چاہتے تھے کہ کونسل کے رکن تعاونی رحجان رکھتے ہوں تا کہ دوران جنگ کونسل کے اندر سنجیدہ اختلافا رونا ہوں لیکن انکی رین بی بی معنی که ریاست حیدر آباد میں سراکبر عبدی کو جو حیثیت حاصل ہو چکی ہے اسے کمزور کیا جائے اور انہیں وہاں سے باہر لا کر حضور نظام پر اپنی مرضی کے موافق اثر ڈالنے کیلئے رستہ صاف کیا جائے.میں نے انہی دنوں جنوبی ہند کے دورے کا پروگرام بنایا اور رستے میں روون جدہ آباد قیام کیا.حیدر آباد میں سید اکبر حیدری سے ملاقات ہوئی وہ بہت تذبذب میں تھے وائسرائے نے ایک خط نہیں لکھا تھا اور ایک حضور نظام کو دونوں میں نواب صاحب کی قابلیت اور لیاقت کی بہت تعریف کر کے لکھا.مجھے اس مرحلے پر ان کی رہنمائی کی بہت ضرورت ہے امید ہے حضور تمام جنگ کے حالات کے پیش نظر حکومت ہن کے بانھ مضبوط کرنے کی خاطر نواب صاحب کو حیدر آباد سے فارغ کرنا گوارہ فرمالیں گے.نواب صاحب نے مجھ سے دریافت فرمایا تمہارے خیال میں وائٹ لیئے کے اس اقدام کی اصل محرک کیا چیز ہے؟ میں نے کہا اول آپکو حیدر آباد سے ہٹ کر شملہ اور دلی کے جانا ، دوستی کونسل میں آپ کی تائید حاصل کرنا.پوچھا تو کیا تمہاری رائے میں مجھے انکار کر دینا چاہیئے ؟ میں نے کہا انکار تو نامناسب ہوگا اگر آپ انکار کر دیں تو می دائرہ نے کسی بہانے آپ کو میاں سے تعلیحدہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے.اور آپکے لئے جو کچھ خدمت کا موقعہ کونسل میں جو گاوہ بھی جاتا رہے گا.پوچھا پھر مجھے یا کرنا چاہئے ، میں نے کہا آپ شکریے کے ساتھ وائسرائے کی پیشکش قبول کر لیں.مگر کونٹ میں اس پختہ عزم کے ساتھ جائیں کہ وہاں آپ کا کام وائسرائے کی ہاں میں ہاں ملانا نہیں بلکہ ملک کی خدمت کرنا ہو گا.وائسرائے آپ کے نذیر، دانش اور قابلیت کے معترف تو نہیں لیکن وہ ان سے یہ فائدہ اٹھانا نہیں چاہتے کہ خود آپ کے مشوروںکے مطابق عمل کریں بلکہ یہ چاہیں گے کہ آپ کی تائید حاصل کرکے در سروں سے اپنی بات منوا سکیں.جہاں انکی رائے آپ کو صائب نظر آئے آپ ضرور کی تائید کریں آپ کے رفقاء میں سے بھی اکثر میں کریں گے.لیکن جہاں آپ کو ان کی رائے ملک کے مفاد کے حق میں نظر نہ آئے وہاں آپ سنجید گی اور مضبوطی سے اپنی رائے بیان کریں اور اس پہ قائم رہیں.یہ طریق آپ کے رفقاء کی حوصلہ افزائی کا موجب بھی ہو گا اور
سم ۳ مهم ان کے وقار کی مضبوطی کا باعث بھی.کونسل میں شامل ہونے کے چند ماہ بعد راکبر عبدی کا انتقال ہوگیا لیکن اس عرصے میں وہ اپنے فالفن دانش مندی اور تجمرات کے ساتھ ادا کرتے رہے.بنگال ناگپور ریلوے کے حصول کمی تعلق نول ی یہ کشمکش ہوئی تھی لیکن آخر راکبرحیدری کی پر زور تائید کے تیے میں فیصلہ ہندوستانی اراکین کونسل کی مرضی کے مطابق ہو گیا تھا...ور از چین میں بطور ایجنٹ مجری تقریر فروری کی جائے وارے اور جیل کے درمیان جو بات چیت ہوئی اس میں یہ بھی طے پایا کہ چین اور ہندوستان کے درمیان براہ راست تعلق قائم کیا جائے ہندستان کی حکومت چونکہ خود مختار نہیں تھی اسے چین میں ہندوستان کا نمائندہ پیر نہیں کہلاسکتا تھا.طے پایا کرتیں رینگن یں ہندوستان کا نمائندہ ایجنٹ جنرل کہلاتا ہے و عمل اس کا نصب سفر کا ہی ہے اس طرح چین میں بھی ہندوستانی نمائندہ ایجنٹ جنرل کہلائے گا اگر چہ اسکا در بہ سفر کاہی ہوگا.چین اور جاپان کی باہمی جنگ کے نتیجے میں چین کے شرق اور وسطی علاقوں پہ جاپان کا قبضہ ہو چکا تھا.چین کی حکومت پیکنگ چھوڑنے پر مجبور ہوئی تو یکے بعد دیگرے دار الحکوت ری شہروں میں منتقل ہوتاگی اور آخر جنگ کنگ میں آگیا.جنگ کنگ سیچوان کے صوبے میں دریائے نیکی کیانگ کےکند واقعہ ہے.اس مقام پر دریائے جوائن نیسی کیانگ میں اگرگرتا ہے.جنگ کنگ ان دونوں دریاؤں کے مقام تال یران کے درمیان گھرا ہوا ہے.جس کے نتیجے مں اسکی آ و جو بہت مرطوب ہے اور گرمی سردی دونوں میں ناخوشگوار اور تکلیف دہ ہے نیکدار اور شاہ کی گرمیوں میں جاپانی ہوا بازوں نے پینگ کنگ پر متواترہ حملے کر کے جان ومال کا بہت نقصان کیا تھا.سردیوں میں ہوائی حملے رک جاتے تھے کیونکہ شہر کہ اور دھند کے پردے میں چھپا رہتا ہے.اپریل کے شروع میں وائسراے نے مجھے خط لکھا جس میں جنرل چیانگ کانی شیک کے ساتھ جو فیصلہ ہوا اس کا ذکر کر کے خواہش کی ہ میں چھ ماہ کیلئے ہندوستان کے ایجنٹ جنرل کی حیثیت میں جنگ کنگ جانا قبول کرلیں.یہ خطبہت مفصل تھا.جنگ کن کو بے آرامی اور خطے کا مقام بنایا گیا تھا.کھاتھا تم ہو اور پی کو ساتھ نہیں ہے اسکوگے.ہمارا مشاہرہ بطور من فیڈرل کورٹ برطانیہ کے سفر متعینہ چنگ کنگ کے مشاہرے اور الاولنس سے زیادہ ہے.اس لئے تمہیں مالی لحاظ سے شاردہ رہیگا.کیونکہ ھی کے مشاہرہ پر زائد کوئی الاؤنس نہیں ملے گا.لیکن میری خواہش ہے جنرل چیانگ کائی شیک اور ان کے رفقاء یہ محسوس کریں کہ ہندوستان کا نمائیندہ چوٹی کا آدمی ہے.اور مجھے کسی اور کی نسبت یہ اطمینان نہیں کہ اس مہم کو ایسی قابلیت اور ایسے وقار کے ساتھ سر انجام دے سکے جیسے تم دے سکوگے اسلئے میںامید کرتا ہے که با وجود ان مشکلات کے جو میں نے بیان کی ہیں تم یہ فرض اپنے ذمے لینے پر رضامند ہو جاؤ گے.اس خط نے مجھے بڑی الجھن میں ڈال دیا.ایک طرف مجھے یہ اس تھا کہ دائرے نے تمام مشکلات کو جانتے ہوئے مجھے یہ دعوت دی ہے جس سے ظاہر ہے انہیں مے پر ہاتا ہے کہ یں ان کی بات کر ر نہیں کروں گا.دوسری طر کی یونی کا کوئی پیل بھی ایسا نہیں تا نوسری
" ۳۵م بیعی پر روانہ ہوں یا ان پروگرام یہ تھا کہ چھ سال کی متواتر محنت شاقہ کے بعدمیں گریون کے سپنے آرام و سکون میں گرگ ار وادی کشمیرمیں گزاروں گا.وائس ایے کی کون کی ریت کے زمانے میں میں نے ایک دن بھی تھی نہیں لی تھی جان کہ پہلی میعاد میں بھی مجھے احق تھا اور دوسری میعاد میں بھی.پھر صحت کے لحاظ سے پکینگ کنگ یم کنگ کی آب و ہوا میرے لئے تکلیف دہ بھی تھی اور مضر بھی، داٹرائے کا مامانہ طور پر کوئی اختیار نہیں تھا کہ مجھے چین جانے پر مجبور کرسکتے اگرمیں جانا چاہاتو میرا ان کو دنیا کا فی ہوتا ہت شکریہ لیکن افسوس ہے کہ تعمیل ارشاد سے قاصر ہوں.لیکن بار بار مجھے خیال آنا وائسرائے نے اس اعتماد کی بنا پر مجھے لکھا ہے کہ میں خطرے اور بے آرامی سے نہیں گھر آتا اور اگر ملک کی خدمت کا کوئی موقعہ پیش آجائے تو مجھے دیر نہ ہوگا.میرا انکار ان کیلئے پریشانی کا موجب ہوگا.اسلئے میں نے دوستے دن انہیں لکھ دیا کہ مجھے تعمیل ارشاد میں عذر نجونجہ یہ تھی کہ میں جتنی جلدی ہوسکے روانہ ہو جاؤں اور سفارت خانے کے قیام کے بعد چھ سینے تک بطور سفیر کام کر کے اکتوبر میں واپس آ جاؤں.ہندوستان سے جنگ کنگ جانے کیلئے ان دنوں ہوائی جہانہ کلکتہ سے روانہ ہو کہ برما میں بھرتے ہوئے جنگ کنگ جاتا تھا.لیکن میں انہیں ایام میں جاپان کا تسلط شمالی برما پر کھلی ہو گی اور یہ رستہ نہ ہو گی جس کے نتیجےمیں میری روانگی ملتوی ہو گئی اور مجھے دور سے سینگی در گرگ میں گزارہ نے کا موقعہ مل گیا.ستینگ کنگ کا سفر آخہ کلکتے سے دنجان رشمالی آسام ) اور کہ در گینگ کے رستے پینگ کنگ تک ہوائی نہیں ی ہفتہ وار پروانہ کا انتظام ہوگیا اورہم شروع ہوں میں کتے پہنچ گئے.میں سرعبدالحلیم غزنوی کے دوان نے پر قیام ہوا اور ہم نے جنگ جنگ کے سفر کی تیاری میاں مکمل کرلی.میرے ساتھ منزل نذیر احمد صاحب مرحوم جو بالوت ابھی میجر تھے میرے ملٹری سکریٹری کی حیثیت میں تھے.بالو تاج الدین صاحب سپر نٹنڈنٹ اور ایک صاحب تجو رنگوں سے بھاگ کر آئے تھے نطور یا شفر اسسٹنٹ اور ٹینو گرافر تھے.مجھے لینے کے لئے انسولین کی ضرورت تھی جود لی سے مہیانہ ہوسکی تھی.لکھنے میں اسکی تلاش میں نے عزیز انور احمد کے سپرد کی.انہیں کچھ مشکل میں آئی جس سے وہ بہت پریشان ہوئے لیکن آخر بہت دوڑ دھوپ کے بعد انہوں نے مطلوبہ مقدار اسی قسم کی خشکی مجھے ضرورت تھی میساکر ہیں.فجزاہ اللہ ہم نے احتیاطاً ایک درجن ڈبے بلیٹن کی چائے کے بھی خرید لئے ہو ہمارے بہت کام آئے.دنخان سے کنگ جاتے ہوئے ہمیں ایک بلند سلسلہ کوہ کے اوپر سے گزرنا تھا جس کی بعض چوٹیاں ۸ ہزار فٹ سے لیکر ۲۱ ہزار فٹ تک بلند تھیں.ہوائی جہانہ ۵۰۰۰۳ تھا نشست کیلئے دونوں طرف الومینیم کے پنجے تھے درمیانی حصہ میں سامان بھرا ہوا تھا.کھلتے سے صبح کے وقت روانہ ہو کہ ہم مجھے
سوم بعد دوپہر ہوائی جہاز جنگ کنگ پہنچتا تھا اگر دریائے نی میں بیان نہ ہوتی تو ہوائی جہانہ دریاکے طغیانی در پالوں کے درمیان ایک خشک قلعے پر انتم تا اگر دریای بیانی ہوتی اور یہ قطعہ زیر آب و جانا تو جہانہ ہو جنوبی کنارے کی پہاڑیوں کے سمجھے مار پیا ت تا جہاں سے شہر پہنچنے میں ڈیڑھ دو گھنٹے صرف ہوتے.جن دنوں تم تاجہاں ہم نے سفر کیا یہ قطعہ خشک تھا اور ہم دریائے ٹیکسی کے درمیان اتر سکے.برطانوی سفر سر موریس سیمور کی طرف سے ان کے فرسٹ سیکر یٹری ہماری پیشوائی کے لئے موجود تھے عملے کے دونوں صاحبان کی عار منی پاش کیلئے شہر میں انتظام کیا گیا تھا.میجر ندیم احمد صاحب فرسٹ سیکریٹری کے ہاں مہمان ہوئے اور مجھے سفر مصاب ے اپنے ہاں ٹھہرایا جا یا اللہ ہماری مستقل قیام گاہ کے لئے تو جنوبی کنارے کے پہاڑی سلسلے پر ایک جنگلہ لیا گیا تھا جو امپیریل کیمیکل انڈ سرینہ کی ملکیت تھا.لیکن وہاں تک پہنچنے کے لئے وقت ور کا نہ تھا اس لئے سفیر صاحب نے میجر صاحب کی اور میری پہلے دن کی رہائش کا.....انتظام اپنے فرسٹ سیکریٹری کے ہاں اور اپنے ہاں کر دیا تھا.دوسرے دن ہم اس بنگلے میں گئے.یہ نگر ہار لئے نعمت غیرمترقبہ تھا.بلندی پر درختوں کے جھنڈ میں واقعہ ہونے کی وجہ سے جوان تھی اور گرمی سے بھی بچاؤ تھا.میر صاحب کے ساتھ ہونے کی وجہ سے مجھے انتظام کے متعلق کوئی پریشانی نہیں تھی.ولی سے ہم سید عبدالکریم کو تھ لے گئے تھے.ہاؤس بوائے باورچی اور مامائی مقامی تھیں.جنگ کنگ میں قیام چینگ کنگ میں عام ضروریات زندگی کامہیا ہو جان اللہ کے فضل پر مصر تھا اے ملک میں سوائے شمالی اور مغربی علاقوں کے تازہ دودھ تو کہیں ملتا نہیں.اسلئے وہی مکھن وغیرہ بالکل تا یا.تھے ہوئی شکیل سکتی تھی مگر کسی قدر مشکل سے مجھے شکریہ نے سے کوئی پریشانی نہیں تھی کیونکہ میرے لئے زبانیں کی وجہ سے شکہ کا استعمال منع تھا.مرغی مل جاتی تھی جسے سید عبدالکریم و بج کر لیتے تھے.ہم مرغی کا گوشت " " استعمال کرتے تھے.ہر شے گراں تھی اور دن بدن گراں تر ہوتی جارہی تھی.چینی شرفاء اور اس طبقے کیلئے بن کے مشاہرے مقرر تھے یہ ایام بہت سختی اور پریشانی کے تھے.رشوت عام تھتی ہیں تو اس سے سابقہ نہیں پڑتا تھا لیکن یہ کوئی چھپی ہوئی بات پہنی تھی.خود خبری چھیانگ کائی شیک کا دامن ایسے تمام شبہات سے پاک تھے لیکن ان کے علاوہ سارے ملک میں مشکل سے ایک در حین افسر ایسے ہوں گے جو ایسی کاروائیوں میں ملوث نہ ہوں ان کے تم زلف مسٹرنگ کی جوان یہ خزانہ تھے عام شہرت تھی کہ وہ کھلے بندوں چور بانداری کے سلسلے میں بڑے یمانے پر سرداری کرتے ہیں.ملک میں استقدر مصیبت اور پریشانی کا زمانہ تھا اور سر کنگ دونوں کلائیوں پر سونے کی گھڑیاں پہنے پھر تے تھے.واسکٹ کی ایک جیب سے دوسری جب تک سونے کی موٹی زنجیر کھتی تھی.بیسیوں میں حجر کچھ تھا وہ تو نظر نہیں آتا تھا.لیکن جب بولتے تھے یا ہنستے تھے تومنہ کے اندر سونے کے دانت یا سونا پڑے
م ہوئے دانت نظر آتے تھے.پریا روڈ کے رستے جو سامان اتنی مشکلوں سے ملک کے اندر پہنچنا تھا ان میں سے دو تہائی انکی ذات ملکیت بنایا جاتا تھا جوان کی طرف سے پچور بازار میں کہتا تھا.حکومت برطانیہ نے پچاس لاکھ پونڈ قرضہ خاص اعراض کیلئے نیا منظور کیا لیکن بات درمیان میں اس وجہ سے رہ گئی کہ حکومت برطانیہ مصر بھی کران کے نمائندے دینی اس ترقی پر نگاه یکی تا که به رو میان اعراض پر فوج ہو کے لئے یہ دیا جائے.میرے واپس پہلے آنے کے کچھ عرصہ بعد یہ خبر شائع ہوئی کہ جنرل جہانگ کانی شیک نے انہیں اپنے منصب سے علیحدہ کر دیا ہے.است ۱۹ میکی گر سونامی جنگ کنگ پر اسقدر بمباری ہوچکی تھی کہ رہائش کا روبان ، در انتیس کیلئے جگہ کی گرما بہت تنگی تھی.برطانوی سفر نے از راہ نوازش اپنے سفارت خانے کی نیم بخند عمارتوں میںسے دو کرے ہمیں بھی عنایت کر دیئے جو ہماری دفتری ضرورتوں کیلئے کافی تھے.ہندستان سفاری کاروبار تو کوئی ایسا تھا نہیں اسلئے اس سارے عرصے میں جومیں نے جنگ کنگ میں گذارا مجھے بھی عام الفرمت کی شکایت نہیں ہوئی جبکہ میری طبعیت کے انسان کیلئے ٹھنگ کنگ میں وقت گذارنا سب سے دشوار مسئلہ بن گیا.حکومت کے وزیر خارجہ خو د جنرل جہانگ کائی شیک تھے.ان کا ایک مکان شہرمیں بھی تھا لیکن انکی رہائش زیادہ عرصہ جنوبی کنارے کے پہاڑی سلسلے کے عقب میں مطار کے قریب شہر سے دس بارہ میل کے فاصلے پر تھی درمیان میں گیسی دینا پڑتا تھا.جس پر سے انہیں معہ ہو گا.FERRY سے گذارنا ہوتا تھا.بہت ساوقت انہیں مختلف علاقوں کے دوروں پر بھی صرف کرنا ہوتا تھا.ان کے متعلق کچھ نہ طور پر علم نہیں ہوسکتاتھا کہ کب جنگ کنگ میں تشریف فرم ہوں گے.اسلئے ان تک رسائی بہت مشکل تھی.انہوں نے دو نائب وزیر خار یہ مقریر کر رکھے تھے ان میں سے ایک مٹرسن خو ستھے ہوئن بیٹے سین صاحب کے ساجزاء سے تھے نائب وزراء کے فرائض کی تقسیم کے لحاظ سے میرا کا ان کے ساتھ ہواکرتا تھا میری درخواست پر انہوں نے یہ تجویز منظور کرلی تھی کہ میں ہربدھ کے دن دس بجے قبل دو پر انکی خدمت میں حاضر ہو جایا کروں اور جو کچھ تھوڑا بہت سرکاری کام مورد ان کے ساتھ طے کر لیا کریں.اس ملاقات کے دوران میں وہ مجھے ملک کے عام حالات سے اور خصوصاً جنگ کے کوائف سے بھی مطلع فرما دیا کرتے تھے یعنی اصحاب نے تکلفانہ گفتگو کرنے کے عادی نہیں تھے بلکہ اس طرق کو غیرمندی شمارکیا جاتا تھا.ریلی لوگوںکے اوران کے درمیان ایک دیوار حائل رہتی تھی تواضع اور خوش خلقی کے تقاضوں کو تو وہ بوحد حسن پورا کرتے تھے لیکن کا اعتماد نہیں کسی غیرملکی پر نہیں ہوتا تھا.میں نے اتنا ضرور محسوس کیا کہ اس لحاظ سے وہ ایشیائی اور غیر ایشیائی کے درمیان ایک خفیف مزنگ فرق ضرور کرتے تھے ایک روز برطانوی سفینے مجھ سے کہا مجھے پنی حکومت کیطرف سے ایک اہم پیغام جزای چیانگ کائی شیک کو جلد از جلد پہنچانے کی ہدایت ہوئی ہے.میں نے ان سے ملاقات کی درخواست کی ہے لیکن ممکن ہے اس انتظار میں دو ہفتے گذر جائیں اور یہ معلوم کب ملاقات کا موقعہ میں آئے.میں نے سنا ہے کہ تمہیں نائب وزیر خارجہ سے ہر سہنے ملاقات
۴۳۸ کا موقعہ ہوتا ہے اگر تم اجازت دو تو میں تمہیں ایک لفافہ ان کے نام دیدوں میں ممنون ہوں گا اگر آئندہ ملاقات کے موقعہ پر تم وہ لفافہ میری طرف سے انہیں پہنچا دو.حکومت کی طرف سے پیغام تو میں خود ہی جنرل چیانگ گائی شیک کو پہنچاؤں گا لیکن تمہارے ذریعے نئب وزیر خارجہ کو طلا کردینے سے مجھے یہ اطمینان ہو جائیگا کہ ہمیں عراق کے اختیارہ کرنے میں جوتا غیر موئی اس کا انہ الہ ایک منزتک ہو جائے گا.مجھے جیت تو موٹی لیکن میں نے ان کے ارشاد کی تعمیل با تامل کردی میرا اندازہ تھاکہ ایسی بے قاعدگی جنگ کے نتیجے میں پیدا شدہ غیر معمولی حالات ہی میں ممکن نھیں.لیکن اس سے یہ ضرور ظاہر ہوتا تھا کہ ایک ایشیائی نمائندے کو ایک مغربی نمائندے کی نسبت کسی قدر زیادہ مراعات حاصل نخس.ر رحیہ ڈٹا تخمین میں نے جلد اندازہ کر دیا کہ ہفتے میں تین بار دفتر جانے سے میں اپنے فرائض منصبی کو پورے طور پر سر انجام دیکھتا ہوں.ان میں سے دور ضرور کی اور مستقل فرائض تو نائب وزیر خارجہ سے ملاقات اور سر اولف گیرد حکومت ہند کے سیکریٹری امور خارجہ کے نام مقتدر وار خطار کا کرنا تھا.دفتر میں وقت فارغ میسر آجاتاده میں سر چہ نائیجین کی صحبت میں گزارنے کی کوشش کرتا.سر رچرڈ برطانوی سفارت خانے میں چینی امور کے ماہر اور مشیر خصوصی تھے.وہ چین کے حالات پر ملتی پھرتی ان شکلو پیڈیا تھے.ایک سبا عرصہ معین میں گزار چکے تھے اور چینی زندگی اور چینی سیاست کے ہر پہلو سے خوب واقف تھے.وہ بڑے تھے اسلئے جب پھلتے تھے تو ایسا معلوم ہو تھا کہ منہ کے بل اوندھے مل رہے ہیں.باند لیے تھے چہرے پر جھریاں تھیں رنگ زرد تھا لیکن آنکھیں روشن تھیں اور ان میں خاصی چمک تھی.پیشانی فراخ تھی.انکی صحبت میں ایک گھنٹر منا رس جلدوں کے مطالعہ کی نسبت زیاد مینید نتیجہ خیز اور کار آمد تھا.میرے سیکر برای سریہ چہ ڈسن اپن ملازمت کا کچھ عرصہ تبت میں گزار چکے تھے اور تبت کے حالات اور وہاں کی ثقافت اور معاشرت سے خوب واقف تھے اور ان کے مداح تھے.وہ بھی سر چپہ ڈٹائٹینین کے مشورے سے مستفید ہوتے رہتے تھے.سرچہ میرے ہندوستان واپس آنے کے تھوڑا عرصہ بعد اپی سجادہ ملازمت پوری کرکے پیٹ پر چلے گئے اور ان کو میںاپنے آبائی مسکن می رہائش اختیار کرلی.ان کی موت بہت افسوسناک طریق پر وقوع میں آئی.ایک روزہ و صندلی روشنی میں اپنے مکان کے قریب جنگل میں پھر رہے تھے کہ ایک شکاری نے چوپایہ سمجھ کر کھانا لے سے ان پر گولی چلا دی کسی اور قیاس یا شبہے کی گنجائش نہیں تھی اسلیئے اس کے بیان کو قبول کر لیا گیا." میں سوموارہ، بدھوارہ اور جمعہ کو دفتر جانا تھا.اس کے علاوہ میرا شہر جانا کسی ایسے موقعہ پر ہوتا جب کسی سرکاری یا غیرسرکاری تقریب میں میری شمولیت ضروری یا مناسب ہوئی، جنگ کنگ میں گرمی اور تمہیں سے بہت تکلیف اٹھانا پڑتی تھی.اسلئے دفتر جانے کیلئے ہم صبح 4 بجے ناشتہ کرتے اور بجے تک روانہ ہو جاتے.
۳۹ پہاڑے اترتے وقت میں کرسی میں ہوتا جس کے لیے بانسوں کو چا چینی کا سہارا دیتے ہوتے.پہاڑی ست رنگ تھا اور اس میں قدم قدم پر ہو تھے ہر موڑ پہ یہ کیفیت ہوتی کہ میرےسامنے کے دونوں کہا موڑ کاٹ کر پہاڑی کے دوستی کنارے پر پہنچاتے اور کیلیے کہا بھی موڑ پرپہنچے نہ ہوتے اور کسی درمیان میں نکلی ہوتی.نیچے کر کھڑ وتی میجر ندیم احمد صاحب آگے آگے اپنی ہلکی سے ملکی در دی میں پیدل جا رہے ہوتے.ان کے گلے کے گرد تولیہ لیٹا ہوتا جو بار بار یہ پوچھنے کے کام آتا.پہاڑ سے اتر کر جب ہم آبادی کے قریب پہنچے تو تعفن اور بدبو سے دماغ پھٹنے لگتا.خداخداکر کے کیچڑ اور غلاظت سے اٹے ہوئے رستوں ، گلیوں اور بازاروں سے گذر کر دریا کے کنارے پہنچتے.یہاں سے کرسی والپس نیکے چلی جاتی اور میجر صاحب اور میں دریا پار جانیوالی دخانی کشتی میں سوار ہو جاتے تو مسافروں سے ھچا کھچ بھری ہوتی میں میں اکثرکے بدن کا اوپر کا حصہ یہ منہ اور پینے سے تر ہوتا.سوائے چند مسافروں کے ہوشہ یع یں سوار ہو چکے ہوتے ایمان کھڑے کھڑے دریا پار کرتے دریا کے دنوں کناروں پرکشتیوں کا ہجوم ہوتا جن میں کیر خداد چینیوں کی بود و باش ہوتی گشتیوں میں رہنے والے تما افراد حوائج ضروری سے فراغت کیلئے دریاہی کو استعمال کرتے.اسی دریا کا پانی بنے اور کھانا پکانے کے کام آتا شہر کیطرف کا کنارہ خاصا ا نچاتھا.بازار تک پڑھنے کیلئے کرائے کی کرسی میسر آسکتی تھی لیکن ہم یہ چڑھائی سیڑھیوں پرسے پیدل ہی چڑھتے بازار تک پہنچتے پہنچے پسینہ بانی ہو جاتا.یہاں ماری کا منتظر موتی اس میں بیٹھ کر سفارت خانے کے نواح میں ایک کھلی جگہ تک پہنچ جاتے.یہاں سے ایک تنگ گلی میں سے ہو کر سفارت خانے میں پہنچ جاتے یہ آخری سافت کوئی دو تین صدگی کی تھی لیکن بارش کے وقت میگی دارد بن جاتی اور اس میں سے ہو کر گذر تا بہت احتیاط کا طالب ہوتا.کینگ کنگ میں مرا لباس ملکی بنیان، ململ کا کلی تینوں ا کرتہ ، شلوار ، جرابیں، بوٹ اور تہ کی ٹوہی ہوتا.ہم سمی تقریبوں میں شمولیت کے وقت شیروانی نہیں لیا.چنگ کنگ پہنچے کے چند دن بعد ور پھر رخصت ہونے سے چند دن پہلے جنرل جہانگ کانی شیک اور میڈم نے مجھے شام کے کھانے پر مدعو کیا.جنرل چیانگ کائی شیک انگریزی بہت کم جانتے تھے.میرا اندازہ ہے کہ متبادہ ظاہر کرتے تھے اس سے زیادہ سمجھ لیے تھے لیکن پولنے سے پرہیز کرتے تھے.جب میڈم قرب ہو تی وی مترجم موتی.میڈم خود ویزلی کالج (امریکہ ) کی گریجویٹ تھیں اور مذہباً عیسائی میتھوڈسٹ فرقے کی تھ وابستہ تھیں.نہایت شستہ طبع اور نہایت میں تھیں کھانے پر بیٹھے مجھے فرامی کا مسلم علم سے آی ہے خام بھی ہیں کہ میں کی مسلم کا انتھکھانے کے قرب نہیں گیا تم علا تامل اطمینان سے کھاؤ.کھانے کے دوران گرم تولئے مر مہمانوں کو ہاتھ اور چرہ پوچھنے کیلئے مسائے میں نے تقابل کے اندازہ میں دریافت کیا یہ امتیانہ مر مردوں کو کیوں بخشا گیا؟ مسکرائیں اور کہا تم شہیر معلوم ہوتے ہوتم خوب جانتے ہو کہ اگرعورتیں چہرہ پونچھ میں توان کے چہروں کی زینت بھی ساتھ ہی پونچھی جائے کھانے کے جلد بعد کیا افسوس ہے تمہیں جلد رخصت کرنے کی مجبوری ہے تم جنوبی کنارے پر رہتے ہو اور FERRY کے بند ہونے
۴۴۰ سے پہلے تمہارے اور یا پانہ ہونا لازم ہے.دریا پار ہونے کی دشواریوں کی وجہ سے شہر اور جنوبی کنارے کے درمیان رات کے وقت آنکه درنت کا سلسلہ بہت محدود ہوکر رہ جاتا تھا.دن کے وقت دفتر سے یاکسی اور تقریب سے واپسی پر تو ہم و سی طریق اختیار کرتے تھے جس طریق سے ہم نکلے سے دفتر پہنچتے تھے.صرف ایک فرق ہوتا تھا.واپسی پر میجر ماسب دریا یا رہو کر میاٹہ کی چڑھائی پڑھنے کیلئے ایک ٹو کرائے پر لیتے.میجر صاحب طویل قامت تھے جنگ کنگ کے ٹو پتہ تد تھے.لیکن تھے مضبوط اور چالاک.ٹٹوریا کے کنارے پر ہی موجود ہوتے اور سیر صاحب وہیں سے 177 b ٹیٹو کی پیٹھ پر ممکن ہو جاتے.سوار ہونے کی ضرورت نہیں تھی.ٹیٹو ان کی ٹانگوں میں سے گذر کر کھڑا ہو جاتا وہ اس کی پیٹھ پر جم جاتے.جونہی ٹوان کا وزن اپنی پیٹھ پر سوس کرناتیز قدمی سے روانہ ہو جاتا سنے ہیں میر کی سیڑھی تھی جو بازار تک چڑ تھی.ٹو اس سیڑھی پہ پھرتی سے پڑھ جاتا.آبادی کے حصے سے نکل کر میمون با فراخ پگڈنڈی کے رستے پہاڑ پر پڑھتا اور بنگلے تک پہنچتا.کرسی رائے اسی تنگ رستے سے پڑھتے جس سے صبح کے وقت انتہائی ہوتی اور جو نا صلہ کے لحاظ سے نزدیک پڑتا.میجر صاحب اور میں ایک ہی وقت بنگلے پر پہنچ جاتے.لیکن رات " کے وقت یہ رستہ غیر محفوظ تھا.پہاڑ پراندھیرے میں پاؤں پھیلنے کا خطرہ بھی تھا اور ہرنوں کا اندیشہ بھی.ضرورت پڑنے پر مشعلوں سے مدد فکر یہ سنت طے ہو سکتا تھا لیکن بہت اختیاط کی ضرورت تھی اور زیادہ رات گئے تو مہر صورت اس رستے کو اختیار کرنا غیر دانشمندی کا فعل ہوتا.ایسے اوقات میں ہم یہ انتظام کرتے کہ ہماری اپنی کار دن کے وقت موٹر FERRY پر جنوبی کنارے کی طرف آجاتی اور ہو FERRY ٹنگ کینگ سے جنوبی کنارے کی سڑک تک پہنچنے کا ذریعہ موتی ہم اس پر اپنی کا تہ تک پہنچے جاتے.پھر کار میں نگلے کے عقب اور بنگلے سے کوئی چار پانچ سوفٹ نیچے آدھ میل کے فاصلے تک پہنچا دتی جہاں سے ہم پیدل مشعلوں کی مد سے نکلے تک پہنچ جاے سڑک پر ہمارے کہا مشعلیں لئے ہمارے انتظار میں ہوتے.لیکن بارش کے وقت بہ طریق بھی اختیار نہ کیا جاسکت جب ہماری کار منوی کنارے پر ہوتی تو چنگ کنگ میں ہمیں سوار کا انتظام کرنا پڑتا.اور برطانوی سفیر صاحب از را نوازش ہمیں اپن کار ایسے وقتوں میں ہیا فرما دیتے.شہر کی طرف سے ہم اس FERRY پہ تو پہنچ جاتے لیکن جب دریا میں پانی کم ہوتا تو یہ PERRY دریا کے دس میں دی جاتی اور امارات کا اور کچھ اصلی دریا ی خشک تہتر ملی تہ پر پیدل گزر کر دریا کے دوسرے پاٹ پر پہنچتے جہاں سے کشتی پر سوار ہو کر سڑک کے قریب پار جا گئے.جب ہمیں پہلی بار یہ سفر کرنا پڑا اور کشتی ان کو دینے کیلئے ہمارے پاس پیسے نہیں تھے.ایک دو چینی میرا مسافروں نے بنتے بنتے اشاروں میں ہم سے کہا کہ نہ کرو اور ہماری طرف سے ملاح کو کچھ دید یا سڑک کے پاس کشتی جہاں کتا ہے پر جاکہ لگی وہاں سے سڑک تک پہنچنے کیلئے پتھروں پر سے پڑھنا تھا.رات اندھیری تھی اور مجھے پھیلنے کا خوف تھا لیکن دوسرے مسافروں کی مدد سے یہ مرحلہ بھی بخوبی نہیں تو محمد للہ خیرت طے پا گیا.ایسے "
اوقات میں انان کو اپنی باط معلوم ہو جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی عنایات کے شکر اور ان کی قدریہ سے دل بریہ مجھ جاتا ہے.جنگ کنگ میں بفضل اللہ رہائش کا انتظام تو خاطر خواہ ہو گیا تھا.میں گرمی سے بہت گھبراتا تھا لیکن منگلے کا محل وقوع ایپ تھا کہ جب تک ہم بنگلے میں رہتے تھے گرمی کی شدت سے محفوظ رہتے تھے.کھانے کے متعلق بھی کوئی ایسی وقت نہیں تھی.شکر کا مجھے پر ہی تھا اور یوں بھی میں سادہ غذا کا عادی ہوں.اس لحاظ سے سب ضروریات پوری ہو جاتی تھیں.لیکن ذہنی محرومی سب سے بڑی مشکل تھی.ہم باہر کی دنیا سے الگ تھلگ پڑے ہوئے تھے.چینی اخبارہ ہم پڑھو نہیں سکتے تھے.پڑھ سکتے بھی توان میں باہر کی دنیا کی کوئی منبرت وہی شائع ہوتی تھی.باہر کی دنیا کے ساتھ رشتہ ڈاک کے ذریعے ہی قائم تھا.ڈاک ہفتے میں ایک بار اسی سہانہ سے آتی تھی س سے نکلنے سے یا ان کا سفر کیا.کتے سے جن جن کے نرمی کی گھٹے ہوے تھے لیکن جہاز کے پنک رنگ پہنچے جانے کے بعد ہماری ڈاک کو ہم تک پہنچنے میں ۲۴ گھنٹے لگتے تھے.ہمارے بنگلے سے دریا کا وہ ٹاپو نظر آتا تھا جس پر ائی جاناتا کرتاتھا اور ہم بیان کو اترتا دیکھ کر اندازہ کر لیتے تھے کہ کل اسوقت تک ہمیں ڈاک مل جانی چاہئیے آسٹریلیا کا سفارتخانہ بھی جنوبی کنارے کے سلسلہ کوہ میں واقعہ تھا اس سفارت خانے کے تھرڈ سکریٹری کے ساتھ تعارف ہونا ہمارے لئے بڑی راحت کا موجب ہوا.فجزاہ اللہ.یہ صاحب مٹر کتنے والہ سفتے میں ایک دوبارہ سلسلہ کوہ کے کنارے کنارے ایک تھیلہ کتابوں ، اخباروں رسالوں کا اٹھائے ہوئے ہمارے ہاں تشریف لاتے تھے.وہ سب ہمارے حوالے کرتے تھے اور جو تم پڑھ چکے ہوتے تھے ہم انہیں واپس کر دیتے تھے.کوئی گھنٹہ بھر ٹھہرتے تھے.ہمارے پاس انکی تواضع کیلئے لیٹن کی چائے ہی تھی.جو ان کی خدمت میں پیش کردی جاتی تھی.دودھ تو میری نہیں تھا اور شکر کا استعمال شاید وہ عادت نہیں کرتے تھے.لیکن لینی چائے کے چھ سات پہائے اس شوق سے نوش فرماتے تھے جیسے یہ نعمت انہیں پہلے کبھی نصیب نہیں ہوئی.جب جنگ رنگ میں ہماری یہ ہائش کا عرصہ ختم ہونے کو آیا تو ہمارے پاس چائے کے تین چار ڈ ہے ابھی باقی تھے وہ ہم نے مسٹر کیتھے والد کی نذر کر دیے.وہ اتنے خوش ہوئے گویا ایک خزانہ مل گیا.میری ملاقات ان سے بعد میں بھی ہوتی رہی ہے اب تک مٹر دالر ماسکو اور واشنگٹن میں آسٹریلیا کے سفر رہ چکے ہیں.آسٹریلیا کی وزارت خارجہ کے سیکرٹیری می رہ چکے ہیں.بیر دل میں ان کے احسانوں کی یاد اتک تازہ ہے.انقلاب چین کے تعجب خیز اثرات | میرے لئے جنگ کنگ کے عرصہ قیام میں سب زیادہ جو چیز موجب اذیت تھی وہ وہاں کا تعفن اور بار بو تھی.جن کی تفصیل بیان کرنا بھی موجب اذیت ہو گا.بائیس سال لعبد مجھے کینٹین میں ، ۲ گھنٹے گزارنے کا اتفاق ہوا اور میں نے اسے نہایت مان سفرا شہر پا یا یہاں تک کہ وہاں **
سمسم مکھیوں کا بھی نام ونشن نہ تھا.میں نے خیال کیا کہ شاید استقدیر صفائی کینٹین کی خصوصیت ہو.لیکن مجھے معلوم ہوا کہ موجودہ چین کے شہروں کے مقابلہ میں صفائی کے لحاظ سے کینٹین کو کوئی امتیاز حاصل نہیں.ملکہ اس کو شمارہ چین کے نسبتہ کثیف شہروں میں ہوتا ہے بستر پچھتر کروڑران نوں کی ایسی کیف آبادی میں حسین کا نمونہ میں نے ٹینگ کنگ میں دیکھا تھا ایک ایسا انقلاب جس کا تجربہ مجھے کیٹین میں ہوا میرے لئے حیران کن تھا.اور صرف صفائی ہی میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے مں کم سے کم جہاں تک مادری اور اخلاقی اقدار کا تعلق ہے چین نے بڑی تیزی سے حیرت انگیر ترقی کی ہے.چین کی مسلم آبادی | ستمبر کے مہینے میں جھنگ کنگ میں لیجسلیٹوں ان کا اجلاس ہوا اور اس اجلاس میں شمولیت کے لئے چین کے شمالی مغربی صولوں کے اور سنکیانگ کے نمائندے بھی تشریف لائے.چین کے شمالی مغربی صوبوں میں سے بعض میں مسلمانوں کی کثرت ہے سنکیانگ میں تو نسلی لحاظ سے بھی کثرت ترکی نسل کی ہے.ان میں سے تین چارہ نمائندوں کے ساتھ میری طاقات ہوئی.تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے یہ اصحاب فارسی جانتے تھے اور میں ان کے ساتھ کچھ گفتگو کر لیتا تھا.سنکیانگ کے نمائندے بھی کچھ فارسی جانتے تھے گوانکی زبان نہ کی تھی.یہ ملاقاتیں میرے لئے بڑی دلچسپی کا موجب ہوئیں.مجھے علم ہوا کہ چین میں قریباً چار پانچ کروڑ مسلمان ہیں توزیادہ تیم شمال مغربی علاقوں میں آباد ہیں.ان دنوں ان علاقوں میں بینکنگ کا کاروبار زیادہ تر مسمانوں کے ہاتھوں میں تھا.تین صوبوں کے گورنہ مسلمان تھے.دینی اقدار کے لحاظ سے وسط ایشیاء سے قریب ترین علاقوں میں اسلامی رنگ زیادہ کا امام الامام کی نیت سے کیا تھی نہیں کہ بی بی مریم کا ان کا کیا ہوا کھانا بالکل نہیں کھائے تھے.میں جب تار میں ٹانگ کانگ سے نہیں گیا اور اسے جیتی ہی میں سوار ہوا تو روپے کے کانے کا وقت تھا کھانے کی گاڑی کے تم نے میری نشست پر ہی مجھ سے دریافت کیا کھانا کھاؤ گے ؟ میرے اثباتی جواب پر پوچھا.سلم طعام ؟ میں نے پھر اثبات میں جواب دیا.مجھے کھانے کیلئے بلاوا دو سے مسافروں کی نیت نصف گھنٹہ بعد آیا اس سے بھی میں نے اندازہ کیاکہ میرے لئے علیحدہ کھانا تیار کیا گیا تھا.ان دونوں چینی مسلمانوں کی دینی تربیت ان کے علماء کے سپر دیکھی جن میں سے ایک خاصی تعداد الازہر کی سند یافتہ تھی.ان علماء کو آہنگ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا.ممکن ہے یہ لفظ اخوند کا ہی مرادن ہو.چنگ کنگ سے واپسی | ستمبر کے آخرمیں میجر نذیراحمد صاحب چنڈو اور لان چاو تشریف لے گئے حکومت نے ان کے سفر کا انتظام کر دیا.میں شروع اکتوبر میں دالپس دتی جانیوالا تھا.میں نے ان سے کہا آپ پسند کریں تو میں حکومت ہند کو لکھ دوں کہ آپ میری واپسی کے بعد جنگ کنگ ٹھہریں گے.انہوں نے کہا میں تو ہرگز ٹھہر نانہیں چاہتا اور تمہارے ساتھ ہی واپس جاؤں گا.میں نے کہا میں فلاں تاریخ کو روانہ ہوں گا لہذا
م م آپ پر وقت تشریف لے آئیں کیونکہ آپ جانتے ہیں ہوائی جہانہ مفت میں صرف ایک بار کھلکنے سے آنا اور واپس جاتا ہے.اگر آپ یہ وقت نہ پہنچے تو آپ کو ایک ہفتہ مزید یہاں ٹھہرنا پڑے گا.میری روانگی میں ایک دن باقی ہہ گیا.دوسری صبح روانگی تھی لیکن میجر صاحب تشریف لائے نہ انکی طرف سے کوئی اطلاع میں عصر کے بعد ایک تھوڑا ساہوائی جہانہ ٹاپ پر اترتا دکھائی دیا.گنٹہ بھر بعد میر صاحب ٹو پر سوار آموجود ہوئے.لان چاؤ سے واپسی میں تاخیر کے متعلق بتایا بارش اتنی ہوئی کہ مطار کی سطح پر بہت پانی جمع ہو گیا جس کی وجہ سے دودن انتظار کرنا پڑا.پنڈو سے کوئی مہمان ادھر آنیوالا نہیں تھا.میں نے اپنے فوجی میزبانوںسے کہ مجھے توانان گنگ بنگ آن پہنچا ہے کیونکہ کل کتے کیلئے روانگی ہے.خدا ان کا بھلا کیسے انہوں نے دوڑ دھوپ کر کے ایک صورت نکال لی.کل مسٹر نیل دلکی چنگ کنگ پہنچنے والے میں آج ایک بہانہ ان کے لئے تازہ سبزی اور پھل لیکم جنڈو سے یہاں آنیوالا تھا.انہوں نے مجھے اور ایک اور افسر کو بطور سامان اسی میں لا دیا.جب ہم چنگ کٹنگ کے قریب پہنچے بلکہ دری کے اندر ٹاپ بھی نظرآنے لگ گی تو پات کایات تم ہورہا ہے تم دونوں باری باری پمپ و ا ا ا ا ا ر ا ر ی کا بھی ان میں پہنچ جائے.ہم دونوں پور زور سے پمپ کو چلاتے رہے اور میں ساتھ ساتھ دعا بھی کرتا رہا.آخری تین چار من تو تین چار دن بن گئے اور سخت پریشانی میں گزرے جب اللہ کے فضل سے ہوائی جہان کے بیٹے زمین سے لے تو ان میں جان آئی پوچھنے کے اچھا یہ تائے روانگی کی کی پروگرام ہے؟ میں نے کہا کل یہاں سے معہ ساز وسامان کے تنگ کنگ شہر چلے جائیں گے.وہاں خصیتی مراسم اور ملاقاتوں سے فارغ ہو کر رات گذار ہیں گے اور رسول علی البم کلکتے روانہ ہو جائیں گے بیج صاحب نے راتوں رات تیاری مکمل کرلی.صبح ہم دونوں اور سید عبدالکریم مع سامان تنگ کینگ چلے گئے اور وہاں سے مطابق پروگرام میری میں کھلتے روانہ ہوگئے.جہانہ کمنگ ٹھر کو پروانہ ہو لیکن ابھی پور بلندی پر پہنا تھا کہ پرچے تہ آیا.معلوم ہواکہ ان جان پر جاپانی ہوائی جہازوں کی طرف سے گولہ باری کا الارم ہورہا ہے.کوئی گھنٹہ بھر بعد خبر آئی کہ اب مطلع صاف ہے.پنجان ٹھہر کر ہم لفضل اللہ مغرب کے وقت کلکتے بحریت پہنچ گئے مطہر پر عزمہ اور نہ احمد تشریف لائے ہوئے تھے اور اپنے ساتھ ایک تھر اس بوتل ٹماٹروں کے رس کی برف میں ٹھنڈی کی ہوئی لیتے آئے تھے کیتھے والد کو لیٹن کی چائے سے اس لطف اور تسکین کا بڑاحصہ بھی کبھی حاصل نہ ہوا ہو گا جو اس دن کی پریت نی اور تان کے بعد ہمیں اس ٹھنڈے ہیں کے پینے سے حاصل ہوا.عزیمہ انور احمدکیلئے دل سے بہت دعائیں نکلیں.جزاہ اللہ سے حاصل احسن الجزاء.وائسرائے سے چین کے متعلق دلی پہنچ کر جب مجھے وائسرائے کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقعہ ملاتو میں نے اپنے تاثرات کا اظہار چین کے حالات اور اپنے تاثمات کی خدمت میں بیان کئے.جنگ لنگ سے بھی میں اپنے ہفتہ وار خطا می کسی قدر تفصیل کے ساتھ سرادولف کیرو کو چین کے حالات تاثرات لکھ دیا کرتا تھا، در انہوں
م کم کم نے مجھے لکھاتھا کہ اسلئے میرے خدا کو بہت دیسی سے پڑھتے ہیں لیکن جب میں نے وہی باتیں اختصار ان کی خدمت میں زبانی گذارش کیں تو انہیں حیرت ہوئی اور انہوں نے میرے تاثرات کے متعلق تعجب کا اظہار کیا.میں نے انکی خدمت میں تین باتیں وضاحت سے گذارش کیں :.اول :- جاپان کی شکست کے بعد معین اشتراکیوں کے زیر اقتدارہ چلا جائے گا.وائسرائے :- تم ایسا کیوں کہتے ہو ؟ ظفر اللہ خاں :.میں یہ اسلئے کہتا ہوں کہ اسوقت جاپانیوں کی جو مدافعت مبین کی طرف سے ہورہی ہے اس کا زیادہ حصہ اشتراکیوں کی سرگرمیوں کا نتیج ہے.گومین ڈانگ کی طرف سے دکھاوا ہی دکھاوا ہے.اشتراکیوں کا نظام بہت مضبوط ہے.انکی تربیت بہت زبردست ہے.گومن ڈانگ میں ہرطرف رشوت اور چودہ بازاری کا زور ہے اور رعایا پر خصوصاً کاشتکاروں پر نا جان با اور بے جانی عمل می لائی جارہی ہے.جاپان کی شکست کے بعد یہ حالت قائم نہیں رہ سکتی.اشترا کی ضرور تم ملک پر چھا جائیں گے گومن ڈانگ پارٹی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی.یہ کہا جاتاہےکہ چینی اشتراکی روی اشتراکیوں کیا اور اشتراکی نہیں گلابی رنگ کے اشترکی میں یہ محض خوش فہمی ہے.تمام قائدین ماسکو کے تربیت یافتہ ہیں اور سوفیصدی اشتراکی ہیں.سوئم:.یہ توقع کہ چینی کاشتکار انفرادیت کا دلدادہ ہے اور وہ ہرگز اشترا کی دباؤ قبول نہیں کریگا ایک خیال نام ہے.مہینا کاشت کار کو انفرادیت سے سروکار ہے نہ اشتراکیت سے جو پارٹی اس پرمسلط ہو جاے گی وہ اس کا رمانبردار ہوجائے گا ور اگر اسے انسی دباؤ او د ب ب س س س م ا ا ا ا ا سکی تو اسے آزاد کرنیوالوں کو تہ دل سے خوش آمدید کہے گا.اران نے میری باتیس سی میں پرمجھے یقین ہے کہ نہوں نے انہیں کوئی وقعت نہ دی لیکن گدہ ایک تھ متفق بھی ہوتے تو وہ کر بھی کیا کتے تھے یہ سب امور ان کے حلقہ اختیار اور رسوخ سے باہر تھے.چنگ کنگ سے ہندوستان کی آزادی میں نے گینگ کنگ سے ایک یا داشت وائسرائے کی خدمت میں کے متعلق وائسرائے کو میری یاد داشت | ہندوستان کے آئین کے سلسلےمیں ارسال کی تھی.میں نے لکھا تھا کہ گو جنگ کے دوران میں آئین میں تبدیلی کی توقع نہیں کی جاسکتی لیکن رائے آئین کی حدود کے اندر رہتے ہوئے جو عملی اقدام بھی ہندوستان کو آزادی کے لئے تیارہ کرنے کے سلسلے میں کیا جا سکتا ہے اسکی طرف تو یہ دینی چاہیے.مناسب موقعہ پر ایسا اقدام بہت نتیجہ خیز ہو سکتا ہے.اس ضمن میں میں نے لکھا تھا کہ جو اشخاص امور مملکت کا کسی حد تک تجربہ رکھتے ہیں اور حکومت کے ساتھ تعاون پر آمادہ ہیں حکومت کو چاہیے کہ ان پر اعتماد ملی ثبوت دے.اور امور سلطنت کے متعلق حقیقی ذمہ داری ان کے کندھوں پر ڈالے تاکہ سیاسی
۴۴۵ ط پارٹیوں اور عوام پر بھی یہ واضح ہو جائے کہ حکومت اس بات پر آمادہ ہے کہ سلطنت کی ذمہ داری برطانوی ہاتھو سے منتقل ہو کر ہندوستانی تا تختوں میں چلی جائے.اگر آئین کی تبدیلی می تاخیر موری ہے تو اسکی وجہ ایک تو جنگ ہے جس کے دوران ایسے اہم اور پیچیدہ مسئلے کی طرف پوری توجہ نہیں دی جاسکتی اور دور سے باہمی فرق داراً اختلافات ہیں جن کا ابھی تک کوئی حل نظر نہیں آرہا.لیکن یہ ثابت کرنے کے لئے کہ حکومت ان دور مشکلوں کو آزادی میں المنزا کیلئے مہانہ نہیں بنارسی اور حکومت کی نیک نیتی پر شک کی کوئی گنجائش نہیں کوئی ایسا اقدام ہونا چاہیئے جس کے نتھے میں ہندوستان کی حکومت کے متعلق آخری فیصلوں کا اختیار مند دوستانی افراد کے سپرد کر دیا جائے خواه لفظاً ذمہ داری وائسرائے وزیر مہند اور بر طانوی پارلیمنٹ کی رہے.اپ کرنے سے اتنا تو واضح ہو جاے گا کہ جنگ کے ختم ہو جانے کے بعد بر طانیہ موجودہ حالات کو طول نہیں دیگا.اور جلد سے عبید ہندوستان کو آئینی لحاظ سے بھی آند او کر دے گا.PACIFIC RELATIONS CONFERENCE مجھے تنگ کنگ سے واپس آئے ابھی تھوڑا عرصہ ہی ہوا تھا اور میں عدالت کے ایک ہی اجلاس میں شامل ہوا تھا کہ سراوان میں بطور نمائندہ ہندوستان شرکت کیرو نے میرے ساتھ ذکر کیا کہ PACIFIC RELATION NFERENCEہ کا اجلاس دسمبر کے مہینے میں کنیڈا کے ایک پہاڑی مقام مو تر بیان میں ہونے والا ہے تو کیوں کے صوبے میں واقعہ ہے اور ہندوستان کو بھی اس میں شمولیت کی دعوت دی گئی ہے.کانفرنس غیرسمہ کاری ہے لیکن آں میں کینڈائریاست ہائے متحدہ بر طانیہ کے علاوہ بحر الکاہل کے گرد کے آزاد ملک کے نمائندے شامل ہوں گے : وائسرائے کا خیال ہے کہ اس کا نفرنس میں ہندوستانی نمائندوں کی شمولیت ہندوستان کے درجے اور وقار میں اضاے کا باعث ہوگی.جنگ کے دوران میں یہاں سے کوئی بڑادند تو بیا جانا مشکل ہے.سر کے حالات بھی برآرا ہیں لیکن والے ایسے سمجھتے ہیں اگر تم ایک چھوٹے سے دند کی قیادت کرنے پر رضامند ہو جاؤ تو جوسائل وہاں زیر بحث آنیوالے ہیں ن کے متعلق غیر سرکاری طور پراظہا ر کرسکے ہو تمہیں اسمیں پوری آزادی ہوگی.محترم میگم شاہنواز صاحب کو بھی دعوت دی جائے گی.اگر انہوں نے دعوت منظور کرلی توده و قد کی دوسری رکن ہونگی.اگر کسی اور کو دن میں شامل کر ناممکن ہوا تومیں اطلاع کر دی تھا.جو معلومات کا نفرنس کے متعلق وصول ہوں گی وہ میں نہیں بھیجتا رہوں گا.اس سے نے چیف جسٹس سے دریافت کیا تھا کہ عدالت میں تمہیں کسقدر مصروفیت ہے.انہوں نے کہا کہ موجودہ اجلاس کے بعد ایک خاصاعرصہ فرصت کا ہو گا انہیں تمہارے کا نفرنس میں شریک ہونے کم تعلق کوئی تامل نہیں.میں نے کہا میں چند دنوں کے اندر بتا دوں گا کہ میں جا سکتا ہوں یا نہیں.چیف جسٹس سے بات ہوئی انہوں نے مشورہ دیا کہ تمہیں ضرور جانا چاہئیے.میں نے چند احباب کے ساتھ مشورہ کرنے اور کچھ غور کرنے کے بعد سر اولف سے کہدی کہیں کانفرنس میں
شمولیت پر عاشہ ہوں.انہوں نے فرمایا جلد تیاری کر لو کیونکہ سفر ہے اور بر مولے پر تاخیرکا استمال ہے محترم یکم شاہندوانہ صاحبہ نے بھی کا نفرنس میں شریک ہو نا منظور فرما لیا.کنیڈا کا سفر وقت آنے پر ہم کراچی سے ہوائی کشتی پر سوار ہوئے اور قاہرہ پہنچ کر ہمارے سفر کا وہ مرحلہ ختم ہوا.قاہرہ پہنے پر کسی کے سیکر بڑی مجھے لے اور کہا مٹر کسی چاہتے ہیں آپ ان کے پاس ٹھہریں وہ آپ سیکریٹری ے کچھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں میں نےکہا مجھے ابھی بتایا گیاہے کہ ہماری رہائش کا نظام شیر یوں ہی ہے.مسرکیسی کی خدمت میں عرض کریں کہ یں ٹھہروں گا تو ہوٹل میں لیکن جب وہ ارشاد فرمائیں میں انکی خدمت میں حاضر ہو جاؤں گا.انہوں نے کہا اس صورت میں انکی خواہش ہے ہ آپ کل دو پر کا کانا ان کے ساتھ کھائیں.میں نے بخوشی نکی دعوت قبول کرلی.مسٹر کیسی ان ایام میں مشرق وسطی میں برطانوی وزیہ یہ یا ست تھے.اب لارڈ کیسی ہیں اور آسٹریلیا کے اور گورنه تنزل رہ چکے ہیں.دوسے دن دوپہر کے کھانے پر مٹر کیسی نے ذکر چھیڑا کہ ہندوستان میں رائے عامہ کو جنگی سرگرمیوں میں دلچسپی لینے اور ان کے حق میں متاثر کرنے کیلئے کوئی اقدام کیوں نہیں کیا جاتا.اس سلسلے میں میں نے ان سے اس یاداشت کا ذکر کیا جو میں نے جنگ کنگ سے وائسرائے کی خدمت میں ارسال کی تھی.مسٹر کیسی نے کہا تمہاری کتونی بہت مناسب معلوم ہوتی ہے ایسا اقدام ضرور ہونا چاہیے اور میں سمجھتا ہوں یہ بہت مفید ثابت ہو گا.کہنے لگے امریکہ سے لوٹتے ہوئے تم کیوں انگلستانمیں براہ راست زیرہ ہند اور وزیر اعظم سے بات ہی نہیں کرتے میں نے کہا میرا کوئی اپ منصب نہیں کہ میں جنگ کے دوران میں از خود ان سے ملوں اور مطالبہ کرو کہ میری تجویز پر توجہ دی جائے.پوچھا اگر تمہیں مشورے کیلئے بلایا جائے تو تمہیں جانے میں کوئی عذر ہوگا ؟ میں نے کہا میں خوشی جاؤں گا.کہا بہت خوب ! علی مسٹر ایمری کو اس بارے میں لکھوں گا.ہم قاہرہ میں تین دن ٹھہرے.قاہرہ سے روانہ ہو کر ادی حلقہ ٹھہرتے ہوئے فریلوم پہنچے اور ایک رات وہای قیام کیا.دور سے دن خرطوم سے روانہ ہوکر ٹوبا ٹھہرتے ہوئے سٹیلے ویل میں رات بسبہ کی تیرے دن لیوپولڈ ویل ٹھہرے چوتھے دن لیگوس پہنچے.سر کا دور امر علم میاں ختم ہوا.تین دن لیگوس میں گور نہ منزل کے ہاں مہمان رہے.گورنہ تنزل سره منری بورویان بہت تواضع سے پیش آئے اور ہمیں ان کے ہاں ہر طرح سے آرام ملا.قاہرہ سے لیگوس تک کا سفر بھی ہوائی کشتی سے ہوا.چوتھے رونہ لیگوس سے ہوائی بہانہ میں روانہ ہوکر مکہ پہنچے اور یہاں گورنہ ین بہن کے ہاں قیام ہوا.ان کی رہائش کو سپین بورگ کمیل میں تھی جو نانا کے آنا د ہونے کے بعد اب صدر ریاست کی رہائش گاہ ہے.یہ حل پرانے وقتوں میں یہاں کے ڈینیش حکمرانوں نے تعمیر کرایا تھا.اس کی جائے وقوع بہت نرالی ہے.بحر اوقیانوس سے اٹھتی ہوئی ایک پہاڑی کی چوٹی پر یہ محل بنا ہوا ہے.خشکی کی طرف اس قطعہ زمین کی سطح تہوار ہے سمندر کی جانب کئی سوفٹ محل کی عمارت تغیر کی ہے.نچلی منزل میں نہ خانے میں مین کے اندر پرانے زینے
ما کم کم سکسگا میں اس وقت تک محبوس رکھا جاتا تھا جب تک انہیں امریکہ بھیجنے کیلئے مناسب جہاز میر آئے.اوپر کی منزلی ان دنوں گورنہ اور اس کے عملے کی رہائش اور دفاتر کے کام آتی تھیں.سرامین اور لیڈی یہ ترمت تواضع سے پیش آتے رہے محل کے کھانے کے کمرے کے باہر ین سمندرہ کے اومیہ ایک تھرو کہ تھا.صبح کے ناشتے کیلئے میریاں لگائی جاتی تھی.اگر اتفاق سے کسی مہانی کے ہاتھ سے چھری کانٹا یا چھو وغیرہ گر جاتا تو کئی سوفٹ نیچے بحر اوقیانوس کی لہروںمیں جاکر ٹھہرتا.سامنے کی چٹانوں پر سونے کی شعائیں آتی روشن اور آنکھوں کو چندھیا دینے والی موتیں کہ تھرو کے میں بیٹھنے والوں کو آنکھوں کی حفاظت کی خاطر یا پیچھے استعمال کرنا ٹتے پہلی شام کھانے کے بعد ریڈیو پا علان وا کرتا اطلاع ثانی ہرقسم کے ہوائی جہازوں کی پروا نہ افریقہ کے شمالی اور مغربی علاقوں کے اوپر بند کی جاتی ہے.ہمیں اس اطلاع سے بہت پریشانی ہوئی کہ خدا جانے جنگ کے حالات نے کیا کیا کھایا ہے اور معلوم نہیں مارا یہ سفر جاری رہ سکے گا یا نہیں اور اگر جاری ہیں کہ کینیا توہم یہاں سے وطن لوٹ سکیں گے یا یا ہیں لیکن یہ پریشانی جلد رفع ہو گئی.دوسری صبح اعلان ہوا کہ امریکی افواج شمالی افریقہ میں استہ ناشر وع ہوگئی ہیں.تیسری شب ہم کھانے سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ مار سے ٹیلیفون ہوا کہ اگر گوری صاحب اپنے مہانوں کو آدھے گھنڈ کے اندر مانہ پر پہچانے کا انتظام کر دیں توانہیں راتوں رات سمندر پار پنچانے کا بندر بہت ہو جائے گا.ہوائی بہانہ فریٹر یعنی سامان لے جانیوالا جہانہ ہے لکین ہم اسے م فرد کیلئے استعمال کر رہے ہیں ہم فوراً تیار ہوگئے.چلتے چلتے لیڈی برین نے ان را نوازش مین صوفہ کش کار کی کھڑکی میں سے اندر پھینک دیے اور کہا یہ لیتے جاؤ شاید کام آجائیں.مانا کا مطار ان دنوں امریکی فوجی تصرف میں تھا.مار پ سن کر ملا ہوا کہ جہان میں رکن ہوا بازوں کی ایک پار ٹی امریکہ اپ معلوم ارہی ہے.یہ جانانہ امریکی فوجی ہوائی جہانہ امری سے ایران سے جاتے تھے اور وہاں انہیں روسی فضائیہ کے افسران کے سپرد کر دیتے تھے.پھر اور مالی میانا نے کیلئے واپس امریکہ جاتے تھے.علی الصبح بہانہ ہوتی مریکہ کے ملک ان ہی میں تمام مال اتنا جہاں امریکی فوجی کیمپ تیارکیا جارہا تھا.ناشتے پر برے بافراط میسر تھی ناشتے سے فارغ محور کہ ہم ایک امریکی فوجی ہوائی جہانہ پر سوار ہوئے تو رات والے بہانہ کے مقابلہ میں ہر قسم کے آرام اور آسائش سے آراستہ تھا نشتی فراخ اور آرام دہ تھیں مختلف قسم کے پھل سینڈ دینے اور غیر منشی مشروبات با افراط میں تھے.سٹوارٹ کوئی نہیں تھا، ہر کوئی آزاد تھا.جب چاہے اور جو کچھ چاہے کھائے پیٹے.شام کے قریب ہم جارج ٹاؤن برٹش گائنا کے قریب ایک امریکی فوجی کیمپ میں اترے.دوسری صبح ناشتے کے بعد روانہ ہو کر سر پر کو میامی رفلوریڈا ، پہنچے ہمارے ساتھ جو امریکن پائلٹ ** ”
F ۴۸ تم سفر کر رہے تھے ان کے ساتھ ہماری خاصی بے تکلفی ہوگئی تھی.ٹال سے روانہ ہوتے ہی آپس میں بات چیت شروع ہوگئی.ان میں سے ایک تو ہمارے قریب بیٹھے ہوئے تھے چند منٹوں کی گفتگو کے بعد فورا ایرانی کے میں کہہ اٹھے گی WHYE YOU ARE LIKE " " آپ تو ہم جیسے ہی ہیں ، میں اس پر نہا اور کیا آپ تو رات اندھیرے میں بہت گھرائے ہونگے کہ علوم نہیں کسی قسم کے وحشی جانور ہمارے ساتھ ہوائی جہاند میں بند کر دیئے گئے ہیں خدا خیر کرے.ان صاحب کا نام مرے دایٹ تھا.میں سال بعد جب فروری را دار میں میں ڈیور یونیورسٹی کی کسی تقریب میں شمولیت کیلئے وہاں گیا اور انہوں نے میرا نام اخبار مں دیکھا تو شینیو پر مجھ سے بات کی اپنا نام کرنل وائٹ بنایا.مجھے فورا یہ بات ذہن میں نہ آئی کہ امریکی ہوائی فوج میں افسروں کے گریڈ میری فوجی کہ بیڈ کے مطابق ہوتے ہیں.انہوں نے کہا سرظفراللہ تمہیں تو یاد نہیں ہو گا لیکن مجھے یاد ہے کہ بیل کے قریب ہوئے ہم نے ایک ہوائی سفر اکٹھے طے کیا تھا.میں نے پو چھا تو کیا آپ مرے وایٹ نہیں ؟ کہا دی ہوں.اسی دن سہ پہر کو مجھے ملنے آئےاور اپنی بیوی کو ساتھ لائے.میں نے اپنے اکٹھے سفر کی بہت کی باتیں انہیں یاد دلائیں.PACIFIC RELations, Association میامی پہنچنے پر ماں پر تعین برطانوی نائب قونصل میں ماہ پہلے اور بتایا کہ انہوں نے ہمارے قیام کیلئے ہوٹل یں کرے لے رکھے ہیں اور مارے نیویارک جنے کیلئے ہوائی بہانے بھی اور ریل میں بھی گرے رکھی ہے.ہم نے طے کیا ہ ات میامی شهر کردوسری صبح دلیل سے نیویارک روانہ ہو جایں گے.میامی سے نیو یارک تک تقریب ۲۴ گھنٹے کا سفرتا بولفضل اللہ آرام سے طے ہوا.نیو یارک پہنچنے پر کی طرف سے ان کے سیکر یٹری میں سٹیشن پھیل گئے اور نہیں والدارت ہوٹل لے گئے جہاں ہمارے ٹھہرنے کا انتظام کیا گیا تھا دلی سے نیو یارک پہنچنے میں ہمارے تین ہفتے صرف ہوئے.نیو یارک میں ہم ہفتہ بھر ٹھہرے.ان دنوں ملک بشیر احمد صاحب نیو یارک میں منتقل رہائش پذیر تھے.ان کی وجہ سے میں بہتآرام لا مجزا اللہ کانفرنس کا وقت آنے پر ہم نیویارک سے بذریعہ ہیں راتوں رات سفر کر کے علی الصبح مونٹریال پہنچے اور وہ گاڑی بدل کر یوں نہ میلان گئے.سردیوں کا موسم تھا یہ مقام لارنشین کے پہاڑی علاقے میں ایک تفریحی مقام ہے.ان دنوں وہاں ہر طرف برف تھی سٹیشن سے لاح تک ہم SLEDGES میں گئے.کانفرنس کے اعراض کے مدنظر یہ مقام نہایت موزوں تھا.مرکزی عمارت میں کھانے کا انتظام تھا.اور کانفرنس اور کمیٹیوں کے اجلاس کیلئے علیحدہ کرے تھے.ارد گرد کے جنگلوں میں رہائش کے کمرے تھے جو نہایت آرام دہ تھے میں اٹھے پر تینگے کے برآمدے کے آگے برف کی چکیں نظر آتی تھیں جو سورج نکلنے پر آہستہ آہستہ پچھلنا شروع ہوتی تھیں اور یہ پرنک پگھل جاتی تھیں.صبح پھر دی کیفیت ہوتی تھی.ارد گرد برف سے لدے ہوئے پہاڑ تھے.دوپہر کو اگر موسم صاف ہوتا تو ہے SKIN کے شائق انا شوق پورا کر سکے تھے.کہیں آنے جانے کا و موقوم نہیں
تھا.کانفرنس اور اس کے متعلق امور ہی تمام توجہ کا مرکز تھے.امریکی وند کے جیب تھے تو کولمبیا یونیورسٹی میں انٹرنیشنل لاء کے پروفیسر تھے.بدیں کچھ عرصہ کیلئے ریاستہائے متحدہ کے اسٹنٹ سیکر میری آن سٹیٹ لت بھی رہے.مجھے کچھ عرصہ ان کے ساتھ کو لمبیا یو نیورسٹی میں کام کرنے کا اتفاق بھی ہوا ہے.اب وہ بین الاقوامی عدات کے بھی ہیں.برطانوی و قدیمی لارڈ پیلی بھی شریک تھے.ہندوستانی وندی میں ہمارے ساتھ سراما سوامی بدلیا بھی شال ہو گئے تھے.کانفرنس کا عرصہ بہت پیچی میں گذرا.ذاتی طور پرمیری معلومات میں بہت مفید اضافہ ہوالیکن بین الاقوامی نقطہ نگاہ سے کانفرنس کے مذاکرات نفتی خیز ثابت نہ ہوئے.انفرنس کے اتمام پر یکم شاہنواز کے لئے کیوں کا پرگرام تو کیا یا تعلیم کی تکمیل کیلئے انہیں کنیڈا استہائے متحدہ کے مختلف مقامات کو جاتا تھا.لارڈ میلی فیکس (سابق تار ڈارون وائسرائے ہند ) واشنگٹن برطانوی سفر تھے.مجھے ان کا پیغام ملاکہ وائسرائے ہند چاہتے ہیں کہ تم انگلستان ہوتے ہوئے ہندوستان واپس جاؤ انہوں نے فرمایا اگرتم دو چار دن کیلئے واشنگٹن آجاؤ توہم نہیں سفر کے انتظام کی تفاصیل بتادیں گے.ساتھ ہی مجھے ادل آن استیون گوری منزل کنیڈا کی طرف سے دعوت آئی کہ میں آٹو میں ان کے ہاں ٹھہروں.ہمارے ٹریڈ کمسٹر جو ٹورنٹو میں مقیم تھے مصر ھے کہ میں ٹورنٹو بھی ضرور جاؤں.چنانچہ مون تو مسبلان سے میں اٹورا گیا اور گورنر صاحب کے ہاں مہمان ہوا اصول آن انتقلون شاه مبارزی ششم کے ماموں تھے اور انکی بیگم پرایس ایس کو نٹس ایتھلون ایک صاحب ذوق نیز هم خانون تھیں.ان کے ہاں میرا قیام بڑا خوشگوار رہا.ایک شام وہ ہمیں برفانی تفریحی کرتب دکھانے کیلئے اپنے ساتھ لے گئے.میرے مئے یہ ایک بالک نیا تجربہ تھا اور میں اس سے بہت محظوظ ہوا.سرمائی میں وقف ان دنوں کنیڈا کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے.انہوں نے مجھے سپریم کورٹ کے اجلاس میں شریک ہونے کی دعوت دی جسے میں نے بڑی خوشی سے قبول کیا.میں لیگوس میں نائیجیریا کی سپریم کورٹ کے اجلاس میں اور عقرہ میں مغربی افریقہ کی عدالت اپیل کے اجلاس میں شریک ہو چکا تھا اور بعد میں اونٹاریو کی سپریم کورٹ کے اجلاس میں بھی شریک ہوا.ریاستہائے متحدہ کے چیف جسٹس کی طرف سے دعوت آئی میھتی کہ جب تم واشنگٹن ہو تو تمہارے اجلاس میں شریک ہوتا لیکن مرے واشنگٹن پہنچے تک سپریم کورٹ کا اجلاس کریسمس کی تعطیل کی وجہ سے ملتوی ہوچکا تھا.کینیڈا کی سپریم کورٹ کے اجلاس میں میں امریہ بحث ہو رہی تھی وہ میرے لئے بہت دلچسپی کا موجب ا کیونکہ بالکل یا مسلہ ہماری فیڈرل کورٹ میں بھی زیر بیت آنیوالا تھا.آٹوڈا سے ٹورنٹو گئے.جہاں بیمار پارلیمنٹری ایسوسی ایشن کی طرف سے مجھے شام کے کھانے کی دعوت بگی کینیڈین انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشل اینہ کی طرف سے دو ر کے کھانے کی دعوت دیگی.دونوں تقریروں میں تقریر بھی لازم تھی.ٹورنٹو میں نیو یارک کے بعض مسلم احباب کی طر سے نارملا کہ خوراک پہنچنے پر معیدالضحی کی نمانی بڑھانا.نیو یارک پہنچ کر ان کے ارشاد کی تکمیل کی.جو مقام انہوں نے نماز کیئے مقرر کیا تھاوہ والد ارن ہوٹل کے قریب
۵۰مم ہی تھا.ملک بشیر احمد صاحب تشریف لائے اور فرمایا اگر چاہو تو پیدل ہی چلے جائیں.میں نے عرض کی مجھے تو پیدل چلنے کا شوق بھی ہے اور ڈاکٹر کی ہدایت بھی ہے اور یہاں پیدل چلنے کیلئے موقعہ بھی بہت مشکل ملتا ہے.مناسب ہے پیدل ہی چلیں.امریکہ میں چونکہ مکانو کے اندر درجہ حمایت اعتدال پر رکھا جاتا ہے.اسٹے اندر میٹھے ہوئے باہر کی سردی گرمی کا پورا اندازہ نہیں ہوتا.ہوٹل سے نکلے تو شت کی سردی تھی.چونکہ فاصلہ زیادہ نہ تھا خاص تکلیف کا احساس نہ ہوا.پریذیڈنٹ روزویلٹ کے ساتھ ملاقات ان دنوں سرگر جاش که با جپائی واشنگٹن میں حکومت ہند کے ایجنٹ جنرل تھے.انہوں نے پریذیڈنٹ روزویلٹ، چیف جسٹس سٹون اور سٹریٹس فرینک فرڑ کے ساتھ میری ملاقات کا انتظام کر دیا.پریذیڈنٹ روز ولٹ نے دوران گنگ میں فریا میں چرچ کو مجبور تو نہیں کر سکا لیکن میں ان پر زور دینے کاکوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا کہ ہندوستان کو جلد آزاد ہونا چاہئے.جسٹس فرنیک فریمہ سرادرس کواٹر نے مجھے جس فرینکفرٹ کے نام تعارفی خط دیا تھا.وہ بڑے تپاک سے ملے.میں نے ان سے ذکر کیا مجھے ذیا بطیس کی شکایت ہے.اور میرے ڈاکٹر صاحب نے تاکید کی ہے کہ وسین جا کی ڈاکٹر موسلن سے ضرور اپنا معائنہ کر داڑی.میں نے سنا ہے وہ نہایت مصروف اور بڑے بلند پایہ ماہر ڈاکٹر ہیں.معلوم نہیں میرے لئے وقت نکال سکیں گے یا نہیں بجٹس فرینکفریہ نے کہامیں انہیں خوب جانتا ہوں پہ ضرور وقت نکال لیں گے.تم مجھے اپنی فرصت کے دن تبادو میں انتظام کر دوں گا.چنانچہ انہوں نے از راہ تواری ٹیلیفون پر بات کرکے انتظام کر دیا.اور مجھ سے کہا اگر جو لن کہتے ہیں چونکہ تم پہلی بارمعائنہ کے لئے آ رہے ہو اسلئے تین دن بھرنے کیلئے وقت نکال لیا.اس سیل کی ملاقات میں جس فرینکفرٹ کے ساتھ میرا دوستانہ ہو گیا.بعد می جب بھی مجھے واشنگٹن جانے کا اتفاق ہوتا ان سے ضرور ملنے کی کوشش کرنا کبھی عدالت میں ملاقات ہوتی کبھی ان کے مکان پہ.وہ نہایت قابل اور ذہین تھے.ہارورڈ اسکول کی پر نیدری سے سیدھے سپریم کورٹ کے جج ہوئے تھے.جب نخود انہوں نے قانون کی ڈگری حاصل کی تھی تو سٹریٹس وینڈل ہومز نے انہیں اپنا کلارک مقرر کیا تھا.یہ انتخاب ایک قانون کے گریجویٹ کیلئے بہت بڑا اعزانہ شمار کیا جاتاہے.جی ہومر لمبی مدت تک سپریم کورٹ کے بج رہے اور عدالت کی روایت پرگرا اثر چھوڑ کر نوے سال سے زائد میں بھی کے عہدے کے دوران میں فوت ہوئے جب فرینکفران کے بڑے دار تھے اور انہیں انگر و تصور کرتے تھے.ہر بات پر اکی سند پیش کرتے اور بات کرتے کرتے لیک کر کوئی کتاب نکی اٹھا لیتے جس سے موزوں عبارت پڑھ کر سناتے.ایک دفعہ ان سے میری ملاقات ان کے مکان پر ہوئی.میں ایک کریمی پ بیٹھنے کوتھا کہ انہوں نے میرے دونوں بازو پکڑ لئے نہیں نہیں میںچاہتا ہوں تم اس کو سی پر بیٹھو کہتے ہوئے مجھے ایک اور کرسی پر دھکیل دیا.میرے دل میں خیال گذر اس کرسی کے ساتھ جسٹس ہیز کا ضرور کچھ تعلق ہوگا.جب ہی سے
اللهم رخصت طلب کی اور کھڑا ہوا تو کہا اب اس کرسی کی پشت پر جو تیری لگی ہوئی ہے اسکی عبارت پڑھو تو تم جان لو گے کہ یں کیوں چاہتاتھا کہ تم اس کرسی پر بیٹھو.اس پیری پہ لکھاتھا، یہ وہ کرسی ہے جس پر جسٹس ہومز اپنے مکان واقعہ بیورلے ہلز کے مطالعہ کے کمرے میں بیٹھا کرتے تھے.ان کی ہدات کے مطابق یہ کیسی جیسی فرینکفرٹ کو پیش کی گئی ہے.پاکستان کے قیام کے بعد جب ان سے میری ملاقات ہوئی تو کہ ظفراللہ میں جوڈیشیل کام نہیں چھوڑنا چاہئے تھا اب بھی بقدر لی جو کے علاتی فرائض کی طرف لوٹ جادہ ہر بار طاقات ہونے پر یہی مشورہ دہراتے.جب شام میں میرا تقر بین لاقومی عدالت میں ہو گیا توعن الملاقات فرمایا اب تم راہ راست پر واپس آگئے ہو ! انٹر امریکن بار ایسوسی ایشن سے خطاب میرے واشنگٹن کے قیام کے دوران میں وہاں انٹر امریکن بار ایسی اشین کا اجلاس ہورہا تھا.صاحب صدر نے مجھے اعلاس کو خطاب کرنے کی دعوت دی.وقت ہندو منٹ اور موضوع ایک نہیں دو.اول INDIA'S WAR EFFORT اور دوسرا INDIA'S LEGAL AND JUDICIAL SYSTEM دوسرا موضوع نخود ایک مرکب موضوع تھا جس کے دو پہلو تھے.میں نے پانچ منٹ پہلے موضوع پر خرچ کئے اور پانچ پانچ منٹ دوس سے موضوع کے ایک ایک پہلو پہ.جب میں نے اپنا خطاب ختم کیا تو صاحب صدر نے جہاں اور بہت تعریفی کلمات فرمائے وہاں یہ بھی فرمایا WE HAVE JUST WITNESSED A MIRACLE OF CONDENSATION را ابھی ابھی ہم نے دریا کو کوزے میں بند کرنے کا معجزہ دیکھا ہے ) سر گر جاشنکر با جپائی کے خدشات سر جاشنگه با سپائی نے میرے اعزاز میں ڈنر دیا جس میں بہت سی معزز شخصیتوں کے ساتھ تعارف اور ملاقات کا شرف حاصل ہوا.ایک دن سرگرہ جاشنکر یا جپائی نے مجھ سے کہا جنگ کے دباؤ کے ماتحت حالات جلد مجلد بدل رہے ہیں اور صاف نظر آتا ہے کہ جلدی ہندوستان میں کانگریسی حکومت قائم ہو جائے گی.میں تم سے مشورہ چاہتا ہوں کہ ان حالات میں کیا مجھے استعفے نہیں دیدینا چاہیے ؟ میں انڈین سول سرویس کارکن ہوں اور اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں مجھےکئی بار کانگریس کے خلاف قدم اٹھانا پڑا ہے یا کانگریس کے خلاف خلوت و مشورہ دینا پڑا ہے.یہ سب باتیں ریکارڈ پر موجود ہیں اگر کانگریس کے ارباب مل و تبادل لینے رات آئے مجھے بہت مشکل کا سامنا ہو گا.اس وقت اگر میں استعفیٰ دیدی تو خاموشی سے لیکن عزت اور احترام کے ساتھ علیحدہ ہوسکتا ہوں.یں نے کہا یہ ایک ایسا ذاتی معاملہ ہے جس کا فیصلہ خود آپ کو ہی کرنا چاہیے.چونکہ آپ نے مجھ سے مشورہ طلب یا ہے اسلئے میں اپنا مشورہ آپ کی خدمت میں عرض کر دیتا ہوں.آپ کی اعلیٰ ذہانت اور قابلیت مسلمہ ہے اور کانگریس کے لیڈر آپ کو اچھی طرح جانتے ہیں.آپ کا اپنے فرائض منصبی کو دیانتداری اور خوش اسلوبیا کے ساتھ ادا کرنا ان کی نظر میں ایک قابل قدر خوبی ہونا چاہئے.جب وہ اقتدار حاصل کر لیں گے تو انہیں آپ جیسے آزمورہ کا رافسروں کی بہت ضرورت ہوگی اور مجھے یقین ہے کہ وہ انکی قدر کریں گے.آپ کوکسی قسم کا اند
نہیں ہونا چاہیے.آپ جس طرح موجودہ حکومت کی خدمت اخلاص کے ساتھ کرتے ہیں انکی بھی کریں گے.اپنے 6 ایک مستقل اف سے وہ میں توقع رکھ سکتے ہیں.مجھے تو کوئی وجہ پریشانی کی نظر نہیں آتی.چنانچہ اس ہی ہوا آزادی کے بعد سرگز باشت کر ہندوستانی وزارت خارجہ کے سیکریٹری جنرل ہوئے اور پھر بیٹی کے گور نہ ہوئے لارڈ مہیلی فیکس سے ملاقات داشنگٹن میں اردو ہیلی فیکس کی خدمت میں حاضر ہوا انہوں نے بتایا تمہارے سفر انگلستان کا انتظام BOMBER COMMAND کی معرفت ہو گا اور اسکی تفاصیل سے آنها می بخشی.دوران گفتگو فرمایا لارڈ لنلتھگو چند ماہ میں اپنے منصب کی توسیع شدہ میعاد بھی پوری کریں می گے.تمہارے ذہن میں ان کے جانشین کے متعلق کوئی تجویز ہے ؟ ظفر اللہ خاں.چونکہ ان امور میں میرے جیسے شخص کا کوئی دخل نہیں ہوتا اسلئے میراز مین اس بارے میں خالی ہے.لارڈ ہیلی فیکس.سرسیموئیل ہورہ کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے ؟ ظفر اللہ خالی.میں انہیں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں.وہ ہندوستان کے آئینی مسائل کے نشیب و فرزانہ کو خوب سمجھتے ہیں اور سہندوستانی قیادت کی اکثر شخصیتوں کے ساتھ ان کے ذاتی مراسم ہیں.میری رائے میں ان کا انتخاب نہایت موز دی ہو گا.لارڈ ہیلی فیکس.انگلستان میں تمہیں مسٹریہ میل سے ملنے کا ضرور اتفاق ہو گا.مناسب ہو گا اگر تم اپنی رائے کا اظہار ان پر کرد.ظفر اللہ خاں.وہ اسے دخل در معقولات تو نہ سمجھیں گے ؟ لارڈ مہلی فیکسی.نہیں نہیں.وہ تمہیں جانتے ہیں.تم مشک آزادی سے اپنی رائے بیان کر دیا.ظفر اللہ خاں.موقع ملنے پر میں تعمیل ارشاد کر دوں گا.ڈاکٹر سوسن واشنگٹن سے فارغ ہو کر میں پوسٹن گیا وہاں نیو انگلینڈ ڈیکٹر ہسپتال میں تین دن ٹھہرا ڈاکٹر جو سلن اور ان کے تمام رفقاء بڑی شفقت اور توجہ سے پیش آتے رہے.ڈاکٹر تو سالن مسلم طور پر دنیا بھر میں ذیا بطیس کے چوٹی کے ماہر تھے.وہ بین الاقوامی فریا بطیس کا نفر نس کے بر سوں صدر رہے.ان کے ساتھ کام کرنیوالے بھی اس فن میں کچھ کم درجہ رکھنے والے نہ تھے.ڈاکٹر الیگز نا کہ ماریل ، ڈاکٹر نادر ڈالیف روڈ اور ڈاکٹرپر اسکا وائیٹ بین الاقوامی شہرت رکھتے تھے.ڈاکٹروں نے طبی معائنے میں کوئی دقیقہ اٹھانہ رکھا اور یہی ان کا دستور بھی تھا میری کوئی خصوصیت نہیں تھی.البتہ میرا نام ڈاکٹر بروسلن کے زیر علاج مریضوں کی فہرست میں رکھدیا گیا اور ان کے اور میرے درمیان ایک رابطہ قائم ہوگیا.میں اوسطا ہر دور سے سال انکی خدمت میں
حاضر مومتا رہا اور ہر بار ان کی شفقت اور توجہ کا مورد ہوا.وہ ہرانان کو اور خصوصاً ہر مرض کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے.اس میں بڑے پچھوٹے ، کالے گورے، مرد، عورت ، امیر، غریب کا کوئی امتیاز نہیں تھا.نہایت متواضع اور منکسر المزاج تھے.۹۳ سال کی عمر پائی اور آخر تک اپنے فرائض کو تو جہد اور سندھی سے سرانجام دیتے رہے.گرمیوں کے موسم میں ہفتہ اور اتوار بوسٹن سے باہر چلے جاتے تھے.اور یہ دوران میسا چوسٹ کے شہر اکسفورڈ میں ذیا بیطس کے مریض بچوں کے کیمپ میں تھے مریضوں کی صحبت میں گزارتے تھے.پہلی بار کے معائنے کے بعد میں صرف ایک بار اسپتال میں ٹھہرا.بعد کے معاش نے ان کے مکان پر ہوتے رہے وہ مکان بھی چھوٹے پیمانے پر ہسپتال ہی تھا.وہاں بھی ہرفتم کا سامان موجود تھا.نون اور پیشاب کا معام ایکسرے کی تصاویر ELECTO CARDIOGRAM سب کچھ وہیں مکمل ہو جاتے تھے.عموماً ناشتے کے قبل سے سہ پہر تک تمام معائنہ مکمل ہو جاتا تھا.البتہ آنکھوں کے معائنے کے لئے جب ضرورت پڑتی خود ہی ڈاکر متھم کیساتھ وقت مقر کر کے مجھے انکی خدمت میں بھیج دیتے.ان کا مکان بھی قریب ہی تھا.عمر کے آخری سالوں میں نیو انگلینڈ ڈ کینسر ہسپتال کے پہلومیں ان کیلئے تو سن انسٹی ٹیوٹ قائم کر دی گئی تھی اور سڑک کا نام بھی بوسن روڈ رکھ دیا گیا تھا.جب انسٹی ٹیوٹ قائم ہوگئی تو انہوں نے اپنے مکان پر مریضوں کو دیکھا بند کر دیا.ہسپتال میں ٹھرنے میں یہ بھی فائدہ تھاکہ شام یا سر پر کو مرض ذیا بطیس کی کنہ متعلقہ پر ہیز اور علاج کے بارے میں مریضوں کو لیکچروں کے ذریعہ بابر کیا جاتا تھا.کیونکہ اس مرض کا اولین طبیب مریض کو خود بنا پڑتا ہے.ایک دوبار ہسپتال میں ٹھہرنے کے بعد پھر اس پر درگرام کی ضرورت نہیں رمینی علاوہ انہیں ڈاکٹر جو اس کا ذیا بطیس کے مریضوں کے لئے لکھا ہوا ہدایت نامہ بھی اس سلسلے میںمفید اور کارآمد گا ہے.میں قریب میں سال ڈاکٹر یوسلن کی ملسل شفقت کا مورد ر ہا.بڑی خوبیوں والے اور بہت محسن دوست تھے.ان کی وفات میرے لئے بڑے صدمہ کا موجب ہوئی اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کے ساتھ مغفرت اور رحمت کا سلوک روا رکھے.آمین.پہلی بار جب معاشنے کے تمام مراحل مکمل ہو چکے تو بڑی تفصیل سے مجھے ہر بات سمجھائی فرمایا سب سے پہلے تومیں تمہیں یہ خوشخبری دنیا چاہتا ہوں کہ تو ڈاکٹر صاحب لاہور میں تمہارا علاج کرتے ہیں وہ اپنے فن میں طاق ہیں اور ان کا علاج بالکل مجھے طریق یہ جاری ہے.دوس ہے تمہاری صحت کی حالت بہت تھی ہے.ذیا بیطیس بینک ایک مرض ہے اور اس کے علاج اور متعلقہ یہ سبز وغیرہ کی طرف توجہ لازم ہے لیکن ہے.ذیا بطیس اسی صورت میں خطرے کا موجب ہوتا ہے جب تک اسکا علم نہ ہوا اور اسے ضبط میں نہ لایا جائے.اگر پیشروع میں ہی علم ہو جائے اور اسے ضبط میں لے آیا جائے تو ذیا بطیس کی وجہ سے خطرے کا اندیشہ نہیں رہتا ہرسال یا ہر دور سے سال مکمل معائنہ لازم ہے تاکہ ڈاکڑ مارا ایرانی رادیو کچھ
i ۴۵۴ " تو اسکی طرف تو سجد کی جائے.اور ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اگر کوئی اور نقص پیدا ہو رہا ہو تو باقاعدہ معائنے کے نتیجے مں اس کا بھی یہ وقت پتہ چل جاتا ہے اور اسکی اصلاح کی جا سکتی ہے.اگر ذیا بیطیس کا مریض خود یری کا مرتکب نہ ہو اور ہدایات پر کاربند ہے تو امید کی جاسکتی ہے کہ ذیا بطیس کی وجہ سے نہ صرف اسکی عمر میں کمی نہ جو مکہ پر پہر اور احتیاط کے نیچے میں اسکی عمرمی اضافہ ہو.بعد کے معاشقوں پر سمیت قتل کا اظہار کرتے ہے اور کیا کرتے تھے تم مثل مریض ہو.جو اہمیت دی جاتی ہے پر عمل کر تے ہو.میں نے عرض کیا اتنی دورے میں آپ کی خدمت میں حاضر یہ کہ ہدایات حاصل کردوں اور پھران پر عمل نہ کروں اس سے بڑھ کر جہالت کیا ہوگی مسکراتے ہوئے فرمایا لیکن سب اب نہیں کرتے ؟! مرغی کا سر خیمہ تواللہ تبارک تعالی کی ذات ہی ہے.لیکن طبی اور علم طب اور اصول علاج اور ادویا اور غذاؤں کے اثرات یہ بھی تو اللہ تعالیٰ ہی کے پیدا کئے ہوئے ہیں.اور اسکی عطا کردہ نعمیں میں مرض کا بہ وقت علم ہو جانا، حاذق طبیب کا میسر آنا، صحیح تشخیص ہونا ، مونہ دل علاج تجویز ہونا ، علاج اور پر نہیں کی توفیق ملنا ادویات کا میسر آنا ، ان کا موثر ثابت ہونا سب اسکے فضل اور رحم ہی سے ہو سکتا ہے ب اسباب ہیں.مسبب الاسباب اللہ تعالیٰ ہے.شانی بھی وہی ہے.وہ چاہے اور اس کا فضل شامل حال ہو تو بعض ملکہ سب اسباب کے بغیر بھی شفا ہو جائے کئی بار توالی بھی ہوتا ہے کہ جسم کے اندر کوئی مرض یا سقم پیدا ہوا.مریض کو اس کا علم بھی نہ ہوا اور اللہ تعالی نے محض اپنے فضل اور رحمت سے شفا دیدی.لیکن رعایت اسباب بھی اس کا فرمان ہے اسلئے تا حد امکان اور استطاعت لازم ہے کو نتیجہ ہر حال میں اسی کے ہاتھ میں ہے.مجھے نو مرت ولاء میں ابتدائی تنبیہہ ہوئی تھی مں نے ڈاکٹر صاحب کی ہدایت کی پابندی تو کی لکین بہتر ہوتا کہ میں اس مرحلے پر ذیا بطیس کے کسی ماہر معالج کے ساتھ مشورہ کرتا.خصوصاً حب میرے والد صاحب اسی مرض میں مبتلاء رہے تھے لیکن اس طرف توجہ نہ ہوئی.اس غفلت کے نتیجے میں سورہ کے شروع میں مرض ذیا بطیس کی صورت اختیار کر گیا.ڈاکٹر عبدالحمید بٹ صاحب نے باصرار ڈاکٹر وشوانا تھ صاحب کی کرگی خدمت میں بھجوایا جہنوں نے علاج کے صحیح طریق کی طرف رہنمائی فرمائی.ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و م سے میرے کام کا بوجھ ہلکا کرنے کاسامان پیداکر دیا.علماء میں چین کا سفر میں آگی می اپنی صحت کے لحاظ سے بھی گھبراتا تھا.لیکن اللہ تعالیٰ کا بہت فضل ہوا کہ گو میں ٹینگ کینگ سے نحیف اور دبلا ہو کہ لوٹا لیکن ذیا بطیس کی حالت اس عرصے میں بہتر ہو گئی.جو عرصہ میں نے فیڈرل کورٹ کی رکنیت میں گذارا اس کے دوران میں ذیا بیطیس میں اصلاح ہوگئی.تقسیم ملک کی پریشانیوں.پاکستان کی وزارت خارجہ کی ذمہ دار لوں اور گرمیوں میں کراچی کی رہائش نے شاہ تا ہواء کے عرصہ میں ذیا بطیس میں اضافہ کر دیا.انسولین کے ٹیکے..
۴۵۵ کی مقدار ۲۸ یونٹ یو میت تک پہنچ گئی.پھر اللہ تعالی نے محض اپنے فضل اور ذرہ نواندی سے بین الاقوامی عدا میں جانے کا موقع پیدا کر دیا.منگ کی آب و ہوا اور باقاعدہ زندگی اصلاح میں مد ہوئی اور کیسے کی منظار بتدریج کم توکرہ یونٹ رہ گئی تا مهر نیو یارک میں منا را ۱۹۶۲ ، ۱۹۶۳ء میں اسمبلی ی پھر 1941 1471 کی صدارت کی ذمہ داری کا اضافہ ہوا اور کام کے اوقات بہت لمبے ہوگئے.انسولین کی مقدار ۱۲ ایونٹ تک پہنچ گئی.پچھلے چھ سالوں میں یہ مقدار کم تو کراب فضل اللہ پھر ہ یونٹ پر آگئی ہے یہ سب کچھ اللہ تعالی کے فضل ورحم سے ہوا.فالحمد للہ رب العالمین.امریکہ سے لندن کا سفر نمبر جہاز میں انگلستان کے سفر کے متعلق ہدایت تھی کہ منٹریال پنچ جائیں.وہاں سے بمبر سروس پر گلاسگوادر وہاں سے لندن پہنچ سکیں گے.اس ہدایت کے مطابق میں منٹریال پہنچے گیا ونڈسر ہوٹل میں ٹھہرا.گیری برف پڑی ہوئی تھی.دوسری صبح اس بہانہ میں سفرکرنے والوں کو ہدایات کیلئے مار کرنے جایا گیا.میں بتایا گیا کہ میر ی بیٹھے کا انتظام نہیں ہوگا فرش پر گرے ہوں گے ان پر لیٹے لیے سفر کیا ہوگا.عمر کوگرم کرنے کا کوئی سامان نہیں ہوگا.پر دانہ میں ہزارفٹ کی بلندی پہ ہو گی.درجہ حرارت بہت نیچا ہو گا، سردی شدت کی ہوگی اسلئے ہمیں عام لباس کے اوپر ایک ریشمی سوٹ اور اس کے اوپر پھر ایک چھوٹے کا سوٹ پہننا ہو گا.دونوں قسم کے سوٹ مہیا کئے گئے اور تم نے تجربے کیلئے پہن لئے، ہاتھوں پر پہلے اون کے دستانے اور ان پر چمڑے کے دستانے، سر یہ چھڑے کے کن ٹوپ جن کے اندر چپڑے کے سوٹ کی طرح مٹیا اونی استر تھا.دوسرے دن اطلاع ملی کہ مر گیا ہے.ہم مار رہ گئے لیکن ایک نجن میں کچھ نقص پیدا ہوجائے کی وجہ سے ہماری روانگی ملتوی ہو گئی اور ہم ہوٹل واپس آگئے.تیسرے دن برن کا طوفان شروع ہو گیا جو تواتر پانچ دن جاری رہا.غرض دون منٹریال میں رکنا یا ہوٹل کے اندر تو قسم کا آرام میں تھالیکن باہر اتنی شدت کی سردی تھی کہ چند قدم سے ندائید چلنا محال تھا.مجھے ایک دن تھوڑی دور جان کا اتفاق ہوا.میں سجوں توں چلا تو گیا لیکن واپسی پر میرے دائیں کان سے خون بہہ رہا تھا.ایک شام میں برف پر انکی کا کھیل دیکھنے کا اتفاق ہوا.دلچسپ کھیل تھا.کھلاڑیوں کو تو شوق تھا ہی تماش بینوں کے جوش کی بھی انتہا نہیں تھی.آخر معماری رونگی دن آگیا.ہم مطار پر پہنچ کے مطابق ہدایات تیار ہوگئے اور عمر میں داخل ہوئے.تمام فرش پر گردوں اور گرمیوں کا فرش تھا میر کے عقب میں سے ایک ایک مسافر داخل ہوتا تھا اور جہانہ کی آخری حد تک پہنچ کر لیٹ جاتا تھا.اس کے بعد آنیوالا سافر بالکل اسکے ساتھ لگ کہ لیٹ جاتا تھا لیکن اس طور پر کہ ایک کا سر کی طرف اور اس کے بعد آنیوالے کا دوسری طرف بالکل اسی طرح جیسے سارڈینز مچھلیاں ڈبے میں بند ہوتی ہیں.ہم کوئی نہیں کے قریب مسافر تھے ہمارے اوپر بھاری اونی اور پینے کے لحاف ڈال دیئے گئے.ہمارے سوٹ اور اوپر کے لعان
۴۵۶ ۱۹۴۲ مکر اتنے بوجھل ہوگئے کہ جنبش دشوار ہوگی.لیکن سرد سے پورا بھاؤ ہوگیا، پران کی بلندی کے منظر آکسیجن کا نظام تھا اور ہدایت تھی کرکسی وقت بھی آکسیجن کا اس منہ سے نہ ہٹایا جائے جہان کے اندر ہوائی دباؤ کا کوئی انتظام نہ تھا.ہم جنوری یاد کو ہم دوپہر کے بعد منٹ یال سے روانہ ہوکر شام کو گیڈر سپنے میاں ا ا ا ا ا ا ا ا الا ای وی کو ان تین نے انہیں میں نےخطاب کیا، دو گھنٹے کی پرواز کے بعدم پینوک پہنچے رات بھری محسوس کرتا رہا کہ گرمی میں اس کو منہ سے شہادوں تومیں زیادہ آسانی سے سانس لے سکتا ہوں کی بات تھی کہ ایسانہ کی جائے مجھے بار بار خیال آنا سنتے تو رہے ہیں کہ آکسیجن کی خوشبو بہت خوشگوار ہوتی ے اور آکسیجن سانس لینے کے فعل کو آسان کر دیتی ہے لیکن کسی اکسیجن ہے کہ فرق پہنچانا تو الگ رہا ماسک سے ہے اورا ""..وریٹر کی بو آتی ہے اس کا راہ بھی نہیں کرسکتی.رات کے کھلے حصے میں مں نے دیکھاکہ بعض مسافر بیچینی سے بھی پہلو بدلتے ہیں اور کبھی اٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں.جب تم پریسٹوک اتر رہے تھے تو نہیں تایا گیا کہ آکسیجن کی مشین خراب ہوگئی تھی اوریہ نالیوں میں سے آکسیجن ہی نہیں رہی تھی اگر میں شروع ہی میں بتا رہا ہو تاتو کیس ماسک نہ سے ہار میں تو آرام سے سورتا کیونکہ بلندی کی وجہ سےکوئی دشواری سانس لینے میںمجھے محسوس نہیں ہوئی تھی ہاں البتہ ماسک کے رب کی لو سے بہت بیزاری یہ ہی.سے ہم موٹر کو آج پیر گلاسگو اسٹیشن لندن پر بمباری کے دوران دوماہ کیلئے تیمار ہمیں ہدایت تھی کا اسٹیشن پر کچھ کھا پی لوادر کی کھانے کیلئےساتھ لے لو کیونکہ ای کے ساتھ کھانے کی چاڑی کہ ریل نہیں اور لندن پہنچے کے کھانے کیلئے کچھ میں نہیں آئے گا.ریل گا سو سے دس بجے مجے روانہ ہوئی سخت سردی تھی صبح اور سویل گرم کرنے کا کوئی سامان نہیں تھا.چار پانچ گھنٹے کے بعد اندھیرا ہونے لگا.ذیل میں بالکل اندھیرا تھا اسٹیشنوں پر بھی کوئی روشنی نہیں تھی شہروں اور مکانوں کے اندر سے بھی روشنی کی کوئی شعاع باہر آنے نہیں اتی تھی.گیارہ گھنٹے کے سفر کے بعد ہم نو بجے رات لندن پہنچے سینٹ جیمز کورٹ میں ہم نے پہلے سے رہائش کا انتظام کر رکھا تھا.وہاں قیام ہوا.لارڈ ہیلی فیکس نے جوپیغام دیا تھا اس میں اندازہ تھا کہ لندن می دو ہفتے قیم رہے گا لیکن مختلف وجوہ سے قیام کا عرصہ زیادہ ہوتاگیا اورمجھے پورے دو مہینے لندن میں ٹھہرنا پڑا.جن کا زمان تھا.سردی کا موسم تھا، لندن پر ہوائی بمباری ہوتی رہتی تھی، دن چھوٹے تھے جلد اندھیرا ہو جاتا تھا.کام کیلئے صرف چند گھنٹے میں آتے تھے.اندھیرا چور جانے کے بعد کہیں نکلنے کا موقعہ نہیں ہوتا تھا.ان سب امورہ کی f وجہ سے طبیعت پر کچھ لوجو رہتا تھا.والفضل اللہ نے کسی وقت کوئی خوف یا پریشانی محسوس نہیں کی شاہ جانت ششم کی والدہ ملکہ میری کی طرفے لندن پہنچنے کے دور ہے ان میں انڈیا انس گیا.وہ یہ قصر بیڈ منٹن میں یک روزہ قیام کی دعوت ہند کے پرائیویٹ سیکریٹری نے کہا ملک معظم کی والدہ کی I
IN-WAITING - ملکہ میری دوران جنگ میں قصر بیڈ منٹن میں ٹھہری ہوئی ہیں.جو گلوسٹر شائر میں ہے ان کی طرف سے تمہیں ان کے ہاں ایک دن مہمان ہونے کی دعوت ہے.میں نے دریافت کی کیا یہ تمکن ہوگا ہمیں صبح جاوں اور رات لندن واپس آجاؤں.انہوں نے کہا دعوت کے مطابق ایک دن سر پر کولندن س جانا ہو گا اور دوسرے دن دو پر کولندن واسی وسکے گی.میں نے کہا اس صورت میں تومیرا جانا نہ ہوسکے گا.پرائیویٹ سکریٹری صاحب نے کہا کہ شاہی دعوت تو منزلہ کم ہوتی ہے انکار کی تو گنجائش ہی نہیں میں نے کہا یہ تو بھی جانتا ہوں لیکن میں تخیل انشا سے اس لئے معذور ہوں کہ میں آدھی دنیا کا چکر کاٹ کر یہاں پہنچا ہوں.میرے ساتھ بنات مختصر سامان ہے جس میں شام کے کھانے کا لباس نہیں.پرائیوٹ سیکریٹری نے کہا یہ کوئی ایسی شکل نہیں اس کا درس کے ہاں سے ہرقسم اور ہر باپ کا لباس کرانے پھیل جاتا ہے میں نے کہا میں بھی جانتا ہوں لیکن مجھے کراتے کالباس پہنا گوارہ نہیں.پرائیوٹ سیکریٹری نے کہا اچھا امی لارڈ کلاڈ سیملٹن کو سعو ملکہ میری کے E QUERRY (افسر حضوری) میں ٹیلیفون پر تبادوں گا کہ تم اس وجہ سے حاضر نہیں ہو سکتے.تین دن بعد انہوں نے مجھے بتایا کہ لارڈ کلاڈ سمیٹین سے یدیا گیا تھا نہوں نے ٹیلیفون پر کہاہے کہ ملکہ فرماتی ہی شام کے کھانے کا لباس لازم نہیں تم میں لباس میں چاہو آسکتے ہو.اب تو تعمیل ارشاد کے بغیر چارہ نہیں تھا.مکہ مری کی شخصیت بڑی بارعب تھی.میرے دل میں ان کا بڑا اخترم تا.گول میز کانفرنس کے ایام میں اور پھر ، جارج شتم کی بیوی کے موقع پر مجھے تین چار باران کی خدمت میں پیش ہونے کا اتفاق ہوا تھا.تاجپوشی کے موقعہ پر ی شاہی مہمان تھا لیکن اس وقت میری حیثیت اپنے ملک کے نمائندہ کی ی تھی.یہ پہلا موقع تھاکہ میں ذاتی حیثیت میں شاہی مہمان ہوا.لارڈ کا ملٹی مجھے اسٹیشن پریل م مل گئے اور محل تک سنختے پہنچتے مجھے ان سے وہاں کے محول کے متعلق کچھ معلمات حاصل ہوگی ترین پیکان بورک کامل خان کی بیگم لکہ میری کی بھیجی تھیں.مالی اس تعلق کی وجہ سے ملک نے یہ نظام منظور فرمالیا تھاکہ جنگ کے دوران میں اس محل کے یک حصہ میں اپنی رہائش کا نظام اپنی سند اور مرضی کے مطابق کریں.ہم ہارنے سے قبل مل میں پہنچے.لارڈ بھلا مجھے میرے کمرے میں لے گئے اور کہ تم کچھ آرام کر لو.میں میں من میں آکر نہیں چائے کیلئے نیچے لے چلوں گا.ملاقاتی کرے ہیں نے تومیں نے اسے کہا مجھے چائے کے آدب سے مل کر دیں.انہوں نے کہا کوئی خاص آداب نہیں دس منٹ تک مکہ تشریف لے آئیں گی ان کے علاوہ صرف لیڈی لینگٹن ہوں گی جوان دونوں ملکہ کی بیٹی ان وٹینگ (مصاحبہ ) ہیں.ملک خودی میزبانی کریں گی.نوکر طلب کئے جانے پر کرے میں داخل ہو گا اور تعمیل ارشاد کے بعد چلا جائے گا.میں نے دریافت کی ملکہ کو خطاب کرنے کا کیا طریق ہے ؟ انہوں نے کہا عام طور پر MAAM کہ کر خطاب کیا جاتا ہے.میں ے پو چھالیڈی لینگ در نزدیکی که با وقار خاتون تو نہیں جن کے ماں عرصہ ہو اور اس کے گورنر تھے.لارڈ کارڈ نے کہا ہاں وہی ہیں اور لورہ تشریف لے آئیں.میں نے لیڈی لینگٹن سے کہا جب میں لندن میں طالب علم تھا آپ کے
۵۸مم یہ میاں نے اور آپ نے ۲۱ کردو مویل روڈ میں ہندوستانی طلباء کو ایک استقبالی دعوت سے نواند انتھا.میں بھی اس دعوت میں شامل تھا.ان دنوں آپ کو مدراس سے واپس آئے تھورا ہی عرصہ ہوا تھا.فرمایا یہ تو کوئی تیس سال کی بات ہے کیا تمہیں اب تک یاد ہے.اتنے میں ملکہ تشریف لے آئیں اور ہم سب چائے کی میز کے گرد بیٹھ گئے.بالکل سادہ اور بے تکلف تقریب تھی مجھ کسی پریشانی کا سامنانہ ہوا.گفتگو کے دوران معلم ہوا کہ میرے اورمیں کینیا کے گورنر باران آن تیلون کے نہ منزل ہاں مہمان ہونے کا مکہ کو علم ہے.اس سے می نے اندازہ کیا کہ گورنر جنرل کی بیک اور شہزادی امی کومنٹس آن استخلون م نے میرے متعلق مکہ سے ذکر کیا ہوگا جس کے متھے میں ملکہ نے مجھے حاضری کا ارشاد فرمایا.ان آن ایلون مسکہ میری کے بھائی تھے اور ان کی بیگم شہزادی ایلیس ملکہ وکٹوریہ کے سب سے چھوٹے صاحبزادے پریس لیو لو لڈ ڈیوک آن آلبنی کی اکلوتی بھی تھیں.مار پہ ہم میں قصر بنگھم میں ایکپارٹی کے موقعہ پر مجھے انسے ملنے کا پھر اتفاق ہوا اور ی نے ان سے دریافت کیا کیا آپ ہی نے ملکہ میری کی خدمت میں تحریکی تھی کہ وہ مجھے اپنی مہانی کا فخر بخشیں انہوں نے فرمایا اں میں نے ہی انہیں لکھا تھا.اوروہ تم سے مکر ہت خوش ہوئیں.چائے کے بعد مکہ مجھے اپنی نشست گاہ میں سے گئیں اور آدھ گھنڑ بھر سے زاید بات چیت ہوتی رہی.ملک معظم جارج پنجم کی عمرسی میں جشن تاجپوشی کے لئے اپنے سفر ہند کا ذکر کیا اس پر قریب ۲ سال کا عرصہ گذر چکا تھالیکن ان کی یاد داشت بالکل صاف تھی.جس بات پر مجھے بہت تحجب موادہ یہ بنی کہ ان کا ہندوستانی الفاظ کا تلفظ نہایت صحیح تھا.میںنے اس کا ظہار کیا تو فرمایا تم سے پیس کر مھے بہت خوشی ہوئی ہے.میں نے انگلستان سے روانہ ہونے سے پہلے خاص طور پر یہ اہتمام کیا تھاکہ میں ہندوستانی الفظ اور ناموں کا صحیح تلفظ سیکھ لوں.مجھے یہ بات بے حد نا پسند ہے کہ غیر زبان کے الفاظ اور ناموں کو بگاڑ کر بولا جا میں اسے پرلے درجے کی بد خلقی سمجھتی ہوں.ہمارے افسران کی یہ طرز مجھے پسند نہیں.کپورتھلہ کہنا اتناہی آسان ے جتنا کیپر بھالا کہا اور صحیح تلفظ کان کوبھی کہیں زیادہ معلا معلوم ہوتا ہے.حیدر آباد کو ٹائی ڈرا بیڈ اور نظام کو نانی ریم بنادیا جہالت بھی ہے اور کج خلقی تھی.مرنے اپنے سب سے چھوٹے صاحبزادے ڈیوک آن کیٹ کی ہوائی حادثے میں المناک موت کا ذکر بھی کیا.بڑے صاحبزادے ڈیوک آن زنڈر کا نہ انہوں نے ذکر کیا میں نے ان کا ذکر چھڑ نامناسب بجھا کیونکہ ان کے اساسات کا احرام لازم تھا.لارڈ کلا مجھے بتا چکے تھے کہ محل کے جس حصے میں ملکہ سکونت پذیر ہیں اس کا اہتمام اور الفرام ان کے اپنے اختیارمیں ہیں.لیکن ملکہ نے خود بھی وضاحت کردی.فرمایا یں یہاں ڈیوک اور ڈھیں آن بو فرنٹ کی مہان نہیں ہوں اور تم بھی ان کے مہمان نہیں میرے مہمان ہو.یوی میں نے انہیں آج شام کھانے پر بلایا ہے تاکہ تم ان سے بھی مل لو.بہت اچھے لوگ ہیں تم ان سے مل کر خوش ہو گے.ملکہ نے مسٹر گور کی تصنیف کردہ شاہ جارج پنجم کی سوانح عمری مجھے عنایت کی اور ایک لوط
د اپنے قلم سے میرے نام اس کے شروع میں رقم فرمایا.اپنے تین د ونو اپنے دستخط ثبت کر کے بھی دیئے.ان میں سے ایک یں وہ قصر بیڈ منٹن کے پارک می کنیڈین سپاہیوں کے ساتھ اور کشتی کر دی تھیں.میں نے کہا ہندستان یں یہ تصویر بڑی دلچسپی کا موجب ہوگی.فرمایا یہ کوئی ایسی انے کی بات تو نہیں میں توڑے شوق سے ان کے ساتھ انہیںمیں شامل ہوئی تھی.میں نے عرض کیاکیاآپ مکہ وکٹوریہ یا مکہ الیگزینڈرا کا تصور اس شغل میں کرسکتی ہیں.فرمایا ہے کی رفتارہ کا لحاظ بھی تو رکھنا ہوتا ہے.جب میں نے اجاز چا کی تو با اصرار مجھے میرے کمرے تک پہنچانے ہی کا تھ آئیں.شام کے کھانے پر ڈیوک اور ڈ سپیس آن بوفرٹ تشریف لے آئے.ڈھیں بات چیت میں بہت پچپی دیتی رہیں.میں نے لارڈ کلاڈ سے دریافت کر لیا تھا کہ کھانے کے بعد مکہ کب تک ملاقاتی کمرے میں تربیت فرما رہتی ہیں.انہوں نے بتایا نوبجے ریڈیو پر خرس نشہ ہوتی ہیں.خرس ختم ہونے کے اندانہ پانچ منٹ بعد لکہ تشریف لے جاتی ہیں.خبریں ختم ہونے کے بعد میں نے خود کوئی نیا موضوع نہ چھیڑا لیکن ملکہ نے سلسلہ گفتگو پونے دس بجے تک جاری رکھا.رخصت ہونے پر فرمایا تمہارا ارادہ ناشتے کے بعد لندن واپس جانے کا ہے میں عمر رسیدہ ہوں اپنے کمرے میں ہی ناشتہ کر لیتی ہوں میں ممنون ہوں کہ تم نے یہاں آنے کی زحمت گوار کی تمہاے آنے سے مجھے بہت خوشی ہوئی.میں نے مناسب الفاظ میں شکریہ ادا کیا.ہندوستان کو آزادی دیئے جانے میں نے شاید کے دوران میں وائسرائے کی خدمت میں یہ تجو یہ پیش کے سلسلہ میں میری ایک تجویہ کی تھی کہ جنگی سرگرمیوں کیلئے ہندوستانی سیاسی حلقوں کی تائید حاصل کرنے کیلئے کوئی ایک اقدام کیا جانا چاہیئے جس سے انہیں اطمینان ہو جائے کہ جنگ کے کامیابی کے ساتھ م ہونے پر برطانیہ ہندوستان کو آزادی دینے کیلئے تیار ہوگا.اس لئے مجھ سے کہ چکے تھے کہ جنگ کے دوران یں یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ برطانی حکومتی پارلیمنٹ کی آئینی ترمیم کی طرف توجہ دے سکے اس لئے می نے پنی تجویز کو اسی حدتک محدود رکھا تھا کہ آئینی ترمیم کے بغیر باہمی سمجھوتے کے ذریعے حکومت ہند کی تشکیل میں اور وائسرائے ہند اور وزیر سند کے اختیارات میں مناسب ترمیم کر دی جائے.اس تجویز پر مشورے کیلئے مجھے ای مرگ باران ایدین اورسارا کا سارا پای مرگ جوانانے کی کان میں عراقی ہ کے تھے ان دنوں اب وزیر جن تھے اور بلدی مرور بیت وزیر جن کے معنی ہونے پر ان کے جانشین ہو گئے.سر جان اینڈرسن بنگال کے گور مندرہ چکے تھے.ان دونوں جنگ سے متعلق سائنس اور ٹیکنالوجی کے اموران کے سپر تھے.ان کی حیثیت وزیر کی تھی اور وہ کا بینہ کے رکن تھے.بعد میں وہ لارڈ ویور نے ہوئے.ان کی پہلی بیوی ان کے گورنہ بنگال ہونے سے پہلے فو ہو چکی تھیں.کچھ عرصہ قبل انہوں نے وزارت خارجہ کے ایک سنی افت کی جدہ کے
ساتھ شادی کی تھی جن کا اپنا مکان لامہ نارتھ سٹریٹ میں تھا جو سر جان کیلئے مہابت موزوں ثابت ہوا.یہ مکان ایوان پارلیمنٹ اور حکومت کے دفاتر کے بہت قریب تھا اور جنگ کے زمانے میں اک روز یہ کیلئے یہ نعمت غیرمترقبہ تھی.سرجان نے مجھے دوپہرکے کھانے پر مدعو کیا اور میر اتار لیڈی اینڈرسن سے کرایا.وہ بہت نازک اندام اور ان کی طبع تھیں ان کا مکان بالکل گڑیا کا گر معلوم ہوتا تھا.سر جان اینڈرسن جیسے بھاری بھر کم حجم رہے انسان کے لئے تو اس مکان کے اندر آزادی سے چلنا پھرنا بھی دشوار تھا لیکن دہ کیس کھا کے کیس نیم کومل دگر گناه کر لیتے تھے سرنڈ لیٹر سٹوارٹ کئی سال مستقل نائب وزیہ سند کے عہدے پر مامور رہنے کے بعد ان دنوں جنگی تدابیر کے محکمے میں ایک ذمہ دار منصب پر فائز تھے.ماری آپس کی گفتگو کے لئے کوئی خاص پروگرام مقرینہ تھا.ضرورت کے مطابق اور ہر ایک کی مصروفیات اور سہولت کا لحاظ رکھتے ہوئے گفت و شنید جاری رہتی تھی.ہفتے میں دور تین بارہ ہم چاروں جمع ہو جاتے تھے.اس کے علاوہ جن صاحب کے ساتھ ضرورت ہوتی میں علیحدہ علیحدہ بھی بل لیا تھا.پہلی دو تین ملاقاتوں میں ہی اسبات پر ہمارا اتفاق ہو گیا کہ دار نے کی کونسل میں یہ استشاٹ کمانڈر انچیف باقی سب رنگین ہندوستانی ہوں اور والشرائے کی حیثیت صرف ایک آئینی رئیس ملک کی ہو.کونسل کے سنٹر نہ ستان ین کو اگر چہ وزیر اعظم کا نام دیا جائے لیکن عمل اس کی حیثیت اور اس کے اختیارات وزیراعظم کے ہوں.وزیر سند والے رائے کو ہدایت دیدیں کہ انہیں صرف ایسے امور میں دخل اندازی کا اختیار ہے جن کا تعلق براہ راست جنگ کے ساتھ ہو.اگر بچہ اس تجوید کی تفاصیل پر دونوں جانب سے بہت کچھ نقطہ چینی کی گنجائش تھی.لیکن ہم چاروں کا اس امر یہ جلد اتفاق ہو یا کسی ایسی تو نہ کوکامیاب کرنے کی ہرممکن کوشش کی جانی چاہئے.ایک امر جس کا گو مرا ختنہ کوئی ذکر تو ہمارے درمیان نہیں ہوا تھا.لیکن پولیس پردہ اس تجونیہ کے حق میں محمد تو ایہ تھا کہ امریکی صدر روزویلٹ کی طرف سے برطانوی حکومت پر بہت زور دیا جارہا تھا کہ ہندوستان کو آزاد کرنے کے سلسلے میں جلد کوئی موثر قدم اٹھانا چاہیے.جب پہلے ذکر کیا جا چکا ہے صدر روزویلٹ نے خود مجھ سے ا ا ا ا ر و ز یر اعظم چه پل پر سندوستان کی آزادی کے متعلق دو دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے.آئینی طور پر حکومت ہند و زیر بند کے ذریعے برطانوی پارلیمنٹ کو جواب دہ تھی.میں تو مطئن تھا کہ اگر امی سمجھوتے کے تھے میں وائر ائے اور وزیر بند کے اختیارات کی حدبندی کر دی جائے تو تجویز قابل عمل ہوسکتی ہے.لیکن میرے برطانوی رفقا منتظر تھے کہ جنگ کے نازک مرحلے کے دوران میں اب اہم اقدام کرنے کیلئے وزیراعظم وزیر بند در برطانوی مجلس وزراء کوکس طرح رمضان کیا جاسکتا ہے.حکومت نیند کے وزراء کے طریق انتخاب کا حامد میر برطانوی رفتا ء کیلئے پریشان کن تھا.ایک کی بیوی پر نوکری کے لئے یا نہ تھے کہ در رام کا انتخاب سمبلی کرے.یا یہ انتخاب املی کے مشورے کے ساتھ ہوں کیونکہ اول او طریق کو اختیار کرنے کیلئے آئین می ترسیم
لازم آتی.دوسته به طانوی مجلس وزراء اور خصوصاً وزیر اعظم مسٹر معمہ چل ، اور روزہ یہ سند (مسٹرا بیری) اس طریق کو منظور کرنے پر کبھی رضامند نہ ہوتے.مجھے شروع سے ہی اس مشکل کی اہمیت کا احساس تھا اسلئے میں اس پر مصر نہیں تھا.آخر می نے سر جیمز گرگ سے کہا کہ ہم کسی منتقل نظام حکومت کا فیصلہ تو کر نہیں رہے.ہمیں تو ایک عار منی اور عبوری انتظام کی ضرورت ہے جو دوران جنگ میں کام دے سکے اور تو برطانوی حکومت کی طرف سے طوعاً اختیار کیا جائے.میری اپنی حیثیت کسی کے نمائیندہ ہونے کی نہیں.منصب کے لحاظ سے بھی میں بج ہوں.سیاست میں میرا کوئی دخل نہیں.میں نے ایک ہندوستانی شہری کی حیثیت میں جیسے اپنے ملک کی آزادی مطلوب ہے اور تجبر سمجھتا ہے کہ یہ آزادی جنگ میں اتحادیوں کی فتح سے ہی حاصل ہوسکتی ہے انا مشورہ پیش کیا ہے.آپ اور میں چاند سال کا عرصہ حکومت ہندمیں بطور بی کام کرچکے ہیں.ہمیں ایک سرے پر اعتاد ہے.اگر ہم کسی ایسی تویہ پر اتفاق کر سکیں جو تین چار سال تک کام دے جائے تو مکن ہے اسکے نتیجے میں آئیندہ کی بہت سی مشکلات کا حل آسان ہو جائے انتخاب وزراء کے متعلق کوئی آئینی صورت تو اس وقت قابل پذیرائی نظر نہیں آتی صرف ایک صورت باقی رہ جاتی ہے.کہ وزراء کا انتخاب اس عبوری عرصے کیلئے شخصی طور پر کہ لیا جائے.سر جیمز اصولا اس بات پر رضامند ہو گئے.باقی دونوں اصحاب نے بھی اسے قبول کر لیا.اس مرحلے پر مں نے یہ معلوم کرنا چاہا کہ جس تجویز کے خاکے پر کہیں اتفاق ہے اس کی منظوری کی کس قدر امید کی جاسکتی ہے.شروع میں ہی مجھ سے کہا گیا تھا کہ ہماری گفتگو کے ماحصل سے سر جیمز گرگ وزیر اعظم کو مطلع کرتے رہیں گے اور سرفنڈ لیٹر سٹورٹ وزیر سند کو نہاتے رہیں گے.اور دونوں اصحاب دونوں وزراء کے ردعمل کا اندازہ کرتے رہیں گے چنانچہ دونوں اصحاب نےبتایا کہ وزیر اعظم اوروہ پر بند کو تجویز کے ساتھ اصولا اتفاق ہے.یہ امر مرے لے بہت اطمینان کاموجب ہوا کیونکہ مجھے وزیراعظم صاحب کی طرف سے کچھ خدشہ تھا، انہوں نے مشترکہ پارلیمنٹری کیٹی کے رو پر سہندوستان کو نو آبادیات کا درجہ دیئے جانے کی بھی سخت مخالفت کی بھی اگر چہ یہ نورس سال پہلے کی بات تھی لیکن وزیر اعظم کا عہد سنبھالنے کے بعد بھی انہوں نے کوئی ای اقدام نہیں کیا تھا جس سے اندازہ کیا جاسکتاکہ وہ ہندوستان کا حق آزادی تنظیم کرنے پہ آمادہ ہیں.مجھے ان تجویز کا سب سے میدانا پہلویہ نظر آتاتھا کہ اس کی منظوری عملا ہندوستان کا حق آزادی تسلیم کئے جانے کے مترادن بھی میٹرو پل کو اس تجویز پر رضامند کرنے میں سر میز گرگ کا بہت کچھ دخل تھا.برسوں پہلے جب سر چرہ کی وزیر خزانہ تھے انہوں نے سر جیز کو ان پرائیویٹ سیکرٹری مقر کیا تھا.اور انہیں ان پر بہت اعتماد ہو گیا تھا.چنانچہ اس اعتماد کانتیجہ تھا کہ وزیراعظم ہونے کے بعد سر میز گرگ کو انہوں نے نائب وزیر جنگ اور پھر وزیر جنگ کی علیحدگی پر انہیں وہ یہ جنگ مقرر کیا.اسی دوران میں میں نے سہ فنڈ لیر سٹورٹ سے اس خدشے کا اظہار کیا کہ کن ہے وائسرائے ہند لارڈ نلتھگرا
م ماری تجویز کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں.سرینڈلیٹ نے فرمایا کہ اولیائے کے ساتھ مشورہ تولازم ہے اور بات اب اس مرحلے پر پہنچ چکی ہے کہ ان کے ساتھ مشورہ کیا جائے.حالات کا تقاضا ہے کہ ہندوستان کی آزادی کے سلسلہ میں کم سے کم اتنا اقدام تو ضرور کیا جائے.اس تجویز کی تفصیلات کے متعلق نیشیک دائرے کی رائے کو دفعت حاصل ہوگی لیکن اگر انہیں اصولی اختلاف ہوا تو انہیں ملیا منوایا جائے گا.سو فنڈ لیر سٹورٹ کو میں عرصہ بارہ سال سے بہت اچھی طرح جانتا تھا.وہ بہت سنجیدہ مزاج ، مربہ اور نہایت کم گوتھے یعنی الوسع زور دار الفاظ کے استعمال سے پر ہیز کرتے تھے.اس موقعہ پر ان کے الفاظ ایسے واضح اور زور دارتھے کہ میر اطمینان اور بھی پختہ ہوگیا.چند دن بعد انہوں نے بتایا کہ تجویز اشیائے کو بھیج دی گئی ہے.جب یہ معلوم ہوگیا کردو براعظم اور وزیر ہند کو ماری تجویز کے ساتھ اصولا اتفاق ہے.تو سر میز گریگ نے اورمیں نے وزراء کے انتخا پر غور کرنا شروع یا معنی وزراء کے محل تولیدی اتفاق رائے ہوگیا بالا سرمایا وامی مالیار پیروزی یعنی عملا وزیر اعظم اسرعزیز الحق جوان دونوں لندن میں ہندوستان کے ہائی کمشنر تھے، وزیہ تجارت ہروی کی کرشنا چاری جو ان دنوں ریاست بڑودہ کے چیف منسٹر تھے وزیر خزانہ، بعض نام ابھی زیر خورد تھے کہ ایک ایسی صورت حالات پیش آگئی جسکی وجہ سے وائسرائے کواس تجویز کے رد کرتے ہی کسی دقت کا سامنا نہ ہوا.ہوا یہ کہ عین ان دنوں میں گاندھی جی نے مرن برت رکھ لیا.اس پر سر مومی موردی، مسٹر این آرسہ کار اور مسٹرایم ایس آئی نے احتجا جیا وائسرائے کی کونسل سے استعفے دیدیا.ان دنوں لندن سے ارسال کردہ پختو یہ وائسرائے کے زیر غور تھی وائسرائے نے وزیر بند کی خدمت میں اطلاع دی کہ ان حالات میں کسی ایسی تجویہ پر عمل کرنا کم زوری دکھانے کا مترادف اور خطرے کا موجب ہوگا.چنانچہ جس غرض کے لئے مجھے لندن بلایا گیا تھا وہ فوت ہو گئی اور میں نے واپسی کی تیاری - کرلی..وزیر اعظم چرچیل سے اور ڈالنا تفلو ے وزیر اعظم چوپال کے ساتھ بات کے دوران میں مں نے ان سے تھگو کے وزیراعظم ملاقات جانشین کے فقر کے متعلق گفتگو - دریافت کیا آئیندہ وائسرائے کے تقری کے متعلق آپ نے کچھ فیصلہ..فرمایا ہے ؟ انہوں نے فرمایا ابھی نہیں اور دریافت کیا تمہارے زمین میں کوئی نام ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ میری رائے میں سر سیموئل مورد نہایت موزوں ہوں گے.فرمایا نہیں نہیں تمہیں معلوم ہے گول میز کانفرنس کے دوران میں ہندوستان کے متعلق ان کا کیا موقف تھا.میں نے کہا بیشک مجھے معلوم ہے اور مجھے یہ بھی معلوم ہے آپ کا کیا موقف تھا.اور آپ کو معلوم ہے میرا کیا موقف تھا لیکن اب وہ سب باتیں پیچھے رہ گئی ہیں دنیا بہت آگے نکل گئی ہے رمایا مور کا تجویدکیا ہوا ہور لاوال "معاہدہ نہایت غیر دانشمندانہ تجویز تھی.میں نے عرض کیا مجھے آپ سے پورا اتفاق ہے لیکن ہر درہ سے غلطی ہو سکتی ہے یہ سیموئل ہور کو اپنی اس غلطی کے نتیجے میں وزارت خارجہ سے الگ ہونا
۴۶۳ پیار و خمیازہ بھگت چکے ہیں.لیکن کیا بحیثیت وزیر اعظم بالڈون کیا اس معاہد سے کی ذمہ داری میں شریک نہیں تھے ؟ اس پر کہا :.Dont you MAKE A MISTAKE.BALDWIN WAS A SINGULARLY Ignorant MAN • HE KNEW NOTHING About Foreign AFFAIRS OR Foreign Policy.All HE WAS INTERESTED IN WAS WINNING THE Elections AT HOME-BUT I GRAnt You Sam HoARE Is Doing A Good JOB IN MADRID AND.SPARE HIM”.I CANNOT ترجمہ.اس محول میں نہ رہنا.بالڈون تو بالکل جاہل مطلق تھا وہ ماریجہ معاملات یا خارجہ پالیسی کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتا تھا.اسکی غرض صرف ایک تھی مکی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے میں یہ مانتاہوں کہ سیموئل مور شیدر میں اپنے فرائض اس خوش اسلوبی سے سرانجام دے رہا ہے کہ میں اسے وہاں سے تاریخ نہیں کر سکتا.میں نے کہا وقت آنے پر وہ میڈر دو سے سیدھے دہلی جا سکتے ہیں.وہ ہندوستان کے مسائل کو خوب سمجھتے ہیں اور اس بات کے محتاج نہیں کہ چھ مہینے انڈیا آفس میں بیٹھ کر ہندوستان کی سیاسی تاریخی اور مسائل حاضرہ کا مطالعہ کرتے ہیں فرمایا میں تمہاری ارے کو وقت دیتا ہوں اور تمہاری تویہ کو ذہن میں رکھوں گا.وزیر اعظم چہ پل سے ملاقات کے بعد ایک دن سرحان انڈرسن کے ہاں آئندہ وائسرائے کے تقری کا ذ کر گیا.لیڈی اینڈرسن نے مجھ سے کہا کیا نہیں اتفاق نہیں کہ جان ک انتخاب موزوں ہوگا ہ میں نے از راہ تواضع کردیا کہ قابلیت ار تی ہے کے لحاظ سے تو بہت مناسب ہو گا.اس پر سرجان نے میری طرف دیکھا اورکہا لیکن تم تو سیموئل پور کے فقر کے من میں ہو.می نے کہا میرا یہ منصب نہیں کہ میں وائسرائے کے انتخاب میں دخل دور واشنگٹن میں کارڈ ہیلی فیکس نے مجھ سے سر مونیل مور کے متعلق ذکر کیاتھا.مجھے اکی رائے سے اتفاق تھا کہ سرسیموئل و نے بطور روز مه نگول میز کافران در را ایمنی مشترک بیٹی میں جس محنت اور تقدیر سے کام کیا تھا اس کے مدنظر ان کا انتخاب بطور وائر لیئے ہند موزوں ہوگا.لارڈ سیلی فیکس نے خواہش کی تھی کہ میں اس رائے کا اظہار وزیراعظم سے کر دوں وہ میںنے کر دیا.اس پر سرجان خاموش ہو گئے.مجھے حیرت ہوئی کہ تو صحاب اتنے بڑے مناصب پر فائز ہوتے ہیں وہ بھی ذاتی معالے میں چھوٹی پھوٹی باتوں کو اہمیت دینے لگ جاتے ہیں.یہ توکوئی تعجب کی بات نہ تھی کہ سر جان کو اس لیئے کے منصب پر تقری کی خواہش ہو.وہ بنگال کے گورنر رہ چکے تھے، ہوم سروس میں ان کا ریکار بہت اچھا تھا، مسلم قابلیت کے مالک تھے، اور حکومت میں وزارت کے عہدے پر فائز تھے.وزیر اعظم کے ساتھ دوستانہ مراسم تھے
لیکن مجھے تعجب اس بات پر ہوا کہ میرے وزیر اعظم کے ساتھ اس لیے میں سیمولی ہور کا ذکر کرنے کا انہوں نے اثر دیا.عرصہ بعد جب وزیر اعظم پر ہی امریکہ گئے تو ارولول بطور مشرفو ان کے ہمراہ گئے.سفر کے دوران میں وز یر اعظم ے لارڈ ویول کے متعلق بات بھی رائے قائ کی اور امر نانو کی جانشین کے ان کا انتخاب کیا.سیمیلی اور ریال میں اپنا سفارت کا زمانہ ختم کر کے انگلستان واپس آے تو انہیں ان کی اس خدمت کے صلے میں کہ انہوں نے جنرل فریکو و جنگ میں غیر جانبدار رکھنے میں کامیابی حاصل کی تھی والی کونٹ نادیا گیا اوروہ لارڈ ٹمپل روڈکے نام سے اور امراء کے رکن ہوے جولائی کے ۱۹ء میں مجھے انگلستان جانے کا اتفاق ہوا تو میں ان کی خدمت میں بھی حاضر ہوا.بہت تپاک سے پیش آئے اپنی تصنیف NINE کا ایک نسخہ مجھے رحمت فرمایا.ہندوستان کے آئینی مائل ہی زیادہ ترگفتگو NINE TROUBLED YEARS 7 - کا موضوع رہے.میں نے وائسرائے کے تقریر کے متعلق مسٹر چپہ چپل کے ساتھ اپنی گفتگو کا ذکر کیا.فرمایا ہندوستان میں خفاقی دستور کے نفاذ کے رستے میں بڑی روک کانگریس نہیں تھی بلکہ ہندوستانی فرمان دایاں تھے.یہ ان کی بڑی کوتاہ اندیتی تھی.اگر کے ایکٹ کے مطابق مرکز میں وفاقی دستور کا نفاذ ہو جاتا تو ایک لمبے عرصے کیلئے ان کے اورمسلمانوں کے حقوق کی خاطر خواہ حفاظت ہو جاتی.اب تقسیم ملک کے نتیجے میںپاکستان میں تومسمانوں کے مفاد کی حفاظت ہو جائے گی لیکن فرمایا طبقہ ختم ہو جائے گا.چنانچہ ای ہی ہواہے.اگر ساہیوار میں جو پل مجھے بطور وائسرائے بھیج دیے تو مرا اندازہ ہے کہ میں اس وقت بھی وفاقی دستور کو نافذ کرنے میں کامیاب ہو جاتا.فرمانه دایان ریاست کو رضامند کر لیاکچھ مشکل نه ہوتا نظام کو ہر میچوٹی کا خطاب دیدنے میں کوئی روک نہیں تھی اور وہ اس پر مطمئن ہو جاتے.مہارا بھی بردہ کی سلامی کی توپوں میں اضافہ کر دیا جاتا.فرمانہ وا طبقہ نے ذاتی دوستوں کے نفاذ میں درک بن کر اپنا کیری کا سامان خود میا کر لیا.اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ممکن ہے تاریخ کا رخ بدل جاتا.جنگ کے دوران برطانیہ میں لارہ ڈلٹن سے میری ایک عرصے سے واقفیت تھی.کے خاندان کا بند زنان آسکر یہ نظم کی نظر بندی کے ساتھ لے عرصے تک تعلق رہا.ان کے والد مہندستان کے دائی اہئے رہ چکے تھے.ان کی پیدائش اسی نہ مانے میں شملے میں ہوئی تھی.بعد میں وہ خود بنگال کے گورنہ ہوئے اور چند مہینوں کے لئے قائمقام وائسرائے بھی ہوئے.چند سال پیشتر ان کی ملاقات آسکر سے جھوٹی اور در دو نوں میں گہرا دوستانہ ہو گیا.شروع جنگ میں آسکر پر سوائے وقتاً فوقت پولیس میں رپورٹ کرنے کے اور کوئی پابندی عاید نہیں کی گئی تھی.لیکن جب مٹی شہداء میں جو مین افواج نے پیش قدمی شروع کی اور فرانسیسی سپاہ نے ۱۹۳۰ء ستان مقالے کی تاب نہ لا کر ہتھیار ڈال دیئے تو برطانیہ کی حالت بہت نازک ہو گئی.اور ہرقسم کی احتیاط لازم ہوگئی اپنی ایام میں تم غیر ملکیوں کو جو الحادی ممالک کے باشندے نہیں تھے.زیر حراست لے لیاگیا.آسکران من ہو.زنوی حجم میں شہری تو نہیں تھے لیکن ابھی برطانوی شہری بھی نہ ہو پائے تھے.وہ لیگ آف نیشنز کا
۴۶۵..حفاظتی پاسپورٹ رکھتے تھے لیکن جو کہ پہلی عالمی جنگ میں جرمنی کی طرف سے سنگ میں شامل رہے تھے اسلئے انہیں اس مرحلے پر آزاد بھی تھوڑا نہیں جا سکتا تھا.وہ بھی کمر است میں لے لئے گئے.اول اولی تو انہیں اور پول کے قریب ایک عارضی کیمپ میں رکھا گیا.لیکن پھر وہ آئل آن مین میں ایک مستقل کیمپ میں منتقل کمہ دیئے گئے.میرے لندن پہنچنے کے چند دن بعد ہی لارڈ لٹن مجھے منے کیلئے تشریف لائے اور فرمایا میں نہیں آسکر کے معامے کے متعلق کچھ تفصیل بتانا چاہتا ہوں.انہوں نے فرمایا جب مٹی سعودی نگاہ میںغیر ملکیوں ی گرفتاریاں مل میں ہیں تو حکومت کی طرف سے ایک کیٹی مقر سنگی جس کے ذمے غیرملکیوں کے حالات معلوم کر کے ان کے متعلق سفارش کرنے کا فرض عائد کیا گیا کہ ہر فرد کے متعلق کیا کیا احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں.مجھے مرکزی نائی کا صدر مقر کیا گیا کمیٹی کی سفارش پر فیصلہ کرنے کا اختیار وزیر داخلہ کو تھا.جو ان دنوں مسٹر بر بیوٹ مارلین تھے آسکر کے متعلق اس کمیٹی کی سفارش تھی کہ شخص ماہ سے انگلستان میں سکونت پذیر ہے نہایت پر امن شہری ہے اعلیٰ درجے کا سائنسدان ہے، اس کی سائنٹفک تحقیقات سے بہتوں کو فائدہ پہنچا ہے اور مزید فائدہ پہنچنے کی کی سے امید ہے.سیاست میں اسے کوئی دلچسپی نہیں.نازی پارٹی کے ساتھ اس کا کبھی کسی قسم کا تعلق نہیں رہا لندن کے علمی طبقے میں اس کے بہت سے دوست ہیں جو اسے ذاتی طور پر بہت اچھی طرح جانتے ہیں.کمیٹی کے صدر اس کے ذاتی دوست ہیں.کمیٹی کیورا اطمنان ہے کہ پولیس کو مطلع کرتے رہنے کی پابندی کے ماتحت انہیں رہا کر دینے کے راستے میں کوئی روک نہیں.میری کمیٹی کی سفارش وزارت داخلہ کو بھیج دیگی.مجھے قوی امید تھی کہ جوانی ابتدائی افراتفری ختم ہوکر با قاعدہ کاروائی شروع ہوگی تو یہ سنا ریش وزیر داخلہ منظور کر لیں گے.مناسب انتظار کے بعد میں نے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ معاملہ کس مرحلے پرہے.مجھے علم ہواکہ معاملہ وزیر داخلہ کے زیر غورہے.چنانچہ میں سرمایسین سے ملا اور دریا کیا کسان کے نزدیک کونسا اور غور طلب ہے.انہوں نے کہا.مجھے اطمینان نہیں.ایسا شخص بہت خطرے کا موجب ہو سکتا ہے.میں مزید غور کرنا چاہا ہوں.میں نے انہیں ہرطرح سے اطمینان دلانے کی کوشش کی لیکن وہ مجھے ٹالتے رہے.اس کے بعد میں دو تین مرتبہ انہیں ملا.لیکن ان کی طرف سے انکار ہوا اورپر انکار پر اصرار اور اس میں شدت بڑھ گئی.آسر مجھے یہاں تک کہنا پڑا کہ پہلوی کونسلر کی حیثیت سے مجھے بادشاہ تک براہ راست رسائی کا حق ہے.میں یہ معاملہ ملک نظم کے نوٹس میں لانا چاہونگا کہ وزیر داخل ایک پریوی کو فلم کی ذاتی شہادت پر جو تعلق کمیٹی کا صدربھی ہے امداد کرنے پر آمادہ نہیں.اس کا جواب انہوں نے یہ دیا میں نہیں بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوتے سے نہیں روکتا.لیکن تم خوب جانتے ہو کہ بارش کو ایسے امورمی کوئی اختیا نہیں.ری اعتماد اور اطمینان کی بات سو میں صاف صاف تم سے کہہ دیتا ہوں کہ جو امور تمہارے اطمینان کا موجب ہیں.وہی مجھے پریشان کرتے ہیں.یہ شخص جرمن نژاد ہے.پہلی جنگ میں جرمنی کی طرف سے لڑ ا ر ا اور اپنی صلیب کا تمغہ حاصل کیا.NIGHT بنایا گیا.یہاں اس کے تعلقات سب امراء کے ساتھ اس سے بڑھ کر کہ HOHEN ZOLTER OF HOHENZOLTERN,
" ہیں.مجھے خود امراء پر اعتماد نہیں.جتنا تم اس کی حمایت میں زور دیتے ہو اتنا مر اشک مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے.کہ بشخص خطرناک ہے.میں تمہاری سفارش مانتے کو ہرگز تیار نہیں.اس کے بعد میرے لئے کوئی چارہ نہ رہا سوائے اس کے کہ میں کھٹی اور اسکی صدارت سے استعفے دیدیا.چنانچہ میں نے ای ہی کیا.اس سے بی اے آکر کو تو کوئی فائدہ نہیں پنجے گا لیکن ایسا اور کیا کرتا تھا.میں نہیں لے کے لئے زیادہ تر اس خیال سے آیا ہو کر ہمیں اطمنان ہو جائے مجھ سے جو کوشش ہوسکی ھی میں نے کی افسوس کہ میری کوشش کارگر نہ ہوئی.مینے ان سے کہاکہ اگر آپ یہ وضاحت نہ بھی فرماتے تبھی مجھے پورا یان نہ یہ کہ آپکی طرف سکون کی نہیں رہی ہوگی.اس لئے کا مجھے بھی بھی اتفاق ہوا ہے لیکن اس سے متواتراپ کے متعلق سنا رہا ہوں.اور جب بھی ہم تینوں اکٹھے ملتے رہے ہیں.یں آسک کے ساتھ آپکے مخلصانہ تعلقات کا شاہد رہا ہوں میں کرکے لے لیئے آئی میں جانے کا ارادہ رکھتا ہوں.اگر وقعہ ہو تو میں نے نیز ذکر ضرور کروں گا کہ آپنے ان کیلئے بات لت پا کرنے کی ہر مکن کوشش کی ہے.فرما مجھے یہ سکہ بہت بیان ہواہے کہ تم اس سے ملنے کیلئے جانے والے ہو تم سے مل کر اسے بہت خوشی ہوگی.میری طرف سے جسقدر مناسب کھو اسے کہ دنیا.خدا کرے کہ وزارت داخلہ تمہارے رستے میں کوئی ادرک پیدا نہ کرے.میں امید کرتا ہوں کہ وزارت داخلہ مزد را جازت دیدے گی.آسکر کی نظر بندی کے دوران ان سے ملاقات آئیل آن میں جانے کی اجازت حاصل کرنے کیلئےمیں نے انڈیا انس کے ذریعے وزارت داخلہ کو کہلوایا.وہاں سے انڈیا اس کو جواب ملک ڈاکٹر سکری نام کی اس مین کی ملاقاتوں کی منظور شدہ تعداد پوری ہو چکا ہے لیکن وزارت داخلہ نے خاص اجازت نہ جاری کردیا ہے کوبھیجا جارہا ہے.نظر الہی سفر کا پرانا طے کرلیں ہیں اطلاع کردیں تاکہ ہم کیمپ کے پرنٹنڈنٹ کو اطلاع دے سکیں.وہ ڈگلس میں سرظفر اللہ کومل جائیں گے اور آنکی سہولت کے مطابق ملاقات کا انتظام کر دیں گے.فجزاہ اللہ.میں نے آئیل آف مین جانے کے قصد کانہ کر لیڈی اینڈرسن سے کیا وہ اس پروگرام میں بہت دلچسپی لے رہی تھیں.ان کے لئے یہ باور کرنا مشکل تھا کہ جنگ کے دوران میں ایک شخص کئی بندشوں کے با وجود سخت سردی کے موسم میں لندن سے آئیل آف مین کے سفر کا محض اسلئے متمنی ہے کہ اس کا ایک حجر من دوست وہاں غیر ملکی کمی میں نظر بند ہے اور وہ اس کی ملاقات کا آرنہ دمند ہے بار بار مجھ سے کہتیں کیا میں سفر کی دقتوں کا اندازہ ہے ؟ ریلوں میں کھانا نہیں ملنا شدید سردی کا سامنا ہوتا ہے.روشنی نہیں ہوتی.پھر جہانہ کے سفر میں اور بھی دوختیں بڑھ جاتی ہیں.اور خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے.پھر تمہاری ملاقات اس قدر نہ حمت برداشت کرنے کے بعد گھنٹہ بھر کیلئے ہوگی تمہیں کیا حاصل ہو گا.میں نے عرض کیا میں سفر کی دقتوں کا خوب اندازہ کر سکتا ہوں.آخر دتی سے کراچی ، قاہرہ ، مخرطوم ، جو با اسٹیلے ولی لیوپولڈول، میگوس ، عقره ، نبیل (برازیل) جارج ٹاؤن ( گائینیا میامی ، نیو یارک ، مونٹ ریال ، گینڈر ، گلاسگو ہوتے ہوئے بفضل اللہ خیریت لندن پہنچ گیا ہوں لندن سے فلیٹ و ڈریل پر اور وہاں سے ڈگلس جہاز پر پیچھا کیا مشکل ہے؟ مجھے حاصل یہ ہو گاکہ مں سوا تین سال کے بعد ایک عزیہ دوست سے ملوں گا اور میرے دوست کو اس احساس سے خوشی ہوگی
کہ میں اسے بھولا نہیں.اس پر فرمایاں تباہی کر سکتی ہوں کہ تم عجیب آدمی ہو.میں تمہاری واپسی پر سفر کے حالات اور ملاقات کی کیفیت سننے کی مشتاق ہوں گی.میں نے کہا میں ضرور حاضر خدمت ہو کر گذارش کر دوں گا.انشاء اللہ.لندن سے فلیٹ وڈ کا سفر بذریعہ ریل دل کے دوران میں مطابق پروگرام طے ہوگیا.لیکن جس جہان سے ہم نے لیٹ روڈ سے ڈگلس جانا تھا اے فلیٹ روڈ پہنچے میں تین چار گھنٹے کی دیر ہوگئی دو ہی معلوم ہوئی کہ جان والی حاصل کرنے میں مشکل پیش آئی.اور دو تین قریب کے بندر گاہوں کے درمیان گھومنا پڑا.جب جہانہ فلیٹ وڈ پنچا تو فرسوار کر لئے گئے.لیکن اس عرصے میں جوار بھاٹے کا بہاؤ سمندر کی سمت ہو چکا تھا.اور پانی اس سرعت سے سمٹ رہا تھا کہ جہاز کا حرکت کر ناشکل انہ گھنے اور اپنی جان کے نیے سے بالکل نکل گیا در جا زمین پر کھڑا رہ گیا شہر کے لوگ اپنے کاموں سے فارغ ہو کر یہ تماشا دیکھنے آ گئے.ان میں سے بعض نے جہانہ کے گرد چکر لگانا شروع کر دیا.پروگرام کے مطابق ہمیں شام کے کھانے کے وقت و حمل پہنچنا چاہیے تھا لیکن اب نصف شب سے قبل روانہ ہونا مکن نہ تھا جہاز پر نزوں کے لئے باقاعدہ کھانے کا انتظام تونہیں تھا لیکن چائے اور سینڈ ڈی میں تھیں اور حالات کے لحاظ سے یہ بھی نعت غیر مترقہ تھیں.سونے کے کمرے تو تھے نہیں لیکن کپتان نے کمال نوازش سے میرے لئے دوکیل مہیا کر دیئے اورمیں سموکنگ سیلون کے صوفے پر سو گیا نصف شب کے قریب فلیٹ وڈ سے روانہ ہو کہ جان میں گھنے بعد مجلس پہنچا.میں گہری نیند سورنا صوفے سوگیا سے روانہ تھا.کسی نے میرا شانہ ملایا.آنکھ کھلنے پر معلوم ہوا کہ غیر ملکیوں کے کیمپ کے سپر نٹنڈنٹ صاحب ہیں.انہوں نے فرمایا یہاں سے قریب ہی تمہارے لئے ہوٹل میں کمرے کا انتظام ہے.میں تمہیں دریاں نے چلتا ہوں کیپ یہاں سے آٹھ نو میل کے فاصلے پر ہے.میں صبح ناشتے کے بعد ہوٹل میں آ جاؤں گا اور تمہیں کیمپ لے چلوں گا.میں نے ان کا شکر یہ ادا کیا کہ انہوں نے میری خاطر استقدیر زحمت گوارہ کی اور بہانہ کے بے وقت پہنچنے کی وجہ سے ان کے رات کے آرام میں بھی خل ہوا.ہوٹل کا کمرہ بہت آرام دہ تھا انگیٹھی مل رہی تھی.میں نے سپر نٹنڈنٹ صاحب سے کہدیا کہ میں ناشتے سے فارخ ہو کر نو بجے تک تیار ہو جاؤں گا.ناشتے پر معلوم ہوا کہ شاید کے امرتسم مارشل لاء کے ناظم کریں جبان اسی ہوٹل میں مقیم ہیں لیکن شدید مایہ ہیں.اور چند گھنٹوں کے مہمان ہیں.چنانچہ اسی دن رحلت کر گئے.سپر نٹنڈنٹ صاحب عین وقت پر تشریف لائے.اور اپنی کار میں مجھے کیمپ لے گئے انہوں نے اپنے دفتر کے مرے ہی میں مالہ کا طلاقاً کا انتظام کیا ہوا تھا.کرہ بہت فراخ تھا.اور وہ اس کی ایک جانب اپنے کام میں مصروف تھے.انہوں نے مجھے تا دیا کہ کمرے کے جس حصے میں آسکر اور میں ہوں گے وہاں ہمارے قریب ہی ایک افسہ موجود رہے گا کیونکہ قواعد کی رور سے یہ ضروری ہے لیکن وہ اپنی کتاب کے مطالعہ میں مصروف ہوگا.اسے ہماری باتوں مں کوئی بھی نہیں ہو گی نیا.امید ہے اس کی موجودہ کی تمہارے لئے وقت کا موجب نہیں ہوگی.میری طرف سے تمہاری ملاقات کے وقت پر بھی کوئی پابندی نہیں.تم جب تک چاہو ٹھر سکتے ہو اور جو بات چیت چا ہوں آزادی سے کر سکتے ہو.مں نے پھر انکی.."
نوازش کا شکریہ ادا کیا.اتنے میں آسکہ اپنے نگران افسرہ کی معیت میں آگئے.اور ہم باتیں کرنے لگے جلد ہی قہوہ اور کیب مہیا کر دیئے گئے.آسکر شکل سے اچھی صحت میں معلوم ہوتے تھے انہوں نے بتایا کہ طور پولی کے قریب عارضی کیمپ میں چونکہ انتظام بہت جلدی میں کیاگیا تھا اسلئے آرام دہ نہیں تھا لیکن ڈگلس کے کیمپ میں حالات تکلیف دہ نہیں.سب ضروریات مہیا ہیں.میں نے لارڈلٹن کا پیغام انہیں دیدیا.ہماری گفتگو زیادہ نہ ذاتی امور کے متعلق دریا میں قریب دو گھنٹے ٹھہرا.سپرنٹنڈنٹ صاحب نے ہوٹل تک میرے ساتھ آنے پر آمادگی ظاہر کی.لیکن می نے با اصراران سے رخصت حاصل کی اور ان کی کا ر میں ہوٹل واپس آگیا.رخصت ہوتے وقت میں نے پھرا کی سیم نوازش کا شکریہ ادا کیا.لندن واپسی کا سفر مطابق یہ دگرام سہولت سے طے ہو گیا.فالحمد للہ." ڈاکٹر سکر یہ بندہ سے میرے گہرے دوستانہ مراسم انگلستان میں میری طالب علمی کے زمانے سے تھے پہلی عالمی جنگ کے بعد شاہ میں میرے یورپ کے سفر کی ایک غرض ان سے ملاقات بھی تھی.جب میں عشاء میں انگلستان گیا تو وہ ترک وطن کر کے لندن میں سکونت پذیر ہو چکے تھے.اس قیام کے دوران میں بھی میرا ان کا ہر وقت کا ساتھ رہا.میرے ذریعے میرے عزیز احباب سید انعام اللہ شاہ صاحب، چودھری بشیر احمد صاحب اور شیخ اعجان احمد مهاب سے ان کا غائبانہ تعاریف تو اس مزدک ہو چکا تھا کہ گویا بالمشافو رابطہ ہے.شاء میں جب سید النعام اللہ شاہ صاحب انگلستان گئے تو ان سے بھی دوستانہ میل جول ہو گیا.بعد میں انہیں ہند دوستان آنے کے مواقع بھی ملنے لگے اور چودھری بشیر احمد صاحب اور شیخ اعجاز احمد صاحب سے بھی ذاتی محبانہ مراسم ہو گئے.وہ جب ہندوستان آتے میرے ہاں قیام فرماتے.جب پہلی بار تشریف لائے تو میں نے ہندوستان بھر کے چیدہ چیدہ قابل دید مقامات کی سیر کرائی.جماعت احمدیہ کے سالانہ جلسہ کے موقعہ پردہ سہارے ساتھ تا دیا بھی تشریف لے گئے بعد میں کہا کرتے تھے میری طبیعت پر سب سے گر ائمہ قادیان میں جماعت احمدیہ کے سالانہ جلسہ کا ہے جو دنیا بھرمیں ایک نرالا اجتماع ہے.وہاں مجھے ہر چہرے پر حقیقی طمانیت اور بشاشت نظر آئی جو بنی ایک بھائی کی دوسرے بھائی پر نظر پڑتی دونوں کے چہرے حقیقی خوشی سے کھل جاتے.ڈاکٹر نہ ملا طب کے ڈاکٹر نہ تھے وہ سائنیں کے ڈاکٹر تھے لیکن علم الابدان میں انہیں بری دسترس نفتی میجلی اور روشنی کے اثرات کے ماہر تھے اور ان کے ذریعے بعض امراض کا علاج بھی کرتے تھے.انہیں ان نی اعضائے رئیسہ کی RADIATION معلوم کرنے کی بڑی مہارت تھی اور اس کے ذریعے وہ انسان کی صحت کی کیفیت بغیر کسی غلطی کے امکان کے پچند لمحوں میں معلوم کر لیتے تھے اور مرضی سے ایک بھی سوال کئے بغیر مرض کی پوری کیفیت تبا دیتے تھے.ہم نے ہر طرح سے انکی تشخیص کا امتان کیا اور بھی حقیقت سے تفاوت نہ پایا.علم طبعیات کے مشہور عالم ماہر سر سی دی ، رامن سے میرے گہرے مراسم تھے.میں جب کبھی بنگلور جاتا وہ ایک شام میرے ساتواں کرتے میں آسکر کے ساتھ منگور گیا تو سر سی ، وی ، مرامن نے آسکر سے ملاقات کے بعد انہیں اپنی انسٹی ٹیوٹ میں مدھو i
749 کیا اور ان کے درمیان مفصل گفتگو ہوئی.بعد میں انہوں نے مجھ سے فرمایا مجھے ڈاکٹر نیلم کے نظریات قبول کرنے میں تو بہت تامل ہے لیکن اس شخص کے پاس کوئی ایک علم مزور ہے جس کی تحقیق ہونی چاہیئے.آسکو نسوار کے موسم گرما میں نظر بند کئے گئے تھے لیکن دو سال بعد رہا کر دیئے گئے تھے.رہائی کے عادی ہوں نے پھر لندن میں رہائش کا انتظام کر لیا.اس کے بعد تب بھی مجھے لندن جانے کا اتفاق ہونا میں انہیں کے ہاں قیام کرتا سائنٹفک تحقیقات کی دھن انہیں آسیہ کار امریکہ سے گئی.انہوں نے لاس انجلیز میں سکونت اختیار کر لی.شاہ 1901.میں حبیب میں اقوام متحدہ کی اسمبلی کے اجلاس کے لئے امریکہ کیا تو ان سے ملنے لاس انجلیز بھی گیا پھر اشیاء میں جب میں سجا پانی صلح نامے کی کانفرنس میں شمولیت کیلئے سان فرانسسکو گیا تو وہاں مجھے ملنے کیلئے آئے اور کانفرنس کے اختتام پر اصرار سے اپنے ساتھ دو تین دن کیلئے RED WOODS 2 RED WOODS کی سیر کیلئے لے گئے.بجلی کی بعض شعاؤں کی تحقیق کے دوران میں ایک دن انہیں بجلی کا سخت بھٹکا لگا جس کی وجہ سے ایک لمبا عرصہ بیما رہ رہے.بعد میں مجھے لکھا کہ اب تقریباً صحت یاب ہو چکا ہوں اور آرام اور بحالی صحت کیلئے سیا بارہ کیا آیا ہوا ہوں لیکن کچھ دنوں بعد طلائے می که درفعت کمزوری عود کر آئی اور جاں بحق تسلیم کی.وہ اپنی ذاتی خوبیوںاور اعلیٰ اخلاق کے باعث ایک نہایت ہی قابل قدر انسان تھے اور میرے نہایت با و نا مشفق دوست اور بھائی تھے.انا للہ وانا الیہ راجعون.اللہ تعالٰی وافر رحمت اور غفران کا سلوک فرمائے آمین.ول بدر درآید ز بجبر این چینی یکی رنگ و دست لیک خوشنودیم به فعل خدا وند کریم فلسطین کے سلسلہ میں لارڈ جب دوسال بعد آسکر رہا ہو کہ آگئے تو لارڈ لٹن سے پھر ملاقات کا لٹن کی مجھ سے آزردگی اتفاق ہوا اور ہم تینوں نے کچھ وقت اکٹھے گزارا.اس کے دو تین سال بعد ایک موقعہ پر طاری مٹن کو مجھ سے دوستانہ شکوہ بھی ہوا لیکن وہ معاملہ آسکر کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا تھا کا قضیہ فلسطین سے متعلق تھا.لارڈئٹی فلسطینی نوسینٹ کمپنی کے صدر تھے.انہیں طبعاً فلطین کے حالات میں گہری دلچسپ تھی ایک مرتبہ جب میں انگلستان میں تھاتوان کی ایک تقریر یتیم اس میں رائیل انسٹی ٹیوٹ ان انٹر نیشنل ایریز کی تیری میں فلسطین کے موضوع پر ہوئی.انہوں نے اپنی معلومات کی بنا پر تقریر میںامید ظاہر کی کہ صیہونیوں اور عربوں کے دوستانی سمجھوتے کی صورت پیدا ہوسکتی ہے اور اپنی طرف سے سمجھوتے کا ایک خاکہ بھی پیش کیا.ان کی تقریر کے بعد میں نے بھی کچھ کہنے کی اجازت چاہی.فلسطین کے حالات کے مطالعہ کے نتیجے میں میرا تاثر تھاکہ صیہونی اپنی طاقت کو بڑی سرعت سے مضبوط سے مضبوط تر کرتے چلے جارہے ہیں اور وہ کسی ایسے سمجھوتے پر تیار نہیں ہوں گے جس کے نتیجےمیں فلسطینی عربی کے حقوق کی کا تحفہ حفاظت ہو سکے.میں نے محض الفاظ میںاپنے تارہ کا اہانہ کیا.عیسائی مذہب میں میاں بوی
سم کی علیحد گی بذریعہ طلاق کے خلاف حضرت شیخ کا ایک مقولہ یہاں کیا جاتا ہے.THOSE WHOM GOD/ HAS Joined Together Let NO MAN Put AsundeR یں نے اس مقولے کے الفاظ میں تبدیلی کے کہا.فلسطین میں جو صورت پیدا ہوگئی ہے اس کا صحیح نقشہ ان الفاظ میں پیش کیا جا سکتا ہے:.« Those Whom God Has Put AsundeR LET NO MAN Join Together” میرا یہ کہنا تھا کہ مال نہقہوں سے گونج اٹھا اور اس موضوع پر سنجیدہ بحث کا امکان ہم نہ رہا.میٹنگ کے بعد وارڈ لیٹن نے آزردگی کے لیے میں مجھ سے کہا تم نے اس قولہ کے الفاظ کو بدل کر مری تقریر کا سارا اثر زائل کردیا اور میری محنت ضائع ہوگئی.لیکن میں نے غلط نہیں کہا تھا.اس واقعہ پر تقریباً پچیس سال گزر چکے ہیں لیکن اتیک کھوتے کی صورت پیدا نہیں ہوئی.ایک مرتبہ جنگ ہوچکی ہے اور اندیشہ ہے کہ پھر نگ کی صورت پیدا ہوگی.سر ماریں گو ائر چیف جسٹس ہندوستان میں جنوری کے پہلے ہفتہ مں لندن پہنچا تھا.اسی دوران کی جگہ سر پرک سپنیز کا تقریر میں اعلان ہوا کہ ہندوستان کے چیف جشن سرماریس گوائر ی میعاد ختم ہونے پر ان کی جگہ سی پیک سپی کا تقریر ہوا ہے.میرا خیال تھاکہ سرماریس کے بعد میرے نیز رفیق سر سرینواس در دا چاری چیف جسٹس ہوں گے.وہ ایک قابل حج اور فاضل قانون دان تھے.طبعیت کے بہایت شریف اور مزاج کے ویسے تھے اور ہر لحاظ سے اس قابل تھے کہ انہیں ہندوستان کا پہلا ہندوستانی چیف جسٹس ہوتے ا اعزاز حاصل ہوا.یہ بھی ایک موقعہ تاکہ حکومت برطنیہ ہندوستان کی آزادی کی طرف ایک قدم بڑھائےاور ہندوستان کا چیف جسٹس ایک ہندوستانی کو مقر کرے.مجھے اس بات پر بھی کچھ حیرت ہوئی کہ سرماری گوار نے جنون امو می بندر رواں انستان کے ساتھ پوری ہمدردی رکھتے ہی کیوں یہ مشورہ نہ دیا کہ سر سریواس ان کے جانشین ہوں.میں نے سر جھیز گرگ سے کہا یسم اری گوار د مالی لحاظ سے بڑے پائے کے انسان ہیں.ان کے ساتھ کام کرنا میرے لئے تھر کا موجب ہے.میں نے بہت کچھ ان سے سیکھا ہے.سرمیٹرک سینز کو میں نہیں جانتا.کیا آپ انہیں جانتے ہیں ؟ فرمایا جانتا ہوں.میں نے دریافت کیا کیسی پائے کے انسان ہیں ؟ کہا پارلیمنٹ کے نمبر ہیں.بیرسٹر ہیں، وزیہ ہند کے دوست ہیں اور بس.میں نے پو سچا ان کا انتخاب کیسے ہوگیا؟ کہنے لگے میں نے کہا ہو ہے امیری کے دوست ہیں یا میرے دلی پہنچنے پر سرماریس گواٹر نے مجھ سے کہا میری جانشینی کے اعلان پر تمہیں صدمہ ہوا ہو گا ؟ میں نے کہا بیشک مجھے تو پوری امید تھی کہ آپ مج دور دا مجاہدی کے تقریر پر زور دیں گے اور آپکی سفارش ضرور مانی جائے گی.فرمایا لیکن مجھ سے تو کسی نے پو چھائی نہیں میں منتظر تھا کہ جب مجھ
سے دریافت کیا جائے گا تو میں بڑے زور سے اپنی رائے ظاہر کر دوں گا.لیکن یہ نوبت ہی نہیں آئی.میں نے تو دو سال قبل سر شاہ سلمان کی وفات پر تہ کرایا تاکہ کی جگہ تایا قر مواور پھر وقت آنے پر تم میری جگہ ہو.اسی لئے میں دال دائے کے ساتھ بند تھا کہ میں ہم شاہ سلمان کی جگہ تمہارے ہوئے کسی اور کی سفارش نہیں کردوں گا میں نے کہا یہ آپ کی نودوش ے لیکن جے وردا چار ی کی موجودگی میں مجھے تویہ توقع نہی تھی کہ مجھے مقر کیا جائے گا.لیکن اسیات سے مجھے ضرور صدمہ ہوا کہ ایک ہندوستانی کو چیف جسٹس نہیں کیا گیا.ہندوستان واپسی کا سفر | لندن سے ہندوستان واپسی کا سفر را ر کو شروع ہوا بعزیزالحق اولد سریعیان کولو جن کا سر وجہ سے کی جگہ بیٹی کی گورنہ پر تقریر ہوا تھا میرے ہمسفر تھے بسر عزیز الحق رحمت پر وطن ارہے تھے مجھے معلوم تھا ان کا تقر بطور وزیر تجارت والے کی کون میں ہو چکا ہے لیکن اب انہیں یہ نہیں تایا گیا تھا.ہم تینوں کو لوٹنگ ہوائی کشتی میں جو د احد الگ کرہ تھا دیدیا گیا اور سمارا سفر اس میں بہت آرام سے کیا.پہلے دن ہم لندن سے ریل پر گئے اور وہاں سے ہوائی کشتی پر ے تن پنچے.ان دنوں ابھی سے مین بین الاقوامی مار نہیں نا ھا.لیکن دریا پر ہوائی کشتیوں کے اترنے او روانہ ہونے کا نظام تھا یہاں پہنچ کر علوم جو کہ ہوائی کشتی کے کسی انجن میں خفیف سا نقص ہے قریب ترین ہوٹل سولہ میل کے فاصلے پر ایک چھوٹے سے گاؤں ادیر میں تھا.مسافروں کو وہاں پہنا دیا گیا ہم شام کے کھانے سے فارغ ہوئے تو میں بتایا کہ بوائی کشتی اسلات روانہ نہیں ہوسکے گی.چنانچہ بول می ہمیں کرے دیا نئے گئے.اور ہم نے آرام سے رات وہیں بسر کی ہول سان ستراتا اور کھانا با افراط تھا.کوئی بات نہیں سختی.ہوٹل ، گاؤں اور او ذکر کی اراضیات اورل آف ڈیریوں کی ملکیت تھے.اپنی کے نام پر ہوٹل کا نام ڈویزیون آرمز تھا.ان کا محل اور پارک گاڑی کے وسط میں ہوٹل کے قریب ہی تھے.جنگی ضوابط کے مطابق مشین سے از بن تک ہماری کشتی کا سفرت ات وانا ما انا او برای ریری میں رہنا پڑا جہاں ریچھ کا کوئی کام نہیں تھا.البتہ اور ڈینیلو نے کمال نوازش سے ہم تینوں کو چائے پر ملایا.شام ہوئی تو کھانے کے بعد کم کوچ میں سوار ہو کر شین چلے گئے.توقع تھی کہ ہمارے سینے تک ہوئی کشتی پر ان کیلئے تیار ہوگی.لیکن وہاں پہنچے پر یہ توقع ہ نہ آئی اور پھر دیر واپس چلے گئے.ہمیں کوچ سے اترتے ہو کہ ہوٹل کی لیڈی میجر مسکرائیں.اور کہا ہیں ؟ واپس ؟ اچھا تو ہی کرے.چنانچہ تم اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے.آئرلینڈ جن میں غیر جانبدار تھا چنانچہ جنگ کے دوران میں جرمن سفیر ڈبلن میں موجود تھا.کھانے پر بندش نہ ہونے کی تو توقع کی تھی یکن مجھے یہ دیکھ کرحیرت ہوئی کہ انگلستان کے ساتھ ٹیلیفون پر بات کرنے پر بھی کوئی پابندی نہ تھی ہماری کشتی کے مسافروں کو چونکہ پیدل چلنے اورتاش کھیلنے کے علاوہ کوئی اورشل میسر نہ تھامنے وہ باری باری لندن کے ساتھ ٹیلیفون پرگفتگو کاسلسلہ متواتر جاری رکھتے تھے اور بیان ک میں اندازہ کرسکتا تھایہ گفتگو با کل آزادانه بلا روک ٹوک ہوتی تھی.دوستی دن ہم پر شام کے کھانے کے بعد کوچ پرشین گئے.اور پھر واپس لوٹائے گئے.ہمارا بار بار ہوٹل واپس آنا اور نیجر کا دری کرنے کے الفاظ i
یات کا خیرمقدم کرنا ایک مذاق بن گیا.تیسرے دن کی سر پر کوہم نے گاڑی کی داد ٹیکسی کرایہ پر لی اوردم قریب ترین شہر میرک ی سر کو چلے گئے میں سے ایک مرتبہ میر جاچکاتھا اورمجھے علم تا کیا کچھ دیکھنے کے قابل نہیں لیکن وقت رہتے کیلئے یہ بھی غنیمت تاکہ ٹیکسی میں تھی شہر سے گذرتے ہوئے ڈرائیور نے ہاتھ سے اشارہ کرکے کہا میاں ہماری ہوائی حملے سے حفاظت والی کوٹھڑیاں ہیں.میں نے را سیر کے لیے میں دریافت کیا تمہیں کس طرف سے خطرہ ہے؟ ڈرائیر نے فورا پری سنجیدگی سے کہا دونوں طرف سے! اس پر سر عزیز الحق اور سر ان کھلکھلا کر ہنس دیے.ہماری دو پر کی سیر کا سب سے دلچس لحظ یہ تھا.واپسی پر جب ہم اور کے قریب پہنچ رہے تھے تو ڈرائیور نے دائیں جانب ایک نام کی طرف اشارہ کرکے کہایا شاہ انگلستان کا بھی ایک گھوڑا پل رہا ہے.اس شام جب ہم شین پہنچے تو علم ہوا کہ کشتی روانہ ہونے کو تیارہے.چنانچہ ہم سوار ہوگئے.دس بجے روانہ ہوکر ایک کے کے قرب لزبین پیچھے شہر میںایک بلند مقام پر ایک ہوٹل میں گئے.جہاں پورے کھانے کا انتظام تھا.مجھے تواتنی جلدی دوبارہ کھانے کی اشتہاتھی نہ سمیت.میرے دونوں ساتھیوں نے بھی کی ظاہر کیا لیکن ہمارے بعض ساتھیوں خصوصاً فوجی افسروں نے تو اس وقت تک رغالبا پر لگال کی غیر جانبدارانہ حیثیت کے اعترام میں اوردی نہیں بنے ہوئے تھےاپنی امت کے خوب ہو ہر دکھائےاور جو کچھ مہیا کیاگیاتھا اس کی خوب داد دی.ہم بجے قبل فریم لند ن سے روانہ ہو کر بارہ گھنٹے کی پرداز کے بعد مغربی افریقہ کے ساحل پریمیا کے دارالحکومت باتھرسٹ پہنچے ہم تینوں کو گورنمنٹ ہاوس سے وہاں آرام کرنے اور شام کے کھانے کی دعوت پہنچی.جسے ہم نے شکریے کے ساتھ قبول کیا.گورنمنٹ ہاؤس میں ہمیں غسل کا موقعہ بھی مل گیا.گورنہ صاحب خود تو دورے پر تھے.کھانے پر ان کی بیگم صاحبہ نے میزبانی کے فرائض ادا کئے.دس بجے شام کم با نفرسٹ ے دوران ہو کر بارہ گھنے کی مزید پردازکے بعد یوں پینے اورگور نہ منزل صاحب کے ہاں مہمان ہوئے جہاں میں امریکہ جاتے ہوئے بھی بھر چکا تھا.یہاں سے آگے مواصلات کا الگ انتظام تھا.اس وجہ سے ہمیں تین دن یہاں ٹھہر نا پڑا.لیگوس میں جامع احمدیہ کی عمارت ( جماعت احمدیہ لیگوس نے مجھے جامع احمدیہ کی عمارت کا سنگ کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب بنیاد نصب کرنے کیلئے ارشاد فرمایا.گورنہ منزل بوردیان اور سر عزیز الحق نے بھی اس تقریب میں شرکت کی.میں نے اپنی تقریر میں اسلامی روزانہ زندگی کے نظام اور معاشرتی اور ثقافتی اقدار کے استحکام کے نقطہ نگاہ سے مسجد کی اہمیت واضح کرنے کی کوشش کی.تقر سے واپسی پر سر عزیز الحق نے فرمایا.ہمیں تو آج معلوم ہوا ہے کہ مسجد ہر لحاظ سے سلمانوں کی جماعتی زندگی کا مرکز ہونی چاہیے اتیک توہم میں سمجھتے رہے تھے کہ مسجد ایسے لوگوں کے لئے مانہ پڑھنے کی جگہ ہے جن کے مکان فراخ نہ ہوں اور جنہیں گھر میں نماز پڑھنے میں دقت ہو.البتہ جمعہ کے دن ہرمسلمان کو جمعہ کی نمانہ کے لئے مسجد میں جانا چاہیئے لیگوس سے روا نہ ہو کہ ہم حسب توقع پہلی رات لیوپولڈ ول ٹھہرے.لیکن دوستے دن کسی وجہ سے براہ راست کسی نے دل جانے کی بجائے ہمیں چکر کاٹ کر انہ تجھ وی نو کی جانب جانا یا یہاں میں ایک ہسپتال میں ٹھرا باگا :
م چونکہ یہ مہتا اور میں لوگوں کیئے بنایا گیا تھا اس لئے یہاں ہرطرح کا آرام میر تھا.یہاں سے سٹینلے ول اور وا ہوتے ہوئے ہم روم پہنچے جہاں مارا نام سیدنی منی میں ہوا.ہمارے میزبان سرینڈ کی پوسٹن گریز ہوں تھ مرجان کو اول و یا ارے کا ملا کہ وہ جلد بھی پہنچنے کی کوشش کریں.ایک ہوتا خیر موسکی بھی اس سے سعد رد بر ملے کا سارا پروگرام گریڈ ہوگیا تھا اور وہ مزید تاخیر کے امکان سے پریشان ہو رہے تھے.چنانچہ گورنہ جنرل صاحب نے ان کیلئے ایک فوجی ہوائی جہان کا انتظام کر دیا اور وہ دوسری صبح براستہ عدن بمبئی روانہ ہو گئے اور اسی سر پر کو بھی پہنچے گئے.سرعزیزالحق کو اور مجھے دوران خرطوم ٹھہرنا پڑا.تمام درمان کاشہر دیکھنے گئے جو سوڈانی مہدی محمد احمد کا صدر مقام رہ ہوچکا تھا.سوڈان کے دو ممتانہ مذہبی اور سیا سی ان ایام میں سوڈان میں دو ممتاز مذہبی اور سیاسی رہنما تھے ایسید رہنماؤں سے شرف ملاقات میر غنی اور السید سر عبد الرحمن المہدی میں نے دونوں کی خدمت میں حاضر ہو کر شرف ملاقات حاصل کیا.السید میر غنی معمر یہ درگ تھے قدامت پسند اور پرانی طرز رہائش کے پابند تھے سرعبد الرحمن المہدی کی رہائش ایک نوشنا باغ کے اندر ایک جدید طرز کے بنگے میں تھی وہ السید محمداحمد المہدی کے صاحبزادے تھے جو اپنے والد کی وفات کے وقت ابھی کمسن تھے.نئی روشنی کے تعلیم یافتہ تھے انگریز میں جنوبی گنگو فرماتے تھے.دونوں بزرگ میرے ساتھ بہت تواضع سے پیش آئے.فجرا عما الله - خرطوم سے براستہ قاہرہ ہم عفیفضل اللہ بخیریت کراچی اور وہاں سے دلی پہنچ گئے فالحمدللہ.دلی پہنچ کر سر عزیمہ الحق کو معلوم ہو گیا کہ ان کے روز یہ تجارت ہونے کا فیصلہ ہو چکا ہے.فیڈرل کورٹ آف انڈیا | فیڈرل کور کا اختیار سماعت بہت محدود تھا.ابتدائی تنازعات کی توندوں کورٹ میں اسی صورت میں سماعت ہو سکتی تھی جب تنازعہ دو صولوں کے درمیان پویا صوبے کی حکومت اور مرکزی حکومت کے درمیان ہر صوبے کی اعلی عدالتوں سے اپیل دیوانی ہو یا فر بیداری اسی صورت میں فیڈرل کورٹ میں آسکتی تھی جیب آئین کی تعبیر کا کوئی سوال زمین تنازعہ ہو.البتہ اگر یہ شرط پوری ہو جائے تو پھر بہاتی نیز ناز عروسائل کے تصفیے کا بھی فیڈرل کورٹ کو اختیار تھا کسی اہم قانونی سوال کے پیش آنے پر گورنہ منزل کو اختیار تھا کہ وہ عدالت سے مشاورتی رائے طلب فرمائیں.میں ستمبر اللہ سے ، ارجوی شکار تک فیڈرل کورٹ کا بج رہا.اس ہے 1ء یں کوئی ابتدائی تنازعہ فیڈرل کورٹ میں پیش نہیں ہوا.ایک مسئلہ گور نہ منزل کی طرف سے مشاورقی رائے کیلئے آیا.سوال یہ تھا کہ آیا گورنمنٹ آن انڈیا ایکٹ مہ کے رو سے مرکزی حکومت کو اسٹیٹ ڈیوٹی عائد کرنے کا انتقام ہے یا نہیں.گورنہ جنرل کی طرف سے سرموتی لال میتلوار پیش ہوئے جو بہت قابل ایڈوکیٹ تھے.سود کلاء فیڈرل کورٹے میں پیش ہوتے رہے ان میں سے میری رائے میں باتشاء سراں دی کریشنا سوامی آئٹمر جو صو بہ بار اس کے ایڈوکیٹ
۴۰۴ جنرل تھے مسٹر سیلواڈ قابل ترین ایڈوکیٹ تھے.بعد میں وہ آزاد ہندوستان کے اٹارنی جنرل بھی ہوئے اور اس حیثیت میں حکومت ہند کی طرف سے پر نگال بنام ہندوستان کے تنازعے میں عالمی عدالت کے روبر د بھی پیش ہوئے.اسٹیٹ ڈیوٹی والے مسلے میں انہیں یہ وقت تھی کہ جس مرحلے پر ہماری رائے طلب کی گئی اس وقت تک حکومت ابھی یہ طے نہیں کر پائی تھی کہ اس ٹیکس کے عاید کئے جانے کی صورت میں وصولی کا کیا طریق ہو گا.کیا سیکسی کی ادائیگی کی ذمہ داری متوفی کی جائداد پر عاید کی جائے گی یا متوفی کے در شاء پر.اسٹیٹ ڈیوٹی کے مسلے پر میرا یہ موقف تھا کہ کسی ٹیکس کی نوعیت کا فیصد دن اس کے نام سے نہیں کیا جاسکتا.اگر اب ہو تو مرکزی یا صوبائی حکومت ہو ٹیکس چاہے عائد کر دے صرف اس ٹیکسی کانام وہ دیکھے.جس کا اندراج اس کے اختیارات کی فہرست میں ہوں میں نے مٹر سیلواڈ سے دریافت کیا کہ اس ٹیکس کی وصولی کی کیا صورت ہوگی.انہوں نے جواب دیا یہ تفصیل ابھی تک طے نہیں کی گئی.میں نے تجھے سوال اس مقصد سے کئے کہ مجوزہ ٹیکس کی نوعیت کا تعین کیا جا سکے ان کا احتراب انکی طران سے بجا دیاگیا کہ یہ تفاصیل بھی طے نہیں ہو پائیں اور آخر کہا ان کے لئے کرنے کا مرحلہ اس وقت آئے گا جب حکومت کو یہ معلوم ہو جائیگا کہ اس ٹیکس کا عاید کرنا اس کے اختیار میں ہے.میں نے کہا فیڈرل کورٹ تو گورنہ نبی کے سوال کا جواب دینے کے قابل جب ہی ہو سکے گی جب عدالت کو ان تفاصیل کے متعلق کچھ علم ہوسکے.کیونکہ مرن ٹیکس کے مجوزہ م کی بنا پر سرائے کا اظہار میکن نہیں.چنانچہ مینے اور تی رائے میں شمولیت سے اس بنا پر انکار کر دی کہ جو کوائف حکومت کی طرف سے عدالت کے روبرد بیان کئے گئے ہیں ان کی بنا پر ہر شخص نہیں کی جاسکتی کہ اس کیس کی اصل نوعیت کیا ہوگی.چیف جسٹس اور مسٹر جسٹس وردا چاری نے رائے دی کہ بادی النظر میں در بیان تک وہ اندازہ لگاسکتے ہیں مجوزہ ٹیکس مرکزی حکومت کے اختیارات میں شامل ہے.میں اب بھی میں سمجھتا ہوں کہ وہ رائے حسکی بنیاد مفروضات پر ہو، حکمت کیلئے کارآمد نہیں ہوسکتی.سرما رس گو ائیر چیف جسٹس آف انڈیا صوبائی اعلی عدالتوں سے جو اپیل ہمارے رو برد آتے رہے ان میں مجھے یاد نہیں کبھی سرماری گوار سے اختلاف رائے ہوا ہو.اختلاف کا امکان اسٹے بھی کم تھاکہ ایک تو وہ نہایت آزاد خیال تھے.حکومت کی حمایت کا کوئی شائبہ ان کی طبیعت یاد من میں نہیں تھا.دوسرے وہ ہر قسم کے نسلی تعصب سے آزاد تھے.ایک اپیل میں ڈیفنس آف انڈیا کے تحت وضع شدہ ایک قائدے کے جواز کا سوال اٹھایا گیا.حکومت کی طرف س برای این مرزا اٹارنی تنزل کا انڈیا جو پہلے حکمت ہندمیں وزیر قانون رہ چکے تھے پر دی کر رہے تھے.بحث سنتے کے بعد ہماری متفقہ رائے یہ ہوئی کہ قاعدہ نہ یہ بحث ایک کے تفویض کردہ اختیارات سے تجاوز ہے اور اس نے قابل پذیرائی نہیں سر مارس واٹر کو اسرائے پر قائم ہونے میں کسی مصلے پر کوئی وقت پیش نہیں آئی.ایک فوجداری اپیل میں آئینی سوال کے علاوہ حکومت کے خلاف منافرت کے جذبات انگیخت کرنے کا بھی سوال تھا.بحث کے دوران میں
ماه مارس نے مجھ سے کہا کہ جب سے مجالس قوانین ساز کا انعقاد عمل میں آیا ہے حکومت کے خلان منافرت پیدا کرنا تو حزب مخال کا فرض منصبی ہوگیا ہے.ملا صو بات میں اگر مغرب مخالف وزارت کے خلاف منافرت پیا کر کے مجلس کی کثرت و یا انتخاب کے موقعہ پر رائے دہندگان کی کثرت کو وزارت کے خلاف نہ اک دے تو وزارت کی تبدیلی کا کون امکان باقی رہ جاتاہے.یہ بھی فرمایا کہ اب آئینی نقطہ نگاہ سے وہ وقت آگیا ہے کہ اس جرم کی تازہ تیر کی جائے اور مناسب یہی ہے کہ ہندوستان میں بھی اب اس کی وہی تعبیر ہو تو انگلستان میں کی جاتی رہی ہے.یعنی اس تجوم کے قائم کرنے کیلئے یہ ثابت کرنا ضروری جوکہ جن الفاظ کو محرم کی بناء بیان کیا جاتا ہے ان سے حکومت کے خلاف محض منافرت ہی پیدا نہ ہوتی ہو بلکہ ان کے نتیجے میں نقص امن کا بھی معقول اندیشہ پیدا ہوتا ہو.چنانچہ عدالت کے فیصلے میں اس پہلو کی خوب وضاحت کر دی گئی.سرما رس جب چیف جسٹس کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تو ARTHRITIS کی تکلیف ی مبتلا تھے اور یہ تکلیف بڑھ رہی تھی لیکن ہندوستان ی تعلیمی سرگرمیوں کے فروغ دینے میں انہوں نے بہت دلچسپی لیا شروع کر دی تھی.وہ مرکزی تعلیمی بورڈ کے صدر تھے.ایک دفعہ قادیان تشریف لائے اور میرے مہمان ہوئے سلسلے کے تعلیمی اداروں کو بڑے شوق سے دیکھا.جس بات کا انہوں نے گہرا اثر لیادہ یہ ھی کہ جماعت احمدیہ نے نہایت قلیل عرصے میں بغیر ایک پیسہ خرچ کرنے کے قادیان کے ہر بالغ کو نوشت و خواند سے بہرہ ور کر دیا تھا.قادیان کے سارے بچے تو عرصے سے مدرسہ جانے کے عادی تھے ہی.ڈاکٹر رضیاء الدین مرحوم نے مجھے تا کہ سرماریں گواٹر نے قادیان سے واپسی کے بعد مرکزی تعلیمی بورڈ کے اجلاس میں جماعت کی اس کامیابی کوبہت سراہا.اور فرمایا اگر قاریان جیسے دور افتادہ تھے میں رضا کارانہ طور پریہ کامیابی بر کسی باید مصرف کے حاصل کی جاسکتی ہے تو ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا.اسی دھن میں سرماریس نے دتی یونیورسٹی کے وائس چاند کے منہ کے فرائض اپنے ذمے لے لئے تھے.اور عدالت سے علیحدہ ہونے کے بعد بھی جب تک صحت نے اجازت دی وہ ان فرائٹن کو اعزان ی طور پر لیکن بڑی سرگرمی سے ادا کرتے رہے.آخر جب ان کا آزار بہت تکلیف دہ ہو گیا تو اچار انگلستان والیس ملے گئے اور ایسٹ پورن میں اب حل ایک فلیٹ میں رہائش اختیار کی میں انگلستان گیا تو انکی مد میں بھی حاضر ہوا چلنے پھرنے سے عاری ہوچکے تھے لیکن پر بھی اور پانی کی فرمائش پر سپریم کوٹ کے قوام کی نظر ثان اور تمیم کےمتعلق رپورٹ تیار کرنے میں مصرف تھے.نیکی کریر نے مجھے بتایا کہ اب ان کی صحت انہیں متواتہ کام کرنے کی اجازت نہیں دیتی.یہ ہماری آخری ملاقت تھی.کچھ عرصہ بعد کی ونات کی حیرت ائع ہوئی.سمہ ماریں وائر کے عدالت سے علیحدہ ہونے کے بعد مجھے متعدد بار اپنے رفقاء سے فیصلوں میں اختلاف رائے ہوائیاں تک کہ قانونی حلقوں میں میں DISSENTING JUDGE کے نام سے یاد کیا جانے لگا.میں یہ نہیں کہ سکتا کہ جب بھی میں نے اختلاف کیا میری رائے لاز مادرست تھی.اور میرے رفقاء کی رائے صائب نہ تھی.لیکن یہ بھی درست ہے کہ میں دہی
موقف اختیار کرتا تھا جو مجھے درست معلوم ہوتا تھا.واللہ اعلم بالصواب.یہ اتفاق کی بات ہے کہ یہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میری اختلافی رائے حکومت کے موقف کے خلا ہوا کرتی تھی.مجھے حکومت کے ساتھ کوئی ضد نہ تھی.میں ان طبیعت ی اتا اور اپنی تربیت کے لحاظ سے قانون اور ان کا ہمیشہ سخت سے پانی اور امی رہا ہوں اپنے فرائض کی انجام دہی کے سلے میں مجھے کبھی کس کی رعایت منظور نہیں رہی.اللہ کے فضل ورحم سے وبصیرت مجھے عطا ہوئی ہے اس کے مطابق جو موقف مجھے مطابق قانون اور قرین انصاف نظر آیا میں نے وہی اختیار کیا.اس میں کسی موقعہ پر بھی کسی فریق کی رعایت یا مخالفت کا ہرگز کوئی دخل نہیں تھا.میں نے عدالت کا رکن ہوتے ہی اپنی عدالتی نوٹ بک کے پہلے صفحہ پر اس آیت کریمہ کا خط کشیدہ حصہ اپنے ہاتھ سے درج کر لیا تھا :.يَاتِهَا الَّذِينَ امنوكُونُوا قَوْمِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرَ مَنكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى الَّا تَعْدِ اعِدِ مُواقف هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوَى زواتَّقُوا الله إن الله بما تعملون ).میری طبیعیت میں یہ بات تو فضل اللہ راسخ ہے کہ ایک جج کے فیصلوں پر اس کی اپنی پسند یا نا پسند کا قطعا کوئی الہ نہیں ہونا چاہئیے.فوجداری معاملات میں چونکہ قانونا آخری مرحلے تک بار ثبوت استفانے کے ذمے ہوتا ہے اسلئے جب تک میرا لولا اطمینان نہ ہو جاتا کہ استغاثہ اس بار ثبوت سے ہمہ وجوہ سبکدوش ہو چکا ہے میں الزام کو ثابت شدہ قرار نہ دیتا.کے سیاسی ہنگاموں کے بعد گور نہ منزل نے ایک آرڈینینس کے ماتحت مہارہ اور صوبجات متحدہ میں بعض مقامات پر سپیشل ٹریبونلز و خصوصی عدالتیں قائم کئے.مجسٹریٹ ضلع کو اختیار دیا گیاکہ فسادات کے سلسلہ میں بجن مقدمات کو وہ چاہے سپیشل ٹربیونل کو تفویض کر دے.ایک فوجداری اپیل میں اس آرڈینینس کے جواز کا مسئلہ فیڈرل کورٹ کے سامنے آیا.سی است کے مرحلے پر چیف جسٹس رخصت پر تھے.سرسر نینو اس درد اچاری قائمقام چیف جسٹس تھے.میرے علاوہ تیسرے حج بینہ بائی کورٹ کے ایک انگریز جی تھے جنہیں فیڈرل کورٹ کا عارضی حج مقرر کیاگیا تھا.وہ خود اس وقت رخصت پر تھے اور بھائی صحت کی خاطر کشمیر گئے ہوئے تھے.انہیں اپنی رخصت کے دوران میں ہی کشمیر سے دلی آنا پڑا.حکومت کی طرف سے سر بی ایل متر پیش تھے معاملہ بہت اہمیت اختیا کر گیا تھا کیونکہ میریٹ اضلاع نے کثیر تعداد میں مقدمات سپیشل ٹرمینلز کو تفویض کرنے شروع کر دیئے تھے اور جو مقدمات ان ٹریبیونلز کو تفویض کئے جاتے ان میں ملزمان کا سفر یاب ہو نا قریب قریب ایک قاعدے کی صورت اختیار کر تا جا رہا تھا.پہلے تین دنوں کی سماعت کے دوران میں قائمقام چیف جسٹس کی اور میری تنقید سے سربی ایل متر نے یہ ادا نہ کیا کہ ہماری رائے آرڈنینس کے جواز کے حق میں نہیں.چوتھے روز عدالت کے شروع ہوتے ہی انہوں نے عدالت کو بتایا کہ وزیر نیند کی طرف سے تار موصول ہوا ہے کہ بعض ملزمان کی طر سے جو کسی خاص عدالت سے سزا یاب ہوئے تھے پر لوی کونسل میں اپیل دائر کرنے کی اجازت کی درخواست کی گئی ہے.وزیہ ہند نے اپنے مشیر قانونی کے محکمے کو ہدایت دی ہے کہ حکومت کی طرف سے اس درخواست کی مخالفت کی جائے کیونکہ اس اپیل میں بھی ملزمان کی طرف سے آرڈنینس کے جواز کا سوال اٹھایا
الم جائے گا.اندریں حالات قرین قیاس ہے کہ اسہیل کی اجازت مل جائے گی اور یہ مسلہ جلد یہ لیوی کو نسل کے زیر غور آجائے گا.چونکہ فیڈرل کورٹ کے فیصلے سے بھی اپیل پر لوی کونسل میں جاسکتا ہے اسلئے حکومت کی ہدایت پر میری درخواست ہے کہ موجودہ اپیل کی سماعت کو پریوی کونسل کے فیصلہ تک ملتوی کر دیا جائے.یہ سنتے ہی تیرے ج نے کہا مجھے التوا کی در خواست سنکہ حیرت ہوئی ہے فیڈرل کورٹ کی جی پر مرا عارضی نظر اس بنا پر کیا گیاتھا که معاملہ نہایت اہم ہے اور اس کی فوری سماعت لازم ہے.مجھے اپنی بقیہ رخصت ترک کر کے کشمیر سے دتی کی گرمی میں آنا پڑا.تین دن سے سماعت جاری ہے.میرے رفقاء کے تنقیدی الفاظ سے اندازہ کر کے کہ انکی رائے ممکن ہے آرڈنینس کے جواز کے خلاف ہو حکومت اس مرحلے پر سماعت کا التوا چاہتی ہے.میری رائے میں ایسی درخواست غیر واجب ہے.میں نے سر بی ایل متر سے دریافت یا آپ درزیرہ ہند کے تار کی نقل پیش کر سکتے ہیں ؟ انہوں نے مسٹر شیو یکیں لال جائنٹ سیکریٹری وزارت قانون کی طرف دیکھا جو ان کے پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے میرشو یکیں لال نے بڑے زور سے نفی میں سر ہلایا.اس پر سر بی ایل مرنے کہا کہ دری ہر بند کے تار کی نقل پیش نہیں کی جاسکتی.میں نے ایڈوکیٹ جنرل سے کہا کہ جب آپ دہ دستاویز عدالت کو دکھانے سے گریہ کرتے ہیں جس کی بنا پر آپ ساعت کے التوا کی درخواست کرتے ہیں تو کیا آپ جائز طور پر توقع رکھ سکتے ہیں کہ عدالت آپ کی درخواست کو منظور کرے چنانچہ التوا کی درخواست نا منظور ہوئی اور سماعت جاری رہی.فریقین کی تفصیلی بحث پر غور کرنے کے بعد مری اور عارضی چیف جسٹس دردا چاری کی میں رائے بہوئی کہ آرڈنیس کی وہ شق میں میں محبر میٹ ضلع کو اختیا نہ دیا گیا ہے کہ ایک خاص قسم کے مقدمات میں سے جن مقدمات کو وہ چاہیں ایک خاص عدالت کے سپرد کر دیں.ضلع کو ایک حد تک قانون ساندی کے اختیارات تفویض کر تی ہے اور آئین کی رو سے گور نہ منزل کو ایپ کرنے کا اختیارنہ نہیں اسلئے آرڈینینس کی یہ شق غیر آئینی ہے.اور اس کے نتیجے میں آرٹڈ نیس کی باقی شقی اقبال عمل رہ جاتی ہیں.میرے بیج نے ہماری رائے سے اختلاف کیا اور فیصلہ کثرت رائے کے مطابق صادر ہوا.مہاراجہ نابھہ کی اہلیہ صاحبہ کا حکومت مدراس مہاراجہ نابعہ انگریزی حکومت کی نظروں میں معتوب اور اس کے پیندیلولیس افسران کے خلاف دعوی ہو گر ریاست کی گدی سے دست بردار ہوئے اور انہیں صوبه مدراس میں کو ڈائی کنال کے پہاڑی مقام کے میونسپل حدود کے اند یہ نظر بند کر دیا گیا.ان کے فرزند ان کی جگہ گدی نشین ہوئے اور مہارانی صاحبہ نے اپنے فرنہ ند کے پاس ہی رہنا پسند کیا.چند و نادار میر اور خادم مہا راجہ صاحب کے ساتھ کو ڈائی کنال چلے گئے.ان میں سے ایک مہاراجہ صاحب کے ڈاکٹر بھی تھے کوڈائی کنال میں رہائش اختیار کرنے کے کچھ عرصہ بعد مہا راجہ صاحب نے ان ڈاکٹر یا سب کی صاحبزادی کے ساتھ شادی کر لی اور اس خاتون نے بھی اپنے آپ کو خود ہی مہارانی نا بھہ کا لقب ہے کیا اگر چہ حکومت کے ہال مہارا جی
۴۵۸ صاحب کی پہلی بیوی ہی اس لقب کی مقدارہ سمجھی جاتی تھیں.اس خاتون سے مہاراجہ کے ایک بیٹی بھی ہوئی.مہاراجہ صاحب سے ہوئی.پر پابندی تھی کہ جب وہ کو ڈائی کنال کے میونسپل حدود سے باہر جانا چاہیں تو ضلع کے سپرنٹنڈنٹ پولیس کو قبل ان وقت اطلاع دیں.انکی بیوی اور صاحبزادی پر ایسی کوئی پابندی نہیں تھی.ایک موقعہ پر مہاراجہ صاحب کی بیوی نے اپنی بیٹی کے ساتھ مدراس جانے کا ارادہ کیا.کسی مرنے پر نٹنڈنٹ پولیس کو غلط اطلاع دی کہ مہاراجہ صاحب فلاں وقت کو ڈائی کنال سے موٹر میں کو ڈائی کنال روڈ اسٹیشن جائیں گے اور وہاں سے ایکسپریس پر مدار اس بھائیں گے ہوں اطلاع پر سپر نٹنڈنٹ پولیس نے کوڈائی کنال روڈ کے سب انسپکٹر کوٹیلیفون پر ہدایت دی کہ مہاراجہ صاحب کو ایشین پر روک لیا جائے اور ایکسپریس پر سوار نہ ہونے دیا جائے.مہارا یہ صاحب کی بیوی اور صاحبزادی اسٹیشن پر پہنچ کہ پر یس کے انتظار میں کرہ انتظار میں چلی گئیں اور ان کے سیکر یٹری میں خریدنے اور نشستوں کے انتظام کی طرف متوجہ ہوئے.ایکسپریس کے آنے پر سب انسپکڑ نے جس کے ہمراہ دو کانٹیل تھے خواتین کو ایک پریس پر سوار ہونے سے یہ کہ رد کردیاکہ سپرنٹنڈنٹ پولیس کی بر ہدایت ہے کہ انہیں سوار نہ ہونے دیا جائے سیکریٹری نے اسے سمجھانے کی کوشش ی کہ خواتین پرکسی قسم کی پابندی نہیں لیکن وہ ان بات پر مصر رہا.ایک پریس روانہ ہوگئی اور خواتین کو سوار نہ ہونے دیا گیا.ریل گاڑی کے پہلے جانے کے بعد سب انسپکٹر پولیس نے سپرنٹنڈنٹ پولیس کو ٹیلیفون پر اطلاع دی کہ مہارا یہ نے دی رسید صاحب کی بیوی اور بیٹی کو روک لیا گیا ہے اور دریافت کیا کہ اب انہیں کہاں بھیجا جائے ؟ سپر نٹنڈنٹ نے کہا ھیں نے تو مہاراجہ صاحب کو رد کنے کی ہدایت دی تھی تم نے خواتین کو کیوں روکا ؟ سب انسپکڑ نے کہا مہاراجہ صاحب تو یہاں کے ہی نہیں صرف خواتین کی سیکر یٹری کےساتھ آئی میں سپرنٹنڈٹ نے کہا تم نے بڑی عالمی ک ہے اب فوراً مان سے معافی مانگو اور ان کی خدمت میں گذارش کردو کہ ان کے سفر می کوئی روک نہیں وہ ہر طرح سے آندا در ہیں.ان واقعات کی بنا پر مہا راستہ صاحب کی بیوی نے اپنی طرف سے اور اپنی بیٹی کی طرف سے حکومت ہند ، حکومت مدراس ، سپر نٹنڈنٹ پولیس ، سب انسپکڑ اور دونوں کانسٹیلوں پر دیوانی دعوی دائر کر دیا کہ انہیں خلاف قانون ا اور درد کا یا در باران طلب کیا.مد علی کی طرف سے ایک یا ایک پولیں اوروں نے جو کچھ کیا نیک ہیں سے اپنے فرض کی ادائیگی میں کیا.البتہ اس میں ان سے غلطی ہوگئی کہ بجائے مہاراجہ صاحب کو رد کنے کے انہوں نے خواتین کو روک لیا.اندریں حالات گورنمنٹ آن انڈیا ایکٹ کی متعلقہ دفعہ کی رو سے حکومت کی اجازت کے بغر وعولی مدعیان قابل پذیرائی نہیں.عدالت ابتدائی نے اس درد کو جائز قرار دیتے ہوئے دعوی خارج کر دیا.مدراس بانی کوٹ نے اپیل میں عدالت ابتدائی کا فیصلہ بحال رکھا.مدعیان نے فیڈرل کورٹ میں اپیل دائر کی.چیف جسٹس اور حج دردا چاری نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو بحال رکھا.مجھے ان سے اختلاف ہوا، مجھے مہاراجہ صاحب کی بیوی سے اس زمانے میں ملنے کا الفاق ہوا تھا جب میں حکومت ہندمیں وزیر تھا.میری طبیعت ان سے کسی قدر مکدر تھی، کیونکہ ایک دن وہ معدہ اپنے سیکریٹری
۴۹ - بلاطلاع اور با وجود دارد دلیوں کے روکنے کے میری سرکاری رہائش گاہ کے ملاقاتی کمرے میں جہاں میں اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا آگئی میں یہ امر میری پردہ نشین بیوی کے لئے پریشانی کا موجب ہوا تھا اور انہیں سراسیمگی میں وہ کرہ فوراً گھوڑنا پڑاتھا.اس پس منظر یں مجھے اس خاتون کی کوئی رعایت تو منظور نہ ہوسکتی تھی.میرا فرض صرف سوال زیر بحث پر غیر جانبدارانہ رائے قائم کرنا تھا.میرا استدلال تھا کہ مہا راجہ صاحب پر پابندی تھی کہ وہ سپر نٹنڈنٹ پولیس کو اطلاع دیئے بغیر کوڈائی کنال کے میونسپل حدود سے باہر نہ جائیں.اگر وہ اپ کرتے تو پولیس انہیں روکنے میں حق بجانب ہوتی.اگر اس اطلاع کے بعد کہ مہاراجہ صاحب کو ڈائی کنال سے باہر جانے کا ارادہ رکھتے ہیں پولیس افسران کسی غیر شخص کو مالا به نام سمجھ کر روک لیتے تو بھی ن کی طرف سے یہ کہنے کی گنجائش ہوتی کہم نے ظاہری حالات کے تحت ان صاحب کو مہا راجہ سمجھ کر روکدیا اس سے ہماری غلطی نیک نیتی پر مبنی تھی.لیکن مہاراجہ کی ہوی اور صاحبزادی پر تو کوئی پابندی تھی نہیں.انہیں رو کناکسی صورت میں جائزہ نہیں تھا.سپر نٹنڈنٹ پولیس نے اپنے جواب دعوی میں کہا.میں نے صاف طور پر مدعیان کو نہیں بلکہ ہر مہاراجہ صاحب کو روکنے کی ہدایت کی تھی.سب انسپکڑ نے اپنے جواب دعوئی میں ہا کہ مجھے مہاراجہ صاب کو روکنے کی ہدایت نہیں تھی بلکہ ان کی بیوی کو رکنے کی ہدایت دیگئی تھی.مہاراجہ صاحب کی بیوی پر چونکہ کوئی پابندی نہیں تھی اسنے انہیں روکنا پولیس کے فرائض میں داخل نہیں تھا اور یہ فعل نار اجب اور خلاف قانون تھا.ان حالات میں غلطی کرنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا.میرے رفقا ر نے قرار دیا کہ سب انسپکٹر نے غالب اپنے مشیر قانونی کے غلط مشورے کے ماتحت اپنے جواب دعوی میں غلط موقف اختیار کیا ہے.مجھے اپنے نصلے میں لکھنا پڑا کہ عدالت کا فرض ہے کہ وہ فریقین کے تحدیدی بیانت کی بنا پر مسئلہ متنازعہ کا فیصلہ کرے.عدالت مجانہ نہیں کہ اپنے آپ فریقین کے بیانات کی ترمیم کرکے ان مجوزہ ترمیم پراپنے فیصلے کی بناء رکھے.انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سدہ کی ٹارنیٹو کا نفرنس کے زیر اثر اور سٹر آئی ویلین مقدم کے ترغیب دینے انٹر نیشنل افیئر نہ کا قیام پر میں نے ہندوستا میں انسٹی یو ان انار این ایز کے قیام پر غور کر ناشری کی یاد میں میرا بہت سا وقت انگلستان میں گذرا اور اس دوران میں مجھے یتیم ہاؤس میں رائیل انسٹی ٹیوٹ کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے مواقع میسر آتے رہے.جب مئی 1 ء میں میں نے گورنے منزل کی انتظامی مجلس کے رکن کا منصب سنبھالا تو مجھے شملہ میں اور بعد میں دتی میں بین الاقوامی مسائل میں دلچسپی لینے والے اصحاب سے میل جول کا اتفاق ہونے لگا اور چند ماہ کے مشوروی کے بعد انڈین انسٹی ٹیوٹ کے قیام کا امکان پیدا ہو گیا.پنجابی مثل کے مطابق کہ تیرا ہوے اوہو ای کو کھوئے.سنو بوئے دہی دروازہ کھولے) انسٹی ٹیوٹ کی صدارت کی ذمہ داری مجھے اٹھانا پڑی.میر سرکا کر ہائش گاہ 4 کنگ ایڈورڈ ر و ڈ میں انٹی ٹیوٹ کا افتاحی اجلاس
ہوا جس میں مار کو میں آن و نتھیان نے جو اس وقت اتفاق سے دلی میں موجود تھے تقریر کی جسے بہت دلچسپی سے سناگیا.اسلامی پردے کے متعلق غلط فہمی کا ادائہ نساء کی گرمیوں میں جنوبی افریقہ سے ایک خیر سگالی و در ملے آیا جس کے قائد جنوبی افریقہ کے ایک وزیر سرمون میٹر تھے.انہوں نے میری رہائش گاہ دی ریٹریٹ میں انسٹی ٹیوٹ کو خطاب کیا.اس موقعہ پر ایک لطیفہ ہوا.دن کے ایک رکن نے مجھ سے دریافت کیا تم شادی شدہ ہو ؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو اس نے پوچھا کل سمیل سوٹل میں جو دعوت ہمارے اعزاز میں تھی اس میں تمہاری بیوی شامل تھی؟ میں نے کہا نہیں.اس نے کہا کیادہ شملہ میں نہیں.میں نے کہا ہ شملہ میں ہی لیکن پردہ کرتی ہیں اور مردوں کی محفل می نہیں جائیں.اس نے پو چھا بھلا یہ کیوں؟ میں نے پردے کی سلامی تعلیم منظور یہ اسے بتائی اوراس پر کچھ گفتگو ہوتی رہی.آخر میں نے اسے کہا اتفاق کی بات ہے کہ اس وقت میری بیوی میری والدہ کے ہمراہ عورتوں کی ایک مجلس یں گئی ہوئی ہیں.جاتے وقت انہیں کوئی خیال نہ تھاکہ کوئی غیرمردان کے کروں میں داخل ہوگا.وہ اپنے کرتے ہیں ہت میں تھے ویسے ہی چھوڑ گئی ہیں.اگر آپ اور آپ کے دن کے کوئی اور صاحب پسند کریں تومیں آپ کو ان کمروں میں نے چتا ہوں آپ انہیں دیکھ کر اندازہ کرلی کہ ہمارے ہاں پردہ دار عورتوں کی معاشرت کا کیا ری ہے.وہ سب آمادہ ہوگئے اور میں انہیں پر لے گیا کے چاروں طرفسے کھلے تھے.یہ آمدے کی بغل میں ایک چھوٹے کمرے میں جس کی تین دیواریں شیشے کی تھیں ایک لکڑی کے ایندل پر سامنے کے پہاڑی منظر کی ایک نیم کشیدہ تصویر تھی تو میری بیوی ان دنوں بنیاد که تھیں.سنگار میز پر ضروری اشیاء قرینے سے رکھی تھیں.ایک کر میں ایک تخت پر صلی لکھا تھا.الماریوں میں کتابیں اور رسالے پڑے تھے.کچھ زیبائش کا سامان بھی تھا.ہر کرے سے ارد گرد کی پہاڑیوں اور وادیوں کے منظر نظر آتے تھے.جب ہم نیچے آگئے تو مین صاحب نے پہلے مجھ سے پردے کے متعلق سوال کیا تھا ان سے میں نے دریافت کیا آپ نے پر دے کے متعلق کیا اندازہ قائم کیا ؟ اس نے کہا میری ہی نہیں ہم سب کی رائے ہے کہ اگہ پردہ ای ہی ہے جیساہم نے دیکھا ہے تو ہم سب پردے کے تق میں ہیں.ہمیں تو یہی خیال تھا کہ پردہ دار عور میں قیدیوں کی ماندن زندگی گزارتی ہیں.انہیں گھرکی چار دیواری کے اندر محصور رہنا پڑتا ہے.دہلیز سے با ہرقدم رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی.خانہ داری کے امور کے علاؤ نہ انہیں کسی بات کا علم ہوتا ہے نہ انہیں کسی بات میں دلچسپی ہوتی ہے.جب میں نے اپنے گھر میں اس واقعہ کا ذکر کیا تو میری بیوی نے کہا بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ میری غیر حاضری میں تم غیر مردوں کو ہمارے کمروں میں لے آئے کیا یہ پردے کے خلاف نہیں ؟میں نے کہا الا عمال بالنیات.میرے ایسا کرنے سے ہماری معاشرت کے ایک پہلو کے متعلق ان کی غلط فہمی کی کسی حد تک اصلاح ہوگئی.اور وہ نیک اثرہ لیکر گئے.
الأكم چھیتی ہاؤس لندن میں رائیل انسٹی ٹیوٹ شاہ کے مارت میں تینیم ماؤس لندن میں رائیل انسٹی آف انٹر نیشنل آفٹرز کی کانفرنس میں ٹیوٹ آن انر فیشیل ایز کی سر پرستی میں دولت مشترکہ کے ہندوستان کی آزادی کے حق میں میری تقریر نمائندگان کی ایک کانفرنس کا اہتمام کیاگیا ہندوستان کی انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے بھی ایک وفد نے اس کا نفرنس میں شرکت کی.وفد کے اراکین میں میرے علاوہ کنور سر مہاران سنگھ میر مقبول محمود ، مسٹر سی ایل مہینہ اور خواجہ سر در حسن شامل تھے.افتتاحی اجلاس میں ہر وفد کے قائد سے پانچ پانچ منٹ کی تقریر یں اختصارا اپنے اپنے مک کی جنگی سرگرمیوں کا خلاصہ بیان کرنے کی استدعا کی گئی.ہندوستان کی باری آنے پر میں نے تین منٹ میں ہندوستان کی جنگی سرگرمیوں کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہا ۱۲۵ کو ہندوستانی کسی نہ کسی حیثیت میں جنگ کے مختلف محاذوں پر برطانیہ اور الحادیوں کی آزادی اور سلمیت کی حفاظت اور دفاع کے سلسلے میں مختلف انواع کی خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں.اور ان کی طرف سے جان کی قربانی پیش کرنے میں بھی دریغ نہیں ہوا.علاوہ فوجی اور جنگی امداد کے ہندوستان نے سامان عرب اور ذخائہ خورا مہیاکرنے میں بھی نمایاں خدمت کی ہے اور قابل قدر خون قام کیا ہے.اس سلسے میں بعض تفاصیل کا ذکر کرنے کےبعدمیں نے کہا اول مشترکہ کے سیاستدانوں کی یہ ستم ظریفی نہیںکہ ہندوستان کے 10 لاکھ فرزندوں نے میدان جنگ میں ملک برطانیہ کی آزادی کی حفاظت کے لئے داد شجاعت دی ہو ین خود ہندوستان کی اپنی آزادی کا انتظار اس کےلئے ملتی ہو ؟ شاید ایک مثال اس کیفیت کو واضح کرنے میں مد ہوسکے.سین کی آبادی اور رقبہ ہندوستان کی آبادی اور رتبے سے بیشک زیادہ ہے لیکن وسعت اور آبادی کے علاوہ باقی ہر لحاظ سے چین آج ہندوستان سے کوسوں پیچھے ہے، تعلیم صنعت و حرفت ، وسائل آمد و رفت عرض خوشحالی کے تمام عناصر کے لحاظ سے ہندوستان چین سے کہیں آگے نظر آتا ہے.پھر کی دی ہے کہ مین تو آج دنیا کی بڑی طاقتوں میں شمارہ ہوتا ہے اور سہندوستان کسی گفتی میں نہیں ؟ کیا اس کی صرت کی وجہ نہیں کہ تین آزاد ہے اور ہندوستان محکوم په لیکن یہ رات اب دیر تک قائم نہیں رہ سکتی.ہندوستان بیدار ہو چکا ہے اور آزاد ہو کر رہے گا.کامن ویلین کے اندر رہ کر اگر آپ سیکو ہ منظور ہو اور کام دینے کو ترک کر کے اگر آپ ہندوستن کے لے اورکوئی رستہ نہ چھوڑیں.یہ اجلاس سہ پہر کو جو تھا اجلاس کے ختم ہونے پر جب ہم تیم ماوس سے نکلے توشام کے اخبار اسٹار میں میری تقریر کا یہ حصہ لفظ بہ لفظ موٹے مرون میں چھپا ہوا تھا اور لوگ اس پرچے کو بڑے شوق سے خرید رہے تھے.کچھ عرصہ بعد کانگریسی لیڈر مسٹر آصف علی صاحب ے مجھے بلایا جن دنوں لندن میں تم نے یہ تقریر کی پنڈت جواہر لال نہرو اور کانگریس کے سرکردہ اراکین جین میں یں بھی شامل تھا اور نگ آباد دکن کے قلعے مں نظر بند تھے.ہم کا نفرنس کے اس اجلاس کی کاروائی کو ریڈیو پر سن رہے تھے جب ت نے دولت مشترکہ سے سیاستدانوں کیہ کر روانہ بلند کی توہم سب توجہ سے تمہاری تقریری نے گے.پنڈت نہرو تواناکان ریڈیو کے بہت قریب سے آئے جب تم نے تقریر یت کی تو نہ جانے کہا اس شخص نے تقسیم سے بھی بڑھ کر بے باکی سے حکمت
برطانیہ کو متنبہ کیا ہے.✓...حکومت برطانیہ کی طرف سے رائیل انسٹی ٹیوٹ اسی خام حکومت برطانیہ کی طرف سے کانفرنس کے اعرانہ آن انٹر نیشنل کانفرنس کے مندوبین کو دعوت میں کار یہ ہوٹل میں شام کے کھانے کی دعوت دی گئی.اور اس میں آزادی ہند کی تائید میں میری تقریہ حکومت کی طرف سے لارڈ کر مینورن جو اس وقت لارڈ پر نیوی سیل تھے اور بعد میں اپنے والد کی وفات پر مار کو میں آن سالسبری ہوئے میزبانی کے فرائض انجام دے رہے تھے وزیر اعظم مرح پل کے سوائے حکومت کے سب اراکین مشمول نائب وزیر اعظم سرائیلی اور اور انٹر اور امان دعوت میں موجود تھے یا ہو کر فیورن نے مہمانوں کا جام صحت تجویز کرتے ہوئے کامن ویلتھ کی اہمیت کے بعض پہلوؤں کی وضاحت کی.مہمانوں کی طرف سے میزبان کی تقریہ کا نیم مزاحیہ جواب تو ایک کینیڈین مندوب مسٹر سٹینفورڈ نے دیا جو ایک اخبار کے ایڈیٹر ہونے کے لحاظ سے اس کے اہل بھی تھے سنجیدہ جواب دینے کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی گئی میری سریر کی تقریہ کا ہت پر چاہو کا نا اور وقت کی بات تھی کہ میں ہندوستان کی آزادی پر یزید کچھ کہوں گا.دعوت میں جانے سے پہلے میں یہ عربی من است که هندوستان کی آزادی میں تاخیر کی ذمہ دار تی سن تمامتر حکومت برطانیہ پر نہیں ڈالی جاسکتی کیونکہ بند مسلم اختلاف کے پیش نظر حکومت برطانیہ بہت مدتک معذوریہ گردانی جاسکتی ہے.میں نے اپنی تقریر کے دور ان میں آزادی کے موضوع پر کہا حکومت برطانیہ ہند وسم انتقلات کا ذبہ رکھ کر ان ذمہ داری سے گریز نہیں کرسکتی.جنگ کے دوران میں برطانیہ اپنی بہت سی مشکلات کامل دوریتا کرنے میں کامیاب ہو گیاہے.کیا مہندوستان کی آزادی ہی ایک ایسا مسلہ ہے جس کا حل دریافت کرنے سے روانہ عاجزہ ہے ؟ بیشک یہ مسئلہ مشکل ہے لیکن برطانیہ کا تیر اس مشکل کا حل تجویہ کرنے سے عاجزہ نہیں ہونا چاہئے.گر ہندو مسلم اختلاف ہی اس مسئلے کے حل کرنے میں سب سے بڑی روک ہے تو برطانیہ اپنی نیک نیتی کا ثبوت اس واضح اعلان سے پیش کر سکتا ہے کہ اگر فلمی تاریخ تک ہند وستان کی طرف سے مند و سلم اختلافات کا متفقہ حل تجویز نہ کیا یا گیا تو حکومت برطانیہ اپنی طرف سے ایک قرین الفان حل تجویز کر کے اسکی بنا پر ہندوستان کیلئے ایک ایک آئین وضع کر دیگی جس کے رو سے ہندوستان کو نو آبادیات کا درجہ حاصل ہو جائے گابہ آئین عارضی ہو گا یونی مستقل آئین پر فرقہ وارانہ اختلاف رفع ہو کہ اتفاق ہو جائے گا پارلیمنٹ متفقہ دستور کے مطابق آئین وضح کر دیگی اور اسے رائج کر دیا جائے گا.اس اعلان کے نتیجے میں ہندوستان بلکہ سارہ یادنیا برطانیہ کی من نیست کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگی.دعوت کے اختتام پر بہت سے وزراء نے میری تجویز کے متعلق گہری دلچسپی کا اظہار کیا.لارڈ سائمن لارڈ چان نے کہا تم جلد کسی دن ہاؤس آف لارڈ نہ آکر دوپہر کا کھنا میرے ساتھ کھاؤ.میں تمہاری تجویز کے متعلق فت
تم سے بات چیت کرنا چاہتا ہوں.ان تقریروں کے دو دن بعد میں سہ پہر کے اجلاس کیلئے اپنے ہوٹل سے یتیم اوس جار ہا تھا.رستے میں لبرل پارٹی کے لیڈر سٹر کلمینٹ ڈیوس مل گئے.وہ بھی کا نفرنس کے اجلاس کے لئے جا رہے تھے مجھے دیکھتے ہی کہا مبارک ہو تمہاری تقریروں کے نتیجے میں کینٹ کے زور دینے پر وائٹ ہے ہند لارڈ ویول کو متور کیلئے لندن بلایا گیاہے لیکن ابھی یہ بخر بصیغہ راز ہے کسی سے ذکر نہ کرنا.میںنے اللہ تعالیٰ کی حمد کی کہ اس نے میری حقیر کوشش کو نوازا اور اسے پر اثر بنایا.چنانچہ لارڈ ویول لندن تشریف لائے اور سند دوستان کی آئینی جدو جہد کا آخری مرحلہ شروع ہو گیا.لار ڈا لیسٹور صدر رہائیل انسٹی ٹیوٹ ان دنوں رائل انسٹی ٹیوٹ آف انٹر نیشنل ایران کے صدر لارڈ لیٹر تھے آف انٹر نیشنل آفیزیز کی طرف سے جو موجودہ لارڈ اسٹور کے دادا تھے.کانفرنس کے ایام میں ان کی کا نفرنس کے مندوبین کی مہمان نوازی طبیت علیل تھی لیکن ان کی طرف سے کانفرنس کے مندوبین کو دعوت تھی کہ کانفرنس کے دوران میں باری باری ان کے دولت خانے کلائیوڈین پر کسی ہفتے یا اتوار کے دن آئیں اور دن وہاں گذاریں.کلائیوڈین ایک محل ہے جو میڈن ہیڈ کے قرب و جوار میںدریائے ٹیم کے نزدیک ایک بلندی پر واقع ہے.اس کی کھڑکیوں سے دور دور تک بہت خو شما مناظر نظر آتے ہیں.ہر ہفتہ اور اتوار کو جومند و بین کالوین جانے والے ہوتے انہیں ریل کے اول درجے کے واپسٹی ٹکٹ ٹیپ ٹواسٹیشن تک کے بھیج دیے جاتے اور اس سٹیشن سے کلایوڈین تک کے کون کا انتظام کر دیا جاتا.لیڈی ایٹر پائی نہ کی لی میری و چکی تھیں اور پارلیمنٹ کی رکن تھیں.وہ امریکن نزاد ھیں اور امریکہ اور انگلستان میں بہت اچھی شہرت کی مالک تھیں.چہ پل کے اور ان کے درمیان یوں تو بہت دوستانہ تھا لیکن سیاست میں بہت رقابت تھی.سٹریچہ چل نکی سیاسی سرگرمیوں کو بہت ناپسند کرتے تھے.ایک مرتبہ دونوں ایک دعوت میں شریک تھے.مسٹر یہ میل کی کسی بات پر آزردہ ہوکر لیڈی ایسٹور نے کہا ونسٹن ! اگر میں مایا ہوا ہو تو میں تمہارے قہوے کے پیالے میں زہر ڈال دیا.چرچل نے بے ساختہ جواب دیا تاسی اگرمیں شوئی قسمت سے تمہارا میں ہوتا تو بعد شوق اس پیالے کو نوش کر لیتا " ہمارے کلائیو ٹین پہنچے پر لیڈی ایٹر نے بڑے تپاک سے ہمیں خوش آمدید کہا.اپنے میاں کی طرف سے معذرت کی کردہ ناسازی طبع کے باعث بنفس نفیس ہماری میزبانی نہیں کر سکتے.دوپہر کے کھانے کے بعد فرمایا چائے کے وقت تک اپن اپنی پسند کے مطابق وقت گذار و موسیر کو جانا چاہیں ا کے لئے پارک بھی کھلی ہے اور دریا کا کنارہ بھی دور نہیں جو آرام کرنا چاہیں ان کے لئے کرے بہت ہیں میں نو کینیڈین ہسپتال میں بیماروں کو دیکھنے جاؤں گی جو چاہیں میرے ساتھ چلیں.مجھ سے دریافت کیاتم کی کرنا چاہتے ہو؟ میں نے ہا میں وضو کرکے کسی کرے کے ایک کونے میں نماز ادا کرنا چاہا ہوئی.فرمایا تو اپا تم میرے ساتھ آؤ.مجھے غسلخانہ دکھایا اور ب میں وضو کر چکا تو مجھے اپنے ٹھنے کے کرہمیں ے گئیں
سم مرام جو نہایت فراغ اور آراستہ تصاور جسکی کھڑکیوں سے پارک اور دریا کا بہت دلفریب منظر دکھائی دیتا تھا.کرنے میں جانیا شہیر کے وادی کے فرموں میں رکھے تھے انمیں سے ایک طرف اشارہ کرکے دریافت کیا تم نہیں جانتے ہو ہم نے کہا خوب اچھی طرح جانتا ہوں مار کو میں آن لو تھیان ہیں.گول میز کانفرنس میں شریک تھے.رائے دہندگی کی کمیٹی کے صدر کی حیثیت میں ہندوستان تشریف لے گئے تھے بعدمیں ایک موقع پر تی میں میرے ہاں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف انٹر یل ایز کا انفتاح کیا تھا.بہ قابل تھے.پر چھاتم جانتے تو انکی وفات کیسے ہوئی ہےمیں نے کہا ہاں جانتا ہوں امریکہ یں برطانوی سفر تھے.شدید در شک میں مبتلا ہو کر بے ہوش ہوگئے.طبی امداد حاصل کرنا ان کے اصول کے خلاف تھا.کوئی ڈاکٹر نہ بلایا گیا.بیہوشی ہی میں فوت ہو گئے.کہنے لگیں بوسنی ایک قیمتی جان تلف ہو گئی.میرے بڑے اچھے دوست تھے.بعض دریدہ دہن لوگ کہا کرتے تھے کہ انہیں میرے ساتھ محبت تھی میں نے کہا آپ کیلئے اس میں جوڑنے کی کونسی بات ہے آدمی دنیا کو آپ سے محبت ہے.کیا تم یہ سمجھتے ہو میری ڈاک دیکھو تو نہیں معلوم ہولو مجھے کتنی گالیاں دیتے ہیں.میں نے کہا وہ دوسری آدھی دنیا ہے.ہنس کر کہا تم بڑے حاضر جواب ہو چلواب نماز پڑھو.انگلستان میں جرمنی کی شکست کے بعد پارلیمنٹ چند دن بعد جرمنی نے ہتھیار ڈال دیئے اور یورپ کے انتخابات اور لیبر پارٹی کا برسر اقتدا نہ آنا میں جنگ کا خاتمہ ہو گیا لیکن جاپان کے خلاف جنگ جاری رہی مسٹر چپہ چل چاہتے تھے کہ جاپان کی شکست تک مشتر کہ وزارت جاری رہے.لیکن اسرائیل کو یہ منظور نہ ہوا چنانچہ پارلیمنٹ کے انتخابات کا اعلان ہو گیا.میں عدالت کی تعطیلات میں ذیا بیطس کے معائنے کے لئے انگلستان گیا ہوا تھا انتخابات کے وقت وہیں تھا.سٹرائیل کی پارٹی کو میاں کامیابی ہوئی اوروہ وزیراعظم ہوگئے.21 اگست کو ملک معظم نے نے پارلیمن کا انتا کیا اوراپنی تقریر میں ادا فرمایا کہ انکی حکومت ہندوستان کی آزادی کیلئے ضروری اور مناسب اقدام کرے گی.علین در سال بعد اس اعلان کی تکمیل ہو گئی.پنڈت نہرو کی طرف سے مجھے اقوام متحدہ میں ابھی انگلستان ہی میں تھا کہ مجھے پنڈت جواہر لال کے اجلاس میں ہندوستانی مندوب کی نہرو کا ارشاد موصول ہوا کہ میں بطور رکن سند دوستانی حیثیت میں شرکت کی پیشکش - دفد میں شامل ہو کر اقوام متحدہ کے اجلاس میں جو سانفرانسسکو میں منعقد ہونے والا تھا حصہ لوں اور جنوبی افریقہ میں ہندوستانی آبادی کے حقوق کے مسئلہ کی بحث میں ہندوستان کی نمائندگی کروں یہوہ وقت تھا جب مسلم لیگ کے عبوری حکومت میں شرکت کا سوال ابھی طے نہیں ہو پایا تھا.اسلئے مجھے پڑت صاحب کے ارشاد کی تعمیل میں تامل تھا.میں نے عذر کر دیا.انہوں نے میرا غدیر قبول فرمایا اور لکھا کہ انہوں نے یہ کام مسٹر تھا گلا کے سپرد کر دیا ہے.
۴۸۵ قضیہ فلسطین فلسطین کے مسئلے سے مجھے شروع سے دلچپ رہ ہی ہے.پہلی عالمی جنگ کے دوران میں حکومت برطانیہ نے عربوں سے وعدہ کیا تھا کہ اگر عرب ممالک تیر کی کے خلاف استحادیوں کا ساتھ دیں تو اتحادیوں کی فتح ہونے پر تمام عرب ممالک کو آزادی حاصل ہو جائے گی البتہ دمشق حمص اور حلب کے مغربی جانب کے علاقے کے لئے ممکن ہے کسی خاص نظام کی ضرورت پیش آئے کیونکہ اس علاقے میں فرانس کی بعض خاص ذمہ دارہ یاں ہیں.یہ معاہدہ سرسبزی میکمو مین اور شریف حسین کے درمیان ہوا تھا.جنگ کے بعد عراق اور فسلطین تو یہ طانوی نگرانی میں آگئے اور شام اور لبنان فرانسیسی نگرانی میں.جب برطانیہ کی طرف سے اعلان بالعفور ہوا تو حسین بوجودہ شاہ اردن کے دادا ) نے اس کے خلاف احتجاج کیا کہ برطانیہ نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے.اس پر برطانوی حکومت کی طرف سے کمانڈر کنور دی کو جدسے بھیجاگیا کرد تا چنین کا اطمینان کرا ئیں کہ علان بالفور معاہدے کے تناقص نہیں اور اس سے عرب حقوق پر کوئی مخالفانہ اثر نہیں پڑے گاست چین نے اس وفات تسلیم کرلیا ملکہ عرب ہمان نوازی کے جذبے کے تحت بیان کیا کہ اگر اسکین میں یہودیوں کی آم بطور مہمان ے ہے تو وہ انہیں خوش آمدید کہیں گے اور ان کے ثقافتی اقدار کی حفاظت کریں گے.ماہ تک صیہونیت فلسطین میں اپنے قدم جما چکی تھی اور اس کا اقدار بڑھتا جارہا تھا.عرب اراضیات تدریج صیہونی ایجنسی کی ملکیت اور نصرت میں منتقل ہو رہی تھیں.ادھر جرمنی پر مسلہ کا تصرف قائم ہو گیا تھا اور تمیمی کی یہودی آبادی پر سختی شروع ہوگئی تھی جس کے نتیجے میں جرمن یہودی فلسطین میں منتقل ہونا شروع ہوگئے تھے.بدیں وجہ یہودی ایجنسی کی سرگرمی لاطین میں تیز تر ہورہی تھیں.اس سال گرمیوں میں جب میں انگلستان گیا تومیں نے وزیر مہندر سموئیل ہور سے اپنے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا فلسطین میں سیہونیت کا دور بڑھ رہا ہے اور عربوں کی حالت کمزور ہورہی ہے.اس صورت حالات کی ذمہ داری در اصل حکومت برطانیہ پر عاید ہوتی ہے.اسلئے حکومت برطانیہ کو لازم ہے کہ وہ کوئی موثر اصلاحی اقدام کرے.مثلا عرب زرعی اراضیات کا انتقال غیر عرب مشتریان کے حق میں قانونا رد کردیا جائے.انہوں نے فرمایا کے تفصیلی حالات کا علم نہیں.میں سر فلپ کلف سٹروزی نو آبادیات سے یہ ذکر کروں گا اور ان سے کہوں گا کہ میں لا کر تمہارا فقط نر معلوم کریں اور تمہارے ذات کے تدارک کے طرق پر غور کریں.چنانچہ دو تین دن کے اندر ہی مجھے وزیر نو آبادیات کے سیکریٹری کی طرف سے اطلاع ملی کہ وزیر صاحب نے مجھے یاد فرمایا ہے.میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ سن التفاق سے سہ آرتھر وا چوپانی کمتر فلسطین لندن آئے ہوئے ہیں.میں نے انہیں بھی بلایا ہے تاکہ ہ بھی تمہا سے خیالات سے واقف ہو جائیں.میں نے جو کچھ وزیر ہند کی خدمت میں گذارش کیا تھا دوہ کسی قدر تفصیل کے ساتھ دونوں اصحاب کی خدمت میں عرض کر دیا.وزیر نو آبادیات نےفرمایا تمہارا ہی کیا نو و دست معلوم ہوتا ہے کہ یہ اراضیات بند نہ بھی یہودیوں کی ملکیت میں جارہی ہیں لیکن اس کا تدارک تو خود عرب ہی کر سکتے ہیں
حکومت اس بارے میں کیا کر سکتی ہے.میں نے کہا حکومت ایسے انتظامات قانو نا روک سکتی ہے.فرمایا یہ تو بیا غیر معمولی اقدام ہے اور اس سے بڑا شور ہو گا.ظفر اللہ خاں.حالات بھی تو غیر معمولی ہیں او بر طانیہ کی ذمہ داری بھی بہت ہی غیر معمولی ہے اور بھاری ہے.وزیہ نو آبادیات.لیکن میرے علم مں تو اس سم کا قانون ور کہیں رانی نہیں میں نے رفقا کو کیسے آمادہ کہ سکوں گاکہ وہ اس پر رضامند ہو جائیں.ظفراللہ خان.قانون کی ضرورت سلم مو و نامہ کی حاجت نہیں رہتی.لیکن اس سم کے قانون کی مثال بندری ستان کے صوبہ پنجاب میں موجود ہے.وزیہ نو آبادیات.یہ بات بیشک محمد موسکتی ہے.وہاں کیا قانون ہے ؟ ظفر اللہ خاں.پنجاب استقال ارامنی ایکیٹ کے ماتحت زرعی اراضی کا انتقال ایک غیر زراعت پیشہ مشتری کے حق میں نہیں ہو سکتا.میں نے اس قانون کی ضرورت اور اس کے عملی حصے کی کیفیت مختصر طور پر بیان کی اورمسئلہ فلسطین کے بعض پھلوں کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا.وزیہ صابن میرا شکریہ ادا کیا اور فرمایا ہم دونوں ان امور پر توتم نے بیان کئے ہیں غور کریں گے.اس ملاقات سے مجھے بڑی مایوسی ہوئی میرا سا تھا کہ سر سیموئیل چودہ کے کہنے پر فلپ میرے ساتھ ملاقات پر تو رضامند ہوگئے لیکن عربوں کی مشکلات میں انہیں ان کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں الہ اعلم بالصواب.اس کے قریبا پانچ سال بعد بالای کامل اور بھی پیچیدہ موکات حکومت برطانیہ نے آخر کار اس طرح کچھ توجہ کی اور بہت کچھ تحقیق و تفتیش کے بعدایک منصوبہ تیارکیا ہے بطور قرطاس ابیض کے شائع کیا گیا.اس منصوبے کی دو اہم تجاویز تھیں.اول یہ کہ یہودیوں کی آمد پر پابندی عائد کی جائے.دوسری میری پیش کردہ تویہ کہ رب زری راضیات کا انتقال من غ عرب اشخاص رد کردیا جائے.یہودی مہاجرین کی تعداد کی نسبت قرطاس ابیض ورزی کی دیکھی تیار ہو ان کے والے کے بعد عرب رضامندی کے بغیر مزیدر مودی مهاجرین داخل نہ ہوسکیں شہری جائیداد کے انتقال پر قرطاس ابیض کے تحت کوئی پابندی نہ رکھی گئی ہاں سکنی قطعات کے متعلق طے ہوا کہ صنعتی ضروریات کے لئے حکومت کی اجازت کے ساتھ منتقل ہو سکیں گے.قرطاس ابیض کے شائع ہونے پھر یوں کیلئے کسی قدیر اطمینان کی صورت تو پیدا ہو گئی لیکن یہودی حلقوں نے بہت احتجاج کیا.ابھی حکومت قرطاس ابیض کے مطابق احکام صادر نہیں کر پائی تھی کہ دوسری عالمی جنگ چھڑ گئی اورفلسطین کے قبضے کی طرف سے توجہ ہٹ گئی.جنگ کے دوران میں بیہونیت نے فلسطین میں اپنا تعریف اور بھی مضبوط کر لیا اور قضیہ فلسطین کی پیچیدگی اور بڑھ گئی بیہونیوں نے ایک پورا بر گیڈ برطانوی افواج میں بھرتی کرایا اور آخر جنگ تک اس کی نفری میں کمی نہ آنے دیا
لرسم گر یہ جرمنی نے ہتھیار ڈال دیے تھے لیکن ابھی جاپان سے جنگ جاری تھی.کچھ عرصے بعد جاپان نے بھی ہتھیا نہ ڈال دیئے اور جنگ کا خاتمہ ہو گیا.انگلستان سے واپسی کے سفر میں قاہرہ اور بیروت ہوتے ہوئے میں مشق گیا.اس سفر میں السید محی الدین الحصنی برادر اکبر اخوم مكرم السید منیر الدین الحصنی میرے ہمراہ تھے بیروت میں السید میر الدین الحسنی بھی مل گئے.میرا قیام السید بدر الدین الحصنی کے مکان پر ہوا.پانچوں احصنی مبھائیوں اور دمشق کے دیگر احباب جماعت احمدیہ سے ملکہ مجھے نہایت خوشی ہوئی اور دمشق مجھے اپنا وطن محسوس ہونے لگا سلامہ الشیخ عبد القادر المغربی | دمشق کے قیام کے دوران میں مجھے علامہ الشیخ عبدالقادر المغربی کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقعہ بھی میسر آیا.شیخ لغت کے امام تھے اور اپنے ہمعصروں میں بہت بلند در رستہ رکھتے تھے میرے دل میں ان کے لئے اس وجہ سے بھی بہت احترام تھا کہ وہ سورہ میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے قیام دمشق کے دوران میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور بہت تواضع سے پیش آئے تھے.میرے ساتھ بھی بہت تپاک سے ملے اور رخصت ہوتے وقت حضور کی خدمت میں علی وجہ الاحترام سلام پہنچانے کا ارث و فرمایا.اس کے بعد بھی جب کبھی ان کی حیات میں مجھے دمشق جانے کا اتفاق ہوتا میں ضرور حاضر خدمت ہوتا جس سے وہ بہت خوش ہوتے.ایک بار مشت جانے پرمعلوم ہوا کہ وہ کسی کا نفرنس کی شرکت کیلئے قاہرہ تشریف لے گئے ہوئے ہیں میں بھی اتفاق سے قاہرہ جارہا تھا وہاں پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ سفر صاحب عراق متعینہ قاہرہ کی ملاقات کے لئے تشریف لے گئے ہیں.میں بھی وہیں حاضر ہو گیا.بہت خوشنودی کا اظہار کیا اور سفیر صاحب سے فرمایا جماعت احمدیہ تبلیغ اسلام کے سلسلے میں گرانقدر خدمات سر انجام دے رہی ہے.مسئلہ نبوت کے علاوہ تمہیں ان سے اور کوئی اختلاف نہیں.اس کے بعد ایک دفعہ میں دمشق گیا تو اخویم مکرم اسید منیر الدین المحصنی نے بتلایا کہ شیخ قاہرہ تشریف لے گئے ہوئے تھے.جہاں موٹر کے حادثے میں ٹانگ کو ضرب آگئی تھی اب قریباً صحت یاب ہو چکے ہیں.هم در دولت پر حاضر ہوئے تو حسب معمول بہت خوش ہوئے.مزاج دریافت کرنے پر فرمایا وهن العظم منی داشتعل الراس شیباً ڈیری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں اور میرے سر کے بال سفید ہو گئے ہیں) رے میں ملی کہ بتا یا کہ ٹانگ کی ضر قریباً اچھی ہوچکی ہے.پوری بشاشت سے گفتگو فرماتے رہے.رخصت ہوتے وقت دروازے تک آنے پر مصر ہوئے اور دروازے پر دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا.لیکن عمر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا.تھوڑے عرصہ بعد انکی وفات کی اطلاع ملی.انا للہ و انا الیہ راجعون لبغفر الله له ويجعل الجنة العليا مثواه - دمشق میں آثار قدیمہ اور اسلامی یادگاروں کی زیارت نصیب ہوئی.مسجد اموی میں حضرت ذکریا علیہ السلام کی قبریم بیرون شہر قریب کے قبرستانوں میں اہل بیت اور صحابہ رضوان اللہ علیہم کی قبروں پر
۴۸۸ الشیخ محی الدین ابن عربی کی قبریمہ.مسجد اموی کے عقب میں صلاح الدین البیہ بی الغازی کی قریہ دعائی کی رخصت کا وقت آیا تو احباب دمشق کی جدائی کے احساس سے طبیعت پر رقت غالب تھی.دمشق سے بیروت کے راستے حیفا گئے.السید محی الدین الحضنی اور السید منیر الدین الحسنی ہمسفر تھے.حیفا سے اوپر جیل کو مل پر قریہ کتابیں پہنے.کیا ہی کی اکثر آبادی سلسلہ احمدیہ کے ساتھ مخلصانہ واستنگی رکھتی ہے.کیا ہر سے مغرب کی طرف سمندری سمندر نظر آتا ہے درمیان میں سہارے کی گولائی کی وجہ سے حیفا کا شہر نظر سے ++ ار تحصیل ہو جاتا ہے.مسجد احمدیہ میں جو قطعات آویزاں ہیں ان میں سے دو پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ الہامات درج ہیں :- يل عون لك ابد الى الشام اور میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.اس مسجد کا جائے وقوع نہ بان حال سے اس الہام کی تصدیق کرتا ہے.کبابر سے ہم یہ روشلم گئے.ایڈن ہوٹل میں قیام ہوا.السید محی الدین الحصنی دو تین عرب نہ عمی کو مجھ سے ملنے کیلئے ایڈن ہوٹل لائے.ان حضرات نے مشورہ دیا کہ مں اپنا قیام ولا رونہ مری ۷۱۷۸) ROSE MARY میں جو ایک عرب ہوٹل ہے منتقل کر لوں.کہا ایڈن ہوٹل میں آزادی سے بات چیت خست نہ ہو سکے گی اور ولا روز مری میں ہمارے لوگ بلا تکلف تمہیں مل سکیں گے اور آزادی سے بات چیت کر سکیں گے.چنانچہ میں ولا روز مری میں منتقل ہو گیا.تین دن وہاں ٹھہرا.اس عرصے میں عرب زعماء سے ملاقاتیں ہوئیں اور مسئلہ فلسطین کے مختلف پہلوؤں کے متعلق عرب نقطۂ نگاہ سے واقفیت ہوئی.عرب اداروں کے دیکھنے کا موقعہ بھی عرب نقط نگاہ کو تفصیلی اور واضح طور پر مسٹر ہنری کیتان نے بیان کی جو فلسطین کے وکلاء میں بہت ممتاز درجہ رکھتے تھے.ان کے ساتھ بعد میں بھی بیروت اور دشتق میں ملاقاتیں ہوتی رہیں.کیا ہیر سے یروشلم آتے ہوئے راستے میں کچھ یہودی بستیاں پڑھتی تھیں.ان کو بھی دیکھا.یروشلم میں یہودی ادارے بھی دیکھے.یروشلم سے کوئی پندرہ میل کے فاصلے پر ایک روسی اشترا کی یہودی بستی تھی.اس کے دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا.یہودی ایجنسی کے ڈاکٹر کومین سے بھی ملاقات اور تبادلہ خیالات ہوا.اسرائیلی سرگرمیوں کو دیکھ کر میرا اثر یہ ایک ایسی سرعت سے یہ لوگ اپنے پاؤں جما رہے ہیں اس کا نتیجہ عربوں کی پسپائی ہو گا.یہودی بینسی جوان امنیات عرب مالکان سے خرید تی جارہی تھی عرب ان اراضیات سے اپنے ہی ہاتھوں مستقل طور پر محروم ہو رہے تھے.صنعت و حرفت کے جو شعبے اور ادارے قائم ہو رہے تھے ان سے عربوں کو کوئی منی یا عارضی قائد پہنچنا ممکن تھالیکن کسی مستقل فائدے کا کوئی امکان نہ تھا.فریاد کرده اراضیات اور صنعتی ادارے سب یہودی مہاجرین کے لئے وقف تھے اور نظر آرہا تھا کہ رفتہ رفتہ ساری عرب آبادی میہودیوں کی دست نگر ہو جائے گی، میں یہ سب کچھ دیکھ کر بہت فکر مند اور دل گرفتہ ہوں.
۴۸۹ جنگ ختم ہونے کے بعد برطانوی حکومت نے فلسطین کے قضیہ کو سلجھانے کی کوشش کی.عرب اور ہونی مشد و بین کو لندن بلایا.چونکہ عرب مندو میں مہونی مندوبین کے ساتھ ملکہ بیٹھنے کو تیار نہ تھے لہذا مسٹر ارنسٹ ہیون وزیر خارجہ بر طانیہ نے ان سے علیحدہ علیحدہ گفتگو کا سلسلہ شروع کیا.بعد میں مسٹر بون نے اقوام متحدہ میں بیان کیا کہ ان مذاکرات کے نتیجے میں فریقین کے موقف استقدر قریب ہو گئے تھے کہ یقینا کوئی تصفیہ ہو جاتا لیکن عین اس وقت امریکن صدر ٹرومین نے حکومت برطانیہ کے نام ایک تار بھیجا کہ ایک لاکھ یہودی مہاجرین کو فلسطین میں داخلے کی فوراً جازت دیجائے اس تالہ کی عام اشاعت ہو گئی اس پر عرب مندوبین بر افروختہ ہوگئے اور ہونی مندوبین کے مصلے بڑھ گئے اور با بی تصفیے کی امید جاتی رہی.حکومت برطانیہ نے قضیہ فلسطین اقوام متحدہ میں پیش کر دیا.اسمبلی نے ایک کمیشن مقرر کیا کہ حالات ا پورا جائزہ لیکر فریقین کے بیانات پر غور کرنے کے بعد رپورٹ کرے.ہندوستان بھی اس کمشن کے اراکین میں شامل تھا.کمشن میں ہندوستانی مندوب سر عبدالرحمن تھے تو تقسیم ملک سے قبل مدراس ہائی کورٹ کے اور پھر لاہور ہائی کورٹ کے جی تھے اور تقسیم کے بعد پاکستان سپریم کورٹ کے حج ہوئے.اس کمشن کے سامنے مسٹر موشے شیر نے جو بعد میں اسرائیل قائم ہونے پر اس لک کے وزیر خارجہ ہوئے مودی ایجنسی کی طرف سے بیان دیتے ہوئے کہا.محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ہمارے تین قبائل کو معاذ اللہ ظلماً مدینے سے نکال دیا تھا.معلوم ہوتا ہے ان کے اس بیان کے وقت سر عبد الرحمن موجود نہ تھے یا ان کی توجہ ادھر نہ بھی درند مسٹر شیرٹ پر سوالات کے ذریعے ان کے منہ سے اس ایندا دہی اور ان غداریوں کو تسلیم کر ایا جاسکتا تھا جود مدینہ طیبہ کے یہودیوں نے ایک لمبے عرصے تک بار بار سرور دو عالم سے کیں جن کی پاداش میں انہیں مدینے سے کے بعد دیگرے خارج کیا گیا.آخر کار اس کمشن نے سفارش کی کہ فلسطین کو تقسیم کیا جائے.ہند کی طرف سے میرے ہندوستان واپس پہنچنے کے چندوں بعد پنڈت نہرو کی کو نیب کچھ کے لئے میری نامزد کی سر جارج سینس سیکر ٹری وزارت قانون جور اسر میرے ساتھ اسی حیثیت میں کام کر چکے تھے مجھے ملنے آئے اور کہا پنڈت جواہر لال چاہتے ہیں کہ نئی بین الاقوامی عدالت میں ہندوستان کا بھی ایک جج منتخب ہوسکے.وہ سمجھتے ہیں کہ اگر تمہارا نام اس منصب کے لئے پیش کیا جائے تو کامیابی کی امید ہوسکتی ہے.انہوں نے مجھے ارشاد فرمایا ہے کہ میں نہاری رضامندی حاصل کر دی.میں مقامل تھا لیکن سر جارج مصر ہوئے تو میں نے رضامندی دیدی.جموں کا انتخاب جنوری اید یا کے لندن کے اجلاس میں ہوا.اسمبلی میں تو مجھے کثرت آراء حاصل ہوگئی لیکن مجلس امن میں میرا مقابلہ پولینڈ کے قانون دان مسٹر بوہم و نیار سکی سے ہوا.دوسری یا تیسری بار کی رائے شماری میں انہیں کثرت حاصل ہوگئی
٤٩٠ 144 1971 ور وہ منتخب ہو گئے.وہ متواتمہ ۲۱ سال بین الاقوامی عدالت کے بج رہے ہ سے ۹ تک عدالت کے صدر بھی رہے.در فروری شاید کو میشن پر گئے.نومبر میں رحلت فرما گئے.کیبنٹ مشن کا تقریہ اتوار تک بھی ہندوستان کے آئندہ آئین کے بارہ میں مل لی اور کانگریس کے درمیان کوئی مفاہمت نہیں ہو سکی تھی.ادھر بر طانوی حکومت اعلان کر چکی تختی که مند دستان جلد آزاد ہو جائے گا.اس وقت جہاں تک اندازہ کیا جاسکتا تھا وزیر اعظم اٹلی تقسیم ہند کے بالکل حامی نہیں تھے اور وہ چاہتے تھے کہ کوئی ایک حل تلاش کیا جائے جس سے ہندوستان کی سیاسی اور اقتصادی وحدت بھی قائم رہے اور سالایک اور کانگریس دونوں اسے قبول بھی کر لیں.چنانچہ لاء کے موسم بہار میں انہوں نے اپنے تین رفقاء لارڈ پیتیک دار نیس (وزیر بند ) مسٹر الیگزینڈر (وزیہ حجر ) اور سر سٹینفورڈکر پیس لارڈ پر لوی سیل) کے سپرد یہ کام کیا کہ وہ ہندوستان جا کہ دونوں سیاسی جماعتوں اور رہ کردہ سیاسی شخصیتوں کے ساتھ مشورہ کر کے ہندستان کی سیاسی گھی کو سلجھائیں.لارڈ پیتھک لار نہیں برسوں سے ہندوستان کی آزادی کے حامی تھے اور سند دستانی مسائل میں گہری دلچسپی لیتے رہے تھے.سر سٹینفورڈ کر پس برطانوی وزارت کی قابل ترین شخصیت شمار ہوتے تھے ہندوستانی سیاست کے ساتھ گہری دلچسپی رکھتے تھے گو کانگرس کے حامی شمارہ کئے جاتے تھے.ایک مرتبہ پہلے بر طانوی حکومت کے نمائندے کی حیثیت سے انکی مساعی اس بارے میں ناکام ہو چکی تھیں.مسٹر الگزینڈر ہمدرد اور ملنسار طبیعت رکھتے تھے لیکن اس سے قبل انہیں ہندوستانی سیاست سے واسطہ نہیں پڑا تھا.اس مشن کا نام کینٹ مشن مشہور ہوا.دتی پہنچتے ہی وفد نے شدت گرما کے باوجود نہایت سرگرمی سے اپنا کام شروع کر دیا اور حصول مقصد کی مساعی میں کوئی دقیقہ اٹھانہ رکھا.دونوں سیاسی جماعتوں کے اختلافات استقدر پیچیدہ صورت اختیار کر چکے تھے کہ ملک کے کسی طبقے میں بھی برطانوی وند کی کامیابی کی توقع نہیں کی جاتی تھی لیکن وند کی مساعی اور وزیر مند کی رانہ سالی میں جال متی کامیاب ہوئیں اور دود کے تجویز کردہ منصوبے کی آخری شکل پر سلم لیگ اور کانگریس اتا ہو ا ا ا م اعظم کو سلم لیگ کی توسل کی رضامندی حاصل کرنے میں کسی قدر وقت کا سامنا ہوا.لیکن کونسل نے آخران کا مشورہ قبول کر لیا اور دن کی تجویز کی منظوری دیدی.پرسوں کی کشمکش اورنگ ودو کے بعد ملک بھر نے اطمینان کا سانس لیا.لیکن یہ اطمینان دیر یا ثابت نہ ہوا.کینٹ مشن کا تجویز کردہ منصوبہ جسے کینٹ مشن کے منصوبے کا مختصر خاکہ یہ تھا کہ ملک کو تین علاقوں کانگریس اور سلم لیگ نے منظور کر لیا میں ترتیب دیا جائے (1) بنگال اور آسام (۲) پنجاب ، سندھ، بلوچستان اور صوبہ سرحد (۳) باقی تمام صوبجات ان تینوں علاقوں کی اپنی اپنی علاقائی حکومت |
ہو اور سارے ملک کی مرکزی حکومت وفاقی ہو جس میں یہ تین علاقے منسلک ہوں مرکزی حکومت کے اختیارات امور خارجہ امور متعلقہ دفاع ، صیغہ مواصلات اور ان محکمہ جات کے متعلقہ مالیات تک محدود ہوں.باقی سب امویہ اور صیغہ جات کے اختیارات علاقائی حکومتوں کے سپرد ہوں.یہ نظام دس سال تک جاری رہے.دس سال کی میعاد پوری ہونے پر علاقہ ( ا ) اور (۲) کو اختیار ہو کہ اگر ان میں سے ایک یا دونوں چاہیں تو وفاقی نظام سے علیحدہ ہو کہ اپنی پنی علیہ و آزاد حکومت قائم کرلیں اس امر کا فیصلہ علاقے کی مجلس قوانین ساز کے اختیار میں ہو.علاقہ منبرا کے متعلق یہ شرط بھی رکھی گئی کہ گر علاقائی مجلس وفاقی حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ کرے تو آسام کے نمائندگان کو اختیار ہو گا کہ وہ اپنی کثرت رائے سے یہ فیصلہ کریں کہ اس علاقے میں شامل رہنا چاہتے ہیں یا نہیں.اور علاقے نمبر سے علیحدگی کی صورت میں وہ علاقہ نمبرس میں شامل ہو جائیں گے.مولانا آزاد کا کانگریس کی صدارت سے استعفے دن کے منصوبے کی منظوری تک کانگریس کے صدر مولانا اور ان کی جگہ پنڈت نہرو کا انتخاب - ابوالکلام آزاد تھے.جب لیگ اور کانگریس نے منصوبے کی منظوری دیدی تو مولانا آزاد نے یہ سمجھتے ہوئے کہ ملک کے دشوار اور پچیدہ آئینی مسئلے کا حل میسر آگیا ہے کانگریس کی صدارت سے استعفی دیدیا اور پنڈت جواہر لال نہرو کا نام کانگریس کی صدارت کے لئے تجویز کیا اوران کے انتخاب کی موثر تائید کی چنانچہ نیت صاحب کا انگریس کے صدر منتخب ہو گئے.بعد کے حالات کی روشنی میں مولانا صاحب نے اپنے اس اقدام کو اپنی ساری سیاسی زندگی کا نہایت مضرت رساں اقدام قرار دیا.گاندھی جی اور پنڈت نہرو کی کینٹ مشن کے کانگرس کا صدر منتخب ہوتے ہی پنڈت نہرونے کی اش منصوبے کی بعض شقوں کی اپنی تعبیریں کے منصوبے کی بعض شقوں کی ان تغیر کا اعلان یا شد پریشان خواب من از کثرت تعبیر یا مثلا آسام کے متعلق انہوں نے رانی کو صوبے کی متعلقہ فرمایا شق کی رو سے آسام کو اختیار ہے کہ وہ اپنی مجلس قانون سانہ کے ذریعہ ابھی اس فیصلے کا اعلان کر دے کردہ سرے سے علاقہ نمبرا میں شامل نہیں ہونا چاہتا اور شروع سے ہی وہ علاقہ نمبر ۳ میں شامل ہو جائے.یہ تغیر منصوبے کے الفاظ کے بالکل خلاف تھی.اور منصوبے کے الفاظ ہر گز اس تعبیر کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے.لیکن پنڈت صاحب بحیثیت صدر کانگریس اپنی اس تغیر اور دیگر غیرت پر جو اسی قماش کی تھیں مصر تھے جیس کے نتیجے میں یہ صورت پیدا ہوگئی کہ منصوبے پر الفاق کا اظہار کرنے کے تھوڑے ہی عرصے بعد اپنے صدر کے مند سے کانگریس نے عملاً منصوبے کو رد کر دیا.قائد اعظم کے لئے اب کوئی چارہ نہ رہا کردہ اعلان کردیں کہ کانگریس کی اس بد عہدی کے پیش نظردہ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں شریک نہیں ہو سکتے.اس پر لارڈ ویول ردائے ہند نے گاندھی جی اور نیت ہند کو ملاقات کے لئے بلایا اور بہت کوشش کی کہ وہ رائہ رائے کو یہ یقین
ور دلا دیں کہ وہ منصوبے کی تمام شقوں پر منصوبے کی عبارت کے مفہوم کے مطابق عمل کرنے پر آمادہ ہیں اور کی اپنی خاصی تغیر پر اصرار نہ کر یں گے لیکن وہ رضامند نہ ہوئے.وائسرائے کی ہر بات کادہ ہی جواب دیتے رہے تم نے منصوبے کو تمام و کمال تسلیم کیا ہے اور ہم اسے عمل میں لانے پر آمادہ ہیں لیکن اس کی تعبیر کرنا ہمارا کام ہے اور ہم مر ہیں کہ ہماری تعبی کو تسلیم کیا جائے.وائسرائے نے پوچھا اگرآپ کی تعبیر اراکین وند کے منشاء کے مخالف بھی ہو تب بھی کیا آپ اس کی صحت اور قبولیت پر مصر ہوں گے ؟ گاندھی جانے کہا بیک دند اپنا کام ختم کر چکا ہے.منصوبے کی تعبیر کے متعلق وند کا نشاعراب کوئی حیثیت نہیں رکھتا تعبیر کرنا اب ہمارا کام ہے.وائسرائے نے کہا جب مسلم لیگ اور کانگریس نے منصوبے کوتسلیم کر لیا تو منصوبے کی حیثیت باہمی معاہد کی ہوگئی اسلئے اس کی تعبیر یہ لیگ اور کا نگر میں دونوں کا اتفاق ضروری ہے.گاندھی جی اور پنڈت ہر دینے اسے بھی تسلیم کرنے سے انکار کیا اور اپنی بات پر مصر رہے کہ منصوبے کی تعبیر ہمارا کام ہے اور ہماری تعبیر کے مطابق عمل ہونا چاہیے.یہ موقف اپنی غیر معقولیت کے لحاظ سے اچنھا معلوم ہوتا ہے اور عام طبائع ایسی دو معزز شخصیتوں کے متعلق مندرجہ بالا بیان کو صحیح تسلیم کرنے میں حد دور بعد مقامل ہوتی ہیں.لیکن اس کے صحیح ہونے میں شک کی کوئی گنجائش نہیں.دائیے کی بو گفتگو اس بارے میں گاندھی جی اور نیڈت جواہر لال نہرو سے ہوئی وہ " OF THE BRITISH RAI LAST DAYS کے مصنف مسٹر موسلے نے لفظا اپنی تصنیف میں درج کی ہے اور وہاں سے پڑھی جاسکتی ہے.وزیر اعظم اٹیلی کی سہندوستان کی سالمیت | برطانوی وند کے منصوبے کا تو یوں خاتمہ ہو گیا.پھر یہ قرار رکھنے کی آخری ناکام کوشش بھی وزیرا عظم سرائیلی نے ہندوستان کی سالمیت کو قائم رکھنے کی خاطر ایک آخری سعی یہ کی کہ قائد اعظم اور نیت نزد کو لندن آنے کی دعوت دی چنانچہ اواخر سواء میں یہ دونوں اصحاب لندن تشریف لے گئے.قائد اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان صاحب کو اپنے ہمراہ لینے گئے اور پنڈت ہر د سر دار دیو سنگھ کو.وزیر اعظم کی یہ کوشش بھی کامیاب نہ ہوئی اور آخردہ بھی اس تھے پہنچے کہ ملک تقسیم کے غیرکوئی چارہ نہیں کرائے اور وزیر اعظم کی سال کی اس مختصر کیفیت سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یا تو کانگریسی قیادت نے کیبنٹ مشن کے منصوبے کو دل سے قبول ہی نہیں کیا تھا یا پھر قبول کرنے کے جلد بعد انہیں یہ احساس ہوا کہ یہ منصوبہ انہیں قبول نہیں کرنا چاہیئے تھا.اور بجائے اسے رد کرنے کی ذمہ داری اٹھانے کے انہوں نے تعبیر باندی کے ذریعے اس سے ٹھیکا را حاصل کرنے کی کوشش کی.تاریخ شاہد کسی وقت اس عقدہ پر روشنی ڈال سکے.بعد کے واقعات سے اس امر کی رورت تائید ہوتی ہے کیونکہ تجبر کا ہتھیا کہ کانگریسی قیادت کے لئے اکثر ایک بہت کار آمد آلہ ثابت ہوتارہا ہے.**
۴۹۳ حکومت برطانیہ کی طرف سے وزیر اعظم اٹلی نے اپنے ۱۲۰ فرور می عشاء کے بیان میں اعلان تقسیم ملک کا اعلان فرمایا کہ ب تقسیم مک کے بغیر چارہ نہیں ملک منظم کی حکومت ہندوستان کے نظم ونسق کے اختیارات ہندوستان کو سپرد کرنے کافیصلہ کر چکی ہے.سپر مل در آمد کا طریق یہ ہوگا کی موت کے اختیارات صوبائی حکومتوں یا کسی متوانہی ادارے کے سپر د کر دیے جائیں گے اور اس طور پر تقسیم کی کار دائی کی تکمیل کی جائے گی.اس بیان سے جہاں مجھے یہ اطمینان ہوا کہ آخر کار حکومت برطانیہ نے قیام پاکستان کے مطالبہ کو تسلیم کر لیا ہے وہاں مجھے اعلان کے اس حصے سے پریشانی بھی لاستی ہوئی کہ حکومت کے اختیارات عبوری مرحلے میں صوبائی حکومتوں کو تفویض کئے جانے کا بھی امکان ہے.قائد اعظم کا برطانوی وند کے منصوبے کو منظور فرمالینا ان کے صاحب تدبر ہونے کا ثبوت تھا.میری نظر میں برطانوی وفد کے منصوبے کا ایک قابل قدر پہلو یہ تھا کہ اس میں پہلے دس سال میں اکثریت کو موقعہ دیا گیا تھا کہ وہ اپنے منصفانہ رویئے اور حسن سلوک کے ذریعے اقلیتوں کا اعتماد حاصل کریں اور انہیں یقین دلائیں کہ آزاد ہندوستان میں ان کے جائز حقوق کی مناسب نگہداشت ہوگی اور ان کے جذبات اور احساسات کا احترام ہو گا.ہر چند کہ سابقہ تجربہ کچھ ایسا امید افزا نہیں تھاپھر بھی قائد اعظم کا اس منصوبے کو عملاً آن مانے پر تیار ہو جانا اس بات کا ثبوت تھا کہ ان کا موقف کسی قسم کی ضد یا ہٹ دھرمی پر مبنی نہیں تھا.بعد کے حالات سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کیر کانگریس کے بعض عناصر نے وند کے منصوبے کو تسلیم کرنے کی تائید غالباً اس توقع میں کی کہ مسلم لیگ اسے رد کر دیگی ور درد کی ناکامی کی قومہ داری لیگ پر ہوگی جس کے نیچے میں برطانوی حکومت کی نظروں میں پاکستان کا مطالبہ کرزور ہو جائے گا.جب مسلم لیگ نے دن کا منصوبہ تسلیم کر لیا توان عنصر کا اندازہ غلط ثابت ہوا اور انہوں نے منصور و ناکام بنانے کی راہیں تلاش کرنا شروع کر دیں.بہر صورت آخر نتیجہ یہ ہو کہ ہرصاحب فہم کی نظرمیں وند کی ناکامی کی ذمہ داری کانگریس پر عاید ہوئی اور پاکستان کا مطالبہ مضبوط نہ ہو گیا.لیکن اس مقصد تک پہنچنے کا میلا مرحلہ جب سٹرائیلی کے اعلان کے مطابق بہ قرار دیا گیاکہ حکومت کے اختیارات صوبائی حکومتوں کو تفویضی کئے جائیں گے تو پنجاب کے حالات کے پیش نظر می متفکر ہوا.ملک خضر حیات نمای صاحب | سر سکندر حیات خاں صاحب کی وفات کے بعد ملک سر خضر حیات خاں وزیراعظم پنجاب کا استعفیٰ صاحب پنجاب میں وزیر اعظم موئے ملک صاحب سردار صاحب کے ۱ رفقاء میں سے تھے اور ان کی جگہ لونیسٹ پارٹی کے سر براہ ہوئے لیکن یونینسٹ پارٹی کے عناصر میں جلد جلد بدیل ہورہی تھی.پارٹی کی رکنیت میں تاریکی مسلم من کم ہو رہا تھا اورغیرمسلم عمر بھر ہا تھا.صوبے میں لیگ کی تنظیم مضبوط ہورہی تھی اور لیگ کا رسوخ بڑھتا جارہا تھا یہاں تک کہ لیگ نے عدم تعاون کے مسلم لیا
۴۹۴ 19.فرابعہ یونینسٹ پارٹی کو حکومت سے بر طرف کرنے کی کوشش بھی کی.اس کوشش میں تو لیگ بظاہر کامیاب نہ ہوئی لیکن رائے عامر مںمسلم لیگ کی وقعت بہت بڑھ گئی اور شہری حلقوں میں خصوصاً یک کالہ ہر کہ پیل گیا.قائد اعظم نے اس سے قبل ہی ملک صاحب پر زور دینا شروع کیا تھاکہ وہ سلم لیگ یں شامل ہو کر اور الیگ سے مل کر کام کریں لیکن وہ ایسا کرنے پر آمادہ نہ ہوئے.انہوں نے سکندر جناح "پیکٹ کی آڑ لینے کی کوشش ی لیکن قائداعظم نے اس غار کو ایم نہ کیا کام کا وقت ایک پاکستان کا امام ہر اک سے منع ہے اور پرہیم سے سو فیصدی اس کی تائید ی ہیں لیکن صوبے کے حالت کے پیش نظر یونینسٹ پارٹی جو ایک غرف تر دارا نہ ارٹی ہے اور کی تشکیل اقتصادی مقاصد کی بنا پر رکھ گئی تھی علم حقوق کا بخوبی حفظ کرسکتی ہے.اس کشمکش کے دوران میں برطانوی وزیر اعظم کا ۲۰ فروری ماہ کا اعلان ہوا انہیں کے رو سے پنجاب کے صوبے کے متعلق مرکزی اختیارات صوبائی حکومت کو تفویض ہوسکتے تھے.اس وقت تک یونینسٹ پارٹی کی رکنیت میں مسلم اراکین کو کثرت حاصل ہو چکی تھی.اگر اب میں پارٹی برسر اقتدار میان مسلم لیگ کے رستے میں اور قیام پاکستان کے رستے میں ایک بڑی روک پیدا ہو جاتی.میں ملک سر خضر حیات خانی صاحب کو عرصے سے جانتا تھا اور میرے ان کے درمیان دوستانہ مراسم تھے.جب تک میں حکومت ہند کا رکن رہا مجھے گر میوں کے موسم میں ملک صاحب کے ساتھ شملے میں ملاقات کے مواقع میسر آتے رہتے تھے.جب میں حکومت سے علیحدہ ہو کہ فیڈری کوٹے میں چلا گیا تو ہمارے ملاقات کے مواقع کم ہو گئے اور میں نے سیاسی سرگرمیوں میں براہ راست حصہ لینا ترک کر دیاگو قومی معاملات میں میری دلچسی میں کوئی کمی نہ آئی.اب اس مشکل مرحلے پر میری طبیعت بڑی شدت سے اس طرف مائل ہوئی کہ مجھے ملک صاحب کی خدمت میں گزارش کرنی چاہیے کہ پاکستان کے مطالبے کا تعلق اب صرف مرکز کی حکومت ے ساتھ نہیں رہا کیونکہ وزیر اعظم اٹلی کے اعلان کے مطابق حکومت کے اختیارات صوبائی حکومتوں کو تفویض ہوسکتے ہیں لہذا پنجاب میں اختیارات حکمت کا ایک ایسی پارٹی کے ان میں ہونا جس کی اکثریت فرمسلم تو مطالعہ پاکستان کی کمزوری کا باعث ہوگا.مجھے کچھ حجاب بھی تھا کہ میں سیاسیات سے باہر ہوتے ہوئے اور پنجاب کے تفصیلی حالات سے واقفیت نہ رکھتے ہوئے ملک صاحب کی خدمت میں کوئی ایسی گذارش کردیں جسے وہ دخل در معقولات سمجھتے ہوئے قابل التفات نہ سمجھیں یہ جوں جوں میں وزیر اعظم برطانیہ کے اعلان پر غور کر تا میری پریشانی میں اضافہ ہوتا.دو دن اور دو راتیں میں اسی کشمکش میں گزاریں.رات کو آرام و سکون سے نہ سوسنے کا مجھے بہت کم الفاق ہوا ہے لیکن یہ راتیں میں نے بڑی بے چینی میں کائیں.آخر میری صبح میں نے ملک صاحب کی خدمت میں ایک خط لکھا جس میں انکی زمہ داری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے گذارش کی کہ انہیں اس مرحلے پر وزارت سے استعفے دیکر مسل لیگ کا رستہ ناب میں صاف کر دینا چاہیے اور اس طرح اپنی ذمہ داری سے سرخو د ہو جانا چاہئیے.اس خط کے ارسال کرنے کے تیرے
٤٩٥ دن ملک صاحب نے ٹیلیفون پر فرمایا کہ تمہارا خط مجھے مل گیاہے.مجھے اصول تمہارے ساتھ اتفاق ہے.لیکن میں مز میشوی رنا چاہتا ہوں جوشیلیوں کی مختر گنگ میں مگن نہیں.ایکدن کے لئے اور آباد میرے عام ہونے پرملک صاب نے فرما کہ جیسے میں نے ٹیلیفون پر تم سے کہا تھا مجھے اور تمہارے ساتھ اتفاق ہے لیکن میں تمہاری موجودگی میں بھائی الہ خیش نواب سر اللہ بخش خان ٹوانہ ) کے ساتھ مشورہ کرنا چاہتا ہوں اور پھر مظفر (نواب سر مظفر علی قزلباش ) سے بھی مشورہ کرنا چاہتا ہوں جس نے ہر مسلے پر میرا ساتھ دیا ہے.میں ان دو حضرات سے مشورہ کئے بغیر کوئی پختہ فیصلہ نہیں کرسکتا.نواب سر اللہ بخش خال صاحب ملک صاحب کے بنگلے کے باغ میں ایک نتیجے میں فروکش تھے.ہم دونوں انکی خدمت میں محاضر ہوئے.ملک صاحب نے ان سے کہا بھائی جان میں نے ظفر اللہ خان کی چھٹی آپ کوپڑھ کر سنادی تھی.اب آپ.فرمائیں آپ کی کیا رائے ہے ؟ نواب صاحب نے فرمایا میں نے پہلے بھی کہا تھا اور آج بھی کہتا ہوں کہ مجھے ظفراللہ خان کے ساتھ الفان ہے.اس مرحلہ پر صحیح طریق یہی ہے کہ تم اس ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاؤ.پچند منٹ کی گفتگو کے بعد وہیں سے ملک صاحب نے سر منظفر علی خالصاحب کے بال ٹیلیفون کیا تو معلوم ہوا کہدہ اپنی اسٹیٹ پر تشریف لے گئے ہیں.وہاں ٹیلیفون نہیں تھا ملک صحاب نے اپنے موٹر ڈرائیور کو ارث درفرمایا کہ فورا کار میں جاکر نوا سر منظفر علی خالصاحب کو ان کی اسٹیٹ سے لے آئے.نواب صاحب کی تشریف آوری پر ملک صاحب نے میرے خط کا ذکر نواب صاحب سے یا اوران کی اسے روایات کی انہوں نے امام مسلم لیگ کی تحریک عدم تعاون کو نا کام کر چکے ہیں مجلس میں ہماری پوزیشن مضبوط ہے.بجٹ کا اجلاس چند دنوں میں شروع ہونے والا ہے.اس بات ئے سے تو مجھے اتفاق ہے کہ ہمیں حکمت سے دستبردار ہو جانا چاہئے لیکن میری رائے میں بجٹ پاس کرنے کے بعد استعفی دینا چاہے یہ سنتے ہی نواب اله بخش صاحب نے فرمایا.مشورہ طلب مر یہ نہیں کہ استعفے کب دیا جائے بلکہ یہے کہ استعفے اس نیست دیا جائے یا نہیں.آج سے ڈیڑھ یا دو ماہ بعد استعفے دینے کا فیصلہ بے سود ہے کیا معلوم اس درمیانی عرصہ میں واقعات کیا ہوں اور کیا مراحل پیش آئیں اور کن حالات کا آپ کو سامنا ہو.پھر ایک اور امر بھی قابل غور ہے.اگر آپ آج یہ فیصلہ کریں کہ بجٹ پاس کرنے کے بعد استعفے دیں گے اور پارٹی کویہ بتایں تو پارٹی بھی نشر ہوجائے گی اور یوں آپ کا استعفے ہو جائے گا اگر اس وقت پارٹی کو نہیں بتائیں گے اور ان کی مد سے بھی پاس کرنے کے بعدان کی خلاف مرضی استعفے دیے گے تو گویا آپ نے ان سے قریب کی کہ ان کی مدد سے بجٹ تو پاس کر لیا اور پھران کی خلاف مرضی استعفے دیدیا.میری تو میں رائے ہے کہ اس وقت صرف یہ طے ہونا چاہیئے کہ اس مرحلے پر آپ استعفے دیں یا نہ دیں.میں اپنی رائے بنا چکا ہوں کہ آپ کو استعفے دینا چاہئے آگے جیسے آپ مناسب سمجھیں.اس گفتگو کے بعد نواب مظفر علی خان صاحب چند منٹ ٹھہر کر تشریف لے گئے ملک صاحب نے اسی سہ پر کیلئے پارٹی کا اجلاس اپنے دولت کدے پر طلب فرمایا اور خود گورنر صاحب سرالیوں جنکنز کو ملنے تشریف لے گئے.گورنر سے کہا وزیراعظم اٹلی کے اعلان کے پیش نظر میں سوچ بچار کے بعد اس طرف مائل ہوں کہ مجھے اس مرحلے پر استعفے دے دینا چاہیئے لیکن پختہ فیصلہ کرنے سے پہلے میں نے آج سر پر پارٹی
کا اجلاس طلب کیا ہے.اگر پارٹی کے ساتھ گفتگو کے بعد میں اسی رائے پر قائم رہا تومیں آج شام پھر آپ سے ملنے کیلئے آؤں گا اور اپنے فیصلے سے آپ کو مطلع کردوں گا.گورنر صاحب نے فرمایایہ امر خالعہ آپ کی مرضی پر موقوف ہے.حالات کے پیش نظریں آپ کی راہ پر کوئی اثر ڈالنا نہیں چاہتا لیکن کی ہیں نے فرمایا کہ فیصد تو جو کچھ ہوگا میرا ان ہی ہوگا لیکن وزیر اعظم اٹلی کے اعلان کے نتیجے میں مجھے ظفر اللہ خان نے توجہ دلائی ہے کہ مجھے ایسا کرنا چاہیئے.پارٹی کا اجلاس تین بجے سہ پہر سے پچھ سات بجے تک رہا.میں تو اس میں شامل نہیں تھا لیکن کبھی کبھی میرے کمرے تک آواز پہنچتی تھی جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ خاصی گرم محبت ہورہی ہے.شام کے کھانے پر ملک صاحب نے بتایا کہ پارٹی کے غیر لم اراکین ان کے فیصلے پر بہت زدہ ہوئے اوراپنے اپنے زاویہ نگاہ انہیں سمجھنے کی کوشش کرتے رہے کہ ان کا مجوزہ اقدام درست نہیں لیکن انہوں نے غیرمسلم اراکین و سے صاف صاف کہ دیا کہ برطانوی وزیر اعظم کے اعلان کے بعد ان کے لئے اور کوئی راستہ کھلا نہیں رہا.کھانے کے بعد ملک صاحب گورنر سے ملنے کے لئے تشریف لے گئے اور اپنا استعفی پیش کر دیا اور ساتھ ہی گور نر صاحب کو مشورہ دیا کہ نواب صاحب ممدوٹ کو بحیثیت تان مسلم لیگ پارٹی دعوت دیجائے کہ وہ نئی وزارت تشکیل کریں ار دعوت دکھا ٹی ملک صاحب کے استعفے کا اعلان ریڈیو پر ہو گیا مسلم لیگ حلقوں میں اس خبر سے خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی اور صبح ہوتے ہی شہر بھر میں خضر حیات زندہ باد کے نعرے بلند ہونے لگے.راجہ غضنفر علی صاحب اور سہ دار شو کر حیات خاں صاحب کی سرکردگی میںبہت سے سلم لیگ کے سرکردہ اصحاب ملک صاحت کے بنگلے پرتشریف لائے انہیں ماریا دی گلے لگایا اور پھولوں کے ہار پہنائے.اس کے برعکس غیر مسلم حلقوں میں بہت بے چینی پھیل گئی اور ان کی طرف سے مخالفانہ مظاہرے شروع ہو گئے.یہ دو صوبے بھر میں پھیل گئی اور بعض مقامت پر افسوستاک فرنه دارانه دارد ایں بھی ہوئیں.میں اس دن واپس دلی چلا گیا." صوبائی سلم لیگ قیادت کی طرف سے ملک صاب پر زور دیا گیا کہ مسلم لیگ پارٹی میں شام ہو جائیں.اندی نے وضاحت سے فرما دیا کہ وہ سیاسیات سے الگ رہنا چاہے ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ انہیں وزارت یا کسی سیاسی اعزاز یا نصب کا خواہش مند سمھا جائے مسلم لیگپارٹی کے تعلق انہوں نے ان ای یو ای کا اور یوں دیدیا کہ انہو نے نواب مظفر علی قزلباش کو مشورہ دیا کہ سلم لیگ پارٹی میں مال و جائیں بین این دو شامل ہوگئے.ملک سر ضربات صاحب کا پہلا موقف درست تھا یا غلط.لیکن اس میںکسی شک کی گنجائش نہیں کہ اس مرحلے پر انکا استعفیٰ دیدیا ایک نہایت قابل ستائش فعل تھا جس کے نتیجے میں صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ کا راستہ صاف ہو گیا اور پاکستان کے
وم استحکام کی صورت پیدا ہوگئی.اگر وہ ایسا نہ کرتے تو بہت سی مشکلات کا امکان تھا.اس کے مقابل پر پاکستان کے قیام کے بعد ملک صاحب کے ساتھ وہ انصاف اور حسن سلوک روا نہ رکھا گیا جس کا ہر شہری بلا امتیانہ مقدار ہے.لار ڈھونٹ بیٹن کا بطور وائسراے تقریر | کارڈ مونٹ میٹین وائسرائے بنکر آئے تو آزادی کے متعلق ضروری انصرامات اور درمیانی مراحل جلد جلد طے ہونا شروع ہوئے ہ کے دوران میں کیا کیا اتار چڑھاؤ ہوئے کیا کیا ہیں چلی گئیں.کونسے منصوبے کامیاب ہوئے اور کونسے ناکام.بنی نوع انسان کا کن این پروٹیوں اور کن پست وادیوں سے گذر ہوا اور یہ سال اپنے پیچھے کتنی تلخ یادیں اور منحوس در تے چھوڑ گیا انکا شمار کرنا اور ان کی صحیح تصویر پیش کرنا ایک یا اتار راست گو محتی اور خداتریس مورخ کو چاہتا ہے جو کسی وقت ضرور پیدا ہو گا.ملک کے منصوبے کے اعلان پیپر میرا پر طانوی وزیر اعظم نے اپنے سر سجون شاہ کے بیان میں انڈین فیڈرل کورٹ سے استعفے تقسیم ملک کے منصوبے کا اعلان کر دیا.اس اعلان کے ہوتے ہی میں نے فیصلہ کر لیا کہ مجھے فیڈرل کورٹ آف انڈیا سے علیحدہ ہو جانا چاہیے چنا نچہ میں نے اپنا استعفے بھیج دیا که ارجون سے میں عدالت سے علیحدہ ہو جاؤں گا.اس وقمرا ارادہ تھا کہ تقسیم کےبعد میں سے کی طرح لاہور میں کلات کردوں گا لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ ان دنوں ہزہائی نس نواب سرحمید اللہ خان صاحب والئی جو بال دلی میں فروکش تھے.جب انہیں میرے ارادے کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے فرمایا تم کچھ عرصے کیلئے میرے پاس بھو پال آجاؤ تاکہ میں اس مشکل مرحلے میں جود الیان ریاست کو در پیش ہے تم سے مشورہ کر سکوں.نواب صاحب کی طرف سے میں سے بھی بہت کریمانہ الطاف کا مورد رہا تھا اسنے ان کا ارث میرے لئے واجب التعمیل تھا.چنانچہ میں فیڈرل کورٹ سے علیحدہ ہوتے ہی بھوپال چلا گیا ہو کہ بھی صحیح اندازہ نہیں تھاکہ جو پل میںکتنا عرصہ قیام ہوگا اور اس کے بعد کیا حالات ہوں گے اسلئے ہم نے سارا ذاتی سامان سترہ بڑے بیکسوں میں احتیاط کے ساتھ بن کر کے ایک دوست کے مال پرانی دلی میں رکھوا دریا چند دن بعدی دل میں بے چینی اور بدامنی کے آثار شروع ہو گئے اور جوں جوں تقسیم کی تاریخ قریب آتی گئی حالت بد سے بدتر ہوتی گئی اس کے بعد معلوم نہ ہوسکا کہ ہمارے سامان کا کیا حشر ہوا.جہاں انسانی زبان ، عزت ، آیہ دو کی کوئی قدر باقی نہ رہ گئی تھی اور لاکھوں ان نہر نوع کی دہشت اور ہمیت کا شکار ہو رہے تھے وہاں محض سامان کے متعلق دریافت بھی کر نا سنگدلی کے مترادف ہوتا لہذا نہ ہم نے دریافت کیا نہ ہی کچھ معلوم ہوا.بھوپال میں ہمارے لئے مکان سامان اور پر سہولت ہزہائی نس نواب صاحب کے فرمان سے مہیا کر دی گئی تھی اور جتنا عرصہ ہم بھوپال میں ٹھہرے ہم نے بفضل اللہ بہت آرام پایا.فجزاه المد حسن الجزاء حجب آزادی ہند کے ایکٹ کا مسودہ پارلیمنٹ میں پیش ہونے کا وقت آیا تو نواب صاحب نے ارشاد فرمایا کہ تم دو ہفتے کیلئے لندن پلے باد تمہاری وہاں بہت سے ارکان پارلیمنٹ سے شناسائی ہے.تم وہاں یہ جائزہ لیا کہ سورت پر بحث کے دوران میں گیا
۴۹۸ کی ایسی رضاعت کا امکان ہے جس سے نے آئین میں دالیان ریاست ہائے ہند کے حقوق کی حفاظت ہوسکے.اگر ایسا کوئی موقعہ ہو تو اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنا.پنجاب باؤنڈری کمشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس میں میں نواب صاحب کے ارشاد کی تعمیل می سفر کہ کرنیکے نے قائد اعظم کا ارشاد اور میری طرف سے اسکی تعمیل انگلستان کے لئے تیار ہو تو ولی سے پیغام اتوں یا کہ قائداعظم نےطلب فرمایا ہے.میں ان کی خدمتمیں حاضر ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ پنجاب میں دوکشتن حد بندی یلئے قائم کیا جانیوالا ہے اس کے سامنےمسلم لیگکی طرف سے وکالت کی ذمہ داری ہم تمہارے سپرد کرنا چاہتے ہیں میں نے عرض کیا میں حاضر ہوں لیکن نواب صاحب کے ارشاد کے ماتحت میں عازم انگلستان ہونیوالا ہوں مجھے معلوم نہیں کمشن کی کاروائی کب شروع ہوگی اور مجھے تیاری کیلئے کتنا وقت ہے گا.قائد اعظم :.تم انگلستان کتنا عرصہ ٹھہرو گے ؟ ظفر اللہ خال -:- میرا اندازہ تو پندرہ دن کا ہے.بھی مقرر نہیں ہوا.ظفر اللہ خاں :.امپائر کے متعلق میں گذارش کرنا چاہتاہوں کہ میں کسی ایسے شخص کے تقر پر مصر رہا ہے جس کی دیانت پر پورا اعتماد ہونگے.آپ لندن کی رہائش کے زمانہ میں پریوی کونسل کے روبرو پریکٹس کرتے رہے ہیں آپ کو اتفاق ہوگا کہ برطانوی دار نہ آن اپیل اپنی روایاتکے لحاظ سے اپنے فرائض کی انجام دہی میں نہایت دیانتدار یر جانبدار ہوتے ہیں.آپ زور دیں کراں میں کس کو ا ا ا ر کیا جائے.رانان علی کرسکتاہے لیکن میں یہ یقین ہونا چاہئے کہ جو اب بمقر ہوں وہ کسی اثر و رسوخ کے مات کسی کے کے کھانے کے تھے میں کئی فیصل نہ کرائے قائد اعظم :.میں تمہارے مشورے کو ذہن میں رکھوں گا.ہو گا - ظر الشر خاں آپ کو کوئی ادارہ تایا گیا ہےکہ مجھے بانڈی والے عالم میں تیاری کیلئے کاعرصہ درکام قائد اعظم.تمہیں کافی وقت مل جائے گا.لاہور کے وکلا نے پورا کیس تیار کیا ہو گا نہیں صرف پنے دلائل کو ترتیب دینا ہو گا اور اسلوب بحث طے کرنا ہوگا.کردی.ظفراللہ خان :.میں لندن سے واپسی پرکھا جی سے سید الامور چلا جاؤں گا ناں میں کسی کوپنی ان سے مطلع قائد اعظم :- نواب ممدوٹ سب انتظام کریں گے.
۴۹۹ قائد اعظم سے رخصت ہو کر یں لندن چلا گیا.جب وزیر اعظم اٹلی نے کی آزادی ہند کا مسودہ ایوان عام یں پیش کیا تو ں ایوان کی گیلری میں موجود تھا.وزیر اعظم کی تقریر بہت ان اور امی تھی لیکن ایک ایسے مجھے حیرانی بھی ہوئی اور پریشانی بھی.انہوں نے تقریر میں کہا ہم تو چاہتے تھے کہ آزادی کے بعد لارڈ مونٹ بیٹن ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کے پہلے گوری منزل ہوں لیکن افسوس ہے کہ مٹر جناح رضامند نہ ہوئے.قائداعظم کے انکار پر سٹریٹی کا اظہار نہیں مجھے پن نہ ہوا.اول تو اس تفصیل کا ذکر مزوری نہ تھا ویسے اگر وزیر اعظم کی رائے میں ذکر ضروری تھا تو صف یہ کہنامناسب ہوتا کہ اس تجویز پر اتفاق نہ ہوا.قائداعظم کا نام لیکر افسوس کے اظہارسے مترشح ہوتا تھا کہ اس تجوید کے ناکام رہنے پر وزیراعظم کو قائد اعظم سے ذاتی رنجش ہے اور انہوں نے ایوان کے سامنے اس کوشیش کو یوں مشتہر کیا.بعد میں متعدد مواقع پر ان سے ایسی تحرکات سرزد ہوئیں جن سے میرے اس قیاس کو تقویت پہنچی.یوں بھی سٹرائیل حسن اخلاق کا نمونہ نہیں تھے.سر سیموئی محور تو گول میز کانفرنس کے دوران میں وزیر مند تھے اور بعد میں وزیہ بحر اور پھر وزیر خارجہ ہوئے اور مور لاوال پکیٹ کے رد عمل کے نتیجے میں وزارت سے مستعفی ہوئے اپنی ہسپانوی سفارت کا عرصہ میڈرڈ میں گزار کر واپس آچکے تھے.میٹر میں حسن کارکردگی کے صلے میں وہ دائی کونٹ بنادیے گئے تھے اوراب لارڈ ٹمپل وڈ کے نام سے ایوان امراء کے کین تھے.میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے لندن آنے کی غرض بیان کی.انہوں نے فرمایا میں اس معالمے میں ایوان امراء می کچھ وضاحت حاصل کرنے کی سعی کروں گا.جب مسودہ ایوان عام سے منورہ کا ایوا امراء میں زی کیت آیا نوبت کے دوران میں لارڈ ٹیمپل رونے سوال کیا کیا والیان ریاست کے متعلق ہو شق اس مسودہ میں ہے اس سے یہ مراد ہے کہ آزادی کے بعد ایک والی ریاست کو اختیار ہو گا کہ ریاست کی طرف سے ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنے یا پاکستان کے ساتھ یا اگر نہ کرے تو دونوں میں سے کسی کے ساتھ الحاق نہ کرے بلکہ آزاد ہے؟ ایوان امراء میں مسودے کی کلمات نائب وزیرہ ہند لارڈ سٹویل کے پر دی تھی انہیں اس سوال کی توقع بھی نہیں تھی اور سوال ان کے لئے پریشان کن بھی تھا.وزیر اعظم بہت محتاط تھے کہ پارلیمنٹ میں سود کے زیر بحث آنے پر دالیان ریاست کے متعلق کسی ایسی بات یہ زور نہ دیا جائے جس پر کانگریس لگڑ بیٹھے.شق متعلقہ کے الفاظ واضح تھے اور انکی صحیح تعبیر وہی تھی جو لارڈ ٹیمپل وڈ نے اپنے سوال میں پیش کی لیکن دار و سویل صاف الفاظ میں اسے تسلیم کرنے سے جی چراتے تھے چنانچہ انہوں نے جوابا صرف اپنے سرکو اثباتی جنبش دیدی جس پر لارڈ میپل و نے فورا یہ کہ کران کی نیت کر کو یہ لیکا ریڈ کرا دیا :- 4 I TAKE IT THAT THE Noble Lord's Nod Confirms My ASSUMPTION" ر میں سمجھتا ہوں محرز لارڈ نے سر جا کر میری تغیر کی تصدیق کی ہے )
..یڈ کلف کا نفر بطور چیز میں حد بندی کمشنر میں بھی لندن میں کیا تھا کہ سرسیل ریڈ کلف کو حد بندی کمشنر کا پچیرمین مقرر کئے جانے کا اعلان ہو گیا.اس خبر سے مجھے بڑی تشویش ہوئی.سر سیری ایک بریسٹ تھے جو ابھی پریکٹس کر رہے تھے.وہ پارلیمنٹ کے رکن بھی تھے.ان پر کئی طرح سے اثر ڈالے جانے کا امکان تھا.اس سے پہلے ان کا نام تقسیم ملک کے سلسلہ میں قائم ہونے والے شائی ٹریبیونل کی صدارت کے لئے بھی حکومت برطانیہ کی طرف سے توبہ کیا گیاتھا لیکن اس اہم اور بو و شنل قسم کے منصب کے لئے سر پر کی سینس چیف نئیں فیڈرل کورٹ کا تقری زیادہ مناسب سمجھا گیا.یہ ام سلمہ ہے کہ حد بندی کی اہم ذمہ داری کو پہلے اقوام متحدہ کے پر کئے جانے کا مشا تھا.قائد اعظم اس تجویز کے حق میں تھے لیکن پنڈت جواہر لا کو یہ منظور نہ ہو الناس تجویز کو ترک کر نا پڑا.میرے مشورے کے مطابق قائد اعظم نے انگلستان کی پریوی کونسل کے تین بجے صاحبان کو کو الناس کی تین حد بندی کمشن میں بطور اراکین شامل کئے جانے کی تجویہ بھی کی.لیکن لار مونٹ بیٹن نے اس بودے عذر پر اس تجویز کو ٹال دیا کہ بریلوی کونسل کے بیج صاحبان عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے ہندوستان کی گرمی برداشت نہ کر سکیں گے.جب حد بندی کمیشن کے صدر کے تقریر یہ اتفاق رائے نہ ہوسکا تو صدر کی نامزدگی کو برطانوی حکمت ر چھوڑ دیا گیا اور سٹرائیل کی حکومت نے پر سرسرل ریڈ کلف کونامزد کر دیا اور منٹ بیٹی نے قائد اعظم کے یر نامزدگی منظور کرلینے پر آمد کر لیا.جن حالا میں ملک کی تقسیم ہو رہی تھی اور جو وسیع اور مویشی اختیار کمشن کے چیر مین کو تفویض ہونے تھے ان کو مد نظر رکھتے ہوئے سرائیکی کی وزارت کے لئے ریڈ کلف کو اس صعب کے لئے نامزد کرنا نہایت غیر مناسب تھا.بالخصوص جب اس سے پہلے ایک ویسے ہی اہم اور جوڈیشیل منصب کے لئے ان کا نام تجویز ہو کران کا اس پر تقریر مناسب نہیں سمجھا گیا تھا.پنجاب حد بندی کمشن کے رو برو حاضری لندن میں کم سے کم عرصہ مرنے کے بعدمیں کراچی ہوتا ہوا اپنے اندازے سے ایک دن پہلے لاہور پہنچ گیا نواب صاحب ممدوٹ اور بہت سے اجاب سٹین پر آئے ہوئے تھے.نواب صاحب سے معلوم ہوا کہ ریڈ کلف لاہور پہنچ چکے ہیں اور انہوں نے دوسری صبح گیارہ بجے فریقین کے وکلاء کو طلب فرمایا ہے نواب صاحب نے فرمایا کل ڈھائی کے بعد دود پر مرے مکان پر تمہاری ملاقات ہمارے وکلاء کے ساتھ ہو گی.اس سے مجھے کچھ اطمینان ہوا کہ گوقت تھوڑاہے لیکن وکلاء نے کہیں کی تیاری کی ہوئی ہوگی.ان کے ساتھ مشورے کے بعد اللہ تعالی کے فضل اس کی عطا کردہ توفیق سے حج کے شروع ہونے تک ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا نے فرمایا تمہارا یا تومیرے ال ہی ہوگا.میں نے عرض کی میں اپنے دیرینہ کرم فرما رسید راتب علی ان کے ہاں ٹھہرنے کا نظام کر چکا ہوں.ان کا مکان آپ کے دو لشکدے سے قریب ہی ہے.جہاں تک مجھے یا پڑتا ہے پر سوار کی شام تھی دوسرے دن منگل کی صبح گیارہ کے کم سرسیل ریڈ کلف کی خدمت میں حاضر ہوئے.کمشن کے اراکین جیسی دین محمد صاحب ، جسٹس محمد میر صاحب ، جسٹس میروند
۵۰۱ مابین صاحب اور بیس تیجا سنگھ صاحب بھی موجود تے سری لانے کی کار دارم مناتے ہوئے حکم دیاکہ این اے جمعہ کی دو پہر تک فریقین اپنے تحریری بیانات داخل کر دیں.آئندہ سوموار سے کمشن و کلا کی بحث کی سماعت شروع کرے گا.وہ خود بحث کی سماعت میں شریک نہیں ہوں گے کیونکہ اگرکمشن کے چار اراکین بالاتفاق یا کثرت رائے سے حد بندی تجویز کریں تو انکی طرف سے کسی دخل اندازی کی ضرورت نہیں ہو گی.ان کا کام صرف اسی صورت میں فیصلہ دینا ہے جب کشن کے چار اراکین متفقہ اکر اس سے کسی نے پر پہنچ سکیں کیٹ کے روبرو جو کچھ یا کیا جائے اس کی تفصیلی رپورٹ پر وہ انہیں بھی دی جایا کرگی یہ طریق کار بھی میرے لئے پریشانی کا باعث ہوا.مسلم لیگ کی طرف سے تحریری بیان کی تیاری میکی در پیروی کیتی اور تحریری بیان جمعہ کی دو پر شاغل کئے جاتے تھے اس وقت تک مجھے ابھی علم نہ تھا کہ میرے ساتھ کون وکلاء صاحبان کام کریں گے.اور انہوں نے تحریری بیا اس کے لئے ضروری مواد تیار کرلیا ہے یانہیں اور بت کی تیاری میں میرے رفقا کہاں تک میں مدد کرسکیں گے ؟ مجھے اس وقت تک یہ بھی نہیں لایاگیاتھا کہ ہماری طرف سے کمشن کے روبرو کیا ادعا پیش کیا جاتا ہے.میں بنیائی سے وکلاء کے ساتھ 4 بجے ہونے والی میٹنگ کا منظر تھا کہ ان سے ان سب امور کے متعلق تفاصیل معلوم کروں اور ہم سب مستعدی سے اپنے اپنے کام میں لگ جائیں.میں وقت مقررہ پر ممدوٹ والا پہنچ گیا رہاں بہت سے وکلا واصحاب موجود تھے.ان میں سے اکثر و کلاء کے ساتھ میں اپنے پر کیس کے زمانے میں کام کر چکا تھا اور انہیں اچھی طرح جانتا تھا.بعض ان میں سے برسوں مجھ سے سنیٹر تھے.یہ استماع ممدوٹ والا کے گول کمرے میں تھا.مجھے کسی قدر سیرت ہوئی کہ اتنے قانون دان اصحاب کو کیوں جمع کیا گیا ہے.میں نے دکھا صاحبان سے دریافت کیا کہ آ میں سے کون کون صاحباس کیس میں میرے رفیق کار میں ؟ اس پر ڈاکٹر خلیفہ شجع الدین صاحب نے بابا کس کیس میں ؟ میں نے کہا اسی حدبندی کے کیس میں جس کیلے میں حاضر ہوا ہوں خلیفہ شجاع الدین ان نے ایام میں تو کس کیس کا کوئی علم نہیں ہم سے اور یہ کہا گیا تاکہ تم کیس کی پیروی کیلئے آئے تو اس سیکشن کے دور مسلم لیگ کا سیستم پیش کرو گے اور میں نے کیلئے ہمیں اس وقت یہاں آنے کی دعوت دیگئی تھی.میں نے نواب صاحب کی طرف استفاد دیکھا تو وہ صرف مسکرا دیے.میں نہایت سراسیمگی کی بات میں اٹھ کھڑا ہوا وکلاء صاحبان سے معذرت خواہ ہوا کہ وقت بہت کم ہے اور مجھے کیس کی تیاری کرنی ہے اسلئے رخصت چاہتا ہوں.نواب صاحب میرے ساتھ ہی کمرے سے باہر آئے میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا اس قوت مجھے کچھ سو کچھ نہیں رہا لیکن بہر صورت آئندہ دو دنوں میں تحر یر ی بیان تیار کرنا ہے اور پھر اسکی تائیدمیں بحث کی تیاری کرنی ہے کل صبح سے مجھے کچھ نہ کچھ لکھوانا ہو گا.آپ یہ انتظام فرمائیں کہ کل صبح دو اچھے ہوشیار تیز رفتار سٹینو گرافر میرے پاس پہنچ جائیں اور وہ کاغذ پنسل قلم دوات ٹائپ کی مشین وغیرہ تمام دفتری سامان ساتھ بیتے آئیں تاکہ میں تحریری بیان لکھوانا شروع کر سکوں.نواب صاحب نے فرمایات تکرین کروز دو نویس اور سب
۵۰۲ دفتری سامان صبح سات بکے تمہاری قیام گاہ پر موجود ہو گا.میں نے شکریہ ادا کیا اور اپنی قیام گاہ پر واپس آیا.نما نہ میں درگاہ رب العزت میں فریادی اور میتھی ہوا.الہی میں تن تنہا عاجز اور بکیں اور قد مر داری استفدر بھاری اس فرض کی یا حقہ ادائیگی کی کیا صورت ہوگی ؟ تو جانتاہے میں تو بالکل خالی اور صفر ہوں لیکن تھے پر قدرت ہے تو اپنے فضل و رحم سے مجھے فہم اور توفیق عطافرما اور خود میرا ہادی اور نا صر ہو.مجھے اپنی پریکٹس کے زمانے میں کئی بار یہیت تھوڑے وقت میں پیچیدہ مقدمات کی بحث کی تیاری کرنی پڑی تھی لیکن وہ کس طرح بھی پریشان کن تجربہ نہیں مقاسات ضروری کا غذات مہیا ہوتے تھے.اہم مقدمات میں کوئی رتی کا سا تھ شامل ہوتا تھا.موافق مخالف مواد پیش نظر تو ھا.صرف کیوی اور توجہ درکار ہوا کرتے تھے.یہاں ذمہ داری تواس قدر اہم اور باقی صفر اگر ان اعظمی امور میں تشریف فرما ہوتے تو میں انکی خدمت میں حاضر ہو کر ہدایت کا کرتا لیکن دو ہی میں تھے ٹیلیفون پر بات ہوسکتی تھی لیکن ٹیلیفون پر ایسی ہدایات حاصل کرنا غیر مناسب تھاتھ کی مجھے یہ بھی اس تھانہ کیس کے متعلق جو تیاری ہوتی ھی وہ مسلم لیگ لاہور کی قیادت کے ذمے تھی.میں اگر قائد اعظم کی امت میں کچھ گذارش بھی کروں تو وہ ایک انگ کا شکوہ ہو گا اور ان کی پریشانی کا موجب ہو گا.اس سے مجھے کوئی مدد نہیں مل سکے گی.میری مضطر یا نہ دعا کا جواب میں نماز سے تاریخ ہو تو معلوم ہوا خواجہ عبدالرحیم صاحب تشریف لائے ہیں.خواجہ صاحب ان دنوں کمشنر راولپنڈی تھے لیکن لاہور میں پناہ گزینوں کے استقبال اور انکی خبرگی کا انصرام ان کے سپرد تھا.ان کا دفتر میری قیام گاہ کے مقابل والے بنگلے کے احاطے میں دو خیموں میں تھا.خواجہ صاحب نے فرمایا تمہارا وقت بہت قیمتی ہے.میں زیادہ وقت لینا نہیں چاہتا.میں کچھ کاغذات لایا ہوں میں نے انے طور پر سر کاری ریکارڈ سے پنجاب کے دیہات تھانہ جات تحصیلات اور اضلاع کی فرقہ وارانہ آبادی کے اعدادو شمار جمع کرائے ہیں.یہ سارے صوبے کی آبادی کے نقشہ جات ہیں ممکن ہے تمہیں کیس کی تیاری میں ان سے کچھ مد سل کے.اس کے علاوہ کیس کے سلسلہ میں اگر تمہیں کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہو تو میں حاضر ہوں.میرا دفتر سامنے کیا ہے اور یہ میرا ٹیلیفون نمبر ہے.میں نے خواجہ صاحب کا پتہ دل سے شکریہ ادا کیا اور وہ تشریف لے گئے.میرادل اللہ تعالی کے شکر سے لبریز ہو گیا میں نے محسوس کیا کہ اس نادر در تمیم نے میری مضطر بانہ دعاء کے جواب میں استقدر علد ری کی پوری کی نظر لی اور اپنیطرف سے ضرور معلومات کا کیا جانا مجھ عطا فرمایا میری ڈھارس بن رھی کہ حسن قادر ہستی نے چند لمحوں کے اندر غیب سے استقدر قیمتی مواد مجھے عطا فرمایا ہے جس کے بغیر میں ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتا تھا وہ ضرور باقی مراحل میںبھی میری دستگیری فرمائے گا اور اپنی رحمت سے مجھے فہم اور توفیق عطا فرمائے گا.بے لوث اور رضا کارانہ خدمت کرنے والے احباب | خواجہ صاحب کے رخصت ہونے کے بعد بیاید کلاء صاحبان تشریف لے آئے.صاحبزادہ نوازش علی صاحب مرحوم اور شیخ شار احمد صاحب منٹگمری سے.سید محمد شاہ صاحب توم
۵۰۳ پاکپٹن سے اور چودھری علی اکر صاحب بہشیانہ پورے چاروں نے فرمایا ہم تمہارے ساتھ شریک کار ہونا چاہتے ہیں جو خدمت کا موسم سے لو.اللہ تعالی کا یہ مزید فضل ہوا کہ اس نے چار با اخلاص اور متعد کام کر نیوالوں کے المیں تحریک کی کہ وہ میرے ساتھ آکر شامل ہوں اور میرے میر اور معاون ہوں.لاہور کے وکلاء میں سے احمد سعید کرمانی صاحب وقتا فوقتا تشریف لاتے رہے اور جس کام کیلئے ان کی خدمت میں گذارش کی جاتی اس کی طرف توجہ فرماتے رہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو دنیا و آخرت میں اپنی رحمت سے وافر حصہ عطا فرمائے.آمین میرے چاروں رفقائے کار نے نہایت محنت ، مستعدی اور جانفشانی کے ساتھ دن رات میرے ساتھ کام میں تعاون کیا.ہر قسم کی تکلیف برداشت کی لیکن کبھی حرف شکایت زبان پر آیا نہ مانے پر کن سارا وقت پوری انباشت کے ساتھ مصروف کار رہے.ہر مرحلے پر ان کا مشورہ میرے لئے حوصلہ بڑھانے کا موجب ہوا.فجزاهم الله حسن الجزاء چودھری علی اکبرما کے سپر د آبادی کے اعداد و شمار کی تصدیق اور ضروری معلومات کا بہم پہنچانا تھا انہوں نے نے فرائن کو بڑی متعدی سے نبھایا اگر چہ انہیں ایک سرانجام دہی میں بہت دوڑ دھوپ کرنی پڑی جولائی کے نے میں لاہور کا موسم سخت گرم ہوتا ہے لیکن گرمی کی شدت چو دھری صاحب کے رستے میں کسی قسم کی رو پیدانہ کر سکی وہ تکان سے پور آتے اور اپنے کام کی رپورٹ سن کر میں فرش پر دراز ہو جاتےاور کچھ آرام کرنے میشن کے رویہ و محبت کے دوران میں جب کبھی آبادی کے اعداد و شمار کے متعلق فریقین کے درمیان اختلاف پیدا ہو تاتو ایک صاحب فریق مخالف کی طرف سے اور چودھری صاحب ہماری طرف سے نامزد کئے جاتے کہ دفتر آبادی می جا کر تینا اعداد و شمر کی تصدیق کریں فضل اللہ ہر بار ہارے پیش کردہ اعداد و شمار کی تصدیق ہوتی جس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ واجہ عبدالرحیم صاحب نے تو نقشہ جات میں عنایت فرمائے تھے وہ بہت محنت اور توجہ سے تیار کئے گئے تھے.ملحقہ اکثریت کے علاقوں کی تشخیص کیلئے یونٹ کا تعین خواجہ صاحب کے تشریف لیجانے اور وکلاء صاحبان کی تشریف آوری کے بعد نے پہلا کام یہ کیا کہ طریقہ تقسیم کے متعلق سرکاری بیان کا مطالعہ کیا اور اس کے تجزیہ سے کم اس تیہ رہنے کہ ملحقہ اکثرت کے علاقوں کی تشخیص کے لیے یونٹ کا جو نہ کرنا لازم ہے.گاؤں تو ملا لیا اونٹ نہیں بن سکتا تھا کیونکہ بعض علاقوں میں اگرایک گاؤں میںمسلم اکثرت تھی تو ساتھ کے گاؤں میں غیرمسلم اکثرت تھی لہذا گاؤں کو یونٹ قرار دیکر کوئی معقول حد بندی تجویز نہیں ہوسکی تھی.تھانہ کو اگر وٹ تجویز کیا جاتا تو اس صورت میں بھی بہت جگہ دی مشکل در پیش تھی.یونٹ مقر کرنے کیلئے انتخاب دراصل تحصیل اور ضلع کے درمیان تھا گو نے یہ بھی طے کیاکہ بحث کے دوران میں ہماری طرف سے کمشنری اور دو آلو کو یونٹ مقرر کرنے کی طرف بھی اشارہ کر دیا جائے.ان دنوں صوبے بھر کے اخبارات میں ملحقہ اکثریت کے علاقوں پر بحث ہوری تھی مسلمانوں کی طرف سے لدرجیا تک کا علاقہ مسلم اکثرت کا حلقہ بنایا جاتا تھا اور غیرمسلموں کی طرف سے کہا جا رہاتھاکر میل تک کا علاقہ غیرمسلم اکیت *
۵۰۴ کا علاقہ ہے.عارضی انتظامی تقسیم میں راولپنڈی ملتان اور لاہور ڈوین کے جملہ اضلاع ماسوائے کانگڑہ مغربی پنجاب میں شامل کئے گئے تھے.اگر ہماری طرف سے ضلع کو لوٹ قرار دیے جانے کا مطالبہ کیا جاتا تو اضلاع میں سے امرتسر کو ترک کرنا پڑتا.اس خدشے کا اظہار بھی کی گی کہ اگریم نے ضلع کو یونٹ قرار دیے جانے کا مطالبہ کیا تو اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جائے گا کہ م انتظامی تقسیم میں جو علاقہ مغربی پاکستان میں شامل کیا گیا ہےاس سے بھی کم علاقہ لینے پر رضامندہیں اور اس کے پینے میں مکن ہے ہمارے لئے کار بھی کم کردیا جائے.تحصیل کولون را ی ی ی ی ی ی ر ا ا ا ا ا ا ا ا ع فریدون پور کی د تقلیلی فیروز پور اور زیرہ اور ضلع جالندھر کی دو تحصیلیں نواں شہر اور جالندھرمسلم اکثریت کے علاقے تھے.ان کے ساتھ مشرق کی طرف ملحقہ تحصیل دوسوم ضلع ہوشیار پور تھی.اس تحصیل میں نہ مسلمانوں کی رات تھی یہ ہندو اور سکھوں کی عیسائی آبادی حسین فریق کے ساتھ شامل کی جاتی اس فریق کی کثرت ہو جاتی.اس تحصیل کے عیسائیوں کی طرف سے سرسرل ریڈ کلف کی خدمت میں محضر نامہ ارسال کیاگیا تھاکہ ہمیں مسلمانوں کے ساتھ شمار کیا جائے.لہذا تحصیل کوکونٹ قرار دیے جانے سے فیروز پور نزیرہ، نواں شہر، جالندھر اور بیبیوں کے شامل ہونے سے دسو ہر پانچوں تحصیلی مسلم اکثریت کے علاقے شمار ہوتیں.ریاست کپور تھلہ میں بھی مسلمانوں کی کثرت تھی وہ بھی ان تحصیلوں سے ملحق علاقہ تھا.ضلع امرتسر میں اجنالہ تحصیل میں مسلمانوں کی کثر تھی اور امرتی اور تمدن تارن میں غیرمسلموں کی لیکن اگر یروز پور ، دیر ، نوال شہر جالندھر اور کپور تھلہ پاکستان میں شامل کئے جاتے تو امرتی اور تہ تارن فرمسلم اکثرت کے ملحق علاقے نہ رہتے کیونکہ وہ چاروں طرف سے مسلم اکثریت کے علاقوں سے گھرے ہوئے تھے.ضلع گورداسپور میں ٹالہ گورداسپور اور شکر گڑھ کی تحصیلوں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی اور تحصیل پٹھانکوٹ میں غیرمسلموں کی یہ تحصیل کانگڑہ اور ضلع ہوشیار پورسے ملتی بھی تھی جوغیرمسلم اکانت کے اضلاع تھے.پورے غور و خوض کے بعد ہم سب کامیان اسی طرف ہوا کہ تحصیل کو یونٹ قرار دیئے جانے پر درودیا ائے لیکن اس بات کا یا یہی ہے میاں کی نا پہن کر سکے تھے ہم ملک کی طرف سے دلیل کے طور پر ان کا کیس تیار کر رہے تھے.لیگ کی طرف سے کیا کیس پیش کیا جائے اس کا فیصلہ کر مسلم لیگ کے اختیارمیں تھا.پنجاب میں مسلم لیگ کے صدر نواب صاحب محدوٹ تھے.ان سے استصواب لا حاصل تھا.وہ اپنی روایتی تواضع اور انکاری کی وجہ سے خود کوئی فیصلہ فرمان ہی نہیں تھے اور چونکہ ہرا میں اپنے قریبی مشران کی راے کو قبول فرماتے تھے.اس لئے تفصیل پر غور کرنے ملکہ تفاصیل کا علم حاصل کرنے سے بھی پر ہیز کرتے تھے.ان ایام میں ان کے قریب ترین میرا میان نماز محمد خال او دولتانہ اور سردار شوکت حیات خمال صاحب تھے.سردار صاحب کی طبیعت علیل تھی میاں صاحب کی خدمت میں میں نے گذارش کی کہ تحریری بیان تیار کرنے کیلئے اس امرکا فیصلہ ضروری ہے کہ ملحقہ اکثرت کے علاقوں کی تشخیص کے لئے ہماری طرف سے کون ایونت اختیار کرنے پر زور دیا جائے.انہوں نے فرمایا اس بات کو تم سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے.جو جونہی تم کرو گے وہی بہتر ہوگی.میں نے کہا یہ فیصلہ لیگ کی طرف سے ہونا چاہئے.میں تو ایک فرد واحد ہوں اور میری حیثیت بھی دوکیل کی ہے.
۵۰۵ مجھے تو ہدایات لیگ کی طرف سے دکھائیں مجھے انکی پابندی کرنی ہوگی.میاں صاحب نے میری رائے دریافت کی.میں نے مختص طور پر اپنا اوراپنے رفقائے کار کا رحجان بیان کر دیا.میاں صاحب نے فرمایا تو میں ہی ٹھیک ہے اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے.یم کے اقوام متی کی قیاس آرائیاں کی گئی میں بین کی نیند کی حقیقت پر نہیں کہاگیا ہے کہ چونکہ نواب صاحب ممدوٹ کی خاندانی جاگیر کا بیشتر حصہ تحصیلوارہ بٹوارے میں پاکستان میں شامل کئے جانے کی امید کی جاسکتی تھی اس لئے انہوں نے تحصیلوانہ بٹوارے پر زور دیا.یہ ایک بالکل بے بنیاد اتہام ہے.میری دانست میں نواب صاحب ان تقابل سے بالکل نا واقف تھے اور اگر واقف تھے بھی تویہ واقعہ ہے کہ اس بارے میں انکی طرف سے مجھے ایک لفظ بھی نہیں کیا گیا نہ میں نے ان سے دریافت کیا نہ انہوں نے خود کچھ صراحتہ یا ارشاد فرمایا.حقیقت یہ ہے کہ ان دنوں صوبے کے حالات میں تیزی کے ساتھ ابتری پیدا ہورہی تھی طالع میں انتشار در سراسیمگی تھی.متعلقہ کارکنان صوبہ کے لے کسی اور پہنچیں؟ سے غور کرنا مشکل ہو رہا تھا.ان اہم امور کے متعلق پہلے سے نہ کوئی تیاری کی گئی تھی نہ متعلقہ اصحاب نے اس پر خونر کیا تھا لہذا فیصلہ کرنا آسان نہ تھا.بعد میں پیدا ہونے والے حالات ابھی پردہ غیب میں تھے اور اس وقت ان کے متلی می انداز مکن نہ تھا.آج جو ابوالحکم ہونے کے مدعی ہیں اس وقت نہ معلوم کیوں خاموش اور دم بخود تھے.میں اپنے رفقائے کار کے ساتھ تادیر مشورے اور تیاری میں مصروف رہا.ان کے تشریف لے جانے کے بعد بھی کھائے اور نماز سے فارغ ہو کر عداد شمار کی پڑتال اور سر کار کا اعلان کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے اور تحریری بیان کیلئے نوٹ تیار کرنے میں بہت سا وقت صرف ہوا.غرض منگل کا دن بڑی پریشانی میں کٹے لیکن سونے کے وقت تک میری طبیعت میں کسی تندر سکون پیا ہو گا تاکہ اللہ تعالی نے محض اپنے فضل وکرم سے بنیادی مواد بھی میسر فرما دیا ہے اور مخلص رفقاء ارای تیم ملی املی کی تاریکی میں کچھ بال بھی کر دیا ہے جو کیم کو میں بلا تیار ہوکر ناشتے سے فارغ ہوگیا سات بھی پچکے تھے لیکن نواب صاحب کے موعود زرد نویس ابھی تشریف نہیں لائے تھے ان کے انتظار میں کا غذات کی فریاد دیکھ بھال اور تیاری میں صرف یہ تھی کہ آٹھ بج گئے.میں پھر پریشن ہوا.خواجہ عبدالرحیم صاحب کی خدمت میں یوں پر گزارش کی انہوں نے فرمایا یں ابھی انتظام کرتا ہوں.چند منٹ کے بعد انہوں نے اطلاع دی کہ ان کے دونوں سٹینو گرافر انہوں معه ضروری سامان نو بجے تک میرے پاس پہنچے جائیں گے.چنانچہ یہ دونوں صاحبان نو بجے سے پہلے ہی تشریف لے آئے اور میں نے تحریری بیان کا مسودہ لکھوانا شروع کر دیا.اتنے میں میرے رفقاء کار بھی تشریف لے آئے اور میرے ساتھ شامل ہوگئے.میں لکھواتا جاتا اور وہ جہاں ضرورت سمجھتے مشورہ دیتے یا اصلاح کرتے.دونوں زرود نویں اپنے فن کے اہر تھے اور بہت توجہ ، محنت اور اخلاص کے ساتھ کام کرتے رہے جس سے ہمارے لئے بہت سہولت ہوگئی، برام الله احسن الجندا.نواب صاحب کے موعود زود نویس بحث کے آخر تک ہمیں میسر نہ آئے نہ ہی نواب صاحب کی طرف سے کوئی "+
۵۰۶ اطلاع ملی کہ وہ کیا ہوئے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی طر مسلم لیگ صورت الیت های انان می شد اعمال منه ان دنوں کے کیس کی تیاری میں گراں قدر امداد - لا ہورہی میں تشریف فرما تھے بدھ کی سہ پہر کو مولانا عبداله تیم در دو صاحب تشریف لانے اور فرمایا حضرت صاحب نے یہ دریافت کرنے کیلئے مجھے بھیجا ہے کہ حضور کس وقت تشریف لاکر تمہیں تقسیم کے بعض پہلوؤں کے متعلق معلومات بہم پہنچا دیں.خاکر نے گذارش کی کہ جس وقت حضور کارت ویو خاک در حضور کی خدمت میں حاضر ہو جائے گا.درد صاحب نے فرمایا حضوری کا ارشاد ہے کہ تم نہایت اہم قومی فرض کی انجام دی میں مصروف ہو تمہارا وقت بہت قیمتی ہے تم اپنے کام میں لگے رہو ہم میں تشریف لائیں گے موجودہ حالات میں میں مناسب ہے.چنانچہ حضور تشریف لائے اور بٹوارے کے اصولوں کے متعلق بعض بہایت مفید حوالوں کی نقول خاک رکو عطائیں اور فرمایا اصل کتے کے منگوانے کیلئے ہم نے انگلستان فرمائش بھی ہوئی ہے اگروہ کتب بروقت بن گئیں وہ بھی تمہیں بھیج دی ائیں گی.نیز ارشاد فرمایا نے اپنے خرچ پر دفاع کے ایک ہی یہ رویہ کی خدمات انگلستان سے حاصل کی میں وہ لاہور پہنچ چکے ہیں اور نقشہ جات وغیرہ تیار کرنے میں مصروف ں یہ تحریری بیان تیار کر لینے کے بعدان کے ساتھ مشورے کیلے وقت نکال لیا.وہ یہاں آکر تمہیں یہ پلو سمھا دینگے.چنانچہ متعلقہ کتب انگلستان سے قادریان پہنچیں اور وہاں سے ایک موٹر سیکل سوار انہیں سانڈ کار میں رکھ کر لاہورے آئے اور دوران بحث وہ ہمیں میسر آگئیں ان سے کہیں بہت مدد لی.پروفیسر سیٹ نے دفاعی پہلو مجھے خب سمجھا دیا.ہندو فریق کی طرف سے مسٹرایم ایل سیلواڈ نے ہندوستان کے دفاع کی ضروریات کی بنا پر بڑے زور سے دریائے جہلم تک کے علاقے کا مطالبہ کیا.لیکن میری طرف سے پروفیہ سپیٹ کے تیارہ کردہ نقشہ جات کے پیش کرنے اور ان کی اہمیت واضح کرنے کے بعد فراق مخالف کی طرف سے کوئی معقول جوا اس موضوع پر نہ دیا گیا.بحث کے دوران میں حضرت خلیفہ المسیح الثان خود بھی اجلاس میں تشریف فرما ہے.اور دعا سے مدد فرماتے ہے.فجزاء اللہ احسن الجزاء جٹس دین محمد صاحب کا انکشاف کہ پنجاب بدھ کی شام کو جیٹس دین محمد صاحب تشریف لائے وہ کی حد بندی کی لائن بالا بالالے پا کچا ہے اور بہت پریشان معلوم ہوتے تھے.فرمای تم اپنی طرف سے حد بندی کمیشن کی کاروائی ایک ڈھونگ ہے تحریری بیان تیار کرو اور جیسے بن پڑے بحث بھی کرنا لیکن میں تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ یہ سب کا روائی محض کھیل ہے.بعد بندی کا فیصلہ ہو چکا ہوا ہے اور اسی کے مطابق حدبندی ہوگئی.میں نے پوچھا آپ کو یہ کیسے معلم ہوا.انہوں نے فرمایا کل جب تم لوگ پہلے گئے تو رسول ریڈ کلف نے نہیں بتایا کہ وہ کل صبح ہوائی جہازمیں اردگر کا علاقہ دیکھنے جائیں گے اس پرمیں نے کہا اگر آپ حدبندی کے سلسلے میں متنازعہ علاقہ کیلئے دیکھنے جارہے ہیں تو آپ ضرور اس معائنے سے کچھ تاثر میں کے بطور امپائر آپ
ا فرض ہے کہ اپنا فیصلہ اس مواد کی بنا پر کریں جو کمشن کے رو برو پیش کیا جائےاور جوکشن آپ کی خدمت بالا سال کرے.اس ملانے سے ہو تا ہ آپ لیں گے اس کا علم کمشن کو کس طرح ہو گا ؟ سرسیری نے کہا اس پرواز کے لئے ہو ہوائی جہانہ مجھے مہیا کیاگیا ہے وہ فوجی قسم کا ہے اور اس میں زیادہ سواریوں کے لئے گنجائش نہیں.لیکن اگر آپ پسند کریں تو آپ میں سے دو اراکین میرے ساتھ چل سکتے ہیں.چنانچتے پایا کہ اکمل اور ایک غیر ریکن ریڈ کلف کے ساتھ جائیں.روانگی آج صبح سات بجے والٹن کے ہوائی اڈے سے تھی.جب یہ سب وہاں جمع ہوئے توقف گرد آلود بھی پائلٹ نے کہامیں آپکو لے لیتا ہوں لیکن گرد کی وجہ سے درس سے آپ کو کچھ تر نہیں آیا اور آپ کا وقت ضائع ہو گا.اس پر ریڈ کلف نے پرواز منسوخ کر دی پائلٹ کو اس پر دان کے لئے جو تحریری ہدایات تھیں وہ میں نے دیکھی ہیں تحریری ہدایات کے کاغذ پر پرداز کیلئے ایک لائن لگی ہوئی ہے.مجھے یقین کہ جب ان پر پر روانہ کرنے کی ہدایتکی گئی ہے بالا بالا بی حد بندی کی لائی پہلے سے طے پاگئی ہے.ریڈ کلف کو بر صغیر میںآئے ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا.انہوں نے کچھ دن کلکتے میں گذارے ہیں.پنجاب کی حد بندی کے سلسلہ میں ابھی فریقین نے اپنے تحریری بیانات کمشن کے روبرو پیش بھی نہیں کئے جن سے ریڈ کلف صاحب کو معلوم ہوتا کہ کون کون سے علاقے متنازعہ ہیں.فریقین کے بیانات سے متنازعہ علاقہ جات معلوم ہونے سے قبل ہی ان کیلئے ان علاقوں میں ایک خاص لائن پر پر روانہ کرنے کا انتظام کرنے سے ہی قیاس ہوتا ہے کہ حد بندی کے سلسلہ میں کسی طرف سے انہیں بریف کیا جا چکا ہے اور حدید کی لاش بھی تو نہ کرکے ان کو دی جا چکی ہے جس کے مطابق بہت سا ایک علاقہ جس میں مسلمانوں کی کثرت ہے بالخصوص ضلع گورداسپور کی تحصیلات تبال و گورداسپور پاکستان میں شامل نہیں ہوں گی.ایسی صورت میں جبکہ حدبندی بالا بالٹے پاکی ہے میرا اور منیر کا کشن کے ڈھونگ میں شامل رہنا مناسب نہیں.میں آج رات دیا جارہا ہوں کی بین این نظم ے مل کر یہ ما عمر ان کے گوش گذار کروں گا اور ان سے اپنے اور منبر کے کشن سے مستعفی ہو جانے کی اجازت طلب کردوں گا.میں نے کہا اس واقعہ سے توسی ظاہر ہوتا ہے کہ حدبندی کا تعین پہلے سے جو چکاہے اور کشن کی کاروانی محض ڈھونگ ہے.آپ ضرور دی جائیں یا امام کی امی یا اعلام پیش کرتے جسے یہ بات ضرور دین میں رکھیں کہ وہ قانونی طبیعت کے مالک ہیں.اسلئے آپ اپنے استعفے کی بنیاد کسی قانونی عذر پر رکھیں دور نزدہ رضامند نہیں ہوں گے جب دین محمدنے پوچھا تمہارے ذہن میں کوئی قانونی در آتا ہے.میں نے کہ آپ یں کہ ہم نے سری ریلی ری اکل کوا پاریسی کیا ہے اور ہم پران کے فیصلے کی پابندی لازم ہے لیکن امپائر کا فرض ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر پہنچنے میں کسی دوسرے شخص کی رائے یا مشورے سے متاثرہ نہ ہو پائلٹ کی ہدایات پر دارز سے ظاہر ہوتا ہے کہ کی جانب سے امپائر کو یہ مشورہ دیا گیاہے کہ صوبہ پنجاب کی تقسیم کے لئے حدبندی کی لائن وہ ہونی چاہیے
۵۰۸ جو ہدایات پر وانہ میں دکھائی گئی ہے.اب ہماراست ہے کہ ان کی مجوزہ پر ان کی عرضی دریافت کریں اوریہ بھی دریا کریں کہ اس لائن پر پیدا نہ کرنے کا کس نے مشورہ دیا اور اس کی کیا اہمیت ہے.اگر ظاہر ہو کر کسی دوسرے شخص نے مشورہ دیا ہے توہم کہ سکتے ہیں کہ بھی ایمپائر کی غیر جانبداری پر اطمینان نہیں رہا لہذا کمشن کے پاکستانی نمائندے استعفے دے رہے ہیں.جسٹس دین محمد نے فرمایا میںاپنی طرف سے ہرممکن کوشش کروں گا اور پرسوں صبح دتی سے واپسی پر نہیں اپنی ملاقات کے نتیجے سے مطلع کردوں گا.جمعرات کی شام تک تحریری بیان کا مسودہ تیار ہوگیا.میں نے سردار شوکت حیات خالی صاحب کے دولت نیچے پر ٹیلیفون کیا تو معلوم ہوا کہ سردار صاحب کی طبیعت ابھی تک علیل ہے بخارہ کا درجہ حرارت ۱۰۲ ہے اسلئے ٹیلیفون پر آنے سے معذور ہیں.پھر میں نے میاں ممتاز محمد خاں صاحب کی خدمت میں ٹیلیفون پر عرض کیا کہ میں چاہتا ہوں آپ اور سردار صاحب دونوں تشریف لاکر مسودے کا ملاحظہ فرمالیں لیکن سردار صاحب تو ناساندی طبع کی وجہ سے معذور ہیں لہذا آپ ضرور تشریف لائیں اور تحریری بیان کا مسودہ دیکھ لیں.چنانچہ وہ تشریف لے آئے.میں نے تحریری بیان کا مستوردہ ان کی خدمت میں پیش کیا اور گذارش کی کہ آپ اسے پڑھ لیں اور ہو تمیم آپ اس میں پسند فرمائیں وہ مجھے بتادیں تا کہ آپ کے ارشاد کے مطابق اصلاح کر دی جائے.انہوں نے فرمایا جو کچھ تم نے لکھا ہے ٹھیک ہی ہوگا.مجھے پڑھنے کی ضرورت نہیں.میں نے اصرار کیا آپ ضرور توجہ سے اسے پڑھیں اور آزادی سے تنقید کریں میں سلم لیگ کی طرف سے بحث کرنے کی خاطر اطمینان چاہتا ہوں کہ لیگ کی طرف سے مجھے کیا بات ہے.جس صوبے کی آپ تصدیق فرما دیں گے وہی میرا ہدایت نامہ ہو گا اور اسی کے مطابق میں بحث کروں گا.میرے اصرار پر میاں صاحب نے سودہ توجہ اور غور سے پڑھا اور پڑھنے کے دور میں بھی پسندیدگی کا ہر فرماتے رہے اور آخر میں فرمایا اسے بہتر تحریری بیان نہیں ہو سکتا.مسلم لیگ کی طرف سے تحریری بیان پیش کر دیا گیا جمعہ کی صبح میں نے سوتے کی آخری نظرثانی کی اور صاف ٹائپ ہونے کے لئے دیدیا.جسٹس دین محمد صاحب دلی سے واپسی پر سٹیشن سے سیدھے میری جائے قیام پر تشریف لائے اور بتایا کہ قائد اعظم استعفے کی تجویز پر رضامند نہیں ہوئے انہوں نے فرمایا ہے تم سب لوگ اپنی طرف سے لیوری کوشش کرو امید ہے سب کچھ ٹھیک ہوگا.مستورده صاف ٹائپ ہوگی تو میں نے شیخ نار احمد صاحب ایڈ کیٹ کے سپرد کیا اور وہ اسے باؤنڈری کمشن کے دفتر میں بارہ بجے سے قبل داخل کرہ آئے مسجد محمدیہ میںجمعہ کے خطبہ میں یں نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس مشکل وقت میں آستانہ الہی پرگرنے اور بہت خشوع اور عاجزی سے دعائی کرنے کی تاکید کی.1
0-9 حد بندی کمشن کے رو بہ و بحث لا حاصل | مجمعہ کا باقی دن اور ہفتہ اور اتوار دونوں دن بحث کی تیارہ میں صرف ہوئے.سوموار کو کمشن کے رو بہ د بحث شروع ہوئی فریق مخالف کی طرف سے مسٹر موتی لعل سیلواڈ جو ہم کے بعد بھارت کے اٹارنی جنرل مقرنہ ہوئے نے بحث کی.ان کے معاونوں اور مشیروں میں چیدہ چیدہ ہند وکلاء شامل تھے جن میں بخشی ٹیک چند صاحب پیش پیش تھے.عبدون بحث ختم ہوئی اس سہ پر کومسٹر موتی لعل ستلوار شیخ عبد الحق صاحب ایڈوکیٹ کے ہاں چائے پر مدعو تھے.چائے پر انہوں نے شیخ صاحب سے فرمایا اگر حد بندی کا فیصلہ بحث میں پیش کردہ دلائل کی بنا پہ ہوا توتم لوگ بازی نے جاؤ گے ؟“ لیکن کمشن کی کاروائی ڈھونگ اور کمشن کے رو سر بحث مباحثہ بالکل لا حاصل تھا.سرسید مراتب علی صاحب مرحوم کی قیام لاہور کے دوران میں میرے معزنا اور محترم میزبان سرسید مران بلی بے غرض روائتی مہمان نواز ہی صاحب مرحوم نے میرے اور میرے رفقاء کی خدمت میں کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھا ہم سب کے دل ان کے بے شمار اسانوں اور عنایتوں کے احساس سے پر تھے.فجراہ اللہ احسن الجزاء - چونکہ ان ایام میں ان کا دو لنکہ کمشن کے رو بر مسلم لیگ کی نمائندگی کا مرکز بن گیا تھا اسٹے خوردو نوش کے سلسلے میں ان کی مہمان نوازی بہت وسیع ہوتی گئی لیکن یہ امران کی دلی راحت کا موجب ہوا اور انہوں نے یہ فرض اپنی روائتی فراخ دلی اور خندہ پیشانی سے سرانجام دیا.بحث کے لئے ہم سب کے عدالت جانے اور وہاں سے لوٹنے کے لئے سواری کا انتظام بھی سید صاحب فرماتے رہے.غرض تواضع کاکوئی پلوسی وقت ان کی باریک بیں نگاہ سے اوتھل نہ ہوا.انہوں نے یہ سب خدیت اور تو صلح اس اعلی پیمانے پر ایسے حالات میں سرانجام دی جب ہر طرف نفسا نفسی کا عالم تھا اور یہ سب فرائض انہوں نے خالفند رضا کارانہ طور پر اپنے ذمے لئے تھے.قائد اعظم کا اظہار خوشنودی | میں بحکے سلے میں ابھی اور ہی میں نا کہ اے قائداعظم کا پیغام ملا کے کمشن سے فارغ ہونے کے بعد میں ان کی خدمت میں حاضر تو کر بھوپالی جائیں.انہوں نے کمال شفقت سے شام کے کالے کی دعوت دی حاضر ہونے پر معاشقے کا شرف بخش اور فرمایا میں تم سے بہت خوش ہوں اور تمہارا نہایت ممنون ہوں کہ جو کام تمہارے سپرد کر دیا گیا تھام نے اسے اعلیٰ قابلیت سے اور نہایت احسن طریق سے سرانجام دیا.کھانے کے دوران یں طریقہ تقسیم اور کاروائی تقسیم کے موضوع پر گفتگو رہی.آپ سے رخصت ہو کہ میں بھوپال چلا گیا.پنجاب کی حد بندی کے متعلق سعد بندی کے فیصلے کے اعلان میں دیر ہوتی گئی.فیصلے کا اعلان 14 اگست کو ہوا.ریڈ کلف کا غیر منصفانہ فیصلہ ان دنوں میں بھوپال میں تھا.ریڈیو پر فیصلے کا اعلان سنکر مجھ پر کتے کا عالم طاری ہو گیا.فیصلے میںحد بندی کی تقریب وہی لائن مقرر کی گی جس پر حد بندی کے تنازعہ کے متعلق فریقین کے تحریری بیانات کمشن کے رو برو پیش ہونے سے بھی دو دن پہلے ریڈ کلف نے معائنہ کے لئے پر روانہ کا ارادہ ظاہر کیاتا
۵۱۰ جو موسم کی خرابی کی وجہ سے پورا نہ ہو سکا.جب کہ پہلے بیان کیا گیا ہے پروانے کے لئے پائلٹ کو جو ہدایات نہیں ان کا نقہ سیٹس دین محمد صاحب کے ہاتھ لگ گیا تھا اور اسے دیکھ کر انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا تھاکہ باندی اکشن کی کاروائی صرف ایک ڈھونگ ہے اور جو لائن پروانہ کی ہدایات والے نقشہ میں دکھائی گئی ہے وہی لائن بالا بالا پنجاب کی تقسیم کے لئے محد بندی کی لائن مقر کی جا چکی ہے جس کے مطابق مسلم آبادی کی اکثریت والے کئی علاقے بالخصوص تحصیلات گورداسپور اور بٹالہ پاکستان کی بجائے ہندوستان میں شامل کئے جائیں گے.حسبدن ریڈ کلف نے پنجاب باؤنڈر کیش کے اراکین پر اپنے معائنہ کے ارادے کا اظہار کیا اس دن انہیں ہندوستان آئے ابھی صرف کچھ دن ہوئے تھے.وہ ۸ جولائی کو دلی پہنچے تھے اور ایک دو دن کے قیام کے بعد نگال باؤنڈری کمشن کے سلسہ میں کلکتہ چلے گئے تھے.جہاں سے وہ سمار جولائی کو لاہور آئے.یہ بات ناقابل یقین ہے کہ ان دو ایک دنوں میں جو دہ وتی میں بھرے انہوں نے نجاب کی تقسیم کے تنازع کا خود مطالعہ کا ہو اور بغر فریقین کے عادی کوئنے حدبندی کے لئے خود ایک ائن تو نہ کرکے اس پر معائنہ کے لئے پروانہ کا فیصلہ کیا ہو.اس وقت تک وہ نہ پنجاب حد بندی کمشن کے اراکین سے ہی لے تھےنہ متعلقہ فریقین کے بیانات ہی دیکھے تھے.ظاہر ہے کہ حد بندی کی یہ لائن کسی اور نے تیار کرائی اور اس کا معائنہ کرنے کی انہیں ہدایت دی.یہ صرف قیاس ہی نہیں بلکہ اس بات کا ناقابل تردید ثبوت موجود ہے کہ پائلٹ کی ماریات پر خانہ والا نقشہ مونٹ بیٹن کے چیف آف سٹاف لارڈ اسے کے دفتر میں تیار کیا گیا تھا.جیسا کہ پہلے لکھا گیا ہے ہدایات پرداز والانقشہ دیکھ کر بی شیخ دین محمد صاحب نے جس اندیشے کا اظہار کیا تھا وہ انہوں نے قائد اعظم سے بیان کر کے حد بندی کمشن سے متعفی ہونے کی اجازت چاہی تھی.ان اعظم نے کمشن سےمستعفی ہونے کی اجازت تو نہ دی لیکن ، راگست ء کو جسٹیس دین محمد صاحب کی رپورٹ کی بنا پر انہوں نے چودھری محمد علی صاحب کی زبانی لارڈ اسمے کو ایک پیغام بھیجا کہ پنجاب کی تقسیم اور بالخصوص ضلع گورداسپور کی تقسیم کے متعلق انہیں تشویشناک رپورٹیں مل رہی ہیں اور اگر حد بندی وہی قرار پائی جس کے متعلق اطلاعات مل رہی ہیں تو اس سے پاکستا وجد اور انگلستان کے تعلقات متاثر ہوں گے.چودھری محمد علی صاحب اپنی قابل قدر تصنیف جس کا نام ہے میں لکھے ہیں کہ وہ یہ پیغام لیکر لارڈ اسے سے ملنے EMERGENCE OF Pakistan " وائسرائے ہاؤس گئے.اسمے اس وقت ریڈ کلف سے مذاکرات میں مصروف تھے.چودھری صاحب نے انتظار کیا کوئی گھنٹہ بھر بعد اسے فارغ ہوئے تو ان سے ملاقات ہوئی.چودھری صاحب نے قائد اعظم کا پیغام پہنچایا اسمے نے کہا کہ انہوں نے یا مونٹ بیٹن نے حد بندی کے معاملہ میں ریڈ کلف سے کبھی کوئی بات نہیں کی اور انہیں اس امر کے متعلق ریڈ کلف کے خیالت کا کوئی علم نہیں.انہوں نے وضاحت سے کہا کہ حد بندی کے متعلق ریلیف کو ان کی یا مونٹ بیٹن کی طرف سے کوئی مشورہ نہ دیا گیا ہے نہی دیا جائے گا.جب چودھری صاحب نے اس رپور
کی تفصیل بیان کی ہونا یا علم کو ئی تھی تو اسے نے کہا کہ انہیں چودھری صاحب کی بیان کردہ تفصیل سمجھ نہیں آرہی.اسمے کے کمرے کی دیوار پر ایک نقشہ لٹک رہا تھا.چودھری صاحب نے اسمے کو اشارے سے نقشے کے قریب بلایا تاکہ نقشہ سے اپنی بات کی وضاحت کر سکیں.چودھری صاحب نے دیکھا کہ اس نفتنہ پر صوبہ پنجاب میں میں سے یک کر لی ہوئی تھی تو بالکل اس رپورٹ کے مطابق تھی جو قائداعظم کو لی تھی.چودھری صاحب نے اسے سے کہا قائد اعظم کو چور پور علی اسکی وضاحت کیلئے کسی مزید تشریح کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ کے نقشے پر پنسل سے لگی ہوئی لائن خود منہ سے بولی رہی ہے.پچودھری صاحب لکھتے ہیں :.✓ ISMAY TURNED PALE AND ASKED IN Confusion Who HAD Been Fooling WITH HIS MAP الرحمہ (اسمے کا رنگ فق ہو گیا اور وہ کھسیانا ہوکر کہنے لگا میرے نقشے میں کس نے یہ گریٹر کی ہے) آج تک نہ تو ریڈ کلف کی طرف سے اور نہ ہی مونٹ بیٹن کی طرف سے اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ پنجاب حدبندی کمشن کے احباس کے لئے لاہور پہنچنے سے پیشتر اور تنازعہ کے متعلق فریقین کے تحریری بیانات سے واقف ہونے سے پہلے ہی ریڈ کلف کیلئے جس لائن پر معاشہ کیلئے پروانہ کا انتظام کیا گیا اس لائن کا نقشہ کس نے تجویز کیا.اور اس معائنہ کی عرض کیا تھی.کیایہ محض من التفاق تھا کہ ریڈ کلف نے تقریباً اسی لاش کو ہی حد بندی لائن مقر کرنے کا فیصلہ کیا تو ہدایات پرداز میں دکھائی گئی تھیں.چودھری محمد علی صاحب نے اپنی تصنیف میں اسکے تو کے نقشہ کا جو اقعہ بیان کیا ہے اس کی بھی آج تک تردید یا وضحت نہیں کی گئی.ظاہر ہے کہ ریڈ کلف کے ہندوستان آنے سے پسے ہی پنجاب کی تقسیم کے لئے مونٹ میٹین اور اس کے مشیروں نے حد بندی کا فیصلہ کر لیا ہواتھا اور ریڈ کلف کو صرف ایک مسخ کرنے والی مشین کے طور پر استعمال کیاگیا.تقسیم ہندکے متعلق کچھ سالوں میں کئی کتابیں شائع ہوئی ہیں.ان سے جو اکثافات ہوئے اُن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ منٹ مین اور کانگریس کے ایک خود مجھے کے نتیجے میں ہوا جس کے رد سے کانگریس نے ملکی تقسیم اور تقسیم کے بعد برطانوی دولت مشتر کہ میںشامل رہنا ان شرائط پر منظور کیا کہ اول تقسیم ملک کی تکمیل اور انتقال اختیارات دو مہینوں کے اندر اندر کیا جائے.دوئم یہ بنگال کی تقسیم مو در کلکتہ ہندوستان میں شامل کیا جائے اور سوئم صوبہ پنجاب کی تقسیم ہوکر گورداسپور اور ٹالہ کی تحصیلات ہندوستان میں شامل کی جائیں تاکہ ریاست کشمیر کے ہندوستان سے الحاق کا جواز پیدا ہوسکے.ایلی کی وزارت کی طرف سے لارڈ مونٹ بیٹن کو ہدایت تھی کہ میں طرح بھی ہو سکے ہندوستان کی سالمیت قائم رکھی جائے اور فریقین کو کینٹ مشن پلان کے مطابق اختیارات کے انتقال پر رضامند کیا جائے.بغرض محال اگر ملک ی تقسیم ناگزیر تو توی مشتر کہ دفاع کی ضرورت کومدنظر رکھتے ہوئے ایک انتظام کیا جائے کہ ہندوستانی افواج i
۵۱۲ کی تقسیم کی نوبت نہ آے اور دفاع کا یہ ادارہ آل انڈیا نیاد پر قائم ہے اور دونوں مل برسند کے علاقہ کی مخالف میں تعاون کرنے کا معاہدہ کریں.ظاہر ہے کہ ایلی وزارت کی یہ ہدایات برطانوی مفاد کی حفاظت کی غرض سے تھیں تاکہ بحر ہند کے علاقہ میں روس کے ارکے نفوذ کو روکا جاسکےاور برطانیہ کے ہندوستان اورمشرق بعید کے تجارتی اتے محفوظ رہیں.ان ہدایات کے علاوہ مونٹ بیٹن خود بھی ملک کی تقسیم کے سخت خلاف تھے اور سہندوستانی افواج کے بٹوارے کا تو کر بھی انہیں ناگوار تھا.انہوں نے آخر وقت تک سر و گوش کی کہ کسی طرح فریقین کو کینی مش ای تجاری کے معانی انتقال اختیارات پر رنان کرسکیں لیکن انہی کامیابی نہ ہوئی جب کینٹ مشن نے یہ تجا نہ پیش کی ہیں تو تانہ عہ ختم کرنے کی نیت سے قائداعظم نے ان تجاویہ کومنظور کر لیا تھا.کانگریس لیڈران نے بھی روا شتی اکاری سے کام لیتے ہوئے و پرے دل سے توان نادی کومنورکیای این را بد نیت بر اور بعض دوسرے کانگریس لیڈران نے اپنے پلک بیانات اور تقریروں میں کینٹ مشن کی تجاون کی ایسی ایسی تحریر کیں جن سے نظام ہوگیا کہ ان کی نیت ان تجاویز پر عمل پیرا ہونے کی نہیں.کینٹ مشن کے اراکین کی ہمدردیاں اگر چہ عام طور پر کانگریس کے ساتھ تھیں لیکن انہوں نے ان تعبیروں کو غلط قرار دیا اور کوشش کی کہ کانگریس لیڈران ان تعبیروں کو ترک کرکے کینٹ مشن کی تجاویزہ پرعمل پیرا ہونے کا صاف صاف اقرار کر لیں لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے.لہذا مسلم لیگ نے بھی ی منظوری واپس لے لی.اس صورت حالات میں قائد اعظم مونٹ بیٹن کے کہنے پر دوبارہ اس جال میں پینے کے لئے یا ہے اور انہوں نے کینٹ مشن کی تجاویہ کو مین کا گانگرس برخوداپنے ہاتھ ایسے کھوٹ چکے تھے دوبارہ زندہ کئے جانے پر آمادگی ظاہرنہ کی.مونٹ بیٹن کی شخصیت ضرور دلفریب تھی لیکن وہ سخت خود پسند تھے اور طبیعت میں خوشامد پسندی بدرجہ اتم تھی.جنگ میں تو کامیابی انہی حاصل ہوئی تھی اس نے ان کی خود سند میں اور بھی اضافہ کر دیا تھا.اپنے زعم میں وہ سمجھتے تھے کہ جس کام میں وہ ہاتھ ڈالیں اس میں انہیں لازما کامیاب ہونا چاہئے.الیسی طبیعت والے شخص پر اپنے موقف کی مخالفت ناگوار گزرتی ہے.اسلئے قائد اعظم کا مستقل مزاجی سے ان کے دام میں آنے سے فنکار انہیں سخت ناگوار ہوا.یوں تو اپنے قد سے پلے بھی ان کی شہرت کانگریس پسند اور مسلم لیگ کے J مخالف کی تھی.اپنے قیام سنگا پور کے دوران میں وہ پنڈت نہرو سے مل چکے تھے اور ان سے بہت متاثر تھے.سٹینوڈ کر پیس کے دوست اور گاندھی جی کے ایچی سدھیر گھوش کے قول کے مطابق گریس نے مونٹ بیٹن کے تقر سے پہلے لندن یں ان کی دوبارہ ملاقات پنڈت نہرو سے کرائی تھی اور اسطرح ان کے تقریر پر ایک طرح پنڈت جی کی رضامندی حاصل کی تھی.ہندوستان آنے کے بعد مونٹ بیٹن نے پنڈت نہر اور دیگہ کانگریس لیڈر ان سے ذاتی تعلقات قائم کئے اور اول الذکر سے کھل کھلا دوستانہ مراسم بڑھائے.ان کی خوش در سند بیعت کا اندازہ لگا کر پنڈت نہرو اور دوسرے کانگریس لیڈران نے ان کے بعد یہ خود پرستی کی ہر طرح تسکین کی اور ان کی اس کمزوری سے کما حقہ فائدہ
۵۱۳ اٹھایا.قائد اعظم توخوشامد کے فن سے بالکل ناآشنا ایک سیدھے سادھے مگر انی و ھن کے پہلے انسان تھے لہذا دره مونٹ بیٹن کے ذوق خود پسندی کی تشکین کا سامان فراہم نہ کر سکے.اس کے برعکس انہوں نے منتقل مزاجی سے ملک کی تقسیم کے موقف پر قائم کرہ کرمونٹ بیٹن کے اولین مقصد یعنی براعظم کی سالمیت کوناکام بنا دیا اور نہیں ان کی اور برطانوی پیر وزارت کی مرضی کے خان تقسیم ملک پر مجبور کر دیا.اس شکست سے مونٹ بیٹن کے پندار کو سخت ٹھیس لگی اور ان کے دل میں قائد اعظم اور ان کے مطالبہ پاکستان کے خلاف گرہ مٹھ گئی.قائداعظم کو تقسیم ملک کے مطالبے سے باز رکھنے کی نیت سے کانگرس نے جوابی مطالبہ کیا ہوا تھا کہ اگرملک ہواتھا تقسیم ہوتاہے تو پر پنجاب اور بنگال کے صوبوں کی بھی تقسیم و کرمسلم آبادی والے علاقے علیحدہ ہونے چاہئیں.ن بین قائد اعظم کو کسی طرح بھی تقسیم ملک مطالبہ کو تر کرنے پر آمادہ نہ کرسکے تو انہیں ان کے انگریز فسران نے جنہیں وہ انگلستان کے ساتھ ان کے مشورہ دیا کہ وہ قائداعظم کوصاف صاف الفاظ مں دھمکی دی کہ اگر وہ کینٹ مشن کی تجاویہ پر عمل پرا ہونے پر رضامند نہیں ہوتے تو پھر ملک کی تقسیم کی صورت میں بنگال اور پنجاب کے صوبے بھی ان ما تقسیم کئے جائیں گے.کانگریس کے چوٹی کے لیڈران کی طرف سے بھی انہیں میں شور نہ دیاگیابلکہ امید ظاہر کی گئی کہ جب بنگال اور پنجب کے مسلمان اپنے صوبوں کی تقسیم کو ناگزیر پائیں گے توہ قائد اعظم کا ساتھ چھوڑ دیں گے اور پاکستان کا خواب شرمندہ تعبر نہ ہوسکے گا.ان مشوروں پر عمل کرتے ہوئے ونٹ بیٹن نے قائداعظم کو بہت ڈرایا دھمکایا لیکن وہ ان کے آہنی ارادے کو متزلزل نہ کرسکے.قائد اعظم نے بہ امر مجبوری بنگال اور پنجاب کی تقسیم منظورکر لیا لیکن مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ آزاد مملکت کا طالت تیرک کیا شنگال اور پنجاب کے مسلمانوں نے ان صوبوں کی تقسیم کے نیلے کے باوجود قائداعظم کا ساتھ نہ چھوڑا ادرک نارس کانگریس یڈروں کی مسلمانوں میں پھوٹ پڑ جانے کی امیدیں خاک میں مل گئیں.یک کانگریس لیڈر نے منٹ بیٹی کو یہ مشورتی دیکر ملاوں کا نیم ملک کا مطالبہ نا منظور کر لیاجائے لیکن بنگال اور پنجاب کے صوبوں کی تقسیم اس طرح کی جائے کہ پاکستان ایک علیحدہ آزاد ملک کی صورت میں زیادہ دیر قائم روکنے کے قابل نہ ہے اور سم ایک مجبور ہوکر از نور انڈین یونین مں شامل ہو جانا منظور کرے.مونٹ مین کو یہ تجویز برای دانشمندان معلوم ہوئی جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اور اس نے اس پر عمل کرنے کا م ارادہ کر لیا.یہ مکت عملی اختیار کرنے کے رستے میں مونٹ بیٹن کے لئے ایک لڑکی وقفت حائل تھی.امیلی کی وزارت کی طرف سے اسے ہدایت تھی کہ اگر مل کو تقسیم کر نا ڑے تو کوشش یہ ہونی چاہیئے کہ دونوں ملک برطانوی دولت مشتر کہ میں شامل رہیں.قائد اعظم تو اونٹ بیٹن سے کہ دیکھے تھے کہ پاکستان در این ترکہ میں شامل رہے گا.لیکن کانگریس نے ہندوستان کی دستور سانہ اسمبل سے جو قرار داد مقاصد منظور کرائی تھی اس
Minion مال الناس میں واضح طورپر لکھا تھا کہ آزادی حاصل ہونے کے بعد مہارت ایک رومی پبلک ملک ہوگا اور ان دونوں دولت مشترکہ میں ایک ری پیکٹ کی شمولیت کا توانہ موجود نہ تھا.ہندوستان کی وحدت کے قیام میں ناکامی کے بعد لارڈ مونٹ بیٹن کی بڑی خواہش تھی کہ کس طرح کانگریس بھی برطانوی دولت مشترکہ مں شامل رہنا منظور کرے.ایسا ہونے سے مونٹ مینٹین کی وہ خفت بھی مٹ سکتی تھی جو اپنے مقصد اول میں ناکام رہنے کی صورت میں لازمی تھی.کانگریس لیڈر بھی اتنے نادان نہ تھے کہ انہیں اپنے برے بلے کی تمیز نہ ہوتی.وہ دیکھ رہے تھے کہ مونٹ بیٹن ان کا طرفدار ہے اور اس سے بنائے رکھنے کی افادیت ان پر ظاہر تھی.وہ خود بھی کسی ایسے فارمولے کی تلاش میں تھے جس سے مجلس رستوران کی قرارداد مقاصد کے باوجود ہندوستان کا برطانیہ سے گہراتعلق قائم رہ سکے.حکومت ہند کے ایک ہندو افسر وی پی مین تھے بوسہ دار پٹیل کے بڑے معتمد تھے.مونٹ بیٹن نے آتے ہی انہیں اپنے خالی تھی عملے میں شامل کر لیا تھا اور رفتہ رفتہ وہ ان کے بھی معتمد ہوگئے تھے.قرار داد مقاصد کی روک کو راستے سے ہٹانے کی غرض سے دی پی مین نے ایک سکیم تیار کی جس کے تحت لک کی تقسیم ہو کہ انتقال اختیارات دونوں ملکوں کو قتی طور پر O MINION STATUS کی بنیاد پر کئے جانے کی تجویہ تھی.مونٹ بیٹن نے وی پی مین کے ذریعے کانگریس کو پیشکش کی کہ اگر کانگرس یہ کیم منظور کرے تو وہ بون سوار سے پہلے ہی اختیارات منتقل کر دیں گے.منی شد کے دوسرے ہفتہ میں شملہ میں اس پیشکش پر یونٹ بیٹن اور کانگرس لیڈران میں سے پنڈت نہرو اور کرشنا مین کے مابین گفت و شنید ہوئی اور ایک خفیہ سمجھوتا ہوا جس کے روسے کانگریس نے اس پیشکش کو ان تین شرائط پر منظور کیا جس کا ذکر پہلے آچکا ہے یعنی اول انتقال اختیارات دومینوں کے اندر انا مکمل کر دیا جائے دو منصوبہ نکال کی تقسیم ہونے پر کلکتہ ہندوستان میں شامل کیا جائے اور سوئم صوبہ چناب کی تقسیم اس طور پر کی جائے کہ ضلع گورداسپور کی تفصیلات گورداسپور بٹالہ کو بوسلم اکثریت کے علاقے تھے ہندوستان میں شامل کیا جائے.مونٹ بیٹن نے تینوں شرائط منظور کر لیں.پہلی شرط میں جو مطالبہ کیا گیاوہ مصر کی غیر معقول تھا.دو مہنیوں کا عرصہ تو ایک متمول خاندان مشترکہ یا ایک کامیاب کاروباری شراکتی ادارے کی تقسیم کے لئے بھی کافی نہیں ایک عظیم ملکی تقسیم کے لئے کس طرح کافی ہوسکتا ا دریا پار کرنے والوں کی من و یا ای اور کا تجرید رکھنے والے مونٹ بیٹن کا اس غیر معقول شرط کو منظور کر بین ظاہر کرتا ہے کہ خون کی نیت بھی بھی تھی.کانگریس لیڈروں اور منٹ میں دونوں کو توقع تھیکہ عمل قیم میں اس جلدبازی سے جو گیری پیا ہو اس کے نتیے میں نوزائیدہ ملکت پاتا ے ایسی ایسی اپا مار کھڑی ہوں گی کہپاکستان کا قیام نامکن ہوجائے اورمسلم لیگ و مجبور ہندوستان کی سالمیت براہ رہنے پر آمادہ ہونا پڑے گا.یہ توقفت والی تھی کہ پنجاب اور دلی میں غیرمسلموں اور بالخصوص سکھوں نے مسلمانوں کا ہجو قتل و غارت برپا کیا اس کے باوجود اور دیگر جملہ نامساعد حالات کے باد صف پاکستان کا قیام عمل میں آگیا اور مخالفین تھا.
۵۱۵ پاکستان کی توقعات پوری نہ ہو گئیں.شملہ میں ہونے والے خفیہ سمجھوتے کی بین شرائط کا اوپر ذکر کیا گیاہےان میں سے پہلی دو شر الا نواب سکی تھی ہیں کیو کی تقسیم کے بعد ہ دار پیٹ نے جو کانگریس کے چوٹی کے لیڈروں میں سے نسبتا صاف گو تھے اپنی پلک تقریری میں تسلیم کیا ہےکہ ان کی طرف سے یہ شرائط پیش کی گئی تھیں اور ان کے مانے جانے کے بعد ہی انہوں نے ملک ی تیم منظور کی تھی.کلکتہ کے تعلق سردار پٹیل کے مذکورہ بالا اعتراف کے علاوہ مونٹ بیٹن کے چیف آف سٹاف لارڈ اسمے نے اپنے ME MOIRS میں تسلیم کیاہے کہ تقسیم مک کی سب بتونیہ کی منظوری برطانوی وزارت سے حاصل کی گئی تھی اس کے مطابق کلکتہ کو ہندوستان میں شامل رکھا گیا تھا یہ بات مسلم لیگ سے ی دکھی کی اور ظاہرہ کیاگیا کہ کلکتہ کےمتعلق فیصلہ باؤنڈری کمشن کرے گا.چنانچہ باوجود اس کے کہ کہ ہندوستان میں شامل رکھنے کا فیصلہ بالا بالا ہو چکا تھا اور بہر طانوی کینٹ اس پر صاد کر چکی تھی ظاہر طور یہ اس تنازع کو بھی بنگال باؤنڈری کمشن کے سپرد کیا گیا اور ریڈ کلف سے کلکتہ کے متعلق فیصلہ ہندوستان کے حق میں کرایا گیا.صرف بھی ایک بات ریڈ کلف ، مونٹ مین اور خود اٹلی کی وزارت کی جانداری کا پول کھونے کے لئے کافی ہونی چاہئے.شمل میں ہونے والے خفیہ سمجھتے کی تیسری شرط ریاست جموں و کشمیر پر تسلط ائم کرنے کی غرض سے تھی اس شرط کو پورا کرنے اور تحصیلت گوردی اسپو ہ اور شمالہ کو جہاں مسلم آبادی کی اکثریت تھی ہندوستان میں شامل کرنے کیلئے ہو پاپڑ لے گئے ان کا تفصیل سے پہلے ذکر کیا جا چکا ہے.ریڈ کلف کے لئے پر دانہ کی ہدایات والی لائن اور ریڈ کلف کے فیصلے کے مطابق مقرر کی جانیوالی حدیدی لائن میں تھوڑا اسافرق تھا.اول الذکر کے مطابق مسلم آبادی کی اکثریت والی تحصیلات فیروز پور اور زیرہ بستان پاکستان کے علاقے میں شامل تھیں لیکن موخر الذکر حد بندی کے مطابق وہ دونوی تحصیلات بھی ہندستان کے علاقے میں شامل کر دی گئیں.اس بات کا ناقابل تردید ثبوت موجود ہے کہ یہ تبدیلی جو ہندوستان کے متقی ہیں اور پاکستان کے مفاد کے مزید خلاف بھی ریڈکلف سے ۸ اگست کی شاید کے دو ایک روز بعد کرائی گئی.ان دنوں پنجاب کے گورنہ سرابوں جنکنز تھے.سکھوں سے ان کی ہمدردیاں مسلمہ ہیں.اور ان پر رہی کیا موقوف تھا خود مونٹ بیٹن اور اس کے عملے کے انگریز افسران بالخصوص لارڈ اسے سکھوں کی فوجی خدمات کی وجہ سے سکھ مفاد سے گہری دلچسپی رکھتے تھے اور سب خواہشمند تھے کہ کسی طرح سکھوں کی امداد کی جائے.سکھوں کی طرف سے زور دیا جار ہا تھا کہ پنجاب کی تقسیم پر پہنری نو آبادیات جن کی اراضیات کی آباد کاری میں انہوں نے بہت محنت کی ہے ہندوستان میں شامل کئے جائیں.گورنہ جنکنز کے خیال کے مطابق سکھوں کا یہ مطالبہ بالکل غیر منصفانہ نہ تھا گورنر جنکنز کے استغفار کے جواب میں موسٹ بیٹن کے پرائیویٹ سیکریڑی
۵۱۶ جارج ایبل نے ور اگست کو جنکینز کے پرائیویٹ سیکریٹری کو جین کی اطلاع کیلئے ایک خط لکھا جیں کے ساتھ ایک نقشہ منسلک تھا جس میں پنجاب کی حد بندی کی رہی لائن دکھائی گئی تھی جو پائیلٹ کی ہدایات پر دانہ میں تھی اور میں کے مطابق گورداسپور اور بٹالہ کی تحصیلات تو ہندوستان میں شامل تھیں لیکن فیروز پور اور زیرہ کی تحصیلات پاکستان میں شامل تھیں.جارج ایل کے خط میں واضع طور پر کھا تا امن کا نقشہ اس حدبندی لان کا ہے جو ریڈ کلف اپنے فیصے میں تقریر کر رہے ہیں.یہ خط مٹر مودی کو جنہیں قائد اعظم نے انتقال اختیارت کے بعد جینر کی جائے پنجاب کا گورنر مقر کیا جنکنز کے خفیہ کاغذات میں ملا یہ ام سلمہ ہے کہ جاری ایل نے یہ خط جینز کے پرائیویٹ سیکہ پیڑی کو جنکنز کی اطلاع کےلئے لکھا تھالیکن نہ تو ریڈ کلف کی طرفسے اور نہری مونٹ بلین کی طرف سے اس تبدیلی کی کوئی معقول وجہ پیش کی گئی ہے جو د راگست کے بعد بعد بندی میں کی گئی.اس بات کا ثبوت موجود ہےکہ جولائی عشرہ کے آخری عشرے میں جن دنوں ریڈ کلف حد بندی کمشن کی کاروائی کے سلسل میں دلی میں تھا اور ظاہری طور پر حد بندی کا تعین کرنا ان کے سپرد تھامونٹ بیٹن کے دفترمیں یہ بات اکثر زیر بحث رہتی تھی کہ سکھوں کے مفاد کی حفاظت کے لئے حد بندی کی لاشن کہاں لگائی جائے سکھوں کے ایک مسلمہ ہمدر و سٹرینڈرل مون سابق انڈین سول سروس نے اپنی کتاب آں ؟ میں لکھا ہے کہ جولائی کے آخری عشرے میں اس مسئلہ پر کئی مرتبہ ان کی گفتگو مونٹ بیٹن کے سٹاف سے ہوئی جن میں دی پی پینین 195 شامل تھے اور موخر الذکر نے ان سے دریافت کیا :- DIVIDE AND PUIT WHETHER By Any JUGGLING WITH THE LINE THE DANGER OF Disturbances, (By Sikhs) Could BE DIMINISHED ر کیا حد بندی کی لائن میں کچھ ہیرا پیری کرنے سے منادات کے خطرے کو کم نہیں کیا جاسکتا ؟ ) مسٹر پنڈال مون کے اس بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ حد بندی کمشن اور ریڈ کلف تو محض دیکھا تھے ورنہ سیوندی کا تعین مونٹ بیٹن کے عملے ( اسمے وغیرہ ) نے کرنا تھا اور ریڈ کلف کا کام صرف اس پر دستخط کرنا تھا.اور اگست سہ کے بعد مجوزہ حد بندی لائن میں ہندوستان کے حق میں اور پاکستان کے مفاد کے مزید خلاف جو تبدیلی کی گئی اور فیروز پور اور زیرہ تحصیلات جن میں مسلمانوں کی کثرت تھی ہندوستان میں شامل کر دیے گئے وہ از قسم میرا پھیری ہی تھی جو سکھوں کی اشک شوئی کے لئے کی گئی.مونٹ بیٹن کی پاکستان دشمنی کے محرکات | ہندوستان کی تقسیم کے سلسلہ میں ونٹ بیٹن نے پاکستان کے منصوبہ کی مخالفت میں جو کردارادا کیا اس کی ایک وجہ تویہ بھی تھی کہ وہ خود ابتدا ہی سے اس مطالبہ کے خلاف تھے.
علاوہ ازیں ایلی وزارت نے ان کے ذمہ یہ فرض عاید کیا تھا کہ ہندوستان کی سالمیت سجال رکھنے اور کانگریسی اور مسلم لیگ کو کینٹ مشن کی تجاویز پرعمل پرا ہونے پہ آمادہ کریں.قائد اعظم کی مستقل مزاجی نے انہیں اس مقصد کے حصول میں کامیاب نہ ہونے دیا اور انہوں نے اس نا کامی کو ذاتی شکست سمجھ لیا.بیشک پنڈت نہرو سے ان کی ذاتی د دوستی اور پنڈت جی اور دوسرے کانگریس لیڈروں کی چاپلوسی بھی مونٹ بیٹن کی خوش بد اسپند طبعیت پر اثر انداز ہوئی ہوگی لیکن جس شدت سے انہوں نے پاکستان کے مفاد کے خلاف کام کیا اس سے انکی قائداعظم اور ان کے مشن سے فاتی دربخش اور عناد کا اظہارہ بھی ہوتا ہے.جب مونٹ بیٹن کی سر توڑ کوشش کے باوجود قائد اعظم کینٹ مشن کی تجاویز کو زندہ کئے جانے پر رضامند نہ ہوئے اور ملکی قیمت ناگزیر ہوگئی تو بیٹی کو اپنی خفت مٹانے کی یہ تویہ ی که هندوستان تقسیم و که عبارت اور پاکستان در دومینین قائم کئے جایں جو دونوں برطانوی دولت مشت کرمی شامل نہ ہیں اور وہ دونوں ڈومنینز کے پہلے گور نہ جنبی ہوں.قائد اعظم نے تو پاکستان کے برطانوی دولت مشترکہ میں شامل رہنے پہ رضامندی دیدی ہوئی تھی اور مونٹ میٹین نے کانگریس کو بھی خفیہ سمجھوتے کی شرائط یہ اس پر آمادہ کر لیا تھا.اب صرف اس کی یہ بڑی خواہش یا تی تھی کہ کانگریس اور سلم لیگ دونوں اسے پہلے گورنہ برل کے طور پر قبول کر لیں.کانگریس نے مونٹ بیٹن کا بھارت کا پہلا گورنہ منزل ہونا منظور کر لیا لیکن قائد اعظم ے اس تجویز کو منظور کرنے سے انکار کر دیا.اپنے زعم میں منٹ مین کو یقین تھا کہ قائداعظم بھی اس تخونہ کو نے منظور کر لیں گے اور انہوں نے کانگریس لیڈروں اور برطانوی وزارت کو بھی یقین دلایا ہوا تھا کہ یونی مسلم یگ اور اس کے قائد کو بھی منظور ہوگی.قائداعظم کے انکار نے جہاں انکی امیدوں کے محل کو چکنا چور کردیا ہاں انہیں برطانوی وزارت اور کانگریس لیڈروں سے خفت بھی اٹھانی پڑی.ان کے پندار پہ یہ آخری ضرب الیسی کاری پڑی کہ وہ بوکھل گئے اور قائد اعظم سے اس مشاوری گفتگو کے دوران دھمکیوں اور خفیف الحرکتی پر اتر آئے.یہ گفتگو ا ر جولانی یاء کو ہوئی تھی.دو دن بعد مونٹ بیٹن نے قائد اعظم کے انکاری فیصلے کی یورٹ سیکر یٹری آف سٹیٹ کو بھیجی.اس میں اس گفتگو کو ایک ماما BOMBS H E قرار دیتے ہوئے BombshelL +4 لکھا میں نے ان (قائد اعظم سے دریافت کیا معلوم ہے آپ کو انکار کتنا مہنگا پڑے گا ؟ انہوں نے افرده لہجہ میں جواب دیا ہاں ASSETS کی تقسیم میں غالباً کروڑوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑے گا.میں نے ذرا تلخ لیجے میں کہا کروڑوں کا نہیں بلکہ آپ سارے "ASSETS" کھو بیٹھیں گے اور پاکستان کا نے ذرا مستقبل بھی.یہ کہ کہ میں کھڑا ہو گیا اور کمرے سے باہر چلا گیا." (مونٹ بیٹن کی رپورٹ نمبر 1 محرہ ہم سولائی ار بنام سیکریٹری آف سٹیٹ ).اس دھمکی سے اور اس بد خلقی سے حسین کا اعتراف خود مونسٹ بلیٹین نے اپنی رپورٹ میں کیا سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قائد اعظم کے انکار سے انہیں سخت تکلیف پہنچی اور انہوں نے اسے ذاتی
۵۱۸ تک سمجھتے ہوے قائد اعظم سے اس کا بدل لینے اور پاکستان کے صوبے کو ناکامیاب کرنے کا م ارادہ کر لیا تقسیم بند کے سلسلہ میں منٹ میں پر معنی داری کا جو الزام لگایا جاتاہے اس کی تردید میں منٹ میٹین نے ایک انگریزی مصنف مسٹر یا ڈسن سے ایک کتاب شائع کرائی ہے جس کا نام THE GREAT DIVIDE ہے سیکرٹری آف سٹیٹ کے نام مونٹ بیٹن کی متذکرہ بالالہ پورٹ کا ذکر کرتے ہوے ان صاحب کو بھی اعتراف کرنا پڑا ہے کہ اپنی انا کے مرضی ہے پر وہ اس رپورٹ میں اپنے معاندانہ ردعمل کے اظہار سے باز نہ رہ سکے.انتقال اختیارات کے بعد مونٹ بیٹن نے انڈین سمبلی میں تقریر کرتے ہوئے جس گرم جوشی کا اظہار کیا اس کا مقابلہ اس تقریرہ سے کرتے ہوئے جو مونٹ بیٹن نے پاکستان اسمبلی میں کی جس میں دیسی گرمجوشی کا فقدان تھا.میں مصنف تسلیم کرتے ہیں کہ علاوہ اور باتوں کے مر ناج نے مونٹ بیٹن کے دونوں ڈومینز کا گورنر جنرل ہونے کی میدوں پر جو پانی پھیر دیا ناممکن ہے اس کی رینش ابھی مونٹ بیٹن کے دل میں باقی ہو یہ مونٹ بیٹن کی پاکستان دشمنانی ظاہر یہ ہے کہ ان کے مداحین کو بھی دی زبان سے ہی ہی اس کے محرکات کا اعتراف کرنا ہی پڑتا ہے.اعلیٰ حضرت نظام کی طرف سے بطور آخرالست عشرہ میں قائد اعظم نے مجھے بھوپال سے کراچی طلب صدر اعظم حیدر آباد جانکی پیش کش رای امر ہونے پر یا ایران علی حیدر آباد سے آے تھے اور فرمایا.حاضر اعلی حضرت نظام کی طرف سے پیغام لائے تھے کہ میں تمہیں صدراعظم کی حیثیت سے حیدر آباد جانے پر آمادہ کروں تاکہ تم اعلی حضرت اور حکومت ہند کے درمیان مناسب سمجھوتے کی صورت پیدا کرنے کی کوشش کرد.میں نے انہیں یہ کمر کہ اپس کر دیا ہے کہ وہ اعلی حضرت کی راضی تحریر لائیں کہ جو شور تم دوگے یا تو جو تم کر کے وہ اعلی حضت قبول فرمائیے اور اس کے مطابق عمل کریں گے.میں نے عرض کیا میں تو کسی شرط پر بھی حیدر آباد جانے کے لئے تیار نہیں فرمایا یہ عورت ہی پیدا نہیں ہوگی کیونکہ اعلی حضرت میری مطلوبہ تحریر نہیں دیں گے.اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کی قیادت را دارا میں نے تہیں اسے لایا ہے کہ تم امام محمد میں کرنے کے لئے قائد اعظم کا ارشاد پاکستانی رند کی قیادت کرد اس وقت تمہارا کیا پروگرام ہے ؟..میں نے عرض کی میرا پروگرام تین چار دن کے لئے لاہور جانے کا ہے تاکہ پنے عزیز و اقارب کی خیریت معلوم کر دوں اور بڑ ھی علوم کریں کہ موجودہ طوفان و تلاطم می ان کی کیا حال ہے.فرمایا اچھاچھے جاؤ تمہارے جانے آنے کا نظام کردیا ا جائے گا.لیکن ہم رستمی شداد کو واپس ضرور پہنچ جانا.لاہور میں وکیفیت مں نے دیکھی وہ ناگفتہ بہ تھی مری ایران میرے بھائی شکر اللہ خاں بیمار ہو کر سکہ سے میو ہسپتال لاہور میں آئے ہوئے تھے.میں ان کی عیادت کے لئے گیا تو معلوم ہوا کہ تپ دق کے آخری مراحل سے عبد عبد گذر رہے ہیں اور معالج مایوس ہوچکے ہیں.میں نے عزیزم عبداللہ اں سے کہا کہ انہیں اب ہسپتال سے اپنے مکان پر لے جایں چونکہ ھے اداعظم کے ان کی تعمیل می نور کراچی واپ
۵۱۹ پہنچا تھا میں ان کی خدمت میں حاضر نہ رہ سکا اور ان کے آخری وقت میں ان کے پاس ہونے کی حسرت دل میں لئے کراچی روانہ ہو گیا.چند دن بعد وہ فوت ہو گئے.غفر اللہ لہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں شمولیت قائد اعظم کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے فرمایا جیسے کے لئے پہلا پاکستانی وفد میرا اندازہ تھامیر لائن علی اعلیٰ حضرت سے میری نشاء کے مطابق تحریہ حاصل نہیں کر سکے.تم اب پاکستانی وفد کے ساتھ نیو یارک جانے کی تیاری کر لو.وفد کے اراکین مرزا ابو الحسن اصفہانی صاحب سفیر پاکستان متعینہ واشنگٹن میرلائق علی صاحب اور پیرزاده عبدالستار صاحب تجویز کئے گئے تھے کچھ دن بعد محترمہ بگم نقدر حسین صاحبہ کو بی درد میں شامل کردیا گیا اور وہ لاہور سے نیو یارک تشریف لے آئیں.وند کے سیکریٹری محمد ایوب صاحب آئی سی ایس مرحوم تھے نیو یارک میں پاکستانی قونصل جنرل مسرداری شی وند کے رکن تو نہ تھےلیکن ہفتم کے انتظام کے تعلق میں ہیں ان کی مساعی کے نتیجہ میں بہت سہولت میسر آتی رہی.وفد کا قیام بہار کے ہوٹل میں تھا.ان دنوں اسمبلی کے اجلاس لانگ می رز میں سی ان نیو یارک کی مانش گاہ کے ہال میں ہوا کرتے تھے اور کیوں اور مجلس امن کے اجلاس لیک سکس میں.ہوٹل سے فاشنگ پہنچنے میں 40 منٹ صرف ہوتے تھے اور ایک سکس کا فاصلہ پون گھنٹہ میں طے ہوتا تھا.ہماراوند مختصر اسے ہم نے طے کیا کہ صبح ناشتے پر کارونہ کے کام کے متعلق مشورہ کر لیا کریں گے.ہمارے دفتری کام کی ساری ذمہ داری محمد ایوب صاحب پر تھی اور اگر چہ انہیں در گردہ کا عارضہ بھی لاحق تھا لیکن وہ اپنے فرائض کو نہایت تندہی اور بڑی خوش اسلوبی سے ادا کرتے رہے.رات کو دیتیک وہ مصروف رہتے تھے پھر صبح کو بھی انہیں سب سے پہلے تیار ہونا ہوتا تھا.نیند اور آمرام کے لئے انہیں بہت کم وقت ملتا الیکن وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں کس قسم کی تاخیر یا کوتاہ نہیں ہونے دیے تھے مخبراء الاحسن الجزاء - قسیم ملک کی مفاہمتوں میں اک یہ بھی تھی کہ ہندوستان بدستور امام محمد کارکن رہے گا اور پاکستان نیارکن بنے کی درخواست و لیگا، چنانچہ پاکستان کی درخواست پر ملیں اس نے سفارش کی اور اسمبل نے رکنیت کی منظوری دیدی پاکستان اور بین ایک ہی دن اقوام متحدہ کے رکن بنے.ارجنٹائن نے یہ سوال اٹھایا کہ ہندوستان کی تقسیم می بود و آزاد ریاستی نام ائیں یہ دونوں نئی ریاستیں شمار ہونی چاہئیں اور دونوں کے لئے لازم ہے کہ نئے سرے سے رکنیت کیلئے درخواست دیں لیکن ارجنٹائن کا یہ عذیہ قابل التفات نہ قرار دیا گیا...اسمبلی کے اس اجلاس سے پہلے اجلاس میں ایک قرار داد منظور ہو چکی تھی کہ جن مکوں کے سفارتی تعلقات ہسپانیہ کے ساتھ قائم ہیں وہ ان تعلقات کو ختم کر دیں اور آئندہ کوئی ملک ہسپانیہ کی موجودہ حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات ام نہ کرے.اس اجلاس میں قرارداد پھر یہ غورآئی میں نے اس پر زور مخالفت کی میں نے کہا اول واقوام متحد کا ہرگز یہ منصب نہیں کہ کسی ملک کی حکومت کو اٹھنے کی کوشش کرے اگر کبھی غلطی سے اب اقدام کیا گیا تو اس کا الٹا اثہ
۵۲۰ ہوگا.چنانچہ یہ اسی قرار داد کا نتیجہ ہے کہ ہسپانیہ میں رائے عامہ اقوام متحدہ کے خلاف ہوش میں ہے اور جنرل فرانکو کی پوزیشن اپنے ملک میں مضبوط تر ہوگئی ہے.اقوام متحدہ کا صور تو پھونکا گیا لیکن میڈرڈ کی فصیلیں منتر لیزی نہیں ہوئیں میں نے یہ بھی کہا کہ مربی یورپ کے نقشے پر سرسری نظر ڈالنے سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ کل آ کو سپانیہ کی تائید اور دستی کی ضرورت محسوس ہوگئی اور آپ میں سے اکثر آج کے کئے پر پچھتائیں گے.باوجود میرے انتباہ کے قرار داد کی تصدیق تو ہوگئی لیکن اس کے بعد کے سالانہ اجلاس میں پھر اس قرار داد کا کوئی ذکر نہ آیا.پہلے اور دوسے اعباس کے درمیانی عرصے میں ارجنٹائن نے ہسپانیہ کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے تھے.ارجنٹائن کے اس اقدام پر کمیٹی میں کچھ لے دے ہوئی کہ ارجنٹائن نے عمدا قرار داد کی خلاف ورزی کر کے اقوام متحدہ کی توہین کی ہے.مروجے لکشمی پنڈت نے بھی بڑے جوش سے اقوام متحدہ کی قرار داد پر ٹل نہ کئے جانے پر غصے کا اظہار کیا اور کہا تعجب کی بات ہے کہ ارجنٹائن کو اس فعل پر سرزنش کرنے کی بجائے اسے مجلس امن کارکن منتخب کر لیاگیا ہے.اس وقت انہیں یا معلوم تھا ان کا انا مل بھی کشمیر کے متعلق اقوم متحدہ کی قرارداد پر عمل نہ کرنے کے باوجود مجلس امن کا رکن منتخب کیا جائے گا.کو چند ماہ بعد ہسپانیہ کے وزیر خارجہ پاکستان تشریف لائے.میں اپنے فرض منصبی کی بجا آوری میں ان کے استقبال کے لئے کراچی مار پر حاضر ہوا.طیارے سے اترتے ہی میرے ساتھ مصافحہ کیا اور فرمایا بیان میں تمہارا بہ فقرہ ضرب الثل ی کا امام محمد کا اور تو چونک گیالیکن میر کی دیواری منایا نہ میں جنوبی افریقہ میںپاکستان اور سب دوانی تزا و آباد کا روں کے حقوق یا یوں کہنامناسب ہو گا عدم حقوق پر محبت کے دوران میں میں نے زیادہ تر انانی وقار کے نقطہ نگاہ سے تقریر کی." فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کا قیام | سب سے اہم مساله و اس اجلاس میں زیب آیا وہ قضیہ فلسطین تھا پہلے یہ ذکر ہوچکا ہےکہ اقوام متحدہ کے فلسطین کمشن نے فلسطین کی تقسیم کی سفارش کی تھی.یہ رپورٹ مواد کے اجلاس میں زیر بحث آی اور اس پر اسمبل کی اول کیٹی میں بحث ہوئی.کمیٹی کے صدر آسٹریلیا کے وزیر خارجہ ڈاکٹر لیٹ تھے.بحث کے دوران میں اول کمیٹی نے دو سب کیٹیاں مقرر کیں.ایک کے سپرد یہ کم ہوا کہ قسیم کی تفاصیل پر غور کرکے رپورٹ کیے اور دوسری کے ذمہ یہ فرض عائد کیا گیا کہ فلسطین کی وحدت بر قرار رکھتے ہوئے عربوں اور صیہونیوں کے حقوق کی حفاظت کا منصوبہ تیار کرے.کولمبیا کے مندوب دوسری کمیٹی کے صدر منتخب کئے گئے.کچھ دن بعد وہ اس ذمہ داری سے روش وئے اوران کی جگہ اس سب کی نے مجھے صد متخب کیا.دونوں بیٹیوں کی رپورٹ پرطویل بحث و تمیص کے بعداول یٹی نے قسم کے تم میں جو منظور کیا.اس عرصےمیں بہت کشمکش جاری رہی.جب پاکستان کیطرف سے میں نے پلی بار تقریر شروع کی تو عرب نمائندگان کو کچھ اندازہ نہیں تھاکہ مری تقریرہ کا رخ کس طرف ہوگا.پاکستان ایک دو دن قبل ہی اقوام متحدہ کا رکن منتخب ہوا تھا.عرب ممالک کے مندر میں ہمیں خاطر ہی میں نہیں لاتے تھے اور ہماری طرف سے بالکل بے نیاز
۵۲۱ تھے.میری تقریر کا پہلا حصہ تو تاریخی اور واقعاتی تھا جس کے بعض حصوں سے بعض عرب مندوبین بھی ناواقف تھے.جب میں نے تقسیم کے منصوبے کا تجزیہ شروع کیا اور اس کے ہر حصہ کی نا انصافی کی وضاحت کرنی شروع کی تو عرب نمائندگان نے توجہ سے سنا شروع کیا.تقریر کے انتقام پر ان کے چہرے خوشی اور طمانیت سے چمک رہے تھے.اس کے بعد اس معاملہ میں عرب موقف کا دفاع زیادہ تر پاکستان کا فرض قرار دیدیا گیا.تقریر یں تو عرب مند و مین کی طرف سے بہت ہوئیں اور بعض ان میں سے ٹھوس اور موثر دلائل سے آراستہ بھی تھیں لیکن عرب فصاحت کا اکثر حصہ جذباتی رنگ لئے ہوئے تھا اور وقت کا بہت سا حصہ انہوں نے یہ ثبت کرنے کی بے سود کوشش میں فر کیا کہ فلسطین میں جو سیہودی اگر آباد ہو رہے ہیں ان میں سے اکثر فل ابراہیم ہی نہیں بلکہ روسی قبلی بنام ازار سے ہیں جن کے آباؤ اجدادنے ایک وقت میں یہودی مذہب اختیار کر لیا تھا.عرب موقف ہر سہلو سے اس قدر مضبوط اور قرین انصاف تھا کہ اسے تقویت دینے کے لئے ایسے غیرمتعلق دلائل کی طرف رجوع کہ نیا دراصل اسے کمزور کرنا تھا اپ معلوم ہوتا تھا کہ عرب مندوبین نے مرکزی ہدایت کے ماتحت اپنے دلائل اور تقریروں کو ترتیب نہیں دیا تھا جو کچھ کسی کے زمین میں آجاتا وہ اسے بیان کرنے سے رک نہ سکتا بحث کے دوران ہی میں ظاہر ہونا شروع ہو گیا کے تھا کیٹی کا فیصلہ دلائل یا انصاف کی بناپر نہیں ہو گا.کمیٹی میں نیوزی لینڈ کے نمائندے سر کارل برنڈ سن تھے.میری ایک تقریر کے بعد کسی سے نکلتے ہوئے مجھ سے فرمایا کسی اچھی تقریر تھی.صاف واضح ، پر دلائل اور نہایت موشه سر کارل چونکہ خود نہایت اچھے مقرر تھے مجھے ان کے اظہار تحسین سے خوشی ہوئی.میں نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے دریافت کیا سر کارل ! پھر آپ کی رائے کس طرف ہوگئی ہے وہ خوب ہنسے اور کہا ظفر اللہ اے اہل اور معاملہ ہے" جب بحث کا سلام ختم کر تقسیم کے منصوبے کے تفصیلی حصوں پر رائے زنی شروع ہوئی تو کیٹی کے اجلاس کے دوران میں سی ڈنمارک کے مندوب میرے پاس آئے اور فرمایا واقعات اور تمہار ہے دلائل سے مات ظاہر ہے کہ نسیم کا منصوبہ بالکل غیر منصفانہ ہے اور اس سے عربوں کے حقوق پر نہایت مضراثر پڑے گا بکنڈے نیویا کے تمام ملک کے نمائندوں کی یہی رائے ہے.علم ہوتا ہے تقسیم کی جو یہ ضرور منور ہو جائے گی کیونک امریکہ کی طرف سے ہم پر بہت زور ڈالا جارہا ہے میں تمہیں یہ بتانے آیا ہوںکہ کمیٹی میں عام طور پر یہی اساس ہے کہ ہم امریکہ کے دباؤ کے ماتحت ایک بے انصافی کا فیصلہ کرنے والے ہیں.اس احساس کا تمہیں فائدہ اٹھانا چاہیے.تم نے اپنی تقریروں میں علاوہ تقسیم کی سرے سے مخالفت کرنے کے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ اس کی بعض سجاد نمی ظاہرہ طور پر ر حقوق کو غصب کرنے والی این شادیانہ کاری کی 9 فیصد آبادی رب ہے اسے اسرائیل میں شامل کیاگیا ہے اسی طرح اور بہت سی ایسی خلاف انصاف تجاویز ہیں.اس وقت کمیٹی کی کاروائی بڑی جلدی میں ہو رہی ہے
۵۲۲ اگر تم ان تجاویہ کے متعلق ترامیم پیش کرتے سجاؤ اور مختصر سی تقریر بر ترمیم کی تائید می کرد و تو ہم سنڈے نیویل کے پانچوں ممالک کے نمائندے تمہاری تائید میں رائے دیں گے اور کمیٹی کی موجودہ فضا میں تمہاری تمام ترمیمیں منظور ہو جائیں گی ہوگا کہ اگر ا ا ا ا ا ا رتی کی ترمیم منور بھی کی توبہت سے اور میں عربوں کی اشک شوئی ہوجائے گی مجھے یہ جونہ گئی پسند آئی اور مں نے یہ دیکھنے کیلئے کہ ان کا اندازہ درست ہے یا نہیں ایک معمولی سی تہ میم پیش کی اس پر فورا رائے شماری کسان ترمیم ہوئی اور ترمیم منظور ہوگئی.اس پر السید جمال الحسینی نے ہو فلسطینی رند کے سربراہ تھے اور جن کی نشست عین میرے عقب میں تھی مجھ سے کہا نظر الہی تم نے کیا کیا.میںنے ڈینیش مندوب کی بات انہیں بلائی.انہوں نے حیران ہو کہ دریافت کیاکه اگر تمہاری تمام ترامیم منظور ہوگئیں توتم تقسیم کے حق میں رائے دو گے ؟ ظفراللہ ایں.ہرگز نہیں ہم پھر بھی پسند در مخالفت کریںگے لیکن اتنا تو ہوگاکہ تقسیم کا منصوبہ بہت کمزور ہو جائے گا اور اگر منصوبہ منظور ہوہی گیا تو اتنا برا نہیں ہو گا جتنا اس وقت ہے.استید حمال الحسینی - ہمارے لئے تو سبری مشکل ہوگی.ظفر اللہ خان.آپ عرب ریاستوں کے نمائندوں سے کہدیں کہ دہ بیشک ترمیم کے حق میں رائے نہ دیں.غیر جانبدار رہیں.السید جمال المحسینی - مشکل تو پھر بھی حل نہیں ہوتی.ظفر اللہ خاں.کیا مشکل ہے ؟ استید مال الحسینی مشکل یہ ہے کہ اگر یتیم ہمارے حقوق کو واضع طور پر نہ کرنے والی نہ ہوئی تو یہ ہے لوگ اس کے خلاف جنگ کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گے اور تمہیں سخت نقصان پنچے گا.مہربانی کرو اور کوئی ترمیم پیش نہ کرو.میں خاموش ہو گیا.قواعد کے مطابق کمیٹی میں سر تو بہ کثرت آراء کے ساتھ منظور ہو جاتی ہے.چنانچہ کھٹی تقسیم کامنصور منظور لیکن سمبلی کے اسلام میں براہم معامے کے متعلق بخونید کی منظوری کے لئے ہم آرامی تاید نادم ہوتی ہے.اپ ماری کوشش رہتی کہ قسم کے تم میں دو تہائی کشت پر نہ ہو.اس بل میں بھی سب خاص لمبی ہوگئی.تقریروں کی اند میں کیا امیدی نے ملک کی تقسیم کی تجویز منظور نہیں ہوگی.نمازہ تھا کہ نمبر کے آخری بدھ کے دن رائے شماری ہوجائے گی.بعض مالک کے متعلق ابھی پختہ علم نہیں تھاکہ وہ کس طرف رائے دیں گے.منا لا بی بی کی طرف سے ابھی اظہار رائے نہیں ہوا تھا.میں فاشنگ جانے سے قبل لائبیرین وفد کے سربراہ مسٹرڈ نہیں کو ملنے کیلئے والڈارف اسٹوریا ہوٹل گیا.وہ اسمبلی جانے کو تیار تھے.میں نے ان کی رائے معلوم کرنی چاہی.انہوں نے کہا میری ذاتی ہمدردی تو یروں کے ساتھ ہے اور ابھی تک میری حکومت کی ہدایت بھی کی ہے ک تقسیم کے خلاف رائے دی جائے لیکن امریکہ کا دبا اوم پر |
پڑھ رہا ہے.کوشش کرو کہ آج رائے شماری ضرور ہو جائے.اس صورت میں ہم تقسیم کے خلاف رائے دیں گے.لیکن اگر آج رائے شماری نہ ہوئی تو پر معلوم نہیں کیا صرت ہو.میری موجودگی میں انہوں نے اپنی سیکر یٹری کو کہامیں اب اسمبلی کے اجلاس کے لئے جارہتا ہوں میرے نام کہیں سے بھی کوئی پیغام آئے تو مجھے مت بھیجا جو کچھ بھی ہوگا میں واپس آکر دیکھ لوں گا.مجھ سے کہا آپ نے دیکھ لیائی نے آج کا انتظام تو کرلیاہے.میں نے ان کا تہ دل سے شکریہ دا کیا اورمیں بھی اسمبلی کے اجلاس کے لئے الشنگ ہا گیا.صبح کا اجلاس ختم ہونے کی یہ قیاس محکم ہوگیا کر قیم کی تجونه منظور نہیں ہوں گی.سہ پہر کا اجلاس شروع ہونے سے عین پہلے السید فاضل جمالی وزیر خارجہ عراق زی میری پریشانی کی حالت میں میرے پاس آئے اور فرمایا میں نے سناہے کہ آج کا اجلاس بغیر رائے شماری ملتوی ہو جائے گا.چلو صدر اسمبلی سے چل کر معلوم کریں.امبانی کے صدر برازیل کے سر بانی تھے.ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے.انہوں نے فرمایا کل THANKS GIVING DAY ہے اور سیکہ بیٹری جنرل ٹر گرے لی کہتے ہیں اسمبلی کا اسٹاف آج شام دیمہ تک کام کرنے پر رضامند نہ ہو گا.اسلئے آج سمیر پر کے اجلاس کے بعد اجلاس پر تو صبح تک ملتوی کرنا پڑے گا ہم نے کہا کہ رائے شمار کی آج سر پر کے اعلان کے آخر میں ہو جانی چاہیے.صدر نے فرمایا اس کے لئے وقت نہیں ہو گا.ابھی پانچ تقریر یں باتیں ہیں.پھر مکن ہے لبعض مند و بین رائے شماری سے پہلے پنی رائے کی وضاحت کرنا چاہیں ہم نے کہا اپنے تقریریں کرنے والوں سے دو تو ہم ہیں جو آپ کی خدمت میں حاضر ہیں.آپ ہمارے نام فہرست سے کاٹ دیں باقی صرف تین رہ جائیں گے اور آراء کی وضاحت کے متعلق آپ کا اختیار ہے کہ آپ اسے رائے شماری ہو جانے کے بعد تک ملتوی کر دیں.لیکن وہ آمادہ نہ ہوئے.ہم ان پر کوئی دباؤ نہیں ڈال سکے تھے کیونکہ اگر تقسیم کے حامی انتو پر مصر تھے توصر اگر التواء پر رضامند نہ بھی ہوتے تو کثرت رائے سے التوا ضرور ہو جاتا.لیکن یہ عذر کے سٹاف و نیک کام کرنے پر رضا مند نہ ہو گا ایک عذر لنگ تھا.اس کے بعد آج تک نہ صرف T HANKS GIVING - DAYسے پہلی شام سٹاف نے حسب ضرورت دیر تک کام کرنے پر کوئی عذر نہیں کی بلکہ HAFS٩١٧١٧٤ پر بھی ہمیشہ GIVING DAY اسمبلی کا اجلاس دو بجے بعد دو مہر تک ہوتا رہتا ہے.اس میں شک نہیں کہ صدر سمبلی اور سیکی بیڑی جنرل دو نوں امریکن دباؤ دباؤ کے ماتحت یا ذاتی رجحان سے صیہونیوں کی تائید میں تھے اور جب تقریروں سے یہ ظاہر ہو گیا کہ تقسیم کی تجویز کو دو تہائی کی تائید حاصل نہیں تو وہ دونوں اس منصوبے میں شریک ہو گئے کہ اعلاس جمعہ کی صبح تک ملتوی کیا جائے تاکہ اس وقفہ میں صیہونی صدر ٹرومین کے دباؤ کے ذریعہ تین چار ایسے ممالک کی تائید حاصل کر سکیں جو اب تک تقسیم کے خلاف تھے.سہ پہر کے اجلاس میں میں نے اپنی تفریم می مغربی طاقتوں کو پر زور انتباہ کرتے ہوئے کہا.آپ نے
۵۲۴ اول عالمی جنگ کے دوران میں جود عدے عربوں سے کئے تھے ان کی خلاف ورزی نہ کریں.اگر آپ ایسا کریں گے تو بد عہدی کے مرتکب ہوں گے اور آئندہ عربوں کا اعتماد کلی طور پر آپ سے اٹھ جائے گا، تقریر ختم کرتے ہوئے میں نے کہا :.I ENTREAT You Not BEG YOU,I Implore You.I To Destroy Your CreDIT IN ARAB CountrieS.Tomorrow YOU MAY NEED THEIR FRIENDSHIP But you WILL NEVER GET IT رو لیکن طاقت کا گھمنڈ اندھا اور بہرہ کر دیتا ہے.ہمارے احتجاج اور ہمارے انتباہ اصل البحر اثبات ہو مسٹریو میں ہی شہر میں نائب صدر ہوئے تھے صدر روز ویلٹ ہو تھی بار صدر منتخب ہونے کے بعد انی کو تھی میعاد کی ابتداء ہی میں فوت ہو گئے اور سٹرومین نے انکی جگہ صدارت مجال کی منشاء کے نومبر میں پھر انتخاب ہونے والا تھا.اور اب کی بار سٹرٹر میں صدارت کے امیدوار تھے.صدارتی انتخاب سے ایک ا سال قبل ہی سارے امریکہ میں جبران کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.اور امید وار اور ان کے حمایتی اپنی کامیابی کے لئے ہر ہوئی اور انہونی کر گذرتے ہیں.مسٹر رومی کو یہ خوف بھی کافی تھا کہ انہیں شادمانی پارٹی کی پر خوش باید حاصل نہ ہو اسلئے وہ ابھی سے سر توڑ کوشش میں تھے کہ ن کا پلڑا بقدر بھاری بنایا جاسکے بنایا جائے.اس جدو جہد میں انہیں امریکہ کے یہودی عنصر کی تائید کی شدید ضرورت تھی.نیو یارک میں سعودی عنصر منہایت زبردست ہے اور صدر ٹرومین انہیں خوش کرنے اور خوش رکھنے پر تلے ہوئے تھے.اس دھن میں انہوں نے اس واضع حقیقت کو بھی نظراندان کردیا کہ روس اور ان کے ہم خیال ملک بھی تقسیم کی تائید میں ہیں اور اس موقف سے ان کی واحد عرض یہ ہے کہ تقسیم کی تجویز منظور ہو جائے تاکہ عرب ریاستوں کے ساتھ امریکہ کے تعلقات الجھ جائیں.میں وثوق کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ امریکی رند کے مشیران قانونی نے یہ مشورہ دیا تاکہ تقسیم کی تجوری کین اسمبلی کے اختیارات سے باہر ہے لیکن صدر ٹرومین نے یہ مشورہ بھی رد کردیا.اب اس آخری مرحلے پر صدر ٹر زمین کی سرگرمیوں کا اندازہ واقعات سے کیا جاسکتا ہے.لائبیریا کا موقف لائبیرین وفد کے سربراہ مسٹرڈ نیس کی نہ بانی بیان کیا جا چکا ہے.ٹائٹی کے مندوب نے اپنی تقریر می بڑے جوش سے کہا تقسیم کی تجویز نہایت غیر منصفانہ تجویزہے ہم ہرگز اس پر رضامند نہیں ہو سکتے میری حکومت کی مجھے ہدایت ہے کہ ہم اس کے خلاف رائے دیں.فضلے پانیز کی طرف سے جنرل رو میولو جیسے فصيح البيان طلبیق اللسان مقر نے ہر نقطہ نگاہ سے تقسیم کی تجویز کے پہنچے اڑائے اور پورے وثوق سے اعلان کیا ہم ہرگز اس کی تائید نہیں کرسکتے.جمعہ کے دن رائ شمار ہوئی اور ام کار کرائے لی گئی عین اس سے قبل ہائٹی
۵۲۵ کے مندوب مجھ سے اکریئے.ان کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے رہے تھے.میرے شانے پر ہاتھ رکھا ارتبات نوریک لہجے میں کہا.مسٹر منسٹر پر سوں رات تک تو ہمارا وہی موقف تھا جو میں نے اپنی تقریر میں بیان کیا تھا.اب مجھے یہ ہدایت موصول ہوئی ہے کہ تقسیم کے حق میں رائے و تقسیم کے من میں رائے شماری میں جب پانی کا نام پکارا گیا تو ایک بیدلی سے کہی گئی یہاں سنی گئی.منزل رومی لو نیو یارک سے واپس روانہ ہو چکے تھے.فلپائن کا نام دیا ہے جانے پر جواب ملاثانی اسی طرح لائیر یا کا جواب ہاں تھا.لاطینی امریکہ کی ریاستوں میں سے صرف کی بانہ "پہاڑا رہا.تجویز کے حق میں دو تہائی آیا ہو گئیں.جونیہ منظور ہوگئی.اقوام متحدہ کی بنیاد انصاف ، مساوات اور حق خود اختیاری پر رکھی گئی تھی لیکن فلسطین کے معاملے میں ان تینوں اصولوں کا خون کیا گیا.میثاق اقوام متحدہ میں معاہدات کی پابندی پر زور دیا گیا ہے لیکن فلسطین کے معاملے میں برطانیہ نے جو معاہدات شاہ حسین کے ساتھ کئے تھے ان کی صریح خلاف ورزی کی گئی.یہ درست ہے کہ تقسیم کے متعلق رائے شماری میں برطانیہ غیر جانبدار رہا.لیکن برطانیہ اعلان بالفور کے ذریعے اسرائیل کی بنیاد رکھ سکا تھا ار فلسطین کے قضیے کی ابتدا ء اعلان بالفور سے ہوئی.فلسطین میںجو کچھ ہوا اور جو کچھ آئندہ ہونے والا ہے اور فلسطین کی وجہ سے جس طرح دنیا کا امن یہ باد ہوگا دو نوع انسان کے ایک بڑے طبقے پر جو تباہی اور مصائب وارد ہوں گے ان تمام تر ذمہ داری اول برطانیہ اور سر بالفور ر اوران کے بعد ریاستہائے متحدہ امریکی اور اس طور پر صدر ٹروین فلسطین پر برطانیہ کی نگرانی ختم ہونے کے دوستے دن صیہونیوں کی طرف سے اسرائیل کے قیام کا اعلان ہوگیا.یہ ان ہوتے کہ صدر دین کی حکومت نے اسرائیل کو لیک کرنے اعلان کر دیا.جب مجلس امن میں اسرائیل نے اقوام متحدہ کی رکنیت کی درخواست پیش کی تو اس پر رائے شماری کے وقت برطانیہ غیر جانبدار رہا.جب بر درخواست آملی میں پیش ہوئی تو میثاق اقوام متحدہ کی دفعہ ۲۷ کے فقرہ ۳ کی صریح عبارت کے خلاف با وسو د ایک منتقل کین مجلس امن کی تائید حاصل نہ ہونے کے محلی امن کی سفارش بحق اسرائی کو جام قرار دیکر امی نے اسرائیل کی رکنیت قبول کرلی.اسمبلی میں فلسطین کی تقسیم کی تجوری منظور ہونے کے بعد میں نیویارک سے واپسی کے سفر یہ پروانہ ہوگیا.استید نایس خوری نے جو شام کے وفد کے سربراہ تھےمجھے مشورہ دیا کہ تم رستے میں ورون دمشق ٹھہر جاؤاور یہاں جو کچھ ہوا اس کی تفصیلات شام اور دیگر اراکین اقوام متحدہ کی حکومتوںکے نمائندوں کو بتاتے جاؤ، چنانچہ انہوں نے مشق اطلاع کردی اور میں تین دن دمشق ٹھہر گیا.السید صاحب المعالی شکری القوتلی وہ میں جمہوریہ سوریا نے آزاد عرب حکومتوں کے وزرائے خارجہ کے سیکر یٹریوں کو دمشق طلب فرمالیا ہوا تھا.میں نے ان کی خدمت میں تمام تفاصیل گزارش کر دیں دوران کفتگو مجھ سے سوال کیا کیا کہ فلسطین پر برطانیہ کی نگرانی ختم ہونے پرہم اسرائیل کے قیام کے خلاف جنگ کریں یانہ کریں؟
= ۵۲۶ H میں نے کہا اس محلے میں میری رائے کوئی منی نہیں رکھتی کیونکہ مجھےآپ کی کی طاقت کا کوئی علم نہیں البتہ من است عرض کر دیتا ہوں کہ اس سوال پر غور کرتے ہوئے آپ صاحبان یہ امر در زمین میں رکھیں کہ اسرائیل کے لئے سمندا کھلا ہوگا.امریکہ کے یہودی طبقہ کی طرف سے جو بہت مالا ہے اسرائیل کو ہرقسم کی مد پینے کی توقع ہوسکتی ہے.اور اسرائیل کی جنگی تیاری اور تربیت آپ کے اندازے سے کہیں بڑھ کر ہے.اس قیام کے دوران جامعہ دمشق میں فلسطین او اقوام متحدہ کے موضوع پر میری تقریر ہوئی.قضیہ فلسطین کے مختلف پہلو بعد میں بھی اسمبلی کے نہ یہ غور آتے رہے ہیں اور پاکستان کی طرف سے ہمیشہ عرب موقف کی سو فیصدی تائید کی جاتی نہ ہی ہے.قائد اعظم کی خواہیش کہ میں وزارت کی پہنچنے پر میں اعظم کی دم میں حاضر ہوا اور ن کی سرگرمیوں خارجہ پاکستان کا قلمدان سنبھالوں کی مختصر رپورٹ ان کی خدمت میں زبانی عرض کردی.فرمایا اب تمہارا کیا پروگرام ہے.میں نے عرض کی اب بھوپال جاؤں گا.ذرا تیز لہجے میں فرمایا تم کب ان مخمصوں سے فراغت حاصل کروگے؟ کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہمیں تمہاری یہاں ضرورت ہے.میں نے عرض کی میں اگر کسی خدمت کے قابل ہوں ہے.نے کسی تو حاضر ہوں.پوکھا لا ہو رہ جاؤ گے ؟ عرض کیا لا ہو بہ ہوتا ہوا بھوپال جاؤں گا.فرمایا لیاقت علی خان کی طبیعت علیل ہے وہ لاہور میں ہیں تم وہاں ان سے ملنا.تعمیل ارشاد میں لا ہور نوابزادہ لیاقت علی ناں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.انہوں نے دوران گفتگو میں دریافت فرمایا قائد اعظم نے تمہارے ساتھ کوئی بات چیت کی ہے ؟ میں نے کہا آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کا ارشاد فرمایا تھا.نواب زادہ صاحب ہر صورت یہ ہے کہ ہمیں پکستان میں پریم کوٹ قائم کرنا ہو گا.اس کے قواعد رب کرنے اور جوں اور عملے کے انتخاب اور تقری کے لئے تو کچھ وقت درکار ہوگالیکن چیف جسٹس کا تقر جلد ہونا چاہئے اکہ وہ ان تمام مور پر غور کرنا شروع کیے.ایک تو یہ ہے کہ تم پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا منصب سنجالو اور ان امور کے متعلق غور کر نا شروع کرد - پھر تقسیم نجاب کے تھے میں جو ہل چل مچی ہے اور ابتری پیدا ہوئی ہے مخصوص پناہ گزینوں کی بھرمار اور مختلف صیغہ جا کے افسران در عملے میں جو خلا پیدا ہوا ان سب امور نے مل جل کر اس صوبے میں انتظامی حالت خراب کر دی ہے.متاز دولتانہ سے تو کچھ ہوسکتا ہے وہ کر رہے ہیں لیکن دو ہتے ہیں یہ اکیلے ان کے بس کی بات نہیں.انہوں نے قائداعظم سے کہا ہے کہ میاں کسی بے لاگ اور صاحب عزم چیف منسٹر کی ضرورت ہے اور مشورہ دیا ہے کہ وہ تمہیں یہاں بھیج دیں.تیسرے مرکزہ میں بھی آدمیوں کی ضرورت ہے علاوہ وزارت عظمی کے دفاع اور امور خارجہ کے قلمدان بھی میرے سپرد ہیں یہ بھی ایک شخص کا کام نہیں.تم چاہو ت مر نہ میں آجاؤ.ان سب باتوں پر غور کر کے تم ان منش مجھے تبا دنیا.ظفر اللہ.میں آپ کے ارشاد کے مطابق غور کرنے کے بعد حاضر خدمت ہو کر گذارش کر دوں گا.
نواب زادہ صاحب.لیکن قائد اعظم چاہتے ہیں کہ تم وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالو.ظفر اللہ.تو پھر میرے غور کرنے اور میری منشاء کی کیا گنجائش باقی نہ ہی ؟ نواب زادہ صاحب.میں نے سارا قصہ تم سے کہ دیا ہے.اب تمہارے غور اور منشاء کی بس اتنی گنجائش ہے کہ تم بھو یہاں سے ہو کر جتنی جلدی ہو سکے کراچی پہنچ جاؤ.ظفر اللہ.جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے مجھے خدمت میں کوئی عذر نہیں اور سو خدمت سپرد ہو اس کے لئے ہمیں حاضر ہوں لیکن آخرہ ہنر نائی نی نواب صاحب سے استصواب اور ان کی اجازت حاصل کو نا بھی ضروری ہے.یہ تو ممکن ہے کہ وہ رضامند ہو جائیں.لیکن شاید فوراً اجازت دینے میں وہ وقت محسوس کریں یا انہیں تامل ہو.نواب زادہ صحب قائد اعہ ہے تم کتک کوکی ظفراللہ.نواب صاحب کی خدمت میں حاضر ہوکر گذارش کرنے سے پہلےمیں کوئی پختہ اندازہ نہیں ریکا اتنا ضرور کہ سکتا ہوں کہ نوب صاحبکو قائد اعظم کی خواہش کا بہت احترام ہے اور ان کی خواہش کا علم ہونے پردہ بقدر جلد مکن ہو گا مجھے اجازت مرحمت فرما دیں گے.مجھ پر سب سے گہاں یہ امر ہوتا ہے کہمیری وجہ سے کسی شخص کو پایانی و زمانی ان نواب محمد اله خان صاحب والی ھو پال کو میں نہایت احترام کی نگر سے دیکھتا تھا.وہ بہت خوبیوں کے مالک تھے اور ایک جہان ان کا گردیدہ اور مداح تھا.میرے ساتھ ان کا سلوک ہمیشہ نہایت مشفقانہ رہا.مجھے بھوپال گئے چھ ماہ کا عرصہ ہوا تھا اس میں سے چار ماہ کا عرصہ میں نے پاکستان کی خدمت میں صرف کیا تھا.نواب صاحب نے نہ صرف خندہ پیشانی سے مجھے اجازت دی تھی بلکہ سر سیلو سے میرے آرام اور آسائش کا خیال رکھا تھا.اور اپنے الطاف و اکرام میں فرق نہیں آنے دیا تھا.بھوپال میں مجھے اور میرے اہل خانہ کو ہر سہولت حاصل تھی.مکان ، سانی سواری اور ملازمین کے علاوہ گیا انقدر مشاہرہ تو پاکستان کے وزراء کے مشاہرے سے دس گنے سے بھی زیادہ تھا.نواب صاحب کی خواہش تھی کہ میں نشایہ کے آخر تک ضرور ان کی خدمت میں رہوں.اب ایک طرف قائد اعظم اور نواب زادہ لیاقت علی خان صاحب کا ارث د کہ میں جلد نہ بھوپال سے فارغ ہو کہ کراچی پہنچ جاوں اور دوسری طرف یہ خدشہ کہ اس مرحلہ پر میرے نواب صاحب کی خدمت ترک کرنے سے کہیں انہیں وقت نہ ہو.اسی ادھیڑ بن میں میں بھوپال پہنچا.نواب صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے پر یہ ذکر ناگزیر تھا.میں نے مناسب الفاظ میں جو کچھ نا م اعظم اطمين اور نواب زادہ صاحب سے گفتگو ہوئی تھی عرض کردی.نواب صاحب نے فرمایا سر ظفر اللہ والیان ریاست کے ساتھ ہندوستان میں جو کچھ ہونے والا ہے اس کا اندازہ ہم نے ابھی سے کر دیا ہے.آپ کے یہاں ہونے سے مجھے علی میاں
۵۲۸ تھا.آپ کے مشورے سے محروم ہو جان میرے لئے ضرور پریشان کا موجب ہوگا.لیکن میںاپنی خوشی اور ضرورت پر پاکتان کی ضرورت اور بہبودی کو ترجیح دیتا ہوں اور آ کو قوم کی خدمت سے محروم نہیں کرنا چاہتا اگر آپ ان معظم کے ارٹ کی تعمیل میں کراچی جانا چاہیں تومیں پ کے رستے میں روک نہیں بنا چاہتا.لیکن ابھی کچھ وقت تو آپ یہاں گزاریں گے نا ؟ میں نے عرض کی نواب زادہ صاحب کی زبانی قائد اعظم کا ارت جلد کراچی پہنچنے کا ہے ارشاد علد کچھ افسردہ ہو کر فرمایا.اچھ تو پھر آپ اپنا پروگرام سوچ کر مجھے بتا دینا.دوسرے دن میں نے ذکر کیا کہ میں تیاری کیلئے چنداں وقت درکار نہیں آپ جب اجازت دیدیں ہم روانہ ہوسکتے ہیں.فرمایا سفر کا کیا طریق ہوگا.عرض کیا دلی کا راستہ تو غیر محفوظ ہے.بمبئی تک ریل میں اور دہلی سے بحری جہانہ میں جانے کا خیال ہے.فرمایا میںتو ہر گز اس پر رضامند نہیں ہوسکتا.بیٹی کا سفر بھی خطرے سے خالی نہیں بھی اور اسی والدہ اور دونوں نی ملازمین اور کے ذاتی سامان کے ساتھ میرے بیچ کرنٹ طیارے میں کراچی جائیں حکومت ہنداور حکومت پاکستان سے اجازت لے لی جائے گی کہ طیارے کو سرحد کے قریب اترنا نہ پڑے.کوئی بھاری سامان اگر ہے تو وہ ہم بھٹی سے سمندر کے راستے بھجوا دیں گے.عرض ہر بات میں نواب قصب نے اسی شفقت کا سلوک کیا جس کا میں ہمیشہ مورو رہا تھا.اللہ انہیں جائے بغیر وافر عطاء فرمائے اور اپنی رحمت کے سائے میں ان کا مقام کرے (آمین ) میرا تقر بطور وزیر خارجه پاکستان | هم ۵ سمیر کی سر پر کراچی نے عید است املی کے خاور برگیڈیر غلام احمد صاحب کراچی میں تھے.عزیزہ اور اس کی والدہ توان کے ہاں ٹھہریں اور مجھے سید محمدعلی صاب کے ہاں ۱۸ کٹر یہ دور میں ٹھنے کی جگہ ل گئی.دو دن قائداعظم کا یوم پدال مقصد ان کے اعزاز میں ای استقبالیہ تقریب تھی میں وہاں حاضر ہوگیا لیکن مجھے ابھی کچھ معلوم نہں تھا کہ قائد اعظم نے میرے متعلق کیا فیصلہ کیا ہے البتہ نواب زادہ صاحب نے اتنا فرمایا کہ آج تمہیں حلف لینا ہوگا.قائد اعظم کی آمد پر نواب زادہ صاحب نے مجھے اس نشست پر سیٹھنے کا اشارہ کیا جو ان کے عین بائیں جانب تھی.قائد اعظم نے بٹھتے ہی فرمان ظفر اللہ خان وزیر خارجہ کے منصب کا سلف لیگا.اور میں نے تعمیل ارشاد میں حلف اٹھایا.برما کے نیشن آزادی میں بطور نمائندہ پاکستان شرکت اسی اجلاس میں قائد اعظم نے فرمایا سم معنوردی کو یہما کا مشین آزادی ہے.تمہیں پاکستان کی نمائندگی کے لئے رنگون جانا ہو گا.ظفراللہ جناب عالی میں نے آج کا اخبار میں دیکھا ہے کہ ہندوستان کا ارادہ کشمیر کا معامل محلول من میں پیش کرنے کاہے.مجھے کشمیر کے قضیے کی تفاصیل کا کچھ علم نہیں لازم ہے کہ میں اس سلسلے میں ضروری واقفیت حاصل کر دی.وقت کم ہے اور معلومات حاصل کرنا آسان نہیں کیا آپ یہ پسند فرمائیں گے کہ سروالہ
۵۲۹ نشتر صاحب برما کے جشن آزادی میں پاکستان کی نمائندگی فرمائیں ؟ قائد اعظم یہ تم وزیر خارجہ ہو اور یہ کام تمہارا ہے.رنگون جانے کے لئے میں یکم جنوری کو کراچی سے کتے گیا.رات عزیز اور احمد کے ہاں ٹھہرا.شہید سورنا صاحب ملنے کے لئے تشریف لائے اور اپنی مصالحتی مسائلی کی تفاصیل سے مجھے مطلع فرمایا.دوسے دن میں کتے سے رنگون چلاگیا.رنگوں کے قیام کے دوران میں رنگون کے تجارتی طبقے کے مسلمانوں نے مجھے اپنی مجلس میں طلب فرمایا برما کی قومیت کا جو قانون تجو یہ ہوا تھا اس کے مطابق مسلمان تاجروں کی کثیر تعداد بہ می قومیت حاصل کر سکتی تھی وہ مجھ سے مشورہ چاہتے تھے کہ کیا برمی قومیت حاصل کرنا ان کے لئے مفید ہو گا.میں نے باقابل مشورہ دیا کہ جو صاحب بھی برمی تو میت حاصل کر سکتے ہوںانہیں یہ تمام ضرورکرنا چاہئے اور ریما کو انا ما سمجھ کر وفاداری کے ساتھ مل کی بہودی کو فروغ دینے میں پورا تعاون کرنا چاہیئے.اقوام متحدہ کی مجلس امن میں قضیہ کشمیر ، جنوری کو کراچی واپسی ہوئی آغا ہالی صاحب جوان و توں کی پیروی کے لئے نیو یارک کا سفر وزارت خارجہ میں ڈپٹی سیکر یٹری تھے مجھے کورنگی کریک پر لے اور بتایا کہ ہندوستان نے کشمیر کا معاملہ مجلس ان میں پیش کر دیا ہے اور مجلس امن نے انکی درخواست کی سماعت کے لئے مو ر جنوری مقرہ کی ہے اور کل شام تمہیں کراچی سے روانہ ہونا ہے.انہوں نے ایک انسیناک وقوع کی خبر سنائی.سندھ کا صوبہ تقسیم کے نتیجے میں فرقہ وارانہ فسادات سے محفوظ رہا تھا اور کراچی میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا تھا.صوبہ سرحد سے جو ہندو اور سکھر ہندوستان میں منتقل ہونا چاہتے تھے ان کے متعلق یہ انتظام تھا کہ وہ اپنے اپنے مقامات سے کراچی اس وقت آئیں جب بھٹی جانے والا کوئی بہانہ میسر ہو.جب ایسا موقعہ ہوتا تو افران ضلع کو اطلاع کر دی جاتی اور وہ ان لوگوں کو کراچی بھجوا دیتے.انہیں ہدایت تھی کہ ان لوگوں کو ایسی گاڑی سے بھیں تو راتوں رات سفرکر کے عل الصلح کراچی پہنتی ہو.کراچی پہنچنے پر اسے مسافروں کو شہر کے ٹیشن سے سیدھے بندر گاہ پر پہنچا دیا جاتا اور وہ آسانی سے بہانہ پر سوار ہو جاتے.اس دفعہ سکھوں کا ایک قافلہ غیر کسی اطلاع کے خود بخود دن کے وقت ریل پر سوار ہو کر ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا پنے پیٹیشن سے تانگے کرائے پر لیکر وہ شہر میں ایک گوردوارے کو چلدیے اور رستے میں فرے بھی لگاتے گئے اس سے مسلمانوں میں اشتعال پیدا ہو اور فساد ہوگیا.قائداعظم کو خبر لی تو انہیں سخت رنج ہوا.انہوں نے فورا سکندر مرزا صاحب سیکریڑی وزارت دفاع کوطلب فرمایا اور ارشاد فرمایا ک الان وقت تک مجھے رپورٹ آئی چاہیے کہ شہر مں بالکل امن ہو چکا ہے.اگریں نہ ہو تو مجھے کسی اور کوسیکر یٹری دفاع مقریر کرنا پڑے گا.سکندر مرزا صاحب نے بعد میں مجھے بلایا کہ یہ کم سے ہی انہوں نے واپس آکر کراچی کے کمانڈر بیان کرناں
۵۳۰ کو بلا کر وہی الفاظ ان سے کہے جو قائد اعظم نے ان سے کیسے تھے لیکن اس فرق کے ساتھ کہ ایک انہوں نے ان کی رپورٹ دینے کا وقت اس وقت سے ایک گھنٹہ قبل تقریر کیا جو نام اعظم نے ان کی رپورٹ کے لئے مقر ر کا تھا دوست یہ ہدایت دی کہ اگر گولی چلانا پڑے تو ہرگوئی کے مقابلے میں بلوائیوں کی ایک لغش انہیں دیکھائی جائے.جنرال اکر خاں چلے گئے اور مقررہ وقت سے آدھ گھنٹہ قبل آکر رپورٹ دی کہ شہر میں پورا امن ہے.سکندر مرزا -:- گولی چلانا پیری ؟ جنرل اکبر خال : بیشک سکندر مرزا :- کتنی گولیاں چلائیں ؟ سبزلی اکبر خان : بارہ اور یہ ہیں ان کے خالی کار توس سکندر مرزا -:- اور نعشیں ؟ جنرل اکبر خان - - ابھی موقعہ پر پڑی ہیں چلئے دیکھ لیجیئے.شمال : وہ جنرل اکبر خان کے ساتھ گئے جنہوں نے مختلف مقامات پر گیارہ نعشیں دکھلائیں.سکندر مرزا : ایک نعش اور چاہئیے ؟ جنرل اکبر خاں آئیے وہ بھی دیکھ لیجیئے جنرل اکبر خان انہیں اسپتال لے گئے اور ایک زخمی ہسپتال میں دکھایا اور کہا یہ خوش قسمتی سے زندہ بچ گیا ہے.اس کے بعد آج تک کراچی میں فرقہ وارانہ فادات کی کوئی واردات نہیں ہوئی.میں سات کی شام کو کراچی پہنچا تھا م کا دن سفر کی تیاری کے سلسلے میں بھاگ دوڑ میں گذرا.میرا سامان کچھ ۱۸ وکٹوریہ روڈ میں میرے ساتھ تھا.یہ نکہ بھان دونوں مہمانوں کی کثرت سے سرائے بنا ہوا تھا.کچھ سامان بگیرید غلام احمد صاحب کی رہائش گاہ فقر می لاج میں تھا.وزارت خارجہ کا دفتران دنوں کلنٹن میں موٹا ٹا پلیس میں تھا.نیو یارک کے اس سفر میں میرے رفقاء چودھری محمد علی صاحب سیکریٹری جنرل ، سید محمد وسیم صاحب ایڈوکیٹ جنرل ، کرنل مجید ملک صاحب اور ایک دو عملے کے اصحاب تھے.متعلقہ کا غذات بھی بکھرے ہوئے تھے.ذاتی سامان کے علاوہ جو کاغذات اور دفتری سامان وغیرہ ہیں ساتھ لے جانا تھا اس کے لئے بکس تک میسر نہ تھے.چنانچہ جلدی میں کا غذات اور سامان کا اکثر حصہ بوریوں میں باندھ لیا گیا اور یہ قافلہ ۸ رکی رات کو نیو یارک روانہ ہو گیا.کیس کی تیاری کے لئے ابھی کوئی وقت نہیں ملا تھا.کشمیر کے قصبے کی تفاصیل کا مجھے کئی علم نہیں تھا.اس موقعہ پر بھی میں ویسے ہی کو را تھا جیسے حد بندی کے کیس کے وقت اللہ تعالی اسے تو فیق علمی اور اس کے دم پر ہی بھروسہ تھا.البتہ اس دفعہ مجھے چودھری محمد علی صاحب کا تعاون اور ان کی رفاقت حاصل تھی |
۵۳۱ اور یہ امر میرے لئے بہت اطمینان کا موجب تھا.چودھری صاحب کی لیاقت تا برادر علمی تجر سے پورا پاکستان واقف ہے میاں ان کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں.اتنا ضرور کہناہے کہ کشمیر کے عالم میں انہوں نے کال تو جہ اور تندی کے ساتھ دن رات ایک کر کے نہ صرف میرے ساتھ تعاون کی ملکہ ہر چھوٹے بڑے متعلق ری متعلق بنی ، نیم سرکاری اور سرکاری امرمیں میرا بوجھ لیا گیا.خود تکلیف برداشت کی اور مجھے آرام پنچایا ہر قدم پر میں نے ان کے مشورے اور ندیہ کو مصائب اور مفید پایا.کراچی سے ہم رات کے وقت میں امریکن نہا سے روانہ ہوئے اندازہ تھاکہ درجنوری کو ہم لفضل لله نیو یارک پہنچ جائیں گے لیکن اور کی شام کو لندن پہنچنے پر ہمیں بتایاگیا کہ طیارے کے ایک انجن میں کوئی نقص پیدا ہو گیا ہے اس لئے لندن میں چند گھنٹے رکھا ہو گا.دوسری صبح اندازہ ہو سکے گا کہ کب روانگی ہوگی.دوسری صبح دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ سر پر یا شام کو روانگی ہوگی.ہم نے اس تاخیر سے یہ فائدہ اٹھایا کہ پاکستان تانی کمشن میں بیٹھ کہ ان دستاویزات کے تحریری جواب کی تیاری شروع کر دی جو حکومت ہندوستان نے مجلس امن میں اپنی در خو اس کے ہمراہ ملیش کی تھیں.چودھری محمد علی صاحب کی مدد سے کچھ نوٹ بھی مرتب کئے اور پھر ان کی موجودگی اور نگرانی میں پاکستان کی طرف سے تحریری بیان بھی تیار کر دیا.اتنے میں شام ہوگئی اور مطار سے بلاوا آ گیا.لندن سے روانہ ہوکر جب گینڈر پہنچے تو دریای به فانی طوفان جاری تھا.رات مطار پر گذاری لیکن سونے کی جگہ میر گئی الحمد للہ لندن میں مضمون اما کرایا گیا تھا سے ہمارے سٹینو گرا نے راتوں رات ٹائپ کر لیا.انہیں اس کام کے لئے رات کا اکثر حصہ جاگنا پڑا فجزاہ اللہ ان کی کوٹھڑی اور میری کوٹھڑی کے در میان صرف ایک لکڑی کی دیوار تھی.ٹائپ کی مشین کی آواز نے مجھے بھی کچھ زیادہ سونے نہیں دیا.وا کی صبح کو گینڈے سے روانہ ہوکر سہ پہر کو ہم نیویارک پہنچے.یہاں بھی بہت برف باری ہو چکی تھی.لیکن ہمارے پہنچنے تک برف پگھلنا شروع ہو چکی تھی.مرزا ابوالحسن اصفہانی صاحب سیفر پاکستان متعینہ واشنگٹن اور لاری شفیع صاحب قنصل پاکستان متعین نیو یارک مطار پرموجودہ تھے.ہمیں پریشانی بھی کہ مار سے ہی سیدھے مجلس امن کے اجلاس میں شمولیت کے لئے ایک کسیکسی بجانا ہو گا.علاوہ تھکان اور شب بیداری کے ہماری دستاد بنیات بھی ابھی تیارہ نہیں تھیں اور اصل مسئلے کے متعلق غور اور تیاری کا تو بھی کوئی موقع میسرنہ آیا تھا لیکن طیارے سے اترتے ہی غیر صاحب نے فرمایا کریہ کہ جب تمہارے سفر می ہر مقام سے تاخیر کی اطلاع آنا شروع ہوئی تو ہم نے اندانہ کر لیا ہ تم ہر وقت نہیں پہنچ سکو گے.چنانچہ ہم نے ملبس امن کے صدر کی خدمت میں گذارش کی کہ اندریں حالات اعلاس ملتوی کیا جائے.انہوں نے ہماری درخواست پر اجلاس پندرہ جنوری تک ملتوی کر دیا ہے.ہمارے لئے یہ جبرایک خوش کن مردہ تھی.ہم مطار سے بجائے ایک سیکس جانے کے سیدھے بارکلے ہوٹل گئے اور آرام کا سانس لیا اور اللہ
سلام السلام الله تعالی کا شکر ادا کیا.ستانی تیرہ اور چودہ جنوری تیاری میں صرف ہوئے، اتنا وقت تو میر نہیں تھا کہ تفصیل تیاری ہوسکتی.ایک تو ندونی دستا و نیات کا جواب جس کا مسودہ لندن میں زرد در نویس کو لکھوایا گیا تھا صاف کیا گیا اور دور کے قضیہ کشمی کے متعلق نوٹ تیار کئے گئے جن کی بنا پر مجلس امن میں اس مسئلے کی حقیقت واضح طور پر بیان کی جاسکے.چونکہ مجلس امن میں یہ قضیہ سہندوستان کی طرف سے پیش کیا گیا تھا اس لئے مجلس میں پہلے ہندوستان کے نمائندہ کو تقریر کرنی تھی.پاکستان کی طرف سے جوابی تقریر کی تیاری توہندوستان کے نمائندہ کی تقرینے کے بعد ہی کی جاسکتی تھی.البتہ اس کے لئے ضروری موا جمع کرنا اور اس ترتیب دینے کا کام پہلے بھی ہوسکتاتھا.اگر چہ قاعدے کے لحاظ سے اس قصے میں ہندوستان کی حیثیت مستغیث کی تھی.لیکن در حقیقت مستغیث پاکستان تھا اور مند دوستان عزیزم مستغیث کی حیثیت سے جو کچھ ہم کہا چاہے تھے اس کا ڈھانچہ تیارہ کرنے کا بھی یہی وقت تھا.غرض یہ دو دن بہت مصروفیت میں گذرے.ہندوستانی وفد کے سربراہ سرگو پالا سوامی آئیگر تھے جو بر سوں ریاست کشمیر کے وزیر اعظم رہ چکے تھے اور ان دنوں بھارت کی مرکزی حکومت میں وہ یہ تھے.ان کے معاون سرگز باشنکہ یا بھائی اور سٹرایم ایل سی تلوار تھے.ان دنوں ممیلیس امن کے اراکین اربائی تنظیم، کینیڈا چین، کولمبیا، فرانس ،شام، روس، برطانیہ، ریاستہائے متحدہ امریکی اور پوستر تھے.ان میں سے چین، فرانس ، روس، برطانیہ اور ریاستہائے متحدہ امریکہ تومستقل اراکین تھے اور باقی چھ میعادی این ہندوستان کی طرف سے سرگوپال سوام! آئنگر نے ۱۵ر جنوری کو سہ پہر کے اجلاس میں تقریر کی.خلاصہ اس کا یہ تھا.مہارا ہو کشیر نے ریاست جموں و کشمیر کا الحاق ہندوستان کے ساتھ پر مضاد رغبت کیا ہے.اس کے خلاف پاکستان کی انگیخت پر اور اس کی مدد کے ساتھ قبائیلیوں نے ریاست پر دھادا کر کے بہت تن و اور خون خرابہ کیا ہے.قبائلیوں کی روک تھام کے لئے ہندوستان کواپنی فوج بھیجنی پڑی.موجودہ صورت جنگ کا رنگ اختیار کرگئی ہے پاکستان قبائلیوں کی ہر طرح سے مدد کر رہاہے بہت سے پاکستانی فوجی اور انہ بھی قبائلیوں کے ساتھ ہیں.پاکستان کا یہ رویہ بین الاقومی قانون کے خلاف ہے.پاکستان کو اس سے روکنا لازم ہے.پاکستان قبائلیوں کی مدون کرے اور انہیں واپس جانے پر آمادہ کرے الحاق کے متعلق ہندوستان کا موقف یہ ہے کہ جہاں فرمانہ رائے ریاست ایک مذہب کا ہوا اور رعایا کی کثرت درست ہے مذہب کی ہو وہاں فرمانروا کا فرض ہے کہ وہ الحاق کا فیصلہ رعایا کی کثرت رائے کے مطابق کرے.ہندوستان اس اصول پر پختہ طریق سے کاربند ہے.چنانچہ جب ریاست کشمیر میں ان قائم ہوجائے گا تو کشمیر کی رعایا کے منشاء کے مطابق الحاق کے معاملے میں آخری فیصلہ کریں گے.ان کی تقریر کے بعد اجلاس دو دن کے لئے ملتوی ہو گیا.دوار ہے اجلاس میں میں نے جوابی تقریر میں کہا ہندوستان کے نمائندے نے اپنی تقریر میں عمداً اس قبیٹے کی مجید کیوں کو پس پر دوار رہنے دیا ہے اور صرف پاکستان کے خلاف الزامی پہلو پر زور دیا ہے.ہماری طرف سے اس اہم اور پیچیدہ قضیے
۵۳۳ ے پس پردہ حالات کو ظاہر کرنا اور ہندوستان کو مجرم کی حیثیت میں دکھانا ضروری ہے.اسلئے لاز ما بہت سے امور کی وضاحت ناگزیر ہے جن کا بیان ہندوستان کی طرف سے اسلئے نہیں کیا گیا کہ وہ ان کے خلاف جائے ہیں.ان تمام واقعات کا مختصر بیان بھی وقت چاہتا تھا اور مجلس امن کے ایک اجلاس میں تقریر کے لئے مرن سوا دو گھنٹے میں آتے تھے اسلئے میری تقریر تمین اجلاسوں میں مکمل ہوئی.چند سالوں کے بعد کولمبیا کے نمائندے نے ایک دفعہ مجھ سے کہا.کشمیر کے معاملے میں ہندوستانی مائندے کی پہلی تقریر یتنے کے بعد محلیس اس کے اراکین کی کر کیا یہ تارہ تھاکہ پاکستان نے آزادی حاصل کرتے ہی فرد کا رستہ اختیار کر لی ہے اور دنیا کے ان کے لئے ایک خطرے کی صورت پیدا کر دی ہے.لیکن جب جواب میں تمہاری طرف سے اصل حقیقت کے رخ سے پردہ ہٹایا گیا تو ہم سب نے سمجھ لیا کہ ہندوستان مکاری ور عیاری سے کام کر رہا ہے اورکشمیر کی رعایا یہ ظلم ہورہاہے اور ہمارا یہ تاثر بعدمیں کسی وقت بھی زائل نہیں ہوا..دو تین دن بعد میری تقریر کا جواب مٹر ستی واڈ نے دیا.اپنی تقریر کے شروع میں انہوں نے میرے متعلق کچھ درشت کلامی بھی کی.مسٹر سیلواڈ بڑے قابل وکیل میں انہوں نےاپنی قابلیت کا ہر حربہ استعمال کیالیکن ایک مردہ کیس میں جان ڈالنا ان کے بس کی بات نہ تھی.یمن ہے مجلس کے بعض اراکین نے کچھ اثر قبول کیا ہر کیونکہ ہمارے ہند میں سے سفر اصفہانی صاحب کچھ مشوش نظرآتے تھے مبادا کوئی رکن سرسیلواڈ کے فریب میں آجائے.مسٹر سیلواڈ نے ہندوستان کے دامن کو پاک اور بے داغ ثابت کرنے کے لئے میاں تک کہ دیا کہ مہارا یہ کشمیر کی الحاق کی درخواست قبول کرتے ہوئے ہم نے خودان پر واضح کر دیا ہے کہ یہ الحاق عارضی ہے اور تقل جب ہو گا جب کشمیر کی رعایا کی کثرت آزادانہ طور پر اس کی تائید می اظہار رائے کردیگی.اس سے بڑھ کر الضفاف پسندی کا ثبوت ہم کیا دے سکتے ہیں ؟ وہ بہت سی کھوکھلی اور بے بنیاد باتیں تھی کہ گئے.میرا اثر یہ تا کہ انہوں نے ہمارے لئے موقعہ پیدا کر دیا ہے کہ ہم اراکین مجلس پر ثابت کر دیں کہ ہندوستان کا دعوی کچھ ہے اور عمل بالکل اس کے خلاف ہے.میرا یہ بھی تاثر تھا اوراب تک ہے کہ سر سیلواڈ نے اپنی طرف سے کوئی بات فریب یا بد دیانتی سے نہیں کی تھی.البتہ بہت سے واقعات کا انہیں علم نہیں تھا اور میری طرف سے ان واقعات کے پیش کئے جانے پر انہیں یقین نہیں آتا تھا کہ یہ دافعات صحیح ہو سکتے ہیں.تیسرے اجلاس میں بعض اراکین مجلس امن اور بہت سے حاضرین کو خیال تھاکہ میں مرسیلواڈ کی دشت کلامی کے خلاف احتجاج کروں گا اور سوا یا ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں کا تھوڑا بہت ثبوت سیلواڈ صاحب کی خدمت میں پیش کر دیگا.لیکن میں انکی درشت کلامی پر قطعا کیا افروختہ نہیں تھا بلکہ مجھے اس خیال سے
۵۳۴ ردستان چھ اطمینان تھاکہ اراکین مجلس نے اندازہ کر لیا ہوگا کہ گریٹر سیلواو کو درشت کلامی پر اترنا پڑا ہے تویہ ان کے موقف کی کمزوری کا ثبوت ہے.چنانچہ اس ضمن میں میں نے اپنی جوابی تقریر میں صرف آنا سی کہا.جناب صدر و اراکین مجلس کھیلے اجلاس میں میرے فاصل دوست مسٹر سیلواڈ نے اپنی تقریر میں مرے متعلق کچھ دوست الفاظ استعمال کئے تھے ان کے متعلق مجھے یہ کہا ہے کہ میں سٹر سیلواڈ کو عرصہ سے جانتا ہوں جب میں ہندوستان کی فیڈرل کورٹ کا اج تھاتو مجھے بارہا ان کے دلائل سننے کا اتفاق ہوا.میری رائے میں سرست الواد ہندوستا کے قابل ترین وکیل ہیں اور درشت کلامی ان کا شعار نہیں.اس موقعہ پران کے موقف کی کمزوری کو جانتے ہوئے میں انکی مشکلات کا اندازہ کر سکتا ہوں.مسٹر سیلواڈ کی درشت کلامی ایک استثنائی صورت تھی جو قابل اعتنا نہیں.اس کے بعد میں نے انکی تقریر کی طرف توجہ دلائی ان کے دلائل اور واقعات پر سلسل اور فضل اللہ موثر تنقید کی.اس کے بعد کئی بارمسئلہ کشمیر بحث ہوئی ہے لیکن میری موجودگی میں نہ تو کبھی پاکستان کی طرف سے نہ ہی سند دوستان کی طرف سے کبھی درشت کلامی کی گئی ہے ، اقوام متحدہ میں یہ بات مثل بن گئی کہ با دود شد یا اختلاف کے دونوں فریق کے نمائندے ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے اور واقعات اور دلائل کو مضبوطی سے پیش کرنے کے ساتھ یہ التزام رہا تھا کہ کلام میں ے جاتلی نہ ہو.مسٹر کرشنا مین لیکن افسوس ہے کہ جب مٹر کرشنا مین نے ہندوستان کے نمائندے کے طور پر کشمیر کے مسئلے کی بحث میں حصہ لینا شروع کیا توان کی طرف سے یہ معیار قائم نہ رہا لیکن وہ بھی اتنی احتیاط کرتے تھے که میری موجودگی میں کوئی بے جا فقط استعمال نہیں کرتے تھے.جن دنوں میں پہلی بار بین الاقوامی عدالت کا رکن تھا تو مجلس ان میں پاکستان کی طرف سے یہ تو یہ سرائی گئی کر کمر کش کی تجاویہ کی قبر کے متعلق فریقین کے درمیان جو اختلاف ہے اس کے لئے بین الاقوامی عدالت سے استصواب کیا جائے اور کمشن کی تجاویہ کی تو تعبر عدالت کرے دونوں فراق اسے قبول کریں اور اس کے مطابق عمل کریں.مرکرشنا مین نے ہندوستان کی طرف سے اس تجویز کو رد کرنے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی کہ وہ نذر ہی دیوانہ خاکسار) عدالت کا رکن ہے اور اگر چہ وہ اس معاطے ہیں اجلاس میں شرکت نہیں کہے گا لیکن اس کا رکن ہونا ہی ہمارے لئے بے اطمینانی کا موجب ہو گا.بعد میں جب میں " اقوام متحدہ میں پاکستان کا مستقل نمائندہ تھا تو میں نے پھر اس تجونیہ کا اعادہ کیا اور کہا کہ اب تودہ مذہبی دیوانہ بین الاقوامی عدالت کارکن بھی نہیں اب اس تجویز کو مان لینے میں کیا عذر ہے ؟ اس پر مسٹر کی شنا مین نے اپنی نشست پر بیٹے بیٹے مڑ کر اپنے ایک سیکر ٹڑی سے دریافت کیا گیا میں نے سے مذہبی دیوانہ کہا تھا ؟ سیکریٹری نے اثبات میں سر ہلایا.
۵۳۵ مجلس ان کے ایک اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے مٹر کو نامینی نے فرمایا میرے وزیر اعظم نے ش کے متعلق کبھی رائے شماری (PLEBISCITE) کا لفظ استعمال نہیں کیا.میں نے جواب میں پنڈت ہر جی کے بیانات سے دس مثالیں پیش کیں جن میں پنڈت جی نے کشمیری ( PLE DIS CITE ) کے ذریعے رائے عام معلوم کرنے کا اعلان کا ہوا تھا اور کہا کہ او بھی بہت سی مثالیں ہیں لیکن جومثالیں میں نے بیان کی ہیں وہ اراکین مجلس بلکہ خود ہندوستان کے محترم نمائندے کے اطمینان کے لئے کافی ہوں گی کہ ہندوستان کے قابل احترام وزیر اعظم نے تنازعہ کشمیر کے تعلق یہ لفظ بڑی کثرت سے استعمال فرمایا ہے.جب سرکرشنا مین کی باری آئی تو انہوں نے اس امر کے متعلق صرف آنا فرمایا میں اس اس کا اعادہ کرتا ہوں کہ میرے وزیر اعظم نے کمر کے قضیے کے سلسلے میں کبھی لفظ P LEDICITE استعمال نہیں کیا.ایسی ڈھٹائی کا کیا علاج ؟ سر گو پالا سوامی آئینگی اس کے خلاف سرگوپال سوامی آئینگر اگر چہ اپنی ہٹ کے پکے تھے لیکن واقعات میں ایجاد اور تصرف نہیں کرتے تھے.میں اپنی پہلی تقریر میں کشمیر مں ڈوگرہ مظالم کی داستان کے سلسلہ میں بیان کیا کہ ۱۹۳۴ م تک ریاست کشمیر میںکسی شخص کا اپنی گائے ذبح کرنا نہ صر روم تھا کہ اسقدر سنگین تریم کہ اس کی سزا عمر قید تھی میراء میں اس تعزیہ میں تخفیف ہوئی لیکن اب بھی اس جرم کی سزا غالباً سات سال قید با مشقت ہے.اجلاس کے اختتام پر جب ہم کمرے سے باہر نکلے تو سرکو پالا سوامی نے اپنا بازو میرے با ز میں ڈال لیا اور فرمایا ان تفاصیل میں جانے کی کیا ضرورت تھی ؟ میں نے کہا ضرورت کا فیصل تو مجھ پر رہنے دیئے لیکن آپ تو ایک عرصہ شیر کے وزیرا عظم ہے ہی آپ ہی فرمائیں کہ وقت کشی میگا کسی کی کیا سنا ہے ؟ انہوں نے فرمی بھائی واقعہ تو یہی ہے کہ ابھی اس جرم کی سزا سات سال نہیں بلکہ دس سال قید بامشقت ہے.لیکن تم یہ تبادت ملک کی قیم پر پاکستان کیوں منتقل ہوگئے.تمارا وطن تو تقسیم کے بعد مشرقی پنجاب میں ہے.اگر تم ہندوستان میں رہتے تو ہندوستان کی سپریم کورٹ کے پہلے چیف جسٹس ہوتے.میں نے کہامیں جانتا ہوں لیکن یہ بھی جاتاہوں کہ نام کو تو میں چیف جسٹس ہوتا لیکن عملی میں نظر بندی میں ہوتا.کہنے لگے یہ تمہا را درہم ہے.جانبین کی دو دو تقریریں سنے کے بعد مجلس امن نے بیٹے کیا کہ ماہ جنوری کے صدر مجلس پر دفعیہ لگن توف اور ماہ فروری کے صدر مجلس جنرل میکنائن فریقین کے نمائندوں کے ساتھ گفتگو کے بعد تصفیہ کی کوئی علی تجوید مجلس میں پیش کریں.مجلس امن کی صدارت ہر ماہ بدلتی ہے.جنوری کی صدارت بلجیم کی تھی فروردی کی کنیڈا کی.چنانچہ فروری کے شروع میں تبادلہ خیالات کے سلسلہ کی ابتداء ہوئی.صدر صاحبان فریقین سے علیحدہ علیحدہ بات چیت کرتے تھے.فریقین کی تقریروں سے اراکین مجلس نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھاکہ اگر یہ یہ مسئلہ نہایت اہم ہے لیکن اس کا سلجھانا چنداں مشکل نہ ہو گا کیونکہ فریقین اس بنیادی بات پر متفق ہیں کہ ریاست کے الحاق کا فیصلہ
۵۳۶ ریاست کی رعایا کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے.مجلس امن پر صرف یہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ رعایا کی مرضی معلم.کرنے کا مناسب طریق تجویز کردے اور اس پر فریقین کا اتفاق ہو جائے.اس صورت میں جنگ بندی آسان ہو جائے گ اور قبائلیوں اور رضاکاروں کو ریاست سے اس جانے پر آمادہ کیا جائے گا.نیزجب آزادکشم عنہ کو اطمیان ہو جائے گا کہ انہیں پورا حق خود اختیاری حاصل ہو گیا ہے تو وہ بھی لڑنا بند کردیں گے مجلس امن میں بحث کے دوران میں اور بعد میں صدر صاحبان کے ساتھ گفتگو کے دوران میں جو وقت فارغ ہوتا اس میں چودھری محمد علی صاحب اور میں باری باری تمام اراکین مجلس سے علیحدہ علیحدہ مل کراپنا موقف پر معاملے میں واضح کردیتے تھے اور وشکل انہیں نظر آتی اس کا حمل تباد یتے تھے.اس غرض سے ہمیں کم سے کم تین چار بار پر ایک رکن مجلس سے ملنے کا موقعہ ہوا.روس کا موقف اس وقت غیر جانبدارانہ معلوم ہوتا تھا.اگر چہ روسی نمائندے پوری دلچسپی لیتے تھے لیکن وہ کی رائے کا اظہار نہیں کرتے تھے.ان دنوں اقوام متحدہ میں برطانوی مائندہ تو سایز بندر کی دگن تھے لیکن اس قضیے کی اہمیت کے پیش نظر برطانیہ کے وزیرامور کامن ویلتھ راٹ اسرئیل سٹر فلپ فویل پیکر خود لندن سے برطانیہ کی نمائندگی کے لئے آئے ہوئے تھے.امریکی نمائندہ سینیٹر وارن آسٹن تھے.یہ دونوں اصحاب پوری توجہ اور انہماک سے کوشاں تھے کہ مجلس امن کوئی ایک حل تجویز کرے جس کے نتیجہ میں جلد اس قضیے کا پرامن تصفیہ کن ہو جائے.ہم جانتے تھے کہ سلامتی کونسل کے صدر صاحبان ہمارے ساتھا اور ہندوستانی وفد کے ساتھ گفتگو کے علاوہ اراکین مجلس امن کے ساتھ بھی متواتر مشورہ کر رہے ہیں.اراکین مجلس کے ساتھ جو بات چیت ہوتی تھی اس سے کچھ ترشح ہو تا رہا تار کر مجلس کا رحجان کی طرف ہے اور یہ بھی پتہ چل جاتا تاکہ ہندوستانی و دو کس بات پر زور دے رہا ہے.ر مجلس نے باہمی مشورے کے بعد ای قرار داد ا ا ا ا ا ا ا ا ا م م م کی طرف سے یہ قرارداد مجلس میں پیش کی گی اور اس پر اظہار رائے ہونے لگا.اس قرار داد کے دے جو کچھ ہم چاہتے تھے وہ سب تعمیر نہیں آتاتھا لیکن اصولاً ہمارا موقف تسلیم ہو جاتا تھا.اسلئے لبعض تفاصیل کی وضاحت چاہنے اور بعض پر تنقید کرنے کے ساتھ ہم نے اسے بول کرنے پر آمادگی ظہر کی لیکن ہندوستانی وفد نے قرارداد کی مخالفت کی اور اس کی مرکزی تجویز کو قبول کرنے سے انکار کر دیا.وہ تجویز یہ تھی ک رائے شماری کو آزاد در غیر جانبدار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ریاست کی حکومت کی تشکیل بھی غیر جانبداری کے اصول پر ہو میٹر نوئل بیک قرار داد کی بڑے زور سے حمایت کر رہے تھے اور اس کوشش میں بھی تھے کہ ہندوستانی وفد کو اوران کی وساطت سے پنڈت جواہر لال صاحب کو قرارداد کو قبول کر لینے پر آمادہ کر لیں لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے.ایک ملاقات میں امریکہ کے نمائندہ سینیٹر وارن آسٹن نے بتا یا کہ ہندستانی وند اس بات پر زور دے رہا ہے کہ مجلس امن صرف قبائلیوں اور رضا کاروں کو ریاست سے واپس کرانے اور آزاد کشمیر کے لوگوں کے لڑائی سے ہاتھ روکنے کا انتظام کر دے.باقی سب کچھ ان پر چھوڑ دیا جائے وہ سب انتظام
۵۳۷ کر لیں گے سینیٹ نے کہا ہم نے ان پر واضح کر دیا ہے کہ مجلس امن اس قضیے میں اپنے فرائض کو اس زنگ میں نہیں یکھتی مجلس ان کا فرض ہے کہ وہ اس تمام قیے کی تہ کو پہنے اور معلوم ہے کہ آزاد کشمیرکے لوگوں کو ہتھیاربند ہونے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہ واضیہ ہے کہ جب انہوں نے حتی خود اختیاری کو زائل ہوتے دیکھا تو وہ ہتھیارہ بعد ہونے پر مجبور ہو گئے، اب لڑائی بند کرنے کا ایک ہی طریق ہے کہ ان لوگوں کا اطمینان کر دیا جائے کہ جس معنی کے حاصل کرنے کے لئے انہوں نے لڑائی شروع کی تھی وہ حق ب انہیں بغیر لڑائی کے حاصل ہو جائے گا.اس کے بغیر جنگ سندی کا اور کوئی طریق نہیں.آنرز تبادلہ خیالات کا سلسلہ ختم ہونے پر مجوزہ قرار داد کے متعلق رائے شماری کا وقت آیا.اس وقت تک تنے اراکین مجلس نے قرار داد کے متعلق اظہار خیال کیا تھا سب نے قرار داد کی تائید کی تھی اور ہی اندازہ تھا کہ قرارداد اگر بالاتفاق نہیں تو گیارہ میں سے روس آراء کی تائید کے ساتھ منظور ہو جائے گی.روس کے متعلق خیال کیا جاتا تھا کہ شاند غیر جانبدار رہے.عین اس مرحلے پر سر و پال سوامی ائنگر نے بولنے کی اجازت چاہی.اجازت ملنے پر انہوں نے فرمایا میں اپنی حکومت کی طرف سے ہدایت موصول ہوئ ہے کہ ہم مزید ہدایت کے لئے دلی واپس جائیں اس لئے ہم فیت کی اجازت چاہے ہیں اور درخواست کرتے ہیں کہ تاری واپسی کا اجلاس منوی کی بات این مجلسی اس درخواست پر حیران بھی ہوئے اور آزردہ بھی.یہ تو سب نے سمجھ لیاکہ ہندوستان کی نیت بخیر نہیں.اکثر نے تو اناسی کہنے پر اکتفا کیا کہ کشمیر میں جنگ جاری ہے اور جانیں تلف ہو رہی ہیں ضروری ہے کہ اس صورت حالات کا جلد کچھ عادا کیا جائے اور اس امید کا اظہار کیا کہ ہندوستانی دوند بہت جلد واپس آجائے گا تا کہ مجلس اپنی کاروائی کو بغیر غر ضروری توقف کے باری رکھ سکے.لیکن بعض اراکین نے اپنی آزردگی کا اظہار بھی کیا.مثلاً کولمبیا کے مندوب نے کہا.صاحب صدر آپ کو اور اراکین مجلس کو یاد ہو گا کہ بھی چند دن ہوئے ہندوستان کے فاضل نمائندے نے شکوے کے طور پر کہا تھا کہ کشمیر تقل رہا ہے اور مجلس امن ستارہ بیجار ہی ہے.کیا میں ہندوستان کے فاضل نمائندے سے دریافت کرنے کی قرات کر سکتا ہوں کہ ا کیا کشمیر کو جلانے والی آگ ٹھنڈی ہو گئی ہے ؟ اور اگر نہیں تو اب کون ستار سجا رہا ہے ؟ سر گوپال سوامی آئینیر نے اس قسم کی تنقید سے زچ ہو کر کہا مجھےیہ دیکھ کر ہری ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کے ایک معز رکن کی ایک جانم و خواست پراس قسم کے تکلیف دہ خیالات کا اظہار کیا جارہا ہے.مجلس کے اراکین کے ان احات کے باوجود مجلس کے لئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں تھا کہ اجلاس ملتوی کیا جائے.التواء کی مدت کچھ طول پکڑنے لگی تو چودھری محمدعلی صاب نے مجھے کہ ہمارا ہندوستانی وفد کے انتظار میں نیویارک بیٹھے رہنا بے معنی ہے لیکن اگر ہم پاکستان لوٹ جائیں تو اس کا یہ نتیجہ ہو گا کہ اما منتقل ہو جائے گا اور ممکن ہے قضیہ کشمیر کے متعلق مجلس کے اراکین کی دلچسپی بھی ٹھنڈی پڑ جائے.میر اندازہ ہے کہ اس وقت کشمیر کا مسئلہ
مرسم الله دتی اور لندن کے درمیان زیر بحث ہے.میری تجویز ہے کہ ہم لندن چلی اور وہاں کچھ کھوج لگائیں کہ پس پردہ کیا پخت و پزہ ہو رہی ہے چنانچہ ہم دونوں لندن پہنچے اور وزیر خارجہ سٹر ارنسٹ ہیون اور وزیر اعظم مسٹرائیکی سے ملاقات کی درخواست کی وزیر خارجہ نے گیارہ بجے قبل دوپہر کا وقت دیا اور فیر اعظم نے اسی دن تین بجے بعد دو پر کا.وزیر خارجہ بہت صاف گوا ن تھے اور میرے دل میں ان کا بہت احترام متقلد انہوں نے میری بات تو یہ سے بنی معلوم ہوتا تھا کہ وہ صورت حالات سے واقف ہیں چنانچہ انہوں نے فرمایا مجھے تمہارے ساتھ ہمدردی بھی ہے اور الفان ھی لیکن کے وزیراغی بھی لیکن ہندوستان کے معاملات میں وزیر اعظم پر کریس کا بڑا اثر ہے وہ اس معالم میں وزیر اعظم کے پیچھے مڑا ہوا ہے.ان کے الفاظ تھے : HE HAS BEEN AT HIM" میں نے سنا ہے تم آج وزیر اعظم سے مل رہے ہو.میں اتناہی کہ سکتا ہوں کہ خدا کرے تمہاری قسمت نیک ہو.دوپہر کے کھانے پر میں نے یہ کیفیت چودھری صاحب کی خدمت میں بیان کردی.ہم دونوں کا ہی اندازہ ہو کر اور حالات بگڑ گئی ہے.میں تین بجے وزیراعظم کی خدمت میں حاضر ہوا.وہ صورت ہی سے پشیمان نظر آتے تھے.میں یوں تو انہیں میں سال پہلے سے جانتا تھا.جب وہ سائمن کمشن کے رکن تھے لیکن ہمارے درمیان کسی وقت بھی گہرے مراسم نہیں تھے.مجھے یہ بھی یاد تھا کہ انہوں نے آزادی ہند کے قانون کا مسودہ پارلیمنٹ میں پیش کرتے وقت قائد اعظم کے متعلق اپنی تقریر میں شکوہ کیا تھاکہ انہوں نے مار ڈومونٹ بیٹن کو ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں اور نہ منزل بنانے کی تجویز منظور نہ کی لارڈ ماؤنٹ بیٹن جو وزیراعظم کے منظور نظر تھے اب ہندوستان کے گورنر جنرل تھے.اور کرسٹینفورڈ کر پیس ہندوستان کی حمایت میں تھے.دوسری طرف دان و نوی حکومت بر طانیہ میں پاکستان کا مایتی کوئی نہ تا مقابلہ بالکل غیر توازن تھا میں نے قریب پون گھنٹڈ ان کی خدمت میں صرف کیا.اس عرصے میں انہوں نے ایک بار بھی مجھ سے نظر ملا کر بات نہ کی کبھی ادھر جھانکتے کبھی ادھر ہی کتنے فکریہ کرو.ہندوستانی وفد جلد نیو یارک پہنچ جائے گا.میں اس کوشش میں تھا کہ انہیں آمادہ کروں کہ ہندوستان کے ساتھ اپنا رسوخ استعمال کر کے انہیں ایفائے عہدہ پر مائل کریں.اور اس میلا کا ثبوت مجلس امن کے سامنے پیش شده قرار داد کوتسلیم کرنے سے مہیا کریں اور وہ اس طرف آنے کا نام نہ لیتے تھے.کہنے لگے تمہیں اس قرار داد پر کیوں اصرار ہے اصل غرض اور طریق سے بھی حاصل ہوسکتی ہے.مشداً گر یوں کر دیا جائے بالوں کردیا جائے یا یوں کر دیا جائے میں نکی ہرایک یوں پر تنقید کرتا گیالیکن وہ راہ پہ آئے میں بے نیل مرام لوٹ آیا اور اپنے رفیق کار سے کیفیت بیان کردی اور نواب زادہ صاحب کی خدمت میں بھی روٹ بھیج دی.چودھری محمدعلی صاحب اور میں نیویارک واپس ہوئے.کچھ دن بعد سند دوستانی وند کی واپسی پر مالی امن کے اعلاس پھر شروع ہوئے.لیکن اب سماں ملا ہوا تھا جیسے میں ذکر کر چکا ہوں دوست اس مرحلے پر غیر ماند ا کہ یہ کامن ویلی کا آپس کا معاملہ ہے ہم اس مں دخل نہیں دیتے.امریکہ اور برطانیہ پیش پیش تھے.مجلس کے
۵۳۹ تیار کی بیٹی اپنی اپنی رائے رکھے تھے لیکن ان دونوں کی رنے کا اترام کرتے تھے.امریکہ بہت حدتک کامن ویلتھ کا معاملہ ہونے کی وجہ سے برطانیہ کے مشورے پر چلتا تھا.برطانیہ کے نمائندے سارا پاویل بیکری فریقین کی باہمی مفات سے کسی موثر طریق فیصلہ کے لئے کوشاں تھے لیکن وزیر اعظم برطانیہ اب ان کے مشورے پر عمل پیراہونے پر تیار نہ تھے.لالر ڈمونٹ بیٹن اور سٹینفورڈ ریس کا شاپنا کام کر چکا تھا.ہمارے وفد کے سیکر یٹری مسٹر ایوب کوم کرین نے بتایا کہ وزیر اعظم اٹلی اور سر فویل ہیکہ کے امین اختلاف استاد بڑھ چکا ہے کہ ٹریکر مستعفی ہونے کی سوچ رہے ہیں اس امر کی تصدیق شدہ میں خود سراویل بیکر نے کی.وہ اس وقت وزارت سے علیحدہ ہوچکے تھے.میرے ان کے سسہ سے دوستانہ مراسم تھے.بارہ میں اقوام متحدہ کی اسمبلی کا اجلاس پیرس میں ہو رہا تھا.مسٹر نوئیل ہیکہ کا گذر پیرس سے ہواتو وہ مجھے ملنے تشریف لائے.باتوں باتوں میں کشمیر کا ذکر چھڑ گیا.فرمایا میرے لئے یہ امر نہایت تکلیف دہ ہے کہ اس قضیے کے خاطر خواہ تصفیہ کی صورت پیدا ہوئی مگر بات بنتے بنتے بگڑ گئی فرمایا شام میں نیو یارک میں میں نے بڑی کوشش سے سرگوپال سوامی آئیگا اور با چپانی کو آمدہ کرلیا تھا ک ده پارت ہر کو قرارداد منظور کرنے پر رضامند کریں.انہوں نے میرے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ پوری کوشش کریں گے.چنانچہ ہفتہ کے روز دونوں الگ الگ مجھے منے کے لئے آے اور کہا ابھی اخته اطلاع نہیں آئی لیکن ہمارے پیغام کا ردعمل نوشگوار معلوم ہوتا ہے.امید ہے دو ایک دن تک واضح ہدایت آجائے گی اور بابا اندازہ ہے کہ سوموار یا منگل و ا یک ہم آپ کو پختہ اطلاع دے سکیں گے.THEN ON MONDAY I RECEIVED THAT Disastrous UPSETTING TELEGRAM FROM ATLEE EVERYTHING اور پھر سوموار کے دن مجھے اٹلی کا وہ منحوس تارہ وصول ہوا جس نے سارے عالم کو بگاڑ کے رکھ دیا) میں نے سخت احتجاج کیا لیکن ایلی نے میری ایک نہ مانی ملکہ اس بات سے میرے خلاف دل میں گرہ باندھ لی.تھوڑے عرصے بعد مجھے امن و میتھ کی ذات سے علیدہ کر کے بھی اور ان کا وزیر بنا دیا اور کچھ عرص لعدوانہ سے ہی الگ کر دیا.آخر کار جب مجلس امن میں چینی نمائندے نے تو مارچ کے مہنے میں مجلس کے صدر تھے ایک نئی قرارداد کا مسودہ پیش کیا تو ہمارے سب خدشات صحیح ثابت ہوئے.یہ قرار داد ان تجاویز کے مطابق تھی جس کا ذکر وزیراعظم مسٹر ائیلی نے میرے ساتھ لندن میں کیا تھا.پہلی قرار داد کے مقالے میں یہ قرار داد بہت کمزور تھی.حقیقت یہ تھی کر جیب مٹر نوئیل باکس گوپال سوامی آئیگا اورسرگرم ماشنکر یا سچائی کے ذریعے پنڈت جواہر لال نہر کو سلی مجوز قرار داد منظور کر لینے کی طرف مائل کرنے کی کوشش میں تھے تو پنڈت صاحب لارڈ مونٹ بیٹن اور سہ سٹیفور ڈگر پس کے
۵۴ معلوم ہو گی ذریعہ وزیر اعظم اٹلی پر زور ڈال رہے تھے کہ پہلی مجوزہ قرار داد کے ان حصوں کو ترک کیا جائے جو ہندوستان کے مفاد کے خلاف ہیں.وزیر اعظم اٹیلی ہو شروع ہی سے تحریک پاکستان کے حق میں نہ تھے اور جو قائد اعظم سے بھی بغض رکھتے تھے نہایت آسانی سے ادھر مائل ہو گئے اور اپی پہلی ہدایات کے خلاف اور اپنے رفیق کار وزیر امور کا من ولیتھ کے مشورے کے خلاف پہلا موقف بدل لیا جس کے تھے میں نہ رن پہلی مجوزہ قرار داد کی بجائے ایک نسبتا گرور قرار دا و مجلس ان میں پیش کی گئی کہ مجلس امن کی ساری فضاسی بدل گئی.اس طرح پنڈت جواہر لال نہرو صاحب کو ہوگیا کہ محلی امن کی مساعی کو ریشہ دوانی اور حکمت عملی سے بے اللہ بنایا جاسکتا ہے.جس طرح فلسطین کا قضیہ صدر ٹرومین کی بیود نوانہ پالیسی کے نتیجے میں مشرق وسطی کے لئے خصوصا اور اسلامی دنیا کے لئے عموماً ان گنت مشکلات اور مصائب کا موجب بنا ہوا ہے اسی طرح کشمیر کے قضیہ کی ذمہ داری جس کے نتیجہ میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنگ تک نوبت پہنچی اور جو تا حال براعظم پاک وہند کے لئے خصوصا اور سارے مشرق کے ے عموماً بہت سے خطرات کا بیچی اپنے اندر کئے ہوئے ہے مونٹ بیٹین اور بعض اور شخصیتوں کے علاوہ ان تنظیم اٹیلی کے سر ہے انسانی تاریخ میں ان دو پستہ قد اور بظاہر بے اثر شخصیتوں (ٹر د مین اور ایلی ) کا شمار ان اشخاص میں ہو گا سین کی انصاف کشی نے امن عالم کو تباہ کر دیا.جب نئی قرار داد مجلس امن میں پیش ہوئی تو چودھری محمد علی صاحب نے اور میں نے پھر دن رات الد کین مجلس امن کے ساتھ گفتگو کا سلسلہ شروع کیا اور اس کوشش میں لگ گئے کہ جہاں تک ہوسکے نئی قرار داد کو مضبوط کیا جائے.چینی صدر صاحب کے ساتھ متواتر مشورے ہوئے.بعض معمولی سی ترامیم اور وضاحتیں انہوں نے تسلیم بھی کیں لیکن قرار داد کا ڈھانچہ ہی رہا جو ز یر اعظ ایلی تو یہ کہ انکے تھے آخری قرار داد پر مل میں کولین مندوب کی صدارت میں منظور ہوئی.اسی قرار داد میں یہ تو نی نی کرمانی اراکین کا ایک کمشن مقر کیا جائے تو اعظم پاکستان و ہند جا کہ قرار داد کی مختلف تجاویہ کو فریقین کے مشورے اور انکی رضامندی کے ساتھ عملی جامہ پہنائے اور کشمیر کے باشندگان کی آندا دانہ رائے شماری کا اہتمام کرے.کولمین صدر صاحب کی بخونید سپر کمشن کے اراکین کی تعداد تین سے بڑھا کہ پانچ کردی گئی.طے پایا کہ اس مشن میں دو رکن مجلس امن نامرد کرے اور وہ دونوں ایک تیرا رد کن نامزد کریں ان کے علاوہ ایک رکن پاکستان اور ایک سند دستان نامرد کیے.مجلس امن نے بلجیم اور کولمبیا و نامزد کیا اور ان دونوں نے ریاستہائے متحدہ امریکہ کو نامزد کیا پاکستان نے ارجنٹائن کو ہندوستان نے چیکوسلواکیہ کو نامزدکیا کمیشن کا اصطلاحی نام :- VNITED NATIONS (UNCIP) COMMISSION ON INDIA AND PAKISTAN
المه رار پایا کیوں کہ شیر کےعلاوہ جونا گڑھ کا فی العین اور اور بھی جو پاکستان کی طرف سے پیش کئے گئے تھے اس کمشن کے سپرد تھے لیکن عرف عام میں اس کمشن کا نام کشمیر کمشن کی مشہور ہوا.قرار داد کے منظور ہونے تک ہندوستان کا یہی موقف تھا کہ مجلس امن لڑائی بند کرانے کا انتظام کردے باقی سب امور وہ خود سے کر لیں گے.جب انہوں نے دیکھا کہ مجلس امن اصل نزاع کا فیصلہ اپنی نگرانی میں کرانے پر مصر سے تو انہوں نے اپنی فوجی سرگرمیوں کو تیز کرنے کا تہیہ کر لیا.جب حکومت ہند کے اس عزم کی بھنک ہمارے کانوں میں پڑی توسم ابھی نیو یارک ہی میں تھے چنانچہ چودھری صاحب نے اور میں نے اس اقدام کے متعلق مشورہ کیا اور میری یہ پختہ رائے ہوئی کہ ہمیں ہندوستان کے اقدام کی روک تھام کے لیئے ن و مامان پر بھی دینی چاہیےاور میںنے اردہ کیا کہیں این اے کی طلا و وزیر اعظم لیاقت علی خاں کی نذت من بھیج دوں.چودھری صاحب کو اگر بچہ حالات کے لحاظ سے یہ خدشہ تو محسوس ہوتا تھا کہ ہندوستان جنگی فیصلے کی کوشش کرے گا.لیکن انہیں آیا مشورہ تار کے ذریعہ بھیجنے میں تامل تھا ان کے خیال میں CYPHER کے ذریعے سے پیغام بھیجا محفوظ طریق نہ تھا.انہیں اندیشہ تھا کہ بات ظاہر ہو جائے گی اور ہم مجلس امن کے رو برید یا الزام ہوں گے.انہوں نے جونیہ کی کہ وزیراعظم کی قدر میں پیغام ایک خاص قاصد کے ہاتھ بھیجا جائے میں نے کہا مر حلہ بہت نازک ہے اور مکن ہے تا غیر خطرے کا موجب ہو.بات نکل جانے میں کوئی ہرت نہیں.مجلس امن اپنا وقار بہت مایک کھو چکی ہے.اگر انہیں پنڈت جواہر لال نہرو کو کچھ کہنے کی ہمت ہیں تو ہمیں کیا کہ لیں گے.اگر ہم مجلس امن کے خوف سے فاضل سمجھے رہے تو جو نقصان بھی پہنچے گا اس کا انزال بعد می نہیں ہور سکے گا.ممکن ہے چودھری صاحب مجھ سے متفق نہ ہوئے ہوں لیکن انہوں نے نا چار رضامندی کا اظہار کر دیا ناچار میں نے اس مضمون کا تار وزیر اعظم کی خدمت کاروبار میں نہیں ہوگا لینا ندوستان کی فوجی تیاری کے پیش نظر لازم ہے کہ ہم اپنی باقاعدہ فوج محاذ پر بھی دیں وزیر اعظم صاحب نے میرا تا ملنے پرکمانڈر انچیف سرڈگلس گریسی کو ہدایت دی کہ وہ کشمیر کے محاذ کے متعلق موجودہ حالت کی روٹے پیش کریں.چنانچہ انہوں نے رپورٹ پیش کی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ہندوستانی افواج بڑی متعدی سے اور بڑے پیمانے پر آگے بڑھنے کی تیاری کر رہی ہیں.اس صورت میں آزاد کشمیر کے فوجی دستے ان کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے اور نہ صرف آنها در شیر کے علاقے بلکہ خود پاکستان کے بعض علاقے خطرے میں پڑ جائیں گے اور ممکن ہے منگلا کے مقام پر ہنر کے ہیڈ ورکس بھی ہمارے ہاتھ سے نکل جائیں.ان کی بھی یہی رائے تھی کہ اس خدشے کے دفاع کے لئے میں اپنی فوج محاذپر بھیج دینی چاہیے.وزیر اعظم صاحب نے جو وزیر دفاع بھی تھے اس رپورٹ کے نتیجے میں پاکستانی فوج کے محاذ پر بجھے جانے کے احکام صادر فرمائیے.چنانچہ اپریل کے آخری ہفتے اور مٹی کے
۵۴۲ ثبوت 19 ہلے ہفتے میں پاکستانی افواج نے جنگی کشمش میں لینا شروع کردیا پاکستانی افواج کا ان پر بھیجا جانا کوئی خفیہ اقدام نہ تھانہ ہی ایسا اقدام منفیہ رہ سکتا تھا.چند ماہ بعد پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنی تقریروں میں کہنا شروع کیا کہ پاکستان کا وزیر خارجہ مجلس امن کے سامنے تو کہتا رہا کہ سماری با قاعدہ فوج تنگ میں شامل نہیں لیکن ہمیں شروع می شکار میں ثبوت مل گیا کہ پاکستانی فوج جنگ میں حصہ لے رہی ہے اس طرح پاکستان کا وزیر خاریہ مجلس امن کے سامنے صریح غلط بیانی کا مرکب ہوا.لیکن جب ہم نے کشن کے آنے پرکشن کے رو برو انجمن کنکشن پرکشن کے رو میر کرایا تو اچار پاکستان کوتسلیم کرنا پڑا کہ ان کی باقاعدہ اور نماز جنگ پر معروف پیکارہے.مجلس با فوج امن میں میرا یہ بیان جنوری اور ضروری شالہ میں ہوا تھا اور ہماری با قاعدہ فوج کا محاذ پر بھیجا جانا آخر اپریل یا شروع مئی ماہ میں عمل میں آیا اس لئے وہ بیان بالکل درست تھا.اقوام متحدہ کی کشمیر کمشن کے اراکین سیلی بار جنیوا سے ، جولائی شادی کو کراچی آئے پہلے دن وہ مجھ سے درسبھی ملاقات کے لئے میرے ہاں تشریف لائے میں نے اپنے ملاقات کے کمرے میں محاذ کے نقشہ بات اکوا دیے تھے.بچائے اور رسمی گفتگو سے فارغ ونے کے بعدمیں نے انہیں بتایا کہ میں امن کی کاروائی ختم ہونے کےبعد ہندوستانی فوجی تیاریوں کے پیش نظر پاکستان افواج کے کمانڈر انچیف کے مشورے کے مطابق نہیں دفاع کے لئے ان فوج کو محاذ پر بھی نا اہم ہوگیا اور شروع مٹی سے تجاری با قاعدہ فوج کے دستے محاز پر برسر پیکار ہیں.نقشوں کی مدد سے میں نے سب تفصیل اکشن پر واضح کر دی.اس سے قبل کمشن کو اس امر کی اطلاع کسی اور ذریعے سے نہیں پہنی تھی اور دی تو اسی مشن کا جانا ہی نہیں ہوا تھا.لہنا پنڈت نہرو کا یہ کہنا بھی درست نہیں کہ جب ان کی طرف سے پاکستان افواج کے محاذ پر ہونے کا یوتکشن کے دور پر پیش کردیا گیا توپاکستان کو کشن کے روبہ اس امر کو سلیم کرنے کے سوا چارہ نہ دیا کمشن و اس اقدام کی طلا م ن و ی ت ا ا ا ا ا ا ن نے پہلی ملاقات میں کردی تھی.اقوام متحدہ کی کشمیر کمیشن کے اراکین کمشن کے سپرد جو کام کیاگیا تھا وہ نہایت ہی اہم اور بہت زوراکی کا تھا لیکن نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ متعلقہ حکومتوں نے اس کام کی اہمیت کو مناسب وقعت نہ دی اور اپنے نمائندوں کے انتخاب میں نہایت سہل انگاری سے کام لیا کشن کے اراکین بلاشبہ شرفاء تھے لیکن سیاسی سوجھ بوجھ ہمت اور حوصلے کے لحاظ سے اس در تخت تک نہیں پہنچتے تھے جوان کے فرائض کی کما حقہ ادائیگی کے لئے ضروری تھا.ان میں سے صرف ایک رکن ان غربیوں کے مناسب حد تک حامل ثابت ہوئے ہو ان کے فرائض کی کامیاب ادائیگی کے لئے لازم تھیں.وہ چیکوسلواکیہ کے نمائندے ڈاکٹر جوزف کو بیل تھے.جنہوں نے کمشن سے علیحدگی کے بعد کمشن کی سرگرمیوں کے متعلق ایک کتاب ANGER IN KASHMIR " شائع کی اس کتاب کا نیا ایڈ مشین کے شروع میں شائع ہوا ہے.بلیجیم کے پہلے نمائندے ایک عمر رسیدہ BARRON تھے جنہیں صرف کھانے پینے اور 1
۵۴۳ سونے سے سرو کار تھا.اگر کسی وقت کمشن کے کام کیطرف توجہ فرماتے تو یہ دیکھنے کے لئے ایکشن کا کوئی اندام نڈت جواہر لال نہرو کی طبع نازک پہ گراں تونہیں ہوگا.ریاستہائے متحدہ امریکہ کےنمائندے کچھ تو جہ زمانے تھے لیکن ان کی شرافت ان کی ہمت پر غالب بھی کولمبیا کے نمائندے ڈاکٹر کو سب سے دوسر درج پر تھے اور ا ہوں نے این زندگی کا کچھ شوت دیالیکن ان کے لئے بڑی مشکل تھی کہ انگریزی زبان کی واقفیت بہت محدود تھی.ارجنٹائن کے نمائندے پرلے درجے کے شریف اور اس درجہ باستیا تھے کہ ان کے لئے بات کرنا دو بھر تھا.کمشن نے جس حدتک اپنے فرائض کو سر انجام دیا اس میں ساٹھ فیصدی ڈاکٹر کو ریل کا حصہ تھا منیش منصوری امریکی نمائندے کا اور بنی فیصدی کو مبین نمائندے کا.ڈاکٹر کور تیل لاء کے شروع میں کمشن سے علیدہ ہو گئے.ان کی علیحدگی کے بعد کمشن نیم مردہ ہو گئی اور تھوڑے عرصے بعد اس نے دم توڑ دیا.ڈاکٹر جوزف کور تیل رکن کشمیر کمشن | ڈاکٹر وزن کو سیل کشن پر فقری کے وقت چکوسلواکیہ کے سفیر تعین بگاڑ تھے.چیکوسلواکیہ کوہندوستان نے کشن کاری نامزد کیا تھا ان کی رکنیت کے دوران میں چیکوسلو کی تراکیت کے زیر اثر آناشروع ہوگیا.اپنے وطن کے رجحان سے خائف ہو کر انہوں نے شام کے شروع میں ہی یہ انتظام کیا کہ ان کے بیوی بچے لندن چلے جائیں.کمشن سے متعفی ہونے پر وہ خود بھی لندن چلے گئے اور وہاں سے بیوی بچوں کیت امر یک لے گئے.وہاں ڈینور یونورسٹی کے شعور سوشل سائیں فونڈیشن میں پروفیسر ہو گئے اور اب چندسالوں سے فونڈیشن کے ڈائرکٹر اور یو نورسی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ ہیں.میرے تو مرام ان کے ساتھ کشن کے سلے میں قائم ہوئے تھے وہ ان کے کمشن سے مستعفی ہونےکے بعد بھی قائم رہے اور تیرے مضبوط ہوتے گئے حتی کہ ان مرام نے گرا دوستانہ رنگ اختیار کرلیا.مجھےکئی باران کے توسل سے ڈینو یونیورسٹی میں تقریر کےلئے اور دیگر قادر کے لے میں جانے کا اتفاق ہوا ہے اور ہر موقعہ پر ان کی طرف سے بڑھی تواضع اور شفقت کا سلوک ہوا.منجزاہ اللہ.ایک موقعہ پر میں ڈینور میں انکے ہاں گیا ہوا تھا ان کے بیوی بچوں کے ساتھ تھے مکلی موت کی تھی.میں نے باؤل باتوں میں ان کے صاحبزادے کسے کہ جب تمہارے ابا کی میں سے ہیں تجھ سے لے تو یہ مجھے کھو شہ کی نظر سے دیکھتے تھے اور واقعات پر بھی جب تک پورے طور پر اپنا اطمینان نہ کر لیتے تھے میری بات کا انہیں اعتبار نہیں ہوتا تھا.اس وقت ڈاکٹر کور بل بھی موجود تھے اور یہ بات در اصل میں نے انہیں سنانے کے لئے کسی بھی.وہ نہایت سنجیدہ مزاج میں میری بات پر کرائے اور کہانہیں یہ بات نہں کمیشن کے سب اراکین تم سے کچھ خالف تقض درستے لیکن یہ ساس ہماری قابلیت کی وجہسے تھا.میں تمہارے تعلق کوئ کے اعتماد برگہ نہیں تھی.ہاں شروع شروع میں ہم سب کو یہ اس اس ضرور تھا کہ مسٹرمحمدعلی اور تم دونوں پنڈت جواہر لال نہرو کی کسی بات کو محض ان کے کہنے پر قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے تھے اور انکی ہر بات کا تختہ یہ میں ہونا اور واضح الفاظ میں ہونا ضروری سمجھتے تھے.
اس پر تمہارے اصرار سے نہیں تعجب بھی ہوتا تھا اور بعض رفعہ نہیں دقت بھی محسوس ہوتی تھی.ہمارے لئے یہ سمجھنا مشکل تھا کہ ایک بلند مرتبت شہرہ آفاق ہستی جس کی عالمی شہرت ایسی نیک تھی اس کے زبانی قول یا د عدے کو قبول کرنے میں تم دونوں کو استقدر تامل کیوں ہے.لیکن یہ کیفیت دی یک نام نہ رہی.جیسے جیسے تارا واسطہ پنڈت نہرو سے پڑتا رہا ہمارے تجربے سے تمہارے موقف کی صحت کی تصدیق ہوتی رہی.اگر یہ امرآج تمہارے لئے کسی اطمینان کا باعث ہو سکتا ہے تو مجھے یہ ہے میں کوئی باک نہیںکہ جب میں کشن سے علیحدہ ہوا اس وقت تک ہم سب کی متفقہ رائے ہو چکی عالی ALL YOUR SUspicions of PANDIT NEHRU WERE MORE THAN FULLY JUSTIFIED ޕ نڈت نہرو کے متعلق تمہارے شکوک بالکل حق بجانب تھے ) کمشن کے اراکین کے متعلق میری رائے صحیح ہو یا غلط لکین اس میں شک نہیں کرشن نے کراچی اور دلی کے درمیان آنے جانے میں کوئی مستی نہ دکھائی اور در این اراکین سارا وقت محنت سے کام کرتے رہے.آخر مشن نے ان پہلی قرارداد ۱۳ اگست کو تیار کریں.حکومت ہند نے اسے قبول کر لیا کیونکہ یہ قرارداد بہت حد تک ان کے موقف کی مرید تھی لیکن پاکستان کی حکومت نے اسے قبول نہ کیا جس کی بہت سی وجوہ تھیں سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ قرارداد جنگ بندی اور فوجی انخلا تک محدود تھی اور اس میں ائے عامہ کے استواب کے متعلق کوئی متجاوزی شامل نہیں تھیں.اس پر مشن نے اپنی سرگرمی جاری رکھی اور آخر دسمبر میں ایک دوسری قرار داد اور نیم کے تیار کی اور دونوں حکومتوں کو پیش کی.اس سال اسمبلی کا اجلاس پیرس میں چور تا این بی پسر اما و اگایا اور میں قرارداد تیار مولی وسمہ اللہ کے آخری ہفتے میں دونوں حکومتوں نے دونوں قرار دادوں کو قبول کر لیا.اس پرمیشن نے دونوں کو دعوت دی کہ جب اصل نزاع کے طارق فضلہ پر اتفاق ہوگیا ہے تواب جنگ جاری رکھنا ہے وحدہ نفوس اورامال ا ضیاع ہے چنانچہ مشن کی تحریک پریکم جنوری کوجگ بیوگی دیکشن کی دوسری قرار داد اگر چه آخری پیمبر ی قبول ہوئی تھی لیکن اس کی تاریخ ہم جنوری ای قرار پائی.اس کے بعد مش موقعہ پرانین کی فتنوں کے درمیانی حدفاصل قائم کرنے میں بھی کامیاب ہو گئی.اب تیرہ اگست کی قرارداد کے مطابق سرویس ایگریمنٹ (TRUEE AGREEMENT) یعنی فوجی انخلاء کے معاہدے کے ترتیب دینے کا مرحلہ درپیش تھیا کمشن نے کراچی میں اس کے متعلق کچھ تبادلہ خیالات کیا اورپھر تی پینچ کر ٹرین کے فوجی نمائندوں کو طلب کیا کہ وہ ۱۳ اگست کی قرار داد کے مطابق فوجی انخلاء کا منصوبہ تیار کر کے ساتھ لائیں.تاریخ مقرہ پر جب طرفین کے نمائندے کشن کے روبرو پیش ہوئے تو پاکستانی نمائندوں نے تو حسب ہدایت کمشن اپنا منصوبہ کمشن کی خدمت یں پیش کردیا لیکن ہندوستانی نمائندوں نے کہاکہ انکا منصوبہ تیار ہے لیکن بھی کمانڈر انچیف اور وزیراعظم سے ملا اخطہ نہیں کر پائے.۱۹۴۹
۵۴۵ اسلئے کچھ مہلت درکار ہے.آخر مفتہ عشرہ کی تاثیر کے بعد ان کی طرف سے منصور گیا مگر بدین شرط کہ کمشن تو اسے ملاحظہ کرے لیکن پاکستان بلکہ مجلس امن کو بھی اس کی اطلاع نہ ہو.چنانچہ آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ہندوستان نے کیا منصوبہ پیش کیا تھا.فوجی انخلاء کے متعلق قرار داد یہ تھی کہ قبائیلیوں اور یہ فنا گڑوں کے ریاست کی مدد سے اخراج کے بعد انی این نام کا نام اور ہندوستانی فو کا کثیر حصہ (Buy) ریاست سے نکل جائے.جنگ بندی کے بعد قبائی اور رضا کار جو ریاست کے باہر سے لڑائی میں شامل ہوئے تھے ریاست سے چلے گئے دو کمشن کو قرارداد کے اس حصے کی تعمیل کے متعلق اطمینان ہوگیا اب سوال پیدا ہو کہ کشمیری تو ہندوستانی فوجیں داخل ہوئی تھی ان کا کثیر حصر(4) کیا قرار دیا جائے.اسبات پرمیشن اور ہندوستانی نمائندوںکا اتفاق نہ ہو سکا.چنانچہ کشن نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ہندوستان کے عیش کرد منصوبے پر تو اپنی رپورٹ میں حج کرنے کے مجاز نہیں کیونکہ ہندوستان کی طرف سے ہم ہ یہ شرط عاید کردی گئ ہے کہ منصوبے کی تفصیل کا اظہار نہ کریں لیکن صوبے پر غور کرنے کے بعدہم اس نیچے پر پنے ہیں کہ میت اور کیفت دونوں لحاظ سے ہندوستان کا پیش کردہ منصوبہ قرارداد کے ساتھ موافقت نہیں رکھتا کمشن کے الفاظ حسب ذیل تھے :.“ NEITHER QUANTITATIVEly, Nor, QualITATIVELY DOES THE Plan ComPLY WITH THE TERMS OF THE RESOLUTION" وار اس مرحلے پرکمشن نے یہ بھی کہہ دیا کہ جنگ بندی ہو کہ حد فاصل مقرر ہوگئی ہے.ہماری رائے میں اب مزید کا روائی کی نگرانی کے لئے کمشن کی بجائے ایک فرد واحد زیادہ موزوں ہو گا.سرا ون ڈکسن کا تقرر بطور نمائندہ اقوام متحدہ مجلس من نے کمشن کی یہ سفارش منظور کرتے ہوئے آسٹریا کی عدالت عالیہ کے حج سرا ون ڈکسن کو تو بعد میں آسٹریلیا کے چیف جسٹس بھی ہوئے کشمیر کے قضیہ میں اقوام متحدہ کا نمائندہ مقرر کیا.انہیں ہدایت کی گئی کہ وہ رائے عامہ کے استصواب کی شرائط طے کرنے کے بعد استصواب کا انظرم کریں یا فریقین کی رضامندی سے اس قضیہ کے طے کرنے کا کوئی اور طلقی اختیار کریں.سرارون ڈکسن نہایت قابل اور پختہ کار شخص تھے.وہ کراچی تشریف لائے اور پھر ولی بھی گئے.معلوم ہوتاہے وہ جلد اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ ہندوستان کے وزیر اعظم کوئی ایسی شرائط تسلیم کرنے پر بھی رضامند نہیں ہوں گے جن کے تحت آزاد در بے لاگ استصواب رائے کیا جا سکے.اس نتیجے پرپہنچنے کے بعد انہوں نے اس قضیہ کو سلجھانے کیلئے کسی اور مناسب اور موثر طریق پر غور کرنا شروع کیکہ ایک بجریان کے ذہن میں آئی جس کے خاکے تما ذکر انہوں نے
۵۶ دتی میں پنڈت جواہر لال نہرو سے کیا اور کہا پشت اسکے کہ میں اس تجوید کی تفصیل تیار کرو میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ تفاصیل تیار ہو جانے پر پاس خونہ کے متعلق میرے ساتھ اور وزیر اعظم پاکستان کے ساتھ تبادلہ خیالات پر آمادہ ہوں گے یا نہیں.بقول سرارون بنات صاحب نے آمادگی ظاہر کی در سرارود نے پنڈت صاحب کہا کہ وہ اب کراچی جاکر وزیر اعظم پاکستان سے بھی استصواب کریں گے اور گردہ بھی تبادلہ خیالات پر رضامند ہوئے توہ تجوید کی تفاصیل تیار کر کے دونوں کواس تجویز پر تبادلہ خیالات کی دعوت دیں گے.چنانچہ ساون کراچی تشریف لائے اور میرے اور بچہ دھری محمد علی صاحب کے ساتھ اس کے متعلق گفتگو کی ہم نے کہا کہ تونہ کی کت تفاصیل ابھی تیار نہیں.اگر تفاصیل بیا ہ ہونے پر تبادلہ خیالات کے بعد فریقین میں اتفاق رائے نہ ہو سکا تو کیا صورت ہوگی.انہوں نے فرمایا میں یہ واضح کردوں گاکہ ایسی صورت میں فریقین کے موقف پرکوئی کسی ستم کا شم نہیں پڑے گا اور شیر کشن کی دونوں قرار دادیں جنہیں دونوں فریق تسلیم کر کے میں بدستور قائم رہیں گی اور ر لین سپر ان کی پابندی لازم ہو گی.اس شرط پر نوابزادہ لیاقت علی خاں صاحب نے بھی سراون ولسن کی تو یہ ہیں تفصیل تیار ہونے کے بعد تبادلہ خیالت کرنے پر آماد کی کا اظہار کر دیا.سرداروں نے فرمایا یہ ابتدائی مرحلہ تو طے ہو گیا ابمیں اپنی بخونید کی تفاصیل تیار کر کے فریقین کو تبادلہ خیالات کی دعوت دوں گا.چودھری محمد علی حب نے سر اردن سے کہا کہ آپ پنڈت نہر کو اطلاع کر دیں کہ چونکہ دونو فنی آپ کی یونین کی تفصیل تیار ہونے پراس پر تبادلۂ خیالات کے لئے آمادہ ہیں لہذا اب آپ نمونیہ کی تفاصیل طے کر کے انہیں مطلع کریں گے.سراؤوں کو ابھی پنڈت جی کے طریق کار کا تجربہ نہ تھا.انہوں نے فرمایا اس کی کوئی ضرورت معلوم نہیں ہوتی.چودھری صاحب پنڈت صاحب کو خوب جانتے تھے اس لئے مصر ہوئے کہ انہیں بذریعہ تار ضرور مطلع کیا جائے.ان کے اصرامہ پر رادوں تار بھیجنے پر رضامند ہوگئے اور اسی شام سراروں نے پنڈت جی کو تار دیدیا کہ جس تجوید کے خاکے کامیں نے در یکی ا ن ا وزیر اعظم پاکستان بھی آپ کی طرح اسکی تفصیل بیان ہونے پر اس پر میرے اور آپ کے ساتھ تبادلہ خیالات کے لئے آمادہ ہیں اسلئے میں اب اس تجوید کی تفاصیل تیار کر کے آپ کو مطلع کردوں گا.دوسرے دن سراؤوں تشریف لائے.بڑے آزردہ تھے.فرمایا تمہیں معلوم ہے پنڈت نہرونے میرے تار کا کیا حیرت انگیز جواب دیا ہے.دریافت کرنے پر فرمایا پنڈت جانے جواب دیا ہے.مجھے تمہارے تارکی سمجھ نہیں آئی.مجھے تمہاری کسی ین کا علم نہیں میرے لئے یہ بالکل یا عام ہے تم ولی ہو تو اس پر بات چیت کریں گے یا سراروں نے فرمایں اس تونیہ کے متعلق میری در پنڈت نہر کی جو گفتگو ہو وہ بالکل واضع تھی اور اسی کی نیکی کی دانانی کاکوئی مہمان نہیں.یہ ہو سکتا ہے کہ مزید غور کرنے پر وہ ا نتیجے پر پہنچے ہو کہ میری جونیہ یہ تبادلہ خیالات کرنا ان کے مفاد کے خلاف ہے اوروہ اب اس پر آمادہ نہیں کیں ان کا یہ کہاکہ انہوںنے سے ایسی توبہ کا ذکر بھی نہیں اور ان کےلئے نیہ سنا "
۵۴۷ یہ ایک بالکل نیا بات ہے خلاف واقعہ ہے بہر صورت اگر یہ میرا تی جاتا ہے سود ہے لیکن میں ان کی دعوت کو رد بھی نہیں کر سکتا کہ ایک کر نا باخلاقی ہو گی.لہذا میں کل دتی جار ہا ہوں شاید اس معمے کا حل وہاں جاکر معلوم ہو.تیسرے دن وہ کراچی واپس آئے اور بتایا کہ دلی پہنچنے پر گر جاش که با جانی انکی پیشوائی کے لئے مطار پائے ہوئے تھے.فرمایا اجسام کار میں بیٹھ گئے تو میں نے ان سے کہا آپ کے وزیر اعظم کا انی رائے بدل لینا تو مجھ میں آسکتا ہے لیکن انہوں نے یہ کیسے کھا کہ انہیں میں کسی جونیہ کاعلم ہی نہیں اوران کے لئےیہ بالکل کی بات ہے.اس کے جواب میں سرکی جاشک یا سچائی نے بڑے دھیمے لہجے میں کہا :- SIR Owen ! I CONCEIVE THE MUST HAVE SUFFERED AN AMNESIA" PRIME MINISTER ATTACK OF TEMPORARY کیا کیا سرا درون ! میرا خیال ہے میرے وزیر اعظم پرشید عارضی نسیان کا حملہ ہوگیا ہو ، سر گر جاشنکہ کایہ فقرہ وسرانے کے بعد سراؤوں نے جو کچھ کہا وہ پنڈت جی کی وفات کے بعد ضبط تحریر میں لانا مناسب نہیں.ڈاکٹر فرینک گراہم کا تقریر سرا ون ڈکسن نے ان نا کامی کی رپورٹ مجلس امن کو بھیجدی مجلس امن نے فریقین کے بیانات سنکر کینیڈا کے مندوب جنرل میکنائی سے درخواست کی کہ وہ فریقین کے ساتھ بات چیت کے بعد اس قصے کے تصفیہ کے لئے کوئی علی تجویز پیش کریں جنرل مینا نے وکتون میش کا اس کا مقصد بھی عملا ہی تھا تو سراؤں کی تجوینہ کا تھا.لیکن سند دوستان نے اسے بھی رد کر دیا.اس کے بعد ڈاکٹر فریک گراہم کشمیر کےمعاملے میںاقوام متحدہ کے نمائندے منفر کئے گئے کئی بار کراچی تشریف لائے اور رتی بھی تشریف لے گئے.جنیوا میں فریقین کے ساتھ تبادلہ خیالات کیا.ایک چھوڑ چھ رپورٹیں مجلس امن یں پیش کیں.ہر رپورٹ مں اس امر پر بستی کو ان کے نانا کا یارا ہو اور میں ہوا کہ طارق بھی انہوں ے تجویز کیا پاکستان اس پرمیں کرنے کو تیار ہو گی لیکن ہندوستان نے انکار کردیا مجلس ان کی مائی بھی ہندوستان کو اپنی ضد ترک کرنے پر آمادہ نہ کرسکیں.ایک عرصے تک تونی ام زیر بست را که سندوستان این افواج متعین کشمیر می سے کتنی افواج کے انخلاء پر رضامند ہونے کو تیار ہے.ہندوستان کی طرف سے ہرنوع کا بہانہ اور عذر ہوتا رہا.آخر کار مجلس امن کے ایک اجلاس میں میں نے یہاں تک بھی کہدیا.صاحب صدر و اراکین مجلس امروزیہ تنازعہ یہ ہے کہ ار اگست ان کی قرار داد کے مطابق ہندوستان اپنی افواج متعینہ کشمیر ی سے کتنی فوج واپس بلانے کا پابندے قرارداد کے الفاظ میں BULK OF ITS FORCES “ لکھا ہے بحث اس امر یہ ہے کہ BULK سے کیا مراد لی جائے.اس لفظ کی کچھ بھی تعبیر ہو اس سے مراد ہر صورت کثرت ہے یعنی ان افواج کا زیادہ حصہ ریاست سے
☑ واپس بلالیا جائے.ہندوستان نے قرار داد کی اس شہر کی تعمیل کی ایک تو یہ مشن میں پیش کی تھی لیکن کمشن نے قرار دیا کہ ہندوستان کی یہ تجویز قرارداد کی شرط کو پورا نہیں کرتی یعنی منیتی افواج ہندوستان ریاست سے واپس بلانے پر تیار ہے وہ ہندوستان کی افواج متعینہ ریاست کشمیر کا گلاں قرار نہیں دیا جاسکتا.ہندوستان کا یہ کہنا تھا کہ جو حصہ انہوں نے ریاست سے واپس بلانا تجویز کیا ہے وہ ان کے اندازے کے مطابق ان کی افواج متعینہ کشمیر کا کمال یعنی زیادہ حصہ ہے اور تجر تصہ وہ ریاست میں چھوڑ نا بتجویز کرتے ہی وہ انکی افواج متعینہ BULK تجویز کرتے وہ کشمیر کاکمتر حقہ ہے.صاحبان میں آپ کی خدمت میں اور آپ کے توسط سے ہندوستان کے سامنے ایک بہت آسان بعد میں اور تجویز پیش کرتا ہوں.ہم نہیں جانتے اور آپ بھی نہیں جانتے کہ ہندوستان نے کتنی افواج کا ریاست سے انکار تجویز کیا تھا اور کتنی افواج کا کشمیر مں چھوڑ نا تجویز کیا تھا.لیکن اتناہم سمجھتے ہیں کہ جو حصہ انہوں نے نکالنا تو نہ کیا تھا وہ ان کے اندازے کے مطابق بڑا حصہ تھا اور جو حصہ یہ مجھے چھوڑنے والے تھے وہ چھوٹا حصہ تھا.میری یہ خونم ہے کہ جو حقہ یہ نکالنے کو تیار تھے اور جوان کے اندازے کے مطابق بڑا حصہ تھا وہ یہ نہ نکالیں اور اسے مجھے تھوڑ دیں اور جو حصہ یہ مجھے چھوڑنے والے تھے جسے یہ تھوڑا حصہ شمار کرتے تھے وہ حصہ یہ ریاست سے نکالیں.انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیئے.یہ تجویز بھی سہندوستان کو نا منظور ہوئی.اس سے یہ بھی ظاہر تو گیا کہ ہندوستان ے تو جونہی انخلاء افواج کے متعلق کشمیر کمشن کو پیش کی تھی اس میں صرت قلیل حصہ اوان کو واپس بلانے پر آمادگی ظاہر کی تھی اسی اثناء میں حکومت ہند نے بر طریق سے کشمیر کے عوام کواپنے حق میں پھسلانے کی کوششیں شروع کر دیں انہوں نے اس حقیقت کو نظر اندانہ کردیا کہ واسباب پاکستان کے ظہور میں آنے کا موجب ہوئے تھے وہی اسباب کشمیر اور سہندوستان کے اتحاد کے رستے میں روک ہیں.بلکہ بعض وجوہ سے کشمیر کے رستے میں یہ ردوک اور بھی نا قابل عود ہے.براعظم ہند یا کہ اگر یہ مسلمانوں کو ہندو ذہنیت کابہت کچھ تلخ تجربہ والی مسلمانوں پر ہندو ذہنیت کی کرم فرمائی کے رستے میں برطانوی اقتدار ایک حد تک حائل رہا تھا.اس کے برعکس کشمیر مں ڈوگرہ راج ایک سوسال سے سلم آبادی کو بے دردی سے کچلنے میں بلاروک ٹوک مصروف رہا تھا.یہ امید رکھا کہ ڈوگرہ مظالم کی یاد کشی کے مساوی کے دل و دماغ سے جو کی جائے گی عبث ہے.پھر تقسیم ملک کے بعد خود ہندوستان میں جو سلوک مسلم اقلیت کے ساتھ دار کھا جارہاہے کشمیرکے مسمانوں کی آنکھیں کھونے کے لئے کافی ہے.تیرے ہندوستانی فوج کی طرف سے جو ظالمانہ اور سیاسیون سوک کشمیر کی مسلم آبادی کے ساتھ ہورہا ہے وہ ہندوستان اور کشمیرکے مسلمانوں کے درمیان یک ناقابل عبور خلیج قائم کرنے والا ہے.ہندوستان کی انھیں کھلنے کے امکانی ہونا چاہیے کہ وی شیر شیر قائم وا شیخ عبد اللہ جن کو پنڈت ہر بیٹے نرسے کثیر کے متعت اپنے موقف ی تائیدیں پیش کیا کرتے تھے آخر کا ر ہندوستان کے سلوک اور پنڈت صاحب کی وعدہ خلافیوں سے سنتی حال کرکے کشمیرکے من مخدر اختیاری کی تائید میں اٹھ کھڑے ہو
جس کی پاداش میں پنڈت جی نے انہیں بغیر مقدمہ چلائے بارہ سال تک جیل میں رکھا.اس طویل تر است سے رہا ہونے کے بعد وہ پھر اس حق کے حصول کے لئے انتہائی جدو جہد کر رہے ہیں.حال ہی میں شیخ صاحب نے کشمیری عوام کی کنونشن میں تقریر کرتے ہوئے صاف صاف الفاظ میں اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے پنڈت جی کے وعدوں پہ اعتبار کرنے میں لطی کی اور الزام لگایا ہے کہ نیات میں نے نہ صرف ان سے کئے گئے وعدوں سے انحراف کیا بلکہ اقوام متحدہ کی مجلس ان میں جو کچھ انہوں نے منظور کیا اس سے بھی مسخر ہوگئے اورکشمیر کو ہندوستان کی کالونی بنے کی پالیسی اختیار کر لی.ہندوستان نے جو اقدام کشمیر کا الحاق اپنے ساتھ کرنے کے سلسلے مں کئے ان میں سے ایک کشمیر میں آئین سانہ ملین کا قیام تھا.جونہی اس کے متعلق ہندوستان کی طرف سے ابتدائی اعلان ہوا پاکستان نے محلیسی اس میں اس کے خلاف احتجاج کیا.اس احتجاج کے جواب میں سمہ بی این راؤ نے جو اس زمانے میں اقوام متحدہ میں بندان ++ بنان ارستان کے منتقل نمائندہ تھے حکومت ہند کی طرف سے ایک بیان مجلس امن کے دی ہر پڑھ کر سنایا جس میں کہاگیا تھا کہ سنتان مجوز مجلس آئین سانے کا الحاق کے مسئلے پر اظہار اے کرنے سے روک نہیں سکتا لیکن چونکہ یہ مشد مجوزہ مجلس کے خفیہ سے باہر ہو گا اس لئے اگر وہ مجلس اس مسئلے پر کسی رائے کا اظہار کیسے تو اس کا کوئی اثر اس قضیے پر نہیں ہوگا تو حلبی امن کے سامنے ہے.لیکن حکومت ہند کے اس اعلان اور اقرار کا بھی وہی حشر ہوا تو ان کے بانی معاہدوں کا ہوتا ہے.اور بات آخر ہندوستان نے یہ کہا یا ہندوستان کے ساتھ حات کی تائید کر چکی ہے اسلئے اب اس مسئلے پر کسی استصواب رائے عامہ کی ضرورت نہیں رہی ! مجلس امن میں کشمیر کے مال پر ہندوستان کی مانگی جو سمٹ کر تامین کرنے لگے تو انہوں نے سر سے ندوستان کی تمام ذمہ داری سے ہی انکار کر دیا او توکہاکہ ریاست الحاق ہندوستان کے ساتھ پہلے دن سے ہی افواج کا انخلاء اسی صورت میں لازم آتا ہے جب پاکستان کی تمام افواج آزاد کشمیرسے واپس ہو جائیں چونکہ کپتان نے اس تمام عرصے میں اپنی اس ذمہ داری کو پورا نہیں کیا اسلئے ہندوستان اپنی ذمہ داری سے آزاد ہو چکا ہے.تیرے چونکہ اس تمام عرصے میں حالات بہت حدتک بدل چکے ہیں اسلئے ہندوستان اب قراردادوں کا پابند نہیں ہا.چوتھے چونکہ اب ہندوستان نے آئینی طور پر ریاست کو ہندوستان کا وہ قرار دیدیا ہے اس سے کم یہ عمل ہوگیا ے اور کوئی تنازعہ باقی نہیں رہا جس پر مجلس امن یا کی اور ادارے کو کچھ کہے یاکرنے کاستی ہو.ان سب باتوں کا کافی شافی جواب دیا گیا لیکن میر میں ان کی بیٹی پر قائم رہے.مجلس امن تو فروری ماء میں ہی سٹرائیکی کے افسوسناک اقدام کے نتیجے میں ان بے بسی کا اظہار کر چکی تھی.مشرکر نامین کی موشگافیوں کو ملبس کے اراکین جیرانی +
ده سے سنتے تھے اور مسکرا دیتے تھے.متعدد بار پاکستان کی طرف سے کہا گیا کہ ایک رفیق یکطرفہ طور پرایک بین الاقوامی تھیئے کا فیصلہ نہیں کر سکتا.اگرمسٹر کرشنا مین با حکومت ہندو ا ع میں ان ڈھکونسلوں کو جو ہندوستان کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں درست سمجھتی ہے تو ان تمام اور کے متعلق بین الاقوامی عدالت کی رائے طلب کی جاسکتی ہے.عدالت سے درخواست کی جائے کردہ فریقین کے تمام عدالت اور دلائل پر غور کرکے اس سر پر رائے دے رکشن کی سار است شام اور ہم مجبوری نہ کی قراردادوں کے ماتحت فریقین کاکیا ذمہ داریاں ہیں.اور دونوں فریق عدالت کی رائے کے مطابق اپنی اپنی ذمہ داری کو پورہ کریں.لیکن ہندوستان کو یہ بھی منظور نہ ہوا.عرض اگر کسی وقت حکومت ہند کو اپنے قول قرار کا کوئی پاس تھا بھی تو رفتہ رفتہ اس کے نمائندوں نے اپنے اعلانات اور معاہدات کو خیر باد کہہ دیا اور شروع کر دیا ہم نے تقیہ کشمیر کو ختم کردیاہے اور جموں وکشمیر کے علاقے مکت ہند کا بنز نیک بن سکے ہیں.آزادی حاصل کرنے کے لئے کشمیریوں کی جدو جہد کشمیریوں کو حق خود ارادی دلانے کے لئے پاکستان کی مساعی ار قیام امن کے لئے مجلس ان کی تجاویز کو تو ہندوستان نے ابتک کچھ طاقت سے کچھ جس سے کچھ لیں در سے زائل وبے اثر کر دیا ہے.بیشک اس کے نتیجے میں ہندوستان بین الاقوامی حلقوں میں اپنا وقت رکھو چکا ہے لیکن لنظا ہر مند دستانی ارباب حل و عقد نے اسے سستا سودا سمجھا ہے لیکن وہ ایک حقیقت کو بھونے ہوئے ہیں جس کے ایک پہلو کو ایک شاعر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے :- مترس از آه مظلومان که هنگام دعا کردن - اجابت از درستی بهر استقبال می آید کشمیر کی مسلمان آبادی ایک صدی سے زائد عرصہ تک ڈوگرہ مظالم کا شکار رہی اور اس کے بعد زائدانہ بیس سال سے ہندوستانی مظالم سواری ہے.ان مظالم میں تخفیف ہونے کی بجائے انکی شدت بڑھارہی ہے.اللہ تعالی کسی ملک کسی قوم کسی گروہ کسی فرد کا محض ان کے نام کی وجہ سے حمایتی نہیں.اس کی شان اس سے بیت بلند ہے.لیکن وہ حتی اور ریاستی، امن اور الضان ، شفقت اور رحم ، عجز اور انکار سے ضرور محبت رکھتا ہے اور جبر اور تعدی ، ظلم اور سختی ، ایزاد ہی اور ضرور رانی اس کے غصب کو بھڑکاتی ہیں.وہ عقوبت میں دھیما ہے مکین منظم کی فریاد کو سنتا اور آخر ظلم کو پکڑتاہے.وہ شدید المطبش ہے اس کی گرفت بہت سخت ہے.پاکستان اور سند دستان کے مابین مہروں کے پانی کے متعلق بھی حکومت مند کار رویہ دی ہی کرنا مہروں کے پانیوں کا تنازعہ جیسا قبضہ کشمیر کے متعلق تھا جب تک قیم ملک کی کاروائی کی | تکمیل نہ ہوئی حکومت مشرقی پنجاب اور حکومت ہند کار سے پاکستان کو ر س ے پر یقین دلایا گیا کہ ہندوستان ہوں ے پانی میں کسی سم کی دخل اندازی نہیں کرے گا البتہ ہندوستان بی ادعاکی کہ چونکہ متحدہ پنجاب کے مغربی
حصے میں سنہری آب پاشی کے ذرائع کو نسبتا زیادہ فروغ دیا جا چکا ہے اسلئے مشرقی پنجاب کو اس نسبتی زیادتی کے بدلے میں معاوضہ ملنا چاہئے اور اس معاوضے کی تشخیص میں نہ صرف ہنوں کے صرفے اور انکی موجودہ قیمت کو مد نظر رکھا جائے بلکہ اس کے علاوہ اسبات کو بھی مد نظر رکھا جائے کہ ہنروں کے اجراء کے نتیجے میں مغربی پنجاب میں کاری افتادہ رقبہ جات کی قیمت میں جنس بہروں کی آب پاشی سے زیر کاشت لایا جا سکتا ہے بہت اضافہ ہو چکا ہے.اس کے بالے میں بھی مشرقی پنجاب معاوضے کا متھی ہے.اس دعا کے دونوں حصول کے جواز کواس ٹائی ٹرمینل نے جو پاکستان اور ہندوستان کے مابین اثاثوں کی تقسیم کے لئے مقرر کیا گیا تھا اور جس کے مدرسہ میٹرک سنتر سابق تعیف جسٹس بند تھے تسلیم کرلیا.اور اس کے مطابق معاوضہ کی رقم تشخیص کی گئی.ثالثی عدالت نے اپنا کام ماری شده و وخت کیا در یکم اپریل کو مینی دوست ہی دن مشرقی پنجاب کی حکومت نے پاکستان میں جانے والی تمام مہروں کا پانی جو ہندوستان سے گذر کر پاکستان میں آنا تا بند کر دیا ! حالانکہ اس ٹریبونل کے صدر لارڈ سپنیز بیان کے بموجب رومیوں کو یقین دلایاگیا تھاکہ پانی بند ہیں کیا جاے گا اور جو معاوضہ ٹریبونل نے تشخیص کیا ہ اس یقین ربانی کی بنا پر تھا.فروری شاء میں انہوں نے پنی ایک تقریر میں ہندوستان کی طرف سے اس یقین دہانی کی خلاف ورزی پر افسوس کا اظہارہ بھی کیا ہے.نہروں کے پانی کا قضیہ ایک خاص قانونی قضیہ تھا.پاکستان نے تجویز کیا کہ اس قضیے کا فیصلہ بین الاقوامی عدالت سے کرایا جائے لیکن مہند وستان کی حکومت اس پر رضامند نہ ہوئی.1980 قائد اعظم کی وفات پاکستان کے قیام پر بھی ایسا بھی نہیں گاتاکہ قائداعظم کی صحت تشویشناک مصور اختیار کرگئی.قیام پاکستان سے پہلے بھی ان کی صحت دن بدن کمزور ہوتی جارہی تھی لیکن انکی اولوالعزمی ان کی صحت کی کمزوری پر غالب رہی.شام کے وسط میں دو ایک برمین نے انہیں توجہ دلانے کی جرات بھی کی اور مناسب احتیاط رو در ایالیکن انہوں نے ہر بار یہ کہ بات ٹال د کہ یہ تو ان کی صحت کا معمول ہے.چند دن کمزوری کے آتے ہیں گر جاتے ہیں کوئی پریشانی کی بات نہیں محترمہ فاطمہ جناح سےبھی میں نے قائد اعظم کی صحت کے متعلق فکر کا اظہار کیا.انہوں نے فرمایا میں نو متفکر ہوں لیکن وہ سی کی سنتے نہیں اپنی ہی کرتے ہیں.آخر کار طبعیت زیادہ خراب ہوئی تو زیارت کوئی تشریف لے گئے.وزیر اعظم صاحب نے رفقاء کوقتا فوقتا قائداعظم کی صحت کے متعلق اطلاع بہم پہنچاتے تھے میںسے اگر یہ پورا اطمینان نہیں ہوتا تھا لکین تشویش میں اضافہ بھی نہیں ہوتا تھا.ایک روز مغرب کے وقت پیغام ملاکہ وزیر اعظم احب نے ورنہ ان کی رہائش گاہ پر یاد فرما ہے مجھے کچھ حیت ہوئی کہ قائداعظم کی تشریف آوری کی تو کوئی اطلاع نہیں پر ان کی فرود گاہ پر کیوں طلبی ہوئی ہے.وہاں پہنچنے پر ایک اے ڈی سی مجھے باغیچے کی طرف لے گئے.وہاں وزیرا عظم صاحب اکیلے پریشانی کے عالم میں ٹہل رہے تھے.فرایا
۵۵۲ قائدا عظم فوت ہوگئے ہیں.اناللہ وانا الیہ راجعون.میں نے پوچھا کیا وفات کو سٹڈ میں ہوئی.فرمایا انہیں آج سہ پر یہاں پہنچے اور یہاں پہنچنے کے بعد وفات ہوئی.فرمایا می نے سب سے پہلے تمہیں لایا ہے کیونکہ اسامر کا فورا فیصلہ ہونا چاہئے کہ گورنر جنرل کون ہو.خواجہ ناظم الدین کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے ؟ میں نے کہا ان کا تقر بنات مناسب ہو گا علاوہ ان ذاتی خوبیوں اور وقاعد اور د سباعت کے ان کا تقر مشرقی پاکستان کے لئے اطمینان کا موجب ہو گا.فرمایا میری نگاہ میں میں امر فیصلہ کن ہے.قائد اعظم کی اچانک وفات سے تو اس سہم گئے اللہ تعالیٰ کی مشیت نے اس شخصیت کو جوانانی سعی اور تقدیر کے لحاظ سے پاکستان کے وجود میں آنے کا موجب بھی ایسے نازک وقت میں اٹھالیا جب یہ نوزائیدہ ملک اطمینان کا سائنس بھی نہ لے پایا تھا اور ہرطرف سے مشکلات میں گھرا ہوا تھا اور قائداعظم کے عزم اور حسن تدبیر کا درجہ محتاج تھا.اگر اللہ تعالی اپنے کمال فضل سے انہیں دو سال اور زندگی عطا فرما تو اندازہ ہوتا ہے کہ بہت کی مشکلات اور الجھنوں کا جن سے پاکستان ابھی تک خلاصی نہیں پاسکال میسر آجاتا.حافظ شیرازی کے الفاظ میں تند میری امید علی بود واللہ اعلم بالصواب.بری نظر میں قائداعظم کی وفات ایسے وقت میں ہوئی جب پاکستان میں اس عظیم صدمے کی برداشت کی طاقت نہ تھی لیکن اپنی حکمتوں کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے.اور اس کے فیصلہ میں دم مارنے کی گنجائش نہیں.۱۹۴۸ سے 19ء تک میں بحیثیت وزیر خارجہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں پاکستانی وفد کی قیادت کے فرائض سرانجام دیتا رہا اور بالعموم شروع سے آخر تک اجلاس میں شامل رہتا یاء کے اجلاس میں بھی تک ملو میں پاکستانی وفد کا سر براہ تھا.لیکن اس وقت تک الھی میں وزیر خارجہ مقر نہیں ہوا تھا.اس اجلاس کے دوران میں مجھے محسوس ہو کہ بین الاقوامی علوں میں بھی پاکستان کی آزاد حیثیت کا پورا علم نہیں.اقوام متحدہ میں اکثر ملک کے نمائندگان سمجھتے تھے کہ پاکستان سندوستان کی ایک نم آزاد امریکی ریاست ہے جسے کسی مصلحت کی وجہ سے اقوام متحدہ کی رکنیت دیدی گئی ہے.دور کے مالک تو الگ رہے اقوام متحدہ کے عرب ممالک بھی ان دونوں پاکستان سے پوری طرح متعارف نہیں تھے.جس دن اقوام متحدہ کی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا پاکستان کو معرض وجود میں نے ابھی مہینہ بھری جوانا اور ابھی اقوام محدہ کی رکنیت بھی حاصل نہیں تھی.اقوام متحدہ کا کن نے کے بعد جب میں نے تصفیہ فلسطین پرسیلی تقریر شروع کی تو ر ماندگان کو بھی اندازہ نہیں تھاکہ پاکستان ان کے موقف کی تائید کرے گایا مخالفت تمہارے ون کو نیویارک پنچے ابھی چندن ہی گزرے تھے اور جب تک ہمیں رکنیت حامل جھوٹی ہماری کوششوں کے باوجود کسی نے ہمیں قابل التفات نہ جانا.رکن بنتے ہی میں نے اولین موقع پر فلسطین کے مسئلے پر تقریر کی.ابتدائی حصہ قضیہ فلسطین کے پس منظر کے متعلق تھا.عرب مندر میں ماتھوں پر شکن ڈالے سنتے
۵۵۳ ه دیوالی رہے کہ دیکھیں آگے چل کر اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے جب نفس موضوع پر انہوں نے محسوس کرنا شروع کیا کہ پاکستان تو نہ صرف سو فیصد عربوں کی تائید میں ہے بلکہ واقعات کی تفاصیل کے علم، انہیں ترتیب دینے ، قضیے کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے اور دلائل کی مضبوطی کے لحاظ سے عربمندوبین سے کہیں بڑھ کر ہے تو ان کے استعجاب اور خوشی کی حد نہ رہی.تقریر کے ختم ہونے پر جب میں اجلاس کے کمرے سے نکلا تو عرب نمائندگان نے مجھے گھر لیا اور نہایت مبالغہ آمیز الفاظ میں اپنے جذبات کا اظہار کیا.اس دن سے ان کی نگاہ میں پاکستان کو خاص اہمیت حاصل ہوگئی اور یہ صرف فلسطین کے مسئلے پر بلکہ ہر عب مسئلے پر وہ پورے وثوق سے پاکستان کی تائید اور پر زور حمایت پر اعصام کرنے لگے اور جب تک میرا ان معاملات کے ساتھ تعلق رہا لفضل اللہ ان کے لئے کوئی موقعہ شکایت کا پیدا نہ ہوا.پاکستان کے اقوام متحدہ کی سرگرمیوں میں حصہ ) جب لاء کے شروع میں ہندوستان نے قضیہ کشمیر لینے سے پاکستان مختلف ممالک سے متعارف ہوا مجلس امن میں اس غرض سے پیش کیا کہ محلی امن پاکستان کی گوشمالی کرے کیونکہ پاکستان ہندوستان سے الحاق شدہ ریاست جموں کشمیر میں بے جا مداخلت کا مجرم ہوا ہے تو اس مسلے کی حقیقت واضح ہونے پر اراکین مجلس نے پورے طورپر اندازہ کر لیا کہ پاکستان ہندوستان کی شکمی ریاست نہیں اور امن عالم میں خلل اندازہ نہیں بلکہ ہندوستان کی چیرہ دستیوں کے خلاف داد طلب ہے.بتجربے نے واضح کر دیا کہ اس زمانے کے ماحول میں پاکستان کے لئے اپنی حیثیت کو متعارف کرانے کا ایک بڑا زریعہ اقوام متحدہ کی سرگرمیوں میں نمایاں حصہ لیا ہے.جن حالت میں پاکستان وجد میں آیا اور ابتدا میں ہی سے جن ہنگامی مشکلات ور مصائب کا سامنا کرنا پڑا ان کے ہوتے پاکستان کی یہ حال تھی کا ر کر ڈھکنے کی امیر کی جاتی تو ہو نگے ہو جاتے اور پاؤں ڈھکنے کی کوشش کی جاتی تو سر ننگا ہو جاتا.دیگر ممالک سے خارجی تعلقات کا سوال قبل از وقت تھا کیونکہ ہمارہ کاخارن سروس ابھی وجود میںہی نہیں آئی تھی اور مشکل چند بڑے بڑے ملکوں کے ساتھ رابطہ قائم ہو سکا تھا.ان حالات میں اقوام متحد کا وجود بہت غنیمت تھا.اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے ابتدائی ایام میں اکثر اراکین ممالک کے وزرائے اعظم یا وزرائے خارجہ اعباس میں شرکت کے لئے تشریف لاتے تھے اور اعلاس کے دوران ھی بھی بہت سے ملکوں کے وزرائے خارجہ اجلاس میں شریک رہتے تھے اور ہر رکن مک کا نمائندہ تو بہر حال یہاں موجودی ہونا تھا.اس ذریعہ سے ایسے ممالک کے ساتھ مبین سے ابھی سفارتی تعلقات قائم نہیں ہوئے تھے مشترکہ امور کے سلجھانے کا ذریعہ اقوام متحدہ میں میسر آجاتا تھا.علاوہ مجنرل اسمبلی کے اجلاس کے مجھے تنازعہ کشمہ کے سلسلے میں بھی مجلس امن کے اجلاسوں میں شرکت کے لئے نیو یارک جانا پڑتا تھا.بعض سالوں میں سال کا قریباً نصف حصہ مجھے اقوام متحدہ میں رہنا پڑتا تھا.
۵۵۴ المالوی نو آبادیوں کا مسئلہ ء میں اقوام متحدہ کی امی کا سالانا اجلاس پیرس میں ہوا.اس اجلاس کے ایجنڈے میں اطالوی نو آبادیوں کا مسئلہ بھی شامل تھا.لیکن اس مسئلے پر غور کے لئے پرس میں وقت نہ مل سکا اسلئے اجلاس شروع اپر یل شکر تک ملتوی ہو گیا.اور اپریل کہ میں اس مسلے پر نیو یارک میں غور ہوا.دوسری عالمی جنگ میں اٹلی کی شکست کے بعد جو معاہدہ املی اور اتحادیوں کے درمیان ہوا اس کے رو سے اٹی اپنی الہ آبادیوں سے دست بردار ہویا اور ان علاقوں کے مستقبل کے متعلق فیصلہ کرنے کا اختیار اتخاری در عظمی کو دیا گیاکہ وہ باہمی مشورے سے اور ان علاقوں کی آبادی کے اس سات کو مد نظر رکھتے ہوئے کریں.ایک شرط یہ تھی کہ اگر معاہدے کے نافذ ہونے کے ایک سال کے اندر اتحادی ممالک باہمی اتفاق سے فیصلہ نہ کر سکیں تو یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کیا جائے گا اور آملی تو بخورید کرے گی وہ قابل پابندی ہوگی.دول متعلقہ میعاد کے اندر کسی مصلے پر متفق نہ ہوسکے اس لئے یہ مسلہ جنرل اسمبلی میں غور اور فیصلے کے لئے پیش ہوا.لیبیا کی آزادی | دول متعلقہ میں سے ایک طرف ریاستہائے متحدہ ، برطانیہ اور فرائض اور دوسری طرف املی کے درمیان یہ موجود ہو چکا تھا کہ اطالوی نو آبادیات میں سے لیا کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ شرقی حصے YRENACIAے پر برطانیہ کی نگرانی بطور امین TRUSTE E کے ہوگی.وسطی اور مرکزی حصے TRIPOLI کی ٹریسٹی شپ اٹلی کے سپرد ہو گی اور مغربی حصے FEZZAN کی ٹریسٹی شپ فران کے پر دہ اور یہ تینوں طاقتیں ہیں سال کے عرصے میں ان علاقوں کو ایک متحد آزاد ملک کی حیثیت اختیا کے کرنے کے لئے تیار کریں گی.اس سمجھنے کو برطانیہ کے وزیر خارجہ مسٹر ارنسٹ ہیون اور اٹلی کے وزیر خارجہ کونٹ سفورزا کے اسمائے گرامی کی عیسے ہیون سفور نا بیکٹ کا نام دیا گیا تھا.جب یہ مسئلہ اسمبلی میں زید بحث آیا تو اس سمجھوتے کے مطابق قرار داد اسمبلی میں پیش کی گئی.اطالوی معاہدہ امن کی متعلقہ شق میں درج تھا کہ اس مسلے کے جنرل اسمبلی میں زیر بحث آنے کی صورت میں میلی نو آبادیات کی رائے عامہ کو مناسب وزن دیگی.لیبا کا ایک نمائندہ ودند سر کردگی السید بشیر سو دادی و در ان بحث نیو یارک میں موجود تھا یہ دوند اراکین اسمبلی کو لیا کی رائے عامہ سے مطلع کرنے کی سرگرم کوشش میں مصروف تھا.رند کا کہا تھا کہ لیبا کا بر طبقه محمد زه قرار داد کا سخت مخالف ہے انہیں لیبیا کے حصے بخرے کئے بجانے منظور نہیں.وہ جلد سے جلد اپنے وطن کی آزادی کے خواہشمند ہیںاور کسی صورت اپنے وطن کے معاملات اور مستقبل میں اطالوی مداخلت کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں.مغربی طاقتیں اپنا تمام اثر و رسوخ قرارداد کی تائید میں صرف کر رہی تھیں.لاطینی امریکی ریاستی اگر چہ معنی خود اختیاری اور رائے عامہ کی تائید پس در دیتی تھیں.لیکن ان کا کہنا تھا کہ امی ان کی تمدنی اور معاشرتی اقدار کا منبع ہے اسلئے وہ ٹری پولی کی نگرانی املی کو سپرد کئے..
جانے کی تائید میں ضرور رائے دیں گے.اٹلی نے اپنے تھیں کہ اقتدار کے زمانے میں لیبیا کی عرب آبادی کے ساتھ نہایت ظالمانہ سلوک روارکھا تھا اللہ کی جنگ میں اٹلی کے لئے ترکی افواج کو یا میں پسپا کر دیا تو کچھ دشوار ثابت نہ ہوا لیکن اس کے بعد ملک کی عرب آبادی کو یہ اقتدار لانے میں اٹلی کو بہت مشکل کا سامنا ہوا.اٹلی کی طرف سے اس مہم کو سہ کرنے کی ذمہ داری مارشل بڈو گلیو پر ڈالی گئی.انہوں نے اپنی ایام امن " PACIFICATION کی پالیسی 12 کی سرانجام دہی میں بنایت در مسجد وحشت اور بہ بہ بیت کے طریق اختیار کئے.مثلاً ایسے شیوخ یا قائدین تو کسی قیمت پر اطالوی اقتدار کے سامنے سرقم کرنے پر رضامندنہ ہوتے انہیں برا ہوائی جہاز میں کی ہزارٹ کی بلندی پہلے جا کر تا ہے نیچے گرادیا جاتا یا کوئی ریگستانی آبادی اطالوی اقتدار کا جو آبادی کے گرد گھیر ڈال دیا اور آبادی کے پانی کے ذخیروں میں بھاری مقدار میں زہر ڈال دیا جاتا.محصور آبادی میں سے جو باہر نکلنے کی کوشش کرتے وہ اطالوی توپ یا بندوق کا نشانہ بنتے اور جو باہرنکلنے کی کوشش کرتے وہ پیاس یا زیر گور پانی پینے سے بڑھتے ہوئے جان دیتے.مارشل بڈو گلیوں کے قیام امن کے منصوبے کی تفاصیل دوران بحث میں اسمبلی کے روبینہ بیان کی گئیں.املی کے حمایتیوں کی طرف سے اس کے جواب میں میں کہا جاتا رہا کسب مسولینی اور اس کے گردہ کی کر تو میں تھیں.اب جبکہ خود اٹلی والوں نے مسولینی اس کی پارٹی اور اسکی پالیسی کو ختم کرکے ان حرام سے بیزاری کا ثبوت مہیا کر دیاہے توائی پر پورا اعقاد کیا جاسکتاہے کہ وہ اپنے فرائض کو تہذیب اور دیانتداری کے ساتھ انجام دیگا اور یہ طانیہ اور فرانس کے دوش بدوش پیسا کو آزادی کیلئے تیار کرنے کی سرگرم کوشش کرے گا.لیکن ان کا یہ کہتا نہ تو لیا کے وفد کو مطمئن کر سکانہ ہماری نسلی کا موجب ہوا.ہمیں مجونہ قرار دارد بعض اور وجوہ سے بھی نا قابل قبول معلوم ہوتی تھی.ہمیں ایسا کوکسی ایک طاقت یا ایک سے زائد طاقتوں کی نگرانی میں نیا منظور نہ تھا.ہم چاہتے تھے کہ یا جلد سے جلد آزاد ہو اسلئے دس سالوں کی میعاد بھی بھی پسند نہ تھی.مزید براں ملک کا تین حصوں میں تقسیم کیا جان میں انگور تھا.ہم جانتے تھے کہ اگر قراردادکے دریا کے پر بھی اسے نہ ہو سکیں گے مشرقی حصے کی عملداری انگریزی ہوگی ، وسطی حصے کی اطالوی اور مغربی حصے کی فرانسیسی یہ اختلاف خود اتحاد اور آزادی کے رستے میں روک اور سہمانہ ہو جائے گا.بحث کے دوران اسمبلی میں تہاری طرف سے ان سب امور کی وضاحت پورے طور پر کر دی گئی.ان دستورات کے علاوہ ایک اور امر میرے لئے بہت پریشانی کا موجب تھا.میں سمجھتا تھا کہ اللہ تعالی نے اپنے فضل سے اٹلی کو شکست دیکر اور تحاری کو ان کے اپنے ہاتھوں سے سہلی کے فیصلے کا پابند بن کر لیا کی آزادی کا امان فرما دیا ہے.اب مغربی طاقتوں کی یہ قرار داد لیپا کی آزادی کے رستے میں حائل ہوگئی ہے.مغربی طاقتوں نے توسمجھا ہوگا کہ تو خونی دو کریں گے آملی اس پر مہر تصدیق ثبت کر دے گی.میرا خیال تھا کہ اگر ہم اس تجوید کور د کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو لیبیا کے جلد نہ کر آندار
۵۵۶ ہونے کی صورت پیدا ہو جائے گی اور اگر یا بلد آزاد ہو جائے توشمال مغربی افریقہ کے تینوں عرب ممالک یعنی تونس الجنہ ائم اور مراکش کی آزادی کا رستہ کھل جائے گا.اس نے میری کم می موزه قرارداد کا ر کیا جانا از بس ضروری ھی میری طاقتوں نے بیویوں کی نگرانی مٹی کے پرد کرنے کی بیوی سے لاطینی امریکی ریاستوں کی تائید حاصل کر لی تھی اس وقت اقوام متحدہ کی رکنیت ساٹھ سے کم تھی اقوام متحد کے میثاق کی دفعہ کی روسے قرارداد کی منظوری کے ئے دو تہائی آرا در کار تھیں.بحث کے دوران ہمیں اندازہ ہواکہ پندرہ اراکین تو یقین قرارداد کے خلاف رائے دی کے یکن اگر دو چار اراکین رائے دینے سے اجتناب بھی کرتے اور آرا شماری میں ۵۴ اراکین مخالف یا موافق رائے دیتے تو قرار داد کی منظوری کے لئے ۳۶ آراء در کار ہوتی اور نامنظوری کے لئے ۱۹.اپنی طرف سے پوری کوشش کرنے کے بعد بھی ہمیں قرار داد کے خلاف صرف ۱۵ آراء ملنے کا یقین تھا.عرب ریاستیں تو قرار داد کے خلاف تھیں لیکن اس قویت صرف چھ عرب ریاستیں اقوام متحدہ کی رکن تھیں.ان میں سے مصرکے وزیر خارجہ خش با پاشا بھی پوری مجدد تبعد کر رہے تھے اور ہم دونوں آپس میں مشورے کرتے رہتے تھے.بحث کا آخری دن آپہنچا اور قرارداد کے خلاف ۱۵ آرام سے زیادہ کا امکان نظر نہیں آتا تھا.میری طبیعت میں سخت اضطراب تھا اسی اضطراب کی حالت میں میں نے نمانہ ظہر من بنات عجز دانک رسے رب العالمین کی درسگاہ میں زیر کی کہ الہ العالمین ہم گنہگار نافرمان پر تقصیر می لیکن آخر تیرے بندے اور تیرے حبیب کے نام لیوا ہی تو ہم پر رحم کی نظر فرمان فلسطین کے معاملے میں ہمیں زنک ہوئی اب لیا کا معاملہ فیصلے کو پہنچنے والا ہے.اس علاقے میں تیرے سیکسی بندرے بڑے مظالم کا نشانہ بنے رہے ہیں.تو اپنے فضل ریم سے ہمیں دو رستہ کی جس پر ملکہ تم میرے مظلوم بندوں کی رہائی اور مخلص کی تقریر کر سکیں تیسری رکعت کے پہلے سجدے میں جاتے ہوئے دفعہ اللہ تعالی نے اپنے کمال فضل و رحم سے ایک ترکیب کی تقسیم فرماد الحمد ل ہو رہی ہیں ن نماز ختم کی ایفون کی گھنی بھی اقوام متحد میں سر کے منتقل نمائندے محمود فوزی صاحب نے فرمایا میرے وزیر خارجہ دریافت کرتے ہیں تم کب تک آنے کا ارادہ رکھتے ہو؟ وہ چاہتے ہیں کہ عبد آجاؤ تو سہ پہر کا اجلاس شروع ہونے سے پہلے کچھ مزید غور کر لیں.میں وزیر خارجہ مصر کی خدمت میں حاضر ہو گیا.انہوں نے پو چھا کچھ مزید غور کیا ہے اور کوئی جو نہ دین میں آئی ہے؟ میں نے کہا ناں آئی ہے یا یوں کہئے زمین میں ڈالی گئی ہے.اب تک ہم اس کوشش من میں رہے ہیں کہ یہاں تک ہو سکے پوری قرار داد کے خلاف آراء حاصل کی جائیں.اس کوشش کے نتیجے میں تو میں رفت لا مخالف آرام حاصل ہوسکی ہیں جو قرار داد کے رد کرنے کے لئے کافی نہیں ہمیں کم سے کم تین چار اور مخالف آرام در کار ہیں.اور ان کے حاصل ہونے کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی.اب ہماری کوشش یہ ہونی چاہیئے کہ جو مالک برطانیہ افرانس کی خار یا فرانس کی خوشنودی کی خاطر برطانیہ کو ICYRENAICA CYRENAIC اور فرانس کو فیضان کی نگرانی سپر کرنے کے موئید میں دن میں سے تین چار کو اس بات پر آمادہ کریں کردہ اس قرار داد میں برطانوی اور فرانسیسی نگرانی والی شقوں کی تائید میں
006 رائے دینے کے بعد تیسری شق جس میں ٹربیوی کی نگرانی امی کو پر کرنے کی تو یہ ہے کہ مخالف رائے ہیں.نش یا پاشا سے اگر ایسا ہو بھی جائے تو کیا حاصل ہوگا ہے ظفر اللہ شمالی : محاصل یہ ہو گا کہ تیری شفق قرار داد سے خارج ہو جائے گی.خش با پاشا ہو لیکن مک تو پھر بھی تقسیم ہوجائےگا.برطانیہ اور ان کو موجودہ علاقوں کی نگرانی سپرد کردی جائے گی تم خود اب تک مصر رہے ہو کہ لیبیا کی تقسیم نہیں ہونی چاہئے اب تم نے ایک ایک اپنی رائے کیوں بدل لی ہے ؟ ظفر اللہ خاں : میں نے رائے نہیں بدلی.میں ابھی بھی چاہتا ہوں کیلیا کی تقسیم ہرگز نہیں ہونی چاہئے.اگرمی بیان کرده ترکیب سے تیسری شق قرارداد سے خارج ہو گئی تو کوئی تقسیم نہیں ہوگی.نشا پاشا : وہ کیسے ؟ گاری کی نگرانی الٹی کے پرو و و و و و یا ایران رایت بی قرار داد کو قبول نہیں کریگی اور تینوں شقوں پر رائے شماری کے بعد جب مجموعی طور پرباری قرار داد پر رائے شماری ہوگی تو لاطینی امریکی ریاتی اس کے خلاف رائے دیں گی.نفش با پاشا :.(نوشی سے اچھل کر ، غوب تجویز ہے.میرے ذہن میں بالکل نہیں آئی تھی پھراب کیسے کیا جائے؟ وقت بہت تھوڑا ہے آج شام رائے شماری ہو جائے گی.ظفر اللہ خان : لاطینی امریکن ممالک میں ٹائٹی ( HAITI ) ایک ایسا ملک ہے جس کا اٹلی سے کوئی تعلق نہیں ایک تو ان کے ساتھ کوشش ہونی چاہیے.ان کی زبان فرانسیسی ہے آپ کے دند میں سے کوئی صاحب ان کے ساتھ بات بہت کریں.سربی این راؤ ہندوستانی نمائندے کے ساتھ میں بات کرتا ہوں.مزید غور کے نتیجے میں گر کسی اور ریاست کے متعلق بھی ایسی توقع ہو سکے توان کے ساتھ بھی اس پہنچ پہ بات کی جائے.یں نور سرای این راڈ کی تلاش میں گیا.وہ جلد مل گئے.میں نے دریافت کیا آپ کس طرف رائے دیں گے.سربی این راد : مجھے حکومت کی طرف سے ہدایت ہے کہ م ریزولیشن کی شقوں پر علحدہ علحدہ رائے شماری میں حصہ نہ لیں لیکن جب قرار داد پر مجموعی طور پر رائے شماری ہو تو قرار داد کے خلاف رائے دیں.ظفر اللہ نعال :- آپ کو تو یہاں کی روایات کا خوب تجریہ ہے اگر دینیہ روشن کی شعلوں پر علیحدہ علیحدہ رائے شماری کے نتیجے میں سب شقیں منظور کر لی گئیں تو پوری قرار داد آسانی سے منظور ہو جائے گی.اکثر ملک شفوں پر رائے شماری میں حصہ نہیں لیتے وہ جب دیکھتےہیں کہ قرارداد کو خاصی تائید حاصل ہے تو وہ مجموعی قرارداد پیرائے شماری میں تائیدی رائے دیا یتے ہیں.یہاں بھی یہی صورت ہو گی اگر ری شقی منظور ہوگئی تو پوری قرار داد مرور منظور ہوجائے گی اس مرحلے پر مخالفت بے سود مھر گی.
۵۵۸ سربی این راؤ : تو پھر تم کیا چاہتے ہو ؟ ظفر اللہ خان :.حکومت ہند کے شقوں پہ رائے شماری میں حصہ نہ لینے کی ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے کہ وہ برطانیہ اور فرانس کو ناراض نہیں کرنا چاہتے ورنہ جیسے آپ نے کہا ہے قرار داد کے تو وہ مخالف ہیں.آپ اگر چاہیں تو پہلی دو شتوں پر رائے شماری میں حصہ نہ لیں کہ اگر ربانی اور فرانس کی خوشنودی ی منظور ہوتو بیت ان دو شقوں کی تائید یں رائے دیں لیکن تیری شق کے خلاف رائے نے دینی تنظیم ہو گا.اٹل کی آپ کوکوئی موت مر بھی نہیں اور یہ بھی واضح ہے کہ اگر تیری شق منظور ہو گئی تو انہی قرار داد منظور ہو جائے گی اور آپ کا مقصد فوت ہو جائے گا.اسلے میں تو یہ کہتا ہوں کہ پہلی دو شقوں کے متعلق آپ جو چاہیں کریں لیکن تیسری مشق کے خلاف ضرور رائے دیں.سربی این راڈ.کچھ سوچنے کے بعد اس طریق سے نتیجہ تومیری حکومت کے نشاء کے مطابق ہی ہو گا بہت اچھا ہم ایس سی کریں گے.ادر ایئٹی کے نمائندے نے بھی تیری شق کے خلاف رے دین منظور کرلیا.اجلاس شروع ہو گیا.سمادی کو نشا الاک کے دوران میں بھی جاری رہی لیکن با درآور نہ ہوئی.تقریروں کاسلسلہ کچھ لیا ہوگیا سہ پہر کا اجلاس ملتوی ہو ایام کے کھانے کے بعد پھر اجلاس شور دریا ہوا.آخر گیارہ بجے شب کے بعد رائے شماری کی نوبت آئی.مغربی ریاستی مطمئن نظر آتی تھیں جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ انہیں قرار داد کے منظور ہونے کا اور الفین ہے.ہم جو قرار داد کے مخالف تھے خالف و پریشان تھے.میری دعائیں نہ بیل جاری تحقیں کیونکہ طبیعت میں بہت اضطراب تھا.رائے شماری شروع ہوئی پہلی شقی منظور ہوگئی، دوسری شق منظور ہوگئی تیری شتی پہ ہم نے نام بنام رائے شماری کا مطالبہ کیا بریک کا نام باری باری پیکانہ جاتا اور اس ملک کا نمائندہ پانی یانہ یا رائے زنی سے اجتناب کا اعلان کرتا.ملک کے نام ایکانی جانے کے سوا سنانے کا عالم تارکین عبدالرحیم خان جو ان دنوں اقوام متحدہ میں ہمارے مستقل نمائندے تھے ایک کاغذ پر پر جواب کو لکھتے جارہے تھے.جب سب اراکین ممالک کیطرف سے جواب مل سکے تو کرنل صاحب نے جلد جلد اپنے لکھے ہوئے بجوابات کو شمار کیا اور میرے کان میں کہا نا ئیدی آراء ۳۳ مخالف ۱۷ رائے دینے سے اجتناب کرنے والے ۸ پہلے تو میری طبیعت افسردہ ہوئی کہ یہ شق بھی منظور ہوگئی کیونکہ ہمارا اندازہ تھا کہ ۱۷ مخالف آرا نا منظوری کے لئے کافی نہیں ہوں گی.لیکن جب میں نے ۳۳ اور ۱۷ کا موازنہ کیا تومیری طبیعت میں خوشی اور اطمینان کی لہر دوڑ گئی کیونکہ ۳۳ موافق آراء ، مخالف آراء کے دگنے سے کم تھیں.اب ہم انتظار میں تھے کہ صاحب صدر کی زبانی نتیجے کا اعلان ہو.آسٹریلیا کے وزیر خانہ جبہ ڈاکٹر الیویٹ صدر تھے اور مسٹرٹر گورے کی سیکریٹری جنرل تھے.امور متعلقہ اسمبلی کے اسسٹنٹ سیکریٹری جزا مٹر اینڈیو کار ڈیر تھے.موخر الذکر دونوں اصحاب صاحب صدر کے دائیں بائیں تشریف فرماتھے.تینوں سر جوڑے رائے شماری کے پرچے کا غور سے مطالعہ کر رہے تھے.صاحب صدر خود قرارداد کے زوالہ " 16.
۵۵۹ حامی تھے.سیکریٹری جنرل ہمیشہ ہر معاملے میں ہمیں مغربی ریاستوں کے موئید ہوا کر تے تھے.اسٹنٹ سیکر یٹری جنرل اگر چہ امریکن اور آزاد رائے رکھنے والے تھے لیکن طبعاً اپنے فرائض منصبی کے لحاظ سے صاحب صدید در سیکہ بڑی سبزی کے معاون تھے اور رائے شماری کے لئے نام پکارنا اور جواب دہرانا انہی کا کام تھا.ہر نماندے کا جواب اس سے دہرایا جاتا تھا کہ کسی قسم کی غلط نبی کا امکان نہ رہے.یہ تینوں اصحاب برائے شماری کے پرچے کا بار بار تجزیہ کر رہے تھے کہ اید کسی طریق سے کہیں سے ایک تائیدی رائے اور مل جائے اور مشکل حل ہو جائے.لیکن حساب پر ان کا بس نہیں چلتا تھا.حا ضراراکین کی تعداد ۵۸ تھی جس میں سے ۸ نے رائے دینے سے اجتناب کیا باتی ۵۰ اراکین نے رائے دی جن میں سے ، امخالف تھے منظور کی کے لئے کم ان ۳ ۳ آراء کی ضرورت تختی در موافق آرا ر و ا ت ا ا ا مزید ایک اور کہاں سے آتی ان چار اسب صدر نے نہایت افسردگی کے لہجے میں نتیجے کا اعلان کیاکرشن نیر سوچو کہنا منظور ہوئی اسلئے قرار داد تابع فالج کی گئی ہے.ہمار ی طرف سے نوشی کا اظہارہ تو انہم تھا ہی لیکن معلوم ہوتا ہے میرے اعصاب پر پہلے چند دنوں ی پریشانی اور اضطراب کا بوجھ تھا.میری بیعت قابومیں نہ رہی اور میں جوش سے اپنے سامنے کے ڈیک کو زور زور سے متواتر بیٹے لگا.کرنل عبدالرحیم نے آہستہ سے مجھے کہا چو دھری صاحب کیا کر ر ہے ہیں.میں نے کیا مغربی طاقتوں کی چھاتی پیٹ رہا ہوں ! یہ کہتے ہی میری طبیعت ضبط میں آگئی اور میں پی اس جذباتی حرکت پر منفعل ہوا.کیونکہ صاحب صدر میری طرف تیوری پڑھائے دیکھ رہے تھے.کئی دن تک میرے دونوں ہاتھ س ڈی کو ئی کی وجہ سے متورم رہے.قرارداد کی تو تی تو یہ تھی ک به میان ما کی دس سال کے عرصے یں لیا کے تقسیم شدہ علاقوں کو ایک متحد آنداد ملک کی حیثیت اختیار کرنے کے لئے تیار کریں.جب صاحب صدر نے اس شق پر آرا طلبی کی تو میں نے وضاحت پاس کہ تینوں ملکوں سے کونسے تین مک مراد ہیں؟ ہو قرارداد کی صرف دو شقیں ہی منظور ہوئی تھیں اور ان میں صف دو ملکوں یعنی برطانیہ اور فرانس کا ذکر تھا صاحب صدر نے فرمایا کوئی رکن ابھی ترمیم پیش کر دے گا کہ تین کی جگہ دردکا لفظ رکھ دیا جائے.میں اس امر یہ بھی کچھ کہنے کو تھا کہ ارجنٹائن کے نمائندے ڈاکٹر آر سی نے بولنے کی اجازت طلب کی اور اجازت ملنے پر کہا کہ قرار داد کی بقیہ شقوں پر رائے شماری کرنا غیر ضروری ہے کیونکہ جب ریپولی کی نگرانی اٹلی کے پر دنیس کی جارہی تو اطینی امریکی ریاسیتی باقی سب شقوں کے خلاف رائے دیں گی.چنانچہ ایپ ہی ہوا.قرار داد کی بقیہ سب شقیقی رد ہوئیں اور جب پہلی دو شقوں پر مجموعی طور پر رائے شماری ہوئی تو وہ کبھی درد کر دی گئیں.اور اس طرح جہاں تک بیبیا کا تعلق تھا ہیون سفورزا پیکیٹ کا خاتمہ ہو گیا.اجلاس ختم ہونے پر میں کرا چی واپس آگیا.کچھ دنوں بعد اطالوی سفیر متعینہ پاکستان مجھ سے ملنے آئے B
۵۶۰ ور اپنے وزیر خاریہ کا ایک خصوصی پیغام میرے نام لائے.کونٹ سفورزا نے کہلا بھیجا ہمیں قرار داد کے رد ہو جانے پر کوئی ریے نہیں معرب ممال کی دوستی اور خوشنودی کےخواہی ہیں اور املی کے این اے سالانہ اجلاس میں لیا کی فوری آزادی کی تائید کرنے کے لئے تیار ہیں.چنانچہ اس کے سالانہ اجلاس املی میں ہی قرار داد منظور ہوگئی کیکم جنوری شار سے بیا آزاد ہوگا.اس قرارداد کے نفاذ کیلئے ایک کمیٹی مقر کی گئی جس کے اراکین میں مرادر پاکستان دونوں شامل تھے.چنانچہ قرار داد کے مطابق یکم جنوری کشار کو پیا کی آزاد حکومت قائم ہوگئی.فالحمد لله ایریٹریا کا ابی سینیا سے الحاق اب ایریٹریا اور اطالوی سومالی لینڈ کا سوال در پیش تھا.ایریٹریا کی اہے عامه دریافت کرنے کے لئے پانچ اراکین کی ایک کمیٹی مقرر کی گئی جب میں پاکستان بھی شامل تھا.اس کمیٹی کے تین اراکین نے رپورٹ کی کرایہ بیڑیا کا اب سینیا کے ساتھ الحاق کیا جائے.دوارہ کین نے جن میں سے ایک پاکستان تھار پورٹ یک اریٹیریا کو آزاد ہونا چاہیے اوراگر یہ ہو تو اریٹریا کے مغربی حصے کا الحاق سوڈان کے ساتھ ہونا چاہیئے.یونکہ ایٹا کے مغربی حصے کے قابل سوڈان کے معہ علاقے کے قابل کا حصہ ہیں اس کی ٹیمیں پاکسان کی اندکی میابی ضیاء الدین صاحب نے کی اور اپنے فرائض کو نہایت متعدی اور قابلیت کے ساتھ ادا کیا.فجزاہ اللہ.جب یہ مسئلہ اسمبلی میں زیر بحث آیا تو پاکستان نے اپر پڑیا کے الیسینیا کے ساتھ الحاق کے خلاف پر زور احتجاج کیا.ایریا کی آبادی کی ایک بڑی کثرت نے اس الحاق کی مخالفت کی تھی.ایریٹر یا علی علاقہ ہے اور اس کی آبادی کی کثرت مسلمان ہے.پڑھالکھی طبقہ عربی بولتا ہے.الحاق میں ابی سینیا کا تو سیاسی فائدہ ہی تھالیکن ایر بریا کا الحاق میں کوئی فائدہ نہ تھا.املی میں کثرت الحاق کی تائید میں تھی اور ان کی طرف سے ایک بڑی دلیل یہ پیش کی جاتی تھی کہ امی سینا کو اٹلی کے ہاتھوں بہت نقصان پہنچاہے اس کی چھت مانی ہونی چاہیے ، ہماری نگر میں یہ لیل معلولیت سے بالکل خالی تھی.کے لایا اور پھر ساری با الی الحاق کی تجویہ کو دو تہائی آراد کی باید حاصل ہوئی اور تجویز منظور ہوگئی میں نے ر در رفتار کیا کہ الحاق یک بستروں کی ملاہے تو ایریٹریا کے گلے میں ڈالی جارہی ہے اور اس کا ایک ی نتیجہ ہوگا کہ ایک دن ایریٹریا الی سینیا میں جذب کر لیا جائے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا.انا للہ و انا الیہ راجعون.کا -+ الی سینا کی کثرت پہاڑی آبادی کی ہے جو A MAARI نسل کی ہے.حالی میدانی علاقوں کی آبادی مسلمان ہے.امیر بیڑیا کو الی سینیا میں شامل کرنے سے مسلمان عنصر مں اضافہ ہو گیا ہے.دوسری عالمی جنگ کے بعد اتحاد یوں لئے بطور معاوضہ کے سومالیہ کا ایک صوبہ 4ADEN بھی اب سینیامیں شامل کر دیا تھا اس سے بھی سلمان عنصری کچھ اضافہ ہوا مسلمانوں کا کہناہے کہ اب ایسینیا کی آبادی میں ان کی کثر ہے لیکن الیا سینی می مردم شماری کے قابل اعتماد اعداد و شمار میر نہیں.حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے اختیارات بہت کچھ A MHA RIC سرداروں کے ہاتھ میں ہیں.اب سینیا کے شہنشاہ اگر چہ ای بیدار مغز اور ترقی پسند فرمانرو ہیں لیکن اندرونی معاملت میں ان کے اختیار
یران سرداروں کی طرف سے بہت سی نیود عاید ہیں.ا ا ا ا ا ا ا ا لی مینیم و در اختیار اور جمہوریت کی ہوائی تیزی سے چلنا شروع ہوگئی ہیں.اگر یہ بہت سے قصبے اور مشکلات درپیش ہیں اور اس را عظم کو ابھی بہت سے مراسل سے گذر ناہے لیکن افریقی اقوام اور قابل بیدار ہورہے ہی ارامی کی جاتی ہےکہ آخر افریقہ کے علاقوں میں تقی تھا کہ رسید والا معاملہ ہوکر رہے گا والله خير حانظار هو على كل شيء قدير.سونالیہ کی آزادی | سومالیہ کا علاقہ اپنی جائے وقوع کے لحاظ سے بہت اہمیت رکھتا ہے.جغرافیائی مبیت وجہ سے اس افریقہ کاسٹنگ کہتے ہیں.یورپی طاقتوں نے تین حصوںمیں تقسیم کر کھا تھا.اطالوی برطانوی اور فرانسیسی.دوسری عالمی جنگ میں املی کی شکست کے نتیجے میں اطالوی سومالی لینڈ کی قسمت کا فیصلہ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے سپرد ہوا.سومالی رائے عامہ طبعا فوری آزادی کی طلب گار تھی.حکومت کی باگ ڈور ابھی تک اطالوی نا تھوں میں تھی اور اٹلی کی شدید خواہش تھی کہ اطالی سومالی لینڈ کی نگرانی اور اس علاقے کو آزادی کیلئے تیار کرنے کی ذمہ داری اٹلی کے سپرد کی جائے.برطانیہ نے اعلان کر دیا تھا کہ نگرانی کا نظام قائم ہونے کی صورت میں میر طانوی سومالی لینڈ کو بھی اس نظام میں منسلک کر دیا جائے گا تاکہ اطالوی اور برطانوی سومالی علاقے متحد ہو کر ایک واحد ریاست کی شکل میں آزاد ہوں اسمبلی میں بحث کے دوران ایک قابل اور مضبوط سومالی دن سومالی حقوق کے تحفظ اور حمایت کے لئے موجود تھا میں سے ملی B.ہر قسم کی اطلاع میسر آتی رہی.سومالی آبادی تمام تر مسلمان ہے اور ہم یہ عرب ممالک کے ساتھ ان کے گہرے دوستانہ تعلق ہیں.عرب ملک طبعا سومالی علاقوں کی آزادی کے حامی تھے.پاکستان بھی کلیہ آزاد کا حامی تھا.آنا د افرین مالک یں سے مر تو آزادی کی حالت میں پیش پیش تھا.ای سی کی ہمدرد بھی اٹلی کے ساتھ تو نہیں کی تھی.باقی صرف ایر ادارہ جاتاتھا.ایران سالی لینڈ کی آزادی کی جدو جہدمیں پوری طرح ساتھ دیا اور ائیریا کے قالی ماندے مسٹر ہنری کو پر پرلحاظ سے ہمارے لئے ایک مضبوط ستون ثابت ہوئے.فجزاہ اللہ.اٹلی نے اپنے موقف کی تائید میں اپنے ھوٹوں کا اک نام نان داوای یونانی سرپرست میں کیٹی کے روبرو پیش کی لیکن اس دن کی مالی امی کو کچھ فائدہ نہ ہنچ سکیں.اس وفد کی تمام ترکوشش یہ ثابت کرن میں ر ہو تیری کو سول ایالات ابھی آزادی کے قابل نہیں کیں اصل سومالی وقد سے معلوم ہو گیا تھاکہ اس نام نہاد وند کے اراکین دارالحکومت موگادیشو کے بلدیہ میں ملازم ہیں اور ہر بات میں اٹلی کی تعریف کرنے اور اطالوی اقدامات کو ملانے پر مجبور ہیں.میں نے اس اطلاع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نہج پر ان سے استفسارہ شروع کیا : - سوال :- اطالوی اقتدار کے زمانے میں حکومت نے آپ کے ملک کی ترقی اور بہبودی کے لئے کوئی اقدام کیا ؟ جواب :- بیشک ہر ممکن اقدام کیا.سوال :.اس عرصے میں آپ کے ملک نے کتنی ترقی کی ؟
۵۶۳ جواب : ہمارے ملک نے ہر شعبے میں انتہائی ترقی کی ہے.سوال :.سومالی آبادی کی تعلیم کا کیا نظام ہے ؟ جواب :.اسکول کالج ہر قسم کی درسگا ہیں اور تمہ بعنی ادارے قائم ہیں.سوال :.سومالی آبادی کا تعلیمی معیار کیا ہے ؟ جواب :- نہایت اعلیٰ ہے.سوال : حکومت کے اعلی عہدوں پر سومالی آبادی کا تناسب کیا ہے ؟ جواب :.کثرت سومالیوں کی ہے.سوال :.آپ کے ہاں اعلیٰ عدالتیں قائم ہیں ؟ جواب : ضرور قائم ہیں.سوال : اعلی ترین عدالت میں کتنے بچ سومالی ہیں ؟ جواب :.کثرت سومالیوں کی ہے.سوال :.آپ کے ہاں شفا خانوں کا کیا معیار ہے ؟ جواب :- نہایت اعلیٰ معیارہ ہے.سوال :.ان شفا خانوں میں کتنے ڈاکٹر والی ہیں ؟ جواب :- کثرت سومالیوں کی ہے.سوال :.آپ کے جوابات سنکہ مجھے بہت خوشی ہوئی.جیسے آپ نے کہا ہے اطالوی نظام نے بیشک آپ کے ملک اور آپ کی قوم کی بہت خدمت کی ہے اور اسے ہر شعبے میں اعلیٰ معیارہ تک پہنچادیا ہے.اب میں آپ سے صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ جب آپ اس قدر ترقی کر چکے ہیں اور رشتے میں علامات پر ان میں تو کسی کی بات ہے جس کی وجہ سے آپ مجھے ہیں کہ ابھی آپ کا ملک آزادی کے قابل نہیں؟ جواب :.ہمیں ابھی حکومت کا کوئی تجربہ نہیں.ان کے اس جواب سے ان کی نمائندگی کی حیثیت کی پر واضح ہوگئی اسمبلی میں بحث کے دوران میں اطالوی وزیر خارجہ کونٹ فورا مجھے اور فرمایا ہے یہ اندازہ کرایا ہوگا ر سومالی کی فوری آزادی کو کئی امید نہیں لانا نگرانی کاکوئی انتظام کیا جائے گا.ہماری انتہائی خواہش ہے کہ اطالوی سومالیہ کی نگرانی ہمارے سپرد کی بجائے.اس سے ہماری غرض صرف یہ ہے کہ ہ اپنے عمل سے یہ اب کر سکیں کہ ہم نے ماضی قریب کو یہ طور پر خیر باد کیے ہیں اور پسماندہ علاقوں کی آزادی اور ان کی مہبودی کے دل سے موئید اور خواہاں ہیں.سومالیہ کی نگرانی سے ہم کوئی مادی فائدہ تو اٹھا نہیں سکتے.اس ذمہ داری کو |
۵۶۳ نجانے کیلئے ہمیں خرچ بھی کرنا پڑے گا اور بہت سے تجربہ کارافراد کی ادا کیا اس کام کیلئے کیا کرنا ہوں گی میں سونالیا کے حالات کا علم اور تجربہ رکھنے والے افسر خاصی تعداد میں میسر ہیں تو سومالی زبان بھی جانتے ہیں.ادھر سومالیا کے تعلیم یافتہ طبقے میں سے اکثر اطالوی زبان سے بھی واقف ہیں اس طرح کمی بر دیگر ملک کے مقابلے میں بہت سی سورتیں حاصل ہیں.لیبیا کے معامے میں ہم اپنی نیک نیتی کا ثبوت دے چکے ہیں.میں امید کرتا ہوں کریم اس معاملے میں ہماری خواہش کو ہمدردی کی نظر سے دیکھو گے.ظفر اللہ خاں :.میں توصرف آپ کی خواہش اپنی حکمت تک پہنچا سکتا ہوں.میر اندازہ ہے کہ اس معاملےمیں پاکستان کا وہی موقف ہو گا جو عرب مملک کا ہو گا وہ سومالیہ کے پڑوسی ہیں اور سومالیا کی آبادی کوعرب ممالک کے ساتھ بہت ربط ہے.مناسب ہو گا اگر آپ عرب نمائندوں کے ساتھ بھی بات چیت کریں.کونٹ سفور نرا :.میں نے ان میں سے بعض کے ساتھ بات کی ہے مثلا لبنان کے نمائندے ڈاکٹر چار س ملک نے مدردانہ غورہ کا وعدہ کیا ہے اگریم عرب نمائندوں کے ساتھ بات چیت کرو تو بہت مکن ہے کہ کوئی صورت سمجھوتے کی پیدا ہو جائے.میں نے ڈاکٹر پاریس ملک سے بات کی انہوں نے مجھے اور رب نماندوں کو اس محلے پر غور کرنے کیئے معیاری یا اور اب میں لایا.بعد رو بہ فیصلہ ہوا سمجھنے کی صورت ہو تی ہے سوالیہ کا نظم و نسق و نگرانی کے دوران میں مٹی کے سپرد ہو جائے لیکن مٹی کے ساتھ دو نگران مل اور مل کر دیے جائیں واویلی کے قائم کردہ نظام کی گرانی کریں.مجھے بات ہوئی کہ تم اٹلی کو اس تونہ پر رضامند کرنے کیلئے کونٹ سفورزا کے ساتھ بات چیت کرد.کونٹ سفرنا نے پہلے کچھ لیت و لعل کی لیکن جب انہیں یقین ہوگیا کہ ہم کسی اور تجویز پر رضامند نہیں ہوں گے تو انہوں نے فرمایا میں نے رفقائے وزارت کے ساتھ مشورہ کئے بغیر اس معاملے میں فیصلہ نہیں کر سکتا.میں کل دم واپس جا رہا ہوں.وہاں پہنچنے کے دو تین دن کے اندر ہم کچھ فیصلہ کر سکیں گے.ہمارا سرکاری نمائندہ نہیں ہمارے فیصلے کی اطلاع کر دے گا.میرا انبار جان اس تجویز کے حق میں ہے اور میں اپنے رفقاء کو قائل کرنے کی کوشش کروں گا.تین چار دن کے اندر اطالوی نمائندے نے مجھے اطلاع دی کہ کون سفورزا کی طرف سے عرب ملک کی تجونیہ کی منظوری کی اطلاع آگئی ہے.لیکن جب کم نے اس تجویز کے مطابق قرار داد کا مسودہ تیار کیا اور ساتھ ہی اراکین اسمبلی کی تائید حاصل کرنے کے لئے سعی شروع کی تو ایک اور مشکل پیش آئی اقوام متحدہ کی ٹرسٹی شپ کو نسل کی تشکیل اس طرح پر ہے کہ جو مالک کسی علاقے کے نگران ہیں وہ سب اس کونسل کے رکن ہیں.ان کی تعداد کے برابر تعداد غی نگران ملکوں میں سے املی کونسل کی رکنیت کے لئے انتخاب کرتی ہے.گویا کو نسل کے اراکین میں نصف تعداد نگران ملکوں کی ہے اور نصف غیر نگر ان ملکوں کی.ہماری تجو نہ تھی کہ ومالیا کی نگرانی میں ملوں کے سپرد ہو جن میں سےایک عینی اٹلی والا کے نظم ونسن کا مدار ہو.جو گران مالک
۵۶۴ کونسل کے پہلے سے رکن تھے.ان کی طرف سے سوال اٹھایا گیا کہ تین ملک اگر طور نگران نامزد کئے جائیں وہ تینوں کونش کے رکن ہوں گے اور تین غیر گران ملکوں کو بذریعہ انتخاب ونسل کی رکنیت میں شام کیا جائے گا.گویا سومالیہ کی نگرانی ے سلے میں کونسل کی رکنیت میں چھ اراکین کا اضافہ ہو گا جن میں سے نظم ونسق کا نظام و مر ایک ملک یعنی اٹی کے پرو ہوگا.اور حقیقی معنوں میں صرف اٹھی ہی نگران ملک ہوگا اور عملا پانی نگران کو ل میں شامل ہو جائیں گے جس کے نتیجے می کونسل کی تشکیل بالکل بدل جائے گی اور نصف نگران اور نصف غیر نگران ممالک کا توازن قائم نہیں رہے گا.کیونکہ زرگران ملکوں کی تعداد نگران ملکوں کی تعداد سے بہت بڑھ جائے گی.اقوام متحدہ کے قواعد کے تخت اس وقت کا انکار نہیں کیا جاسکتا تھا.آخریہ طے پایا کہ سومالیہ کا نگران توالی کوی مقرر کیا جائے لیکن دو ممالک اٹلی کی کارگذاری کی نگرانی کریں اور اس کے متعلق ہر سال رپورٹ پیش کیا کریں.چنانچہ اس کے مطابق قرار داد منظور ہوگئی اور اس پر عمل در آمد شروع ہو گیا.عرب ممالک بھی اس انتظام پر رضا مند تھے اور سومالی وفد بھی مطمئن تھا.اٹلی نے اس فرض کو دیانتداری سے ا کیا اور مقرہ میعادکے اندر سومالی نے آزاد ہوکر اندرونی نظم و نس بھی بنا لیا اور اقوام متحدہ کی رکنیت بھی حاصل کرلی.سوڈان کی آزادی سارہ کے نومبر می امریکہ جاتے ہوئے مجھے ایک رات نو یوم ٹھہرنے کا اتفاق ہوا.امریکہ سے مجھے انگلستان جانا پڑا اور انگلستان سے واپسی کے سفر کے دوران میں مار پر کسی اور میں مجھے پھر درون خرطوم ٹھرنا پڑا.اس مختصر وقت میں جو کچھ مجھے دیکھنے کا اتفاق ہوا اس کا مجھ پربہت اچھا اثر ہوا.اور میرے دل میں سوڈان کے سادہ دیندار اور مخلص لوگوں کی عزت ، احترام اور ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو گیا.واپسی کے سفر میں مجھے السید عبد الرحمن المہدی اور السید مرغنی صاحبان کی ملاقات کی سعادت بھی نصیب ہوئی.جب اقوام متحدہ میں سوڈان کی آزادی کا مسلہ زیر غور آیا تو پاکستانکے وزیر خارجہ کی حیثیت سے بھی اور اپنے ذاتی رجحان کی وجہ سے بھی میں نے میں گہری دلچی لی مینی لحاظ سے سوڈان کی حیثیت دیگر نو آبادیات سے کچھ مختلف تھی.عملا تو سوڈان کا تمام نظم ونسق برطانیہ کے ہاتھ میں تھالیکن تاریخی اور آئینی لحاظ سے سوڈان کے علاقے پر برطانیہ اور مصر و مشترکہ طور پر اختیارات حاصل تھے.سوڈان کی آزادی کے مسئلے کا ایک پہلویہ بھی تھا کہ آزادی کے بعد سوڈان اور مصر کے در میان رابطے کی نوعیت کیا ہوگی؟ اپنی ایام میں مصراور بر طانیہ کے درمیان سوئیز سے بر طانوی افواج کی واپسی کے مسئلے پر بھی گفتگو جاری تھی.یہ دونوں مسائل ابھی ابتدائی مراحل میں تھے کہ مصرعی انقلاب کے نتیجے میں شاہ فاروق تخت سے علیحدہ کر دیے گئے اور مصر می جمہوری حکومت قائم ہوگئی.190ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس پھر پیرس میں ہوا.مصر کی وندی حکومت کے وزیر خار یہ کے ساتھ میرے مراسم مدور تجہ دوستانہ تھے.اسمبلی کے اجلاس کے دوران میں ہما میری گفتگو سوئی سے برطانوی افواج
۵۶۵ کی واپسی کے مسئلے پر برطانیہ کے وزیر خاریہ مٹر ایڈن سے بھی ہوتی رہی.اس مسئلے میں پاکستان مصر کا پورے طور پر موئید تھا اور ٹرائین کوبھی مصری مطالبے کے ساتھ ایک حدتک بعد دی تھی گو انہیں ابھی یہ اطمینان نہیں تھا کہ" وزیر اعظم برطانیہ مٹر چھ میل اس مطالبے کو پورے طور پر قبول کرنے کے لئے تیار ہوں گے.سوڈان کے دور قد بھی پرس میں موجود تھے اور دونوں کے ساتھ میری گفتگو جاری تھی.میری کوشش تھی کہ (1) سوڈان کے سب نمائندے برطانیہ سے پوری آزادی حاصل کرنے پر متفق ہو جائیں (۲) وہ اس امرکی اہمیت کو پوری طرح سمجھ لٹکی سوڈان اور مصر کے درمیان تعاونی تعلقات کا قیام اور استحکام دونوں کی بہبودی کے لئے لازم ہے.(۳ ) ان تعلقات کی عملی شکل کا فیصلہ وہ براہ راست مصر کی حکومت کے ساتھ کریں.گفتگو کے دوران میں سوڈان کے دونود کے اراکین بعض آئینی مسائل کی وضاحت بھی کراتے رہے.مثلا مجھ سے پوچھا گیا کہ اگر سوڈان مصر کے ساتھ تخت و تاج کا اتحاد قبول کرے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ تو نہ ہوگا کہ سو ان مصر کا محکوم ہو گیا ہے.میں نے انہیں مثالیں دیکر یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ اگر آئین میں صاف طور پر درج ہو جائے کہ سوڈان کے آزاد ہونے پر شاہ مصری شاہ سوڈان بھی ہوں گے لیکن شاہ سوڈان کی حیثیت میں وہ اپنی سوڈانی وزارت کے مشورے پر عمل کرنے کے پابند ہوں گے تو اس خدشے کا ازالہ ہو جائے گا.اور اگر سوڈان اس آئینی پابندی کو اور مضبوط کرنا چاہے تو آزادی حاصل ہونے پر وہاقوام متحدہ کارکن بھی بن جائے.اور معر اور سوڈان کے درمیان جو آئینی معاہدہ ہو اسے اقوام متحدہ میں داخل کر دیا جائے.ساتھ ہی میں نے یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ مصر کے وزیر خارجہ سے بھی مل کر اپنے شبہات اور خدشات کے متعلق اطمینان کر لیں.وزیر خارجہ مرنے متعد بار مجھ سے اپنے اطمینان کا اظہار کیا کہ ہماری معی کے نتیجے میں فضا بہت حد تک مانی ہوئی ہے اور اب سوڈان اور مصر کے درمیان جلد سمجھوتا ہو جائے گا.مصری انقلاب کے بعد ان دونوں مسائل کے متعلق گفت و شنید انقلابی کونسل نے اپنے ہاتھوں لے لی.میں مصر سے بر طانوی افواج کی واپسی کے سلسلے میں دو تین بار قاہرہ اور لندن گیا قاہرہ میں پاکستانی سفارت خانہ تو تھا لیکن ان ایام میں سفیر کوئی نہیں تھا.سید طیب حسین صاحب بعده مدیر اول سفارت بنانے کے سربراہ تھے.جب بھی مجھے قاہرہ جانے کا اتفاق ہوا انقلابی کونسل کے اراکین کی طرف سے سید طیب حسین صاحب پر پورے اعتماد کا اظہار ہوتا تا اورانکی مساعی کے متعلق ممنونیت اور تشکر کے جنوبا تمام اراکین کونسل کی طرف سے جو گفتگو میں شریک ہوتے ظاہر ہوتے رہے یہاں تک کہ ہر بارمجھے مشورہ دیا جاتا رہا کہ سید طیب حسین صاحب کو مصر میں پاکستانی سفیر مقر کیہ دیا جائے.برطانوی نمائندوں کے ساتھ اس مسئلے پر گفت وشنید کا سلسلہ لمبا ہوتا گیا.کبھی گفت وشنید کا سلسلہ بند بھی ہو جاتا.جب بھی یہ صورت پیدا
کیا ۵۶۶ تو کا میں ہی موئی تو دوباره گفت و شنید کا سلسلہ پاکستانی سفارتخانے میں ہی جاری ہوا.قاہرہ میں جب بھی میری گفتگو انقلابی کونسل کے اراکین کے ساتھ کوئی اس کی کرنل عبد الجمال ناصر صاحب شامل ہوتے رہے.ان ایام میں حکومت کے رئیس ابھی جنرل نجیب تھے مجھے ان کی خدمت میں حاضر ہونے کی سعادت بھی حاصل ہوتی رہی.وہ نہایت با اخلاق متواضع منكر المزاج اسم با کمی سہتی ہیں.میرے ساتھ ہمیشہ کے لطف اور اسان کے ساتھ پیش آتے رہے.جزاء اللہ.ریاستہائے متحدہ کی طرف سے تبھی اس معامے میں مصر کی پوری تائید کی گئی اور ان کی مدد موثرہ بھی ثابت ہوئی.ان ایام میں امریکی سفر متعینہ قاہرہ مسٹر کافری تھے.میں جب بھی اس سلے میں قاہرہ گیا بر طانوی سفیر سر رالف سٹیفن اور مسٹرکا فری سے ملتا رہا.برطانوی سیر صاحب سے تو یہ محض برطانوی موقف کا علم مال ہوتا لیکن مٹر کافری بڑی صفائی سےبات کرتے اور ان سے تمام حقیقت معلوم ہو جاتی اء کے انتخاب میں جب جزیل آمدن تا دور ریاستان متحدہ امریکہ کے صدرمنتخب ہوگئے اور ری پیکن پارٹی پیر تدار آئی تو مجھے اندیشہ ہوا کہ مر کافی کو جوڈیموکریٹک پارٹی کے تھے شائد قاہرہ سے واپس بلالیا جائے.اگر چہ ایسے معاملے میں دخل اندازی ائمہ نہیں ہوتی لیکن میں نے شروع سواء میں جب امریکی وزیر خارجہ سے دانستگی میں اس خدشے کا اظہار کی اور کہا کہ ان کے قاہرہ سے پہلے آنے سے ممکن ہے اس مسئلے کے عمل میں عولتی ہو جائے تو سٹرڈس نے فرمایا جب تکیہ مسلہ ہے نہ ہوجائے میرا رادہ مٹر کافر کو قاہرہ سے واپس بلانے کا نہیں مجھے اس سے اطمینان ہوا.آخری مراحل طے ہو کر وزیراعظم برطانیہ کی رضامند کار را باقی رہ گیا میں لندن میں ٹرائین سے ملاتو سب طے کر انہوں نے مشورہ دیا تم خود بھی وزیر اعظم مر وہ مل س ملوہ تمہاری رائے کی قدر کرتے ہیں.انہوں نے مجھے یہ بھی ل سے کرتے ہیں.ار وزیر اعظم علم ہے کہ حامد میران مجوز محجوتے کے تم میں ہیں جس دن میری ملاقات وزیر اعظم سے تھی اس سے پلی ام جیل سریانی را برٹن نے جو سویز کے حلقے کے برطانوی کمانڈر انچیف تھے اور رخصت پر سکاٹ لینڈ آئے ہے ھے مجھے ٹیلیفون پر فرمایامجھے معلم تو ہے تم کل وزیر اعظم سےملنے والے ہو.تمہاری اس ملاقات سے پہلے ضروری ہے کہ ہم آپس میں بات چیت کر لیں میں آج رات کی ایکسپریس سے لندن آرہا ہوں.کل ہی سٹیشن سے سید ھاتمہارے پاس آجاؤں گا.دوسری صبح وہ تشریف لائے.انہوں نے فرمایا یہ نہایت اہم معاملہ ہے اور اب آخری اور سب سے نازک مرحلے پر ہے اس لئے ہر مناسب اختیاط اور نذیر لازم ہے.میں تین باتیں تم سے کہا چاہتا ہوں وہ یہ کہ وزیر اعظم پر یہ ہرگز ظاہر نہیں ہونا چاہے کہ میری تمہاری کوئی گفتگو اس سکے پر ہوئی ہے.دو سے تم مناسب طریق سے ان کی طبیعت پر پر تاثر چھوڑتا کہ مصری انقلاب ایک معمل حقیقت ہے عارضی یا نہیں تو ان ٹاور کی میٹھا ئے گا تیرے تم انہی اطمینان دلانے کی کوشش کرنا کہ انقلابی کونسل جو بھی معاہدہ ہوا سے پورے طور پر بنائے گی میں نے وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران
046 ایران کے مشورے میں کیا.وزیر علم و این را دارم می میری بات سن لی جس سے میں نے یہ نیہ اخذ کیاکہ وہ پہلے ہی معاہدے کی موافقت پہ آمادہ ہو چکے تھے.ورنہ اگران کی طبیعت بھی تک مخالفت کی طرف مائل ہوتی تو وہ حسب عادت پورے جوش سے اس کا اظہار کر دیتے.اس معاملے میں مسٹر ایڈن شروع سے ہمدردانہ رویہ اختیار کئے رہے اور آہستہ آہستہ انہوں نے وزیر اعظم کو بھی رضامند کر لیا.ہر سوئیز کے مصری تصرف میں آجانے کے بعد جو مخالفانہ بلکہ معاندانہ رویہ مسٹرایڈین نے اختیار کیا اس میں اسبات کا بھی بہت دخل تھا کہ افواج کے انخراج کے بعد مصر کے ساتھ جیسے دوستانہ تعلقات کی امیران کے زمین میں تھی وہ پوری نہ ہوئی.جب اپنی شدید صدمہ ہوا.ملک اور پارٹی کی نگاہ میں سوئیز کے علاقے سے برطانوی افواج کے اخراج کی ذمہ داری مسٹر انڈین پرتھی.اگر برطانوی افواح سوئیز کے علاقے میں موجودہ ہو ئیں تو ہر سوئز پر مصری حکومت اپنا نصرف قائم نہ کرسکتی.ملک اور پارٹی کا رد عمل یہ تھاکہ مسٹر ایڈین نے برطانوی افواج کے اخراج پر رضامند ہو جانے سے شرق اوسط میں برطانوی طاقت اور وقار کو صدمہ پنچایا جس کےنتیجے میں مر نہ سوئی کو اپنے والد قرن میں لے آیا ہے.لیکن حقیقت یہ ہے کہ دو عالمی جنگوں کے نتیجے ہا نہ رسی سے اردو ہوچکا تھا اور اس کمزوری کی وجہ سے بہت حدتک اپنا رب بھی کھو چکا تھا.دوسری جنگ کے بعد جو حالات دنیا بھرمیں رونما ہو رہے تھے اور آزادی کی اور چل رہی تھی ان کے نظام کے اصرار پر یمانی افواج کا سٹیز کے علاقے سے اخراج ناگزیر تھا میرائی کی ہمدردانہ دو سے یہ مسلہ بخیروخوبی طے ہوگیا.ور ر شاش کی صورت پیدا ہوتی تو برطانیہ کی سی ہوتی اور نتیجہ پر بھی وہی ہوتا.بعد کے واقعات اس حقیقت کی تائید کرتے ہیں اس وقت کے لحاظ سے بھی دو باتیں کسی قدر معنی نیز تھیں.اول :- برطانوی افواج کے اخراج کا مطالبت و فاروق کے عہد میں وندی وزارت نے کیا تھا.یہ اقدام انقلاب کا نیچے نہیں تھا ملکہ انقلاب سے پہلے کیا جاچکا تھا.انقلابی کونسل کے لئے اس پر زور دینا لازم تھا کیونکہ ان افواج کی سوئیز کے علاقے میں موجود گی مصر کی کامل آزادی کے رستے میں روک بھی نہیں کا دوسری عالمی جنگ کے بعد کے حالات میں دور کیا جانا لا کر تھا.دوسرے ، برطانیہ کی فوجی طاقت کے انحطاط ہی کا نتیجہ تھاکہ خود سوئیز کے علاقے کے کمانڈر انچیف جنرل را بر شن شدت سے آرزومند تھے کہ مسئله مصالحانہ گفت وشنید سے ہی سمجھ سجائے اور کسی قسم کے تصادم کی صورت پیدا نہ ہو.ورنہ فوجی روایات کے تو یہ امر بالکل خلاف تھا.کہ وہ اس مسئلے کے سیاسی تصفیے میں استقدر گیری موسی لیتے.سوڈان کی آزادی کامسئلہ سب اقوام متحدہ کی سیل میں میری یا قرار پایا کہ سوڈان کے گورنر جنرل کی ایک مشاورتی کونسل بنائی جائے جس کے پانچ رکن ہوں.ایک پاکستانی جومت اورتی کونسل کا صدر ہو ایک برطانوی
041 ایک مصری اور دو سوڈانی.پاکستانی رکن کی ذمہ داری بحیثیت صدر نہایت اہم تھی اسنے میری تجویز بھیک اسی منصب کے لئے پاکستان کی خانہ جو سروس کے سب سے سینٹر اور مان رکن مٹر اکرام الد و تو شروع سے پاکستان کے خارجہ سیکریٹری تھے منتخب کیا جائے.مصر کے وزیر خارجہ اس زمانے میں محمود فوزی صاحب تھے تو مصری انقلاب سے قبل اقوام متحدہ میں مر کے مستقل نمائندے تھے.میرےاور ان کے درمیان دوستانہ مراسم تھے.ان کی طرف سے مجھے پیغم موصول ہوا کہ انہیں کرام اللہ صاحب کے تقریر اور اطمنان ہیں کیونکہ مشاورتی کونس کے برطانوی نمائندے سر یعنی سمتھ ہوں گے تو پاکستان میںبرطانوی نان کمتر رہ چکے ہیں اوران کے اور مراکرام الہ کے درمیان دوستانہ مراسم ہیں.انہیں اندیشہ تھا کہ مٹر کا مال ان کی راے سے متاثر ہوں گے.میں نے اپنے جواب میں انہیں اطمینان دلانے کی کوشش کی کہ یہ اندیشہ بالکل بے بنیاد ہے.مسر اکرام الل کے تعلقات تمام سفرائے متعین پاکستان کے ساتھ دوستانہ تھے.وہ سرکہ بیٹی سمتھ کو خوب جانتے ہیں اور یہ امر اسبات کی ضمانت ہونا چاہئے کہ وہ سرگرینٹی کی سینا واجب چال کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے.لیکن محمود فوزی صاحب مطمئن نہ ہوئے اور مجھے مشورہ دیا کہ سب طیب میں صاحب کو اہر میں پاکستانی سفیر بھی مر کر دیا جاے اور ساتھی سوڈان کے گورنر جنرل کی مشورتی کونس کا رکن اور صد بھی نامزد کر دیا جائے وہ بیک وقت ان دونوں مناصب کے فرائض کو خوبی سر انجام دے سکیں گے.مجھے مصری وزیر خارت کے اس اقدام پر بہت حیرت ہوئی.ایک تو انہیں صاحب تجربہ سیاستدان ہونے کی حثیت سے معلوم ہونا یہ تھا کہ پاکستانی سفارتون کے لئے موزوں انتخاب کرنا پاکستانی حکومت کا کام ہے اور ایک دوسری حکومت کا اس مں دخل اندازی کرنا واجب نہیں.میں نے مصری اور پاکستانی با کی دوستانہ تعلقات اور محمود نوری صاحب کے ساتھ اپنے ذاتی دوستانہ مراسم کے پیش نظر ن کے لیے پیغام کوایک غیر سمی شخصی شور سمجھ کر مسیحیت میں جواب ان کے اطمینان کی کوشش کی تھی.اگر یں ان کا پہلا کے باوجود اکرام الل صاحب کی نامزدگی کا اعلان کردیا قریہ اور اب بات نہ ہوتی.وزیر خارجہ صاحب کی خدمت یں صرف محنت کا پیام بھی دینا کافی ہوتا کہ مھے اطمینان سے کہیں مرنے کا آپنے اظہار کیا ہے اسکی کوئی نیاد نہیں.لیکن میں نے مناسب سمجھاکہ جہاں تک ہوسکےسوڈان کی مکمل آزاد کا مرحلہ پاکستان سفر در سوڈان کے بابھی تعاون سے بخیر و خوبی سرانجام پائے.انہوں نے میری تواضع سے الا یہ نتیجہ کالا کریں اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی میں ان کی ہدایت پر عمل کرنا منظور کرلوں گا.میں نے دوسرے پیغام کے جواب میں انہیں اطلاع دیدی کہ کومحمد اکرام اللہ صاحب کی نسبت کی رائے سے مجھے اتفاق نہیں لیکن مجھےان کے تقریر پارا نہیں اورمیں نے میاں ضیاء الدین صاحب کو جو اس وقت ٹوکیو می سفر پاکستان تھے مشاورتی کونسل کا رکن نامزد کر دیا.تھوڑا عرصہ بعد مجھے قاہرہ جانے کا اتفاق ہوا.وزیر خارجہ مصر سے ملاقات ہوئی میں نے ان کی خدمت میں گذارش کی کہ حکومت پاکستان میمنی ہے کہ سوڈان کی مکمل آزادی جلد سے جلد عمل میں آئے اور مصراور سوڈان کے درمیان دوستانہ رابطہ قائم ہو جائے.
۵۶۹ اس مرض کے حصول کے لئے گوری جنرل کی مشاورتی کونسل کے پکستانی رکن کو ہدایت دی گئی ہے کہ (ا ) سوڈان کی لد سے جلد مکمل آزادی کے عمل میںلانے کی ہر مکن سعی کی جائے اور سرسرسے پاس مقصد کو پیش نظر رکھا جائے.(۲) سوڈانی اہل الرائے اصحاب کو مناسب طریق یہ یاد و نانی جاری رہے کہ سوڈان در مصر کے اکثر منار مشترک ہیں اور دونوں کار اقدام ترکی میں سے لازم ہےکہ ان کے درمیان دوستان را به نام واوردونوں ایکدوسرے کے ساتھ بھی مفاد کے فروغ دینے کے لئے تعاون کریں (۳) مصر اور سوڈان کے درمیان رابطے کی کیا شکل ہو یہ مسلہ سوڈان اور مصر کا آپس میں طے کرنے کا ہے.گورنر جنرل کی مشاورتی کونسل کو اس سے کوئی سرد کار نہیں.پاکستانی نمائندے کو اس سے بالکل الگ رہنا چاہیے اور اس کے متعلق کسی قسم کی رائے کا اظہار نہیں کرنا چاہئے.میں نے ان سے دریافت کیا کہ کسان کی رائے میں یہ ہدایات مناسب ہیں ؟ انہوں نے فرمایا مناسب یں میں مرض کیا اگر کسی قت آپ کویہ معلوم ہوکہ ان ہدایات کے مل نہیں ہو ر نا پ ان کی خلاف ورزی کی جاری ہے توآپ انے سفیر متعینہ کراچی کی عزت مجھے مطلع فرما دیں میں نور توبہ کروں گا اور اگر کسی اصلاح کی ضرورت ثابت ہوئی تو مناسب اصلاح کی جائے گی.میں نے یہ بھی عرض کیا کہ کرسی مصلے پر آپس میں مشورے کی ضرورت پیش آئے تو یں قاہرہ حاضر ہونےمیں تامل نہیں کروں گا.محمود فری صاحب میری گذارشات پر اطمینان کا اظہار فرمایا.میاں ضیاء الدین صاحب نے اپنے فرائض کو نہایت پویش اسلوبی کے ساتھ سرانجام دیا.الحمد لہر سوڈان کی مکمل آزادی بخیر خوبی حل علمی آگئی پہلے انتخاب می حزب اتحاد کو کثرت حاصل ہوئی جس کے نتیجے مں توقع تھی کہ سوڈان اور مصر کے درمیان آئینی انتخار کی کوئی صورت نکل آئے گی لیکن یہ توقع یہ نہ آئی.اس کی ایک وجہ تو اسوقت سننے میں آئی یہ بھی تھی کہ عین انہیں ایام میں جنرل نجیب کو صدر ریاست کے منصب سے علیحدہ کر دیا گیا.جنرل نجیب کی والدہ سوڈانی تھیں اور جنرل نجیب سوڈان میں بہت ہر دلعزیز تھے.سوڈان والوں کو ان پر بہت اعتماد تھا لہذا ان کی علیحد گی ان پر بہت شاق ہوئی واللہ اعلم بالصواب - لیکن یہ امر باعث امتنان ہے کہ مصر اور سوڈان کے بائی تعلقات میشہ خوشگوار رہے ہیں اور یہ حقیقت مصری اور سوڈانی ارباب حل وعقد کے تعمیم اور دور بینی پر دال ہے.تونس اور مراکش کی آزادی کے مسئلہ کو نشاء کے املی کے سالانہ اجلاس میں جو پریس میں ہوا ہم نے اقوام متحدہ میں لانے کی کوشش تونس اور مراکش کی آزادی کاملا سالی کے ایجنڈے پرانے کی کوشش کی لیکن میری تجویز اینجا کہ ملک کی کی وجہ سے مسترد ہوگئی زیادہ انسوس اسیات کا نظارہ لاطینی امریکی مالک ہی سے جو عموماً آزادی کے گن گانے کے عادی ہی بہت کم ملک نے مارا ساتھ دیا اور خو ریاستہائے متحدہ امریکہ نے نصرت خلاف رائے دی بلکہ ان کے نمائندے مسٹرا نسٹ گروس نے تمہاری بخونیہ کے خلاف تقریر کر کے بعض ممالک کے نمائندوں کو بہکا دیا.مجھے اس سے سخت صدمہ ہوا اور میں نے ہوائی تقریر میں کہا کہ ایک طرف اقوام متحدہ کا مشاق ہم یہ یہ دواری
۵۷۰ ڈالتا ہے کہ ہم اپنے تنازعات کا تصفیہ پر امن طریقوں سے کریں اور دوسری طرف جب ہم اقوام متحدہ کے ذریعے ایک تناز کے فیصلے کے طالب ہوتے ہیں تواسے ایجنڈے میں درج کرنے کی بھی مخالف کی جاتی ہے.اس کا نتیجہ کیا ہوگا ہی نا کر سر قم کی آزادی کا مسئلہ یہاں زیر غور نہیں لایا جاسکتا وہ تنگ آمد بجنگ آمد کا طریق اختیار کرے گی.اگر اقوام متحدہ کی اس غیر ہمدردانہ روش سے مایوس ہو کر تونس اور مراکش کے وطن پرست جنگ کی ٹھان لیں گے تو ناحق انسانی خون گرایا جائیگا.اگر چہ اس کشمکش کا انجام تو ایک ہوسکتا ہے یعنی یہ کہ کل آزاد ہو کر رہیں گے.لیکن اس صورت میں تو مصاب جانبین کو برداشت کرنے پڑیں گے ان کی ذمہ داری سے بڑھ کر امریکی منانے پر ہوئی تو لوں والا سادات ،..لنت ا اور حمیت کے مادی میں میں نمی کا آ کر دی ان کے نام وادی کو جاتا ہے اریایی در ایران نے ہماری تاریہ کی بات میں یہاں تک کہ دیا کہ نہایت افسوس ہے ایک طرف توب ملکوں کے نمائدے حکومت فرانس کی مہمان نوازی کی تعریف کرتے ہوئے اپنی ممنونیت کا اظہار کرتے ہیں اور دو ہی طرف اس معاملے میں ہمارے خلاف رائے دینے پر آمادہ ہیں.مسٹر ردبیر شومان وزیر خارجه فرانس ایک قابل اور باوقار سیاستدان سمجھے جاتے تھے.ان کے منہ سے ایسی بوری بات سنکر مجھے حدود بعد تاسف ہوا.آرا شماری کے بعد اس دن کا اجلاس بر خاست ہو گیا.میرے دل کی حالت میرے چہرے سے !.190 ا یہ رائے شماری شکست نہیں راضی فت ہے.یاد رکھو یہ اجلاس پرس میں ہو رہا ہے.یہاں کے قیام کے دوران میں کسی ملے پر فرانس کے خلاف رائے دینا لاطینی امریکیوں کے لئے نامکان ہے.پریس تو ہماری جھولوں کا قبا ہے.فرانس کے نفات ائے دیگر ہم اپنے گھروںمیں کیسے ادیبہ باکریں.تمہاری توی این در اراک کی کم سے پرس میں سرد ہو جانے کے منی ہی که آنده سال نیویارک کے اجلاس میں یہ خونی بلا مخالفت منظور ہو جائے گی.چنانچہ ایسی ہوا اور شکار کے سالانہ استلباس میں اگرچہ فرانس نے مخالفت تو کی لیکن یہ دونوں مسئلے ایجنڈے میں شامل ہوگئے اور زیر بحث آئے.جب ان مسائل پر کب ہوتی تو فرانسیسی نمائندے احتجا جا اجلاس سے اٹھ کر چلے جاتے لیکن کسی دوسرے کرے میں بیٹھ کر تقریریں سنتے رہتے عرب ممالک کی خواہش تھی کہ فلسطین اور لیبیا کی آزادی کے مسلے کی طرح تونس اور مراکش کی آزادی کے مسلہ کو اسمبلی میں تفصیل یش کرنے کی عادت بھی پاکستانی سرانجام دے.یہ کوئی شک امری ہی انا ما ارف کے محکوم علاقوں یعنی تونس الجزار تھا.اور مراکش کے مقابلے میں بیان تا پسماندہ تھا.جب لیا آزاد ہو گیا تو مغرب کے باقی علاقوں کا آنراد کیا جانالازمی تقان کی آزادی کے رستے میں روکاوٹیں تو ڈالی جاسکتی تھیں لیکن آخر کاران کا انذار ہونا یقینی تھا.پیرس میں فرحت عباس صاحب اور دیگر قائدین شاہ کے اجلاس کے دوران محمد اقبال شیدائی صحاب الجزائر کے ساتھ الجزائر کی آزادی کے متعلق گفتگو کے توسط سے بعض الجزائری قائدین بھن میں فرحت عباس صاحب اور دو تین دیگر اراکین پارلیمنٹ بھی شامل تھے جےسے لے اور فرمایام توس اور مراکش کی آزادی کامسئلہ امیلی
کے ایجنڈے میں شامل کئے جانے کی سعی کر رہے ہو الجزائر کو ان کے ساتھ کیوں شامل نہیں کرتے.میں نے عرض کیا کہ کا لحاظ رکھنا ضروری ہے.ان علاقوں میں سے لیبانیتا پسماندہ علاقہ تھا لیکن وہ سب سے آخر میں مغربی تسلط کے تحت + یا تھا.دوسری عالمی جن میں اٹلی کی شست کے نتیجے میںخود مربی طاقتیں کیا کیا آزاد کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی ملی میں زیر کٹ لانے پر مجبور نہیں.ان کے عزائم تو تک ہی تھے لیکن اسلہ تعالی نے انے فضل رحم سے لیا کی فوری آزادی کی صورت پیدا کردی.لیا کے آزاد ہو جانے کے بعد تونس الجزائر در مراک کی آزادی لازمی ہے.لیکن جہان کاقوام متحدہ ی تائید کا سوال ہے تو اور مراکش کی آزادی کیلئے است با صاف ہے.الجزائر کے رستے میں بظاہر ایک آئینی روک حائل ہے.ونس اور مراکش میں فرانسیسی مداخلت کی بناء معاہدات پرہے.فرانس کی طرف سے بیشک یہ کہا جا رہا ہے کہ فرانس اور تون کے تعلقات اور فرانس اور مراکش کے تعلقات فرانس کے داخلی معاملات ہیں اور اقوام متحدہ کے میثاق کے در سے اقوام مستخدمان میں دخل دینے کی مجانہ نہیں لیکن یہ عذر بالبداہت ناقابل پذیرائی ہے.یہ تعلقات بین الاقوامی معاہدات کے ذریعے سے قائم ہوئے تھے.فرانس پرتسلیم کرنے پر مجبورے کو بھی ترس اور مراکش الگ الگ ملک میں جن کی طرف سے انکے کمرانوں نے بعض اختیارات فرانس کے سپرد کئےہوئے ہیں.ان ملکوں کی طرف سےکہا جارہا ہے کہ جن معاملات کی روے ہ اختیارات فرانس کے پر کئے گئے تھے کی غرض پوری ہوچکی ہے.وہ معاملات اپنا مقصد پوراکر کے ساقط ہو چکے ہیں اور فرانس کی موجودگی ان علاقوں میں مداخلت کیا اور نا اب ہے اس لئے مینی لحاظ سے اقوام متحدہ کے ان سائل پرغور کرنے ور ان کے متعلق مناسب اقدام کرنے کے رستےمیں کوئی روک مائل نہیں.الجزائر مسئلہ کو حقیقت تو مراکش اور توش کے مسائل کی ماند ایک مک اور قوم کی آزادی کا مسلہ ہے لیکن فرانس کی طرف سے اس مسئلے میں ایک مینی پیچیدگی پیداکردی گئی ہے جس کی وجہ سے نظاہر الجزائر کا مسئلہ تونس اور مراکش کے مسائل سے مختلف معلوم ہوتا ہے.وہ فرق یہ ہے کہ گو فرانس نے الجزائر پر انا اقتدار فوج کشی کے ذریعے قائم کیا اور اس طرالجزائر فرانس کی نو آبادی بنایا لیکن اس با کمی تعلق کی آئینی شکل یہ بتائی کہ الخمار کو فرانس کا ایک صوبہ قرار دیدیا.اس آئینی مفر منے کی آڑ لیکر فرانس کی طرف سے یہ کہا جاتا ے کہ الجزائر اور ان کا باہمی تعلق فرانس کا داخلی مسلہ ہے اور اقوام متحدہ کے میثاق کے رو سے اقوام متحدہ اس میں وخل اندازی کے مجاز نہیں.علاوہ ازیں فرانسیسیوں کو الجزائر کے ساتھ گہرا جذباتی تعلق ہے.فرانیس تونس اور مراکش کی آزادی کے تصور کو تو میں ہے برداشت کریں لیکن الجزائر کے فرنس سے عید کی کا تصور ان کے لئے ناقابل برداشت ہوگا.ان وجوہ سے میری دانست میں الجزائہ کی آزادی کے مسلے کو تونس اور مراکش کی آزادی کے مسائل کے ساتھ توام متحدہ میں زیرہ کی نہیں لانا چاہیے.جب تونس اور مراکش کو آزادی دینے کے لئے بین الاقوامی حلقوں کی تائید حاصل ہو جائے گی تو پھر زانہ کی آزادی کے سوا کو کامیابی کی امی کےساتھ زیربیت ان انا مشکل نہیں ہے گا.اگر پر بی اساس ہے کہ الجزائر
۵۷۲ کی آزادی کی کشمکش زیادہ ہی ہوگی اور تحصول آزادی کیلئے الجزائر والوں کو قربانی بھی زیادہ دینا پڑے گی.تونس اور مراکش کی آنہ ادی کا مسئلہ | سبب تونس کا مسئلہ اسمبل میں زیر بحث آیا سید احمد شاہ صاحب بخاری کی تو اس وقت اقوام متحدہ میں پاکستان کے معقل نانی سے رائے تھی کہ اقوم متحدہ کے میثاق کے فقرہ ہبر کی شق نمبر، ضرور رستے میں حائل ہو گی.میری دلیل کو وہ چنداں وزن نہیں دیتے تھے لیکن دوران بحث کوئی ایسی شکل اس سوال کی وجہ سے پیدانہ ہوئی اور بخاری صاحب بھی نہ صرف مطمئن ہوگئے بلکہ بڑی مضبوطی سے اس موقف کی تائیک کرتے رہے کہ تونس اور مراکش کی آزادی کا مسلہ بین الاقوامی مسئلہ ہے فرانس کا داخلی مسئلہ نہیں.جب فرانسیسی وفد نے یہ دیکھا کہ پاکستان تونس اور مراکش کی حمایت میں پیش پیش ہے تو تو کس کے مسئلے پر بحث کے دوران میں ان کی طرف سے ایک بہت دیدہ زیب پمنٹ اراکین اسلیمی تقسیم کیا گیا میں اعداد شما سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ تونس رفاہ عام کے ہر شعبہ میںپاکستان سے کہیں آگے ہے.ایک صبح یہ پیلٹ اجلاس شروع ہونے کے درخت پر ملک کے نمائندے کے میز پر پایا گیا میں نے جلد جلد اس کی ورق گردانی کی اور اسے ایک طرف رکھ دیا اس پینٹ میں چونکہ تونس ویرا کا مقابلہ صرف پاکستان سے کیا گیا تھا.اس لئے اس سے یہ ظاہر کرنا مقصودنا کہ آزادی کے باوجود پاکستان میں رفاہ عام کے شعبوں میں ترقی کی رفتار تونس سے بہت ہمت ہے اور تونس کی ترقی کی رفتار فرانس کے زیر اقتدار ہونے کی وجہ سے ہے جب میں یہ پمفلٹ دیکھ سکا تو آغا شاہی صاحب نے جو مرے ساتھ کمیٹی میں معاون تھے اسے اٹھا لیا اور اس کے مطالع میں مصروف ہو گئے.تھوڑی دیر بعد گھر اس میں مجھ سے فرمایا کہ پاکستان کے یہ اعداد و شمار تو اس پمفلٹ میں دیے گئے ہیں آزادی سے پہلے کے ہیں.آزادی کے بعد پاکستان میں بہت سے شعبوں میں نمایاں تمرینی ہوئی ہے جیسے اس پمفلٹ میں ظاہر نہیں گیا.ہم آج ہی اس کا جواب تیار کرلیں گے.آپ کتنی عیدی جواب دینا چاہتے ہیں؟ میں نے ان پر درانی کے لیے ہی کیا کوئی جلدی نہیں.انہوں نے محسوس کیا شائد میں پمفلٹ کی اہمیت کو نہیں سمجھا.تھوڑے عرصے بعد پھر کہا.میں جاکر اعداد ار کی پرتال شروع کروں ؟ میں نے پھراسی لیے میں کہا آپ رحمت نہ کریں.انہوں نے چند منٹ صبر کرنے کے بعد پھر کہا صاحب اس کا جواب تو ضرور ہونا چاہئے.میں نے پر یہ کہ کرا دیا دیکھا جائے گا.اس پر وہ خاموش تو ہو گئے لیکن ان کا اطمینائی نہ ہوا.آخر جب میری طرف سے جواب کا وقت آیا تو جہاں تک اس پیمنٹ کا تعلق تھا میں نے کہا میں افسوس ہے کہ ان سائل پر حب کے دوران فرانسی نیند میں املی کے اس سے لے کر چلے جاتے ای یار اس کا ایک کی روشنی نہیں ڈالی جاتی اسلئے ہی ان کے نقطہ سے آنا ہی نہیں ہوتی لیکن تم منو میں کہ آج انہوں نے کسی حد تک ہماری لاعلمی کے اندامے کسی اسیس منانے کے لیے کہ و اوار این عملی می تقسیم کیا گیا ہے.ممکن ہے بعض اراکین ابھی ان اعدادو شمار کا تجزیہ نہ کر پائے ہوں تو اس پمفلٹ میں درج ہیں اور اس لئے ان سے صیح نتیجہ اخذ کرنے کے قابل نہ ہوں لہذامیں ان کی اطلاع کے لئے ہر صحے کا خلاصہ نہیں سنا دیتا ہوں.چند منٹوں کی هم
۵۷۳ یں پاکستان کی نسبت کہیں آگے ہے.مسئلہ زیر بحث ہے کہ تونس نے بارود کے معاہدے کی رو سے بعض اختیارات اس غرض سے فرانس کے پر رکھے تھے کہ فرانس ان اختیارات کو استعمال کرکے قونس کے داخلی شعبوں میں مناسب اصلاح کردیے تونس کا کہنا ہےکہ فرانش معاہدے کے مقاصد کو لیا کر چکا ہے اس لئے اب وہ اختیارات تو فرانس کو تفویض کئے گئے تھے تو ن کو دائیں ہونے چاہئیں.فرانس کی طرف سے اس پینٹ میں یہ بوت نہیں کیا گیا ہے کہ تونسن نے شعبوں میں استدار ترقی کی ہے کہ وہ پاکستان سے بھی کہیں آگے نکل گیا ہے.ہم اسے درست تسلیم کرتے ہوئے فرانسیسی فاضل نمائندوں سے صرف ایک سوال کرتے ہیں کہ اگر حقیقت ہی ہے جو پمفلٹ میں ظاہر کی گئی ہے تو کیا وجہ ہے کہ پاکستان تو آج سے پانچ سال قبل آزاد ہو چکا ہے اور تونس جو پاکستان کی نیتاس قدر ترقی یافتہ ہے ابھی آزادی کے قابل نہیں سمجھا جاتا؟ غرض نہ تونس کے متعلق نہ مراکش کے متعلق فرانس کوئی ایسی دلیل پیش کرنے کے قائل تھا جس کی نباید ان مالک ادا کیا این نگران با این اقوام متحدہ میں ان کے اور روس کی وجہ سے ایام میں اس سے بیان مول توتا یا.ایک بار فرانس نے جھنجھا کر سلطان مراکش و جلا وطن کر دیا اور انکے مقابل پات آن مراکش کو کھڑا کرنے کی کوشش کی لیکن اس اقدام کے خلاف ملک بھرمی ایسے ہوش کا احتجاج ہواکہ تھوڑے عمر میں سلطان فاتحانہ حیثیت میں واپس لوٹے ور پاشان مراکش نے درباری گھٹنوں کے بل چل کران کی اطاعت ا علان کیا اور اپنے قصر کی معافی طلب کی.جب امیلی یں یہ قصہ خاطر خواہ طور پر سمجھ نہ سکا توی مسائل ملی ان کے زیر ٹور آئے.اس عرصے میں پاکستان مجلس امن کا کین ہوچکا تھا اور پاکستان کے قالی نانی سید احمت و صاحب بخاری نے ان ملکوں کی آزادی کی حمات کو نہایت سن طور پر نبھایا.فجزاه الله اسید احمد بلا فریج کے پاکستانی پاسپورٹ کا معاملہ اس دوران میں السید احد الا فریج تو راکش کے حزب استقلال کے سیکریٹری تھے اور ملک کی آزادی کی جدو جہد میں صف اول میں پیش پیش تھے اور جن کے میرے اتھ گہرے دوستانہ مراسم قائم ہوچکے تھےمجھے نو یار میں سے ان کے پاسپورٹ کی میعاد ختم ہونے والی بھی کرہ پاسپورٹ کی تجدید یا توسیع کے لئے پریش یار باط جاتے تو نہیں اندیشہ تھاکہ انہیں ضرور نظر بد کردیا جائے گا اور وہ نیو یارک واپس نہ آسکیں گے انہوں نے مجھ سے اس مشکل کا تذکرہ کیا.میں نے انہاس اطمینان دلایا کہ وہ پریشان نہ ہوں کیونکہ اس مشکل کا حمل آسان ہے.میں نے انہیں اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے کا بلا تنخواہ مشیر اقوام تند تر کر دیا دوران ان کی سرانجام دی کےلئے انہیں پاکستانی پاسپورٹ دیدیا.میرے کرا چو آپ آنے کے چند دن بعد فرانسیسی سفر ہر ایک سنسی موسیو اور مجھے ملنے آئے اور فرمایا میری حکومت نے مجھے ہدایت دی ہے کہ میں انکی طرف سے السید محمد بالا فریج کو پاکستانی پاسپورٹ دیے جانے کے خلاف احتجاج کریں.
۵۷۴ ظفر اللہ خان : - فرمائیے آپ کو کیا کہنا ہے.موسیو اوج -:- مجھے یہ کہا ہے کہ آپ کا یہ اقدام خود آپ کے اپنے قومیت کے قانون NATIONALITY) (ACT کی خلاف ورزی ہے.ظفر اللہ خاں :.اچھا ؟ وہ کیسے ؟ موسیو اورج : میں آپ کی توجہ ایکٹ کی متعلقہ دفعہ کی طرف مبذول کراتا ہوں.دیکھئے اس میں لکھا ہے کہ پاکستانی قومیت حاصل کرنے کے لئے پاکستان میں پانچ سال کی رہائی لازمی ہے اور احمد بالاتری تو پانچ سال چھوڑ پانچ منٹ بھی پاکستان نہیں ٹھہرے انہوں نے تو کبھی پاکستان میں قدم بھی نہیں رکھا.ظفر اللہ خان در جناب سیر صاحب مجھے یاد پڑتا ہے کہ دور کے متن کی بات کے بعد باریک تر میں کچھ نشانی عبارت بھی ہے وہ بھی پڑھ دیجیئے.موسی وادی :.ہاں ہاں کچھ ہے.بیشک لکھا ہے کہ حکمت کو اختیار ہے کہ خاص حالات میں رہائش کی شرط کو ترک کردے.لیکن یہاں کونسے خاص حالات ہیں ؟ ظفر اللہ خاں :.جناب سفیر صاحب آپ بید دریافت کرنے کے مجانہ نہیں ! موسیو اوج :- لیکن کیا میںایک دوست کی حیثیت سے بھی دریافت نہیں کر سکتا؟ ظفر اللہ خاں :.پہلے آپ اپنی حکومت کے نمائندے کی حیثیت سے احتجاج ختم کر لیجئے.دوستی بعد یں آئیگی.موسیو ارج :.دیکھئے مجلس امن کے اجلاس میں جب اسید احمد بالا فریج آپ کے مستقل نمائندے کے سمجھے الله کرسی پر آٹھتے ہیں تو ہرے نمائندوں پر یہ امرگراں گذرتا ہے فرض کی یار امیر الملک کے زیر نور مواد شیخ عدلیہ بحیثیت آزیری میر فرانسیسی متفق نمائندے کے مجھے اگر مجھ جائیں تو آپ کا کیا حساس ہو گا ؟ ظفر اللہ خان : - اگر اب ہو تو مکن ہے میری طبیعت پر یہ بات اس سے زیادہ گراں گزرے فتنا اسید احمد با انریک کی اجلاس میں موجودگی آپ کے نمائندوں پر گذرتی ہے.لیکن یں اس کے بارے میں آپ سے احتجاج کا مجاز نہیں ہوں گا.موسیو اورج :.لیکن بحیثیت دوست کے؟ ظفر اللہ خاں :.توکیا احتجاج ختم ہوا ؟ موسیو اوج :- بہت اچھا.احتجاج ختم ہوا.ظفر اللہ خاں :.اچھا نواب دوستی کی بات کریں.میں بحیثیت دوست کے تعلیم کرتا ہوں کہ استاد احد بالا فریج کی موجودگی مجلس کے اجلاس میں آپ کے نمائندوں کے لئے وقت کا موجب ہوتی ہے.میں اس کا یہ عمل تجویز کرتا ہوں کہ می پاکستان کے متعقل نمائندے کو ہدایت دیدوں گا کہ وہ مجلس کے اجلاس میں السید احمد بالا فریج کو اپنے ساتھ نہ بچایا
موسی وادرج :- آپ ایک کریں تو میں نہایت منون ہوں گا ور میری حکومت ھی شکر گذار ہوگی.میں بہت شکریے کے ساتھ رخصت چاہتا ہوں.ظفر اللہ خاں : - ذرا ٹھہریے میں ایک بیا آپ کوبتانا چاہتا ہوں.اسی احد بالا فریج نیو یارک می مجھ سے ے اور کہا میرے پاسپورٹ کی میعاد ختم ہونے والی ہے اورمجھے یقین ہے کہ گرمی پاسپورٹ کی توسیع یا خدا کے لئے پیرس بار بار گیا تو مجھےنظر بند کر دیا جائے گا.اور میں واپس نہ آسکوں گا.آپ کی آپ کی گفتگو سے مجھے یقین ہوگیا ہے کہ ان کا خدشہ کا تھا.اور میں نے اچھا کیا کہ انہیں پاکستانی پاسپورٹ دیدیا.اچھا سیفر صاحب خدا حافظ ! تونس اور مراکش کے قضیے اسمبلی در محلی امن کے بحث مباتوں کے چکر سے گذر کر آخر این اتا کوپہنچے اور یہ دونوں 140 ملک فرانس کے پنجے سے آزاد ہوئے پر شہداء میں تو ان ملکوں کی آزادی کے حامی اراکین اس مسئلہ کو اسمبلی کے ایجنڈے میں ال کرنے میں بھی کامیاب نہ ہوسکے تھے لیکن دس سال بعد الاء میں سید مونجی سلیم جو اس وقت اقوام متحدہ میں تونس کے منتقل نمائندے تھے اور بعد میں تونس کے وزیر خارجہ ہوئے اقوام متحدہ کی املی کے صدر منتخب ہوئے.الزائمہ کی آزادی الجزائر کواپنی آزادی کیلئے ایک لما ر ہ جدوجہد کرناپڑی اور جب فرانی امن اور مصالحت کے طریق سے کسی فیصلے پر آمادہ نہ ہوسکا توں اچار تیار باری کا معلم پیش آیا.تونس در مراکش کی آزادی کے بنتے ہیں الجزائمہ کی آزادی لازم ہو چکی تھی.فرانس کی ضد اور ہٹ دھرمی نے الجزائری محبان وطن کوسر فروشی اور جام شہادت کے نوش کرنے کا چیلنج دیا جسے الجزائر کے ہر طبقے کے مجاہدین نے بعد شوق قبول کیا اور ایسی تمت، تمرات ، شجاعت ، مرا در استقلال سے آزادی کی مہم کو چلایا کہ ساری دنیاکی طرفسے آفرین کا خراج پیش ہوا.آخر خود فرانس میں انقلابی علا رونما ہوئے اور تنزل ڈیگال پر سر اقتدار آئے.انہوں نے بہت دلیری اور فراست سے الجزائر کے قضیے کو طے کرنے کی انی را با تور داخلی اور خارجی مشکلات کے فراوانی کی کمی کا ارادہ کرکے الایہ کواس کا بنیادی حق دینے اور فرانس کو ایک ایسی شکل سے رہائی دلانے کی صورت پیدا کر لی جو فرانس کے لئے سوہان روح بن رہی منفی فجزاه الله.مالی افریقہ کے ان چار ملک کو اس جدو جہد میں جس نے مختلف شکلیں اختیار کی پاکستان کی پوری تائید اور یری ہمدردی حاصل ریا اور صرف اقوام متحدہ کہا کہ پاکستان کی ان سے اپنی دوستی اور اغوت کا عملی ثبوت پیش ہوتا رہا.فرانس کی حکومت پاکستان کے موقف اور پاکستان کے اقدامات سے واقف تھی اور اگر یہ اکستان نے کوئی موقع ان مالک کی آزادی کی بدو بد کو کامیاب کرنے کا ہاتھ سے نہیں دیا لیکن فرانس کی حکومت کی نگاہ عی پاکستان کا وقار یہ بتا ہی گیا.
064 اء کے اکتوبر میں سربی این راؤ جو اس وقت اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مستقل نمائندہ تھے بین الاقوامی عدالت کے جچ منتخب ہوئے ان کی جی کی 9 سالہ میعاد در فروری شاہ کو شروع ہوئی لیکن ابھی دو سال بھی نہ....* گزرنے پائے تھے کہ انکی وفات ہوگئی.ان کی جگہ پر کرنے کے لئے جو انتخاب ہوا اس میں پاکستان کی طرف سے مجھے بھی نامرد کیا گیا تھا.اس زمانے میں پرس میں پاکستانی سفر محمداکرام اللہ صاحب تھے وہ اس سلسلے میں مسٹر پا رودی سے ملے تو اس وقت فرانسیسی وزارت خارجہ کے جنرل سیکہ بیڑی تھے جب انہوں نے سفیر صاحب سے میرا نام سن تو فرمایا جناب سفر صاحب ظفر اللہ خان کی نسبت مجھ سے مزید کچھ کہنے سنے کی آپ کو حاجت نہیں.میں اسے ان دنوں سے خوب جانتا ہوں جب کشمیر کا مسلہ ملیں ان میں پیش ہوا تھا.میں اس وقت اقوام متحدہ میں فرانس کا منتقل نمائندہ تھا میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ظفر اللہ خاں غلط بات نہیں کہتا اور ہمیشہ انصاف کو مد نظر رکھتا ہے.میرے خیال میں وہ بین الاقوامی عدالت کی جی کے لئے نہایت موزوں ہے.میں کچھ دن بعد اس معاملے کے متعلق حکومت کے تائیدی فیصلے کی اطلاع آپ کو دیدوں گا.الجزائر کی جد جہد کے دوران ایک مرحلے پر سلطان مراکش نے استدر حدی بیلا انسان کے چار رفقا ا ا ا ا ا ا ا ا اور ان کے ساتھ الازار کے قضیے کے متعلق گفت وشنی کی جس کی غرض بینتی کشایر فرانس کے ساتھ سمجھوتے کی کوئی صورت پیدا ہوسکے.رباط میں گفت وشنید کے بعد پانچوں اصحاب تونس کے صدر یاست السید حبیب بلور قتیبہ کی دعوت پر ایک فرانسیسی طیارے میں عازم تونس ہوئے.الجزائر کے اوپر پر ان کے دوران الجزائر کی فرانسیسی حکومت نے پامیلا کو اسکی پیغام کے ذریعہ ہدایتدی کوہ فورا نیچے اتر آئے اورنیچے اترنے پرانیک بن بیلا اور ان کے ساتھیوں کو حراست میں لے لیا اور انہیں نظربند کر دیا.جب اس احمقانہ حرکت کی اطلاع صدر تعیب ورقیہ کو ہوئی توانہوں نے فرانسیسی حکم کو سخت انتباہ کیا اور اس دران دوستی کے ازالے کا مطالبہ کیا اور بیت زد کر کے بعد قرار پایا کہ اس فتنے کا فیصلہ تین ثالثوں کے سپرد کیا جائے جن میں سے ایک کو فرانس نامزد کرے دوستے کو تونسی اور میرا افریقین کے باہمی اتفاق سے نامزد ہو اور سی ٹائٹی بورڈ کا صدر بھی ہو.میں اس زمانے میں بین الاقومی عدالت کا رکن تھا.فرانس اور تونس نے اپنا انار کی نامزد کرنے کے بعداس اس پر اتفاق کی کہ میرا اور سالی بو کا صدر مجھے نامزد کیا جائے.جب فریقین کی طرف سے اس خواہش کا اظہامہ ہوا میں نے کہاکہ میں توخوشی سے یہ خدمت پنے ذمے لینے کو تیار ہوں لیکن یہ درخواست عدالت کے صدر کی خدمت میں آنی چاہیے تاکہ وہ اراکین عدالت سے مشورہ کرنے کے بعد مناسب جواب دیں.جب عدالت کے صدر پریذیڈنٹ گرین یک در حد کی خدمت میں فرانسیسی اور توسی سفراء نے اپنی پنی حکومت کی طرف سے اس خواہش کا اظہار کیا تو صاحب صدر نے مجھ سے دریافت کیا کہ تم یہ خدمت اپنے ذمے لینے کو تیار ہو.میں نے کہ مجھے تو کوئی غیر نہیں لیکن آپ دیگر اراکین عدالت سے مشورہ کر لیں مشورے کے بعد صاحت صدد
نے مجھے بتا یا کہ بعض اراکین کو اس وجہ سے تامل ہے کہ مکی ہے اس قضیے کا کوئی پہلو کسی وقت عدالت کے سامنے آئے اور تمہارے لئے پیام وقت کا موجب ہو لیکن جملہ اراکین کی رائے ہے کہ آخری فیصلہ تم پر چھوڑا جائے.اس پرمیں نے جا تامل کہدیا کہ فریقین سے کہدی کہ میں یہ خدمت اپنے ذمے لینے سے قاصر ہوں.اگر چہ میں یہ خدمت تونہ کر سکا لیکن مجھے اسبات پر اطمینان ضرور ہوا کہ فرانش در تونس دونوں کا اعتماد مجھے حاصل ہے شہید ملت نوابزادہ لیاقت علی خان صاحب مجھے نواب زادہ لیاقت علی خاں صاحب کو قریب سے پاکستان کے پہلے وزیرا دیکھنے اور ان کے ساتھ کام کرنے کا پہلا موقع شاید اء میں صاحب نئی ایم سے ستمبر سایر تک وہ حکومت برطانیہ کے ساتھ نئے تجارتی معاہدے کی شرائط ء طے کرنے کے لئے میرے غیر سرکاری مشیروں میں شامل تھے.مجھے ہر مرحلے پر ان کے مشورے سے بہت مدد لی.میرے زمین پر ان کی صائب رائے اور حسن تدبیر نے گرا اثر چھوڑا.بعد میں جب وہ مسلم لیگ کی طرف سے ضمنی انتخاب میں مرکزی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے توان کی شمولیت سے سہلی میں مسلمان کی نمائندگی کو بہت تقویت پہنچی.اسمبلی میںان کی ملی ہی تقریر ان کے روشن مستقبل پر شاہ تھی اور برطرت سے انہیں خراج تحسین پیش کئے جانے کا موجب ہوئی میں ے بھی ان کی نشست پر جاکر انہیں مبارکباد پیش کی.وزارت خارجہ کے زمانے میں قریب چار سال مجھے نواب زادہ صاحب کا رفیق کار ہونے کا فخر حاصل رہا.اس عرصے میں پاکستان کی حفاظت ، پاکستان کی عزت اور پاکستان کی سعودی ہی ان کے مقاصد حیات تھے.اور پرامکو دو اپنی کسوٹیوں پر پرکھتے تھے.مزاج نہایت سنجیدہ تھا، محنت کے عادی تھے، فیصلے میں جلدی نہیں کرتے تھے اسب پھلوں پر غور و تدبر اور اپنے رفقاء کے ساتھ مناب مشورے کے بعد یجے پر پہنتے تھے.مجھے یاد نہیں کسی معامے میں چھوٹا ہو یا ٹیم ہمارے درمیان کبھی اختلاف ہوا ہو.ایک شام ان کے ہاں ایک استقبالیہ دعوت تھی ، میں ان کی پشت کی جانب کھڑا ایک مہمان کے ساتھ بات چیت میں مشغول تھا.وہ ایک طاقت عظمی کے سفیر کے ساتھ گفتگو فرما رہے تھے.دوران گفتگو فرمایا معامل میر زیر غور ہے.بقول میرے وزیر خارجہ کے وزیر اعظم پوسٹ بکس کی طرح ہے انی چٹھی ڈال دیجئے اور کچھ صبرکیجئے مکن ہے تاخیر ہولیکن جواب ضرور لے گا.سفر صاحب سے فارغ ہوئے تو میں نے ان سے کہا آپ نے سفیر صاحب سے میری طرف منسوب کر کے جوکچھ زیادہ ہے تومیری در مارک لیکن آپ کیسے پہنچے گیا؟ سکرائے اور فرمایا کسی طرح پنچ گیا اور ے بھی ٹھیک ! " ۱۸ اگست شادی کی شام کو جھے طلب فرمایا اور کہا سان فرانسوی جاپانی معاہدہ صلح کی کانفرنس میں پاکستان کی نمائنگ کے لئے تم نے تو یہ کیا تھاکہ مر حسن اصفهانی سفیر پاکستان مستعینہ واشنگٹن کو بیچنا مناسب ہو گا آج وزیر اعظم مہند کا تو بیان اس معاہدے کے متعلق اخبار میںہے تم نے پڑھا ہے ؟ میرے اثباتی جواب پر فرمایا
اب تمارا محور سان فرانسکو جاکر معاہدے کی تائید کرنالازم ہوگیا ہے.یہ کانفرنس شروع ستمبر میں ہونیوالی تھی میں ۲۹ اگست کو نوابزادہ صاحب سے رخصت ہو کر امریکہ کے سفر پر روانہ ہوگیا.افسوس یہ ہماری آخری ملاقات ثابت ہوئی کانفرنس سے فارغ ہونے کے بعدمیں اقوام متحدہ کی املی کے سالانہ اجلاس میں شمولیت کے لئے چلا گیا.اجلاس کے دوران ایک روز صبح صبح پولیس کے ایک مائندے نے ٹینوں پر یروشتناک برسائی کہ راولپنڈی می ک شخص نے وزیر اعظم پاکستان کوگولی سے زخمی کر دیا ہے.اناللہ وانا الیہ راجعون.ابھی میری طبیعت اس خبر کے صدمے سے بھال نہ ہونے پائی تھی کہ اس نمائندے نے دوسری بار ٹیلیفون پر بتایا کہ وزیراعظم صاحب انتقال فرماگئے ہیں.میرے منہ سے فوراً بجو با نکلا :- THIS IS DREADFUL NEWS.THE HAND That Released THAT ON BULLET, HAS LET Loose A Host of MISERIES PAKISTAN بیہ بڑی اندوہناک خبر ہے.جس ہاتھ نے وہ گولی چلائی اس نے پاکستان کے لئے کئی قسم کے مصائب کا دروازہ کھول دیا ہے.) يغفر الله ويجعل الجنة العليا متواہ.واقعات نے ثابت کر دیا کہ میرا خدشه صحیح تھا.نواب زادہ صاحب کی وفات کے بعد پاکستان کئی لحاظ سے بدیہ کرتا چلاگیا اورآج پاکستان کو جن مشکلات کا سامناہے ان کا شمار نہیں ہوسکتا.اناللہ وانا الیہ راجعون.وزیرا عظم صاحب کی اچانک وفات کے نتیجے میں یمنی طور پر دار کا خاتمہ ہوگی اور میں فورا را چی روانہ ہو گیا.میرے پہنچنے تک خواجہ ناظم الدین صاحب کا تقریر وزارت عظمی پر اور ملک غلام محمد صاحب کا گورنہ منزل کے عہدے پر موسکا تھا.خواجہ ناظم الدین صاحب نے مجھے ارشاد فرمایا ہم جانتے ہیں تمثل سابق وزارت خارجہ کا نظران سنبھالو.میں نے شکریے کے ساتھ ان کے ارشاد کی تعمیل کی اور دن کے بعد ان کی ہدایت کے مطابق اسمبلی کے اجلاس میں شمولیت کیلئے واپس چلا گیا.بیگم رعنا لیاقت علی خان کے لئے یہ واقعہ فاجعہ کسی قدر صدمے اور کرب کا موجب ہوا ہو گا ن کا دل ہی جانتا ہے کسی اور کے لئے یہ اندازہ کرنا حال ہے.اشیاء کے دوران میں مجھے احساس ہوا کہ محرم میگم رعنا لیاقت علی خان کی طبیعت افسردہ سے افسردہ تر ہوتی جار ہا ہے.میں نے وسط اگست میں وزیر اعظم صاحب کی خدمت میں گذارش کی کہ اگر وہ اجازت دیں تومیں بیگم صاحبہ اقوام متحدہ کی اسی کے سالانہ جلاس میں پاکستانی وفد کی رکنی قبول فرمانے پر آمادہ کیے کی کوش کردیں وزیر اعظم صاحب نے بخوشی منظوری دیدی.اور میں نے بیگم صاحبہ کی دم میں جونیہ کا ذکر یا ان کا فوری روی حوصلہ افزانہ تھا.I
069 میں نے اس موقع پر تو اور نہ دیا لیکن چند دن بعد پھر یاد دہانی کی بیگم صاحب نے کو الف دریافت فرمائے اور کسی قدیر لچسپی کا اظہار کیا لیکن انکی طبیعت پوری طرح مائل نہیں ہوئی.میرے تیسری دفعہ حاضر خدمت ہونے پر انہوں نے بہت تامل کے بعد رضا مندی دیاری.نیویارک میں ان کے لئے بعض سہولتوں کا انتظام کر دیا گیا.انہوں نے اپنے فرائض کو پوری توجہ سے بوجہ احسن سرانجام دیا.ترکی ، لبنان اور شام کا سفر | شام کے املی کے اجلاس کے دوران میں مجھے وزیراعظم صاحب کی طرف سے ہدایت موصول ہوئی کہ ترکی اور شرق اوسط کی حکومتوں کے ساتھ مناسب طریق پر سلسلہ جنبانی کر کہ ان سب کے وزرائے عظام مشمول پاکستان سال میں ایک بار آپس میں لیا کریں تاکہ ایک دوسرے سے جان پہچان ہو جائے اور بر ایک کے حالات اورمشکلات سے آگئی جوکر باہمی مشورے اور تعاون کے امکانات پیدا ہوں.اور مغربی طاقتوں کے غلبے کے نتیجے می تو بعد کیس میں پیدا ہو گی ہے وہ رفع ہو کر ہمدردی اور اخوت کے احساسات پیدا ہوں.یہ کوئی سیاسی منصوری نہیں خانہ اس کی ہمیں کوئی دھڑے بندی مقصود تھی.میرا تی دی اس کی نئی میں نا کہ اگر ان مالک کے ارباب حل و عقد ہے.لیکن میرا احساس تھا کہ سیاسی الجھنوں میں گرفتار سیاسی قائدین ساده می تونی کویا تو کسی گیری سیاسی سازش کی خشت اول سمجھتے ہوئے اس پر عمل کرنے سے اجتناب کریں گے اور یا سے بیکار اور نتیجہ سمجھ کر ٹال دیں گے.اسمبلی کا جلاس ختم ہونے پر میں نے وزیر اعظم صاب کے ارشاد کی تعمیل میں کراچی واپس ہوتے ہوئے ترکی ، لبنان اور شام میں ھی نے اور اس تجویز کے متعلق ردعمل معلوم کرنے کا پروگرام بنایا.اس سفر ملی محمد سر صاحب سابق لیوپولڈ رائٹس، ہو پاکستانی فارن سروس کے رکن تھے اور بین کا تقریر اقوام متحدہ میں پاکستان کے نائب منتقل نمائندے کے منصب پر ہو چکا تھا مرے ہمرہ تھے.پیرس سے روانہ ہوکر ہم استنبول ٹھہرے.ہوائی جہانہ کے استنبول کے مطار بیاتی نے کے وقت فجر کی خانہ کا وقت کا تھامیں نے تک کی پروٹوکول اس سے تو ہمارے استقبال کو ے ہو ئے کہا کہ اگر میں نماز پڑھنے کے لئے یہ مل جاے تو منون ہوں گا.انہوں نے فرمایا محمد قریب ہی ہے وہیں ملتے ہیں مسجد بھی تو ایک گاؤں میں لیکن عادت پرانی اور شاندار تھی اور مسجد آباد تھی.فجر کی نماز ختم ہو چکی تھی.امام صاحب ایک دیہاتی کو قرآن کریم کا سبق دے رہے تھے.میں نے اور محمد اسد صاحب نے وضو کیا اور نماز ادا کی.ترکی میں پہنچے ہی ایک خوشنما آباد مسجدمیں نماز ادا کرنے کا موقعہ میسر آنے پر میں نے بہت خوشی محسوس کی اور یہ اس اس استنبول کے قیام میں اور بھی زیادہ مہر گیا.ترکی کے انقلاب اور اتا ترک کی اصلاحات کے بعد اسلامی ممال میں عام تاثر تھا کہ ترکی میں دنی اقدار کا احترام نہیں کیا جا تا میرے مشاہر نے اسے بالکل غلط لکہ ایک اہتمام ثابت کیا.میں نے استینوں میںسب مسجد کو آباد اور نمازوں کے اوقات میں نمازیوں ے بھرایا یا بعد میں لگ کے قیام میں بھی میں نے دیکھا ہے ک ترک مزدور جو اینٹ کے کارخانوں میں کام کرتے ہیں عیدین
۵۸۰ i کے مواقع پر بڑی کثرت سے اور بڑے فاصلے طے کر کے نمازہ کے لئے مسجد میں حاضر ہوتے ہیں.حج کے موقعہ پر بھی میں نے کئی ہزارہ ترکوں کو مناسک حج ادا کرتے دیکھا ہے.ان کی تکبیر الٹ پھیر میرے کانوں کو بہت بھلی معلوم ہوتی تھی تلفظ کا فرق مکن ہے لاطینی رسم الخط کے اختیار کرنے کا نتیجہ ہو.الم اعلم بالصواب.ول کے قیام کے دوران میں تاریخی عمارات، محات اور مقامات کی زیارت سے دل کو سرور حاصل ہو استنبول کی اب وہ شان ہیں جو دارالحکومت ہونے کے زمانے میں تھی.ایک افسردگی کی در و دیوار سے ٹپکتی ہے جو زائر کے دل کو بھی افسردہ کرتی ہے.استنبول سے انقرہ گئے.حکومت کی طرف سے ہر طرح کی تواضع کا سلوک ہوا.رہائش کا انتظام سرکار کی مہمان خانے میں تھا جو نہایت پر فضا مقام پر واقع ہے اور جہاں سے انقرہ کا بہت خوشنما منظر نظر آتا ہے.برفباری کا موسم تھامہمان خانے میں ہرقسم کی آسائش میں تھی.باہر کی طرف نظر کرنے سے اندرونی آسائش کا لطف دوبالا ہو جاتا تھا.نہ کی انہی دنوں NATO میں بطور رکن شامل ہوا تھا اور وزیر خارجہ NATO کے اجلاس میں شرکت کے لئے از بین تشریف لے گئے ہوئے تھے.وزیرا عظم عدنان مندریس (غفر اللہ لہ نے پہلی ملاقات میں بڑی شفقت سے فرمایا کہ وزیر خارجہ کے انقرہ میں موجود نہ ہونے کوئی حسن اتفاق سمجھتا ہوں کیونکہ یک تودہ انگریزی نہیں جانتے تمہیں ترجمان کے واسطے سے گو کر نا ہوتی.دوسر ان کی عدم موجودگی کی وجہ سے انہیں سب کو میرے ساتھ کیا ہوگی جس میں اپنے نئے نوشی اور حرکا موجب سمجھتا ہوںمیں انگریزی میں اچھی طرح سے بات کرلیتا ہوں اسے کسی نہ جان کی ضرورت نہیں ہوگی.تم جب چاہو اور جتنے وقت کے لئے چا ہو پوری آزادی سے میرے ساتھ بات چیت کرد.چنانچہ میرے انقرہ کے قیام کے دوران میں پانچے دفعہ ہماری ملاقات ہوئی اور ہردفعہ وزیراعظم صاحب بنایت دوستانہ رنگ میں پورے انشراح صدر سے بات چیت کرتے ین نواز نے امام کی سالانعامات کی کیا کیا موضوع اسے تھے ن پرمیں نے کسی در تفصیل سے وزیراعظم کی خدمت میں گزارش کی.ایک تو یہ کہ ترکی کا یورپ کی طر ہی متوجہ رہنا اس کے لئے باعث قوت نہیں.انہیں ایشیا کی طرف اور خصوصاً شرق اوسط اور قریب کے اسلامی ممالک کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے اور ان کے ساتھ رابطہ بڑھانا اور مضبوط کرنا چاہیے.دوستے عرب ممالک ورتہ کی کے درمیان اگر کوئی غلامی ہوتو اسے دور کر کے مخلصانہ اور دوستانه رابط قائم ہونے چاہئیں.وزیراعظم صار نے ان دونوں مقاصد کے ساتھ اتفاق کا اظہار کیا.یہ اظہار محض رسمی یا ٹالنے کی خاطر نہیں تھا.ہمسایہ عرب ممالک کے ساتھ باہم تعلقات کے متعلق تو تفصیلی گفتگو فرمائی.دونوں طرف کے نقطہ نگاہ پر اظہار اے کیا.خلط معنی کے اسباب پر ر فرمایا.بعض معنی مشکلات کا ذکر کی کیا.آخر فرمایا میر حکومت کو عرب ملک کے ساتھ دوستانہ تعلقاتر کو فروغ دینے کی طرف خاص توسعہ ہے.ہمیں اس بارے میں کس قدر کامیابی بھی ہوئی ہے ہم اپنی سعی کو جاری بھی لے اور میں امید کرتا ہوں کہ بتدریج ہمارے تعلقات زیادہ مضبوط ہوتے پیلے جائیں گے.
۵۸۱..حضرت مولانا جلال الدین رومی میں نے ذکر کیا کہ حضرت مولانا جلال الدین رومی کے مزار پر حاضر موکر کے مزار پر حاضری اور دعائد دعاء کرنے کی خواہش ہے.فرمایا سب انتظام ہو جائے گا.موٹر سے آنے جانے میں زیادہ وقت لگے کا بہتر سے ہوائی جہاز میں جاؤ.صبح جا کر سہ پہر کو واپس آسکتے ہو.چنانچہ ہوائی جہانہ کا انتظام کر دیا گیا.ہم قونیہ حاضر ہوے.مولانا کے مزار پر نا کہ کہ کر اور الر کے ایک دیر رسید آرزو پوری کی فالحمدللہ.قونیہ کے میر صاحب نے ازراہ شفقت دوپہر کے کھانے کی دعوت کی اور ایک قلمی نسخہ فیه ما فیه کا عنایت فرمایا - نخجزاه الله - انقرہ سے ہم بروت گئے ، بیروت سے دمشق اور وہاں سے کیا چی دالیس ہوئے.بیروت اور مشق میں بھی وزرائے خارجہ نے وزرائے عظام کی سالانہ ملاقات و پسندیدگی کی نگہ سے دیکھا لیکن انقرة بیروت، دمشق تینوں جگہ ل دیا تھا جس سے رش رہتا تھا کہ اس تو ہی پر شروع ہو جائے توکوئی ہرج نہیں لیکن یہ بھی نہیں کہ سکتے کہ اس سے کوئی فائدہ مرتب ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے.پاکستان سفراء کے ذریعے معلوم ہوا کہ سعودی عرب کی حکومت کی طرف سے اس تجویز کو سرا گیا ہے.عراق کی حکومت اسے ایک مفید اقدام خیال کرتی ہے میر کی حکومت کی رائے ہے کہ اگر ہندوستان کوشامل کیا جائے تو تویز کے مفید ہو جانے کا امکان ہے.میں نے اپنے تاثرات کی رپورٹ وزیراعظم ا امام الدین صاحب کی خدمت این پی یر ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا و و وی را در این رایا اور یونی اس سے آگے نہ ملی.اور تجھے املی کے اجلاس کے دوران میں حکومت مصر در حکومت عراق کی طرف سے مجھے دعوت دیگئی کہ نواک سے پاکستان واپس جاتے ہوئے میں قاہرہ اور بغداد ٹھہروں میں نے دونوں دعوتیں شکریے کے ساتھ قبول کیں.قاہرہ جانے کا تومجھے متعدد بار پلے بھی اتفاق ہو چکا تھا لیکن بغداد جانے کا موقعہ ابھی تک نہیں ہوا تھا.السید فاضل حمالی صحاب وزیر خارجہ عراق کے ساتھ میرے مخلصانہ مراسم تھے اوروہ پہلے بھی مجھے بغداد آنے کی دعوت دے چکے تھے.ان کا اصرار ا در دوران ها را کم ازکم چار پانچ دن بعد میں قیام کردین میں درد سے زیادہ کا وعدہ ن کر سکا.قاہرہ میں قیام جنرل نجیب کی نجابت تار کے طور پر ہوائی جانے اترنے سے قبل ہی پڑتال پر میشہ کچھ وقت صرف ہوتا ہے.جب ہوائی جہاز بھر گیا توہم ڈاکٹر اب کی آمد کے منت میٹھے تھے.اتنے میں سافرو میں کچھ پھیل ہوئی اور میں نے دیکھا کہ ایک با وقار شخص فوجی وردی میں ملبوس مختصرسی بید کی چھڑی دائیں بغل کے نیچے دبائے پہلے آرہے ہیں.ان کے پیچھے محمود فوزی صاحب وزیر خارجہ کو بڑے ادب سے آتے دیکھ کر میں کھو گی کہ عالی منزلت بنزل نجیب صدر العقابی کونسل نے بنفس نفیس پیشوائی کے لئے آنےکی زحمت گوارارا فرمائی ہے فجزاہ اللہ میرے قیام قاہرہ کے دوران میں ہر تقریب پر جنرل نجیب مجھے خود اپنے ہمراہ لے جاتے اور اپنے ساتھ ہی واپس لاتے.میں اسی تکلیف
۵۸۲ رمانی پر احتجا کرنا یکی دو مار کر فرماتےمیں ایسا کرنے میں خوشی محسوس کرتا ہوں.چونک ان سے خاصی نے کافی ہوگئی تھی میں نے ایک موقعہ پر ان سے کہا بر طانوی سفیر کہتا ہے :- GENERAL NOT LAST Long AS THE WILL NAJIB HEAD OF GOVERNMENT.HE IS NOT RUTHLESS ENOUGH ( جنرل نجیب زیادہ وہ یہ حکومت کے سربراہ نہیں رہیں گے کیونکہ وہ سخت گیر نہیں ) جواب میں فرما اب بغیر گرد میں کاٹن کے کام چلا سکتاہے تو گردنیں کاٹنے کی کیا ضرورت ہے ؟ بغداد میں قیام قاہرہ سے میں بغداد گیا.ہوائی جہاز سے اترتے ہی آنا مصطفے سفیر پاکستان نے مجھے ایک نار ی میں وزیر اعظم پاکسان کی طرف سے مجھے دی تھی کر د مارچ سے لے کر جان سینوں مجھے اس سے تعجب ہو کر ج ہو تاکہ تمہیں اس کے عرصہ ہوگیاہے جلد واپس آؤ تو مجھ میں نوال بات تھی لیکن بیا تا کہ ان غیر حاضری میں سے کم اور دو دن کا اضافہ کر دومیری مجھ میں نہ آیا.سیر صاحب سے دریافت کیا آپ اس معمہ کےمل کرتے میں کچھ مدد فرماسکتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا میں خود حیران ہوں اور نہیں جانتا یہ کیا رہا ہے میں نے ان سے کہا کہ وزیر خانہ جب عراقی میرے بغداد میں دو دن سے زیادہ ٹھرنے پر مرتے لیکن میں نے ان کے اصرار کے باوجود ر دو دن ٹھہرنے کا وعدہ کیا.اب بھی صورت وسکتی ہے کہمیں وزیر اعظم کے ارشاد سے فائدہ اٹھاکر اپنی ایک دیر دیرینی آرزو پوری کرلوں اور دو دن بغداد ب مرنے کے بعد آپ اور میں نجف اشرف اور کربلائے معلی حاضر ہو آئیں.سفر صاحب نے فرمایا میں نے پہلے ہی وزیر خارجہ کی خدمت میں گذارش کردی ہے کہ آپ بغداد کے قیام کے بعد جب اشرف در کربلائے معلی کی زیارت کو جائیں گے.السید نوری سعید وزیر اعظم سے تبادلہ خیالات | بغداد میں السید نوری سعید وزیراعظم سے ملاقاتیں د الصدر وئیں اور بالکل تبادلہ خیالات ہوا، وزیر خارج کے دولاکے پروگرام کے علاو متداعم السید محمدالع سے بھی شرف نیاز حاصل ہوا.آپ علاوہ عالم متجر ہونے کے عراقی پارلیمنٹ کے ایوان اعلیٰ کے صدر بھی تھے بڑی شفقت سے پیش آئے.وہ فارسی اور اردو میں بھی ویسے ہی بلا تکلف کلام فرماتے تھے جیسے عربی میں.ان کی والدہ ماجدہ مدراس سے تھیں.حضرت سید عبد القادر جیلانی کے بغداد کے قیام کے دوران میں میں نے کاظمین میںحضرت سید عبدالقادر جیلانی مزار پر حاضری اور دعاء کے مزار پر حاضر ہوکر دعاء کرنے کی سعادت حاصل کی اور نقیب اشرف صاحب کی خدمت میں ان کی فرود گاہ پر حاضری کا شرف بھی حاصل کیا.نجف اشرف اور کربلائے معلی کی زیارت نجف اشرف اور کربلائے معلی کی زیارت کے سفر میں رات ہم نے اور راجہ صاحب محمود آباد کی مہمان نواری را به صاحب محمود آباد کے ہاں گذاری.راجہ صاحب کے ساتھ یہ
ری پہلی ملاقات تھی میں ان کے بعد خان کا گرانش لئے ان سے رخصت ہوا.بعد کی ملاقاتوں میں یہ نقش او رھی گہرا ہوتا گیا.بغداد واپسی کے دوران میں بابل کے کھنڈرات دیکھ کر عبرت حاصل کی.س امر کے فسادات اور مارشل لاء | سرمایہ کار کی شام کوکراچی واپس پنچاتو وزیراعظم صاحب کے برقی ارشاد کا عقدہ عمل ہوا اس کے جماعت احمدیہ کراچی کے سالانہ ملے میں مجھے تقریر کرنے کے لئے کیاگیا تھا.یں نے اپنی تقریر کا عنوان اسلام زندہ غریب ہے انتخاب کیا.جب جلسے کا دن قریب آیا تو بعض عناصرکی طرف سے بھلے کے خلاف اور خصوصاً میرے تقریر کرنے کے خلاف آواز اٹھائی گئی.جلسے کے دن تک یہ مخالفت بظاہر ایک منظم صورت اختیار کرگئی.میں نے تقریر کی دوران تقریر میں کچھ فاصلے سے شور و شعف کے ذریعے جلسے کی کاروائی میں حل ڈالنے کی کوشش جاری رہی.کچھ آوازے بھی کسے گئے.تقریر کے بعد میںاپنے مکان پر واپس آگیا.جہاں تک علم ہے کو کسی قدر بدمزگی توسیلائی گئی لیکن الحمدالد کوئی نادرنہیں ہوا.وقتا فوقتا جماعت احمدیہ کے جلسوں یا دیگر سرگرمیوں کے خلاف مختلف مقامات پر پوش کا مظاہرہ ہوتا کوئی چنے کی بات نہیں تھی.جہاں کہیں ایسی صورت پیدا ہوتی رہی جماعت کا عمل بفضل الله امن پسندی کا رہا.جماعت ی طرف سے کبھی خلاف وقار یا موجب اتعمال کاروائی یا حرکت اور ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی وتار را که دو بار درود می مخالفت کا جوش ٹھنڈا پڑ جاتا.اس موقعہ پر خلاف معمول ایک تو تعدد عناصرے مل کر مخالفت کا ایک محاذ قائم کرلیا.اور دوست مخالفت کا جوش ٹھنڈا پڑنے کی بجاے زور پکڑتا گیا اوربعض دوسرے مقامات پر بھی تائیدی مظاہرے شروع ہو گئے.رفتہ رفتہ اس محاذ کی طرف سے ایک فہرست مطلبا کی تیار کی گئی اورکرتے عوام کے ستخطوں کے ساتھ بذریعہ ڈاک حکومت کو پہنچائی جانے لگی.مطالبات کی تعداد تو کوئی نصف در بین تھی لیکن معلوم ہوتا تھا کہ ان میں سے دو کو اہم شمار کیا جاتا ہے.اول یہ کہ جماعت احمدیہ کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا جائے.دو سے ظفراللہ خان کو وزارت خارجہ سے علیحدہ کیا جائے کیونکہ وہ احمدی ہے.حقیقت میں دوسرا مطالبہ پہلے مالے ہی کا جزو تھا.یہ سلسلہ جاری تھا کہ میں اقام متحدہ کی اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لئے نیویارک چلاگیا.میری غیرحاضر میں جو کچھ ہوا اس کی تفصیل کا تو ای بہت نہ مجھے ا ا ا ا علم نہیں کیونکہ اس نوع کی بہت کوئی بر ما را این یکی را پس معلوم ہوا کہ ترکی بہت زور به میری طرف سے خواجہ ناظم الدین صاحب وزیر اعظم امریکہ جانے سے بے بی اور امریکہ سے واپسی کے بعد چی کی خدمت میں وزارت سے استعفے کی پیش کش میں نے خواجہ ناظم الدین صاحب کی خدمت میں گذاری اور ان کا اسے قبول کرنے سے انکار کی کہ اگر میرے وزارت خار وجہ سے علیحدہ ہو جانے سے
۵۸۴ ہولت ہو جاتی ہے تومیں آپ کی خدمت میں اپنا اتنے پیش کر دیتا ہوں.لیکن نواحیہ صاب نے اسے پسندنہ رمایا بلکہ کہا کہ ہمارے استعفے دینے سے شکل حل نہیں ہو گی بلکہ اور بڑھے گی.جو صورت حالات پیدا کردی گئی تھی وہ ر خود مجھ پر گراں تھی لیکن اقامة في اقام الله و یا اللہ تعالی کھڑ کر وامان قائم رہنا کا مقدس این در اور فرض کی ادائیگی کا احساس ترک خدمت کے رستے میں روک تھے.جب حکومت کو ڈاک کے ذریعے کثرت سے مطالبات بھجوانے سے مقصد حاصل نہ ہوا تو محاذ کیطرف سے فیصلہ کیا گیا کہ حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لئے راست اقدام کیا جائے ار جمعہ کی نماز کے بعد ماجد سے مطالبات کی تائید میں جلوس نکالے جائیں.اس تحریک کا سے زیادہ خوش کراچی اور لاہور میں تھا.راست اقدام کی صورت میں اس امر کا بہت امان تھا کہ مظاہرین اور پولیس کا لتصادم ہو جائے یا اس عام مین علی واقعہ ہو.اس صورت حالات پر قابو پانے کی تقریر کے متعلق کا بینہ میں اختلاف تھا.کثرت رائے اس طرف مائل تھی کہ عیش آمدہ حالات بدون خطرات کے پیش نظر ہو صاف دکھائی دے رہے تھے محاذ کے لیڈران کو حراست میں لے لیا جائے لیکن خود وزیر اعظم صاحب اور ان کے بعض رفقاء اس اقدام کے اس بناء پر مخالف تھے کہ لیڈران محاذ میں بعض علماء بھی شامل تھے جن کا وزیر اعظم صاحب بہت احترام کرتے تھے.اس طرح یہ مسئلا یک پیچیدہ صورت اختیار کر گیاتھا.کا منہ میں اس اختلاف کے رونماہونے کی وجہ سے وزیراعظم اب نے مجھے وہ برقی ارش و ارسال فرمایا تھا جس کا ذکر پہلے آچکا ہے ان کی مراد ھی کہ راست اقدام کی تاریخ سے پہلے میں کراچی نہ آؤں، کراچی پہنچنے پہ تھے معلوم ہوا کہ راست اقدام کی روک تھام کے متعلق تو کابینہ کی کثرت رائے کے مطابق فیصلہ ہوگیا ور کراچی میں کوئی پریشان کن صورت پیدا نہ ہوئی لیکن لاہور کے حالات رو بہ اصلاح ہونے کی بجائے بگڑتے جار ہے ہیں.کراچ پہنچنے کے دوسرے دن گورنہ منرل ملک غلام محمد صاحب نے مجھے طلب فرمایا.وہ سلامتہ الملک سلطان عبدالعزیز بن سعود کی دعوت پر سعودی عرب تشریف لیجانے والے تھے اس سفر کی تیاری میں مصروف تھے.فرمایا مجھے کل سفر پہ دانہ ہوتاہے تفصیلی بات بیت کا موقعہ نہیں تم سے اتنا ہنا چاہتا ہوں کہ میں کڑی سے کڑی مصیبت برداشت کر لوں گا لیکن اصول کو ہا تھ سے نہ نگاہ مجھے ابھی پورے حالات سے آگاہی نہیں ہوئی تھی.ان کے الفاظ سے اندازہ ہوا کہ حالات بہت سنجیدہ صورت اختیار کر چکے ہیں.بعد میں عید عبد اطلاعات آنے لگیں کہ لاہور میں صورت حالات بہت نازک ہوگئی ہے.ان دنوں صوبہ پنجاب کے گورنر ابراہیم اسمعیل چندریگر صاحب تھے اور وزیر اعظم میاں ممتان محمد خان صاحب بے کنانہ تھے.کابینہ کے اجلاس میں لاہور کے حالت پر غور ہو رہا تھا.اسی انار می گوری صاحب پنجاب نے ٹیلیفون پر وزیر اعظم صاحب کو بلایا کہ لا ہورمیں حالت خطرناک ہو گئی ہے.اور ان کا اور حیف منسٹر کا مشورہ ہے کہ محاذ کے مطالبات قبول کرنے کا فوری اعلان ہونا چاہئے کیونکہ ان کی رائے میں حلت پر قابو پانے اور کوئی ذریعہ باقی نہیں رہا.لاہورکے کئی اداروں پر عوام کا قبضہ ہوگیا ہے.انہیں یقین ہے کہ ان کی یہ کنگ بھی کی جارہی ہے اور کن ہے اب وہ وزیراعظم کے
۵۸۵ ساتھ یلیفون پرگفتگوبھی نہ کرسکیں.گورنر صاحب کی اطلاع سے وزیر اعظم صاحب نہایت پریشان ہوئے اور کچھ پرا سیمی کے لیے میں پنے رفقاء سے فرمایا صاحبان اب کہیے آپ کیا چاہتے ہیں ؟ مجھے تو اس شورش کے بارے میں کچھ گذارش رایانه ها با ما مشوره ای ریت پر گراں ہویا سی غلط فہی کا موجب ہو.وزیراعظم صاحب کے اس سنت پر ڈاکٹر ایم اے مالک صاحب اور سردار بہادر خان صاحب نے کس قدر ہوش سے کہا کسی حکومت ہے جو ملک میںامن قائم رکھنے کے بھی قابل نہیں.چودھری محمد علی صاحب اور اشتیاق حسین قریشی صاحب نے بھی اس رائے کا اظہار کیا کہ امن عامہ کے قیام کے لئے مضبوط اقدام کی ضرورت ہے.میاں مشتاق احمد خال گوڑما نی صاحب راست اقدام کی تحریک کے شروع ہے سخت مخالف تے انہوں نے بھی میشور دیا گورز اب کیطرف سے دوبارہ ٹیلیفون پر علت اصرار میں کہاگیا کہ مطابت و قبول کرنے کا فوراً اعلان ہونا چاہئے ورنہ لاہور کا اکثر حصہ آج شام تک نظر آتش و کراکھ کا ڈھیر ہوجائے گا.اسل حقیقت یہ تھی کہ دہاں صرف احمدیوں کے مکان اور جائدادیں لائی جارہی تھیں.کا جنید کی رائے ہوئی کہ جب گورنہ صاب اوران کی کابینہ اسقدر بے بس ہو چکے ہیں تومعلوم کرنا چاہیے کہ کیا اور ان حالت کو ضبط میں لا سکتی ہے ؟ سکندر مرزا صاحب کو تو اس وقت وزارت دفاع کے سیکریڑی تھے اور اعلا میں موجود تھے ہدایت دی گئی کہ فوجی اسکی ساس پیناتا کے ذریعہ تنزل اعظم خان صاحب سے معلوم کریں کہ مجھے صورت حالت کیا ہے اور دریافت کریں کہ کیا انہیں امن قائم کرنے میں کسی وقت کے پیش آنے کا اندیہ ہے.جب سکندر مرزا صاحب کا بینہ کی ہدایت کے مطابق جنرل عظم مناں صاحب سے بات کرنے کے لئے تشریف لے گئے تو وزیر اعظم صاحب بھی کابینہ کے اجلاس سے چند منٹ کے لئے تشریف ے گئے.باقی دزراء سکندر مرزا صاحب کی واپسی کے انتظار میں آپس میں بات چیت میں مصروف رہے.پند رو میں منٹ کے بعد سکندر مرزا صاحب نے واپس آکر اطلاع دی کہ جنرل اعظم خان کہتے ہیں کہ حالات تو ویسے ہی ہیں جیسے گورنہ صاحب کی اطلاع سے ظاہر ہے.لیکن اگر انہیں ہدایت دیجائے تو فوج ایک گھنٹے کے اندر امن قائم کر سکتی ہے.سکندر مرزا صاح نے فرمایامیں نے جنرل اعظم سے کہدیا ہے کہ وہ مناسب اقدام کریں.وزراء سکندر مرزا صاحب کی طلاع سے مطمئن ہوگئے.اتنے میں وزیر اعظم صاحب کا بینہ کے اجلاس میں واپس آگئے.اور سکندر مرزا صاحب نے ن کی خدمت میں بھی گذارش کردی کہ انہوں نے جنرل اعظم کو ہدایت دیدی ہے کہ وہ امن قائم کرنے کے لئے مناسب اقدام کریں.جیسے تنزل اعظم تعال صاحب نے اندازہ کیا تھا فوج کے شہر میں داخل ہوتے ہی عوام کی مفسدانہ سرگرمیاں سرد پڑگئیں اور حالات بہت جلد قابو میں آگئے.جمعت احمدیہ کو اس حصے میں ہرقسم کی اذیت کا نہ بنایا گیا، طرح رح کے دکھ دیئے گئے ، مال ، جائیدادیں تلف ہوئی، جانوں پر آنی در افراد کوزندہ نذرآتش کیا گیا، مسکن مداد مجاعت صبر ، تحمل، استقامت اور ثابت قدمی کے اعلی معیار یہ قائم کر ہیں.
۵۸۶ محاذ اپنے مطالبات حکومت سے منوانے میں کامیاب نہ ہوسکا.مغربی پاکستان کے دو بڑے شہروں کراچی اور لاہور میںجو محاذ کی سرگرمیوں کے مرکز تھے امن عامہ اول الذکر شہر میںحکومت کے بر وقت اقدام کے نتیجے میںتمام رہا اور موخر الذکر شہر می صوبائی حکومت کی کمزوری کے نتیجے میں فتنہ فساد کا شکار ہونے کے بعد فوج کے ہاتھوں بجال را لیکن محاذ کی سرگرمیوں کے تھے میں نظام حکومت کو نا قابل تلافی ضعف اور نقصان پہنچا.رعب اور وقار نظام حکومت کے دو مضبوط استون ہیں.جب بیستوکو لکھے کا زور ہوجائیں تو ظام حکومت ای یار یہ ہی بیکار جاتا ہو ہے.فتنہ وفا کا اس حدتک بڑھ جانا ہ امن عامہ کے قیام یا مال کے لئے فون پہ احضار کرنا پڑے اور نظام حکومت فوج کے سپرد کرنا پڑے حکومت کی طرف سے عملا بے بسی کا اعتراف ہوتا ہے اور یہ تقدیر بار بار مل میں نہیں لائی جاسکتی ین نے متعد بار کابینہ کے اجلاس میں توجہ دلائی کرحکومت کو ا انتباہ سے فائدہ اٹھاکر نظام حکومت کی مضبوطی کی اری رو رو کرنا چاہے اور یادر کھانے کار کی بھی نظام حکومتون کے سر کرنے کی نوبت آئی وہ سپردگی عارضی و و و و و ر ا ر ا ر رهی هو گا که گوروں کا امام کا کام کرے اور عمدگی سے بچانے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور جب مشکلات کا ساما ہوتا ہے فوج کی مد کے محتاج ہوتے ہیں توکیوں نہ نوج براہ راست حکومت کی ذمہ داری سنبھالے اور ملک کا نظم ونسق اپنے ہاتھ میں ہے.گورنروں کی کانفرنس وزیر اعظم صاحب بھی پیش آمدہ حالات سے قیا متاثر ہوے تھے اور یہ بھی ملی ہے کران کے رفقاء میںسے بھی کسی نے یا لبعض نے انہیں مشورہ دیا ہو کیونکہ انہوں نے گورنروں کی ایک کا نفرنس طلب فرمائی جس میں اس وقت کے کمانڈر انچیف فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں صاحب اور چیف کمشنر بلوچستان خان قربان علی خان صاحب کو بھی طلب فرمایا.غرض یہ تھی کہ ملک کی حالت اور اصلاحی تدابیر پر مشورہ کیا جائے.ملک غلام محمد صاحب گورنر جنرل کچھ عرصے سے پریشان چلے آرہے تھے کہ یہ کی گرمیوں میں انہوں نے وزیراعظم اور ان کے رفقاء کو دریپ کے کھانے پر بلایا اور انتقام طعام پر تب خدام فارغ ہو کر کرے سے رخصت ہو چکے تو آپ نے فرمایا صاحبان میں نے آپ کو آج اسلئے تکلیف دی ہے کہ میں چندا مور بطور مشورے کے آپ کے گوش گذار کرنا چاہتا ہوں.اول کابینہ کے اندر باہمی اعتماد در یک جہتی ہیں جن کے بغرامو سلطنت خوش اسلوبی کے ساتھ سرانجام نہیں دیئے جاسکتے آپ میں سے بعض فردا فردا مجھ سے ملتے ہیں اور ملاقات کے دوران میں اپنے بعض رفقاء کے متعلق شکوے کرتے ہیں انکے فرائض کی سرانجام دی کے متعلق تنقیدکرتے ہیںاور بعض دفعہ انکے متعلق نا عام الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں.دوسرے ملک میں حکومت پر اعتمادکم ہورہا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وزراء کا عام کے ساتھ رالطبہ اور میل جول نہیں.اسلئے وہ عوام کی ضروریات اور مشکلات کا صحیح اندازہ نہیں کرسکتے اس ضمن میں گورنہ جنرل صاحب نے مشورہ بھی دیا اور کچھ مرات بھی دیں.خصوصیت سے وزیر اعظم صاحب سے فرمایا کہ آپ اس مری اور نائیک کی کابینہ میں اسی برای مناسب نہ i
۵۸۷ وئی جس کے تنے میں کابینہ کہتی اورمضبوطی کے ساتھ اپنے الٹی کو سرانجام دے سکے.گور نہ منزل صاحب کے اس انتباہ پر وزیراعظم صاحب کی طرف سے کوئی ردعمل نہ ہوا.ان دونوں مجھے احساس ہوا ک گورنر منزل صاحب اور وزیر اعظم صاحب کے درمیان باعی کالا امام نہیں کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دونوں اصحاب کی طبائع میں بہت فرق تھا.وزیراعظم صاحب نے اپنے وقت میں گورنر جنرل کے منصب کے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے سر انجام دیے تھے.اپنی بیعت کے لفظ سے وہ ایک آئینی گورنر بنا کے نصب کیلئے بہت موردی تھے.خوش قسمتی سے ان کے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان صاحب ایک سنجیده مراجح محنتی، مدیر ، دوربین اور دور اندیش سیاستدان تھے.ہر نبیلہ مناسب مشورے اور غور اور تاریہ کے بعد اور فرماتے تھے.گورنر جنرل صاحب کے لئے کوئی امر پریشانی کا باعث نہیں ہوتا تھا.کابینہ کے فیصلوں کی اطلاع انہیں ملتی رہتی تھی اور امور حکومت میں ی سی سی کی دخل اندازی کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی.شومئی قسمت سے نواب زادہ صاحب کی اند ناک رات ی اوران کورین جان اور وزیر اعظم کے درمیان قامان گور با ما غلام محمد اب یاد تو جسمانی عوارض ر صحت کی مزوری کے عالم طبع تھے اور نے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین صاب کی طبی معانیت پسند تھی.طبائع کے ال کی وجہ سے یہی مشکل تھی، آہستہ آہستہ اعتمادی کم ہوناشروع ہوگیا.وزیراعظم صار نے مشاورتی کا فرانس طلب کرنے کے متعلق گورنر جنرل صاحب ہے.مشورہ کی نہ ان کے ساتھ کرہی کیا کہ کانفرنس طلب کی جارہی ہے.جب اعظ گرنہ جنرل صاحب کوعلم ہوا کہ گوری ماسیان کی کانفرنس بلائی جارہی ہے اور انہیں اطلاع تک نہیں تو انہوںنے دو نظم صاحب سے دریافت کیا اور وزیر اعظم صاحب نے اس امری صدای رامی ی ی یک گور از این مزایای که گور زمانیان کانفرنس کی صدارت گور نہ منزل کو رہنی چاہئے.وزیراعظم صاب نے کہاہم توگور صاحبان کو اطلاع دے چکے ہیںکہ ہم ملک کے حالات پر ان سے مشورہ کرنا چاہتے ہیں.جب ہم نے دعوت دی ہے تو لازم ہے کہ کانفرنس کی صدارت تھی ہم کریں.اس پر گورنر جنرل نے فرماب بہت اچھا لیکن کا نفرنس کے لئے ویزہ بال ہاؤس ہی موزوں ہے.آپ بینک کا فرونش کی صدارت فرمائیں ہم بھی موجود رہیں گے تاکہ ہمیں بھی ملک کے حالات سے اور کا نفرنس کے مشورے سے آگاہی ہو.میرابیان کہ انہی ایام میں گرین بیل صاح کے وہیں میں کا منہ میں تبدیلی کامنصوبہ معین صورت اختیار کرنے لگا نا ممکن ہے وزیر اعظم صاحب کے اس اقدام نے کہ انہوں نے گورنہ صاحبان کی کانفرنس طلب فرمائی اور گورنر جنرل صاحب ہے اس کا ذکر تک نہ کیا گورنر جنرل صاحب کے عزم کو پختہ کر دیا ہو.میری طبیعت پر اس وقت یہ تاثر تھا کہ گور منزل صاحب اس بات سے آزردہ ضرور ہوے کہ کانفرنس طلب کی گئی اور ان سے ذکر تک نہ کیاگیا.کانفرنس تین دن جاری رہی.مختلف آرا عرفا اظہار ہوا.کمانڈر انچیف صاحب نے بڑی وضاحت سے فرمایا کہ حکومت کا رعب اور احترام بہت کم ہو گیا ہے حکومت کی مضبوطی کے لئے مناسب اقدام ہونا چاہئیے.خان قربان علی ای اس نے فرمایا گول مول یا تیں ہو رہی ہیں صاف بات یہ
۵۸۸ میاد ہے کہ کا مینا نئے سرے سے تشکیل ہونی چاہیے.اس یہ وزیر اعظم صاحب نے کچھ با فرورفتہ ہو کر دریافت فرمایا بیکس کی رائے ہے ؟ کیا سرکاری افسران کی بہ خان قربان علی خان صاحب نے بھی کچھ اسی لہجے میں جواب دیا بیک سرکاری ایران کی لیکن ان کے علاوہ گورنہ صاحبان کی وزراء کی اور پر ایک کی با سب یہاں موجود ہیں آپ دریافت فرمائیں.کانفرنس ہا اے وی یک والی کوکوی علی نتیجہ برآمدنہ ہوا.کانفرنس کے اجلاس بدھ کے روز ختم ہونے کے بعد معہ کی صبح کو جب حسب معمول وزیرا عظم صاحب گورنر جنرل صاحب کی ملاقات کے لئے تشریف لے گئے تو گور نہ جنرل صاحب نے ان سے فرمایا میں چاہتا ہوں آپ کا بینہ کا ایک اجلاس میری رہائش گاہ پر کل صبح دس بجے کریں مں اس اجلاس میں ایک ہم امر پیش کرنا چاہتا ہوں.اس پر وزیرا عظم صاحب نےفرمایا میں آج شام مسلم لیگ کے انتخابات کے سلے میں حیدرآباد جار ہا ہوں کل شام واپس آجاؤں گا یا تو یہ اجلاس پر سوں صبح ہو سکتا ہے اور یا پھر آج چار بچے بعد دو پر ہو جائے.گورنہ برل صاحب نے فرمایا آج ہم بکے مناسب ہو گا.اسی صبح کابینہ کا اجلاس بھی تھا.وزیرا عظم صاحب نے اجلاس کے شروع ی فرمایا صاحبان گورنر تنزل صاحب آب سر پر چار کے کابینہ کا اجلاس اپنی رہائش گاہ پر چاہتے ہیں.کسی اہم ارکا ذکر کرنا چاہتے ہیں.آپ سب صاحبان کم بجے وہاں تشریف لے آئیں.سردار عبدالرب نشتر صاحب شاہ عراق کی تاجپوشی کے جشن میں بحیثیت قائد وند پاکستان شمولیت کے لئے بغداد تشریف لے جانے والے تھے.انہوں نے روری کے کروائے تھے کے یہ ہیں وہ کچھ حارت مسوس کر رہے تھے.انہوں نے وزیر اعظم صاحب سے رخصت چانچی ا این دادگاه ها را آرام کریں وزیرا علما نے انہیں نیت دین کے ساتھ کہا ہے گورن جنرل صاس کے ہاں حاضری نہ بھولئے.سردارصاحب نے فرمایا اگر تکلیف بڑھ گی تو ضرور حاضرہوں گا.انہی دنوں مٹر ایل یونین جو اس زمانے میں فورڈ ڈنڈایشن کے صدر تھے دلی سے ہوتے ہوئے کراچی تشریف لائے تھے اور گورنر جنرل صاحب سے مے تھے.وزیر اعظم صاحب کا خیال تھاکہ مسٹر یونین کوئی ایسا پیغام لیکر گئے ہیں جس کا ذرکر گورنر جنرل صاحب وزراء صاحبان سے کرنا چاہتے ہیں ناظم الدین کا مبینہ کی برطرفی کا بینہ کا اجلاس ختم ہونے پر میں کان پر واپس آگیا اور ہم بے گورنر برای صاحب ی فرودگاه پر حاضر ہو گیا.وزیراعظم صاحب سردار عبدالرب نشتر صاحب اور باقی سب وزراء بھی موجود تھے.گورند برای صاحب تشریف لائے.عام طور پر سوئے رسمی تقریبات کے وہ لباس کے متعلق خاص احتیاط نہیں فرمایا کرتے تھے لیکن اسدان ایسا معلوم ہوتا تھاکہ لباس کے متعلق بھی پوری احتیاط کے ساتھ تیاری کر کے تشریف لائے ہیں.میٹھے ہی رضایا صاحبان میں نے آپ کو اس وقت یہاں آنے کی اسٹے لکلیف دی ہے کہ مجھے آپ سے ایک نہایت اہم بات کہنی ہے.آپ کو یا ہوگاکہ پچھلے سال گرمیوں میں میں نے آپ صاحبان کی خدمت میں گذارش کی تھی کہ لک میں حکمت پر اعتماد کم ہورہا ہے اور یں نے مشورہ دیا تھا کہ وزیراعظم صاح کا بند میں کمی اور مضبوط پیدا کرنے کے لئے مناسب اقدام کریں اور اس غرض کے ے کان میں تبدیلی پر ویکی لیکن مری بات پر توجہ نہ کی گئی اور لا بد سے بدتر ہوتے گئے گورنروں کی کا مرضی کے
۵۸۹ دوران میں تو کہا گیا آپ سبا جان نے سنا.میری دانست میں کابینہ کانٹے سرے سے تشکیل ہونا لازم ہے اور اس میں مزید تاخیر نہیں ہوسکتی.وزیراعظم صاحب ! میں آپ کی کابینہ کا اتنی طلب کرتا ہوں اک نئی کابینہ تشکیل دی جائے.وزیر اعظم صاحب : - میں نہیں سمجھتاہم کیوں استعفے پیش کریں.سمبلی کا اجلاس چندن ہوئے ختم ہوا ہے.سمی نے کابینہ کے پیش کردہ بجٹ کی منظوری دیدی ہے.املی میں کابینہ کو کشت کی تائید حاصل ہے.آپ کو بینک کا بینہ کو موقوف کرنے کا اختیار ہے.کیا آپ میں موقوف کرنا چاہتے ہیں ؟ گورنر منزل صاحب :.میں کوئی سخت لفظ استعمال نہیں کرنا چاہتا.میں آپ سے استعفی طلب کرتا ہوں.وزیر اعظم صاحب :.اور اگرمیں انکار کروں ؟ گورنر جنرل صاحب :- توپھر مجھے کوئی اور استہ تلاش کرنا ہوگا.وزیر خارجہ تم کیا کہتے ہو ؟ ظفر اللہ خاں :.میرا قلمدان حاضر ہے.گورنر جنرل صاحب : سردار عبدالرب نشتر صاحب آپ کیا فرماتے ہیں ؟ سردار عبدالرب نشتر صاحب :- وزیر اعظم نے جو کچھ فرمایا ہے ساری کو چینی کی طرف سے فرمایا ہے اور اگر اضیات کرنے کی ضرورت نہیں.گوریز منزل صاحب : - تو اچھی بات صاحبان میں آپ حضرات کو موقوف کر تا ہوں مجھے اس امر کا بہت افسوس ہے.خدا حافظ! نافرمایا اور کرے سے تشریف لے گئے.گورنر جنرل صاحب کے تشریف لے جانے کے بعد ہم سب بھی کرے سے باہر نکلے کا مبینہ کا اجلاس دس منٹ جاری رہا ہو گا.ہر فرد یقینا اپنے لئے نہیں لیکن ملک کے لئے ضرور ہراساں تھا کہ اب کیا ہو گا.اتفاق اب ہوا کہ وزیرا عظم صاحب اور مفضل الرحمن وزیر تجارت آگے تھے اور آپس میں باتیں کر رہے تھے.سردار عبدالرب نشتر صاحب اور میں ان کے سمجھے تھے اور ہمارے باقی رفقاء وہم سے تجھے تھے.جب وزیر اعظم صاحب ڈیوڑھی میں بچے تو انہیں دیکھ کہ گورنر جنرل کے ایڈی کانگ نے موٹروں کو بلانا شروع کیا ہم سب ڈیوڑھی ہی میں رک گئے.میں نے سردار صاحب سے کہا کہ اگرمیرے وزارت چھوڑ نے سے مشکل حل ہو سکتی تھی تومیں نے تو اپنا قلمدان پیش کر دیا تھا.سردار صاموں نے فرمایا.معلوم نہیں ان کے ذہن میں کیا ہے.اتنے میں موٹریں آنا شروع ہوگئیں وزیر اعظم صاحب نے وزیر تجارت کو اپنے ساتھ بیٹھنے کو کہا نوں نے فرمایا آپ تشریف سے ملیں میں ابھی آتا ہوں.میں مکان پر واپس آیا اور وضو کر کے نفل پڑھنے لگ گیا اور دعاء میں معروف ہوا.الہی یہ وقت ملک اور قوم کیلئے نہایت نازک ہے.تو اپنے فضل و رحم سے دی صورت پیدا کردے تو تیرے علم میں تیرے بندوں کے لئے سب سے مفید اور بابرکت ہو.فارغ ہوا تو دیکھا کہ لازم کرے میں کھڑا ہے W لما
1 ۵۹۰ میں نے اشارے سے دریافت کیا کیا بات ہے؟ اس نے کہا تین وزیر صاحبان تشریف لائے ہیں.میں نیچے گیا تو دیکھا که چو دھری محمد علی صاحب ، میان مشتاق احمد گودرمانی صاحب اور سردار بہادر خانصاحب دفتر کے کمرے میں میرے انتظار میں میٹھے ہیں.چودھری محمد علی صاحب ٹیلیفون پر کسی سوال کے جواب میں بتا رہے تھے کہ اس تربیت کمرے میں کون کون صاحب ہیں.مینیون بند کر کے دو ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا تم سیکوگورن برای تاب نے طلب فرمایا ہے.نئی کابینہ کی تشکیل ہمارے حاضر مون گران را صاحب نے فرمایا میں نے چودھری محمدعی بوگرہ کونٹی کا مینہ بنانے کوکہا ہے (وہ ان دنوں امریکہ ہی سفر تھے اور وزارت خارجہ سے بعض امور کے متعلق مشورے کے لئے کراچی آئے ہوئے تھے ، محمد علی بوگرہ صاحب نے ہم چاروں کو وزارت میں شامل ہونے کی دعوت دی اتنے میں سر گلٹ لیتھویٹ برطانوی ہائی کمشز گور نہ جنرل کوملنے کے لئے آئے.اور گورنہ تنزل صاحب ان سے ملنے کے لئے دوستہ کمرے میں چلے گئے.واپس اگر گورنر جنرل صاحے بتایا کہ مائی کم صاحب کہتے ہیں کہ انہیں خان ناظم الدین نے طلب فرمایا اور کہاکہ گورنی جنرل نے کابینہ کو با وجود اسکے کہ کابینہ کو اس بل میں اکثریت حاصل ہے موقوف کر دیا ہے ان کا یہ فعل خلاف آئین ہے اور آئین کی خلاف ورزی کی وجہ سے وہ مستوجب معزولی ہیں وہ بحیثیت وزیراعظم ملکہ معظمہ سے درخواست کرتے ہیں کہ اس فعل کی وجہ سے گورنہ تنزل کو ان کے منصب سے علیحدہ کیا جائے.ان کی سید درخواست ملکہ معظمہ کی خدمت میں پہنچادی جائے.میں نے کہا میں پاکستان میں ملکہ برطانیہ کا نمائندہ ہوں یہ معاملہ پاکستان سے متعلق ہے اور ملکہ پاکستان کی خدمت میں عرضداشت پیش کرنے کا ذریعہ پاکستان ہائی کمشنر متعینہ لندن ہیں.آپ ان کے ذریعے اپنی گذارش ملکہ پاکستانکی خدمت میں بھی دیں کیونکہ میں یہ خدمت بجالانے کی حیثیت نہیں رکھتا.وزیراعظم صاحب کی خدمت سے رخصت ہو کر میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں تاکہ آپ کو اس گفتگو سے مطلع کردوں.اس اثناء میں نئی وزارت کی تشکیل جاری رہی.ڈاکڑ نے ایم مالک صاحب کو طلب کیا گیا اور انہیں کا منہ میں شام ہونے کی دعوت دیگئی.انہوں نے دعوت ول رامای مین ایا میں ابھی ابھی خواجہ ناظم الدین کے پاس سے آیا ہوں.مناسب ہے کہیں انہیں جاکر مطلع کردوں کریں نے کابینہ میں شامل ہونا منظور کر لی ہے میں ہ بھی سناب سمھتا ہوں کہ بعض غیر لیڈروں سے اس مرحلے پر بات چیت کرکے ان کار دل کا بند کی برطرفی کے متعلق معلوم کردی اورنئی کابینہ کے متعلق انہیں اطمینان دلا دوں تاکہ بے خبری میںان کی طرف سے کوئی ایسا اقدام نہ کیا جائے تو حکومت کے لئے پریشانی کا موجب ہو.چنانچہ وہ تشریف لے گئے اور آٹھ بجے شام تک واپس آنے کا وعدہ کر گئے.اے کے بردی صاحب کو طلب کیا گیا ایک طرف سے جاب مل کر انہیں خواہ ناظم الدین صاحب نے طلب کیا اور ان کے ان جانے کی تیاری کر رہے ہی ا ا ا ا ا ا و و و و یا ری ہو تی ہے اور بتایا کہ خواجہ صاحب نے ان سے دریافت فرمایا کہ آئین کے روسے گورنر جنرل صاحب کا اقدام کہاں تک درست ہے.انہوں نے کہا کہ امی کے
۵۹۱ لفاظ کی رو سے تو انہیں اختیار ہے لیکن اگر بات پر رائے درکار ہے کہ روا یا الفاظ کی کیا تعین کی جاتی رہی ہے تواس یلئے انہیں مطالعہ کرنا ہوگا جس کے لئےکم از کم چومیں گھنے در کار ہوں گے.بدری صاحبکو بھی کابینہ مں شامل ہونے کی دعوت دی جو انہوں نے قبول کر لی.اشتیاق حسین صاحب قریشی کو دوبارہ کابینہ میں شامل کیا گیا.خان عبد القیوم نان صاحب کا نفرنس میں شمولیت کے بعد واپس پشاور تشریف لے جارہے تھے.لاہور پہنے پر نہیں سٹیشن پر جنرل اعظم خاں نے نام دیاکرہ نوی میلیون پر گریز جنرل صاحب کے ساتھ بات کریں.انہیں بھی وزارت میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی جسے انہوں نے منظورکر لیا اوروہ لاہور سے ہی کراچی واپس تشریف لے آئے قرض پر رکھنے کے دنیا کی امید کی برطرفی در دورت ل میں کی گئی خواجہ ناظم الدین صاحب کی امین کی ایک اعلان ہوگیا.آٹھ بجے شام چودھری عملی سا تھا نوگرا صاحب کی کابینہ نے حلف لیا اورنٹی کا بینہ کا اعلان ہوگیا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا ایک مندر خواب سارے کے آخرمیں یں ابھی نیویارک میں تھاکہ مجھے منورہ کی طرف سے صدقہ کی تحریک حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا تار ملاجس میں ارشاد تھا اور کہ فوراً کچھ صدقہ دیدی اور واپسی کے سفر پر روانہ ہونے لگ تو اس وقت بھی صدقہ دے دینا.میں نے اسی وقت تعمیل کردی مجھے اندازہ ہوا کہ حضور نے کوئی مندر خواب دیکھا ہے.چند دن بعد حضور کا والا نامہ ملا.جس میں حضور نے اپنے ایک خواب کا ذکر فرمایا.حضور نے دیکھاکہ خاک کا عراقیہ تصور کی خدمت میں موصول ہواہے جس میں لکھا ہے کہ جس ہوائی جہاز میں ناکار سفر کردیا تھا اسے آگ لگ گئی اور میانہ ایک جزیرے پر گرا.حضور نے تحریر فرمایا تو میں مجھے حیرانی بھی ہوئی کہ یہ علاوہ ھی ہو اور خود ہی یہ تفصیل بھی نکھرا ہے جس کے یہ معنی ہیں ا ا ا ا ا ا ا ا ن نے ان سے بالا ہے ہی یہ تحریر فرمایاکہ دو تفاصیل زمین میں رہ گئی ہیں ایک یہ کہ جس وقت حادثہ ہوا اس وقت پروانہ کا رخ مشرق سے مغرب کی طرف منھا اور دوسرے یہ کہ پامیلاٹ کے نام میں محمد شامل تھا غالبا غلام محمد یا کوئی ایسانام تھا اور وہ بھی بچ گیا.تمہارا واپسی کا سفر تو مغرب سے مشرق کی طر ہوگا لیکن خواب بغیر طلب ہوتے ہیں اللہ تعالی محفوظ رکھے.میں نے سفر پر روانگی سے پہلے بھی صدقے کا انتظام کر دیا.شہنشاہ ایران کی خدمت میں باریابی واپسی کے رومی سلے میں ہوش ٹھرا، دشت سے حکومت اورا کی دعوت کی تعمیل میں تہران گیا، تہران میں اعلیٰ حضرت شہنت اگر ان کی خدمت میں باریابی کا شرف حاصل ہوا اس زمانے میں آقائے حسین اعلی ہجو واشنگٹن میں سفیر ایران رہ چکے تھے اور ایک روشن دماغ سیاستدان اور اتے اور جو ریست کرم فرماتے تھے زیر بار گاہ تھے.ماضی کے وقت مجھ سے فرمایا اعلی حضرت تمہیں نیویارک میں مل چکے ہیں اور تمہاری نسبت بہت اچھی رائے رکھتے ہیں.ان کی خواہش تمہارے ساتھ ملحد کی میں بات چیت کرنے ی ہے.میں تمہیں پیش کرنے کے بعد واپس آجاؤں گا.کھانے پر بھی تمہارے علاوہ اور کوئی موجود نہیں ہوگا.تم."
۵۹۲ آزادی سے بات چیت کر سکو گے.میری حاضری اعلیٰ حضرت کی خدمت میں ساڑھے بارہ بجے تھی اور یہ ملاقات دور گھنٹے سے زائد رہی اعلی احضت بالکل بے تکلفانہ گفتگو فرماتے رہے.ان دونوں ڈاکٹر مصدق پر فوجی عدالت میں مقدمہ میل رہا تھا.اس سلسے میں اعلی حضرت نے فرمایا میں نے آج ہی صدر عدالت کے نام مراسلہ بھیجا ہے کہ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے میں ڈاکٹر مصدق کے خلاف کوئی الزام عائد نہیں کرتا.عدالت کے روبرو جو واقعات میری ذات کے متعلق بیان کئے گئے ہیں عدالت اپنے فیصلے پر پنچنے میں نہیں بالکل نظرانداز کر دے.جن امور پر بھی گفتگوری نہایت دلچسپ رہی.جنرل زاہدی وزیر اعظم ایران سے ملاقات ان دنوں ایران کے وزیر اعظم منزل زاہدی تھے انہوں نے بھی مجھے اپنی ملاقات سے نوازا اور بہت تواضع سے پیش آئے قصر گلستان میں تخت طاؤس، ہیرے جواہرات خلعتیں، لباس فاخرہ ، مرصع اور غیر مرصع قالین اور فنون لطیفہ کے بے شمار دل لبھانے والے شاہکار دیکھ کہ طبیعت خوش ہوئی ! در بند ہوٹل کے بر آمارے سے برف کا نظارہ نہایت نوشتنا تھا.اتفاق سے سورج نکل آیا برن اور زیادہ خوبصور معلوم ہونے لگی.آنلئے عبدالحمید رانی جو پاکستانی سفارت خانے میں یمنی سیکریٹری تھے بنات تواضع سے پیش آئے اور اپنے حلقہ ہائے عمل در سوخ میں مجھے متعارف کرایا مجرا اللہ.میاں نیم حین صاحب مرحوم الغفر الله له وجعل الجنة العليا مثواه ) ان ایام میں طہران میں پاکستانی سفارت خانے کے سربراہ تھے انکی محبت ٹھڑی یہ لطف رہی.اصفہان اور شیرانہ کا سفر | اصفہان اور شیرانہ دیکھنے کا اشتیاق تھا سردی کی شدت تھی.برفباری ہورہی تھی حکومت کیطرف سے مشورہ دیاگیا کہ ہوائی جہاز سے سر آسان سے اور آرام سے ہوکے اور ہوائی جہاز میں کرنے کی پر خلوص پیش کش کی گئی.لیکن میں نے موٹر کا سفر اسے پسندکیاکہ اسے میں بھی کچھ دیکھنےکاموقع میسر آئیگا حکومت کی طرف سے سب انظام محارم اور طور پر کردیا گیا.میاں نسیم سین صاحب مریم اور آقائے عبدالحمید عرفانی میرے ہمارا ھے وزارت خارجہ کی طرف سے آتے صحرائی ہمسفر تھے.حکام کی کار کے علاوہ پاکستانی سفارت خانے کی کا بھی ساتھ تھی یہ سفر بہت لطف میں کیا قسم تک سڑک بالکل صاف تھی.اس سے آگے سڑک پختہ تو تھی لیکن شمالی حصے میں برف کی وجہ سے اور جہاں برف نہیں تھی سنگریزوں کی وجہ سے مور لانے والوں کو احتیاط کرنا پڑتی تھی مگر میں کسی ای پریشانی کاسامنانہ ہوا.الحمداللہ شرک کے چلاے خانوں اور ہوہ خانوں میں ایرانی درمیانی معاشرت کی کچھ چھلک بھی نظر آتی تھی.** اصفہان | اصفہان انی طرز کا میا شہر ہے.محلات کی تو کوئی ایسی خصوصیت نظر نہ آئی.پہلا ستون بشیک قابل دید ہے لیکن بعض مساجد عجائب رونہ گار ہیں.بیگمات کی مسجد کی کہیں نظر نہیں ملے گی شہر کا وسطی میدان
۵۹۳ اپنا طرز میں گویا میں کے سان مار کو ترک کی حیثیت رکھتا ہے.بازار نہایت خوشنما ہے.زندہ رود کا دو منزلہ پل ایک قامہ کی یاد گار ہے.پارس گاری شاہ شوری کا مقبرہ | اصفہان سے شیر از جاتے ہوئے موسم بلد خوش گوار ہو گیا.آئے عرفانی یران کی تاریخ اور تمدن کا بسط فرمینگ میں مورتی ہوتی تھی اور رانی صاحب ایمانیات کے ساتویں آسمان پارس سے بھی زیادہ سرعت سے محو پرواز تھے.میں نے بات کاٹتے ہوئے دریافت کیا آپ بتا سکتے ہیں شاہ نورس کی قر کہاں ہے؟ تھے ہوئے سکتے ہیں عرفانی صاحب چونکے اور ایک لحظه توقف کے بعد دائیں ہاتھ سے باہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا.بس ہیں تو ہے یا آپ دیکھنا چاہتے ہیں؟ میں نے خیال کا عرفان صاحب یا تو حواس کھو بیٹے ہیں پھر کوئی بڑے جادو کہ ہیںکہ میرے دفعہ شاہ فورس کی تر کے متعلق پوچھنے پر انہوں نے فوراً اس تاریخی عمارت کو موٹر کی بائیں جانب لاکھڑ کی ہے.موٹر تیزی سے بڑھتی جارہی تھی.میں نے جلدی سے کہا ہاں ہاں ضرور دیکھنا چاہتا ہوں.عرفانی صاحب نے رایور کو مٹانے کو کہا اور موٹر کی تو ایسے ہی واپس چلو کوئی دوران واپس ہوکر موٹر ٹرائی اور کا اتہ ہے.ہم ان سے لیکن کسی عمار یا عمارت کے کھنڈرات کا نہیں کوئی شان تک نہ تھا.البتہ سڑک کے کنارے پر یہاں سے ایک پکڈنڈی نکلتی تھی ایک چھوٹی سی تختی ایک ڈنڈے کے ساتھ بندھی ہوئی تھی.عرفانی صاحب نے اس کی طرف اشارہ کا اور فرمایا یہ ہے میں نے حیران ہوکر پو چھائی کی ہے؟ فرمایا پارسگاہ میں نے توجہ سے دیکھا تو بیشک گنتی رہ مدھم ساکچھ کھا ہوا تھا سے پاسگار بھی بڑھا جاسکا تھا.آخر عرفانی صاب نے یہ عقد کشانی کی کہ پارسگارت خوری کے مقبرے کا نام ہے جو سڑک سے دور میل کے فاصلے پرہے اور کی پگڈنڈی میر کی طرف رہنمائی کرتی ہے.عرفانی صاحب نے پوچھا آپ چلیں گے ؟ میں نے کہا ضرور ہو گا اگر اور جاسکی ہے تو موٹر پر جائیں گے ورنہ پیدل لینگے عرفانی صاحب نے فرمایا موٹر جاسکتی ہے البتہ رستے میں ایک چھوٹی سی ندی ہے کوئی ایسی گہری نہیں لیکن اگر اس میں پانی زیادہ ہوا تو مور کو وہاں رکنا پڑے گا.میر ندی کے پارک کوئی پو میں ر ہے میں نے کہا اے ندی پر پہنچ کر گئے جن کی کا مالک جس کی ذات پرایران کو بجا طور پر فخر ہے اس کی قبر کی نشان دہی ایک مقر سی سختی کرتی ہے اور قبر تک منچنے کا رستہ ایک پگڈنڈی ہے جو ایک ندی پر جا کر ختم ہو جاے گی یا موٹر آسانی سے نری تک چلی گئی.ندی بظاہر پایاب تھی اور میڈ سنڈی کا نشان ندی کے اس پار بھی دکھائی دیتا تھا.ڈرائو نے موٹر پانی میں ڈالی اور بی کسی شکل کے ہم ندی کے پار پہنچے گئے اور چند منٹوں میں موٹر میں مقبرے کے احاطے کی تین فٹ اونچی دیوار تک لے گئی.دیوانہ کے اندر صحن بالکل اجاڑ تھا اور تقرے کی عمارت جو دو منزل تھی بالکل خستہ حال میں تھی.انہیں گری ہوئی چونا اکھر روانہ مجاورین پاسبان میں اینٹوں اور تیری ا سہارا لیتے ہوئے اوپر کی منزل تک پہچان یہاں بھی ویرانی کا یہ عالم تھا کمرے کے اندر تعوین کا نشان نظر آتا تھا لکین
۵۹۴ بھڑوں نے وہاں چھتہ بناہ کھا تھا.میں اندر داخل نہ ہوا.باہر سے ی دعا کر کے پھر امینوں اور تیروں کا سہالہ لیتے ہوئے نیچے اتر آیا.میرے ساتھی نیچے میرے انتظار میں رہے.یہ اسی شاہ فورس کا مقبرہ ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں سورہ کہف کے آخری رکوع میں ذوالقرنین کے نام سے آتا ہے، واپسی پر ہماری مورمنڈی کے درمیان ایک پتھر پر اٹک گئی.اتنے میں آقائے صحرائی سرکاری موٹرمیں ہمارا تعاقب کرتے ہوئے ندی کے کنارے پہنچ کر مارا انتظار کر رہے تھے.جب دیکھا کہ ہماری موٹرک گئی ہے تو لگے سرکے بال نوچنے کراب کیا ہوگا.سوناکیا تھا ہم نے جوتے اور حرا میں اتارلیں تیکو مین اور کھینچ لیں ہوتے جرابیں ایک ہاتھ میں لئے دوسرے ہاتھ سے معلوم تھامے پایاب دور سے کنارے پہنچ گئے.آقائے صحرائی کی جان میں جان آئی.پانچ چھ د مقالوں کو جمع کیا جن کی بہت سے مورنڈی سے نکل آئی اور ہم نے شاہراہ پر واکس پہنچ کرا پا رستہ کیا.تخت جمشید ابھی شیر از اندازا ایک گھنٹے کی مسافت پر تھا کہ ٹرک بائیں طرف مڑی اور ایک ایک ایک حیرت انگیز منظر ہماری آنکھوں کے سانے آیا.پہاڑ کے دامن میں سٹرک سے ۳۰ یا ہم فٹ کی بلندی پہا ایک پیتے ہموار مرتفع میدان تھا.جس میں بڑے بڑے بلند ستون تھے اور ان کے ارد گرد سمیع عالی شان عمارتوں کے کھنڈرات تھے جن سے اندازہ ہوتا تھا کہ یہ مقام قرون اولی میں کسی نہ یہ درست طاقت کا پایہ تخت ہو گا.عرفانی صاحب نے بتایا کہ میں وہ مقام ہے جو تخت جمشید کے نام سے اپنے زمانے میں شہرہ آفاق تھا.شاہ فورس کی سلطنت ایران سے بحیرہ اسود، در دانیال ، جیره توسط اور مر کے اے کی پھلی ہوئی تھی ان کے بی نے جو ان کا جانشیں ہوا اسے اور بھی وسعت دی وہ ایک ہم سے واپس آرہا تھا کہ ایشیائےکوچ میں ایک مقام پاس کا گھر بد کا اور اس گرا دیا کرتے ہوے اس کا اپنا خر اس کے پیٹ میں گھس گیا اوروہ ہلاک ہوگیا.و بے اولاد تھا.اس کا چازاد بھائی اس کا وارث ہوا جس کی اولاد نے کئی پشتوں تک حکومت کی.تخت جمشید انہیں کے کارناموں میں سے ایک کارنامہ تھا.اس خاندان کا آنوری حکمران دہ دارا تھا جیسے سکندر اعظم نے شکست دیکر اس خاندان کی حکومت کا خاتمہ کیا.کہا جاتا ہے کہ سکندر نے تخت جمشید کو آگ سے تباہ کرنے کی کوشش کی لیکن اگر ہم یہ بھی ہوتو کندی کی کوشش کامیاب نہ ہوئی.تخت جمشید کے کھنڈرات آج ۲۰ سال بعد بھی شاہ فورس کے جانشینوں کی عظمت کی مور یاد گار ہیں ہم نے دوتین گھنٹے تخت جمشید کے دکھنے میں صرف کئے.ایرانی محکمہ آثار قدیمہ کے افسر متعین تخت جمشید نے ہماری تواضع میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی.مخبزاہ اللہ.ان کا عرفانی صاحب کے ساتھ گہرا دوستانہ تھا.میں ان سے بہت سی معلومات ہو ئیں.لیکن نہیں سخت افسوس رہا کہ م تخت جمشید جیسے مقام پر چند گھٹے میٹرک کے بت ہی دیکھنے کے کم سے کم تین دن میں قیام کرنا انام ہے لیکن ہمارے پاس اتنا وقت نہ تھا.
۵۹۵ به شیراز | تخت جمشید سے روانہ ہوئے تو شیراز پنچنے کے اشتیاق نے جذبات میں تلائم بر پا کر دیا.سعدی اور حافظ ، رکن آباد اور گلگشت مصلی بیساختہ یہ شعر زبان پر آ گیا.خوشا شیرازہ دو صنع بے مثالش به خداوندا نگه دار انه زوالش! شہر میں داخل ہونے سے پہلے عرفانی صاحب نے فرمایا سٹرک کی دائیں جانب جو آپ تو ہے میں رکن آباد ہے.یل والی کتب کا ناگالین نے حقیقت پر تیل کی کمان کو لا کرنے کا اور فصل کی اور رکن آباد کی دی تصویر نے زمین میں بھی جو چالیس پینتالیس سال سے زمین میں تھی الحمدل کہ میں مزید ایسے صدمات سے محفوظ رہا.سعدی اور حافظ کے مقبرے جدید لیکن دلکش طرز پر تعمیر کئے گئے ہیں اور دونوں کے گردو خوشنما چمن آراستہ ہیں شہر بھی صاف ستھرا اور آراستہ ہے آب و ہوا سال بھر معتدل اور خوشگوار رہتی ہے.ہم دورات کے قیام کے بعد شیرازہ کی زیارت سے نخراماں اور اسقدر علیدا پس تو جانے سے افسردہ لوٹے خداوندا نگه دار انه نروالش؛ تهران واپسی پر آتا کے عرفانی نے مجھے ایک مختصر انتخاب دیوان مولانا روم اور ایک نسخه برباعیات با با ما روفات فرمائے فجزاه الله شاہ حسین اور ان کی حکومت کی تہران میں اردن کے سفر تشریف لائے اور فرمایا میری حکومت کی طرف سے اردن آنے کی دعوت طرف سے مجھے ہدایت موصول ہوئی ہے کہ میں اسکی طرف سے آپ کو میاں سے دشت واپس جانے پر امان آنے کی دعوت دوں.میں نے عذر کیا کہ مجھے بعد کراچی نچنا ہے.دوستے دن دہ پھر تشریف لائے اور فرمایا میں نے تمہارا در امان پہنچادیا تھا وہاں سے مجھے ہدات ہوئی ہے کہ میں تمہیں جلال الک ا ذاتی پیغام پہنچاؤں کہ ان کی خواہش ہے کہ تم اس موقعہ پر امان ضرور آؤ میں نے عرض کیا کہا تو سوائے تعمیل ارشاد کے کوئی چارہ نہیں میں ضرور حاضر ہوں گا.عدالت ستہران کا مطار اس زمانے میں بالکل ابتدائی محالت میں تھا.رات کے وقت ہوائی جہازوں کے اترنے پڑھنے کا خاطر خواہ نظام نہیں تھا.تہران سے مشرق کی سمتکوئی پروانہ نہیں جاتی تھی مغرب کی سمت سے ہو جھانہ آتے تھے دن کے وقت تہران پہنچے تھے اور اک دو گھنٹے ٹھر کردن ہی کو واپس ہو جاتے تھے.بدن مجھے مشت واپس جانا تھا اسدن خوب برف باری ہو رہی تھی.بہانہ کے پہنچنے کے وقت کے قریب مطار سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے تو ے بتایاکہ جہاز مار کے قریب و پنچ گیا ہے لکن بھی نہیں کہا ہے کہ ا ا ا اترنے کا فیصلہ کرے گایا واپس ہوجاے گا تھوڑی دیر کے بعد اطلاع کی کہ جان اگر چاہے تم ماریہ آباد مادر پہن کر معلوم ہوا ہمیں اتنی گرہ ہے کہ بہاز کے پروں پرسے برف صاف کرنے کے ساتھ ہی اور برف من شروع ہو جاتی ہے.نہیں کر سکتے کہ جہان آن دائیں
۵۹۶ کی ہوگا یا نہیں.کوئی پون گھنٹے کے انتظار کے بعد علوم ہوا کہ جہاز واپس جاسکے گا.مسافروں کو سوار ہونے کی بات ہوئی.اور بہانہ بخیریت روانہ ہوگیا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی گئے مندر خواب کی طرف خیال گیا کیونکہ سفر کا یہ حصہ مشرق سے مغرب کی طرف تھا.میں دعاء میں مصروف ہو گیا پر دانہ بالکل ہموار تھی.ایران میں تو زمین برف سے ڈھکی ہوئی تھی.عراق اور شام کے علاقے میں میدانی محصوں میں برف نہیں تھی.دمشق کے قریب پہنچنے تک سورج غروب ہوگیا جب مشق کے مطار پر اترنے کا وقت آیاتو اعلان ہوا مطامہ پر دھند کی وجہ سے یہاں اترنے کا امکان نہیں بردت اتریں گے قین آنٹ میں بیروت پہنچ کر حیرت سے اتر گئے.فالحمدللہ پاکستانی سفر متعین دشت محمود من صاحب کار به بیروت تشریف لے آئے ہوئے تھے.ہم دو گھنٹوں میں حیرت میشم پہنچ گئے میں نے خیال کیا اللہ تعالی نے اپنے نقل دریم سے نعرے کو ٹال دیا.اردن کا سفر | دروستکردن سفیر صاحب نے امان اطلاع دی کہ ہم موجب ارشاد حضرت جلالتہ الملک حاضر ہونے والے میں محمد حسن صاحب اردن میں بھی پاکستان کیطرف سے سیر ت کیم کار پر روانہ ہوگئے اور چار پانچ گھنٹے کے سفر کے بعدامان بخریت پہنچ گئے.ہمارے قیام کا انتظام ہوٹل مں تھا ہوٹل کے باہرمیں نے ہوٹل کا نام THE PHILADELPHIA HOTEL دیکھا تو سفیر صاحب سے کہا یہ بھی امریکی اثر ہے ! وہ مسکرائے اور فرمایا میں امان ہی اصل تاریخی HILADELPHIA PHILADELPHIA ہے امریکہ نے یہ نام یہاں سے لیا ہے.دیکھئے وہ ہوٹل کے بلین سامنے ایک پرانے رومی تھی کے آثار تک موجود ہیں.شاہ حسین کی خدمت میں باریابی | علالتہ الملک حسین ابن طلال بن عبداللہ مری محبت اور احترام سے پیش آئے.فرمایا ہم سب بہت دل سے تمہارے من میں کتنے قضیہ فلسطین کی ابتدا سے نہایت تجارت اور دانشمندی سے ہمارے حقوق کا دفاع کیا ہےاور بحالی میں اسرائیلیوں نے سخت ظلم اور تعدی سے قبیبہ کا گاری ماری حدود کے اندر بے جادا کرکے برادارات من و امان میں پیش ہوکراسرائیلیوں کی مکاریوں اور قریب کا ربوں کا پردہ فاش کیا.میں نے عرض کیا پاکستان قضیہ فلسطین کو اپنا اور سارے عالم اسلم کا قضیہ سمجھتا ہے.سمارا فرض ہے کہ جو مرد اور خدمت اس بارے میں ہمارے امکان میں ہو اس سے دریغ نہ کریں.جب قبیدہ پر اسرائیلی پوری کا مسئلہ مجلس امن میں زیر بحث آیا تو پاکستان کا فرض تھا کہ حق اور انصاف کی پوری حمایت کرے، بیشک مجلس امن کی روایت ہے کہ عموماً ہر رکن کا سفر کردہ منتقل نمائندہ ہی اس کی طرف سے مجلس امن میں تقریر کرتا ہے.لیکن امور خانہ جہ میں ہر ملک کا اصل نمائندہ تو وزیر خارجہ ہی ہے.میں نے قرین مصلحت سمجھا کہ اس مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر میں خود پاکستان کی طرف سے مجلس میں نمائندگی کروں.جلالتہ الملک سے میری تین ملاقاتیں ہوئیں.ہر دفعہ بڑی محبت سے پیش آئے.ایک ملاقات میں تو صرف میں حاضر خدمت تھا.بلا تکلف عرب :
اور عالم اسلام کے اہم مسائل پر گھنٹہ بھر سے زائد گھنگوری.ویسے ون شام کے کھانے پر وزراء اور سلو لو اور کثیر تعداد شرفاء کی مدعو تھی.کھانے کے بعد علالتہ الملک نے کمال شفقت سے گستارہ اردن کا سب سے اعلیٰ نشان مجھے مرحمت فرمایا اور سفیر صاحب کا بھی اسی طریق کیا عزانہ فرمایا.قدس کا سفر - ایک دن قبل دو پرم وزیر صاحب معارف کی معیت میں تدرس گئے.یہ سفر ہوائی جہاز سے ہوا.مسجد اقصی اور تمام مقامات مقدسہ کی زیارت سے تشریف ہوئے.حضرت مسیح کے صلیب دیے جانے کا مقام دیکھا اور اس کے عین نیچے SE PULCHRE کا کمرہ دیکھا یہ روانی منظم ہے واللہ اعلم بالصواب مسجد عمرمیں اس مقام پر نفل ادائے جہاں امیر المومنین حضرت عر نے یو ام آنے پر مان گذاری تھی.یہ وسلم کے صدر بلدیہ نے دو پر کے کھانے کی دعوت دی اور ایک خوبصورت مصری طبع شدہ قرآن مجید ان را لطف پدید یا نخاه الد.ایک سر پر امان سے زرا الطف دیا میں چالیس میل کے فاصلے پر قدیم رومی شہر پویش کے آثار دیکھنے گئے.جلالتہ الملک نے بڑے تپاک سے رخصت کیا اور وعدہ لیاکہ قتافوقتا حاضرخدمت ہوتا رہوں گا.اس کے بعد ایک مایا ہوا اور نامیات نے درد ہوا نہیں کیا کیوں ایہہ تو دیامیر میں لاقات ہے ہارے ہاں اور توہم اسے ایفائے عہد شاہ کریں میں ان دنوں بین الاقوامی عدالت کا رکن تھا.ارون میں دوسری مرتی و حسین کی مدت میں باریابی اس دفعہ ڈاکٹر وقار احمد ہمدانی صاحب بدمشق میں پاکستانی سفر تھے اور اردن اور شام کے درمیان عارضی نا چاقی کی وجہ سے اردن کی طرف سے دمشق میں قائم بالا مورد بھی تھے میرے ہمراہ تھے اردن کے حدود میں داخل ہوتے ہی محکمہ استقبال کی طرف سے بچائے کا انتظام تھا.پریس کا ایک وجوان لوکل نمائندہ بھی موجود تھا.اسنے اپنے فرائض کی ادائیگی کے طورپر سوال کیا امان کس مرض کیلئے جارہے ہیں؟ میں نے کہا ایک دوست کی ملاقات کے لئے.پوچھا کیا حلالتہ الملک کی خدمت میں بھی حاضری کا موقعہ ہو گا ؟ میں نے کہا کیاں جو میرے دوست ہمیں ان کا نام حسین بن طلال ہے حسن اتفاق سے دو اردو کے بادشاہ بھی ہیں.لیکن میری عرض دوست سے علاقات ہے.دوست کو بادشاہ پر سبقت ہے ! وہ نوجوان را منہ تکنے لگا میں نے یہ گفتگو علالت الملک کے حضور در برادی.بہت خوش ہوئے.پیٹرا کی سیر | اس بار میں نے پیٹرا (PETRA) دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا.فری با سب انتظام ہو جائے گا میرے ذاتی ہوئی بہانہ میں معن جاؤ وہاں سے آگے کار کا نظام ہوگا.کل شیخ کویت کے برادر اصغر تو ولیعہد بھی ہیں مان ار ہے ہیں ورنہ میں خود تمہارے ساتھ پھلتا.پیڑا ( PETRA) بھی ایک عجوبہ روزگار ہے و تنحتون من الجبال بيوتا فرحين ( ۲۶۰۱٥۰ ) کی ایک پر شوکت مثال ہے.معن سے ایک سڑک وادی موسی سے گزر کہ میرا کو جاتی ہے اسی وادی میں پہاڑ سے ایک چشمہ پھوتا ہے جو دایہ وہی پیشہ ہے جو اضرب بعصاك الحجر (۰۱۲، ۲۰۶۱) کے
۵۹۸ ارشاد کی تعمیل کرنے پرپھوٹ پڑا تھا.واللہ اعلم بالصواب.میرا پہنچے تو سامنے ایک سہ منزلہ عمارت نظر آئی جو پیار کی ان کو تراش کر تیارکی گئی تھی.یہ میرا کسٹم اسناد پر تجارتی الی یوپی میں داخل ہوتا میان محصول داکترتا چونکہ شہر میں داخل ہونے کا اور کوئی رستہ نہیں تھا محصول کی وصولی نہایت آسان تھی کسٹم ہاؤس کو بائیں ہاتھ چھوڑ کہ ہم ایک وسیع میدان میں داخل ہوئے جس کے گرد پہاڑی لال قلعے کی فصیل کی ماند تھا.میدان کے درمیان میں بھی یوں کا ایک سال تھا.ایسے علم ہوتا تھاکر بیان کی عمارتوں کے کنات پریٹی کے ابنارم جان سے لیے بن گئے ہیں لیکن میدان کے گرداگرد پہاڑیوں سے تراشی ہوئی عازمیں ایک محفوظ چلی آتی ہیں.ہم ان میں سے بعض کے اندر بھی گئے اور نکی صنعت کاری کے نمونے دیکھ کر حیران ہوئے.پہاڑ کا پتھر سرخ رنگ کا ہے لیکن اس میں جا بجا رنگا رنگ لہریں ہیں.ایوان عدل کے بڑے مال کی چھت کو بھی چٹان تراش کر بنائی ہوئی ہے ایک بوقلمون مرتع قالین دکھائی دی ہے اور اسے معلوم ہوتاہے کہ ابھی بھی بنائی گئی ہے.پیر کے عبابت کو تفصیلی طور پر دیکھنے کےلئے بھی کئی دن درکار ہیں.ایران کے وسط میں ایک ہوٹل ہے.مہمانوں کی رہائش کا انتظام خیموں میں ہے.وزائرین پیٹرا اس رات بھر یا اس سے زیادہ عرصہ پھر نان چای ہ یہاں قیام را کر پیٹا کا تفصیلی معائنہ کرسکتے ہیں اور ان میں سے صاحب بصیرت عاقبة المكذبين رتھیوں نے الوں کا انجام پر غور کر کے عبر حاصل کر سکتے ہیں پیٹرا کی داد سےباہر آنے پر دور کا کھاناہم نے میٹر کے فوجی دستے کے افسران کے ساتھ کھایا اور جنگ میں ان کی پر تکلف ضیافت کے نہایت ممنون ہوئے تمام الہ 1946 جلالتہ الملک حسین بن طلال کے ساتھ آخری ملاقات بون شاہ کے نہایت اندرو مناک واقعات کے بعد پھر لندن میں ہوئی.اسی شام جلالة الملک پرس تشریف لیجانے والے تھے گفتگو کا موضوع طبعا شرق اوسط کے المناک حالات تھے.انا للہ وانا الیہ راجعون.دیل کا خطر ناک حادثہ جس سے اللہ تعالی سال کے اواخر کے سفر دمشق ، تہران ، ارون کے خاتمے پر کے معجزانہ طور پر محفوظ رکھا.کراچی واپس آگیا.چند دن بعد جنوری اور میں مجھے لاہور میں - جانا پڑا.لاہور سے ۲۰ جنوری کی شام کو کراچی کے لئے روانہ ہوا.میری سیلون گاڑی ۲ ڈاؤن میل کے پشاور سے آنے پر میل کے عقب میں لگا دی گئی تھی جب میں پلیٹ فارم پر پہنچا تو اسسٹنٹ سٹیشن ماسٹر صاحب نے فرمایا سیلون ٹرین کے آخر میں ہونے کے سبب آپ ریل کی حرکت زیادہ محسوس کریں گے جس سے آپ بے آرام ہوں گے.اگر آپ پسند کریں تو آپ کی گاڑی ٹرین کے درمیان میں لگادی جائے.اکثروز را صاحبان اپنے سیلون کار بیان میں ہونا پسند کرتے ہیں.میں نے کہا میں آپ کی توجہ کا ممنون ہوں لیکن اس اول بدل میں کچھ وقت صرف ہو گا جس سے تمکن ہے ٹرین کی روانگی میں کچھتا خیر ہوجائے میں اپنے آرام کی خاطر دو سے مسافروں کیلئے باعث تصدیعہ نہیں بنا چاہتا.سیلون جہاں ہے وہیں ٹھیک ہے.گاڑی کے روانہ ہونے پر زور کا بھٹکا محسوس ہوا جس سے مجھے کچھ پریشانی ہوئی گاڑی چھاؤنی کے
۵۹۹ پر پھر ہی وہاں سے روانہ ہوئی تو پھر ویسے ہی زور کا جھٹہ کا محسوس ہوا.گاڑی رائے ونڈ پہنچی تومیں پلیٹ فارم پر اترا اور دیکھا کہ گارڈ صاحب جن کا ڈبہ میری گاڑی سے آگے تھا پلیٹ فارم پر ہاتھ میں بھنڈی سے کھڑے ہیں.میں نے ان سے ذکر کیا کہ دونوں بار گاڑی کے ملنے پر سخت دھکا محسوس ہوا ہے.مجھے اندیشہ ہے کہ کھڑے ہوئے مسافروں میں سے بعض گر پڑے ہوں گے اور مک ہے کسی کو تو میں بھی آئی ہوں.مجھے تو علم نہیں کہ ایسا کیوں ہوا ممکن ہے ڈرائیور کی بے اختیائی ہو.اگر آپ مناسب بیان فرمائیں تو اسے توجہ دلادیں کہ احتیاط کی ضرورت ہے.اس کے بعد میں اپنے وقت پر سو گیا جب میں کن ان کے لئے کھڑا ہوا تو گاڑی پوری رفتار سے یہی تھی مجھے ایلیا میمن نے نماز کے دوران میں گاڑی کے رکتے وقت یا پھر ملتے وقت دھکا لگے اور میں گر جاؤں اسے بہتر کہیں نماز بیٹے ہو ا کروں.چنانچہ میں نے بیٹھ کرنماز شروع کردی.میں عام طور پر فجر کی سنتوں میں دوسری رکعت میں الحمد شریف کے بعد سورہ اخلاص پڑھتا ہوں ابھی یں نے ہم اللہ کے بعد قل کہا تھا کہ ایسے دور کا بھٹکا لگا کہ اوسان خطا ہوگئے اور میں بائیں طر گرگیا اور کہیں پوٹ ی ریل گاڑی کھڑی ہوگئی میں نجل کر قعدہ کی حالت مں یا ارام کرنا جاری رکھی نماز سے فارغ ہونے و یونانی یا میں بستر پلیٹ گیا لیبی تھاکہ ملازم نے آکر زور سے دروازہ کھٹکٹایا اور کہا گاڑی کو آگ لگ گئی ہے جلدی یا ہر آئیے.میں نے دریافت کیا ہمارے سیلون کو آگ لگی ہے یا ساری ریل گاڑی کو ؟ اس نے کہا ساری ریل مل رہی ہے.اتنے میں باہر سے آواز سنائی دی انہیں کہو مہدی یا ہر آئیں.میں نے جلدی میں کپڑے پہنے اور باہرنکلا تو دیکھا کہ ایک محشر با ہے انتہائی سراسیمگی کی حالت میں حیران کھڑے ہیں.ہوا تیز مل رہی ہے.شعلے آسمان کی طرف لپک رہے ہیں اور تیزی سے ٹرین کے عقب کی طرف بڑھ رہے ہیں.اس اثنا میں گارڈ صاحب آخری دو یا تین گاڑیوں کو جن میں میری گاڑی بھی شامل تھی اور ہوا بھی شعلوں کی زد میں نہیں آئی تھیں ٹرین سے الگ کرنے کے متعلق ہدایات دے رہے تھے.انجن کے عین پیچھے کے تین ڈلوں میں سے تو کوئی خوش نصیب مسافری بچا ہو گا.ان تین میں سے ایک ڈبیہ عورتوں اور بچوں کا تھا جن کے اقرباء ودوس ہے ڈبوں میں تھے.جو سافر انجین سے دور کے ڈبوں میں تھے وہ خود تو بچے گئے لیکن بعض کے ی کی کیا کر راکھ ہو گے اور ان کی دنیا اندھی ہوگئی العالم اليوم من الله الان رحم ( ) والی کیفیت ۱۳ ھی ہو اور اللہ تعالی کے مر ہی سے بات دیر کی کوئی گنجائش نہیں تھی.اتنے میں روشنی ہوگئی ہوتی ہے علیحدہ کئے گئے تھے انہیں دھکیل کر جھپر اسٹیشن تک پہنچا یا گیا م فریدی کچھ بغیر سہارے کے کچھ دوسروں کے سہارے....سٹیشن تک پہنچے جن کو ضربات آئی تمھیں یا آگ سے مر پہنچا تھا انہیں سیشن تک لانے کی تقریر کی گئی لیکن سیٹ پر بھی کام اہواتھا اور افراتفری تھی.چھوٹا سائیں تھا.کوئی آرام کا ان یتیمارداری کیلئے دوا دار مرہم پٹی میرسی تا نخورد و نوش کیلئے بھی کوئی اشیاء مہیانہ تھیں.اگر کچھ تھا و چند بچوں بوڑھوں اور عورتوں کے کام آیا ہو گا.سٹیشن کے قریب کوئی آبادی نہیں تھی.سڑک بھی آٹھ میل کے فاصلے سے گزرتی تھی اور درمیانی حصے میں سراسری
کے تودے تھے.کراچی حادثے کی اطلاع پہنچی لیکن وہاں سے ڈاکٹر مریم بی کا سامان اور مناسب کمک آتے گھنٹوں لگے سڑک کے رستے ہو لوگ کراچی آئے ان کی موٹروں کے لئے سڑکی سے سٹیشن اور ریل کی پڑی تک پہنچنا مشکل ثابت ہوا.بہت سے مسافروں نے اپنے اعزہ واقرباء کو بذریعہ تا اطلاع دینے کی کوشش کی.میں نظام میں تھا کہ محکمہ ہیلی کی طرف سے جو انتظام مسافروں کو کراچی پہنچانے کا کیا جائے گا اسی کے مطابق میں بھی کراچی پنج ود جھاؤں گا.لیکن دوسر کے تھوڑی دیر بعد سید شجاعت علی حسنی صاحب مرحوم ما شیخ اعجاز احمد صاحب اور چودھری بشیر احمد صاحب موٹر میں پہنچ گئے.جزاھم اللہ میںان کے ساتھ کراچی آگیا الحمدللہ.اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ یہ حادثہ حضرت خلیفہ ایسیح الثانی کے خواب کے مطابق پیش آیا اوراللہ تعالی نے محض اپنے فضل و رحم اور دورہ نوازی سے میری جاں بخشی فرمائی.اور مجھے محفوظ رکھا.خواب میں بشیک بوائی بہانہ کے کسی جزیرے پر کرنے کا ذکر تھا لیکن ہر خواب کسی مارک تعبیر کا محتاج ہوتا ہے.خواب کے دیگر سب قرائن صفائی سے پورے ہوئے سواری گوری تھی لیکن خطر آگ ہی کی صورت میں پیدا ہوا جس مقام پہ یہ امید تنوع میں آیا وہاں دریل کا رخ مشرق سے مغرب کی طرف تھا اور جب حادثے کی تحقیقات شروع ہوکر ڈرائیور کا بیان اخبار شائع ہوا تو معلوم ہوا کہ اس کا نام غلام محمد تھا اور وہ بالکل معجزانہ طور پر سلامت رہا.اس کا بیان تھا کہ ڈاک گھاڑی اپنی رفتار پر کی جا رہی تھی کہ ان پر اسے ایک موڑ آیا جب انجنمور کے گرد گھوا تو یکا یک سانے نیم اندھیرے میں مجھے ٹھیری ارسی پر ایک طومار گرا ہوا دکھائی دیامی نے دہشت میں فوراً بریک لگا دیے لیکن پھر بھی ان کی مگر اس طومار سے ہوئی.اور اس تصادم کے نتیجے میں انجن بڑی چھوڑ کر لڑھکتا ہوا ڈھلوان سے نیچے جاگرا یجب میرے اوسان ٹھکانے ہوئے ومیں نے دیکھاکہ میرا ارمین مرابڑا ہے میں رینگتا ہوا انجن سے باہر نکلاتومی نے خود کو صبح سلامت پا یا مگر ساری دیل مل رہی تھی.بعد میں تحقیقات کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ کراچی سے ایک پیڑوں سے بھرے ہوئے ڈلوں کی ریل گاڑی حیدرآباد طرف جاری تھان ڈاوں کو مضبوطی کے ساتھ نہ رکھنے کیے ان کے گر لوہے کے یکے ہوتے ہیں جو دونوں طرف سے ے کواپنی پیٹ میں لیکر چھت پر جاکریل جاتے ہیں اور انہیں آپس میں کس دیا جاتا ہے.اتفاق ایسا ہواکہ سب سے آخری ڈبے کا ایک پڑکا کھل کر نیچے لٹک گیا.جب تک تو یہ گاڑی پڑی پر سیدھی چلتی رہ یہ ٹپکا بھی لڑھکتا ہوا پٹڑی کے ساتھ ساتھ گھٹتا چلا گیا لیکن تیل کی گاڑی موڑ پر پڑی تو اس نکتے ہوئے یکے کا سرائیٹری کی لائن کے ساتھ الجھے گیا.اب ایک طرف سے انجن کا کھاؤ اور دوسری طرف سے پٹڑی کی پکڑے اگر یا کسی سے کمزور ہوتا ٹوٹ جاتا اور ان کاری کو پینے سے جاتا این کاموا تانیہ یہ ہوا کہ دونوں طرف سے ڈبے پر زور پڑا اور یہ پری کو چھوڑ کر نیچے آرہا اور دوسری پٹڑی پر جاگرا حقیقی ٹاک گاڑی حیدر آباد کی طرف سے آرہی تھی ڈبے کے کر جانے سے ان گاڑی کو کھنے سے مانہ آگیا اورگاڑی رک کی مسند نٹوں میں ڈاک گاڑی کے انجن کی نظر کیے ہوئے ڈبے کے ساتھ ہوئی.
이 * ڈاک ٹھوڑی کا انجن تو پیٹڑی سے لڑھک گیا لیکن اس تصادم سے پٹرول والا ڈبہ ٹوٹ گیا اور میٹرول کو اگ لگ گئی.کا شومئی قسمت سے ہوا تیز تھی اور پٹرول کے ڈبو کی سمت سے ڈاک گاڑی کی جانب چل رہی تھی.ادھر ان کی نمازت سے تمام بہتا ہوا پٹرول بھڑک اٹھا اور محہ بھر میں ایک ڈبے کے بعد در سرار مشتعل ہوتا گیا.پٹرول ڈبوں سے نکل کر یٹری کے ساتھ ساتھ بہنے لگا اور آگ کے شعلوں نے تیزی سے بڑھ کر ٹاک گاڑی کے اکثر حصے کو اپنی پیٹ میں لے لیا.اناللہ وانا الیہ راجعون.مجھے ر رہ کر بابا طاہر ایرانی کی یہ رباعی یاد آتی رہی.شبه تار یک دستنگستان و من مست - قدم از دست من افتاد نشکست! نگاه داره نداریش نیکو نگهداشت وگرنه صد قدح نفتاده بشکست!! وزارت خارجہ سے استعفی سری این را بر کت ہائیکورٹ کے رہ چکے تھے اور کچھ عرصے کیلے کشمیرکے وزیر اعظم بھی رہے تھے.اکتوبر وار میں بین الاقوامی عدالت کے جم منتخب ہوئے.ان کی میعاد 4 فروری کو ایسے شروع ہوئی.قضائے الہی سے نو سر کار میں وہ فوت ہو گئے اور انکی جگہ خالی ہوگئی.جنوری شام میں جب میں اسمبلی ے سالانہ اعلان سے فارغ ہوکر کراچی واپس آیا تو علم ہو کہ اقوم متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی طرف سے اطلاع آئی ہے ک سری این او کی جگہ پر کرنے کے لئے جو انتخب تو ا س کیلئے موزوں امیدواروں کے نام فلاں تاریخ تک بھیج دیے جائی می نے وزیر اعظم صاحب کی خدمت میں گذارش کی کہ اگروہ اضامن ہوں تومیرا نام بھیج دیا جائے انہوں نے فرمایا میں تمہاری یہاں ضرورت ہے اورمیں نہیں چاہتا کہ تم یہاں سے جاؤ.۱۹۵ کا فروری شاور میں میان متن از محمد خان صاحب دولتانہ اور سردار شوکت حیات خالف احب نے وزیر اعظم مساب سے مطالبہ کیاکه میان مشتاق احمد خان گورمانی صحب وزیر داخلہ کو اورمجھے وزارت سے علیحدہ کیا جائے.کچھ عرصہ تو زیر اعظم اس نے اس خیال ہے کہ مطالبہ نجیدگی سےنہیں کیا جارہ اس کو چنداں اہمیت دی لیکن جب یہ دونوں میان روں اور سے ایک پینٹی پارٹیمیں اس کا چاہنے لگاتو وزیراعظم صاحب نے دونوں اصحاب کو کھانے پر بلایا ور ان سے تفصیل نکلی اور یہ دیکھ کرکہ وہ اپنے ملبے پر قائم ہیں اور اسے ترک کرنے پر رضامند نہیں ان سے دریافت رمایا کہ اگر می بیک وقت دو رفقاء کوعلیحدہ کرنامشکل یا خلاف مصلحت پاؤں تو آپ ان دونوں میں سے کس کی علیمد گی پہلے عمل میں لانا چاہیں گے ؟ سردار شوکت حیات صاحب نے فرمایا اس صورت میں وزیر خارجہ کو ہلے علیحدہ کیا جائے کہ یہ اقدام رائے عامہ کے موافق ہوگا.میاں ممتاز حمد خان دولتانہ صاحب کی رائے تھی کہ اگر دونوں وزراء کو بیک وقت کیا وزیرداخلکو پلے فارغ کیا جائے اور وجہ بیان کی ہم نے مسلم لیگ پالیمنٹر ی پارٹی کے اراکین کو اپنے اس مطالبے سے متفق کرنے کی کوشش کی ہے مشرقی پکستان کے اراکین کہتے ہیں میں وزیر خارج سے کوئی شکایت نہیں.جہاں تک مشرقی پاکستان کے مفاد کا سوا ہم نے اسے میں مردہ پایا ہے.اگر وزیر خارجہ کی علم کی "
۶۰۲ مطالبہ کی ایم سے جانتے ہو تو یزید داخل کی علیحدگی کا بھی مطالبہ کو اس مشترکہ مطالبے کی تاب میں تم ہمارے ساتھ شامل ہوسکتے ہیں.اب اگر وزیر خارجہ کو سلے فارغ کردیا گیا تو مشرقی پاکستان کے تو دوست ہمارے ساتھ شامل ہیں ہیں وہ خیال کریں گے کہ ہم نے ان کی تائید کے ذریعے انا کام تو کال لیا ہے اور وزیر داخلہ کے فارغ کئے جانے پر زور دریا کئے جانے ایا اور وہ ہم سے بری ہوجائیں گے ہم نے انکے ساتھی کیاہے جو وزیراعظم اسے یہ کیفیت کابین کے اجلاس میں بیان کی تو چودھری محمد علی صاحب وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ معامل اسطرح بیٹے کا نہیں اس کا فیصلہ اصولی طور پر ہونا چاہیے.آپ ان دونوں صاحبان سے صاف طور پر کہیں کہ ہ نے خود بھی آپ کے مطابے پر غور کیاہے و اپنے کابینہ کے رفقاء کے ساتھ بھی اس کے متعلق مشورہ کیاہے.جن دو پیروں کی علیحدگی کا مطالہ کرتے ہیں انہیں اپنے رفقاء کا اعتماد حاصل ہے اور کامیہ آپ کے لالے کو تیم کریکوتیارنہیں اگرآپ کواپنے ملبے پر مصر ہے تو یم آپ بینک نیا ملالہ پارٹی کے روبرو پیش کریں ہم پارٹی کے اجلاس میں آپ کے ملبے کی مخالف کریں گے اور یہ دنی دیں گے کہ اگر پار ٹی کی کرتا ہے تائید میںہوئی تو تم اس کا بندہ کے خلا بے اعتمادی کا شوت سمجھیں گے اوراس کے سب وزارت سے دست بردار ہو جائیں گے.اس صورت می پارٹی ٹی کا منہ اپنی نشت کے مطابق تشکیل دیگی اور آپ کا مقصد حل ہو جائے گا.کابینہ کے سب اراکین اس تجویز کے حق میں تھے.میراندازہ ہے کہ وزیراعظم صاحب نے اس فیصلہ کے مطابق میاں صاحب اور سردار صاحب کو کہ دیا ہو گا کیونکہ اس کے بعد میں نے اس مطالبے کا کوئی ذکر نہ سنا.اری مطالبه توختم ہوگی لیکن میری بیت مرد اس کا ہی کیا کیونکہ اپریل کے دن کابینہ کا اجلاس شروع ہوتے ہی میں نے وزیراعظم صاحب سے ایک وانی گذارش کرنے کی اجازت چاہی اور اجازت ملنے پر عرض کیا پچھلے سال مغربی پاکستان کے بعض حصوں میں جو شورش ہوئی وہ اگر چہ نایت نفوسنا اور پریشان کن تھی لیکن میری دانست میں س کے بعد پاکستان کی وزارت خارجہ کی ذمے دار میرے پر دینے کے تھے میں گر جال میں پاکستان کو سیستم یک وقت کا سامنا نہیں ہوا.اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتیہے کہ سفران متعینہ پاکستان اپنی این حکمت کو پانی ناشر ارسال کی جوکہ زیر خارجہ کے خلاف جو آواز اٹھائی کی وہ من مغربی پاکستان کے ایک قلیل حصے نے اٹھائی جس میں ایک عمر تو سیاسی نوری رکھتا تھا لیکن باقی عنا اختلاف عقائد کی و جہ سے شامل ہوئے تھے بنی امت میں وزیر خارجہ کی پرانی ہے کی نسبت کسی اظ سے کمزور نہیں میں نے اس وقت بھی خواہ ناظم الدین صاب کی خدمت می گذارش کی تھی کہ کر کیے وزارت سے علیدہ ہونے سے انکی مشکل حل ہو جاتی ہوتو میرا استعفے حاضر ہے لیکن انہیں یہ منظور نہ ہو.اب پچھلے دنوں جو صورت حال پیش آئی دہ خالصہ سیاسی بھی پارلیمنیٹری پارٹی میں ایک فرق ایسا ہے تومیری علیحدگی کامطالبہ کرتارہا ہے.بیرونی سفارتخانے اس سے مطلع میں پچھلے سال کی شورش کے وقت کسی سیف نے میرے ساتھ کسی قسم کے نام کا اظہار نہ کیا تھا.اس سال لبعض سفراء نے اس قسم کے حملے استعمال کئے ہیں.امید ہے تم ڈٹے رہو گے.امید ہے تم استعفے میں نہیں کرو گے " تمہارے جانے # "
سے پاکستان کو نقصان پہنچے گا." اس سے میں نے یہ سمجھا ہے کہ ان سفراء کے اندلانے میں میری پوزیشن کمزور ہے اور مکن ہے ے علیحدہ ہونا پڑے اگر یہ تاثرت انہوں نے اپنی پنی حکمت کو پہنائے ہیں تو یہ صور پاکستان کے لئے مفر نوسکتی ہے.پر یہ بھی حقیقت ہے کہ مں قریباً ساڑھے چھ سال کا عرصہ وزارت خارجہ کی ذمہ داریوں کو اداکرنے میں صرف کر چکا ہوں.ناسب ہو گا کہ یہ ذمہ داریاں اب مضبوط تر کندھوں پر ڈالی جائیں.ان سب اور دیگر متفقہ اور پر غور کرنے کے بعدمیں اس تیجے پر پہنچا ہوںکہ پاکستان کا مفاد متقاضی ہے کہ میں وزار خارجہ سے علیحدہ ہو جاؤں مجھے پورا یقین ہےکہ مجھے دن نظم اور اپنے رفقاء کا اعتماد حاصل ہے جس کے لئے میں ان کا من ہوں میںنے تو صلہ کیا ہوا کام طور پر میرا آزاداری فیصلہ ہے میں نے اس کمرے میں داخل ہونے سے پہلے کسی فرد کے ساتھ اس کا ذکر نہیں کیا نہ کسی سے اس کے متعلق مشورہ کیا ہے.میں وزیر اعظم صاحب سے اجازت چاہتا ہوں کہ مجھے ۳۰ رجون تک وزارت کی ذمہ داریوں سے فارغ کر دیا جائے.اس ان در ایام امام کو دور کرنے کا موعود یا ایری ایریا اور ان میں کیا بادی یا اس خیال فراتے ہیں.سب رفقاء نے افسوس کا اظہار کیا.وزیراعظم صاحب نے یہ تو بی ظاہر کی کہ میں فیصلے پر پہنچا ہو اس میں تبدیل کی گنجاش ہے.چودھری محمد علی صابر نے جن کی نشست میرے ساتھ ہی دائیں جانب تھی فرمایا کیا اچھا ہوتا اگر جور میں تمہارا نام کی بین الا قوامی عدالت کی جی کیلئے بھیج دیا جاتا.میں نے عرض کی آپ پریشان نہ ہوں ان اللہ ھو الزراق زود القوة المتین وزارت خارجہ کا چارج چھوڑنے سے قبل مئی 199 ء کے آخر میں وادی سندھ کے پانی کی تقسیم کے بارے وزیر اعظم کے اصرار پر عالمی بنک سے مں عالمی بنک کے ساتھ کچھ الجھن پیداہوگئی اور عالمہ کا بنیں مذاکرات کے لئے امریکیہ کا سفر ! بائے غور میں واں کا بین کی رائے ہوئی کہ مجھے واشنگٹن جاکر نک کے صدر مسٹر یو جین بلیک اور متعلقہ اف ان کے ساتھ بات چیت کر کے پیداشدہ مشکل کو پاکستان کے نظریے کے مطابق سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے.مجھے اسمیں کچھ تامل و وزیر اعظم صاحب مجھےاپنے کمرے میں لے گئے اور دریافت فنایا تمہیں واشنگٹن جانے میں یوں تامل ہے.ہم جانتے ہیں کہ تمہارے ساتھ بنک کے صدر اور متعلقہ انس ان کے تعلقات بہت خوشگوار میں اوردہ تمہارا بڑا احترام کرتے ہیں.اس مرحلے پر تمہارا ان سےبات چیت کرنا پاکستان کے لئے بہت مفید روستا ہے.میں نے عرض کیا مجھے اس خیال سے تامل ہے کہ گومیں نے وزارت سے علیحد گی کا کسی سے ذکر نہیں کیا لکین کا منہ میں کر کیا ہے اورانہ اس کی اطلاع امریکی سفرکو پینی ہوگی اورانہوںنے میری وزارت خاری کو مل کر دیا ہوگا اور وہاں سے یہ خبر کو بھی علم ہو چکی ہوگی.یہ درست ہے کہ میرے تعلقات انسان بنک کے ساتھ دوستانہ میں اور تبات تک گفتگو اور دلائل کا تعلق ہے میں انہیں پاکستان کے موقف کی صحت اور معقولیت کا قائل کرنے کی کوشش کر سکتا ہوں لیکن اگر کوئی ایسی نیجید کی یا مشکل میں آگئی جس کے سلجھانے کیلئے مجھے حکومت کے نمائندے کی حیثیت سے مضبوطی سے بات کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تومیں خواہ کس قدر مضبوط موقف اختیار کروں انسان تک میرا کہ میری بات کو ٹا سکتے ہیں یا
معالے کو طول دے سکتے ہیں کیونکہ انہیں علم ہو گا کہ میں جون کے آخر میں رخصت ہو جاؤں گا اور وہ میرے اس اقدام کی وجہ بھی جانتے ہوں گے.اگر یہ صورت پیدا ہوئی تو میرا داشنگٹن جانا بجائے تقویت کے کمزوری کا باعث ہو گا وزیرا عظم مساب نے فرمایا اس وقت تو یہ اندازہ نہیں کیا جاسکتا کہ واشنگٹن میں کیا صورت حالات پیش آئے گی لیکن جو کچھ بھی مومتا ر ہی جانا مناسب ہے.ہم واقعاتی حالات سے بھی خوب واقف ہو اور ایک تم میان کے ساتھ حکومت کی نمائندگی بھی کرتے رہے تو میری ذاتی خواہش بھی کی ہے کہ تم ضرور جاؤ.میں نے عرض کیا کہ درجہ تامل بیان کر دینے کے بعداب تو ارشاد ہو میں کا مبینہ ارکن ہوتے ہوئے اس کی تعمیل کا پابند ہوں.وزیراعظم صاب نے فرمایابہت خوب لیکن جلد جانا ہوگا.کیت تک روانہ ہو سکتے ہو ؟ میں نے کہا کل چلا جاؤں گا.دوس کردن متعلقہ کا غذات فراہم کر کے میں روانہ ہوگیا.نیویارک پہنچا تو سید محمدعلی صاحب نے جو داشنگٹن میں پاکستانی سفر سے ٹیلیفون پر فرمایا نیویارک کیوں رک گئے ہو.واشنگٹن ہو.وہاں تو ہوگے بھی اکیلیے ہے.آج جمعہ ہے ہفتہ اور اتوار دفتر بندہوں گے وہاں کوئی کام تو ہو نہیں سکتا.میں نے کہا یں کراچی سے افراتفر میں روانہ ہوا.متعلقہ کاغذات ساتھ باندھ کر لے آیا ہوں یہاں کمرے میں بند و کر بیٹھ گیا ہوں.کاغذات کا اچھی طرح مطالعہ کرلینے کے بعد واشنگٹن آؤں گا اور وہاں آپ سے سٹور کر لونگا.کنے کے یہاں بھی بند ہوکر بیٹھ سکتے ہو کاغذات کا مطالعہ ہی کر لینا.میںنے کا مطالعہ تو وہاں بھی ہوسکتا ہے لیکن ایک وقت ہے.پریذیڈنٹ بلیک کا مکان آپ کے مکان سے ایک مکان چھوڑ کر ہے.اگر کل یا پرسوں انہوں نے اتفاق سے مجھے مکان کے باہر دیکھ لیا اور پکڑ کراپنے ہاں لے گئے اور اس قضیہ کی بات چھیڑ دی اور مجھے اس وقت تک اس معاملہ کی تفصیلات پر عبور نہ ہو سکا ہوا تومیرے لے وقت ہوگی.فرمایا انتہاری مرضی لیکن سوموار کوشام کے کھانے سے پہلے رد پہنچ جانا.میں نے چیف جسٹس دارن اور ان کی ٹیم کوکھانے پر بلایاہے.تمہاری ان سے پہلے ملاقات نہیں اورہ تم سے ملنے کا اشتیاق رکھتے ہیں.ان کے علاوہ ایوان مندوبین کے صدر سپیکر مارٹن اور مسز مارین اور اسٹنٹ سیکر پیری آن سٹیٹ کی بائی روڈ بھی ہوں گے.دیر نہ کرنا.میں وقت پہنچ گیا اور دعوت میں شامل ہوا.یہی نہیں اور ان کی بیگم صاحبہ سے تعارف ہوا وہ بڑے تپاک سے ملے.دوستہ دن مسٹر کو معین بلیک سے ملا.ان سے اور نیک کے متعلقہ افسران کے ساتھ چند طاقاتوں کے نیے میں دو المعنی جو سدا ہوئی تھی فضل اللہ رفع ہوگئی.بین الاقوامی عدالت کی رکنیت اسی اثناءمیں علم ہوا کہ سربی این را کی وفات سے جونشست بین الا قومی کیلئے میری نامزد گی.عدالت میں خالی ہوئی اس کے یہ کرنےکے لئے جونا متخلف مالک کی طرف سے بھیجے گئے تھے ان میں میرا نام بھی شامل ہے.ہندوستان نے سربی این راڈ کی جگہ مر مٹس پالی کونامزد کیا تھا.میں نے شیدا محمد علی صاحب سے درخواست کی کوہ معلوم کریں کہ مجلس امن کے اراکین میں سے کتنے ہندوستانی امیدوار کے حق میں رائے دینے کا وعدہ کر چکے ہیں.ستیدا محمد علی صاحب نے دو تین دن کے اندر معلوم کر لیا کہ پانچ
۶۰۵ اراکین ہندوستان سے وعدہ کر چکے ہیں اور پھر کی طرف سے کہا گیا ہے کہ انہوں نے ابھی کوئی وعدہ نہیں کیا.کراچی اپس پہنچنے پر ی نے یہ کیفیت وزیر اعظم صاح کی خدمت میں بیان کر دی.انہوں نے فرمایایہ سب اچھی صورت نکل آئی ہے امید ہے اب انتخاب تک تو تمہیں وزیر خامہ بد در نامنظور ہو گا اور تم بو بون کشید کو وزارت چھوڑنے پر اصرار نہیں کروگے.سیو کانفرنس میں پاکستان | ستمبر کے شروع میں سیٹو ( 70 S-E-A) کا اجلاس منیلا کی طرف سے نمائندگی میں ہوا.پاکستان کی طرف سے ورکنگ پارٹی میں آغا ہلالی صاحب اور رشید ابراہیم صاحب شامل ہوئے اور ان دونوں نے اوران کے عملے نےبہت محنت اور تدبیر سے کام کیا.کانفرنس کے شروع ہونے تک معاہدے کے مسودے میں اکثر وہ امور شامل کر لئے گئے تھے جن پر پاکستان کو اصرار تھا لیکن سے اہم بات جبس کہ پاکستان کو اصرار تماشامل نہیں کی گئی تھی.پاکستان اسبا پر مصر تھاکہ معاہدے کے فراق ممالک میں سے کسی کے خلاف اگر کسی طرف سے بھی جارحانہ اقدام کیا جائے توباتی فریق ممالک پر فوری ذمہ داری عائد ہو گی کہ ان میں سے ہر ایک اس ملک کی مدد کرے اور اس کے ساتھ شامل ہوکر اس جارحانہ اقدام کا مقابلہ کرے اور اسے ناکام کرے.معاہدے کے مسودے میں انا نام کی درصورتیں بیان کیگئی تھیں.ایک یا جرمانہ اقدام کسی اشتراکی کی طرف سے کیا جائے.در لالی جارحانہ اقدام تو کسی اور ملک کی طرف سے کیا جائے.اول الذکر صورت میں تمام فریق ممالک نے ایسے جارحانہ اقدام کو روکتے تعالی کی دانائی کی ذمہ داری کو نوری و پیری میرے برا کیا تھا مرور الدر صورت میں فراق مالکی کے کے پورا کرنا ذمہ داری یہ تھی کہ ان کے نمائندے فور جمع ہوں اور صورت حال کا جائزہ لیکر باہمی مشورےسے طے کریں کہ جارحانہ اقدام کو وکنے اور تعلق فریق ملک کے دفاع کیلئے کی طریق اختیا کا جرمانہ اقدام کو لایز س کے کہ وہ نام کسی اشتراکی مک کی طرفسے ہے اسی غیر اشتراکی کی طرف سے ایک درجہ دیا جاے اور دیگر فراق مالک کی ذمہ داری قرار دی جائے کہ وہ جارحانہ اقدام کی روک تھام اور متعلقہ فریق مل کے دفاع اور حفاظت کیلئے موثر تایر مل میں لائیں.میں نے مرجان وسر ایس امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ اس بار میں فصل گفتگوکی.انہوں نے فرمایا ہارسے آئین کے مطابق صدر ملک کوئی ایسا معاہدہ سینٹ ( MATE) کی رضامندی کے بغیرنہیں کرسکتے اشتراکی جارحانہ اقدام کے مقابلے کیلئے تو سینٹ (SENATE) نے صدر ملک کو پہلے ہی اختیار دید یا ہواہے اسلئے ہم معاہدے میں یہ ذمہ داری انتے ہے کے ہیں لیکن کسی یاترا کی مک کے جارحانہ اقدام کے تالے کیلئے صدر ملک کو نیٹ کی رضامندی حاصل کرنی آئینی طور پر ضرور ہے اسلئے ہم معاہدے کی رو سے یہ ذمہ داری نہیں سکتے.صرف تی ذمہ داری لے سکتے ہیں کہ فوری طور ر با کمی مشورہ ہو کر صورت پیش آمدہ کے مقابلے کیئے کیا ادا را می لائی جائیں اور پیر والا مروری سمجھا جائے اس کے لئے سینٹ ( SENATE ) کی رضامندی حاصل کی بجائے.میں نے کہا کہ پاکستان کی حکومت کی رائے میں یہ صورت تکی بخش
ے پر دستخط نہیں کر سکتا.اس صوت کے پیش نظر حکوت پاکستانی فیصلہ کرے گی کہ پاکستان معابر یں شامل ہوسکتا ہے یا نہیں.چونکہ پاکستان کانفرنس میں براہ شریک رہاتھا اور باقی سب اور کے متعلق ہمارا نقل کر سلیم کر لیاگیا تھالیکن اس اہم ترین مسئلے کے متعلق بصورت تھی وہ ہمارے لئے نای بخش تھی اور آخری اجلاس میں میں مارے پروخ کئے جانے تھے شروع ہونیوالا تا اور حکم کی ہدایت حاصل کرنے کے لئے وقت نہیں تھا میں نے صرف یہ زمہ داری کی کہ معاہدے کا مسودہ حکومت پاکستان کو بھیج دیا جائے گا اور وہ اپنے آئینی ضابطے کے مطابق معاہدے میں شمولیت یا عدم شمولیت کا فیصلہ کرے گی.چنانچہ سورہ پر سبات کو واضح کرنے کیلئے میں نے حسب ذیل عبارت لکھ دی.SIGNED FOR THE Purpose of Transmission To The GOVERNMENT OF PAKISTAN FOR IT TO TAKE ITS DECISION IN ACCORDANCE, WITH ITS ConstitutiONAL PROCEDURES اور وزیر اعظم صاحب کی خدمت میں تفصیلی رپورٹ بھی ارسال کردی.کانفرنس کے ختم ہوتے ہی میں انگ کانگ، ٹوکیو سان فرانس کو کے رستے نیویارک چلا گیا جہاں اقوام متحدہ کی امیلی کا سالانہ اجلاس شروع ہونے والا تھا میری اطلاع کے مطابق تجب SEAT میں شمولیت کا سوال کا مینہ بی پیش مو انور آراء میں بہت اختلاف تھا لیکن بہت رد و کد کے بعد شمولیت کے حق میں فیصلہ ہوا.بین الاقوامی عدالت کی رکنیت ، اکتوبر شداد کو من الاقوامی مالت کی بھی کا انتخاب عمل میں آیا قواعد کے کے لئے میرا انتخاب مطابق کامیابی کے لئے مجلس ان کی چھ آراء اور سمبلی کی سو را در کاقی مجلس امن کے اراکین میں سے جن چھ مالک نے شروع جون تک ہندوستان سےکوئی وعدہ نہیں کی تق ان میں سے پانچ نمی مارے حق میں رائے دینے کا وعدہ کر لیا ھے رکن برازیل کو آخری مال ان کی رائے تھی کہ اگر کوئی نشت کسی بھی کی زندگی سے خالی ہو تو اسے فوت شدہ حج کے ملک کے امیدار سے یہ کرنا چاہیئے اور اس موقف کے ماتحت انہوں نے اپنی رائے سٹر سیٹس پال کے حق میں دی.میں نے اپنے سب سفارت خانوں کو ہدایت دی تھی کہ میں حکومت کی طرف سے مہندوستانی اسی والہ کو رائے دینے کا وعدہ ہو چکا ہو اسے ہرگز خلف وعدہ رائے دینے کی ترغیب نہ دی جائے.ترکی کے ساتھ ہمارے تعلقات ا بہت دوستانہ تھے.اقوام متحدہ میںان کے منتقل نمائندے سلیم سار پر صاحب تھے.ان کے اور میرے درمیان نہایت گرے دوستانہ روابط تھے.ترکی میں امن کا رکن تھا اور ان چھلکوں میں شامل تھا ہو شر وع جون تک ہندوستانی امیدوار کے حق میں رائے دینے کا وعدہ کر چکے تھے.اس نے ہماری طرف سے اس بارے میں ترکی سے کچھ نہ ہا گیا.جب سلیم سار پہ صاحب کو رین مرد یا عالم ہوا توانہوں نےاپنی وزارت خارجہ کو کھا کر ہم نے سٹریٹ پال کے حق میں ائے دین کا وعدہ کیاتھا اس وقت ہمیں یہ علم نہ تھاکہ کوئی اور امیدواران کے مقابل پر کھڑا ہوگا.اب ظفر اللہ خان کو اس نشست کے لئے ان کے مقابل
تار کیاگیا ہے.جہاں تک موزونیت کا سوال ہے ظفراللہ خاں ہرلحاظ سے تربیع امت ہے اسلئے ہمیں چاہئیے کہ ہم حکومت ہند سے کہیں کہ پیش آمدہ مصر میں ہم نوالہ ان کے تھی میں رٹ دیں گے چنانچہ ترکی حکومت میں فیصلہ کیا اور اتنا ہے نالہ عرصہ میترانہوں نے اپنے فیصلے کی اطلاع حکومت ہندکو کردی اس طرح فضل اللہ میں محلی امن میں کر رائے حاصل ہوگئی سمبلی کے اجلاس میں رائے شماری ہونے پر میرے حق میں ارسٹر ایل کے میں آرا شمار ہوئی اور اس طر میں منخب ہوگیا فالحمدللہ وزیر اعظم اور صاحب ان دنوں امریکی تشریف لائے ہوئے تھے.انتخاب کانتیجہ معلوم ہونے پر ھر روئےکہ میں آسانی کے کے ان تک نیویارکی شوروی در اسلایم پی اے اے او کے مالی ریاکاری اور پاکستان دن کے اراکین ان نمای کروں میں میری کیا کہ ذاتی طور پہ انتظام میر نے مشکات پیارے لا ہے کراچی میںمجھے سرکاری مکان فی الفور ی کیا ہے میری اہل لاہور میں مکان خالی کرنے اور ان کی نا ایمنی کے در کی یہ ہی انہوں نے فرمایا یہ کوئی یت ہیں.ہدایت کرتے ہیں کہ تمہاری کراچی واپسی تک مکن این کرایا جاے چنانچہ میں سے یہ ہدایت بھیجی گئی لیکن محکم متعلق نے عذر کیا کہ مچ منتخب ہونے کے بعد میں حکومت پاکستان کا تنخواہ دارنہیں رہا اور اس لئے قواعد کے مطابق سرکاری مکان ر قبضہ رکھنے کا مجاز ہیں.یہ عذر معقول تھا.چنانچہ مکان وی طور پر خالی کرایا جس کے نتیجے میں میری کئی ذاتی اشیاء جن میں سے بعض قیمت کے لحاظ سے اور بعض جذباتی لحاظ سے عزیزہ نشین تھیں ایسی لا پتہ موٹیں کہ ان کا سراغ نہ مل سکا.نہ اس ہم اندر عاشقی بالائے غم ہائے گی.املی کا اجلاس ختم ہونے کے بعدیں کراچی والپس آیا اور ضروری انتظامات سے ناری ہوکہ بنوری شاہ کے آخر میں من الاقوامی عدالت کے صدر مقام بیگ پہنچ گیا.بین الا قوامی عدالت کی رکنیت ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ور فروری کو شروع ہوتا ہے اسکی وجہ یے کہ ء کے شروع میں جب عدالت قائم کی گی تو پہلا جلا ہر فرد کو ہوا تھا.عدلت کے بچوں کی تعداد 10 ہے.ہر تیسرے سال عدالت کے پانچ بھی ریٹائر ہوتے ہیں ادا کی جگہ اقوام مادہ پانی نے من منتخب کرتی ہے.نے بچوں کے عدالت میں شامل ہونے کے بعد پندرہ جان اپنے میں سے تین سال کیلئے صدر علالت اور نائب صدر عدالت کا انتخاب کرتے ہیں.فروری شام میں عدالت کے پندرہ حجان حسب ذیل ممالک کے تھے.ریاستہا متحدہ امریکہ، برطانیه، فرانس ، روس ، چین ، کنیڈا، پاکستان، مصر، ناروے، پولینڈ، یوگوسلاوی، اری بیان میکسیکو پورا گرے ، اس ریڈار، ان میں سے ریاستہائے متحدہ کے بچ میکور تھ صدر اور مر کے حج عبد الحمید بدوی پا شام موم نائب صدر منتخب ہوئے.حج بدری سے میری ملاقات شاء میں قاہرہ میں ہوئی تھی.ان دنوں وہ مصر کے وزیر خارجہ تھے.جب تک وہ عدالت میں بج رہے میرے ساتھ دونوں میاں بیوی کا سلوک نہایت مشفقانہ رہا ، برطانیہ کے مج عائمہ بانٹ سے میری پہلی ملاقات شاید میں اقوام متحدہ کی املی کے سالانہ اجلاس کے دوران پیرس میں ہوئی تھی ان دنوں ریاست حیدر آباد کا معاملہ مجلس امن میں پیش تھا اور پروفیسر لاٹ پاٹ ریاست حیدر آباد کے مشیر قانونی 1900 کچھ
۶۰۸ کی حیثیت سے آئے ہوئے تھے.کینیڈا کے بج ریڈ سے بھی پہلے سے واقفیت تھی.اکتو بر کشتہ میں بیچ منتخب ہو جانے کے عد غالباً گو بر کہ میں مجھے ایک دو تقریروں کے سلسلے میں انٹریال جانے کا اتفاق ہوا.ان میں سے ایک تقریر میں امر ینیٹ ایسوسی ایشن میں تھی.اس کے صدر یہ بڑھتے برا اتار کراتے ہوئے باب میں آنے کے مقر کی پاک زندگی کا وجہ سے مطالعہ کرتا رہا ہوں اس کی سب سے بڑی خوبی جومیں نے نوٹ کی وہ اس کی 7 TE GAIT ہے.یہ انکا کریمانہ لطان تھا انکی دعوت پر میں آٹو ا گیا.ان کے دولت خان پر سردی سے بھی ملاقات ہوئی.بی بی نے بہت سی میں بائیں عدالت کے متعلق بتلائیں.اپنی تنقید سہ سالہ میعاد کے دوران میں بھی میرے ساتھ ان کا سلوک بڑا مشفقانہ رہا اور میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا.انہیں عدالت سے ریٹائر ہوئے قریبی کا سال ہو چکے ہیں.دونوں میاں بیوی لفضل الله بقید حیات ہیں.گاہے گا ہے ان سے خط و کتابت بھی ہوتی ہے.عدلت کے باقی جوں اور عدالت کے عملے میں سے کسی سے پہلے میری واقفیت نہ تھی.ایک نئے مقام پر رہائش اختیار کرنے اور ایک نئے ادارے میں کام شروع کرنے سے متعلق لبعض وقتی پیش آئی لیکن رفته رفته سب امور بفضل الله ا ی بخش طور پہلے ہوگئے.کچھ دن ہوم میں قیام رہا اور پھر " ۱۹۵۳ ایک مکان میں رہائش کا خاطر خواہ انتظام ہوگیا یں اور میں ہونیوالے انتخا کی بنا پر میں چھ سال سے زائد عرصہ کے لئے میں اس عدالت کا رکن رہا.اس عرصہ میں جو تنازعات عدالت کے سامنے آئے ان میں سے بعض کا مختصر ذکر ممکن ہے لچسپی کا باعث ہو.جنوب مغربی افریقہ کے مینڈیٹ کے مسائل سیلی عالمی جنگ کے بعد لیگ آن میشن کا قیام عمل میں آیا تھا.ایک مسئلہ بولی کو حل کرنا ہما وہ مفتوح ممالک بری اور ترکی کی اور اب بات کے قتل کا تمام یونین کی بتادیا میں جنوب مغربی افریقہ بھی شامل تھا.لیگ آن نیشنز نے سب نو آبادیات کیلئے MAN DATES کا نظام تجویز کیا اس نظام کے ماتحت جنوب مغربی افریقہ کا نظم ونسق جنوبی افریقہ کے پر کیا گیا اس نظام کے مطابق مینڈیٹ کی شرائط کی تعمیل کی نگرانی لیگ کی کونسل کے سپرد تھی اور کونسل کا صرف متفقہ فیصله قابل نفاذ تھا چونکہ بنوبی افریقیه بھی اس کونسل کا رکن تھا اسے جہانتک جنوب مغربی افریقہ کی نگرانی کا تعلق تھا عملی صورت یہ تھی کہ کونسل جنوبی افریقی کی مرضی کے خلاف کوئی ہدایت جاری نہیں کر سکتی تھی.دوسری عالمی جنگ کے بعد لیگ آف نیشنز کا خاتمہ ہوگی اور اقوام تحدہ کا ادارہ قائم ہوا جس کے مات غیر خود مختار علاقوں کومی خود اختیاری کیلئے تیار کرنے کی درد اور ٹرسٹی شپ کونسل کو سپرد کی گئی.سنڈیٹ والے علاقوں میں سے بہت سے تو آزاد ہو کر اقوام متحدہ کے رکن بن گئے.ہو جاتی ہوگئے ن کے نگران ملکوں نے ٹرسٹی کونسل کی نگرانی کو تسیم کرکے امانت نام کی اقوام متحدہ تحریر کردیئے لیکن جنوبی افریقہ رای افریقہ کا سب اقوام متحدہ کی رسی کو ان کا ایم کیو ایم کا انکار کر دیا جنوبی افریقہ کانتین یہ تھا کہ اول تو ایک آن بیشتر کا نشاد ہی یہ تھا کہ جنوب مغربی افریقہ کا علاقہ آخر کار جنوبی افریقہ میں شامل کر دیا جا |
4-9 اور یہ نیا ایک آن میشنر کے ختم ہونے کے ساتھ ہی مینڈیٹ بھی ختم ہوگیا در جنوب مغربی افریقہ کی نسبت اقوام متحدہ کو کسی قسم کی نگرانی کا اختیار حاصل نہیں.اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بین الاقوامی عدالت سے رائے طلب کی کہ جنوب مغربی افریقہ کی نسبت جو مینڈیٹ لیگ میشن نے جنوبی افریقہ کے سپرد کیا تھادہ جاری ہے یانہیںاور اگر جاری ہے تونگا نی کا اختیاری ادارے کو حاصل ہے.فریقین کے تحریری بیانات اور زبانی بحث پر غور کرنے کے بعد عدالت نے رائے دی کہ منڈیٹ جاری ہے اور نگرانی کا اختیار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو حاصل ہے.اسمبلی کو چاہیے کہ اس اختیار کے استعمال میں تیہاں تک ہو سکے اس ضابطہ پر مکمل کرے جس پر لیگ آف نیشنز کی کونسل عامل تھی.جب یہ معاملہ عدالت میں آیا اس وقت میں عدالت کا رکن نہیں تھا.عدالت کی اس رائے کے اظہار کے بعد جنوبی افریقہ کے موقف اور رویے میں تو کوئی تبدیلی نہ ہوئی لیکن ان کیطرف سے یہ باغدار اسمبلی میں پیش کیا گیا کہ لیگ آف نیشنز کی کونسل تو بالا اتفاق ہدایات جاری کرنے کی مجاز تھی.اس لئے عدالت کی رائے کے مطابق جنرل اسمبلی بھی بالاتفاق ہی ہدایات جاری کرنے کی مجاز ہے یعنی اگر کسی میں جنوبی افریقہ کو اسمبلی کی کشت سے اختلاف ہو تو اس کے متعلق اسمبلی کوئی ہدایت جاری کرنے کی مجاہ نہیں.اس پر اسمبلی نے دوبارہ عدالت سے رائے طلب کی کہ جنوب مغربی افریقہ کے متعلق نگرانی کے اختیارات استعمال کرنے میں اسمبلی کسی ضابطے کے مطابق فیصلہ کرنے ی مجاز ہے عینی کی اسکیل لیگ آن بیشتر کی کونسل کے اس قاعدے کی پابند ہے کہ فیصلہ اتفاق رائے سے ہو یا اقوام متحدہ کے بیان کے فر نمرہ کی پابند ہے جس کے مطابق اہم امور میں املی دو تہائی کثرت سے فیصلہ کر سکتی ہے.عدالت کی رائے ہ ہوئی کہ ابلی ہر صورت اقوام متحدہ کے میثاق کی پابند ہے اور رائے شماری اسی قاعدے کے مطابق ہوسکتی ہے جو مثاق کے فقرہ نمبر۱۸ میں درج ہے.یہ رائے عدالت نے ، جولائی ۱۹ ء کو صادر کی.اس معاملے کی سماعت اور نیلے میں مکیں شامل تھا.وام متحدہ کی جنل ایل نے جنوب مغرب افلق کی موت کی یا ان کے ایک ایک کی کمر کی تھی اور جنوبی افریقہ کی حکومت کا فرض قرار دیا تھا کہ جنوب مغربی افریقہ کی آبادی کی طرف سے جو عرضداشتیں اس کمیٹی کی توجہ کیلئے پیش ی جائیں د کمیٹی کو بھیج دی جائیں.جنوبی افریق نے جنوبی ی ی ی ی یک کاران کر دیا تھا اور اشتون کا بھیجا بھی بند کر دیا.اسپر کمیٹی نے جنوب مغربی افریقہ کے باشندوں میں سے جو کوئی کمیٹی تک پہنچتا اور زبانی عرضات کرنا چاہتا ان کی زبانی عرضداشتوں کو جنوب مغربی افریقہ کے علاقے سے باہر نا شروع کر دیا.جنوبی افریقہ کی طرف سے عتراف کیا گیا کہ کئی صرف تحریری عرضداشتوں پر غور کرنے کی مجاز ہے.زبانی عرضداشتوں کی سماعت اور ان پر غور کرے کی مجانہ نہیں.اس پر سہیلی نے پھر بین الاقوامی عدالت سے رائے طلب کی کہ حالات پیش آمدہ میں جنوب مغربی افریقہ کمیٹی نے بانی عرضداشت سنے کی مجاز ہے یا نہیں.عدالت نے تحریری بیانات اور زبانی محبت کی سماعت کے بعد رائے دی 1900
۶۱۰ که جب جنوبی افریقہ کی حکومت نے کیٹی کو قریبی عرضداشتوں کا بھی بند کردی ہے تو کئی نے فرائض کی ادائیگی کیلئے کوئی مناسب متبادل طریقہ اختیار کرنے کی مجاز ہے.اس رائے کا مسودہ تیار کرنا میر اور نجی ریڈ کے سپر دیا گیا.میں نے عدالت کی آراء اور فیصلہ جات کے مسودات کی تیاری کے متعلق بہت کچھ چ ریڈ سے سیکھا.جس کا بعد میں مجھے بہت فائدہ ہوا.یہ رائے عدالت نے یکم جون شاہد کو صادر کی.یونیسکو UNESCO کے چار امریکن افسران کا نازیہ اقوام متحد کے ذیلی ادارہ یونیک کے عمل میں تعداد افران عارضی اسامیوں پر تین تھے جن کی ملازمت کے معاہداتی اگر یہ سال با دیتی تھی لیکن یہ روایت قائم ہوچکی تھی کہ سال کے دوران میں نہیں افسر کا کام تسلی بخش رہا ہو اس کے معاہدہ ملازمت کی تجدید کر دی جائے گی بشر طیکہ جس منصوبے کے سلسلےمیں وہ کام کر رہا ہے وہ جاری ہو.ریاستہائے متحدہ کے صدرکی طرف سے ایک بورڈ اس غرض کے لے امر کیا گیا بین الاقومی اروں میں ایک کارکنان کی ملک سے وفاداری کی تحقیق کرکے رپورٹ کرے.اس بورڈ کی طرفسے یونیسکو کے چار امریکی اقران ک تو عارضی اسامیوں پر متعین تھے کھاگیاکہ وہ بورڈ کے مجوزہ اعلان وفاداری کی خانہ پری کر کے بورڈ کو بھیج دیں.ان افسران نے اس مسالے کی تعمیل سے گریز کیا اس پر بورڈ کی طرف سے ان کے نام نوٹس جاری کئے گئے کردہ بورڈ کے رو برو حاضر ہوکر جواب دہی کریں.افسران نے حضر مو یسےانکار کردیا اور اس تمام کیفی کی رپورٹ یونیسکو کے ڈائرکٹر جنرل صاحب کی خدمت میں بھیج دی.ڈائریکٹر جنرل صاحب خود امریکن شہری تھے.انہوں نے چاروں افسران کو مطلع کردیا کہ ان کا اعلان وفاداری کی خانہ پری کرنے اور وفاداری بورڈ کے سامنے حاضر ہونے سے انکار کرنا ایک بین الاقومی ادارے کے افسر کے معیار کے مطابق نہیں اسلئے آئندہ سال کیلئے ان کے عارضی ملازمت کے معاہدے کی تجدید نہیں کی جائیگی اس پر چاروں افسروں نے یونیسکو کے محکمانہ اپیل بورڈ کے پاس ڈائر کٹر منزل کے اس حکم کے خلاف اپیل کی.اپیل بورڈ نے قرار دیا کہ اعلان وفاداری کی خانہ پری اور ناداری بورڈ کے سامنے جوابدہی ان افسران کے فرائض میں شامل ہے بنا ڈائہ کر تنزل کا حکم واجب ہے.افسران نے اس حکم کے خلاف انٹرنیشل پیر آرگنایزین (10) کے محکمانہ ٹریبیونل میں پیل دائر کی اس ٹربیونل نے قرار دیا کہ ڈائرکٹر ہنری کا فیصلہ افسران متعلقہ کی شرائط ملازمت کے خلاف ہے اسلئے قابل نفاذ نہیں.س پر یونیسکو کےانتظامی بورڈ نے بین الاقوامی عدالت سے اے طلب کی کہ کیا 10 کے ٹرین کی یہ قرارداد کہ ڈار بری کا حکم افسران متعلقہ کے شرائط ملازمت سے تعلق رکھتا ہے صحیح ہے.عدالت میں ایک الجھن یہ پیدا ہوئی کہ یو مسکو ای بین الاقوامی ادارے یعنی اقوام متحدہ کی ایسی ویسی شیشی میں بین الاقوامی عدالت میں پیش ہونے اور زیبا نی بیانات داخل کرنے کا مجاز تھا لیکن افسران متعلقہ بحیثیت افراد عدالت میں پیش ہونے یا بیانات داخل کرنے کے مجاز تھے.اسلئے عدالت کے روبرو فریقین کومساوا کا درجہ حاصل نہ تھا اور چونکہ ین الاقوامی عدالت میں مشاورت رائے کی کاروائی بھی جو ایشین نیثیت رکھتی ہے اسلئے ایک فرلی کی غیر حاضری میں عدالت
411 کسی رائے کے اظہار کی مجاز ہ تھی اور عدالت کوکسی رائے کے اظہار سے پرہیز کرنا چاہیے تھا.اس کا جواب یونیسکو کی طرف سے یہ دیا گیا کیم نے جو تحریری بیان دال میں نے نقطہ نظر کی تائی میں داخل ا ا ا ا ا لا انا مال کو بھی دی تھی اور انہیں آگاہ کردیا ا گیا اور کوئی یا عدالت میں داخل کرنا چاہیں تو ہمیں بھیج دی.ہم عدات میں داخل کردیں گے چنانچہ ہیں جو بیان کوئی بیان ا ا تو بھی ہیں ہم عالم گے چنا انہوں نے بھی وہ عدالت میں داخل کردیا ہے اور عملاً فریقین میں مساوات قائم رہ ہی ہے.ہم اپنی طرف سے زبانی بحث نہیں کرنا چاہتے اس نے زبانی بحث کے لحاظ سے بھی سادات ام دی کہ ہم بحث کریں ن افسران کی طرف سے بحث ہو.عدالت کی کشت نے اس موقف کی صحت کو تیم کی اور قرار دیاکہ اس عالم میں کسی زبانی بحث کی ساعت کی ضرورت نہیں.پانچ جوں نے کثرت رائے سے اختلاف کیا جنہیں میں بھی شامل تھا.میں نے اپنی اختلافی رائے میں لکھا کہ عدالت نے اس معاملے میں تو ضابطہ اختیار کیا ہے اس سے ثابت ہے کہ عدالت کے روبیدو فریقین کو مساوات حاصل نہیں کیونکہ یہ سادات نہیں کہ ایک فریق براہ راست توعدالت میں کوئی دستا و نیز با یان پیش نہ کرسکے اوراس فریق مخالف اس کی طرف سے جو بیان ہو پیش کرناچاہے عدالت میں پیش کردے.دوسرے عدالت نے زبانی بحث سنے سے اس سے پر ہی نہیں کی کہ زبانی بحث کے دورا میں مادر میری پری در روشنی ڈالی جانیکی توقع با امکان نہ تھا یہ پر ہی محض اس وجہ سے اختیار کیاکیا کہاکہ یونیکو کیطرف سے زبانی بحث کی سماعت کی جاتی تو عدالت اس معاملے پر پائے دینےکی جان نہ ہی اسے میری رائے میں فریقین کو عدالت کے مدیر سادات حاصل نہیں اور عدالت کو مشاور تی رائے کے اظہار سے انکار کر دینا چاہیئے.ئے علالت کے اراکین کی کثرت سے سے برقرار پایا کہ فریقین کوعدالت کے ریور سادات حاصل ہے اورائے عدالت کو مشاورتی رائے دینی چاہئے تو اس امر پر تبادلہ خیالات کیاگیا کہ کیا 110 کے ٹریول کا فیصلہ صحیح ہے.اس مرحلہ پر رہوں بھی زیرکی ایک یادہ پانی جن کی رائے تھی کہ مال کو اظہار رائے سے انکار کر دینا چاہئے اب اصل استصواب پر رائے دینے کے مجاز ہیں.ہر طرف سے یہ کہا گیاکہ کوہماری رائے میںدالت کا نظارے سے انکار کردینا اے تھالیکن چونکہ کرن کا ہے ی ہے کہ عدالت رائے دینے کی مجاز ہے لہذا ہم کثرت کی راے کے پانی ہیںاور اب ایک بہت پرانے باقی رفقاء کی طرح اظہا را کا حق رکھتے ہیں.چنانچہ کر رائے سے ہمارے اس موقف کی صحت کویلی کی گی اور ہم اپنوں نے ھی اپنائے کا اظہار کیا نتیجہ یہ وا کہ باری آرا کو مل کر کے مال کی کثرت کی یہ رائے ہوئی کہ ا ء کی ٹرینوں کو افسران کی اپیل کی سماعت اور اس پر فیصلہ صادر کرنے کا اختیار تھا.عدالت سے صرف اسی مسئلے پر رائے طلب کی گئی تھی اور عدالت کے سامنے یہ سوال زیر کت نہیں تھا کہ 10 کی ٹر یونٹ کا فیصلہ واقعات پر صحیح ہے یا نہیں.عدالتکی تو یہ کانتیجہ یہ جا کر کی ٹرمینل کا فیصد تام یا اور ایران متعلق کی اورکی ہوئی لال کی یہ رائے اکتوبر کو صادر ہوئی.حکومت فرانس اور حکومت نا روکے تنازعہ انیسوی صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں ناروے کے بعض نیم سرکاری اداروں نے بین الاقوامی مالی حلقوں کے ذریعہ فرانس کے بعض سرمایہ داروں سے قرضہ جات
حاصل کیے اور یہ عہد کیاکہ سود دراصل کی اقساط کی ادائیگی سونے کی شرح کے مطابق کی جائے گی.پہلی عالمی جنگ کے بعد جب اکثر مالک کی حکومتوں نے اپنے اپنے سکوں کو سونے کے معیار آزاد کر دیا تو ناروے کی حکومت نے بھی ایپ کی اقدام کیا اور س کے نتیجے میں ساتھی یہ قانون بھی اندر کی کہ ہر رتنے کی اپنی اور سودی ادائیگی انا الوقت مکی کے ہی ہوگی خواہ قرضہ کے معاہد میں ادائیگی کی شرط اس سے مختلف ہی ہو گویا جہاں جہاں سونے کی شرح کے مطابق ادائیگی کا معاہدہ تھا ناروے کے مقروض اس شرط سے آزاد کر دیے گئے.فرانسی قرض خواہوں نے طالبہ کیا کہ انک قرضہ جات کی ادائیگی سونے کی شرح کے مطابق فرضوا مطالبہ کال کر کی ادائیگی سونے کی جائے.یہ مطالبہ ناروے کی طرف سے رد کردیاگیا اورکہاگیا بین الاقوامی اور امام باقری کی ادائیگی مقروض کے علی قانون کے مطابق ہی ہوسکتی ہے.آخر فرانس کی حکمت نے اپنے ملکی قرض خواہوں کی امت میں یہ معاملہ بین الاقوامی دال میں پیش کردیا در الاساسات ایک کی قراردیا جائے کہ نار کے قومی ادارے کا کام اور سود کی ادائی معاہدے کی رانی کے مطابق کرنے کے پابند ہی یعنی سونے کی شرح کے مطابق جس کے نتیجہمیں کئی گن فرق پڑتا تھا.ناروے کی طرف سے ابتدائی عمر کیا گیاکہ بین الاقوامی عدات کو اختیار سماعت حاصل نہیں.دوسرا ابتدائی عذر یہ تھا کہ فرانس کی طرف سے ابتدا ہی میں ار اس تنازعہ کے علالت میںنے سے بھی نا القول بود تا این بین الاقوامی عدالت کا اختیار سماعت قبول کرتے ہوئے داخل کی گئی تھی اسمیں یہ استاد درج ہے کہ میں مارنے کے متعلق حکومت فرانس قرار دے کر تنازعہ فرانس کے نجی قانون سے متعلق ہے اور بین الاقوامی قانون سے اس کا تعلق نہیں اس تنازعے کی سماعت کا اختیار بین الاقوامی عدالت کو نہیں ہو گا.اگر پیارے کی طرف سے جو دستاویز عدالت کا اختیار ساعت قبول کرتے ہوئے داخل کی گئی تھی.اس ی ایسی کوئی اتنا وزن نہیں لیکن باہمی سادات ک اصول کی رو سے ناروے کی دستاویز میں فرانس کے بالمقابل ناری کی طرف سے یہ استثناء درج سبھی جانی چاہیے.ناروے کی حکومت نے قرار دیاہے کہ یہ ناز عہ ناروے کے ملکی قانون سے متعلق ہے بین الاقوامی قانون سے متعلق نہیں.لہذا بین الاقوامی عدالت کو اس تنازعہ کی سماعت کا اختیار نہیں.عدالت نے ناروے کے اس درد کو قابل پذیرائی قراردیکر فیصل کیاکہ عدالت کو اس تنازعہ کی ساعت کا اختیار نہیں اس فیصلہ کی تیاری کیلئے عدات نے مجھے اور جو دنیا کی کو منتخب کیا.فیصلہ 4 مولانی کلہ کو صادر ہوا.حکومت سوئٹرز لینڈ اور حکومت | دوسری عالمی جنگ کے نتیے میں ریاستہائے متحدہ امریکہ کی حکومت نے ایک ریاستہائے متحدہ امریکہ کا تنازع تجارتی کمپنی کو ان کی اپنی قرار دیکر ایا تو میں نے ای اور اس کے حص رت کر کے کام کیا اراکین نے اس بنا پر کمپنی سی ہے جرمن نہیں امریکی حالت میں مناسب چارہ جوئی کی.مقدمے کے دوران میں مدعا علیہ کی طرف سےکمپنی کے حیرت اور دستاویزات طلب کرنے کی درخواست دی گئی.امریکی عدالت نےحکم دیا مطلوبہ دوستانیات در سیرات پیش کئے جائیں.تاریخ مقرہ پہ مری کین نے درد کی کان میں سے بعض دستا ویزات تو کمپنی کے قبضے اور اختیارمیں نہیں اور باقی دستاویزات کو سوس قانون ملک سے باہرلانے کی اجازت نہیں دیا اسٹے مدعی |
تمل حکم عدالت تا رہے.عدالت نے یہ مندر ایک دینا ان کردیا مومی کمپنی ے اس حکم کے خلا امریکی سپریم کورٹ میں رافعہ داخل کیا اس مرحلے پرسکوت سوئٹزر لینڈ نے ریاستہائے متحدہ کے خلاف بین الاقوامی عدات میں دعوی دائر کیا اور استدعاکی کہ عدلت قرار ہے ہماری کمپنی سوس یہی ہے اور تو اقدام کمپنی کے خلاف ایی و انجان ہے.ساتھ ہی سوئٹزر لینڈ کی حکمت نے درخواست دیکہ عدالت اس امر کا ظہارکیسے کرین کے دلت کا فیصلہ صادر نہ ہو امریکی حکمت کمپنی کے حصص فروخت کرنے سے باز ہے.۱۹۵ عدالت کے قواعد کے مطابق اس درخواست کی فوری سماعت ہوئی.سماعت کے ان اعلام میکینیکا را عوام کی پریم کورٹ میں منظور ہوکر علامات کا حکم ہی کی روس کمپنی کا ولی خان کیا گیا منسوخ ہوگیا ہے اور سپریم کورٹ نے عدالت ماتحت کو ہدایت دی ہے کیانی کا ولی بال کر کےمطابق ضابطہ کاروائی جار کی جائے.اس کاروائی کے دوران امریکی حکوم پر سے ہی پابندی تھی کہ فیصلہ حص فروخت کئے جائیں.اندری حالات بین الاقوامی عدالت نے قرار دیاکہ حکومت سوئٹرزلینڈ کی درخواست پر لات کی طرف سے سی اظہار کی ضروت ہیں.یہ کم را کنواری شادی و صادر تھا.سوئٹزر لینڈ کے دعوی کے جواب میں مرکی حکومت نے عذرات انتہائی دائر کئے کہ عدالت کو اختیار ساعت حاصل نہیں نی سے دیا اور یہ اراکین کا دعوی امریکی علتیں میری امت ہے ایک ایک کالم میں نے دین کی پر دی کر رہی ہے، ینی کے دھونی کی کامیاب کی صورت میںحکومت سوئٹزر لینڈ کے نے کوئی وجہ مخاصمت باقی نہیں رہے گی جب تک یہ امام کی دولت یں زیر غور ہے سوئٹزرلینڈ کی حکومت بین الاقوامی عدات میں چارہ جوئی کی جان نہیں فریقین کی کس کسنے کے بعد عدالت نے رار دیاکہ امریکی حکمت کایہ عند قابل پذیرائی ہے اور سوئٹزرلینڈ کی حکمت کا دعوی قبل از وقت ہونے کی وجہ سے قابل سماعت نہیں.یہ حکم امارت شہداء کو صادر ہوا.بعدمیںدونوں حکومتوں کے درمیان اس قبیٹے کا رضامندی سے فیل ہوگیا.حکومت پر نگال اور حکومت ۱۲ دسمبر دار کو بنگال کی موت نے حکمت ہند کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں ہندوستان کا تنازعہ دعوی دائر کیا کہ ان کے مقبوضہ ساحلی علاقے دین اور اس کے متعلقہ در پیگیری علاقوں بنام را در زنگی تویلی (جو اندرون ہند میں واقعہ میں) کے درمیان حکومت ہند نے پرتگیزی سلسله آمد و رفت نا جائز ور پر بند کر دیا ہے.اور استدعا کی کہ عدالت قرار دے کہ من دار اور گریوی کے درمیان پتریکی افواج ، پولیس، اوران ورعایا کو معہ اسلحہ و ساز و سامان تجارت آمدو رفت کا حق حاصل ہے اور حکومت ہند کا اس میں خلل اندازہ ہوتا بین الاقوامی قانون ی خلاف ورزی ہے اور مزید استدعاکی کہ حکومت ہنکو برات دی جانے کو اپنا جائز دل انداز سے بارہ کر تینگال کی شکایت اور حق تلفی کا ازالہ کرے.حکومت ہند کی طرف سے اس کے جواب میں چھ ابتدائی عذرات کئے گئے کہ عدالت کو اس قضیے کی سماعت کا اختیار حاصل نہیں.فریقین کی بحث سنے کے بعد عدالت نے عذرات میں سے باہر کو نور کر دیا اور باقی دو پر واقعات کی بحث کے موقعہ پر مزید حجت سماعت کرنے کا فیصلہ کیا.اس فیصلے کی تیاری کیلئے عدالت نے مجھے اور ۱۹۵۵
۶۱۴ 1404, سر لائٹر پافٹ کو منتخب کیا اور یہ فیصلہ اور نومبر شاہ کو صادر ہوا.H حکومت ہند کی طرف سے واقعاتی جواب دعوی، حکومت پر نگال کی طرف سے جواب الجواب اور حکومت ہند کی طرف سے تردید جواب الجواب داخل ہوئے.ہندوستان کی طرف سے دریکی ای که پیکا کو داد در اردن گرتوی پر صرف شقوق جارداری حاصل میں اختیار حکومت حاصل نہیں.پرلگال من حقوق آمدورفت کا دعویدار ہے ان میں سے کوئی تھی بھی اسے حاصل نہیں ہیں زک پہلے آمدورفت کا سلسلہ ان علاقوں کے درمیان رہا ہے وہ حکومت ہند کی رضامندی اور اجازت سے رہا ہے اتھاتا ہیں یا دار را درگیر ویلی کے باشندے اپنی آزادی کا علان کر کے اس اعلان پر ہندوستانی نامی علاقوں میں اور دیگر سویلی کی آبادی کی تائید یں اور پیگیری حکومت کے خلاف بہت ہوش ہے.اندریں حالات دین اور ان دونوں علاقوں کے درمیان پیگیری آمدرفت اشتعال کاموجب ہوسکتی ہے اور پیگیری انسان کےلئے خطرے کا باعث ہو سکتی ہے.اس لئے حکومت ہند کا اقدام اس حالت میں بین الاقوامی قانون کے مطابق ہے.اس کے خلاف نہیں.فریقین کی بحث سماعت کرنے کے بعد عدالت نے باقیابتدای امارات ایام میں ہندوستان کے خلاف کیا اور قرار دی کہ عدالت کو اس قضیے کے متعلق اختیار سماعت حاصل ہے.مزیدقراردیا کہ ا پنگا کو دین دار اور نگر سولی پر اختیار حکومت مال ) پرینگل کو فوج مسلح پولین اسلے کے متعلق می آمدو رفت حاصل نہیں.البتہ سول افسران، رعایا اورتجاری مال وغیرہ کی آمدورفت کا اسی حاصل ہے (۳) حالات پیش آمد می جن کا دادا حکومت ہن کی طرف سے کیاگیا ہے اورین کا انکار حکمت پر نگال کی طرف سے نہیں کیا گی حکومت ہند کا حملہ آمدورفت معطل کردنی بین الاقوامی قانون کے خلاف نہیں اس فیصلے کی تیاری بھی عدالت نے میرے اور حج بادے وال کے سپرد کی.یہ فیصلہ ۱۲ اپریل نشاء کو صادر ہوا.انتخاب بطور نائب صدر بین الاقوامی عدالت | شاہ کے انتخابات میں ناروے کے بچ کلاسٹیڈ صدر عالات منتخب ہوا اور مجھے نائب صدر منتخب کیا گیا.حکومت ہالینڈ اور حکومت سویڈن کا تنازعہ تار میں لیگ آف نیشنز میںایک کو منیشن نابالغاں کی دلات کے متعلق مرت بولی میں میں قراردیا گیاکہ جونا بال اپنی قومیت کے ملک سے باہر رہائش رکھتا ہو اس کی ولائت کا سوال اس کی قومیت کے ملک کے قانون کے مطابق طے ہوگا.ہالینڈ اور سویڈن دونوں نے اس کو بنیشن کی پابندی منظور کی اس کو نیشن ے فقر کمرے کی روسے نابالغ کی رہائش کے مل کے متعلقہ محکمہمات کا اختیار سمت تقسیم کیا گیاتھاکہ فوری ضرورت کے پیش آجانے پرمتعلقہ محکمہ جات نابالغ کی ذات اور اس کے حقوق کی حفاظت کے لئے مناسب کاروائی کرسکتے ہیں.ایک ولندی شہری ا مایوسی اول نے ایک بری جان کے کپتان نے ایک سویش خاتون سے شادی کی اور وین میں ہی بس گئے.اس شادی کے نتیجے میں ایک دفتر میں سویا میں پیدا ہوئی.ہر مرد کواس کی والدہ فوت ہوگئی بیوی کی وفات کے بعد کتان شل لاء میں سویڈن میں لول نے اپنی رہائش ہالینڈ میںمنتقل کرنی ہوندی عدالت نے کپتان بول کو اس کی کا ولی مقرر کر دیا.اس انشای سویلین کے
۶/۵ بہبودی اطفال کے محکمہ نے سویڈن کے سایہ کے ایک قانون کے مطابق توب اطفال پر ماری تھا اس بنا پر کہ کپتان ول کی کی اعصابی عارضے میں مبالا نے بھی کی ذات بھی کے نام اور ان کے سپرد کردی کی ان بول نے سویڈن کی عدالت میں روا " ن کا ولی کی جائداد اس کے سپرد کردی.جب کپتان بول نے بچی کی ذات طلب کی تو محکمہ بہبودی اطفال نے اس بار پیاس کی درخواست رد کردی کی کی اعصابی عارضے کی وجہ سے سر کے قانون کے ماتحت ابھی حفاظتی نظم کی امانت ہے، کپتان وی ے محلے کی اس تجویز کے خلا سویڈ کی عدالتوں میں اور پانی کی لیکن محکم کی تجویز بر قرار رہی.جولائی 10 میں حکومت ہالینڈ نے حکومت سویڈن کے خلاف دعوی دائرہ کیاکہ سویڈن کے حکم میبودی اطفال ور سین کی عدالتوں کا موقف کی ایک کنونشن کے خلا ہے او استدعاکی کہ عدلت قرارے کہ بیگ کنونشن کی شرائط کے مطابق کپتان بول تولیدی قانون ولایت کے ماتحت اپنی ہی کالی ہے اور یت و بچی کی ذات کا حقدار ہے.سویڈن کی حکومت کی طرف سے جواب کہا گیاکہ سویڈن کا یہودی اطفال کا قانون ولایت کے قانون میں عارضی نہیں اور جب تک بچی کی بہبودی کے مدنظر اس کا اپنے نہال میں یہاں کی صحت کے لحاظ سے ضروری سمجھا جائے اس کا باپ بحیثیت اس کا ولی ہونے کے بچی کی عدالت کا حقدار نہیں.اندریں حالات محکمہ مہوری اطفال کا اور سویڈن کی عدالتوں کا موقف شام کی سی کنونیشن کے خلاف نہیں.بین الاقوامی عدالت نے سویڈن کے جواب کو صیح قراردیا اور فصلہ کیا کہ سویڈن کا شاہ کا قانون حقوق ولایت میں دخل نہیں یا.یہ بہبودی اطفال کا عام قانون ہے جو سب بچوں پر حاوی ہےاور بیگ کونین کی زد سے ہے جوں کے باہم تبادل نیلا کے دوران میں میں نے چینی بھی ویلنگٹن کو کو اپنے اس نظریئے کا موید پایا کہ مومنین کے نفرہ نمبر میں فوری ضرورت کا استشناکی گیا ہے مکمہ بہبودی اطفال کا اقدام فوری ضرورت کے ماتحت تھا میں راے میں وہ حضرت ختم نہیں ہوئی بھی جارہے جن کے ملک کا اطمینان ہ ورک میں ضرور کے سات بچی کی ذات اس کے نانا کے اور کیا تو وہ ایک کالا و یک نام رکھنے پر حق بجانب ہے.جی ویلنگٹن کونےاپنے فیصلے کی بار کونیشن کے فقہ منبر پر رکھی اور ی نے ان کی رائے کے ساتھ اتفاق کیا عدا کا فیصلہ ۲۰ نومبر کو صادر ہوا.حکومت اسرائیل اور حکومت بلغاریہ کا ناریہ کو اسی کے مطابق اسرائیل ہان کمپنی کا اک طیارہ اور وانی یکی می کردی ایس ایل کو بیان کرنا واخوانی موسم یاکسی اور وجہسے ہوا اپنے رسنےسے ذرا ہٹ کر الغاز کے کرہ ہوائی سے پرواز کردیا تا کہ بخاری کی ہوئی فوج نے طیارے کو ولی کا نشانہ بنک نیچے گرادیا.طیارے کو کرتے ہوئے آگ لگ گئی.اس کے عمل کے سات افراد اور اکیا دن مسافرسب کے سب لقمہ اجل ہوگئے.حکمت اسرائیل نے بلغاریہ کی ہوائی فوج کی اس حرکت پر بلغاریہ کی حکومت کے پاس احتجاج کیا اور متعدل افسران کی سنیا اور طیارے کے حملے اورمسافروں کی تلفی کے معاوضے کا مطالبہ کیا.حکمت بلغاریہ کا ابتدائی موقف تو ہمدردانہ تھالیکن آخر حکومت اسرائیل کی تسلی نہ ہوسکی اور اس کی طرف سے حکومت "
اری کے خلاف بین الاقوامی دال میں انا مالیہ منوانےکیلئے ولی دائرکردیاگیا.حکمت بلغاریہ نے ابتدائی مزرات داخل بلغاریہ کو بین الاقوامی عدالت کی پیشرو عدالت کا اختیار تماعت قبول کرنے کی دستاوینی داخل کی تھی جب کمار سمیرا کو بلغاریہ امام محمدہ کارکن بن گیا بین الاقوامی عدالت کے TATUT کے مطابق باری کی دستاویز مورخہ 1 جولائی کا موجودہ بین الاقوامی عدالت کے اختیار مات کو قبول کرنے کی استادی کے مترادف ہوگئی.اور اس دستاویز کے مطابق عدالت کو اختیا سماعت حاصل ہے.اس موقف کے متعلق حکومت بلغاریہ کا کیا تار و مالک بین الاقوامی عدالت کی پیشرو عدالت کے جوانان ای یار ای یار سے قبل نام محدود بین القوامی عدالت کے اختیار کو ایک ایک کو اتارا شمار ہوںگی لایا اور کون نہیں ہوا ان کی دستاویزیں اپیل اللہ کو پیر حالت کے ختم ہونے پر سات ہوگی اوراس تاریخ کے کسی کے اقوام متحدہ کا رکن بن جانے پر ایسی سات شدہ دستاویزات کا احیا نہیں کیا جاسکتا.چونکہ بخاری کواقوام متحدہ کا رکن با اسلئے بلغاریہ کی ستانی والی کے رسے بخاری نےموجودہ حالت کی پیرو عدالت کے اختیار سماعت کو منظور کا ہواتھا ر اپریل کو ساقط ہو گی به ساق شده وستاد معدات و اختیار سماعت نہیں ے سکتی.عدالت نے یہ عذر سلیم کیا اور اس کے مطابق سر مئی شائد کو فیصلہ صادر کیا.ں حکومت بلخیر اور حکومت ہالینڈ کا تنازعی کم استان ناکامی میں ا ہے ان میں مار کو دونوں کتوں کے بنایا یا ان کے لیے کیے میں انروی عات کی طرف رجوع کیا جائے.یہ اقرار نامه نویر شاہ کو مال میں داخل کیا گیا.فریقین کے تحریری بیانات، زبانی بحث ار عدالت میں پیش کردہ دستاویزات پر غور کرنے اورخصوصا متعلقہ دستانیت اور نقش بات کی چھان بین کے بعد عدالت کا اخنات کی وجہ بھی معلوم ہوگئی.اور عدالت پر یہ ھی واضح ہوگیا کہ تنازعہ زمین بلیم میں شام ہونی چاہئے.عدالت نے فیصلہ تیار کر نیکے لئے مجھے اور سہ پر سی سینڈر کومنتخب کیا.فیصلہ ۲ جون شاء کو صادر ہوا.MARITIME CONSULTATIVE ORGANISATION ۱۶۰۰ کی بجری حفاظتی کمیٹی کے ہر بار کو ایک کونیشن کے مطابق INTER GOVERNMENTAL اراکین کے انتخاب کا تنازعہ (ATION (MCO) ا تعامل میں آیا.اس دورے کی اسمبلی کے فرائض میں بریانی کیٹی کے ارکین انتخاب کرنا بھی شامل ہے کنونشن میں درت ہے کہ بری خطاطی کیٹی کے اراکین ہونگے جنہیں کی مالی اپنے ان ریلی میں سے منتخب کریگی مبنی بر آمدورفت کی حفاظتی ات میں گری جیسی ہو ان میں سے کم آٹھ اراکین تور مالکوں کے جو جہازوں کی میت کے لحاظ سے نیست مالکان میں پہلے آٹھ ہوں باقی چھال کی ان دیگر مالک سے منتخب کئے جائیں گے نہیں جہازوں کا شیر علیم پہنچانے یا کثر تعداد سافرو
714 ۱۱۹۵۸۱ انے یا جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے میری آمدورفت کی حالت میں گری ہی تو ہال میں میری حفاظتی کیٹی کا انتخاب دار سنوری شاید کوعمل میںآیا.لائیڈنر کے بحری جہازوں کے اجراء کے مطابق جہازوں کی ملکیت کے لحاظ سے ائیر یا دیا بر می میرے نمبر پر اور پاناما اٹھیں تحریر تھالیکن امیلی نے ان دونوں ملکوں کا انتخب نہ کیا.انتخا کے اختتام پر ائیر ی نے تجویز پیش کی کہ اسمبلی بین الاقوامی عدالت سے استصواب کرے کہ آیا انتخاب اراکین سحری حفاظتی کنونیشن کے مطابق عمل میں آیا ہے یا نہیں یہ بلی نے 19 جنوری کو یہ تجویز منظور کردی اور کے سیکریٹری جنرل نے ۲۳ مارچ شداد کو یہ درخواست عدالت میں بھیج دی تحریری بیانات داخل شدہ اور زبانی بحث کے دلائل پر غور کرنے کے بعد عدالت کی رائے ہوئی کہ کنوینیشن متعلقہ کے فقرہ نمبر ۲ (الف) کا مشاہی ہے کہ کم سے کم آٹھ سے بڑے مالکان از مالک انتخاب بری صحافت کمیٹی کے اراکین کے طور پایا ہوا ہے اور انا کو تخت نہ کرنا ترنر ۲۸ رالف ) کی خلاف ورزی ہے.یہ رائے ، رسون نشاء کو صادر کی گئی.وسطی امریکہ کے دو مالک ٹانڈور اس امریکی کے پیری مالک اور اس اور کارگل کی درمیانی در اصل اور شکار گوا کی حکومتوں کے مابین تاریعہ متعین کرنے کیلئے دونوں ملکوں کے درمیان ب راکتور کشادہ کوایک معاہد اس کے در سے ایک مشترک مین اس غرض کیلئے قائم کی گی کرد مانک شا کے مطابق دونوں ملوں کی حدفاصل متعین کے معانی کی ایک اور ای تی تی کا گریشن نے کام کی تکمی بالاتفاق نہ کرے تو وہ کام کا باقی رہ جائے وہ نال کے سپر کیا جائے مثالی فیصلے کے دونوں ملک پا بندہوں گے.اس مشن نے ان کا بحرالکاہل کی جانب سے شروع کیا اور دراصل کا اثر حصہ بالاتفاق متعین کر یا بحر اوقیانوس کے قریب و دلیل دوسرے کشن کے اراکین کے درمیان اختلان ہوگیا الآخر اکتور کشی میں بقید حدفاصل کی تعین کا کام بطور ثال مہیانہ کے بادشاہ الفانوسیزدہم کے سپر کیا گیا.بادشاہ نے اکتور کشاد کو ثالث بنا منظور کر لیا.دونوں ملوں کی حکومتوں نےاس پر خوشی اور اطمنان کا اظہار کیا او متفق ضابطے کے مطابق اپن اپنا کیس بادشاہ کے سامنے پورے طور پر پیش کر دیا.بادشاہ نے اپنا لی فیصد اس سورت کو صادر کیا یہ فیصلہ زیادہ تر انڈر اس کے ادعا کے موافق تھا.نکار کو ک صدرنے اس فیصلے کی اطلاع ملنے پر انڈور اس کے در کوبا یاد کا ارد یا جس میں اس میری اطمینان کا اظہار کیا کہ یہ قضیہ تو رو پڑوسی ملوں کے درمیان اختلاف کا موجب تھاناتی کے پرامن ری سے طے پاگیا.دونوں ملوں کی طرف سے شاہ ان کی دم یہ بھی اداکار کے پامال کئے گئے فنکار کا کے وزیر ارسب نے ملکی پارلیمنٹ میں اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے تالی فیصلے پر امنا کا اظہار کیا اور پارلیمنٹ نے مالی فیصلہ کی تصدیق کردی.یہ سب کچھ والی ای میل کے عملی لا ی ی ی ی ی ی ی ی ی اختیار اوار میں نکار کو ایک حکومت نے فیصلہ انٹی کے نفاذسے اس بناء پر انکار کر دیاکہ کئی وجوہ سے فیصلہ الی قابل پذیرائی نہیں.دونوں ملکوں کی طرف سے اس قبضے کے تصفیہ کےلئے مختلف اوقات میں سی کی گئی لیک قضیہ ے ہونے میں نہ آیا.آخر جولائی شاہ کو دونوں
روسفر لکوں کے درمیان ایک اران امر موا کراس قبیٹے کا یہ بین الاقوامی عدالت کے پر کیا جائے یکم جولائی شاید کور مانڈور اس متعینہ ہالینڈ نے بنی حکومت کی ہدایت کے ماتحت قرار نامه مور خدا رسولانی یاد کی بنا پہ عدات میں در سنوات ار کی کہ اس تین کا اقرارنامہ ذکر کیا جائے.تحریری بیانات اور زبانی حب میں نکار یا کی طرف سے در کیاگیاکرشاہ الفانسو کا تقر بطور ثالث معاہدہ، راکتور پیشداد کی شرائط کے مطابق نہیں کیاگیا تھا.شاہ الفانو ے شاکی منطور کرنے سے سے معاہدہ مذکور کی یاد تم وایی ای کی نوری مطابق ضابطه مدرسه ماده مذکور نہیں ہوئی.فیصلہ ثالثی اسقدر مہم اور متضادہے کہ ملا اس کا نفاذ نہیں سوکت بری وجویات فیصل التی قابل پذیرائی ہیں اور کارگو اس فیصلے کا پانی نہیں.انڈور اس ک طر سے ان تمام رات کی تردید کی گئی اور استدعاکی گئ کہ عدالت ارے کا لایا ہے اور کارگو پراس کے علی خان کی زمہ داری عاید ہوتی ہے علات نے بعد عون قرار دیاکہ که شاه الفانسو کا نفر بطور ثالث مطابق شرائط، اکتوبر کشدار عمل میں آیا تھا.اور نہ صرف شاہ الفانسو کی منظوری معاہدے کی میعاد کے اندر گئی تھی بلکہ فیصلہ ثالثی بھی معاہدے ی میعاد کے اندر اور کیا گیا تھا.فیصلہ الی کی تجویز معانی ا مندر جہ معاہد مذکور موٹی اور سلے کے اندر کو اپ ابہام یا تضاد ہیں جس کی وجہ سے فیصلے کے ملی نفاذ کر تے میں کوئی مشکل پیدا ہوتی ہو.علاوہ انہیں جب حکومت کارگران شا النانو یا ان کوقبول کر لیا اور یاشی کی کاروائی کے دوران اپنیطرف سے پوری پردیکی توبعد میں کارگو کی رسے یہ عدر سموع نہیں ہوسکا کہ شاہ الفانسو کے قرب وبالت ی کنیم این ایمانی در گیا، ارید تا اور ان کے اداکاگاوا سینے کو قبول کر نادر مادر شد تای کیک یک ایرانیان کارگو پر فیصلے الی کی پانی مایاکرتا ہے اس میلے کی تیاری کی بھی عدالت نے مجھے ار چینی حج ولنگٹن کو کا انتخاب کیا.یہ فیصلہ انور شاہ کو صادر ہوا.بین الاقوامی عدالت کے کچھ سالہ عرصہ بین الاقوامی عدالت میں میری رکنیت میرے منتخب ہونے کے ساتھ ہی رکنیت میں بعض دوست اراکین عدالت ، راکتوری کو شروع ہوگئی تھی.یوں تو انتخاب 9 سال کی میعاد ے تو ہوتاہے لیکن میر انا بیان راؤ کی وفات کی وجہ سے ہوا تھا ان کی یاد رکنیت و فروری کو ختم ہونی تی املا میری کنیت کی یاد بھی اس تاریخ تک تھی.اس دوران میں دل کے اراکین میں کی تبدیلیاں میں چین کے مجھے 190 +1915 شومو جولائی اور میں ان میعاد ختم کرنے سے پہے ا ا ا ا ا ا اور ایک یا ایک بات یاری کیلئے ان کی یہ تینی منتخب ہوئے.جب فروری شارہ میں انکی میعاد ختم ہوئی تو وہ دوبارہ سال کیلئے منتخب ہوگئے حج شوہر کا موقف بالکل غیر جانبدارانہ، منصفانہ اور قانون کے مطابق ہوتا تھا.میرے دلمیں ان کا بڑا احترام تھا.وفات سے تھوڑا عرصہ پہلے انہیں اپنے اکلوتے بیٹے کی جو مری میں تھے خودکشی کی اندر رہاک ریلی یہ صدمہ ایک صحت پر بت اثراندازہ ہوا.انکی وفات اچانک ترکت قلب بند ہو جانے سے ہوئی.حج ولنگٹن کو سپین کے لاء کے انقلاب سے قبل کے زمانے سے اپنے ملک کی خدمت کرتے آئے تھے.
419 میں پریس کی صلح کا نفرنس میں وہ اپنے ملک کے دن کے لیڈر تھے.ا دن ایک نیا اور پھر قوم متحدہ کی تشکیل میں شمال رہے تھے یہ ہے او میں وہ امریکہ میں چین کے سفیر مقرب ہوئے اور بین الاقوامی عدالت کی رکنیت کیلئے منتخب ہونے تک دس سال سے زائد عرصہ انہوں نے یہ اہم خدمت انجام دی.بین الاقوامی عدالت میں اپنی میعاد کے آخری تین سال عدالت کے نائب صدر رہے اور ہر ضروری شام کو ریٹائر ہوگئے.جی شو مواد رنج ولنگٹن کو دونوں کے ساتھ میرے دوستانہ مراسم تھے.بیانیہ کے بیج لائٹر پاٹ بھی شاید میں فوت ہوگئے اور انکی جگہ بر طانیہ کے سر برلڈ ٹر میں منتخب ہوئے.کچھ عرصہ قبل سان سالوے ار کے نجی گر رو بھی فوت ہوگئے تھے.ایک جگہ پانامہ کے حج الفارو منتخب ہوئے.سان سالورے ڈار وسطی امریکی کیا ہے کچھوٹا ملک ہے.جگر بر دریا کے سیاستدان تھے اپنے ملک کی خدمت سے سفر کبر کے عہدہ سے پوری تنخواہ بطور نیشن حاصل کرکے ریٹائر ہوئے اور پھر یک آن مشترک بین الاقوامی عدال کے بیج اور بعدمیں اس عدالت کے صدر ہوئے.اس عدالت کے ختم ہونے پر وہاں سے میشن یاب ہوئے اور موجودہ بین الاقوامی عدالت کے حجم منتخب ہوئے بارہ سے اسے داد متین سالی عدالت کے صدر اور پھر شہ سے اب تک تین سال نائب صدر رہے.بشارم می میعاد ختم ہونے پر دوبارہ اور منتخب ہوئے اور یہ دوسری میعاد ختم ہونے سے قبل نشاء میں فوت ہوگئے.پولینڈ کے جو اسکی ، مر کے بج عبدالحمید بدوی، یوگوسلاویہ کے نور سے پیا اور کنڈ کے جو ریڈ کی میاد کینیڈا بھی اور فروری شکاء کو ختم ہوئی.ان میں سے جو نا سکی اورج عبد الحمید بدوی تو پھر متخب ہو گئے اور دورے پیچ * : عاادت ور ریڈ کی جگہ یونان کے حج پر پولوس اور آسٹریلیا کے سر پرسی سینڈر منتخب ہو گئے.کے میرے چھوٹے بھائی عبداللہ خان کی وفات بین الاقوامی عدالت کی رکنیت کے دوران شہر میں مجھے اپنے ای عبداللہ ان کی وفات کا صدمہ اٹھانا پڑا.وہ کام میں ایشین کلی کار تھے ور جاعت احمدیہ کراچی کے امیری تھے طبیعت کے علیم، متواضع ، ما را درکم کو تھے ان کے ہاتھ اوران کی نہ ان سے کسی کو ری نہیں سنا اور بہت ہیں جو ان سے فیضیاب ہوئے کئی سالوں سے ان کی صحت بھی نہ تھی اور رات سے پہلے تین سال توانہوں نے میچ دورو کرب میں گزارے لیکن اس سارے عرصے میں اپنے فرائض منفی یک کما حقہ اسے ینی یک مامان انسان ه سرانجام دی، بنی نوع انان کی گرمی ہمدردی اور ا الہ احمدیہ کی مخلصان خدمت میں کسی کی سکسی کوتاہی سرد نہ ہونے دین ہی کبھی حرف شکایت زبان پر آنے دیا عبدالله ال فرمانبردار بیٹا ، اطاعت گزارہ بھائی ، مونس و غم خوار خاوند ، شفیق باپ، ونادار اور قابل اعتماد دوست اء کی سرپر کو کراچی کے مطار پر دیکھا جب میں نے اسے لاہور جانے کیلئے رخصت کیا.لاہور پہنچنے کے بعد اسی رات اس کے سینے میں شدید درد اٹھا اور ساتھ ہی بخار بھی ہوگیا.کچھ دن بعد اس حالت میں کچھ افاقہ تو ہوالیکن دراصل پر طبعیت سالی نہیں کمزوری بڑھتی گئی اور دبے ہوئے وار می ظاہر ہونا شروع ہوگئے.آخر اس جان عاریت که به حافظ پر دوست
روز خویش به منم وتسلیم دے کن ، کانال مدون کیا.اس کی وفات کے وقت میں جنگ میں تھا.میرا جسم وگر تھا لکین میری روح اس کے گرد بیقرار رب العالمین کے حضور اس کی صحت یابی کیلئے زاری میں تھی.عید الہ خان اپنے رب کے بلاگ پر لبیک کہتا ہوا اپنے رب کے حضور حاضر ہوگیا اور ہم بھی اپنےاپنے وقت پر وہیں جانیوالے ہیں اور وہاں پھر جدائی نہ ہوگی.میں ہونیوالے انتخاب امریکہ کے بیج پیکور تو ، ناردے کے چھے کلیساڈ ، اور گورے کے جی آرمانڈ اوگاں اراکین عدالت میں ناکامی روس کے جی کو یونیکور ی اور مری میعاد در فروری شاید کوختم مونوالی ھی.جی یوتھ کانام امریکہ کیطرف سے تونہیں لیکن بعض اور مال کی طرف سے دوبارہ انتخاب کیلئے پیش کی گیا.ج کلیٹ وڈ اور جی ار انڈاوگان کے نام ان کے اپنے مالک کیطرف سے اور بعض دیگر ممالک کیطرف سے بھی دوبارہ انتخاب کے لئے پیش کئے گئے تھے.بی صورت میرے متعلق بھی تھی.یہ انتخابات اء کے اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے دوران میں ہونیوالے تھے.انتخاب سے کچھ عرصہ قبل آغا شاہی صاحب نے اور خان بہادر سید الطاف حسین صاحب نے نیو یارک سے طلع کیا کہ مقابلہ سخت ہے ہماری طرف سے پوری کوشش ہو رہی ہے لیکن ہیں کہا جاتا کہ کامیابی یقینی ہے ان احسان کی پیشانی کے پیش نظر یں نے خان بہادر صاحب کو لکھا کہ ہمیں پنے محدود نقطہ نگاہ سے اندازہ ہے کہ یہ نیک اقدام ہے اسلئے ہمیں اس کے لئے مناسب کوشش کرنی چاہیئے.سو آپ کو شش کر رہے ہیں اور میں آپ کا اور آغا شاہی صاحب کا ممنون ہوں نتیجہ لہ تعالی کے اختیا ری ہے.ہم نہیں جاتے کہ ہمارے میں کون اربہتر اور زیادہ مفیدہے.علم الہ تعالی ہی کو ہے آپ مناسب کوشش کرتے رہیں لیکن پریشان نہ ہوں.اگراللہتعالیٰ مجھے اس خدمت کے لائق سمجھے گا اور یہ فورت مجھ سے لینا چاہے گا تو مقابلہ خواہ کسقدر سخت ہو وہ اپنے فضل سے کامیابی عطافرمائے گا.اور اگر مجھ سے کوئی اور خدمت لینا چاہے گاتو کوئی اور رستہ کھول دیا.سیگ میں ایک نہایت مخلص مومنہ بولندی خاتون عزیہ والٹ تھیں میں نے ان کی خدمت میں دعا کیلئے گذارش کی تھی.جب انتخاب کے نتیجے کی اطلاع عدالت میں موصول ہوئی تو ڈاکٹر کو رونے ڈپٹی بسیار میرے کرے میں تشریف لائے.اور کہا افسوس ہے جن پانچ بچوں کے نام دوبارہ انتخاب کیلئے پیش تھے انمیں سے کوئی بھی منتخب نہیں ہوا.ان کے جاتے ہی لینے ر عزیزہ والٹرکی خدمت میں ٹیلیفون پران کی دعاوں کا شکریہ ادا کی اور انہیں اطلاع دی کہ انتخاب میں کامیانی نہیں ہوئی.انہوں نے سنتے ہی فرمایا ما ودعك ربك وما قلى والأخره - خير لك من الاولى ولسوف يعطيك ربك فترضى " دوسرے دن مسجد میں نمازہ جمعہ کے بعد انہوں نے مجھ سے فرمایا کل سے انتخاب کی بفرسننے کے بعد مری طبیعت میں بڑے زور سے یہ خیال آرہا ہے کہ اللہتعالیٰ تم سے کوئی اور ہم خدمت لینا چاہتا ہے.امریکہ کی ڈینور یونورسٹی سے انتخاب کےنتیجے کی اطلاع کے دودن بعد مجھے ڈاکٹر موزن کو سیل کیطرف سے رو کشمیر کے پر وفیسری کی پیش کش قبضے سے متعلق اقوام تحدہ کی قائم کرد کمیشن کے رکن رہے تھے اور سنوری الہند میں
کمشن سے علیحدہ ہو کر اوراپنے وطن چیکوسلواکیہ سے نقل ہوکر امریکہ کی ڈینو یونیورسٹی میں سوشل سائنس فوندلنشین می پیر نسیم میں مقرر ہوئے تھے اور اب فونڈیشن کے ڈائر کٹر کے عہدے پر سرفرانہ ہیں) تار موصول ہوا کہ ڈمور یو نیورسٹی کے لئے بہت اعزانہ کا باعث ہوگا اگر تم بین الاقوامی تعلقات کے شعبہ کی پروفیسری قبول کرنے پر آمادہ ہوسکو.تمہاری رضامندی کی اطلاع کا انتظار ہے.میں ان کی طرف سے اس پیش کش سے بہت متاثر ہو نے کاکو بذریعہ ڈاک بھیج رہا ہوں خط یں انکا شکریہ ادا کرنے کے بعد گذارش کی کمی بعد خور خود کو اس انہیں پاتا کہ ایک قابل قدر پیش کش کو قبول کر سکوں می لیلا میدان میں کارکن رہا ہوں علمی ماحول سے زیادہ واقف ہیں اور سری دیوی کے خالق سرانجام دینے کیلئے سبقدر محنت اور عرق رین کی ضروری ہوگی نہ کرسکوں گا.اسلئے با دستور اس گہرے احساس کے کہ یونیورسٹی کا پرسکون علی ماحول میرے لئے ایک نعمت ہوگا ارباب وجود د موراد اس کے مضافات کی زور دارش کے میں ان کی پیش کش کا جواب اثبات میں نہیں دے سکتا ہے.رفقائے عدالت سے تعلقات | عدالت می میرے تعلقات اپنے رفقاء کے ساتھ سارا عرصہ نہایت خوشگوار یہ ہے.حج ریڈ (کینیڈا ) اور حج شومو ( چین ) کے علاوہ پریزیڈنٹ سیکورتھ (امریکہ ) اور حج کا روا (میکسیکو) کے ساتھ تو گہرے دوستانہ تعلقات قائم ہو گئے.وائس پرنڈینڈنٹ عبدالحمید بدی آختہ تک میرے ساتھ کمال شفقت سے پیش آتے رہے لیکن وہ بڑے سنجیدہ مزاج تھے.مجھے ہمیشہ ان کا اب ملحوظ رہتا تھا اسلئے ان سے بے تکلفی کی نیت نہ آنے پائی فرانس کے بیج بارے واں عدالت کے سابق صدر حج باردے والی میل جول میں مجھ سے نہایت خوش اخلاقی سے ( TUDGE BASDEVANT) پیش آتے تھے.چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ ہوتی تھی.لیکن اول اول بعض قرائن سے مجھے اس سی ہوتا تھاکہ وہ مجھے کسی قدرشبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.وہ تھوڑی بہت انگریزی تو جانتے تھے لیکن اس زبان یں بات کرنے میں انہیں حجاب تھا ور می فرانسیس می بات کرنا بالکل نہیں جانا تھا اسے گفتگو کا موقع بھی کم ہوتاتھا علمی لحاظ سے ان کا درجہ بہت بلند تھا.وہ بین الاقوامی قانون کے میدان کے شہسوار تھے اور اس میدان کے ہر نشیب فراز سے اس در سبہ واقف تھے میں درجہ بقول شیخ سعدی بغداد کے گلی کوچوں سے نازی گھوڑا اور مجھے اس میدان میں پیاده روی کا می زنیم نہیں تھا.رفتہ رفتہ مجھےان کے رویہ میں خفیف کی تبدیل محسوس ہونے لگی ہے تو مجھے خیال جو کہ شاید میرا یہ اس ان کے رویے کے متعلق صحیح نہیں تھا اور اب خوشگوار تبدیلی کے متعلق جو احساس ہے وہ صحیح نہیں.لیکن آخر بر اساس پختہ ونے لگا اگر شروع میں انہیں میرے متعلق کوئی شبہ تھا اب وہ دور ہورہاہے یا دور ہو چکا ہے.میری نصف میعاد گذار جانے تک یہ حالت ہوگئی تھی کہ عدالت کے پرائیویٹ اجلاسوں میں جب کسی سے پرمیں اظہار خیال کرتا وہ توجہ سے سنے.کبھی کبھی مسکراتے ہوئے اظہار خوشنودی کے طور پر تصدیق میں سماتے اور بعض اوقات فرانسیسی میں بہت خوب بہت خوب کار مولہ افزائی فرماتے.ان کے رویے کی تبدیلی کا عقدہ اس وقت ھلا جب شارک کے آخر میں عدلت کے پانچویں جم جن میں مں بھی
7 ۶۲۲ شامل تعار دوبارہ عدالت کی رکنیت کیلئے منتخب نہ ہو سکے.وہا دونوں بہار تھے.بیماری شدت اختیار کرگئی تھی کی درست تو تشویش میں گرا لیکن پھراللہ تعالی نے صح عطا کی.انتخاب کا نجی معلوم ونے پر ستر علالت سے ہی مجھے خط لکھا جس میں میرے دوبارہ منتخب ہونے پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے فرمایاں نہیں جانا چاہتا ہوں کہ عدالت کی رکنیت کیلئے تار انتخاب " ہا تو اقوام متحدہ میں تمہاری سرگرمیوں کو جانتے ہوئے مجھے اندیشہ تھاکہ حالت میں پیش ہونیوالے تنازعات کے فیصلوں میں تم انونی و این انہیں کوسیاسی پولٹیکل کا پران کی بھی منتر سے عبد اضح ہوگیا کہ اندیشہ بالکل بے بنیاد تھا مجھے علم ہوگیاکہ تم ایک صاحب تجربہ قانون دان اور نجی و سرفصل ملا لیں کا احتیاط سے مطالعہ کرتے ہو اورصرف انہیں باتوں کو مدنظر رکھتے تو جواس کیس کے قانونی فیصلے کیلئے ضروری ہوں.اکثرات تمہاری رائے مجھے اپنا لئے قائم کرنے میں مدہوئی.اور تنازعہ زیر سماعت پر جان کی باہمی گنگ کے دوران میں بڑے شوق سے اس وقت کا انتظار کرتا تھاجب تم اس کے متعلق پنی رائے کا اظہار کر کے یہ اعتراف نکی عظمت کا ثبوت تھا.۱۸ سال عدالت کارکن ریکه فروری ء کو فیشن پر گئے اور تین سال بعد وفات پاگئے.ناروے کے حج کلی ٹاڈ ناروے کے نجی کلیٹ ڈبھی بڑے سنجیدہ مزاج تھے اور نے کام سے کام رکھتے تھے.بچی کی بات کرتے تھے.عدالت کا اجلاس شروع ہونے سے دس منٹ بلانے کے میں نے اور احساس ختم ہوتے اپنے گھرکی راہ لینے انکے کسی رنی کو ان کے ساتھ بے تکلفانہ بات کرنے کی بہ نہیں ہوتی تھی جب جم سکور تھ پینڈنٹ ہوئے تو انہوں نے عدالت کے یٹ اجلاسوں میں جوں کی نشست کی ترتیب بدل دی جس کے نتیجے میں میری اس کی کمیٹی کے بائیں ہاتھ مری ہوئی میلی گر کبھی ان کے ساتھ کوئی بات کرتا تو وہ دو لفظی جواب دیکر خاموش ہو جاتے اور بات آگے نہ پھلتی.میرے پہلے تین سالوں یعنی وار تا شاہ کے دوران میں جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے انہوں نے مجھے صرف ایک بار خود مخاطب کیا.اسدن ہندوستان کے در بر فیلم پنڈت جواہر لال نہرو لندن سے وزرائے عظام کی کانفرنس سے فارغ ہو کر وطن لوٹتے ہوئے سنگ تشریف لائے ہوئے تھے.ہندوستانی سفر کیر متعینہ ہالینڈ نے ان کے اعزاز میں استقبالیہ دعوت دی ہوئی تھی.عدالت کے اراکین بھی مدعو تھے دعوت کے وقت مجھے کہیں اور جانا تھا اسلئے دعوت قبول نہ کر سکا.عدالت کے ایک پرائیویٹ اجلاس کے دوران ج کلیپٹاڈ نے مجھ سے دوریت کیا تم ہندوستانی سفیر کی دعوت میں جاؤ گے ؟ میں نے کہا مجھے تو ان جگہ جانا ہے اسلئے میں نے معذرت کر دی ہے.اس پر فرمایا میں توہرگز ایسے شخص کے اعزاز کے اظہار میں شامل نہیں ہوں گا جیسے اپنے قول کا پاس نہیں.کے شروع میں جب حج کلیسا د صدر عدالت اور میں نائب صدر منتخب ہوئے تو ہمیں آپس میں ملنے جلنے کا زیادہ موقعہ ملنے لگا.صدارت کے فرائض کی سرانجام دہی کیلئے انہیں عدات میں زیادہ دیر تک ٹھہرنا ہوتا.انتخاب کے فرا العدم سب صدر کے کمرے میں جمع تھے.مجھے فرمایا تمہارے نائب صدر منتخب ہونے کی مجھے بہت خوشی ہوئی ہے.ان کے یہ کہنے سے مجھے اطمینان ہوا کیونکہ وہ منہ سے کوئی رسمی بات نہیں نکالتے تھے.ایک دن عالمی عدالت کے جبرار لون الوان صاحب نے مجھے اپنے ہاں کہنے
۶۲۳ ی دعوت دی کھانے کے بعد جب ہم علیحدہ بیٹھے توکیا.صدر عدالت بہت سنجی طبع اور کم گو ہیں لیکن بہت تیز حس کہتے یں.خون کے دباؤ کا بھی عارض ہے عدل کے پرائیویٹ اس میں کوئی اسی بات ہوتی ہے سے دوا سے ہے جانکتہ چینی ھتے ہیں تو نہیں بڑی پریشان ہوتی ہے بعض فقہا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا اس سے نکلتے ہی نہیں ملانے کیلئے نے ڈار کے ہاں جانا پڑا تمہاری نستان کے ساتھ ہی ہوتی ہے.کوئی ایسا نہ ہو تو ان کی کسی اور اطمینان کے لے ان سے چھ کہہ دیا کراس سے انہیں بہت حوصلہ ہوگا.پریذیڈنٹ سیکور تھ بڑے خنک مزاج تھے.اپنی رائے سے اختلاف یا اس پر نکتہ چینی کو خاموشی سے سن لیتے تھے.اعتراض معقول ہوتا تو فراخ دہلی سے قبول کر لیتے تھے ورنہ نرم الفاظ میں ٹال دیتے تھے.ہجڑا رہ صاحب سے گفتگو کے بعد میں نے خیال رکھنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ صرف ایک صاحب کی نکتہ چینی یا اختلاف کا اظہار بہت ناگوار ہوتا ہے اور ان کا چہرہ سرخ ہونے لگتا ہے.یہ رد عمل اس وجہ سے نہ تھا کہ صدر عدالت اپنی رائے سے اختلاف یا اس پر نکتہ چینی بی داشت ن کرسکتے تھے.دراصل ان صاحب کا طریق گفتگو ایا تھا جس سے تر ہوتا تھا کہ اپنے آپ کو عقل کل در مخزن علم سمجھتے مینار مخاطب کو جاہل مطلقی.ایسے موقعہ پر چھ سے سناہی ہوسکتا تھاکہ ان صاحب کی بات کا خود جواب دینے کی کوشش کروں اور اگر ان کی بات واجب نہ ہوتواسے ٹالنے کی کوشش کروں.رفتہ رفتہ اب صدر نے جو پراعتمادکا اظہار کرنا شروع کیا مرے ساتھ ان کا رو یه کمال شفقت کا رنگ اختیار کر گیا.جب ان کی صدارت کے عرصے میں پہلا فیصلہ مت ہو چکا توانہوں نے مجھے فرمایا ایک ملاس کا یں قید میں پڑھ کر سنا ہوگا میں نے کہا واہ کی رو سے تو یہ فرض آپ کے ذمے عید ہوتا ہے کہ ٹھیک ہے لیکن ایک جمع ے اسے لالی دستاویز پڑھ کر سنا میری طبیعت پر بوجھ کو کام اب درد والے میں نہیں پڑھنے کو کہوں گا.چنانچہ انکی ہوگی وہ پندرہ سال عدالت کے رکن رہے.انہیں موسیقی سے بالا تا پایان جاتے تھے لیکن اکیلے نوں کسی کی موجودگی می نہیں بجاتے تھے.موسیقی کمیوز بھی کرتے تھے اور اس کے بعض حصے پنی موجودگی میں سالزبورگ (آسٹریا) کے آرکیسٹرا کے بجائے ہوئے ریکارڈ کر دیتے تھے اپنے وطن کی سرد آب جو اسے گھرے تھے سردیوں کی رانیں اور برفانی ہوا میں کے لئے پریشانی کا موجب تھیں.عدالت سے رات کے بعدان کارا وہ اٹل میں ان ہی کے نواح میں رہائش اختیار کرنے کا تھاچنانچہ میاد ختم ہونے سے قبل ہی غدار نہیں کے قرب ایک بنگلہ کرنے پرے یا ادرار کے شروع میں وہاں منتقل ہوگئے.سو انفاق سے س سال یا موم بنات نانو شورا ثابت و مسلم باری کاسامنا ہوا دو اور جب وہاں سے سو چلے گئے.اس کے بعد سردیوں موسم میں چھوڑے کیلئے فرانس کے جن میںکسی مقام نے ان کا نام کیلیے ایک مستقل بالای سو (2) میں ہی رکھی.فروری شاء میں مجھے ایک کانفرنس میں شرکت کیلئے اسکو (0) s ) بجانے کا اتفاق ہوا.حسن اتفاق سے وہ ان
۶۲۴۴ ۱۹۶۵ء ونوں اسلوبی میں تھے.ایک شام میں نے انکی خدمت میں گزاری میسر کلیٹا نے بتایا آج تمہارے آنے سے بہت باش ہیں.در نواب عام طور پر خاموش اور مردہ رہتے ہیں.فلیٹ سے باہر قدم نہیں رکھتے.بہت شاذ کسی سے ملتے ہیں.موسیقی کے ساتھ بھی وہ پہلا سال گاؤ نہیں.ستمبر میں میرے اقوام محمد کا صدر مت ہونے کی رونے پرمجھے پن اور اپنی امی کی طر سے مبارکباد کا خط لکھ جو محبت اور اخلاص کے جذبات سے پر تھا.جو کلیٹ ڈ ایسے فرشتہ میر انسان کی طرف سے ایسی محبت او شفقت کا اظہار میرے لئے بڑی خوشی اور اطمینان کا موجب توا.وہ مٹی وار کا مال فرما گئے.وہ میر تقی محسن نے اللہ تعلٰی ا کے سات رحمت کا سلوک فرائے میں نے کی یکم ماہواری کا کیا انہوں نے جو میں کہا ہمیں بتانے کی ضروت ہیں کہ انہی تمہارے ساتھ استاد اخاص کا تعلق تھا.تہارا ایک خط نہوں نے اپنی بائبل کے سرورق کے ساتھ چپکایا ہواتھا.محترمہ بیگم رعنا لیاقت علی خان شا اور مینج میں وزیر خاره یا اور فرمائیں انکی رضامندی حاصل ہونے کے بعد چودھری حمدعلی صاحب ہوگیا زیر اعظم اور مک ملا محمد صاحب گورنہ منزل کی منظور سے ان کا فریم میں آیا اور میرے کان میں انہوں نے اپنے منصب | یا اورده مردم شریف کے ہیں.میں ھی بین الاقوامی عدالت کاری منتخب ہوکر مجبور شد میں ہی آگیا اور فروری باشد.ت وینی راہ چونکہ اس سارے عرصے میں گم صاحبہ سنگی پاکستانی سے مالا مال کیا ہے کہ سکتا ہوں کہ انہوں نے فرائض اور ذمہ داریوں کو بڑی قابلیت اور بے وفا کے ساتھ انجام دیا ہالینڈ ی ان کانام نامی اور پاکستا کا نام مترادف ہوگئے تھے اور اس ملک میں ایک انہیں منای احترام کے ساتھ یا کیا جاتا ہے.مکہ ہالینڈ کے ساتھان کے گہرے ستان امام تھے.وہ ان کے سرکاری اور غیرسرکاری دونوں حلقوںمیں مقبول ہیں ان کے متعلق عام رائے تھی کہ کہ بولی کے بعد وہ ملک کی سب سے پہردلعز یہ خاتون ہیں.ہالینڈ کی سب یونیورسٹیوں میں بھی ان کا نام میری عزت سے لیا جاتا تھا.ان کا قاعدہ تھاکہ ان استقبالی دعوتوں میں الزام کے ساتھ باری باری یونیورسٹیوں کے چیدہ چیدہ طلباء کو ملوکرتی تھیں.......ور ان کی مان نوازی کا خاص خیال رکھتی تھیں.جوطلباء دور سے آتے تو رسمی دعوت کے بعدان کیلئے کھانے کا نظام بھی راتیں ایسی مادرانہ شفقت کا اظہار ایک شفقت خاتون ہی کی طرف سے ہوسکتاتھا.ان انتظامت میں ان کی رانی سیکریڑی مس کم ترین مائملزمان کی دست راست تھیں.میرے ساتھ شفقت اور تواضع کا جو سلوک بگم صاحبہ نے اوران کی وجہ سے کپتانی ان ان کے لالانا این ویلے کے افرادنے دوا کا امیر والا بیگم صاحبہ ان سے مارنا ہوتا کہ مرنے والوں کی سرپر کوہ کے در دولت پر حاضر ہوں اور دونوں دن شام کا کھانا ان کے ہاں کھائیں.کھانے پینے کے سلسلے میں مری ہر بی احتیاط اور طبعی رغبت کا پور لحاظ رکھا جاتا اسلئے مجھے بیگ کے قیام کے
۶۲۵ وران میں ذرہ بھر بھی بے وطنی کا حساس نہ ہوا.یہ سب بیگم صاحبہ کی شفقت اور تواضع کا کرشمہ تھا.میرے دل سے برونہ ان کے لئے دعا بند ہوتی ہے.یہ کوئی رسمی حملہ نہیں مکہ لفظ اور معا حقیقت ہے.بیگم رعنا لیاقت علی خاں کی میرے دل میں محرم میگم صاحب کی قدرومنزلت ان کی اسلامی غیرت کے احساس کی وجہ اسلامی غیرت کی دو مثالیں سے بھی ہے ایک دن دوپہر کے وقت ٹیلیفون پر ارشاد فرمایا کہ سرپر کے اجلاس کے ئے عدالت واپس جاتے ہوئے میاں سے ہوتے جانا رات کی رانی کرنے سے پہلے ہی آجانا میں پونے تین کے حاضر ** " " گیا.امام ہونے پر دکھا کہ ہم اضطراب کی حال ہی میں ایک کاپ شد و در قران کے ہاتھ میں تھا وہ جھے دیتے وے را با پڑھوا وہ بیگ کے ایک روزنامے کے افتاحیہ کانگریزی ترجمہ نام کا خاصہ یہ تھا کہ انڈونیشیا کی حکومت پنی پرکمزوری اور خامی کا الزام ہالینڈ کے سر تھوپتی ہے.انا نہیں سوچا جاتا کہ مل کی بھاری کثرت اسلام جیسے دقیانوسی ذہب کو سینے سے چھائے ہوئے ہے جوان کی ترقی کے ستے میںرکاوٹ پیداکرتا ہے اسے اس سب کا علاج کریں پھر ہم پر الزام عائد کریں.فرمایا اس کا جواب لکھو.کب تک تیار کرو میں نے کالا تیار ہو جائے گا.جواب تیار ہوجانے پرانے اطلاع کی تو فرمایا ہمارا تعلقات عامہ کا افسران دونوں چھٹی پر ہے.تمہارے تیار کردہ جواب کا جوانی زبان میں بد ترجمہ ہونے ا یا انتظام کیا جائے میں نے کہا آپ کر نہ کریں میں مسز مرمان ( ایک مسلمان ماہر ترجمہ ولندی خاتون سے جلد ترجمہ یکر خود اخبار کے ایڈیٹ سے ملی اور اسکی اشاعت کا مطالبہ کریں.حافظ صاحب مضمون کیر کئے.ایڈی نے جواب پڑھ کر فرمایا ہم ضرور کل ہی شائع کر دیں گے لیکن جواب زرا طویل ہے سارے جواب کی گنجائش پرچے میں نہیں ہوگی.ہم ضروری حصوں کو خلاصے کے طور پر ترتیب دے لیں گے.انہوں نے اپنا وعدہ بڑے عمدہ طور پر پورا کر دیا.جزا اللہ بیگم صاحبہ نے مضمون کی نقول تمام سفارت خانوں میں بھیجوا دیں.ایک دن پھر بڑے اضطراب کی حال میں طلب فرمایا معلوم ہوا کے ایک پاکستانی مسلمان نوجوان ملازم نے تو کیا چی ا ا ا ا پ پر درود تاور میں والد نے اس کے گنے کے کام میں ایک شادی بھی کر دی ہوئی تھی ہالینڈمیں شادی کی ٹھانی ہے اور لڑکی کے ارادہ یہ عیسائی مذہب قبول کرنے پر آمادہ ہے اور اس نیت سے ایک پادری کی شاگردی یر ای سیو وغیرہ سیکورہ ہے بیگم صاحب بڑے ہوش میں تھی اور مصری کے سفارت خانے کا سرکاری عما باگ دوڑ ک کے غروب آفتاب سے پے اس عزم کو پاکستان جانیوالے ہوائی جانے پر وار کرکے رپورٹ کرے.یہ رپورٹ بیگم صاحبہ کی خدمت میں پہنچ تو کہیں جاکران کی طبعیت قابو میںآئی.اس وقت تک بار بار یہی کہتی ہیں.لیاقت علی خان کے گھرمی پلا ہوا شخص اور عیسائی ہونے پر رضامند ہو جائے ؟
۶۲۶ ہیگ میں مسجد احمدیہ | بیگ میں مسجد احمدیہ کا ہونا میرے لئے بڑی روحانی تسکین کا موجب تھا یہ سجد لفضل اللندن کی احمدیہ مسجد کی طرح جماعت احمدیہ کی خواتین کی مالی قربانیوں کی مالی با گا ہے.اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے اور عمات کے مکمل ہو جانے پر اس کے افتتح کی سعادت بھی محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی ذرہ نوازی سے مجھے نصیب ہوئی میرے قیام کے عرصہ میں حافظ قدرت اللہ صاحب امام در مولوی محمد ایوب صاحب سوماٹر دی نائب امام تھے.ان دونوں مخلصین کا ایک نمونہ میرے لئے مشعل راہ تھا.محترم عزیزہ والٹرایک محترمہ عزیزہ والٹر ولندیزی نومسلم جن کا ذکر پہلے آپ کا ہے نہایت پارسا مخلص اور ولندیزی نومسلم خاتون صالح خاتون نہیں مان را می دوز انظار کرے اور مغر کی نمازادا کرنے کے بعد ہ ہم منٹ کا سفر بس میں کر کے مسجد میں حاضر ہوکر خواتین کی معیت میں تاریک کے نفل ادا کریں مستجاب الدعوا اور صاحبہ رویا و کشوف تھیں.خوشنویسی کا شوق تھاقرآن کریم کی آیات خوبصورت قطعات میں سبز زمین پر سفید الفاظ کی شکل میں تیار کرتی لیکن اللہ تعالی کا نام سنہری حروف میں دکھا ئیں.سنگ کی مسجد میں بہت سے قطعات انکے تیار کردہ آویزاں ہیں مسجد کی دیواروں پر بھی ان کے ہاتھ سے احکام قرآن خوبصورت نقش کئے ہوئے ہیں.میرے مکان کیلئے بھی اقات تیار کے اور مریم کی یہ طور یدیہ کے ہیں میں نےار کیا کہ بی بی آپ کی دم میں کوئی ہدیہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہوں تو فرمایا دشت جاؤ تو کچھ نمونے خوشنویسی کے میرے لئے لیتے آنا.چنانچہ مں نے ان کی خواہش کے مطابق چند نمونے ان کی خدمت میں پیش کر دیئے.میرے دوبارہ عدالت میں شامل ہونے کے وقت زندہ تندرست تھیں لیکن طبیعت سے کچھ منعف کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوگئے تھے پر استہ آہستہ جم کی خانہ میں شمولی میں ناغہ ہے لگا.عمر اسی سال کے قریب ہوچکی تھی یا مکن ہے اس سے زاید تو آخر ، استاد کو محبوب حقیقی کی رحمت کے سایہ تھے رحلت کر گئیں.ان کے اخلاص، ان کے ایمان کی بشاشت ، عبادات سے شغف ان کے عشق الہی.ان کی پیشانی کے نور سے بی اندازہ ہوتاہےکہ درگاہ الہی سے انہیں میں دعوت موصول ہوئی ہوگی یا ايتها النفس المطمئنة ارجعی المحاربيك راضية مرضية فادخلی فی عبادی وا دخلی جنتی ہم میں سے جو کوئی بھی انہیں جانتا تھا اس نے انکی رحلت پر ضرور دعاء کی ہوگی.داخلش کن از کمال فضل در بیت النعیم“ بین الاقوامی عدالت کی رکنیت کے میں نے بچپن میں سا تھا کہ میرے دادا جان چودھری سکندر خالصاحب مرحوم میں عرصہ میں عمرہ ادا کرنے کی سعادت نے حج کی سعادت حاصل کی تھی.اس وقت سے میرے دل میں اس فریضیہ کی ادائیگی کا اشتیان تھا.انگلستان میں تعلیم ختم کرنے کے بعد وطن واپس جاتے ہوئے نو برس میں حج کی سعادت حاصل کرنے کا ارادہ تھا.ٹکٹ ہوں سالہ میں ہی خرید لئے گئے تھے.اگست کہ میں پہلی عالمی جنگ شروع ہوگئی معجس سے یہ پرو گرام در کمبریم ہو گیا شدت کی گرمیوںمیں پھر ارادہ کیا کہ جنوری منگ میں اس فریضے کی ادائیگی کی جائے بہاری
ینی سے پروگرام ہو گیا لیکن ستمر اسلام میں دوری عالی جنگ سے پروگرام بی منو کرنا پڑا.قیام پاکستان کے بعداقوام متحدہ کی املی کے سالانہ اجلاسوں کے دوران یں سعودی عرب کے وزیر خارجہ عالیہ امر فصل سال جلال ملک الاشرار فیصل) کے ساتھ نیاز مندی کے روابط پدا ہونے پر میں نے ان سے حج کیلئے مکہ معظمہ حاضر ہونے کے متعلق مشورہ کیا.انہوں امامانم و تو سب انتظام کردیں گے لیکن حج کے ایام میں موم استد گرم ہوتا ہے کہ باوجود ہرقسم کی سہولت کے ہم وگوں کیلئے بھی اس کی برداشت مشکل ہو جاتی ہے ہمارا مشور ہے کہ چندسال انتظار کرو جب تک کے ایام میں موم کسی قدر اعتدال پر آجائے بشار میں عدالت کا اعلاس شروع فروری کی جائے اوائل اپریل میں متحد ہونا تھا میں نے اراد ا کہ اس ایسے فائدہ اٹا میں مرے کا پروگرام بناؤ میں ہے ا س ت م ال عالی اپنے دور سے بی کی توفیق بھی عطا فرمائے اور اس فرض کی ادائیگی کیلئے مناسب سہولت بھی میسر فرمادے.ان ایام میں خواجہ شہاب الدین صاحب جسے میں پاکستانی سفرتھے.میں نے ان کی خدمت میں پنے ارادے کی اطلاع کر دیا دونوں کراچی سے کوئی پرواز راہ راست باد نہیں جاتی تھی.کراچی سے مدرسے جانے کے لئے ویران یا بروت س ہو کر جانا پڑتا تھا مجھے مشورہ دیاگیا کہ برودت سے جانے میں سہولت رہے گی.چنانچہ میں ار مادر شاہ کو جدہ پہنچ گیا.خواجہ شہاب الدین صاحب کمال شفقت سے مطالہ پر شریف ائے ہوئے تھے.مصر مون کہیں ان کے ہاں پاکستانی سفارتخانے میں قیام کریں.خواجہ صاحب نے ایک انہوں نے میرے ے مارنے کا ذکر الہ المک سود کی ندی کی انا لن ایک دم اما ایمان ہوگا، خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ مہمان توآپ کاہی ہوگا اور سب نظام بھی آپ ہی کی طر سے ہوگا لیکن آپ کی اجازت سے اگر اس کی رہائش ہمارے ہاں ہو تو ہم اس کے طبی پر سبز اور عادات سے واقف ہونے کے باعث اس کے غور و نوش کا نظام اس کی ضرورت کے مطابق کر سکیں گے.اس پر علامہ الملک نے اس شرط پر اجازت دیدی کہ باقی سب انتظام سفر و غیرہ کا اور مکہ معظمہ میں قیام کا سعودی محکم ضیافت کی طرف سے ہو گا.خواجہ صاحب کے ناں مجھے سر سہولت میری ان کی مہمان نوازی مشہور ہے اورمیں کراچی میںبھی اسے متمتع ہوتا رہا تھا.اس میں بی بی کیفیت تھی.ان کی بیگم صاحب محترم کی طرف سے بھی میں نہایت تواضع کا مورد رہا.نجز اہم اللہ خیراً مکه که معظم میانه شدا پر حاضری کی سعادت کی روانہ ہوا سفارتخانہ کے پرنٹ | ۱۸ م عوام میرے ہمراہ تھے.اس سفر میں دل میں جذبات کا جو ہیجان تھا اس کا بیان الفاظ میں مشکل ہے.البتہ ظاہری مناسک کا خلاصہ بیان ہو سکتا ہے.ہر دل اپنی کیفیات اور اپنے طرف کے مطابق باقی کا قیاس کر سکتا ہے.جدہ سے نکلتے ہی تلبیہ کا ورد شروع ہوتا ہے.حرم کی حدود سے تھوڑے فاصلے پرپہلے حدیبیہ کا مقام آتا ہے.جہاں رسول اللہصلی الہ علیہ وسلم نے قیام فرما تھا.اور جمال قریش کے نمائندے سہیل کے ساتھ آخری شرائط صلح طے پا ک معاہدہ کھاگیا تھا.میاں اب ایک چھوٹی سی مسجد ہے جس میں میں نے دو نفل ادا کئے.حدود حرم کے نشان کے طور پر سٹرک کے دونوں طرف ستون ایستادہ میں یہاں سے شروع ہوکہ
ура مختلف مقامات پر دعا و منتحب ہے.مکہ معظمہ کی آبادی کے قریب مقام مدعی ہے.مکہ معظمہ جاتے ہوئے کعبہ شریف کی چھت پہلے پہل اس مقام سے نظر آیا کرتی تھی.اب درمیان میں مکانات بن جانے کی وجہ سے یہاں سے نظر نہیں آتی شہر مکہ معظمہ کے نظر آنے پر بھی دعاء مستحب ہےاور پھر شہر میں داخل ہوتے وقت بھی.میرا قیام فندق مصرمیں ہوا.سامان رکھتے ہی مسجد حمام حاضر ہوئے نان کعبہ کی دیر سے آنکھیں روشن ہوئیں طرف کی سعادت حاصل ہوئی.طواف کی تکمیل پر نا ملتزم پر کھڑے کر در کعبہ کی ریلیز پر ہاتھ رکھے کمال محبت اور گرانے کی حل می دعاء کی توفیق عام ہوئی احمد التاسی حالت میں سوس ہوا کہ یہ شریف کا دروازہ مل گیا ہے کہ شرف کے اندر داخل نصیب ہوا ہے اس مقام پر کھڑے ہوکر جس کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں نفل ادا کئے تھے دو نفل ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.اور اس کے بعد باقی تینوں جان باری باری رخ کر کے فضل اداکئے اور مولانا روم کے مصرعہ دور درون کعبہ یکم باد نیت کی حقیقت عملاً تجربے میں آئی.سعودی خاندان نے جہاں میرے سے مکہ معظمہ، حجرے سے مدینہ منورہ ، مکہ منہ سے منی ، مزدلفہ ، عرفات کی انتہ ا سڑکی صرف زید کثیر سے تعمیر کروا کر حجاج کےلئے انگنت مشکلات اور صعوبتوں کا خاتمہ کر دیا ہے اور حج بیت اللہ اور سرین کی زیارت بے حد آسان کر دی ہے اور منی اور عرفات کے مقامات پر بافراط تازہ میٹھے پانی کے ذخیرے مہیا کر دیئے ہیں وہاں صفا مرزا کے درمیان مقام سعی کومستف کر کے اور حرم کے صحن کو وسعت دیکر اور اس فرش کو ہموار کرکے حجاج بیت اللہ کے لئے بہت سی سہولتوں کا سامن کر دیا ہے.جزاهم اللاحسن الجزاء في الدنيا والآخرة.میرے عمر کیلئے حاضر ہونے سے تھوڑاع متقبل کعبہ شریف کی پرانی چھت کے چارفٹ یا ساڑھے چارفٹ نیچے کی چھت ڈالی گئی تھی.پرانی چھت کے متعلق نداشت پیدا ہوگیا تھاکہ کمزور توری ہے.جب میں کعبہ شریف کے اندر نوافل سے فارغ ہو تو مجھے تایا گیا کہ جن انجنیر صاحب کی زیر نگرانی کعبہ شرف کے صحن کی توسیع اور جیت کی تعمر کا کام ہورہا ہے وہ اس وقت کعبہ شریف کی دونوں چھپتوں کے درمیان تشریف فرما ہیں اور مجھے شرف ملاقات سے مشرف کرنے پر رضامند ہیں.چنانچہ میں کعبہ شریف کی اندرونی سیڑھی کے رستے ان کی خدمت میں حاضر ہوا.اور چند منٹ میں استقفين العہ بھرنے کا شرف حاصل کیا.کو شریف سے نکل کر مقام ابراہیم پر فل واکئے.زمزم کا پانی خوب سیر ہو کہ یا صفا اور مروا کے درمیان سعی کے دوران میں حضرت ابراہیم ، حضرت ہاجرہ ، حضرت اسمعیل علیہم السلامکی کامل فرمانبردار اور انتہائی قربانیوں کی یاد تازہ کیا اور ل میں خشیت اور گانے کی کیفیات کومحسوس کیا.سعی کی تکمیل کے علیم کے ادرار رحیم اور رکن یمانی کے درمیان نفل اداکئے اور قیام گاہ پر واپس آیا.ظہرین کے بعد منی، مزدلفہ اور عرفات حاضر ہوئے جبل رحمت پر دعاء کی اور سید ولد آدم افضل السل خاتم النبيين محبوب خدا محمد صلى اله علیہ والہ وسلم پرالی فرمان کے مطابق بہت بہت درود اور سلام بھیجے کی سعادت حاصل کی.عرفات کی مسجد میں نفل ادا کئے اور مکہ معظمہ کو واپس ہوئے.بعد مغرب طواف اور نوافل کی سعادت
۶۲۹ حاصل کی ہار کی رات مکہ معظمہ میں قیام رہا.9ار کی صبح کو تیری بار حرم کعبر من طواف اور نوافل کی ادائیگی کا موتو نصیب یل نوری ہے، اگر ہوسکے تومان تور کوبھی خواہ دوری سے تو دیکھا چاہیے.سپر نٹنٹ صاحب کوغار ثور کا مقام معلوم نہیں تھا ور کار کے شور کور کے لفظ سے کچھ پتہ نہیں لیا تھا.ان سب میں نےاپنی ناقص عربی میں تایا وہ فارسی میں ہجرت کے موقع پر رسول اله صلی الہ علیہ سلم اور حضرت ظاہر کیا کہ وہ مطلب مجھ گیا ہے.وہ ہمیں پہاڑ کے دامن تک ے گیا غار میں داخلے کا مقام وہاں سے نظر آتا تھا لیکن وہ سٹرک سے کے نکلے غارمیں بہت بلندی پہ تا سورج کی تماز تیز مری کی تھی اسے ہم نے یے سے دیکھ لینا کی نیت سمجھ اور ہیرے کی جانب روانہ ہوگئے جلالة الملک سلطان سعود سے شرف ملاقات | دوسے دن معلوم ہوا کہ علالت المل نے مجھے ریاض طلب فرمایا ہے چنانچہ میں اور مارچ کو ریاض حاضر ہوا.حلالہ الملک سلطان عبد العزیز ابن سعود کے حالات میں پڑھا تھا کہ جب کویت سے نکل کر انہوں نے ریاض کو تیر کی اس وقت ریاض ایک کی دیوار سے گھر ہوا قصبہ تھاجس پر اپنے چند جانباز مراہوں کے ساتھ رات کے وقت دیوار پھاند کر سلطان عبد العزیز نے قبضہ کیا تھا.لیکن دو ریاض اور تھا اور ان کے فرزند لانہ الملک سعود کا دارالحکومت ریاض اور تھا.جو ریاض میں نے دیکھادہ ریگستان کے درمیان امریکہ کی ریاست ٹیکساس کے شہروں یان ایک شہر کو دیوار گھرے ہوئے تھے کے ان کی قسم کا ہی نہیں تھی بھی صورت بعدی کویت میں رکھی ۱۹۳ ء میں جب میں نے کویت کی ایک رات عبد کی توکوی بھی ایک کمی کی دیوار سے گھرا ہوا قصبہ تھا.۲ ۲ سال بعد جب مجھے پھر کوت میں بھرنے کا موقعہ ہوا تو کوی گود میں سے اعلان کر یہ آمد و چکاتھا.اگر یہ ریاضی کی اس (امریکی ) کے شہروں کا مقابلہ کرتا ہے لیکن ٹیکس کے شہروں کی کوئی عمارت بھی ریاض کے محلات شاہ کی ہمسری کا دعوی نہیں کر سکتی.علاقہ الملک بہت تواضع سے پیش آئ اور بڑی ذرہ نوازی کا لوک روا رکھا جار الله امیر علی ان ایام میں ناساز ی طبع کے باعث باہر ریگستان میں تھے اسلئے ان کی خدمت میں حاضری کا موقع نہ مل سکا.عبد الوہاب عزام صاحب دریاض میں عبدالوہاب عزام صاحب سے مکر بہت خوشی ہوئی.وہ پاکستان میں سے ریاض میں ملاقات سفر مصر کے عہدہ پر ناز رہ چکے تھے.بہت علم دوست تھے.انہوں نے علامہ ڈاکٹر رہے سرمد اقبال کے فارسی کلام میں سے منتخبات کاعربی میں ترجمہ کیا ہے.جب میں ریاض حاضر ہوا وہ وہاں کے دارالعلوم کے ریکٹر ( PECTOR) تھے اور مختلف شعبوں کوترتیب اور نظم میں نہ تھے.افسوس کہ مرے روانہ کیاور تھوڑا عرصہ بعد داعی اجل کو لبیک کہا.اللہ تعالی مغفرت کرے.۲۲ مارپت کو میں ریاض سے عدسے واپس آیا اور بعد مغرب طواف اور نوافل کے لئے پھر تیم حاضر ہوا.۱۲۳ کی س پر کومدینہ منورہ حاضر ہونے کا ارادہ تھا لیکن اردن یوم پاکستان کی تقریبمیں خواجہ مان نے وسیع پیمانے پر شام کے
کھانے کی دعوت کا انعام فرمایا تھا اور میں شمولیت پر انہیں اصرار تھا.انکار کی گنجائش نہ تھی.اسلئے مدینہ شریف کاسفر المغرب شروع ہو کر نصف شب سے ڈیڑھ ساعت بعد تم ہوا.فالحمالدہ سڑک پختہ نے سے پہلے انٹ کی سواری سے یہ فرماں دن سے لیکر 14 دن میں کٹتا تھا.ه دورهمی در جیب خدا رااااااااااا وانا ان کے نجاتی نفل ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی مسجد نبوی سے جنت البقیع حاضر ہوئے.حضرت عثمان کا علمی ، رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی رضاعی والدہ) عثمان بن مطعون ، ابراہیم (فرزند رسو الله صل اللہ علیہ وآلہ وسلم) عبدالرحمن بن عوف اہل بیت الالالا لال مروان التعلیم کے مارا پر راتینین مزاروں پر دوعا پر دعاء کا موقعہ نصیب ہوا.میدان احمد سے والہ سے واپسی جوم ہوتاہے ان کا اظہار ملتانی مرحوم نے اس رسے کرنے کی کوشش کی ہے جوانہوں نے مدینہ منورہ میں قیام کے دوران مں کہا :- ہر راہ کو دیکھا ہے محبت کی نظر سے نہ شائد کہ وہ گذرے ہوں اسی راہ گذر سے ور سے تویہ ہے کہ دین منور میں نام وقت ہی درخصوص روضہ اطہر کے قر میں دل کی جو کیفیت ہوتی ہے اس کا اظہار الفاظ میں مکن نہیں.کی صبح کونماز فجرکے بعدہم جدہ واپسی کےسفر پر روانہ ہوگئے.رستے میں بدر کے مقام کے قریب ترک کہ سنگ کا مقام دیکھا.یہ جنگ جین میں قریش کی طرف سے ایک ہزار تجربہ کار جنگ آزموده با ر ہتھیاروں سے پوری طرح ملی نبردآزما تھے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ سلم کے ساتھی صرف ۳۱۳ افراد جن کے سموں پر پورا لباس نہ تھا، ہاتھوں میں پورے اسلحہ نہ تھے اور جن میںسے کچھ توفن حرب سے واقف تھے اور کچھ بالکل نا تجربہ کار لڑکے تھے.اپنے تاریخ کے لحاظ سے دنیا کی تاریخ میں سب سے قاطع اور فیصل کی جنگ تھی.ظاہر بین آلو طرفین میں کسی سم کی نسبت نہیں پاتی تھی لیکن حقیقت میں گرمی یہ معاملہ ایک طرف ادی طاقت رکھنا اور دوسری طرف الدلالی پر یقین کامل می ری را در این کے درمیان فیصلہ کن جنگ تھی.اگر اس دن بفرض محال کفر غالب آتا تو جیسے رسول اکرم صلی الہ علیہ نظم نے جنگ شروع ہونے سے پہلے حضرت احدت میں مناجات کرتے ہوئے عرض کیا تا اللہ جل شانہ کی عادت روئے زمین سے تا ابدم و تو برسوں پہلے پنے رسول اورمحبوب سے فرما کا ناوروعدہ کر چکاتھا سین الجمع ولولا الدین یا ان سے اللعالی نے جو علم و دیے رمایا تھا ویسے تو اللہ تعالی کے قول کو سرفرازی ہوئی.چندگھنٹوں کے اندر قریش کا غرور و تکرار کے میدان میں خاک نون میں ملیامیٹ ہو کر رہ گیا.دو پر کے کانے تک ہم لفضل الشد بیت جدہ واپس پہنچ گئے وار کی صبح کومیں آخری بار شمر وا
کرنے کے لئے بیت اللہ کے صحن میں حاضر ہوا.مکہ معظمہ سے واپسی پر برے سے بیروت کے ہوائی سفر پر روانہ ہوا.سفر کے دوران میں دل میں پیہم جذبات کا ایک عالم بر پارا اور آنکھوں سے آبشار جاری رہی اور تدبیری حسرت قلب کا اظہار ان پر سو الفاظ میں ہوتا رہا سے پریدم سوئے کوئے اور مدام 4 - من اگر سے داشتم بال دیر سے یک امریکی ادارے کی خورانی ISLAM-ITS MEANING FOR MODERN MAN کی تصنیف REL PERSPECTIVES کی ایڈیٹر انچیف میں کے اصرار سپر اس نام کے سلسلہ تصنیفات میں اسلام پر ایک مختص کتاب تیار کیا منظور کر لیا اس کتاب کا مسودہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی دی ہوئی توفیق سے عدالت کی اس سال کی گرمیوں کی تعطیل میں مکمل ہو گیا ارسال کے اختام سے قبل نظرثانی اور اصلاح کے بعد میں نے اسے ڈاکٹر انیشن کی خدمت میں ارسال کر دیا.انہیں کتاب اطمينان کا مسودہ اسقدر بدلنے کی توقع نہیں تھی.انہوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور تھوڑے عرصہ بعد مسودے کے متعلق بہن نے ندگی کا کیا انہوں نے لکھاکہ ایرانی و ناشران کے اسلامیات کے ماہر مرنے مصور کوبہت پسند کی ہے ڈاکٹر نمیشن نے طباعت کے پروگرام میں میں میری اس کتاب کی باری بھی تھی اس کے انتظار میں قریب ایک سال گزر گیا اپنی باری پر ر کے آخرمیں یہ کتاب چھپ کر شائع ہوئی.ناشران نے ڈاکٹر انیشن کے مشورے کے ساتھ اس کا نام ISLAM - ITS تجویز کیا.اللہتعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اس سعی کو میری توقع سے بہت بڑھ MEANING FOR Modern Man کر قبولیت بخشی فالحمد لله - جب اکتوری شام میں جو کے انتخاب کانتیجہ معلم ہوگیا میں نے پنے آئندہ پروگرام پر غور شروع کیامی نمبر اء سے ذیا بطیس کے عارضے میں مبتلا چلا آرہاہوں اسماء کے اپریل سے انسولین کا یہ لازم ہو گیا ہواہے.گرمی زیابطیس کے عارضے کے لئے مضر اثر رکھتی ہے.سردی اسکے لئے فائدہ مندہے مجھے اللہ تعالی کے فضل سے ہ سے عشاء تک وطن میں ی گرمیوں کا اس میدان میں گزارنے کا الفت نہیں ہوا تھا.پکستان کی وزارت خارجہ کے سا سالوں میں متواتر سردیوں کے وسم کا زیادہ حصہ برون مک امریکہ اور میں گزارنے کا اتفاق ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا را گرامی می گریون می درجہ حرارت چناب کے برابر تونہیں ہوتا لیکن پر بھی الطیف فرد محسوس ہوتی ہے اور مجھے ہی اسے پہلے پندرہ سال تک میدانی موت کیا کا سامانہ ہواتھی سے اب تک گرمیوں کا موسم کراچی میں گذرنے کا میر بیماری پر ان اشہ ہوا کہ میرے ان تین کے ٹیکے کی مقدار ہو یونٹ سے بڑھتے بڑھتے ایونٹ تک پہنچ گئی.ہیگ میں کچھ عرصہ ٹھہرنے کے بعدیہ مقدار کم ہونا شروع ہوئی.کچھ توگری سے بچا رہتا تھا ور کچھ زندگی کا اسلوب بہت سادہ اور باقاعدہ ہوگیا تھا.یہ بھی ذیابطیس کے مرضی کے سے بہت نانے کا موجب ہوتاہے ملک کی مقدر کم ہوتے ہوتے شاہ کے آخر تک چھوٹ پر آگئی تھی.دس لوٹ سے کم کا کیک توعام طور پر تیزی نہیں کیا جاتا.اسقدر انولی کی اگر ضرورت نہ ہے تو پھر توقع کی جاتی ہے کہ مریض کھانے پینے کی
۳۲ کے ٹیکے کے بغیر شکر کا اعتدالی خون میں قائم رکھ سکے گا.لیکن مجھے ڈاکٹر ہو سلن نے مشورہ دیا ہوا تھاکہ تم پھولوں پڑھی کیا ہے بوری مقدار جاری رکھو اور بات عده ٹیسٹ کرتے رہومکن ہے کسی وقت زیادہ مقدار کی ضرورت محسوس ہو.ان حالات میں میری سے پہلی ضرورت تویہ تھی کہ رہائش کے متعلق ایسا نظام تو نہ کی جائےجس میں مجھے گرمی کی شدت کاسامنانہ ہو مغربی پاکسان میں لا ہوا مقام ہے جہاں موسم کے $140 ا اے بی اور مینی پیوں کے ملا اسے بھی سردیوں کا مہم اور ماحول بہت خوشگوار ہوتے ہیں لیکن کمی کی شدت ہوتی ہے.یری بیع کے جان کے پیش نظر وہ میرے لئے لاہور سے بھی بڑھ کر کسی کام کا ہے کہ انہیں میں نے وہاں ایک باشی مکان بی تعمیر کرایا تھا.لیکن روہ میں گرمی کی شدت لاہور سے بھی زیادہ ہوتی ہے مغربی پاکستان میں مستقل رہائش اختیار کے لیے ان میت کے لفظ ہمارے امام تار گرمیوں کا موم گذارنے کے کسی پیاری نظام پاکستان کا نظام کیا جائے.انسب الات کے پیش نظری طبعت اس طرف مائل ہوا کہ گرمیوں کے موم کیئے انگلستان میں رہائش کا انعام کیا جائے.عدالت سے ادا کا نادر میری ساد اور دریا کیئے کی تھی اسی کا نیٹ فروخت کرکے یمن میں کی دونوں بلی کی خرید کانظام ہو گیا.اور شکار کے آرمی میں نے انار ان بی کس کی منتقل کرکی کیمرے میںسالان وغیرہ درست کر چکنے کے بعدمیں مثل سابق دسمبر میںپاکستان آگیا.وزیر خارجہ پاکستان کی طرف سے سومالیہ میں کراچی پہنچنے پر مر جائنٹ سیکرٹری وزارت خاریجی مری شد اقوام متحدہ کے نمائندے کے عہدہ کی پیش کش تان را پر ریلیا اور اباد وزیر خاری ری استار ے قیام فرمایا شیخ منظور اری کا اولین کی تشریف لےگئے ہیں اور ان سے پہلے مے بنائے ہیں میں ایک ایک توی یک آپ سے ذکر کر کے اس کے متعلق پ کی رضامندی حاصل کرد.دریافت کیا تو اب اس مالیدیم اقوام متحدہ کے ان کا اقراقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے زیرغور ہے.سوالیہ کی حکومت رہے کہ اس عہدے کیلئے کسی مودی پاکستانی کا انتخاب کیا جائے سیکریٹری جنرل کواس سے اتفاق ہے.ان کی طرف سے نا طلب کئے جانے پر وزیر خارجہ نے اک نا ان کی خدمت میں پیش کیا تھا لیکن سکریڑی منزل نے لکھاہے کہ زیادہ منیر شخص مطلوب ہے.عملا اقوام متحدہ کے نمائندے کی حیثیت اور اس کے اختیارات وزیر اعظم کے ہوں گے.مشاہرہ ، مکان و دیگر سہولتیں اعلی معیار پر ہوں گی.وزیر خاری نے سیکریٹری جنرل کو کھا ہے کہ عنقریب ہم سے شخص کا نام تو نہ کریں گے جسے آپ پرلحاظ سے موزوں سمجھیں گے.ان کے مدنظر آپ ہیں.انہی آپ کا انتظار تھا آپ جائیں تو آپ کی رضامندی کیک آپ کا نام سیکرٹری جنر کی خدمت میں بھیج دیا جائے مجھے رہ گئے تھے کہیں سے ذکر کے آپ کی رضامندی ہے ہوں.اب اگر آپ اجازت دی توی وزیر خارجہ صحت کی خدمت میں ٹیلیفون پر گزارش کردن که آپ رضامندہیں.میں نے کہا لیکن میں تو رضامند نہیں.اس پر مسرور کچھ پریشان ہوئے اور فریای وزیر خارجہ تو باکل مطمئن تھے کہ آپ ضرور ضامن ہوں گے اور مجھے ہدایت دی تھی کہ آپ کی رضامندی کی اطلاع ان کی خدمت میں کرنے کے
۶۳۳ ی سیکی منزل کو بھی آپکے نام اور رضامندی کی اطلاع کردی جائے.ان کو تو آپ سے انکار کی توقع نہیں میں ن کی خدمت میں کی گذارش کروں میں نے کہا دی تومیںنے کہا انہوں نے ای او ورور پوچھیں گے آپ نے انکارکی کوئی وسیر بھی بیان کی بانہیں میں نے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ اس عہدے کے اختیارات وزیر اعظم کے ہوں گے سوالیہ ایک نو آزاد مک ہے حکمت امام یا ان کی مالیت کی ترتیب اقتصادیانی کی کھانے سے سانایا ہوا ہوگا یہ کام ایسے شخص کاہے جو نتظامی اموری اعلی درجے کی بات رکھتا ہے علاوہ ازیں مں چھ سات سال سے حکومت اور اس کے صفحہ جات سے بالکل الگ تھلک رہا ہوں، میری عمر قریبا 4 سال کی ہے سوالیہ نہایت گرم علاق ہے میری طبیعت سخت گرمی کی برداشت نہیں رکھی اور زنا میں کے عارضے کے سب گرمی میری صحت کے لئے نہایت مضرہے اسلئے میں اپنے آپکو اس ذمہ داری کے اٹھانے کا ہی نہیں سمجھتا.ا با رایا اور ایک کو تو معلوم کرکے مردہ ہو گا یا انہیں میں نے کہ میں وزیر خارجہ صاحب کانات منون ہوں کہ اس فعل میں انہوں نے مجھے اور کالیکن میں نے ان نا اہلیت اونا قابلیت کی وجوہ آپ کی خدمت میں گذارش کر دی ہیں.انہوں نے پوچھا آپ کی رائے کے تبدیل ہونے کا کوئی امکان نہیں ؟ میں نے کہا نہیں.رای م م معلم تو که حد اکرام ال صاحب بار من تب بیمار ہیںاور سپتال میں میں میرے ان کے ساتھ کلپس سال سے زائد عرصہ کے دوستانہ مراسم تھے عیادت کیلئے حاضر خدمت ہوا.پندرہ میں منٹ کے بعد خصت طلب کرنے پر فرمایا.ڈاکٹروں ے کیا ہو گا پندرہ میں منٹ سے زیادہ نہ کرنا میں نے کہا کچھ ایسی بات تھی.رایاڈاکٹر تو تو ہی وہ کیا جانیں تمہارے ے دوستوں کی لاقت استند اطمینان و سکون کی بات ہوتی ہے مرے نے ایک ایک کارگر نہ ہے اب آرام سے بیٹھ جاواور اٹھے کانام نہ لینا.دوران گفتگومیں کہا بین الاقوامی عدالت کیلئے تمہارے دربارہ انتخاب کے معامے میں تمہارے لوگوں سے بڑی وتاہی ہوئی دینی کوئی وجہ نہ تھی ہم کامیا نہ ہوتے میں نے کہا خان بہادر سید اطاعت حسین صاحب اور آغا شاہی صاحب تو بہت تندی سے کوشش کرتے رہے.فرایا کرتے رہے ہوں گے لیکن اقوام محمد میں مارے مال امان نے نے خود کوئی پیچی نہ لی مکہ اس کے برعکس اس کاری مخالفانہ تھا.کلام الہصاحب مرے سات اپنے دوستانہ تلقات کی وجہ سے اس کوتاہی پر تاسف تھے لیکن مجھے افسوس تھانہ کہ مجھے یقین تھا کہ.کار سازه ما به فکر کار یا فکر ما در کار ما آزادی ها حکومت اسپین کو ان کے ایک تنازعہ میں جو میں سردیوں کا موم گذرنے کے بعدمیںپاکستان سے کیمرج کیا بین الاقوامی عدالت میں تھا قانونی مشورہ گیا کیری پینے کے کچھ دن بعد مجے سپانوی وزارت کے میر قانونی ایا کہ جسے بارسلونا میں کہی کے کیس میں میں بیماری کی ہے اور بین الاقوامی عدات چلا میں دائم تھا مشورہ کرنا چاہتے ہیں ان کی خواہش پر میں میڈرڈ گیا اور انہیں ضروری مشورہ دیا.فیلڈ مارشل محمد ایوب صدر پاکستان کی طرف اقوام متحدہ ایوان میں نیا مارا و انا احب امریکہ تشریف میں پاکستان کے مستقل نمائندے کے عہدہ کی پیش کش نے جاتے ہوے ان میں قیام فرماہوئے مجھے اب
۶۳۴ رایا.حاضر ہونے پربعض دیگر مور کے تذکرے کے بعدفرمایا ہم چاہتے ہیںآپ اقوام متحدہ میں پکستان کے نمائندے کے طور پر کام کریں.میں نے عرض کیا خواجہ سعد من صاحب کو اس منصب پر نیو یارک گئے ابھی ایک سال ہی گیا ہے اور وہ عار نر قلاب سے کچھ پریشان بھی ہیں اس لحاظ سے نیویارک ان کیلئے نہایت موزو جگہ ہے کیونکہ ورای عالی سے علی طبی مشورہ اور درد دور امیر آسکتے ہیں.مجھے یہ پسند ہیں کہ انہیں وہاں سے ہٹاکر میرے لئے جگہ پیدا کی جائے.دوسے آپ کو یہ عمل نہیں ہو نا چاہئے کرمیں عدت سے علیحدہ ہوگیاہوں اسلئے میرے لئے ضرور کوئی جگہ مہیا کی جانی چاہئے.مجھے تومیشن عدالت سے ملی ہے وہ میری محدود هر دردیات کیلئے کفایت کرتی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوئی احتیاج نہیں.فرمایا نہیں نہیں ان دونوں باتوں کا کوئی تعلق نہیں، خواجہ عید حسن کی ہیں پاکستان میں ضرورت ہے اور اقوام متحدہ کیلئے آپ نہایت موزوں میں تفاصیل وزیر خارجہ سے طے کرلیں.دو آپ کے ساتھ بعض ہیں اور پر بھی بات چیت کرنا چاہتے ہیں ان کی ایک ا ا ا ا ا ا لاتا ہو تو را امام نے کلاسیکی بی برای اگ ہیمر شولڈ سے آپ کے مجوزہ فقر کا ذکرکیا تھا انہوں نے بہت ایمان کا اظہار فرمایا.وزیر خارجہ نے ریا آپ دو چاردن کیئے راولپنڈی آجائیں تاکہ انجام امور کے تعلق مشورہ کر لیاجائے پانچ میں عام ہوگیا اور شور کی واپس پہنچ کردین دن میں تیاری کر کے ۱۲ اگست کو یو بارک پہنچ گیا اوراپنے نئے منصب کا چارج لے لیا.کی...اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی جب مین اقامت میں اکتان کے معقل بنانے کی حیثیت سے انتالیا تو آغا شاہی صاحب نائب منتقل نمائندے کے منصب پر فائز تھے لیکن ان کے وزارت خارجہ میں واپس جانے کا فیصلہ ہو چکا تھا میری درخواست پر سال کے آخر تک ان کے نیو یارک میں رہنے کے احکام صادر ہوگئے.سفر تونس کا اسمبلی کے سولہویں اسمبلی کاسالانہ اجلاس ستمبرمیں شروع ہونے والا تھا.صدارت اجلاس کے لئے صدر اسمبلی منتخب ہونا کے لئے استری می سلیم سفر تونس متعینہ اقوام متحدہ کانام لیا جارہا تھا.آغا شاہی صاحب نے بتایا کہ سفر انڈونیت متعینہ واشنگٹن بھی صدارت کے امیدوار تھے لیکن مرار تھانٹ سفر برما متعینہ اقوام متحدہ نے انہیں اس شرط پر امیدواری سے پیشکش ہو جانے پر رضامد کر لیاہے کہ آئندہ سال کی صدارت کے لئے فریقی ایشیائی مالکان کی تائید کریں گے.چنانچہ اسلا شروع ہونے پر اسیدی سلیم بلامقابلہ صدرمنتخب ہوئے یہ اعلان اسمبلی کا سولہواں سالانہ اجلاس ( ۶۲ - ۱۹۶۱ء ) تھا پندرھویں سالانہ اجلاس (۶۱ - ۱۹۲۰) کے صدر سر رندایک لینڈ سفر آئر لینڈ متعینہ اقوام متحدہ تھے.ادارانی سینا کے جنوبی افریقہ کے ساتھ جنوب مغربی انوار نے بھی تو روہی ہوا تھا کہ شارٹ عرصہری افریقہ کے تقیہ میں نامزدوج متر کئے جانے کی پیش کش گر دو مجھے منے کے لئے تشریف لائےمیں کشمیر کا قضیہ پہلے پہل مجلس امن میں زیر بحث آیا تویر سنیٹر وارن آسٹن کے اب کے طور پر مجلس امن میں امریکی نمائندگی کرتے تھے.میں ▶.اور ان دونوں میرے ساتھ ان کے دوستانہ مراسم تھے ان سالوں سے دو وکالت کی پاکی کرتے تھے اور جنوب غربی اورقی
۶۳۵ کے متعلق ہر کاروائی امیر یا اور الی اینہانے میں اقوامی عدالت میں جنوبی افریقہ کے خلاف وا ت کر ر کھی تھی اس میں ریاست کنندہ ممالک کی طرف سے ایجنٹ بھی تھے اور وکیل بھی.جنوبی افریقہ نے ابتدائی ذرات داخل کئے تھے کہ عدالت کو اختیار سماعت حاصل نہیں اور درخواست کنند مالک جنوبی افریقہ کے اس نظم ونسق پر موجنوبی افاقہ کی حکومت نے جنوب مغربی افریقہ میں جاری کر رکھا ہے اعتراض کرنے کے مجاز نہیں.اس مرحلے پر درخواست کنندہ کے سامنے اپنی طرف سے ایک بیج نامزد رنے کا سوال تھا.مسٹر روس نے جو سے دریافت کیاکہ تم ان مال کی طرف سے نام کئے جانے پرامن ہو؟ میں نے کہا تی طور سے تو مجھے کوئی عذر نہیں لیکن مجھے حکومت پاکستان سے دریافت کرنا ہوگاکہ مجھے طلبہ عرصے کیلئے یہاں سے غیر حاضر ہونے کی اجازت دیں گے انہیں مسٹر روس نے کہامیں دونوں فریقین کیوں کا این تویی دوا اور ایک پسندیدگی کی اطلاع ملے پر تم کہا کہ ہم پاکستان کی اجازت حاصل کرو.اس ارزاقی کی آزادی کا مسلہ بھی ایجنڈے میں شامل تھا.میں نے پاکستانی وند سے کہ دیار بین الاقوامی عدالت میں جنوب مغربی افریقہ کے قضیے کے متعلق ان سنی اور شیر ی کی طرف سے جنوبی افریقہ کے خلاف کیس دائر ہے اس میں درخواست کنند مالک کے نامزد کردہ جی کی قیت ی میں شامل ہونے کا مکان ہے اس سے منسب ہوگا کو میری ایک آزادی کے اے رب ہمارے دن کے اجلاس میں شور ہوتی اس میں یا نہ ہوں.امسال سالی کی پوتی کیٹی کے انڈے یا کیا گیا اور اس کمی کے اجلاس میں زیر بٹ آیا.پاکستان کی طرف سے ڈاکٹر نار احمد حمدانی صاحب نے نائندگی کی او حکومت کے موقف کا مناسب طرق پر اظہار کیا.میں نے نہ اپنے وند کے اجلاس میں اس مسلے پر بحث کے دوران میں کوئی ملایا اور نر و وتی کیٹی کے کیا جس میں شرکت کی.کچھ عرصہ بعد مر گریس نے اطلاع دی کہ ائیر یا اور اب سینی دونوں حکومت نے میر نامزدگی کی جونی کو بہت پسند کیے اور کہ اب تم کویت پاکستان سے دریافت کرلو کہ وہ ہیں اس ذمہ داری کے اٹھانےاور مطلوب عرصے کیلئے جنگ حاضر ہنے کی اجازت دینے پر رضامند ہے انہیں پانچ میں یہ معامل وزیر خارجہ صاحب کی خدمیں بھیج دیا اور کیطرف سے حکم کی رضامندی کی اطلاع موصول وگئی.ایک اطلاع میں نے گردوں کو کر دی ، سرگرد سے دونوں حکومتوں نے ایران میان اقام عدالت کو بیچ دیا ہوا اور عدالت کی طرف سے ضابطے کے مطابق جنوبی افریقہ کی حکومت کی اس نزدیکی یا اب بھی دینی ہوگی جہاں کے مے علم سے جنوبی افریقہ کی طرفسے اس نامزدگی پر کوئی مزین کیا گیا.کچھ عرصہ بہ مجھے در بین القوامی عدالت جو نیا سی کی طرف سے ایک مراسلہ ول ہوا ا یک ایریا اور اب سینی کیطرف سے تماری ناردی یا طلا یا ہی پایا ہے سابق رفتار کو بہت نوشی ہوئی کہ انہیں پھر اک بار کچھ عرصہ کے لئے نہاری رفاقت حاصل ہوگی.لیکن ان میں سے بعض کی خواہش ہے کہ عدالت کے قانون کی دفعہ نمبر کے فقرہ نیرہ کے پیش نظر نہیں ڈاکٹر تاراحمدمدانی کی ان تقاریہ کی طرف توجہ دلائی جائے جو انہوں نے جنوب غربی الیہ کے ملے پر سہیل کی پوتی کمیٹی کے اجلاسوں میں کی اور جن کا توانی ہے دار ہے اور م سے دریافت کیا جائے کہ واقعات ور قانون کی روسے تمہارا دفعہ نمبر کے فقر نمبر کے اطلاق کےمتعلق کیا تا ر ہے.میں نے جواب میں واقعات کی تو دی تشریح کیا
444 لکھ دی جس کا خلاصہ او پر درج ہے اور قانون کے متعلق لکھاکہ دفعہ ، اکے فقرو نبرم کی عبارت ہے ہے.کھے کی NO MEMBER OF THE COURT MAY PARTICIPATE IN THE DECISION OF ANY CASE IN WHICH HE HAS PREVIOUSLY TAKEN PART AS AGENT, COUNSEL OR ADVOCATE FOR ONE OF THE PARTIES, OR AS A MEMBER OF A NATIONAL OR INTERNATIONAL COURT, OR OF A COMMISION of Enquiry, OR IN ANY OTHER CAPACITY ފ ین جی جی نے عدالت میں دائر ہونے والے کی میں کسی مرحلے پر شرکت کی پورہ اس کیس میں حصہ نہیں لے سکتا میری دانست میں اس سے مراد یہ ہے کہ شرکت ذراتی بلاواسطہ تحر یہ مراد نہیں کہ اگر وند کے کسی رکن نے شرکت کی ہو تو ند کے تمام اراکین پر نفرت کا اطلاق ہوگا.دوست اسکیس میں شرکت کی ہو تو عدالت کے روبرو پیش ہے یہ مراد نہیں کہ جوم ائل عدالت میں مقدار کیس سے تعلق رکھتے ہیں انہی سے کسی مسلے کی بحث میں خواہ وہ بحث کسی ادارے میں جوان مجھ حصہ لیا ہو.میں نے چونکہ ان مسائل کی بحث میں کسی بھی حصہ ہیں یا اسے جو اس فرقے کا اطلاق نہیں ہوسکتا کر اس تھے کی یہ تشریح کی جائے کہ ڈاکٹر حمدانی صاحب کی تقریروں کے نتیجے میں میںاس فقرے کی زدمیں آتا ہوں تو اس صورت میں عدالت کے نصف درجن اراکین بھی اس زدمیں آتے ہیں.چنانچہ ان چھ اراکین عدالت کے متعلق میں نے وضاحت کی کہانی شرکت ان مسائل کی بحث میں میری بالواسطہ شرکت کے برابر ی اس سے زیادہ ہے کم نہیں ہے.اس کا جواب صاحب صدر کی طرف سے یہ وصول ہوا کریں نے تمہارا جواب عدالت میں پیش کر دیا تھا اس کی برائے امام ہوا ہے کہ یہ امر ہاری مرضی پر چھوڑ دیا جائے.اگر تم اجلاس میں شامل ہونا چاہو تو مل ہوسکتے ہو.میں نے فورا جواب میں لکھاکہ عدالت کو اس امر کا فیصد خود را چاہئے تھا.مجھ پر چھوڑ دیے سے برے لئے یہ وقت پیدا کر دی گئی ے کریں یا تو مل ہونے سے انکار کر دوں یا ر موقف اختیا کروں که اگر چہ بعض جھوں کی رائے میں میراشامل ہوتا دفعہ فقرہ نمبر کیخلاف ورزی ہے ملک میں فیصلہ کرتا ہوں کہ یہ فقرہ میری سمیت ے رستے میں عارضی نہیں اورمیں اجلاس میں شامل ہوں گا.ان حالت میںمیں آپ کو ل کرتا ہوں کہ می شمولیت کیئے فاریا ابھی ہو سکتا.یلی کا سولہواں اجلاس اس سے قبل کے پانے والوں کا ر کر کے میرے تے میں ختم نہ ہوسکا اور کسی کی تعطیل کے بعد جنوری میں جاری رہا.اجلاس ختم ہونے کے بعد بعد آمدہ اجلاس کی صدارت کے متعلق پور میگوئیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا افاقی ایشیائی مال میں یہ رومی رہی تھی کی ال ایل کے کھونے کے مطابق علی اسرای جوی و امیدار ہونگے لیکن شہد کے شروع میں انڈونیشیا کی حکومت کی طرف س اطلاع موصول ہوئی کالی اور ایم بیوی کو سالانہ اجلاس کیلئے تاریخ نہیں کیا جاسکے گا.اس پرمیں نے پہلے رب نمائندگان کو جمع کی اور شور دیا کہ اراکین امام محمد کی کل تعداد میں اب
۶۳۷ نصف کے قریب افریقن اور ایشیائی ملیں اور جلد یہ تعداد نصف تک پہنچ کر نصف سے بھی تجاوز کر جائے گی.اس لئے بالکل مناب اور جائزہ ہے کہ ہم اسمبلی کی صدارت میں نصف کے حقدارہ شمار کئے جائیں.لیکن ہمیں چاہئے کہ ہم موجودہ افریقین صدر کا سال ختم ہوتے ہی سال مالبعد کی صدارت حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں.جبکہ باقی ملک کےنمائندگان کے ساتھ یہ سمجھو نہ کریں کہ رودسر ال صدارت کیا ایشان یا افریقی مدرس کی کمائی کریں متخب ہوا کریگا.درمیان سال میں سے بانی مالک بند کریں منتخب ہو جایا کرے.میرے رب رفقاءنے اس جون کو پسندکیا اور مزید شورے کے بعد پایا کہ آئندہ سال کی صدارت کےلئے ہم نبینی مرین ملک کو پیش کش کریں کہ ہم اس بیان کے ماندے یادیو کی تیار کرتی ہیں اور یہ لاطینی امرکی ہم سے وعدہ کریں کہ وہ ہر دوسرے سال میں امیدوار کوہم ان میں سے صدا کے لئے پیش کریں اس کی نانی کیاکریں گے سفر ما یونایت شریف الطبع انسان تھے سولہویں اجلاس میں اول کمیٹی کی صدارت نہایت کامیابی سے کر چکے تھےاور ہر مت سے خراج تین اصل کرچکے تھے.این امکان ملک کے نماندوں نے بور ہوگئے.ابھی اس موت پر و اپنے منصب پر ریستوران ہیں لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور تعلی کو وطن واپس چلےگئے.لاطینی امری نانوں کے ساتھ بھی کسی او امیدوار کے متعلق ہماری کوئی فیصلہ کن بات نہیں ہو پائی تھی کہ پر دیسی لا سیرا سفر سیلون متعین اقوم متحد ر کینیڈا نے آئندہ اجلاس کی صدات کیلئے اپنے امیدار ہونے اعلان کر دیا پریراسیکا کی اقوام مندر میں عیناتی چند ماہ قبل ی عمل میں آئی تھی.اس سے پہلے وہ ماسکومی سیلون کے سر رہ چکے تھے اور بدیں وہ مشرقی یورین مالک کے ساتھ ان کے دوستانہ مراسم تھے.غالباً انہیں ان ممال کی طرف سے تائید کا وعدہ بھی مل چکا تھا سیلون کے تعلقات ایشاء کے بدھ ملک کے ساتھ طبعا نہایت گہرے تھے.پروفیسر صاحب کو بدھ ملک کی تائی یہ بھی بھروسہ ہوگا.انہوں نے شروع ہی میں اس امر کا اظہا کر دیا تھا کہ ۲۵ ، ۳۰ مالک کی طرف سے انہیں تائید کے وعدے موصول ہو چکے ہیں.ان کے بعض انفرادی موشی دین کا کہناتھا کہا اگر کوئی اور امیدوار میدان میں آئے بھی اور بقیہ ریاستوں میں سے نصف کی تائید حاصل بھی کرے توبھی پروفیسر صاحب کے میں ہی ہو ا ا ا ا ا ا ا ا ا م رہے گی اوران کا اتنی ہونا یقینی ہے.قضیہ کشمیر پر مجلس امن میں پیش کیا گیا ان میں مجھے حکو پاکستان کی طرف سے بات ہوئی کہ قضیہ کشمیر کو مجلس ان میں زیر بحث لانے کی غرض سے مناسب اقدام کرد اسلام میں سے اول اور سب سے اہم مرحلہ تنقل از امین جلیس ہے اور سب اراکین مجلس ک آمادہ کرنے کا تھاکہ وہ مجلس کا اجلاس طلب کرنے پر رضامند ہو جائیں.پانچ مستقل اراکین مجلس میں سے اس زمانے میں روس کا ی طرف سے تو امید کی توقع نہیں ہوسکی تھی.کیونکہ ان دنوں شیر کے مسلے پردہ سرکرشنا مین کے اشارے پر چلتے تھے ان کے اس ائے کالای ایرانی برای بار ہوتا تھا وہ مجھے تھےکہ جمانے کے بعداگر کوئی اور بعض اراکین کی طرف سے پیش بھی کی جا تو روس اس کی مخالفت کرے گا اور ایک منتقل کی کی مخالفت کی وجہ سے تجویز ساقط ہو جائے گی اسلئے بحث مباہنے سے کیا حاصل
MPA سلئے اسلام چینی نمائیندے پر زور دینے کی ضرورت سے نہیں تھی کہ امریکہ کے اشارے پر چلتے تھے ان کا پاو امریکی انٹی کے پاؤں میں تھا ان کو آمادہ کرنےکا تھا.امریک کے مدرب اول گوری رائیڈ ائی سیون تھے.برطانہ ے سر پڑک ڈین اور فرانس کے سفر او ترسید و لیکن امریکی نمائندگان میں سے کشمیر کا مسئلہ فی لیٹین سے متعلق تھا.میرے ان سبب اصحاب کیساتھ دوستانہ مراسم تھے.سفر پیپٹن سے جب میں نےپلی بار یہ ذکر کیا انہوں نے فرمایام اپنی وزارت خارجہ سے ہدایت طلب کریں گے مجھ کو اس مسئلے پر اس سے زیادہ کی ی ی ی ی ی ی ی یکی اور بالوں کی تعداد ان کا بے رخی کا لہجہ تھا جس سے خدشہ ہوا کہ وہ پانی سے مانے کے نہیں سر پٹک ڈین نے پوری دلچسپی کا اظہار کا موجودہ صورت حالات کے تعلی دریافت فرمایا اور کہا ہم لندن سے دریافت کریں گے لیکن ہماری رائے میں کوئی دقت پیدا نہیں ہونی چاہیئے.سر سید نے تو یہ بھی بھی ایک اور مدردی کا اظہار بھی کیا اور تائید کایقین دلایا.اس حملے پر بھی یہی سوال تھا مسئلہ شمیر کو زیربحث لانے کیلئے مجلس امن کا اجلاس طلب کیا جائے کسی خاص تجویز پر بھی تبادل خیالات کا موقف نہیں قدیمی یرمستقل اراکین ملک کے نمائندگان کی خدمت میں بھی حاضر ہوا.ان سب کی طرف سے اجلاس طلب کے جانے پر آمادگی کا ظاہ ہوا.چند دن بعد سفر ملین صاحب سے پھر ملاقات ہوئی انہوں نے دریافت کیا روس کا ہدیہ کیا ہوگا.میں نے کم ادرس کا دویہ کوئی ان کی بات نہیں وہ تو سرے سے اجلاس طلب کئے جانے کے ہی خلاف ہوں گے.لیکن یہ مسئلہ ضابطے کاہے اگریات اراکین مجلس را سوقت اراکین مجلس کی تعداد گیارہ تھی ابھی اس تعدادمیں اضافہ نہیں ہوا تھا ، اجلاس طلب کرنے کے حق میں وی توکسی متقل رکن کی مخالفت اجلاس طلب کئے جانے کے رستے میں روک نہیں ہوسکتی.فرمایا یہ ٹھیک ہے لیکن روس اگرپر ایک تجوید کی مخالفت پر مصر رہا تو اجلاس طلب کرنے کا کیا فائدہ میں نے کہا اگر با او اراکین کسی بونی کی تام کریں اور وہ تجویز صرف روس مخالفت کے سب فقط ہو جائے تو ایک تو باقی دنیا پر اس فیتے کی موجودہ صورت اور سہندوستان کی بے باند آشکار ہو جائے گی اور دوسرے بونی کے الفاظ ایسے ہوسکتے ہیں کہ باوجود اس کی مخالفت کے کسی اقدام کی کن اکشن کال کے اس گفتگو کے دو تین روز بعداقوام متحدہ میں سفر لیمپین سے ملاقات ہونے پرمیں نے دریافت کیا کہ وزارت خارجہ سے کوئی الیت حاصل ہوئی ہے کہ نہیں.انہوں نے کہا وزارت خارجہ کی رائے ہے اور تمہیں اس سے اتفاق ہے کہ مجلس امن کا اجلاس طلب کرنے سے کوئی نتیجہ خر صورت پیدا نہیں ہوگی.بہترہو کہ دونوں حکومتیں براہ راست آپس میں گفتگو کی صورت پیدا کریں.میں نے کہا راہ راست گفتگو کے متعلق ہندوستان کا موقف واضح ہو چکا ہے کہ جنگ کی حدبندی کی لاشن کو مناسب اصلاح کے ساتھ مستقل داشتیم ر لیا جائے.پاکستان کی صورت تسلیم کرنے کو تیار نہیں سینے سے ایک کی کایا اور روک سکتے ہو؟ میں سمجھ گیا الوقع کہ دانتوں میں تیل نہیں میں نے اسی دن دفتر پہنچے پر گور ایڈ ائی سیون سے ملاقات کے لئے وقت نانگ اور ساتھی بھی کہلوا دیا کہ سفر پلیٹین بھی طاقات وقت موجود ہوں.ملاقات دوسری صبح کے ترکی کی ملاقت کیلئے حاضرہونے پر علم ہوا کہ سی امین و ہیں ہوں ان سے باہرکہیں جاناتھالیکن گورنر سٹیون ملاقات کے لئے تیارہیں.ان کے ساتھ میرا دت سے
۶۳۹ دوستانہ تھا.نہایت شریف طبی اور بلند اخلاق کے ان تھے ہماری آپس میں نے کافی تھی میں نے کیا ان کے دوران یٹی ٹین کی موجودگی کی خامشی میںنے سے کی تھی کہ انہوں نےمجھے کہا.جنگ کی دینی کو معقل سعر تسلیم کئے نے رب کا کرم اور کیا تو رکھ سکتے ہو ہمیں جاتاتھا یہ اراضی ہوجائے گی انہوں نے یا واقعا یا کہاتھایامی نے ان کے الفاظ کو غلط سنا اور اگر یں نے نیا کی نایا ہے اس کی حکومت کا یہی موقف ہے.بہرصورت میںاپنے ایک سرانجام دی کی ٹویٹ عورت کو جینے کا پانیوں اور ایک کنگ کی اوٹ کے لیے ہیں اس رات کا خواہشمندوں سے ملاقات کی ر ر ی تری میں تصدی کیوں کی امرکی حکومت شیر کے سلے کے اس امن میں یو کے آنے کے خلاف ہے ؟ گورنر سٹیونس نے فرمایا سفیر پمپٹن کے الفاظ تم نے صحیح سنے ہوں گے.میں تمہارے متعلق یہ قیاس نہیں کرسکا کہ میں ایسے علما یں غلط نہ ہو.لیکن یہ سفر مین کا ذاتی خیال ہو گا.حکومت کا یہ موقف نہیں.ملی مجلس امن کا اجلاس طلب کرتے ہیں لالا لال ہیں.پاکستان میں حکومت کی خواہم م م ا ا ا بنا دیا گیا ہے کہ ان کی خواہش کے مطابق عمل کیا جائے میرے لئے یہ امر رنج کا موجب ہے کہ تمہیں اس معاملے میں کوئی پریشانی ہوئی ان کے کہنے کے مطابق یہ ابتدائی مرحلہ تعمال ہوگیا.اور یہ دیکھ مجھے چھ اطمینان ہو کر اجلاس طلب کر لیا گیاتو امریکہ کی طرف سے بعدمیں کسی تم کا تساہل نہیں ہوا.ہندوستان کی ہٹ دھرمی اور روس کی طرف سے ہندوستان کی تائی کے مقابل پرکسی موثر کاروائی کی تو امید کی نہیں جاسکتی تھی جو کچھ ہوا اس کا خلاصہ یہ ہے.ہندوستان کا موقف یہ تھا ہمارا وکشی نے ریاست کا لاتی ندوستان کے ساتھ کیا اورکشمیر ہندوستان کا جزو لا ینفک ہو گا ہے (۲) پاکستان نے قبائلی نتھنوں کو مندوستان کے خان - نت کرکے ہندوستان کے خان جارحانہ اقدام کیا وزیراعظم ندوستان نے بھی استصواب رائے امر ( LE FAIS CITE) کی اطلاع کشمیر کےلئے استمال نہیں کیا پاکستان کشمکش کی تجویز کے مطابق انی اتوت کے ریاست سے انخلاء کی ذمہ داری کی تھی اسے پر انہیں یا اسکے پاکستان ائے شماری کا مطالبہ کرنے کا حقدار نہیں ہے) ہر صورت اس نزاع کو پیدا ہوئے بہت لمباعرصہ گزر گیا ہے اور حالات بہت بدل گئے ہیں.اسلئے ہندوستان اب ائے شماری کا پابند ہی رہا.(4) ہندوستانی پارلیمنٹ کشمیرکوہندوستان کا جزو لاینفک قرار دے چکی ہے اسلئے یہ ا علم ہوگیا ہے اور کوئی انواع باقی نہیں.ان تمام ذرات کے تفصیلی جوابات سے کئی بار دیئے جاتے تھے اور پھر دیئے گئے.اراکین مجلس خوب جانتے تھے کہ سب عذرات بے بنیاد ہیں مٹر کرشنا میں بھی اس حقیقت سے خوب واقف تھے اخط سنتان ال کے طور پر ان کے میرے عذر کے جواب مں میں نے دس سرکاری دستا دنیا سے پنڈت جواہر لال پیر صاحب در ارایم ندوی کے بیانات پڑھ کر سنائے جس میںانہوں نے تقیہ کشتی کے طے کرنے کا طریق استصواب رائے مارتی کیا تھا اور کہا اوربھی شاہی ہیں لیکن یہی ہے اراکین مجلس کا لکہ میرے نال مولی کا بھی اطمینان ہوگیا ہوگاکہ محترم وزیراعظم ہند نے بارہ استصواب رائے عامر کی اطلاع کا استعمال کمی کے متعلق کی ہے لیکن جواب جواب میں پھر سر کرنا میں نے سات کا اعادہ کیاکہ در انظم
۶۴۰ بھی اس سال کا استمال کشی کے متعل نہیں کیا مسٹر کا این جاتے تھے کہ والی کی طرف سے پیش کی گئی ہیں انسے کی کمرانی کا پلایا الا ایک انہوںنے جائے یہ بات تیم کر کے اس موضوع پر خاموش رہنے کے پھراپنے فل بیان کا اصرار اعادہ کیا.وہ خو جاتے تھے کہ راکین مجلس جانتے ہیں کہ ایک بات غلط ہے لیکن وہ سمجھتےتھے کہ غلطیات کے بار بار اعادے سے بعض لوگ سمجھے لگ جاتے ہیں کہ شایدیہ بات صحیح ہی ہو ا ان سب امور کا واقعاتی اور حکم جواب دینے کے بعدمیںنے اراکین مجلس کی خدمت میں گذار کی کہ نال امان نے جو رات بھی پیش کئے ہیں وہ وانعال ی یا قانونی پاکستان و ہندوستان کی حکومتی کمیشن ک پیش کردہ دونوں تجاری یا اگست اور در سنوری شالیکو یل کی یہ ہی یہی ہندستان کہتے کہ ان تجاویز پاکستان کی زرداری ہندوستان سے دو نو ر ہے تو عذات اور دلائل پیش کئے جاتےہیں ان کا صفی عالی طریق سے کیا جاسکتاہے میں حکومت اکستان کی طر سے بہ خونی می کرتا ہوں کہ ہندوستان ہمارےساتھ اسرار اتفاق کرے کہ میں اس کی طرف سےبین الاقوامی بیت سے یہ رائے طب کی جائے کہ فریقین کے نام عدالت اور لائل تحریری اور تقریر پڑھ اور سکرین پر غور کرنے کے بعد عدالت پنی اے صادر کرے کہ موجودہ حالات میں کمشن کرونوں تجویدوں کے ماتحت دونوں حکمتوں پر کیاکیا و مداری عائد ہوتی ہے.پھر پورے معات صادر کرے دو تو حکومتیں اسے تسلیم کرکے اس کے مابق عمل کریں.پاکستان برای تصفیہ اختیار کرنے پر آماد اور نانا ہے.ہندوستان بھی اپنی رامندی اور آمادگی کا اظہار کر دے.اسطح بالکل پرامن طریق سے اس قضیے کا تصفیہ ہو سکتا ہے.لیکن بندان اس طریق کو اختیار کرنے پرآمادہ نہ ہوا.آخر مجلس کے پانچ غیرمستقل اراکین نے اس تجویز پر اتفاق کی کہ فریقین آپس میں ملا اصولوں کے مطابق اس قصے کا تصفیہ کرنے کے بارے میں گفت شنید کی لیکن مرکرین مین اس پر بھی رضامندہ ہوئے ور روس نے تجویز کے مخالف رائے دیگر اسے مسترد کر دیا.کشمیر کا قضی مجلس ان کے رو برد اول اول ہندوستان نے جنوری اور میں پیش کیا تھا.جب اراکین مجلس فریقین کے بیانا سنگر حقیقت سے آگاہ ہو چکے اور ہندوستان کیطرف سے ہو یا ان کے اتنے بچھایاگیا تھا میں الجھنے سے انہوں نے انکار کیا این نکاتی اصولوں کی انا پرانا اسے فریقین نے این ای میل کر کے تھے تو انسان نے راہ فرار اخیار کی اور دم بہ قدم اپنے سلمہ اصولوں سے بچھے منا شروع ہو گیا.دونوں سے تیرا نام ہی کو کیاکرتے تھے میں نےاپنی دروغ بانیوں اور فریب کاریوں سے بین الاقوامی حلقوں میں ان کے روئے روشن کو سیاہ کر دیا ہے.جھوٹ اور فری پیچ کی روشنی پر پردہ اے این اقوامی حلقوں میں وزیراعظم منایاگیاہے تو ایران کاناپیدا کیا ہواہے.اقوام متحدہ کے سترھویں سالانہ اجلاس اب پروفیسر ملال اسکرا کی امید داری صدارت کے سلسلے میں کی صدارت کے لئے میری نامزدگی مغربی مالک کے نمائندگان میں سے بعض نے کہنا شروع کیا کہ اگر اشیا آئنہ سالانہ اجلاس کی صدارت کا خواہاں ہو تواس میں مضائقہ نہیں توالسيد عبدالمنعم الرفاعی سفیر اردن متعینہ "
اسم الله ارے اقوام متحدہ جو اس مہینے کے دوران میں افریقی ایشیائی عرب کے صدر تھے مے سے ملنے کیلئے تشریف لائے اور فرمایا تے افریقین صدر کے فورا بعد یک ایشیائی کا صدر منتخب ہونے کیلئے امیدوار ہونا مناسب نہیں درست تھی اور ہم سب اس کی تائید یں تھے لیکن وہ تجویز سیرانا دیو کے اپنے منی سے مستعفی ہوجانے کی وجہ سے درمیان میں رہ گئی اور اب پرانی ملا سکرا ے امیدار ہو یا کچھ پر پاہونے لگا ہے میں نے افریقین ایشیائی ماندگان میں سے بعض کے ساتھ فرد اندا بات کی ہے وہ پروفیسر ملا سیلیا کی تائید ی نہیں ہیں اور چاہتےہیں کہ گر آئندہ اجلاس کی صدارت کسی ایشیائی کو علی ہے تو میں کسی زیادہ معروف ایشیائی شخصیت کو اس منصب کے لئے پیش کرنا چاہئے اور اکروں کی نظریں تمہاری طرف اٹھتی ہیں مجھ سے کہاگیا ہے کہ مں تمہیں امیدوار ہونے پر آمادہ کریں.میں نے عذر کیا.لیکن وہ مصر موٹے ور امام ما را در تلی منی کرتا میں مزید شورہ افریقین ایشائی مانگا سے کرنے کے بعد چند اون میں پرنم سے بات چیت کروں گا.جب دوبارہ تشریف لائے تو فرمایا تمہارے انکار کی گنجائش نہیں.پروفیسر مالا بکرا کو تو مارے گروپ کی رت تمیم کرنے پر آماد نہیں ایک اور ایشیائی مندوبین بھاپن امیدوار کا علان کی تیاری کر رہے ہیں.افراطین ایشیائی ملک ان کی کرتا ہے یہی ہے ام لایک کرد تا ایران ہو کر نہیں اس حملے کچھ نہیں کرنا پڑے گا میں نے اتنمان لیا کہ مں حکوت پاکستان سے استصواب کروں گا میرے استصواب پر حکومت کی طرف ے جواب آیاکہ اگر حالات سازگار ہیں تو وہ اپنے نام کا علان کردو.میں نے حکم کے ارشاد کی تعمیل کی.پروفیسر مالا مسکرانے انا ارادہ ترک کیالیکن فریق ایشیائی ملک کے نمائندگان میںسے کسی اور صاحب نے اپنے امیدوار ہونے کا اعلان نہ کیامقا بلہ فیسر صاحب اور میرے درمیان ہی رہتا.ٹرینیڈاڈ کے جشن آزادی میں اسی اثناءمیں مجھے حکومت کی طرف سے بات کی کہ ٹینڈاڈ اور ٹوبیگو کے بین آزادی بطور نمائندہ پاکستان شرکت میں پاکستان کی نمائندگی کروں.میں ارشد الازمان صاحب کو جو ہمارے سفارتخانے میں وزارت اطلاعات کے نمائندے تھے بطور سیکریٹری ساتھ لیکر ٹینڈا گیا ارمین آزادی میں شرکت کی ریٹینا کوئی را خیره ہیں اور وی گو اس کے پڑوس میں ایک چھوٹاسا جزیرہ ہے لیکن ا چھوٹے سے ملکی حکومت نے پنجاب کے مطابق جیش کا نہایت عمدہ نظام کیا تھا گر چہ پروگرام آٹھ نو کا تھا لیکن سب تقریبات نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ سرانجام پائیں.ٹینڈا کا جزیرہ نہات ہوتا ہے.ٹوبیکو کی بڑی تعریف سنی تھی لیکن سےبہت مرطوب پایا.رویت کا درجہ اسقدر بڑھا ہواتھا کہ مکھتا وانا الا من اصحاب کو سمندری عمل کرنے اور ترکی کا شوق ان کے لئے بات بات پریشان نہیں تھی برینداد ے دار الحکومت پورٹ آن سپین میں مہانوں کی رہائش کا نظام نے عمر د ملی موٹ میں تھا جونہایت آرام و نا یہ ہوٹل گویا پہاڑ کی یک جانب لکھا ہوا تھا سڑک کی سطح پر سبسے اوپر کی منز تھی جس میں ملاقات وغیرہ کے وسیع دالان تھے اس سے چھی منزل پر تین بڑے بڑے کھانے کے کمرے تھے اور باہر ترنے کا تالاب تھا.نیچے نہ کر آٹھ دس منزلیں سونے کے کمروں کی تھیں.عام
۴۲ ( UPSIDE DOWN HOTEL) قاعدے کے خلاف خوابگاہ میں جانے کیلئے لفٹ میں نیچے کاٹن بنانا پڑتان شروع شروع میں تو علی بھی ہو جاتی تھی بیش ہمارے سونے کے کمرے پینے کی چوتھی منزل پر تھے جب باہر جانا ہوتا تو سونے کے کمرے سے نکل کر فٹ میں داخل ہو کر نیچے جانے کا ا ا ا ا ا اور سونے کے گروں کی تھیں ہیں تو میں نے جاتے اس وصیت کی وجہ سے ا ول وا ا پ نے پول وس منزل بھی پایا جاتا تھا.ہر وانگا کی بڑی کر کیا دوا کی ر کھتی تھیں.یہ نظاره است روشنی ھا ہوٹل میں یونان کے مطابق بہت اچھا کھانا ہی کار را می نون کی رو است و امام رفت خوشگوار تی.ہرمندر کیلئے سارے قیام کیلئے علیدہ کارکا نظام تھا سکیٹر کیلئے الگ کارتنی مندوب کے ساتھ ایک حفاظتی عرصہ افراد ایک یونیورسٹی کا طلب علم بطور امر رابط الا وقت ڈیوٹی پر رہتے تھے مورا کر کوشام کے وقت رخصت ہو جاتا تھا کین مناتی او رات کو بی خوابگاہ کے باہر برآمد میں ڈیوٹی پر رہتا تھا.حکمت میں جو پارٹی ان دنوں برسر اقتدارتی ا میں مسلم اراکین بھی شامل تھے.دو وزیر سلمان تھے وہاں کی علم آبادی ہندوستانی نرا ہے.ان میں سے بعض خاندان وہاں تین پشت سے آبادمیں اور تجزیے کی ٹوٹی پھوٹ انگریزی ہی بولتے ہیں.اپنے وطن کی زبان بھول چکے ہیں.میں نے ایک حفاظتی افسر سے اس کا نام دریافت کیا.اس نے کہا اور علی.مزید گفتگو سے علوم کو وہ بارہ بہن بھائی ہیں.کچھ بہن بھائی ان سے بڑے تھے اور سب شادی شدہ تھے.سب سے بڑی بہن کے بھی بارہ بجے تھے میں نے برائی کا اظہار کیا تو ان علی صا حب کرائے اور کیا میرے والدین ۵ ۵ سال سے معرکے میں اور انکے پوتوں پوتوں، نواسوں، نواسیوں کی تعداد ۵۲ ہے ! ارشد از مان حساب کا ایک ایک کاری کر کے سو مرور کی ہر دس سال ہے اور آہٹ موٹ کے شور عمر سال ہے اور آٹھ بجے ہیں ! ٹرینیڈاڈ سے واپسی پر ہوائی جہانہ میں میرے پہلوٹی {" یک نوجوان عیانی یوٹیلٹی کے اور بیٹے تھے ان سے مںنے اس بت کا ذکر کیا انہوں نےفرمایا بھی بارہ بہن بھائی ہیں.اور علی صاحب مستعد اور اچھی قابلیت کے نوجوان تھے لیکن دن سے زیادہ واقفیت نہیں تھی.ان کے ایک بڑے بھائی کسی قرب کے جزیرے میں پولیس میں بھرتی ہو کر عیائی ہو چکے تھے میں نےاقوام متحدہ کے بال روکنے کے وار کرے کہ کرانویلی کو نظام متحدہ کی فیلڈ سروس میں مر کر دیا اوران کی تعیناتی اردن میں ہوگئی.وہاں جانے سے پہلے انہوں نے شادی کر لی.وہاں عربی بی سیکھ لی اور دن سے واقفیت بھی حاصل کر لی.المین اسلامیہ ٹینڈاؤ کی طرف سے مولوی کمال امین صاحب کی تحریک یہ ہو ٹرینیڈا کی حکومت میں وزیر تھے انجمن دعوت اور اسلام پر تقریر کا اہتمام اس امیہ نے میری دوپہر کے کھانے کی دعوت کی اور سلام پر تقریرہ کا نظام بھی کیا.فجزاهم الله.ٹرینیڈاڈ میں جماعت احمدیہ کے مہبر سے ملاقات | ٹینڈا میں احمد میر صاحب سے ہی میری دو تین بار طاقت ہوئی ان کی رہائش پورٹ آن سپین سے باہر تھی.میں ان کے مکان پر بھی حاضر ہوا.
۶۴۳ ٹرینیڈا کے وزیر اعظم اور چینی نسل کے گوری مین لینڈ کے وزیر اعظم ما بر روی سے بھی نیاز حاصل ہوا.نہایت قابل انسان ہی میں گوران جنرل صاحب کی خدمت میںبھی حاضر موادہ چینل کے تھے نہایت خوش خلق اور صاحب تمدیر بر شخص ایک تول میں طیب الاسان تھا.ٹرینڈ ایسے جزیرے میں جہاں برسا رنگ ہر مذہب کے افراد سے تھا اسی شخصیت کا ہلے گورنر بنا کے نصب ہے نا نہ ہونا جزیرہ کی خوش قسمتی پر دال تھا،ارشد الرمان صاحب اور مں دونوں اس سفر سے خوش خوش لوٹے.فالحمد لله ای استان کیری کا سالی کے اساس میزی کیا جاتاہے اور کیا اس سوال کا جواب مل جائے تویم میلہ کرسکیں کہ صدارت کیلئےکس امیدوار کی تائید کریں عمران صاحب نے ہاتھ میں ہی کا جواب دوں؟ میں نے کہ آپ ان کو توا ہ دی مینمود جواب دوں گا.کچھ دنوں بعد بارش میں ایک تقای تقرب بھی سفر لوٹ بھی تشریف لائے.میں نے ان سے دریافت کیاآپ نے ڈاکٹر مانی سے کٹر کے مسلے کے متعلق یہ سوال کیا تھا ؟ کہنے لگے ہی کیا تھا کیونکہ اس سوال کا جواب معلوم ہونے پر کم صدارت کے روٹ کے متعلق فیصلہ کرسکیں گے.میںنے کہا اس وقت تک مجھے اس مسلے کے متعلق میری حکومت کی طرف سے وئی بات نہیں ملی لیکن جونہی حکم کی طرف سے کوئی بارات موصول ہوگی اسے متعلق وری اقدام کرنا مرضی سے آپ صدات کے دورے کے متعلق فیصلہ کرتے وقت یہ فرض کریں کہ شیر کاملا عمل میں زیر بتلایا جائے گا.اگر آپکا مرض صحیح ہوا توآپ کو پریشانی نہ ہوگی اور اگر یہ ملا سمبل میں زیر بحث نہ لایا گیا کبھی آپ کے لئے کسی وقت کا سامنا نہ ہو گا سفر لوسٹ میر حجاب سنگر کھسیانی سی ہنسی نہیں دیے.مجھے ڈاکٹر عمرانی صاحب سے ان کا سوال سن کچھ حیرت ہوئی تھی کہ یہ لوگ تنے ہوئے ہیں اور دوسروں کو اپنے سے بھی زیادہ بھولا سمجھتے ہیں؟! ہ کے اجلاس اسمبلی میں اقوام متحدہ کے قواعد کے ماتحت ہیلی کاسالانہ اجلاس عموما ستمبر کے تیرے منگل کے دن صدر اسمبلی کا انتخاب سنجے بعد دو پر شروع ہوتا ہے.سمبلی چاہے تو تاریخ اور وقت میں تبدیلی بھی ہوسکتی ہے میں اجلاس قواعد کے مطابق مقر دن کو شروع ہوا.انتخب صدر کے لئے رائے شماری ہوئی تومیری تائیدیں ، را یقیں اور بیرونی مالا کیا کیا تا د یں ، لیکن میرے نی میں چار پر چوں پر لائے میرے نام کے پاکستان درج تھا الٹے ار را امان کی ہیں اور میرے من میں آرام کی تعداد قرار پائی.املی می جو انتخابات ہوتے ہیں ان میں سے بعض کیلئے ا امیدوار کا نام وزن کرنا ہوتاہے اور بعض کیلئے کن لک کانام اسمبلی کے انتخاباتمیں امیدوار کانام درج ہونا چائے اور ناب صدیوں کے انتخاب می کنمک کا اگر مرچ ڈالنے سے ہے اور اچھی طرح را ترک کردے کہ چھپ کر کیا در طرح اندراج کرنا ہے تونے اراکین ملک کے نمائندے بعض دفعوا علمی کی وجہ سے غلطی کر مٹھتے ہیں.اور وہ دو شمار سے خارج ہوتا صدرا
۲۴۴ ہے.میں نےاپنی صدارت کے دوران میںیہ التزام رکھ کہ ہرات سے پہلے ان امور کی خوب وضاحت کردی جاتی جس کے نتیجے میں سترھویں سالانہ اجلاس کے دوران میں بقدر انتخابات ہوئے انمیں ایک وٹ بھی کسی ایسی خامی کی وجہ سے شہر سے خارج ا انتخاب کنیت کا اعلان ہوتے ہی منخب شدہ امیدوار این تور کرکرسی صدارت منتقل ہو جاتاہے در مختص الفظ..(MR ANDREW ا ہے اس میں بجلی کی ترتیب دیجات ہے اسکی ک الان وانا اخوان اور کامیون کمد وتے ہیں پی ٹی اجلاس کے ایجنڈے کو ترقی دیتی ہےاور ایکنی میں مل کر مال کو خلاف کیوں تقسیم کیا ہے.بعض سائل کے متعلق کی سفارش کرسکی ہے کہ ابر کی کیٹی میں زیر با آن کے بارہ اسمبلی کے اجلاس می میری جنت میں جنرل ی کی پوری اسلامی میں ہو اور اسی ایجنڈے کی آفر منظوری دی ہے دوران اساس جب بھی ایجنڈے کے متعلق کوئی سوال ا ہوا ہے تو اس پہلے جیل میں میں وہ ہوتا ہےاور جیل کیٹی کی رپورٹ پر میل فیصلہ کرتی ہے املی کے سالانہ اجلاس کے متعلق ا امام اور امام ہوچکی ہے کہ اب ان کے تل اراکین این اما یکی را برای رانا اور چین کا کوئی نماینده مدر طانه نتخب نہیں کیا جائیگا.اب صدارت کیلئے ان اراکین میںسے ایک کانامند ضرورت کی جاتا ہے گویان اراکین کو منزل کیٹی یں لانا نمائندگی حاصل ہوتی ہے.اقوام متحدہ کے سیکرٹریٹ میں سہیلی سے متعلقہ امر کے انچار جناب سیکریٹری مسٹراینڈی کو کو روئے ORDER) تھے جو ابتدائے اقوام متحدہ سے اس منصب پر فائز چلے آرہے تھے.وہ املی کے سولہویں اجلاس کے بعد مستعفی جوکر کو لبیب یونیورسٹی کے بین الاقوامی تعلقات کے ادارے میں ڈین کے منصب پر فائز ہوگئے تھے وہ ہر اجلاس میں صدر کے بائیں ہاتھ تھا اور اس کے دوران میں بات پر کے لیے مضر ہوا اس مرد کو مشورہ دیتی ہے.اپنے علم تایت کی وجہ سمیت عام کر چکے تھے.کیا ان کی کا وہ ہوتی تھی.اسی کی بات کی ی خوب باہر ہوکے تھے کسی شکل کے پرانے سے پہلے جان لیتے لے کر رو پیدا ہوا ہے اور صدر کو شور دیتے ھے کہ کون طریق اختیار کرنامناسب ہوگا.میں پہلا صدر تھا سے ان کا وہ میری انا نے تہیہ کا نائب سیکریٹری جنرل کے تجربے س محروم ہو جان میرے لئے وہ پریشانی تھامیں نے املی کے قواعدوضوابط کار اطلاع نہیں کیا جاتا اورصدر کو برندم په قواعد ے ساتھ سابقہ پڑتا ہے.اراکین ہیلی چندایک کیوں کی مار کر کے ہوں یا ان کے متعلق خاص تیری ہوجاتا ے کی ایک کی صدارت و یا املی کی صورت کا پیش نیم کبھی جاتی اور مجھے بلی کی سی مٹی کی صدارت سرانجام دینے کا وقت ہیں ہوا تھا.ان حالات میں صدارت شروع کرنے سے پیشتر نماز یں نہایت عاجزی سے اپنے مولا کے حضور التجا کی.اسے المدیر منصب فالفق تیری عطا ہے.تو اپنے اس عاجز بندے کی خامیوں سے خوب واقف ہے.مجھے اس منصب کے فرائض کی سر انجام دہی میں تومشکلات پیش آئیں تو اپنے خاص فضل سے انہیں خود ہی مل فرمائیں اور ہر مرحلے پر اس عابدہ کی رہنمائی فرمائی.**
۶۴۵ 1 گری کشتن روز اول جبل سمبل کا وا او امریکا داوای لای لال مکمل ہوگئی اول نرمال اجلاس ترتیب! ور اراکین اور پری کو اندازہ ہو گیاکہ ستر وی سالانہ اجلاس کی صدات کس نہج پر چلے گی یجنل کمیٹی کے پیے ہی اجلاس یں چینی مندوب کی تقریر کے شروع میں روسی مندوب مسرسمانوں نے دوخت شکایت کی جناب صدر میرے کانوں میں جینیات ی محسوس ہورہی ہے اور کچھ سمجھ نہیں آتا کہ یا کہا جارہا ہے میں نے ایل کی کہ شاید روسی زبان میں راجے کے نظام میں سے وئی نقص ہوگیاہے اور اسی کے عمل کو بدات دی کہ نقص کو رنج کرنے کی طرف را توبہ کی جائے لیکن مسٹر مینوں کی شات جاری رہا.یہ صاحب روسی منتقل متن معین اقوام متحدہ کے اراکین میںسے نہیں تھے.بلکہ روسی د ن کے رکن کی حیثیت سے ماسکو سے تشریف لائے تھے.نظائر عند درجہ کی شخصیت معلوم کرتے تھے وزراء میں سے ہوں گے یا روسی اشترا کی پارٹی رینیم کے رکن ہونگے.دوتین من بعد قوام متحدہ کے ملےمیں سے ایک ما نے آگ میرے کان میں کہ ترجمے کے نظام می تو و بنانا اس سے اتر کر رہے ہیں اس پر میں نے کامحترم روی سن و جنرل کمیٹی کی شکل سے خوب واقف ہیں میری گذارش ہے کہ وہ کیٹی کی کاروائی کیطرف توجہ کریں اورغیر معلق امور پر نیا اور بیٹی کی تصرف نہ کریں میں نے دیکھا کہ سفر مورورون نے جو اقوام متحدہ میں روسی نائب منتقل نمائندہ تھے اور میں نون صاحب کے عین بچھے بطور ان کے مشیر کے بیٹے تھے آگے کی طرف تھک کر ان کے کان میں کچھ کہا جس پر میانون صاحب خاموش ہو گئے اور بھنبھناہٹ کا مزید شکوہ ترک کر دیا.جس کمیٹی کا جلاس ختم ہوا لوسیفرم ورود نے پھر سر سمانوں کان میں کچھ کہ اس پر دوسری طرف بڑھے اور اپنے ترجمان کے ذریعے معذرت کی اورمیری طرف ہاتھ بڑھایا میں نے بڑے تپاک سے انسے ہاتھ ملایا اور نید نسب الفاظ کی دلجوئی کے طور پر ہے.اتھ ہی میرا اللہ تعالی کے شر سے بری ہوگیا.کیونکہ اگر ہال میں اپنا رویہ ترک نہ کرے تو باہر کی ہوتی.اسی صورت میں وہ اور ان کے رفقا کیٹی کے اجلاس سے واک آوٹ کر جاتے اور اخباروں مں طرح طرح کی سرخیوں سے اس معاملے کو ہوا دی ات اللہ تعالی نے اپنے فضل سے انہیں روک دیا اور عورت پر آمادہ کیا اور یہ عفیف سا معاملہ بخیر بخوبی نپٹ گیا.میرا اندازه ہے کہ غالب سفر موروزوں نے انہیں مشورہ دیا ہوگا کہ اس مصدر کے ساتھ اس قسم کے مذاق سے کام نہیں لے گا.واللہ علم بالصواب.دوستر سال سارہ کے سالانہ اجلاس میں بھی سمیانوف صاحب روسی ون میں شامل تھے.مجھ سے بڑے تپاک سے لے.ایک مشرقی یورپین ملک کے نوب کی طرف ے اقوام متحدہ میں دیر کے کھانے کی عورت تھی میں بھی دوتا سمانوف صاحب بھی شامل تھے.کھانے کے اختام پر میزبان نے ایک دوسکی عام صحت تو یہ کئے.ان کے نوش کئے جانےکے بعد سمیا توی صاحب کھڑے ہوئے اور کا خلا میں بھی یا امام تجویز کرنا چاتا ہوں جوایک اعلی پائے کی میت کی صحت ور خوشحالی کا جام ہے میں نام تو آرمیں بتاؤں گا پلے میں اس صفت کا کچھ ذکر کرنا چاہتا ہوں.اس پر انہوں نے بہت کچھ وہ سرائی کی باقی مہانوں نے ان کے الفاظ کا انداز کیا یہی انان این مجھے خیال ہوا کہ شاید شریف
کا نام لیں گے آخر میں انہوں نے فرمایا جس سنی کی صفات کا یں نے ذکر کیا ہے وہ چھلے سال کے سالانہ اجلاس کا پریذیڈنٹ ہے.سب حیران ہوئے ہوں گے صحت کا خیر مقدم سیمی جوش اور تالیوں سے بڑی خوشی ایلی میکال عا کا کون اندازہ کرسکتا ہے.تونے اس عاجز پر تقصیر پر معاص کی کیسی کیسی ذرہ نوازی فرائی سیمینوف صاحب کی غرض و غالب پہلے سال کی بھنبھناہٹ کے شکوے کی مزید معذرت ہی ہوگی.لیکن انہوں نے جو فیاضانہ طریق اس کے اظہارکا اختیار کیادہ انکی شرافت نفس کا مظہر تھا.فجزاه الله.س کا کسی بھی کیا.میرا دل بھر آ میں انہوں نے اعلان میں سے جھا کہ تیری بخشش اور ایجنڈے کے تربیت جانے کے بعد سمبلی کے باقاعدہ اجلاس شروع ہو گئے.میں نے پہلے ہی دن مندر دین کی خدمت ارش کار رسمی اور کیوں کیا اور ان کی ایک رپورٹ کوقبول کرکے می ہوش و ہوا کی تسلی کواپنے پینے کی کمی میں ہی ہوا ہو جائے گی در کئی لحاظ سے آپ کیسے بھی یہ طریق سہولت کا باعث ہوگا.اقوام متحد کے ابتدائی چند اجلاسوں میں یہ طریق را اک کتاب در دس منٹ تک من دوین انتظار کرتے اور اس مختصر تنے کے بعد عداس کی کاروائی شروع کر دیتے ت ت تمام اراکین کے نمائندے ایوان ملاک ی ہے وہ ہے اور نہ ہی ہم پی ٹی کی مد میں املی کی عادت میں تو چھے جاتے لیکن ایوان اجلاس میں آنے کی بجائے ایوان مندر میں میں بیٹے تمباکو نوشی وغیرہ کے شغل میں مصروف رہتے یا آپسمیں ادھرادھر کی باتوں میں وقت صرف کرتے.نتیجہ یہ ہواکہ انتظار کا وقفہ دس منٹ سے بڑھتے بڑھتے سولہویں سالانہ اجلاس تک قریباً چالیس منٹ تک پہنچ چکا تھا صبح کے اجلاس کا اعلان شدہ وقت تو ساڑھے دس بجے کا تھا لیکن اجلاس کی کاروائی گیارہ بجے کے بعد شروع ہواکرتی سی طرح سہ پہر کے اجلاس کا اعلان شدہ رقت و بجے تھا.لیکن کاروائی ساڑھے تین بجے کے بعد شروع ہوتی ہیں نے ین اعلان شدہ وقت پر کاروائی شروع کر دینےکا طریق اختیار کیا.جب مندوبین نے دیکھا کہ صدر پابندی وقت پر مصر ہے تو رفتہ رفتہ انہوں نے بھی وقت پر اجلاس میں آنا شروع کر دیا.اس سالانہ اجلاس کے دوران جب پہلے دن بارش ہوئی تو صبح کے اجلاس کے شروع میں حاضری معمول ے کم تھی.اس کے باد جو میں نے اجلاس کی کاروائی شروع کردی پہر کے اجلاس کے اختام پرمیںنے مندر میں سے گذارش کی کہ آن صیح کےاجلاس کے شروع میں بارش کی وجہ سے حاضری وق سے کم تھی اب موسم خزاں کیطرف بڑھ رہتا ہے بشرارتی ہواوں کا ہوا انسانیت ہی نہیں ہونا چاہئے کہ الاس کی کاروائی دیر سے شروع ہو.ایسے موم می وقت پر ہنچنے کیلئے آ نے دو کروں یا پنے دفاتر سے ذرا جلدی روانہ ایا کریں آپ نے ازراہ کرم ایک سرسالہ بوڑھے کو سیل کا خادم و منتخب کیاہے.جیسے آپ اس سے کیا توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنے فرائض کو متعدی سے سرانجام دیے ویسے ہی وہ آپ جیسے چست نو جوانوں سے بھی توقع رکھتا ہے کہ آپ اس کے ساتھ پورا تعاون کریں.میں صبح ساڑھے سات بجے اپنے پاکستانی دفر میں پہنچ جاتا ہوں اور وہاں سے سوا دس بجے یہاں صدر کے
کرے میں پہنچ جاتا ہوں جو میرے لئے آسان ہے وہ آپ سب کیئے آسان ہی ہوا چاہئے میں نے یہ گذارش ہے پتے کی انڈین نے ہنستے ہنستے سنی لیکن اس کے دہرانے کی ضرورت پھر بھی پیش نہ آئی.میل کے دور کے استعمال کے لئے اک چھوٹا ساکرہ تواسمبلی کے ایوان کے صدارتی پلیٹ فارم کے عقب میں ہے جسے عارضی ور پراستعمال کیا جاتا ہے صدر املی کا اصل دفتر اک سے کرے میں قوم متحدہ کے سیکٹریٹ کی عمارت کی دسویں منزل پر ہے.وہ صدر آمبلی کے دفتری کام کے علاوہ ملاقاتوں اور انسان عمل سے مشورہ کرنے کیلئے استمال ہوتا تھا.میرانتخاب ہے ر یہ کہ مجھے دکھایاگیاکہ اجلاس میں آنے سے پہلے آپ انا دفتری کام یہاں کیاکریں گے.میں نے کہامیں تو ایک سادہ طبع انسان ہوں ان تکلفات کا عادی نہیں نہ انکی ضرورت کا قائل ہوں.مزید براں اراکین ملک کے مندوبین سے الگ تھلگ ہو کر اس بند بزی میں بیٹھ جانے سے تو مجھے ان کے ساتھ تبادلہ خیالات کے مواقع میسر نہ آئیںگے اورمیں ان کے تاثرات سے آگاہ نہ ہو سکونیا ہے اس ملک کی معانی میں آتاہوں ویسے کیا کروں گا اپنے ایک اکیلے ایران اجلاس کے مفت والا چھٹا کرہ استعمال کروں گا کہ وہ میری ضروریات کیلئے کافی ہے.اور میرے ملنے والوں کو بھی اس میں سہولت رہے گی.میرے ساتھ پانچ منٹ کی گفتگو کیلئے انہیں دس منٹ سیکرٹریٹ کی اڑتیسویں منزل تکاور گفتگو کے بعد مزید دس منٹ وہاں سے ان کا سمبل میں نے کیلئے صرف کرنے کی حاجت نہ ہوگی.ایران اجلاس کے عقب دوالے کرے میں وہ بلا تکلف با اطلاع میرے وہاں موجود ہونے کے اوقات میں وقت چاہیں مجھ سے مل سکے ہیں حملے کے افسران سے بھی ہیں اور ہو جایا کریگا بھی خواہ مخواہ کی نیت سے کیے جایا کریں گے.چنانچہ ایسا ہوتا رہا.میرے زمانہ صدارت مں اور تیسویں منزل والا شاندار سویٹ فرم تعمل رہا.در اسمبلی اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کیطرف سے ہر سیشن مں مندیمین کو وسیع پانے پر استقبالی دعوت دیئے جاے کا دستہ ہے جس کا اور دونوں میزبان نصف نصف برداشت کرتے ہیں.صدر پرشنگ کے دن اقوام مخدہ کے معلم می کیوں کے صدر او کے ساتھ کام کرنیوالے ملک کے افسران کے ساتھ دوپہر کے کھانے میں شریک ہوتا ہے.اور اس ہفتہ دار مجلس میں کیوں کے کام ے متعلق اسی دور کیا جاتا ہے میں نے کیوں کے دوروں کو شور یا کو اپنے اپنے نینوں کی ہفتہ وار قسم کے نقشے یار کریں اور دیکھیں کیسی ہفتے میں کام کی رفتار س ر ی ا و و و و و و و والی اداکاری کرنے کا کا ختم کرنیکی اریکی کے اس کام کو بھی ترک کرنا ہوںگے.اس تجویز پرعمل کرنے سے بہت ادا ہوا اور ہتک شام کے اجلاس کرنا ہے.سمبلی کا آخری اجلاس و شام کو کھنا لازم ہوتا ہے اور نصف شب تک چلتا ہے لیکن سترھویں اجلاس کی فضل اللہ یہ خصوصیت ہ ہونے کی کوئی اجلاس کرنا پڑا اور نہ سید شام کا کوئی اجلاس سوائے آخری دن کے.اس سے بھی مندوبین کوبہت ہولت دی کہ انہیں ایجنڈے کے مال پیرو اور مشورہ کرے اور تقرا اور کار تو کرنے کے مواقع مو از امیر تے رہے.اقوام متحدت کی آمبلی کے پریس نمائندگان کی سالانہ دعوت اسمی کا دوست ہے کہ ہر دوسری جمعرات کے دن صدر کا کا اسمبلی اقوام متحدہ میں کام کرنیوالے پریس کے نمائندگان میں سے پندرہ میں نمائندگان کی دوپہر کے کھانے پہ دعوت کرتا ہے.اس
۶۴ طرح پر یس کیساتھ تعلقات خوشگوار رہتے ہیں.پریس کے نائندگان پرسیشن کے دوران میں ایک بار صدر کے اعزاز میں شام کے کھانے پر ایک حش منعقد کرتے ہی میں میں کھانے کے بعد موسیقی اورناچ اور تمنا ہوتا ہے.یہ تقریب نیم شب بعد دو بجے تک جاری رہتی ہے.ایک روز میر سیکریٹری نے کہاکہ قوام متحدہ کے مانین کی انجمن کے صدرنے دریافت کی ہے کہ فلاں شام نہیں اس سین کیلئے موزوں رہے گی یں نے کہ ان سے کہیں مجھے اس قریب کیلئے کوئی شام بھی موزوں نظرنہیں آتی کہ کچھ ران و مولتی لیکن مرا یا پنچادیا.دود کردن مافین کی انجمن کے صدر ملاقات کیلئے تشریف لے اور فرمایا سر پینڈنٹ کیا یہ ٹھیک ہے کہ آپ ہمارے سین کے لئے کوئی شام تاریخ نہیں کرسکتے.میں نے کہا درست ہے.وہ بولے کہ یہ تقریب تو ہر سال ہوتی ہے اور ہر صدر صاحب تشریف لاتے رہے یں کیونکہ یہ تو ہوتی ی صدر کے اعزاہ میں ہےمیں نے کہا ہر وہ اپن اپنی ذات کا زمہ دار ہے.میں اپنے پیش رو صدر صاحبان کے ری کی پابندی لازم ہیں سمجھا.انہوں نے پوچھا آخر آپ کے ہاری دعوت قبول نہ ہی کی کوئی وجہ میںنے کہا ر ہ یہ ہے ک اس تقریب کار علومغربی تہذیب اور معاشرت کی تصویر ہے سی کر میری بیوی کو کچھ بھی نیت نہیں کہ ایسی تلی میں میں نے والے بعض اشغال سے میری طبیعت منفض ہوتی ہے.اور گومی خودا میں شرکت نہ کروں پر بھی دو مری طبعی پرگراں ہوگے ند کی ضرورت ہے میں ایک رات کا آرام ایسی تقریب کی خاطر قربان کرو اور ان عادات اور عبادات کے اوقات میں اس کے یم ملی اور بے قاعدگی پیا کروں ؟ انہوں نےکہا ایک شا کے کھانے کی دعوت میں تو جاتے ہی میں نے کہا جاتاہوں ین درس دینے سے چند قبل اجازت لیک یا آتا ہوں انہوںنے کہا ای ی ی ی ی ی ی ی ی انتظام کریں گے کیا ختم ہوتے ہ میں آپ کا جام صحت تجویز کروں گا اور آپ اسکا جواب دیکر بیک لے آئیں.میں نے کہا صورت میں میں بڑی خوشی سے شامل ہوں گا.ی را اسم پینے پرمیں نے ایجنڈے پر سرسری نگاہ ڈالی تو اس ہوا کہ جو ایجنڈ میںنے سے کیا تھا اس میںکچھ بدیلی کی گی ہے.میں نے سرطانی سے دریافت کی تو معلم ہوا کہ ایک دن کی طرف سے کسی وقت کی نا برای تبدیلی کی خواہش کی گئی تھی اسلئے ایجنڈے میں تھوڑی سی تبدیلی کردی گئی.میںنے کہاآپ نے مجھ سے کیوں ذکر کیا ہے انہوں نے فرمایا سرقت ات کے گیارہ بج چکے تھےاور مجھےعلم ہے کہآپ جلد سوجاتے ہیں.ساتھی مجھے یقین نا کہ اگر آپ انکی خواہش پہنچائی جائے تو آپ ضرور اسے منظور کرلیں گے.میں نے کہا یہ تو درست ہے اور جو تبدیلی ہوئی اس پر مجھے اعتراض نہیں.لیکن اصولاً طرق صحیح نہیں.یہ ھی درست ہے کہیں جلد سوجاتا ہوں اور آسمان کو دین کاکام کرنا پڑتا ہے جی میں بہت قدر کرتا ہوں.لیکن رات کو ٹیلیفون میرے بت کے پاس ہی ہوتا ہے.جب ضرورت جو آپ بلا تکلف رات کی کسی ساعت میں میرے ساتھ بات کرسکتے ہیں میں آپ کو یقین دلاتاہوں کہ آپ بھی مرے آرام میں مل نہیں ہوں گے نہ میری راہ میں نید ک اثر محسوس کریں گے اور بات ختم ہون کے نصف سن کے اندر میں پھر گری نیند سو رہا ہوں گا.|
۶۴۹ روس اور دیگر مشرقی پور مین ممالک کا تعاون | روس اور دیگر مشرقی بر زمین مالک نے صدارت کے انتخاب ی پرانی یا اسکی کی شادی کی تھی ملکان کی تائید ک بھر سے پری پر ونیر صاحب نے امیدوار نے کافیصلہ کیا تھا لیکن ان سب مالک کی طرف سے بھی میرے ساتھ ابتدائے اجلاس سے ہی پورا تعاون ہوتا رہا.اجلاس کے دوران میں روسی شن متعین اقوام محمد کے سربراہ سفر درین تھے.وہ مری باران شخصیت کے ملک تھے.جب کبھی میں املی کی عادت کے اند گزرتے ہوئے مجھے علیک سلیک کا اتفاق ہوتا تو بڑے پاک سےمصافحہ کرتے اور میرے ہاتھ کواپنے دونوں ہاتھوں میں سیر فرماتے ہمارے محترم صدر، ہمارے غیر جاندار صدر" روس کے وزیر خارجہ کی طرف سے روسی آی کی دعوت وزیر خار بر روی کیسے مار سے نیاز حاصل تھا.بعد سترھویں اجلاس کے دوران میں وہ نیویارک آئے تو سفر زرین کے ہمراہ مرے کرے میں تشریف لائے منتر گفتگو ہوتی.گفتگو کے دوران میں انہوں نے پوچھا.کبھی ہمارے ملک جانے کا بھی اتفاق ہوا ہے.میں نے کہا حال می تو نہیں لیکن انقلاب سے پارسال پہلے میں انگلستان میں تعلیم حاصل کر رہا تھاتو سینٹ پیٹرز برگ جانیکا اتفاق ہوا تھا اتفاق سے وہ سال دریانورد خاندان کے سرصد سالہ جشن کا سا بھی تھا.فرمایا اس پہ تو قریب نصف صدی گذر چکی ہے.چاہیے کہ اب اگر یہار ملک دیکھو رانی وزیر خارجہ ماسکو واپس چلے گئے ہیں اور جاتے ہو مجھے ایک کے ہیں کہ آپ ان کی دعوت کی یاد دہانی کرا دوں ا ا ا ا س کے نم ہونے پر سردی کی شدہوگی اسے دو وقت و سر روس کے سر کیلئے اب نہیں ہوگا.کا موسم میں یا گرمیوں میں جب بھی آپ پسند کریں تشریف لے جائیں.شمالی افریقی کے اسلامی ممالک استر ویں سا ایک رات میں پر اراکین کا ضافرہوا کی طرفے وہاں آنے کی دعوت ان میں سے الجزائر کا ہوا ہوکر امام محمد میںشامل ہونا ہم سب کیلئے خاص طور پر خوشی کا موج ہوا.الجزائر کے صدر محمد بہلانے اس موقع پر واستقبالیہ تقریب منعقد کی اسے میرے نام سے منسوب کیا.چودھری محمولی وگرام رو پاکستان کے وزیر خارجہ کی حثیت سے ہی بار میں موجود تھے اور اس دعوت میں شامل تھے.ان سے صدر بن بیان دستانہ و یکایک شمالی افریقہ اسلامی مالک یا تونس الجزائر مارش کی آزادی کی جد جد من وراشد خان نے نمایاں حصہ لی ہے وہ ہم کو بہت عزیز ہیںاور ہم سب کی بڑی خواہ ہے کہ ہمارے ہاں میں لیکن وہ ابھی رضامند نہیں ہوئے وی کے رین بیل کا کو بیان کرکے دریا کیا تم میں نہیں جاتے ہیں نے کہامیں کومت پاکستان کا لازم ہوں حکومت کے ارشاد کے غیر میں سے انہیں کا رایا بھی اب اس کا انتظام ہوجائے گا.الجزائر کے پہلے وزیر خارجہ حمد مینی صاحب ( الجزار کے لیے وزیر خارجہ محی ایسی بات کی خصلت محب وطن نوجوان تھے جواپنے ملک اور قوم کی خدمت میں ایک مدت تک قید وبند کے مصاب جھیل کے تھے.فراس میں جو الجزائری نوجوان مختلف علمی
40.لیم حاصل کر رہے تھے ایک تنظیمیں انہوں نےنمایاں حصہ لیا اور اسلامی کے زمانک سرگرمیوں کی پاداش میں اک عرصہ انی قید خانوں کی ایک کوٹھریوںمیں گزار چکے تھے میرےساتھ تعارف ہوتےہی انہوں نے حد درجہ اخلاص کا اظہارکیا.اور بہت جلد ہمارے درمیان گہرے دوستانہ مراسم قائم ہوگئے صدر بلا کے الجزائر واپس تشریف لیجانے پرانہوں نے امراری " دن کی قیادت کے کچھ اور نیویارک قیام کیا.انگریزی بہت کم جانتے تھے انے فرائض کی یا عاما بجا آوری کی خاطراس کوشش تھے کہ انگریزی میں بول چال کی مہارت پیا کریں.چونکہ انگریزی کمانا ہے اور میرا ایک کیا جانا تھا اسلئے انہوں نے کی کیلئے ی و یا یکی ا الا ایمانی کاکمی موقعہ ہوا د زبان نہ جانا بابائے رک کے مد و یا بعض اوقا اظہار خدا میں الفاظرہ کی بن جاتے ہیں الفاظ کا مینہ نا جائے روکے روئی اور حجاب کو رفع کرنے کا موجب بن یا ھنے کی میز پہ مجھے اپنے دائیں ہاتھ بٹھایا.نشت ایکسم کے موے پر ساتھ ساتھ ھی بیٹھے ہی میرا بیان ہاتھانے والی ہاتھ میں مضبوطی سے پکڑ لیا اور میرے رخصت ہونے تک ایک لحظ کیلئے بھی ہاتھ کی گرت کو ڈھیلا نہ ہونے دیا.دیکھنے میں دیئے تے تھے لیکن تینر فولادی محسو ہوتا تھا.کھانا شروع ہوا توں نے انکا دایا او آزاد کرنے کی خاطراپنے ہاتھ کو منشوری ہوں نےمیرے ناتھ کو اور دور سے جڑ کا سارا وقت بنے ہوئے چہرے سےبات چیت جاری رکھی گو نگو کے بعض حصے قید خانے کی مصائب کی تشریح پر بھی حاوی تھے.اس درجہ اخلاص ومحبت کی وضاحت کے طور پر فرما بات آج سے چند دن پہلے میری ہستی سے بھی آگاہ نہیں تھے اورمیں مدرسے میں طالب علمی کے زمانےسے تمہارا مداح اور مشتاق ہوں.جب میں جرائد میں تمہاری ریدی کا اس پراکرتاتھا تیری مہم میںبھی یہ امکان ہیں اتنا کہ اسے ایل ایل کے ساتھ کبھی میری ملاقات ہوگی.موقع میسر آیا ہے تیرے لئے نہایت سر کا موجب ہواہے اور محسوس کرتاہوں کہ کہیں بھی میرے ساتھ خاص ہے ں تو دائیں ہاتھ سے کھانے میں مصرف تھا گو کی بات پر توجہ سے رات اور زیادہ ان گنگ کی طرف متوجہ تھے اوربائی سے مکھی کو کھا لیتے تھے ان کے لیے کے جسم کوغذا کی کوئی ایسی صورت بھی نہیں تھی میں نے ان کے اخلاص کے سمندر کے جوش کو کم کرنے کیلے کہ محمد نہیں تین دیکھے اس تصور کے ساتھ اخلاص ہے تو میری تقریروں کے نتیجے مں تم نے اپنے ذہن میں خورد ہاتھ " نگی نالیا تھا.ابھی ہماری پہلی ملات پر چند دن ہی گذرے میں تم اسی تصور پرقائم و تو تمہار اپنایا ہوا ہے جب میری خامیوں اور کمزوریوں ر تمہیں آگاہی ہوگی تو تصور کی جگہ حقیق سے لگی.پھر تمہارے اخلاص می یہ خوش نہیں رہے گا.بخلاف اس کے مجھے تو بھی دست کی معمار ساتھ ہے وہ تمہاری ان خوبیوں کی وجہ سے ہے جس کا مں نے مشاہدہ اور تجربہ کیا ہے اسے میرے اخلاص میں ثبات ہے ! وہ بہت سے اور کہاں جاتا ہوں تم میرے قابل وکیل جوتمہاری یہ دل محض وکیلانہ ہے.اچھا تو مارے ہاں آؤ گے نا ؟ می نے کہا اب تو آپ کے صدر صاحب کا بھی فران ہے اور ہمارے وزیر خارجہ صاحبکارش بھی ہے.امید ے ان اللہ علہ کوئی موقعہ میں آجائیگا انہوں نے بڑے تپاک سے رخصت کیا.اور نیویارک سے روانہ ہونے سے پہلے پھر جلد آنے کی تاکید کی.
۶۵ 1445 1945 پریذیڈنٹ کینیڈی سے ملاقات مسٹر اینڈریو کو ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ل مالیات میں سے تھے اور یوں ان سے رہے دوستانہ مراسم تھے.یاء میں اشنگٹن می سنٹر ڈپلومیٹس کے مینار کے ڈاٹ کر تھے.اپریل تا میں انہوں نے مجھ سے خوناش کو نور کے سینے میں ان کے ایمان میں تقریر کروں.میں نے انکار کی تیل کی امی بھرلی.امریکی و متعین اقوام متحدہ کی ر ے مجھے تایا گیاکہ مصر سمبل اپنی صدارت کے دوران میںاگر واشنگٹن جائے تو صدر ریاستہائے متحد سے ضرور ملاقات کرتا ہے چنانچہ واشنگٹن جانے پر مں صدر کینیڈی کی ملاقات کیلئے وائٹ ہاؤس گیا.صدر کینیڈی بڑے با اخلاق تھے بڑے پاک اور بے تکلفی سے پیش آئے ملاقات کسی خاص موضوع پر گفتگو کے لئے نہیں تھی مختلف امور پر گفتگو رہی.ان دنوں ہندوستان اور چین کی جھڑپ ہوئی تھی.اس سلسلے میں فرمایا ہم ایک لحاظ سے تو چھین کے منون ہیں کہ انہوں نے مٹر کرشنا مین سے ہماری خاصی ردائی میں نے کہا مٹر پیٹینٹ اسٹرکر نامین کے ساتھ یا الان کرتا اور کہا ہے کہ ایران ہوکر کام یہ کیوں ہے ہو؟ میں نے کہا اس سے کہ مٹر کی امین کی خوری نہیں.وہ جو کچھ کر کام کرے میں سوچ سمجھ کر اور عمدا گرتے ہیں.پوچھا مہیں کیسے معلم ہے میں نے کہامجھے ان کےساتھ سابقہ پڑتا ہےاورمیں ان تجربے سے کہتا ہوں اب وہ میزبان ہوتے ہی واپنے مہمانوں سے نہایت تواضع سے پیش آتے ہیں.خود تو کچھ کھاتے ہیں ساراوقت میزوں کے درمیان چکر لگاتے رہتے ہیں.مانوں کی ضروریات کیطرف توجہ کرتے ہیں ان کے ساتھ شفق سے کام کرتے ہیں اور غیرت وغیرہ دریافت کرتے ہیں.پر نوٹ کینیڈ نے پو چھا تو پر یہ دوسرا بھی کیوں بدل لیتے ہیں ہے میں نے کہ وہ امریکیوں کی بعض کمزوریوں کو بھانپ گئے ہیں اوراپنے ملک کی خدمت کرنے کیلئے امریکنوں کی ان کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں.انہوں نے ذرا چونک کر اور کراتے ہوئے پوچھاور کاوشی کمزوریاں ہیں ؟ میں نے کہا ایک تویہ کہ آپ لو مخالفانہ تنقید سے خوش ہوتے ہیں.فرمایا یہ توٹھیک نہیں کیونکہ م و محبت کے بھو کے ہیں میں نے کہا یہ امریکیوں کی دوست ہی کمزوری ہے مسٹر کرشنا مین جانتے ہیں کہ آپ محبت کے خریدار ہیں اور وہ ہر اپنی محبت کی قیمت بڑھادیتے ہیں.اس پر بہت ہے اور بار تماس نیٹ ڈپلومیٹس کوخطاب کر رہے ہو ؟ انہیں بھی یہ ضرور بتا دیا.صدر کینیڈی سے ملاقات میں قضیہ کشمیر کا ذکر پر ی ی ی ی ی ی ل ی م م ا را ا نرالا میں سمجھتاہوں کہ پچھلے پندرہ سا میں یا عمدہ موقع کمر کے تھنے کے فیصلے کا میں نہیں آیا جب اس وقت میں سے نہیں معلوم ہے کہ گورتر میری مین اور برطانیہ کے مسٹر نکن سینڈیز ہندوستان مشورے کیلئے جارہے ہیں.میں نے گورنہ میری من کو تاکید کی ہے کہ وہ در مکن کوشش کریں کہ اس قضیے کا مناسب تقصفیہ ہوسکے.میں نے کیمرہ پینڈنٹ یہ قضیہ تصفیے کی طرف اس وقت حرکت کر دیگا جب وزیرا عظم ہر و تضیعے پر آمادہ ہوں گے.انہوں نے فرمایا ورنہ ہر مین کی میں کوشش ہوگی کہ رین کو تینے پر آمادہ کریں گورنہ پیری مین دس بارہ سال کے عرصہ میں ورنہ یمن سے سعد ابا نے کالا ہوا تھا میں نے کبھی نہیں پاکستان کے متعلق ہمدردی کے جذبات کا حال نہ پایا.دوست رو طبا نہایت خشک مزان تا در سی ان کے متعلق بھی وہ کوئی گر خوشی
۶۵۲ سوس نہیں کرتے تھے.ان کے پر عام طور پر یہ کام کیا جاتا تھا میں کمال اختیا را در دست ردی کی ضرورت ہو اور ضربات کافضل مقصود نہ ہو.اتفاق اب ہواکہ جب صدر کینیڈی مجھے رخصتکرن کے لئے میرے ہمراہ ساتھ کے کرے میں تشریف لائے تو گورند ری میں ان سے رخصت ہونے سے اس کے میں تشریف را تھے انہیں ا ا ا ا و ر ی ی ی ن ر رایا اور میں ابھی بھی ظفراللہ کہا تھا کہ یہ شیر کے تلنے کا یہ نایت عمدہ موقعہ ہے اور آپ اس کے متعلق پوری کوشش کریں گے.گور نرمیری تصفیے کا عین نے بالکل بے اعتنائی سے کہ میں وزیرا عظم نہرو اور صدر ایوب دونوں سے بات کروں گا.میں نے کہاگر محض بات کرنے سے ا ہی نہیں ہلے گا صدر اور وزیراعظم ہند کی اس نے کام اس ای پر میں آپ کوشش کریں کہ وزیراعظم نہر اس قضیے کا عملی حل تلاش کئے جانے کی طرف توجہ دیں.گورنہ پیری مین نے ایک مریضیا نہ مسکراہٹ کے ساتھ سر ہلا دیا.میں نے مجھے لیاکہ ان کے ہاتھوں تنقید کشمیر حرکت یں نہیں آئیگا.میں صدر کینیڈی کا شکریہ ادا کر کے رخصت ہوا.کی مسرمان را کفیلر کی خوش فہمی کچه دن بجای اور کے ما را در ایران ایران مجھے دور رکھنے کی دعوت دی نہیں بھی تیری میر تقیہ کیا کر تھی.لیکن وہ میاں ہی بھولے امریکیوں میں شمار ہوتے ہیں.ان کا طریق عمل بہت سادہ تھا.ہوئی فرمایا ہندوستان اس وقت مشکل میں ہے اور چین کے ہاتھوں آزردہ ہے.اگر ہندوستان کی اس مشکل کے وقت صدر الیوب کوئی ا اقدام کریں جس سے ہندوستانیوں کا در خصوا وزیرارت کایقین ہوجائے تواسی کی جاتیہے کرنے کے دو می رود و او را نام دیا جائے گاور شماریگروں کا ہوجائے گا.ان کی خوش نمی پرمجھے ماظ شیرازی کاری مصر یاد آتارا من در دارمت که تو اوران دیده ای - مرا کفیلر کی بیان کردہ مسٹر سہندوستان کے کرکے میرانیان کاری کا الزام تھا میرا کفیل نے کہا کرشنا مینین کی بد خلقیاں ہم نے ایک دن سر کی نانی کو بی بی کھانے پہ لا ا ا ا ا ب ہو ئے توہم نے دروازے پران کا استقبال کیا اور میںنے معذرت کی کہ انہیں اتنی دو شہرسے باہر آنا پڑا.انہوں نے فرمایا بیشک بہت دور آنا پریا مرزا کفیل نے ایک واقعہ اور نایا کہ اچھے سامنے انہیں نیویارک میں پنے ہاں ۱۸ ایا ان کی تشریف آوری پرمیں نے نوشی کا ظہار کیا کہ ہمارے ساتھ اس شکرگزاری کی تقریب مں شام ہو سکے.انہوں نے THANKS GIVING THANKS جواب میں فرمایا جو WHAT HAVE YOU TO BE THANKFUL FOR - سترھویں اجلاس کا خصوصی امتیازی استرح یا اس کو درد ہو یا یا ان کے گن نے مجھ نہیں آیا کہ بھی تک کسی مندوب نے ضابطے کا کوئی سوال نہیں اٹھایا.یہ امراس لحاظ سے اطمینان کا موجب تھا کیونکہ ایک تو ضابطے کے سوالوں پر بہت میں بہت وقت صرف ہو جاتا اور پروگرام میں ہزج واقع ہوتا.دوسرے زیادہ ضابطے کے سوالوں کا ھای جان اور سہیلی کی کارکردگی پر ترام سمجھا جاسکتاہے.پلے سالوں میں راجلاس میں صبح شام تین چار کہ اسے بھی زیادہ دفعہ اسے سوال اٹھائے جانے کامعمول ہو گیا تھا.جیسے جیسے وقت گذرتا گیا مجھے امید ہنے لگی کہ من ہے اس سالانہ اجلاس کی کوئی ضابطے کا سوال نہ اٹھایا جائے اللہ تعال
۲۵۳ کے فضل اور اسکی وہ نواز ہی سے ایسا ہی ہوا.یہ امسترھویں سالانہ اجلاس کا مخصوصی انتہانہ رہے گا.سابق صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب اس اجلاس کے دوران میں یا مایش محمد ایوب خان جوان دونوں صدر پاکستان شمال کا اسمبلی سے خطاب تھے امریکہ تشریف اے اور نیو یارک کے قیام کے دوران میں املی کو بھی خطاب فرمایا." سترھویں اجلاس کا اختتام | سیشن کے بندی میں اینی کو دینے کے سات بار کی سیٹ کے ختم ہونگی تاریخ بھی جو یہ کہتی ہے یہ تاریخ عموم ۲ یا ۲۴ دسمبر یا اس کے قریب قریب ہوتی ہے.سات سال سے یہ معمول چلا آرہا تھا کہ خود تاریخ پر الا خم نہ ہوتا اور کرسمس کی تعطیلات کیلے ملی ہوکر جنوری جاری رہا.اب تو اتنا اجلاس کی مجوز تاریخ ی ی ی ی ی ی قیاس آرائیاں شروع ہوئیں کہ کریم کی تعلیم کے بعد نوری کی تاریک کو اس دوبارہ شروع ہوگا م سے سوال کیا جاتا تومیں سے ٹال دیا.آخر ہفتے سے سنتے ہیں کی کیوں نا نا نا نا م کر کے نام مکمل کرنیا ینی سنے کے دس تک کی کردار میں نے ان کا ختم کرایا اور اس کے خاندان میں کولو پس شروع ہوئی کہ شاید ین مجوز تاریخ تک ختم ہوجائے کام کی رفتارسے تو اندازہ ہونا چاہیے نا وہ تاریخ تکمیلی اپنا انداختم کر کے اور کرنے کی کیا یہ ایک ایس اپنے کیبات معلوم ہوتی تھی کسی کو اندازے پر اعتماد نہیں تھا.آخری مجوزہ تاریخ سے ایک دن قبل اس دن کے ایجنڈے میں آخری اندراج اعلان صدر درباره تکمیل اجلاس دیکھاگیا تو پریس بھی اور مندرون یران ہوئے یہ کیسے مکن ہوا.اس وقت بھی سب اندازه ب ا ا ا ا ا ا ا م منی کون ہے لیکن ممکن نہیں کہ مجند تاریخ سے بھی ایک دن پہلے ختم ہوجائے مجوزہ تاریخ کی نصف شب تک تو زرد چلے گا لیکن پھر لہ تعالی کے کمال فضل اور ذرہ نوازی سے وہی ہوا جسکی کسی کو توقع نہیں تھی.پروفیسر طالا سمیرا کی شرافت | سب ایجنڈا کی تقریر شروع ہوا.دستورکے مطابی آٹھ اس تکون کی طرف سے ایک منتخب شده مندوب تری تقریر کر دیا کیا اس کا کردار اور علی کی کارگزاری کو سامنے پر صف ہوتا تھا.ایک بار بھی بھی ہوا.لیکن ماحول بنات سنجیدہ اور پراطمینان تھا.ام اس اس ناکہ باہمی تعاون اور توجہ سے اور اپنے اوقات کا صحیح استعمال کرکے ہمنے اجلاس کو کامیابی سے انجام کو پہنچایا ہے.میرے متعلق جو کچھ کیاگیا وہ محض رسمی نہ تھا بلکہ محبت اور اخلاص کا مظہر تھا.اسمبلی کا معمول ہے کہ سیشن کے شروع میں بھی ہر مندوب تو اپنے ملک کی طرف سے پہلی بارہ تقریر کرتا ہے صدر کواس کے انتخاب پر مبارکباد دیتا ہے اس مرحلے پربھی پروفیہ لالا سیر نے کمال نوازش سے میرے متعلق فرمایا کہ اگرانہیں شکست ہوئی ہے تو ایک ایسی ہی کے مقابل ہوئی ہے جبکو اقوام متحد میں خاص احترام سے دیکھا جاتاہے.آنری تقریر میں بھی نہوں نے فرمایا چونکہ میرا فقرہ ایک اور مقام پر ہوچکا ہے اور یں یہاں سے جارہا ہوں لہذا اس موقعہ پر اقوام متحدہ کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتاہوں کہ مس نے اقوام متحدہ میں نے عصر قیام کے دوران میں کہ سیکھا.یہ کہ کر انہوں نے
۲۵۴ وام متحدہ اور سترویں اجلاس پر ایک مخمر تیرہ کیا.جس میں باری باری ایک یک موضوع پراظہار خیال کیا آخر می فرمایاب سے بڑھ کر یہاں مجھے ایک ایسی ہی کو دیکھنے اور جانے کا موقعہ ملا اور اس تمہید کے ساتھ میرے متعلق از راہ شفقت ایسے تعریفی کلمات فرمائے جوان کی شرافت طبع اور کریم النفس کے شاہد توضرور تھے لیکن میری جو تصویر انہوں نے اپنے الفظ میں کھینچی اس مں میرے لئے اپنے خدوخال کو شاخت کرنا ممکن تھا.ابھی ترین کی رات میں تین نام باقی تھے کہ روس کے سفر نورین نے بھی اپنانام بھیج دیا.سارے اشتراکی ملک کیطرف سے بلغاریہ کے مندوب مناسب الفاظ میں اظہار خیال کر چکے تھے لیکن سفر زدرین شائد اس پر مطمئن نہ ہوئے تھے اور انہوں نے روس اور اشترا کی مالک کی طرف سے دوبارہ صدر کی خدمات اور بالخصوص اس کی غیر جانبداری کوسراہا.آخر یہ نیست ختم ہوئی میرا بارہ اپنے الفاظ ومندو مین اور عملے کے تعاون کے شکریے تک محدود رکھنے کا تھالیکن ایوان کا ماحول کچھ زائد کا انتقامی تنها می نوشمال در رنگ حال ملک کے در میان اقتصادی تعاد کی طرف توجہ دلاکراس ٹی وی میلیج کو پاٹنے کی شدید ضرورت پرند یا میری ادا نہ ہجوم جذبات کی وجہ سے نرم اور دی وی تھی شائد اس وجہ سے در بھی توجہ سے سنی گئی.ایوان میں کامل خاموشی تھی لیکن جب میں نے آخری الفاظ میں اپنے رفقاء کو دا نے نہ یکن کیا والا اسے محسوس ہوا جیسےکسی طوفانی سمندر کانٹوٹ گیاہے.اور دوبین کا ایک ملکی صدارت کے پلیٹ فارم پر جمع ہوگیا.بعض افریقی اور ایشیائی مندوبین نے مجھے معانقے سے نوازا اور بہت سوں نے شکریہ اور افرین ے الفاظ کہے میں نے کچھ کہنے کے قابل نہ تھالین دل بار بار پکار انها سحبت لک روحی ربانی ، سمارت لک رومی د بنائی.حکومت پاکستان کی طرف سے شمالی اور مشرقی | دوسری میں دفتر پہنچنے پر وزیر خارجہ کا نارملا کہ اور مشورے افریقہ کے ممالک کے سفر کی ہدایت کے لئے راولپنڈی آرمیں نے تعمیل ارشادمیں رخت سفر باندھا رای ما مردانگی کی تیاری کرلی.راولپنڈی ما ر ہنے پر وزیرخارجہ نے راما این امور پر مشورے کی ضرورت ہے وہ تو وزارت سے کرلو لیکن میں غرض نہیں یہاں جانے سے یہ ھی کہ یہاں سے ایسے کام میں مشرق اور شمالی افریقہ کے مال سے میری ہوتے ہوئے جاؤ ان سب کے ساتھ بلاشبہ ہمارے تعلقات خوشگوار اور دوستانہ ہیں.لیکن تمہارے جانے سے اور بھی مضبوط ہو جائیں گے.کیونکہ انمیں سے نئے آزاد ہو والے ملک کے ارباب حکمت ذاتی طور پر ہمارے نہایت معنون ہیں اور تمہارے جانے سے انہیں خوشی ہو گی پر محمد علی صاحب بوگرا کی علالت اور وفات میں راولپنڈی پہنے سے کودن قبل وزیر خارجہ صاحب کو دل کی کچھ تکلیف ہوگئی تھی علی میران نے کام سے قطعی رد کیا ہوا تھا.وہ خودتو لمبی ملاقاتوں کے خواہشمند تھے لیکن می نے ان کی صحت اور طبی ہدایات کے پیش نظرخودی یہ احتیاط کیکہ ہر ملاقات میں پندرہ منٹ سے زیادہ ان کی خدمت میں حاضر نہ رہتا انہوں نے یقین بھی دلایا کہ اب وہ فضل اللہ پوری صحت میں ہیں.لیکن چونکہ ڈاکٹروں کی بات تھی کہ چلنے پھرنے اور بات چیت
400 ی اختیار رکھیں اسے میں نے طبی ہدایت کی خلاف وری مناسب جهی به مانای ماری آخری ملاق امین ثابت ہوئی اناللہ وانا الیہ راجعون.مرحوم سے میری پہلی ملاقات آئورا می ہوئی تھی جب وہ وہاں پاکستان کے ہائی کمشنر تھے.اس زمانے میں بھی وہ دو تین بار اسمبلی کے اجلاس کے دوران میں نیو یارک تشریف لائے تھے.آٹو سے بوب سفر مو کر واشنگٹن گئے تو ماہ کی ملاقات کے زیادہ مواقع میسر آنے لگے.وہ نہایت شریف طبع اور بہت متواضع تھے.پہلی ملاقات سے ہی مانی تعلقات دوستانہ ہوگے اور مین کی سیم نوازشوں کی وجہ سے میدان کا منون بار با اله الا العالم نصرت فرمائے اور کمال فضل اور رحمت کا سلوک فرمائے آمین.مالی اواپسی کے سفر میں کراچی سے دن کے رستےپہلے میایی یا سوالی کا دارالحکومت ہے ان دونوں ریان نظرات سانی یاری یاری استان تمام مرد کے مایہ اور ایم ایل قرشی صاحب حکومت کے اقتصادی مشیر تھے ان دونوں اندروں کی خدمات حکومت پاکستان نے اقوام متحد کی درخواست پر عار نیادی ہوئی تھیں اور حکومت سومالیہ کے میر ھے.دونوں اپنے اخلاص، محنت اور ختار مالیہ کے حقوق اور مادی حفاظت کی وجہ سے مالیہ کاحکومت اور عوام میں نہایت قدر ومنزلت رکھتے تھے جس سے مجھے بہت وشی اور اطمینان ہوا.مگی میں قیام کے دوران میںمیں نے سرمائی پارلیمنٹ کوخطا کیا.متعدداواروں کو دیکھا.وزیراعظم زیر خارجہ اور وہاں کے دیگر قائدین سے ملاقاتیں اور مذاکرے ہوئے.صدر ملک نے شام کے کھانے کی تقریب میں سومالیہ کا سب سے ان والا ملارایا ایک وقت میں سوالیہ کا اعلا ر بریک کے مویشیوں کا چارہ پیدا کرتا تھ اور سا لم میں وسیع چراگاہیں تھیں مویشیوں کی کثرت کی وجہ سے دودھ با فراط میسر آتا تھا بیان کہ عمارتوں کی تعمرمیں ہونا سکھانے کیلئے پانی کی جائے دود عود استعمال ہوتا تھا مجھے بتایاگیا کہ دودھ سے کھایا ہوا ہونا عات کی مضبوطی اور پائیداری کا موجب ہوتا ہے.واللہ اعلم بالصواب.وکی شد با نتیش کے ایسے مجھے BRONCHITIS کی تکلیف ہوگئی.ایک معمر اطالوی ڈاکٹر مجھے دیکھنے آئے.وہ اپنے.فن میں ماہر ثابت ہوئے.انہوں نے جو علاج تجویز کیا اس سے مجھے عبد افاقہ شروع ہوگیا.فالحمدللہ.ایک احتیاط جو انہوں نے انی یہ تھی کہ یا سرگرم میامی جان بند کر دیا جائے اور ادنی گرم لباس پہنا جائے.اس ہدایت کا دوسراحصہ مجھے کچھ عجیب معلوم ہوا.ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ لو سے حفاظت کیلئے یہ اختیاط ضروری ہے.مگدی سے نیروبی روانہ ہونے تک ہماری کی تکلیف توبہت مرتک رفع ہوگئی تھی البتنا احتیاط کی ضرورت باقی تھی.کینیا نیروبی میںپاکستانی کمتر سردار عبدالغفور صاحب تھے وسردار عبدالرب نشتر صاحب مرحوم کے برادر اصغر ہیں ں ہوں نے مجھے نے ہاں ہاں بٹھایا اور انہوں نے اور انکی کی مارنے کی دقیق مہمان نوازی اور تواضع کا اٹھانے رکھا.مجھے ان کے ہاں ہرلحاظ سے نہایت آرام میر رہا.فجزاهم الله خيراً موگادیشو میں سخت نتیش کا سامنا تھا.یزد با مرتفع ؟ لی کوس علاقے میں واقعہ ہے میرے پینے کی وہاں بارش بھی ہوئی اور جو می خاصی خنکی ہوگی اس وجہ سے 15 RONCHIT کی بروشات اتی تھی اس نے انفلونیزا کی صورت اختیار کر لی.ڈاکٹرسید محمداسلم صاحب نے بہت شفقت اور تو یہ اعلان کیا اور اللہ تعال
۶۵۶ کے فضل سے یہ تکلی کے فضل سے یہ تکلیف بھی رفع ہوگئی میرے نیروبی پہنچنے کے دن سوپر کو سردار عبد الغیر صاحب کی طرف سے استقبالی تقریب کا انتظام تھاجس میں مٹر سیکم میکڈانلڈ بھی جنہیں گورزی کا چارج لئے ابھی دو تین دن ہی ہوئے تھے تشریف لائے.دومٹر ریمیرے میکڈانلڈ کے صاحبزادے ہیں تو گول میز کانفرنس کے زمانے میں وزیر اعظم برطانیہ تھے وہ کچھ عرصہ برطانیہ کی وزارت یں بھی رہے تھے.گول میز کانفرنس کے سلسے میں میرےان کے ساتھ دوستانہ مراسم گئے تھے.اس کے بعد جب وہ جنوب مغربی ایشیا میںبرطانوی کمشنر تھے تو دو ایک باران سےملاقات کا اتفاق ہوا تھا.نیروی میں ملے ہی فرمایا فرصت ہو تو کل کسی وقت گورنمنٹ ہاؤس آؤ تم سے بہت کی باتیں کرنی ہیں.میں یا تو گفتگو زیادہ ترینیا کی آزادی کے آخری مراحل کے متعلق ہی میں ے کہ اگر آپ یا تجربہ کار اور ہمدرد سیاستدان بھی اس کمی کو بلدیہ الاسکات پر یہ کسی سے بی سی نہیں سکے گی.فرمایا برطانیہ کیطرف سے تو کوئی مشکل نہیں ساری مشکلات درونی اور شی یا ابالی میں میرے پیش رو مفت میں وزارت ک ایک اجلاس ان ملک کے تصفیہ کیلئے وقت کیا کرتے تھے میں نےلے کی ہے کہ ہر تنے ہی کم سے کم مدارت کے تین اعلام ان مشکلات کے حل کیلئے ہوا کریں.اور اس پر سب فریقین کو رضامد کر لیاہے کہ جو مال آپس کی گفتگومیں باہمی رضامندی سے طے نہ ہوسکیں وہ سیکریٹری آن اسٹیٹ نو آبادیات کی دم میں انکے آنے پر پیش کر دیے جائیں اور وہ انہین کے ساتھ مشور کے سب سے پر نہیں اے سلیم کرلیا ہے اور آئی میں سے ملان تجویز کر دیجئے میں سیر کرتا ہوں اس طورسے اب تمام مال اول و بالاتفاق حل ہو جائیں گےاور اگر کوئی باقی رہ گیا تو روزہ طریق سے طے ہوجائے گا چنانچہ ان کی مخلصان علی ے تے میں کیا کی آزادی کا بھی جلد فیصلہ ہو گیا.مسٹر جو کینیا اور سٹر ام سیویا اور نیروبی کے قیام کےدوران میں وزیر اعظم ازاین امر مونٹی کی خدمت می دیگر قائدین کینا سے ملاقاتیں بھی حاضر ہوا.دوران گفتگو میں فرمایا جماعت احمدیہ بیاں بہت اچھا کام ی ہے.جب میں قید تھان کے نمائندگان مجھے جیل میں لاکرتے تھے مجھے نوں نے قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ بھی دیاتھا.جسے مں نے چار بار تو جیل میں پڑھا اور اب پانچویں بار پڑھ رہا ہوں جب مجھے کسی مسلے پر اصولی ہدایت کی تلاش ہوتی ہے تو " چنانچہ نیویارک واپس پہنچنے پرمیں نے ایک سنہ انکی خدمت میں ارسال کر دیا کنیا کے دیگر وزراء اور قائدین کے ساتھ بھی لنے کا اتفاق ہوا.میرے اندازے کے مطابق ان سب میں مسٹر نام ہو یا قابلیت کے لحاظ سے افضل تھے.واللہ اعلم بالصواب.ا عبالا فراری برادراکبرسرداربار بنا کر احرام سے کیاکرتے تھے کہتے تے بےمیں پنجاب کاگورنر اور نالج کی تکلیف میںمبتلا ہوگیا توظف الدخان متواترہ مہینوں میری بھائی صحت کیلئے دعا کرتا رہا.میں نے کہایہ درست ہے ہمارے ہاں قابل خادمان قوم کی افراط نہیں اور سہ دار صاحب مرحوم کا وجود اس لحاظ سے بہت قیمتی تھا.با وجود اختلاف عقائد کے ہمارے باہمی تعلقات نہایت دوستانہ اور خوشگوار تھے.میرے دل میں ان کا بہت احترام تھا.اورمیں انہیں بہت قدر
کی نگاہ سے دیکھا تھا.ان کی آخری تیاری کی اطلاع مجھے جیسے کراچی کے پو لی اور یں شیخ مجانا مد صاحب اور چودھری یرا احداح کے مارا ایک بار پرسی کیلئے سیال حاضر و بیماری کی تم تفصیل سے سنائی اور رخصت کرتے وقت میرا ہاتھ انے ونوں ہاتھوں میںکچھ دیر سے ہے اور فرما میرے لئے دعاکرنا.اس بار میں میں نے مار دعا کی توی پاتایا لیکن للہ تعالی کی طرف سے فیصد صادر ہوا کہ وہ اپنے مولا کے حضور حاضر ہو جائیں الہ الالا مضرت فرمائے اور اپنی رحمت کے سائے میں جگہ دے.آمین.نیروبی بہت خوشنما شہر ہے اور آب و ہوا انہایت معتدل ہے ویسیوں اور پردیسیوں سب کو موافقی آتی ہے.انگانیکا نیروی سے برا ارادہ الاسلا سے ہوتے ہوے ہو جانے کا تاوانا ناک کے مربی علاقے کا نظام مرکز ہے.وہاں احمد بریشن بھی قائم ہے اور سجد محمدیہ کی بہت دیدہ زیب عمارت ہے.اس مسجد کے بنانے کا فیصلہ زمانہ جنگ می کیا گیا تھا.ن دنوں کچھ اطالوی جنگی قیدی شورای نظر نہ تھے.ان میںسے بعض فن تعمر کے ساتھ مسجد کی عمر کیلئے ان کی خدمات میرزائی ور انہوں نے شوق اور اخلاص سے ایک خوبصورت عمار غریب کے مجوزہ اندازے کے اندر نمی کردی.شیخ عمری عیدی ان دونوں مغربی علاقے کے کمتر یک حدی دوست شیخ عمر عبیدی مرسوم تھے جب شیخ عمری عبیدی صاحب کو میرے دارالسلام نے کے ارادے کاعلم ہوا توانہوںنے مجھے لکھ تم مٹور میں ہارے پاس ٹھہرنے کیلئے درون مزور نکالو.اس وقت کی اساس سیری در گاما کا کرایا ہوا تھا جس می نیروبی اور کہا کے درمیان صرف تین دن میسر سکتے تھے شیخ عمری عبیدی کے اخلاص اور تقوی کی وجہ سے میرے دل میں ان کا درجہ احترام تھا.اور میری شدید خواہش تھی کہ کسی صور انکی ملاقات کا موقع میتر آسکے میتر آس کے بیشیخ عمری بعیدی نہایت مخلص نوجوان تھے.وہ تنزانیہ کے صدر مملکت مٹر کو لیس ناثر یرے کے تم مکتب تھے.اور اسی زمانے سے ان کا آپس میں گہرا دوستانہ تھا.سلسلہ احمدیہ میں شامل ہونے کے بعد دینی تعلیم کمی کیلئے کہ وہ آئے اور سال ڈیڑھ سال جامعہ احمدی تحصیل عل میں گزارا اور زندگی دس دن کیلئے وقف کردی.دارالسلام ایسا جانے پر احمد میش باروی میں کار ہائش اختیار کی تعمیر میں عبادات اور خدمت دین کا اعلی معیارقائم کیا عربی اورانگریزی می خاصی مہارت حاصل کر چکے تھے.دارالسلام کے حلقوں میں ان کا بہت احترام تھا.پاکستان سے واپسی کے ایک سال کے اندر ہی درہ دار اسلام کےپہلے افریقی مداد بلدی منتخب ہوئے اور پلے سال کی میعاد گزرنے پر بلامقابلہ راستے سال کیلئے پھر مر متخب ہوئے.لیکن اس اونچنے مہنگ پر فائز ہونے کے باوجود ان معیار زندگی کیسادگی میں کئی فرق نہ آنے دی ملک کی آزادی پر جب پارلیمنٹ کاسیل انتخاب ہوا لوہا مقابلہ پالیمنٹ کے رکن منتخب ہوئےاور تو اعر صاحب مغربی علاقے کے کمر کے منصب پر ائمہ ہوئے میں ابھی نیروبی ہی میں تھاکہ کا اپنا مکروہ ایک کانفرنس میںشرکت کیلئے دارالسلام سے ہیں اور کچھ دن میں ٹھہر کے لن میرے لئے بورا جنکی ضرورت نہری.انہوں نے بھی بتایا کہ صدر ملکت نے آپ کے قیام کا انتظام اپنے پاس سٹیٹ ہاؤس میں فرمایا ہے اور دارالسلام ے کمپالہ جانے کا انتظام حکومت کی طرف سے کر دیا جائیگا.
صد رہ نائری کے ہاں قیام دار السلام میں تین دن بڑی دلچسپی میں گذرے.دو تین تقریریں بھی ہو میں سب سے دلچسپ صور نا ٹریرے کی محبت رہی اور ہے دل نوشن بشیخ عمر عبیدی کی رفاقت دار اسلام کی آب و ہوا گرم اور مرطوب ہے.لیکن سٹیٹ باڈس پر انا ترین گو رنمنٹ ہاؤس ہے جس کی تعمیر نہایت وسیع پیمانے پر ہوئی تھی.کرکے فراح اور ہوا دار میں دیواریں سوڑی اور چھت بلند - کروں کو ٹھنڈا رکھنے کا انتظام بھی ہے ہرطرح کا آرام میر آیا مصدر " نائمر میرے ایک بیدار مغز اور قابل سیاستدان ہیں سخت سے سخت بات نزم سے نرم الفاظی ادا کرنیکا مکہ ر کھتے ہیں.جن اداروں کے دیکھنے کا اتفاق ہوا انسے میں نے اندازہ کیاکہ تانگانیکا این مشکلات کا حل دانشمندی اور محرم سے تلاش کر رہا ہے.صدر نائی میرے نے میاں نواندی اور تواضع کا ہر سلوسے خیال رکھا.ان کی اپنی طبیعت بالکل سادہ ہے کان ے کسی قسم کا تکلف یا نفع نہیں کرتے.فرمایا جب ہم نے سٹیٹ ہاؤس میں رہائش اختیار کی پیے ہیں مجھے اورمیری یوی کو اتنے وسیع رہائشی کمروں سے ملانا اور کھانے کے مرد کا رستہ عمل کرنا دشوار ہوتا تھا، آخریم نے فیصد یا کہ ہم اپنے ذاتی استعمال کیلئے مر د کے کھیں گے جن میں اپنی ضروریات اور عادات کے موافق سادہ سامان یکھیں گے.اب وہ دو کرے گویا ہمارا گھرمیں اور باقی سٹیٹ ہاؤس مہمان خانہ ہے جس میں ہم اپنے آپ کو بھی مان سمجھتے ہیں کھا " یخ عمر عبیدی نے ایک در رایا یا انہیں علم ہےمیں نے اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کی ہوئی ہے ریلو سے دار اسلام واپس آنے پرمیں پلے میٹر تب ہوا پھر پارلمنٹ کارکن منتخب ولا علاقائی کمتر ہوں.مجھے اس بت کی نظر ہے که میری یہ سرگرمیاں میرے وقت کی روح کے خلاف تو نہیں.تمہاری اس کے متعلق کیا رائے ہے ؟ میں دعاء کے ذریعے ہدایت تو طلب کر رہا ہوں.چند دن ہوئے میں نے ایک خواب بھی دیکھا.جس کا شاید اس بات سے بھی کچھ تعلق ہو.لیکن وہ خواب بیان کرنے سے پہلے میں تمہاری رائے معلوم کرنا چاہتا ہوں.میں نے عرض کیا کہ اس معاملے میں میری رائے تو کوئی وقعت نہیں رکھتی اگر آپ کو اس سلسے میں کوئی پریشانی ہے تو آپ حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ کی خدمت میں عرض کریں اور تو ارشد حضور کا ہو اس پر عمل پیرا ہوں.لیکن چونکہ آپ نے مجھ سے مشورہ طلب کی ہے اسلئے اپنا ذوقی تاثر گذارش کر دیتا ہوں جو یہ ہے کہ آپ اس معالم میں کمال اخلاص اور دیانت کے ساتھ اپنے ضمیر کو ولی اگر آپ کا حقیقی مقصد خدمت دین ہے اور یہ مواقع واللہ تعالے نے اپنے فضل سے مہیا فرمائے ہیں ان کے فرائض کو کمل دیانتداری کے ساتھ سرانجام دیتے ہوئے پ پھر بی ہر موقعہ کو خدمت دین کا ذریعہ بناتے ہیں تو آپ کی پریشانی کی کوئی وجہ نہیں لیکن اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ ہیواوے اور یہ نصب اپنی ذات میں آپ کیئے پریش بن ہے میں تو پھر کو بیک کر ہونی چاہئے.اس پرانہوں نے اپنا خواب سنایا جس میں انہوں نے دیکھا کہ صدر نائر کیسے ایک سڑک سے گذر ہے میں بیشیخ عمر عبیدی صاحب بڑک کے کنارے پر اور لوگوں کے درمیان کھڑے ہیں.صدر انکی طرف متوجہ ہوئے اور والفاظ میں کچھ ہیں فرمایالیکن ایک میل نکوعطا کی میں خواب کی تعبیرتو یا یا اس سے ایک کا خواب مرے تغیر ہوجائے یا کیا کیا اور رات تک کے نیویارک این کا
409 *+ تھا.سفر کے دوران میں ہوائی جہان میں لندن ٹائمز میں سرخی دیکھی تانگانیکا کی وزارت میں تبدیلیای فرمایشی عمران عبیدی صاحب کا خواب یاد آیا اور بڑے شوق سے خبر کی تفصیل پڑھی.پچھ سات وزارتوں میں تبدیلی کا اعلان تھا.اعلان کے مطابق شیخ عمر عبیدی صاحب کو وزیر المان مفقر کیاگیا تھا.میںنے مبارکباد کا لکھا اور کہاکہ یہ آپ کے خواب کی تعبرے ہوں ے جواب میں لکھاکہ چودھری محمد ر ی مر گیا نے بھی بی بی کی ہے میرا نا انداز یہ تھا میرے پر کوئی ایسی خدمت کی جائے گی جس کا مقصد سواحلی زبان کو رواج اور دست دنیا ہو سکی ایک زن می میرا اندازہ بھی صیح ثابت ہواہے کیونکہ خان صدر نے میرے ساتھ مرے منصب کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا اس وزارت کا کام تو ایسا او بل نہیں ہے امید ہے آپ ساتھ ساتھ سواحیلی زبان و فروغ دینے کی طرف بھی توجہ کریں گے.اقوام متحدہ کی املی کے اٹھارویں سالانہ اجلاس میں شیخ عمر عبیدی قاب تنزانیہ کے دن کے رئیس تھے.دوران اجلاس میں املی میں بھی اور ا سمبل سے باہر بھی ملاقات کے مواقع میسر آتے رہے اس تبہ ہم بھی نہ تھاکہ یہ آخری ملاقاتیں ہیں.کچھ رصد تار میں افریقی ملک کے سربراہوں کی کانفرنس ہوئی مشیخ عمری عیدی صاحب صدر نا ریے کے ہمراہ اسکا نفرنس میں شرکت کیئے تاہر تشریف لے گئے.وہیں بیاہ ہوگئے.صدر ان ٹریرے نے بہترین علاج کی خاطر جرمنی کے دارالحکومت کو بھجوا دیا.مرض کی علامات کچھ ایسی سنجیدہ منفی ریختہ تشخیص تو نہ ہوسکی لیکن غالب قیاس تھا کہ خوراک کی خرابی مرض کا اصل باعث ہے.بون سے دو محبت نامے اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے مجھے ارسال فرمائے.دوس سے محبت نامے کے ملنے کے چند دن بعد پیشتر اس کے کہ میرا جواب انکی خدمت میں پہنچے تنزانیہ کا یہ مہر تاباں قبل از وقت ہی غروب ہو گیا.اناللہ وانا اليه راجعون غفر الله له و جعل الجنة العليا مثواه...گرچه جنس نیکوان این چرخ بسیار آورد یه کم برائید یا د دری با این صفا د تر میتیسیم اے خدا به تربیت او بارش رحمت بسیار به داخلش کن انر کمال فضل در بیت النعيم انے کی اور اپنی تو ملکہ تمام شرقی افریقہ می شیخ عمر عبیدی کو جوعزت کا مقام حاصل تھا اس کا اندازہ اس واقد سے ہو سکتا ہے کہ جب اس نوجوان شہید قوم وملت کا جنازہ قبرستان کی طرف روانہ ہوا تو اس کے تابوت کو اٹھانیوالوں ی در ترا نین ولی نائی ہے، وزیراعظم کیا جوینیا اور اکراو وے وزیراعظم یوگنڈا شامل تھے.یوگنڈا دارالاسلام ہمارا اور گرم کیا کہ جانے کا تھاجس کے لئے مانگا نیا کی حکومت کی طرف سے ایک ESA ہوائی جاز مہیا کر دیا گیاجس میں یہ سفر آرام و رفت سے طے ہوا میرا مال خر رند کو دیکھنے میں ان کی حیثیت ایک راتی اڈرن گھوڑے سے زیادہ معلم نہیں ہوتی تھی لیکن پروانہ نہایت پرسکون اور محور تھی.پائلٹ ایک ٹور مین صاحب تھے چونکہ میرے علاوہ اور کوئی ساغر نہ تھا.میری نشست ان کے قریب تھی لیکن انکی توجہ اپنے کام کی طرف تھی اور می اپنے خیالا میں مونا جب جہاز نے وکٹوریہ نیا ز کے اوپر پر از شور کیا کہ یہ بھی ایک چھوٹا سا سمندر ی ہے توقیری
ترویجہ ارد گرد کے منظر نے اپنی طرف کھینچ لی.ساتھ میں ایک ایک بادل تھا یا ہوا تیز ہوگی اور اولوں کا طوفان شروع ہو گیا.اوے زور سے طیارے کی چھت سے ٹکراتے تھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ آسمان سے چاند ماری ہورہی ہے.میںنے تسبیح وتحمید ور ان کی اللہ تعالی کا یک فضل اور اسکی کسی قدرت ہے کہ طوفان کی شدت میں ایک چھوٹا طیارہ بالکل ہموار انی منزل کی طرف پوری رفتار سے محو یہ دانہ ہے.طیارے نے بلندی سے اترنا شروع کیا ساتھ ہی مطلع بالکل میان ہو گیا جھیل ادارہ نور نے ہمارے اڑن کھٹولے نے ایسے سکون و اطمینان سے کل کے ساتھ معائنہ کیا جسے ایک یہ کھیل کود سے توجہ شاکر ماں کی گود میں بیاہ لتا.میں پناہ لیتا ہے.فالحمد للہ.** کمالہ کا مطار انٹے ہے میں ہے جو کمیا لہ سے ۲۵ میل کے فاصلے پر ہے.ان دنوں یوگنڈا کے گورنر جنرل کی یاش انٹے ہے میں تھی اور حکم کے چند دنا تم بھی وہیں تھے لیکن ایران پاریمنٹ اور حکومت کے اکثر نا ر کیا لڑیں تھے طار ہ گورنہ جنرل کے سیکرٹری اور ڈاکٹر لعل دین احمد صاحب معر حجاب جماعت اور چند دیگر معزی موجود تھے.گورنر جنرل کے سیکریٹری نے گورنر جنرل صاحب کی طرف سے نوش آمدید یا در میام دیاکہ ہم نے تو تمہاری رہائش کا انتظام پنے ہاں کیا تھا لیکن ڈاکٹر لعل دین احمد صاحب مصرمیں کہ تم ان کے ہاں ٹھہر راب جیسے تم چاہو فیصلہ کرو.میں نے گورنر صاحب کی خدمت میں بعد شکریہ کہلا بھیجاکہ ڈاکٹر لعل دین احمد کے ساتھ میرے برادرانہ تعلقات قریب نصف صدی سے ہیں.ان کا دولت خانہ میں لے لیا ہے جسے اپنا گھر مزید برا مجانا زیادہ کیا میں گزارنا ہوگا اس لحاظ سے بھی کیالہ یں ٹھہرنا سہولت کا موجب ہوگا.میں آپ کی سہولت مطابق آپ کی خدامی نیاز حاصل کرنےکےلئے حاضر ہوں گا بسیاری صاحب نے یا آپ کافیصلہ ہو کہ کیا میں ٹہرنے کا لانا اور یہ جو صحت کی اور آپ کے قیام کے عرصے میں آپکی ہے قام پر حاضر ہے کیا اور گور نہ منزل صاحب کو بہت خوش ہو گی اگرآپ کا کھانے پر تشریف لائیں.میں نے ان کی تواضع کا کریہ ان کی مدت میں ایسا کر دیا.ڈاکر عمل دین احمد اب کے بال مجھے ہرقسم کا آرام اور سہولت میر ہے.انکے بچوں اور ان کی بیگم صاحبہ نے مہمان نوازی میں کوئی دقیقہ فرو گذاشتن کیا میرے انکے ہاں قیام کا درجہ سے مہمانوں کی " " ریل پیل ری لیکنی به سب چپل سیل ان سب کی خوشی میں ایادی کا موجب ہوئی.فجزاهم الله فی الدارین خیراً.یوگنڈا کے صوبہ لو گانڈ کے بادشاہ ان ایام میں یوگنڈا آئینی لحاظ سے ایک فیڈریشن تھا.فیر شیشی کا ہے سر فریڈرک متیا سے ملاقات بڑا صور اوگان تھا.کمال ایران کا دارالحکومت ھی تھا اور یوگانڈا کا بھی.لو گانڈ کے بادشاہ سر فریڈرک میں تھے ان کے آباؤ اجداد صدیوں سے اس علاقے پر حکمرانی کرتے چلے ئے تھے.سر فریڈرک کیمبرج کے تعلیمیافتہ تھے اور خوش خلق نو جوان تھے اپنے ملک اور اپنی قوم میں ان کا در سعر صرف بادشاہ ہی کا تھا بلکہ مذہی حیثیت میں بھی وہ اپنی قو کے سربراہ اور رہنما تھے.مجھے انکی خدمت میں حاضر کرنے کا موقعہ ملا.ان دنوں کمپالہ سے قریب.میل کے فاصلے پر دیہات میں مقیم تھے.کچھ عرصہپہلے برطانوی حکومت نے انہیں ان کے اختیارات
ے حرام کرکے انگستان میں قیام کرنے کا حکم دیا تھا.بڑی وجہ شکایت تھی کہ انہوں نےاپنی پہلی شادی کے کچھ عرصہ بعد ان بیوی کی حقیقی بہن کے ساتھ بھی شادی کر لی تھی اور بیک وقت دونوں بیویوں کے ساتھ ان کے انرودا جی تعلقات تھے.یہ صورت انکی قومی روایات کے خلاف نہیں تھی.دونوں ہو ہاں اپنی اپنی محکمہ خوش تھیں ان کی خوشد آن سن کے ساتھ مجھے کچھ عرصے بعد کوالالمپور میں ملنے کا اتفاق ہوا اور جو خود ایک تعلیمی نستر، قابل، روشن ضمیر خاتون تھیں اس رسے کہ ممکن دوسرے سرے پر ملی تھی لیکن یہ موت حکوت رانیہ کیلئے ناگوار تی خصوصا اس لئے کہ سر فریڈرک اپنے آپ کو عیسائی کہتے تھے اور کلیسا کوان کی پیدا کردہ صورت حالات قابل قبول نہ بھی.ادھر سر فریڈرک کو کلیسا اور یہ طانوی حکومت کا موقف رغیر معقول اور غیر واجب نظر آتا تھا.انہوں نے عیب ثیت کو ایک فیشن کے طور پر بول کر لیا تھا لیکن باد حد معیت ر کمی کی ڈگری کے ان تمام اقرار صدیوں پرانی قبلی اقدار ہیں اورانکے خیال میں ان کا پہلی بیوی کی موجودگی می اس کی بہن کے ساتھ شادی کرنا بالکل ان اقدار کے مطابق تھا.جب انہیں ان کے اختیارات سے محروم کر کے انگلستان بھیج دیا گیا توان کے قبیلے میں اس پر بہ بے چینی پیدا ہوئی اور حکوم کو بہت مشکلات کاسامنا ہوا.جب یہ بے چینی بجائے فر تونے کے بڑھتی چلی گی تو اور برطانوی حکومت نے سر فریڈرک کو وطن واپس آنے کی اجازت دیدی اوران کے اختیارات بھی بحال کر دیئے گے.افریقی حالات اور افریقی معیارکے لحاظ سے سر فریڈرک ایک بیدار مغز کمان تھے ان ملک کیلئے انہوں نے پارلیمنٹ تام ک تھی.کمال کی پہاڑیوں میں ایک پہاڑی پرانہوں نے ایوان پارلیمنٹ اور حکمت کے دفاتر تعمیر کرئے تھے یہ عادات عالیشان تھیں اور ہر نوع کے آرام اور آرائش کے سامانوں سے آراستہ تھیں.مجھے ایوان پارلیمینٹ دیکھنے اور ان کے بعض وزراء سے ملنے کا اتفاق بھی ہوا.ان کے وزیر تعلیم انہی کے عزیزوں میں سے ایک نہایت اعلی تعلیم یافتہ روشن دماغ نو جوان تھے جنہیں اپنے ک و قوم کی ترقی کی رکن تھی تعلیم کے رسیل سے انہیں تو چی تھی میری کو اور عیسائی تھے مگران کے یہ عزیز علی وجہ البصیرت سلمان تھے اور اسلامی امورمیں گری دلچسپی رکھتے تھے جب میں معہ کچھ انتقاد کے سر فریڈرک کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ بہت تواضع سے پیش آئے.کوئی نصف گھنٹہ کی ملاقات کے بعد میں نے اجازت طلب کی تو فرمایا میری بڑی خواہش ہے کہ آپ سب دوپہر کا کھانا نہیں میرے ساتھ کھائیں میرے پروگرام یا نیا گانا تو سنی تھی لیکن شاہی فرمان سے انکار " زبان کے لیے اور تلفظ پر کمرے کی پچاپ تھی بہت دھیمی اور نہم آواز میں بولتے تھے.یہ سب کچھ تو بیسویں صدی کے انگلستان ور کمی کا اثر تھا لیکن جب ان کاکوئی عزیز یا عازم کرے میں داخل ہوتا تو دروازے سے ہی ہاتھ پاؤں پر رنگ کر ان تک پہنچ کرانی گذارش کرتا.یہ صدیوں پرانی قومی رات تھی اور ہماری موجودگی میں اس پرعمل کئے جانے سے کمانے کے تعلیمیافتہ نوجوان کے چہرے پر خجالت کے کوئی آثار تھے.ہماری گفتگوان کی ذاتی دلچسپیوں ک محدودی با وجود ان کی قومی روایتوں کے دوران کی L
زبان زد عام مغربیت در بارہ بادہ نوشی کے رجس کا میری موجودگی میں توان کی طر سے کوئی اظہار نہ ہوا مجھے اکیش شخصیت قابل قدر نظر آئی اور بعض لحاظ سے ان کی بے بسی کی وجہ سے ان کے ساتھ ہمدردی محسوس ہوئی.چند سال بعد نئے آئین کے بائر یں ان کا ڈا کٹا بوٹے کے ساتھ اختلاف ہو گیا اور ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اوراب نا چار انگلستان میں مقیم ہیں.کمالہ اپنے مقام وقوع کے لحاظ سے ایک خوشنا مقام ہے.آب دیوا معتدل ہے.جو ادارے دیکھنے کا اتفاق ہوا، مثلا کا بیج ہسپتال، ایران و فانی پارلیمنٹ وغیر ان سے اور بازاروں، سڑکوں، باغات سے مجھے نماز واکہ یوگنڈا شاہراہ ترقی پر گامزن ہو چکا ہے اور علی علیہ ترقی کی طرف قدم اٹھارہاہے مسلمان طبقہ کوبھی آبادی کے دوسرے طبقوں کی ماندانی تعلیمی ثقافتی اور اقتصادی ترقی کی طرف توجہ ہے.نو تمیم شدہ جامع مسجد جو ایک پہاڑی پر واقع ہے نہایت نوشتا ہے.قریب ہی المیہ سکول کی عمارات میں جہاں نا معدہ پانے پر چوں کی تعلیم ا انتظام ہے.ان دونوں مقامات کو دیکھ کر مجھے بڑی خوشی ہوئی.بلدیہ کمپالہ کی طرف سے اعزازی ڈنر کا کے بعدی کی طرف امام کا ایک کھانے کا قریب کا انظم کیا گیا جس کی صدارت صدر بلدیہ مٹر پیٹل نے کی.ان تقریر کے دوران میں انہوں نے فرمایا قریباً ۲۷ ۲۸ سال ہوئے میں نے + تسطه بمبئی یو نیورسٹی میں بی اے کا امتحان دیا تھا.زبانی سوالات کو مجھ سے پوچھے گئے انہیں سے دو مجھے یاد رہ گئے ہیں.ایک سوال تھا محبت کسے کہتے ہیں.دوسرا سوال تا ظفراللہ خاں کون ہے.پہلے سوال کا جواب تومیں نے یہ دیا کہ ھے ایک محبت سے وطہ ہیں پڑا اسلے میں نہیں بتاسکتا جب کسے کہتے ہیں.دو سال کا جو میں نے دی ان ال ال مرکزی حکومت ہند کا ویہ ہے.گو اس وقت یہ بے وقوع مرگ نای نفی کرمیری اور ہمارے شام کے محرم مہان کی کبھی ملاقات بھی ہوگی.آج ۲۷، ۸ سال کے بعد شرقی افرایہ کے اس خوبصورت ہمیں یہ اتفاق کیا ہے میںنے این جوانی تقریرمیں مٹی مٹی کی میرانی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہیں امید کرتا ہوںکہ اتنے عرصے کے بعد جہاں یہ اتفاق ہو گیاہے کہ میر صاحب کی اور میری ام ملاقات ہوگئی ہے وہاں اس درمیانی عرصے میں میٹر صاحب کو محبت سے بھی گہرا واسطہ پڑ چکا ہو گا اور آج وہ پہلے سوال کا جواب بھی ذاتی تجربے سے دینے کے قابل ہو چکے ہوں گے.بلدیہ کا حال مہمانوں سے بھرا ہوا تھا.میر صاحب کئی منٹ تک مہمانوں کے کا قہقہوں کا نشانہ بنے رہے ! وزیر اعظم ڈاکٹر اد لوٹے کی وزیر اعظم ڈاکٹا لیٹے نے نیل پارلیمنٹری ایوان کے پانچے میں استقبالی ریموت طرف سے استقبالی دعوت کا انتظام کیا.جس میں گورنہ جرال، وزرائے کرام ، روسائے شہر اور دیگر مریدین نے نے شرکت کی.او یوگنڈا کے جنوب مغر میں روانڈا کامل ازرار تورکیا قوم متحدہ کی کیا حال کیا ا نا آزادی سے ہے تو قبیلہ روانڈ میں بر سر اقتدار تھاوہ اقلیت میں تھا.آزادی حاصل ہونے پر سب اختیارات اکثرت کے ہاتھوں میں منتقل ہو گئے اور اکثریت نے اقلیت کو مبتلائے محبت کرنا شروع کر دیا جس کے نتیجےمیں اقلی کی ایک خاص تعداد وانا میں منتقل ہوگئی، یوگنڈا کی حکو نے
انہیں سرحد کے قریب کے علاقوں میں بسانے کا انتظام کیا اس منصوبے کے سلسلے میں حکومت کو اقوام متحدہ کی ایجنسیوں خصوصا عالمی ادارہ صحت اور اقوام متحد کے پاہانہ نیوں کے محلہ کے ہائی کمشن سے مد در تعاون کی ضرورت محسوس ہوئی.حکومت کی خواہش پر میں نے سرحدی علاقے میں جاکرم منویہ کے بعض شعبوں کو دیکھے بخوشی منظورکر لیا.اس میں ا ر الدین محمد اب بھی سر کار شریف کے پتے ایک اس نے اک یکی یکی بوگیاں مین سڑکوں پرسفر کیا مجھے الفاق واد سب پتہ اور بات ابھی حالت میں تھیں.مس کرمی مارا قیام مساکر ان میں ہوا جو ایک خوشتان نہایت صاف اور بہت آرام دہ جئے قیامت اب بھی ڈاکٹراحمد دین صاحب سارہ میں دانش ھتے ہیں انکا مکان کے قریب ایک مرقع مقام پردات ہے جہاں اردگرایی و نظر دورتک نظر ہے مغرب کی نماز نے کے ان کے میں نے من میں ا ا ا ا اللہ تعالی کے فضل سے اس میں مادام تعمیر و کی ہے.الحمدللہ اسے ون ناشتے کے بعدہم سرحد کیطرف روانہ ہوئے دن کا اکثر حصہ پناہرنیوں کے باد کرنے کے صوبے کے مختلف شعبوں کو دیکھنے میں صرف وا.یورین اور فارین افسروں اور کارکنوں کی متعدی ، ہمدردی اوراخلاص سے یا بہتا ہوا اس پر اس کا والی ہوئی.یہاں یرند پاکستان مراد آباد کی طرف سے استقبالی دعوت کا نظام تھا ان سب صاحب سے مکروہت خوشی ہوئی شام کو کیالہ اسی ہوئی جمعہ کے دن نماز اور دوپہرکے کھانے کیلے میں جنج گیا.یہ قصہ کیا ل سے ۴ - ۵ میل کے فاصلے پر جنب شرق تحمل وکٹوریا یانی کے کنارے پر واقع ہے یہیں سے دریائے نیل جھیل سے نکل کر شال کی جانب بہت ہے جام تمام ہی کو ان کا مرکز اور صدر مقام بھی یہیں ہے مسجد محمدیہ اورمشن ہاؤس جھیل کے بالکل قرب واقعہ ہی اور دریائی کا حرج بھی وہاں سے دور نہیں.نماز کے بعد بلدیہ کی طرف سے استقبالی دعوت کا انتظام تھا.اس تقریب میں صدر بلدیہ اور معززین شہرسے طلاقات ہوئی.دریائے نیل کے مخرج پر کھڑے جو ان خیالات کا محروم رہاکہ اس مقام کی تلاش میں سنکی دی جانیں قربان ہوئیں اور شمال اور مشرق اور مغر کی طرف سے جنگلوں اور دلدلو و عبور کرتے ہوئے بڑے بڑے تالے مہینوں بھوک پیاس اور طرح طرح کی میتوں کا شکار ہوئے اور اب بڑے آرام اور اس کاش میں ر کرتے ہوئے امین نے لے کے اور پینے کے دیکھنے کے اندر ان اپنے جاتے لیاری کے حج کے منظر اپنے اپنے ذوق کے مطابی خط اٹھاتے ہیں.کمالہ کی مسجد محمدیہ کے افتاح کی سعادت کا تقابل تاریک با یک کالای لای پیر بھی بنیات تھی الت میں ے جانے قیام پر نور کے محمداحمد میں حار وادی محمد بی شر کی آباد کے اندر ایک نماز رفع مقام پر دال ہے مارت پاکیزہ ان سحری ، وادار اور خوشی ہے.اس مسجد کی تعمر یوگنڈا کی جاعت احمدیہ نے اپنی حثیت سے بڑھ کر تصریں لیکن خراجات ہی کرنے اور دیگر متعلق مالی میں سے بڑھ کر اور نمایاں حصہ ڈاکٹرلعل بن احمد اس نے لیا.جزاه الله فی الاین خبر محمد کی مکمل میرے کیا کہ جانکے تھوڑا وہ پہلے ہوئی تھی مسجد کی افتاح کی سعادت اللہ تعالی کے کمال فضل اور دورہ نوازی سے ے مال وی و ولد الحد اراک میں بھی مجھے جمعہ کان کاری کرنے کا اتفاق ہوا.درمیانی عمر میں حج کے ملحق نے کمرے تیار کر کے ایک کو بھی شروع کر دیا گیا تھا جو لفل اللہ کامیابی سے چل رہا تھا.طلباء کی تعداد کارت کی توسیع
THE PUNJABI کی متقاضی تھی.کیال سے میرا پروگرام خرطوم جانی کا تھا اس سفر کا آسانترین طریق نیروی کے سے ان کا تھا.اس وجہ سے مجھے ایک ہی ارشام نیروی میں گزارنے کا موقع مل گیا.کمشنر ا ن ہے یہ سا وقت بھی مختلف تقریبات کیلئے مخصوص کر دیا ہوا نقاب پر ت مسجد محمدیہ علی احباب جماعت کی صحبت اور نمازوں میں گذری.مغر کے بعد لم لیگ کی طرفسے کھانے کی دعوت تھی.رات کو پنجابی ادبی انجمن کے جلسے میں تقریر تھی.نصف شب کو خرطوم روانگی تھی.بیرونی کی پنجابی ادبی انجن میں پنجابی میں تری این ای وی انجمن اپنے انگریزی نام TERARY SOCIETY کے مطابق با اما و یا بیوی یا ان کاریابی ادبی انجمن اسلک ی مورد انگریزی کی ہیروں میں کھڑی ہوئی ہوگی.لیکن یہ میرے لئے اپناھی کہ نویں میں اکثر روی ایے بھی انگریزی الفاظ میں تھے.صرف میں نے ٹھیٹ پنجابی میں خطاب کیا دو تین گھنٹے بہت پر لطف صحبت رہی.نومر لاء میں پھر مجھے دو ن نیز دی ٹھہرنے کا اتفاق ہوا.اس موقعہ پر اس سائی کے سیکر یری سردار از نان سنگی ماست محمداحمدیہ میں تشریف لائے ا ا ا ا ا ا ا ک کی ان میں یک بنای استانی کی اور پڑھ کر سنایا ان سب حاضرین بہت اثر ہوئے اور یں تو آبدیدہ ہوگیا.فجزاه الا من الجزاء سلمان تو یز دبی پہنتے کی کاریں رکھ لیا ہوا تھا بنایا اس سے فراغت ہے یار کی راہ لی در عین وقت پر پہنچ گئے.دوری ا م م ج سے چھ سے فضل اللہ یخرت منظوم پنچ گیا.سوڈان میں اس سے پہلے خرطوم آچکا تھا لیکن یہ مازن ر او یعنی میں کل پہلے کی بات تھی.خرطوم میں دو دن بہت مصروفیت میں گذرے.اگر یہ ابھی سنور کا آخری تھالیکن دوپہر کے وقت گرمی کی شدت کا احساس ہوتا تھا.صدر ریاست کی خدمت میں باریابی ہوئی را تا مدین اور معنی کیا تا استقبالی دعوت میں ملاقات کا موقعہ ہوا.سوڈان کے تعلقات پاکستان کے ساتھ ہمیشہ بہت دوستانہ رہے ہیں.سوڈان کے ارباب حل و قد میں ضیاء الدین او کے بنیا ممنون ہیں کرانہوں نے ورنر جنرل کی مشاورتی کونسل کے چیر مین کی حیثیت سے سوڈان کی بہت مخلصانہ خدمات سرانجام دیں.قاہرہ میں صدر مملکت کرنل جمال خطوم سے میں قاہرہ آیا.صدر ملت کرنل جمال عبد الناصر صاحب السید علی بدانا مرد سے نارارات عبد الناصر و دیگر قائدین سے مذاکرات | صابری صاحب ار وزیر خارجہ اسی محمود نوری صاری سے ملاقات اور تبادلہ مناسب خیالات ہوا.صدر مملکت سب بی نهایت تواضع سے پیش آئے.ملاقات کے آخر میں رخصت کرنے کیلئے باہر کار تک تشریف آئے اور عرب دستور کے موافق پار کے ساتھ رخصت کیا.السید علی صابری صاحب نہایت سنجیدہ مزاج سیاستدان ہیں.حالات حاضرہ پر تبادلہ خیالات ہوتا رہا.اسی محمود نوری صاحب کیسا تھ لہو سے دوستانہ تعلقات تھے.جب وہ اقوام متحدہ میں مصر کے منتقل نمائندے تھے.بالکل بے تکلفی سے بات چیت ہوتی رہی.ٹریپولی قاہرہ سے میں ٹریچولی گیا.لیبیا، تونس ، الجیر یا اور مراکش کی آزادی کی کشمکش میں پاکستان نے نمایاں
۶۶۵ ئے حویلیا تھا اوران مالک میں پاکسان کے متعلق ہرطبقے میں نہات مخلصانہ جذبات ہیں جن کا اظہار میرے قیام کے دوران میں سرمقام واریا رام اللہ خیر.ان چاروں ملک میں حالات اورتاریخ اسلام کے آثامر اور ان سے متعلق مقامات میرے لئے بڑی لچسپی کا باعث ہوئے.ڈاکٹر اسید فاضل جمالی ٹر یونی میں میرے نہایت عزیز دوست ڈاکٹر سید فایل مالی سابق وزیر خاری عمران کے ارادے سے بھی ملاقات ہوئی و اقوام متحدہ کے کس شہر کے متعلق میں کوئی خدمت سرانجام دے رہے تھے ملتے ہی مرنے ریات کا آپ کا دل کہاں ہیں؟ کہا تونس مںمیں آپ کو ہاں لیں گے.ان سے بالتفصیل ان کے والد اس کے متعلق حالات معلوم کئے بنار کے انقلاب کے وقت اسید فاضل جمال عراق کے وزیر خارجہ تھے انقلاب میں وہ بھی زیر عتاب آئے محسوس ہو امات ادا کئے گئے فوجی عدال میں متقدم ملا سووریای ولی گوگولی کات زیبا یے گئے ہیں.اس تمام عرصے میںمیں ایک مخلصی کیلئے عامیانہ دا کار را با رایا اور اس کے بعد ہی یہ ویلی کو رہا کردیے گئے ہیں.ان کے صاحبزادے سے معلوم ہو کہ رہائی کے توڑ عرصہ د صحت کی بلی کی خاطر کی مدت کیسے سوئٹرزلینڈ تشریف لائے تھے ی میں تھے کہ جامع تونس کی طر سے فلسفہ اسلام ی ی ی ی ی ی ی وای جوانوں نے منظور کرلی جو کوائف انسے معلوم ہوئے وہ میرے اطمینان کا باعث ہوئے اور ان کے نتیجے میں مرا تونس پہنچنے کا شوق اور بھی تیز ہوگیا.تونس | تونس پہنچنے تک رمضان شریف کا مہنہ شروع اا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ت تونس الازار اور ماش نی یاری ور ان کا ان کا رنگ نہیں کیتی عموما افطاری در امکان دارد یا استاد بیک وقت بال ختم ہو جاتے ہیںاور مساعد نمانہ یوں سے بھر جاتی ہیں.فالحمد للہ.السید فاضل جمالی سے ملاقات تونس میں جس مہما خانے میں میرا قیام تھاوہ فرانسیسی اقتدار کے زمانے میں ایک افطاری می نے عرض کیا اس وقت تو میرا حاضر ہونا ہی مناسب آپ یہاں کے داروغ کو ٹیلیوں پر گھر کا یہ بتادیں وہ شور کو سمجھادی کے ورمیں جلدسے جلد آپ کی مدت میں حاضر ہو جاؤں گا.ہماری ملاقات با پر ایک تھی میں نے شروع ہی میں دنیا کی ایک کمرے نام چنتے رہے تھے یا نیچے ہے اور میرے تسکین ام جو ہو تے یا را ایرادی کی نانی تینوں ہوں میرا زندہ رہا لہ تعالی کے خاص اس سے یہ ہوا کی بارات و اطلاع ملی کہ در ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا م م م م ا ا ا ا ا یگان میں میر نام بھی شام ہے لیکن جب دوسری صبح تقل جانیوالوں کے نام پڑھے جاے تو میں یا نہ ہوتا.راہی سے قبل مجھے جنرل قسم کے رویے پیش کی گی انہوں نے بتایا جب بھی بہار نام فہرست میں آتا تھامی خود اپنے ہاتھ سے اسے کاٹ دیا تھا.میں نے ان کا شکر یہ ادا یا.تھوڑا عرصہ بعدوہ بیچارے نو بھی اس قسم کی مت کا شکار ہوگئے جسے انہوںنے شروع کیاتھا.میں نے کہایہ سال عرصہ آپکے ین کے لیے بڑی پرانی یا یا اللہ العالی نے رم رایا اور جان بخشی ہوئی.جب فوجی عدالت میں اپنے خلافت
ایان برای تو میں یہ تو جہ سے نجات میں کاروائی کر پاتایا تاکہ اپنے اپنے جانا ہیں ی تم کے در کی اڑانے کی کوشش کی اور رات سے موقف اختیار کی اوراس پر قائم رہے میں نےاپنی وزارت کے زمانے میں وہی ی اختیار کیا میں نے ایک کیلے نانا من مانا اوراس پر رانا نے فرمایا یہ ساری کے لئے بھی ا نانا نان تاکیا امی اور کرتا ہوں تو مجھتاہوں کہ می لئے یہ بہت اند من بھی ہوا.ایسے وقت میں جب یا بروت ای می میری تو ہماری باتوں سے بے کرائی اداکاری کا اتوار جاری رکھ اور بہت کچھ اس الہی ہدایت نام سے حاصل کی جو زندگی کی روزانہ شکش کے درمیان میں حاصل کر سکتا.اساس مطالعہ اور فکر کا فائدہ ام میں طلبا کو پہنچ رہاہے.میں نے پوچھایہاں کے حال کو اپنے کیے پایا فرمایا اس کو میں چھوڑ چکا ہوں.اس بیان یا مجھے کوئی ذاتی نہیں ہیں بی در ورقہ نے مجھے ہاں آنے کی دعوت دی تومیں نے یہ وضاحت کر دی تھی کہ من ہے سلایت کے بعض حصوں کے تعلق مجھے ان کے خیالات کے ساتھ اتفاق نہ ہو.انوں نے فرمایا ہماریر سے میری کوئی تو نہیں ہوں گی تو ستارے ایا تم کیا آزادی سے اظہار کرو.سو ا ا ا ا ا ا ا ا ا را در قران کریم کا اک اور اس نے پری اند و و و و یا امام کی ان اسال مالی کوان کے انہوں نے تو فرمایا.ہماری کنگو اری اداری با استال میلی گرمیوں کے موم کی کچھ عرصے کیلئے سٹرینی تشریف لے جاتے ہیں.انکی حیرت کی نجیر بود هری مشتاق احمد باجوہ صاحب امام محمدمحمود زیورک کے ذریعے سنتی رہتی ہے.صدر بور قیمہ سے ملاقات تونس میں حیا کا اس کی نیکی میں ان کا اتفاق ہو چکا تھا.عرب امریکن روتانہ سوائی کی طرف سےانکے اعزاز میں دھت تھی.میں مدعو تھا جب میںپہنچا تو وہ اپنے امریکن مشتاقین کے حلقے میں گھرے بیٹے تھے.دور سے مجھے دیکھا تو جلدی سے میری طرف تشریف لے آئے.اب تونس میں بھی ویسی کی شفقت اور عنایت سے پیش آئے میں نے انکی مہان نے ای بی سیم وزیر خارجہ سے تو املی کا صدر میں مرے پیش رو سے ملاقات ہوئی اور سمبلی کی صدر اور دیگر مشترکہ چینی کے امور کا تذکرہ ریا کارت ے ہیں یا ان پر افطاری کی دعوت ہوئی، تونس کاری کے باب اور بہت ہی پایا تونس کے باہرآثار تدویرکے یکھنے کا بھی نظام کیاگیا تو شہر اوراس کے مضافات میں جہا سے گزرنے کا اتفاق ہو تاعام آبادی کی طرف سے اخلاص ومحبت کا گرمجوشی کے ساتھ اظہار ہوا میں دیکھ کر الا علی کی قبیح و تحمید میں صرف ہو جاتا جس نے اپنے فضل اور رحم سے اپنے ایک طالبہ بندے کی محبت درد در ان علاقوں کے لوگوں کے دلوں میں ڈال دی.الجزائ کے وزیر خارجہ محمد قمیتی ترنس سے میں ابزار گیایہ طیارے سے اترتے ہیں وزیر خارجہ نے بڑے تپاک سے معانقہ ھر ہے." کیا وہ پہلے ہی نحیف الحبثہ تھے معانقہ سے محسوس ہوا محض مشت استخوان ہیں.پھر بھی زرد تھا.میں نے دریافت کیا کہ کیا ہوا آپ تو " بہت تکلیف معلوم ہوتے ہیں ؟ فریا میں پریس گیاتھا واں کئی دن یا رہا.میں نے کہا آپ کا نی صحت کے متعلق بہت احتیاط
کرنی چاہیے.آپ کے فرائض بھی اہم ہیںاور معروفیت بھی بہت ے فرمایا میں صحت کی نیکی کی المان زندہ ہے میں زندہ رہا انہ رہا.اس کے بعد پھر نیوپاک کے کھانوالی شا کی کیفیت ہوگئی میر ا ا ا ا ا اپنے دائیں ہاتھ میں فوطی سے پکڑ کر میرے ان کو پنے بازو کے نے دبایا اور مارکی مار کی طرف بڑھے.اس ہیئت می سفرے نظام کے ساتھ یک کیک کیکے میرالعارف کرادیا.پھرمیرے ساتھ ایک صوفے پر بیٹے اور بیڈو پر سرالعارف کرایا است است فرانسی میں ہو رہے تھے میں حملے کا ملا مجھ کتا کچھ تھا.خوش آمدید کے ساتھ کہا آپ پہلے یہاں نہیں آئے لیکن آپ کانام اس ملک میں خوب معروف ہے.اس کے بعد کہ کچھ اخلاص اور شوں نے انکی زبان پر جاری کیا کہ گئے.مارے شہر تک عوام کیطرف سے البانو امید کا اظہار ہوتا رہا میرے نام کیلئے ایرانی کرنے والا انتخاب کیا وزیر خارجہ نے یہ اطمیان کرنے کے بعد میری ام را یا انا مارنا اور ان پر کیا جاچکاہے فرمایاب پ نازاداکریں اور کچھ آرام کریں میں گھٹ بھر کے بعد آؤں گا اور آپکو نے ماں سے چلوں گا آج شام آپ ہمارے ہاں بسر کریں گے.انہیں کھائیں گے میں نے کسی اور کونہیں لایا.آپ کا سراری پروگرام سے سے شروع ہوگا.آن شام آپ خالص بار یہاں ہونگے این اما تو سارے کا ساردی کا تھا.انکی شادی کو اب اپارات امنیتی کانام بی الجزائر کی آزادی کی جد بدر میں معروف ہے.ناظم کی پہلی شادی دو تین سال قبل ایک قومیفائی سے ہوئی تھی جن سے انکے دو بچے ایک بڑھیا اور ایک لڑکی شادی کے تین سال کے اندران کے میں نے مل اور قومی اور میں اور ایرانی می کردی امنیتی ان کے دستر خان تھے یکن کان پر پہنے ہی میں وی او اشتیاق سے دونوں بچے مدرسے پٹ ئے وہ اس کی واضع شہادت تھی کہ بچے نہیں اپنا اپ ہی مجھے کا ی کھانے سے ادا ہوکر اور بچوں کو ل کر ناظم بھی نشست کمرے میں تشریف لے آئیں.ٹی وی پر میرے مار پینے کا منظرتھی دکھایا گیا اس کے دور میں میں نے کہا اقامہ دیکھا تم نے مجھےاس طرح پکڑ رکھا ہے کہ میں بھا نہ جاوی، فاطمہ نے کہا آپ کے یاں نے کا نہیں بہت اشتیاق اور بڑی شدت سے آپ ا ا ا ا را ت میں کہا ہے تو انہیں دیکھ کر ہی پرانی ہوا ہے.دیے تو یہ بھی تھے لیکن اب تو حیف نظر آرہے ہیں.انہیں ان صحیک کی کچھ کم ہونی چاہئے.وہ اس میں تو بتا سکتی ہوں لیکن یہ احتیاط نہیں کرتے.کام بھی آتا ہے کہ انہیں آرام کیلئے وقت نہیں ملتا.صدر مملکت کی دعوت افطار | صدر مملکت نے افطاری کی دعوت پر طلب فرمایا.شام کا کھانا رمضان شریف میں انارکی کا حصہ ہی سمجھا جاتا ہے.ان سب ملک میں رمضان کی پابندی بھی شدت سے کی جاتی ہے.اس دعوت پر وزرائے کرام اور عزین سے ملنے کا موقعہ میسر آگیا.اطفال الشہداء کیلئے دارالاقامہ علاوہ دیگر اداروں کے مجھے اطفال الشہیر کے دارالاقامہ کو دیکھنے ابھی اتفاق ہوا.اس ادارے کو دیکھ کر مجھےبہت خوشی ہوئی.یہ رہائش گاہ فرانسیسی اقدار کے زمانے کا ایک وسیع دل 14 ہے جوڑے پر فضا مقام پر واقعہ ہے اس کے چاروں طرف نوشتم بات ہے.یہ دارالاقامہ ۸ - ۹ سال سے ۱۲ - ۱۳ سال تک کی عمر کی
YYA بچیوں کی درسگاہ اور رہائش گاہ ہے.بچوں کا لباس صاف ستھرا اور نہایت ہی تھا.بچیوں کے چہرے بشاش اور پراعتماد تھے یوں کو تو تمامی کانام دیا گیاتھانہ ان کے دوست الا ان استانی عوام اس کی تائی کوزندگی اتا ہے.فرض اطال الشہدا کانام نام گویا اطفال الروس کے چار پہ تھا ہم مالش کرو میں سے ایک ایسے کے مں ھی داخل ہوئے جسمیں رہنے والی بچیاں اس وقت پنے میں سوار ہو کرنے کر کے ان کی شام میں مصرون تنی ہوتی دروازہ اور کیوں نہیں دیکھا ان شال چھوڑ کرم میں سے ایک کےساتھ لی گئی تو تا کمر میں دنگل کا باربن گئیں یہ بے ساختہ رومی اس بات کا اور تاکہ ان بچوں کیلئے مکان رہائش اور سامان خور و نوش اعلی پیمانے پرتھے.ان کے ساتھ محبت اسلوک ہوتا تھامیں کا بوت ان کے چہروں ، خود خال، بینیم، حرکات کا اساس الا انار انارکی کی آزادی کی ابھی اتنا تھی.حکومت اور عوام کو پچیدہ مسائل و مشکلات کا سامناتھا کی لاتے ہو کئے جانے کے نظر تھے کی ضروریات تھیں جوپوری ہیں کی جاتی تھیں لیکن اس ایک ذمہ داری کو تو قوم پران اناروں کی طرف اب بھی جنہوں نے ان جانیں قوم کی خطر تربان کردی تھیں تو سوفیصد سے بڑھ کر پورا کردی تھی زندہ قوم کا ہی تو ایک شان ہے.مجھے بتایا گیاکہ اطفال الشداد کی مناسب ات اور علم رتی کیلے کی باقاعدہ محکمہ ہےاور اس سم کے ادارے ملک کے ملا تو میں امام ہی اللہ تعالی اجرائی کی ان ماعی حسنہ کو اپنی قبولیت سے نوازے اور را فراجہ اپنی طرف سے عطافرمائے.آمین.ایام کے دوران میں وزیر خارجہ ایک شیر کاکا کرے اور ہارنے کا ہے اورمیں سرکے لے گئے.محترمہ ناظم نیستی بھی ہمارے ساتھ تھی بس کے آخرمیں ہم نے چھ وقت کی پرانے دی شہر کے کھنڈرات میں گذارا.شہر سمندر کے ایک را تا محل وانا بنات یک تھا ہی نصف گھنواں ماہرہ خان نے نے ان کی پریشانیوں سے بنا آزادی " س سورت کی کرن پھوٹ پڑے اور فرائی بال پھراس کرن کو ڈھا ہی میں یا ہو ا ا ا ا ا ا اور متحدہ کی املی کے آئندہ ہلاک میں تو ابھی سات سو سے زائد کا وقت ہے لیکن درمیان میں من ہے مرے نیو یارک آنیک موقعہ پر مطار پیاسی تپاک سے بیعت کیا جس سے آنے پر استقبال کیا تھا.مراکش الجزائر سے مں مراکش یا رباط میں بیر نام کا نظام شایاران را فیلم تھے لیکن اس منصب نے ان کی طبیعت کی سادگی ، سنجیدگی اور شیرنی میں ذرہ بھر نہیں ہونے دیا تھا.انکی سرکاری رہائش گاہ بڑی پر شوکت تھی.مجھے شام کےکھانے پر عور رایا.مہانوں کا ہجوم تھا.وقت رخت آیا توفرمایا مہانوں کو خصت ہولینے دو پھر بھی بھی آپریشن کے دال کی زندگی میں نہ آسکے مرحوم سلطان کی بڑی خواہش تھی کریم میں آتے اور وہ خوداپنی طرف سے اور تمام مراکش کی طرف سے ان ندا کریہ ادا کرے جو تمت مراکش کی آزادی کے سلےمیں کمی اسوس دو جوان میں رحلت فرمائے اور کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی.i
ہمیں قصر ابیض ( CASABLANCA ) جانے کا موقعہ ہوا جو مورش اور مغربی طرفہ کا مرکب خوشنما شہر ہے فیض انا مدرسے کے ایام سے سنا ہواتھا.دیکھنے کاشون تھا.یہ آرند بر آئی.فیض مراکش کاندی دارالحکومت ہےاور آج بھی مراکش می دینیات کا مرکز ہے.قدیم شہر کا محل وقوع وفاع کے لحاظ سے بہایت محفوظ ہے شہر در بلندیوں کی گودمیں واقع ہے شہر کی آبادی اس قسم کی ہے کہ اسمیں ی ایزای ایتبدیل کی گنجائش نہیں پرانا شہریوں کانوں موجود ہے البتہ ایک میدان میں ایک نیا کا شہر آباد ہوچکا ہے جنہیں بنیادی ہوتی رہتی ہے.قدیم فیض کے تمام بازار سلف ہیں گلیاں تنگ ہی شہر کے اندرآمدورفت پا پیادہ ہوسکتی ہے البت بار بیداری کیلئے چرا درد سے ستعمال ہوتے ہیں.گلیوں اور بازاروں میں کچھ دیر گذارنے کے بعد بیت میں کھلی ہوا میں ان کی خواہش محسوس ہوتی ہے اہالیان شہر عادی ہو جانیکی وجہ سے شائد یہ خواہش محسوس نہ کرتے ہوں یوں مکانوں کے صحن کشادہ ہیں اور ان میں داخل ہوتے ہی سینے سے وہ یہ جو ہلکا ہو جاتا ہے جو بازاروں اور گلیوں میں محسوس ہوتا ہے.شہر کی اپنی مالی طرزکے علاوہ ماں کا دنیا کتب خانہ قابل دیدے ایسے ان ریلی نے اس میں جمع ہیں فیض کے علماے کرام کا فوری سارے ملک میں قابل پذیرائی ہے.شاہ مراکش کے دربار میں حاضری ) علالت الملک کے درباری ماری ہرے سے بات تھی حمل کے صحن میں فوجی عزازی دسته ( گارڈ آف آنر ) صف بستہ تھا ایوان در بیانہ کی ایک جانب فرش کی سطح باقی ایوان سے کوئی در فٹ اونچی تھی.اس اوپنے کتے کے وسط میں یک مر کر حلالہ ملک کیلئے بھی ہوئی تھی.ایوان کی سطح پر دینے سے کوئی میں نے ہٹ کر ملالہ الملک کے بائی ہاتھ کی جانب ایک کرسی سے لئے بھی ہوئی تھی سارے ایوان میں اور کوئی نشست کا سامان نہ تھا.میرے مقابل حلالہ الملک کے امی ہاتھہ کی جانب وزیر اعظم، وزرائے کرام اور عمائدین سلطنت دست بستہ صف آراستہ تھے.جلالة الملک کی تشریف آوری پرمیں تنظیم کیلئے کھڑا ہوگا.باقی حاضرین ایران توسل ہی کھڑے تھے اورسلاوت کرے سے بالالا لالا نے مجھے نے ارشاد را از جانی کا فرض بین صاح کے سپرد کیا گیا تھارہ پاکستان میں مراکش کے سفرہ چکے تھے مجھے ان سے نیاز حاصل تفادہ نصرا بیضی اور فیض بھی یرے براہ شریف کیے تھے انہوںنے پاکستانی سفارتخانے سربراہ کا کا مالک کے دربار میں ایمان کے ئے ایک مشکل کام ہے اوروہ نہایت خال ہیں لہذا مجھ سے رات کا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ر کر کے میں نہیں مشک نہ ہو ا امام بنا دیاگیا علاقہ الملک بنات سادہ اس میں تھے یا کمی یا مراکش کے دوران میں نماز کا کا دیا سب لم بالصوا ملاقات کے دوران میں سلطان کے چہرے پرایک شکاران این تیم دربھی بنایاں ہوجانا کلام آہستہ آہستہ اور بالکل سادہ الفظ میں فراتے جس میں پوری رح سمجھ لیا.ترجمے کی اب نہ رہتی لیکن ترجمان کے ذمے ایی این را ادا کرنا اور میرایہ نکالا کاکام کی ایمانی کی ضروت نہیں خلاف آداب دربار ہوتا.بے چارے ترجمان کی حالت قابل رحم تھی.ان کا چہرہ پینے سے ترتھا.علامہ الملک و کچھ تین منٹ میں فرماتے تم جان صاحب اس کا خلاصہ نصف منٹ میں انگریزی میں کر دیتے.سلطان میری طرف دیکھ کر کر اپنے مرے جواب سمجھ جاتے ہیں نے انکی بات جھولی -
مفتی.اسی طرح جو کچھ میں گذارش کرتا جناب ترجمان اس کا مختص سے مختف خلاصہ عرب میں کہ دیتے اس پر پھر سلطان مسکرا دیتے.ونکہ سات کا عدہ کوئی پون گھنے کےقریب رہا.ستم کی تر جانے سے ایک تم کے ان کا رنگ دیدیا.مانا کے آخر میں الہ المک نے ایک ان کو اشارہ کیارہ ایک میں سے آئے اور ان کی امت می کر دیا سلمان نے فرمایا اللہ خان تم نے جو ت مراکش کی اور میرے نانا کی انجام دی ہے اس کا دل تو کسی صورت یا ایک کا ایک بے ہوش ہو یا گرم میسان رو مراکش کا اعلی ترین نشان ہے) میری طرف سے میری خوشنودی و دوستی کی یاد کے طوری قبول کر اور ترجمان او نے ترجمہ کرتے ہوئے صرف تاکید کر جان چھڑائی کہ بادشاہ تمہیں یہ شان بطور اعزاز عطافرماتے ہیں.میں نے دو تین منٹ میں حلالہ الملک کا ناب ای ریاکاری کی کہیں گرم کیا اس کے لوگ یا شای خاندان کی کئی خدمت سرانجام دے سکا اور میرا فرض نبی تا اور میرے ئے بات بات بھی نا ہر بند کریں ایک عاجزان اپنے آپ کو ا لا اکرم کا جن کا لیں یاں ہی مر رہا ہوں ور اب ارزان کا جو ملالہ الک بناناچاہتے ہیں ہی نہیں تھا لیکن اس تمام شفت اور اخلاص کے شکریے میں سے قبول کرتے ہوئے ان طرف ے کمال اخلاص کا دی خدمت سلامی پیش کرتا ہوں.ترجمان احب نے اس گذاری کا مجم مرا ناک کے کچھ چھڑا کہ میں نے نیش اس کا متحق تو نہیں تھا لیکن آپ دیتے ہیں تو یں لے لیتا ہوں.ا لا الہ الا امریکہ تشریف لائےاور نیا کے تمام دوران امامت میں بھی جلوہ افروز ہوئے.افراتي یای ماندگان کو اب کیا او را این اتفاق سے افریقی ایشیائی گروپ کی مہینے کی صدارت پاکستان کے دی تھی میں نے بات مختصرالفاظ میں علی حضرت کاتعارف کرایا اور وہ شدت معذبتعد امر یہ تعریفی کلات کے اعمال سے پر ہی کی حالت الملک نے نے ی ابتدا یا ان کی شان میرے سے یہ قریب یا خوشی کا کیا ہوا ہے یہ ہی وہ ماہے کہ میں اس مر مستی اجی کے پراس وقت افقی ایشیائی رب کی صورت ہے البان ملک کیطرف سے اور انار سے لا الاعلان اس امت کے لئے شکریہ اداکرنی و کار سخت مشکل وقت میں وہ بجائے میں نے ان جذبات کا اظہار سے باب میں بھی کیا کیا آپ کے اس نے بھی کرنا چاہتا ہوں جب مراکش کا قضیہ اقوام متحدہ میں پیش تھا اس وقت بار حقی در دونوں ہاتھوں کی انگلیوں پر کئے جاسکتے تھے لیکن جس من ظفراله خان کی تقریروں کا خلاصہ ریڈیو پہنتے تھے اخباروں میں پڑھتے تھے وہاروں اس یقین او اطمینان سے پڑھو جاتے تھے کہ ہمیں ضرور امات ہوگی کیونکہ ہماری والا ایسے اہراور قابل شخص کے ہاتھوں لی ہے.ان کریانہ الفاظ کے بعد سلطان نے آدھ گھٹے کے قریب ی نیکی و یا یاداشت کے ارین ایشیائی خاندان سے ان کے ان سے تعلق بنات ولی خب فرمایا اس سے مجھے نہایت اطمینان ہوا کہ حاضرین کو سلطان حسن کی ذات کے متعدی می اندازدہ کرنے کا موقعہ مل گیا ہے.الہ الملک کا خطاب سادہ اعبات آرائی سے تیرا اور موقعہ محل کے لحاظ سے نہایت موزوں اور موثر تھا.ملالہ الملک کاقیام لانا ہوٹل مں تھا.ان ملنے پرمیں حاضر خدمت ہوا کے کی ڈیوڑھی دال با او دم میشنی میں جب کوئی خام تا استقبال کےلئے کاہے لیکن اب اناناس اور اضافہ کیئے ہاتھ کیا کیونکہ ا نی نی منظر کے تھان کے اس کی انتہا کیا اور ان کے سالانہ ڈیوڑھی میں تشریق کے تا
44! غلط ی با رایا ترجمان کی ضروت نہیں میرا گیا اور اگر ذرا آہستہ آہستہ بولو گے تو مجھے مہاری بات سمجھنےمیں کوئی مشکل میں نہیں آئے گی.فرمایا تمہارے یہاں آے سے مجھے بہت خوشی ہوئی کیونکہ آج مں نے کفی ات چیت کی ایک کا ہمیں معلوم ہے میرے دل کی وہ بالکل ایک ہی ان کی معمولی یا بنی تھی محل میں سے ہے کر صاف کرنے کا نظام کیا.ڈاکڑ بھی، ہر تھا.لیکن معلوم ہوتا ہے والد کاول کرد تا کورد دارم برداشت نہ کر سکے اور روح و منصوری سے پرواز گرگی اللہ تعالیٰ مغفرت کرے وہ میرے داد بھی تھے دت بھی تھے.ولی بھی تھے.انالین بھی تھے.ان کی وفات بادشاہ کرات نہیں ھی ولیعہد کی رات تھی ا دن میری زندگی کی کایا پلٹ گئی.بادشاہ کی جگہ میں بیٹھ گیالیکن اس منصب کیلے میں اپنے آپ کو بالکل عالی " اب ادا کرتے ہیں اللہ تعالی آپکو ولی عطا فرمائےاور آپ اکیلے کی تربیت فرائی سے سلطان مرحوم نے ایک تربیت فرمائیے بڑی خوشی اور ان کے ہی میں ہا ہا ہا اللہ تعالی کے فضل سے مرے ہاں امیدوار ہے دین نام می الا علی کرم فرمائے تو تمہاری دعاء قبل ہو کر اس کیلئے نوشی کا وی ہو میں تمہیں این جی کی تصویر دکھاوں؟ میں نےعرض کیا مجھے بہت خوشی ہو گی.بڑے شوق سے ساتھ ے کر میں تشریف لے گئے اور کئی درین بر تصویریں اٹھالائے سب کیا ہے اور امام یا یکی را حتما احترام کرتا ہو ان می سے ی ویرا ہونے کا اتنا کہ وہ پانی کی تصویر ادا کے پاس بھی ہونی چائے میں نے ایک تصویر کا نتخاب کی اس میں بنیادی اس وقت کم دیں ایک سا کا سن ہوگا.فرش پر پیٹ میں اوراپنے ابا کی تصویر دونوں ہاتھوں میں بنائے ہوئے ہیں.فرا یا ہمارا انتخاب بہت موزوں ہے تصویریں بیٹابھی سے ہوتی بھی ہے.غرض جیسے حاضرہونے پر فرمایا تھا الکل آزادی ہے کافی سے بات چیت ہوتی رہی اور تقریب ہے.گھنٹہ بھر رموز ملک سے بیعت کو اور کر کے محرم با کی یاد ، نوری کے وار لالا لالا کے متوقع فضل کے اندازے سے اطمینان و نا ؟ میں نے سناہے اب تم پر عالمی حالت کی رکنیت میں شامل ہونیوالے ہو.عدالت میں تو ہرسال تعطیل ہوتی ہے تعطیل کا عرصہ ہمارے گذار تو ہمارے لئے بڑی خوشی کا باعث ہوگا.وعدہ کرو میں نے کیا حمالاری کے ساتھ اسکےمتعلق بات چیت کر لونگا سلطان نے نہایت تپاک کیساتھ رخصت کیا اور باد جو میری منت کے کہ ڈیوڑھی سے باہر تشریف نہ لائیں سیٹھوں تک تشریف لائے اور لفٹ میں سولہ کرا کے جب لفظ حرکت میں آگیا تو دعائی طور پر ہاتھ اٹھاکر الوداع کہا.تجزاہ اللہ خیر.اسید احمد باری سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے فرمایا سلطن نے مجھے تاکید کی تھی کہ المی عدالت کی تعطیل میں تمہارے رسال مراکش آنے کے متعلق تمارے ساتھ طے کر یوں مراکش می مختلف مقامات پر قسم کی آب و جا میرے تم چاہو تو ایک دو صفات ی تمام کرو چاہو تو رو تیری کیلئے ہے اور ان کیلئے ہوٹل پند کرد و برای وی بھی موجود ہیں اور اک ہی کچھ عرصہ مطالعہ ایک کام کے امکان کا نظام ہو جائیگا.جلال الملک کس طرح سے تمہاری خوشی منظور ہے.میری کنیت اوضاع ملک دیکھے اور اطوار گرا دیکھے کی سی تھی جزاهم الله خیرا.
وزیر خارجہ گرومیکو کی طرف سے کے آخرمیں اس کے منفر د دین نائب وزیر خارجہ کے نصب پیشین روس آنے کی دعوت کی تجدید ہو کر ماسکو تشریف لیگئے تھے ان کے جانشین کے ساتھ میرے دوستانہ مراسم قام ہوچکے تھے.اپیل میں ایک روز ان کا نام ملکی اریکا اپنا اپنانے کیلئے تشریف لانا اک چاہتے ہیں.تشریف آوری پر اپنی نوٹ بک سے پیغام کانگریزی ترجمہ پڑھ کرسنایا تم نے سمائے گذر جانےکے بعد کسی وقت دروس آنا منظور کیا تھا.اب موم اعتقال پر کہا ہے چند ہفتوں تک مار کا موسم خوشگوار ہو جانا نہانا ہمارے خوشی کاموجب ہو گا اگر تم بی اطلاع ہے کہ تم کیا ارادہ رکھتے ہو کا عرصہ قیام کرنا چاہتے ہو کہاں کہاں جاناچاہتے کیا دیکھنا چاہتے تو توہم اس کے مطابق سکوں گا.بین گری، اسکو، سمرقند، تاشقند دیکھنے کی خواہش ہے ایک سیکریٹری میرے ساتھ ہوگا.ادارہ خوراک و زراعت کی کانفرنس منعقدہ اپنی دونوں ڈاکٹری آرسی ڈائریکٹر یا ادارہ خوراک و زراعت نے روم میں صدر اسمبلی کی حیثیت سے شرکت دنیا سے جو کرن کرنے کے لیے میں ہم میں ایک کافرانی نقد رمائی اور بے بحثیت صدر آمبلی سیمیں شرکت کی دعوتدی ہیں اسمیں شرکت کیلئے روم کی کانفرنس مں بہت سے مشاہیر شریک تھے میری نشست سویلین کے کے سلومیں تھی مین ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا م م و و ا ر ی اللہ علیہ تم کی حدیث ایاکم و الفقر بیکا و الفقران یکون کفن بیان کی رسولین نے بڑی ایران سے دریافت کیاکیا یار اسلام ان سے قریب چودہ سوسال قبل یہ ہدایت دے چکے ہیں اورایک سفید کا میرے سے کرارا اور ایک ریلی کے الفاظ اوران کا انگریزی ترجمہ یہاں لکھ دومیں نے تعمیل ارشاد کی.پوپ جان ۲۳ (XX) کانفرنس کے دوران میں تقدس مآب پاپائے اعظم جان ۳ نے کانفرنس میں شرکت کر نیو الے اصحاب کو قصر ائین میں شرف باریابی سے نوازا.ڈائرکٹر جزل سی نے سپاسنامہ پڑھا پاپائے اعظم نے اپنا جواب انگریزی میں دیا پرا نی نشست چھوڑ کر مندوبین کی پہلی صف کے ساتھ مصافحہ کیا اور قرب دس پندرہ منٹ تک مختلف اصحا کے ساتھ بے تکلف گفتگو فرماتے رہے.وہ نہایت سادہ طبع منکر مزاج تھے.در یمن با رخصت کے الفاظ کہ کر دروازے کی طرف قدم اٹھایا اور پروٹ کہ بات چیت شروع کردی و یا جلد رقت کردین ان کی طبع پر گراں ہے.چند سال قبل جان کا انتخاب بطور پا پائے علم ہوا تھا البعض لوں کی طرف سے اتارا کا اظہارکیاگیا تاکہ ان کے انخاب کا مقصد ہے کہ ترے عرصے کیلئے ایساکی یار یکی در سی و شخصیت f ے سپرد کردی جائے اور اپنا عرصہ قیات خاموشی سے بہ کرے.ان کے بعد سر کے ساتھ بڑھتی ہوئی ذمہ داری کی مضبوط ی کے سپرد کیا اتفاق ہوکے گا.اس وقت بھی یہ اندازہ ناک انکے بعد وہ پاپائے اعظم اور ستم کا انتخاب ہوگا جو اس ت میلان کے اسقف اعظم تے کی پاپائے اعظم جان ما باید پرانا سا اور کس مزاج کے بشری مانیا خاصیت کے مالک ۲۳ و کود نات ہوئے.ان کی کشتی چٹھی ان عالم (PACEM IN TERRIS ) کے موضوع پر ایک بنیادی ٹھوس اور فکرانگیز ان من
ستاری تسلیم کی گئی ہے در عالم بیائیت کے اتحاد کی غرض سے ان کا کلب کی مشاورتی کونسل کا اب فرمانا ایک ایسا انقلابی اقدام تھاجس کے نتائج کا صحیح اندازہ بھی کئی سال تک نہیں یا اسکا لیکن تاتو ابھی سے ان ہے کہ کلیسا کی تاریخ ملکہ نیب ی تاریخ میں یہ اقدام کی نے باب کی ابتدا بن چکاہے.خود پاپائے اعظم کی نیت اوران کے اختیارات کامل ایک انقلابی دور سے گزر رہا ہے.مجلس امن کے مستقل اراکین کا حق دی امام احمد کایا یا ری کوریا کی ایک وجہ بیان کی جاتی ہے کہ ای این بیانی اوران کے خلاف " b 2 کرکے وہ تجویز ساقط ہو جاتی ہے.جب مغربی مملک نے دیکھا کہ یوکے مت کا یہ عمل یہ ہے کہ تو خونی در کوپسند نہ ہو مجلس میں منظورنہیں ہوسکی توانہوں نےاس کا اداریہ تجویز کیا جب کئی کتونی اس جس سے مجلس امن میں ناکام رہ جائےتو ہ کو یہ عمل میں پیش کر کے ہمل سے اس کا فیصل طلب کیا جاسکتا ہے.روس کی طرف سے ملس امن میں دیو کا حتی یک سو ے زائد دفعہ استعمال ہوچکا ہے اور دوسر مستقل ار م م م م م و ا ا ا ا ا ر کیا ان کی کرتا رہا ہے.اس کی ایک ک و نوجوانان این کو نظر نہیں ہوتی اس پر اے شمار کے وقت یا این فرماندار رہتے ہیں اس صورت میں چین ریال اراکین میںسے و او را یاری کا کیا یہی ہی ہی ہوتا ہے کون کی تائیدی اباتی آراد کی تعداد مزوری ہےوہ حاصل نہیں ہوتی اور تجویز اس وجہ سے ساقط ہو جاتی ہے.ویٹو کے اعمال کی ضرورت پیش انی یا اراکین کو کراس طریقے سے انجانی کورد کرادیتے ہیں انہیں نہ ہوں لیکن ہم اخلاقی اور کی موت میں درس کی تائید میں زیادہ سے زیادہ صرف تین چار غیرمستقل اراکین رائے کا اظہار کرتے ہیں اسے کسی ناپسندیدہ تخون کو روکنے کے لئے روس کے پاس صرف ویٹو کا ہتھیاری رہ جاتا ہے.دوسرے مجلس امن اور آمبلی کے اختیارات میں تفاوت ہے.میشان کے رو سے اسمبلی سوائے چند مستیات کے مسلے پربحث کرسکتی ہےلیکن بحث مانتے کے بعدصرف سفارش کا اختیار رکھتی ہے.اس کے برعکس ملی ان مشاق کے درس سے قضیہ زیربحث کے متعلق سفارش کرسکی ہے اوراگرتنی یری یا امام کے لئے موجب خطرہ ہو توحکم کی ہے سکتی ہے.اگر کوئی تجویز مجلس امن میں دیو کی وجہ سے ساقط ہو جائے اور معاملہ نہ یہ حث اسمبلی کے روبرو پیش کیا جائے تو اسمبلی پنے اختیارات سے تجاوز نہیں کر سکتی اورصرف سفارش کے طور پر این اے کا اظہار کر سکتی ہے ایک عالم میں سہیلی کو مجلس ان کے مقابل پر ضرور تفوق حاصل ہے اور وہ یہ کہ قوام متحدہ اوراس کے تمام اداروں کا بجٹ منظور کرنا سمبل کے اختیار ہی ہے املی کی مسئلے کے متعلق سفارش کرے کہ سیکریٹری جنرل و عمل کے بالاں امام کرے اور پھراس عمل یا اقدام کے خواہا بی بی میں شامل کرکے کی منظوری دی توی سفارش بھی ملا مال کم ہوجاتی ہے چنان بر طریق اختیار ہونے لگا تو اکیلے تک دیو کی دیوار می شان کرین کا رستہ نکل آیا اور اس خذنک ملی کے اختیارات میں ملا اضافہ ہوگیا ی غربی اراکین مجلسی من امریکی ریجنل ڈاک می شود بھی اس طریق ک تائیدی نے اسلامی در ایدی کانگ میں قیام امن کی کارائی
۶۷۴ ور پرگل میں آئی.انتخابات کی منظوری آمبلی نے دیدی.روس اور فراس نے اعراض کیا کہ ایسی کاروائی کی ہدایت صرف مجلس این سی دیسکتی ہے اور اسمبلی کو ایسی ہدایت دینے کا اختیار نہیں مجلس امن کی ہدایت کے بغیر جو کاروائی عمل میں لائی انی تھی اوراس کے اخراجات بحیث یا اردو والوں نے ادا کیا تائیدی بعض دیگر ممالک نے اخراجات کا حق ادا کرنے سے انکار کر دیا.مولد ڈاگ مہم شوید کی وفات کے بعد مسٹر کا کافی اور ولی کا کیا ہوا ہے ہی نہیں آتا تھا ایک سیم او تھانٹ کا انتخاب لبطور سیکریٹری جنرل اس قصے کے مناسب حل میں بہت دھینچ لے رہے تھے چنانچہ اسی عد ہی میں سولھویں سالانہ اجلاس کے شروع میں بیانوں نے ان جان بی گنوادی ان کی ایک برایتان سفر یا کاپہلے اونهان ارضی اور سال بر بعد بوری میعاد کیلئے قرمل میں آیا برا تھا الگوی مشاورتی کیٹی کے در تے پاکستان بھی اس میٹی کار کن تھا اور اس سلسلے میں آغا شاہی صاحب کو مٹر اوتھانٹ کے ساتھ متواتہ کام کرنے کا موقع ہوا.اور آغا شاہی صاحب نے ان کے محزم ارگین تقدیر کے بارے میں بہت اچھی رائے قائم کی جب ڈاگ سمیر شولڈ کی وفات کا اندر رہناک حادثہ ونوع میں آیا اور اقوام متحدہ میں ان کے جانشین کے انتخاب کے متعلق مشورے شروع ہوئے تو آغا شاہی صاحب نے مجھے مشورہ دیا کہ اس سلسلے میں میٹر ھانے کا اراقوام متحد میں ریاستہائے متحدہ کےنمائندے گورنر ایرانی یونین سے کی جانے میں مرا ناٹ سے واقف تھا اورانکے متعلق اچھی رائے رکھنا تھالیکن اقوام متحد میں میرے قری کو ابھی تھوڑا عرصری ہوا تھا دوسرا تھاٹ کے ساتھ میری " واقفیت بھی اتنی گہری نہیں تھی جنینی آغا ہی کی تھی.چنانچہ میں سیکریٹری جنرل کے قر کے سلسے میںان کا نہ کر گورنر سٹیون ونانا انکی قابلیت اوراست کیا ہے نا انا انا بیان کردیا کیا کریں آفات کی صاحب کو اسے ساتھ لے آی ہوں کہ انہیں مراد فانٹ کی ت ا و و م م م و وری کا کام کرنے کا موقع ملا ہے اور اکی رائے ان کے متعلق نہایت اعلی ہے گورنز یونین کے آغا شاہ صاحب سے تفصیلی دریا کی اوراس کے تنے میں مارا تھان کا نام زیر غور آنا شرو ار اور ان کا فر ہوگیا.اس مے میںمیں نے مارا تھا ہر ایک مری بات کا دور می رونکی نے کئے کہ آپکے فقر کا تقاب ا کال کرکے کوئی خامی نہیںاوری ایرانی کی اور ان کو روانہ ہوں گا.اس ان میں یا ان کیئے جویز کرده مالی جاری رہیں اور روس در فرانس اور بعض دیگر مالک ان کے اخرجات کا حادا کرنے کا ایک بھی جاری رہا.یہ بات بڑھنے گئے اس سارے مسئلے پر غور کیلے اسمبلی ک ایک خاص اجلاس طلب کیا گیا.
وزیر خارجہ الجزائر محمد میمیتی اس اجلاس کے انعقاد سے قبل اک دردناک واقع ظہور میں یا میرے لئے نہایت اندوہناک کی درد ناک وفات - تھا.ایک روز صبح صبح ٹیلیفون پر لاعلمی که امنیتی وزیر خارجم الجزائر کو مالی این ساز سے نکتے ہوئے کس نار العقل نے گال کا نہ بنایا تو ان کے ماتھے پر کرایا یا کوئی خاطر خمینی و خودبھی مجلس آئیں ان کی کین تھیں ان کے ہمراہ تھیں اوریہ حادہ ان کے دیکھتے رکھتے ہوا پیلی رسمی تھی کہ ہوش ہیں.سانس لے رہے ہیں کا انا معالج زدہ ہے میں حرکت پر نہیں ہوسکے گی.تین ا ا ا ا ا ا ا ا ا کھانا میں اندازہ کرسکتی ہی نہیں سیقی ہو گا محمد سانس لے رے میں بات سب کچھ لا کے ان میں ہے رات کی کہ ای یو وی تا اطلاع دی رہوں کی ری بیوی نے اس حالت میں پڑے ہے اورا کی روح استانداری فرمان شما آخران ما قصد سوئٹے ماكن انا للہ وانا الیہ راجعون.اے خدا بر تربت او بارش رحمت بسیار داخلش کن از کمال فضل در بیت النعيم و و و و و و و و ا ں میں گا کہ الہ ہونے پرادرہے اوراس کے ئے کوئی بات ہونی نہیں اور جب آخری خبری اس وقت سے آتی ان کے لیے دیا اور اور زندگی کیلئے دیا اور معضلات کبھی ناری نہیں ہو گا یہ دعای رستاکانی لمبی ہوئی ہے.املی کے اٹھارویں سالانہ اس میں محترمہ نام نیستی مراکش کے وقت کی ین تین سے ملاقات کا وقت ہموار ان کی زندگی کی داستان بھی سکندر رونا ہے.پہلے میں دو معصوم بچے چھوڑ کر مجام ہادت نوش کر کے دونوں کے بھی معصوم تھے کہ درای واک کا کیا کیوں کسان نے ان کا مادہ پیش آیا للہ تعالی خود ی ان کے دل کی مرہم اوران کا موس و غم خوار و روایت ہو.آمین.اقوام متحدہ کی اسمبلی کا خاص یہ خاص اجلاس ہو شروع جون شام میں طلب کیاگیا اسمبلی کا پو تھا خاص اعباس اجلاس اور اس کی صدارت تھا.اسکی صدارتبھی میرے پر ہوئی پہلے ہی اس میں دو سالی پر غور کیے خاص اجلاس طلب کیا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا اور انتظام کیٹی کے سپرد کر دیا گیا.R.1.5.5 کا سفر | حکومت پاکستان کی وزات خاری نمیری درخواست پیمان علی صاحب مدیران پاکستانی سفات خانہ بیگ کو مرے ساتھ روس جانے کی اجازت دیدی.سلمان علی صاب کچھ عرصہ اس میں متعین رہ چکے تھے اور ان کے حالات سے واقف تھے درسی درک درسی زبان بھی جانتے تھے.ہماری طبائی بھی اب تھا ان کی رات میرے لئے بہت سایت اور آرام کیات ہوئی.فجزاه الله خيراً لیتن گرا و سابق پیٹرز برگ ہم سے بین کراؤ گئے ہیں دورات قیام رہا گو رکھنے ایک دن بی مسیر آیامیں نے عمداً ایای تجویز کیاتھا کیونکہ یہاں کوئی سرکاری تقریب یا ملانا نہیں تھی.اور سارادن سیاست کیلئے میسر تھا میں ان طالبی کے زمانے میں عین پچاس سال قبل تین چار دن اس شہرمیں گزار چکا تھا.دوسری عالمی جنگ کے دوران می ترین افواج مہینوں -5-5-R
لینن گراڈ کا محاصرہ کئے رہی تھیں اور شہریوں کو بہت مشکلات کا سامنارہا تھا.محاصرے کے دوران میں شہر پر شدید گولباری ہوتی رہی خوراک کی میاں کی قلت ہوگی یعنی که آوی پر ابھی کھایا جاچکا تھالیکن محصورین کی ہمت اور انتقام میں کوئی کی آن این گرا کے شہر اپنے شوہر کا فخر کرتے ہیں جنگ کے بعد شہرکی و تعمیر اور اس طور ہے کی گی ہے کہ شہر ہے سے بڑھ کر خوشم نظر آتا ہے.نہین گرا کے رہنے والے پر ان سےاپنے شہر کو اسکوپ توقیت دیتے ہیں اور ماسکو در مسکو کے رہنے والوں کو خار میں نہیں لاتے جو نوجوان خاتون محکم زائرین کیطرف سے ہماری رہنمائی کیلئے مقرہ کی گی نہیں انہیں معلوم کرکے اسو ہو اکرم نے پروگرام میں ماسکو کیلئے تو چارو رکھے ہوئے ہیں اور لنینگراد کیلئے صرف اک دن کی کار کو ان کی ایک کرنا ایک میں پچاس سا میلان کے شہری چار دن گزر چکا ہوں اوراب پھر سے لین گراؤ آیا ہوں.لیکن ان کا شکوہ قائم رہا.JERMITAGE AMITA CE کا عجائب گرارش بی جوابات وغیرہ دینے کے بعد ماریا پرانے اور این گرای مسجد کواند سے دیکھا.پچاس سال قبل جب میں پیٹرز برگ آیا تھا مسجد کی میت کم و لی لی لیکن اس وقت کے مسجد کا انفتاح نہیں ہوا تھا مسجد کے امام صاحب سے ملاقات نہ ہوسکی وہ اپنے مکان میں تشریف نہیں رکھتے تھے.میں نے ا ء میںدیکھے موئے مقامات کو سو میں سے سے بہتر حال میں پایا ایک نا مقام تو نے دیکھا ولن گراڈ سے با خیلی نانی کے ساحل کے قریب یک بہت بڑا کھیل کا میدان ہے اس کی متعلقہ مان لیں اور باغیچے اور بہت خوشناہیں، پرانے دیکھے ہوئے مقامات میںسے ہم پیر صوف کا محل نہ دیکھ سکے ہو شہر سے چند میل باہر ہے اور وہاں تک جانے کیلئے وقت نہ تھا.نکولا و اسلوپ ڈیلنگ تا پر عوامات جنہوں نے میں میری اور میرے رفیق سردارمحمداکر صاحب کہنے کو تو ای تی یو اے ای کا ایک نیوی کے مزار کی سر کونیگئے ھے کی یادیں میں نے فلیٹ کی عمارہ کوایک نظردیکھو آیا.ماسکو سکومیں ہم چار دن ٹھہرے.یہاں کے پروگرام سے ہم نے ایک نیکی کا معائنہ ترک کرکے اس کی بجا مشرقی ثقافتی ادارے میں جانیکا نظام کیا.اس ادارے کے ایک ڈائریکٹر پروفیسر غفور پاکستان آچکے ہیں وہ خود اور انکے رفقار بڑی واضح سے پیش آئے.چند کتب اور دو ایلیم ایرانی معلمی اور عینی MINIATURES کے نہیں عطا فرمائے.جامع ماسکو میںبھی ہمارا وقت بہت دلچسپ میں گذرا.جامعہ کی عمارت نہایت عالیشان ہے.سائیں کا خصوصیت سے باری تویہ کا جاذب ہوا،طلباء کی بات گا دیکھ کر ہمیں بہت خوشی ہوئی.العلم یارو ر طالبعلموں کے برچھوٹے سے کمرے کیساتھ بھی غسل خانے اور بیت اخلا کا انتظا تھا دار الاقامہ میں کس کی فیس اورکھان کے اخراجات بہت منا کیا کیا ایتدایی درس گاہوں اور دارالاقامہ مانی کا یا لایا.وانا ان نے جامعہ کا تمہارا دارای تجاری در صنعت نمائشگاہ بھی ایک بہت یا کا موجب ہو یا اس کی زمین در ریل کا اسٹیشن کو ایسی کسی صوبے کا انتی اب گھر ے سیڑھیاں اور پلیٹ فارم د درجہ صاف تھے.اماری یا اختیار رکھتے تھے کہ کہیں کو ردی کا رات ایک کیا اور رن نہ پائے گاڑیاں بھی صاف
946..یلی لا لا لا لا واتا تاکہ اس کی زمین دریاتی تجربہ ہے.پروٹین کی ڈیوڑھی میں ایک وکٹ کے اندر زمین در ریل کے پور نظام الت تنا ہواہے واران منزل مقصود کارستہ معلوم کرنا ہے ریل نقشہ لگا ہ اپنے مقصود ایشین کے نام امین یا کہ یمن کے بی بی فتنے پر ایک ان روشن ہو جاتی ہے جس سے اس سٹیشن سے ایک بار کے مقصد این کار سے راضی ہو جاتاہے اور سے علوم ہو جاتا ہے کہ گاڑی کون کونے ہینوں پرکھڑی ہوگی اورس میں پیاسے گاڑی تبدیل کرنا ہوگی.مزدوروں کا رہائشی قصبہ ہم نے مزدوروں کا ایک انیقہ بھی دیکھا پہلے توبے کے دیر میں تھے کا ایک چھوٹاسا نمونہ ملاحظہ کیا ایک مقام کا نا موٹی خانہ تھا.دریفت کرنے پر علم ہوا کہ اس موٹر خانے سے موٹریں اور میں مطابق رت کرنے پر ل جاتی ہیں تھے کے علم میںلو کھاناکھارہے تے علم می مانی کا پورا نظام نا کا عمدہ اور مغرب تھا.ار کرنے کی قمت بت وا بھی تھی.رہائش کیسے لیٹ تھے جو ان نخرے ہوا اور پر آسائش تھے پر لیٹ میں درمیان سونے کےکمرے مغل خانہ میلین ویر بجلی کی رسی گرم و سرد پانی کا نظام تھا ان دنوں اسکیمیں پاکستانی سفر میاں ارشد حین موجب تھے نے ان سے دریافت کیا ان کے قیام میں نہیں یہا کے ما معیار زندگی میں کئی فرق محسوس ہواہے؟ انہوں نے فرمایا بہت فرق ہوا ہے تین سال کے عرصہ مں لباس سوزاک اور ان کا یا توانایا ہوتاگیا ہے ہماری رانش ماسک کے ایک و ویلی میں تھی اسلام علی صاحب بر روی اختیار کرتے کہ کاشت کے وقت دویر کے کھانے کے متعلق ہدایت دیدیتے اور پرکے ان کے وقت تک کے ایک کا تعلق اس کے تھے میں میں کس قسم کی رت میں نہ آئی ہوا میں کانے کا میا بہت علی اقا بیشتر طلاع دینے کےتھے میں کان میں وقت را در برات کےمطابق یار مانا ہوا میں وقت مہانوں کی کار در تواتر آمدورفت کی سے لال پیل دیتی تھی ہولی کی سی ڈیوڑھی تو ایک بار ریلوے جنکش معلوم ہوتی تھی.رہائش کے کے بہت آرام دہ تھے اور تما ضروری سامانوں اور سہولتوں سے آراستہ تھے.کریلین کی اگر عمری پرانی وضع کی ہی ہوتی تھی کی بات بالکل نمی طرز کی بات راج اور بہت عالیشان ہے کاملین کی ام عمارتوں میںسے وہ میری امی ی ی ا و و و و اولین کی رہائش گاہ پتا تین چار ناب مختصر کرے تھے جن کا سامان بالکل سادہ تھا اور ی میں کوئی شے بلا ضرورت نہیں تھی ان میں محض زمینت با زمان ک کوئی چیز نہیں تھی بلکہ امام کے عام سامان بھی مفقود تھے.ماسکو سے -.م میل باہر بھی ایک بنکہ ان کی رہائش گاہ ا اپنی زندگی کے آخری دو تین سال بانکی مست کر چکی تھی انہوں نے ان گزارے ہم سے بھی دیکھنے کے بنگلے کے گد باغ تھا جب موسم اعتدال پر ہوتا تومین انی فراغت کے اوقات کا اکثر حصہ باغ میں گذارتے.اس بنگلے کا سامان کریملن کے روں کے سامان کی نسب کسی قدر زیادہ آرام دہ تھالیکن ان کی سادگی نا باقی دو و مقامات پر انکی طرز زندگی اور عام لوگوں کے ساتھ میل جول کے طور طریق تو معلوم ہوئے ان سے طبیعت پر بی اثرہ تھاکہ لندن کے دل میں عامتہ الناس کے ے گری ہمدردی کا جذبہ تھا.تمام اشتراکی قائدین میںسے ان کانام ابھی تک نہ صر عزت و احترام ملکہ حمت سے لیا جانا
وزیر خارجه مسٹر گرومیکو کی طرف زیر خار بر سر گر میکونے میں دور کے کھانے کی دعوت دی.جیس سے دعوت طعام میں میاں ارشد حسین صاحب بھی موجود تھے.فہرست طعام اردو میں تھی.گفتگو انگریزی میں ہوتی رہی.ترجمانی کی ضروت نہ پڑی.مہمانوں میں نئب وزیر خاری سالی سفر د دین بھی شامل تے جارہے اس کے قیام کے دوران میں سر درین خصوصیت سے ہی ساتھ شفقت اور تو ان کا سلوک کرتے رہے.سفیر ارت حسین کی طرف سے میاں ارشاد حین نے فرمایاکہ انکار سے وزیر خار برادران کے چند رفقا و دو وزیر خار یکی دعوت طعام ودینی سناتے چنانچہ انہیں سفارتخانے میں دوپہرکے کھانے کی دعوت دیگی ما ات نے بتایا کہ یہاں کے دستور کے مطابق تمام دین حکومت دعوت نامے کا جواب دستور کے دن دیتے ہیں کہ وہ دعوت میں آسکیں گے نہیں ت کے دن بی بی اطلاع ملی ہے کالا مہمان آسی کے اور الا نہیں سکیں گے میری ان کو پوری تیاری کرنا پڑتی ہے بعض دفعہ آخری دن اطلاع ملتی ہے کہ مہانوں میں سے کوئی بھی نہیں سکے گا.میاں صاب کی دعوت کے دن صبح اطلاع ملی کہ وزیر خارجہ اورباقی سب مہمان کھانے پر آئں گے.البتہ وزیر خارجہ کھانے کے بعدکسی اور تری میں جانکے لئے بعد رخصت طلب کر کے کھانے پر تو بالکل آزادانہ رہی.وزیر خارجہ کے رخصت ہنے کے بعد باقی میان قریب نصف گھنہ ہی بھورے مسٹر خر و شیف سے ملاقات حب ارتین تا الان علی یا اور میں سر خوشی کی انا کیلے اراکین جان کے لئے روانہ ہوئے تو میں نے میاں صاحہ ہے دریافت کیا کہ انداز گفتن وقت ملاقات رہے گی تاکہمیں اس اندازے کے نا کرنے کی تیاریوں اور کوکولی کی بارہ بنوں میں مانے فرما امیر ملاقات ان کے ساتھ اب تک تو مختلف تقریروں کے دوران میں ہوتی رہی ہے.کریم میں لانا کیئے جانے کا میرے لے پالا وقت ہے.لعنا.ندازے سے مر نا کر سکتا ہوں کہ نصف گھنٹ منسب ہوگا چی من کی گفتگو کے بعد رحت طلب کر لیا.میرا ٹر نوشین.الات کا یہ پہلا ہوا تھا.اس سے لے کبھی نہ رکھنے کا اتنا ہی ہوا کرے میں داخل ہونے پر درانی کس سے ٹھ کر مری را رھے اور تینوں سے مصافہ کیا.بعدمیں تو نہیں کیے گئے اسے ظاہر ہوا ہے کہ صاف کرتے وقت ہم دونوں کے چہرے بڑے سنجیدہ تھے.میں انکی خدمت میں محض اس احساس کے تخت حاضر مو انھا کہ میں ان کا مان تھا اور میرا فرض تھا کہ میںان کی خدمت میں حاضر کوکر ان کی مہمان نوازی کا شکریہ ادا کیں کسی خاص موضوع پر گفتگو کا ارادہ نہیں تھالیکن رے میں پہنچتے ہی ایک خیالی میرے ذہن میں یا جس کے نتیجے میں گنگو کی ابتداء اس طور پر ہوئی.ظفرالد - جناب صدر وزارت آج دنیا می دو شاخ ایسے میں نے منع کیا جاسکتا ہے کہ ان عالم کواپنی بیو یں تھامے ہوئے ہیں ان میں ایک آپ ہی کیامیں یہ ا ا ا ا ا ا ا ا ا امام برقرار رکھنے کیلئے آپکی کر رہے ہیں مسٹر خروشیف.اس وقت امن عالم کیلئے ہے مشکل اور پچیدہ مسا مشرقی و مینی کاہے اگرہ مناسب طریق سیکھانا جاسکے تو ان عالم کے رستے کی سب بڑی رکاوٹ دور ہو جائے گی.ہم اسے منسب اور معقول مرفق پرسکھانے کیلئے آمادہ ہیں لیکن
969 افسوس ہے کہ فریق ثانی اسے حل کرنے پر آمادہ نہیں.ظفراللہ اگر ہم اور مشکل سائل کے حل کرنے میں باہر ٹھوس روی سال میں تو کیا یمکن نہیں کہنا آسان مسائل بن کا ان اسکان نظرات کو کم کرنے کی طرف توجہ دی جاے اس یا ہوا یا مارتا رہے گا ور زیاد شکل سائل پینی نیز بادلہ خیال ہوسکے گا ملایر انداز ہے کہ NUCLEAR TESTS کی بوندی کے متعلق فیصل کر نے لئے کے فریقین اسقدر قریب آچکے ہیںکہ تھوڑی سی مزید کوشی سے اتفاق کی منی پیرامون کی امید کی جاتی ہے.مر خوشی مشرقی جرمنی کے مسلے کی امت پر زور سے ہے میں نے گذارش کیا ایسے مسائل کے حل میں تو شیطانوں یں موجب افتراق میں پاکستان سے چھوٹے ملک کی حثیت نہیں کہ امامت کرنےکیلئے کوئی اقدام کر کے البت اس سے برامد کی جاسکتی ہے کسی معقول تونہ کی تائی می پنی آواز بلند کے.خوشی اونے فرمایا پاکستان چھٹا ملک نہیں.دس کرویران نہیں پانچ کرور عمل میں چھوٹا ملک کیے؟ میں نے عرض کیا مشکی کروانا ا ا ا ا ا ن اور نا ہی لیکن ڈھائی کرد و عمال مرور ہیں مگر تربیت فن اور اوزار ؟ اس سوال و جواب سے گفتگو کا رخ پکستان کی طرف پر کیا اور خوشی کی گفتگو کایہ تھا.اکتان کے وزیر صنعت (ذوالفقارعلی بھٹو صاحب) یہاں آئے.انہوں نے جو چاہا دیکھا ومعلمات وہ چاہتے تھے انہوں نے حاصل یا اس کے القانون و نیکی کا اظہار کا میانمارتا ین تویوں کے علی کی ہے وہ ہمارے تعاون کی بیان کر دیا تھاکہ کی امید کی ایک کرسکتے ہیںلیکن جب وہ اس کی است ا ا ا ا ا ا ا ا ر انہوں نے کراتے ہوے این ا س م ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا امکان ہے پاکستان کی حکومت و بارے اولانانے کا خواند و این در کار اس کے کام کو دین دین سے دیکھا گیا اور اس نے بات وہی کی لئے میں گئی مینی گذارش کی مجھے حکومت پکستان کی طرف سے تک کے کو کوئی ای ای یار یار یار یہ ہیں کہ کوئی صورت نے سنگی ا ہے انہوں نے ان تکرار کرار کیا میں نے عرض کی کہ گیت کے بارے میں اسے کھانے کی کوش کردوں گا.اس پر پھر کرنے اور امام مجھے تہار بہت پرپورا اتارے اور تہار کے لفظ پر اور زور دیا.اس وقت تک گوادر ی را از دیدار جو پیار کی تھی میں تصور ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ورم بھی مردوں کے چہرے بہت سنجیدہ نظر آتے ہیں.لیکن تیری تصویر میں دونوں چرے بشاش اور سکراتے نظرآتے ہیں.جب نیو یارک واپسی پر سے ارتقائے کار نے دریافت کیا مرنر شیف کے ساتھ لاتا کیسی ہی تو میں نے تصویری ان کے سنتے رکھ دیں اور کہ ان سے اندازہ کر لیجئے.جب اس گفتگوی قریبا نصف گھنٹہ گزر گیا تومیں اس کوشش میں رہا کہ مناسب موقعہ آنے پر کریے کے ساتھ رخصت طلب کروں لیکن اب گفتگو کی عنان سرخود شیف کے ہاتھ میں تھی اور جب رخصت طلب کرنے کا موقعہ ملات ملاقات 0 منٹ تک طول یکی یکی ی ایک گنے کے کو روس کی ملاقات کے تھے میں ایسی شخصت کے معی کوئی وی رائے عام کرنا مکن نہیں البتہ میر
۶۸۰ محض س وقت کی تار تھا کہ پرائویٹ علقات میں روشی ای کس بات کے تھے اور من پروپیگنڈا کیا کچھ نہیں کراتے تھے بھی مکن ہے کہ سور پورٹ انہیں میرے متعلق پہنچائی گئی ہوا کے نیچے میںانہوں نے میرے ساتھ صفائی سے بات کی ہو.تھے.والله اعلم بالصواب تاشقند ازبکستان ماسوس تم تاشقند گئے واکستان کادارلحکمت ہے یا اسفرائی نوٹ کے طیارے تھا نوک وس کا اپنا اقا اوراس کے زیراقتدار علاقے مشرق برین سے لیکر ولاڈی اسٹاک تک پھلے ہوئے ہیں اور ان علاقوں کے درمیان سفرکرنے کے لئے ویل مسافت طے کرنی پڑتی ہے الا سفر زیادہ تر ہوائی جہازوں سے ہوتا ہے.ہوائی جہازوں کے کوائے اندرونی منظر یے بین الاقوامی کرایہ کی بہت سے میں روسی ہوائی جہادی کی راتا تو تین کی آرام اور صفائی کا معیا اس درجے محسوس بھی نہیں کرتے.of Socialist UNION روس کی حکومت کی تشکیل عاد فاقی طریق پر ہے مل کا موجودہ سرکاری نام - VIET REPUBLICS ہے یعنی متحدہ اشتراکی جمہوریت ہیں.ان جمود میتوں کی تو جمہوریتوں تعداد وہ ہے یہ مورتی ا اندرونی نظام کے ان سے ادا کی جاتی ہیں میں سودی یا یری ناو یاری و امدادی رکن بھی ہیں از کیستان کی جمہوریت کا حلقہ بہت وسیع ہے مشرق میں فرانہ اس میں ناشتن مر میں سمرقند اور بخارا کے علاقے سب اس میں شامل ہیں وسطی ای جمهوری روی خود جمہوریتوں میں شال بیان میں کیا کہتا ہے ان جمہوریتوں کی زبانوں میں بہت مد یک اشتراک پانی بنیاد تر ک ہے اوران می عربی فارسی ترکی کے بہ سے الفاظ میں تاجیکی زبان کے متعلق کہاجاتا ہے کر شفاء تک ایک اردو جانے والے کیلئے ایک یا ان کی زبان سیکھنا نہایت آسان تھا کیونکہ اس وقت تک ان زبانوں کا رسم الخط فارسی تھا کے قریب اس کی بجائے لاطینی رسم الخط کو رواج دیا گیا اور دوسری عالمی جنگ کے دوران میں لاطینی رسم الخط کو ترک کرکے درسی رسم الخط کو رائج کیاگیا جس کے نتیے میں ان جمہوریتوں کی زبانوں اور فارسی اور اردو کے درمیان ایک روک پیا گی اور ان کے سر کے رت بھی اگر تعلیمیافته ای یا ما فارسی زبان میں چھن چھ سات ضرور رکھے تھے میریوں کی آبادی مسلما ہے نام بھی سلام میں رومانوی حصے کو اسی شکل دیدی جاتی ہے.مال مفتی اعظم تاشقند ای یارایی والا بنانا ہے لیکن بولنےاور لکھنے بنیادی با ابولا دیکھا جاتاہے.ان کے معنی عظم بھی میں اس کی ایشیاء کے اسلامی ثقافتی بورڈ کے در بھی انسے پہلے انکے والد مر و مفتی ناشتہ تھے اور توقع کی جاتیہے کہ ان کے بعدان کے فرزند اکران کے جانشین ہوں گے.تاشقند میں بھی ہم حکومت ہی کے مہان تھے اور ہمارے میزبان از کستان کے وزیہ خارجہ جناب علموں تھے.ہمارے تاشقند پہنچے پر انہوںنے مطار پر مارا استقبال کیا ملا قیام ناشتند ولی میں تاتام کیا تو معلوم ہو کہ ہول کے علمیں کرانے کی ناکامیوں کو تو کیا یہ امی می پنداری
تو ہاں فقط نان کباب اور چیری میسر ہوں گے ہم نے بات کھلی ہوا اور ان کا کولی شوی تر جیح دی.تجربہ الانتخابات درست ثابت ہوا دو سامی مریدنی اعلی کے لئے آے ہوئے تھے کھانے کی دعوت دی اوران کے ساتھ ہوٹل پر کھانا کیا.ان نوجوان مومنوں میں سے دو منرل پاشا تھے اور مشرقی پاکستان سے انہیں ان کے ابھی تین چار ماہی گندے تے اور ابھی زبان سیکھ رہے تھے کواس می نامی مہارت حاصل کر چکے تھے انہوں نے بتایا کہ معاشرتی لحاظ سے تو ہیں ایس سی محسوس ہوتا ہے جیسے ہم ان وطن ہی مں میں جیل ہوئی رہنے سہنے، کھانے پنے میں ہمیں کوئی اجنبیت محسوس نہیں ہوتی.یہاں کے لوگ بہت خوش خلقی سے پیش آتے ہیں.ہمیں اپنے گھروں " ی جاتے ہیں اور ہر طرح خط امارات سے پیش آتے ہیں تو زبان کی روک بھی رفع ہوا ہے ہم یہاں ہرطرح سے خوش ہیں.کی پوروں کے رسانہ یاس سے ایک ساتھ آئے تھے پاکستانی کو روکے تھے اورار جاتے تھے.ان کی وزارت خارجہ کے ایک پروٹوکول افت تاشقند میں ان کے ساتھ شامل ہوگئے.یہ نوجوان ملا تھا اور ان تک میں اندازہ کرسکا نہاری تھے آزادی سے بات چیت کیے تھے گویں ان کے ساتھ کسی ایسے موضوع پر بات یت کے سے پر کرتا تھا جوان کے لئے پریشانی کا موب کے اقدار مرد کے حالات اندازہ ہم نےاپنی دیدار کرنے سے کام لیول میں ہم نے بی دی اتاریں تو اتار پاکتانی اکٹروں نے بیان کی مانیں اور آبادی دی منظر پیش کرتی ہیں وسط ایشیاء کے اکر شہر میش کرتے ہیں..ارایی و ال ای دی تھی کی کمی اور بازار بی ایسے تھے اس موا اور این طرز پر تھا.ملنے اور رحمت ہے وقت اسلام علیکم وعلیکم اسلام کا عام رواج تھا.مفتی ضیاءالدین با با نانو ہم نے نفی ضیاء الدین بابا خاور صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کی خواہش کی.انہوںنے لانا اس سے میں دیر کے کھانے کی دعوت دی ہم نے کیا کہا ر کر کے ان کا نام ایسے ہیں میں بابراک کونو میں ہےاگر مفتی صاحب اجازت دیں تم مین کے بعد دوپر کون ہے، اسی پان کی دم میں حاضر ہو جائی مفتی صاحب کی اجازت کے مطابق ہم ان کی فرم میں حاضر ہو گئے مفتی صاحب ا کے انھی اسمعیلوف صاحب اور انکے رفقاء نے کال تواضع اری کیا کمرہ تبادلہ خیالات او معلومات کے اصل کرنے میں مر ہوا بھی مفتی صاب اور مخدوم الملون صاف نے ہمیں جامع مسجد لائبریری اور مختلف ادارے دکھاے مفتی صاح سے معلوم ہوا کہ گر یو سی درب کو بھی کھلے بندوں رین تبلیغی سرگرمیوں کی اجازت نہیں لیکن اسلامی مدارس میں دین درس و تدریس پر کوئی پابندی نہیں.عبادات پر بھی خواما یں ہوں خواہ گھروں میں کوئی پابندی نہیں.البتہ آبادی کا نوجوان حصہ عبارات میں شعف نہیں رکھتا تو میر طبقے میں ایک ہے.رسم الخلامیں تدلی کی وجہ سے علی میں قرآن کرم کا ا ا ا ا ا برای این پرنہیں ہوتی لیکن علی کرم النظامی قرآن عربی کریم ملتاہے اور طباعت اور اشاعت پرکوئی پابندی نہیں مفتی صاحبے کا بریری میں قرآن کریم کے تین سے جو نہایت خوب و عاری رسم الخلامیں تجھے ہوئے تھے ہیں دکھلائے تو پچھلے چندسالوں میں مصرمی طبع کروائے گئے تھے.وسط ایشیا کے روسی علاقوں سے دینی
اور فقہی مائل پراستفسارات متواتہ مفتی صاحب کی خدمت میں اور ان کے دارے میں پہنتے رہتے ہیں میں کے جوابات ہم پنچائے جاتے یں.نکاح اور طلاق وغیرہ کاسب انتظام اور انفرم ان کے ادارے کی طرف سے کیا جاتا ہے.آخرمیں مفتی صاحب نے ایک کمرے کی طرف ار کیا اور منایا جائے نوش کریں کمر میں داخل ہو تو دیکھا کی مرمت کی دنیات سے لدی ہوئی ہے.پارا توریا کباب ، نان ، مختلف انواع کے حلوہ جات، یا ا نہور سب تازہ تیار شدہ موجود تھے.مہمان کوئی ای در حین کے قریب تھے.کھانا چای افراد کو وفات کرسکتاتھا تم نے مجھ لیاکہ چونکہ م دو پر و حاضر نہیں ہوسکے تھے مفتی اس نے فتوی جاری فرمایا کورد پر سر پر ہوگا میرے لئے بڑی مشکل تھی کینہ کو ون میں بھی کھانا دیا تھا اور ری کئے پر سب بھی ام ** تھا لیکن مفتی صاحب کی شان بھی بھی گوارا نہ تھی پری کو خیرباد کہتے پانی میں پیسے جس شے کا بھی انتخاب کیا اسے حد درجہ نی پایا.کھان کے دوران می گفتگو میںبھی تنوع پیدا ہوگی.مفتی صاحب کی ایک بت سے مجھے چھ حیرانی ہوئی انہوں نے فرمایا قری سال ہوتے ہی برای فرزند شمس الدین بیاں سکول کے سری دیے میں ان میں ارادہ کیا کہ اسکے سکول سے مارا کر کے ی کمی کی کیا پاکستان بیوری چنانچہ اس غرض کیلئےتم نے ماں سے نے سفارتخانے کی صرف ایک خط حکومت پستان همچنا ا پیاسا ختم کرکے اب وہ تعطیلا میں گھر یا ہے اسے تمہاری مات کا بہت اشتیاق ہے یعنی صاب کے مانے مانے شمس الدین ضیاء الدینوں ساتھ کے مکان سے تشریف لے آئے بڑے چاک سے دور کا ایسا تھا اور اور ان کو اس امر کی ہے فورا گویا ردیاگیا.اسوقت مجھے نہیں ہوا کہ کن ہے مفتی صاب کاران پاکستان کی حکومت کہنا یہ ہو لیکن نیویایک ایسی کے کچھ وحید یرے دریافت کرنے پر علم ہو کہ منی صاحب کا نام توزارتخاری این گیاتھالیکن رات کی رو سے اس کا کوئی جو بھیجیں قرین مصلح نہ مجھا گیاتھا واللہ علم بالصواب.مفتی صاحب اور مخدوم المعلوف نہایت سنجید طبع، ملنسار، متواضع، عالم اور بزرگ تھے.مخدوم اسمعیلوں نے فرمایاکردہ ایک فر گالی دن کے ساتھ پاکستان بھی گئے تھے.یہ وسط ایشیا کے اسلامی ثقافتی مرکز سے با صد را در نائب صدر کے نہایت شکر گذار در منون واپس لوٹے.تاشقند کے قریب ایک کو خود مجھے کو دیکھنے کا انتظام کیاگیا تھاوہ اسے قریب تیس میل کے فاصلے پرہے.وہاں کو لخوذ کی نائب صدر احہ نے کو لخوذ کے دفتریں ہمارا استقبال کیا.ان کے میاں تاشقند می مدرس ت را با خانوں میں اور کولو کی ما سرگرمیوں کے متعلق پوری اقفیت رکھتی تھیں.دفتر میں مارے والوں کے جواب دینے اور میں ضروری معلوات ہم پہنچانے کے بعد میں مدرسہ، شفاخانہ تعارفی ادارات وغیرہ دکھانے کیلئے ہمارے ساتھ ہوئیں.گاڑ میں سے گرتے ہوے ہم نے دیانت کا کیا کی ہے ہم کسی رانی مکان کےاندر جاکر اور ان کا اندازہ کر سکیں.انہوں نے اتر در فرمایا.بیک.چنانچہ قریب ہی کے ایک مکا کے اندر یہیں لے گیں.دوپہر کا وقت تھا.گاؤں کے فراخ رستوں پر ہم نے بہتکم لو آتے جاتے دیکھے جس سے ماہر تھاکہ ہرکوئی کھیتوںمیں اپنے کام میں مصر ہے.گو کے اندر بھی ہیں ایک نیا معمر خاتون کی ترائیں " 1
گاؤں کے ستوں میں سے کس کر کے اندر نظرنہیں جتی تھی.دو طرف اونچی کی دیواری تھیں.جب ہم دروازے سے داخل ہوئے تو ہارے میں اسنے ایک گھنا یہ تھا جس سے ذراہٹ کو سبزی کھیت نادر رانی مکان مارے دائیں ہاتھ تھا اور بردنی دیوار کے متص اور متوازی بنا ہوا تھا منی ہی تھائی میں ہم داخل ہوئے تھے من کی دائیں جانب تم ایک ہی آمدے میں داخل ہوئے جس کی تین دیواری شیشے کی تھیں اور فرش پٹائی کا تھا.برآمدے کے پیچھے دالان تھا.دالان کے باز میں یکے بعد دیگرے کے بنے ہوے تھے.سب فرش بچھائی کے تھے.سب کے روشن اور مان تھے.گھر کا ایکا میں ہوا تو انہیں ان کی زبان تو ہم جانے نہیں سامان ساده نه ے ان کے کرکے کیا اتار کر اس سے انا ارادہ کیا کہ ہمارا پورا نہیں اور انہوں نے میرا ایک بار سے تہوں دنی اور پر سامان نکالی اور قہوہ تیار کرکے پیش کیا تو نے بڑے شوق اور کرنے کے ساتھ نوش کیا.بانی کے درخت پھل سے لدے ہوئے تھے سبزیوں کے کھیت کو ہم نے نزدیک سے نہیں دیکھا لیکن یہ اور تاکہ یہ زمین کا کار و صاحب ان کی ذاتی ملکیت شمار ہوتا انہایت حنت سے کاشت کیا ہے ہم نے اندازہ کیاکہ اڈا کے دارا ی ی ی ی ی ی ی ی ی یم اور تندہی سے کاشت کئے ہوئے ہوں گے اس کڑے کا ایک انچ بھی بے مصر نہیں تھا.کالموں کے دفتری سادہ عامر کے سامنے بھی ایک متر بانی ایک نہر کے کنارے پر تھا جس کا سایہ تمازت آفتاب کی وجہ سے بہت خوشکو محسوس ہوا.بینک کے کنارے پر پہر کے کھانے کی میز لگائی گئی تھی یہ خاصی گہری علم ہوتی تھی اور پورے زور سے بہرہی تھی.اس کا کوئی بیس پیس ڈٹ کا ہو گا محترم نائب صدر صاحبہ نے جو اعداد وشمار کہیں نئے اس سے میں اندازہ ہو کر اس گاڑی یں ایک اوسط کہنے کا حصہ گاؤں کی مشترکہ آدمی پاکستانی سے میں پندرہ سے بیس ہزار روپے سالانہ بنتا ہے.سکول کی تعلیم شفاخانے کی خدمات از بچگی میں ڈاکٹر، را بہ وغیرہ کے مصارف اس آمدی تیزاد سے بیس ہزار تھے ونود کی مشرک آدمی سے ہونہار بچوں کو کالج اور درین کولونوسی میں بھی تعلیم لائی جاتی تھی.اس کے پر دونوں اس نے ہیں بتایا کہ یہ کو لخوذ از یکستان کی چند نہایت اعلی اور کامیاب کو لخوں میں شمار ہوتی ہے.زمین بہت زرخیز ہے اور آبپاشی کیلئے پانی ا افرا امیر ہے.انہوں نے فرمایا کہ جنوبی سوٹیوں کے علاقوں میں آبپاشی کے وسائل ابھی تک محدود میں گرفتہ رفتہ ان میںاضافہ ہو رہا ہے.جیسے جیسے مزید وسائل آبائی بروے کار آتے جائیں گے ان لاتوں کی والی بڑھتی جائے گی اگر عورت کے مطابق پانی می یابان ارم بن سکتےہیں.انہوں نے یہ بھی بتایا کہ شروع شروع می جب اشتراکی تعاونی نظام ان علاقوں میں جاری کیا گیا تھاتو سب سامان اور سارا عمل درس سے لایا گیاتھا لیکن اب آپ دیکھتے ہیں کہ اسے شعبوں کا انتظام ان لوگوں کے اپنے ہاتھوں میں توسب سامان عملہ * ان ہے اور یہ انہیں کامیابی سے چلا رہے ہیں.تاشقند کے نواح میں ہم نے ہڈیوں کی تپ دق کے نوجوان مریضوں کاسینی توری بھی دیکھا.اس ہی طبیب علی ای از یکی خالی تھیں جن کے تحت کئی ان کی مرداور عورت ڈاکٹر در دایہ کا کام کرتے تھے اسی ٹیم کے بنے اس طور پر بنائےگئے تھے کہ ضرور او روی کے مطابق ان میں ہوا، سورج کی روشنی ، گرم اور سرد درجہ حرارت کا انتظام آسانی سے ہو جاتا تھا.دیواریں سب لکڑی کے تختوں کی تھیں.یں نے دیوار کو ہٹانا ضروری ہوتا اس طرف کے تختے ضرورت کے مطابق سر کا دیے جاتے.سارے بنگلے باغ کے اندر بنے ہوئے تھے.
۲۸۴ رای تمام وقت تازہ ہوا اور خوشگوار ماحول میں رہتے تھے.ہم سوتی اور ان کپڑوں کا اک بہت بڑا کارخانہ بھی دیکھنے گئے اس میں چودہ ہزار مزدور کام کرتے تھے.اور سا حملہ مینجنگ ڈائریکٹر سمیت ان کی تھا.تان کے تقاقی ادارے کی ڈار کی ایک ان کی عالمہ خاتون تھیں.ان کی معلومات نہایت وسیع تھیں ان کے ساتھ گنر بھر اسی میں بہت دلچسپ گفتگوری اکثر وقت گفتگو کا موضوع شہنشاہ ظہیر الدین با برادران کے آثارات رہے شہنشاہ ظہرالدین ابہ کا مولانہ اور اسلام سے بھی وہ انکی شار کئے جاتے ہیں علاہ جہانگیر اور جہانبانی کے کارناموں کے ان شیری ی یا انکار جبران کی نگاہوں میں بہت بندہے.تورک بابری نور سے عالی شہرت حاصل کرچکی ہے اور کئی زبانوں میںاس کا ترجمہ بھی جانے کا ہے اری کا ا ا اے میرے بابا کران کا پور دیوان از ی میں چھا ہوا ہے اور ان کی بس کی غزالی از یکی می آج کی نوجوانوں کو نہ رہیں تو باری کا ایک نا ان کی زبان اور روسی سیمال میں چھپا ہوا انہوں نے مجھے نیت بھی فرمایا.سمر قند | تاشقند سے ہم ایک دن کیلئے سمرقند بھی گئے صبح ناشتن سے روانہ ہوکر شام کولوٹ آئے ایک تاریخی یادگاری کے باعث میں نے سنہری سمرقند کو ویساہی بلکہ اس سے بڑھ کر پایا جیسے اس کی شہرت ہے اپنی یاد گاروں کی زیارت کا شوق ہی مجھے کشان کشان ازبکستان لے گیا تھا.کئی وجوہ سے امیرتیمور کے مدفن پر ان کے لئے دعائے مغفرت کرنے کی آرزو تھی تو کمد للہ بہ ئی سا ہوا تھا اور آنکھوں سےدیکھا کہ انکی برا کی ہدایت کے مطابق انکے استاد اور مرشد کے امتی ہے اور اس مسلمانان کم می کردند در شہنشاہی فقیری کرده اند کی تصدیق کرتی ہے.سمرقند در سمرن کے نواح میں باقی سب کی یاد کا ری مر کے خالق ہیں، رعد گاہیں دیدہ عبرت نے آنسوؤں کے پردے میں سے دیکھیں اور ہر مقام پہ دل پر حسرت سے درگاہ رب العالمین من التجائیں بلند ہوتی ہیں کہ اسے قادر مطلق ا تو اپنے کمال فضل سے ہماری شب تیرہ کو روز روشن سے بدل اور اسلام کے سورج کو نصف النہازیک مند فرما آمین یا ارحم الراحمین سمرقند میں ہمالہ میزبان وہاں کے صدر بلدیہ تھے.دوپہر کا کھانا ہم نے ان کے دولتک سے نہ تناول یا، پلاد توریسم ، نان ، کباب ، حلوه جات، پیل او مشروبات میں بھی میں تھے.کھانے سے رات ہونے پر صدر بل دینے دریافت فرمایا اب کیا پروگرام ہے؟ بہتر ہو کچھ آرام کریں.میںنے گذارش کی کہ خانہ کا وقت ہے.اس پر میزبان نے وضو کے سے غسل خانے کی طرف رہنمائی کی اور جب کم ضرور کے نانہ کیئے تیار ہوے مصلے قبلہ رخ بجھادیئے فجزاه الله سمرقند تجارت کی منڈی ہونے کے لحاظ سے بھی ایک بارونی شہر ہے جو کچھ ہم نے بازاروں میں دیکھا اسکے علاوہ تم نے فراق کی منڈی بھی دیکھی سمرقند قاتل کی تجارت کا ایک ٹرام کی ہے پھدی کیفیت ہوئی عقل با نداری بدید و تاجوری آغا نه کرد : عشق دیده نہ آنسوئے باندار اور باندانه تا من کی باری شادی کی دیکھ بھال اور مرمت اور صفائی پر بہت رویہ صرف کرتی ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ آثار زائرین کی انتہائی دلچسپی کاموجب ہیں اور ان کے دیکھنے کوکثرت سے زائرین سمرقند آتے ہیں.ان کی وزارت خارجہ کے پروٹوکول اسند کے ساتھ ان چند دنوں میں دوستانہ مراسم قائم ہوگئے.انہوں نے بتایا میری نسبت
۶۸۵ ہو چکی ہے چند ماہ بعد شادی ہو گی.میری بڑی خواہش ہے تم شادی میں شریک ہوسکو.اپنے والد محرم کے متعلق بتایا کیا ضعیف احمر لی لیکن صوم و صلواۃ کے پابند ہیں.قرآن کریم کی تلاوت عربی رسم الخط والے مصحف سے ہی کرتے ہیںگو میں خود علی رسم الخط نہیں جانتا میں نے رخصت ہوتے وقت قرآن کریم کا اک نسخہ جو بہت خوبصور عربی رسم الحوظ می مصر مں چھپا تھا اور غالباً صدر بلدیہ س نے مجھے اور باری عطافرمایا تھان کے پر کیا کہ بیطرف سے اپنے والدمحرم کو بطور ہدیہ پیش کر دیں.ماسکو واپسی ناشتند واپسی پر مارا ارادہ ماسکو میں ایک دن مرنے کا تھا.میں نے وزیر خارجہ کی خدمت میں ی ای او ایمان نوازی کا شکریہ دینے کی خواہش تھی دیکھایا؟ یں نے کہا دیکھ لی اور بہت دلچسپ پایا.رخصت ہوتے وقت انہوں نے سیٹنگ SPUTNIK کا ایک چھوٹا سا ماڈل اپنی طرف سے مجھے بطور ذاتی یادگار کے عطافرمایا.وارسا پولینڈ | دروس کے روزیم پولینڈ کے دارالحکومت دارسا جانیوالے تھے اس دن برف باری ہو رہی تھی سطر پر پہنچ کر ایا یا ایا نہ ہی سفر کیا اور ابھی وارسا نیاکان مارپیری کھایا، کان نظر کے و کار و پرواز منسوخ ہوئی ہے لیکن پولینڈ کی کون ہمارے ای یار دوران کر دیا ہے.اس اخیر کے تھے می ا اوراس کا قیام و سی ای تخت تا اور بھی مر گیا.میں بھی اس کا اسوس تھالیکن دیا پہنچنے پر را کے وزیر خار بر عقب ایسا کو بی پایان پاراکین کا کان کا مارا پروگرام مجبور منسوخ کرنا پڑاتھا.انہیں ان پلیدی کمپنی سے شکایت تھی کہ انہوں نے " ردان میں تاخیر ہو جانے کی انہیں ہر وقت اطلاع نہ دی در نزدہ فوراً خاص طیارہ بھجوا دیتے ہم نےان کے خاص طیارہ بھجوانے کا شکریہ ادا کیا لیکن ان ہوائی ان سے کی زندگی کم نہ ہوئی.ہم اسامی ایک مزید قیام نہ رکھتے تھے کیونکٹا کر نیسے ہاری پاگ کے پروگرام ابر ہوتی جس کے نتیجے میں ہار پرک کے میزبان آزردہ ہوتے.ہم نے درس میں جتنا بھی وقت ملا اس کا پورا استعمال کیا می " تھے سرمی درسی رورت ہے.ایک اس مقام پر ہی بہت کچوار دیکھنے کے قابل لا کی موت کی نیکی وجہ سے دنیا بھر کے حکومت کے ین اور اے کی ان سے ہمارا نہایت پاک در تواضع کا سلک ہو اس کاری دونوں میں پاکستان کے متعلق اور ذاتی طور پر مرے متعلق نہایت اخلاص کا اظہار کیا گیاجس کے متعلق میرا سا تھا کہ من لفظی نہیں وزیر خارجہ نے مجھے ان طرف سے اسلامی فقہ کی یک فیف کا پانالی نخ دیا جس کے متعلق میں اس وقت تو صیح اندازہ نہ کر سکاکین پاکستان نے پرمعلوم ہوکر رواداری سے ہے.فجزاه الله احسن الجزاء پراگ چیکوسلواکیہ درس سے ہم چکوسلواکیہ کے دارالحکومت پر گئے یہاں بھی ہمارے ساتھ ویسے ہی تاک اور تواضع کا سلوک ہوا جیسے اس میں ہوا تھا.پراگ سے باہر میں پیس می پرایک تاریخی حل ہے جو ایک پہاڑی کی بلندی پر ہے.ہم اسے دیکھنے گئے.جوان ہماری رہنمائی کیلئے ہمارے ساتھ گئے تھے ان سے اس محل کے متعلق بہت سی دلچسپ تاریخی تفصیل گئے تھے ان سےاس
۶۸۶ معلوم ہوئیں.وزیر خارجہ نے شہر سے باہر دریائے مولاؤ (MOLDAU) کے کنارے ایک بلند مقام پر واقع مطعم مر ود پر کے کھانیکی دعوت دی.یہ سارا سفر بہت دلچسپ تھا اورمیں اپنے دل میں اپنے میزبانوں کےلئے مونیت کے جذبات لئے ہوئے واپس آیا.فالحمد للہ.زیورک میں مسجد محمود کا افتتاح پر اس میں یورک گیا.انا ماعت احمدیہ نے ایک مسجد عمر کی ہے.الہ تعالیٰ کے فضل اور اسکی ذرہ نواندی سے مجھے اس مسجد کے افتتاح کی سعادت نصیب ہوئی.اس مسجد کا نام مسجد محمود ہے.اسمبلی کے اجلاس خاص کا اختتام نہ یوری سے نیو یارک واپس آیا.اس اثناء میں جو مسئلہ اسمبلی کے خاص ا اس کا کیا کیا انہیں کسی کے پڑا تھا اس پیکی نر کو کی رپورٹ موصول ہوگئی اور وہ سمبلی کے اجلاس میں زیرکیت آئی جس کے بعد یہ اعلاس خاص انتقام بذریہ ہوا.کینیڈا کی سیر این ایام میں شیخ اعجازاحمد صاحب توان دنوں اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت سے متعلقی شنا تھے اور اس ادارہ کی ایک کانفرنس کے سلسہ میں شنگٹن آئے ہوے تھے کانفرنس کے اتمام یہ تین چار ہفتوں کی چھٹی لیکن نیوباک آئے اور میرے پاس ٹھہرے.ان کے قیام کے دوران میں ہم تین چار روز کیلئے مونٹر بال ٹورا، ٹورانٹو اور نیا گا کی سیر کرگئے وٹا میں کنیڈا کے وزیر خار به سریال ارن نے پاریمنٹ ہاؤس میں دیر کے کھانے کی دعوت دی جس میں وزیراعظم مراسیر پریس نے بھی شرکت کی دعوت سے چند دن پہلے انہوں نے گردن کی دائی جانب سے ایک درد نکلوانے کیلئے آپریشن کرایا تھا.ین نے کالا لیکن زخم ای پاکستان سرین نے یہ سن کر کہا اس سے اندازہ کریں کہ ہیں پاکان رسید اعتمادہے.کھانے بعد پارلیمنٹ کا اجلاس شرور ہونیو ا ا ا ا م ا اس کی کاروائی دیکھنے کیلئے زائرین کی گیلری میں چلے گئے.پارلیمنٹ کے سپیکر صاحب سے مجھے نیاز حاصل تھا.اجلاس کی کاروائی شروع کرنے سے قبل نہوں نے میرے گیلری میں موجود ونے کا اعلان پالیمن میں کیا یہ اراکین نے اظہار نشنود کے طور پر نور نور سے اپنے ڈایک بجائے اور خوش آمدید کے نخرے لگے.ہم ٹورانٹو اور نیاگرا ہوتے ہوئے واپس نیویارک آگئے.عالمی عدالت کی رکنیت کی اقوام متحدہ کے سکے سالانہ اجلاس میں عام عدالت کیلئے پانچ جوں کا انتخاب میرا دوبارہ انتخاب ہونا تھاکیونکہ فروری اشتہ میں صدر عدلت اور چار جو کی میعاد ختم ہونیوالی تھی ریٹائر ہونیوالوں میں صدر عدالت تو فرانس سے تھے اور ایک بجے برطانیہ سے تھے.چونکہ یہ دو نوی مالک مجلس امن کے منتقل کن ہیں لہذا دو جوں کا انتخاب اپنی در مکوں سے ہوتا تھ.باقی تین ریٹائر ہونیوالے بھی لاطینی امرمین ملکوں سے تھے.عالمی عدالت ے قیام کے وقت اور متحدہ کے اراکین کی کل تعداد اکیاون تین میں سے میں لاطینی امریکی مالک تھے.مالی عدالت کے پندر جوں کے انتخاب کے تعلق یہ مفاہمت تھی کہ پانچ و مجلس ان کے متقل اراکین کی یعنی ریاستہائے متحدہ امریکہ ، برطانیہ، فراش روس اور حسین سے منتخب ہوں گے.اور دس باقی مالک سے.چونکہ ابتدا میں باقی عمل میں بیس لاطینی امریکن مالک ھے البت باقی
دس جموں میں سے انرجی لاطینی امریکن مالک سے منتخب ہونے بیس تک یہ نعت قائم ری بسته یک اراکین اقوام متحدر من یشیائی اور افریقی معرف سے تجاوز کر چکا تھالیکن عدل کی ریت میں یعنی جس کے علاوہ صرف ایک ایشان اور ایک فریقی ج تھا جب کہ کے انتخاب کا وقت آیا ایشیائی دریا کی اے ای او او او ستاد امین کی تعداد کو دیکھتے ہے انی عادات کی رکنیت میں میا ملنا چاہئے اورمین این امن و ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا لاطینی امریکہ سے ایک نراقی الک سے اورایک ایشیائی ملک سے مت ہونا چاہئے.ایا امیدار ہوناہے دہ ایشائی لبنان سے تھے الیا سیٹ کیلئے مال میرے اور بانی امیدوار کے درمیان تا مقابلہ سخت تھالیکن اللہ تعالی نےاپنے فضل ے معجزانہ رنگ میں جھے کامیابی عطا کی.الحمدللہ.جند اریجی اور نیوزی لینڈ کا سفر شاہ کے اوائل میں میں وطن سے سالانہ سرمائی تعطیل کے بعد میگ واپس جانے کیلئے کراچی پہچا تومیرے عزیز دوست سید شجاعت عل حسنی صاحب مرحوم نے جو ان دنوں سٹیٹ بنک آف پاکستان کے گورنر تھے ینگی نیوزی لینڈ میں سنٹرل نیک نیوز لینڈ کی سرپرستی میں نام و نوانی ایک سیمینار ۴۳۱۸) ی موجے مالیات کی پالیسی او اصولوں پرایک عام ہم تقریر کرنے کی خواہش کی.انہوں نے بتایا کہ اس مرض کیلئے مجھے رسوا میں ینا ہوگا یا بہار کا موم ہوگا نیوزیلینڈمی سنٹرل بن کے گورن میرے میزبان ہوں گے اور انہیں توقع ہوگی یں ہفتہ دس دن کی رات نکال کر جاؤ تاکہ علاوہ ان کے بعدرات بھی دیکھ سکوں مجھے دنیاکے اس حصےہیں نکالا نہیں ہواتھا.نیوزیلینڈ کے متعلق اور پڑا ہوا کہ ان کے بعض مقامات قابل دیدیں میں نے انکی تجویز کو قبول کر لیا.شام میں جے این امور سرانجام در پایان اینیمیٹیڈ یان کیا ہوا سریال باریک بین الاقوامی مارا ان پہنچا میرا اراد چندین جار ی میں ٹھرنے کا تھا.ہم سان فرانسک سے جمعرات کے دن روانہ ہوئے تھے.دور و نمادی پینے پر معلوم ہوا کہنے کا دن ہے.درمیان میں سے جمعہ کا دن غائب ہو گیا ! امطار پیشیخ عبد الواحد ما بیشر سلسلہ احمدیہ اور نانی کے ہو چندا جاب تشریف لائے ہوے ا ا ا ا ا ا ا ش رایاگیا اورانده بودن این نیست دارو را وادار اور ان کی تجویز کردہ پروگرام کے مطابق انکی خدمت میں حاضر مشغول رہا.اس عرصے میں مختلف مانا پر ماضی کا موقعہ ہوالیکن زیادہ وقت جزائر کے صدر مقام سوا ۱۹۶۵ء سے (SUWA) میں گذراب ام میں جو ترقی کی منوی آبادی تین لاکھ کے لگ بنگ تھی جن میں سے نصف سے کچھ زائد ہندوستان اور پاکستانی زاد تھے اور صف سے کوک جزائر کےاصل باشند ھے.اول الذکر نرمی سلمان، ہندو سکھ شامل تھے اس منص من مسمانوں کی نبت ہمیں فیصد تھی.ہزار فیجی میں لہ تعالی کے فضل سے ایک مخلص اور مستعد جماعت احمدیہ سرگرم عمل ہے جو جزائر کی
۶۸۸ آبادی میں ایک نماز حیثیت رکھتی ہے تے میں حضرت نبا لیفتہ المسیح الثانی کا وصال | و نومبر کی شام و پبلک جلسہ تھا.اسی سر پر ربوہ سے بذریعہ تار خرمی کہ حضرت خلیق الی الان کی باری تشوینیک صورت اختیارکرگئی ہے.معلوم ہو ہی یہ ہوائی کمپنی کے در میں گا اوروہاں روایت کرنے پر معلم ہوا مجھے اور پینے کیلئے تین دن درکار ہوں گے.وہاں سےمیں احمدی مین ہاؤس گیا اک شیخ عبدالواحد صاحب اور احباب کے ساتھ مشورہ کرکے ان پر کام کروں.وہاں پہنچے پر علم ہوا کہ نور کے حال کی اطلاع آ چکی ہے.انا لہ وانا الیہ مصوبه و یا برای من ماندہ کے تواس باختر رضامندی ظاہر کرتے گئے.بعد مشور ہے یا کہ چونکہ میں اب کسی مصور جنازے میں ال ہونے یا خلیہ کے انتخاب میں شریک ہونے کیلئے بروقت نہیں ہے سکتا اس لئے سفرکے پروگرام میں کوئی تبدیلی کرنا عیت ہو گا.اس کے علاوہ آخری وقت پر شام کے جلسے کی منسوخی بھی مناسب نہیں شیخ صاحب کی حالت ایسی نہ تھی کہ وہ جلسے میں شامل ہو سکتے.اور جزائر کی جانوں کو اطلاع کرنے اور ان کے استنصادرات کا جواب دینے کیلئے بھی من ناؤ میں انکی موجودگی لازم تھی.اگرچہ میری ان حالت بھی ایسی تھی کہ طبیعت پر مضط دشوار مورا ھالیکن مجلس میں میری حاضری ضروری تھی اسے میں بلدیار رہ کر بوتل میں پہنچایا اور وردی قرا سورہ فاتحہ کے بعد اس سانحہ کا اعلان کرکے اور اسکے پیش نظر رحاب صدر سے اجازت چاہی کہ جلسے کی کاروائی میری تقریر یک محدود رہے اور ابتدائی اری تقریر اور آخری صدارتی تقریر اور سم کا پڑھنا کر دیا ہے.جناب نے بل تامل اس کے مطابق جیسے کی کاروائی انجام دی میرے لئے اس موقع پر تقریر کا بھانا ہت کا ارتعالی سے بن پڑا جو عمو زمین میں اللہ تعالی ی عطا کردہ توفیق سے بیان کیا گیا.و رات میرے لئے سخت کرب کی رات تھی.پچھلے پرمیں نے ایک خواب دیکھا جس کی راضی تیر تھی کہ خلیہ کا انتاب ہو گیا ہے.منتخب تو نوائے خلیفہ کی عمرہ سال ہے اور انکی طبیعت میں بہت رشد، بیا اور حلیم ہے.میں نے موجودہ ی زرداری کا انداز بیان کیا که زاده انظار رانا محمد حاج خلیفہ منتخب ہوئے ہیں.حضور کی کرکے تخلی ر را اندازہ تھا کہ سا ہے.بعدمیں معلم جو کہ آپ کی داد ادا کی ہے یعنی آپ کی عم اتخاب کے وقت پورے نالی تھی.اور نور کی سہ پر کومیری روانگی نانی کے مار سے تھی.احبا سے رخصت ہو کر جب میں ہوائی جہنہ میں بٹھ اور پانی میں مول لیا اور گویا جذبات نے اعلان کر دیاکہ ایک تو میں ضبط کی زنجیریں کڑے رکھنا مصلحت کا مطالبہ تھا لیکن اگر میں رخصت زندگی تو ہیں طوفان کی شکل می خروج کرنا ہو گا.اب پر قرن مصلحت میں تھا کہ دل اور آنکھوں کو خاموش اظہار کی اجازت دیدی جائے تا حیات کا سمندر یک لخت تلاطم میں نہ آئے.اک لینڈ تک چار گھنے کا سفرتھا.پچھلے ساٹھ سال کامرانی کی توی یک آہستہ آہستہ میری نظروں سے گزرنے لگا مجھے ستمبر میں پہلی بار حضور رضی اللہ عہ کی زیارت نصیب ہوئی تھی.میں شہر سیالکوٹ کے اس مقام کی نشاندہی کر سکتا ہوں
جہاں میری آنکھوں نے پلی باردہ معلوہ و مشاہدہ کیا.حضور کی عمراس وقت پندرہ سال اور آٹھ ماہ تھی میں حضور سے چار سال شبیہ پوری طرح محفوظ ہے.اس وقت حضور سرخ رنگ کی ر ی ا سنے تھے مار پیت حضور نے کچھ رصہ بعد شروع کی.ترکی کلاہ تھا.اس کے بعد سالانہ جلسے کے موقعہ پر دسمبر کے مہنے میں ہرسال زیارت کے مواقع نصیب ہوتے تھے لیکن ابھی ذاتی شنا کی کی سعادت حاصل نہیں ہوئی تھی.حضرت سیح موعود علیہ اسلام کے آخری ایام لاہور کے دوران میں بھی صاحبزادہ صاحب کی زیادت کے مواقع نصیب ہوتے رہے لیکن باوجود اسکے کہ میر دوستان مراسم شیخ محمد میر اب دور بودهری فتح مرسال محب ے ساتھ قائم ہو چکے تھے اور یہ دونوں اصحاب صاحبزادہ محمداحمداسلامی لاتے تھے کہ یہ بات نہ ہوتی کہ کی وساطت سے بریانی کی کوشش کرتا.حجاب مانع مفاد دیکھی بھی تو نہیں دو سے دیکھا کرنا ہی کی کیفیت رہی.اء میں جب صاجزادہ مرزا بشیر احمدصاحب گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے تومیرے انکے ساتھ گہرے دوستانہ مرام قائم ہوگئے.اس کے بعد جب کبھی یں قادیان جان تو صاحبزادہ صاحب مجھے اپنے ان مہمان ٹھہراتے.جب میں آخر است را میں 191 " فت ای ایم اولی کی مدت میں انگلستان کے سفیران یا ادارہ البر امرات رمایا کہ مازاد میرزا محمودامانی سے بھی رخصت ہوتے جارہ.چنانچہ انکی وساطت سے اجازت ملنے پرمیں نے پہلی بار حضرت اد مرزا بشیرالدین محمد احمد صاحب کی خدمت می باریابی یک ساعت اصل کی.اپنے اندر شفقت چنائی فرمائی اور ا دریا کبھی بھی خط لکھتے ہیں.خاک.گاہے گا ہے تعمی ارشاد می چند سطری خدمت عالی میں ارسال کرتا.حضور شفقانہ رجم ارشادات سے نوازتے.ضرت علیہ الیہ اول کے مال پریت کا تحریری عہد نانک نے حضرت علی البیع الثانی کی خدمت می انگستان سے یا پیش کر دیا.شروع نومبر کہ میں وطن واپسی پر خاک رسیالکوٹ میںاپنے والدین کی خدمت میںحاضر ہونے سے پہلے قادیان حاضر ہوا اور حضور کے دست مبارک پر بیعت سے فیضیاب ہوا.اسی وقت سے حضور نے خاک کی تربیت نے مبارک ہاتھوں میلے لی شروع شام میں غالب مارچ کا مہینہ تھا، حضور نے اراور مایایی ایتالیا میں امت محمدی دلی کا ایس قرار پایاہے جلسہ اس میں اردو، عربی، انگریزی میں تقریریں ہونگی اور سوال و جواب بھی ہوں گے.ہم چاہتے ہیں تم اس جلسے میں ضرورت مذہب انگریزی میں تری کرد واک کرنے کو یا ان کے عالم مع عرض کی حضور اکارت را میدان میں محض نا بلد ہے.فرمایام نوٹ را دستور اور اللہتعالی کے مار کر اپنے دور کے استاد تھے ہی حضور نے از اره صد نواندش والطان خاک کو اپنی خاص شاگردی کا فرع فرمایا.اوردن بدن حضور یکی تو را در شرق میں اضافہ ہوتا گیا.است ایام میں ایک سیالکوٹ سے نقل مکان کی ایک کر کے ایک کی تیس سال ہو گیا.ابھی اور تین اور سے لا ہورا
44.یں پر کسی شوری کاری کا مقصد ے متعلق تنازعہ کی ایل زیر سماعت آنیوالی ہے اس کی بیوی کے لئے جاد سند بھروسہ تھا پ کواپنے رب کی قدرتوں اوراس کی ایات پہ کیا فرائی کی سرانجام دی کیلئے جواس ذات باری نے آپکے سے مار کے تھے اگر آپ کا ایک ہند کے کابھی انتخاب کر ں گے تو قوی اور غالب حکم کا مالک آقا کند کے ایوانوں کے مالی مینی کی کیا یا اس کا کیا اور ہار مانیان طور پر یہی ہوا.الحمدللہ پنہائی کورٹ میں خاک کے مقالے ہی میدان وکالت کے بڑے بڑے شہوانی یہ قیادت مر - منظر الحق صاحب پر چائے ہوئے تھے.سید فخرالدین صاحب گورنمنٹ پیڈ سٹریوینی مولوی طاہر اور کوئی نصف در بین دیگر اصحاب ور کی تائیں تنے ہی لائے کرام خاکسر کے ساتھ فقط مولوی خورشید حسین صاحب وہ ھی محض عدالت کے قواعد کی پابندی کی خاطر ور نہ اپنے دفترمیں ایک سرسری مشورے کے علاوہ وہ پیروی میں شریک نہ ہوئے اور دوران سماعت عرف حاضری دینے کیلئے چندمنٹ تشریف فرار ہے.لیکن جہاں تک واقعات اور قانونی تیاری کا تعلق تھاوہ جیسے بیان ہوچکا ہے جناب سید وزارت حسین تو ہے ایسے کم طور پرکی ہوئی تھی کہ ھے فضل اللہ کوئی وقت پیش آئی نہ زحمت اٹھانا پر ان پرا نی راستی ہوئی مرزا الہ احن الجراد لیای مدراس ہائی کوٹ میں سٹی مری انار گورنمنٹ پیڈ کے مقام میں موجب می گورنمنٹ ایڈوکیٹ بھی ہائی کورٹ اور پھر لندن می پریوی کونسل کے حج ہوئے.امرتسر میں ڈاکٹر سیف الدین کچلوار جناب مولاناشاءاللہ صاحب مختار خاص مدعیہ کے پنجاب چیف کورٹ میں حضور کئے اور حضور کے برادران کے یک نجی دیوانی مقدمے میں میں اگر سیاسی اثر جماعت کے مفاد پر پڑتا الا اب لالہ سیتا رام سے کہنہ مشق کسی کے قلب میں حضور نے خاک ری کا انتخب فرمایا.اس آخری اپیل کی پوری کیلئے حضور کی خدمت میں بہت سے احبا ہے مخلصانہ مشورہ پیش کیا کہ عالم کی ناک اور اہمیت کے پیش نظر جناب میاں محمدشفیع احبابی ای مینی کویلی کیا جائے، لیکن حضور نےفرمایابی کام بتا سکتے ہیں محض بات نہیں کرسکتی اور ور نے ان ای اور آزمودہ کار اصحابمیں سے کیا جائے ان کو ان کا اتنا ہی برقرار رکھا.ذرا این داسی.ور اس ٹائی کوٹ میں پیشی کے وقت میری عمر ۲ - ۲۹ سال تھی لیکن باقی سب مندرجہ بالا مقدمات کی پیروی ایسے وقت میں - 1416 مندر میرے سپرد کی گئی جب میں ابھی 10 سال کی محرک نہیں پہنچاتھا.نمبر میں سرما میگی وزیر چند برصغیر کے سند دستور کے کی ا ما کانادا کرنے کیئے کی تشریف لائے ارنا کے نمائندگان کے اظہارا ی سماعت کی جماعت احمدی کی طر سے بو ایں حضرت خلیفہ ایک کے سرد ہوا اورجماعت کے دن کے پیش ہونے پر اک نے پڑھ کر سنایا حضور کی علحدہ ملاقات وزیر ہم سے ہوئی اس موقع پر ترجمانی کی خدمت کے سرانجام دیے نے حضورنے انکار کا نتخب فرمایا خاکسار و سیاسی ورمی کوئی خاص ویسی ہی تھی اور انتابت سے بیت گریز کرتی تھی.حضور نے اپنے ارشاد کے ماتحت اس میدان میں داخل کیا جسکی تفصیل گزرچکی ہے.غرض ہر مرحلے پر ہدایت اور رہنمائی فرمائی.سے بر س ر امیر تری گذرانی میراب اساس تیرانا یا کم می کند و وش تست ها که منو گی توجه دار شفت کاریم
ور دریا میں نے سرخ ہے جان کی طرح ہے آپ کو منور کے ان میں دیدیا اور اور برما میں ایک بار گرم منفی کرتی ہے.میں نےاپنے معلق ان کا نہیں کی بھی تصور میرے تعلق کرتے رہے.آک لینڈ نے میں یہ فیصلہ کیا کام اپنے پروگرام کے مطابق ہی پاکستا یوی کا ہی نہیں کروں گا جس سے میری عمر زیادہ تہیہ بھی کر تے عام میں سے جذبات اور میری طبیعت نال میں آجائے.ان نے پاوں تو واہ واک کی طبیعت رام کو کیا ہوا محصور کے وصال کوآج کچھ سال ہونے آئے ہیں لیکن میری بیعت کی وہی کیفیت ہے.نیوزیلینڈ آک لینڈ مار پینے پر مارپیری سنٹر بن کے ایک فرم مل گے اور مجھے بولے گئے.میرے سے بھی اک مجھے لینڈ کا مال بھی کی روٹی میں دو کھانے والا تھا اور کوٹ کو جاتے ہوے کا میںسے بھی بہت خوش کن نظر آتا تھا، در سرودن ناشتے کے م دونوں کاری جنوب کی جانب روانہ ہوگئے مومان اورانا ان کی روش میں بھی اک لینڈ ایسی خوش نظر آیا جسے ات کے وقت بجلی کی روشنی میں اندازہ ہوا تھا.نیوزی لینڈ کے متعلق دو باتیں میرے زمین میں تھیں جنہیں دیکھنے کا مجھے شوق تھا ایک ملک کے اصل باشندے یعنی MAORIS اور دوسرے قدرتی دخانی بیچے جو زمین کے اندر سے زور سے ابلتے ہیں اور جن کی بجاہے بہ سے کام لئے جاتے ہیں.ہمارے پہلے دن کے سفر کی منزل کی مقام تھا اور ہیں ایک بنی 1 MA کی بھی تھی.بھاپ کو کام میں لانے بھی ب کم کار سے اترے توان خاتون نے فرمایا میں تواسے آگے جانے سے گھراتی ہوں آپ کو آگے بڑھ کر جواندازہ ہوسکتا ہے سکا ری کر لیں اس سارے ہی محسوس ہوا کہ پاؤں لے کی زمین قرار ہے اور تھوڑی دور کے زمین کے اندر سے پانیا و راگ اور باپ کے جوش سے مل ہی گڑ گڑاہٹ کا شو اٹھ رہے کے رھے تو ای ی ی ی ی ی ک کر کے بالکل اسے محسوس ہوئی پیسے ہم ایک سرکش بچھیرے کی پیٹھ پر کھڑے ہیں سو سرپٹ دوڑ رہا ہے.بھاپ کی گرج کی آواز نہایت خوفناک اور غضباک انداز میں سنائی دیتی.ہر دو منٹ کے وقفے پر مار کھڑے ہونے کی جگ سے چندگز کے فاصلے پر ایک ہشتناک سنگھاڑے کے ساتھ ایک دخانی ستون زمین کے اندر سے آسمان کی طرف بند ہوتا یہ تمام نظر گیا جن کے فیض و غضب کا نمونہ تھا.یونین کے دونوں جزیروں میں ہاں بھی پر نکالا ہوا ادرک پایا یہ میں نیوزی لینڈ کی خصوصیت ہیں اور مسافروں کیلئے باعث راحت ہیں.در ایں اسے میں ٹھہر کریم میرے دن دوپہر کو برت ولنگٹن پہنچے گے یہ تمام سفریت آرام سے کئے اور بڑی دلی کا موجب رہا لیکن می علاوہ سیمنار کی تقریر کے گورنر جزل اوتے دوپہرکے کھانے پر بلایا سنٹرل بنک کے گورنر نے شا کے کھانے کی دعوت دی سپریم کورٹ کے بج صاحبان بھی شریک دعوت تھے.عدالت اپیل یں ان میں سے بعض کے ساتھ ملاقات کا موقعہ ہوا وزیراعظم سر ولی اک نے پارلیمنٹ ہاؤس کی حمایت میں دورہ کے کھانے کی دعوت دی اور وزراء اور متان باید کان کے ساتھ ملاقات کا موقعہ ہوا.ولینگن سے فارغ ہوکر جنوبی بزرگی سر کا موقع ملا.علاوہ دیگر مقامت کے ہلی کاپٹر پرایک 1 Lac پرانے جندرا
۶۹۲ ابھی اتفاق ہوا.جنوبی وزیری کا مارا شیر ENS TO ہے.میاں کے مال سے قطب جنوبی کےعلاقے میں مقیم نسدانوں کے ساتھ رابطہ نام رکھاجاتاہے.میں جنوبی وزیر سے انکی واپسی کے لئے مار پر نظرات اور کسی کتاب کے طالع میں مصرف تھا کہ ایک صحب تشریف لائے اور فرمایا الان و یا اقرار کرنے پر راما ای جی این اتفاق ہے میں انڈونیشیا ایک طال علم میں سیال ENS TOWN کی یونیورس میں یا اعلی تعلیم کے لئے آیا ہوں.میں نے بیا ی دریا میں اسلام پرتمہاری کتب دیکھی اوراسے خرید کران دو اس کا مالک کر رہا ہوں، کتاب اس وقت بھی میرے ہی سے س پر تل کر دو.میں نے خوشی سےان کے ارشاد کی تعمیل کی انہوں نے بڑی سادگی سے رام اللہ تعالی انہیں اس کتا ہے لکھنے کی بہت بہت نیک بنیا دے.میرے دل سے ان کیلئے دعا کی اور الا ان یکی از پر میرا سحر میں گیا اللہ تعالی نے اپنے اس عاجہ بندے کو اکیلے پن کی گھڑی میں کسقدر دلکش ہدیے سے نوازا.سجدت لک رومی و جنانی.ویلنگٹن سے میں سنی یا ان کی دنیا کا نام اور عالم ہے ہوائی جہاز سے ای ای سیو و این زمین پر کوئی ایسی غیر معمولی ان دکھائی نی اگر ان پر جانے کا وقعہ ہوتا تو شاید و کیفیت ہوتی سون میں چند گھنے قیام کے بعد ہوا مہا سے CAN BE A پلا گیا نی بڑی آبادی کا شہر ہے.لیکن کوئی شان یا عظمت نظرنہ آئی میرا ایمان اختر کا اس کے تنے میں مجھے اندازہ بھی نیست ح ھا.کینبرا نو ماشہ ہے.نقشہ بہت وسیع ہے سٹرکیں فراغ ہیں اس منت اور بہتر ہے.ہر اول اور دیگی دل کو بھاتی ہے ی مکھیوں کی بہتا ہے جوبہت موٹی میں کینیا میں رانی پاکستان ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ایران است عزیز دوست ہیں میں نے ان کے ہاں بہت آرام پایا اللہ علی اپنے فضل سے انہیں بہترین خیر عطا فرمائے آمین.کیا کے قیام کے دوران میں جناب وزیر اعظم سرا بیٹ مین ین سے ملاقات ہوئی مین کے ساتھ عرصہ سے میرے سوتانہ تعلق ہیں سر جیمز پیسوں سے بھی ملا تو اس زمانے میں اقوام متحدہ میں آسٹریلیا کے مستقل نمائیندے تھے جب میں دیہاں پاکستان کا مستقل نمائندہ تھا.گورنہ منبرل ارد کیس سے میرے دوستان تا ویسے ہیں.انہوں نے ایران ایران اورنگی یاران ایدی اتار کرنے میں لگات نونی یا مرنے کے بعدمیں صبح دی کالری پہنچ گیا.حج بیت اللہ شریف کی سعادت چونکہ عالمی حالت میں میرا تقریر فروری ماہ سے عمل میں آنا نظامی نے اقوام متحدہ میںپاکستانی سفر کے منصب کا چاندج در فروری کشتہ کو چھوڑ دیا.عدات میں دوبارہ تقریر کے دیگر فواد کے علاؤ یک نعمت ملی تو حاصل ہوئی وہ یہ تھی کہ از شادی میر ایک دینی محض اللہ تعالی کے فضل اور اس کی ذرہ نواندی سے بر آئی.فالحمدلله حمداً کثیراً طبیب مبارکا فیہ.حسن اتفاق سے عزیز انور احمد اور عزیزہ امینہ 1944 1975 ا ساتھ بھی میرا گیا جن کی رفاقت کی وجہ سےمجھے بہت آرام ملا فجزاهم اللہ خیرا.ہم کراچی سے ارمار اور جمعہ کے دن فجر کے وقت روانہ ہوئے اور دس بجے قبل دو پر خیریت جدہ پہنچ گئے.تشریفات ملکیہ کی طر سے ہماری رہائش کا انتظام جدہ میں موٹ میں کیاگیا تھا جو امرکی طرز کا نہایت عمدہ آرام دہ ہوئی ہے.
سی دن مہم مکہ معظم میں حاضر ہوکر فضل الہ عمرہ سے شوہوئے اور پر جدہ واپس آگئے.اگر وجود میں ٹرک تشریفات تشکی ے ساتھ پروگرام کیا.پاکستانی سفارتخانے میں عار محور ریفر کیا ان کے فرانس نیاز حاصل کیا.انمیں سے دو صاحبان شیخ اعزانه بیان صاحب افسر جم در سید اشتیان حسین صاحب مدیر ثالث وزارت خارجہ میں میرے رفیق کا رہ چکے تھے.ابھی پہلے کی تواضع کے ساتھ پیش آئے اور انتظامت حج کے سلے میں مارا آرام کام ہے نام اللہ خیرا کو معبد سے کار پر مین منوره حاضر ہوئے اور اتک مال قیام کیا، مادر جا تا مسجد نبی سے ندیم کے فاصلے پر تھی اس سہولت کی وجہ سے می لیلا اوقات میں عدم حاضری اور نا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ل یہ دل کے روضہ مبار اور تصور کے مبر کے درمیان نوافل اداکرنے والوں کا ہروقت اسرار اور رہناتھاکہ میں خدشہ ہوا کہ ان ایام میںاس مبارک ا رول ادا کرنے اور ا کرنے کی تر دل میں بارہ جائے ا ا ا ا ا ا ا ا ا رمان نوازی سے یہ موقع بھی افرات ایا میری بیوی کی وجہ سے جد کی صفائی کے مات خاص نظام کرنا پڑتا ہے اسے سی الف ب سے لیکر تین گھٹے کیے ند کر دی جاتی ہے اور اس دوران میں خدام مسجد کی صفائی ستھری کے ساتھ مل کرلیتے ہیں.اور کی شام کو نمایند تشریفات نے میں مطلع کیا کہ وہ نصف شب کے وقت تشریف لاکر ہی مسجدکے ان سے ملیں گے اور بقدر مہم چاہیں نال اور د عامی رف کر سکیں گے.چنانچہ دونوں رات ہیں یہ موت نصیب ہوتا تا احمد اور مدینہ منورہ سے جدہ واپسی ہوئی بار کریم پر مکہ معظمہ حاضر ہوئے اور عمرہ اور مناسک اداکئے ، کومکہ معظمنتقل ہوگئے.اس کی شام کو الہ الملک فیصل کیطرف سے انتقالی دعوت تھی.عزیز اور امداد میں بھی دعو تھے.علاقہ الملک نےاپنی تقریر می قضیه مین کا ذکر فرمایا اور صراحت فرمائی کهانا کام توی یه ہے کہ جو عناصر کی بیرون مین سے میں میں داخل ہوئے ہیں وہ میں سے نکل جائیںاور من کی رعایا بر کسی بردنی تداخل کے آزادانہ اپنے مستقل کا فیصلہ کرے مزید فرمایام اعلان کرتے ہیں اور آپ سب کو اس پر گواہ ٹھہراتے میں یمنی رایا تو ایلیا کی کسی بیرونی داخلی کسی جھر.مکہ میں خصوصی مہمان تھے.انہوں نے بھی حاضرن کو خطاب فرمایا.طلا سے فراغت پری نے زینہ اور احد کو لالا ملک کی خدمت میں پیش کیا.مگر معظم منتقل ہوتے پیر صاحبزادہ مرزا رفیع حمد اب کی قیام گاہ پلا کی خدمت میں حاضر ہوئے.صاحبزادہ صاحب کراچی سے اس پر دان میں عمدہ تشریف لائے تھے جس پر ہم نے سفر کیا تھا.جدہ پہنچتے ہی آپ مکہ منظر حاضر ہو گئے تھے.آپ نے ان احباب جماعت احمدیہ کی فرست تا کاری جو فریضہ حج کی ادائیگی کیلئے آئےہوئے تھے.اس فہرست کی تکمیل پر معلوم ہو کہ اس سال بفضل الہ ایک سوسے زائد حمد احباب نے فریضہ حج کی سعادت اصل کی الحمدللہ ان میں ایشیا افریقہ یورپ سے آنیوالے اداپ ال تھے.میک ہے کوئی دوست امریک سے بھی تشریف لئے ہوں لیکن مجھ اس کاعلم نہیں کہ نظم میں امام الحرم بوی تا جا کے کعبہ شریف چند دم کے فاصلے پرے نے رات کا ر ت مو لانا اور ان کی تونین پائی ا ا ا ا ایرانی کی جو میں کی حوس نہ اور ان سےہی اور ان کے
۶۹۴ ساتھ خشکی کے راستے سفر کرکے آتے ہیں اوراسی طریق سے واپس جاتے ہیں کہ علم اور دین منور میں ایک اپنا نام ای سی سے مقرر ہیں.اس انتظام کے نتیجے میں ترکی اور ایرانی حجاج کو بہت سہولت رہتی ہے.طواف کے دوران میں بھی ان کے حجاج اکٹھے رہتے ہیں.ایرانی حجاج کی لولی توطواف کے دوران میں بازو میں اندر ڈالکر ایک مضبوط بخیر بنالیتی ہے جس سے انہیں تو سہولت رہتی ہے اور خواتین اور ضعفاء کو درمیان میں رکھنے سے آکی حفاظت بھی ہو جاتی ہے لیکن یہ طریق بعض دفعہ دور سے جان کیلئے اذیت کا موجب ہوتاہے.حجراسود مقام معلم اور مقام ابرہیم کے درمیان یہ محدود ہونے کی وجہ سے ہجوم کا یہاں دور ہوتا ہے.رسول اله صلی لہ علیہ کی کی ہدایت ہے طواف کے دوران یں اور خصوصیت س حجراسود کے قرب کاپیل نہ ہونی چاہیے تا کسی کا ایک مرتب وہ ترکی جان است اطمینان سے طواف کرتے دیکھے گئے.ان کی پچان ان کے لفظ سے بھی ہو جاتی ہے.ان میں سے اکر بیٹری اللہ اکر انی میں ہے یا امی کی الخط انتی و العالم با اتوار کی صبح کو انا کا منظر ہے طلوع آنا کے دوران ہو مین اپنے اریوں اور موٹروں کی کثر کی وجہ سےبہت اروانا تھا.کثیرتعداد جان کی اک منظر سے سنیے منی سے عرفات، عرفات سے مزدلفہ، مزدلفہ سے منی اور منی سے واپس مکہ معظمہ تمام مناسک پیل ادا کرتی ہے.حج کے ایام شروع ہونے کے ساتھ ہی ہر سمت سے آنیوالے حجاج بیت للہ کی طرفسے تقلید شروع ہو جاتی ہے." لبيك اللهم لبيك.لبيك لا شريك لك لبيك - ان الحمل والنعمة لك والملك لا شريك لك - احرام باندھنے کیساتھ ی تین بار بلند کی جاتیہے.دنیا کے ہرگوشے سے بونی کوئی حاجی جی کے ادارے سے عازم ارم مجانہ ہوتا ہے تانیہ کی آواز بلند کرنا شروع کردیاہے اورایام میں تو تواتر الیہ کا درد ہوتاہے.بی بی نظام ہے ان ایامی یاسایی و متواتر بلی کاورد تا ے چنانچہ دینہ منورہ سے واپسی کے سفری کرا کے ریڈیو پر متواتی کا درسنا دیا اور ارام بھی تلبیہ کرنے میں شال رہتے ے گریون کیا اس وقت دیوالیہ اور سنائی دیتی تو اپنے طورپر تلیں مصروف رہتے اور کی حالت بیایم حج میں تھی.لبيك اللهم لبيك ، لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك - لا شريك لك - جيب مسنون دعاؤں اور مناجات میں زمین اور زبان معروف نہ ہوتے تو تلی کے کلمات زبان پر جاری رہے اور دل و دماغ پر ایک ولولے کی کیفیت طاری رہتی.ریڈیو پتیلیہ اور اس قدر شیری لہجے میں ہوتا تھا اور تلی کے کلمات دل میں ایسی والہانہ کیفت پیدا کر دیتے تھے کہ انھیں مات پر نم رہتی تھیں.مدینہ منورہ کے قیام کے دوران میں طبیعت زیادہ تر درود شریف کی طرف مائل رہتی تھی.عام مسنون صلواة اور سلام کے یہ عاجہ اکثراوقات حضرت یح الموعود علیہ الصلوۃ السلم کے اپنے الفاظ میں حضور کی طرف سے حضور کے آتا اور موب صلی الہ علیہ وسم پر درود بھیجنے کی مصروف رہتا تھا.يارب صل على نبيك دائما في سنه الدنيا وبعث ثانی.ایام حج میں بھی ان الفاظ میں درد بھیجنے کی سعادت متواترہ حاصل ہوتی رہی وكان هذا من فضل ربی.مکہ معظمہ سے منی جاتے ہوئے ان تمام کیفیا میں شدت پدا ہوگئی دل لکھا ہوا، زبان کیسے تر اور آنکھیں جاری تھیں.دائیں بائیں آگے پیچھے جوان معمری مرد ، عورت، گورے 10 کائے شمال اور بجنوب سے مشرق اور مغرب سے دنیا کے کناروں سے کشان کشان لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك -
490 ان الحمد والنعمة لك والملك لا شريك ل کا ورد کرتے ہوئے سوار اور پیل شاداں فرحان اللہ علی اناس حج البیت من استطاع الی سبیل (۹۸ : ) کے فرمان کی تعمیل میں دوران ف الناس بالج با وی را علی کل ظاهر بانتين من كل فنچ مین کی پر شک پیشگوئی کا سال قرن بعد قرن پورا کرتے ہوے بعد شوق اور بہزاد نیازمندی بڑھتے چلے جارہے تھے.سب پرے بشاش ، سب آنکھیں روشن سب لبوں پر مسکراہٹ ، بل امتیا مودی کی ان کے نام کفن باندھے و گیا میدان حشر کی جان کھچے چلے جارہے تھےلیکن خون رسانی میں ہیں کہ اپنے بکی رحمت کی امیدیں اس کے فران پر تکیہ کئے ہوئے پھرے مسفرة ضاحکتہ مبشرة (۳۹۰۴۰ : ۸۰ مینا میں کچھ جان کا قیام مکہ منظر کی طرح عمارتوں میں بھی ہوتا ہے لیکن بیشتر تے کا قیام معلمین کے زیر انتظام یوںمیں ہوتا ہے.تشریفات کے مہمانوں کا نظام مہمان خان میں ایاسایی تیرتی کا پول کی نیت زیادہ لینا اگر ا ا ا ا ا امین امین موم میں سب سے خاصی تھا جہاں کمی تھی مینی میں تمازت آفتاب سے محفوظ رہنے کیلئے چھتری کی ضرورت محسوس ہوتی تھی پہلے زمانوں کی نت پانی آسانی اور فراوانی سے میسر آتاتھا.الحمدللہ پینے کیلئے ٹھنڈے مشروبات سنی ہی میں نہیں عرفات اور مزدل ہمیں بھی ملے تھے یعلین - کے انتظام کے ماتحت کیمپوں اور خیموں میں حجاج کے قیام اور علم کا انتظام مختلف در جوں کا تھا.اکثر معنی اپنے مہمانوں لئے ہرقسم کی سہولت مہیا کرنے کی سعی کرتے ہیں لیکن بعض اس معیار پر پورے نہیں اتر نے بعض حکومتوں کی طرف سے اپنے حجاج کیلئے اس حکم کے عمل کی براہ راست نگرانی میںسب انتظام کیاجاتا ہے.شانت کی اور ایرانی حکومتوں کے علاوہ ان دنیا کومت بھی اے اے اے اے اے اے مال کی زیر نگرانی نظام کرتی ہے جس سے ان کے جان کو وہ سہولت رہتی ہے.پاکستانی حکوت ی طرف سے کی عظیم، منی وغیر مالی امداد کا انتظام ہوتاہے اور خود پاکتانی سفر کیا اوران کے افران در عملے کے اصحاب ان کریم کی سہولت ہی کرنے میں سی کرتے ہیں اور ی خاصی تعداد ان کی ان کی مہان بھی ہوتی ہے.نامی ایک دیے ار میں پاکستان سارستان کا فرار میان خانہ قائم ہوتاہے.ا ا ا الا ان الالا.لیکن بعض اور ابھی مزید توجہ کے محتاج ہیں.مثلا میری دانست میں سفارتخانے کی طرف سےمعلمین کے نظام کی مزید نگرانی کی ضرورت ہے.ایک مفید اقدم یہ ہوسکتا ہے کہ جن علمین کی طرف سے جماع کی موت کیلئے خاطرخواہ نظام نہ کی جاتا ہو ان کے متعلق حکومت کو رپورٹ کیجائے ور ارسال حکومت بروقت پاکستانی اعلان کر دیا ہے کہ الامام کی طرف جانے کا امام اوراوا انتظام نہیں کی جا تاکہ جانا اپنے آپکو ایسے ملین کے سپرد کرنے میں احتیاط کریں.عرات کو جانتے ہوئے منی میں اک دن رات قیام ہوا ہے.پانچ ماہی میں ادا ہوتی ہیں عزیز انور امداد میں عصری از کے بعد بانی قیام گاہ پر واپس آئے تو یہ امینہ نے کہ آج گرمی کی شدت تکلیف دہ محسوس توری ہے.اس پریشانی یں میں نے اللہ تعالی سے جو دعاء کی ہے معلوم نہیں ایسی دعا جائز بھی ہے یا نہیں.میرے دریافت کرنے پر بتلایا اس نے کچھ اس رنگ میں دعاء کی ہے الہی ہم تیرے عاجز بندے ہیں اور تیری رضا کے حصول کیلئے تیرے فرمان کی تعمیل میں تالہ کے حج کیلئے :
۶۹۶ حاضر ہوئے ہیں.جہاں تو نے فرمایا ہے طواف کرو.ہم نے طواف کیا ہے، عمال تونے فرمایا ہے بھی کر نے سعی کی ہے، ہو تو رہے مان ہیں وہ سب تری عطا کردہ توفیق سے بالائیں گے لیکن ہم تیرے امان ہی گرمی کی شدت جاری ہے کہ ہم سب عورات کے میدان میں حاضر ہوں گے تجھے سب قدرت ہے تو تم فرما اور کل کا دن منا کر دے.میں نے کہا ایسی دعا ایک جائز ہے اللہ تعالی مالک ہے لیکن اپنے بندوں کی نانی بر داری بھی کرتا ہے کیا عجب کہ تمہاری دعاکی یہ ادا اللہ تعالی کو بھا جائے اور رو رویا ی تھی ایک عجیب کی ہوئی عزیز امین سے کہا توتمہاری اور قوی کیا گیا تمام دن موسم خوشگوار را در باد نیم جاری رہی ظہر و عصر کے بعد بادل چھٹ گئے لیکن ہا ی ی ی ی ی ی ی ی یکی در اردن میں کچھ بند باندی بھی ہوئے ار کی صبح کو طلوع آفتاب کے بعد منی سے عرفات روانہ ہوئے یہ حج کادن تھا اس دن حجاز کی بڑی کثرت تھی لیکن عرفات پہنچنے اور وہاں سے اسی شام مزد لفرد اس پینے کا انتظا بہت اچھانا گردو بار تولازم تھالیکن انہیں جس کا اندیشید سکتا تھا ملالہ موسم خوشگوار تھا.تشریفات کی رف سے میں بھی نظام قابل ستا تھا.ہر جمے کے باہر یمانی کے ام درج تھے.ان تشریفات کے بہانوں کی تعداد میں ہار ما مدتی کی ماں بھی میدان میں پر سوات میری یا اگر یہ نجات ونے کی نیت سے رمیان کمال سادگی سے یہ مارک ون کا ایلی استغفار درود ، قاری قرآن کریم اور مناسک کے بالائے سے دن ذکر یں صرف کرنے پر آمادہ تھا.لیکن تشریفات کی طرفسے مہمان نوازی کے نظام کا تجربہ بنات نوین تھا اور بیافتہ ملالہ املک تلاوت اوران کے کارکنوں کے حق میں دلوں سے مخلصانہ دعائیں بلند ہوتی تھیں.تشریفات کی ہمان نوازی عام مہمان نوازی کی ماند نہیں تھی اس کے بہت سے پہلو تھے اور ر پہلو کے متعلق بہت خاطر خواہ انتظام تھا.جدہ پہنچنے پراستقبال ، معدے میں ہر مہمان کی سہولت اور خواہش کے مطابق قیام و طعام اور وسائل آمد و رفت کا انتظام، مدینہ منورہ جانے آنے کے سفر کا انتظام اور وہاں کے قیام و طعام کا انتظام.اسی طرح منی، عرفات ، مزدلفہ میںتمام ضروری انتظامات ، منی میں واپسی ،طون وداع عدہ میں واپسی اور جدہ سے رخصت تک سب مروری انتظامات یہ سب کچھ ایسی عمدگی سے سرانجام دیا جاتاہے کہ کسی خام طلف کا احساس نہیں ہوتا اور ہر ضرورت بر وقت پوری ہوتی ہے اور ہر سوات میں ہوتی ہے ایک مقام پر مہمنوں کی ایک بڑی تعد کیلئے تمام انتظامات کا انصرام کوئی ایسا شکل منصوبہ نہ سہی مختلف مقامات پر چند مہمانوں کے لئے تفصیلی انتظام کوئی اتنا بڑا کارنامہ نہ سہی لیکن ہزاروں مہمانوں کیلئے مختلف مقامات پران کی ضروریات اور عادات کے مطابق خاطر خواہ اور پر سموسے آرام دہ اورتسلی بخش نظام حسن کارکردگی کا ایک نہایت اعلی نمونہ تھا.جس کا ایام میں دو ہفتوں سے زائد عرصہ کے دوران میں ہیں اور باقی سب مہمانوں کو دل خوش کن تجربہ ہوا.اور ہر محلے پر اگر دل میزبانوں کے شکر اور اسان کے اس سے کبری ہے.فجر اسم اللہ احسن الجزاء - رات کے دن اور دربار کی نانی جی کی جاتی ہیںاور امام خطہ دیتاہے ہیں کا سامنا ہے اب ریڈ پریشر کے سائے
496 کی وجہ سے تمام حجاج آسانی سے اسے اپنی قیام گاہوں میں بھی سن سکتے ہیں.لیکن غروب آفتاب سے قبل عرفات سے روانگی جائنہ نہیں.چونکہ صاحب المعالی اسید اسمعیل لاز مری صدر سوڈان مہمان خصوصی تھے اسلئے ان کی عرفات سے روانگی گویا مجاع کیلئے عرفات سے روانہ ہونے کی اجازت کے مترادف تھی.تشریفات کے مہانوں کی سواریاں بھی مہمان خصوصی کی سواری کے مجھے ایک ترتیب سے قطار نہ ہو سکی تھیں.اس نظام کے نتیجے میں سب مہمان عرفات سے روانگی کے نصف ساعت کے اندر بسہولت مرالہ پہنچ گئے.یہاں ایک وسیع احاطہ قانوں کے حلقے میں مہانوں کے لئے مخصوص تھا.یہاں پنچتے ہی سب لوگ رب اور عشا کی نیزوں کی تیاری میںمصروف ہوگئے.یہ دونو نانی بی بی کی جاتی ہیں.ریگستانی میدان می رود کتاب ے ساتھی گرمی ختم ہو جاتی ہے اورات جلد تک ہو جاتی ہے ہی پاکستان مین نہ کردیا گیا تاکہ مردانہ کی رات کی سی ہے یلے کے ساتھ ہونے ضرور ہیں.چنانچہ م نے جے اے اور یہ نام ایک پہنچنے پر لیے کیے اور لیل تشریفات کی طرف سے موجود پائے.ہمارے پاس کسی تھے وہ بھی بعض مہانوں کی آسائش کا باعث ہوئے نا مدال.نوں سے اتارے ہوتے کھانا یا تھا.کھانے سے فرات کے بعد نوافل کا وقت میرا گیا نصف شب کے بعد ز دل سے نی روانگی شروع ہوگئی اس ان میں مجھے غالب گردو غبار کےار سے کم اور گلے میں خارش کی تکلیف شروع ہوگئی ہمارا ارادہ ت تمام شب مردان میں گزارنے کا تھالیکن ہمارے مراق نے تو تشریفات کیطرف سے ہماری رہنمائی اور ہولت کیلئے مٹی سے مائر اتھ تھ اصرار شروع کی کہ منی کی واپسی کا وقت ہوگی ہے.میرے ایمان کیلئے مجھے مہانوں کے لحاظ سے باہر ٹریک پر ے گے اورمیں نے دیکھا کہ ٹرک پڑھی جانے والے جماع اورا کی سواریوں کا ہجوم ہے.چنانچہ مہانوں کے حال میں واپس کہ نے مطلوبہ تعدا سے کچھ زائی کنکریاں چین میں ور منی واپس جانےکےلئے تیار ہوگئے سڑک پر اس وقت بھی خاصا ہجوم تھا.ین معلوم ہو کہ عیدی بتدریج بڑھا گیا ورون کےوقت و سواریوں کا اتارا درد می گوئی کی شکل سے ایک گھنے میں یک کلو میٹے ہوتا.ہمارے وہ دوست بہنوں نے جیسے میں ہی مزدلفہ کیلئے میلانات کئے تھےاپنے گھرکے لوگوں کے ساتھ انی ار میں تھے وہ کہیں رکے وقت میں اپنے.۲ ماریا کور سے فارغ ہوکر ربانی کا نظام تھا.ہر کو ملالہ الملک کی خدمت می باریابی کا شر حاصل ہوا اور مکہ معظم محاضر و کوطواف وداع کی سعادت حاصل کی فریم مکی کی ادائیگی کی توفیق ملے پالشد اک کا ایک ساتھ ہی دل میں رہتے ہوئے منی کی میرے پہلی بارکے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسری بار کرتا ہوں اور فلموںمیں ضرور کی ہوگی اور لعل الله منا کے کی تنہا ادا کرنے اور کسب غیر کے مواقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کا امکان ہوگا والد استان و و علی کل شی قدیری.ینی سود و زیانا مادر عزیز امین تو ای ایران ہوگی ی ی ی ی ی ی یک وجود سے روانہ ہوکر در بیروت سے طیارہ تبدیل کرکے سر پر کو لندن پہنچ گیا.الحمدلله ج کے سفر کے دوران میں کئی بار یہ اساسی بڑی شدت سے ہوا کہ پچھلے چندسالوں میں الہ تعالی کے فضل رحم سے جا کا سفر
منہایت آسان ہو گیا ہے.میرے دادا جان چودھری سکندر خان صاحب نے قریب ستر سال قبل حج کیا تھا اور حسن اتفاق سے ان کے باتھ کی لکھی ہوئی ڈائی جس میں انہوں نے اپنے حج کے سفر کے حالات درج کئے تھے مجھے مل گئی ہے.ہاء میں میرے والدین نے ج کا فریضہ اداکیا اور ان کے سر کے حالات کسی قدیمان سے سنتے کا اتفاق ہوا.جن سے اندازہ ہوتا تھاکہ چند سال قبل تک یہ سفر کسقدر صحو تبناک تھا.ہمارے وطن سے حجاز کا سفر عموما کمیٹی یا کرا چاک ریل کے ذریعے اور وہاں سے جب تک بحری جہازوں سے ہوتا تھا جبارے پہنچنے سے پہلے کامران کے جزیرے میں قرنطین کی مدت گذارنا ہوتی تھی جس کی میعاد دس دن سے لیکر دو ہفتے تک ہوتی تھی.معدے میں جہاز سے اترتا اور واپسی کے وقت پر جہاز پر سوار ہونا کشتیوں کے ذریعے ہوتا تھا کیونکہ اس وقت تک ابھی جدے میں با قاعدہ بندر گاہ کی سہولتیں نہ تھیں جیسے اور مکہ معظم می پنے کا پانی قیمت مناتا اور رات میں بعض دفعہ بانی تک کے تے میں کچھ جان جہاں کاشت کی تاب نہ لاکر جان بحق ہو جاتے تھے.ایک ایسی خبر شائع ہونیکے وقت میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں لندن میں حاضر تھا.حضور نے بھاری اور ادیان تاری که میروالدین کیا اور اس سال حج بیت اللہ کے لئے گئے ہوئے تھے) غیرت معلوم کر کے حضور کو اطلاع دی جائے.چند دن بعد قادیان سے باید تا اطلاع می ک میرے والدین فضل اللہ واپس پہنچ گئے ہیں.فالحمدللہ اب اللہ تعالی کے فضل سے اور سعودی حکومت کی مساعی جمیلہ کے نتیجے میں جدہ ، مکہ معلمی مامنی ، عرفات ، مزدلفہ، سب مقامات پربیٹھے پانی کی فراوانی ہے اور اس لحاظ سے کسی قسم کی دقت کا سامنا نہیں.پہلے وقتوں میں جدہ سے مکہ معظ کا فرانوں پر رو راتوں اور اک دن میں طے ہوتا تھا کی فاصلہ معظمہ قریب چالیس میں ہے گرمی کے موسم میں درمیانی در حجاج کیلئے سخت تکلیف کا موجب ہوتا تھا.پڑاؤ کے مقام پر کوئی سایہ نہیں تھا جان کوئی چادر وغیرہ تان کراس کی اوٹ میں دن بسر کرتے تھے.مکرمعظمہ سے مدینہ منورہ کا سفر جب کے رستے بھالے کیا جانا تھا.تیر قافلے اس سے تیرہ دن میں یہ سفر طے کرتے تھے اور عام قافلے نیزہ سے سنترہ دن میں میرے دادا جان اور ان کے تعین رفقاء نے یہ سفر عبرے سے بلیوں تک دو دن سے بھی کم عرصے میں بحری جہاز کے ذریعے کر لیا اور ابو سے مدینہ منورہ تک تین دن صرف ہوئے.واپسی پر بھی کی طرق اختیار کی اور اس زمانے کے حالات کے مطابق ان کا یہ سفر بہت سہولت سے طے ہو گیا اب بچتے سڑکیں تیار ہو جانے کے نتیجے میں حجرے سے مکہ معظمہ کا سفر ای میں رکھنے میں اور کار می ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوجاتا ہے اور بارے سے مدینہ منورہ تک کا سفرکار میں چھ گھنٹوں میں سے ہو جاتا ہے.اب ترمکہ معظمہ سے براہ راست بھی ایک سٹرک مدینہ منورہ کی سڑک کو بالغ پر جاکریل جاتی ہے میں سے اور بھی وقت کی جا ہے.بہت سے مدینہ منورہ کا سفرہوائی جہاز کے ذریعے ایک گھنے سے کم عصہ میں طے ہو جاتا ہے.وطن سے روانہ ہونے سے قبل ضروری ٹیکسوں اور مناسب دیگری احتیاطوں کے نتیجےمیں قرنطین کی ضرور نہیں آئی اور برقی کی سویلی میں آجانے کی ہے اور اسے کام سے دوستوں میں ہے ا جاتا ہے.اور اگر وقت کی لگی ہو تو اس سے کم یں بھی اس سفر کی کمی ہوسکتی ہے.صحت پر بھی کوئی ایسا فرشتہ نہیں پڑتا.میرے دادا جان را ہوتو اس سفر انان استان کا کم عمری کا کرایہ ادا کیا تھا.واپسی کے سفرمی ان کے ایک رفیق سفر کو کراچی میں یا پیش کی شکایت
499 شروع ہوگئی.اور گاؤں پہنچے کے چند دن بعد سی تکلیف کے نتیجےمیں ان کی وفات ہوگئی میرے دادا جان کو بھی و ترانوالہ پہنچے تک سچیش کی شکایت شروع ہوگئی اور وہ چند ماہ اس تکلیف میں مبتلا ہے.اس کے بعد فضل اللہ افاقہ ہوگیا.لیکن سال بھر بعد انہیں پھر پچیش اور تپ کی تکلیف شروع ہوگئی اور چند دن کی بیماری کے بعد فوت ہوگئے.غفر الله له جعل الجنة العليا مثواه.میرے والد صاحب مجھ سے بہت تخفیف حالت میں واپس وطن پہنچے جہاز میں سفر کی صعوبت کے علاوہ بحری سفر بھی ان کیلئے تکلیف کا باعث ہوا.جاتے اور آتے دونوں وقت موسمی ہواؤں کا نہ مانہ تھا جسکی وجہ سے سمندر میں ناظم ہوتا ہے اور اکثر طبائع کیلئے جھانہ کی حرکت بہت تکلیف اور پریشانی کا موجب ہوتی ہے.جناب والد صاحب محجری سفر کا اثر حمد مرض الحجر میں مبتدار ہے.وطن واپسی پر صحت اور تندرستی بفضل اللہ کس قدر بحال ہوئی لیکن ایک سال بعد اء کے ستمبرمیں کشمیر اتے ہوئے کو مری کے مقام پر جاری ہوگیا اور دن بڑی تکلیف میں نے لال لال نے رحم فرمایا در طبیعت پھر کال ہوگئی.الحمدللہ.اگست تار میں وسیع ذات المجنب کا حل ہوا.باوجود احتیاط اور مناسب علاج کے تکلیف بڑھتی گی آخه ۲ ستمبر کی شام کومغرب کے بعد جب جمعرات کا دن گذرنے کے بعدجمہ کے دن کا آغاز مو اسی تھالا ہور میں ناک کے مکان پر والدہ صاحبہ کی رویا کے عین مطابق پورے ہوش میں اور کامل بشاشت کے ساتھ جان نا تو ان جان آفرین کے سپرد کردی.انا للہ وانا اليه راجعون - غفر الله له وجعل الجنة العليا مثواه - عالمی عدالت کی صدارت عالمی عدالت کے پندرہ جو میں سے پانچ کی ارسال میعاد ہر تیسرے سال در کے لئے میرا انتخاب فروری کو ختم ہوتی ہے.اس میعاد کے نختم ہونے سے قبل اقوام متحدہ میں ان پانچے جھوں کی نشستیں پر کرنے کیلئے انتخاب ہوتا ہے.جب نئے جج اپنے فرائض اور فروری سے سنبھال سکتے ہیں تو عدالت کا پہلا کام صدر کا انتخاب ہوتا ہے.صدارت کے عہد کی میعاد تین سال ہے.یہ انتخاب خفیہ رائے شماری کے ذریعے عمل میں آنا ہے.نشہ میں اس انتخاب کیلئے دار فروری کا دن تجویز ہوا.صدارت کیلئے دو اور جوں کے ساتھ میرا نام بھی تجویز ہوا تھا.انتخاب کیلئے آٹھ آراء کی تائید ضروری ہے.انتخاب کی کاروائی دو دن ہوتی رہی.آخر کار مطلوبہ کثرت سے زائد آراء میرے حق میں پائی گئی اور بعض اللہ میں صدرمنتخب ہوا.فالحمد للہ میں ایک ضعیف عاجز پر تقصیر انسان ہوں.اپنے اند کوئی خوبی نہیں دیکھتا.میرے دوست ہے دونوں رفیق جن کے اسمائے گرامی انتخاب کی کاروائی میں سامنے آتے رہے کئی اعتباہ سے مجد پر فوقیت رکھتے ہیں.اللہ تبارک تعالی اپنی مصلحتوں کو خودہی جانتا ہے کوئی اور ان کا احاطہ نہیں کرسکتا وہ فضل کرنا چاہے تو کوئی روک نہیں بن سکتا اور اگر اس کا فضل شامل حال نہ ہو تو کوئی کشش کوئی نذیر کوئی حیلہ کارگر نہیں ہوسکا اس وقت تک اس عدالت کے آٹھ صدر رہ چکے ہیں.دولاطینی امریکن ایک مالی امریکن چار اور ہین.ایک آسٹریلین میں ہلا الیشیائی صدر ہوں.اور ایشیائی بھی دو جو مغربی تہذیب اور ثقافت کی اقدار سے بیزار ہے اور جس کی یہ بیزاری اس کے عمل سے ظاہر ہے.لیکن اگر اس کی مشیت نے ایک نا کارہ ہی کا انتخاب چاہا تو.
نیست از نفضل وعطائے او بعید کور باشد پر کہ انہ انکانہ درید : قادر است و معالق و رب مجید : ہر چہ خواہد سے کند عجز ش که دید؟ اس کی قدرتوں کی انتہا نہیں.اس انتخاب سے ۳۶ سال قبل میری والدہ صاحبہ مرحومہ نے ایک مبشر خواب دیکھا تھا جوان کی وفات کے ۳۲ سال بعد اس انتخاب سے پورا ہوا.فالحمدللہ میں رات انہوں نے خواب دیکھا اسی صبح کو مجھ سے " بیان کیا میںنے خواب میں دیکھا ہے کہ میں پنے سیالکوٹ کے مکان کے فلاں کمرے میں ہوں اور اس کمرے کی کھڑکی کے با ہر ایک بہت دل لبھانے والاکر اور آہستہ آہستہ کھڑکی کی ایک جانب سے دوسری جانب حرکت کر رہا ہے.جب کھڑکی کے عین وسط میں پہنچا تو ایک پر شوکت آروانہ آئی.ہو گا چیف جسٹس ظفر اللہ خان نصر اللہ خان کا بیٹا.اور تخفیف سے وقفے کے بعد پھر اسی طرح رق یا کیا یہ الفاظ دہرائے گئے.ہور کا چیف جسٹس ظفر اللہ خان نصراللہ خان کا بیان والدہ صاحبہ بفضل الله صاحبه در و یا کشون یں درہم سب کی بار دیکھ چکے تھے کہ ال عالی محض اپنے فضل و کرم سے انہیں اس رنگ میں نوازتا ہے.وہ خود بھی جانتی تھیں کہ درد یا اور کشوف تعبر طلب ہوتے ہیں اور ان کی اصل حقیقت اپنے وقت پر ی جاکر آشکار ہوتی ہے.اورمیں میں سندگان کی فیڈرل کورٹ کا نیٹ بھی تھا اور اگر قسیم کے بعد میںہندوستان میں رہنے کا فیصلہ کرتا تو اب اس میں تھاکہ آزادی کا اعلان ہونے پر سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ہوتا.سورجون شاہ کو برطانوی وزیر اعظم ٹرائیل نے تقسی ملک کے طریق کار ا اعلان کیا اور اس پر ٹی نے فیڈرل کورٹ کی مجھ سے استعفے دیدیا جو اربوں سے عمل پذیر ہوا اسی سال سمر کے تیر تے میں جب میں اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کی قیادت سے واپس لوٹا تو قائداعظم کی ہدایت کے مانخت بھوپال جانے سے پہلے نوابزادہ لیاقت علی خان صاحب کی خدمت میں لاہور حاضر ہوا.انہوں نے بین امکانات کا نہ کر فرمایا ان میں پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا عہدہ بھی تھالیکن ساتھ ہی انہوں نے فرمایا قائداعظم چاہتے ہیں کہ م وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالو پاکستان کی سپریم کورٹ کے پہلے چیف جسٹس میاں عبدالرشید صاحب مقرر ہوئے جب ان کی میعاد انتقام کے قریب پنچی تو انہوں نے از راہ نوازش سے ٹیلیفون پر اور پھر بالمانہ مجھے رضامند کرنے کی کوشش کی کہ میرا نام بطور اپنے جانشین کے توبہ کریں.لیکن میں بوجوہ رضامند نہ ہوا.سہ کے عدالتی انتخابات میں جب مجھے دربارہ عالمی عدالت کی رکنیت کیلئے منتخب کیا گیا اس وقت عدالت کے اراکین میں سے کئی دوبارہ منتخب شدہ اور دوسر بارہ منتخب شدہ تھے لیکن ان کے انتخابات بلا فصل ہوئے تھے ایک کبھی نہیں ہوا کہ ایک رکن اپن میعاد ختم کرکے عدالت سےعلیحدہ ہوچکا ہو اور وہ علیحدگی کے بعد وقفہ سے پھر منتخب ایک کر لیا جائے.یہ صورت ایک مرن میرے متعلق ہی پیدا ہوئی ہے.عدالت کی رکنیت پر دوبارہ فائدہ ہونے پر مرا در بر میرے پرانے رفقاء کے لحاظ سے پر سب سے نیچے تھا.اب جو غور کرتا ہوں تومیر عدالت کی صدارت پر منتخب ہونا ضرور ایک اپنا اتا ہے اور اس بات کو پورا کرنیوالی ہے جو انخاب سے سالی والا کی والدانوب میں والفاظ سنے ان کو تھی میں بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت مرکوز تھی.اول بطور سنتی اور تصدیق کے آواز پر شوکت تھی.پھر دہی الفاظ دہرائے گئے.اور
الفاظ کی ابتدا ہی میں لفظ ہوگا ظاہر کرتا ہے کہ حالات خواہ موافق نظر آئیں یانہ یہ مارا اصل ہے اور ہوکر ہے گا.پھرتے نام کے ساتھ والد صاحب مرحوم کا نام نصر اللہ خان شامل ہونا ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے ہی بخشش اس کی نصرت کا نشان ہوگی انانی کوشش کا اس میں دخل نہیں ہوگا.فسبحان اللہ و بحمدہ.حرف آخر اگر یہ عافیہ کوئی خدمت سر انجام دے سکا تو وہ محض اللہ تعالیٰ کا کرم اور اس کی ذرہ نوازی اور اس کی عطا رد و تقویت سے ہوا اور بندرگا اور ابا کی دعائیں اسی عمر میں اور ہاں ہاں میں وہ کچھ نہ کرسکا وہ کرنے کے لائق ھاور کرنا چاہتاتھا اس کی وجہ انکار کی کوتاہ اور مفت تھی اللہ تعالی اپنے فضل اور رحم سے معاف فرمائے اور در گذر کرے.آمین.قرآن کریم میں اس کا ارشاد ہے کہ اس کا عفو بہت وسیع ہے اوروہ شفیق اور ورود مالک اور معتقد رستی گرفت میں جلدی نہیں کرتی.میں جب اپنے گریبان کے اندر نگاہ ڈالتا ہوں تو یہ تقصیر اور معصیت کے کچھ نہیں دیکھتا اور منات ترسان اور ارزاں حالت مجھ پر وارد ہوتی ہے اور جب اس کے عواور رحم کا اندازہ کرتا ہوں تو کچھ ڈھارس بندھتی ہے.اس کے فضلوں اور الغاموں کو دیکھتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں اور ان کا شمار نہیں کر سکتا.سجدت لک روحی و سنانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل ہونا اپنے لئے سعادت عظمی شمار کرتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ یہ سعادت فیوض آسمانی کے دروازوں کے کھلنے کا موجب بھی بہت باری تعالی پر زندہ اور محکم ابیان اور عشق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اس ناچیز نے حضور علیہ السلام سے حاصل کیا.حضرت خلیفہ المسیح اول رضی القد تعالی عنہ کی شفقت اور توجہ ایک بہت بڑا العام تھی.آپ کا ارشاد گیاں ہم نے تمہارے لئے بہت بہت دعائیں کی ہیں کہ انعامات اور فیوض کی خوشخبری تھا.آپ کا اس ناچیز کواپنے مبارک ہاتھوں سے لکھے ہوئے محبت ناموں میں گھر اللہ باشی ارشد ارجمند باشی " کے دعائیہ القاب کے ساتھ یاد فرمانا اور بہت بڑھانا میرے لئے بہت خوشی اور انبساط کا موجب تھا.پھر نصف صدی سے زائد عرصہ کے دوران حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے جن الطاف و اکرام میں شفقت د محبت ، ہمیں تو یہ اور احسان کا بیہم مورد یہ عاجزہ کہ اس کا اندازہ بھی ناک کے لئے ممکن نہیں.ان سب عنایات میں سے بعض کی کچھ تھلک ان اوراق میں نظر آئی ہوگی.اس نصف صدی کے دوران میں خاک ری محسوس کرتا تھا کہ میری زندگی ایسے محفوظ ہے جیسی ایک طفلک نادان ہے بس کی نہ زندگی اس کی ماں کی گود میں محفوظ ہوتی ہے.میری زندگی کا کوئی پہلوایا نہیں تھاتو حضور اقدس کی توجہ کے فیضان سے متمتنع نہ ہو.یہ اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا انعام تھا جس کے کما حقہ شکر کی استطاعت کبھی یہ عالجہ نہیں رکھتا.ستخاره اس عالیہ کی نہ ندگی این کم کل ماساء لتموه وان تعد والعملة الله لا تحصوها کی مثال علی جا رہی ہے.میری سنتی
کا سر زرہ زبان بن جائے اور بر لخط باری تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے میں مر رہے تو یہ شکر ادا نہیں ہو سکتا، اسی سے التجا ہے کہ وہ شکر کی توفیق عطا فرمائے.بارہا میرے عالجنہ دل سے یہ صدا نکلتی ہے الہی تونے اپنے پر تقصیر کے معاصی فائل بندے کو بہت لاڈلے غلام کی طرح رکھا ہے.تو اپنی خاص رحمت اور لطف سے آخرتک ایسا ہی رکھا اور انجام کار اپنی رحمت کے دروازے اس کے لئے کھلے رکھنا.آمین یا الرحم الراحمین.سید نذیر احمد خوشنویس خاتون پاکستان آتش نمره گارڈن کراچی ۱۴ اگست ۹۷ i
' اشارية نوٹ:.جن ناموں کے آگے (ض) کا نشان ہے ان ناموں کے صفحات نمر ضمیمہ میںدیکھیں.J اقر طاہر سیده - ١١، ١٢ حمد شاہ بخاری - سیگه ۱۴۷ ۱ آغا حیدر میر جنس (ض) ۵۷۳۵۷۲ ا میں پسند.لالہ ۱۳۸ اکبر علی خاں.چودھری ۲۳۰ ، ۲۳۱ اقبال - محمد - ڈاکٹرسہ (ض) احمد دین.خان صاحب ۱۴۸ اسر طنانی احمد حسین نعان - ۱۴ احمد بیگ - مرزا آرنلڈ.سر ٹامس (ض) الشرق امام - ستید ۶۳۰ ۱۳۹ امیرسن - سر پر بریٹ (ض) ۱۵۷ اٹیکین.لارڈ افضل حسین قاضی ہو امداد امام اثر - نواب رسید ۱۵۷ انور احمد کاہلوں (ض) احمد شجاع - حکیم 160 ۲۴۱ ایڈیسن.مسٹر جسٹس ۲۲۴۰ یا ۲۴۶ ۲۴۷ ائیلی.مسٹر کلیمنٹ (ض) امیر علی.رائٹ آنسر سیل سید (رض) اللہ دتا.مستری فی احمدہ بیگم 4 سم آغا خال.ہزہائی نس.(ض) آنند.مسٹر سی.ایل ۱۸۹۷۱۸۸ انند کمار.مسٹر ۲۵۹ ارونا پالم.مسٹر - - -6191619 اه السکوتھے.مسٹر ١٩١٤١٩ ٢،٤ ron اقبل سنگھ - سردانہ ۳۸۰۷۲۶۲ ۲۸۹۰۲۶۲ امیری - مسٹر ۴۳۳۰، ۴۴۶، ایم اعجانه احمد - شیخ (ض) امبید کار.مسٹر اکبر خان ، محمد سردار (ص) الدین سیٹھ عبد اللہ بھائی ۱۹۲ - اسمعیل.مرزا - سمر ۲۶۹۷۲۶۲ سٹر جس ۱۹۳ محمد علی - سید ۵۲۸۷۲۹۴۷۲۶۲ اصغر علی شیخ ۸۷۷۷۹، ۲۹۵ اولڈ فیلڈ مسٹر جسٹس اییٹ.مسٹری - آمہ - ۱۲۴۷۱۲۲ ایڈمس.مسٹر ۱۹۳ افضل حق - چودھری ۲۶۴ ابیٹ.بونیر میٹر ۱۲۴ اسمعیل غزنوی - مولانا ۱۱۰ ۱۹۴۷ احمد یار خال - دولتانہ میاں اننت سرام - لاله - ۱۲۹ اون کار ناتھ نشی.پنڈت ارڈ واٹر.سر مائیکل ۳ احسان الحق و نیر سیل آرک ولیکن تا اکبر خان - محمد اللہ بخش سمان صاحب ۱۳۵ ۱۹۷ 141 ۶۰۴ ارونگ - سر مائیلینه ۲۹۷، ۳۳۶ اسد اللہ خان.چودھری (ض) انا شنا سنگھ.سردار افضل علی سید - میر (ض) احسان الحق میاں العام اللہ شاہ سید (ض) الیس گز نگر میں ۲۰۷ امیر علی خان بہادر شیخ ٢١٩ ۳۸۳ آصف علی - میٹر ۴۸۱۷۲۸۲ آئینگر پارتھا سا تھی.مسٹر ی امان الله ان امیر سابق شاه ان الاتنا الصادر - ڈاکٹر خاں.تم ماما ۲۲۰۰ ۲۱۹ ۲۸۵ تا ۲۸۸
الیس مس ۳۲۴ ر او گلوی.مسٹر سی.ایم ۳۵۲۷۳۵۱ آسٹن - دارین سینیٹر ۵۳۶، ۵۳۰ اصفر - مسٹر آئینگی.سرگوپانی سوامی ا سوامی ۵۳۵۱۵۳۲ اکبر علی ، پیر ۲۴۶ ۶۵۵ کم ۹۳ اکبر یار جنگ.نواب ۳۷۴ آرسی.ڈاکٹر اسلم - محمد - ڈاکٹر ستید 400 او یوئے.ڈاکٹر ۶۶۲۶۵۹ امینہ سیم بیگم ڈاکٹر لطیف) ۳۹۸ آئیزن با در منزل اپنے.ایم ایس میسٹر ۳۹۴۷۳۹۳ اکرام اللہ مسٹر محمد ٥٦٤٥٦٨ احمد دین.ڈاکٹر الحور ، مہارا بجد صاحب ۲۸۹ اقبال محمد - شیدائی ۵۷۰ ارشد حسین - میاں ۶۷۸۷۶۷۷ ایڈن.مسٹر ۲۱۸، ۵۶۵ تا ۵۶۰ احمد بالا فریج - السيد ۵۳ تا ۵۷۵، اسماعیلوف - مخدوم ۶۸۱، ۶۸۲ استصلون - ارل آن ۴۴۹ ، ۳۵۸) اورج - نزا یک لنسی موسیر ۵۷۳ تا ۵۷۵ امینه بگیم ۶۹۲، ۶۹۷۷۷۹۶۷۹۵ الیس - پرنس کو منٹس آپ استقلون احمد بن بلا - السيد ، ۰۶۲۹،۵ اعزازه نیاز شیخ ۶۹۳ اینڈرسن سر جان (لارڈ دیور) ۳ اتا ترک مصطفی کمال پاشا الاسم وش اینڈرسن.لیڈی ۳۶ ، ۴۶۶ اشتیاق حسین قریشی ڈاکٹر ، آنی مسٹر ایم ایس ۴۶۲ اعظم خاں.جنرل.۵ 0916010 ۵۹۱۰۵۸۵ آثر - سرالا دی کریشنا سوامی ۴۷۳ ایوب نماں.فیلڈ مارشل - اسٹور - لارڈ ۳۸۳ اشتیاق حسین سید ۶۹۳ اسمعیل اند هری - الستیر ۲۹۷۷۶۹۳ ٥٨٤٥ بشیر الدین محمود احمد حضرت صاحبزاده الفانسو زدیم شاه ۶۱۷ ، ۶۱۸ مرزا خلیفة المسیح الثانی (ص ) الیسیور - لیڈی ۴۸۳، ۳۸۴ الفارد - حج ۶۱۹ آرمانڈاؤگان - حج الیگرنیڈ یہ مسٹر ۲۹۰ ۶۲۰ بشیر احمد - صاحبزادہ مرزا (ض) بر سیٹ.پروفیسر جی الیس ۳۳۲۷۱۳ آزاد - مولانا - ابولکلام ۴۹۱ اطاعت حسین سید ۶۳۳۷۶۲۰ بیک - مسٹر الہی بخش خاں، نواب پسر ٹوانہ ۲۹۵ اکوا رونے.ڈاکٹر ۶۲۰ احمد سعید کرمانی ۵۰۳.سیک - مرس ۲۸۷۲۷ برین فٹ.سر مین سجنرل ۲۹ اولیوان لو یہ مسٹر ۲ اسمے.لارڈ ۵۱۷۵۱۵۷۵۱۱۰۵۱۰ انیشن - روتھ نندا.ڈاکٹر ۶۳۱ - ایل.مسٹر جان 014 بلین برج - مستر ایمیلی ۳۷ تا ۴۲ ۲۹۰۰ t اوتھان.مسٹر ۶۳۲ ۶۴ بین برج نہ کرنل علم ۵۷۷،۵۳۳ اصفهانی - ابوالحسن مرزا ۳ آمادیو - سفیر - ۶۳۷ ۶۴۰۴ بوکن - سر ٹامس ایوٹ - ڈاکٹر ۵۲۰ ۵۵۸ ۵۹۹۷ ارشد الزمان - مسٹر ۲۲۱ تا ۶۴۳ بر نلہ مسٹر آسکر (ض) ارانیا.مسٹر ۵۲۳ اکبر خال - جنرل انور علی.مسٹر ۶۴۲ بھوپال.ہر ہائی نس بیگم صاحبہ ۳۴۶ ۵۳۰۰۵۲۹ افتخار حسین، نواب مروت ۳۹۸۷۳۹۶ ۵۰۰ | بارش.مسٹر ۵۴۷۵۳ ۵۰۵۰ ۵۰۴۰۵-۱
190 692694 بدید الدین - مرزا ۹۷۷۹۶، ۱۹۵ بشیر احمد چودھری (ض) ج برلیا.مسٹر جی.ڈی ۳۹٬۷۳۸۹۷۳۸۴ پولینڈ - فریڈرک سر ۶۳۴ براؤن - مسٹر ۳۸۸۷۳۸۶۷۳۸۵ تا بیلی رام - پنڈت ۱۲۱ ، ۱۲۹ شبلی سر انٹیگو ۴۲۳ بادگیر.مسٹر ۱۲۸ ۱۲۳ ۵۲۵ پر شو تم لعل.مسٹر ۱۴ ٹیکس آر اے.لارڈ ۴۱۲۳ ۴۲۴۷ پدم سین - مسٹر ۱۵۸۷۱۵۶۷۱۵۷۱۳ عليكم عليكم شیش ناتھ سری داستوا - بندرت ۱۴۲ | لومائٹ - سر جان ۴۳۱ پیج - سردار تھر ۳ بشیر احمد شیخ ۳۵۶۷۲۱۴۰۲۱۳ بوردیان - سر میبری ۴۷۲،۴۴۶ پارسنتر- میں لائینزا ٣٤٤٣٢، ٥٤٤٤ 66849 با بیائی سرگر باشتنکیر (ض) بزرگنز - سرامین ۲۴۷۷۴۴۶ پارسنز میں اپنی ۴۱۰۴۰،۳۶ بر اودے.مسٹر جیٹس.۲۴۴ برند.لیڈی ۴۴۷ پارستن - مسٹر فرنیک اسم 49-6199 بیر جی میسٹر جسٹس بعد پی سی ۲۴۴ بشیر احمد ملک بشیر احمد ملک ۴۴۸ ، ۳۵۰ پیٹمین.مسٹر ) پرتاب چند پوری.لالہ ۲۰۳ بھگت رام پوری مسٹر ۲۴۶ بیتھم.ڈاکٹر ۴۵۳ مصور- سر جوزف ( بو فرٹ.ڈیوک آن ۴۵۷ تا ۴۵۹ پاکرو - اسکے پی سعد ۲۶۲ بلین.مسٹر جوڈ ۳۷۴ ۳۸۰۰ تا ۱۳۸۵ و ۲۶۲ ۲۹۰۰ بیکانیر مهال بعد بریائی نس یو فرٹ - ڈسپس آن ۷ ۲۵ تا ۴۵۹ پو دار - مسٹر گجانند سدا شو بلیشا.مسٹر مور ۴۵۹ ۲۹۳۷۲۹۲ بدر الدين الحصني السيد ٢٨٤ بوسو - ڈاکٹر ۲۹۲ ، ۲۹۳ سر مانند بھائی ۳۱۳ پر تو تم اس ٹھاکر داس بسر (رض) میروم لفٹینٹ کرنل ۲۹۳ بیون.مسٹر ارنسٹ ۵۴۷۵۳۸۷۴۸۸ یا ولز - مسٹر مائیکل مسٹر مائیکل ۳۳۱ تا ۳۲ منو نیز سرگ.لارڈ س ت بلدیو سنگھ.سردار ۴۹۲ پاولمز - مسٹر دور و شتی ۳۲۱ ما۳۳۲ بائیڈ.سر ڈونلیڈ ۲۸ ، ۳۶۰ سبرنڈیسن.کامدل سه ۵۲۱ پورتاپ سنگھ.سچودھری ۳۳۷ ۳۳۸۷ بھیم سین.لالہ ۲۸۲ بدر عد بیگم (والدہ امتد الحی ۳۲۸۴۲۹۹۹ پن باران - مسٹر ۳۳۹ ین بوٹا سنگھ.سردار ۳۲۷ برد گلیو - مارشل ۵۵۵ ہے.راگھوان به ۳۸۵ ۳۸۶۷ بکر سٹھ.مسٹر ۲۹ علم بهادر خان - سردار ۵۹۰۷۵۸۵ پٹیل.سردار ولبھ بھائی ۵۱۴، ۵۱۵ بروده - مہاراجہ ہریائی نس کر دی.اے.کے میٹر ۵۹۱۷۵۹ پارووی.موسی ۵۷۶ بریڈن.ڈاکٹر برکت علی ملک ۳۵۰ ۱۶۴ 044 بلیک - یوجین.مسٹر ۶۰۳ ۶۰۴۰ پلیمین - سفیر ۶۳۹۷۶۳۸ بائی روڈ.کرنل ۶۰۴ پیل.میٹر ۶۶۲ بالدون مسٹر ۳۸۴۷۳۸۰ ،۴۶۳ بارے وال.حج ۶۲۲۷۶۲۱۷۶۱۴ پیرسن - لیسٹر میٹر بینتقال سرایڈور ٹو - ۳۸۲ بولی.یوفس.کپتان ۶۱۴ ، ۲۱۵ پلمپسول سر جیمز MAY ۶۹۲
i ت جليز- مسزاني ۵۹ تیمور شیخ محمد ۱۴۷۸ ۱۷۰ تا۶۸۹۷۱۸ جھنڈا - مستری ۱۲۶ ، ۱۲۷ ھیٹر جی گوگلناتھ میٹر پر نفسیر.ولہ.مسٹر پروفیسر تاج محمد خال.مسٹر جلال دین - چودھری ۱۳۲ تاج محمد خان چودھری بس الداله ۱۴۹ جادو نانخو سه کاره پر وفیہ ۱۷۱ چیتن آنند.پرو نسر لاله تارا سنگھ سردار ۱۷۶ ، ۱۷۸ جانسن - کریل ۱۸۳۷۴۶۷ تقی الدین.خلیفہ ۲۲۱ ۲۲۲۷ جونیر مسٹر جسٹس لیزی تاج الدین - بالود ۴۳۵ تیجا سنگھ میٹر میٹس 1 تصدق حسین - بیگم ث ۵۱۹ ۱۸۵ پرت سنگی برداره (۱۱۹ ۱۲۰ ، ۲۵ حمد نجیت رائے میٹر جہان خان چودھری ویلا به چون در اس - دیوان - رائے بہادر ۱۷۹ ۲۳۰ جهان خال - بچودھری سفید پوش ۲۳۱ چیمسفورڈ - لارڈ ۶۹۰۷۱۷۳ ۲۸۰۰ جگندر سنگھ نے ثناء اللہ الولونا مولانا ۱۹۴ تا ۱۹۶ ۲۱۴۷ جانسٹن میٹر ٹ 44- PM-190A پیر جی مسٹر ۱۸۹ پیوس.مسٹر جسٹس ۱۹۴ ۲۴۰ چراغ الدین میبال ۲۱۲ جبکہ مسٹر ۲۶۹۲۶۲، ۳۲۵ ، کچھوٹو رام - سچودھری ۳۳۷۷۲۳۱ ٹیک چند بخشی مسٹر جسٹس (ض) ہوشی.مسٹر.۲۶۲ ٹیوسٹاک.لیڈی حلال الدین سمس - مولانا ۲۸۳ ۳۲۵ چنتامنی.مسٹر ۲۶۹۷۲۶۲ چھتاری.نواب صاحب ۲۶۲ یا ۴ ۷۳۴ ۸۳ معلم جارج پنجم - سر میجسٹی شاہ (ض) چیٹوڈ.سر فلپ ۳۰۵۷۳۰۴ ، ۳۷۴ - ہر م لم ٹامن.سرحان ٹامکنس.مسٹر ۴۲۲ تا ۴۲۴ جان ششم - بریٹی شاہ (ض) چہرہ میل - ونسنٹ میسٹر (ض) ما ئیخمین پسر بچھو ۴۳۸ جگدیش پرشاد کنور سمه (ض) چیمر نین - سر آسٹن ۳۳۴۷۳۲۴ ٹرومین.صدر ۲۸۹۰، ۵۲۳ تا ۲ ، جواہر لال نہرو - پنڈت رض ) ملین.مسٹر نیول ۴۱۴۷۳۸۴ الون ٤٩٥٤٤١٤ ٤٤٩٦٤ م ۴۹۶۷۴۹ | سپیانگ کائی شک- حنزل ۳۴ را سالم تا جنرل ۱۳۹۴ ۳ استا چیانگ کافی مشک میڈیکم ۴۳۹،۲۴م قلب ۵۱۶ ،۵۱۵ ۴۴۹ ٹر ڈگوے لی میٹر ۵۵۸۷۵۲۳، ۵۵۹ سرا ج چوئر مسٹر ۱۳ ۱۴۷ ۲۵۰ ۲۵۲ تا ۳۵۳ ح ۶۳۲ جیا رام - لاله سما الحسيني - السيد ۵۲۲ حامد شاه - سید ۱۰ تا ۱۵۲۱۱۲۳۷۱۲ جنگس.مسٹر 10 جمالی - فاضل - السد ۵۸۱۷۵۲۳ ، حسین بخش شیخ ۱۱۹ جماں.میاں ۲۱ تا ۲۳ جمالی.فاضل.میڈیم حاکم دین.سچودھری ۱۳۱ ۱۳۴۷، ۱۳۵ جلینیز مسٹر جان لیوئیں ، ۵ تا ۶۰ جان ۲۳ - پوپ نیز مولی انس ۶۲ ۶۳ حکیم الدین.میاں ۱۳۲، ۱۳۵ 4475470
من เ حمد علی - سید ۱۴۰ خروشیف حبیب خال- چوده مصری ۱۴۹ خمیسی - محمد السید ۲۷۶۵۰۷۶۲۹تان چودھری 4406441 حسن امام - سید ا۲۹۷۰۲۹۴۷۱۵ فاطمه سنده ۶۶۷، ۶۶۸ حیدر امام سید ۳۸۹۵۱۵۷ حبیب اللہ خان پر داره ۱۸۵ ۱۸۷۷ په دواره حشمت اللہ.ڈاکٹر ۲۱۷ ، ۲۲۰ دین محمد شیخ 1896 100 460 پمنز مسٹر موفاٹ سلام السلام السلام دو - سعر میور ۴۱۴ ڈلاویہ مسٹر ۳۱۸ ڈیرہ نواب آف ۴۲۷ حرف سر لائی مین ۴۴۹ جیب الله سمر ۲۳۴، ۲۳۵ در معنیت رائے.لالہ ۱۹۴ ڈنریوں.اول آن اسم تم نمی مسلم حیدری.سر صالح اکبر (ض ) دین محمد.مسٹر جسٹس شیخ (ص) ڈیوس.مسٹر کلیمنٹ ۲۸۳ حکومت رائے.خلیفہ ۲۵۰۶۲۲۸ دلاور شاہ سید ۲۲ ۳۲۹۰ دینیں.مسٹر ۲۲ ۵ تا ۵۲۴ حیدری - اکبریه ۳۳۹،۲۷۲ دریا رام.اپنی رائے بہادر ۲۳۵) ڈکسن بسم اوردن دام و تا ، ہم و.حمید اصفر شیخ ۲۹۵ م ۳م دلیپ سنگھ مسٹر جسٹس کس بھان نوسٹر مسٹر.حسن جلالته الملک شاه مراکش ۲۰ تا دلیس راج ساہنی.مسٹر ۲۰۲۲۲۵ تا ڈیگال - جنرل 441 حسين - شریف ۴۸۵، ۵۲۵ خادہ ابھائی.مانک جی بسمہ ۲۵۶ ۵۵ دین بیبر بسم ۶۳۸ ز حسین بن طلال جلالته الملکشاه اور رضوی درس گارد اس.مسٹر ۳۰۱۷۲۹۹۷۲۹۸ ذکاءاللہ.نچودھری 6104 444 ۵ ۴۷ حمید اللہ خاں نواب سر والٹی بھوال در هنگا.مہاراجہ ہرنائی انس ) فهد الفضاله علی نال - خان ۲۱۷ سزہائی نس.۴۹۷۷۳۱۶۷۲۶۹۷۲۶۲ دا تار سنگھ - سمر ۵۳۸۶۵۲۷۵۳۹۸ حبيب بورقيبه - السيد دت.مسٹر ۴۰۷ حسین اعلیٰ.آقائے ۵۹۱ خ خورشید ستی شیخ ۳۹ ذو الفقار علی بھٹو میٹر ۶۷۹ رالسن مسٹر پروفیسر ڈالین.مسٹر ۶۰ ۶۳۶۶۱ که چی رام لالہ پر دنیسر ۱۳ ، ۲۴ رام پرشاد کھوسلہ پروفیسر سٹر ۳ ۹۸ ڈیمیلان.مسٹر ڈائر.بھتری ۱۸۱ خلیل احمد- حکیم: 610061816.۵۶ رحمت الله شیخ ۱۲۵ ۰۲۱ عليم العلم خور شیر سنین - مولوی (ص) ڈیوک آف ونڈ سہ بہرائی بالی نور سین رائٹ.مسٹر خورشید محمد خان بهادر شیخ ۲۳۵ ڈولڈ مسٹر ۲۷،۲۷۴۷۲۲، ۳۷۱ راج پال ۳۲۸ ،۲۳۹؛ ۲۸۰ خضر حیات.ملک سر ۳۹۳ تا ۲۰۰ میں ان ریمنڈ اینڈ گارڈن روزہ.ایچے سے مسٹر خشابا پاشا.ہزایکسلینسی ۵۰۷،۵۵۶ ڈار بی.لارڈ ۳۴۳۷۳۲۲، ۳۶۵ رکن الدین - شیخ ا ۳۵۱ ۱۲۳ ۱۲۲
رحمت الله - خواجه ۱۴۸ رشید ابراہم.مسٹر ۶۰۵ سنت سنگھ سردانہ رو.مریٹس ۱۵۱ ، ۱۶۵ ریڈ.حج ۶۲۱۰۶۱۹۷۶۱۰۷۶۸ سردار خان - چودھری روشن علی - حافظ ۲۱۷ ، ۲۲۲ ریال - کا سٹروینہ رام چندره - مسٹر ۳۰۶۷۳۰۷۲۳۵ را کفیلی- جان.مسٹر ۱۳۹ ۶۳۳ سجاد حیدر یلدرم - سید ۱۶۷۰۱۴ ۶۵۲ سراج دین امرتسری ۱۹۴ رحیم بخش - مولوی بره ۲۳ ۲۳۷ را کفیله- جان.مسنر سیف الدین کھیلہ.ڈاکٹر ۱۹ ۱۹۵ زندگی لال مسٹر جسٹس ۲۴۳، ۳۲۹ رائٹ.لارڈ نالی.مسٹر ۲۲۷ ریڈ مسٹر ۳۰۱، ۳۰۲ ۲۳۰۵۷ تا ۳۰۸ ۶۵۲ ۲۴۱ ♥9.6 Par سیمور مسٹر ۱۹۴ رفیع احمد مرزا - صاحبزاده ۶۹۳ سرورشاه - حضرت مولوی سید ۲۱۴۲ ز سانڈرسن پسر لانسیلاٹ ، ، ریل کرنیل طان b - شیند لار و ۳۲۲۴۳۲۲۷۲۶۹ سما - داره رام سرنا اس.رائے بہادر - نزاہدی ، جنرل ۵۹۲ سائمن.سرجان- (لاٹرڈ) ۲۵۸۷۷۵۷ бродской ۴۸۲۷ ۲۶ راؤ گے.مٹر علام السلام السلام زورے بیچ جج ۶۱۹ سٹوارٹ سرفنڈ لیٹر (ض) رام لعل و یوان ۳۹۸ تا ۳۷۱ زمینی بی بی - بیگم بود هری شکراله خان) ۳۹۸ سپرد.نتیج بہادر سر ۵۲۹۲۷ ۳۳۵ تا ۰۳م ۶۷۲۷۶۵۴۰۶۴۹ سیلواڈ - حمین لال بسر ۲۷۰۲۲۲۲ رسل - سر بهتری ٣٤٨٤٣٤٤ ، نورین - سفیر - ۶۲۴۶۵۲۰۶۴۹ ١٤٣٤٩م دامن.سی.وی - سمه ه کم رسیمین - بغیر کی سر ۲۲۷۶۴۰۳ سکندر خان بجودهری ها 4446481 سیٹھنا.فیرونہ مسٹر سلطان احمد - سید - سر ۲۲۱۲۲۲ تم مردار محمد چودھری ۴۳۰۰۱۲ سمپورن سنگھ سردانہ ۲۸۱۷۲۶۲ رنسی میں.مسٹر ۴۰۳ سردار رٹیں کرنیل ۴۱۷، ۴۱۸ سٹیفنسن - لفٹنٹ کرنل ۳ سعید اللہ خان ایر کموڈور ری چپر ڈیسن.مسٹر ۴۳۸ IAA سلطان احمد پیوند هری (مرید واله) ۱۴ سهروردی مسٹر حسین شهید ۵۲۹۰۳۳ روز ویلیٹ.پرنٹنڈنٹ ، سردار خان چودھری (فیروز واله) ۱۴ ساستری - سرسرینواس ۲۱۹۲۷ روٹ، ڈاکٹر نا ورڈ، الیف الیف ۴۵۲ سوندھی مسٹر گورددت ۲۴۰۱۵ سینکی.لارڈ ۳۱۸ ، ۳۱۹ ریڈ کلف - سر سیرل (ض) سلطان محمد حامی بود هرمی نعان بہادر سالسبری مارکو میں ان ۱۳۹۴ رو میبولو.جنرل ۵۲۵۰۵۷۲ ساہتی.بیربل.مسٹر ۲۴ سرینگیش.مسٹر راد - بی این پسر (ض) سالار جنگ نواب سر ۴۶ سرکار - سر این این (ض) رابرٹسن - جنرل یسر برائین ۵۷۵۶ سکندر حیات نغمال بسمہ (ض) سٹوارٹ.سٹامس رغا لیاقت علی - بگیم ، سیتارام - دیوان ۱۲۵ تا ۱۷۷۷۱۲ | سمپسن - مستر علی - ١٩٤٩٤٥ ۶۲۵۶ ۳۵۶ ۳۷۹ ۳۸۰ ۳۲
ش سٹینلے.آلیور - کرنل ۱۳۹۵ ۳۸۰ سیدو - رو جه سفیر روحجمه ۳۹۰ تا ۳۹۲ ۶۳۸ نشاه نواز الدین ۲۷۲، ۲۷۵ سپنس - سر جارج ، ۴۰ ، ۲۱۰ ، سمیانون - مٹر ۶۴۶،۶۲۵ شا.لارڈ سلیڈ مسٹر ۴۰۹ سینڈین.ڈنکن میٹر سمٹس.جبری ۴۱۷ سین.بی.آر.ڈاکٹر ۶۵۱ ++ 422 شکر اللہ معالی بچودھری ۴۱۱۵۴۱۲ ۴۸۹ شیرٹ.موشے شفیع.لاری مسٹر ۵۳۱۷۵۱۹ ستیا مورتی.مسٹر ۴۲۸ سلمان علی مسٹر ۶۷۸،۶۷۵ سلیمان - سرشاه محمد ۳۰۵ ، ۴۴۳۰ ش شكري القوتلي السيد ۲۵ سعود، جلالة الملک سلطان ۶۲۹۰۶۲۷ شہاب الدین - چودھری (ض) شومان، روبیر میٹر سیمور - سر موریس ۲۳۶ شمشاد علی خان چودھری (ض) شاہی - آغا با L شن فو.مسٹر ۴۳۷ سٹن بیٹ سین مسٹر ۲۳۷ شجاع الدین خلیفہ.ڈاکٹر ، شومو.حج ۱۹۷۷۱۸ ، ۶۲۲ شوکت حیات خان سرداره ۵۰۳۳۹۲۴ شجاعت علی حسنی بستید.۶۸۸۰۶۰ Froupersing) سٹون - چیف جنس ۴۵۰ سپنسز - سرپیٹرک ۰۵۱۷۵۰۰۰۴۷۰ شرف الدین مسٹر جسٹس ۴۵۰ سے میٹر - سرایڈورڈ ۱۵۱ ۱۵۴ تا شہاب الدین میخواسعه ۶۲۷، ۶۲۹ ، شہاب الدین، خواجہ.بیگم سیتلوار - موتی لال میرسیم ) شادی لال جسٹس بسمہ (ض) شمس الدين ضياء الدينوف ۵۳۴۷۵۰۹۰۵۰۶ تا ۱۵۳۴ سیر در حسن - خواجه ۴۸۱ شنگرین نائمه سر سٹینفورڈ مسٹر ۲۸۲ سپیٹ پروفیہ وف شیر ص میر علی.حضرت مولوی ۲۱۷۷۲۱ صادق حسن شیخ شیپرد سرمورد شیو (-4 صفدر علی.مسٹر ۲۹۹ ۶۲۷ سکندر مرزا - جنرل ۵۲۹ ۵۳ شریف احمد صاحبزاده میرزا ۲۱۷ ، ۲۲۲ سفور ندا - کونٹ ، شاہ دین میسٹر جسٹس میاں ۲۳۳ صحرائی.آقائے ۵۹۴،۵۹۲ 045604r سٹیفن سر رالف شفاعت احمد خال - ڈاکٹر ۴۲۶۹۷۷۶۸۰۲۵۶ سم کا ہم اس کے ۳۸۳ ض ضیاء الدین.چودھری ۱۳۷۸ سمتھ سرگر لیفٹی سار پر سلیم.مسٹر ۶۰۶ شوکت علی مولانا ضیاءالدین.ڈاکٹر ۲۷۵ سپندرہ پر سبی بسر ج ۶۱۹۰۶ شاہنواز - بیگم ۲۶۲، ۳۴۵، ۳۲ ضیاء الدین.میاں سپرو پولوس - حج ۶۱۹ شمشیر سنگھ کیٹین.کنور ۲۴۹ ۲۹۲ ۶۶۴ ،۵۶۹ ضیاء الدین بابا خانون میعنی اعظم ۶۸۰ سعید حسن خواجه ۶۳۴ شاه نوانه - نواب سٹیونن ایڈ لائی.گورنر ۳۸ ۳۹ شفیع داودی - مولانا ۲۸۶ ۲۹۸۲۸۶ | طارق امیر علی بیستید مسٹر جسٹس ۳۵۷
عبد الرحيم - شيخ طیب حسین - سید ۵۶۸۰۵۶۵ تد ۵۶۵، ۵۶۸ عبدالرحیم - ظ ۳۳ بد القادر - جنس بجٹس سر شیخ ظهور سین.قاضی عطاء محمد شیخ ظفر اللہ خان - مرزا ۱۱۶۶۱۵ عزیز احمد مسٹر 17-4119 ظهور الى شيخ ۱۹ ۱۲۰ 19.141 14A 6144 عبداللہ خالد - ملک ۲۳۲۷۲۲۱۷۱۹۵) عبد العزیز میاں ۳۵۰ عبد الرحيم.عنایت اللہ چودھری ۴۳۰ عبد الاحد غزنوی مولانا ۱۱۰ ۱۹۴ عزیز الحق، سه ۳۳۴۷۴۶۳ به ظفر علی مسٹر جسٹس مرزا عبد الحمید خان زیدا 199 6191 کانم عثمان علی.ہر ایگزالہ ہائی نس نظام ظفر علی خان.مولانا ۳۹۳۷۳۵۰ مولانا ۳۵۰ ۳۹۳ عبد الغفور خان زیدا خان بهادر ۱۹۸، ۲۰۳ تا حیدر آباد دکن ۵۱۸۷۴۶۴۴۳۳ ع ۲۰۷ عطاء محمد شیخ سرکاری وکیل ۲۰۳ تا ۲۰۵ عبد الرحمن المهدى بسهم السيد ۵۱۹ عبد الکریم حضرت مولوی عبد العزيز مغل.میاں ۲۱۲ عبد الحمید سب ڈاکٹر خان بهادر ، عطاء اللہ میاں ۲۱۴ عبد القادر المغربي الشيخ علاقه ۴۸۷ عبدالرحمن جسٹس بسم ۴۸۹ تر هم که ۳۵۴ عبدالكريم - مولوی عبد الحق ميرنا بدالله خال - چودھری (ض) عبد الرحیم نیر - مولانا ۲۱۷ عبد الرحیم - خواجه ۵۰۵۷۵۰۳۷۵۰۲ علی اکبر.چودھری ۵۰۳ عبد الحق چودھری ۲۶ تا ۲۸ عباداللہ.ڈاکٹر ١٢٣٤٤٥، ١٣ عبد الحق شيخ عبد الرزاق - شیخ ۲۷، ۲۸ عزیزیہ دین.ماسٹر عبد البها رضو ۵۰۹ عبدالله نعان ظفر - سچودھری ۵۱۸۷۱۴ عبد الرحیم در دو - مولوی ۷۲۵۶۷۲۱۷-۵ عبد الستار، پیرزاده ۵۱۹ عبد الرحمن قادیانی بھائی ۲۱۷ عبدالرب نشتر سه دار ۱۵۸۸،۵۲۴ عباس علی بیگ مرزا ۴۶ عنایت الله شیخ 119 عبد الرحمن مصری - شیخ عبد الرحمن شيخ عباداللہ.میر ۱۲۵ ۲۷۲ ، ۱۲۵ علی محمد - چودھری عبد الرحمن ۲۱۷ ۲۱۷ عبدالله شیخ شیر کشمیر ۵۲۹،۵۴۸ عبد الرحیم خال - کرنل ٥٥٨ ، ۵۵۹ عبدالروف مسٹر جس رسید ۲۴۴ عدنان مندر میں مسٹر ۵۸۰ عبدالرشید میر جسٹس میاں ۲۳۲۳۳ عبد العزرینه سلطان - ابن سعود ۵۸۴ علی امام سرسید ، ۱۵، ۲۳۵ ، عبدالقیوم خان.نواب سر ۲۶۲ عبد القیوم خان - سخان ۵۹۱ ۱۶۷ ۲۸۹ تا ۳۴۴ علی نقی.ڈاکٹر عصمت اللہ محال چودھری اعبد العزيز خان حساب الشيخ علی محمد مستری 144 140 140 عبدالعزیز ملک پیما - خان بہادر میان سیم عبدالحمید عرفانی.آقائے ۵۹۲ تا 210 عبد الرحمن نان را ہوں.چودھری ۲۶۴ عبد الحمید بدوی - پاشا ۶۱۹۰۷۰۰ عبد الكريم - سيد عزیزہ والٹر.مسٹر ، ۶۲۶۷۶۲۰ - مریم رسید ۳۹۸۷۲۹۹۷۲۹۲۷۲۹۱ عبد الحلیم غزنوی بسمه ۲۶۲ ۲۰۵۰۳۱۱۷۲۶۲ عبدالوہاب - عزام - السيد ۶۲۹ ۳۵ نهم
تا علی ساستر وہی ہوئی.مسٹر عنی میر- الستید ۵۶۴،۴۳ فیروز خان نون ، ملک ۶۴۰ غضنفر علی را بعد ۲۹۶ علی - راجہ ۹۶ فضل الحق البوالقاسم - مولوی ۲ 4146715 عبد المنعم الرفاع السيد ٣٠ عبد الغيور سردار ۶۵۲٤٠٥٥ لام احمد بریگیڈیر ڈاکٹر، فضل داده خود هری ۲۳۷۲۵۳،۲۵۲ OFICOYA عمری عبیدی شیخ ، ٤٥ ٦٥٩ غلام محمد - ملک ۵۹۰۰۵۸۳۰۵۷۸ تا فیلبوس.مسٹر عبدالناصر حمال - کرنل به على صامه في السيد عظیموت - کامریڈ ۶۸۰ فتح دین.چودھری ۲۲۹ رهم 091 فریدیہ ، مسٹر پیٹر ۳۱۶ فرنیک فرنٹہ بجٹس ۲۵۰ ۴۵۱ فیض الدین حضرت مولوی ١٩٦٤ 192 فرینکو.جنرل ۵۲۰۴۶۴ عبد الواحد شیخ مبشر ۶۸۸۷۶۸۷ فتح محمد - چودھری سیال مان فارس نوری الستيد غ ۵۲۵ فضل حسین - میاں سر (ص) فاروق - شاه ۵۶۷۰۵۶۴ غلام احمد بحضرت مرزا مسیح موعود فیروز الدین مراد شیخ ۱۴، ۱۱۹ فرحت عباس - ۵۷۰ علیه السلام (ص) - غلام محمد.ماسٹر فضل کریم.۲۰ فضل الرحمن.مسٹر 019 فائزون - مستر ۳۴۷۲۷۲۹ تا ۳۶ فٹز ماریس بیر لڈیر - حج 419 غلام رسول چودھری ۱۴ نائمون مسٹر ۳٥٠٣ فیصل - جلالته الملک - شاه ۲۹۳۷۶۲۷ غلام قادر چودهری (فیروز واله) ۱۳ فاسٹن مسٹر بر من ۲۹ ،۵۰ ۲۹۲ ، ۱۳۴ ق فضل علی رسید ۱۴۷، ۱۲۸ قائم علی.ڈیٹی ۱۴ 492 غلام دستگیری شیخ غلام نبی مصری.مولوی غلام قادر ۱۸ فیض العسكري بستید ۱۴ ۱۸۰ قاسم علی خانی - چودھری ۲۳۱ فیرونه الدین ۱۴۸ قلی خانی - خان بہادر ۳۲۴ غلام نبی - سچودھری ۳۹۸۰۱۷۰۱۴ فخر الدین - مولوی سید ۱۵۱ ۱۵۴ قربان علی خان - خان ۵۸۷۷۵۸۶ 49-614 104 BAA قدرت اللہ حافظ ۶۲۶۰۶۲۵ غلام حسین مستری ۱۷۷۵، فضل امام بخان بهادر ستید 149 غلام مصطفے ملتی.چودھری ۲۱۸ فضل احمد چودھری غفورون - پروفیسر فضل الحق شيخ (A) ۲۰۰ غلام قطب الدین.نواب ۲۹۴ فتح علی خالی قزلباش - نواب سر..قریشی.ایم.ایل مسٹر قاسم - جنرل ស ۶۶۵ غلام محی الدین.مولوی فرزند علی خانی - خانصاحب ۲۱۱ کمال الدین - نخواهجه ۴۵ تا ۳۹ ، ۹۰ تا ۹۰ غلام رسول ناں.مسٹر ۳۵۰ ۳۵۰ کورٹ.ڈاکٹر فضل الرحمن - حکیم غلام بھیک نیرنگ بستید ۳٬۳۹۷) فتح دین : بیلدار چودهری ۲۱۷ کو ورڈ.مسٹروسٹر
ط ! کشن چند.لاله Iro ۱۳ کمیشو داس.رائے بہادر کنوردی - کمانڈر گنا پتی.لفٹنٹ کرنل کلیف لیٹر - سرفپ ۴۸۲۷۴۸۵ گرگ سر جیمز (من) ۳۰۹۰۲۳۵ کرامت مسٹر یو ۱۸۵ کستان.مسٹر سنری ۴۸۸ کفور سین.لالہ رائے بہادر ۲۸ کو ہن.ڈاکٹر کارنیگی.اینڈریو میٹر کینگ مسٹر کوری اینڈریو میٹر کردید سر جیمز ١٠٢ ۶۵۱ ۵۳۹ ۵۱۲ گانیسی.مریدی کریس پر سٹینفورڈ ۳،۴۹۰، گورٹ.لارڈ کیڈوگن.سر الیگزینڈر سودم گلوسٹر ڈیوک آف ۴۱۹ کورسیل.ڈاکٹر جوزف و تا گوائیہ.سر ۲۴ ۲۰۵ کار ڈیٹر.مسٹر اینڈریو کنٹر بری - آرچ بشپ آف ۳۲۲، ۳۳۲ کو پر مسٹر سنہری کلسٹاڈ.۵۶۱ ۶۲۱ 009600A 047 گور - مسٹر گھوش مسٹر سدھیر مانم تا ونام ۴۵۸ ۵۱۳ حج ۲۰۰۶ ۶۲۲ تا ۶ گریسی - سرو گلس ۵۴۱ کردنٹ.مسٹر ۳۴۷ کافری.مسٹر کارسن.کرنل کریک - سرمنبری M&A کستور بھائی ، لال بھائی مسٹر ۳۸۹۳۰۴ گو - ویلنگٹن : کلو.اینڈریو - سر ۲۲۲،۴۲۵،۴۲ کارٹووا - حج کرزن.لارڈ ۴۰۸ - بج ۲۲۷۶۲۰۷۶۱۴ ۶۲۰ ۶۲۱ کمال دین - مولوی ۶۴۲ کیسی.رچو.لارڈ ان کو دیئے.اندر لو میٹر ۶۲۴ ۶۹۲ ۶۱۹ گراہم.ڈاکٹر فرنیک ۵۴۰ گردی.مسٹر ارنسٹ گر یرد - حج ل لینگ تارن پروفیسر مسٹر کر نیک شاه گریل ۴۱۶ کینیڈی.پریزیڈنٹ ۶۵۲۰۶۵۱ لاسن.مسز ۳۵ کریہ.مسٹر الم کینیا..کرافٹ مسٹر ڈبلیو ڈی ۴۱۷ جمو مسٹر ۶۵۹۷۶۵۶ لائینز - ڈاکٹر نسری نی را سنیل میٹر بجٹس.۲۲۴ ۲۲۵ کیٹو.لارڈ ۲۰ تا ۲۲ م گ لائیڈ.ڈاکٹر السلام علم لعل دین.ڈاکٹر ۱۳۲۶۱۳۱، ۰۴۱۳۵ گنگ.مسٹر ۴۳۷۷۴۳۹ گرفته مسٹر کیرو - سرا ولف ۲۲۳۴۴۳۸ مهنام گوگ - سر میو ۴۵۸ ۳۳۵ لال چند چجود هری گرد میکو.مسٹر ۶۷۲،۶۴۹۷۸۲ لکھ دتی جین.مسٹر 410 ۲۳۱ ۲۵۹ 447 کینٹ.ڈیوک آن کریشنا ما سپاری - سروی ٹی ۴۶۲ گریوال.مسٹر ۱۸۵ لیاقت حیات خال - سه ۳۸۱۴۲۶۲ کولول - سر جان ۴،۳،۴،۲،۴۷۱ گوکل چند نارنگ ڈاکٹر لطیفی - آلما.مسٹر ۱۲ ۱۳ ۱۳۸۵ ۱۳
لینا تھگو.لارڈ (ض) محمد حسن.مسٹر لیتھویٹ.سر گلبرٹ ۳۳ میکڈانلڈ.مسٹراے سی ۵۹۰۷۴۰۵ لاؤنڈنہ.سر جارج ۳۲۱۷۷۷۵۷۲۷۳ محمد صادق - انه مفتی 1446140 (ض) میران بخش شیخ مارٹینو.مسٹر جسٹس ۰۹۱۷۷ ۳۴ +1915122 محسن شاه - سیده ۷۱۱۸۶۷۱۸۵ لیاقت علی خاں، نوابزاده تا دلت امن محمد صادق شیخ (امرتسر) ۲۱۷۴۷ مورین.مسٹر ۱۸۵، ۱۸۷، ۲۴۷ نامد - ۳۵۰ لال یشیوںکیں مسٹر ۲۷۷۴۲۰۷ محمد نواز خان خان (فیروز پور ۴۷ مینار - سرجان ۱۸۸۷۱۸۷ لیمنگٹن.لیڈی ۲۵۸۷۴۵۷ محمد علی.نواب ۱۷۲۷۳۹ محبوب سبحانی - خواب لیو پول پرنس ولیوک آن آلبنی ۳۵۸) محمد صدیق با سبر مدیون نائمہ.مسٹر ۱۹۳ ، ۶۹۰ لین.لارڈ ۴۶۴ تا ۴۶۶ ، ۶۰یم تا می - مستر ۹۳ تا ۹۷ مبارک علی.مولوی ۱۹۴۷ کمکے.سر رو به ۴۷۳،۴۷۱ ملی سدھر بی مسٹر محمد شریف.میاں 194 لو تقیان مارکوس آن ۸۴،۳۸۰) محمد دین - ماسٹر ۱۳۱ ، ۱۳۵ محمد شفیع.میاں سعر (من) ۱۳۱، ۱۳۵ لار نہیں.لارڈ پیتھیک ۲۹۰ انٹیگو- ایڈون سیمویل میسٹر ۱۷۳) محمد علی خان قزلباش سرداره ۴۹۹ ممتاز علی ، مولوی سید ۱۴۰ محمد شریف.میاں - امرتسری لسٹوویل.لارڈ لائق علی میبر ۵۱۹۷۵۱۸ محمد شاہ سید لنگن ہوں.پروفیسر ۵۳۵ محمد شریف - مولوی منالان - لاله محمد صادق شیخ ۲۱۰ لاٹر پافٹ.حج ۶۱۹۷۶۱۴۷۶۰۷ محمد ابراہیم - خواجه ۱۴۹۰۱۴۸ محمد حسین قریشی - حکیم ۲ ۲۱۲ لینن - کامریڈ م محمد ابرا ہیم.سب جج بہار مظہر الحق.مسٹر (ض) 10.۲۰۰ محمد دین.ماسٹر ۲۱۱، ۲۱۷.محمد احمد شیخ ۲۱۴ مبارک احمد - صاحبزادہ مرزا ۱۱۱۰ میرسن بشمس العلماء مولاناسید ۲ برسن بشمس العلماء مولاناسید ۱۶۷۴۱۵۲ مصباح الدین - سمه داله ۲۱۷ -.محمد سعید پرو فیسر مرزا ۱۳ محمد یونس.مسٹر ۱۰۷۱۶۳۶۱۵۴ ۱۵۲ ۶۹۰،۱۶۳ محمد شریف - سجود هری ۲۲۱۷۲۱۷ ۲۲۲ مکند لعل.پروفیسر مسٹر.محمد طاہر.مولوی ۱۵۴ ۱۶۳۷، ۶۹۰ محمد یوسف.ڈاکٹر محمد علی.مولوی ۱۶ ۱۷ مهدی قلی سید مبارک اسمعیل پیشیخ ۲۰۰۱۹ محمود آباد - مہاراجہ ۲۳۰ میگا.جنرل ۲۳۵، ۳۰۹۷۳۰۸ متر سمره بی مایل ۳۱۱۲۲۳۷، ۴۰۸ مام تا ۷ بهم محمد امین - ۲۱، ۱۲۶ تا ۱۲۸ چودھری ، محمد حسین - خان بهادر ۱۲۸۷۱۶۷ موتی اگر سر ۲۴۰، ۲۴۱ ا تا ۲۰۲ ۲۸۳ که ۲۸۵ ۲۹۹۲ محمد علی مولوی (قصور) ۲۲ تا ۲ محمد نسیم.ڈاکٹر " اسم محمد سعید شیخ ۲۳ تا ۲۶، ۳۱۷۲۸ محمد علی - مستری - ۱۶۷ محمد رضا سیلوی شهنشاه ۵۹۲،۵۹۱ محمد نوانه نال - سردار بسمه ۲۴۱، ۲۴۲
ملکت ڈاکٹر پارس السند ۶۳۴۷۵۰۵ ۴۵۲ مونجی سلیم - السید محمد ۵۰۰ راسمعیل چودھری ۳۲۲۲۲) منور احمد ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا ۳۶۶ مہر چند مہاجن مسٹر جیسا ماردیں.ڈاکٹر الیگزینڈر میری، ملکہ.پر میجسٹی ۴۵۷ تا ۴۵۹ درسین.مسٹر سر برٹ - ۶۵ م ، ۶۶م محمد اسد ۴۶۵ ۴۷۶۰ محمد رفیع - میابی ۲۵۱ ۳۵۰ محمد احمد المہدی سوڈانی - السید ۴۷۳ مصطفح آغا منوہر لال لاله ۲۵۸ مہاراج سنگھ.کنور سمہ میکڈانلڈ.مسٹر یزے (ض) مہستہ مسٹر سی ایل ۴۸۱ مسٹر ۵۸۲ ۵۷۹ محمد الصدر مجتهد العصر السيد ۵۸۷ مالک.اسنے ایم.ڈاکٹر ۶۹۲ مد کیان - راما سوامی بسته (ض) میکمو من سر ہنری ۴۸۵ مشتاق احمد خان میاں گورمانی ۵۸۵ 9-1629) (ض) محمد علی.مولانا ۲۶۲، ۲۰۱۷۲۶۹ منیر الدین الحصنى الستید ۸۷ ۸ محمدعلی لوگر - چودهری (منی) حمد علی جناح - قائد اعظم (من) محی الدین الحصني السيد ۸۳۸۷ مصدق.ڈاکٹر محمود حسن.ڈاکٹر محمد حیات سناں.فون.ملک ۲۶۳ موسلے.مسٹر ۴۹۲ ۲۹ منٹ مورانی میرے ہی پس منظر علی خان، قزلباش نواب مارین سپیکر پی ۲۶۳ تا ۲۶۷ ۵۰۰۷۲۹۴ مراتب علی - سررسید ۷۲۹۴ ۵۰۰ مونٹ بیٹن.لارڈ (ض) میول سر امیرک سم 4-9 مائیلینہ کیترین مسی ۵۹۲ ۵۹۶ ۶۰۴ ۶۲۴ محمد منیر مسٹر جسٹس ۵۰۰، ۵۰۰ محمد البوب - مولوی سوما روی ۶۲۶ میرز - گرموڈ سر م ۲۳ ممتاز محمد متعال دولتانہ میاں (ض) مرشد مسٹر ۶۳۲ ، ۶۳۳ میکملن.لارڈ ۵،۲۳،۲۲۱، محمد علی - چودھری (ض) منظور قادر - شیخ تا مغل بانه نمای - سخان بهادر ۳۲۴ موڈی.مسٹر میکیڈم.مسٹر آئی ڈین ۴۷۹۷۳۷۹ مون.مسٹر مینڈرل سول محمد میر ۲۵، ۳۲۹، ۳۲ مین.مسٹر وی پی ۵۱۳، ۵۱۶ مطیع الرحمن - صوفی ۳۰ سوت ۳۳۲ مین - مسٹر کرشنا (ض) ملالا سیکرا - پروفیسر ۶۴۱۰۶۴۰۷۱۳ موردندون - سفیر ۶۴۵ ملانیا ۶۳۸ میکڈانلڈ میلکم بیسٹر میسی.مسٹر ونسنٹ ۳۳۴ محمد ایوب.مسٹر ۵۱۹، ۵۳۹ مبویا.ٹام.مسٹر ۶۵۶ محمد الغانم - السيد ۳۴۰ محمد وسیم برسید.دسم میکے.پروفیسر سم سر مجهد ملک کریل سم الله محمد شریف چودھری بلبشر.۵۹ متیسا - فریڈرک سه ۶۶۰ تا ۶۶۲ مودی - سر سومی ۳۳۳،۴۶۳۹۲ میکنائن - جنرل ۵۴۷۰۵۳۵ مشتاق احمد با جوه - چودھری کم محمد احمد کاظمی - قاضی رو ۳ ۳۹۳ مسولینی b ۱۳۹۴۷۳۹۲ 000 مارٹن.پال.مسٹر میکسول - سری یکنیله ۴۱۰۷۳۳ محمود فوزی السند ۵۶۸۷۵۵۶، منیز نیز را برٹ سر ۶۶۴ ،۵۸۱ ۷۵۶۹۰۰ ۶۸۶ ۶۹۲
ن نائیڈو غ ائید و سر سر و جنبی ۲۸۶ نور الدین حضرت مولوی خلیفہ المسیح ادا الان نامین - سرمانٹیگو نظام الدین - مرزا ۱۲۰۱۱ نور اللی - شیخ سم سمر I 611 نوئل سیکر.نور الحق - مولوی قلب وزارت حسین - ستید (ض) ۳۱۷۰۳۱۹ در سطے.مسٹر ۲۶۵۷۲۶۴ ۷۵۳۶۰۳۳۴ ولنگٹن.لارڈ (من) ۵۳۹ ۳۲۹ و گرم - بجنرل سر کنیته نوئیں.سر فرینک (ض) واکر.ڈاکٹرنا مین نبیل مسٹر ناصر نواب میر ۲۹ نذیر احمد - جنرل (ض) وہائٹ مسٹر ۲۷۹ PAY نبی احمد چودھری ۴۵ نا بصه - مهار اسبه آن ۴۷۰ و نسیانہ.مسٹر نکونا وسالیوں ، ڈیلنگ میٹر ۸۲ نوازش علی - صاحبزاده ۵۰۲ نمیاره سر آٹو ۱۲۴ نذر الباقر - سید ۱۴۷ نثار احمد شیخ ۵۰۸۷۵۰۲ دین.مسٹر وائیٹ.فریڈرک سیر ۳۸۵ ناد انگرز کنور صاحب ۳۴۰ رو سر چارلس کنگلے ۳۹۱ نبی بخش محمد حسین خان بہادر ۱۹۸ نجیب - جنرل نجیب - جنرل ۵۸۱۷۵۶۹،۵۶۶ ود - وڈ.جنرل نواب الدین.ملک ۹۵ تا ۹۰ نور احمد شیخ امانم ، ۵۸۱۷۵۷ وشواناتھ.ڈاکٹر ۴۲۸، ۳۵۳،۳۲۹ ناظم الدین - خواجہ ۲ ۳۲۲۵۹۱۷ BA1606A600 ۶۰۲۲۵۹۱۲۵۸۳ نوری سعید السید ۵۹۲ ور دا بھاری - سرسرینواس (من) نعمت الله عالی شہید حضرت مولوی نائٹریرے.پولیس میٹر ۹۶۷۵۷، واللہ.مسٹر کیتھے ۴۴۲۷۲۴۱ نذیر احمد خوابیه ۲۲۱ نرنجن سنگھ سردار - ۶۶۴ دلکی.مسٹر ونڈل ۴۴۳ ناصر احمد حافظ مرزا خلیفہ المسح الشات ۲۸۸ وائیٹ.مسٹر مرے ڈی ۴۲۸ نذیر احمد مولوی ۲۲۳ نا ناکس میسٹر سٹیٹس سر جارج ۴۵ نظام الدین.بالو - ۲۴۶ وادن - میٹر ۱۵،۱۴۰۱۳ نریندر ناتھ.راسیہ ۳۲۶۰۲۵۹ ولی محمد - ڈاکٹر ۳۵ دایت.ڈاکٹر پر پیسکلا ۴۵۲ دیول - لارڈ ۴۹۲۷۴۹۱۷۴۸۳،۴۶۲ را نچوپ - سر آرتھر ۴۸۵ ایجین جی آئی پی ریلوے) نانک چند - پنڈت ۳۴۳۱۸۷۲۶۴ نصر اللہ خاں.لفٹنٹ کرنل ونسٹر ہیں.نیلی ۲۹۷ نیم حسین.میاں ۲۸۳، ۲۸۲، ونٹر مسٹر ۵۹۲۰۲۹۸ نگهم - پروفیسر واکیہ مسٹر مسعود ۳۵ ۳۵ ۴۵ وجے لکشمی پنڈت میسر وقار احمد ہمدانی.ڈاکٹر ۳۵۹ ۵۲۰ دارن چیف جسٹس ۶۰۴ دستار سکی.حج ۴۸۹ ۶۱۲۷۴۹۰، ۶۱۹ نادرشاه خان بهادر ندیم ثانی قیصر تمرینی ۲۶، ۱۰۳ نسیم حسین - بیگم میاں ۲۸۳، ۲۸۴ ویٹ.مستر ولیمز میسر ۶۴۳ ۶۳۵
ہیمی.مسٹر ۱۳ بیرین.مسٹر جسٹس ۲۲۸۷۳ تا مریٹس ت ہو میٹر مسٹر ۴۸۰ ۲۵۳ ہدایت حسین حافظ - خان بہادر ۲۶۲ باڈیسن.مسٹر - 01 ہرسٹ.میٹر سم ہدایت المد غلام حسین - سمه ۲۶۲ ہلائی.آغا ۶۰۵ ۱۵۲۹ ہل پورٹ.ڈاکٹر سمسم ۳۲۵۷۳۰ سیک در تھے.گرین: پریزیڈینٹ (ض) سری سنگھ گارٹ - سر ۳۲۵۷۳۰۹ ہاورڈ.کریل ۲۲ تا ۲۴ مور سرسیموئیل (اردو میل روٹی (ض) سونمین - پالی مسٹر ہاورڈ.مستر ۴۲ تا ۴۴ سینڈرسن میٹر ہاورڈ یہ مسٹر گائی ۴۳ AAA ہیمر شولڈ.ڈاگ بسٹر ۶۳۴، ۶۷۳ पढत کمرہ اوڈولف (ص) پیری مین - گورنر ۶۵۲۷۶۵۱ ہاورڈ مسٹر والٹر ۲۰ تا ۳۰ ہارڈنگ.لارڈ ۳۲۳۶۲۴ کیلے.بولین بسمہ ۶۷۲ ہاورڈ مسٹر جیک ۴۳ ۴۵ ہووے.مسٹر ي علام مسلم نام سلام سلام ی ناورڈ - مسز ایولین ۴۲، ۲۵ سیلٹن مسٹر جسٹس ۳۳۸۷۳۳۷ لیعقوب بیگ.ڈاکٹر مرزا ۱۰ تا ۱۲ میڈیم ریورنڈ آر تنفر پیرس.کرنل ڈاکٹر 176 ۳۷۵، ۳۷۸ یوسف امام.مسٹر ۱۰۳۷۹۹۷۹۸ ٹائیٹ.مسٹر میمرد.مسٹر ۴۲۴ یوسف علی - شیخ پرکشن لال لاله ۱۸۵ تا ۱۸ میلینکس لار در سایت اراردن) (ض) یعقوب علی عرفانی شیخ ہیرلیں.مسٹر ہر گوپال.لالہ ہرن - محمد بلیو میٹر ہیلی.لارڈ [MA ۲۲۹ ہومز مسٹر جسٹس دنیڈل ۴۵۱۷۴۵۰) یار محمد نعال - ڈاکٹر..۲۱۴ ۲۱۷ ۲۳۰ انا کے ہیملٹن.لارڈ کلاؤ ۲۵۷ تا ۴۲۵۹ نینگ - سرڈگلس ۱۳۳۶ ۳۳۹ ، ۶۷ستها پسٹن پیس فریڈ ریک ۴۷۳ یوسٹ.سفیر ۶۴۳ اقبال محمد ނ ضمیر اشاریہ افضل على سعد - مبر ۱۴۶۰۱۴ نه تا و۱۷۱۰۱۵۳۰۱۴ تا آرنلڈ - سرطامس - ٤۲۷،۲۶ ٢٨ ، ٣٠٤٢٩ ،۱۰۷۷۶۲ العام اللہ شاہ سید - ۲۱۵۶ ۱۶۷۶۱۵۹ ۱۶۸ ۱۷۰۰، انور احمد کاہلوں.م ۳۲۲۱۵۷۷ ، سم اسم تا ۷ الم ۲۰۰ م تا امیر علی سید - رائٹ آن بیل - ۳۴۶ ، ۱۰۶، ۲۵۷ ۱۵۲۷۱۲۹،۱۳۷۳ ،۱۵۳ ، ۴۳۰۷۳۷۵۷۳۷۴ ، ۶۸ کم المحانه احمد آغا خان - سرمائی نس.۲۶۸۷۲۶۲،۴۶، ۲۶۲۶۹ اسد اللہ خان کچھ دھری ۶۳۶۷۷۲۸۱،۳۶۷۷۱۹۹۷۱۹۸ اکبر خان محمد - سمر دار - ۶۹ تا ۸۲۷۷۸۷۷۱ تا ۱۱۹۵۷۹۰ آغا حیدر.مسٹر جنٹس.۲۵۳۷۲۴۴۷۲۷۷۲۲۶تا ۲۵۰
G: یمر سین بریسٹ سر ۲۳۵ ۳۳۵۷۲۳۵۰۲۴۳۶۲۳۲ جگدیش پر شاد- کنور سره ۳۲۰، ۳۸۳۷۳۸۱، بینی و ناسم ۳۵ تا ۴۲۳۱۳۶۱ پرشاد ۴۲۶ اسلی کلیمنٹ مسٹر ۱۳۵۷ ۲۸۴،۴۸۲۷۳۹۰، ۱۳۹۰ جواہر لال سہرو.پنڈت ۳۹۰، ۴۱۰، ۳۸۱، ۴۸۴، ۱۳۸۹ دار کا طاولر ها دایره الله ۵۱۲ ۵۳۸۷۵۱۷۰۵۱۵۱۵۱۳۱ تا ۵۴۰ ، ۷۰۰ امیراحمد راجہ صاحب محمود آباد Ontcony امتد الحی ۵۲۸۰۳۹۸۷۴۵۷۴۱۷۳۹ رو ۱۵۳۶۰۳۳۵۲۵۱۷۷۵ ۱۴ ۱۵۱۲۰۵۰۰۰ ۴۱۲۰۴۹۱ ۶۵۲۰۶۴۰۱۶۳۹۰۶۲۲۰۵۴۹۰۵۴۸۲۵۳۹ جارڈن مسٹر ۴۲۳ جارج لائیڈ مسٹر.47 رضو (ب) بشیر الدین محمود احمدی حضرت صاحبزادہ مرزا چر حل.ونسنٹ مسٹر ۳۲۵ تا ۳۲۸، ۴۱۸۷۴۱۷ ، ۳۲۵ خلیفة المسیح الثانی ۲۳۷۱۷۷۵۰۹۸۱۹۷۰۴۹،۴۶ ۲۰۰ تا ۲۱۶۰۲۱۴ تا ۲۲۳ ۲۳۰۷۲۲۸۰۲۲۷، ۲۶۵۷۳۳۷ ۱۶۶۰۱۵۵۷۱۵۲۰۱۵۱۰۱۴۴،۱۴۳۷۱۳۶۷۱۱۴۰۱۰۳ 6199419751976 19 61916+614501470149 ۱۳۹۵۰۳۶۲۰۳۵۹۲۰ ،۳۵۳ ،۳۵۱۰۳۴۹۰۹۱۲۶۶ AL ۴۶۰۰۴۵۲،۴۵۰۰۲۲۸۴۲۶ تا ۸۲۷۴۶۴ م تایم ۴۸، ۵۶۷۲۵۶۵ چند دیگری، ابراہیم، اسمعیل میٹر ۵۸۵۷۵۸۴ ۴۴۲۶۴۲۵ ،۴/۸۷، ۶۸۸۰۶۰۷۵۹۶۷۵۹۱۷۵۰۶ تا بشیر احمد صاحبزاده - مرزا ۱۳۹،۲۳۷۱۹ ، ۲۱۱۷۱۷۴ بدن ہارٹ - ساره ۴۸ منی - آسکی.مسٹر ۹۸۷۹۴۷۶۳،۵۳،۵۲،۳۹، ۱۰۹ ۱۱۰ ، ۱۱۲ ، ۲۱۵ ۲۱۶ ، ۴۶۴۰۲۵۷۷۲۱۷ تا ۴۶۹ بشیر احمد چودھری ۱۱۷ ۱۱۸۷، ۲۱۳۷۱۹۲۷۱۹۰۷۱۷۹۷۱۷۳ جھا گلا.مسٹر ٤٤ (خ) حیدری سر صالح اکبر ۳۰۹،۳۰۰،۳۰۶۲۳۵ حسین بن طلال سلالة الملک شاه اردن ۵۹۵ تا ۵۹۸ حسین معافی محترمه ۴، ۲۱۷۷، ۲۲ ۱۰۳۷۶۲۷ ۱۱۴۷۱۳۰ - و له امر والا ( bla و vid الله والاة والحديد و المهادات ---7 (خ) خورشد حسنین - مولوی ۱۵۹، ۱۶۱ ۶۹۰۷۱۶۹۷۱۶۳۷ ۳۹۸۰۲۹۶۲۵۲۵۲، ۲۲۸۴۳۰،۳۹۹ در دین محمد مسٹر جسٹس شیخ ۵۰۳۳۵۰۲۲۲۷۲۳۲۲۲۰۳ ) بورن مسٹر ۲۰۰ 40664-0 01-10-153.4 (ر) ریڈ کلف سیرل بر ۵۰۴۰۵۰۱۷۵۰۰ ۵۰۰۰ تا۵۱۰ ۹۵۷۵۱ ۵۱۶ باسی پائی ، گر باشنکر یا سر ۳۰۱۷۲۳۵، ۳۰۵ تا ۷ ۳۰، ۸ و تا راد، بی، این اسمه ۵۵۸۷۵۵۷۷۵۲۹ ، ۲۰۱۷۵۷۶ سالم., حمود ولده اولهه وادارد و اعدام ما ولري والده الد والمده الله ۵۲۷۰۵۳۹ (پ) ، پرشوتم واس.ٹھاکر داس یس ۳۳۱۸ پطرس ششم.بہر جولی نس پوپ سمر شده برد به خاله و b۷ Azh پال.مسٹر جسٹس ۶۰۶۷۶۰۴، ۶۰۷ رین دن.لارڈ ۳۲۱ ڈن ریڈنگ.لارڈ را براس اوون ، مسٹر (س) سلطان علی الله له السمر الله YIA ٹ ٹھیک چند بخشی میٹر جسٹس ۲۳۸ تا ۱۲۳۴ سکندر حیات خان ۳۱۳۷۲۶۷۷۲۶۱۷۲۵۸۷۸۲۵ ، (ج) سجان.اے.ایم میٹر جا دلمه الله ولد را دید سری دختر ایرود سٹوارٹ فنڈ لسٹس ۲۸۱۷۲۸۰۷۲۶۱، ۱۳۷۹ ۱۳۸۵ مردانه والد اه اه و یه عالمه و له و له که نمود کند نمیه ها و ادامه داد ام دانه و له موارد بیرجوه و امداد ار و اراده و العراها و پیره مه و لایه حاله والله ۷۷ جارج پنجم- بنرجیشی شاه ۳۸، ۳۵۱۳۸۰۷۳۰۹۷۲۸۹ سرکار این این، در ۳۶۲ تا ۳۶۰ ۳۷۳۷ نا لم ۳۷ ۳۷ ۳۸ کا جارنا ششم - بر محبی شاه -۳۸۴۷۳۸، ۴۴۹۱۴۲۰ ش ، شہاب الدین خود هری ۱۳۷۷۷ تا ۱۴۲ ۱۴۴ تا م سم ۴۵۰۰ ۴۵۶ ۲۲۰۹،۲۰۰ ۲۲۷ ٤ ٤٢٢٩٤٢٢٨ ٩ سم ۲۶٣٤٣ ۲۶۵ ۲۳۴۲۹۳۲۶۶
۲۹۵،۱۷۳۷۱۶ تا ۲۹۰ لمره الله و نه خانه و میره والله وله مالی و اداری و اداری و یه ادعیه و اداره و ارایه ها و اداری والبرد و البرد الله وما وحلمات امر والله والله مجد اوا و میر و ol hai.والمراد الرد چودھرنی ۵۳۶۰۵۳۱۷۵۳۰۷۵۱۹۰۵۱۱۰۵۲۰ تا ۶۰۳۷۶۰۲ ،۵۹۰۰۵۸۵ ۱۵۴ ۱۵۲ ۱۵ ۵۴۰ ،۵۳۸ شادی لال جیٹس سیر ۱۱۸۹۷۱۸۸۷۱۸۷۷۱۸۳ ۳۳۲۷۲۲۴ مین کریشنا ، مسٹر ۱۰۵۵:۱۵۲۹،۵۳۵۷۵۳۳۷۵۱۴ محمد علی بوگرہ ، چودھری bahijohɔoph (ع ) عبداللہ خان ، چودھری ۲۳۷۲۱، ۱۰۳، ۱۵ تا ۱۱ (ن) نور الدین بحضرت مولوی خلیفة المسیح اول ۹۰۸۷۷ بد الغنی بود مهری ۱۰۶ عزیز احمد، جو در هری ۳۹۸ بد اللطیف، ڈاکٹر ۳۹۶ تا ۳۹۹ عبد الرحیم بھائی 179 عبد الحمید، بابو، آڈیٹر ۲۱۲ علم دین.غازی ۳۴۸ (غ) غلام احمد، حضرت مرزا ۱۹۷۸،۷،۵،۴-۴۲۷۱۱۷۱ (ف)، فرڈینینڈ فرانہ، آچ ، ڈیوک b 11 العربي والريم و 4 11-16- لم لینا اس ۸۷ خواب الدین ما مراد ۱۳۰ 96A6L نوئیں ، سرفر نیک ۳۶۲۷۳۰۵ تا ۳۷۳۷۳۶۰، ۳۸۲ تا رضو ا الرد الله و الدار و به وليه وانی و ۱۸ اد و الماما والده والدله والده والدي والبرد و الم Pishi در ادامه و الدالدین و الدار و اراده والده دا و له ده مکنده است انت نصر اللہ خیال کا پچودھری ۵۴، ۱۳۷۱،۱۰، ۱۹،۱۴،۱۳ نقیب اشرف السيد فضل حسین ، میاں ، سعر ۲۳۱۷۱۸۸۷۱۸۷۷۱۸۴۷۱۷۰۷۱۰ تا ۲۵۶۰۲۴۰۰۲۳۸ تا ۲۶۰،۲۵۸، ۲۶۴ تا ۱۳۹۸۰۲۹۱۰۲۸۱۷۲۰۷ فیض احمد فیض تم کم ہوتا ہے تم ہم نے تم ۶۵۷۳۶سم تا ۱۱ سهم ۳۰ فیلڈ مسٹرو مر ۳۷ فاطمه جناح مس ۵۵۱ (گ) گرگ، سر میں ۱۳۶۲۷۳۰۳ تا ۳۷۳۷۳۷۲۷۳۶۶ ۳۸۲ تا ۳۸۴، ۳ هم کم کم ، ۵۹۰۴۰۹ تا ۴۲۶۲ ۴۷۰۰ لمره اللد والرمان والد اداری به و ارایه ای دارد در و العراه بلد والمرارة وليه ماله والده والله لیاقت علی خاں، نواب زاده ۵۲۶۰۴۹۲۷۳۸۴ تا ۵۳۸۷۵۲۸ PAY (و) وزارت حسین سید ۱۵۱ ۱۵۳ تا ۲۱۶۶۷۱۶۳۷۱۵۶ 49° دلنگڈن ، لارڈ ۲۹۸، ۱۳۰۳ تا ۳۱۳، ۳۳۵ ، ۴۳۴۷۱ ۴ سنتا الله الولد واللوز نه ۳۶۲۷۳۶۱۷۳۵۹۰۳۴ تا ۳۸۰۷۳۶۶ تا ۴۰۴۰۳۸۴ در دا بچاری ما سر یا سر بنواس ۱۳۷۴،۴۷۱۷۴۷۰۴۳۰ لم تا ۴۷۸ ونڈر، ڈیوک آن ۴۵۸۷۳۸۰۷۲۱۱۷۲۱۰ (۵) ٹیلر، اوڈولف ۴۲۵،۳۲۴۷۳۴۱۳۲۳، شم H ہور، سر سیموئل (لاله و میل وڈ) ۳۲۵۷۳۱۵۷۳۱۴۰۲۹۰،۲۶۹ (م) محمد حسن ، مسٹر ۳۲، ۹۳۷۹٤۷۷۳۳، ۱۱۳۱۸۷۱۰۹۹۴ ہیلینکس، لارڈ ر سابق لارڈارون ) ۲۳۴ ۳۲۴۷، ۴۴۳۹ ۲ دام ۱۹ ، ۱۸۵ تا ۱۸۰ و لوله و درام نامه هام مظہر الحقن بم را ۱۵ ۱۵۳ ۱۵۹۶۱۵۴ تا ۱۶۳ ۱۲۴ ۱۲۶ ہیک دو تھ گرین ، صدیه ۶۰۷۷۵۷۶، ۶۲۰ ، ۶۲۱ ۶۲۳۱ ہوتی اوک ، مسٹر ۶۹۱ محمد شفیع ، میاں ، سمہ ۱۹۹، ۲۳۵ Jahdovhhabha, 21 ساله ها و ام الرائد ۳۱۵۷۲۸۹۰ 7046717 ملیار دراما سوامی ۲۶۲، ۳۴۹۷۳۲۷۰۴۰۵۰۴۰۴۰۳۲۹ محمد علی بجناح، قائد اعظم ۲۶۸، ۲۸۸۷۲۸۶۷۲۶۹، ۲۸۹ ۳۱۴ دلبر ها یا وله مان و ده ماله بولیه ماده و ده ها در درما.و لمره واده و مه ۷۷ ۵۰۲،۵۰۰، ۵ تا ۵۱۱ ، سرود ، ۵۵۱۹۰۵۱۸۰۵۱۷،۵۱۶ ۵۲۶ تا ۴۲۰،۵۳۸۰۵۳۰۰۵۲۹ ۷۰۰۷۵۵۲۷۵۵۱۷۵ مونٹ بیٹن ، لارڈ ۴۹۷، ۴۹۹ ، ۵۰۰، ۵۱۳،۵۱۲۰۵۱۱، نم ا۵ تا ۵۱۸، ۵۳۸ تا ۴۰ ۵ ممتازه محمد خان دولتانه ما میال ۵۰۴، ۵۲۶۷۵۰۸۷۵۰۵ بیگ میری اسمه اسم بر می است نگھ، مہارا بعد ۳۲۴ 9-764-16008