Language: UR
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات، کشوف اور رویائے صادقہ کےمجموعہ تذکرہ کو 1935ء میں پہلی دفعہ دفتر نظارت تالیف کی طرف سے حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی نگرانی میں شائع کیا گیا تھا۔ دوسرا ایڈیشن 1956 میں سامنے آیا۔ ایڈیشن سوم 1969 جبکہ تذکرہ کا ایڈیشن چہارم 2004میں کمپیوٹر پر ٹائپ کرکے طبع کروایا گیا۔یہ جدید ایڈیشن 2023ء میں دیدہ زیب ٹائپ سیٹ پر تیار کیا گیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نصیب ہونے والی خدا تعالیٰ سے ہم کلامی پر مشتمل مواد کی ترتیب و تدوین کا یہ سفر خلفائے احمدیت کی زیر نگرانی جاری رہا اور اب زیر نظر موجودہ ایڈیشن میں مختلف زبانوں کے الہامات کے اردو تراجم ، ہرعبارت واقتباس کے معین حوالہ جات،توضیحی نوٹس،الہامات کی تشریح بیان فرمودہ خلفائے احمدیت،ضروری تعارفی حواشی وغیرہ کی پیشکش میں از حد محنت سے کام کیا گیا ہے۔ جماعتی لٹریچر کے ہزارہا ہزار صفحات پر موجود الہامات و کشوف کوکتابی شکل میں مرتب کرکے پیش کرنے میں درج ذیل فاضل علمائے سلسلہ نے اپنے اپنے دور میں نہایت جانفشانی اور عرقریزی سے کام کرنے کی سعادت پائی ہے: مولانا محمد اسماعیل صاحب فاضلؓ، شیخ عبدالقادر صاحب مبلغ سلسلہ،مولوی عبدالرشید صاحب زیروی، مولانا عبداللطیف صاحب بہاولپوری، مبلغ بلاد عربیہ چوہدری محمد شریف صاحب، مولاناجلال الدین شمس صاحب،محترم سید عبدالحئی شاہ صاحب۔
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ اَلْـحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مُـحَمَّدٍ وَّ اٰلِہٖ وَاَصْـحَابِہٖ اَجْـمَعِیْنَ یعنی وحی مقدّس و رؤیا و کشوف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام زمانہ تحصیلِ علم (الف؎۱) ’’ رَأَیْتُ ذَاتَ لَیْلَۃٍ وَّ اَنَـا غُلَامٌ حَدِیْثُ السِّنِّ کَاَنِّیْ فِیْ بَیْتٍ لَطِیْفٍ نَّظِیْفٍ یُذْکَرُ فِیْـھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ.فَقُلْتُ اَیُّـھَاالنَّاسُ اَیْنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ.فَاَشَارُوْا اِلٰی حُـجْرَۃٍ.فَدَخَلْتُ مَعَ الدَّاخِلِیْنَ.فَبَشَّ بِیْ حِیْنَ وَافَیْتُہٗ.وَحَیَّانِیْ بِاَحْسَنِ مَاحَیَّیْتُہٗ.وَ مَا اَنْسٰی حُسْنَہٗ وَجَـمَالَہٗ وَمَلَاحَتَہٗ وَتَـحَنُّنَہٗ اِلٰی یَوْمِیْ ھٰذَا.شَغَفَنِیْ حُبًّا وَّ جَذَبَـنِیْ بِوَجْہٍ حَسِیْنٍ.قَالَ مَا ھٰذَا بِیَمِیْنِکَ یَـا اَحْـمَدُ.فَنَظَرْتُ فَاِذَا کِتَابٌ بِیَدِی الْیُمْنٰی وَخَطَرَ بِقَلْبِیْ اَنَّہٗ مِنْ ۱؎ (ترجمہ از مرتّب) اوائل ایّامِ جوانی میں ایک رات میں نے (رؤیا میں) دیکھا کہ میں ایک عالی شان مکان میں ہوں جو نہایت پاک اور صاف ہے اور اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اور چرچا ہورہا ہے.میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ حضورؐ کہاں تشریف فرما ہیں.انہوں نے ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا.چنانچہ میں دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر اُس کے اندر چلا گیا اور جب میں حضورؐ کی خدمت میں پہنچا تو حضورؐ بہت خوش ہوئے اور آپؐ نے مجھے بہتر طور پر میرے سلام کا جواب دیا.آپؐ کا حسن و جمال اور ملاحت اور آپؐ کی پُر شفقت و پُر محبت نگاہ مجھے اب تک یاد ہے اور وہ مجھے کبھی بھول نہیں سکتی.آپؐ کی محبت نے مجھے فریفتہ کرلیا اور آپؐ کے حسین و جمیل چہرہ نے مجھے اپنا گرویدہ بنالیا.اس وقت آپؐ نے مجھے فرمایا کہ اے احمد تمہارے دائیں ہاتھ میں کیا چیز ہے.جب میں نے اپنے دائیں ہاتھ کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ میرے ہاتھ میں ایک کتاب ہے اور وہ مجھے اپنی ہی ایک تصنیف معلوم ہوئی.
مُّصَنَّفَاتِیْ.قُلْتُ یَـا رَسُوْلَ اللّٰہِ کِتَابٌ مِّنْ مُّصَنَّفَاتِیْ.قَالَ مَا اسْـمُ کِتابِکَ فَنَظَرْتُ اِلَی الْکِتَابِ مَرَّۃً اُخْرٰی وَ اَنَـا کَالْمُتَحَیِّرِیْنَ.فَوَجَدْتُّہٗ یُشَابِہُ کِتَابًـا کَانَ فِیْ دَارِ کُتُبِیْ وَاسْـمُہٗ قُطْبِیٌّ قُلْتُ یَـا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِسْـمُہٗ قُطْبِیٌّ.قَالَ اَرِنِیْ کِتَا.بَکَ الْقُطْبِیَّ فَلَمَّا اَخَذَہٗ وَ مَسَّتْہُ یَدُہٗ فَاِذَا ھِیَ ثَـمَرَۃٌ لَّطِیْفَۃٌ تَسُـرُّ النَّاظِرِیْنَ.فَشَقَّقَھَا کَمَایُشَقَّقُ الثَّمَرُ فَـخَرَجَ مِنْـھَاعَسَلٌ مُّصَفًّی کَمَآءٍ مَّعِیْنٍ.وَرَاَیْتُ بِلَّۃَ الْعَسَلِ عَلٰی یَدِہِ الْیُمْنٰی مِنَ الْبَنَانِ اِلَی الْمِرْفَقِ کَانَ الْعَسَلُ یَتَقَاطَرُ مِنْـھَا.وَ کَاَنَّہٗ یُرِیْنِیْ اِیَّاہُ لِیَجْعَلَنِیْ مِنَ الْمُتَعَجِّبِیْنَ.ثُمَّ اُلْقِیَ فِیْ قَلْبِیْ اَنَّ عِنْدَ اُسْکُفَّۃِ الْبِیْتِ مَیِّتٌ قَدَّرَاللّٰہُ اِحْیَآءَہٗ بِـھٰذِہِ الثَّمَرَۃِ وَقَدَّ.رَ اَنْ یَّکُوْنَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمُحْیِیْنَ.فَبَیْنَـمَا اَنَـا فِیْ ذٰلِکَ الْـخَیَالِ فَاِذَاالْمَیِّتُ جَآءَ نِیْ حَیًّا وَّ ھُوَ یَسْعٰی وَقَامَ وَرَآءَ ظَھْرِیْ وَفِیْہِ ضُعْفٌ کَاَنَّہٗ مِنَ الْجَآئِعِیْنَ.فَنَظَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلَیَّ مُتَبَسِّمًا وَّ جَعَلَ الثَّمَرَۃَ قِطْعَاتٍ وَّاَکَلَ قِطْعَۃً مِّنْھَا وَ اٰتَـانِیْ کُلَّ مَا بَقِیَ وَالْعَسَلُ یَـجْرِیْ مِنَ الْقِطْعَاتِ کُلِّھَا وَ قَالَ یَـا اَحْـمَدُ اَعْطِہٖ قِطْعَۃً مِّنْ ھٰذِہٖ لِیَاْکُلَ وَیَتَقَوّٰی بقیہ ترجمہ.میں نے عرض کیا.حضورؐ یہ میری ایک تصنیف ہے.آپؐ نے پوچھا اس کتاب کا کیا نام ہے.تب میں نے حیران ہوکر کتاب کو دوبارہ دیکھا تو اسے اس کتاب کے مشابہ پایا جو میرے کتب خانہ میں تھی اور جس کا نام قطبی ہے.میں نے عرض کیا یا رسول اللہ اس کا نام قطبی ہے.فرمایا اپنی یہ کتاب قطبی مجھے دکھا.جب حضور ؐ نے اسے لیا تو حضورؐ کا مبارک ہاتھ لگتے ہی وہ ایک لطیف پھل بن گیاجو دیکھنے والوں کے لئے پسندیدہ تھا.جب حضورؐ نے اسے چیرا جیسے پھلوں کو چیرتے ہیں تو اس سے بہتے پانی کی طرح مصفّا شہد نکلا اور میں نے شہد کی طراوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے داہنے ہاتھ پر انگلیوں سے کہنیوں تک دیکھی اور شہد حضورؐ کے ہاتھ سے ٹپک رہا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گویا مجھے اس لئے وہ دکھا رہے ہیں تا مجھے تعجب میں ڈالیں.پھر میرے دل میں ڈالا گیا کہ دروازے کی چوکھٹ کے پاس ایک مردہ پڑا ہے جس کا زندہ ہونا اللہ تعالیٰ نے اس پھل کے ذریعہ مقدر کیا ہوا ہے اور یہی مقدر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو زندگی عطا کریں.مَیں اِسی خیال میں تھا کہ دیکھا کہ اچانک وہ مُردہ زندہ ہوکر دوڑتا ہوا میرے پاس آگیا اور میرے پیچھے کھڑا ہوگیا مگر اس میں کچھ کمزوری تھی گویا وہ بھوکا تھا تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور اس پھل کے ٹکڑے کئے اور ایک ٹکڑا ان میں سے حضورؐ نے خود کھایا اور باقی سب مجھے دے دیئے ان سب ٹکڑوں سے شہد بہہ رہا تھا.اور فرمایا.اے احمد اس مُردہ کو ایک ٹکڑا دے دو تا اسے کھا کر قوت پائے.
فَاَعْطَیْتُہٗ فَاَخَذَ یَـأْکُلُ عَلٰی مَقَامِہٖ کَالْـحَرِیْصِیْنَ.ثُمَّ رَاَیْتُ اَنَّ کُرْسِیَّ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ رُفِعَ حَتّٰی قَرُبَ مِنَ السَّقْفِ وَ رَاَیْتُہٗ فَاِذَا وَجْھُہٗ یَتَلَأْ.لَأُ کَاَنَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ ذَرَّتَـا عَلَیْہِ وَکُنْتُ اَنْظُرُ اِلَیْہِ وَ عَبَرَاتِیْ جَارِیَۃٌ ذَوْقًا وَّ وَجْدًا.ثُمَّ اسْتَیْقَظْتُ وَ اَنَا مِنَ الْبَاکِیْنَ.فَاَلْقَی اللّٰہُ فِیْ قَلْبِیْ اَنَّ الْمَیِّتَ ھُوَالْاِسْلَامُ.وَ سَیُحْیِیْہِ اللّٰہُ عَلٰی یَدِیْ بِفُیُوْضٍ رُوْحَانِیَّۃٍ مِّنْ رُّسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ مَا یُدْرِیْکُمْ لَعَلَّ الْوَقْتَ قَرِیْبٌ فَکُوْنُوْامِنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ وَ فِیْ ھٰذِہِ الرُّؤْیَـا رَبَّانِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ وَسَلَّمَ بِیَدِہٖ وَ کَلَامِہٖ وَ اَنْـوَارِہٖ وَ ھَدِیَّۃِ اَثْـمَارِہٖ.‘‘؎۱ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ۵۴۸،۵۴۹) (ب) ’’اِس اَحقر نے ۱۸۶۴ء؎۲ یا۱۸۶۵ عیسوی میں یعنی اسی زمانے کے قریب کہ جب یہ ضعیف اپنی عمر کے پہلے حِصّہ میں ہنوز تحصیلِ علم میں مشغول تھا جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور اُس وقت اِس عاجز کے ہاتھ میں ایک دینی کتاب تھی کہ جو خود اِس عاجز کی تالیف معلوم ہوتی تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کتاب کو دیکھ کر عربی زبان میں پُوچھا کہ تُو نے اِس کتاب کا کیا نام رکھا ہے.خاکسار نے عرض کیا کہ اس کا نام مَیں بقیہ ترجمہ.مَیں نے دیا تو اس نے حریصوں کی طرح اسی جگہ ہی اسے کھانا شروع کردیا.پھر میں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کرسی اونچی ہوگئی ہے حتی کہ چھت کے قریب جا پہنچی ہے اور میں نے دیکھا کہ اس وقت آپؐ کا چہرہ مبارک ایسا چمکنے لگا کہ گویا اس پر سورج اور چاند کی شعاعیں پڑرہی ہیں.میں آپؐ کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھ رہا تھا اور ذوق اور وجد کی و جہ سے میرے آنسو بہہ رہے تھے.پھر میں بیدار ہوگیا اور اس وقت بھی میں کافی رو رہا تھا تب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ وہ مُردہ شخص اسلام ہے اور اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فیوض کے ذریعہ سے اسے اب میرے ہاتھ پر زندہ کرے گا اور تمہیں کیا پتہ شاید یہ وقت قریب ہو اس لئے تم اس کے منتظر رہو اور اس رؤیامیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست ِ مبارک سے اپنے پاک کلام سے اپنے انوار سے اور اپنے (باغِ قدس کے) پھلوں کے ہدیہ سے میری تربیت فرمائی تھی.۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یہ رؤیا براہین احمدیہ میں بھی مذکور ہے مگر اس میں اس کے شروع کا اور آخر کا حصہ اس تفصیل سے بیان نہیں ہوا اس لئے اسے آئینہ کمالاتِ اسلام میں سے لے کر درج کیا گیا ہے.۲ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) یہ تاریخ غالباً سرسری طورپر ایک موٹے اندازہ کی بناء پر لکھی گئی ہے کیونکہ یہ رؤیا حضور کے زمانہ آغازِ جوانی کا ہے جبکہ آپ ہنوز تحصیلِ علم میں مشغول تھے جس کے بعد کچھ عرصہ آپ سیالکوٹ تشریف فرمارہے اورتریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۵۶ سے معلوم ہوتا ہے کہ راجہ تیجاسنگھ صاحب کی وفات
نے قطبی رکھا ہے.جس نام کی تعبیر اَب اِس اشتہاری کتاب؎۱کے تالیف ہونے پر یہ کھلی کہ وہ ایسی کتاب ہے کہ جو قطب ستارہ کی طرح غیر متزلزل اورمستحکم ہے جس کے کامل استحکام کو پیش کرکے دس ہزارروپیہ کا اِشتہار دیاگیا ہے.غرض آنحضرتؐ نے وہ کتاب مجھ سے لے لی اورجب وہ کتاب حضرت مقدس نبوی کے ہاتھ میں آئی تو آنجنابؐ کا ہاتھ مبارک لگتے ہی ایک نہایت خوش رنگ اورخوبصورت میوہ بن گئی کہ جو امرود سے مشابہ تھا مگر بقدر تربُوزتھا.آنحضرتؐ نے جب اُس میوہ کو تقسیم کرنے کے لئے قاش قاش کرنا چاہا تو اس قدر اس میں سے شہدنکلا کہ آنجناب کا ہاتھ مبارک مِرفق تک شہد سے بھر گیا.تب ایک مُردہ کہ جو دروازہ سے باہر پڑا تھا آنحضرتؐ کے معجزہ سے زندہ ہوکر اس عاجز کے پیچھے آکھڑا ہوا اور یہ عاجز آنحضرتؐ کے سامنے کھڑا تھا جیسے ایک مستغیث حاکم کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور آنحضرتؐ بڑے جاہ و جلال اور حاکمانہ شان سے ایک زبردست پہلوان کی طرح کرسی پر جلوس فرما رہے تھے.پھر خلاصہ کلام یہ کہ ایک قاش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو اس غرض سے دی کہ تا میں اس شخص کو دوں کہ جو نئے سرے زندہ ہوا اور باقی تمام قاشیں میرے دامن میں ڈال دیں اور وہ ایک قاش میں نے اُس نئے زندہ کو دے دی اور اس نے وہیں کھالی.پھر جب وہ نیا زندہ اپنی قاش کھاچکا تو میں نے دیکھا کہ آنحضرتؐ کی کرسی مبارک اپنے پہلے مکان سے بہت ہی اونچی ہوگئی اور جیسے آفتاب کی کرنیں چھوٹتی ہیں ایسا ہی آنحضرتؐ کی پیشانی مبارک متواتر چمکنے لگی کہ جو دین ِ اسلام کی تازگی اور ترقی کی طرف اشارت تھی.تب اُسی نُور کے مشاہدہ کرتے کرتے آنکھ کھل گئی.وَالْـحَمْدُ لِلہِ عَلٰی ذٰلِکَ.‘‘ (براہین احمدیہ حصہ سوم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۲۷۴ تا ۲۷۶ حاشیہ در حاشیہ نمبر۱) نوجوانی کے زمانہ میں ’’وَرَاَیْتُ فِیْ غُلَوَآءِ شَبَابِیْ وَ عِنْدَ دَوَاعِی التَّصَابِیْ کَاَنِّیْ دَخَلْتُ فِیْ مَکَانٍ.وَفِیْہِ حَفَدَتِیْ وَخَدَمِیْ فَقُلْتُ طَھِّرُوْا فِرَاشِیْ فَاِنَّ وَقْتِیْ قَدْ جَآءَ ثُمَّ اسْتَیْقَظْتُ وَخَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ وَذَھَبَ وَھْلِیْ اِلٰی اَنَّنِیْ مِنَ الْمَائِتِیْنَ.‘‘؎۲ (آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۴۸) بقیہ حاشیہ.(جو۱۸۶۲ء میں ہوئی تھی.دیکھئے کتاب رؤسائے پنجاب) کا واقعہ انہی ایام کا ہے جب حضور سیالکوٹ میں رہتے تھے.پس یہ رؤیا دراصل ۱۸۶۴ء سے کئی سال قبل کا ہے.وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.۱ یعنی براہین احمدیہ.(مرزا بشیر احمد) ۲ (ترجمہ از مرتّب) میں نے ایک دفعہ اوائل ایامِ جوانی میں اور جب کہ کھیل کود کے اسباب کی طرف طبائع کا میلان
۱۸۶۱ء (تخمیناً) ’’مجھے یاد ہے کہ شاید چونتیس برس کا عرصہ گزرا ہوگا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک جگہ شیطان سیاہ رنگ اور بدصورت کھڑا ہے.اوّل اس نے میری طرف توجہ کی اور میں نے اس کو مُنہ پر طمانچہ مار کر کہا کہ دُور ہو اَے شیطان.تیرا مجھ میں حصہ نہیں.اور پھر وہ ایک دوسرے کی طرف گیا اور اس کو اپنے ساتھ کرلیا اور جس کو ساتھ کرلیا اس کو میں جانتا تھا.اتنے میں آنکھ کُھل گئی.اسی دن یا اس کے بعد اس شخص کو مرگی پڑی جس کو میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ شیطان نے اس کو ساتھ کرلیا تھا اور صرع کی بیماری میں گرفتار ہوگیا.اِس سے مجھے یقین ہوا کہ شیطان کی ہمراہی کی تعبیر مرگی ہے.‘‘ (معیار المذاہب.روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۴۸۳ حاشیہ) ۱۸۶۲ء ’’ لالہ بھیم سین صاحب کو جو سیالکوٹ میں وکیل ہیں ایک مرتبہ میں نے خواب کے ذریعہ سے را جہ تیجا سنگھ کی موت کی خبر پاکر اُن کو اطلاع دی کہ وہ را جہ تیجا سنگھ جن کو سیالکوٹ کے دیہات جاگیر کے عوض میں تحصیل بٹالہ میں دیہات مع اس کے علاقہ کی حکومت کے ملے تھے فوت ہوگئے ہیں اور انہو ں نے اس خواب کو سن کر بہت تعجب کیا اورجب قریب دو بجے بعد دوپہر کے وقت ہوا تو مسٹر پرنسب؎۱ صاحب کمشنر امرتسر ناگہانی طور پر سیالکوٹ میں آگئے اور انہوں نے آتے ہی مسٹرمکنیب؎۲ صاحب ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کو ہدایت کی کہ راجہ تیجا سنگھ کے باغات وغیرہ کی جو ضلع سیالکوٹ میں واقع ہیں بہت جلد ایک فہرست تیار ہونی چاہیے کیونکہ وہ کل بٹا لہ میں فوت ہوگئے.تب لالہ بھیم سین نے اس خبر موت پر اطلاع پاکر نہایت تعجب کیا کہ کیونکر قبل از وقت اس کے مرنے کی خبر ہوگئی اور یہ نشان آج سے بیس برس پہلے کتاب براہین احمدیہ میں درج ہے دیکھو صفحہ ۲۵۶.‘‘؎۳ (تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۵۶، ۲۵۷) بقیہ ترجمہ.ہوتا ہے، رؤیا میں دیکھا کہ مَیں ایک مکان کے اندر داخل ہوا ہوں جس میں میرے خادم اور نوکر چاکر موجود ہیں.مَیں نے انہیں کہا کہ میرے مکان کو درست اور میرے بستر کو پاک و صاف کرو کیونکہ اب میرا وقت آگیا ہے.اِس کے بعدمیری آنکھ کُھل گئی.اُس وقت مجھ پر اپنی جان کے متعلق خطرہ و اندیشہ کی حالت طاری ہوئی اور میرا خیال اس طرف گیا کہ اب میری موت کا وقت آگیا ہے.خاکسار مرتب عرض کرتا ہے کہ ’’فَاِنَّ وَقْتِیْ قَدْ جَآءَ‘‘سے حضور نے اس وقت یہ تعبیر لی تھی کہ میرے مرنے کا وقت آگیا ہےمگر جیسا کہ بعد کے حالات سے ظاہر ہوا اس سے مراد یہ تھی کہ میری بعثت کا وقت آگیا ہے اور اس کی تائید آپ کے دوسرے الہام’’ بخرام کہ وقت ِتو نزدیک رسید‘‘ سے بھی ہوتی ہے.وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.(مرزا بشیراحمد) ۱ Mr Prinsep ۲ Mr.McNabb ۳ براہین احمدیہ ہر چہار حصص روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۲۸۴ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۱.(ناشر)
۱۸۶۵ء(قریباً) ’’تیس برس کا عرصہ ہوا کہ مجھے صاف صاف مکاشفات کے ذریعہ سے اُن ؎۱کے حالات دریافت ہوئے تھے.اگر میں جزماً کہوں تو شاید غلطی ہو مگر میں نے اُسی زمانہ میں ایک دفعہ عالمِ کشف میں اُن سے ملاقات کی یا کوئی ایسی صورتیں تھیں جو ملاقات سے مشابہ تھیں.چونکہ زمانہ بہت گزر گیا ہے اس لئے اصل صورت اُس کشف کی میرے ذہن سے فرو ہوگئی ہے.‘‘ (ست بچن.روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ ۱۴۱ حاشیہ) ۱۸۶۵ء(قریباً) ’’چونکہ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ دشمن میری موت کی تمنا کریں گے تا یہ نتیجہ نکالیں کہ جھوٹا تھا تبھی جلدی مر گیا اس لئے پہلے ہی سے اُس نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا.ثَـمَانِیْنَ حَوْلًا اَوْ قَرِیْبًا مِّنْ ذَالِکَ.اَوْتَزِیْدُ عَلَیْہِ سِنِیْنًا.وَتَرٰی نَسْلًا بَعِیْدًا.یعنی تیری عمر اَسّی برس کی ہوگی یا دو چار کم یا چند سال زیادہ اور تو اس قدر عمر پائے گا کہ ایک دُور کی نسل کو دیکھ لے گا.اور یہ الہام قریباً پینتیس برس سے ہوچکا ہے.‘‘ (اربعین نمبر ۳.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۱۸،۴۱۹ و ضمیمہ تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۶۶) ۱۸۶۸ء ’’ ایک مقدمہ میں کہ اس عاجز کے والد مرحوم کی طرف سے اپنے زمینداری حقوق کے متعلق کسی رعیت پر دائر تھا.اِس خاکسار پر خواب میں یہ ظاہر کیا گیا کہ اِس مقدمہ میں ڈگری ہوجائے گی چنانچہ اس عاجز نے وہ خواب ایک آریہ؎۲ کو کہ جو قادیان میں موجود ہے بتلا دی.پھر بعد اس کے ایسا اتفاق ہوا کہ اخیر تاریخ پر صرف مدّعا علیہ معہ اپنے چند گواہوں کے عدالت میں حاضر ہوا اور اِس طرف سے کوئی مختار وغیرہ حاضر نہ ہوا.شام کو مدّعا علیہ اور سب گواہوں نے واپس آکر بیان کیا کہ مقدمہ خارج ہوگیا.اِس خبر کو سنتے ہی وہ آریہ تکذیب اور استہزاء سے پیش آیا.اُس وقت جس قدر قلق اور کرب گزرا بیان میں نہیں آسکتا کیونکہ قریب قیاس معلوم نہیں ہوتا تھا کہ ایک گروہِ کثیر کا بیان جن میں بے تعلق آدمی بھی تھے خلاف واقعہ ہو.اس سخت حزن اور غم کی حالت میں نہایت شدّت سے الہام ہوا کہ جو آ ہنی میخ کی طرح دل کے اندر داخل باوا نانک رحمۃ اللہ علیہ.(مرزا بشیر احمد) ۲ لالہ شرمپت (بحوالہ تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۰۶) (مرزا بشیر احمد)
ہوگیا اور وہ یہ تھا.ڈگری ہوگئی ہے.مسلمان ہے! یعنی کیا تو باور نہیں کرتا اور باوجود مسلمان ہونے کے شک کو دخل دیتا ہے.آخر تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کہ فی الحقیقت ڈگری ؎۱ ہی ہوئی تھی اور فریق ثانی نے حکم کے سننے میں دھوکا کھایا تھا.‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۵۸،۶۵۹ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۴) ۱۸۶۸ء ’’ ایک وکیل صاحب سیالکوٹ میں ہیں جن کا نام لالہ بھیم سین ہے ایک مرتبہ جب انہوں نے اِس ضلع میں وکالت کا امتحان دیا تو میں نے ایک خواب کے ذریعہ سے اُن کو بتلایا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسا مقدّر ہے کہ اس ضلع کے کُل اشخاص جنہوں نے وکالت یا مختاری کا امتحان دیا ہے فیل ہوجائیں گے مگر سب میں سے صرف تم ایک ہو کہ وکالت میں پاس ہوجاؤ گے اور یہ خبر میں نے تیس کے قریب اور لوگوں کو بھی بتلائی.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور سیالکوٹ کی تمام جماعت کی جماعت جنہوں نے وکالت یا مختار کاری کا امتحان دیا تھا فیل کئے گئے اور صرف لالہ بھیم سین پاس ہوگئے… اور یہ نشان آج سے بیس برس پہلے کتاب براہین احمدیہ میں درج ہے.دیکھو صفحہ۲۵۶.‘‘۲؎ (تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۵۶) ۱۸۶۸ء(قریباً) ’’ ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے بھائی غلام قادر صاحب سخت بیمار ہیں.سو یہ خواب بہت سے آدمیوں کو سنایا گیا.چنانچہ اس کے بعد وہ سخت بیمار ہوگئے.تب میں نے ان کے لئے دعا شروع کی تو دوبارہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ہمارے ایک بزرگ فوت شدہ اُن کو بلا رہے ہیں.اِس خواب کی تعبیربھی موت ہوا کرتی ہے چنانچہ ان کی بیماری بہت بڑھ گئی اور وہ ایک مُشتِ استخواں سے رہ گئے.۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’حاکم مجوز نے جس کا نام حافظ ہدایت علی تھا صرف مدّعا علیہ کے بیان پر کہ ہمیں حسب ِفیصلہ صاحب کمشنر درخت کاٹ لینے کا حق حاصل ہے مقدمہ کو خارج کردیا اور مدّعا علیہ کو حکم سنا کر معہ اس کے گواہوں کے رخصت کردیا.اس پر انہوں نے گاؤں میں آکر مشہور کردیا کہ مقدمہ خارج ہوگیا ہےلیکن جب وہ عدالت کے کمرہ سے نکل گئے تو اس وقت مِثل خواں نے جو اتفاقاً باہر گیا ہوا تھا حاکم کو کہا کہ آپ نے اس مقدمہ میں دھوکا کھایا ہے اور جو فریق ثانی نے نقل روبکار صاحب کمشنر پیش کی ہے وہ حکم تو فنانشل صاحب کے حکم سے منسوخ ہوچکا ہے اور اس نے روبکار دکھلا دی.تب ہدایت علی کی عقل نے چکر کھایا اور اسی وقت اپنی روبکار پھاڑ دی اور ڈگری کی.‘‘ ( نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۲۱،۵۲۲) ۲ براہین احمدیہ ہر چہار حصص روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۲۸۴ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۱.(ناشر)
اس پر مجھے سخت قلق ہوا اور میں نے ان کی شفاء کے لئےاللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کی… سو جب مَیں دعا میں مشغول ہوا تو میں نے کچھ دنوں کے بعد خواب میں دیکھا کہ برادرمذکورپورے تندرست کی طرح بغیر سہارے کے مکان میں چل رہے ہیں چنانچہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے اُن کو شفاء بخشی اور وہ اس واقعہ کے بعد پندرہ ؎۱برس تک زندہ رہے.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۹۵) ۱۸۶۸ء(تخمیناً) ’’ایک شخص سہج رام نام امرتسر کی کمشنری میں سر رشتہ دار تھا اور پہلے وہ ضلع سیالکوٹ میں صاحب ڈپٹی کمشنر کا سر رشتہ دار تھا اور وہ مجھ سے ہمیشہ مذہبی بحث رکھا کرتا تھا اور دین ِ اسلام سے فطرتاً ایک کینہ رکھتا تھا اور ایسا اتفاق ہوا کہ میرے ایک بڑے بھائی تھے.انہوں نے تحصیلداری کا امتحان دیا تھا اور امتحان میں پاس ہوگئے تھے اوروہ ابھی گھر میں قادیان میں تھے اور نوکری کے امیدوار تھے.ایک دن مَیں اپنے چوبارہ میں عصر کے وقت قرآن شریف پڑھ رہا تھا جب مَیں نے قرآن شریف کا دوسرا صفحہ اُلٹانا چاہا تو اسی حالت میں میری آنکھ کشفی رنگ پکڑ گئی اور میں نے دیکھا کہ سہج رام سیاہ کپڑے پہنے ہوئے اور عاجزی کرنے والوں کی طرح دانت نکالے ہوئے میرے سامنے آکھڑا ہوا جیسا کہ کوئی کہتا ہے کہ میرے پر رحم کرادو.مَیں نے اُس کو کہا کہ اب رحم کا وقت نہیں اور ساتھ ہی خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ اسی وقت یہ شخص فوت ہوگیا ہے اور کچھ خبر نہ تھی.بعد اس کے میں نیچے اترا اور میرے بھائی کے پاس چھ سات آدمی بیٹھے ہوئے تھے اور اُن کی نوکری کے بارہ میں باتیں کررہے تھے.میں نے کہا کہ اگر پنڈت سہج رام فوت ہوجائے تو وہ عہدہ بھی عمدہ ہے.ان سب نے میری بات سن کر قہقہہ مارکر ہنسی کی کہ کیا چنگے بھلے کو مار تے ہو.دوسرے دن یا تیسرے دن خبر آگئی کہ اُسی گھڑی سہج رام ناگہانی موت سے اِس دنیا سے گزر گیا.‘‘ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۰۹) ۱۸۶۸ء یا ۱۸۶۹ء (الف) ’’ ۱۸۶۸ء یا ۱۸۶۹ء میں بھی ایک عجیب الہام اردو میں ہوا تھا… اور تقریب اِس الہام کی یہ پیش آئی تھی کہ مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی کہ جو کسی زمانہ میں اس عاجز کے ہم مکتب بھی تھے جب نئے نئے مولوی ہوکر بٹالہ میں آئے اور بٹالیوں کو اُن کے خیالات گراں گزرے تو تب ایک شخص نے مولوی صاحب ممدوح سے کسی اختلافی مسئلہ میں بحث کرنے کے لئے اس ناچیز کو بہت مجبور کیا.چنانچہ اُس کے کہنے کہانے سے یہ عاجز شام کے وقت اُس شخص کے ہمراہ مولوی صاحب ممدوح کے مکان پر گیا اور مولوی صاحب کو معہ ان ۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) میرزا غلام قادر صاحب کی وفات۱۸۸۳ ء میں ہوئی تھی.(کتاب رؤسائے پنجاب)
کے والد صاحب کے مسجد میں پایا.پھر خلاصہ یہ کہ اس احقر نے مولوی صاحب موصوف کی اس وقت کی تقریر کو سن کر معلوم کرلیا کہ ان کی تقریر میں کوئی ایسی زیادتی نہیں کہ قابلِ اعتراض ہو اس لئے خاص اللہ کے لئے بحث کو ترک کیا گیا.رات کو خداوند ِ کریم نے اپنے الہام اور مخا طبت میں اُسی ترکِ بحث کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ تیرا خدا تیر ے اس فعل سے راضی ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.پھر بعد اس کے عالمِ کشف میں وہ بادشاہ دکھلائے گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے.چونکہ خا لصاً خدا اور اس کے رسول کے لئے انکسار اور تذلل اختیار کیا گیا اس لئے اس محسنِ مطلق نے نہ چاہا کہ اُس کو بغیر اجر کے چھوڑے.‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱صفحہ ۶۲۱،۶۲۲ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳) (ب) ’’مجھے اللہ جلّ شانہٗنے یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ وہ بعض امراء اور ملوک کو بھی ہمارے گروہ میں داخل کرے گا اور مجھے اس نے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا.یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت۱؎ ڈھونڈیں گے.‘‘ (برکات الدعا۲؎.روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۳۵) (ج) ’’عالم کشف میں مجھے وہ بادشاہ دکھلائے گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے اورکہا گیا کہ یہ ہیں جو اپنی گردنوں پر تیری اطاعت کا جُوا اُٹھائیں گے اورخداانہیں برکت دے گا.‘‘ (تجلّیاتِ الٰہیہ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۰۹ حاشیہ) (د) ’’اِنِّیْ۳؎ رَاَیْتُ فِیْ مُبَشِّـرَۃٍ اُرِیْتُـھَا جَـمَاعَۃً مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ الْمُخْلِصِیْنَ وَالْمُلُوْکِ الْعَادِ لِیْنَ ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.’’یہ برکت ڈھونڈنے والے بیعت میں داخل ہوں گے اور ان کے بیعت میں داخل ہونے سے گویا سلطنت بھی اس قوم کی ہوگی.پھر مجھے کشفی رنگ میں وہ بادشاہ دکھائے بھی گئے.وہ گھوڑوں پر سوار تھے اور چھ سات سے کم نہ تھے.‘‘ (الحکم مورخہ ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۰۲ ء صفحہ ۱۰ ) ۲ نیز ’’ قادیان کے آریہ اور ہم.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۲۰‘‘ (ناشر) ۳ (ترجمہ از مرتّب) میں نے ایک مبشر خوا ب میں مخلص مومنوں اور عادل اور نیکوکار بادشاہوں کی ایک جماعت دیکھی
الصَّالِـحِیْنَ.بَعْضُھُمْ مِّنْ ھٰذَا الْمُلْکِ وَبَعْضُہُمْ مِّنَ الْعَرَبِ وَبَعْضُہُمْ مِّنْ فَارِسَ وَ بَعْضُہُمْ مِّنْ بِلَادِ الشَّامِ وَ بَعْضُہُمْ مِّنْ اَرْضِ الرُّوْمِ وَ بَعْضُہُمْ مِّنْ بِلَادٍ لَّا اَعْرِفُھَا ثُمَّ قِیْلَ لِیْ مِنْ حَضْرَۃِ الْغَیْبِ اِنَّ ھٰٓؤُ لَاءِ یُصَدِّقُوْنَکَ وَ یُؤْ مِنُوْنَ بِکَ وَیُصَلُّوْنَ عَلَیْکَ وَیَدْ عُوْنَ لَکَ وَاُعْطِیْ لَکَ بَرَکَاتٍ حَتّٰی یَتَبَرَّکَ الْمُلُوْکُ بِثِیَابِکَ وَ اُدْخِلُھُمْ فِی الْمُخْلِصِیْنَ.ھٰذَا رَاَیْتُ فِی الْمَنَامِ وَاُلْھِمْتُ مِنَ اللّٰہِ الْعَلَّامِ.‘‘ (لُـجّۃ النّور.روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحہ ۳۳۹،۳۴۰) ۱۸۷۰ء (الف) ’’عرصہ تخمیناًبارہ برس کا ہوا ہے کہ ایک ہندو ؎۱ صاحب کہ جو اَب آریہ سماج قادیان کے ممبر اور صحیح و سلامت موجود ہیں.حضرت خاتم الرّسل صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اور آنجناب کی پیشین گوئیوں سے سخت منکر تھا… اس ہندو صاحب کا ایک عزیز ؎۲کسی ناگہانی پیچ میں آکر قید ہوگیا اور اُس کے ہمراہ ایک اور ہندو؎۳ بھی قید ہوا اور اُن دونوں کا چیف کورٹ میں اپیل گزرا.اُس حیرانی اور سرگردانی کی حالت میں ایک دن اُس آریہ صاحب نے مجھ سے یہ بات کہی کہ غیبی خبر اِسے کہتے ہیں کہ آج کوئی یہ بتلاسکے کہ اس ہمارے مقدمہ کا انجام کیا ہے… تب میرے دل میں خدا کی طرف سے یہی جوش ڈالا گیا کہ خدا اُس کو اسی مقدمہ میں شرمندہ اور لاجواب کرے اور مَیں نے دعا کی کہ اے خداوند ِ کریم تیرے نبی کریمؐ کی عزت اور عظمت سے یہ شخص سخت منکر ہے اور تیرے نشانوں اور پیشین گوئیوں سے جو تُونے اپنے رسول پر ظاہر فرمائیں سخت انکاری ہے اور اس مقدمہ کی آخری حقیقت کھلنے سے یہ لاجواب ہوسکتا ہے اور تو ہربات پر قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے اور کوئی امر تیرے علم محیط سے مخفی نہیں.تب خدا نے جو اپنے سچے دین اسلام کا حامی ہے اور اپنے رسولؐ کی عزت اور عظمت چاہتا ہے رات کے بقیہ ترجمہ.جن میں سے بعض اسی ملک (ہند ) کے تھے اور بعض عرب کے.بعض فارس کے اور بعض شام کے بعض روم کے اور بعض دوسرے بلاد کے تھے جن کو مَیں نہیں جانتا.اس کے بعد مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا کہ یہ لوگ تیری تصدیق کریں گے اور تجھ پر ایمان لائیں گے اور تجھ پر درود بھیجیں گے اورتیرے لئے دعائیں کریں گے اور میں تجھے بہت برکتیں دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اور میں ان کو مخلصوں میں داخل کروں گا.یہ وہ خواب ہے جو میں نے دیکھی اور وہ الہام ہے جو خدائے علّام کی طرف سے مجھے ہوا.۱ لالہ شرمپت (مرزا بشیر احمد) ۲ لالہ بشمبر داس (مرزا بشیر احمد) ۳ خوشحال چَند نامی (مرزا بشیر احمد)
وقت رؤیا میں کُل حقیقت مجھ پر کھول دی اور ظاہر کیا کہ تقدیرِ الٰہی میں یوں مقدّر ہے کہ اس کی مثل چیف کورٹ سے عدالت ِ ماتحت میں پھر واپس آئے گی اور پھر اس عدالت ِ ماتحت میں نصف قید اُس کی تخفیف ہوجائے گی مگر بَری نہیں ہوگا اور جو اُس کا دوسرا رفیق ہے وہ پوری قید بُھگت کر خلاصی پائے گا اور بَری وہ بھی نہیں ہوگا.پس میں نے اِس خواب سے بیدار ہوکر اپنے خداوند ِ کریم کا شکر کیا جس نے مخالف کے سامنے مجھ کو مجبور ہونے نہ دیا اور اسی وقت مَیں نے یہ رؤیاایک جماعتِ کثیر کو سنا دیا اور اُس ہندو صاحب کو بھی اُسی دن خبر کردی.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ سوم.روحانی خزائن جلد ۱صفحہ ۲۷۷ تا ۲۷۹ حاشیہ در حاشیہ نمبر۱) (ب) ’’ بشمبر داس بقید ایک سال مقید ہوگیا تھا اور اس کے بھائی شرمپت نام نے جو سرگرم آریہ ہے مجھ سے دعا کی التجا کی تھی اور نیز یہ پوچھا تھا کہ اس کا انجام کیا ہوگا.مَیں نے دعا کی اور کشفی نظر سے مَیں نے دیکھا کہ مَیں اس دفتر میں گیا ہوں جہاں اس کی قید کی مثل تھی.مَیں نے اس مثل کو کھولا اور برس کا لفظ کاٹ کر اُس کی جگہ چھ مہینے لکھ دیا اور پھر مجھے الہامِ الٰہی سے بتلایا گیا کہ مثل چیف کورٹ سے واپس آئے گی اور برس کی جگہ چھ مہینے رہ جائے گی لیکن بَری نہیں ہوگا.چنانچہ میں نے یہ تمام کشفی واقعات شرمپت آریہ کو جو اَب تک زندہ موجود ہے نہایت صفائی سے بتلادیئے.اور جب میں نے بتلایا اور بعینہٖ وہ باتیں ظہور میں آگئیں تو اُس نے میری طرف لکھا کہ آپ خدا کے نیک بندے ہو اس لئے اُس نے آپ پر غیب کی باتیں ظاہر کردیں.‘‘ (سراج منیر.روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۳۷) ۱۸۷۰ء (تخمیناً) (الف) ’’ اِس رؤیاصادقہ میں کہ ایک کشفِ صریح کی قسم تھی یہ معلوم کرایا گیا تھا کہ ایک کھتری ہندو بشمبر داس نامی جو اَ ب تک قادیان میں بقیدِ حیات موجو دہے مقدمہ فوجداری سے بَری نہیں ہوگا مگر آدھی قید تخفیف ہوجائے گی لیکن اُس کا دُوسرا ہم قید خوشحال نامی کہ وہ بھی اب تک قادیان میں زندہ موجود ہے ساری قید بھگتے گا.سو اِس جُزوِ کشف کی نسبت یہ ابتلا پیش آیا کہ جب چیف کورٹ سے حسبِ پیشگوئی ایں عاجز مثل مقدمہ مذکورہ واپس آئی تو متعلّقینِ مقدّمہ نے اُس واپسی کو بریت پر حمل کرکے گانوءں میں یہ مشہور کردیا کہ دونوں ملزم جُرم سے بَری ہوگئے ہیں.مجھ کو یاد ہے کہ رات کے وقت میں یہ خبر مشہور ہوئی اور یہ عاجز مسجد میں عشاء کی نماز پڑھنے کو طیار تھا کہ ایک نے نمازیوں میں سے بیان کیا کہ یہ خبر بازار میں پھیل رہی ہے اور ملزمان گانوءںمیں آگئے ہیں.سو چونکہ یہ عاجز علانیہ لوگوں میں کہہ چکا تھا کہ دونوں مجرم ہرگز جرم سے بَری نہیں ہوں گے اِس لئے جو کچھ غم
اور قلق اور کرب اُس وقت گزرا سو گزرا.تب خدا نے کہ جو اِس عاجز بندہ کا ہریک حال میں حامی ہے نماز کے اوّل یا عین نمازمیں بذریعہ الہام یہ بشارت دی لَاتَـخَفْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی؎۱ اور پھر فجر کو ظاہر ہوگیا کہ وہ خبر بَری ہونے کی سراسر جھوٹی تھی اورانجام کار وہی ظہور میں آیا کہ جو اِس عاجز کو خبر دی گئی تھی جس کو شرمپت نامی ایک آریہ اور چنددوسرے لوگوں کے پاس قبل از وقوع بیان کیا گیا تھا.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۵۷،۶۵۸ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۴ ) (ب) ’’جب بشمبر داس کی قید کی نسبت چیف کورٹ میں اپیل دائر کیا گیا تو نمازِ عشاء کے وقت جب مَیں اپنی بڑی مسجد؎۲ میں تھا علی محمدنام ایک مُلّاں ساکن قادیان نے جو اَب تک زندہ اورہمارے سلسلہ کا مخالف ہے میرے پاس آکر بیان کیا کہ اپیل منظورہوگئی اور بشمبرداس بَری ہوگیا اور کہا کہ بازار میں اِس خوشی کا ایک جوش برپا ہے.تب اس غم سے میرے پر وہ حالت گزری جس کو خدا جانتا ہے.اُس غم سے مَیں محسوس نہیں کرسکتا تھا کہ میں زندہ ہوں یا مر گیا.تب اسی حالت میں نماز شروع کی گئی.جب میں سجدہ میں گیا تب مجھے یہ الہام ہوا.لَاتَـحْزَنْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی یعنی غم نہ کر تجھی کو غلبہ ہوگا.تب میں نے شرمپت کو اس سے اطلاع دی اور حقیقت یہ کھلی کہ اپیل صرف لیا گیا ہے یہ نہیں کہ بشمبرداس بَری کیا گیا ہے.‘‘ (قادیان کے آریہ اور ہم.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۳۶) ۱۸۷۱ء( تخمیناً) ’’تیس برس سے زیادہ عرصہ ہوا جب میں تپ سے سخت بیمار ہوا.اس قدر شدید تپ مجھے چڑھی ہوئی تھی کہ گویا بہت سے انگارے سینے پر رکھے ہوئے معلوم ہوتے تھے.اِس اثنائے میں مجھے الہام ہوا.وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ.‘‘ ۳؎ (الحکم جلد ۶ نمبر ۲۸ مورخہ۱۰؍ اگست۱۹۰۲ء صفحہ ۱۱ کالم نمبر ۲) ۱ (ترجمہ از مرتّب) خوف مت کر تُو ہی غالب رہے گا.۲ مسجد اقصٰی (شمس) ۳ (ترجمہ از مرتّب) اور جو وجود لوگوں کے لئے نفع رساں ہو وہ زمین پر زیادہ دیر تک قائم رہتا ہے.
۱۸۷۲ء (تخمیناً) ’’مولانا مولوی عبد الکریم صاحب نے ایک خواب اپنا عرض کیا جس میں انہوں نے بجلی دیکھی تھی.اس پر حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ شاید کوئی ۳۰ برس کا عرصہ گذرا ہوگا کہ مَیں نے بھی ایک خواب دیکھا کہ اَب جس مقام پر مدرسہ کی عمارت ہے وہاں بڑی کثرت سے بجلی چمک رہی ہے.بجلی چمکنے کی یہ تعبیر ہوتی ہے کہ وہاں آبادی ہوگی.‘‘ (البدر جلد ۱ نمبر۸ مورخہ ۱۹ دسمبر۱۹۰۲ء صفحہ ۵۸ کالم نمبر۳) ۱۸۷۲ء (تخمیناً) ’’تخمیناً دس برس کا عرصہ ہوا ہے جو میں نے خواب میں حضرت مسیح علیہ السلام کو دیکھا اور مسیح نے اور مَیں نے ایک جگہ ایک ہی برتن میں کھانا کھایا اور کھانے میں ہم دونوں ایسے بے تکلّف اور بامحبت تھے کہ جیسے دو حقیقی بھائی ہوتے ہیں اور جیسے قدیم سے دو رفیق اور دلی دوست ہوتے ہیں اور بعد اُس کے اسی مکان میں جہاں اَب یہ عاجز اس حاشیہ کو لکھ رہا ہے مَیں اور مسیح اور ایک اور کامل اور مکمل سیّد آلِ رسولؐ دالان میں خوش دلی سے ایک عرصہ تک کھڑے رہے اور سیّد صاحب کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا.اُس میں بعض افرادِ خاصۂ اُمّتِ محمدیہ کے نام لکھے ہوئے تھے اور حضرت ِ خداوند تعالیٰ کی طرف سے اُن کی کچھ تعریفیں لکھی ہوئی تھیں.چنانچہ سیّد صاحب نے اس کاغذ کو پڑھنا شروع کیا جس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ مسیح کو اُمّت ِ محمدیہ کے اُن مراتب سے اطلاع دینا چاہتے ہیں کہ جو عنداللہ اُن کے لئے مقرر ہیں اور اُس کاغذ میں عبارت تعریفی تمام ایسی تھی کہ جو خالص خدائے تعالیٰ کی طرف سے تھی.سو جب پڑھتے پڑھتے وہ کاغذ اخیر تک پہنچ گیا اور کچھ تھوڑا ہی باقی رہا تب اِس عاجز کا نام آیا جس میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے یہ عبارت تعریفی عربی زبان میں لکھی ہوئی تھی.ھُوَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ و تَفْرِیْدِیْ فَکَادَ اَنْ یُّعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ.یعنی وہ مجھ سے ایسا ہے جیسے میری توحید اور تفرید سو عنقریب لوگوں میں مشہور کیا جائے گا.یہ اخیر فقرہ فَکَادَ اَنْ یُّعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ اسی وقت بطورِ الہام بھی القا ہوا.‘‘ (براہین احمدیہ حصہ سوم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۲۸۰،۲۸۱ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۱) ۱۸۷۲ء (تخمیناً) (الف) ’’ایک دفعہ میں نے باوا نانک صاحب کو خواب میں دیکھا کہ اُنہوں نے اپنے تئیں مسلمان ظاہر کیا ہے؎۱ اور میں نے دیکھا کہ ایک ہندو ان کے چشمہ سے پانی پی رہا ہے پس مَیں نے اس ہندو کو کہا کہ ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’میری خواب میں جو باوا نانک صاحب نے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا اس سے یہی مراد تھی کہ ایک زمانہ میں ان کا مسلمان ہونا پبلک پر ظاہر ہوجائے گا چنانچہ اِسی امر کے لیے کتاب سَت بچن تصنیف کی گئی تھی اور یہ جو مَیں نے ہندوؤں کو کہا کہ یہ چشمہ گدلا ہے ہمارے چشمہ سے پانی پیؤاس سے یہ مراد تھی کہ ایسا زمانہ
کہ یہ چشمہ گدلا ہے ہمارے چشمے سے پانی پیو.تیس برس کا عرصہ ہوا ہے جبکہ مَیں نے یہ خواب یعنی باوا نانک صاحب کو مسلمان دیکھا.اُسی وقت اکثر ہندوؤں کو سنایا گیا تھا اور مجھے یقین تھا کہ اس کی کوئی تصدیق پیدا ہوجائے گی چنانچہ ایک مدّت کے بعدوہ پیشگوئی بکمال صفائی پوری ہوگئی اور تین سو برس کے بعد وہ چولہ ہمیں دستیاب ہوگیا کہ جو ایک صریح دلیل باوا صاحب کے مسلمان ہونے پر ہے.یہ چولہ جو ایک قسم کا پیراہن ہے بمقام ڈیرہ نانک؎۱ باوا نانک صاحب کی اولاد کے پاس بڑی عزت اور حرمت سے بطور تبرک محفوظ ہے.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ ۵۸۱،۵۸۲) (ب) ’’یہ بھی یاد رہے کہ میں نے دو مرتبہ باوا نانک صاحب کو کشفی حالت میں دیکھا ہے اور اُن کو اِس بات کا اقراری پایا ہے کہ انہوں نے اُسی نُور سے روشنی حاصل کی ہے.فضولیاں اور جھوٹ بولنا مُردار خوروں کا کام ہے.مَیں وہی کہتا ہوں کہ جو میں نے دیکھا ہے.اسی و جہ سے میں باوا نانک صاحب کو عزت کی نظرسے دیکھتا ہوں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ وہ اُس چشمے سے پانی پیتے تھے جس سے ہم پیتے ہیں اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ مَیں اُس معرفت سے بات کررہا ہوں کہ جو مجھے عطا کی گئی ہے.‘‘ (از اشتہار مورخہ ۱۸؍اپریل ۱۸۹۷ء.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ ۲۷۶ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۱۸۷۲ء (قریباً) ’’مارٹن کلارک والے مقدّمہ سے قریباً پچیس سال پہلے میں ایک دفعہ خواب میں دیکھ چکا تھا کہ مَیں ایک عدالت میں کسی حاکم کے سامنے حاضر ہوں اور نماز کا وقت آگیا ہے تو مَیں نے اُس حاکم سے نماز کے لئے اجازت طلب کی تو اُس نے کشادہ پیشانی سے مجھے اجازت دی.چنانچہ اِس کے مطابق اس مقدمہ میں عین دورانِ مقدمہ میں جبکہ مَیں نے کپتان ڈگلس سے نماز کے لئے اجازت چاہی تو اس نے بڑی خوشی سے مجھے اجازت دے دی.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۸۸) ۱۸۷۲ء(قریباً) ’’ مَیں نے ایک دفعہ خواب دیکھا کہ بٹالہ کے مکانات میں ایک حویلی ہے اُس میں ایک سیاہ کمبل پر میں بیٹھا ہوں اور لباس بھی کمبل ہی کی طرح پہنا ہوا ہے گویا کہ دنیا سے الگ ہوا ہوں.اتنے میں ایک لمبے قد کا شخص آیا اور مجھے پوچھتا ہے کہ میرزا غلام احمد غلام مرتضیٰ کا بیٹا کہاں ہے؟ مَیں نےکہا بقیہ حاشیہ.آنے والا ہے کہ اہلِ ہنود اور سکّھوں پر اِسلام کی حقّانیت صاف طور سے کھل جائے گی اورباوا صاحب کا چشمہ جس کو حال کے سکّھوں نے اپنی کم فہمی سے گدلا بنا رکھا ہے وہ میرے ذریعہ صاف کیا جائے گا.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۵۸۳) ۱ ضلع گورداسپور (شمس)
مَیں ہوں.کہنے لگا کہ مَیں نے آپ کی تعریف سنی ہے کہ آپ کو اسرار دینی اور حقائق اور معارف میں بہت دخل ہے، یہ تعریف سن کر ملنے آیا ہوں.مجھے یاد نہیں کہ مَیں نے کیا جواب دیا.اِس پر اُس نے آسمان کی طرف منہ کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور بہہ کر رخسار پر پڑتے تھے.ایک آنکھ اُوپر تھی اور ایک نیچے اور اس کے منہ سے حسرت بھرے یہ الفاظ نکل رہے تھے.’’ تہی دستانِ عشرت را ‘‘ اس کا مطلب میں نے یہ سمجھا کہ یہ مرتبہ انسان کو نہیں ملتا جب تک کہ وہ اپنے اوپر ایک ذبح اور موت وارد نہ کرے.اس مقام پر عرب؎۱ صاحب نے حضرت کا یہ شعر پڑھا جس میں یہ کلمہ منسلک تھا کہ مے خواہدنگارِ من تہیدستانِ عشرت را ؎۲ حضرت نے فرمایا کہ ’’ میں نے پھر اس کلمہ کو اس مصرعہ میں جوڑ دیا کہ یاد رہے.‘‘ (البدر۳؎ جلد ۲ نمبر ۳ مورخہ ۶؍ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۸، ۱۹ ) ۱۸۷۳ء (تخمیناً) ’’مَیں مرزا صاحب (والد صاحب) کے وقت میں زمینداروں کے ساتھ ایک مقدمہ پر امرتسر میں کمشنر کی عدالت میں تھا.فیصلہ سے ایک دن پہلے کمشنر زمینداروں کی نہایت رعایت کرتا ہوا اور ان کی شرارتوں کی پرواہ نہ کرکے عدالت میں کہتا تھا کہ یہ غریب لوگ ہیں تم ان پر ظلم کرتے ہو.اس رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ وہ انگریز ایک چھوٹے سے بچہ کی شکل میں میرے پاس کھڑا ہے اور میں اس کے سر پر ہاتھ پھیر رہا ہوں.صبح کو جب ہم عدالت میں گئے تو اُس کی حالت ایسی بدلی ہوئی تھی کہ گویا وہ پہلا انگریز ہی نہ تھا.اُس نے زمینداروں کو بہت ہی ڈانٹا اور مقدّمہ ہمارے حق میں فیصلہ کیا اور ہمارا سارا خرچہ بھی اُن سے دلایا.‘‘ (الحکم جلد۵نمبر۲۲ مورخہ ۱۷؍جون ۱۹۰۱ء صفحہ ۳) ۱۸۷۴ء (قریباً) ’’مَیں نے خواب میں ایک فرشتہ ایک لڑکے کی صورت میں دیکھا جو ایک اونچے چبوترے پر بیٹھا ہوا تھا اور اُس کے ہاتھ میں ایک پاکیزہ نان تھا جو نہایت چمکیلا تھا؎۴، وہ نان اُس نے مجھے دیا اور کہا کہ ۱ ابوسعید صاحب (مرزا بشیر احمد) ۲ (ترجمہ از مرتّب) کیوں کہ میرا محبوب آرام طلبی کی زندگی سے الگ رہنے والے لوگوں کو دوست رکھتا ہے.۳ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۲۴؍جنوری ۱۹۰۳ ء صفحہ ۸ میں بھی یہ خواب باختلافِ الفاظ درج ہے.۴ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’اور بہت بڑا تھا گویا چارنان کے مقدار پر تھا.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۹۰)
یہ تیرے لئے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہے.یہ اُس زمانہ کی خواب ہے جبکہ مَیں نہ کوئی شہرت اور نہ کوئی دعویٰ رکھتا تھا اور نہ میرے ساتھ درویشوں کی کوئی جماعت تھی مگر اب میرے ساتھ بہت سی وہ جماعت ہے جنہوں نے خود دین کو دنیا پر مقدم رکھ کر اپنے تئیں درویش بنادیا ہے اور اپنے وطنوں سے ہجرت کرکے اور اپنے قدیم دوستوں اور اقارب سے علیحدہ ہوکر ہمیشہ کے لئے میری ہمسائیگی میںآ آباد ہوئے ہیں.اور نان سے میں نے یہ تعبیر کی تھی کہ خدا ہمارا اور ہماری جماعت کا آپ متکفّل ہوگا اور رزق کی پریشانگی ہم کو پراگندہ نہیں کرے گی.چنانچہ سالہائے دراز سے ایسا ہی ظہور میں آرہا ہے.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۸۴، ۵۸۵) ۱۸۷۴ء (قریباً) ’’ مجھے خواب میں دکھلایا گیا کہ ایک بڑی لمبی نالی ہے کہ جو کئی کوس تک چلی جاتی ہے اور اُس نالی پر ہزار ہا بھیڑیں لٹائی ہوئی ہیں اس طرح پر کہ بھیڑوں کا سر نالی کے کنارہ پر ہے.اِس غرض سے کہ تا ذبح کرنے کے وقت اُن کا خون نالی میں پڑے اور باقی حصّہ اُن کے وجود کا نالی سے باہر ہے اور نالی شرقاً غرباً واقع ہے اور بھیڑوں کے سر نالی پر جنوب کی طرف سے رکھے گئے ہیں اور ہر ایک بھیڑ پر ایک قصاب بیٹھا ہے اور اُن تمام قصابوں کے ہاتھ میں ایک ایک چھری ہے جوہر ایک بھیڑ کی گردن پر رکھی ہوئی ہے اور آسمان کی طرف اُن کی نظر ہے.گویا خدا تعالیٰ کی اجازت کے منتظر ہیں اور مَیں اُس میدان میں شمالی طرف پھر رہا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ وہ لوگ جو دراصل فرشتے ہیں بھیڑوں کے ذبح کرنے کے لئے مستعد بیٹھے ہیں.محض آسمانی اجازت کی انتظار ہے تب میں ان کے نزدیک گیا اور میں نے قرآن شریف کی یہ آیت پڑھی.قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْ لَا دُعَآ ؤُکُمْ یعنی ان کو کہہ دے کہ میرا خدا تمہاری پروا کیا رکھتا ہے اگر تم اس کی پرستش نہ کرو اور اس کے حکموں کو نہ سنو.اور میرا یہ کہنا ہی تھا کہ فرشتوں نے سمجھ لیا کہ ہمیں اجازت ہوگئی.گویا میرے منہ کے لفظ خدا کے لفظ؎ ۱ تھے.تب فرشتوں نے جو قصابوں کی شکل میں بیٹھے ہوئے تھے فی الفور اپنی بھیڑوں پر چھریئیں پھیر دیں اور ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.’’معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ خلیفہ جو ہوتا ہے وہ آسمان سے ہوتا ہے اس لئے میں نے جو آواز دی تو انہوں نے سمجھا کہ حکم ہوگیا اور جو آواز آسمان سے آنی تھی وہ میں نے کہی.‘‘ (البدر مورخہ ۱۶؍ جنوری ۱۹۰۳ ء صفحہ ۹۰)
چھریوں کے لگنے سے بھیڑوں نے ایک درد ناک طور پر تڑپنا شروع کیا.تب اُن فرشتوں نے سختی سے ان بھیڑوں کی گردن کی تمام رگیں کاٹ دیں اور کہا کہ تم چیز کیا ہو گوہ کھانے والی بھیڑیں ہی ہو.مَیں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ ایک سخت وبا ہوگی اور اس سے بہت لوگ اپنی شامتِ اعمال سے مریں گے اور میں نے یہ خواب بہتوں کو سنادی جن میں سے اکثر لوگ اب تک زندہ ہیں اور حلفاً بیان کرسکتے ہیں.پھر ایسا ہی ظہور میں آیا اور پنجاب اور ہندوستان اور خاص کر امرتسر اور لاہور میں اس قدر ہیضہ پھوٹا کہ لاکھوں جانیں اس سے تلف ہوئیں اور اس قدر موت کا بازار گرم ہوا کہ مُردوں کو گاڑیوں پر لادکر لے جاتے تھے اور مسلمانوں کا جنازہ پڑھنا مشکل ہوگیا.‘‘ (تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵صفحہ ۲۶۳،۲۶۴) ۱۸۷۵ء (قریباً) ’’فطرتاً بعض طبائع کو بعض طبائع سے مناسبت ہوتی ہے.اسی طرح میری روح اور سیّد عبد القادر کی روح کو خمیر فطرت سے باہم ایک مناسبت ہے.جس پر کشوفِ۱؎ صحیحہ صریحہ سے مجھ کو اطلاع ملی ہے.اِس بات پر تیس برس کے قریب زمانہ گذر گیا ہےکہ جب ایک رات مجھے خدا نے اطلاع دی کہ اُس نے مجھے اپنے لئے اختیار کرلیا ہے.تب یہ عجیب اتفاق ہوا کہ اُسی رات ایک بڑھیا کو خواب آئی جس کی عمر قریباً اَسّی برس کی تھی اور اُس نے صبح مجھ کو آکر کہا کہ میں نے رات سیّد عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کو خواب میں دیکھا ہے اور ساتھ اُن کے ایک اور بزرگ تھے اور دونوں سبز پوش تھے اور رات کے پچھلے حصہ کا وقت تھا.دوسرا بزرگ عمر میں اُن سے کچھ چھوٹا تھا.پہلے انہوں نے ہماری جامع مسجد میں نماز پڑھی اور پھر مسجد کے باہر صحن میں نکل آئے اور میں اُن کے پاس کھڑی تھی.اتنے میں مشرق کی طرف ایک چمکتا ہوا ستارہ نکلا تب اُس ستارہ کو دیکھ کر سیّد عبدالقادر بہت خوش ہوئے اور ستارہ کی طرف مخاطب ہوکر کہا.السَّلام علیکم اور ایسا ہی اُن کے رفیق نے السَّلام علیکم کہا.اور وہ ستارہ میں تھا.اَلْمُؤْمِنُ یَرٰی وَ یُرٰی لَہٗ.‘‘۲؎ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصّہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۲۲۴ حاشیہ) ۱۸۷۵ء (تخمیناً) ’’اس جگہ ایک نہایت روشن کشف یاد آیا اور وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ؎۳ نمازِ مغرب کے بعد عین ۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ ) اس جگہ ان کشوف کا تفصیلی ذکر نہیں ہے بلکہ ان کی طرف صرف اشارہ کیا گیا ہے.۲ (ترجمہ از ناشر) مومن کوئی رؤیا دیکھتا ہے یا اس کے بارہ میں کسی کو رؤیا دکھائی جاتی ہے.۳ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) کتاب البریّہ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۹۷، ۱۹۸کے حاشیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کشف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ کی وفات سےکسی قدر قبل کا ہے.
عین بیداری میں ایک تھوڑی سی غَیبتِ حِس سے جو خفیف سے نشاء سے مشابہ تھی ایک عجیب عالم ظاہر ہوا کہ پہلے یک دفعہ چند آدمیوں کے جلد جلد آنے کی آواز آئی جیسے بسُرعت چلنے کی حالت میں پانو کی جوتی اور موزہ کی آواز آتی ہے پھر اسی وقت پانچ آدمی نہایت وجیہہ اور مقبول اور خوبصورت سامنے آگئے یعنی جناب پیغمبرِخدا صلی اللہ علیہ وسلم و حضرت علی و حَسنَین و فاطمہ زَہرا رضی اللہ عنـہم اجمعین اور ایک نے اُن میں سے اور ایسا یاد پڑتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہانے نہایت محبت اور شفقت سے مادرِ مہربان کی طرح اس عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا.پھر بعد اس کے ایک کتاب مجھ کو دی گئی جس کی نسبت یہ بتلایا گیا کہ یہ تفسیر قرآن ہے.جس کو علی نے تالیف کیا ہے اور اب علی؎۱ وہ تفسیر تجھ کودیتا ہے.فَالْـحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ.‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۹۸،۵۹۹ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳ نیز دیکھئے تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۱۱۸) ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کشف کی بعض تفصیلات جو دوسری جگہ بیان فرمائی ہیں وہ درج ذیل ہیں.(الف) وَ کُنْتُ ذَاتَ یَوْمٍ فَرَغْتُ مِنْ فَرِیْضَۃِ الْمَسَآءِ وَ سُنَنِـھَا وَ اَنَا مُسْتَیْقِظٌ مَا اَخَذَنِیْ نَوْمٌ وَ لَا سِنَۃٌ وَمَا کُنْتُ مِنَ النَّائِـمِیْنَ.فَبَیْنَـمَا اَنَا کَذَالِکَ اِذَا سَمِعْتُ صَوْتَ صَکِّ الْبَابِ فَنَظَرْتُ فَاِذَا الْمُدَکُّوْنَ یَـاْتُوْنَنِیْ مُسَارِعِیْنَ.فَاِذَا دَنَوْا مِنِّیْ عَرَفْتُ أَنَّـہُمْ خَـمْسَۃٌ مُبَارَکَۃٌ أَعْنِیْ عَلِیًّا مَعَ ابْنَیْہِ وَ زَوْجَتِہِ الزَّھْرَاءُ وَسَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ.اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَ سَلِّمْ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ.وَ رَأَیْتُ أَنَّ الزَّھْرَاءَ وَضَعَتْ رَأْسِیْ عَلٰی فَـخِذِھَا وَ نَظَرَتْ بِنَظَرَاتِ تَـحَنُّنٍ کُنْتُ اَعْرِفُ فِیْ وَجْھِھَا فَفَھِمْتُ فِیْ نَفْسِیْ أَنَّ لِیْ نِسْبَۃٌ بِالْـحُسَیْنِ وَأُشَابِـھُہٗ فِیْ بَعْضِ صِفَاتِہٖ وَ سَوَانِـحِہٖ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَ ھُوَ اَعْلَمُ الْعَالَمِیْنَ.وَ رَاَیْتُ اَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُرِیْــنِیْ کِتَابًـا وَّ یَقُوْلُ ھٰذَا تَفْسِیْرُ الْقُرْاٰنِ اَنَا اَلَّفْتُہٗ وَاَمَرَنِیْ رَبِّیْ اَنْ اُعْطِیَکَ.فَبَسَطْتُّ اِلَیْہِ یَدِیْ وَاَخَذْتُہٗ.وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَـرَیٰ وَ یَسْمَعُ وَ لَا یَتَکَلَّمُ کَاَ نَّہٗ حَزِیْنٌ لِّاَجْلِ بَعْضِ اَحْزَانِیْ.وَرَاَیْتُہٗ فَاِذَا الْوَجْہُ ھُوَ الْوَجْہُ الَّذِیْ رَاَیْتُ مِنْ قَبْلُ اَنَـارَتِ الْبَیْتُ مِنْ نُّورِہٖ.فَسُبْحَانَ اللّٰہِ خَالِقِ النُّوْرِ وَالنُّوْرَانِیِّیْنَ.‘‘ (آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۴۹،۵۵۰) (ترجمہ ازمرتّب) ایک روز میں نماز مغرب کے فرائض و سنن سے فارغ ہوا اور ابھی میں بیدار ہی تھا نہ تو مجھے نیند آئی تھی اور نہ میں اونگھ رہا تھا اور نہ ہی میں سویا ہوا تھا.میں اسی حالت میں تھا کہ میں نے دروازے کے بند کرنے کی آوازسنی.میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو چند آدمیوں کو تیز قدموں سے اپنی طرف آتے ہوئے پایا.پس جب وہ میرے قریب ہوئے تو میں نے انہیں پہچان لیا کہ وہ پنج تن پاک تھے یعنی علیؓ اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ اور اپنی بیوی فاطمۃ الزھراءؓکے ساتھ اورسید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم تھے.اے اللہ آپؐ اور آپؐ کی آل پر قیامت کے دن تک درود و سلام بھیج.
۱۸۷۶ء (قریباً) ’’حضرت والد صاحب کے زمانہ میں ہی جبکہ ان کا زمانہ وفات بہت نزدیک تھا ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بزرگ معمر پاک صورت مجھ کو خواب میں دکھائی دیا اور اُس نے یہ ذکر کر کے کہ کسی قدر بقیہ حاشیہ.اور میں نے دیکھا کہ فاطمۃ الزھراءؓ نے میرا سر اپنی ران پر رکھا اور انہوں نے مجھے شفقت سے دیکھا جو میں ان کے چہرہ سے پہچان رہا تھا.پس میں اس سے یہ سمجھا کہ مجھے حسینؓ کے ساتھ ایک نسبت ہے اور میں ان کی بعض صفات میں ان سے ملتا ہوں اور اللہ جانتا ہے اور وہ سب سے زیادہ جاننے والا ہے.میں نے دیکھا کہ علی رضی اللہ عنہ مجھے ایک کتاب دکھاتے اور کہتے ہیں کہ یہ قرآن کی تفسیر ہے جس کو میں نے تالیف کیا ہے اور مجھے خدا نے حکم دیا ہے کہ میں آپ کو دوں.تب میں نے ہاتھ بڑھا کر اسے لے لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ رہے تھے اور سن رہے تھے مگر آپؐ بولتے نہیں تھے گویا آپؐ میرے بعض غموں کی وجہ سے غمگین تھے اور میں نے جب آپؐ کو دیکھا تو آپؐ کا وہی چہرہ تھا جو میں نے پہلے دیکھا تھا آپؐ کے نور سے گھر روشن ہوگیا.پس پاک ہے وہ خدا جو نور اور نورانی وجودوں کا خالق ہے.(ب) ’’فَاَعْطَانِیْ تَفْسِیْرَ کِتَابِ اللّٰہِ الْعَلَّامِ وَقَالَ ھٰذَا تَفْسِیْرِیْ.وَالْاٰنَ اُوْلِیْتَ فَھُنِّیْتَ بِـمَا اُوْتِیْتَ فَبَسَطْتُّ یَدِیْ وَاَخَذْ.تُ التَّفْسِیْرَوَشَکَرْتُ اللّٰہَ الْمُعْطِیَ الْقَدِیْرَ.وَوَجَدْتُّہٗ ذَا خَلْقٍ قَوِیْمٍ وَّخُلْقٍ صَمِیْمٍ وَّمُتَوَاضِعًا مُّنْکَسِرًا وَّمُتَھَلِّلًا مُّنَوَّرًا.وَاَقُوْلُ حَلْفًا اَ نَّہٗ لَاقَانِیْ حِبًّا وَّ اَلْفًا.وَاُلْقِیَ فِیْ رُوْعِیْ اَنَّہٗ یَعْرِفُنِیْ وَعَقِیْدَتِیْ وَیَعْلَمُ مَا اُخَالِفُ الشِّیْعَۃَ فِیْ مَسْلَــکِیْ وَمَشْـرَبِیْ وَلٰکِنْ مَا شَـمَخَ بِاَنْفِہٖ عَنْفًا وَّ مَا نَـاٰ بِـجَانِبِہٖ اَنْفًا بَلْ وَافَانِیْ وَصَافَانِیْ کَالْمُحِبِّیْنَ الْمُخْلِصِیْنَ.وَاَظْھَرَ الْمَحَبَّۃَ کَالْمُصَافِیْنَ الصَّادِقِیْنَ.وَکَانَ مَعَہُ الْـحُسَیْنُ بَلِ الْـحَسَنَیْنِ وَسَیِّدُ الرُّسُلِ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ.وَکَانَتْ مَعَھُمْ فَتَاۃٌ جَـمِیْلَۃٌ صَالِـحَۃٌ جَلِیْلَۃٌ مُّبَارَکَۃٌ مُّطَھَّرَۃٌ مُّعَظَّمَۃٌ مُّوَقَّرَۃٌ بَاھِرَۃُ السُّفُوْرِ ظَاھِرَۃُ النُّوْرِ.وَ وَجَدْ تُّـھَا مُـمْتَلَأَ ۃً مِّنَ الْـحُزْنِ وَلٰکِنْ کَانَتْ کَاتِـمَۃً.وَ اُلْقِیَ فِیْ رُوْعِیْ اَنَّـھَا الزَّھْرَاءُ فَاطِـمَۃُ فَـجَاءَتْنِیْ وَ اَنَـا مُضْطَجِـــعٌ فَقَعَدَ تْ وَوَضَعَتْ رَاْسِیْ عَلٰی فَـخِذِھَا وَتَلَطَّفَتْ.وَرَاَیْتُ اَنَّـھَا لِبَعْضِ اَحْزَانِیْ تَـحْزُنُ وَتَضْجَرُ وَتَتَحَنَّنُ وَتَقْلَقُ کَاُمَّھَاتٍ عِنْدَ مَصَائِبِ الْبَنِیْنَ.فَعُلِّمْتُ اَنِّیْ نَزَلْتُ مِنْھَا بِـمَنْزِلَۃِ الْاِبْنِ فِیْ عُلَقِ الدِّیْنِ.وَخَطَرَ فِیْ قَلْبِیْ اَنَّ حُزْنَـھَا اِشَارَۃٌ اِلٰی مَا سَاَرٰی ظُلْمًا مِّنَ الْقَوْمِ وَاَھْلِ الْوَطَنَ وَالْمُعَادِیْنَ.ثُمَّ جَآءَنِی الْـحَسَنَانِ وَکَا نَا یُبْدِاٰنِ الْمَحَبَّۃَ کَا لْاِخْوَانِ.وَ وَافَیَانِیْ کَالْمُوَاسِیْنَ.وَکَانَ ھٰذَاکَشْفًا مِّنْ کُشُوْفِ الْیَقْظَۃِ وَقَدْ مَضَتْ عَلَیْہِ بُرْھَۃٌ مِّنْ سِنِیْنَ.‘‘ (سِـرّالـخلافۃ.روحانی خزائن جلد ۸ صفحہ ۳۵۸،۳۵۹) (ترجمہ از مرتّب) پس (حضرت علیؓ نے) مجھے کتاب اللہ کی تفسیر دی اور کہا کہ یہ میری تفسیر ہے اور اب آپ اس کے مستحق ہیں.آپ کو اس کتاب کا ملنا مبارک ہو.پھر میں نے ہاتھ بڑھا کر تفسیر لے لی اور اللہ کا شکر ادا کیا.میں نے آپ کو
روزے انوار سماوی کی پیشوائی کے لئے رکھنا سُنّتِ خاندانِ نبوت ہے.اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ میں اس سنت ِ اہلِ بیتِ رسالت کو بجا لاؤں.سو میں نے کچھ مدت تک التزامِ صوم کو مناسب سمجھا… اور اس قسم کے روزہ کے عجائبات میں سے جو میرے تجربہ میں آئے وہ لطیف مکاشفات ہیں جو اُس زمانہ میں میرے پر کھلے.چنانچہ بعض گذشتہ نبیوں کی ملاقاتیں ہوئیں اور جو اعلیٰ طبقہ کے اولیا اس اُمت میں گذر چکے ہیں اُن سے ملاقات ہوئی.ایک دفعہ عین بیداری کی حالت میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معہ حسنین و علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دیکھا اور یہ خواب نہ تھی بلکہ ایک بیداری کی قسم تھی غرض اسی طرح پر کئی مقدس لوگوں کی ملاقاتیں ہوئیں جن کا ذکر کرنا موجب تطویل ہے اور علاوہ اس کے انوار روحانی تمثیلی طور پر برنگ ستون سبز و سرخ ایسے دلکش ودلستان طور پر نظر آتے تھے.جن کا بیان کرنا بالکل طاقت ِ تحریر سے باہر ہے.وہ نورانی ستون جو سیدھے آسمان کی طرف گئے ہوئے تھے جن میں سے بعض چمکدار سفید اور بعض سبز اور بعض سرخ تھے ان کو دل سے ایسا تعلق تھا کہ ان کو دیکھ کر دل کو نہایت سرور پہنچتا تھا اور دنیا میں کوئی بھی ایسی لذّت نہیں ہوگی جیسا کہ ان کو دیکھ کر دل اور روح کو لذّت آتی تھی.میرے خیال میں ہے کہ وہ ستون خدا اور بندہ کی محبت کی ترکیب سے ایک تمثیلی صورت میں ظاہر کئے گئے تھے یعنی وہ ایک نور تھا جو دل سے نکلا اور دوسرا وہ نور تھا جو اوپر سے نازل ہوا اور دونوں کے ملنے سے ایک ستون کی بقیہ حاشیہ.خوب تنومند اور اعلیٰ اخلاق کا مالک پایا.متواضع منکسرالمزاج، چمکتے ہوئے روشن چہرہ والا.میں حلفاً کہتا ہوں کہ آپ مجھ سے بڑی محبت اور شفقت سے ملے اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ آپ مجھے پہچانتے ہیںاور آپ کو میرے عقیدہ کا بھی علم ہے اور آپ یہ بھی جانتے ہیںکہ میرا مسلک اور مشرب شیعوں کے مخالف ہے لیکن آپ اسے بُرا نہیں مناتے بلکہ آپ مجھ سے مخلص محبوں کی طرح ملے اور بڑی محبت کا اظہار کیا.آپ کے ساتھ حسنین اور سیّد الرسل خاتم النبیینؐ بھی تھے اور ان کے ساتھ ایک خوبصورت نوجوان عورت بھی جو صالحہ، عالی مرتبہ، نیک سیرت اور باوقار تھی جس کے چہرہ سے نور ٹپک رہا تھا اور میں نے اس کو غم سے بھرا ہوا پایا جسے وہ چھپا رہی تھی.میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ بی بی فاطمۃ الزہراء ہیں آپ میرے پاس آئیں.میں لیٹا ہوا تھا آپ بیٹھ گئیں اور میرا سر اپنی ران پر رکھا اور شفقت فرمانے لگیں.میں نے دیکھا کہ میرے بعض غموں کی و جہ سے آپ غمگین اور پریشان تھیں جیسے مائیں اپنے بیٹوں کے مصائب کے وقت پریشان ہوتی ہیں.پھر مجھے بتایا گیا کہ میری حیثیت دینی تعلق کے لحاظ سے بمنزلہ بیٹے کے ہے اور میرے دل میں یہ خیال آیا کہ آپ کے غم میں اس ظلم کی طرف اشارہ ہے جو مجھے قوم اور اہلِ وطن اور دشمنوں کی طرف سے پہنچنے والا ہے.پھر حسنین میرے پاس آئے اور دونوں مجھ سے بھائیوں کی طرح محبت کا اظہار کرتے تھے اور شفیق ہمدردوں کی طرح مجھے ملے اور یہ کشف بیداری والے کشوف میں سے تھا جس پر کئی سال گذر چکے ہیں.
کی صورت پیدا ہوگئی.یہ روحانی امور ہیں کہ دنیا اُن کو نہیں پہچان سکتی کیونکہ وہ دنیا کی آنکھوں سے بہت دور ہیں لیکن دنیا میں ایسے بھی ہیں جن کو ان امور سے خبر ملتی ہے.غرض اس مدت تک روزہ رکھنے سے جو میرے پر عجائبات ظاہر ہوئے وہ انواع اقسام کے مکاشفات تھے… لیکن میں ہر ایک کو یہ صلاح نہیں دیتا کہ ایسا کرے اور نہ میں نے اپنی مرضی سے ایسا کیا… یاد رہے کہ میں نے کشف ِ صریح کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ سے اطلاع پاکر جسمانی سختی کشی کا حصہ آٹھ یا نو ماہ تک لیا اور بھوک اور پیاس کا مزہ چکھا اور پھر اس طریق کو علی الدّوام بجالانا چھوڑدیا اور کبھی کبھی اس کو اختیار بھی کیا.‘‘ (کتاب البریّہ.روحانی خزائن جلد۱۳ صفحہ ۱۹۷ تا ۲۰۰ حاشیہ) ۱۸۷۶ء ’’ایک دفعہ میں نے فرشتوں کو انسان کی شکل پر دیکھا.یاد نہیں کہ دوتھے یا تین.آپس میں باتیں کرتے تھے اور مجھے کہتے تھے کہ تُو کیوں اس قدر مشقت اُٹھاتا ہے.اندیشہ ہے کہ بیمار نہ ہو جاوے.میں نے سمجھا کہ یہ جو ۶ ماہ کے روزے رکھے ہیں ان کی طرف اشارہ ہے.‘‘؎۱ (البدر؎۲ جلد۱نمبر ۱۲ مورخہ ۱۶؍ جنوری ۱۹۰۳ ء صفحہ ۹۰ ) جون۱۸۷۶ء ’’ جب حضرت والد صاحب کا انتقال ہوا مجھے ایک خواب میں بتلایا گیا تھا کہ اب ان کے انتقال کا وقت قریب ہے.میں اُس وقت لاہور میں تھا جب مجھے یہ خواب آیا تھا تب میں جلدی سے قادیان میں پہنچا اور اُن کو مرضِ زحیر میں مبتلا پایا لیکن یہ امید ہرگز نہ تھی کہ وہ دوسرے دن میرے آنے سے فوت ہوجائیں گے.کیونکہ مرض کی شدت کم ہوگئی تھی اور وہ بڑے استقلال سے بیٹھے رہتے تھے.دوسرے دن شدتِ دوپہر کے وقت ہم سب عزیز اُن کی خدمت میں حاضر تھے کہ مرزا صاحب نے مہربانی سے مجھے فرمایا کہ اس وقت تم ذرا آرام کرلو کیونکہ جون کا مہینہ تھا اور گرمی سخت پڑتی تھی.میں آرام کے لئے ایک چوبارہ میں چلا گیا اور ایک نوکر پیر دبانے لگا کہ اتنے میں تھوڑی سی غنودگی ہوکر مجھے الہام ہوا.وَالسَّمَآءِ وَالطَّا رِقِ ؎۳ ۱ اس مقام پر حضرت اقدسؑ نے اپنا واقعہ مجاہدہ اور ششماہی روزہ کا بیان فرمایا … (اور) فرمایا.’’ان روزوں کو میں نے مخفی طور پر رکھا.بعض دفعہ اظہار میں سلب ِ رحمت کا اندیشہ ہوتا ہے.‘‘ (البدر مورخہ ۱۶؍ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۰) ۲ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۱۷؍ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۵ میں یہ کشف باختلافِ الفاظ درج ہے.۳ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) دیکھئے ذکر ِ حبیب ؑ مؤ لفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ صفحہ ۲۲۴ مطبوعہ دسمبر ۱۹۳۶ء
یعنی قسم ہے آسمان کی جو قضاء و قدر کا مبدء ہے اور قسم ہے اُس حادثہ کی جو آج آفتاب کے غروب کے بعد نازل ہوگا.اور مجھے سمجھا یا گیا کہ یہ الہام بطور عزا پُرسی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور حادثہ یہ ہے کہ آج ہی تمہارا والد آفتاب کے غروب کے بعد فوت ہوجائے گا…… اور میرے والد صاحب اسی دن بعد غروب آفتاب فوت ہوگئے.‘‘ ؎۱ (کتاب البریّہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۹۲تا۱۹۵حاشیہ) جون ۱۸۷۶ء ’’جب مجھے حضرت والد صاحب مرحوم کی وفات کی نسبت اللہ جل شانہٗ کی طرف سے یہ الہام ہوا جو میں نے ابھی ذکر کیا ہے تو بشریت کی و جہ سے مجھے خیال آیا کہ بعض وجوہ آمدن حضرت والد صاحب کی زندگی سے وابستہ ہیں پھر نہ معلوم کیا کیا ابتلاء ہمیں پیش آئے گا.تب اُسی وقت یہ دوسرا الہام ہوا.اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَا فٍ عَبْدَہٗ یعنی کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیں ہے اور اس الہام نے عجیب سکینت اور اطمینان بخشا اور فولادی میخ کی طرح میرے دل میں دھنس گیا.پس مجھے اُس خدا ئے عزّوجلّ کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے اپنے اس مبشّرانہ الہام کو ایسے طور سے مجھے سچا کرکے دکھلایا کہ میرے خیال اور گمان میں بھی نہ تھا.میرا وہ ایسا متکفل ہوا کہ کبھی کسی کا باپ ہرگز ایسا متکفّل نہیں ہوگا.‘‘ (کتاب البریّہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۹۴، ۱۹۵ حاشیہ) ۱۸۷۶ء ’’بعض اوقات خواب یاکشف میں روحانی امور جسمانی شکل پر متشکل ہوکر مثل انسان نظر آجاتے ہیں.مجھے یاد ہے کہ جب میرے والد صاحب غَفَرَ اللہُ لَہٗ جو ایک معزز رئیس اور اپنی نواح میں عزت کے ساتھ مشہور تھے انتقال کرگئے تو اُن کے فوت ہونے کے بعد دوسرے یا تیسرے روز ایک عورت نہایت خوبصورت خواب میں مَیں نے دیکھی جس کا حُلیہ ابھی تک میری آنکھوں کے سامنے ہے اور اُس نے بیان کیا کہ میرا نام راؔنی ہے اور مجھے اشارات سے کہا کہ میں اس گھر کی عزت اور وجاہت ہوں اور کہا کہ میں چلنے کو تھی مگر تیرے لئے رہ گئی.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۲۰۵، ۲۰۶)؎۲ فرمایا ’’رؤیا میں عورت سے مراد اقبال اور فتح مندی اور تائید ِ الٰہی ہوتی ہے.‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر ۲۴ مؤرخہ۱۴؍جون۱۹۰۶ ء صفحہ۲ کالم نمبر ۳) ۱ (نوٹ از سیّد عبد الحی) حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کی وفات ۳ ؍جون ۱۸۷۶ء کو ہوئی تھی.۲ دیکھئے الحکم مورخہ ۱۰ ؍جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۲.(عبد اللطیف بہاولپوری)
۱۸۷۶ء ’’انہیں دنوں میں مَیں نے ایک نہایت خوبصورت مرد دیکھا اور میں نے اسے کہا کہ تم ایک عجیب خوبصورت ہو.تب اُس نے اشارہ سے میرے پر ظاہر کیا کہ میں تیرا بخت ِ بیدار ہوں.اور میرے اس سوال کے جواب میں کہ تُو عجیب خوبصورت آدمی ہے اُس نے یہ جواب دیا کہ ہاں میں درشنی آدمی ہوں.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۲۰۶)؎۱ ۱۸۷۷ء ’’ مرزا اعظم بیگ سابق اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر نے ہمارے بعض بے دخل شرکاء کی طرف سے ہماری جائداد کی ملکیت میں حصہ دار بننے کے لئے ہم پر نالش دائر کی اور ہمارے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم اپنی فتح یابی کا یقین رکھ کر جواب دہی میں مصروف ہوئے.میں نے جب اس بارہ میں دعا کی تو خدائے علیم کی طرف سے مجھے الہام ہوا کہ اُجِیْبُ کُلَّ دُعَآئِکَ اِلَّا فِیْ شُرَکَآ ئِکَ؎۲ پس میں نے سب عزیزوں کو جمع کرکے کھول کر سنادیا کہ خدائے علیم نے مجھے خبر دی ہے کہ تم اس مقدمہ میں ہرگز فتح یاب نہ ہوگے اس لئے اس سے دست بردار ہوجانا چاہیے لیکن انہوں نے ظاہری وجوہات اور اسباب پر نظر کرکے اور اپنی فتح یابی کو متیقن خیال کرکے میری بات کی قدر نہ کی اور مقدمہ کی پیروی شروع کردی اور عدالت ماتحت میں میرے بھائی کو فتح بھی ہوگئی.لیکن خدائے عالم الغیب کی وحی کے بر خلاف کس طرح ہوسکتا تھا بالآخر چیف کورٹ میں میرے بھائی کو شکست ہوئی اور اس طرح اس الہام کی صداقت سب پر ظاہر ہوگئی.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۹۰، ۵۹۱) ۱۸۷۷ء ’’میں تیری ساری دعائیں قبول کروں گا مگر شرکاء کے بارہ میں نہیں.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۵۴ ) ’’اُردو میں بھی الہام ہوا تھا جو یہی؎۳ فقرہ ہے.اس الہام میں جس قدر خدا نے اپنے اس عاجز بندہ کو عزت دی ۱ دیکھئے البدر مورخہ ۱۶ جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ ۴ و الحکم مورخہ ۱۰ جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۲.(سیّد عبد الحی ٔ) ۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) انجامِ آتھم.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۱۸۱ میں یہ الہام یوں مرقوم ہے یَا اَحْـمَدُ اُجِیْبُ کُلَّ دُعَآئِکَ اِلَّا فِیْ شُـرَکَآئِکَ.۳ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ)’’یہی ‘‘ کے لفظ سے مراد الہام ’’اُجِیْبُ کُلَّ دُعَآئِکَ اِلَّا فِیْ شُرَکَآئِکَ ‘‘ کا ترجمہ (میں تیری ساری دعائیں قبول کروں گا مگر شرکاء کے بارہ میں نہیں) ہے جسے حضورؑنے حقیقۃالوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۵۴کے متن میں درج فرمایا ہے اور وہیں سے لے کر یہاں درج کیا گیا ہے.
دی ہے وہ ظاہر ہے.ایسا فقرہ مقام محبت میں استعمال ہوتا ہے اورخاص شخص کے لئے استعمال ہوتا ہے ہر ایک کے لئے استعمال نہیں ہوتا ہے.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ۲۵۴ حاشیہ) ۱۸۷۷ء ’’ تخمیناً پندرہ یاسولہ سال کا عرصہ گذرا ہوگا یا شاید اس سے کچھ زیادہ ہوکہ اِس عاجز نے اسلام کی تائید میں آریوں کے مقابل پر ایک عیسائی کے مطبع میں جس کا نام رلیا رام تھا اور وہ وکیل بھی تھا اور امرتسر میں رہتا تھا اور اُس کا ایک اخبار بھی نکلتا تھا ایک مضمون بغرض طبع ہونے کے ایک پیکٹ کی صورت میں جس کی دونوں طرفیں کھلی تھیں، بھیجا، اور اُس پیکٹ میں ایک خط بھی رکھ دیا.چونکہ خط میں ایسے الفاظ تھے جن میں اسلام کی تائید اور دوسرے مذاہب کے بطلان کی طرف اشارہ تھا اور مضمون کے چھاپ دینے کے لئے تاکید بھی تھی اس لئے وہ عیسائی مخالفت ِ مذہب کی و جہ سے افروختہ ہوا اور اتفاقاً اُس کو دشمنانہ حملہ کے لئے یہ موقع ملا کہ کسی علیحدہ خط کا پیکٹ میں رکھنا قانوناً ایک جرم تھا جس کی اس عاجز کو کچھ بھی اطلاع نہ تھی اور ایسے جرم کی سزا میں قوانین ڈاک کے رُو سے پانسو روپیہ جرمانہ یا چھ ماہ تک قید؎۱ہے.سو اس نے مخبر بن کر افسرانِ ڈاک سے اس عاجز پر مقدمہ دائر کرادیا اور قبل اس کے جو مجھے اِس مقدمہ کی کچھ اطلاع ہو رؤیامیں اللہ تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ رلیا رام وکیل نے ایک سانپ میرے کاٹنے کے لئے مجھ کو بھیجا ہے اور میں نے اُسے مچھلی کی طرح تل کر واپس بھیج دیا ہے.میں جانتا ہوں کہ یہ اِس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آخر وہ مقدمہ جس طرز سے عدالت میں فیصلہ پایا وہ ایک ایسی نظیر ہے جو وکیلوں کے کام میں آسکتی ہے.غرض میں اِس جرم میں صدر ضلع گورداسپورہ میں طلب کیا گیا اور جن جن وکلاء سے مقدمہ کے لئے مشورہ لیا گیا اُنہوں نے یہی مشورہ دیا کہ بجز دروغ گوئی کے اور کوئی راہ نہیں اور یہ صلاح دی کہ اِس طرح اظہار دے دو کہ ہم نے پیکٹ میں خط نہیں ڈالا رلیا رام نے خود ڈال دیا ہوگا اور نیز بطور تسلی دہی کےکہا کہ ایسا بیان کرنے سے شہادت پرفیصلہ ہوجائے گا اور دو چار جھوٹے گواہ دے کر بریّت ہوجائے گی ورنہ صورت مقدمہ سخت مشکل ہے اور کوئی طریق رہائی نہیں مگر میں نے اُن سب کو جواب دیا کہ میں کسی حالت میں راستی کو چھوڑنا نہیں چاہتا جو ہوگا سو ہوگا.تب اُسی دن یا دوسرے دن مجھے ایک انگریز کی عدالت میں پیش کیا گیا اور میرے مقابل پر ۱ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) جس زمانہ کا یہ واقعہ ہے اُس زمانہ میں یہ قانون تھا.دیکھئے ۱۸۶۶ء کے ایکٹ نمبر ۱۴ دفعہ ۱۲، ۵۶ اور نیز گورنمنٹ آف انڈیا کے نوٹیفیکیشن نمبر ۲۴۲۴ مورخہ ۷؍دسمبر ۱۸۷۷ء دفعہ ۴۳.
ڈاک خانجات کا افسر بحیثیت سرکاری مدعی ہونے کے حاضر ہوا.اس وقت حاکم عدالت نے اپنے ہاتھ سے میرا اظہار لکھا اور سب سے پہلے مجھ سے یہی سوال کیا کہ کیا یہ خط تم نے اپنے پیکٹ میں رکھ دیا تھا اور یہ خط اور یہ پیکٹ تمہارا ہے.تب میں نے بلا توقف جواب دیا کہ یہ میرا ہی خط اور میرا ہی پیکٹ ہے اور میں نے اِس خط کو پیکٹ کے اندر رکھ کر روانہ کیا تھا.مگر میں نے گورنمنٹ کی نقصان رسانی محصول کے لئے بد نیتی سے یہ کام نہیں کیا بلکہ میں نے اِس خط کو اس مضمون سے کچھ علیحدہ نہیں سمجھا اور نہ اِس میں کوئی نج کی بات تھی.اس بات کو سنتے ہی خدا تعالیٰ نے اِس انگریز کے دل کو میری طرف پھیر دیا اور میرے مقابل پر افسر ڈاک خانجات نے بہت شور مچایا اور لمبی لمبی تقریریں انگریزی میں کیں جن کو میں نہیں سمجھتا تھا مگر اِس قدر میں سمجھتا تھا کہ ہر ایک تقریر کے بعد زبان انگریزی میں وہ حاکم نو.نو کرکے اُس کی سب باتوں کو ردّ کردیتا تھا.انجام کار جب وہ افسر مدعی اپنے تمام وجوہ پیش کرچکا اور اپنے تمام بخارات نکال چکا تو حاکم نے فیصلہ لکھنے کی طرف توجہ کی اور شاید سطر یا ڈیڑھ سطر لکھ کر مجھ کو کہا کہ اچھا آپ کے لئے رخصت.یہ سن کر میں عدالت کے کمرہ سے باہر ہوا اور اپنے محسن حقیقی کا شکر بجالایا جس نے ایک افسر انگریز کے مقابل پر مجھ کو ہی فتح بخشی اور میں خوب جانتا ہوں کہ اس وقت صدق کی برکت سے خدا تعالیٰ نے اُس بلا سے مجھ کو نجات دی.میں نے اُس سے پہلے یہ خواب بھی دیکھی تھی کہ ایک شخص نے میری ٹوپی اتارنے کے لئے ہاتھ مارا.میں نے کہا.کیا کرنے لگا ہے.تب اُس نے ٹوپی کو میرے سر پر ہی رہنے دیا اور کہا کہ خیر ہے.خیر ہے.‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۲۹۷ تا ۲۹۹) ۱۸۷۷ء (تخمیناً) ’’ایک پرانا الہام کوئی تیس۳۰ سال کا جو پہلے بھی حضرت نے کئی دفعہ سنایا ہے اور آج پھر سنایا… ۱.فَارْتَدَّا؎۱ عَلٰی اٰثَا رِھِمَا وَ وُھِبَ لَہُ الْـجَنَّۃُ اتنے میں طاقت بالا اس کو کھینچ کر لے گئی.۲.یہودا اسکریوطی؎۲.‘‘ (بدر جلد ۶نمبر ۴ مورخہ ۲۴ ؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ۳ ) ۱۸۷۷ء (قریباً) ’’ سَیُـہْزَمُ الْـجَمْعُ وَ یُـوَلُّوْنَ الدُّ بُـرَ یعنی آریہ مذہب کا انجام یہ ہوگا کہ خدا اُن کو شکست دے گا اور آخر وہ آریہ مذہب سے بھاگیں گے اور پیٹھ ۱ (ترجمہ از مرتّب) پھر وہ دونوں پچھلے پاؤں واپس لوٹ گئے اور اس کو جنت عطا کی گئی.۲ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۲۴ ؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ میں دوسرا الہام ’’یہودا اسکریوطی‘‘ درج نہیں.
پھیر لیں گے اور آخر کالعدم ہوجائیں گے.یہ الہام مدت دراز کا ہے جس پر قریباً تیس برس کا عرصہ گذرا ہے جس سے اس جگہ کے ایک آریہ یعنی لالہ شرمپت کو اطلاع دی گئی تھی.‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۶۰۷) ۱۸۷۸ء (قریباً) ’’عرصہ قریباً پچیس برس کا گذرا ہے کہ مجھے گورداسپور میں ایک رؤیاہوا کہ میں ایک چارپائی پر بیٹھا ہوں اور اسی چار پائی پر بائیں طرف مولوی عبداللہ صاحب غزنوی مرحوم بیٹھے ہیں.اتنے میں میرے دل میں تحریک پیدا ہوئی کہ میں مولوی صاحب موصوف کو چارپائی سے نیچے اتاردوں چنانچہ میں نے ان کی طرف کھسکنا شروع کیا یہاں تک کہ وہ چارپائی سے اُتر کر زمین پر بیٹھ گئے.اتنے میں تین فرشتے آسمان کی طرف سے ظاہر ہوگئے جن میں سے ایک کا نام خیرائتی تھا.وہ تینوں بھی زمین پر بیٹھ گئے اور مولوی عبداللہ بھی زمین پر تھے اور میں چارپائی پر بیٹھا رہا.تب میں نے اُن سب سے کہا کہ میں دعا کرتا ہوں تم سب آمین کہو.تب میں نے یہ دعا کی.رَبِّ اَذْھِبْ عَنِّی الرِّجْسَ وَطَھِّرْنِیْ تَطْھِیْرًا۱؎ اس دعا پر تینوں فرشتوں اور مولوی عبداللہ نے آمین کہی.اس کے بعد وہ تینوں فرشتے اور مولوی عبداللہ آسمان کی طرف اُڑ گئے اور میری آنکھ کھل گئی.آنکھ کھلتے ہی مجھے یقین ہوگیا کہ مولوی عبداللہ کی وفات قریب؎۲ہے اور میرے لئے آسمان پر ایک خاص فضل کا ارادہ ہے اور پھر میں ہر وقت محسوس کرتا رہا کہ ایک آسمانی کشش میرے اندر کام کررہی ہے یہاں تک کہ وحی الٰہی کا سلسلہ جاری ہوگیا.وہی ایک ہی رات تھی جس میں اللہ تعالیٰ نے بتمام و کمال میری اصلاح کردی اور مجھ میں ایک ایسی تبدیلی واقع ہوگئی جو انسان کے ہاتھ سے یا انسان کے ارادے سے نہیں ہوسکتی تھی.؎۳ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی عبداللہ غزنوی اس نور کی گواہی کے لئے پنجاب کی طرف کھنچا تھا اور اس نے میری نسبت گواہی دی اور اس گواہی کو حافظ محمد یوسف اور ان کے بھائی محمد یعقوب نے بیان بھی کیا مگر پھر دنیا کی ۱ (ترجمہ از مرتّب) اے میرے ربّ مجھ سے ناپاکی کو دُور رکھ اور مجھے بالکل پاک کر دے.۲ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کی وفات بروز منگل ۱۵؍ ربیع الاوّل ۱۲۹۸ ھ مطابق ۱۵؍ فروری ۱۸۸۱ء کو ہوئی.دیکھیے اشاعۃ السنّۃ نمبر۱،۲ جلد۴ ۳ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) یہ خواب تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۳۵۱، ۳۵۲ میں بھی درج ہے.
محبت اُن پر غالب آگئی اور میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتی کا کام ہے کہ مولوی عبداللہ نے میرے خواب میں میرے دعویٰ کی تصدیق کی اور میں دعا کرتا ہوں کہ اگر یہ قسم جھوٹی ہے تو اے قادر خدا مجھے ان لوگوں کی ہی زندگی میں جو مولوی عبداللہ صاحب کی اولاد یا اُن کے مرید یا شاگرد ہیں سخت عذاب سے مار ورنہ مجھے غالب کر اور ان کو شرمندہ یا ہدایت یافتہ.مولوی عبداللہ صاحب کے اپنے منہ کے یہ لفظ تھے کہ آپ کو آسمانی نشانوں اور دوسرے دلائل کی تلوار دی گئی ہے اور جب میں دنیا پر تھا تو امید کرتا تھا کہ ایسا انسان خدا کی طرف سے دنیا میں بھیجا جائے گا.یہ میری خواب ہے.اِلْعَنْ مَنْ کَذَ.بَ وَ اَیِّدْ مَنْ صَدَ.قَ.‘‘۱؎ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۶۱۴ تا ۶۱۶) ۱۸۷۸ء (تخمیناً) ’’ اور انہی؎۲دنوں میں شاید اس رات سے اوّل یا اس رات کے بعد میں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ ایک شخص جو مجھے فرشتہ معلوم ہوتا ہے مگر خواب میں محسوس ہوا کہ اس کا نام شیر علی ہے.اُس نے مجھے ایک جگہ لٹا کر میری آنکھیں نکالی ہیں اور صاف کی ہیں اور میل اور کدورت ان میں سے پھینک دی اور ہر ایک بیماری اور کوتاہ بینی کا مادہ نکال دیا ہے اور ایک مصفّا نور جو آنکھوں میں پہلے سے موجود تھا مگر بعض مواد کے نیچے دبا ہوا تھا اس کو ایک چمکتے ہوئے ستارہ کی طرح بنادیا ہے اوریہ عمل کرکے پھر وہ شخص غائب ہوگیا اور میں اُس کشفی حالت سے بیداری کی طرف منتقل ہوگیا.‘‘ (تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۳۵۲) ۱۸۷۸ء ’’ایک دفعہ ایک طالب العلم انگریزی خوان ملنے کو آیا اُس کے رُو برو ہی یہ الہام ہوا.دِس اِزْ مائی اَینیمی ؎۳ یعنی یہ میرا دشمن ہے.اگرچہ معلوم ہوگیا تھا کہ یہ الہام اُسی کی نسبت ہے مگر اُسی سے یہ معنی بھی دریافت کئے گئے اور آخر وہ ایسا ۱ (ترجمہ از ناشر) اے اللہ جھوٹے پر لعنت کر اور سچے کی تائید فرما.۲ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمد ؓ) یعنی جب رؤیا مذکورہ بالا دیکھا تھا.۳ This is my enemy
ہی آدمی نکلا اور اُس کے باطن میں طرح طرح کے خبث پائے گئے.‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۷۲، ۵۷۳ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳ ) ۱۸۷۹ء (قریباً) ’’شاید تین سال کے قریب عرصہ گذر اہوگا کہ میں نے اسی؎۱کتاب کے لئے دعا کی کہ لوگ اس کی مدد کی طرف متوجہ ہوں تب یہی الہام شدید الکلمات جس کی میں نے ابھی تعریف کی ہے ان لفظوں میں ہوا.بالفعل نہیں … اور پھراُسی کے مطابق… لوگوں کی طرف سے عدم توجہی رہی.‘‘ (براہین احمدیہ حصہ سوم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ۲۴۹،۲۵۰حاشیہ در حاشیہ نمبر۱) ۱۸۸۰ء ’’ایک مرتبہ میں سخت بیمار ہوا یہاں تک کہ تین مختلف وقتوں میں میرےوارثوں نے میرا آخری وقت سمجھ کر مسنون طریقہ پر مجھے تین مرتبہ سورہ یٰسین سنائی جب تیسری مرتبہ سورہ یٰسین سنائی گئی تو میں دیکھتا تھا کہ بعض عزیز میرے جو اَب وہ دنیا سے گذر بھی گئے دیواروں کے پیچھے بے اختیار روتے تھے اور مجھے ایک قسم کا سخت قولنج تھا اور بار بار د مبدم حاجت ہوکر خون آتا تھا.سولہ۱۶ دن برابر ایسی حالت رہی اور اسی بیماری میں میرے ساتھ ایک اور شخص بیمار ہوا تھا وہ آٹھویں دن راہیِ ملک ِ بقا ہوگیا حالانکہ اس کے مرض کی شدت ایسی نہ تھی جیسی میری.جب بیماری کو سولہواں دن چڑھا تو اُس دن بکلی حالاتِ یاس ظاہر ہوکر تیسری مرتبہ مجھے سورہ یٰسین سنائی گی اور تمام عزیزوں کے دل میں یہ پختہ یقین تھا کہ آج شام تک یہ قبر میں ہوگا.تب ایسا ہوا کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے مصائب سے نجات پانے کے لئے بعض اپنے نبیوں کو دعائیں سکھلائی تھیں مجھے بھی خدا نے الہام کرکے ایک دعا سکھلائی اور وہ یہ ہے.سُبْـحَانَ اللّٰہِ وَبِـحَمْدِ ہٖ سُبْـحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ.اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُـحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُـحَمَّدٍ۲؎ اور میرے دل میں خدا تعالیٰ نے یہ الہام کیا کہ دریا کے پانی میں جس کے ساتھ ریت بھی ہو ہاتھ ڈال اور یہ کلماتِ طیبہ پڑھ اور اپنے سینہ اور پشت سینہ اور دونوں ہاتھوں اور منہ پر اس کو پھیر کہ اس سے تو شفا پائے گا.چنانچہ جلدی سے دریا کا پانی مع ریت منگوایا گیا اور میں نے اُسی طرح عمل کرنا شروع کیا جیسا کہ مجھے تعلیم دی تھی اور اس وقت حالت یہ تھی کہ میرے ایک ایک بال سے آگ نکلتی تھی اور تمام بدن میں درد ناک جلن تھی اور ۱ براہین احمدیہ (مرزا بشیر احمد) ۲ (ترجمہ از ناشر) اللہ پاک ہے اپنی حمد کے ساتھ.اللہ پاک ہے بڑی عظمت والا ہے.اے اللہ! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور محمدؐ کی آل پر رحمتیں نازل فرما.
بےاختیار طبیعت اس بات کی طرف مائل تھی کہ اگر موت بھی ہو تو بہتر تا اس حالت سے نجات ہو مگر جب وہ عمل شروع کیا تو مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ہر ایک دفعہ ان کلمات طیبہ کے پڑھنے اور پانی کو بدن پر پھیرنے سے میں محسوس کرتا تھا کہ وہ آگ اندر سے نکلتی جاتی ہے اور بجائے اس کے ٹھنڈک اور آرام پیدا ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ ابھی اس پیالہ کا پانی ختم نہ ہوا تھا کہ میں نے دیکھا کہ بیماری بکلی مجھے چھوڑ گئی اور میں سولہ دن کے بعد رات کو تندرستی کے خواب سے سویا.جب صبح ہوئی تو مجھے یہ الہام ہوا.وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّـمَّا نَـزَّ لْنَا عَلٰی عَبْدِ نَـا فَاْتُوْا بِشِفَآءٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ یعنی اگر تمہیں اُس نشان میں شک ہو جو شفا دے کر ہم نے دکھلایا تو تم اس کی نظیر کوئی اور شفا پیش کرو.‘‘ (تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۰۸، ۲۰۹) ۱۸۸۰ء (تخمیناً) ’’کوئی ۲۵، ۲۶سال کا عرصہ گذرا ہے ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ ایک شخص میرا نام لکھ رہا ہے تو آدھا نام اس نے عربی میں لکھا ہے اور آدھا انگریزی میں لکھا ہے.‘‘ (الحکم جلد ۹ نمبر ۳۲ مورخہ ۱۰؍ ستمبر۱۹۰۵ء صفحہ ۳ ) ۱۸۸۰ء (تخمیناً) ’’سردار محمد حیات خاں۱؎ کا کبھی آپ نے نام سنا ہی ہوگا کہ جو گورنمنٹ کے حکم سے ایک عرصہ دراز تک معطل رہے.۲؎ ڈیڑھ سال کا عرصہ گذرا ہوگا یا شاید اس سے زیادہ کچھ عرصہ گذرگیا ہوگا کہ جب طرح طرح کی مصیبتیں اور مشکلیں اور صعوبتیں اِس معطلی کی حالت میں اُن کو پیش آئیں اور گورنمنٹ کا منشا بھی کچھ بر خلاف سمجھا جاتا تھا اُنہیں دنوں میں اُن کے بَری ہونے کی خبر ہم کو خواب میں ملی اور خواب میں مَیں نے ۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) نواب سردار محمد حیات خان صاحب جج تھے جن پر گورنمنٹ کی طرف سے کئی الزام قائم کئے گئے تھے اورانہیں معطّل کرکے ان پر مقدمہ چلایا گیا تھا.اس موقع پر مرزا غلام قادر صاحب مرحوم نے ان کے لئے دُعا کے واسطے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کہا.چنانچہ جب حضورؑنے ان کے لئے دُعا کی تو حضورؑ کو اُن کے متعلق بذریعہ کشف یہ بشارت ملی.۲ (نوٹ از الحکم) ’’سردار حیات خاں ایک دفعہ کسی مقدمہ میں معطل ہوگیا تھا.میرے بڑے بھائی مرزا غلام قادر مرحوم نے مجھے کہا کہ ان کے لئے دعا کرو.میں نے دعا کی تو مجھے دکھا یا گیا کہ یہ کرسی پر بیٹھا ہوا عدالت کررہا ہے.میں نے کہا کہ یہ تو معطل ہوگیا ہے.کسی نے کہا کہ اُس جہان میں معطل نہیں ہوا.تب مجھے معلوم ہوا کہ یہ بحال ہوجائے گا چنانچہ اس کی اطلاع دی گئی اور تھوڑے ہی عرصہ کے بعد وہ پھر بحال ہوگیا.‘‘ (الحکم مورخہ۱۰؍ ستمبر۱۹۰۲ ء صفحہ ۶ )
اُن کو کہا کہ تم کچھ خوف مت کرو خدا ہر یک چیز پر قادر ہے وہ تمہیں نجات دے گا.چنانچہ یہ خبر اِنہیں دنوں میں بیسیوں ہندوؤں اور آریوں اور مسلمانوں کو سنائی گئی جس نے سنا بعید از قیاس سمجھا اور بعض نے ایک امرِ محال خیال کیا اور میں نے سنا ہے کہ اُنہیں ایام میں محمد حیات خان صاحب کو بھی یہ خبر کسی نے لاہور میں پہنچادی تھی.سو اَلْـحَمْدُلِلہِ وَالْمِنَّۃِ کہ یہ بشارت بھی جیسی دیکھی تھی ویسی ہی پوری ہوئی.‘‘ (براہین احمدیہ حصہ سوم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۲۷۹، ۲۸۰ حاشیہ در حاشیہ نمبر۱ ) ۱۸۸۰ء ’’ اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِ ھَا نَتَکَ.یعنی میں اس کی اہانت کروں گا جو تیری اہانت کا ارادہ کرے گا.یہ ایک نہایت پُر شوکت وحی اور پیشگوئی ہے جس کا ظہور مختلف پیرایوں اور مختلف قوموں میں ہوتا رہا ہے اور جس کسی نے اس سلسلہ کو ذلیل کرنے کی کوشش کی وہ خود ذلیل اور ناکام ہوا.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۶۷) قریباً ۱۸۸۰ء ’’ایک دفعہ کشفی طور پر مجھے یا روپیہ دکھائے گئے اور پھر یہ الہام ہوا کہ ماجھے خان کا بیٹا اور شمس الدین پٹواری ضلع لاہور بھیجنے والے ہیں پھر بعد اس کے کارڈ آیا جس میں لکھا تھا کہ ماجھے خان کے بیٹے کی طرف سے ہیں اور یا شمس الدین پٹواری کی طرف سے ہیں.پھر اسی تشریح سے روپیہ آئے.(نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۸۰) ۱۸۸۱ء ’’ ایک بزرگ… جن کا نامِ نامی عبداللہ غزنوی تھا ایک مرتبہ میں نے اِس بزرگ باصفا کو خواب میں اُن کی وفات کے بعد دیکھا کہ سپاہیوں کی صورت پر بڑی عظمت اور شان کے ساتھ بڑے پہلوانوں کی مانند مسلّح ہونے کی حالت میں کھڑے؎۱ ہیں تب میں نے کچھ اپنے الہامات کا ذکر کرکے اُن سے پوچھا کہ مجھے ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں کہ ’’ جب مولوی صاحب غزنوی ہماری مذکورہ بالا خواب کے مطابق فوت ہوگئے تو جیسا کہ میں نے ابھی لکھا ہے تھوڑے دنوں کے بعد میں نے ان کو خواب میں دیکھا کہ میں اپنا ایک خواب ان کے آگے بیان کررہا ہوں اور وہ ایک بازار میں کھڑے ہیں جو ایک بڑے شہر کا بازار ہے اور پھر میں ان کے ساتھ ایک مسجد میں آگیا ہوں اور اُن کے ساتھ ایک گروہ کثیر ہے اور سب سپاہیانہ شکل پر نہایت جسیم مضبوط وردیاں کسے ہوئے اور مسلح ہیں اور اُنہیں میں سے ایک مولوی عبداللہ صاحب ہیں کہ جو ایک قوی اور جسیم جوان نظر آتے ہیں وردی کسے ہوئے ہتھیار پہنے ہوئے اور تلوار میان میں لٹک رہی ہے اور میں دل میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ لو گ ایک عظیم الشان حکم کے لئے تیار بیٹھے ہیں اور میں خیال کرتا ہوں کہ باقی سب فرشتے ہیں مگر تیاری ہولناک ہے.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۶۱۶)
ایک خواب آئی ہے اُس کی تعبیر فرمائیے.میں نے خواب میں یہ دیکھا ہے کہ ایک تلوار؎۱میرے ہاتھ میں ہے جس کا قبضہ میرے پنجہ میں اور نوک آسمان تک پہنچی ہوئی ہے.جب میں اُس کو دائیں طرف چلاتا ہوں تو ہزاروں ۱ اس تلوار کی تعریف میں حضورؑ کے الفاظ آئینہ کمالات اسلام میں یوں ہیں.(الف)’’ وَرَاَیْتُ فِیْ مَنَامٍ کَأَنِّیْ قَائِمٌ فِیْ مَوْطِنٍ وَ فِی یَدِیْ سَیْفٌ مَسْلُوْلٌ، قَائِـمُہٗ فِی اَکُفِّیْ وَ طَرَفَہُ الْاٰخَرُ فِی السَّمَآءِ وَ لَہٗ بَرْقٌ وَ لَمْعَانٌ یَـخْرُجُ مِنْہُ نُوْرٌ کَقَطَرَاتٍ مُتَنَازِلَۃٍ حِیْنًا بَعْدَ حِیْنٍ.وَ اِنِّی اَضْـرِبُ السَّیْفَ شِـمَالًا وَ جُنُوْبًا وَ بِکُلِّ ضَـرْبَۃٍ اَقْتُلُ اُلُوْفًا مِّنْ اَعْدَآءِالدِّیْنِ.وَ رَأَیْتُ فِی تِلْکَ الرُّؤْیَـا شَیْخًا صَالِـحًا اِسْـمُہٗ عَبْدَ اللہِ الْغَزْنَوِیْ وَ قَدْ مَاتَ مِنْ سِنِیْنَ.فَسَأَلْتُہٗ عَنْ تَأوِیْلِ ھٰذِہِ الرُّؤْیَـا.فَقَالَ اَمَّا السَّیْفُ فَھِیَ الْـحُجَجُ الَّتِیْ اَعْطَاکَ اللہُ وَ نَصَـرَکَ بِالدَّلَائِلِ وَ الْبَرَاھِیْنِ.وَ اَمَّا ضَرْبَکَ اِیَّاہُ شَـمَالًا وَ جُنُوْبًـا فَھُوَ اِرَآءَتُکَ آیَـاتٍ رُوْحَانِیَۃٍ سَـمَاوِیَّۃٍ وَ أَدِلَّۃٍ عَقْلِیَّۃٍ فَلْسَفِیَّۃٍ لِلْمُنْکِرِیْنَ.وَ أَمَّا قَتْلَ الْاَعْدَآء فَھُوَ اِفْـحَامُ الْمُخَاصِـمِیْنَ، وَاِسْکَاتُـھُمْ مِنْـھَا.ھٰذَا تَـأْوِیْلُ رُؤْیَـاکَ وَ اَنْتَ مِنَ الْمُؤَیَّدِیْنَ.وَ قَدْ کُنْتُ فِیْ أَیَّـامِی الَّتِیْ کُنْتُ فِی الدُّنْیَا أَرْجُوْ وَ اَظُنُّ اَنْ یَّـخْرُجَ رَجُلٌ بِـھٰذِہِ الصِّفَاتِ وَ مَا کُنْتُ اَسْتَیْقِنُ اَنَّہٗ اَنْتَ وَ کُنْتُ عَنْ اَمْرِکَ مِنَ الْغَافِلِیْنَ.‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۷۶،۵۷۷) (ترجمہ از مرتّب) میں نے خواب میں دیکھا گویا میں میدان کا ر زار میں کھڑا ہوں اور میرے ہاتھ میں ایک تلوار ہے اس کا دستہ میرے ہاتھوں میں ہے اور اس کی نوک آسمان میں ہے.اور اس سے نور اس طرح نکل رہا ہے گویا بارش تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد برس رہی ہو اور میں تلوار کبھی دائیں مارتا ہوں اور کبھی بائیں اور ہر ضرب سے میں ہزاروں دشمنانِ دین کو مارتا ہوں اور میں نے اپنی خواب میں ایک شیخ صالح جن کا نام عبد اللہ غزنوی ہے کو دیکھا وہ کئی سال ہوئے فوت ہوچکے ہیں.پس میں نے ان سے اس خواب کی تعبیر پوچھی.اس پر انہوں نے کہا سیف سے مراد تو وہ دلائل ہیں جو اللہ نے تمہیں عطا کئے اور وہ مدد ہے جو اللہ نے دلائل و براہین سے تمہاری کی ہے اور آپ کے تلوار کو دائیں اور بائیں چلانے سے مراد آپ کا روحانی سماوی نشانات اور عقلی اور فلسفی دلائل منکرین کو دکھانا ہے.اور دشمنوں کو قتل کرنے سے مراد ان کا دلائل سے منہ بند کرنا اور ان کو خاموش کرادینا ہے.یہ ہے تعبیر آپ کے خواب کی اور تم مؤید (من اللہ) لوگوں میں سے ہو.(نیز انہوں نے فرمایا) جب میں دنیا میں تھا تو امید کرتا تھا اور گمان رکھتا تھا کہ ان صفات کا حامل شخص ظاہر ہو اور میں یہ یقین نہیں کرتا تھا کہ وہ تم ہی ہو.اور میں آپ کے معاملہ کے بارہ میں غافلوں میں سے تھا.(ب) حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’اور اس تلوار میں سے ایک نہایت تیز چمک نکلتی ہے جیسا کہ آفتاب کی چمک ہوتی ہے اور میں اسے کبھی اپنے دائیں طرف اور کبھی بائیں طرف چلاتا ہوںاور ہر ایک وار سے ہزار ہا آدمی
مخالف اُس سے قتل ہوجاتے ہیں اور جب بائیں طرف چلاتا ہوں تو ہزارہا دشمن اُس سے مارے جاتے ہیں.تب حضرت عبداللہ صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اِس میری خواب کو سن کر بہت خوش ہوئے اور بشاشت اور انبساط اور انشراح صدر کے علامات و امارات اُن کے چہرہ میں نمودار ہوگئے اور فرمانے لگے کہ اس کی تعبیر یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ آپ سے بڑے بڑے کام لے گا اور یہ جو دیکھا کہ دائیں طرف تلوار چلا کر مخالفوں کو قتل کیا جاتا ہے اس سے مراد وہ اتمام حجت کاکام ہے کہ جو روحانی طور پر انوار و برکات کے ذریعہ سے انجام پذیر ہوگا اور یہ جو دیکھا کہ بائیں طرف تلوار چلا کرہزار ہا دشمنوں کو مارا جاتا ہے اِس سے مراد یہ ہے کہ آپ کے ذریعہ سے عقلی طور پر خدا ئے تعالیٰ الزام و اسکاتِ خصم کرے گا اور دنیا پر دونوں طور سے اپنی حجت پوری کردے گا.پھر بعد اس کے اُنہوں نے فرمایا کہ جب میں دنیا میں تھا تو میں امیدوار تھا کہ خدائے تعالیٰ ضرور کوئی ایسا آدمی پیدا کرے گا پھر حضرت عبداللہ صاحب مرحوم مجھ کو ایک وسیع مکان کی طرف لے گئے جس میں ایک جماعت راستبازوں اور کامل لوگوں کی بیٹھی ہوئی تھی لیکن سب کے سب مسلّح اور سپاہیانہ صورت میں ایسی چُستی کی طرز سے بیٹھے ہوئے معلوم ہوتے تھے کہ گویا کوئی جنگی خدمت بجالانے کے لئے کسی ایسے حکم کے منتظر بیٹھے ہیں جو بہت جلد آنے والا ہےپھر اس کے بعد آنکھ کھل گئی.یہ رؤیاصالحہ جو درحقیقت ایک کشف کی قسم ہے استعارہ کے طور پر اُنہیں علامات پر دلالت کررہی ہے جو مسیح کی نسبت ہم ابھی بیان کر آئے ہیں یعنی مسیح کا خنزیروں کو قتل کرنا اور علی العموم تمام کفّار کو مارنا اِنہیں معنوں کی رُو سے ہے کہ وہ حجت ِ الٰہی اُن پر پوری کرے گا اور بیّنہ کی تلوار سے ان کو قتل کردے گا.وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۴۳ تا ۱۴۷ حاشیہ) ۱۸۸۱ء (قریباً) (الف) ’’خدا نے اپنے الہامات میں میرا نام بیت اللہ بھی رکھا ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جس قدر اس بیت اللہ کو مخالف گرانا چاہیں گے اس میں سے معارف اور آسمانی نشانوں کے خزانے نکلیں گے.چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ ہر یک ایذا کے وقت ضرور ایک خزانہ نکلتا ہے اور اس بارے میں الہام یہ ہے.بقیہ حاشیہ.کٹ جاتےہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ تلوار اپنی لنبائی کی و جہ سے دنیا کے کناروں تک کام کرتی ہے اور وہ ایک بجلی کی طرح ہے جو ایک دم میں ہزاروں کوس چلی جاتی ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ ہاتھ تو میرا ہی ہے مگر قوت آسمان سے اور میں ہر ایک دفعہ اپنے دائیں اور بائیں طرف اس تلوار کو چلاتا ہوں اور ایک مخلوق ٹکڑے ٹکڑے ہوکر گرتی جاتی ہے.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۶۱۶، ۶۱۷)
’’ یکے پائے من مے بوسید و من مے گفتم کہ حجرِ اَسود منم‘‘۱؎ (اربعین نمبر ۴ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۴۴، ۴۴۵ حاشیہ) (ب) ’’ایک پورانا الہام قریباً پچیس سال کا ’’شخصے پائے من بوسید من گفتم کہ سَنگِ اَسود منم‘‘ ؎۲ (الحکم جلد۱۰نمبر ۳۷ مورخہ ۲۴ ؍اکتوبر۱۹۰۶ء صفحہ ۱) ۱۸۸۱ء (تخمیناً) ’’عرصہ تخمیناً اٹھارہ برس کا ہوا ہے کہ میں نے خدا تعالیٰ سے الہام پاکر چند آدمیوں کو ہندوؤں اور مسلمانوں میں سے اس بات کی خبر دی کہ خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ اِنَّـا نُبَشِّـرُکَ بِغُلَامٍ حَسِیْنٍ.یعنی ہم تجھے ایک حسین لڑکے کے عطا کرنے کی خوشخبری دیتے ہیں.میں نے یہ الہام ایک شخص حافظ نور احمد امرتسری کو سنایا جو اب تک زندہ ہے اوربباعث میرے دعویٰ مسیحیت کے مخالفوں میں سے ہے اور نیز یہی الہام شیخ حامد علی کو جو میرے پاس رہتا تھا سنایا اور دو ہندوؤں کو جو آمدورفت رکھتے تھے.یعنی شرمپت اور ملاوا مل ساکنانِ قادیان کو بھی سنایا اور لوگوں نے اس الہام سے تعجب کیا کیونکہ میری پہلی بیوی کو عرصہ بیس سال سے اولاد ہونی موقوف ہوچکی تھی اور دوسری کوئی بیوی نہ تھی لیکن حافظ نور احمد نے کہا کہ خدا کی قدرت سے کیا تعجب کہ وہ لڑکا دے.اس سے قریباً تین برس کے بعد… دہلی میں میری شادی ہوئی اور خدا نے وہ لڑکا بھی دیا اور تین اور عطا کئے.‘‘ (تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۰۰،۲۰۱) ۱۸۸۱ ء(تخمیناً) ’’ اُشْکُرْ نِعْمَتِیْ رَأَیْتَ خَدِ یْـجَـتِیْ‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم.روحانی خزائن جلد۱صفحہ ۶۶۶ حاشیہ در حاشیہ نمبر۴) ’’ ترجمہ.میرا شکر کر کہ تُو نے میری خدیجہ کو پایا.۱ (ترجمہ از ناشر) ایک شخص میرے پاؤں کو چومتا ہے اور میں کہتا ہوں کہ میں حجر اسود ہوں.۲ (ترجمہ از مرتّب) ایک شخص نے میرے پاؤں کو چوما اور میں نے (اُسے) کہا کہ حجرِ اسود مَیں ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’ قَالَ الْمُعَبِّرُوْنَ اَنَّ الْمُرَادَ مِنَ الْـحَـجَرِ الْاَسْوَدِ فِیْ عِلْمِ الرُّؤْیَا.اَلْمَرْءُ الْعَالِمُ الْفَقِیْہُ الْـحَکِیْمُ.‘‘ (الا ستفتاء ضمیمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۶۶۳ حاشیہ) (ترجمہ از مرتّب) معبّرین نے کہا ہے کہ علم رؤیا میں حجرِ اسود سے مراد عالم، فقیہ اور حکیم ہوتا ہے.
یہ ایک بشارت کئی سال پہلے اُس نکاح کی طرف تھی جو سادات کے گھر میں دہلی میں ہوا…اور خدیجہ اس لئے میری بیوی کا نام رکھا کہ وہ ایک مبارک نسل کی ماں ہے جیسا کہ اس جگہ بھی مبارک نسل کا وعدہ تھااور نیز یہ اس طرف اشارہ تھاکہ وہ بیوی سادات کی قوم میں سے ہوگی.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۵۲۴، ۵۲۵) ۱۸۸۱ ء(قریباً) ’’ قریباً اٹھارہ برس سے ایک یہ پیشگوئی ہے.اَلْـحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الصِّھْرَ وَ النَّسَبَ ؎۱ ترجمہ.وہ خدا سچا خدا ہے جس نے تمہارا دامادی کا تعلق ایک شریف قوم سے جو سید تھے کیا اور خود تمہاری نسب کو شریف بنایا جو فارسی خاندان اور سادات سے معجون مرکّب ہے.‘‘ (تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ۲۷۲، ۲۷۳) ۱۸۸۱ ء(قریباً) ’’ایک مرتبہ مسجد میں بوقتِ عصر یہ الہام ہواکہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ تمہاری ایک اور شادی کروں یہ سب سامان میں خود ہی کروں گا اور تمہیں کسی بات کی تکلیف نہیں ہوگی.اس میں یہ ایک فارسی فقرہ بھی ہے.ھر چہ باید نو عروسی راہماں ساماں کنم وآنچہ مطلوبِ شما باشد عطائے آں کنم؎۲ ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’ صہر اور نسب اس الہام میں ایک ہی جَعَلَ کے نیچے رکھے گئے ہیں اور ان دونوں کو قریباً ایک ہی درجہ کا امر قابلِ حمد ٹھہرایا گیا ہے اور یہ صریح دلیل اس بات پر ہے کہ جس طرح صہر یعنی دامادی کو بنی فاطمہ سے تعلق ہے اسی طرح نسب میں بھی فاطمیت کی آمیزش والدات کی طرف سے ہے اور صہر کو نسب پر مقدّم رکھنا اسی فرق کے دکھلانے کے لئے ہے کہ صہر میں خالص فاطمیت ہے اور نسب میں اس کی آمیزش.‘‘ (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۱۱۷ حاشیہ ) ۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حقیقۃ الوحی میں تحریر فرماتے ہیں.’’میں نے جناب الٰہی میں دعا کی کہ ان اخراجات کی مجھ میں طاقت نہیں.تب یہ الہام ہوا کہ ھرچہ باید نو عروسی راہمہ ساماں کنم وآنچہ درکارِ شما باشد عطائے آں کنم یعنی جو کچھ تمہیں شادی کے لئے درکار ہوگا تمام سامان اوس کا میں آپ کروں گا اور جو کچھ تمہیں وقتاً فوقتاً حاجت ہوتی رہے گی آپ دیتا رہوں گا.چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۴۷)
اور الہامات میں یہ بھی ظاہر کیا گیا کہ وہ قوم کے شریف اور عالی خاندان ہوں گے.چنانچہ ایک الہام میں تھا کہ خدا نے تمہیں اچھے خاندان میں پیدا کیا اور پھر اچھے خاندان سے دامادی تعلق بخشا.سو قبل از ظہور یہ تمام الہام لالہ شرمپت کو سنا دیا گیا.پھر بخوبی اسے معلوم ہے کہ بغیر ظاہری تلاش اور محنت کے محض خدا تعالیٰ کی طرف سے تقریب نکل آئی یعنی نہایت نجیب اور شریف اور عالی نسب… بزرگوار خاندان سادات سے یہ تعلقِ قرابت اِس عاجز کو پیدا ہوا اور اس نکاح کے تمام ضروری مصارف تیاری مکان وغیرہ تک ایسی آسانی سے خدا تعالیٰ نے بہم پہنچائے کہ ایک ذرّہ بھی فکر کرنا نہ پڑا اور اب تک اُسی اپنے وعدہ کو پورے کئے چلا جاتا ہے.‘‘ (شحنہ حق.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۸۳، ۳۸۴) ۱۸۸۱ء (قریباً) ’’اس پیشگوئی کو دوسرے الہامات میں اور بھی تصریح سے بیان کیا گیا ہے یہاں تک کہ اس شہر کا نام بھی لیاگیا تھا جو دہلی ہے اور یہ پیشگوئی بہت سے لوگوں کو سنائی گئی تھی…اور جیسا کہ لکھا تھا ایسا ہی ظہور میں آیا کیونکہ بغیر سابق تعلقاتِ قرابت اور رشتہ کے دہلی میں ایک شریف اور مشہور خاندانِ سیادت میں میری شادی ہوگئی… سو چونکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیاد حمایت اسلام کی ڈالے گا اور اس میں سے وہ شخص پیدا کرے گا جو آسمانی روح اپنے اندر رکھتا ہوگا اس لئے اُس نے پسند کیا کہ اس خاندان کی لڑکی میرے نکاح میں لاوے اور اس سے وہ اولاد پیدا کرے جو اُن نوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے تخم ریزی ہوئی ہے دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلاوے اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس طرح سادات کی دادی کا نام شہربانو تھا اسی طرح میری یہ بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہوگی اس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے.یہ تفاؤل کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے تمام جہان کی مدد کے لئے میرے آئندہ خاندان کی بنیاد ڈالی ہے یہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ کبھی ناموں میں بھی اس کی پیشگوئی مخفی ہوتی ہے.‘‘ (تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۷۳ تا ۲۷۵) ۱۸۸۱ء (تخمیناً) ’’تخمیناً اٹھارہ برس کے قریب عرصہ گذرا ہے کہ مجھے کسی تقریب سے مولوی محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر رسالہ اشاعۃُ السّنۃ کے مکان پر جانے کا اتفاق ہوا.اس نے مجھ سے دریافت کیا کہ آجکل کوئی الہام ہوا ہے؟ میں نے اُس کو یہ الہام سنایا جس کو میں کئی دفعہ اپنے مخلصوں کو سنا چکا تھا اور وہ یہ ہے کہ بِکْــرٌ وَّ ثَیِّبٌ
جس کے یہ معنی ان کے آگے اور نیز ہر ایک کے آگے میں نے ظاہر کئے کہ خدا تعالیٰ کا ارادہ ہے کہ وہ دو عورتیں میرے نکاح میں لائے گا.ایک بِکْر ہوگی اور دوسری بیوہ.چنانچہ یہ الہام جو بِکْر کے متعلق تھا پورا ہوگیا اور اس وقت بفضلہٖ تعالیٰ چار پسر اس بیوی سے موجود ہیں اور بیوہ کے الہام کی انتظار؎۱ ہے.‘‘ (تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۰۱) ۱۸۸۱ء (الف) ’’ایک ہندو آریہ… ایک مدت سے بہ مرضِ دق مبتلا تھا اور رفتہ رفتہ اُس کی مرض انتہا کو پہنچ گئی اور آثار مایوسی کے ظاہر ہوگئے.ایک دن وہ میرے پاس آکر اور اپنی زندگی سے ناامید ہوکر بہت بے قراری سے رویا.میرا دل اُس کی عاجزانہ حالت پر پگھل گیا اور میں نے حضرتِ احدیت میں اُس کے حق میں دُعا کی.چونکہ حضرتِ احدیت میں اُس کی صحت مقدر تھی اِس لئے دُعا کرنے کے ساتھ ہی یہ الہام ہوا.قُلْنَا یَـا نَـارُ کُـوْنِیْ بَـرْدًا وَّ سَلَامًا یعنی ہم نے تپ کی آگ کو کہا کہ توُ سرد اور سلامتی ہوجا چنانچہ اُسی وقت اُس ہندو اور نیز کئی اور ہندوؤں کو کہ جو اَب تک اس قصبہ میں موجود ہیں اور اِس جگہ کے باشندہ ہیں اُس الہام سے اطلاع دی گئی اور خدا پرکامل بھروسہ کرکے دعویٰ کیا گیا کہ وہ ہندو ضرور صحت پا جائے گا اور اس بیماری سے ہرگز نہیں مرے گا چنانچہ بعد اِس کے ایک ہفتہ نہیں گذرا ہوگا کہ ہندو مذکور اُس جاں گداز مرض سے بکلّی صحت پاگیا.وَالْـحَمْدُ لِلہِ عَلٰی ذَالِکَ.‘‘ (براہین احمدیہ حصہ سوم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۲۵۲، ۲۵۳ حاشیہ در حاشیہ نمبر۱) (ب) ’’ملاوامل کو دِق کی بیماری ہوگئی.جب وہ خطرہ کی حالت میں پڑگیا تو اُس کے لئے دعا کی گئی.الہام ہوا.قُلْنَا یَـا نَـارُ کُـوْنِیْ بَـرْدًا وَّ سَلَامًا یعنی اے تپ کی آگ ٹھنڈی ہوجا.پھر خواب میں دکھایا گیا کہ میں نے اس کو قبر سے نکال لیا ہے.یہ الہام اور خواب دونوں قبل از وقوع اس کو بتلائے گئے.‘‘ ( شحنہء حق.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۸۱) ۱۸۸۱ء ’’جب پہلے الہام؎۲کے بعد… ایک عرصہ گذر گیا اور لوگوں کی عدم توجہی سے طرح طرح کی ۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) خاکسار کی رائے میں یہ الہام الٰہی اپنے دونوں پہلوؤں سے حضرت امّاں جانؓکی ذات میں ہی پورا ہوا ہے جو بِکْر یعنی کنواری آئیں اور ثَیِّب یعنی بیوہ رہ گئیں.وَاللہُ اَعْلَمُ.۲ الہام ۱۸۷۹ء ’’بالفعل نہیں‘‘ صفحہ۲۸ (ناشر)
دقتیں پیش آئیں اور مشکل حد سے بڑھ گئی تو ایک دن قریب مغرب کے خداوند ِ کریم نے یہ الہام کیا.ھُزِّ؎۱ اِلَیْکَ بِـجِذْعِ النَّخْلَۃِ تُسَاقِـــطْ عَلَیْکَ رُطَبًا جَنِیًّا ؎۲ سو میں نے سمجھ لیا کہ یہ تحریک اور ترغیب کی طرف اشارہ ہے اور یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ بذریعہ تحریک کے اس حصہ کتاب کے لئے سرمایہ جمع ہوگا… اِس الہام کے بعد میں نے حسب الارشاد حضرتِ احدیت کسی قدر تحریک کی تو تحریک کرنے کے بعد … جس قدر اور جہاں سے خدا نے چاہا اُس حصہ کے لئے جو چھپتا تھا مدد پہنچ گئی.وَا لْـحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ.‘‘ (براہین احمدیہ حصہ سوم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۲۵۰، ۲۵۱ حاشیہ در حاشیہ نمبر۱) ۱۸۸۱ء ’’ایک دن صبح کے وقت کچھ تھوڑی غنودگی میں یک دفعہ زبان پر جاری ہوا.عبداللہ خان ڈیرہ اسمٰعیل خان چنانچہ چند ہندو کہ جو اُس وقت میرے پاس تھے کہ جو ابھی تک اسی جگہ موجود ہیں اُن کو بھی اُس سے اطلاع ۱ یعنی کھجور کے تنا کو ہلا.تیرے پرتازہ بتازہ کھجوریں گریں گی.(نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۳۹) ۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’یہ وحی یعنی ھُزِّیْ اِلَیْکِ بِـجِذْعِ النَّخْلَۃِ تُسَاقِطْ عَلَیْکِ رُطَبًا جَنِیًّا یہ حضرت مریم کو اس وقت وحی ہوئی تھی کہ جب ان کا لڑکا عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوا تھا اور وہ کمزور ہوئی تھیں اور خدا تعالیٰ نے اِسی کتا ب براہین احمدیہ میں میرا نام بھی مریم رکھا اور مریم صدیقہ کی طرح مجھے بھی حکم دیا کہ وَکُنْ مِّنَ الصَّالِـحِیْنَ الصِّدِّیْقِیْنَ.دیکھو صفحہ ۲۴۲ براہین احمدیہ.۳؎ پس یہ میری وحی یعنی ھُزِّ اِلَیْکَ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ صدّیقیت کا جو حمل تھا اس سے بچہ پیدا ہوا جس کا نام عیسیٰ رکھا گیا اور جب تک وہ کمزور رہا صفاتِ مریمیہ اس کی پرورش کرتی رہیں اور جب وہ اپنی طاقت میں آیا تو اس کو پکارا گیا.یَا عِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ.دیکھو صفحہ ۵۵۶ براہین احمدیہ.۴؎ یہ وہی وعدہ تھا جو سورہ تحریم میں کیا گیا اور ضرور تھا کہ اس وعدہ کے موافق اس امت میں سے کسی کا نام مریم ہوتا اور پھر اس طرح پر ترقی کرکے اُس سے عیسیٰ پیدا ہوتا اور وہ ابنِ مریم کہلاتا سو وہ میں ہوں.وحی ھُزِّیْ اِلَیْکِ مریم کو بھی ہوئی اور مجھے بھی مگر باہم فرق یہ ہے کہ اُس وقت مریم ضعف ِبدنی میں مبتلا تھی اور میں ضعف ِ مالی میں مبتلا تھا.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۴۱) ۳ براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۲۶۷ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۱ (ناشر) ۴ براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۶۴ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۴ (ناشر)
دی گئی اور اُسی دن شام کو جو اتفاقاً اُنہیں ہندوؤں میں سے ایک شخص؎۱ ڈاک خانہ کی طرف گیا تو وہ ایک صاحب عبد اللہ؎۲خاں نامی کا ایک خط لایا جس کے ساتھ ہی کسی قدر روپیہ بھی آیا.‘‘ (براہین احمدیہ حصہ سوم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۲۵۱، ۲۵۲ حاشیہ در حاشیہ نمبر۱) ۲۳ یا ۲۴؍نومبر ۱۸۸۱ء ’’محرم ۱۲۹۹ہجری کی پہلی یا دوسری تاریخ میں ہم کو خواب میں یہ دکھائی دیا کہ کسی صاحب نے مدد کتاب کے لئے پچاس روپیہ روانہ کئے ہیں.اُسی رات ایک؎۳ آریہ صاحب نے ہمارے لئے خواب دیکھی کہ کسی نے مددِکتاب کے لئے ہزار روپیہ روانہ کیا ہے اور جب انہوں نے خواب بیان کی تو ہم نے اُسی وقت اُن کو اپنی خواب بھی سنا دی اور یہ بھی کہہ دیا کہ تمہاری خواب میں اُنیس حصّے جھوٹ مل گیا ہے اور یہ اُسی کی سزا ہے کہ تم ہندو اور دینِ اسلام سے خارج ہو.شاید اُن کو گراں ہی گذرا ہوگا مگر بات سچی تھی جس کی سچائی پانچویں یا چھٹے محرم میں ظہور میں آگئی.یعنی پنجم یا ششم محرم الحرام میں مبلغ پچاس روپیہ جن کو جُونا گڑھ سے شیخ محمد بہاؤالدین صاحب مدارالمہام ریاست نے کتاب کے لئے بھیجا تھا.کئی لوگوں اور ایک آریہ کے رُوبرو پہنچ گئے.وَالْـحَمْدُ لِلہِ عَلٰی ذَالِکَ.‘‘ (براہین احمدیہ حصہ سوم.روحانی خزائن جلد۱ صفحہ ۲۸۳، ۲۸۴ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۱) ۱۸۸۲ء ’’ ایک مرتبہ الہام ہوا جس کے معنی یہ تھے کہ مَلَأِ اَعْلٰی کے لوگ خصومت میں ہیں یعنی ارادہ الٰہی احیاء دین کے لئے جوش میں ہے لیکن ہنوز مَلَأِ اَعْلٰی پر شخص مُـحْيٖ کی تعیین ظاہر نہیں ہوئی اس لئے وہ اختلاف میں ہے.‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم.روحانی خزائن جلد نمبر ۱ صفحہ ۵۹۸ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳) ۱۸۸۲ء ’’اسی اثناء میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک مُـحْيٖ کو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اِس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اُس نے کہا.ھٰذَا رَجُلٌ یُّـحِبُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے.اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرطِ اعظم اس عہدہ کی محبت ِ رسول ہے سو وہ اِس شخص میں متحقّق ہے.‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۹۸ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳ ) ۱ بشن داس برہمن.(مرزا بشیر احمد) ۲ ای.اے.سی.ڈیرہ اسمٰعیل خان.(مرزا بشیر احمد) ۳ لالہ شرمپت.(مرزا بشیر احمد)
۱۸۸۲ء’’وَکُنْتُ؎۱ ذَاتَ لَیْلَۃٍ اَکْتُبُ شَیْئًا.فَنِمْتُ بَیْنَ ذَالِکَ فَرَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ وَجْھُہٗ کَالْبَدْرِ التَّآمِّ فَدَ نَا مِنِّیْ کَاَنَّہٗ یُرِیْدُ اَنْ یُّعَانِقَنِیْ فَکَانَ مِنَ الْمُعَانِقِیْنَ وَرَاَیْتُ اَنَّ الْاَنْوَارَ قَدْ سَطَعَتْ مِنْ وَّجْھِہٖ وَنَزَلَتْ عَلَیَّ کُنْتُ اَرَاھَا کَا لْاَنْوَارِ الْمَحْسُوْسَۃِ حَتّٰی اَیْقَنْتُ اَنِّیْ اُدْرِکُھَا بِالْـحِسِّ لَا بِبَصَـرِ الرُّوْحِ وَ مَا رَاَیْتُ اَ نَّہُ انْفَصَلَ مِنِّیْ بَعْدَ الْمُعَانَقَۃِ وَمَا رَاَیْتُ اَنَّہٗ کَانَ ذَاھِبًا کَالذَّاھِبِیْنَ ثُمَّ بَعْدَ تِلْکَ الْاَیَّـامِ فُتِحَتْ عَلَیَّ اَبْوَابُ الْاِلْھَامِ وَ خَاطَبَنِیْ رَبِّیْ وَ قَالَ.یَـا اَحْـمَدُ بَـارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ ‘‘ الخ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد۵ صفحہ ۵۵۰) مارچ ۱۸۸۲ء ۱ یَـا اَحْـمَدُ بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ.۲ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِن اللّٰہَ رَمٰی.۳.اَلرَّحْـمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ.۴ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَآ ؤُ ھُمْ.۵.وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ.۶.قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ.؎۲ ۷قُلْ جَآءَ الْـحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَا طِلَ کَانَ زَھُوْقًا.۸کُلُّ بَرَکَۃٍ مِّنْ مُّـحَمَّدٍ (ترجمہ٭) ۱اے احمد خدا نے تجھ میں برکت رکھ دی ہے.۲جو کچھ تُونے چلایا یہ تُو نے نہیں چلایا بلکہ خدا نے چلایا.۳خدا نے تجھے قرآن سکھلایا.۴تا کہ تو ان لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے ڈرائے نہیں گئے.۵اور تاکہ مجرموں کی راہ کھل جائے.۶کہہ میں خدا کی طرف سے مامور ہوں اور میں سب سےپہلے ایمان لانے والا ہوں.۷کہہ حق آیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل بھاگنے والا ہی تھا.۸ ہر ایک برکت ۱ (ترجمہ از مرتّب) اور ایک رات میں کچھ لکھ رہا تھا کہ اسی اثناء میں مجھے نیند آگئی اور میں سو گیا اس وقت میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپؐ کا چہرہ بدرِ تام کی طرح درخشاں تھا.آپؐ میرے قریب ہوئے اور میں نے ایسا محسوس کیا کہ آپؐ مجھ سے معانقہ کرنا چاہتے ہیں چنانچہ آپؐ نے مجھ سے معانقہ کیا اور میں نے دیکھا کہ آپؐ کے چہرہ سے نور کی کرنیں نمودار ہوئیں اور میرے اندر داخل ہوگئیں.میں ان انوار کو ظاہری روشنی کی طرح پاتا تھا اور یقینی طور پر سمجھتا تھا کہ میں انہیں محض روحانی آنکھوں سے ہی نہیں بلکہ ظاہری آنکھوں سے بھی دیکھ رہا ہوںاور اس معانقہ کے بعدنہ ہی میں نے یہ محسوس کیا کہ آپ مجھ سے الگ ہوئے ہیں اور نہ ہی یہ سمجھا کہ آپ تشریف لے گئے ہیں.اس کے بعد مجھ پر الہام الٰہی کے دروازے کھول دیئے گئے اور میرے ربّ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا.یَآ اَحْـمَدُ بَا رَکَ اللّٰہُ فِیْکَ الخ ۲ اَیْ اَوَّلُ تَـائِبٍ اِلَی اللّٰہِ بِأَمْرِ اللّٰہِ فِیْ ھٰذَا الزَّمَانِ.اَوْ اَوَّلُ مَنْ یُّؤْمِنُ بِـھٰذَا الْاَمْرِ.وَاللّٰہُ اَعْلَمُ.(براہین احمدیہ حصہ سوم.روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ ۲۶۵ حاشیہ نمبر۱ ) ٭ ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مختلف کتب سے لیا گیا ہے.(شمس)
صَلَّی اللّٰہِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ.فَتَبَارَکَ مَنْ عَلَّمَ وَ تَعَلَّمَ.۹قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُہٗ فَعَلَیَّ اِجْرَامِیْ.۱۰.ھُوَالَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدیٰ وَدِیْنِ الْـحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ؎۱ ۱۱لَا مُبَدِّ لَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ.۱۲ظُلِمُوْا وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی بقیہ ترجمہ.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے.پس بڑا مبارک وہ ہے جس نے تعلیم دی اور جس نے تعلیم پائی.۹کہہ اگر میں نے افترا کیا ہے تو میری گردن پر میرا گناہ ہے.۱۰خدا وہ خدا ہے جس نے اپنا رسول اور اپنا فرستادہ اپنی ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تا اس دین کو ہر قسم کے دین پر غالب کرے.۱۱خدا کی باتوں کو کوئی ٹال نہیں سکتا.۱۲ان پر ظلم ہوا بقیہ حاشیہ.(ترجمہ از مرتّب) یعنی اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ سے حکم پاکر اس کی طرف سب سے پہلا رجوع کرنے والا یا یہ کہ اس فرمان الٰہی پر سب سے پہلے ایمان لانے والا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.(الف) مجھ کو یاد ہے کہ ابتدائے وقت میں جب میں مامور کیا گیا تو مجھے یہ الہام ہوا کہ جو براہین کے صفحہ ۲۳۸ میں مندرج ہے.یَآ اَحْـمَدُ بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ (تا) وَ اَنَـا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ.(آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۱۰۹ حاشیہ) (ب) ’’ناگہاں عنایت ازلی سے مجھے یہ واقعہ پیش آیا کہ یک دفعہ شام کے قریب…مجھے خدائے تعالیٰ کی طرف سے کچھ خفیف سی غنودگی ہوکر یہ وحی ہوئی.‘‘ (نصـرۃ الـحق.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۶۶) (ج) جب تیرھویں صدی کا اخیر ہوا اورچودھویں صدی کا ظہور ہونے لگا تو خدا تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ سے مجھے خبر دی کہ تو اس صدی کا مجدّد ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہواکہ اَلرَّحْـمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ (تا) وَ اَنَـا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ.‘‘ (کتاب البریّہ.روحانی خزائن جلد۱۳ صفحہ ۲۰۱ حاشیہ) (د) اس الہام کے رُو سے خدا نے مجھے علومِ قرآنی عطا کئے ہیں اور میرا نام اوّل المؤمنین رکھا اور مجھے سمندر کی طرح معارف اور حقائق سے بھردیا ہے اور مجھے بار بار الہام دیا ہے کہ اس زمانہ میں کوئی معرفت الٰہی اور کوئی محبت الٰہی تیری معرفت اور محبت کے برابر نہیں.‘‘ (ضرورۃ الامام.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۵۰۲) ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’ اَیْ لِیُظْھِرَ دِیْـنَ الْاِسْلَامِ بِـالْـحُــجَــجِ الْقَاطِعَـۃِ وَالْبَرَاھِیْنِ السَّاطِعَۃِ عَلٰی کُلِّ دِیْنٍ مَا سِوَاہُ.اَیْ یَنْصُـرُ اللّٰہُ الْمُؤْمِنِیْنَ الْمَظْلُوْمِیْنَ بِاِشْـرَاقِ دِیْنِـھِمْ وَاِتْـمَامِ حُـجَّتِـھِمْ.‘‘ (براہین احمدیہ حصہ سوم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ۲۶۵ حاشیہ نمبر۱) (ترجمہ از مرتّب) یعنی اللہ تعالیٰ دین اسلام کو دلائلِ قاطعہ اور براہینِ ساطعہ کے ساتھ دیگر تمام ادیان پر غالب کرکے اور اس کی حُجّت دوسرے لوگوں پر قائم کرکے مظلوم مومنوں کی نصرت فرمائے گا.(نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمد ؓ) اِس وحیِ الٰہی کی تفسیر رسالہ اربعین نمبر۲ روحانی خزائن جلد ۱۷ کے صفحات ۳۵۶ تا ۳۶۰ پر بیان ہوئی ہے اور اس کے ظہور کی تفصیل تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ کے صفحات ۲۳۰ تا ۲۳۳ اور ۲۴۸ تا ۲۵۰ پر درج ہے.
نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرٌ.۱۳.اِنَّا کَفَیْنَاکَ الْمُسْتَـھْزِئِیْنَ.۱۴.یَقُوْلُوْنَ اَنّٰی لَکَ ھٰذَا.۱۵.اَنّٰی لَکَ ھٰذَا.۱۶.اِنْ ھٰذَا اِلَّا قَوْلُ الْبَشَـرِ.۱۷ وَ اَعَانَہٗ عَلَیْہِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ.۱۸.اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِـرُوْنَ.۱۹.ھَیْھَاتَ ھَیْھَاتَ لِمَا تُوْعَدُوْنَ.۲۰ مِنْ ھٰذَا الَّذِیْ ھُوَ مَھِیْنٌ.۲۱ وَّ لَا یَکَادُ یُبِیْنُ.۲۲ جَاھِلٌ اَوْ مَـجْنُوْنٌ.۲۳ قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَکُم اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ.۲۴ ھٰذَا مِنْ رَّحْـمَۃِ رَبِّکَ.۲۵ یُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ.۲۶ لِیَکُوْنَ اٰیَۃً لِّلْمُوْمِنِیْنَ.۲۷ اَنْتَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَبِّکَ.۲۸ فَبَشِّـرْ وَمَآ اَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ بِـمَجْنُوْنٍ.۲۹ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُـحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُـحْبِبْکُمُ اللّٰہُ.۳۰.اِنَّا کَفَیْنَاکَ الْمُسْتَھْزِئِیْنَ.۳۱ ھَلْ اُنَبِّئْکُمْ عَلٰی مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰطِیْنُ.تَنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍ.۳۲.قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّؤْمِنُوْنَ.۳۳ قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ؎۱ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ.۳۴ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ.۳۵.رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُـحْیِ الْمَوْتٰی.بقیہ ترجمہ.اور خدا ان کی مدد کرے گا اور وہ ہر چیز پر قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے.۱۳وہ لوگ جو تیرے پر ہنسی کرتے ہیں ان کے لئے ہم کافی ہیں.۱۴.اور لوگ کہیں گے کہ یہ مقام تجھے کہاں سے حاصل ہوگیا.۱۵ یہ مقام تجھے کہاں سے حاصل ہوگیا.۱۶ یہ جو الہام کرکے بیان کیا جاتا ہے یہ تو انسان کا قول ہے ۱۷اور دوسروں کی مدد سے بنایا گیا ہے.۱۸اے لوگو! کیا تم ایک فریب میں دیدہ و دانستہ پھنستے ہو.۱۹جو کچھ تمہیں یہ شخص وعدہ دیتا ہے اس کا ہونا کب ممکن ہے.۲۰پھر ایسے شخص کا وعدہ جو حقیر اور ذلیل ہے.؎۲ ۲۲.یہ تو جاہل ہے یا دیوانہ ہے.۲۳کہہ اس پر دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو یعنی مقابلہ کرکے دکھلاؤ.۲۴.یہ مرتبہ تیرے ربّ کی رحمت سے ہے.۲۵..وہ اپنی نعمت تیرے پر پوری کرے گا.۲۶تاکہ لوگوں کے لئے نشان ہو.۲۷تو خدا کی طرف سے کھلی کھلی دلیل کے ساتھ ظاہر ہوا ہے.۲۸.پس تو خوشخبری دےا ور خدا کے فضل سے تو دیوانہ نہیں ہے.۲۹کہہ اگر خدا سے محبت رکھتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت رکھے.۳۰.وہ لوگ جو تیرے پر ہنسی ٹھٹھا کرتے ہیں ان کے لئے ہم کافی ہیں.۳۱کہہ کیا میں تمہیں بتلاؤں کہ کن لوگوں پر شیطان اُترا کرتے ہیں.ہر ایک کذّاب بدکار پر شیطان اُترتے ہیں.۳۲اُن کو کہہ کہ میرے پاس خد اکی گواہی ہے پس کیا تم ایمان لاؤ گے یا نہیں.۳۳.ان کو کہہ کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے پس کیا تم قبول کرو گے یا نہیں.۳۴میرے ساتھ میرا ربّ ہے عنقریب وہ میرا راہ کھول دے گا.۳۵.اے میرے ربّ مجھے دکھلا کہ تُو کیوں کر مُردوں کو زندہ کرتا ہے.۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’یہ فقرہ دو مرتبہ فرمایا گیا… اس میں ایک شہادت سے مراد کسوفِ شمس ہے اور دوسری شہادت سے مراد خسوفِ قمر ہے.‘‘ (اربعین نمبر۳.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۱۵، ۴۱۶) ۲ (ترجمہ از ناشر) ۲۱ اوروہ اظہار بیان کی بھی طاقت نہیں رکھتا.
رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَـمْ مِّنَ السَّمَآءِ.۳۷.رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًاوَّاَنْتَ خَیْرُالْوَارِثِیْنَ.۳۸.رَبِّ اَصْلِحْ اُمَّۃَ مُـحَمَّدٍ.۳۹ رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْـحَقِّ وَاَنْتَ خَیْرُ الْفَاتِـحِیْن.۴۰.وَقُلِ اعْـمَلُوْا عَلٰی مَکَانَتِکُمْ اِنِّیْ عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ.۴۱.وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَیْءٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذَالِکَ غَدًا.۴۲.وَیُـخَوِّفُوْنَکَ مِنْ دُوْنِہٖ.۴۳.اِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا.۴۴.سَـمَّیْتُکَ الْمُتَوَکِّلَ.۴۵.یَـحْمَدُکَ اللّٰہُ مِنْ عَرْشِہٖ.۴۶.نَـحْمَدُکَ وَ نُصَلِّی.۴۷.یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطَفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْ، وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْکَرِہَ الْکَافِرُوْنَ.۴۸.سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِـھِمُ الرُّعْبَ.۴۹.اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَانْتَـھٰی اَمْرُالزَّمَانِ اِلَیْنَا.۵۰.اَلَیْسَ ھٰذَا بِالْـحَقِّ.۵۱.ھٰذَا تَاْوِیْلُ رُؤْیَـایَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَھَا رَبِّیْ حَقًّا.۵۲.وَقَالُوْا اِنْ ھٰذَا اِلَّا اخْتِلَاقٌ.۵۳.قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ.۵۴.قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُہٗ فَعَلَیَّ اِجْرَامِیْ.۵۵.وَمَنْ اَظْلَمُ مِـمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِ.بًا.بقیہ ترجمہ.۳۶.اے میرے رب مغفرت فرما اور آسمان سے رحم کر.۳۷اے میرے ربّ مجھے اکیلا مت چھوڑ اور تُو خیرالوارثین ہے.۳۸.اے میرے ربّ اُمّتِ محمدیہ کی اصلاح کر.۳۹.اے ہمارے ربّ ہم میں اور ہماری قوم میں سچا فیصلہ کردے اور تُو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے.۴۰اور اُن کو کہہ کہ تم اپنے طور پر اپنی کامیابی کے لئے عمل میں مشغول رہو اور میں بھی عمل میں مشغول ہوںپھر دیکھو گے کہ کس کے عمل میں قبولیت پید اہوتی ہے.؎۱ ۴۲اللہ کے سوا تجھے اوروں سے ڈراتے ہیں.۴۳تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے.۴۴.میں نے تیرانام متوکّل رکھا ہے.۴۵خدا عرش پر سے تیری تعریف کررہا ہے.۴۶ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور تیرے پر درود بھیجتے ہیں.۴۷.لوگ چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھادیں مگر خدا اس نور کو نہیں چھوڑے گا جب تک پورا نہ کرلے اگرچہ منکر کراہت کریں.۴۸.ہم عنقریب ان کے دلوں میں رعب ڈالیں گے.۴۹.جب خدا کی مدد اور فتح آئے گی اور زمانہ ہماری طرف رجوع کرلے گا.۵۰تو کہا جائے گا کہ کیا یہ سچ نہ تھا جیسا کہ تم نے سمجھا.؎۲ ۵۲.اور کہیں گے کہ یہ تو صرف ایک بناوٹ ہے.۵۳کہہ خدا نے یہ کلا م اتارا ہے پھر ان کو لہو ولعب کے خیالات میں چھوڑ دے.۵۴کہہ اگر میں نے افترا کیا ہے تو میری گردن پر میرا گناہ ہے ۵۵.اور افترا کرنے والے سے بڑھ کر کون ظالم ہے.۱ (ترجمہ از مرتّب) ۴۱ اور تُو کسی کام کے متعلق یہ بات ہرگز نہ کہہ کہ میں کل اسے ضرور کروں گا.۲ (ترجمہ از مرتّب) ۵۱ یہ میری پہلے کی رؤیا کی حقیقت ہے جسے میرے ربّ نے پورا کرکے سچا ثابت کردیا.
.وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَـھُوْدُ وَ لَا النَّصَارٰی.۵۷.وَخَرَقُوْا لَہٗ بَنِیْنَ وَبَنَاتٍ بِغَیْرِ عِلْمٍ.۵۸.قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ.اَللّٰہُ الصَّمَدُ.لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ.۵۹.وَیَـمْکُرُوْنَ وَیَـمْکُرُ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ.۶۰ اَلْفِتْنَۃُ ھٰھُنَا فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ.۶۱ وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ.۶۲.وَاِمَّانُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ اَوْنَتَوَ فَّیَنَّکَ.۶۳.وَمَاکَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّ بَـھُمْ وَاَنْتَ فِیْـھِمْ.۶۴.اِنِّیْ مَعَکَ وَکُنْ مَّعِیْ اَیْنَـمَاکُنْتَ.۶۵کُنْ مَّعَ اللّٰہِ حَیْثُـمَا کُنْتَ.۶۶.اَیْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ.۶۷کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ وَافْتِخَارًا لِّلْمُؤْ مِنِیْنَ.۶۸.وَلَا تَیْئَسْ مِن رَّوْحِ اللّٰہِ اَلَا اِنَّ رَوْحَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ.اَلَا اِنَّ نَصْـرَاللّٰہِ قَرِیْبٌ.۶۹.یَـاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ.۷۰.یَاْ تُوْنَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ.۷۱.یَنْصُرُکَ بقیہ ترجمہ.۵۶پادری لوگ اور یہودی صفت مسلمان تجھ سے راضی نہیں ہوں گے.۵۷.اور خدا کے بیٹے اور بیٹیاں انہوں نے بنا رکھی ہیں.؎۱ ۵۸.ان کو کہہ دے کہ خدا وہی ہے جو ایک ہے اور بے نیاز ہے.نہ اس کا کوئی بیٹا اور نہ وہ کسی کا بیٹا.اور نہ کوئی اس کا ہم کفو.۵۹.اور یہ لوگ مکر کریں گے اور خدا بھی مکر کرے گا.؎۲ ۶۰ایک فتنہ برپا ہوگا پس صبر کر جیسا کہ اولوالعزم نبیوں نے صبر کیا.۶۱اور خدا سے اپنے صدق کا ظہور مانگ.۶۲اور ہم قادر ہیں کہ تیری موت سے پہلے کچھ ان کو اپنا کرشمۂ قدرت دکھا دیں جس کا ہم وعدہ کرتے ہیں یا تجھ کو وفات دیویں ۶۳اور خدا ایسا نہیں ہے کہ جن میں تو ہے ؎۳ ان کو عذاب کرے.۶۴میں تیرے ساتھ ہوں سو تو ہر ایک جگہ میرے ساتھ رہ.۴؎ ۶۷ تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدہ کے لئے نکالے گئے ہو.تم مومنوں کا فخر ہو.۶۸اور تم خدا کی رحمت سے نومید مت ہو.خبردار ہو کہ خدا کی رحمت قریب ہے.خبردار ہو کہ خدا کی مدد تجھ سے قریب ہے.۶۹.وہ مدد ہر ایک دور کی راہ سے تجھے پہنچے گی اور ایسی راہوں سے پہنچے گی کہ وہ راہ لوگوں کے بہت چلنے سے جو تیری طرف آئیں گےگہرے ہوجائیں گے.۷۰اور اس کثرت سے لوگ تیری طرف آئیں گے کہ جن راہوں پر وہ چلیں گے وہ عمیق ہوجائیں گے.۷۱خدا اپنی طرف سے تیری مدد ۱ (بقیہ ترجمہ از مرتّب) ۵۷ بغیر کسی ثبوت کے.۲ (ترجمہ از مرتب) ۵۹.اور اللہ تعالیٰ سب سے اچھی تدبیر کرنے والا ہے.حضورؑ رسالہ دافع البلاء میں اس الہام کا ترجمہ یہ فرماتےہیں کہ’’ عیسائی لوگ ایذارسانی کے لئے مکر کریں گے اور خدا بھی مکر کرے گا اور وہ دن آزمائش کے دن ہوں گے اور کہہ کہ خدایا پاک زمین میں مجھے جگہ دے.‘‘ (دافع البلاء.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۴۱) ۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’ اَیْ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّ بَـھُمْ بِعَذَابٍ کَامِلٍ وَ اَنْتَ سَاکِنٌ فِیْـھِمْ.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ سوم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۲۶۷ حاشیہ نمبر ۱) (ترجمہ از مرتّب) یعنی ان کے اندر تمہاری موجودگی کی حالت میں اللہ تعالیٰ ان پر کامل عذاب ہرگز نہیں بھیجے گا.۴ (ترجمہ از مرتب) ۶۵تو جہاں بھی ہو اللہ تعالیٰ کے ساتھ رہ.۶۶ تم لوگ جدھر بھی رُخ کرو گے اُدھر ہی اللہ تعالیٰ کی توجہ ہوگی.
اللّٰہُ مِنْ عِنْدِہٖ.۷۲.یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُّوْحِیْ اِلَیْـھِمْ مِّنَ السَّمَآءِ.۷۳.لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ.۷۴.اِنَّـا فَتَحْنَا لَکً فَتْحًا مُّبِیْنًا.۷۵.فَتْحُ الْوَلِیِّ فَتْحٌ وَّقَرَّبْنَاہُ نَـجِیًّا.۷۶ اَشْـجَعُ النَّاسِ.۷۷.وَلَوْ کَانَ الْاِیْـمَانُ مُعَلَّقًا بِـالثُّـرَیَّـا لَنَا لَہٗ.۷۸.اَنَارَ اللّٰہُ بُرْھَانَہٗ.۷۹.یَـا اَحْـمَدُ فَاضَتِ الرَّحْـمَۃُ عَلٰی شَفَتَیْکَ.۸۰.اِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا.۸۱.یَـرْفَعُ اللّٰہُ ذِکْرَکَ وَیُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ.۸۲.وَ وَجَدَکَ ضَالًّافَھَدٰی.۸۳.وَ نَظَرْنَـا اِلَیْکَ وَ قُلْنَا یَا نَـارُ کُوْنِیْ بَـرْدًا وَّ سَلَامًا عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ.۸۴.خَزَائِنُ رَحْـمَۃِ رَبِّکَ.۸۵.یَـا اَیُّـھَا الْمُدَّ.ثِّرُ قُـمْ فَاَنْذِرْ وَ رَبَّکَ فَکَبِّرْ.۸۶.یَـا اَحْـمَدُ یَتِمُّ اسْـمُکَ وَ لَا یَتِمُّ اسْـمِیْ؎۱ بقیہ ترجمہ.کرے گا.۷۲تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے.۷۳خدا کی باتوں کو کوئی ٹال نہیں سکتا.۷۴ہم ایک کھلی کھلی فتح تجھ کو عطا کریں گے.۷۵ولی کی فتح ایک بڑی فتح ہے اور ہم نے اس کو ایک ایسا قرب بخشا کہ ہمراز اپنا بنادیا.۷۶ وہ تمام لوگوں سے زیادہ بہادر ہے.۷۷اور اگر ایمان ثریّا سے معلّق ہوتا تو وہیں سے جاکر اس کو لے لیتا.۷۸خدا اس کی حجّت روشن کرے گا.۷۹اے احمد تیرے لبوں پر رحمت جاری کی گئی.۸۰تُو میری آنکھوں کے سامنے ہے.۸۱خدا تیرا ذکر بلند کرے گا اور اپنی نعمت دنیا اور آخرت میں تیرے پر پوری کرے گا.۲؎ ۸۳اور ہم نے تیری طرف نظر کی اور کہا کہ اے آگ جو فتنہ کی آگ قوم کی طرف سے ہے اِس ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی ہوجا.۳؎ ۸۶اے احمدتیرا نام پورا ہوجائے گا اور میرا نام پورا نہیں ۱.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.(الف)’’اَیْ اَنْتَ فَانٍ.فَیَنْقَطِعُ تَـحْمِیْدُ کَ.وَلَایَنْتَـہِیْ مَـحَامِدُ اللّٰہِ.فَاِنَّـھَا لَاتُعَدُّ وَلَا تُـحْصٰی.‘‘ (براہین احمدیہ حصہ سوم.روحانی خزائن جلد۱ صفحہ ۲۶۷ بقیہ حاشیہ درحاشیہ نمبر۱) (ترجمہ از مرتّب) یعنی تم چونکہ فانی ہو.اس لئے تمہاری تحمید محدود ہے مگر اللہ تعالیٰ کے محامد غیر متناہی ہیں کیونکہ وہ بےشمار اور بے انتہاء ہیں.(ب) ’’وَ اِذَا اَنَـارَالنَّاسَ بِنُوْرِ رَبِّہٖ اَوْ بَلَّغَ الْاَمْرَ بِقَدْرِ الْکِفَایَۃِ فَـحِیْنَئِذٍ یَّتِمُّ اسْـمُہٗ وَ یَدْعُوْہُ رَبُّہٗ وَیُرْفَعُ رُوْحُہٗ اِلٰی نُقْطَتِہِ النَّفْسِیَّۃِ.(ترجمہ) اور جب خلقت کو اپنے ربّ کے نور کے ساتھ روشن کر چکا یا امر تبلیغ کو بقدر کفایت پورا کردیا پس اس وقت اس کا نام پورا ہوجاتا ہے اور اس کا ربّ اس کو بُلاتا ہے اور اس کی روح اس کے نقطۂ نفسی کی طرف اُٹھائی جاتی ہے.‘‘ (خطبہ الہامیہ.روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحہ ۴۱) ۲ (ترجمہ از مرتّب) ۸۲اور اس نے تجھے طالبِ ہدایت پایا پس اس نے تیری راہنمائی کی.۳ (ترجمہ از مرتّب) ۸۴ تیرے ربّ کی رحمت کے (ہر قسم کے) خزانے (تجھے دیئے جائیں گے).۸۵ اے کپڑا
ُنْ فِی الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْ عَابِـرُ سَبِیْلٍ.۸۸.وَکُنْ مِّنَ الصَّالـِحِیْنَ الصِّدِّیْقِیْنَ.۸۹.وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ صَلِّ عَلٰی مُـحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُـحَمَّدٍ.۹۰.اَلصَّلٰوۃُ ھُوَ الْمُرَبِّیْ.۹۱.اِنِّیْ رَافِعُکَ اِلَیَّ.۹۲.وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَـحَبَّۃً مِّنِّیْ.۹۳.لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ.۹۴.فَاکْتُبْ وَلْیُطْبَعْ وَلْیُرْسَلْ فِی الْاَرضِ.۹۵.خُذُوا التَّوْحِیْدَ التَّوْحِیْدَ یَـا اَبْنَآءَ الْفَارِسِ.۹۶.وَبَشِّـرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّـھِمْ.۹۷.وَاتْلُ عَلَیْـھِمْ مَّا اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ.۹۸.وَلَا تُصَعِّرْ لـِخَلْقِ اللّٰہِ وَ لَا تَسْئَمْ مِّنَ النَّاسِ.۹۹.اَصْـحَابُ الصُّفَّۃِ بقیہ حاشیہ.ہوگا.؎۱ ۹۲ اور اپنی محبت تیرے پر ڈال دی.۹۳وہ خدا حقیقی معبود ہے.اس کے سوا کوئی معبود نہیں؎۲.۹۵توحید کو پکڑو.توحید کو پکڑو.اے فارس کے بیٹو.۹۶ اور تُو ان لوگوں کو جو ایمان لائے یہ خوشخبری سنا کہ ان کا قدم خدا کے نزدیک صدق کا قدم ہے.۹۷سو ان کو وہ وحی سنا دے جو تیری طرف تیرے ربّ سے ہوئی.۹۸اور یاد رکھ کہ وہ زمانہ آتاہے کہ لوگ کثرت سے تیری طرف رجوع کریں گے.سو تیرے پر واجب ہے کہ تو ان سے بدخُلقی نہ کرے اور تجھے لازم ہے کہ ان کی کثرت کو دیکھ کر تھک نہ جائے.۹۹اور ایسے لوگ بھی ہوں گے جو اپنے وطنوں سے ہجرت کرکے تیرے حجروں میں آکر آباد ہوں گے.وہی ہیں جو خدا کے نزدیک اصحاب الصُفّہ؎۳ کہلاتے ہیں بقیہ حاشیہ.اوڑھنے والے اُٹھ اور (لوگوں کو آنے والے خطرات سے) ڈرا اور اپنے ربّ کی بڑائی بیان کر.۱ (ترجمہ از مرتّب) ۸۷تو دنیا میں ایسے طور پر رہ کہ گویا تو ایک غریب الوطن بلکہ ایک راہرو ہے.۸۸اور صالح اور راستباز لوگوں میں سے ہو.۸۹اور نیکی کی تحریک کر اور بری باتوں سے روک اور محمدؐ پر اور محمدؐ کی آل پر درود بھیج.۹۰ درود ہی تربیت کا ذریعہ ہے.۹۱میں تجھے رفعت دے کر اپنا خاص قرب بخشنے والا ہوں.۲ (ترجمہ از مرتّب) ۹۴پس تُو لکھ اور اسے چھپوایا جائے اور تمام دُنیا میں بھیجا جائے.۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’خدا تعالیٰ نے انہی اصحاب الصُفّہ کو تمام جماعت میں سے پسند کیا ہے اورجو شخص سب کچھ چھوڑ کر اس جگہ آکر آباد نہیں ہوتا اور کم سے کم یہ کہ یہ تمنّا دل میں نہیں رکھتا اُس کی حالت کی نسبت مجھ کو بڑا اندیشہ ہے کہ وہ پاک کرنے والے تعلقات میں ناقص نہ رہے اور یہ ایک پیش گوئی عظیم الشان ہے اور ان لوگوں کی عظمت ظاہر کرتی ہے کہ جو خدا تعالیٰ کے علم میں تھے کہ وہ اپنے گھروں اور وطنوں اور املاک کو چھوڑیں گے
وَمَا اَدْرَاکَ مَا اَصْـحَابُ الصُّفَّۃِ تَـرٰی اَعْیُنَـہُمْ تَفِیْضُ مِن الدَّمْعِ.یُصَلُّوْنَ عَلَیْکَ.۱۰۰رَبَّنَا اِنَّنَا سَـمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْـمَانِ وَ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ وَ سِـرَاجًا مُّنِیْرًا.۱۰۱ اَمْلُوْا.(براہین احمدیہ حصہ سوم.روحانی خزائن جلد۱ صفحہ ۲۶۵ تا ۲۶۸ حاشیہ در حاشیہ نمبر۱ ) بقیہ ترجمہ.اور تُو کیا جانتا ہے کہ وہ کس شان اور کس ایمان کے لوگ ہوں گے جو اصحاب الصفہ کے نام سے موسوم ہیں.وہ بہت قوی الایمان ہوں گے.تو دیکھے گا کہ ان کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوں گے.وہ تیرے پر درود۱؎بھیجیں گے ۱۰۰اور کہیں گے کہ اے ہمارے خدا ہم نے ایک آواز دینے والے کی آواز سنی جو ایمان کی طرف بلاتا ہے اور ایک چمکتا ہوا چراغ ہے.سو ہم ایمان لائے.۱۰۱ان تمام پیش گوئیوں کو تم لکھ لو کہ وقت پر واقع ہوں گی.۱۸۸۲ء ’’براہین کے صفحہ ۲۴۲ ۲؎میں مرقوم ہے… وَلَا تُصَعِّرْ لِـخَلْقِ اللّٰہِ وَلَا تَسْئَمْ مِّنَ النَّاسِ… اور اس کے بعد الہام ہوا.وَ وَسِّعْ مَکَا نَکَ یعنی اپنے مکان کو وسیع کرلے بقیہ حاشیہ.اور میری ہمسایگی کے لئے قادیاں میں آکر بود و باش کریں گے.‘‘ (تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۶۲، ۲۶۳) ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’انسانی عادت اور اسلامی فطرت میں داخل ہے کہ مومن کسی ذوق کے وقت اور کسی مشاہدہ کرشمۂ قدرت کے وقت درود بھیجتا ہے.سو اس یُصَلُّوْنَ عَلَیکَ کے فقرہ میں اشارہ ہے کہ وہ لوگ جو ہر دم پاس رہیں گے وہ کئی قسم کے نشان دیکھتے رہیں گے.پس ان نشانوں کی تاثیر سے بسا اوقات ان کے آنسو جاری ہوجائیں گے اور شدّتِ ذوق اور رقّت سے بےاختیار درود اُن کے منہ سے نکلے گا چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آرہا ہے اور یہ پیش گوئی بار بار ظہور میں آرہی ہے.‘‘ (اربعین نمبر۲.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۳۵۰ حاشیہ) ۲ براہین احمدیہ حصہ سوم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۲۶۸ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۱ (ناشر)
اِس پیشگوئی میں صاف فرما دیا کہ وہ دن آتا ہے کہ ملاقات کرنے والوں کا بہت ہجوم ہوجائے گا یہاں تک کہ ہر ایک کا تجھ سے ملنا مشکل ہوجائے گا.پس تُو نے اس وقت ملال ظاہر نہ کرنا اورلوگوں کی ملاقات سے تھک نہ جانا.سبحان اللہ یہ کس شان کی پیشگوئی ہے اور آج سے ۱۷ برس پہلے اس وقت بتلائی گئی ہے کہ جب میری مجلس میں شاید دو تین آدمی آتے ہوں گے اور وہ بھی کبھی کبھی.اس سے کیسا علم غیب خدا کا ثابت ہوتاہے.‘‘ (سراج منیر.روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۷۳) ۱۸۸۲ء یا اس سے قبل ’’ایک مرتبہ اس عاجز نے اپنی نظر کشفی میں سورۃ فاتحہ کو دیکھا کہ ایک ورق پر لکھی ہوئی اس عاجز کے ہاتھ میں ہے اور ایک ایسی خوبصورت اوردلکش شکل میں ہے کہ گویا وہ کاغذ جس پر سورۃ فاتحہ لکھی ہوئی ہے سُرخ سُرخ اور ملائم گلاب کے پھولوں سے اس قدر لدا ہوا ہے کہ جس کا کچھ انتہا نہیں اور جب یہ عاجز اس سورۃ کی کوئی آیت پڑھتا ہے تو اس میں سے بہت سے گلاب کے پھول ایک خوش آواز کے ساتھ پرواز کرکے اوپر کی طرف اُڑتے ہیں اور وہ پھول نہایت لطیف اور بڑے بڑے اور سُندر اور تروتازہ اور خوشبودار ہیں جن کے اُوپر چڑھنے کے وقت دل و دماغ نہایت معطّر ہوجاتا ہے اور ایک ایسا عالم مستی کا پیدا کرتے ہیں کہ جو اپنی بے مثل لذتوں کی کشش سے دنیا و مافیہا سے نہایت درجہ کی نفرت دلاتے ہیں.اس مکاشفہ سے معلوم ہوا کہ گلاب کے پھول کو سورۃ فاتحہ کے ساتھ ایک روحانی مناسبت ہے.‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۳۹۵، ۳۹۶ حاشیہ نمبر۱۱ ) ۱۸۸۲ء ’’کچھ عرصہ گذرا ہے کہ ایک دفعہ سخت ضرورت روپیہ کی پیش آئی.جس ضرورت کا ہمارے اس جگہ کے آریہ ہم نشینوں کو بخوبی علم تھااور یہ بھی ان کو خوب معلوم تھا کہ بظاہر کوئی ایسی تقریب پیش نہیں ہے کہ جو جائے امید ہوسکے بلکہ اس معاملہ میں ان کو ذاتی طور پر واقفیت تھی جس کی وہ شہادت دے سکتے ہیں.پس جبکہ وہ ایسے مشکل اور فقدان اسباب حل مشکل سے کامل طور پر مطلع تھے اِس لئے بلا اختیار دل میں اس خواہش نے جوش مارا کہ مشکل کشائی کے لئے حضرت ِ احدیّت میں دعا کی جائے تا اس دعا کی قبولیت سے ایک تو اپنی مشکل حل ہوجائے اور دوسرے مخالفین کے لئے تائید الٰہی کا نشان پیدا ہو.ایسا نشان کہ اس کی سچائی پر وہ لوگ گواہ ہوجائیں.سو اُسی دن دعا کی گئی اور خدائے تعالیٰ سے یہ مانگا گیا کہ وہ نشان کے طور پر مالی مدد سے اطلاع بخشے.تب یہ الہام ہوا.
دس دن کے بعد میں موج دکھاتا ہوں.اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ.فِیْ شَائِلٍ مِّقْیَاسٍ.دن وِل یُو گو ٹُو امرت سر؎۱ یعنی دس۱۰ دن کے بعد روپیہ آئے گا.خدا کی مدد نزدیک ہے اور جیسے جب جننے کے لئے اونٹنی دُم اُٹھاتی ہے تب اس کا بچہ جننا نزدیک ہوتا ہے ایسا ہی مدد الٰہی بھی قریب ہے اور پھر انگریزی فقرہ میں یہ فرمایا کہ دس دن کے بعد جب روپیہ آئے گا تب تم امرتسر بھی جاؤ گے.تو جیسا اس پیش گوئی میں فرمایا تھا ایسا ہی ہندوؤں یعنی آریوں مذکورۂ بالا کے روبرو وقوع میں آیا.یعنی حسب منشاء پیش گوئی دس دن تک ایک خر مہرہ نہ آیا اور دس دن کے بعد یعنی گیارہویں روز محمد افضل خان صاحب سپرنٹنڈنٹ بندوبست راولپنڈی نے ایک سو دس روپیہ بھیجے اور بیست روپیہ ایک اور جگہ سے آئے اور پھر برابر روپیہ آنے کا سلسلہ ایسا جاری ہوگیا جس کی امید نہ تھی اور اُسی روز کہ جب دس دن کے گذرنے کے بعد محمد افضل خان صاحب وغیرہ کا روپیہ آیا امرتسر بھی جانا پڑا کیونکہ عدالت ِ خفیفہ امرتسر سے ایک شہادت کے ادا کرنے کے لئے اس عاجز کے نام اُسی روز ایک سمن آگیا.‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۵۹ تا ۵۶۱ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳ ) ۱۸۸۲ء ’’کچھ عرصہ ہوا…ایک صاحب نور احمد نامی جو حافظ اور حاجی بھی ہیں بلکہ شاید کچھ عربی دان بھی ہیں اور واعظِ قرآن ہیں اور خاص امرتسر میں رہتے ہیں اتفاقاً اپنی درویشانہ حالت میں سیر کرتے کرتے یہاں بھی آگئے…چونکہ وہ ہمارے ہی یہاں ٹھہرے اور اس عاجز پر اُنہوں نے خود آپ ہی یہ غلط رائے جو الہام کے بارے میں اُن کے دل میں تھی؎۲ مدعیانہ طور پر ظاہر بھی کردی اس لئے دل میں بہت رنج گذرا.ہر چند معقول طور پر سمجھایا گیا کچھ اثر مترتب نہ ہوا.آخر توجہ الی اللہ تک نوبت پہنچی اور اُن کو قبل از ظہور پیش گوئی بتلایا گیا کہ خداوند کریم کی حضرت میں دعا کی جائے گی کچھ تعجب نہیں کہ وہ دعا بپایۂ اجابت پہنچ کر کوئی ایسی پیش گوئی خداوند ِ کریم ظاہر فرما دے جس کو تم بچشمِ خود دیکھ جاؤ.۱ Then will you go to Amritsar.۲ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) کہ الہام انسان کے دماغی خیالات ہی کا نام ہے.
سو اُس رات اِس مطلب کے لئے قادرِ مطلق کی جناب میں دعا کی گئی.علی الصباح بہ نظر کشفی ایک خط دکھلایا گیا جو ایک شخص نے ڈاک میں بھیجا ہے.اس خط پر انگریزی زبان میں لکھا ہوا ہے.آئی ایم کو ٔرلر؎۱ اور عربی میں یہ لکھا ہوا ہے.ھٰذَا شَا ھِدٌ نَـزَّاغٌ اور یہی الہام حِکَا یَۃً عَنِ الْکَاتِب القا کیا گیا اور پھر وہ حالت جاتی رہی.چونکہ یہ خاکسار انگریزی زبان سے کچھ واقفیت نہیں رکھتا.اس جہت سے پہلےعلی الصباح میاں نور احمد صاحب کو اس کشف اور الہام کی اطلاع دے کر اور اُس آنے والے خط سے مطّلع کرکے پھر اُسی وقت ایک انگریزی خوان سے اُس انگریزی فقرہ کے معنے دریافت کئے گئے تو معلوم ہوا کہ اُس کے یہ معنے ہیں کہ میں جھگڑنے والا ہوں.سو اِس مختصر فقرہ سے یقیناً یہ معلوم ہوگیا کہ کسی جھگڑے کے متعلق کوئی خط آنے والا ہے اور ھٰذَا شَاھِدٌ نَزَّاغٌ کہ جو کاتب کی طرف سے دوسرا فقرہ لکھا ہوا دیکھا تھا اُس کے یہ معنی کھلے کہ کاتب ِ خط نے کسی مقدّمہ کی شہادت کے بارہ میں وہ خط لکھا ہے.اُس دن حافظ نور احمد صاحب بباعث ِ بارش باران امرتسر جانے سے روکے گئے اور درحقیقت ایک سماوی سبب سے اُن کا روکا جانا بھی قبولیت ِ دعا کے ایک خبر تھی تا وہ جیسا کہ اُن کے لئے خدائے تعالیٰ سے درخواست کی گئی تھی پیش گوئی کے ظہور کو بچشمِ خود دیکھ لیں.غرض اُس تمام پیش گوئی کا مضمون ان کو سنا دیا گیا.شام کو اُن کے روبرو پادری رجب علی صاحب مہتمم و مالک مطبع سفیر ہند کا ایک خط رجسٹری شدہ امرتسر سے آیا.جس سے معلوم ہوا کہ پادری صاحب نے اپنے کاتب پر جو اِسی کتاب کا کاتب ہے عدالت ِ خفیفہ میں نالش کی ہے اور اِس عاجز کو ایک واقعہ کا گواہ ٹھہرایا ہے اور ساتھ اُس کے ایک سرکاری سمن بھی آیا اور اس خط کے آنے کے بعد وہ فقرہ الہامی یعنی ھٰذَا شَاھِدٌ نَزَّاغٌ جس کے یہ معنی ہیں کہ یہ گواہ تباہی ڈالنے والا ہے، ان معنوں پر محمول معلوم ہوا کہ مہتمم مطبع سفیر ہند کے دل میں بہ یقین کامل یہ مرکوز تھا کہ اس عاجز کی شہادت جو ٹھیک ٹھیک اور مطابق واقعہ ہوگی بباعث و ثاقت اور صداقت اور نیز بااعتبار اور قابل قدر ہونے کی و جہ سے سے فریق ثانی پر تباہی ڈالے گی اور اسی نیت سے مہتمم مذکور نے اس عاجز کو ادائے شہادت کے لئے تکلیف بھی دی اور سمن جاری کرایا اور اتفاق ایسا ہوا کہ ۱ I am quarreler.
جس دن یہ پیش گوئی پوری ہوئی اور امرتسرجانے کا سفر پیش آیا وہی دن پہلی پیشگوئی کے پورے ہونے کا دن تھا.سو وہ پہلی پیشگوئی بھی میاں نور احمد صاحب کے رُوبرو پوری ہوگئی یعنی اُسی دن جو دس دن کے بعد کا دن تھا روپیہ آگیا اور امرتسر بھی جانا پڑا.فَالْـحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ.‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۶۲تا ۵۶۵ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳) ۱۸۸۲ء ’’ایک دفعہ فجر کے وقت الہام ہوا کہ آج حاجی ارباب محمد لشکر خان کے قرابتی کا روپیہ آتا ہے یہ پیش گوئی بھی بدستورِ معمول اُسی وقت چند آریوں کو بتلائی گئی اور یہ قرار پایا کہ اُنہیں میں سے ڈاک کے وقت کوئی ڈاک خانہ میں جاوے چنانچہ ایک آریہ ملاوامَل نامی اُس وقت ڈاک خانہ میں گیا اور یہ خبر لایا کہ ہوتی مردان سے دس روپیہ آئے ہیں اور ایک خط لایا جس میں لکھا تھا کہ یہ دس روپیہ ارباب سرور خان نے بھیجے ہیں.چونکہ ارباب کے لفظ سے اتحادِ قومی مفہوم ہوتا تھا اس لئے اُن آریوں کو کہا گیاکہ ارباب کے لفظ میںدونوں صاحبوں کی شراکت ہونا پیش گوئی کی صداقت کے لئے کافی ہے.مگر بعض نے اُن میں سے اس بات کو قبول نہ کیا اور کہا کہ اتحادِ قومی شے دیگر ہے اور قرابت شے دیگر اور اس انکار پر بہت ضد کی.ناچار ان کے اصرار پر خط لکھنا پڑا اور وہاں سے یعنی ہوتی مردان سے کئی روز کے بعد ایک دوست منشی الٰہی بخش نامی نے جو اُن دنوں میں ہوتی مردان میں اکونٹنٹ تھے خط کے جواب میں لکھا کہ ارباب سرور خان ارباب محمد لشکر خان کا بیٹا ہے چنانچہ اُس خط کے آنے پر سب مخالفین لاجواب اور عاجز رہ گئے.فَالْـحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ.‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم.روحانی خزائن جلد۱ صفحہ ۵۶۵،۵۶۶ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳) ۳۰؍دسمبر ۱۸۸۲ء (الف) ’’ایک عجیب کشف سے جو مجھ کو۳۰ ؍دسمبر ۱۸۸۲ء بروز شنبہ کو یک دفعہ ہوا.آپ کے شہر؎۱کی طرف نظر لگی ہوئی تھی اور ایک شخص؎۲نامعلوم الاسم کی ارادت صادقہ خدا نے میرے پر ظاہر کی جو ۱ لدھیانہ (ناشر) ۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’لودہانہ میں ایک صاحب میر عباس علی نام تھے جو بیعت کرنے والوں میں داخل تھے.چند سال تک انہوں نے اخلاص میں ایسی ترقی کی کہ ان کی موجودہ حالت کے لحاظ سے ایک دفعہ الہام ہوا.اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُھَا فِی السَّمَآءِ.اس الہام سے صرف اس قدر مطلب تھا کہ اُس زمانہ میں وہ راسخ الاعتقاد
باشندۂ لودہیانہ ہے.اس عالمِ کشف میں اس کا تمام پتہ و نشان سکونت بتلادیا جو اَب مجھ کو یاد نہیں رہا.صرف اتنا یاد رہا کہ سکونت خاص لودہیانہ اور اُس کے بعد اُس کی صفت میں یہ لکھا ہوا پیش کیا گیا.سچا ارادت مند.اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُھَافِی السَّمَآءِ؎۱ یعنی اس کی ارادت ایسی قوی اور کامل ہے کہ جس میں نہ کچھ تزلزل ہے نہ نقصان ہے.‘‘ (از مکتوب بنام میر عباس علی صاحب.مکتوبات احمد جلد ۱ صفحہ ۵۱۰ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) (ب) ’’ میں نے قریب صبح کے کشف کے عالم میں دیکھا کہ ایک کاغذ میرے سامنے پیش کیا گیا اس پر لکھا ہے کہ ’’ایک ارادت مند لدھیانہ میں ہے.‘‘ پھر اس کے مکان کا پتہ مجھے بتایا گیا اور نام بھی بتایا گیا جو مجھے یاد نہیں اور پھر اس کی ارادت اور قوتِ ایمانی کی یہ تعریف اسی کاغذ میں لکھی ہوئی دکھائی.اَصْلُھَا ثَا بِتٌ وَّ فَرْعُھَا فِی السَّمَآءِ‘‘ مجھے معلوم نہیں کہ وہ کون شخص ہے مگر مجھے شک پڑتا ہے کہ شاید خداوند ِ کریم آپ ہی میں وہ حالت پیدا کرے یا کسی اور میں.وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.‘‘ (از مکتوب بنام نواب علی محمد خان صاحبؓ جھجر.مکتوبات احمد جلد ۳ صفحہ ۳۹ مطبوعہ ۲۰۱۳ء) ۱۸۸۳ء بقیہ حاشیہ.تھے اور ایسے ہی انہوں نے اس زمانہ میں آثار ظاہر کئے کہ ان کے لئے بجز میرے ذکر کے اور کوئی ورد نہ تھااور ہر ایک میرے خط کو نہایت درجہ متبرک سمجھ کر اپنے ہاتھ سے اس کی نقل کرتے تھے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے تھے اور اگر ایک خشک ٹکڑا بھی دستر خوان کا ہو تو متبرک سمجھ کر کھاجاتے تھے اور سب سے پہلے لدھیانہ سے وہی قادیان میں آئے تھے.ایک مرتبہ مجھ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے دکھایا گیا کہ عبّاس علی ٹھوکر کھائے گا اور برگشتہ ہوجائے گا.وہ میرا خط بھی اُنہوں نے میرے ملفوظات میں درج کرلیا.بعد اس کے جب اُن کی ملاقات ہوئی تو اُنہوں نے مجھ کو کہا کہ مجھ کو اس کشف سے جو میری نسبت ہوا بڑا تعجب ہوا کیونکہ میں تو آپ کے لئے مرنے کو تیار ہوں.میں نے جواب دیا کہ جو کچھ آپ کے لئے مقدر ہے وہ پورا ہوگا.بعد اس کے جب وہ زمانہ آیا کہ میں نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو وہ دعویٰ اُن کو ناگوار گذرا.اوّل دل ہی دل میں پیچ و تاب کھاتے رہے بعد اس کےاس مباحثہ کے وقت جو مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب سے لدھیانہ میں میری طرف سے ہوا تھا اور اس تقریب سے چند دن اُن کو مخالفوں کی صحبت بھی میسر آگئی تو نوشتہءِ تقدیر ظاہر ہوگیا اور وہ صریح طور پر بگڑ گئے.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۰۷) ۱ (ترجمہ از مرتّب) اس کی جڑ زمین میں محکم ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہیں.
۱۸۸۳ء ’’ آنمخدوم کی تحریرات کے پڑھنے سے بہت کچھ حالِ صداقت و نجابت ِ آنمخدوم ظاہر ہوتا ہے اور ایک مرتبہ بنظرِ کشفی بھی کچھ ظاہر ہوا تھا.شاید کسی زمانہ میں خداوند کریم اس سے زیادہ اور کچھ ظاہر کرے.‘‘ (از مکتوب بنام میر عباس علی صاحب.مکتوبات احمد جلد اوّل صفحہ۵۱۴ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸۸۳ء ’’ جس روز آپ کا خط آیا اسی روز بعض عبارتیں آپ کے خط کی کسی قدر کمی بیشی سے بصورت کشفی ظاہر کی گئیں اور وہ فقرات زیادہ آپ کے دل میں ہوں گے.یہ خداوند کریم کی طرف سے ایک رابطہ بخشی ہے.‘‘ (از مکتوب بنام میر عباس علی صاحب.مکتوبات احمد جلد اوّل صفحہ۵۱۵ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸۸۳ء ؎۱ ’’وقت ملاقات ایک گفتگو کے اثناء میں بنظر کشفی آپ کی حالت ایسی معلوم ہوئی کہ کچھ دل میں انقباض؎۲ ہے.اور نیز آپ کے بعض خیالات جو آپ بعض اشخاص کی نسبت رکھتے تھے.حضرت احدیت کی نظر میں درست نہیں تو اس پر یہ الہام ہوا.قُلْ ھَا تُوْا بُرْھَا نَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ ؎۳ …اس وقت یہ بیان کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا مگر بہت ہی سعی کی گئی کہ خداوند کریم اس کو دور کرے مگر تعجب نہیں کہ آئندہ بھی کوئی ایسا انقباض پیش آوے.جب انسان ایک نئے گھر میں داخل ہوتا ہے تو اس کے لئے ضرور ہے کہ اس گھر کی وضع قطع میں بعض اُمور اُس کو حسب مرضی اور بعض خلاف مرضی معلوم ہوں اس لئےمناسب ہے کہ آپ اس محبت کو خدا سے بھی چاہیں اور کسی نئے امر کے پیش آنے میں مضطرب نہ ہوں تا یہ محبت کمال کے درجہ تک پہنچ جائے.یہ عاجز خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک حالت رکھتا ہے جو زمانہ کی رسمیات سے ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) کتاب حیات احمد جلد ۲ حصہ دوم صفحہ ۲۱۶،۲۱۷ مطبوعہ ۲۰۱۳ء سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اوائل۱۸۸۳ء کا مکاشفہ ہے.وَاللہُ اَعْلَمُ.۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) اس کشف کے مطابق میر عباس علی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ مسیحیت و مہدویت کے وقت برگشتہ ہوگئے اور اس حالت پر اُن کا انجام ہوا.اس مکتوب کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۲۲؍ستمبر۱۸۸۳ء کے مکتوب میں بھی اُنہیں اس آنے والے ابتلاء سے آگاہ کیا تھاجس کے الفاظ یہ ہیں.’’خدا وند کریم آپ کی تائید میں رہے اور مکر وہاتِ زمانہ سے بچاوے.اس عاجز سے تعلق اور ارتباط کرنا کسی قدر ابتلاء کو چاہتا ہے سو اس ابتلاء سے آپ بچ نہیں سکتے.‘‘ (از مکتوب بنام میر عباس علی صاحب مکتوبات احمد جلد ۱ صفحہ ۵۷۱ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۳ (ترجمہ از مرتّب) کہہ اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل لاؤ.
بہت ہی دُور پڑی ہوئی ہے اور ابھی تک ہر ایک رفیق کو یہی جواب روح کی طرف سے ہے.اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا.وَکَیْفَ تَصْبِرُ عَلٰی مَالَمْ تُـحِطْ بِہٖ خُبْرًا.؎۱ (ازمکتوب بنام میر عباس علی صاحب لدھیانوی.مکتوبات احمد جلد ۱ صفحہ ۵۲۴،۵۲۵ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸۸۳ء ’’ پنڈت شیو نارائن نے جو برہمو سماج کا ایک منتخب معلّم ہے لاہور سے میری طرف ایک خط لکھا کہ میں حصّہ سوم؎۲ کا ردّ لکھنا چاہتا ہوں.ابھی وہ خط اس جگہ نہیں پہنچا تھا کہ خدا نے بطور مکاشفات مضمون اس خط کا ظاہر کردیا چنانچہ کئی ہندوؤں کو بتلایا گیا اور شام کو ایک ہندو کو ہی جو آریہ ہے ڈاک خانہ میں بھیجا گیا تا گواہ رہے.وہی ہندو اُس خط کو ڈاک خانہ سے لایا.پھر میں نے پنڈت شیونارائن کو لکھا کہ جس الہام کا تم ردّ لکھنا چاہتے ہو خدا نے اُسی کے ذریعہ سے تمہارے خط کی اطلاع دی اور اُس کے مضمون سے مطّلع کیا.اگر تم کو شک ہے تو خود قادیان میں آکر اُس کی تصدیق کرلو کیونکہ تمہارے ہندو بھائی اس کے گواہ ہیں ردّ لکھنے میں بہت سی تکلیف ہوگی اور اس طرح جلدی فیصلہ ہوجائے گا.میں نے یہ بھی لکھا کہ اگر تم صدق دل سے بحث کرتے ہو تو تمہیں اس جگہ ضرور آنا چاہیے کہ اس جگہ اپنے بھائیوں کی شہادت سے حق الامر کھل جائے گا لیکن باوجود ان سب تاکیدوں کے پنڈت صاحب نے کچھ جواب نہ لکھا اور اس بارہ میں دم بھی نہ مارا اور وہ الہام پورا ہوا جو حصہ سوم میں چھپ چکا ہے.سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْ بِـھِمُ الرُّعْبَ۳؎.‘‘ ( از مکتوب بنام میر عباس علی صاحب.مکتوبات احمد جلد اوّل صفحہ ۵۱۵، ۵۱۶ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) اپریل ۱۸۸۳ء ’’ ایک دفعہ اپریل۱۸۸۳ء میں صبح کے وقت بیداری ہی میں جہلم سے روپیہ روانہ ہونے کی اطلاع دی گئی اور… اُس روپیہ کے روانہ ہونے کے بارہ میں جہلم سے کوئی خط نہیں آیا تھا… اور ابھی پانچ روز نہیں گذرے تھے جو پینتالیس۴۵ روپیہ کا منی آرڈر جہلم سے آگیا اور جب حساب کیا گیا تو ٹھیک ٹھیک اُسی دن منی آرڈر روانہ ہوا تھا جس دن خداوند عالم الغیب نے اُس کے روانہ ہونے کی خبر دی تھی.‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم.روحانی خزائن جلد۱ صفحہ ۵۶۷، ۵۶۸ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳) ۱۸۸۳ء ’’ ایک مرتبہ اس عاجز نے خواب میں دیکھا کہ ایک عالی شان حاکم یا بادشاہ کاایک جگہ خیمہ لگا ہوا ہے ۱ (ترجمہ از ناشر) یقیناً تو ہرگز میرے ساتھ صبر کی استطاعت نہیں رکھے گا اور تو کیسے اس پر صبر کرسکے گا جس کا تو تجربہ کے ذریعہ احاطہ نہیں کرسکا.(الکھف: ۶۸،۶۹ ) ۲ مراد براہین احمدیہ کا حصّہ سوم (مرزا بشیر احمد) ۳ (ترجمہ) سو عنقریب ہم ان کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے.(براہین احمدیہ حصہ سوم روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۷۰ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۴)
اور لوگوں کے مقدمات فیصل ہورہے ہیں اور ایسا معلوم ہوا کہ بادشاہ کی طرف سے یہ عاجز محافظ د فتر کا عہدہ رکھتا ہے اور جیسے د فتروں میں مثلیں ہوتی ہیں بہت سی مثلیں پڑی ہوئی ہیں اور اس عاجز کے تحت میں ایک شخص نائب محافظ د فتر کی طرح ہے.اتنے میں ایک اردلی دوڑتا آیا کہ مسلمانوں کی مثل پیش ہونے کا حکم ہے وہ جلد نکالو.پس یہ رؤیابھی دلالت کررہی ہے کہ عنایاتِ الٰہیہ مسلمانوں کی اصلاح اور ترقی کی طرف متوجہ ہیں اور یقین کامل ہے کہ اس قوتِ ایمان اور اخلاص اور توکل کو جو مسلمانوں کو فراموش ہوگئے ہیں پھر خداوند کریم یاد دلائے گا اور بہتوں کو اپنے خاص برکات سے متمتّع کرے گا کہ ہر یک برکت ظاہری اور باطنی اُسی کے ہاتھ میں ہے.‘‘ (از مکتوب بنام میر عباس علی صاحب مکتوبات احمد جلد ۱صفحہ ۵۲۸ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸۸۳ء چند روز ہوئے کہ خداوند کریم کی طرف سے ایک اور الہام ہوا تھا… ’’۱.قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُـحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُـحْبِبْکُمُ اللّٰہُ.۲.اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَـوْمِ الْقِیَامَۃِ.۳.وَقَالُوْا اَنّٰی لَکَ ھٰذَا.۴.قُلْ ھُوَاللّٰہُ عَـجِیْبٌ.۵.یَـجْتَبِیْ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ.۶.وَتِلْکَ الْاَ.یَّـامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ.؎۱ اور یہ آیت کہ وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یُوْمِ الْقِیَامَۃِ بار بار الہام ہوئی اور اس قدر متواتر ہوئی کہ جس کا شمار خدا ہی کو معلوم ہے اور اس قدر زور سے ہوئی کہ میخ فولادی کی طرح دل کے اندر داخل ہے اس سے یقیناً معلوم ہواکہ خداوند کریم اُن سب دوستوں کو جو اس عاجز کے طریق پر قدم ماریں بہت سی برکتیں دے گا اوران کو دوسرے طریقوں کے لوگوں پر غلبہ بخشے گا اور یہ غلبہ قیامت تک رہے گا اور اس عاجز کے بعد کوئی ایسا مقبول آنے والا نہیں جو اس طریق کے مخالف قدم مارے اور جو مخالف قدم مارے گا اُس کو خدا تباہ کرے گا اور اُس کے سلسلہ کو پائیداری نہیں ہوگی.یہ خدا کی طرف سے وعدہ ہے جو ہرگز تخلّف نہیں کرے گا.‘‘ (از مکتوب بنام میر عباس علی صاحب.مکتوبات احمد جلد اوّل صفحہ۵۳۴ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱ (ترجمہ از مرتّب) ۱کہہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت رکھے.۲میں تجھے وفات دوں گا اور تجھے اپنی طرف اُٹھاؤں گا اور میں تیرے تابعین کو تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رکھوں گا.۳لوگ کہیں گے کہ یہ مقام تجھے کہاں سے حاصل ہوا.۴کہہ وہ خدا عجیب ہے.۵جس کو چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے چُن لیتا ہے.۶ اور یہ دن ہم لوگوں میں پھیرتے رہتے ہیں.
۱۲؍جون ۱۸۸۳ء ’’آج قبل تحریر اس خط کے یہ الہام ہوا.۱ کَذَ.بَ عَلَیْکُمُ الْـخَبِیْثُ.۲کَذَ.بَ عَلَیْکُمُ الْـخِنْزِیْـرُ.۳.عِنَایَتُ اللّٰہِ حَافِظُکَ.۴.اِنِّیْ مَعَکَ اَسْـمَعُ وَاَریٰ.۵.اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ.۶.فَبَرَّأَہُ اللّٰہُ مِـمَّا قَالُوْا ۷.وَکَانَ عِنْدَ اللّٰہِ وَجِیْـھًا.؎۱ ان الہامات میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ کوئی ناپاک طبع آدمی؎۲اِس عاجز پر کچھ جھوٹ بولے گا یا جھوٹ بولا ہو مگر عنایت الٰہی حافظ ہے.‘‘ (از مکتوب بنام میر عباس علی صاحب.مکتوباتِ احمد جلد ۱صفحہ ۵۳۴ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸۸۳ء یا اس سے قبل ’’کئی دفعہ اس عاجز کو نہایت صراحت سے الہام ہوا ہے کہ وید گمراہی سے بھرا ہوا ہے.‘‘ (از مکتوب بنام میر عباس علی صاحب.مکتوباتِ احمد جلد ۱ صفحہ ۵۳۸ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱ (ترجمہ از مرتّب) ۱ تم پر اس ناپاک نے جھوٹ باندھا ہے.۲تم پر اس خنزیر نے جھوٹ باندھا ہے.۳.اللہ تعالیٰ کی عنایت تیری نگہبان ہے.۴میں تیرے ساتھ ہوں.میں سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں.۵کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے.۶سو خدا نے ان کے الزاموں سے اس کو بَری ثابت کیا.۷.اور وہ خدا کے نزدیک وجیہ ہے.۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یہ اس مقدّمہ کی طرف اشارہ ہے جو مارٹن کلارک نے اگست ۱۸۹۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کھڑا کیا تھا.چنانچہ حضور اقدس تحریر فرماتے ہیں.’’اسی مقدمہ کے ذریعہ سے جو خون کے الزام کا مقدمہ تھا وہ الہامی پیش گوئی پوری ہوئی جو براہین احمدیہ میں اس مقدمہ سے ۲۰ برس پہلے درج تھی اور وہ الہام یہ ہے.فَبَرَّاَ ہُ اللّٰہُ مِـمَّا قَالُوْا وَکَانَ عِنْدَ اللّٰہِ وَجِیْـھًا.یعنی خدا اس شخص کو اس الزام سے جو اس پر لگایا جائے گا بَری کردے گا کیونکہ وہ خدا کے نزدیک وجیہہ ہے.سو یہ خدا تعالیٰ کا ایک بھاری نشان ہے کہ باوجود یکہ قوموں نے میرے ذلیل کرنے کے لئے اتفاق کرلیا تھا مسلمانوں کی طرف سے مولوی محمد حسین صاحب تھے، ہندوؤں کی طرف سے لالہ رام بھجدت وکیل تھے اور عیسائیوں کی طرف سے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب مع اپنی تمام جماعت آئے اور جنگ احزاب کی طرح ان قوموں نے بالاتفاق میرے پر چڑھائی کی تھی لیکن خدا تعالیٰ نے سب کو ذلیل کیا اور مجھے بَری کیا…تا وہ بات پُوری ہو جس کی طرف اس الہامی پیش گوئی میں اشارہ تھا کہ بَرَّأَہُ اللّٰہُ مِـمَّا قَالُوْا.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۷۸،۵۷۹)
۱۸۸۳ء یا اس سے قبل ’’کچھ عرصہ ہوا ہے کہ خواب میں دیکھا تھا کہ حیدر آباد سے نواب اقبال الدولہ صاحب کی طرف سے خط آیا ہے اور اس میں کسی قدر روپیہ دینے کا وعدہ لکھا ہے…پھر تھوڑے دنوں کے بعد حیدر آباد سے خط آگیا اور نواب صاحب موصوف نے سو روپیہ بھیجا.فَالْـحَمْدُ لِلہِ عَلٰی ذٰلِکَ ‘ ‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۶۸، ۵۶۹ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳) ۱۸۸۳ء یا اس سے قبل ’’ایک دفعہ کی حالت یاد آئی ہے کہ انگریزی میں اوّل یہ الہام ہوا.آئی لَوْ یُو؎۱ یعنی میں تم سے محبت رکھتا ہوں.پھر یہ الہام ہوا.آئی ایم وِد یُو؎۲ یعنی میں تمہارے ساتھ ہوں.پھرالہام ہوا.آئی شیل ہیلپ یُو؎۳ یعنی میں تمہاری مدد کروں گا.پھر الہام ہوا.آئی کین وَیٹ آئی وِل ڈُو؎۴ یعنی میں کرسکتا ہوں جو چاہوں گا.پھر اس کے بعد بہت ہی زور سے جس سے بدن کانپ گیا یہ الہام ہوا.وِی کین وَیٹ وِی وِل ڈُو ؎۵ یعنی ہم کرسکتے ہیں جو چاہیں گے.اور اُس وقت ایک ایسا لہجہ اور تلفظ معلوم ہوا کہ گویا ایک انگریز ہے جو سر پر کھڑا ہوا بول رہا ہے اور باوجود پُر دہشت ہونے کے پھر اُس میں ایک لذت تھی جس سے رُوح کو معنے معلوم کرنے سے پہلے ہی ایک تسلی اور تشفی ملتی تھی اور یہ انگریز ی زبان کا الہام اکثر ہوتا رہا ہے.‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۷۱، ۵۷۲ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳ ) ۱ I love you.۲ I am with you.۳ I shall help you.۴ I can what I will do.۵ We can what we will do.
۱۸۸۳ء یا اس سے قبل ’’ایک دفعہ صبح کے وقت بہ نظر کشفی چند ورق چھپے ہوئے دکھائے گئے کہ جو ڈاک خانہ سے آئے ہیں اور اخیر پر اُن کے لکھا تھا.آئی ایم بائی عیسیٰ ؎۱ یعنی میں عیسیٰ کے ساتھ ہوں چنانچہ وہ مضمون کسی انگریزی خوان سے دریافت کرکے دو ہندو آریہ کو بتلایا گیا جس سے یہ سمجھا گیا تھا کہ کوئی شخص عیسائی یا عیسائیوں کی طرز پر دینِ اسلام کی نسبت کچھ اعتراض چھپواکر بھیجے گا چنانچہ اُسی روز ایک آریہ کو ڈاک آنے کے وقت ڈاک خانہ میں بھیجا گیا تو وہ چند چھپے ہوئے ورق لایا جس میں عیسائیوں کی طرز پر ایک صاحب خام خیال نے اعتراضات لکھے تھے.‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۷۳، ۵۷۴ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳ ) ۱۸۸۳ء یا اس سے قبل ’’ایک دفعہ کسی امر میں جو دریافت طلب تھا خواب میں ایک درم نُقرہ جو بشکل بادامی تھا اِس عاجز کے ہاتھ میں دیا گیا.اُس میں دو سطریں تھیں.اوّل سطر میں یہ فقرہ لکھا تھا.یَس آئی ایم ہَیپی؎۲ اور دوسری سطر جو خطِ فارق ڈال کر نیچے لکھی ہوئی تھی وہ اُسی پہلی سطر کا ترجمہ تھا.یعنی یہ لکھا تھا کہ ہاں میں خوش ہوں.‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۷۴،۵۷۵ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳) ۱۸۸۳ء یا اس سے قبل ’’ایک دفعہ کچھ حزن اور غم کے دن آنے والے تھے کہ ایک کاغذ پر بہ نظر کشفی یہ فقرہ انگریزی میں لکھا ہوا دکھایا گیا.لائف آف پین ؎۳ یعنی زندگی دُکھ کی.‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۷۵ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳ ) ۱۸۸۳ء یا اس سے قبل ’’ایک دفعہ بعض مخالفوں کے بارہ میں جنہوں نے عنادِ دلی سے خواہ نخواہ ۱ I am by Isa.۲ Yes, I am happy.۳ Life of pain.
قرآن شریف کی توہین کی تھی اور عداوتِ ذاتی سے جس کا کچھ چارہ نہیں دینِ متین اسلام پر بے جا اعتراضات اور بیہودہ تعرضات کئے تھے.یہ دو فقرے انگریزی میں الہام ہوئے.گوڈ اِز کمنگ بائی ہز آرمی؎۱.ہی اِز وِد یُو ٹو کِل اینیمی؎۲ یعنی خدا ئے تعالیٰ دلائل اور براہین کا لشکر لے کر چلا آتا ہے.وہ دشمن کو مغلوب اور ہلاک کرنے کے لئے تمہارے ساتھ ہے.‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۷۶، ۵۷۷ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳) ۱۸۸۳ء ’’ بُـوْرِکْتَ یَـا اَحْـمَدُ وَکَانَ مَا بَـارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ حَقًّا فِیْکَ.اے احمد تو مبارک کیا گیا ہے اور خدا نے جو تجھ میں برکت رکھی ہے وہ حقّانی طور پر رکھی ہے.شَاْنُکَ عَـجِیْبٌ وَّ اَجْرُکَ قَرِیْبٌ.تیری شان عجیب ہے اور تیرا بدلہ نزدیک ہے.اِنِّیْ رَاضٍ مِّنْکَ.اِنِّیْ رَافِعُکَ اِلَیَّ.اَ لْاَرْضُ وَالسَّمَآءُ مَعَکَ کَمَا ھُوَ مَعِیْ.میں تجھ سے راضی ہوں.میں تجھے اپنی طرف اُٹھانے والا ہوں.زمین اور آسمان تیرے ساتھ ہیں جیسے وہ میرے ساتھ ہیں.ھُوَ کا ضمیر واحد بتاویل مَا فِی السَّمٰوَاتِ وَا لْاَرْضِ ہے اور ان کلمات کا حاصل مطلب تلطّفات اور برکاتِ الٰہیہ ہیں.جو حضرت خیرالرسل کی متابعت کی برکت سے ہر یک کامل مومن کے شامل حال ہوجاتی ہیں اور حقیقی طور پر مصداق اِن سب عنایات کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور دوسرے سب طفیلی ہیں.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۷۹،۵۸۰ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳) ۱۸۸۳ء ’’پھر بعد اس کے فرمایا.۱اَنْتَ وَجِیْہٌ فِیْ حَضْـرَتِیْ ۲اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ.۱.تو میری درگاہ میں وجیہ ہے.۲.میں نے تجھے اپنے لئے اختیار کیا.۱ God is coming by His army.۲ He is with you to kill enemy.(نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) انگریزی زبان میں لفظ بائی by بمعنی together with اور in company with یعنی معیت اور ساتھ ہونے کے معنوں میں بھی بولا جاتا ہے.حوالہ کے لئے دیکھیے Dialect Dictionary by Joseph
اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَتَفْرِیْدِ یْ ۴.فَـحَانَ اَنْ تُعَانَ وَتُعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ.۳.تو مجھ سے ایسا ہے جیسا میری توحید اور تفرید؎۱.۴.سو وہ وقت آگیا جو تیری مدد کی جائے اور تجھ کو لوگوں میں معروف و مشہور کیا جائے.۵.ھَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّ ھْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا.۵.کیا انسان پر یعنی تجھ پر وہ وقت نہیں گذرا کہ تیرا دنیا میں کچھ بھی ذکر و نہ تھا.یعنی تجھ کو کوئی نہیں جانتا تھا کہ تو کون ہے اور کیا چیز ہے اور کسی شمار و حساب میں نہ تھا یعنی کچھ بھی نہ تھا.یہ گذشتہ تلطفات و احسا نات کا حوالہ ہے تا محسن حقیقی کے آئندہ فضلوں کے لئے ایک نمونہ ٹھہرے.۶.سُبْـحَانَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی زَادَ مَـجْدَکَ.یَنْقَطِعُ اٰبَآ ؤُکَ وَ یُبْدَءُ مِنْکَ.۶.سب پاکیاں خدا کے لئے ہیں جو نہایت برکت والا اور عالی ذات ہے.اُس نے تیرے مجد کو زیادہ کیا.تیرے آباء کا نام اور ذکر منقطع ہوجائے گا.یعنی بطور مستقل اُن کا نام نہیں رہے گا اور خدا تجھ سے ابتداء شرف اور مجد کا کرے گا.۷.نُصِرْتَ بِالرُّعْبِ وَاُحْیِیْتَ بِا لصِّدْ قِ اَیُّـھَا الصِّدِّ یْقُ.۸.نُصِرْتَ وَقَالُوْا لَاتَ حِیْنَ مَنَاصٍ.۷.تو رعب کے ساتھ مدد کیا گیا اور صدق کے ساتھ زندہ کیا گیا اے صدیق.۸.تو مدد کیا گیا اور مخالفوں نے کہا کہ اب گریز کی جگہ نہیں.یعنی امدادِ الٰہی اُس حد تک پہنچ جائے گی کہ مخالفوں کے دل ٹوٹ جائیں گے اور اُن ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’میرے نزدیک اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ شخص بہ منزلہ توحید کے ہوتا ہے جو کہ ایسے زمانہ میں آوے جبکہ توحید کی حقارت اور بے عزتی ہوتی ہو اور شرک کی عظمت اور قدر کی جاتی ہو.اس شخص مامورشدہ کو توحید کی پیاس ایسی لگائی جاتی ہے کہ وہ تمام اپنے اغراض اور مقاصد کو ایک طرف رکھ کر توحید کے قائم کرنے میں خود ایک مجسّم توحید ہوجاتا ہے.اس کے اٹھنے بیٹھنے اور حرکت اور سکون اور ہر ایک قول و فعل میں توحید کی لو اُسے لگی ہوئی ہوتی ہے.دنیا میں لوگوں نے اپنے اپنے مقاصد کو بُت بنارکھا ہے مگر جب تک خدا کسی کو یہ سوز و گداز توحیدکے واسطے نہ لگائے تب تک نہیں لگ سکتا جیسے لوگ اولاد اور اپنی دوسری اغراض کے لئے بے قرار ہوتے ہیں حتیٰ کہ بعض خود کشیاں کرلیتے ہیں اسی طرح وہ توحید کے لئے بےقرار ہوتا ہے کہ خدا کی خواہشات اس کی توحید اور عظمت اور جلال غالب آویں.اس وقت کہا جاتا ہے کہ اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَ تَفْرِیْدِیْ.‘‘ (البدر مورخہ ۱۰ ؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ۹۱
کے دلوں پر یاس مستولی ہوجائے گی اور حق آشکارا ہوجائے گا.۹.وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَتْرُکَکَ حَتّٰی یَـمِیْزَالْـخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ ۹.اور خدا ایسا نہیں ہے جو تجھے چھوڑ دے جب تک وہ خبیث اور طیب میں صریح فرق نہ کرلے.۱۰.وَ اللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَایَعْلَمُوْنَ ۱۰.اور خدا اپنے امر پر غالب ہے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے.۱۱.اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَ تَـمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ ۱۲.ھٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ.۱۱.جب مدد اور فتح الٰہی آئے گی اور تیرے رب کی بات پوری ہوجائے گی ۱۲.تو کفّار اس خطاب کے لائق ٹھہریں گے کہ یہ وہی بات ہے جس کے لئے تم جلدی کرتے تھے.۱۳.اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَـخَلَقْتُ اٰدَمَ.۱۴.اِنِّیْ جَا عِلٌ فِی الْاَرْضِ.۱۳.یعنی میں نے اپنی طرف سے خلیفہ کرنے کا ارادہ کیا.سو میں نے آدم کو پیدا کیا.۱۴.میں زمین پر کرنے والا ہوں.یہ اختصاری کلمہ ہے یعنی اس کو قائم کرنے والا ہوں.اس جگہ خلیفہ کے لفظ سے ایسا شخص مراد ہے کہ جو ارشاد اور ہدایت کے لئے بَیْنَ اللہِ وَ بَیْنَ الْـخَلْقِ واسطہ ہو.خلافت ِ ظاہری کہ جو سلطنت اور حکمرانی پر اطلاق پاتی ہے مراد نہیں ہے…بلکہ یہ محض روحانی مراتب اور روحانی نیابت کا ذکر ہے اور آدم کے لفظ سے بھی وہ آدم جو ابوالبشر ہے مراد نہیں بلکہ ایسا شخص مراد ہے جس سے سلسلہ ارشاد اور ہدایت کا قائم ہو کر روحانی پیدائش کی بنیاد ڈالی جائے.گویا وہ روحانی زندگی کے رُو سے حق کے طالبوں کا باپ ہے اور یہ ایک عظیم الشان پیش گوئی ہے جس میں روحانی سلسلہ کے قائم ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ایسے وقت میں جبکہ اُس سلسلہ کا نام و نشان نہیں.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۸۱ تا ۵۸۶ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳ ) ۱۸۸۳ء ’’ پھر بعد اِس کے اُس روحانی آدم کا روحانی مرتبہ بیان فرمایا اور کہا.دَنٰی فَتَدَ لّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی جب یہ آیت شریفہ جو قرآن شریف کی آیت ہے الہام ہوئی تو اس کے معنے کی تشخیص اور تعیین میں تأمّل تھا اور اسی تأمل میں کچھ خفیف سی خواب آگئی اور اُس خواب میں اس کے معنے حل کئے گئے.اس کی تفصیل یہ ہے کہ
دنوّ سے مُراد قربِ الٰہی ہے… اور تَدَلّٰی سے مراد وہ ہبوط اور نزول ہے کہ جب انسان تخلّق باخلاق اللہ حاصل کرکے اُس ذاتِ رحمٰن و رحیم کی طرح شَفْقَۃً عَلَی الْعِبَاد عالمِ خلق کی طرف رجوع کرے اور چونکہ کمالات دنوّکے کمالات تدلّی سے لازم ملزوم ہیں.پس تدلّی اُسی قدر ہوگی جس قدر دنوّ ہے اور دنوّ کی کمالیت اس میں ہے کہ اسماء اور صفاتِ الٰہی کے عکوس کا سالک کے قلب میں ظہور ہو اور محبوب حقیقی بے شائبہ ظلّیت اور بے تواہم حالیّت و محلیّت اپنے تمام صفاتِ کاملہ کے ساتھ اُس میں ظہور فرمائے اور یہی استخلاف کی حقیقت اور روح اللہ کے نفخ کی ماہیّت ہے اور یہی تخلّق باخلاق اللہ کی اصل بنیاد ہے اور جب کہ تدلّی کی حقیقت کو تَـخَلُّقْ بِأَخْلَاقِ اللہِ لازم ہوا اور کمالیّت فی التخلّق اس بات کو چاہتی ہے کہ شفقت علی العباد اور اُن کے لئے بمقام نصیحت کھڑے ہونا اور ان کی بھلائی کے لئے بدل و جان مصروف ہوجانا اِس حد تک پہنچ جائے جس پر زیادت متصور نہیں اس لئے واصل تام کو مجمع الاضداد ہونا پڑا کہ وہ کامل طور پر روبخدا بھی ہو اور پھر کامل طور پر روبخلق بھی.پس وہ اُن دونوں قوسوں الوہیّت و انسانیت میں ایک وتر کی طرح واقعہ ہے جودونوں سے تعلق کامل رکھتا ہے… پس جاننا چاہیے کہ اس جگہ ایک ہی دل میں ایک حالت اور نیّت کے ساتھ دو قسم کا رجوع پایا گیا.ایک خدائے تعالیٰ کی طرف جو وجودِ قدیم ہے اور ایک اُس کے بندوں کی طرف جو وجودِ محدث ہے اور دونوں قسم کا وجود یعنی قدیم اور حادث ایک دائرہ کی طرح ہے جس کی طرف اعلیٰ وجوب اور طرف اسفل امکان ہے.اب اُس دائرہ کے درمیان میں انسان کامل بوجہ دنوّ اور تدلّی کے دونوں طرف اتصال محکم کرکے یوں مثالی طور پر صورت پیدا کرلیتا ہے جیسے ایک وَتر دائرہ کے دو قوسوں میں ہوتا ہے یعنی حق اور خلق میں واسطہ ٹھہرجاتا ہے پہلے اس کو دنوّ اور قربِ الٰہی کی خلعتِ خاص عطا کی جاتی ہے اور قرب کے اعلیٰ مقام تک صعود کرتا ہے اور پھر خلقت کی طرف اس کو لایا جاتا ہے.پس اس کا وہ صعود اور نزول دو قوس کی صورت میں ظاہر ہوجاتا ہے اور نفس جَامِعُ التَّعَلُّقَیْنِ انسان کامل کا اُن دونوں قوسوں میں قَابَ قَوسَین کی طرح ہوتا ہے اور قَابَ عرب کے محاورہ میں کمان کے چِلّہ پر اطلاق پاتا ہے.پس آیت کے بطور تحت اللفظ یہ معنے ہوئے کہ نزدیک ہوا یعنی خدا سے.پھر اُترا یعنی خلقت پر.پس اپنے اس صعود اور نزول کی و جہ سے دو قوسوں کے لئے ایک ہی وتر ہوگیا.اور چونکہ اُس کا روبخلق ہونا چشمہ ٔ صافیہ تخلق باخلاق اللہ سے ہے اس لئے اُس کی توجہ بمخلوق توجہ بخالق کے عین ہے یا یوں سمجھو کہ چونکہ مالک حقیقی اپنی غایت شفقت علی العباد کی و جہ سے اِس قدر بندوں کی طرف
رجوع رکھتا ہے کہ گویا وہ بندوں کے پاس ہی خیمہ زن ہے.پس جبکہ سالک سَیْر اِلَی اللہِ کرتا کرتا اپنی کمالِ سیر کو پہنچ گیا تو جہاں خدا تھا وہیں اُس کو لوٹ کر آنا پڑا.پس اِس و جہ سے کمال دُنوّ یعنی قربِ تام اُس کی تدلّی یعنی ہبوط کا موجب ہوگیا.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱صفحہ ۵۸۶ تا ۵۹۰ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳) ۱۸۸۳ء ’’ یُـحْيِ الدِّیْنَ وَ یُقِیْمُ الشَّـرِیْعَۃَ زندہ کرے گا دین کو اور قائم کرے گا شریعت کو یَا اٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْـجَنَّۃَ.یَامَرْیَمُ اسْکُنْ؎۱ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْـجَنَّۃَ.یَا اَحْـمَدُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْـجَنَّۃَ.نَفَخْتُ فِیْکَ مِنْ لَّدُ نِّیْ رُوْحَ الصِّدْقِ.اے آدم.اے مریم.اے احمد تو اور جو شخص تیرا تابع اور رفیق ہے جنت میں یعنی نجات حقیقی کے وسائل میں داخل ہوجاؤ.میں نے اپنی طرف سے سچائی کی روح تجھ میں پھونک دی ہے.اس آیت میں بھی روحانی آدم کا و جہ تسمیہ بیان کیا گیا.یعنی جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش بلاتوسط اسباب ہے ایسا ہی روحانی آدم میں بلا توسط ِ اسباب ظاہر یہ نفخ روح ہوتاہے اور یہ نفخ روح حقیقی طور پر انبیاء علیہم السلام سے خاص ہے اور پھر بطور تبعیت اور وراثت کے بعض افراد خاصہ امت ِ محمدیہ کو یہ نعمت عطا کی جاتی ہے.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۹۰، ۵۹۱ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳)۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان الہامات کی تشریح فرماتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں.’’مریم سے مریم اُمّ عیسیٰ مراد نہیں اور نہ آدم سے آدم ابو البشر مراد ہے اور نہ احمد سے اس جگہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں اور ایسا ہی ان الہامات کے تمام مقامات میں کہ جو موسیٰ اور عیسیٰ اور داؤد وغیرہ نام بیان کئے گئے ہیں اُن ناموں سے بھی وہ انبیاء مراد نہیں ہے بلکہ ہر یک جگہ یہی عاجز مراد ہے.اب جبکہ اس جگہ مریم کے لفظ سے کوئی مؤنث مراد نہیں ہے بلکہ مذکّر مراد ہے تو قاعدہ یہی ہے کہ اس کے لئے صیغہ مذکّر ہی لایا جائے.یعنی یَـا مَرْیَمُ اسْکُنْ کہا جائے… اور زوج کے لفظ سے رفقاء اور قرباء مراد ہیں زوج مراد نہیں ہے اور لغت میں یہ لفظ دونوں طور پر اطلاق پاتا ہے اور جنّت کا لفظ اس عاجز کے الہامات میں کبھی اُسی جنت پر بولا جاتا ہے کہ جو آخرت سے تعلق رکھتا ہے اور کبھی دنیا کی خوشی اور فتح یابی اور سرور اورا ٓرام پر بولا جاتا ہے.‘‘ (از مکتوب بنام میر عباس علی شاہ صاحب.مکتوبات احمد جلد ۱ صفحہ ۵۹۹ مطبوعہ ۲۰۰۸ء)
۱۸۸۳ء (الف) فَاَجَآءَھَا؎۱ الْمَخَاضُ اِلٰی جِذْعِ النَّخْلَۃِ.قَالَتْ یَـا لَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ھٰذَا وَکُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا‘‘ (کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۵۱) (ب) ’’ میری دعوت کی مشکلات میں سے ایک رسالت اور وحی الٰہی اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ تھا اُسی کی نسبت میری گھبراہٹ ظاہر کرنے کے لئے یہ الہام ہوا تھا.فَاَجَآءَہُ الْمَخَاضُ اِلٰی جِذْعِ النَّخْلَۃِ.قَالَ یَـا لَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ھٰذَا وَکُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا.مَـخَاض سے مراد اس جگہ وہ امور ہیں جن سے خوفناک نتائج پیدا ہوتے ہیں اور جذع النخلۃ سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کی اولاد مگر صرف نام کے مسلمان ہیں.بامحاورہ ترجمہ یہ ہے کہ درد انگیز دعوت جس کا نتیجہ قوم کا جانی دشمن ہوجانا تھا.اس مامور کو قوم کے لوگوں کی طرف لائی جو کھجور کی خشک شاخ یا جڑ کی مانند ہیں.تب اُس نے خوف کھا کر کہا کہ کاش میں اس سے پہلے مرجاتا اور بھولا بسرا ہوجاتا.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۶۸، ۶۹ حاشیہ) ۱۸۸۳ء ’’اور اس کے متعلق اور بھی الہام تھے.جیسا لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّـا.مَا کَانَ اَ بُـوْکِ امْرَءَ سَوْءٍ وَّ مَا کَانَتْ اُمُّکِ بَغِیًّا.کشتی نوح میں جو ۱۹۰۲ء کی تصنیف ہے حضرت اقدسؑ تحریر فرماتے ہیں.’’اس جگہ ایک اور الہام کا بھی ذکر کرتا ہوں اور مجھے یاد نہیں کہ میں نے وہ الہام اپنے کسی رسالہ یا اشتہار میں شائع کیا ہے یا نہیں لیکن یہ یاد ہے کہ صدہا لوگوں کو میں نے سنایا تھا اور میری یادداشت کے الہامات میں موجود ہے اور وہ اس زمانہ کا ہے جبکہ خدا نے مجھے پہلے مریم کا خطاب دیا اور پھر نفخ روح کا الہام کیا.پھر بعد اس کے یہ الہام ہوا تھا فَأَجَآءَھَا الْمَخَاضُ اِلٰی جِذْعِ النَّخْلَۃِ.قَالَتْ یَا لَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ھٰذَا وَکُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا یعنی پھر مریم کو جو مراد اِس عاجز سے ہے دردزِہ تنہ کھجور کی طرف لے آئی.یعنی عوام الناس اور جاہلوں اور بے سمجھ علماء سے واسطہ پڑا جن کے پاس ایمان کا پھل نہ تھا جنہوں نے تکفیر و توہین کی اور گالیاں دیں اور ایک طوفان برپا کیا.تب مریم نے کہا کہ کاش میں اس سے پہلے مر جاتی اور میرا نام و نشان باقی نہ رہتا.یہ اس شور کی طرف اشارہ ہے جو ابتدا میں مولویوں کی طرف سے بہ ہیئت مجموعی پڑا اور وہ اس دعویٰ کی برداشت نہ کرسکے اور مجھے ہر ایک حیلہ سے انہوں نے فنا کرنا چاہا.تب اُس وقت جو کرب اور قلق ناسمجھوں کا شوروغوغا دیکھ کر میرے دل پر گذرا اس کا اس جگہ خدا تعالیٰ نے نقشہ کھینچ دیا ہے.‘‘ (کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۵۱)
… اور لوگوں نے کہا کہ اے مریم! تُو نے یہ کیا مکروہ اور قابلِ نفرین کام دکھلایا جو راستی سے دُور ہے.تیرا باپ؎۱ اور تیری ماں تو ایسے نہ تھے.‘‘ (کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۵۱) ۱۸۸۳ء ’’ پھر بعد؎۲اس کے فرمایا.۱.نُصِـرْتَ وَ قَالُوْا لَاتَ حِیْنَ مَنَاصٍ ۱.تو مدد دیا گیا اور انہوں نے کہا کہ اب کوئی گریز کی جگہ نہیں.۲.اِنَّ الَّذِ یْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّ وْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ رَدَّ عَلَیْھِمْ رَجُلٌ مِّنْ فَارِسَ.۳.شَکَرَ اللّٰہُ سَعْیَہٗ.۲.جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور خدا تعالیٰ کی راہ کے مزاحم ہوئے اُن کا ایک مرد فارسی الاصل نے ردّ لکھا ہے.۳.اُس کی سعی کا خدا شاکر ہے.۴.کِتَابُ الْوَلِیِّ ذُ و الْفَقَارِ عَلِیٍّ۳؎ ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’اس الہام پر مجھے یاد آیا کہ بٹالہ میں فضل شاہ یا مہر شاہ نام ایک سیّد تھے جو میرے والد صاحب سے بہت محبت رکھتے تھے اور بہت تعلق تھا.جب میرے دعویٰ مسیح موعود ہونے کی کسی نے ان کو خبر دی تو وہ بہت روئے اور کہا کہ ان کے والد صاحب بہت اچھے آدمی تھے یعنی یہ شخص کس پر پیدا ہوا.ان کا باپ تو نیک مزاج اور افترا کے کاموں سے دُور اور سیدھا اور صاف دل مسلمان تھا.ایسا ہی بہتوں نے کہا کہ تم نے اپنے خاندان کو داغ لگایا کہ ایسا دعویٰ کیا.‘‘ (کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۵۱، ۵۲ حاشیہ) ۲ یعنی الہام ’’نَفَخْتُ فِیْکَ مِنْ لَّدُ نِّیْ رُوْحَ الصِّدْ قِ.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۹۱ حاشیہ نمبر۳ ) (مرتّب) ۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.(الف) ’’ایک زمانہ ذوالفقار کا تو وہ گذرگیا کہ جب ذوالفقار علی کرّم اللہ وجہہٗ کے ہاتھ میں تھی مگر خدا تعالیٰ پھر ذوالفقار اس امام کو دے دے گا.اِس طرح پر کہ اُس کا چمکنے والاہاتھ وہ کام کرے گا جو پہلے زمانہ میں ذوالفقار کرتی تھی سو وہ ہاتھ ایسا ہوگا کہ گویا وہ ذوالفقار علی کرّم اللہ وجہہٗ ہے جو پھر ظاہر ہوگئی ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ امام سلطان القلم ہوگا اور اُس کی قلم ذوالفقار کاکام دے گی.یہ پیش گوئی۴؎ بعینہٖ ۴ یعنی پیش گوئی نعمت اللہ ولی صاحب یدِ بیضا کہ با او تابندہ باز با ذو الفقار مے بینم یعنی اس کا وہ روشن ہاتھ جو اتمام کے حجت کی رو سے تلوار کی طرح چمکتا ہے پھر میں اس کو ذوالفقار کے ساتھ دیکھتا ہوں.(نشان آسمانی.روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۳۹۹) (ناشر)
ولی کی کتاب علی کی تلوار کی طرح ہے.یعنی مخالف کو نیست و نابود کرنے والی ہے اور جیسے علی کی تلوار نے بڑے بڑے خطرناک معرکوں میں نمایاں کاردکھلائے تھے ایسا ہی یہ بھی دکھلائے گی.اور یہ بھی ایک پیش گوئی ہے کہ جو کتاب؎۱ کی تاثیراتِ عظیمہ اور برکاتِ عمیمہ پر دلالت کرتی ہے.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۹۱ ، ۵۹۲ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳) ۱۸۸۳ء ’’ پھر بعد اس کے فرمایا.۱.وَ لَوْ کَانَ الْاِیْـمَانُ مُعَلَّقًا بِـالثُّـرَیَّـا لَنَا لَہٗ ۱.اگر ایمان ثریا سے لٹکتا ہوتا.یعنی زمین سے بالکل اُٹھ جاتا.تب بھی شخص مقدم الذکر اُس کو پالیتا.۲.یَکَادُ زَیْتُہٗ یُضِیْٓءُ وَ لَوْ لَمْ تَـمْسَسْہُ نَـارٌ.۲.عنقریب ہے کہ اُس کا تیل خود بخود روشن ہوجائے اگرچہ آگ اُس کو چھو بھی نہ جائے.۳.اَمْ یَقُوْلُوْنَ نَـحْنُ جَـمِیْعٌ مُّنْتَصِـرٌ سَیُـھْزَمُ الْـجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الدُّ.بُـرَ.۴.وَ اِنْ یَّـرَوْا اٰیَۃً یُّعْرِضُوْا وَ یَقُوْلُوْا سِـحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ.۵.وَاسْتَیْقَنَتْـھَا اَنْفُسُھُمْ.۶.وَقَالُوْا لَاتَ حِیْنَ مَنَاصٍ.۷.فَبِـمَا رَحْـمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ عَلَیْھِمْ.۸.وَ لَوْکُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ.۹.وَ لَوْ اَنَّ قُراٰنًـا سُیِّرَتْ بِہِ الْـجِبَالُ.۳.کیا کہتے ہیں کہ ہم ایک قوی جماعت ہیں جو جواب دینے پر قادر ہیں.عنقریب یہ ساری جماعت بھاگ بقیہ حاشیہ.اِس عاجز کے اُس الہام کا ترجمہ ہے جو اِس وقت سے دس۱۰ برس پہلے براہین احمدیہ میں چھپ چکا ہے اور وہ یہ ہے.کِتَابُ الْوَ لِیِّ ذُو الْفَقَارِ عَلِیٍّ.یعنی کتاب اس ولی کی ذوالفقار علی کی ہے.یہ اِس عاجز کی طرف اشارہ ہے اِسی بناء پر بارہا اِس عاجز کا نام مکاشفات میں غازی رکھا گیا ہے چنانچہ براہین احمدیہ کے بعض دیگر مقامات میں اِسی کی طرف اشارہ ہے.‘‘ (نشانِ آسمانی.روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۳۹۹) (ب) ’’یہ مقام دارالحرب ہے پادریوں کے مقابلے میں.اس لئے ہم کو چاہیے کہ ہرگز بیکار نہ بیٹھیں.مگر یاد رکھو کہ ہماری حَرب ان کے ہم رنگ ہو جس قسم کے ہتھیار لے کر میدان میں وہ آئے ہیں اُسی طرز کے ہتھیار ہم کو لے کر نکلنا چاہیےاور وہ ہتھیار ہے قلم.یہی و جہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کا نام سلطان القلم رکھا اور میرے قلم کو ذوالفقار علی فرمایا.‘‘ ( الحکم مورخہ ۱۷؍ جون۱۹۰۱ء صفحہ ۲) ۱ براہین احمدیہ (مرزا بشیر احمد)
جائے گی اور پیٹھ پھیر لیں گے.۴.اور جب یہ لوگ کوئی نشان دیکھتے ہیں تو؎۱ کہتے ہیں کہ یہ ایک معمولی اور قدیمی سحر ہے.۵.حالانکہ اُن کے دل اُن نشانوں پر یقین کر گئے ہیں ۶.اور دلوں میں اُنہوں نے سمجھ لیا ہے کہ اب گریز کی جگہ نہیں.۷.اور یہ خدا کی رحمت ہے کہ تو ان پر نرم ہوا.۸.اور اگر تو سخت دل ہوتا تو یہ لوگ تیرے نزدیک نہ آتے اور تجھ سے الگ ہوجاتے.۹.اگرچہ قرآنی معجزات ایسے دیکھتے جن سے پہاڑ جنبش میں آجاتے.یہ آیات ان بعض لوگوں کے حق میں بطور الہام القا ہوئیں جن کا ایسا ہی خیال اور حال تھا اور شاید ایسے ہی اور لوگ بھی نکل آویں جو اس قسم کی باتیں کریں اور بدرجۂ یقین کامل پہنچ کر پھر منکر رہیں.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ۵۹۲ ، ۵۹۳ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳) ۱۸۸۳ء ’’ پھر بعد اس کے فرمایا.۱.اِنَّا اَنْـزَلْنَاہُ قَرِیْبًا مِّنَ الْقَادِیَانِ؎۲ ۲.وَ بِالْـحَقِّ اَنْـزَلْنَاہُ وَ بِا لْـحَقِّ نَزَلَ.۳.صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ.۴.وَکَانَ اَمْرُ اللّٰہِ مَفْعُوْلًا.۳؎ یعنی ۱.ہم نے ان نشانوں اور عجائبات کو اور نیز اِس الہام پُر از معارف و حقائق کو قادیان کے قریب اُتارا ہے ۲.اور ضرورتِ حقّہ کے ساتھ اتارا ہے.اور بضرورتِ حقّہ اُترا ہے.۳.خدا اور اس کے رسول نے خبر دی تھی کہ جو اپنے وقت پر پوری ہوئی.۴.اور جو کچھ خدا نے چاہا تھا وہ ہونا ہی تھا.یہ آخری فقرات اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس شخص کے ظہور کے لئے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حدیث… میں اشارہ فرما چکے ہیں اور خدائے تعالیٰ اپنے کلامِ مقدس میں اشارہ فرما چکا ہے چنانچہ وہ اشارہ ۱ (بقیہ ترجمہ از مرتّب) اس سے اِعراض کرتے.اور ۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’اس الہام پر نظر غور کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قادیان میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے اس عاجز کا ظاہر ہونا الہامی نوشتوں میں بطور پیش گوئی کے پہلے سے لکھا گیا تھا… اَب جو ایک نئے الہام سے یہ بات بپایۂ ثبوت پہنچ گئی کہ قادیان کو خدائے تعالیٰ کے نزدیک دمشق سے مشابہت ہے تو اُس پہلے الہام کے معنی بھی اس سے کھل گئے…اس کی تفسیر یہ ہے کہ اِنَّا اَنْـزَلْنَاہُ قَرِیْبًا مِّنْ دِمَشْقَ بِطَرَفٍ شَـرْقِـیٍّ عِنْدَالْمَنَارَۃِ الْبَیْضَآءِ.کیونکہ اس عاجز کی سکونتی جگہ قادیان کے شرقی کنارہ پر ہے.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۳۹ حاشیہ) ۳ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) ازالہ اوہام میں یہ فقرہ یوں ہے وَکَانَ وَعْدُ اللّٰہِ مَفْعُوْلًا.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۳۸ حاشیہ)
حصّہ سوم۱؎ کے الہامات میں درج ہوچکا ہے اور فرقانی اشارہ اِس آیت میں ہے هُوَ الَّذِيْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖ.‘‘ ۲؎ (براہین احمدیہ حصّہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۹۳ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳ ) ۱۸۸۳ء ’’جس روز وہ الہام مذکورہ بالا جس میں قادیان میں نازل ہونے کا ذکر ہے ہوا تھا اُس روز کشفی طور پر میں نے دیکھا کہ میرے بھائی صاحب مرحوم میرزا غلام قادر۳؎میرے قریب بیٹھ کربآواز بلند قرآن شریف پڑھ رہے ہیں اور پڑھتے پڑھتے انہوں نے ان فقرات کو پڑھا کہ اِنَّـآ اَنْـزَلْنَاہُ قَرِیْبًا مِّنَ الْقَادِیَانِ تو میں نے سن کر بہت تعجب کیا کہ کیا قادیان کا نام بھی قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے.تب انہوں نے کہا کہ یہ دیکھو لکھا ہوا ہے تب میں نے نظر ڈال کر جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ فی الحقیقت قرآن شریف کے دائیں صفحہ میں شایدقریب نصف کے موقعہ پر یہی الہامی عبارت لکھی ہوئی موجود ہے.تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ ہاں واقعی طور پر قادیان کا نام قرآن شریف میں درج ہے اور میں نے کہا کہ تین شہروں کا نام اعزاز کے ساتھ قرآن شریف میں درج کیا گیا ہے.مکّہ اور مدینہ اور قادیان.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۱۴۰) ۱۸۸۳ء ’’ پھر بعد اس۴؎ کے جو الہام ہے وہ یہ ہے.صَلِّ عَلٰی مُـحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُـحَمَّدٍ سَیِّدِ وُلْدِ اٰدَمَ وَخَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اور درُود بھیج محمدؐ اورآلِ محمدؐ پر جو سردارہے آدم کے بیٹوں کا اورخاتم الانبیاء ہے.صلی اللہ علیہ وسلم.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سب مراتب اورتفضّلات اورعنایات اُسی کے طفیل سے ہیں اور اُسی ۱ براہین احمدیہ حصہ سوم (ناشر) ۲ یعنی خدا وہ ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ اس دین کو تمام دینوں پر غالب کرے.(التوبۃ: ۳۳) (سراج منیر.روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۴۲) ۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’اس میں یہ بھید مخفی ہے جس کو خدائے تعالیٰ نے میرے پر کھول دیا کہ اُن کے نام سے اس کشف کی تعبیر کو بہت کچھ تعلق ہے.یعنی اُن کے نام میں جو قادر کا لفظ آتا ہے اِس لفظ کو کشفی طور پر پیش کرکے یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ قادرِ مطلق کا کام ہے.اِس سے کچھ تعجب نہیں کرنا چاہیے.اس کے عجائبات قدرت اسی طرح پر ہمیشہ ظہور فرما ہوتے ہیں کہ وہ غریبوں اور حقیروں کو عزت بخشتا ہے اور بڑے بڑے معززوں اور بلند مرتبہ لوگوں کو خاک میں ملادیتا ہے.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۴۱ حاشیہ) ۴ یعنی الہام ’’وَکَانَ اَمْرُاللٰہِ مَفْعُوْلًا‘‘ مندرجہ صفحہ۶۶ کے بعد (شمس)
سے محبّت کرنے کا یہ صلہ ہے …اور ایسا ہی الہام م بالا میں جو آلِ رسول پر درود بھیجنے کا حکم ہے سو اِس میں بھی یہ سِرّ ہے کہ افاضہء انوارِالٰہی میں محبّتِ اہلِ بَیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے اورجو شخص حضرتِ احدیّت کے مقرّبین میں داخل ہوتا ہے وہ اِنہیں طیّبین طاہرین کی وراثت پاتا ہے اور تمام علوم ومعارف میں اُن کا وارث ٹھہرتا ہے.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۹۷، ۵۹۸ حاشیہ درحاشیہ نمبر۳) ۱۸۸۳ء ’’اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ خاکسار اپنی غُربت اور انکسار اور توکّل اور ایثاراور آیات اور انوار کے رُو سے مسیح کی پہلی زندگی کا نمونہ ہے اور اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت باہم نہایت ہی متشابہ واقع ہوئی ہے گویا ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے یا ایک ہی درخت کے دوپھل ہیں اور بحدّیِ اتحاد ہے کہ نظر کشفی میں نہایت ہی باریک امتیاز ہے اور نیز ظاہری طور پر بھی ایک مشابہت ہے اور وہ یوں کہ مسیح ایک کامل اور عظیم الشان نبی یعنی موسٰی کا تابع اور خادمِ دین تھا اور اس کی انجیل توریت کی فرع ہے اور یہ عاجز بھی اس جلیل الشان نبی کے احقر خادمین میں سے ہے کہ جو سید الرسل اور سب رسولوں کا سرتاج ہے اگر وہ حامد ہیں تو وہ احمد ہے اور اگر وہ محمود ہیں تو وہ محمد ہے.صلی اللہ علیہ وسلم.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۹۳، ۵۹۴ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳) ۱۸۸۳ء ’’ وَ؎۱ مِنْ جُـمْلَتِـھَا اِلْھَامٌ اٰخَرُ خَاطَبَنِیْ رَبِّیْ فِیْہِ وَ قَالَ اِنِّیْ خَلَقْتُکَ مِنْ جَوْھَرِ عِیْسٰی وَ اِنَّکَ وَ عِیْسٰی مِنْ جَـوْھَرٍ وَّاحِدٍ وَکَشَیْ ءٍ وَّاحِدٍ.‘‘ ؎۲ (حـمامۃ البشریٰ.روحانی خزائن جلد ۷ صفحہ ۱۹۲) ۱۸۸۳ء (الف) ’’اس مقام پر مجھ کو یاد آیا کہ ایک رات اِس عاجز نے اِس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اُس سے معطّر ہوگیا.اسی رات خواب میں دیکھا کہ آبِ زُلال کی شکل پر نور کی مشکیں اِس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں اور ایک نے اُن میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تُو نے محمدؐ کی طرف بھیجی تھی.صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۹۸ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳) (ب) ’’ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ درود شریف کے پڑھنے میں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) اس الہام کو یہاں اس لئے درج کیا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی جگہ حمامۃ البشریٰ میں تحریر فرماتےہیں کہ یہ الہام براہین احمدیہ کی اشاعت سے پہلے کا ہے.۲ (ترجمہ از مرتّب) اور منجملہ ان کے ایک اور الہام بھی درج ہے جس میں مجھے اللہ مخاطب کرکے کہتا ہے کہ میں نے تجھ کو عیسیٰ کے جوہر سے پیدا کیا ہے اور تُو اور عیسیٰ ایک ہی جوہر سے اور ایک ہی شَے کی مانند ہو.‘‘
بھیجنے میں ایک زمانہ تک مجھے بہت استغراق رہا کیونکہ میرا یقین تھا کہ خدا تعالیٰ کی راہیں نہایت دقیق راہیں ہیں وہ بجز وسیلہ نبی کریمؐ کے مل نہیں سکتیں جیسا کہ خدا بھی فرماتا ہے.وَابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ.۱؎ تب ایک مدت کے بعد کشفی حالت میں مَیں نے دیکھا کہ دو۲ سقّے یعنی ماشکی آئے اور ایک اندرونی راستے سے اور ایک بیرونی راہ سے میرے گھر میں داخل ہوئے ہیں اور ان کے کاندھوں پر نور کی مشکیں ہیں اور کہتے ہیں ھٰذَا بِـمَا صَلَّیْتَ عَلٰی مُـحَمَّدٍؐ.‘‘ ۲؎ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۳۱ حاشیہ) ۱۸۸۳ء ’’پھر بعد اس؎۳کے یہ الہام ہوا.۱.اِنَّکَ عَلٰی صِـرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ.۲.فَاصْدَعْ بِـمَا تُؤْمَرُ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْـجَاھِلِیْنَ.۱تو سیدھی راہ پر ہے.۲پس جو حکم کیا جاتا ہے اُس کو کھول کر سنا اور جاہلوں سے کنارہ کر.۳.وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلٰی رَجُلٍ مِّنْ قَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ.۴.وَ قَالُوْٓا اَنّٰی لَکَ ھٰذَا.۵.اِنَّ ھٰذَا لَمَکْرٌ مَّکَرْتُـمُوْہُ فِی الْمَدِ یْنَۃِ.۶ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ وَھُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ.۳.اور کہیں گے کہ کیوں نہیں یہ اُترا کسی بڑے عالم فاضل پر اور؎۴ شہروں میں سے.۴.اور کہیں گے کہ یہ مرتبہ تجھ کو کہاں سے ملا.۵.یہ تو ایک مکر ہے جو تم نے شہر میں باہم مل کر بنالیا ہے.۶ تیری طرف دیکھتے ہیں اور نہیں دیکھتے یعنی تو اُنہیں نظر نہیں آتا.۷.تَا للّٰہِ لَقَدْ اَرْسَلْنَا اِلٰی اُ مَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَزَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطَانُ.۷ ہمیں اپنی ذات کی قسم ہے کہ ہم نے تجھ سے پہلے اُمت ِ محمدیہ میں کئی اولیاء کامل بھیجے.پر شیطان نے اُن کے توابع کی راہ کو بگاڑ دیا.یعنی طرح طرح کی بدعات مخلوط ہوگئیں اور سیدھا قرآنی راہ اُن میں محفوظ نہ رہا.۸.قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُـحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُـحْبِبْکُمُ اللّٰہُ.۹.وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یُحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِـھَا.۱۰.وَمَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اللّٰہُ لَہٗ.۱۱.قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُہٗ فَعَلَیَّ اِجْرَامٌ شَدِیْدٌ.۸ کہہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو سو میری پیروی کرو.یعنی اتباع رسول مقبول کرو تا خدا بھی تم سے محبت رکھے ۹ اور یہ بات جان لو کہ اللہ تعالیٰ نئے سرے زمین کو زندہ کرتا ہے ۱۰ اور جو شخص خدا کے لئے ہوجائے خدا ۱ (المائدۃ: ۳۶) ۲ (ترجمہ ازمرتّب) یہ برکات اس درود کی و جہ سے ہیں جو تونے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھیجا تھا.۳ یعنی الہام ’’صَلِّ عَلٰی مُـحَمَّدٍ ‘‘ الخ.(براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۹۷ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳ ) (مرزا بشیر احمد) ۴ ’’اور‘‘ سہو کتابت ہے لفظ ’’دو‘‘ ہونا چاہیے بمطابق حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۸۵ (ناشر)
اُس کے لئے ہوجاتا ہے.۱۱کہہ اگر میں نے یہ افترا کیا ہے تو میرے پر جرم شدید ہے.۱۲ اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ.۱۳ وَاِنَّ عَلَیْکَ رَحْـمَتِیْ فِی الدُّنْیَا وَالدِّیْنِ.۱۴.وَاِنَّکَ مِنَ الْمَنْصُوْرِیْنَ.۱۲ آج تو میرے نزدیک بامرتبہ اور امین ہے ۱۳ اور تیرے پر میری رحمت دنیا اور دین میں ہے ۱۴ اور تو مدد دیا گیا ہے.۱۵ یَـحْمَدُکَ اللّٰہُ وَیَـمْشِیْ اِلَیْکَ.۱۵ خدا تیری تعریف کرتا ہے اور تیری طرف چلا آتا ہے.۱۶ اَلَآ اِنَّ نَصْـرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ.۱۶ خبردار ہو خدا کی مدد نزدیک ہے.۱۷.سُبْـحَانَ الَّذِیْٓ اَسْـرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا.۱۷ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندہ کو رات کے وقت میں سیر کرایا یعنی ضلالت اور گمراہی کے زمانہ میں جو رات سے مشابہ ہے مقاماتِ معرفت اور یقین تک لَدُنّی طور سے پہنچایا.۱۸.خَلَقَ اٰدَمَ فَاَکْـرَمَہٗ.۱۸ پیدا کیا آدم کو پس اکرام کیا اُس کا ۱۹ جَرِیُّ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَ نْبِیَآءِ.۱۹ جری اللہ نبیوں کے حُلّوں میں.اس فقرہ الہامی کے یہ معنی ہیں کہ منصب ارشاد اور ہدایت اور موردِ وحی الٰہی ہونے کا دراصل حُلّۂ انبیاء ہے اور اُن کے غیر کو بطور مستعار ملتا ہے اوریہ حُلّۂ انبیاء اُمّتِ محمدیہ کے بعض افراد کو بغرضِ تکمیلِ ناقصین عطا ہوتا ہے اور اُسی کی طرف اشارہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.عُلَمَآءُ اُمَّتِیْ کَاَ.نْبِیَآءِ بَنِیْٓ اِسْـرَآءِیْلَ.پس یہ لوگ اگرچہ نبی نہیں پر نبیوں کاکام اُن کے سپرد کیا جاتا ہے.۲۰ وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ فَاَ نْقَذَکُمْ مِّنْـھَا.۲۰ اور تھے تم ایک گڑھے کے کنارہ پر سو اُس سے تم کو خلاصی بخشی یعنی خلاصی کا سامان عطا فرمایا.۲۱.عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یَّرْحَـمَ عَلَیْکُمْ؎۱ وَ اِنْ عُدْتُّمْ عُدْ نَا وَجَعَلْنَا جَھَنَّمَ لِلْکَافِرِیْنَ حَصِیْرًا.۲۱ خدا ئے تعالیٰ کا ارادہ اِس بات کی طرف متوجہ ہے جو تم پر رحم کرے اور اگر تم نے گناہ اور سرکشی کی طرف ۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) حضرت اقدس نے اس الہام کو اربعین نمبر۲ روحانی خزائن جلد ۱۷ کے صفحہ ۳۵۲ پر اور اس کے علاوہ کئی اور مقامات پر بھی بحوالہ براہین احمدیہ اَنْ یَّرْحَـمَکُمْ درج فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عَلٰی کا لفظ سہو کتابت ہے.
رجوع کیا تو ہم بھی سزا اور عقوبت کی طرف رجوع کریں گے اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لئے قید خانہ بنا رکھا ہے… ۲۲.تُـوْبُـوْا وَاَصْلِحُوْا وَ اِلَی اللّٰہِ تَوَجَّھُوْا وَعَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلُوْا وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ۲۲ توبہ کرو اور فسق اور فجور اور کفر اور معصیت سے باز آؤ اور اپنے حال کی اصلاح کرو اور خدا کی طرف متوجہ ہوجاؤ اور اُس پر توکّل کرو اور صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ اس سے مدد چاہو کیونکہ نیکیوں سے بدیاں دُور ہوجاتی ہیں.۲۳.بُشْرٰی لَکَ یَا اَحْـمَدِیْ.۲۴.اَنْتَ مُرَادِیْ وَمَعِیْ.۲۵.غَرَسْتُ کَرَامَتَکَ بِیَدِیْ.۲۳ خوشخبری ہو تجھے اے میرے احمد.۲۴ تو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے.۲۵ میں نے تیری کرامت کو اپنے ہاتھ سے لگا یا ہے.؎۱ ۲۶ قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَـحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ ذٰلِکَ اَ زْکٰی لَھُمْ.۲۶ مومنین کو کہہ دے کہ اپنی آنکھیں نامحرموں سے بند رکھیں اور اپنی سترگاہوں کو اور کانوں کو نالائق امور سے بچاویں.یہی ان کی پاکیزگی کے لئے ضروری اور لازم ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہریک مومن کے لئے منہیات سے پرہیز کرنا اور اپنے اعضاء کو ناجائز افعال سے محفوظ رکھنا لازم ہے اور یہی طریق اس کی پاکیزگی کا مدار ہے… ۲۷ وَاِذَا سَأَ.لَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ.أُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ.۲۸ وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْـمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ.۲۷ اور جب تجھ سے میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں تو میں نزدیک ہوں، دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں.۲۸ اور میں نے تجھے اس لئے بھیجا ہے کہ تاسب لوگوں کے لئے رحمت کا سامان پیش کروں.۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) مکتوب مورخہ ۱۳؍ستمبر۱۸۸۳ء بنام میر عباس علی صاحب میں اس الہام کو ذکر کرکے اس کے بعد فارسی زبان کا یہ فقرہ درج کیا گیا ہے جو اس الہام کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے.’’بشارت باد ترا یا احمدِ من.تو مراد مَنی و با مَنی.نشاندم درختِ بزرگی ترا بدستِ خود.‘‘ اور اس الہام کے ذکر سے پہلے لکھا ہے.’’چونکہ یہ عاجز اعلان کا اذن بھی پاتا ہے اس لئے کتاب میں یعنی حصّہ چہارم۲؎ میں درج بھی کیا جائے گا.‘‘ (مکتوبات احمد جلد اوّل صفحہ۵۶۶،۵۶۷ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۲ یعنی براہین احمدیہ حصہ چہارم (ناشر)
۲۹ لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْکِتَابِ وَ الْمُشْـرِکِیْنَ مُنْفَکِّیْنَ حَتّٰی تَـأْتِیَـھُمُ الْبَیِّنَۃُ وَکَانَ کَیْدُ ھُمْ عَـظِـیْـمًا.۲۹ اور جو لوگ اہلِ کتاب اور مشرکوں میں سے کافر ہوگئے ہیں یعنی کفر پر سخت اصرار اختیار کرلیا ہے وہ اپنے کفر سے بجز اس کے باز آنے والے نہیں تھے کہ اُن کو کھلی نشانی دکھلائی جاتی اوراُن کا مکر ایک بھارا مکر تھا.یہ اس بات کی طر ف اشارہ ہے کہ جو کچھ خدائے تعالیٰ نے آیا تِ سماوی اور دلائلِ عقلی سے اِس عاجز کے ہاتھ پر ظاہر کیا ہے وہ اتمامِ حجت کے لئے نہایت ضروری تھا اور اس زمانہ کے سیاہ باطن جن کو جہل اور خبث کے کیڑے نے اندر ہی اندر کھا لیا ہے ایسے نہیں تھے جو بجز آیاتِ صریحہ و براہین قطعیہ اپنے کفر سے باز آجاتے بلکہ وہ اُس مکر میں لگے ہوئے تھے کہ تا کسی طرح باغِ اسلام کو صفحۂ زمین سے نیست و نابود کردیں.۳۰ اگر خدا ایسا نہ کرتا تو دنیا میں اندھیر پڑجاتا.یہ اِس بات کی طرف اشارہ ہے جو دنیا کو ان آیات بیّنات کی نہایت ضرورت تھی اور دنیا کے لوگ جو اپنے کفر اور خبث کی بیماری سے مجذوم کی طرح گداز ہوگئے ہیں وہ بجز اِس آسمانی دوا کے جو حقیقت میں حق کے طالبوں کے لئے آبِ حیات تھی تندرستی حاصل نہیں کرسکتے تھے.۳۱ وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُ.وْا فِی الْاَرْضِ قَالُوْٓا اِنَّـمَا نَـحْنُ مُصْلِحُوْنَ.اَلَآ اِنَّـھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُ.وْنَ.۳۲ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ.مِنْ شَـرِّ مَا خَلَقَ.وَ مِنْ شَـرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ.۳۱..اور جب ان کو کہا جائے کہ تم زمین میں فساد مت کرو اور کفر اور شرک اور بد عقیدگی کو مت پھیلاؤ تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارا ہی راستہ ٹھیک ہے اور ہم مفسد نہیں ہیں بلکہ مصلح اور ریفارمر ہیں.خبردار رہو.یہی لوگ مفسد ہیں جو زمین پر فساد کررہے ہیں.۳۲ کہہ میں شریر مخلوقات کی شرارتوں سے خدا کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں اور اندھیری رات سے خدا کی پناہ میں آتا ہوں.یعنی یہ زمانہ اپنے فسادِ عظیم کے رُو سے اندھیری رات کی مانند ہے.سو الٰہی قوتیں اور طاقتیں اِ س زمانہ کی تنویر کے لئے درکار ہیں.انسانی طاقتوں سے یہ کام انجام ہونا محال ہے.۳۳.اِنِّیْ نَاصِـرُکَ.۳۴.اِنِّیْ حَافِظُکَ.۳۵.اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا.۳۶ اَ.کَانَ لِلنَّاسِ عَـجَبًا.۳۷.قُلْ ھُوَ اللّٰہُ عَـجِیْبٌ.۳۸.یَـجْتَبِیْ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ.۳۹.لَا یُسْئَلُ عَـمَّا
یَفْعَلُ وَھُمْ یُسْئَلُوْنَ.۴۰ وَ تِلْکَ الْاَ یَّـامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ.۳۳ میں تیری مدد کروں گا.۳۴ میں تیری حفاظت کروں گا.۳۵ میں تجھے لوگوں کے لئے پیش رَو بناؤں گا.۳۶کیا لوگوں کو تعجب ہوا.۳۷کہہ خدا ذوالعجائب ہے.ہمیشہ عجیب کام ظہور میں لاتا ہے.۳۸جس کو چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے چُن لیتا ہے.۳۹ وہ اپنے کاموں سے پوچھا نہیں جاتا کہ ایسا کیوں کیا اور لوگ پوچھے جاتے ہیں.۴۰ اور ہم یہ دن لوگوں میں پھیرتے رہتے ہیں.یعنی کبھی کسی کی نوبت آتی ہے اور کبھی کسی کی اور عنایاتِ الٰہیہ نوبت بہ نوبت اُمت ِ محمدیہ کے مختلف افراد پر وارد ہوتی رہتی ہیں.۴۱.وَقَالُوْٓا اَنّٰی لَکَ ھٰذَا.۴۲.وَقَالُوْٓا اِنْ ھٰذَا اِلَّا اخْتِلَاقٌ.۴۳.اِذَا نَصَـرَ اللّٰہُ الْمُؤْمِنَ جَعَلَ لَہُ الْـحَاسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ.۴۴.فَالنَّارُ مَوْعِدُ.ھُمْ.۴۵.قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَ رْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ.۴۱.اور کہیں گے کہ یہ تجھ کو کہاں سے ؟ ۴۲ اور یہ تو ایک بناوٹ ہے.۴۳ خدائے تعالیٰ جب مومن کی مدد کرتا ہے تو زمین پر کئی اس کے حاسد بنادیتا ہے.۴۴سو جو لوگ حسد پر اصرار کریں اور باز نہ آویں تو جہنم اُن کا وعدہ گاہ ہے.۴۵کہہ یہ سب کاروبار خدا کی طرف سے ہیں.پھر اُن کو چھوڑدے تا اپنے بے جا خوض میں کھیلتے رہیں.۴۶..تَلَطَّفْ بِالنَّاسِ وَتَرَحَّـمْ عَلَیْھِمْ.۴۷.اَنْتَ فِیْھِمْ بِـمَنْزِلَۃِ مُوْسٰی.۴۸..وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ.۴۶ لوگوں کے ساتھ رفق اور نرمی سے پیش آ اور اُن پر رحم کر.۴۷ تو اُن میں بمنزلہ موسیٰ کے ہے.۴۸اور اُن کی باتوں پر صبر کر.حضرت موسیٰ بُردباری اور حلم میں بنی اسرائیل کے تمام نبیوں سے سبقت لے گئے تھے اور بنی اسرائیل میں نہ مسیح اور نہ کوئی دوسرا نبی ایسا نہیں ہوا جو حضرت موسیٰ کے مرتبہء عالیہ تک پہنچ سکے.توریت سے ثابت ہے جو حضرت موسٰی رفق اور حلم اور اخلاقِ فاضلہ میں سب اسرائیلی نبیوں سے بہتر اور فائق تر تھے.جیسا کہ گنتی باب دواز دہم آیت سوم توریت میں لکھا ہے کہ موسیٰ سارے لوگوں سے جو رُوئے زمین پر تھے زیادہ بُرد بار تھا.سوخدا نے توریت میں موسٰی کی بُردباری کی ایسی تعریف کی جو بنی اسرائیل کے تمام نبیوں میں سے کسی کی تعریف میں یہ کلمات بیان نہیں فرمائے.ہاں جو اخلاقِ فاضلہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن شریف میں ذکر ہے وہ حضرت موسیٰ سے ہزار ہا درجہ بڑھ کر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ حضرتِ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تمام اُن اخلاقِ فاضلہ کا جامع ہے جو نبیوں میں متفرق طور پر پائے جاتے تھے اور نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
کے حق میں فرمایا ہےاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ تو خلق عظیم پر ہے… اور چونکہ اُمت ِ محمدیہ کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہیں اس لئے الہام م بالا میں اِس عاجز کی تشبیہ حضرت موسیٰ سےدی گئی اور یہ تمام برکات حضرت سیّد الرسل کے ہیں جو خداوند کریم اس کی عاجز اُمت کو اپنے کمال لطف اور احسان سے ایسے ایسے مخاطباتِ شریفہ سے یاد فرماتا ہے اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُـحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُـحَمَّدٍ.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۹۹ تا ۶۰۷ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳ ) ۱۸۸۳ء ’’پھر بعد اِس کے یہ الہامی عبارت ہے.۱ وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْٓا اَنُـؤْمِنُ کَمَآ اٰمَنَ السُّفَھَآءُ اَلَآ اِنَّـھُمْ ھُمُ السُّفَھَآءُ وَلٰکِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ.۲.وَیُـحِبُّوْنَ اَنْ تُدْ ھِنُوْنَ.۳.قُلْ یَـآ اَیُّـھَا الْکٰفِرُوْنَ لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُ.وْنَ.۴.قِیْلَ ارْجِعُوْا اِلَی اللّٰہِ فَلَا تَـرْجِعُوْنَ.۵.وَقِیْلَ اسْتَحْوِذُ.وْا فَلَا تَسْتَحْوِذُ.وْنَ.۶.اَمْ تَسْئَلُھُمْ مِّنْ خَرْجٍ فَھُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَ.۷ بَلْ اٰتَیْنٰـھُمْ بِالْـحَقِّ فَھُمْ لِلْحَقِّ کَارِھُوْنَ.۸.سُبْـحَانَہٗ وَتَعَالٰی عَـمَّا یَصِفُوْنَ.۹.اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَھُمْ لَایُفْتَنُوْنَ.۱۰ یُـحِبُّوْنَ اَنْ یُّـحْمَدُوْا بِـمَا لَمْ یَفْعَلُوْا.۱۱ وَلَا یَـخْفٰی عَلَی اللّٰہِ خَافِیَۃٌ.۱۲ وَلَا یَصْلَحُ شَیْءٌ قَبْلَ اِصْلَا حِہٖ.۱۳.وَمَنْ رُدَّ مِنْ مَّطْبَعِہٖ فَلَا مَرَدَّ لَہٗ.۱ اور جب ان کو کہا جائے کہ ایمان لاؤ جیسے لوگ ایمان لائے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم ایسا ہی ایمان لاویں جیسے بیوقوف ایمان لائے ہیں.خبردار ہو.وہی بیوقوف ہیں مگر جانتے نہیں.۲ اور یہ چاہتے ہیں کہ تم اُن سے مداہنہ کرو.۳کہہ اے کافرو! میں اس چیز کی پرستش نہیں کرتا جس کی تم کرتے ہو.۴تم کو کہا گیا کہ خدا کی طرف رجوع کرو سو تم رجوع نہیں کرتے.۵اور تم کو کہا گیا جو تم اپنے نفسوں پر غالب آجاؤ سو تم غالب نہیں آتے.۶کیا تو اِن لوگوں سے کچھ مزدوری مانگتا ہے.پس وہ اس تاوان کی و جہ سے حق کو قبول کرنا ایک پہاڑ سمجھتے ہیں.۷بلکہ ان کو مفت حق دیا جاتاہے اور وہ حق سے کراہت کررہے ہیں.۸خدائےتعالیٰ ان عیبوں سے پاک وبرتر ہے جو وہ لوگ اس کی ذات پر لگاتے ہیں.۹کیا یہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بے امتحان کئے صرف زبانی ایمان کے دعویٰ سے چُھوٹ جاویں گے.۱۰چاہتے ہیں جو ایسے کاموں سے تعریف کئے جائیں جن کو انہوں نے کیا نہیں.۱۱اور خدائے تعالیٰ سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں.۱۲اور جب تک وہ کسی شے کی اصلاح نہ کرے اصلاح نہیں ہوسکتی.۱۳اور جو شخص اس کے مطبع سے ردّ کیا جائے اس کو کوئی واپس نہیں لاسکتا.
.لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَ.لَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ.۱۵ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ.۱۶.وَلَا تُـخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اِنَّـھُمْ مُّغْرَقُوْنَ.۱۷.یَـآ اِبْـرَاھِیْمُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا.۱۸.اِنَّہٗ عَبْدٌ؎۱ غَیْرُ صَالِـحٍ.۱۹.اِنَّـمَآ اَنْتَ مُذَکِّـرٌ.۲۰.وَمَا اَنْتَ عَلَیْـھِمْ بِـمُسَیْطِرٍ.۱۴کیا تو اسی غم میں اپنے تئیں ہلاک کردے گا کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے.۱۵جس چیز کا تجھےعلم نہیں اس کے پیچھے مت پڑ.۱۶ اور اُن لوگوں کے بارے میں جو ظالم ہیں میرے ساتھ مخاطبت مت کر.وہ غرق کئے جائیں گے.۱۷اے ابراہیم اس سے کنارہ کر.۱۸یہ صالح آدمی نہیں.۱۹تو صرف نصیحت دہندہ ہے.۲۰اِن پرداروغہ نہیں.یہ چند آیات جو بطورِ الہام القا ہوئی ہیں بعض خاص لوگو ں کے حق میں ہیں.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ چہارم.روحانی خزائن ۱ صفحہ ۶۰۷، ۶۰۸ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳ ) ۱۸۸۳ء ’’پھر آگے اس کے یہ الہام ہے.۱.وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ.۲.وَاتَّـخِذُ وْا؎۲ مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاھِیْمَ مُصَلّٰی.۱اور صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ مدد چاہو.۲اور ابراہیم کے مقام سے نماز کی جگہ پکڑو.اس جگہ مقامِ ابراہیم سے اطلاق مرضیہ و معاملہ باللہ مراد ہے.یعنی محبت ِ الٰہیہ اور تفویض اور رضا اور وفا.یہی حقیقی مقام ابراہیم کا ہے جو امت ِ محمدیہ کو بطور تبعیت و وراثت عطا ہوتا ہے اور جو شخص قلب ِ ابراہیم پر مخلوق ہے اس کی اتباع بھی اسی میں ہے.۳.یُظِلُّ رَبُّکَ عَلَیْکَ وَیُغِیْثُکَ وَیَرْحَـمُکَ.۴.وَاِنْ لَّمْ یَعْصِمْکَ النَّاسُ فَیَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدہٖ.۵.یَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِہٖ وَاِنْ لَّمْ یَعْصِمْکَ النَّاسُ.۳.خدائے تعالیٰ اپنی رحمت کا تجھ پر سایہ کرے گا اور نیز تیرا فریاد رس ہوگا اور تجھ پر رحم کرے گا.۴ اور اگر تمام لوگ تیرے بچانے سے دریغ کریں مگر خدا تجھے بچائے گا.۵ اور خدا تجھے ضرور اپنی مدد سے بچائے گا اگرچہ ۱ (نوٹ ازحضرت مرزا بشیر احمدؓ) براہین احمدیہ حصّہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۱۵ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وحی الٰہی کی دوسری قراءت اِنَّہٗ عَـمَلٌ غَیْرُ صَالِـحٍ ہے.۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’اِس مقام میں اس کے یہ معنی ہیں کہ یہ ابراہیم جو بھیجاگیا تم اپنی عبادتوں اورعقیدوں کو اس کی طرز پر بجالاؤ اورہرایک امر میں اُس کے نمونہ پر اپنے تئیں بناؤ.‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۶۸)
تمام لوگ دریغ کریں.یعنی خدا تجھے آپ مدد دے گا اور تیری سعی کے ضائع ہونے سے تجھے محفوظ رکھے گا اور اس کی تائیدیں تیرے شامل حال رہیں گی.۶ وَاِذْ یَـمْکُرُ بِکَ الَّذِیْ کَفَرَ؎۱.۷.اَوْقِدْ لِیْ یَـا ھَامَانُ لَعَلِّیْ اَطَّلِعُ اِلٰی اِلٰہِ مُوْسٰی وَ اِنِّیْ لَاَظُنُّہٗ مِنَ الْکٰذِ بِیْنَ.۶یاد کر جب منکر نے بغرض کسی مکر کے اپنے رفیق کو کہا ۷کہ کسی فتنہ یا آزمائش کی آگ بھڑکا تا میں موسیٰ کے خدا پر یعنی اِس شخص کے خدا پر مطّلع ہوجاؤں کہ کیوں کر وہ اُس کی مدد کرتا ہے اور اُس کے ساتھ ہے یا نہیں.کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ جھوٹا ہے.یہ کسی واقعہ آیندہ کی طرف اشارہ ہے کہ جو بصورت گذشتہ بیان کیا گیا ہے.۸.تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ.۹ مَاکَانَ لَہٗ اَنْ یَّدْخُلَ فِیْـھَا اِلَّا خَآئِفًا.۱۰.وَمَا اَصَابَکَ فَـمِنَ اللّٰہِ.۸.ابو لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے اور وہ بھی ہلاک ہوا.۹اور اُس کو لائق نہ تھا کہ اِس کام میں بجز خائف اور ترساں ہونے کے یونہی دلیری سے داخل ہوجاتا.۱۰اور جوتجھ کو پہنچے وہ تو خدا کی طرف سے ہے.یہ کسی شخص کے شر کی طرف اشارہ ہے جو بذریعہ تحریر یا بذریعہ کسی اور فعل کے اُس سے ظہور میں آوے.؎ ۲ وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.(الف) ’’ یہ لفظ کَفَّرَ اور کَفَرَ دونوں قراءتیں ہیں کیونکہ کافر کہنے والا بہر حال منکر بھی ہوگا اور جو شخص اس دعویٰ سے منکر ہے وہ بہرحال کافر ٹھہرائے گا اور ھَامَان کا لفظ ہَیْـمَان کے لفظ کی طرف اشارہ کرتا ہے اور ہَیْـمَان اس کو کہتے ہیں جو کسی وادی میں اکیلا سرگرداں پھرے.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۸۲ حاشیہ) (ب) ’’یادر ہے کہ اس وحی الٰہی میں دونوں قراءتیں ہیں.کَفَرَ بھی اور کَفَّرَ بھی.اور اگر کَفَرَ کی قراءت کی رو سے معنی لئے جائیں تو یہ معنی ہوں گے کہ پہلے شخص مُسْتَفْتِیْ میرے پر اعتقاد رکھتا ہوگا اور معتقدین میں داخل ہوگا اور پھر بعد میں برگشتہ اور منکر ہوجائے گا اور یہ معنی مولوی محمد حسین بٹالوی پر بہت چسپاں ہیں.جنہوں نے براہین احمدیہ کے ریویو میں میری نسبت ایسا اعتقاد ظاہر کیا کہ اپنے ماں باپ بھی میرے پر فدا کردیئے.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۶۸ حاشیہ) ۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’یہ پیش گوئی قریباً فتویٰ تکفیر سے بارہ برس پہلے براہین احمدیہ میں شائع ہوچکی ہے یعنی جبکہ مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب نے یہ فتویٰ تکفیر لکھا اور میاں نذیر حسین صاحب دہلوی کو کہا کہ سب سے
اَلْفِتْنَۃُ ھٰھُنَا.فَاصْبِرْکَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ.۱۲ اَلَا اِنَّـھَا فِتْنَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ لِیُحِبَّ حُبًّا جَـمًّا حُبًّا مِّنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِالْاَکْرَمِ عَطَآءً غَیْرَ مَـجْذُ وْذٍ.۱۱اس جگہ فتنہ ہے پس صبر کر.جیسے اولُو العزم لوگوں نے صبر کیا ہے.۱۲خبردار ہو یہ فتنہ خدا کی طرف سے ہے تا وہ ایسی محبت کرے جو کامل محبت ہے.اُس خدا کی محبت جو نہایت عزت والا اور نہایت بزرگ ہے وہ بخشش جس کا کبھی انقطاع نہیں.۱۳ شَاتَانِ تُذْ بَـحَانِ وَکُلُّ مَنْ عَلَیْـھَا فَانٍ.۱۳دو بکریاں؎۱ ذبح کی جائیں گی اور زمین پر کوئی ایسا نہیں جو مرنے سے بچ جائے گا.یعنی ہریک کے لئے قضاء و قدر درپیش ہے اور موت سے کسی کو خلاصی نہیں … ۱۴ وَلَا تَـھِنُوْا وَلَا تَـحْزَنُوْا.۱۵اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَ.ہٗ.۱۶اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِ.یْرٌ.۱۷ وَجِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآءِ شَھِیْدًا.۱۴ اور سست مت ہو اور غم مت کرو.۱۵کیا خدا اپنے بندہ کو کافی نہیں ہے.۱۶کیا تو نہیں جانتا کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے.۱۷اور خدا ان لوگوں پر تجھ کو گواہ لائے گا.بقیہ حاشیہ.پہلے اس پر مہر لگاوے اور میرے کفر کی نسبت فتویٰ دیدے اور تمام مسلمانوں میں میرا کافر ہونا شائع کردے.سو اس فتویٰ اور میاں صاحب مذکور کے مہر سے بارہ برس پہلے یہ کتاب تمام پنجاب اور ہندوستان میں شائع ہوچکی تھی اور مولوی محمد حسین جو بارہ برس کے بعد اوّل المکفّرین بنے، بانی تکفیر کے وہی تھے اور اس آگ کو اپنی شہرت کی و جہ سے تمام ملک میں سلگانے والے میاں نذیر حسین صاحب دہلوی تھے.اس جگہ سے خدا کا علمِ غیب ثابت ہوتا ہے کہ ابھی اس فتویٰ کا نام ونشان نہ تھا بلکہ مولوی محمد حسین صاحب میری نسبت خادموں کی طرح اپنے تئیں سمجھتے تھے اُس وقت خدا تعالیٰ نے یہ پیشگوئی فرمائی جس کو کچھ بھی حصّہ عقل اور فہم سے ہے وہ سوچے اور سمجھے کہ کیا انسانی طاقتوں میں یہ بات داخل ہوسکتی ہے کہ جو طوفان بارہ برس کے بعد آنے والا تھا جس کا پُر زور سیلاب مولوی محمد حسین جیسے مدعی اخلاص کو درجۂ ضلالت کی طرف کھینچ لے گیا اور نذیر حسین جیسے مخلص کو جو کہتا تھا کہ براہین احمدیہ جیسی اسلام میں کوئی کتاب تالیف نہیں ہوئی اس سیلاب نے دبالیا.اس طوفان کی پہلے مجھے یا کسی اور کو محض عقلی قرائن سے خبر ہوتی.سو یہ خالص علم الٰہی ہے جس کو معجزہ کہتے ہیں.‘‘ (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۱۵، ۲۱۶) ۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) یہ پیشگوئی حضرت شہزادہ مولاناسید عبداللطیف صاحب کابلی شہید و مولوی عبدالرحمٰن صاحب کابلی شہید رضی اللہ عنہما کی شہادت سے پوری ہوئی.تفصیل کے لئے دیکھیے کتاب تذکرۃ الشہادتین.
اَوْفَی اللّٰہُ اَجْرَکَ.۱۹.وَیَرْضٰی عَنْکَ رَبُّکَ وَیُتِمُّ اسْـمَکَ ۲۰.وَعَسٰی اَنْ تُـحِبُّوْاشَیْئًا وَّھُوَشَـرٌّ لَّکُمْ وَعَسٰی اَنْ تَکْرَھُوْاشَیْئًا وَّھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ.۱۸.خدا تیرا بدلہ پورا دے گا.۱۹اور تجھ سے راضی ہوگا اور تیرے اسم کو پورا کرے گا.۲۰اور ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو دوست رکھو اور اصل میں وہ تمہارے لئے بُری ہو.اور ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو بُری سمجھو اور اصل میں وہ تمہارے لئے اچھی ہو اور خدائے تعالیٰ عواقب ِ امور کو جانتا ہے تم نہیں جانتے.۲۱کُنْتُ کَنْزًا مَّـخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ.۲۲.اِنَّ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰھُمَا.۲۳.وَ اِنْ یَّتَّخِذُ وْنَکَ اِلَّا ھُزُوًا.اَھٰذَا الَّذِیْ بَعَثَ اللّٰہُ.۲۴.قُلْ اِنَّـمَا بَشَـرٌ؎۱ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰی اِلَیَّ اَنَّـمَا اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ.۲۵.وَالْـخَیْرُکُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ.۲۶.لَا یَـمَسُّہٗ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ.۲۷.وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُـمُرًامِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ.۲۱میں ایک خزانہ؎۲پوشیدہ تھاسو میں نے چاہا کہ شناخت کیا جاؤں.۲۲آسمان اور زمین دونوں بند تھے سو ہم نے ان دونوں کو کھول دیا.۲۳اور تیرے ساتھ ہنسی سے ہی پیش آئیں گے اور ٹھٹھا مار کرکہیں گے کیا یہی ہے جس کو خدا نے اصلاحِ خلق کے لئے مقرر کیا.یعنی جن کا مادّہ ہی خبث ہے اُن سے صلاحیت کی اُمید مت رکھ.۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) یہ وحی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اربعین نمبر ۲ کے صفحہ۸پر بحوالہ براہین احمدیہ یوں نقل فرمائی ہے ’’قُلْ اِنَّـمَآ اَنَـا بَشَـرٌ مِّثْلُکُمْ.‘‘ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ براہین احمدیہ میں بَشَرٌ سے پہلے ’’اَنَا‘‘ کا لفظ سہو کتابت ہے.(اربعین نمبر ۲.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۳۵۴) ۲ پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ فرماتے ہیں.’’میں نے ایک روز حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت کُنْتُ کَنْزًا الخ کے معانی میں صوفیا نے اور نیز دیگر علماء نے بہت کچھ زور لگائے آپ فرمائیں کہ اس جملہ مبارک کے کیا معنی ہیں.فرمایا.آسان معنی اس کے یہی ہیں کہ جب دنیا میں ضلالت اور گمراہی اور کفر وشرک اور بدعات و رسوماتِ مخترعات پھیل جاتی ہیں اور خدا تعالیٰ کی معرفت اور اُس تک پہنچنے کی راہیں گُم ہوجاتی ہیں اور دل سخت اور خشیت اللہ سے خالی ہوجاتے ہیں تو ایسے وقت اور ایسے زمانہ میں خدا تعالیٰ مخفی خزانہ کی طرح ہوجاتا ہے تو اس کے بعد خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ میں پھر دنیا پرظاہر ہوں اور دنیا مجھے پہچانے تو خدا تعالیٰ کسی اپنے بندہ کو اپنے بندوں میں سے چُن لیتا ہے اور اُس کو خلعتِ خلافت عطا فرماتا ہے اُس کے ذریعہ سے وہ شناخت کیا جاتا ہے.وہ پسندیدہ اور برگزیدہ بندہ خدا تعالیٰ کی محبت ازسرِنو خالی دلوں میں بھرتا اور اُس کی معرفت کے اسرار لوگوں پر ظاہر کرتا ہے.ہر ایک زمانہ میں ابتدائے آفرینش سے یہی سنّت اللہ اور یہی طریقۃ اللہ رہا ہے.بالآخر ہمارے زمانہ میں بھی ایسا ہی ہوا کہ لوگ معرفتِ الٰہی کو کھو بیٹھے
اور پھر فرمایا.۲۴کہہ میں صرف تمہارے جیسا ایک آدمی ہوں.مجھ کو یہ وحی ہوتی ہے کہ بجز اللہ تعالیٰ کے اور کوئی تمہارا معبود نہیں.وہی اکیلا معبود ہے جس کے ساتھ کسی چیز کو شریک کرنا نہیں چاہیے.۲۵اور تمام خیر اور بھلائی قرآن میں ہے.بجز اس کے اور کسی جگہ سے بھلائی نہیں مل سکتی ۲۶اور قرآنی حقائق صرف انہیں لوگوں پر کھلتے ہیں جن کو خدائے تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف اور پاک کرتا ہے ۲۷.اور میں ایک؎۱ عمر تک تم میں ہی رہتا رہا ہوں.کیا تم کو عقل نہیں… ۲۸.قُلْ اِنَّ ھُدَی اللّٰہِ ھُوَالْھُدٰی.۲۹.وَاِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَـھْدِیْنِ.۳۰..رَبِّ اغْفِرْ وَ ارْحَـمْ مِّنَ السَّمَآءِ.۳۱.رَبِّ اِنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِـرْ.۳۲.اِیْلِیْ اِیْلِیْ لِمَا سَبَقْتَنِیْ.۳۳.اِیْلِیْ اٰوس.۲۸کہہ ہدایت وہی ہے جو خدا کی ہدایت ہے ۲۹اور میرے ساتھ میرا رب ہے.عنقریب وہ میرا راہ بقیہ حاشیہ.صفاتِ الٰہی میں کچھ کا کچھ اپنی طرف سے تصرف کیا.اسماء اللہ سے غافل ہوگئے.اُس کی کتابوں اور صحیفوں کو ترک کر بیٹھے.اُس کے نِدّ اور شریک بنالئے.پس خدا تعالیٰ پوشیدہ خزانہ کی طرح ہوگیا تو خدا تعالیٰ نے ہمیں اپنی معرفت اور محبت دے کر بھیجا تا کہ دنیا کو راہِ راست پر لگایا جاوے.پس اسی واسطے ہم تحریر سے، تقریر سے، توجہ سے، دعا سے، اپنے چال چلن سے پر ہیبت پیشگوئیوں اور اسرارِ غیب سے جو خدا نے ہمیں عطا کئے اور معارف و حقائق و دقائق قرآنی سے رات دن لگے ہوئے ہیں اور ہم کیا خدا تعالیٰ نے ہمارے سب کاروبار اور اعضا اور ہاتھ اور زبان اور ہر ایک حرکت و سکون کو اپنے قبضہ میں کر رکھا ہے جس طرح اُس کی مرضی ہوتی ہے وہ ہمیں چلاتا ہے اور ہم اُسی طرح چلتے ہیں.ہمارا اس میں کچھ اختیار نہیں.‘‘ (الحکم مورخہ۲۴؍ جون۱۹۰۲ء صفحہ ۱۱) ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’قریباً۱۸۸۴ء میں اللہ تعالیٰ نے مجھے اس وحی سے مشرف فرمایا کہ وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُـمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ اوراس میں عالم الغیب خدا نے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ کوئی مخالف کبھی تیری سوانح پر کوئی داغ نہیں لگاسکے گا چنانچہ اِس وقت تک جو میری عمر قریباً پینسٹھ سال ہے کوئی شخص دور یا نزدیک رہنے والا ہماری گذشتہ سوانح پر کسی قسم کا داغ ثابت نہیں کرسکتا.بلکہ گذشتہ زندگی کی پاکیزگی کی گواہی اللہ تعالیٰ نے خود مخالفین سے بھی دلوائی ہے جیسا کہ مولوی محمد حسین صاحب نے نہایت پُر زور الفاظ میں اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں کئی بار ہماری اور ہمارے خاندان کی تعریف کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اس شخص کی نسبت اور اس کے خاندان کی نسبت مجھ سے زیادہ کوئی واقف نہیں اور پھر انصاف کی پابندی سے بقدر اپنی واقفیت کے تعریفیں کی ہیں.پس ایک ایسا مخالف جو تکفیر کی بنیاد کا بانی ہے پیشگوئی وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ کا مصدِّق ہے.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۹۰)
کھول دے گا.۳۰اے میرے خدا آسمان سے رحم اور مغفرت کر.۳۱میں مغلوب ہوں میری طرف سے مقابلہ کر.۳۲.اے میرے خدا.اے میرے خدا.تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.آخری فقرہ اس الہام کا یعنی اِیْلِی اٰوس بباعث سُرعت ِورود مشتبہ رہا ہے اور نہ اس کے کچھ معنے کُھلے.وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ………… ۳۴ یَا عَبْدَ الْقَادِرِ اِنِّیْ مَعَکَ اَسْـمَعُ وَاَرٰی.۳۵ غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْـمَتِیْ وَ قُدْرَتِیْ.۳۶.وَنَـجَّیْنَاکَ مِنَ الْغَمِّ وَ فَتَنَّاکَ فُتُوْنًـا.۳۷ لَیَأْتِیَنَّکُمْ مِنِّیْ ھُدًی.۳۸ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ھُمُ الْغَالِبُوْنَ.۳۹ وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّ.بَـھُمْ وَاَنْتَ فِیْـھِمْ.۴۰.وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّ.بَـھَمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ.۳۴اے عبدالقادر میں تیرے ساتھ ہوں.سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں.۳۵تیرے لئے میں نے رحمت اور قدرت کو اپنے ہاتھ سے لگایا.۳۶اور تجھ کو غم سے نجات دی اور تجھ کو خالص کیا.۳۷اور تم کو میری طرف سے مدد آئے گی.۳۸خبردار ہو لشکر خدا کا ہی غالب ہوتا ہے.۳۹اور خدا ایسا نہیں جو اُن کو عذاب پہنچاوے جب تک تو اُن کے درمیان ہے ۴۰یا جب وہ استغفار کریں.۴۱.اَنَـا بُدُّ.کَ اللَّازِمُ.۴۲.اَنَـا مُـحْیِیْکَ.۴۳.نَفَخْتُ فِیْکَ مِنْ لَّدُ.نِّیْ رُوْحَ الصِّدْ.قِ.۴۴.وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَـحَبَّۃً مِّنِّیْ وَ لِتُصْنَعَ عَلٰی عَـیْــنِیْ ۴۵کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْأَہٗ فَاسْتَغْـلَـــظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ.۴۱میں تیرا چارہ لازمی ہوں.۴۲میں تیرا زندہ کرنے والا ہوں.۴۳میں نے تجھ میں سچائی کی روح پھونکی ہے.۴۴اور اپنی طرف سے تجھ میں محبت ڈال دی ہے تاکہ میرے روبرو تجھ سے نیکی کی جائے.۴۵سو تو اس بیج کی طرح ہے جس نے اپنا سبزہ نکالا.پھر موٹا ہوتا گیا.یہاں تک کہ اپنے ساقوں پر قائم ہوگیا.ان آیات میں خدائے تعالیٰ کی اُن تائیدات اور احسانات کی طرف اشارہ ہے اور نیز اُس عروج اور اقبال اور عزت اور عظمت کی خبر دی گئی ہے کہ جو آہستہ آہستہ اپنے کمال کو پہنچے گی.۴۶.اِنَّـا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا لِّیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّ.مَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ.۴۶ہم نے تجھ کو کھلی کھلی فتح عطا فرمائی ہے.یعنی عطا فرمائیں گے.اور درمیان میں جو بعض مکروہات اور شدائد ہیں وہ اس لئے ہیں تا خدائے تعالیٰ تیرے پہلے اور پچھلے گناہ معاف فرماوے.یعنی اگر خدائے تعالیٰ چاہتا تو قادر تھا کہ جو کام مدِّنظر ہے وہ بغیر پیش آنے کسی نوع کی تکلیف کے اپنے
انجام کو پہنچ جاتا اور بآسانی فتح عظیم حاصل ہوجاتی لیکن تکالیف اِس جہت سے ہیں کہ تا وہ تکالیف موجب ترقی مراتب و مغفرت خطا یا ہوں… ۴۷.اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ.۴۸.فَبَرَّاَہُ اللّٰہُ مِـمَّاقَالُوْا وَکَانَ عِنْدَ اللّٰہِ وَجِیْـھًا.۴۹.اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ.۵۰.فَلَمَّا تَـجَلّٰی رَبُّہٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا.۵۱.وَ اللّٰہُ مُوْھِنُ کَیْدِ الْکَافِرِیْنَ.۵۲.بَعْدَ الْعُسْـرِ یُسْـرٌ.۵۳.وَلِلہِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَ مِنْۢ بَعْدُ.۵۴.اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ.۵۵.وَلِنَجْعَلَہٗ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَ رَحْـمَۃً مِّنَّا وَ کَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا.۵۶.قَوْلُ الْـحَقِّ الَّذِیْ فِیْہِ تَـمْتَـرُوْنَ.۴۷کیا خدا اپنے بندہ کو کافی نہیں.۴۸پس خدا نے اُس کو اُن الزامات سے بَری کیا جو اُس پر لگائے گئے تھے اور خدا کے نزدیک وہ وجیہ؎۱ ہے.۴۹کیا خدا اپنے بندہ کو کافی نہیں.۵۰پس جبکہ خدا نے پہاڑ پر تجلّی کی تو اُس کو پاش پاش کردیا یعنی مشکلات کے پہاڑ آسان ہوئے.۵۱اور خدائے تعالیٰ کافروں کے مکر کو سست کردے گا اور اُن کو مغلوب اور ذلیل کرکے دکھلائے گا.۵۲تنگی کے بعد فراخی ہے.۵۳اور پہلے بھی خدا کا حکم ہے اور پیچھے بھی خدا کا ہی حکم ہے.۵۴کیا خدا اپنے بندہ کو کافی نہیں.۵۵اور ہم اُس کو لوگوں کے لئے رحمت کا نشان بنائیں گے اور یہ امر پہلے ہی سے قرار پایا ہوا تھا.۵۶ یہ وہ سچی بات ہے جس میں تم شک کرتے ہو.۵۷.مُـحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَـمَآءُ بَیْنَھُمْ.۵۸.رِجَالٌ لَّا تُلْھِیْـہِمْ تِـجَارَۃٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ.۵۹.مَتَّعَ اللّٰہُ الْمُسْلِمِیْنَ بِبَرَکَاتِـھِمْ ۶۰.فَانْظُرُوْٓا اِلٰٓی اٰثَـارِ رَحْـمَۃِ اللّٰہِ.۶۱وَاَنْبِئُوْنِیْ مِنْ مِّثْلِ ھٰٓؤُلَآءِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ.۶۲ وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا لَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْـخَاسِـرِیْنَ.۵۷محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کا رسول ہے اور جو لوگ اس کے ساتھ ہیں وہ کفّار پر سخت ہیں.یعنی کفّار اُن کے سامنے لاجواب اور عاجز ہیں اور اُن کی حقانیت کی ہیبت کافروں کے دلوں پر مستولی ہے اور وہ لوگ آپس میں رحم کرتے ہیں.۵۸وہ ایسے مرد ہیں کہ ان کو یادِ الٰہی سے نہ تجارت روک سکتی ہے اور نہ بیع مانع ہوتی ہے.یعنی محبت ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’یہ پیشگوئی اس طرح پر پوری ہوئی کہ کپتان ڈگلس ڈپٹی کمشنر کے وقت میں میرے پر خون کا الزام لگایا گیا.خدا نے اُس سے مجھے بَری کردیا اور پھر مسٹر ڈوئی ڈپٹی کمشنر کے وقت میں مجھ پر الزام لگایا گیا اُس سے بھی خدا نے مجھے بَری کردیا اور پھر مجھ پر جاہل ہونے کا الزام لگایا.سو مخالف مولویوں کی خود جہالت ثابت ہوئی.اور پھر مہرعلی نے مجھ پر سارق ہونے کا الزام لگایا سو اس کا خود سارق ہونا ثابت ہوا.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۰۹)
محبت ِ الٰہیہ میں ایسا کمال تام رکھتے ہیں کہ دُنیوی مشغولیاں گو کیسی ہی کثرت سے پیش آویں اُن کے حال میں خلل انداز نہیں ہوسکتیں.۵۹خدائے تعالیٰ اُن کے برکات سے مسلمانوں کو متمتع کرے گا.۶۰ سو اُن کا ظہور رحمت ِ الٰہیہ کے آثار ہیں سو اُن آثار کو دیکھو.۶۱ اور اگر اِن لوگوں کی کوئی نظیر تمہارے پاس ہے.یعنی اگر تمہارے ہم مشربوں اور ہم مذہبوں میں سے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں کہ جو اِسی طرح تائیداتِ الٰہیہ سے مؤیّد ہوں سو تم اگر سچے ہو تو ایسے لوگوں کو پیش کرو.۶۲اور جو شخص بجز دینِ اسلام کے کسی اور دین کا خواہاں اور جویاں ہوگا وہ دین ہرگز اُس سے قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں وہ زیاں کاروں میں ہوگا.۶۳.یَـآ اَحْـمَدُ فَاضَتِ الرَّحْـمَۃُ عَلٰی شَفَتَیْکَ.۶۴.اِنَّـآ اَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ.؎۱ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْـحَرْ.۶۵.وَ اَقِـمِ الصَّلوٰۃَ لِذِکْرِیْ.۶۶.اَنْتَ مَعِیْ وَاَنَـا مَعَکَ.۶۷.سِـرُّکَ سِـرِّیْ.۶۸.وَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِٓیْ اَنْقَضَ ظَھْرَکَ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ.۶۹.اِنَّکَ عَلٰی صِـرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ.۷۰.وَجِیْـھًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَ مِنَ الْمُقَرَّ بِیْنَ.۶۳ اے احمدتیرے لبوں پر رحمت جاری ہوئی ہے.۶۴ ہم نے تجھ کو معارفِ کثیرہ عطا فرمائے ہیں سو اُس کے شکر میں نماز پڑھ اور قربانی دے.۶۵ اور میری یاد کے لئے نماز کو قائم کر.۶۶تو میرے ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں.۶۷تیرا بھید میرا بھید ہے.۶۸ہم نے تیرا وہ بوجھ جس نے تیری کمر توڑ دی اُتار دیا ہے اور تیرے ذِکر کو اونچا کردیا ہے.۶۹تُو سیدھی راہ پر ہے.۷۰دنیا اور آخرت میں وجیہہ اور مقربین میں سے ہے.۷۱ حَـمَاکَ اللّٰہُ.۷۲.نَصَـرَکَ اللّٰہُ.۷۳.رَفَعَ اللّٰہُ حُـجَّۃَ الْاِسْلَامِ.۷۴.جَـمَالٌ.۷۵.ھُوَ الَّذِیْ اَمْشَاکُمْ فِیْ کُلِّ حَالٍ.۷۶.لَا تُـحَاطُ اَسْرَارُ الْاَوْلِیَآءِ.۷۱ خدا تیر ی حمایت کرے گا.۷۲ خدا تجھ کو مدد دے گا.۷۳ خدا حجت ِاسلام کو بلندکرے گا.۷۴ جمالِ الٰہی ہے ۷۵ جس نے ہر حال میں تمہارا تنقیہ کیا ہے.۷۶ خدائے تعالیٰ کو جو اپنے ولیوں میں اسرار ہیں وہ احاطہ سے باہر ہیں.کوئی کسی راہ سے اس کی طرف کھینچا جاتا ہے اور کوئی کسی راہ سے… یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدائے تعالیٰ میں دو صفتیں ہیں جو تربیت ِ عباد میں مصروف ہیں.ایک صفت رِفق اور لطف اور اِحسان ہے اس کا نام جمال ہے اور دوسری صفت قہر اور سختی ہے اِس کا نام جلال ہے.سو ۱ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے نزول المسیح میں اس کا ترجمہ یوں فرمایا ہے.’’ہم تجھے بہت سے ارادت مند عطا کریں گے اور ایک کثیر جماعت تجھے دی جاوے گی.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵
عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ جو لوگ اُس کی درگاہِ عالی میں بلائے جاتے ہیں اُن کی تربیت کبھی جمالی صفت سے اور کبھی جلالی صفت سے ہوتی ہے اور جہاں حضرت احدیّت کے تلطّفاتِ عظیمہ مبذول ہوتے ہیں وہاں ہمیشہ صفت ِجمالی کی تجلّیات کا غلبہ رہتا ہے مگر کبھی کبھی بندگانِ خاص کی صفاتِ جلالیہ سے بھی تادیب اور تربیت منظور ہوتی ہے جیسے انبیاءِ کرام کے ساتھ بھی خدا ئے تعالیٰ کا یہی معاملہ رہا ہے کہ ہمیشہ صفاتِ جمالیہ حضرت احدیّت کے اُن کی تربیت میں مصروف رہے ہیں لیکن کبھی کبھی اُن کی استقامت اور اخلاقِ فاضلہ کے ظاہر کرنے کے لئے جلالی صفتیں بھی ظاہر ہوتی رہی ہیں اور اُن کو شریر لوگوں کے ہاتھ سے انواع اقسام کے دکھ ملتے رہے ہیں تا اُن کے وہ اخلاق فاضلہ جو بغیر تکالیف شاقہ کے پیش آنے کے ظاہر نہیں ہوسکتے وہ سب ظاہر ہوجائیں اور دنیا کے لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ وہ کچّے نہیں ہیں بلکہ سچے وفادار ہیں.۷۷.وَقَالُوْٓا اَنّٰی لَکَ ھٰذَا.۷۸.اِنْ ھٰذَا اِلَّا سِـحْرٌ یُّــؤْثَـرُ.۷۹.لَنْ نُّـوْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَـرَی اللّٰہَ جَھْرَۃً.۸۰.لَا یُصَدِّ.قُ السَّفِیْہُ اِلَّا سَیْفَۃَ الْھَلَاکِ.۸۱.عَدُ.وٌّ لِّیْ وَ عَدُ.وٌّ لَّکَ.۸۲.قُلْ اَتٰی اَمْرُ اللّٰہِ فَلَا تَسْتَعْـجِلُوْہُ.۸۳.اِذَا جَآءَ نَصْـرُ اللّٰہِ اَلَسْتُ بِـرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی.۷۷اور کہیں گے یہ تجھے کہاں سے حاصل ہوا.۷۸یہ تو ایک سحر ہے جو اختیار کیا جاتا ہے.۷۹ہم ہرگز نہیں مانیں گے جب تک خدا کو بچشمِ خود دیکھ نہ لیں.۸۰سفیہ بجز ضربہ ٔ ہلاکت کے کسی چیز کو باور نہیں کرتا.۸۱میرا اور تیرا دشمن ہے.۸۲کہہ خدا کا امر آیا ہے سو تم جلدی مت کرو.۸۳جب خدا کی مدد آئے گی تو کہا جائے گا کہ کیا میں تمہارا خدا نہیں کہیں گے کہ کیوں نہیں.۸۴.اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ.۸۵.وَلَا تَـھِنُوْا وَلَا تَـحْزَنُوْا.۸۶.وَکَانَ اللّٰہُ بِکُمْ رَءُوْفًا رَّحِیْـمًا.۸۷ اَ.لَا اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَـحْزَنُوْنَ.۸۸ تَـمُوْتُ وَ اَنَـا رَاضٍ مِّنْکَ.۸۹ فَادْخُلُوا الْـجَنَّۃَ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیْنَ.۹۰.سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْھَا اٰمِنِیْنَ.۹۱ سَلَامٌ عَلَیْکَ ۹۲.جُعِلْتَ مُبَارَکًا ۹۳.سَـمِــعَ اللّٰہُ اِنَّہٗ سَـمِیْعُ الدُّعَآءِ.۹۴.اَنْتَ مُبَارَکٌ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ.۹۵.اَمْرَاضُ النَّاسِ وَبَـرَکَاتُہٗ.۹۶.اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ.۹۷.اُذْکُرْ نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکَ ۹۸.وَ اِنِّیْ فَضَّلْتُکَ عَلَی الْعَالَمِیْنَ.۹۹.يٰۤاَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ ارْجِعِيْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً فَادْخُلِیْ عِبَادِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ.۱۰۰.مَنَّ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ ۱۰۱.وَ اَحْسَنَ اِلٰی اَحْبَابِکُمْ ۱۰۲ وَعَلَّمَکُمْ مَّالَمْ
تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ.۱۰۳.وَاِنْ تَعُدُّ وْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لَا تُـحْصُوْھَا.۸۴ میں تجھ کو پوری؎۱نعمت دوں گا اور اپنی طرف اُٹھاؤں گا اور جو لوگ تیری متابعت اختیار کریں یعنی حقیقی طور پر اللہ و رسول کے مُتّبعین میں داخل ہوجائیںاُن کو اُن کے مخالفوں پر کہ جو انکاری ہیں قیامت تک غلبہ بخشوں گا.یعنی وہ لوگ حجّت اور دلیل کے رُو سے اپنے مخالفوں پر غالب رہیں گے اور صدق اور راستی کے انوار سا طعہ اُنہیں کے شامل حال رہیں گے ۸۵ اور سُست مت ہو اور غم مت کرو.۸۶ خدا تم پر بہت ہی مہربان ہے.۸۷خبردار ہو بہ تحقیق جو لو گ مقربان الٰہی ہوتے ہیں اُن پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ کچھ غم کرتے ہیں.۸۸تُو اس حالت میں مرے گا کہ جب خدا تجھ پر راضی ہوگا.۸۹پس بہشت میں داخل ہوانشاء اللہ امن کے ساتھ.۹۰تم پر سلام.تم شرک سے پاک ہوگئے سو تم امن کے ساتھ بہشت میں داخل ہو.۹۱تجھ پر سلام.۹۲تو مبارک کیا گیا.۹۳خدا نے دعا سن لی.وہ دعاؤں کو سنتا ہے.۹۴تو دنیا اور آخرت میں مبارک ہے… ۹۵لوگوں کی بیماریاں اور خدا کی برکتیں یعنی مبارک کرنے کا یہ فائدہ ہے کہ اس سے لوگوں کی روحانی بیماریاں دور ہوں گی اور جن کے نفس سعید ہیں وہ تیری باتوں کے ذریعہ سے رشد اور ہدایت پا جائیں گے اور ایسا ہی جسمانی بیماریاں اور تکالیف جن میں تقدیر مبرم نہیں.؎۲ ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’میں نے براہین احمدیہ میں غلطی سے توفّی کے معنی ایک جگہ پورا دینے کے کئے ہیں.جس کو بعض مولوی صاحبان بطور اعتراض پیش کیا کرتے ہیں مگر یہ امر جائے اعتراض نہیں.میں مانتا ہوں کہ وہ میری غلطی ہے الہامی غلطی نہیں.میں بشر ہوں اور بشریت کے عوارض مثلاً جیسا کہ سہو اور نسیان اور غلطی یہ تمام انسانوں کی طرح مجھ میں بھی ہیں گو میں جانتا ہوں کہ کسی غلطی پر مجھے خدا تعالیٰ قائم نہیں رکھتا.مگر یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میں اپنے اجتہاد میں غلطی نہیں کرسکتا.خدا کا الہام غلطی سے پاک ہوتا ہے مگر انسان کا کلام غلطی کا احتمال رکھتا ہے کیونکہ سہو و نسیان لازمہ بشریّت ہے.‘‘ (ایّام الصلح.روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۲۷۱، ۲۷۲، نیز دیکھیے براہین احمدیہ حصّہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۹۳ حاشیہ) ۲ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) حضرت اقدسؑ الہام اَمْرَاضُ النَّاسِ وَبَـرَکَاتُہٗ کی تشریح یوں فرماتے ہیں.’’یعنی لوگوں میں مرض پھیلے گی اور اس کے ساتھ ہی خدا کی برکتیں نازل ہوں گی اور وہ اس طرح پر کہ وہ بعض کو نشان کے طور پر اس بلا سے محفوظ رکھے گا اور دوسرے یہ کہ یہ بیماریاں جو آئیں گی یہ دینی برکات کا موجب ہوجائیں گی اور بہتیرے لوگ اُن خوفناک دنوں میں دینی برکات سے حصّہ لیں گے اور سلسلہ حقّہ میں داخل ہوجائیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا اور طاعون کا خوفناک نظارہ دیکھ کر بڑے بڑے متعصّب اس سلسلہ میں داخل ہوگئے ہیں.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۳۹۸)
ور پھر فرمایا کہ تیرا ربّ بڑا ہی قادر ہے.وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے.اور پھر فرمایا کہ ۹۷خدا کی نعمت کو یاد رکھ اور ۹۸میں نے تجھ کو تیرے وقت کے تمام عالَموں پر فضیلت دی.اس جگہ جاننا چاہیے کہ یہ تفضیل طفیلی اور جزوی ہے.یعنی جو شخص حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل طور پر متابعت کرتا ہے اُس کا مرتبہ خدا کے نزدیک اُس کے تمام ہم عصروں سے بر تر و اعلیٰ ہے.پس حقیقی اور کلّی طور پر تمام فضیلتیں حضرت خاتم الانبیاء کو جناب احدیّت کی طرف سے ثابت ہیں اور دوسرے تمام لوگ اُس کی متابعت اور اُس کی محبت کے طفیل سے علیٰ قدر متابعت و محبت مراتب پاتے ہیں.فَـمَا اَعْظَمَ شَاْنَ کَمَالِہٖ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ.اب بعد اس کے بقیہ ترجمہ الہام یہ ہے.۹۹اے نفس بحق آرام یافتہ اپنے ربّ کی طرف واپس چلا آ.وہ تجھ پر راضی اور تو اُس پر راضی.پھر میرے بندوں میں داخل ہو اور میری بہشت میں اندر آجا.۱۰۰خدا نے تجھ پر احسان کیا اور ۱۰۱تیرے دوستوں سے نیکی کی ۱۰۲اور تجھ کو وہ علم بخشا جس کو تو خود بخود نہیں جان سکتا تھا.۱۰۳اور اگر تو خدا کی نعمتوں کو گننا چاہے تو یہ تیرے لئے غیر ممکن ہے.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۰۸تا ۶۲۳ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳) ۱۸۸۳ء ’’پہلے اس؎۱ سے چند مرتبہ الہامی طور پر خدائے تعالیٰ نے اِس عاجز کی زبان پر یہ دعا جاری کی تھی کہ رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُبَارَکًا حَیْثُـمَا کُنْتُ.یعنی اے میرے ربّ مجھے ایسا مبارک کر کہ ہر جگہ کہ میں بودو باش کروں برکت میرے ساتھ رہے.پھر خدا نے اپنے لطف و احسان سے وہی دعا کہ جو آپ ہی فرمائی تھی قبول فرمائی اور یہ عجیب بندہ نوازی ہے کہ اوّل آپ ہی الہامی طور پر زبان پر سوال جاری کرنا اور پھر یہ کہنا کہ یہ تیرا سوال منظور کیا گیا ہے.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۲۱ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳) ۱۸۸۳ء ’’پھر ان الہامات کے بعد چند الہام فارسی اور اُردو میں اور ایک انگریزی میں ہوا…… اور وہ یہ ہے.۱.بخرام؎۲ کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں برمنار بلند تر محکم افتاد.۱ یعنی الہام جُعِلْتَ مُبَارَکًا مندرجہ صفحہ ۸۳.(شمس) ۲ (ترجمہ) ’’اب ظہور کر اور نکل کہ تیرا وقت نزدیک آگیا اور اب وہ وقت آرہا ہے کہ محمدی گڑھے میں سے
ک محمدؐ مصطفیٰ نبیوں کا سردار.۳خدا تیرے سب کام درست کردے گا ۴اور تیری ساری مُرادیں تجھے دے گا.۵ربّ الافواج اِس طرف توجہ کرے گا.۶اِس نشان کا مدّعا یہ ہے کہ قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے مُنہ کی باتیں ہیں.؎۱ ۷جناب الٰہی کے احسانات کا دروازہ کھلا ہے ۸اور اُس کی پاک رحمتیں اِس طرف متوجہ ہیں.۹دی ڈیز شَلْ کم وِہْن گاڈ شیل ہَیلْپ یُو.۱۰گلوری بی ٹو دس لارڈ گَوڈ میکراوف ارتھ اینڈ ہیْون.؎۲ وہ دن آتے ہیں کہ خدا تمہاری مدد کرے گا.خدائے ذوالجلال آفریندۂ زمین و آسمان.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۲۳ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳) ۱۸۸۳ء ’’ابھی چند روز کا ذکر ہے کہ یک دفعہ بعض امور میں تین طرح کا غم پیش آگیا تھا جس کے تدارک کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی اور بجز حرج و نقصان اُٹھانے کے اور کوئی سبیل نمودار نہ تھی.اُسی روز شام کے قریب یہ عاجز اپنے معمول کے مطابق جنگل میں سیر کو گیا اور اُس وقت ہمراہ ایک آریہ ملاوا مل نامی تھا جب واپس آیا تو گاؤں کے دروازہ کے نزدیک یہ الہام ہوا.نُنَجِّیْکَ مِنَ الْغَمِّ.پھر دوبارہ الہام ہوا.بقیہ حاشیہ.نکال لئے جاویں گے اور ایک بلند اور مضبوط مینار پر اُن کا قدم پڑے گا.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۱۱) ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ’’ایک سوال پیش ہوا کہ حضور کو جو الہام ہوا ہے قرآن خدا کا کلام ہے اور میرے منہ کی باتیں.اس الہام الٰہی میں ’’میرے‘‘ کی ضمیر کس کی طرف پھرتی ہے یعنی کس کے منہ کی باتیں.فرمایا.خدا کے منہ کی باتیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے منہ کی باتیں.اس طرح کے ضمائر کے اختلاف کی مثالیں قرآن شریف میں موجود ہیں.‘‘ (بدر مورخہ ۱۱؍ جولائی ۱۹۰۷ء صفحہ ۶) ۲ The days shall come when God shall help you.۹.Maker of earth and heaven.Glory be to this Lord God ۱۰.
نُنَجِّیْکَ مِنَ الْغَمِّ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْـرٌ.یعنی ہم تجھے اس غم سے نجات دیں گے.ضرور نجات دیں گے.کیا تو نہیں جانتا کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے.چنانچہ اسی قدم پر جہاں الہام ہوا تھا اُس آریہ کو اُس الہام سے اطلاع دی گئی تھی اور پھر خدا نے وہ تینوں طور کا غم دور کردیا.فَالْـحَمْدُ لِلہِ عَلٰی ذَالِکَ.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۵۹، ۶۶۰ حاشیہ در حاشیہ نمبر۴) ۱۸۸۳ء ’’۱دوہ؎۱ آل مین شُڈ بی اینگری بٹ گوڈ از وِدّ یُو.۲ہِی شل ہیلپ یُو.۳وارڈس اوف گَوڈ کَین ناٹ ایکس چینج.یعنی اگر تمام آدمی ناراض ہوں گے مگر خدا تمہارے ساتھ ہے.وہ تمہاری مدد کرے گا.خدا کی باتیں بدل نہیں سکتیں.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ۶۶۰، ۶۶۱ حاشیہ در حاشیہ نمبر۴) ۱۸۸۳ء ’’۱.اَلْـخَیْرُکُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ ۲کِتَابِ اللّٰہِ الرَّحْـمٰنِ.۳ اِلَیْہِ یَصْعَدُالْکَلِمُ الطَّیِّبُ.یعنی ۱تمام بھلائی قرآن میں ہے.۲جو اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے.وہی اللہ جو رحمان ہے.۳اُسی رحمان کی طرف کلماتِ طیبہ صعود کرتے ہیں.۴.ھُوَالَّذِی یُنَزِّلُ الْغَیْثَ مِنْۢ بَعْدِ مَا قَنَطُوْا وَیَنْشُرُ رَحْـمَتَہٗ.۴اللہ وہ ذات کریم ہے کہ جو نا امیدی کے پیچھے مینہہ برساتا ہے اور اپنی رحمت کو دنیا میں پھیلاتا ہے یعنی عین ضرورت کے وقت تجدید دین کی طرف متوجہ ہوتا ہے.۵یَـجْتَبِیْ اِلَیْہِ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عَبَادِہٖ.۵جس کو چاہتا ہے بندوں میں سے چُن لیتا ہے.۶.وَکَذَالِکَ مَنَنَّا عَلٰی یُوْسُفَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْٓءَ وَ الْفَحَشَآءَ.۷ وَ لِتُنْذِ رَ قَـوْمًا مَّا اُنْذِ رَ اٰبَآ ؤُ ھُمْ فَھُمْ غَافِلُوْنَ.۶اور اسی طرح ہم نے یوسف پر احسان کیا تا ہم اُس سے بدی اور فحش کو روک دیں ۷ اور تا تُو اُن لوگوں کو ۱ ۱.Though all men should be angry but God is with you.۲.He shall help you.۳.Words of God cannot exchange.
ڈراوے جن کے باپ دادوں کو کسی نے نہیں ڈرایا سو وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں.اس جگہ یوسف کے لفظ سے یہی عاجز مراد ہے کہ جو باعتبار کسی روحانی مناسبت کے اطلاق پایا.وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۶۱، ۶۶۲ حاشیہ در حاشیہ نمبر۴) ۱۸۸۳ء ’’بعد اس کے فرمایا.۱.قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّؤْمِنُوْنَ.۲.اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَـھْدِیْنِ.۳.رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَـمْ مِّنَ السَّمَآءِ.۴.رَبُّـنَا عَاجٍ.۵.رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَـیَّ مِـمَّا یَدْعُوْنَـنِیْ اِلَیْہِ.۶.رَبِّ نَـجِّنِیْ مِنْ غَـمِّیْ.۷.اِیْلِیْ اِیْلِیْ لِمَا سَبَقْتَنِیْ.۸کرم ہائے تو مارا کرد گستاخ.۱کہہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے.پس کیا تم ایمان نہیں لاتے.یعنی خدائے تعالیٰ کا تائیدات کرنا اور اسرار غیبیہ پر مطلع فرمانا اور پیش از وقوع پوشیدہ خبریں بتلانا اور دعاؤں کو قبول کرنا اور مختلف زبانوں میں الہام دینااور معارف اور حقائق الٰہیہ سے اطلاع بخشنا یہ سب خدا کی شہادت ہے جس کو قبول کرنا ایماندار کا فرض ہے.پھر بقیہ الہامات ِ بالا کا ؎۱ یہ ہے کہ ۲بہ تحقیق میرا رب میرے ساتھ ہے وہ مجھے راہ بتلائے گا.۳اے میرے ربّ میرے گناہ بخش اور آسمان سے رحم کر.۴ہمارا ربّ عاجی ہے (اس کے معنی ابھی تک معلوم نہیں ہوئے) ۵جن نالائق باتوں کی طرف مجھ کو بُلاتے ہیں اُن سے اے میرے ربّ مجھے زندان بہتر ہے.۶اے میرے خدا مجھ کو میرے غم سے نجات بخش.۷اے میرے خدا! اے میرے خدا! تُونے مجھے کیوں چھوڑ دیا.۸تیری بخششوں نے ہم کو گستاخ کردیا.یہ سب اسرار ہیں کہ جو اپنے اپنے اوقات پر چسپاں ہیں جن کا علم حضرت عالم الغیب کو ہے.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۶۲ تا ۶۶۴ حاشیہ در حاشیہ نمبر۴) ۱۸۸۳ء ’’ پھر بعد اس کے فرمایا.ھو شعنا.نعسا ۱ سہو کتابت ہے ’’ترجمہ‘‘ کا لفظ لکھنے سے رہ گیا ہے.(ناشر)
یہ دونوں فقرے شاید عبرانی ہیں اور اِن کے معنے ابھی تک اس عاجز پر نہیں کھلے.‘‘؎۱ (براہین احمدیہ حصّہ چہارم.روحانی خزائن جلد۱ صفحہ ۶۶۴ حاشیہ در حاشیہ نمبر۴) ۱۸۸۳ء ’’پھربعد اس کے دو فقرے انگریزی ہیں جن کے الفاظ کی صحت بباعث سرعت ِ الہام ابھی تک معلوم نہیں اور وہ یہ ہیں.آئی لَوْ یُوْ.آئی شَیل گِو یو ءِ لارج پارٹی اوف اسلام.؎۲ (براہین احمدیہ حصّہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۶۴ حاشیہ در حاشیہ نمبر۴) ترجمہ.میں تجھ سے محبت کرتا ہوں.میں تمہیں ایک بڑا گروہ اسلام کا دوں گا.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۰۵) ۱۸۸۳ء ’’ پھر بعد اس کے یہ الہام ہے.۱.یَا عِیْسٰی اِنِّیْ مَتَوَفِیْکَ؎۳ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ (وَمُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا؎۴) وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے براہین احمدیہ حصّہ پنجم میں اس الہام کی تشریح میں تحریرفرمایا ہے.’’ ھو شعنا.نعسا… اے خدا میں دعا کرتا ہوں کہ مجھے نجات بخش اور مشکلات سے رہائی فرما.ہم نے نجات دے دی.یہ دونوں فقرے عبرانی زبان میں ہیں اور یہ ایک پیش گوئی ہے جو دعا کی صورت میں کی گئی اور پھر دعا کا قبول ہونا ظاہر کیا گیا اور اس کا حاصل مطلب یہ ہے کہ جو موجودہ مشکلات ہیں یعنی تنہائی، بے کسی، ناداری، کسی آئندہ زمانہ میں وہ دور کردی جائیں گی چنانچہ پچیس برس کے بعد یہ پیش گوئی پوری ہوئی اور اس زمانہ میں ان مشکلات کا نام و نشان نہ رہا.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۰۴، ۱۰۵) (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) فقرہ ھو شعنا متی ۹ /۲۱میں بھی آیا ہے جس کا ترجمہ حاشیہ میں یوں لکھا ہے.’’کرم کرکے نجات دے‘‘ دیکھیے زبور ۲۵/۱۱۸.نعسا کا ترجمہ عبرانی میں ہے ’’قبول ہوئی‘‘ (عربی عبرانی ڈکشنری) ۲ I love you.I shall give you a large party of Islam.۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’الہام اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ اس قدر ہوا ہے جس کا خدا ہی شمار جانتا ہے.بعض اوقات نصف شب کے بعد فجر تک ہوتا رہا ہے.‘‘ (از مکتوب بنام میر عباس علی شاہ صاحب.مکتوبات احمد جلد ۱ صفحہ ۵۸۲ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۴ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) یہ فقرہ سہو کاتب سے براہین میں رہ گیا ہے.(براہین احمدیہ حصّہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۹۴حاشیہ)
اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ.۲.ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ.۱.اے عیسیٰ؎۱میں تجھے کامل اجر بخشوں گا.یا وفات دوں گا اور اپنی طرف اُٹھاؤں گا یعنی رفع درجات کروں گا.یا دنیا سے اپنی طرف اُٹھاؤں گا.منکروں کے ہر ایک الزام اور تہمت سے تیرا دامن پاک کردوں گا اور تیرے تابعین کو اُن پر جو منکر ہیں قیامت تک غلبہ بخشوں گا یعنی تیرے ہم عقیدہ اور ہم مشربوں کو حجت اور برہان اور برکات کے رو سے دوسرے لوگوں پر قیامت تک فائق رکھوں گا.۲.پہلوں میں سے بھی ایک گروہ ہے اور پچھلوں میں سے بھی ایک گروہ ؎۲ہے.اس جگہ عیسیٰ کے نام سے بھی یہی عاجز مراد ہے.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۶۴، ۶۶۵ حاشیہ در حاشیہ نمبر۴) ۱۸۸۳ء ( ا لف) ’’ اور پھر بعد اِس کے اُردو میں الہام فرمایا.میں اپنی چمکار؎۳ دکھلاؤں گا.اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اُٹھاؤں گا.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کردے گا.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۶۵ حاشیہ در حاشیہ نمبر۴) (ب) ’’ دنیا میں ایک نذیر آیا.اس کی دوسری قراءت یہ ہے کہ دنیا میں ایک نبی آیا.‘‘ (اشتہار ایک غلطی کا ازالہ.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۰۷) (ج) ’’دنیا میں ایک نبی آیا مگر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا.‘‘ نوٹ.’’ ایک قراءت اس الہام میں یہ بھی ہے کہ دنیا میں ایک نذیر آیا اور یہی قراءت براہین میں درج ہے اور فتنہ سے بچنے کے لئے یہ ۱ اس کے متعلق دیکھیے حاشیہ نمبر۱ صفحہ ۸۴.(مرزا بشیر احمد) ۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’یعنی اس سلسلہ میں داخل ہونے والے دو۲ فریق ہوں گے.ایک پرانے مسلمان جن کا نام اوّلین رکھا گیا جواب تک تین لاکھ کے قریب اس سلسلہ میں داخل ہوچکے ہیں اور دوسرے نئے مسلمان جو دوسری قوموں میں سے اسلام میں داخل ہوں گے یعنی ہندوؤں اور سکّھوں اور یورپ اور امریکہ کے عیسائیوں میں سے.اور وہ بھی ایک گروہ اس سلسلہ میں داخل ہوچکا ہے اور ہوتے جاتے ہیں.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۰۸) ۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’یہ وہی چمکار ہے جو کوہِ طور کی چمکار سے مشابہت رکھتی ہے اور اس سے مراد جلالی معجزات ہیں جیسا کہ کوہِ طور پر بنی اسرائیل کو جلالی معجزات دکھائے گئے تھے.‘‘ (چشمۂ معرفت.روحانی خزائن جلد۲۳ صفحہ ۳۹۸)
دوسری قراءت درج نہیں کی گئی.‘‘ (از مکتوب بنام حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۲۴۸ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸۸۳ء ’’ ۱.اَلْفِتْنَۃُ ھٰھُنَا فَاصْبِرْکَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ.۱.اس جگہ ایک فتنہ ہے.سو اولوالعزم نبیوں کی طرح صبر کر.۲ فَلَمَّا تَـجَلّٰی رَبُّہٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا.۲.جب خدا مشکلات کے پہاڑ پر تجلّی کرے گا تو انہیں پاش پاش کردے گا.۳ قُوَّۃُ الرَّحْـمٰنِ لِعُبَیْدِ اللّٰہِ الصَّمَدِ.۳.یہ خدا کی قوت ہے کہ جو اپنے بندے کے لئے وہ غنی مطلق ظاہر کرے گا.۴.مَقَامٌ لَّا تَتَرَقَّی الْعَبْدُ فِیْہِ بِسَعْیِ الْاَعْـمَالِ.۴یعنی عبداللہ الصمد ہونا ایک مقام ہے کہ جو بطریق موہبتِ خاص عطاہوتا ہے کوششوں سے حاصل نہیں ہوسکتا.۵ یَا دَاوٗدُ عَامِلْ بِالنَّاسِ رِفْقًا وَّ اِحْسَانًا.۶.وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ فَـحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْـھَا.۷.وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَـحَدِّ.ثْ.۸یُو مَسٹ ڈو وہاٹ آی ٹولْڈ یُو؎۱.تم کو وہ کرنا چاہیے جو میں نے فرمایا ہے.۹.اُشْکُرْ نِعْمَتِیْ رَاَیْتَ خَدِ یْـجَتِیْ.۱۰.اِنَّکَ الْیَوْمَ لَذُ.وْ حَظٍّ عَظِیْمٍ.۱۱.اَنْتَ مُـحَدَّ.ثُ اللّٰہِ.فِیْکَ مَآ دَّۃٌ فَارُوْقِیَّۃٌ.۵.اے داؤد خلق اللہ کے ساتھ رفق اور احسان کے ساتھ معاملہ کر ۶.اور سلام کا جواب احسن طور پر دے ۷اور اپنے ربّ کی نعمت کا لوگوں کے پاس ذِکر کر.۹میری نعمت کا شکر کر کہ تُونے اُس کو قبل از وقت پایا.۱۰آج تجھے حظِّ عظیم ہے.۱۱تُو محدّث اللہ ہے.تجھ میں مادئہ فاروقی ہے.۱۲.سَلَامٌ عَلَیْکَ یَـآ اِبْـرَاھِیْمُ.اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ.۱۳.ذُوْ عَقْلٍ مَّتِیْنٍ.۱۴.حِبُّ اللّٰہِ ۱۵.خَلِیْلُ اللّٰہِ ۱۶.اَسَدُ اللّٰہِ ۱۷.وَصَلِّ عَلٰی مُـحَمَّدٍ.۱۸.مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلٰی.۱۹.اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْ.رَکَ.۲۰.اَلَمْ نَـجْعَلْ لَّکَ سُھُوْلَۃً فِیْ کُلِّ اَمْرٍ.۲۱.بَیْتُ الْفِکْرِ وَ بَیْتُ الذِّکْرِ.۲۲.وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا.۱۲تیرے پر سلام ہے اے ابراہیم تو آج ہمارے نزدیک صاحبِ مرتبہ اور امانت دار اور ۱۳قوی العقل ۱ ۸.You must do what I told you.
ہے اور ۱۴دوست خدا ہے.۱۵خلیل اللہ ہے.۱۶اسد اللہ ہے ۱۷اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) پر درود بھیج.یعنی یہ اُسی نبی کریم کی متابعت کا نتیجہ ہے.اور بقیہ ترجمہ یہ ہے کہ ۱۸خدا نے تجھ کو ترک نہیں کیا اور نہ وہ تجھ پر ناراض ہے.۱۹ کیا ہم نے تیرا سینہ نہیں کھولا.۲۰کیا ہم نے ہر یک بات میں تیرے لئے آسانی نہیں کی کہ ۲۱تجھ کو بیت الفکر اور بیت الذکر عطا کیا اور ۲۲جو شخص بیت الذکر میں باخلاص و قصد تعبّد و صحت نیت و حُسن ایمان داخل ہوگا وہ سوء خاتمہ سے امن میں آجائے گا.بیت الفکر سے مراد اس جگہ وہ چوبارہ ہے جس میں یہ عاجز کتاب کی تالیف کے لئے مشغول رہا ہے اور رہتا ہے اور بیت الذکر سے مراد وہ مسجد ہے کہ جو اُس چوبارہ کے پہلو میں بنائی گئی ہے.اور آخری فقرہ مذکورہ بالا اسی مسجد؎۱کی صفت میں بیان فرمایا ہے جس کے حروف سے بنائے مسجد کی تاریخ بھی نکلتی ہے اور وہ یہ ہے.۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.(الف)’’ اس مسجد مبارک کے بارے میں پانچ مرتبہ الہام ہوا.منجملہ ان کے ایک نہایت عظیم الشان الہام ہے اور وہ دونوں فقرہ یہ ہیں.فِیْہِ بَرَکَاتٌ لِّلنَّاسِ.وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا.‘‘ (از مکتوب بنام میر عباس علی صاحب.مکتوبات احمد جلد ۱ صفحہ ۵۶۶ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) (ب) ’’ایک مرتبہ میں نے اس مسجد کی تاریخ… الہامی طور پر معلوم کرنی چاہی تو مجھے الہام ہوا.مُبَارِکٌ وَّمُبَارَکٌ وَّکُلُّ اَمْرٍ مُّبَارَکٍ یُّـجْعَلُ فِیْہِ.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۹۰) (ج) ’’اس الہام میں تین قسم کے نشان ہیں.(۱) اوّل یہ کہ اس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مادۂ تاریخ بنائے مسجد ہے.(۲) دوم یہ کہ یہ پیش گوئی بتلا رہی ہے کہ ایک بڑے سلسلہ کے کاروبار اسی مسجد میں ہوں گے چنانچہ اب تک اسی مسجد میں بیٹھ کر ہزار ہا آدمی بیعت توبہ کرچکے ہیں اسی میں بیٹھ کر صد ہا معارف بیان کئے جاتے ہیں اور اسی میں بیٹھ کر کتب ِ جدیدہ کی تالیف کی بنیاد پڑتی ہے اور اسی میں ایک گروہِ کثیر مسلمانوں کا پنج وقت نماز پڑھتا ہے اور وعظ سنتے ہیں اور دلی سوز سے دعائیں کی جاتی ہیں اور بنائے مسجد کے وقت میں ان باتوں میں سے کسی بات کی علامت موجود نہ تھی.(۳)سوم یہ کہ یہ الہام دلالت کررہا ہے کہ آئندہ زمانہ میں کوئی آفت آنے والی ہے اور جو شخص اخلاص کے ساتھ اس میں داخل ہوگا وہ اس آفت سے بچ جاوے گا اور براہین احمدیہ کے دوسرے مقامات سے ثابت ہوچکا ہے کہ وہ آفت طاعون ہے.سو یہ پیش گوئی بھی اس سے نکلتی ہے کہ جو شخص پُوری ارادت اور اخلاص سے جس کو خدا پسند کر لیوے اس مسجد میں داخل ہوگا وہ طاعون سے بھی بچایا جائے گا یعنی طاعونی موت سے.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۲۵، ۵۲۶)
مُبَارِکٌ وَّ مُبَارَکٌ وَّکُلُّ اَمْرٍ مُّبَارَکٍ یُّـجْعَلُ فِیْہِ.یعنی یہ مسجد برکت دہندہ اور برکت یافتہ ہے اور ہر یک امر مبارک اِس میں کیا جائے گا.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱، ۶۶۵ تا ۶۶۷ حاشیہ در حاشیہ نمبر۴) ۱۸۸۳ء ’’پھر بعد اس کے اس عاجز کی نسبت فرمایا.۱ رُفِعْتَ وَجُعِلْتَ مُبَارَکًا.۱تو اونچا کیا گیا اور مبارک بنایا گیا.۲.وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْـمَا نَـھُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَھُمُ الْاَ مْنُ وَ ھُمْ مُّھْتَدُوْنَ.یعنی ۲جو لوگ اُن برکات و انوار پر ایمان لائیں گے کہ جو تجھ کو خدائے تعالیٰ نے عطا کئے ہیں اور ایمان اُن کا خالص اور وفاداری سے ہوگا تو ضلالت کی راہوں سے امن میں آجائیں گے اور وہی ہیں جو خدا کے نزدیک ہدایت یافتہ ہیں.۳ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ.۴ قُلِ اللّٰہُ حَافِظُہٗ.۵ عِنَایَۃُ اللّٰہِ حَافِظُکَ.۶ نَـحْنُ نَزَّلْنَاہُ وَاِنَّا لَہٗ لَـحَافِظُوْنَ.۷اَللّٰہُ خَیْرٌحَافِظًا وَّ ھُوَ اَرْحَـمُ الرَّاحِـمِیْنَ.۸ وَیُـخَوِّفُوْنَکَ مِنْ دُوْنِہٖ.۹ اَئِـمَّۃُ الْکُفْرِ.۱۰.لَا تَـخَفْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی.۱۱.یَنْصُـرُکَ اللّٰہُ فِیْ مَوَاطِنَ.۱۲.اِنَّ یَوْمِیْ لَفَصْلٌ عَظِیْمٌ.۱۳کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَـا وَرُسُلِیْ.۱۴.لَا مُبَدِّ.لَ لِکَلِمَاتِہٖ.۱۵.بَصَآئِرُ لِلنَّاسِ.۱۶.نَصَـرْتُکَ مِنْ لَّدُ.نِّیْ.۱۷.اِنِّیْ مُنَجِّیْکَ مِنَ الْغَمِّ.۱۸.وَکَانَ رَبُّکَ قَدِ.یْرًا.۱۹.اَنْتَ مَعِیْ وَ اَنَـا مَعَکَ.۲۰.خَلَقْتُ لَکَ لَیْلًا وَّنَـھَارًا.۲۱.اِعْـمَلْ مَاشِئْتَ فَاِنِّیْ قَدْ غَفَرْتُ لَکَ.۲۲.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃٍ لَّا یَعْلَمُھَا الْـخَلْقُ.۳مخالف لوگ ارادہ کریں گے کہ تا خدا کے نور کو بُجھا دیں.۴کہہ خدا اُس نورکا آپ حافظ ہے.۵عنایت الٰہیہ تیری نگہبان ہے.۶ہم نے؎۱ اُتارا ہے اور ہم ہی محافظ ہیں.۷خدا خیرالحافظین ہے اور وہ ارحم الراحمین ہے ۸اور تجھ کو اَور اَور چیزوں سے ڈرائیں گے.۹یہی پیشوایانِ کفر ہیں.۱۰مت خوف کر تجھی کو غلبہ ہے.یعنی حجّت اور بر ہان اور قبولیت اور برکت کے رُو سے تُو ہی غالب ہے.۱۱خدا کئی میدانوںمیں تیری مدد کرے گا یعنی مناظرات و مجادلات بحث میں تجھ کو غلبہ رہے گا.پھرفرمایا کہ ۱۲میرا دن حق اور باطل میں فرق بیّن کرے گا.۱۳خدا لکھ چکا ہے کہ غلبہ مجھ کو اور میرے رسولوں کو ہے.۱۴کوئی نہیں کہ جو خدا کی باتوں کو ٹال دے.۱۵یہ خدا کے کام دین کی سچائی کے لئے حجّت ہیں.۱ سہو کاتب سے لفظ ’’اس کو‘‘ ترجمہ سے رہ گیا ہے.(عبد اللطیف بہاولپوری)
میں اپنی طرف سے تجھے مدد دوں گا.۱۷میں خود تیرا غم دُور کروں گا.۱۸اور تیرا خدا قادر ہے.۱۹تو میرے ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں.۲۰تیرے لئے میں نے رات اور دن پیدا کیا.۲۱جو کچھ تو چاہے کر کہ میں نے تجھے بخشا.۲۲تو مجھ سے وہ منزلت رکھتا ہے جس کی لوگوں کو خبر نہیں.اس آخری فقرہ کا یہ مطلب نہیں کہ منہیاتِ شرعیہ تجھے حلال ہیں بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ تیری نظر میں منہیات مکروہ کئے گئےہیں اور اعمالِ صالحہ کی محبت تیری فطرت میں ڈالی گئی ہے.گویا جو خدا کی مرضی ہے وہ بندہ کی مرضی بنائی گئی اور سب ایمانیات اس کی نظر میں بطور فطرتی تقاضا کے محبوب کی گئی.وَذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤتِیْہِ مَنْ یَشَآءُ.۲۳.وَقَالُـوْٓا اِنْ ھُوَ (.اِلَّا؎۱) اِفْکٌ فْتَریٰ.۲۴.وَمَا سَـمِعْنَا بِـھٰذَا فِیْٓ اٰبَآئِنَا الْاَوَّلِیْنَ.۲۵.وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ و فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ.۲۶.اِجْتَبَیْنَاھُمْ وَاصْطَفَیْنَاھُمْ ۲۷کَذَالِکَ لِیَکُوْنَ اٰیَۃً لِّلْمَؤْمِنیْنَ.۲۸.اَمْ حَسِبْتُمْ اَنَّ اَصْـحَابَ الْکَھْفِ وَالرَّقِیْمِ کَانُوْا مِنْ اٰیَاتِنَا عَـجَبًا.۲۹.قُلْ ھُوَاللّٰہُ عَـجِیْبٌ.۳۰.کُلَّ یَــوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ.۳۱..فَفَھَّمْنَاھَا سُلَیْـمَانَ.۳۲.وَجَـحَدُ.وْا بِـھَا وَاسْتَیْقَنَتْـھَا اَنْفُسُھُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا.۳۳.سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِـھِمُ الرُّعْبَ.۳۴.قُلْ جَآءَکُمْ نُـوْرٌ مِّنَ اللّٰہِ فَلَا تَکْفُرُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ.۳۵.سَلَامٌ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ ۳۶ صَافَیْنَاہُ وَنَـجَّیْنَاہُ مِنَ الْغَمِّ.۳۷ تَفَرَّدْ نَا بِذَالِکَ.۳۸.فَاتَّـخِذُ.وْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاھِیْمَ مُصَلًّی.۲۳اورکہیں گے کہ یہ جھوٹ بنالیا ہے.۲۴ہم نے اپنے بزرگوں میں یعنی اولیاء سلف میں یہ نہیں سنا.۲۵حالانکہ بنی آدم یکساں پیدا نہیں کئے گئے.بعض کو بعض پر خدا نے بزرگی دی ہے ۲۶اور اُن کو دوسروں میں سے چُن لیا ہے.۲۷یہی سچ ہے تا مومنوں کے لئے نشان ہو.۲۸کیا تم خیال کرتے ہو کہ ہمارے عجیب کام فقط اصحاب کہف تک ہی ختم ہیں.نہیں ۲۹بلکہ خدا تو ہمیشہ صاحب عجائب ہے اور اُس کے عجائبات کبھی منقطع نہیں ہوتے.۳۰ہر یک دن میں وہ ایک شان میں ہے.۳۱پس ہم نے وہ نشان سلیمان کو سمجھائے یعنی اس عاجز کو.۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) یہ الہام براہین احمدیہ میں اس طرح پر لکھا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اربعین نمبر ۲ طبع اوّل صفحہ ۷ میں بحوالہ براہین احمدیہ بیان فرمایا ہے اور وہاں پر اس میں ھُوَ کے بعد.اِلَّا بھی ہے یعنی ان الفاظ میں الہام ہے وَقَالُوْٓا اِنْ ھُوَ.اِلَّا اِفْکٌ فْتَریٰ.وَ مَا سَـمِعْنَا بِـھٰذَا فِیْٓ اٰبَآئِنَا الْاَوَّلِیْنَ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ براہین میں سہو کاتب سے.اِلَّا کا لفظ رہ گیا ہے.
۲اور لوگوں نے محض ظلم کی راہ سے انکار کیا حالانکہ اُن کے دل یقین کرگئے.۳۳سو عنقریب ہم اُن کے دلوں میں رُعب ڈال دیں گے.۳۴کہہ خدا کی طرف سے نور اُترا ہے سو تم اگر مومن ہو تو انکار مت کرو.۳۵ابراہیم پر سلام.۳۶ہم نے اُس کو خالص کیا اور غم سے نجات دی.۳۷ہم نے ہی یہ کام کیا.۳۸سو تم ابراہیم کے نقش قدم پر چلو یعنی رسول کریم کا طریقۂ حقہ کہ جو حال کے زمانہ میں اکثر لوگوں پر مُشتبہ ہوگیا ہے اور بعض یہودیوں کی طرح صرف ظواہر پرست اور بعض مُشرکوں کی طرح مخلوق پرستی تک پہنچ گئے ہیں.یہ طریقہ خداوندِ کریم کے اِس عاجز بندہ سے دریافت کرلیں اور اُس پر چلیں.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ چہارم.روحانی خزائن جلد۱ صفحہ ۶۶۷تا۶۷۱ حاشیہ در حاشیہ نمبر۴ ) اگست ۱۸۸۳ء (الف) ’’ اُن ؎۱کے سفر آخرت کی خبر بھی کہ جو اُن کو تیس۳۰ اکتوبر۱۸۸۳ء میں پیش آیا.تخمیناً تین ماہ پہلے خداوند کریم نے اِس عاجز کو دے دی تھی چنانچہ یہ خبربعض آریہ کو بتلائی بھی گئی تھی.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۴۰ حاشیہ نمبر۱۱) (ب) ’’پنڈت دیانند کی بابت اس کی موت سے دو مہینے پہلے لالہ شرمپت کو اطلاع دی گئی کہ اب وہ بہت ہی نزدیک مرے گا بلکہ کشفی حالت میں مَیں نے اُس کو مُردہ پایا.‘‘ (شحنۂ حق.روحانی خزائن جلد۲ صفحہ ۳۸۲) (ج) ’’اس ملک پنجاب میں جب دیانند بانی مبانی آریہ مذہب نے اپنے خیالات پھیلائے اورسِفلہ طبع ہندوؤں کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیراورایسے ہی دوسرے انبیاء ؑ کی توہین پر چالاک کردیا اور خود بھی قلم پکڑتے ہی اپنی شیطانی کتابوں میں جابجا خدا کے تمام پاک اور برگزیدہ نبیوں کی تحقیر اور توہین شروع کی اور خاص اپنی کتاب ستیارتھ پرکاش میں بہت کچھ جھوٹ کی نجاست کو استعمال کیا اور بزرگ پیغمبروں کو گندی گالیاں دیں تب مجھے اس کی نسبت الہام ہوا کہ خدا تعالیٰ ایسے موذی کو جلد تر دنیا سے اُٹھالے گا.‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۶۰۷) ۲۸؍ اگست ۱۸۸۳ء ’’ شاید پرسوں کے دن یعنی بروز سہ شنبہ مسجد کی طرف نظر کی گئی تو اُسی وقت خداوند کریم کی طرف سے ایک اور فقرہ الہام ہوا اور وہ یہ ہے.فِیْہِ بَـرَکَاتٌ لِّلنَّاسِ.یعنی اس میں لوگوں کے لئے برکتیں ہیں.‘‘ (از مکتوب بنام میر عباس علی صاحب.مکتوبات احمد جلد ۱ صفحہ ۵۵۵ مطبوعہ ۲۰۰۸ء ۱ پنڈت دیانند صاحب (مرزا بشیر احمد)
۶؍ستمبر ۱۸۸۳ء ’’بتاریخ ۶ ؍ستمبر۱۸۸۳ء روز پنج شنبہ خداوند کریم نے عین ضرورت کے وقت میں اس عاجز کی تسلی کے لئے اپنے کلامِ مبارک کے ذریعہ سے یہ بشارت دی کہ بِست و یک روپیہ آنے والے ہیں.کیونکہ اس بشارت میں ایک عجیب بات یہ تھی کہ آنے والے روپیہ کی تعداد سے اطلاع دی گئی اور کسی خاص تعداد سے مطلع کرنا ذاتِ غیب دان کا خاصہ ہے کسی اور کاکام نہیں ہے.دوسری عجیب بر عجیب یہ بات تھی کہ یہ تعداد غیر معہود طرز پر تھی کیونکہ قیمت مقررہ کتاب سے اس تعداد کو کچھ تعلق نہیں.پس انہیں عجائبات کی وجہ سے یہ الہام قبل از وقوع بعض آریوں کو بتلایا گیا.‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۲۴ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳) ۱۰؍ ستمبر ۱۸۸۳ء ’’پھر۱۰؍ستمبر ۱۸۸۳ء کو تاکیدی طور پر سہ۳ بارہ الہام ہوا کہ بست ویک روپیہ آئے ہیں جس الہام سے سمجھا گیا کہ آج اس پیش گوئی کا ظہور ہوجائے گا چنانچہ ابھی الہام پر شاید تین منٹ سے کچھ زیادہ عرصہ نہیں گذرا ہوگا کہ ایک شخص وزیر سنگھ نامی بیمار دار آیا اور اُس نے آتے ہی ایک روپیہ نذر کیا.ہر چند علاج معالجہ اِس عاجز کا پیشہ نہیں اور اگر اتفاقاً کوئی بیمار آجاوے تو اگر اُس کی دوا یاد ہو تو محض ثواب کی غرض سے لِلّٰہ فِی اللہ دی جاتی ہے لیکن وہ روپیہ اس سے لیا گیا کیونکہ فی الفور خیال آیا کہ یہ اُس پیش گوئی کی ایک جُز ہے.پھر بعد اس کے ڈاک خانہ میں ایک اپنا معتبر بھیجا گیا اس خیال سے کہ شاید دوسری جُزبذریعہ ڈاک خانہ پوری ہو.ڈاک خانہ سے ڈاک منشی نے جو ایک ہندو ہے جواب میں یہ کہا کہ میرے پاس صرف ایک منی آرڈر پانچ روپیہ کا جس کے ساتھ ایک کارڈ بھی نتھی ہے ڈیرہ غازیخان سے آیا ہے سو ابھی تک میرے پاس روپیہ موجود نہیں جب آئے گا تو دوں گا.اس خبر کے سننے سے سخت حیرانی ہوئی اور وہ اضطراب پیش آیا جو بیان نہیں ہوسکتا.چنانچہ یہ عاجز اسی تردّد میں سربزانو تھا اور اِس تصور میں تھا کہ پانچ۵ اور ایک۱ مل کرچھ۶ ہوئے، اب اکیس کیوں کر ہوں گے.یا الٰہی یہ کیا ہوا.سو اسی استغراق میں تھا کہ یک دفعہ یہ الہام ہوا.بست ویک آئے ہیں.اِس میں شک نہیں.اس الہام پر دو۲ پہر نہیں گذرے ہوں گے کہ اسی روز ایک آریہ کہ جو ڈاک منشی کے پہلے بیان کی خبر سن چکا تھا ڈاک خانہ میں گیا اور اس کو ڈاک منشی نے کسی بات کی تقریب سے خبر دی کہ دراصل بست روپیہ آئے ہیں اور پہلے یوں ہی منہ سے نکل گیا تھاجو میں نے پانچ روپیہ کہہ دیا.چنانچہ وہی آریہ بیس روپیہ معہ ایک کارڈ کے جو منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ کی طرف سے تھالے آیا اور معلوم ہوا کہ وہ کارڈ بھی منی آرڈر کے کاغذ سے نتھی نہ تھا اور نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ روپیہ آیا ہوا تھا اور نیز منشی الٰہی بخش صاحب کی تحریر سے جو بحوالہ ڈاکخانہ کی رسید کے تھی یہ بھی معلوم ہوا کہ منی آرڈر ۶؍ستمبر ۱۸۸۳ء کو یعنی اُسی روز جب الہام ہوا قادیان میں پہنچ گیا تھا.پس ڈاک منشی کا سارا املا، انشاء غلط نکلا اور حضرتِ عالم الغیب کا سارا بیان صحیح ثابت ہوا.پس اس مبارک دن کی یاد داشت کے لئے ایک روپیہ کی شیرینی لے کر بعض آریوں کو بھی دی گئی.فَالْـحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی اٰلَآئِہٖ وَنُعَمَآئِہٖ ظَاھِرِھَا وَ بَاطِنِـھَا.‘‘
(براہین احمدیہ حصّہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۲۴ تا ۶۲۶ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳) ۹؍اکتوبر۱۸۸۳ء ’’آج رات کیا عجیب خواب آئی کہ بعض اشخاص ہیں جن کو اِس عاجز نے شناخت نہیں کیا وہ سبز رنگ کی سیاہی سے مسجد؎۱ کے دروازہ کی پیشانی پر کچھ آیات لکھتے ہیں.ایسا سمجھا گیا ہے کہ فرشتے ہیں اور سبز رنگ اُن کے پاس ہے جس سے وہ بعض آیات تحریر کرتے ہیں اور خط ِریحانی میں جو پیچان اورمسلسل ہوتا ہے لکھتے جاتے ہیں.تب اس عاجز نے اُن آیات کو پڑھنا شروع کیا جن میں سے ایک آیت یاد رہی اور وہ یہ ہے.لَا رَآ دَّ لِفَضْلِہٖ.اور حقیقت میں خدا کے فضل کو کون روک سکتا ہے.جس عمارت کو وہ بنانا چاہے اس کو کون مسمار کرے اور جس کو وہ عزت دینا چاہے اس کو کون ذلیل کرے.‘‘ (از مکتوب بنام میر عباس علی صاحب لدھیانوی.مکتوبات احمد جلد ۱ صفحہ ۵۷۷ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۲۲؍اکتوبر۱۸۸۳ء ’’آج اِس موقع کے اثنا میں جبکہ یہ عاجز بغرض تصحیح کاپی کو دیکھ رہا تھا بعالمِ کشف چند ورق ہاتھ میں دیئے گئے اور اُن پر لکھا ہوا تھا کہ فتح کا نقّارہ بجے پھر ایک نے مسکرا کر اُن ورقوں کی دوسری طرف ایک تصویر دکھلائی اور کہا کہ دیکھو کیا کہتی ہے تصویر تمہاری ۱ یعنی مسجد مبارک (شمس)
جب اِس عاجز نے دیکھا تو وہ اِسی عاجز کی تصویر تھی اور سبز پوشاک تھی مگر نہایت رُعب ناک جیسے سپہ سالار مسلّح فتح یاب ہوتے ہیں اور تصویر کے یمین و یسار میں حجۃ اللہ القادر و سُلطانِ احمد ِ مختار لکھا تھا اور یہ سوموار کا روز اُنیسویں۱۹ ذوالحجہ ۱۳۰۰ھ مطابق ۲۲؍اکتوبر۸۳ء اور ششم کا تک بکرم ہے.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ چہارم.روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ ۶۱۵ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳) ۲۴؍اکتوبر۱۸۸۳ء سے قبل ’’ایک مرتبہ اس عاجز کو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا کہ اگر تمام لوگ منہ پھیر لیں تو مَیں زمین کے نیچے سے یا آسمان کے اُوپر سے مدد کرسکتا ہوں.‘‘ (از مکتوب بنام میر عباس علی صاحب.مکتوبات احمد جلد اوّل صفحہ۵۷۹ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۲۹؍ اکتوبر۱۸۸۳ء سے قبل ’’ بارہا اس عاجز کو حضرتِ احدیّت کے مخاطبات میں ایسے کلمات فرمائے گئے ہیں.جن کا ماحصل یہ تھا کہ سب دنیا پنجۂ قدرت احدیّت میں مقہور اور مغلوب ہے اور تصرّفاتِ الٰہیہ زمین وآسمان میں کام کررہے ہیں.‘‘ (از مکتوب بنام میر عباس علی صاحب.مکتوبات احمد جلد اوّل صفحہ۵۸۰ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۲۹؍ اکتوبر۱۸۸۳ء سے قبل ’’ چند روز کا ذکر ہے کہ یہ الہام ہوا.اِنْ یَّـمْسَسْکَ بِضُـرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہٗ اِلَّاھُوَ.وَ اِنْ یُّرِدْکَ بِـخَیْرٍ فَلَا رَآ.دَّ لِفَضْلِہٖ.اَ لَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیءٍ قَدِیْرٌ.اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ لَاٰتٍ.‘‘؎۱ (از مکتوب بنام میر عباس علی صاحب.مکتوبات احمد جلد اوّلصفحہ۵۸۰ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۹،۲۰ ؍نومبر ۱۸۸۳ء ’’رات کو ایک اور عجیب الہام ہوا اور وہ یہ ہے.۱ (ترجمہ از مرتّب) اگر وہ (خداوند کریم) تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی بھی اُسے دُور نہیں کرسکتا اور اگر وہ تمہیں کوئی خیر پہنچانا چاہے تو کوئی اس کے فضل کو رد بھی نہیں کرسکتا.کیا تم جانتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر بات پر کامل قدرت رکھتا ہے اللہ کا وعدہ ضرور پورا ہوگا.(نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) مکتوبات احمد میں مکتوب ۲۹؍اکتوبر۱۸۸۳ء میں صفحہ۵۸۰ مطبوعہ ۲۰۰۸ء پر لفظ اِنْ یَّـمْسَسْکَ کی بجائے اِنْ تَـمْسَسْکَ لکھا ہے جو سہو کاتب معلوم ہوتا ہے.
قُلْ لِّضَیْفِکَ۱؎ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ.قُلْ لِّاَخِیْکَ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ.یہ الہام بھی چند مرتبہ ہوا.اس کے معنے بھی دو ہی ہیںایک تو یہ کہ جو تیرا مورد فیض یا بھائی ہے اس کو کہہ دے کہ میں تیرے پر اتمام نعمت کروں گا.دوسرے معنے یہ ہیں کہ میں (تجھے) وفات دوں گا.معلوم نہیں کہ یہ شخص کون ہے.اس قسم کے تعلقات کے کم وبیش کوئی لوگ ہیں.اس عاجز پر اس قسم کے الہامات اور مکاشفات اکثر وارد ہوتے رہتےہیں جن میں اپنی نسبت اور بعض احباب کی نسبت، اُن کے عُسـر یُسـر کی نسبت، اُن کے حوادث کی نسبت، ان کی عمر کی نسبت ظاہر ہوتا رہتا ہے.‘‘ (ازمکتوب بنام میر عباس علی صاحب.مکتوبات احمد جلد اوّل صفحہ۵۸۲ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ’’پندرہ؎۲برس کے بعد جب میرے بھائی؎۳کی وفات کا وقت نزدیک آیا تو میں امرتسر تھا مجھے خواب میں دکھلایا گیا کہ اب قطعی طور پر اُن کی زندگی کا پیالہ پُر ہوچکا اور بہت جلد فوت ہونے والے ہیں.میں نے وہ خواب حکیم محمد شریف کو جو امرتسر میں ایک حکیم تھے سنائی اور پھر اپنے بھائی کو خط لکھا کہ آپ امور آخرت کی طرف متوجہ ہوں کیونکہ مجھے دکھلایا گیا ہے کہ آپ کی زندگی کے دن تھوڑے ہیں.انہوں نے عام گھر والوں کو اس سے اطلاع دے دی اور پھر چند ہفتہ میں ہی اس جہانِ فانی سے گذرے.‘‘ (تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۱۱، ۲۱۲) ۱۸۸۳ء ’’ اکسٹھواں نشان اپنے بھائی مرزا غلام قادر مرحوم کی وفات کی نسبت پیشگوئی ہے جس میں میرے ایک بیٹے کی طرف سے بطور حکایت عن الغیر مجھے یہ الہام ہوا.۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) حیاتِ احمد (مرتبہ شیخ یعقوب علی صاحبؓ عرفانی) جلد ۲ نمبر۲ صفحہ ۷۲ پر یہ الہام واضح طور پر بالفاظ قُلْ لِضَیْفِکَ الخ درج ہے لیکن مکتوبات جلد اوّل صفحہ ۶۷ میں یہ لفظ ایسا صاف نہیں لکھا بلکہ کچھ ایسا لکھا (لضیفک) ہے کہ لِضَیْفِکَ کی بجائے لِفَیْضِکَ بھی پڑھا جاسکتا ہے اور ترجمہ کے الفاظ ’’مورد فیض‘‘ اس احتمال کو اور بھی قوت دیتے ہیں.گو ضَیْف کے معنے بھی موردِ فیض سمجھے جاسکتے ہیں.وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ انہی ایام میں حضور کے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کی وفات ہوئی تھی.۲ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمد ؓ) ۱۸۶۸ءمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم سخت بیمار ہوگئے تھے اور بالکل ایک مُشتِ استخواں سے رہ گئے تھے.حضرت اقدس ؑ نے ان کے لئے دعا کی تو خواب میں دکھایا گیا کہ آپ ایک پورے تندرست انسان کی طرح بغیر کسی سہارے کے مکان میں چل رہے ہیں چنانچہ حضور ؑ نے لکھا ہے کہ برادر مذکور اس خواب کے پندرہ برس بعد تک زندہ رہے.مفصل دیکھیے صفحہ نمبر ۷،۸.۳ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمد ؓ) مراد مرزا غلام قادر صاحب برادر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام.
اے عَمّی بازیءِ خویش کردی و مرا افسو س بسیار دادی.؎۱ یہ پیشگوئی بھی اسی شرمپت آریہ کو قبل از وقت بتلائی گئی تھی اور اس الہام کا مطلب یہ تھا کہ میرے بھائی کی بے وقت اور ناگہانی موت ہوگی جو موجب صدمہ ہوگی… اور بعد اس کے میرے پر کھولا گیا کہ یہ الہام میرے بھائی کی موت کی طرف اشارہ ہے چنانچہ میرا بھائی دو تین دن کے بعد ایک ناگہانی طور پر فوت ہوگیا اور میرے اُس لڑکے کو اس کی موت کا صدمہ پہنچا.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۳۳، ۲۳۴) ۱۸۸۳ء ’’ہمارے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کی وفات سے ایک دن پہلے الہام ہوا ’’ جنازہ ‘‘ اور میں نے اس الہام کی بہت لوگوں کو خبر دے دی چنانچہ دوسرے روز بھائی صاحب فوت ہوئے؎۲.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۶۰۳) ۱۸۸۳ء ’’ سنہ ۱۸۸۳ء میں مجھ کو الہام ہوا کہ تین کو چار کرنے والا مبارک.اور وہ الہام قبل از وقت بذریعہ اشتہارشائع کیا گیا تھا اور اس کی نسبت تفہیم یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ اس دوسری بیوی سے چار لڑکے مجھے دے گا اور چوتھے کا نام مبارک ہوگا اوراس الہام کے وقت منجملہ ان چاروں کے ایک لڑکا بھی اس نکاح سے موجود نہ تھا اور اب چاروں لڑکے بفضلہ تعالیٰ موجود ہیں.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۷۴) دسمبر ۱۸۸۳ء (الف) ’’اس ہفتہ میں بعض کلمات انگریزی وغیرہ الہام ہوئے ہیں… اور وہ کلمات یہ ہیں.۱پریشن.۲عمر.براطوس یا پلا طوس یعنی پڑاطوس لفظ ہے یا پلاطوس لفظ ہے.بباعث سرعت الہام دریافت نہیں ہوا اور عمرؔ عربی لفظ ہے.اس جگہ برا طوؔس اور پریشن کے معنی دریافت کرنے ہیں کہ کیا ہیں اور کس زبان کے یہ لفظ ہیں؟پھر دو لفظ اَور ہیں.۱ (ترجمہ از مرتّب) اے چچا! تو اپنی جان پر کھیل گیا اور مجھے بہت افسوس میں چھوڑ گیا.۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) خاکسار مرتّب کے عرض کرنے پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے حضرت اُمّ المؤمنینؓ سے دریافت کیا کہ مرزا غلام قادر صاحب کی وفات کس سنہ میں ہوئی تھی تو آپ نے فرمایا کہ میری شادی سے (جو ۱۸۸۴ء میں ہوئی تھی) ایک سال قبل اُن کی وفات ہوچکی تھی نیز کتاب پنجاب چیفس میں بھی سنہ وفات۱۸۸۳ء ہی لکھا ہے.
ھو شعنا.؎۱ ۴ نعسا معلوم نہیں کس زبان کے ہیں اور انگریزی یہ ہیں.اوّل عربی فقرہ ہے.۵ یَا دَاوٗدُ عَامِلْ بِالنَّاسِ رِفْقًا وَّ اِحْسَانًـا.۲؎ ۶ یُوْمَسْٹ ڈو وَہاٹ آئی ٹولڈ یُوْ؎۳.۷تم کو وہ کرنا چاہیے جو میں نے فرمایا ہے.یہ اُردو عبارت بھی الہامی ہے.پھر بعد اس کے ایک اور انگریزی الہام ہے اور ترجمہ اس کا الہامی نہیں… فقرات کی تقدیم تاخیر کی صحت بھی معلوم نہیں اور بعض الہامات میں فقرات کا تقدّم تاخر بھی ہوجاتا ہے… اور وہ الہام یہ ہیں.۸دَو؎۴ آل من شُڈ بی اَنگری بٹ گاڈ اِز وِد یُوْ.۹ہِی شل ہلپ یُو.۱۰وارڈس آف گاڈ ناٹ؎۵ کین ایکس چینج.ترجمہ.اگر تمام آدمی ناراض ہوں گے لیکن خدا تمہارے ساتھ ہوگا.وہ تمہاری مدد کرے گا.اللہ کے کلام بدل نہیں سکتے.۱ (الف) ’’یہ ایک عبرانی لفظ ہے جس کے معنے ہیں ’’نجات دے.‘‘ فرمایا کہ یَـا مَسِیْحَ الْـخَلْقِ عَدْ وَانَـا کا مضمون اس سے ملتا جلتا ہے.‘‘ (البدر پرچہ ۸ ؍ مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۲۲ ) (ب) حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’چونکہ یہ غیر زبان میں الہام ہے اور الہامِ الٰہی میں ایک سرعت ہوتی ہے.اس لئے ممکن ہے کہ بعض الفاظ کے ادا کرنے میں کچھ فرق ہو اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض جگہ خدا تعالیٰ انسانی محاورات کا پابند نہیں ہوتا یا کسی اور زمانہ کے متروکہ محاورہ کو اختیار کرتا ہے اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ بعض جگہ انسانی گریمر یعنی صرف و نحو کے ماتحت نہیں چلتا.اس کی نظیریں قرآن شریف میں بہت پائی جاتی ہیں مثلاً یہ آیت اِنْ ھٰذَانِ لَسَاحِرَانِ انسانی نحو کی رُو سے اِنْ ھٰذَیْنِ چاہیے.‘‘ ( حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۱۷ حاشیہ) ۲ (ترجمہ از ناشر) اے داؤد لوگوں سے نرمی اور احسان کا سلوک کر.۳ ۶.You must do what I told you.۴ ۸.Though all men should be angry but God is with you.۹.He shall help you.۱۰.Words of God not can exchange.۵ (نوٹ از سیّد عبد الحی) یہ کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے.یہی الہام صفحہ۸۷ پر بھی درج ہے جہاں cannot کے الفاظ ہیں.
پھر بعد اس کے ایک دو۲ اَور الہام انگریزی ہیں.جن میں سے کچھ تو معلوم ہے اور وہ یہ ہے.آئی شل ہلپ یُو؎۱ مگربعد اس کے یہ ہے.یُوہَیو ٹو گو امرت سر؎۲ پھرایک فقرہ ہے جس کے معنے معلوم نہیں اور وہ یہ ہے.ہِی ہل ٹس ان دی ضلع پشاور؎۳ (از مکتوب بنام میر عباس علی شاہ صاحب.مکتوبات احمد جلد ۱ صفحہ۵۸۳، ۵۸۴ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) (ب) ’’میر عباس علی کو ایک خط لکھا تھا اس میں ایک یہ الہام تھا.’’پرشین عمر براطوس.ھو شعنا نعسا.‘‘ اس کے معنے مفتی محمد صادق صاحب نے اپنے خط۵؍رمضان ۱۹۰۳ء میں یہ کئے ہیں کہ پرشین انگریزی زبان میں فارسی کو کہتے ہیں.عمر آپ کا نام الہامی ہے اور ھو شعنا کے معنے ہیں ہمیں بچالے اور نعسا کے معنے ہیں ہم نے بچا لیا اور براطوس وہ شخص تھا جس نے یاجوج ماجوج کو قتل کیا تھا اور …۴؎ سے دو کو پکڑ کر انگلینڈ میں لے آیا تھا.اس صورت میں الہام کے یہ معنے ہیں.اے فارسی الاصل عمر! براطوس قاتل سے یاجوج و ماجوج لوگ کہتے ہیں ہمیں بچالے.پس تیرے ذریعہ سے ہم نے ان کو بچالیا.‘‘ (رجسٹر متفرق یادداشتیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۴) جنوری ۱۸۸۴ء ’’ابتدا میں جب یہ کتاب تالیف کی گئی تھی اس وقت اس کی کوئی اَور صورت تھی.پھر بعد اس کے قدرتِ الٰہیہ کی ناگہانی تجلّی نے اس احقر عباد کو موسیٰ کی طرح ایک ایسے عالم سے خبر دی جس سے v
پہلے خبر نہ تھی یعنی یہ عاجز بھی حضرت ابن عمران کی طرح اپنے خیالات کی شبِ تاریک میں سفر کررہا تھا کہ ایک دفعہ پردۂ غیب سے اِنِّیْ اَنَـا رَبُّکَ۱؎ کی آواز آئی اور ایسے اسرار ظاہر ہوئے کہ جن تک عقل اور خیال کی رسائی نہ تھی.سو اب اس کتاب کا متولّی اور مہتمم ظاہراً وباطناً حضرت ربّ العالمین ہے.‘‘ (ہم اور ہماری کتاب.آخری صفحہ ٹائٹل براہین احمدیہ حصّہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۷۳) ۱۸۸۴ء فرمایا.’’یہ میرا ایک پرانا الہام ہے.’’ اَفَلَا یَتَدَبَّـرُوْنَ اَمْرَکَ.وَ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِغَیْرِ اللّٰہ لَوَجَدُ وْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا.‘‘؎۲ (البدر جلد۱ نمبر۵ مورخہ ۲۸؍نومبر۱۹۰۲ء صفحہ ۳۷) جنوری ۱۸۸۴ء ’’کچھ دن گذرے ہیں کہ اس عاجز کو ایک عجیب خواب آیا اور وہ یہ ہے کہ ایک مجمعِ زاہدین اور عابدین ہے اور ہر ایک شخص کھڑا ہو کر اپنے مشرب کا حال بیان کرتا ہے اور مشرب کے بیان کرنے کے وقت ایک شعر موزوں اُس کے منہ سے نکلتا ہے جس کا اخیر لفظ قعود اور سجود اور شہود وغیرہ آتا ہے.جیسے یہ مصرع تمام شب گذرا نیم در قیام و سجود ۳؎ چند زاہدین اور عابدین نے ایسے ایسے شعر اپنی تعریف میں پڑھے ہیں.پھر اخیر پر اس عاجز نے اپنے مناسب حال سمجھ کر ایک شعر پڑھنا چاہا ہے مگر اس وقت وہ خواب کی حالت جاتی رہی اور جو شعر اس خواب کی مجلس میں پڑھنا تھا وہ بطور الہام زبان پر جاری ہوگیا اور وہ یہ ہے ؎ طریقِ زہد و تعبّد ندا نم اے زاہد خدائے من قدمم راند بر رہِ داؤد‘‘؎۴ (از مکتوب بنام میر عباس علی صاحب.مکتوبات احمد جلد اوّل صفحہ ۵۸۷ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۳؍جنوری ۱۸۸۴ء (الف) ’’آپ کے مبلغ پچاس روپیہ عین ضرورت کے وقت پہنچے.بعض آدمیوں کے ۱ (ترجمہ از ناشر) یقیناً میں تیرا ربّ ہوں.۲ (ترجمہ از مرتّب) کیا یہ لوگ تیرے معاملہ میں غور نہیں کرتے اور اگر یہ معاملہ اللہ کی طرف سے نہ ہوتا تو اس میں وہ بہت اختلاف پاتے.(نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) چونکہ البدر میں لکھا ہوا ہے کہ یہ پُرانا الہام براہین احمدیہ کے زمانہ کا ہے اس لئے اسے براہین کے بعد رکھا جاتا ہے.۳ (ترجمہ از ناشر) ہم نے تمام رات قیام و سجود میں گزاری.۴ (ترجمہ از مرتّب) اے زاہد ! میں تو کوئی زہد و تعبّد کا طریق نہیں جانتا.میرے خدا نے خود ہی میرے قدم کو داؤد کے راستہ پر ڈال دیا ہے.
بے وقت تقاضا سے بالفعل پچاس روپیہ کی سخت ضرورت تھی.دُعا کے لئے یہ الہام ہوا.بحسن قبولیء دعا بنگر کہ چہ زود دُعا قبُول میکنم۱؎ ۳؍جنوری۱۸۸۴ء کو یہ الہام ہوا.۶ تاریخ کو آپ کا روپیہ آگیا.وَالْـحَمْدُ لِلہِ عَلٰی ذٰلِکَ.‘‘ (از مکتوب بنام میر عباس علی صاحب.مکتوبات احمد جلد ۱ صفحہ۵۸۷ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) (ب) ’’ایک دفعہ ہمیں اتفاقاً پچاس روپیہ کی ضرورت پیش آئی اور جیسا کہ اہل فقر اور توکّل پر کبھی کبھی ایسی حالت گذرتی ہے اس وقت ہمارے پاس کچھ نہ تھا سو جب ہم صبح کے وقت سیر کے واسطے گئے تو اس ضرورت کے خیال نے ہم کویہ جوش دیا کہ اس جنگل میں دُعا کریں.پس ہم نے ایک پوشیدہ جگہ میں جاکر اس نہر کے کنارہ پر دُعا کی جو قادیان سے تین میل کے فاصلہ پر بٹالہ کی طرف واقع ہے.جب ہم دُعا کرچکے تو دعا کے ساتھ ہی ایک الہام ہوا جس کا ترجمہ یہ ہے.دیکھ میں تیری دعاؤں کو کیسے جلد قبول کرتا ہوں تب ہم خوش ہوکر قادیان کی طرف واپس آئے اور بازار کا رُخ کیا تاکہ ڈاکخانہ سے دریافت کریں کہ آج ہمارے نام کچھ روپیہ آیا ہے یا نہیں چنانچہ ہمیں ایک خط ملا جس میں لکھا تھا کہ پچاس روپیہ لدھیانہ سے کسی نے روانہ کئے ہیں اور غالباً وہ روپیہ اُسی دن یا دوسرے دن ہمیں مل گیا.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۶۱۲) جنوری ۱۸۸۴ء ’’ایک رات خواب میں دیکھا کہ کسی مکان پر جو یاد نہیں رہا یہ عاجز موجود ہے اور بہت سے نئے نئے آدمی جن سے سابق تعارف نہیں ملنے کو آئے ہوئے ہیں اور آپ بھی ان کے ساتھ موجود ہیں مگر معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اور مکان ہے.اُن لوگوں نے اس عاجز میں کوئی بات دیکھی ہے جو ان کو ناگوار گذری ہے،سو اُن سب کے دل منقطع ہوگئے.آپ نے اُس وقت مجھ کو کہاکہ وضع بدل لو.میں نے کہا کہ نہیں.بدعت ہے سو وہ لوگ بیزار ہوگئےاور ایک دوسرے مکان میں جو ساتھ ہے جاکر بیٹھ گئے.تب شاید آپ بھی ساتھ ہیں میں ان کے پاس گیا تا اپنی امامت سے ان کو نماز پڑھاؤں.پھر بھی انہوں نے بیزاری سے کہا کہ ہم نماز پڑھ چکے ہیں تب اس عاجز نے اُن سے علیحدہ ہونا اور کنارہ کرنا چاہا اور باہر نکلنے کے لئے قدم اُٹھایا معلوم ہوا کہ ان سب میں سے ایک شخص پیچھے چلا آتا ہے.جب نظر اُٹھا کر دیکھا تو آپ ہی ہیں.اب اگرچہ خوابوں میں تعینات معتبر نہیں ہوتے اور اگر خدا چاہے تو تقدیراتِ معلّقہ کو مبدّل بھی کردیتا ہے لیکن اندیشہ گذرتا ہے کہ خدانخواستہ وہ آپ ۱ (ترجمہ از ناشر) دعا کی قبولیت کی خوبی دیکھ کہ کیسے جلد میں دعا کوقبول کرتا ہوں.
ہی کا شہر نہ ہو.لوگوں کے شوق اور ارادت پر آپ خوش نہ ہوں حقیقی شوق اور ارادت کہ جولغزش اور ابتلا کے مقابلہ پر کچھ ٹھہر سکے لاکھوں میں سے کسی ایک کو ہوتا ہے… بہتر ہے کہ آنمخدوم ابھی اس عاجز کی تکلیف کشی کے لئے بہت زورنہ دیں کہ کئی اندیشوں کا محل ہے.یہ عاجز معمولی زاہدوں اور عابدوں کے مشرب پر نہیں اور نہ ان کی رسم اور عادت کے مطابق اوقات رکھتا ہے بلکہ ان کے پیرایہ سے نہایت بیگانہ اور دُور ہے.سَیَفْعَلُ اللّٰہُ مَا یَشَآءُ.‘‘ (از مکتوب بنام میر عباس علی صاحب.مکتوبات احمد جلد ۱ صفحہ ۵۸۸، ۵۸۹ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) تخمیناً فروری ۱۸۸۴ء ’’مجھ کو یاد ہے اور شاید عرصہ تین ماہ یا کچھ کم و بیش ہوا ہے کہ اس عاجز کے فرزند؎۱ نے ایک خط لکھ کر مجھ کو بھیجا کہ جو میں نے امتحان تحصیلداری کا دیا ہے اُس کی نسبت دعا کریں کہ پاس ہوجاوے اور بہت کچھ انکسار اور تذلّل ظاہر کیا کہ ضرور دعا کریں.مجھ کو وہ خط پڑھ کر بجائے رحم کے غصہ آیا کہ اس شخص کو دنیا کے بارے میں کس قدر ہم اور غم ہے چنانچہ اس عاجز نے وہ خط پڑھتے ہی بہ تمام تر نفرت و کراہت چاک کردیا اور دل میں کہا کہ ایک دنیوی غرض اپنے مالک کے سامنے کیا پیش کروں.اس خط کے چاک کرتے ہی الہام ہوا کہ ’’پاس ہوجاوے گا‘‘ اور وہ عجیب الہام بھی اکثر لوگوں کو بتلایا گیا چنانچہ وہ لڑکا پاس ہوگیا.فَالْـحَمْدُ لِلہِ.‘‘ (الحکم جلد ۳ نمبر ۳۴ مورخہ ۲۳؍ ستمبر ۱۸۹۹ء صفحہ ۱، ۲) ۱۸۸۴ء ’’ایک دفعہ نواب علی محمد؎۲خاں مرحوم رئیس لودھیانہ نے میری طرف خط لکھا کہ میرے بعض امور معاش بند ہوگئے ہیں آپ دعا کریں کہ تا وہ کھل جائیں.جب مَیں نے دعا کی تو مجھے الہام ہوا کہ کُھل جائیں گے میں نے بذریعہ خط ان کو اطلاع دے دی.پھر صرف دو چار دن کے بعد وہ وجوہ معاش کُھل گئے اور اُن کو بشدّت اعتقاد ہوگیا.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۵۷) ۱ خان بہادر مرزا سلطان احمدصاحب مرحوم مراد ہیں.(شمس) ۲ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمد ؓ) نواب علی محمد خانصاحب مرحوم کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ وہ دراصل جھجر کے رئیس تھے مگر لدھیانہ میں رہائش رکھتے تھے اور آپ حضرت اقدس سے بہت اخلاص رکھتے تھے اور اکثر حضور سے اپنی مشکلات کے حل کروانے کے لئے دعا کروایا کرتے تھے ان کے متعلق جن نشانات کا اس جگہ ذکر کیا گیا ہے ان میں نہ تو کوئی ترتیب مدنظر ہے اور نہ ہی سوائے ایک دو کے کہ جن میں تاریخ درج ہے صحیح طور پر تاریخ کا کوئی اندازہ لگایا جاسکتا ہے.ہاں صرف قیاس سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ واقعات۱۸۸۴ء کے قریب قریب کے ہیں.
۱۸۸۴ء ’’پھر ایک دفعہ انہوں نے بعض؎۱اپنےپوشیدہ مطالب کے متعلق میری طرف ایک خط روانہ کیا.اور جس گھڑی انہوں نے خط ڈاک میں ڈالا اُسی گھڑی مجھے الہام ہوا کہ اس مضمون کا خط اُن کی طرف سے آنے والا ہے.تب میں نے بلا توقف اُن کی طرف یہ خط لکھا کہ اس مضمون کا خط آپ روانہ کریں گے.دوسرے دن وہ خط آگیا اور جب میرا خط اُن کو ملا تو وہ دریائے حیرت میں ڈوب گئے کہ یہ غیب کی خبر کس طرح مل گئی کیونکہ میرے اس راز کی خبر کسی کو نہ تھی اور ان کا اعتقاد اس قدر بڑھا کہ وہ محبت اور ارادت میں فنا ہوگئے اور انہوں نے ایک چھوٹی سی یادداشت کی کتاب میں وہ دونوں نشان م بالا درج کردیئے اور ہمیشہ اُن کو پاس رکھتے تھے.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۵۷، ۲۵۸) تخمیناً ۱۸۸۴ء ’’ عالمِ کشف میں ان؎۲ کا دوسرا خط مجھ کو ملا جس میں بہت بے قراری ظاہر کی گئی تھی تو میں نے… اُن کے لئے دعا کی اور مجھ کو الہام ہواکہ کچھ عرصہ کے لئے یہ روک اُٹھادی جاوے گی اور اُن کو اس غم سے نجات دی جائے گی.یہ الہام ان کو اسی خط میں لکھ کر بھیجا گیا تھا جو زیادہ تر تعجب کا موجب ہوا چنانچہ وہ الہام جلد تر پور اہوا اور تھوڑے دنوں کے بعد اُن کی منڈی بہت عمدہ طور پر بارونق ہوگئی اور روک اُٹھ گئی.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۹۷) ۱۲؍ فروری۱۸۸۴ء (الف) ’’شاید پرسوں مکرر الہام ہوا تھا.یَـا یَـحْیٰی خُذِ الْکِتَابَ بِقُوَّۃٍ.خُذْ ھَا وَلَا تَـخَفْ سَنُعِیْدُ ھَا سِیْرَتَـھَا الْاُوْلٰی ؎۳ یہ آخری فقرہ پہلے بھی الہام ہوچکا ہے.‘‘ (از مکتوب بنام میر عباس علی صاحب.مکتوبات احمد جلد ۱ صفحہ۵۹۷ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’علی محمد خان صاحب نواب جھجر نے لدھیانہ میں ایک غلّہ منڈی بنائی تھی کسی شخص کی شرارت کے سبب اُن کی منڈی بےرونق ہوگئی اور بہت نقصان ہونے لگا تب انہوں نے دعا کے لئے میری طرف رجوع کیا لیکن پیشتر اس کے کہ نواب صاحب کی طرف سے میرے پاس کوئی خط اس خاص امر کے لئے دعا کے بارہ میں آتا میں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر پائی کہ اس مضمون کا خط نواب صاحب کی طرف سے آرہے گا.(نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۹۶) ۲ نواب علی محمد خان صاحب آف جھجر.(مرزا بشیر احمد) ۳ (ترجمہ از مرتّب) اے یحییٰ اس کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لے.اسے پکڑلے اور خوف نہ کر.ہم اسے اس کی پہلی حالت کی طرف لَوٹا دیں گے.
(ب) ’’ حضرت اقدس نے اپنا ایک پرانا الہام سنایا.یَـا یَـحْیٰی خُذِ الْکِتَابَ بِقُوَّۃٍ وَ الْـخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْآنِ.اور فرمایا کہ (اس میں ہم کو حضرت یحییٰ کی نسبت دی گئی ہے کیونکہ حضرت یحییٰ کو یہود کی ان اقوام سے مقابلہ کرنا پڑا تھا جو کتاب اللہ توریت کو چھوڑ بیٹھے تھے اور حدیثوں کے بہت گرویدہ ہورہے تھے اور ہر بات میں احادیث کو پیش کرتے تھے.ایسا ہی اس زمانہ میں ہمارا مقابلہ اہل حدیث کے ساتھ ہوا کہ ہم قرآن پیش کرتے اور وہ حدیث پیش کرتے ہیں.)‘‘ ( ڈائری حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ مطبوعہ الحکم جلد ۶ نمبر ۱۵ مورخہ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۲ء صفحہ ۸) ۱۵؍فروری ۱۸۸۴ء ’’آج حضرت خداوند کریم کی طرف سے الہام ہوا.یَا عَبْدَ الرَّافِعِ اِنِّیْ رَافِعُکَ اِلَیَّ.اِنِّیْ مُعِزُّکَ.لَا مَانِعَ لِمَا اُعْطِیْ.‘‘؎۱ (از مکتوب بنام میر عباس علی صاحب.مکتوبات احمدجلد ۱صفحہ۵۹۷ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۲۸؍ مارچ ۱۸۸۴ء ’’اس خط کی تحریر کے بعد یہ شعر کسی بزرگ۲؎ کا الہام ہوا.ھرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق ثبت است بر جریدۂ عالم دوامِ ما ؎۳ (از مکتوب بنام منشی احمد جانؒ.مکتوبات احمد جلد ۳ صفحہ ۲۶ مطبوعہ ۲۰۱۳ء) ۹؍ مئی ۱۸۸۴ء ’’حضرت خداوندکریم کی قبولیت کی ایک یہ نشانی ہے کہ بعض اوقات آپ کی توجہات کی مجھ کو وہ خبر دیتا رہا ہے اور پرسوں کے دن بھی ایک عجیب بات ہوئی کہ ابھی آں مخدوم کا منی آرڈر نہیں پہنچا تھا اور نہ خط پہنچا تھا کہ ایک منی آرڈر آپ کی طرف سے برنگ زرد مجھ کو حالتِ کشفی میں دکھلایا گیا اور پھر آں مخدوم کے خط سے اس عاجز کو بذریعہ الہام اطلاع دی گئی اور آپ کے مافی الضمیر سےاورخط کے مضمون سے مطلع کیا گیا.اس میں بہ پیرایہ الہامی عبارت بطور حکایت آں مخدوم کی طرف سے یہ بھی فقرہ تھا.میرے خیال میں یہ آپ کی توجہ کا اثر ہے.چنانچہ یہ خط کا مضمون اور مافی الضمیر کا منشاء تین ہندوؤں اور بہت سے مسلمانوں کو بھی بتلایا گیا.ازاں بعد آں مخدوم کا منی آرڈر اور خط بھی آگیا.‘‘ (از مکتوب بنام نواب علی محمد خان صاحبؓ آف جھجر.مکتوبات احمد جلد ۳ صفحہ ۴۲،۴۳ مطبوعہ ۲۰۱۳ء) ۱ (ترجمہ از مرتّب) اے رفعت بخشنے والے خدا کے بندے.میں تجھے اپنی جناب میں رفعت بخشوں گا.میں تجھے عزت اور غلبہ دُوں گا.جو کچھ میں دُوں اُسے کوئی بند نہیں کرسکتا.۲ حافظ شیرازیؒ.(ناشر) ۳ (ترجمہ از مرتّب) وہ شخص ہرگز نہیں مرتا.جس کا دل عشق سے زندہ ہوگیا.صفحہ ٔ عالم پر ہمارا دوام ثابت ہے.
مئی ۱۸۸۴ء ’’ ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ نواب؎۱ صاحب کی حالت غم سے خوشی کی طرف مبدّل ہوگئی ہے اور آسودہ حال اور شکر گذار ہیں اور نہایت عمدگی اور صفائی سے یہ خواب آئی اور یہ خواب بہ طور کشف تھی.چنانچہ اسی صبح کو نواب صاحب کو اس خواب سے اطلاع دی گئی.‘‘ (از مکتوب بنام میر عباس علی شاہ صاحب.مکتوبات احمد جلد ۱ صفحہ ۶۰۳،۶۰۴ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) مئی ۱۸۸۴ء ’’ پھر ایسا اتفاق ہوا کہ ایک صاحب الٰہی بخش نام اکؤنٹنٹ نے کہ جو اس کتاب؎۲ کے معاون ہیں.کسی اپنی مشکل میں دعا کے لئے درخواست کی اور بطور خدمت پچاس روپیہ بھیجے اور جس روز یہ خواب آئی اس روز سے دو چار دن پہلے ان کی طرف سے دعا کے لئے الحا ح ہوچکا تھا مگر یہ عاجز نواب؎۳ صاحب کے لئے مشغول تھا اس لئے ان کے لئے دُعا کرنے کو کسی اور وقت پر موقوف رکھا اور جس روز نواب صاحب کے لئے بشارت دی گئی تھی تو اس دن خیال آیا کہ آج منشی الٰہی بخش کے لئے توجہ سے دعا کریں سو بعد نماز عصر جب وقت ِ صفا پایا اور دعا کا ارادہ کیا گیا تو پھر بھی دل نے یہی چاہا کہ اس دعا میں بھی نواب صاحب کو شامل کرلیا جائے سو اس وقت نواب صاحب اور منشی الٰہی بخش دونوں کے لئے دعا کی گئی.بعد دُعا اسی جگہ الہام ہوا.نُنَجِّیْـھِمَا مِنَ الْغَمِّ یعنی ہم اِن دونوں کو غم سے نجات دیں گے… پھر چند روز کے بعد نواب صاحب کا خط آگیا کہ سرائے کاکام جاری ہوگیا ہے.‘‘ (از مکتوب بنام میر عباس علی شاہ صاحب.مکتوبات احمد جلد ۱ صفحہ ۶۰۳،۶۰۴ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) نومبر۱۸۸۴ء ’’ایک ابتلا مجھ کو اس شادی؎۴کے وقت یہ پیش آیا کہ بباعث اس کے کہ میرا دل اور دماغ سخت کمزور تھا اور میں بہت سے امراض کا نشانہ رہ چکا تھا…میری حالت ِ مردمی کالعدم تھی اور پیرانہ سالی کے رنگ میں میری زندگی تھی اس لئے میری اس شادی پر میرے بعض دوستوں نے افسوس کیا… کہ آپ بباعث سخت کمزوری کے اس لائق نہ تھے… غرض اس ابتلا کے وقت میں نے جنابِ الٰہی میں دُعا کی اور مجھے اس نے دفع مرض کے لئے اپنے الہام کے ذریعے سے دوائیں بتلائیں اور میں نے کشفی طور پر دیکھا کہ ایک فرشتہ وہ دوائیں میرے منہ میں ڈال رہا ہے چنانچہ وہ دوا میں نے طیّار کی اور اس میں خدا نے اس قدر برکت ڈال دی کہ میں نے دلی یقین سے معلوم کیا کہ وہ پُر صحت طاقت جو ایک پورے تندرست انسان کو دُنیا میں مل سکتی ۱ مراد نواب علی محمد خان صاحب آف جھجر (مرزا بشیر احمد) ۲ براہین احمدیہ (مرزا بشیر احمد) ۳ مراد نواب علی محمد خان صاحب آف جھجر (مرزا بشیر احمد) ۴ جو۱۷؍ نومبر۱۸۸۴ء کو دہلی میں ہوئی.(مرزا بشیر احمد)
ہے وہ مجھے دی گئی اور چار لڑکے مجھے عطا کئے گئے.‘‘ (تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۰۳، ۲۰۴) ۱۸۸۴ء ’’اِنَّ اللّٰہَ بَشَّرَنِیْ فِیْ اَبْنَائِیْ بَشَارَۃً بَعْدَ بَشَارَۃٍ حَتّٰی بَلَّغَ عَدَ دَ ھُمْ اِلٰی ثَلٰثَۃٍ وَ اَنْبَاَنِیْ بِـھِمْ قَبْلَ وُجُوْ دِھِمْ بِا.لْاِلْھَامِ.‘‘؎۱ (انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۱۸۲) ۳۰؍ دسمبر ۱۸۸۴ء ’’ اِنِّیْ فَضَّلْتُکَ عَلَی الْعَالَمِیْنَ.قُلْ اُرْسِلْتُ اِلَیْکُمْ جَـمِیْعًا‘‘.؎۲ (از مکتوب بنام حاجی محمد ولی اللہ صاحب آف کپورتھلہ.مکتوبات احمد جلد ۱ صفحہ ۳۹۸ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) اوائل مارچ ۱۸۸۵ء ’’مصنّف کو اس بات کا بھی علم دیا گیا ہے کہ وہ مجدّدِ وقت ہے اور روحانی طور پر اُس کے کمالات مسیح بن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں اور ایک کو دوسرے سے بشدّت مناسبت و مشابہت ہے اور اس کو خواص انبیاء و رسل کے نمونہ پر محض بہ برکت ِ متابعت حضرت خیر البشر و افضل الرسل صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم اُن بہتوں پر اکابر اولیاء سے فضلیت دی گئی ہے کہ جو اس سے پہلے گذرچکے ہیں اور اُس کے قدم پر چلنا موجب نجات و سعادت و برکت اور اس کے برخلاف چلنا موجب بُعد وحرمان ہے.‘‘ (اشتہار ضمیمہ سُرمہ چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۲۰) ۸؍ مارچ ۱۸۸۵ء ’’عاجز مؤلف براہین احمدیہ حضرت قادر مطلق جلّ شانہ کی طرف سے مامور ہوا ہے کہ نبی ناصری اسرائیلی (مسیح) کی طرز پر کمال مسکینی فروتنی و غربت و تذلّل و تواضع سے اصلاح خلق کے لئے کوشش کرے… اس لئے یہ قرار پایا ہے کہ بالفعل بغرضِ اتمام حجت یہ خط… مع اشتہار انگریزی؎۳… شائع کیا جائے اور اُس کی ایک ایک کاپی بخدمت معز ز پادری صاحبان… اور بخدمت معزز برہمو صاحبان و آریہ صاحبان و نیچری صاحبان و حضرات مولوی صاحبان… ارسال کی جاوے.۱ (ترجمہ از مرتّب) اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے بیٹوں کے بارہ میں بشارت کے بعد بشارت دی یہاں تک کہ ان کی تعداد تین تک پہنچائی اور مجھے ان کی پیدائش سے پہلے الہام کے ذریعہ ان کی خبر دی.(نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) اس کے متعلق حضرت امّ المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے.فرمایا.’’ جب میری شادی ہوئی اور میں ایک مہینہ قادیان ٹھہر کر پھر واپس دہلی گئی تو ان ایّام میں حضرت مسیح موعودؑ نے مجھے ایک خط لکھا کہ میں نے خواب میں تمہارے تین جوان لڑکے دیکھے ہیں.‘‘ (سیرۃ المہدی جلد اوّل صفحہ ۶۶ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۲ (ترجمہ از مرتّب) میں نے تجھ کو تمام جہانوں پر فضیلت دی.کہہ میں تم سب کی طرف بھیجا گیا ہوں.۳ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یعنی اشتہار ضمیمہ سُرمہ چشم آریہ جو اُردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں شائع ہوا.
یہ تجویز نہ اپنے فکر و اجتہا دسے قرار پائی ہے بلکہ حضرت مولیٰ کریم کی طرف سے اس کی اجازت ہوئی ہے اور بطور پیشگوئی یہ بشارت ملی ہے کہ اس خط کے مخاطب (جو خط پہنچنے پر رجوع بحق نہ کریں گے) ملزم و لاجواب و مغلوب ہوجائیں گے.‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۳۰،۳۱ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۶؍اپریل ۱۸۸۵ء ’’آج اسی وقت میں نے خواب دیکھا ہے کہ کسی ابتلاء میں پڑا ہوں اور میں نے اِنَّالِلّٰہِ وَ اِنَّـآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہا اور جو شخص سرکاری طور پر مجھ سے مؤاخذہ کرتا ہے میں نے اُس کو کہا کیا مجھ کو قید کریں گے یا قتل کریں گے.اس نے کچھ ایسا کہا کہ انتظام یہ ہوا ہےکہ گرایا جائے گا.مَیں نے کہا کہ میں اپنے خداوند تعالیٰ جلّ شانہٗ کے تصرّف میں ہوں.جہاں مجھ کو بٹھائے گا بیٹھ جاؤں گا اور جہاں مجھ کو کھڑا کرے گا کھڑا ہوجاؤں گا اور یہ الہام ہوا.یَدْعُوْنَ لَکَ اَ بْدَالُ الشَّامِ وَعِبَادُ اللّٰہِ مِنَ الْعَرَبِ یعنی تیرے لئے ابدال شام کے دُعا کرتے ہیں اور بندے خدا کے عرب میں سے دُعا کرتے ہیں.خدا جانے یہ کیا معاملہ ہے اور کب اور کیوں کر اس؎۱کا ظہور ہو.وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.‘‘ (از مکتوب بنام میر عباس علی صاحب.مکتوبات احمد جلد۱ صفحہ۶۰۷،۶۰۸ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۰؍ جولائی ۱۸۸۵ء ’’ایک مرتبہ مجھے یا دہے کہ میں نے عالمِ کشف میں دیکھا؎۲کہ بعض احکام قضاء و قدر مَیں نے اپنے ہاتھ سے لکھے ہیں کہ آئندہ زمانہ میں ایسا ہوگا اور پھر اُس کو دستخط کرانے کے لئے خداوند ِ قادرِ مطلق جلّ شانہٗ کے سامنے پیش کیا ہے (اور یاد رکھنا چاہیے کہ مکاشفات اوررؤیاصالحہ میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بعض صفاتِ جمالیہ یا جلالیہ الٰہیہ انسان کی شکل پر متمثل ہوکر صاحبِ کشف کو نظر آجاتے ہیں اور مجازی طور پر وہ یہی ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) آج خطۂ شام اور ملک عرب اس الہام کی تصدیقی شہادت بصدائے عام کررہا ہے اور آج وہاں سلسلہ کی کئی جماعتیں قائم ہوگئی ہیں جو حضور اقدس کے کام میں ہاتھ بٹاتیں اور حضور پر درود اور سلام بھیجتی ہیں.۲ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمد ؓ) اس واقعہ کے متعلق حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری رضی اللہ عنہ کی روایت جو انہوں نے شہادت کے طور پر اخبار الفضل جلد ۴ نمبر۲۴مورخہ۲۶؍ ستمبر۱۹۱۶ء میں شائع کرائی تھی درج ذیل ہے.’’رمضان شریف میں یہ عاجز حاضر خدمت سراپا برکت تھا کہ آخری عشرہ میں ۲۷؍تاریخ کو جمعہ تھا.اس جمعہ کی صبح کی نماز پڑھ کر حضرت اقدس حسب معمول حجرہ مذکور (یعنی مسجد مبارک کے ساتھ مشرق والا چھوٹا حجرہ) میں جاکر چارپائی پر لیٹ گئے اور یہ عاجز پاس بیٹھ کر حسب معمول پاؤں مبارک دبانے لگ گیا حتیٰ کہ آفتاب نکل آیا اور حجرہ میں بھی روشنی ہوگئی.
خیال کرتا ہے کہ وہی خداوند قادرِ مطلق ہے اور یہ امر ارباب کشوف میں شائع و متعارف و معلوم الحقیقت ہے جس سے کوئی صاحب ِ کشف انکار نہیں کرسکتا) غرض وہی صفت جمالی جو بعالم کشف قوت ِمتخیلہ کے آگے ایسی دکھلائی بقیہ حاشیہ.حضرت اقدس اس وقت کروٹ کے بل لیٹے ہوئے تھے اور منہ مبارک پر اپنا ہاتھ کہنی کی جگہ سے رکھا ہوا تھا.میرے دل میں اس وقت بڑے سرور اور ذوق سے یہ خیالات موجزن تھے کہ میں کیا خوش نصیب ہوں کیا ہی عمدہ موقعہ اللہ سبحانہٗ تعالیٰ نے مجھے دیا ہے کہ مہینوں میں مہینہ مبارک رمضان شریف کا ہے اور تاریخ بھی جو ۲۷ ہے مبارک ہے.اور عشرہ بھی مبارک ہے اور دن بھی جمعہ ہے جو نہایت مبارک ہے اور جس شخص کے پاس بیٹھا ہوں وہ بھی نہایت مبارک ہے اللہ اکبر کس قدر برکتیں آج میرے لئے جمع ہیں.اگر خدا وند کریم اس وقت کوئی نشان حضرت اقدس کا مجھے دکھا دے تو کیا بعید ہے.میں اسی سرور میں تھا اور پاؤں ٹخنہ کے قریب سے دبا رہا تھا کہ یکایک حضرت اقدس کے بدنِ مبارک پر لرزہ سا محسوس ہوا اور اس لرزہ کے ساتھ ہی حضور نے اپنا ہاتھ مبارک منہ پر سے اُٹھا کر میری طرف دیکھا.اُس وقت آپ کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے شاید جاری بھی تھے اور پھر اسی طرح منہ پر ہاتھ رکھ کر لیٹے رہے جب میری نظر ٹخنہ پر پڑی تو اُس پر ایک قطرہ سُرخی کا جو پھیلا ہوا نہیں بلکہ بستہ تھا مجھے دکھلائی دیا.مَیں نے اپنی شہادت کی انگلی کا پھول اُس قطرہ پر رکھا تو وہ پھیل گیا اور سُرخی میری اُنگلی کو بھی لگ گئی.اس وقت میں حیران ہوا اور میرے دل میں یہ آیت گذری.صِبْغَۃَ اللّٰہِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً.نیز یہ بھی دل میں گذرا کہ اگر یہ اللہ کا رنگ ہے تو اس میں شاید خوشبو بھی ہو.چنانچہ میں نے اپنی انگلی سونگھی مگر خوشبو وغیرہ کچھ نہ تھی.پھر میں ٹخنہ کی طرف سے کمر کی طرف دبانے لگا.تو حضرت اقدس کے کُرتہ پر بھی چند داغ سُرخی کے گیلے گیلے دیکھے.مجھ کو نہایت تعجب ہوا اور میں وہاں سے اُٹھ کھڑا ہوا اور حجرہ کی ہر جگہ کو خوب اچھی طرح دیکھا مگر مجھے سُرخی کا کوئی نشان حجرہ کے اندر نہ ملا.آخر حیران سا ہوکر بیٹھ گیا اور بدستور پاؤں دبانے لگ گیا.حضرت صاحب منہ پر ہاتھ رکھے لیٹے رہے.تھوڑی دیر کے بعد حضور اُٹھ کر بیٹھ گئے اور پھر مسجد مبارک میں آکر بیٹھ گئے یہ عاجز بدستور پھر کمر وغیرہ دبانے لگ گیا.اس وقت میں نے حضور سے عرض کی کہ حضور پر یہ سرخی کہاں سے گری.پہلے تو ٹال دیا پھر اس عاجز کے اصرار پر وہ سارا واقعہ بیان فرمایا جس کو حضرت اقدس تفصیل کے ساتھ اپنی کتابوں میں درج فرماچکے ہیں مگر بیان کرنے سے پہلے اس عاجز کو رؤیت باری تعالیٰ کا مسئلہ اور کشفی امور کا خارج میں وجود پکڑنا حضرت محی الدین عربی کے واقعات سنا کر خوب اچھی طرح سے ذہن نشین کرادیا تھا کہ اس جہان میں کاملین کو بعض صفاتِ الٰہیہ جمالی یا جلالی متمثل ہوکر دکھلائی دی جاتی ہیں.پھر حضرت اقدس نے مجھے فرمایا کہ آپ کے کپڑوں پر بھی کوئی قطرہ گرا.میں نے اپنے کپڑے اِدھر اُدھر سے دیکھ کر عرض کیاکہ حضرت میرے پر تو کوئی قطرہ نہیں ہے فرمایا اپنی ٹوپی پر (جو سفید ململ کی تھی) دیکھو.میں نے ٹوپی اُتار کر دیکھی تو ایک قطرہ اس پر بھی تھا.مجھے اس وقت بہت ہی خوشی ہوئی کہ میرے پر بھی ایک قطرہ خدا کی روشنائی کا گرا.اس عاجز نے وہ کُرتہ جس پر سُرخی گری تھی تبرکاًحضرت اقدس سے باصرار تمام لے لیا اس عہد پر کہ میں وصیت کر جاؤں گا کہ میرے کفن کے ساتھ دفن
دی تھی جو خداوند قادر مطلق ہے اُس ذاتِ بے چون و بے چگون کے آگے وہ کتاب قضاء وقدر پیش کی گئی اور اُس نے جو ایک حاکم کی شکل پر متمثّل تھا اپنے قلم کو سُرخی کی دوات میں ڈبو کر اوّل اُس سُرخی کو اِس عاجز کی طرف چھڑکا اور بقیہ سُرخی کا قلم کے مونہہ میں رہ گیا اُ س سے اُس کتاب پر دستخط۱؎کردیئے اور ساتھ ہی وہ حالت کشفیہ دُور ہوگئی اور آنکھ کھول کر جب خارج میں دیکھا تو کئی قطرات سُرخی کے تازہ بتازہ کپڑوں پر پڑے چنانچہ ایک صاحب عبداللہ نام جو سنور ریاست پٹیالہ کے رہنے والے تھے اور اُس وقت اس عاجز کے پاس نزدیک ہوکر بیٹھے ہوئے تھے دو یا تین قطرہ سُرخی کے اُن کی ٹوپی پر پڑے.پس وہ سُرخی جو ایک امر کشفی تھا وجود خارجی پکڑ کر نظر آگئی.اسی طرح اور کئی مکاشفات میں جن کا لکھنا موجب تطویل ہےمشاہدہ کیا گیا ہے.‘‘ (سرمہ چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۱۷۹، ۱۸۰ حاشیہ) ۱۸۸۵ء ’’میں نے دیکھا کہ خدا تعالیٰ کی عدالت میں ہوں اور منتظر ہوں کہ میرا مقدّمہ بھی ہو اتنے میں جواب ملا.اِصْبِرْ سَنَفْرُغُ یَـا مِرْزَا ؎۲ پھر ایک بار دیکھا کہ کچہری میں گیا ہوں تو اللہ تعالیٰ ایک حاکم کی صورت پر عدالت کی کُرسی پر بیٹھا ہے اور ایک سر رشتہ دار کے ہاتھ میں ایک مثل ہے جو وہ پیش کررہا ہے.حاکم نے مثل دیکھ کر کہا کہ مرزا حاضر ہے.تو میں بقیہ حاشیہ.کردیا جاوے.کیونکہ حضرت اقدس اس و جہ سے اُسے دینے سے انکار کرتے تھے کہ میرے اور آپ کے بعد اس سے شرک پھیلے گا اور لوگ اس کو زیارت گاہ بنا لیں گے.اور اس کی پُوجا شروع ہوجائے گی.غرض کہ بہت ردّ و قدح کے بعد دیا جو میرے پاس اس وقت تک موجود ہے اور سُرخی کے نشان اس وقت تک بلا کم و کاست بعینہٖ موجود ہیں.یہ ہے سچی عینی شہادت! اگر میں نے جھوٹ بولا ہو تو لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکَاذِ.بِـیْنَ کی وعید کافی ہے میں خدا کو حاضر ناظر جان کر اور اُسی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے سراسر سچ ہے.اگر جھوٹ بولا ہو تو مجھ پر خدا کی لعنت! لعنت!! لعنت!!! مجھ پر خد اکا غضب! غضب!!غضب!!! عاجز عبداللہ سنوری‘‘ ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’چونکہ عین آریہ صاحبوں کے مقابل پر یہ نشان ظاہر ہوا تھا اس لئے میرے خیال میں یہ پنڈت لیکھرام کے مارے جانے کی طرف اشارہ تھا اور طاعون کے وقوع کی طرف بھی اشارہ تھا.‘‘ (نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۴۲۷ حاشیہ ) ۲ (ترجمہ از مرتّب) مرزا! ذرا ٹھہرو ہم ابھی فارغ ہوتے ہیں.
نے غور سے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ایک خالی کرسی پڑی ہے مجھے اُس پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور پھر میں بیدار ہوگیا.‘‘ (الحکم جلد۷ نمبر۵ مورخہ۷ فروری۱۹۰۳ء صفحہ۱۴ کالم نمبر ۲ و البدر جلد۲ نمبر۶ مورخہ۲۷ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۴۲ کالم نمبر۱) ۵؍ اگست ۱۸۸۵ء ’’مرزا امام الدین و نظام الدین کی نسبت مجھے الہام ہوا ہے کہ اکتیس ماہ تک اُن پر ایک سخت مصیبت پڑے گی.ان کے اہل و عیال و اولاد میں سے کسی مرد یا کسی عورت کا انتقال ہوجائے گا.جس سے اُن کو سخت تکلیف اور تفرقہ پہنچے گا.آج ہی کی تاریخ کے حساب جو تئیس۲۳ ساون مطابق۵؍اگست ۱۸۸۵ء ہے، یہ واقعہ ظہور میں آئے گا؎۱.مرقوم۵؍اگست۱۸۸۵ء.‘‘ (اعلان مورخہ ۲۰؍ مارچ۱۸۸۸ء.مجموعہ اشتہارات جلد ۱ صفحہ ۱۶۲ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۱۸۸۵ء (الف) ’’ قریباً چودہ برس کا عرصہ گذرا ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میری اس بیوی؎۲ کو چوتھا لڑکا پیدا ہوا ہےاور تین پہلے موجود ہیں اور یہ بھی خواب میں دیکھا تھا کہ اس پسر چہارم کا عقیقہ بروز دو شنبہ یعنی پیر ہوا ہے.اور جس وقت یہ خواب دیکھی تھی اس وقت ایک بھی لڑکا نہ تھا.یعنی کوئی بھی نہیں تھا اور خواب میں دیکھا تھا کہ اس بیوی سے میرے چار لڑکے ہیں اور چاروں میری نظر کے سامنے موجود ہیں اور چھوٹے لڑکے کا عقیقہ پیر کو ہوا ہے.اب جبکہ یہ لڑکا یعنی مبارک احمد پیدا ہوا تو وہ خواب بھول گئے اور عقیقہ اتوار کے دن مقرر ہوا لیکن خدا کی قدرت ہے کہ اس قدر بارش ہوئی کہ اتوار میں عقیقہ کا سامان نہ ہوسکا اور ہر طرف سے حارج پیش آئے.ناچار پیر کے دن عقیقہ قرار پایا پھر ساتھ یاد آیا کہ قریباً چودہ برس گذر گئے کہ خواب میں دیکھا تھا کہ ایک چوتھا لڑکا پیدا ہوگا اور اس کا عقیقہ پیر کے دن ہوگا.تب وہ اضطراب ایک خوشی کے ساتھ مبدّل ہوگیا کہ کیوں کر خدا تعالیٰ نے اپنی بات کو پورا کیااور ہم سب زور لگار ہے تھے کہ عقیقہ اتوار کے دن ہو مگر کچھ بھی پیش نہ گئی اور عقیقہ پیر کو ہوا.یہ پیشگوئی بڑی بھاری تھی کہ اس چودہ برس کے عرصہ میں یہ پیشگوئی کہ چار لڑکے پیدا ہوں گے اور پھر چہارم کا عقیقہ پیر کے دن ہوگا.انسان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس مدت تک کہ چار لڑکے پیدا ہوسکیں، زندہ بھی رہیں یہ خدا کے کام ہیں مگر افسوس کہ ہماری قوم دیکھتی ہے پھر آنکھ بند کرلیتی ہے.‘‘ (از مکتوب بنام سیٹھ عبدالرحمٰن صاحبؓ مدراسی.مکتوبات احمدجلد ۲ صفحہ ۳۹۷ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’چنانچہ عین اکتیسویں مہینہ کے درمیان مرزا نظام الدین کی دختر یعنی مرزا امام الدین کی بھتیجی بعمر (پچیس )سال ایک بہت چھوٹا بچہ چھوڑ کر فوت ہوگئی.‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۱۶۲ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۲ حضرت اُمّ المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا.(شمس)
(ب)’’عرصہ چوداں برس کا ہوا ہے کہ ایک خواب آئی تھی کہ چار لڑکے ہوں گے اور چوتھے لڑکے کا عقیقہ پیر کے دن ہوگا.‘‘ (از مکتوب بنام ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب.مکتوبات احمد جلد ۴ صفحہ ۲۱۹ مطبوعہ ۲۰۱۵ء) ۱۸۸۵ء ’’میاں عبداللہ سنوری جو علاقہ پٹیالہ میں پٹواری ہیں ایک مرتبہ ان کو ایک کام پیش آیا جس کے ہونے کے لئے انہوں نے ہر طرح سے کوشش کی اور بعض وجوہ سے ان کو اس کام کے ہوجانے کی امید بھی ہوگئی تھی.پھر انہوں نے دعا کے لئے ہماری طرف التجا کی.ہم نے جب دعا کی تو بلاتوقف الہام ہوا.’’ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘۱؎ تب میں نے ان کو کہہ دیا کہ یہ کام ہرگز نہیں ہوگا اور وہ الہام سنا دیا اور آخرکار ایسا ظہور میں آیا اور کچھ ایسے موانع پیش آئے کہ وہ کام ہوتا ہوتا رہ گیا.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ ۶۱۲) ۲۸؍نومبر۱۸۸۵ء ’’۲۸ نومبر۱۸۸۵ء کی رات کو یعنی اُس رات کو جو ۲۸نومبر۱۸۸۵ء کے دن سے پہلے آئی ہے اس قدر شہب کا تماشا آسمان پر تھا جو میں نے اپنی تمام عمر میں اس کی نظیر کبھی نہیں دیکھی اور آسمان کی فضا میں اس قدر ہزار ہا شعلے ہر طرف چل رہے تھے جو اُس رنگ کا دنیا میں کوئی بھی نمونہ نہیں تا میں اُس کو بیان کرسکوں.مجھ کو یاد ہے کہ اُس وقت یہ الہام بکثرت ہوا تھا کہ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی ؎۲ سو اُس رمی کو رمیِ شہب سے بہت مناسبت تھی.یہ شہبِ ثاقبہ کا تماشا جو۲۸نومبر۱۸۸۵ء کی رات کو ایسا وسیع طور پر ہوا جو یورپ اور امریکہ اور ایشیا کے عام اخباروں میں بڑی حیرت کے ساتھ چھپ گیا لوگ خیال کرتے ہوں گے کہ یہ بے فائدہ تھا لیکن خداوند کریم جانتا ہے کہ سب سے زیادہ غور سے اس تماشا کے دیکھنے والا اور پھر اس سے حظ اور لذّت اُٹھانے والا میں ہی تھا.میری آنکھیں بہت دیر تک اس تماشا کے دیکھنے کی طرف لگی رہیں اور وہ سلسلہ رمی شہب کا شام سے ہی شروع ہوگیا تھا جس کو میں صرف الہامی بشارتوں کی و جہ سے بڑے سرور کے ساتھ دیکھتا رہا کیونکہ میرے دل میں الہاماً ڈالا گیا تھا کہ یہ تیرے لئے نشان ظاہر ہوا ہے.اور پھر اُس کے بعد یورپ کے لوگوں کو وہ ستارہ دکھائی دیا جو حضرت مسیح کے ظہو رکے وقت میں نکلا تھا.۱ (ترجمہ از ناشر) افسوس بہت سی آرزوئیں ہیں جو خاک میں مل گئیں.۲ (ترجمہ) ’’جو کچھ تونے چلایا وہ تونے نہیں چلایا بلکہ خدا نے چلایا.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۷۳)
میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ ستارہ بھی تیری صداقت کے لئے ایک دوسر انشان ہے.‘‘ (آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵صفحہ۱۱۰ ، ۱۱۱ حاشیہ) نومبر۱۸۸۵ء (الف) ’’ہم پر خود اپنی نسبت اپنے بعض جدّی اقارب کی نسبت، اپنے بعض دوستوں کی نسبت اور بعض اپنے فلاسفر قومی بھائیوں کی نسبت کہ گو یا نجم الہند؎۱ہیں اور ایک دیسی امیر نووارد؎۲پنجابی الاصل ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.(الف) ’’وہ پیشگوئی بھی بڑی ہیبت کے ساتھ پوری ہوئی اور یک دفعہ ناگہانی طور سے ایک شریر انسان کی خیانت سے ڈیڑھ لاکھ روپے کے نقصان کا آپ کو صدمہ پہنچا… آپ نے اس غم سے تین دن روٹی نہیں کھائی… ایک مرتبہ غشی بھی ہوگئی.‘‘ (اشتہار۳؎۱۲؍مارچ۱۸۹۷ء مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ ۲۲۷ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) (ب) ’’اخیر عمر میں سید صاحب کو ایک جوان بیٹے کی موت کا جانکاہ صدمہ پہنچا.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ ۵۶۹) ۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.(الف) ’’ ہم نے صد ہا ہندوؤں اور مسلمانوں کو مختلف شہروں میں بتلادیا تھا کہ اس شخص پنجابی الاصل سے مراد دلیپ سنگھ ہے جس کی پنجاب میں آنے کی خبر مشہورہورہی ہے لیکن اس ارادہ سکونت پنجاب میں وہ ناکام رہے گا بلکہ اس سفر میں اُس کی عزت و آسائش یا جان کا خطرہ ہے… بالآخر اُس کو مطابق اِسی پیشگوئی کے بہت حرج اور تکلیف اور سُبکی اور خجالت اُٹھانی پڑی اور اپنے مدّعا سے محروم رہا.‘‘ (اشتہار محکّ اخیار و اشرار ضمیمہ سرمہ چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲صفحہ ۳۱۸) (ب) ’’دلیپ سنگھ عدن سے واپس۴؎ ہوا اور اس کی عزت و آسائش میں بہت خطرہ پڑا جیسا کہ میں نے صدہا آدمیوں کو خبر دی تھی.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۶۰۴) (ج) ’’وہ فقرہ اشتہار۲۰فروری۱۸۸۶ء جس میں لکھا ہے کہ ایک امیر نووارد پنجابی الاصل کی نسبت متوحش خبریں، اس سے مراد دلیپ سنگھ ہے.ایسا ہی یہ خبر جابجا صدہا ہندوؤں اور مسلمانوں کو جو پانچ سو سے کسی قدر زیادہ ہی ہوں گے کئی شہروں میں پیش از وقوع بتلائی گئی تھی اور اشتہارات ۲۰فروری۱۸۸۶ء بھی دُور دُور ملکوں تک تقسیم کئے گئے تھے.پھر آخر کار جیسا کہ پیش از وقوع بیان کیا گیا اور لکھا گیا تھا وہ سب باتیں دلیپ سنگھ کی نسبت پوری ہوگئیں.‘‘ (سرمہ چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۳۶) ۳ اس اشتہار میں سرسید احمد خان صاحب مخاطب ہیں.(عبد اللطیف بہاولپوری) ۴ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمد ؓ) اخبار ریاضؔ ہند امرت سر مطبوعہ۳؍مئی۱۸۸۶ء میں صفحہ ۲۱۴ کالم نمبر۱ پر مہاراجہ دلیپ سنگھ صاحب کے عدنؔ میں رہ جانے کی خبر شائع ہوئی.
کی نسبت بعض متوحش خبریں جو کسی کے ابتلا اور کسی کی موت و فوت اعِزّہ اور کسی کی خود اپنی موت پر دلالت کرتی ہیں جو انشاء اللہ القدیر بعد تصفیہ لکھی جائیں گی منجانب اللہ منکشف ہوئی ہیں.‘‘ (اشتہار ۲۰فروری۱۸۸۶ء.مجموعہ اشتہارات جلد ۱ صفحہ ۱۲۳،۱۲۴ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) (ب) ’’ دلیپ سنگھ کی نسبت پیش از وقوع اُس کو؎۱ بتلایا گیا کہ مجھ کو کشفی؎۲طور پر معلوم ہوا ہےکہ پنجاب کا آنا اُس کے لئے مقدر نہیں.یا تو یہ مرے گا اور یا ذلّت اور بے عزتی اُٹھائے گا اور اپنے مطلب سے ناکام رہے گا.‘‘ (شحنہ حق.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۸۲) ۱۸۸۶ء (الف) ’’خداوند کریم جلّ شانہٗ نے اُس شہر کا نام بتادیا ہے کہ جس میں کچھ مدت بطور خلوت رہنا چاہیے اور وہ ہوشیارپور؎۳ہے.(از مکتوب بنام چوہدری رستم علی صاحبؓ مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۴۷۲ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) (ب) ’’ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک الہام مشہو رہوچکا ہے… بایں الفاظ یا بایں معنی ایک معاملہ کی عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہوگی.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۳۶ مورخہ۵ستمبر۱۹۰۷ء صفحہ ۱۰) ۱ لالہ شرمپت کو.(شمس) ۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) مولوی جمال الدین صاحبؓ سکنہ سیکھواں ضلع گورداسپور کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کشف حضور کو ماہ نومبر۱۸۸۵ء میں ہو اتھا.لکھتے ہیں.’’یہ خاکسار درماہ نومبر۱۸۸۵ء کو واسطے ملاقات جناب مرزا صاحب موصوف (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کے گیا اور اسی روز منجانب اللہ بابت مہاراجہ دلیپ سنگھ کے منکشف ہوا تھا وہ میرے پاس اور نیز کئی آدمی جو اس وقت موجود تھے ظاہر کیا کہ یہ لوگ آمدن دلیپ سنگھ صاحب کے (باعث)سرور و خوشی کررہے ہیں یہ ان کو سرور حاصل نہ ہوگا.مجھ کو آج خدا کی طرف سے ظاہر ہوا ہے کہ جب وہ آئے گا بہت شدائد و مصائب اُٹھائے گا.بلکہ یہاں تک اس وقت مرزا صاحب نے فرمایا کہ اس کی لاش ایک صندوق میں مجھ کو دکھلائی گئی ہے.‘‘ (رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۴ صفحہ ۱۵۵ روایت مولوی جمال الدین صاحب سیکھوانیؓ) ۳ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) میاں عبداللہ صاحب سنوریؓ کی روایت ہے کہ پہلے حضورؑ کا ارادہ چلّہ کشی کے لئے سوجان پور ضلع گورداسپور میں جانے کا تھا مگر بعد میں الہام ہوا کہ ’’تمہاری عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہوگی.‘‘ (سیرۃ المہدی جلد اوّل صفحہ ۶۲ مطبوعہ ۲۰۰۸ء )
جنوری ۱۸۸۶ء (الف) ’’اِعْلَمْ اَنَّ زَوْجَۃَ اَحْـمَدَ وَ اَقَارِبَـھَا کَانُوْا مِنْ عَشِیْرَتِیْ.وَ کَانُوْا لَا یَتَّخِذُوْنَ فِیْ سُبُلِ الدِّیْنِ وَتِیْرَتِیْ.بَلْ کَانُوْا یَـجْتَرِءُوْنَ عَلَی السَّیِّئَاتِ.وَاَنْوَاعِ الْبِدْعَاتِ.وَکَانُوْا فِیْھَا مُفْرِطِیْنَ.فَاُلْھِمْتُ مِنَ الرَّحْـمَانِ اَنَّہٗ مُعَذِّ بُـھُمْ لَوْ لَمْ یَکُوْنُوْا تَائِبِیْنَ.وَقَالَ لِیْ رَبِّیْ اِنَّـھُمْ اِنْ لَّمْ یَتُوْبُوْا وَلَمْ یَرْجِعُوْا فَنُنَـزِّلُ عَلَیْـھِمْ رِجْسًا مِّنَ السَّمٰوَاتِ.وَ نَـجْعَلُ دَارَھُمْ مَـمْلُوَّۃً مِّنَ الْاَرَامِلِ وَالثَّیِّبَاتِ.وَنَتَوَفَّاہُمْ اَبَـاتِـرَ مَـخْذُ.وْلِیْنَ وَ اِنْ تَـا.بُوْا وَ اَصْلَحُوْا فَنَتُوْبُ عَلَیْـھِمْ بِـالرَّحْـمَۃِ.وَنُغَیِّرُ مَا اَرَدْنَا مِنَ الْعُقُوْبَۃِ.فَیَظْفَرُوْنَ بِـمَا یَبْتَغُوْنَ فَرِحِیْنَ.فَنَصَحْتُ لَھُمْ اِتْـمَامًا لِّلْحُــجَّۃِ.وَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ذِی الْمَغْفِرَۃِ.فَـمَا سَـمِعُوْا کَلِمَاتِیْ.وَ زَادُوْا فِیْ مُعَادَاتِیْ.فَبَدَا لِیْ اَنَ اُشِیْعَ الْاِشْتِـھَارَ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ.لَعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ وَ یَرْجِعُوْنَ اِلٰی طُرُقِ الصَّوَابِ.وَلَعَلَّھُمْ یَکُوْنُوْنَ مِنَ الْمُسْتَغْفِرِیْنَ.فَاَشَعْتُ الْاِ شْتِھَارَ.وَاَنَـا فِیْ ھُشْیَارَ.فَنَبَذُ وْہُ وَرَآءَظُھُوْرِھِمْ غَیْرَ مُبَالِیْنَ.‘‘ ۱؎ (انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱۱صفحہ ۲۱۱ تا۲۱۳) ۱۸۸۶ء (الف) ’’ فَلَمَّا؎۲ لَمْ یَنْتَـھُوْا بِـھٰذَا الْاِشْتِـھَارِ.وَلَمْ یَتْرُکُوْا طَرِیْقَ التَّبَارِ.فَکَشَفَ اللّٰہُ ۱ (ترجمہ از مرتّب) جاننا چاہیے کہ احمد بیگ کی بیوی اور اس کے دیگر اقارب میرے رشتہ داروں میں سے تھے اور دینی امور کی راہوں میں میرا طریقہ اختیار نہیں کرتے تھے بلکہ وہ ہر قسم کی بدکرداریوں اور گوناگوں بدعتوں کا بڑی دلیری سے ارتکاب کرتے تھے اور اس بات میں حد سے بڑھے ہوئے تھے پس مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے الہاماًبتایا گیا کہ اگر انہوں نے توبہ نہ کی تو اللہ تعالیٰ اُن پر عذاب نازل کرے گا اور مجھے میرے پروردگار نے کہا کہ اگر ان لوگوں نے توبہ نہ کی اور اپنی بے راہیوں سے باز نہ آئے تو ہم اُن پر آسمان سے عذاب نازل کریں گے اور ان کے گھروں کو بیواؤں سے بھردیں گے اور انہیں ابتر، ذلیل حالت میں وفات دیں گے.اوراگر انہوں نے توبہ کی اور اپنی اصلاح کی تو ہم رحمت کے ساتھ اُن کی طرف رجوع کریں گے اور سزا کے ارادہ کو تبدیل کردیں گے.پس جو کچھ وہ چاہتے ہیں بخوشی خاطر دیکھیں گے.اور میں نے اُن کو اتمام حجت کے لئے نصیحت کی اور کہا کہ خداوند غفور سے مغفرت چاہو مگر انہوں نے میری کوئی بات نہ سنی اور دشمنی میں اور بھی بڑھ گئے.پھر میرے دل میں آیا کہ اس بارہ میں اشتہار شائع کروں تا یہ لوگ ڈریں اور راہ صواب کی طرف رجوع کریں اور خدا تعالیٰ سے بخشش چاہیں.پس میں نے اشتہار شائع کردیا اور میں اس وقت ہوشیار پور میں تھا.مگر انہوں نے اس اشتہار کو بےپرواہی سے پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا.۲ (ترجمہ از مرتّب) پھر جب وہ اس اشتہار سے نہ رُکے اور ہلاکت کی راہ کونہ چھوڑا تو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اس خاندان
عَلَـیَّ اُمُوْرًا لِتِلْکَ الْفِئَۃِ وَاَنَا بَیْنَ النَّوْمِ وَالْیَقْظَۃِ.وَکَانَ ھٰذَا الْکَشْفُ تَفْصِیْلَ ذَالِکَ الْاِلْھَامِ فِی الْمَرَّۃِ الثَّانِیَۃِ.وَ بَیَانُہٗ اَنِّیْ کُنْتُ اُرِیْدُ اَنْ اَرْقُدَ.فَاِذَا تَـمَثَّلَتْ لِیْ اُمُّ زَوْجَۃِ اَحْـمَدَ.وَرَاَیْتُھَا فِیْ شَانٍ اَحْزَنَنِیْ وَ اَرْجَدَ.وَھُوَ اَنِّیْ وَجَدْتُّـھَا فِیْ فَزَعٍ شَدِیْدٍ عِنْدَالتَّلَاقِیْ.وَعَبَرَاتُـھَا یَتَحَدَّرْنَ مِنَ الْمَاٰقِیْ.فَقُلْتُ اَیَّتُـھَا الْمَرْءَۃُ تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلَآءَ عَلٰی عَقِبِکِ.اَیْ عَلٰی بِنْتِکِ وَبِنْتِ بِنْتِکِ.ثُمَّ تَنَزَّلْتُ مِنْ ھٰذَا الْمَقَامِ.وَفُھِّمْتُ مِنْ رَّبِّیْ اَنَّہٗ تَفْصِیْلُ الْاِلْھَامِ السَّابِقِ مِنَ اللّٰہِ الْعَلَّامِ.وَاُلْقِیَ فِیْ قَلْبِیْ فِیْ مَعْنَی الْعَقِبِ مِنَ الدَّیَّانِ.اَنَّ الْمُرَادَ ھٰھُنَا بِنْتُـھَا وَ بِنْتُ بِنْتِـھَا لَا اَحَدٌ مِّنَ الصِّبْیَانِ.وَنُفِثَ فِیْ رُوْعِیْ اَنَّ الْبَلَآءَ بَلَآءَانِ.بَلَآءٌ عَلٰی بِنْتِـھَا وَ بَلَآءٌ عَلٰی بِنْتِ الْبِنْتِ مِنَ الرَّحْـمٰنِ وَ اِنَّـھُمَا مُتَشَابِـھَانِ مِنَ اللّٰہِ اَحْکَمِ الْـحَاکِمِیْنَ.‘‘ (انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱۱صفحہ ۲۱۳،۲۱۴) (ب) ’’جنوری ۱۸۸۶ء میں بمقام ہوشیار پور ایک اور الہام عربی مرزا احمد بیگ؎۱ کی نسبت ہوا تھا.جس کو ایک مجمع میں جس میں بابو الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ و مولوی برہان الدین صاحب جہلمی بھی موجود تھے، سنایا گیا تھا.جس کی عبارت یہ ہے.بقیہ ترجمہ.کے متعلق چند امور ظاہر فرمائے جبکہ میں نیند اور بیداری کے بَین بَین تھا.اور یہ کشف دوبارہ اس الہام کی تفصیل تھا جس کا واقعہ یوں ہے کہ جب میں سونے لگا تو احمد بیگ کی خوشدامن میرے سامنے متمثّل ہوئی.میں نے اُسے جس حال میں دیکھا دیکھتے ہی میں غمگین ہوگیا اور میرا بدن لرز گیا.بوقت ِ ملاقات میں نے اسے سخت گھبراہٹ میں پایا اور دیکھا کہ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے تب مَیں نے اُسے کہا اے عورت! توبہ کر.توبہ کر.کیونکہ تیری نسل پر مصیبت آنے والی ہے.یعنی تیری بیٹی اور نواسی پر.پھر مجھ پر سے وہ کشفی حالت جاتی رہی اور مجھے اپنے ربّ کی طرف سے تفہیم ہوئی کہ یہ خدائے علّام کی طرف سے پہلے الہام کی تفصیل ہے.اور عقب کے معنی کے متعلق میرے دل میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ ڈالا گیا کہ یہاں مراد اس کی بیٹی اور نواسی ہے نہ کوئی اور بچہ اور میرے دل میں یہ پھونکا گیا کہ بَلا سے مُراد دو۲ مصیبتیں ہیں ایک وہ مصیبت جو اس کی بیٹی پر آنے والی ہے اور دوسری وہ جو اُس کی نواسی پر آئے گی.اور یہ دونوں خدائے احکم الحاکمین کی طرف سے باہم مشابہ ہیں.۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یعنی مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری جن کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چچازاد بہن بیاہی گئی تھیں جن کے بطن سے محمدی بیگم پیدا ہوئیں.
رَأَیْتُ ھٰذِہِ الْمَرْأَ.ۃَ وَ اَثَـرُ الْبُکَآءِ عَلٰی وَجْھِھَا فَقُلْتُ اَیَّتُـھَا الْمَرْءَۃُ تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلَآءَ عَلٰی عَقَبِکِ وَالْمُصِیْبَۃُ نَازِلَۃٌ عَلَیْکِ یَـمُوْتُ وَیَبْقٰی مِنْہُ کِلَابٌ مُتَعَدِّدَۃٌ.‘‘۱؎ (اشتہار پانز ۱۵دہم جولائی۱۸۸۸ء.مجموعہ اشتہارات جلد ۱ صفحہ۱۸۳ حاشیہ.مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء ’’خدائے رحیم و کریم بزرگ و برتر نے جو ہریک چیز پر قادر ہے (جَلَّ شَانُہٗ وَ عَزَّ اِسْـمُہٗ) مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کرکے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تونے مجھ سے مانگا.سو میں نے تیری تضرّعات کو سنا اور تیری دُعاؤں کو اپنی رحمت سے بپایۂ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو (جو ہوشیار پور اور لدھیانہ کا سفر ہے) تیرے لئے مبارک کردیا.سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے.فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے.اے مظفر! تجھ پر سلام خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تادین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تاحق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور ا س کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیٰؐ کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہوجائے.۱ (ترجمہ از مرتّب) میں نے اس عورت (یعنی مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کی ساس کو جو محمدی بیگم کی نانی اور مرزا امام الدین وغیرہ کی والدہ تھی) کو ایسے حال میں دیکھا کہ اس کے منہ پر گریہ و بُکا کے آثار تھے تب میں نے اُسے کہا کہ اے عورت! توبہ کر، توبہ کر کیونکہ بلا تیری نسل کے سر پر کھڑی ہے اور یہ مصیبت تجھ پر نازل ہونے والی ہے.وہ شخص (یعنی مرزا احمد بیگ) مرے گا اور اس کی و جہ سے کئی سگ سیرت لوگ (پیدا ہوکر) پیچھے رہ جائیں گے.
سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا.ایک زکی غلام(لڑکا) تجھے ملے گا.وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذرّیّت و نسل ہوگا.خوبصورت پاک؎۱ لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے اُس کانام عنموائیل اور بشیر بھی ہے.اس کو مقدس رُوح دی گئی ہے اور وہ رِجس سے پاک ہے.وہ نوراللہ ہے.مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے.اس کے ساتھ فضل؎۲ ہے جو اُس کےآنے کے ساتھ آئے گا.؎۳ وہ صاحب ِ شکوہ اور عظمت اور دَولت ہوگا.وہ دُنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور رُوح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمۃ اللہ ہے کیونکہ خدا کی ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’یہ عبارت کہ خوبصورت، پاک لڑکا تمہارا مہمان… جو آسمان سے آتا ہے یہ تمام عبارت… چند روزہ زندگی کی طرف اشارہ ہے کیونکہ مہمان وہی ہوتا ہے جو چند روز رہ کر چلا جاوے اور دیکھتے دیکھتے رخصت ہوجاوے اور بعد کا فقرہ مصلح موعود کی طرف اشارہ ہے اور اخیر تک اسی کی تعریف ہے… بیس۲۰ فروری۱۸۸۶ء کی پیش گوئی… ۲دو پیشگوئیوں پر مشتمل تھی جو غلطی سے ایک سمجھی گئی اور پھر بعد میں … الہام نے اس غلطی کو رفع کردیا.‘‘ (از مکتوب بنام حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب ؓ.مکتوبات احمد جلد ۲صفحہ ۷۵ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’بذریعہ الہام صاف طور پر کھل گیا ہے کہ… مصلح موعود کے حق میں جو پیشگوئی ہے وہ اِس عبارت سے شروع ہوتی ہے کہ اُس کے ساتھ فضل ہے کہ جو اُس کے آنے کے ساتھ آئے گا.پس مصلح موعود کا نام الہامی عبارت میں فضل رکھا گیا اور نیز دوسرا نام اُس کا محمودؔ اور تیسرا نام اس کا بشیر ثانی بھی ہے اور ایک الہام میں اُس کا نام فضلِ عمر ظاہر کیاگیا ہے اور ضرور تھا کہ اُس کا آنا معرضِ التوا میں رہتا جب تک یہ بشیر جو فوت ہوگیا ہے پیدا ہوکر پھر واپس اُٹھایا جاتا کیونکہ یہ سب امور حکمت ِ الٰہیہ نے اُس کے قدموں کے نیچے رکھے تھے اور بشیر اوّل جو فوت ہوگیا ہے بشیر ثانی کے لئے بطور ارہاص تھا اِس لئے دونوں کا ایک ہی پیشگوئی میں ذکر کیا گیا.‘‘ (سبز اشتہار.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۴۶۷ حاشیہ) ۳ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) رسالہ التبلیغ ملحقہ کتاب آئینہ کمالات اسلام میں مصلح موعود کے متعلق مزید اوصاف کا ذکر ہے.’’ وَ الْفَضْلُ یَنْزِلُ بِنُزُوْلِہٖ.وَ ھُوَ نُوْرٌ وَ مُبَارَکٌ وَ طَیِّبٌ وَ مِنَ الْمُطَھَّرِیْنَ.یُفْشِی
رحمت و غیّوری نے اُسے اپنے کلمۂ تمجید سے بھیجا ہے وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے) دوشنبہ ہے مبارک دو شنبہ.فرزند دلبند گرامی و ارجمند.مَظْھَرُ الْاَوَّلِ وَالْاٰخِرِ.مَظْھَرُ الْـحَقِّ وَ الْعَلَآءِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ.بقیہ حاشیہ.الْبَرَکَاتَ وَیُغْذِی الْـخَلْقَ مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَ یَنْصُرُ الدِّیْنَ.وَ یَسْمُوْ وَ یَعْرُجُ وَ یَرْقٰی وَ یُعَالِـجُ کُلَّ عَلِیْلٍ وَ مَرْضٰی وَ کَانَ بِأَنْفَاسِہٖ مِنَ الشَّافِیْنَ وَ اِنَّہٗ آیَـۃٌ مِّنْ آیَـاتِیْ.وَعَلَمٌ لِتَائِیْدَاتِیْ لِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ کَذَّ.بُـوْا أَنِّیْ مَعَکَ بِفَضْلِیَ الْمُبِیْنَ.وَ لِیَجِـیْءَ الْـحَقُّ بِـمَجِیْئِہٖ وَ یَزْھَقَ الْبَاطِلُ بِظُھُوْرِہٖ وَ لِیَتَجَلّٰی قُدْرَتِیْ وَ یَظْھَرَ عَظْمَتِیْ وَ یَعْلُوا الدِّیْنُ وَ یَلْمَعُ الْبَرَاھِیْنُ.وَلِیَنْجُوْ طُلَّابُ الْـحَیَاتِ مِنْ أَکُفِّ مَوْتِ الْاِیْـمَانِ وَالنُّوْرِ.وَ لِیُبْعَثَ اَصْـحَابُ الْقُبُوْرِ مِنَ الْقُبُوْرِ.وَ لِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ کِتَابِہٖ أَنَّـھُمْ کَانُوْا عَلٰی خَطَأٍ وَ لِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلَ الْمُجْرِمِیْنَ.فَسَیُعْـطٰی لَکَ غُلَامٌ زَکِیٌّ مِنْ صُلْبِکَ وَ ذُرِّیَّتِکَ وَ نَسْلِکَ وَ یَکُوْنَ مِنْ عِبَادِنَـا الْوَجِیْـھِیْنَ.ضَیْفٌ جَـمِیْلٌ یَـأْتِیْکَ مِن لَّدُنَّـا.نَقِیٌّ مِنْ کُلِّ دَرَنٍ وَ شَیْنٍ وَ شَنَارٍ وَ شَـرَارَۃٍ وَ عَیْبٍ وَ عَارٍ وَ عَرَارَۃٍ وَ مِنَ الطَّیِّبِیْنَ.وَ ھُـوَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ خُلِقَ مِنْ کَلِمَاتٍ تَـمْجِیْدِ.یَّۃٍ.وَ ھُوَ فَھِیْمٌ وَ ذَھِیْنٌ وَ حَسِیْنٌ.قَدْ مُلِئَ قَلْبُہٗ عِلْمًا.وَبَـاطِنُہٗ حِلْمًا.وَ صَدْرُہٗ سِلْمًا.وَ اُعْطِیَ لَہٗ نَفْسٌ مَسِیْحِیٌّ وَ بُوْرِکَ بِـالرُّوْحِ الْأَمِیْنِ.یَوْمَ الْاِ ثْنَیْنِ.فَوَاھًا لَکَ یَـا یَـوْمَ الْاِثْنَیْنِ.یَـأْتِیْ فِیْکَ أَرْوَاحُ الْمُبَارَکِیْنَ.‘‘ (آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵صفحہ ۵۷۷، ۵۷۸) (ترجمہ از مرتّب) اور فضل اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ نور ہے.وہ مبارک ہے.وہ طیّب ہے اور مطہّرین میں سے ہے.وہ برکت پھیلائے گا اور مخلوق کو طیب غذائیں دے گا.وہ دین کی مدد کرے گا اور سربلند ہوگا اور ترقی اور عروج پائے گا.ہر بیمار اور مریض کا علاج کرے گا.وہ اپنے انفاس سے شفا دینے والوں میں سے ہوگا.وہ میرے نشانات میں سے ایک نشان اور میری تائیدات کی علامت ہوگا تا وہ جو جھٹلاتے ہیں جان لیں کہ میں اپنے واضح فضل کے ساتھ تیرے ہمراہ ہوں تا اس کے آنے سے حق آجائے اور اس کے ظہور پذیر ہونے سے باطل بھاگ جائے اور تا میری قدرت جلوہ گر ہو اور میری عظمت ظاہر ہو.اور دین سربلند ہو اور براہین چمکیں اور تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں ایمان اور نور کی موت کے پنجوں سے رہائی پائیں اور تا قبروں میں پڑے ہوؤں کو قبروں سے نکالا جائے اور تا وہ جنہوں نے اللہ کا، اس کے رسول کا اور اس کی کتاب کا انکار کیا جان لیں کہ وہی غلطی پر تھے اور تا مجرموں کی راہ واضح ہوجائے.پس عنقریب تجھے ایک
جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کےظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسُوح کیا ہم اس میں اپنی رُوح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں؎۱ اس سے برکت پائیں گی.تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا.وَ کَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا.‘‘ (اشتہار ۲۰فروری۱۸۸۶ء.مجموعہ اشتہارات جلد ۱ صفحہ ۱۲۴،۱۲۵ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۱۸۸۶ء ’’ پھر خدائے کریم جلّ شانہٗ نے مجھے بشارت دے کر کہا کہ تیرا گھربرکت سے بھرے گا اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور بقیہ حاشیہ.زکی غلام تیری ہی صلب، ذریّت اور نسل سے دیا جائے گا، اور وہ ہمارےوجیہ بندوں میں سے ہوگا.ایک خوبصورت مہمان ہماری طرف سے تیرے پاس آتا ہے.وہ ہر میل کچیل، نقص، بدترین خصال، شرارت، عیب،عار اور گناہ سے پاک ہوگا اور پاکیزہ لوگوں میں سے ہوگا.وہ کلمۃ اللہ ہے اور کلماتِ تمجید سے پیدا کیا جائے گا.وہ ذہین وفہیم اور حسین ہوگا.اس کا دل علم سے اور اس کا باطن حلم سے اور سینہ سلامتی سے پُر کیا جائے گا.اسے مسیحی نفس دیا جائے گا اور وہ روح الامین سے برکت دیا جائے گا.دوشنبہ تیرے کیا کہنے اے دوشنبہ تیرے اندر بابرکت روحیں آئیں گی.۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشانِ آسمانی ہے جس کو خدائے کریم جلّ شانہٗ نے ہمارے نبی کریم رؤف و رحیم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لئے ظاہر فرمایا ہے اور درحقیقت یہ نشان ایک مُردہ کے زندہ کرنے سے صد ہا درجہ اعلیٰ و اولیٰ و اکمل و افضل و اَتم ہے کیونکہ مُردہ کے زندہ کرنے کی حقیقت یہی ہے کہ جنابِ الٰہی میں دعا کرکے ایک رُوح واپس منگوایا جاوے اور ایسا مردہ زندہ کرنا حضرت مسیح اور بعض دیگر انبیاء علیہم السلام کی نسبت بائبل میں لکھا گیا ہے جس کے ثبوت میں معترضین کو بہت سی کلام ہے… مگر اس جگہ بفضلہ تعالیٰ و احسانہ و بہ برکات حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خداوند کریم نے اس عاجز کی دعا کو قبول کرکے ایسی بابرکت روح بھیجنے کا وعدہ فرمایا جس کی ظاہری و باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی.سو اگرچہ بظاہر یہ نشان احیاءِ موتیٰ کے برابر معلوم ہوتا ہے مگرغور کرنے سے معلوم ہوگا کہ یہ نشان مُردوں کے زندہ کرنے سے صد ہا درجہ بہتر ہے.مُردہ کی بھی رُوح ہی دعا سے واپس آتی ہے اور اس جگہ بھی دعا سے ایک رُوح ہی منگائی گئی ہے مگر اُن رُوحوں اور اِس رُوح میں لاکھوں کوسوں کا فرق ہے.‘‘ (اشتہار ۲۲؍مارچ ۱۸۸۶ء روز دوشنبہ.مجموعہ اشتہارات جلد ۱ صفحہ ۱۲۹،۱۳۰ مطبوعہ ۲۰۱۸ء)
خواتین مبارکہ سے جن میں سے تُو بعض کو اس کے بعد پائے گا تیری نسل بہت ہوگی اور میں تیری ذریّت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دُوں گا مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گےاور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی اور ہریک شاخ تیرے جدّی بھائیوں کی کاٹی جائے گی اور وہ جلد لاولد رہ کر ختم ہوجائے گی؎۱.اگر وہ توبہ نہ کریں گے تو خدا ان پر بلا پر بلا نازل کرے گا یہاں تک کہ وہ نابود ہوجائیں گے.اُن کے گھر بیواؤں سے بھر جائیں گے اور ان کی دیواروں پر غضب نازل ہوگا لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدا رحم کے ساتھ رجوع کرے گا.خدا تیری برکتیں اِرد گِرد پھیلائے گا اورایک اُجڑا ہوا گھر تجھ سے آباد کرے گا اور ایک ڈراؤنا گھر برکتوں سے بھر دے گاتیری ذریّت منقطع نہیں ہوگی اور آخری دنوں تک سر سبز رہے گی.خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہوجائے عزّت کے ساتھ قائم رکھے گا اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا.میں تجھے اُٹھاؤں گا اور اپنی طرف بُلا لُوں گا پر تیرا نام صفحۂ زمین سے کبھی نہیں اُٹھے گا اور ایسا ہوگا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلّت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے ناکام رہنے کے در پَے اور تیرے نابُود کرنے کے خیال میں ہیں وہ خود ناکام رہیں گے اور ناکامی اور نامرادی میں مریں گے لیکن خدا تجھے بکلّی کامیاب کرے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا.میں تیرے خالص اور دلی محبّوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور ان کے نفوس و اموال میں ۱ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں.’’جس وقت حضور نے دعویٰ کیا اُس وقت آپ کے خاندان میں ستّر کے قریب مرد تھے لیکن اب ان کے سوا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جسمانی یا روحانی اولاد ہیں ان ستّر میں سے کسی ایک کی بھی اولاد موجود نہیں.‘‘ (الحکم نمبر ۱۹ تا ۲۲ مورخہ ۲۸/۲۱ مئی و ۱۴/۷ جون ۱۹۴۳ء صفحہ ۱۰)
برکت دُوں گا اور اُن میں کثرت بخشوں گا اور وہ مسلمانوں کے اس دو سرے گروہ پر تابروز قیامت غالب رہیں گے جو حاسدوں اور معاندوں کا گروہ ہے.خدا اُنہیں نہیں بھُولے گا اور فراموش نہیں کرے گا اور وہ علیٰ حسب الاخلاص اپنا اپنا اَجر پائیں گے.تُو مجھ سے ایسا ہے جیسے انبیاء بنی اسرائیل (یعنی ظلّی طور پر اُن سے مشابہت رکھتا ہے) تُو مجھ سے ایسا ہے جیسی میری توحید.تُو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں.اور وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا بادشاہوں اور امیروں کے دلوں میں تیری محبّت ڈالے گا یہاں تک کہ وہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.اے منکرو اور حق کے مخالفو! اگر تم میرے بندہ کی نسبت شک میں ہو.اگر تمہیں اُس فضل و احسان سے کچھ انکار ہے جو ہم نے اپنے بندہ پر کیاتو اس نشانِ رحمت کی مانند تم بھی اپنی نسبت کوئی سچا نشان پیش کرو اگر تم سچے ہواور اگر تم پیش نہ کرسکو اور یاد رکھوکہ ہرگز پیش نہ کرسکو گے تو اُس آگ سے ڈروکہ جو نافرمانوں اور جھوٹوں اور حد سے بڑھنے والوں کے لئے تیار ہے.فقط.‘‘ ( اشتہار۲۰؍فروری۱۸۸۶ء.مجموعہ اشتہارات جلد ۱صفحہ ۱۲۵ تا ۱۲۷ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۱۸۸۶ء ’’ شایدچار ماہ کا عرصہ ہوا کہ اس عاجز پر ظاہر کیا گیا تھا کہ ایک فرزند قوی الطاقتین کامل الظاہر و الباطن تم کو عطا کیا جائے گا.سو اُس کا نام بشیرؔہوگا.اب تک میرا قیاسی طور پر خیال تھا کہ شاید وہ فرزند مبارک اسی اہلیہ سے ہوگا اب زیادہ تر الہام اس بات میں ہورہے ہیں کہ عنقریب ایک اور نکاح تمہیں کرنا پڑے گا اور جنابِ الٰہی میں یہ بات قرار پاچکی ہے کہ ایک پارسا طبع اور نیک سیرت اہلیہ تمہیں عطا ہوگی وہ صاحب ِ اولاد ہوگی.اس میں تعجب کی بات یہ ہے کہ جب الہام ہوا تو ایک کشفی عالم میں چار پھل مجھ کو دیئے گئے تین ان میں سے تو آم کے تھے مگر ایک پھل سبز رنگ بہت بڑا تھا.وہ اس جہان کے پھلوں سے مشابہ نہیں تھا.اگرچہ ابھی یہ الہامی بات نہیں ہے میرے دل میں یہ پڑا ہے کہ وہ پھل جو اس جہان کے پھلوں میں سے نہیں ہے وہی مبارک لڑکا ہے کیونکہ کچھ شک نہیں کہ پھلوں سے مُراد اولاد ہے.اور جبکہ ایک پارسا طبع اہلیہ کی بشارت دی گئی اور ساتھ ہی کشفی طور پر چار
پھل دیئے گئے جن میں سے ایک پھل الگ وضع کا ہے تو یہی سمجھا جاتا ہے.وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.‘‘ (از مکتوب بنام حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحبؓ.مکتوبات احمد جلد۲ صفحہ ۱۲،۱۳ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸۸۶ء ’’ان دنوں اتفاقاً نئی شادی کے لئے دو شخصوں نے تحریک کی تھی مگر جب ان کی نسبت استخارہ کیا گیا تو ایک عورت کی نسبت جواب ملا کہ اس کی قِسمت میں ذلّت و محتاجگی و بے عزتی ہے اور اس لائق نہیں کہ تمہاری اہلیہ ہو اور دُوسری کی نسبت اشارہ ہوا کہ اس کی شکل اچھی نہیں.گویا یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ صاحب ِ صورت و صاحب ِ سیرت لڑکا جس کی بشارت دی گئی ہے وہ برعایت مناسبت ظاہری اہلیہ جمیلہ و پارسا طبع سے پیدا ہوسکتا ہے.وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.‘‘ (از مکتوب بنام حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب ؓ.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۱۳ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) مارچ۱۸۸۶ء ’’اِس عاجز کے اشتہار مورخہ۲۰فروری۱۸۸۶ء پر جس میں ایک پیشگوئی دربارہ توَلُّد ایک فرزند صالح ہے جو بصفات مندرجہ اشتہار پیدا ہوگا… ایسا لڑکا بموجب وعدۂ الٰہی ۹ برس؎۱ کے عرصہ تک ضرور پیدا ہوگا.خواہ جلد ہو خواہ دیر سے.بہرحال اس عرصہ کے اندر پیدا ہوجائے گا.‘‘ (اشتہار ۲۲؍مارچ۱۸۸۶ء.مجموعہ اشتہارات جلد ۱صفحہ ۱۲۸ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.(الف)’’جن صفاتِ خاصہ کے ساتھ لڑکے کی بشارت دی گئی ہے کسی لمبی میعاد سے گو نو برس سے بھی دو چند ہوتی.اُس کی عظمت اور شان میں کچھ فرق نہیں آسکتا بلکہ صریح دلی انصاف ہریک انسان کا شہادت دیتا ہے کہ ایسی عالی درجہ کی خبر جو ایسے نامی اور اخصّ آدمی کے تولّد پر مشتمل ہے انسانی طاقتوں سے بالاتر ہے اور دعا کی قبولیت ہو کر ایسی خبر کا ملنا بےشک یہ بڑا بھاری آسمانی نشان ہے نہ یہ کہ صرف پیشگوئی ہے.‘‘ (اشتہار صداقت آثار مورخہ ۸؍اپریل۱۸۸۶ء.مجموعہ اشتہارات جلد ۱ صفحہ ۱۳۲ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) (ب) ’’وہ اگرچہ اب تک جو یکم دسمبر ۱۸۸۸ء ہے پیدا نہیں ہوا مگر خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق اپنی میعاد کے اندر ضرور پیدا ہوگا.زمین آسمان ٹل سکتے ہیں پر اس کے وعدوں کا ٹلنا ممکن نہیں.‘‘ (سبز اشتہار.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۴۵۳ حاشیہ) (ج) ’’میں جانتا ہوں اور محکم یقین سے جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدے کے موافق مجھ سے معاملہ کرے گا اور اگر ابھی اس موعود لڑکے کے پیدا ہونے کا وقت نہیں آیا تو دوسرے وقت میں وہ ظہور پذیر ہوگا اور اگر مدّتِ مقررہ سے ایک دن بھی باقی رہ جائے گا تو خدائے عزّوجلّ اُس دن کو ختم نہیں کرے گاجب تک اپنے وعدہ کو پورا نہ کرلے.‘‘ (اشتہار تکمیل تبلیغ مورخہ ۱۲؍ جنوری۱۸۸۹ء.مجموعہ اشتہارات جلد ۱ صفحہ ۲۰۸ حاشیہ مطبوعہ ۲۰۱۸ء)
۸؍ اپریل ۱۸۸۶ء (الف) ’’ بعد اشاعت اشتہار مندرجہ؎۱بالا دوبارہ اس امر کے انکشاف کے لئے جناب الٰہی میں توجہ کی گئی تو آج ۸؍اپریل ۱۸۸۶ء میں اللہ جلّ شانہٗ کی طرف سے اس عاجز پر اس قدر کھل گیا کہ ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے جو ایک مدّتِ حمل سے تجاوز نہیں کرسکتا.اِس سے ظاہر ہے کہ غالباً ایک لڑکا ابھی ہونے والا ہےیا بالضرور اُس کے قریب حمل میں لیکن یہ ظاہر نہیں کیا گیاکہ جو اَب پیدا ہوگایہ وہی لڑکا ہے یا وہ کسی اور وقت میں نوبرس کے عرصہ میں پیدا ہوگا.‘‘ (اشتہار صداقت آثار ۸؍اپریل ۱۸۸۶ء.مجموعہ اشتہارات جلد ۱صفحہ ۱۳۲،۱۳۳.مطبوعہ ۲۰۱۸ء) (ب) ’’ عربی الہام کے یہ دو فقرہ ہیں.۱ نَـازِلٌ مِّنَ السَّمَآءِ.۲ وَ نَـزَلَ مِنَ السَّمَآءِ.جو نزول یا قریب النزول پر دلالت کرتے ہیں.‘‘ (اشتہار صداقت آثار ۸؍اپریل ۱۸۸۶ء.مجموعہ اشتہارات جلد ۱صفحہ ۱۳۳ حاشیہ.مطبوعہ ۲۰۱۸ء) (ج) ’’ پھر بعد میں اس کے یہ بھی الہام ہوا کہ انہوں نے کہا کہ آنے والا یہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ تکیں.‘‘ (اشتہار صداقت آثار ۸؍اپریل ۱۸۸۶ء.مجموعہ اشتہارات جلد ۱صفحہ ۱۳۳.مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۱۸۸۶ء ’’ جن؎۲ دنوں لڑکی پیدا ہوئی تھی اور لوگوں نے غلط فہمی پیدا کرنے کے لئے شور مچایا کہ پیشگوئی غلط نکلی ان دنوں میں یہ الہام ہوا تھا.دشمن کا بھی خوب وار نکلا تِس پر بھی وہ وار پار نکلا یعنی ۱ اشتہار۲۲؍ مارچ ۱۸۸۶ء.(مرزا بشیر احمد) ۲ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر میں ۱۵؍اپریل۱۸۸۶ء میں لڑکی پیدا ہوئی جس کانام عصمتؔ رکھا گیا اس لڑکی کی پیدائش پر مخالفین نے یہ شور مچایا کہ لڑکے کے متعلق جو پیشگوئی تھی وہ غلط نکلی کیونکہ موجودہ حمل سے لڑکی پیداہوئی ہے نہ کہ لڑکا.مگر یہ اعتراض بالکل غلط تھا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کہیں نہیں لکھا تھا کہ موجودہ حمل سے ہی ضرور لڑکا پیدا ہوگا بلکہ الہام ۸؍اپریل ۱۸۸۶ء کی ذیل میں یہ صراحت کی گئی تھی کہ عنقریب ایک لڑکا ہوگا خواہ موجودہ حمل سے ہو یا اس کے قریب آئندہ حمل سے.چنانچہ عصمت کی پیدائش کے بعد دوسرے حمل سے بشیر اوّل پیدا ہوگیا.
یعنی مخالفوں نے تو یہ شور مچایا ہے کہ پیشگوئی غلط نکلی مگر جلد فہیم لوگ سمجھ؎۱جائیں گے اور ناواقف شرمندہ ہوں گے.‘‘ (الحکم جلد۶ نمبر۱۶ مورخہ۳۰؍اپریل۱۹۰۲ء صفحہ۷ ) ۲۶؍اپریل ۱۸۸۶ء ’’شیخ مہر علی کی نسبت ضرور قادیان میں ۲۶؍اپریل۱۸۸۶ء میں ایک خطرناک خواب آئی تھی جس کی یہی تعبیر تھی کہ ان پر ایک بڑی بھاری مصیبت نازل ہوگی چنانچہ ان ہی دنوں میں ان کو اطلاع بھی دی گئی تھی.خواب یہ تھی کہ اُن کی فرشِ نشست کو آگ لگ گئی اور ایک بڑا تہلکہ برپا ہوا اور ایک پُرہول شعلہ آگ کا اُٹھا اور کوئی نہیں تھا جو اُس کو بُجھاتا.آخر میں مَیں نے بار بار پانی ڈال کر اُس کو بجھادیا.؎۲ پھر آگ نظر نہیں آئی مگر دھواں رہ گیا.مجھے معلوم نہیں کہ کس قدر اُس آگ نے جلادیا مگر ایسا ہی دل میں گذرا کہ کچھ تھوڑا نقصان ہوا.یہ خواب تھی.یہ خط؎۳شیخ صاحب کے حوالات میں ہونے کے بعد اُن کے گھر سے اُن کے بیٹے ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) چنانچہ اس بشارت کے مطابق عصمتؔ کی پیدائش کے بعد ۷؍اگست ۱۸۸۷ء کو ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام بشیر احمد رکھا گیا جس کی پیدائش سے ۲۰؍فروری۱۸۸۶ء والے الہام کا یہ فقرہ پورا ہوا کہ ’’خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے.‘‘ نیز۸؍اپریل۱۸۸۶ء کا یہ الہام پورا ہوا کہ ’’ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے.‘‘ ۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’اسی وقت میرے دل میں خدا تعالیٰ کی طرف سے بہ یقین کامل یہ تعبیر ڈالی گئی کہ شیخ صاحب پر اور اُن کی عزت پر سخت مصیبت آئے گی اور میرا پانی ڈالنا یہ ہوگا کہ آخر میری ہی دُعا سے نہ کسی اور و جہ سے وہ بلا دُور کی جائے گی… آخر قریباً چھ ماہ گذرنے پر ایسا ہی ہوا اور میں انبالہ چھاؤنی میں تھا کہ ایک شخص محمد بخش نام شیخ صاحب کے فرزند جان محمد کی طرف سے میرے پاس پہنچا اور بیان کیا کہ فلاں مقدّمہ میں شیخ صاحب حوالات میں ہوگئے.میں نے اُس شخص سے اپنے خط کا حال دریافت کیا جس میں چھ ماہ پہلے اس بلا کی اطلاع دی گئی تھی تو اُس وقت محمد بخش نے اِس خط کے پہنچنے سے لاعلمی ظاہر کی لیکن آخر خود شیخ صاحب نے رہائی کے بعد کئی دفعہ اقرار کیا کہ وہ خط ایک صندوق میں سے مل گیا.پھر شیخ صاحب تو حوالات میں ہوچکے تھے لیکن اُن کے بیٹے جان محمد کی طرف سے شاید محمد بخش کے دستخط سے جو ایک شخص ان کے تعلق داروں میں سے ہے کئی خط اِس عاجز کے نام دُعا کے لئے آئے اور اللہ جلّ شانہٗ جانتا ہے کہ کئی راتیں نہایت مجاہدہ سے دُعائیں کی گئیں اور اوائل میں صورت قضاء و قدر کی نہایت پیچیدہ اور مبرم معلوم ہوتی تھی لیکن آخر خدا تعالیٰ نے دعا قبول کی اور اُن کے بارے میں رہا ہونے کی بشارت دے دی اور اُس بشارت سے اُن کے بیٹے کو مختصر لفظوں میں اطلاع دی گئی… دعا بہت کی گئی اور آخر فقرہ میں بریّت اور فضل الٰہی کی بشارت دی گئی تھی وہ الفاظ اگرچہ بہت کم تھے مگر قَلَّ وَدَلَّ تھے.‘‘ (ضمیمہ آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵صفحہ ۶۵۳،۶۵۴) ۳ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یعنی جو خط اس خواب کی اطلاع کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور کو لکھا تھا.
تھوڑا نقصان ہوا.یہ خواب تھی.یہ خط؎۳شیخ صاحب کے حوالات میں ہونے کے بعد اُن کے گھر سے اُن کے بیٹے چ لوگ خوب جانتے ہیں کہ کئی سال ہوئے کہ ہم نے اسی؎۱کے متعلق مجملاً ایک پیشگوئی کی تھی یعنی یہ کہ ہماری برادری میں سے ایک شخص احمد بیگ نام فوت ہونے؎۲والا ہے.‘‘ (اشتہار ۱۰؍جولائی۱۸۸۸ء.مجموعہ اشتہارات جلد ۱ صفحہ ۱۷۹ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۳؍اگست۱۸۸۶ء ’’ہم پر آج بھی جو تیسری اگست ۸۶ء ہے منجانب اللہ اُس؎۳ کی نسبت معلوم ہوا ہے کہ اگر وہ توبہ نہ کرےتو اُس کی بے راہیوں کا وبال جلد تر اُسے درپیش ہے اور اگر یہ معمولی رنجوں میں سے کوئی رنج ہو تو اُس کو پیشگوئی کا مصداق مت سمجھو لیکن اگر ایسا رنج پیش آیا جو کسی کے خیال گمان میں نہیں تھا تو پھر سمجھنا چاہیے کہ یہ مصداقِ پیشگوئی ہے لیکن اگر وہ باز آنے والا ہے تو پھر بھی انجام بخیر ہوگا یا تنبیہ کے بعد راحت پیدا ہوجائے گی.‘‘ (سرمہ چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۳۸، ۲۳۹) ۱۳؍ فروری ۱۸۸۷ء ’’آج مجھے فجر کے وقت یوں القا ہوا.یعنی بطور الہام عبدالباسط ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے براہین احمدیہ کے بعض شروع کے حصّے نواب صدیق حسن خان کو بھیج کر انہیں تحریک کی تھی کہ وہ اس کتاب کی اشاعت میں حصّہ لیں جس کے جواب میں نواب صاحب نے لکھا کہ دینی مباحثات کی کتابوں کا خریدنا یا اُن میں کچھ مدد دینا خلافِ منشاء گورنمنٹ انگریزی ہے اِس لئے اس ریاست سے خرید وغیرہ کی کچھ اُمید نہ رکھیں.نواب صاحب کے اس جواب کا ذکر کرکے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے براہین احمدیہ حصّہ چہارم کے ضمیمہ اشتہار ’’مسلمانوں کی نازک حالت اور انگریزی گورنمنٹ‘‘ میں تحریر فرمایا.’’ہم بھی نواب صاحب کو اُمید گاہ نہیں بناتے بلکہ اُمید گاہ خداوند ِ کریم ہی ہے اور وہی کافی ہے (خدا کرے گورنمنٹ انگریزی نواب صاحب پر بہت راضی رہے).‘‘ جس کے بعد نواب صاحب پر گورنمنٹ انگریزی کسی معاملہ میں ناراض ہوئی اور ان سے نوابی کا خطاب واپس لے لیا.اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.’’نواب صاحب صدیق حسن خان پر جو ابتلاء پیش آیا وہ بھی میری ایک پیشگوئی کا نتیجہ ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے انہوں نے میری کتاب براہین احمدیہ کو چاک کرکے واپس بھیج دیا تھا میں نے دعا کی تھی کہ ان کی عزّت چاک کر دی جائے.سو ایسا ہی ظہور میں آیا.‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۴۷۰ حاشیہ) نواب صاحب کو جب اپنے اس قصور کا احساس ہوا تو حضرت اقدس کی خدمت میں خط کے ذریعہ دُعا کی درخواست کی.
معلوم نہ تھا کہ یہ کس کی طرف اشارہ ہے.آج آپ کے خط میں عبدالباسط دیکھا.شاید آپ کی طرف اشارہ ہو؎۴.وَاللہُ اَعْلَمُ.‘‘ (از مکتوب بنام حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحبؓ.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۲۶ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) اپریل ۱۸۸۷ء ’’ چند روز ہوئے میں نے اس قرضہ کے تردُّد میں خواب میں دیکھا تھا کہ میں ایک نشیب گڑھے میں کھڑا ہوں اور اُوپر چڑھنا چاہتا ہوں مگر ہاتھ نہیں پہنچتا.اتنے میں ایک بندۂ خدا آیا، اُس نے اوپر سے میری طرف ہاتھ لمبا کیا اور میں اس کے ہاتھ کو پکڑ کر اُوپر کو چڑھ گیا اور میں نے چڑھتے ہی کہا کہ خدا تجھے اس خدمت کا بدلہ دیوے.آج آپ کا خط پڑھنے کے ساتھ میرے دل میں پختہ طور پر یہ جم گیا کہ وہ ہاتھ پکڑنے والا جس سے رفع تردّد ہوا آپ ہی ہیں کیونکہ جیسا کہ میں نے خواب میں ہاتھ پکڑنے والے کے لئے دُعا کی ایسا ہی برقّتِ قلب خط کے پڑھنے سے آپ کے لئے مُنہ سے دلی دُعا نکل گئی.مُسْتَجَابٌ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ تَعَالٰی.‘‘ (از مکتوب بنام حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب ؓ.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۳۳ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸۸۷ء ’’ ایک دفعہ مولوی محمد حسین بٹالوی کا ایک دوست انگریزی خواں نجف علی نام (جو کہ کابل میں بھی گیا تھا اور شاید اب بھی وہاں ہے) میرے پاس آیا اور اُس کے ہمراہ مـحبّی مرزا خدا بخش صاحب؎۱ بھی تھے.ہم تینوں سیر کے لئے باہر گئے تو راستہ میں کشفی طور پر مجھے معلوم ہوا کہ نجف علی نے میری مخالفت اور نفاق میں کچھ باتیں کی ہیں چنانچہ یہ کشف اُس کو سنایا گیاتو اُس نے اقرار کیا کہ یہ بات صحیح ہے.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۸۴) ۱۸۸۷ء ’’ ایک دفعہ ہم ریل گاڑی پر سوار تھے اور لدھیانہ کی طرف جارہے تھے کہ الہام ہوا.’’نصف ترا نصف عمالیق را‘‘ ۱ یعنی مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری.(شمس) ۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) اس پیشگوئی کے مطابق مرزا احمد بیگ ۳۰؍ستمبر۱۸۹۲ء کو بمقام ہوشیار پور فوت ہوگیا.۳ یعنی مرزا امام الدین.(مرزا بشیر احمد) ۴ (نوٹ از عرفانی صاحبؓ) حضرت حکیم الامت نے بارہا فرمایا کہ میرا الہامی نام عبدالباسط ہے.(مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۲۶ مطبوعہ ۲۰۰۸ء)
اور اس کے ساتھ یہ تفہیم ہوئی کہ امام بی بی ؎۲جو ہمارے جدّی شرکاء میں سے ایک عورت تھی مرجائے گی اور اس کی زمین نصف ہمیں اور نصف دیگر شرکاء کو مل جائے گی.یہ الہام ان دوستوں کو جو اُس وقت ہمارے ساتھ تھے سنادیا گیا تھا چنانچہ بعد میں ایسا ہی ہوا کہ عورت مذکور مر گئی اور اس کی نصف زمین ہمیںاور نصف بعض دیگر شرکاء کو ملی.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ ۵۹۱، ۵۹۲) (قریباً) ۱۸۸۷ء ’’ایک دفعہ ہمیں موضع کُنجراں ضلع گورداسپور کو جانے کا اتفاق ہوا اور شیخ حامد علی ساکن تھِہ غلام نبی ہمارے ساتھ تھا.جب صبح کو ہم نے جانے کا قصد کیا تو الہام ہوا کہ اس سفر میں تمہارا اور تمہارے رفیق کا کچھ نقصان ہوگا چنانچہ راستہ میں شیخ حامد علی کی ایک چادر اور ہمارا ایک رُومال گُم ہوگیا.اس وقت حامد علی کے پاس وہی چادر تھی.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ ۶۰۷،۶۰۸) ۱۸۸۷ء ’’بیج ناتھ برہمن ولد بھگت رام کو کشفی طور پر اطلاع دی گئی تھی کہ ایک برس کے عرصہ تک تجھ پر مصیبت نازل ہونے والی ہے اور کوئی خوشی کی تقریب بھی ہوگی.چنانچہ اس پیشگوئی پر اس کے دستخط کرائے گئے جو اَب تک موجود ہیں.پھر بعد ازاں ایک برس کے عرصہ میں اس کا باپ جوانی کی عمر میں ہی فوت ہوگیا اور اسی دن ان کی شادی کی تقریب بھی پیش تھی یعنی کسی کا بیاہ تھا.‘‘ (شحنہء حق.روحانی خزائن جلد۲صفحہ ۳۸۴) ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) پیغام صلح جلد ۲۳نمبر۷۷ صفحہ۴ سے مرزا خدابخش صاحب کے اپنے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ اور مولوی نجف علی قادیان آئے تو اُن دنوں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی امریکہ کے ایک باشندہ الیگزنڈر رسل وِب۳؎ کے ساتھ خط و کتابت ہورہی تھی.حضورؑ نے سیر میں یہ خواب سنائی اور مولوی نجف علی نے اقرار کیا کہ واقعی مولوی محمد حسین بٹالوی سے اُن کی باتیں سن کر آپ کا سخت مخالف ہوگیا تھا اور میں نے ارادہ کرلیا تھا کہ آپ کی کوئی بات قبول نہ کروں گا اور شحنۂ حق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ ۱۸۸۷ء کا ہے کیونکہ اس میں الیگزنڈر رسل وِب کی خط و کتابت درج ہے.۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) امام بی بی مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کی ہمشیرہ تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک چچا زاد بھائی کی جو مفقود الخبرہوچکا تھا، بیوہ تھی.۳ Alexander Russel Webb
۱۱؍جولائی ۱۸۸۷ء ’’ میں نے آج خواب میں دیکھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہمارے مکان پر موجود ہیں.دل میں خیال آیا کہ ان کو کیا کھلائیں، آم تو خراب ہوگئے ہیں.تب اور آم غیب سے موجود ہوگئے.واللہ اعلم اس کی کیا تعبیر ہے.‘‘ (از مکتوب بنام چودھری رستم علی صاحبؓ.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۵۰۷ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۷؍اگست ۱۸۸۷ء ’’اِنَّـآ اَرْسَلْنَاہُ شَاھِدًا وَّ مُبَشِّـرًا وَّ نَذِ یْـرًا کَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیْہِ ظُلُمَاتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ بَـرْقٌ کُلُّ شَیْءٍ تَـحْتَ قَدَمَیْہِ.یعنی ہم نے اس بچہ کو شاہد اور مبشر اور نذیر ہونے کی حالت میں بھیجا ہے اور یہ اُس بڑے مینہہ کی مانند ہے جس میں طرح طرح کی تاریکیاں ہوں اور رعد اور برق بھی ہو.یہ سب چیزیں اُس کے دونوں قدموں کے نیچے ہیں.؎۱ ‘‘ (سبز اشتہار.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۴۶۲) ۱۸۸۸ء (الف) ’’اُس؎۱ لڑکے کی پیدائش کے بعد اس کی طہارت باطنی اور صفائی استعداد کی تعریفیں الہام میں بیان کی گئیں اور پاکؔ اور نورؔاللہ اور یداللہؔ اور مقدسؔ اور بشیر ؔ اور خدا باماست اس کا نام رکھا گیا… خدا تعالیٰ نے پسر متوفّٰی کے اپنے الہام میں کئی نام رکھے.اُن میں سے ایک بشیر ؔ اورایک عنمواؔئیل اور ایک خدا باماست و رحمتِ حق اور ایک یَدُ اللہِ بِـجَلَالٍ وَجَـمَالٍ ہے.‘‘ (از مکتوب بنام حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحبؓ.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۷۴ و ۸۰ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) (ب) ’’خدا تعالیٰ نے بعض الہامات میں یہ ہم پر ظاہر کیا تھا کہ یہ لڑکا؎۲ جو فوت ہوگیا ہے ذاتی استعدادوں میں اعلیٰ درجہ کا ہے اور دُنیوی جذبات بکلّی اس کی فطرت سے مسلوب اور دین کی چمک اِس میں بھری ہوئی ہے اور روشن فطرت اور عالی گوہر اور صدّیقی رُوح اپنے اندر رکھتا ہے اور اُس کا نام بارانِ رحمت اور مبشرؔ اور بشیر ؔ اور یَداؔللہ بجلالٍ وجمالٍ وغیرہ اسماء بھی ہیں.سو جو کچھ خدا تعالیٰ نے اپنے الہامات کے ذریعہ سے اُس کی صفات ظاہر کی یہ سب اُس کی صفائی استعداد کے متعلق ہیں جن کے لئے ظہور فی الخارج کوئی ضروری امر نہیں.‘‘ ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’الہامی عبارت میں جیسا کہ ظلمت کے بعد رعد اور روشنی کا ذکر ہے یعنی جیسا کہ اس کی عبارت کی ترتیب بیانی سے ظاہر ہوتا ہےکہ پسر متوفّٰیکے قدم اُٹھانے کے بعد پہلے ظلمت آئے گی اور پھر رعد اور برق.اسی ترتیب کے رو سے اس پیشگوئی کا پورا ہونا شروع ہوا.یعنی پہلے بشیر کی موت کی و جہ سے ابتلاء کی ظلمت وارد ہوئی اور پھر اُس کے بعد رعد اور روشنی ظاہر ہونے والی ہے اور جس طرح ظلمت ظہور میں آگئی اسی طرح یقیناً جاننا چاہیے کہ کسی دن وہ رعد اور روشنی بھی ظہور میں آجائے گی جس کا وعدہ دیا گیا ہے.جب وہ روشنی آئے گی تو ظلمت
ظاہر کی یہ سب اُس کی صفائی استعداد کے متعلق ہیں جن کے لئے ظہور فی الخارج کوئی ضروری امر نہیں.‘‘ (سبز اشتہار.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۴۵۳،۴۵۴) ۱۸۸۸ء ’’ اور اُس؎۳کی تعریف میں ایک الہام ہوا جَآءَکَ النُّوْرُ وَ ھُوَ اَفْضَلُ مِنْکَ یعنی کمالات ِ استعدادیہ میں وہ تجھ سے افضل ہے.‘‘ (از مکتوب بنام حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحبؓ.مکتوبات احمد جلد ۲صفحہ ۸۰ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۵؍جنوری۱۸۸۸ء ’’چند روز کا ذکر ہے کہ پرانے کاغذات کو دیکھتے دیکھتے ایک پرچہ نکل آیا جو میں نے اپنے ہاتھ سے بطور یادداشت کے لکھا تھا.اُس میں تحریر تھا کہ یہ پرچہ ۵؍جنوری ۱۸۸۸ء کو لکھا گیا ہے.مضمون یہ تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ مولوی محمد حسین صاحب نے کسی امر میں مخالفت کرکے کوئی تحریر چھپوائی ہے اور اُس کی سُرخی میری نسبت ’’کمینہ‘‘ رکھی ہے.معلوم نہیں اس کے کیا معنے ہیں اور وہ تحریر پڑھ کر کہا ہے کہ آپ کو میں نے منع کیا تھا پھر آپ نے کیوں ایسا مضمون چھپوایا.ھٰذَا مَارَاَیْتُ واللّٰہُ اَعْلَمُ بِتَأْوِیْــلِہٖ.‘‘ (از مکتوب بنام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی.مکتوبات احمد جلد ۱ صفحہ ۳۱۳مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۴؍فروری۱۸۸۸ء ’’۱۳،۱۴؍فروری۱۸۸۸ء کی گذشتہ رات مجھے آپ کی نسبت دو۲ ہولناک خوابیں آئی تھیں جن سے ایک سخت ہم ّ و غم مصیبت معلوم ہوتی تھی.میں نہایت وحشت و تردُّد میں تھا کہ یہ کیا بات ہے اور غنودگی میں ایک الہام بھی ہوا کہ جو مجھے بالکل یاد نہیں رہا.چنانچہ کل سندرؔداس کی وفات اور انتقال کا خط پہنچ گیا.اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.معلوم ہوتا ہے یہ وہی غم تھا جس کی طرف اشارہ تھا.‘‘ (از مکتوب بنام چودھری رستم علی صاحبؓ.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۵۳۸ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) بقیہ حاشیہ.کے خیالات کو بالکل سینوں اور دلوں سے مٹا دے گی اور جو جو اعتراضات غافلوں اور مُردہ دلوں کے مُنہ سے نکلے ہیں ان کو نابود اور ناپدید کردے گی… سو اَے وے لوگو! جنہوں نے ظلمت کو دیکھ لیا حیرانی میں مت پڑو بلکہ خوش ہو اور خوشی سے اُچھلو کہ اس کے بعد اب روشنی آئے گی.‘‘ (سبز اشتہار.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۴۶۲،۴۶۳ ) ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) بشیر اوّل جو ۷؍اگست۱۸۸۷ء کو پیدا ہوا اور۴؍نومبر ۱۸۸۸ء کو فوت ہوگیا.۲،۳ یعنی بشیر اوّل.(شمس)
قریباً ۱۸۸۸ء ’’ایک دفعہ ہمیں لدھیاؔنہ سے پٹیالہؔ جانے کا اتفاق ہوا.روانہ ہونے سے پہلے الہام ہوا کہ ’’اس سفر میں کچھ نقصان ہوگا اور کچھ ہم ّ و غم پیش آئے گا‘‘ اس پیشگوئی کی خبر ہم نے اپنے ہمراہیوں کو دے دی چنانچہ جبکہ ہم پٹیالہ سے واپس آنے لگے تو عصر کا وقت تھا ایک جگہ ہم نے نماز پڑھنے کے لئے اپنا چوغہ اُتار کرسید محمد حسن خان صاحب وزیر ریاست کے ایک نوکر کو دیا تاکہ وضو کریں.پھر جب نماز سے فارغ ہوکر ٹکٹ لینے کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو معلوم ہوا کہ جس رومال میں روپے باندھے ہوئے تھے وہ رومال گر گیا ہے.تب ہمیں وہ الہام یاد آیا کہ اس نقصان کا ہونا ضروری تھا.پھر جب ہم گاڑی پر سوار ہوئے تو راستہ میں ایک اسٹیشن دوراؔہہ پر ہمارے ایک رفیق کو کسی مسافر انگریز نے محض دھوکہ دہی سے اپنے فائدہ کے لئے کہہ دیاکہ لودیانہ آگیا ہے چنانچہ ہم اُس جگہ سب اُتر پڑے اور جب ریل چل دی تب ہم کو معلوم ہوا کہ یہ کوئی اور اسٹیشن تھا اور ایک بیابان میں اُترنے سے سب جماعت کو تکلیف ہوئی اور اس طرح پر الہام مذکورہ کا دوسرا حصّہ بھی پورا ہوگیا.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد۱۸صفحہ ۶۰۹،۶۱۰) مئی ۱۸۸۸ء ’’ایک بار فتح مسیح نام ایک عیسائی نے کہا تھا کہ مجھے الہام ہوتا ہے.میں نے جب اُسے کہا کہ تو پیشگوئی کر، تو گھبرا یا اورمجھے کہا کہ ایک مضمون بند لفافہ میں رکھا جاوے اور آپ اس کا مضمون بتادیں.مجھے خدا تعالیٰ نے اطلاع دی کہ ’’تُواس کو قبول کرلے‘‘ جب میں نے اس کو بھی قبول کرلیا تو کئی سو آدمیوں کے مجمع میں آخر پادری وائٹ بریخٹ۱؎ نے کہا کہ یہ فتح مسیح جھوٹھا ہے.‘‘ (الحکم جلد۶ نمبر ۵ مورخہ ۷؍ فروری ۱۹۰۲ء صفحہ ۴ کالم نمبر ۳) مئی ۱۸۸۸ء (الف) ’’اِنَّ؎۲ اللّٰہَ رَاٰی اَبْنَآءَ عَـمِّیْ وَغَیْرَ ھُمْ مِنْ شُعُوْبِ اَبِیْ وَ اُمِّیْ اَلْمَغْمُوْرِیْنَ فِی الْمُھْلِکَاتِ…… وَالْمُنْکِرِیْنَ لِوُجُوْدِ اللّٰہِ وَمِنَ الْمُفْسِدِیْنَ…… وَرَاٰی اَنَّـھُمْ یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْکَرِ وَالشُّرُوْرِ.وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ…… وَلَا یَتُوْبُوْنَ مِنْ سَبِّ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) بَلْ کَانُوْا عَلَیْہِ مِنَ الْمُدَاوِمِیْنَ…… وَبَیْنَـمَاھُمْ کَذَالِکَ اِذِ اصْطَفَانِیْ رَبِّیْ لِتَجْدِیْدِ دِیْنِہٖ …… وَ رَزَقَنِیْ مِنَ الْاِلْھَامَاتِ وَالْمُکَالَمَاتِ وَ الْمُخَاطَبَاتِ وَالْمُکَاشَفَاتِ رِزْقًا حَسَنًا…… فَطَغَوْا وَبَغَوْا وَاسْتَدْعَوُا الْاٰیَـاتِ اِسْتِـھْزَآءً وَّ قَالُوْا لَانَعْلَمُ اِلٰھًا یُکَلِّمُ اَحَدًا…… فَلْیَاْتِنَا بِاٰیَۃٍ اِنْ کَانَ مِنَ
الصَّادِقِیْنَ…… وَکَذَالِکَ سَدَ رُوْا فِیْ غَلَوَاتِـھِمْ وَجَـمَحُوْا فیْ جَھَلَاتِـھِمْ وَسَدَ لُوْا ثَـوْبَ الْخُیَلَآءِ یَـوْمًا فَیَوْمًا.حَتّٰی بَدَا لَھُمْ اَنْ یُّشِیْعُوْا خُزَعْبِلَاتِـھِمْ وَ یَصْطَادُوا السُّفَھَآءَ بِتَلْبِیْسَاتِھِمْ.فَکَتَبُوْا کِتَابًا کَانَ فِیْہِ سَبُّ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَسَبُّ کَلَامِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَاِنْکَارُ وُجُوْدِ الْبَارِیِٔ عَزَّ اسْـمُہٗ.وَمَعَ ذَالِکَ طَلَبُوْا فِیْہِ اٰیَاتِ صِدْقِیْ مِنِّیْ وَ اٰیَاتِ وُجُوْدِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَاَرْسَلُوْا کِتَابَـھُمْ فِی الْاٰفَاقِ وَالْاَقْطَارِ وَاَعَانُوْا بِـھَاکَفَرَۃَ الْھِنْدِ وَعَتَوْا عُتُوًّا کَبِیْرًا مَّا سُمِعَ مِثْلُہٗ فِی الْفَرَاعِنَۃِ الْاَوَّلِیْنَ.فَلَمَّا بَلَغَنِیْ کِتَا.بُـھُمُ الَّذِيْ کَانَ قَدْ صَنَّفَہٗ کَبِیْرُھُمْ فِی الْـخُبْثِ وَالْعُمُرِ…… فَاِذَا الْکَلِمَاتُ کَلِمَاتٌ تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْـھَا…… فَغَلَّقْتُ الْاَ بْوَابَ وَدَعَوْتُ الرَّبَّ الْوَھَّابَ.وَطَرَحْتُ بَیْنَ یَدَیْہِ وَخَرَرْتُ اَمَامَہٗ سَاجِدًا…… وَ قُلْتُ یَـا رَبِّ یَـا رَبِّ انْصُـرْ عَبْدَ.کَ وَاخْذُ.لْ اَعْدَآ.ئَکَ.اِسْتَجِبْنِیْ یَـا رَبِّ اسْتَجِبْنِیْ.اِلَامَ یُسْتَـھْزَءُ بِکَ وَ بِـرَسُوْلِکَ.وَ حَتَّامَ یُکَذِّ.بُـوْنَ کِتَا.بَکَ وَ یَسُبُّوْنَ نَبِیَّکَ.بِـرَحْـمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ یَـا حَیُّ یَـا قَیُّوْمُ یَـا مُعِیْنُ.فَرَحِـمَ رَبِّیْ عَلٰی تَضَرُّعَاتِیْ وَزَفَرَاتِیْ وَ عَبَرَاتِیْ وَنَادَانِیْ وَقَالَ.اِنِّیْ رَاَیْتُ عِصْیَانَـھُمْ وَطُغْیَانَـھُمْ فَسَوْفَ اَضْرِبُـھُمْ بِاَنْوَاعِ الْاٰفَاتِ اُبِیْدُ.ھُمْ مِّنْ تَـحْتِ السَّمٰوٰتِ وَ سَتَنْظُرُ مَا اَفْعَلُ بِـھِمْ وَکُنَّاعَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَادِرِیْنَ.اِنِّیْٓ اَجْعَلُ نِسَآءَ ھُمْ اَرَامِلَ وَ اَبْنَآءَھُمْ ۱ Reverend White Brecht ۲ (ترجمہ ازمرتّب) اللہ تعالیٰ نے میرے جدّی بھائیوں اور قریبیوں کو دیکھا کہ وہ مہلک امور میں منہمک ہیں… اور اللہ تعالیٰ کے وجود کے منکر اور مفسد لوگ ہیں … اور اُس نے دیکھا کہ وہ لوگوں کو بدیوں اور شرارتوں کی طرف بلاتے اور نیکی کے کاموں سے روکتے ہیں … اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بد زبانی سے باز نہیں آتے بلکہ اس پر اصرار کرتے ہیں… اسی دَوران میں اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے دین کی تجدید کے لئے چُن لیا… اور اپنے الہامات، مخاطبات اور مکاشفات سے مجھے بہرہ ور کیا… جس پر اُنہوں نے سرکشی کی اور تمسخر کے طور پر مجھ سے نشانات کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ہمیں ایسے معبود کا کوئی علم نہیں جو کسی سے کلام کرتا ہو… اور اگر یہ شخص سچا ہے تو ہمیں کوئی نشان دکھائے… اسی طرح یہ لوگ اپنی حد سے بڑھتے گئے اور اپنی جہالتوں میں سرکش ہوتے گئے اور ان کا تکبر روز بروز بڑھتا گیا حتیٰ کہ انہوں نے اپنے گندے خیالات کی اشاعت شروع کردی اور کم عقل لوگوں کو اپنے فریبوں کا شکار بنانے لگے چنانچہ انہوں نے ایک گندہ اشتہار نکالا ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دی ہیں اور قرآن کریم کے متعلق بد زبانی کی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ہستی کا انکار کیا ہے اور ساتھ ہی مجھ سے میری سچائی کے متعلق نشانات کا مطالبہ کیا اور اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت مانگا ہے اور انہوں نے اپنا یہ اشتہار
یَتَامٰی وَ بُیُوْتَـھُمْ خَرِبَۃً لِّیَذُوْقُوْا طَعْمَ مَا قَالُوْا وَمَا کَسَبُوْا.وَلٰکِنْ لَّآ اُھْلِکُھُمْ دَفْعَۃً وَّاحِدَ.ۃً بَلْ قَلِیْلًا قَلِیْلًا لَعَلَّھُمْ یَـرْجِعُوْنَ وَیَکُوْنُوْنَ مِنَ التَّوَّابِیْنَ اِنَّ لَعْنَتِیْ نَازِلَۃٌ عَلَیْـھِمْ وَعَلٰی جُدْرَانِ بُیُوْتِـھِمْ وَعَلٰی صَغِیْرِھِمْ وَکَبِیْرِھِمْ وَنِسَآءِھِمْ وَرِجَالِھِمْ وَ نَزِیْلِھِمُ الَّذِیْ دَخَلَ اَبْوَابَـھُمْ.وَکُلُّھُمْ کَانُوْا مَلْعُوْنِیْنَ.اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَـمِلُوا الصَّالِـحَاتِ وَقَطَعُوْا تَعَلُّقَھُمْ مِّنْھُمْ وَبَعُدُوْا مِنْ مَّـجَالِسِھِمْ فَاُولٰٓئِکَ مِنَ الْمَرْحُوْمِیْنَ.ھٰذِہٖ خُلَاصَۃُ مَآ اَلْھَمَنِیْ رَبِّیْ.فَبَلَّغْتُ رَسَالَاتِ رَبِّیْ فَـمَا خَافُوْا وَمَا صَدَّقُوْا بَلْ زَادُوْاطُغْیَانًا وَّکُفَرًا وَّظَلُّوْایَسْتَھْزِءُوْنَ کَاَعْدَآءِ الدِّیْنِ.فَـخَاطَبَنِیْ رَبِّیْ وَقَالَ: اِنَّـا سَنُرِیْـھِمْ اٰیَـاتٍ مُّبْکِیَۃً وَّ نُنَزِّلُ عَلَیْھِمْ ھُمُوْمًا عَـجِیْبَۃً.وَ اَمْرَاضًا غَرِیْبَۃً.وَنَـجْعَلُ لَھُمْ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَنَصُبُّ عَلَیْھِمْ مَصَآئِبَ فَلَا یَکُوْنُ لَھُمْ اَحَدٌ مِّنَ النَّاصِـرِیْنَ.فَکَذَالِکَ فَعَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی بِـھِمْ وَاَنْقَضَ ظُھُوْرَھُمْ بِاَثْقَالِ الْھُمُوْمِ وَالدُّیُوْنِ وَالْـحَاجَاتِ.وَاَنْـزَلَ عَلَیْھِمْ مِّنْ اَنْوَاعِ الْبَلَایَـا وَالْاٰفَاتِ.وَفَتَحَ عَلَیْھِمْ اَبْوَابَ الْمَوْتِ وَالْوَفَاتِ لَعَلَّھُمْ یَـرْجِعُوْنَ بقیہ ترجمہ.تمام اطرافِ عالم میں شائع کیا ہے اور اس طرح سے ہندوستان بھر کے غیر مسلم لوگوں کو اسلام کے خلاف مدد دی ہے اور اس قدر تکبر کیا ہے جو پہلے فراعنہ نے بھی نہیں کیا ہوگا سو جب ان کے سرغنہ کا جو خباثت میں بھی اُن کا بڑا ہے جیسا کہ عمر میں بڑا ہے، لکھا ہوا یہ اشتہار مجھے ملا … تو میں نے دیکھا کہ وہ الفاظ ایسے تھے کہ قریب تھا کہ آسمان ان کی و جہ سے پھٹ جائیں… اس پر میں نے دروازوں کو بند کرلیا اور خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ میں گر کر دُعا کی… اور کہا کہ اے میرے ربّ! اے میرے ربّ! اپنے بندہ کی نصرت فرما اور اپنے دشمنوں کو ذلیل و رُسوا کر.اے میرے ربّ ! میری دُعا سن اور اُسے قبول فرما.کب تک تجھ سے اور تیرے رسُول سے تمسخر کیا جائے گا اور کس وقت تک یہ لوگ تیری کتاب کو جھٹلاتے اور تیرے نبی کے حق میں بد کلامی کرتے رہیں گے.اے ازلی ابدی.اے مددگار خدا ! میں تیری رحمت کا واسطہ دے کر تیرے حضور فریاد کرتا ہوں.تب میرے ربّ نے میری گریہ و زاری اور میری آہوں کوسُن کر مجھ پر رحم فرمایا اور مجھے پکار کر فرمایا.میں نے اُن کی نافرمانی اور سرکشی کو دیکھا ہے میں اُن پر طرح طرح کی آفات ڈال کر اُنہیں آسمان کے نیچے سے نابود کردوں گا اور تم جلد دیکھو گے کہ میں ان کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہوں اور ہم ہر ایک بات پر قادر ہیں.میں اُن کی عورتوں کو بیوہ اُن کے بچوں کو یتیم اور اُن کے گھروں کو ویران کردوں گا اور اس طرح سے وہ اپنی باتوں کا اور اپنی کارروائیوں کا مزہ چکھیں گے لیکن میں اُنہیں یکدم ہلاک نہیں کروں گا بلکہ تدریجاً پکڑوں گا تاکہ اُنہیں رجوع اور توبہ کا موقع ملے.میری لعنت اُن پر
َوْ یَکُوْنُوْنَ مِنَ الْمُتَنَبِّھِیْنَ وَلٰکِنْ قَسَتْ قُلُوْبُـھُمْ فَـمَافَھِمُوْا وَمَاتَنَبَّھُوْا وَمَاکَانُوْا مِنَ الْـخَآئِفِیْنَ.وَلَمَّا قَرُبَ وَقْتُ ظُھُوْرِ الْاٰیَۃِ اتَّفَقَ فِیْ تِلْکَ الْاَیَّامِ اَنَّ وَاحِدًا مِّنْ اَعَزِّ اَعِزَّتِـھِمُ الَّذِیْ کَانَ اسْـمُہٗ اَحْـمَدْ بِیْک اَرَادَ اَنْ یَّـمْلِکَ اَرْضَ اُخْتِہِ الَّتِیْ کَانَ بَعْلُھَا مَفْقُوْدَ الْـخَبَرِ مِنْ سِنِیْنَ.‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۵۶۶ تا ۵۷۰) (ب) ’’نامبردہ؎۱کی ایک ہمشیرہ ہمارے ایک چچا زاد بھائی غلام حسین نام کو بیاہی گئی تھی.غلام حسین عرصہ پچیس سال سے کہیں چلا گیا ہے اور مفقود الخبر ہے.اس کی زمین ملکیت جس کا ہمیں حق پہنچتا ہے نامبردہ کی ہمشیرہ کے نام کاغذات سرکاری میں درج کرادی گئی تھی.اب حال کے بندوبست میں جو ضلع گورداسپورہ میں جاری ہے نامبردہ یعنی ہمارے خط کے مکتوب الیہ نے اپنی ہمشیرہ کی اجازت سے یہ چاہا کہ وہ زمین جو چار ہزار یا پانچ ہزار روپیہ کی قیمت کی ہے اپنے بیٹے محمد بیگ کے نام بطور ہبہ منتقل کرا دیں چنانچہ اُن کی ہمشیرہ کی طرف سے یہ ہبہ نامہ لکھا گیا.چونکہ وہ ہبہ نامہ بجز ہماری رضامندی کے بے کار تھا اس لئے مکتوب الیہ نے بتمام تر عجز و انکسار ہماری طرف رجوع کیا تا ہم اس ہبہ پر راضی ہو کر اس ہبہ نامہ پر دستخط کردیں اور قریب تھا کہ دستخط کردیتے،لیکن یہ خیال آیا کہ جیسا کہ ایک مدّت سے بڑے بڑے کاموں میں ہماری عادت ہے جناب ِالٰہی میں استخارہ کرلینا چاہیے سو یہی جواب مکتوب الیہ کو دیا گیا.پھر مکتوب الیہ کے متواتر اصرار سے استخارہ کیا گیا.وہ بقیہ ترجمہ.اُن کے گھروں پر، اُن کے چھوٹوں اور بڑوں پر، اُن کی عورتوں اور مَردوں پراور اُن کے اُس مہمان پر جو اُن کے گھر میں داخل ہوگا پڑے گی اور اُن تمام پر لعنت برسے گی سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائیں اور اچھے عمل کریں اور اُن سے اپنے تعلقات منقطع کرلیں اور اُن کی مجالس سے دُوری اختیار کریں.پس وہی لوگ ہیں جن پر رحم کیا جائے گا.یہ میرے ربّ کی اس وحی کا خلاصہ ہے جو اُس نے مجھ پر نازل کی.پس میں نے اپنے پروردگار کے پیغامات اُن کو پہنچادیئے لیکن نہ تو وہ ڈرے اور نہ ہی انہوں نے تصدیق کی بلکہ سرکشی اور انکار میں بڑھتے گئے اور استہزاء میں دشمنانِ دین کا سا شیوہ اختیار کرلیا.پس میرے ربّ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا.ہم اُنہیں رُلانے والے نشانات دکھائیں گے اور اُن پر عجیب عجیب ہموم و امراض نازل کریں گے اور اُن کی معیشت تنگ کردیں گے اور اُن پر مصائب پر مصائب ڈالیں گے اور کوئی انہیں بچانے والا نہیں ہوگا.پس اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اُن کے ساتھ سلوک کیا.غموں، قرضوں اور حاجات کے بوجھ سے ان کی پیٹھیں توڑ دیں اور ان پر قِسم قِسم کے مصائب اور آفات نازل کئے اور موت فوت کے دروازے ان پر کھول دیئے تاکہ وہ باز آئیں اور غفلت کو چھوڑ دیں لیکن ان کے دل سخت ہوگئے پس وہ نہ سمجھے اور نہ بیدار ہوئے اور نہ ہی اُنہیں کوئی خوف لاحق ہوا.اور جب
استخارہ کیا تھا گویا آسمانی نشان کی درخواست کا وقت آپہنچا تھا جس کو خدائے تعالیٰ نے اس پیرایہ میں ظاہر کردیا.اُس خدائے قادر و حکیم مطلق نے مجھے فرمایا کہ اس شخص کی دختر کلاں کے نکاح؎۲کے لئے سلسلہ جنبانی کر اور اُن کو کہہ دے کہ تمام سلوک اور مروّت تم سے اسی شرط سے کیا جائے گا اور یہ نکاح تمہارے لئے موجب برکت اور ایک رحمت کا نشان ہوگا اور ان تمام برکتوں اور رحمتوں سے حصّہ پاؤ گے جو اشتہار ۲۰؍فروری۱۸۸۸ء میں درج ہیں لیکن اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی بُرا ہوگا اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی وہ روزِ نکاح سے اڑھائی سال تک اور ایسا ہی والد اس دُختر کا تین سال تک فوت ہوجائے گا.۱؎ ،۲؎ اور ان کے گھر پر تفرقہ اور تنگی اور مصیبت پڑے گی اور درمیانی زمانہ میں بھی اس دختر کے لئے کئی کراہت اور غم کے امر پیش آئیں گے.پھر ان دنوں میں جو زیادہ تصریح اور تفصیل کے لئے بار بار توجہ کی گئی تو معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ نے یہ مقرر کررکھا ہے کہ وہ مکتوب الیہ کی دختر کلاں کو جس کی نسبت درخواست کی گئی تھی ہر ایک روک دور کرنے کے بعد انجامِ کار اِسی عاجز کے نکاح میں لاوے گا اور بے دینوں کو مسلمان بناوے گا اور گمراہوں میں ہدایت پھیلاوے گا چنانچہ عربی الہام اس بارے میں یہ ہے.بقیہ ترجمہ.نشان کے ظہور کا وقت قریب آیا تو ان ایام میں ایسا اتفاق ہوا کہ ان لوگوں کے ایک نہایت ہی قریبی رشتہ دار نے جس کا نام احمد بیگ تھا ارادہ کیا کہ اپنی ہمشیرہ کی زمین پر قبضہ کرلے.جس کا خاوند کئی سالوں سے مفقود الخبرہوگیا تھا.۱ یعنی مرزا احمدبیگ ہوشیارپوری.(شمس) ۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’ وَاُنْبِئْتُ مِنْ اَخْبَارٍ مَّا ذَھَبَ وَھْلِیْ قَطُّ اِلَیْھَا وَمَا کُنْتُ اِلَیْھَا مِنَ الْمُسْتَدْ.نِیْنَ.فَاَوْحَی اللّٰہُ اِلَـیَّ اَنِ اخْطُبْ صَبِیَّتَہُ الْکَبِیْرَۃَ لِنَفْسِکَ.وَقُلْ لَّہٗ لِیُصَاھِرْکَ اَوَّلًا ثُمَّ لِیَقْتَبِسْ مِنْ قَبَسِکَ.وَقُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ لِاَھَبَکَ مَاطَلَبْتَ مِنَ الْاَرْضِ وَاَرْضًا اُخْرٰی مَعَھَاوَاُحْسِنَ اِلَیْکَ بِاِحْسَانَاتٍ اُخْرٰی عَلٰی اَنْ تُنْکِحَنِیْ اِحْدٰی بَنَاتِکَ الَّتِیْ ھِیَ کَبِیْرَتُـھَا.وَذَالِکَ بَیْنِیْ وَبَیْنَکَ.فَاِنْ قَبِلْتَ فَسَتَجِدُ نِیْ مِنَ الْمُتَقَبِّلِیْنَ.وَاِنْ لَّمْ تَقْبَلْ فَاعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ قَدْاَخْبَرَنِیْ اَنَّ اِنْکَاحَھَارَجُلًا اٰخَرَ لَایُبَارَکُ لَھَا وَ لَا لَکَ فَاِنْ لَّمْ تَزْدَجِرْ فَیُصَبُّ عَلَیْکَ مَصَآئِبُ وَ اٰخِرُ الْمَصَآئِبِ مَوْتُکَ فَتَمُوْتُ بَعْدَ النِّکَاحِ اِلٰی ثَلَاثِ سِنِیْنَ.بَلْ مَوْتُکَ قَرِیْبٌ وَّ یَـرِدُ عَلَیْکَ وَاَنْتَ مِنَ الْغَافِلِیْنَ وَکَذَالِکَ یَـمُوْتُ بَعْلُھَاالَّذِیْ یَصِیْرُ زَوْجَھَا اِلٰی حَوْلَیْنِ وَسِتَّۃِ اَشْھُرٍ قَضَآءً مِّنَ اللّٰہِ فَاصْنَعْ مَآ اَنْتَ صَانِعُہٗ وَاِنِّیْ لَکَ لَمِنَ النَّاصِـحِیْنَ…… ثُمَّ کَتَبْتُ اِلَیْہِ مَکْتُوْبًا بِـاِیْـمَآءِ مَنَّانِیْ وَ اِشَارَۃِ رَحْـمَانِی…… وَھَآ اَنَا کَتَبْتُ مَکْتُوْبِیْ ھٰذَا مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ لَا عَنْ اَمْرِیْ فَاحْفَظْ مَکْتُوْبِیْ ھٰذَا
کَذَّ.بُـوْا بِـاٰیٰتِنَا وَ کَانُـوْا بِـھَا یَسْتَـھْزِءُوْنَ فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ وَ یَـرُدُّ.ھَا اِلَیْکَ لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ.اَنْتَ مَعِیْ وَ اَنَـا مَعَکَ.عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّـحْمُوْدًا.یعنی انہوں نے ہمارے نشانوں کو جھٹلایا اور وہ پہلے سے ہنسی کررہے تھے.سو خدا تعالیٰ ان سب کے تدارک کے لئے جو اس کام کو روک رہے ہیں تمہارا مددگار ہوگا اور انجام کار اُس کی اس لڑکی کو تمہاری طرف واپس بقیہ حاشیہ.فِیْ صَنْدُ.وْقِکَ فَاِنَّہٗ مِنْ صَدُ.وْقٍ اَمِیْنٍ.وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اَنَّنِیْ فِیْہِ صَادِقٌ وَکُلُّ مَا وَعَدْ تُّ فَھُوَمِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی وَمَا قُلْتُ اِذْ قُلْتُ وَلٰکِنْ اَنْطَقَنِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی بِـاِلْھَامِہٖ.‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۵۷۲ تا ۵۷۴) (ترجمہ از مرتّب) مجھے ایسے امور پر اطلاع دی گئی جن کی طرف کبھی میرا وہم بھی نہ گیا تھا اور نہ اُن کا مجھے کچھ پتہ تھا.ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ نے مجھے وحی کے ذریعہ سے حکم دیاکہ اس شخص کی بڑی لڑکی کے رشتہ کے لئے تحریک کر اور اُسے کہہ کہ پہلے وہ تم سے مصاہرت کا تعلق قائم کرے اور اس کے بعد تمہارے نور سے روشنی حاصل کرے.نیز اُسے کہہ کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو زمین تم نے مانگی ہے وہ میں تمہیں دے دوں اور اس کے علاوہ کچھ اور زمین بھی.نیز تم پر اور کئی رنگ میں احسانات کروں بشرطیکہ تم اپنی بڑی لڑکی کا رشتہ مجھ سے کردو اور یہ تمہارے اور میرے درمیان ایک عہدو پیمان ہے جسے اگر تم قبول کروگے تو مجھے بہترین طور پر اسے قبول کرنے والا پاؤ گے اور اگر تم نے قبول نہ کیا تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اس لڑکی کا کسی اور شخص سے نکاح نہ اس لڑکی کے حق میں مبارک ہوگا نہ تمہارے حق میں.اور اگر تم اپنے ارادے سے باز نہ آئے تو تم پر مصائب نازل ہوں گے اور آخر میں تمہاری موت ہوگی اور تم نکاح کے بعد تین سال کے اندر مرجاؤ گے بلکہ تمہاری موت قریب ہے اور وہ موت ایسے حال میں آئے گی کہ تو غافل ہوگا اور ایسا ہی اُس لڑکی کا شوہر بھی اڑھائی سال کے اندر مرجائے گا.یہ قضاء الٰہی ہے پس تم جو چاہو کرو میں نے تم کو نصیحت کردی ہے… پھر میں نے اُسے اللہ تعالیٰ کے اشارہ سے خط لکھا… (اور اُسے یہ بھی لکھا کہ) لو میں نے یہ خط خدا کے حکم سے لکھا ہے اپنی رائے سے نہیں لکھا.پس اس خط کو اپنے صندوق میں محفوظ رکھ کہ یہ نہایت ہی سچے امین کی طرف سے ہے اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں اس معاملہ میں سچا ہوں اور جو وعدہ میں نے کیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور میں نے نہیں کہا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام سے مجھے بلوایا ہے.۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’تین سال تک فوت ہونا روزِ نکاح کے حساب سے ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ کوئی واقعہ اور حادثہ اس سے پہلے نہ آوے بلکہ بعض مکاشفات کے رُو سے مکتوب الیہ کا زمانہ حوادث جن کا انجام معلوم نہیں، نزدیک پایا جاتا ہے.وَاللہُ اَعْلَمُ.منہ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۲۸۶ حاشیہ) ۲ والد اس عورت کا نکاح سے چوتھے مہینے مطابق پیشگوئی فوت ہوگیا یعنی نکاح ۷؍ اپریل ۱۸۹۲ء کو ہوا اور وہ ۳۰؍ستمبر ۱۸۹۲ء کو بمقام ہوشیار پور گزر گیا.منہ‘‘ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۲۸۶ حاشیہ)
لائے گا کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے.تیرا ربّ وہ قادر ہے کہ جو کچھ چاہے وہی ہوجاتا ہے تُو میرے ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں اور عنقریب وہ مقام تجھے ملے گا جس میں تیری تعریف کی جائے گی.یعنی گو اوّل میں احمق اور نادان لوگ بدباطنی اور بدظنّی کی راہ سے بدگوئی کرتے ہیں اور نالائق باتیں منہ پر لاتے ہیں لیکن آخر خدا تعالیٰ کی مدد کو دیکھ کر شرمندہ ہوں گے اور سچائی کے کھلنے سے چاروں طرف سے تعریف ہوگی.‘‘ (اشتہار ۱۰؍جولائی ۱۸۸۸ء.مجموعہ اشتہارات جلد ۱ صفحہ ۱۷۷، ۱۷۸ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) (ج) ’’فَـمِنْـھَا؎۱ مَا وَعَدَ نِیْ رَبِّیْ فِیْ عَشِیْرَتِیَ الْاَقْرَ بِیْنَ.اِنَّـھُمْ کَانُوْا یُکَذِّ بُوْنَ بِـاٰیَـاتِ اللّٰہِ وَکَانُوْا بِـھَا یَسْتَھْزِءُوْنَ.وَیَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ.وَقَالُوْا لَا حَاجَۃَ لَنَا اِلَی اللّٰہِ وَلَا اِلٰی کِتَابِہٖ وَلَا اِلٰی رَسُوْلِہٖ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ.وَقَالُوْا لَا نَتَقَبَّلُ اٰیَۃً حَتّٰی یُرِیَنَا اللّٰہُ اٰیَۃً فِیْ اَنْفُسِنَا وَ اِنَّا لَا نُؤْمِنُ بِالْفُرْقَانِ وَلَا نَعْلَمُ مَا الرِّسَالَۃُ وَمَا الْاِیْـمَانُ وَ اِنَّـا مِنَ الْکَافِرِیْنَ.فَدَعَوْتُ رَبِّیْ بِالتَّضَرُّعِ وَ الْاِ.بْتِـھَالِ وَمَدَ.دْتُّ اِلَیْہِ اَیْدِی السُّؤَالِ فَاَ لْھَمَنِیْ رَبِّیْ وَ قَالَ سَاُرِیْـھِمْ اٰیَۃً مِّنْ اَنْفُسِھِمْ.وَ اَخْبَرَنِیْ وَ قَالَ اِنَّنِیْ سَاَجْعَلُ بِنْتًا مِّنْ بَنَاتِـھِمْ اٰیَۃً لَّھُمْ فَسَمَّاھَا وَ قَالَ اِنَّـھَا سَیُجْعَلُ۱؎ ثَیِّبَۃً وَّیَـمُوْتُ بَعْلُھَاوَ اَبُوْھَا اِلٰی ثَلٰثِ سَنَۃٍ مِّنْ یَّوْمِ النِّکَاحِ.ثُمَّ نَرُدُّھَا اِلَیْکَ بَعْدَ مَوْتِـھِمَا وَلَا یَکُوْنُ اَحَدُ.ھُمَا مِنَ الْعَاصِـمِیْنَ.وَ قَالَ اِنَّا رَآ.دُّوْھَآ اِلَیْکَ لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ.‘‘ ۱ (ترجمہ از مرتّب) پس منجملہ ان نشانات کے ایک وہ نشان ہے جو میرے ربّ نے میرے قریبی رشتہ داروں کے بارے میں وعدہ کیا.وہ الٰہی نشانات کو جھٹلاتے اور استہزاء کرتے تھے اور اللہ اور اس کے رسول کا انکار کرتے اور کہتے کہ ہمیں اللہ اور اس کی کتاب کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی اس کے رسول خاتم النبیینؐ کی حاجت ہے اور یہ بھی کہتے کہ ہم کوئی نشان اس وقت تک قبول نہیں کریں گے جب تک کہ خدا ہمیں اپنے آدمیوں میں کوئی نشان دکھائے اور ہمیں تو ان پر کوئی ایمان نہیں اور ہم نہیں جانتے کہ رسالت اور ایمان کیا ہے.ہم ان کے منکر ہیں.تب میں نے اپنے ربّ سے تضرع اور
(کرامات الصادقین ٹائٹل پیج آخری ورق.روحانی خزائن جلد۷ صفحہ ۱۶۲) ۱۸۸۸ء ’’اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۷ء؎۲کی پیشگوئی کا انتظار کریں جس کے ساتھ یہ بھی الہام ہے.وَ یَسْئَلُوْنَکَ اَحَقٌّ ھُوَ.قُلْ اِیْ وَ رَبِّیْٓ اِنَّہٗ لَـحَقٌّ وَمَآ اَنْتُمْ بِـمُعْـجِزِیْنَ.زَوَّجْنَاکَھَا لَا مُبَدِّ.لَ لِکَلِمَاتِیْ.وَ اِنْ یَّـرَوْا اٰیَۃً یُّعْرِضُوْا وَ یَقُوْلُوْا سِـحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ.اور تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ بات سچ ہے.کہہ ہاں مجھے اپنے ربّ کی قسم ہے کہ یہ سچ ہے اور تم اس بات کو وقوع میں آنے سے روک نہیں سکتے.ہم نے خود اس سے تیرا عقد نکاح؎۱ باندھ دیا ہے.میری باتوں کو کوئی بدلا نہیں سکتا.اور نشان دیکھ کر منہ پھیر لیں گے اور قبول نہیں کریں گے اور کہیں گے کہ یہ کوئی پکا فریب یا پکا جادو ہے.‘‘ (اشتہار ۲۷؍دسمبر ۱۸۹۱ء ملحق بہ آسمانی فیصلہ.روحانی خزائن جلد ۴صفحہ ۳۵۰) جولائی۱۸۸۸ء ’’الہام؎۲… فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ اس کی تفصیل مکرر توجہ سے یہ کھلی ہے کہ خدا تعالیٰ ہمارے کُنبے اورقوم میں سے ایسے تمام لوگوں پر کہ جو اپنی بے دینی اور بدعتوں کی حمایت کی و جہ سے پیشگوئی کے مزاحم ہونا چاہیں گے اپنے قہری نشان نازل کرے گا اور ان سے لڑے گا اور انہیں انواع اقسام کے عذابوں میں مبتلا کردے گا اور وہ مصیبتیں اُن پر اتارے گاجن کی ہنوز اُنہیں خبر نہیں.اُن میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہوگا جو اِس عقوبت سے خالی رہے کیونکہ انہوں نے نہ کسی اور و جہ سے بلکہ بے دینی کی راہ سے مقابلہ کیا.‘‘ (اشتہار ۱۵؍ جولائی ۱۸۸۸ء.مجموعہ اشتہارات جلد ۱صفحہ۱۸۱ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۱۸۸۸ء ’’ہمیں اس؎۳ رشتہ کی درخواست کی کچھ ضرورت نہیں تھی، سب ضرورتوں کو خدا تعالیٰ نے پورا کردیا تھا.بقیہ ترجمہ.عاجزی کے ساتھ دُعا کی اور اس کی طرف سوال کا ہاتھ بڑھایا تو میرے ربّ نے الہام کیا اور فرمایا: میں انہیں اُن کے اپنے آدمیوں میں نشان دکھاؤں گا.اور بتایا کہ میں اُن کی ایک لڑکی کو اُن کے حق میں نشان بناؤں گا اور اس کی تعیین کی اور فرمایا کہ وہ بیوہ ہوجائے گی اور اس کا خاوند اور اس کا باپ روزِ نکاح سے تین سال کے اندر اندر مر جائیں گے اور اُن کی موت کے بعد ہم اُسے تیری طرف لوٹائیں گے اور ان میں سے کوئی اسے بچا نہیں سکے گا اور فرمایا کہ ہم اُسے تیری طرف لَوٹائیں گے.اللہ تعالیٰ کی باتیں ٹل نہیں سکتیں تمہارا ربّ جو چاہتا ہے کرتا ہے.۱ غالباً سہو کاتب ہے ’’سَتُجْعَلُ‘‘ ہونا چاہیے.(شمس) ۲ سہو کتابت ہے.جولائی ۱۸۸۸ء ہونا چاہیے.ملاحظہ ہو آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۲۸۸.(شمس)
اولاد بھی عطا کی اور اُن میں سے وہ لڑکا بھی جو دین کا چراغ؎۴ہوگا.بلکہ ایک اور لڑکا ہونے کا قریب مدّت تک وعدہ دیا جس کا نام محمودؔ احمد ہوگا اور اپنے کاموں میں اولوالعزم نکلے گا.‘‘ (اشتہار۱۵؍جولائی ۱۸۸۸ء.مجموعہ اشتہارات جلد ۱ صفحہ ۱۸۲ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) اگست ۱۸۸۸ء ’’ اللہ جلّ شانہٗ نے مجھے خبر دی کہ یُصَلُّوْنَ عَلَیْکَ صُلَحَآءُ الْعَرَبِ وَاَبْدَالُ الشَّامِ.وَتُصَلِّیْ عَلَیْکَ الْاَرْضُ وَالسَّمَآءُ.وَ یَـحْمَدُ کَ اللّٰہُ عَنْ عَرْشِہٖ.‘‘؎۱ (از مکتوب بنام منشی مظہر حسین صاحب.مکتوبات احمد جلد ۱ صفحہ ۶۶۰ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) اگست ۱۸۸۸ء ’’بارہا غوث اورقطب وقت میرے پر مکشوف کئے گئے جو میری عظمتِ مرتبت پر ایمان لائے ہیں اور لائیں گے.‘‘ (از مکتوب بنام منشی مظہر حسین صاحب.مکتوبات احمد جلد ۱ صفحہ ۶۶۰ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) اگست ۱۸۸۸ء ’’ اور مجھے بشارت دی ہے کہ جس نے تجھے شناخت کرنے کے بعد تیری دشمنی اور تیری مخالفت اختیار کی وہ جہنمی ہے.‘‘ (از مکتوب بنام منشی مظہر حسین صاحب.مکتوبات احمد جلد ۱ صفحہ ۶۶۰ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸۸۸ء ’’یہ بات کھلی کھلی الہام الٰہی نے ظاہر کردی کہ بشیر جو فوت ہوگیا ہے وہ بے فائدہ نہیں آیا ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’یہ امر کہ الہام میں یہ بھی تھا کہ اس عورت کا نکاح آسمان پر میرے ساتھ پڑھا گیا ہےیہ درست ہے مگر جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں اس نکاح کے ظہور کے لئے جو آسمان پر پڑھا گیا خدا کی طرف سے ایک شرط یہ بھی تھی جو اسی وقت شائع کی گئی تھی اور وہ یہ کہ اَیَّتُـھَاالْمَرْءَۃُ تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلَآءَ عَلٰی عَقِبِکِ..۵؎ پس جب ان لوگوں نے اس شرط کو پورا کردیا تو نکاح فسخ ہوگیا یا تاخیر میں پڑ گیا.‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۵۷۰) ۲ مندرجہ اشتہار مورخہ دہم جولائی ۱۸۸۸ء.مجموعہ اشتہارات جلد ۱ صفحہ ۱۷۸ مطبوعہ ۲۰۱۸ء.(مرزا بشیر احمد) ۳ یعنی محمدی بیگم بنت مرزا احمد بیگ کے رشتہ کی.(مرزا بشیر احمد) ۴ (نوٹ از حضرت مولانا جلال الدین شمسؓ) یعنی بشیر اوّل جو ۷؍اگست۱۸۸۷ء کو پیدا ہوا اور۴؍ نومبر۱۸۸۸ء کو فوت ہوگیا اور ا س کے متعلق جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ’’دین کا چراغ‘‘ لکھا ہے یہ اُس زمانہ سے تعلق رکھتا ہے جبکہ ابھی آپ پر یہ بات نہیں کھلی تھی کہ ۲۰؍فروری۸۸۶اء والے الہام میں دراصل دو لڑکوں کی خبر دی گئی تھی.ایک وہ لڑکا جو مہمان کے طور پر آنے والا تھا اور اُس نے دوسرے لڑکے کے لئے بطور ارہاص کے ہونا تھا اور دوسرا وہ جو عمر پانے والا تھا ۵ (ترجمہ از ناشر) اے عورت! توبہ کر توبہ کر کیونکہ بلا تیری نسل کے سر پر کھڑی ہے.
تھا بلکہ اُس کی موت اُن سب لوگوں کی زندگی کا موجب ہوگی جنہوں نے محض لِلّٰہ اُس کی موت سے غم کیا اور اُس ابتلا کی برداشت کرگئے کہ جو اُس کی موت سے ظہور میں آیا.‘‘ (سبز اشتہار.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۴۶۲، ۴۶۳ حاشیہ) ۱۸۸۸ء ’’اس؎۲ موت کی تقریب پر بعض مسلمانوں کی نسبت یہ الہام ہوا.اَحَسِبَ۳؎ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُــوْا اَنْ یَّقُوْلُـوْا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ.قَالُوْا تَاللّٰہِ تَفْتَؤُا تَذْکُرُ یُوْسُفَ حَتّٰی تَکُوْنَ حَرَضًا اَوْ تَکُوْنَ مِنَ الْھَالِکِیْنَ.شَاھَتِ الْوُجُوْہُ فَتَوَلَّ عَنْھُمْ حَتّٰی حِیْنٍ.اِنَّ الصَّابِرِیْنَ یُـوَفّٰی اَجْرُھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ.اب خدا تعالیٰ نے اِن آیات میں صاف بتلادیا کہ بشیر کی موت لوگوں کی آزمائش کے لئے ایک ضروری امر تھا جو کچے تھے وہ مصلح موعود کے ملنے سے نومید ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ تُو اسی طرح اس یوسف کی باتیں ہی کرتا رہے گا یہاں تک کہ قریب المرگ ہوجائے گا یا مرجائے گا.سو خدا تعالیٰ نے مجھے فرمایا کہ ایسوں سے اپنا منہ پھیر لے جب تک وہ وقت پہنچ جائے اور بشیر کی موت پر جو ثابت قدم رہے اُن کے لئے بےاندازہ اجر کا وعدہ ہوا.یہ خدا تعالیٰ کے کام ہیں اور کوتہ بینوں کی نظر میں حیرت ناک.‘‘ (از مکتوب بنام حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحبؓ.مکتوبات احمد جلد۲ صفحہ ۷۹ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸۸۸ء ’’ اِنَّ لِیْ کَانَ اِبْنًا صَغِیْرًا وَّکَانَ اسْـمُہٗ بَشِیْـرًا فَتَوَفَّاہُ اللّٰہُ فِیْ اَیَّامِ الرِّضَاعِ.وَاللّٰہُ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰی لِلَّذِیْنَ اٰثَـرُوْا سُبُلَ التَّقْوٰی وَالْاِرْتِیَاعِ فَاُلْھِمْتُ مِنْ رَّبِّیْ.اِنَّـا نَـرُدُّہٗ اِلَیْکَ تَفَضُّلًا عَلَیْکَ.‘‘۱؎ بقیہ حاشیہ.اور بشیر اوّل کے لئے دین کے چراغ کا لفظ اُس کی ذاتی استعدادات کی بناء پر استعمال کیا گیا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے صاحبزادے ابراہیم کے متعلق فرماتے ہیں.لَوْ عَاشَ اِبْـرَاھِیْمُ لَکَانَ صِدِّ یْقًا نَّبِیًّا.یعنی اگر میرا بیٹا ابراہیم زندہ رہتا تو وہ ایسی استعداد رکھتا تھا کہ نبی ہوجاتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء والے الہام کی تشریح اپنے یکم دسمبر ۱۸۸۸ء والے ’’سبز اشتہار‘‘ میں فرما دی ہے جس کا ذکر آگے آتا ہے.۱ (ترجمہ از مرتّب) تجھ پر عرب کے صلحاء اور شام کے ابدال درود بھیجیں گے.زمین و آسمان تجھ پر درود بھیجتے ہیں اور اللہ تعالیٰ عرش سے تیری تعریف کرتا ہے.۲ یعنی بشیر اوّل کی موت.(مرزا بشیر احمد) ۳ (ترجمہ از ناشر) کیا لوگ یہ گمان کر بیٹھے ہیں کہ یہ کہنے پر کہ ہم ایمان لے آئے وہ چھوڑ دیئے جائیں گے اور آزمائے نہیں جائیں گے.انہوں نے کہا خدا کی قسم! تُو ہمیشہ یوسف ہی کا ذکر کرتا رہے گا یہاں تک کہ تُو (غم سے ) نڈھال ہوجائے یا ہلاک ہوجانے والوں میں سے ہوجائے.چہرے بگڑ گئے.پس تو ان سے کچھ عرصہ تک اعراض کر.
(سِـرّالـخلافۃ.روحانی خزائن جلد ۸ صفحہ ۳۸۱) ۱۸۸۸ء (الف) ’’خدا تعالیٰ نے اس عاجز پر ظاہر کیا کہ ایک دوسرا بشیر تمہیں دیا جائے گا جس کا نام محمود بھی ہے.وہ اپنے کاموں میں اولوالعزم ہوگا.یَـخْلُـقُ اللّٰہُ مَا یَشَآءُ.‘‘ (سبز اشتہار مورخہ یکم دسمبر۱۸۸۸ء.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۴۶۳ حاشیہ) (ب) ’’ ایک الہام میں اس دوسرے فرزند کا نام بھی بشیرؔ رکھا ہے چنانچہ فرمایا کہ دوسرا بشیر تمہیں دیا جائےگا یہ وہی بشیرؔ ہے جس کا دوسرا نام محمودؔ ہے جس کی نسبت فرمایا کہ وہ اولوالعزم ہوگا اور حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا.یَـخْلُـقُ اللّٰہُ مَا یَشَآءُ.‘‘ (از مکتوب بنام حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحبؓ.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۸۰ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) (ج) ’’خدائے عزّوجلّ نے… اپنے لُطف و کرم سے وعدہ دیا تھا کہ بشیر اوّل کی وفات کے بعد ایک دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا نام محمودؔ بھی ہوگا اور ا س عاجز کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ وہ اولوالعزم ہوگا اور حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا.وہ قادر ہے جس طور سے چاہتا ہے پیدا کرتا ہے.‘‘ (اشتہار تکمیل تبلیغ مورخہ ۱۲؍ جنوری۱۸۸۹ء.مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ۲۰۷ حاشیہ.مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۱۸۸۸ء ’’میرا پہلا لڑکا جو زندہ موجود ہے جس کا نام محمودؔ ہے ابھی وہ پیدا نہیں ہوا تھا جو مجھے کشفی طور پر اس کے پیدا ہونے کی خبر دی گئی اور میں نے مسجد کی دیوار پر اس کا نام لکھا ہوا یہ پایا کہ مـــــــــــحـــــــــــــــمـــــــــود تب میں نے اس پیشگوئی کے شائع کرنے کے لئے سبز رنگ کے ورقوں پر ایک اشتہار چھاپا جس کی تاریخ بقیہ ترجمہ.یقیناً صبر کرنے والوں کو بغیر حساب ان کا اجر دیا جائے گا.۱ (ترجمہ از مرتّب) میرا ایک لڑکا جس کا نام بشیر احمد تھا شیر خوارگی کے ایام میں فوت ہوگیا اور حق یہ ہے کہ جن لوگوں نے تقویٰ اور خشیت ِ الٰہی کے طریق کو اختیارکرلیا ہو اُن کی نظر اللہ تعالیٰ پر ہی ہوتی ہے.اس وقت مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ہم محض اپنے فضل اور احسان سے وہ تجھے واپس دیں گے.(یعنی اس کا مثیل عطا ہوگا.سو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا بیٹا عطا کیا.شمس)
اشاعت یکم دسمبر ۱۸۸۸ء ہے.‘‘ (تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ۲۱۴) ۱۸۸۸ء ’’ مجھے ایک خواب میں اُس مصلح موعود کی نسبت زبان پر یہ شعر جاری ہوا تھا؎ اے فخر رُسل قُرب تو معلومم شد دیر آمدۂٖ ز راہِ دُور آمدۂ ؎۱ (اشتہارتکمیل تبلیغ مورخہ ۱۲؍جنوری۱۸۸۹ء.مجموعہ اشتہارات جلد ۱ صفحہ ۲۰۸ حاشیہ.مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۱۸۸۸ء (الف) ’’ خدا تعالیٰ نے مجھ پر یہ بھی ظاہر کیا کہ ۲۰؍ فروری۱۸۸۶ء کی پیشگوئی حقیقت میں دو سعید لڑکوں کے پیدا ہونے پر مشتمل تھی اور اس عبارت تک کہ مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے پہلے بشیرؔ کی نسبت پیشگوئی ہے کہ جو رُوحانی طور پر نزولِ رحمت کا موجب ہوا اور اس کے بعد کی عبارت دوسرے بشیرؔ کی نسبت ہے.‘‘ (سبز اشتہار.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۴۶۳ حاشیہ) (ب) ’’اور یہ دھوکہ کھانا نہیں چاہیے کہ جس پیشگوئی کا ذکر ہوا ہے وہ مصلح موعود کے حق میں ہے کیونکہ بذریعہ الہام صاف طور پر کھل گیا ہے کہ یہ سب عبارتیں پسر متوفّٰی کے حق میں ہیں اور مصلح موعود کے حق میں جو پیشگوئی ہے وہ اس عبارت سے شروع ہوتی ہے کہ اُس کے ساتھ فضل ہے کہ جو اُس کے آنے کے ساتھ آئے گا.پس مصلح موعود کا نام الہامی عبارت میں فضل ؔ رکھا گیا اور نیز دوسرا نام اُس کا محمودؔ اور تیسرا نام اس کا بشیر ثانی بھی ہے اور ایک الہام میں اُس کا نام فضلِ عمر ظاہر کیاگیا ہے اور ضرور تھا کہ اُس کا آنا معرضِ التوا میں رہتا جب تک یہ بشیر جو فوت ہوگیا ہے پیدا ہوکر پھر واپس اُٹھایا جاتا کیونکہ یہ سب امور حکمت ِ الٰہیہ نے اُس کے قدموں کے نیچے رکھے تھے اور بشیر اوّل جو فوت ہوگیا ہے بشیر ثانی کے لئے بطور ارہاص تھا اِس لئے دونوں کا ایک ہی پیشگوئی میں ذکر کیا گیا.‘‘ ؎۱ (سبز اشتہار.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۴۶۷ حاشیہ) ۱۸۸۸ء (الف) ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ حق کے طالب ہیں وہ سچا ایمان اور سچی ایمانی پاکیزگی اور محبت ِ مولیٰ کا راہ سیکھنے کے لئے اور گندی زیست اور کاہلانہ اور غدّارانہ زندگی کے چھوڑنے کے لئے مجھ سے بیعت؎۱ کریں.پس جو لوگ اپنے نفسوں میں کسی قدر یہ طاقت پاتے ہیں اُنہیں لازم ہے کہ میری طرف آویں کہ میں اُن کا غمخوار ہوں گا اور اُن کا بار ہلکا کرنے کے لئے کوشش کروں گا اور خدا تعالیٰ میری دُعا اور میری ۱ (ترجمہ از مرتّب) اے رسُولوں کے فخر تیرا خدا کے نزدیک مقامِ قرب مجھے معلوم ہوگیا ہے تُو دیر سے آیا ہے (اور) دُور کے راستہ سے آیا ہے.
توجہ میں اُن کے لئے برکت دے گا بشرطیکہ وہ ربّانی شرائط پر چلنے کے لئے بدل و جان طیار ہوں گے.یہ ربّانی حکم ہے جو آج میں نے پہنچا دیا ہے.اس بارہ میں عربی الہام یہ ہے.اِذَا عَـزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ وَ اصْنَعِ الْفُلْکَ بِـاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا.اَلَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّـمَا یُـبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَـوْقَ اَیْدِیْـھِمْ.‘‘ ۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) مورخہ۱۲؍جنوری۱۸۸۹ء کو جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ پیدا ہوئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کی پیدائش کی اطلاع اس اشتہار کے ذریعہ جس کا عنوان ’’تکمیل تبلیغ‘‘ تھا.یوں شائع فرمائی.’’ خدائے عزّوجلّ نے جیسا کہ اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۸ء اور اشتہار یکم دسمبر۱۸۸۸ء میں مندرج ہے اپنے لطف وکرم سے وعدہ دیا تھا کہ بشیر اوّل کی وفات کے بعد ایک دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا نام محمود بھی ہوگا اور اِس عاجز کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ وہ اولوالعزم ہوگا اور حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا.وہ قادر ہے جس طور سے چاہتا ہے پیدا کرتا ہے.سو آج ۱۲؍جنوری۱۸۸۹ء میں مطابق ۹جمادی الاوّل۱۳۰۶ھ روز شنبہ میں اس عاجز کے گھر میں بفضلہ تعالیٰ ایک لڑکا پیدا ہوگیا ہے جس کا نام بالفعل محض تفاؤل کے طور پر بشیر اور محمود بھی رکھا گیا ہے اور کامل انکشاف کے بعد پھر اطلاع دی جائے گی مگر ابھی تک مجھ پر یہ نہیں کھلا کہ یہی لڑکا مصلح موعود اور عمر پانے والا ہے یا وہ کوئی اور ہے لیکن میں جانتا ہوں اور محکم یقین سے جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق مجھ سے معاملہ کرے گا اور اگر ابھی اس موعود لڑکے کے پیدا ہونے کا وقت نہیں آیا تو دوسرے وقت میں وہ ظہور پذیر ہوگا اور اگر مدّتِ مقررہ سے ایک دن بھی باقی رہ جائے گا تو خدائے عزّوجلّ اُس دن کو ختم نہیں کرے گا جب تک اپنے وعدہ کو پورا نہ کرلے.مجھے ایک خواب میں اس مصلح موعود کی نسبت زبان پر یہ جاری ہوا تھا ؎ اے فخر رسل قرب تو معلومم شد دیر آمدۂٖ ز راہِ دُور آمدۂٖ پس اگر حضرت باری جلّ شانہٗ کے ارادہ میں دیر سے مراد اسی قدر دیر ہے جو اس پسر کے پیدا ہونے میں جس کا نام بطور تفاؤل بشیر الدین محمود رکھا گیا ہے ظہور میں آئی تو تعجب نہیں کہ یہی لڑکا موعود لڑکا ہو ورنہ وہ بفضلہ تعالیٰ دوسرے وقت پر آئے گا.‘‘ (اشتہار تکمیل تبلیغ مطابق ۱۲؍ جنوری۱۸۸۹ء.مجموعہ اشتہارات جلد۱ صفحہ ۲۰۷، ۲۰۸ حاشیہ.مطبوعہ ۲۰۱۸ء) (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) اس اشتہار میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو ہی قرار دیا اور تفاؤل کے طور پر نام بھی بشیر الدین محمود رکھا مگر کامل انکشاف کے بعد صحیح اطلاع دینے کا وعدہ فرمایا.سو حضور علیہ السلام ایفائے عہد فرماتے ہیں اور اس امر کے متعلق مختلف کتب میں اطلاع دیتے ہیں.(الف) ’’محمود جو بڑا لڑکا ہے اس کی پیدائش کی نسبت اس سبز اشتہار میں صریح پیشگوئی مع محمود کے نام کے
(سبز اشتہار.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۴۷۰) (ترجمہ) جب تو نے اس خدمت کے لئے قصد کرلیا تو خدا تعالیٰ پر بھروسا کر اور یہ کشتی ہماری آنکھوں بقیہ حاشیہ.موجود ہے جو پہلے لڑکے کی وفات کے بارے میں شائع کیا گیا تھا جو رسالہ کی طرح کئی ورق کا اشتہار سبز رنگ کے ورقوں پر ہے.‘‘ (ضمیمہ انجامِ آتھم.روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ ۲۹۹) (ب) ’’پانچویں پیشگوئی میں نے اپنے لڑکے محمودؔ کی پیدائش کی نسبت کی تھی کہ وہ اَب پیدا ہوگا اور اُس کا نام محمود رکھا جائے گا اور اس پیشگوئی کی اشاعت کے لئے سبز ورق کے اشتہار شائع کئے گئے تھے جو اَب تک موجود ہیں اور ہزاروں آدمیوں میں تقسیم ہوئے تھے چنانچہ وہ لڑکا پیشگوئی کی میعاد میں پیدا ہوا اور اب نویں سال میں ہے.‘‘ (سراج منیر.روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۳۶) (ج) ’’مـحموؔد جو میرا بڑا بیٹا ہے اس کے پیدا ہونے کے بارے میں اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۸ء میں اور نیز اشتہار یکم دسمبر ۱۸۸۸ء میں جو سبز رنگ کے کاغذ پر چھاپا گیا تھا پیشگوئی کی گئی اور سبز رنگ کے اشتہار میں یہ بھی لکھا گیا کہ اس پیدا ہونے والے لڑکے کا نام محمودؔ رکھا جائے گا… پھر جبکہ اس پیشگوئی کی شہرت بذریعہ اشتہارات کامل درجہ پر پہنچ چکی… تب خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے۱۲؍جنوری۱۸۸۹ء کو مطابق۹جمادی الاوّل۱۳۰۶ھ میں بروز شنبہ مـحموؔد پیدا ہوا.‘‘ (تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد۱۵، صفحہ ۲۱۹) (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) مصلح موعود کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اشتہار تکمیل تبلیغ مورخہ۱۲؍جنوری۱۸۸۹ء کے حاشیہ میں خیال ظاہر فرمایا تھا اور بعض دوسرے مقامات پر بھی اشارات کئے ہیں حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایّدہ اللہ تعالیٰ کے وجود میں پوری ہوئی.چنانچہ جملہ واقعات اور کوائف اس پر شاہد ہیں اور خود حضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایّدہ اللہ تعالیٰ نے بھی اسے صراحت کے ساتھ اپنے اوپر چسپاں کیا ہے.(نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) چنانچہ حضور نے ۲۸؍جنوری۱۹۴۴ء بروز جمعۃ المبارک خطبہ جمعہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم پاکر اپنے مصلح موعود ہونے کا اعلان فرمایا.حضور فرماتے ہیں.(الف) ’’خدا تعالیٰ نے اپنی مشیت کے ماتحت آخر اس امر کو ظاہر کردیا اور مجھے اپنی طرف سے علم بھی دے دیا کہ مصلح موعود سے تعلق رکھنے والی پیشگوئیاں میرے متعلق ہیں.‘‘ (ب) ’’آج پہلی دفعہ میں نے وہ تمام پیشگوئیاں پڑھیں اور اب ان پیشگوئیوں کو پڑھنے کے بعد میں خدا تعالیٰ کے فضل سے یقین اور وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے یہ پیشگوئی میرے ذریعہ سے ہی پوری کی ہے.‘‘ (روزنامہ الفضل یکم فروری۱۹۴۴ء صفحہ ۶)
کے رُو برو اور ہماری وحی سے بنا.جو لوگ تجھ سے بیعت کریں گے وہ تجھ سے نہیں بلکہ خدا سے بیعت کریں گے خدا کا ہاتھ ہوگا جو ان کے ہاتھوں پر ہوگا.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۵۶۵) (ب) ’’اُس نے اس سلسلہ کے قائم کرنے کے وقت مجھے فرمایا کہ زمین میں طوفانِ ضلالت برپا ہے تو اِس طوفان کے وقت میں یہ کشتی طیار کر.جو شخص اِس کشتی میں سوار ہوگا و ہ غرق ہونے سے نجات پا جائے گا اور جو انکار میں رہے گا اُس کے لئے موت درپیش ہے.اورفرمایا کہ جو شخص تیرے ہاتھ میں ہاتھ دے گا اُس نے تیرے ہاتھ میں نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا.‘‘ (فتح اسلام.روحانی خزائن جلد۳ صفحہ۲۴، ۲۵) ۱۸۸۹ء ’’خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا… کہ خدا تعالیٰ کے حضور میں اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ حاضر ہوجاؤ اور اپنے ربّ کریم کو اکیلا مت چھوڑو.جو شخص اُسے اکیلا چھوڑتا ہے وہ اکیلا چھوڑا جائے گا.‘‘ (اشتہار تکمیل تبلیغ مورخہ ۱۲ ؍ جنوری ۱۸۸۹ء.مجموعہ اشتہارات جلد ۱ صفحہ۲۰۹ مطبوعہ ۲۰۰۸ء ) ۴؍ مارچ ۱۸۸۹ء ’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض فوائد و منافع بیعت کہ جو آپ لوگوں کے لئے مقدّر ہیں اِس انتظام پر موقوف ہیں کہ آپ سب صاحبوں کے اسماء مُبارکہ ایک کتاب میں بقید ولدیت و سکونت مستقل و عارضی طورمعہ کسی قدر کیفیت کے (اگرممکن ہو) اندراج پاویں.‘‘ (اشتہار گذارش ضروری مورخہ ۴؍مارچ ۱۸۸۹ء.ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۵۵۸) ۴؍ مارچ ۱۸۸۹ء ’’یہ انتظام جس کے ذریعہ سے راستبازوں کا گروہ کثیر ایک ہی سلک میں منسلک ہوکر وحدت مجموعی کے پیرایہ میں خلق اللہ پر جلوہ نما ہوگا اور اپنی سچائی کی مُـختلفُ المَخرَج شعاعوں کو ایک ہی خط ِ ممتد میں ظاہر کرے گا.خداوند عزّوجلّ کو بہت پسند آیا ہے.‘‘ (اشتہار گذارش ضروری مورخہ ۴؍ مارچ۱۸۸۹ء.ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۵۵۹) ۴؍ مارچ ۱۸۸۹ء ’’خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ محض اپنے فضل اور کرامت خاص سے اس عاجز کی دعاؤں او راس ناچیز کی توجہ کو ان کی؎۱پاک استعدادوں کے ظہور و بروز کا وسیلہ ٹھہراوے اور اس قدوس جلیل الذّات نے مجھے جوش بخشا ہے تا میں ان طالبوں کی تربیت باطنی میں مصروف ہوجاؤں.‘‘ (اشتہار گذارش ضروری مورخہ۴؍مارچ۱۸۸۹ء.ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد۳ صفحہ۵۶۲) ۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) بیعت ِ اولیٰ لدھیانہ میں ۲۰؍رجب ۱۳۰۶ھ مطابق۲۳؍ مارچ ۱۸۸۹ء بروز شنبہ کو ہوئی.
مارچ ۱۸۸۹ء ’’ منجملہ ان نشانوں کے جو پیشگوئی کے طور پر ظہور میں آئے وہ پیشگوئی ہے جو میں نے اخویم قاضی ضیاء الدین صاحب قاضی کوٹی ضلع گوجرانوالہ کے متعلق کی تھی… اور وہ یہ ہے… کہ قاضی صاحب آپ کو ایک سخت ابتلاء پیش آنے والا؎۲ہے.‘‘ (تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد۱۵صفحہ ۴۷۲) اپریل۳؎ ۱۸۸۹ء ’’ایک دفعہ مجھے علی گڑھ میں جانے کا اتفاق ہوا اور مرض ضعفِ دماغ کی و جہ سے جس کا قادیان میں بھی کچھ مدّت پہلے دورہ ہوچکا تھا میں اس لائق نہیں تھا کہ زیادہ گفتگو یا اور کوئی دماغی محنت کاکام کرسکتا… اس حالت میں علی گڑھ کے ایک مولوی صاحب محمد اسمٰعیل نام مجھ سے ملے اور انہوں نے نہایت انکساری سے وعظ کے لئے درخواست کی… میں نے اس درخواست کو بشوقِ دل قبول کیا اور چاہا کہ لوگوں کے عام مجمع میں اسلام کی حقیقت بیان کروں… لیکن بعد اس کے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے روکا گیا.مجھے یقین ہے کہ چونکہ میری صحت کی حالت اچھی نہیں تھی اس لئے خدا تعالیٰ نے نہ چاہا کہ زیادہ مغزخواری کرکے کسی جسمانی بَلا میں پڑوں.اس لئے اُس نے وعظ کرنے سے مجھے روک دیا.ایک دفعہ اس سے پہلے بھی ایسا ہی اتفاق ہوا تھا کہ میری ضُعف کی حالت میں ایک نبی گذشتہ نبیوں میں سے کشفی طور پر مجھ کو ملے اور مجھے بطور ہمدردی اور نصیحت کے کہا کہ اس قدر دماغی محنت کیوں کرتے ہو اس سے تو تم بیمار ہوجاؤ گے.‘‘ (فتح اسلام.روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۱۷، ۱۸ حاشیہ) دسمبر ۱۸۹۰ء ’’ کیا شک ہے ماننے میں تمہیں اِس مسیح کے جس کی مماثلت کو خدا نے بتادیا حاذق طبیب پاتے ہیں تم سے یہی خطاب ۱ یعنی بیعت کرنے والوں کی.(شمس) ۲ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) یہ پیشگوئی حضور ؑ نے اس وقت فرمائی جبکہ قاضی صاحب لدھیانہ میں حضورؑ کی بیعت سے مشرف ہوئے اور پھر جس طرح یہ ابتلاء پیش آیا اور پیشگوئی پوری ہوئی اس کی تفصیل قاضی صاحب موصوف نے اپنے خط میں درج کرکے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھیجی چنانچہ حضور ؑ نے اس خط کو بھی اسی کتاب تریاق القلوب میں درج فرما دیا.تفصیل وہاں دیکھ لی جاوے.۳ (نوٹ از ناشر) علی گڑھ کا سفر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپریل ۱۸۸۹ء میں اختیار کیا.(حیات احمد جلد ۳ صفحہ ۵۳ مطبوعہ ۲۰۱۳ء)
خوبوں کو بھی تو تم نے مسیحا بنا دیا ‘‘ (ٹائٹل رسالہ فتح اسلام.روحانی خزائن جلد۳، صفحہ ۱) ۱۸۹۰ء ’’حضرت عالی سیدنا و مولانا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بطور پیشگوئی فرماچکے ہیں کہ اِس اُمّت پر ایک زمانہ آنے والا ہے جس میں وہ یہودیوں سے سخت درجہ کی مشابہت پیدا کرلے گی… تب فارسؔ کی اصل میں سے ایک ایمان کی تعلیم دینے والا پیدا ہوگا.اگر ایمان ثریّاؔ میں معلّق ہوتا، تو وہ اُسے اس جگہ سے بھی پالیتا.یہ پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے جس کی حقیقت الہام الٰہی نے اِس عاجز پر کھول دی اور تصریح سے اُس کی کیفیت ظاہر کردی اور مجھ پر خدا تعالیٰ نے اپنے الہام کے ذریعہ سے کھول دیا کہ حضرت مسیح بن مریم بھی درحقیقت ایک ایمان کی تعلیم دینے والا تھا جو حضرت موسیٰ سے چودہ سَو۱۴۰۰ برس بعد پیدا ہوا اس زمانہ میں جبکہ یہودیوں کی ایمانی حالت نہایت کمزور ہوگئی تھی اور وہ بوجہ کمزوری ایمان کے ان تمام خرابیوں میں پھنس گئے تھے جو درحقیقت بے ایمانی کی شاخیں ہیں.پس جبکہ اس اُمّت کو بھی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے عہد پر چودہ سو برس کے قریب مدّت گذری تو وہی آفات ان میں بھی بکثرت پیدا ہوگئیں جو یہودیوں میں پیدا ہوئی تھیں.تا وہ پیشگوئی پوری ہو جو ان کے حق میں کی گئی تھی.پس خدا تعالیٰ نے اِن کے لئے بھی ایک ایمان کی تعلیم دینے والا مثیلِ مسیح اپنی قدرتِ کاملہ سے بھیج دیا.مسیح جو آنے والا تھا یہی ہے چاہو تو قبول کرو جس کسی کے کان سننے کے ہوں سُنے.یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے اور لوگوں کی نظر میں عجیب.‘‘ (فتح اسلام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۹،۱۰ حاشیہ) ۱۸۹۰ء ’’ خدا تعالیٰ نے مجھے بھی بشارت دی کہ موت کے بعد مَیں پھر تجھے حیات بخشوں گا اور فرمایا کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کے مقر ّب ہیں وہ مرنے کے بعد پھر زندہ ہو جایا کرتے ہیں.اور فرمایا کہ میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا اور اپنی قدرت نمائی سے تجھے اُٹھاؤں گا پس میری اس دوبارہ زندگی سے مراد بھی میرے مقاصد کی زندگی ہے.‘‘ (فتح اسلام.روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۱۶ حاشیہ)
۱۸۹۰ء ’’ اس حکیم و قدیر نے اِس عاجز کو اصلاحِ خلائق کے لئے بھیج کر … دنیا کو حق اور راستی کی طرف کھینچنے کے لئے کئی شاخوں؎۱ پر امر تائید حق اور اشاعت ِ اسلام کو مُنقسم کردیا… یہ پانچ طور کا سلسلہ جو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا… خدا تعالیٰ کی نظر میں یہ سب ضروری ہیں اور جس اصلاح کے لئے اُس نے ارادہ فرمایا ہے وہ اِصلاح بجز استعمال ان پانچوں طریقوں کے ظہور پذیر نہیں ہوسکتی.‘‘ (فتح اسلام.روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۱۱،۱۲ و۲۵،۲۶) ۱۸۹۰ء ’’ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ ایک سخت بے دین ہندو سے اس عاجز کی گفتگو ہوئی اور اس نے حد سے زیادہ تحقیر دین متین کے الفاظ استعمال کئے.غیرت دینی کی و جہ سے کسی قدر اس عاجز نے وَاغْلُظْ عَلَیْـھِمْ پر عمل کیامگر چونکہ وہ ایک شخص کو نشانہ بنا کر درشتی کی گئی تھی اس لئے الہام ہوا کہ تیرے بیان میں سختی بہت ہے رِفق چاہیے رِفق.‘‘ (از مکتوب بنام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی.مکتوبات احمد جلد۱ صفحہ ۳۱۶ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) جنوری ۱۸۹۱ء توضیح مرام ۲؎ (توضیح مرام ٹائٹل پیج روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۴۹ ) ۱۸۹۱ء ’’فضل الرحمٰن؎۱کی نسبت اس عاجز کو پہلے سے ظنِّ نیک ہے.ایک دفعہ اس کی نسبت سَیُـھْدٰی؎۲ کا الہام ہوچکا ہے.‘‘ (از مکتوب بنام حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحبؓ.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۱۱۰ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸۹۱ء ’’اللہ جلّ شانہٗ کی وحی اور الہام سے میں نے مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور یہ بھی میرے پر ظاہر کیا گیا ہے کہ میرے بارہ میں پہلے سے قرآنِ شریف اور احادیثِ نبویہ میں خبر دی گئی ہے اور وعدہ دیا گیا ہے.‘‘ (از مکتوب بنام مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی.مکتوبات احمد جلد ۱ صفحہ ۴۲۴.مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸۹۱ء ’’ کل میں نے اپنے بازو پر یہ لفظ اپنے تئیں لکھتے ہوئے دیکھا کہ ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یہ پانچ شاخیں ہیں جن کی تفصیل حضور اقدس نے آگے اسی کتاب میں فرمائی ہے.ایک شاخ تالیف و تصنیف کا سلسلہ ہے دوسری اشتہارات.تیسری مہمان خانہ اور مہمانوں کی خاطر مدارات.چوتھی مکتوبات اور پانچویں شاخ سلسلہ بیعت ہے.(تفصیل کے لئے دیکھیے فتح اسلام.روحانی خزائن جلد۳صفحہ ۱۲تا ۲۵) ۲ اس رسالہ توضیح مرام کا نام الہامی ہے.(عبد اللطیف بہاولپوری)
میں اکیلا ہوں اور خدا میرے ساتھ ہے.اور اس کے ساتھ مجھے الہام ہوا.اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَـھْدِیْنِ ؎۳ سو میں جانتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ اپنی طرف سے کوئی حجّت ظاہر کردے گا.‘‘ (از مکتوب بنام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی.مکتوبات احمد جلد ۱ صفحہ ۳۱۲.مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۱؍مارچ ۱۸۹۱ء ’’شاید ایک ہفتہ ہوا میں نے آپ کو خواب میں دیکھا.گویا آپ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں کیا کروں.تو میں نے آپ کو یہ کہا ہے.خدا سے ڈر پھر جو چاہے کر.‘‘ (از مکتوب بنام شیخ فتح محمد صاحب.مکتوبات احمد جلد ۳ صفحہ ۲۸۰.مطبوعہ ۲۰۱۳ء) ۱۸۹۱ء ’’ہماری ایک لڑکی عصمت بی بی نام تھی ایک دفعہ اس؎۱کی نسبت الہام ہوا.کَرْمُ الْـجَنَّۃِ دَوْحَۃُ الْـجَنَّۃِ ؎۲ تفہیم یہ تھی کہ وہ زندہ نہیں رہے گی.سو ایسا ہی ہوا.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ ۵۹۳) ۱۸۹۱ء ’’ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ میں نعمت اللہ ولی کا وہ قصیدہ دیکھ رہا تھا جس میں اس نے میرے آنے کی بطور پیشگوئی خبر دی ہے اور میرا نام بھی لکھا ہے اور بتلایا ہے کہ تیرھویں صدی کے اخیر میں وہ مسیح موعود ظاہر ہوگا اور میری نسبت یہ شعر لکھا ہے کہ؎ مھدیٔ وقت و عیسٰی ٔ دوراں ھر دو را شہسوار مے بینم ۱ مفتی فضل الرحمٰن صاحب داماد حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ.(مرزا بشیر احمد) ۲ (ترجمہ از مرتّب) وہ ضرور سیدھے راستہ پر ڈالا جائے گا.(نوٹ از عرفانی صاحبؓ) مفتی فضل الرحمٰن صاحبؓ کے رشتہ نکاح کے متعلق حضرت مولوی صاحبؓ نے مشورہ پوچھا تھا… حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مشورہ دیا اور الہام الٰہی نے اس کی تائید فرمائی.(از مکتوب بنام حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحبؓ.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۱۱۰ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۳ (ترجمہ از مرتّب) میرے ساتھ میرا خدا ہے.وہ ضرور میرے لئے راستہ پیدا کردے گا.
یعنی وہ آنے والا مہدی بھی ہوگا اور عیسیٰ بھی ہوگا.دونوں ناموں کا مصداق ہوگا اور دونوں طور کے دعوے کرے گا.پس اِس اثناء میں کہ میں یہ شعر پڑھ رہا تھا عین پڑھنے کے وقت مجھے یہ الہام ہوا.از پئے آں محمد احسن را تارکِ روزگار مے بینم؎۳ یعنی میں دیکھتا ہوں کہ مولوی سید محمد احسن امروہی اسی غرض کے لئے اپنی نوکری سے جو ریاست بھوپال میں تھی علیحدہ ہوگئے تا خدا کے مسیح موعود کے پاس حاضر ہوں اور اس کے دعوے کی تائید کے لئے خدمت بجالاوے، اور یہ ایک پیشگوئی تھی جو بعد میں نہایت صفائی سے ظہور میں آئی.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۳۴۶) ۱۸۹۱ء ’’جب یہ آیتیں اُتریں کہ مشرکین رجس ہیں، پلید ہیں، شرّالبریّہ ہیں، سفہا ہیں اور ذریّت شیطان ہیں اور اُن کے معبود وقود النار اور حصب جہنّم ہیں تو ابوطاؔلب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بُلا کر کہا کہ اے میرے بھتیجے! اب تیری دشنام دہی سے قوم سخت مشتعل ہوگئی ہے اور قریب ہے کہ تجھ کو ہلاک کریں اور ساتھ ہی مجھ کو بھی.تُونے اُن کے عقلمندوں کو سفیہ قرار دیا اور اُن کے بزرگوں کو شرّالبریّہ کہا اور ان کے قابلِ تعظیم معبودوں کا نام ہیزمِ جہنّم اور وَقُوْدُ النَّارِ رکھا اور عام طور پر ان سب کو رِجس اور ذریّت شیطان اور پلید ٹھہرایا.میں تجھے خیر خواہی کی راہ سے کہتا ہوں کہ اپنی زبان کو تھام اور دشنام دہی سے باز آجا ورنہ میں قوم کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں کہا کہ اے چچا! یہ دشنام دہی نہیں ہے بلکہ اظہارِ واقعہ اور نفس الامر کا عین محل پر بیان ہے، اور یہی تو کام ہے جس کے لئے میں بھیجا گیا ہوں.اگر اس سے مجھے مرنا درپیش ۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) سیرۃ المہدی جلد ۱ صفحہ ۴۴۵ مطبوعہ ۲۰۰۸ء سے معلوم ہوتا ہے کہ صاحبزادی عصمت بی بی کی وفات ۱۸۹۱ء میں تصنیف و اشاعت ازالہ اوہام سے پہلے ہوئی تھی اور یہ الہام بہر حال پہلے کا ہے مگر چونکہ ہم پہلے کی تعیین نہیں کرسکتے اس لئے اسے ۱۸۹۱ء میں ہی رکھا جاتا ہے.۲ (ترجمہ از مرتّب) انگور کی جنّتی بیل.جنت کا بڑا درخت.۳ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) یہ الہامی شعر نمونہ پرچہ القادیان یکم ستمبر ۱۹۰۲ء میں بھی درج ہے لیکن پہلے مصرعہ میں’’ از پئے آں محمد احسن را‘‘ کی بجائے ’’ از برایش محمد احسن را ‘‘ لکھا ہے.اگر یہ راوی کے حافظہ کی غلطی نہیں ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس الہامی شعر کی دو۲ قراءتیں ہیں.وَاللہُ اَعْلَمُ.
ہے تو میں بخوشی اپنے لئے اِس موت کو قبول کرتا ہوں.میری زندگی اِسی راہ میں وقف ہے.میں موت کے ڈر سے اظہارِ حق سے رُک نہیں سکتا.اور اے چچا! اگر تجھے اپنی کمزوری اور اپنی تکلیف کا خیال ہے تو تُو مجھے پناہ میں رکھنے سے دست بردار ہوجا.بخدا مجھے تیری کچھ بھی حاجت نہیں میں احکامِ الٰہی کے پہنچانے سے کبھی نہیں رکوں گا.مجھے اپنے مولیٰ کے احکام جان سے زیادہ عزیز ہیں.بخدا اگر میں اس راہ میں مارا جاؤں تو چاہتا ہوں کہ پھر بار بار زندہ ہوکر ہمیشہ اسی راہ میں مرتا رہوں.یہ خوف کی جگہ نہیں بلکہ مجھے اس میں بے انتہا لذّت ہے کہ اس کی راہ میں دُکھ اُٹھاؤں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ تقریر کررہے تھے اور چہرہ پر سچائی اور نورانیت سے بھری ہوئی رِقّت نمایاں ہورہی تھی اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ تقریر ختم کرچکے تو حق کی روشنی دیکھ کر بے اختیار ابو طاؔلب کے آنسو جاری ہوگئے اور کہا کہ میں تیری اس اعلیٰ حالت سے بے خبر تھا.تُو اورہی رنگ میں اور اَور ہی شان میں ہے جا اپنے کام میں لگا رہ جب تک میں زندہ ہوں جہاں تک میری طاقت ہے میں تیرا ساتھ دوں گا.یہ سب مضمون ابوطالب کے قصّہ کا اگرچہ کتابوں میں درج ہے مگر یہ تمام عبارت الہامی ہے جو خدائے تعالیٰ نے اِس عاجز کے دل پر نازل کی صرف کوئی کوئی فقرہ تشریح کے لئے اِس عاجز کی طرف سے ہے اس الہامی عبارت سے ابو طالب کی ہمدردی اور دلسوزی ظاہر ہے لیکن بکمال یقین یہ بات ثابت ہے کہ یہ ہمدردی پیچھے سے انوار نبوت وآثار استقامت دیکھ کر پیدا ہوئی تھی ہمارے سیّد ومولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑا حصّہ عمر کا جو چالیس برس ہے بے کسی اور پریشانی اور یتیمی میں بسر کیا تھاکسی خویش یا قریب نے اس زمانہ تنہائی میں کوئی حق خویشی اور قرابت کا ادا نہیں کیا تھا یہاں تک کہ وہ روحانی بادشاہ اپنی صغر سنی کی حالت میں لاوارث بچوں کی طرح
بعض بیابان نشین اور خانہ بدوش عورتوں کے حوالہ کیا گیا اور اُسی بے کسی اور غریبی کی حالت میں اس سیّد الانام نے شیر خوارگی کے دن پورے کئے اورجب کچھ سن تمیز پہنچاتو یتیم اور بے کس بچوں کی طرح جن کا دنیا میں کوئی بھی نہیں ہوتا اُن بیابان نشین لوگوں نے بکریاں چرانے کی خدمت اُس مخدوم العالمین کے سپُرد کی اور اُس تنگی کے دنوں میں بجز ادنیٰ قسم کے اناجوں یا بکریوں کے دُودھ کے اور کوئی غذانہ تھی جب سن بلوغ پہنچا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی کے لئے کسی چچاوغیرہ نے باوجود آنحضرت کے اوّل درجہ کے حسن وجمال کے کچھ فکر نہیں کی بلکہ پچیس برس کی عمر ہونے پر اتفاقی طورپر محض خدائے تعالیٰ کے فضل وکرم سے ایک مکّہ کی رئیسہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لئے پسند کر کے آپ سے شادی کر لی یہ نہایت تعجب کا مقام ہے کہ جس حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچا ابو طالب اور حمزہ اور عبّاس جیسے موجود تھے اور بالخصوص ابوطالب رئیس مکّہ اور اپنی قوم کے سردار بھی تھے اوردنیوی جاہ وحشمت ودولت ومقدرت بہت کچھ رکھتے تھے مگر باوجود ان لوگوں کی ایسی امیرانہ حالت کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ ایّام بڑی مصیبت اور فاقہ کشی اور بے سامانی سے گذرے یہاں تک کہ جنگلی لوگوں کی بکریاں چرانے تک نوبت پہنچی اور اس دردناک حالت کو دیکھ کر کسی کے آنسو جاری نہیں ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شباب پہنچنے کے وقت کسی چچا کو خیال تک نہیں آیا کہ آخر ہم بھی تو باپ ہی کی طرح ہیں شادی وغیرہ امور ضروریہ کے لئے کچھ فکر کریں حالانکہ اُن کے گھر میں اوراُن کے دوسرے اقارب میں بھی لڑکیاں تھیں.سو اس جگہ بالطبع یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر سرد مہری اُن لوگوں سے کیوں ظہور میں آئی اس کا واقعی جواب یہی ہے کہ ان لوگوں نے ہمارے سیّد ومولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ ایک لڑکا یتیم ہے جس کا باپ نہ ماں ہے بے سامان ہے جس کے پاس کسی قسم کی جمعیت نہیں نادار ہے جس کے ہاتھ پلّے کچھ بھی نہیں ایسے مصیبت زدہ کی ہمدردی سے فائدہ ہی کیا ہے اور اُس کو اپنا داماد بنانا تو گویا اپنی لڑکی کو تباہی میں ڈالنا ہے مگر اس بات کی خبر نہیں تھی کہ وہ ایک شہزادہ اور روحانی بادشاہوں کا سردار ہے جس کو دنیا کے تمام خزانوں کی کنجیاں دی جائیں گی.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۱۰ تا ۱۱۴ حاشیہ) ۱۸۹۱ء ’’صحیح مسلم میں یہ جو لکھا ہے کہ حضرت مسیح دمشق کے منارہ سفید شرقی کے پاس اُتریں گے… دمشق کے لفظ کی تعبیر میں میرے پر منجانب اللہ یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس جگہ ایسے قصبہ کا نام دمشق رکھا گیا ہے جس میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو یزیدی الطبع اور یزید پلید کی عادات اور خیالات کے پیرو ہیں… مجھ پر یہ ظاہر کیا
گیا ہے کہ دمشق کے لفظ سے دراصل وہ مقام مراد ہے جس میں یہ دمشق والی مشہور خاصیّت پائی جاتی ہے اور خدائے تعالیٰ نے مسیح کے اُترنے کی جگہ جو دمشق کو بیان کیا تو یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مسیح سے مراد وہ اصلی مسیح نہیں ہے جس پر انجیل نازل ہوئی تھی بلکہ مسلمانوں میں سے کوئی ایسا شخص مراد ہے جو اپنی روحانی حالت کی رُو سے مسیح سے اور نیز امام حسین سے بھی مشابہت رکھتا ہے کیونکہ دمشق پایۂ تخت یزید ہوچکا ہے اور یزیدیوں کا منصوبہ گاہ جس سے ہزار ہا طرح کے ظالمانہ احکام نافذ ہوئے وہ دمشق ہی ہے… سو خدائے تعالیٰ نے اُس دمشق کو جس سے ایسے پُر ظلم احکام نکلتے تھے اور جس میں ایسے سنگ دل اور سیاہ دروں لوگ پیدا ہوگئے تھے اِس غرض سے نشانہ بنا کر لکھا کہ اب مثیل دمشق عدل اور ایمان پھیلانے کا ہیڈ کوارٹر ہوگا کیونکہ اکثر نبی ظالموں کی بستی میں ہی آتے رہے ہیں اور خدا تعالیٰ لعنت کی جگہوں کو برکت کے مکانات بناتا رہا ہے.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۳۴ تا ۱۳۷ حاشیہ) ۱۸۹۱ء ’’قادیان کی نسبت مجھے یہ بھی الہام ہوا کہ اُخْرِجَ مِنْہُ الْیَزِیْدِ یُّوْنَ یعنی اس میں یزیدی لوگ پیدا کئے گئے ہیں.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۱۳۸ حاشیہ) ۱۸۹۱ء (الف) ’’ایک صاف اور صریح کشف میں مجھ پر ظاہر کیا گیا کہ ایک شخص حارثؔ نام یعنی حر ّاث ؎۱ آنے والا جو ابوداؤد کی کتاب میں لکھا ہے یہ خبر صحیح ہے اور یہ پیشگوئی اور مسیح کے آنے کی پیشگوئی درحقیقت یہ دونوں اپنے مصداق کی رُو سے ایک ہی ہیں.یعنی اِن دونوں کا مصداق ایک ہی شخص ہے جو یہ عاجز ہے.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۳۵ حاشیہ) (ب) ’’یہ پیشگوئی جو ابوداؤد کی صحیح میں درج ہے کہ ایک شخص حارث نام یعنی حر ّاث ماورائے نہر سے یعنی سمر قند کی طرف سے نکلے گاجو آلِ رسول کو تقویّت دے گا جس کی امداد اور نصرت ہر ایک مومن پر واجب ہوگی.الہامی طور پر مجھ پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ پیشگوئی اور مسیح کے آنے کی پیشگوئی جو مسلمانوں کا امام اور مسلمانوں میں سے ہوگا دراصل یہ دونوں پیشگوئیاں متحد المضمون ہیں اور دونوں کا مصداق یہی عاجز ہے.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۱۴۱حاشیہ) ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) حارث کے معنے زمیندار کے ہیں اور حَرّاث سے مراد بڑا زمیندار ہے اور یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں پائی جاتی ہے.
۱۸۹۱ء ’’پھر وہ منصور؎۱مجھے کشف کی حالت میں دکھایا گیا اور کہا گیا کہ خوشحال ہے.خوشحال ہے مگر خدائے تعالیٰ کی کسی حکمت خفیہ نے میری نظر کو اُس کے پہچاننے سے قاصر رکھا لیکن امید رکھتا ہوں کہ کسی دوسرے وقت دکھایا جائے.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۴۹ حاشیہ) ۱۸۹۱ء ’’الہام ہوا قُلْ لَّوْ کَانَ الْاَمْرُمِنْ عِنْدِ غَیْرِاللّٰہِ لَوَجَدْتُّمْ فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا.قُلْ لَّوِاتَّبَعَ اللّٰہُ اَھْوَآءَکُمْ لَفَسَدَ.تِ السَّمٰوَاتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْـھِنَّ وَلَبَطَلَتْ حِکْمَتُہٗ.وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْـمًا.قُلْ لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمَاتِ رَبِّیْ لَنَفِدَالْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمَاتُ رَبِّیْ وَلَوْ جِئْنَا بِـمِثْلِہٖ مَدَ.دًا.قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُـحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُـحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْـمًا.؎۲ پھر اس کے بعد الہام کیا گیا کہ اِن علماء نے میرے گھر کو بدل ڈالا.میری عبادت گاہ میں اِن کے چُولہے ہیں.میری پرستش کی جگہ میں ان کے پیالے اور ٹھوٹھیاں رکھی ہوئی ہیں اور چوہوں کی طرح میرے نبی کی حدیثوں کو کُتر رہے ہیں.(ٹھوٹھیاں وہ چھوٹی پیالیاں ہیں جن کو ہندوستانی میں سکوریاں کہتے ہیں.عبادت گاہ سے مراد اس الہام میں ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’اس کے لشکر یعنی اس کی جماعت کا سردار وسرگروہ ایک توفیق یافتہ شخص ہو گا جس کو آسمان پر منصور کے نام سے پکاراجاوے گا کیونکہ خدائے تعالیٰ اس کے خادمانہ ارادوں کا جو اس کے دل میں ہوں گے آپ ناصر ہوگا.اس جگہ اگرچہ اُس منصور کو سپہ سالار کے طور پر بیان کیا ہے مگر اس مقام میں درحقیقت کوئی ظاہری جنگ وجدل مراد نہیں ہے بلکہ یہ ایک روحانی فوج ہوگی کہ اُس حارث کو دی جائے گی.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۴۸، ۱۴۹ حاشیہ) ۲ (ترجمہ از مرتّب) کہہ کہ اگر یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتا بلکہ غیر اللہ کی بناوٹ ہوتا تو تم اس میں بہت اختلاف پاتے.کہہ کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے خیالاتِ باطلہ کی پیروی کرتا تو آسمان و زمین اور ان کے اندر رہنے والی مخلوق میں فساد برپا ہوجاتا اور حکمتِ الٰہی باطل ہوجاتی اور اللہ تعالیٰ غالب اور حکیم ہے.کہہ کہ اگر سمندر میرے ربّ کی باتوں (کے لکھنے) کے لئے روشنائی بن جاتے تو میرے ربّ کی باتوں کے ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہوجاتے اگرچہ ہم اتنے ہی اور (سمندر) ان میں شامل کرکے انہیں بڑھاتے.کہہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو.اللہ تعالیٰ تم سے محبّت کرے گا اور اللہ تعالیٰ بہت ہی بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے.
میں زمانۂ حال کے اکثر مولویوں کے دل ہیں جو دُنیا سے بھرے ہوئے ہیں).‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۱۳۹، ۱۴۰حاشیہ) ۱۸۹۱ء ’’کشفی حالت میں اِس عاجز نے دیکھا کہ انسان کی صورت پردو شخص ایک مکان میں بیٹھے ہیں، ایک زمین پر اور ایک چھت کے قریب بیٹھا ہے.تب میں نےاُس شخص کو جو زمین پر تھا مخاطب کرکے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے مگر وہ چپ رہا اور اُس نے کچھ بھی جواب نہ دیا.تب میں نے اس دوسرے کی طرف رخ کیا جو چھت کے قریب اور آسمان کی طرف تھا اور اُسے میں نے مخاطب کرکے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے.وہ میری اِس بات کو سُن کر بولا کہ ایک لاکھ نہیں ملے گی مگر پانچ ہزار سپاہی دیا جائے گا.تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگرچہ پانچ ہزار تھوڑے آدمی ہیں پر اگر خدائے تعالیٰ چاہے تو تھوڑے بہتوں پر فتح پاسکتے ہیں.اُس وقت میں نے یہ آیت پڑھی.كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ.‘‘ ۱؎ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۱۴۹حاشیہ) ۱۸۹۱ء ’ ’اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے کہ جو بات اِس عاجز کی دعا کے ذریعہ سے ردّ کی جائے وہ کسی اَور ذریعہ سےقبول نہیں ہوسکتی اور جو دروازہ اس عاجز کے ذریعہ سے کھولا جائے وہ کسی اور ذریعہ سے بند نہیں ہوسکتا.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۱۵۸حاشیہ) ۱۸۹۱ء ’’مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ اَنْتَ اَشَدُّ مُنَاسَبَۃً بِعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ وَاَشْبَہُ النَّاسِ بِہٖ خُلُقًا وَّ خَلْقًا وَّ زَمَانًـا.‘‘۲؎ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۱۶۵) ۱۸۹۱ء ’’خدا ئے تعالیٰ نے ایک قطعی اور یقینی پیشگوئی میں میرے پر ظاہر کر رکھا ہے کہ میری ہی ذرّیت سے ایک شخص پیدا ہوگا جس کو کئی باتوں میں مسیح سے مشابہت ہوگی.وہ آسمان (سے) اُترے گا اور زمین والوں کی راہ سیدھی کردے گا.وہ اسیروں کو رستگاری بخشے گا اور ان کو جو شبہات کی زنجیروں میں مقیّد ہیں رہائی دے گا.فرزند دلبند گرامی و ارجمند.مَظْھَرُ الْـحَقِّ وَالْعَلَآءِ.کَاَنَّ اللّٰہَ نَـزَلَ مِنَ السَّمَآءِ.‘‘ ؎۳ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۱۸۰) ۱ (ترجمہ از ناشر) کتنی ہی کم تعداد جماعتیں ہیں جو اللہ کے حکم سے کثیر التعداد جماعتوں پر غالب آگئیں.(البقرۃ: ۲۵۰) ۲ (ترجمہ از مرتّب) تُو کیا بلحاظ اخلاق اور کیا بلحاظ صورت و خلقت اور کیا بلحاظ زمانہ عیسیٰ ابنِ مریم کے ساتھ سب لوگوں سے بڑھ کر مناسبت اور مشابہت رکھتا ہے.۳ (ترجمہ از مرتّب) فرزند دلبند بزرگ اور اقبال مند.حق اور رفعت کا مظہر گویا کہ خدا آسمان سے اُتر آیا ہے.
۱۸۹۱ء ’’چند روز کا ذکر ہے کہ اِس عاجز نے اِس طرف توجہ کی کہ کیا اس حدیث کا جو اَلْآ یَاتُ بَعْدَ الْمِأَتَیْنِ ہے ایک یہ بھی منشاء ہے کہ تیرھویں صدی کے اواخر میں مسیح موعود کا ظہور ہوگا اور کیا اس حدیث کے مفہوم میں بھی یہ عاجز داخل ہے تو مجھے کشفی طور پر اس مندرجہ ذیل نام کے اعداد حروف کی طرف توجہ دلائی گئی کہ دیکھ یہی مسیح ہے کہ جو تیرھویں صدی کے پورے ہونے پر ظاہر ہونے والا تھا.پہلے سے یہی تاریخ ہم نے نام میں مقرر کررکھی تھی اور وہ یہ نام ہے.غلام ا۱۳۰۰حمد قادیانی اس نام کے عدد پورے ۱۳۰۰تیرہ سو ہیں اور اس قصبہ قادیان میں بجز اِس عاجز کے اور کسی شخص کا غلام احمد نام نہیں بلکہ میرے دل میں ڈالا گیا ہے کہ اس وقت بجز اِس عاجز کے تمام دنیا میں غلام احمد قادیانی کسی کا بھی نام نہیں اور اِس عاجز کے ساتھ اکثر یہ عادت اللہ جاری ہے کہ وہ سبحانہٗ بعض اسرار اعداد حروف تہجی میں میرے پر ظاہر کردیتا ہے.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۱۸۹،۱۹۰) ۱۸۹۱ء (الف) ’’ ایک دفعہ میں نے آدم کے سن پیدائش کی طرف توجہ کی تو مجھے اشارہ کیا گیا کہ ان اعداد پر نظر ڈال جو سورۃ العصر کے حروف میں ہیں کہ انہیں میں سے وہ تاریخ نکلتی ہے.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۱۹۰) (ب) ’’خدا تعالیٰ نے مجھے ایک کشف کے ذریعہ سے اطلاع دی ہے کہ سورۃ العصر کے اعداد سے بحساب ابجد معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک عصر تک جو عہد ِنبوت ہے یعنی تیئیس ۲۳ برس کا تمام و کمال زمانہ یہ کل مدّت گذشتہ زمانہ کے ساتھ ملا کر ۴۷۳۹ برس ابتدائے دنیا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روزِ وفات تک قمری حساب؎۱سے ہیں.‘‘ (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۲۵۱،۲۵۲) ۱۸۹۱ء ’’ایک شخص کی موت کی نسبت خدا ئےتعالیٰ نے اعداد تہجی میں مجھے خبر دی جس کا ماحصل یہ ہے کہ کَلْبٌ یَـمُوْتُ عَلٰی کَلْبٍ ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’اور شمسی حساب کے رُو سے۴۵۹۸ برس بعد آدم صفی اللہ حضرت نبیّنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہوئے.‘‘ ( تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۱۷صفحہ ۲۴۷ حاشیہ)
یعنی وہ کُتّا ہے اور کُتّے کے عدد پر مرے گا جو باون ۵۲ سال پر دلالت کررہے ہیں.یعنی اس کی عمر باون ۵۲ سال سے تجاوز نہیں کرے گی جب باون سال کے اندر قدم دھرے گا تب اُسی سال کے اندر اندر راہیِ مُلکِ بقا ہوگا.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد۳صفحہ ۱۹۰) ۱۸۹۱ء ’’ابھی تھوڑے دن گذرے ہیں کہ ایک مدقوق اور قریب الموت انسان مجھے دکھائی دیا اور اُس نے ظاہر کیا کہ میرا نام دین محمد ہے اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ دین محمدی ہے جو مجسّم ہو کر نظر آیا ہے اور میں نے اس کو تسلّی دی کہ تو میرے ہاتھ سے شفا پا جائے گا.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۲۰۶) ۱۸۹۱ء ’’اور یہ جو میں نے مسمریزمی طریق کا عمل الترب؎۱نام رکھا جس میں حضرت مسیح بھی کسی درجہ تک ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) تِرب کے معنی لغت میں ہم عمر یا مثیل کے لکھے ہیں مگر اس لفظ میں تُراب کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں.’’وَاَمَّا التُّرَابُ فَاعْلَمْ اَنَّ ھٰذَا اللَّفْظُ مَأْخُـوْذٌ مِّنْ لَفْظِ التِّرْبِ.وَ تِرْبُ الشَّیْءِ الَّذِیْ خُلِقَ مَعَ ذَالِکَ الشَّیْءِ عِنْدَ اَھْلِ الْعَـرَبِ.وَ قَالَ ثَعْلَبٌ تِرْبُ الشَّیْءِ مِثْلُہٗ وَمَا شَا.بَہَ شَیْئًا فِی الْـحُسْنِ وَالْبَھَآءِ.فَعَلٰی ھٰذَیْنِ الْمَعْنَیَیْنِ سُـمِّیَ التُّرَابُ تُـرَابًـا لِکَوْنِـھَافِیْ خَلْقِھَا تِرْبُ السَّمَآءِ.فَاِنَّ الْاَرْضَ خُلِقَتْ مَعَ السَّمَآءِ فِیْ اِبْتِدَاءِ الزَّمَانِ.وَتَشَابُـھًا فِیْ اَ نْوَاعِ صُنْعِ اللّٰہِ الْمَنَّانِ.‘‘ (انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱۱صفحہ ۲۶۲،۲۶۳ حاشیہ) (ترجمہ از مرتّب) ’’لفظ تُـرَاب تِرْب سے ماخوذ ہے اور عربوں کے نزدیک تِرْبُ الشَّیْءِ کے معنی ہیں وہ چیز جو اس کے ساتھ پیدا ہو اور ثعلبؔ کا قول ہے کہ کسی چیز کی تِرب وہ ہے جو خوبی میں اس کی مانند ہو.پس ان دونوں معنوں کی رُو سے مٹی کا نام تُراب اس لئے رکھا گیا کہ وہ پیدائش میں آسمان کی ہم عمر یا مثیل ہے کیونکہ زمین ابتدائی زمانہ میں آسمان کے ساتھ ہی پیدا ہوئی ہے اور وہ دونوں اللہ تعالیٰ کی صنعت کے اقسام میں مشابہ ہیں.‘‘ پس اس رُو سے وحی الٰہی میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ علم زمینی ہے نہ کہ آسمانی.اسے وہی لوگ استعمال کرتے ہیں جو رُوحانیت سے کم حصّہ رکھتے ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں.’’ اولیاء اور اہل سلوک کی تواریخ اور سوانح پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کاملین ایسے عملوں سے پرہیز کرتے رہے ہیں مگر بعض لوگ اپنی ولایت کا ایک ثبوت بنانے کی غرض سے یا کسی اور نیت سے ان مشغلوں میں مبتلا ہوگئے تھے.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳.صفحہ ۲۵۷ حاشیہ)
مشق رکھتے تھے یہ الہامی نام ہے اور خدائے تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا کہ یہ عمل الترب ہے اور اِس عمل کے عجائبات کی نسبت یہ بھی الہام ہوا.ھٰذَا ھُوَ التِّرْبُ الَّذِیْ لَا یَعْلَمُوْنَ یعنی یہ وہ عمل الترب ہے جس کی اصل حقیقت کی زمانہ حال کے لوگوں کو کچھ خبر نہیں.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد۳ صفحہ۲۵۹ حاشیہ) ۱۸۹۱ء ’’اور مجھے اُس ذات کی قسم ہے کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ابھی اور اسی وقت کشفی طور پر یہ صداقت؎۱ مذکورہ بالا میرے پر ظاہرکی گئی ہے اور اسی مُعلّمِ حقیقی کی تعلیم سے میں نے وہ سب لکھا ہے جو ابھی لکھا ہے.فَالْـحَمْدُ لِلہِ عَلٰی ذَالِکَ.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۲۹۳) ۱۸۹۱ء ’’اس عاجز کو ایک سخت بیماری آئی یہاں تک کہ قریب موت کے نوبت پہنچ گئی بلکہ موت کو سامنے دیکھ کر وصیّت بھی کردی گئی اُس وقت گویا یہ پیشگوئی؎۲ آنکھوں کے سامنے آگئی اور یہ معلوم ہورہا تھا کہ اب آخری دم ہے اور کل جنازہ نکلنے والا ہے تب میں نے اس پیشگوئی کی نسبت خیال کیا کہ شاید اس کے اور معنی ہوں گے جو میں سمجھ نہیں سکا.تب اُسی حالت قریب الموت میں مجھے الہام ہوا.اَلْـحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ یعنی یہ بات تیرے ربّ کی طرف سے سچ ہے تو کیوں شک کرتا ہے.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد۳صفحہ ۳۰۶) ۱۸۹۱ء ’’خدائے تعالیٰ نے آپ اپنے کلام میں میری طرف اشارہ کرکے فرمایا ہے.نبی ناصری کے نمونہ پر اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ بندگانِ خدا کو بہت صاف کررہا ہے اس سے زیادہ کہ کبھی جسمانی بیماریوں کو صاف کیا گیا ہو.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۳۳۵) ۱ یعنی مَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ کی تفسیر بیان فرمودہ از ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۲۹۰ تا ۲۹۳ (مرزا بشیر احمد) ۲ یعنی مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری والی پیش گوئی بحوالہ ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۳۰۵، ۳۰۶.(شمس)
۱۸۹۱ء ’’ ایک؎۱مدّت کی بات ہے جو اس عاجز نے خواب میں دیکھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارکہ پر مَیں کھڑا ہوں اور کئی لوگ مَر گئے ہیں یا مقتول ہیں اُن کو لوگ دفن کرنا چاہتے ہیں.اِسی عرصہ میں روضہ کے اندر سے ایک آدمی نکلا اور اُس کے ہاتھ میں ایک سرکنڈہ تھا اور وہ اُس سرکنڈہ کو زمین پر مارتا تھا اور ہر یک کوکہتا تھا کہ تیری اِس جگہ قبر ہوگی.تب وہ یہی کام کرتا کرتا میرے نزدیک آیا اور مجھ کو دکھلا کر اور میرے سامنے کھڑا ہوکر روضۂ شریفہ کے پاس کی زمین پر اُس نے اپنا سرکنڈہ مارا اور کہا کہ تیری اس جگہ قبر ہوگی.تب آنکھ کھل گئی.اور میں نے اپنے اجتہاد سے اس کی یہ تاویل کی کہ یہ معیّت معادی کی طرف اشارہ ہے کیونکہ جو شخص فوت ہونے کے بعد روحانی طور پر کسی مقدس کےقریب ہوجائے تو گویا اس کی قبر اُس مقدس کی قبر کے قریب ہوگئی.وَاللہُ اَعْلَمُ وَعِلْمُہٗ اَحْکَمُ.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۳۵۲) ۱۸۹۱ء ’’طلوع شمس کا جو مغرب کی طرف سے ہوگا ہم اُس پر بہرحال ایمان لاتے ہیں لیکن اِس عاجز پر جو ایک رؤیامیں ظاہر کیا گیا وہ یہ ہے جو مغرب کی طرف سے آفتاب کا چڑھنا یہ معنے رکھتا ہے کہ ممالک ِ مغربی جو قدیم سے ظلمت کفرو ضلالت میں ہیں آفتابِ صداقت سے منوّر کئے جائیں گے اور اُن کو اسلام سے حصّہ ملے گا.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۳۷۶،۳۷۷) ۱۸۹۱ء ’’میں نے دیکھا کہ میں شہر لنڈنؔ میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مُدلّل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں.بعد اس کے میں نے بہت سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور اُن کے رنگ سفید تھے اور شاید تیتر کے جسم کے موافق اُن کا جسم ہوگا.سو مَیں نے اِس کی یہ تعبیر کی کہ اگرچہ مَیں نہیں مگر میری تحریریں ان لوگوں میں پھیلیں گی اور بہت سے راست باز انگریز صداقت کے شکار ہوجائیں گے.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد۳صفحہ ۳۷۷) ۱۸۹۱ء ’’اُس نے مجھے بھیجا اور میرے پر اپنے خاص الہام سے ظاہر کیا کہ مسیح ابن مریم فوت ہوچکا ہے چنانچہ اُس کا الہام یہ ہے کہ مسیح ۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) چونکہ مدّت کی مقدار معلوم نہیں ہوسکی اس لئے اسے اس کے وقت ِ ذکر کی رعایت سے ۱۸۹۱ء کے نیچے ہی رکھا جاتا ہے.
مسیح ابنِ مریم رسول اللہ فوت ہوچکا ہے اور اُس کے رنگ میں ہوکر وعدہ کے موافق تُو آیا ہے.وَکَانَ وَعْدُ اللّٰہِ مَفْعُوْلًا.اَنْتَ مَعِـیْ وَ اَنْتَ عَلَی الْـحَقِّ الْمُبِیْنِ.اَنْتَ مُصِیْبٌ وَّمُعِیْنٌ لِّلْحَقِّ.‘‘؎۱ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۴۰۲ ) ۱۸۹۱ء ’’خدائے تعالیٰ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ تُو مغلوب ہو کر یعنی بظاہر مغلوبوں کی طرح حقیر ہوکر پھر آخر غالب ہوجائے گا اورانجام تیرے لئے ہوگا اور ہم وہ تمام بوجھ تجھ سے اتار لیں گے جس نے تیری کمر توڑ دی.خدا تعالیٰ کا ارادہ ہے کہ تیری توحید تیری عظمت تیری کمالیت پھیلاوے خدا تعالیٰ تیرے چہرہ کو ظاہر کرے گااور تیرے سایہ کو لمبا کردے گا.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُسے قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچا ئی ظاہر کر دے گا.عنقریب اسے ایک ملک عظیم دیا جائے گا (یعنی اُس کو قبولیت بخشی جائے گی اور خلق کثیر کے دل اس کی طرف مائل کئے جائیں گے) اور خزائن اُس پر کھولے جائیں گے (یعنی خزائن معارف و حقائق کھولے جائیں گے کیونکہ آسمانی مال جو خدائے تعالیٰ کے خاص بندوں کو ملتا ہے جس کو وہ دنیا میں تقسیم کرتے ہیں دنیا کا درم و دینار نہیں بلکہ حکمت و معرفت ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے اس کی طرف اشارہ کرکے فرمایا ہے کہ يُؤْتِی الْحِكْمَةَ مَنْ يَّشَآءُ١ۚ وَ مَنْ يُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِـیَ خَيْرًا كَثِيْرًا.۲؎خیر مال کوکہتے ہیں.سو پاک مال حکمت ہی ہے جس کی طرف حدیث نبوی میں بھی اشارہ ہے کہ اِنَّـمَا اَنَـا قَاسِـمٌ وَاللّٰہُ ھُوَ الْمُعْطِیْ.۳؎ یہی مال ہے جو مسیح موعود کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے ) یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور تمہاری آنکھوں میں عجیب.ہم عنقریب تم میں ہی اور تمہارے اردگرد نشان دکھلاویں گے ۱ (ترجمہ از مرتّب) اور اللہ کا وعدہ پورا ہوکر رہے گا.تُو میرے ساتھ ہے اور تُو روشن حق پر قائم ہے.تو راہِ صواب پر ہے اور حق کا مدد گار ہے.۲ (ترجمہ از ناشر) وہ جسے چاہے حکمت عطا کرتا ہے اور جو بھی حکمت دیا جائے تو یقیناً وہ خیر کثیر دیا گیا.(البقرۃ: ۲۷۰) ۳ (ترجمہ از ناشر) مَیں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور عطا کرنے والا تو اللہ ہے.
حجّت قائم ہوجائے گی اور فتح کھلی کھلی ہوگی.کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک بھاری جماعت ہیں یہ سب بھاگ جائیں گے اور پیٹھ پھیرلیں گے اگر لوگ تجھے چھوڑ دیں گے پرمیں نہیں چھوڑوں گا اور اگر لوگ تجھے نہیں بچائیں گے پر میں بچاؤں گا میں اپنی چمکار دکھاؤں گا اور قدرت نمائی سے تجھے اٹھاؤں گا.اے ابراہیم تجھ پر سلام ہم نے تجھے خالص دوستی کے ساتھ چن لیا.خداتیرے سب کا م درست کردے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا.تو مجھ سے ایسا ہے جیسی میری توحید اور تفرید.خدا ایسا نہیں جو تجھے چھوڑدے جب تک وہ خبیث کو طیّب سے جُدا نہ کرے.وہ تیرے مَجد کو زیادہ کرے گا اور تیری ذریّت کو بڑھائے گا اور مِن بَعد تیرے خاندان کا تجھ سے ہی ابتدا قرار دیا جائے گا.میں تجھے زمین کے کناروں تک عزّت کے ساتھ شہرت دوں گا اور تیرا ذکر بلند کروں گا اور تیری محبت دلوں میں ڈال دوں گا.جَعَلْنَاکَ الْمسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ (ہم نے تجھ کو مسیح ابن مریم بنایا) ان کو کہہ دے کہ مَیں عیسیٰ کے قدم پر آیا ہوں.یہ کہیں گے کہ ہم نے پہلوں سے ایسا نہیں سنا.سو تو اِن کو جواب دے کہ تمہارے معلومات وسیع نہیں خدا بہتر جانتا ہے.تم ظاہر لفظ اور ابہام پر قانع ہو اور اصل حقیقت تم پر مکشوف نہیں.جو شخص کعبہ کی بنیاد کو ایک حکمت ِ الٰہی کا مسئلہ سمجھتا ہے وہ بڑا عقلمند ہے کیونکہ اس کو اسرارِ ملکوتی سے حصّہ ہے.ایک اولی العزم پیدا ہوگا.وہ حُسن اور اِحسان میں تیرا نظیر ہوگا.وہ تیری ہی نسل سے ہوگا.فرزند دلبند گرامی وارجمند مَظْھَرُالْـحَقِّ وَ الْعَلَآءِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ ؎۱.یَاْتِیْ ؎۲ عَلَیْکَ زَمَانٌ مُّـخْتَلِفٌ بِاَزْوَاجٍ مُّـخْتَلِفَۃٍ.وَتَرٰی نَسْلًا بَعِیْدًا.وَلَنُحْیِیَنَّکَ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً.ثَـمَانِیْنَ حَوْلًا اَوْ قَرِیْبًا مِّنْ ذَالِکَ.اِنَّکَ بِـاَعْیُنِنَا سَـمَّیْتُکَ الْمُتَوَکِّلَ.یَـحْمَدُ.کَ اللّٰہُ مِنْ عَرْشِہٖ.کَذَّ.بُوْا ۱ (ترجمہ از ناشر) فرزند دلبند.بزرگ اور صاحب اقبال.حق اور رفعت کا مظہر (اس کا آنا ایسا ہے )گویا کہ خدا آسمان سے اتر آیا.۲ (ترجمہ از مرتّب) تجھ پر مختلف ازواج (یعنی رفقاء) کے ساتھ مختلف زمانے آئیں گے اور تُو دُور کی نسل دیکھے گا اور ہم تجھے خوش زندگی نصیب کریں گے اسّی سال یاا س کے قریب.یعنی تیری عمر اسی ۸۰ برس یا اس کے قریب ہوگی.تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے مَیں نے تیرا نام متوکّل رکھا ہے.خدا عرش پر سے تیری تعریف کررہا ہے.انہوں نے ہمارے
بِـاٰیٰتِنَا وَ کَانُوْا بِـھَا یَسْتَـھْزِءُوْنَ.سَیَکْفِیْکَھُمُ اللہُ وَ یَـرُدُّھَا اِلَیْکَ.لَا تَـبْدِ.یْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ.اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۴۴۱ تا۴۴۳) ۱۸۹۱ء ’’یہ وہ زمانہ ہے جو اس عاجز پر کشفی طور پر ظاہر ہوا جو کمال طغیان اس کا اُس سَن ہجری میں شروع ہوگا.جو آیت وَ اِنَّـا عَلٰی ذَهَابٍۭ بِهٖ لَقَادِ رُوْنَ؎۱ میں بحساب جمل مخفی ہے.یعنی ۱۲۷۴ھ.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد۳صفحہ۴۵۵) ۱۸۹۱ء ’’خدائے تعالیٰ نے اپنے کشف ِ صریح سے اس عاجز پر ظاہر کیا ہے کہ قرآنِ کریم میں مثالی طور پر ابنِ مریم کے آنے کا ذکر ہے؎۲.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۴۶۰) ۱۸۹۱ء ’’اُس نے محض اپنے فضل سے بغیر وسیلہ کسی زمینی والد کے اس ابنِ مریم کو رُوحانی پیدائش اور روحانی زندگی بخشی جیسا کہ اس نے خود اس کو اپنے الہام میں فرمایا.ثُمَّ اَحْیَیْنَاکَ بَعْدَ مَآ اَھْلَکْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰی وَ جَعَلْنَاکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ یعنی پھر ہم نے تجھے زندہ کیا بعد اس کے جو پہلے قرنوں کو ہم نے ہلاک کردیا اور تجھے ہم نے مسیح ابنِ مریم بنایا.یعنی بعد اس کے جو عام طور پر مشائخ اور علماء میں موت روحانی پھیل گئی.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد۳صفحہ ۴۶۴) ۱۸۹۱ء ’’ قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ وَ اَنَـا اَوَّلُ الْمُوْمِنِیْنَ.اَلْـحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَذْھَبَ عَنِّی الْـحَزَنَ وَ اٰتَانِیْ مَا لَمْ یُـؤْتَ اَحَدٌ مِّنَ الْعَالَمِیْنَ.؎۳ اَحَدٌ مِّنَ الْعَالَمِیْنَ سے مراد زمانہ حال کے لوگ یا آئندہ زمانہ کے ہیں.وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد۳صفحہ۴۷۹) بقیہ ترجمہ.نشانوں کو جھٹلایا اور وہ پہلے سے ہنسی کررہے تھے.خدا ان کے مقابل تجھے کافی ہوجائے گا اور اس کو تیری طرف لوٹائے گا.اللہ تعالیٰ کے کلمات کو کوئی تبدیل کرنے والا نہیں.تیرا ربّ وہ قادر ہے کہ جو کچھ چاہے وہی ہوجاتا ہے.۱ (ترجمہ از مرتّب) یقیناً ہم اُس کو لے جانے پر قادر ہیں.(المؤمنون: ۱۹) ۲ تفصیل مذکورہ حوالہ میں پڑھیں.(ناشر) ۳ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یہ الہام انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۷۷ پر یُوں درج ہے.’’.اَلْـحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَذْھَبَ عَنِّی الْـحَزَنَ وَاَعْطَانِیْ مَا لَمْ یُعْـطَ اَحَدٌ مِّنَ الْعَالَمِیْنَ.‘‘
ترجمہ.’’ان کو کہہ دے کہ میں خدا کی طرف سے مامور ہوں اور سب سے پہلے اس بات پر ایمان لانے والا مَیں ہوں.اس خدا کو تعریف ہے جس نے میرا غم دُور کیا اور مجھ کو وہ چیز دی جو اس زمانہ کے لوگوں میں سے کسی کو نہیں دی گئی.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۳۵۸ اور ۱۱۰ ) ۱۸۹۱ء ’’جب لوگ مسیح موعود کے دعویٰ سے سخت ابتلا میں پڑگئے یہ الہامات ہوئے.۱.اَلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا اُولٰٓئِکَ اَتُـوْبُ عَلَیْـھِمْ وَاَنَـا التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ.۲.اُمَمٌ یَّسَّـرْنَـا لَھُمُ الْھُدٰی وَ اُمَمٌ حَقَّ عَلَیْھِمُ الْعَذَابُ.۳.وَ یَـمْکُرُوْنَ وَ یَـمْکُرُ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ.۴.وَ لَکَیْدُ اللّٰہِ اَکْبَرُ.۵.وَ اِنْ یَّتَخِذُ وْنَکَ اِلَّا ھُزُوًا اَھٰذَا الَّذِیْ بَعَثَ اللّٰہُ.۶.قُلْ اَیُّـھَا الْکُفَّارُ اِنِّیْ مِنَ الصَّادِقِیْنَ.۷.فَانْتَظِرُوْٓا اٰیَاتِیْ حَتّٰی حِیْنٍ.۸.سَنُرِیْـھِمْ اٰیَاتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ.۹.حُـجَّۃٌ قَآئِـمَۃٌ وَّ فَتْحٌ مُّبِیْنٌ.۱۰.اِنَّ اللّٰہَ یَفْصِلُ بَیْنَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَـھْدِیْ مَنْ ھُوَ مُسْـرِفٌ کَذَّابٌ.۱۱.یُرِیْدُ.وْنَ اَنْ یُّطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِـاَفْوَاھِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ و لَوْکَرِہَ الْکَافِرُوْنَ.۱۲.نُرِیْدُ اَنْ نُّنَزِّلَ عَلَیْکَ اَسْـرَارًا مِّنَ السَّمَآءِ وَنُـمَزِّقَ الْاَعْدَآءَ کُلَّ مُـمَزَّقٍ وَّ نُرِیَ فِرْعَوْنَ وَھَامَانَ وَ جُنُوْدَ.ھُمَا مَاکَانُوْا یَـحْذَ رُوْنَ.۱۳.سَلَّطْنَا کِلَابًا عَلَیْکَ وَ غَیَّظْنَا سِبَاعًا مِّنْ قَوْلِکَ وَفَتَنَّاکَ فُتُوْنًا.۱۴.فَلَا تَـحْزَنْ عَلَی الَّذِیْ قَالُـوْٓا اِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ.۱۵.حُکْمُ اللّٰہِ الرَّحْـمَانِ لِـخَلِیْفَۃِ اللّٰہِ السُّلْطَانِ ۱۶.یُؤْتٰی لَہُ الْمُلْکُ الْعَظِیْمُ وَیُفْتَحُ عَلٰی یَدِہِ الْخَزَآ ئِنُ وَ تُشْـرِقُ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّـھَا.۱۷.ذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ وَ فِیْ اَعْیُنِکُمْ عَـجِیْبٌ.۱ یعنی جو لوگ توبہ کریں گے اور اپنی حالت کو درست کرلیں گے تب مَیں بھی اُن کی طرف رجوع کروں گا اورمیں توّاب اور رحیم ہوں.۲بعض گروہ وہ ہیں جن کے لئے ہم نے ہدایت کو آسان کردیا اور بعض وہ ہیں جن پر عذاب ثابت ہوا.۳وہ مکر کررہے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی مکر کررہا ہے اور وہ خیرالماکرین ہے ۴اور اس کا مکر بہت بڑا ہے.۵اور تجھے ٹھٹھوں میں اُڑاتے ہیں.کیا یہی ہے جو مبعوث ہوکر آیاہے.۶ان کو کہہ دے کہ اے منکرو! مَیں صادقوں میں سے ہوں ۷اور کچھ عرصہ کے بعد تم میرے نشان دیکھو گے.۸ہم اُنہیں اُن کے اِردگرد اور خود اُنہیں میں اپنے نشان دکھائیں گے.۹حجت قائم کی جائے گی اور فتح کھلی کھلی ہوگی.۱۰خدا تم میں فیصلہ
کردے گا.وہ کسی جھوٹے، حد سے بڑھنے والے کا رہنما نہیں ہوتا.۱۱چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نُور کو بُجھا دیں مگر خدا اُسے پُورا کرے گا اگرچہ مُنکر لوگ کراہت ہی کریں.۱۲ہمارا ارادہ یہ ہے کہ کچھ اسرار تیرے پر آسمان سے نازل کریں اور دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیں اور فرعونؔ اور ہامانؔ اور ان کے لشکروں کو وہ باتیں دکھا دیں جن سے وہ ڈرتے ہیں.۱۳ہم نے کُتّوں کو تیرے پر مُسلّط کیا اور درندوں کو تیری بات سے غصّہ دلایا اور سخت آزمائش میں تجھے ڈال دیا ۱۴سو تو اُن کی باتوں سے کچھ غم نہ کر.تیرا ربّ گھات میں ہے.۱۵وہ خدا جو رحمان ہے وہ اپنے خلیفہ سلطان کے لئے مندرجہ ذیل حکم صادر کرتا ہے کہ ۱۶ اس کو ایک ملک عظیم دیا جائے گا اور خزائن علوم و معارف اس کے ہاتھ پر کھولے جائیں گے اور زمین اپنے ربّ کے نور سے روشن ہوجائے گی.۱۷ یہ خدائے تعالیٰ کا فضل ہے اور تمہاری آنکھوں میں عجیب.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۵۶۵، ۵۶۶ ) ۱۸۹۱ء ’’ جب مولوی محمد حسین صاحب نے ہمارے کفر کا فتویٰ دیا اور لوگوں کو بھڑکایا کہ یہ مسلمان نہیں.ان کے جنازے درست نہیں اور ان کو مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن نہ ہونے دیا جاوے.اُس وقت چونکہ بُغض و عداوت بڑھ گئی تھی.ہم گویا تنہا رہ گئے.اُس وقت مَیں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ میرے بڑے بھائی مرزا غلام قادر مرحوم کی شکل پر ایک شخص آیا ہے مگر مجھے فوراً معلوم کرایا گیا کہ یہ فرشتہ ہے.مَیں نے کہا کہ تم کہاں سے آئے ہو ؟ اُس نے کہا کہ جِئْتُ مِنْ حَضْـرَۃِ الْوِتْرِ میں جنابِ باری سے آیا ہوں.میں نے کہا کہ کیوں؟ اُس نے کہا کہ بہت سے لوگ تم سے الگ ہوگئے ہیں اور تمہاری عداوت میں بڑھتے جاتے ہیں.یہ پیغام دینے آیا ہوں.مَیں نے اُس کو الگ ہو کر ایک بات کہنی چاہی.جب وہ الگ ہوا تو مَیں نے کہا کہ لوگ تو مجھ سے علیحدہ ہوگئے ہیں مگر کیا تم بھی الگ ہوگئے ہو؟ اُس نے کہا نہیں.ہم تو تمہارے ساتھ ہیں.معاً میری حالت ِ کشف اس پر جاتی رہی.‘‘ (الحکم جلد۷نمبر ۲مورخہ۱۷؍جنوری۱۹۰۳ء صفحہ۶.البدر جلد ۱نمبر۱۲ مورخہ۱۶؍جنوری۱۹۰۳ء صفحہ۹۰) ؎۱ ۱۸۹۱ء ’’چونکہ میری توجہ پر مجھے ارشاد ہوچکا ہے کہ اُدْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ۱ نیز دیکھیے انوار الاسلام.روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۵۴.(عبد اللطیف بہاولپوری)
اور مجھے یقین دلایا گیا ہے کہ اگر آپ؎۱ تقویٰ کا طریق چھوڑ کر ایسی گستا خی؎۲کریں گے اورآیت لَاتَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ۳؎ کو نظرانداز کردیں گے تو ایک سال تک اس گستاخی کا آپ پر ایسا کھلا کھلا اثر پڑے گا جو دوسروں کے لئے بطور نشان کے ہوجائے گا.‘‘ (از اشتہار۱۷؍اکتوبر ۱۸۹۱ء.مجموعہ اشتہارات جلد ۱ صفحہ ۲۹۰.مطبوعہ ۲۰۱۸ء) نومبر۱۸۹۱ء ’’ رَاَیْتُنِیْ٭ فِی الْمَنَامِ عَیْنَ اللّٰہِ وَتَیَقَّنْتُ اَنَّنِیْ ھُوَ وَلَمْ یَبْقَ لِیْ اِرَادَۃٌ وَّ لَا خَطْرَۃٌ وَّ لَا عَـمَلٌ مِّنْ جِھَۃِ نَفْسِیْ وَ صِـرْتُ کَـاِنَـاءٍ مُّنْثَلِمٍ بَلْ کَشَیْءٍ تَاَ بَّطَہٗ شَیْءٌ اٰخَرُ وَاَخْفَاہُ فِیْ نَفْسِہٖ حَتّٰی مَا بَقِیَ مِنْہُ اَثَرٌ وَّ لَا رَآئِـحَۃٌ وَّ صَارَ کَا لْمَفْقُوْدِ یْنَ.وَاَعْنِیْ؎۴ بِعَیْنِ اللّٰہِ رُجُوْعَ الظِّلِّ اِلٰی اَصْلِہٖ وَغَیْبُوْبَتَہٗ فِیْہِ کَمَا یَـجْرِیْ مِثْلُ ھٰذِہِ الْـحَالَاتِ فِیْ بَعْضِ الْاَوْقَاتِ عَلَی الْمُحِبِّیْنَ.وَتَفْصِیْلُ ذَالِکَ اَنَّ اللّٰہَ اِذَا اَرَادَ شَیْئًا مِّنْ نِّظَامِ الْـخَیْرِ جَعَلَنِیْ مِنْ تَـجَلِّیَاتِہِ الذَّاتِیَّۃِ بِـمَنْزِلَۃِ مَشِیَّتِہٖ وَعِلْمِہٖ وَجَوَارِحِہٖ وَتَوْحِیْدِہٖ وَتَفْرِیْدِہٖ لِاِتْـمَامِ (مضمون بالا کا مفہوم بزبان اُردو حضرت اقدسؑ کے الفاظ میں ) ’’مَیں نے اپنے ایک کشف میں دیکھا کہ مَیں خود خدا؎۵ ہوں اور یقین کیا کہ وہی ہوں اور میرا اپنا کوئی ارادہ اور کوئی خیال اور کوئی عمل نہیں رہا اور مَیں ایک سوراخ دار برتن کی طرح ہوگیا ہوں یا اس شَے کی طرح جسے کسی دوسری شے نے اپنی بغل میں دبا لیا ہو اور اُسے اپنے اندر بالکل مخفی کرلیا ہویہاں تک کہ اُس کا کوئی نام و نشان باقی نہ رہ گیا ہو.۱ مولوی سید نذیر حسین صاحب دہلوی.(مرزا بشیر احمد) ۲ یعنی یہ جسارت کہ ’’ایک مجلس میں میرے تمام دلائل وفات مسیح سن کر اللہ جلّ شانہٗ کی تین مرتبہ قَسم کھا کر یہ کہہ دیجئے کہ یہ دلائل صحیح نہیں ہیںاور صحیح اور یقینی امر یہی ہے کہ حضرت مسیح ابنِ مریم زندہ بجسدہ العنصری آسمان کی طرف اُٹھائے گئے ہیں.‘‘ (اشتہار۱۷ ؍اکتوبر۱۸۹۱ء.مجموعہ اشتہارات جلد ۱ صفحہ ۲۹۰.مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۳ (ترجمہ از ناشر) وہ موقف اختیار نہ کر جس کا تجھے علم نہیں.(بنی اسرائیل: ۳۷) ۴ (ترجمہ از ناشر) اور عین اللہ سے میری مراد ظل کا اپنے اصل کی طرف لوٹ جانا اور اس میں اس کا فنا ہوجانا ہے جیسا کہ بعض اوقات ایسی حالتیں محبّین پر طاری ہوتی رہتی ہیں اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے خیر کے نظام میں سے کسی بات کا ارادہ فرمایا تو مجھے اپنی ذاتی تجلیات سے بمنزلہ اپنی مشیت،اپنے علم، اپنے اعضاء، اپنی توحید اور تفرید بنا دیا ۵ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) خواب میں اگر کوئی دیکھے کہ وہ خدا بن گیا ہے.تو اس کی یہ تعبیر ہوگی.’’اِھْتَدٰی اِلَی الصِّرَاطِ الْمُسْتَقِیْمِ.‘‘ (تعطیرالانام از ابن سیرینؒ باب الالف صفحہ ۹) کہ اس شخص کو سیدھی راہ کی طرف ہدایت ملی.
مُرَادِہٖ وَتَکْمِیْلِ مَوَاعِیْدِہٖ کَمَا جَرَتْ عَادَتُہٗ بِالْاَ بْدَالِ وَالْاَقْطَابِ وَالصِّدِّیْقِیْنَ.فَرَاَیْتُ اَنَّ رُوْحَہٗ اَحَاطَ عَلَـیَّ وَاسْتَوٰی عَلٰی جِسْمِیْ وَلَفَّنِیْ فِیْ ضِـمْنِ وُجُوْدِہٖ حَتّٰی مَا بَقِیَ مِنِّیْ ذَرَّۃٌ وَّکُنْتُ مِنَ الْغَآئِبِیْنَ.وَنَظَرْتُ اِلٰی جَسَدِیْ فَاِذَا جَوَارِحِیْ جَوَارِحُہٗ وَعَیْنِیْ عَیْنُہٗ وَاُذُنِیْ اُذُنُہٗ وَلِسَانِیْ لِسَانُہٗ.اَخَذَنِیْ رَبِّیْ وَاسْتَوْفَانِیْ وَاَکَّدَ الْاِسْتِیْفَآءَ حَتّٰی کُنْتُ مِنَ الْفَانِیْنَ.وَ وَجَدْتُّ قُدْرَتَہٗ وَقُوَّتَہٗ تَفُوْرُ فِیْ نَفْسِیْ وَاُلُوْھِیَّتَہٗ تَتَمَوَّجُ فِیْ رُوْحِیْ وَضُرِبَتْ حَوْلَ قَلْبِیْ سُـرَادِقَاتُ الْـحَضْرَۃِ وَ دَقَّقَ نَفْسِیْ سُلْطَانُ الْـجَبَرُوْتِ.فَـمَا بَقِیْتُ وَمَا بَقِیَ اِرَادَتِیْ وَلَا مُنَایَ.وَانْـھَدَ مَتْ عِـمَارَۃُ نَفْسِیْ کُلُّھَا وَتَرَاءَتْ عِـمَارَاتُ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.وَانْـمَـحَتْ اَطْلَالُ وُجُوْدِیْ وَعَفَتْ بَقَایَا اَنَـانِیَّتِیْ وَمَا بَقِیَتْ ذَرَّۃٌ مِّنْ ھُوِیَّــتِیْ.وَ الْاُلُوْھِیَّۃُ غَلَبَتْ عَلَیَّ غَلَبَۃً شَدِیْدَۃً تَآمَّۃً وَّ جُذِبْتُ اِلَیْھَا مِنْ شَعْرِ رَاْسِیْ اِلٰی اَظْفَارِ اَرْجُلِیْ.فَکُنْتُ لُبًّا بِلَا قُشُوْرٍ وَّ دُھْنًا بِغَیْرِ ثُفْلٍ وَّ بُذُوْرٍ وَّ بُوْعِدَ بَیْنِیْ وَ بَیْنَ نَفْسِیْ فَکُنْتُ کَشَیْءٍ لَّا یُرٰی اَوْکَقَطْرَۃٍ رَّجَعَتْ اِلَی الْبَحْرِ فَسَتَرَہُ الْبَحْرُ بِرِدَآئِہٖ وَکَانَ تَـحْتَ اَموَاجِ الْیَمِّ کَالْمَسْتُوْرِیْنَ.فَکُنْتُ فِیْ ھٰذِہِ الْـحَالَۃِ لَا اَدْرِیْ مَاکُنْتُ مِنْ قَبْلُ وَمَاکَانَ وُجُوْدِیْ وَکَانَتِ الْاُلُوْھِیَّۃُ نَفَذَتْ فِیْ عُرُوْقِیْ وَ اَوْتَارِیْ بقیہ ترجمہ.اِس اثناء میں مَیں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کی رُوح مجھ پر محیط ہوگئی اور میرے جسم پر مستولی ہوکر اپنے وجود میں مجھے پنہاں کرلیا یہاں تک کہ میرا کوئی ذرّہ بھی باقی نہ رہا اور مَیں نے اپنے جسم کو دیکھا تو میرے اعضا اُس کے اعضا اور میری آنکھ اُس کی آنکھ اور میرے کان اُس کے کان اور میری زبان اس کی زبان بن گئی تھی.میرے ربّ نے مجھے پکڑا اور ایسا پکڑا کہ مَیں بالکل اس میں محو ہوگیا اور مَیں نے دیکھا کہ اُس کی قدرت اور قوت مجھ میں جوش مارتی اور اُس کی الُوہیت مجھ میں موجزن ہے.حضرت عزت کے خیمے میرے دل کے چاروں طرف لگائے گئے اور سلطانِ جبروت نے میرے نفس کو پیس ڈالا.سو نہ تو مَیں مَیں ہی رہا اور نہ میری کوئی تمنّا ہی باقی رہی.میری اپنی عمارت گر گئی اور ربّ العالمین کی عمارت نظر آنے لگی.اور الُو ہیت بڑے زور کے ساتھ مجھ پر غالب ہوئی اور مَیں سر کے بالوں سے ناخنِ پا تک اس کی طرف کھینچا گیا پھر مَیں ہمہ مغز ہوگیا جس میں کوئی پوست نہ تھا اور ایسا تیل بن گیا جس میں کوئی مَیل نہیں تھی اور مجھ میں اور میرے نفس میں جُدائی ڈال دی گئی.پَس مَیں اُس شے کی طرح ہوگیا جو نظر نہیں آتی یا اُس قطرہ کی طرح جو دریا میں جاملے اور دریا اُس کو اپنی چادر کے نیچے چھپالے.اس حالت میں مَیں نہیں جانتا تھا کہ اس سے پہلے مَیں کیا تھا اور میرا وجود کیا تھا.الُوہیت میری رگوں بقیہ ترجمہ از ناشر.تا وہ اپنا مقصد پورا کرےاور اپنے وعدوں کی تکمیل کرے جیسا کہ ابدال اور اقطاب اور صدیقین کے ساتھ اس کی سنت جاری ہے.
ْزَآءِ اَعْصَابِیْ وَ رَاَیْتُ وُجُوْدِیْ کَالْمَنْھُوْبِیْنَ.وَکَاَنَّ اللّٰہَ اسْتَخْدَمَ جَـمِیْعَ جَوَارِحِیْ وَمَلَکَھَا بِقُوَّۃٍ لَّایُـمْکِنُ زِیَادَۃٌ عَلَیْـھَا فَکُنْتُ مِنْ اَخْذِہٖ وَ تَنَاوُلِہٖ کَاَنِّیْ لَمْ اَکُنْ مِّنَ الْکَآ.ئِنِیْنَ.وَکُنْتُ اَتَیَقَّنُ اَنَّ جَوَارِحِیْ لَیْسَتْ جَوَارِحِیْ بَلْ جَوَارِحُ اللّٰہِ تَعَالٰی وَکُنْتُ اَتَـخَیَّلُ اَنِّی انْعَدَمْتُ بِکُلِّ وُجُوْدِیْ وَانْسَلَخْتُ مِنْ کُلِّ ھُوِیَّــتِیْ.وَالْاٰنَ لَا مُنَازِعَ وَلَا شَرِیْکَ وَلَا قَابِضَ یُزَاحِـمُ.دَخَلَ رَبِّیْ عَلٰی وُجُوْدِیْ وَکَانَ کُلُّ غَضَبِیْ وَ حِلْمِیْ وَحُلْوِیْ وَ مُرِّیْ وَحَرَکَتِیْ وَسُکُوْنِیْ لَہٗ وَمِنْہُ.وَ صِـرْتُ مِنْ نَّفْسِیْ کَالْـخَالِیْنَ.وَ بَیْنَـمَا اَنَـا فِیْ ھٰذِہِ الْـحَالَۃِ کُنْتُ اَقُوْلُ اِنَّـا نُرِیْدُ نِظَامًا جَدِیْدًا.سَمَآءً جَدِیْدَۃً وَّ اَرْضًا جَدِیْدَۃً فَـخَلَقْتُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ اَوَّلًا بِصُوْرَۃٍ اِجْـمَالِیَّۃٍ لَّا تَفْرِیْقَ فِیْھَا وَ لَا تَرْتِیْبَ.ثُمَّ فَرَّقْتُـھَا وَ رَتَّبْتُـھَا بِـوَضْعٍ ھُوَ مُرَادُ الْـحَقِّ وَکُنْتُ اَجِدُ نَفْسِیْ عَلٰی خَلْقِھَا کَالْقَادِرِیْنَ.ثُمَّ خَلَقْتُ السَّمَآءَ الدُّنْیَا وَقُلْتُ اِنَّـا زَیَّنَا السَّمَآءَ الدُّنْیَا بِـمَصَابِیْحَ ثُمَّ قُلْتُ الْاٰنَ نَـخْلُقُ الْاِنْسَانَ مِنْ سُلَالَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ.ثُمَّ انْـحَدَرْتُ مِنَ الْکَشْفِ اِلَی الْاِلْھَامِ فَـجَرٰی عَلٰی لِسَانِیْ.بقیہ ترجمہ.اور پٹھوں میں سرایت کر گئی اور مَیں بالکل اپنے آپ سے کھویا گیا اور اللہ تعالیٰ نے میرے سب اعضا اپنے کام میں لگائے اور اس زور سے اپنے قبضہ میں کرلیا کہ اُس سے زیادہ ممکن نہیں چنانچہ اس کی گرفت سے مَیں بالکل معدوم ہوگیا اور مَیں اُس وقت یقین کرتا تھا کہ میرے اعضا میرے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے اعضا ہیں اور مَیں خیال کرتا تھا کہ مَیں اپنے سارے وجود سے معدوم اور اپنی ہَـوِیَّتْ سے قطعاً نکل چکا ہوں.اَب کوئی شریک اور مُنازِع روک کرنے والا نہیں رہا.خدا تعالیٰ میرے وجود میں داخل ہوگیا اور میرا غضب اور حلم اور تلخی اور شیرینی اور حرکت اور سکون سب اسی کا ہوگیا اور اس حالت میں مَیں یُوں کہہ رہا تھا کہ ہم ایک نیا نظام اور نیا آسمان اور نئی زمین چاہتے ہیں.۱؎ سو مَیں نے پہلے تو آسمان اور زمین کو اجمالی صورت میں پیدا کیا جس میں کوئی ترتیب اور تفریق نہ تھی پھر مَیں نے منشاء ِ حق کے موافق اس کی ترتیب اور تفریق کی اور مَیں دیکھتا تھا کہ مَیں اس کے خلق پر قادر ہوں.پھر مَیں نے آسمانِ دنیا کو پیدا کیا اور کہا.اِنَّـا زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْیَا بِـمَصَابِیْحَ.پھر مَیں نے کہااب ہم انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کریں گے.پھر میری حالت کشف سے الہام کی طرف منتقل ہوگئی اور میری زبان پر ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’ ایک دفعہ کشفی رنگ میں مَیں نے دیکھا کہ مَیں نے نئی زمین اور نیا آسمان پیدا کیا ہے اور پھر مَیں نے کہا کہ آؤ اب انسان کو پیدا کریں.اس پر نادان مولویوں نے شور مچایا کہ دیکھو اب اس شخص نے خدائی کا دعویٰ کیا حالانکہ اُس کشف سے یہ مطلب تھا کہ خدا میرے ہاتھ پر ایک ایسی تبدیلی پیدا کرے گا کہ گویا آسمان اور زمین نئے ہوجائیں گے اور حقیقی انسان پیدا ہوں گے.‘‘ (چشمۂ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۷۵، ۳۷۶ حاشیہ)
اَرَدْتُّ۱؎ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَـخَلَقْتُ اٰدَمَ.اِنَّـا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ وَکُنَّا کَذَالِکَ خَالِقِیْنَ.وَ۲؎ اُلْقِیَ فِیْ قَلْبِیْ اَنَّ اللّٰہَ اِذَا اَرَادَ اَنْ یَّـخْلُقَ اٰدَمَ فَیَخْلُـقُ السَّمٰوَاتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّـامٍ وَّ.یَـخْلُقُ کُلَّ مَا لَا بُدَّ مِنْہُ فِی السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِیْنَ.ثُمَّ فِیْ اٰخِرِالْیَوْمِ السَّادِ.سِ یَـخْلُـقُ اٰدَمَ.وَکَذَالِکَ جَرَتْ عَادَتُہٗ فِی الْاَوَّلِیْنَ وَالْاٰخِرِیْنَ.وَ اُلْقِیَ فِیْ قَلْبِیْ اَنَّ ھٰذَا الْـخَلْقَ الَّذِیْ رَاَیْتُہٗ اِشَارَۃٌ اِلٰی تَائِیْدَاتٍ سَـمَاوِیَّۃٍ وَّ اَرْضِیَّۃٍ وَّجَعْلِ الْاَسْبَابِ مُوَافِقَۃً لِّلْمَطْلُوْبِ وَخَلْقِ کُلِّ فِطْرَۃٍ مُّنَاسِبَۃٍ مُّسْتَعِدَّۃٍ لِّـلَّحُوْقِ بِالصَّالِـحِیْنَ الطَّیِّبِیْنَ.وَ اُلْقِیَ فِیْ بَالِیْ اَنَّ اللّٰہَ یُنَادِیْ کُلَّ فِطْرَۃٍ صَالِـحَۃٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَیَقُوْلُ کُـوْنِیْ عَلٰی عُدَّۃٍ لِّنُصْـرَۃِ عَبْدِیْ وَارْحَلُوْا اِلَیْہِ مُسَارِعِیْنَ.وَرَاَیْتُ ذَالِکَ فِیْ رَبِیْعِ الثَّانِیْ سنہ ۱۳۰۹ھ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَصْدَقُ الْمُوْحِیْنَ.وَ لَانَعْنِیْ بِـھٰذِہِ الْوَاقِعَۃِ کَمَا یُعْنٰی فِیْ کُتُبِ اَصْـحَابِ وَحْدَۃِ الْوُجُوْدِ وَ مَا نَعْنِیْ بِذَالِکَ مَاھُوَ مَذْھَبُ الْـحُلُوْلِیِّیْنَ.بَلْ ھٰذِہِ الْوَاقِعَۃُ تُوَافِقُ حَدِیْثَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَعْنِیْ بِذَالِکَ حَدِیْثَ الْبُخَارِیِّ فِیْ بَیَانِ مَرْتَبَۃِ قُرْبِ النَّوَافِلِ لِعِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِـحِیْنَ.‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۶۴ تا ۵۶۶) بقیہ ترجمہ.جاری ہوا.اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَـخَلَقْتُ اٰدَمَ اِنَّـا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ.‘‘ (کتاب البریّہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۰۳ تا ۱۰۵) ۱ (ترجمہ از مرتب) مَیں نے ارادہ کیاکہ خلیفہ بناؤں تو مَیں نے آدم کو پیدا کیا.یقیناً ہم نے انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا ہے اور ہم اسی طرح پیدا کرنے والے ہیں.۲ (ترجمہ از مرتّب) اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی آدمی کو پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو چھ دنوں کے اندر آسمانوں اور زمین کو اور ان تمام چیزوں کو پیدا کرتا ہے جن کا آسمان یا زمین میں پایا جانا ضروری ہوتا ہے اور چھٹے دن کے اخیر میں آدم کو پیدا کرتا ہے اور یہی اس کی سنّتِ مستمرہ ہے.اور یہ بات بھی میرے دل میں ڈالی گئی ہے کہ نئے آسمان اور زمین کا پیدا کیا جانا جو مَیں نے رؤیا میں دیکھا ہے اس میں تائیداتِ سماوی و ارضی کی طرف اور اصل مقصود کے مناسبِ حال اسباب پیدا کرنے اور ایسی فطرتوں کو وجود میں لانے کی طرف اشارہ ہے جو صالحین طیّبین میں شامل ہونے کی اہلیّت رکھتے ہوں.نیز میرے دل میں ڈالا گیا کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک فطرتِ صالحہ کو آسمان سے حکم دیتا ہے کہ میرے بندے کی نصرت کے لئے تیار ہوجاؤ اور اس بندے کی طرف دوڑ کر آؤ.اور یہ رؤیا مَیں نے ربیع الثانی ۱۳۰۹ھ میں دیکھی تھی.پس سچی وحی کرنے والا اللہ بڑا برکت والا ہے.اور اس سے مراد وحدت وجودی لوگوں والا عقیدہ یا حلولیوں والا عقیدہ نہیں بلکہ یہ واقعہ صحیح بخاری کی اس حدیث کے مطابق ہے جس میں نوافل کے ذریعہ سے اللہ کے صالح بندوں کو حاصل ہونے والے مرتبۂ قرب کا ذکر ہے.
۱۸۹۱ء ’’مَیں پہلے خط میں لکھ چکا ہوں کہ ایک آسمانی فیصلہ؎۱ کے لئے مَیں مامور ہوں اور اس کے ظاہری انتظام کے درست کرنے کے لئے مَیں نے ۲۷؍دسمبر۱۸۹۱ء کو ایک جلسہ تجویز کیا ہے.متفرق مقامات سے اکثر مخلص جمع ہوں گے.‘‘ (از مکتوب بنام حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ آف مالیر کوٹلہ.مکتوباتِ احمد جلد۲ صفحہ ۱۶۱.مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸۹۱ء ’’ایک دُعا کے وقت کشفی طور پر مجھے معلوم ہوا کہ آپ میرے پاس موجو دہیں اور ایک دفعہ گردن اُونچی ہوگئی اور جیسے اقبال اور عزت کے بڑھنے سے انسان اپنی گردن کو خوشی کے ساتھ اُبھارتا ہے ویسی ہی صورت پیدا ہوئی.مَیں حیران ہوں کہ یہ بشارت کس وقت اور کس قسم کے عروج سے متعلق ہے.مَیں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے ظہور کا زمانہ کیا ہے مگر مَیں کہہ سکتا ہوں کہ کسی وقت میں کسی قسم کا اقبال؎۲اور کامیابی اور ترقی عزت اللہ جلّ شانہٗ کی طرف سے آپ کے لئے مقرر ہے.اگرچہ اس کا زمانہ نزدیک ہو یا دُور ہو.سو مَیں آپ کے پیش آمدہ ملال سے گو پہلے غمگین تھا مگر آج خوش ہوں کیونکہ آپ کے مآلِ کار کی بہتری کشفی طور پر معلوم ہوگئی.‘‘ (از مکتوب بنام حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ آف مالیر کوٹلہ.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۱۶۱.مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸۹۱ء ’’کِتَابٌ سَـجَّلْنَاہُ مِنْ عِنْدِنَـا.یہ وہ کتاب ہے جس پر ہم نے اپنے پاس سے مُہر لگادی ہے.‘‘ (آسمانی فیصلہ.روحانی خزائن جلد ۴صفحہ ۳۲۱) ۱۸۹۱ء ’’خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کرکے صاف لفظوں میں فرمایا ہے.۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) ’’آسمانی فیصلہ‘‘ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اسلام کی برکات اب بھی جاری ہیں اور آپ اس مدّعا کے ثابت کرنے کے لئے مامور ہیں.۲ خاکسار مرتّب عرض کرتا ہے کہ یہ بشارت ۱۹۰۸ء میں اس طرح سے پوری ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نواب صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دامادی کا شرف بخشا اور حضور کی بڑی صاحبزادی حضرت نواب مبارکہ بیگم صا حبہ آپ کے نکاح میں آئیں اس سے بڑھ کر آپ کی اقبال مندی، خوش نصیبی اور ترقی عزت اور کیا ہوسکتی ہے.(مرزا بشیر احمد)
اَنَـا الْفَتَّاحُ اَفْتَحُ لَکَ.۲.تَرٰی نَصْـرًا عَـجِیْبًا وَّ یَـخِرُّوْنَ عَلَی الْمَسَاجِدِ.۳.رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا اِنَّـا کُنَّا خَاطِئِیْنَ.۴.جَلَابِیْبُ الصِّدْ.قِ.۵.فَاسْتَقِمْ کَمَا اُمِرْتَ.۶.اَلْـخَوَارِقُ تَـحْتَ مُنْتَہٰی صِدْ.قِ الْاَقْدَامِ.۷کُنْ لِـلّٰہِ جَـمِیْعًا وَّ مَعَ اللّٰہِ جَـمِیْعًا.۸.عَسٰی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّـحْمُوْدًا.یعنی ۱میں فتّاح ہوں تجھے فتح دوں گا.۲.ایک عجیب مدد تو دیکھے گا اور منکر یعنی بعض اُن کے جن کی قسمت میں ہدایت مقدّر ہے اپنے سجدہ گاہوں پر گریں گے ۳.یہ کہتے ہوئے کہ اے ہمارے رب! ہمارے گناہ بخش.ہم خطا پر تھے.۴.یہ صدق کے جلابیب ہیں جو ظاہر ہوں گے.۵.سو جیسا کہ تجھے حکم کیا گیا ہے استقامت اختیار کر.۶.خوارق یعنی کرامات اُس محل پر ظاہر ہوتی ہیں جو انتہائی درجہ صدق اقدام کا ہے.۷.تو سارا خدا کے لئے ہوجا.تو سارا خدا کے ساتھ ہوجا.۸.خدا تجھے اُس مقام پر اُٹھائے گا جس میں تُو تعریف کیا جائے گا.‘‘ (آسمانی فیصلہ.روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۳۴۲) ۱۸۹۱ء ’’ ایک الہام میں چند دفعہ تکرار اور کسی قدراختلافِ الفاظ کے ساتھ فرمایا کہ ’’میں تجھے عزت دُوں گا اور بڑھاؤں گا اور تیرے آثار میں برکت رکھ دوں گا.یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.‘‘ (آسمانی فیصلہ.روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۳۴۲) (آسمانی فیصلہ.روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۳۵۰) ۱۸۹۲ء ’’دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی سخت عارضہ ہوتا ہے تو خداوند کریم اپنی طرف سے شفا بخشتا ہے.۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یہ اعداد اور ان کے اندر کی چابی سب الہام کا حصّہ ہیں جس کی حقیقت خدا تعالیٰ ہی جانتا ہے مگر انشاء اللہ العزیز اپنے وقت پر ضرور ظاہر ہوگی.(نوٹ از ناشر) ان اعداد کا اصل عکس یہ ہے.
اسی طرح ایک دفعہ زحیر اور اسہال خونی کی سخت بیماری ہوئی… لیکن اس نازک حالت میں خدا تعالیٰ نے اپنی طرف سے ایک عجیب طور سے شفا بخشی… ایسا ہی اس دوسری بیماری میں جب حال قریب موت ہوا تو خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا.اَلْاِ بْـرَآءُ سو یقین رکھتا ہوں کہ خداوند کریم اس بیماری سے نجات بخشے گا.‘‘ (از مکتوب بنام حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحبؓ.مکتوبات احمد جلد۲ صفحہ ۱۳۳.مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸۹۲ء ’’ بارہا اِس عاجز کا نام مکاشفات میں غازی رکھا گیا ہے.‘‘ (نشانِ آسمانی.روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۳۷۵) ۱۸۹۲ء ’’یہ عاجز خدائے تعالیٰ کے احسانات کا شکر ادا نہیں کرسکتا کہ اس تکفیر کے وقت میں کہ ہرایک طرف سے اِس زمانہ کے علماء کی آوازیں آرہی ہیں کہ لَسْتَ مُؤْ مِنًا.۱؎ اللہ جلّ شانہٗ کی طرف سے یہ نِدا ہے قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ.؎۲ ایک طرف حضرات مولوی صاحبان کہہ رہے ہیں کہ کسی طرح اس شخص کی بیخ کنی کرو اور ایک طرف الہام ہوتا ہے یَتَرَ بَّصُوْنَ عَلَیْکَ الدَّ.وَآئِرَ عَلَیْـھِمْ دَآئِرَۃُ السَّوْءِ.؎۳ اور ایک طرف وہ کوشش کررہے ہیں کہ اِس شخص کو سخت ذلیل اور رسوا کریں اور ایک طرف خدا وعدہ کررہا ہے.اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ.اَللّٰہُ اَجْرُکَ.اَللّٰہُ یُعْطِیْکَ جَلَالَکَ.؎۴ اور ایک طرف مولوی لوگ فتویٰ پر فتویٰ لکھ رہے ہیں کہ اِس شخص کی ہم عقیدگی اور پَیروی سے انسان کافر ہوجاتا ۱ (ترجمہ از ناشر) تو مومن نہیں ہے.۲ (ترجمہ) کہہ دے کہ میں مامور ہو کر آیا ہوں اور میں اوّل المؤمنین ہوں.(آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۱۰۹، ۱۱۰ حاشیہ) ۳ (ترجمہ از مرتّب) وہ تجھ پر حوادث کے نزول کا انتظار کررہے ہیں.بُری گردش اُنہی پر پڑے گی.۴ (ترجمہ از مرتّب) جو تیری ذلّت چاہے مَیں اُسے ذلیل کروںگا.اللہ تیرا اجر ہے.اللہ تجھے تیرا جلال عطا کرے گا.(نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) الہام اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ حضرت اقدس کو ۱۸۹۲ء میں بمقام لاہور شیخ محمد حسین بٹالوی کی نسبت بھی ہوا تھا.( دیکھیے الحکم مورخہ ۳۰؍ نومبر ۱۸۹۷ء صفحہ ۲)
ہے اور ایک طرف خدائے تعالیٰ اپنے اس الہام پر بتواتر زور دے رہا ہے.’’ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُــحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُـحْبِبْکُمُ اللّٰہُ ؎۱ غرض یہ تمام مولوی صاحبان خدائے تعالیٰ سے لڑ رہے ہیں.اب دیکھیے کہ فتح کِس کی ہوتی ہے.‘‘ (نشانِ آسمانی.روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۳۹۸، ۳۹۹) ۲۵؍جولائی ۱۸۹۲ء ’’۲۵جولائی ۱۸۹۲ء مطابق ۳۰ ؍ذی الحجہ ۱۳۰۹ھ روز دو شنبہ.آج مَیں نے بوقت صبح صادق ساڑھے چار بجے دن کے خواب میں دیکھا کہ ایک حویلی ہے اس میں میری بیوی والدہ محمود اور ایک عورت بیٹھی ہے تب مَیں نے ایک مشک سفید رنگ میں پانی بھرا ہے اور اس مشک کو اُٹھا کر لایا ہوں اور وہ پانی لاکر ایک اپنے گھڑے میں ڈال دیا ہے.مَیں پانی کو ڈال چکا تھا کہ وہ عورت جو بیٹھی ہوئی تھی یکایک سُرخ اور خوش رنگ لباس پہنے ہوئے میرے پاس آگئی کیا دیکھتا ہوں کہ ایک جوان عورت ہے.پیروں سے سر تک سُرخ لباس پہنے ہوئے شاید جالی کا کپڑ اہے.مَیں نے دل میں خیال کیا کہ وہی عورت ہے جس کے لئے اشتہار دیئے تھے لیکن اِس کی صورت میری بیوی کی صورت معلوم ہوئی.گویا اس نے کہا یا دل میں کہا کہ مَیں آگئی ہوں.مَیں نے کہا یا اللہ آجاوے اور پھر وہ عورت مجھ سے بغل گیر ہوئی اس کے بغل گیر ہوتے ہی میری آنکھ کھل گئی.فَالْـحَمْدُ لِلہِ عَلٰی ذَالِکَ.اس سے دو چار روز پہلے خواب میں دیکھا تھا کہ روشن بی بی میرے دالان کے دروازہ پر آکھڑی ہوئی ہے اور مَیں دالان کے اندر بیٹھا ہوں.تب مَیں نے کہا کہ آ روشن بی بی اندر آجا.‘‘ (رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام.صفحہ ۳۳ ) اگست ۱۸۹۲ء ’’ مجھے تین چار روز ہوئے ایک متوحش؎۲ خواب آئی تھی.جس کی یہ تعبیر تھی کہ ہمارے ایک دوست پر دشمن نے حملہ کیا ہے اور کچھ ضرر پہنچاتا ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ دشمن کا بھی کام تمام ہوگیا.‘‘ (از مکتوب بنام حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحبؓ.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ۱۳۵.مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱ (ترجمہ از مرتّب) کہہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو.اسی طرح وہ بھی تم سے محبت کرے گا.۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یہ متوحش خواب حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے متعلق تھی اور اس میں ایک دوست سے مراد بھی آپ ہی ہیں چنانچہ حضرت اقدس ؑ اسی مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں.’’ کل کی ڈاک میں آں مکرم کا محبت نامہ پہنچ کر بوجہ بشریت اس کے پڑھنے سے ایک حیرت دل پر طاری ہوئی مگر
اگست ۱۸۹۲ء ’’مَیں نے رات کو جس قدر آں مکرم کے لئے دعا کی اور جس حالت ِپُر سوز میں دعا کی اُس کو خداوند کریم خوب جانتا ہے… دعا کی حالت میں یہ الفاظ منجانب اللہ زبان پر جاری ہوئے.لَوَیٰ عَلَیْہِ (اَوْ) لَا وَ لِیَّ عَلَیْہِ ؎۱ اور یہ خدا تعالیٰ کا کلام تھا اور اسی کی طرف سے تھا.‘‘ (از مکتوب بنام حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحبؓ.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۱۳۵.مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۴؍اگست ۱۸۹۲ء ’’۲۰؍ محرم ۱۳۰۹ھ مطابق ۱۴؍اگست ۱۸۹۲ء.آج خواب میں مَیں نے دیکھا کہ محمدی (بیگم)جس کی نسبت پیشگوئی ہے باہر کسی تکیہ میں معہ چند کس کے بیٹھی ہوئی ہے اور سر اس کا شاید مُنڈا ہوا ہے اور بدن سے ننگی ہے اور نہایت مکروہ شکل ہے.مَیں نے اُس کو تین مرتبہ کہا ہے کہ تیرے سر مونڈے ہونے کی یہ تعبیر ہے کہ تیرا خاوند مرجائے گا اور مَیں نے دونوں ہاتھ اس کے سر پر اتارے ہیں اور پھر خواب میں بقیہ حاشیہ.ساتھ ہی دل پھر کھل گیا.یہ خداوند حکیم و کریم کی طرف سے ایک ابتلاء ہے انشاء اللہ القدیر کوئی خوف کی جگہ نہیں… مجھے معلوم نہیں کہ ایسا پُر اشتعال حکم کسی اشتعال کی و جہ سے دیا گیا ہے کیا بدقسمت وہ ریاست ہے جس سے ایسے مبارک قدم نیک بخت اور سچے خیر خواہ نکالے جائیں اور معلوم نہیں کہ کیا ہونے والا ہے.‘‘ (مکتوباتِ احمد جلد ۲ صفحہ ۱۳۵.مطبوعہ ۲۰۰۸ء) (نوٹ) حضرت مولانا یعقوب علی صاحب عرفانیؓ اس پُر اشتعال حکم کے سبب پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’حضرت حکیم الامت اور مولوی محرم علی چشتی مرحوم پر ایک سیاسی الزام آپ کے دشمنوں نے لگایا تھا.راجہ امر سنگھ صاحب کو حضرت حکیم الامت سے بہت محبت تھی اور وہ آپ کی عملی زندگی اور صداقت پسندی کا عاشق تھا اور وہ ایک مدبّر اور صائب الرائے نوجوان تھا وہ سیاسی جماعت جو مہارا جہ پرتاپ سنگھ کی حالت سے واقف اور ان پر قابو یافتہ تھی انہیں یہ شبہ تھا کہ کسی بھی وقت مہارا جہ پرتاپ سنگھ کو معزول کردیا جائے گا اور اس کی جگہ مہارا جہ امر سنگھ ہوجائیں گے یہ دراصل سیاسی اور اقتداری جنگ تھی اور اس کو مذہب کا رنگ دیا گیا کہ حضرت مولوی صاحب را جہ امر سنگھ کو جب وہ مہارا جہ ہوجائیں گے مسلمان کرلیں گے اس قسم کی سازش کرکے آپ کو اور مولوی محرم علی چشتی کو جموں سے نکل جانے کا حکم دے دیا گیا.آپ نے حضرت اقدس کو اطلاع دی اس کے جواب میں حضرت اقدس نے … خط لکھا.‘‘ (حیاتِ احمد جلد چہارم صفحہ ۲۶۷،۲۶۸ طبع دوم) ۱ (ترجمہ از مرتّب) اس پر مہربان ہوا (یا) اس کے مقابلہ میں کوئی دوست نہیں.
مَیں نے یہی تعبیر کی ہے.اور اسی رات والدہ محمود نے خواب میں دیکھا کہ محمدی (بیگم) سے میرا نکاح ہوگیا ہے اور ایک کاغذِ مہر ان کے ہاتھ میں ہے جس پر ہزار روپیہ مہر لکھا ہے اور شیرینی منگوائی گئی ہے اور پھر میرے پاس وہ خواب میں کھڑی ہے.‘‘ (رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳۴ ) ۲۰؍اگست ۱۸۹۲ء روز شنبہ ’’آج رات بوقت دو۲ بجے مَیں نے دیکھا کہ ایک سانپ صاحب جان مرحومہ کے گھر میں پھرتا ہے.پھر وہ زمین پر بیٹھ گیا اور محمد سعید نے اس کے سر پر انگلی رکھی تا اس کو قتل کرے.پھر مَیں نے بھی انگلی رکھ دی تب اس کے سر میں آگ لگ گئی مگر مجھے معلوم ہوا کہ میری انگلی کو اس نے کاٹا ہے.انگلی د ہنی طرف کی سبابہ تھی متورم ہوگئی اور اندیشہ رہا کہ اس کا اثر دل کو نہ پہنچے مگر پہنچتا معلوم نہیں ہوا اور اسی خواب میں معلوم ہوا کہ کچھ تکلیف محمود کو بھی پہنچی ہے مگر بظاہر خیریت ہے.الٰہی ہریک تکلیف سے بچا.آمین.‘‘ (رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴۳) ۲۶؍ اگست ۱۸۹۲ء ’’ آج رات خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص کہتا ہے کہ لڑکے کہتے ہیں کہ عید کل تو نہیں پر پرسوں ہوگی.معلوم نہیں کل اور پرسوں کی کیا تعبیر ہے.‘‘ (ازمکتوب بنام حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب ؓ.مکتوبات احمدجلد ۲ صفحہ ۱۳۵ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸۹۲ء قریباً ’’خلیفہ سید محمد حسن صاحب وزیراعظم پٹیالہ کسی ابتلا اور فکر اور غم میں مبتلا تھے.ان کی طرف سے متواتر دُعا کی درخواست ہوئی.اتفاقاً ایک دن یہ الہام ہوا.’’چل رہی ہے نسیم رحمت کی جو دعا کیجئے قبول ہے آج‘‘ اُس وقت مجھے یاد آیا کہ آج اِنہیں کے لئے دعا کی جائے چنانچہ دعا کی گئی اور ان کو بذریعہ خط اطلاع دی گئی اور تھوڑے عرصہ کے بعد انہوں نے ابتلاء سے رہائی پائی اور بذریعہ خط اپنی رہائی سے اطلاع دی.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۶۰۳) ۱۸۹۲ء ’’ مَیں نے اُس؎۱ کی وفات کے بعد اُس کو ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ سیاہ کپڑے پہنے ہوئے ہے (جو سر سے پَیر تک سیاہ ہیں) اور مجھ سے قریباً سو قدم کے فاصلہ پر کھڑا ہے اور مجھ سے مدد کے طور پر کچھ مانگتا ہے.مَیں نے جواب دیا کہ اب وقت گذرگیا اب ہم میں اور تم میں بہت فاصلہ ہے ۱ میر عباس علی صاحب لُدھیانوی.(مرزا بشیر احمد)
تو میرے تک نہیں پہنچ سکتا.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۳۰۹) ۱۸۹۲ء ’’ طُوْبٰی لِمَنْ سَنَّ وَ سَارَ‘‘ ؎۱ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد ۵صفحہ۲.رجسٹر متفرق یادداشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳۱) ۱۸۹۲ء ’’ لَا تَـخَفْ اِنَّنِیْ مَعَکَ.وَمَاشٍ مَّعَ مَشْیِکَ.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃٍ لَّا یَعْلَمُ الْـخَلْقُ.وَجَدْتُّکَ مَاوَجَدْتُّکَ.اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ.وَاِنِّیْ مُعِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِعَانَتَکَ.اَنْتَ مِنِّیْ وَ سِـرُّکَ سِـرِّیْ وَاَنْتَ مُرَادِیْ وَمَعِیْ.اَنْتَ وَجِیْہٌ فِیْ حَضْرَتِیْ.اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ.‘‘؎۲ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۱۱) ۱۸۹۲ء ۱.؎ ’’ مَنِہ دل در تنعُّم ہائے دُنیا گر خدا خواہی کہ مے خواہد نگارِ من تہید ستانِ عشرت را‘‘ ؎۳ ۲.’’ مصفّا قطرہ باید کہ تا گوھر شود پیدا کجا بیند دلِ ناپاک رُوئے پاک حضرت را ‘‘ ؎۴ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۵) ۱۸۹۲ء ’’ اب اس عاجز پر خداوند کریم نے جو کچھ کھولا اور ظاہر کیا وہ یہ ہے کہ اگر ہیئت دانوں اور طبعی والوں کے قواعد کسی قدر شہب ثاقبہ اور دُمدار ستاروں کی نسبت قبول بھی کئے جائیں تب بھی جو کچھ قرآن کریم میں اللہ جَلَّ شَانُہٗ وَ عَزَّ اِسْـمُہٗ نے ان کائنات الـجَوّ کی رُوحانی اغراض کی نسبت بیان فرمایا ہے اُس میں اور ۱ (ترجمہ از مرتّب) جس شخص نے اس طریق کو اختیار کرلیا اور ا س پر چل پڑا وہ بہت ہی خوش نصیب ہے.۲ (ترجمہ از مرتّب) خوف نہ کر مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے ساتھ ساتھ چلتا ہوں تو میرے ہاں وہ منزلت رکھتا ہے جسے مخلوق میں سے کوئی نہیں جانتا.مَیں نے تجھے پایا ہے جو مَیں نے تجھے پایا ہے.جو تیری اہانت چاہے گا مَیں اُسے ذلیل و رُسوا کردُوں گا اور جو شخص تیری مدد کرنے کا ارادہ کرے گا اس کا مَیں مدد گار ہوں گا.تو میرا ہے اور تیرار از میرا راز ہے اور تُو میرا مقصود ہے اور میرے ساتھ ہے.تُو میری درگاہ میں صاحب ِ وجاہت ہے.مَیں نے تجھے اپنے لئے برگزیدہ کرلیا ہے.۳ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) اس شعر کا صرف دوسرا مصرع الہامی ہے اور شعر کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم خدا کو چاہتے ہو تو دنیا کی آسائشوں سے دل مت لگاؤ کیونکہ میرا محبوب آسائش سے دُور رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے.۴ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) اس شعر کا صرف پہلا مصرع الہامی ہے.اورشعر کا مطلب یہ ہے کہ موتی کے پیدا ہونے کے لئے صاف قطرہ چاہیے.ایک ناپاک دل اس جناب عالی کے پاک چہرے کو کہاں دیکھ سکتا ہے.
اُن ناقص العقل حکماء کے بیان میں کوئی مزاحمت اور جھگڑا نہیں کیونکہ ان لوگوں نے تو اپنا منصب صرف اِس قدر قرار دیا ہے کہ علل مادیہ اور اسبابِ عادیہ اِن چیزوں کے دریافت کرکے نظام ظاہری کا ایک باقاعدہ سلسلہ مقرر کردیا جائے لیکن قرآن کریم میں روحانی نظام کا ذکر ہے اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کا ایک فعل اس کے دوسرے فعل کا مزاحم نہیں ہوسکتا.پس کیا یہ تعجب کی جگہ ہوسکتی ہے کہ جسمانی اور رُوحانی نظام خدا تعالیٰ کی قدرت سے ہمیشہ ساتھ ساتھ رہیں.‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۱۱۹،۱۲۰ حاشیہ) ۱۸۹۲ء وَ.اِنَّـا نَـجِدُ الْوَارِثِیْنَ فِیْ کُلِّ عَامٍ یَتَزَایَدُ وْنَ.‘‘؎۱ (رجسٹر متفرق یادداشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۸) ۳؍ستمبر ۱۸۹۲ء ’’۱.اقبال کے دن آئیں گے.۲.یَـاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ.۳.اُنْظُرْ اِلٰی یُوْسُفَ وَ اِقْبَالِہٖ.۴.وَ قَالُوْا مَتٰی ھٰذَا الْوَعْدُ.۵ قُلْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ.۶ خَرُّوْا لَہٗ سُـجَّدًا.‘‘ ؎۲ (رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۷) ۲۱؍ستمبر ۱۸۹۲ء ’’سَیُوْلَدُ لَکُمُ الْوَلَدُ وَیُدْنٰی مِنْکُمُ الْفَضْلُ.اِنَّ نُوْرِیْ قَرِیْبٌ.‘‘؎۳ (رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۶) ۲۴؍ ستمبر ۱۸۹۲ء روز شنبہ ’’آج بوقت قریب دو۲ بجے رات کے مَیں نے خواب میں دیکھا کہ میری بیوی آشفتہ حال کسی طرف گئی ہوئی ہے مَیں نے ان کو بلایا ہے اور کہا کہ چلو تمہیں وہ درخت دکھلا آؤں.پس مَیں ان کو باہر کی طرف لے گیا.جب درخت کے قریب پہنچے جہاں قریب ایک باغ بھی تھا تو مَیں نے اپنی بیوی سے پوچھا کہ محمود کہاں ہے اُس نے کہا کہ بہشت میں.پھر کہا کہ قبر کے بہشت میں.اَللّٰھُمَّ زِدْ فِیْ عُـمُرِیْ وَ عُـمُرِابْنِیْ وَعُـمُرِ زَوْجَتِیْ وَ بَدِّ.لْ سُوْٓءَ ھٰذِہِ الرُّؤْیَـا بِالْـحَسَنَۃِ وَاَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْـرٌ.اٰمین.تَوَکَّلْتُ عَلَیْکَ.‘‘ ؎۴ (رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴۴) ۲۷؍ ۱ (ترجمہ از مرتّب ) اور ہم وارثوں کو ہر سال میں بڑھتے ہوئے پاتے ہیں.۲ (ترجمہ از مرتّب ) ۲ ہر دور کی راہ سے تیرے پاس تحائف آئیں گے.۳یوسف کو دیکھ اور اس کے اقبال کو بھی.۴انہوں نے کہا یہ وعدہ کب تک.۵کہہ یقیناً خدا کا وعدہ سچ ہے.۶وہ اس کی خاطر سجدہ کرتے ہوئے گر پڑے.۳ (ترجمہ از مرتّب) عنقریب تمہارے لئے ایک لڑکا پیدا کیا جائے گا اور فضل تم سے نزدیک کیا جائے گا.یقیناً میرا نور قریب ہے.۴ (ترجمہ از مرتّب) اے اللہ! میری عمر میں زیادتی فرما اور میرے بیٹے کی عمر میں اور میری بیوی کی عمر میں بھی.اور اس خواب کی برائی کو بھلائی میں بدل دے اور تو ہر چیز پر قادر ہے.آمین.میں نے تجھی پر توکل کیا ہے.
۲۷؍ ستمبر۱؎ ۱۸۹۲ء ’’ایک دفعہ میری بیوی کے حقیقی بھائی سید محمد اسمٰعیل کا (جن کی عمر اُس وقت دس برس کی تھی) پٹیالہ سے خط آیا کہ میری والدہ فوت ہوگئی ہے اور اسحاق میرے چھوٹے بھائی کو کوئی سنبھالنے والا نہیں ہے اور پھر خط کے اخیر میں یہ بھی لکھا ہوا تھا کہ اسحاق بھی فوت ہوگیا ہے اور بڑی جلدی سے بلایا کہ دیکھتے ہی چلے آویں.اس خط کے پڑھنے سے بڑی تشویش ہوئی کیونکہ اس وقت میرے گھر کے لوگ بھی سخت تپ سے بیمار تھے… تب مجھے اس تشویش میں یک دفعہ غنودگی ہوئی اور یہ الہام ہوا.اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ یعنی اے عورتو! تمہارے فریب بہت بڑے ہیں … اس کے ساتھ ہی تفہیم ہوئی کہ یہ ایک خلاف واقعہ بہانہ بنایا گیا ہے.تب مَیں نے… شیخ حامد علی کو جو میرا نوکر تھا پٹیالہ روانہ کیا جس نے واپس آکر بیان کیا کہ اسحٰق اور اس کی والدہ ہر دو زندہ موجود ہیں.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۶۱۰،۶۱۱ ) ۳۰؍ستمبر۱۸۹۲ء ۱.ظُلُمَاتُ الْاِبْتِلَآءِ.۲ ھٰذَا یَـوْمٌ عَصِیْبٌ.۳.یُـوْلَدُ لَکَ الْوَلَدُ وَ یُدْنٰی مِنْکَ الْفَضْلُ.۴.اِنَّ نُوْرِیْ قَرِیْبٌ.۵.ظُلُمَاتُ الْاِبْتِلَآءِ.۶ ھٰذَا یَـوْمٌ عَصِیْبٌ.۷.اَجِیْٓئُ مِنْ حَضْـرَۃِ الْوِتْرِ.؎۲ (رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۰) ۴؍اکتوبر۱۸۹۲ء ۱ عَفَی؎۳ اللّٰہُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ.۲ اِنَّـمَا اَمْرُکَ اِذَا اَرَدْتَّ لِشَیْءٍ اَنْ تَقُوْلَ لَہٗ ۱ (نوٹ از ناشر) یہ تاریخ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی متفرق یادداشتوں کے رجسٹر میں صفحہ ۴۴ پر درج ہے.نیز تفصیل یوں درج ہے.’’۲۷؍ ستمبر ۱۸۹۲ء کو پٹیالہ سے ایک برنگ خط آیا جس میں لکھا تھا کہ اسحاق اور اسحاق کی والدہ فوت ہوگئیں.اس سے بڑا فکر گزرا اور اسی دن حامد علی کو پٹیالہ کی طرف روانہ کیا.رات کو الہام ہوا اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ.اس سے معلوم ہوا کہ یہ کچھ مکر ہے.اسی دن کو یہ الہام مولوی عبد الکریم صاحب اور محمود کی والدہ کو سنایا گیا.آج ۲۹؍ ستمبر ۱۸۹۲ء کو میر ناصر نواب صاحب کا خط آیا کہ زندہ ہیں اور تصدیق الہام کی ہوگئی.‘‘ ۲ (ترجمہ از مرتّب) ۱ ابتلاء کے اندھیرے.۲ یہ سخت دن ہے.۳ تجھے ایک بیٹا عطا ہوگا اور فضل تیرے نزدیک ہوگا.۴میرا نور قریب ہے.۵ ابتلاء کے اندھیرے.۶ یہ سخت دن ہے.۷ میں جنابِ باری سے آتا ہوں.۳ (ترجمہ از مرتّب) ۱ اللہ تجھے معاف کرے ان کو تو نے کیوں اجازت دی.۲ تیرا کام یہ ہے کہ جب تو کسی
کُنْ فَیَکُوْنُ.۳ اَنْتَ بِنَا مُلْحِقٌ.۴.اِنَّـمَا اَمْرُکَ اِذَا اَرَدْتَّ لِشَیْءٍ اَنْ تَقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ.۵.اٰتِیْکَ غَدًا.۶ جَآءَ کَ رَبُّکَ الْاَعْلٰی.۷.اَنْتَ بِنَا مُلْحِقٌ.۸.اِنَّـمَا اَمْرُکَ اِذَا اَرَدْتَّ لِشَیْءٍ اَنْ تَقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ.۹.اَنْتَ مِنْ مَّآءِنَا وَھُمْ مِّنْ فَشَلٍ.۱۰ اَنْتَ بِنَا مُلْحِقٌ.۱۱ اِنَّـمَا اَمْرُکَ اِذَا اَرَدْتَّ لِشَیْءٍاَنْ تَقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ.۱۲ اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَتَفْرِیْدِیْ.۱۳ اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃٍ لَّا یَعْلَمُھَا الْـخَلْقُ.۱۴ اَلْبَیْتُ الْمُحَوَّفَۃُ مُلِئَتْ مِنْ بَرَکَاتٍ.‘‘ (رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۶) ۱۰؍اکتوبر۱۸۹۲ء ’’ مُرَادَاتُکَ حَاصِلَۃٌ.؎۱ یہ الہام قرآن کریم میں لکھا ہوا دکھلایا گیا.‘‘ (رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۶) ۱۲؍اکتوبر ۱۸۹۲ء ۱۲؍اکتوبر ۱۸۹۲ء مطابق ۲۸؍اسوج ’’ بر سر سہ۳۰۰.صد شمار ایں کار را۲؎.معلوم ہوتا ہے کہ ایں کار سے مراد اشتہار زنِ موعودہ کا کام ہے.وَاللہُ اَعْلَمُ.‘‘ (رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۰) ۱۲؍اکتوبر ۱۸۹۲ء ۱ جَآءَکَ رَبُّکَ الْاَعْلٰی.وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ فَتَرْضٰی.۲ یَـاْتِیْکَ قَـمَرُ الْاَ.نْبِیَآءِ وَاَمْرٌ یَتَاَتّٰی.‘‘ ؎۳ (رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۷) بقیہ ترجمہ.چیزکا ارادہ کرے تو اُسے کہے کہ ہوجا تو ہوجائے گی.۳تو ہم سے ملنے والا ہے.۴تیرا کام یہ ہے کہ جب تو کسی چیز کا ارادہ کرے تو اُسے کہے کہ ہوجا تو وہ ہوجائے گی.۵مَیں تیرے پاس کل آؤں گا.۶تیرا ربِّ اعلیٰ تیرے پاس آیا.۷تو ہم سے ملنے والا ہے.۸تیرا کام یہ ہے کہ جب تو کسی چیز کا ارادہ کرے تو اسے کہے کہ ہوجا تو وہ ہوجائے گی.۹تُو ہمارے پانی سے ہے اور وہ بُزدلی سے.۱۰ تو ہم سے ملنے والا ہے.۱۱تیرا کام یہ ہے کہ جب تُو کسی چیز کا ارادہ کرے تو اُسے کہے کہ ہو جا تو وہ ہوجائے گی.۱۲تُو مجھ سے ایسا ہے جیسے میری توحید اور تفرید.۱۳تُومجھ سے اس مرتبہ پر ہے جس کو مخلوق نہیں جانتی.۱۴.وہ گھر جو لوگوں کے ہجوم سے گھرا ہوا ہے برکتوں سے بھردیا گیا ہے.۱ (ترجمہ از مرتّب) تیری مرادیں حاصل ہوں گی.۲ (ترجمہ از مرتّب) اس کام کو تین سو کے سر پر شمار کر.۳ (ترجمہ از مرتّب) ۱تیرا ربّ ِاعلیٰ تیرے پاس آیا.اور تجھے ایسا کچھ دے گا جس سے تو راضی ہوجائے گا.۲تیرے پاس نبیوں کا چاند آئے گا اور کام ظاہر ہوجائے گا.
اکتوبر ۱۸۹۲ء ’’سبحان اللہ ! مخالفتِ قومِ کثیر کا رے ست صعب.ایں کار از تو آیدو مردان چنیں کنند.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃٍ لَّا یَعْلَمُھَا الْـخَلْقُ.وَجَدْتُّکَ مَا وَجَدْتُّکَ.اَنْتَ مَـخْلُوْقٌ مِّنْ مَّآءِنَـا الْقَدِ یْمِ وَھُمْ مِّنَ الْفَشَلِ.‘‘؎۱ (رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۹) اکتوبر ۱۸۹۲ء فَقُلْ لَّھُمْ مَّیْسُوْرًا.وَاسْتَغْفِرْلَھُمْ.یَعْقِلُکَ رَبُّکَ بِالْکِتَابِ وَالْـحِکْمَۃِ.فَشُبِّہَ عَلَیْہِ وَ کَانَ مِنَ الْمُلْبَسِ.‘‘ ؎۲ (رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳۰) اکتوبر ۱۸۹۲ء الہام محمد حسین.(گورنمنٹ پنجاب میں شہادت مخفی ناانصافی سے بیچتا ہے) اِذَا دُکَّتِ الْاَرْضُ دَکًّا دَکًّا.؎۳ (رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳۰) ۱۸؍اکتوبر۱۸۹۲ء ’’جب یہ عاجز نور افشاں کے جواب میں اِس بات کو دلائل شافیہ کے ساتھ لِکھ چکا کہ درحقیقت رُوحانی قیامت کے مصداق ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور کسی قدر نعت ِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو درحقیقت احاطہ بیان سے خارج ہے اِن عبارات میں درج کرچکا اور نیز بطور نمونہ کچھ مناقب و محامدِ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی اسی ثبوت کے ذیل میں تحریر کر چکا تو وہ ۱۷؍اکتوبر ۱۸۹۲ء کا دن تھا.پھر جب میں رات کو بعد تحریر نعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مناقب و محامدصحابہ رضی اللہ عنہم سویا تو مجھے ایک نہایت مبارک اور پاک رؤیا دکھایا گیا.کیا دیکھتا ہوں کہ مَیں ایک وسیع مکان میں ہوں جس کے نہایت کشادہ اور وسیع دالان ہیں اور نہایت مکلّف فرش ہورہے ہیں اور اُوپر کی منزل ہے اور مَیں ایک جماعت کثیر کو ربّانی حقائق و معارف سنا رہا ہوں اور ایک اجنبی اور غیر معتقد مولوی اُس جماعت میں بیٹھا ہے جو ہماری جماعت میں سے نہیں ہے مگر مَیں اس ۱ (ترجمہ از مرتّب) اللہ تعالیٰ پاک ہے.بہت سے لوگوں کی مخالفت مشکل کام ہے یہ کام تجھ سے ہوسکتا ہے اور مرد ایسا ہی کرتے ہیں.تو میری طرف سے ایسے مرتبہ پر ہے جسے لوگ نہیں جانتے.مَیں نے تجھے پایا جیسا کہ پایا.تو ہمارے قدیم پانی سے پید اشدہ ہے اور وہ بُزدلی سے ہیں.۲ (ترجمہ از مرتّب) پس انہیں آسان پہلو سے کہہ اور ا ن کے لئے بخشش مانگ تجھے تیرا ربّ کتاب اور حکمت کے ذریعہ عقل دے گا.یہ امر اُس پر مشتبہ ہوگیا اور وہ شک میں پڑگیا.۳ (ترجمہ از مرتّب) جب زمین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے گا.
کا حلیہ پہچانتا ہوں.وہ لاغر اندام اور سفید ریش ہے.اُس نے میرےاُس بیان میں دخل بے جادے کرکہا کہ یہ باتیں کنہ باری میں دخل ہے اور کنہ باری میں گفتگو کرنے کی ممانعت ہے.تو میں نے کہا کہ اے نادان اِن بیانوں کو کنہ باری سے کچھ تعلق نہیں.یہ معارف ہیں اور مَیں نے اُس کے بے جا دخل سے دل میں بہت رنج کیا اور کوشش کی کہ وہ چپ رہے مگر وہ اپنی شرارتوں سے باز نہ آیا.تب میرا غصہ بھڑکا اور مَیں نے کہا کہ اِس زمانہ کے بدذات مولوی شرارتوں سے باز نہیں آتے.خدا اُن کی پردہ دری کرے گا اور ایسے ہی چند الفاظ اور بھی کہے جو اَب مجھے یاد نہیں رہے.تب مَیں نے اِس کے بعد کہا کہ کوئی ہے کہ اِس مولوی کو اِس مجلس سے باہر نکالے تو میرے ملازم حامد علی نام کی صورت پر ایک شخص نظر آیا.اُس نے اُٹھتے ہی اِس مولوی کو پکڑ لیا اور دھکّے دے کر اُس کو اُس مجلس سے باہر نکالا اور زینہ کے نیچے اوتار دیا.تب مَیں نے نظر اُٹھا کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری جماعت کے قریب ایک وسیع چبوترہ پر کھڑے ہیں اور یہ بھی گمان گذرتا ہے کہ چہل قدمی کر رہے ہیں اورمعلوم ہوتا ہے کہ جب مولوی کو نکالا گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُسی جگہ کے۱؎ ہی کھڑے تھے مگر اُس وقت نظر اُٹھا کر دیکھا نہیں.اب جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کتاب آئینہ کمالات ِ اسلام ہے یعنی یہی کتاب اور یہ مقام جو اُس وقت چھپا ہوا معلوم ہوتا ہے اور آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشت ِ مبارک اُس مقام پر رکھی ہوئی ہے کہ جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محامدِ مبارکہ کا ذکر اور آپؐ کی پاک اور پُر اثر اور اعلیٰ تعلیم کا بیان ہے اور ایک انگشت اُس مقام پر بھی رکھی ہوئی ہے کہ جہاں صحابہ رضی اللہ عنہم کے کمالات اور صدق و وفا کا بیان ہے اور آپؐ تبسّم فرماتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ھٰذَا لِیْ وَھٰذَا لِاَصْـحَابِیْ یعنی یہ تعریف میرے لئے ہے اور یہ میرے اصحاب کے لئے.اور پھر بعد اس کے خواب سے الہام کی طرف میری طبیعت متنزّل ہوئی اور کشفی حالت پیدا ہوگئی تو کشفاً میرے پر ظاہر کیا گیا کہ اِس مقام میں جو خدا تعالیٰ کی تعریف ہے، اُس پر اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا ظاہر کی اور پھر اُس کی نسبت یہ الہام ہوا کہ ھٰذَا الثَّنَآءُ لِیْ ؎۲اور یہ رات منگل کی تھی اور تین بجے پر پندرہ منٹ ۱ ’’کے ‘‘ کے بعد کاتب سے یہاں لفظ ’’قریب‘‘ چھٹ گیا ہے.(ناشر) ۲ (ترجمہ ازمرتّب) یہ تعریف میرے لئے ہے.
گزرے تھے.‘‘ ۱؎ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۲۱۵ تا ۲۱۷ حاشیہ ) ۱۹؍اکتوبر۱۸۹۲ء ’’ زرِ چندہ حیدر آباد.۲؎ کشف میں نواب محمد علی سے ملاقات ہوئی.‘‘ (رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳۱) ۱ اسی کشف کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عربی میں یوں تحریر فرمایا ہے.’’رَأَیْتُ فِی الْمَنَامِ کَأَنِّیْ فِیْ حَلَقَۃٍ مُلْتَحِمَۃٍ وَ رُفْقَۃٍ مُزْدَحِـمَۃٍ.وَ أُبَیِّنُ بَعْضَ الْمَعَارِفِ بِـجَأْشٍ مَّتِیْنٍ.وَ لِسَانٍ مُبِیْنٍ لِلْحَاضِـرِیْنَ.وَ رَأَیْتُ أَنَّ الْمَکَانَ رَبْعٌ لَطِیْفٌ نَظِیْفٌ یَنْفِی التَّرَحَ رُؤْیَتُہٗ وَ یَسُرُّ النَّاظِرِیْنَ ھَیْئَتُہٗ.وَ کُنْتُ أَخَالُ أَنَّہٗ مَکَانِیْ فَـحَبَّذَا ھُوَ مِنْ مَکَانٍ رَأَیْتُ فِیْہِ سَیِّدَ الْمُرْسَلِیْنَؐ.وَ رَأَیْتُ عِنْدِیْ رَجُلًا مِنَ الْعُلَمَآءِ لَا بَلْ مِنَ السُّفَھَآءِ جَاثِیًا عَلٰی رُکْبَتِہٖ یُنْکِرُ عَلَـیَّ لِغَبَاوَتِہٖ وَ یَکْلَبُ عَلَی اللَّجَاجِ لِشَقَاوَتِہٖ.وَرَأَیْتُہٗ کَالْـحَاسِدِیْنَ.فَاشْتَدَّ غَضَبِیْ وَ قُلْتُ : تَعْسًا لِھٰٓـؤُلٓاءِ الْعُلَمَآءِ اِنَّـھُمْ مِّنْ اَعْدَآءِ الدِّیْنِ.فَقُلْتُ ھَلْ مِنْ اِمْرِءٍ یُـخْرِجُہٗ مِنْ ھٰذَا الْمَقَامِ، کَاِخْرَاجِ الْاَشْـرَارِ وَ اللِّـئَامِ وَ یُطَھِّرَالْمَکَانَ مِنْ ھٰذَا الْقَرِیْنِ الضَّنِیْنِ.فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ خُدَّامِیْ.وَ ھَمَّ بِاِخْرَاجِہٖ مِنْ اَمَامِ عَیْنِیْ وَ مَقَامِیْ لِیُؤْمِنَنِیْ مِنْ ذَالِکَ الظَّنِّیْنِ.فَرَأَیْتُ اَنَّہٗ اَخَذَہٗ وَ جَعَلَ یَدْ.فَعُہٗ وَ یَذُ.بُّہٗ وَ یَذْأَطُہٗ مِنَ الْمَکَانِ وَ لَہٗ رَطِیْطٌ وَ کَرْبٌ وَ فَزَعٌ مَعَ الْاَرْدَمَانِ حَتّٰی أُخْرِجَ فَاَصْبَحَ مِنَ الْغَآئِبِیْنَ.فَرَفَعْتُ نَظَرِیْ فَاِذَا حِذَ.تَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَّلَمَ قَآئِمٌ وَکَاَنَّہُ کَانَ یَرٰی کُلَّ مَا وَقَعَ بَیْنَنَا مُوَارِیًا عِیَانَہٗ.فَأَخَذَنِیْ ھَیْبَۃٌ مِنْ رُؤْیَتِہٖ وَ نَـھَضْتُ أَسْتَقْرِیْ مَکَانًا یُنَاسِبُ شَأْنَہٗ وَقُـمْتُ کَالْـخَادِمِیْنَ.فَاِذَا دَنَوْتُ مِنْہُ (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) وَ نَظَرْتُ اِلٰی وَجْھِہٖ فَاِذَا وَجْہٌ قَدْ رَأَیْتُہٗ مِنْ قَبْلُ.مَا رَأَیْتُ وَجْھًا أَحْسَنَ مِنْہُ فِی الدُّنْیَا فَھُوَ خَاتَمُ الْـحَسِیْنِیْنَ وَ الْـجَمِیْلِیْنَ، کَمَا أَنَّہٗ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ وَالْمُرْسَلِیْنَ.وَ رَأَیْتُ فِیْ یَدِہٖ کِتَا.بًـا فَاِذَا ھُوَ کِتَابِیْ ’’اَلْمِرْآ.ۃُ‘‘ اَلَّذِیْ صَنَّفْتُہٗ بَعْدَ ’’الْبَرَاھِیْن‘‘.وَ کَانَ قَدْ وَضَعَ إِصْبُعًا عَلٰی مَـحَلٍّ فِیْہِ مَدْحُہٗ وَ اِصْبُعًا عَلٰی مَـحَلٍّ فِیْہِ مَدْحُ اَصْـحَابِہٖ وَ قَدْ قَیَّدَ لَـحْظَہٗ بِـھِمَا وَ ھُوَ یَتَبَسَّمُ وَ یَقُوْلُ ھٰذَا لِیْ وَ ھٰذَا لِأَصْـحَابِیْ وَکَانَ یَنْظُرُ اِلَیْہِ کَالْقَارِئِیْنَ.ثُمَّ انْـحَدَ.َرَتْ طَبِیْعَتِیْ اِلَی الْاِلْھَامِ فَأَشَارَ الرَّبُّ الْکَرِیْمُ اِلٰی مَقَامٍ مِّنْ مَّقَامَاتِ ’’الْمِرْآ.ۃِ‘‘.وَ قَالَ ھٰذَا الثَّنَآءُ لِیْ ثُمَّ اسْتَیْقَظْتُ.فَالْـحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.‘‘ (آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۶۲، ۵۶۳) ۲ (ترجمہ از مرتّب)حیدر آباد کے چندے کا روپیہ.
۱۹؍اکتوبر۱۸۹۲ء ’’۱.لَا تَیْئَسُوْامِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ.۲.اِنَّ رَوْحَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ.۳.اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَـخَلَقْتُ اٰدَمَ.۴ فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سَاجِدِیْنَ؎۱.‘‘ (رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳۰) ۳؍ نومبر ۱۸۹۲ء ’’تیرے کلام میں جو تیرے منہ سے نکلتا ہے برکت رکھی جاتی ہے کیونکہ وہ تیرے مونہہ سے نکلتا ہے.‘‘ (رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۶) ۳؍ نومبر ۱۸۹۲ء ’’ یَــوْمَ یَـجِٓيْءُ الْـحَقُّ وَیُکْشَفُ الصِّدْقُ وَ یَـخْسَـرُ الْـخَاسِـرُوْنَ ‘‘ ( آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۲۶۶ و رجسٹر متفرق یادداشیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۶) (ترجمہ) ’’ اس دن حق آئے گا اور صدق کھل جائے گا اور جو خسارہ میں ہیں وہ خسارہ میں پڑیں گے.‘‘ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد۵ صفحہ ۲۶۷) نومبر ۱۸۹۲ء ’’ یَـاْتِیْ قَـمَرُ الْاَ.نْبِیَآءِ وَ اَمْرُکَ یَتَاَتّٰی.‘‘ ۲؎ (رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۶) ۹؍نومبر ۱۸۹۲ء ’’مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں قادیان کی طرف آتا ہوں اور نہایت اندھیری اور مشکل راہ ہے اور مَیں رَجْـمًا بِـالْغَیْبِ قدم مارتا جاتا ہوں اور ایک غیبی ہاتھ مجھ کو مدد دیتا جاتا ہے یہاں تک کہ مَیں قادیان پہنچ گیا اور جو مسجد سکھوں کے قبضہ میں ہے وہ مجھ کو نظر آئی.پھر میں سیدھی گلی میں جو کشمیریوں کی طرف سے آتی ہے چلا.اس وقت مَیں نے اپنےتئیں ایک سخت گھبراہٹ میں پایا کہ گویا اس گھبراہٹ سے بیہوش ہوتا جاتا ہوں اور اس وقت باربار اِن الفاظ سے دُعا کرتا ہوں کہ رَبِّ تَـجَلَّ رَبِّ تَـجَلَّ؎۳ اور ایک دیوانہ کے ہاتھ میں میراہاتھ ہے اور وہ بھی رَبِّ تَـجَلَّکہتا ہے اور بڑے زور سے مَیں دعا کرتا ہوں.اور اس سے پہلے مجھ کو یاد ہے کہ مَیں نے اپنے لئے اوراپنی بیوی کے لئے اوراپنے لڑکے محمود کے لئے میں نے ۱ (ترجمہ از مرتّب) ۱اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو.۲یقیناً اللہ کی رحمت قریب ہے.۳مَیں نے چاہا کہ خلیفہ بناؤں تب مَیں نے آدم کو پیدا کیا.۴پھر جب مَیں اسے ٹھیک ٹھاک کروں اور اس میں اپنی روح پھونکوں تو تم اس کے لئے سجدہ کرتے ہوئے گرجاؤ.۲ (ترجمہ از مرتّب) نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام ظاہر ہوجائے گا.۳ (ترجمہ از مرتّب) اے میرے ربّ تجلّی فرما اے میر ے ربّ تجلّی فرما.
نے بہت دُعا کی ہے.پھرمَیں نے دو کتّے خواب میں دیکھے.ایک سخت سیاہ اورایک سفید اورایک شخص ہے کہ وہ کُتّوں کے پنجے کاٹتا ہے.پھر یہ الہام ہوا.کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ.‘‘؎۱ (رجسٹرمتفرق یادداشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۳۵ ) ۱۲؍نومبر ۱۸۹۲ء ’’ اَنْتَ مَعِیْ وَاَنَـا مَعَکَ وَلَا یَعْلَمُھَا اِلَّا الْمُسْتَرْشِدُ.وْنَ.‘‘ ؎۲ (رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۶) ۱۳؍نومبر ۱۸۹۲ء ’’ قَدْ جَآءَ وَقْتُ الْفَتْحِ وَ الْفَتْحُ اَ قْـرَبُ.‘‘؎۳ (رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۶) یکم دسمبر ۱۸۹۲ء ’’۱.رَدَدْنَـآ اِلَیْکَ الْکَرَّۃَ الثَّانِیَۃَ.۴؎ ۲.وَ قَالُوْا اَنّٰی لَکَ ھٰذَا.۳.قُلْ ھُوَاللّٰہُ عَـجِیْبٌ.۴..لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ.یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَ ھُوَ اَرْحَـمُ الرَّاحِـمِیْنَ.‘‘ (رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۶ ) (ترجمہ) ۲ اور کہتے ہیں کہ یہ مراتب تجھ کو کہاں.۳ ان کو کہہ کہ وہ خداعجیب خداہے.۴آج تم پر کوئی سرزنش نہیں.خدا تمہیں بخش دے گا اور وہ ارحم الراحمین ہے.(آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۲۶۷، ۲۶۸) ۷؍دسمبر ۱۸۹۲ء ’’۷؍دسمبر ۱۸۹۲ء کو ایک اور رؤیادیکھا.کیا دیکھتا ہوں کہ مَیں حضرت علی کرّم اللہ وجھہٗ بن گیا ہوں یعنی خواب میں ایسا معلوم کرتا ہوں کہ وہی ہوں اور خواب کے عجائبات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض اوقات ایک شخص اپنے تئیں دوسرا شخص خیال کرلیتا ہے سو اس وقت مَیں سمجھتا ہوں کہ مَیں علی مرتضیٰ ہوں اور ایسی صورت واقعہ ہے کہ ایک گروہ؎۵خوارج کا میری خلافت کا مزاحم ہورہا ہے.یعنی وہ گروہ ۱ (ترجمہ از مرتّب)تم بہترین اُمّت ہو جو لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے نکالی گئی ہے.۲ (ترجمہ از مرتّب) تُو میرے ساتھ ہے اور مَیں تیرے ساتھ ہوں اور اس حقیقت کو کوئی نہیں جانتا مگر وہی جو رُشد رکھتے ہیں.۳ (ترجمہ از مرتّب) فتح کا وقت آگیا ہے اورفتح قریب تر ہے.۴ (ترجمہ از مرتّب) ۱ہم دوبارہ تیری طرف لوٹائیں گے.۵ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں.’’اس کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کے بعد جو خلافت ہوگی اس کا انکارایک جماعت کرے گی اورفتنہ ڈالے گی.‘‘ (برکاتِ خلافت.انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۱۷۶)
میری خلافت کے امر کو روکنا چاہتا ہے اور اس میں فتنہ انداز ہے.تب مَیں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس ہیں اور شفقت اور تَودُّد سے مجھے فرماتے ہیں کہ یَا عَلِیُّ دَعْھُمْ وَ اَنْصَارَھُمْ وَ زِرَاعَتَـھُمْ یعنی اے علی اِن سے اور اِن کے مددگاروں اور اِن کی کھیتی سے کنارہ کر اور اِن کو چھوڑ دے اور اِن سے منہ پھیر لے اور مَیں نے پایا کہ اس فتنہ کے وقت صبر کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو فرماتے ہیں اور اعراض کے لئے تاکید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ توہی حق پر ہے مگر اِن لوگوں سے ترکِ خطاب بہتر ہے اور کھیتی سے مراد مولویوں کے پَیروؤں کی وہ جماعت ہے جو اُن کی تعلیموں سے اثر پذیر ہے جس کی وہ ایک مدّت سے آبپاشی کرتے چلے آئے ہیں.پھر بعد اس کے میری طبیعت الہام کی طرف منحدر ہوئی اور الہام کے رُو سے خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ ایک شخص مخالف میری نسبت کہتا ہے.ذَ رُوْنِیْ اَقْتُلْ مُوْسٰی یعنی مجھ کو چھوڑو تا مَیں موسیٰ کو یعنی اس عاجز کو قتل کردوں.اور یہ خواب رات کے تین بجے قریباً بیس۲۰ منٹ کم میں دیکھی تھی اور صبح بدھ کا دن تھا.فَالْـحَمْدُ لِلہِ عَلٰی ذَالِکَ.‘‘۱؎ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۲۱۸،۲۱۹ حاشیہ) ۱ اسی کشف کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عربی میں یوں تحریر فرمایا ہے.’’وَ رَأَیْتُ فِیْ مَنَامٍ اٰخَرَ کَأَنِّیْ صِـرْتُ عَلِیًّا اِبْنَ اَبِیْ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَ النَّاسُ یَتَنَازَعُوْنَنِیْ فِیْ خِلَافَتِیْ وَ کُنْتُ فِیْـھِمْ کَالَّذِیْ یُضَامُ وَ یُـمْتَـھَنُ.وَ یَغْشَاہُ أَدْرَانُ الظَّنُوْنِ وَ ھُوَ مِنَ الْمُبَرَّئِیْنَ.فَنَظَرَ النَّبِیُّ (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) اِلَیَّ وَ کُنْتُ أَخَالُ نَفْسِیْ اَنَّنِیْ مِنْہُ بِـمَنْزِلَۃِ الْاَ.بْنَآءِ وَ ھُوَ مِنْ آبَائِیَ الْمُکْرَمِیْنَ.فَقَالَ وَ ھُوَ مُتَحَنِّنٌ ’’ یَـا عَلِیُّ دَعْھُمْ وَ أَنْصَارَھُمْ وَ زِرَاعَتَـھُمْ‘‘ فَعَلِمْتُ فِیْ نَفْسِیْ أَنَّہٗ یُوْصِیْنِیْ بِصَـرْفِ الْوَجْہِ مِنَ الْعُلَمَآءِ وَ تَرْکِ تَذَکُّرِھِمْ وَ الْإِعْرَاضِ عَنْـہُمْ وَ قَطْعِ الطَّمَعِ وَ الْـحَنِیْنِ مِنْ إِصْلَاحِ ھٰٓـؤُلٓاءِ الْمُفْسِدِیْنَ.فَاِنَّـھُمْ لَا یَقْبَلُوْنَ الْاِصْلَاحَ فَصَـرْفُ الْوَقْتِ فِیْ نُصْحِھِمْ فِیْ حُکْمِ إِضَاعَۃِ الْوَقْتِ وَ طَـمَعُ قَبُوْلِ الْـحَقِّ مِنْھُمْ کَطَمَعِ الْعَطَآءِ مِنَ الضَّنِیْنِ.وَ رَأَیْتُ اَنَّہٗ یُـحِبُّنِیْ وَ یُصَدِّقُنِیْ وَ یَرْحَـمُ عَلَیَّ وَ یُشِیْرُ اِلِیَّ أَنَّ عُکَّازَتَہٗ مَعِیْ وَ ھُوَ مِنَ النَّاصِـرِیْنَ.‘‘ (آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۶۳، ۵۶۴)
۱۸۹۲ء (الف)’’ میرے پر کشفاً یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ زہرناک ہوا جو عیسائی قوم سے دنیا میں پھیل گئی حضرت عیسیٰ کو اس کی خبر دی گئی تب اُن کی روح روحانی نزول کے لئے حرکت میں آئی اور اُس نے جوش میں آکر اور اپنی امّت کو ہلاکت کا مفسدہ پرداز پاکر زمین پر اپنا قائم مقام اور شبیہ چاہا جو اُس کا ایسا ہم طبع ہو کہ گویا وہی ہو.سو اُس کو خدائے تعالیٰ نے وعدہ کے موافق ایک شبیہ عطا کی اور اس میں مسیح کی ہمّت اور سیرت اور رُوحانیت نازل ہوئی اور اس میں اور مسیح میں بشدّت اِتّصال کیا گیا.گویا وہ ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے بنائے گئے اور مسیح کی توجُّہات نے اس کے دل کو اپنا قرار گاہ بنایا اور اس میں ہوکر اپنا تقاضا پورا کرنا چاہا.پس ان معنوں سے اُس کا وجود مسیح کا وجود ٹھہرا اور مسیح کے پُر جوش ارادات اس میں نازل ہوئے جن کا نزول الہامی استعارات میں مسیح کا نزول قرار دیا گیا.‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۲۵۴،۲۵۵) (ب) ’’جیسا کہ میرے پر کشفاً کھولا گیا ہے حضرت مسیح کی رُوح اِن افتراؤں کی و جہ سے جو اُن پر اِس زمانہ میں کئے گئے اپنے مثالی نزول کے لئے شدّتِ جوش میں تھی اور خدا تعالیٰ سے درخواست کرتی تھی کہ اِس وقت مثالی طور پر اس کا نزول ہو.سو خدائے تعالیٰ نے اُس کے جوش کے موافق اُس کی مثال کو دنیا میں بھیجا تا وہ وعدہ پورا ہو جو پہلے سے کیا گیا تھا … حضرت مسیح علیہ السلام کو دو مرتبہ یہ موقعہ پیش آیا کہ اُن کی رُوحانیت نے قائم مقام طلب کیا.اوّل جبکہ اُن کے فوت ہونے پر چھ سو برس گذر گیا اور یہودیوں نے اِس بات پر حد سے زیادہ اصرار کیا کہ وہ نعوذباللہ مکّار اور کاذب تھا اور اُس کا ناجائز طور پر تولّد تھا اور اسی لئے وہ مصلوب ہوا اور عیسائیوں نے اِس بات پر غلُوّ کیاکہ وہ خدا تھا اور خدا کا بیٹا تھا اور دنیا کو نجات دینے کے لئے اُس نے صلیب پر جان دی… تب بہ اعلام الٰہی مسیح کی رُوحانیت جوش میں آئی اور اُس نے ان تمام الزاموں سے اپنی بریت چاہی اور خدا تعالیٰ سے اپنا قائم مقام چاہا.تب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے… یہ مسیح ناصری کی رُوحانیت کا پہلا جوش تھا جو ہمارے سیّد ہمارے مسیح خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے اپنی مراد کو پہنچا.فَالْـحَمْدُ لِلہِ.پھر دوسری مرتبہ مسیح کی رُوحانیت اس وقت جوش میں آئی کہ جب نصاریٰ میں دجّالیّت کی صفت اتم ّ اور اکمل طور پر آگئی… پس اِس زمانہ میں دوسری مرتبہ حضرت مسیح کی رُوحانیت کو جوش آیا اور انہوں نے دوبارہ مثالی طور پر دنیا میں اپنا نزول چاہا اور جب ان میں مثالی نزول کے لئے اشد درجہ کی توجہ اور خواہش پیدا ہوئی تو خدا تعالیٰ نے اُس خواہش کے موافق دجّال موجودہ کے نابود کرنے کے لئے ایسا شخص بھیج دیا جو ان کی رُوحانیت
کا نمونہ تھا.وہ نمونہ مسیح علیہ السلام کا رُوپ بن کر مسیح موعود کہلایا… موجودہ فتنوں کے لحاظ سے مسیح کا نازل ہونا ہی ضروری تھا کیونکہ مسیح کی ہی قوم بگڑی تھی او ر مسیح کی قوم میں ہی دجّالیّت پھیلی تھی اس لئے مسیح کی رُوحانیت کو ہی جوش آنا لائق تھا.یہ وہ دقیق معرفت ہے کہ جو کشف کے ذریعہ سے اس عاجز پر کھلی ہے.اور یہ بھی کھلا کہ یوں مقدر ہے کہ ایک زمانہ کے گذرنے کے بعد کہ خیر اور صلاح اور غلبۂ توحید کا زمانہ ہوگا پھر دُنیا میں فساد اور شرک اور ظلم عَود کرے گا اور بعض بعض کو کیڑوں کی طرح کھائیں گے اور جاہلیت غلبہ کرے گی اور دوبارہ مسیح کی پرستش شروع ہوجائے گی اور مخلوق کو خدا بنانے کی جہالت بڑے زور سے پھیلے گی اور یہ سب فساد عیسائی مذہب سے اِس آخری زمانہ کے آخری حصّہ میں دنیا میں پھیلیں گے.تب پھر مسیح کی روحانیت سخت جوش میں آکر جلالی طور پر اپنا نزول چاہے گی تب ایک قہری شبیہ میں اُس کا نزول ہوکر اُس زمانہ کا خاتمہ ہوجائے گا تب آخر ہوگا اور دنیا کی صف لپیٹ دی جائے گی.اس سے معلوم ہوا کہ مسیح کی اُمّت کی نالائق کرتُوتوں کی وجہ سے مسیح کی روحانیت کے لئے یہی مقدّر تھا کہ تین مرتبہ دُنیا میں نازل ہو.‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد۵ صفحہ ۳۴۱ تا ۳۴۶) دسمبر۱۸۹۲ء ’’اب مجھ کو بتلایا گیا کہ جو مسلمان کو کافر کہتا ہے اور اس کو اہل قبلہ اور کلمہ گو اور عقائد اسلام کا معتقد پاکر پھر بھی کافر کہنے سے باز نہیں آتا وہ خود دائرۂ اسلام سے خارج ہے.سو مَیں مامور ہوں کہ ایسے لوگوں سے جو اَئـمۃ التکفیر ہیں او رمفتی اور مولوی اور محدِّث کہلاتے ہیں اور ابناء اور نِساء بھی رکھتے ہیں، مباہلہ کروں اور پہلے ایک عام مجلس میں ایک مفصّل تقریر کے ذریعہ سے ان کو اپنے دلائل سمجھادوں اور اُسی مجلس میں ان کے تمام الزامات اور شُبہات کا جو ان کے دل میں خلجان کرتے ہیں جواب بھی دے دُوں اور پھر اگر کافر کہنے سے باز نہ آویں تو اُن سے مباہلہ کروں.‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد۵ صفحہ ۲۵۶،۲۵۷) دسمبر۱۸۹۲ء ’’مباہلہ کی اجازت کے بارے میں جو کلامِ الٰہی میرے پر نازل ہوا وہ یہ ہے.نَظَرَاللّٰہُ اِلَیْکَ مُعَطَّرًا.وَ قَالُوْا اَتَـجْعَلُ فِیْـھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْـھَا.قَالَ اِنِّیْ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ قَالُوْا کِتَابٌ مُـمْتَلِـیٌٔ مِّنَ الْکُفْرِ وَ الْکَذِ بِ قُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَ اَبْنَآءَکُمْ وَ نِسَآءَنَا وَنِسَآءَکُمْ وَاَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَـھِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَۃَ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِ بِیْنَ.یعنی خدا تعالیٰ نے ایک معطّر نظر سے تجھ کو دیکھا اوربعض لوگوں نے اپنےدلوں میں کہا کہ اے خدا کیا تو زمین پر ایک ایسے شخص کو قائم کردے گا کہ جو دنیا میں فساد پھیلاوے؟ تو خدا تعالیٰ نے اُن کو جواب دیا کہ جو مَیں
جانتا ہوں تم نہیں جانتے.اور اُن لوگوں نے کہا کہ اِس شخص کی کتاب ایک ایسی کتاب ہے جو کذب اور کُفر سے بھری ہوئی ہے سو اُن کو کہہ دے کہ آؤ ہم اور تم معہ اپنی عورتوں اور بیٹوں اور عزیزوں کے مباہلہ کریں.پھر اُن پر لعنت کریں جو کاذب ہیں.‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۲۶۳ تا ۲۶۵) ۱۸۹۲ء ’’مجھے حکم ہوا ہے کہ مَیں مبا ہلہ کی درخواست کو آئینہ کمالاتِ اسلام کے ساتھ شائع کروں.‘‘ (از مکتوب بنام نواب محمد علی خاں صاحبؓ.مکتوبات احمد جلد۲ صفحہ۱۷۰،۱۷۱.مطبوعہ ۲۰۰۸ء) دسمبر۱۸۹۲ء ’’یہ وہ اجازت مبا ہلہ ہے جو اِس عاجز کو دی گئی لیکن ساتھ اِس کے جو بطور تبشیر کے اور الہامات ہوئے اُن میں سے بھی کسی قدر لکھتا ہوں اور وہ یہ ہیں.۱.یَوْمَ یَـجِٓیْئُ الْـحَقُّ وَیُکْشَفُ الصِّدْ قُ وَ یَـخْسَـرُ الْـخَاسِـرُوْنَ.۲.اَنْتَ مَعِیْ وَ اَنَـا مَعَکَ وَلَا یَعْلَمُھَا اِلَّا الْمُسْتَرْشِدُ وْنَ.۳.نَـرُدُّ اِلَیْکَ الْکَرَّۃَ الثَّانِیَۃَ وَ نُبَدِّ لَنَّکَ مِنْ بَعْدِ خَوْفِکَ اَمْنًا.۴.یَـاْتِیْ قَـمَرُ الْاَ.نْبِیَآءِ وَاَمْرُکَ یَتَاَتّٰی.۵.یَسُـرُّاللّٰہُ وَجْھَکَ وَ یُنِیْرُ بُرْھَانَکَ.۶.سَیُوْلَدُ لَکَ الْوَلَدُ وَ یُدْ نٰی مِنْکَ الْفَضْلُ اِنَّ نُـوْرِیْ قَرِیْبٌ.؎۱ ۷.وَ قَالُوْا اَنّٰی لَکَ ھٰذَا قُلْ ھُوَ اللّٰہُ عَـجِیْبٌ.۸.وَلَا تَیْئَسْ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ.۹.اُنْظُرْ اِلٰی یُوْسُفَ وَاِقْبَالِہٖ.۱۰.قَدْ جَآءَ وَقْتُ الْفَتْحِ وَالْفَتْحُ اَقْرَبُ.۱۱.یَـخِرُّوْنَ عَلَی الْمَسَاجِدِ.رَبَّنَا اغْفِرْلَنَآ اِنَّا کُنَّا خَاطِئِیْنَ.۱۲.لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَـمُ الرَّاحِـمِیْنَ.۱۳.اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَـخَلَقْتُ اٰدَمَ نَـجِیَّ الْاَسْـرَارِ.۱۴..اِنَّـاخَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ یَـوْمٍ مَّوْعُوْدٍ.۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۲۰ پر فرماتے ہیں.’’میرا دوسرا لڑکا جس کا نام بشیر احمد ہے اس کے پید اہونے کی پیشگوئی آئینہ کمالاتِ اسلام کے صفحہ ۲۶۶ ۲؎میں کی گئی ہے… اور پیشگوئی کے الفاظ یہ ہیں.یَـاْتِیْ قَـمَرُ الْاَنْبِیَآءِ وَاَمْرُکَ یَتَاَتّٰی.یَسُـرُّاللّٰہُ وَجْھَکَ.وَ یُنِیْرُ بُـرْھَانَکَ.سَیُوْلَدُ لَکَ الْوَلَـدُ وَ یُدْ نٰی مِنْکَ الْفَضْلُ.اِنَّ نُـوْرِیْ قَرِیْبٌ… یعنی نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام بن جائے گا.تیرے لئے ایک لڑکا پیدا کیا جائے گا اور فضل تجھ سے نزدیک کیا جائے گا یعنی خدا کے فضل کا موجب ہوگا اور نیز یہ کہ شکل و شباہت میں فضل احمد سے جو دوسری بیوی سے میرا لڑکا ہے مشابہت رکھے گا اور میرا نُور قریب ہے.پھر… ۲۰؍اپریل ۱۸۹۳ء کو جیسا کہ اشتہار ۲۰؍اپریل ۱۸۹۳ء سے ظاہر ہے اس پیشگوئی کے مطابق وہ لڑکا پیدا ہوا جس کا نام بشیر احمد رکھا گیا.‘‘ (مراد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ؓایم اے).(شمس) ۲ روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۲۶۶.(ناشر)
یعنی ۱اس دن حق آئے گا اور صدق کھل جائے گا اور جو لوگ خسارہ میں ہیں وہ خسارہ میں پڑیں گے.۲تُو میرے ساتھ اور مَیں تیرے ساتھ ہوں اور اس حقیقت کو کوئی نہیں جانتا مگر وہی جو رُشد رکھتے ہیں.۳ہم پھر تجھ کو غالب کریں گے اور خوف کے بعد امن کی حالت عطا کردیں گے.۴نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام تجھے حاصل ہوجائے گا.۵خدا تیرے منہ کو بشّاش کرے گا اور تیرے بُرہان کو روشن کردے گا.۶ اور تجھے ایک بیٹا عطا ہوگا اور فضل تجھ سے قریب کیا جائے گا اور میرا نُور نزدیک ہے.۷اور کہتے ہیں کہ یہ مراتب تجھ کو کہاں؟ اِن کو کہہ کہ وہ خدا عجیب خدا ہے اُس کے ایسے ہی کام ہیں جس کو چاہتا ہے اپنے مقربوں میں جگہ دیتا ہے.۸اور میرے فضل سے نومید مت ہو.۹یوسف کو دیکھ اور اُس کے اقبال کو.۱۰فتح کا وقت آرہا ہے اور فتح قریب ہے.مخالف یعنی جن کے لئے توبہ مقدّر ہے ۱۱اپنی سجدہ گاہوں میں گریں گے کہ اے ہمارے خدا ہمیں بخش کہ ہم خطا پر تھے.۱۲آج تم پر کوئی سرزنش نہیں، خدا تمہیں بخش دے گا اور وہ ارحم الراحمین ہے.۱۳مَیں نے ارادہ کیا کہ ایک اپنا خلیفہ زمین پر مقرر کروں تو مَیں نے آدم کو پیدا کیا جو نَـجِیُّ الْاَسْرَار ہے.۱۴ہم نے ایسے دن اس کوپیدا کیا جو وعدہ کا دن تھا.یعنی جو پہلے سے پاک نبی ؐ کے واسطہ سے ظاہر کردیا گیا تھاکہ وہ فلاں زمانہ میں پیدا ہوگا اور جس وقت پیدا ہوگا فلاں قوم دُنیا میں اپنی سلطنت اور طاقت میں غالب ہوگی اور فلاں قسم کی مخلوق پرستی رُوئے زمین پر پھیلی ہوئی ہوگی.اسی زمانہ میں وہ موعود پیدا ہوا اور وہ صلیب کا زمانہ اور عیسیٰ پرستی کا زمانہ ہے.‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۲۶۶ تا ۲۶۹) ۱۸۹۲ء ’’مجھے دکھلایا اور بتلایا گیا اور سمجھایا گیا ہے کہ دنیا میں فقط اسلام ہی حق ہے اور میرے پر ظاہر کیا گیا کہ یہ سب کچھ ببرکت پیروی حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تجھ کو ملا ہے اور جو کچھ ملا ہے اُس کی نظیر دوسرے مذاہب میں نہیں کیونکہ وہ باطل پر ہیں.‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۲۷۶) ۱۸۹۲ء (الف) ’’ مجھے یہ قطعی طور پر بشارت دی گئی ہے کہ اگر کوئی مخالف ِ دین میرے سامنے مقابلہ کے لئے آئے گا تو مَیں اس پر غالب ہوں گا اور وہ ذلیل ہوگا.‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد۵ صفحہ ۳۴۸) (ب)’’وَاَوْحٰی اِلَـیَّ بِـاَنَّنِیْ غَالِبٌ عَلٰی کُلِّ خَصِیْمٍ اَعْـمٰی.وَقَالَ اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ۱؎.‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۳۸۲) ۱ (ترجمہ از ناشر) اور خدا نے میری طرف وحی کی کہ میں ہر اندھے دشمن پر غالب ہوں.اور فرمایا میں اس کی اہانت کروں گا جو تیری اہانت کا ارادہ کرے گا.
(ج) ’’ مجھے اُس نے اپنے فضل و کرم سے اپنے خاص مکالمہ سے شرف بخشا ہے اور مجھے اطلاع دے دی ہے کہ مَیں جو سچا اور کامل خدا ہوں مَیں ہر ایک مقابلہ میں جو رُوحانی برکات اور سماوی تائیدات میں کیا جائے تیرے ساتھ ہوں اور تجھ کو غلبہ ہوگا.‘‘ (جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد۶ صفحہ ۱۳۷،۱۳۸) ۱۸۹۲ء ’’مجھے اطلاع دی گئی ہے کہ مَیں ان مسلمانوں پر بھی اپنے کشفی اور الہامی علوم میں غالب ہوں.ان کے ملہموں کو چاہیے کہ میرے مقابل پر آویں.پھر اگر تائید الٰہی میں اور فیضِ سماوی میں اور آسمانی نشانوں میں مجھ پر غالب ہوجائیں تو جس کا رد سے چاہیں مجھ کو ذبح کردیں مجھے منظور ہے اور اگر مقابلہ کی طاقت نہ ہو تو کُفر کے فتوے دینے والے جو الہاماً میرے مخاطب ہیں یعنی جن کو مخاطب ہونے کے لئے الہامِ الٰہی مجھ کو ہوگیا ہے پہلے لکھ دیں اور شائع کرا دیں کہ اگر کوئی خارق عادت امر دیکھیں تو بلاچون و چرا دعویٰ کو منظور کرلیں مَیں اس کام کے لئے بھی حاضر ہوں اور میرا خداوندِ کریم میرے ساتھ ہے لیکن مجھے یہ حکم ہے کہ مَیں ایسا مقابلہ صرف ائمۃ الکفر سے کروں.‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۳۴۸) ۱۸۹۲ء ’’اَحَادُالنَّاس کہ جو امام اور فضلا علم کے نہیں ہیں اور نہ ان کا فتویٰ ہے ان کےلئے مجھے یہ حکم ہے کہ اگر وہ خوارق دیکھنا چاہتے ہیں تو صحبت میں رہیں.خدائے تعالیٰ غنی بے نیاز ہے جب تک کسی میں تذلل اور انکسار نہیں دیکھتا اس کی طرف توجہ نہیں فرماتا لیکن وہ اس عاجز کو ضائع نہیں کرے گا اور اپنی حجّت دنیا پر پوری کردے گا اور کچھ زیادہ دیر نہیں ہوگی کہ وہ اپنے نشان دکھاوے گا.‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد۵صفحہ۳۴۹) ۱۰؍دسمبر۱۸۹۲ء ’’یہی خط؎۱ لکھتے لکھتے یہ الہام ہوا.یَـجِیْٓئُ الْـحَقُّ وَ یُکْشَفُ الصِّدْ قُ وَ یَـخْسَـرُ الْـخَاسِـرُوْنَ.یَـاْتِیْ قَـمَرُ الْاَ.نْبِیَآءِ وَ اَمْرُکَ یَتَاَتّٰی.اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُـرِیْدُ.یعنی حق ظاہر ہوگا اور صدق کھل جائے گا اور جنہو ں نے بدظنّیوں سے زیان اُٹھایا وہ ذلّت اور رُسوائی کا زیان بھی اُٹھائیں گے.نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام ظاہر ہوجائے گا.تیرا ربّ جو چاہتا ہے کرتا ہے.۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یعنی خط بنام نواب محمد علی خاں صاحبؓ آف مالیر کوٹلہ مندرجہ آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۳۳۱ تا ۳۵۷.
مگر مَیں نہیں جانتا کہ یہ کب ہوگا اور جو شخص جلدی کرتا ہے خدائے تعالیٰ کو اس کی ایک ذرّہ بھی پرواہ نہیں.وہ غنی ہے دوسرے کا محتاج نہیں.اپنے کاموں کو حکمت اور مصلحت سے کرتا ہے اور ہر ایک شخص کی آزمائش کرکے پیچھے سے اپنی تائید دکھلاتا ہے.‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد۵صفحہ۳۵۵) ۱۸۹۲ء ’’حضرت اقدس نے ویب صاحب۱؎ کے ہندوستان آنے سے پہلے خواب میں دیکھا تھا کہ وہ ہند میں آیا ہے اور ڈھول بجا رہا ہے جس کی تعبیر یہ تھی کہ وہ ایک بیہودہ کام میں مصروف ہے جس سے کچھ حاصل نہیں چنانچہ یہ بات پوری ہوئی.‘‘ (بدرجلد ۶نمبر ۱مورخہ ۱۴؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ۲) ۱۸۹۲ء ’’چند ماہ کا عرصہ ہوا ہے جس کی تاریخ مجھے یاد نہیں کہ ایک مضمون مَیں نے میاں محمد حسین کا دیکھا جس میں میری نسبت لکھا ہوا تھا کہ یہ شخص کذّاب اور دجّال اور بے ایمان اور باایں ہمہ سخت نادان اور جاہل اور علومِ دینیہ سے بے خبر ہے.تب مَیں جناب الٰہی میں رویا کہ میری مدد کر تو اس دعا کے بعد الہام ہوا کہ اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ یعنی دعا کرو کہ مَیں قبول کروں گا.مگر مَیں بالطّبع نافر تھا کہ کسی کے عذاب کے لئے دُعا کروں.‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد۵ صفحہ ۶۰۴) ۱۸۹۳ء ’’میرا ارادہ یہ تھا کہ یہ خط؎۲ اُردو میں لکھوں.لیکن رات کو بعض اشارات الہامی سے ایسا معلوم ہوا کہ یہ خط عربی میں لکھنا چاہیے اور یہ بھی الہام ہوا کہ اِن لوگوں پر اثر بہت کم پڑے گا.ہاں اتمام حجت ہوگا.‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد۵صفحہ ۳۶۰) ۱۸۹۳ء ’’ قَدْ اَلْھَمَنِیْ رَبِّیْ اَمْرَکُمْ وَ قَالَ اِنَّـھُمْ یُنَادَوْنَ مِنْ مَّکَانٍ بَعِیْدٍ.‘‘۳؎ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد۵ صفحہ ۳۶۶) ۱ Mr.Webb ۲ یعنی التبلیغ مشمولہ آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۳۶۴ (مرزا بشیر احمد) ۳ (ترجمہ از مرتّب) (اے فقراء و مشائخ)مجھے میرے ربّ نے آپ لوگوں کے متعلق الہام کے ذریعہ سے بتایا ہے کہ یہ لوگ دُور سے پکارے جاتے ہیں.یعنی بہت دُور جاپڑے ہیں.
۱۸۹۳ء ’’ ھُوَ نَـادَانِیْ وَ قَالَ قُلْ لِّعِبَادِیْ اِنَّنِیْ اُمِرْتُ وَ اَنَـا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ.‘‘۱؎ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۳۶۷) ۱۸۹۳ء ’’ نَـا؎۲دَانِیْ رَبِّیْ مِنَ السَّمَآءِ اَنْ ۱.اِصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا وَقُـمْ وَ اَنْذِرْ فَاِنَّکَ مِنَ الْمَامُوْرِیْنَ.۲.لِتُنْذِ.رَ قَوْمًا مَّا اُنْذِ.رَ اٰبَآؤُھُمْ.۳.وَ لِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ.۴.اِنَّـا جَعَلْنَاکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ لِاُتِمَّ حُـجَّتِیْ عَلٰی قَوْمٍ مُّتَنَصِّـرِیْنَ.۵.قُلْ ھٰذَا فَضْلُ رَبِّیْ.۶.وَ اِنِّیْ اُجَرِّدُ نَفْسِیْ مِنْ ضُـرُوْبِ الْـخِطَابِ.۷.وَ اُمِرْتُ مِنَ اللّٰہِ وَ اَنَـا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ.۸.اِنَّہٗ یَـرَی الْاَوْقَاتَ وَ یَعْلَمُ مَصَالِـحَھَا.۹.وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَ.ہٗ خَزَآئِنُہٗ ۱۰.اِنَّـمَآ اَمْرُہٗٓ اِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنَ.۱۱.قُلْ اَتَعْــجَبُوْنَ مِنْ فِعْلِ اللّٰہِ.۱۲.قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَعْــجَبُ الْعَـجِیْبِیْنَ.۱۳.یَـرْفَعُ مَنْ یَّشَآءُ وَیَضَعُ مَنْ یَّشَآءُ وَ یُعِزُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یُذِ.لُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَـجْتَبِیْ اِلَیْہِ مَنْ یَّشَآءُ.۱۴.لَایُسْئَلُ ۱ (ترجمہ از مرتّب) اس نے مجھے پکار کر فرمایا کہ میرے بندوں سے کہہ دے کہ مَیں خدا کی طرف سے مامور ہوں اور مَیں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں.۲ (ترجمہ از مرتّب) میرے ربّ نے مجھے آسمان سے پکار کر فرمایا کہ ۱ تُو ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی کے ماتحت یہ کشتی تیار کر اور اُٹھ اور (لوگوں کو آنے والے عذابوں سے) ڈرا.کیونکہ تو مامور ہے کہ ۲ان لوگوں کو ڈرائے جن کے باپ دادوں کے پاس کوئی نذیر نہیں آیا تھا ۳اور تاکہ مجرموں کی راہ اچھی طرح ظاہر ہوجائے.۴ہم نے تجھے مسیح ابن مریم بنایا ہے تاکہ نصرانیت کو اختیار کرنے والے لوگوں پر مَیں اپنی حجّت پوری کروں.۵تو کہہ کہ یہ میرے ربّ کا فضل ہے ۶اور مَیں اپنے آپ کوہر قسم کے خطابوں سے الگ رکھتا ہوں.۷اور مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملا ہے اور مَیں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں.۸وہ اوقات کو دیکھتا اور ان کے مصالح کو جانتا ہے ۹اور ہر چیز کے اس کے پاس خزانے ہیں ۱۰جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے.ہوجا.پس وہ ہوجاتی ہے.۱۱تو کہہ کہ کیا تم اللہ تعالیٰ کے فعل پر تعجب کرتے ہو.۱۲تو کہہ کہ اللہ کی شان نہایت عجیب ہے ۱۳وہ جسے چاہتا ہے بلند کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے گرادیتا ہے.جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے اپنی جناب
لَایُسْئَلُ عَـمَّا یَفْعَلُ وَھُمْ مِّنَ الْمَسئُوْلِیْنَ.۱۵.قُلِ الْـحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَذْھَبَ عَنِّی الْـحَزَنَ وَاَعْطَانِیْ مَا لَمْ یُعْطَ اَحَدٌ مِّنَ الْعَالَمِیْنَ.۱۶.وَقَالُوْا کِتَابٌ مُّـمْتَلِـیٌٔ مِّنَ الْکُفْرِ وَالْکَذِ.بِ.۱۷.قُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَکُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَـھِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَۃَ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ.۱۸.وَادْعُ عِبَادِیْ اِلَی الْـحَقِّ وَبَشِّـرْھُمْ بِـاَ.یَّـامِ اللّٰہِ وَ ادْعُھُمْ اِلٰی کِتَابٍ مُّبِیْنٍ.۱۹.اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّـمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْـھِمْ.۲۰.وَاللّٰہُ مَعَھُمْ حَیْثُـمَا کَانُوْا اِنْ کَانُوْا فِیْ بَیْعَتِـھِمْ مِّنَ الصَّادِقِیْن.۲۱.قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُـحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُـحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَ یَـجْعَلْ لَّکُمْ نُوْرًا وَّیَـجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّ یَـجْعَلْکُمْ مِّنَ الْمُنْصُوْرِیْنَ.۲۲..اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُحْسِنِیْنَ.ھٰذَا مَا اَلْھَمَنِیْ رَبِّیْ فِیْ وَقْتِیْ ھٰذَا وَمِنْ قَبْلُ یُنْعِمُ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ وَھُوَ خَیْرُ الْمُنْعِمِیْنَ.‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد۵ صفحہ ۳۷۳تا ۳۷۵) بقیہ ترجمہ.کا برگزیدہ بنا لیتا ہے.۱۴جو کچھ کرتا ہے اس کی بابت پوچھا نہیں جاتا اور لوگ جو کچھ کرتے ہیں اس کی بابت پوچھے جائیں گے.۱۵ تو کہہ کہ تمام تعریف اللہ کو ہے جس نے مجھ سے غم دور کردیا اور مجھے وہ کچھ دیا جو تمام مخلوقات میں سے اور کسی کو نہیں دیا.۱۶اور کہتے ہیں کہ یہ کتاب کفر اور جھوٹ سے پُر ہے.۱۷کہہ کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں اور تمہارے بیٹوں، اپنی عورتوں اور تمہاری عورتوں اور اپنے آدمیوں اور تمہارے آدمیوں کو بُلا کر تضرّع کے ساتھ جھوٹوں پر لعنت ڈالیں.۱۸اور میرے بندوں کو حق کی طرف بُلا اور اُنہیں اللہ تعالیٰ کے (جلوہ نمائی کے) دنوں کی بشارت دے اور ایک روشن کتاب کی طرف انہیں بُلا.۱۹جو لوگ تیری بیعت کرتے ہیں وہ (تیری نہیں بلکہ) خدا کی بیعت کرتے ہیں.اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہوتا ہے.۲۰ اور وہ جہاں پر ہوں گے اللہ ان کے ساتھ ہوگا بشرطیکہ وہ اپنی بیعت میں سچے ہوں.۲۱تو کہہ کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور وہ تمہیں اپنا خاص نور عطا کرے گا اور تمہیں کوئی امتیازی نشان بخشے گا اور اپنے منصوروں میں داخل کردے گا.۲۲اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کریں اور اللہ نیکوکاروں کے ساتھ ہوتا ہے.یہ ہیں وہ الہام جو میرے ربّ نے مجھے اسی وقت اور اس سے قبل کئے.وہ جس پر چاہتا ہے انعام کرتا ہے اور وہ سب منعموں سے بہتر ہے.
۱۸۹۳ء ’’وَ بَشَّـرَنِیْ فِیْ وَقْتِیْ ھٰذَ ا.وَ قَالَ یَا عِیْسٰی سَاُرِیْکَ اٰیَاتِیَ الْکُبْرٰی.‘‘۱؎ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۳۸۲) ۱۸۹۳ء ’’اِنِّیْ مَعَکَ حَیْثُ مَاکُنْتَ وَاِنِّیْ نَاصِـرُکَ وَ اِنِّیْ بُدُّ.کَ اللَّازِمُ وَ عَضُدُکَ الْاَقْوٰی.وَ اَمَرَنِیْ اَنْ اَدْعُوَالْـخَلْقَ.اِلَی الْفُرْقَانِ وَ دِ.یْنِ خَیْرِالْوَرٰی.‘‘۲؎ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۳۸۳) ۱۸۹۳ء ’’ نَـادَانِیْ وَ قَالَ.اِنِّیْ جَاعِلُکَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ وَکَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا.‘‘۳؎ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۴۲۶) ۱۸۹۳ء ’’ وَ؎۴فَھَّمَنِیْ رَبِّیْ اَسْرَارَ ھٰذِ ہِ الْاٰیَۃِ ؎۵ وَ اخْتَصَّنِیْ بِـھَا.‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ۴۴۲،۴۴۳) ۱۸۹۳ء ’’ وَ قَدْ اَنْبَاَنِیْ رَبِّیْ اَنَّنِیْ کَسَفِیْنَۃِ نُـوْحٍ لِّلْخَلْقِ فَـمَنْ اَتَـانِیْ وَ دَخَلَ فِی الْبَیْعَۃِ فَقَدْ نَـجَا مِنَ الضَّیْعَۃِ.‘‘ ؎۶ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد۵صفحہ۴۸۶) ۱۸۹۳ء ’’ وَ اِنِّیْ اَدْ.رَکْتُ بِالْکَشْفِ اَنَّ حَظِیْرَۃَ الْقُدْ سِ تُسْقٰی بِـمَآءِ الْقُرْاٰنِ وَ ھُوَ بَـحْرٌ مَّوَّاجٌ ۱ (ترجمہ از مرتّب) اور خدا تعالیٰ نے مجھے اسی وقت بشارت دی اور فرمایا ہے.اے عیسیٰ! مَیں تجھے عنقریب بڑے بڑے نشان دکھاؤں گا.۲ (ترجمہ از مرتّب) تُو جہاں بھی ہو مَیں تیرے ساتھ ہوں مَیں تیری مدد کروں گا اور مَیں ہمیشہ کے لئے تیرا چارہ اور سہارا اور تیرا نہایت قوی بازو ہوں اور مجھے حکم دیا کہ مَیں لوگوں کو قرآن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی دعوت دوں.۳ (ترجمہ از مرتّب) اللہ تعالیٰ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ مَیں تجھے عیسیٰ ابن مریم بناتا ہوں اور اللہ ہر ایک بات پر قادر ہے.۴ (ترجمہ از مرتّب) اور میرے ربّ نے مجھے اس آیت کے اسرار سمجھائے ہیں اور انہیں مجھ سے مخصوص کیا ہے.۵ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یعنی آیت وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجْعِ وَالْاَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ.اس آیت کی حضور نے آگے تفسیر فرمائی ہے.دیکھیے آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۴۴۲ تا ۴۴۶.۶ (ترجمہ از مرتّب) اور میرے ربّ نے مجھے خبر دی ہے کہ مَیں لوگوں کے لئے نوح کی کشتی کی طرح ہوں.پس جو شخص میرے پاس آکر بیعت میں داخل ہوگا وہ ضائع ہونے سے بچ جاوے گا.
۱۸۹۳ء ’’ وَ اِنِّیْ اَدْ.رَکْتُ بِالْکَشْفِ اَنَّ حَظِیْرَۃَ الْقُدْ سِ تُسْقٰی بِـمَآءِ الْقُرْاٰنِ وَ ھُوَ بَـحْرٌ مَّوَّاجٌ مِّنْ مَّآءِ الْـحَیَاۃِ.مَنْ شَـرِبَ مِنْہُ فَھُوَ یُـحْیٰی.بَلْ یَکُوْنُ مِنَ الْمُحْیِیْنَ.‘‘۱؎ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۴۵، ۵۴۶) ۱۸۹۳ء ’’۱.یَـا۲؎ اَحْـمَدُ بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ.۲.اَلرَّحْـمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ.۳.لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا اُنْذِرَ اٰبَآؤُھُمْ.۴..وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ.۵.قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ وَاَنَـا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ.۶.یٰعِیْسٰی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ.۷.اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ.۸.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَتَفْرِیْدِیْ فَـحَانَ اَنْ تُعَانَ وَ تُعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ.۹.وَ یُعَلِّمُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِہٖ.۱۰.تُقِیْمُ الشَّرِیْعَۃَ وَ تُـحْیِ الدِّیْنَ.۱۱.اِنَّـا جَعَلْنَاکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ.۱۲.وَ اللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنْ عِنْد.ہٖ وَ لَوْ لَمْ یَعْصِمْکَ النَّاسُ.۱۳.وَاللّٰہُ یَنْصُرُکَ وَلَولَمْ یَنْصُرْکَ النَّاسُ.۱۴.اَلْـحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوْنَـنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ.۱۵.یَـا اَحْـمَدِیْ اَنْتَ مُرَادِیْ وَمَعِیْ.۱۶.اَنْتَ وَجِیْہٌ فِیْ حَضْـرَتِیْ.۱ (ترجمہ از مرتّب) مجھے کشف سے معلوم ہوا ہے کہ حظیرۃ القدس کی سیرابی قرآن کریم کے پانی سے ہورہی ہے وہ ایک سمندر ہے جس میں آبِ حیات موجیں مار رہا ہے.جو اس میں سے پیتا ہے وہ زندہ ہوجاتا ہے بلکہ دوسروں کو زندہ کرنے والا بن جاتا ہے.۲ (ترجمہ از مرتّب) ۱اے احمد! خدا نے تجھ میں برکت رکھ دی ہے.۲خدائے رحمان نے تجھے قرآن سکھلایا ۳تاکہ تُو ان لوگوں کو ڈرائے جن کے باپ دادے ڈرائے نہیں گئے ۴اور تاکہ مجرموں کی راہ کھل جائے.۵کہہ مَیں خدا کی طرف سے مامور ہوں اور مَیں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں.۶اے عیسیٰ مَیں تجھے وفات دُوں گا اور اپنی طرف اُٹھاؤں گا اور منکروں کے ہر ایک الزام اور تہمت سے تیرا دامن پاک کروں گا اور تیرے تابعین کو اُن پر جومنکر ہیں قیامت تک غلبہ بخشوں گا.۷آج تُو میرے نزدیک با مرتبہ اور امین ہے.۸تُو مجھ سے ایسا ہے جیسا میری توحید اور تفرید.سو وہ وقت آگیا جو تیری مدد کی جائے اور تجھے لوگوںمیں معروف و مشہور کیا جائے ۹اور اللہ تعالیٰ تجھے اپنے پاس سے سکھائے گا.۱۰تو شریعت کو قائم کرے گا اور دین کو زندہ کرے گا.۱۱ہم نے تجھے مسیح بن مریم بنایا ہے ۱۲اور اللہ تعالیٰ تیری حفاظت کرے گا اگرچہ لوگ تیری حفاظت نہ کریں ۱۳اور اللہ تعالیٰ تیری مدد کرے گا، اگرچہ لوگ تیری مدد نہ کریں.۱۴یہ بات تیرے ربّ کی طرف سے سچ ہے.پس تُو شک کرنے والوں میں سے مت ہو.۱۵اے میرے احمد! تُو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے.۱۶تو میری درگاہ میں وجیہ ہے.
حَضْـرَتِیْ.۱۷.اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ.۱۸ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُـحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُـحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغَفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَیَـرْحَـمْ عَلَیْکُمْ وَ ھُوَ اَرْحَـمُ الرَّاحِـمِیْنَ.‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد ۵صفحہ ۵۵۰، ۵۵۱) ۱۸۹۳ء ’’ تَضَـرَّ؎۱عْتُ فِیْ حَضْـرَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَطَرَحْتُ بَیْنَ یَدَیْہِ مُتَمَنِّیًا لِّکَشْفِ سِـرِّالنُّزُوْلِ وَکَشْفِ حَقِیْقَۃِ الدَّجَّالِ لِاَعْلَمَہٗ عِلْمَ الْیَقِیْنِ.وَاَرَاہُ عَیْنَ الْیَقِیْنِ.فَتَوَجَّھَتْ عَنَایَتُہٗ لِتَعْلِیْمِیْ وَتَفْھِیْمِیْ.وَاُلْھِمْتُ وَعُلِّمْتُ مِنْ لَّدُنْہُ اَنَّ النُّزُوْلَ فِیْ اَصْلِ مَفْھُوْمِہٖ حَقٌّ وَّلٰکِنْ مَّافَھِمَ الْمُسْلِمُوْنَ حَقِیْقَتَہٗ…… فَاَخْبَـرَنِیْ رَبِّیْ اَنَّ النُّـزُوْلَ رُوْحَانِیٌّ لَّاجِسْمَانِیٌّ…… اَمَّا الدَّ.جَّالُ فَاسْـمَعُوْا اُ.بَیِّنْ لَّکُمْ حَقِیْقَتَہٗ مِنْ صَفَآءِ اِلْھَامِیْ وَ زُلَالِیْ…… اَیُّـھَا الْاَعِزَّۃُ قَدْکُشِفَ عَلَیَّ اَنَّ وَحْدَ ۃَ الدَّجَّالِ لَیْسَتْ وَحْدَ ۃً شَـخْصِیَّۃً بَلْ وَحْدَ ۃٌ نَّـوْعِیَّۃٌ بِـمَعْنٰی اِتِّـحَادِ الْاٰرَآءِ فِیْ نَوْعِ الدَّجَّالِیَّۃِ کَمَا یَدُ.لُّ عَلَیْہِ لَفْظُ الدَّجَّالِ وَ اِنَّ فِیْ ھٰذَا الْاِسْـمِ اٰیَـاتٍ لِّلْمُتَفَکِّرِیْنَ.فَالْمُرَادُ مِنْ لَّفْظِ الدَّجَّالِ سِلْسِلَۃٌ مُّلْتَئِمَۃٌ مِّنْ ھِمَمٍ دَجَّالِیَّۃٍ بَعْضُھَا ظَھِیْرٌ لِّلْبَعْضِ کَاَنَّـھَا بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ مِّنْ لَّبِنٍ مُّتَّحِدَ ۃِ الْقَالِبِ کُلُّ لَبِنَۃٍ تُشَارِکُ مَا یَلِیْـھَا فِیْ لَوْنِـھَا وَ قِوَامِھَا وَمِقْدَارِھَا وَ اسْتِحْکَامِھَا وَاُدْخِلَتْ بَعْضُھَا فِیْ بَعْضٍ وَّ اُشِیْدَتْ مِنْ بقیہ ترجمہ.۱۷مَیں نے تجھے اپنے لئے اختیار کیا.۱۸کہہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت رکھے اور تمہارے گناہ بخش دے اور تم پر رحم کرے اور وہی سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے.۱ (ترجمہ از مرتّب) مَیں نے اللہ تعالیٰ کے حضور زاری کی اور اس کے سامنے اپنے آپ کو یہ تمنّا کرتے ہوئے ڈال دیا کہ مجھ پر نزول کا راز کھلے اور دجّال کی حقیقت کا انکشاف ہو تاکہ علم الیقین کی رُو سے جانوں اور عین الیقین کی آنکھ سے دیکھوں.تب اس کی عنایت میری تعلیم و تفہیم کی خاطر متوجہ ہوئی اور مجھے الہاماً بتلایا گیا کہ اصل مفہوم کے لحاظ سے تو نزول حق ہے مگر مسلمان اس کی حقیقت کو نہیں سمجھے … پس میرے ربّ نے مجھے بتلایا کہ نزول روحانی ہے جسمانی نہیں… اب دجّال کے متعلق سُنو جس کی حقیقت مَیں تمہیں صاف اور خالص الہام سے بتاتا ہوں … اے عزیزو! مجھے بتایا گیا ہے کہ دجّال کو بصیغہ واحد ذکر کرنے سے مقصود اس کی وحدتِ شخصی کا اظہار نہیں بلکہ وحدتِ نوعی مراد ہے کہ اس کے تمام افراد دجّالی خیالات میں ہم رنگ ہوں گے جیسا کہ اس لفظ دجّال سے بھی ظاہر ہوتا ہے اور سوچنے سے یہ نام کئی رنگ میں اس حقیقت کا پتہ دیتا ہے.پس لفظ دجّال سے مراد دجّالی خیالات کی ایک زنجیر ہے جس کی کڑیاں ایک دوسری سے ایسی ملی ہوئی ہیں جیسے ایک قالب کی اینٹوں کی پختہ عمارت ہو جس کی اینٹیں رنگ، قوام،
خَارِجِھَا بِالطِّیْنِ.‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ۵۵۲ تا ۵۵۵) ۱۸۹۳ء ’’رَاَیْتُ فِیْـھَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ مَارَاَیْتُہٗ فِیْ مُسْتَطْرِفِ الْاَیَّامِ فَـجَعَلَنِیْ کَالْعِرْدَامِ وَاَعَدَّ نِیْ لِلْاِصْلِخْمَامِ لِاُحَارِبَ الْفَرَاعِنَۃَ وَ الظَّالِمِیْنَ.‘‘ ۱؎ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد۵ صفحہ ۵۶۱) ۱۸۹۳ء ’’وَ ھَنَّأَنِیْ رَبِّیْ وَقَالَ.اِنَّا مُھْلِکُوْا بَعْلِھَا کَمَآ اَھْلَکْنَا اَبَاھَا وَ رَآدُّوْھَا اِلَیْکَ.اَلْـحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ.وَمَا نُـؤَخِرُّہٗٓ اِلَّا لِاَجَلٍ مَّعْدُوْدٍ.قُلْ تَـرَبَّصُوا الْاَجَلَ وَ اِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُتَـرَ.بَّصِیْنَ.وَ اِذَا جَآءَ وَعْدُالْـحَقِّ اَھٰذَا الَّذِیْ کَذَّ بْـتُمْ بِہٖ اَمْ کُنْتُمْ عَـمِیْنَ.‘‘ ۲؎ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۵۷۶) ۱۸۹۳ء (الف) ’’ وَ؎۳ رَاَیْتُ فِی الْمَنَامِ کَاَنِّیْ اَسْـرَجْتُ جَـوَادِیْ لِبَعْضِ مُرَادِیْ وَ مَآ اَدْرِیْ اَیْـنَ تَـاَھُّبِیْ وَ اَیُّ اَمْرٍ مَطْلَبِیْ.وَکُنْتُ اُحِسُّ فِیْ قَلْبِیْ اَنَّنِیْ لِاَمْرٍ مِّنَ الْمَشْغُوْفِیْنَ.بقیہ ترجمہ.مقدار اور مضبوطی میں ایک جیسی ہوں اور ان کو باہم ملا کر اور باہر سے لیپ کر ایک کردیا گیاہو.۱ (ترجمہ از مرتّب) انہی ایام میں مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور اس سے پہلے بھی قریب عرصہ میں مجھے آپ کی زیارت ہوچکی تھی.آپ نے مجھے اپنا چابک بنایا اور مجھے مقابلہ کے لئے تیار کیا تاکہ مَیں فرعونی سیرت لوگوں اور ظالموں سے جنگ کروں.۲ (ترجمہ از مرتّب) اور میرے ربّ نے مجھے مبارکباد دی اور فرمایا.ہم اس کے خاوند کو (بھی) ہلاک کریں گے جیسا کہ ہم نے اس کے باپ کو ہلاک کیا اوراس (لڑکی) کو تیری طرف لوٹائیں گے.تیرے ربّ کی طرف سے (یہ) سچ ہے.پس تو شک کرنے والوں میں سے نہ ہو.اور ہم اسے صرف گنتی کی مدّت کے لئے تاخیر کریں گے.کہہ اس عرصہ کی انتظار کرو اور مَیں (بھی) تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں.اور جب خدا کا وعدہ آئے گا (تب کہا جائے گا) کیا یہ وہی ہے جس کو تم نے جھٹلا یا تھا یا تم اندھے تھے.۳ (ترجمہ از مرتّب) اور (ایک مرتبہ) مَیں نے خواب میں دیکھا کہ گویا مَیں نے کسی مقصد کے لئے جانے کی غرض سے اپنے گھوڑے پر زین ڈالی ہے اور یہ بات مَیں نہیں جانتا تھا کہ کدھر اور کس مقصد کے لئے جانے کی تیاری کررہا ہوں.ہاں مَیں اپنے دل میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ مَیں کسی خاص بات کے شغف اور اشتیاق کی و جہ سے یہ تیاری کررہا ہوں اور مَیںنے
فَامْتَطَیْتُ اَجْرَدِیْ بِاسْتِصْحَابِ بَعْضِ السِّلَاحِ مُتَوَکِّـلًا عَلَی اللّٰہِ کَسُنَّۃِ اَھْلِ الصَّلَاحِ.وَلَمْ اَکُنْ کَالْمُتَبَاطِئِیْنَ.ثُمَّ وَجَدْ تُّنِیْ کَاَنِّیْ عَثَرْتُ عَلٰی خَیْلٍ قَصَدُوْا مُتَسَلِّحِیْنَ دَارِیْ لِاِھْلَاکِیْ وَتَبَارِیْ وَکَاَنَّـھُمْ یَـجِیْئُوْنَ لِاِضْرَاریْ مُنْخَرِطِیْنَ وَکُنْتُ وَحِیْدًا وَّ مَعَ ذَالِکَ رَاَیْتُنِیْ اَنِّیْ لَا اَلْبَسُ مِنْ خُوذٍ غَیْرَ عُدَ دٍ وَّجَدْ تُّـھَا مِنَ اللّٰہِ کَعُوْذٍ.وَقَدْ اَنِفْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْقَاعِدِیْنَ وَ الْمُتَخَلِّفِیْنَ الْخَآئِفِیْنَ فَانْطَلَقْتُ مُـجِدًّا اِلٰی جِھَۃٍ مِّنَ الْـجِھَاتِ.مُسْتَقْرِیًا اِرْبِیَ الَّذِیْ کُنْتُ اَحْسِبُہٗ مِنْ اَکْبَرِ الْمُھِمَّاتِ وَاَعْظَمِ الْمَثُوْبَاتِ فِی الدُّنْیَا وَالدِّیْنِ.اِذْ رَاَیْتُ اُلُوْفًا مِّنَ النَّاس فَارِسِیْنَ عَلَی الْاَفْرَاسِ.یَاْتُوْنَ اِلَیَّ مُتَسَارِعِیْنَ.فَفَرِحْتُ بِرُؤْیَتِـھِمْ کَالْـخَبَّاسِ وَ وَجَدْ.تُّ فِیْ قَلْبِیْ حَوْلًا لِّلْجِحَاسِ.وَکُنْتُ اَتْلُوْھُمْ کَتِلْوِ الصَّیَّادِیْنَ.ثُمَّ اَطْلَقْتُ الْفَرَسَ عَلٰی اٰثَـارِھِمْ لِاُدْرِکَ مِنْ فَصِّ اَخْبَارِھِمْ.وَکُنْتُ اَتَیَقَّنُ اَنَّنِیْ لَمِنَ الْمُظَفَّرِیْنَ.فَدَ نَـوْتُ مِنْـھُمْ فَاِذَا ھُمْ قَوْمٌ دُرُوْسُ الْبَزَّۃِ کَرِیْہُ الْھَیْئَۃِ مِیْسَمُھُمْ کَمِیْسَمِ الْمُشْرِکِیْنَ.وَلِبَاسُھُمْ لِبَاسُ الْفَاسِقِیْنَ وَرَاَیْتُھُمْ مُطْلِقِیْنَ اَفْرَاسَھُمْ کَالْمُغِیْرِیْنَ.بقیہ ترجمہ.کچھ ہتھیار لگا لئے اور صالحین کے طریق کے مطابق اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرکے چُستی کے ساتھ گھوڑے پر سوار ہوگیا.اس کے بعد مَیں نے ایسا محسوس کیا کہ گویا مجھے کچھ سواروں کا پتہ لگا ہے جو مسلّح ہیں اور مجھے ہلاک کرنے کی غرض سے میرے مکان پر چڑھائی کرکے آئے ہیں اور مَیں تنِ تنہا ہوں اور ان ہتھیاروں کے سوا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے پناہ کے طورپر دیئے گئے تھے کوئی خَود وغیرہ بچاؤ کا سامان میرے پاس نہیں تھا اور میدانِ مقابلہ سے پیچھے ہٹ رہنا اور ڈر کر اندر بیٹھے رہنا بھی گوارا نہ ہوا اس لئے مَیں اپنے اس اہم مقصد کے لئے جو میرے پیش نظر تھا اور دین و دنیا کے حق میں بہترین نتائج پیدا کرنے والا تھا.اپنی پوری طاقت اور کوشش کے ساتھ تیزی سے ایک طرف چل پڑا.اسی اثناء میں اچانک مجھے ہزارہا شاہ سوار نظر آئے جو گھوڑوں پر سوار تھے اور نہایت تیزی کے ساتھ میری طرف آرہے تھے.مَیں انہیں دیکھ کر ایسا خوش ہوا کہ گویا مجھے غنیمت ملی ہے اور مجھے اپنے اندر دشمن کے مقابلہ کی طاقت محسوس ہونے لگی اور مَیں اس طرح پر ان کا پیچھا کرنے لگا جیسے شکاری لوگ شکار کا پیچھا کرتے ہیں.پھر مَیں نے اس کی حقیقت ِ حال دریافت کرنے کے لئے اپنا گھوڑا ان کے پیچھے دَوڑایا اور مجھے یقین تھا کہ مَیں کامیاب ہوں گا.پھر مَیں ان کے قریب ہوا تو دیکھتا کیا ہوں کہ ان لوگوں کے کپڑے بوسیدہ اور دریدہ ہیں.ان کی شکلیں مکروہ ہیں اور ان کی ہیئت مشرکوں کی سی اور لباس بدکردار لوگوں کاسا ہے اور مَیں نے دیکھا کہ وہ غارت ڈالنے کی غرض سے اپنے گھوڑے دوڑا رہے ہیں
وَکُنْتُ اُقَیِّدُ لَـحْظِیْ بِاَشْبَاحِھِمْ کَالرَّآئِیْنَ وَکُنْتُ اُسَارِعُ اِلَیْھِمْ کَالْکُمَاۃِ.وَکَانَ فَرَسِیْ کَاَنَّہٗ یُزْجِیْہِ قَآئِدُ الْغَیْبِ کَاِزْجَآءِ الْـحَمُوْلَاتِ بِالْـحُدَاۃِ.وَکُنْتُ عَلٰی طَلَاوَۃِ اَقْدَامِہٖ کَالْمُسْتَطْرِفِیْنَ.فَـمَا لَبِثُوْا اَنْ رَّجَعُوْا مُتَدَھْدِھًا اِلٰی خَـمِیْلَتِیْ لِیُزَاحِـمُوْا حَوْلِیْ وَحِیْلَتِیْ وَلِیُتْلِفُوْا ثِـمَارِیْ وَ یُزْعِــجُوْا اَشْـجَارِیْ.وَلِیَشُنُّوْا عَلَیْـھَا الْغَارَاتِ کَالْمُفْسِدِیْنَ فَاَوْحَشَنِیْ دُخُوْلُھُمْ فِیْ بُسْتَانِیْ وَاُدْھِشْتُ بِاِغْرَاقِھِمْ وَ وُلُوْجِھِمْ فِیْھَا فَضَجِرْتُ ضَـجْرًا شَدِیْدًا وَّ قَلِقَ جَنَانِیْ وَ شَھِدَ تَوَسُّمِیْ اَنَّـھُمْ یُرِیْدُ.وْنَ اِبَادَۃَ اَثْـمَارِیْ وَکَسْرَ اَغْصَانِیْ فَبَادَرْتُ اِلَیْھِمْ وَظَنَنْتُ اَنَّ الْوَقْتَ مِنْ مَّـخَاشِی اللَّأْوَآءِ.وَصَارَتْ اَرْضِیْ مَوْطِنَ الْاَعْدَآءِ.وَاَوْجَسْتُ فِیْ نَفْسِیْ خِیْفَۃً کَالضَّعِیْفِیْنَ الْمَزْءُوْدِیْنَ فَقَصَدْتُّ الْـحَدِیْقَۃَ لِاُفَتِّشَ الْـحَقِیْقَۃَ.فَلَمَّا دَخَلْتُ حَدِیْقَتِیْ.وَاسْتَشْـرَفْتُ بِتَحْدِیْقِ حَدَقَتِیْ وَاسْتَطْلَعْتُ طَلْعَ مَقَامِھِمْ رَاَیْتُـھُمْ مِّنْ مَّکَانٍ بَعِیْدٍ فِیْ بُـحْبُوْحَۃِ بُسْتَانِیْ سَاقِطِیْنَ مَصْـرُوْعِیْنَ کَالْمَیِّتِیْنَ.فَاَفْرَخَ کَرْبِیْ وَ اٰمَنَ سِـرْبِیْ وَبَـادَ.رْتُ اِلَیْھِمْ جَذِلًا وَّ بِـاِقْدَامِ الْفَرِحِیْنَ فَلَمَّا دَنَوْتُ مِنْـھُمْ وَجَدْتُّـھُمْ اَصْبَحُوْا فَرْسٰی بقیہ ترجمہ.اور میں پورے غور اور توجہ سے ان کی شکلوں کو دیکھ رہا ہوں اور مَیں پہلوانوں اور بہادروں کی طرح تیزی سے ان کی طرف جارہا ہوں اور میرا گھوڑا ایسا تیزی سے جاتا تھا کہ کوئی غیب سے اِسی طرح پر چلا رہا ہے جیسا کہ حُدِی خوان لوگ اونٹوں کو تیز چلاتے ہیں.مَیں اس کے قدموں کی خوبصورتی اور دلکشی کی و جہ سے بھی خوشی محسوس کرتا تھا.اس پر انہوں نے میری طاقت اور میری تدبیر میں مزاحم ہونے.میرے باغ کے پھلوں کو تلف کرنے اور درختوں کی بیخ کنی کرنے اور ان کو تباہ و برباد کرنے کے لئے اُن پر غارت ڈالنے کی غرض سے فوراً لوٹ کر میرے باغ کی طرف رُخ کیا.ان کے میرے باغ میں داخل ہونے اور گھس جانے کی وجہ سے مَیں گھبرایا اور مجھے سخت تشویش اور بے چینی پیدا ہوئی اور میری فراست نے بتایا کہ وہ لوگ میرے باغ کے پھلوں کو تباہ کرنا اور شاخوں کو توڑدینا چاہتے ہیں اِس لئے مَیں دوڑ کر ان کی طرف بڑھا اور مَیں نے سمجھا کہ یہ وقت سخت خطرناک ہے اور میری زمین کو دشمنوں نے اپنا وطن بنا لیا ہے اور مَیں کمزور اور خوفزدہ لوگوں کی طرح اپنے دل میں خوف محسوس کرنے لگا.سو اِس بنا پر مَیں حقیقت ِ حال معلوم کرنے کی غرض سے اپنے باغ کی طرف چل پڑا اور جب مَیں اپنے باغ میں داخل ہوا اور غور سے اُس میں نگاہ ڈالی اور اس میں ان کے مقام کی جگہ دریافت کرنے لگا تو مَیں نے دُور ہی سے دیکھا کہ وہ میرے باغ کے درمیانی صحن میں گرے پڑے اور مُردوں کی طرح پچھڑے پڑے ہیں.اِس پر میری گھبراہٹ جاتی رہی اور مجھے اطمینانِ خاطر حاصل ہوگیا اور مَیں نہایت خوشی کے ساتھ
کَمَوْتِ نَفْسٍ وَّاحِدٍ مَیِّتِیْنَ ذَلِیْلِیْنَ مَقْھُوْرِیْنَ سُلِخَتْ جُلُوْدُھُمْ وَشُـجَّتْ رُءُوْسُھُمْ وَذُعِطَتْ حُلُوْقُھُمْ وَقُطِعَتْ اَیْدِیْـھِمْ وَاَرْجُلُھُمْ وَصُـرِعُوْا کَالْمُمَزَّقِیْنَ.وَاغْتِیْلُوْا کَالَّذِیْنَ سَقَطَ عَلَیْھِمْ صَاعِقَۃٌ فَکَانُوْا مِنَ الْمُحْرَقِیْنَ.فَقُمْتُ عَلٰی مَصَارِعِھِمْ عِنْدَ التَّلَاقِیْ وَعَبَرَاتِیْ یَتَحَدَّرْنَ مِنْ مَّاٰقِیْ وَقُلْتُ یَارَبِّ رُوْحِیْ فِدَآءُ سَبِیْلِکَ لَقَدْ تُبْتَ عَلَـیَّ.وَ نَصَـرْتَ عَبْدَ.کَ بِنُصْـرَۃٍ لَّا یُوْجَدُ مِثْلُہٗ فِی الْعَالَمِیْنَ.رَبِّ قَتَلْتَـھُمْ بِاَیْدِ.یْکَ قَبْلَ اَنْ قَاتَلَ صِـرْعَانِ.وَحَارَبَ حِتْنَانِ.وَ بَـارَزَ قِتْلَانِ.تَفْعَلُ مَا تَشَآءُ وَلَیْسَ مِثْلُکَ فِی النَّاصِرِیْنَ.اَنْتَ اَنْقَذْتَنِیْ وَنَـجَّیْتَنِیْ وَمَاکُنْتُ اَنْ اُنْـجٰی مِنْ ھٰذِہِ الْبَلَا.یَا لَوْ لَا رَحْـمَتُکَ یَـآ اَرْحَـمَ الرَّاحِـمِیْنَ.ثُمَّ اسْتَیْقَظْتُ وَکُنْتُ مِنَ الشَّاکِرِیْنَ الْمُنِیْبِیْنَ.فَالْـحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.وَ اَوَّلْتُ ھٰذِ.ہِ الرُّؤْیَـآ اِلٰی نُصْـرَۃِ اللّٰہِ وَ ظَفَرِہٖ بِغَیْرِ تَوَسُّطِ الْاَ.یْدِ.یْ وَالْاَسْبَابِ.لِیُتِمَّ عَلَـیَّ نُعَمَآءَہٗ وَیَـجْعَلَنِیْ مِنَ الْمُنْعَمِیْنَ.وَالْاٰنَ اُبَیِّنُ لَکُمْ تَـاْوِیْلَ الرُّؤْیَـا بقیہ ترجمہ.تیزی سے ان کی طرف بڑھا اور جب مَیں ان کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ وہ سب کے سب یکدم ذلّت کی حالت میں اور مورد غضب ِ الٰہی بن کر اس طرح پر مر گئے جیسے ایک شخص کا مرنا واقع ہوتا ہے اور ان کے چمڑے اتارے گئے اور اُن کے سروں کو کچل دیا گیا اور ان کے گلوں کو کاٹ دیا گیا اور اُن کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے گئے اور پارہ پارہ کرکے پھینک دیئے گئے اور یکدم ان پر ایسی تباہی آئی جیسے کسی قوم پر بجلی گر کر ایک ہی دم میں اُسے نابود کردیتی ہے اور وہ بھسم ہوگئے.اس کے بعد مَیں اُن کی ہلاکت کی جگہ پر جہاں وہ مقابلہ کے لئے اکٹھے ہوئے تھے کھڑا ہوا اورمیری آنکھوں سے آنسو کثرت سے بہہ رہے تھے اور مَیں نے (بارگاہِ الٰہی میں) عرض کیا کہ اے میرے ربّ میری جان تیری راہ پر فدا ہو تو نے مجھ ناچیز پر خاص کرم فرمایا ہے اور اپنے بندۂ درگاہ کی وہ نصرت فرمائی ہے جس کی نظیر اقوام میں نہیں مل سکتی.اے میرے ربّ تُو نے پیشتر اس کے کہ دو فریق باہم جنگ کرتے اور ۲دو حریف کارزار کو عمل میں لاتے اور دو مرد میدانِ کارزار میں کار فرما ہوتے، اپنے ہاتھوں سے ان کو قتل کردیا.تُو جو چاہتا ہے کرتا ہے اور تیرے جیسا کوئی مدد دینے والا نہیں ہے.تُو نے ہی مجھے بچایا اور مجھے نجات بخشی.اے ارحم الراحمین اگر تو رحم نہ کرتا تو ممکن نہ تھا کہ مَیں ان بلاؤں اور آفات سے نجات پاتا.پھر مَیں بیدار ہوگیا اور مَیں اس وقت اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کررہا تھا اور اس کی طرف میری رُوح جھکی ہوئی تھی.پس اللہ تعالیٰ کے لئے تعریف ہے جو تمام مخلوق کا ربّ ہے.اور مَیں نے اس رؤیا کی یہ تعبیر کی کہ اس میں ظاہری اسباب اور انسانی کوششوں کے دخل کے بغیر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت اور کامیابی کی بشارت ہے اور یہ کہ وہ مجھ پر اپنے انعام کو کامل کرنا اور مجھے اپنے فضلوں میں داخل کرنا چاہتا ہے.اب میں
لِتَکُوْنُوْا مِنَ الْمُبَصِّرِیْنَ.فَاَمَّا شَـجُّ الرُّءُوْسِ وَ ذَعْطُ الْـحُلُوْقِ فَتَاْوِیْلُہٗ کَسْـرُ کِبْرِ الْاَعْدَاءِ.وَ قَصْمُ اِزْدِھَآئِھِمْ وَجَعْلُھُمْ کَالْمُنْکَسِرِیْنَ.وَاَمَّا تَقْطِیْعُ الْاَیْدِیْ فَتَاْوِیْلُہٗ اِزَالَۃُ قُوَّۃِ الْمُبَارَاتِ وَالْمُمَارَاتِ وَاِعْـجَازُھُمْ وَصَدُّ ھُمْ عَنِ الْبَطْشِ وَحِیَلِ الْمُقَاوَمَاتِ وَانْتِزَاعُ اَسْلِحَۃِ الْھَیْجَآءِ مِنْھُمْ وَجَعْلُھُمْ مَـخْذُوْلِیْنَ مَصْدُوْدِیْنَ وَاَمَّا تَقْطِیْعُ الْاَرْجُلِ فَتَاْوِیْلُہٗ اِتْـمَامُ الْـحُجَّۃِ عَلَیْھِمْ وَسَدُّ طَرِیْقِ الْمَنَاصِ وَتَغْلِیْقُ اَبْـوَابِ الْفِرَارِ وَتَشْدِیْدُ الْاِلْزَامِ عَلَیْھِمْ وَجَعْلُھُمْ کَالْمَسْجُوْنِیْنَ وَھٰذَا فِعْلُ اللّٰہِ الَّذِیْ قَادِرٌ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ.یُعَذِّ بُ مَنْ یَّشَآءُ.وَ یَـرْحَـمُ مَنْ یَّشَآءُ.وَ یَـھْزِمُ مَنْ یَّشَآءُ.وَ یَفْتَحُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ مَا کَانَ لَہٗ اَحَدٌ مِّنَ الْمُعْـجِزِیْنَ.‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۷۸تا ۵۸۱) (ب) ’’مدّت کی بات ہے، مَیں نے ایک خواب دیکھا تھا کہ مَیں ایک گھوڑے پر سوار ہوں اور باغ کی طرف جاتا ہوں اور مَیں اکیلا ہوں.سامنے سے ایک لشکر نکلا جس کا یہ ارادہ ہے کہ ہمارے باغ کو کاٹ دیں.مجھ پر اُن کا کوئی خوف طاری نہیں ہوا اور میرے دل میں یہ یقین ہے کہ مَیں اکیلا ان سب کے واسطے کافی ہوں.وہ لوگ اندر باغ میں چلے گئے اور ان کے پیچھے مَیں بھی چلا گیا.جب مَیں اندر گیا تو مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ وہ سب کے سب مرے پڑے ہیں اور اُن کے سر اور ہاتھ اور پاؤں کاٹے ہوئے ہیں اور اُن کی کھالیں اُتری ہوئی ہیں تب خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا نظارہ دیکھ کر مجھ پر رقت طاری ہوئی اور مَیں رو پڑا کہ کس کا مقدور ہے کہ ایسا کر سکے.فرمایا.اس لشکر سے ایسے ہی آدمی مراد ہیں جو جماعت کو مُرتد کرنا چاہتے ہیں اور اُن کے عقیدوں کو بگاڑنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہماری جماعت کے باغ کے درختوں کو کاٹ ڈا لیں.خدا تعالیٰ اپنی قدرت نمائی بقیہ ترجمہ.تمہاری بصیرت افزائی کے لئے اس رؤیا کی تعبیر کھول کر بتاتا ہوں.اس میں سر کو کچلنے اور گلا کاٹنے سے مراد دشمن کے تکبّر کو اور اُن کے فخرو غرور کو توڑنا اور اُن میں انکسار پیدا کرنا ہے اور اُن کے ہاتھوں کو کاٹنے سے مراد اُن کی مقابلہ کی قوت کو مٹانا، اُنہیں عاجز کردینا اور چیرہ دستی سے اور مقابلہ کرنے سے روکنا اور ان سے لڑائی کے ہتھیار چھین لینا اور انہیں بستگی اور بے چارگی کی حالت میں کردینا ہے.اور پاؤں کاٹنے کے معنے اُن پر اتمام حجت کرنا اور بھاگ سکنے کی تمام راہیں اور فرار کے تمام دروازے بند کرنا اور انہیں پورے طور پر ملزم کرنا اور قیدیوں کی طرح کردینا ہے.اوریہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو ہر ایک بات پر کامل قدرت رکھتا ہے جسے چاہتا ہے عذاب دیتا ہے اور جس پر چاہتا ہے رحم کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے شکست دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے فتح دیتا ہے اور اسے کوئی روک نہیں سکتا.
کے ساتھ اُن کو ناکام کرے گااور اُن کی تمام کوششوں کو نیست و نابود کردے گا.فرمایا.یہ جو دیکھا گیا ہے کہ اُن کا سر کٹا ہوا ہے اِس سے یہ مراد ہے کہ اُن کا تمام گھمنڈ ٹوٹ جائے گا اور اُن کے تکبّر اور نخوت کو پامال کیا جائے گا اور ہاتھ ایک ہتھیار ہوتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان دشمن کا مقابلہ کرتا ہے.ہاتھ کے کاٹے جانے سے مُراد یہ ہے کہ اُن کے پاس مقابلہ کا کوئی ذریعہ نہیں رہے گا اورپاؤں سے انسان شکست پانے کے وقت بھاگنے کاکام لے سکتا ہے لیکن اُن کے پاؤں بھی کٹے ہوئے ہیں جس سے یہ مراد ہے کہ اُن کے واسطے کوئی جگہ فرار کی نہ ہوگی اور یہ جو دیکھا گیا ہے کہ ان کی کھال بھی اُتری ہوئی ہے اس سے یہ مراد ہے کہ اُن کے تمام پَردے فاش ہوجائیں گے اور اُن کے عیوب ظاہر ہوجائیں گے.‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر ۲۳مورخہ ۷؍جون ۱۹۰۶ء صفحہ ۳) ۱۸۹۳ء ’’اَلااے دشمنِ نادان و بے راہ بِتَرس از تیغِ بُرّانِ مـحمدؐ‘‘؎۱ (اشتہار مورخہ۲۰؍فروری۱۸۹۳ء مشمولہ آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد۵ صفحہ ۶۴۹) ۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سب سے اوّل اجمالی طور پر ۲۰؍فروری۱۸۸۶ء کے اشتہار (مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۱۲۲،۱۲۳.مطبوعہ ۲۰۱۸ء) میں اس پیشگوئی کا ذکر فرمایا.پھر برکات الدعا (روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۲ تا ۴) کرامات الصادقین ٹائٹل پیج آخری صفحہ (روحانی خزائن جلد ۷ صفحہ ۱۶۰ تا ۱۶۳ ) اور آئینہ کمالاتِ اسلام (روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۶۴۹) میں مفصّل طور پر اس کے متعلق الہاماتِ الٰہی بیان فرمائے جن میں صاف طور پر لکھ دیا گیا کہ لیکھرام اپنی شوخی شرارت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے کی سزا میں چھ سال کے اندر عید کے قریب بذریعہ قتل اس دنیا سے کوچ کر جائے گا.اس کے مقابل پر اُس نے بھی اپنی کتاب میں حضرت اقدس کی نسبت لکھا کہ میرے پرمیشر نے مجھے یہ الہام کیا ہے کہ یہ شخص (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام.مرتّب) تین سال کے اندر ہیضہ سے مرجائے گا.لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ جس طرح حضرت اقدس نے اس کی نسبت پیشگوئی فرمائی تھی کہ بِتَرس از تیغِ بُرّانِ محمدؐ الخ اسی کے مطابق یہ شخص چھ برس کے عرصہ کے اندر بذریعہ قتل پنجۂ اجل میں گرفتار ہوگیا اور جس طرح فرمایا گیا تھا کہ گوسالہ سامری کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کیا جائے گا بالکل اسی طرح یہ گوسالہ سامری بھی شنبہ کے دن ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا اور جس طرح وہ جلایا گیا اور اس کی ہڈیاں دریا میں پھینکی گئیں.اسی طرح یہ بھی جلایا گیا اور اس کی ہڈیاں بھی دریا ہی میں ڈالی گئیں.تفصیل کے لئےدیکھیےاستفتاؔء اُردو.روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۱۲۵.سراج منیر، روحانی خزائن جلد ۱۲صفحہ ۱۱۰،۱۱۱.تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ۱۷۲ تا ۱۹۱.نزول المسیح، روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۵۲۲ تا ۵۲۴.حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۲۹۴ تا ۳۰۶.چشمۂ معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۱۳۳ وغیرہ.
’’یعنی اے لیکھرام تُو کیوں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے.تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تلوار سے جو تجھے ٹکڑے ٹکڑے کردے گی کیوں نہیں ڈرتا.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۰۱) ۱۸۹۳ء (الف) ’’اس عاجز نے اشتہار ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء میں… لیکھرام پشاوری کو اس بات کی دعوت کی تھی کہ اگر وہ خواہشمند ہوں تو اُن کی قضا و قدر کی نسبت بعض پیشگوئیاں شائع کی جائیں.سو اس اشتہار کے بعد… لیکھرام نے بڑی دلیری سے ایک کارڈ اِس عاجز کی طرف روانہ کیا کہ میری نسبت جو پیشگوئی چاہو شائع کردو.میری طرف سے اجازت ہے سو اُس کی نسبت جب توجہ کی گئی تو اللہ جلّ شانہٗ کی طرف سے یہ الہام ہوا.عِـجْلٌ جَسَدٌ لَّہٗ خُوَارٌ.لَہٗ نَصَبٌ وَّعَذَابٌ یعنی یہ صرف ایک بے جان گو سالہ ہے جس کے اندر سے ایک مکروہ آواز نکل رہی ہے اور اُس کے لئے ان گستاخیوں اور بدزبانیوں کے عوض میں سزا اور رنج اور عذاب مقدّر ہے جو ضرور اس کو مل رہے گا.‘‘ (اشتہار ۲۰؍فروری ۱۸۹۳ء مشمولہ آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۶۴۹، ۶۵۰) (ب) ’’یہ گوسالہ بے جان ہے جس میں رُوحانیت کی جان نہیں.صرف آواز ہی آواز ہے پس وہ سامری کے گوسالہ کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کیا جائے گا.یاد رہے کہ عبارت لَہٗ نَصَبٌ وَّعَذَابٌ کی تصریح موافق تفہیم الٰہی یہ ہے کہ لَہٗ کَمِثْلِہٖ نَصَبٌ وَّعَذَابٌ.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۰۰) ۲۰؍ فروری ۱۸۹۳ء (الف) ’’ آج جو ۲۰؍فروری ۱۸۹۳ء روز دوشنبہ ہے.اس عذاب کا وقت معلوم کرنے کے لئے توجہ کی گئی تو خداوند کریم نے مجھ پر ظاہر کیا کہ آج کی تاریخ سے جو بیس فروری ۱۸۹۳ء ہے چھ برس کے عرصہ تک یہ شخص اپنی بدزبانیوں کی سزا میں یعنی اُن بے ادبیوں کی سزا میں جو اِس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں کی ہیں عذاب شدید میں مبتلا ہوجائے گا.‘‘ (اشتہار ۲۰؍فروری ۱۸۹۳ء مشمولہ آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۶۵۰ ) (ب) ’’لیکھرام کے متعلق ایک یہ پیشگوئی تھی کہ یُقْضٰی اَمْرُہٗ فِیْ سِتٍّ یعنی چھ میں اس کاکام تمام کیا جائے گا… اس پیشگوئی کا جیسا کہ مفہوم ہے ایسا ہی ظہور میں آیا.یعنی لیکھرام چھ مارچ کو زخمی ہوا اور دن کے چھٹے گھنٹے میں زخمی ہوا.‘‘ (استفتاء اُردو.روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۱۲۵ حاشیہ)
۱۸۹۳ء ’’ میرے خدا نے یہ ظاہر کیا کہ چھ برس تک لیکھرام بذریعہ قتل نابود ہوجائے گا … اور میرے پر ظاہر کیا گیا کہ اس کے مَرنے کے تھوڑی مدّت کے بعد پنجاب میں طاعون پھیل جائے گی.‘‘ (از مکتوب بنام لالہ بھیم سین صاحب.مکتوباتِ احمد جلد ۱ صفحہ ۹۱.مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸۹۳ء ’’ اِس کتاب؎۱کی تحریر کے وقت دو۲ دفعہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت مجھ کو ہوئی اور آپ نے اس کتاب کی تالیف پر بہت مسرت ظاہر کی.اور ایک رات یہ بھی دیکھا کہ ایک فرشتہ بلند آواز سے لوگوں کے دلوں کو اس کتاب کی طرف بلاتا ہے اور کہتا ہے.ھٰذَا کِتَابٌ مُّبَارَکٌ فَقُوْمُوْا لِلْاِجْلَالِ وَالْاِکْرَامِ یعنی یہ کتاب مبارک ہے اس کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوجاؤ.‘‘ (’’اشتہار‘‘ مندرجہ آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۶۵۲) ۲۵؍ فروری ۱۸۹۳ء ’’آج رات مَیں نے جو ۲۵؍فروری ۱۸۹۳ء کی رات تھی.شیخ؎۲صاحب کی اِن باتوں؎۳سے سخت درد مند ہوکر آسمانی فیصلہ کے لئے دُعا کی.خواب میں مجھ کو دکھلایا گیا کہ ایک دوکاندار کی طرف مَیں نے کسی قدر قیمت بھیجی تھی کہ وہ ایک عمدہ اور خوشبودار چیز بھیج دے.اُس نے قیمت رکھ کر ایک بدبودار چیز بھیج دی.وہ چیز دیکھ کر مجھے غصہ آیا اور مَیں نے کہا کہ جاؤ دوکاندار کو کہو کہ وہی چیز دے ورنہ مَیں اس دَغا کی اُس پر نالش کروں گا اور پھر عدالت سے کم سے کم چھ ماہ کی اُس کو سزا ملے گی اور امید تو زیادہ کی ہے.تب دوکاندار نے شاید یہ کہلا بھیجا کہ یہ میرا کام نہیں یا میرا اختیار نہیں اور ساتھ ہی یہ کہلا بھیجا کہ ایک سودائی پھرتا ہے اُس کا اثر میرے دل پر پڑگیا اور مَیں بھول گیا اور اب وہی چیز دینے کو تیار ہوں.اِس ۱ یعنی آئینہ کمالاتِ اسلام (شمس) ۲ شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور (مرزا بشیر احمد) ۳ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) شیخ مہر علی صاحب کی نسبت اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس کے قید ہونے سے چھ ماہ قبل بذریعہ ایک خواب اطلاع دی تھی کہ اس کی جائے نشست فرش کو آگ لگی ہوئی ہے اور حضرت نے اس پر پانی ڈال کر بجھایا ہے.اس ابتلا اور مصیبت سے حضرت اقدس نے اُسی وقت شیخ صاحب کو خبر دے دی اور توبہ اور استغفار کی طرف توجہ دلائی لیکن بعد رہائی شیخ صاحب نے حضرت کے اس خط سے انکار کردیا بلکہ اُلٹا یہ مشہور کرنا شروع کیا کہ خط تو کوئی نہیں لکھا مگر اِس مضمون کا جھوٹا بیان مجھ سے لکھوانا چاہتے تھے.اِس جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شیخ صاحب کے اسی دِل آزار رویہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے.
اِس کی مَیں نے یہ تعبیر کی کہ شیخ صاحب پر یہ ندامت آنے والی ہے اور انجام کار وہ نادم ہوں گے اور ابھی کسی دوسرے آدمی کا اُن کے دل پر اثر ہے.‘‘ (اشتہار شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور صفحہ ۷، مندرجہ آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد۵ صفحہ ۶۵۵، ۶۵۶) ۱۸۹۳ء ’’پھر مَیں نے توجہ کی تو مجھے یہ الہام ہوا.اِنَّـا نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْھِکَ فِی السَّمَآءِ.نُقَلِّبُ فِی السَّمَآءِ مَا قَلَّبْتَ فِی الْاَرْضِ اِنَّـا مَعَکَ نَرْفَعُکَ دَرَجَاتٍ.یعنی ہم آسمان پر دیکھ رہے ہیں کہ تیرا دل مہر علی کی خیر اندیشی سے بد دعا کی طرف پھر گیا.سو ہم بات کو اُسی طرح آسمان پر پھیردیں گے جس طرح تو زمین پر پھیرے گا.ہم تیرے ساتھ ہیں تیرے درجات بڑھائیں گے.‘‘ (اشتہار شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور صفحہ۸ مندرجہ آئینہ کمالاتِ اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۶۵۶) ۱۸۹۳ء ’’ خواب میں مَیں نے دیکھا کہ اس؎۱کے گھر میں آگ لگ گئی اور پھر مَیں نے اُس کو بجھایا… بعد میں شیخ مہر علی کی نسبت ایک اور پیشگوئی کی گئی تھی کہ وہ ایک اور سخت بلا میں مبتلا ہوگا چنانچہ بعد اس کے وہ مرض فالج میں مبتلا ہوگیا.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۳۳) ۱۸؍ مارچ ۱۸۹۳ء (الف) ’’آج جو ۲۹؍ شعبان ۱۳۱۰ھ ہے اِ س مضمون کے لکھنے کے وقت خدا تعالیٰ نے دعا کے لئے دل کھول دیا.سو مَیں نے اِس وقت اسی طرح سے رِقّتِ دل سے اس مقابلہ؎۲ میں فتح پانے کے لئے دعا کی اور میرا دل کُھل گیا اور مَیں جانتا ہوں کہ قبول ہوگئی اور مَیں جانتا ہوں کہ وہ الہام جو مجھ کو میاں بٹالوی کی نسبت ہوا تھا کہ اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَـتَکَ وہ اسی موقع کے لئے ہوا تھا.مَیں نے اس مقابلہ کے لئے چالیس دن کا عرصہ ٹھہرا کر دعا کی ہے اور وہی عرصہ میری زبان پر جاری ہوا.‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام، روحانی خزائن جلد ۵صفحہ ۶۰۴) (ب) (خدا تعالیٰ نے) ’’مجھ کو بشارت دی کہ اگر میاں بطالوی یا کوئی دوسرا اُس کا ہم مشرب مقابلہ ؎۳پر آئے تو شکست فاش اٹھا کر سخت ذلیل ہوگا.‘‘ (کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلد ۷ صفحہ ۴۶) ۱ یعنی شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور.(مرزا بشیر احمد) ۲ ، ۳ مقابلہ تفسیر نویسی.(شمس)
۱۹؍ مارچ ۱۸۹۳ء ’’یکم رمضان المبارک.۱.اِنَّنِیْ مَعَکُمَا اَسْـمَعُ وَ اَرٰی.۲.اِدْ فَعْ بِـالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ۳.نَـجَّیْنَاکَ مِنَ الْغَمِّ وَ فَتَنَّاکَ فَتُوْنًا.۴.رسید مژدہ کہ ایام غم نخواہد ماند.۵.لِلہِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ.۶.اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّـھُمْ مَیِّتُوْنَ.۷.لَنُبَدِّلَنَّکُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِکُمْ اَمْنًا.۸.یَضْـرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ اَیْنَ الْمَفَرُّ.۹ یَـوْمَ تُـبَدَّ.لُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ.یعنی زمین کے باشندوں کے خیالات اور رائیں بدلائی جائیں گی.۱۰.اِنَّـمَا یُـؤَخِّرُھُمْ اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی اَجَلٍ قَرِیْبٍ.۱۱.اِنَّـا مُقْتَدِ.رُوْنَ وَ اِنَّـا قَادِ.رُوْنَ.۱۲.رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا اِنَّـا کُنَّا خَاطِئِیْنَ.‘‘ ۱؎ (رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۸۴) ۲۵؍مارچ ۱۸۹۳ء ’’ اب تک آپ کے لئے جہاں تک انسانی کوشش سے ہوسکتا ہے توجہ کی گئی… اور آخر جو بار بار کی توجہ کے بعد الہام ہوا.وہ یہ تھا.اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ.قُلْ قُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ یعنی اللہ جلّ شانہٗ ہر ایک چیز پر قادر ہے.کوئی بات اس کے آگے اَنہونی نہیں.انہیں کہہ دو …؎۲… جائیں.اور یہ الہام ابھی ہوا ہے.اس الہام میں جو میرے دل میں خدا تعالیٰ کی طرف سے فعلی طور پر کئے وہ یہی ہیں کہ ارادۂ الٰہی آپ کی خیر اور بہتری کے لئے مقدّر ہے لیکن وہ اِس بات سے وابستہ ہے کہ آپ اسلامی صلاحیت اور التزام صَوم و صلوٰۃ و تقویٰ و طہارت میں ترقی کریں بلکہ ان شرائط سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ امر مخفی نہایت ہی بابرکت امر ہے جس کے لئے یہ شرائط رکھے گئے ہیں.‘‘ (از مکتوب بنام نواب محمد علی خان صاحبؓ.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۱۹۹ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۲؍اپریل ۱ (ترجمہ از مرتّب)۱ مَیں تم دونوں کے ساتھ ہوں.میں سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں.۲ایسے طریق سے مدافعت کر جو احسن ہو.۳ہم نے تجھے غم سے نجات دی اور تیری خوب آزمائش کی.۴خوشخبری پہنچی کہ غم کے دن نہیں رہیں گے.۵خدا ہی کے لئے معاملہ ہے اس کے پہلے اور اس کے بعد بھی.۶تو بھی مرے گا اور وہ بھی مریں گے.۷یقیناً ہم تمہارے خوف کی حالت کو اس کے بعد امن کی حالت میں بدل دیں گے.۸ وہ اپنے منہ پیٹیں گے کہ کہاں بھاگیں.۹اُس دن وہ زمین دوسری زمین میں تبدیل کردی جائے گی.۱۰وہ ان کو مقررہ میعاد تک ڈھیل دے رہا ہے.وہ میعاد قریب ہے.۱۱ہم قادرو توانا ہیں.۱۲اے ہمارے ربّ ہم کو بخش دے ہم خطا کار تھے.۲ یہ جگہ اصل خط میں پھٹی ہوئی ہے.(اصحاب احمد جلد دوم صفحہ ۲۱۶ طبع اوّل)
۲؍اپریل ۱۸۹۳ء ؎۱ ’’حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب… نے بھیرہ میں ایک عظیم الشان مکان بنوایا تھا… ابھی پورے طور پر وہ مکان طیار نہ ہوا تھا… جاڑہ کا موسم تھا مولوی صاحب چلتی ہوئی ملاقات کو آئے تھے.رات کو حضرت امام کو وحی؎۲ ہوئی کہ مولوی صاحب کو ہجرت کرنی چاہیے.چنانچہ صبح کو مولوی صاحب کو سنایا کہ ہجرت کرو اور وطن نہ جاؤ.یہ صدّیق کا فرزند کوئی چگونگی درمیان نہ لایا.مکان خراب ہوا.مگر یہ مردِ خدا نہیں گیا.‘‘ (خلاصہ خطبہ مولانا عبدالکریم صاحب ؓ الحکم جلد ۶ نمبر ۳۲ مورخہ ۱۰ ؍ستمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۱) ۲؍اپریل ۱۸۹۳ء ’’آج جو ۲؍ اپریل ۱۸۹۳ء مطابق ۱۴؍ ماہِ رمضان ۱۳۱۰ ھ ہے.صبح کے وقت تھوڑی سی غنودگی کی حالت میں مَیں نے دیکھا کہ مَیں ایک وسیع مکان میں بیٹھا ہوا ہوںاور چند دوست بھی میرے پاس موجود ہیں.اِتنے میں ایک شخص قوی ہیکل مہیب شکل، گویا اُس کے چہرہ پر سے خون ٹپکتا ہے.میرے سامنے آکر کھڑا ہوگیا.مَیں نے نظر اُٹھا کر دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک نئی خلقت اور شمائل کا شخص ہے گویا انسان نہیں ملائک شِداد غلاظ میں سے ہے اور اُس کی ہیبت دلوں پر طاری تھی اور مَیں اُس کو دیکھتا ہی تھا کہ اُس نے مجھ سے پوچھا کہ لیکھرام کہاں ہے؟ اور ایک؎۳اَور شخص کا نام لیا کہ وہ کہاں ہے.تب مَیں نے اُس وقت سمجھا کہ یہ شخص لیکھرام اور اُس دوسرے شخص کی سزادہی کے لئے مامور کیا گیا ہے مگر مجھے معلوم نہیں رہا کہ وہ دوسرا شخص ۱ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) یہ تاریخ حضرت خلیفہ اوّلؓ کی جیبی بیاض میں (جو مولوی عبدالرحمٰن صاحب شاکرؔ کے پاس ہے) درج ہے.۲ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) اِس وحی کا ذکر حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی سوانح حیات میں جو اکبر شاہ صاحب نجیب آبادی کو لکھوائی، یوں فرمایا.’’مولوی عبدالکریم صاحب سے (حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے) فرمایا کہ مجھ کو نورالدین کے متعلق الہام ہوا ہے اور وہ شعر حریری میں موجود ہے.لَاتَصْبُوُنَّ اِلَی الْوَطَنْ فِیْہِ تُـھَانُ وَ تُـمْتَحَنْ.‘‘ (یعنی تو وطن کی طرف ہرگز رُخ نہ کرنا.اس میں تیری اہانت ہوگی اور تجھے تکلیفیں اُٹھانی پڑیں گی) (مرقاۃ الیقین فی حیاۃ نورالدین) ۳ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) واقعات نے بتادیا کہ دوسرا شخص شردھانند تھا جو اس پیشگوئی کے مطابق دسمبر ۱۹۲۶ء کو عبدالرشید کاتب دہلوی کے ہاتھ سے مارا گیا.شردھانند کے واقعہ قتل کے متعلق حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں.’’ یہ واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق ہے… دو شخصوں کے قتل کی پیشگوئی تھی ان میں سے ایک لیکھرام صاحب تھے اور دوسرے کا نام آپ کو اُس وقت یاد نہ تھا.عجیب حکمت ہے کہ پہلے شردھانند صاحب
شخص کون ہے.ہاں یہ یقینی طور پر یاد رہا ہے کہ وہ دوسرا شخص اُنہیں چند آدمیوں میں سے تھا جن کی نسبت مَیں اشتہار دے چکا ہوں اور یہ یک شنبہ کا دن اور ۴ بجے صبح کا وقت تھا.فَالْـحَمْدُ لِلہِ عَلٰی ذَالِکَ.‘‘ (برکات الدّعا.ٹائٹل پیج.روحانی خزائن جلد۶ صفحہ ۳۳ حاشیہ) ۱۸۹۳ء ’’اللہ جلّ شانہٗ کی قسم ہے کہ مجھے صاف طور پر اللہ جلّ شانہٗ نے اپنے الہام سے فرما دیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام بلا تفاوت ایسا ہی انسان تھا جس طرح اور انسان ہیں مگر خدا تعالیٰ کا سچا نبی اور اس کا مرسل اور برگزیدہ ہے اور مجھ کو یہ بھی فرمایا کہ جو مسیح کو دیا گیا وہ بمتابعت نبی علیہ السلام تجھ کو دیا گیا ہے اور تُو مسیح موعود ہے اور تیرے ساتھ ایک نُورانی حربہ ہے جو ظلمت کو پاش پاش کرے گا اور یَکْسِـرُ الصَّلِیْبَ کا مصداق ہوگا.‘‘ (حـجّۃ الاسلام.روحانی خزائن جلد۶ صفحہ ۴۹) ۱۸۹۳ء ’’وَ ؎۱اِنِّیْ رَئَیْتُ اَنَّ ھٰذَا الرَّجُلَ یُؤْمِنُ بِـاِیْـمَانِیْ قَبْلَ مَوْتِہٖ وَرَئَیْتُ کَاَنَّہٗ تَرَکَ قَوْلَ التَّکْفِیْرِ وَتَابَ.وَ ھٰذِہٖ رُؤْیَـایَ وَاَرْجُوْ اَنْ یَّـجْعَلَھَا رَبِّیْ حَقًّا.‘‘۲؎ (حـجّۃ الاسلام.روحانی خزائن جلد۶ صفحہ ۵۹) ۵؍ جون ۱۸۹۳ء ’’ آج رات جو مجھ پر کُھلا وہ یہ ہے کہ جبکہ مَیں نے بہت تضرّع اور ابتہال سے جنابِ الٰہی میں دعا کی کہ تُو اِس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجز بندے ہیں تیرے فیصلہ کے سوا کچھ نہیں کرسکتے تو اس نے مجھے یہ بقیہ حاشیہ.کا نام منشی رام تھا اور مارے جانے کے وقت اُن کا نام شردھانند تھا.اِسی و جہ سے حضرت صاحب کو اُن کا نام یاد نہ رہا.پھر وہ لیکھرام کے بھی قائم مقام ہیں چنانچہ تیج (اخبار)نے لکھا ہے کہ جب لیکھرام کے قتل کی خبر جالندھر پہنچی تو سوامی شردھانند صاحب اپنا کام چھوڑ کر لاہور آگئے اور سوامی لیکھرام صاحب کا کام انہوں نے سنبھال لیا.بہر حال آریوں میں سے بڑے پایہ کے لیڈر تھے بہت سی باتیں ان کے قتل کی لیکھرام صاحب کے قتل سے ملتی ہیں.لیکھرام صاحب ہفتہ کے دن جمعہ وعید سے اگلے روز مارے گئے اور یہ جمعرات کو مارے گئے جو جمعہ کے ساتھ کا دن ہے.وہاں بھی قاتل کمبل پوش تھااور یہاں بھی کمبل پوش ہی ہے.وہاں بھی قاتل کو پہلے روکا گیا لیکن اس کو اندر جانے کی اجازت دی گئی اور یہاں بھی اسی طرح ہوا.‘‘ (الفضل مورخہ ۱۱؍جنوری ۱۹۲۷ء صفحہ ۴) ۱ (ترجمہ از مرتّب) اور مَیں نے دیکھا کہ یہ شخص یعنی مولوی محمد حسین بٹالوی اپنے مرنے سے پہلے میرا مومن ہونا مان لے گا اور مَیں نے دیکھا کہ گویا اس نے مجھے کافر کہنا چھوڑ دیا ہے اور اس خیال سے توبہ کرلی ہے اور یہ میری رؤیا ہے اور مَیں امید رکھتا ہوں کہ میرا خدا اسے پورا کردے گا.۲ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) اس پیشگوئی کے بیس برس بعد ۱۹۱۴ء میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے
نشان بشارت کے طور پر دیا ہے کہ اِس بحث؎۱میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ انہیں دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دِن ایک مہینہ لے کر یعنی ۱۵ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاوے گا اور اُس کو سخت ذلّت پہنچے گی بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور جو شخص سچ پر ہے اور سچے خدا کو مانتا ہے اُس کی اِس سے عزت ظاہر ہوگی اور اُس وقت جب پیشگوئی ظہور میں آوے گی بعض اندھے سوجاکھے کئے جائیں گے اور بعض لنگڑے چلنے لگیں گے اور بعض بہرے سننے لگیں گے.‘‘؎۲ (جنگ مقدس مضمون حضرت اقدس ۵؍جون ۱۸۹۳ء.روحانی خزائن جلد۶صفحہ ۲۹۱،۲۹۲) بقیہ حاشیہ.ایک مقدمہ کے دَوران میں منصف درجہ اوّل ضلع گوجرانوالہ کی عدالت میں بیان دیتے ہوئے اور اسلام کے مختلف فرقوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھوایا کہ’’ یہ سب فرقے قرآن مجید کو خدا کا کلام مانتے ہیں اور یہ سب فرقے قرآن کی مانند حدیث کو بھی مانتے ہیں ایک فرقہ احمدی بھی اب تھوڑے عرصہ سے پیدا ہوا ہے جب سے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے دعویٰ مسیحیت اور مہدویّت کا کیا ہے یہ فرقہ بھی قرآن کو اور حدیث کو یکساں مانتا ہے… کسی فرقہ کو جن کا ذکر اوپر ہوچکا ہے.ہمارا فرقہ مطلقاً کافر نہیں کہتا.‘‘ (تفصیل کے لئے دیکھیے الفضل مورخہ ۱۱؍فروری ۱۹۱۴ء صفحہ ۳) ۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) یعنی مناظرہ مابین حضرت مسیح موعود علیہ السلام و ڈپٹی عبداللہ آتھم جو کتاب جنگ مقدس میں درج ہے.۲ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) اِس پیشگوئی میں صاف طور پر ظاہر کیا گیا تھا کہ اگر آتھم حق کی طرف رجوع نہ کرے گا تو پندرہ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاوے گا سو چونکہ آتھم نے میعاد مقررہ کے اندر اسلام اور بانی ٔ اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق اپنی عادت کے خلاف بالکل خاموشی اختیار کرلی اور دیگر قرائن سے بھی ثابت کردیا کہ وہ پیشگوئی کی عظمت سے ڈر گیا اور اسلام کی حقّانیت سے مرعوب ہوگیا اِس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت مَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّ بَـھُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ کے مطابق اس پر رحم کیا اور اُسے ہاویہ میں گرنے سے بچالیا لیکن چونکہ بعد میں اُس نے حضرت اقدس کے بار بار متوجہ کرنے حتیٰ کہ چار ہزار روپیہ تک انعامی اشتہار شائع کرنے پر بھی اظہارِ حق سے انکار کیا چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چار ہزار روپیہ کا انعامی اشتہار دیتے ہوئے تحریر فرمایا کہ ’’اب اگر آتھم صاحب قسم کھالیویں (کہ وہ پیشگوئی کے نتیجہ میں مرعوب نہیں ہوئے اور کسی جہت سے بھی رجوع نہیں کیا) تو وعدہ ایک سال قطعی اور یقینی ہے جس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہیں اور تقدیر مُبرم ہے اور اگر قسم نہ کھاویں تو پھر بھی خدا تعالیٰ ایسے مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑے گا جس نے حق کا اخفا کرکے دنیا کو دھوکہ دینا چاہا… اور وہ دن نزدیک ہیں دور نہیں.‘‘ (اشتہار انعامی چار ہزار روپیہ.مجموعہ اشتہارات جلد۱ صفحہ ۵۷۸ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ’’اگر آتھم کو عیسائی لوگ ٹکڑے ٹکڑے
۵؍جون ۱۸۹۳ء ’’ آج جلسہ مباحثہ سے واپس آنے کے بعد قریب ایک بجے دن کے حضرت اقدس کو اس مباحثہ کی فتح پر ایک بشارت بخش الہام ہوا جو حضور نے اسی وقت حاضرین کو آکرسنایا اور وہ یہ ہے.ھَنَّأَکَ اللّٰہُ یعنی اللہ تعالیٰ تجھے مبارک باد دیتا ہے.(عبدالکریم؎۱).‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۴۶۰ حاشیہ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) جون ۱۸۹۳ء (ا) ’’یَـمُوْتُ قَبْلَ اَزْ ثَـمَانِیَہ.؎۲ ایک دشمن کی نسبت یہ الہام ہے.نام اس دشمن کا یاد نہیں.(۲) یَـمُوْتُ بِغَیْرِ مَرَضٍ ؎۳یہ کس کی نسبت ہے.پتہ معلوم نہیں.‘‘ (رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۸۴) ۲؍ اگست ۱۸۹۳ء ’’خواب میں مَیں نے دیکھا کہ مَیں اپنی اسی کتاب میں یہ مصرع لکھتا ہوں.آؤبُلبُل چلیں کہ وقت آیا.‘‘ (رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۱۶) ۲۲؍ اگست ۱۸۹۳ء ’’۹؍صفر ۱۳۱۱ھ.۸؍بھادوں روز سہ شنبہ.آج رات مَیں نے دیکھا کہ ایک شخص مجھ کو کہتا ہے کہ تم ولی ہو.مَیں نے کہا کہ کیوں کر.اس نے جواب دیا کہ مَیں تمہارے ملنے کے لئے آیا تھا.راہ میں دریا تھا.مَیں نے کہا کہ اگر یہ ولی ہے تو دریا کا یہ کنارہ گر پڑے.تبھی وہ گر پڑا اور پھر میری بیوی نے مجھ کو مبارک باد دی کہ تمہارے تیسرا لڑکا پیدا ہوا.مبارک باد ہو.‘‘ (رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۱۸) ۱۸۹۳ء بقیہ حاشیہ.بھی کردیں اور ذبح بھی کرڈالیں تب بھی وہ قسم نہیں کھائیں گے.‘‘ (انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۳) مگر اس پر بھی آتھم نے قسم نہ کھائی.سو چونکہ آتھم نے سچی قسم سے منہ پھیرا اور نہ چاہا کہ حق ظاہر ہو اِس لئے آخری اشتہار مورخہ ۳۰؍دسمبر ۱۸۹۵ء پر جو قسم دلانے کے لئے دیا گیا تھا ابھی سات مہینے بھی نہیں گذرے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق آتھم صاحب مورخہ ۲۷؍جولائی ۱۸۹۶ء بمقام فیروز پور اس جہان سے رخصت ہوگئے.۱ حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی.(شمس) ۲ (ترجمہ از مرتّب) آٹھ سے پہلے مرے گا.۳ (ترجمہ از مرتّب) بیماری کے بغیر مرے گا.
۱۸۹۳ء ’’ بَشَّـرَنِیْ؎۱ رَبِّیْ وَقَالَ ۱.اِنِّیْ سَاُوْتِیْکَ بَرَکَۃً وَّ اُجْلِیْٓ اَنْوَارَ ھَا حَتّٰی یَتَبَرَّکَ بِثِیَابِکَ الْمُلُوْکُ وَالسَّلَاطِیْنُ.وَقَالَ ۲.اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ وَ اِنَّا کَفَیْنَاکَ الْمُسْتَـھْزِئِیْنَ.۳.یَا اَحْـمَدُ بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ.مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی.لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَآؤُھُمْ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ.۴.قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ وَ اَنَـا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ.۵.قُلْ جَآءَ الْـحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا.۶.کُلُّ بَرَکَۃٍ مِّنْ مُّـحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَکَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ.۷.وَقُلْ اِنِ افْتَرَیْتُہٗ فَعَلَـیَّ اِجْرَامِیْ.۸.وَیَـمْکُرُوْنَ وَ یَـمْکُرُاللّٰہُ وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ.۹.ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْـحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ.۱۰.لَا مُبَدِّ.لَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ.۱۱.اِنِّیْ مَعَکَ فَکُنْ مَّعِیْ اَیْنَـمَا کُنْتَ.کُنْ مَّعَ اللّٰہِ حَیْثُـمَا کُنْتَ.اَیْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ.۱۲.کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ وَفَـخْرًا لِّلْمُؤْمِنِیْنَ.۱۳.وَلَا تَیْئَسْ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اَلَا اِنَّ رَوْحَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ.اَلَآ اِنَّ نَصْـرَاللّٰہِ قَرِیْبٌ.یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ (ترجمہ از مرتّب) میرے ربّ نے مجھے بشارت دی اور فرمایا.۱مَیں تجھے برکت دوں گا اور اس کے انوار کو روشن کروں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.اور فرمایا.۲مَیں اس شخص کی اہانت کروں گا جو تیری اہانت کا ارادہ کرے گا اور وہ لوگ جو تیرے پر ہنسی ٹھٹھا کرتے ہیں ان کے لئے ہم کافی ہیں.۳اے احمد! خدا نے تجھ میں برکت رکھ دی ہے.جو کچھ تُونے چلا یا وہ تُونے نہیں چلایا بلکہ خدا نے چلایا تاکہ تُو اُن لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے ڈرائے نہیں گئے اور تاکہ مجرموں کی راہ کُھل جائے یعنی معلوم ہوجائے کہ کون تجھ سے برگشتہ ہوتا ہے.۴کہہ مَیں خدا کی طرف سے مامور ہوں اور مَیں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں.۵کہہ حق آیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل بھاگنے والا ہی تھا.۶ہر ایک برکت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے.پس بڑا مبارک وہ ہے جس نے تعلیم دی اور جس نے تعلیم پائی ۷اور کہہ اگر مَیں نے افترا کیا ہے تو میری گردن پر میرا گناہ ہے.۸وہ لوگ بھی تدبیریں کررہے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی تدبیر کررہا ہے اور اللہ تعالیٰ کی تدبیر سب سے بہتر ہوتی ہے.۹اُسی نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تا اس دین کو سب دینوں پر غالب کرے.۱۰خدا کی باتوں کو کوئی بدل نہیں سکتا.۱۱مَیں تیرے ساتھ ہوں پس تُو میرے ساتھ ہو جہاں تُو ہو وے.خدا کے ساتھ ہو جہاں تو ہو وے.جس طرف تم رُخ کروگے اسی طرف اللہ تعالیٰ کی توجہ ہوگی.۱۲تم بہترین اُمّت ہو جو لوگوں کے فائدہ کے لئے اور مؤمنین کے لئے موجب ِ فخر بنا کر پیدا کی گئی ۱۳ اورتُو خدا کی رحمت سے نومید مت ہو.خبردار ہو کہ خدا کی رحمت قریب ہے.خبردار ہو کہ خدا کی مدد قریب ہے.وہ مدد ہر ایک
کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ.یَنْصُرُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِ.ہٖ.یَنْصُـرُکَ رِجَالٌ نُّـوْحِیْٓ اِلَیْہِمْ مِّنَ السَّمَآءِ.لَا مُبَدِّ لَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ.۱۴.وَ اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَ یْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ.۱۵.وَقَالُوْٓا اِنْ ھٰذَا اِلَّا اخْتِلَاقٌ.قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَ.رْھُمْ فِیْ خَوْضِہِمْ یَلْعَبُوْنَ.۱۶.وَمَنْ اَظْلَمُ مِـمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا.۱۷.وَ اِنَّ عَلَیْکَ رَحْـمَتِیْ فِی الدُّنْیَا وَالدِّیْنِ.وَاِنَّکَ لَمِنَ الْمَنْصُوْرِیْنَ.۱۸.بُشْـرٰی لَکَ یَا اَحْـمَدِیْ اَنْتَ مُرَادِیْ وَمَعِیْ غَرَسْتُ کَرَامَتَکَ بِیَدِیْ.۱۹.اَکَانَ لِلنَّاسِ عَـجَبًا.قُلْ ھُوَاللّٰہُ عَـجِیْبٌ یَّـجْتَبِیْ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ.لَایُسْئَلُ عَـمَّا یَفْعَلُ وَھُمْ یُسْئَلُوْنَ.۲۰.وَتِلْکَ الْاَیَّـامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ.۲۱.وَ اِذَا نَصَـرَاللّٰہُ الْمُؤْمِنَ جَعَلَ لَہُ الْـحَاسِدِیْنَ.۲۲.تَلَــطَّفْ بِالنَّاسِ وَتَرَحَّـمْ عَلَیْـھِمْ اَنْتَ فِیْـھِمْ بِـمَنْزِلَۃِ مُوْسٰی فَاصْبِرْ عَلٰی جَوْرِ الْجَآئِرِیْنَ.۲۳.اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ.۲۴.اَلْفِتْنَۃُ ھُنَا فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ.اَلَآ اِنَّـھَا فِتْنَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ لِیُحِبَّ حُبًّا جَـمًّا.۲۵.وَفَّی اللّٰہُ اَجْرَکَ وَیَرْضٰی عَنْکَ بقیہ ترجمہ.دُور کی راہ سے تجھے پہنچے گی.خدا اپنی طرف سے تیری مدد کرے گا.تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے.خدا کی باتیں ٹل نہیں سکتیں.۱۴اور تو ہمارے نزدیک صاحب ِ مرتبہ ہے اور امین ہے.۱۵اور کہیں گے کہ یہ وحی نہیں ہے یہ کلمات تو اپنی طرف سے بنائے گئے ہیں.ان کو کہہ کہ وہ خدا ہے کہ جس نے یہ کلمات نازل کئے.پھر ان کو لہو ولعب کے خیالات میں چھوڑدے.۱۶اور اس سے زیادہ ظالم اور کون ہے جو خدا تعالیٰ پر جھوٹ باندھے.۱۷اور تیرے پر میری رحمت دُنیا اور دین میں ہے.اور تُو یقیناً ان لوگوں میں سے ہے جن کے شاملِ حال نصرتِ الٰہی ہوتی ہے.۱۸تجھے بشارت ہو اے میرے احمد.تُو میری مراد اور میرے ساتھ ہے.مَیں نے تیری عزت کا درخت اپنے ہاتھ سے لگایا.۱۹کیا ان لوگوں کو تعجب ہے.تو کہہ خدا ذوالعجائب ہے وہ اپنے بندو ں میں سے جسے چاہتا ہےانتخاب کرلیتا ہے.وہ اپنے کاموں سے پوچھا نہیں جاتا اور لوگ پوچھے جاتے ہیں.۲۰اور یہ دن ہم لوگوں میں پھیرتے رہتے ہیں.۲۱اور جب خدا مومن کی مدد کرتا ہے تو اس کے کئی حاسد مقرر کردیتا ہے.۲۲لوگوں سے لُطف کے ساتھ پیش آ اور ان پر رحم کر تُو ان میں بمنزلہ موسیٰ کے ہے اس لئے ظالموں کے ظلم پر صبر کر.۲۳کیا لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ یونہی چھوڑ دیئے جائیں گے اور اُن کا امتحان نہیں لیا جائے گا.۲۴اِس جگہ ایک فتنہ برپا ہوگا.پس صبر کرجیسا کہ اولوالعزم نبیوں نے صبر کیا.خبردار وہ فتنہ (آزمائش) خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوگا تا وہ تجھ سے محبت کرے.۲۵اللہ تعالیٰ تجھے تیرا اجر پورا پورا دے گا اور تجھ سے
رَبُّکَ وَیُتِمُّ اسْـمَکَ وَ اِنْ یَّتَّخِذُ.وْنَکَ اِلَّا ھُزُوًا قُلْ اِنِّیْ مِنَ الصَّادِقِیْنَ.فَانْتَظِرُوْٓا اٰیَاتِیْ حَتّٰی حِیْنٍ.۲۶.اَلْـحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ.۲۷.قُلْ ھٰذَا فَضْلُ رَبِّیْ وَ اِنِّیْٓ اُجَرِّدُ نَفْسِیْ مِنْ ضُرُوْبِ الْـخِطَابِ.وَ اِنِّیْٓ اَحَدٌ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ.۲۸.یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْ وَاللّٰہُ یُتِمُّ نُـوْرَہٗ وَیُـحْیِ الدِّیْنَ.۲۹.نُرِیْدُ اَنْ نُّنَزِّلَ عَلَیْکَ اٰیَاتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ نُـمَزِّقَ الْاَعْدَآءَ کُلَّ مُـمَزَّقٍ.۳۰.حُکْمُ اللّٰہِ الرَّحْـمٰنِ لِـخَلِیْفَۃِ اللّٰہِ السُّلْطَانِ.۳۱.فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّـمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْـھِمْ.۳۲.وَاُمَمٌ حَقَّ عَلَیْھِمُ الْعَذَابُ وَیَـمْکُرُوْنَ وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ.۳۳.قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّؤْمِنُوْنَ.قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ.۳۴.اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَـھْدِیْنِ.۳۵.رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُـحْیِ الْمَوْتٰی.۳۶.رَبِّ اغْفِرْ وَ ارْحَـمْ مِّنَ السَّمَآءِ.۳۷.رَبِّ لَا تَذَ.رْنِیْ فَرْدًا وَّاَنْتَ خَیْرُ الْوَارِثِیْنَ.۳۸.رَبِّ اَصْلِحْ اُمَّۃَ مُـحَمَّدٍ.۳۹.رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْـحَقِّ وَاَنْتَ خَیْرُ بقیہ ترجمہ.راضی ہوگااور تیرے نام کو کمال بخشے گا اور یہ لوگ تو تجھے محض تمسخر کا نشانہ بناتے ہیں.تُو کہہ کہ مَیں یقیناً راستباز ہوں.پس تم ایک وقت تک میرے نشانوں کا انتظار کرو.۲۶تمام تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے تجھے مسیح ابن ِ مریم بنایا.۲۷کہہ یہ میرے ربّ کا فضل ہے اور مَیں تو اپنے آپ کو تمام قسم کے خطابات سے الگ رکھتا ہوں اور مَیں تو ایک مسلمان ہوں.۲۸وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں کی پھونکوں سے بجھادیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے نور کو کمال تک پہنچائے گا اور دین کو زندہ کرے گا.۲۹ہم تجھ پر آسمان سے نشانات اُتارنا چاہتے ہیں اور دشمنوں کو بالکل منتشر کردینا چاہتے ہیں.۳۰خدائے رحمٰن کا حکم ہے اس کے خلیفہ کے لئے جس کی بادشاہت آسمانی ہے.۳۱پس اللہ پر توکل کر.ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہمارے حکم سے کشتی بنا.جو تیری بیعت کرتے ہیں وہ تیری نہیں بلکہ خدا کی بیعت کرتے ہیں.اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہوتا ہے.۳۲اور (بالمقابل) کئی گروہ ایسے ہیں جن پر عذاب واقع ہوگا اور وہ تدبیریں کررہے ہیں اور اللہ تعالیٰ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے.۳۳ان کو کہہ کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے.پس کیا تم ایمان لاؤگے یا نہیں.پھر ان کو کہہ کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے پس کیا تم قبول کرو گے یا نہیں.۳۴میرے ساتھ میرا ربّ ہے عنقریب وہ میرا راہ کھول دے گا.۳۵اے میرے ربّ !مجھے دکھلا کہ تُو کیوں کر مُردوں کو زندہ کرتا ہے.۳۶اے میرے ربّ! مغفرت فرما اور آسمان سے رحم کر.۳۷اے میرے ربّ! مجھے اکیلا مت چھوڑ اور تو خیر الوارثین ہے.۳۸اے میرے ربّ! اُمّتِ محمدیہ کی اصلاح کر.۳۹اے ہمارے ربّ! ہم میں اور ہماری قوم میں سچا فیصلہ کردے اور تُو سب فیصلہ کرنے والوں
الْفَاتِـحِیْنَ.۴۰.وَیُـخَوِّفُوْنَکَ مِنْ دُوْنِہٖ اِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا سَـمَّیْتُکَ الْمُتَوَکِّلَ.۴۱.یَـحْمَدُ.کَ اللّٰہُ مِنْ عَرْشِہٖ.نَـحْمَدُ.کَ وَنُصَلِّیْ.۴۲.یَـآ اَحْـمَدُ یَتِمُّ اسْـمُکَ وَلَا یَتِمُّ اسْـمِیْ.۴۳.کُنْ فِی الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ.وَکُنْ مِّنَ الصَّالِـحِیْنَ الصِّدِّیْقِیْنَ.۴۴.اَنَـا اخْتَرْتُکَ وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَـحَبَّۃً مِّنِّیْ.۴۵.خُذُوا التَّوْحِیْدَ التَّوْحِیْدَ یَـآ اَبْنَآءَ الْفَارِسِ.۴۶.وَبَشِّـرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَ.مَ صِدْ.قٍ عِنْدَ رَبِّـھِمْ ۴۷.وَلَا تُصَعِّرْ لِـخَلْقِ اللّٰہِ وَلَا تَسْئَمْ مِّنَ النَّاسِ وَ اخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُسْلِمِیْنَ.۴۸.اَصْـحَابُ الصُّفَّۃِ وَمَآ اَدْ.رَاکَ مَآ اَصْـحٰبُ الصُّفَّۃِ تَرٰٓی اَعْیُنَـھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّ.مْعِ یُصَلُّوْنَ عَلَیْکَ رَبَّنَآ اِنَّنَا سَـمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْـمَانِ رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاھِدِیْنَ.۴۹.شَاْنُکَ عَـجِیْبٌ وَّ اَجْرُکَ قَرِیْبٌ.۵۰.وَمَعَکَ جُنْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِیْنَ.۵۱.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَتَفْرِیْدِیْ فَـحَانَ اَنْ تُعَانَ وَتُعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ.۵۲.بُوْرِکْتَ یَا اَحْـمَدُ وَکَانَ مَا بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ حَقًّا فِیْکَ.۵۳.اَنْتَ وَجِیْہٌ فِیْ حَضْـرَتِیْ.اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ وَاَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃٍ لَّا یَعْلَمُھَا الْـخَلْقُ.۵۴.وَمَا بقیہ ترجمہ.سے بہتر ہے.۴۰اور تجھے یہ لوگ ڈراتے ہیں.تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے.مَیں نے تیرا نام متوکّل رکھا.۴۱خدا عرش سے تیری تعریف کررہا ہے.ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور تیرے پر درود بھیجتے ہیں.۴۲ اے احمد! تیرا نام پورا ہوجائے گا اور میرا نام پورا نہیں ہوگا.۴۳تو دنیا میں ایسے طور پر رہ کہ گویا تو ایک غریب الوطن بلکہ ایک راہرو ہے اور صالح اور راستباز لوگوں میں سے ہو.۴۴مَیں نے تجھے چن لیا اور اپنی محبت تیرے پر ڈال دی.۴۵توحید کو پکڑو.توحید کو پکڑو.اے فارس کے بیٹو! ۴۶اور تُو ان لوگوں کو جو ایمان لائے یہ خوشخبری سنا کہ اُن کا قدم خدا کے نزدیک صدق کا قدم ہے.۴۷اوراللہ تعالیٰ کی مخلوق سے رُوگردانی نہ کر اور لوگوں کے ملنے سے نہ تھک اور اطاعت اختیار کرنے والوں کے لئے اپنے بازو کو جھکا.۴۸جو صُفّہ کے رہنے والے ہیں اور تو کیا جانتا ہے کہ کیا ہیں صُفّہ کے رہنے والے.تُو دیکھے گا کہ اُن کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوں گے.وہ تیرے پر درود بھیجیں گے اور کہیں گے کہ اے ہمارے خدا! ہم نے ایک منادی کرنے والے کی آواز سُنی ہے جو ایمان کی طرف بلاتا ہے.اے ہمارے ربّ! ہم ایمان لائے.پس ہمیں بھی گواہوں میں لکھ.۴۹تیری شان عجیب ہے اور تیرا اجر قریب ہے.۵۰اور آسمانوں اور زمینوں کی ایک فوج تیرے ساتھ ہے.۵۱تُو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید اور تفرید.پس وہ وقت آتا ہے کہ تُو مدد دیا جائے گا اور دنیا میں مشہورکیا جائے گا.۵۲اے احمد! تو برکت دیا گیا اور جو کچھ تجھے برکت دی گئی وہ تیرا ہی حق تھا.۵۳تومیری درگاہ میں وجیہ ہے.مَیں نے تجھے اپنے لئے چنا.تو مجھ سے بمنزلہ اُس انتہائی قُرب کے ہے جس کو دنیا نہیں جان سکتی ۵۴اور خدا ایسا نہیں کہ تجھ کو چھوڑ
کَانَ اللّٰہُ لِیَتْرُکَکَ حَتّٰی یَـمِیْزَ الْـخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ.۵۵.اُنْظُرْ اِلٰی یُوْسُفَ وَ اِقْبَالِہٖ.۵۶.وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ.۵۷.اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَـخَلَقْتُ اٰدَمَ لِیُقِیْمَ الشَّـرِیْعَۃَ وَیُـحْیِ الدِّیْنَ.۵۸.کِتَابُ الْوَلِیِّ ذُوالْفَقَارِ عَلِیٍّ.۵۹.وَلَوْ کَانَ الْاِیْـمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَالَہٗ رَجُلٌ مِّنْ اَبْنَآءِ الْفَارِسِ.۶۰.یَکَادُ زَیْتُہٗ یُضِیْٓءُ وَ لَوْ لَمْ تَـمْسَسْہُ نَارٌ.۶۱.جَرِیُّ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْمُرْسَلِیْنَ.۶۲.قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُـحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُـحْبِبْکُمُ اللّٰہُ.۶۳.وَ صَلِّ عَلٰی مُـحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُـحَمَّدٍ سَیِّدِ وُلْدِ اٰدَمَ وَخَاتَمِ النَّبِیّیْنَ.۶۴.یَرْحَـمُکَ رَبُّکَ وَیَعْصِمُکَ مِنْ عِنْدِ.ہٖ وَ اِنْ لَّمْ یَعْصِمْکَ النَّاسُ.۶۵.یَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِ.ہٖ وَ اِنْ لَّمْ یَعْصِمْکَ اَحَدٌ مِّنْ اَھْلِ الْاَرْضِیْنَ.۶۶.تَبَّتْ یَدَٓا اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ.مَاکَانَ لَہٗٓ اَنْ یَّدْخُلَ فِیْـھَآ اِلَّا خَآئِفًا وَّ مَآ اَصَا.بَکَ فَـمِنَ اللّٰہِ وَاعْلَمْ اَنَّ الْعَاقِبَۃَ لِلْمُتَّقِیْنَ.۶۷.وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ.۶۸.اِنَّــا سَنُرِیْـھِمْ اٰیَۃً مِّنْ اٰیَاتِنَا فِی الثَّیِّبَۃِ وَ نَرُدُّ ھَا اِلَیْکَ اَمْرٌ مِّنْ لَّدُنَّـآ اِنَّـا کُنَّا فَاعِلِیْنَ.۶۹.اِنَّـھُمْ کَانُوْا یُکَذِّبُوْنَ بِـاٰیَـاتِیْ وَکَانُوْا بِیْ مِنَ الْمُسْتَـھْزِئِیْنَ.۷۰.فَبُشْـرٰی لَکَ فِی النِّکَاحِ.۷۱.اَلْـحَقُّ بقیہ ترجمہ.دےجب تک کہ پاک اور پلید میں فرق کرکے نہ دکھلاوے.۵۵یوسف اور ا س کے اقبال کی طرف دیکھ.۵۶اللہ تعالیٰ اپنے امرپر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے.۵۷مَیں نے چاہا کہ مَیں خلیفہ بناؤں پس مَیں نے آدم کو پیدا کیا تاکہ وہ شریعت کو قائم کرے اور دین کو زندہ کرے.۵۸ولی کی کتاب علی کی ذوالفقار ہے.۵۹اور اگر ایمان ثریّا سے لٹکا ہوتا تو ابناءِ فارس میں سے ایک شخص اُسے وہاں سے بھی لے آتا.۶۰قریب ہے کہ اُس کا تیل روشن ہوجائے اگرچہ آگ اسے چھوئی بھی نہ ہو.۶۱اللہ کا رسول تمام رسولوں کے لباس میں.۶۲کہہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت رکھے.۶۳اور محمدؐ پراور محمدؐ کی آل پر درود بھیج.جو تمام بنی آدم کا سردار اور خاتم النّبیّین ہے.۶۴تیرا ربّ تجھ پر رحمت کرے گا اور اپنی جناب سے تیری حفاظت کا سامان کرے گا اگرچہ لوگ تیری حفاظت نہ کریں.۶۵اللہ تعالیٰ اپنی جناب سے تیری حفاظت کرے گا اگرچہ رُوئے زمین کے لوگوں میں سے کوئی بھی تیری حفاظت نہ کرے.۶۶ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ہوگیا.اس کو نہیں چاہیے تھا کہ وہ اس کام میں (یعنی تکفیر اور تکذیب میں) دخل دیتا مگر ڈرتے ہوئے.جو تجھ پر آئے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جان لے کہ نیک انجام متقیوں کا ہوتا ہے.۶۷اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو آنے والے عذاب سے ڈرا.۶۸ہم انہیں اس بیوہ کے متعلق بھی اپنا ایک نشان دکھائیں گے اور اسے تیری طرف لوٹائیں گے.یہ امر ہماری جناب سے مقدّر ہوچکا ہے اور ہم ہی کرنے والے ہیں.۶۹یہ لوگ میرے نشانوں کو جھٹلاتے تھے اور مجھ پر تمسخر کرتے تھے.۷۰پس تجھے نکاح کیبشارت ہو.۷۱یہ بات تیرے ربّ
مِنْ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ.۷۲.اِنَّـا زَوَّجْنَاکَھَا.لَا مُبَدِّ.لَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ.۷۳.وَ اِنَّـا رَآ.دُّوْ ھَآ اِلَیْکَ اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ.۷۴.فَضْلٌ مِّنْ لَّدُ.نَّـا.لِیَکُوْنَ اٰیَۃً لِّلنَّاظِرِیْنَ.۷۵.شَاتَـانِ تُذْبَحَانِ وَکُلُّ مَنْ عَلَیْـھَا فَانٍ.۷۶.وَ نُـرِیْـھِمْ اٰیَـاتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ وَ نُرِیْـھِمْ جَزَآءَ الْفَاسِقِیْنَ.۷۷.اِذَا جَآءَ نَصْـرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَانْتَـھٰٓی اَمْرُ الزَّمَانِ اِلَیْنَآ اَلَیْسَ ھٰذَا بِالْـحَقِّ.بَلِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ.۷۸.کُنْتُ کَنْزًا مَّـخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ.۷۹.اِنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاھُمَا.۸۰.قُلْ اِنَّـمَا اَنَـا بَشَـرٌ یُّـوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّـمَآ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ.وَ الْـخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ لَا یَـمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ.۸۱.وَ لَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُـمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ.۸۲.قُلْ اِنَّ ھُدَی اللّٰہِ ھُوَ الْھُدٰی وَاِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَـھْدِیْنِ.۸۳.رَبِّ اغْفِرْ وَ ارْحَـمْ مِّنَ السَّمَآءِ.۸۴.رَبِّ اِنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِـرْ.۸۵.اِیْلِیْ اِیْلِیْ لِمَا سَبَقْتَانِیْ.۸۶.یَـا عَبْدَ الْقَادِرِ اِنِّیْ مَعَکَ اَسْـمَعُ وَاَرٰی.۸۷.غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْـمَتِیْ وَقُدْرَتِیْ وَاِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ.۸۸.اَنَـا بُدُّ.کَ اللَّازِمُ اَنَا مُـحْیِیْکَ نَفَخْتُ فِیْکَ مِنْ لَّدُ.نِّیْ بقیہ ترجمہ.کی طرف سے حق ہے.پس تو شک کرنے والوں میں سے مت ہو.۷۲ہم نے اس کو تیرے ساتھ ملادیا ہے.اللہ تعالیٰ کی باتیں ٹل نہیں سکتیں.۷۳اور ہم اُسے تیری طرف واپس لائیں گے.تیرا ربّ جو چاہتا ہے کرتا ہے.۷۴یہ ہمارا فضل ہے تا دیکھنے والوں کے لئے ایک نشان ہو.۷۵دو بکریاں ذبح کی جائیں گی اور رُوئے زمین کے سب لوگ فنا ہونے والے ہیں.۷۶اور ہم اُنہیں اِرد گِرد اور خود اُن کی ذات میں نشان دکھائیں گے اور اُنہیں ہم نافرمانوں کی سزا (کا نمونہ)دکھائیں گے.۷۷جب اللہ تعالیٰ کی مدد اور فتح آئے گی اور زمانہ ہماری طرف رجوع کرے گا (اُس دن کہا جائے گا کہ) کیا یہ حق نہ تھا؟ بلکہ وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا کھلی گمراہی میں ہیں.۷۸مَیں ایک خزانہ پوشیدہ تھا پس مَیں نے چاہا کہ ظاہر کیا جاؤں.۷۹آسمان اور زمین بند گٹھڑی کی طرح تھے.پس ہم نے ان کو کھول دیا.۸۰کہہ میں محض ایک بشیر ہوں جس پر وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود صرف ایک ہے اور تمام بھلائی اور نیکی قرآن میں ہے اور اس کے اسرار تک وہی پہنچ سکتے ہیں جو پاک دل ہیں.۸۱اور مَیں نے اس سے پہلے ایک عمر تم میں بسر کی ہے پس کیا تم سوچتے نہیں.۸۲کہو اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے اور میرا ربّ میرے ساتھ ہے وہ ضرور میرے لئے رستہ نکالے گا.۸۳اے میرے ربّ!بخش اور آسمان سے رحمت نازل کر.۸۴اے میرے ربّ! مَیں مغلوب ہوں تُو میرے دشمن سے انتقام لے.۸۵اے میرے خدا! اے میرے خدا! تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟ ۸۶اے عبدالقادر! مَیں تیرے ساتھ ہوں سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں.۸۷مَیں نے اپنے ہاتھ سے اپنی رحمت اور قدرت کا درخت تیرے لئے لگایااور تُوآج ہمارے نزدیک صاحب مرتبہ اور امین ہے.۸۸مَیں تیرا لازمی چارہ ہوں.مَیں تجھے زندہ کرنے والا ہوں.مَیں نے اپنی طرف سے راستی
رُوْحَ الصِّدْ.قِ.۸۹.وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَـحَبَّۃً مِّنِّیْ وَ لِتُصْنَعَ عَلٰی عَیْنِیْ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْأَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَــظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ.۹۰.اِنَّـا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا لِّیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّ.مَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ.۹۱.فَکُنْ مِّنَ الشَّاکِرِیْنَ.۹۲.اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ.۹۳.اَلَیْسَ اللّٰہُ عَلِیْـمًا بِالشَّاکِرِیْنَ.۹۴.فَقَبِلَ اللّٰہُ عَبْدَ.ہٗ وَ بَـرَّاَہٗ مِـمَّا قَالُوْا وَکَانَ عِنْدَ اللّٰہِ وَجِیْـھًا.۹۵.فَلَمَّا تَـجَلّٰی رَبُّہٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا وَ اللّٰہُ مُوْھِنُ کَیْدِ الْکَافِرِیْنَ.۹۶.وَلِنَجْعَلَہٗٓ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَرَحْـمَۃً مِّنَّا وَ لِنُعْطِیَہٗ مَـجْدًا مِّنْ لَّدُ.نَّـا وَ کَذٰ.لِکَ نَـجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ.۹۷.اَنْتَ مَعِیْ وَ اَنَـا مَعَکَ.سِـرُّکَ سِـرِّیْ.۹۸.لَا تُـحَاطُ اَسْـرَارُ الْاَوْلِیَآءِ.۹۹.اِنَّکَ عَلٰی حَقٍّ مُّبِیْنٍ.وَجِیْـھًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ.۱۰۰.لَا یُصَدِّ.قُ السَّفِیْہُ اِلَّا ضَـرْبَۃَ الْاِھْلَاکِ.۱۰۱.عَدُوٌّ لِّیْ وَ عَدُوٌّ لَّکَ.۱۰۲.عِــجْلٌ جَسَدٌ لَّہٗ خُوَارٌ.۱۰۳.قُلْ اَتٰٓی اَمْرُ اللّٰہِ فَلَا تَکُنْ مِّنَ الْمُسْتَعْــجِلِیْنَ.۱۰۴.یَـاْتِیْکَ قَـمَرُ الْاَ.نْبِیَآءِ وَ اَمْرُکَ یَتَاَتّٰی.۱۰۵.وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْـرُ الْمُؤْمِنِیْنَ.۱۰۶.یَـوْمَ یَجِٓیْءُ الْـحَقُّ وَیَنْکَشِفُ الصِّدْ.قُ وَ یَـخْسَـرُ الْـخَاسِـرُوْنَ.۱۰۷.وَ تَـرَی الْغَافِلِیْنَ یَـخِرُّوْنَ عَلَی الْمَسَاجِدِ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَآ اِنَّـا کُنَّا خَاطِئِیْنَ.۱۰۸.لَا تَثْرِیْبَ بقیہ ترجمہ.کی رُوح تجھ میں پھونکی.۸۹اور مَیں نے تجھ پر اپنی جناب سے محبت ڈال دی اور ایسا کیا کہ تو میری آنکھوں کے سامنے تیار کیا جائے.اس کھیتی کی طرح جو اپنی سوئی نکالے پھر مضبوط ہوجائے پھر اپنی نالی پر کھڑی ہوجائے.۹۰ہم نے تجھے کھلی کھلی فتح دے دی تا تیری طرف منسوب کردہ غلطیوں کو چاہے پہلی ہوں یا پچھلی مٹادے.۹۱پس تُوشاکرین میں سے ہوجا.۹۲کیا اللہ اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے؟ ۹۳کیا اللہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کو جاننے والا نہیں؟ ۹۴پس اللہ تعالیٰ نے اپنے بندہ کو قبول فرمالیا اور لوگوں کی جھوٹی تہمتوں سے بَری ثابت کیا اور وہ اپنے ربّ کے نزدیک وجیہ ہے ۹۵اور جب خدا مشکلات کے پہاڑ پر تجلّی کرے گا تو اسے پاش پاش کردے گا اور اللہ کافروں کی تدبیر کو سُست کردے گا ۹۶اور تاکہ ہم اُسے لوگوں کے لئے نشان اور اپنی طرف سے رحمت بنائیں اور تاکہ ہم اسے اپنی طرف سے بزرگی عطا کریں اور ہم اسی طرح محسنوں کو جزا دیا کرتے ہیں.۹۷تُو میرے ساتھ ہے اور مَیں تیرے ساتھ.تیرا بھید میرا بھید ہے.۹۸اولیاء کے اسرار کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا.۹۹تو کھلے کھلے حق پر ہے دنیا اور آخرت میں وجیہ اور مقرّبین میں سے ہے.۱۰۰نادان آدمی ہلاکت کی مار کوہی مانتا ہے.۱۰۱وہ میرا بھی دشمن ہے اور تیرا بھی.۱۰۲وہ ایک گوسالہ ہے، وہ جسم ہی جسم ہے(روحانیت نہیں) وہ بُڑبڑاتا ہے.۱۰۳کہہ اللہ کا حکم آیا سمجھو اس لئے تم جلد بازی نہ کرو.۱۰۴تیرے پاس نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام سہل طور پر حاصل ہوجائے گا.۱۰۵اور مومنوں کی مدد کرنا ہمارے ذمّہ ہوچکا ہے.۱۰۶جس دن حق آئے گا اور سچائی کھل جائے گی اور نقصان اٹھانے والے نقصان اُٹھائیں گے.۱۰۷اور تم ان غافلوں کو دیکھو گے کہ وہ سجدہ گاہوں پر گر کر کہیں گے اے ہمارے ربّ! ہمیں بخش کہ ہم خطا کار تھے.۱۰۸(انہیں کہا جائے گا) آج تم پر کوئی
عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَـمُ الرَّاحِـمِیْنَ.۱۰۹.تَـمُوْتُ وَ اَنَا رَاضٍ مِّنْکَ.سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْھَآ اٰمِنِیْنَ.‘‘ (تحفہ بغداد.روحانی خزائن جلد ۷ صفحہ ۲۱ تا ۳۱) ۱۸۹۳ء ’’ وَ؎ ۱اِنِّـیْ اَنَـا الرَّحْـمَانُ نَاصِـرُ حِزْبِہٖ‘‘ وَ مَنْ کَانَ مِـنْ حِـزْبِیْ فَیُعْلٰی وَ یُـــنْصَـرٗ (کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلد ۷ صفحہ ۸۶) ۱۸۹۳ء وَ؎۲بَـشَّــرَنِیْ رَبِّیْ وَ قَـــــــالَ مُــــــبَــشِّــــــرًا ’’ سَتَعْرِفُ یَـوْمَ الْعِیْدِ وَالْعِیْدُ اَقْرَبُ‘‘ (کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلد ۷ صفحہ ۹۶) بقیہ ترجمہ.سرزنش نہیں، اللہ تمہیں بخش دے گا اور وہ سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے.۱۰۹تو اس حالت میں وفات پائے گا کہ مَیں تجھ سے راضی ہوں گا.تمہارے لئے سلامتی ہے اور خوشحالی ہے.پس تم اس میں امن کے ساتھ داخل ہوجاؤ.۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) اِس شعر کا پہلا مصرع الہامی ہے اور شعر کا ترجمہ یہ ہے اور مَیں ہی ہوں رحمٰن اپنی جماعت کی مدد کرنے والا.اور جو شخص میرے گروہ میں سے ہو اُسے غلبہ اور نصرت دی جائے گی.۲ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) اِس شعر کا دوسرا مصرع الہامی ہے اور شعر کا ترجمہ یہ ہے کہ میرے ربّ نے مجھے بشارت دی اور بشارت دے کر کہا کہ تو عنقریب عید کے دن کو پہچان لے گا اور عید اس سے قریب تر ہوگی.اِس شعر کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں.’’ کتاب کرامات الصّادقین کے ایک عربی شعر میں جو واقعہ قتل پنڈت لیکھرام سے چار سال پہلے تمام قوموں میں شائع ہوچکا تھا.اُس کی موت کا دن اور تاریخ بھی بتلائی گئی تھی.چنانچہ اس شعر پر ہندو اخبار نے لیکھرام کے قتل کے وقت بڑا شور مچایا تھا اور وہ شعر یہ ہے.وَ بَشَّرَنِیْ رَبِّیْ……غرض یہ عظیم الشان پیشگوئی اس قدر قوت اور عام شہرت کے ساتھ پھیلنے کے بعد ۶؍مارچ ۱۸۹۷ء کو اس طرح پوری ہوئی کہ ایک شخص نے جس کا آج تک پتہ نہیںلگا کہ کون تھا، شام کے وقت لاہور کے شہر میں شنبہ کے دن جو عید سے دوسرا دن تھا لیکھرام کے پیٹ میں ایک کاری چھری مارکر دن دہاڑے ایسا غائب ہوا کہ آج تک پھر اس کا پتہ نہ لگا حالانکہ لیکھرام کے ساتھ کتنی مدّت سے رہتا تھا.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۶۰)
۱۱؍ستمبر۱۸۹۳ء ’’مَیں نے خواب میں دیکھا کہ والدہ محمود خوش لباس کے ساتھ ایک جگہ آئی ہے جہاں مولوی نور دین بیٹھے ہیں اور آکر دو جوڑا کڑا مولوی صاحب کو دیئے ہیں.پھر دیکھا کہ وہ کھانا طیار کررہی ہیں اور منشی جلال الدین بیٹھے ہیں اور پھر ایک عورت آئی ہے جس کا نام اغلباً بھاگ بھری، جوان عورت ہے جس نے مجھ کو بلایا ہے.‘‘ (رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۱۶) ۱۸؍ ستمبر ۱۸۹۳ء ’’۷؍ ربیع الاوّل ۱۳۱۱ھ.۴؍اسوج روزدو شنبہ.اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْ ھٰذَا الرُّؤْیَـا.میں نے خواب میں دیکھاکہ اوّل گویا کوئی شخص مجھ کو کہتا ہے کہ میرا نام فتح اور ظفر ہے اور پھر یہ الفاظ زبان پر جاری ہوئے.اَصْلَحَ اللّٰہُ اَمْرِیْ کُلَّہٗ.؎۱ اور پھر دیکھا کہ ایک مکان شبیہ مسجد میں ہوں اور ایک الماری کے پاس کھڑا ہوں اور حامد علی بھی کھڑا ہے اِتنے میں میری نظر پڑی تو مَیں نے میاں عبداللہ غزنوی کو دیکھا کہ بیٹھے (ہیں) اور میرا بھائی مرزا غلام قادر بھی بیٹھا ہے.تب مَیں نے نزدیک ہوکر اُن کو السلام علیکم (کہا) تو انہوں نے بھی وعلیکم السلام کہا اور بہت سے دعائیہ کلمات ساتھ ملادیئے جن میں صرف یہ لفظ محفوظ رہا کہ اَخَّرَکَ اللّٰہُ مگر معنی یہی یاد رہے کہ ان کے کلمات ایسے ہی تھے کہ تیرا خدا مدد گار ہو.تیری فتح ہو.پھر مَیں اس مجلس میں بیٹھ گیا اور کہا کہ مَیں نے خواب بھی دیکھی ہے کہ کسی کو مَیں نے السلام علیکم کہا ہے اور اس نے جواب دیا ہے وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ وَالسَّلَامُ وَالظَّفَرُ.‘‘ (رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۱۷) یکم اکتوبر۱۸۹۳ء خواب.’’ رَاَیْتُ فِیْ لَیْلَتِیْ ھٰذِہٖ اَنَّ النَّمْلَ تَـخْرُجُ مِنْ اَنْفِیْ بَعْضُھَا حَیٌّ وَّ بَعْضُھَا مَیِّتٌ.وَ بَعْدَھَا خَرَجَ الدَّمُ وَ جَـمَعَ فِی الْاَرْضِ.وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِتَاْوِیْلِہٖ وَفَوَّضْتُ اَمْرِی اِلَیْہِ.‘‘؎۲ (رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۱۹) ۱ (ترجمہ از مرتّب) خدا تعالیٰ میرا تمام کام درست کردے.۲ (ترجمہ از مرتّب) مَیں نے اسی رات خواب میں دیکھا کہ میری ناک سے چیونٹیاں نکل رہی ہیں بعض زندہ ہیں اور بعض مردہ.اور اس کے بعد خون نکلا اور زمین میں جمع ہوگیا.اللہ تعالیٰ اس کی تعبیر کو بہتر جانتا ہے اور مَیں نے اپنا معاملہ اس کے سپرد کیا.
۱۸۹۳ء ’’ اگرچہ مسلمانوں کے ظاہری عقیدہ کے موافق لیلۃ القدر ایک متبرک رات کا نام ہے مگر جس حقیقت پر خدا تعالیٰ نے مجھ کو مطلع کیا ہے وہ یہ ہے کہ علاوہ ان معنوں کے جو مسلَّمِ قوم ہیں لیلۃ القدر وہ زمانہ بھی ہے جب دنیا میں ظلمت پھیل جاتی ہے اور ہر طرف تاریکی ہی تاریکی ہوتی ہے.تب وہ تاریکی بالطبع تقاضا کرتی ہے کہ آسمان سے کوئی نور نازل ہو.سو خدا تعالیٰ اس وقت اپنے نورانی ملائکہ اور رُوح القدس کو زمین پر نازل کرتا ہے.اسی طور کے نزول کے ساتھ جو فرشتوں کی شان کے ساتھ مناسب حال ہے.تب رُوح القدس تو اس مجدّد اور مصلح سے تعلق پکڑتا ہے جو اجتبا اور اصطفا کی خلعت سے مشرف ہوکر دعوتِ حق کے لئے مامور ہوتا ہے اور فرشتے ان تمام لوگوں سے تعلق پکڑتے ہیں جوسعید اور رشید اور مُستعد ہیں اور ان کو نیکی کی طرف کھینچتے ہیں اورنیک توفیقیں ان کے سامنے رکھتے ہیں.تب دنیا میں سلامتی اور سعادت کی راہیں پھیلتی ہیں اور ایسا ہی ہوتا رہتا ہے جب تک دین اپنے اُس کمال کو پہنچ جائے جو اس کے لئے مقدّر کیا گیا ہے.‘‘ (شہادۃ القرآن.روحانی خزائن جلد۶صفحہ ۳۱۳،۳۱۴) ۱۸۹۳ء ’’ وَ اِنَّ رَبِّیْ قَدْ بَشَّـرَنِیْ فِی الْعَرَبِ وَاَلْھَمَنِیْ اَنْ اَمُوْنَـھُمْ وَ اُرِیَـھُمْ طَرِیْقَھُمْ وَاُصْلِحَ لَھُمْ شُیُوْنَـھُمْ.؎۱ ‘‘ (حـمامۃ البشرٰی.روحانی خزائن جلد ۷ صفحہ ۱۸۲) ۱۸۹۳ء ’’ اَنْتَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّکَ رَحْـمَۃً مِّنْ عِنْدِ.ہٖ.وَمَا اَنْتَ بِفَضْلِہٖ مِنْ مَّـجَانِیْنَ.وَیُـخَوِّفُوْنَکَ مِنْ دُوْنِہٖ.اِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا.سَـمَّیْتُکَ الْمُتَوَکِّلَ یَـحْمَدُ کَ اللّٰہُ مِنْ عَرْشِہٖ.وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَھُوْدُ وَلَا النَّصَارٰی.وَیَـمْکُرُوْنَ وَ یَـمْکُرُاللّٰہُ وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ.‘‘ ؎۲ (حـمامۃ البشرٰی.روحانی خزائن جلد۷ صفحہ ۱۸۳) ۱۸۱ (ترجمہ از مرتّب) اور میرے ربّ نے عرب کی نسبت مجھے بشارت دی اور الہام کیا ہے کہ مَیں اُن کی خبر گیری کروں اورٹھیک راہ بتاؤں اور ان کا حال درست کروں.۲ (ترجمہ از مرتّب) تُواپنے ربّ کی طرف سے اعلیٰ درجہ کی شہادت کے ساتھ اس کی طرف سے رحمت ہے اور تُو اس کے فضل سے مجنون نہیں ہے.اور اللہ کے سوا تجھے اَوروں سے ڈراتے ہیں.ہم خود تیری نگرانی کرنے والے ہیں.مَیں نے تیرا نام متوکّل رکھا ہے.اللہ اپنے عرش سے تیری تعریف کرتا ہے.اور یہود ونصاریٰ تجھ سے کبھی راضی نہ ہوں گے اور تدبیریں کرتے رہیں گے اور اللہ بھی تدبیر کرے گا اور تدبیر کرنے میں اللہ سب سے بڑھ چڑھ کر ہے.
(ب) ’’ بَعْدَ مَا اَزْمَعْتُ تَـأْلِیْفَ ھٰذَا الْکِتَابِ اُلْھِمْتُ مِنْ رَّبِّ الْاَ.رْبَـابِ اَنَّ الْکَافِرِیْنَ وَالْمُکَفِّرِیْنَ لَا یَقْدِ.رُوْنَ عَلٰٓی اَنْ یُّـؤَلِّفُوْا کِتَا.بًـا مِّثْلَ ھٰذَا فِیْ نَثْرِھَا وَنَظْمِھَا مَعَ الْتِزَامِ مَعَارِفِھَا وَحِکَمِھَا.فَـمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّکَذِّ.بَ اِلْھَامِیْ فَلْیَاْتِ بِـمِثْلِ کَلَامِیْ.فَاِنَّ الْمَھْدِیَّ یُـھْدٰی اِلٰی اُمُوْرٍ لَّا یُـھْدٰی اِلَیْـھَا غَیْرُہٗ.وَلَا یُدْ.رِکُہٗ مُعَانِدُ.ہٗ وَ لَوْ کَانَ عَلَی الْھَوَآءِ سَیْرُہٗ.‘‘ ؎۱ (نورالحق حصّہ دوم سرورق طبع اوّل.روحانی خزائن جلد۸ صفحہ۱۸۷) (ج) ’’وَقَدْ اُلْھِمْتُ مِنْ رَّبِّیْ اَنَّـھُمْ کُلُّھُمْ کَالْاَعْـمٰی وَلَنْ یَّاْتُوْا بِـمِثْلِ ھٰذَا وَاَنَّـھُمْ کَانُوْا فِیْ دَعَاوِیْـہِمْ کَاذِبِیْنَ.‘‘؎۲ (نورالحق حصّہ دوم.روحانی خزائن جلد۸ صفحہ ۲۶۰) (د) ’’رسالہ نورالحق اگرچہ عیسائیوں کی مولویت آزمانے کے لئے لکھا گیا مگر یہ چند مخالف یعنی شیخ محمد حسین بطالوی اور اس کے نقشِ قدم پر چلنے والے میاں رُسل بابا وغیرہ جو مکفّر اور بدگو اوربدزبان ہیں اِس خطاب سے باہر نہیں ہیں.الہام سے یہی ثابت ہوا ہے کہ کوئی کافروں اور مکفّروں سے رسالہ نورالحق کا جواب نہیں لکھ سکے گا کیونکہ وہ جھوٹے اور کاذب اور مفتری اور جاہل اور نادان ہیں.‘‘ (اتـمام الـحجّۃ.روحانی خزائن جلد ۸ صفحہ ۳۰۳) ۱۸۹۴ء ’’دوخواب اور دو الہام سے مجھ پر ظاہر ہوا ہے کہ دشمن اور مخالف اس کی نظیر بنانے سے عاجز رہے گا.‘‘ (از مکتوب بنام مولوی اصغر علی صاحب پروفیسر اسلامیہ کالج لاہور.مکتوبات احمد جلد ۵ صفحہ ۳۷۹مطبوعہ ۲۰۱۵ء) ۱۸۹۴ء ’’ وَلِیْ اَنْ اَقُوْلَ اِنَّنِیْ حِرْزٌ لَّھَا وَحِصْنٌ حَافِظٌ مِّنَ الْاٰفَاتِ وَبَشَّـرَنِیْ رَبِّیْ وَقَالَ مَاکَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّ بَـھُمْ وَاَنْتَ فِیْھِمْ.۱۱ (ترجمہ از مرتّب) اور جب مَیں نے اس کتاب (نورالحق) کی تالیف کا پختہ ارادہ کرلیا تو خداوند کریم کی طرف سے مجھے یہ الہام ہوا کہ کافر اور مکفّر لوگ اس جیسی کتاب کی تالیف نہیں کرسکیں گے.جو ا س کی نثر اور نظم میں اور معارف اور حکمتوں کے التزام میں اس کی مثل ہو.اِس لئے جو شخص میرے دعوٰیءِ الہام کو جھوٹا ثابت کرنا چاہتا ہو اُسے چاہیے کہ میرے اس کلام کی مثل لائے اور یاد رکھو کہ کوئی اس کی مثل نہیں لاسکتا کیونکہ مہدی ان امور کی طرف راہ پاتا ہے جن تک اس کے غیر کی رسائی نہیں ہوتی اور اس کا دشمن اسے نہیں پاسکتا اگرچہ وہ ہَوا میں ہی کیوں نہ اُڑتا ہو.۲ (ترجمہ از مرتّب) میرے ربّ کی طرف سے مجھے الہام ہوا ہے کہ یہ سب ہی اندھوں کی طرح ہیں اور اس کی مثل ہرگز نہیں لاسکیں گے اور یہ اپنے دعووں میں جھوٹے ہیں.
ترجمہ.اورمَیں کہہ سکتا ہوں کہ مَیں اس گورنمنٹ کے لئے بطور ایک تعویذ کے ہوں اور بطور ایک پناہ کے ہوں جو آفتوں سے بچاوے اور خدا نے مجھے بشارت دی اور کہا کہ خدا ایسا نہیں کہ ان کو دُکھ پہنچاوے اور تُو اُن میں ہو.‘‘ (نورالحق حصّہ اوّل.روحانی خزائن جلد۸ صفحہ ۴۵) ۱۸۹۴ء (الف)’’ وَاِنِّیْ رَاَیْتُ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ مِرَارًا فِی الْمَنَامِ وَمِرَارًا فِی الْـحَالَۃِ الْکَشْفِیَّۃِ.وَقَدْ اَکَلَ مَعِیَ عَلٰی مَآئِدَۃٍ وَّاحِدَۃٍ.وَرَاَیْتُہٗ مَرَّۃً وَاسْتَفْسَرْتُہٗ مِـمَّا وَقَعَ قَوْمُہٗ فِیْہِ.فَاسْتَوٰی عَلَیْہِ الدَّ ھْشُ وَ ذَکَرَ عَظْمَۃَ اللّٰہِ وَطَفِقَ یُسَبِّحُ وَیُقَدِّسُ وَاَشَارَ اِلَی الْاَرْضِ وَقَالَ اِنَّـمَا اَنَا تُرَابِیٌّ وَبَرِیْٓءٌ مِّـمَّا یَقُوْلُوْنَ.فَرَاَیْتُہٗ کَالْمُنْکَسِرِیْنَ الْمُتَوَاضِعِیْنَ.ترجمہ.اور مَیں نے بارہا عیسیٰ علیہ السلام کو خواب میں دیکھا اور بارہا کشفی حالت میں ملاقات ہوئی.اور ایک ہی خوان میں میرے ساتھ اُس نے کھایا اور ایک دفعہ مَیں نے اس کو دیکھا اور ا س فتنہ کے بارے میں پوچھا جس میں اس کی قوم مبتلا ہوگئی ہے.پس اُس پر دہشت غالب ہوگئی اور خدا تعالیٰ کی عظمت کا اس نے ذکر کیا اور اُس کی تسبیح اور تقدیس میں لگ گیا اور زمین کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ مَیں تو صرف خاکی ہوں اور ان تہمتوں سے بَری ہوں جو مجھ پر لگائی جاتی ہیں.پَس مَیں نے اس کو ایک متواضع اور کسرِ نفسی کرنے والا آدمی پایا.‘‘ (نورالحق حصّہ اوّل.روحانی خزائن جلد۸ صفحہ ۵۶، ۵۷) (ب)’’خدا کی عجیب باتوں میں سے جو مجھے ملی ہیں ایک یہ بھی ہے جو مَیں نے عین بیداری میں جو کشفی بیداری کہلاتی ہے یسوع مسیح سے کئی دفعہ ملاقات کی ہے اور اُس سے باتیں کرکے اس کے اصل دعویٰ اور تعلیم کا حال دریافت کیا ہے.یہ ایک بڑی بات ہے جو توجہ کے لائق ہے کہ حضرت یسوع مسیح ان چند عقائد سے جو کفّارہ اور تثلیث اور ابنیّت ہے ایسے متنفّر پائے جاتے ہیں کہ گویا ایک بھاری اِفترا جو اُن پر کیا گیا ہے وہ یہی ہے.یہ مکاشفہ کی شہادت بے دلیل نہیں ہے بلکہ مَیں یقین رکھتا ہوں کہ اگر کوئی طالب ِ حق نیّت کی صفائی سے ایک مدّت تک میرے پاس رہے اور وہ حضرت مسیح کو کشفی حالت میں دیکھنا چاہے تو میری توجہ اور دُعا کی برکت سے وہ ان کو دیکھ سکتا ہے.اُن سے باتیں بھی کرسکتا ہے اور اُن کی نسبت اُن سے گواہی بھی لے سکتا ہے کیونکہ مَیں وہ شخص ہوں جس کی رُوح میں بروز کے طور پر یسوع مسیح کی رُوح سکونت رکھتی ہے.‘‘ (تحفہ قیصریہ.روحانی خزائن جلد۱۲ صفحہ ۲۷۳)
۱۸۹۴ء ’’ وَرَاَیْتُہٗ مَرَّۃً اُخْرٰی قَآئِـمًا عَلٰی عَتَبَۃِ بَابِیْ وَ فِیْ یَدِ ہٖ قِرْطَاسٌ کَصَحِیْفَۃٍ فَاُلْقِیَ فِیْ قَلْبِیْ اَنَّ فِیْـھَا اَسْـمَآءَ عِبَادٍ یُّـحِبُّوْنَ اللّٰہَ وَ یُـحِبُّـھُمْ وَ بَیَانُ مَرَاتِبِ قُـرْ.بِـھِمْ عِنْدَ اللّٰہِ فَقَرَأْتُـھَا فَاِذَا فِیْ اٰخِرِھَا مَکْتُوْبٌ مِّنَ اللّٰہِ تَعَالٰی فِیْ مَرْتَبَتِیْ عِنْدَ رَبِّیْ.ھُوَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَتَفْرِیْدِیْ فَکَادَ اَنْ یُّعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ.ترجمہ.اور ایک مرتبہ مَیں نے اُس؎۱کو دیکھا کہ میرے درازہ کی دہلیز پر کھڑا ہے اور ایک کاغذ خط کی طرح اُس کے ہاتھ میں ہے.سو میرے دل میں ڈالا گیا کہ اس خط میں ان لوگوں کے نام درج ہیں کہ جو خدا تعالیٰ کو دوست رکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ اُنہیں دوست رکھتا ہے اور اُس میں اُن کے اُن مراتب ِ قرب کا بیان ہے جو عنداللہ اُن کو حاصل ہیں.پس مَیں نے اس خط کو پڑھا.سو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کے آخر میں میرے مرتبہ کی نسبت خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ لکھا ہوا ہے کہ وہ مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید اور تفرید اور عنقریب وہ لوگوں میں مشہور کیا جائے گا.‘‘ (نورالحق حصّہ اوّل.روحانی خزائن جلد ۸ صفحہ ۵۷) ۱۸۹۴ء (الف) ’’فَالْـحَقُّ الَّذِیْ اَرَانَـا الْـحَقُّ الْـحَکِیْمُ وَ اَنْبَاَنَـا اللَّطِیْفُ الْعَلِیْمُ ھُوَ اَنَّ حَرْبَۃَ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ سَـمَاوِیَّۃٌ لَّا اَرْضِیَّۃٌ وَّ مُـحَارَبَاتُہٗ کُلُّھَا بِاَنْظَارٍ رُّوْحَانِیَّۃٍ لَّا بِاَسْلِحَۃٍ جِسْمَانِیَّۃٍ وَّ ھُوَ یَقْتُلُ الْاَعْدَآءَ بِعَقْدِ النَّظَرِ وَالْھِمَّۃِ اَعْـنِیْ بِتَصَـرُّفِ الْبَاطِنِ وَ اِتْـمَامِ الْـحُــجَّۃِ لَابِـالسِّھَامِ وَ الرِّمَاحِ وَ الْمَشْـرَفِیَّۃِ وَ لَہٗ مَلَکُوْتُ السَّمَآءِ لَا مَلَکُوْتُ الْاَرْضِیْنَ.ترجمہ.پس وہ حق جو ہم کو حکیمِ مطلق نے دکھلایا اور لطیف علیم نے بتلایا وہ یہی ہے کہ مسیح موعود کا حَربہ آسمانی ہے نہ زمینی اور لڑائیاں اُس کی روحانی نظروں کے ساتھ ہیں نہ جسمانی ہتھیاروں کے ساتھ، اور وہ دشمنوں کو نظر اور ہمت سے قتل کرے گا.یعنی تصرّفِ باطن اور اتمامِ حجّت کے ساتھ نہ تیر اور نیزہ اور تلوار سے اور اُس کی آسمانی بادشاہت ہے نہ زمینی.‘‘ (نورالحق حصّہ اوّل.روحانی خزائن جلد۸صفحہ۷۲) (ب) ’’ وَاَلْھَمَنَا اَنَّ الْـحَرْبَ حَرْبٌ رُوْحَانِیٌّ بِنَظَرٍ رُوْحَانِـیٍّ.ترجمہ.اور ہمارے ربّ نے ہمیں الہام دیا کہ مسیح موعود کی لڑائیاں رُوحانی لڑائیاں ہیں جو رُوحانی نظر کے ساتھ ہوں گی.‘‘ (نورالحق حصّہ اوّل.روحانی خزائن جلد۸ صفحہ ۷۵) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو-(مرزا بشیر احمد)
ء ’’ وَاُلْقِیَ فِیْ رُوْعِیْ اَنَّ الْمَسِیْحَ سَـمَّی الْاٰخِرِیْنَ مِنَ النَّصَارَی الدَّجَّالِیْنَ.لَا الْاَوَّلِیْنَ.وَاِنْ کَانَ الْاَوَّلُوْنَ اَیْضًا دَاخِلِیْنَ فِی الضَّآلِیْنَ الْمُحَرِّفِیْنَ.وَالسِّـرُّ فِیْ ذَالِکَ اَنَّ الْاَوَّلِیْنَ مَاکَانُوْا مُـجْتَـھِدِیْنَ سَاعِیْنَ لِاِضْلَالِ الْـخَلْقِ کَمِثْلِ الْاٰخِرِیْنَ.بَلْ مَاکَانُوْا عَلَیْـھَا قَادِ رِیْنَ.ترجمہ.اور میرے دل میں ڈالا گیا ہے کہ حضرت مسیح نے آخری زمانہ کے نصاریٰ کا نام دجّال رکھا اور ایسا نام پہلوں کا نہیں رکھا اگرچہ پہلے بھی گمراہوں میں داخل تھے اور کتابوں کی تحریف کرنے والے تھے.سو اس میں بھید یہ ہے کہ پہلے نصاریٰ خلق اللہ کے گمراہ کرنے کی ایسی سخت کوششیں نہیں کرتے تھے جیسی پچھلوں نے کیں بلکہ وہ ان کوششوں پر قادر نہیں تھے.‘‘ (نورالحق حصّہ اوّل.روحانی خزائن جلد ۸ صفحہ ۷۹،۸۰) ۱۸۹۴ء ’’وَاُلْقِیَ فِیْ رُوْعِیْ اَنَّ الْمُرَادَ مِنْ لَّفْظِ الرُّوْحِ فِیْ اٰیَۃِ ’’ یَـوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ‘‘ جَـمَاعَۃُ الرُّسُلِ وَالنَّبِیِّیْنَ وَالْمُحَدَّ ثِیْنَ اَجْـمَعِیْنَ الَّذِیْنَ یُلْقَی الرُّوْحُ عَلَیْھِمْ وَ یُـجْعَلُوْنَ مُکَلَّمِیْنَ.ترجمہ.اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ اِس آیت میں لفظ رُوح سے مراد رسولوں اور نبیوں اور محدثوں کی جماعت مراد ہے.جن پر رُوح القدس ڈالا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کے ہم کلام ہوتے ہیں.‘‘ (نورالحق حصّہ اوّل.روحانی خزائن جلد۸ صفحہ ۹۸) ۱۸۹۴ء ’’ وَ اِنِّیْ اُلْھِمْتُ مِنْ رَّبِّیْ اَنَّکَ لَا تَقْدِ.رُ عَلٰی ھٰذَا النِّضَالِ وَ یُبْدِی اللّٰہُ عَـجْزَکَ وَ یُـخْزِیْکَ وَ یُثْبِتُ اَنَّکَ اَسِیْرٌ فِی الْـجَھْلِ وَ الضَّلَالِ وَ لَوِاجْتَمَعَتْ قَوْمُکَ مَعَکَ عَلٰی ھٰذَا الْـخَیَالِ فَتَرْجِعُوْنَ مَغْلُوْبِیْنَ.ترجمہ.اورمجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا ہے کہ تُو؎۱اِس مقابلہ پر قادر نہیں ہوگا اور خدا تعالیٰ تیرا عجز ظاہر کردے گا اور تجھے رُسوا کردے گا اور ثابت کرے گا کہ تُو گمراہی میں اسیر ہے اور اگرچہ تیری قوم اس خیالِ مقابلہ میں تجھ سے متفق ہوجائے مگر آخر تم مغلوب ہوجاؤ گے.‘‘ (نورالحق حصّہ اوّل.روحانی خزائن جلد۸ صفحہ ۱۵۳) ۱۸۹۴ء ’’ وَاِنِّیْ اَرٰی اَنَّ اَھْلَ مَکَّۃَ یَدْخُلُوْنَ اَفْوَاجًا فِیْ حِزْبِ اللّٰہِ الْقَادِ.رِ الْمُخْتَارِ وَھٰذَا مِنْ رَّبِّ السَّمَآءِ وَ عَـجِیْبٌ فِیْ اَعْیُنِ اَھْلِ الْاَرْضِیْنَ.ترجمہ.اور مَیں دیکھتا ہوں کہ اہلِ مکّہ خدائے قادر کے گروہ میں فوج در فوج داخل ہوجائیں گے اور یہ آسمان کے خدا کی طرف سے ہے اور زمینی لوگوں کی آنکھوں میں عجیب.‘‘ (نورالحق حصّہ دوم.روحانی خزائن جلد۸ صفحہ ۱۹۷) پادری عمادالدین-(مرزا بشیر احمد)
۱۸۹۴ء ’’ فَالتَّاْوِیْلُ الصَّحِیْحُ وَالْمَعْنَی الْـحَقُّ الصَّرِیْـحُ اَنَّ الْمُرَادَ مِنْ خُسُوْفِ اَوَّلِ لَیْلَۃِ رَمَضَانَ اَنْ یَّنْخَسِفَ القَمَرُ فِیْ لَیْلَۃٍ اُوْلٰی مِنْ لِّیَالٍ ثَلَاثٍ یَّکْمُلُ نُوْرُالْقَمَرِ فِیْھَا وَتَعْرِفُ اَیَّـامَ الْبِیْضِ…… اَلْمُرَادُ مِنْ قَوْلِہٖ وَتَنْکَسِفُ الشَّمْسُ فِی النِّصْفِ مِنْہُ اَنْ یَّظْھَرَ کُسُوْفُ الشَّمْسِ مُنَصِّفًا اَیَّامَ الْاِنْکِسَافِ…… وَمَاقُلْتُ مِنْ نَّفْسِیْ بَلْ ھٰذَا اِلْھَامٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ.‘‘ ترجمہ.پس تاویل صحیح اور معنی حق صریح یہ ہیں کہ یہ فقرہ کہ خسوف اوّل رات رمضان میں ہوگا اس کے معنے یہ ہیں کہ ان تین راتوں میں سے جو چاندنی راتیں کہلاتی ہیں پہلی رات میں گرہن ہوگا اور ایامِ بیض کو تُو جانتا ہے…یہ قول کہ سورج گرہن اُس کے نصف میں ہوگا.اس سے یہ مراد ہے کہ سورج گرہن ایسے طور سے ظاہر ہوگا کہ ایامِ کسوف کو نصفا نصف کردے گا…یہ مَیں نے اپنی طرف سے نہیں کہا بلکہ خدا تعالیٰ کے الہام سے کہا ہے.‘‘ (نورالحق حصّہ دوم.روحانی خزائن جلد۸ صفحہ ۲۰۱ و ۲۰۴ و ۲۱۰) ۱۸۹۴ء ’’ اِعْلَمْ؎۱ اَنَّ اللّٰہَ نَفَثَ فِیْ رُوْعِیْ اَنَّ ھٰذَا الْـخُسُوْفَ وَالْکُسُوْفَ فِیْ رَمَضَانَ اٰیَتَانِ مُـخَوِّفَتَانِ لِقَوْمِ تَّـبَعُوْا الشَّیْطَانَ.وَاٰثَـرُوا الظُّلْمَ وَ الطُّغْیَانَ وَ ھَیَّجُوا الْفِتَنَ وَ اَحَبُّوا الْاِفْتِنَانَ وَ مَا کَانُوْا مُنْتَھِیْنَ…… وَلَئِنْ اَبَوْا فَاِنَّ الْعَذَابَ قَدْ حَانَ.ترجمہ.جان کہ خدا تعالیٰ نے میرے دل میں پھونکا کہ یہ خسوف اور کسُوف جو رمضان میں ہوا ہے یہ ۲دو خوفناک نشان ہیں جو اُن کے ڈرانے کے لئے ظاہر ہوئے ہیں جو شیطان کی پیروی کرتے ہیں جنہوں نے ظلم اور بے اعتدالی کو اختیار کرلیا…۲؎ اور اگر نافرمانی کی تو عذاب کا وقت تو آگیا.‘‘ (نورالحق حصّہ دوم.روحانی خزائن جلد۸ صفحہ ۲۲۷،۲۲۸) ۱۸۹۴ء ’’ فَـھَا اَنَا اَدْعُوْھُمْ کُلَّھُمْ کَدَعْوَتِیْ لِلنَّصَارٰی لِھٰذِ ہِ الْمُقَا بَلَۃِ وَ اُنَـادِ یْـھِمْ لِھٰذِہِ الْمُنَاضَلَۃِ اِنْ کَانُوْا مِنَ الصَّادِقِیْنَ وَعُلِّمْتُ مِنْ رَّبِّیْ اَنَّـھُمْ مِّنَ الْمَغْلُوْبِیْنَ.؎۳‘‘ (نورالحق حصّہ دوم آخری صفحہ ٹائٹل پیج.روحانی خزائن جلد۸ صفحہ۲۷۱،۲۷۲) ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’مَیں نے اپنی کتاب نور الحق کے صفحہ ۳۵ سے صفحہ۳۸ تک یہ پیشگوئی لکھی ہے کہ خدا نے مجھے یہ خبر دی ہے کہ رمضان میں جو خسوف کسوف ہوا یہ آنے والے عذاب کا ایک مقدمہ ہے چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق ملک میں ایسی طاعون پھیلی کہ اب تک تین لاکھ کے قریب لوگ مرگئے.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۲۳۹) ۲ (ترجمہ از ناشر) ’’اور انہوں نے فتنوں کو بھڑکایا اور فتنہ بازی کو پسند کیا.اور وہ باز آنے والے نہیں.‘‘ ۳ (ترجمہ از مرتّب) پس لو مَیں ان تمام (مکفّر مولویوں) کو اس مقابلہ کے لئے بلاتا ہوں جیسا کہ مَیں نے عیسائیوں کو بلایا اور میں ان کو اس بحث کےلئے بلاتا ہوں اگر وہ سچوں میں سے ہیں اور میرے ربّ کی طرف سے مجھے علم دیا گیا ہے کہ وہ مغلوب ہوں گے.
۱۸۹۴ء ’’ وَ بَشَّـرَنِیْ وَقَالَ.اِنَّ الْمَسِیْحَ الْمَوْعُوْدَ الَّذِیْ یَرْقُبُوْنَہٗ وَالْمَھْدِیَّ الْمَسْعُوْدَ الَّذِیْ یَنْتَظِرُوْنَہٗ ھُوَاَنْتَ.نَفْعَلُ مَا نَشَآءُ فَلَاتَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ.؎۱ ‘‘ (اتـمام الـحجّۃ.روحانی خزائن جلد۸ صفحہ۲۷۵) ۱۸۹۴ء ’’وَ قَالَ.اِنَّکَ مِنَ الْمَاْمُوْرِیْنَ لِتُنْذِ.رَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِ.رَ اٰبَآ.ؤُھُمْ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ.؎۲‘‘ (سـرّ الـخلافۃ.روحانی خزائن جلد۸ صفحہ ۳۲۶) ۱۸۹۴ء ’’ وَاَظھَر عَلَـیَّ رَبِّیْ اَنَّ الصِّدِّ.یْقَ وَالْفَارُوْقَ وَعُثْـمَانَ کَانُوْا مِنْ اَھْلِ الصَّلَاحِ وَالْاِیْـمَانِ.وَ کَانُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اٰثَـرَھُمُ اللّٰہُ وَ خُصُّوْا بِـمَوَاھِبِ الرَّحْـمَانِ…………… وَ اِنِّیْ اُخْبِرْتُ اَنَّـھُمْ مِّنَ الصَّالِـحِیْنَ وَ مَنْ اٰذَاھُمْ فَقَدْ اٰذَی اللّٰہَ وَکَانَ مِنَ الْمُعْتَدِیْنَ.‘‘؎۳ (سـرّ الـخلافۃ.روحانی خزائن جلد۸ صفحہ ۳۲۶،۳۲۷) ۱۸۹۴ء ’’وَ عُلِّمْتُ اَنَّ الصِّدِّیْقَ اَعْظَمُ شَانًـا وَّ اَرْفَعُ مَکَا نًـا مِّنْ جَـمِیْعِ الصَّحَا بَۃِ.؎۴‘‘ (سـرّ الـخلافۃ.روحانی خزائن جلد۸ صفحہ ۳۳۷) ۱۸۹۴ء ’’ کَانَ؎۵ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَارِفًا تَآمَّ الْمَعْرِفَۃِ حَلِیْمَ الْـخُلُقِ رَحِیْمَ الْفِطْرَۃِ.وَکَانَ یَعِیْشُ فِیْ زِیِّ الْاِنْکِسَارِ وَالْغُرْبَۃِ.وَکَانَ کَثِیْرَ الْعَفْوِ وَالشَّفْقَۃِ وَالرَّحْـمَۃِ.وَکَانَ یُعْرَفُ بِنُوْرِ الْـجَبْـھَۃِ ۱ (ترجمہ از مرتّب) خدا نے مجھے بشارت دی اور کہا کہ وہ مسیح موعود اور مہدی مسعود جس کا انتظار کرتے ہیں وہ تُو ہے.ہم جو چاہتے ہیں کرتے ہیں.پس تو شک کرنے والوں میں سے نہ ہو.۲ (ترجمہ از مرتّب) اور فرمایا.تو مامور ہے کہ ان لوگوں کو ڈرائے.جن کے باپ دادوں کے پاس کوئی نذیر نہیں آیا تھا اور تاکہ مجرموں کی راہ اچھی طرح ظاہر ہوجائے.۳ (ترجمہ از مرتّب) اور میرے ربّ نے مجھ پر یہ ظاہر کیا کہ صدیق ؓ اور فاروقؓ اور عثمان ؓ صالح اور مومن تھے اور ۳ (ترجمہ از مرتّب) اور میرے ربّ نے مجھ پر یہ ظاہر کیا کہ صدیق ؓ اور فاروقؓ اور عثمان ؓ صالح اور مومن تھے اور اُن لوگوں میں سے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے چُن لیا اور خدا تعالیٰ کی عطا سے مخصوص کئے گئے… اور مجھے خبر دی گئی کہ وہ صالحین میں سے تھے اور جس شخص نے ان کو ایذا پہنچائی تو اُس نے اللہ تعالیٰ کو ایذا پہنچائی اور وہ حد سے گذرنے والا ہوا.۴ (ترجمہ از مرتّب) اور مجھے علم دیا گیا ہے کہ صدیق ؓ تمام صحابہؓ میں سے بڑی شان اور بلند مرتبہ رکھتے ہیں.۵ (ترجمہ از مرتّب) وہ (یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ) عارفِ کامل، عادۃً حلیم اور فطرۃً رحیم تھے.خاکساری اور انکسار آپ کا شیوہ تھا اور عفو، شفقت و رأفت آپ کامعمول تھا اور آپ کی پیشانی سے نور ٹپکتا تھا.آپ کا آنحضرت
الْـجَبْـھَۃِ وَکَانَ شَدِیْدَ التَّعَلُّقِ بِـالْمُصْطَفٰی وَ الْتَصَقَتْ رُوْحُہٗ بِـرُوْحِ خَیْرِ الْوَرٰی وَ غَشِیَہٗ مِنَ النُّوْرِمَا غَشِیَ مُقْتَدَاہُ مَـحْبُوْبَ الْمَوْلٰی وَاخْتَفیٰ تَـحْتَ شَعْشَعَانِ نُـوْرِ الرَّسُوْلِ وَفُیُوْضِہِ الْعُظْمٰی.وَ کَانَ مُـمْتَازًا مِّنْ سَآئِرِ النَّاسِ فِیْ فَھْمِ الْقُرْاٰنِ وَ فِیْ مَـحَبَّۃِ سَیِّدِ الرُّسُلِ وَ فَـخْرِ نَوْعِ الْاِنْسَانِ.وَلَمَّا تَـجَلّٰی لَہُ النَّشْأَۃُ الْاُخْرَوِیَّۃُ وَ الْاَسْـرَارُ الْاِلٰھِیَّۃُ نَفَضَ التَّعَلُّقَاتِ الدُّ.نْیَوِیَّۃَ وَ نَبَذَ الْعِلَقَ الْـجِسْمَانِیَّۃَ وَ انْصَبَغَ بِصِبْغِ الْمَحْبُوْبِ وَ تَـرَکَ کُلَّ مُرَادٍ لِّلْوَاحِدِالْمَطْلُوْبِ وَ تَـجَرَّدَتْ نَفْسُہٗ عَنْ کُدُ.وْرَاتِ الْـجَسَدِ وَ تَلَوَّنَتْ بِلَوْنِ الْـحَقِّ الْاَحَدِ وَ غَا.بَتْ فِیْ مَرْضَاتِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.وَ اِذَا تَـمَکَّنَ الْـحُبُّ الصَّادِقُ الْاِلٰھِیُّ مِنْ جَـمِیْعِ عُرُوْقِ نَفْسِہٖ وَ جَذْرِ قَلْبِہٖ وَ ذَرَّاتِ وُجُوْدِہٖ وَظَھَرَتْ اَنْوَارُہٗ فِیْٓ اَفْعَالِہٖ وَ اَقْوَالِہٖ وَ قِیَامِہٖ وَقُعُوْدِہٖ سُـمِّیَ صِدِّیْقًا وَّ اُعْطِیَ عِلْمًا غَضًّا طَرِیًّا وَّ عَـمِیْقًا مِّنْ حَضْـرَۃِ خَیْرِ الْوَاھِبِیْنَ فَکَانَ الصِّدْقُ لَہٗ مَلَکَۃً مُّسْتَقِرَّۃً وَ عَادَۃً طَبْعِیَّۃً وَ بَدَأَتْ فِیْہِ اٰثَـارُہٗ وَ اَنْـوَارُہٗ فِیْ کُلِّ قَوْلٍ وَّ فِعْلٍ وَّ حَرَکَۃٍ وَّ سُکُوْنٍ وَّ حَوَآسَّ وَ اَنْفَاسٍ وَّ اُدْخِلَ فِی الْمُنْعَمِیْنَ عَلَیْـھِمْ مِّنْ رَّبِّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِیْنَ وَ اِنَّہٗ کَانَ نُسْخَۃً اِجْـمَالِیَّۃً مِّنْ کِتَابِ النُّبُوَّۃِ وَ کَانَ اِمَامَ اَرْبَـابِ الْفَضْلِ وَ الْفُتُوَّۃِ وَ مِنْ بَقِیَّۃِ طِیْنِ النَّبِیِّیْنَ.بقیہ ترجمہ.سے ایسا گہرا تعلق تھا کہ آپ کی روح آنحضرت ؐ کی رُوحِ پاک سے متحد ہوچکی تھی اور آپ پر اُنہیں انوار کا نزول ہوگیا تھا جو آنحضرت ؐ کے شاملِ حال تھے اور آنحضرت ؐ کے انوار و فیوض عظیمہ آپ پر محیط تھے.اور فہمِ قرآن اور سیّد الرسل فخر بنی نوع انسانؐ کی محبت میں آپ تمام لوگوں سے ممتاز تھے.اور جب آپ پر روحانی عالم اور اسرارِ الٰہیہ کا دروازہ کھلا تو آپ نے عام دنیوی تعلقات اور جسمانی علائق کو چھوڑ دیا اور محبوب حقیقی کے رنگ میں رنگین ہوگئے اور خداوند ِ یکتا کی راہ میں ہر ایک مراد کو چھوڑ دیا اور جسمانی کدورتوں کا جامہ اُتار کر خدائی صفات کا جامہ پہن لیا اور رضائے الٰہی میں محو ہوگئے.اور جب عشقِ حقیقی آپ کے رگ و ریشہ میں اور ہر ذرّۂ وجود میں جاگزیں ہوگیا اور اس کے انوار آپ کے افعال واقوال اور نشست و برخاست میں نمایاں طور پر نظر آنے لگے تو آپ کو صدّیق کا نام دیا گیا اور تازہ اور باریک علوم خداوند تعالیٰ کی طرف سے عطاہوئے جس کے نتیجہ میں صدق آپ کی فطرت میں داخل ہوگیا اور طبعی عادت بن گیا اور اس کے آثارو انوار آپ کے ہر ایک قول وفعل اور ہر ایک حرکت و سکون میں نیز آپ کے حواس اور انفاسِ طیّبہ میں ظاہر ہوگئے اورآپ کو خداوندِ کریم نے اپنے خاص انعام یافتہ لوگوں میں داخل فرمایا اور حق یہ ہے کہ آپ کا وجود کتابِ نبوت کا ایک اجمالی نسخہ تھا اورآپ اربابِ فضل و کمال کے پیشوا اورانبیاء کی پاک سرشت سے بہرہ یاب تھے.
وَ لَا تَـحْسَبْ قَوْلَنَا ھٰذَا نَـوْعًا مِّنَ الْمُبَالَغَۃِ وَ لَا مِنْ قَبِیْلِ الْمُسَامَـحَۃِ وَ التَّجَوُّزِ وَ لَا مِنْ فَوْرِ عَیْنِ الْمَحَبَّۃِ بَلْ ھُوَ الْـحَقِیْقَۃُ الَّتِیْ ظَھَرَتْ عَلَـیَّ مِنْ حَضْـرَۃِ الْعِزَّۃِ.‘‘ (سـرّ الـخلافۃ.روحانی خزائن جلد۸ صفحہ ۳۵۵) ۱۸۹۴ء (الف) ’’ خدا تعالیٰ کے الہام نے مجھے جتلادیا کہ ڈپٹی عبداللہ آتھم نے اسلام کی عظمت اور اُس کے رعب کو تسلیم کرکے حق کی طرف رُجوع کرنے کا کسی قدر حصّہ لے لیا جس حصّہ نے اُس کے وعدہ موت اور کامل طور کے ہاویہ میں تاخیر ڈال دی اور ہاویہ میں تو گِرا لیکن اس بڑے ہاویہ سے تھوڑے دنوں کے لئے بچ گیا جس کا نام موت ہے… خدا تعالیٰ نے… مجھے فرمایا.اِطَّلَعَ؎۱ اللّٰہُ عَلٰی ھَمِّہٖ وَغَـمِّہٖ.وَلَنْ تَـجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا.وَلَا تَعْـجَبُوْا وَلَا تَـحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ.وَبِعِزَّتِیْ وَجَلَالِیْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی.وَ نُـمَزِّقُ الْاَعْدَآءَ کُلَّ مُـمَزَّقٍ.وَمَکْرُ اُوْلٰٓئِکَ ھُوَ یَـبُوْرُ.اِنَّـا نَکْشِفُ السِّـرَّ عَنْ سَاقِہٖ.یَـوْمَئِذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ.ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ.وَ ھٰذِہٖ تَذْکِرَۃٌ فَـمَنْ شَآءَ اتَّـخَذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلًا.ترجمہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس کے ہم ّ و غم پر اطلاع پائی اور اس کو مہلت دی.جب تک کہ وہ بے باکی اور سخت گوئی اور تکذیب کی طرف مَیل کرے اور خدا تعالیٰ کے احسان کو بھُلادے (یہ معنے فقرہ مذکورہ کے تفہیم الٰہی سے ہیں) اور پھر فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی یہی سنّت ہے اور تو ربّانی سنتوں میں تغیر اور تبدل نہیں پائے گا.اس فقرہ کے متعلق یہ تفہیم ہوئی کہ عادت اللہ اِسی طرح پر جاری ہے کہ وہ کسی پر عذاب نازل نہیں کرتا جب تک ایسے کامل بقیہ ترجمہ.میرا یہ کلام مبالغہ پر ہرگز مبنی نہیں ہے.نہ اس کی بِنا محض خوش اعتقادی پر ہے بلکہ یہ وہ حقیقت ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر ظاہر ہوئی ہے.۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) محترم ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے درویش قادیان منشی محمد اسمٰعیل صاحب سیالکوٹی سے روایت کرتےہیں کہ ’’جب آتھم کی میعاد کا آخری دن تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مسجد مبارک کی چھت پر تشریف لائے اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کو بلایا اور فرمایا کہ مجھے الہام ہوا ہے.اِطَّلَعَ اللّٰہُ عَلٰی ھَـمِّہٖ وَغَـمِّہٖ اور اس کی تفہیم یہ ہوئی ہے کہ ہٖ کی ضمیر آتھم کی طرف جاتی ہے اس لئے معلوم ہوا کہ وہ اس میعاد کے اندر نہیں مرے گا.‘‘ (اصحابِ احمد جلد اوّل صفحہ ۵۷، مطبوعہ ۱۹۵۱ء، ناشر شیخ محمد اسماعیل صاحب پا
(ج) ’’ بعض وقت ایک باریک پیشگوئی لوگوں کے امتحان کے لئے ہوتی ہے تا خدا تعالیٰ اُنہیں دکھلاوے کہ ان کی عقلیں کہاں تک ہیں اور ہم لکھ چکے ہیں کہ حدیث نبوی کی رُو سے اِس پیشگوئی میں کج دل لوگوں کا امتحان بھی منظور تھا اِس لئے باریک طور پر پوری ہوئی مگر اس کے اور بھی لوازم ہیں جو بعد میں ظاہر ہوں گے جیسا کہ کشف ِ ساق کی پیشگوئی اِس کی طرف اشارہ کرتی ہے.‘‘ (اشتہار ملحقہ ضیاء الحق.روحانی خزائن جلد۹ صفحہ ۳۱۹) ۱۸۹۴ء ’’ خدائے تعالیٰ نے کئی دفعہ میرے پر ظاہر کیا ہے کہ اِس جماعت پر ایک ابتلاء آنے والا ہے تا اللہ تعالیٰ دیکھے کہ کون سچا ہے اور کون کچا ہے.‘‘ (از مکتوب بنام نواب محمد علی خان صاحبؓ.مکتوبات احمدجلد ۲ صفحہ ۲۰۲ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸۹۴ء ’’اِس؎۱تحریر کے لکھنے کے بعد مجھ پر نیند غالب ہوگئی اور مَیں سو گیا اور خواب میں دیکھا کہ ۱ یعنی تحریر متعلق سعد اللہ لدھیانوی.(مرزا بشیر احمد) (نوٹ) حضرت مولانا مولوی حاجی حافظ نور الدین خلیفۃ المسیح اوّل ؓ فرماتے ہیں.’’میرا لڑکا عبدالحی۲؎ آیۃ اللہ ہے.محمد احمد مَر گیاتھا.لدھیانہ کے ایک معترض نے اس پر اعتراض کیا …مَیں نے اس لودھیانوی معترض کی تحریر کا کچھ بھی لحاظ نہ کیا اور اُس پر کوئی توجہ نہ کی مگر میرے آقا و امام نے اس پر توجہ کی تو اُس کو وہ بشارت ملی جو انوارالاسلام کے صفحہ ۲۶ (روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۲۷) پر درج ہے اور پھر اس کے چند برس بعد یہ بچہ جس کا نام عبدالحی ہے پیدا ہوا.کشف کے مطابق اس کے جسم پر بعض پھوڑے نکلے جن کے علاج میں میری طبابت گرو تھی.عبدالحی کو ان پھوڑوں کے باعث سخت تکلیف تھی اور وہ ساری رات اور دن بھر تڑپتا اور بے چین رہتا.جس کے ساتھ ہم کو بھی کرب ہوتا.مگر ہم مجبور تھے، کچھ نہ کرسکتے تھے.ان پھوڑوں کے علاج کی طرف بھی اس کشف میں ایما تھا اور اس کی ایک جُزو ہلدی تھی اور اس کے ساتھ ایک اور دوائی تھی جو یاد نہ رہی تھی.ہم نے اس کے اضطراب اور کرب کو دیکھ کر چاہا کہ ہلدی لگائیں.آپ نے کہا کہ مَیں جرأت نہیں کرسکتا کیونکہ اس کا دوسرا جُزو یاد نہیں.مگر ہم نے غلطی کھائی اور ہلدی لگادی.جس سے وہ بہت ہی تڑپا اور آخر ہم کو وہ دھونی پڑی.اس سے ہمارا ایمان تازہ ہوگیا کہ ہم کیسے ضعیف اور عاجز ہیں کہ اپنے قیاس اور فکر سے اتنی بات نہیں نکال سکے اور یہ مامور اور مُرسلوں کی جماعت ایک مشین اور کَلْ کی طرح ہوتے ہیں جس کے چلانے والا اللہ تعالیٰ ہی ہوتا ہے.اس کے بُلائے بغیر یہ نہیں بولتے.غرض میرا ایمان ان نشانوں سے بھی پہلے کا ہے اور یہ خدا کا فضل ہے کہ اس نے ہم کو نشان کے بغیر نہ چھوڑا.سینکڑوں نشان دکھادیئے.‘‘ (حقائق الفرقان جلد ۴ صفحہ ۱۱۵،۱۱۶ مطبوعہ ۲۰۰۵ء) ۲ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) یہ لڑکا اس پیشگوئی کے پانچ سال بعد ۱۵؍فروری ۱۸۹۹ء کو پید اہوا.جس کا نام عبدالحی رکھا گیا.
اخویم مولوی حکیم نور الدین صاحب ایک جگہ لیٹے ہوئے ہیں اور اُن کی گود میں ایک بچہ کھیلتا ہے جو اُنہیں کا ہے اور وہ بچہ خوش رنگ خوبصورت ہے اور آنکھیں بڑی بڑی ہیں.مَیں نے مولوی صاحب سے کہا کہ خدا نے بعوض محمد احمد آپ کو وہ لڑکا دیا کہ رنگ میں، شکل میں، طاقت میں اُس سے بدرجہا بہتر ہے اور مَیں دل میں کہتا ہوں کہ یہ تو اور بیوی کا لڑکا معلوم ہوتا ہے.کیونکہ پہلا لڑکا تو ضعیف الخلقت، بیمار سا اور نیم جان سا تھااور یہ تو قوی ہیکل اور خوش رنگ ہے اور پھر میرے دل میں یہ آیت گذری جس کا زبان سے سنانا یاد نہیں اور وہ یہ ہے.مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْنُنْسِھَا نَاْتِ بِـخَیْرٍ مِّنْـھَآ اَوْ مِثْلِھَا.اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ.؎۱ اور مَیں جانتا ہوں کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس عَدُوّالدین؎۲کا جواب ہے کیو نکہ اس نے عیسائیوں کا حامی بن کر اسلام پر حملہ کیا اور وہ بھی بے جا اور بے ایمانی سے بھرا ہوا حملہ، اور ایک جُزو اس خواب کی رہ گئی.مَیں نے دیکھا کہ اس بچہ کے بدن پر کچھ پھنسی یا ثُؤلُوْل کے مشابہ بخارات نکل رہے ہیں اور کوئی کہتا ہے کہ اس کا علاج ہلدی اور ایک اور چیز ہے.وَاللہُ اَعْلَمُ.‘‘ (انوار الاسلام.روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۲۶ تا ۲۸ بقیہ حاشیہ درحاشیہ) ۱۸۹۴ء ’’اولاد کے بارے میں میاں عبدالحق؎۳نے کوئی الہام تو پیش نہ کیا صرف طولِ امل ہے لیکن ہم کو اس بارہ میں بھی الہام ہوا اور اللہ جلّ شانہٗ نے بشارت دی اور فرمایا کہ اِنَّـا نُبَشِّـرُکَ بِغُلَامٍ یعنی ہم تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں؎۴.‘‘ (انوار الاسلام.روحانی خزائن جلد۹ صفحہ ۴۰ حاشیہ) ۱ (ترجمہ از مرتّب) جس نشان کو بھی ہم مٹادیں یا بھلوادیں اس سے بہتر دوسرا نشان یا اس جیسا نشان لاتےہیں.کیا تُو نہیں جانتا کہ خدا تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے.(البقرۃ: ۱۰۷) ۲ سعد اللہ لدھیانوی.(مرزا بشیر احمد) ۳ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یعنی میاں عبدالحق غزنوی ثُمَّ امرتسری.جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ مباہلہ کیا تھا.۴ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’ہمیں خدا تعالیٰ نے عبدالحق کی یاوہ گوئی کے جواب میں بشارت دی تھی کہ تجھے ایک لڑکا دیا جائے گاجیسا کہ ہم اسی رسالہ انوار الاسلام میں اس بشارت کو شائع بھی کرچکے ہیں.سو اَلْـحَمْدُ لِلہِ وَالْمِنَّۃِ کہ اس الہام کے مطابق ۲۷؍ذیقعد ۱۳۱۲ھ میں مطابق ۲۴؍مئی ۱۸۹۵ء میرے گھر میں لڑکا پیدا ہوا جس کا نام شریف احمد رکھا گیا.‘‘ (ٹائٹل ضیاء الحق صفحہ آخر.روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۳۲۳)
٭ ۱۷؍ اگست۱؎ ۱۸۹۴ء ’’ اِنِّیْ اَنَا الْوَدُوْدُ الْکَرِیْمُ.‘‘ ؎۲ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۷) ٭ ۱۸؍ اگست ۱۸۹۴ء ’’ اِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ ھُمْ مُّـحْسِنُوْنَ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۷) ترجمہ.خداان کے ساتھ ہے جو پرہیزگاری اختیارکرتے ہیں اوران کے ساتھ ہے جو نیکوکارہیں.(انجامِ آتھم.روحانی خزائن جلدنمبر۱۱ صفحہ۵۴،۵۵) ٭ ۲۲؍ اگست ۱۸۹۴ء ’’ وَ فِیْ ذَالِکُمْ بَلَاءٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ عَظِیْمٌ.‘‘ ؎۳ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۷) ٭ ۲۵؍ اگست ۱۸۹۴ء (الف) ’’اِنَّ النَّاسَ کَانُـوْا بِـاٰیَـاتِنَا یَـجْــحَدُوْنَ.‘‘ ؎۴ (ب) ’’ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ بِـاَنْفُسِھِمْ خَیْرًا.‘‘؎۵ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۷) ٭ ۲۶؍ اگست ۱۸۹۴ء ’’یَـوْمَئذٍ یَّـفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ.ثُـلَّـۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَثُـلَّـۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۷) ترجمہ.اس دن مومن خوش ہوں گے.ایک گروہ پہلوں میں سے اورایک گروہ پچھلوں میں سے.(انجامِ آتھم.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ۶۱،۶۲) ۱ (نوٹ از ناشر) یہاں ۱۸۹۴ء کے وہ الہامات درج کئے جاتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےایک کاپی میں درج فرمائے تھے اورجب ۱۹۳۵ء میں حضرت صاحبزادہ مرزابشیر احمد صاحب نے پہلی بار مرتّب کیا تھا اُس وقت یہ گم ہوچکی تھی.۱۹۳۸ء میں یہ کاپی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو مل گئی اور حضور نے اس کا ذکر اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۹؍اگست۱۹۳۸ء مطبوعہ الفضل جلد ۲۶نمبر۲۰۰ مورخہ ۳۱؍اگست ۱۹۳۸ء میں فرمایا تھا.بعد میں یہ کاپی دوبارہ کاغذات میں کہیں گم ہوگئی اور۱۹۸۳ء میں قادیان سے مل گئی.موجودہ کے متن میں یہ الہامات صفحہ ۲۳۴ تا ۲۴۳ درج ہیں اور ان پر ٭کا نشان لگادیا گیا ہے.۲ (ترجمہ از مرتّب) یقیناً مَیں بہت محبت کرنے والا مہربان ہوں.۳ (ترجمہ از مرتّب) اوراس میں تمہارے خدا کی طرف سے تمہارا بڑا اِمتحان ہے.۴ (ترجمہ از مرتّب) یقیناً لوگ ہمارے نشانوں کا انکارکرتے تھے.۵ (ترجمہ از مرتّب) مومنوں نے اپنے (لوگوں کے) بارہ میں نیک گمان کیا.
٭ ۲۶؍ اگست ۱۸۹۴ء (الف) ’’اِنَّـا نَکْشِفُ السِّـرَّ عَنْ سَاقِہٖ.(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۸) ترجمہ.ہم حقیقت کو اس کی پنڈلی سے کھول دیں گے.(انجامِ آتھم.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ۶۱) (ب) ’’وَ لَا تَعْــجَبُوْا وَ لَا تَـحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ.اِنَّکَ اَنْتَ الْاعْلٰی.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۸) ترجمہ.اورتعجب مت کرو اورغمناک مت ہو اور تم ہی غالب ہوگے اگر تم ایمان پر ثابت قدم رہے.یقیناً غلبہ تجھ ہی کو ہے.(انجامِ آتھم.روحانی خزائن جلد ۱۱صفحہ ۶۱) ٭ ۲۷؍ اگست ۱۸۹۴ء (الف) ’’ اِنِّیْ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَـھْدِیْنِ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۸) ترجمہ.بتحقیق میرا ربّ میرے ساتھ ہے وہ مجھے راہ بتلائے گا.(براہین احمدیہ ہر چہار حصص روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۶۳ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۴) (ب) ’’مَیں نے دیکھا کہ ایک طرف بَیت اللہ اور ایک طرف بَیت المقدس اور بیچ میں مَیں کھڑا ہوں.‘‘ (ج) ’’مَیں نے دیکھا کہ کچھ کیلے میرے سامنے رکھے ہیں اورایک کیلا مَیں نے حامد علی کودیا ہے.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۸) ٭ ۲۹؍اگست ۱۸۹۴ء ’’ لَـنْ تَـجِدَ لِسُنُّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۹) ترجمہ.تُو خدا کی سنّت میں تبدیلی نہیں پائے گا.(انجامِ آتھم.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۶۱) ٭ ۳۱؍ اگست ۱۸۹۴ء (الف) ’’اِطَّلَعَ اللہُ عَلیٰ ھَمِّہٖ وَغَـمِّہٖ.‘‘(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۸) ترجمہ.خدا اس کے اَیْ آتھم کے غم پر مطلع ہوا.(انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۶۱) (ب) ۱.اِطَّلَعَ اللہُ عَلٰی ھَمِّہٖ وَغَـمِّہٖ.۲.وَلَنْ تَـجِدَ لِسُنَّۃِ اللہِ تَبْدِیْلًا.۳..وَلَا تَعْـجَبُوْا وَ لَا تَـحْزَنُوْا.۴.وَفِیْ ذَالِکَ بَلَاءٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ عَظِیْمٌ.؎۱ ۵..وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ.۶.اِنَّا نَکْشِفُ السِّـرَّعَنْ سَاقِہٖ.۷.وَ نُـمَزِّقُ الْاَعْدَآءَ کُلَّ مُـمَزَّقٍ.۸.یَـوْمَئِذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ.۹.ثُلَّـۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَ ثُلَّـۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ.۱ (ترجمہ از مرتّب) ۴اور اس میں تمہارے رَبّ کی طرف سے عظیم ابتلاء ہے.
۱۰.ھٰذِہٖ تَذْکِرَۃٌ فَـمَنْ شَآءَ اتَّـخَذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلًا.( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۹) ترجمہ.۱خدا اس کے اَیْ آتھم کے غم پر مطلع ہوا.۲یہ خدا کی سُنّت ہے اورتُو خدا کی سُنّت میں تبدیلی نہیں پائے گا ۳اورتعجب مَت کرو اورغمناک مَت ہو.۵اور تم ہی غالب ہو اگر تم ایمان پر ثابت قدم رہے ۶اورہم حقیقت کو اس کی پنڈلی سے کھول دیں گے ۷اورہم دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیں گے.۸اس دن مومن خوش ہوں گے ۹اور گروہ پہلوں میں سے اورایک پچھلوں میں سے.۱۰یہ ہے جو چاہے خدا کی راہ کو اختیار کرے.(انجامِ آتھم.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۶۱، ۶۲) ٭ یکم ستمبر۱۸۹۴ء ’’ اَلْـحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ اَذْھَبَ عَنِّی الْـحُزْنَ.‘‘ ( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۰) ترجمہ.اس خدا کو تعریف جس نے میرا غم دُور کیا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۱۰) ٭ ۲؍ ستمبر۱۸۹۴ء (الف) ’’میں نے دیکھا کہ کئی انار میرے پاس رکھے ہیں اور ایک انار مَیں نے اپنے ہاتھ میں لیا ہے.‘‘ ( ب) ’’ وَ مَکْرُ اُوْلٰٓئِکَ ھُوَیَبُوْرُ.‘‘ ’’اَیْ یَـھْلِکُ بَعْدَ وُجُوْدِھَا وَ تَـجَسُّمِھَا.وَیَـمُوْتُ بَعْدَ حَیَاتِـھَا فِیْ اَعْیُنِ النَّاسِ.‘‘ ؎۱ ( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۰) ترجمہ.اور ان کا مَکر ہلاک ہوجائے گا.(انجامِ آتھم.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۶۱) ( ج) ’’کَمِثْلِکَ دُرٌّ لَّا یُضَاعُ.‘‘ ( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۰) ترجمہ.تیرے جیسا موتی ضائع نہیں کیا جاتا.(انجامِ آتھم.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۵۵) ( د ) ’’عَسٰی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَ عَسٰی اَنْ تُـحِبُّوْا شَیْئًاوَّ ھُوَ شَـرٌّ لَّکُمْ وَ اللہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْن.‘‘ ( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۰، ۱۱) ترجمہ.یہ ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو بُری سمجھو اور وہ اصل میں تمہارے لیے اچھی ہو اور ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو دوست رکھو اوروہ اصل میں تمہارے لئے بُری ہو اورخدا چیزوں کی اصل حقیقت کو جانتا ہےاور تم نہیں جانتے.(براہین احمدیہ ہر چہار حصص.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۴۳۱ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۱۱) ۱ (ترجمہ از مرتّب) یعنی اس کے وجود پانے اور جسم اختیار کرنے کے بعد وہ ہلاک ہوجائے گا اورلوگوں کی نظرمیں اس کی حیات کے بعد وہ مَرجائے گا.
٭ ۱۴؍ ستمبر۱۸۹۴ء ’’ وَقْتُ الْاِ.بْتِلَاءِ وَ وَقْتُ الْاِصْطِفَاءِ وَ لَا یُرَدُّ وَقْتُ الْعَذَابِ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ.( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۱) ترجمہ.اِبتلاء کا وقت ہے اور اصطفاء کا وقت ہے اورعذاب کا وقت مجرموں کے سر پر سے کبھی نہیں ٹل سکتا.(انجامِ آتھم.روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ ۵۷) ٭ ۱۸ستمبر۱۸۹۴ء (الف)’’ لَنْ یَّـجْعَلَ اللہُ لِلْکَافِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلًا.‘‘ ( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۱) ترجمہ.خدا ہرگز ایسا نہیں کرے گا کہ کافروں کا مومنوں پر کچھ الزام ہو.(انجامِ آتھم.روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ ۵۹) (ب) ’’ داغِ ہجرت‘‘ ( ج ) ’’وَ مَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللہُ وَاللہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ ثُمَّ یَتَقَضّٰی عَلَی الْمَاکِرِیْنَ.‘‘ ؎۱ ( د) ’’…؎۲الرّوائـح قَـالُوْاسَاحِرٌ کَـذَّابٌ؎۳.‘‘ ( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۱) ( ھ) ’’ اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَالْاَ بْتَرُ.‘‘ ( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۲) ترجمہ.تیرابدگو بے خیر ہے یعنی خدا اسے بے نشان کردے گا اور وہ نامراد مرے گا.(انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۵۸) ( و) ’’عَسٰی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَعَسٰی اَنْ تُـحِبُّوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ شَـرٌّ لَّکُمْ.وَاللہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْنَ.‘‘ ( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۲) ترجمہ.یہ ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو بُری سمجھو اور وہ اصل میں تمہارے لیے اچھی ہو اور ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو دوست رکھو اوروہ اصل میں تمہارے لئے بُری ہو اورخدا چیزوں کی اصل حقیقت کو جانتا ہےاور تم نہیں جانتے.(براہین احمدیہ ہر چہار حصص.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۴۳۱ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۱۱) ( ز) ’’وَ ذَرْنِیْ وَالْمُکَذِّبِیْنَ اُوْلِی النِّعْمَۃِ.‘‘ ( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۲) ترجمہ.اورمنعم مکذّبوں کی سزا مجھ پر چھوڑدے.(انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۵۵) ۱ (ترجمہ از مرتّب) اور انہوں نے بھی تدبیریں کیں اور اللہ نے بھی تدبیریں کیں اور اللہ تدبیر کرنے والوں میں سے سب سے بہتر ہے.پھر وہ تدبیر کرنے والوں پر جھپٹ پڑے گا.۲ (نوٹ) یہ الفاظ پڑھے نہیں جاسکے.(ناشر) ۳ (ترجمہ ازمرتّب) انہوں نے کہا کہ یہ شخص جادوگراوربہت بڑا جھوٹا ہے.
(ح) ’’خُذْھَاوَ لَا تَـخَفْ سَنُعِیدُ ھَا سِیْرَتَـھَا الْاُوْلٰی.‘‘؎۱ ( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۲) (ط) ’’ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ.‘‘ ؎۲ ( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۱، ۱۲) ۲۹؍ستمبر۱۸۹۴ء ’’آخر اے مُردار! دیکھے گا کہ تیرا کیا انجام ہوگا.اے عَدُوَّ اللہ! تو مجھ سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ سے لڑ رہا ہے.بخدا مجھے اسی وقت ۲۹؍ستمبر ۱۸۹۴ء کو تیری نسبت الہام ہوا ہے.اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَالْاَ بْتَرُ.‘‘ ؎۳ (انوار الاسلام.روحانی خزائن جلد۹صفحہ ۸۵،۸۶) ترجمہ.تیرا بد گو بے خیر ہے یعنی خدا اسے بے نشان کردے گااور وہ نامراد مرے گا.(انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۵۸) ٭ ۳۰؍ستمبر۱۸۹۴ء (الف) ’’اِنَّـا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۲) ترجمہ.ہم نے تجھ کو کھلی کھلی فتح دی ہے.(انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۶۱) (ب) ’’ اَنْتَ مَعِیْ وَمَنْ مَّعَکَ.‘‘.؎۴ ( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۲) ٭ ۳؍اکتوبر۱۸۹۴ء ’’ قَدْ جَآءَکُمُ الْفَتْحُ.‘‘؎۵ ( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۲) ٭ ۵؍اکتوبر۱۸۹۴ء ’’یَـا نُـوْحُ اَسِـرِّ رُؤْیَـاکَ.‘‘ ( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۳) ترجمہ.اے نوح! اپنے خواب کو پوشیدہ رکھ.(انجام آتھم.روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ ۶۱) ۱ (ترجمہ از مرتّب) اسے پکڑلے اورخوف مت کر.ہم اس کی پہلی خصلت پھر اُس میں ڈال دیں گے.۲ (ترجمہ از مرتّب) آج مَیں نے تمہارا دین تمہارے لئے مکمل کردیا ہے.۳ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یہ شخص یعنی سعد اللہ لدھیانوی جنوری ۱۹۰۷ء کے پہلے ہفتہ میں نمونیا پلیگ سے مَرگیا.اس کے مَرنے کے کچھ عرصہ بعد یعنی ۱۲؍جولائی ۱۹۲۶ء کو اس کا اکلوتا بیٹا محمودؔنامی بھی جو اِس الہام سے پہلے کا تھا موضع کوم کلاں ضلع لدھیانہ میں لاولد فوت ہوگیا اور اِس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق سعد اللہ کی نسل منقطع ہوگئی.۴ (ترجمہ از مرتّب) تُو میرے ساتھ اور ان کے ساتھ ہے جو تیرے ساتھ ہیں.۵ (ترجمہ از مرتّب) فتح تمہارے پاس آگئی ہے.
٭ ۱۱؍اکتوبر۱۸۹۴ء ’’عبداللہ آتھم کی نسبت.لَيُنْۢبَذَنَّ فِی الْـحُطَمَۃِ.‘‘ ( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۳) ترجمہ.اورآتھم نابودکرنے والی آگ میں ڈال دیا جاوے گا.(انجامِ آتھم.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۶۲) ٭ ۱۲؍اکتوبر۱۸۹۴ء ’’اِنَّ النَّصَارٰی حَوَّلُوا الْاَمْرَ.‘‘؎۱ ( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۳) اکتوبر۱۸۹۴ء ’’بعض نادان عیسائیوں کا یہ کہنا کہ جو ہونا تھا ہوچکا عجیب حماقت اور بے دینی ہے.وہ اس امر واقعی کو کیوں کر اور کہاں چھپا سکتے ہیں کہ وہ پہلی؎۲پیشگوئی دو پہلو پر مشتمل تھی.پس اگر ایک ہی پہلو پر مدار فیصلہ رکھا جائے تو اِس سے بڑھ کر کونسی بے ایمانی ہوگی اور دوسرے پہلو کے امتحان کا وہی ذریعہ ہے جو الٰہی تفہیم نے میرے پر ظاہر کیا.یعنی یہ کہ آپ قسم مؤکد بعذاب موت کھا جائیں.‘‘ (انوار الاسلام روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۹۴) ٭ ۴؍نومبر۱۸۹۴ء ’’اِس تاریخ مَیں نے دیکھا کہ ایک سانپ مَیں نے قتل کیا اورایک سانپ سے مَیں بھاگا ہوں.‘‘ ( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۳) ٭ ۵؍نومبر۱۸۹۴ء (الف) ’’اِس تاریخ یہ اِلہام ہوا.بررُوئے مَن انوار ھا بتافت.‘‘ ؎۳ (ب) ’’بررُوئے مَن انوارسعادت بتافت.‘‘ ؎۴ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۳) (ج) ’’ فَبَرَّاَہُ اللہُ مِـمَّا قَالُوْا وَ کَانَ عِنْدَاللہِ وَجِیْـھًا.‘‘ ترجمہ.سو خدا نے ان کے الزاموں سے اس کوبَری کیا اوروہ خدا کے نزدیک ایک وجیہہ ہے.(انجامِ آتھم.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۵۸)۱ (ترجمہ از مرتّب) نصارٰی نے حقیقت کو بدل دیا ہے.۲ (نوٹ از سیّد عبد الحی) یعنی عبداللہ آتھم والی پیشگوئی کہ ۱۵ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاوے گا بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے.۳ (ترجمہ از مرتّب) میرے چہرہ پر اس کے انوار ہوَیدا ہیں.۴ (ترجمہ از مرتّب) میرے چہرہ پر خوش بختی کے انوار ہَویدا ہیں.
(د) اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَـھْدِیْنِ.( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۳) ترجمہ.بتحقیق میرا رَبّ میرے ساتھ ہے وہ مجھے راہ بتلائے گا.(براہین احمدیہ ہر چہار حصص.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۶۳ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۴) ۱۸۹۴ء ’’جب آتھم نے قسم کھانے سے انکار کیا تب فیصلہ کے لئے دوسرا الہام یہ ہوا کہ اگر آتھم اس دعوے میں سچا ہے کہ اُس نے رجوع نہیں کیا تو وہ عمر پائے گا اور اگر جھوٹا ہے تو جلد مر جائے گا.‘‘ (ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۳۲۶حاشیہ) ٭ ۵؍دسمبر۱۸۹۴ء ’’۵؍دسمبر ۱۸۹۴ء کو میں نے خواب دیکھا کہ اوّل گویا محمود کے کپڑوں کو آگ لگی ہے اور مَیں نے بجھادی ہے اور پھر ایک اور شخص کے آگ لگی اورمَیں نے بُجھا دی ہے اور پھر میرے کپڑوں کو آگ لگادی ہے اور مَیں نے اپنے اُوپر پانی ڈال لیا ہے اور آگ بُجھ گئی ہے مگر کچھ سیاہ داغ سا بازو پر نمودار ہے اور خیر ہے.اُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلَی اللہِ.‘‘ ( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۴) ٭ ۱۱؍دسمبر۱۸۹۴ء بروزمنگل ’’ وقت ۱۲ منٹ دو گھنٹے یَـوْمُ الثُّـلُـثَاءِ رَأَیْتُ فِیْ ھٰذَا الْوَقْتِ کَاَنَّ حَامِد عَلِیْ دَخَلَ فِیْ ھٰذِہِ الْـحُـجْرَۃِ وَ فِیْ یَدِہٖ فَــخِذَانِ مِنْ شَاۃٍ مَسْلُوْخَۃٍ.فَنُفَوِّضُ اَمْرَنَـا اِلٰی اللہِ وَ نَسْئَلُہٗ خَیْرًا وَّ عَافِیَۃً.رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَاحْفَظْنَامِنْ کُلِّ بَلَاءٍ وَاحْفَظْنَا مِنْ خِزْیِ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ.‘‘ ؎۱ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۵) ٭ ۱۲؍دسمبر۱۸۹۴ء ’’ یَـوْمُ الْاَرْبَعَاءِ رَأَیْتُ فِیْ ھٰذِہِ اللَّیْلَۃِ کَاَنِّیْ عَلٰی مَکَانِ مُـحَمَّد حُسَیْن وَ اِنَّا صَلَّیْنَا وَظَنَنْتُ اَنِّیْ اِمَامٌ ۱ (ترجمہ از مرتّب) اس وقت مَیں نے دیکھا کہ گویا حامد علی اس کمرہ میں داخل ہؤا ہے اور اس کے ہاتھ میں کھال اُتری ہوئی بکری کی دورانیں ہیں.پس ہم اپنا معاملہ خدا کے سپردکرتے ہیں اور اس سے بہتری اور عافیّت کے طالب ہیں.اے ہمارے رَبّ! ہمارے قصورمعاف فرما اورہمیں ہر مصیبت سے بچا اورہمیں دنیا و آخرت کی رسوائی سے بھی محفوظ رکھ.
وَاخْطَأْ تُ فِیْ جَھْرِالْفَاتِـحَۃِ…… وَقُلْتُ لِمَ لَمْ تَـمْنَعُوْنِیْ مِنَ الْـجَھْرِ.ثُمَّ ظَنَنْتُ اَنِّیْ کَبَّرْتُ جَھْرًا وَ مَا قَرَأْتُ الْفَاتِـحَۃَ وَ مَا اَتَذَکَّرُ اَنَّ مُـحَمَّد حُسَیْن کَانَ مَعَنَافِی الصَّلٰوۃِ اَوْ اَدَّی قَبْلَنَا الصَّلٰوۃَ ثُمَّ اِذَا فَرَغْنَا مِنَ الصَّلٰوۃِ کُنْتُ جَالِسًا عَلٰی مُقَابَلَۃِ مُـحَمَّد حُسَیْن عَلٰی فِرَاشٍ وَ اَظُنُّ اَنَّہٗ کَانَ فِیْ ھٰذَا الْوَقْتِ اَسْوَدَ اللَّوْنِ کَالْعُرْیَانِ وَکَانَ لَوْنُہٗ مَائِلًا اِلَی السَّوَادِ فَاَخَذَنِیَ الْـحَیَاءُ اَنْ اَنْظُرَاِلَیْہِ…… وَاَظُنُّ اَنِّیْ قُلْتُ لَہٗ ھَلْ لَکَ اَنْ تُصَالِـحَ وَتَـمِیْلَ اِلَی السِّلْمِ قَالَ نَعَمْ فَدَنٰی مِنِّیْ حَتّٰی عَانَقَنِیْ جَالِسًافَقُلْتُ اَتَغْفِرُلِیْ کُلَّ مَا قُلْتُ فِیْ شَأْنِکَ مِنْ کَلِمَاتٍ تُؤْذِیْکَ فَاِنْ شِئْتَ فَاغْفِرْ وَ اُرِیْدُ اَنْ لَّایَبْقٰی لَکَ غِلٌّ وَنَـزَاعٌ یَـوْمَ نُـحْشَـرُوَ نَقُوْمُ اَمَامَ اللّٰہِ تَعَالٰی قَالَ غَفَرْتُ لَکَ قُلْتُ فَاشْھَدْ اَنِّیْ غَفَرْتُ لَکَ کُلَّ مَا جَرٰی عَلٰی لِسَانِکَ مِنْ تَکْفِیْرِیْ وَتَکْذِیْبِیْ وَغَیْرَ ذٰلِکَ ثُمَّ قُـمْتُ وَ تَذَکَّرْتُ رُؤْ یًا فِیْ ھٰذَا الْبَابِ وَقُلْتُ یَعْلَمُ الْـحَاضِرُوْنَ مِنْ اَتْبَاعِیْ اَنِّیْ رَأَیْتُ مِنْ قَبْلُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ ثُمَّ نَادَا مُنَادٍ اَنَّ رَجُلًا اَلْمُسَمّٰی سُلْطَان بیگ فِیْ حَالَۃِ الْاِحْتِضَارِ فَقُلْتُ سَیَمُوْتُ وَ رَأَیْتُ مِنْ قَبلُ اَنَّ الْمُصَالَـحَۃَ یَکُوْنُ فِیْ یَـوْمِ مَوْتِہٖ.وَقُلْتُ لَہٗ اَنِّیْ رَأَیْتُ مِنْ قَبْلُ فِیْ مَنَامِیْ اَنَّ مِنْ عَلَامَاتِ الْمُصَالَـحَۃِ اَنَّہٗ یَـوْمَئِذٍ یَـمُوْتُ بَـھَاءُ الدِّیْنِ فَتَبَسَّمَ مُـحَمَّد حُسَیْن وَ عَـجِبَ عَـجَبًا شَدِیْدًا وَقَالَ ھٰذَا حَقٌّ اِنَّ بَـھَاؤُ الدِّیْن قَدْ مَاتَ فَکَاَنَّہٗ اِسْتَعْظَمَ شَانَ ھٰذَا الْـخَبَرِ ثُمَّ انْتَقَلَ مِنْ مَّکَانٍ اِلٰی مَکَانٍ اٰخَرَالَّذِیْ کَانَ فِیْ بَیْتٍ وَاحِدٍ فَقَصَدْتُّ اَنْ اَدْعُوْہُ اِلٰی مَآئِدَۃٍ نَوَیْتُ اَنْ أُھَیِّئُـھَا لَہٗ فَـجِئْتُہٗ بِـمَکَانٍ کَانَ فِیْہِ وَقُلْتُ اِقْبَلْ دَعْوَتِی الْیَوْمَ فَاعْتَذَرَ اِعْتِذَارًا خَفِیْفًا ثُمَّ قَبِلَ وَقَالَ سَأَجِیْءُ وَ قُلْتُ اِنِّیْ رَأَیْتُ قَبْلَ ھٰذَا اَنَّ الْمُصَالِـحَۃَ یَکُوْنُ بِلَا وَاسِطَۃِ اَحَدٍ وَ لَا یَکُوْنُ بَیْنِیْ وَبَیْنَکَ اَحَدٌ.فَکَانَ کَمَا رَأَیْتُ وَ رَأَیْتُہٗ عِنْدَ الْمُعَانَقَۃِ کَاَنَّہٗ طِفْلٌ صَغِیْرٌ اَسْوَدُ اللَّوْنِ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۶ تا ۱۹) اِس رؤیا کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سراجِ منیر میں یوں فرمایا ہے.’’ ایک مرتبہ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ گویا مَیں محمد حسین ؎۱ کے مکان پر گیا ہوں اور میرے ساتھ ایک جماعت ہے اور ہم نے وہیں نماز پڑھی اور مَیں نے امامت کرائی اور مجھے خیال گذرا کہ مجھ سے نماز میں یہ غلطی ہوئی ہے کہ مَیں نے ظہر یا عصر کی نماز میں سورۂ فاتحہ کو بلند آواز سے پڑھنا شروع کردیا تھا.پھر مجھے معلوم ہوا کہ ۱ مولوی محمد حسین بٹالوی.(شمس)
مَیں نے سورۂ فاتحہ بلند آواز سے نہیں پڑھی بلکہ صرف تکبیر بلند آواز سے کہی پھر جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ محمد حسین ہمارے مقابل پر بیٹھا ہے اور اس وقت مجھے اُس کا سیاہ رنگ معلوم ہوتا ہے اور بالکل برہنہ ہے.پس مجھے شرم آئی کہ مَیں اُس کی طرف نظر کروں.پس اُسی حال میں وہ میرے پاس آگیا.مَیں نے اُسے کہا کہ کیا وقت نہیں آیا کہ تُو صلح کرے اور کیا تُو چاہتا ہے کہ تجھ سے صلح کی جائے.اُس نےکہا کہ ہاں.پس وہ بہت نزدیک آیا اور بغل گیر؎۱ہوا اور وہ اس وقت چھوٹے بچہ کی طرح تھا.پھر مَیں نے کہا کہ اگر تُو چاہے تو ان باتوں سے درگذر کر جو مَیں نے تیرے حق میں کہیں جن سے تجھے دکھ پہنچا.اور خوب یاد رکھ کہ مَیں نے کچھ نہیں کہا مگر صحت نیت سے اور ہم ڈرتے ہیں خدا کے اس بھاری دن سے جبکہ ہم اس کے سامنے کھڑے ہوں گے اس نے کہا کہ مَیں نے درگذر کی.تب میں نے کہا کہ گواہ رہ کہ مَیں نے وہ تمام باتیں تجھے بخش دیں جو تیری زبان پر جاری ہوئیں اور تیری تکفیر اور تکذیب کو مَیں نے معاف کیا.اس کے بعد ہی وہ اپنے اصلی قد پر نظر آیا اور سفید کپڑے نظر آئے.پھر مَیں نے کہا جیسا کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا آج وہ پورا ہوگیا.پھر ایک آواز دینے والے نے آواز دی کہ ایک شخص جس کا نام سلطان بیگ ہے جان کُندن میں ہے.مَیں نے کہا کہ اب عنقریب وہ مرجائے گا کیونکہ مجھے خواب میں دکھلایا گیا ہے کہ اُس کی موت کے دن صلح ہوگی.پھر مَیں نے محمد حسین کو یہ کہا کہ مَیں نے خواب میں یہ دیکھا تھا کہ صلح کے دن کی یہ نشانی ہے کہ اُس دن بہاؤالدین فوت ہوجائے گا.محمد حسین نے اِس بات کو سن کر نہایت تعظیم کی نظر سے دیکھا اور ایسا تعجب کیا جیسا کہ ایک شخص ایک واقعہ صحیحہ کی عظمت سے تعجب کرتا ہے اور کہا یہ بالکل سچ ہے اور واقعی بہاؤ الدین فوت ہوگیا.پھر مَیں نے اس کی دعوت کی اور اُس نے ایک خفیف عُذر کے بعد دعوت کو قبول کرلیا اور پھر مَیں نے اُس کو کہا کہ مَیں نے خواب میں یہ بھی دیکھا تھا کہ صُلح بلاواسطہ ہوگی.سو جیسا کہ دیکھا تھا ویسا ہی ظہور میں آگیا اور یہ بدھ کا دن اور تاریخ ۱۲؍دسمبر ۱۸۹۴ء تھی.‘‘ (سراج منیر.روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۸۰،۸۱)۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یہ رؤیا حضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں پوری ہوئی چنانچہ حضور فرماتے ہیں.’’ جب میرا زمانہ آیا تو اللہ تعالیٰ نے اُن کے دل میں ندامت پیدا کی.چنانچہ میں ایک دفعہ بٹالہ گیا تو وہ خود مجھ سے ملنے کے لئے آئے اور مَیں نے دیکھا کہ اُن پر سخت ندامت طاری تھی … پھر اللہ تعالیٰ نے اِس رؤیا کو اس رنگ میں بھی پورا فرما دیا کہ ان کے دو لڑکے تعلیم حاصل کرنے کے لئے قادیان آئے اور انہوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی.‘‘ (الفضل مورخہ ۲۰؍جولائی ۱۹۴۴ء صفحہ ۲)
٭ ۲۱؍دسمبر۱۸۹۴ء (الف) ’’ فَاَجَآءَھَاالْمَخاضُ اِلٰی جِذْعِ النَّخْلَۃِ.قَالَتْ یَا لَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ھٰذَا.فَوَقَاھُمُ اللہُ مِنْ شَـرِّ ذَالِکَ الْیَوْمِ.؎۱ اس وقت مَیں نے دیکھا کہ میری بیوی اس گھر کے اندرکے دالان میں گھبرائی دردِ زِہ میں اضطراب کرتی ہوئی میری چارپائی تک پہونچی ہے.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۹) (ب) ’’ یَـا مَسِیْحَ الْـخَلْقِ عَدْ وَانَـا.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۹) (ترجمہ) اے مسیح جو خلقت کی بھلائی کے لئے بھیجا گیا.ہماری طاعون کے دفع کے لئے مددکر.(ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۴۰۳) مارچ ۱۸۹۵ء ’’کچھ تھوڑے دن ہوئے ہیں کہ مجھ کو خواب آیا تھا کہ ایک جگہ مَیں بیٹھا ہوں.یک دفعہ کیا دیکھتا ہوں کہ غیب سے کسی قدر روپیہ میرے سامنے موجود ہوگیا ہے.مَیں حیران ہوا کہ کہاں سے آیا.آخر میری یہ رائے ٹھہری کہ خدا تعالیٰ کے فرشتہ نے ہماری حاجات کے لئے یہاں رکھ دیا ہے.پھر ساتھ الہام ہوا کہ اِنِّیْ مُرْسِلٌ اِلَیْکُمْ ھَدِیَّۃً کہ مَیں تمہاری طرف ہدیہ بھیجتا ہوں اور ساتھ ہی میرے دل میں پڑا کہ اس کی یہی تعبیر ہے کہ ہمارے مخلص دوست حاجی سیٹھ عبدالرحمٰن صاحب اس فرشتہ کے رنگ میں متمثل کئے گئے ہوں گے اور غالباً وہ روپیہ بھیجیں گے اورمَیں نے اس خواب کو عربی زبان میں اپنی کتاب میں لکھ لیا چنانچہ کل اس کی تصدیق ہوگئی.اَلْـحَمْدُ لِلہِ.یہ قبولیت کی نشانی ہے کہ مولیٰ کریم نے خواب اور الہام سے تصدیق فرمائی.‘‘ (از مکتوب بنام سیٹھ عبدالرحمٰن صاحبؓ مدراسی.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۳۴۳، ۳۴۴ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) اپریل ۱۸۹۵ء ’’اَوْحٰی اِلَـیَّ اَنَّ الدِّیْنَ ھُوَالْاِسْلَامُ وَاَنَّ الرَّسُوْلَ ھُوَالْمُصْطَفَی السَّیِّدُ الْاِمَامُ.رَسُوْلٌ اُمِّـیٌّ اَمِیْنٌ.فَکَمَآ اَنَّ رَبُّنَا اَحَدٌ یَسْتَحِقُّ الْعِبَادَۃَ وَحْدَہٗ فَکَذَالِکَ رَسُوْلُنَا الْمُطَاعُ وَاحِدٌ لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ وَ لَا شَـرِیْکَ مَعَہٗ وَ اَنَّہٗ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ.(خدا تعالیٰ نے ) مجھے الہام کیا کہ دین اللہ اسلام ہی ہے اور سچا رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سردار امام ۱ (ترجمہ از مرتّب) پھر اس (عورت) کو دردِ زِہ کھجور کے تنے کی طرف لے گئ.تب اس نے کہا کاش مَیں اس سے پہلے مَرجاتی.پھرخدا نے انہیں اس دن کی خرابی سے بچالیا.
۲۴؍ مئی ۱۸۹۵ء ’’ جب یہ۱؎ پیدا ہوا تھا تو اُس وقت عالم کشف۲؎ میں مَیں نے دیکھا کہ آسمان پر سے ایک روپیہ اُترا اور میرے ہاتھ پر رکھا گیا.اس پر لکھا تھا.مُعَـمَّـــرُ اللّٰہِ.‘‘۳؎ (بدرؔ جلد ۶ نمبر ۱،۲ مورخہ ۱۰؍ جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۱۸۹۵ء ’’ مجھے اپنے مرض ذیابیطس کی و جہ سے آنکھوں کا بہت اندیشہ تھا کیونکہ اس مرض کے غلبہ سے آنکھ کی بینائی کم ہو جایا کرتی ہے اور نزول الماء ہوجاتا ہے.اِس اندیشہ کی و جہ سے دعا کی گئی تو الہام ہوا کہ نَـزَلَتِ الرَّحْـمَۃُ عَلٰی ثَلٰثٍ اَلْعَیْنِ وَ عَلَی الْاُخْرَیَیْنِ.‘‘ یعنی رحمت تین اعضا پر نازل ہوگی ایک تو آنکھ اور دو اَور عضو.اس جگہ آنکھ کا ذکر تو کردیا لیکن باقی دو اعضا کی تصریح نہیں فرمائی مگر لوگ کہا کرتے ہیں کہ زندگی کا لُطف تین عضو کے بقا میں ہے.آنکھ، کانؔ، پرانؔ.اس الہام کے پورا ہونے کی کیفیت اس سے معلوم ہوسکتی ہے کہ قریباً اٹھارہ سال سے یہ مرض مجھے لاحق ہےاور ڈاکٹر اور حکیم لوگ جانتے ہیں کہ اس مرض میں آنکھوں کو کیسا اندیشہ ہوتا ہے پھر کونسی طاقت ہے جس نے پہلے سے خبر دے دی کہ یہ قانون تجھ پر توڑ دیا جائے گا اور بعد میں ایسا ہی کرکے دکھا دیا.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۵۹۲،۵۹۳) دسمبر ۱۸۹۵ء ’’ میں نے اس تاریخ سے پہلے جو جمادی الثانی ۱۳۱۳ھ روز شنبہ مطابق ۷؍دسمبر ۱۸۹۵ء ہے دیکھا تھا کہ میرے تینوں لڑکے ایک جگہ بیٹھے ہیں اور مَیں کہتا ہوں یعنی ان کو مخاطب کرکے کہ ہم میں اور تم میں صرف ایک دن کی میعاد ہے.اس کی مَیں نے یہ تعبیر کی ہے کہ یہ چوتھے لڑکے کی روح مجھ میں بولی ہے.‘‘ (رجسٹر متفرق یادداشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۰۴) ۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) مراد حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ ہیں.یہ رؤیا حضورؑ نے جنوری ۱۹۰۷ء میں بیان فرمائی ہے مگر چونکہ ساتھ فرما دیا ہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کی پیدائش کے وقت دیکھی تھی.اِس لئے اسے صاحبزادہ موصوف کی پیدائش کے سن کے الہامات و کشوف میں درج کیا گیا ہے.۲ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ میں یہ کشف ان الفاظ میں درج ہے.’’جب یہ پیدا ہوا تھا تو اُس وقت عالمِ کشف میں آسمان پر ایک ستارہ دیکھا تھا جس پر لکھا تھا.مُعَـمَّـــرُ اللّٰہِ.‘‘ ۳ (ترجمہ از مرتّب) خدا کی طرف سے عمر پانے والا.
۲۷؍ جنوری ۱۸۹۶ء ’’رَاَیْتُ؎۱ کَاَنَّ مَسْجِدًا اَعْنِی الْمَسْجِدَ الَّذِیْ وَقَعَ عِنْدَ السُّوْقِ قَدْ ھُدِّمَتْ.وَھَدَّمَہٗ رَجُلٌ.وَھَدَّمَ مَعَہٗ مَکَانًا لَّنَا.وَ اَنَا اَقُوْلُ کَانَ ھٰذَا مَسْجِدًا فَنُفَوِّضُ الْاَمْرَ اِلَی اللّٰہِ.‘‘ ؎۲ (رجسٹر متفرق یادداشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۱۹) ۱۶؍ مارچ ۱۸۹۶ء ’’عین ایک بجے رات پر ۲۹؍ رمضان شب دوشنبہ کو یعنی ۱۶؍مارچ ۱۸۹۶ء کو مَیں نے امام علی شاہ کو خواب میں دیکھا.گویا پہلے مَیں ان کے مکان پر گیا اور پھر وہ میرے چھوڑنے کے لئے ایک جماعت کے ساتھ آئے جو شاید قریب ۱۰دس آدمی کے ہوں گے اور انہوں نے مجھ سے میرا طریق پوچھا اور مَیں نے بجواب ان کے فارسی زبان میں ان کو کہا کہ ’’ آنچہ؎۳ در ذکر لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مے کردید آں نظر اجمالی بود وناقص.و آنچہ ما مے کنیم آں نظر مبسوط است و محیط.بہ بینیدایں طریق است کہ کارِشما مثل غنچہ بود وہمہ اجزا نہفتہ (اس میں مَیں نے ہاتھ کو غنچہ کی شکل بناکر دکھلایا) پھر مَیں نے کہا.و کار ماہمہ شگفتہ است و مثلِ گل.و در ذکرِ ما نظر بر ھمہ تفاصیل نفی غیر عبور مےکند.و ایں چنیں شکل است.(پھر مَیں نے ہاتھ کو غنچہءِ شگفتہ کی طرح کرکے دکھلایا) اورکہا بہ بینید ایں چنیں است لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ.ایں نفی برہمہ اجزاء ز روئے تفصیل است.میں نے جب یہ بات ۱ (ترجمہ از مرتّب) مَیں نے دیکھا گویا مسجد یعنی وہ مسجد جو بازار کے پاس ہے گرادی گئی ہے اور اس کو ایک شخص نے گرایا ہے اور اس کے ساتھ ایک اور مکان کو بھی جو ہمارا تھا گرادیا ہے اور مَیں کہتا ہوں کہ یہ تو مسجد تھی.پس ہم اس معاملے کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں.۲ (نوٹ از ناشر) یہ کشف ایک رنگ میں اس وقت پورا ہوا جب مورخہ ۲۳ اور ۲۴؍مئی ۲۰۱۸ء کی درمیانی رات معاندین نے سیالکوٹ، پاکستان میں واقع مسجد بیت المبارک کے گنبد و مینار اور اس سے ملحقہ تاریخی اہمیت کے مکان حکیم حسام الدین صاحبؓ کو منہدم کرنے کی کارروائی کی.۳ (ترجمہ از مرتّب) وہ جو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے ذکر میں تم کرتے تھے وہ اجمالی نظر تھی اور ناقص.اور وہ جو ہم کرتے ہیں وہ نظر مبسُوط اور محیط ہے دیکھو یوں ہے کہ تمہارا کام غنچہ کی طرح تھا اور تمام اجزاء پوشیدہ تھے… اور ہمارا کام کھِلے ہوئے پھول کی مانند ہے اور ہمارے ذکر میں نظر غیر کی نفی کی تمام تفصیلات پر حاوی ہے اور یہ شکل ہے… دیکھو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یُوں ہے.یہ نفی تمام اجزاء پر تفصیلی طور سے ہے.
کہی تو ان کو ایک لذّت آئی جیسا کہ کسی کو ایک جدید اور عجیب نکتہ سُننے سے لذّت آتی ہے اور یہ لذّت اُن کی اُن کی ایک منہ کی حالت سے مجھ کو معلوم ہوئی اور انہوں نے ایک روپیہ نذر کیا.مجھے خیال آیا کہ مَیں نے تو کسی وقت ان کو دو روپے دیئے تھے.انہیں میں سے انہوں نے مجھے ایک روپیہ دیا.پھر اسی جگہ کھڑے ہونے کی حالت میں ایک گلی میں جو ہمارے مکان سے قریب شمالی طرف ہے.انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ گورداسپور کب جائیں گے.مَیں نے جواب دیا.نمی دانم.قدمی برزمین استوار نمی شود تا خدا نخواہد؎۱.پھر مَیں اسی گلی میں اُن کو وہیں چھوڑ کر نکل آیا.وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.اور اُسی وقت ۲ بجے رات کے یہ چند سطریں لکھی گئیں.‘‘ (رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۰۵) ۲۲؍مارچ ۱۸۹۶ء ’’الہام سعادت انجام.آج ۲۲؍ مارچ ۱۸۹۶ء کو مجھ کو الہام ہوا.یَـآ اَھْلَ الْمَدِیْنَۃِ جَآءَکُمْ نَصْـرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ.‘‘ ؎۲ (رجسٹر متفرق یاد داشتیں از حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۰۵) ۱۸۹۶ء ’’ مجھے خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’ مَیں اس زمانہ کے لئے تجھے گواہ کی طرح کھڑا کروں گا.‘‘ پس کیا خوش نصیب ہے وہ شخص جس کے بارے میں اچھی گواہی ادا کرسکوں.‘‘ (از مکتوب بنام حضرت نواب محمد علی خاں صاحبؓ.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۲۱۳ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸۹۶ء ’’ وہ خاص الہامات اس کےجو اس وقت میں مخالف مولویوں کو سناؤں گا ان میں سے بطور نمونہ چند الہامات اس جگہ لکھتا ہوں.ان میں سے بعض الہامات بیس برس کے عرصہ سے ہیں جو مختلف ترتیبوں اور کمی بیشی کے ساتھ بار بار القا ہوئے ہیں اور وہ یہ ہیں.۱ (ترجمہ از مرتّب) مَیں نہیں جانتا کوئی قدم مضبوطی سے زمین پر نہیں پڑتا جب تک کہ خدانہیں چاہتا.۲ (ترجمہ از مرتّب) اے شہر والو! تمہارے پاس اللہ کی نصرت آگئی اور فتح قریب ہے.
یَـا عِیْسَی۱؎ الَّذِیْ لَا یُضَاعُ وَقْتُہٗ.۲.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃٍ لَّا یَعْلَمُھَا الْـخَلْقُ.۳.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَ تَفْرِیْدِیْ.فَـحَانَ اَنْ تُعَانَ وَتُعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ.۴.ھُوَالَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْـحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ.۵.لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ.۶.قُلْ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ وَ اَنَـا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ.۷.اَلرَّحْـمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ لِتُنْذِرَ قَـوْمًا مَّآ اُنْذِ.رَ اٰبَآؤُھُمْ وَ لِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ.۸.اِنَّـا کَفَیْنَاکَ الْمُسْتَـھْزِئِیْنَ.۹.قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّؤْمِنُوْنَ.قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ.۱۰.اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَـھْدِیْنِ.۱۱.قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُـحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُـحْبِبْکُمُ اللّٰہُ.۱۲.ھَلْ اُنَبِّئُکُمْ عَلٰی مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیَاطِیْنُ تَنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍ.۱۳.یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُـوْرِہٖ وَ لَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ.۱۴.سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْ.بِـھِمُ الرُّعْبَ.۱۵.اِذَا جَآءَ نَصْـرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَانْتَـھٰٓی اَمْرُالزَّمَانِ اِلَیْنَآ اَلَیْسَ ھٰذَا بِالْـحَقِّ.۱۶.اِنِّیْ مَعَکَ.کُنْ مَّعِیْ اَیْنَـمَا کُنْتَ.کُنْ مَّعَ اللّٰہِ حَیْثُـمَا کُنْتَ.۱۷.کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ.۱ ترجمہ.’’ ۱اے وہ عیسیٰ جس کا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا.۲تو میری جناب میں وہ مرتبہ رکھتا ہے جس کا لوگوں کو علم نہیں.۳تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید اور تفرید.سو وقت آگیا کہ تو لوگوں میں شناخت کیا جائے اور مدد دیا جائے.۴وہ خدا جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تا اس دین کو سب دینوں پرغالب کرے.۵خدا کی پیشگوئیوں کو کوئی بدل نہیں سکتا.۶کہہ مَیں مامور ہوں اور مَیں سب سے پہلا مومن ہوں.۷وہ رحمٰن ہے جس نے قرآن سکھلایا تا کہ تُو اُن لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے اور تاکہ مجرموں کی راہ کھل جائے.۸ہم تیرے لئے ٹھٹھا کرنے والوں کے لئے کافی ہیں.۹کہہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے.پس کیا تم ایمان لاتے ہو.کہہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے پس کیا تم قبول کرتے ہو.۱۰میرے ساتھ میرا خدا ہے وہ عنقریب مجھے کامیابی کی راہ دکھائے گا.۱۱ان کو کہہ کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو آؤ میرے پیچھے ہو لو تا خدا بھی تم سے محبت کرے.۱۲کیا مَیں بتلاؤں کہ کِن پر شیطان اُترا کرتے ہیں.ہر ایک جھوٹے مفتری پر اُترتے ہیں.۱۳ارادہ کرتے ہیں کہ خدا کے نور کو اپنے مُونہہ کی پھونکوں سے بجھادیں اور خدا اپنے نور کو کامل کرے گا اگرچہ کافر کراہت ہی کریں.۱۴عنقریب ہم اُن کے دلوں پر رُعب ڈال دیں گے.۱۵جب خدا کی مدد اور فتح آئے گی اور زمانہ کا امر ہماری طرف رجوع کرے گا.کہا جائے گا کہ کیا یہ سچ نہ تھا.۱۶مَیں تیرے ساتھ ہوں.میرے ساتھ ہو جہاں تُو ہو وے.خدا کے ساتھ ہو جہاں تُو ہو وے.۱۷تم بہتر اُمّت ہو جو لوگوں کے نفع کے لئے نکالے گئے.
۱۸.اِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا یَـرْفَعُ اللّٰہُ ذِکْرَکَ.وَ یُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ.۱۹.یَـآ اَحْـمَدُ یَـتِمُّ اسْـمُکَ وَلَا یَتِمُّ اسْـمِیْ.۲۰.اِنِّیْ رَافِعُکَ اِلَـیَّ.۲۱.اَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَـحَبَّۃً مِّنِّیْ.۲۲.شَانُکَ عَـجِیْبٌ وَّ اَجْرُکَ قَرِیْبٌ.۲۳.اَلْاَرْضُ وَالسَّمَآءُ مَعَکَ کَمَاھُوَ مَعِیْ؎۱ ۲۴.اَنْتَ وَجِیْہٌ فِیْ حَضْـرَتِیْ.اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ.۲۵.اَنْتَ وَجِیْہٌ فِی الدُّنْیَا وَ حَضْـرَتِیْ.۲۶.سُـبْحَانَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی.زَادَ مَـجْدَ کَ.یَنْقَطِعُ اٰبَآءُکَ وَ یُبْدَ ءُ مِنْکَ.۲۷.نُصِـرْتَ بِالرُّعْبِ وَاُحْیِیْتَ بِالصِّدْقِ اَیُّـھَا الصِّدِّ یْقُ نُصِرْتَ.۲۸.وَ قَالُوْا لَاتَ حِیْنَ مَنَاصٍ.۲۹.اٰثَـرَکَ اللّٰہُ عَلَیْنَا وَ لَوْ کُنَّا کارِھِیْنَ.رَبَّنَا اغْفِرْلَنَآ اِنَّـا کُنَّا خَاطِئِیْنَ.لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُاللّٰہُ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَـمُ الرَّاحِـمِیْنَ.۳۰.وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَتْرُکَکَ حَتّٰی یَـمِیْزَ الْـخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ.وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَالنَّاسِ لَایَعْلَمُوْنَ.۳۱.اِذَا جَآءَ نَصْـرُاللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَتَـمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ ھٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْـجِلُوْنَ.۳۲.اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَـخَلَقْتُ اٰدَمَ.۳۳.سَوَّیْتُہٗ وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ.۳۴.یُقِیْمُ الشَّرِیْعَۃَ وَ یُحْيِ الدِّیْنَ- بقیہ ترجمہ.۱۸تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے.خدا تیرے ذکر کو بلند کرے گا اور دنیا اور آخرت میں اپنی نعمت تیرے پر پوری کرے گا.۱۹اے احمد ! تیرا نام پوراہوجائے گا قبل اس کے جو میرا نام پورا ہو.۲۰مَیں تجھے اپنی طرف اُٹھانے والا ہوں.۲۱مَیں نے اپنی محبت کو تجھ پر ڈال دیا.۲۲تیری شان عجیب ہے.تیرا اجر قریب ہے.۲۳زمین و آسمان تیرے ساتھ ہے جیسا کہ وہ میرے ساتھ ہے.۲۴تو میری جناب میں وجیہ ہے.مَیں نے تجھے اپنے لئے چُن لیا.۲۵تو دنیا اور میری جناب میں وجیہ ہے.۲۶پاک ہے وہ خدا جو بہت برکتوں والا اور بہت بلند ہے.تیری بزرگی کو اُس نے زیادہ کیا.اب سے تیرے باپ دادے کا ذکر منقطع ہوجائے گا اور خدا تجھ سے شروع کرے گا.۲۷تُو رعب کے ساتھ مدد دیا گیا اور صدق کے ساتھ زندہ کیا گیا.اے صدیق! تو مدد دیا گیا.۲۸اور مخالف کہیں گے کہ اب گریز کی جگہ نہیں.۲۹خدا نے تجھے ہم پراختیار کرلیا.اگرچہ ہم کراہت کرتے تھے.اے ہمارے خدا! ہمیں بخش کہ ہم خطا پر تھے.آج تم پر اَے رجوع کرنے والو! کچھ سرزنش نہیں.خدا تمہیں بخش دے گا اور وہ ارحم الراحمین ہے.۳۰اور خدا ایسا نہیں کہ تجھے یونہی چھوڑ دے جب تک پاک اور پلید میں فرق کرکے نہ دکھلاوے اور خدا اپنے امر پر غالب ہے مگر اکثر آدمی نہیں جانتے.۳۱جب خد اکی مدد اور فتح آئی اور اس کا کلمہ پورا ہوا.کہا جائے گا کہ یہ وہی ہے جس میں تم جلدی کرتے تھے.۳۲مَیں نے ارادہ کیا کہ اپنا خلیفہ بناؤں تو مَیں نے آدم کو پیدا کیا.۳۳مَیں نے اس کو برابر کیا اور اپنی رُوح اس میں پھونکی.۳۴شریعت کو قائم کرے گا اور دین کو زندہ کرے گا.۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’ ھُوَ کا ضمیر واحد باعتبار واحد فی الذہن یعنی مخلوق ہے اور ایسا محاورہ قرآن شریف میں بہت ہے.‘‘ (انجام آتھم.رُوحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ ۵۲ حاشیہ)
۳۵وَ لَوْ کَانَ الاِیْـمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّـرَیَّـا لَنَالَہٗ.۳۶.سُـبْحَانَ الَّذِیْٓ اَسْـرٰی بِعَبْدِ ہٖ لَیْلًا.۳۷.خَلَقَ اٰدَمَ فَاَکْرَمَہٗ.۳۸.جَرِیُّ اللّٰہِ فِی حُلَلِ الْاَ.نْبِیَآءِ.۳۹.اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّ وْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ رَدَّ عَلَیْھِمْ رَجُلٌ مِّنْ فَارِسَ.شَکَرَ اللّٰہُ سَعْیَہٗ.۴۰.کِتَابُ الْوَلِیِّ ذُوالْفِقَارِ عَلِیٍّ.۴۱.یَکَادُ زَیْتُہٗ یُضِیْٓءُ وَ لَوْ لَمْ تَـمْسَسْہُ نَـارٌ.۴۲.خُذُوا التَّوْحِیْدَ التَّوْحِیْدَ یَآ اَبْنَآءَ الْفَارِسِ.۴۳.اِنَّا اَنْـزَلْنَاہُ قَرِیْبًا مِّنَ الْقَادِیَانِ وَبِالْـحَقِّ اَنْـزَلْنَاہُ وَبِالْـحَقِّ نَـزَلَ وَ کَانَ اَمْرُاللّٰہِ مَفْعُوْلًا.۴۴.اَمْ یَقُوْلُوْنَ نَـحْنُ جَـمِیْعٌ مُّنْتَصِـرٌ.سَیُھْزَمُ الْـجَمْعُ وَ یُـوَلُّوْنَ الدُّ بُـرَ.۴۵.یَا عَبْدِیْ لَا تَـخَفْ اِنِّیْ اَسْـمَعُ وَاَرٰی.۴۶.اَلَمْ تَرَ اَنَّـا نَـاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُھَا مِنْ اَطْرَافِھَا.اَلَمْ تَـرَاَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ.۴۷.صَلِّ عَلٰی مُـحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُـحَمَّدٍ سَیِّدِ وُلْدِ اٰدَمَ وَخَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ.۴۸.اِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ.۴۹.فَاصْدَعْ بِـمَا تُؤْمَرُ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْـجَاھِلِیْنَ.۵۰.وَقَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلٰی رَجُلٍ مِّنْ قَرْیَتَیْنِ۱؎ عَظِیْمٍ.۵۱.وَ قَالُوْا اَنّٰی لَکَ ھٰذَا اِنْ ھٰذَا لَمَکْـرٌ مَّکَرْتُـمُوْہُ فِی الْمَدِیْنَۃِ.وَ اَعَانَہٗ عَلَیْہِ قَـوْمٌ اٰخَرُوْنَ.۵۲.یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ وَھُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ.۵۳.اِعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ بقیہ ترجمہ.۳۵اور اگر ایمان ثریّا سے معلّق ہوتا تب بھی اسے پالیتا.۳۶پاک ہے وہ جس نے اپنے بندہ کو رات میں سیر کرایا.۳۷آدم کو پیدا کیا اوراس کو عزت دی.۳۸خدا کا فرستادہ نبیوں کے حلّہ میں.۳۹وہ لوگ جو کافر ہوگئے اور خدا کی راہ سے روکنے لگے.ایک فارسی الاصل آدمی نے اُن کے خیالات کو ردّ کیا.خدا اس کی کوشش کا شکر گذار ہے.۴۰اس ولی کی کتاب ایسی ہے جیسے علی کی ذوالفقار.۴۱اس کا تیل یونہی چمکنے کو ہے اگرچہ آگ چھو بھی نہ جائے.۴۲توحید کو پکڑو توحید پکڑواے فارس کے بیٹو! ۴۳ہم نے اِس کو قادیان کے قریب اُتارا ہے اور حق کے ساتھ اُتارا ہے اور ضرورت ِ حقّہ کے ساتھ اُترا ہے اور جو خدا نے ٹھہرا رکھا تھا وہ ہونا ہی تھا.۴۴کیا یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک جماعت انتقام لینے والی ہیں.سب بھاگ جائیں گے اور پیٹھ دکھلائیں گے.۴۵اے میرے بندے ! مت خوف کر مَیں دیکھتا ہوں اور سنتا ہوں.۴۶کیا تُونے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کو کم کرتے چلے آتے ہیں اس کی طرفوں سے.کیا تُونے نہیں دیکھا کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے.۴۷محمدؐ پر اور اس کے آل پر درُود بھیج.وہ بنی آدم کا سردار اور خاتم الانبیاء ہے.۴۸تو صراطِ مستقیم پر ہے.۴۹پس جو کچھ حکم ہوتا ہے کھول کر بیان کر اور جاہلوں سے کنارہ کر.۵۰اور کہتے ہیں کہ دوشہروں۱؎میں ایک بڑے آدمی کو خدا نے کیوں مامور نہ کیا.۵۱اور کہتے ہیں کہ تجھے کہاں یہ رُتبہ ،یہ تو مکر ہے کہ مِل جُل کر بنایا گیا ہے اور کئی لوگوں نے اس مکر میں اس شخص کی مدد کی ہے.۵۲تجھے دیکھتے ہیں اور تُو انہیں نظر نہیں آتا.۵۳اے لوگو ! جان لو کہ ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’یعنی اس شخص کو مہدی موعود ہونے کا دعویٰ ہے جو پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں قادیان کا رہنے والا ہے کیوں مہدی معہود مکّہ یا مدینہ میں مبعوث نہ ہواجو سرزمینِ اسلام ہے.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۸۵ حاشیہ)
یُـحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِـھَا.۵۴.وَ مَنْ کَانَ لِلہِ کَانَ اللّٰہُ لَہٗ.۵۵.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَالَّذِیْنَ ھُمْ مُّـحْسِنُوْنَ.۵۶.قَالُـوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا اخْتِلَاقٌ.قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُہٗ فَعَلَیَّ اِجْرَامٌ شَدِیْدٌ.۵۷.اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ.وَاِنَّ عَلَیْکَ رَحْـمَتِیْ فِی الدُّنْیَا وَالدِّیْنِ.وَاِنَّکَ مِنَ الْمَنْصُوْرِیْنَ.۵۸.یَـحْمَدُ کَ اللّٰہُ مِنْ عَرْشِہٖ.یَـحْمَدُ کَ اللّٰہُ وَ یَـمْشِیْٓ اِلَیْکَ.۵۹.اَلَا اِنَّ نَصْـرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ.۶۰.کَمِثْلِکَ دُرٌّ لَّا یُضَاعُ.۶۱.بُشْـرٰی لَکَ یَـآ اَحْـمَدِیْ.اَنْتَ مُرَادِیْ وَ مَعِیْ.۶۲.اِنِّیْ نَاصِـرُکَ.اِنِّیْ حافِظُکَ.اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا.۶۳.اَ کَانَ لِلنَّاسِ عَـجَبًا.قُلْ ھُوَ اللّٰہُ عَـجِیْبٌ.یَـجْتَبِیْ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ.لَا یُسْئَلُ عَـمَّا یَفْعَلُ وَھُمْ یُسْئَلُوْنَ.۶۴.وَتِلْکَ الْاَیَّـامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ.۶۵.وَقَالُوْا اِنْ ھٰذَا اِلَّا اخْتِلَاقٌ.۶۶.اِذَا نَصَـرَ اللّٰہُ الْمُؤْمِنَ جَعَلَ لَہُ الْـحَاسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ.۶۷.قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ.۶۸.لَا تُـحَاطُ اَسْـرَارُ الْاَوْلِیَآءِ.۶۹.تَلَـطَّفْ بِالنَّاسِ وَ تَـرَحَّـمْ عَلَیْھِمْ.۷۰.اَنْتَ فِیْـھِمْ بِـمَنْزِلَۃِ مُوْسٰی.وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ.۷۱.وَذَرْنِیْ وَالْمُکَذِّبِیْنَ اُولِی النَّعْمَۃِ.۷۲.اَنْتَ مِنْ مَّآءِنَا وَھُمْ مِّنْ فَشَلٍ.؎۱ ۷۳.وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ.قَالُوْا اَنُؤْمِنُ کَمَا اٰمَنَ السُّفَھَآءُ بقیہ ترجمہ.زمین مرگئی تھی اور خدا پھر اُسے نئے سرے زندہ کر رہا ہے.۵۴اور جو خدا کا ہو خدا اس کا ہوجاتا ہے.۵۵خدا اُن کے ساتھ ہے جو پرہیزگاری اختیار کرتے ہیں اور اُن کے ساتھ ہے جو نیکو کار ہیں.۵۶کہتے ہیں کہ یہ تمام افترا ہے، کہہ اگر میں نے افترا کیا ہے ، تو یہ سخت گناہ میری گردن پر ہے.۵۷آج تُو ہمارے نزدیک بارُتبہ اور امین ہے اور تیرے پر دین اور دُنیا میں میری رحمت ہے اور تُو مدد دیا گیا ہے.۵۸خدا عرش پر سے تیری تعریف کرتا ہے.خدا تیری تعریف کرتا ہے اور تیری طرف چلا آتا ہے.۵۹خبردار خدا کی مدد قریب ہے.۶۰تیرے جیسا موتی ضائع نہیں کیا جاتا.۶۱تجھے خوشخبری ہو، اے میرے احمد! تُو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے.۶۲مَیں تیر امددگار ہوں مَیں تیرا حافظ ہوں.مَیں تجھے لوگوں کا امام بناؤں گا.۶۳کیا لوگوں کو تعجب ہوا، کہہ وہ خدا عجیب ہے جس کو چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے چُن لیتا ہے.وہ اپنے کاموں میں پوچھا نہیں جاتا اور دوسرے پوچھے جاتے ہیں.۶۴اور یہ دن ہم لوگوں میں پھیرتے رہتے ہیں.۶۵اور کہتے ہیں کہ یہ تو ضرور افترا ہے.۶۶خدا جب مومن کو مدد دیتا ہے تو زمین پر اُس کے کئی حاسد بنادیتا ہے.۶۷کہہ خدا ہے جس نے یہ الہام کیا پھر ان کو چھوڑ دے تا اپنی کج فکریوں میں بازی کریں.۶۸اولیاء کے اسرار پرکوئی احاطہ نہیں کرسکتا.۶۹لوگوں سے لطف کے ساتھ پیش آ اور اُن پر رحم کر.۷۰تُو ان میں بمنزلہ موسیٰ کے ہے اور ان کی باتوں پر صبر کر.۷۱اور منعم مکذِّبوں کی سزا مجھ پر چھوڑ دے.۷۲تو ہمارے پانی میں سے ہے اور وہ لوگ فشل سے.۷۳اور جب ان کو کہا جائے کہ ایمان لاؤ جیسا کہ اچھے آدمی ایمان لائے تو جواب میں کہتے ہیں کہ کیا اس طرح ایمان لائیں جیسا کہ سفیہ اور بیوقوف ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’یہ جو فرمایا کہ تُو ہمارے پانی میں سے ہے اور وہ لوگ فشل سے.اِس
اَلَا اِنَّـھُمْ ھُمُ السُّفَھَآءُ وَلٰکِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ.۷۴.قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُـحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُـحْبِبْکُمُ اللّٰہُ.۷۵.قِیْلَ ارْجِعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ فَلَا تَـرْجِعُوْنَ.وَقِیْلَ اسْتَحْوِذُوْا فَلَا تَسْتَحْوِذُوْنَ.۷۶.اَلْـحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ.۷۷.اَلْفِتْنَۃُ ھٰھُنَا فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُواالْعَزْمِ.۷۸.تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ مَاکَانَ لَہٗ اَنْ یَّدْ خُلَ فِیْـھَا اِلَّا خَآئِفًا.۷۹.وَمَا اَصَا بَکَ فَـمِنَ اللّٰہِ.اَلَآ اِنَّـھَا فِتْنَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ لِیُحِبَّ حُبًّا جَـمًّا.حُبًّا مِّنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْاَکْرَمِ.عَطَآءً غَیْرَ مَـجْذُوْذٍ.۸۰.وَقْتُ الْاِبْتِلَآءِ وَ وَقْتُ الْاِصْطِفَآءِ.وَلَا یُرَدُّ وَقْتُ الْعَذَابِ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ.۸۱.وَلَا تَـھِنُوْا وَلَا تَـحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ.۸۲.وَعَسٰی اَنْ تُـحِبُّوْا شَیئًا وَّھُوَ شَـرٌّ لَّکُمْ وَ عَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا بقیہ ترجمہ.ایمان لائے.خوب یاد رکھو کہ درحقیقت بیوقوف اورسفیہ یہی لوگ ہیں مگر انہیں معلوم نہیں کہ ہم کیسی غلطی پر ہیں.۷۴ان کو کہہ دے کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت رکھے.۷۵کہا گیا کہ تم رجوع کرو سو تم نے رجوع نہ کیا.اور کہا گیا کہ تم اپنے وساوس پر غالب آجاؤ سو تم غالب نہ آئے.۷۶سب تعریف خدا کو ہے جس نے تجھے مسیح ابن مریم بنایا.۷۷اس جگہ فتنہ ہے سو اولوالعزم لوگوں کی طرح صبرکر.۷۸ابو لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے اور وہ آپ بھی ہلاک ہوگیا.اس کو نہیں چاہیے تھا کہ وہ اس فتنہ میں دخل دیتا یعنی اس کا بانی ہوتا مگر ڈرتے ہوئے.۷۹اور تجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی مگر اُسی قدر جو خدا نے مقرر کی.یہ فتنہ خدا کی طرف سے ہے تا وہ تجھ سے بہت ہی پیار کرے.یہ خدا کا پیار کرنا ہے جو غالب اور بزرگ ہے اور یہ پیار وہ عطا ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوگی.۸۰ابتلا کا وقت ہے اور اصطفا کا وقت ہے اور عذاب کا وقت مجرموں کے سر پر سے کبھی نہیں ٹل سکتا.۸۱اور اے اس مامور کی جماعت سُست مت ہوجانا اور غم میں نہ پڑجانا.اور بالآخر غلبہ تمہیں کو ہے اگر تم ایمان پر ثابت رہو گے.۸۲یہ ممکن ہے کہ ایک چیز کو تم چاہو اور وہ دراصل تمہارے لئے اچھی نہ ہو، اور ایک چیز سے نفرت کرو اور وہ دراصل تمہارے لئے اچھی ہو بقیہ حاشیہ.جگہ پانی سے مراد ایمان کا پانی، استقامت کاپانی، تقویٰ کا پانی، وفا کا پانی، صدق کا پانی، حُبّ اللہ کا پانی ہے جو خدا سے ملتا ہے اور فشل بزدلی کو کہتے ہیں جو شیطان سے آتی ہے اور ہریک بے ایمانی اور بدکاری کی جڑ بزدلی اور نامردی ہے.جب قوتِ استقامت باقی نہیں رہتی تو انسان گناہ کی طرف جھک جاتا ہے.غرض فشل شیطان کی طرف سے ہے اور عقائد صالحہ اور اعمالِ طیبہ کا پانی خدا تعالیٰ کی طرف سے.جب بچہ پیٹ میں پڑتا ہے تو اس وقت اگر بچہ سعید ہے اور نیک ہونے والا ہے تو اس نطفہ پر رُوح القدس کا سایہ ہوتا ہے اور اگر بچہ شقی ہے اور بَد ہونے والا ہے تو اس نطفہ پر شیطان کا سایہ ہوتا ہے اورشیطان اس میں شراکت رکھتا ہے اور بطور استعارہ وہ شیطان کی ذُریّت کہلاتی ہے اور جو خدا کے ہیں وہ خدا کے کہلاتے ہیں جن کو پہلی کتابوں میں بطور استعارہ ابناء اللہ کہا گیا ہے.‘‘ (انجام آتھم.روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ ۵۶،۵۷ حاشیہ)
وَّ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ.۸۳.کُنْتُ کَنْزًا مَّـخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ.۸۴.اِنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاھُمَا.۸۵.وَاِنْ یَّتَّخِذُ.وْنَکَ اِلَّا ھُزُوًا.اَھٰذَا الَّذِیْ بَعَثَ اللّٰہُ.قُلْ اِنَّـمَآ اَنَـا بَشَـرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّـمَآ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَّالْـخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ.۸۶.وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُـمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ.۸۷.وَقَالُوْا اِنْ ھٰذَا اِلَّا افْتِرَآءٌ.قُلْ اِنَّ ھُدَی اللّٰہِ ھُوَ الْھُدٰی.۸۸.اَلَا اِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ھُمُ الْغٰلِبُوْنَ.۸۹.اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا لِّیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّ.مَ مِنْ ذَنبِکَ وَ مَا تَاَخَّرَ.۹۰.اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ.فَبَرَّاَہُ اللّٰہُ مِـمَّا قَالُوْا وَکَانَ عِنْدَ اللّٰہِ وَجِیْـھًا.وَاللّٰہُ مُوْھِنُ کَیْدِ الْکَاذِبِیْنَ.۹۱.وَلِنَجْعَلَہٗٓ اٰیۃً لِّلنَّاسِ وَرَحْـمَۃً مِّنَّا.وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًا.قَوْلَ الْـحَقِّ الَّذِیْ فِیْہِ تَـمْتَرُوْنَ.۹۲.یَـا اَحْـمَدُ فَاضَتِ الرَّحْـمَۃُ عَلٰی شَفَتَیْکَ.۹۳.اِنَّـآ اَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَـرَ.فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْـحَرْ.اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَ.بْتَـرُ.؎۱ ۹۴.یَاْتِیْ قَـمَرُ الْاَ.نْبِیَآءِ وَاَمْرُکَبقیہ ترجمہ.اور خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے.۸۳مَیں ایک خزانہ پوشیدہ تھا سو مَیں نے چاہا کہ شناخت کیا جاؤں.۸۴زمین و آسمان بندھے ہوئے تھے سو ہم نے دونوں کو کھول دیا.۸۵اور تجھے انہوں نے ایک ہنسی کی جگہ بنا رکھا ہے کیا یہی ہے جو خدا کی طرف سے بھیجا گیا.کہہ مَیں ایک آدمی ہوں تم جیسا، مجھے خدا سے الہام ہوتا ہے کہ تمہارا خدا ایک خدا ہے اور تمام بھلائی قرآن میں ہے.۸۶اور مَیں اس سے پہلے ایک مدّت سے تم میں ہی رہتا تھا.کیا تمہیں میرے حالات معلوم نہیں.۸۷اور انہوں نے کہا کہ یہ باتیں افترا ہیں کہہ حقیقی ہدایت جس میں غلطی نہ ہو خدا کی ہدایت ہے.۸۸اور خبردار ہو کہ خدا کا گروہ ہی آخر کار غالب ہوتا ہے.۸۹ہم نے تجھے کھلی کھلی فتح دی ہے تا تیرے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کئے جائیں.۹۰کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے.سو خدا نے ان کے الزاموں سے اس کو بَری کیا اور وہ خدا کے نزدیک وجیہ ہے اور خدا کافروں کے مکر کو سُست کردے گا.۹۱اور ہم اس کو لوگوں کے لئے نشان بنائیں گے اور رحمت کا نمونہ ہوگا اور یہی مقدّر تھا.یہ وہ سچا قول ہے جس میں لوگ شک کرتے ہیں.۹۲اے احمد! رحمت تیرے لبوں پر جاری ہورہی ہے.۹۳ہم نے تجھے بہت سے حقائق اور معارف اور برکات بخشے ہیں اور ذرّیت نیک عطا کی ہے سو خدا کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر.تیرا بد گو بے خیر ہے یعنی خدا اُسے بےنشان کردے گا اور وہ نامراد مرے گا.۹۴نبیوں کا چاند آئے گا ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’یہ الہام کہ اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ اس وقت اِس عاجز پر خدا تعالیٰ کی طرف سے القا ہوا کہ جب ایک شخص نومسلم سعد اللہ نام نے ایک نظم گالیوں سے بھری ہوئی اس عاجز کی طرف بھیجی تھی اور اس میں اس عاجز کی نسبت اس ہندو زادہ نے وہ الفاظ استعمال کئے تھے کہ جب تک ایک شخص درحقیقت شقی، خبیث طینت، فاسد القلب نہ ہو ایسے الفاظ استعمال نہیں کرسکتا… سو یہ الہام اس کے اشتہار اور رسالہ کے پڑھنے کے
یَتَاَتّٰی.یَوْمَ یَجِیْٓءُ الْـحَقُّ وَ یُکْشَفُ الصِّدْقُ وَیَـخْسَرُ الـخَاسِـرُوْنَ.۹۵.اَقِـمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ.۹۶.اَنْتَ مَعِیْ وَ اَنَـا مَعَکَ سِـرُّکَ سِـرِّیْ.۹۷.وَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِیْٓ اَنْقَضَ ظَھْرَکَ وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکَ.۹۸.یُـخَوِّفُوْنَکَ مِنْ دُوْنِہٖ.اَئِـمَّۃُ الْکُفْرِ.لَا تَـخَفْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی.۹۹.غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْـمَتِیْ وَقُدْرَتِیْ.۱۰۰.لَنْ یَّـجْعَلَ اللّٰہُ لِلْکٰفِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلًا.۱۰۱.یَنْصُرُکَ اللّٰہُ فِیْ مَوَاطِنَ.۱۰۲.کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلَبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ.لَامُبَدِّ لَ لِکَلِمَاتِہٖ.۱۰۳.اَللّٰہُ الَّذِیْ جَعَلَکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ.۱۰۴.قُلْ ھٰذَا فَضْلُ رَبِّیْ وَ اِنِّیْ اُجَرِّدُ نَفْسِیْ مِنْ ضُـرُوْبِ الْـخِطَابِ.۱۰۵.یَـا عِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَـیَّ وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَـوْمِ الْقِیٰمۃِ.۱۰۶.نَظَرَ اللّٰہُ اِلَیْکَ مُعَطَّرًا.وَقَالُوْا اَتَـجْعَلُ فِیْـھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْـھَا قَالَ اِنِّیْٓ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ.وَقَالُوْا کِتَابٌ مُّـمْتَلِــیٌٔ مِّنَ الْکُفْرِ وَالْکَذِبِ.قُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَاَبْنَآءَکُمْ وَ نِسَآءَنَـا وَ نِسَآءَکُمْ وَاَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَـھِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَۃَ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ.۱۰۷.سَلَامٌ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ صَافَیْنَاہُ وَنَـجَّیْنَاہُ مِنَ الْغَمِّ.تَفَرَّدْنَا بِذَالِکَ.بقیہ ترجمہ.اور تیرا کام تجھے حاصل ہوجائے گا.اس دن حق آئے گا اور سچ کھولا جائے گا اور جو خسران میں ہیں ان کا خسران ظاہر ہوجائے گا.۹۵میری یاد میں نماز کو قائم کر.۹۶تو میرے ساتھ اور مَیں تیرے ساتھ ہوں.تیرا بھید میرا بھید ہے.۹۷ہم نے تیرا وہ بوجھ اُتار دیا جس نے تیری کمر توڑ دی اور تیرے ذکر کو ہم نے بلند کیا.۹۸تجھے خدا کے سوا اَوروں سے ڈراتے ہیں.یہ کفر کے پیشوا ہیں.مت ڈر، غلبہ تجھی کو ہے.۹۹مَیں نے اپنی رحمت اور قدرت کے درخت تیرے لئے اپنے ہاتھ سے لگائے.۱۰۰خدا ہرگز ایسا نہیں کرے گا کہ کافروں کا مومنوں پرکچھ الزام ہو.۱۰۱خدا تجھے کئی میدانوں میں فتح دے گا.۱۰۲خدا کایہ قدیم نوشتہ ہے کہ مَیں اور میرے رسُول غالب رہیں گے.اس کے کلموں کو کوئی بدل نہیں سکتا.۱۰۳وہ خدا جس نے تجھے مسیح ابن مریم بنایا.۱۰۴کہہ یہ خدا کا فضل ہے اور میں تو کسی خطاب کو نہیں چاہتا.۱۰۵اے عیسیٰ! مَیں تجھے وفات دُوں گااور اپنی طرف اٹھاؤں گا اور تیرے تابعداروں کو تیرے مخالفوں پر قیامت تک غلبہ بخشوں گا.۱۰۶خدا نے تیرے پر خوشبودار نظر کی اور لوگوں نے دلوں میں کہا کہ اے خدا! کیا تو ایسے مفسد کو اپنا خلیفہ بنائے گا.خدا نے کہا کہ جو کچھ مَیں جانتا ہوں تمہیں معلوم نہیں اور لوگوں نے کہا کہ یہ کتاب کُفر اور کذب سے بھری ہوئی ہے.ان کو کہہ دے کہ آؤ ہم اور تم اپنے بیٹوں اور عورتوں اور عزیزوں سمیت ایک جگہ اکٹھے ہوں پھر مباہلہ کریں اور جھوٹوں پر لعنت بھیجیں.۱۰۷ابراہیم یعنی اس عاجز پر سلام ہم نے اس سے دلی دوستی کی اور غم سے نجات دی.یہ ہمارا ہی کام تھا بقیہ حاشیہ.وقت ہوا کہ اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ.سو اگر اس ہندو زادہ بد فطرت کی نسبت ایسا وقوع میں نہ آیا اور وہ نامراد اور ذلیل اور رُسوا نہ مَرا تو سمجھو کہ یہ خدا کی طرف سے نہیں.‘‘ (انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۵۸،۵۹ حاشیہ)
بِذَالِکَ.۱۰۸.یَـا دَاوٗدُ عَامِلْ بِالنَّاسِ رِفْقًا وَّ اِحْسَانًـا.۱۰۹.تَـمُوْتُ وَ اَنَـا رَاضٍ مِّنْکَ.۱۱۰.وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ.۱۱۱.کَذَّ.بُـوْا بِـاٰیَـاتِیْ وَکَانُوْا بِـھَا یَسْتَـھْزِءُوْنَ.فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ وَ یَـرُدُّھَآ اِلَیْکَ.اَمْرٌ مِّنْ لَّدُ نَّـا اِنَّـا کُنَّا فَاعِلِیْنَ.۱۱۲.زَوَّجْنَاکَھَا.اَلْـحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ.۱۱۳.لَاتَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ.۱۱۴.اِنَّـا رَآ.دُّوْھَا اِلَیْکَ.۱۱۵.یَوْمَ تُبَدَّ لُ الْاَرْضُ غَیْرَالْاَرْضِ.۱۱۶.اِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَلَا اَنْسَابَ بَیْنَـہُمْ.اِنَّـمَا یُؤَخِرُھُمْ اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی اَجَلٍ قَرِیْبٍ.۱۱۷.یَاْتِیْ قَـمَرُ الْاَ نْبِیَآءِ وَاَمْرُکَ یَتَاَتّٰی.۱۱۸.ھٰذَا یَوْمٌ عَصِیْبٌ.۱۱۹.تَوَجَّھْتُ لِفَصْلِ الْـخِطَابِ.۱۲۰.اِنَّـا رَآدُّوْھَآ اِلَیْکَ.۱۲۱.اِنِ اسْتَجَارَتْکَ فَاَجِرْھَا.وَلَا تَـخَفْ سَنُعِیْدُ ھَا سِیْرَتَـھَا الْاُوْلٰی.۱۲۲.اِنَّـا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا.۱۲۳.یَا نُوْحُ اَسِـرَّ رُؤْیَاکَ.۱۲۴.وَقَالُوْا مَتٰی ھٰذَا الْوَعْدُ.قُلْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ.۱۲۵.اَنْتَ مَعِیْ وَ اَنَـا مَعَکَ.وَ لَا یَعْلَمُوْنَ اِلَّا الْمُسْتَرْشِدُوْنَ.۱۲۶.لَا تَیْئَسْ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ.۱۲۷.اُنْظُرْ اِلٰی یُوْسُفَ وَاِقْبَالِہٖ.۱۲۸.اِطَّلَعَ اللّٰہُ عَلٰی ھَمِّہٖ وَ غَـمِّہٖ.وَ لَنْ تَـجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِ یْلًا.وَلَا تَعْـجَبُوْا وَلَا بقیہ ترجمہ.جو ہم نے کیا.۱۰۸اے داؤد! لوگوں سے نرمی اور احسان کے ساتھ معاملہ کر.۱۰۹تو اس حالت میں مرے گا کہ مَیں تجھ سے راضی ہوں گا.۱۱۰اور خدا تجھ کو لوگوں کے شر سے بچائے گا.۱۱۱انہوں نے میرے نشانوں کی تکذیب کی اور ٹھٹھا کیا.سو خدا ان کے لئے تجھے کفایت کرے گا اور اس عورت کو تیری طرف واپس لائے گا.یہ امر ہماری طرف سے ہے اور ہم ہی کرنے والے ہیں.۱۱۲بعد واپسی کے ہم نے نکاح کردیا.تیرے ربّ کی طرف سے سچ ہے پس تو شک کرنے والوں سے مت ہو.۱۱۳خدا کے کلمے بدلا نہیں کرتے، تیرا ربّ جس بات کو چاہتا ہے وہ بالضرور اس کو کر دیتا ہے کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.۱۱۴ہم اس کو واپس لانے والے ہیں.۱۱۵اس دن زمین دوسری زمین سے بدلائی جائے گی.۱۱۶جب صور میں پھونکا گیا تو کوئی رشتہ ان میں باقی نہیں رہے گا.خدا ان کو ایک مقرر وقت تک مہلت دے رہا ہے جو نزدیک وقت ہے.۱۱۷نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام حاصل ہوجائے گا.۱۱۸یہ سخت دن ہے.۱۱۹آج مَیں فیصلہ کرنے کے لئے متوجہ ہوا.۱۲۰ہم اس کو تیری طرف واپس لائیں گے.۱۲۱اگر تیری پناہ ڈھونڈے تو پناہ دے دے اور مت خوف کر ہم اس کی پہلی خصلت پھر اس میں ڈال دیں گے.۱۲۲ہم نے تجھ کو کھلی کھلی فتح دی.۱۲۳اے نوح ! اپنے خواب کو پوشیدہ رکھ.۱۲۴اور کہا لوگوں نے کہ یہ وعدہ کب ہوگا.کہہ خدا کا وعدہ سچا وعدہ ہے.۱۲۵تو میرے ساتھ اور مَیں تیرے ساتھ ہوں اور اِس حقیقت کو کوئی نہیں جانتا مگر وہی جو رُشد رکھتے ہیں.۱۲۶خدا کے فضل سے نومید مت ہو.۱۲۷یوسف کو دیکھ اور اُس کے اقبال کو.۱۲۸خدا اس کے اَیْ آتھم کے غم پر مطلع ہوا.اس لئے اُس نے عذاب میں تاخیر کی.یہ خدا کی سنّت ہے اور تُو خدا کی سنّت میں تبدیلی نہیں پائے گا.اور تعجب مت کرو.اور
تَـحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ.وَ بِعِزَّتِیْ وَ جَلَالِیْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی.وَنُـمَزِّقُ الْاَعْدَآءَ کُلَّ مُـمَزَّقٍ.وَمَکْرُ اُولٰٓئِکَ ھُوَ یَبُوْرُ.اِنَّا نَکْشِفُ السِّـرَّ عَنْ سَاقِہٖ.یَوْمَئِذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ.ثُلَّـۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَثُلَّـۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ.۱۲۹.وَھٰذَا تَذْکِرَۃٌ فَـمَنْ شَآءَ اتَّـخَذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلًا.۱۳۰.اِنَّ النَّصَارٰی حَوَّلُوا الْاَمْرَ.سَنَرُدُّھَا عَلَی النَّصَارٰی.۱۳۱.لَيُنْۢبَذَنَّ فِی الْـحُطَمَۃِ.۱۳۲.اِنَّا نُبَشِّـرُکَ بِغُلَامٍ حَلِیْمٍ مَظْھَرِ الْـحَقِّ وَالْعَلَآءِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَـزَلَ مِنَ السَّمَآءِ.۱۳۳.اِسْـمُہٗ عَـمَانُواِیلْ.۱۳۴.یُـوْلَدُ لَکَ الْوَلَدُ.وَ یُدْنٰی مِنْکَ الْفَضْلُ.اِنَّ نُـوْرِیْ قَرِیْبٌ.۱۳۵.قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ مِنْ شَـرِّ مَا خَلَقَ.۱۳۶.عِـجْلٌ جَسَدٌ لَّہٗ خُوَارٌ.فَلَہٗ نَصَبٌ وَّ عَذَابٌ.(فارسی و اُردو الہام) ۱۳۷بخرام کہ وقت ِ تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں برمنار بلند تر محکم افتاد.۱؎ ۱۳۸خدا تیرے سب کام درست کردے گا اور تیری ساری مُرادیں تجھے دے گا.بقیہ ترجمہ.غم ناک مت ہو.اور تم ہی غالب ہو.اگر تم ایمان پر ثابت قدم رہے.اور مجھے میری عزت اور جلال کی قسم ہے کہ غلبہ تجھی کو ہے.اور ہم دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیں گے.اور ان کا مکر ہلاک ہوجائے گا.اور ہم حقیقت کو اس کی پنڈلی سے کھول دیں گے.اُس دن مومن خوش ہوں گے.اور گروہ پہلوں میں سے اور ایک پچھلوں میں سے.۱۲۹اور یہ ہے.پس جو چاہے خدا کی راہ کو اختیار کرے.۱۳۰نصاریٰ نے حقیقت کو بدلا دیا ہے سو ہم ذلّت اور شکست کو نصاریٰ پر واپس پھینک دیں گے.۱۳۱اور آتھم نابود کرنے والی آگ میں ڈال دیا جاوے گا.۱۳۲ہم تجھے ایک حلیم لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جو حق اور بلندی کا مظہر ہوگا گویا خدا آسمان سے اُترا.۱۳۳نام اس کا عمانوایل ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’خدا ہمارے ساتھ ہے.‘‘ ۱۳۴تجھے لڑکا دیا جائے گا.اور خدا کا فضل تجھ سے نزدیک ہوگا.میرا نُور قریب ہے.۱۳۵کہہ میں شریر مخلوقات سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں.۱۳۶یہ بے جان گوسالہ ہے اور بے ہودہ گو یعنی لیکھرام پشاوری ، سواس کو دُکھ کی مار اور عذاب ہوگا یعنی اسی دنیا میں.‘‘ (انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۵۱ تا ۶۲) ۱ ترجمہ.’’اب ظہور کر اور نکل کہ تیرا وقت نزدیک آ گیا اور اب وہ وقت آرہا ہے کہ محمدی گڑھے میں سے نکال لئے جاویں گے اور ایک بلند اور مضبوط مینار پر ان کا قدم پڑے گا.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۱۱)
۱۳۹مَیں اپنی چمکار دِکھلاؤں گا.اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اُٹھاؤں گا اور تیری برکتیں پھیلاؤں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.۱۴۰دنیا میں ایک نذیر آیا پَر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا.لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کردے گا.‘‘ (انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۵۱ تا ۶۲) ۱۸۹۶ء ’’ اُلْقِیَ؎۱ فِیْ رُوْعِیْ اَنْ اَکْتُبَ ھٰذَا الْمَکْتُوْبَ؎۲ فِی الْعَرَ.بِیَّۃِ وَ اُتَـرْجِـمُہٗ بِـالْفَارِسِیَّۃِ وَ اَرْعَی النَّوَاظِرَ فِی النَّوَاضِـرِ الْاَصْلِیَّۃِ وَ اُوْسِعَ التَّبْلِیْغَ بِـا.لْاَ.لْسُنِ الْاِسْلَامِیَّۃِ لِیَکُوْنَ بَلَاغًا تَآمًّا لِلطَّالِبِیْنَ.‘‘ (انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۷۴،۷۵) ۱۸۹۶ء ’’ یَـآ اَحْـمَدِیْ اَنْتَ مُرَادِیْ وَمَعِیْ.یَـحْمَدُکَ اللّٰہُ مِنْ عَرْشِہٖ.‘‘۳؎ (انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ۷۷) ۱۸۹۶ء ’’ اَنْتَ عِیْسَی الَّذِیْ لَا یُضَاعُ وَقْتُہٗ.کَمِثْلِکَ دُرٌّ لَایُضَاعُ.جَرِیُّ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَ نْبِیَآءِ.‘‘۴؎ (انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ۷۷،۷۸) ۱ (ترجمہ از مرتّب) میرے دل میں ڈالا گیا کہ مَیں اِس کتاب کو عربی زبان میں لکھوں اور فارسی میں اس کا ترجمہ کروں اور اس طرح دیکھنے والوں کو حقیقی سبزہ زاروں میں پھراؤں اور تبلیغ کو اسلامی زبانوں میں پھیلاؤں تا کہ طالبانِ حق کے لئے یہ تبلیغ مرتبۂ کمال کو پہنچ جائے.۲ یعنی مکتوب عربی بنام علماء … مشمولہ کتاب انجام آتھم.روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ ۷۳ تا ۲۸۲.(شمس) ۳ (ترجمہ از مرتّب) اے میرے احمد ! تو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے.اللہ تعالیٰ عرش پر سے تیری تعریف کررہا ہے.۴ (ترجمہ از مرتّب) تُو عیسیٰ ہے جس کا وقت ضائع نہیں کیا جاتا.تیرے جیسا موتی ضائع نہیں کیا جاتا.اللہ تعالیٰ کا فرستادہ نبیوں کے لباس میں.
۱۸۹۶ء ’’ اِنِّی مُرْسِلُکَ اِلٰی قَوْمٍ مُّفْسِدِیْنَ.وَاِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا.وَاِنِّیْ مُسْتَخْلِفُکَ اِکْرَامًا کَمَا جَرَتْ سُنَّتِیْ فِی الْاَوَّلِیْنَ.‘‘۱؎ (انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ۷۹) ۱۸۹۶ء ’’ اِنَّکَ اَنْتَ مِنِّی الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ.وَاُرْسِلْتَ لِیَتِمَّ مَا وَعَدَ مِنْ قَبْلُ رَبُّکَ الْاَکْرَمُ.اِنَّ وَعْدَ ہٗ کَانَ مَفْعُوْلًا وَھُوَ اَصْدَ قُ الصَّادِقِیْنَ.‘‘۲؎ (انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۸۰) ۱۸۹۶ء ’’ اِنَّکَ اَنْتَ ھُوَ فِیْ حُلَلِ الْبُرُوْزِ.وَھٰذَا ھُوَالْوَعْدُ الْـحَقُّ الَّذِیْ کَانَ کَالسِّـرِّ الْمَرْمُوْزِ.فَاصْدَعْ بِـمَا تُؤْمَرُ وَلَا تَـخَفْ اَلْسِنَۃَ الْـجَاھِلِیْنَ وَ کَذَالِکَ جَرَتْ سُنَّۃُ اللّٰہِ فِی الْمُتَقَدِّمِیْنَ.‘‘۳؎ (انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۸۰) ۱۸۹۶ء ’’ یَـآ اَحْـمَدُ اُجِیْبُ کُلَّ دُعَآئِکَ اِلَّا فِیْ شُـرَکَآئِکَ.‘‘ ۴؎(انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۱۸۱) یکم اکتوبر۱۸۹۶ء ’’ کل کی ڈاک میں مبلغ ایک سو روپیہ مُرسلہ آں محبّ مجھ کو پہنچا.اُس کے عجائبات میں سے ایک یہ ہے کہ اس روپیہ کے پہنچنے سے تخمیناً سات گھنٹہ پہلے مجھ کو خدائے عزّوجل نے اس کی اطلاع دی.سو آپ کی اس خدمت کے لئے یہ اجر کافی ہے کہ خدا تعالیٰ آپ سے راضی ہے اس کی رضا کے بعد اگر تمام جہان ریزہ ریزہ ہوجاوے تو کچھ پرواہ نہیں.یہ کشف اور الہام آپ ہی کے بارہ میں مجھ کو ۲دو دفعہ ہوا ہے.فَالْـحَمْدُ لِلہِ.اَلْـحَمْدُ لِلہِ.‘‘ (ازمکتوب بنام سیٹھ عبدالرحمٰن صاحبؓ مدراسی.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۳۴۸ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱ (ترجمہ از مرتّب) مَیں تجھے ایک مفسد قوم کی طرف بھیجتا ہوں اور مَیں تجھے لوگوں کا امام بناتا ہوں اور مَیں تجھے اکرام سے خلیفہ مقرر کرتا ہوں جیسا کہ پہلے لوگوں میں میری سنّت رہی ہے.۲ (ترجمہ از مرتّب) تُو ہی میری طرف سے مسیح ابن ِ مریم ہے اور اس لئے بھیجا گیا ہے کہ تا وہ جو وعدہ تیرے ربِّ اکرم نے پہلے سے کیا ہوا تھا.وہ پورا ہو.اس کا وعدہ ضرور پورا ہوتا ہے اور وہ سب سے بڑھ کر سچا ہے.۳ (ترجمہ از مرتّب) تُو بروزی طور پر وہی (یعنی عیسیٰ) ہے اور یہی وہ سچا وعدہ ہے جو رازِ پوشیدہ کی طرح چلا آتا تھا.پس جو حکم تجھے دیا جاتا ہے اُسے کھول کر لوگوں کو پہنچا اور جاہل لوگوں کی زبان درازی سے مت ڈر اور اسی طرح پہلے لوگوں میں اللہ تعالیٰ کی یہی سنت جاری رہی ہے.۴ (ترجمہ از مرتّب) اے احمد ! مَیں تیری تمام دعائیں قبول کروں گامگر تیرے شریکوں کے بارے میں نہیں.
۲۱؍دسمبر ۱۸۹۶ء ’’ جلسۂ اعظم مذاہب جو لاہورٹاؤن ہال میں ۲۶،۲۷،۲۸؍ دسمبر ۱۸۹۶ء کو ہوگا اُس میں اس عاجز کا ایک مضمون قرآن شریف کے کمالات اور معجزات کے بارے میں پڑھا جائے گا.یہ وہ مضمون ہے جو انسانی طاقتوں سے برتر اور خدا کے نشانوں میں سے ایک نشان اور خاص اُس کی تائید سے لکھا گیا ہے… مجھے خدائے علیم نے الہام سے مطلع فرمایا ہے کہ یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا اور اس میں سچائی اور حکمت او رمعرفت کا وہ نور ہے جو دوسری قومیں بشرطیکہ حاضر ہوں اوراس کو اوّل سے آخر تک سنیں شرمندہ ہوجائیں گی اور ہرگز قادر نہیں ہوں گی کہ اپنی کتابوں کے یہ کمال دکھلاسکیں خواہ وہ عیسائی ہوں خواہ آریہ خواہ سناتن دھرم والے یا کوئی اور.کیونکہ خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ اس روز اس پاک کتاب کا جلوہ ظاہر ہو.مَیں نے عالَمِ کشف میں اس کے متعلق دیکھا کہ میرے محل پر غیب سے ایک ہاتھ مارا گیا اور اس کے چھونے سے اس محل میں سے ایک نور ساطعہ نکلا جو اردگرد پھیل گیا اور میرے ہاتھوں پر بھی اس کی روشنی ہوئی.تب ایک شخص جو میرے پاس کھڑا تھا وہ بلند آواز سے بولا کہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ.خَرِبَتْ خَیْبَرُ اس کی یہ تعبیر ہے کہ اس محل سے میرا دل مراد ہے جو جائے نزول و حلول انوار ہے اور وہ نورانی معارف ہیں اور خیبر سے مراد تمام خراب مذہب ہیں جن میں شرک اور باطل کی ملونی ہے اور انسان کو خدا کی جگہ دی گئی یا خدا کی صفات کو اپنے کامل محل سے نیچے گرادیا ہے.سو مجھے جتلایا گیا کہ اس مضمون کے خوب پھیلنے کے بعد جھوٹے مذہبوں کا جھوٹ کھل جائے گا اور قرآنی سچائی دن بدن زمین پر پھیلتی جائے گی جب تک کہ اپنا دائرہ پُورا کرے.پھر مَیں اس کشفی حالت سے الہام کی طرف منتقل کیا گیا اور مجھے یہ الہام ہوا.اِنَّ اللّٰہَ مَعَکَ.اِنَّ اللّٰہَ یَقُوْمُ اَیْنَـمَا قُـمْتَ یعنی خدا تیرے ساتھ ہے اورخدا وہیں کھڑا ہوتا ہے جہاں تو کھڑاہو.یہ حمایت الٰہی کے لئے ایک استعارہ ہے؎۱.‘‘ (اشتہار مورخہ ۲۱؍دسمبر ۱۸۹۶ء مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ ۱۷۱،۱۷۲ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’ یہ الہام بذریعہ ایک چھپے ہوئے اشتہار مورخہ ۲۱؍دسمبر کے قبل جلسہ ہذا ہی دو۲ روز کے اندر ہی دور و نزدیک شائع کیا گیا اور سب لوگوں کو اس بات سے آگاہی دی گئی کہ ہمارا ہی مضمون غالب رہے گا.پس ایسا ہی ہوا کہ اس جلسہ میں جس قدر مضامین پڑھے گئے تھے ان سب پر ہمارا مضمون غالب اور فائق رہا اور خود اُس جلسہ میں غیر مذاہب کے وکلاء نے بھی پلیٹ فارم پر کھڑے ہوکر گواہیاں دیں کہ مرزا صاحب
’’جب مَیں مضمون ختم کرچکا تو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا کہ مضمون بالا رہا‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۲۹۱) ۱۸۹۶ء ’’مجھے کشفی طور پر عین بیداری میں بارہا بعض مُردوں کی ملاقات کا اتفاق ہوا ہے اور مَیں نے بعض فاسقوں اور گمراہی اختیار کرنے والوں کا جسم ایسا سیاہ دیکھا ہے کہ گویا وہ دھوئیں سے بنایا گیا ہے.‘‘ (اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ ۴۰۵) بقیہ حاشیہ.کا مضمون سب پر غالب رہا اور انگریزی اخبار سول ملٹری گزٹ۱؎ اور پنجاب اَبزرور اور دیگر اخباروں نے بڑے زور سے گواہی دی کہ ہمارا مضمون سب مضامین پر غالب رہا.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۵۷۳) (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) اس بارہ میں اس مذہبی کانفرنس کے سکرٹری دھنپت رائے بی اے ایل ایل بی پلیڈر چیف کورٹ پنجاب ’’رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب‘‘ (دھرم مہوتسو) میں تحریر فرماتے ہیں.’’پنڈت گوردھن داس صاحب کی تقریر کے بعد نصف گھنٹہ کا وقفہ تھا لیکن چونکہ بعد از وقفہ ایک نامی وکیل اسلام کی طرف سے تقریر کا پیش ہونا تھا اس لئے اکثر شائقین نے اپنی اپنی جگہ کو نہ چھوڑا.ڈیڑھ بجے میں ابھی بہت سا وقت رہتا تھا کہ اسلامیہ کالج کا وسیع مکان جلد جلد بھرنے لگا اور چند ہی منٹوں میں تمام مکان پُر ہوگیا.اس وقت کوئی سات اور آٹھ ہزار کے درمیان مجمع تھا.مختلف مذہب و ملل اور مختلف سوسائٹیوں کے معتدبہ اور ذی علم آدمی موجود تھے اگرچہ کرسیاں اور میزیں اور فرش نہایت ہی وسعت کے ساتھ مہیا کیا گیا لیکن صد ہا آدمیوں کو کھڑا ہونے کے سوا اور کچھ نہ بن پڑا اور ان کھڑے ہوئے شائقینوں میں بڑے بڑے رؤسا، عمائدِ پنجاب، علماء، فضلاء، بیرسٹر، وکیل، پروفیسر ،اکسٹرا اسسٹنٹ، ڈاکٹر.غرض کہ اعلیٰ طبقہ کے مختلف برانچوں کے ہر قسم کے آدمی موجود تھے.ان لوگوں کے اِس طرح جمع ہوجانے اور نہایت صبروتحمل کے ساتھ جوش سے برابر پانچ چار گھنٹہ اُس وقت ایک ٹانگ پر کھڑا رہنے سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ ان ذِی جاہ لوگوں کو کہاں تک اس مقدّس تحریک سے ہمدردی تھی… اِس مضمون کے لئے اگرچہ کمیٹی کی طرف سے صرف دو گھنٹے ہی تھے لیکن حاضرین جلسہ کو عام طور پر اس سے کچھ ایسی دلچسپی پیدا ہوگئی کہ موڈریٹر صاحبان نے نہایت جوش اور خوشی کے ساتھ اجازت دی کہ جب تک یہ مضمون نہ ختم ہو تب تک کارروائی جلسہ کو ختم نہ کیا جاوے.ان کا ایسا فرمانا عین اہلِ جلسہ اور حاضرین جلسہ کی منشاء کے مطابق تھا کیونکہ جب وقتِ مقررہ کے گزرنے پر مولوی ابو یوسف مبارک علی صاحب نے اپنا وقت بھی اس مضمون کے ختم ہونے کے لئے دے دیا تو حاضرین اور موڈریٹر صاحبان نے ایک نعرۂ خوشی سے مولوی صاحب کا شکریہ ادا کیا …یہ مضمون قریباً چار گھنٹہ میں ختم ہوا اور شروع سے اخیر تک یکساں دلچسپی و قبولیت اپنے ساتھ رکھتا تھا.‘‘ (رپورٹ جلسۂ اعظم مذاہب (دھرم مہوتسو) صفحہ ۷۹، ۸۰) ۱ اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور اور پنجاب ابزرور۲ اور ۹؍جنوری ۱۸۹۷ء (ناشر)
۱۸۹۶ء ’’مجھے اس سے بہت خوشی ہوئی کہ چند روز ہوئے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ مبشر الہام مجھے ہوا ہے.اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً ترجمہ.یعنی میں فوجوں کے ساتھ ناگاہ تیرے پاس آنے والا ہوں.یہ کسی عظیم الشان نشان کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے.‘‘ (از مکتوب بنام سیٹھ عبد الرحمٰن صاحبؓ مدراسی.مکتوبات احمدجلد ۲ صفحہ ۳۵۲ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) یکم جنوری ۱۸۹۷ء (الف)’’ وَ؎۱ بَشَّـرَنِیْ رَبِّیْ بِرَابِـعٍ رَحْـمَۃً.وَقَالَ اِنَّہٗ یَـجْعَلُ الثَّلَاثَۃَ اَرْ بَعَۃً…… ثُمَّ کُرِّرَ عَلَیَّ صُوْرَۃُ ھٰذِہِ الْوَاقِعَۃِ فَبَیْنَمـَآ اَنَا کُنْتُ بَیْنَ النَّوْمِ وَالْیَقْظَۃِ.فَتَحَرَّکَ فِیْ صُلْبِیْ رُوحُ الرَّابِـعِ بِعَالَمِ الْمُکَاشَفَۃِ فَنَا دٰٓی اِخْوَانَہٗ وَقَالَ بَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ مِیْعَادُ یَـوْمٍ مِّنَ الْـحَضْـرَۃِ فَاَظُنُّ اَنَّہٗ اَشَارَ اِلَی السَّنَۃِ الْکَامِلَۃِ.اَوْ اَمَدٍ اٰخَرَمِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ.‘‘ (انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۱۸۲،۱۸۳) (ب) ’’اسی لڑکے؎۲ نے اسی طرح پیدائش سے پہلے یکم جنوری ۱۸۹۷ء میں بطور الہام یہ کلام مجھ سے کیا اور مخاطب بھائی تھے کہ مجھ میں اور تم میں ایک دن کی میعاد ہے.یعنی اے میرے بھائیو میں پورے ایک دن کے بعد تمہیں ملوں گا.اس جگہ ایک دن سے مراد دو برس ۱ (ترجمہ از مرتّب) اور میرے ربّ نے مجھے اپنی رحمت سے ایک چوتھے لڑکے کی بشارت دی ہے اور فرمایا ہے کہ وہ تین کو چار کردے گا… پھر دوبارہ اس واقعہ کا نقشہ مجھے دکھایا گیا اور اسی (کشفی) حالت میں کہ مَیں نیند اور بیداری کی حالت میں تھا.عالم مکا شفہ میں چوتھے لڑکے کی روح نے میری صلب میں حرکت کی اور اس نے اپنے بھائیوں کو پکار کر کہا کہ میرے اور تمہارے درمیان خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک دن کی میعاد مقرر ہے.مَیں سمجھتا ہوں کہ اس نے ایک سال کی طرف یا کسی اور میعاد کی طرف جس کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے اشارہ کیا.۲ یعنی مبارک احمد پسر چہارم.(مرزا بشیر احمد)
تھے اور تیسرا برس وہ ہے جس میں پیدائش ہوئی.‘‘ (تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۲۱۷) (ج) ’’الہام کے موافق مباہلہ کے بعد ہمیں ایک لڑکا عطا کیا جس کے پیدا ہونے سے تین لڑکے ہمارے ہوگئے یعنی دوسری بیوی سے اور نہ صرف یہی بلکہ ایک چو؎۱تھے لڑکے کے لئے متواتر الہام کیا اور ہم عبدالحق کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ نہیں مرے گا جب تک اس الہام کا پورا ہونا بھی نہ سن لے.اب اس کو چاہیے کہ اگر وہ کچھ چیز ہے تو دُعا سے اس پیشگوئی کو ٹال دے.‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۳۴۲) ۱۸۹۷ء ’’خدا تعالیٰ نے……ایک فرزند کی نسبت جس کا نام مبارک احمد؎۲ ہے ظاہر فرمایا کہ عبد الحق نہیں مرے گا جب تک کہ وہ پیدا نہ ہو.‘‘ ( اشتہار معیار الاخیار.مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ۴۰ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۱۴؍جنوری ۱۸۹۷ء ’’مَیں ہر دَم اس فکر میں ہوں کہ ہمارا اور نصاریٰ کا کسی طرح فیصلہ ہوجائے.میرا دل مُردہ پرستی کے فتنہ سے خون ہوتا جاتا ہے… مَیں کبھی کا اس غم سے فنا ہوجاتا اگر میرا مولا اور میرا قادر توانا مجھے تسلّی نہ دیتا کہ آخر توحید کی فتح ہے.غیر معبود ہلاک ہوں گے اور جھوٹے خدا اپنی خدائی کے وجود سے منقطع کئے جائیں گے.مریم کی معبودانہ زندگی پر موت آئے گی اور نیز اُس کا بیٹا اب ضرور مرے گا.خد اقادر فرماتا ہے کہ اگر مَیں چاہوں تو مریم اور اُس کے بیٹے عیسیٰ اور تمام زمین کے باشندوں کو ہلاک کروں.سو اَب اُس نے چاہا ہے کہ ان دونو کی جھوٹی معبودانہ زندگی کو موت کا مزہ چکھاوے.سو اب دونو مریں گے کوئی ان کو بچا نہیں سکتا اور وہ تمام خراب استعدادیں بھی مریں گی جو جھوٹے خداؤں کو قبول کرلیتی تھیں.نئی زمین ہوگی اور نیا آسمان ہوگا.اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو سچے خدا کا پتہ لگے گا اور بعد اس کے توبہ کا دروازہ بند ہوگا کیونکہ داخل ہونے والے بڑے زور سے داخل ہوجائیں گے اور وہی باقی رہ جائیں گے جن کے دل پر فطرت سے دروازے بند ہیں اور نور سے نہیں بلکہ تاریکی سے محبت رکھتے ہیں.قریب ہے کہ سب ملّتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام.اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’خدا تعالیٰ نے میری تصدیق کے لئے اور تمام مخالفوں کی تکذیب کے لئے اور عبدالحق غزنوی کو متنبہ کرنے کے لئے اس پسرِ چہارم کی پیشگوئی کو ۱۴؍جون ۱۸۹۹ء میں جو مطابق ۴؍صفر ۱۳۱۷ھ تھی بروز چار شنبہ پورا کردیا یعنی وہ مولود مسعود چوتھا لڑکا تاریخ مذکورہ میں پیدا ہوگیا.‘‘ (تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۲۲۱) ۲ ’’دوسرا نام اس لڑکے کا ایک خواب کی بنا پر دولت احمد بھی ہے.‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۴۰ حاشیہ مطبوعہ ۲۰۱۸ء)
حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا، نہ کند ہوگا جب تک دجّالیّت کو پاش پاش نہ کردے.وہ وقت قریب ہے کہ خدا کی سچی توحید جس کو بیابانوں کے رہنے والے اور تمام تعلیموں سے غافل بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں ملکوں میں پھیلے گی.اس دن نہ کوئی مصنوعی کفّارہ باقی رہے گا اور نہ کوئی مصنوعی خدا.اور خدا کا ایک ہی ہاتھ کفر کی سب تدبیروں کو باطل کردے گا لیکن نہ کسی تلوار سے اور نہ کسی بندوق سے بلکہ مستعد روحوں کو روشنی عطا کرنے سے اور پاک دلوں پر ایک نور اُتارنے سے.تب یہ باتیں جو مَیں کہتا ہوں سمجھ میں آئیں گی.‘‘ ( اَلْاِشْتِـھَار مُسْتَیْقِنًا بِوَحْیِ اللّٰہِ الْقَھَّارِ مجموعہ اشتہارات جلد۲ صفحہ ۱۸۲، ۱۸۳ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) یکم فروری ۱۸۹۷ء ’’جب میری لڑکی مبارکہ والدہ کے پیٹ میں تھی تو حساب کی غلطی سے فکر دامن گیر ہوا اور اس کا غم حد سے بڑھ گیا کہ شاید کوئی اور مرض ہو تب مَیں نے جنابِ الٰہی میں دُعا کی تو الہام ہوا کہ آید آں روزے کہ مستخلص شود۱؎ اور مجھے تفہیم ہوئی کہ لڑکی پیدا ہوگی چنانچہ اس کے مطابق ۲۷؍رمضان ۱۳۱۴ ۲؎ھ کو لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام مبارکہ رکھا گیا.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۸۰) ۱۸۹۷ء ’’ خدا تعالیٰ نے حمل کے ایام میں ایک لڑکی کی بشارت دی اور اُس کی نسبت فرمایا.تُنَشَّأُ فِی الْـحِلْیَۃِ.یعنی زیور میں نشوو نما پائے گی.یعنی نہ وہ خورد سالی میں فوت ہوگی اور نہ تنگی دیکھے گی.چنانچہ بعد اس کے لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام مبارکہ بیگم رکھا گیا.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۲۲۷) فروری ۱۸۹۷ء (الف) ’’ ایک شخص اہل تشیع میں سے جوا پنے آپ کو شیخ نجفی کے نام سے مشہور کرتا تھا ایک دفعہ لاہور میں آکر ہمارے مقابلہ میں بہت شور مچانے لگا اور نشان کا طلب گار ہوا.چنانچہ ہم نے باشاعت اشتہار یکم فروری ۱۸۹۷ء اُس کو یہ وعدہ دیا کہ چالیس روز تک تجھے اللہ تعالیٰ کوئی نشان دکھلائے گا.سو خدا کا احسان ہے کہ ابھی چالیس دن پورے نہ ہوئے تھے کہ نشان ہلاکت لیکھرام پشاوری وقوع میں آگیا.تب تو شیخ ضال نجفی فوراً لاہور سے بھاگ گیا.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۵۸۷) ۱ (ترجمہ از ناشر) وہ دن آرہا ہے کہ وہ تکلیف سے رہائی پائے.۲ ۲ ؍مارچ ۱۸۹۷ء بروز منگل.(ناشر)
(ب) ’’حضرت شیخ الاسلام؎۱درخطِ خود وعدہ می فرماید کہ در چہل دقیقہ نشانے توانم نمود.بسیار خوب است.یکے از اخبار غیب بذریعہ اشتہار ے شائع فرمایند بجائے چہل دقیقہ مہلت چہل ساعت اُو شاں را می دہیم.پس اگر در چہل روز نشانے ازما ظاہر نہ شد و از یشاں در چہل ساعت ظاہر شد یا فرض کنید کہ از یشان نیز در چہل روز ظاہر شُد.بر بزرگی او شاں ایمان خواہیم آورد.و ترک دعویٰ خود خواہیم کرد.و اگر نشانے از مادر یں مدّت بظہور؎۲ آمد و از یشاں چیزے بظہور نیامد ہمیں دلیل بر صدقِ ما وکذب شاں خواہد بود.‘‘ (اشتہار واجب الاظہار مورخہ یکم فروری ۱۸۹۷ء.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ ۱۹۸حاشیہ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) فروری ۱۸۹۷ء ’’ ایک دفعہ مَیں نے اسی لیکھرام کے متعلق دیکھا کہ ایک نیزہ ہے اس کا پھل بڑا چمکتا ہے اور لیکھرام کا سر پڑا ہوا ہے.اُسے اس نیزے سے پرو دیا ہے اور کہا گیا کہ پھر یہ قادیان میں نہ آوے گا.(ان ایام میں لیکھرام قادیان میں تھا اور اس کے قتل سے ایک ماہ پیشتر کا یہ واقعہ ہے).(البدر جلد ۱ نمبر ۱۲ مورخہ ۱۶؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۰) (ترجمہ از مرتّب) حضرت (حاجی شیخ محمد رضا طہرانی نجفی ملقّب بہ) شیخ الاسلام ( جو شیعہ ہیں) اپنے خط میں وعدہ کرتے ہیں کہ ہم چالیس منٹ میں نشان دکھانے کے لئے تیار ہیں.بہت اچھا.اشتہار کے ذریعہ سے کوئی پیشگوئی شائع کریں.ہم انہیں چالیس منٹ کی بجائے چالیس گھنٹے کی مہلت دیتے ہیں.پس اگر چالیس روز کے عرصے میں ہماری طرف سے کوئی نشان ظاہر نہ ہوا اور ان کی طرف سے چالیس گھنٹہ کے اندر نشان ظاہر ہوگیا بلکہ چالیس گھنٹہ نہ سہی چالیس روز کے اندر بھی اگر اُن کی طرف سے کوئی نشان ظاہر ہوا تو اُن کی بزرگی پر ہم ایمان لے آویں گے اور اپنے دعویٰ کو چھوڑ دیں گے اور اگر اس عرصہ میں ہماری طرف سے کوئی نشان ظاہر ہوا اور ان کی طرف سے کوئی ظاہر نہ ہوا تو یہ ہمارے صدق اور اُن کے کذب کی دلیل ہوگا.۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’شیخ نجفی نے اپنے خط میں چالیس دقیقہ میں نشان دکھلانے کا وعدہ کیا تھا اور ہم نے یکم فروری ۱۸۹۷ء سے چالیس روز میں… سو خدا کا احسان ہے کہ یکم فروری ۱۸۹۷ء سے پینتیس۳۵ دن تک یعنی چالیس ۴۰دن کے اندر نشان ہلاکت لیکھرام پشاوری وقوع میں آگیا… اب ہماری طرف سے نشان تو ہوچکا اور نجفی کا کذب کُھل گیا تاہم تنزّل کے طور پر ہم راضی ہیں کہ وہ مسجد شاہی کے منارہ سے اب نیچے گر کے دکھلاوے تاکہ اگر شیخ نجدی منظرین میں داخل ہے تو بارے شیخ نجفی کا قصہ تو تمام ہوا اور اگر اب بھی اپنا نشان نہ دکھلایا تو لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ.‘‘ (اشتہار ۱۰؍مارچ ۱۸۹۷ء.مجموعہ اشتہارات جلد ۲صفحہ۲۲۳،۲۲۴ مطبوعہ ۲۰۱۸ء)
۱۲؍ فروری ۱۸۹۷ء ’’ بتاریخ نہم رمضان المبارک ۱۳۱۴ ہجری حضرت اقدس مسیح موعود ومہدی مسعود نے خواب دیکھا کہ ملازم ان کا مسمّی پیراؔ دروازے پر کھڑا ہوا آواز دے رہا ہے کہ یہ خط لے جاؤ مولوی سید محمد احسن صاحب کا خط ہے.جب حضرت اقدس نے اُس خط کو لیا تو اُس پر لکھا ہوا بہت کچھ ہے مگر حضرت اقدس نے اُس وقت صرف (العارف) پڑھا.جب آپ اُس خط کو اندر مکان کے لے گئے تو اس کو مسک العارف پڑھا.پھر آنکھ کھل گئی.‘‘ (مسک العارف صفحہ ۶۲ مصنفہ مولوی محمد احسن صاحبؓ امروہوی طبع اوّل، شائع کردہ مطبع ضیاء الاسلام قادیان) ۱۸۹۷ء ’’ ایک عرصہ ہوا کہ مجھے الہام ہوا تھا.وَسِّعْ مَکَانَکَ.یَـاْتُـوْنَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ.یعنی اپنے مکان کو وسیع کر کہ لوگ دُور دُور کی زمین سے تیرے پاس آئیں گے.سو پشاؔور سے مدراؔس تک تو مَیں نے اس پیشگوئی کو پوری ہوتے دیکھ لیا مگر ا س کے بعد دوبارہ پھر یہی الہام ہوا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب وہ پیشگوئی پھر زیادہ قوت او ر کثرت کے ساتھ پوری ہوگی.وَاللّٰہُ یَفْعَلُ مَا یَشَآءُ لَا مَانِعَ لِمَا اَرَادَ.‘‘۱؎ (اشتہار مورخہ ۱۷؍فروری ۱۸۹۷ء.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ ۲۱۰ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۱۲؍ مارچ ۱۸۹۷ء ’’ خداوند علیم و خبیر سے خبر پاکر مَیں نے اپنے اشتہار ۱۲؍مارچ ۱۸۹۷ء میں اس امر کو ظاہر کردیا تھا کہ اب سیّد احمد خان صاحب کے.سی.ایس.آئی کی موت کا وقت قریب ہے.افسوس ہے کہ ایک نظر دیکھنا بھی نصیب نہ ہوا.سیّدصاحب غور سے پڑھیں کہ اَب ملاقات کے عوض میں یہی اشتہار ہے چنانچہ اس اشتہار کے ایک سال بعد سید صاحب وفات پاگئے.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۶۹،۵۷۰) ۱۸۹۷ء ’’ مَیں آپ؎۲ کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھے یہ بھی صاف لفظوں میں فرمایا گیا ہے کہ پھر ایک دفعہ ہندو مذہب کا اسلام کی طرف زور کے ساتھ رجوع ہوگا.‘‘ (اشتہار مورخہ ۱۲؍مارچ ۱۸۹۷ء.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ ۲۲۶ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۱۳؍ مارچ ۱۸۹۷ء ’’حضرت اقدس کو بہت روز ہوئے ایک خواب بدیں طور ہوئی کہ ہماری پگڑی اور عَصا ۱ (ترجمہ از ناشر) اور اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے جس چیز کا وہ ارادہ کرلے اسے کوئی روکنے والا نہیں.۲ مراد سر سیّد احمد خاں صاحب.(مرزا بشیر احمد)
اور چوغہ چوری ہوگیا.چوغہ تو جلد مل گیا مگر عَصا و پگڑی کے لئے آدمی واپس لینے گیا ہے.‘‘ (مکتوب مرزا خدا بخش صاحب بحکم حضرت اقدس ؑ بنام منشی جلال الدین صاحب بلانوی.مکتوبات احمد جلد ۴ صفحہ ۱۳۹، ۱۴۰ مطبوعہ ۲۰۱۵ء) ۱۵؍ مارچ ۱۸۹۷ء ’’ اِس تحریر کے وقت ابھی ایک الہام ہوا اور وہ یہ ہے.سلامت؎۱ بر تو اے مَردِ سلامت‘‘؎۲ (سراج منیر.روحانی خزائن جلد۱۲ صفحہ ۳۱ حاشیہ.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ ۲۳۸ حاشیہ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۱۸۹۷ء (الف) ’’ شیخ محمد حسین بٹالوی … کی نسبت تین مرتبہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ اپنی اس حالت پُر ضلالت سے رجوع کرے گا اور پھر خدا اُس کی آنکھیں کھولے گا.وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ.‘‘ (سراج منیر.روحانی خزائن جلد۱۲ صفحہ ۸۰) (ب)’’ ممکن ہے کہ …محمد حسین کا انجام اس آیت پر ہو اٰمَنْتُ اَنَّہٗ لَا اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْا اِسْـرَآئِیْلَ.۴؎ کیونکہ بعض رؤیااس عاجز کی اس تأویل کی مؤ یّد ہیں.‘‘ ( سراج منیر.روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۳۱ حاشیہ و مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ۲۳۸ حاشیہ مطبوعہ ۲۰۱۸ء ) (ج) ’’خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک کشف ظاہر کررہا ہے کہ وہ بالآخر ایمان لائے گا مگر مجھے معلوم نہیں کہ وہ ایمان فرعون؎۴ کی طرح صرف اسی قدر ہوگا کہ اٰمَنْتُ اَنَّہٗ لَا اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْا اِسْرَائِیْلَ.یاپرہیزگار لوگوں کی طرح.وَاللہُ اَعْلَمُ.‘‘ (استفتاء اُردو.روحانی خزائن جلد۱۲ صفحہ ۱۳۰ حاشیہ) ۱ (ترجمہ از مرتّب) اے سلامتی بخششخص تیرے لئے سلامتی ہے.۲ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) یہ وحی الٰہی اس وقت حضور پر نازل ہوئی تھی جب لیکھرام کی ہلاکت کے بعد آریوں کی طرف سے متواتر قتل کی دھمکی دی جاتی تھی.۳ (ترجمہ از ناشر) میں ایمان لاتا ہوں کہ کوئی معبود نہیں مگر وہ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں.(یونس : ۹۱) ۴ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا.’’ اصل میں محمد حسین زیرک آدمی تھا مگر میں دیکھتا تھا کہ ابتدا سے اس میں ایک قسم کی خود پسندی تھی.پس اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ اس طرح پر اس کا تنقیہ کردے.یہ اس کے لئے استفراغ ہے.براہین میں ایک الہام درج ہے جس میں اس کا فرعون نام رکھا گیا ہے.اُس نے بھی آخر یہی کہنا تھا کہ اٰمَنْتُ بِالَّذِیْ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْا اِسْـرَآءِیْلَ.اس لئے اس کے لئے بھی
۱۸۹۷ء ’’میرے پر یہی کھولا گیا ہے کہ حقیقی نبوت کے دروازے خاتم النّبیّین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بکلّی بند ہیں.اب نہ کوئی جدید نبی حقیقی معنوں کے رُو سے آسکتا ہے اور نہ کوئی قدیم نبی.‘‘ (سراج منیر.روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۵) ۱۸۹۷ء ’’ نَفَخْتُ فِیْکَ مِنْ لَّدُ.نِّی رُوْحَ الصِّدْقِ میں نے اپنے پاس سے صدق کی روح تجھ میں پھونکی… اس الہام میں جو لفظ لَدُنْ کا ذکر ہے اُس کی شرح کشفی طور پر یوں معلوم ہوئی کہ ایک فرشتہ خواب میں کہتا ہے کہ یہ مقام لَدُنْ جہاں تجھے پہنچایا گیا یہ وہ مقام ہے، جہاں ہمیشہ بارشیں ہوتی رہتی ہیں اور ایک دم بھی بارش نہیں تھمتی.‘‘ (سراج منیر.روحانی خزائن جلد۱۲ صفحہ ۷۶) ۱۸۹۷ء ’’ عالَمِ کشف میں مَیں نے دیکھا کہ زمین نے مجھ سے گفتگو کی اور کہا یَـا وَلِیَّ اللّٰہِ کُنْتُ لَا اَعْرِفُکَ یعنی اے خدا کے ولی! مَیں تجھ کو پہچانتی نہ تھی.‘‘ (سراج منیر.روحانی خزائن جلد۱۲ صفحہ ۸۰) ۱۸۹۷ء ’’ خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ ان اشتہارات؎۱ کی تقریب پر جو آریہ قوم اور پادریوں اور سکھوں کے مقابل پر جاری ہوئے ہیں.جو شخص مقابل پر آئے گا.خدا اُس میدان میں میری مدد کرے گا.‘‘ (سراج منیر.روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۸۱) بقیہ حاشیہ.اٰمَنْتُ بِا لَّذِ یْ کا وقت مقدّر ہے.اس پر پوچھا گیا کہ وہ کیا امر ہے جس کی و جہ سے یہ آخری سعادت اس کے لئے مقدّر ہے.فرمایا.یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے.مگر اُس نے ایک کام تو کیا ہے براہین احمدیہ پر ریویو لکھا تھا اور وہ واقعی اخلاص سے لکھا تھا کیونکہ اُس وقت اُس کی یہ حالت تھی کہ بعض اوقات میرے جوتے اُٹھا کر جھاڑ کر آگے رکھ دیا کرتا تھا اور ایک بار مجھے اپنے مکان میں اس غرض سے لے گیا کہ وہ مبارک ہوجاوے اور ایک بار اصرار کرکے مجھے وضو کرایا.غرض بڑا اخلاص ظاہر کیا کرتا تھا کئی بار اس نے ارادہ کیا کہ مَیں قادیان ہی میں آکر رہوں مگر مَیں نے اُس وقت اُسے یہی کہا تھا کہ ابھی وقت نہیں آیا.اس کے بعد اسے یہ ابتلا پیش آگیا.کیا تعجب ہے کہ اس اخلاص کے بدلے میں خدا نے اس کا انجام اچھا رکھا ہو.‘‘ ( الحکم مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۷،۸) ۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) ان اشتہارات سے مراد ۱۵،۲۲؍مارچ و ۵ ، ۱۱،۱۶، ۱۸، ۲۷؍اپریل ۱۸۹۷ء کے اشتہارات ہیں جن میں لیکھرام کے قتل کا ذمہ دار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قرار دینے والے تمام لوگوں کے سامنے ایک فیصلہ کن طریق پیش کرکے انہیں اس کی طرف بلایا گیا تھا مگر ان میں سے کسی کو سامنے آنے کی جرأت نہ ہوئی.
۱۸۹۷ء ’’مجھے میرے خدا نے مخاطب کرکے فرمایا ہے.اَلْاَرْضُ وَ السَّمَآءُ مَعَکَ کَما ھُـوَ؎۱ مَعِیْ.قُلْ لِّیَ الْاَرْضُ وَالسَّمَآءُ قُلْ لِّیْ سَلَامٌ.فِیْ مَقْعَدِ صِدْ.قٍ عِنْدَ مَلِیْکٍ مُّقْتَدِرٍ.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَ الَّذِیْنَ ھُمْ مُّـحْسِنُوْنَ.یَـاْتِیْ نَصْـرُ اللّٰہِ.اِنَّـا سَنُنْذِرُ الْعَالَمَ کُلَّہٗ.اِنَّا سَنَنْزِلُ.اَنَا اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنَا.یعنی آسمان اور زمین تیرے ساتھ ہے جیسا کہ وہ میرے ساتھ ہے.کہہ آسمان اور زمین میرے لئے ہے.کہہ میرے لئے سلامتی ہے وہ سلامتی جو خدا قادر کے حضور میں سچائی کی نشست گاہ میں ہے.خدا اُن کے ساتھ ہے جو اُس سے ڈرتے ہیں اور جن کا اُصول یہ ہے کہ خلق اللہ سے نیکی کرتے رہیں.خدا کی مدد آتی ہے ہم تمام دُنیا کو متنبہ کریں گے.ہم زمین پر اُتریں گے.مَیں ہی کامل اور سچا خدا ہوں میرے سوا اور کوئی نہیں.‘‘ (سراجِ منیر.روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۸۳،۸۴) ۱۸۹۷ء ’’ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے کہ دنیا میں جس قدر نبیوں کی معرفت مذہب پھیل گئے ہیں اور استحکام پکڑ گئے ہیں اور ایک حصّہء ِ دنیا پر محیط ہوگئے ہیں اور ایک عمر پاگئے ہیں اور ایک زمانہ اُن پر گزر گیا ہے اُن میں سے کوئی مذہب بھی اپنی اصلیت کے رُو سے جھوٹا نہیں اور نہ اُن نبیوں میں سے کوئی نبی جھوٹا ہے.‘‘ (تحفہ قیصریہ.روحانی خزائن جلد۱۲ صفحہ ۲۵۶) ۱۸۹۷ء ’’نامبردہ؎۲ نے خَلوت کی ملاقات میں سلطان روم کے لئے ایک خاص دعا کرنے کے لئے درخواست کی اور یہ بھی چاہا کہ آئندہ اُس کے لئے جو کچھ آسمانی قضاء قدر سے آنے والا ہے اُس سے وہ اطلاع پاوے.مَیں نے اس کو صاف کہہ دیا کہ سلطان کی سلطنت کی اچھی حالت نہیں ہے اور مَیں کشفی طریق سے اُس کے ارکان؎۳کی حالت اچھی نہیں دیکھتا اور میرے نزدیک ان حالتوں کے ساتھ انجام اچھا نہیں.یہی وہ باتیں تھیں جو سفیر کو اپنی بدقسمتی سے بہت بُری معلوم ہوئیں.مَیں نے کئی اشارات سے اس بات پر ’’ضمیر ھُوَ اس تاویل سے ہے کہ اس کا مرجع مخلوق ہے.‘‘ (سراجِ منیر.روحانی خزائن جلد۱۲ صفحہ ۸۳ حاشیہ) ۲ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) یعنی حسین کامی سفیر سلطانِ روم جو ۱۸۹۷ء میں قادیان آکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملا تھا.۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’واضح ہوکہ عرصہ تخمیناً دو۲ماہ یا تین ماہ کا گزرا ہے کہ ایک معزز تُرک کی معرفت ہمیں یہ خبرملی تھی کہ حسین کامی مذکور ایک ارتکابِ جُرم کی وجہ سے اپنے عہدہ سے موقوف کیا گیا ہے اور اس کی املاک
بھی زور دیا کہ رومی سلطنت خدا کے نزدیک کئی باتوں میں قصور وار ہے اور خدا سچے تقویٰ اور طہارت اور نوعِ انسان کی ہمدردی کو چاہتا ہے اور روم کی حالت موجودہ بربادی کو چاہتی ہے.توبہ کرو تا نیک پھل پاؤ؎۱.مگر بقیہ حاشیہ.ضبط کی گئی مگر مَیں نے اس خبر کو ایک شخص کی روایت خیال کرکے شائع نہیں کیا تھا کہ شاید غلط ہو.آج اخبار نیّر آصفی مدراس مورخہ ۱۲؍اکتوبر ۱۸۹۹ء کے ذریعہ سے ہمیں مفصّل طورپر معلوم ہوگیا کہ ہماری وہ پیشگوئی حسین کامی کی نسبت نہایت کامل صفائی سے پوری ہوگئی.ہماری وہ نصیحت جو ہم نے اپنے خلوت خانہ میں اُس کو کی تھی کہ توبہ کرو تا نیک پھل پاؤ.جس کو ہم نے اپنے اشتہار ۲۴؍مئی ۱۸۹۷ء میں شائع کردیا تھا اس پر پابند نہ ہونے سے آخر وہ اپنی پاداشِ کردار کو پہنچ گیا اوراَب وہ ضرور اُس نصیحت کو یاد کرتا ہوگا… اَب ہم اخبار مذکور میں سے وہ چِٹھی… ذیل میں نقل کردیتے ہیں اور وہ یہ ہے.’’قسطنطنیہ کی چٹّھی ‘‘ ’’ہندوستان کے مسلمانوں نے جو گذشتہ دوسالوں میں مہاجرین کریٹ اور مجروحین عساکرحرب یونان کے واسطے چندہ فراہم کرکے قونصل ہائے دولت علیہ ترکیہ مقیم ہندکودیا تھا معلوم ہوتا ہے کہ ہرزرچندہ تمام وکمال قسطنطنیہ میں نہیں پہنچا اور اس امر کے باور کرنے کہ یہ وجہ ہوئی ہے کہ حسین بک کامی وائس قونصل مقیم کرانچی کو جو ایک ہزارچھ سوروپیہ کے قریب مولوی انشاء اللہ صاحب ایڈیٹر اخبار وکیل امرتسر اورمولوی محبوب عالم صاحب ایڈیٹر پیسہ اخبار لاہور نے مختلف مقامات سے وصول کرکے بھیجا تھا وہ سب غبن کرگیا ایک کوڑی تک قسطنطنیہ میں نہیں پہنچائی مگر خدا کا شکر ہے کہ سلیم پاشا ملحمہ کارکن کمیٹی چندہ کو جب خبر پہنچی تو اس نے بڑی جانفشانی کے ساتھ اس روپیہ کے اُگلوانے کی کوشش کی اوراس کی اراضی مملوکہ کو نیلام کراکر وصولی رقم کا انتظام کیا اوربابِ عالی میں غبن کی خبر بھجواکر نوکری سے موقوف کرایا… حافظ عبدالرحمٰن الہندی الامرتسری.سکّہ جدیدہ.وکالہ صالح آفندی قاہرہ (ملک مصر)‘‘ (مجموعہ اشتہارت جلد ۲ صفحہ۵۷۶ تا ۵۷۸ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’اِس تقریر میں دو۲ پیشگوئیاں تھیں (۱) ایک یہ کہ تم لوگوں کا چال چلن اچھا نہیں ا ور دیانت اور امانت کی نیک صفات سے تم محروم ہو(۲) دوم یہ کہ اگر تیری یہی حالت رہی تو تجھے اچھا پھل نہیں ملے گا اور تیرا انجام بد ہوگا.پھر اسی اشتہار میں۲؎ یہ لکھا تھا کہ بہتر تھا کہ یہ میرے پاس نہ آتا.میرے پاس سے ایسی بدگوئی سے واپس جانا اُس کی سخت بد قسمتی ہے یہی و جہ تھی کہ میری نصیحت اس کو بُری لگی اور اُس نے جاکر میری بدگوئی کی.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۶۵، ۵۶۶.نیز دیکھئے تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۴۰۹) ۲ بطور پیشگوئی سفیر مذکور کی نسبت.(ناشر)
مَیں اُس کے دل کی طرف خیال کررہا تھا کہ وہ ان باتوں کو بہت ہی برا مانتا تھا اور یہ ایک صریح دلیل اس بات پر ہے کہ سلطنت روم کے اچھے دن نہیں ہیں اور پھر اس کا بدگوئی کے ساتھ واپس جانا یہ اور دلیل ہے کہ زوال کی علامات موجود ہیں.ماسوا اس کے میرے دعویٰ مسیح موعود اور مہدی معہود کے بارے میں بھی کئی باتیں درمیان آئیں.مَیں نے اُس کو بار بار سمجھایا کہ مَیں خدا کی طرف سے ہوں اور کسی خونی مسیح اور خونی مہدی کا انتظار کرنا جیسا کہ عام مسلمانوں کا خیال ہے یہ سب بیہودہ قصے ہیں.اس کے ساتھ مَیں نے یہ بھی اُس کو کہا کہ خدا نے یہی ارادہ کیا ہے کہ جو مسلمانوں میں سے مجھ سے علیحدہ رہے گا وہ کاٹا جائے گا، بادشاہ ہو یا غیر بادشاہ.اور مَیں خیال کرتا ہوں کہ یہ تمام باتیں تِیر کی طرح اُس کو لگتی تھیں اور مَیں نے اپنی طرف سے نہیں بلکہ جو کچھ خدا نے الہام کے ذریعہ فرمایا تھا.وہی کہا تھا … اور مَیں مکرر ناظرین کو اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ مجھے اس سفیر کی ملاقات کا ایک ذرّہ شوق نہ تھا… اُس کے الحاح پر مَیں نے اُس کو قادیان آنے کی اجازت دی.لیکن اللہ جلّ شانہٗ جانتا ہے جس پہ جھوٹ باندھنا لعنت کا داغ خریدنا ہے کہ اُس عالم الغیب نے مجھے پہلے سے اطلاع دے دی تھی کہ اِس شخص کی سرشت میں نفاق کی رنگ آمیزی ہے.سو ایسا ہی ظہور میں آیا.‘‘ (اشتہار ۲۴؍ مئی ۱۸۹۷ء.مجموعہ اشتہارات جلد۲ صفحہ ۲۹۴ تا ۲۹۶ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) جون ۱۸۹۷ء ’’ اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَـخَلَقْتُ اٰدَمَ خَلِیْفَۃَ اللّٰہِ السُّلْطَانَ.‘‘؎۱ (مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ ۳۰۳ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۹؍جون ۱۸۹۷ء ’’ ہم نے دینی مصلحت اور شکر الٰہی کے طور پر ایک کتاب تحفہ قیصرؔیہ نام بطور ہدیہ قیصرہ ہند کی خدمت میں بھیجنے کے لئے تجویز کی تھی.آج ایک خواب سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید اِس ارادہ میں کامیابی نہ ہو.ایک الہام میں ہماری جماعت کے ایک ابتلاء کی طرف بھی اشارہ ہے مگر انجام سب خیرو عافیت ہے.‘‘ (از مکتوب بنام سیٹھ عبدالرحمٰن صاحب مدراسی.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۳۵۵ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۲۵؍جون ۱۸۹۷ء ’’افسوس کہ پرچہ چودھویں صدی ۱۵؍جون ۱۸۹۷ء میں بھی بہت سی جزع فزع کے ساتھ سلطان روم کا بہانہ رکھ کر نہایت ظالمانہ توہین و تحقیر و استہزاء اِس عاجز کی نسبت کیا گیا ہے … مگر کچھ ضرور ۱ (ترجمہ از مرتّب) مَیں نے چاہا کہ اپنا خلیفہ بناؤں تو آدم کو پیدا کیا جو اللہ کا خلیفہ اور بادشاہ ہے.
نہیں کہ مَیں اُس کے ردّ میں تضیع اوقات کروں کیونکہ وہ دیکھ رہا ہے جس کے ہاتھ میں حساب ہے لیکن ایک عجیب بات ہے جس کا اس وقت ذکر کرنا نہایت ضروری ہے اور وہ یہ کہ جب یہ اخبار چودھویں صدی میرے رُوبرو پڑھا گیا تو میری رُوح نے اس مقام میں بددُعا کے لئے حرکت کی جہاں لکھا ہے کہ ’’ ایک بزرگ نے جب یہ اشتہار (یعنی اس عاجز کا اشتہار) پڑھا تو بے ساختہ اُن کے منہ سے یہ شعر نکل گیا.؎ چُوں خدا خواہد کہ پَردۂ کَس دَرَدْ میلش اندر طعنۂ پا کاں برد‘‘۱؎ مَیں نے ہر چند اس رُوحی حرکت کو روکا اور دبایا اور بار بار کوشش کی کہ یہ بات میری رُوح میں سے نکل جائے مگر وہ نہ نکل سکی.تب مَیں نے سمجھا کہ وہ خدا کی طرف سے ہے تب مَیں نے اُس شخص کے بارے میں دُعا کی جس کو بزرگ کےلفظ سے اخبار میں لکھا گیا ہے اور مَیں جانتا ہوں کہ وہ دُعا قبول ہوگئی اور وہ دُعا یہ ہے کہ یا الٰہی اگر تُو جانتا ہے کہ مَیں کذ ّاب ہوں اور تیری طرف سے نہیں ہوں اور جیسا کہ میری نسبت کہا گیا ہے ملعون اور مردُود ہوں اور کاذب ہوں اور تجھ سے میرا تعلق اور تیرا مجھ سے نہیں تو مَیں تیری جناب میں عاجزانہ عرض کرتا ہوں کہ مجھے ہلاک کر ڈال اور اگر تُو جانتا ہے کہ مَیں تیری طرف سے ہوں اور تیرا بھیجا ہوا ہوں اور مسیح موعود ہوں تو اُس شخص کے پَردے پھاڑ دے؎۲ جو بزرگ کے نام سے اس اخبار میں لکھا ۱ (ترجمہ از ناشر) خدا تعالیٰ جب کسی کا پردہ چاک کرنا چاہتاہے تو اس کی طبع میں پاک لوگوں پر طعنہ زنی کا میلان پیدا کردیتا ہے.۲ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) اَلْـحَمْدُ لِلہ کہ یہ نشان بڑی آب و تاب سے پورا ہوگیا اور چودھویں صدی کے بزرگ نے بڑی عجز و انکساری سے معافی نامہ لکھا چنانچہ بزرگ صاحب لکھتے ہیں.’’ سیدی و مولائی السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہٗ.ایک خطا کار اپنی غلط کاری سے اعتراف کرتا ہوا (اِس نیاز نامہ کے ذریعہ سے) قادیاؔن کے مبارک مقام پر (گویا) حاضر ہوکر آپ کے رحم کا خواستگار ہوتا ہے.یکم جولائی ۹۷ء سے یکم جولائی ۹۸ء تک جو اس گنہ گار کو مہلت دی گئی اب آسمانی بادشاہت میں آپ کے مقابلہ میں اپنے آپ کو مجرم قرار دیتا ہے(اِس موقعہ پر مجھے القا ہوا کہ جس طرح آپ کی دُعا مقبول ہوئی اسی طرح میری التجا و عاجزی قبول ہوکر حضرت اقدس کے حضور سے معافی و رہائی دی گئی)… اس وقت تو مَیں ایک مجرم گنہ گاروں کی طرح آپ کے حضور میں کھڑا ہوتا ہوں اور معافی مانگتا ہوں (مجھ کو حاضر ہونے میں بھی کچھ عذر نہیں مگر بعض حالات میں ظاہر حاضری سے معاف کیا جانے کا مستحق ہوں) شاید جولائی ۱۸۹۸ء سے
گیا ہے لیکن اگر وہ اس عرصہ میں قادیاؔن میں آکر مجمع عام میں توبہ کرے تو اُسے معاف فرما کہ تُو رحیم و کریم ہے.یہ دُعا ہے کہ مَیں نے اس بزرگ کے حق میں کی مگر مجھے اس بات کا علم نہیں ہے کہ یہ بزرگ کون ہے اور کہاں رہتے ہیں اور کس مذہب اور قوم کے ہیں جنہوں نے مجھے کذّاب ٹھہرا کر میری پَردہ دَری کی پیشگوئی کی اور نہ مجھے جاننے کی کچھ ضرورت ہے مگر اُس شخص کے اِس کلمہ سے میرے دل کو دُکھ پہنچا اور ایک جوش پیدا ہوا تب مَیں نے دُعا کردی اور یکم جولائی ۱۸۹۷ء سے یکم جولائی ۱۸۹۸ء تک اس کا فیصلہ کرنا خدا تعالیٰ سے مانگا.‘‘ (از اشتہار مورخہ ۲۵؍ جون ۱۸۹۷ء.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ ۳۴۴،۳۴۵ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) جولائی ۱۸۹۷ء ’’ جولائی ۱۸۹۷ء میں جب عزیزی مرزا یعقوب بیگ صاحب نے اسسٹنٹ سرجنی کا آخری امتحان دیا اور ہم نے اُن کے لئے دُعا کی تو الہام ہوا.’’تم پاس ہوگئے ہو‘‘ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ وہ پاس ہوگیا ہے کیونکہ مخلصوں کے لئے جو یگانگت کی حد تک پہنچتے ہیں ایسے فقرے آجاتے ہیں… بالآخر عزیز مذکور اپنے امتحان میں بڑی خوبی سے کامیاب ہوا.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۶۰۱) بقیہ حاشیہ.پہلے حاضر ہی ہوجاؤں.امید کہ بارگاہِ قُدس سے بھی آپ کو راضی نامہ دینے کے لئے تحریک فرمائی جائے کہ نَسِيَ وَ لَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا قانون کا بھی یہی اصول ہے کہ جو جرم عمدًا و جان بوجھ کر نہ کیا جائے وہ قابلِ راضی نامہ و معافی کے ہوتا ہے.فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا اِنَّ اللّٰہَ یُـحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ.مَیں ہوں حضور کا مجرم (دستخطبزرگ)۱؎ راولپنڈی ۲۹؍اکتوبر ۹۷ء ‘‘ (کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد۱۳ صفحہ ۱۱۳ تا۱۱۷) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس خط کے جواب میں لکھا.’’خدا تعالیٰ اس بزرگ کی خطا کو معاف کرے اور اس سے راضی ہو.مَیں اس سے راضی ہوں اور اس کو معافی دیتا ہوں.‘‘ (کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۱۸.مجموعہ اشتہارات جلد۲ صفحہ ۳۸۸ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۱ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری)یہ بزرگ خوا جہ جہاں داد چیف آف گکھڑ باشندہ ضلع راولپنڈی کے تھے.دیکھیے الحکم مورخہ ۲۱، ۲۸؍جون ۱۹۴۳ء صفحہ ۴.
۲۹؍جولائی ۱۸۹۷ء (الف)’’ ۲۹؍ جولائی ۱۸۹۷ء کو مَیں نے خواب میں دیکھا کہ ایک صاعقہ مغرب کی طرف سے میرے مکان کی طرف چلی آتی ہے اور نہ اُس کے ساتھ کوئی آواز ہے اور نہ اُس نے کچھ نقصان کیا ہے بلکہ وہ ایک ستارہ روشن کی طرح آہستہ حرکت سے میرے مکان کی طرف متوجہ ہوئی ہے اور مَیں اُس کو دُور سے دیکھ رہا ہوں اور جبکہ وہ قریب پہنچی تو میرے دل میں تو یہی ہے کہ یہ صاعقہ ہے مگر میری آنکھوں نے صرف ایک چھوٹا سا ستارہ دیکھا جس کو میرا دل صاعقہ سمجھتا ہے.پھر بعد اس کے میرا دل اس کشف سے الہام کی طرف منتقل کیا گیا اور مجھے الہام ہوا کہ.مَا ھٰذَا؎۱ اِلَّا تَـھْدِیْدُ الْـحُکَّامِ یعنی یہ جو دیکھا اس کا بجز اس کے کچھ اثر نہیں کہ حکّام کی طرف سے کچھ ڈرانے کی کارروائی ہوگی اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا.پھر بعد اس کے الہام ہوا.قَدِ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ.ترجمہ.مومنوں پر ایک ابتلا آیا یعنی بوجہ اس مقدّمہ؎۲ کے تمہاری جماعت ایک امتحان میں پڑے گی.۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے اپنی پرانی نوٹ بک کے حوالہ سے ان چار الہاماتِ ذیل (ا) مَا ھٰذَا اِلَّا تَـھْدِیْدُ الْـحُکَّامِ.(۲) صادق آں باشد کہ اَیامِ بلا.الخ (۳) یَاْتِیْکَ نُصْرَتِیْ.(۴) اِبْرَاء.کی تاریخ نزول ۲۱؍اگست ۱۸۹۷ء لکھی ہے.وَاللہُ اَعْلَمُ.ان کے علاوہ ۲دو اور الہام بھی اسی تاریخ کے لکھے ہیں.(ا) اِنِّیْ مَعَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِالْاَکْبَرِ (۲)اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَـا مِنْکَ.دیکھیے ذکرِ حبیب صفحہ ۲۲۱ مطبوعہ دسمبر ۱۹۳۶ء ۲ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) یعنی مقدمہ اقدامِ قتل منجانب مارٹن کلارک کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’یہ مقدمہ اس طرح سے ہوا کہ ایک شخص عبدالحمید نام نے عیسائیوں کے سکھلانے پر مجسٹریٹ ضلع امرتسر کے رُو برو اظہار دئے کہ مجھے مرزا غلام احمد نے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے قتل کرنے کے لئے بھیجا ہے.اس پر مجسٹریٹ امرتسر نے میری گرفتاری کے لئے یکم اگست کو وارنٹ جاری کیا جس کی خبر سن کر ہمارے مخالفین امرتسر و بٹالہ میں ریل کے پلیٹ فارموں اور سڑکوں پر آ آ کر کھڑے ہوتے تھے تا کہ میری ذلّت دیکھیں لیکن خدا کی قدرت ایسی ہوئی کہ اوّل تو وہ وارنٹ خدا جانے کہاں گم ہوگیا.دوؔم مجسٹریٹ ضلع امرتسر کو بعد میں خبر لگی کہ اُس نے غیرضلع میں وارنٹ جاری کرنے میں بڑی غلطی کھائی ہے.پس اُس نے ۶؍اگست کو جلدی سے صاحب ضلع گورداسپور کو تار دیا
پھر بعد اس کے یہ الہام ہوا کہ لَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الْمُجَاھِدِیْنَ مِنْکُمْ وَلَیَعْلَمَنَّ الْکَاذِبِیْنَ.یہ میری جماعت کی طرف خطاب ہے کہ خدا نے ایسا کیا تا خدا تمہیں جتلاوے کہ تم میں سے وہ کون ہے کہ اُس کے مامور کی راہ میں صدقِ دل سے کوشش کرتا ہے اور وہ کون ہے جو اپنے دعویٰ بیعت میں جھوٹا ہے.سو ایسا ہی ہوا.ایک گروہ تو اِس مقدّمہ اور دوسرے مقدمہ میں جو مسٹر ڈ۱؎وئی صاحب کی عدالت میں فیصلہ ہوا صدقِ دل سے اور کامل ہمدردی سے تڑپتا پھرا اور انہوں نے اپنی مالی اور جانی کوششوں میں فرق نہیں رکھا اور دُکھ اٹھا کر اپنی سچائی دکھلائی اور دوسرا گروہ وہ بھی تھا کہ ایک ذرّہ ہمدردی میں شریک نہ ہوسکے سو اُن کے لئے وہ کھڑکی بند ہے جو اِن صادقوں کے لئے کھولی گئی.پھر یہ الہام ہوا کہ صادق آں باشد کہ ایامِ بلا مے گذار د با محبت باوفا یعنی خدا کی نظرمیں صادق وہ شخص ہوتا ہے کہ جو بَلا کے دنوں کو محبّت اور وفا کے ساتھ گذارتا ہے.پھر اس کے بعد میرے دل میں ایک اور موزوں کلمہ ڈالا گیا لیکن نہ اس طرح پر کہ جو الہامِ جلی کی صورت ہوتی ہے بلکہ الہامِ خفی کے طور پر دل اس مضمون سے بھر گیا اور وہ یہ تھا.گرقضا را عاشقے گرد د اسیر بوسد آں زنجیر را کز آشنا یعنی اگر اتفاقاً کوئی عاشق قید میں پڑ جائے تو اُس زنجیر کو چومتا ہے جس کا سبب آشنا ہوا.بقیہ حاشیہ.کہ وارنٹ فوراً روک دو.جس پر سب حیران ہوئے کہ وارنٹ کیسا.لیکن مثل مقدمہ کے آنے پر صاحب ضلع گورداسپور نے ایک معمولی سمن کے ذریعہ سے مجھے بلایا اور عزت کے ساتھ اپنے پاس کرسی دی.یہ صاحب ضلع جس کانام کپتان ایم.ڈبلیو.ڈگلس تھا بہ سبب زیرک اور دانشمند اور منصف مزاج ہونے کے فوراً سمجھ گیاکہ مقدّمہ بے اصل اور جھوٹا ہے.اِس لئے میں نے ایک دوسرے مقام میں اس کو پیلاطوؔس سے نسبت دی ہے بلکہ مردانگی اور انصاف میں اُس سے بڑھ کر.لیکن خدا کا اور فضل یہ ہوا کہ خود عبدالحمید نے عدالت میں اقرار کرلیا کہ عیسائیوں نے مجھے سکھلا کر یہ اظہار دلایا تھا ورنہ یہ بیان سراسر جھوٹ ہے کہ مجھے قتل کے لئے ترغیب دی گئی تھی.پس صاحب ضلع نے اس آخری بیان کو صحیح سمجھا اور بڑے زور شور کا چٹھا لکھ کر مجھے بَری کردیا اور تبسم کے ساتھ عدالت میں مجھے مبارکباد دی.فَالْـحَمْدُ لِلہِ عَلٰی ذَالِکَ.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۵۷۶، ۵۷۷.مفصّل بیان کے لئے دیکھیے کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد۱۳ صفحہ ۱۹ تا ۱۲۲) ۱ Mr.Dowie
پھر اس کے بعد یہ الہام ہوا.اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ.اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً.یَاْتِیْکَ۱؎ نُصْـرَتِیْ.اِنِّیْٓ اَنَا الرَّحْـمٰنُ ذُوالْمَجْدِ وَالْعُلٰی.یعنی وہ قادر خدا جس نے تیرے پر قرآن فرض کیا پھر تجھے واپس لائے گا یعنی انجام بخیر و عافیت ہوگا.مَیں اپنی فوجوں کے سمیت (جو ملائکہ ہیں) ایک ناگہانی طور پر تیرے پاس آؤں گا.مَیں رحمت کرنے والا ہوں.مَیں ہی ہوں جو بزرگی اور بلندی سے مخصوص ہے یعنی میرا ہی بول بالا رہے گا.پھر بعد اس کے یہ الہام ہوا کہ مخالفوں میں پھُوٹ اور ایک شخص متنافس کی ذلّت اور اہانت اور ملامت ِ خلق.؎۲ (اور پھر اخیر حکم) اِبْرَآء یعنی بے قصور ٹھہرانا.پھر بعد اس کے الہام ہوا.وَ فِــــیْـــــہِ شَیْءٌ یعنی بریّت تو ہوگی مگر اس میں کچھ چیز ہوگی (یہ اس نوٹس کی طرف اشارہ تھا جو بَری کرنے کے بعد لکھا گیا تھا کہ طرزِ مباحثہ نرم چاہیے) پھر ساتھ اس کے یہ بھی الہام ہوا کہ بَـــلَـــجَـــتْ اٰیَــاتِیْ کہ میرے نشان روشن ہوں گے اور ان کے ثبوت زیادہ سے زیادہ ظاہر ہوجائیں گے (چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اس مقدّمہ میں جو ستمبر ۱۸۹۹ء میں عدالت مسٹر جے.آر.ڈریمنڈ۳؎ صاحب بہادر میں فیصلہ ہوا.عبدالحمید ملزم نے دوبارہ اقرار کیا کہ میرا پہلا بیان جھوٹا تھا).اور پھر الہام ہوا.لِوَآءُ فَتْحٍ.یعنی فتح کا جھنڈا ۱ (ترجمہ از ناشر) میری مدد تجھے پہنچے گی.۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’اصل لفظ الہام کے بٹالوی کی نسبت بہت سخت تھے ہم نے نرم الفاظ میں ان کا ترجمہ کردیا ہے.‘‘ (کتاب البریّہ.ٹائٹل پیج.روحانی خزائن جلد۱۳ صفحہ ۱) ۳ Mr.J.R.Drummond
پھر بعد اس کے الہام ہوا.اِنَّـمَا اَمْرُنَا اِذَا اَرَدْ نَا شَیْئًا اَنْ نَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ.یعنی ہمارے اُمور کے لئے ہمارا یہی قانون ہے کہ جب ہم کسی چیز کا ہوجانا چاہتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ ہوجا پس وہ ہوجاتی ہے.‘‘ (تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۳۴۱ تا ۳۴۳) (ب) ’’ مقدّمہ ؎۱سے تین ماہ پہلے مندرجہ ذیل الہام اس ابتلاء؎۲ کے بارے میں ہوئے.قَدِابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ.مَاھٰذَا اِلَّا تَـھْدِ.یْدُ الْـحُکَّامِ.اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ.اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً.یَاْتِیْکَ نُصْـرَتِیْ.اِنِّیْ اَنَا الرَّحْـمٰنُ ذُوالْمَجْدِ وَالْعُلٰی.مخالفوں میں پھوٹ … اور ایک شخص متنافس کی ذلّت اور اہانت اور ملامت ِ خلق.(اور اخیر حکم) اِبْرَآء بے قصور ٹھہرانا.بَلَجَتْ اٰیَـاتِیْ.یعنی تجھ پر اور تیرے ساتھ کے مومنوں پر مؤاخذۂ حکام کا ابتلا آئے گا.وہ ابتلا صرف تہدید ہوگا اس سے زیادہ نہیں.وہ خدا جس نے خدمت ِ قرآن تجھے سپرد کی ہے پھر تجھے قادیان میں واپس لائے گا.مَیں اپنے فرشتوں کے ساتھ ناگہانی طور پر تیری مدد کروں گا.میری مدد تجھے پہنچے گی.مَیں ذوالجلال بلند شان والا رحمٰن ہوں.مَیں مخالفوں میں پھوٹ ڈالوں گا.( اس میں یہ اشارہ ہے کہ آخر عبدالحمید اور پادری گر۳؎ے اور نوردین عیسائی مخالفانہ بیان کردیں گے) اور یہ فقرہ کہ متنافس کی ذلّت اور اہانت اور ملامتِ خلق.یہ محمد حسین کی طرف اشارہ ہے کہ کرسی کے معاملہ میں اور پھر پادریوں کے خلاف واقعہ شہادت پر طرح طرح کی ذلّت اور ملامتِ خلق اُس کو پیش آئی اور انجام کار یہ ہوگا کہ تمہیں بَری اور بے قصور ٹھہرایا جائے گا اور میرا نشان ظاہر ہوگا.‘‘ (ٹائٹل پیج کتاب البر ّیہ.روحانی خزائن جلد ۱۳.صفحہ اوّل) (ج) ’’ ایک الہام یہ تھا کہ مخالفوں میں پھوٹ اور ایک شخص متنافس کی ذلّت اور اہانت اور ملامت خلق چنانچہ اس الہام کا ایک حصہ تو اس طرح پورا ہوا کہ ہمارے مخالفین یعنی عبدالحمید اور اس کے سکھانے والے عیسائیوں میں پھوٹ پڑی کہ عبدالحمید نے صاف اقرار کرلیا کہ مجھے ان لوگوں نے یہ جھوٹی بات سکھائی تھی ورنہ ۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) یعنی مقدمہ اقدامِ قتل منجانب پادری مارٹن کلارک بخلاف حضرت مسیح موعود علیہ السلام.۲ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) یعنی ابتلاء مقدمہ مذکور جس کی پیشگوئی براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۱۶،۶۱۷ میں اس مقدمہ سے اٹھارہ برس پہلے شائع ہوئی تھی.۳ Padre Gray
اصل میں یہ کچھ بات نہ تھی صرف ان کے بہکانے پر مَیں نے ایسا کہا… اور دوسرا حصّہ الہام کا اس طرح سے پورا ہوا کہ دورانِ مقدّمہ میں جب مُوحّدین کے ایڈووکیٹ مولوی محمد حسین میری مخالفت میں عیسائیوں کے گواہ بن کر پیش ہوئے تو برخلاف اپنی اُمیدوں کے میری عزت دیکھ کر اُس طمع خام میں پڑے کہ ہم بھی کرسی مانگیں چنانچہ آتے ہی انہوں نے سوال کیا کہ مجھے کرسی ملنی چاہیے مگر افسوس کہ صاحب ڈپٹی کمشنر نے اُن کو جھڑک دیا اور سخت جھڑکا کہ تم کو کرسی نہیں مل سکتی.سو یہ خدا کا ایک نشان تھا کہ جو کچھ انہوں نے میرے لئے چاہا وہ خود اُن کو پیش آگیا.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۵۷۷،۵۷۸) اکتوبر۱۸۹۷ء ’’ شروع اکتوبر ۱۸۹۷ء میں مجھے دکھایا گیا کہ مَیں ایک گواہی کے لئے ایک انگریز حاکم کے پاس حاضر کیا گیا ہوں اور اس حاکم نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ کے والد کا کیا نام ہے؟ لیکن جیسا کہ شہادت کے لئے دستور ہے، مجھے قسم نہیں دی.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۵۹۹) ۸؍اکتوبر۱۸۹۷ء ’’ ۸؍اکتوبر ۱۸۹۷ء کو مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ اس مقدمہ؎۱ کا سپاہی سمن لے کر آیا ہے.یہ خواب مسجد میں عام جماعت کو سنادی گئی تھی.آخر ایسا ہی ظہور میں آیا اور سپاہی سمن لے کر آگیا اور معلوم ہوا کہ ایڈیٹر اخبار ناظم اؔلہند لاہور نے مجھے گواہ لکھا دیا ہے… سو جب مَیں ملتان میں پہنچ کر عدالت میں گواہی کے لئے گیا تو ویسا ہی ظہور میں آیا.حاکم کو ایسا سہو ہوگیا کہ قسم دینا بھول گیا اور اظہار شروع کردیئے.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۵۹۹) ۱۸۹۷ء اس عاجز کو اپنے الہامات میں خدا تعالیٰ مخاطب کرکے فرماتا۲؎ ہےکہ ’’ تو مجھ سے اور مَیں تجھ سے ہوں اور زمین و آسمان تیرے ساتھ ہیں جیسا کہ میرے ساتھ ہیں اور تو ہمارے پانی میں سے ہے اور دوسرے لوگ خشکی سے اور تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید اور تو مجھ سے اس مقام اتحاد میں ہے جو کسی مخلوق کو معلوم نہیں خدا اپنے عرش سے تیری تعریف کرتا ہے.تو اس سے نکلا اور اس نے تمام دنیا سے تجھ کو چنا.تو میری درگاہ میں ۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) یعنی وہ مقدمہ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام شہادت کے لئے ۲۹،۳۰؍اکتوبر کو ملتان تشریف لے گئے تھے.۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’یہ الہامات میری کتاب براہین احمدیہ اور آئینہ کمالات اسلام اور ازالہ اوہام اور تحفہ بغداد وغیرہ میں شائع ہوچکے ہیں اور قریباً پچیس سال سے ان کو شائع کررہا ہوں.‘‘ (کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۰۰ حاشیہ)
میں وجیہ ہے.میں نے اپنے لئے تجھ کو پسند کیا.تو جہان کا نور ہے.تیری شان عجیب ہے.میں تجھے اپنی طرف اٹھائوں گا اور تیرے گروہ کو قیامت تک غالب رکھوں گا.تو برکت دیا گیا.خدا نے تیری مجد کو زیادہ کیا.تو خدا کا وقار ہے.پس وہ تجھے ترک نہیں کرے گا.تو کلمۃ الازل ہے پس تو مٹایا نہیں جائے گا.میں فوجوں کے سمیت تیرے پاس آئوں گا.میرا لُوٹا ہوا مال تجھے ملے گا.میں تجھے عزت دوں گا اور تیری حفاظت کروں گا.یہ ہوگا یہ ہوگا یہ ہوگا اور پھر انتقال ہوگا.تیرے پر میرے کامل انعام ہیں.لوگوں کو کہہ دے کہ اگر تم خدا سے پیار کرتے ہو تو آئو میرے پیچھے چلو تا خدا بھی تم سے پیار کرے.میری سچائی پر خدا گواہی دیتا ہے پھر کیوں تم ایمان نہیں لاتے.تو میری آنکھوں کے سامنے ہے میں نے تیرا نام متوکل رکھا.خدا عرش سے تیری تعریف کرتا ہے.ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور تیرے پر درود بھیجتے ہیں.لوگ چاہیں گے کہ اس نور کو بجھا دیں مگر خدا اس نور کو جو اس کا نور ہے کمال تک پہنچائے گا.ہم ان کے دلوں میںرعب ڈالیں گے.ہماری فتح آئے گی اور زمانہ کا کاروبار ہم پر ختم ہوگا اس دن کہا جائے گا کہ کیا یہ حق نہ تھا.میں تیرے ساتھ ہوں جہاں تو ہے.جس طرف تیرا مُنہ اُس طرف خدا کا مُنہ.تجھ سے بیعت کرنا ایسا ہے جیسا کہ مجھ سے.تیرا ہاتھ میرا ہاتھ ہے.لوگ دور دور سے تیرے پاس آئیں گے اور خدا کی نصرت تیرے پر اترے گی.تیرے لئے لوگ خدا سے الہام پائیں گے اور تیری مدد کریں گے.کوئی نہیں جو خدا کی پیشگوئیوں کو ٹال سکے.اے احمد تیرے لبوں پر رحمت جاری کی گئی اور تیرا ذکر بلند کیا گیا.خدا تیری حجت کو روشن کرے گا.تو بہادر ہے.اگر ایمان ثریا میں ہوتا تو تُو اس کو پالیتا.خدا کی رحمت کے خزانے تجھے دئیے گئے.تیرے باپ دادے کا ذکر منقطع ہو جائے گا اور خدا ابتدا تجھ سے کرے گا.میں نے ارادہ کیا کہ اپنا جانشین بنائوں تو میں نے آدم کو یعنی تجھے پیدا کیا ہے.آواہن (خدا تیرے اندر اتر آیا) خدا تجھے ترک نہیں کرے گا اور نہ چھوڑے گا جب تک کہ پاک اور پلید میں فرق نہ کرے.میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا پس میں نے چاہا کہ پہچانا جائوں.تو مجھ میں اور تمام مخلوقات میں واسطہ ہے.میں نے اپنی روح
تجھ میں پھونکی.تو مدد دیا جائے گا اور کسی کو گریز کی جگہ نہیں رہے گی.تو حق کے ساتھ نازل ہوا اور تیرے ساتھ نبیوں کی پیشگوئیاں پوری ہوئیں.خدا نے اپنے فرستادہ کو بھیجا تا اپنے دین کو قوت دے اور سب دینوں پر اس کو غالب کرے.اس کو خدا نے قادیاں کے قریب نازل کیا اور وہ حق کے ساتھ اترا اور حق کے ساتھ اتارا گیا اور ابتدا سے ایسا ہی مقرر تھا.تم گڑھے کے کنارے پر تھے خدا نے تمہیں نجات دینے کے لئے اسے بھیجا.اے میرے احمد تو میری مراد اور میرے ساتھ ہے.میں نے تیری بزرگی کا درخت اپنے ہاتھ سے لگایا.میں تجھے لوگوں کا امام بنائوں گا اور تیری مدد کروں گا.کیا لوگ اس سے تعجب کرتے ہیں.کہہ خدا عجیب ہے چن لیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور اپنے کاموں سے پوچھا نہیں جاتا.خدا کا سایہ تیرے پر ہوگا اور وہ تیری پناہ رہے گا.آسمان بندھا ہوا تھا اور زمین بھی ہم نے دونوں کو کھول دیا.تو وہ عیسیٰ ہے جس کا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا.تیرے جیسا موتی ضائع نہیں ہو سکتا.ہم تجھے لوگوں کے لئے نشان بنائیں گے اور یہ امر ابتدا سے مقدر تھا.تو میرے ساتھ ہے.تیرا بھید میرا بھید ہے تو دنیا اور آخرت میں وجیہ اور مقرب ہے.تیرے پر انعام خاص ہے اور تمام دنیا پر تجھے بزرگی ہے.بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں برمنارِ بلند تر محکم افتاد.میں اپنی چمکار دکھلائوں گا اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھائوں گا.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.اس کے لئے وہ مقام ہے جہاں انسان اپنے اعمال کی قوت سے پہنچ نہیں سکتا تو میرے ساتھ ہے.تیرے لئے رات اور دن پیدا کیا گیا.تیری میری طرف وہ نسبت ہے جس کی مخلوق کو آگاہی نہیں.اے لوگو تمہارے پاس خدا کا نور آیا پس تم منکر مت ہو.‘‘ (کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد۱۳ صفحہ ۱۰۰ تا۱۰۳) ۱۸۹۷ء ’’ اس نے مجھے بشارت دی کہ مَیں تجھے برکت دُوں گا اور بہت برکت دُوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.‘‘ (کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۷۹ حاشیہ)
نومبر ۱۸۹۷ء ’’ حضور حـجّۃ الاسلام نے ایک رؤیادیکھی کہ گویا دارالامان میں طاعون آگئی ہے.اس کی تفہیم کھجلی ہوئی.آپ نے فرمایا.قادیاؔن طاعون نامیمون سے مامون و مصئون رہے گا البتہ خارش کا مرض ہو تو تعجب نہیں.اس پر جناب نے یہ بھی اجتہاد فرمایا ہے (کہ کھجلی پیدا کردینے والی دوا طاعون کو روک دے گی).‘‘ (الحکم جلد ۱ نمبر ۵ مورخہ ۲۳؍نومبر ۱۸۹۷ء صفحہ۴) دسمبر ۱۸۹۷ء ’’ انہی؎۱ دنوں میں مَیں نے کشف میں دیکھا ہے کہ اگلے سال بعض احباب دنیا میں نہ ہوں گے.گو مَیں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کشف کا مصداق کون کون احباب ہوں گے اور مَیں جانتا ہوں کہ یہ اس لئے ہے تا ہر ایک شخص بجائے خود سفرِ آخرت کی طیاری رکھے.‘‘ (رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۶۲) ۱۸۹۸ء ’’ مجھے؎۲معلوم ہے کہ پچھلے قحط کے دنوں میں میرے مخدوم و امام (صَلَوَاۃُ اللہِ وَ سَلَام) (کو) اپنی جماعت کی حالت پر خیال تھا کہ اس میں بہت عیال دار اور (اکثر) غریب ہیں.ان کو بڑی مشکلات پیش آئیں گی جس پر حضور کو الہام ہوا.فَوَ رَبِّ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ اِنَّہٗ لَـحَقٌّ.‘‘؎۳ (الحکم جلد ۲ نمبر ۲۶ و ۲۷ مورخہ ۶، ۱۳؍ ستمبر۱۸۹۸ء صفحہ۱۱) ۱۸۹۸ء (الف) ’’ وَ اَوْحٰی اِلَیَّ رَبِّیْ وَ وَعَدَ نِیْ اَنَّہٗ سَیَنْصُرُنِیْ حَتّٰی یَبْلُغَ اَمْرِیْ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَ مَغَارِبَـھَا.وَتَتَمَوَّجُ بُـحُوْرُ الْـحَقِّ حَتّٰی یُعْـجِبَ النَّاسَ حُبَابُ غَـوَارِبِـھَا.‘‘؎۴ ( لُـجّۃ النُّور.روحانی خزائن جلد۱۶ صفحہ ۴۰۸) (ب) ۱ یعنی ایامِ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء.(مرزا بشیر احمد) ۲ شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم.(مرزا بشیر احمد) ۳ (ترجمہ از مرتّب) مجھے آسمان اور زمین کے ربّ کی قسم ہے کہ یہ بات واقع ہونے والی ہے.۴ (ترجمہ از مرتّب) میرے ربّ نے میری طرف وحی بھیجی اور وعدہ فرمایا کہ وہ مجھے مدد دے گا یہاں تک کہ میرا کلام مشارق و مغارب میں پہنچ جائے گا اور راستی کے دریا موج میں آئیں گے یہاں تک کہ اس کی موجوں کے حباب لوگوں کو تعجب میں ڈالیں گے.
(ب) ’’حضرت اقدس امام الزمان سلّمہ الرحمان کو اللہ کریم نے وعدہ دیا ہے کہ مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.‘‘ (الحکم جلد ۲ نمبر ۲۴،۲۵ مورخہ ۲۰،۲۷؍اگست ۱۸۹۸ء صفحہ ۱۴ ) ۲۱؍جنوری ۱۸۹۸ء ’’مَیں نے تہجد میں اس؎۱ کے متعلق دعا کی تو الہام ہوا.اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِـاَنْفُسِھِمْ.اب خیال ہوتا ہے کہ وہ الہام؎۲ جو ہوا تھا کہ کون کہہ سکتا ہے، اے بجلی! آسمان سے مت گِر شاید اسی سے متعلق ہو.‘‘ (الحکم جلد ۵ نمبر ۲۷ مورخہ ۲۴؍جولائی ۱۹۰۱ء صفحہ ۱) ۱۸۹۸ء (الف) ’’ ۱.اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَابِاَنْفُسِھِمْ ۲.اِنَّہٗ اٰوَی الْقَرْیَۃَ.۳.اِنِّیْ مَعَ الرَّحْـمٰنِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً.۴.اِنَّ اللّٰہَ مُوْھِنُ کَیْدِ الْکَافِرِیْن.‘‘؎۳ (خط مولوی عبدالکریم صاحبؓ محررہ یکم فروری ۱۸۹۸ء.اخبار بدرؔ جلد ۱۱نمبر ۴،۵ مورخہ ۱۶؍نومبر ۱۹۱۱ء صفحہ ۳) (ب) ’’مجھے اس؎۴ سے پہلے طاعون کے بارے میں الہام بھی ہوا اور وہ یہ ہے.اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ.اِنَّہٗ اٰوَی الْقَرْیَۃَ.یعنی جب تک دلوں کی وباء معصیّت دور نہ ہو تب تک ظاہری وباء بھی دُور نہیں ہوگی.‘‘ ( ایام الصلح روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۳۶۱) ۱ یعنی طاعون کے متعلق (شمس) ۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) نواب محمد علی خان صاحبؓ آف مالیر کوٹلہ کی ڈائری سے معلوم ہوتا ہے کہ اس الہام کے نزول کی تاریخ ۱۴؍جنوری ہے.دیکھیے اصحاب ِ احمد جلد ۲ صفحہ ۵۲۵ مطبوعہ اگست ۱۹۵۲ء ۳ (ترجمہ از مرتّب) ۱.اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اس چیز کو نہ بدلیں جو اُن کے نفسوں میں ہے.۲.وہ اس بستی کو کچھ تکلیف کے بعد پناہ میں لے لے گا.۳.مَیں رحمان کے ساتھ تیرے پاس اچانک آنے کو ہوں.۴.اللہ تعالیٰ کافروں کے منصوبوں کو توڑنے والا ہے.۴ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) یعنی طاعون کے سیاہ پودوں والی رؤیا جس کا ذکر آگے آتا ہے.
(ج) ’’اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ.اِنَّہٗٓ اٰوَی الْقَرْیَۃَ.یعنی خدا نے یہ ارادہ فرمایا ہے کہ اس بلائے طاعون کو ہرگز دُور نہیں کرے گا جب تک لوگ اُن خیالات کو دُور نہ کرلیں جو اُن کے دلوں میں ہیں.یعنی جب تک وہ خدا کے مامور اور رسول کو مان نہ لیں تب تک طاعون دُور نہیں ہوگی اور وہ قادر خدا قادیان کو طاعون کی تباہی سے محفوظ رکھے گا تاتم سمجھو کہ قادیان اسی لئے محفوظ رکھی گئی کہ وہ خدا کا رسول اور فرستادہ قادیان میں تھا.‘‘ (دافع البلاء.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ۲۲۵،۲۲۶) ۲؍فروری ۱۸۹۸ء ’’ آج تیسرا روز ہے، الہام ہوا کہ یَـوْمَ تَـاْتِیْکَ الْغَاشِیَۃُ یَـوْمَ تَنْجُوْ کُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ.یَـوْمَ نَـجْزِیْ کُلَّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ.‘‘؎۱ (از خط مولانا عبدالکریم صاحب ؓ محررہ ۴؍فروری ۱۸۹۸ء مندرجہ الحکم جلد ۲ نمبر ۲مورخہ ۶؍ مارچ ۱۸۹۸ء صفحہ ۱۰) ۶؍فروری ۱۸۹۸ء (الف) ’’ آج جو ۶؍فروری ۱۸۹۸ء روز یکشنبہ ہے.مَیں نے خواب میں دیکھا کہ خدا تعالیٰ کے ملائک پنجاب کے مختلف مقامات میں سیاہ رنگ کے پودے لگارہے ہیں اور وہ درخت نہایت بدشکل اور سیاہ رنگ اور خوفناک اور چھوٹے قد کے ہیں.مَیں نے بعض لگانے والوں سے پوچھا کہ یہ کیسے درخت ہیں تو اُنہوں نے جواب دیا کہ یہ طاعون کے درخت ہیں جو عنقریب مُلک میں پھیلنے والی ہے.میرے پر یہ امر مشتبہ رہا کہ اُس نے یہ کہا کہ آئندہ جاڑے میں یہ مرض بہت پھیلے گا یا یہ کہا کہ اس کے بعد کے جاڑے میں پھیلے گا لیکن نہایت خوفناک نمونہ تھا جو مَیں نے دیکھا.‘‘ ( ایام الصلح.روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ ۳۶۱) (ب) ’’ جب یہ پیشگوئی ۶؍فروری ۱۸۹۸ء میں شائع ہوئی تب پنجاب میں صرف ۲دو ضلعے آلودہ تھے مگر بعد اس کے پنجاب کے ۲۳ ضلعے اس مرض سے آلودہ ہوگئے اور پونے دس ماہ میں تین لاکھ سولہ ہزار کیس ہوئے اور دو لاکھ اٹھارہ ہزار سات سو ننانوے فوتیاں ہوئیں.دیکھو سرکاری نقش جات.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۵۳۱،۵۳۲ حاشیہ) فروری ۱۸۹۸ء ’’ مجھے ایک رُوحانی طریق سے معلوم ہوا ہے کہ اس؎۲مرض اور مرض خارش کا مادہ ایک ہی ہے ۱ ’’یعنی ایک خوفناک ، غش ڈالنے والا، انسان کو چاروں طرف سے گھیرنے والا وقت آنے والا ہے.اس وقت ہر ایک شخص اپنے اعمال کے سبب سے نجات پائے گا اس وقت ہم ہر شخص کو اس کے اعمال کے موافق جزا دیں گے.حضرت نے ان الہامات کے بعد جماعت کو بڑی تاکید کی کہ تیاری کرو.نمازوں میں عاجزی کرو.تہجد کی عادت ڈالو.تہجد میں رو رو کر دعائیں مانگو کہ خدا تعالیٰ گڑگڑانے والوں اور تقویٰ اختیار کرنے والوں کو ضائع نہیں کرتا.‘‘ (الحکم مورخہ ۶؍مارچ ۱۸۹۸ء صفحہ ۱۰) ۲ یعنی مرضِ طاعون.(شمس)
اور مَیں گمان کرتا ہوں کہ غالباً یہ بات صحیح ہوگی.کیونکہ مرضِ جَرب یعنی خارش میں ایسی دوائیں مفید پڑتی ہیں جن میں کچھ پارہ کا جزو ہو یا گندھک کی آمیزش ہو اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس قسم کی دوائیں اس مرض کے لئے بھی مفید ہوسکیں اور جبکہ دونوں مرضوں کا مادہ ایک ہے تو کچھ تعجب نہیں کہ خارش کے پیدا ہونے سے اس مرض میں کمی پیدا ہوجائے.یہ روحانی قواعد کا ایک راز ہے جس سے مَیں نے فائدہ اٹھایا ہے.اگر تجربہ کرنے والے اس امر کی طرف توجہ کریں اور ٹیکہ لگانے والوں کی طرح بطور حفظِ ماتقدّم ایسے ملک کے لوگوں میں جو خطرہ طاعون میں ہوں خارش کی مرض پھیلاویں تو میرے گمان میں ہے کہ وہ مادہ اس راہ سے تحلیل پا جائے اور طاعون سے امن رہے مگر حکومت اور ڈاکٹروں کی توجہ بھی خدا تعالیٰ کے ارادے پر موقوف ہے مَیں نے محض ہمدردی کی راہ سے اس امر کو لکھ دیا ہے کیونکہ میرے دل میں یہ خیال ایسے زور کے ساتھ پیدا ہوا جس کو مَیں روک نہیں سکا.‘‘ (ایام الصلح.روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ ۳۶۰) ۲۵؍مارچ ۱۸۹۸ء ’’ مَیں نے جو اپنی نسبت بعض خوابیں اور الہامات دیکھے ہیں مَیں اُن سے حیران ہوں.دو مرتبہ مَیں نے خواب میں دیکھا ہے کہ گویا مجھے مرض طاعون ہوگئی ہے اور ورمِ طاعون نمودار ہے.اب آج بھی یہی خواب آئی ہے.اسی کے قریب قریب ایک الہام بھی ہے جو کسی رنج اور بَلا پر دلالت کرتا ہے اور مُعَبّرین نے طاعون سے مراد کبھی تو طاعون اور کبھی خارش اور حکام کی طرف سے کوئی عذاب و تکالیف اور کبھی کوئی اور فتنہ رنج دِہ مراد لیا ہے.معلوم نہیں کہ اس خواب کی کیا تعبیر ہے.‘‘ (از مکتوب بنام سیٹھ عبدالرحمٰن صاحبؓ مدراسی.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۳۶۷ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸۹۸ء ’’جب کتاب اُمہات المؤمنین عیسائیوں کی طرف سے شائع ہوئی تو انجمن حمایت اسلام لاہور کے ممبروں نے گورنمنٹ میں اِس مضمون کا میموریل بھیجا کہ اس مضمون کی اشاعت بند کی جائے اور مصنف سے باز پُرس ہو.مگر مَیں اُن کے میموریل کے سخت مخالف تھا اور مَیں نے اپنی تحریر؎۱ میں صاف طور پر شائع کیا تھا کہ یہ طریق اچھا نہیں.مگر اُن لوگوں نے میری صلاح کو قبول نہ کیا بلکہ بد گوئی کی.اسی اثنا میں مجھے الہام ہوا کہ سَتَذْکُرُوْنَ مَا اَقُوْلُ لَکُمْ وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلَی اللّٰہِ یعنی عنقریب تمہیں یہ بات میری یاد آئے گی.یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ تمہیں اپنے میموریل میں ناکامی رہے گی اور جس امر کو مَیں نے اختیار کیا ہے یعنی مخالفین کے اعتراضات کو ردّکرنا اور ان کو جواب دینا اس امر کو ۱ دیکھیے اشتہار ۴؍مئی ۱۸۹۸ء.(مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ ۴۲۷ تا ۴۳۲ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) (مرزا بشیر احمد)
مَیں خدائے تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں.یہ الہام قبل از وقت ایک گروہ کثیر کو سنایا گیا تھا چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا یعنی انجمن کی وہ درخواست نامنظور ہوئی.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۶۰۳،۶۰۴) ۱۸۹۸ء ’’ مسیح اُس صدیق کو کہتے ہیں جس کے مَسَحْ یعنی چُھونے میں خدا نے برکت رکھی ہو… اور اس کے مقابل پر مسیح اُس معہود دجّال کو بھی کہتے ہیں جس کی خبیث طاقت اور تاثیر سے آفات اور دہریت اور بے ایمانی پیدا ہو.… یہی معنے ہیں جو خدا تعالیٰ نے میرے دل میں القاء کئے ہیں.‘‘ (ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ۱۴، صفحہ ۲۹۴) ۱۸۹۸ء ’’ مجھے ایک الہام میں یہ فقرات القا ہوئے تھےکہ یَا مَسِیْحَ الْـخَلْقِ عَدْ وَانَـا میرےخیال میں ہے کہ عَدْوٰی سے مراد یہی طاعون ہے.‘‘ ’’ یعنی اے مسیح جو خلقت کی بھلائی کے لئے بھیجا گیا.ہماری طاعون کے دفع کے لئے مدد کر.‘‘ (ایام الصلح.روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ ۳۴۶ و ۴۰۳) ۴؍ جولائی ۱۸۹۸ء ’’ جہاں براہین احمدیہ؎۱میں اسرار اور معارف کے انعام کا اس عاجز کی نسبت ذکر فرمایا گیا ہے.وہاں احـمد کے نام سے یاد کیا گیا ہے.جیسا کہ فرمایا.یَا اَحْـمَدُ فَاضَتِ الرَّحْـمَۃُ عَلٰی شَفَتَیْکَ.؎۲ اور جہاں دنیا کی برکات کا ذکر کیا گیا ہے وہاں عیسیٰ کے نام سے پکارا گیا ہے.جیسا کہ میرے الہام میں براہین احمدیہ میں فرمایا.یَا عِیْسٰی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ.؎۳ ایسا ہی وہ الہام ہے جو فرمایا کہ مَیں تجھے برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.یہ وہ سِر ہے جو مہدی اور عیسیٰ کے نام کی نسبت مجھ کو الہامِ الٰہی سے کھلا اور وہ پیر کا دن اور تیرھو۱۳یں صفر ۱۳۱۶ھ تھا ۱ براہین احمدیہ ہر چہار حصص روحانی خزائن جلد۱ صفحہ ۶۱۷ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳ (ناشر) ۲ (ترجمہ) اے احمد! تیرے لبوں پر رحمت جاری ہوئی ہے.(براہین احمدیہ ہر چہار حصص.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۱۸ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳) ۳ (ترجمہ) اے عیسیٰ! میں تجھے کامل اجربخشوں گا یا وفات دوں گا اوراپنی طرف اُٹھاؤں گا یعنی رفع درجات کروں گا یا دُنیا سے اپنی طرف اُٹھاؤں گا اور تیرے تابعین کو ان پر جو منکر ہیں قیامت تک غلبہ بخشوں گا یعنی تیرے ہم عقیدہ اورہم مشربوں کو حجّت اوربرہان اوربرکات کے رُو سے دوسرے لوگوں پر قیامت تک فائق رکھوں گا.(براہین احمدیہ ہر چہار حصص.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۶۴،۶۶۵.حاشیہ در حاشیہ نمبر ۴)
اور جولائی ۱۸۹۸ء کی چوتھی تاریخ تھی جب کہ یہ الہام ہوا.‘‘ (ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۳۹۸) ۱۸۹۸ء ’’ خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دے دی ہے کہ بہت سے اس جماعت میں سے ہیں جو ابھی اس جماعت سے باہر اور خدا کے علم میں اس جماعت میں داخل ہیں.بار بار ان لوگوں کی نسبت یہ الہام ہوا ہے.یَـخِرُّوْنَ سُـجَّدًا.رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا اِنَّـا کُنَّا خَاطِئِیْنَ یعنی سجدہ میں گریں گے کہ اے ہمارے خدا! ہمیں بخش کیونکہ ہم خطا پر تھے.‘‘ (ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۴۲۶) ۱۸۹۸ء ’’آئندہ موسم بظاہر وہی معلوم ہوتا ہے جو کچھ الہاماً معلوم ہوا تھا.وہ خبر بھی اندیشہ ناک ہے… دن بہت سخت ہیں…مجھے تو یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ دن دنیا کے لئے بڑی بڑی مصیبتوں اور موت اور دُکھ کے دن ہیں …مجھے اس بات کا خیال ہے کہ اس شورِ قیامت کے وقت جس کی مجھے الہام الٰہی سے خبر ملی ہے حتی الوسع اپنے عزیز دوست قادیان میں ہوں.‘‘ (از مکتوب بنام نواب محمد علی خان صاحبؓ.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۲۲۷ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸۹۸ء ’’یہ دوا ؎۱حسب الہامِ الٰہی تیار ہوئی ہے.‘‘ (اشتہار ’’دوائے طاعون‘‘ مورخہ ۲۳؍جولائی ۱۸۹۸ء.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ ۴۳۹ حاشیہ.مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۱۸۹۸ء ’’ آپ کو وہ الہام یاد ہوگا قادر ہے وہ بادشاہ ٹوٹا کام بناوے‘‘ (از مکتوب بنام سیٹھ عبدالرحمٰن صاحبؓ مدراسی.مکتوبات احمد جلد۲ صفحہ۳۷۸ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) یکم اگست ۱۸۹۸ء ’’ صبح کی نماز کے بعد حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ’’ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ ایک ڈاڑھ کا حصّہ جو بوسیدہ ہوگئی ہے اس کو مَیں نے منہ سے نکالا اور وہ بہت صاف تھا اور اُسے ہاتھ میں رکھا.‘‘ پھر فرمایا کہ’’ خواب میں دانت اگر ہاتھ سے گرایا جاوے تو وہ مُنذر ہوتا ہے.ورنہ مُبشّر.‘‘ (الحکم جلد ۲نمبر ۲۲،۲۳ مورخہ ۶، ۱۳؍اگست ۱۸۹۸ء صفحہ ۱۶) ۱۸۹۸ء ’’ جب بعض مخالفین کی مخبری سے میرے پر ٹیکس لگانے کے لئے سرکار کی طرف سے مقدمہ ہوا اور ۱ یعنی تریاقِ الٰہی.(مرزا بشیر احمد)
میری طرف سے عُذر داری کی گئی تو مَیں ایک دن چھوٹی مسجد میں چند احباب کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور آمد خرچ کا حساب کررہے تھے کہ مجھ پر ایک کشفی حالت طاری ہوئی اور اس میں دکھایا گیا کہ ہندو تحصیل دار بٹالہ جس کے پاس مقدمہ تھا بدل گیا ہے اور اس کے عوض ایک اَور شخص کرسی پر بیٹھا ہے جو مسلمان ہے اور اس کشف کے ساتھ بعض امور ایسے ظاہر ہوئے جو فتح کی بشارت دیتے تھے.تب مَیں نے اُسی وقت یہ کشف حاضرین کو سنادیا جن میں سے ایک خوا جہ جمال الدین صاحب بی.اے انسپکٹر مدارس جموں و کشمیر تھے اور بہت سے جماعت کے لوگ تھے.چنانچہ اس کے بعد ایسا ہوا کہ وہ ہندو تحصیل دار یکایک بدل گیا اور اس کی جگہ میاں تاج الدین صاحب تحصیل دار بٹالہ مقرر ہوئے جنہوں نے نیک نیتی کے ساتھ اصل حقیقت کو دریافت کرلیا اور جو کچھ تحقیقات سے معلوم ہوا اس کی رپورٹ ڈکسن۱؎ صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر ضلع گورداسپور میں بھیج دی اور نیک اتفاق یہ ہوا کہ صاحب موصوف بھی زیرک اور انصاف پسند تھے.انہوں نے لکھ دیا کہ مرزا غلام احمد صاحب کا ایک شہرت یافتہ فرقہ ہے جن کی نسبت ہم بدظنّی نہیں کرسکتے یعنی جو کچھ عذر کیا گیا ہے وہ واقعی درست ہے.اس لئے ٹیکس معاف اور مسل داخل دفتر ہو؎۲.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۶۰۶،۶۰۷) ۱۸۹۸ء ’’میری طبیعت کچھ ایسی واقع تھی کہ مَیں پوشیدہ رہنے کو بہت چاہتا تھا اور مَیں ملنے والوں سے تنگ آجاتا تھا اور کوفتہ خاطر ہوتا تھا.یہاں تک کہ میرا باپ مجھ سے نومید ہوگیا اور سمجھا کہ یہ ہم میں ایک شب باش مہمان کی طرح ہے جو صرف روٹی کھانے کا شریک ہوتا ہے اور گمان کیا کہ یہ شخص خلوت کا عادی ہے اورلوگوں سے وسیع گھر کے ساتھ میل جول رکھنے والا نہیں.سو وہ ہمیشہ مجھے اس عادت پر غضب سے اور تیز کاردوں سے ملامت کرتا اور مجھے دن رات اور ظاہر اور درپردہ دُنیا کی ترقی کے لئے نصیحت کیا کرتا تھا اور دُنیا کی آرائشوں کی طرف رغبت دیتا تھا اور میرا دل خدا کی طرف کھنچا جارہا تھا اور ایسا ہی میرا بھائی مجھے پیش آیا اور وہ اِن باتوں میں میرے باپ سے مشابہ تھا.پس خدا نے اِن دونوں کو وفات دی اور زیادہ دیر تک زندہ نہ رکھا اور اُس نے مجھے کہا کہ ایسا؎۳ ہی کرنا چاہیےتھا تا تجھ میں خصومت کرنے والے باقی نہ رہیں اور اُن کا الحاح تجھ کو ضرر نہ کرے.‘‘ (نجم الہدیٰ.روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ ۵۱،۵۲)۱ Mr.Dixon ۲ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) بتاریخ ۱۷؍ستمبر ۱۸۹۸ء انکم ٹیکس معاف کیا گیا.۳ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) عربی میں الہام کی عبارت یہ ہے.’’کَذَالِکَ لِئَلَّایَبْقٰی مُنَازِعٌ فِیْکَ وَلَایَضُـرُّکَ اِلْـحَاحُ الْاَغْیَارِ.‘‘ (نـجم الہدیٰ.روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ ۵۲)
۳؍ستمبر۱۸۹۸ء (الف) الہام… جو حضرت اقدس کو ۳؍ستمبر ۱۸۹۸ء کو ہوا اور جو جناب نے مسجد مبارک میں لکھوا کر چسپاں کردیا ہے… ’’ غَثَمَ غَثَمَ غَثَمَ لَہٗ دَفَعَ اِلَیْہِ مِنْ مَّالِہٖ دَفْعَۃً.‘‘ (الحکم جلد ۲ نمبر ۲۶،۲۷.مورخہ ۶ و ۱۳؍ستمبر ۱۸۹۸ء صفحہ ۱۴) (ب) ’’چند ہفتہ ہوئے ہیں مجھے الہام ہوا تھا.غَثَمَ لَہٗ.دَفَعَ اِلَیْہِ مِنْ مَّالِہٖ دَفْعَۃً.؎۱ اس میں تفہیم یہ ہوئی تھی کہ کوئی شخص کسی مطلب کے حصول پر بہت سا حصّہ اپنے مال میں سے بطور نذر بھجوائے گا.مَیں نے اس الہام کو اپنی کتاب میں لکھ لیا تھا بلکہ اپنے گھر کے قریب دیوار پر مسجد کی، نہایت خوشخط یہ الہام لکھ کر چسپاں کردیا.اس الہام میں نہ کسی مدت کا ذکر ہے کہ کب ہوگا اور نہ کسی انسان کا ذکر ہے کہ کس شخص کو ایسی کامیابی ہوگی یا ایسی مسرت ظہور میں آئے گی.‘‘ (از مکتوب بنام سیٹھ عبدالرحمٰن صاحبؓ مدراسی.مکتوبات احمد جلد۲ صفحہ ۳۸۳ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۲۶؍ستمبر۱۸۹۸ء ’’ رات مَیں نے دیکھا کہ ایک بڑا پیالہ شربت کا پیا.اس کی حلاوت اِس قدر ہے کہ میری طبیعت برداشت نہیں کرتی بایں ہمہ مَیں اس کو پیئے جاتا ہوں اور میرے دل میں یہ خیال بھی گزرتا ہے کہ مجھے پیشاب کثرت سے آتا ہے، اتنا میٹھا اور کثیر شربت مَیں کیوں پی رہا ہوں.مگر اس پر بھی مَیں اُس پیالے کو پی گیا.شربت سے مراد کامیابی ہوتی ہے اور یہ اسلام اور ہماری جماعت کی کامیابی کی بشارت ہے.‘‘ (الحکم جلد ۲نمبر ۲۸،۲۹ مورخہ۲۰ ،۲۷؍ستمبر ۱۸۹۸ء صفحہ۳) ۱۸۹۸ء ’’ مَیں امام الزّمان ہوں اور خدا میری تائید میں ہے اور وہ میرے لئے ایک تیز تلوار کی طرح کھڑا ہے اور مجھے خبر دی گئی ہے کہ جو شرارت سے میرے مقابل پر کھڑا ہوگا وہ ذلیل اور شرمندہ کیا جائے گا.دیکھو مَیں نے وہ حکم پہنچا دیا جو میرے ذمّہ تھا.‘‘ (ضرورۃ الامام.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۴۹۷) ۱۸۹۸ء ۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) لسان العرب میں ہے.’’غَثَمَ لَہٗ مِنَ الْمَالِ غَثْمَۃً.اِذَا دَفَعَ لَہٗ دَفْعَۃً ‘‘ اوراقرب الموارد میں ہے.’’غَثَمَ لَہٗ: دَفَعَ لَہٗ دَفْعَۃً مِّنَ الْمَالِ جَیِّدَۃً.‘‘ اس لئے الہام کا ترجمہ یہ ہوا.اُس نے اپنے مال میں سے اس کے لئے بہت سا حصّہ ایک ہی بار الگ کردیا.
۱۸۹۸ء ’’ خدا نے … مجھےبار بار الہام دیا ہے کہ اس زمانہ میں کوئی معرفت الٰہی اور کوئی محبّت ِ الٰہی تیری معرفت اور محبّت کے برابر نہیں.‘‘ (ضرورۃ الامام.روحانی خزائن جلد۱۳ صفحہ ۵۰۲) ۳؍اکتوبر۱۸۹۸ء ’’ صبح کو بعد نماز فجر فرمایا کہ رات کو بعد تہجد لیٹ گیا تو تھوڑی سی غنودگی کے بعد دیکھا کہ میرے ہاتھ میں ’’سُرمہ چشم آریہ‘‘ کے چار ورق ہیں اور کوئی کہتا ہے کہ آریہ لوگ اب خود اس کتاب کو چھپوا رہے ہیں.‘‘ (الحکم جلد ۲ نمبر ۳۰مورخہ ۸؍اکتوبر ۱۸۹۸ء صفحہ ۶) ۱۴؍اکتوبر ۱۸۹۸ء ۱۴؍اکتوبر ۱۸۹۸ء کو مولوی عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی خطبہ جمعہ دے رہے تھے.دَورانِ خطبہ فرمایا.’’بنی اسرائیل میں سے جو کافر ہوئے اُن پر خدا نے لعنت کی، داؤد ؑ اور مسیحؑ ابن مریم کی زبان سے.اور یہ اس لئے ہوئی کہ وہ حدِّ اعتدال سے بڑھ نکلے اور نافرمانی کے لئے تجاوز کرگئے.بنی اسرائیل کا ایسا حال ہوگیا تھا کہ نہی عنِ المنکر اور اَمر بِالمعروف قطعاً چھوڑ دیا تھا.چھوٹے بڑوں کی شرارتوں پر اور بڑے چھوٹوں کی شیطنتوں پر رضامند ہوگئے تھے.اس لئے مسیحؑ اور داؤد ؑ کی لسان سے اُن پر لعنت برسی… اب پھر وقت آیا ہے کہ دنیا میں سوکھے ہوئے درخت ہَرے ہوں.خدا تعالیٰ کے فضل کی بارش ہورہی ہے.زمانے کا امام آیا ہے جو ابن مریم کے نام سے آیا ہے اور اس کو داؤد بھی کہا گیا ہے.پس بڑی ضروری اور خطرناک بات ہے کہ ایسا نہ ہو اس کے مقابلہ میں گندی اور ناپاک کوششیں کرنے والے اور اس سے منہ پھیرنے والے اُس لعنت کے نیچے آجاویں، جو داؤد ؑ اور مسیح ابن مریم کی زبان سے ہوئی.‘‘ جس وقت حضرت مولانا صاحب نے یہ فقرہ (خط کشیدہ) فرمایا.اسی وقت حضرت اقدس امام ہمام علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہام ہوا کہ.’’ یہ لعنت ابھی وزیر آباد میں برسی ہے.‘‘ (الحکم جلد ۲ نمبر ۳۲ مورخہ ۲۲؍اکتوبر ۱۸۹۸ء صفحہ ۵ ب) ۴؍نومبر۱۸۹۸ء ’’ آج ۴؍نومبر ۱۸۹۸ء میں خواب میں مجھ کو دکھلایا گیا کہ ایک شخص روپیہ بھیجتا ہے.مَیں بہت خوش ہوا اور یقین رکھتا تھا کہ آج روپیہ آئے گا چنانچہ آج ہی ۴؍نومبر ۱۸۹۸ء کو آپ کا
روپیہ آگیا.فَالْـحَمْدُ لِلہِ وَجَزَاکُمُ اللہ.معلوم ہوتا ہے کہ یہ روپیہ بھیجنا درگاہِ الٰہی میں قبول ہے.‘‘ (از مکتوب بنام ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحبؓ، مکتوبات احمد جلد ۴ صفحہ ۲۱۰ مطبوعہ ۲۰۱۵ء) ۱۸۹۸ء ’’ مَیں نے کچھ دن ہوئے خواب میں آپ کی نسبت کچھ بلا اور غم کو دیکھا تھا.ایسے خوابوں اور الہاموں کو کوئی ظاہر نہیں کرسکتا.مجھے اندیشہ تھا آخر اس کا یہ پہلو ظاہر ہوا.یہ تقدیر مبرم تھی جو ظہور میں آئی.‘‘ (از مکتوب بنام نواب محمد علی خاں صاحبؓ.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۲۳۳ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۵؍نومبر۱۸۹۸ء ’’ ۱.اِنِّیْ؎۱ مَعَکُمَا اَسْـمَعُ وَاَرٰی.۲.فَاصْبِرْ حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ.۳.جَزَآءُ سَيِّئَةٍۭ بِمِثْلِهَا.۴.وَ تَـرْھَقُھُمْ ذِلَّۃٌ.۵.مَالَھُمْ مِّنَ اللّٰہِ مِنْ عَاصِمٍ.۶.فَاصْبِرْ حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بَاَمْرِہٖ.۷.اِنِّیْ مَعَکُمْ اَسْـمَعُ وَاَرٰی.۸.اِنِّیْ مَعَکُمَا اَسْـمَعُ وَاَرٰی.‘‘ (تحریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مندرجہ رجسٹر محاورات العرب ؎۲) ۱۵؍نومبر ۱۸۹۸ء ’’ ۱.اِنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ.۲.اِنَّہٗ طَیِّبٌ مَّقْبُوْلُ الرَّحْـمٰنِ.۳.اِتَّقِ اللّٰہَ.۴.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الْخَآئِفِیْنَ.؎۳‘‘ (تحریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مندرجہ رجسٹر محاورات العرب) ۱۶؍نومبر۱۸۹۸ء ’’ اِنِّیْ مَعَ الْغَفَّارِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً.؎۴‘‘ (تحریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مندرجہ رجسٹر محاورات العرب) ۲۰؍نومبر ۱ (ترجمہ از مرتّب) ۱مَیں تم دونوں کے ساتھ ہوں سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں.۲پس تم صبر کرو اس وقت تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم نافذ کرے.۳برائی کا بدلہ ویسا ہی ہوگا.۴.اور ان لوگوں پر ذلّت طاری ہوگی.۵.اللہ (کے عذاب) سے انہیں کوئی نہیں بچاسکے گا.۶.پس تم صبر کرو اس وقت تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم نافذ کرے.۷.یقیناً مَیں تمہارے ساتھ ہوں سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں.۸.یقیناً مَیں تم دونوں کے ساتھ ہوں سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں.۲ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) یہ رجسٹر خلافت لائبریری ربوہ میں موجود ہے یہ رجسٹر وہی ہے جس کی دوسری طرف رشتہ کے لئے لڑکوں اور لڑکیوں کے نام بھی درج ہیں.۳ (ترجمہ از مرتّب) ۱.مَیں مغلوب ہوں.پس میری مدد کر.۲.وہ پاک ہے.خدا کا مقبول ہے.۳.اللہ سے ڈر.۴.یقیناً اللہ ڈرنے والوں کے ساتھ ہے.۴ (ترجمہ از مرتّب) مَیں خدائے غفار کے ساتھ ہوں تیرے پاس اچانک آؤں گا.
۲۰؍نومبر ۱۸۹۸ء (الف) ’’الہام.محمد علی خان بِاَیِّ عَزِیْزٍ بَعْدَ ہٗ تَعْلَمُوْنَ مولوی محمد علی؎۱ خدا میرا بھی گنہ بخشے.‘‘ (تحریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مندرجہ رجسٹر محاورات العرب) (ب) ’’ یہ رات جو پیر کی گزری ہے اس میں غالباً تین بجے کے قریب آپ کی نسبت مجھے الہام ہوا تھا اور وہ یہ ہے.فَبِاَیِّ عَزِیْزٍ بَعْدَہٗ تَعْلَمُوْنَ.یہ اللہ جلّ شَانُہٗ کا کلام ہے.وہ آپ کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ اس حادثہ کے بعد اور کون سا بڑا حادثہ ہے جس سے تم عبرت پکڑو گے.‘‘ (از مکتوب بنام نواب محمد علی خاں صاحبؓ.مکتوبات احمد جلد ۳ صفحہ ۳۹۵ مطبوعہ ۲۰۱۳ء) ۲۱؍ نومبر۱۸۹۸ء ’’ شیخ محمد حسین صاحب بٹالوی… نے اِس راقم کی تحقیر اور توہین اور دشنام دہی میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی…میرے بعض دوستوں نے کمال نرمی اور تہذیب سے شیخ صاحب موصوف سے یہ درخواست کی تھی کہ … آپ مُباہلہ کرکے تصفیہ کرلیں کیونکہ جب کسی طرح جھگڑا فیصلہ نہ ہوسکے تو آخری طریق خدا کا فیصلہ ہے جس کو مباہلہ کہتے ہیں.اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ اثر مُباہلہ کے لئے اس طرف سے ایک سال کی شرط ہے اور یہ شرط الہام کی بنا پر ہے… شیخ محمد حسین نے … بجائے اس کے کہ نیک نیتی سے مُباہلہ کے میدان میں آتا یہ طریق اختیار کیا کہ ایک گندہ اور گالیوں سے پُر اشتہار لکھ کر محمد بخش جعفر زٹلّی اور ابوالحسن تبّتی کے نام سے چھپوا دیا.اس وقت وہ اشتہار میرے سامنے رکھا ہے اور مَیں نے خدا تعالیٰ سے دعا کی ہے کہ وہ مجھ میں اور محمد حسین میں آپ فیصلہ کرے اور وہ دعا جو مَیں نے کی ہے یہ ہے کہ ’’اے میرے ذوالجلال پروردگار! اگر مَیں تیری نظر میں ایسا ہی ذلیل اور جھوٹا اور مفتری ہوں جیسا کہ ۱ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) ان دونوں ناموں کے سامنے یہ دو الہام لکھے ہیں.پہلا الہام جیسا کہ نواب محمد علی خان صاحبؓ کے متعلق ہے.اسی طرح یہ دوسرا الہام مولوی محمد علی صاحب کے متعلق معلوم ہوتا ہے.وَاللہُ اَعْلَمُ.
اور چند عربی الہامات ہوئے جو ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.۱.اِنَّ الَّذِیْنَ یَصُدُّ.وْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ سَیَنَالُھُمْ غَـضَبٌ مِّنْ رَّبِّـھِمْ.۲.ضَـرْبُ اللّٰہِ اَشَدُّ مِنْ ضَـرْبِ النَّاسِ.۳.اِنَّـمَآ اَمْرُنَـآ اِذَا اَرَدْنَا شَیْئًا اَنْ نَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ.۴.اَتَعْــجَبُ لِاَمْرِیْ.اِنِّیْ مَعَ الْعُشَّاقِ.۵.اِنِّیْ اَنَا الرَّحْـمٰنُ ذُوالْمَجْدِ وَ الْعُلٰی.۶.وَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ.۷.وَیُطْرَحُ بَیْنَ یَدَیَّ.۸.جَزَآءُ سَیِّئَۃٍ بِّـمِثْلِھَا.۹.وَ تَـرْھَقُھُمْ ذِلَّۃٌ.۱۰.مَالَھُمْ مِّنَ اللّٰہِ مِنْ عَاصِمٍ.۱۱.فَاصْبِرْ حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ.۱۲.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّـحْسِنُوْنَ.؎۱ یہ خدا تعالیٰ کا فیصلہ ہے جس کا ماحصل یہی ہے کہ ان دونوں فریق میں سے جن کا ذکر اس اشتہار میں ہے.یعنی یہ خاکسار ایک طرف اور شیخ محمد حسین اور جعفر زٹلّی اور مولوی ابو الحسن تبّتی دوسری طرف خدا کے حکم کے نیچے ہیں ان میں سے جو کاذب ہے وہ ذلیل ہوگا.یہ فیصلہ چونکہ الہام کی بناء پر ہے اس لئے حق کے طالبوں کے لئے ایک کُھلا کُھلا نشان ہوکر ہدایت کی راہ اُن پر کھولے گا… اور عربی الہامات کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ سچے کی ذلّت کے لئے بدزبانی کررہے ہیں اور منصوبے باندھ رہے ہیں خدا اُن کو ذلیل کرے گا اور میعاد ۱۵پندرہ دسمبر ۱۸۹۸ء سے تیر۱۳ہ مہینے ہیں جیسا کہ ذکر ہوچکا ہے اور ۱۴؍دسمبر۱۸۹۸ء تک جو دن ہیں وہ توبہ اور رجوع کے لئے مہلت ہے.فقط ؎۲.‘‘ (اشتہار مورخہ ۲۱؍نومبر ۱۸۹۸.مجموعہ اشتہارات جلد۲ صفحہ۴۴۶ تا ۴۵۰ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۱ (ترجمہ از مرتّب) ۱.جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ سے روک رہے ہیں اُن پر ان کے ربّ کی طرف سے غضب نازل ہوگا.۲.اللہ کی مار لوگوں کی مار سے زیادہ سخت ہوتی ہے.۳.ہم جب کسی بات کا ارادہ کریں تو اس کے متعلق ہمارا حکم صرف یہ ہوتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہوجاتی ہے.۴.کیا تم میرے حکم پر تعجب کرتے ہو.مَیں عاشقوں کے ساتھ ہوتا ہوں.۵.مَیں ہی ہوں رحمت کرنے والا مجد اور بزرگی کا مالک.۶.اور ظالم اپنے دونوں ہاتھ کاٹے گا.۷.اور میرے سامنے پھینکا جائے گا.۸.بدی کا بدلہ ویسا ہی ہوگا.۹.اور ان لوگوں پر ذلّت طاری ہوگی.۱۰.اللہ (کے عذاب) سے کوئی انہیں بچا نہیں سکے گا.۱۱.پس تم صبر کرو اس وقت تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم نافذ کرے.۱۲.اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور جو نیکو کار ہوتے ہیں.۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’اشتہار بطور مباہلہ ۲۱؍نومبر ۱۸۹۸ء … میں فریق ظالم اور کاذب کی نسبت یہ عربی الہام تھا کہ جَزَآءُ سَیِّئَۃٍ بِّـمِثْلِھَا وَتَرْھَقُھُمْ ذِلَّۃٌ.یعنی جس قسم کی فریق مظلوم کو بدی پہنچائی گئی ہے اُسی
۲۱؍دسمبر ۱۸۹۸ء ’’ آج صبح کے وقت مجھ کو یہ الہام ہوا.قادر ہے وہ بارگاہ ٹوٹا کام بناوے بنا بنایا توڑ دے کوئی اُس کا بھید نہ پاوے‘‘ (از مکتوب بنام سیٹھ عبدالرحمٰن صاحبؓ مدراسی.مکتوباتِ احمد جلد ۲ صفحہ ۳۹۱ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۳۱؍دسمبر ۱۸۹۸ء ’’ فرمایاکہ رات یعنی ۳۱؍دسمبر ۱۸۹۸ء کی شب کو الہام ہوا.اَلسُّھَیْلُ الْبَدْ رِیُّ؎۱ پھر فرمایا کہ سہیل وہ ستارہ ہے جس کو وَلَدُ الزِّنَاکُش بھی کہتے ہیں کیونکہ جب وہ طلوع ہوتا ہے تو تَکَوُّنِی کیڑے ہلاک ہوجاتے ہیں.ابو الفضل نے اسی ستارہ کی نسبت لکھا ہے.ع وَلَدُ الزّنا کش آمد چوستارۂ یمانی‘‘ (الحکم جلد ۳ نمبر ۱ مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۸۹۹ء صفحہ ۶) ۱۸۹۸ء ’’ خوا جہ جمال الدین صاحب بی.اے جو ہماری جماعت میں داخل ہیں جب امتحان منصفی میں فیل ہوئے اور ان کو بہت ناکامی اور ناامیدی لاحق ہوئی اور سخت غم ہوا تو اُن کی نسبت مجھے الہام ہوا کہ سَــــیُـــــغْــــــــــفَــــــــــــــــــــرُ یعنی اللہ تعالیٰ اُن کے اس غم کا تدارک کرے گا چنانچہ اس کے مطابق وہ جلد ریاستِ کشمیر میں ایک ایسے بقیہ حاشیہ.قسم کی فریق ظالم کو جزا پہنچے گی.سو آج یہ پیشگوئی کامل طور پر پوری ہوگئی کیونکہ مولوی محمد حسین نے بد زبانی سے میری ذلّت کی تھی اور میرا نام کافر اور دجّال اور کذّاب اور ملحد رکھا تھا اور یہی فتویٰ کفر وغیرہ کا میری نسبت پنجاب اور ہندوستان کے مولویوں سے لکھوایا اور اسی بنا پر محمد حسین مذکور کی تعلیم سے اور خود اس کے لکھوانے سے محمد بخش جعفر زٹلی لاہور وغیرہ نے گندے بہتان میرے پر اور میرے گھر کے لوگوں پر لگائے.سو اب یہی فتویٰ پنجاب اور ہندوستان کے مولویوں بلکہ خود محمد حسین کے اُستاد نذیر حسین نے اس کی نسبت دے دیا یعنی یہ کہ وہ کذّاب اور دجّال اور مفتری اور کافر اور بدعتی اور اہل سنّت سے خارج بلکہ اسلام سے خارج ہے.‘‘ (اشتہار مورخہ ۳؍جنوری ۱۸۹۹ء.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ ۴۸۹ مطبوعہ ۲۰۱۸ء تفصیل کے لئے دیکھیے اشتہار ۲۷؍دسمبر ۱۸۹۸ء.مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ۴۷۲ تا ۴۷۶ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۱ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) سہیل ستارہ جو عرب علاقوں میں موسم گرما کے بعد ہونے والی بارشوں کے بعد طلوع ہوتا ہے.
ایسے عہدہ پر ترقی یاب ہوئے جو عہدہ منصفی سے اُن کے لئے بہتر ہوا.یعنی وہ تمام ریاست جموں کشمیر کے انسپکٹر مدارس ہوگئے.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۹۱) قریباً ۱۸۹۸ء ؎۱ ’’ ایک دفعہ ہمارے لڑکے بشیر احمد کی آنکھیں بہت خراب ہوگئی تھیں.پلکیں گر گئی تھیں اور پانی بہتا رہتا تھا.آخر ہم نے دُعا کی تو الہام ہوا.بَـرَّقَ طِفْلِیْ بَشِیْرٌ یعنی میرے لڑکے بشیر احمد کی آنکھیں اچھی ہوگئیں.اِس الہام کے ایک ہفتہ بعد اللہ تعالیٰ نے اس کو شفا دے دی اور آنکھیں بالکل تندرست ہوگئیں.اس سے پہلے کئی سال انگریزی اور یونانی علاج کیا گیا تھا مگر کچھ فائدہ نہیں ہوتا تھا بلکہ حالت اَبتر ہوتی جاتی تھی.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۶۰۸) ۱۵؍جنوری ۱۸۹۹ء ’’ مَا کَانَ اللّٰہُ اَنْ یُّعَذِّ بَـھُمْ وَاَنْتَ فِیْـھِمْ.‘‘؎۲ (تحریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام براوراق ملحقہ کتاب تعطیرالانام ) ۱۸؍جنوری ۱۸۹۹ء ’’ غِیْضَ الْمَآءُ وَقُضِیَ الْاَمْرُ.‘‘ (تحریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بر اوراق ملحقہ کتاب تعطیر الانام) (ترجمہ) پانی خشک ہوگیا اور بات کا فیصلہ ہوا.(حقیقۃ المہدی.روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۴۴۶) ۳؍فروری ۱۸۹۹ء (الف) ’’ مجھے ۲۱ ؍رمضان المبارک ۱۳۱۶ھ جمعہ کی رات میں جس میں انتشارِ رُوحانیت مجھے محسوس ہوتا تھا اور میرے خیال میں تھا کہ یہ لیلۃُ القدر ہے اور آسمان سے نہایت آرام اور آہستگی سے مینہ برس رہا تھا، ایک رؤیاہوا.یہ رؤیااُن کے لئے ہے جو ہماری گورنمنٹ عالیہ کو ہمیشہ میری نسبت شک میں ڈالنے ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) الہام کی یہ تاریخ تخمینی ہے اور اس تاریخ کے لحاظ سے حضرت میاں بشیر احمدؓ صاحب کی عمر اس وقت پانچ سال کی بنتی ہے حالانکہ آپ قریباً سات سال کی عمر تک آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا رہے اس لئے الہام کی تاریخ غالباً ۱۹۰۰ء کے قریب بنتی ہے.۲ (ترجمہ از مرتّب) خدا ایسا نہیں کہ انہیں اس حال میں عذاب دے کہ تُو ان میں ہو.
مَیں نے اس کی یہ تعبیر؎۱کی ہے کہ وہ ظالم طبع مخالف جو میرے پر خلافِ واقعہ اور سراسر جھوٹ باتیں بنا کر گورنمنٹ تک پہنچاتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہوں گے اور جیسا کہ خدا تعالیٰ نے خواب میں ایک پتھر کو بھینس بنادیا اور اُس کو لمبی اور روشن آنکھیں عطا کیں اِسی طرح انجام کار وہ میری نسبت حُکّام کو بصیرت اور بینائی عطا کرے گا اور وہ اصل حقیقت تک پہنچ جائیں گے.یہ خدا کے کام ہیں اور لوگوں کی نظر میں عجیب.‘‘ (حقیقۃ المہدی.روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۴۴۳ تا۴۴۵) (ب) ’’ اب فوجداری مقدّمہ کی تاریخ ۱۴؍فروری ۱۸۹۹ء ہوگئی ہے.دراصل بات یہ ہے کہ اب تک یہی معلوم ہوتا ہے کہ حاکم کی نیت بخیر نہیں.جمعہ کی رات مجھے یہ خواب آئی ہے کہ ایک لکڑی یا پتھر کو مَیں نے جنابِ الٰہی میں دعا کرکے بھینس بنا دیا ہے اور پھرا س خیال سے کہ ایک بڑا نشان ظاہر ہوا ہے.سجدہ میں گرا ہوں اور بلند آواز سے کہتا ہوں کہ رَبِّیَ الْاَعْلٰی.رَبِّیَ الْاَعْلٰی.میرے خیال میں ہے کہ شاید اس کی یہ تعبیر ہو کہ لکڑی اور پتھر سے مراد وہی سخت دل اور منافق طبع حاکم ہو اور پھر میری دُعا سے اس کا بھینس بن جانا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ وہ ہمارے لئے ایک مفید چیز بن گئی ہے جس کے دُودھ کی اُمید ہے.اگر یہ تاویل درست ہے تو امید قوی ہے کہ مقدّمہ پلٹا کھا کر نیک صورت پر آجائے گا اور ہمارے لئے مفید ہوجائے گا اور سجدہ کی تعبیر یہ لکھی ہے کہ دشمن پر فتح ہو.الہامات بھی اس کے قریب قریب ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس خواب کے ظہور کا محل کوئی اَور ہو.بہرحال ہمارے لئے بہتر ہے خواہ کسی پیرایہ میں ہو.‘‘ (ماخوذ از مکتوب بنام ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحبؓ.مکتوبات احمد جلد ۴ صفحہ ۲۱۲ مطبوعہ ۲۰۱۵ء ) ۱۸۹۹ء ’’ مسٹر ڈ۲؎وئی صاحب ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے پاس میری نسبت بہ نیت سزا دلانے کے فوجداری میں ایک مقدّمہ پولیس نے بنایا تھا اور اُس کی نسبت خدا تعالیٰ نے مجھے بتلایا کہ ایسی کوشش کرنے والے نامراد ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اس مقدّمہ۳؎ کے متعلق یہ خواب ہے کیونکہ پتھر یا لکڑی سے وہ منافق حاکم مراد ہے جس کا ارادہ یہ ہے کہ بدی پہنچاوے اور جس کی آنکھیں بند ہیں اور پھر بھینس بن جانا اور بڑی بڑی آنکھیں ہوجانا.اس کی یہ تعبیر معلوم ہوتی ہے کہ یک دفعہ کوئی ایسے امور پیدا ہوجائیں جن سے حاکم کی آنکھیں کھل جائیں.‘‘ (از مکتوب بنام چودھری رستم علی صاحبؓ.مکتوبات احمدجلد ۲ صفحہ ۶۳۷،۶۳۸ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۲ Mr.Dowie ۳ یعنی اس مقدمہ کے متعلق جو پولیس نےمسٹر ڈوئی ڈپٹی کمشنر گورداسپور کی عدالت میں حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف دائر کیا تھا.(ناشر)
رہیں گے چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا.اس بارہ میں خدا تعالیٰ نے مجھے فرمایا.اِنَّا تَـجَالَـدْ نَا فَانْقَطَعَ الْعَدُ وُّ وَاَسْبَا بُہٗ یعنی ہم نے تلوار کے ساتھ جنگ کیا.پس نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن ہلاک ہوگیا اور اُس کےاسباب بھی ہلاک ہوئے.اس جگہ دشمن سے مراد ایک ڈپٹی انسپکٹر ہے جس نے ناحق عداوت سے مقدّمہ بنایا تھا.آخر طاعون سے ہلاک ہوا.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۲۷) ۱۸۹۹ء ’’ اِس؎۱کے بعد جو مجھے الہام ہوئے وہ اسی رؤیاکے مؤ یّد ہیں.وہ بھی ذیل میں لکھتا ہوں تاکہ اُس آخری وقت میں جب یہ باتیں پوری ہوں ، لوگوں کے ایمان قوی ہوں… اور الہامات جو اس خواب کے مؤیّد ہیں یہ ہیں.۱.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّـحْسِنُوْنَ.۲.اَنْتَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا.اَنْتَ مَعِیْ یَا اِبْرَاھِیْمُ.۳.یَاْتِیْکَ نُصْرَتِیْ.۴.اِنِّیْ اَنَا الرَّحْـمٰنُ ۵.یَا اَرْضُ ابْلَعِیْ مَآءَکِ.۶.غِیْضَ ؎۲ الْمَآءُ وَقُضِیَ الْاَمْرُ.۷.سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ.۸.وَامْتَازُوا الْیَوْمَ اَیُّـھَاالْمُجْرِمُوْنَ.۹.اِنَّا تَجَالَدْنَا فَانْقَطَعَ الْعَدُوُّ وَاَسْبَا بُہٗ.۱۰.وَیْلٌ لَّھُمْ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ.۱۱.یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ وَیُوْثَقُ.۱۲.وَاِنَّ اللّٰہَ مَعَ الْاَبْرَارِ.وَاِنَّہٗ عَلٰی نَصْـرِھِمْ لَقَدِیْرٌ.۱۳.شَاھَتِ الْوُجُوْہُ.۱۴.اِنَّہٗ مِنْ اٰیَۃِ اللّٰہِ وَ اِنَّہٗ فَتْحٌ عَظِیْمٌ.۱۵.اَنْتَ اِسْـمِیَ الْاَعْلٰی.۱۶.وَاَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ مَـحْبُوْبِیْنَ.۱۷.اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ.قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ وَ اَنَـا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ.یعنی ۱.خدا پرہیزگاروں کے ساتھ ہے.۲.اور تُو پرہیزگاروں کے ساتھ ہے اور تو میرے ساتھ ہے اے ابراہیم.۳.میری مدد تجھے پہنچے گی.۴.مَیں رحمان ہوں.۵.اےزمین! اپنے پانی کو یعنی خلافِ واقعہ اور فتنہ انگیز شکایتوں کو جو زمین پر پھیلائی گئی ہیں نِگل جا.۶.پانی خشک ہوگیا اور بات کا فیصلہ ہوا.۷.تجھے سلامتی ہے یہ ربِّ رحیم نے فرمایا.۸.اور اے ظالمو! آج تم الگ ہوجاؤ.۹.ہم نے دشمن کو مغلوب کیا اور اس کے تمام اسباب کاٹ دیئے.۱۰.ان پر واویلا ہے.کیسے افترا کرتے ہیں.۱۱.ظالم اپنے ہاتھ کاٹے گا اور اپنی شرارتوں سے روکا جائے گا.۱۲.اور ۱ یعنی مندرجہ بالا خواب ۳؍فروری ۱۸۹۹ء (مرزا بشیر احمد) ۲ (نوٹ از ناشر) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بر اوراق ملحقہ کتاب تعطیر الانام اس الہام کی تاریخ ۱۸؍جنوری ۱۸۹۹ء درج فرمائی ہے.یہ اوراق جماعت کے ریکارڈ میں موجود ہیں.
خدا نیکوں کے ساتھ ہوگا.وہ اُن کی مدد پر قادر ہے.۱۳.مونہہ بگڑیں گے.۱۴.خدا کا یہ نشان ہے اور یہ فتحِ عظیم ہے.۱۵.تُو میرا وہ اِسم ہے جو سب سے بڑا ہے.۱۶.اور تُو محبوبین کے مقام پر ہے.۱۷.مَیں نے تجھے اپنے لئے چُنا.۱۸.کہہ مَیں مامور ہوں اور تمام مومنوں میں سے پہلا ہوں.‘‘ (حقیقۃ المہدی.روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ۴۴۶) ۱۸۹۹ء ’’ وہ مقدمہ جو منشی محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر بٹالہ کی رپورٹ کی بنا پر دائر ہوکر عدالت مسٹر ڈوئی صاحب مجسٹریٹ ضلع گورداسپورہ میں میرے پر چلایا گیا تھا … اس مقدمہ کے انجام سے خدا تعالیٰ نے پیش از وقت مجھے بذریعہ الہام خبر دے دی کہ وہ مجھے آخر کار دشمنوں کے بد ارادے سے سلامت اور محفوظ رکھے گا اور مخالفوں کی کوششیں ضائع جائیں گی.سو ایسا ہی وقوع میں آیا… قبل اِس کے جو یہ مقدمہ دائر ہو مجھے خدا تعالیٰ نے اپنے الہام کے ذریعہ سے اطلاع دی تھی کہ تم پر ایسا مقدّمہ عنقریب ہونے والا ہے اور اس اطلاع پانے کے بعد مَیں نے دعا کی اور وہ دعا منظور ہوکر آخر میری بریّت ہوئی اور قبل انفصال مقدمہ کے یہ الہام بھی ہوا کہ تیری عزت اور جان سلامت رہے گی اور دشمنوں کے حملے جو اسی بد غرض کے لئے ہیں اُن سے تجھے بچایا جائے گا.‘‘ (تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۳۰۹) ۱۸۹۹ء ’’ ظہر کی نماز کا وقت تھا کہ یک دفعہ مجھے الہام ہوا کہ تَرٰی فَـــخِــذًا اَلِــیْـمًا یعنی تُو ایک دردناک ران دیکھے گا.تب مَیں نے یہ الہام اس؎۱کو سنایا اور پھر بعد اس کے بلا توقف مَیں نماز کے لئے مسجد کی طرف روانہ ہونے لگا اور وہ بھی میرے ساتھ ہی زینہ پر سے اُترا.جب ہم زینہ پر سے اُتر آئے تو دو گھوڑوں پر دو لڑکے سوار دکھائی دیئے جن کی عمر بیس برس کے اندر اندر ہوگی ایک کچھ چھوٹا اور ایک بڑا.وہ سوار ہونے کی حالت میں ہی ہمارے پاس آکر کھڑے ہوگئے ایک نے ان میں سے مجھ کو کہا کہ یہ دوسرا سوار میرا بھائی ہے اور اس کی ران میں سخت درد ہورہا ہے اس کا کوئی علاج پوچھنے آئے ہیں.تب مَیں نے حامد علی کو کہہ دیا کہ گواہ رہ کہ یہ پیشگوئی دو تین منٹ میں ہی پوری ہوگئی.‘‘ (تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۱۹۶،۱۹۷) ۱ یعنی شیخ حامد علی کو.(مرزا بشیر احمد)
۱۰؍ مارچ ۱۸۹۹ء ’’۱۰؍ مارچ ۱۸۹۹ء کی صبح کو بوقت سیر حضرت حجۃ اللہ نے فرمایاکہ ’’ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مبارکہ سلّمہا اللہ پنجابی زبان میں بول رہی ہے کہ مینوں کوئی نہیں کہہ سکدا کہ ایسی آئی جس نے ایہہ مصیبت پائی.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۲۱ مورخہ۱۰؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ۲) ۱۳ ؍اپریل ۱۸۹۹ء ’’۱۳؍اپریل ۱۸۹۹ء کو یہ الہام ہوا.اِصْبِرْ مَلِیًّا سَاَھَبُ لَکَ غُلَامًا زَکِیًّا یعنی کچھ تھوڑا عرصہ صبر کر کہ مَیں تجھے ایک پاک لڑکا عنقریب عطا کروں گا اور یہ پنجشنبہ کا دن تھا اور ذی الحج ۱۳۱۶ھ کی دوسری تاریخ تھی جبکہ یہ الہام ہوا اور اس الہام کے ساتھ ہی یہ الہام ہوا رَبِّ اَصِـحَّ زَوْجَتِیْ ھٰذِہٖ یعنی اے میرے خدا! میری اِس بیوی کو بیمار ہونے سے بچا اور بیماری سے تندرست کر.یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اس بچہ کے پیدا ہونے کے وقت کسی بیماری کا اندیشہ؎۱ ہے.سو اس الہام کو مَیں نے اس تمام جماعت کو سنادیا جو میرے پاس قادیان میں موجود تھے اور اخویم مولوی عبدالکریم صاحب نے بہت سے خط لکھ کر اپنے تمام معزز دوستوں کو اس الہام سے خبر کر دی.‘‘ (تریاق القلوب.رُوحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۲۱۶، ۲۱۷) ۱۹؍مئی ۱۸۹۹ء ’’۱۹؍ مئی ۱۸۹۹ء کو حضرت اقدسؑ کو یہ الہام ہوا تھا.’’ اِنَّـا لَنَعْلَمُ الْاَمْرَ وَ اِنَّـا عَالِمُوْنَ سَیُبْدَی الْاَمْرُ وَنَنْسِفَنَّ نَسْفًا.‘‘ ؎۲ (از خط مولوی عبدالکریم صاحبؓ.مندرجہ الحکم جلد ۳ نمبر۲۲ مورخہ ۲۳؍جون ۱۸۹۹ء صفحہ ۸) ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’بچہ پیدا ہونے کے بعد جیسا کہ الہام کا منشا تھا میری بیوی بیمار ہوگئی چنانچہ اب تک بعض عوارض مرض موجود ہیں اور اعراض شدیدہ سے بفضلہ تعالیٰ صحت ہوگئی ہے.‘‘ (تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۲۱۷ حاشیہ) ۲ (ترجمہ از مرتّب) ہم اصل بات جانتے ہیں اور بے شک ہم جاننے والے ہیں.وہ بات عنقریب ظاہر کردی جائے گی اور یقیناً ہم ذرّہ ذرّہ کرکے اُڑادیں گے.
۱۳؍جون ۱۸۹۹ء (الف) ’’جب ۱۳؍جون ۱۸۹۹ء کا دن چڑھا جس پر الہام مذکورہ کی تاریخ کو جو ۱۳؍اپریل ۱۸۹۹ء کو ہوا تھا پورے ۲دو مہینے ہوتے تھے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے اُسی لڑکےکی مجھ میں رُوح بولی اور الہام کے طور پر یہ کلام اس کا مَیں نے سنا.اِنِّیْ اَسْقُطُ مِنَ اللّٰہِ وَ اُصِیْبُہٗ یعنی اَب میرا وقت آگیا اور مَیں اب خدا کی طرف سے اور خدا کے ہاتھوں سے زمین پر گروں گا اور پھراُسی کی طرف جاؤں گا… اور پھر بعد اس کے ۱۴؍جون ۱۸۹۹ء کو وہ پیدا ہوا.‘‘ (تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۱۷) (ب)’’ مجھے خدا تعالیٰ نے خبر دی کہ مَیں تجھے ایک اَور لڑکا دوں گا اور یہ وہی چوتھا لڑکا ہے جو اَب پیدا ہوا جس کا نام مبارک احمد رکھا گیا اور اس کے پیدا ہونے کی خبر قریباً ۲دو برس؎۱ پہلے مجھے دی گئی اور پھر اس وقت دی گئی کہ جب اس کے پیدا ہونے میں قریباً ۲دو مہینے باقی رہتے تھے اور پھر جب یہ پیدا ہونے کو تھا یہ الہام ہوا.اِنِّیْ اَسْقُطُ مِنَ اللّٰہِ وَ اُصِیْبُہٗ یعنی مَیں خدا کے ہاتھ سے زمین پر گرتا ہوں اور خدا ہی کی طرف جاؤں گا.مَیں نے اپنے اجتہاد سے اِس کی یہ تاویل کی کہ یہ لڑکا نیک ہوگا اور رُو بخدا ہوگا اور خدا کی طرف اس کی حرکت ہوگی اور یا یہ کہ جلد فوت ہوجائے؎۲ گا.اس بات کا علم خدا تعالیٰ کو ہے کہ ان دونوں باتوں میں سے کونسی بات اس کے ارادہ کے موافق ہے.‘‘ (تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۱۳،۲۱۴) ۱۳؍ جون ۱۸۹۹ء ’’ پھر اس؎۳ کے بعد الہام ہوا.کَــفٰی ھٰــذَا ‘‘؎۴ (از خط مولوی عبدالکریم صاحبؓ مندرجہ الحکم جلد ۳ نمبر ۲۳ مورخہ ۳۰؍جون ۱۸۹۹ء صفحہ۷) (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) ایک رنگ میں اس پسر چہارم کا وعدہ اس کے ظہور کے چودہ برس پہلے بھی دیا گیا تھا دیکھیے الہام ۱۸۸۵ء صفحہ ۱۱۳.۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) صاحبزادہ مرزا مبارک احمد بچپن میں ہی ۱۶؍ستمبر ۱۹۰۷ء کو وفات پاگیا.۳ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) یعنی الہام اِنِّیْٓ اَسْقُطُ مِنَ اللّٰہِ وَ اُصِیْبُہٗ کے بعد.۴ (ترجمہ از مرتّب) یہ کافی ہے.(نوٹ ازمولانا عبد اللطیف بہاولپوری) اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اب آپ کے ہاں کوئی اور نرینہ بچہ پیدا نہ ہوگا.
۱۴؍جون ۱۸۹۹ء ’’ میرے گھر میں جو ایامِ اُمید تھے ۱۴؍ جون کو اوّل دردِ زہ کے وقت ہولناک حالت پیدا ہوگئی یعنی بدن تمام سرد ہوگیا اور ضعف کمال کو پہنچا اور غشی کے آثار ظاہر ہونے لگے.اس وقت مَیں نے خیال کیا کہ شاید اب اس وقت یہ عاجزہ اس فانی دنیا کو الوداع کہتی ہے.بچوں کی سخت دردناک حالت تھی اور دوسرے گھر میں رہنے والی عورتیں اور اُن کی والدہ تمام مُردہ کی طرح اور نیم جان تھے کیونکہ ردّی علامتیں یک دفعہ پیدا ہوگئی تھیں.اس حالت میں اُن کا آخری دَم خیال کرکے اور پھر خدا کی قدرت کو بھی مظہر العجائب یقین کرکے اُن کی صحت کے لئے مَیں نے دعا کی.یک دفعہ حالت بدل گئی اور الہام ہوا.تَـحْوِیْلُ الْمَوْتِ یعنی ہم نے موت کو ٹال دیا اور دوسرے وقت پر ڈال دیا اور بدن پھر گرم ہوگیا اور حواس قائم ہوگئے اور لڑکا پیدا ہوا جس کا نام مبارک احمد رکھا گیا.‘‘ (از مکتوب بنام سیٹھ عبدالرحمٰن صاحبؓ مدراسی.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۳۹۶ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۷؍ جون ۱۸۹۹ء ’’ ایک خواب ۱۷؍ جون ۱۸۹۹ء کو آیا اور وہ یہ ہے کہ حضرت اقدس کیا دیکھتے ہیں کہ آگ اور دھواں ہے اور چنگاڑیاں اُڑ کر آپ کی طرف آتی ہیں مگر ضرر نہیں دیتیں.اس حال میں آپ یہ پڑھ رہے ہیں.’’ یَـا؎۱ حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْـمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ.اِنَّ رَبِّیْ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ.‘‘ (منقول از خط مولانا عبدالکریم صاحبؓ مندرجہ الحکم جلد۳ نمبر ۲۲ مورخہ ۲۳؍جون ۱۸۹۹ء صفحہ ۸) ۲۲؍ جون ۱۸۹۹ء فرمایا کہ کل بہت دفعہ خدا کی طرف سے الہام ہوا کہ ’’تم لوگ متقی بن جاؤ اور تقویٰ کی باریک راہوں پر چلو تو خدا تمہارے ساتھ ہوگا.‘‘ (الحکم جلد ۳ نمبر ۲۲ مورخہ ۲۳؍جون ۱۸۹۹ء صفحہ ۷ ) ۲۵؍جون ۱۸۹۹ء ’’ مَیں نے دو روز ہوئے کہ یاکم و بیش آپ کو خواب میں دیکھا تھا.‘‘ (از مکتوب بنام سیٹھ عبدالرحمٰن صاحبؓ مدراسی.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۳۹۷ مطبوعہ ۲۰۰۸ء ۱ (ترجمہ از مرتّب) اے حـیّ اے قیّوم! مَیں تیری رحمت سے مدد چاہتا ہوں.یقیناً میرا ربّ آسمانوں اور زمین کا ربّ ہے.
۱۸۹۹ء ’’ جو شخص تیری پَیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا اور تیرا مخالف رہے گا وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا اور جہنمی ہے.‘‘ (از مکتوب بنام بابو الٰہی بخش صاحب.مکتوبات احمد جلد ۱ صفحہ ۴۷۷ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۳۰؍ جون ۱۸۹۹ء ’’۳۰؍جون ۱۸۹۹ء میں مجھے یہ الہام ہوا.پہلے بیہوشی.پھر غشی.پھر موت.ساتھ ہی اس کے یہ تفہیم ہوئی کہ یہ الہام ایک مخلص دوست کی نسبت ہے جس کی موت سے ہمیں رنج پہنچے گا چنانچہ اپنی جماعت کے بہت سے لوگوں کو یہ الہام سنایا گیا اور الحکم ۳۰؍جون۱۸۹۹ء میں درج ہوکر شائع کیا گیا.پھر آخر جولائی ۱۸۹۹ء میں ہمارے ایک نہایت مخلص دوست یعنی ڈاکٹر محمد بوڑے خاں اسسٹنٹ سرجن ایک ناگہانی موت سے قصوؔرمیں گزر گئے.اوّل بیہوش رہے پھر یک دفعہ غشی طاری ہوگئی پھر اس ناپائیدار دنیا سے کوچ کیا اور اُن کی موت اور اس الہام میں صرف بیس۲۰ بائیس۲۲ دن کا فرق تھا.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۲۳، ۲۲۴) ۱۸۹۹ء ’’ صبح حضرت اقدس کو یہ رؤیاہوتی ہے کہ حضرت ملکہ معظمہ قیصرہ ہند سلّمہا اللہ تعالیٰ گویا حضرت اقدس کے گھر میں رونق افروز ہوئی ہیں.حضرت اقدس رؤیامیں عاجز راقم عبدالکریم کو جو اُس وقت حضور اقدس کے پاس بیٹھا ہے فرماتے ہیں کہ حضرت ملکہ معظّمہ کمال شفقت سے ہمارے ہاں قدم رنجہ فرما ہوئی ہیں اور ۲دو روز قیام فرمایا ہے ان کا کوئی شکریہ بھی ادا کرنا چاہیے.اِس رؤیاکی تعبیر یہ تھی کہ حضرت کے ساتھ کوئی نصرتِ الٰہی شامل ہوئی چاہتی ہے.‘‘؎۱ (از خط مولانا عبدالکریم صاحب ؓ مندرجہ الحکم جلد ۳ نمبر ۲۴ مورخہ ۱۰؍جولائی ۱۸۹۹ء صفحہ۳) ۱ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) اس ہفتہ میں سب سے عجیب اور دلچسپ بات جو واقع ہوئی …وہ ایک چٹھی کا حضرت کے نام آنا تھا.اس میں پختہ ثبوت اور تفصیل سے لکھا ہے کہ جلال آباد (علاقہ کابل) کے علاقہ میں یوزآسف نبی کا چبوترہ موجود ہے اور وہاں مشہور ہے کہ دو۲ ہزار برس ہوئے کہ یہ نبی شام سے یہاں آیا تھا اور سرکار کابل کی طرف سے کچھ جاگیر بھی اس چبوترہ کے نام ہے… اس خط سے حضرت اقدس اِس قدر خوش ہوئے کہ فرمایا ’’اللہ تعالیٰ گواہ اور علیم ہے کہ اگر مجھے کوئی کروڑوں روپئے لادیتا تو مَیں کبھی اتنا خوش نہ ہوتا جیسا اس خط نے مجھے خوشی بخشی ہے.‘‘ …خدا کا علم اور قدرت دیکھیے ظہر کے وقت اس رؤیا کی صحیح تاویل پوری ہوگئی.‘‘ (از خط حضرت مولانا عبدالکریم صاحب ؓمندرجہ الحکم مورخہ ۱۰؍جولائی ۱۸۹۹ء صفحہ۳)
۱۸۹۹ء (الف) ’’ ایک دفعہ مجھے دانت میں سخت دَرد ہوئی.ایک دَم قرار نہ تھا.کسی شخص سے مَیں نے دریافت کیا کہ اس کا کوئی علاج ہے.اس نے کہا کہ علاجِ دندان اخراجِ دندان اور دانت نکالنے سے میرا دل ڈرا.تب اُس وقت مجھے غنودگی آگئی اور مَیں زمین پر بے تابی کی حالت میں بیٹھا ہوا تھا اور چارپائی پاس بچھی تھی مَیں نے بے تابی کی حالت میں اُس چارپائی کی پائینتی پر اپنا سر رکھ دیا اور تھوڑی سی نیند آگئی.جب مَیں بیدار ہوا تو دَرد کا نام و نشان نہ تھا اور زبان پر یہ الہام جاری تھا.اِذَا مَرِضْتَ فَھُوَ یَشْفِیْ یعنی جب تُو بیمار ہوتا ہے تو وہ تجھے شفا دیتا ہے.فَالْـحَمْدُ لِلہِ عَلٰی ذَالِکَ.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۲۴۶؎۱، ۲۴۷) (ب) ’’ (حضرت )مولوی نورالدین صاحب کو ایک مہینہ سے زیادہ عرصہ ہوا لگاتار دانت کا سخت درد رہا اور سوائے اُکھڑوانے کے کسی علاج سے فائدہ نہ ہوا.فرمایا؎۲: مجھے بھی ایک دفعہ خطرناک درد ہوا.یہاں تک کہ مارے درد کے غشی ہوگئی.اس میں الہام ہوا.وَ اِذَا مَرِضْتَ فَھُوَ یَشْفِیْ جب اُٹھا تو درد جاتا رہا.‘‘ (از خط مولوی عبدالکریم صاحب ؓ مندرجہ الحکم جلد ۳ نمبر ۲۴ مورخہ ۱۰؍جولائی ۱۸۹۹ء صفحہ۴) ۶ ؍جولائی ۱۸۹۹ء ’’۶؍جولائی کی رات کو خدا تعالیٰ نے بہشت و دوزخ کا نظارہ آپ کو دکھایا اوّل بہشت دکھائی گئی اور اس کے ہر قسم کے ثمرات و نعماء دکھائی گئیں اتنے میں الہام ہوا.یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ.؎۳ پھر دوزخ دکھایا گیا.وہ سخت مکروہ اور پاخانہ کی شکل تھا.اتنے میں الہاماً زبان پر جاری ہوا.۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یہ الہام یہاں اس لئے لایا گیا ہے کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے (جو جز ب میں درج ہے ) معلوم ہوتا ہے کہ ۱۰؍جولائی ۱۸۹۹ء سے یہ پہلے کا الہام ہے.۲ یعنی حضرت اقدسؑ نے فرمایا.(مرزا بشیر احمد) ۳ (ترجمہ ) اس کی مدد ہر ایک دور کی راہ سے تجھے پہنچے گی.(اربعین نمبر ۲.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۳۶۲)
لَوْ؎۱ لَا فَضْلُ اللّٰہِ وَ رَحْـمَتُہٗ عَلَیَّ لَاُلْقِیَ رَاْسِیْ فِیْ ھٰذَا الْکَنِیْفِ.‘‘؎۲ (از خط مولانا عبدالکریم صاحب ؓ مندرجہ الحکم جلد ۳ نمبر ۲۴ مورخہ ۱۰؍جولائی ۱۸۹۹ء صفحہ ۴) ۲۷؍ اگست ۱۸۹۹ء ’’ مجھ کو اپنی نسبت یہ الہام ہوا.’’خدا نے ارادہ کیا ہے کہ تیرا نام بڑھاوے اور آفاق میں تیرے نام کی خوب چمک دکھاوے.آسمان سے کئی تخت اُترے مگر سب سے اونچا تیرا تخت بچھایا گیا.دشمنوں سے ملاقات کرتے وقت ملائکہ؎۳ نے تیری مدد کی.‘‘ (از مکتوب بنام سیٹھ عبدالرحمٰن صاحبؓ مدراسی.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۴۰۵ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۳۰؍ اگست ۱۸۹۹ء ’’ ۳۰؍اگست کو خدا نے اپنے برگزیدہ کو یوں بشارت دی ہے.رحمت ِ الٰہی کے چُپکے سامان.‘‘ (منقول از خط مولانا عبدالکریم صاحب ؓ مندرجہ الحکم جلد ۳ نمبر ۳۲ مورخہ ۹؍ستمبر ۱۸۹۹ء صفحہ ۵) ۳۰؍ اگست ۱۸۹۹ء ’’ اِسی تاریخ کورؤیامیں حضرت اقدس نے نبض پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ اِس سے ذلّت کی آواز آتی ہے یا نصرت کی.تو نبض سے نصرت کی آواز آئی.‘‘ (خط مولوی عبدالکریم صاحب ؓ مندرجہ الحکم جلد ۳ نمبر ۳۲ مورخہ ۹؍ستمبر ۱۸۹۹ء صفحہ ۵) ۲ ؍ستمبر۱۸۹۹ء ’’ اِس قدر فقرہ کہ رَبَّنَا اٰمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاھِدِیْنَ.۱ (ترجمہ) ’’اگر خدا کا فضل و رحمت مجھ پر نہ ہوتی تو میرا سر اس پاخانہ میں ڈالا جاتا.یہ ایک انعامِ الٰہی کی طرز ہے کہ خدا نے آپ کو ایسے مکان کے لئے بنایا ہی نہیں اس سے پیشتر مدّت ہوئی حضرت کچھ لوگوں کو اس تاریک غار میں دیکھ چکے تھے.‘‘ (از خط مولوی عبدالکریم صاحبؓ مندرجہ الحکم مورخہ ۱۰؍جولائی ۱۸۹۹ء صفحہ ۴) ۲ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) احادیث نبویّہ میں دنیا کو ایک روڑی کی صورت میں بتایا گیا ہے پس وحی الٰہی ان احادیث کی تصدیق کرتی ہے اور معنے اس کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت نے ہی مجھے دنیا سے بے رغبت کیا ہے ورنہ مَیں بھی اِسی مزبلہ کا ایک کیڑا ہوتا.۳ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) اربعین نمبر ۳ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۲۸ و ضمیمہ تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۷۵سے معلوم ہوتا ہے کہ وحی الٰہی ’’ملائکہ نے تیری مدد کی‘‘ کی دوسری قراءت ’’فرشتوں نے تیری مدد کی‘‘ہے.
اس وقت جو مَیں یہی مقام لکھ رہا تھا، الہام ہوا اور آج دوسری ستمبر ۱۸۹۹ء روز شنبہ اور ایک بجے کا عمل، وقت نماز ظہر ہے.‘‘ (تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۲۶۲ حاشیہ) ۱۴؍ ستمبر ۱۸۹۹ء ’’۱۴؍ستمبر ۱۸۹۹ء کو یہ الہام ہوا.ایک عزت؎۱ کا خطاب.ایک عزت کا خطاب.لَکَ خِطَابُ الْعِزَّۃِ.ایک بڑا نشان اس کے ساتھ ہوگا.یہ تمام خدائے پاک قدیر کا کلام ہے…مَیں اپنے اجتہاد سے اس کے یہ معنے سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس جھگڑے کے فیصلہ کرنے کے لئے جو کسی حد تک پُرانا ہوگیا ہے اور حد سے زیادہ تکذیب اور تکفیر ہوچکی ہے.کوئی ایسا برکت اور رحمت اور فضل اور صلح کاری کا نشان ظاہر کرے گا کہ وہ انسانی ہاتھوں سے برتر اور پاک تر ہوگا.تب ایسی کھلی کھلی سچائی کو دیکھ کر لوگوں کے خیالات میں ایک تبدیلی واقع ہوگی اور نیک طینت آدمیوں کے کینے یک دفعہ رفع ہوجائیں گے.‘‘ (ضمیمہ تریاق القلوب نمبر ۴.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۵۰۱ تا ۵۰۴) ۱۸؍ستمبر ۱۸۹۹ء ’’ آج مَیں نے ۱۸؍ستمبر ۱۸۹۹ء کو بروز دوشنبہ خواب میں دیکھا کہ بارش ہورہی ہے.آہستہ آہستہ مینہ برس رہا ہے.مَیں نے شاید خواب میں یہ کہا کہ ہم تو ابھی دُعا کرنے کو تھے کہ بارش ہو، سو ہو ہی گئی.مَیں نہیں جانتا کہ عنقریب بارش ہوجائے یا ہمارے الہام ۱۳؍ستمبر؎۲ ۱۸۹۹ء ’’ایک عزت کا خطاب.ایک عزت کا خطاب.لَکَ خِطَابُ الْعِزَّۃِ.ایک بڑا نشان اس کے ساتھ ہوگا‘‘ کے متعلق خدا کی رحمت اور فتح و نصرت کی بارش ہماری جماعت پر ہوگی یا دونو ہی ہوجاویں.ہماری خواب سچی ہے.اس کا ظہور ضرور ہوگا.دونو میں سے ایک بات ضرور ہوگی یعنی یا تو خدا تعالیٰ کی مخلوق کے لئے بارانِ رحمت کا دروازہ آسمان سے کھلے گا یا غیر معمولی کوئی نشان روحانی فتح اور نصرت کا ظاہر ہوگا مگر نشان ہوگا نہ معمولی بات.‘‘ (الحکم جلد ۳نمبر ۳۶ مورخہ ۱۰؍اکتوبر ۱۸۹۹ء صفحہ ۷) ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’مجھے امتیازی مرتبہ بخشنے کے لئے خدا نے میرا نام نبی رکھ دیا ہے اور مجھے یہ ایک عزت کا خطاب دیا گیا ہے.‘‘ (از مکتوب بنام ایڈیٹر صاحب اخبار عام.مکتوبات احمد جلد ۵صفحہ ۵۴۴ مطبوعہ ۲۰۱۵ء) ۲ (نوٹ از ناشر) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس الہام کی تاریخ نزول تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۵۰۱ میں ۱۴؍ستمبر ۱۸۹۹ء تحریر فرمائی ہے.
۱۹؍ ستمبر ۱۸۹۹ء ’’۱۹؍ستمبر ۱۸۹۹ء کو خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کرکے اپنا کلام مجھ پر نازل کیا.اِنَّـا اَخْرَجْنَا لَکَ زُرُوْعًا یَـا اِبْـرَاھِیْمُ.یعنی اے ابراہیم! ہم تیرے لئے ربیع کی کھیتیاں اُگائیں گے.زُرُوْعٌ ، زَرْعٌ کی جمع ہے اور زَرْعٌ عربی زبان میں ربیع کی کھیتی یعنی کنکؔ و جَو وغیرہ کو کہتے ہیں مگر آثار ایسے نہیں ہیں کہ یہ الہام اپنے ظاہر معنوں کے رُو سے پورا ہو کیونکہ ربیع کی تخم ریزی کے ایام گویا گزر گئے لہٰذا مجھے صرف اجتہاد سے یہ معنے معلوم ہوتے ہیں کہ تجھے کیا غم ہے.تیری کھیتیاں تو بہت نکلیں گی.یعنی ہم تیری تمام حاجات کے متکفّل ہیں.‘‘ (ضمیمہ تریاق القلوب نمبر ۴.روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۵۰۴ حاشیہ) ۴؍ اکتوبر ۱۸۹۹ء ’’ ایک اَور دوسرا الہام متشابہات میں سے ہے جو ۴؍اکتوبر ۱۸۹۹ء کو مجھے ہوا اور وہ یہ ہے کہ قیصرِ ہند کی طرف سے شکریہ اب یہ ایسا لفظ ہے کہ حیرت میں ڈالتا ہے کیونکہ مَیں ایک گوشہ نشین آدمی ہوں اور ہریک قابلِ پسند خدمت سے عاری اور قبل از موت اپنے تئیں مردہ سمجھتا ہوں.میرا شکریہ کیسا.سو ایسے الہام متشابہات میں سے ہوتے ہیں جب تک خود خدا ان کی حقیقت ظاہر نہ کرے.‘‘ (ضمیمہ تریاق القلوب نمبر ۴.روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۵۰۴ حاشیہ) ۲۰؍ اکتوبر ۱۸۹۹ء ’’۲۰؍اکتوبر ۱۸۹۹ء کو خواب میں مجھے یہ دکھایا گیا کہ ایک لڑکا؎۱ہے جس کا نام عزیزؔ ہے اور اس کے باپ کے نام کے سر پر سلطاؔن کا لفظ ہے.وہ لڑکا پکڑ کر میرے پاس لایا گیا اور میرے سامنے بٹھایا گیا.۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہ نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’رؤیا مذکوراشارتاً درج ہوئی تھی ورنہ صاف طورپر آپ نے فرمایا تھا کہ ’’عزیز احمد خلف مرزاسلطان احمد کو میں نے دیکھا ہے.‘‘ (الحکم مورخہ ۱۰؍مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۱) چنانچہ یہ رؤیا اس طرح پوری ہوئی کہ اواخر فروری ۱۹۰۶ء میں اس رؤیا کے قریباً ساڑھے چھ سال بعد حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ابن حضرت مرزا سلطان احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دستِ مبارک پر بیعت کرکے جماعت میں داخل ہوگئے.اس رؤیا میں حضرت مرزا عزیز احمد صاحب کو حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی طرف منسوب کرنے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف حضرت مرزا عزیز احمد صاحب بلکہ مرزا سلطان احمد صاحب بھی حضورؑ کی بیعت میں داخل ہوکر
گیا.مَیں نے دیکھا کہ وہ ایک پتلا سا لڑکا گورے رنگ کا ہے.مَیں نے اس خواب کی یہ تعبیر کی ہے کہ عزیزؔ عزت پانے والے کو کہتے ہیں اور سلطان جو خواب میں اس لڑکے کا باپ سمجھا گیا ہے.یہ لفظ یعنی سلطان عربی زبان میں اُس دلیل کو کہتے ہیں کہ جو ایسی بیّن الظہور ہو جو بباعث اپنے نہایت درجہ کے روشن ہونے کے دلوں پر اپنا تسلّط کرلے گویا سلطان کا لفظ تسلّط سے لیا گیا ہے اور سلطان عربی زبان میں ہر ایک قسم کی دلیل کو نہیں کہتے بلکہ ایسی دلیل کو کہتے ہیں کہ جو اپنی قبولیت اور روشنی کی وجہ سے دلوں پر قبضہ کرلے اور طبائع سلیمہ پر اُس کا تسلّطِ تام ہوجائے.پس اس لحاظ سے کہ خواب میں عزیز جو سلطان کا لڑکا معلوم ہوا اس کی یہ تعبیر ہوئی کہ ایسا نشان جو لوگوں کے دلوں پر تسلّط کرنے والا ہوگا ظہور میں آئے گا اور اس نشان کے ظہور کا نتیجہ جس کو دوسرے لفظوں میں اس نشان کا بچہ کہہ سکتے ہیں دلوں میں میرا عزیز ہونا ہوگا جس کو خواب میں عزیز کے تمثّل سے ظاہر کیا گیا.‘‘ (ضمیمہ تریاق القلوب نمبر ۴.روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۵۰۵،۵۰۶) ۲۱ ؍اکتوبر ۱۸۹۹ء ’’ ایک خواب …ابھی ۲۱؍اکتوبر ۱۸۹۹ء کو مَیں نے دیکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ مَیں نے خواب میں مـحبّی اخویم مفتی محمد صادق کو دیکھا… کہ نہایت روشن اور چمکتا ہوا ان کا چہرہ ہے اور ایک لباس فاخرہ جو سفید ہے پہنے ہوئے ہیں اور ہم دونوں ایک بگھی میں سوار ہیں اور وہ لیٹے ہوئے ہیں اور ان کی کمر پر مَیں نے ہاتھ رکھا ہوا ہے.یہ خواب ہے اور اس کی تعبیر جو خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالی ہے یہ ہے کہ صدق جس سے مَیں محبّت رکھتا ہوں ایک چمک کے ساتھ ظاہر ہوگا اور جیسا کہ مَیں نے صادق کو دیکھا ہے کہ اس کا چہرہ چمکتا ہے اسی طرح وہ وقت قریب ہے کہ مَیں صادق سمجھا جاؤں گا اور صدق کی چمک لوگوں پر پڑے گی.‘‘ (ضمیمہ تریاق القلوب نمبر ۴.روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۵۰۴، ۵۰۵) بقیہ حاشیہ.جسمانی رشتہ کے علاوہ روحانی طور پر بھی فرزندی میں داخل ہوجائیں گے.سو اَلْـحَمْدُ لِلہ کہ حضرت ممدوح بھی ۲۵؍دسمبر ۱۹۳۰ء کو اپنے چھوٹے بھائی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہاتھ پر بیعت کرکے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں داخل ہوگئے.
۱۸۹۹ء ’’ مبشروں کا زوال نہیں ہوتا.گورنر؎۱ جنرل کی پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا وقت آگیا.‘‘ (الحکم جلد ۳ نمبر۴۰ مورخہ ۱۰؍ نومبر ۱۸۹۹ء صفحہ ۶) ۱۸۹۹ء ’’خدا نے مجھے تلوار کے ساتھ نہیں بھیجا اور نہ مجھے جہاد کا حکم دیا بلکہ مجھے خبر دی کہ تیرے ساتھ آشتی اور صلح پھیلے گی.ایک درندہ بکری کے ساتھ صلح کرے گا اور ایک سانپ بچوں کے ساتھ کھیلے گا.یہ خدا کا ارادہ ہے گو لوگ تعجب کی راہ سے دیکھیں.‘‘ (اشتہار واجب الاظہار.ضمیمہ تریاق القلوب نمبر۵.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۵۲۱) ۵؍ جنوری ۱۹۰۰ء ’’ میرے چچا زاد بھائیوں میں سے امام الدین نام ایک سخت مخالف تھا.اُس نے یہ ایک فتنہ برپا کیا کہ ہمارے گھر کے آگے ایک دیوار کھینچ دی اور ایسے موقعہ پر دیوا رکھینچی کہ مسجد میں آنے جانے کا راستہ رُک گیا اور جو مہمان میری نشست کی جگہ پر میرے پاس آتے تھے یا مسجد میں آتے تھے وہ بھی آنے سے رُک گئے اور مجھے اور میری جماعت کو سخت تکلیف پہنچی.گویا ہم محاصرہ میں آگئے.ناچار دیوانی میں منشی خدا بخش صاحب ڈسٹرکٹ جج کے محکمہ میں نالش کی گئی.جب نالش ہوچکی تو بعد میں معلوم ہوا کہ یہ مقدمہ ناقابلِ فتح ہے اور اس میں یہ مشکلات ہیں کہ جس زمین پر دیوار کھینچی گئی ہے اس کی نسبت کسی پہلے وقت کی مثل کی رُو سے ثابت ہوتا ہے کہ مدّعا علیہ یعنی امام الدین قدیم سے اس کا قابض ہے اور یہ زمین دراصل کسی اَور شریک کی تھی جس کانام غلام جیلانی تھا اور اس کے قبضہ میں سے نکل گئی تھی تب اس نے امام الدین کو اس زمین کا قابض خیال کرکے گورداسپور میں بصیغہءِ دیوانی نالش کی تھی اور بوجہ ثبوت مخالفانہ قبضہ کے وہ نالش خارج ہوگئی تھی تب سے امام الدین کا اس پر قبضہ چلا آتا ہے… اس سخت مشکل کو دیکھ کر ہمارے وکیل خواجہ کمال الدین نے ہمیں یہ بھی صلاح دی تھی کہ بہتر ہوگا کہ اس مقدمہ میں صلح کی جائے.یعنی امام الدین کو بطور خود کچھ روپیہ دے کر راضی کر لیا جائے لہٰذا مَیں نے مجبوراً اس تجویز کو پسند کرلیا تھا مگر وہ ایسا انسان نہیں تھا جو راضی ہوتا.اس کو مجھ سے بلکہ دین اسلام سے ایک ذاتی بُغض تھا اور اس کو پتہ لگ گیا تھا کہ مقدمہ چلانے کا اِن پر قطعاً دروازہ بند ہے لہٰذا وہ اپنی شوخی میں اَور بھی بڑھ گیا.آخر ہم نے اس بات کو خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیا… اور امام الدین کی یہاں تک بد نیت تھی کہ ہمارے گھر کے آگے جو صحن تھا جس میں آکر ہماری جماعت کے یکّے ٹھہرتے تھے وہاں ہر وقت مزاحمت کرتا اور گالیاں ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.’’ہمارا نام حَکَمِ عَام بھی ہے جس کا ترجمہ اگر انگریزی میں کیا جائے تو گورنر جنرل ہوتا ہے.‘‘ (الحکم مورخہ ۲۴ ؍جولائی ۱۸۹۹ء صفحہ ۶)
نکالتا تھا اور نہ صرف اِسی قدر بلکہ اُس نے یہ بھی ارادہ کیا تھا کہ ہمارا مقدمہ خارج ہونے کے بعد ایک لمبی دیوار ہمارے گھر کے دروازوں کے آگے کھینچ دے تا ہم قیدیوں کی طرح محاصرہ میں آجائیں اور گھر سے باہر نکل نہ سکیں اور نہ باہر جاسکیں.یہ دن بڑی تشویش کے تھے یہاں تک کہ ہم ضَاقَتْ عَلَیْھِمُ الْاَرْضُ بِـمَا رَحُبَتْ۱؎ کا مصداق ہوگئے اور بیٹھے بیٹھے ایک مصیبت پیش آگئی.اِس لئے جنابِ الٰہی میں دعا کی گئی اور اُس سے مدد مانگی گئی تب بعد دعا مندرجہ ذیل الہام ہوا.اور یہ الہام علیحدہ علیحدہ وقت کے نہیں بلکہ ایک ہی دفعہ ایک ہی وقت میں ہوا.مجھے یاد ہے کہ اُس وقت سیّد فضل شاہ صاحب لاہوری برادر سیّد ناصرشاہ صاحب اورسیئر متعین بارہ مولہ کشمیر میرے پیر دبا رہا تھا اور دوپہر کا وقت تھا کہ یہ سلسلہ الہام دیوار کے مقدمہ کی نسبت شروع ہوا.مَیں نے سیّد صاحب کو کہا کہ یہ دیوار کے مقدمہ کی نسبت الہام ہے آپ جیسا جیسا یہ الہام ہوتا جائے لکھتے جائیں چنانچہ انہوں نے قلم دوات اور کاغذ لے لیا.پس ایسا ہوا کہ ہر ایک دفعہ غنودگی کی حالت طاری ہوکر ایک ایک فقرہ وحی الٰہی کا جیسا کہ سنت اللہ ہے زبان پر نازل ہوتا تھا اور جب ایک فقرہ ختم ہوجاتا تھا اور لکھا جاتا تھا تو پھر غنودگی آتی تھی اور دوسرا فقرہ وحیِ الٰہی کا زبان پر جاری ہوتا تھا یہاں تک کہ کُل وحی الٰہی نازل ہوکر سیّد فضل شاہ صاحب لاہوری کے قلم سے لکھی گئی اوراس میں تفہیم ہوئی کہ یہ اُس دیوار کے متعلق ہے جو امام الدین نے کھینچی ہے جس کا مقدمہ عدالت میں دائر ہے اور یہ تفہیم ہوئی کہ انجام کار اِس مقدمہ میں فتح ہوگی چنانچہ مَیں نے اپنی ایک کثیر جماعت کو یہ وحی الٰہی سنادی اور اس کے معنے اور شانِ نزول سے اطلاع دے دی اور اخبار الحکم؎۲ میں چھپوا دیا اور سب کو کہہ دیا کہ اگرچہ مقدمہ اَب خطرناک اور صورت نَومیدی کی ہے مگر آخر خدا تعالیٰ کچھ ایسے اسباب پیدا کردے گا جس میں ہماری فتح ہوگی کیونکہ وحیِ الٰہی کا خلاصہ مضمون یہی تھا.اب ہم اس وحی الٰہی کو مع ترجمہ ذیل میں لکھتے ہیں اور وہ یہ ہے.۱.اَلرَّحٰی تَدُوْرُ وَیَنْزِلُ الْقَضَآءُ.۲.اِنَّ فَضْلَ؎۳ اللّٰہِ لَاٰتٍ وَّ لَیْسَ لِاَحَدٍ اَنْ یَّـرُدَّ مَا اَتٰی.۳.قُلْ ۱ (ترجمہ از ناشر) زمین اپنی فراخی کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی.۲ دیکھیے الحکم مورخہ ۲۴؍جنوری ۱۹۰۰ء صفحہ ۱۰.(شمس) ۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں’’ عجب بات ہے کہ اِس الہام میں بشارت فضل کے لفظ سے شروع ہوتی ہے اور جس کے ہاتھ سے بروقت نزول یہ وحی قلمبند کرائی گئی اس کا نام بھی فضل ہے.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۲۸۰ حاشیہ)
اِیْ وَ رَبِّـیْ اِنَّہٗ لَـحَقٌّ لَّا یَتَبَدَّ.لُ وَ لَا یَـخْفٰی.۴.وَ یَنْزِلُ مَا تَعْـجَبُ مِنْہُ.۵.وَحْیٌ مِّنْ رَّبِّ السَّمٰوَاتِ الْعُلٰی.۶.اِنَّ رَبِّیْ لَا یَضِلُّ وَلَا یَنْسٰی.۷.ظَفَرٌ مُّبِیْنٌ.۸.وَ اِنَّـمَا یُؤَخِّرُھُمْ اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی.۹.اَنْتَ مَعِیْ وَ اَنَـا مَعَکَ.۱۰.قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْہُ فِیْ غَیِّہٖ یَتَمَطّٰی.۱۱.اِنَّہٗ مَعَکَ وَ اِنَّہٗ یَعْلَمُ السِّـرَّ وَمَا اَخْفٰی.۱۲.لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ یَعْلَمُ کُلَّ شَیْءٍ وَّ یَـرٰی.۱۳.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ یُـحْسِنُوْنَ الْـحُسْنٰی.۱۴.اِنَّا اَرْسَلْنَا اَحْـمَدَ اِلٰی قَوْمِہٖ فَاَعْرَضُوْا وَقَالُوْا کَذَّابٌ اَشِـرٌ.وَجَعَلُوْا یَشْھَدُ وْنَ عَلَیْہِ وَیَسِیْلُوْنَ اِلَیْہِ کَمَآءٍ مُّنْـھَمِرٍ.۱۵.اِنَّ حِبِّیْ قَرِیْبٌ اِنَّہٗ قَرِیْبٌ مُّسْتَتِرٌ.(ترجمہ) ۱.چکی پھرے گی اور قضاو قدر نازل ہو گی یعنی مقدمہ کی صورت بدل جائے گی جیسا کہ چکی جب گردش کرتی ہے تو وہ حصہ چکی کا جو سامنے ہوتا ہے بباعث گردش کے پردہ میں آجاتا ہے اور وہ حصہ جو پردہ میں ہوتا ہے وہ سامنے آجاتاہے مطلب یہ کہ مقدمہ کی موجودہ حالت میں جو صورتِ مقدمہ حاکم کی نظر کے سامنے ہے جو ہمارے لئے مضراور نقصان رسان ہے یہ صورت قائم نہیں رہے گی اور ایک دوسری صورت پیدا ہو جائے گی جو ہمارے لئے مفید ہے اور جیسا کہ چکی کو گردش دینے سے جو مُنہ کے سامنے حصہ چکی کا ہوتا ہے وہ پیچھے کو چلا جاتا ہے.اور جو پیچھے کا حصہ ہوتا ہے وہ مُنہ کے سامنے آجاتا ہے اسی طرح جو مخفی اور درپردہ باتیں ہیں وہ منہ کے سامنے آجائیں گی اور ظاہر ہو جائیں گی اور جو ظاہر ہیں وہ ناقابلِ التفات اور مخفی ہو جائیں گی اور پھر بعد اس کے فرمایا کہ ۲.یہ خدا کا فضل ہے جس کا وعدہ دیا گیا ہے یہ ضرور آئے گا اور کسی کی مجال نہیں جو اُس کو رد کر سکے یعنی آسمان پر یہ فیصلہ یافتہ امر ہے کہ یہ صورت موجودہ مقدمہ کی جس سے یاس اور نومیدی ٹپکتی ہے یک دفعہ اُٹھا دی جائے گی اور ایک اور صورت ظاہر ہو جائے گی جو ہماری کامیابی کے لئے مفید ہے جس کا ہنوز کسی کو علم نہیں.اور پھر فرمایا کہ ۳.کہہ مجھے میرے خدا کی قسم ہے کہ یہی بات سچ ہے اِس امر میں نہ کچھ فرق آئے گا اور نہ یہ امر پوشیدہ رہے گا ۴.اور ایک بات پیدا ہو جائے گی جو تجھے تعجب میں ڈالے گی.۵.یہ اُس خدا کی وحی ہے جو بلند آسمانوں کا خدا ہے ۶.میرا ربّ اس صراط مستقیم کو نہیں چھوڑتا جو اپنے برگزیدہ بندوں سے عادت رکھتا ہے اور وہ اپنے ان بندوں کو بھولتا نہیں جو مدد کرنے کے لائق ہیں.۷.سو تمہیں اِس مقدمہ میں کھلی کھلی فتح ہوگی ۸.مگر اس فیصلہ میں اُ س وقت تک تاخیر ہے جو خدا نے مقررکر رکھا ہے.۹.تُو میرے ساتھ ہے اور میں تیرے ساتھ ہوں.۱۰.تو کہہ ہر ایک امر میرے خدا کے اختیار میں ہے پھر اس مخالف کو اس کی گمراہی اورناز اور تکبر میں چھوڑ دے (یہ فقرہ وحی الٰہی کا ایک تسلی دینے کا فقرہ ہے کیونکہ جب ہماری نالش کے بعد اکثر قانون دان سمجھ گئے تھے کہ یہ دعویٰ بے بنیاد ہے
ضرور خارج ہو جائے گا اور امام الدین مدعا علیہ کو ہر ایک پہلو سے یہ خبریں مل گئی تھیں کہ قانون کے رُو سے ہماری کامیابی کی سبیل بند ہے تو اِس وجہ سے اُس کا تکبر بہت بڑھ گیا تھا اوروہ دعوے سے کہتا تھا کہ وہ مقدمہ عنقریب خارج ہو جائے گا بلکہ یہی سمجھو کہ خارج ہو گیا اور شریر لوگوں نے اُس کا ساتھ دیا.چنانچہ یہ بات قریباً تمام گاؤں میں مشہور ہو گئی تھی کہ اس مقدمہ کو ہمارے مخالفوں نے ایسا سمجھ لیا ہے کہ گویا مقدمہ اُن کے حق میں فیصلہ ہو گیا ہے سو اِس جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیوں اِس قدر ناز اورر عونت دکھلا رہے ہو ہر ایک امر خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور وہ ہر ایک چیز پر قادر ہے جو چاہے کر سکتا ہے اور پھر مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ ۱۱.وہ قادر تیرے ساتھ ہے اُس کو پوشیدہ باتوں کا علم ہے بلکہ جو نہایت پوشیدہ باتیں ہیں جو انسان کے فہم سے بھی بر تر ہیں وہ بھی اُس کو معلوم ہیں ماحصل اس فقرہ وحی الٰہی کا یہ ہے کہ اس جگہ بھی ایک پوشیدہ امر ہے کہ جو اب تک نہ تجھے معلوم ہے اور نہ تمہارے وکیل کو اور نہ اُس حاکم کو جس کی عدالت میں یہ مقدمہ ہے اور پھر فرمایا کہ ۱۲.وہی خدا حقیقی معبود ہے اُس کے سوا کوئی معبود نہیں انسان کو نہیں چاہیے کہ کسی دوسرے پر توکل کرے کہ گویا وہ اُس کا معبود ہے ایک خدا ہی ہے جو یہ صفت اپنے اندر رکھتا ہے وہی ہے جس کو ہر ایک چیز کا علم ہے اورجو ہر ایک چیز کو دیکھ رہا ہے ۱۳.اور وہ خدا اُن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور اُس سے ڈرتے ہیں اور جب کوئی نیکی کرتے ہیں تو نیکی کے تمام باریک لوازم کو ادا کرتے ہیں سطحی طور پر نیکی نہیں کرتے اور نہ ناقص طور پر بلکہ اُس کی عمیق در عمیق شاخوں کو بجا لاتے ہیں اور کمال خوبی سے اُس کا انجام دیتے ہیں سو اُنہیں کی خدا مدد کرتا ہے کیونکہ وہ اس کی پسندیدہ راہوں کے خادم ہوتے ہیں اور اُن پر چلتے ہیں اور چلاتے ہیں.اور پھر فرمایا کہ ۱۴.ہم نے احمد کو یعنی اِس عاجز کو اُس کی قوم کی طرف بھیجا.پس قوم اُس سے رُو گردان ہو گئی اور انہوں نے کہا کہ یہ تو کذاب ہے دنیا کے لالچ میں پڑا ہوا ہے یعنی ایسے ایسے حیلوں سے دنیا کمانا چاہتا ہے اور انہوں نے عدالتوں میں اُس پر گواہیاں دیں تا اُس کو گرفتار کرا ویں اور وہ ایک تُندسیلاب کی طرح جو اوپر سے نیچے کی طرف آتا ہے اُس پر اپنے حملوں کے ساتھ گر رہے ہیں.مگر وہ کہتا ہے کہ ۱۵.میرا پیارا مجھ سے بہت قریب ہے وہ قریب تو ہے مگر مخالفوں کی آنکھوں سے پوشیدہ ہے.‘‘؎۱ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۲۷۸ تا ۲۸۳ ) ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’یہ پیشگوئی قبل از وقت بلکہ کئی مہینے فیصلہ سے پہلے عام طور پر شائع ہوچکی تھی اور الحکم اخبار۲؎ میں درج ہوکر دور دراز مُلک کے لوگوں تک اس کی خبر پہنچ چکی تھی پھر فیصلہ کا دن آیا… سو ایسا ۲ یعنی الحکم مورخہ ۲۴؍ جنوری ۱۹۰۰ء صفحہ ۱۰ پر (ناشر)
۲۸؍ فروری ۱۹۰۰ء ’’ فَلَمَّا تَـجَلّٰی رَبُّہٗ لِلْجَبَلِ.‘‘ (تحریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بر اوراق ملحقہ کتاب تعطیر الانام) (ترجمہ) پس جبکہ خدا نے پہاڑ پر تجلّی کی.(براہین احمدیہ حصّہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۱۶ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳) ۲ ؍مارچ؎۱ ۱۹۰۰ء ’’ چند ماہ کا عرصہ گزرتا ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کو الہام ہوا تھا.بقیہ حاشیہ.اتفاق ہوا کہ اس دن ہمارے وکیل خواجہ کمال الدین کو خیال آیا کہ پُرانی مثل کا انڈکس دیکھنا چاہیےیعنی ضمیمہ جس میں ضروری احکام کا خلاصہ ہوتا ہے.جب وہ دیکھا گیا تو اُس میں وہ بات نکلی جس کے نکلنے کی توقع نہ تھی.یعنی حاکم کا تصدیق شدہ یہ حکم نکلا کہ اس زمین پر قابض نہ صرف امام الدین ہے بلکہ میرزا غلام مرتضیٰ یعنی میرے والد صاحب بھی قابض ہیں.تب یہ دیکھنے سے میرے وکیل نے سمجھ لیا کہ ہمارا مقدمہ فتح ہوگیا.حاکم کے پاس یہ بیان کیا گیا.اس نے فی الفور وہ انڈکس طلب کیا اور چونکہ دیکھتے ہی اس پر حقیقت کُھل گئی اس لئے اس نے بلاتوقف امام الدین پر ڈگری زمین کی بمعہ خرچہ کردی.اگر وہ کاغذ پیش نہ ہوتا تو حاکم مـجوّز بجز اس کے کیا کرسکتا تھا کہ مقدمہ کو خارج کرتا اور دشمن بدخواہ کے ہاتھ سے ہمیں تکلیفیں اُٹھانی پڑتیں.یہ خدا کے کام ہیں وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے.اور یہ پیشگوئی درحقیقت ایک پیشگوئی نہیں بلکہ ۲دو پیشگوئیاں ہیں کیونکہ ایک تو اس میں فتح کا وعدہ ہے اور دوسرے ایک امر مخفی کے ظاہر کرنے کا وعدہ ہے جو سب کی نظر سے پوشیدہ تھا.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۸۳، ۲۸۴) (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) مذکورہ بالا فیصلہ جیسا کہ الحکم مورخہ ۱۷؍اگست ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۴ سے معلوم ہوتا ہے.۱۲؍اگست ۱۹۰۱ء کو ہوا جس میں ڈسٹرکٹ جج گورداسپور نے دیوار گرانے اور سفید میدان میں کسی جدید تعمیر نہ کرنے کا دوامی حکم دیا اور ایک سو روپیہ بطور حرجانہ مدعی کو علاوہ اخراجات مقدمہ کے دیئے جانے کا حکم صادر فرمایا جسے حضرت اقدس نے کمال فیاضی سے مرزا امام الدین کی درخواست پر اسے معاف کردیا.۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) میاں امام الدین صاحبؓ سکنہ سیکھواں ضلع گورداسپور نے الہام اَ.لْاَمْرَاضُ تُشَاعُ وَالنُّفُوْسُ تُضَاعُ کی تاریخ ۲؍مارچ ۱۹۰۰ء لکھی ہے.دیکھیے رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۵ صفحہ ۶۲.
اَلْاَمْرَ؎۱اضُ تُشَاعُ وَالنُّفُوْسُ تُضَاعُ… ایسا ہی اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ؎۲کا بھی الہام ہوا.‘‘ (الحکم جلد ۴ نمبر ۲۹ مورخہ ۱۶؍اگست ۱۹۰۰ء صفحہ ۱۰) ۱۱؍اپریل ۱۹۰۰ء (الف)’’عید اَضحی؎۳ کی صبح کو مجھے الہام ہوا کہ کچھ عربی میں بولو.چنانچہ بہت احباب کو اِس بات سے اطلاع دی گئی اور اِس سے پہلے مَیں نے کبھی عربی زبان میں کوئی تقریر نہیں کی تھی لیکن اُس دن مَیں عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ایک بلیغ فصیح پُر معانی کلام عربی میں میری زبان میں جاری کی جو کتاب خطبہ الہامیہ میں درج ہے.وہ کئی جُز کی تقریر ہے جو ایک ہی وقت میں کھڑے ہوکر زبانی فی البدیہہ کہی گئی اور خدا نے اپنے الہام میں اس کا نام نشاؔن رکھا کیونکہ وہ زبانی تقریر محض خدائی قوت سے ظہور میں آئی.مَیں ہرگز یقین نہیں مانتا کہ کوئی فصیح اور اہلِ علم اور ادیب عربی بھی زبانی طور پر ایسی تقریر کھڑا ہوکر کرسکے.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۸۸) ۱ (ترجمہ) یعنی بیماریاں پھیلیں گی اور جانیں ضائع ہوں گی… اِنَّـا لِلّٰہِ وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) ’’اِس الہامی پیشگوئی کے مطابق ملک میں وَبا ہیضہ وغیرہ جس شدّت کے ساتھ پھیلے ہیں اور جس قدر جانیں ان کی نذر ہوئی ہیں وہ کوئی مخفی امر نہیں… یہ الہام ایسے وقت میں ہوا تھا جبکہ ابھی ہیضہ وغیرہ امراض کا پنجاب میں نام و نشان نہ تھا… ایسا ہی اِنَّـا لِلّٰہِ وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کا الہام بھی ہوا تھا جس سے حضرت اقدس کے کسی مخلص دوست کی موت کا پتہ ملتا ہے آخر یہ ساری باتیں (جوخدائے علیم کا کلام تھا) اپنے وقت پر پوری ہوئیں اور ان الہامات کے موافق ہماری جماعت کے بعض نہایت مخلص اور پُرجوش دوست ہم سے علیحدہ ہوئے.ازاں جملہ میاں محمد اکبر صاحب ٹھیکیدار ساکن بٹالہ ہیں جو اس الہام کے موافق فوت ہوئے.‘‘ (الحکم مورخہ ۱۶؍اگست ۱۹۰۰ء صفحہ۱۰) ۳ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) الحکم جلد ۴ نمبر ۱۴ مورخہ ۱۷؍اپریل ۱۹۰۰ء صفحہ ۲ میں لکھا ہے.’’ آج عید کی صبح کو مولانا موصوف (یعنی مولانا عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی) اندر تشریف لے گئے اور عرض کیا کہ ’’مَیں آج خصوصیت کے ساتھ عرض کرنے کو آیا ہوں کہ آپ تقریر ضرور کریں خواہ چند فقرے ہی ہوں.‘‘ آپ نے فرمایا کہ ’’خدا نے ہی حکم دیا ہے.‘‘ اور فرمایا کہ رات کو الہام ہوا ہے کہ’’ مجمع میں کچھ عربی فقرے پڑھو.مَیں کوئی اَور مجمع سمجھتا تھا شاید یہی مجمع ہو.‘‘
(ب) ’’۱۱؍اپریل ۱۹۰۰ء کو عیداضحی کے دن صبح کے وقت مجھے الہام ہوا کہ آج تم عربی میں تقریر کرو.تمہیں قوت دی گئی اور نیز یہ الہام ہوا.کَلَامٌ اُفْصِحَتْ؎۱ مِنْ لَّدُ نْ رَبٍّ کَرِیْمٍ یعنی اس کلام میں خدا کی طرف سے فصاحت بخشی گئی ہے… تب مَیں عید کی نماز کے بعد عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہوگیا اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ غیب سے مجھے ایک قوت دی گئی اور وہ فصیح تقریر عربی میں فی البدیہہ میرے منہ سے نکل رہی تھی کہ میری طاقت سے بالکل باہر تھی اور مَیں نہیں خیال کرسکتا کہ ایسی تقریر جس کی ضخامت کئی جُزوتک تھی‘ ایسی فصاحت اور بلاغت کے ساتھ بغیر اس کے کہ اوّل کسی کاغذ میں قلمبند کی جائے کوئی شخص دنیا میں بغیر خاص الہام الٰہی کے بیان کرسکے.جس وقت یہ عربی تقریر جس کا نام خطبہ؎۲ الہامیہ رکھا ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) اُفْصِحَتْ میں ضمیر کلام کی طرف جاتی ہے جو باعتبار معنی جمع قرار دیتے ہوئے ضمیر مؤنث لائی گئی.چنانچہ کلام بمعنی مجموعہ کلمات استعمال ہو کر اس کی صفت جمع لانا بھی ثابت ہے جیسا کہ مُزَاحـم عُقَیْلِی کا قول ہے لَظَلَّ رَھِیْنًا خَـاشِعَ الطَّرْفِ حَــطَّہٗ تَـحَلُّبُ جَدْ وٰی وَالْکَلَامُ الطَّرَائِفِ (لسان العرب حرف المیم زیر لفظ کلم) ۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) اسی خطبہ الہامیہ کے متعلق ۲دو خوابیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قلمِ مبارک سے لکھی ہوئی ملی ہیں.۱۹؍اپریل ۱۹۰۰ء کی تاریخ دے کر حضور ؑ نے میاں عبداللہ صاحب سنوری کی مندرجہ ذیل خواب لکھی ہے کہ میاں عبداللہ سنوری کہتے ہیں کہ ’’منشی غلام قادر مرحوم سنور والے یہاں آئے ہیں ان سے انہوں نے پوچھا کہ اِس جلسہ کی بابت اُس طرف کی خبر دو.کیا کہتے ہیں.تو اُس نے جواب دیا کہ اُوپر بڑی دُھوم مچ رہی ہے.یہ خواب بعینہٖ سیّد امیر علی شاہ صاحب کے خواب سے مشابہ ہے کیونکہ انہوں نے دیکھا تھا کہ جس وقت عربی خطبہ بروز عید پڑھا جاتا تھا اس وقت جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام جلسہ میں موجود ہیں اور اس خطبہ کو سن رہے ہیں.یہ خواب عین خطبہ پڑھنے کے وقت ہی بطور کشف اسی جگہ بیٹھے ہوئے ان کو معلوم ہوگیا تھا.‘‘ (تحریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بر اوراق ملحقہ کتاب تعطیر الانام )
رکھا گیا لوگوں میں سنائی گئی اُس وقت حاضرین کی تعداد شاید دو۲۰۰ سو کے قریب ہوگی.سبحان اللہ اس وقت ایک غیبی چشمہ کُھل رہا تھا مجھے معلوم نہیں کہ مَیں بول رہا تھا یا میری زبان سے کوئی فرشتہ کلام کررہا تھا کیونکہ مَیں جانتا تھا کہ اس کلام میں میرا دخل نہ تھا خود بخود بنے بنائے فقرے میرے منہ سے نکلتے جاتے تھے اور ہر ایک فقرہ میرے لئے ایک نشان تھا… یہ ایک علمی معجزہ ہے جو خدا نے دکھلایا اور کوئی اس کی نظیر پیش نہیں کرسکتا.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۷۵، ۳۷۶) (ج) ’’ھٰذَا ھُوَالْکِتَابُ الَّذِیْ اُلْھِمْتُ حِصَّۃً مِّنْہُ مِنْ رَّبِّ الْعِبَادِ فِیْ یَـوْمِ عِیْدٍ مِّنَ الْاَعْیَادِ فَقَرَاْتُہٗ عَلَی الْـحَاضِـرِیْنَ بِـاِنْطَاقِ الرُّوْحِ الْاَمِیْنِ مِنْ غَیْرِ مَدَدِ التَّرْقِیْمِ وَالتَّدْوِیْنِ.فَلَاشَکَّ اَنَّہٗ اٰیَۃٌ مِّنَ الْاٰیَـاتِ.وَ مَا کَانَ لِبَشَـرٍ اَنْ یَّنْطِقَ کَمِثْلِیْ مُرْتَـجِلًا مُّسْتَحْضِـرًا فِیْ مِثْلِ ھٰذِہِ الْعِبَارَاتِ…… وَاِنَّہٗ صَنِیْعَۃُ اِحْسَانِ الْـحَضْـرَۃِ وَ مَطِیَّۃُ تَبْلِیْغِ النَّاسِ اِلَی السَّعَادَۃِ وَ اِنَّہٗ غَیْثٌ مِّنَ اللّٰہِ بَعْدَ مَا اَمْـحَلَتِ الْبِلَادُ وَ عَمَّ الْفَسَادُ.وَ لَنْ تَـجِدَ ھٰذِہِ الْمَعَارِفَ فِی الْاٰثَـارِ الْمُنْتَقَاۃِ الْمُدَوَّنَۃِ مِنَ الثِّقَاتِ.بَلْ ھِیَ حَقَآئِقُ اُوْحِیَتْ اِلَیَّ مِنْ رَّبِّ الْکَآئِنَاتِ.‘‘ (سرورق خطبہ الہامیہ.روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحہ۱) ۱ (ترجمہ از مرتّب) یہ (خطبہ الہامیہ) وہ کتاب ہے جس کا ایک حصّہ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک عید (عید الاضحی ۱۳۱۷ھ جو بتاریخ ۱۱؍اپریل ۱۹۰۰ء تھی) کے دن الہام ہوا تھا اور پہلے سے لکھوانے اور تحریر میں لانے کے بغیر مَیں نے محض روح امین کے بلوانے پر حاضرین کے سامنے پڑھا تھا.اس لئے اس بات میں کچھ بھی شک نہیں کہ یہ ایک بڑا بھاری نشانِ الٰہی ہے.اور اس طرح فی البدیہہ زبانی ایسی عبارت میں بولنا جیسا کہ مَیں نے یہ خطبہ پڑھا تھا کسی بشر کی طاقت میں نہیں ہے… یہ بارگاہِ الٰہی کا ایک عظیم الشان احسان ہے اور لوگوں کو سعادت تک پہنچانے کے لئے ایک سواری ہے اور اُس قحط کے بعد جو تمام بلاد پر محیط ہوگیا تھا اور جب کہ دنیا پر تباہی چھاگئی تھی یہ نشان خدا تعالیٰ کی طرف سے بارانِ رحمت بن کر آیا اور ایسے حقائق و معارف چیدہ سے چیدہ تصانیف سلف و خلف ثقات میں بھی قطعاً نہیں مل سکتے بلکہ یہ وہ حقائق ہیں جو ربّ العالمین کی طرف سے بذریعہ وحی مجھے بتائے گئے ہیں.
۱۱؍اپریل ۱۹۰۰ء بمقام مسجد اقصٰی قادیان ’’ یَا عِبَادَ اللّٰہِ فَکِّرُوْا فِیْ یَـوْمِکُمْ ھٰذَا یَوْمِ الْاَضْـحٰی.فَاِنَّہٗ اُوْدِعَ اَسْـرَارًا لِاُولِی النُّـھٰی.وَ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ فِیْ ھٰذَا الْیَوْمِ یُضَحّٰی بِکَثِیْرٍ مِّنَ الْعَـجْمَاوَاتِ.وَ تُنْحَرُ اٰبَالٌ مِّنَ الْـجِمَالِ وَ خَنَاطِیْلُ مِنَ الْبَقَرَاتِ.وَ تُذْ بَـحُ اَقَاطِیْعُ مِنَ الْغَنَمِ ابْتِغَاءَ مَرْضَاۃِ رَبِّ الْکَائِنَاتِ.وَ کَذَالِکَ یُفْعَلُ مِنْ اِبْتِدَآءِ زَمَانِ الْاِسْلَامِ.اِلٰی ھٰذِہِ الْاَیَّـامِ.وَ ظَنِّیْ اَنَّ الْاَضَاحِیَ فِیْ شَـرِیْعَتِنَا الْغَرَّاءِ.قَدْ خَرَجَتْ مِنْ حَدِّ الْاِحْصَاءِ.وَ فَاقَتْ ضَـحَایَا الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ مِنْ اُ.مَمِ الْاَنْبِیَآءِ.وَ بَلَغَتْ کَثْرَۃُ الذَّبَائِـحِ اِلٰی حَدٍّ غُـطِّـیَ بِہٖ وَجْـہُ الْاَرْضِ مِنَ الدِّ مَاءِ.حَتّٰی لَوْ جُـمِعَتْ دِمَاءُھَا وَ اُرِیْدَ اِجْرَاءُھَا لَـجَرَتْ مِنْـھَا الْاَنْـھَارُ.وَسَالَتِ الْبِحَارُ وَ فَاضَتِ الْغُدْ.رُ وَ الْاَوْدِیَۃُ الْکِبَارُ.وَ قَدْ عُدَّ ھٰذَا الْعَمَلُ فِیْ مِلَّتِنَا مِـمَّا یُقَـرِّبُ اِلَی اللّٰہِ سُـبْحَانَہٗ.وَ حُسِبَ کَمَطِیْئَۃٍ تُـحَاکِی الْبَرْقَ فِی السَّیْرِ وَ لُمْعَانَہٗ.فَلِاَجْلِ ذَالِکَ (ترجمہ) اے خدا کے بندو! اپنے اس دن میں کہ جو بقر عید کا دن ہے غور کرو اور سوچو کیونکہ اِن قربانیوں میں عقل مندوں کے لئے بھید پوشیدہ رکھے گئے ہیں.اور آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ اس دن بہت سے جانور ذبح کئے جاتے ہیں اور کئی گلے اونٹوں کے اور کئی گلے گائیوں کے ذبح کرتے ہیں.اور کئی ریوڑ بکریوں کے قربانی کرتے ہیں اور یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے کیا جاتا ہے.اور اسی طرح زمانۂ اسلام کے ابتدا سے ان دنوں تک کیا جاتا ہے.اور میرا گمان ہے کہ یہ قربانیاں جو ہماری اس روشن شریعت میں ہوتی ہیں احاطہ شمار سے باہر ہیں.اور ان کو اُن قربانیوں پر سبقت ہے کہ جو نبیوں کی پہلی امتوں کے لوگ کیاکرتے تھے.اور قربانیوں کی کثرت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ ان کے خونوں سے زمین کا منہ چھپ گیا ہے.یہاں تک کہ اگر اُن کے خون جمع کئے جائیں اور اُن کے جاری کرنے کا ارادہ کیا جائے تو البتہ ان سے نہریں جاری ہو جائیں اور دریا بہ نکلیں اور زمین کے تمام نشیبوں اور وادیوں میں خون رواں ہونے لگے.اور یہ کام ہمارے دین میں ان کاموں میں سے شمار کیا گیا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے قرب کا موجب ہوتے ہیں اور اُس سواری کی طرح یہ سمجھے گئے ہیں کہ جو اپنی سیر میں بجلی سے مشابہ ہو جس کو بجلی کی چمک سے مماثلت حاصل ہو اور اِسی وجہ سے ان ذبح
ذَالِکَ سُـمِّیَ الضَّحَایَا قُرْبَانًا.بِـمَا وَرَدَ اِنَّـھَا تَزِیْدُ قُرْبًا وَ لُقْیَانًا.کُلَّ مَنْ قَرَّبَ اِخْلَاصًا وَتَعَبُّدًا وَ اِیْـمَانًا.وَ اِنَّـھَا مِنْ اَعْظَمِ نُسُکِ الشَّـرِیْعَۃِ.وَ لِذَالِکَ سُـمِّیَتْ بِالنَّسِیْکَۃِ.وَالنُّسُکُ اَلطَّاعَۃُ وَ الْعِبَادَۃُ فِی اللِّسَانِ الْعَرَبِیَّۃِ.وَ کَذَالِکَ جَآءَ لَفْظُ النُّسُکِ بِـمَعْـنَی ذَبْـحِ الذَّ بِیْحَۃِ.فَھٰذَا الْاِشْتِـرَاکُ یَدُلُّ قَـطْعًا عَلٰی اَنَّ الْعَابِدَ فِی الْـحَقِیْقَۃِ ھُوَ الَّذِیْ ذَبَـحَ نَفْسَہٗ وَ قُوَاہُ.وَ کُلَّ مَنْ اَصْبَاہُ لِرِضٰی رَبِّ الْـخَلِیْقَۃِ وَ ذَبَّ الْھَوٰی.حَـتّٰی تَـھَافَتَ وَانْـمَحٰی.وَ ذَابَ وَ غَابَ وَ اخْتَفٰی.وَ ھَبَّتْ عَلَیْہِ عَـوَاصِفُ الفَنَاءِ.وَ سَفَتْ ذَرَّاتِہٖ شَدَائِدُ ھٰذِہِ الْھَـوْجَاءِ.وَ مَنْ فَکَّرَ فِیْ ھٰذَیْنِ الْـمَـفْھُـوْمَیْنِ الْمُشْتَـرِکَیْنِ.وَ تَدَ.بَّـرَ الْمَقَامَ بِتَیَقُّظِ الْقَلْبِ وَ فَتْحِ الْعَیْنَیْنِ.فَلَا یَبْقٰی لَہٗ خَفَاءٌ وَلَا مِرَآءٌ.فِیْ اَنَّ ھٰذَا اِیْمَآءٌ.اِلٰی اَنَّ الْعِبَادَۃَ بقیہ ترجمہ.ہونے والے جانوروں کا نام قربانی رکھا گیا کیونکہ حدیثوں میں آیا ہے کہ یہ قربانیاں خدا تعالیٰ کے قرب اور ملاقات کا موجب ہیں اس شخص کے لئے کہ جو قربانی کو اخلاص اور خدا پرستی اور ایمان داری سے ادا کرتا ہے اور یہ قربانیاں شریعت کی بزرگ تر عبادتوں میں سے ہیں اور اسی لئے قربانی کا نام عربی میں نَسِیْکَہ ہے اور نُـسُک کا لفظ عربی زبان میں فرمانبرداری اور بندگی کے معنوں میں آتا ہے اور ایسا ہی یہ لفظ یعنی نُـسُک اُن جانوروں کے ذبح کرنے پر بھی زبان مذکور میں استعمال پاتا ہے جن کا ذبح کرنا مشروع ہے.پس یہ اشتراک کہ جو نُـسُککے معنوں میں پایا جاتا ہے قطعی طور پر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حقیقی پرستاراور سچا عابد وہی شخص ہے جس نے اپنے نفس کو مع اس کی تمام قوتوں اور مع اس کے اُن محبوبوں کے جن کی طرف اُس کا دِل کھینچا گیا ہے اپنے رب کی رضا جوئی کے لئے ذبح کر ڈالا ہے اور خواہش نفسانی کو دفع کیا یہاں تک کہ تمام خواہشیں پارہ پارہ ہو کر گِر پڑیں اور نابود ہوگئیں اور وہ خود بھی گداز ہوگیا اور اس کے وجود کا کچھ نمود نہ رہا اور چھپ گیا اور فنا کی تند ہوائیں اس پر چلیں اور اس کے وجود کے ذرّات کو اس ہوا کے سخت دھکّے اُڑا کر لے گئے.اور جس شخص نے ان دونوں مفہوموں میں کہ جو باہم نسک کے لفظ میںمشارکت رکھتے ہیں غور کی ہوگی اور اس مقام کو تدبّر کی نگاہ سے دیکھا ہوگا اور اپنے دل کی بیداری اور دونوں آنکھوں کے کھولنے سے پیش وپس کو زیر نظر رکھا ہوگا پس اُس پر پوشیدہ نہیں رہے گا اور اس امر میں کسی قسم کی نزاع اس کے دامن کو نہیں پکڑے گی کہ یہ دو معنوں کا اشتراک کہ جو نسک کے لفظ میں پایا جاتاہے اس بھید کی طرف اشارہ ہے کہ
الْعِبَادَۃَ الْمُنْجِیَۃَ مِنَ الْـخَسَارَۃِ.ھِیَ ذَبْـحُ النَّفْسِ الْاَمَّارَۃِ.وَ نَـحْـرُھَا بِـمُـدَی الْاِنْقِطَاعِ اِلَی اللّٰہِ ذِی الْاٰلَاءِ وَ الْاَمْرِ وَ الْاِمَارَۃِ.مَعَ تَـحَمُّلِ اَنْوَاعِ الْمَرَارَۃِ.لِتَنْجُوَ النَّفْسُ مِنْ مَّوْتِ الْغَرَارَۃِ.وَ ھٰذَا ھُـوَ مَعْـنَی الْاِسْلَامِ.وَ حَقِیْقَۃُ الْاِنْقِیَادِ التَّامِّ.وَالْمُسْلِمُ مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.وَ لَہٗ نَـحَرَ نَـاقَۃَ نَفْسِہٖ وَ تَلَّھَا لِلْجَبِیْنِ.وَمَا نَسِیَ الْـحَیْنَ فِیْ حِیْنٍ.فَـحَاصِلُ الْکَلَامِ اَنَّ النُّسُکَ وَ الضَّحَایَا فِی الْاِسْلَامِ.ھِیَ تَذْکِـرَۃٌ لِّھٰذَا الْمَرَامِ.وَ حَثٌّ عَلٰی تَـحْصِیْلِ ھٰذَا الْمَقَامِ.وَ اِرْھَاصٌ لِـحَقِیْقَۃٍ تَـحْصُلُ بَعْدَ السُّلُوْکِ التَّامِّ.فَوَجَبَ عَلٰی کُلِّ مُؤْمِنٍ وَّ مُؤْمِنَۃٍ کَانَ یَبْتَغِیْ رَضَاءَ اللّٰہِ الْوَدُوْدِ.اَنْ یَّفْھَمَ ھٰذِہِ الْـحَقِیْقَۃَ وَ یَـجْعَلَھَا عَیْنَ الْمَقْصُوْدِ.وَ یُدْخِلَھَا فِیْ نَفْسِہٖ حَتّٰی تَسْـرِیَ فِیْ کُلِّ ذَرَّۃِ الْوُجُوْدِ.وَ لَا یَـھْدَ ءْ وَ لَا یَسْکُنْ قَبْلَ اَدَاءِ ھٰذِہِ الضَّحِیَّۃِ لِلـرَّبِّ الْمَعْبُوْدِ.وَ لَا بقیہ ترجمہ.وہ عبادت جو آخرت کے خسارہ سے نجات دیتی ہے وہ اس نفس امارہ کا ذبح کرنا ہے کہ جو بُرے کاموں کے لئے زیادہ سے زیادہ جوش رکھتا ہے اور ایسا حاکم ہے کہ ہر وقت بدی کا حکم دیتا رہتا ہے پس نجات اس میں ہے کہ اس بُرا حکم دینے والے کو انقطاع الی اللہ کے کاردوں سے ذبح کر دیا جائے اور خلقت سے قطع تعلق کر کے خدا تعالیٰ کو اپنا مونس اور آرام جان قرار دیا جائے اور اس کے ساتھ انواع اقسام کی تلخیوں کی برداشت بھی کی جائے تا نفس غفلت کی موت سے نجات پاوے اور یہی اسلام کے معنے ہیں اور یہی کامل اطاعت کی حقیقت ہے اور مسلمان وہ ہے جس نے اپنا منہ ذبح ہونے کے لئے خدا تعالیٰ کے آگے رکھ دیا ہو.اور اپنے نفس کی اونٹنی کو اس کے لئے قربان کر دیا ہو اور ذبح کے لئے پیشانی کے بل اس کو گرا دیا ہو اور موت سے ایک دم غافل نہ ہو.پس حاصل کلام یہ ہے کہ ذبیحہ اور قربانیاں جو اسلام میں مروّج ہیں وہ سب اسی مقصود کے لئے جو بذل نفس ہے بطور یاددہانی ہیں اور اس مقام کے حاصل کرنے کے لئے ایک ترغیب ہے اور اُس حقیقت کے لئے جو سلوک تام کے بعد حاصل ہوتی ہے ایک ارہاص ہے.پس ہر ایک مرد مومن اور عورت مومنہ پر جو خدائے ودود کی رضا کی طالب ہے واجب ہے کہ اس حقیقت کو سمجھے اور اس کو اپنے مقصود کا عین قرار دے اور اِس حقیقت کواپنے نفس کے اندر داخل کرے یہاںتک کہ وہ حقیقت ہر ذرّہ وجودمیں داخل ہو جائے.اور راحت اور آرام اختیار نہ کرے جب تک کہ اس قربانی کو اپنے رب معبود کے لئے ادا نہ کرلے.اور
یَـقْنَعْ بِنَمُوْذَجٍ وَ قِشْـرٍ کَالْـجُھَلَاءِ وَ الْعُمْیَانِ.بَلْ یُـؤَدِّیْ حَـقِیْقَۃَ اَضْـحَاتِہٖ.وَ یَقْضِیْ بِـجَمِیْعِ حَصَاتِہٖ.وَ رُوْحِ تُقَاتِہٖ رُوْحَ الْقُرْبَانِ.ھٰذَا ھُوَ مُنْتَـھٰی سُلُوْکِ السَّالِکِیْنَ.وَغَایَۃُ مَقْصَدِ الْعَارِفِیْنَ.وَ عَلَیْہِ یُـخْتَتَمُ جَـمِیْعُ مَدَارِجِ الْاَتْقِیَاءِ.وَ بِہٖ یَکْمُلُ سَائِرُ مَرَاحِلِ الصِّدِّ یْقِیْنَ وَ الْاَصْفِیَآءِ.وَ اِلَیْہِ یَنْتَـھِیْ سَیْرُ الْاَوْلِیَاءِ.وَاِذَا بَلَغْتَ اِلٰی ھٰذَا فَقَدْ بَـلَّغْتَ جُـھْدَ.کَ اِلَی الْاِنْـتِـھَاءِ.وَ فُزْتَ بِـمَرْتَبَۃِ الْفَنَاءِ.فَـحِیْنَئِذٍ تَصِلُ شَـجَرَۃُ سُلُوْکِکَ اِلٰی اَتَمِّ النَّـمَاءِ.وَ تَبْلُغُ عُنُقُ رُوْحِکَ اِلٰی لُعَاعِ رَوْضَۃِ الْقُدْسِ وَ الْکِبْرِیَاءِ.کَالنَّاقَۃِ الْعَنْقَاءِ.اِذَا اَوْصَلَتْ عُنُقَھَا اِلَی الشَّجَرَۃِ الْـخَضْـرَاءِ.وَ بَعْدَ ذَالِکَ جَذَبَاتٌ وَنَفَحَاتٌ وَ تَـجَلِّیَاتٌ مِّنَ الْـحَـضْـرَۃِ الْاَحَدِیَّـۃِ لِیَقْطَعَ بَعْضَ بَقَایَـا عُـرُوْقِ الْبَشَـرِیَّۃِ.وَبَعْدَ ذَالِکَ اِحْیَاءٌ وَ اِبْقَاءٌ وَ اِدْنَاءٌ لِلنَّفْسِ الْمُطْمَئِنَّۃِ الرَّاضِیَۃِ الْمَرْضِیَّۃِ الْفَانِیَۃِ.لِیَسْتَعِدَّ الْعَبْدُ لِقَبُوْلِ الْفَیْضِ بَعْدَ الْـحَیَاۃِ الثَّانِیَۃِ.وَ بَعْدَ ذَالِکَ یُکْسَی الْاِنْسَانُ بقیہ ترجمہ.جاہلوں اور نادانوں کی طرح صرف نمونہ اور پوست بے مغز پر قناعت نہ کر بیٹھے بلکہ چاہیے کہ اپنی قربانی کی حقیقت کو بجالاوے اور اپنی ساری عقل کے ساتھ اور اپنی پرہیزگاری کی روح سے قربانی کی روح کو ادا کرے.یہ وہ درجہ ہے جس پر سالکوں کا سلوک انتہا پذیر ہوتاہے اور عارفوں کا مقصد اپنی غایت کو پہنچتا ہے.اور اس پر تمام درجے پرہیزگاروں کے ختم ہو جاتے ہیں.اور سب منزلیں راست بازوں اور برگزیدوں کی پوری ہو جاتی ہیں.اور یہاں تک پہنچ کر سیر اولیاء کا اپنے انتہائی نقطہ تک جا پہنچتا ہے.اور جب تو اس مقام تک پہنچ گیا تو تُو نے اپنی کوشش کو انتہا تک پہنچا دیا اور فنا کے مرتبہ تک پہنچ گیا.پس اس وقت تیرے سلوک کا درخت اپنے کامل نشو و نما تک پہنچ جائے گا اور تیری رُوح کی گردن تقدس اور بزرگی کے مرغزار کے نرم سبزہ تک پہنچ جائے گی.اُس اونٹنی کی مانند جس کی گردن لمبی ہو اور اُس نے اپنی گردن کو ایک سبز درخت تک پہنچا دیا ہو اور اس کے بعد حضرتِ احدیت کے جذبات ہیں اور خوشبوئیں ہیں اور تجلّیات ہیں تا وہ بعض اُن رگوں کو کاٹ دے کہ جو بشریت میں سے باقی رہ گئی ہوں.اور بعد اس کے زندہ کرنا ہے اور باقی رکھنا اور قریب کرنا اُس نفس کا جو خدا کے ساتھ آرام پکڑ چکا ہے جو خدا سے راضی اور خدا اس سے راضی اور فنا شدہ ہے تاکہ یہ بندہ حیاتِ ثانی کے بعد قبولِ فیض کے لئے مستعد ہو جائے اور اس کے بعد انسان کامل کو حضرتِ احدیت کی طرف سے خلافت کا پیرایہ پہنایا
الْکَامِلُ حُلَّۃَ الْـخِلَافَۃِ مِنَ الْـحَضْـرَۃِ.وَ یُصَبَّغُ بِصِبْغِ صِفَاتِ الْاُلُوْھِیَّۃِ.عَلٰی وَجْہِ الظِّلِّیَّۃِ.تَـحْقِیْقًا لِّمَقَامِ الْـخِلَافَۃِ.وَ بَعْدَ ذَالِکَ یَنْزِلُ اِلَی الْـخَلْقِ لِیَجْذِبَـھُمْ اِلَی الرُّوْحَانِیَّۃِ.وَ یُـخْرِجَھُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ الْاَرْضِیَّۃِ.اِلَی الْاَنْوَارِ السَّمَاوِیَّۃِ.وَ یُـجْعَلُ وَارِثًا لِکُلِّ مَنْ مَّضٰی مِنْ قَبْلِہٖ مِنَ النَّبِیِّیْنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ اَھْلِ الْعِلْمِ وَ الدِّرَایَۃِ.وَشُـمُوْسِ الْقُرْبِ وَ الْوَلَایَۃِ.وَ یُعْطٰی لَہٗ عِلْمُ الْاَوَّلِیْنَ.وَ مَعَارِفُ السَّابِقِیْنَ.مِنْ اُولِی الْاَ بْصَارِ وَ حُکَمَاءِ الْمِلَّۃِ.تَـحْقِیْقًا لِمَقَامِ الْوِرَاثَۃِ.ثُمَّ یَـمْکُثُ ھٰذَا الْعَـبْـدُ فِی الْاَرْضِ اِلٰی مُـدَّۃٍ شَاءَ رَبُّـہٗ رَبُّ الْعِزَّۃِ.لِیُنِیْرَ الْـخَلْقَ بِنُوْرِ الْھِدَایَۃِ.وَ اِذَا اَنَارَ النَّاسَ بِنُوْرِ رَبِّہٖ اَوْ بَلَّغَ الْاَمْرَ بِقَدَرِ الْکِفَایَۃِ.فَـحِیْنَئِذٍ یَتِمُّ اسْـمُہٗ وَ یَدْعُوْہُ رَبُّہٗ وَ یَرْفَعُ رُوْحَہٗ اِلٰی نُقْطَتِہِ النَّفْسِیَّۃِ.وَ ھٰذَا ھُوَ مَعْـنَی الرَّفْعِ عِنْدَ اَھْلِ الْعِلْمِ وَ الْمَعْرِفَۃِ.وَ الْمَرْفُوْعُ مَنْ یُّسْقٰی کَأْ.سَ الْوِصَالِ.مِنْ اَیْدِی الْمَحْبُوْبِ الَّذِیْ ھُوَ لُـجَّۃُ الْـجَمَالِ.وَ یُدْخَلُ تَـحْتَ رِدَاءِ الرُّبُوْبِیَّۃِ.مَعَ الْعُبُوْدِیَّۃِ الْاَ.بَدِیَّۃِ.وَ ھٰذَا اٰخِرُ مَقَامٍ یَبْلُغُہٗ طَالِبُ الْـحَقِّ فِی النَّشْأَۃِ بقیہ ترجمہ.جاتا ہے.اور رنگ دیا جاتا ہے الوہیت کی صفتوں کے ساتھ.اور یہ رنگ ظلّی طور پر ہوتا ہے تا مقامِ خلافت متحقق ہو جائے اور پھر اس کے بعد خلقت کی طرف اترتا ہے تا اُن کو روحانیت کی طرف کھینچے.اور زمین کی تاریکیوں سے باہر لاکر آسمانی نوروں کی طرف لے جائے اور یہ انسان اُن سب کا وارث کیا جاتا ہے جو نبیوں اور صدّیقوں اور اہل علم اور درایت میں سے اور قرب اور ولایت کے سورجوں میں سے اس سے پہلے گزر چکے ہیں اور دیا جاتا ہے اس کو علم اوّلین کا اور معارف گذشتہ اہل بصیرت اور حکماء ملّت کے تا اس کے لئے مقام وراثت کا متحقق ہو جائے.پھر یہ بندہ زمین پر ایک مدت تک جو اُس کے ربّ کے ارادہ میں ہے توقف کرتا ہے تاکہ مخلوق کو نُور ہدایت کے ساتھ منور کرے اور جب خلقت کو اپنے ربّ کے نور کے ساتھ روشن کر چکا یا امر تبلیغ کو بقدر کفایت پورا کر دیا پس اُس وقت اس کا نام پورا ہو جاتا ہے اور اُس کا ربّ اس کو بلاتا ہے اور اُس کی روح اُس کے نقطہ نفسی کی طرف اُٹھائی جاتی ہے اور یہی رفع کے معنے ہیں اُن کے نزدیک جو اہل علم اور معرفت ہیں اور مرفوع وہ ہے جس کو اُس محبوب کے ہاتھ سے جامِ وصال پلایا جاتا ہے جو حسن و جمال کا دریا ہے.اور ربوبیت کی چادر کے نیچے داخل کیا جاتا ہے باوجود اس بات کے کہ عبودیت ابدی طور پر رہتی ہے اور یہ وہ آخری مقام ہے جس تک ایک حق کا طالب
الْاِنْسَانِیَّۃِ.فَلَا تَغْفَلُوْا عَنْ ھٰذَا الْمَقَامِ یَا کَافَّۃَ الْبَـرَایَـا.وَ لَا عَنِ السِّـرِّ الَّذِیْ یُـوْجَدُ فِی الضَّحَایَا.وَ اجْـعَلُوا الضَّحَایَا.لِـرُؤْیَۃِ تِلْکَ الْـحَقِیْقَۃِ کَالْـمَـرَایَـا.وَ لَا تَذْھَلُوْا عَنْ ھٰذِہِ الْوَصَایَـا.وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوْا رَبَّـھُمْ وَ الْمَنَایَـا.وَ قَدْ اُشِیْرَ اِلٰی ھٰذَا السِّـرِّ الْمَکْتُومِ.فِیْ کَلَامِ رَبِّنَا الْقَیُّوْمِ.فَـقَالَ وَ ھُوَ اَصْدَقُ الـصَّـادِقِیْنَ.قُلْ اِنَّ صَـلَاتِيْ وَنُسُـكِيْ وَ مَـحْيَايَ وَ مَـمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ.فَانْظُرْ کَیْفَ فَسَّـرَ النُّسُکَ بِلَـفْظِ الْـمَـحْـیَا وَ الْـمَـمَاتِ.وَ اَشَارَ بِہٖ اِلٰی حَقِیْقَۃِ الْاَضْـحَاۃِ.فَفَکِّرُوْا فِیْہِ یَا ذَوِی الْـحَصَاۃِ.وَمَنْ ضَـحّٰی مَعَ عِلْمِ حَقِیْقَۃِ ضَـحِیَّتِہٖ.وَ صِدْقِ طَـوِیَّتِہٖ.وَ خُلُوْصِ نِیَّتِہٖ.فَقَدْ ضَـحّٰی بِنَفْسِہٖ وَمُـھْـجَتِہٖ.وَ اَبْنَاءِہٖ وَ حَـفَـدَتِـہٖ.وَ لَہٗ اَجْـرٌ عَـظِیْمٌ.کَأَجْـرِ اِبْـرَاھِیْمَ عِـنْـدَ رَبِّہِ الْکَرِیْمِ.وَاِلَیْہِ اَشَارَ سَیِّدُنَا الْمُصْطَفٰی.وَ رَسُـوْلُنَا الْـمُـجْـتَـبٰی.وَ اِمَـامُ الْمُـتَّـقِـیْنَ.وَخَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ.وَ قَالَ وَ ھُوَ بَعْدَ اللّٰہِ اَصْدَقُ الصَّادِقِیْنَ.اِنَّ الضَّحَایَا ھِیَ الْمَطَایَـا.تُوْصِلُ بقیہ ترجمہ.انسانی پیدائش میں پہنچ سکتا ہے.پس اس مقام سے غافل مت ہو اے مخلوق کے گروہ.اور نہ اس بھید سے غافل ہو جو قربانیوںمیں پایا جاتا ہے.اور قربانیوں کو اس حقیقت کے دیکھنے کے لئے آئینوں کی طرح بنا دو اور ان وصیتوں کو مت بھلاؤ.اور ان لوگوں کی طرح مت ہو جاؤ جنہوں نے اپنے خدا اور اپنی موت کو بھلا رکھا ہے.اور اس پوشیدہ بھید کی طرف خدا تعالیٰ کی کلام میں اشارت کی گئی ہے چنانچہ خدا جو اصدق الصادقین ہے اپنے رسول کو فرماتا ہے کہ ان لوگوں کو کہہ دے کہ میری نماز اور میری عبادت اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت سب اس خدا کے لئے ہے جو پروردگار عالمیاں ہے.پس دیکھ کہ کیونکر نُـسُک کے لفظ کی حیات اور ممات کے لفظ سے تفسیر کی ہے اور اس تفسیر سے قربانی کی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے پس اے عقل مندو! اس میں غور کرو اور جس نے اپنی قربانی کی حقیقت کو معلوم کر کے قربانی ادا کی اور صدق دل اور خلوص نیت کے ساتھ ادا کی.پس بہ تحقیق اس نے اپنی جان اور اپنے بیٹوں اور اپنے پوتوں کی قربانی کر دی اور اس کے لئے اجر بزرگ ہے جیسا کہ ابراہیم کے لئے اس کے ربّ کے نزدیک اجر تھا اور اسی کی طرف ہمارے سید برگزیدہ اور رسول برگزیدہ نے جو پرہیزگاروں کا امام اور انبیاء کا خاتم ہے اشارہ کیا اور فرمایا اور وہ خدا کے بعد سب سچوں سے زیادہ تر سچا ہے.بہ تحقیق قربانیاں وہی سواریاں ہیں کہ جو خدا تعالیٰ تک پہنچاتی ہیں
اِلَی رَبِّ الْبَرَایَـا.وَ تَـمْـحُـو الْـخَطَایَا.وَ تَدْفَـعُ الْـبَـلَایَـا.ھٰذَا مَا بَلَـغَـنَا مِنْ خَیْرِ الْبَرِیَّۃِ.عَـلِیْہِ صَلَـوَاتُ اللّٰہِ وَ الْبَرَکَاتُ السَّنِیَّۃُ.وَ اِنَّہٗ أَوْمَأَ فِیْہِ اِلٰی حِکَمِ الضَّحِیَّۃِ.بِکَلِمَاتٍ کَالدُّرَرِ الْـبَـھِـیَّۃِ.فَالْأَسَفُ کُلَّ الْأَسَفِ اَنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ھٰذِہِ النِّکَاتِ الْـخَـفِـیَّۃَ.وَ لَا یَـتَّـبِعُوْنَ ھٰذِہِ الْوَصِـیَّۃَ.وَ لَیْسَ عِنْدَھُمْ مَـعْـنَی الْعِیْدِ مِنْ دُوْنِ الْغُسْلِ وَ لَبْسِ الْـجَدِیْدِ.وَ الْـخَـضْمِ وَ الْقَـضْـمِ مَـعَ الْاَھْلِ وَ الْـخَدَمِ وَ الْـعَبِیْدِ.ثُـمَّ الْـخُرُوْجِ بِالزِّیْنَۃِ لِـلـتَّـعْیِیْدِ کَالصَّـنَادِیْدِ.وَ تَرَی الْأَطَائِبَ مِنَ الْأَطْـعِمَۃِ مُنْتَـھٰی طَرَبِـھِمْ فِیْ ھٰذَا الْیَوْمِ.وَ النَّفَائِسَ مِنَ الْاَلْبِسَۃِ غَایَۃَ اِرْبِـھِمْ لِاِرَائَۃِ الْقَوْمِ.وَ لَا یَدْرُوْنَ مَا الْاَضْـحَاۃُ.وَ لِاَیِّ غَرَضٍ یُذْبَحُ الْـغَـنَمُ وَ الْبَقَـرَاتُ.وَ عِنْدَھُمْ عِیْدُھُمْ مِنَ الْبُکْرَۃِ اِلَی الْعَشِیِّ.لَیْسَ اِلَّا لِلْاَکْـلِ وَ الشُّـرْبِ وَ الْعَیْشِ الْھَـنِیِّ.وَ اللِّبَاسِ الْبَـھِیِّ.وَ الْفَرَسِ الشَّرِیِّ.وَ اللَّـحْمِ الطَّرِیِّ.وَ مَا تَرٰی عَـمَلَـھُمْ فِیْ یَـوْمِـھِمْ ھٰذَا اِلَّا اِکْتِسَآءَ النَّاعِـمَات بقیہ ترجمہ.اور خطاؤں کو محو کرتی ہیں اور بلاؤں کو دور کرتی ہیں.یہ وہ باتیں ہیں جو ہمیں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے پہنچیں جو سب مخلوق سے بہتر ہیں.ان پر خدا تعالیٰ کا سلام اور برکتیں ہوں اور آنجناب نے ان کلمات میں قربانیوں کی حکمتوں کی طرف فصیح کلموں کے ساتھ جو موتیوں کی مانند ہیں اشارہ فرمایا ہے.پس افسوس اور کمال افسوس ہے کہ اکثر لوگ ان پوشیدہ نکتوں کو نہیں سمجھتے اور اس وصیت کی پیروی نہیں کرتے اور ان کے نزدیک عید کے معنے بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ غسل کریں اور نئے کپڑے پہنیں اور طعام کو سارے مونہہ کے ساتھ اور دانتوں کے کناروں سے چباویں خود اور ان کے اہل و عیال اور نوکر اور غلام.اور پھر آرائش کے ساتھ نماز عید کے لئے باہر نکلیں جیسے بڑے رئیس ہوتے ہیں اور تو دیکھے گا کہ اچھے کھانوں میں اس دن اُن کی سب سے بڑھ کر خوشی ہے اور ایسا ہی اچھی اور نفیس پوشاکوں میں انتہائی مرتبہ ان کی حاجتوں کا ہے تا قوم کو دکھلائیں اور نہیں جانتے کہ قربانی کیا چیز ہے.اور کس غرض کے لئے بکریاں اور گائیاں ذبح کی جاتی ہیں.اور ان کے نزدیک ان کی عید فجر سے لے کر عشاء کے وقت تک محض اس لئے ہے کہ خوب کھایا جائے اور پیا جائے اور عیش خوشگوار کیا جائے اور عمدہ لباس پہنا جائے اور چالاک گھوڑوں پر سواری کی جائے اور گوشت تازہ کھایا جائے اور اس دن ان کا کام بجز اس کے تو نہیں دیکھے گا کہ نرم اور ملائم کپڑے پہنیں
وَالْمَشْطَ وَ الْاِکْتِحَالَ وَ تَضْمِیْخَ الْمَلْبُوْسَاتِ.وَ تَسْوِیَۃَ الطُّرَرِ وَ الذَّوَائِبِ کَالنِّسَآءِ الْمُتَبَرِّجَاتِ.ثُمَّ نَقَرَاتٍ کَـنَقْرَۃِ الدَّجَاجَۃِ فِی الصَّلٰوۃِ.مَعَ عَدَمِ الْـحُضُوْرِ وَ ھُـجُـوْمِ الْـوَسَاوِسِ وَ الشَّتَاتِ.ثُمَّ التَّـمَایُلَ اِلٰی اَنْـوَاعِ الْاَغْذِیَۃِ وَ الْمَـطْـعُـوْمَاتِ.وَ مَلْأِ الْبُطُـوْنِ بِاَ.لْوَانِ الْنِّعَمِ کَالنَّعَمِ وَ الْعَـجْمَاوَاتِ.وَ الْمَـیْلَ اِلَی الْـمَلَاھِیْ وَ الْـمَـلَاعِـبِ وَالْـجَـھَـلَاتِ.وَ سَـرْحَ الـنُّـفُـوْسِ فِیْ مَـرَاتِـعِ الـشَّـھَـوَاتِ.وَالرُّکُوْبَ عَلَی الْاَفْرَاسِ.وَالْعَـجَلِ وَ الْـعِـنَاسِ.وَ الْـجِـمَالِ وَ الْـبِـغَـالِ وَ رِقَـابِ الـنَّـاسِ.مَعَ اَنْـوَاعٍ مِّنَ الـتَّزْیِیْنَاتِ.وَ اِفْنَاءَ الْـیَوْمِ کُلِّہٖ فِی الْـخُزَعْـبِیْلَاتِ.وَ الْھَدَایَـا مِنَ الْقَلَایَـا.وَالـتَّـفَاخُرَ بِلُـحُـوْمِ الْـبَقَرَاتِ وَ الْـجَـدَایَا.وَ الْاَفْـرَاحَ وَ الْـمِـرَاحَ وَالْجَذَبَـاتِ وَالْـجِـمَـاحَ.وَ الضِّحْکَ وَ الْقَـھْـقَـھَۃَ بِـاِبْدَآءِ الـنَّـوَاجِـذِ وَ الـثَّـنَایَـا.وَالـتَّشَوُّقَ اِلٰی رَقْـصِ الْـبَغَایَـا.وَبُـوسِھِنَّ وَعَـنَاقِـھِـنَّ.وَ بَـعْـدَ ھٰـذَا نِـطَاقِھِنَّ.فَاِنَّـا لِلہِ عَلٰی مَصَآئِبِ الْاِسْلَامِ.بقیہ ترجمہ.اور بالوں کو کنگھی کریں اور آنکھوں کو سرمہ لگائیں اور پوشاک پر عطر ملیں.اور اپنے طُرّے اور زلفیں خوب صاف کریں جیسا کہ زینت کرنے والی عورتیں کیا کرتی ہیں اور پھر مرغی کی طرح جو دانہ پر منقار مارتی ہے چند دفعہ نماز کے لئے حرکت کریں ایسی حرکت جو اس کے ساتھ کچھ بھی حصہ حضور نہ ہو اور وسوسے بکثرت ہوں اور دل میں پراگندگی ہو پھر طرح طرح کی غذاؤں کی طرف جھک جائیں اور طرح طرح کے کھانوں کی طرف اور چارپایوں کی طرح طرح طرح کی نعمتوں سے پیٹ بھر لیں اور لہو اور لعب کی طرف میل کریں اور باطل کاموں کی طرف متوجہ ہوں اور شہوات کی چراگاہوں میں اپنے نفسوں کو چھوڑ دیں اور گھوڑوں پر اور یکّوں پر اور اونٹوں پر اور اونٹنیوں پر اور خچروں پر اور لوگوں کی گردنوں پر سواری کریں کئی قسم کی زینتوں کے ساتھ اور تمام دن بیہودہ باتوں میں ضائع کرنے میں اور ایک دوسرے کو گوشت بھیجنے کا تحفہ اور باہم فخر کرنا گائے کے گوشت اور بکروں کے گوشت کے ساتھ.اور خوشیاں اور رنگا رنگ کی شادیاں اور نفس کی کششیں اور سرکشیاں اور ہنسی اور قہقہہ مار کر ہنسنا پچھلے دانتوں کے نکالنے سے اور اگلے دو دانتوں کے نکالنے سے.اور شوق کرنا بازاری عورتوں کے رقص کی طرف اور ان کا بوسہ اور گلے لپٹانا اور بعد اس کے ان کا جائے کمربند.پس ہم اسلام کی مصیبتوں پر انّا للّٰہ پڑھتے ہیں اور
وَانْقِلَابِ الْاَیَّـامِ.مَاتَتِ الْقُلُوْبُ.وَ کَثُرَتِ الذُّنُـوْبُ.وَ اشْتَدَّتِ الْکُرُوْبُ.فَـعِـنْدَ ھٰـذِہِ الـلَّـیْـلَـۃِ اللَّـیْـلَآءِ.وَ ظُـلُـمَـاتِ الْھَـوْجَآءِ.اِقْـتَـضٰی رَحْـمُ اللّٰہِ نُـوْرَ السَّـمَآءِ.فَـاَنَـا ذَالِکَ الـنُّـوْرُ.وَ الْمُجَدِّدُ الْـمَأْمُـوْرُ.وَ الْـعَـبْدُ الْمَنْصُوْرُ.وَالْـمَـھْـدِیُّ الْـمَـعْـھُـوْدُ.وَالْـمَسِیْحُ الْـمَـوْعُـوْدُ.وَ اِنِّیْ نَـزَلْـتُ بِـمَنْزِلَۃٍ مِّنْ رَّبِّیْ لَا یَـعْـلَمُھَا اَحَـدٌ مِّنَ الـنَّـاسِ.وَ اِنَّ سِـرِّیْ اَخْـفٰی وَ اَنْـئَیٰ مِـنْ اَکْـثَـرِ اَھْـلِ اللہِ فَـضْـلًا عَنْ عَـامَّۃِ الْاُنَـاسِ.وَ اِنَّ مَقَامِیْ اَبْعَدُ مِنْ اَیْدِی الْغَـوَّاصِیْنَ.وَ صُعُـوْدِیْ اَرْفَعُ مِنْ قِیَاسِ الْقَائِسِیْنَ.وَ اِنَّ قَدَمِیْ ھٰذِہٖ اَسْـرَعُ مِنَ الْقِلَاصِ فِیْ مَسَالِکِ رَبِّ النَّاسِ.فَلَا تَقِیْسُوْنِیْ بِـاَحَدٍ وَ لَا اَحَدًا بِیْ وَ لَا تُـھْلِکُوْا اَنْفُسَکُمْ بِـالرَّیْبِ وَ الْـعَـمَاسِ.وَ اِنِّیْ لُبٌّ لَا قِشْـرَ مَعَـہٗ وَ رُوْحٌ لَا جَسَدَ مَعَہٗ وَ شَـمْسٌ لَا یَـحْـجُبُـھَا دُخَانُ الشِّمَاسِ.وَ اطْلُبُوْا مِثْلِیْ وَ لَنْ تَجِدُوْہُ وَ اِنْ تَـطْلُبُوْہُ بِـالنِّبْرَاسِ.وَ لَا فَـخْرَ وَلٰکِنْ تَحْدِیْثٌ لِنِعَمِ اللہِ الَّذِیْ ھُـوَ غَـارِسٌ لِّھٰذَا الْـغِرَاسِ.وَ اِنِّیْ غُسِلْتُ بِـمَآءِ الـنُّوْرِ بقیہ ترجمہ.نیز دنوں کی گردش پر.دل مرگئے اور گناہ بہت ہوگئے اور بے قراریاں بڑھ گئیں پس اس اندھیری رات کے وقت اور تند ہوا کی تاریکی کے وقت خدا کے رحم نے تقاضا کیا کہ آسمان سے نور نازل ہو سو میں وہ نور ہوں اور وہ مجدد ہوں کہ جو خدا تعالیٰ کے حکم سے آیا ہے اور بندہ مدد یافتہ ہوں اور وہ مہدی ہوں جس کا آنا مقرر ہو چکا ہے اور وہ مسیح ہوں جس کے آنے کا وعدہ تھا اور میں اپنے ربّ سے اُس مقام پر نازل ہوا ہوں جس کو انسانوں میں سے کوئی نہیں جانتا اور میرا بھید اکثر اہل اللہ سے پوشیدہ اور دور تر ہے قطع نظر اس سے کہ عام لوگوں کو اس سے کچھ اطلاع ہو سکے اور میرا مقام غوطہ لگانے والوں کے ہاتھوں سے بہت دور ہے اور میری اوپر چڑھنے کی بلندی قیاس میں نہیں آسکتی اوریہ قدم میرا خدا تعالیٰ کی راہ میں تیز چلنے والے اونٹوں سے تیز تر ہے.پس مجھے کسی دوسرے کے ساتھ قیاس مت کرو اور نہ کسی دوسرے کو میرے ساتھ.اور اپنے تئیں شک اور جنگ کے ساتھ ہلاک مت کرو اور میں مغز ہوں جس کے ساتھ چھلکا نہیں اور روح ہوں جس کے ساتھ جسم نہیں اور وہ سورج ہوں جس کو دشمنی اور کینہ کا دھواں چھپا نہیں سکتا اور کوئی ایسا شخص تلاش کرو جو میری مانند ہو اور ہرگز نہیں پاؤگے اگرچہ چراغ لے کر بھی ڈھونڈتے رہو.اور یہ کوئی فخر نہیں مگر اُس خدا کی نعمتوں کا شکر ہے جس نے اس نونہال کو لگایا ہے.اور میں نور کے پانی کے ساتھ غسل دیا گیا
الـنُّوْرِ وَ طُھِّرْتُ بِعَیْنِ الْقُدْسِ مِنَ الْاَوْسَاخِ وَ الْاَدْنَـاسِ.وَ سَـمَّانِیْ رَبِّیْ اَحْـمَدَ فَـاحْـمَدُوْنِیْ وَ لَا تَشْتِمُوْنِیْ وَ لَا تُـوْصِلُوْا اَمْرَکُمْ اِلَی الْاِبْلَاسِ.وَ مَنْ حَـمِدَنِیْ وَمَا غَـادَرَ مِنْ نَوْعِ حَـمْدٍ فَـمَا مَانَ.وَ مَنْ کَذَّبَ ھٰذَا الْبَیَانَ فَقَدْ مَـانَ.وَ اَغْـضَبَ الـرَّحْـمٰنَ.فَـوَیْـلٌ لِّلَّذِیْ شَکَّ وَ فَسَخَ الْعَھْدَ وَ فَکَّ وَ لَـوَّثَ بِطَائِـفٍ مِّنَ الْـجِنِّ الْـجَنَانَ.وَ اِنِّیْ جِـئْتُ مِنَ الْـحَـضْـرَۃِ الـرَّفِیْعَۃِ الْعَالِیَۃِ.لِیُـرِیَ بِیْ رَبِّیْ مِنْ بَعْضِ صِفَاتِہِ الْـجَلَالِیَّۃِ.وَالْـجَمَالِیَّۃِ.اَعْنِیْ دَفْعَ الضَّیْرِ وَ اِفَاضَۃَ الْـخَیْرِ فَاِنَّ الزَّمَانَ کَانَ مُـحْتَاجًا اِلٰی دَافِعِ شَـرٍّ طَغٰی.وَ اِلٰی رَافِـعِ خَیْرٍ اِنْـحَطَّ وَ اخْتَفٰی.فَـاقْتَضَتِ الْعِنَایَۃُ الْاِلٰھِیَّۃُ اَنْ یُّعْـطَی الزَّمَانُ مَـا سَأَلَ بِلِسَانِ الْـحَالِ.وَ یُـرْحَـمَ طَبَقَاتُ النِّسَآءِ وَ الـرِّجَالِ.فَـجَعَلَنِیْ مَظْھَرَ الْمَسِیْحِ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ لِدَفْـعِ الضَّـرِّ وَ اِبَادَۃِ مَـوَادِّ الْـغَوَایَۃِ.وَ جَـعَلَنِیْ مَظْھَرَ النَّبِیِّ الْـمَھْدِیِّ اَحْـمَدَ اَکْـرَمَ لِاِفَـاضَۃِ الْـخَیْرِ وَ اِعَادَۃِ عِـھَـادِ الدِّرَایَۃِ وَ الْھِدَایَۃِ.وَ تَـطْھِیْرِ النَّاسِ مِنْ بقیہ ترجمہ.ہوں اور الٰہی پاکیزگی کے چشمہ میں پاکیزہ کیا گیا ہوں اور صاف کیا گیا ہوں تمام میلوں اور کدورتوں سے اور میرے ربّ نے میرا نام احمد رکھا ہے پس میری تعریف کرو اور مجھے دشنام مت دو اور اپنے امر کو ناامیدی کے درجہ تک مت پہنچاؤ اور جس نے میری تعریف کی اور کوئی قسم تعریف کی نہ چھوڑی تو اس نے سچ بولا اور جھوٹ کا ارتکاب نہ کیا.اور جس نے اس بیان کو جھٹلایا پس اس نے جھوٹ بولا ہے اور اپنے خدا کے غصے کو بھڑکایا ہے پس افسوس اس آدمی پرجس نے شک کیا.اور عہد کو توڑا اور دل کو شیطان کے وسوسہ سے آلودہ کیا اور میں بڑی اونچی درگاہ سے آیا ہوں تا میرا خدا میرے ذریعہ بعض اپنی جلالی اور جمالی صفتیں دکھلاوے یعنی شرکا دور کرنا اور بھلائی کا پہنچانا کیونکہ زمانہ کو اس بات کی حاجت تھی کہ اس بدی کو دور کیا جائے جو حد سے بڑھ گئی تھی اور اس نیکی کو بلند کیا جائے جو جاتی رہی تھی.اس لئے خدا کی عنایت نے چاہا کہ زمانہ کو وہ چیز دی جاوے جسے وہ اپنی زبان حال سے مانگتا ہے اور مردوں اور عورتوں پر رحم کیا جائے پس مجھ کو مسیح عیسیٰ بن مریم کا مظہر بنایا تاکہ ضرر اور گمراہی کے مادوں کو دور فرماوے اور مجھ کو مہدی احمد اکرم کا مظہر بنایا تاکہ لوگوں کو فائدہ پہنچاوے اور درایت اور ہدایت کی بارش کو دوبارہ اتارے.اور لوگوں کو غفلت اور گناہ گاری کے میل سے پاک کرے.
دَرَنِ الْغَفْلَۃِ وَ الْـجِنَایَۃِ.فَـجِئْتُ فِی الْـحُلَّتَیْنِ الْـمَھْزُوْدَتَیْنِ الْمُصَبَّغَتَیْنِ بِصِبْغِ الْـجَلَالِ وَ صِبْغِ الْـجَمَالِ.وَ اُعْـطِیْتُ صِفَۃَ الْاِفْنَآءِ وَ الْاِحْیَآءِ مِنَ الرَّبِّ الْفَعَّالِ.فَـاَمَّا الْـجَلَالُ الَّذِیْ اُعْـطِیْتُ فَھُوَ اَثَـرٌ لِّبُرُوْزِی الْعِیْسَوِیِّ مِنَ اللہِ ذِی الْـجَلَالِ.لِاُبِیْدَ بِہٖ شَـرَّ الشِّـرْکِ الْمَـوَّاجِ الْـمَوْجُوْدِ فِیْ عَقَائِدِ اَھْلِ الضَّلَالِ.اَلْمُشْتَعِلِ بِکَمَالِ الْاِشْـتِعَـالِ.اَلَّذِیْ ھُوَ اَکْبَرُ مِنْ کُلِّ شَـرٍّ فِیْ عَیْنِ اللّٰہِ عَالِمِ الْاَحْوَالِ.وَ لِأَھْدِمَ بِہٖ عَـمُوْدَ الْاِفْتِرَآءِ عَلَی اللہِ وَالْاِفْتِعَالِ.وَ اَمَّا الْـجَمَالُ الَّذِیْ اُعْطِیْتُ فَھُوَ اَثَـرٌ لِّـبُرُوْزِی الْاَحْمَدِیِّ مِنَ اللہِ ذِی اللُّـطْفِ وَ النَّوَالِ.لِاُعِیْدَ بِہٖ صَلَاحَ التَّوْحِیْدِ الْمَفْقُوْدِ مِنَ الْاَلْسُنِ وَ الْقُلُوْبِ وَالْاَقْوَالِ وَ الْاَفْعَالِ.وَ اُقِیْمَ بِہٖ اَمْرَ التَّدَیُّنِ وَ الْاِنْتِحَالِ.وَاُمِرْتُ اَنْ اَقْـتُـلَ خَـنَازِیْـرَ الْاِفْسَادِ وَ الْاِلْـحَادِ وَ الْاِضْلَالِ.الَّذِیْنَ یَدُوْسُوْنَ دُرَرَ الْـحَقِّ تَـحْتَ الـنِّعَالِ.وَیُـھْلِکُوْنَ حَرْثَ النَّاسِ وَ یُـخْرِبُوْنَ زُرُوْعَ الْاِیْـمَانِ وَ التَّوَرُّعِ وَالْاَعْـمَالِ.وَ قَتْلِیْ ھٰذَا بقیہ ترجمہ.پس میں زرد رنگ والے دو لباسوں میں آیا ہوں جو جلال اور جمال کے رنگ سے رنگے ہوئے ہیں.اور مجھ کو فانی کرنے اور زندہ کرنے کی صفت دی گئی ہے اور یہ صفت خدا کی طرف سے مجھ کو ملی ہے لیکن وہ جلال جو مجھ کو دیا گیا ہے وہ میرے اُس بروز کا اثر ہے جو عیسوی بروز ہے اور جو خدا کی طرف سے ہے تاکہ میں اُس شرک کی بدی کو نابود کروں جو گمراہوں کے عقیدوں میں موج مار رہی ہے اور موجود ہے اور اپنی پوری بھڑک میں بھڑک رہی ہے اور جو حالات کے جاننے والے خدا کی نظر میں ہر ایک بدی سے بڑھ کر ہے اور تاکہ میں اس کے ذریعہ سے اُس افترا کے ستون کو گرا دوں جو خدا پر باندھتے ہیں لیکن وہ جمال جو مجھ کو ملا ہے وہ میرے اس بروز کا اثر ہے جس کا نام بخشش کرنے والے خدا کی طرف سے بروز احمدی ہے تاکہ میں اس کے ذریعہ سے توحید کی نیکی کو جو زبانوں اور دلوں اور باتوں اور کاموں سے جاتی رہی ہے واپس لاؤں اور اس کے ذریعہ سے دین داری کے امر کو قائم کروں اور مجھ کو حکم دیا گیا ہے کہ میں فساد اور الحاد اور گمراہ کرنے کے اُن سؤروں کو ماروں جو سچائی کے موتیوں کو پیروں کے نیچے مَلتے ہیں اور لوگوں کی کھیتیوں کو اجاڑتے ہیں اور ایمان اور پرہیزگاری اور عملوں کی کھیتیوں کو خراب کرتے ہیں.اور یہ مارنا
بِـحَرْبَۃٍ سَـمَاوِیَّـۃٍ لَا بِـالسُّیُوْفِ وَ الـنِّبَالِ.کَمَا ھُوَ زَعْمُ الْمَحْرُوْمِیْنَ مِنَ الْـحَـقِّ وَصِـدْقِ الْـمَقَالِ.فَاِنَّـھُمْ ضَلُّوْا وَ اَضَلُّوْا کَـثِیْـرًا مِّنَ الْـجُھَّالِ.وَ اِنَّ الْـحَرْبَ حُرِّمَتْ عَـلَیَّ وَسَـبَقَ لِیْ اَنْ اَضَـعَ الْـحَرْبَ وَ لَا اَتَـوَجَّہَ اِلَی الْقِتَالِ.فَلَا جِـھَادَ اِلَّا جِـھَادُ اللِّسَانِ وَ الْاٰیَـاتِ وَالْاِسْتِدْلَالِ.وَ کَذَالِکَ اُمِرْتُ اَنْ اَمْلَأَ بُـیُوْتَ الْـمُؤْمِنِیْنَ وَ جُـرُبَـھُمْ مِنَ الْـمَالِ.وَلٰکِن لَّا بِـاللُّجَیْنِ وَ الـدَّجَّـالِ.بَـلْ بِـمَالِ الْعِلْمِ وَ الرُّشْدِ وَ الْھِدَایَۃِ وَ الْیَقِیْنِ عَلٰی وَجْـہِ الْـکَـمَالِ.وَ جَـعْـلِ الْاِیْـمَانِ اَثْبَتَ مِنَ الْـجِبَالِ.وَ تَبْشِیْرِ الْمُثْقَلِیْنَ تَـحْتَ الْاَثْقَالِ.فَبُشْـرٰی لَکُمْ قَدْ جَـآءَکُمُ الْـمَسِیْحُ.وَ مَسَحَہُ الْقَادِرُ وَ اُعْـطِیَ لَہُ الْکَلَامُ الْفَـصِیْحُ.وَ اِنَّہٗ یَـعْـصِمُکُمْ مِّنْ فِرْقَۃٍ ھِیَ لِلْاِضْـلَالِ تَـسِیْـحُ.وَ اِلَی اللہ یَـدْعُـوْ وَ یَصِـیْحُ.وَ کُلَّ شُبْـھَۃٍ یُـزِیْلُ وَ یُـزِیْـحُ.وَ طُوْبٰی لَکُمْ قَدْ جَآءَکُمُ الْمَھْدِیُّ الْمَعْھُوْدُ.وَ مَـعَہُ الْـمَالُ الْکَثِیْرُ وَ الْـمَتَاعُ الْـمَنْضُوْدُ.وَ اِنَّہٗ یَسْعٰی لِـیَـرُدَّ اِلَیْکُمُ الْغِـنَی الْمَفْقُوْدَ.وَ یَسْتَـخْرِجَ بقیہ ترجمہ.آسمانی ہتھیار کے ساتھ ہے تلواروں اور تیروں کے ساتھ نہیں جیسا کہ یہ گمان ان لوگوں کا ہے جو حق اور راست گفتاری سے محروم ہیں کیونکہ وہ خود گمراہ ہوئے اور جاہلوں میں سے بہتوں کو گمراہ کیا ہے.اور یہ سچ بات ہے کہ کافروں کے ساتھ لڑنا مجھ پر حرام کیا گیا ہے اور میرے وجود سے پہلے میرے لئے مقرر ہوا ہے کہ لڑائی کو ترک کروں اور خونریزی کی طرف متوجہ نہ ہوں.پس کوئی جہاد سوائے زبانی جہاد کے اور نشان اور دلائل کے جہاد کے باقی نہیں رہا.اور ایسا ہی مجھ کو یہ بھی حکم ہے کہ مسلمانوں کے گھروں کو اور ان کے توشہ دانوں کو مال سے بھر دوں لیکن چاندی سونے کے مال سے نہیں بلکہ علم اور رشد اور ہدایت اور یقین کے مال سے اور نیز اِس مال سے کہ ایمان کو پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبوط کیا جائے.اور جو لوگ بوجھوں کے نیچے دبے ہوئے ہیں ان کو بشارت دی جائے.پس تم کو خوش خبری ہو کہ تمہارے پاس مسیح آیا اور قادر نے اس کو مسح کیا اور فصیح کلام اس کو عطا کیا گیا.اور وہ تم کو اس فرقہ سے بچاتا ہے جو گمراہ کرنے کے لئے زمین پر سیر کرتا ہے.اور خدا کی طرف بلاتا ہے.اور ہر ایک شبہ کو دور فرماتا ہے اور تم کو مبارک ہو کیونکہ مہدیٔ معہود تمہارے پاس آ پہنچا اور اس کے پاس بہت سا مال و متاع ہے جو تہہ بتہہ رکھا ہے اور وہ کوشش کرتا ہے کہ وہ مال جو تمہارے پاس سے جاتا رہا ہے پھر تمہاری طرف لوٹ آئے اور وہ
وَ یَسْتَـخْرِجَ الْاِقْبَالَ الْمَوْءُوْدَ.مَا کَانَ حَـدِیْثٌ یُّـفْتَـرٰی.بَلْ نُـوْرٌ مِّنَ اللہِ مَعَ اٰیَـاتٍ کُـبْـرٰی.اَیُّـھَا النَّاسُ اِنِّیْ اَنَـا الْمَسِیْحُ انِ لْـمُحَمَّدِیُّ.وَ اِنِّیْ اَنَـا اَحْـمَدُ لْـمَھْدِیُّ.وَ اِنَّ رَبِّیْ مَـعِیْ اِلٰی یَـوْمِ لَـحْدِیْ مِنْ یَــوْمِ مَھْدِیْ.وَ اِنِّیْ اُعْـطِیْتُ ضِـرَامًا اَکَّالًا.وَ مَـاءًا زُلَالًا.وَ اَنَـا کَـوْکَبٌ یَـمَانِـیٌّ.وَ وَابِـلٌ رُوْحَانِـیٌّ.اِیْذَائِیْ سِنَانٌ مُذَرَّبٌ.وَ دُعَائِیْ دَوَاءٌ مُـجَرَّبٌ.اُرِیْ قَوْمًا جَلَالًا.وَ قَوْمًا اٰخَرِیْنَ جَـمَالًا.وَ بِیَدِیْ حَرْبَۃٌ اُبِیْدُ بِـھَا عَادَاتِ الـظُّلْمِ وَ الـذُّنُوْبِ.وَ فِی الْاُخْرٰی شَـرْبَـۃٌ اُعِیْدُ بِـھَا حَـیَاۃَ الْـقُلُوْبِ.فَأْسٌ لِلْاِفْنَآءِ.وَ اَنْفَاسٌ لِلْاِحْیَآءِ.اَمَّـا جَلَالِیْ فَبِـمَا قُصِدَ کَابْنِ مَرْیَمَ اِسْتِـیْصَالِیْ.وَ اَمَّا جَـمَالِیْ فَبِـمَا فَارَتْ رَحْـمَتِیْ کَسَیِّدِیْ اَحْـمَدَ لِاَھْدِیَ قَـوْمًا غَـفَلُوْا عَـنِ الـرَّبِّ الْـمُتَعَالِیْ.اَفَاَنْتُمْ تَـعْـجَـبُوْنَ.وَ اِلَی الزَّمَانِ وَ ضَـرُوْرَتِہٖ لَا تَلْتَفِتُوْنَ.أَلَا تَـرَوْنَ اِلٰی زَمَانٍ اِحْـتَاجَ اِلَی الرَّبِّ الْفَعَّالِ.لِیُرِیَ لِقَوْمٍ صِفَۃَ جَلَالِہٖ وَ لِلْاٰخَرِیْنَ صِفَۃَ الْـجَـمَالِ.وَ قَدْ ظَـھَرَتِ الْاٰیَـاتُ.وَ تَبَیَّنَتِ بقیہ ترجمہ.اقبال جو جیتے جی قبر میں ہے پھر قبر سے نکلے.یہ وہ بات نہیں کہ جھوٹ بنالی جائے بلکہ خدا کا نور ہے جو اپنے ساتھ بڑے بڑے نشان رکھتاہے.اے لوگو! میں وہ مسیح ہوں جو محمدی سلسلہ میں سے ہے اور میں احمد مہدی ہوں.اور سچ مچ میرا ربّ میرے ساتھ ہے میرے بچپن سے لے کر میری لحد تک اور مجھ کو وہ آگ ملی ہے جو کھا جانے والی ہے اور وہ پانی جو میٹھا ہے اور میں یمانی ستارہ ہوں اور روحانی بارش ہوں.میرا رنج دینا تیز نیزہ ہے اور میری دعا مجرب دوا ہے.ایک قوم کو میں اپنا جلال دکھاتا ہوں اور دوسری قوم کو جمال دکھاتا ہوں.اور میرے ہاتھ میں ہتھیار ہے اُس کے ساتھ مَیں ظلم اور گناہ کی عادتوں کو ہلاک کرتا ہوں.اور دوسرے ہاتھ میں شربت ہے جس سے میں دلوں کو دوبارہ زندہ کرتا ہوں.ایک کلہاڑی فنا کرنے کے لئے ہے اور دَم زندہ کرنے کے لئے.میرا جلال اس وجہ سے ہے کہ لوگوں نے حضرت عیسیٰ کی طرح میری بیخ کنی کا قصد کیا ہے اور جمال اس وجہ سے کہ میری رحمت میرے سردار احمد کی طرح جوش میں ہے تا میں اس قوم کو راہ دکھلاؤں جو اپنے بزرگ ربّ سے غافل ہیں کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو اور زمانہ اور اس کی ضرورت کی طرف توجہ نہیں کرتے.کیا تم نہیں دیکھتے کہ زمانہ خدا کی طرف ایک حاجت رکھتا ہے تاکہ ایک قوم کو اپنے جلال کی صفت دکھاوے اور دوسری قوم کو اپنے جمال کی صفت سے مطلع فرماوے اور تحقیق نشان ظاہر ہوگئے اور علامتیں کھلگئیں
الْـعَلَامَـاتُ.وَ انْقَطَعَتِ الْـخُصُوْمَاتُ.فَـمَا لَکُمْ لَا تَـنْظُرُوْنَ.وَ انْکَسَفَتِ الـشَّمْسُ وَالْـقَمَرُ فِیْ رَمَضَانَ فَلَا تَعْرِفُوْنَ.وَ مَاتَ بَعْضُ النَّاسِ بِنَبَأٍ مِّنَ اللہِ وَ قُتِلَ الْبَعْضُ فَلَا تُفَکِّرُوْنَ.وَ نَـزَلَتْ لِیْ آيٌ کَـثِیْـرَۃٌ فَلَا تُبَالُوْنَ.وَ شَھِدَتْ لِیَ الْاَرْضُ وَ الـسَّمَآءُ وَالْمَآءُ وَ الْعَفَآءُ فَلَا تَـخَافُوْنَ.وَ تَظَاھَـرَ لِیَ الْعَقْلُ وَ النَّقْلُ وَ الْـعَلَامَاتُ وَ الْاٰیَـاتُ.وَتَظَاھَرَتِ الشَّـھَادَاتُ وَ الرُّؤْیَـا وَ الْمُکَاشَفَاتُ.ثُمَّ اَنْتُمْ تُنْکِرُوْنَ.وَ اِنَّ لَھَا شَأْنًـا عَـظِیْـمًا لِقَوْمٍ یَّتَدَبَّرُوْنَ.وَ طَـلَـعَ ذُو السِّنِیْنَ.وَ مَضٰی مِنْ ھٰذِہِ الْـمِائَۃِ خُـمْسُھَا اِلَّا قَـلِیْلٌ مِّنْ سِـنِیْنَ.فَاَیْنَ الْمُجَدِّدُ اِنْ کُـنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ.وَ نَــزَلَ مِنَ الـسَّمَآءِ الـطَّاعُوْنُ.وَ مُـنِـعَ الْـحَجُّ وَکَثُرَ الْمَنُوْنُ.وَ اخْتَصَمَ الْفِرَقُ عَلٰی مَعْدِنٍ مِّنْ ذَھَبٍ وَ ھُمْ یُقَاتِلُوْنَ.وَعَـلَا الصَّلِیْبُ.وَ اَضْـحَی الْاِسْلَامُ یَـسِیْبُ وَ یَـغِیْبُ.کَاَنَّہُ الْغَرِیْبُ.وَ کَـثُرَ الْفِسْقُ وَالْفَاسِقُوْنَ.وَ حُبِّبَ اِلَی النُّفُوْسِ الْـخَـمْـرُ.وَ الْـقَـمْـرُ وَ الـزَّمْرُ.وَ تَـرَایَٔ الزَّانُوْنَ بقیہ ترجمہ.اور تمام جھگڑے جاتے رہے پس کیوں نہیں دیکھتے.اور رمضان کے مہینے میں سورج اور چاند کو گرہن لگا پس تم نہیں پہچانتے اور بعض آدمی پیشگوئی کے رو سے فوت ہوئے اور بعض آدمی قتل کی پیشگوئی کے رو سے مارے گئے پس تم نہیں سوچتے.اور میری تائید میںبہت سے نشان ظاہر ہوئے لیکن تمہیں کچھ پرواہ نہیں.اور میرے لئے زمین اور آسمان اور پانی اور مٹی نے گواہی دی لیکن تم بالکل نہیں ڈرتے اور عقل اور نقل اور علامتیں اور نشان ایک دوسرے کے گواہ ہوئے اور دوسری گواہیوں اور خوابوں اور مکاشفات نے آپس میں ایک دوسرے کو قوت دی پھر تم انکار کرتے ہو.اور اُن لوگوں کی نظر میں جو تدبر کرتے ہیں ان نشانوں کی بڑی شان ہے اور ذوالسنین ستارہ نے طلوع کیا اور صدی میں سے پانچواں حصہ گذر گیا مگر چند برس.پس اگر جانتے ہو تو بتاؤ کہ مجدد کہاں ہے.اور طاعون پھوٹا اور حج روکا گیا اور موتیں زیادہ ہوئیں اور سونے کی کان پر قوموں نے آپس میں لڑائی جھگڑے کئے اور صلیب بلند ہوئی اور اسلام نے اپنی جگہ سے حرکت کی اور غائب ہوگیا گویا کہ مسافر ہے.اور فسق اور فاسق بہت ہوگئے اور لوگوں نے شراب اور جوئے اور ناچ رنگ کی طرف رجوع کیا اور بدکار اور ایک دوسرے پر سختی کرنے والے ظاہر ہوئے
الْمُجَالِـحُوْنَ وَ قَلَّ الْمُتَّقُوْنَ.وَ تَـجَلّٰی وَقْتُ رَبِّنَا وَ تَـمَّ مَا قَـالَ الـنَّبِیُّوْنَ.فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَہٗ تُـؤْمِنُوْنَ.اَیُّـھَا النَّاسُ قُوْمُوْا لِلہِ زَرَافَـاتٍ وَ فُرَادٰی فُرَادٰی.ثُمَّ اتَّقُوا اللہَ وَفَکِّرُوْا کَالَّذِیْ مَا بَـخِلَ وَ مَا عَادٰی.اَلَیْسَ ھٰذَا الْوَقْتُ وَقْتَ رَحْـمِ اللہِ عَلَی الْعِبَادِ.وَ وَقْتَ دَفْعِ الشَّـرِّ وَ تَـدَارُکِ عَـطْشِ الْاَکْـبَادِ بِـالْعِـھَادِ.اَلَیْسَ سَیْلُ الشَّـرِّ قَدْ بَلَغَ اِنْـتِـھَاءَہٗ.وَ ذَیْلُ الْـجَھْلِ طَوَّلَ اَرْجَـاءَہٗ.وَ فَسَدَ الْمُلْکُ کُلُّہٗ وَ شَکَرَ اِبْلِیْسُ جُھَلَاءَہٗ.فَاشْکُـرُوا اللہَ الَّذِیْ تَـذَکَّـرَکُمْ وَ تَذَکَّـرَ دِیْنَکُمْ وَ مَا اَضَاعَہٗ.وَ عَصَمَ حَرْثَکُمْ وَزَرْعَکُمْ وَ لُعَاعَہٗ.وَ اَنْـزَلَ الْمَطَرَ وَ اَکْـمَلَ اَبْضَاعَہٗ.وَ بَـعَـثَ مَسِیْحَہٗ لِدَفْعِ الضَّیْرِ.وَمَـھْدِیَّہٗ لِاِفَاضَۃِ الْـخَیْرِ.وَ اَدْخَلَـکُمْ فِیْ زَمَانِ اِمَامِکُمْ بَعْدَ زَمَانِ الْـغَیْـرِ.اَیُّـھَا الْاِخْوَانُ اِنَّ زَمَانَـنَا ھٰذَا یُضَاھِیْ شَھْرَنَـا ھٰذَا بِـالتَّـنَاسُبِ التَّآمِّ.فَاِنَّہٗ اٰخِرُ الْاَزْمِنَۃِ وَاِنَّ ھٰذَا الشَّھْرَ اٰخِرُ الْاَشْھُرِ مِنْ شُھُوْرِ الْاِسْلَامِ.وَ کِلَاھُمَا قَرِیْبٌ مِّنَ الْاِخْتِتَامِ.بقیہ ترجمہ.اور پرہیزگار کم ہوگئے اور ہمارے خدا کی تجلّی کا وقت ظاہر ہوگیا اور وہ سب جو کچھ نبیوں نے کہا تھا ظہور میں آیا.پس اس کے سوا کس بات کو مانو گے.اے لوگو! خدا کے لئے تم سب کے سب یا اکیلے اکیلے خدا کا خوف کر کے اُس آدمی کی طرح سوچو جو نہ بخل کرتا ہے اور نہ دشمنی.کیا یہ وہ زمانہ نہیں کہ خدا بندوں پر رحم کرے ؟ اور کیا یہ وہ زمانہ نہیں کہ بدی کو دفع کیا جائے اور جگروں کی پیاس کا مینہ برسانے سے تدارک کیا جائے؟ کیا بدی کا سیلاب اپنی انتہا کو نہیں پہنچا؟ اور جہالت کے دامن نے اپنے کناروں کو نہیں پھیلایا؟ اور ملک فاسد ہوگیا اور شیطان نے جاہلوں کا شکریہ ادا کیا پس اس خدا کا شکر کرو جس نے تم کو یاد کیا اور تمہارے دین کو یاد کیا اور ضائع ہونے سے محفوظ رکھا اور تمہارے بوئے ہوئے کو اور تمہاری زراعت کو آفتوں سے بچایا اور مینہ نازل فرمایا اور اس کے سرمایہ کو کامل کیا.اور اپنے مسیح کو ضرر کے دور کرنے کے لئے اور اپنے مہدی کو خیر اور نفع پہنچانے کے لئے بھیجا اور تمہیں تمہارے امام کے زمانہ میں غیر کے زمانہ کے بعد داخل کیا.اے بھائیو! یہ ہمارا زمانہ ہمارے اس مہینے سے مناسبت تام رکھتا ہے کیونکہ یہ آخری زمانہ ہے اور یہ مہینہ بھی اسلام کے مہینوں میں سے آخری ہے اور دونوں ختم ہونے کے قریب ہیں.
فیْ ھٰذَا ضَـحَایَـا وَ فِیْ ذٰلِکَ ضَـحَایَـا.وَ الْـفَرْقُ فَرْقُ الْاَصْلِ وَ عَکْسِ الْـمَرَایَـا.وَ قَـدْ سَبَقَ نَـمُوْذَجُـھَا فِیْ زَمَنِ خَـیْرِ الْـبَـرَایَـا.وَ الْاَصْلُ ضَـحِیَّۃُ الرُّوْحِ یَـا اُولِی الْاَ.بْصَارِ.وَ اِنَّ ضَـحَایَـا الْـجَدَایَـا کَالْاَظْلَالِ وَ الْاٰثَـارِ.فَافْھَمُوْا سِـرَّ ھٰذِہِ الْـحَـقِیْقَۃِ.وَ اَنْتُمْ اَحَقُّ بِـھَا وَاَھْلُھَا بَعْدَ الصَّحَابَۃِ.وَ اِنَّـکُمُ الْاٰخَرُوْنَ مِنْـھُمْ اُلْـحِقْتُمْ بِـھِمْ بِفَضْلٍ مِّنَ اللہِ وَالرَّحْـمَۃِ.وَ اِنَّ سِلْسِلَۃَ الْاَ.زْمِنَۃِ خُتِمَتْ عَـلٰی زَمَـانِـنَا مِنْ حَـضْـرَۃِ الْاَحْدِیَّـۃِ.کَمَا خُتِمَتْ شُھُـوْرُ الْاِسْلَامِ عَلٰی شَھْرِ الْـضَّحِیَّۃِ.وَ فِیْ ھٰذَا اِشَارَۃٌ مَـخْفِیَّۃٌ لِأَھْلِ الرَّأْیِ وَالرَّوِیَّۃِ.وَ اِنِّیْ عَلٰی مَقَامِ الْـخَتْمِ مِنَ الْوِلَایَۃِ.کَمَا کَانَ سَیِّدِی الْـمُـصْطَـفٰی عَلٰی مَقَامِ الْـخَتْمِ مِنَ الـنُّبُوَّۃِ.وَ اِنَّہٗ خَاتَمُ الْاَ نْبِیَآءِ.وَ اَنَـا خَاتَمُ الْاَوْلِیَآءِ.لَا وَلِیَّ بَعْدِیْ.اِلَّا الَّذِیْ ھُوَ مِنِّیْ وَ عَلٰی عَھْدِیْ.وَ اِنِّیْ اُرْسِلْتُ مِنْ رَّبِّیْ بِکُلِّ قُـوَّۃٍ وَ بَـرَکَـۃٍ وَ عِـزَّۃٍ.وَ اِنَّ قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی مَنَارَۃٍ خُـتِمَ عَـلَیْـھَا کُلُّ رِفْـعَۃٍ.فَـاتَّقُوا اللہَ اَیُّـھَا الْفِتْیَانُ.وَ اعْرِفُوْنِیْ بقیہ ترجمہ.اِس آخری مہینہ میں بھی قربانیاں ہیں اور اُس آخری زمانہ میں بھی قربانیاں ہیں.اور فرق صرف اصل اور عکس کا ہے جو آئینہ میں پڑتا ہے اور اس کا نمونہ زمانۂ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں گذر چکا ہے.اور اصل روح کی قربانی ہے اے دانشمندو! اور بکروں کی قربانیاں روح کی قربانی کے لئے مثل سایوں اور آثار کے ہیں پس اس حقیقت کو سمجھ لو اور تم صحابہ رضی اللہ عنہم کے بعد یہ حق رکھتے ہو اور اس بات کے اہل ہو کہ اس حقیقت کو سمجھو اور تم ان میں سے ایک آخری گروہ ہو جو خدا کے فضل اور رحمت سے اس کے ساتھ شامل کئے گئے ہو.اور زمانوں کا سلسلہ جناب الٰہی سے ہمارے زمانہ پر ختم ہوگیا ہے جیسا کہ اسلام کے مہینے قربانی کے مہینہ پر ختم ہوگئے ہیں اور اس میں اہل رائے کے لئے ایک پوشیدہ اشارہ ہے اور میں ولایت کے سلسلہ کو ختم کرنے والا ہوں جیسا کہ ہمارے سید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے سلسلہ کو ختم کرنے والے تھے اور وہ خاتم الانبیاء ہیں.اور میں خاتم الاولیاء ہوں میرے بعد کوئی ولی نہیں مگر وہ جو مجھ سے ہوگا اور میرے عہد پر ہوگا اور میں اپنے خدا کی طرف سے تمام تر قوت اور برکت اور عزت کے ساتھ بھیجا گیا ہوں اور یہ میرا قدم ایک ایسے منار پر ہے جو اس پر ہر ایک بلندی ختم کی گئی ہے.پس خدا سے ڈرو اے جوانمردو! اور مجھے پہچانو
وَاَطِیْعُوْنِیْ وَ لَا تَـمُـوْتُـوْا بِـالْعِـصْیَانِ.وَ قَدْ قَرُبَ الـزَّمَانُ.وَ حَـانَ اَنْ تُسْئَلَ کُلُّ نَـفْسٍ وَ تُدَانَ.اَلْبَلَایَا کَـثِیْرَۃٌ وَ لَا یُنَجِّیْکُمْ اِلَّا الْاِیْـمَانُ.وَ الْـخَطَایَـا کَـبِیْرَۃٌ وَلَا تُذَوِّبُـھَا اِلَّا الذَّوْبَـانُ.اِتَّقُوْا عَذَابَ اللہِ اَیُّـھَا الْاَعْوَانُ.وَ لِمَنْ خَـافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتَانِ.فَلَا تَقْـعُدُوْا مَعَ الْغَافِلِیْنَ وَ الَّذِیْنَ نَـسُوا الْـمَنَایَـا.وَ سَارِعُـوْا اِلَی اللہِ وَارْکَبُوْا عَلٰی اَعْدَی الْمَطَایَـا.وَ اتْـرُکُوْا ذَوَاتَ الضَّلَعِ وَ الرَّذَایَـا.تَصِلُوْا اِلٰی رَبِّ الْـبَـرَایَـا.خُـذُوا الْاِنْقِطَاعَ الْاِنْقِطَاعَ لِیُوْھَبَ لَکُمُ الْوَصْلُ وَ الْاِقْتِرَابُ.وَکَسِّـرُوا الْاَسْبَابَ لِـیُخْلَقَ لَکُمُ الْاَسْبَابُ.وَ مُوْتُـوْا لِیُرَدَّ اِلَیْکُمُ الْـحَیٰوۃُ اَیُّـھَا الْاَحْـبَابُ.اَلْیَوْمَ تَـمَّتِ الْـحُـجَّۃُ عَلَی الْـمُخَالِفِیْنَ.وَ انْـقَـطَـعَـتْ مَعَـاذِیْـرُ الْمُعْتَذِرِیْنَ.وَ یَـئِـسَ مِنْکُمْ زُمَرُ الْـمُضِلِّـیْـنَ وَ الْـمُـوَسْوِسِیْنَ.اَلَّـذِیْـنَ اَکَلُوْا اَعْـمَارَھُمْ فِی ابْتِغَاءِ الدُّنْیَا وَ لَـیْسَ لَـھُمْ حَـظٌّ مِّنَ الدِّیْنِ.بَلْ ھُمْ کَالْعَـمِیْنَ.فَـالْیَوْمَ اَنْقَضَ اللہُ ظُـھُـوْرَھُـمْ وَ رَجَـعُـوْا یَـائِـسِیْـنَ.اَلْـیَوْمَ حَـصْـحَـصَ الْـحَـقُّ بقیہ ترجمہ.اور نافرمانی مت کرو اور نافرمانی پر مت مرو.اور زمانہ نزدیک آگیا ہے اور وہ وقت نزدیک ہے کہ ہر ایک جان اپنے کاموں سے پوچھی جائے اور بدلہ دی جائے.بلائیں بہت ہیں اور تمہیں صرف ایمان نجات دے گا اور خطائیں بڑی ہیں اور ان کو گداز نہیںکرے گا مگر گداز ہو جانا.خدا کے عذاب سے اے میرے انصار! ڈرو اور جو خدا سے ڈرے ان کے لئے دو بہشت ہیں پس غافلوں کے ساتھ مت بیٹھو ان لوگوں کے ساتھ جنہوں نے اپنی موتوں کو بھلا رکھا ہے.خدا کی طرف دوڑو اور تیز رفتار گھوڑوں پر سوار ہوجاؤ.ایسے گھوڑوں کو چھوڑو جو لنگڑا کے چلتے ہیں تا اپنے خدا کو ملو.خدا کی طرف منقطع ہو جانا عادت پکڑو تا خدا کا وصال اور اس کا قرب تمہیں عنایت کیا جائے اور اسباب کو توڑ دو تا تمہارے لئے اسباب پیدا کئے جائیں اور مرجاؤ تا دوبارہ زندگی تمہیں دی جائے.آج مخالفوں پر حجت پوری ہوگئی اور عذر کرنے والوں کے سب عذر ٹوٹ گئے اور تم سے وہ سب گروہ نا امید ہوگئے جو گمراہ کرنے والے اور وسوسہ ڈالنے والے تھے انہوں نے دنیا کی طلب میں اپنی عمریں کھوئیں اور دین میں سے کوئی بہرہ حاصل نہ کیا بلکہ وہ اندھوں کی طرح ہیں.اور آج خدا نے ان کی کمریں توڑ دیں اور وہ ناامید ہوکر پھر گئے.آج دیکھنے والوں کے لئے حق ظاہر ہوگیا
لِلـنَّاظِـرِیْـنَ.وَ اسْتَـبَـانَ سَبِـیْلُ الْمُـجْـرِمِیْنَ.وَ لَمْ یَبْقَ مُـعْـرِضٌ اِلَّا الَّـذِیْ حَـبَسَہٗ حِـرْمَانٌ اَ.زَلِیٌّ.وَ لَا مُـنْکِـرٌ اِلَّا الَّـذِیْ مَـنَـعَـہٗ عُـدْوَانٌ فِطْرِیٌّ.فَـنَـتْـرُکُ ھٰٓـؤُلَآءِ بِـسَـلَامٍ.وَقَدْ تَمَّ الْاِفْـحَـامُ.وَ تَـحَـقَّـقَ الْاَثَـامُ.وَ اِنْ لَّـمْ یَـنْـتَـھُـوْا فَالصَّبْرُ جَدِیْـرٌ.وَ سَـوْفَ یُـنَـبِّـئُـھُمْ خَـبِیْـرٌ.‘‘٭ (خطبہ الہامیہ.روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحہ ۳۱ تا ۷۱) بقیہ ترجمہ.اور مجرموں کی راہ کھل گئی اور حق سے کنارہ کرنے والا وہی شخص رہا جس کو ازلی محرومی نے روک دیا اور وہی منکر رہا جس کو پیدائشی جورپسندی نے منع کر دیا.پس ہم ان لوگوں کو سلام کے ساتھ رخصت کرتے ہیں اور ان پر حجت پوری ہوگئی اور ان کا قابلِ سزا ہونا ثابت ہوگیا پس اگر اب بھی باز نہ آویں پس صبر لائق ہے.اور عنقریب وہ جو ان کے حالات پر اطلاع رکھتا ہے ان کو متنبہ کردے گا.٭ (روایات متعلقہ خطبہ الہامیہ) (۱) حضرت مولانا شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں.اس دن صبح کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام عید کے لئے نکلے.مسجد مبارک کی سیڑھیوں سے تو آپ نے فرمایا کہ رات کو مجھے الہام ہوا ہے کہ کچھ کلمات عربی میں کہو اس لئے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اور حضرت مولوی نور الدین صاحب دونوں کو پیغام بھیجا کہ وہ کاغذ اور قلم دوات لے کر آویں کیونکہ عربی میں کچھ کلمات پڑھنے کا الہام ہوا ہے.نماز مولوی عبد الکریم صاحب نے پڑھائی اور مسیح موعودؑ نے پھر اردو میں خطبہ فرمایا غالباً کرسی پر بیٹھ کر.اردو خطبے کے بعد آپ نے عربی خطبہ پڑھنا شروع کیا کرسی پر بیٹھ کر.اس وقت آپ پر ایک خاص حالت طاری تھی.آنکھیں بند تھیں.ہر جملے میں پہلے آواز اونچی تھی پھر دھیمی ہوجاتی تھی.سامنے بائیں طرف حضرت مولوی صاحبان لکھ رہے تھے.ایک لفظ دونوں میں سے ایک نے نہ سنا اس لئے پوچھا تو حضرت صاحب نے وہ لفظ بتایا اور پھر فرمایا کہ جو لفظ سنائی نہ دے وہ ابھی پوچھ لینا چاہیے کیونکہ ممکن ہے کہ مجھے بھی یاد نہ رہے.آپ نے فرمایا کہ جب تک اوپر سے سلسلہ جاری رہا میں بولتا رہا اور جب ختم ہوگیا بس کردی.(رجسٹر روایات صحابہؓ نمبر ۱۰ صفحہ ۳۰۳،۳۰۴) (۲ ) مولوی شیر علی صاحبؓ نے… بیان کیا کہ بعد خطبہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ یہ خطبہ میری طرف سے نہ تھا بلکہ میرے دل میں اللہ کی طرف سے الفاظ ڈالے جاتے تھے اور بعض اوقات کچھ لکھا ہوا میرے سامنے آجاتا تھا اور جب تک ایسا ہوتا رہا خطبہ جاری رہا لیکن جب الفاظ آنے بند ہوگئے خطبہ بند ہوگیا.(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ ۱۴۸ تا ۱۵۰ روایت نمبر ۱۵۶ مطبوعہ ۲۰۰۸ء)
اپریل ۱۹۰۰ء ’’ ابھی حضرت مولانا؎۱ موصوف ترجمہ؎۲سنا ہی رہے تھے کہ حضرت اقدس فرطِ جوش بقیہ حاشیہ.(۳) حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ نے … بیان کیا کہ… حضور نے عربی میں خطبہ پڑھنا شروع فرمایا.اس عربی خطبہ کے وقت آپ کی حالت اور آواز بہت دھیمی اور باریک ہوجاتی تھی.تقریر کے وقت آپ کی آنکھیں بند ہوتی تھیں.تقریر کے دوران میں ایک دفعہ حضور نے حضرت مولوی صاحبان کو فرمایا کہ اگر کوئی لفظ سمجھ نہ آئے تو اسی وقت پوچھ لیں ممکن ہے کہ بعد میں مَیں خود بھی نہ بتا سکوں.اس وقت ایک عجیب عالم تھا جس کو مَیں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا… آپ نے فرمایا کہ جیسا جیسا کلام اُترتا گیا میں بولتا گیا.جب یہ سلسلہ بند ہوگیا تو میںنے بھی تقریر کو ختم کردیا.آپ فرماتے تھے کہ تقریر کے دوران میں بعض اوقات الفاظ لکھے ہوئے نظر آجاتے تھے.(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ ۵۹۲،۵۹۳ روایت نمبر ۶۲۳ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) (۴) حضرت بھائی عبد الرحمان صاحبؓ قادیانی روایت کرتے ہیں.بعض اوقات حضرت مولوی صاحب کو لکھنے میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے یا کسی لفظ کے سمجھ نہ آنے کے باعث یا الفاظ کے حروف مثلاً الف اور عین، صاد و سین یا ثا اور ط و ت وغیرہ وغیرہ کے متعلق دریافت کرنے کی ضرورت ہوتی تو دریافت کرنے پر سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عجب کیفیت ہوتی تھی اور حضور یوں بتاتے تھے جیسے کوئی نیند سے بیدار ہوکر یا کسی دوسرے عالم سے واپس آکر بتائے اور وہ دریافت کردہ لفظ یا حرف بتانے کے بعد پھر وہی حالت طاری ہوجاتی تھی اور انقطاع کا یہ عالم تھا کہ ہم لوگ یہ محسوس کرتے کہ حضور کا جسد اطہر صرف یہاں ہے، روح حضور پُر نور کی عالم بالا میں پہنچ کر وہاں سے پڑھ کر یا سُن کر بول رہی تھی.زبان مبارک چلتی تو حضور ہی کی معلوم دیتی تھی مگر کیفیت کچھ ایسی تھی کہ بے اختیار ہو کر کسی کے چلائے چلتی ہو.یہ سماں اور حالت بیان کرنا مشکل ہے.انقطاع، تبتّل، ربودگی یا حالت مجذوبیّت و بے خودی و وارفتگی اور محویّتِ تامّہ وغیرہ الفاظ میں سے شاید کوئی لفظ حضور کی اس حالت کے اظہار کے لئے موزوں ہوسکے ورنہ اصل کیفیت ایک ایسا روحانی تغیّر تھا جو کم از کم میری قوت بیان سے تو باہر ہے کیونکہ سارا ہی جسم مبارک حضور کا غیر معمولی حالت میں یوں معلوم دیتا تھا جیسے ذرہ ذرہ پر اس کے کوئی نہاں در نہاں اور غیر مرئی طاقت متصرّف و قابو یافتہ ہو.(سیرت المہدی جلد دوم صفحہ ۳۶۹ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) (۵) مکرم سید محمود عالم صاحبؓ بیان فرماتے ہیں.حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ فرمایا کرتے تھے کہ جب حضرت مسیح موعودؑ نے عربی میں خطبہ عید الاضحی پڑھا… تو بعد میں جب اس کی کیفیت پوچھی گئی تو فرمایا کہ فرشتے میرے سامنے موٹے موٹے حروف میں لکھی ہوئی تختی لاتے جاتے تھے جسے میں دیکھ دیکھ کر پڑھتا جاتا تھا.ایک تختی آتی جب میں ۱ مولانا عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ.(مرزا بشیر احمد) ۲ خطبہ الہامیہ کاترجمہ.(مرزا بشیر احمد)
کے ساتھ سجدہ شکر میں جاپڑے.آپ کے ساتھ تمام حاضرین نے سجدۂ شکر ادا کیا.سجدہ سے سر اُٹھا کر حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ ’’ابھی مَیں نے سُرخ الفاظ میں لکھا دیکھا ہے کہ مــــــُبارک یہ گویاقبولیت کا نشان ہے.‘‘ (الحکم جلد ۴ نمبر ۱۶ مورخہ یکم مئی ۱۹۰۰ء صفحہ ۵) اپریل ۱۹۰۰ء ’’ ایک دفعہ عزیز مرحوم؎۱کی زندگی میں بکثرت اس کی شفا کے لئے دعا کی.تب خواب میں دیکھا کہ ایک سڑک ہے گویا وہ چاند کے ٹکڑے اکٹھے کرکے بنائی گئی ہے اور ایک شخص ایوب بیگ کو اس سڑک پر سے لے جارہا ہے او وہ سڑک آسمان کی طرف جاتی ہے اور نہایت خوش اور چمکیلی ہے گویا زمین پر چاند بچھایا گیا ہے مَیں نے یہ خواب اپنی جماعت میں بیان کی اورتکلف کے طور پر یہ سمجھا کہ یہ صحت کی طرف اشارہ ہے لیکن دل نہیں (بقیہ حاشیہ) وہ سناچکتا تو دوسری تختی آتی اور پہلی چلی جاتی.اس طرح تختیوں کا سلسلہ رہا.جب کوئی لکھنے والا پوچھتا تو گئی ہوئی تختی بھی واپس آجاتی جسے دیکھ کر میں بتا دیتا.(رجسٹر روایات صحابہؓ نمبر ۴ صفحہ ۳۸) (۶) حضرت میاں محمد یٰسین صاحب احمدیؓ بیان فرماتے ہیں.خطبہ الہامیہ حضور نے عید ذوالحجہ کے دن فرمایا.خطبہ کے دوران میں حضورؑ کی آواز خلاف معمول بالکل باریک تھی اور نماز کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ مَیں جب ایک فقرہ کہہ لیتا تھا تو آگے مجھے علم نہیں ہوتا تھا کہ مَیں کیا کہوں گا.آگے مجھے لکھا ہوا دکھایا جاتا تھا اور پھر مَیں بولتا تھا.یہ خطبہ حضور نے بالکل آہستہ آہستہ پڑھا.یوں معلوم ہوتا تھا کہ کوئی حضور کو پڑھاتا ہے اور پھر آگے حضور بول رہے ہیں.اس وقت حضور کی حالت معمول سے بالکل مختلف نظر آتی تھی.(رجسٹر روایات صحابہؓ نمبر ۱۲ صفحہ ۱۰۲) (۷) سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں.آپؑ خطبہ الہامیہ کے شروع میں لکھتے ہیں’’ وَ اِنّیْ عُلِّمْتُـھَا اِلْھَامًا مِّنْ رَّبِّیْ وَ کَانَتْ اٰیَۃً‘‘ کہ یہ خطبہ مجھے خدا تعالیٰ نے الہامًا سکھایا ہے اور یہ خدا تعالیٰ کا ایک نشان ہے.خطبہ الہامیہ وہ کتاب ہے جس کا ایک حصہ خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام کے طور پر نازل ہوا اور جو لوگ یہاں رہتے تھے وہ جانتے ہیں کہ الہامی کلام صفحہ اَڑتیس۳۸ تک کا ہے.حضرت مسیح موعودؑ کو الہاماً بتایا گیا تھا کہ عربی میں تقریر کرو روح القدس تمہارے ساتھ کھڑا ہو کر تمہارے منہ میں الفاظ ڈالے گا.اس پر عید کے دن آپ نے خطبہ پڑھا اور وہ مطبوعہ کتاب خطبہ الہامیہ کے اَڑتیس۳۸ صفحہ تک ہے جس کا آخری فقرہ وَ سَوْفَ یُنَبِّئُـھُمْ خَبِیْرٌ ہے.پس یہ وہ خطبہ ہے جو الہام کے طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا.(خطاب جلسہ سالانہ ۲۷؍ دسمبر ۱۹۳۳ء انوار العلوم جلد۷ صفحہ ۱۲) ۱ مرزا ایوب بیگ صاحب.(مرزا بشیر احمد)
مانتا تھا کہ اس خواب کی تعبیر صحت ہو سو اب اس خواب کی تعبیر ظہور میں آئی.اِنَّـا لِلّٰہِ وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.‘‘ ( از مکتوب بنام ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحبؓ.مکتوبات احمد جلد ۳ صفحہ ۳۷۸ مطبوعہ ۲۰۱۳ء) ۲۵؍ اپریل ۱۹۰۰ء ’’ اِس خط کے لکھنے کے وقت میں جو ایوب بیگ مرحوم کی طرف توجہ تھی کہ وہ کیوں کر جلد ہماری آنکھوں سے ناپدید ہوگیا اور تمام تعلقات کو خواب و خیال کرگیا کہ یک دفعہ الہام ہوا.مبارک وہ آدمی جو اس دروازہ کے راہ سے داخل ہو یہ اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عزیزی ایوب بیگ کی موت نہایت نیک طور پر ہوئی ہے اور خوش نصیب وہ ہے جس کی ایسی موت ہو.‘‘ ( از مکتوب بنام ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحبؓ.مکتوبات احمد جلد ۳ صفحہ ۳۷۸ مطبوعہ ۲۰۱۳ء) ۱۹۰۰ء ’’ خدا نے مجھے کہا کہ اُٹھ اور ان لوگوں کو کہہ دے کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے.پس کیا تم خدا کی گواہی ردّ کردو گے.خدا کا کلام جو میرے پر نازل ہوا اُس کے یہ الفاظ ہیں.قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّؤْمِنُوْنَ.قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ.قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُـحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُـحْبِبْکُمُ اللّٰہُ.وَقُلْ یٰٓـاَ یُّـھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَـمِیْعًا.اَیْ مُرْسَلٌ مِّنَ اللّٰہِ.(از اشتہار معیار الاخیار.مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۳۷،۳۸ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) (ترجمہ) ان کو کہہ کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے پس کیا تم ایمان لاؤ گے یا نہیں.ان کو کہہ کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے پس کیا تم قبول کروگے یا نہیں.کہہ اگر تم خدا سے محبّت رکھتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبّت رکھے.؎۱‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۷۴ و ۸۲) ۲۸؍ مئی ۱۹۰۰ء ’’ اب اس رسالہ؎۲ کی تحریر کے وقت میرے پر یہ منکشف ہوا کہ جو کچھ براہین احمدیہ میں قادیان کے بارے میں کشفی طور پر مَیں نے لکھا یعنی یہ کہ اس کا ذکر قرآن شریف میں موجود ہے.درحقیقت یہ صحیح بات ہے کیونکہ یہ یقینی امر ہے کہ قرآن شریف کی یہ آیت کہ سُـبْحَانَ الَّذِیْٓ اَسْـرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ ۱ (بقیہ ترجمہ از مرتّب) اور کہہ کہ اے لوگو! مَیں تم سب کی طرف خدا تعالیٰ کا رسول ہوکر آیا ہوں.یعنی اللہ کا فرستادہ.۲ خطبہ الہامیہ (مرزا بشیر احمد)
الْمَسْجِدِ الْـحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہٗ؎۱ معراج مکانی اور زمانی دونوں پر مشتمل ہے اور بغیر اس کے معراج ناقص رہتا ہے.پس جیسا کہ سیرِ مکانی کے لحاظ سے خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجدالحرام سے بیت المقدس تک پہنچا دیا تھا ایسا ہی سیر زمانی کے لحاظ سے آنجناب کو شوکت ِاسلام کے زمانہ سے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا برکاتِ اسلامی کے زمانہ تک جو مسیح موعود کا زمانہ ہے پہنچا دیا.پس اِس پہلو کے رُو سے جو اسلام کے انتہاءِ زمانہ تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سَیرِ کشفی ہے.مسجد اقصیٰ سے مراد مسیح موعود کی مسجد ہے جو قادیان میں واقع ہے.جس کی نسبت براہین احمدیہ میں خدا کا کلام یہ ہے.مُبَارَکٌ وَّمُبَارِکٌ وَکُلُّ اَمْرٍ مُّبَارَکٍ یُـجْعَلُ فِیْہِ.؎۲ اور یہ مبارک کا لفظ جو بصیغہ مفعول او رفاعل واقع ہوا قرآن شریف کی آیت بَارَکْنَا حَوْلَہٗ کے مطابق ہے.پس کچھ شک نہیں جو قرآن شریف میں قادیان کا ذکر ہے.‘‘ (از اشتہار چندہ منارۃ المسیح مورخہ ۲۸؍مئی ۱۹۰۰ء.ضمیمہ خطبہ الہامیہ.روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحہ ۲۰، ۲۱ حاشیہ) ۲؍ جون ۱۹۰۰ء ’’آج۲؍جون ۱۹۰۰ء کو بروز شنبہ بعد دوپہر دو بجے کے وقت مجھے تھوڑی سی غنودگی کے ساتھ ایک ورق جو نہایت سفید تھا دکھلایا گیا.اُس کی آخری سطر میں لکھا تھا.اِقبال مَیں خیال کرتا ہوں کہ آخر سطر میں یہ لفظ لکھنے سے انجام کی طرف اشارہ تھا.یعنی انجام باقبال ہے.پھر ساتھ ہی یہ الہام ہوا.قادر کے کاروبار نمودار ہوگئے کافر جو کہتے تھے وہ گرفتار ہوگئے اس کے یہ معنے مجھے سمجھائے گئے کہ عنقریب کچھ ایسے زبردست نشان ظاہر ہوجائیں گے جس سے کافر کہنے والے جو مجھے کافر کہتے تھے الزام میں پھنس جائیں گے اور خوب پکڑے جائیں گے اور کوئی گریز کی جگہ ان کے لئے باقی نہیں رہے گی.یہ پیشگوئی ہے ہر ایک پڑھنے والا اس کو یاد رکھے.‘‘ (اشتہار مشمولہ ضمیمہ تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۷۷ حاشیہ) ۱ (ترجمہ از ناشر) پاک ہے وہ جو رات کے وقت اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف لے گیا جس کے ماحول کو ہم نے برکت دی ہے.(بنی اسرائیل: ۲) ۲ (ترجمہ) یہ مسجد برکت دی گئی ہے اور برکت دینے والی ہے اور ہر ایک کام جو برکت دیا گیا ہے وہ اس میں کیا جائے گا.(نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۲۵)
۳؍جون ۱۹۰۰ء ’’ ۳؍جون ۱۹۰۰ء کو بوقت ساڑھے گیارہ بجے یہ الہام ہوا.کافر جو کہتے تھے وہ نگوں سار ہوگئے جتنے تھے سب کے سب ہی گرفتار ہوگئے یعنی کافر کہنے والوں پر خدا کی حجّت ایسی پوری ہوگئی کہ ان کے لئے کوئی عذر کی جگہ نہ رہی.یہ آئندہ زمانہ کی خبر ہے کہ عنقریب ایسا ہوگا اور کوئی ایسی چمکتی ہوئی دلیل ظاہر ہوجائے گی کہ فیصلہ کردے گی.‘‘ (از اشتہار مشمولہ ضمیمہ تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۷۷ حاشیہ) ۱۹۰۰ء ’’ مجھے بتلایا گیا ہے کہ تمام دینوں میں سے دین اسلام ہی سچا ہے.مجھے فرمایا گیا ہے کہ تمام ہدایتوں میں سے صرف قرآنی ہدایت ہی صحت کے کامل درجہ پر اور انسانی ملاوٹوں سے پاک ہے.مجھے سمجھا یاگیا ہے کہ تمام رسولوں میں سے کامل تعلیم دینے والا اور اعلیٰ درجہ کی پاک اور پُر حکمت تعلیم دینے والا ‘ اور انسانی کمالات کا اپنی زندگی کے ذریعہ سے اعلیٰ نمونہ دکھلانے والا صرف حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور مجھے خدا کی پاک اور مطہّر وحی سے اطلاع دی گئی ہے کہ مَیں اس کی طرف سے مسیح موعود اور مہدی معہود اور اندرونی اور بیرونی اختلافات کا حَکَمْ ہوں.یہ جو میرا نام مسیح اور مہدی رکھا گیا ان دونوں ناموں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مشرف فرمایا او رپھر خدا نے اپنے بلا واسطہ مکالمہ سے یہی میرا نام رکھا.‘‘ (اربعین نمبر ۱.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۳۴۵) ۱۹۰۰ء ’’۱.یَـا اَحْـمَدُ بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ.۲.اَلرَّحْـمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَآؤُھُمْ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمجْرِمِیْنَ.۳.قُلْ اِنِّـیْ اُمِرْتُ وَاَنَـا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ.۴.ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلُہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْـحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ.۵.وَ کُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْـھَا.۶.وَکَانَ اَمْرُ اللّٰہِ مَفْعُوْلًا.۷.لَا مُبَدِّ.لَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ.۸.اِنَّـا کَفَیْنَاکَ الْمُسْتَـھْزِئِیْنَ.۹.ھٰذَا مِنْ رَّحْـمَۃِ رَبِّکَ ۱۰.یُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ لِتَکُوْنَ اٰیَۃً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ.۱۱.قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُـحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُـحْبِبْکُمُ اللّٰہُ.۱۲.قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّؤْمِنُوْنَ.قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ.۱۳.وَقُلِ اعْـمَلُوْا عَلٰی مَکَانَتِکُمْ اِنِّیْ عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ.۱۴.عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یَّرْحَـمَکُمْ وَ اِنْ عَدْتُّمْ عُدْنَـا.وَ جَعَلْنَا جَھَنَّمَ لِلْکَافِرِیْنَ حَصِیْرًا.۱۵.یُـخَوِّفُّوْنَکَ مِنْ دُ.وْنِہٖ.۱۶.اِنَّکَ بَاَعْیُنِنَا.۱۷.سَـمَّیْتُکَ الْمُتَوَکِّلَ.۱۸.یَـحْمَدُ کَ اللّٰہُ مِنْ عَرْشِہٖ.۱۹.نَـحْمَدُ کَ وَ نُصَلِّیْ.۲۰.یُرِیْدُوْنَ اَنْ
یُّطْفِئُوْا نُـوْرَ اللّٰہِ بِـاَفْوَاھِھِمْ وَ اللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَ لَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ.۲۱.سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِـھِمُ الرُّعْبَ.۲۲.اِذَا جَآءَ نَصْـرُ اللّٰہِ وَ الْفَتْحُ وَانْتَـہٰی اَمْرُالزَّمَانِ اِلَیْنَا ۲۳.اَلَیْسَ ھٰذَا بِالْـحَقِّ.۲۴.وَ قَالُوْا اِنْ ھٰذَا اِلَّا اخْتِلَاقٌ.۲۵.قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ.۲۶.قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُہٗ فَعَلَیَّ اِجْرَامِیْ.۲۷.وَمَنْ اَظْلَمُ مِـمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِ.بًـا.۲۸.وَ اِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُ ھُمْ اَوَ نَتَوَفَّیَنَّکَ.۲۹.اِنِّیْ مَعَکَ فَکُنْ مَّعِیْ اَیْنَـمَاکُنْتَ.۳۰.کُنْ مَعَ اللّٰہِ حَیْثُ مَا کُنْتَ.۳۱.اَیْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ.۳۲.کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ وَافْتِخَارًا لِّلْمُؤْمِنِیْنَ.۳۳.وَلَا تَیْئَسْ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ.اَلَآ اِنَّ رَوْحَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ.اَلَآ نَصْـرَاللّٰہِ قَرِیْبٌ؎۱.۳۴.یَـاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ.۳۵.یَـاْ.تُوْنَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ.۳۶.یَنْصُـرُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِہٖ.۳۷.یَنْصُـرُکَ رِجَالٌ نُّوْحِیْٓ اِلَیْـھِمْ مِّنَ السَّمَآءِ.۳۸.اِنِّیْ مُنَجِّیْکَ مِنَ الْغَمِّ.۳۹.وَ کَانَ رَبُّکَ قَدِیْـرًا.۴۰.اِنَّـا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا.۴۱.فَتْحُ الْوَلِیِّ فَتْحٌ.۴۲.وَّ قَرَّبْنَاہُ نَـجِیًّا.۴۳.اَشْـجَـعُ النَّاسِ.۴۴.وَ لَوْ کَانَ الْاِیْـمَانُ مُعَلَّقًا بِـالثُّـرَیَّـا لَنَا لَہٗ ۴۵.اَنَـارَ اللّٰہُ بُـرْھَانَہٗ.۴۶.یَـا اَحْـمَدُ فَاضَتِ الرَّحْـمَۃُ عَلٰی شَفَتَیْکَ.۴۷.اِنَّکَ بِـاَعْـیُنِنَا.۴۸.یَـرْفَعُ اللّٰہُ ذِکْـرَکَ وَیُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ.۴۹.یَا اَحْـمَدِیْ اَنْتَ مُرَادِیْ وَمَعِیْ.۵۰.غَـرَسْتُ کَـرَامَتَکَ بِیَدِیْ.۵۱.وَنَظَرْنَا اِلَیْکَ وَ قُلْنَا یَـا نَـارُ کُـوْنِیْ بَـرْدًا وَّسَلَامًا عَلٰی اِبْـرَھِیْمَ.۵۲.یَـا اَحْـمَدُ یَتِمُّ اسْـمُکَ وَ لَا یَتِمُّ اسْـمِیْ.۵۳.بُـوْرِکْتَ یَـا اَحْـمَدُ وَکَانَ مَا بَـارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ حَقًّا فِیْکَ.۵۴.شَاْنُکَ عَـجِیْبٌ وَّ اَجْرُکَ قَرِیْبٌ.۵۵.اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا.۵۶.اَ.کَانَ لِلنَّاسِ عَــجَبًا.۵۷.قُلْ ھُوَ اللّٰہُ عَـجِیْبٌ.۵۸.یَـجْتَبِیْ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ.۵۹.وَلَا یُسْئَلُ عَـمَّا یَفْعَلُ وَ ھُمْ یُسْئَلُوْنَ.۶۰.اَنْتَ وَجِیْہٌ فِیْ حَضْـرَتِیْ.۶۱.اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ.۶۲.اَلْاَرْضُ وَالسَّمَآءُ مَعَکَ کَمَا ھُوَ مَعِیْ.۶۳.وَ سِـرُّکَ سِـرِّیْ.۶۴.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَ تَفْرِیْدِیْ.۶۵.فَـحَانَ اَنْ تُعَانَ وَتُعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ.۶۶.ھَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّھْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا.۶۷.وَ کَادَ اَنْ یُّعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ.۶۸.وَقَالُوْا اَنّٰی لَکَ ھٰذَا.وَ قَالُوْا اِنْ ھٰذَا اِلَّا اخْتِلَاقٌ.۶۹.اِذَا نَصَـرَ اللّٰہُ الْمُؤْمِنَ جَعَلَ لَہُ الْـحَاسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ.۷۰.قُلْ ھُوَ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ.۷۱.سُبْـحَانَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی زَادَ مَجْدَکَ.۷۲.یَنْقَطِعُ اٰبَآؤُکَ ۱ (نوٹ از ناشر) براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۲۶۷ میں یہ الہام اس طرح درج ہے.’’اَلَا اِنَّ نَصْـرَاللّٰہِ قَرِیْبٌ‘‘.
اٰبَآؤُکَ وَ یُبْدَءُ مِنْکَ.۷۳.وَ مَاکَانَ اللّٰہُ لِیَتْـرُکَکَ حَتّٰی یَـمِیْزَ الْـخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ.۷۴.اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَـخَلَقْتُ اٰدَمَ.۷۵.یَا اٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْـجَنَّۃَ.۷۶.یَـا اَحْـمَدُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْـجَنَّۃَ.۷۷.یَـا مَرْیَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْـجَنَّۃَ.۷۸.تَـمُوْتُ وَ اَنَـا رَاضٍ مِّنْکَ.۷۹.فَادْخُلُوْا الْـجَنَّۃَ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیْنَ.۸۰.سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْھَآ اٰمِنِیْنَ.۸۱.خدا تیرے سب کام درست کردے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا ۸۲.سَلَامٌ عَلَیْکَ جُعِلْتَ مُبَارَکًا.۸۳.وَ اِنِّیْ فَضَّلْـتُکَ عَلَی الْعَالَمِیْنَ.۸۴.وَ قَالُوْٓا اِنْ ھُوَ اِلَّا اِفْکُ ا۟فْتَرٰى وَ مَـا سَـمِعْنَا بِـھٰذَا فِیْٓ اٰبَـآئِنَا الْاَوَّلِیْنَ.۸۵.وَ کَانَ رَبُّکَ قَدِ.یْرًا.۸۶.یَـجْتَبِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یَّشَآءُ.۸۷.وَ لَقَدْ کَــرَّمْنَا بَـنِیْٓ اٰدَمَ وَ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ.۸۸.قُلْ جَآءَکُمْ نُوْرٌ مِّنَ اللّٰہِ فَلَا تَکْفُرُوْا اِنْ کُنْتُمْ مُّـؤْمِنِیْنَ.۸۹.اِنَّ الَّذِیْنَ کَــفَرُوْا وَ صَدُّ وْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ رَدَّ عَلَیْـھِمْ رَجُلٌ مِّنْ فَارِسَ شَکَرَ اللّٰہُ سَعْیَہٗ.۹۰.کِتَابُ الْوَلِـیِّ ذُوالْفَقَارِ عَلِـیٍّ.۹۱.وَ لَوْکَانَ الْاِیْـمَانُ مُعَلَّــقًا بِالثُـرَیَّـا لَنَا لَہٗ.۹۲.یَکَادُ زَیْتُہٗ یُضِیْٓءُ وَ لَوْ لَمْ تَـمْسَسْہُ نَـارٌ.۹۳.دَنٰی فَتَدْلّٰی فَکَانَ قَـوْسَیْنِ اَدْنٰی؎۱.۹۴.اِنَّـآ اَنْـزَلْنَاہُ قَرِیْبًا مِّنَ الْقَادِیَـانِ.۹۵.وَبِالْـحَقِّ اَ.نْـزَلْنَاہُ وَبِالْـحَقِّ نَـزَلَ.۹۶.صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ.۹۷.وَ کَانَ اَمْرُ اللّٰہِ مَفْعُوْلًا.۹۸.قَوْلَ الْـحَقِّ الَّذِیْ فِیْہِ تَـمْتَـرُوْنَ.۹۹.وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلٰی رَجُلٍ مِّنْ قَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ.۱۰۰.وَ قَالُوْا اِنَّ ھٰذَا لَمَکْـرٌ مَّکَـرْتُـمُوْہُ فِی الْمَدِیْنَۃِ.۱۰۱.یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ وَھُمْ لَا یُبْصِـرُوْنَ.۱۰۲.اَلرَّحْـمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ.۱۰۳.وَ لَا یَـمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ.۱۰۴.یَا عَبْدَ الْقَادِرِ اِنِّیْ مَعَکَ.۱۰۵.وَ اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَ.یْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ.۱۰۶.وَاِنَّ عَلَیْکَ رَحْـمَتِیْ فِی الدُّنْیَا وَالدِّیْنِ.۱۰۷.وَاِنَّکَ مِنَ الْمَنْصُوْرِیْنَ.۱۰۸.وَجِیْـھًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَـرَّبِیْنَ.۱۰۹.اَنَـا بُدُّکَ اللَّازِمُ.۱۱۰.اَنَـا مُـحْیِیْکَ ۱۱۱.نَفَخْتُ فِیْکَ مِنْ لَّدُنِّیْ رُوْحَ الصِّدْقِ.۱۱۲.وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَـحَبَّۃً مِّـنِّیْ وَ لِتُصْنَعَ عَلٰی عَیْنِیْ.۱۱۳.یَـحْمَدُ کَ اللّٰہُ وَیَـمْشِیْٓ اِلَیْکَ.۱۱۴.خَلَقَ اٰدَمَ فَاَکْـرَمَہٗ.۱۱۵.جَرِیُّ اللّٰہُ فِیْ حُلَلِ الْاَ..نْبِیَآءِ.۱۱۶.وَمَنْ رُدَّ مِنْ مَّطْبَعِہٖ فَلَا مَرَدَّ لَہٗ.۱۱۷.وَاِذْ یَـمْکُـرُ بِکَ الَّذِیْ کَفَّرَ.۱۱۸.اَوْقِدْ لِیْ یَا ھَامَانُ لَعَلِّیْ اَطَّلِعُ عَلٰی اِلٰہِ مُوْسٰی وَ اِنِّیْ لَاَظُنُّہٗ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ.۱۱۹.تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ.مَا کَان لَہٗٓ اَنْ یَّـدْخُلَ فِیْـھَا اِلَّا خَآئِفًا.۱۲۰.وَ مَا اَصَا.بَکَ فَـمِنَ اللّٰہِ.۱۲۱.اَلْفِتْنَۃُ ھٰھُنَا ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) براہین احمدیہ حصّہ چہارم روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۸۶ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳ پر یہ الہام اس طرح درج ہے ’’فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْ نٰی.‘‘
فَاصْبِرْ کَمَا صَبَـرَ اُولُوالْعَزْمِ.۱۲۲.وَ اللّٰہُ مُوْھِنُ کَیْدِ الْکَافِرِیْنَ.۱۲۳.اَلَا اِنَّـھَا فِتْنَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ لِیُحِبَّ حُبًّا جَـمًّا.حُبًّا مِّنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْاَکْـرَمِ.۱۲۴.عَطَآءً غَیْرَ مَـجْذُوْذٍ.۱۲۵.کُنْتُ کَنْـزًا مَّـخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ.۱۲۶.اِنَّ السَّمٰوَاتِ وَ الْاَرْضَ کَانَـتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاھُمَا.۱۲۷.وَاِنْ یَّتَّخِذُوْنَکَ اِلَّاھُزُوًا.۱۲۸.اَھٰذَا الَّذِیْ بَعَثَ اللّٰہُ.۱۲۹.قُلْ اِنَّـمَآ اَنَـا بَشَـرٌ مِّثْلُکُمْ یُـوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّـمَآ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ.۱۳۰.وَالْـخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ.۱۳۱.بخرام کہ وقتِ تو نزدیک رسید و پائے محـمدیاں برمنار بلندترمحکم افتاد.۱۳۲.پاک محمد مصطفیٰ نبیوں کا سردار.۱۳۳.یٰعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ.۱۳۴.ثُلَّـۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَ ثُلَّـۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ.۱۳۵.مَیں اپنی چمکار دکھلاؤں گا.اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اُٹھاؤں گا.۱۳۶.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کردے گا.۱۳۷.اَللّٰہُ حَافِظُہٗ.عِنَایَۃُ اللّٰہِ حَافِظُہٗ.۱۳۸.نَـحْنُ نَـزَّلْنَاہُ وَ اِنَّـا لَہٗ لَـحَافِظُوْنَ.۱۳۹.اَللّٰہُ خَیْرٌ حَافِظًا وَّ ھُوَ اَرْحَـمُ الرَّاحِـمِیْنَ.۱۴۰-۱۴۱.یُـخَوِّفُوْنَکَ مِنْ دُوْنِہٖ اَئِـمَّۃُ الْکُفْرِ.۱۴۲.لَا تَـخَفْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی.۱۴۳.یَنْصُـرُکَ اللّٰہُ فِیْ مَوَاطِنَ.۱۴۴.اِنَّ یَـوْمِیْ لَفَصْلٌ عَظِیْمٌ.۱۴۵.کَـتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَـا وَ رُسُلِیْ.۱۴۶.لَا مُبَدِّ.لَ لِکَلِمَاتِہٖ.۱۴۷.اَنْتَ مَعِیْ وَ اَنَـا مَعَکَ.۱۴۸.خَلَقْتُ لَکَ لَیْلًا وَّ نَـھَارًا.۱۴۹.اِعْـمَلْ مَا شِئْتَ فَاِنِّیْ قَدْ غَفَرْتُ لَکَ.۱۵۰.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃٍ لَّا یَعْلَمُھَا الْـخَلْقُ.۱۵۱.اَمْ حَسِبْتُمْ اَنَّ اَصْـحَابَ الْکَھْفِ وَ الرَّقِیْمِ کَانُـوْا مِنْ اٰیَـاتِنَا عَـجَبًا.۱۵۲.قُلْ ھُوَ اللّٰہُ عَـجِیْبٌ.۱۵۳.کُلَّ یَـوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ.۱۵۴.ھُوَ الَّذِیْ یُنَـزِّلُ الْغَیْثَ مِنْ بَعْدِ مَا قَنَطُوْا.۱۵۵.قُلْ ھَاتُـوْا بُـرْھَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ.۱۵۶.وَ بَشِّـرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّـھِمْ.۱۵۷.اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ.۱۵۸.سَلَامٌ عَلٰی اِبْـرَاھِیْمَ.۱۵۹.صَافَیْنَاہُ وَ نَـجَّیْنَاہُ مِنَ الْغَمِّ.۱۶۰.تَفَرَّدْنَـا بِذَالِکَ.۱۶۱.فَاتَّـخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاھِیْمَ مُصَلًّی.‘‘ (اربعین نمبر ۲.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۳۵۱ تا ۳۵۵) ترجمہ.۱.اے احمد! خدا نے تجھ میں برکت ڈالی.۲.اُس نے تجھے قرآن سکھایا تا تُو اُن لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے اور تا کہ مجرموں کی راہ کُھل جائے یعنی معلوم ہوجائے کہ کون کون مجرم ہے.۳.کہہ دے کہ میرے پر خدا کا حکم نازل ہوا ہے اور مَیں تمام مومنوں سے پہلا ہوں.۴.وہ خدا جس نے اپنے فرستادہ کو بھیجا.اُس نے دو امر کے ساتھ اُسے بھیجا ہے ایک تو یہ کہ اُس کو نعمت ِ ہدایت سے مشرف فرمایا
ہے… اور دین الحق عطا کیا گیا ہے…کہ وہ اسلام کی خوبی اور فوقیت ہر ایک پہلو سے تمام مذاہب پر ثابت کردے… ۵.اور تم ایک گڑھے کے کنارہ پر تھے.خدا نے تمہیں اس سے نجات دی.۶.اور یہ ابتدا سے مقدر تھا.۷.خدا کی باتوں کو کوئی ٹال نہیں سکتا.۸.اور وہ ہنسی کرنے والوں کے لئے کافی ہوگا.۹.یہ تمام کاروبار خدا کی رحمت سے ہے.۱۰.وہ اپنی نعمت تیرے پر پوری کرے گا تاکہ لوگوں کے لئے نشان ہو.۱۱.ان کو کہہ دے کہ اگر خدا تعالیٰ سے محبّت رکھتے ہو تو آؤ میری پَیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبّت رکھے.۱۲.اور ان کو کہہ دے کہ میرے پاس میری سچائی پر خدا کی گواہی ہے پس کیا تم خدا کی گواہی قبول کرتے ہو یا نہیں.۱۳.اور ان کو کہہ دے کہ تم اپنی جگہ پر کام کرو اور مَیں اپنی جگہ پر کرتا ہوں.پھر تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ خدا کس کے ساتھ ہے.۱۴.خدا نے تجلّی فرمائی ہے کہ تا تم پر رحم کرے اور اگر تم نے منہ پھیر لیا تو وہ بھی منہ پھیر لے گا اور سچائی کے مخالف ہمیشہ کے زندان میں رہیں گے.۱۵.تجھ کو یہ لوگ ڈراتے ہیں.۱۶.تُو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے.۱۷.مَیں نے تیرا نام متوکّل رکھا.۱۸.خدا عرش پر سے تیری تعریف کررہا ہے.۱۹.ہم تیری تعریف کرتے اور تیرے پر درود بھیجتے ہیں.۲۰.لوگ چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بُجھادیں مگر خدا اُس نور کو نہیں چھوڑے گا جب تک پورا نہ کرلے اگرچہ منکر کراہت کریں.۲۱.ہم عنقریب اُن کے دلوں میں رُعب ڈالیں گے.۲۲.جب خدا کی مدد اور فتح آئے گی اور زمانہ ہماری طرف رجوع کرلے گا ۲۳.تو کہا جائے گا کہ کیا یہ سچ نہ تھا جیسا کہ تم نے سمجھا.۲۴.اور کہتے ہیں کہ یہ صرف بناوٹ ہے.۲۵.اُن کو کہہ دے کہ خدا ہے جس نے یہ کاروبار بنایا.پھر ان کو چھوڑ دے تا اپنے بازیچہ میں لگے رہیں.۲۶.اُن کو کہہ دے کہ اگر مَیں نے افترا کیا ہے تو اس کا گناہ میرے پرہوگا.۲۷.اور افترا کرنے والے سے بڑھ کر کون ظالم ہے.۲۸.اور ہم قادر ہیں کہ تیری موت سے پہلے کچھ اُن کو اپنا کرشمہء ِ قدرت دکھا ویں جس کا ہم وعدہ کرتے ہیں یا تجھ کو وفات دے دیں.۲۹.مَیں تیرے ساتھ ہوں سو تو ہر ایک جگہ میرے ساتھ رہ.۳۰،۳۱.۱؎ ۳۲.تم بہترین امّت ہو جو لوگوں کے فائدہ کے لئے نکالے گئے اور تم مومنوں کا فخر ہو.۳۳.اور خدا کی رحمت سے نومید مت ہو.اُس کی رحمت تجھ سے قریب ہے.اُس کی مدد تجھ سے قریب ہے.۳۴.اس کی مدد ہر ایک دُور کی راہ سے تجھے پہنچے گی.۳۵.دُور کی راہ سے مدد کرنے والے آئیں گے.۳۶.خدا اپنے پاس سے تیری مدد کرے گا.۳۷.وہ لوگ تیری مدد کریں گے جن کے دلوں میں مَیں الہام ڈالوں گا.۳۸.مَیں غم سے تجھے نجات دوں گا.۳۹.مَیں خدا قادر؎۲ ہوں.۴۰.ہم تجھے ایک کھلی فتح دیں گے.۴۱.جو ولی کو فتح دی جاتی ہے وہ بڑی فتح ہوتی ہے.۱ (ترجمہ از مرتّب) ۳۰.اللہ کے ساتھ رہ جہاں بھی کہ تُو ہو.۳۱.جس طرف بھی تم اپنا رُخ پھیرو وہیں اللہ تعالیٰ کی توجہ ہے.۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یہ حضور اقدس علیہ السلام نے الہام کا حاصل مطلب بیان فرمایا ہے لفظی ترجمہ یہ ہے.اور تیرا ربّ قادر ہے.
۴۲.اور ہم نے اس کو خاص اپنا رازدار بنایا.۴۳.سب انسانوں سے زیادہ بہادر ہے.۴۴.اور اگر ایمان ثریّا پر ہوتا تو وہیں سے وہ لے آتا.۴۵.خدا اس کے بُرہان کو روشن کرے گا.۴۶.اے احمد رحمت تیرے لبوں پر جاری کی گئی.۴۷.تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے.۴۸.خدا تیرے ذکر کو اُونچا کرے گا اور دنیا اور آخرت میں اپنی نعمت تیرے پر پوری کرے گا.۴۹.اے میرے احمد تُو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے.۵۰.مَیں نے تیرا درخت اپنے ہاتھ سے لگایا.۵۱.اور ہم نے تیری طرف نظر کی اور کہا کہ اے آگ جو فتنہ کی آگ قوم کی طرف سے ہے اس ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی ہوجا… ۵۲.اے احمد تیرا نام پورا ہوجائے گا اور میرا نام پورا نہیں ہوگا.۵۳.اے احمد تُو مبارک کیا گیا اور جو تجھے برکت دی گئی وہ تیرا ہی حق تھا.۵۴.تیری شان عجیب اور تیرا بدلہ قریب ہے.۵۵.مَیں تجھے لوگوں کے لئے امام معہود بناؤں گا یعنی تجھے مسیح موعود اور مہدی معہود کروں گا.۵۶.کیا لوگ اس سے تعجب کرتے ہیں.۵۷.ان کو کہہ دے کہ خدا ذُوالعجائب ہے.۵۸.اسی طرح ہمیشہ کیا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور اپنے برگزیدوں میں داخل کردیتا ہے.۵۹.اور وہ اپنے کاموں سے پوچھا نہیں جاتا اور لوگ اپنے اعمال سے پوچھے جاتے ہیں.۶۰.تو میری درگاہ میں وجیہ ہے.۶۱.مَیں نے تجھے اپنے لئے چُنا.۶۲.زمین اور آسمان تیرے ساتھ ایسے ہی ہیں جیسا کہ میرے ساتھ.۶۳.تیرا بھید میرا بھید ہے.۶۴.تُو مجھ سے ایسا ہے جیسے میری توحید اور تفرید.۶۵.پس وقت آگیا ہے کہ تجھ کو لوگوں میں شہرت دی جائے گی.۶۶.اب تو تیرے پر وہ وقت ہے کہ کوئی بھی تجھ کو نہیں پہچانتا.۶۷.اور نزدیک ہے کہ تو تمام لوگوں میں شہرت پا جائے گا.۶۸.اور کہیں گے کہ یہ رُتبہ تجھے کہاں سے ملا.یہ تو جھوٹ ہی معلوم ہوتا ہے.۶۹.اصل بات یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ اپنے کسی بندہ کی مدد کرتا ہے اور اس کو اپنے برگزیدوں میں داخل کرلیتا ہے تو زمین پر کئی حاسد اس کے لئے مقرر کردیتا ہے یہی سنت اللہ ہے.۷۰.پس ان کو کہہ دے کہ مَیں تو کچھ چیز نہیں مگر خدا نے ایسا ہی کیا.پھر ان کو چھوڑ دے کہ تا بیہودہ فکروں میں پڑے رہیں.۷۱.وہ خدا بہت پاک اور بہت مبارک اور بہت اونچا ہے جس نے تیری بزرگی کو زیادہ کیا.۷۲.وہ وقت آتا ہے کہ تیرے باپ دادے کا ذکر کوئی بھی نہیں کرے گا اور ابتدا سلسلہ خاندان کا تجھ سے شروع ہوگا.(اور یہی انبیاء اور مامورین عظام میں خدا تعالیٰ کی عادت ہے) ۷۳.اور خدا ایسا نہیں ہے جو تجھے چھوڑ دے جب تک پاک اور پلید میں فرق کرکے نہ دکھلاوے.۷۴.مَیں نے ارادہ کیا کہ ایک خلیفہ پیدا کروں سو مَیں نے آدم کو بنایا.۷۵.اے آدم تُو اور تیرے دوست اور تیری بیوی بہشت میں داخل ہو.۷۶.اےاحمد تُو اور تیرے دوست اور تیری بیوی بہشت میں داخل ہو.۷۷.اے مریم تُو اور تیرے دوست اور تیری
بیوی بہشت میں داخل ہو.۷۸.تُو اس حالت میں مرے گا کہ مَیں تجھ سے راضی ہوں گا.۷۹.اور خدا کے فضل سے تو بہشت میں داخل ہوگا.۸۰.سلامتی کے ساتھ، پاکیزگی کے ساتھ، امن کے ساتھ بہشت میں داخل ہوگا.۸۱.خدا تیرے سب کام درست کردے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا.۸۲.تیرے پر سلام تُو مبارک کیا گیا.۸۳.اور جس قدر لوگ تیرے زمانہ میں ہیں سب پر مَیں نے تجھے فضیلت دی.۸۴.کہیں گے کہ یہ تو افترا ہے.ہم نے اپنے باپ دادوں سے ایسا نہیں سنا.۸۵.اور تیرا خدا قادر ہے ۸۶.جس کو چاہتا ہے اپنی طرف کھینچ لیتا ہے.۸۷.اور ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور بعض کو بعض پر فضیلت بخشی.۸۸.اُن کو کہہ دے کہ خدا کی طرف سے نُور تمہارے پاس آیا ہے پس اگر تم مومن ہو تو انکار مت کرو.۸۹.جو لوگ کافر ہوگئے اور خدا کی راہ کے مزاحم ہوئے اُن پر ایک مرد نے جو فارس کی نسل میں سے ہے ردّ کیا.(اس کی سعی کا خدا شاکر ہے.براہین احمدیہ۱؎) ۹۰.کتاب ولی کی علی کی ذوالفقار ہے.۹۱.اور اگر ایمان ثریّا پر ہوتا تو وہاں سے اُس کو لے آتا.۹۲.قریب ہے کہ اس کا تیل خودبخود بھڑک اُٹھے اگرچہ آگ اس کو نہ چھوئے.۹۳.وہ خدا سے نزدیک ہوا اور آگے سے آگے بڑھا یہاں تک کہ ۲دو قوسوں کے درمیان کھڑا ہوگیا… ۹۴.ہم نے اُس کو قادیان کے قریب اُتارا.۹۵.اور حق کے ساتھ اُتارا اور حق کے ساتھ اُترا.۹۶.اور اس میں وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو قرآن اور حدیث میں تھی.۹۷.یعنی وہی مسیح موعود ہے جس کا ذکر قرآن شریف اور حدیثوں میں تھا.۹۸.سچی بات یہی ہے جس میں تم لوگ شک کرتے ہو.۹۹.اور بعض کہیں گے کہ اس عہدہ اور منصب کے لائق فلاں فلاں تھا جو فلاں جگہ رہتا ہے.۱۰۰.اور کہیں گے کہ یہ تو مکر ہے جو تم نے شہر میں مِل جُل کر بنالیا.۱۰۱.یہ لوگ تیری طرف دیکھتے ہیں اور تو انہیں نظر نہیں آتا.۱۰۲.دیکھو یہ کیسا نشان ہے کہ خدا نے اُسے سکھلایا.۱۰۳.اور بغیر ان کے جو پاک کئے جاتے ہیں کسی کو علمِ قرآن نہیں دیا جاتا.۱۰۴.اےقادر کے بندے مَیں تیرے ساتھ ہوں.۱۰۵.اور آج تو میرے پاس امین ۱۰۶.اور تیرے پر دنیا اور دین میں میری رحمت ہے.۱۰۷.اور تو منصور اور مظفّر ہے.۱۰۸.دنیا اور آخرت میں وجیہہ اور خدا کا مقرب.۱۰۹.مَیں تیرا ضروری چارہ ہوں.۱۱۰.اور مَیں نے تجھے زندہ کیا.۱۱۱.مَیں نے اپنے پاس سے سچائی کی رُوح تجھ میں پھونکی.۱۱۲.اور اپنی محبّت تیرے پر ڈا ل دی.اور تُو نے میری آنکھوں کے سامنے پرورش پائی.۱۱۳.خدا تیری تعریف کرتا ہے اور تیری طرف چلا آتا ہے.۱۱۴.اس نے اس آدم کو یعنی تجھ کو پیدا کیا اور اس کو عزت دی.۱۱۵.یہ خدا کا رسول ہے نبیوں کے حُلّوں میں.۱۱۶.جو شخص اس کے مطبع سے ردّ کیا گیا اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں.۱۱۷.اور یاد کر وہ آنے والا زمانہ جب کہ ایک شخص تیرے پر تکفیر کا فتویٰ لگائے گا.۱۱۸.اور اپنے کسی ایسے شخص کو جس کے فتویٰ کا ۱ براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۹۱ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳ (ناشر)
دنیا پر عام اثر ہوتا ہو کہے گا کہ اے ہامان میرے لئے اس فتنہ کی آگ بھڑکا تا مَیں اُس شخص کے خدا پر اطلاع پاؤں اور مَیں خیال کرتا ہوں کہ یہ جھوٹا ہے.۱۱۹.ہلاک ہوگئے دونوں ہاتھ ابی لہب کے اور وہ بھی ہلاک ہوگیا.(یعنی جس نے یہ فتویٰ لکھا یا لکھوایا)اُس کو نہیں چاہیےتھا کہ اس معاملہ میں دخل دیتا مگر ڈرتے ڈرتے؎۱… ۱۲۰.اس فتویٰ تکفیر سے جو کچھ تکلیف تجھے پہنچے گی وہ تو خدا کی طرف سے ہے.۱۲۱.یہ ایک فتنہ ہوگا پس صبر کرو جیسا کہ اولو العزم نبیوں نے صبر کیا.۱۲۲.اور آخر خدا منکرین کے مکر کو سُست کردے گا.۱۲۳.سمجھ اور یاد رکھ کہ یہ فتنہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوگا تا وہ تجھ سے بہت سا پیار کرے.یہ اس خدا کا پیار ہے جو غالب اور بزرگ ہے ۱۲۴.اور اس مصیبت کے صلہ میں ایک ایسی بخشش ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوگی.۱۲۵.مَیں ایک پوشیدہ خزانہ تھا پس مَیں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں.۱۲۶.زمین اور آسمان دونوں ایک سربستہ گٹھڑی کی طرح ہوگئے تھے.جن کے جواہر اور اسرار پوشیدہ تھے.پس ہم نے ان دونوں کو کھول دیا یعنی اس زمانہ میں ایک قوم پیدا ہوگئی جو اَرضی خواص اور طبائع کو ظاہر کررہے ہیں اور ان کے مقابل پر ایک دوسری قوم پیداکی گئی جن پر آسمان کے دروازے کھولے گئے ۱۲۷.اور تجھے منکروں نے ایک ہنسی کی جگہ بنا رکھا ہے.۱۲۸.اور کہتے ہیں کیا یہی ہے جس کو خدا نے مبعوث فرمایا.۱۲۹.کہہ مَیں تو خدا تعالیٰ کی طرف سے فقط ایک بشر ہوں مجھ کو یہ وحی ہوتی ہے کہ تمہارا خدا ایک خدا ہے.۱۳۰.اور تمام بہتری قرآن میں ہے.۱۳۱.لٹک کر چل کہ تیرا وقت پہنچ گیا اور محمدیوں کا پَیر ایک بلند اور محکم مینار پر پڑگیا.۱۳۲.وہی پاک محمدؐ جو نبیوں کا سردار ہے.۱۳۳.اے عیسیٰ! مَیں تجھے وفات دوں گا اور اپنی طرف اُٹھاؤں گا… مَیں تیری جماعت کو تیرے مخالفوں پر قیامت تک غلبہ دوں گا.۱۳۴.ایک گروہ پہلوں میں سے ہوگا جو اوائل حال میں قبول کرلیں گے اور ایک گروہ پچھلوں میں سے ہوگا جو متواتر نشانوں کے بعد مانیں گے.۱۳۵.مَیں اپنی چمکار دکھلاؤں گا.اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اُٹھاؤں گا.۱۳۶.دُنیا میں ایک نذیر آیا پر دُنیا نے اُسے قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کردے گا.۱۳۷.خدا اُس کا نگہبان ہے خدا کی عنایت اس کی نگہبان ہے.۱۳۸.ہم نے اس کو اتارا اور ہم ہی اُس کے نگہبان ہیں.۱۳۹.خدا بہتر نگہبانی کرنے والا ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’یہ جو فرمایا کہ اگر دخل دیتا تو چاہیےتھاکہ ڈرتے ڈرتے دخل دیتا.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر کوئی بات کسی مجدّد وقت کی کسی کو سمجھ نہ آوے تو کچھ مضائقہ نہیں کہ ڈرتے ڈرتے نیک نیتی اور پاک دل کے ساتھ اس مسئلہ میں بحث کرے مگر عداوت اور بدزبانی تک اس معاملہ کو نہ پہنچاوے کہ انجام اس کا سلبِ ایمان اور ابو لہب کا خطاب ہے.‘‘ (ضیاء الحق.روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۲۹۴)
ہے اور وہ رحمان اور رحیم ہے.۱۴۰- ۱۴۱.کفر کے پیشوا تجھے ڈرائیں گے.۱۴۲.تُو مت ڈر کہ تُو غالب رہے گا.۱۴۳.خدا ہر ایک میدان میں تیری مدد کرے گا.۱۴۴.میرا دن ایک بڑے فیصلہ کا دن ہے.۱۴۵.میری طرف سے یہ وعدہ ہوچکا ہے کہ مَیں اور میرے رسول فتح یاب رہیں گے.۱۴۶.کوئی نہیں کہ میری باتوں میں کچھ تبدیلی کردے.۱۴۷.تُو میرے ساتھ اور مَیں تیرے ساتھ ہوں.۱۴۸.تیرے لئے مَیں نے رات اور دن پیدا کیا.۱۴۹.جو چاہے کر کہ تو مغفور ہے.۱۵۰.تُو مجھ سے وہ نسبت رکھتا ہے جس کی دنیا کو خبر نہیں.۱۵۱.کیا لوگ خیال کرتے ہیں کہ کوئی آسمان پر رہنے والا یا کسی غار میں چھپنے والا وہ عجیب تر انسان ہے.۱۵۲.کہہ خدا عجیب در عجیب باتیں ظاہر کرنے والا ہے.۱۵۳.ہر ایک دن نیا اعجوبہ ظاہر کرتا ہے.۱۵۴.وہی خدا ہے جو نومیدی کے بعد بارش نازل کرتا ہے.(۱۵۵.کہہ اس پر دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو.۱۵۶.اور تُو ان لوگوں کو جو ایمان لائے یہ خوشخبری سنا کہ ان کا قدم خدا کے نزدیک صدق کا قدم ہے.) ۱۵۷.اور پاک کلمے اس کی طرف چڑھتے ہیں.۱۵۸.ابراہیم ؑ پر سلام (یعنی اِس عاجز پر).۱۵۹.ہم نے اُس سے محبّت کی اور غم سے نجات دی.۱۶۰.ہم نے ہی یہ کیا.۱۶۱.پس تم ابراہیم کے قدم پر چلو.‘‘ (اربعین نمبر ۲.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۳۵۵ تا ۳۶۸) ۱۹۰۰ء ’’۱.سُـبْحَانَ؎۱ اللّٰہِ تَـبَارَکَ وَتَعَالٰی زَادَ مَـجْدَ.کَ یَنْقَطِعُ اٰبَآؤُکَ وَ یُـبْدَءُ مِنْکَ.۲.عَطَاءًا غَیْرَ مَـجْذُوْذٍ.۳.سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبِّ رَّحِیْمٍ.۴.وَ قِیْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ.۵.تَرٰی نَسْلًا بَعِیْدًا وَلَنُحْیِیَنَّکَ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً.۶.ثَـمَانِیْنَ حَوْلًا اَوْ قَرِیْبًا مِّنْ ذَالِکَ اَوْ تَزِیْدُ عَلَیْہِ سِنِیْنًا.وَ کَانَ وَعْدُ اللّٰہِ مَفْعُوْلًا.۷.ھٰذَا مِنْ رَّحْـمَۃِ رَبِّکَ.۸.یُـتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ لِیَکُوْنَ اٰیَۃً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ.۹.یَنْصُرُکَ اللّٰہُ فِیْ مَوَاطِنَ.۱۰.وَ اللّٰہُ مُتِمُّ نُـوْرِہٖ وَ لَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ.۱۱.وَ یَـمْکُرُوْنَ وَ یَـمْکُرُاللّٰہُ وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ.۱ (ترجمہ از مرتّب) ۱.وہ خدا بہت پاک اور بہت مبارک اور بہت اُونچا ہے جس نے تیری بزرگی کو زیادہ کیا.وہ وقت آتا ہے کہ تیرے باپ دادے کا ذکر کوئی بھی نہیں کرے گا اور سلسلہ خاندان تجھ سے شروع ہوگا.۲.یہ وہ عطا ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوگی.۳.تجھ پر خدا کا سلام جو رحیم ہے ۴.اور کہا جائے گا کہ ظالموں کے لئے ہلاکت ہے.۵.تُو دُور کی نسل بھی دیکھے گا اور ہم تجھے خوش زندگی عطا کریں گے.۶.اسی۸۰ سال یا اس کے قریب یا اس سے چند سال زیادہ.اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوکر رہے گا.۷.یہ تیرے ربّ کی رحمت سے ہے.۸.وہ اپنی نعمت کو تجھ پر پُورا کرے گا تاکہ مومنوں کے لئے نشان ہو.۹.اللہ تعالیٰ کئی معرکوں میں تیری نصرت کرے گا.۱۰.او ر اللہ اپنا نور پورا کرے گا اگرچہ کافر ناپسند کریں.۱۱.اور وہ مکر کرتے ہیں اللہ انہیں ان کے مکر کی سزا دے گا اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے.
۱۲.اَلَآ اِنَّ رَوْحَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ.۱۳.اَلَآ اِنَّ نَصْـرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ.۱۴.یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ.۱۵.یَـاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ.۱۶.یَنْصُـرُکَ رِجَالٌ نُّوْحِیْ اِلَیْـھِمْ مِّنَ السَّمَآءِ.۱۷.لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ.۱۸.اِنَّہٗ ھُوَالْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ.۱۹.ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْـحَقِّ وَ تَـھْذِیْبِ الْاَخْلَاقِ.۲۰.وَ قَالُوْا سَیُقْلَبُ الْاَمْرُ.وَمَا کَانُوْا عَلَی الْغَیْبِ مُطَّلِعِیْنَ.۲۱.اِنَّـآ اٰتَیْنَاکَ الدُّنْیَا وَ خَزَآئِنَ رَحْـمَۃِ رَبِّکَ وَاِنَّکَ مِنَ الْمَنْصُوْرِیْنَ.۲۲.وَ اِنِّیْ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّـبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَـوْمِ الْقِیَامَۃِ.۲۳.وَاِنَّکَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ.۲۴.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃٍ لَّا یَعْلَمُھَا الْـخَلْقُ.۲۵.وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیَتْرُکَکَ حَتّٰی یَـمِیْزَ الْـخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ.۲۶.فَذَ رْنِیْ وَ الْمُکَذِّ بِیْنَ.۲۷.وَ اللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰی اَمْرِہٖ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ.۲۸.اِذَا جَآءَ نَصْـرُ اللّٰہِ وَ الْفَتْحُ.وَ تَـمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ ھٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْــجِلُوْنَ.۲۹.اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَـخَلَقْتُ اٰدَمَ.۳۰.یُقِیْمُ الشَّـرِیْعَۃَ وَ یُـحْیِ الدِّیْنَ.۳۱.وَ لَوْ کَانَ الْاِیْـمَانُ مُعَلَّـقًا بِالثُّـرَیَّـا لَنَا لَہٗ.۳۲.اِنَّـا اَنْــزَلَنَاہُ قَرِیْبًا مِّنَ الْقَادِیَانِ وَ بِـالْـحَقِّ اَنْـزَلْنَاہُ وَ بِالْـحَقِّ نَـزَلَ.بقیہ ترجمہ.۱۲.دیکھ اللہ تعالیٰ کی رحمت تجھ سے قریب ہے.۱۳.اس کی مدد تجھ سے قریب ہے.۱۴.اس کی مدد ہر ایک دُور کی راہ سے تجھے پہنچے گی.۱۵.دُور کی راہ سے مدد کرنے والے آئیں گے.۱۶.ایسے لوگ تیری مدد کریں گے جن پر ہم آسمان سے وحی نازل کریں گے.۱۷.اللہ تعالیٰ کی باتوں کو کوئی ٹلا نہیں سکتا.۱۸.وہ غالب اور عظمت والا ہے.۱۹.خدا وہ خدا ہے جس نے اپنا رسول اپنی ہدایت، اپنے سچّے دین اور اخلاق کی درستی کے لئے بھیجا.۲۰.اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ عنقریب یہ معاملہ درہم برہم کردیا جائے گا حالانکہ انہیں غیب پر کوئی اطلاع نہیں.۲۱.ہم نے تجھے دنیا اور تیرے ربّ کی رحمت کے خزانے دیئے اور تو ان لوگوں میں سے ہے جو نصرت یافتہ ہیں.۲۲.اور مَیں تیرے تابعین کو تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رکھوں گا.۲۳.اور یقیناً تو ہمارے حضور صاحبِ مرتبت اور امین ہے.۲۴.تُو میرے حضور وہ مرتبہ رکھتا ہے جسے مخلوق نہیں جانتی.۲۵.اور خدا ایسا نہیں ہے جو تجھے چھوڑ دے یہاں تک کہ پاک اور پلید میں فرق کرکے دکھلا دے.۲۶.پس مکذّبوں کی سزا مجھ پر چھوڑ دے.۲۷.اللہ تعالیٰ اپنے امر پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے.۲۸.جب اللہ کی نصرت اور فتح آئے گی اور تیرے ربّ کی بات پوری ہوجائے گی (تو کہا جائے گا) یہ وہی چیز ہے جس کے متعلق تم جلدی کا مطالبہ کرتے تھے.۲۹.مَیں نے ارادہ کیا کہ اپنا خلیفہ بناؤں تو مَیں نے آدم کو پیدا کیا.۳۰.وہ شریعت کو قائم کرے گا اور دین کو زندہ کرے گا.۳۱.اور اگر ایمان ثریّا سے معلق ہوتا تب بھی وہ اُسے پالیتا.۳۲.ہم نے اس کو قادیان کے قریب اُتارا ہے اوراس کو ضرورتِ حقّہ کے مطابق ہم نے اُتارا ہے اور وہ ضرورتِ حقّہ کے ساتھ اُترا ہے.اور جو خدا نے ٹھہرا رکھا تھا وہ ہونا ہی تھا.
صَدَقَ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ کَانَ اَمْرُ اللّٰہِ مَفْعُوْلًا.۳۳.اِنَّ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ کَانَــتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاھُمَا.۳۴.ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْـحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ.۳۵.وَ قَالُــوْا اِنْ ھٰذَا اِلَّا اخْتِلَاقٌ.۳۶.قُلْ اِنِ افْتَـرَیْتُہٗ فَعَلَـیَّ اِجْرَامِیْ.۳۷.وَ لَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُـمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ.۳۸.وَقَالُوْا مَا سَـمِعْنَا بِـھٰذَا فِیْ اٰبَـآءِنَا الْاَوَّلِیْنَ.۳۹.قُلْ اِنَّ ھُدَی اللّٰہِ ھُوَ الْھُدٰی.۴۰.وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْـرَہٗ لَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَ ھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْـخَاسِرِیْنَ.۴۱.اِنَّکَ عَلٰی صِـرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ.۴۲.وَجِیْـھًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ.۴۳.وَ یَقُوْلُوْنَ اَنّٰی لَکَ ھٰذَا.۴۴.اِنْ ھٰذَا اِلَّا قَوْلُ الْبَشَـرِ وَ اَعَانَہٗ عَلَیْہِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ.۴۵.اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِـرُوْنَ.۴۶.ھَیْـھَاتَ ھَیْـھَاتَ لِمَا تُوْعَدُوْنَ.۴۷.مِنْ ھٰذَا الَّذِیْ ھُوَ مَھِیْنٌ.۴۸.وَ لَا یَکَادُ یُبِیْـنُ.۴۹.جَاھِلٌ اَوْ مَـجْنُوْنٌ.۵۰.قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُـحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُـحْبِبْکُمُ اللّٰہُ.۵۱.وَ اِنَّـا کَـفَیْنَاکَ الْمُسْتَـھْزِئِیْنَ.۵۲.ذَرْنِیْ وَ الْمُکَذِّ.بِیْنَ.۵۳.اَلْـحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ.۵۴.یَـجْتَبِیْ اِلَیْہِ مَنْ یَّشَآءُ.۵۵.لَا یُسْئَلُ عَـمَّا یَفْعَلُ وَ ھُمْ یُسْئَلُوْنَ.بقیہ ترجمہ.اللہ اور اس کے رسول کی بات سچی نکلی اور خدا کا حکم پورا ہوتا ہے.۳۳.زمین اور آسمان بندھے ہوئے تھےسو ہم نے دونوں کو کھول دیا.۳۴.خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا اس دین کوسب دینوں پر غالب کرے.۳۵.اور کہتے ہیں کہ یہ تمام افترا ہے.۳۶.کہہ اگر مَیں نے افترا کیا ہے تو یہ سخت گناہ میری گردن پر ہے.۳۷.اور مَیں اس سے پہلے ایک مدّت تک تم میں ہی رہتا تھا.کیا تم غور نہیں کرتے؟ ۳۸.اور وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس بات کا ذکر اپنے بزرگوں سے نہیں سنا.۳۹.کہہ ہدایت دراصل خدا کی ہدایت ہے ۴۰.اور جو شخص اس کے سوا اَور دین کو پسند کرے گا اُسے قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان رسیدہ ہوگا.۴۱.اور یقیناً تو صراطِ مستقیم پر ہے.۴۲.دنیا اور آخرت میں وجیہہ اور مقرّبین میں سے ہے.۴۳.اور کہتے ہیں کہ یہ بات تجھے کہاں سے حاصل ہوئی.۴۴.یہ تو بشر کا کلام ہے اور بعض اَور لوگوں نے اس کام میں اسے مدد دی ہے.۴۵.کیا تم فریب کو ماننے لگے حالانکہ تم دیکھ رہے ہو.۴۶.جو وعدہ تمہیں دیا گیا ہے اس کا پورا ہونا ناممکن ہے.۴۷.اس شخص کا وعدہ جو ذلیل آدمی ہے.۴۸.اور اپنی بات کو کھول کر بیان بھی نہیں کرسکتا.۴۹.جاہل ہے یا مجنون.۵۰.کہہ اگر تم خدا سے محبّت رکھتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبّت رکھے.۵۱.اور ہم تجھ سے ٹھٹھا کرنے والوں کے مقابل پر تیرے لئے کافی ہوں گے.۵۲.اور مکذّبوں کی سزا مجھ پر چھوڑ دے.۵۳.سب تعریف اُس خدا کو ہے جس نے تجھے مسیح ابن مریم بنایا.۵۴.جس کو چاہتا ہے اپنے لئے چُن لیتا ہے.۵۵.وہ اپنے کام سے پوچھا نہیں جاتا اور لوگ پوچھے جاتے ہیں.
۵۶.اُمَمٌ یَـسَّـرْنَا لَھُمُ الْھُدٰی.وَ اُمَمٌ حَقَّ عَلَیْـھِمُ الْعَذَابُ.۵۷.وَ یَـمْکُرُوْنَ وَ یَـمْکُرُاللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ.وَلَکَیْدُ اللّٰہِ اَکْبَرُ.۵۸.وَ اِنْ یَّتَّخِذُوْنَکَ اِلَّا ھُزُوًا.اَھٰذَا الَّذِیْ بَعَثَ اللّٰہُ.۵۹.اِنَّ ھٰذَا الرَّجُلَ یَـجُوْحُ الدِّیْنَ وَقَد بَلَجَتْ اٰیَاتِیْ وَ جَـحَدُوْا بِـھَا وَ اسْتَیْقَنَتْـھُمْ۱؎ اَنْفُسُھُمْ ظُلْمًا وَّ عُلُوًّا.۶۰.قَاتَلَھُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُـؤْفَکُوْنَ.۶۱.قُلْ اَیُّـھَا الْکُفَّارُ اِنِّیْ مِنَ الصَّادِقِیْنَ.۶۲.وَ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ.۶۳.وَ اِنِّیْ اُمِرْتُ وَ اَنَـا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ.۶۴.وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا.۶۵.اَلَّذِ.یْنَ یُبَایِعُوْنُکَ اِنَّـمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْـھِمْ.۶۶.وَ الَّذِیْنَ تَـابُوْا وَ اَصْلَحُوْا اُولٰٓئِکَ اَتُـوْبُ عَلَیْـھِمْ وَ اَنَـا التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ.۶۷.اَلْاِمَامُ خَیْرُ الْاَنَـامِ.۶۸.وَ یَقُوْلُ الْعَدُوُّ لَسْتَ مُرْسَلًا.۶۹.سَنَاْخُذُہٗ مِنْ مَّارِنٍ اَوْ خُرْطُوْمٍ.۷۰.وَ اِذْ قَالَ رَبُّکَ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً.۷۱.قَالُـوْا اَتَـجْعَلُ فِیْـھَا مَنْ یُّـفْسِدُ فِیْـھَا.۷۲.قَالَ اِنِّیْ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ.۷۳.وَ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ وَ ھُمْ لَا بقیہ ترجمہ.۵۶.کئی لوگوں کے لئے ہم نے ہدایت کا قبول کرنا سہل کر دیا اور کئی لوگ عذاب کے مستوجب ہوگئے.۵۷.اور وہ منصوبہ کریں گے اور اللہ تعالیٰ بھی تدبیر کرے گا اوراللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے اور اللہ کی جنگ بہت سخت ہوتی ہے.۵۸.اور تجھے انہوں نے ٹھٹھے کی جگہ بنا رکھا ہے.وہ ہنسی کی راہ سے کہتے ہیں کیا یہی ہے جس کو خدا نے مبعوث کیا.۵۹.یہ شخص تو دین کی بیخ کنی کرنے والا ہے اور میری آیات روشن ہوگئیں اور انہوں نے ظلم اور تعدّی کی راہ سے انکار کیا حالانکہ اُن کے نفس اُسے سچا جانتے تھے.۶۰.اللہ انہیں ہلاک کرے.کدھر پھرے جاتے ہیں.۶۱.کہہ اے منکرو! مَیں صادقوں میں سے ہوں.۶۲.میرے پاس خدا کی گواہی ہے.۶۳.کہہ میں خدا کی طرف سے مامور ہوں اور مَیں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں.۶۴.اور ہماری آنکھوں کے روبرو کشتی تیار کر اور ہمارے اشارے سے.۶۵.وہ لوگ جو تیرے ہاتھ میں ہاتھ دیتے ہیں وہ خدا کے ہاتھ میں ہاتھ دیتے ہیں.یہ خدا کا ہاتھ ہے جو اُن کے ہاتھوں پر ہے.۶۶.وہ لوگ جنہوں نے توبہ کی اور اپنی اصلاح کرلی وہی ہیں جن پر مَیں رجوع برحمت کروں گا اور مَیں رجوع برحمت کرنے والا اور رحیم ہوں.۶۷.امام تمام جہان سے بہتر ہوتا ہے.۶۸.اور دشمن کہتا ہے کہ تو مرسل نہیں.۶۹.ہم اُس کو ناک سے پکڑیں گے یعنی دلائلِ قاطعہ سے اس کا منہ بند کردیں گے.۷۰.اورجب تیرے ربّ نے کہا مَیں زمین پر خلیفہ بنانے والا ہوں.۷۱.وہ بولے کیا تُو ایسے شخص کو خلیفہ بناتا ہے جو زمین پر فساد کرتا ہے.۷۲.فرمایا اس کی نسبت جو کچھ مَیں جانتا ہوں تم نہیں جانتے.۷۳.اور وہ تیری طرف نگاہ کرتے ہیں حالانکہ ۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) نقل مطابق اصل.الہامات مندرجہ براہین احمدیہ حصّہ چہارم روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۹۲ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳ میں ’’وَاسْتَیْقَنَتْـھَا‘‘ ہے.
یُبْصِـرُوْنَ.۷۴.یَتَـرَبَّصُوْنَ عَلَیْکَ الدَّوَآئِرَ ۷۵.عَلَیْـھِمْ دَآئِرَۃُ السَّوْٓءِ.۷۶.قُلِ اعْـمَلُوْا عَلٰی مَکَانَتِکُمْ اِنِّیْ عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ.۷۷.وَ یَعْصِمُکَ اللّٰہُ وَ لَوْ لَمْ یَعْصِمْکَ النَّاسُ.۷۸.وَ لَوْ لَمْ یَعْصِمْکَ النَّاسُ یَعْصِمُکَ اللّٰہُ.۷۹.سُـبْحَانَ اللّٰہِ.۸۰.اَنْتَ وَقَارُہٗ فَکَیْفَ یَتْرُکُکَ.۸۱.اَنْتَ الْمَسِیْحُ الَّذِیْ لَایُضَاعُ وَقْتُہٗ.۸۲.کَمِثْلِکَ دُرٌّ لَّا یُضَاعُ.۸۳.لَنْ یَّـجْعَلَ اللّٰہُ لِلْکَافِــرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلًا.۸۴.اَ.لَمْ تَـرَ اَنَّـا نَـاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُھَا مِنْ اَطْرَافِھَا.۸۵.اَلَمْ تَـرَ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَـیْءٍ قَدِیْرٌ.۸۶.فَانْتَظِرُوا الْاٰیَـاتِ حتّٰی حِیْنٍ.۸۷.اَنْتَ الشَّیْخُ الْمَسِیْحُ وَ اِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَنْصَارِکَ وَاَنْتَ اِسْـمِیَ الْاَعْلٰی.۸۸.وَ اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَ تَفْرِیْدِیْ.۸۹.وَ اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ الْمَحْبُوْبِیْنَ.۹۰.فَاصْبِرْ حَتّٰی یَـاْتِیَکَ اَمْرُنَـا وَ اَنْذِ.رْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ.وَ اَنْذِ.رْ قَوْمَکَ وَ قُلْ اِنِّیْ نَذِیْـرٌ مُّبِیْنٌ.۹۱.قَـوْمٌ مُّتَشَاکِسُوْنَ.۹۲.کَذَّ بُـوْا بِـاٰیَـاتِنَا وَ کَانُوْا بِـھَا یَسْتَـھْزِءُوْنَ فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ وَ یَرُدُّھَا اِلَیْکَ.۹۳.لَا مُبَدِّ.لَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ.۹۴.وَ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّ اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ.۹۵.قُلْ بقیہ ترجمہ.نہیں دیکھتے.۷۴.وہ تیرے متعلق حوادث کی انتظار میں رہتے ہیں.۷۵.مصائب انہی کو گھیریں گے.۷۶.کہہ تم اپنے طور پر اپنی کامیابی کے لئے مشغول رہو اور مَیں بھی عمل میں مشغول ہوں پھر دیکھو گے کہ کس کے عمل میں قبولیت پیدا ہوتی ہے.۷۷.اور اللہ تعالیٰ تیری حفاظت کرے گا اگرچہ لوگ تیری حفاظت نہ کریں.۷۸.اور اگر لوگ تیری حفاظت نہ کریں تو اللہ تیری حفاظت کرے گا.۷۹.پاک ہے اللہ.۸۰.تو خدا کا وقار ہے.پس وہ تجھے ترک نہیں کرے گا.۸۱.تُو وہ مسیح ہے جس کا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا.۸۲.تیرے جیسا موتی ضائع نہیں کیا جاسکتا.۸۳.اللہ تعالیٰ کافروں کے لئے مومنوں پر الزام لگانے کا کوئی ذریعہ نہیں رکھے گا.۸۴.کیا تُو نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کو کم کرتے چلے آتے ہیں اس کی تمام طرفوں سے.۸۵.کیا تُو نے نہیں دیکھا کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے.۸۶.پس تم ایک وقت تک نشانات کی انتظار کرو.۸۷.تُو برگزیدہ مسیح ہے اور مَیں تیرے ساتھ اور تیرے انصار کے ساتھ ہوں ا ورتُو میرا اسمِ اعلیٰ ہے.۸۸.تُو مجھے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید اور تفرید.۸۹.تو میرے تمام محبوبوں کا قائم مقام ہے.۹۰.پس صبر کر یہاں تک کہ ہمارا حکم آوے اور اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو ڈرا اور اپنی قوم کو ڈرا اور کہہ مَیں کُھلا کُھلا نذیر ہوں.۹۱.یہ ایک بدخُلق قوم ہے.۹۲.انہوں نے میرے نشانوں کی تکذیب کی اور ٹھٹھا کیا.سو خدا اُن کے لئے تجھے کفایت کرے گا اور اس کو تیری طرف واپس لائے گا.۹۳.اللہ تعالیٰ کے کلمات کو کوئی تبدیل کرنے والا نہیں.۹۴.اور اللہ کا وعدہ حق ہے اور تیرا ربّ جو چاہتا ہے کرتا ہے.۹۵.کہہ
ِیْ وَ رَبِّیْ اِنَّہٗ لَـحَقٌّ وَّلَا تَکُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِیْنَ.۹۶.اِنَّـا زَوَّجْنَاکَھَا.۹۷.اِنَّـمَا اَمْرُنَا اِذَا اَرَدْنَـا شَیْئًا اَنْ نَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ.۹۸.اِنَّـمَا نُؤَخِّرُھُمْ اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی اَجَلٍ قَرِیْبٍ.۹۹.وَ کَانَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ عَـظِیْـمًا.۱۰۰.یَـاْتِیْکَ نُصْـرَتِیْ.۱۰۱.اِنِّیْ اَنَـا الرَّحْـمٰنُ.۱۰۲.وَ اِذَا جَآءَ نَصْـرُ اللّٰہِ وَ تَوَجَّھْتُ لِفَصْلِ الْـخِطَابِ.۱۰۳.قَالُوْا رَبَّنَا اغْفِرْلَنَآ اِنَّـا کُنَّا خَاطِئِیْنَ.۱۰۴.وَ یَـخِرُّوْنَ عَلَی الْاَذْقَانِ.۱۰۵.لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ.۱۰۶.یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَ ھُوَ اَرْحَـمُ الرَّاحِـمِیْنَ.۱۰۷.بُشْـرٰی لَکُمْ فِیْ ھٰذِہِ الْاَیَّـامِ.۱۰۸.شَاھَتِ الْوُجُوْہُ.۱۰۹.یَـوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ یَـا لَیْتَنِی اتَّـخَذْ تُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا.۱۱۰.وَقَالُوْا اِنْ ھٰذَا اِلَّا قَـوْلُ الْبَشَـرِ.۱۱۱.قُلْ لَّوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْـرًا.۱۱۲.وَ بَشِّـرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَ.مَ صِدْ.قٍ عِنْدَ رَبِّـھِمْ.۱۱۳.لَنْ یُّـخْزِیَـھُمُ اللّٰہُ.۱۱۴.مَا اَھْلَکَ اللّٰہُ اَھْلَکَ.؎۱ ۱۱۵.اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْا اِیْـمَانَـھُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَھُمُ الْاَمْنُ وَ ھُمْ مُّھْتَدُ.وْنَ.۱۱۶.تُفَتَّحُ لَھُمْ اَبْوَابُ السَّمَآءِ.۱۱۷.نُرِیْدُ اَنْ نُّنَـزِّلَ عَلَیکَ اَسْـرَارًا مِّنَ السَّمَآءِ ۱۱۸.وَ نُـمَزِّقَ الْاَعْدَآءَ بقیہ ترجمہ.مجھے اپنے ربّ کی قسم ہے کہ یہ سچ ہے اور تو شک کرنے والوں سے مت ہو.۹۶.ہم نے اس سے تیرا عقد نکاح باندھ دیا.۹۷.ہم جب کسی چیز کو چاہیں تو ہمارا حکم اس کے متعلق صرف یہ ہوتا ہے کہ ہم کہتے ہیں.ہوجا.پس وہ ہوجاتی ہے.۹۸.ہم انہیں ایک مقررہ وقت تک مہلت دے رہے ہیں جو نزدیک وقت ہے.۹۹.اور اللہ تعالیٰ کا تجھ پر بے شمارفضل ہے.۱۰۰.تیرے پاس میری نصرت آئے گی.۱۰۱.مَیں ہی رحمان ہوں.۱۰۲.اور جب اللہ کی نصرت آئی اور مَیں فیصلہ کے لئے متوجہ ہوا ۱۰۳.تو کہیں گے اے ہمارے ربّ ہمیں بخش دے ہم خطاکار ہیں.۱۰۴.اور ٹھوڑیوں کے بَل گریں گے (تب انہیں کہا جائے گاکہ) ۱۰۵.آج تم پر کوئی گرفت نہیں.۱۰۶.اللہ تمہیں معاف کرے اور وہ سب سے زیادہ معاف کرنے والا ہے.۱۰۷.ان دنوں میں تمہیں بشارت ہو.دشمنوں کے چہرے متغیر ہوجائیں گے.۱۰۹.اس دن ظالم کف ِ دَست ملے گا اور کہے گا کاش مَیں اس رسول کا راستہ اختیار کرلیتا.۱۱۰.اور کہتے ہیں یہ تو انسان کا اپنا بنایا ہوا کلام ہے.۱۱۱.کہہ اگر یہ غیر اللہ کا کلام ہوتا تو تم اس میں بہت اختلاف پاتے.۱۱۲.اور مومنوں کو بشارت دو کہ اُن کے لئے اُن کے ربّ کے حضور میں ایک ظاہر و باطن طور پر کامل درجہ ہے.۱۱۳.اللہ انہیں ہرگز رسوا نہیں کرے گا.۱۱۴.اللہ تعالیٰ تیرے اہل کو ہلاک نہیں کرے گا.۱۱۵.وہ لوگ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم کی ملونی سے محفوظ رکھا وہی لوگ ہیں جن کے لئے امن ہے اور وہ ہدایت یافتہ ہیں.۱۱۶.ان کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے.۱۱۷.ہم تجھ پر بعض اَور آسمانی اسرار اُتارنا چاہتے ہیں.۱۱۸.اور دشمنوں کو پارہ پارہ کردیں گے.۱ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) اِس الہام کی تاریخ مرزا خدابخش صاحبؓ نے اپنے مکتوب میں ۱۸۹۷ء لکھی ہے.(دیکھیے اصحابِ احمد جلد دوم صفحہ ۱۱۶ حاشیہ.مطبوعہ اگست ۱۹۵۲ء)
کُلَّ مُـمَزِّقٍ.۱۱۹.وَّ نُرِیَ فِرْعَوْنَ وَھَامَانَ وَ جُنُوْدَھُمَا مَا کَانُوْا یَـحْذَرُوْنَ.۱۲۰.قُلْ یٰٓـاَیُّـھَا الْکُفَّارُ اِنِّیْ مِنَ الصَّادِقِیْنَ.۱۲۱.فَانْظُرُوْا اٰیَـاتِیْ حَتّٰی حِیْنٍ.سَنُرِیْـھِمْ اٰیَاتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْ اَنْفُسِھِمْ.۱۲۳.حُـجَّۃٌ قَآئِـمَۃٌ وَّفَتْحٌ مُّبِیْنٌ.۱۲۴.حُکْمُ اللّٰہِ الرَّحْـمٰنِ لِـخَلِیْفَۃِ اللّٰہِ السُّلْطَانِ.۱۲۵.یُـؤْتٰی لَہُ الْمُلْکُ الْعَظِیْمُ.۱۲۶.وَ تُفْتَحُ عَلٰی یَدِہِ الْـخَزَائِنُ وَ تُشْـرِقُ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّـھَا.۱۲۷.ذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ وَ فِیْٓ اَعْیُنِکُمْ عَـجِیْبٌ.۱۲۸.اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ.۱۲۹.اِنَّـآ اَنْـزَلْنَاکَ بُـرْھَانًـا وَّ کَانَ اللّٰہُ قَدِیْـرًا.۱۳۰.عَلَیْکَ بَـرَکَاتٌ وَّسَلَامٌ.۱۳۱.سَلَامٌ قَـوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ.اَنْتَ قَابِلٌ یَـاْتِیْکَ وَابِلٌ.۱۳۳.تَنْزِلُ الرَّحْـمَۃُ عَلٰی ثَلَاثٍ اَلْعَیْنِ وَ عَلَی الْاُخْرَیَیْنِ.وَلَنُحْیِیَنَّکَ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً.۱۳۴.اِنَّـآ اٰتَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ.۱۳۵.فَصَلِّ لِرَّبِکَ وَانْـحَرْ.۱۳۶.اِنِّیْ اَنَـا اللّٰہُ فَاعْبُدْ.نِیْ وَ لَا تَسْتَعِنْ مِّنْ غَیْرِیْ.۱۳۷.اِنِّیْ اَنَـا اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَـا.۱۳۸.لَا یَدَ اِلَّا یَدِیْ.۱۳۹.اِنَّـآ اِذَا نَـزَلْنَا بِسَاحَۃِ قَوْمٍ فَسَآءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِیْنَ.۱۴۰.اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً.۱۴۱.فَتْحٌ وَّ ظَفَرٌ.۱۴۲.اِنِّیْٓ اَمُوْجُ مَوْجَ الْبَحْرِ.۱۴۳.اَلْفِتْنَۃُ ھٰھُنَا فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ.بقیہ ترجمہ.۱۱۹.اور ہم فرعون اور ہامان اور اُس کے لشکر کو وہ کچھ دکھائیں گے جس سے وہ ڈرتے ہیں.۱۲۰.کہہ اے کافرو! مَیں سچا ہوں.۱۲۱.پس تم ایک وقت تک میرے نشانات کا انتظار کرو.۱۲۲.ہم عنقریب انہیں اپنے نشان اُن کے اردگرد اور ان کی ذاتوں میں دکھائیں گے.۱۲۳.اس دن حجّت قائم ہوگی اور کھلی کھلی فتح ہوجائے گی.۱۲۴.خدائے رحمان کا حکم ہے اس کے خلیفہ کے لئے جس کی آسمانی بادشاہت ہے.۱۲۵.اس کو ملک عظیم دیا جائے گا.۱۲۶.اور خزانے اس کے لئے کھولے جائیں گے اور تمام زمین اپنے ربّ کے نور سے جگمگا اُٹھے گی.۱۲۷.یہ اللہ کا فضل ہے اور تمہاری نگاہ میں عجیب.۱۲۸.تجھ پر سلامتی ہو.۱۲۹.ہم نے تجھے ایک عظیم الشان حجّت کے طور پر اُتارا ہے اور تیرا ربّ قادر ہے.۱۳۰.تجھ پر برکات اور سلامتی ہو.۱۳۱.تم پر اسی خدا کا سلام جو رحیم ہے.۱۳۲.تو قابلیت رکھتا ہے اِس لئے کہ تُو ایک بزرگ بارش کو پائے گا.۱۳۳.تیرے تین عضووں پر خاص طور پر خدا کی رحمت نازل ہوگی.ایک تو آنکھ اور باقی ۲دو اَور.اور ہم تجھے پاکیزہ زندگی دیں گے.۱۳۴.ہم نے تجھے خیر کثیر دی ہے.۱۳۵.پس تُو اپنے ربّ کی عبادت کر اور قربانیاں کر.۱۳۶.اللہ مَیں ہی ہوں پس میری ہی عبادت کر اور میرے غیر سے مدد مت طلب کر.۱۳۷.مَیں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں.۱۳۸.میری طاقت کے سوا کوئی طاقت نہیں.۱۳۹.ہم جب کسی قوم کی حدود میں اُترتے ہیں تو ان لوگوں کی صبح خراب ہوتی ہے جنہیں ڈرایا گیا ہو.۱۴۰.مَیں اپنی فوجوں کے ساتھ یکدم آؤں گا.۱۴۱.(اس دن) کھلی کھلی فتح ہوگی اور کامیابی ہوگی.۱۴۲.مَیں سمندر کی طرح موجزن ہوں گا.۱۴۳.اس جگہ ایک فتنہ برپا ہوگا.پس صبر کر جیسا کہ اولوالعزم نبیوں نے صبر کیا.
۱۴۴.اِنَّـا اَرْسَلْنَا اِلَیْکَ شُوَاظًا مِّنْ نَّـارٍ.۱۴۵.قَدِ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ.ثُمَّ یُـرَدُّ اِلَیْکَ السَّلَامُ.۱۴۶.وَعَسٰٓی اَنْ تَکْـرَھُوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ.۱۴۷.وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ.۱۴۸.اَلرَّحٰی تَدُوْرُ وَ یَنْزِلُ الْقَضَآءُ.۱۴۹.اِنَّ فَضْلَ اللّٰہِ لَاٰتٍ.۱۵۰.وَ لَیْسَ لِاَحَدٍ اَنْ یَّـرُدَّ مَآ اَتٰی.۱۵۱.قُلْ اِیْ وَ رَبِّیْ اِنَّہٗ لَـحَقٌّ لَا یَتَـبَدَّ.لُ وَ لَا یَـخْفٰی.۱۵۲.وَ یَنْزِلُ مَا تَعْـجَبُ مِنْہُ.۱۵۳.وَحْیٌ مِّن رَّبِّ السَّمٰوٰتِ الْعُلٰی.۱۵۴.اِنَّ رَبِّیْ لَا یَضِلُّ وَ لَا یَنْسٰی.۱۵۵.ظَفَرٌ مُّبِیْنٌ.۱۵۶.وَ اِنَّـمَا نُـؤَخِّرُھُمْ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی.۱۵۷.اَنْتَ مَعِیْ وَ اَنَـا مَعَکَ.۱۵۸.قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْہُ فِیْ غَیِّہٖ یَتَمَطّٰی.۱۵۹.اِنَّہٗ مَعَکَ وَ اِنَّہٗ یَعْلَمُ السِّـرَّ وَمَآ اَخْفٰی.۱۶۰.لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ھُوَ.۱۶۱.یَعْلَمُ کُلَّ شَیْءٍ وَّ یَـرٰی.۱۶۲.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ ھُمْ یُـحْسِنُوْنَ الْـحُسنٰی.۱۶۳.اِنَّـآ اَرْسَلْنَا اَحْـمَدَ اِلٰی قَوْمِہٖ فَاَعْرَضُوْا وَ قَالُوْا کَذَّابٌ اَشِـرٌ.وَ جَعَلُوْا یَشْھَدُوْنَ عَلَیْہِ وَ یَسِیْلُوْنَ کَمَآءِ بقیہ ترجمہ.۱۴۴.ہم تیری طرف (آزمائش کی) آگ کے شعلے بھیجیں گے.۱۴۵.مومن ضرور ابتلا میں ڈالے جائیں گے.پھر تیری طرف سلامتی لوٹائی جائے گی.۱۴۶.اور عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور وہ تمہارے لئے بہتر ہو.۱۴۷.اور اللہ جانتا ہے مگر تم نہیں جانتے.۱۴۸.چکّی پھرے گی اور قضا قدر نازل ہوگی.۱۴۹.یہ خدا کا فضل ہے جس کا وعدہ دیا گیا ہے یہ ضرور آئے گا.۱۵۰.اور کسی کی مجال نہیں جو اُس کو ردّ کرسکے.۱۵۱.کہہ مجھے میرے خدا کی قسم ہے کہ یہی بات سچ ہے اس امر میں نہ کچھ فرق آئے گا اور نہ یہ امر پوشیدہ رہے گا.۱۵۲.اور ایک بات پیدا ہوجائے گی جو تجھے تعجب میں ڈالے گی.۱۵۳.یہ اس خدا کی وحی ہے جو بلند آسمانوں کا خدا ہے.۱۵۴.میرا ربّ اس صراطِ مستقیم کو نہیں چھوڑتا جو اپنے برگزیدہ بندوں سے عادت رکھتا ہے اور وہ اپنے ان بندوں کو بھولتا نہیں جو مدد کرنے کے لائق ہیں.۱۵۵.سو تمہیں اس مقدمہ میں کھلی کھلی فتح ہوگی.۱۵۶.مگر اس فیصلہ میں اس وقت تک تاخیر ہے جو ہم نے مقرر کر رکھی ہے.۱۵۷.تو میرے ساتھ ہے اور مَیں تیرے ساتھ ہوں.۱۵۸.تُو کہہ ہر ایک امر میرے خدا کے اختیار میں ہے پھر اس مخالف کو اس کی گمراہی اور ناز و تکبر میں چھوڑ دے.۱۵۹.وہ قادر تیرے ساتھ ہے اس کو پوشیدہ باتوں کا علم ہے بلکہ جو نہایت پوشیدہ باتیں ہیں جو انسان کے فہم سے بھی برتر ہیں وہ بھی اس کو معلوم ہیں.۱۶۰.وہ خدا حقیقی معبود ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں.۱۶۱.وہی ہے جس کو ہر ایک چیز کا علم ہے اور جو ہر ایک چیز کو دیکھ رہا ہے.۱۶۲.اور وہ خدا ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور جب کوئی نیکی کرتے ہیں تو نیکی کے تمام باریک لوازم کو ادا کرتے ہیں.۱۶۳.ہم نے احمد کو اس کی قوم کی طرف بھیجا پس قوم اس سے روگردان ہوگئی اور انہوں نے کہا کہ یہ تو کذّاب ہے، دنیا کے لالچ میں پڑا ہوا ہے اور انہوں نے عدالتوں میں اس کے خلاف گواہیاں دیں تا اس کو گرفتار کرا دیں اور وہ ایک تُند سیلاب کی طرح جو اُوپر سے نیچے کی طرف آتا ہے اس پر اپنے حملوں
مُّنْـھَمِرٍ.۱۶۴.اِنَّ حِــبِّیْ قَرِیْبٌ.اِنَّہٗ قَرِیْبٌ مُّسْتَتِرٌ.۱۶۵.وَ یُرِیْدُ.وْنَ اَنْ یَّقْتُلُوْکَ ۱۶۶.یَعْصِمُکَ اللّٰہُ.یَکْلَأُ.کَ اللّٰہُ.۱۶۷.اِنِّیْ حَافِظُکَ.۱۶۸.عِنَایَۃُ اللّٰہِ حَافِظُکَ.۱۶۹.تَـرٰی نَسْلًا بَعِیْدًا اَبْنَآءَ الْقَمَرِ.۱۷۰.اِنَّـا کَفَیْنَاکَ الْمُسْتَـھْزِئِیْنَ.۱۷۱.اِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ.۱۷۲.اِنَّہٗ سَیَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبًا.۱۷۳.اَلْاَمْرَاضُ تُشَاعُ وَ النُّفُوْسُ تُضَاعُ.۱۷۴.وَ سَاَنْـزِلُ وَ اِنَّ یَـوْمِیْ لَفَصْلٌ عَظِیْمٌ.۱۷۵.لَا تَعْـجَبَنْ مِّنْ اَمْرِیْ.۱۷۶.اِنَّـا نُرِیْدُ اَنْ نُّعِزَّکَ وَ نَـحْفَظَکَ.۱۷۷.یَـاْتِیْ قَـمَرُ الْاَنْبِیَآءِ وَ اَمْرُکَ یَـتَاَتّٰی.۱۷۸.مَآ اَنْتَ اَنْ تَتْرُکَ الشَّیْطَانَ قَبْلَ اَنْ تَغْلِبَہٗ.۱۷۹.وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ.۱۸۰.وَ اللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ.۱۸۱.اَلْفَوْقُ مَعَکَ وَ التَّحْتُ مَعَ اَعْدَآءِکَ.۱۸۲.وَ اَیْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ.۱۸۳.قُلْ جَآءَ الْـحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ.۱۸۴.اَللّٰہُ الَّذِیْ جَعَلَکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ.۱۸۵.لِتُنْذِرَ قَـوْمًا مَّا اُنْذِرَ اٰبَآؤُھُمْ وَ لِتَدْعُوَ قَـوْمًا اٰخَرِیْنَ.۱۸۶.عَسَی اللہُ اَنْ یَّـجْعَلَ بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَ الَّذِیْنَ عَادَیْتُمْ مَّوَدَّۃً.۱۸۷.اِنَّـا نَعْلَمُ الْاَمْرَ وَ اِنَّـا لَعَالِمُوْنَ.۱۸۸.اَلْـحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ بقیہ ترجمہ.کے ساتھ گر رہے ہیں ۱۶۴.مگر وہ کہتا ہے کہ میرا پیارا مجھ سے بہت قریب ہے.وہ قریب تو ہے مگر مخالفوں کی آنکھوں سے پوشیدہ ہے.۱۶۵.وہ چاہتے ہیں کہ تجھے قتل کردیں.۱۶۶.اللہ تیری حفاظت کرے گا اور تیری نگہبانی کرے گا.۱۶۷.مَیں تیری حفاظت کرنے والا ہوں.۱۶۸.اللہ تعالیٰ کی عنایت تیری محافظ ہے.۱۶۹.تُو نسل بعید دیکھے گا قمر کے بیٹے.۱۷۰.ٹھٹھا کرنے والوں کو سزا دینے کے لئے ہم کافی ہیں.۱۷۱.تیرا ربّ موقع دیکھ رہا ہے.۱۷۲.وہ عنقریب بچوں کو (غم کی وجہ سے) بوڑھا کردے گا.۱۷۳.بیماریاں پھیلائی جائیں گی اور جانیں ضائع ہوں گی.۱۷۴.اور مَیں عنقریب اُتروں گا.اور میرا دن بڑے فیصلہ کا دن ہے.۱۷۵.میرے امر سے تعجب مت کر.۱۷۶.ہم تجھے عزت دینا چاہتے ہیں اور تیری حفاظت کرنا چاہتے ہیں.۱۷۷.نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا سارا کام تجھے حاصل ہوجائے گا.۱۷۸.تُو ایسا نہیں ہے کہ شیطان کو مغلوب کرنے سے قبل اسے چھوڑ دے.۱۷۹.اور دشمن چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نُور کو بجھادیں.۱۸۰.اور اللہ اپنے امر پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے.۱۸۱.بلندی تیرے لئے ہے اور پستی تیرے دشمنوں کے حصّہ میں.۱۸۲.اور جدھر تم منہ پھیرو گے اُدھرہی اللہ کی توجہ ہوگی.۱۸۳.کہہ حق آیا اور باطل بھاگ گیا.۱۸۴.خدا وہ خدا ہے جس نے تجھے مسیح بن مریم بنایا.۱۸۵.تاکہ تُو اس قوم کو ڈرائے جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے اور تاکہ تُو دوسری قوم کو دعوت دے.۱۸۶.بالکل ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اور تمہارے دشمنوں کے درمیان دوستی پیدا کردے.۱۸۷.ہم معاملہ کی حقیقت کو جانتے ہیں اور ہم ہی جاننے والے ہیں.۱۸۸.اس خدا کو تعریف ہے جس نے
الصِّھْرَ وَالنَّسَبَ.۱۸۹.اُذْکُرْ نِعْمَتِیْ رَئَیْتَ خَدِیْجَتِیْ.۱۹۰.ھٰذَا مِنْ رَّحْـمَۃِ رَبِّکَ یُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ لِیَکُوْنَ اٰیَۃً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ.۱۹۱.اَنْتَ مَعِیْ وَ اَنَـا مَعَکَ یَـا اِبْـرَاھِیْمُ.۱۹۲.اَنْتَ بُـرْھَانٌ وَّ اَنْتَ فُـرْقَانٌ.۱۹۳.یُـرِی اللّٰہُ بِکَ سَبِیْلَہٗ.۱۹۴.اَنْتَ الْقَآئِمُ عَلٰی نَفْسِہٖ.۱۹۵.مَظْھَرُ الْـحَیِّ.۱۹۶.وَ اَنْتَ مِنِّیْ مَبْدَءُ الْاَمْرِ.۱۹۷.وَ اَنْتَ مِنْ مَّآءِنَا وَ ھُمْ مِّنْ فَشَلٍ.۱۹۸.اِذَا الْتَقَی الْفِئَتَانِ.۱۹۹.فَاِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ.۲۰۰.وَیَنْصُـرُہُ الْمَلَآئِکَۃُ.۲۰۱.اِنِّـیْٓ اَنَـا الرَّحْـمٰنُ ذُوالْمَجْدِ وَ الْعُلٰی.۲۰۲.وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی.۲۰۳.اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّـوْحٰی.۲۰۴.اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَـخَلَقْتُ اٰدَمَ.۲۰۵.وَ لِلّٰہِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَ مِنْۢ بَعْدُ.۲۰۶.یَا عَبْدِیْ لَا تَـخَفْ.۲۰۷.اَلَمْ تَرَ اَنَّـا نَـاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُھَا مِنْ اَطْرَافِھَا.۲۰۸.اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْـرٌ.‘‘ (اربعین نمبر ۲.روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۳۷۹ تا ۳۸۵) ۱۹۰۰ء ’’ فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِـیْـمَا شَـجَرَ بَیْنَـہُمْ ثُمَّ لَا یَـجِدُ.وْا فِیْ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّـمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَـسْلِیْـمًا.‘‘۱؎ (الحکم جلد۴نمبر ۳۰مورخہ ۲۴؍اگست ۱۹۰۰ء صفحہ۱۰) بقیہ ترجمہ.دامادی اور نسب ہر ۲دو کی رُو سے تم پر احسان کیا.۱۸۹.میری نعمت کو یاد کر کہ تونے میری خدیجہ کو دیکھا.۱۹۰.یہ تیرے ربّ کی رحمت ہے.وہ اپنی نعمتیں تیرے پر پوری کرے گا تاکہ خدا کا یہ کام مومنوں کے لئے نشان ہو.۱۹۱.اے ابراہیم! تو میرے ساتھ ہے اورمَیں تیرے ساتھ ہوں.۱۹۲.تُو روشن نشان اور فیصلہ کن نشان ہے.۱۹۳.اللہ تعالیٰ تیرے ذریعہ سے لوگوں کو اپنی راہ دکھائے گا.۱۹۴.تو خدا کے نفس پر قائم۲؎ ہے.۱۹۵.زندہ خدا کا مظہر ۱۹۶.اور تو میری طرف سے امر مقصود کا مبدء ہے.۱۹۷.اور تو ہمارے پانی میں سے ہے اور وہ فشل سے ہیں.۱۹۸.جب دو گروہ آمنے سامنے ہوں گے.۱۹۹.تو مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا ۲۰۰.اور ملائکہ اس کی مدد کریں گے.۲۰۱.مَیں ہی رحمان ہوں بزرگی اور بلندی والا.۲۰۲.اور وہ اپنی خواہش کے ماتحت نہیں بولتا ۲۰۳.بلکہ وحی کا تابع ہے جو نازل کی جاتی ہے.۲۰۴.مَیں نے ارادہ کیا کہ مَیں خلیفہ بناؤ ں پس مَیں نے آدم کو پیدا کیا.۲۰۵.اور شروع میں بھی اور بعدمیں بھی اللہ ہی کی حکومت ہے.۲۰۶.اے میرے بندے مت ڈر.۲۰۷.کیا تو نہیں دیکھتا کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے کم کرتے چلے آتے ہیں.۲۰۸.کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ ہر شے پر قادر ہے.۱ (ترجمہ از مرتّب) تیرے ربّ کی قسم ہے وہ مومن نہیں ہوں گے جب تک تجھے اپنے تمام جھگڑوں میں حکم نہ بنائیں.پھر جو تُو فیصلہ کرے اس سے اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور اُسے بشاشت سے تسلیم کرلیں.۲ (نوٹ ازمولانا عبد اللطیف بہاولپوری) یہ ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے.(دیکھیے اربعین نمبر۳.روحانی خزائن جلد ۱۷صفحہ ۴۲۵)
۲۵،۲۶؍ اگست ۱۹۰۰ء ’’۲۵،۲۶؍ اگست ۱۹۰۰ء کی درمیانی شب فرمایا… آج وہ الہام پورا ہوا جو کچھ مدت ہوئی شائع کیا تھا.’’ وہ بیت الصدق کو بیت التزویر بنانا چاہتے ہیں.‘‘ (الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۵ مورخہ ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۸ کالم نمبر ۳) ۱۹۰۰ء (الف) ’’تحفہ گولڑویہ میں بڑے بڑے دقائق معارف بیان فرمائے ہیں.آج فرماتے تھے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک الہام ہوا ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ یہ رسالہ بڑا بابرکت ہوگا اِسے پورا کرو.اور پھر الہام ہوا.قُلْ رَّبِّ زِدْ.نِیْ عِلْمًا.‘‘ (از مکتوب مولانا عبدالکریم صاحبؓ مندرجہ الحکم جلد۱۰ نمبر ۳۵.مورخہ ۱۰؍اکتوبر ۱۹۰۶ء صفحہ۹) (ب) ’’ اِس رسالہ؎۱ میں عجیب عجیب نکات و اَسرار لکھے جارہے ہیں اور اس تحفہ کی نسبت یہ وحی حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام پر نازل ہوچکی ہے کہ رَبِّ زِدْ.نِیْ عِـلْمًا.‘‘ (الحکم جلد۴نمبر ۳۲ مورخہ ۱۰؍ستمبر ۱۹۰۰ء صفحہ ۱۰) ۷؍ ستمبر۱۹۰۰ء ’’ حضرت کو کل دردِ سر کے وقت بار بار یہ الہام ہوا.اِنِّیْ مَعَ الْاُمَرَآءِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً.‘‘؎۲ (از مکتوب مولانا عبدالکریم صاحبؓ مورخہ۸؍ستمبر ۱۹۰۰ء مندرجہ الحکم جلد۱۰ نمبر ۳۵ مورخہ ۱۰؍اکتوبر ۱۹۰۶ء صفحہ۱۰) ۱۹۰۰ء ’’ اِسی مضمون کے لکھنے کے وقت خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ یَــلَاشْ خدا کا ہی نام ہے یہ ایک نیا الہامی لفظ ہے کہ اب تک مَیں نے اس کو اس صورت پر قرآن اور حدیث میں نہیں پایا اور نہ کسی لغت کی کتاب میں دیکھا.اس کے معنے میرے پر یہ کھولے گئےکہ یَـا لَا شَـرِیْکَ اس نام کے الہام سے یہ غرض ہے کہ کوئی انسان کسی ایسی قابل ِ تعریف صفتؔ یا اسمؔ یا کسی فعل سے مخصوص نہیں جو وہ صفت یا اسم یا فعل کسی دُوسرے ۱ (نوٹ از ناشر) اس الہام کے سلسلہ میں مزید معلوما ت کے لئے دیکھیے تحفہ گولڑیہ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۵۲ تا ۴۵۶ و حاشیہ صفحہ ۴۴۸ تا ۴۵۰- ۲ (ترجمہ از ناشر) کہہ کہ اے میرے ربّ ! مجھے علم میں بڑھا دے - ۳ تحفہ گولڑیہ -( مرزا بشیر احمد) ۱ تحفہ گولڑویہ.(مرزا بشیر احمد) ۲ (ترجمہ از مرتّب) یعنی مَیں تیری طرف اچانک آؤں گا.
دُوسرے میں نہیں پایا جاتا.یہی سرّ ہے جس کی وجہ سے ہر ایک نبی کی صفات اور معجزات اظلال کے رنگ میں اس کی اُمّت کے خاص لوگوں میں ظاہر ہوتی ہیں.جو اس کے جوہر سے مناسبت تامہ رکھتے ہیں تا کسی خصوصیت کے دھوکہ میں جہلاء اُمّت کے کسی نبی کو لاشریک نہ ٹھہرائیں.یہ سخت کفر ہے جو کسی نبی کو یلاش کا نام دیا جائے.‘‘ (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۰۳،۲۰۴ حاشیہ) ۱۹۰۰ء ’’ وَ اِذَا ھَلَکَ الدَّ جَّالُ فَلَا دَجَّالَ بَعْدَ ہٗ اِلٰی یَـوْمِ الْقِیَامَۃِ اَمْرٌ مِّنْ لَّدُ.نْ حَکِیْمٍ عَلِیْمٍ وَ نَبَأٌ مِّنْ عِـنْدِ رَبِّنَا الْکَرِیْمِ وَ بَشَارَۃٌ مِّنَ اللہِ الرَّءُوْفِ الرَّحِیْمِ.‘‘ ؎۱ (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۴۱) ۱۹۰۰ء ’’ خدا نے مجھے اطلاع دے دی ہے کہ یہ تمام حدیثیں؎۲جو پیش کرتے ہیں.تحریف معنوی یا لفظی میں آلودہ ہیں اور یا سرے سے موضوع ہیں اور جو شخص حَکَم ہو کر آیا ہے اس کا اختیار ہے کہ حدیثوں کے ذخیرہ میں سے جس انبار کو چاہے خدا سے علم پا کر قبول کرے اور جس ڈھیر کو چاہے خدا سے علم پا کر ردّ کرے.‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۱۷صفحہ ۵۱ حاشیہ) ۱۹۰۰ء (الف) ’’ کشفی طور پر ایک مرتبہ مجھے ایک شخص دکھایا گیا.گویا وہ سنسکرت کا ایک عالم آدمی ہے جو کرشن کا نہایت درجہ معتقد ہے.وہ میرے سامنے کھڑا ہوا اور مجھے مخاطب کرکے بولا کہ ’’ہے رُو دّر گوپال تیری استت گیتا میں لکھی ہے.‘‘ اسی وقت مَیں نے سمجھا کہ تمام دُنیا ایک رُودّر گوپال کا انتظا رکررہی ہے کیا ہندو اور کیا مسلمان اور کیا عیسائی.مگر اپنے اپنے لفظوں اور زبانوں میں.اور سب نے یہی وقت ٹھہرایا ہے.اور اس کی یہ دونوں صفتیں قائم کی ہیں.یعنی سُوروں کو مارنے والا اور گائیوں کی حفاظت کرنے والا.اور وہ مَیں ہوں جس کی نسبت ہندوؤں میں پیشگوئی کرنے والے قدیم سے زور دیتے آئے ہیں کہ وہ آریہ ورت میں یعنی اسی ملک ہند میں پیدا ہوگا اور انہوں نے اُس کے مسکن کے نام بھی لکھے ہیں مگر وہ تمام نام استعارہ کے طور پر ہیں جن کے نیچے ایک اَور حقیقت ہے.‘‘ (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۳۱۷،۳۱۸ حاشیہ) ۱ (ترجمہ از مرتّب) اور جب دجّال ہلاک ہوگا تو اس کے بعد قیامت کے دن تک کوئی دجّال نہیں ہوگا.یہ خدائے حکیم و علیم کی طرف سے فیصلہ ہے اور ہمارے ربّ کریم کی طرف سے پیشگوئی اور رؤوف الرحیم خدا کی طرف سے بشارت ہے.۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’ جو محض ظنّیات کا ذخیرہ اور مجروح اور مخدوش ہیں اور نیز مخالف ان کے اور حدیثیں بھی ہیں اور قرآن بھی ان حدیثوں کو جھوٹی ٹھیراتا ہے.‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۵۱حاشیہ)
(ب) ’’ خدا تعالیٰ نے کشفی حالت میں بارہا مجھے اِس بات پر اطلاع دی ہے کہ آریہ قوم میں کرشن نام ایک شخص جو گزرا ہے وہ خدا کے برگزیدوں اور اپنے وقت کے نبیوں میں سے تھا اور ہندوؤں میں اَوتار کا لفظ درحقیقت نبی کے ہم معنی ہے.اور ہندوؤں کی کتابوں میں ایک پیشگوئی ہے اور وہ یہ کہ آخری زمانہ میں ایک اَوتار آئے گا جو کرشن کے صفات پر ہوگا اور اس کا بروز ہوگا اور میرےپر ظاہر کیا گیا ہے کہ وہ مَیں ہوں.کرشن کی ۲دو صفت میں ایک رُودّؔر یعنی درندوں اور سُوروں کو قتل کرنے والا یعنی دلائل اور نشانوں سے.دوسرے گوپاؔل یعنی گائیوں کو پالنے والا یعنی اپنے انفاس سے نیکوں کا مددگار.اور یہ دونوں صفتیں مسیح موعود کی صفتیں ہیں اور یہی دونوں صفتیں خدا تعالیٰ نے مجھے عطا فرمائی ہیں.‘‘ (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۳۱۷ حاشیہ در حاشیہ) (ج) ’’وہ خدا جو زمین و آسمان کا خدا ہے اُس نے یہ میرے پر ظاہر کیا ہے اور نہ ایک دفعہ بلکہ کئی دفعہ مجھے بتلایا ہے کہ تُو ہندوؤں کے لئے کرشن اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے مسیح موعود ہے.‘‘ (لیکچر سیالکوٹ.روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۲۲۸) (د) ’’اب واضح ہو کہ راجہ کرشن جیسا کہ میرے پر ظاہر کیا گیا ہے درحقیقت ایک ایسا کامل انسان تھا جس کی نظیر ہندوؤں کے کسی رشی اور اوتار میں نہیں پائی جاتی اور اپنے وقت کا اوتار یعنی نبی تھا جس پر خدا کی طرف سے رُوح القدس اُترتا تھا.وہ خدا کی طرف سے فتح مند اوربااقبال تھا جس نے آریہ ورت کی زمین کو پاپ سے صاف کیا.وہ اپنے زمانہ کا درحقیقت نبی تھا جس کی تعلیم کو پیچھے سے بہت باتوں میں بگاڑدیاگیا.وہ خدا کی محبّت سے پُر تھا اور نیکی سے دوستی اور شَر سے دشمنی رکھتا تھا.خدا کا وعدہ تھا کہ آخری زمانہ میں اُس کا بروز یعنی اوتار پَیدا کرے.سو یہ وعدہ میرے ظہور سے پورا ہوا.‘‘ (لیکچر سیالکوٹ.روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۲۲۸، ۲۲۹) (ھ) ’’مجھے منجملہ اَور الہاموں کے اپنی نسبت ایک یہ بھی الہام ہوا تھا کہ ہے کرشن رُودّر گوپال تیری مہما گیتا میں لکھی گئی ہے.‘‘ (لیکچرسیالکوٹ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۲۹) (و) ’’ جیسا کہ آریہ قوم کے لوگ کرشن کے ظہور کا اِن دنوں میں انتظار کرتے ہیں.وہ کرشن مَیں ہی ہوں اور یہ دعویٰ صرف میری طرف سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے بار بار میرے پر ظاہر کیا ہے کہ جو کرشن آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والا تھا وہ تُو ہی ہے.آریوں کا بادشاہ.‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۲۱،۵۲۲)
۱۹۰۰ء ’’ ایک بڑا تخت مربع شکل کا ہندوؤں کے درمیان بچھا ہوا ہے جس پر مَیں بیٹھا ہوا ہوں.ایک ہندو کسی کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہےکہ کرشن جی کہاں ہیں؟ جس سے سوال کیا گیا وہ میری طرف اشارہ کرکے کہتا ہے کہ یہ ہے.پھر تمام ہندو روپیہ وغیرہ نذر کے طور پر دینے لگے.اتنے ہجوم میں سے ایک ہندو بولا.ہے کرشن جی رُودّر گوپال (یہ ایک عرصہ؎۱دراز کی رؤیاہے)‘‘ (البدر جلد۲ نمبر ۴۱، ۴۲ مورخہ ۲۹؍اکتوبر و ۸؍نومبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۲۲) ۱۹۰۰ء ۲؎ ’’حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ ایک بار ہم نے کرشن جی کو دیکھا کہ وہ کالے رنگ کے تھے اور پتلی ناک.کشادہ پیشانی والے ہیں.کرشن جی نے اُٹھ کر اپنی ناک ہماری ناک سے اور اپنی پیشانی ہماری پیشانی سے ملا کر چسپاں کردی.‘‘ (الحکم جلد۱۲ نمبر۱۷ مورخہ ۶؍مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ ۷) ۱۹۰۰ء ’’ ایک بار یہ الہام؎۳ ہوا تھا کہ آریوں کا بادشاہ آیا.‘‘ (الحکم جلد ۱۲نمبر ۱۷ مورخہ ۶؍مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ ۷) ۱۹۰۰ء (الف) ’’ ایک دفعہ مجھے مرض ذیابیطس کے سبب بہت تکلیف تھی.کئی دفعہ سَو سَو مرتبہ دن میں پیشاب آتا تھا.دونوں شانوں میں ایسے آثار نمودار ہوگئے جن سے کاربنکل کا اندیشہ تھا.تب مَیں دُعا میں مصروف ہوا تو یہ الہام ہوا.وَ الْـمَـوْتِ اِذَا عَسْعَـسَ یعنی قسم ہے موت کی جب کہ ہٹائی جائے چنانچہ یہ الہام بھی ایسا پورا ہوا کہ اس وقت سے لے کر ہمیشہ ہماری زندگی کا ہر ایک سیکنڈ ایک نشان ہے.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۶۱۳) (ب) ’’ پرانا الہام.اَلْوَدَاعُ.اَللّٰہُ اَکْبَرُ.غِیْضَ الْمَآءُ.۴؎ وَ الْمَوْتِ اِذَا عَسْعَسَ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۵ ) (ج) ’’بارہا میں مشاہدہ کرتا ہوں کہ بعض وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی انذاری پیش گوئی میرے ۱، ۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) چونکہ اس کشف کی صحیح تاریخ معلوم نہیں ہوسکی.اس لئے سابقہ کشف کی مناسبت سے اسے یہاں درج کیا گیا.۳ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) اس الہام کی بھی صحیح تاریخ معلوم نہیں ہوسکی پچھلی مناسبت سے یہاں لکھا گیا.۴ (ترجمہ از ناشر) پانی خشک ہوگیا.
حق میں یا میرے اہل و عیال کے حق میں یا کسی دوست کے حق میں ہوتی ہے اور پھر میں جنابِ الٰہی میں اس کے ردّ کے لئے بہت الحاح کرتا ہوں تو وہ بلا ٹال دی جاتی ہے.جیسا کہ ایک دفعہ میری موت کی نسبت ایک پیشگوئی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ جلد واقع ہونے والی ہے تو میں نے بہت الحاح سے دعا کرنا شروع کیا یہاں تک کہ الہام ہوا.وَالْمَوْتِ اِذَا عَسْعَسَ.ایسا ہی کئی دفعہ اتفاق ہوا ہے کہ ایک قضا مکدر کا علم دیا گیا ہے اور پھر وہ کثرت ابتہال اور تضرع سے ٹال دی گئی ہے اور اگر میں وہ پیشگوئیاں شائع کردیتا اور دل میں نہ رکھتا تو گویا دشمنوں کی نظر میں بہت سی پیشگوئیاں میری جھوٹی ہوتیں.‘‘ (رجسٹر متفرق یادداشتیں ازحضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۲) ۱۹۰۰ء ’’ فرمایا.کیا دیکھتا ہوں کہ محمود کی والدہ آئی ہیں اور ان کے ہاتھ میں ایک جوتی ہے اور مجھ سے کہتی ہیں یہ نئی جوتی آپ پہن لیں اور پھر میرے ہاتھ میں دے کر کہا یہ جوتی آپ کے لئے ہے پہن لیجئے.دشمن زیر ہے.‘‘ (از چٹھی مولانا عبدالکریم صاحبؓ مندرجہ الحکم جلد۴نمبر ۳۷ مورخہ ۱۷؍اکتوبر ۱۹۰۰ء صفحہ ۲) ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۰۰ء (الف) ’’ بہت دفعہ ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ایک بات بتلاتے ہیں.مَیں اُس کو سنتا ہوں مگر آپؐ کی صورت نہیں دیکھتا ہوں.غرض یہ اک حالت ہوتی ہے جو بَین الکشف والالہام ہوتی ہے.رات کو آپ ؐ نے مسیح موعود کے متعلق یہ فرمایا ہے.یَضَعُ الْـحَرْبَ وَیُصَالِـحُ؎۱ النَّاسَ یعنی ایک طرف تو جنگ وجدال اور حرب کو اُٹھادے گا دوسری طرف اندرُونی طور پر مصالحت کرا دے گا.گویا مسیح موعود کے لئے دو۲ نشان ہوں گے.اوّؔل بَیرونی نشان کہ حَرب نہ ہوگی.دُوسراؔ اندرونی نشان کہ باہم مصالحت ہوجاوے گی.پھر.اس کے بعد فرمایا.سَلْمَانُ مِنَّا اَھْلَ الْبَیْتِ.سِلْمَان یعنی ۲دو صُلحیں..اور پھر فرمایا.عَلٰی مَشْـرَبِ الْـحَسَنِ یعنی حضرت حسن رضی اللہ عنہ میں بھی دو۲ ہی صُلحیں تھیں.ایک صلح تو اُنہوں نے حضرت معاؔویہ کے ساتھ کرلی اور دوسری صحابہؓ کی باہم صلح کرادی.اِس سے معلوم ہوا کہ مسیح موعود حَسنی المشرب ہے… ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) کاتب کی غلطی سے بَیْنَ کا لفظ رہ گیا ہے چنانچہ الحکم مورخہ ۳۰؍نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل الہام یُصَالِـحُ بَیْنَ النَّاسِ ہے.
اس کے بعد فرمایا کہ حسن کا دودھ پیے گا پھر حضرت اقدس نے فرمایا کہ یہ جو لوگ کہتے ہیں کہ مہدی آپؐ کی آل میں سے ہوگا.یہ مسئلہ اس الہام سے حل ہوگیا اور مسیح موعود کا جو مہدی بھی ہے کام بھی معلوم ہوگیا.پس وہ جولوگ کہتے ہیں کہ وہ آتے ہی تلوار چلائے گا اور کافروں کو قتل کرے گا جھوٹے ہیں.اصل بات یہی ہے جو اس الہام میں بتلائی گئی ہے کہ وہ ۲دو صلحوں کا وارث ہوگا.یعنی بَیرونی طور پر بھی صلح کرے گا اور اندرونی طور پر بھی مصالحت ہی کراوے گا.‘‘ (الحکم جلد۴ نمبر ۴۰ مورخہ ۱۰؍نومبر ۱۹۰۰ء صفحہ۳) (ب) ’’ یہ بات میرے اجداد کی تاریخ سے ثابت ہے کہ ایک دادی ہماری شریف خاندانِ سادات سے اور بنی فاطمہ میں سے تھی.اس کی تصدیق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کی اور خواب میں مجھے فرمایا کہ ’’سَلْمَانُ مِنَّا اَھْلَ الْبَیْتِ عَلٰی مَشْـرَبِ الْـحَسَنِ.‘‘ میرا نام سلمان رکھا.یعنی دو سِلم.اور سِلم عربی میں صلح کو کہتے ہیں.یعنی مقدّر ہے کہ دو صلح میرے ہاتھ پر ہوں گی.ایک اندرونی کہ جو اندرونی بُغض اور شحنا کو دُور کرے گی.دوسری بَیرونی کہ جو بَیرونی عداوت کے وجوہ کو پامال کرکے اور اسلام کی عظمت دکھا کر غیر مذہب والوں کو اسلام کی طرف جھکادے گی.معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں جو سَلمان آیا ہے اُس سے بھی مَیں مراد ہوں.ورنہ اُس سَلمان پر ۲دو صلح کی پیشگوئی صادق نہیں آتی.‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۱۲،۲۱۳ حاشیہ) (ج) ’’ میں خدا سے وحی پا کر کہتا ہوں کہ میں بنی فارس میں سے ہوں.اور بموجب اس حدیث کے جو کنزالعمال میں درج ہے بنی فارس بھی بنی اسرائیل اور اہل بیت میں سے ہیں.‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۱۳ حاشیہ) (د) ’’اور ایک مرتبہ مجھے یاد ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک سبزہ زار ہے.اس میں کسی قدر فاصلہ پر مجھ سے ہمارے سید و مولیٰ نبی عربی اُمّی صلی اللہ علیہ وسلم مع امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے کھڑے ہیں.تب امام حسین میری طرف آئے اور مجھ سے عربی میں باتیں کیں اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گئے اور میری طرف اشارہ کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ یَا اَبِیْ مَنْ ہٰذَا؟ ھُوَ یَعْلَمُ لِسَانَنَا.تب آپ نے اس کے جواب میں فرمایا ہُوَ مِنَّا.ھُوَ اَحَدٌ مِّنَّا.تب میں نے سمجھ لیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روحانی تعلق اور رشتہ کی طرف اشارہ کرکے امام حسین کو سمجھا دیا کہ اس کو مجھ سے اور تجھ سے ایک روحانی مناسبت ہے.‘‘ (تحریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام )
۱۹۰۰ء ’’ ۱.بُشْـرٰی لَکَ اَحْـمَدِیْ.۱؎ اَنْتَ مُرَادِیْ وَ مَعِیْ.۲.غَــرَسْتُ لَکَ قُدْ.رَتِیْ بِیَدِیْ.۳.سِـرُّکَ سِـرِّیْ.۴.اَنْتَ وَجِیْہٌ فِیْ حَضْـرَتِیْ.۵.اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ.۶.اَنْتَ مِـنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدیْ وَ تَفْرِیْدِیْ فَـحَانَ اَنْ تُعَانَ وَ تُعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ.۷.یَـآ اَحْـمَدُ فَاضَتِ الرَّحْـمَۃُ عَلٰی شَفَتَیْکَ.۸.بُـوْرِکْتَ یَـآ اَحْـمَدُ وَ کَانَ مَا بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ حقًّا فِیْکَ.۹.اَلرَّحْـمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِ رَ اٰبَـآؤُھُمْ وَ لِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ.۱۰.قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ وَ اَنَـا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ.۱۱.قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُـحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُـحْبِبْکُمُ اللّٰہُ.۱۲.وَ یَـمْکُرُوْنَ وَ یَـمْکُرُ اللّٰہُ وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ.۱۳.وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَتْـرُکَکَ حَتّٰی یَـمِیْزَ الْـخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ.۱۴.وَ اِنَّ عَلَیْکَ رَحْـمَتِیْ فِی الدُّنْیَا وَالدِّیْنَ.۱۵.وَاِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَ یْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ.۱۶.وَ اِنَّکَ مِنَ الْمَنْصُوْرِیْنَ.۱۷.وَاَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃٍ لَّا یَعْلَمُھَا الْـخَلْقُ.۱۸.وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْـمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ.۱۹.یَآ اَحْـمَدُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْـجَنَّۃَ.۲۰.یَآ اٰدَمُ ترجمہ.۱.اے میرے احمد تجھے بشارت ہو.تُو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے.۲.مَیں نے اپنے ہاتھ سے تیرا درخت لگایا.۳.تیرا بھید میرا بھید ہے ۴.اور تُو میری درگاہ میں وجیہہ ہے.۵.مَیں نے اپنے لئے تجھے چنا.۶.تو مجھ سے ایساہے جیسا کہ میری توحید اور تفرید.پس وقت آگیا ہے کہ تُو مدد دیا جائے اور لوگوں میں تیرے نام کی شہرت دی جائے.۷.اے احمد تیرے لبوں میں نعمت یعنی حقائق اور معارف جاری ہیں.۸.اے احمد تُو برکت دیا گیا اور یہ برکت تیرا ہی حق تھا.۹.خدا نے تجھے قرآن سکھلایا یعنی قرآن کے اُن معنوں پر اطلاع دی جن کو لوگ بھول گئے تھے تاکہ تُو ان لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے بے خبر گزر گئے اور تاکہ مجرموں پر خدا کی حجّت پوری ہو جائے.۱۰.اُن کو کہہ دے کہ مَیں اپنی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی وحی اور حکم سے یہ سب باتیں کہتا ہوں اور مَیں اس زمانہ میں تمام مومنوں میں سے پہلا ہوں.۱۱.ان کو کہہ دے کہ اگر تم خدا تعالیٰ سے محبّت کرتے ہو تو آؤ میری پَیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبّت کرے ۱۲.اور یہ لوگ مکر کریں گے اور خدا بھی مکر کرے گا اور خدا بہتر مکر کرنے والا ہے.۱۳.اور خدا ایسا نہیں کرے گا کہ وہ تجھے چھوڑ دے جب تک کہ پاک اور پلید میں فرق نہ کرلے.۱۴.اور تیرے پر دُنیا اور دین میں میری رحمت ہے ۱۵.اور تو آج ہماری نظر میں صاحب ِ مرتبہ ہے.۱۶.اور ان میں سے ہے جن کو مدد دی جاتی ہے ۱۷.اور مجھ سے تُو وہ مقام اور مرتبہ رکھتا ہے جس کو دنیا نہیں جانتی ۱۸.اور ہم نے دُنیا پر رحمت کرنے کے لئے تجھے بھیجا ہے.۱۹.اے احمد اپنے زوج کے ساتھ بہشت میں داخل ہو.۲۰.اے آدم ۱ (نوٹ از ناشر) براہین احمدیہ ہر چہار حصص.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۰۲ میں ’’ بُشْـرٰی لَکَ یَا اَحْـمَدِیْ‘‘ ہے.
اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْـجَنَّۃَ.۲۱.ھٰذَا مِنْ رَّحْـمَۃِ رَبِّکَ لِیَکُوْنَ اٰیَۃً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ.۲۲.اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَـخَلَقْتُ اٰدَمَ لِیُقِیْمَ الشَّـرِیْعَۃَ وَ یُـحْیِ الدِّیْنَ.۲۳.جَرِیُّ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَ.نْبِیَآءِ.۲۴.وَجِیْہٌ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ.۲۵.کُنْتُ کَنْزًا مَّـخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ.۲۶.وَلِنَجْعَلَہٗٓ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَ رَحْـمَۃً مِّنَّا وَ کَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا.۲۷.یَـا عِیْسٰی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَـوْمِ الْقِیَامَۃِ.۲۸.ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ.۲۹.یُـخَوِّفُوْنَکَ مِنْ دُوْنِہٖ.۳۰.یَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِہٖ.وَ لَوْ لَمْ یَعْصِمْکَ النَّاسُ.۳۱.وَکَانَ رَبُّکَ قَدِ یْـرًا.۳۲.یَـحْمَدُ کَ اللّٰہُ مِنْ عَرْشِہٖ.۳۳.نَـحْمَدُ کَ وَ نُصَلِّی.۳۴.وَ اِنَّـا کَفَیْنَاکَ اپنے زوج کے ساتھ بہشت میں داخل ہو یعنی ہر ایک جو تجھ سے تعلق رکھنے والا ہے گو وہ تیری بیوی ہے یا تیرا دوست ہے نجات پائے گا اور اس کو بہشتی زندگی ملے گی اور آخر بہشت میں داخل ہو گا؎۱… ۲۲.مَیں نے ارادہ کیا کہ زمین پر اپنا جانشین پیدا کروں سو مَیں نے اس آدم کو پیدا کیا.یہ آدم شریعت کو قائم کرے گا اور دین کو زندہ کردے گا.۲۳.یہ خدا کا رسول ہے نبیوں کے لباس میں.۲۴.دنیا اور آخرت میں وجیہہ اور خدا کے مقربوں میں سے.۲۵.مَیں ایک خزانہ پوشیدہ تھا پس مَیں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں.۲۶.اور ہم اِس اپنے بندہ کو اپنا ایک نشان بنائیں گے اور اپنی رحمت کا ایک نمونہ کریں گے، اور ابتدا سے یہی مقدر تھا.۲۷.اے عیسیٰ مَیں تجھے طبعی طور پر وفات دوں گا یعنی تیرے مخالف تیرے قتل پر قادر نہیں ہوسکیں گے.اور مَیں تجھے اپنی طرف اُٹھاؤں گا یعنی دلائل واضحہ سے اور کھلے کھلے نشانوں سے ثابت کردوں گا کہ تُو میرے مقر بوں میں سے ہے اور اُن تمام الزاموں سے تجھے پاک کروں گا جو تیرے پر منکر لوگ لگاتے ہیں.اور وہ لوگ جو مسلمانوں میں سے تیرے پَیرو ہوں گے مَیں اُن کو اُن دوسرے گروہ پر قیامت تک غلبہ اور فوقیت دُوں گا جو تیرے مخالف ہوں گے.۲۸.تیرے تابعین کا ایک گروہ پہلوں میں سے ہوگا اور ایک گروہ پچھلوں میں سے.۲۹.لوگ تجھے اپنی شرارتوں سے ڈرائیں گے ۳۰.پر خدا تجھے دشمنوں کی شرارت سے آپ بچائے گا گو لوگ نہ بچاویں.۳۱.اور تیرا خدا قادر ہے.۳۲.وہ عرش پر سے تیری تعریف کرتا ہے.یعنی لوگ جو گالیاں نکالتے ہیں اُن کے مقابل پر خدا عرش پر تیری تعریف کرتا ہے.۳۳.ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور تیرے پر درود بھیجتے ہیں.۳۴.اور جو ٹھٹھا کرنے والے ہیں ان کے لئے ہم ۱ (ترجمہ از مرتّب) ۲۱ یہ مرتبہ تیرے ربّ کی رحمت سے ہے تاکہ مومنوں کے لئے ایک نشان ہو.
الْمُسْتَـھْزِئِیْنَ.۳۵.وَ قَالُوْا اِنْ ھُوَ اِلَّآ اِفْکُ ا۟فْتَرٰى.۳۶.وَ مَا سَـمِعْنَا بِـھٰذَا فِیْ اٰبَـآئِنَا الْاَوَّلِیْنَ.۳۷.وَلَقَدْ کَـرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ وَ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْـضٍ.۳۸.کَذَالِکَ لِتَکُوْنَ اٰیَۃً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ.۳۹.وَجَـحَدُ وْا بِـھَا وَ اسْتَیْقَنَتْـھَآ اَنْفُسُھُمْ ظُلْمًا وَّ عُلُوًّا.۴۰.قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّؤْمِنُوْنَ.قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ.۴۱.وَقَالُوْٓا اَنّٰی لَکَ ھٰذَا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِـحْرٌ یُّـؤْثَرُ وَ اِنْ یَّـرَوْا اٰیَۃً یُّعْرِضُوْا وَ یَقُوْلُوْا سِـحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ.۴۲.کَتَب اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَـا وَ رُسُلِیْ.۴۳.وَ اللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ.۴۴.ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْـحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ.۴۵.لَا مُبَدِّ.لَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ.۴۶.وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْـمَانَـھُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَھُمُ الْاَ.مْنُ وَ ھُمْ مُّھْتَدُ وْنَ.۴۷.وَ لَا تُـخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اِنَّـھُمْ مُّغْرَقُوْنَ.۴۸.وَ اِنْ یَّـتَّخِذُ.وْنَکَ اِلَّا ھُزُوًا.أَ ھٰذَا الَّذِیْ بَعَثَ اللّٰہُ.۴۹.وَیَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ وَ ھُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ.اکیلے کافی ہیں.۳۵.اور وہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو جھوٹا اِفترا ہے جو اس شخص نے کیا.۳۶.ہم نے اپنے باپ دادوں سے ایسا نہیں سنا.یہ نادان نہیں جانتے کہ کسی کو کوئی مرتبہ دینا خدا پر مشکل نہیں.۳۷.ہم نے انسانوں میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے.۳۸.پس اسی طرح اس شخص کو یہ مرتبہ عطا فرمایا تاکہ مومنوں کے لئے نشان ہو.۳۹.مگر خدا کے نشانوں سے ان لوگوں نے انکار کیا.دل تو مان گئے مگر یہ انکار تکبر اور ظلم کی وجہ سے تھا.۴۰.ان کو کہہ دے کہ میرے پاس خاص خدا کی طرف سے گواہی ہے پس کیا تم مانتے نہیں.پھر ان کو کہہ دے کہ میرے پاس خاص خدا کی طرف سے گواہی ہے پس کیا تم قبول نہیں کرتے.۴۱.اور جب نشان دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ تو ایک معمولی امر ہے جو قدیم سے چلا آتا ہے… ۴۲.خدا نے قدیم سے لکھ رکھا ہے یعنی مقرر کر رکھا ہے کہ مَیں اور میرے رسول ہی غالب ہوں گے.یعنی گو کسی قسم کا مقابلہ آپڑے جو لوگ خدا کی طرف سے ہیں وہ مغلوب نہیں ہوں گے.۴۳.اور خدا اپنے ارادوں پر غالب ہے مگر اکثر لوگ نہیں سمجھتے.۴۴.خدا وہی خدا ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس دین کو تمام دینوں پر غالب کرے.۴۵.کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو بدل دے.۴۶.اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان کو کسی ظلم سے آلودہ نہیں کیا ان کو ہر ایک بلا سے اَمن ہے اور وہی ہیں جو ہدایت یافتہ ہیں.۴۷.اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے کچھ کلام نہ کر وہ تو ایک غرق شدہ قوم ہے.۴۸.اور تجھے ان لوگوں نے ایک ہنسی کی جگہ بنا رکھا ہے اور کہتے ہیں کہ کیا یہی ہے جو خدا نے مبعوث فرمایا.۴۹.اور تیری طرف دیکھتے ہیں اور تُو اُنہیں نظر نہیں آتا.
۵۰.وَ اِذْ یَـمْکُرُ بِکَ الَّذِیْ کَفَّرَ.۵۱.اَوْقِدْ لِیْ یَا ھَامَانُ لَعَلِّیْ اَطَّلِعُ عَلٰی اِلٰہِ مُوْسٰی وَ اِنِّیْ لَاَظُنُّہٗ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ.۵۲.تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ.۵۳.مَا کَانَ لَہٗ اَنْ یَّدْخُلَ فِیْـھَآ اِلَّا خَائِفًا.۵۴.وَمَا اَصَا بَکَ فَـمِنَ اللّٰہِ.۵۵.اَلْفِتْنَۃُ ھٰھُنَا فَاصْبِرْ کَمَا صَبَـرَ اُولُوا الْعَزْمِ.۵۶.اَلَا اِنَّـھَا فِتْنَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ لِیُحِبَّ حُبًّا جَـمًّا.حُبًّا مِّنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْاَکْــرَمِ.۵۷.عَطَآءً غَیْرَ مَـجْذُ وْذٍ.۵۸.وَ فِی اللّٰہِ اَجْرُکَ وَ یَـرْضٰی عَنْکَ رَبُّکَ وَ یُتِمُّ اسْـمَکَ.۵۹.وَعَسٰی اَنْ تُـحِبُّوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ شَـرٌّ لَّکُمْ وَ عَسٰی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ.؎۱ ۵۰.اور یاد کر وہ وقت جب تیرے پر ایک شخص سراسر مکر سے تکفیر کا فتویٰ دے گا… ۵۱.وہ اپنے بزرگ ہامان کو کہے گا کہ اس تکفیر کی بنیاد تو ڈال کہ تیرا اثر لوگوں پر بہت ہے اور تُو اپنے فتویٰ سے سب کو افروختہ کرسکتا ہے سو تُو سب سے پہلے اس کفر نامہ پر مُہر لگا تا سب علماء بھڑک اُٹھیں اور تیری مُہر کو دیکھ کر وہ بھی مہریں لگا دیں اور تاکہ مَیں دیکھوں کہ خدا اس شخص کے ساتھ ہے یا نہیں کیونکہ مَیں اس کو جھوٹا سمجھتا ہوں (تب اس نے مُہر لگادی) ۵۲.ابو لہب ہلاک ہوگیا اور اُس کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے.(ایک وہ ہاتھ جس کے ساتھ تکفیر نامہ کو پکڑا اور دوسرا وہ ہاتھ جس کے ساتھ مُہر لگائی یا تکفیر نامہ لکھا) ۵۳.اس کو نہیں چاہیےتھا کہ اس کام میں دخل دیتا مگر ڈرتے ڈرتے.۵۴.اور جو تجھے رنج پہنچے گا وہ تو خدا کی طرف سے ہے.۵۵.جب وہ ہامان تکفیر نامہ پر مُہر لگادے گا تو بڑا فتنہ برپا ہوگا.پس تو صبر کر جیسا کہ اُولوالعزم نبیوں نے صبر کیا… ۵۶.یہ فتنہ خدا کی طرف سے فتنہ ہوگا تا وہ تجھ سے بہت محبّت کرے.۵۷.جو دائمی محبّت ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوگی ۵۸.اور خدا میں تیرا اجر ہے.خدا تجھ سے راضی ہوگا اور تیرے نام کو پورا کرے گا.۵۹.بہت ایسی باتیں ہیں کہ تم چاہتے ہو مگر وہ تمہارے لئے اچھی نہیں اور بہت ایسی باتیں ہیں کہ تم نہیں چاہتے اور وہ تمہارے لئے اچھی ہیں اور خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے.‘‘ (اربعین نمبر ۳.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۱۰ تا ۴۱۸ و ضمیمہ تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۵۹ تا ۶۵) ۱۹۰۰ء ’’خدا نے مجھے اطلاع دی ہے.تمہارے پر حرام ہے اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفّر اور مکذّب ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’چونکہ کئی دفعہ کئی ترتیبوں کے رنگ میں یہ الہامات ہوچکے ہیں اِس لئے فقرات کے جوڑنے میں ایک خاص ترتیب کا لحاظ نہیں.ہر ایک ترتیب فہمِ ملہم کے مطابق الہامی ہے.‘‘ (اربعین نمبر ۳.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۱۲ حاشیہ)
یا متردّد کے پیچھے نماز پڑھو بلکہ چاہیےکہ تمہارا وہی امام ہو جو تم میں سے ہو.اسی کی طرف حدیث بخاری کے ایک پہلو میں اشارہ ہےکہ اِمَامُکُمْ مِّنْکُمْ.‘‘ (اربعین نمبر ۳.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۱۷ حاشیہ) ۱۹۰۰ء ’’ہم بطور نمونہ چند الہامات دوسری کتابوں میں سے لکھتے ہیں چنانچہ ازالہ اوہام۱؎ میں صفحہ ۶۳۴ سے اخیر تک اور نیز دوسری کتابوں میں یہ الہام ہیں.جَعَلْنَاکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ ہم نے تجھ کو مسیح ابن مریم بنایا یہ کہیں گے کہ ہم نے پہلوں سے ایسا نہیں سنا سو تو ان کو جواب دے کہ تمہارےمعلومات وسیع نہیں.تم ظاہر لفظ اور ابہام پر قانع ہو اور پھر ایک اور الہام ہے اور وہ یہ ہے.اَلْـحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ.اَنْتَ الشَّیْخُ الْمَسِیْحُ الَّذِیْ لَا یُضَاعُ وَقْتُہٗ.کَمِثْلِکَ دُرٌّ لَّا یُضَاعُ.یعنی خدا کی سب حَمد ہے جس نے تجھ کو مسیح ابن مریم بنایا.تو وہ شیخ مسیح ہے جس کا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا.تیرے جیسا موتی ضائع نہیں کیا جاتا.اور پھر فرمایا.لَنُحْیِیَنَّکَ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً.ثَـمَانِیْنَ حَوْلًا اَوْ قَرِیْبًا مِّنْ ذَالِکَ.وَتَرٰی نَسْلًا بَعِیْدًا.مَظْھَرُ الْـحَقِّ وَالْعَلَآءِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَـزَلَ مِنَ السَّمَآءِ.یعنی ہم تجھے ایک پاک اور آرام کی زندگی عنایت کریں گے.اَسی۸۰ برس یا اس کے قریب قریب یعنی دو چار برس کم یا زیادہ.اور تو ایک دُور کی نسل دیکھے گا.بلندی اور غلبہ کا مظہر.گویا خدا آسمان سے نازل ہوا.اور پھر فرمایا.یَاْتِیْ قَـمَرُ الْاَ.نْبِیَآءِ وَاَمْرُکَ یَتَاَتّٰی.مَا اَنْتَ اَنْ تَتْرُکَ الشَّیْطَانَ قَبْلَ اَنْ تَغْلِبَہٗ.اَلْفَوْقُ مَعَکَ وَ التَّحْتُ مَعَ اَعْدَآءِ کَ.یعنی نبیوں کا چاند چڑھے گا اور تُو کامیاب ہوجائے گا.تُو ایسا نہیں کہ شیطان کو چھوڑ دے قبل اس کے کہ اس پر غالب ہو.اور اُوپر رہنا تیرے حصّے میں ہے اورنیچے رہنا تیرے دشمنوں کے حصّہ میں.اور پھر فرمایا.اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ.وَمَاکَانَ اللّٰہُ لِیَتْرُکَکَ حَتّٰی یَـمِیْزَ الْـخبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ.سُـبْحَانَ ۱ ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۴۴۲.(ناشر)
اللّٰہِ اَنْتَ وَقَارُہٗ.فَکَیْفَ یَتْرُکُکَ.اِنِّیْ اَنَـا اللّٰہُ فَاخْتَرْنِیْ.قُلْ رَّبِّ اِنِّی اخْتَرْتُکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ.ترجمہ.مَیں اُس کو ذلیل کروں گا جو تیری ذلّت چاہتا ہے اور مَیں اُس کو مدد دُوں گا جو تیری مدد کرتا ہے اور خدا ایسا نہیں جو تجھے چھوڑ دے جب تک وہ پاک اور پلید میں فرق نہ کرلے.خدا ہر ایک عیب سے پاک ہے اور تو اس کا وقار ہے.پس وہ تجھے کیوں کر چھوڑ دے.مَیں ہی خدا ہوں.تو سراسر میرے لئے ہوجا.تُو کہہ اے میرے ربّ! مَیں نے تجھے ہر چیز پر اختیار کیا.اور پھر فرمایا.سَیَقُوْلُ الْعَدُوُّ لَسْتَ مُرْسَلًا.سَنَاْخُذُ.ہٗ مِنْ مَّارِنٍ اَوْ خُرْطُوْمٍ.وَ اِنَّا مِنَ الظَّالِمِیْنَ مُنْتَقِمُوْنَ.اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً.یَـوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ یَـا لَیْتَنِیْ اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا.وَ قَالُوْا سَیُقْلَبُ الْاَمْرُ وَ مَا کَانُوْا عَلَی الْغَیْبِ مُطَّلِعِیْنَ.اِنَّـا اَنْـزَلْنَاکَ وَ کَانَ اللّٰہُ قَدِ یْـرًا.یعنی دشمن کہے گا کہ تُو خدا کی طرف سے نہیں ہے.ہم اس کو ناک سے پکڑیں گے یعنی دلائل قاطعہ سے اس کا دم بند کردیں گے.اور ہم جزا کے دن ظالموں سے بدلہ لیں گے.مَیں اپنی فوجوں کے ساتھ تیرے پاس ناگہانی طور پر آؤں گا.یعنی جس گھڑی تیری مدد کی جائے گی اُس گھڑی کا تجھے علم نہیں اور اُس دن ظالم اپنے ہاتھ کاٹے گا کہ کاش مَیں اس خدا کے بھیجے ہوئے سے مخالفت نہ کرتا اور اس کے ساتھ رہتا.اور کہتے ہیں کہ یہ جماعت متفرق ہوجائے گی اور بات بگڑ جائے گی حالانکہ ان کو غیب کا علم نہیں دیا گیا.تُو ہماری طرف سے ایک بُرہان ہے اور خدا قادر تھا کہ ضرورت کے وقت میں اپنی بُرہان ظاہر کرتا.اور پھر فرمایا.اِنَّـا اَرْسَلْنَا اَحْـمَدَ اِلٰی قَوْمِہٖ فَاَعْرَضُوْا وَقَالُوْا کَذَّابٌ اَشِـرٌ.وَجَعَلُوْا یَشْھَدُوْنَ عَلَیْہِ وَیَسِیْلُوْنَ کَمَآءٍ مُّنْـھَمِرٍ.اِنَّ حِــبِّیْ قَرِیْبٌ مُّسْتَتِرٌ.یَاْتِیْکَ نُصْـرَتِیْ.اِنِّیْ اَنَـا الرَّحْـمٰنُ.اَنْتَ قَابِلٌ یَّـاْتِیْکَ وَابِلٌ.اِنِّیْ حَاشِـرُ کُلِّ قَـوْمٍ یَّـاْتُـوْنَکَ جُنُبًا.وَ اِنِّیْ اَنَـرْتُ مَکَانَکَ.تَنْزِیْلٌ مِّنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ.بَلَجَتْ اٰیَـاتِیْ وَلَنْ یَّـجْعَلَ اللّٰہُ لِلْکَافِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلًا.اَنْتَ مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ.طَیِّبٌ مَّقْبُوْلُ الرَّحْـمٰنِ.وَاَنْتَ اسْـمِیَ الْاَعْلٰی.بُشْرٰی لَکَ فِیْ ھٰذِہِ الْاَیَّـامِ.اَنْتَ مِـنِّیْ یَـآ اِبْـرَاھِیْمُ.اَنْتَ الْقَآئِمُ عَلٰی نَفْسِہٖ.مَظْھَرُ الْـحَیِّ.وَاَنْتَ مِنِّیْ مَبْدَءُ الْاَمْرِ.اَنْتَ مِنْ مَّآءِنَا وَھُمْ مِّنْ فَشَلٍ.اَمْ
یَقُوْلُوْنَ نَـحْنُ جَـمِیْعٌ مُّنْتَصِـرٌ.سَیُـھْزَمُ الْـجَمْعُ وَ یَـوَلُّوْنَ الدُّبُرَ.اَلْـحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الصِّھْرَ وَالنَّسَبَ.اَنْذِرْ قَوْمَکَ وَقُلْ اِنِّیْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ.اِنَّـا اَخْرَجْنَا لَکَ زُرْوْعًا یَـا اِبْـرَاھِیْمُ.قَالُوْا لَنُـھْلِکَنَّکَ قَالَ لَاخَوْفٌ عَلَیْکُمْ لَاَغْلِبَنَّ اَنَـا وَ رُسُلِیْ.وَ اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً.وَ اِنِّیْ اَمُوْجُ مَوْجَ الْبَحْرِ.اِنَّ فَضْلَ اللّٰہِ لَاٰتٍ.وَلَیْسَ لِاَحَدٍ اَنْ یَّـرُدَّ مَا اَتٰی.قُلْ اِیْ وَ رَبِّـیْ اِنَّہٗ لَـحَقٌّ لَّا یَتَبَدَّ.لُ وَلَا یَـخْفٰی وَ یَنْزِلُ مَا تَعْـجَبُ مِنْہُ وَحْیٌ مِّنْ رَّبِّ السَّمٰوٰتِ الْعُلٰی.لَا اِلٰہَ اِلَّاھُوَ.یَعْلَمُ کُلَّ شَیْءٍ وَّیَـرٰی.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ یُـحْسِنُوْنَ الْـحُسْنٰی.تُفَتَّحُ لَھُمْ اَبْوَابُ السَّمَآءِ.وَ لَھُمْ بُشْرٰی فِی الْـحَیٰوۃِ الدُّنْیَا.اَنْتَ تُرَبّٰی فِیْ حِـجْرِ النَّبِیِّ.وَ اَنْتَ تَسْکُنُ قُنَنَ الْـجِبَالِ وَ اِنِّیْ مَعَکَ فِیْ کُلِّ حَالٍ.ترجمہ.ہم نے احمد کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تب لوگوں نے کہا کہ یہ کذّاب ہے.اور انہوں نے اس پر گواہیاں دیں اور سیلاب کی طرح اُس پر گرے.اُس نے کہا کہ میرا دوست قریب ہے مگر پوشیدہ.تجھے میری مدد آئے گی.مَیں رحمٰن ہوں.تو قابلیت رکھتا ہے.اس لئے تو ایک بزرگ بارش کو پائے گا.مَیں ہرایک قوم میں سے گروہ کے گروہ تیری طرف بھیجوں گا.مَیں نے تیرے مکان کو روشن کیا.یہ اس خدا کا کلام ہے جو عزیز اور رحیم ہے اور اگر کوئی کہے کہ کیوں کر ہم جانیں کہ یہ خدا کا کلام ہے تو اُن کے لئے یہ علامت ہے کہ یہ کلام نشانوں کے ساتھ اُترا ہے اور خدا ہرگز کافروں کو یہ موقع نہیں دے گا کہ مومنوں پر کوئی واقعی اعتراض کر سکیں.تو علم کا شہر ہے.طیّب اور خدا کا مقبول.اور تو میرا سب سے بڑا نام ہے تجھے ان دنوں میں خوشخبری ہو.اے ابراہیم! تُو مجھ سے ہے تو خدا کے نفس پر قائم ہے زندہ خدا کا مظہر اور تو مجھ سے امر مقصود کا مبدء ہے اور تو ہمارے پانی سے ہے اور دوسرے لوگ فشل سے.کیا یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک بڑی جماعت ہیں اِنتقام لینے والے.یہ سب بھاگ جائیں گے او رپیٹھ پھیر لیں گے.اور خدا قابلِ تعریف ہے جس نے تجھے دامادی اور آبائی عزت بخشی.اپنی قوم کو ڈرا اور کہہ کہ مَیں خدا کی طرف سے ڈرانے والا ہوں.ہم نے کئی کھیت تیرے لئے طیار کر رکھے ہیں اے ابراہیم.اور لوگوں نے کہا کہ ہم تجھے ہلاک کریں گے مگر خدا نے اپنے بندہ کو کہا کہ کچھ خوف کی جگہ نہیں.مَیں اور میرے رسول غالب ہوں گے.اور مَیں اپنی فوجوں کے ساتھ عنقریب آؤں گا.مَیں سمندر کی طرح موجزنی کروں گا.خدا کا فضل آنے والا ہے اور کوئی نہیں جو اس کو رَدّ کرسکے.اور کہہ خدا کی قسم یہ بات سچ ہے اس میں تبدیلی نہیں ہوگی اور نہ وہ چھپی رہے گی، اور وہ امر نازل ہوگا جس سے تو تعجب کرے گا.یہ خدا کی وحی ہے جو اونچے آسمانوں کا بنانے والا ہے.اُس کے سوا کوئی خدا نہیں.ہر ایک چیز کو جانتا ہے اور دیکھتا ہے.اور وہ خدا اُن کے ساتھ ہے جو
اُس سے ڈرتے ہیں اور نیکی کو نیک طور پر ادا کرتے ہیں اور اپنے نیک عملوں کو خوبصورتی کے ساتھ انجام دیتے ہیں.وہی ہیں جن کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے.اور دنیا کی زندگی میں بھی ان کو بشارتیں ہیں.تو نبی کی کنارِ عاطفت میں پرورش پارہا ہے…۱؎ اور مَیں ہر حال میں تیرے ساتھ ہوں.اور پھر فرمایا.’’ وَقَالُـوْا اِنْ ھٰذَا اِلَّا اخْتِلَاقٌ.اِنَّ ھٰذَا الرَّجُلَ یَـجُوْحُ الدِّیْنَ.قُلْ جَآءَ الْـحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ.قُلْ لَّوْکَانَ الْاَمْرُمِنْ عِنْدِ غَیْرِاللّٰہِ لَوَجَدْ تُّمْ فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا.ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْـحَقِّ وَ تَھْذِیْبِ الْاَخْلَاقِ.قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُہٗ فَعَلَیَّ اِجْرَامِیْ.وَمَنْ اَظْلَمُ مِـمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِ.بًـا.تَنْزِیْلٌ مِّنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ.لِتُنْذِ.رَ قَـوْمًا مَّا اُنْذِرَ اٰبَآءُھُمْ.وَ لِتَدْعُوَ قَوْمًا اٰخَرِیْنَ.عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّـجْعَلَ بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَ الَّذِیْنَ عَادَیْتُمْ مَّوَدَّۃً.یَـخِرُّوْنَ عَلَی الْاْذْقَانِ سُـجَّدًا رَبَّنَا اغْفِرْلَنَآ اِنَّـا کُنَّا خَاطِئِیْنَ.لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ.یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَ ھُوَ اَرْحَـمُ الرَّاحِـمِیْنَ.اِنِّیْٓ اَنَـا اللّٰہُ فَاعْبُدْنِیْ وَ لَاتَنْسَنِیْ وَ اجْتَـھِدْ اَنْ تَصِلَنِیْ وَاسْئَلْ رَبَّکَ وَکُنْ سَئُوْلًا.اَللّٰہُ وَلِیٌّ حَنَّانٌ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ.فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَہٗ تَـحْکُمُوْنَ.نَزَّلْنَا عَلٰی ھٰذَا الْعَبْدِ رَحْـمَۃً.وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی.اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّـوْحٰی.دَنٰی فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی.ذَرْنِیْ وَ الْمُکَذِّ بِیْنَ.اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ.اِنَّ یَـوْمِیْ لَفَصْلٌ عَظِیْمٌ.وَ اِنَّکَ عَلٰی صِـرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ.وَ اِنَّـا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ اَوْنَتَوَفَّیَنَّکَ.وَ اِنِّیْ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ یَـاْتِیْکَ نُصْـرَتِیْ.اِنِّـیْ اَنَـا اللّٰہُ ذُوالسُّلْطَانِ.ترجمہ.اور کہتے ہیں کہ یہ بناوٹ ہے اور یہ شخص دین کی بیخ کنی کرتا ہے.کہہ حق آیا اور باطل بھاگ گیا.کہہ اگر یہ امر خدا کی طرف سے نہ ہوتا تو تم اُس میں بہت سا اختلاف پاتے یعنی خدا تعالیٰ کی کلام سے اس کی کوئی تائید نہ ملتی… خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو یعنی اِس عاجز کو ہدایت اور دین ِ حق اور تہذیب اخلاق کے ساتھ بھیجا.ان کو کہہ دے کہ اگر مَیں نے افترا کیا ہے تو میرے پر اس کا جُرم ہے یعنی مَیں ہلاک ہوجاؤں گا.اور اُس شخص سے زیادہ تر ظالم کون ہے جو خدا پر جھوٹ باندھے.یہ کلام خدا کی طرف سے ہے جو غالب اور رحیم ہے تا تُو اُن لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے اور تا دوسری قوموں کو دعوتِ دین کرے.۱ (ترجمہ از مرتّب) اور تُو پہاڑوں کی چوٹیوں پر رہتا ہے.
عنقریب ہے کہ خدا تم میں اور تمہارے دشمنوں میں دوستی کردے گا؎۱اور تیرا خدا ہر چیز پر قادر ہے.اس روز وہ لوگ سجدہ میں گریں گے یہ کہتے ہوئے کہ اے ہمارے خدا ہمارے گناہ معاف کر ہم خطا پر تھے.آج تم پر کوئی سرزنش نہیں خدا معاف کرے گا اور وہ ارحم الراحمین ہے.مَیں خدا ہوں.میری پرستش کر اور میرے تک پہنچنے کے لئے کوشش کرتا رہ.اپنے خدا سے مانگتا رہ اور بہت مانگنے والا ہو.خدا دوست اور مہربان ہے.اس نے قرآن سکھلایا.پس تم قرآن کو چھوڑ کر کس حدیث پر چلو گے.ہم نے اس بندہ پر رحمت نازل کی ہے.اور یہ اپنی طرف سے نہیں بولتا بلکہ جو کچھ تم سنتے ہو یہ خدا کی وحی ہے.یہ خدا کے قریب ہوا یعنی اُوپر کی طرف گیا اور پھر نیچے کی طرف تبلیغِ حق کے لئے جھکا اس لئے یہ دوقوسوں کے وسط میں آگیا.اُوپر خدا اور نیچے مخلوق.مکذّبین کے لئے مجھ کو چھوڑ دے.مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا.میرا دن بڑے فیصلہ کا دن ہے اورتُو سیدھی راہ پر ہے اور جو کچھ ہم اُن کے لئے وعدے کرتے ہیں ہوسکتا ہے کہ ان میں سے کچھ تیری زندگی میں تجھ کو دکھلا دیں اور یا تجھ کو وفات دے دیں اور بعد میں وہ وعدے پورے کریں.اور مَیں تجھے اپنی طرف اُٹھاؤں گا یعنی تیرا رَفع اِلی اللہ دنیا پر ثابت کردُوں گا اور میری مدد تجھے پہنچے گی.مَیں ہوں وہ خدا جس کے نشان دلوں پر تسلّط کرتے ہیں اور اُن کو قبضہ میں لے آتے ہیں.‘‘ (اربعین نمبر ۳.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۲۱ تا ۴۲۸) ۱۹۰۰ء ’’۱.ایک عزت کا خطاب.ایک عزت کا خطاب.لَکَ خِطَابُ الْعِزَّۃِ.۲.ایک بڑا نشان اس کے ساتھ ہوگا.(عزت کے خطاب سے مراد یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسے اسباب پیدا ہوجائیں گے کہ اکثر لوگ پہچان لیں گے اور عزت کا خطاب دیں گے اور یہ تب ہوگا جب ایک نشان ظاہر ہوگا.) ۳.خدا نے ارادہ کیا ہے کہ تیرا نام بڑھاوے اور آفاق میں تیرے نام کی خوب چمک دکھاوے.۴.مَیں اپنی چمکار دکھلاؤں گا اور قدرت نمائی سے تجھے اُٹھاؤں گا.۵.آسمان سے کئی تخت اُترے مگر سب سے اُونچا تیرا تخت بچھایا گیا.۶.دشمنوں سے ملاقات کرتے وقت فرشتوں نے تیری مدد کی.۷.آپ کے ساتھ انگریزوں کا نرمی کے ساتھ ہاتھ تھا.۸.اسی ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’یہ تو غیر ممکن ہے کہ تمام لوگ مان لیں کیونکہ بموجب آیت وَلِذَالِکَ خَلَقَھُمْ۲؎ اور بموجب آیت کریمہ وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ.۳؎ سب کا ایمان لانا خلاف نصِ صریح ہے.پس اس جگہ سعید لوگ مراد ہیں.‘‘ (اربعین نمبر ۳.روحانی خزائن جلد ۱۷، صفحہ ۴۲۷ حاشیہ) ۲ (ترجمہ از ناشر) اور اسی کے لئے اس نے انہیں پیدا کیا تھا.(ھود: ۱۲۰) ۳ (ترجمہ از ناشر) اور تیرے متبعین کو منکروں پر قیامت کے دن تک فائق رکھنے والا ہوں.(اٰل عـمران : ۵۶)
طرف خدا تعالیٰ تھا جو آپ تھے.۹.آسمان پر دیکھنے والوں کو ایک رائی برابر غم نہیں ہوتا.۱۰.یہ طریق اچھا نہیں اس سے روک دیا جائے مسلمانوں کے لیڈر عبدالکریم کو.۱۱.خُذُوا الرِّفْقَ.؎۱ اَلرِّفْقَ فَاِنَّ الرِّفْقَ رَاْسُ الْـخَیْرَاتِ.نرمی کرو.نرمی کرو کہ تمام نیکیوں کا سر نرمی ہے (اخویم مولوی عبدالکریم صاحب نے اپنی بیوی سے کسی قدر زبانی سختی کا برتاؤ کیا تھا.اس پر حکم ہوا کہ اس قدر سخت گوئی نہیں چاہیے.حتی المقدور پہلا فرض مومن کا ہر ایک کے ساتھ نرمی اور حُسنِ اخلاق ہے اور بعض اَوقات تلخ الفاظ کا استعمال بطور تلخ دوا کے جائز ہے.امابحکم ضرورت و بقدر ضرورت نہ یہ کہ سخت گوئی طبیعت پر غالب آجائے.) ۱۲.خدا تیرے سب کام درست کردے گا اور تیری ساری مُرادیں تجھے دے گا.۱۳.ربّ الافواج اس طرف توجہ کرے گا.۱۴.اگر مسیح ناصری کی طرف دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس جگہ اس سے برکات کم نہیں ہیں.۱۵.اور مجھے آگ سے مت ڈراؤ کیونکہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام؎۲ ہے.(یہ فقرہ بطور حکایت میری طرف سے خدا تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے.) اور پھر فرمایا ’’ لوگ آئے اور دعویٰ کر بیٹھے.شیرِ خدا نے اُن کو پکڑا.شیرِ خدا نے فتح پائی.اور پھر فرمایا.۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’ اس الہام میں تمام جماعت کے لئے تعلیم ہے کہ اپنی بیویوں سے رِفق اور نرمی کے ساتھ پیش آویں.وہ اُن کی کنیزکیں نہیں ہیں.درحقیقت نکاح مرد اور عورت کا باہم ایک معاہدہ ہے پس کوشش کرو کہ اپنے معاہدہ میں دغاباز نہ ٹھہرو.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے وَ عَاشـِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۳؎ یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ نیک سلوک کے ساتھ زندگی کرو اور حدیث میں ہے خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ بِاَھْلِہٖ یعنی تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنی بیوی سے اچھا ہے سو روحانی اور جسمانی طور پر اپنی بیویوں سے نیکی کرو.ان کے لئے دعا کرتے رہو اور طلاق سے پرہیز کرو کیونکہ نہایت بد خدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو ایک گندہ برتن کی طرح جلد مت توڑو.‘‘ (اربعین نمبر ۳.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۲۸حاشیہ) ۲ البدر میں یہ الہام یوں مندرج ہے.’’مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ مجھے الہام ہوا تھا اردو زبان میں آگ سے ہمیں مت ڈرا.آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.حقیقت یہ ہے کہ جو خدا کا بندہ ہوگا اسے طاعون نہ ہوگی اور جو شخص ضرر اٹھاوے گا اپنے نفس سے اٹھاوے گا.‘‘ (البدر مورخہ ۲۸؍ نومبر و ۵؍ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۳۴) ۳ النّسآء: ۲۰
بخرام کہ وقتِ تو نزدیک رسید و پائے مـحمدیاں برمنار بلند تر محکم افتاد.؎۱ پاک محمد مصطفیٰ نبیوں کا سردار.و روشن شد نشا نہائے من.۲؎ بڑا مبارک وہ دن ہوگا.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کردے گا.آمین.‘‘ (اربعین نمبر ۳.روحانی خزائن جلد ۱۷صفحہ ۴۲۸، ۴۲۹ ) ۱۹۰۰ء ’’ میرے ایک؎۳ دوست نے اپنی نیک نیتی سے یہ عذر پیش کیا تھا کہ آیت لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا؎۴ میں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب ہیں.اس سے کیوں کر سمجھا جائے کہ اگر کوئی دوسرا شخص افترا کرے تو وہ بھی ہلاک کیا جائے گا… جس رات مَیں نے اپنے اس دوست کو یہ باتیں سمجھائیں تو اسی رات مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے وہ حالت ہوکر جو وحی اللہ کے وقت میرے پر وارد ہوتی ہے وہ نظارہ گفتگو کا دوبارہ دکھلایا گیا اور پھر الہام ہوا.قُلْ اِنَّ ھُدَی اللّٰہِ ھُوَ الْھُدٰی۵؎ یعنی خدا نے جو مجھے اس آیت لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا کے متعلق سمجھایا؎۶ہے.وہی معنے صحیح ہیں.‘‘ (اربعین نمبر۴.روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۴۳۴ تا ۴۳۶) ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’ اس فقرہ سے مُراد کہ محمدیوں کا پَیر اونچے منار پر جا پڑا یہ ہے کہ تمام نبیوں کی پیشگوئیاں جو آخرالزمان کے مسیح موعود کے لئے تھیں جس کی نسبت یہود کا خیال تھا کہ ہم میں سے پیدا ہوگا اور عیسائیوں کا خیال تھا کہ ہم میں سے پیدا ہوگا مگر وہ مسلمانوں میں سے پیدا ہوا اِس لئے بلند مینار عزت کا محمدیوں کے حصّہ میں آیا اور اس جگہ محمدی کہا.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو لوگ اب تک صرف ظاہری قوت اور شوکتِ اسلام دیکھ رہے تھے جس کا اسم مـحمد مظہر ہے اب وہ لوگ بکثرت آسمانی نشان پائیں گے جو اسم احـمد کے مظہر کو لازم حال ہے کیونکہ اسم احـمد انکسار اور فروتنی اور کمال درجہ کی مـحوّیت کو چاہتا ہے جو لازم حال حقیقت احـمدیّت اور حامدیّت اور عاشقیّت اور مُـحبیّت ہے اور حامدیّت اور عاشقیّت کے لازم حال صدورِ آیاتِ تائیدیہ ہے.‘‘ (اربعین نمبر ۳.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۲۹ حاشیہ) ۲ (ترجمہ از ناشر) اور میرے نشان روشن ہوگئے.۳ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) میاں وزیر خاں صاحب افغان کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دوست مولوی محمد احسن صاحب تھے.رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۱۴ صفحہ ۳۶۳.۴ الـحاقّۃ: ۴۵ ۵ (ترجمہ از ناشر) کہہ ہدایت دراصل خدا کی ہدایت ہے.۶ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’ اگر کوئی شخص بطور افترا کے نبوت اور مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کرے تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہء نبوت کے مانند ہر گز زندگی نہیں پائے گا.‘‘ (اربعین نمبر ۴.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۳۰)
۴؍ دسمبر۱۹۰۰ء ’’ منشی الٰہی بخش اکونٹنٹ کی کتاب عصائے موسیٰ مجھ کو ملی جس میں میری ذاتیات کی نسبت محض سُوءِ ظن سے اور خدا کی بعض سچی اور پاک پیشگوئیوں پر سراسر شتاب کاری سے حملے کئے گئے ہیں.وہ کتاب جب مَیں نے ہاتھ سے چھوڑی تو تھوڑی دیر کے بعد منشی الٰہی بخش صاحب کی نسبت یہ الہام ہوا.یُرِیْدُ وْنَ اَنْ یَّـرَوْا طَـمَثَکَ.وَاللّٰہُ یُرِیْدُ اَنْ یُّرِیَکَ اِنْعَامَہٗ.اَ.لْاِنْعَامَاتِ الْمُتَوَاتِرَۃَ.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ اَوْلَادِیْ.وَاللّٰہُ وَلِیُّکَ وَ رَبُّکَ.فَقُلْنَا یَا نَارُ کُـوْنِیْ بَـرْدًا.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ ھُمْ یُـحْسِنُوْنَ الْـحُسْنٰی.؎۱ ترجمہ.یہ لوگ خونِ حیض تجھ میں دیکھنا چاہتے ہیں یعنی ناپاکی اور پلیدی اور خباثت کی تلاش میں ہیں اور خدا چاہتا ہے کہ اپنی متواتر نعمتیں جو تیرے پر ہیں دکھلاوےاور خونِ حیض سے تجھے کیوں کر مشابہت ہو اور وہ کہاں تجھ میں باقی ہے.پاک تغیرات نے اس خون کو خوبصورت لڑکا بنادیا اور وہ لڑکا جو اس خون سے بنا میرے ہاتھ سے پیدا ہوا اِس لئے تو مجھ سے بمنزلہ اولاد کے ہے.یعنی گو بچوں کا گوشت پوست خونِ حیض سے ہی پیدا ہوتا ہے مگر وہ خونِ حیض کی طرح ناپاک نہیں کہلا سکتے.اسی طرح تُو بھی انسان کی فطرتی ناپاکی سے جو لازمِ بشریّت ہے اور خونِ حیض سے مشابہ ہے ترقی کر گیا ہے.اب اس پاک لڑکے میں خونِ حیض کی تلاش کرنا حُمق ہے.وہ تو خدا کے ہاتھ سے غلامِ زکی بن گیا اور اس کے لئے بمنزلہ اولاد کے ہوگیا.اور خدا تیرا متولّی اور تیرا پرورندہ ہے اس لئے خاص طور پر پدری مشابہت درمیان ہے.جس آگ کو اس کتاب عصائے موسیٰ سے بھڑکانا چاہا ہے ہم نے اُس کو بجھا دیا ہے.خدا پرہیزگاروں کے ساتھ ہے جو نیک کاموں کو پوری خوبصورتی کے ساتھ انجام دیتے ہیں اور تقویٰ کے باریک پہلوؤں کا لحاظ رکھتے ہیں.‘‘ (اربعین نمبر ۴.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۵۱، ۴۵۲ حاشیہ) ۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) اخبار الحکم مورخہ ۱۰؍ دسمبر ۱۹۰۰ء صفحہ ۶ پر اس الہام کی نسبت لکھا ہے کہ.’’آپ نے ۴؍دسمبر ۱۹۰۰ء کی صبح کو فرمایا کہ رات کو الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ کی کتاب کے آنے کا نقشہ میرے سامنے پیش کیا گیا اور پھر یہ الہام ہوا……‘‘ اِس الہام پر حضرت ؑ نے فرمایا کہ ’’یہ الہام اپنے اندر ایک علمی اور فلسفیانہ پہلو رکھتا ہے جو طمثؔ کے لفظ سے اور اس کے مقابلہ میں اَوْلَادِیْ کے لفظ میں رکھا گیا ہے.کیا مطلب کہ یہ مخاطب لوگ تو ایک ناپاک اور ردّی شَے سمجھتے ہیں حالانکہ ان کو اتنی خبر نہیں ہے کہ اَنْتَ مِـنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ اَوْلَادِیْ.غرض یہ ہے کہ اس مبشر الہام سے صادق مسیح موعود علیہ السلام کا انجام ایک غضب و غصہ کے فرزند کے بالمقابل صاف معلوم ہوتا ہے.‘‘
۸؍ دسمبر ۱۹۰۰ء ۸؍دسمبر ۱۹۰۰ء کی صبح کو فرمایا کہ کل رات میری انگلی کے پوٹے میں درد تھا اور اِس شدّت کے ساتھ درد تھا کہ مجھے خیال آیا تھا کہ رات کیوں کر بسر ہوگی.آخر ذرا سی غنودگی ہوئی اور الہام ہوا.کُـوْنِیْ بَـرْدًا وَّ سَلَامًا؎۱ اور سَلَامًا کا لفظ ابھی ختم نہ ہونے پایا تھا کہ معاً درد جاتا رہا ایسا کہ کبھی ہوا ہی نہیں تھا.‘‘؎۲ (الحکم جلد ۴ نمبر ۴۴ مورخہ ۱۰؍ دسمبر ۱۹۰۰ء صفحہ۶) ۱۱؍ دسمبر۱۹۰۰ء ’’ مَیں ہرگز یقین نہیں رکھتا کہ مَیں اس وقت سے پہلے مروں جب تک کہ میرا قادر خدا ان جھوٹے الزاموں سے مجھے بَری کرکے آپ۳؎ کا کاذب ہونا ثابت نہ کرے اَلَا اِنَّ لَعْنَۃَ اللہِ عَلَی الْکَاذِ.بِیْنَ اسی کے متعلق قطعی اور یقینی طور پر مجھ کو ۱۱؍د؎۴سمبر۱۹۰۰ء روز پنجشنبہ کو یہ الہام ہوا.برمقامِ فلک شدہ یاربّ گر اُمیدے دِہم مدار عجب؎۵ ۱ (ترجمہ از ناشر) تو ٹھنڈک اور سلامتی بن جا.۲ ’’ اس پر آپ نے فرمایا کہ ہم کو تو خدا تعالیٰ کے اس کلام پر جو ہم پر وحی کے ذریعہ نازل ہوتا ہے اس قدر یقین اور علیٰ وجہ البصیرت یقین ہے کہ بیت اللہ میں کھڑا کرکے جس قسم کی چاہو قسم دے دو بلکہ میرا تو یقین یہاں تک ہے کہ اگر مَیں اس بات کا انکار کروں یا وہم بھی کروں کہ یہ خدا کی طرف سے نہیں تو معاً کافر ہوجاؤں.‘‘ (الحکم مورخہ ۱۰؍ دسمبر ۱۹۰۰ء صفحہ۶) ۳ منشی الٰہی بخش اکاؤنٹنٹ (ناشر) ۴ (نوٹ از ناشر) ۱۱؍ دسمبر ۱۹۰۰ء روز پنج شنبہ سہو کاتب ہے.الحکم جلد ۴ نمبر ۴۵ مورخہ ۱۷؍دسمبر ۱۹۰۰ء صفحہ ۲ میں اس وحی کی تاریخ ۱۳؍دسمبر وقت شب لکھی ہے جو درست تاریخ ہےاور تقویم کے حساب سے بھی روز پنج شنبہ کو ۱۳؍دسمبر ۱۹۰۰ء ہی قرار پاتی ہے.۵ ’’ بر مقامِ فلک شدہ یاربّ گر اُمیدے دِہَم مدار عجب (خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تیری دُہائی اب آسمان پر پہنچ گئی ہے.اب مَیں اگر تجھے کوئی امیداور بشارت دُوں تو تعجب مت کر.میری سنّت اور موہبت کے خلاف نہیں) بعد ۱۱.انشاء اللہ (فرمایا اس کی تفہیم نہیں ہوئی کہ ۱۱سے کیا مُراد ہے گیارہ دن یا گیارہ ہفتے یا کیا.یہی ہندسہ ۱۱ کا دکھایا گیا ہے).‘‘ (الحکم مورخہ ۱۷؍دسمبر۱۹۰۰ء صفحہ )
بعد؎۱ ۱۱.انشاء اللہ تعالیٰ.مَیں نہیں جانتا کہ گیار۱۱اں دن ہیں یا گیار۱۱اں ہفتہ یا گیار۱۱اں مہینے یا گیار۱۱اں سال.مگر بہرحال ایک نشان میری بریّت کے لئے اس مدّت میں ظاہر ہوگا.‘‘ (اربعین نمبر۴.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۵۷ حاشیہ) ۱۳؍ دسمبر ۱۹۰۰ء (الف) ’’ پھر وحی ہوئی.لاہور میں ہمارے پاک ممبر موجود ہیں ان کو اطلاع دی جاوے.نظیف مٹی کے ہیں.وسوسہ ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اس کا انکشاف ہوا کہ یہ الہام الٰہی بخش کے بارے میں ہے چنانچہ حضورتتمہ حقیقۃ الوحی کے حاشیہ میں تحریر فرماتے ہیں.’’بابو الٰہی بخش صاحب گیارہ چارپایوں کے ہلاک ہونے کے بعد طاعون کے ساتھ ہلاک کئے گئے.جیسا کہ اس الہامی شعر میں ہے؎ برمقامِ فلک شدہ یاربّ گر اُمیدے دِہم مدار عجب بعد گیار۱۱اں.اس سے معلوم ہوا کہ بابو صاحب کا بارھوا۱۲ں نمبر تھا اور ان کے بعد دو اَور ہیں تا چودہ۱۴ پورے ہوجاویں.‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۸۹ حاشیہ) چونکہ الہامی پیشگوئیاں ذوالوجوہ والمعارف ہوا کرتی ہیں جن کے مصداق متعدد بار وقوع پذیر ہوکر مومنوں کے ایمان کو تازہ کرتے اور نیا عرفان پیدا کرتے ہیں.اِس بناء پر اس پیشگوئی کا ایک اور بھی مصداق حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ الودود کے وجود میں ظاہر ہوا چنانچہ حضرت ممدوح نے اس الہام کو ہجرت قادیان پر چسپاں کرتے ہوئے فرمایا.’’جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات کے مطالعہ سے مَیں نے سمجھا کہ ہماری ہجرت یقینی ہے اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ مجھے قادیان چھوڑ دینا چاہیےتو اس وقت لاہور فون کیا گیا کہ کسی نہ کسی طرح ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا جائے لیکن آٹھ دس دن تک کوئی جواب نہ آیا اور جواب آیا بھی تو یہ کہ حکومت کسی قسم کی ٹرانسپورٹ مہیا کرنے سے انکار کرتی ہے اس لئے کوئی گاڑی نہیں مل سکتی مَیں اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات کا مطالعہ کررہا تھا.الہامات کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے ایک الہام نظر آیا.’’بعد گیارہ ‘‘ مَیں نے خیال کیا کہ گیارہ سے مراد گیارہ تاریخ ہے اور مَیں نے سمجھا کہ شاید ٹرانسپورٹ کا انتظام قمری گیارہ تاریخ کے بعد ہوگا مگر انتظار کرتے کرتے عیسوی ماہ کی ۲۸تاریخ آگئی لیکن گاڑی کا کوئی انتظام نہ ہوسکا… مَیں سوچ رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہام ’’بعد گیارہ‘‘ سے کیا مراد ہے.تو مجھے میاں بشیر احمد صاحب کا پیغام ملا کہ میجر جنرل نذیر احمد صاحب کے بھائی میجر بشیر احمد صاحب ملنے کے لئے آئے ہیں.دراصل یہ اُن کی غلطی تھی وہ میجر بشیر احمد صاحب نہیں تھے بلکہ ان کے دوسرے بھائی کیپٹن عطاء اللہ صاحب تھے… مَیں نے اُنہیں حالات بتائے
نہیں رہے گا مگر مٹی رہے گی.سلسلہ قبول الہامات میں سب سے کچا مولوی تھا.سب مولوی ننگے ہوجائیں گے.اَنَـا اللّٰہُ ذُ والْمِنَنِ.اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُـوْمُ.‘‘ ؎۱ (الحکم جلد ۴ نمبر۴۵ مورخہ ۱۷؍دسمبر ۱۹۰۰ء صفحہ۲) (ب) ’’ ایک دفعہ الہام ہوا تھا کہ لاہور میں ہمارے پاک محبّ ہیں.وسوسہ پڑگیا ہے پر مٹی نظیف ہے.وسوسہ نہیں رہے گا.مٹی رہے گی.‘‘ (الحکم جلد۶ نمبر ۲۹ مورخہ ۱۷؍اگست ۱۹۰۲ء صفحہ۱۲) ۱۹۰۰ء ’’ ایک دفعہ ڈاکٹر نور محمد صاحب مالک کارخانہ ہمدمِ صحت کا لڑکا سخت بیمار ہوگیا.اس کی والدہ بہت بے تاب تھی.اس کی حالت پر رحم آیا اور دعا کی تو الہام ہوا.’’اچھا ہو جائے گا.‘‘ بقیہ حاشیہ.اور کہا کہ وہ سواری اور حفاظت کا کوئی انتظام کرسکتے ہیں.انہوں نے کہا کہ مَیں آج ہی واپس جاکر کوشش کرتا ہوں… آخر اُنہوں نے نواب محمد الدین صاحب مرحوم کی کار لی اور عزیز منصور احمد کی جیپ.اسی طرح بعض اَور دوستوں کی کاریں حاصل کیں اور قادیان چل پڑے.دوسرے دن ہم نے اپنی طرف سے ایک اَور انتظام کرنے کی بھی کوشش کی اور چاہا کہ ایک احمدی کی معرفت کچھ گاڑیاں مل جائیں.اُس دوست کا وعدہ تھا کہ وہ ملٹری کو ساتھ لے کر آٹھ نو بجے قادیان پہنچ جائیں گے لیکن وہ نہ پہنچ سکے یہاں تک کہ دس بج گئے اس وقت مجھے یہ خیال آیا کہ شاید گیارہ سے مراد گیارہ بجے ہو اور یہ انتظام گیارہ کے بعد ہو.میاں بشیر احمد صاحب جن کے سپرد ان دنوں ایسے انتظام تھے اُن کے بار بار پیغام آتے تھے کہ سب انتظام رہ گئے ہیں اور کسی میں بھی کامیابی نہیں ہوئی.مَیں نے اُنہیں فون کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہام ’’بعد گیارہ‘‘ سے مَیں سمجھتا ہوں کہ گیارہ بجے کے بعد کوئی انتظام ہوسکے گا.پہلے مَیں سمجھتا تھا کہ اس سے گیارہ تاریخ مراد ہے لیکن اب میرا خیال ہے کہ شاید اس سے مراد گیارہ بجے کا وقت ہے… آخر گیارہ بج کر پانچ منٹ پر مَیں نے فون اُٹھایا اور چاہا کہ ناصر احمد کو فون کروں کہ ناصر احمد نے کہا کہ مَیں فون کرنے ہی والا تھا کہ کیپٹن عطاء اللہ یہاں پہنچ چکے ہیں اور گاڑیاں بھی آگئی ہیں چنانچہ ہم کیپٹن عطاء اللہ صاحب کی گاڑیوں میں قادیان سے لاہور پہنچے.‘‘ (اقتباس خطبہ جمعہ از حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ.الفضل مورخہ ۳۱؍جولائی ۱۹۴۹ء صفحہ ۵،۶) ۱ (ترجمہ از مرتّب) مَیں اللہ ہوں بہت احسان کرنے والا.مَیں یقیناً اپنے رسول کی مدد کے لئے کھڑا ہوں گا.
اسی وقت یہ الہام سب کو سنایا گیا جو پاس موجود تھے.آخر ایسا ہی ہوا کہ وہ لڑکا خدا کے فضل سے بالکل تندرست ہوگیا.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸.صفحہ ۶۰۸) ۱۹۰۰ء ’’حضرت اُمّ المؤمنین علیہا السلام کی طبیعت ۳؍جنوری ۱۹۰۱ء کو کسی قدر ناساز ہوگئی تھی.اس کے متعلق حضرت اقدس نے سیر کے وقت فرمایا کہ چند روز ہوئے مَیں نے اپنے گھر میں کہا کہ مَیں نے کشف میں دیکھا ہے کہ کوئی عورت آئی ہے اور اس نے آکر کہا ہے کہ تمہیں؎۱کچھ ہوگیا ہے اور پھر الہام ہوا اَصِـحَّ زَوْجَتِیْ۲؎ چنانچہ کل ۳؍جنوری ۱۹۰۱ء کو یہ کشف اور الہام پورا ہوگیا.یکایک بے ہوشی ہوگئی اور جس طرح پر مجھے دکھایا گیا تھا اسی طرح ایک عورت نے آکر بتا دیا.‘‘ (الحکم جلد ۵ نمبر ۳ مورخہ ۲۴؍جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ۵) ۱۹۰۱ء ’’ قَالُـوْٓا اِنَّ التَّفْسِیْرَ لَیْسَ بِشَیْ ءٍ.‘‘؎۳ (الحکم جلد ۵ نمبر ۳ مورخہ ۲۴؍جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ۸) ۱۵؍ جنوری ۱۹۰۱ء (الف) ’’ فرمایا.آج رات کو الہام ہوا.مَنَعَہٗ مَانِعٌ مِّنَ السَّمَآءِ.یعنی اِس تفسیر نویسی میں کوئی تیرا مقابلہ نہ کرسکے گا.خدا نے مخالفین سے سلب ِطاقت اور سلب ِعلم کرلیا ہے.اگرچہ ضمیر واحد مذکر غائب ایک شخص یعنی مہر شاہ؎۴کی طرف ہے لیکن خدا نے ہمیں سمجھایا ہے کہ اس شخص کے وجود میں تمام مخالفین کا وجود شامل کرکے ایک ہی کا حکم رکھا ہے تاکہ اعلیٰ سے اعلیٰ اور اعظم سے اعظم معجزہ ثابت ہو کہ تمام مخالفین ایک وجود یا کئی جان ایک قالب بن کر اس تفسیر کے مقابلہ میں لکھنا چاہیں تو ہرگز نہ لکھ سکیں گے.‘‘ (الحکم جلد ۵ نمبر ۳ مورخہ ۲۴؍جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ۱۰) ۱ حضرت اُمّ المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا مراد ہیں.(شمس) ۲ (ترجمہ از ناشر) میری بیوی کو تندرست کردے.۳ (ترجمہ از مرتّب) انہوں نے کہا کہ یہ تفسیر کچھ بھی نہیں (یعنی تفسیر اعجاز المسیح) ۴ یعنی پیر مہر علی شاہ گولڑوی.(شمس)
(ب) ’’ اِنِّیْ اُرِیْتُ مُبَشِّــرَۃً فِیْ لَیْلَۃِ الثُّلَثَآءِ.اِذْ دَعَوْتُ اللّٰہَ اَنْ یَّـجْعَلَہٗ مُعْـجِزَۃً لِّلْعُلَمَآءِ.وَ دَعَوْتُ اَنْ لَّا یَقْدِرَ عَلٰی مِثْلِہٖ اَحَدٌ مِّنَ الْاُدَبَآءِ.وَلَا یُعْطٰی لَھُمْ قُدْرَۃٌ عَلَی الْاِنْشَآءِ.فَاُجِیْبَ دُعَآئِیْ فِیْ تِلْکَ اللَّیْلَۃِ الْمُبَارَکَۃِ مِنْ حَضْـرَۃِ الْکِبْرِیَآءِ.وَ بَشَّرَنِیْ رَبِّیْ وَقَالَ مَنَعَہٗ مَانِعٌ مِّنَ السَّمَآءِ.فَفَھِمْتُ اَنَّہٗ یُشِیْرُ اِلٰی اَنَّ الْعِدَا لَا یَقْدِرُوْنَ عَلَیْہِ.وَ لَا یَاْتُـوْنَ بِـمِثْلِہٖ وَلَا کَصِفَتَیْہِ.وَکَانَتْ ھٰذِہِ الْبِشَارَۃُ مِنَ اللّٰہِ الْمَنَّانِ فِی الْعَشْـرِالْاٰخِرِ مِنْ رَمَضَانَ؎۱.‘‘ (اعجاز المسیح.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۶۸،۶۹) (ج) ’’ جب بالمقابل تفسیر نویسی میں مخالف مولوی عاجز آگئے اور مہر علی شاہ گولڑوی نے کئی طرح کی قابل شرم کارروائیاں کیں تو اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کو یک طرفہ طور پر تفسیر القرآن کا معجزہ عطا فرمایا اور ستر۷۰ روز کے عرصہ میں رسالہ اعجاز المسیح لکھا گیا.اِس عرصہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں پیش آئیں اور بہت سا وقت بیماری میں گزرا… انہیں دنوں میں اس رسالہ کے متعلق یہ الہام ہوا کہ مَنَعَہٗ مَانِعٌ مِّنَ السَمَآءِ یعنی روک دیا اس کو روکنے والے نے آسمان سے.سو یہ الہام اس صفائی سے پورا ہوا ہےکہ اب تک میاں مہر علی اُس کا جواب نہیں دے سکا اور نہ اُن کا کوئی حامی جواب دینے پر قادر ہوسکا.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۶۰۲) ۱۹۰۱ء ’’ کتاب اعجاز المسیح کے بارے میں یہ الہام ہوا تھا کہ مَنْ قَامَ لِلْجَوَابِ وَ تَنَمَّرَ.فَسَوْفَ یَـرٰی اَنَّہٗ تَنَدَّ مَ وَ تَذَ مَّرَ یعنی؎۲ جو شخص غصہ سے بھر کر اس کتاب کا جواب لکھنے کے لئے طیّار ہوگا وہ عنقریب دیکھ لے گا کہ وہ نادم ہوا اور حسرت کے ساتھ اُس کا خاتمہ ہوا.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۷۱، ۵۷۲) (ترجمہ از مرتّب) منگل کی رات کو مَیں نے ایک مبشر خواب دیکھا تھا جبکہ مَیں نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی تھی کہ اس کتاب (اعجاز المسیح) کو علماء کے لئے معجزہ بنادے اور یہ دعا کی تھی کہ کوئی ادیب اس کی مثل نہ لاسکے اور انہیں اس کے انشاء کی توفیق ہی نہ ملے.پس میری دعا اسی مبارک رات خدا تعالیٰ کی جناب میں قبول ہوگئی اور میرے خدا نے مجھے بشارت دی اور فرمایا کہ آسمان سے منع کردیا گیا ہے کہ کوئی شخص اس کتاب کی نظیر لکھے.تو مَیں سمجھ گیا کہ اس الہام میں خدا نے اشارہ کیا ہے کہ دشمن اس امر پر قادر نہیں ہوں گے اور اس کی مثل نہیں لاسکیں گے (نہ ہی بلاغت میں اور نہ ہی سورۂ فاتحہ کے حقائق میں) اور یہ بشارت رمضان شریف کے آخری عشرے میں ملی تھی.۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.(الف) ’’محمد حسن فیضی ساکن موضع بھیں تحصیل چکوال ضلع جہلم
۱۹۰۱ء ۱؎ ’’ بَلِیَّۃٌ مَّالِیَّۃٌ.یعنی مالی ابتلاء.‘‘ (البدر جلد ۲نمبر ۳ مورخہ ۶؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۴ ) ۲۲؍ فروری ۱۹۰۱ء ’’ فرمایا.رات ایک پھنسی نے جو کئی دن سے نکلی ہوئی ہے اور ساتھ ہی خارش نے تنگ کیا.بشریّت کی وجہ سے دھیان آیا کہ کہیں یہ ذیابیطس کا اثر اور نتیجہ نہ ہو.اتنے میں خدا ئے رحیم و قدوس نے وحی کی کہ اِنِّیْ اَنَـا الرَّحْـمٰنُ دَافِــعُ الْاَذٰی ؎۲ اور پھر وحی ہوئی.اِنِّیْ لَا یَـخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَ.‘‘ ؎۳ (از چٹھی مولانا عبدالکریم صاحبؓ مندرجہ الحکم جلد۵ نمبر۸ مورخہ ۳؍مارچ ۱۹۰۱ء صفحہ ۹) ۲۳؍ فروری ۱۹۰۱ء حضرت اقدسؑ کو الہام ہوا.’’ کَـفَیْنَاکَ الْمُسْتَـھْزِئِیْنَ.‘‘ ؎۴ (الحکم جلد۵ نمبر ۸ مورخہ ۳؍مارچ ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۲) بقیہ حاشیہ.مدرس مدرسہ نعمانیہ واقعہ شاہی مسجد لاہور نے عوام میں شائع کیا کہ مَیں اس کتاب کا جواب لکھتا ہوں اور ایسی لاف مارنے کے بعد جب اس نے جواب کے لئے نوٹ تیار کرنے شروع کئے اور ہماری کتاب کے اندر بعض صداقتوں پر جو ہم نے لکھی تھیں لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ لکھا تو جلد ہلاک ہوگیا دیکھو مجھ پر لعنت بھیج کر ایک ہفتہ کے اندر ہی آپ لعنتی موت کے نیچے آگیا.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۷۲) (ب) ’’پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے جب اس کتاب اعجاز المسیح کا بہت عرصہ کے بعد جواب اُردو میں لکھا تو اِس بات کے ثابت ہوجانے سے کہ یہ اُردو عبارت بھی لفظ بلفظ مولوی محمد حسن بھیں کی کتاب کا سرقہ ہے مہر علی شاہ کی بڑی ذلّت ہوئی اور مذکورہ بالا الہام اُس کے حق میں بھی پورا ہوا.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۵۷۲) ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) اِس الہام کو ۱۹۰۱ء کے تحت اس لئے رکھا گیا کہ البدر کے مندرجہ بالا پرچے میں یہ الفاظ ہیں.’’یکم فروری کو ایک ۲دو سال کا الہام آپ نے اس کے متعلق سنایا‘‘ اور الحکم ۱۴؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۷ میں یہ الفاظ ہیں.’’فرمایا ایک پُرانا الہام بَلِیَّۃٌ مَّالِیَّۃٌ ہے.‘‘ ۲ (ترجمہ از مرتّب) مَیں رحمٰن ہوں تکلیفوں کو دُور کرنے والا.۳ (ترجمہ از مرتّب) میرے حضور میں مُرسل نہیں ڈرتے.۴ (ترجمہ از مرتّب) ٹھٹھا کرنے والوں کے مقابلہ میں ہم تیرے لئے کافی ہیں.
اپریل ۱۹۰۱ء ’’ حضرت اقدس امام ہمام علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک روز اپنی اور سلسلہ عالیہ کے خاص دوستوں کی زیادتی عمر کے لئے دعا کی تو یہ مبشر الہام ہوا.رَبِّ زِدْ فِیْ عُـمُرِیْ وَ فِیْ عُـمُرِ زَوْجِیْ زِیَـادَۃً خَارِقَ الْعَادَۃِ.۱؎ (الحکم جلد۵ نمبر ۱۴ مورخہ ۱۷؍اپریل ۱۹۰۱ء صفحہ۱۳) ۱۸؍ اپریل ۱۹۰۱ء ’’۱۸؍اپریل ۱۹۰۱ء کو آپ نے ایک الہام سنایا تھا.سال دیگر را کہ مے داند حساب تا کجا رفت آنکہ باما بود یار‘‘ ؎۲ (الحکم جلد۵نمبر ۱۸ مورخہ ۱۷؍مئی ۱۹۰۱ء صفحہ۱۲) ۱۹۰۱ء ’’ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایک دفعہ بخار آیا تو الہام ہوا.’’ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ‘‘ چنانچہ اس کے بعد بہت جلد تندرست ہوگئے.‘‘ (الحکم جلد۵نمبر ۲۱ مورخہ ۱۰؍جون ۱۹۰۱ء صفحہ۹ حاشیہ) ۹؍مئی ۱۹۰۱ء ’’۹؍مئی ۱۹۰۱ء کو آپ نے یہ الہام سنایا.’’آج سے یہ شرف دکھائیں گے ہم ‘‘ (الحکم جلد۵نمبر ۱۸ مورخہ ۱۷؍مئی ۱۹۰۱ء صفحہ۱۲) ۱۹۰۱ء ’’ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک سورۃ بھیج کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قدر اور مرتبہ ظاہر کیا ہے اور وہ سورۃ ہے اَلَمْ تَـرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْـحَابِ الْفِیْلِ… اس میں ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے کہ کیا تُونے نہیں دیکھا کہ تیرے ربّ نے اَصْـحَابُ الْفِیْلِ کے ساتھ کیا کِیا.یعنی اُن کا مکر اُلٹا کر اُن پر ہی مارا… یہ پیشگوئی قیامت تک جائے گی.جب کبھی کوئی اصحاب الفیل پیدا ہوگا تب ہی اللہ تعالیٰ اُن کے تباہ کرنے کے لئے اُن کی کوششوں کو خاک میں ملادینے کے سامان کردیتا ہے… اس وقت اَصْـحَابُ الْفِیْل کی شکل میں اسلام پر حملہ کیا گیا ہے.مسلمانوں کی حالت میں بہت کمزوریاں ہیں.اسلام غریب ہے اور اصحابِ فیل زور میں ہیں مگر اللہ تعالیٰ وہی نمونہ پھر دکھانا چاہتا ہے… (ترجمہ) اے میرے ربّ! میری عمر میں اور میرے ساتھی کی عمر میں خارق عادت زیادت فرما.‘‘ (الحکم مورخہ ۱۷؍اپریل ۱۹۰۱ء صفحہ۱۳) ۲ (ترجمہ از مرتّب) آئندہ سال کا حساب کون جانتا ہے.جو دوست گذشتہ سال ہمارے ساتھ تھے وہ اَب کدھر گئے.
مجھے بھی یہی؎۱الہام ہوا ہے جس سےصاف صاف پایا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی نصرت اور تائید اپنا کام کرکے رہے گی.‘‘ (الحکم جلد۵نمبر۲۶مورخہ ۱۷؍جولائی ۱۹۰۱ء صفحہ۲) ۱۹۰۱ء ’’ اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کا نام سُلْطَانُ الْقَلَم رکھا اور میرے قلم کو ذوالفقار علی فرمایا.‘‘ (الحکم جلد ۵ نمبر ۲۲ مورخہ ۱۷؍جون ۱۹۰۱ء صفحہ۲) جولائی ۱۹۰۱ء ’’ تین دن ہوئے مجھے الہام ہوا تھا.اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً.؎۲ مَیں حیران ہوں یہ الہام مجھے بہت مرتبہ ہوا ہے اور عموماً مقدّمات میں ہوا ہے.افواج کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ مقابل میں بھی بڑے بڑے منصوبے کئے گئے ہیں اور ایک جماعت ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ کا جوش نفسانی نہیں ہوتا ہے اس کے تو انتقام کے ساتھ بھی رحمانیت کا جوش ہوتا ہے.پس جب وہ افواج کے ساتھ آتا ہے تو اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ مقابل میں بھی فوجیں ہیں جب تک مقابل کی طرف سے جوشِ انتقام کی حد نہ ہوجا وے خدا تعالیٰ کی انتقامی قوت جوش میں نہیں آتی.‘‘ (الحکم جلد۵نمبر۲۶مورخہ ۱۷؍جولائی ۱۹۰۱ء صفحہ۹) ۱۱؍اگست ۱۹۰۱ء ’’ الہام الٰہی.’’ اَیَّـامُ۳؎ غَضَبِ اللّٰہِ غَضِبْتُ غَضَبًا شَدِ یْدًا.اِنَّہٗ یُنْجِیْ اَھْلَ السَّعَادَۃِ.اِنِّیْ اُنْـجِی الصَّادِقِیْنَ.‘‘۴؎ (تحریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بر رجسٹر محاورات العرب) (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) اس الہام کی تاریخ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے ۲۲؍اگست ۱۸۹۷ء لکھی ہے.دیکھیے ذکر حبیبؑ صفحہ ۲۲۱.مطبوعہ دسمبر ۱۹۳۶ء ۲ (ترجمہ از مرتّب) مَیں فوجیں لے کر تیرے پاس اچانک آؤں گا.(نوٹ از ایڈیٹر الحکم) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ۱۵؍جولائی ۱۹۰۱ء کو گورداسپور اُس مقدّمہ میں جو میرزا نظام الدین وغیرہ پر مسجد مبارک کا راستہ بندکرنے کی وجہ سے کیا گیا تھا.فریق ثانی کی درخواست پر بغرض ادائے شہادت گئے ہوئے تھے.وہاں پر آپ نے یہ الہام بیان فرمایا.(الحکم مورخہ ۱۷؍جولائی ۱۹۰۱ء صفحہ ۹) ۳ (ترجمہ از مرتّب) غضب ِ الٰہی کے ایام.میں سخت غضب ناک ہوا.وہ سعیدلوگوں کو بچالے گا.میں راست بازوں کو نجات دوں گا.۴ الحکم میں یوں مذکور ہے.’’غَضِبْتُ غَضَبًا شَدِ یْـدًا‘‘ فرمایا.جب یہ وحی ہوئی تو مَیں غضب ِ الٰہی سے ڈر گیا اور مَیں نے دُعا کی.تب یہ وحی ہوئی.
۱۵؍ اگست ۱۹۰۱ء ’’۱۵؍اگست ۱۹۰۱ء کی صبح کو ایک الہام ہوا.وَ اِنِّیْ اَرٰی بَعْضَ الْمَصَآئِبِ تَنْزِلُ.‘‘ ؎۱ (الحکم جلد۵نمبر۳۱مورخہ ۲۴؍اگست۱۹۰۱ء صفحہ۴) ۲۱؍ اگست ۱۹۰۱ء ’’الہام.اِنَّـآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَـوْثَرَ.فَصَلِّ لِـرَ بِّکَ وَ انْـحَرْ.‘‘ (تحریر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بر رجسٹر محاورات العرب) (ترجمہ) ’’ہم نے تجھ کو معارفِ کثیرہ عطا فرمائے ہیں سو اُس کے شکر میں نماز پڑھ اور قربانی دے.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ چہارم.روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ ۶۱۸ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳) ۲۶؍ اگست ۱۹۰۱ء فرمایا.’’ تقویٰ کے مضمون پر ہم کچھ شعر لکھ رہے تھے.اس میں ایک مصرع الہامی درج ہوا.وہ شعر یہ ہے ہر اِک نیکی کی جڑ یہ اِتّقا ہے اگر یہ جَڑ رہی سب کچھ رہا ہے اس میں دوسرا مصرعہ الہامی ہے.‘‘ (الحکم جلد ۵ نمبر ۳۲ مورخہ ۳۱؍اگست ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۳) ۱۹۰۱ء ’’۲۶ یا ۲۷؍اگست یا اس کے قریب ایک دن حضرت نے فرمایا ’’ہم نےرؤیامیں دیکھا ہے کہ ایک شخص نے قے کی ہے اور اس پر کپڑا دے کر اُسے چھپاتا ہے.‘‘ (الحکم جلد ۵ نمبر۳۳ مورخہ۱۰؍ستمبر ۱۹۰۱ء صفحہ ۹) ۲۸؍ اگست ۱۹۰۱ء ’’ ۲۸؍اگست ۱۹۰۱ء کی صبح کو حضرت نے فرمایا کہ ’’ ہمارے مخالف دو قسم کے لوگ ہیں.ایک تو مسلمان ملّا مولوی وغیرہ.دوسرے عیسائی انگریز وغیرہ.دونوں اس مخالفت میں اور اِسلام پر ناجائز حملے کرنے میں زیادتی کرتے ہیں.آج ہمیں ان دونوں قوموں کے متعلق ایک نظارہ دکھایا گیا اور الہام کی بقیہ حاشیہ.۱.’’غَضِبْتُ غَضَبًا شَدِیْدًا.پھر دعا کی تو یہ وحی نازل ہوئی.اِنَّہٗ یُنْجِیْ اَھْلَ السَّعَادَۃِ.۲.اس کے بعد یہ وحی ہوئی.اِنِّیْ اُنْـجِی الصَّادِقِیْنَ.‘‘ (الحکم مورخہ ۱۷؍اگست۱۹۰۱ء صفحہ۱۴) ۱ (ترجمہ از مرتّب) اور مَیں دیکھتا ہوں کہ بعض مصائب نازل ہورہے ہیں.
صورت پیدا ہوئی مگر اچھی طرح یاد نہیں رہا.انگریزوں وغیرہ کے متعلق اس طرح سے تھا کہ ان میں بہت لوگ ہیں جو سچائی کی قدر کریں گے اور ملّا مولویوں وغیرہ کے متعلق یہ تھا کہ ان میں سے اکثر کی قوت مسلوب ہوگئی ہے.‘‘ (الحکم جلد ۵ نمبر۳۳ مورخہ۱۰؍ستمبر ۱۹۰۱ء صفحہ ۹) ۲ ؍ستمبر ۱۹۰۱ء ’’فرمایا.آج ہم نےرؤیامیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کا دربا ر ہے اور ایک مجمع ہے اور اس میں تلواروں کا ذکر ہورہا ہے.تو مَیں نے اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرکے کہا کہ سب سے بہتر اور تیز تر وہ تلوار ہے جو تیری تلوار میرے پاس ہے اس کے بعد ہماری آنکھ کُھل گئی اور پھر ہم نہیں سوئے کیونکہ لکھا ہے کہ جب مبشر خواب دیکھو تو اُس کے بعد جہاں تک ہوسکے نہیں سونا چاہیے اور تلوار سے مراد یہی حربہ ہے جو کہ ہم اس وقت اپنے مخالفوں پر چلا رہے ہیں جو آسمانی حربہ ہے.‘‘ (الحکم جلد ۵ نمبر۳۳ مورخہ۱۰؍ستمبر ۱۹۰۱ء صفحہ ۹) ۳۰؍ ستمبر۱۹۰۱ء ’’۳۰؍ستمبر ۱۹۰۱ء کی رات کو حضرت اُمّ المومنین علیہا السلام نے ۱۲ بجے کے قریب ایک رؤیا دیکھی اور آپ نے حضرت اقدس کو اُسی وقت اس رؤیاسے اطلاع دی اور وہ یوں ہے.عیسیٰ کا مسئلہ حل ہوگیا.خدا کہتا ہے مَیں جب عیسیٰ کو اُتارتا ہوں تو پَوڑی کھینچ لیتا ہوں.اس کے معنے حضرت اُمّ المؤمنین کے دل میں یہ ڈالے گئے کہ عیسیٰ کی حیات و ممات میں انسان کا دخل نہیں.یہ تورؤیاکا مضمون ہے.حضرت امام ہمام علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا.اِس پر مَیں نے توجہ کی تو یہ القا ہوا کہ حقیقت میں ہزار سالہ موت کے بعد جو اَب اِحیا ہوا ہے اس میں انسانی ہاتھ کا دخل نہیں ہے.جیسے خدا نے مسیح کو بن باپ پیدا کیا تھا یہاں مسیح موعود کو بلاواسطہ کسی اُستاد یا مُرشد روحانی زندگی عطا فرمائی.اُستاد بھی حقیقت میں باپ ہی ہوتا ہے بلکہ حقیقی باپ استاد ہی ہوتا ہے.افلاطون کہتا ہے کہ باپ تو روح کو زمین پر لاتا ہے اور اُستاد زمین سے آسمان پر پہنچاتا ہے.غرض تو جیسے مسیح بِن باپ پیدا ہوا اور اُس کی اس حیات میں کسی انسان کا دخل نہ تھا ویسے ہی یہاں بدوں کسی اُستاد یا مُرشد کے خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل اورفیض
سے روحانی زندگی عطا کی.پھر مَیں نے موت کے متعلق جب توجہ کی تو ذرا سی غنودگی کے بعد الہام ہوا.فری میسن؎۱ مسلّط نہیں کئے جائیں گے کہ اس کو ہلاک کریں.فری میسن کے متعلق میرے دل میں گزرا کہ جن کے ارادے مخفی ہوں.پَوڑی کے متعلق یہ تفہیم ہوئی کہ ارواح کا نزول آسمان سے ہی ہوتا ہے اور صعود بھی آسمان ہی پر ہوتا ہے.غرض یہ کیسی لطیف بات ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس میں عظیم الشان بشارت اور پیشگوئی رکھ دی ہے.لوگ ہمارے قتل کے ارادے کریں گے مگر خدا تعالیٰ اُن کو ہم پر مسلّط نہیں کرے گا.‘‘ (الحکم جلد ۵ نمبر۳۷ مورخہ۱۰؍اکتوبر ۱۹۰۱ء صفحہ۷) ۱۹۰۱ء فرمایا.’’ مَیں نے ایک مرتبہ دیکھا کہ میرے ہاتھ میں ایک کاغذ ہے.مَیں نے ایک شخص کو دیا کہ اسے پڑھو تو اس نے کہا اس پر اواہن لکھا ہوا ہے.مجھے اس سے کراہت آئی.مَیں نے اُسے کہا کہ تو مجھے دکھا.جب مَیں نے پھر ہاتھ میں لے کر دیکھا تو اس پر لکھا ہوا تھا.اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَـخَلَقْتُ اٰدَمَ.‘‘ ؎۲ (الحکم جلد ۵ نمبر۳۹ مورخہ۲۴؍اکتوبر ۱۹۰۱ء صفحہ ۲) ۱۹۰۱ء ’’ ایک دفعہ مَیں نے عالمِ کشف میں دیکھا کہ مبارک احمد جو پسر چہارم میرا ہے چٹائی کے پاس گر پڑا ہے اور سخت چوٹ آئی ہے اور کُرتہ خون سے بھر گیا ہے.خدا کی قدرت کہ ابھی اس کشف پر شاید تین منٹ سے زیادہ نہیں گزرے ہوں گے کہ مَیں دالان سے باہر آیا اور مبارک احمد کہ شاید اس وقت سوا دو سال کا ہوگا چٹائی کے پاس کھڑا تھا.بچوں کی طرح کوئی حرکت کرکے پَیر پھسل گیا اور زمین پر جاپڑا اور کپڑے خون سے بھر گئے اور جس طرح عالمِ کشف میں دیکھا تھا اُسی طرح ظہور میں آگیا.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۹۷،۵۹۸) ۱ FREEMASON ۲ (ترجمہ از مرتّب) مَیں نے ارادہ کیا کہ خلیفہ بناؤں.پس مَیں نے آدم کو پیدا کیا.
۲۱؍ اکتوبر ۱۹۰۱ء ’’ قاضی یوسف علی صاحب نعمانی سر رشتہ دار ایگزیکٹو کمیٹی انتظامی کونسل سنگرور ریاست جیند پانچ مہینے سے سخت بیمار تھے.بیماری کی حالت میں سنگروؔر سے بمشکل دارالامان حضرت امام کے قدموں میں حاضر ہوئے چونکہ ان کی اپنی زندگی کا بالکل بھروسہ نہیں رہا تھا اور زیست سے قطع امید کرکے اس نیت سے کہ امام کے قدموں میں جان نکلے آپڑے یہاں بھی علاج ہوتا رہا اور کوئی فائدہ کی صورت نظر نہ آئی ایک روز وہ سخت بیمار ہوئے یعنی ۲۱؍اکتوبر ۱۹۰۱ء کو ظہر کے وقت سے اُن کی حالت متغیر ہوگئی رانوں تک پیر اور مونڈھوں تک ہاتھ ٹھنڈے یخ ہوگئے بہت کچھ تدبیریں کیں کوئی کارگر نہ ہوئی عشاء کا وقت آگیا اور حالت خراب ہوتی گئی.رات کے گیارہ بجے وہ حالت پیدا ہوئی جو مایوسی کی حالت تھی اور نصف بدن بے جان ہوگیا اور قریب تھا کہ رُوح پرواز کر جائے.نبض ایسی کمزور ہوئی کہ گویا ایک کیڑی کی چال سے بھی کم تھی قاضی صاحب نے اپنا آخری وقت قطعی جان لیا اور یقین ہوگیا کہ اب زیست کا پیالہ لبریز ہوگیا کلمہ شہادت پڑھا اور اپنے امام کی تصدیق کی تجدید کی اور اپنے آپ کو خدا کی طرف لگایا.یہ آخری حالت دیکھ کر صاحبزادہ پِیر سراج الحق صاحب نعمانی گھبرائے اور حضرت امام علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے حضرت امام علیہ السلام کو جگا کر یہ ماجرا عرض کیا کہ اب قاضی صاحب کا آخری وقت ہے.حضرت اقدس نے تین دوائیں اپنے پاس سے اُسی وقت طیّار کرکے صاحبزادہ صاحب کو عنایت کیں اور خود دعا کی.کچھ منٹ ہی گزرے ہوں گے جو حضرت کو ۲دو رؤیامبشر اور ایک الہام ہوا.وہ الہام یہ ہے.ھٰذَا عِلَاجُ الْوَقْتِ وَ الـنِّرْبِسِیْ اس کےمعنے یہ ہوئے کہ یہ جو علاج آپ نے کِیا یہ ایسے ہی آڑے وقت کا علاج ہے اور نِـرْ.بِسِیْ جو زہروں کو دُور کرنے والی ہے، اس کا استعمال کرو.سو حضرت اقدس صبح کے وقت نِـرْ.بِسِیْ اپنے ساتھ لائے اور اس کے استعمال کا حکم دیا.یہ یقینی بات ہے کہ اِدھر حضرت اقدس نے دُعا کی اور اُدھر الہام اوررؤیاہوا اور اُسی وقت جو ایک منٹ کا فاصلہ بھی بیچ میں نہیں بتاسکتے قاضی صاحب میں رُوح داخل ہوگئی اور آناً فاناً میں تندرست ہوگئے.‘‘ (الحکم جلد ۵ نمبر۳۹ مورخہ۲۴؍اکتوبر ۱۹۰۱ء صفحہ۱۵، ۱۶)
۱۶؍ نومبر ۱۹۰۱ء ’’فرمایا.آج ایک مُنذِر الہام ہوا ہے اور اس کے ساتھ ایک خوفناک رؤیا بھی ہے.وہ الہام یہ ہے.مَــــــــــــحْــــــــــــمُــــــــــــــوْمٌ ؎۱ پھر نَـظَـرْتُ اِلَی الْــمَـــحْــمُــوْمِ ؎۲ پھر دیکھا کہ بکرے کی ران کا ٹکڑا چھت سے لٹکایا ہوا ہے.‘‘ (الحکم جلد ۵ نمبر۴۲ مورخہ۱۷؍نومبر ۱۹۰۱ء صفحہ۴) ۱۷؍ نومبر ۱۹۰۱ء ’’رات میں نے ایک رؤیا دیکھی ہے یعنی ۱۷؍نومبر کی رات کو جس کی صبح کو ۱۸؍ نومبر تھی اور وہ رؤیا یہ ہے.مَیں نے دیکھا کہ ایک سپاہی وارنٹ لے کر آیا ہے اور اس نے میرے ہاتھ پر ایک رسّی سی لپیٹی ہے تو مَیں اُسے کہہ رہا ہوں کہ یہ کیا ہے مجھے تو اس سے ایک لذّت اور سُرور آرہا ہے.وہ لذت ایسی ہے کہ مَیں اسے بیان نہیں کرسکتا.پھر اسی اثنا میں میرے ہاتھ میں معاً ایک پروانہ دیا گیا ہے.کسی نے کہا کہ یہ اعلیٰ عدالت سے آیا ہے.وہ پروانہ بہت ہی خوشخط لکھا ہوا تھا اور میرے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کا لکھا ہوا تھا.مَیں نے اس پروانہ کو جب پڑھا تو اس میں لکھا ہوا تھا.عدالت ِ عالیہ نے اسے بَری کیا ہے.فرمایا.اس سے پہلے کئی دن ہوئے یہ الہام ہوا تھا.رَشَنَ الْـخَبَرُ ؎۳ رَشَن ناخواندہ مہمان کو کہتے ہیں.‘‘ (الحکم جلد ۵ نمبر۴۴ مورخہ۳۰؍نومبر ۱۹۰۱ء صفحہ۲) ۱۹۰۱ء ’’مبارکہ؎۴کے متعلق ایک الہام سنایا.نواب مبارکہ بیگم.‘‘ (الحکم جلد ۵ نمبر۴۴ مورخہ۳۰؍نومبر ۱۹۰۱ء صفحہ۳) ۱۹۰۱ء ’’ہوا اِک خواب میں مجھ پر یہ اظہر کہ اِس؎۵کو بھی ملے گا بخت برتر لقب عزت کا پاوے وہ مقرّر یہی روزِ اَزل سے ہے مقدّر‘‘ ۱ (ترجمہ از مرتّب) یعنی ایک تپ والا.۲ (ترجمہ از مرتّب) مَیں نے اس تپ والے کی طرف دیکھا.۳ (ترجمہ از مرتّب) یعنی اچانک خبر آگئی.۴ حضرت اقدس ؑ کی صاحبزادی (مرزا بشیر احمد) ۵ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ.(مرزا بشیر احمد)
(مجموعہ آمین.بشیر احمد.شریف احمد.مبارکہ کی آمین.مطبوعہ ۲۷؍نومبر ۱۹۰۱ء) ۱۹۰۱ء ’’ ایک دفعہ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مبارک احمد میرا چوتھا لڑکا فوت ہوگیا ہے.اس سے چند دنوں کے بعد مُبارک احمد کو سخت تپ ہوا اور آٹھ دفعہ غش ہوکر آخری غش میں ایسا معلوم ہوا کہ جان نکل گئی ہے.آخر دعا شروع کی اور ابھی مَیں دعا میں تھا کہ سب نے کہا کہ مبارک احمد فوت ہوگیا ہے.تب مَیں نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا تو نہ دَم تھا نہ نبض تھی.آنکھیں میّت کی طرح پتھرا گئیں تھیں لیکن دعا نے ایک خارق عادت اثر دکھلایا اور میرے ہاتھ رکھنے سے ہی جان محسوس ہونے لگی یہاں تک کہ لڑکا زندہ ہوگیا اور زندگی کے علامات پیدا ہوگئے.تب مَیں نے بلند آواز سے حاضرین کو کہا کہ اگر عیسیٰ بن مریم نے کوئی مُردہ زندہ کیا ہے تو اس سے زیادہ ہرگز نہیں یعنی اِسی طرح کا مُردہ زندہ ہوا ہوگا نہ کہ وہ جس کی جان آسمان پر پہنچ چکی ہواور ملک الموت نے اس کی رُوح کو قرار گاہ تک پہنچا دیا ہو.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ۵۹۸) ۱ (ترجمہ از مرتّب) پاک ہے وہ ذات جس نے دشمنوں کو ذلیل و خوار کیا.
۱۹۰۱ء ’’ایک دفعہ مجھے الہام ہوا.’’ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُـحْیِ الْمَوْتٰی.رَبِّ اغْفِرْ وَ ارْحَـمْ مِّنَ السَّمَآءِ‘‘ اے میرے ربّ! مجھے دکھا کہ تُو مُردہ کیوں کر زندہ کرتا ہے اور آسمان سے اپنی بخشش اور رحمت نازل فرما.اِس الہام میں یہ خبر دی گئی کہ کبھی ایسا موقع آنے والا ہے کہ ہمیں یہ دُعا کرنی پڑے گی اور وہ قبول ہوگی چنانچہ ایسا ہوا کہ ایک دفعہ ہمارا لڑکا مبارک احمد ایسا سخت بیمار ہوا کہ سب نے کہا وہ مر گیا ہے ہم اُٹھے اور دُعا کرتے ہوئے لڑکے پر ہاتھ پھیرتے تھے تو لڑکے کو سانس آنا شروع ہوگیا تھا.علاوہ ازیں یہ الہام اس طرح سے بھی پُورا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اب تک ہمارے ہاتھ سے ہزارہا رُوحانی مُردہ زندہ کئے ہیں اور کررہا ہے.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۶۱۳، ۶۱۴) ۹؍ جنوری ۱۹۰۲ء ’’ ابتدائے جنوری ۱۹۰۲ء کو ایک عرب صاحب آئے ہوئے تھے بعض لوگ اُن کے متعلق مختلف رائیں رکھتے تھے.حضرت اقدس امام علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ۹؍جنوری کی شب کو اس کے متعلق الہام ہوا.قَدْ جَرَتْ عَادَۃُ اللّٰہِ اَنَّہٗ لَا یَنْفَعُ الْاَمْوَاتَ اِلَّا الدُّعَآءُ.؎۱ اس وقت رات کے تین بجے ہوں گے.حضرت اقدس فرماتے ہیں کہ اس وقت پر مَیں نے دعا کی تو یہ الہام ہوا.فَکَلِّمْہُ مِنْ کُلِّ بَـابٍ وَّ لَنْ یَّنْفَعَہٗ اِلَّا ھٰذَا الدَّوَآءُ (اَیْ اَلدُّعَآءُ) ؎۲ اور پھر ایک اَور الہام اسی عرب کے متعلق ہوا کہ فَیَتَّبِعُ الْقُرْاٰنَ.اِنَّ الْقُرْاٰنَ کِتَابُ اللّٰہِ کِتَابُ الصَّادِقِ.‘‘؎۳ (الحکم جلد۷ نمبر ۱۲ مورخہ ۳۱؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۳) ۱ (ترجمہ از مرتّب) اللہ تعالیٰ کی عادت اس طرح پر جاری ہے کہ مُردوں کو دعا کے سوا اَور کوئی چیز نفع نہیں دیتی.۲ (ترجمہ از مرتّب) پس اس سے ہر رنگ میں گفتگو کر مگر اس دوا (یعنی دعا) کے سوا کوئی چیز اس پر اثر نہیں کرے گی.۳ (ترجمہ از مرتّب) اس کے نتیجہ میں وہ قرآن کی اتباع اختیار کرلے گا.قرآن اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے وہ سچے کی کتاب ہے.نوٹ.چنانچہ ۹؍جنوری ۱۹۰۲ء کی صبح کو جب آپ سیر کو نکلے تو حضرت اقدسؑ نے عربی زبان میں ایک تقریر فرمائی… جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ عرب صاحب جو پہلے بڑے جوش سے بولتے تھے بالکل صاف ہوگئے اور اُنہوں نے
قریباً فروری ۱۹۰۲ء ’’ ایک رات کو مجھے اِس طرح الہام ہوا کہ جیسے اخبار عَنِ الغائب ہوتا ہے اور وہ یہ الفاظ تھے.اِنِّیْ اَفِرُّ مَعَ اَھْلِیْ اِلَیْکَ ؎۱ یہ الہام سب دوستوں کو سنایا گیا چنانچہ اُسی دن خلیفہ نورالدین؎۲ صا حب کا جـمّوںسے خط آیا کہ اس شہر میں طاعون کا زور پڑ گیا ہے اور مَیں آپ سے اجازت چاہتا ہوں کہ اپنے سب بال بچے کو ساتھ لے کر قادیان چلا آؤں.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۵۸۹) ۲۹؍ مارچ ۱۹۰۲ء ’’ ۱.لَوْ لَا الْاِکْرَامُ لَھَلَکَ الْمُقَامُ.۲.یَـاْتِیْ عَلٰی جَھَنَّمَ زَمَانٌ لَّیْسَ فِیْـھَا اَحَدٌ.‘‘۳؎ (الحکم جلد۶ نمبر۱۲ مورخہ ۳۱؍مارچ ۱۹۰۲ء صفحہ۱۵) ترجمہ.۱ اگر تیرا پاس مجھے نہ ہوتا اور تیرا اکرام مد نظر نہ ہوتا تو میں اس گاؤں کو ہلاک کردیتا.۲ طاعون پر ایک ایسا وقت بھی آنے والا ہے کہ کوئی بھی اس میں گرفتار نہیں ہوگا یعنی انجام کار خیر و عافیت ہے.(دافع البلاء.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۲۷ و ۲۲۸) ۱۹۰۲ء ’’خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا.یَـأْتِیْ عَلٰی جَھَنَّمَ زَمَانٌ لَّیْسَ فِیْـھَا اَحَدٌ یعنی اس جہنّم پر جو طاعون اور زلزلوں کا جہنّم ہے ایک دن ایسا زمانہ آئے گا کہ اِس جہنّم میں کوئی فردِ بشر بھی نہیں ہوگا.یعنی اِس ملک میں.اور جیسا کہ نوحؑ کے وقت میں ہوا کہ ایک خلقِ کثیر کی موت کے بعد امن کا بقیہ حاشیہ.صدقِ دل سے بیعت کی اور ایک اشتہار بھی شائع کیا اور بڑے جوش کے ساتھ اپنے ملک کی طرف بغرض تبلیغ چلے گئے.‘‘ (الحکم مورخہ ۳۱؍ مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۳) ۱ (ترجمہ از مرتّب) مَیں اپنے اہل کے ساتھ تیری طرف دوڑ کر آرہا ہوں.۲ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) اِس سے مراد حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نہیں ہیں بلکہ خلیفہ نورالدینؓ صاحب ساکن جموں ہیں جو پہلے تاجر کتب تھے.۳ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) ڈائری حضرت نواب محمد علی خانؓ صاحب میں اس الہام کی تاریخ ۲۹؍مارچ لکھی ہے.دیکھیے اصحابِ احمد جلد۲ صفحہ ۵۷۲ مطبوعہ اگست ۱۹۵۲ء مؤلّفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے.قادیان.
زمانہ بخشا گیا ایسا ہی اس جگہ بھی ہوگا.اور پھر اِس الہام کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ثُمَّ یُغَاثُ النَّاسُ وَ یَعْـصِـرُوْنَ.۱؎ یعنی پھر لوگوں کی دعائیں سنی جائیں گی اور وقت پر بارشیں ہوں گی.اور باغ اور کھیت بہت پھل دیں گے اور خوشی کا زمانہ آجائے گا اور غیر معمولی آفتیں دُور ہوجائیں گی.‘‘ (تجلّیاتِ الٰہیہ.روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۳۹۹) ۶ ؍اپریل ۱۹۰۲ء ۶؍اپریل ۱۹۰۲ء کی صبح کو فرمایا.’’رات مَیں نے کشف میں دیکھا کہ کوئی بیمار کتّا ہے.مَیں اُسے دوا دینے لگا ہوں تو میری زبان پر جاری ہوا.اِس کتے کا آخری دَم ہے.‘‘ (الحکم جلد۱۴ نمبر۱۹ مورخہ ۲۸؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۵) ۱۰؍اپریل ۱۹۰۲ء ’’ آج پہلے وقت ہی یہ الہام ہوا.دِلَم مے بِلرزَد چو یاد آورم مناجاتِ شوریدہ اندر حَرم ؎۲ شوریدہ سے مُراد دعا کرنے والا ہے اور حَرم سے مراد جس پر خدا نے تباہی کو حرام کردیا ہو.اور دلم مے بلرزد خدا کی طرف (سے) ہے یعنی یہ دعائیں قوی اثر ہیں.مَیں انہیںجلدی قبول کرتا ہوں.یہ خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت کا نشان ہے.دلم مے بلرزد ، بظاہر ایک غیر محل سا محاورہ ہوسکتا ہے مگر یہ اسی کے مشابہ ہے جو بخار ی میں ہے کہ مومن کی جان نکالنے میں مجھے تردّد ہوتا ہے.۱ (نوٹ از ناشر) البدر مورخہ ۶؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۸ میں یہ الہام یوں درج ہے.یُغَاثُ النَّاسُ وَ یَعْـصِـرُوْنَ.‘‘ ۲ (ترجمہ از مرتّب) جب مجھے پریشان حال شخص کا حرم میں علیٰحدگی کی حالت میں دُعا کرنا یاد آتا ہے تو میرا دل کانپ جاتا ہے.(نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) اِس الہام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس مناجات کی طرف اشارہ ہے جو حضور کی طرف سے بوساطت پِیر صاحب منشی احمد جان صاحب ۱۳۰۳ھ میں بیت اللہ کے اندر بآوازِ بلند دعا کی گئی اور جماعت آمین کہتی گئی.چنانچہ پیر صاحب جب حج کے لئے تشریف لے جانے لگے تو
توریت میں جو پچھتانا وغیرہ کے الفاظ آئے ہیں دراصل وہ اسی قسم کے محاورہ ہیں جو اس سلسلہ کی ناواقفی کی وجہ سے لوگوں نے نہیں سمجھے.اِس الہام میں خدا تعالیٰ کی اعلیٰ درجہ کی محبّت اور رحمت کا اظہار ہے اور حَرم کے لفظ میں گویا حفاظت کی طرف اشارہ ہے.‘‘ (الحکم جلد۶ نمبر۱۷ مورخہ۱۰؍مئی۱۹۰۲ء صفحہ ۶) ۱۹۰۲ء ’’ حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ رَأَیْتُ رَبِّیْ عَلٰی صُوْرَۃِ اَبِیْ.یعنی میں نے اپنے ربّ کو اپنے باپ کی شکل پر دیکھا.مَیں نے بھی اپنے والد صاحب کی شکل پر اللہ تعالیٰ کو دیکھا.اُن کی شکل بڑی با رُعب تھی.انہوں نے ریاست کا زمانہ دیکھا ہوا تھا اس لئے بڑے بلند ہمت اور عالی حوصلہ بقیہ حاشیہ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں خط لکھا کہ ’’ اِس عاجز ناکارہ کی ایک عاجزانہ التماس یاد رکھیں کہ جب آپ کو بیت اللہ کی زیارت بفضل اللہ تعالیٰ میسر ہو تو اس مقامِ محمود مبارک میں اس اَحقر عباداللہ کی طرف سے انہیں لفظوں سے مسکنت اور غربت کے ہاتھ بحضور دل اُٹھا کر گذارش کریں کہ ’’اے ارحم الراحمین! ایک تیرا بندہ عاجز و ناکارہ پُر خطا اور نالائق غلام احمد جو تیری زمین ملک ہند میں ہے اس کی یہ عرض ہے کہ اے ارحم الراحمین! تُو مجھ سے راضی ہو اور میرے خطیات اور گناہوں کو بخش کہ تُوغفور اور رحیم ہے اور مجھ سے وہ کرا جس سے تُو بہت ہی راضی ہوجائے.مجھ میں اور میرے نفس میں مشرق اور مغرب کی دُوری ڈال.اور میری زندگی اور میری موت اور میری ہر ایک قوت جو مجھے حاصل ہے اپنی ہی راہ میں کر اور اپنی ہی محبّت میں مجھے زندہ رکھ اور اپنی ہی محبّت میں مجھے مار اور اپنے ہی کامل محبّین میں اُٹھا.اے ارحم الراحمین! جس کام کی اشاعت کے لئے تُو نے مجھے مامور کیا ہے اور جس خدمت کے لئے تُو نے میرے دل میں جوش ڈالا ہے اس کو اپنے ہی فضل سے انجام تک… اور عاجز کے ہاتھ سے حجّت اسلام مخالفین پر اور ان سب پر جو اسلام کی خوبیوں سے بے خبر ہیں پوری کر اور اس عاجز اور… اور مخلصوں اور ہم مشربوں کو مغفرت اور مہربانی کے… حمایت میں رکھ کر دین و دنیا میں اُن کا متکفّل… اور سب کو اپنے دارالرضا میں پہنچا اور اپنے… اور اُس کے آل اور اصحاب پر زیادہ سے زیادہ درود و سلام و برکات نازل کر.آمین یا رب العالمین.‘‘ یہ دُعا ہے جس کے لئے آپ پر فرض ہے کہ ان ہی الفاظ سے بلا تبدّل و تغیر بیت اللہ میں حضرت ارحم الراحمین میں اِس عاجز کی طرف سے کریں.والسلام.خاکسار غلام احمد ۱۳۰۳ھ (نوٹ) اس خط کے بوسیدہ ہوجانے کی وجہ سے کچھ حصہ اُڑ گیا ہے جہاں نقطے دے دیئے ہیں.(الحکم مورخہ ۱۴؍فروری ۱۹۳۴ء صفحہ ۴)
تھے.غرض مَیں نے دیکھا کہ وہ ایک عظیم الشان تخت پر بیٹھے ہیں اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ خدا تعالیٰ ہے.اس میں سِرّ یہ ہوتا ہے کہ باپ چونکہ شفقت اور رحمت میں بہت بڑا ہوتا ہے اور قُرب اور تعلّق شدید رکھتا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ کا باپ کی شکل میں نظر آنا اس کی عنایت ‘ تعلّق اور شدّتِ محبّت کو ظاہر کرتا ہے.اس لئے قرآن شریف میں بھی آیا ہے کَذِکْرِکُمْ اٰبَآءَکُمْ۱؎ اور میرے الہامات میں یہ بھی ہے اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ اَوْلَادِیْ.۲؎ یہ قرآن شریف کی اسی آیت کے مفہوم اور مصداق پر ہے.‘‘ (الحکم جلد۶ نمبر۱۷ مورخہ۱۰؍مئی۱۹۰۲ء صفحہ ۷) ۱۰؍اپریل ۱۹۰۲ء ’’۱۰؍ اپریل کو الہام ہوا.افسوس صَد افسوس ‘‘ (الحکم جلد۶ نمبر۱۷ مورخہ۱۰؍مئی۱۹۰۲ء صفحہ ۷) ۱۱؍ اپریل ۱۹۰۲ء ’’۱۱؍ اپریل کو الہام ہوا.رہگرائے عالَمِ جاودانی شُد.‘‘ ؎۳ (الحکم جلد۶ نمبر۱۷ مورخہ۱۰؍مئی۱۹۰۲ء صفحہ ۷) ۱۹۰۲ء ’’ حضرت اقدسؑ ایک روز فرماتے تھے.ہم نے کشف میں دیکھا کہ قادیان ایک بڑا عظیم الشان شہر بن گیا اور انتہائی نظر سے بھی پَرے تک بازار نکل گئے اُونچی اُونچی دو منزلی چومنزلی یا اس سے بھی زیادہ اُونچے اُونچے چبوتروں والی دکانیں عمدہ عمارت کی بنی ہوئی ہیں اور موٹے موٹے سیٹھ، بڑے بڑے پیٹ والے جن سے بازار کو رونق ہوتی ہے، بیٹھے ہیں اور اُن کے آگے جواہرات اور لعل اور موتیوں اور ہیروں، روپوں اور اشرفیوں کے ڈھیر لگ رہے ہیں اور قسماقسم کی دوکانیں خوبصورت اسباب سے جگمگا رہی ہیں.یکّے، بگھیاں ، ٹمٹم، فٹن، پالکیاں، گھوڑے، شِکرمیں، پیدل اِس قدر بازار میں آتے جاتے ہیں کہ مونڈھے سے مونڈھا بھِڑ کر چلتا ہے اور راستہ بمشکل ملتا ہے.‘‘ (از مضمون پِیر سراج الحق صاحبؓ مندرجہ الحکم جلد۶ نمبر ۱۶ مورخہ ۳۰؍اپریل۱۹۰۲ء صفحہ۱۲،۱۳) ۱ (ترجمہ از ناشر) جس طرح تم اپنے آباء کا ذکر کرتے ہو.(البقرۃ: ۲۰۱ ) ۲ (ترجمہ) تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ اولاد.(دافع البلاء.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۲۸) ۳ (ترجمہ از مرتّب) اس نے عالَمِ بقا کی راہ اختیار کرلی.
۱۹۰۲ء ۱.’’ دو دفعہ ہم نےرؤیامیں دیکھا کہ بہت سے ہندو ہمارے آگے سجدہ کرنے کی طرح جھکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اَوتار ہیں اور کرشن ہیں اور ہمارے آگے نذریں دیتے ہیں.۲.اور ایک دفعہ الہام ہوا.ہے کرشن رُودّر گوپال تیری مہما ہو.تیری استتی گیتا میں موجود ہے.۱؎ ۳.اَنْتَ مَعِیْ وَ اِنِّیْ مَعَکَ.؎۲ اِنِّیْ بَـایَعْتُکَ بَـایَعَنِیْ رَبِّیْ.‘‘ ؎۳ (الحکم جلد۶ نمبر۱۵ مورخہ۲۴؍اپریل ۱۹۰۲ء صفحہ ۸) ۱۸؍ اپریل ۱۹۰۲ء ’’ فرمایا کہ آج رات کو یہ الہام ہوا.’’اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُـوْمُ.وَ مَنْ یَّلُوْمُہٗ اَلُوْمُ.اُفْطِرُ وَ اَصُوْمُ.‘‘ ؎۴ (الحکم جلد۶ نمبر۱۶ مورخہ ۳۰؍اپریل ۱۹۰۲ء صفحہ ۶) ۱ (ترجمہ از ناشر) سؤروں کو مارنے والے اور گائیوں کی حفاظت کرنے والے کرشن تو قابل تعریف ہے.تیری ثناء گیتا میں لکھی ہے.۲ (ترجمہ از مرتّب) تو میرے ساتھ ہے اور میں تیرے ساتھ ہوں.۳ (ترجمہ) مَیں نے تجھ سے ایک خرید و فروخت کی ہے یعنی ایک چیز میری تھی جس کا تو مالک بنایا گیا اور ایک چیز تیری تھی جس کا میں مالک بن گیا.تُو بھی اِس خرید و فروخت کا اقرار کر اور کہہ دے کہ خدا نے مجھ سے خرید و فروخت کی.(دافع البلاء.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۲۸) ۴ (ترجمہ) مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوؤں گا اس کی مدد کروں گا اورجو اُس کو ملامت کرے گا اُس کو ملامت کروں گا.روزہ افطار کروں گا اور روزہ رکھوں گا یعنی کبھی طاعون بند ہوجائے گی اور کبھی زور کرے گی.(الحکم مورخہ ۳۰؍ اپریل ۱۹۰۲ء صفحہ ۶،۷) حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’ظاہر ہے کہ خدا روزہ رکھنے اور افطار سے پاک ہے اور یہ الفاظ اپنے اصلی معنوں کی رُو سے اُس کی طرف منسوب نہیں ہوسکتے.پس یہ صرف ایک استعارہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کبھی مَیں اپنا قہر نازل کروں گا اور کبھی کچھ مہلت دُوں گا… اِس قسم کے استعارات خدا کی کتابوں میں بہت ہیں جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کو خدا کہے گا کہ مَیں بیمار تھا ،مَیں بھوکا تھا، مَیں ننگا تھا.الخ‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۷ حاشیہ)
۱۹۰۲ء ’’جو باتیں آج سے چار برس پہلے کہی گئی تھیں وہ پوری ہوگئیں…اور پھر اس کے بعد ان دنوں میں بھی خدا نے مجھے خبر دی چنانچہ وہ عزّوجلّ فرماتا ہے.۱.مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّ.بَـھُمْ وَ اَنْتَ فِیْـھِمْ.۲.اِنَّہٗ اٰوَی الْقَرْیَۃَ.۳.لَوْلَا الْاِکْـرَامُ لَھَلَکَ الْمُقَامُ.۴.اِنِّیْ اَنَـا الرَّحْـمٰنُ دَافِعُ الْاَذٰی.۵.اِنِّیْ لَا یَـخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَ.۶.اِنِّـیْ حَفِیْظٌ.۷.اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ ۸.وَ اَلُوْمُ مَنْ یَّلُوْمُ.۹.اُفْطِرُ وَ اَصُوْمُ.۱۰.غَضِبْتُ غَضَبًا شَدِیْدًا.؎۱ ۱۱.اَلْاَمْرَاضُ تُشَاعُ.وَالنُّفُوْسُ تُضَاعُ.اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْا اِیْـمَانَـھُمْ بِظُلْمٍ.اُولٰٓئِکَ لَھُمُ الْاَمْنُ وَ ھُمْ مُّھْتَدُوْنَ.۱۲.اِنَّـا نَـاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُھَا مِنْ اَطْرَافِھَا.۱۳.اِنِّـیْ اُجَھِّزُ الْـجَیْشَ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِھِمْ جَاثِـمِیْنَ.۱۴.سَنُرِیْـھِمْ اٰیَاتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْ اَنْفُسِھِمْ.۱۵.نَصْـرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَتْحٌ مُّبِیْنٌ.۱۶.اِنِّیْ بَـایَعْتُکَ بَـایَعَنِیْ رَبِّیْ.۱۷.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ اَوْلَادِیْ.؎۲ ۱۸.اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنَـا مِنْکَ.۱۹.عَسٰی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّـحْمُوْدًا.۲۰.اَلْفَوْقُ مَعَکَ وَالتَّـحْتُ مَعَ اَعْدَآئِکَ.۲۱.فَاصْبِرْ حَتّٰی یَـأْتِیَ اللّٰہُ بِـأَمْرِہٖ.۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.’’اللہ تعالیٰ نے کئی بار مجھے بذریعہ وحی فرمایا ہے کہ غَضِبْتُ غَضَبًا شَدِیْدًا.‘‘ (بدر مورخہ۴؍اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۵) حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’مَیں قسم حضرت احدیّت جلّ شانہٗ کی کھا کر کہتا ہوں کہ میرے پر خدا نے اپنی وحی کے ذریعہ سے ظاہر فرمایا ہے کہ میرا غضب زمین پر بھڑکا ہے کیونکہ اس زمانہ میں اکثر لوگ معصیت اور دنیا پرستی میں ایسے غرق ہوگئے ہیں کہ خدائے تعالیٰ پر بھی ایمان نہیں رہا اور وہ جو اُس کی طرف سے اصلاح خلق کے لئے بھیجا گیا ہے اُس سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے اور یہ ٹھٹھا اور لعن طعن حد سے گزر گیا ہے.پس خدا فرماتا ہے کہ مَیں اُن سے جنگ کروں گا.(جنگ سے مراد انسانی جنگ نہیں ہے بلکہ فرشتوں کا جنگ اور قضا و قدر کا جنگ) اور میرے وہ حملے اُن پر ہوں گے جو اُن کے خیال و گمان میں نہیں کیونکہ انہوں نے جھوٹ سے اس قدر دوستی کی کہ سچائی کو اپنے پاؤں کے نیچے پامال کرنا چاہا.پس خدا فرماتا ہے کہ مَیں نے اب ارادہ کیا ہے کہ اپنے غریب گروہ کو ان درندوں کے حملوں سے بچاؤں اور سچائی کی حمایت میں کئی نشان ظاہر کروں.‘‘ (اشتہار ۵؍اپریل ۱۹۰۵ء.مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۳۴۷،۳۴۸ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’یاد رہے کہ خدا تعالیٰ بیٹوں سے پاک ہے.نہ اس کا کوئی شریک ہے اور نہ بیٹا ہے اور نہ کسی کو حق پہنچتا ہے کہ وہ یہ کہے کہ مَیں خدا ہوں یا خدا کا بیٹا ہوں لیکن یہ فقرہ اس جگہ قبیل مجاز اور استعارہ میں سے ہے.خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا ہاتھ قرار دیا اور فرمایا
۲۲یَـاْتِیْ عَلٰی جَھَنَّمَ زَمَانٌ لَّیْسَ فِیْـھَا اَحَدٌ.ترجمہ.۱.خدا ایسا نہیں کہ قادیان کے لوگوں کو عذاب دے حالانکہ تُو ان میں رہتا ہے.۲.وہ اس گاؤں کو طاعون کی دست بُرد اور اس کی تباہی سے بچالے گا.۳.اگر تیرا پاس مجھے نہ ہوتا اور تیرا اکرام مدِّنظر نہ ہوتا تو مَیں اس گاؤں کو ہلاک کردیتا.۴.مَیں رحمان ہوں جو دُکھ کو دُور کرنے والا ہے.۵.میرے رسولوں کو میرے پاس کچھ خوف اور غم نہیں.۶.مَیں نِگہ رکھنے والا ہوں.۷.مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا ۸.اور اس کو ملامت کروں گا جو میرے رسول کو ملامت کرتا ہے.۹.مَیں اپنے وقتوں کو تقسیم کردُوں گا کہ کچھ حصّہ برس کا تو مَیں افطار کروں گا یعنی طاعون سے لوگوں کو ہلاک کروں گا اور کچھ حصّہ برس کا مَیں روزہ رکھوں گا یعنی امن رہے گا اور طاعون کم ہوجائے گی یا بالکل نہیں رہے گی.۱۰.میرا غضب بھڑک رہا ہے.۱۱.بیماریاں پھیلیں گی اورجانیں ضائع ہوں گی مگر وہ لوگ جو ایمان لائیں گے اور ایمان میں کچھ نقص نہیں ہوگا وہ امن میں رہیں گے اور ان کو مَـخلصی کی راہ ملے گی.یہ خیال مت کرو کہ جرائم پیشہ بچے ہوئے ہیں.۱۲.ہم ان کی زمین کے قریب آتے جاتے ہیں.۱۳.مَیں اندر ہی اندر اپنا لشکر تیار کررہا ہوں یعنی طاعونی کیڑوں کو پرورش دے رہا ہوں پس وہ اپنے گھروں میں ایسے سوجائیں گے جیسا کہ ایک اُونٹ مَرا رہ جاتا ہے.۱۴.ہم ان کو اپنے نشان پہلے تو دُور دُور کے لوگوں میں دکھائیں گے اور پھر خود انہی میں ہمارے نشان ظاہر ہوں گے.۱۵یہ دن خدا کی مدد اور فتح کے ہوں گے.۱۶.مَیں نے تجھ سے ایک بقیہ حاشیہ.یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْـھِمْ.۱؎ ایسا ہی بجائے قُلْ یَـا عِبَادَاللّٰہِ کے قُلْ یَـا عِبَادِیْ بھی کہا اور یہ بھی فرمایا فَاذْکُــرُوا اللّٰہَ کَذِکْرِکُمْ اٰبَآءَکُمْ.۲؎ پس اس خدا کے کلام کو ہوشیاری اور احتیاط سے پڑھو اور از قبیل متشابہات سمجھ کر ایمان لاؤ اور اس کی کیفیت میں دخل نہ دو اور حقیقت حوالہ بخدا کرو اور یقین رکھو کہ خدا اِتِّـخَاذِ وَلَد سے پاک ہے تاہم متشابہات کے رنگ میں بہت کچھ اس کے کلام میں پایا جاتا ہے.پس اس سے بچو کہ متشابہات کی پَیروی کرو اور ہلاک ہوجاؤ اور میری نسبت بیّنات میں سے یہ الہام ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے قُلْ اِنَّـمَا اَنَـا بَشَـرٌ مِّثْلُکُمْ یُـوْحٰی اِلَـیَّ اَنَّـمَا اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَالْـخَیْرُکُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ.‘‘۳؎ (دافع البلاء.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۲۲۷ حاشیہ) ۱ (ترجمہ از ناشر) اللہ کا ہاتھ ہے جو ان کے ہاتھ پر ہے.(الفتح: ۱۱) ۲ (ترجمہ از ناشر) پس اللہ کا ذکر کرو جس طرح تم اپنے آباء کا ذکر کرتے ہو.(البقرۃ: ۲۰۱) ۳ (ترجمہ از ناشر) کہہ دے کہ میں تو محض تمہاری طرح ایک بشر ہوں.میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود بس ایک ہی معبود ہے.اور تمام تر بھلائی قرآن میں ہے.
خریدوفروخت کی ہے یعنی ایک چیز میری تھی جس کا تو مالک بنایا گیا اور ایک چیز تیری تھی جس کا مَیں مالک بن گیا تُو بھی اس خریدوفروخت کا اقرار کر اور کہہ دے کہ خدا نے مجھ سے خریدوفروخت کی.۱۷.تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ اولاد.۱۸.تُو مجھ میں سے ہے اور مَیں تجھ میں سے ہوں.۱۹.وہ وقت قریب ہے کہ مَیں ایسے مقام پر تجھے کھڑا کروں گا کہ دُنیا تیری حمد و ثنا کرے گی.۲۰.فوق تیرے ساتھ ہے اور تحت تیرے دشمنوں کے ساتھ.۲۱.پس صبر کر جب تک کہ وعدہ کا دن آجائے.۲۲.طاعون پر ایک ایسا وقت بھی آنے والا ہے کہ کوئی بھی اس میں گرفتار نہیں ہوگا یعنی انجام کار خیروعافیت ہے.‘‘ (دافع البلاء.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۲۲۶ تا۲۲۸) ۲۱؍ اپریل ۱۹۰۲ء ’’ مدّت ہوئی کہ پہلے اس سے طاعون کے بارے میں حِکَایَۃً عَنِ الْغَیْر خدا نے مجھے یہ خبر دی تھی.یَـا مَسِیْحَ الْـخَلْقِ عَدْوَانَـا مگر آج کہ ۲۱؍اپریل ۱۹۰۲ء ہے اُسی الہام کو پھر اِس طرح فرمایا گیا.یَا مَسِیْحَ الْـخَلْقِ عَدْ.وَانَـا لَنْ تَرٰی مِنْۢ بَعْدُ مَوَآ.دَّنَا وَ فَسَادَنَـا.یعنی اے خدا کے مسیح جو مخلوق کی طرف بھیجا گیا ہماری جلد خبر لے اور ہمیں اپنی شفاعت سے بچا.تُو اس کے بعد ہمارے خبیث مادوں کو نہیں دیکھے گا اور نہ ہمارا فساد کچھ فساد باقی رہے گا.یعنی ہم سیدھے ہوجاویں گے اور گندہ دہانی اور بد زبانی چھوڑ دیں گے.یہ خدا کا کلام براہین احمدیہ کے اُس الہام کے مطابق ہے کہ آخری دنوں میں ہم لوگوں پر طاعون بھیجیں گے جیسا کہ فرمایا کَذَالِکَ مَنَنَّا عَلٰی یُوْسُفَ لِنَصْـرِفَ عَنْہُ السُّوْٓءَ وَالْفَحْشَآءَ.یعنی ہم طاعون کے ساتھ اِس یوسف پر یہ احسان کریں گے کہ بدزبان لوگوں کا منہ بند کردیں گے تاکہ وہ ڈر کر گالیوں سے باز آجائیں.انہی دنوں کے متعلق خدا کا یہ کلام ہے جس میں زمین کی کلام سے مجھے اطلاع دی گئی اور وہ یہ ہے یَـا وَ لِیَّ اللّٰہِ کُنْتُ لَا اَعْرِفُکَ.یعنی اے خدا کے ولی! مَیں اس سے پہلے تجھے نہیں پہچانتی تھی.اس کی تفصیل یہ ہے کہ کشفی طور پر زمین میرے سامنے کی گئی اور اس نے یہ کلام کیا کہ مَیں اب تک تجھے نہیں پہچانتی تھی کہ تُو وَ لِیُّ الرَّحْـمٰن ہے.‘‘ (دافع البلاء.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۲۲۸، ۲۲۹ حاشیہ) ۱۹۰۲ء ’’چراغ دین؎۱کی نسبت مَیں یہ مضمون؎۲لکھ رہا تھا کہ تھوڑی سی غنودگی ہوکر مجھ کو خدائے عزّوجلّ ۱ یعنی چراغ دین جمونی مرتد.(شمس) ۲ رسالہ دافع البلاء.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۳۹ تا ۲۴۲.(ناشر)
کی طرف سے یہ الہام ہوا.نَــزَلَ بِـــہٖ جَــبِــــیْـزٌ یعنی اُس پر جَبِیْز نازل ہوا اور اسی کو اس نے الہام یارؤیاسمجھ لیا.جَبِیْز دراصل خشک اور بے مزہ روٹی کو کہتے ہیں جس میں کوئی حلاوت نہ ہو اور مشکل سے حلق میں سے اُتر سکے اور مردِ بخیل اور لئیم کو بھی کہتے ہیں جس کی طبیعت میں کمینگی اور فرومایگی اوربُخل کا حصّہ زیادہ ہو اور اس جگہ لفظ جَبِیْز سے مراد وہ حدیث النفس اور اَضْغَاثُ الْاَحْلَام ہیں جن کے ساتھ آسمانی روشنی نہیں اور بخل کے آثار موجود ہیں اور ایسے خیالات خشک مجاہدات کا نتیجہ، یا تمنّا اور آرزو کے وقت القاء ِشیطان ہوتا ہے اور یا خشکی اور سوداوی مواد کی وجہ سے کبھی الہامی آرزو کے وقت ایسے خیالات کا دل پر القاء ہوجاتا ہے، اور چونکہ اُن کے نیچے کوئی روحانیت نہیں ہوتی اس لئے الٰہی اصطلاح میں ایسے خیالات کا نام جَبِیْز ہے اور علاج توبہ اور استغفار اور ایسے خیالات سے اعراض کلّی ہے ورنہ جَبِیْز کی کثرت سے دیوانگی کا اندیشہ ہے.خدا ہر ایک کو اس بلا سے محفوظ رکھے.‘‘ (دافع البلاء.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ۲۴۳ حاشیہ نمبر۱) ۲۳ ؍اپریل ۱۹۰۲ء ’’رات کو عین خسوفِ قمر کے وقت میں چراغ دین؎۱ کی نسبت مجھے یہ الہام ہوا.اِنِّیْ اُذِیْبُ مَنْ یُّـرِیْبُ مَیں فنا کردوں گا، مَیں غارت کروں گا.مَیں غضب؎۲ نازل کروں گا.اگر اُس نے شک کیا اور اس پر ایمان نہ لایا اور رسالت اور مامور ہونے کے دعویٰ سے توبہ نہ کی اور خدا کے انصار جو سالہائے دراز سے خدمت اور نصرت میں مشغول اور دن رات صحبت میں رہتے ہیں ان سے عَفو ِ تقصیر نہ کرائی کیونکہ اُس نے جماعت کے تمام مخلصوں کی توہین کی کہ اپنے نفس کو اُن سب پر مقدم کرلیا.‘‘ (دافع البلاء.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۴۳، ۲۴۴ حاشیہ نمبر ۲) ۱ چراغ دین جمو نی مرتد.(شمس) ۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’یہ شخص ۴؍اپریل ۱۹۰۶ء کو مع اپنے دونوں بیٹوں کے طاعون سے فوت ہوکر میری پیشگوئی کی تصدیق کرگیا اور بڑی نومیدی سے اس نے جان دی اور مرنے سے چند دن پہلے ایک مباہلہ کا کاغذ اس نے لکھا جس میں اپنا اور میرا نام ذکر کرکے خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ ہلاک ہو.خدا کی قدرت کہ وہ کاغذ ابھی کاتب کے ہاتھ میں ہی تھا اور وہ کاپی لکھ رہا تھا کہ چراغ دین مع اپنے دونوں بیٹوں کے اُسی دن ہمیشہ کے لئے رخصت ہوگیا.فَاعْتَبِرُوْا یَـا اُولِی الْاَ بْصَارِ‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۱۲۶)
۲۸؍ اپریل ۱۹۰۲ء حضرت اقدس کو الہام ہوا.’’ اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ.‘‘ ؎۱ (الحکم جلد ۶ نمبر ۱۶ مورخہ ۳۰؍اپریل ۱۹۰۲ء صفحہ ۷) ۳۰؍ اپریل ۱۹۰۲ء ’’فرمایا آج رات کو الہام ہوا.لَوْ لَاالْاَمْرُ لَھَلَکَ النَّمْرُ.یعنی اگر سنّت اللہ اور امر الٰہی اس طرح پر نہ ہوتا کہ اَئِـمَّۃُ الْکُفر اخیر میں ہلاک ہوا کریں تو اب بھی بڑے بڑے مخالف جلد تباہ ہوجاتے لیکن چونکہ بڑے مخالف جو ہوتے ہیں ان میں ایک خوبی عزم اور ہمّت اور لوگوں پر حکمرانی اور اثر ڈالنے کی ہوتی ہے اس واسطے ان کے متعلق یہ امید بھی ہوتی ہے کہ شاید لوگوں کے حالات سے عبرت پکڑ کر توبہ کریں اور دین کی خدمت میں اپنی قوتوں کو کام میں لاویں.‘‘ (الحکم جلد ۶نمبر۱۶ مورخہ ۳۰؍اپریل ۱۹۰۲ء صفحہ۸) ۱۹۰۲ء ’’ایک عرصہ ہوا مَیں نے خواب میں دیکھا تھا کہ گویا میر ناصر نواب ایک دیوار بنا رہے ہیں جو فصیل شہر ہے مَیں نے اس کو جو دیکھا تو خوف آیاکیونکہ وہ قد ِ آدم بنی ہوئی تھی.خوف یہ ہوا کہ اس پر آدمی چڑھ سکتا ہے.مگر جب دوسری طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ قادیاؔن بہت اونچی کی گئی ہے اس لئے یہ دیوار دوسری طرف سے بہت اونچی ہے اور یہ دیوار گویا ریختہ کی بنی ہوئی ہے.فرش کی زمین بھی پختہ کی گئی ہے اور غور سے جو دیکھا تو وہ دیوار ہمارے گھروں کے ارد گرد ہے اور ارادہ ہے کہ قادیان کے گرد بھی بنائی جاوے.شاید اللہ رحم کرکے ان بلاؤں میں تخفیف کردے.‘‘ (الحکم جلد ۶نمبر۳۶ مورخہ ۱۰؍اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ۱۶) (ترجمہ از مرتّب) میں ہر ایک کو جو تیرے گھر کی چاردیوار کے اندر ہے طاعون سے بچاؤں گا.(نوٹ از البدر) ۴؍مئی ۱۹۰۴ء.’’ آج دن کو مولوی محمد علی صاحب ایم.اے مینیجر و ایڈیٹر رسالہ ریویو آف ریلیجنز کی طبیعت علیل ہوگئی اور درد سر اور بخار کے عوارض کو دیکھ کر مولوی صاحب کو شبہ گزرا کہ شاید طاعون کے آثار ہیں.جب اس بات کی خبر حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہوئی تو آپ فوراً مولوی صاحب کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میرے دار میں ہوکر اگر آپ کو طاعون ہو تو پھر اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ الہام اور یہ سب کاروبار گویا عبث ٹھیرا.آپ نے نبض دیکھ کر اُن کو یقین دلایا کہ ہرگز بخار نہیں ہے پھر تھرمامیٹر لگا کر دکھایا کہ پارہ اس حد تک نہیں ہے جس سے بخار کا شُبہ ہو اور فرمایا کہ میرا تو خدا کی وحی پر ایسا ہی ایمان ہے جیسا کہ اس کی کتابوں پر ہے.‘‘ (البدر مورخہ ۸ و ۱۶؍مئی ۱۹۰۴ء صفحہ۴)
۱۹۰۲ء ’’ایک دفعہ مَیں خود سخت بیمار ہوگیا اور حالت ایسی بگڑی کہ بیماری سے جان بَر ہونا مشکل معلوم ہوتا تھا.تب یہ الہام ہوا.مَا کَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَـمُوْتَ اِلَّا بِـاِذْ.نِ اللّٰہِ وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ.؎۱ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اپنے وعدہ کے موافق عین نا امیدی کی حالت میں شفا بخشی اور یُوں تو ہزار ہا لوگ شفا پاتے ہیں مگر ایسی نااُمیدی کی حالت میں سینکڑوں انسانوں میں دعویٰ سے یہ پیش کرنا کہ شفا ضرور حاصل ہوجائے گی یہ انسان کا کام نہیں.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ۵۹۹) ۱۹۰۲ء ’’مَیں نے اُسے؎۲بارہا دیکھا ہے.ایک بار مَیں نے اور مسیح نے ایک ہی پیالہ میں گائے کا گوشت کھایا تھا.‘‘ (الحکم جلد ۶نمبر۲۹ مورخہ۱۷؍اگست ۱۹۰۲ء صفحہ۱۲) ۱۹۰۲ء ’’ ایک دفعہ ان؎۳ کا لڑکا مرزا ابراہیم بیگ مرحوم بیمار ہوا تو انہوں نے میری طرف دعا کے لئے خط لکھا.ہم نے دعا کی تو کشف میں دیکھا کہ ابراہیم ہمارے پاس بیٹھا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے بہشت سے سلام پہنچادو.جس کے معنے یہی دل میں ڈالے گئے کہ اب ان کی زندگی کا خاتمہ ہے.اگرچہ دل نہیں چاہتا تھا تاہم بہت سوچنے کے بعد میرزا محمد یوسف بیگ صاحب کو اس حادثہ سے اطلاع دی گئی اور تھوڑے دنوں کے بعد وہ جوان غریب مزاج فرمانبردار بیٹا ان کی آنکھوں کے سامنے اِس جہانِ فانی سے چل بسا.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۶۰۱) ۵؍ مئی ۱۹۰۲ء ’’رات کے تین بجے حضرت اقدس کو الہام ہوا.اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ اِلَّا الَّذِیْنَ عَلَوْا بِاسْتِکْبَارٍ.۴؎ (ترجمہ از مرتّب) کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر مر نہیں سکتا اور جو وجود لوگوں کو نفع پہنچاتا ہے وہ دنیا میں زیادہ دیر تک قائم رہتا ہے.۲ یعنی حضرت مسیح علیہ السلام کو.(مرزا بشیر احمد) ۳ مرزا محمد یوسف بیگ صاحب ساکن ساماؔنہ ریاست پٹیالہ.(مرزا بشیر احمد) ۴ (ترجمہ) یعنی مَیں دار کے اندر رہنے والوں کی حفاظت کروں گا سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے تکبر کے ساتھ علو کیا.(الحکم مورخہ ۱۰؍ مئی ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۰)
فرمایا.علو دو قسم کا ہوتا ہے.ایک جائز ہوتا ہے اور دوسرا ناجائز.جائز کی مثال وہ علو ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام میں تھا اور ناجائز کی مثال وہ علو ہے جو فرعون میں تھا.‘‘ (الحکم جلد۶ نمبر ۱۷ مورخہ ۱۰؍مئی ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۰) ۵ ؍مئی ۱۹۰۲ء فرمایا کہ صبح کی نماز کے بعد یہ الہام ہوا.اِنِّیْ اَرَی الْمَلَآ ئِکَۃَ الشِّدَادَ ۱؎ فرمایا.’’ خدا کے غضب شدید سے بغیر تقویٰ و طہارت کے کوئی نہیں بچ سکتا.پس سب کو چاہیےکہ تقویٰ و طہارت کو اختیار کریں اور اگر کوئی فاسق اور فاجر دَار میں داخل ہوجائے تو اس کا بچ رہنا یقینی کیوں کر ہوسکتا ہے.ہاں اس میں پھر بھی ایک قسم کی خصوصیت کی گئی ہے.کیونکہ جو لوگ علوّ استکبار نہ کریں ان کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے لیکن اِنَّہٗ اٰوَی الْقَرْیَۃَ۲؎ میں یہ امر نہیں.وہاں انتشار اور ہل چل شدید سے بچنے کاوعدہ معلوم ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ ایسا امر نہیں کرتا جس سے لوگوں کو جرأت پیدا ہوجائے اور گناہ کی طرف جھکنے لگیں.‘‘ (الحکم جلد۶ نمبر ۱۷ مورخہ ۱۰؍مئی ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۰،۱۱) ۱۹۰۲ء (الف) ’’ان دنوں میں خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا.اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّا؎۳رِ اِلَّا الَّذِیْنَ عَلَوْا مِنِ اسْتِکْبَارٍ.وَ اُحَافِظُکَ خَآصَّۃً.سَلَا.مٌ قَـوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ.یعنی مَیں ہر ایک ایسے انسان کو طاعون کی موت سے بچاؤں گا جو تیرے گھر میں ہوگا مگر وہ لوگ جو تکبر سے اپنے تئیں اُونچا کریں.اور مَیں تجھے خصوصیت کے ساتھ بچاؤں گا.خدائے رحیم کی طرف سے تجھے سلام.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۴۰۱) (ب) ’’ اُس نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ تُو اور جو شخص تیرے گھر کی چاردیوار کے اندر ہوگا اور وہ جو کامل پَیروی اور اطاعت اور سچے تقویٰ سے تجھ میں محو ہوجائے گا وہ سب طاعون سے بچائے جائیں گے اور ان ۱ (ترجمہ) مَیں سخت فرشتوں کو دیکھتا ہوں جیسا کہ مثلاً ملک الموت وغیرہ ہیں.(الحکم مورخہ ۱۰؍ مئی ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۰) ۲ (ترجمہ) وہ اس قادیان کو کسی قدر بلا کے بعد اپنی پناہ میں لے گا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۷) ۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’ اِس جگہ یہ نہیں سمجھنا چاہیےکہ وہی لوگ میرے گھر کے اندر ہیں جو میرے اِس خشت و خاک کے گھر میں بودوباش رکھتے ہیں بلکہ وہ لوگ بھی جو میری پوری پَیروی کرتے ہیں میرے روحانی گھر میں داخل ہیں.‘‘ (کشتی نوح.روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ ۱۰)
آخری دنوں میں خدا کا یہ نشان ہوگا تا وہ قوموں میں فرق کرکے دکھلاوے.؎۱لیکن وہ جو کامل طور پر پَیروی نہیں کرتا وہ تجھ میں سے نہیں ہے.اس کے لئے مت دل گیر ہو.یہ حکمِ الٰہی ہے جس کی وجہ سے ہمیں اپنے نفس کے لئے اور ان سب کے لئے جو ہمارے گھر کی چار دیوار میں رہتے ہیں ٹیکا کی کچھ ضرورت نہیں.‘‘ (کشتی نوح.روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ۲) (ج) ’’اور اُس نے مجھے مخاطب کرکے یہ بھی فرما دیا کہ.عموماً قادیان میں سخت بربادی افگن طاعون نہیں آئے گی جس سے لوگ کتوں کی طرح مریں اور مارے غم اور سرگردانی کے دیوانہ ہوجائیں اور عموماً تمام لوگ اس جماعت کے گو وہ کتنے ہی ہوں مخالفوں کی نسبت طاعون سے محفوظ رہیں گے.‘‘ (کشتی نوح.روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ۲) ۱۱؍ مئی ۱۹۰۲ء ’’آج صبح خدا تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوئی.خوشی کا مقام.نَصْـرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَتْحٌ قَرِیْبٌ.؎۲ فرمایا.اب یہ ہماری آمدِ ثانی ہے اور فرمایا.مسیح علیہ السلام کو صلیب کا واقعہ پیش آیا اور خدا تعالیٰ نے انہیں اس سے نجات دی.ہمیں اس کی مانند صُلْب یعنی پیٹھ کے متعلّقات کے درد؎۳ سے وہی واقعہ جو پورا موت کا نمونہ تھا پیش آیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے عافیت بخشی.اور فرمایا جس طرح توریت کا وہ بادشاہ جسے نبی نے کہا کہ تیری عمر کے پندرہ دن رہ گئے ہیں اور اس نے بڑی تضرع اور خشوع سے گِریہ و بکا کیا اور خدا تعالیٰ نے اس نبی کی معرفت اُسے بشارت دی کہ اس کی عمر پندرہ روز کی جگہ پندرہ سال تک بڑھائی گئی اور معاً اُسے ایک اَور خوشخبری دی گئی کہ دشمن پر اُسے فتح بھی نصیب ہوگی اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی دو بشارتیں دی ہیں.ایک عافیت یعنی عمر کی درازی کی بشارت، جس کے الفاظ ہیں ’’خوشی کا مقام‘‘ دوسری ’’عظیم الشان نصرت اور فتح کی بشارت.‘‘ (الحکم پرچہ غیر معمولی.مورخہ ۱۱؍مئی ۱۹۰۲ء) ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’مَیں باربار کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس پیشگوئی کو ایسے طور سے ظاہر کرے گا کہ ہر ایک طالب حق کو کوئی شک نہیں رہے گا اور وہ سمجھ جائے گا کہ معجزہ کے طور پر خدا نے اس جماعت سے معاملہ کیا ہے بلکہ بطور نشان الٰہی کے نتیجہ یہ ہوگا کہ طاعون کے ذریعہ سے یہ جماعت بہت بڑھے گی اور خارق عادت ترقی کرے گی اور ان کی یہ ترقی تعجب سے دیکھی جائے گی.‘‘ (کشی نوح.روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ ۵،۶) ۲ (ترجمہ از مرتّب) اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان نصرت اور جلد آنے والی فتح.۳ یہ درد گردہ تھا.(شمس)
مئی ۱۹۰۲ء ’’ دَوران ا یام؎۱ دورہ مرض میں ۱.اَلْیَوْمَ یَـوْمُ عِیْدٍ.۲.کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ.؎۲ ۳.اے میرے قادر خدا اس پیالہ کو ٹال دے.۴.خدا غمگین ہے.۵.یُعَظِّمُکَ الْمَلَآ ئِکَۃُ.؎۳ خدا تعالیٰ کی وحی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر نازل ہوئی.‘‘ (الحکم جلد۶ نمبر ۱۹ مورخہ ۲۴؍مئی ۱۹۰۲ء صفحہ ۱) مئی ۱۹۰۲ء ’’فرمایا.بیماری کی شدّت میں جبکہ یہ گمان ہوتا تھا کہ رُوح پرواز کر جائے گی مجھے بھی الہام ہوا.اَللّٰھُمَّ اِنْ اَھْلَکْتَ ھٰذِ ہِ الْعِصَا بَۃَ فَلَنْ تُعْبَدَ فِی الْاَرْضِ اَ بَدًا.‘‘؎۴ (الحکم جلد۶ نمبر ۲۰ مورخہ ۳۱؍مئی ۱۹۰۲ء صفحہ ۵) جون ۱۹۰۲ء ’’ سَیُـھْزَمُ فَلَا یُرٰی.نَبَأٌ مِّنَ اللّٰہِ الَّذِیْ یَعْلَمُ السِّـرَّ وَ اَخْفٰی.ترجمہ.عنقریب وہ گریز کر جائے گا اور پھر نظرنہ آئے گا.یہ پیشگوئی ؎۵ہے خدا کی طرف سے جو نہاں در نہاں کو جاننے والا ہے.‘‘ (الہُدیٰ والتبصرۃ لمن یّرٰی.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۲۵۴) ۱۹۰۲ء ’’ مَیں ایک اَوررؤیالکھتا ہوں جو طاعون کی نسبت مجھے ہوئی اور وہ یہ کہ مَیں نے ایک جانور دیکھا جس کا قد ہاتھی کے قد کے برابر تھا مگر مونہہ آدمی کے مونہہ سے ملتا تھا اور بعض اعضاء دوسرے جانوروں سے مشابہ تھے اور مَیں نے دیکھا کہ وہ یوں ہی قدرت کے ہاتھ سے پیدا ہوگیا اور مَیں ایک ایسی جگہ پر بیٹھا ہوں جہاں چاروں طرف بَن ہیں جن میں بَیل، گدھے، گھوڑے، کتے، سُؤر، بھیڑئیے، اُونٹ وغیرہ ہر ایک قسم کے موجود ہیں اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ سب انسان ہیں جو بد عملوں سے ان صورتوں میں ہیں.۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) ۹، ۱۰؍مئی ۱۹۰۲ء کو حضرت اقدس علیہ السلام کو دردِ صُلب کا دورہ ہوا تھا اس کی طرف اشارہ ہے.۲ (ترجمہ از مرتّب) ۱.آج کادن عید کا دن ہے.۲.ہر دن وہ ایک نئی شان میں ہوتا ہے.۳ (ترجمہ از مرتّب) ۵.فرشتے تیری تعظیم کرتے ہیں.۴ (ترجمہ) اے خدا! اگر تو نے اس جماعت کو ہلاک کردیا تو پھر اس کے بعد اس زمین میں تیری پرستش کبھی نہ ہوگی.(الحکم مورخہ ۳۱؍مئی ۱۹۰۲ء صفحہ ۵) ۵ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یہ پیشگوئی علّامہ رشید رضا ایڈیٹر المناؔر مصر کے متعلق ہے.
اور پھر مَیں نے دیکھا کہ وہ ہاتھی کی ضخامت کا جانور جو مختلف شکلوں کا مجموعہ ہے جو محض قدرت سے زمین میں سے پیدا ہوگیا ہے وہ میرے پاس آبیٹھا ہے اور قُطب کی طرف اُس کا مونہہ ہے.خاموش صورت ہے، آنکھوں میں بہت حیا ہے اور باربار چند منٹ کے بعد اُن بَنوں میں سے کسی بَن کی طرف دوڑتا ہے اور جب بَن میں داخل ہوتا ہے تو اس کے داخل ہونے کے ساتھ ہی شورِ قیامت اٹھتا ہے اور ان جانوروں کو کھانا شروع کرتا ہے اور ہڈیوں کے چابنے کی آواز آتی ہے.تب وہ فراغت کرکے پھر میرے پاس آبیٹھتا ہے اور شاید دس۱۰ منٹ کے قریب بیٹھا رہتا ہے.اور پھر دوسرے بَن کی طرف جاتا ہے اور وہی صورت پیش آتی ہے جو پہلے آئی تھی اور پھر میرے پاس آبیٹھتا ہے.آنکھیں اُس کی بہت لمبی ہیں اور مَیں اس کو ہر ایک دفعہ جو میرے پاس آتا ہے خوب نظر لگا کر دیکھتا ہوں اور وہ اپنے چہرہ کے اندازہ سے مجھے یہ بتلاتا ہے کہ میرا اس میں کیا قصور ہے مَیں مامور ہوں.اور نہایت شریف اور پرہیزگار جانور معلوم ہوتا ہے اور کچھ اپنی طرف سے نہیں کرتا بلکہ وہی کرتا ہے جو اس کو حکم ہوتا ہے.تب میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہی طاعون ہے اور یہی وہ دَآ.بَّۃُ الْاَرْض ہے جس کی نسبت قرآن شریف میں وعدہ تھا کہ آخری زمانہ میں ہم اس کو نکالیں گے اور وہ لوگوں کو اس لئے کاٹے گا کہ وہ ہمارے نشانوں پر ایمان نہیں لاتے تھے… یہی دَآ.بَّۃُ الْاَرْض جو اِن آیات میں مذکور ہے جس کا مسیح موعود کے زمانہ میں ظاہر ہونا ابتداء سے مقرر ہے.یہی وہ مختلف صورتوں کا جانور ہے جو مجھے عالمِ کشف میں نظر آیا اور دل میں ڈالا گیا کہ یہ طاعون کا کیڑا ہے اور خدا تعالیٰ نے اس کا نام دَآ.بَّۃُ الْاَرْض رکھا کیونکہ زمین کے کیڑوں میں سے ہی یہ بیماری پیدا ہوتی ہے اِسی لئے پہلے چوہوں پر اِس کا اثر ہوتا ہے اور مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتی ہے اور جیسا کہ انسان کو ایسا ہی ہر ایک جانور کو یہ بیماری ہوسکتی ہے اِسی لئے کشفی عالم میں اس کی مختلف شکلیں نظر آئیں.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۴۱۵ تا ۴۱۷) اگست ۱۹۰۲ء ’’ نزول المسیح جو آج کل لکھ رہے ہیں اور پِیر گولڑوی کی کتاب سیفؔ چشتیائی بھی زیرِ نظر ہے اس پر کسی قدر توجہ کرنے سے یہ الہام ہوا.اِنِّیْ اَنَـا رَبُّکَ الْقَدِ یْرُلَا مُبَدِّ لَ لِکَلِمَاتِیْ.‘‘ ؎۱ (الحکم جلد ۶ نمبر ۲۸ مورخہ ۱۰؍اگست ۱۹۰۲ء صفحہ۴) ۱ (ترجمہ از مرتّب) مَیں ہی ہوں تیرا ربّ کامل قدرت والا.میری باتوں کو کوئی ٹلا نہیں سکتا.
۱۵؍ اگست ۱۹۰۲ء؎۱ ’’ تُـخْرَجُ الصُّدُ وْرُ اِلَی الْقُبُوْرِ.؎۲ یہ بھی ایک الہام ہے.اِس الہام کے بعد نذیر حسین دہلوی اور فتح علی اور اللہ بخش تَونسوی وغیرہ اِس جہان سے رخصت ہوئے.‘‘ (الحکم جلد ۶ نمبر۳۹مورخہ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ۱۰) اگست ۱۹۰۲ء (الف) ’’ شاید تین ماہ کا عرصہ ہوگیا ہے کہ مَیں نے خواب میں دیکھا تھا کہ قادیان کی اُس گلی میں جس میں ہم اکثر سَیر کو جاتے ہیں آپ؎۳ مصافحہ کے لئے میری طرف آرہے ہیں.سو وہ بات پوری ہوگئی.‘‘ (الحکم جلد ۶ نمبر ۳۷مورخہ ۱۷؍اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ۱۶) (ب) ’’ مَیں نے ایک بار اُس کے متعلق دیکھا کہ گویا اُسی راستہ ہم سَیر کو نکلے ہیں تو اُس بَڑ؎۴کے درخت کے نیچے جو میراں بخش حجام کی حویلی کے پاس ہے نبی بخش سامنے سے آکر ملا ہے اور اُس نے مصافحہ کیا ہے.یہ رؤیااُن دنوں کی ہے جب وہ مخالفت کے اشتہار چھپواتا پھرتا تھا.‘‘ (الحکم جلد ۶ نمبر ۳۸ مورخہ ۲۴؍اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ۱۰) ۱۹۰۲ء ’’ خدا تعالیٰ کی میرے ساتھ یہ عادت ہے کہ جب دعا انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو آخر ایک فرشتہ نازل ہوتا ہے وہ اپنے ہاتھ سے اس روک کو توڑتا ہے.تب بعد اس کے بلا توقف رحمت ِ الٰہی ظاہر ہوجاتی ہے بلکہ قبل اس کے جو صبح ہو آثارِ رحمت نمودار ہونے لگتے ہیں.‘‘ (از مکتوب بنام سیٹھ عبدالرحمٰن صاحبؓ مدراسی.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۴۱۶،۴۱۷ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۹۰۲ء ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یہ تاریخ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے اپنی پُرانی نوٹ بک میں لکھی ہے.دیکھیے ذکر ِ حبیب صفحہ ۲۱۶.مطبوعہ دسمبر ۱۹۳۶ء.۲ (ترجمہ از مرتّب) مخالفین کے سر گروہ قبروں کی طرف منتقل کئے جائیں گے.۳ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) اس سے مراد مہر نبی بخش صاحب ہیں جو کسی وقت لغزش کھاکر مرتد ہوگئے تھے بعد میں توبہ کی توفیق پائی اور حضرت اقدسؑ کی خدمت میں تجدید بیعت کے لئے خط لکھا.اس کے جواب میں حضورؑ نے یہ تحریر فرمایا.۴ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) یہ بَڑ اُس چوک کے جنوب کی طرف (کوچہ کے غربی جانب) پندرہ بیس گز کے فاصلہ پر تھا جو قصرِ خلافت کی طرف سے محلہ دارالانوار کی طرف جانے والے راستہ اور احمدیہ چوک سے محلہ دارالعلوم وغیرہ کی طرف جانے والے راستہ کا مقام اتصال ہے اور جس راستے کا یہاں ذکر ہے اس سے یہی مؤخر الذکر راستہ مراد ہے.
۱۹۰۲ء ’’حدیثوں میں جو آیا ہے کہ مسیح موعود کے وقت عمریں بڑھادی جاویں گی اس کے معنے یہی مجھے سمجھائے گئے ہیں کہ جو لوگ خادمِ دین ہوں گے اُن کی عمریں بڑھائی جاویں گی.جو خادم نہیں ہوسکتا وہ بُڈھے بیل کی مانند ہے کہ مالک جب چاہے اُسے ذبح کر ڈالے.‘‘ (الحکم جلد ۶ نمبر۳۱مورخہ۳۱؍اگست ۱۹۰۲ء صفحہ۸) ۱۹۰۲ء ’’خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ مسیح محمدی مسیح موسوی سے افضل ہے.‘‘ (کشتی نوح.روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ۱۷) ۱۹۰۲ء ’’مَیں نے اپنے والد صاحب کو خواب میں دیکھا (دراصل ملائکہ کا تمثّل تھا مگر آپ کی صورت میں) آپ کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی چھڑی ہے.گویا مجھے مارنے کے لئے ہے.مَیں نے کہا کوئی اپنی اولاد کو بھی مارتا ہے.جب مَیں یہ کہتا ہوں تو اُن کی آنکھیں پُر آب ہوجاتی ہیں.پھر وہ ایسا ہی کرتے ہیں تو مَیں یہی کہتا ہوں.آخر دو تین بار جب اسی طرح ہوا پھر میری آنکھ کُھل گئی.‘‘ (الحکم جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخہ ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ۶) ۱۹۰۲ء حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب کی طبیعت کل ناساز تھی.آج الحمد للہ اچھی تھی حال دریافت فرمایا اور پھر فرمایا کہ ہم نے جو تصرفات اللہ کے دیکھے ہیں اس سے تو بعض وقت دواؤں کا بھی خیال نہیں آتا.بعض وقت ہم کو دوا سے شفا ہوئی اور بعض وقت محض دعا سے.فرمایا مَیں نے دعا کی کہ بدوں دوا کے شفا دے تو پھر اِذن ہوا کہ ہم نے شفا دی اور شفا ہوگئی.‘‘ (الحکم جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخہ ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ۶) ۱۹۰۲ء ’’ مولوی نذیر حسین دہلوی مر گیا.اُس کے مرنے کی خبر آئی تو آپ کی زبان پر اس کے لئے جاری ہوا.مَــاتَ؎۱ ضَـآلٌّ ھَآئِـمًا.؎۲ ‘‘ (الحکم جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخہ ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ۷) ۱۷؍ اکتوبر۱۹۰۲ء ’’ فرمایا.آج میری زبان پر پھر یہ الہام جاری تھا.اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ اِلَّاالَّذِیْنَ عَلَوْا مِنِ اسْتِکْبَارٍ.؎۳ ۱ (ترجمہ از مرتّب) ایک گمراہ شخص سرگردانی کی حالت میں مر گیا.۲ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) ’’اس الہام سے اس کی تاریخ (۱۳۲۰ھ) بھی نکلتی ہے.‘‘ (الحکم مورخہ ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ۷حاشیہ نمبر۱) ۳ (ترجمہ از مرتّب) مَیں ان تمام کی جو دَار میں ہیں حفاظت کروں گا سوائے ان لوگوں کے جو تکبر سے بڑے بنتے ہیں.
اِلَّاالَّذِیْنَ عَلَوْا ہمیشہ ساتھ ہی ہوتا ہے.خدا معلوم اس کے کیا معنے ہیں.اس لئے بھی کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ متنبہ رہیں.تقویٰ پر قائم رہیں.ایک علو تو اس رنگ میں ہوتا ہے جیسے کہ اَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَـحَدِّ ثْ۱؎ اور ایک علو شیطان کا ہوتا ہے جیسے اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ۲؎ اور اس کے بارے میں ہے.اَمْ کُنْتَ مِنَ الْعَالِیْنَ.۳؎ یہ اُس سے سوال ہے کہ تیرا علو تکبر کے رنگ میں ہے یا واقعی ہے خدا تعالیٰ کے بندوں کے واسطے بھی اَعْلٰی کا لفظ آیا اور ہمیشہ آتا ہے.جیسے اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی۴؎ مگریہ تو انکسار سے ہوتا ہے اور وہ تکبر سے ملا ہوا ہوتاہے.‘‘ (البدر جلد ۱ نمبر۱ مورخہ ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ۴) ۱۸ ؍اکتوبر۱۹۰۲ء بروز شنبہ (الف) ’’فرمایا کہ آج کوئی پہر رات باقی ہوگی کہ الہام ہوا.اِنِّیْ ؎۵ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ وَ لِنَجْعَلَہٗ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَ رَحْـمَۃً مِّنَّا.وَ کَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا.عِنْدِیْ مُعَالَـجَاتٌ‘‘؎۶ (البدر جلد ۱ نمبر۱ مورخہ ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ۵) (ب) ’’مَیں نے اِس الہام کو معمول کے موافق کتاب میں لکھ لیا اور پھر گھر۷؎ میں دریافت کیا کہ آج تم نے کوئی خواب دیکھا ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ مَیں نے ابھی ایک خواب دیکھا ہے کہ ایک صندوق بذریعہ بلٹی آیا ہے جس کو شیخ رحمت اللہ نے بھیجا ہے اور وہ دوائیوں کا صندوق ہے.حکیم فضل الدین کی بیوی اور ہَرُوؔ دائی پاس کھڑی ہیں.جب اُس کو کھولا گیا تو وہ لبالب دوائیوں سے بھرا ہوا تھا.ڈبیاں ہیں، شیشیاں ہیں، غرض پورے طور پر بھرا ہوا ہے گھاس پھُوس کی جگہ بھی دوائیاں ہیں.مَیں نے اس لحاظ سے کہ اُن کے ایمان میں اَور بھی ترقی ہو کہا کہ مجھے آج یہ الہام ہوا ہے اور مَیں نے وہ لکھا ہوا الہام ان کو دکھا دیا.خدا کی قدرت ہے کہ کیسا عجیب توارد ہے اِدھر الہام میں رَحْـمَۃً مِّنَّا ہے اُدھررؤیامیں دکھایا گیا ہے کہ رحمت اللہ نے بھیجا ہے.اور پھر حکیم فضل الدین کی بیوی مریم کاپاس ہونا.چرا؎۱غ ۱ (ترجمہ از ناشر) اور جہاں تک تیرے ربّ کی نعمت کا تعلق ہے تو (اسے) بکثرت بیان کیا کر.(الضُّحٰی: ۱۲) ۲ (ترجمہ از ناشر) اس نے انکار کیا اور استکبار سے کام لیا.(البقرۃ: ۳۵) ۳ (ترجمہ از ناشر) یا تو بہت اونچے لوگوں میں سے ہے.(صٓ: ۷۶) ۴ (ترجمہ از ناشر) ىیقیناً تو ہی غالب آنے والا ہے.(طٰہٰ: ۶۹) ۵ (ترجمہ از ناشر) مَیں ہر ایک کو جو اس گھرکی چاردیوارکے اندرہےطاعون سے بچاؤں گا تا کہ ہم اسے لوگوں کے لئے اپنی رحمت کا نشان بنائیں اور یہ امر پہلے ہی سے قرار پایا ہوا تھا.میرے پاس کئی علاج ہیں.۶ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ۱۰ پر اس الہام میں وَ لِنَجْعَلَہٗ کی بجائے وَ لِنَجْعَلَ کے الفاظ درج ہیں.۷ مراد حضرت اُمّ المؤمنین علیہا السلام.(ایڈیٹر)
چرا؎۱غ کا لانا، یہ سب مبشرات ہیں.لِنَجْعَلَہٗ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ سے مراد یہ ہے کہ یہ وعدہ حفاظت جو ہے اس حفظ کو لوگوں کے لئے ایک نشان ٹھہراؤں گا.اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اب کھلے کھلے طور پر کچھ کرنا چاہتا ہے.جیسے اِنَّـا تَـجَالَدْ.نَـا میں ہوا تھا.اس وقت ایک قوم تمنّا کے ساتھ ٹیکا کرارہی ہے اور ہم اس نشان کے ساتھ ناز کرتے ہیں.‘‘ ( الحکم جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخہ ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ۱۰) ۱۸؍ اکتوبر۱۹۰۲ء ’’اِس الہام کے ساتھ ایک اردو الہام بھی تھا مگر وہ بہت لمبا تھا یاد نہیں رہا اس کا خلاصہ اور مغز یاد رہا ہے کہ ایمان کے ساتھ نجات ہے.‘‘ ( الحکم۲؎ جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخہ ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ۱۰) ۱۸؍ اکتوبر۱۹۰۲ء ’’ فرمایا کہ رات کو مجھے ایک اَور فقرہ الہام ہوا تھا، بھول گیا تھا اَب یاد آیا ہے وہ یہ ہے.اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْا اَنْ۳؎ یَّقُوْلُوْا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ.‘‘ (البدر جلد ۱ نمبر۱ مورخہ ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ۷ ) ترجمہ.کیا یہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بے امتحان کئے صرف زبانی ایمان کے دعویٰ سے چھوٹ جاویں گے.(براہین احمدیہ حصہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ۶۰۸) ۱۹؍ اکتوبر۱۹۰۲ء ’’ یُرِیْدُ.وْنَ اَن یُّطْفِئُوْا نُـوْرَکَ.یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفُوْا عِرْضَکَ.اِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ‘‘؎۴ (بدر جلد ۱ نمبر۲ مورخہ ۷؍نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ۱۰ ) ۲۰؍اکتوبر۱۹۰۲ء ’’ رات تین بجے کے قریب مجھے الہام ہوا.۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) چرؔاغ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک ملازم تھے.بعد میں مدرسہ احمدیہ میں چپڑاسی ہوتے تھے.ریٹائرہوکر ربوہ دارالہجرت میں وفات پائی.۲ (نوٹ از ناشر) البدر مورخہ ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ۵ میں درج ہے کہ ’’ یہ بھی الہام ہوا مگر اصل لفظ یاد نہیں کہ ایمان کے ساتھ نجات ہے.‘‘ ۳ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ۱۱ پر اس الہام میں اَنْ یَّقُوْلُوْا کی بجائے وَیَقُوْلُوْا کے الفاظ درج ہیں.۴ (ترجمہ از مرتّب) دشمن ارادہ کریں گے کہ تیرے نور کو بجھادیں.وہ تیری ہتک عزت کرنا چاہیں گے مگر مَیں تیرے ساتھ اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں گا.(نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) الحکم مورخہ ۱۰؍نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ۱ میں ’’.یُرِیْدُ.وْنَ اَنْ یَّـتَـخَـطَّفُوْا عِرْضَکَ‘‘ کی بجائے اس کی یہ قراءت بیان ہوئی ہے.’’ وَ اَنْ یَّــتَـخَـطَّفُوْا عِـرْضَکَ.‘‘
وَ اِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُ.ھُمْ لِلسِّلْسِلَۃِ السَّمَاوِیَّۃِ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ.جَفَّ الْقَلَمُ بِـمَا ھُوَ کَآ.ئِنٌ.قُلْ اِنَّـمَا اَنَـا بَشَـرٌ مِّثْلُکُمْ یُـوْحٰی اِلَیَّ اَنَّـمَا اِلٰھُکُمْ اِلٰہُ وَّاحِدٌ.وَ الْـخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ.فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَ قُوْدُ ھَاالنَّاسُ وَ الْـحِــجَارَۃُ اُعِدَّ تْ لِلْکَا فِرِیْنَ.؎۱ معلوم ہوتا ہے کہ آدمی دو قسم ہیں.ایک وہ کہ جانتے تو نہیں مگر اُن میں ابھی انسانیت ہے.دوسرے وہ جن کے آنکھ، کان، فہم وغیرہ سب جاتے رہتے ہیں اور حـجارہ میں داخل ہیں.وہ بھی جہنّم میں داخل ہوں گے جو کہ سمجھے ہوئے تو ہیں مگر بعض تعلّقاتِ دُنیاوی کی وجہ سے وہ قبول نہیں کرتے.معلوم ہوتا ہے اس میں کوئی تجویز ہے اور اس کو ابھی مخفی رکھا ہے.یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ترقی ہونے والی ہے اور اللہ کریم کچھ چشم نمائی کرنے والے ہیں.اور یہ بھی فرمایا کہ جو کچھ ہمارے ارادہ میں ہے وہ ہوچکا.اب ٹل نہیں سکتا.‘‘ (البدر جلد ۱ نمبر۲ مورخہ ۷؍نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ۱۰،۱۱ ) ۱۹۰۲ء ’’طاعون کا ہو پڑا.فرمایا.ایک بار مجھے یہ الہام ہوا تھا کہ خدا قادیان میں نازل ہوگا اپنے وعدہ کے موافق.اور پھر یہ بھی تھا.اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَـمِلُوا الصَّالِـحَاتِ.‘‘ ؎۲ (البدر جلد ۱ نمبر۲ مورخہ ۷؍نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ۱۱.الحکم جلد۶نمبر۴۰ مورخہ ۱۰؍نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۱) ۳۰؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء (الف) ’’ نتیجہ خلافِ مُراد ہوا یانِکلا آخر کا لفظ ٹھیک یاد نہیں اور یہ بھی پختہ پتہ نہیں کہ یہ الہام کس امر کے متعلق ہے.‘‘ (البدر جلد ۱ نمبر۲ مورخہ ۷؍نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ۱۶ ) (ب) ’’ نتیجہ خلاف ِاُمید ہے.‘‘ (الحکم جلد۶نمبر۴۰ مورخہ ۱۰؍نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ۱۱) ۱ (ترجمہ از مرتّب) اور یا تو ہم تجھے وہ بعض وعدے دکھا دیں گے جو ہم نے سلسلہ سماویہ کے لئے کئے ہیں اور یا تجھے وفات دے دیں گے.جو کچھ ہمارے ارادہ میں ہے وہ ہوکر رہے گا.تُو کہہ دے کہ مَیں تمہاری طرح ایک بشر ہوں جس پر وحی کی گئی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی ہے.اور تمام خیر قرآن میں ہے.پس اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور جو کفار کے لئے تیار کی گئی ہے.۲ (ترجمہ از مرتّب) سوائے مومنوں اور نیک عمل کرنے والوں کے.
۶ ؍نومبر ۱۹۰۲ء ’’ ۶؍نومبر ۱۹۰۲ء کی شام کو میرے دل میں ڈالا گیا کہ ایک قصیدہ مقام مُدؔ کے مباحثہ کے متعلق بناؤں.‘‘ (اعجاز احمدی.روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ ۲۰۳) ۱۹۰۲ء (الف) ’’ فَقَدْ سَـرَّنِیْ فِیْ ھٰذِہِ الصُّوْرِ صُوْرَۃٌ لِیَدْ فَعَ رَبِّیْ کُلَّمَا کَانَ یَـحْشُـرٗ ؎۱ ترجمہ.پس اِن صورتوں میں مجھے ایک طریق اچھا معلوم ہوا تا میرا خدا اس طوفان کو دُور کردے جو اُس؎۲نے اُٹھایا ہے.‘‘ (اعجاز احمدی.روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ ۱۵۶) (ب) ’’ ایک قصیدہ مَیں نے عربی میں تالیف کیا تھا جس کا نام اعجاز احمدی رکھا تھا اور الہامی طور پر بتلایا گیا تھا کہ اس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکے گا اور اگر طاقت بھی رکھتا ہوگا تو خدا کوئی روک ڈال دے گا.پس قاضی ظفرالدین جو نہایت درجہ اپنی طینت میں خمیر انکار اور تعصّب اور خودبینی رکھتا تھا اس نے اس قصیدہ کا جواب لکھنا شروع کیا تا خدا کے فرمودہ کی تکذیب کرے.پس ابھی وہ لکھ ہی رہا تھا کہ ملک الموت نے اس کا کام تمام کردیا.‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۶۰۴ حاشیہ) (ج) ’’ میرے مکان کے ملحق ۲دو مکان تھے جو میرے قبضہ میں نہیں تھے اور بباعث تنگی مکان توسیع مکان؎۳ کی ضرورت تھی.ایک دفعہ مجھے کشفی طور پر دکھلایا گیا جو اُس زمین پر ایک بڑا چبوترہ ہے اور مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ اس جگہ ایک لمبا دالان بن جائے.اور مجھے دکھایا گیا کہ اس زمین کے مشرقی حصّہ نے ہماری عمارت کے بننے کے لئے دعا کی ہے اور مغربی حصّہ کی زمین اُفتادہ نے آمین کہی ہے.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۳۹۳) ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.ھٰذَا الشِّعْرُ مِنْ وَّحْیِ اللّٰہِ تَعَالٰی جَلَّ شَاْنُہٗ.(اعجاز احمدی.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ۱۵۶ حاشیہ) (ترجمہ از ناشر) یہ شعر اللہ جَلَّ شَاْنُہٗ کی وحی سے ہے.۲ مولوی ثناء اللہ صاحب نے.(مرزا بشیر احمد) ۳ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہی مکان ہے جس کا اشتہار کشتی نوح کے آخر میں حضرت اقدس ؑ نے دیا تھا اور جس میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ رہتے تھے اور اِس لحاظ سے یہ کشف ۱۹۰۲ء یا اس سے قدرے قبل کا بنتا ہے مگر چونکہ صحیح تاریخ کا پتہ نہیں لگ سکا اِس لئے اِسے کشتی نوح کے سنِ تصنیف میں درج کردیا ہے.وَاللہُ اَعْلَمُ.
۱۵؍ نومبر۱۹۰۲ء (قریباً) ’’۲۹؍نومبر ۱۹۰۲ء روز شنبہ کو ایک خواب بیان کیا جسے دیکھے ہوئے قریب ۲دو ہفتے گزرے تھے.وہ خواب یہ ہے کہ ایک مقام پر مَیں کھڑا ہوں تو ایک شخص آکر چیل کی طرح جھپٹا مار کر میرے سر سے ٹوپی لے گیا.پھر دوسری بار حملہ کرکے آیا کہ میرا عمامہ لے جاوے مگر مَیں اپنے دل میں مطمئن ہوں کہ یہ نہیں لے جاسکتا.اتنے میں ایک نحیف الوجود شخص نے اسے پکڑلیا مگر میرا قلب شہادت دیتا تھا کہ یہ شخص دل کا صاف نہیں ہے.اتنے میں ایک اَور شخص آگیا جو قادیان کا رہنے والا تھا اُس نے بھی اُسے پکڑلیا.مَیں جانتا تھا کہ مؤخر الذکر ایک مومن متقی ہے.پھر اُسے عدالت میں لے گئے تو حاکم نے اُسے جاتے ہی ۴ یا ۶ یا ۹ ماہ کی قید کا حکم دے دیا.‘‘ ( البدر جلد ۱نمبر ۵،۶ مورخہ ۲۸؍نومبرو ۵؍دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۳۷) ۱۹۰۲ء ’’ فرمایا کہ مجھےرؤیاہوا ہے کیا دیکھتا ہوں کہ ایک آدمی سر سے ننگا مَیلے کُچیلے کپڑے پہنے ہوئے میرے پاس آیا ہے.اُس سے مجھے سخت بدبُو آتی ہے.میرے پاس آکر کہتا ہے کہ میرے کان کے نیچے طاعون کی گلٹی نکلی ہوئی ہے.مَیں اُسے کہتا ہوں پیچھے ہٹ جا، پیچھے ہٹ جا.آپ نے فرمایا کہ اس کے ساتھ تفہیم الٰہی کوئی نہیں.‘‘ ( البدر جلد ۱نمبر ۵،۶ مورخہ ۲۸؍نومبرو ۵؍دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۳۴) ۱۷؍ نومبر۱۹۰۲ء ’’ فرمایا.رات مَیں نے خواب میں کچھ بارش ہوتی دیکھی ہے.یُونہی ترشُّح سا ہے اور قطرات پڑ رہے ہیں مگر بڑے آرام اور سکون سے.‘‘ (البدر۱؎ جلد ۱نمبر ۵،۶ مورخہ ۲۸؍نومبرو ۵؍دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۳۵) ۱۸؍ نومبر۱۹۰۲ء ’’ فرمایا کہ نماز (فجر) سے کوئی ۲۰ یا ۲۵ منٹ پیشتر مَیں نے خواب دیکھا کہ گویا ایک زمین خریدی ہے کہ اپنی جماعت کی میّتیں وہاں دفن کیا کریں تو کہا گیا کہ اس کا نام مقبرہ بہشتی ہے یعنی جو اس میں دفن ہوگا وہ بہشتی ہوگا.پھر اِس کے بعد کیا دیکھتا ہوں کہ کشمیر میں کسرِ صلیب کے لئے یہ سامان ہوا ہے کہ کچھ پُرانی انجیلیں وہاں سے نِکلی ہیں.مَیں نے تجویز کی کہ کچھ آدمی وہاں جاویں تو وہ انجیلیں لاویں تو ایک کتاب اُن پر لکھی جاوے.یہ سن کر مولوی مبارک علی صاحب تیار ہوئے کہ مَیں جاتا ہوں مگر اِس مقبرہ بہشتی میں میرے لئے جگہ رکھی جاوے.مَیں نے کہا کہ خلیفہ نورالدین کو بھی ساتھ بھیج دو یہ خواب ہے جو میں نے سنایا.۱ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۲۴؍نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۴ میں خواب کے الفاظ یوں ہیں.’’فرمایا رات کو خواب میں دیکھا کہ خفیف سا ترشح ہورہا ہےمگر بڑے آرام و سکون سے.‘‘
اور فرمایا کہ اس سے پیشتر مَیں نے تجویز کی تھی کہ ہماری جماعت کی میّتوں کے لئے ایک الگ قبرستان یہاں ہو سو خدا نے آج اس کی تائید کردی.اور انجیل کے معنے بشارت کے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے ارادہ کیا ہے کہ وہاں سے کوئی بڑی بشارت ظاہر کرے اور جو شخص وہ کام کرکے لائے گا وہ قطعی بہشتی ہے.‘‘ ( البدر؎۱ جلد ۱نمبر ۵،۶ مورخہ ۲۸؍نومبرو ۵؍دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۳۵ ) ۲۰؍نومبر ۱۹۰۲ء بروز پنج شنبہ ’’فرمایا رات کو میں نے پگٹ۲؎ کے متعلق دعا کی اور صبح بھی کی مجھے یہ دکھایا گیا کہ کسی نے مجھے چار پانچ کتابیں دی ہیں جن پر لکھا ہوا تھا تسبیح تسبیح تسبیح بعد اس کے الہام ہوا.اَللّٰہُ شَدِ.یْدُ الْعِقَابِ.اِنَّـھُمْ لَا یُـحْسِنُوْنَ.؎۳ اس الہام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی موجودہ حالت خراب ہے اور یا آئندہ توبہ نہ کریں گے.اور یہ معنی بھی اس کے ہیں لَا یُـؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ اور یہ مطلب بھی اس سے ہے کہ اس نے یہ کام اچھا نہیں کیا.اللہ تعالیٰ پر یہ افترا اور منصوبہ باندھا اور اَللّٰہُ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ظاہر کرتا ہے کہ اس کا انجام اچھا نہ ہوگا اور عذابِ الٰہی میں گرفتار ہوگا.حقیقت میں یہ بڑی شوخی ہے کہ خدائی کا دعویٰ کیا جاوے.‘‘ ( البدر؎۴ جلد۱ نمبر ۵، ۶ مورخہ ۲۸؍نومبرو ۵؍دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ۴۶) ۱ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۲۴؍نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۴ میں یہی خواب باختلاف الفاظ درج ہے.۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) پگٹ (Piggott) لنڈن کا ایک پادری تھا جس نے دعویٰ کیا کہ وہ مسیح موعود ہے.چند آدمی اس کے ساتھ ہوگئے.اس کا ایک ٹائپ شدہ اشتہار مفتی محمد صادق صاحب کے نام آیا تھا.مفتی صاحب نے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا تب حضور نے ایک چھوٹا سا اشتہار صرف ایک صفحہ کا لکھ کر مولوی محمد علی صاحب کو دیا کہ اس کا انگریزی میں ترجمہ کرکے اور چھپوا کر ولایت بھیج دیں.اس اشتہار میں حضور نے لکھا تھا کہ تمہارے دعویٰ کا اشتہار ہمارے سیکرٹری کے پاس پہنچا ہے.تم اس دعویٰ میں جھوٹے ہو اور اگر تم طاقت رکھتے ہو تو میرا مقابلہ کرو.خدا نے مجھ کو یہ بتایا ہے کہ مَیں مسیح موعود ہوں اوراسلام سچا دین ہے.یہ اشتہار جب اس کو پہنچا تو اس نے خاموشی اختیار کی.اس اشتہار کو ولایت کے اخباروں نے بھی چھاپا اور ان کے Cuttings (تراشے) قادیان آئے تھے.اُن دنوں میں ایک عورت اس کے پاس رہتی تھی اس کے ساتھ اس کا تعلق ہوگیا جس کے متعلق اخباروں میں اس کے حق میں بدنامی کی خبریں شائع ہوئیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس اشتہار کے پہنچنے کے بعد وہ خاموش ہوگیا.اس نے نہ پھر کبھی کوئی دعویٰ کیا اور نہ ہی اپنی کوئی جماعت بنائی اور نہ کوئی سلسلہ قائم کیا اور اسی خاموشی میں وہ فوت ہوگیا.۳ (ترجمہ از مرتّب) اللہ کی سزا سخت ہوتی ہے یہ لوگ نیک اعمال بجا نہیں لاتے.۴ (نوٹ از ناشر) اس الہام کے الفاظ البدر ۲۱؍ نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ۲۵ میں بھی درج ہیں اور الحکم مورخہ ۲۴؍نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۶ میں قدرے اختلافِ الفاظ سے اس رؤیا کی تفصیل درج ہے.
۲۱؍ نومبر۱۹۰۲ء ’’ مَیں جب اشتہار؎۱ کو ختم کرچکا.شاید دو تین سطریں باقی تھیں تو خواب نے میرے پر زور کیا یہاں تک کہ مَیں بمجبوری کاغذ کو ہاتھ سے چھوڑ کر سو گیا.تو خواب میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی عبداللہ صاحب چکڑالوی نظر کے سامنے آگئے.مَیں نے ان دونو کو مخاطب کرکے یہ کہا.خُسِفَ الْقَـمَرُ وَ الشَّمْسُ فِیْ رَمَضَانَ.فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّ.بَـانِ.یعنی چاند اور سورج کو تو رمضان میں گرہن لگ چکا.پس تم اے دونوں صاحبو! کیوں خدا کی نعمت کی تکذیب کر رہے ہو ؟ پھر مَیں خواب میں اخویم مولوی عبدالکریم صاحب کو کہتا ہوں کہ اٰلَآءِ سے مُراد اِس جگہ مَیں ہوں اور پھر مَیں نے ایک دالان کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھا کہ اس میں چراغ روشن ہے.گویا رات کا وقت ہے اور اُسی الہام مندرجہ بالا کو چند آدمی چراغ کے سامنے قرآن شریف کھول کر اس سے یہ دونوں فقرے نقل کررہے ہیں.گویا اسی ترتیب سے قرآن شریف میں موجود ہے اور ان میں سے ایک شخص کو مَیں نے شناخت کیا کہ میاں نبی بخش صاحب رفو گر امرت سری ہیں.‘‘ (ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی.روحانی خزائن جلد۱۹صفحہ ۲۰۹حاشیہ) ۲۲؍ نومبر۱۹۰۲ء ’’ آج رات مجھےرؤیامیں دکھایا گیا کہ ایک درخت باردار اور نہایت لطیف اور خوبصورت پھلوں سے لدا ہوا ہے اور کچھ جماعت تکلّف اور زور سے ایک بُوٹی کو اُس پر چڑھانا چاہتی ہے جس کی جڑ نہیں بلکہ چڑھا رکھی ہے.وہ بُوٹی افتیمون کی مانند ہے اور جیسے جیسے وہ بُوٹی اس درخت پر چڑھتی ہے اس کے پھلوں کو نقصان پہنچاتی ہے اور اس لطیف درخت میں ایک کھجواہٹ اور بد شکلی پیدا ہورہی ہے اورجن پھلوں کی اس درخت سے توقع کی جاتی ہے اُن کے ضائع ہونے کا سخت اندیشہ ہے بلکہ کچھ ضائع ہوچکے ہیں.تب میرا دل اس بات کو دیکھ کر گھبرایا اور پگھل گیا اور مَیں نے ایک شخص کو جو ایک نیک اور پاک انسان کی صورت پر کھڑا تھا ، پُوچھا کہ یہ درخت کیا ہے اور یہ بُوٹی کیسی ہے جس نے ایسے لطیف درخت کو شکنجہ میں دبا رکھا ہے.تب اُس نے جواب میں مجھے یہ کہا کہ یہ درخت قرآن خدا کا کلام ہے اور یہ بُوٹی وہ احادیث اور اقوال وغیرہ ہیں جو قرآن کے مخالف ہیں یا مخالف ٹھہرائی جاتی ہیں اور اُن کی کثرت نے اس درخت کو دبا لیا ہے اور اس کو نقصان پہنچا رہی ہیں.تب میری آنکھ کھل گئی.‘‘ (ریویو برمباحثہ بٹالوی و چکڑالوی.روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ۲۱۲ حاشیہ) ۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) یعنی ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی.روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ ۲۰۶تا۲۱۶.
۲۲؍ نومبر۱۹۰۲ء ’’اسی رات میں ایک الہام ہوا.بوقت ۳ بجے ۲ منٹ اُوپر اور وہ یہ ہے.مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ نَبْتَلِیْہِ بِذُ رِّیَّۃٍ فَاسِقَۃٍ مُلْـحِدَ ۃٍ یَّـمِیْلُوْنَ اِلَی الدُّنْیَا وَ لَا یَعْبُدُ.ونَنِیْ شَیْئًا.جو شخص قرآن سے کنارہ کرے گا ہم اُس کو ایک خبیث اولاد کے ساتھ مبتلا کریں گے جن کی ملحدانہ زندگی ہوگی.وہ دنیا پر گریں گے اور میری پرستش سے ان کو کچھ بھی حصّہ نہ ہوگا یعنی ایسی اولاد کا انجام بد ہوگا اور توبہ اور تقویٰ نصیب نہیں ہوگا.‘‘ (ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی.روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ ۲۱۳ حاشیہ) ۵؍ دسمبر۱۹۰۲ء (الف) ’’ جمعہ کے دن جب مَیں بیمار تھا تو مجھے یہ الہام ہوا تھا.یَـمُوْتُ قَبْلَ یَــوْمِیْ ھٰذَا یعنی یہ میرے اس دن سے پیشتر مرے گا.یومؔ سے مراد جمعہ کا دن ہے جو کہ اصل میں خدا کا دن ہے.‘‘ (البدر جلد۱نمبر۷مورخہ ۱۲؍دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۵۵) (ب) ’’ مولوی رسل بابا امرتسری… طاعون سے پکڑا گیا اور اُس کے عین طاعون کے دنوں میں جمعہ کے روز مجھ کو الہام ہوا کہ یَـمُوْتُ قَبْلَ یَــوْمِیْ ھٰذَا یعنی آئندہ جمعہ سے پہلے مرجائے گا چنانچہ وہ آئندہ جمعہ سے پہلے ۸؍دسمبر ۱۹۰۲ء کو ڑ۵ بجے صبح کے اس جہان فانی سے رخصت ہوا.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۱۲،۳۱۳) ۶ ؍دسمبر۱۹۰۲ء (الف) ’’رات کو میری ایسی حالت تھی کہ اگر خدا کی وحی نہ ہوتی تو میرے اِس خیال میں کوئی شک نہ تھا کہ میرا آخری وقت ہے.اسی حالت میں میری آنکھ لگ گئی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک جگہ پر مَیں ہوں اور وہ کوچہ سربستہ سا معلوم ہوتا ہے کہ۳ بھینسے؎۱ آئے ہیں.ایک اُن میں سے میری طرف آیا تو مَیں نے اُسے مار کر ہٹا دیا پھر دوسرا آیا تو اُسے بھی ہٹادیا.پھر تیسرا آیا اور وہ ایسا پُرزور معلوم ہوتا تھا کہ مَیں نے خیال کیا ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’ اس واقعہ کے دیکھنے کے ساتھ ہی مجھ کو تفہیم ہوئی کہ کوئی دشمن مقدمہ برپا کرے گا اور اس کے تین وکیل ہوں گے… بعد میں کرم دین نے جہلم میں میرے پر مقدمہ کیا اور میری طلبی ہوئی اور وہ مقدمہ فوجداری اور سخت مقدمہ تھا اور جیسا کہ کشفی حالت میں ظاہر کیا گیا تین وکیل اُس کے تھے.آخر بموجب وعدۂ الٰہی وہ مقدمہ اس کا خارج ہوا.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۹۵)
کہ اَب اس سے مَفر نہیں ہے.خدا تعالیٰ کی قدرت کہ مجھے اندیشہ ہوا تو اُس نے اپنا منہ ایک طرف پھیر لیا.مَیں نے اُس وقت یہ غنیمت سمجھا کہ اُس کے ساتھ رگڑ کر نکل جاؤں.مَیں وہاں سے بھاگا اور بھاگتے ہوئے خیال آیا کہ وہ بھی میرے پیچھے بھاگے گا مگر مَیں نے پھر کر نہ دیکھا.اُس وقت خواب میں خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے دل پر مندرجہ ذیل دعا القا کی گئی.رَبِّ کُلُّ شَیْءٍخَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَ انْصُـرْنِیْ وَ ارْحَـمْنِیْ ؎۱ اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ اسمِ اعظم ہے اور یہ وہ کلمات ہیں کہ جو اسے پڑھے گا ہر ایک آفت سے اُسے نجات ہوگی.(البدر۲؎ جلد ۱نمبر۷ مورخہ۱۲؍دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۵۴) (ب) ’’وَ مِنْ اٰیَـاتِیْ مَا اَنْـبَأَنِیَ الْعَلِیْمُ الْـحَکِیْمُ.فِیْ اَمْرِ رَجُلٍ لَئِیْمٍ وَ بُـھْتَانِہِ الْعَظِیْمِ.وَاَوْحٰی اِلَـیَّ اَنَّہٗ یُرِیْدُ اَنْ یَّـتَـخَطَّفَ عِرْضَکَ.ثُمَّ یَـجْعَلُ نَفْسَہٗ غَـرَضَکَ وَ اَرَانیْ فِیْہِ رُؤْیَـا ثَلٰثَ مَرَّاتٍ.وَ اَرَانِیْ اَنَّ الْعَدُوَّ اَعَدَّ لِذَالِکَ ثَلٰثَۃَ حُـمَاۃٍ لِّتَوْھِیْنٍ وَّ اِعْنَاتٍ.وَ رَأَیْتُ کَاَنِّیْ اُحْضِـرْتُ مُـحَاکَمَۃً کَالْمَاْخُوْذِیْـنَ.وَ رَأَیْتُ اَنَّ اٰخِرَ اَمْرِیْ نَـجَاۃٌ بِفَضْلِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ لَوْ بَعْدَ حِیْنٍ.وَبُشِّـرْتُ اَنَّ الْبَلَآءَ یُـرَدُّ عَلٰی عَدُوِّی الْکَذَّابِ الْمُھِیْنِ…… ثُمَّ قَعَدْ تُّ کَالْمُنْتَظِرِیْنَ.وَ مَا مَرَّ عَلٰی مَا رَأَیْتُ اِلَّا سَنَۃٌ فَاِذَا ظَھَرَ قَدَ رُاللّٰہِ عَلٰی یَدِ عَدُ وٍّ مُّبِیْنِ اسْـمُہٗ کَــرَمُ الدِّ یْنِ.‘‘ (مواہب الرحمٰن.روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ ۳۵۰) ترجمہ.’’اور منجملہ میرے نشانوں کے ایک یہ ہے کہ جو خدائے علیم و حکیم نے ایک لئیم شخص کی نسبت اور اس کے بہتانِ عظیم کی نسبت مجھے خبردی اور مجھے اپنی وحی سے اطلاع دی کہ یہ شخص میری عزّت دُور کرنے کے لئے حملہ کرے گا اور انجام کار میرا نشانہ آپ بن جائے گا.اور خدا نے تین خوابوں میں یہ حقیقت میرے پر ظاہر ۱ (ترجمہ) اے میرے ربّ! ہر شےتیری خادم ہے.اے میرے ربّ! میری حفاظت کر اور میری نصرت کر اور مجھ پر رحم کر.’’فرمایا.یہ دعا ایک حِرز اور تعویذ ہے.اور میرے دل میں اس وقت یہ بات پڑتی تھی کہ یہی اسم اعظم ہے.فرمایا کہ مَیں اس دعا کو اب التزاماً ہر نماز میں پڑھاکروں گا.آپ بھی پڑھا کریں.فرمایا.اس میں بڑی بات جو سچی توحید سکھاتی یعنی اللہ جلّشانہٗ کو ہی ضَارّ اور نَـافِع یقین دلاتی ہے یہ ہے کہ اس میں سکھایا گیا ہے کہ ہر شے تیری خادم ہے یعنی کوئی موذی اور مضر شے تیرے ارادے اور اِذن کے بغیر کچھ بھی نقصان نہیں کرسکتی.‘‘ (الحکم مورخہ ۱۰؍دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۰) ۲ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ۱۰؍دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۰ میں بھی یہی خواب باختلاف الفاظ درج ہے.
کی اور خواب میں میرے پر ظاہر کیا کہ یہ دشمن تین حمایت کرنے والے اپنی کامیابی کے لئے مقرر کرے گا تاکہ کسی طرح اہانت کرے اور رنج پہنچاوے اور مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ گویا مَیں کسی عدالت میں گرفتاروں کی طرح حاضر کیا گیا ہوں اور مجھے دکھلایا گیا کہ انجام ان حالات کا میری نجات ہے.اگرچہ کچھ مدت کے بعد ہو اور مجھے بشارت دی گئی کہ اس دشمن کذاب مہین پر بَلارَدّکی جائے گی… پھر مَیں انتظار کرتا رہا کہ کب یہ پیشگوئی کی باتیں ظہور میں آئیں گی پس جب ایک برس گزرا تو یہ مقدر باتیں کرم دین کے ہاتھ سے ظہور میں آگئیں (یعنی اس نے ناحق میرے پر فوجداری مقدمات دائر کئے).‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۲۲۵) ۶؍ دسمبر۱۹۰۲ء ’’اِس خواب؎۱کے بعد پھر کیا دیکھتا ہوں کہ ایک گھوڑے کا سوار ملا.جب مَیں گھر کے قریب آیا تو ایک شخص نے میرے ہاتھ پر پیسے رکھے.مَیں نے خیال کیا کہ اس میں دونّی چونّی بھی ہوگی آگے آیا تو دیکھا کہ فـجّو؎۲ (فضل نشان) کشمیری عورت بیٹھی ہے.پھر جب مسجد میں گیا تو دیکھا کہ ہزارہا آدمی بیٹھے ہیں اور کپڑے سب کے پُرانے معلوم ہوتے ہیں.مسجد میں اَور آگے بڑھا تو دیکھا ایک جنازہ رکھا ہوا ہے.اس کی بڑی سی چارپائی ہے.یہ معلوم نہیں کہ کس کا جنازہ ہے.‘‘ (البدر جلد ۱نمبر۷ مورخہ ۱۲؍دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۵۴) ۸؍دسمبر۱۹۰۲ء ’’ مَیں دیکھتا ہوں کہ ایک جگہ پر وضو کرنے لگا تو معلوم ہوا کہ وہ زمین پولی؎۳ ہے اور اس کے نیچے ایک غار سی چلی جاتی ہے.مَیں نے اس میں پاؤں رکھا تو دھس گیا اور خوب یاد ہے کہ پھر مَیں نیچے ہی نیچے چلا گیا.پھر ایک جَست کرکے مَیں اُوپر آگیا اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مَیں ہوا میں تَیر رہا ہوں اور ایک گڑھا ہے مثل دائرے کے گول اور اس قدر بڑا جیسے یہاں؎۴ سے نواب صاحب کا گھر، اور مَیں اُس پر اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر تَیر رہا ہوں.سیّد محمد احسن صاحب کنارہ پر تھے.مَیں نے اُن کو بُلا کر کہا کہ دیکھ لیجئے کہ عیسیٰ ؑ تو پانی پر چلتے تھے اور مَیں ہوا پر تَیر رہا ہوں اور میرے خدا کا فضل اُن سے بڑھ کر مجھ پر ہے.حامد علی میرے ساتھ ہے اور اُس گڑھے پر ہم نے کئی پھیرے کئے.نہ ہاتھ نہ پاؤں ہلانے پڑتے ہیں اور بڑی آسانی ۱ یعنی تین بھینسوں والا خواب (شمس) ۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) فـجّو قادیان کے ایک شخص مسمّی غفّارا کی بیوی تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں خادمہ تھی.۳ یعنی نرم اور کھوکھلی.(شمس) ۴ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یہاں سے مراد مسجد مبارک ہے اور نواب صاحب کے گھر سے مراد نواب محمد علی خاں صاحب کا وہ مکان ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کے ساتھ متصل تھا.
سے اِدھر اُدھر تَیر رہے ہیں.ایک بجنے میں ۲۰ منٹ باقی تھے کہ مَیں نے یہ خواب دیکھا.‘‘ (البدر جلد ۱نمبر۷ مورخہ ۱۲؍دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۵۵) ۹؍ دسمبر۱۹۰۲ء ’’ گذشتہ شب کو مجھے یہ الہام ہوا ہے.سَلَامٌ؎۱ عَلَیْکَ یَـا اِبْـرَاھِیْمُ پھر اس کے بعد الہام ہوا.سَلَامٌ عَلٰی اَمْرِکَ.صِـرْتَ فَـآئِزًا.‘‘ ؎۲ (البدر جلد ۱نمبر۷ مورخہ۱۲؍دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۵۵.الحکم جلد ۶نمبر۴۴ مورخہ۱۰؍دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۸) ۱۲؍دسمبر۱۹۰۲ء ’’فرمایا کہ یہ الہام ہوا ہے اس کے ساتھ ایک اَور عجیب اورمبشّر فقرہ تھا وہ یاد نہیں رہا.یُنَادِیْ مُنَادٍ مِّنَ السَّمَآءِ.‘‘ ؎۳ (البدر جلد ۱ نمبر ۸ مورخہ ۱۹؍دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۵۸) ۱۹؍ دسمبر۱۹۰۲ء ’’ اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْ.‘‘؎۴ (البدر جلد ۱نمبر۹ مورخہ۲۶؍دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۶۸.الحکم جلد ۶نمبر۴۶ مورخہ۲۴؍دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۴) ۱۹؍ دسمبر۱۹۰۲ء ’’ مغرب و عشاء کی نماز باجماعت ادا کرکے حضرت اقدس تشریف لے گئے اور پھر تشریف لائے تو آپ نے اپنی تین رؤیا سنائیں جو کہ آپ نے پے در پے دیکھی تھیں.کہ ایک شخص نے ایک روپیہ اور پانچ چھوارے رؤیا میں دیئے.۱ (ترجمہ) یعنی اے ابراہیم ! تجھ پر سلام.تیرے کاروبار پر سلامتی ہو اور تُو بامراد ہوگیا.(البدر مورخہ ۱۲؍ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۵۵) ۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’مولوی رُسل بابا… ۸؍دسمبر ۱۹۰۲ء کو ساڑھے پانچ بجے صبح کے اس جہانِ فانی سے رخصت ہوا اور یہ میرا الہام اس کی موت سے پہلے شائع کیا گیا تھا اور الحکم میں بھی شائع ہوچکا ہے.پھر ساتھ ہی مجھے یہ الہام ہوا سَلَامٌ عَلَیْکَ یَـا اِبْـرَاھِیْمُ.سَلَامٌ عَلٰی اَمْرِکَ.صِـرْتَ فَآئِزًا یعنی اے ابراہیم تیرے پر سلام تُو فتح یاب ہوگیا.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۳۱۲، ۳۱۳) ۳ (ترجمہ از مرتّب) ایک آسمان سے آیا ہوا پکارنے والا پکار رہا ہے.۴ (ترجمہ از مرتّب) مَیں فوجیں لے کر آرہا ہوں.
اس کے بعد پھر غنودگی ہوئی تو دیکھا کہ تریاق القلوب کا ایک صفحہ دکھایا گیا ہے جس پر عَلٰی شُکْرِ الْمَصَآئِبِ لکھا ہوا ہے جس کے یہ معنے ہوئے کہ ھٰذِہٖ صِلَۃٌ عَلٰی شُکْرِ الْمَصَآئِبِ گویا یہ روپیہ اور چھوارے شکرالمصائب کا صلہ ہے.تیسری دفعہ پھر کچھ ورق دکھائے گئے جن پر بیٹوں کے بارے میں کچھ لکھا ہوا تھا اور جو اس وقت یاد نہیں ہے.‘‘ (البدر جلد ۱نمبر۹ مورخہ۲۶؍دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۶۹) ۲۱؍ دسمبر۱۹۰۲ء ’’۲۱؍ و ۲۲؍ دسمبر کے درمیان کی شب کو دو اور ۳ بجے کے درمیان یہ الہام ہوا.یَـأْتِیْ عَلَیْکَ زَمَنٌ کَمِثْلِ زَمَنِ مُوْسٰی.‘‘۱؎ (البدر۲؎ جلد ۱نمبر ۹ مورخہ۲۶؍دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۷۱ ) ۲۲؍ دسمبر۱۹۰۲ء (الف) ’’ اِنَّہٗ کَرِیْمٌ تَـمَشّٰی اَمَامَکَ وَ عَادٰی مَنْ عَادٰی ‘‘ ؎۳ (البدر جلد ۱ نمبر ۹ مورخہ ۲۶؍ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۷۱.البدر جلد ۱نمبر۱۰ مورخہ۲؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۷۶.الحکم جلد ۶نمبر۴۶ مورخہ۲۴؍دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ۱۳، ۱۴) (ب) فرمایا.کل جو الہام ہوا تھا یَـأْتِیْ عَلَیْکَ زَمَنٌ کَمِثْلِ زَمَنِ مُوْسٰی یہ اسی الہام کے آگے معلوم ہوتا ہے جہاں ایک الہام کا قافیہ جب دوسرے الہام سے ملتا ہے خواہ وہ الہامات ایک دُوسرے سے دس دن کے فاصلہ سے ہوں مگر مَیں سمجھتا ہوں کہ ان دونوں کا تعلق آپس میں ضرور ہے یہاں بھی موسیٰ اور عادٰی کا قافیہ ملتا ہے اور پھر توریت میں اس قسم کا مضمون ہے کہ خدا نے موسیٰ کو کہا کہ تُو چل مَیں تیرے آگے چلتا ہوں.‘‘ (البدر جلد ۱نمبر۱۰ مورخہ۲؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۷۶) ۲۳؍ دسمبر ۱۹۰۲ء نماز فجر سے پیشتر حضرت اقدس نے یہ رؤیاسنائی.’’مَیں کسی اَور جگہ ہوں اور قادیان کی طرف آنا چاہتا ہوں.ایک دو آدمی ساتھ ہیں.کسی نے کہا راستہ بند ۱ (ترجمہ) یعنی تیرے پر ایسا زمانہ آنے والا ہے جیسے موسیٰ پر آیا تھا.(البدر مورخہ ۲۶؍دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۷۱) ۲ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ۲۴؍دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۱ میں اس الہام کی تفصیل یوں درج ہے.’’ ۲۱؍دسمبر کی رات کو جس کی صبح کو ۲۲؍دسمبر تھی اور جو اَخیر عشرہ رمضان کی پہلی رات تھی آپ کو یہ الہام ہوا.یَـأْتِیْ عَلَیْکَ زَمَانٌ کَمِثْلِ زَمَنِ مُوْسٰی.فرمایا.اس زمانہ میں جو بیس پچیس برس کے قریب ہوتا ہے یہ الہام کبھی نہیں ہوا.موسیٰ کا نام تو کئی الہاموں میں رکھا گیا ہے.‘‘ ۳ (ترجمہ) یعنی وہ کریم ہے تیرے آگے آگے چلتا ہے جس نے تیری عداوت کی گویا اس کی عداوت کی.(البدر مورخہ۲۶؍دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۷۱)
ہے.ایک بڑا بحرِ ذخّار چل رہا ہے.مَیں نے دیکھا تو واقعی میں کوئی دریا نہیں بلکہ ایک بڑا سمندر ہے اور پیچیدہ ہوہو کر چل رہا ہے جیسے سانپ چلا کرتا ہے.ہم واپس چلے آئے کہ ابھی راستہ نہیں اور یہ راہ بڑا خوفناک ہے.‘‘ (البدر جلد ۱نمبر۱۰ مورخہ۲؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۷۶) ۲۵؍ دسمبر۱۹۰۲ء ’’۲۵؍دسمبر ۱۹۰۲ء کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک وحی ہوئی تھی جو میری طرف سے بطور حکایت تھی اور وہ یہ ہے.اِنِّیْ صَادِقٌ وَ سَیَشْھَدُ اللّٰہُ لِیْ.‘‘؎۱ (ترجمہ) میں صادق ہوں اور صادق ہوں.عنقریب خدا تعالیٰ میری گواہی دے گا.‘‘ (اشتہار مورخہ یکم جنوری ۱۹۰۳ء.مجموعہ اشتہارات جلد۳ صفحہ۲۹۲ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۱۹۰۲ء (الف) ’’ اِنِّیْ اَنَـا الـصَّـاعِــــقَــــــۃُ.‘‘؎۲ (البدر جلد ۱نمبر۱۱ مورخہ۹؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۸۶.الحکم جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۲) (ب) ’’ مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا نیا اِسم ہے آج تک کبھی نہیں سنا.حضرت اقدسؑ نے فرمایا.بے شک.اِسی طرح طاعون کی نسبت جو الہامات ہیں وہ بھی ہیں.جیسے اُفْطِرُ وَاَصُوْمُ.یہ بھی کیسے لطیف الفاظ ہیں.گویا خدا فرماتا ہے کہ طاعون کے متعلق میرے دو کام ہوں گے.کچھ حصّہ چُپ رہوں گا یعنی روزہ رکھوں گا اور کچھ افطار کروں گا اور یہی واقعہ ہم چند سال سے دیکھتے ہیں.شدّت گرمی اور شدّت سردی کے موسم میں طاعون دب جاتی ہے گویا وہ اَصُوْمُ کا وقت ہے اور فروری ، مارچ ، اکتوبر وغیرہ میں زور کرتی ہے، وہ گویا اِفْطَار کا وقت ہوتا ہے اور اسی لطیف کلام میں سے ہے.اِنِّیْ اَنَـا الصَّاعِقَۃُ.‘‘ (البدر جلد ۱نمبر۱۱ مورخہ۹؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۸۶) (ج) ۳۱؍دسمبر ۱۹۰۲ء بروز چہار شنبہ، حضرت اقدس ؑ نے فرمایا.’’ایک دفعہ ایک خاکروبہ نے ایک جگہ سے مَیلا اُٹھایا اور اس کا ایک حصّہ چھوڑ دیا.مَیں جو مکان کے اندر بیٹھا ہوا تھا مجھے نظر آیا کہ اس نے ایک حصّہ چھوڑ دیا ہے تو مَیں نے اُس خاکروبہ سے کہا وہ سن کر حیران ہوئی کہ ۱ (نوٹ از ناشر) البدر مورخہ ۲؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۷۷ اور الحکم مورخہ ۲۴؍دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۴ میں یہ الہام ۲۴؍دسمبر ۱۹۰۲ء کے حوالہ سے ان الفاظ میں درج ہے.’’اِنِّیْ صَادِقٌ صَادِقٌ وَ سَیَشْھَدُ اللّٰہُ لِیْ.‘‘ ۲ (ترجمہ از مرتّب) مَیں ہی صاعقہ ہوں.
اس نے اندر بیٹھے کیسے دیکھ لیا.مَیں نے اس پر خدا کا شکر کیا کہ یہ باوجود مَیلے کے سر پر موجود ہونے کے نہیں دیکھ سکتی حالانکہ مجھے اس نے اس قدر دُور دراز فاصلہ سے دکھلا دیا.‘‘ (البدر جلد ۱نمبر۱۱ مورخہ۹؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۸۴) ۱۹۰۲ء یکم جنوری ۱۹۰۳ء کو فرمایا.’’ ایک دفعہ مجھے ایک فرشتہ آٹھ یا دس سالہ لڑکے کی شکل پر نظر آیا.اُس نے بڑے فصیح اور بلیغ الفاظ میں کہا کہ خدا تمہاری ساری مُرادیں پُوری کرے گا.‘‘ (البدر جلد ۱نمبر۱۲ مورخہ۱۶؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۰) یکم جنوری ۱۹۰۳ء بروز پنج شنبہ (الف) ’’اوّل ایک خفیف خواب میں جو کشف کے رنگ میں تھا مجھے دکھایا گیا کہ مَیں نے ایک لباس فاخرہ پہنا ہوا ہے اور چہرہ چمک رہا ہے.پھر وہ کشفی حالت وحی الٰہی کی طرف منتقل ہوگئی چنانچہ وہ تمام فقرات وحی الٰہی کے جو بعض اس کشف سے پہلے اور بعض بعد میں تھے ذیل میں لکھے جاتے ہیں اور وہ یہ ہیں.یُبْدِیْ لَکَ الرَّحْـمَانُ شَیْئًا.؎۱ اَتٰی اَمْرُاللّٰہِ فَلَا تَسْتَعْــجِلُوْہُ.بِشَارَۃٌ تَلَقَّاھَا النَّبِیُّوْنَ.ترجمہ.خدا جو رحمان ہے تیری سچائی ظاہر کرنے کے لئے کچھ ظہور میں لائے گا.خدا کا امر آرہا ہے.تم جلدی نہ کرو.یہ ایک خوش خبری ہے جو نبیوں کو دی جاتی ہے.صبح ۵ بجے کا وقت تھا.یکم جنوری ۱۹۰۳ء و یکم شوال ۱۳۲۰ھ روزِ عید ، جب میرے خدا نے مجھے یہ خوش خبری دی.‘‘ (اشتہار یکم جنوری ۱۹۰۳ء.مجموعہ اشتہارات جلد۳ صفحہ ۲۹۱، ۲۹۲ مطبوعہ ۲۰۱۸ء مندرجہ الحکم۲؎ جلد ۷نمبر۱ مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱) ۱ حضرت اقدسؑ نے فرمایا.’’شیء سے مراد کوئی عظیم الشان بات ہے.اس کی عظمت کے لئے ہی اللہ تعالیٰ نے اس کو پوشیدہ رکھا ہے کیونکہ چھپانے میں ایک عظمت ہوتی ہے جیسے جنّت کے انعامات کے لئے فرمایا ہے.فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ.۳؎ کھانے پر جیسے دسترخوان ہوتا ہے.اُس کے چھپانے میں بھی ایک عظمت ہی مقصود ہوتی ہے.غرض یہ چھوٹی سی بات نہیں ہے.‘‘ ( الحکم مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ۲) ۲ (نوٹ از ناشر) البدر مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۸۵ میں بھی یہ الہامات مع خواب درج ہیں.۳ (ترجمہ از ناشر) کوئی جان نہیں جانتی کہ اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لئے کیا کیا مخفی رکھا گیا ہے.(السّجدۃ: ۱۸)
(ب) ’’ حضرت اقدسؑ تشریف لائے تو کمر کے گرد ایک صافہ لپیٹا ہوا تھا.فرمایا کہ کچھ شکایت درد گردہ کی شروع ہو رہی ہے اِس لئے مَیں نے باندھ لیا ہے ذرا غنودگی ہوئی تھی اس میں الہام ہوا ہے.تا عَودِ صحت ؎۱ فرمایا کہ.صحت تو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتی ہے جب تک وہ ارادہ نہ کرے کیا ہوسکتا ہے.‘‘ (البدر جلد ۱نمبر۱۱ مورخہ۹؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۸۵) ۲؍ جنوری ۱۹۰۳ء ’’ فرمایا رات مجھے الہام ہوا.جَآءَنِیْ اٰئِلٌ وَّاخْتَارَ.وَ اَدَارَ اِصْبَعَہٗ وَ اَشَارَ.یَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنَ الْعِدَا وَیَسْطُوْ بِکُلِّ مَنْ سَطَا.۲؎ آئل جبرائیل ہے، فرشتہ بشارت دینے والا.فرمایا.آئل اصل میں ایالت سے ہےیعنی اصلاح کرنے والا جو مظلوم کو ظالم سے بچاتا ہے.یہاں جبرئیل نہیں کہا، آئل کہا.اس لفظ کی حکمت یہی ہے کہ وہ دلالت کرے کہ مظلوم کو ظالموں سے بچاوے.اس لئے فرشتہ کا نام ہی آئل رکھ دیا.پھر اُس نے اُنگلی ہلائی کہ چاروں طرف کے دشمن.اور اشارہ کیا کہ یَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنَ الْعِدَا وغیرہ.یہ بھی اُس پہلے الہام سے ملتا ہے اِنَّہٗ کَرِیْمٌ تَـمَشّٰی اَمَامَکَ وَعَادٰی مَنْ عَادٰی.وہ کریم ہے تیرے آگے آگے چلتا ہے جس نے تیری عداوت کی اُس کی عداوت کی.چونکہ آئل کا لفظ لُغت میں مل نہ سکتا ہوگا یا زبان میں کم مستعمل ہوتا ہوگا اس لئے الہام نے خود اس کی تفصیل کردی ہے.‘‘ (البدر۳؎ جلد ۱نمبر۱۲ مورخہ ۱۶؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۰) ۹؍ جنوری ۱۹۰۳ء ’’ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ اَتٰی.رَکَلَ؎۴ وَ رَکَا.فَطُوْبٰی لِمَنْ وَجَدَ وَ رَاٰی.۱ (ترجمہ از مرتّب) بحالیٔ صحت تک.۲ (ترجمہ) آیا میرے پاس آئل، اور اُس نے اختیار کیا (یعنی چُن لیا تجھ کو) اور گھمایا اُس نے اپنی اُنگلی کو ، اور اشارہ کیا کہ خدا تجھے دشمنوں سے بچاوے گا اور ٹوٹ کر پڑے گا اُس شخص پر جو تجھ پر اُچھلا.(البدر مورخہ ۱۶؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۰) ۳ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۵، ۶ میں یہ فقرہ ’’پھر اُس نے اُنگلی ہلائی کہ چاروں طرف کے دشمن.اور اشارہ کیا کہ یَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنَ الْعِدَا وغیرہ.‘‘درج نہیں.۴ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) الحکم میں وَ رَکَلَ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۴ پر بھی ’’واؤ‘‘ کے ساتھ لکھا ہے.
قُتِلَ خَیْبَۃً.وَ زِیْدَ ھَیْبَۃً.‘‘؎۱ (البدر جلد ۱نمبر۱۲ مورخہ ۱۶؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۶.الحکم جلد ۷ نمبر ۲ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۶ حاشیہ) (ترجمہ) ’’خدا کا وعدہ آیا اور زمین پر ایک پاؤں مارا.اور خلل کی اصلاح کی.پس مبارک وہ جس نے پایا اور دیکھا.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۹۴) ’’ایسی حالت میں مارا گیا کہ اس کی بات کو کسی نے نہ سنا اور اس کا مارا جانا ایک ہیبت ناک امر تھا.یعنی لوگوں کو بہت ہیبت ناک معلوم ہوا اور اس کا بڑا اثر دلوں پر ہوا.‘‘ (تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد۲۰صفحہ ۷۵ حاشیہ) ۱۱ ؍جنوری ۱۹۰۳ء (الف) ’’ ثُمَّ فِیْ یَـوْمٍ مِّنَ الْاَیَّـامِ.اُرِیْتُ قِرْطَاسًا مِّنْ رَّبِّیَ الْعَلَّامِ.وَ اِذَا نَظَرْتُ فَوَجَدْ تُّ عُنْوَانَہٗ بَقِیَّۃُ الطَّاعُوْنِ.وَ عَلٰی ظَھْرِہٖ اِعْلَانٌ مِّنِّیْ کَاَنِّیْ اَشَعْتُ مِنْ عِنْدِیْ وَاقِعَۃُ ذٰلِکَ الْمَنُوْنِ.‘‘ ۲؎ (مواہب الرحمٰن.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۳۲۸) (ب) ’’اب طاعون سر پر ہے اور جہاں تک مجھے خدا تعالیٰ سے علم دیا گیا ہے ابھی بہت سا حصّہ اس کا باقی ہے.‘‘ (لیکچر لاہور.روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۱۷۴) ۱ اس الہام کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’ ایک صریح وحی الٰہی صاحبزادہ مولوی عبداللطیف صاحب مرحوم کی نسبت ہوئی تھی جبکہ وہ زندہ تھے بلکہ قادیان میں ہی موجود تھے.‘‘ (دیکھیے حاشیہ اشتہار ۱۶؍اکتوبر ۱۹۰۳ء مندرجہ تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۷۵ حاشیہ) ۲ (ترجمہ از ناشر) ایک دن خدائے علیم کی طرف سے مجھے ایک کاغذ دکھایا گیا اور جب میں نے اس پر نگاہ ڈالی تو میں نے اس پر بَـقِـیَّــۃُ الــطَّاعُــوْن (طاعون کا باقی ماندہ حصہ) کا عنوان لکھا ہوا پایا اور اس کی پشت پر میری طرف سے ایک اعلان رقم ہے.گویا میں نے اپنی طرف سے ان اموات کا واقعہ شائع کیا.(نوٹ از ناشر) یہ الہام الحکم مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۶ حاشیہ اور بدر مورخہ ۱۶؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۴ میں یوں درج ہے.’’ فرمایا کہ ابھی فجر کو مَیں نے ایک خواب دیکھا کہ میرے ہاتھ میں ایک کاغذ ہے.اس کے ایک طرف کچھ اشتہار ہے اور دوسری طرف ہماری طرف سے لکھا ہوا ہے.جس کا عنوان یہ ہے.بَــقِــیَّـــۃُ الــطَّـاعُـــوْنِ.‘‘
۱۲؍ جنوری ۱۹۰۳ء ’’ مَیں نے دیکھا کہ میری بیوی نے ایک روپیہ مجھ کو دیا ہے اور کہا کہ یہ تمہارے لئے روپیہ نذر ہے.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱) ۱۳؍ جنوری ۱۹۰۳ء ’’ ۱.اِنِّیْ؎۱ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَـتَکَ.۲.اِنِّیْ مُعِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِعَانَـتَکَ.۳.اَنْتَ وَجِیْہٌ فِیْ حَضْـرَتِیْ.۴.اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ وَ سِـرُّکَ سِـرِّیْ.۵.اَنْتَ مَعِیْ وَاَنَـا مَعَکَ وَ سِـرُّکَ سِـرِّیْ.۶.اِذَا غَضِبْتَ غَضِبْتُ وَ کُلَّمَا اَحْبَبْتَ اَحْبَبْتُ.۷.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَتَفْرِیْدیْ.۸.فَـحَانَ اَنْ تُعَانَ وَتُعْرَفَ بَیْنَ (النَّاسِ) یَحْمَدُکَ اللّٰہُ مِنْ عَرْشِہٖ.۹.وَ یَحْمَدُکَ اللّٰہُ وَ یَـمْشِیْٓ اِلَیْکَ.۱۰.اَنْتَ وَجِیْہٌ فِیْ حَضْـرَتِیْ.۱۱.اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ وَسِـرُّکَ سِـرِّیْ.۱۲.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃٍ لَّا یَعْلَمُھَا الْـخَلْقُ.۱۳.یَـا اَحْـمَدِیْ اَنْتَ مُرَادِیْ وَمَعِیْ.۱۴.وَاَنْتَ مَعِیْ وَ اَنَـا مَعَکَ.۱۵.سِـرُّکَ سِـرِّیْ.۱۶.اِذَا غَضِبْتَ غَضِبْتُ وَ کُلَّمَا اَحْبَبْتَ اَحْبَبْتُ.۱۷.اَنْتَ وَجِیْہٌ فِیْ حَضْـرَتِیْ اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱) ۱۹۰۳ء ’’ وَ اِنَّہٗ بَشَّـرَ نِیْ وَقَالَ.لَا اُبْقِیْ لَکَ فِی الْمُخْزِیَـاتِ ذِکْـرًا.وَ قَالَ.یَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِہٖ وَ ھُوَ الْوَلِیُّ الرَّحْـمٰنُ.‘‘ ؎۲ (مواہب الرحمٰن.روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ ۲۳۵) ۱ (ترجمہ از مرتّب) ۱.مَیں اس شخص کی اہانت کروں گا جو تیری اہانت کرے گا.۲.مَیں اس شخص کی اعانت کروں گا جو تیری اعانت کرے گا.۳.تُو میری درگاہ میں وجیہ ہے.۴.مَیں نے تجھے اپنے لئے چُن لیا اور تیرا بھید میرا بھید ہے.۵.تُو میرے ساتھ ہے اور مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تیرا بھید میرا بھید ہے.۶.جب تو غضبناک ہوتا ہے تو مَیں غضبناک ہوتا ہوں اور جب تو محبّت کرتا ہے تو مَیں محبّت کرتا ہوں.۷.تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید اور تفرید.۸.پس وقت آگیا ہے کہ تیری مدد کی جائے اور تجھے لوگوں میں مشہور کیا جائے.اللہ عرش سے تیری تعریف کرتا ہے.۹.اور اللہ تیری تعریف کرتا ہے اور تیری طرف چلا آتا ہے.۱۰.تو میری درگاہ میں وجیہ ہے.۱۱.مَیں نے تجھے اپنے لئے چُن لیا اور تیرا بھید میرا بھید ہے.۱۲.میرے نزدیک تیرا وہ مرتبہ ہے جس کو لوگ نہیں جانتے.۱۳.اے میرے احمد! تُومیری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے.۱۴.اور تُو میرے ساتھ ہے اور مَیں تیرے ساتھ ہوں.۱۵.تیرا بھید میرا بھید ہے.۱۶.جب تُو غضب ناک ہوتا ہے تو مَیں غضبناک ہوتا ہوں اور جب تُو محبّت کرتا ہے تو مَیں محبّت کرتا ہوں.۱۷.تُو میری درگاہ میں وجیہ ہے.مَیں نے تجھ کو اپنے لئے چُن لیا.۲ (ترجمہ از مرتّب) اور اس نے مجھے بشارت دی اور فرمایا.مَیں تیرے متعلق رُسواکن باتوں کا ذکر تک نہیں چھوڑوں گا.اور فرمایا.اللہ تعالیٰ تیری حفاظت اپنی طرف سے کرے گا اور وہی بے حد رحم کرنے والا دوست ہے.
۱۶؍ ۱؎جنوری ۱۹۰۳ء ’’سفر میں الہام.اُرِیْکَ۲؎ بَـرَکَاتٍ مِّنْ کُلِّ طَرَفٍ.‘‘ ؎۳ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲) ۱۹؍جنوری ۱۹۰۳ء ’’ بوقت واپسی؎۴ ۱۹؍جنوری ۱۹۰۳ء.۱.اٰثَـرَکَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ.۲.غَـاسِــقُ اللّٰہِ.‘‘؎۵ اس سے پہلا الہام ’’۳.اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ.۴.اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ.۵.یَـا جِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَ الطَّیْرَ.‘‘؎۶ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲، ۳) ۱ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۳۱؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵ اور البدر مورخہ ۲۳؍ و ۳۰؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۷ و ۹میں یہ الہام درج ہے نیز البدر صفحہ ۷ میں تحریر ہے کہ مورخہ ۱۵؍جنوری ۱۹۰۳ء کو لاہور میں کثرت سے بار بار یہ الہام ہوا.۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’یہ پیشگوئی اس طرح پوری ہوئی۷؎ کہ جب مَیں جہلم کے قریب پہنچا.تو تخمیناً دس ہزار سے زیادہ آدمی ہوگا کہ وہ میری ملاقات کے لئے آیا اور تمام سڑک پر آدمی تھے اور ایسے انکسار کی حالت میں تھے کہ گویا سجدے کرتے تھے اور پھر ضلع کی کچہری کے اردگرد اس قدر لوگوں کا ہجوم تھا کہ حکام حیرت میں پڑگئے.گیارہ۱۱۰۰ سو آدمیوں نے بیعت کی اور قریباً دوسو کے عورت بیعت کرکے اس سلسلہ میں داخل ہوئی اور کرم دین کا مقدمہ جو میرے پر تھا خارج کیا گیا اور بہت سے لوگوں نے ارادت اور انکسار سے نذرانے دیئے اور تحفے پیش کئے اور اِس طرح ہرایک طرف سے برکتوں سے مالامال ہوکر قادیان میں واپس آئے اور خدا تعالیٰ نے نہایت صفائی سے وہ پیشگوئی پُوری کی.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۲۶۴) ۳ (ترجمہ) یعنی مَیں ہر ایک جانب سے تجھے اپنی برکتیں دکھاؤں گا.‘‘ ( البدر مورخہ ۲۳،۳۰؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۹) ۴ (نوٹ از ناشر) جہلم سے واپسی پر یہ الہام ہوا.الحکم مورخہ ۳۱؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵ اور البدر مورخہ ۲۳، ۳۰؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۷ میں اس کی تاریخ ۱۸؍ جنوری ۱۹۰۳ء درج ہے.۵ (ترجمہ از مرتّب) ۱اللہ تعالیٰ نے ہر ایک چیز پر تجھے ترجیح دی.۲.وہ قمر جس کو خسوف لگے گا.۶ (ترجمہ از مرتّب) ۳.مَیں فوجوں کے ساتھ تیرے پاس آؤں گا.۴.کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں.۵.اے پہاڑو! اِس کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور جھک جاؤ اور اے پرندو! تم بھی.۷ نیز تحریر فرمایا.’’راستہ میں لاہور سے آگے گوجرانوالہ اور وزیر آباد اور گجرات وغیرہ اسٹیشنوں پر اس قدر لوگ ملاقات کے لئے آئے کہ اسٹیشنوں پر انتظام رکھنا مشکل ہوگیا.ٹکٹ پلیٹ فارم ختم ہونے کی وجہ سے لوگ بلا ٹکٹ پلیٹ فارم پر چلے گئے اور بعض مقامات پر گاڑی کو کثرت ہجوم کی وجہ سے زیادہ دیر تک ٹھہرایا گیا اور نہایت نرمی سے زائروں کو ملازمین ریل نے گاڑی سے علیحدہ کیا.بعض جگہ کچھ دُور تک لوگ گاڑی کو پکڑے ہوئے ساتھ چلے گئے.خوف تھا کہ کوئی آدمی نہ مرجائے.ان واقعات کو مخالف اخباروں نے بھی مثل ’’پنجۂ فولاد‘‘ کے شائع کیا تھا.منہ‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۲۶۴ حاشیہ)
۱۹؍جنوری ۱۹۰۳ء جہلم سے واپس قادیان آکر الہام ہوا.’’ اَ فَانِـیْنُ اٰیَـاتٍ.‘‘ ؎۱ ( الحکم جلد ۷ نمبر ۴ مورخہ ۳۱؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ۱۵ ) ۲۰؍ جنوری ۱۹۰۳ء ’’ میں نے دیکھا کہ گویا میں موسیٰ ہوں اور دریائے نیل پر کھڑا ہوں.پاس میرے بنی اسرائیل ہیں.اتنے میں فرعون مع اپنے تمام لشکر کے آپہنچا تب میری جماعت نے کہا کہ اب ہم پکڑے گئے اس وقت بہت سختی اور زور سے میں نے کہا.’’ کَلَّا اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَـھْدِیْنِ.‘‘؎۲ اس کے ساتھ ہی آنکھ کھل گئی اور یہی زبان پر جاری تھا.‘‘ (کاپی الہامات؎۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱) ۲۱؍ جنوری ۱۹۰۳ء ۱.’’خواب میں مَیں نے دیکھا کہ کرم الدین کو کچھ سزا ہوگئی ہے.پھر اس کے بعد یہ الہام ہوا.’’ ذٰلِکَ بِـمَا عَصَوْا وَّکَا نُوْا یَعْتَدُ وْنَ.‘‘؎۴ ۲.’’ نَو فرزند کی نسبت الہام ہوا.غَــــاسِــــــقُ اللہِ یعنی وہ قمر جس کو خسوف لگے گا.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲) ۲۲؍ جنوری ۱۹۰۳ء (الف) ’’ رَاَیْتُ؎۵ فِی الْمَنَامِ کَاَنَّ اِمْرَءَتِیْ جَآءَتْنِیْ وَ عَلَیْـھَا ثَـوْبٌ کَالْمُحْرِمِ ۱ (نوٹ از ناشر) البدر مورخہ ۲۳؍ و ۳۰؍ جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۷ میں یہ الہام مع ترجمہ یوں درج ہے.’’جہلم سے واپسی پر حضرت اقدس کو ایک اور الہام ہوا.اَ فَانِـیْنُ اٰیَـاتٍ.(گو نا گوں نشانات)‘‘ ۲ (ترجمہ از مرتّب) نہیں نہیں ایسا نہیں ہوسکتا.میرا ربّ میرے ساتھ ہے.وہ ضرور میرے لئے رستہ نکالے گا.۳ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۳۱؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵ کے علاوہ البدر مورخہ ۲۳، ۳۰؍ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۷ میں بھی ۱۹؍جنوری ۱۹۰۳ء کے تحت یہ رؤیا یوں درج ہے.’’مَیں مصر کے دریائے نیل پر کھڑا ہوں اور میرے ساتھ بہت سے بنی اسرائیل ہیں اور مَیں اپنے آپ کو موسیٰ سمجھتا ہوں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم بھاگے چلے آتے ہیں.نظر اُٹھا کر پیچھے دیکھا تو معلوم ہوا کہ فرعون ایک لشکر ِ کثیر کے ساتھ ہمارے تعاقب میں ہے اور اس کے ساتھ بہت سامان مثل گھوڑے و گاڑیوں و رتھوں کے ہے اور وہ ہمارے بہت قریب آگیا ہے.میرے ساتھی بنی اسرائیل بہت گھبرائے ہوئے ہیں اور اکثر ان میں سے بے دل ہوگئے ہیں اور بلند آواز سے چلّاتے ہیں کہ اے موسیٰ ہم پکڑے گئے.تو مَیں نے بلند آواز سے کہا.کَلَّا اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَـھْدِیْنِ.اتنے میں مَیں بیدار ہوگیا اور زبان پر یہی الفاظ جاری تھے.‘‘ ۴ (ترجمہ از مرتّب) یہ اس لئے کہ انہوں نے نافرمانی کی اور حد سے بڑھ گئے.۵ (ترجمہ از مرتّب) مَیں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میری بیوی میرے پاس آئی ہے اور اس پر گویا احرام والے کپڑے
وَجَلَسَتْ عِنْدِیْ.وَقَالَتْ لَوْ مِتُّ فَعَلَیْکَ اَنْ تَغْسِلَنِیْ اَنْتَ لَا غَیْرُکَ.وَ اَرَادَتْ عِنْدَ وَضْعِ الْـحَمْلِ.ثُمَّ بَعْدَ ذٰلِکَ اَحْسَسْتُ زَلْزَلَۃً خَفِیْفَۃً وَّ مَا اَعْقَبَـھَا ضَـرَرٌ.وَخَرَجْتُ اَنَـا وَ زَوْجَتِیْ مِنْ مَّکَانِ السَّقْفِ اِلَی الْفِنَآءِ وَ کَانَ ھٰذَا یَـوْمُ الْـخَمِیْسِ ۲۲شوال۱۳۲۰ھ وَ اَحْسَسْتُ فِیْ نَفْسِیْ فِیْ وَقْتِ قَوْلِ زَوْجَتِیْ کَاَنَّ جِبْرَئِیْلَ قَاعِدٌ عِنْدِیْ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲) (ب) ’’ رات کو مَیں نے دیکھا کہ ایک بڑا زلزلہ آیا مگر اس سے کسی عمارت وغیرہ کا نقصان نہیں ہوا.‘‘ (البدر۱؎ جلد۲ نمبر۵ مورخہ ۲۰؍ فروری۱۹۰۳ء صفحہ ۳۶) ۲۴؍ جنوری ۱۹۰۳ء ’’ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ گویا مَیں ایک مضمون شائع کرنے لگا ہوں.گویا کرم الدین کے مقدّمہ کے بارے میں کہ آخری نتیجہ کیا ہوا.اور مَیں اس پر یہ عنوان لکھنا چاہتا ہوں.تَفْصِیْلُ۲؎ مَا صَنَعَ اللّٰہُ فِیْ ھٰذَا الْبَاْسِ بَعْدَ مَا اَشَعْنَاہُ فِی النَّاسِ.قَدْ بَعُدُ.وْا مِنْ مَّآءِ الْـحَیَاۃِ.فَسَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا.‘‘ ؎۳ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۳) ۲۶؍ جنوری۴؎ ۱۹۰۳ء ’’مجھے جو قریب دو ماہ سے کھانسی ہے آج میں نے دیکھا کہ گویا مولوی محمد احسن نے بقیہ حاشیہ.ہیں اور میرے پاس بیٹھ گئی اور کہا کہ اگر مَیں مرجاؤں تو مجھے آپ ہی غسل دیں.اور اس وقت اس نے وضع حمل کے وقت مرنا مراد لیا.پھر اس کے بعدمَیں نے ایک خفیف سا زلزلہ محسوس کیا جس سے کوئی نقصان نہیں ہوا اور مَیں اور میری بیوی مکان کے اندر سے صحن میں نکل آئے.اور یہ جمعرات کا دن اور تاریخ ۲۲؍شوال ۱۳۲۰ھ تھی.اور مَیں نے اپنی بیوی کے قول کے وقت اپنے دل میں محسوس کیا گویا حضرت جبرئیل میرے پاس بیٹھے ہوئے ہیں.۱ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۷؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴ اور البدر ۲۳؍ و ۳۰؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۷ میں بھی یہ رؤیا درج ہے.۲ (نوٹ از ناشر) البدر مورخہ ۲۰؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۶.البدر مورخہ ۲۳؍ و ۳۰؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۷ اور الحکم مورخہ ۳۱؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵ میں یہ الہام مع تفصیل ان الفاظ میں درج ہے.’’ فرمایا.آج ایک کشف میں دکھایا گیا.تَفْصِیْلُ مَا صَنَعَ اللّٰہُ فِیْ ھٰذَا الْبَاْسِ بَعْدَ مَا اَشَعْتُہٗ فِی النَّاسِ.اس کے بعد الہامی صورت ہوگئی اور زبان پر یہی جاری تھا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مقدمہ کے متعلق جو قبل از وقت پیشگوئی کے رنگ میں بتلایا گیا تھا اب اس کی تفصیل ہوگی.‘‘ ۳ (ترجمہ از مرتّب) تفصیل ان کارناموں کی جو خدا نے اس جنگ میں کئے.بعد اس کے کہ ہم نے اس پیشگوئی کو لوگوں میں شائع کیا.وہ زندگی کے پانی سے دُور ہوگئے ہیں.پس تُو انہیں اچھی طرح پیس ڈال.۴ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۷؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴ کے علاوہ البدر مورخہ ۲۳؍ و ۳۰؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۷ میں یہ رؤیا ۲۵؍جنوری کے تحت یوں درج ہے.’’ مجھے کھانسی کی کمال تکلیف تھی.مَیں نے خواب میں دیکھا کہ
جو مجھے ایک دوا دی ہے سپاری جیسی شکل ہے اور کچھ جائفل کی شکل ہے ٹکڑے جائفل کے معلوم ہوتے ہیں جو ان کے ہاتھ میں ہیں پھر میری آنکھ کھل گئی.فَالْـحَمْدُ لِلہِ عَلٰی ذٰلِکَ.(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳) ۲۸؍ جنوری ۱۹۰۳ء (الف) ’’ اس وقت مجھے اوّل ایک کشفی صورت میں خواب کے ذریعہ سے دکھلایا گیا ہے کہ میرے گھر میں (یعنی اُمّ المؤمنین) کہتے ہیں کہ اگر مَیں فوت ہوجاؤں تو میری تجہیز و تکفین آپ خود اپنے ہاتھ سے کرنا.اس کے بعد مجھے ایک بڑا منذر الہام ہوا ہے.غَاسِقُ اللہِ.‘‘۱؎ ( البدر جلد۲ نمبر۱ ، ۲ مورخہ۲۳ ،۳۰؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ۷ ) (ب) ’’ مجھے اس کے یہ معنے۲؎ معلوم ہوئے ہیں کہ جو بچہ؎۳ میرے ہاں پیدا ہونے والا ہے.بقیہ حاشیہ.مولوی محمد احسن صاحب مجھے ایک گانٹھ سونٹھ یا سپاری کی اور جائفل دے رہے ہیں کہ اسے منہ میں رکھو.اس خواب کے بعد مجھے دو گھنٹہ تک بالکل آرام رہا اور اب بھی تکلیف تو ہے مگر بہت کم اور ۲۶؍جنوری کی سیر میں آپ نے فرمایا.رات کو مَیں نے سونٹھ اور جائفل منہ میں رکھا تھا.اس سے کھانسی کو بہت ہی آرام ہے.‘‘ ۱ (نوٹ از الحکم) ’’۲۸؍جنوری ۱۹۰۳ء آج صبح کو چار ساڑھے چاربجے کے قریب مشکوئے معلّٰی میں صاحبزادی پیدا ہوئی جس کے متعلق گزشتہ شب کو پیدا ہونے سے پہلے غَاسِقُ اللّٰہِ کا الہام ہوا تھا.الحکم۴؎ کی گزشتہ اشاعت میں جو یہ درج ہوا ہے کہ الہام بعد میں ہوا تھا یہ سہو ہوا ہے.اصل یوں ہے کہ بچہ پیدا ہونے سے قریباً چار گھنٹے پیشتر یہ الہام حضرت اقدسؑ کو ہوا تھا جو اس وقت آپ نے تشریف لا کر مولانا مولوی سید محمد احسن صاحب کو سنایا اس قت رات کے ۱۲ بجے تھے.حضرت حجۃ اللہ نے مولوی صاحب کے دروازہ پر دستک دی.مولوی صاحب نے جب پوچھا کہ کون ہے تو فرمایا غلام احمد.پھر آپ نے یہ الہام مولوی صاحب کو سنایا اور ایک رؤیا بھی سنائی جو اسی وقت دیکھی تھی کہ حضرت حجۃ اللہ کو حضرت ام المؤمنین کہتی ہیں کہ اگر میرا انتقال ہوجاوے تو آپ اپنے ہاتھ سے میری تجہیز و تکفین کریں.‘‘ (الحکم مورخہ ۱۴؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۴) ۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.’’ میں نے اِس سے پیشتر یہ خیال کیا تھا کہ چونکہ عنقریب گھر میں وضع حمل ہونے والا ہے.تو شاید مولود کی وفات پر یہ لفظ دلالت کرتا ہے.مگر بعد میں غور کرنے سے معلوم ہوا کہ اس سے مراد ابتلا ہے اجتہادی امور ایسے ہی ہوا کرتے ہیں کہ اوّل خیال کسی اور طرف چلا جاتا ہے غرضیکہ اس کے معنے ہوئے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی امر بطور ابتلا کے ہے اور اس سے جماعت کا ابتلا مُراد نہیں ہے بلکہ منکرین کا جو کہ جہالت، نادانی، افترا سے کام لیتے ہیں… تاریکی جب خدا کی طرف منسوب ہو تو دشمن کی آنکھ میں ابتلاء کا موقع اس سے مراد ہوتا ہے اور اس لئے اس کو غاسق اللہ کہتے ہیں.‘‘ (البدر مورخہ ۲۷؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ۴۳) ۳ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یہ بچہ صاحبزادی امۃ النصیر صاحبہ تھیں جو ۲۸؍جنوری ۱۹۰۳ء کو ساڑھے چار بجے کے قریب پیدا ہوئیں اور ۳؍ستمبر ۱۹۰۳ء کو فوت ہوئیں.دیکھئے غیر معمولی پرچہ الحکم مورخہ ۳؍دسمبر ۱۹۰۳ء.۴ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۳۱؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵
وہ زندہ نہ رہے گا.‘‘ (البدر جلد۲ نمبر۱و ۲ مورخہ۲۳ و ۳۰؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ۸) (ج) ۲۸ ؍جنوری ۱۹۰۳ء م ۲۸؍ شوال ۱۳۲۰ھ ۱.’’۱.سَیُکْرِ۱؎مُکَ اللہُ اِکْــرَامًا عَـجَبًا.۲؎ ۲.اس کے ساتھ دیکھا کہ ایک قیمتی چوغہ سنہری رنگ کا میرے پاس ہے میں نے کہا کہ میں اس کو عید کے دن پہنوں گا.۳.پھر دیکھا کہ جہلم کی کچہری میں ہم ہیں اور سنسار چند کے کمرہ میں نہیں بلکہ کسی اور حاکم کے کمرہ کی طرف جارہے ہیں.(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۳) ۲..اِنَّ اللّٰہَ مَعَ عِـبَادِہٖ یُــوَاسِیْکَ.‘‘۳؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴.البدر جلد ۲ نمبر ۱، ۲ مورخہ ۲۳؍ و ۳۰؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۰.الحکم جلد ۷ نمبر ۴ مورخہ ۳۱؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵) ۲۹ ؍جنوری ۱۹۰۳ء ’’ اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ.اُصَلِّیْ وَ اَصُوْمُ.یَا جِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَ الطَّیْرَ.قَدْ بَعُدُ.وْا مِنْ مَّآءِ الْـحَیَاۃِ فَسَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا.‘‘؎۴ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۳) ۳۰؍ جنوری ۱۹۰۳ء ۱.’’ لَا یَـمُوْتُ اَحَدٌ مِّنْ رِّجَالِکُمْ.‘‘؎۵ ۲.’’ اسی۶؎ رات خواب میں دیکھا کہ گویا زارِ روس کا سوٹا میرے ہاتھ میں ہے اور اس میں پوشیدہ طور پر ۱ (نوٹ از ناشر) البدر مورخہ۲۳؍ و ۳۰ ؍ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۸ اور الحکم مورخہ ۳۱؍ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵ میں یہ الہام ان الفاظ میں درج ہے.’’سَاُکْرِمُکَ اِکْــرَامًا عَـجَبًا.‘‘ نیز البدر مورخہ ۲۷؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۴۳ میں تحریر ہے کہ ’’اس الہام میں عَـجَبًا کا لفظ بتلاتا ہے کہ کوئی نہایت ہی مؤثر بات ہے.‘‘ ۲ (ترجمہ از ناشر) ۱.عنقریب اللہ تعالیٰ عجیب طور پر تیری بزرگی ظاہر کردے گا.۳ (ترجمہ) خدا اپنے بندوں کے ساتھ ہے.وہ تیری غمخواری کرے گا.( البدر مورخہ۶؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ۲۴) ۴ (ترجمہ از مرتّب) مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا.مَیں خاص رحمتیں نازل کروں گا اور عذاب کو روکوں گا اے پہاڑو اور اے پرندو! میرے اس بندہ کے ساتھ وجد اور رقّت سے میری یاد کرو.وہ زندگی کے پانی سے دُور ہوگئے ہیں.پس تو انہیں اچھی طرح پیس ڈال.۵ (ترجمہ از مرتّب) تمہارے خاص آدمیوں میں سے کوئی نہیں مرے گا.(نوٹ) البدر میں درج ہے کہ اس الہام کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.’’اس کے حقیقی معنے کہ تمہارے رِجال میں کوئی نہ مرے گا تو ہو نہیں سکتے کیونکہ موت تو انبیاء تک کو آتی ہے اور نہ قیامت تک کسی نے زندہ رہنا ہے.مگر اس کے مفہوم کا پتہ نہیں ہے.شاید کوئی اَور معنے ہوں.‘‘ (البدر مورخہ۶؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ۲۴) ۶ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یعنی جس رات الہام ’’ لَا یَـمُوْتُ اَحَدٌ مِّنْ رِّجَالِکُمْ‘‘ ہوا تھا.
بندوق کی نالی بھی ہے.دونوں کام نکالتا ہے.اور پھر دیکھاکہ وہ بادشاہ جس کے پاس بو علی سینا تھا اس کی کمان میرے پاس ہے اور مَیں نے اس کمان سے ایک شیر کی طرف تِیر چلایا ہے اور شاید بو علی سینا بھی میرے پاس کھڑا ہے اور وہ بادشاہ بھی.‘‘ (کاپی الہامات۱؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۴) ۳۱؍جنوری ۱۹۰۳ء ’’ اِنَّ اللّٰہَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ ‘‘ ؎۲ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۴) ۱۹۰۳ء ’’ اَلْـحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَھَبَ لِیْ عَلَی الْکِبَرِاَرْبَعَۃً مِّنَ الْبَنِیْنَ وَ اَنْـجَزَ وَعْدَہٗ مِنَ الْاِحْسَانِ.وَ بَشَّـرَنِیْ بِـخَامِسٍ فِیْ حِیْنٍ مِّنَ الْاَحْیَانِ.‘‘ (مواہب الرحمٰن.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۳۶۰) یعنی اللہ تعالیٰ کو حمد و ثنا ہے جس نے پِیرانہ سالی میں چار لڑکے مجھے دیئے اور اپنا وعدہ پورا کیا… (اور) پانچواں لڑکا جو چار سے علاوہ بطور نافلہ پیدا ہونے والا تھا، اُس کی خدا نے مجھے بشارت دی کہ وہ کسی وقت ضرور پیدا۳؎ ہوگا.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۲۲۸،۲۲۹) ۲ ؍فروری ۱۹۰۳ء ’’۱.اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ ۲.وَاُصَلِّیْ وَ اَصُوْمُ.۳.وَ اُعْطِیْکَ مَا یَدُ.وْمُ.۴.سَنُنْجِیْکَ.۵.سَنُعْلِیْکَ.۶.سَاُکْرِمُکَ اِکْـرَامًا عَـجَبًا.۷.سُـمِعَ الدُّعَآءُ.۸.اِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ.۹.اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً.۱۰.دُعَآءُکَ مُسْتَجَابٌ.‘‘؎۴ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۵) (ترجمہ) ’’۱.مَیں اس رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا.۲.۵؎ ۳.اور تجھے وہ چیز دوں گا جو ہمیشہ رہے.۴.ہم تجھے ۱ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) یہ رؤیا باختلاف الفاظ الحکم اور البدر میں بھی ہے.دیکھیے الحکم مورخہ۳۱؍جنوری۱۹۰۳ء صفحہ۱۵ اور البدر مورخہ ۶؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ۲۴.۲ (ترجمہ از مرتّب) یقیناً اللہ تعالیٰ نہایت ہی مہربان اور بہت ہی رحم کرنے والا ہے.۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’چنانچہ قریباً تین ماہ کا عرصہ گزرا ہے کہ میرے لڑکے محمود احمد کے گھر میں لڑکا پیدا ہوا جس کا نام نصیر احمد رکھا گیا.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۲۹) ۴ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۷؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۶ میں ان الہامات کی ترتیب مختلف ہے.۵ (ترجمہ از مرتّب) ۲.میں خاص رحمتیں نازل کروں گا اور عذاب کو روکوں گا.
نجات دیں گے.۵.ہم تجھے غالب کریں گے.۶.اور مَیں تجھے ایسی بزرگی دوں گا جس سے لوگ تعجب میں پڑیں گے.۷.۱؎ ۸.مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ.۹.مَیں فوجوں کے ساتھ ناگہانی طور پر آؤں گا.۱۰.۲؎‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۹۰، ۹۳، ۹۹، ۱۰۶) ۲ ؍فروری ۱۹۰۳ء ’’دیکھا کہ گویا مرزا خدا بخش دکھلاتے ہیں کہ خون کے چھینٹے ان پر پڑے ہیں کچھ کرتے کے نیچے کے حصہ پر کچھ ساتھ گریبان کے قریب اس پر میں کہتا ہوں کہ یہ تو اُسی طرح چھینٹے معلوم ہوتے ہیں کہ جو عبد اللہ سنوری اور مجھ پر پڑے تھے.‘‘ (کاپی الہامات۳؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴، ۵) ۳؍ فروری ۱۹۰۳ء (الف) ’’۱.اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ.۲.اُصَلِّیْ وَ اَصُوْمُ.۳.وَ اُعْطِیْکَ مَا یَدُوْمُ.۴.اَسْھَرُ وَ اَنَـامُ.۵.وَ اَجْعَلُ لَکَ اَنْـوَارَ الْقُدُ وْمِ.۶.بَـرَزَ مَا عِنْدَ ھُمْ مِّنَ الرِّمَاحِ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵) (ترجمہ) ’’ ۱..مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا.۲.۴؎۳.اور وہ چیز تجھے دوں گا جو تیرے ساتھ ہمیشہ رہے گی.۴.۵؎.۵.اور تیرے لئے اپنے آنے کے نور؎۶ عطاکروں گا.۶.انہوں نے جو کچھ ان کے پاس ہتھیار تھے سب ظاہر کردیئے.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۹۵ ، ۱۰۶، ۱۰۷) (ب) ’’اِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۵مورخہ ۷؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۶ ) (ترجمہ) خدا اُن کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۱۰۵) ۱ (ترجمہ از مرتّب) ۷.تیری دعا سنی گئی.۲ (ترجمہ از مرتّب) ۱۰.تیری دعا مقبول ہے.۳ (نوٹ از ناشر) یہ رؤیا البدر مورخہ ۶؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۴ میں بھی باختلافِ الفاظ درج ہے.۴ (ترجمہ از مرتّب) ۲.مَیں (تجھ پر) خاص رحمتیں نازل کروں گا اور عام لوگوں سے اپنے عذاب کو روک لوں گا.۵ (ترجمہ از مرتّب) ۴.مَیں چشم نمائی بھی کروں گا اور چشم پوشی بھی.(نوٹ از ناشر) ۱.الحکم مورخہ ۷؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۶ میں یہ الہامات مختلف ترتیب سے درج ہیں.۲.الہام ’’.بَـرَزَ مَا عِنْدَ ھُمْ مِّنَ الرِّمَاحِ‘‘ الحکم مورخہ ۱۴؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۳ اور البدر مورخہ ۱۳؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۵ میں بھی درج ہے.۶ تذکرۃ الشہادتین میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا ترجمہ یوں بھی فرمایا ہے.’’ اور اپنی تجلّی کے نور تجھ میں رکھ دوں گا.‘‘ (تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۹)
۴؍ فروری ۱۹۰۳ء ’’ ذَالِکَ بِـمَا عَصَوْا وَکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ.‘‘ (الحکم جلد۷ نمبر۵ مورخہ ۷؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۶) (ترجمہ) ’’کیونکہ وہ لوگ حد سے نکل گئے ہیں اور نافرمانی کی راہوں پر قدم رکھا ہے.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۹۳) ۸؍ فروری ۱۹۰۳ء ’’.۱.اَلْـــحَــرْبُ مُــھَــیَّــجَــــۃٌ.؎۱ ۲.پھر یہ زندہ ہوئی ہے مَر مَر کر‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۵) فروری ۱۹۰۳ء ’’ آج آریہ سماج قادیان کی طرف سے میری نظر سے ایک اشتہار گزرا… اس اشتہار میں ہمارے سیّد و مولیٰ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اور میری نسبت اور میرے معزز احباب کی نسبت اس قدر سخت الفاظ اور گالیاں استعمال کی ہیں کہ بظاہر یہی دل چاہتا تھا کہ ایسے لوگوں کو مخاطب نہ کیا جاوے مگر خدا تعالیٰ نے اپنی وحی خاص سے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ ’’اس تحریر کا جواب لکھ اور مَیں جواب دینے میں تیرے ساتھ ہوں.‘‘ تب مجھے اس مبشر وحی سے بہت خوشی پہنچی کہ جواب دینے میں مَیں اکیلا نہیں.سو مَیں اپنے خدا سے قوت پاکر اُٹھا اور اُس کی روح کی تائید سے مَیں نے اس رسالہ؎۲ کو لکھا.‘‘ (نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ ۳۶۳،۳۶۴) ۱۹۰۳ء ’’ ایک دفعہ مَیں نے دعا کی کہ یہ بیماریاں بالکل دُور کردی جائیں تو جواب ملا کہ ایسا نہیں ہوگا.تب میرے دل میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے یہ ڈالا گیا کہ مسیح موعود کے لئے یہ بھی ایک علامت ہے کیونکہ لکھا ۱ (ترجمہ از ناشر) جنگ بھڑکائی جائے گی.(نوٹ) ’’البدر میں یہ الہام اِن الفاظ میں موجود ہے.حَـرْبٌ مُّھَیَّجَۃٌ جوش سے بھری ہوئی لڑائی.فرمایا کہ اس کا اشارہ یا تو مقدمہ کی شاخوں کی طرف معلوم ہوتا ہے یا آریہ سماج کو جو اشتہار نَو مسلموں نے دیا ہے اُس سے جوش میں آکر وہ لوگ کچھ گندی گالیاںوغیرہ دیویں چنانچہ شام کو ایک اشتہار آریوں کی طرف سے نکل آیا جس میں ایسے ہی گندے الفاظ تھے.‘‘ (البدر مورخہ ۱۳؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۵) ۲ یعنی رسالہ ’’ نسیم دعوت ‘‘ (عبد اللطیف بہاولپوری)
ہے کہ وہ ۲دو زرد چادروں میں اُترے گا.سو یہ و ُہی ۲دو زرد رنگ کی چادریں ہیں.ایک اُوپر کے حصّہء بدن پر اور ایک نیچے کے حصّہء بدن پر.‘‘ (نسیم دعوت.روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ ۴۳۵،۴۳۶) ۹ ؍فروری ۱۹۰۳ء ’’ ۱.اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً.۲.اِنِّیْ مَعَ الْاَسْبَابِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً.۳.اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ مُـحِیْطٌ.۴.اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اُجِیْبُ.میں رسول کو واسطہ ڈال کر خود جواب دوں گا.۵.اُخْطِیْ وَاُصِیْبُ.۶.اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ وَ لَنْ اَبْرَحَ الْاَرْضَ اِلَی الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ‘‘ (کاپی الہامات۱؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵، ۶) (ترجمہ) ۱.میں فوجوں کے ساتھ ناگہانی طور پر آؤں گا.۲،۳.۲؎ ۴..میں رسول کے ساتھ ہو کر جواب دوں گا.۵.اپنے ارادہ کو کبھی چھوڑ بھی دوں گا اور کبھی ارادہ پورا کروں گا.۳؎ ۶.میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا اور وقت مقررہ تک میں اس زمین سے علیحدہ نہیں ہوں گا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۶، ۱۰۷) ۱۱؍ فروری ۱۹۰۳ء (الف) ’’ اے ازلی ابدی خدا بیڑیوں کو پکڑ کے آ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۶.حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۷) (ترجمہ) ’’ اے ازلی ابدی خدا میری مدد کے لئے آ.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۷) ۱ (نوٹ از ناشر) البدر مورخہ ۱۳؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۵ اور الحکم مورخہ ۱۴؍ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۳ میں یہ الہامات قدرے مختلف ترتیب سے درج ہیں.۲ (بقیہ ترجمہ از مرتّب) ۲میں خاص سامان لے کر تیرے پاس اچانک آؤں گا.۳میں اپنے رسول کی حمایت میں (انہیں) گھیرنے والا ہوں.۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’ اس وحی الٰہی کے ظاہری الفاظ یہ معنے رکھتے ہیں کہ مَیں خطا بھی کروں گا اور صواب بھی.یعنی جو مَیں چاہوں گا کبھی کروں گا کبھی نہیں.اور کبھی میرا ارادہ پورا ہوگا اور کبھی نہیں.ایسے الفاظ خدا تعالیٰ کے کلام میں آجاتے ہیں.جیسا کہ احادیث میں لکھا ہے کہ مَیں مومن کی قبضِ روح کے وقت تردّد میں پڑتا ہوں حالانکہ خدا تردّد سے پاک ہے.اسی طرح یہ وحی الٰہی ہے کہ کبھی میرا ارادہ خطا جاتا ہے اور کبھی پُورا ہوجاتا ہے.اس کے یہ معنی ہیں کہ کبھی مَیں اپنی تقدیر اور ارادہ کو منسُوخ کردیتا ہوں اور کبھی وہ ارادہ جیسا کہ چاہا ہوتا ہے.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۱۰۶حاشیہ)
(ب) ’’اِنِّیْ مَعَ الْـجَیْشِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً.اِنِّیْ اَنَـا الرَّحْـمٰنُ ذُو اللُّطْفِ وَالنَّدٰی.اِنِّیْ اَنَـا الرَّحْـمٰن ذُو الْمَجْدِ وَ الْعُلٰی.‘‘؎۱ ( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۶) ۱۷؍ فروری ۱۹۰۳ء روز سہ شنبہ ’’ یَـوْمُ الْاِثْنَیْنِ وَ فَتْحُ الْـحُنَیْنِ.‘‘ ؎۲ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۶.البدر جلد ۲ نمبر ۵ مورخہ ۲۰؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۹.الحکم جلد ۷ نمبر ۷ مورخہ ۲۱؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ۱۶ ) ۱۸ ؍فروری ۱۹۰۳ء ’’ وَ؎۳یُــبْقِــــیْـــــــــکَ.تا بدیر ترا خواہد داشت ‘‘؎۴ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۶) ۲۱؍ فروری ۱۹۰۳ء ’’ ضَاقَتِ الْاَرْضُ بِـمَا رَحُبَتْ‘‘ ؎۵ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۶) ۲۲؍ فروری ۱۹۰۳ء آج رات ۵ بجے دیکھا کہ شیخ رحمت اللہ صاحب نے نہایت شیریں اور سرد اور لذیذ دودھ مجھے پلایا ہے.پھر کسی نے کہا کہ اَب…؎۶ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۶) ۲۵؍ فروری ۱۹۰۳ء ’’ زن باد آں فرزند کہ چنیں پدرے بگزرد و ا و ملول نیست.‘‘؎۷ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۶) ۱ (ترجمہ از مرتّب) مَیں لشکر کے ساتھ تیرے پاس اچانک آؤں گا.مَیں ہی لطف اور بخشش کا مالک رحمان ہوں.مَیں ہی بزرگی اور بلندی کا مالک رحمان ہوں.۲ (ترجمہ از مرتّب) روز سوموار اور حنین والی فتح.۳ (ترجمہ از ناشر) وہ خدا تجھے دیر تک زندہ رکھے گا.۴ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.کہ کل ۱۸؍فروری کو یکایک مرض کا دَورہ ہوگیا اور ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوگئے.اسی حالت میں ایک الہام ہوا جس کا صرف ایک حصّہ یاد رہا.چونکہ بہت تیزی کے ساتھ ہوا تھا جیسے بجلی کوندتی ہے اس لئے باقی حصّہ محفوظ نہ رہا.وہ یہ ہے.وَ یُبْقِیْکَ اس کا ترجمہ بھی اللہ تعالیٰ نے ساتھ ہی بتایا اور وہ یہ ہے.تا بدیر ترا خواہد داشت ‘‘ (الحکم مورخہ ۲۱؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ۱۶.البدر مورخہ ۲۷؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۴۷) ۵ (ترجمہ از مرتّب) زمین فراخی کے باوجود تنگ ہوگئی.۶ یہاںدرج الفاظ پڑھے نہیں جاسکے.(ناشر) ۷ (ترجمہ از مرتّب) وہ لڑکا جس کا ایسا باپ گزر جائے اور وہ ملول تک نہ ہو(کاش) وہ عورت ہوتا ( تو اچھا تھا).
۱۹۰۳ء ’’ فرمایا کہ مَیں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فیوض عجیب نُوری شکل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاتے ہیں اور پھر وہاں جاکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ میں جذب ہوجاتے ہیں اور وہاں سے نکل کر اُن کی لا انتہا نالیاں ہوتی ہیں اور بقدر حصّہ رسدی ہر حق دار کو پہنچتی ہیں.‘‘ (الحکم جلد۷ نمبر۸ مورخہ ۲۸؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ۷) یکم مارچ ۱۹۰۳ء ’’ صبح کی سیر(کے وقت) نواب؎۱صاحب کو مخاطب کرکے فرمایا کہ آج رات ایک کشف میں آپ کی تصویر ہمارے سامنے آئی اور اتنا لفظ الہام ہوا.حُـــجَّـــۃُ اللہِ یہ امر کوئی ذاتی معاملات سے تعلق نہیں رکھتا.اِس کے متعلق یوں تفہیم ہوئی کہ چونکہ آپ اپنی برادری اور قوم میں سے اور سوسائٹی میں سے الگ ہوکر آئے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام حُـجّۃ اللہ رکھا یعنی آپ اُن پر حجّت ہوں گے.قیامت کے دن اُن کو کہا جاوے گا کہ فلاں شخص نے تم سے نکل کر اس صداقت کو پرکھا اور مانا تم نے کیوں ایسا نہ کیا.یہ بھی تم میں سے ہی تھا اور تمہاری طرح کا ہی انسان تھا.چونکہ خدا تعالیٰ نے آپ کا نام حُـجّۃ اللہ رکھا آپ کو بھی چاہیےکہ آپ اُن لوگوں پر تحریر سے، تقریر سے، ہر طرح سے حجّت پُوری کردیں.‘‘ (الحکم جلد۷ نمبر۹ مورخہ ۱۰؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۱۱) ۱۹۰۳ء ’’ آج بوقت چار بجے صبح کو مَیں نے ایک خواب دیکھا.مَیں حیرت میں ہوں کہ اس کی کیا تعبیر ہے.مَیں نے آپ؎۲کی بیگم صاحبہ عزیزہ سعیدہ امۃ الحمید بیگم کو خواب میں دیکھا کہ جیسے ایک اولیاء اللہ خدا سے تعلق رکھنے والی ہوتی ہیں اور ان کے ہاتھ میں دس روپیہ سفید اور صاف ہیں.یہ میرے دل میں گزرا ہے کہ دس روپیہ ہیں.مَیں نے صرف دُور سے دیکھے ہیں.تب انہوں نے وہ دس روپیہ اپنے ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کی طرف پھینکے ہیں اور ان روپوں میں سے نور کی کرنیں نکلتی ہیں جیسا کہ چاند کی شعاعیں ہوتی ہیں وہ نہایت تیز اور چمک دار کرنیں ہیں جو تاریکی کو روشن کردیتی ہیں اور مَیں اس وقت تعجب میں ہوں کہ روپیہ میں سے کس وجہ سے اس قدر نُورانی کرنیں نکلتی ہیں اور خیال گزرتا ہے کہ ان نورانی کرنوں کا اصل موجب خود وہی ہیں.اس حیرت سے آنکھ کُھل گئی… تعجب میں ہوں کہ اس کی تعبیر کیا ہے.شاید اس کی تعبیر یہ ہے کہ ان کے لئے خدا تعالیٰ کے علم میں کوئی نہایت نیک حالت درپیش ہے.اسلام میں عورتوں میں سے بھی صالح اور ولی ہوتی رہی ہیں جیسا کہ رابعہ بصری رضی اللہ عنہا.اور یہ بھی خیال گزرتا ہے کہ شاید اس کی یہ تعبیر ہو کہ زمانہ کے رنگ بدلنے سے آپ کو ۱ نواب محمد علی خان صاحبؓ رئیس مالیر کوٹلہ.(مرزا بشیر احمد) ۲ نواب محمد علی خان صاحبؓ رئیس مالیر کوٹلہ.(شمس)
کوئی بڑا مرتبہ مل جائے اور آپ کی یہ بیگم صاحبہ اس مرتبہ میں شریک ہوں.آئندہ خدا تعالیٰ کو بہتر معلوم ہے.‘‘ (از مکتوب بنام نواب محمد علی خان صاحبؓ.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۲۶۲ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۹ ؍مارچ ۱۹۰۳ء ۱.’’ میں نے دیکھا کہ ایک پروانہ میرے نام آیا ہے جس میں لکھا ہے کہ چار جگہ پر طاعون کاحکم جاری کیا گیا… میں ڈرتا ہوں کہ وہ احکام تو میرے پاس نہیں پہنچے گویا میں ان کاغذات کا محافظ دفتر ہوں.‘‘۱؎ ۲.’’ اور دیکھا کہ گویا ایک شخص امام الدین اور مولوی محمد یہ بھی انگریزی میں کچھ کام کررہے ہیں.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۷) ۱۰ ؍ مارچ۱۹۰۳ء ’’ یُرِیْدُ وْنَ اَنْ لَّایَتِمَّ اَمْرُکَ.وَاللّٰہُ یَاْبٰی اِلَّا اَنْ یُّتِمَّ اَمْرَکَ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۷) (ترجمہ) ’’ وہ ارادہ کریں گے جو تیرا کام ناتمام رہے.اور خدا نہیں چاہتا جو تجھے چھوڑدے جب تک تیرے تمام کام پورے نہ کرے.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۸) ۱۵؍ مارچ۱۹۰۳ء ’’ اِنَّـا نَـرِثُ الْاَرْضَ نَـاْکُلُھَا مِنْ اَطْرَافِھَا.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۷) (ترجمہ) ’’ہم زمین کے وارث ہوں گے اور اطراف سے اس کو کھاتے آئیں گے.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۷) ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’رات کو مَیں نے ایک خواب دیکھی کہ ایک شخص نے مجھے ایک پروانہ دیا ہے.وہ لمبا سا کاغذ ہے مَیں نے پڑھا تو لکھا ہوا تھا کہ عدالت سے چار جگہ کے لئے طاعون کا حکم جاری کیا گیا ہے.اس پروانہ سے پایا جاتا تھا کہ اس کا اجرا مَیں نے کیا ہے.جیسے کاغذات محافظ دفتر کے پاس ہوتے ہیں ویسے ہی وہ میرے پاس ہے.مَیں نے کہا کہ یہ حکم ایک عرصہ سے ہے اور اس کی تعمیل آج تک نہ ہوئی.اَب مَیں اس کا کیا جواب دُوں گا.اس سے مجھے ایک خوف طاری ہوا اور تمام رات مَیں اسی خرخشہ میں رہا اور اس پر روشن خط میں لفظ طاعون کا لکھا تھا.گویا حکم میرے نام آتا ہے اور مَیں جاری کرتا ہوں.پھر مَیں نے دیکھا کہ اپنی جماعت کے چند آدمی کشتی کررہے ہیں.مَیں نے کہا آؤ مَیں تم کو ایک خواب سناؤں.مگر وہ نہ آئے.مَیں نے کہا.کیوں نہیں سنتے.جو شخص خدا کی باتیں نہیں سنتا وہ دوزخی ہوتا ہے.‘‘ (البدر مورخہ ۲۰؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۶۵،۶۶)
مارچ۱۹۰۳ء ’’ مَیں نے بعض بیماریوں میں آزمایا ہے اور دیکھا ہے کہ محض دعا سے اس کا فضل ہوا اور مرض جاتا رہا ہے.ابھی دوچار دن ہوئے ہیں کثرتِ پیشاب اور اسہال کی و جہ سے مَیں مضمحل ہوگیا تھا.مَیں نے دعا کی تو الہام ہوا.دُعَآءُکَ مُسْتَجَابٌ ؎۱ اس کے بعد ہی دیکھا کہ وہ شکایت جاتی رہی.خدا ایک ایسا نسخہ ہے جو سارے نسخوں سے بہتر ہے اور چُھپانے کے قابل ہے.مگر پھر دیکھتا ہوں کہ یہ بخل ہے اِس لئے ظاہر کرنا پڑتا ہے.‘‘ (الحکم جلد ۷ نمبر ۱۱ مورخہ ۲۴ مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۶) ۱۶ ؍ مارچ۱۹۰۳ء ’’ ایک خاص جماعت کے شخص کی نسبت جو معلوم ہے خواب میں معلوم ہوا یعنی خواب میں کہ گھوڑے سے گر پڑا.پھر اس کی تشریح میں معلوم ہوا کہ استقامت میں فرق آگیا.‘‘؎۲ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۷) ۱۹؍مارچ۱۹۰۳ء ’’فرمایا کہ آج مَیں نے ایک خواب دیکھا جیسے آنکھ کے آگے ایک نظارہ گزر جاتا ہے.دیکھتا ہوں کہ دو سنڈھوں کے سر جسم سے الگ کئے ہوئے ہاتھوں میں ہیں.ایک ایک ہاتھ میں اور دوسرا دوسرے ہاتھ میں.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر۱۱ مورخہ ۳؍ اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۸۱) ۲۶؍ مارچ۱۹۰۳ء ’’فرمایا.آج میری طبیعت علیل تھی اِس لئے میری آنکھ لگ گئی.جب اُٹھا تو یہ الفاظ زبان پر جاری تھے یا سنائی دیئے.طاعون کا دروازہ کھولا گیا.معلوم ہوتا ہے کہ طاعون اب پیچھا نہیں چھوڑتی.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر۱۰ مورخہ ۲۷؍ مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۸۰) ۱۹۰۳ء ۱ (ترجمہ از مرتّب) تمہاری دعا مقبول ہے.۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.’’رات کو مَیں نے خواب دیکھا کہ ایک شخص اپنی جماعت میں سے گھوڑے پر سے گر پڑا.پھر آنکھ کھل گئی.سوچتا رہا کہ کیا تعبیر کریں.قیاسی طور پر جو بات اقرب ہووے لگائی جاسکتی ہے کہ اس اثناء میں غنودگی غالب ہوئی اور الہام ہوا.استقامت میں فرق آگیا ایک صاحب نے کہا کہ وہ کون شخص ہے ؟ حضرت نے فرمایا کہ معلوم تو ہے مگر جب تک خدا کا اِذن نہ ہو مَیں بتلایا نہیں کرتا.میرا کام دعا کرنا ہے.‘‘ (البدر مورخہ ۲۷؍ اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۷۵)
۱۹۰۳ء رؤیا.’’مَیں اس؎۱ مکان کی طرف سے مسجد کی طرف چلا جارہا ہوں.مَیں نے ایک شخص کو آتے ہوئے دیکھا جو کہ ایک سکھ کی طرح معلوم ہوتا تھا جس طرح سے اکالئے اور کوکہ سکھ ہوتے ہیں.اس کے ہاتھ میں ایک بہت تیز، خوفناک، بڑا اور چوڑا چُھرا تھا اور اُس چُھرے کا دستہ چھوٹا ساتھا.وہ چُھرا بڑا ہی تیز معلوم ہوتا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا گویا وہ اس سے لوگوں کو قتل کرتا پھرتا تھا.جہاں اُس نے چُھرا رکھا اور گردن اُڑ گئی.کچھ اس طرح معلوم ہوتا تھا جس طرح مَیں نے لیکھرام کے وقت میں ایک آدمی خواب میں دیکھا تھا.اس کی صورت بڑی ڈراؤنی تھی اور بڑا ہی دہشت ناک آدمی معلوم ہوتا تھا.مجھے بھی اُس سے خوف معلوم ہوا اور مَیں نے اس کی طرف جانا نہ چاہا لیکن میرے پاؤں بہت بوجھل ہوگئے اور مَیں بڑا ہی زور لگا کر اُدھر سے نکلا لیکن اُس نے میری مزاحمت نہ کی اور اگرچہ مجھ کو اُس سے خوف معلوم ہوا لیکن اُس نے مجھ کو کوئی تکلیف نہ دی اور پھر وہ خبر نہیں کہ کس طرف کو نکل گیا.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر۱۱ مورخہ ۳؍ اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ۸۵) ۱۹۰۳ء ’’رؤیا.ایک حنائی رنگ کا کاغذ لکھا ہوا دو ورقہ کاغذ کچھ تھوڑے فاصلہ پر گر پڑا ہے.مَیں نے ایک ہندو کو کہا کہ اس کو پکڑو.جب وہ پکڑنے لگا تو وہ کاغذ کچھ تھوڑی دُور آگے جا پڑا.پھر وہ ہندو اُٹھانے لگا تو وہ وہاں سے اُڑ کر اَور آگے جا پڑا.لیکن وہ دو ورقہ اس طرح کچھ ترتیب سے کُھل کر اُڑتا رہا ہے کہ اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ کوئی جاندار چیز ہے.جب وہ کچھ فاصلہ تک چلا گیا تو وہ ہندو وہاں جاکر پھر اس کو پکڑنے لگا.تب وہ دو ورقہ اُ ڑ کر میرے پاس آگیا تو اُس وقت میری زبان سے یہ کلمہ نکلا.جس کا تھا اُس کے پاس آگیا پھر مَیں نے اس کو مخاطب ہو کر کہا کہ ہم وہ قوم ہیں جو رُوح القدس کے بُلائے بولتے ہیں.ہم وہ قوم ہیں جن کے حق میں خدا نے فرمایا ہے.لَنَفَخْنَا فِیْـھِمْ مِّنْ صِدْ.قِنَا.۲؎ اسلامی خدمات کسی دوسرے سے اللہ تعالیٰ لینا ہی نہیں چاہتا.شاید دوسرا اس میں کچھ غلطی بھی کرے.وَ اللہُ اَعْلَمُ.جو شخص اِسلام کے عقائد کا منافی ہے وہ اِسلام کی تائید کیا کرے گا.سناتن دھرم میں اِس طرح کے بھی آدمی ہوتے ہیں کہ وہ کسی فرقہ کے مکذّب نہیں ہوتے اور معمولی چیزوں کے آگے بھی ہاتھ جوڑتے پھرتے ہیں.۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) اس سے مرا دحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اپنا رہائشی مکان ہے جو کہ مسجد مبارک سے متصل ہے.۲ (ترجمہ از مرتّب) ہم نے یقیناً ان لوگوں میں اپنی بعض سچائیوں کی رُوح ڈال دی ہے.
خدا نہیں چاہتا کہ جو سلسلہ اُس نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے اس کا کوئی شریک ہو.یہاں سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا کاغذ ہمارے پاس آگیا.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر۱۱ مورخہ ۳؍ اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ۸۵) ۷؍اپریل۱۹۰۳ء رؤیا.’’مَیں کسی راستہ پر چلا جاتا ہوں.گھر کے لوگ بھی ساتھ ہیں اور مبارک احمد کو مَیں نے گود میں لیا ہوا ہے.بعض جگہ نشیب و فراز بھی آجاتا ہے جیسے کہ دیوار کے برابر چڑھنا پڑتا ہے مگر آسانی سے اُتر چڑھ جاتا ہوں اور مبارک اسی طرح میری گود میں ہے.ارادہ ہے کہ ایک مسجد میں جانا ہے.جاتے جاتے ایک گھر میں جا داخل ہوئے ہیں.گویا وہ گھر ہی مسجد ِ موعود ہے جس کی طرف ہم جارہے ہیں.اندر جاکر دیکھا ہے کہ ایک عورت بعمر ۱۸ سال سفید رنگ وہاں بیٹھی ہے.اس کے کپڑے بھگوے رنگ کے ہیں مگر بہت صاف ہیں.جب اندر گئے ہیں تو گھر والوں نے کہا ہے کہ یہ احسن کی ہمشیرہ ہے.‘‘ (الحکم جلد۷ نمبر۱۵ مورخہ ۲۴ ؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ۶) ۱۲؍اپریل۱۹۰۳ء ’’ فرمایا کہ مَیں دیکھتا ہوں کہ ایک بڑا بحرِ ذخّار کی طرح دریا ہے جو سانپ کی طرح بَل پیچ کھاتا مغرب سے مشرق کو جارہا ہے اور پھر دیکھتے دیکھتے سمت بدل کر مشرق سے مغرب کو اُلٹا بہنے لگا ہے.‘‘ (الحکم جلد۷ نمبر۱۴ مورخہ۱۷؍ اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ۷) ۱۷؍ اپریل۱۹۰۳ء ’’مولوی محمد حسین کی نسبت اِنِّیْ سَاُخْبِرُہٗ فِیْ اٰخِرِ الْوَقْتِ اَنَّکَ لَسْتَ عَلَی الْـحَقِّ.‘‘ ؎۱ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۷) ۲۱ ؍ اپریل۱۹۰۳ء ’’فرمایا.آج صبح جب مَیں نماز کے بعد ذرا لیٹ گیا تو الہام ہوا مگر افسوس ہے کہ ایک حصّہ اس کا یاد نہیں رہا.ایک پہلے عربی کا فقرہ تھا اور اس کے بعد اس کا ترجمہ اُردو میں تھا.وہ اُردو فقرہ یاد ہے.یہ بات آسمان پر قرار پاچکی ہے، تبدیل ہونے والی نہیں.اور عربی فقرہ کچھ اس سے مشابہ تھا.۱ (ترجمہ از مرتّب) یقیناً مَیں اُسے آخری وقت میں بتادوں گا کہ تُو حق پر نہیں تھا.(نوٹ از ناشر) البدر مورخہ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۰۹ اور الحکم مورخہ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵ میں ۱۸؍اپریل ۱۹۰۳ء کے حوالہ سے یوں تحریر ہے ’’فرمایا کہ میں لیٹا ہوا تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب نظر کے آگے سے پھر گئے.پھر یہ لفظ الہام ہوئے.سَاُخْبِرُہٗ فِیْ اٰخِرِ الْوَقْتِ اَنَّکَ لَسْتَ عَلَی الْـحَقِّ.‘‘
تَعَھَّدَ وَ تَـمَکَّنَ فِی السَّمَآءِ مگر وہ اصل فقرہ بھول گیا اور اِس نسیان میں بھی کچھ منشاء ِ الٰہی ہوتا ہے.گویا اِس کا یہ مطلب ہے کہ یہ اب تقدیر مُبرم ہے اس میں اب تبدیلی نہیں ہوگی.‘‘ (الحکم جلد۷ نمبر۱۵ مورخہ ۲۴؍ اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ۱۲) ۲۵؍ اپریل۱۹۰۳ء الہام طاعون کی نسبت.’’ یَـا اَرْضُ ابْلَعِیْ مَآءَکِ وَ یَـا سَـمَآءُ اَقْلِــعِیْ.‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۷) ۲۶؍ اپریل۱۹۰۳ء ’’رَبِّ اِنِّیْ مَظْلُوْمٌ فَانْتَصِـرْ.فَسَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا.‘‘ ؎۲ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۷) ۲۹ ؍ اپریل۱۹۰۳ء (الف) ’’اٰمِنًا مِّنَ اللّٰہِ الرَّحِیْمِ۳؎ - احمد مقبول.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۷) (ب) ؕ ’’اِنَّـا نَرِثُ الْاَرْضَ نَـاْکُلُھَا مِنْ اَطْرَافِھَا.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر۱۵ مورخہ یکم مئی ۱۹۰۳ء صفحہ۱۱۷ حاشیہ) (ترجمہ) ہم زمین کے وارث ہوں گے اور اطراف سے اس کو کھاتے آئیں گے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۷) ۱ (ترجمہ از مرتّب) اے زمین اپنا پانی نِگل لے اور اے بادل تُو برسنے سے رُک جا.(نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵ اور البدر مورخہ یکم مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۷ میں اس الہام کےبارہ میں تحریر ہے کہ ’’ طاعون کے متعلق ایک یہ الہام ہے.قُلْنَا یَـا اَرْضُ ابْلَعِیْ مَآءَ کِ وَ یَـا سَمَآءُ اَقْلِعِیْ اس الہام کے متعلق جہاں تک میری رائے ہے، وہ یہ ہے کہ یہ عام شہروں اور دیہات کے متعلق نہیں اور نہ اس سے دوام منع ثابت ہوتا ہے.غالباً یہی ہے کہ بعض دیہات اور شہروں میں جن کی نسبت خدا کا ارادہ ہے چند مہینوں تک طاعون بند رہے اور پھر جہاں خداوند قدیر چاہے پھر پھوٹ پڑے اور یہ بکلّی بند نہیں ہوگی جب تک وہ ارادہ بکمال و تمام پورا نہ ہوجائے جو آسمان پر قرار پایا ہے اور ضرور ہے کہ زمین اپنے مواد نکالتی رہے جب تک کہ خدا کا ارادہ اپنے کمال کو نہ پہنچے.میرزا غلام احمد‘‘ ۲ (ترجمہ از مرتّب) اے میرے ربّ مَیں ستم رسیدہ ہوں میری مدد فرما اور انہیں اچھی طرح پیس ڈال.۳ (ترجمہ از مرتّب) خدائے رحیم کی طرف سے امن پانے والا.
۳۰ ؍ اپریل۱۹۰۳ء ’’ فِیْہِ خَیْرٌ وَّ بَـرَکَۃٌ.۱؎ اَرْبَعَۃَ عَشَـرَ دَ وَآ.بًّـا.۲؎ یا شاید یہ ہے اِنَّـا اَمَتْنَا اَرْبَعَۃَ عَشَـرَ دَ وَآ.بًّـا.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۷) (ترجمہ) ہم نے چودہ چارپایوں کو ہلاک کردیا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۸) ۳۰ ؍ اپریل۱۹۰۳ء ’’فرمایا کہ مجھے الہام ہوا مگر اس کا آخری حصّہ یاد ہے دوسرے الفاظ یاد نہیں رہے.جو الفاظ یاد ہیں وہ یہ ہیں.فِیْہِ خَیْرٌ وَّ بَــرَکَۃٌ اس کا ترجمہ بھی بتلایا گیا.اِس میں تمام دُنیا کی بھلائی ہے.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۱۶ مورخہ ۸ ؍ مئی ۱۹۰۳ء صفحہ۱۲۲) یکم مئی۱۹۰۳ء ’’ فرمایاکہ مَیں نے ایک منذر رؤیادیکھی ہے مگر شکر ہے کہ وہ درمیان میں رہ گئی.دیکھتا ہوں کہ کوئی شخص ہے جو میدان میں بیٹھا ہے اور کہتا ہے کہ یہاں ایک بَیل ذبح کریں گے.وہ باتوں ہی میں رہا اور کوئی بَیل وغیرہ ذبح نہ ہوا.اسی حالت میں الہام ہوا جس کے الفاظ تو یاد نہیں رہے.‘‘ (البدر۳؎ جلد۲ نمبر۱۶ مورخہ۸؍ مئی ۱۹۰۳ء صفحہ۱۲۲) ۱۹۰۳ء (الف) ’’مَیں نے ایک دفعہ کشف؎۴ میں اللہ تعالیٰ کو تمثل کے طور پر دیکھا میرے گلے میں ہاتھ ڈال کر فرمایا.جے تُوں میرا ہو رہیں سب جَگ تیرا ہو.‘‘ (بدر۵؎ جلد۶ نمبر۱۷ مورخہ۲۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۸) (ب) ’’دنیوی تمام لذّات میں خواص کا ہی حصہ زیادہ ہے پنجابی شعر اس پر کیا عمدہ صادق آتا ہے.جے تُوں میرا ہو رہیں سب جَگ تیرا ہو ۱ (ترجمہ) اس میں تمام دنیا کی بھلائی ہے.(البدر مورخہ ۸؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۲۲) ۲ (ترجمہ از ناشر) چودہ چارپائے.۳ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۱۰ ؍ مئی ۱۹۰۳ء صفحہ۱۳ میں بھی یہ رؤیا باختلاف الفاظ درج ہے.۴ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) اس کشف کو یہاں اس لئے ذکر کیا کہ اگلے کشف سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی اسی زمانہ کا ہے اور حافظ محمد ابراہیم صاحب مہاجر کی روایت سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کشف براہین احمدیہ کے زمانہ سے بھی بہت پہلے کا ہے جبکہ حضور ؑ کی عمر تقریباً بتیس تینتیس سال کی تھی.دیکھیے سیر ت احمد صفحہ ۱۹۱ مصنّفہ مولوی قدرت اللہ صاحب سنوریؓ.۵ (نوٹ از ناشر) یہ الہام الٰہی الحکم مورخہ ۱۰؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴ میں بھی مذکور ہے.
مجھے خواب میں ۲دو دفعہ پنجابی مصرعہ بتلائے گئے ہیں.ایک تو یہی جو بیان ہوا اور ایک دفعہ مَیں نے دیکھا کہ ایک وسیع میدان ہے.اس میں ایک مجذوب (جس میں محبّت ِ الٰہی کا جذبہ ہو) میری طرف آرہا ہے.جب میرے (پاس) پہنچا تو اُس نے یہ پڑھا.عشقِ الٰہی وَسّے مُنہ پر ولیاں ایہہ نشانی‘‘ (البدر جلد۲ نمبر۱۶ مورخہ۸؍ مئی ۱۹۰۳ء صفحہ۱۲۳) ۲ ؍ مئی۱۹۰۳ء ’’فرمایا کہ کچھ دن ہوئے کہ مَیں بیماروں کے لئے دعا کرتا تھا.ایک شخص کے لئے خاص طور سے دعا کی.دیکھا کہ وہ اُٹھ کر کھڑا ہوگیا اور پھر الہام ہوا کہ آثارِ صحت مگر تصریح بالکل نہیں کہ یہ الہام کس کی نسبت ہے.‘‘ (البدر۱؎ جلد۲ نمبر۱۶ مورخہ۸؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ۱۲۳) ۴ ؍مئی ۱۹۰۳ء ’’ اوّل دیکھا کہ میں ایک قبرستان میں ہوں شاید اس جگہ تین قبریں ہیں میں ایک قبر پر ٹھہر گیا.شاید وہ والد کی قبر تھی.تھوڑی دیر کے بعد صاحبِ قبر اندر سے نکل آیا اور مجھ سے مصافحہ کیا اور میں نے نام پوچھا تو کہا میرا نام نظام الدین ہے.پھر ہم وہاں سے رخصت ہونے لگے تو میں نے اُس زندہ شخص کو کہا کہ میرے والدین کو سلام کہنا اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی سلام کہنا.تب وہاں سے روانہ ہوئے.راہ میں مَیں نے ایک شخص کو کہا کہ اتنا بڑا معجزہ ظاہر ہوا کیااب بھی قبول نہیں کرو گے.اس نے کہا کہ اب کیوں قبول نہ کریں، اب تو حد ہوگئی.پھر بعد اس کے الہام ہوا.سَلِیْمٌ حَامِـدٌ مُسْتَبْشِـرٌ.۲؎ پھر الہام ہوا.نُقِلُوْا اِلَی الْمَقَابِـرِ.‘‘۳؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۹) ۱۳؍ مئی۱۹۰۳ء ’’۱۳؍ مئی کو والدہ محمود سخت بیمار تھی تپ سے.تب الہام ہوا.’’خوشی و خُرمی‘‘ تب قبل اِس کے کہ شام ہو ان کو صحت حاصل ہوگئی اور خوشحال ہوگئی.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۸) ۱ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ۱۰؍ مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۳ میں بھی یہ الہام مع تفصیل درج ہے.۲ (ترجمہ از مرتّب) صحیح سلامت.اللہ تعالیٰ کا شکر کرنے والا.خوشخبری دینے والا.۳ (ترجمہ از مرتّب) وہ قبروں کی طرف منتقل کئے گئے.
۱۴؍ مئی۱۹۰۳ء الہام.’’سرانجامِ جاہل جہنّم بود کہ جاہل نکو عاقبت کم بود‘‘؎۱ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۸.بدر جلد ۲ نمبر ۲۳ مورخہ ۷ ؍جون ۱۹۰۶ء صفحہ ۳ ) ۱۵؍ مئی۱۹۰۳ء الہام.’’کسی کی طرف سے کلام ہے.ہمارے دوست چل دیئے اور ہم بھی.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۸) ۱۸؍ مئی۱۹۰۳ء ’’پہلے میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص میرے پاس بیان کرتا ہے کہ تمہاری فلاں فتح ہوئی ، فلاں فتح ہوئی، فلاں فتح ہوئی.بعد اس کے الہام ہوا.مجموعہء ِ فتوحات.‘‘ (کاپی الہامات۲؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۸) ۲۷ ؍مئی۱۹۰۳ء ’’خواب میں اوّل دیکھا کہ ایک چوغہ سیاہ رنگ مجھ کو دیا گیا ہے اور اس کے لوہے کے بٹن میرے ہاتھ میں ہیں اور پھر مَیں نے اس کے جیب میں ہاتھ ڈالا تو اس میں سے ایک پرچہ نکلا.اس میں یہ عبارت لکھی ہوئی تھی.بَلا نازل یا حادث.یا … اور مَیں نے خواب میں اپنی بیوی کے پاس یہ ذکر کیا کہ اس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ بَلا نازل یا حادث.یا… اور ۲دو پرچہ اَور تھے ان کا مضمون یاد نہیں.‘‘ (کاپی الہامات۳؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۸) ۳۱؍ مئی۱۹۰۳ء ’’آج خواب میں مَیں نے دیکھا کہ ایک جگہ مَیں اپنی جوتی بھول گیا ہوں.پھر مجھے یاد آیا تو مَیں اسی جگہ گیا تو معلوم ہوا کہ جوتی اس جگہ نہیں کوئی اُٹھا کر لے گیا اور اس جگہ بجائے جوتی کے بہت سے چنے یعنی نخود پڑے ہیں.پھر مجھے الہام ہوا.مشکل کشا کے ہوگئے مشکل تمام کام.۱ (ترجمہ از مرتّب) جاہل کا انجام جہنم ہے.جاہل کا خاتمہ بالخیر کم ہوتا ہے.۲ (نوٹ از ناشر) البدر مورخہ ۲۹؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴۷ میں اس الہام کے بارہ میں تحریر ہے ’’فرمایا بارہ بجے کے قریب میں نے ایک رؤیا میں دیکھا کہ کوئی کہتا ہے کہ یہ فتح ہوگئی.بار بار اسے تکرار کرتا ہے گویا کہ بہت سے فتوحات کی طرف اشارہ ہے.اس کے بعد طبیعت وحی کی طرف منتقل ہوئی اور الہام ہوا.مجموعہ ء فتوحات.‘‘ ۳ (نوٹ از ناشر) البدر مورخہ ۵؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵۴ میں اس رؤیا و الہام کے الفاظ یوں ہیں.’’فرمایا.یہ الفاظ الہام… ہوئے ہیں مگر معلوم نہیں کہ کس کی طرف اشارہ ہے.بَلا نازل یا حادث یا … یاد نہیں رہا کہ’’یا‘‘ کے آگے کیا تھا.رؤیاکا معاملہ بھی عجیب ہے.پیچ در پیچ بات ہوتی ہے اور الگ الگ رنگ ہوتا ہے.صحابہ کرامؓ کی شہادت کو آنحضرت ؐ نے گائیوں کے ذبح ہونے کے رنگ میں دیکھا حالانکہ خدا اِس بات پر قادر تھا کہ خواب میں خاص صحابہ ہی کو دکھلادیتا.‘‘
’’۳۱ ؍مئی ۱۹۰۳ء مطابق ۳؍ ربیع الاوّل ۱۳۲۱ھ روز یکشنبہ‘‘ اَللّٰھُمَّ ارْحَـمْ‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۸) ۳؍ جون۱۹۰۳ء ’’خواب میں دیکھا کہ کسی شخص نے مجھ کوکچھ روپیہ دیا کہ یہ سرکار سے تجھ کو ملا ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ڈگری کا روپیہ تھا.مَیں نے اس کو ایک چادر کے پلّے میں باندھ کر رکھ لیا اور مَیں نے دینے والے کو پوچھا کہ کیا اس کی رسید لو گے.اس نے کہا کہ رسید کی حاجت نہیں مَیں اعتباری آدمی ہوں.پھر دیکھا کہ وہ روپیہ گم ہوگیا.کوئی لے گیا.مَیں نے اُس شخص سے پوچھا کہ وہ کتنا روپیہ تھا.اُس نے کہا ۱؎تھے اور مَیں نے ایک شخص کو جو اپنے ملازموں میں سے معلوم ہوتا ہے پکڑ لیا کہ تو نے لیا ہے اور وہ انکار کرتا ہے.اب تک پتہ نہیں کہ کس نے لیا.ہم کچہری کے مقام پر ہیں مگر وہاں حاکم کوئی نہیں.بعد اس کے الہام ہوا.اِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ.اِنِّیْ مَعَ کَـثْـرَۃِ رِزْقِکَ.‘‘ ؎۲ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۹) ۴؍جون ۱۹۰۳ء ’’۲ یا ۳ بجے رات کو مَیں نے ایک خواب دیکھا کہ ایک جگہ پر مع چند ایک دوستوں کے گیا ہوں.وہ دوست وہی ہیں جو رات دن پاس رہتے ہیں.ایک اُن میں مخالف بھی معلوم ہوتا ہے.اس کا سیاہ رنگ، لمبا قد اور کپڑے چرکین ہیں.آگے جاتے ہوئے تین قبریں نظر آئی ہیں.ایک قبر کو دیکھ کر مَیں نے خیال کیا کہ والد صاحب کی قبر ہے اور دوسری قبر یں سامنے نظر آئیں.مَیں ان کی طرف چلا.اس قبر سے کچھ فاصلہ پر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ صاحب ِ قبر (جسے مَیں نے والد کی قبر سمجھا تھا) زندہ ہو کر قبر پر بیٹھا ہوا ہے.غور سے دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اَور شکل ہے والد صاحب کی شکل نہیں مگر خوب گورا رنگ، پتلا بدن، فربہ چہرہ ہے.مَیں نے سمجھا کہ اس قبر میں یہی تھا.اتنے میں اُس نے آگے ہاتھ بڑھایا کہ مصافحہ کرے.مَیں نے مصافحہ کیا اور نام پوچھا تو اُس نے کہا نظام الدین.پھر ہم وہاں سے چلے آئے.آتے ہوئے مَیں نے اُسے پیغام دیا کہ پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور والد صاحب کو السلام علیکم کہہ چھوڑنا.راستہ میں مَیں نے اس مخالف سے پوچھا کہ آج جو ہم نے یہ عظیم الشان معجزہ دیکھا کیا اَب بھی نہ مانو گے؟ تو اُس نے جواب دیا کہ اَب تو حد ہوگئی، اَب بھی نہ مانوں تو کب مانوں.مُردہ زندہ ہوگیا ہے.اس کے بعد الہام ہوا.سَلِیْمٌ حَامِـدٌ مُسْتَبْشِـرًا کچھ حصّہ الہام کا یاد نہیں رہا.۱ نقل مطابق اصل.(ناشر) ۲ (ترجمہ از مرتّب) یقینا مَیں تیرے ساتھ اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں.مَیں تیرے کثرتِ رزق کے ساتھ ہوں.
والد کا زندہ ہونا یا کسی اور مردہ کا زندہ ہونا، کسی مردہ امر کا زندہ ہونا ہے.مَیں نے اِس سے یہ بھی سمجھا کہ ہمارا کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جلال ظاہر ہونے کا موجب اور نیز والدین کے رفع درجات کا بھی موجب ہے.‘‘ (البدر جلد۲ نمبر۲۱ مورخہ ۱۲؍ جون ۱۹۰۳ء صفحہ۱۶۲.الحکم جلد ۷نمبر۲۲ مورخہ ۱۷؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ۱۵) ۴؍ جون۱۹۰۳ء ’’خدا جانے کس کے حق میں ہے لَا یُوَا فِیْکَ اللّٰہُ ؎۱ یا یہ کہ لَا یُعَافِیْکَ اللّٰہُ.‘‘؎۲ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۰) ۲۰؍ جون۱۹۰۳ء ’’ عمر دراز اِنَّـا اَلَـنَّا لَکَ الْـحَدِیْدَ.اِنِّیْ تَعَلَّقْتُ بِـاَھْدَابِکُمْ.رَجُلٌ کَبِیْرٌ.؎۳ یادداشت.جب یہ الہام ہوا.اِنِّیْ تَعَلَّقْتُ بِاَھْدَابِکُمْ.رَجُلٌ کَبِیْرٌ اس کے بعد قلات کے بادشاہ معطل کی طرف سے خط آیا کہ مَیں آپ کے دامن سے وابستہ ہوگیا.اس کے گواہ مفتی محمد صادق، مولوی مبارک علی، سیّد سرور شاہ، مولوی محمد علی صاحب ایم.اے، مولوی عبدالکریم صاحب، مولوی حکیم نوردین صاحب، نواب محمد علی خان صاحب، مولوی شیر علی صاحب بی.اے وغیرہ اصحاب ہیں جو چالیس کے قریب ہوں گے.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۹، ۱۰) ۲۱؍ جون۱۹۰۳ء ’’مجھے دو عصا دیئے گئے.ایک جو میرے پاس تھا، دوسرے وہ جو گم ہوگیا تھا اور گمشدہ عصا کو جو مَیں نے دیکھا تو اس کے منہ پر لکھا ہوا تھا.دُعَآءُکَ مُسْتَجَابٌ.‘‘ ؎۴ (کاپی الہامات؎۵ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۰) ۲۸ ؍جون۱۹۰۳ء الہام.’’ اٰیَـاتٌ لِّلسَّآ ئِلِیْنَ.‘‘ ؎۶ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۰) ۱ (ترجمہ از مرتّب) اللہ تیرے پاس نہیں آئے گا.۲ (ترجمہ از مرتّب) اللہ تجھے عافیت نہیں دے گا.۳ (ترجمہ از مرتّب) ہم نے تیرے لئے لوہے کو نرم کردیا.مَیں نے آپ کا دامن پکڑ لیا ہے.ایک بڑا آدمی.۴ (ترجمہ از مرتّب) تیری دعا مقبول ہے.۵ (نوٹ از ناشر) البدر مورخہ ۲۶؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۷۹ اور الحکم مورخہ ۲۴؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵ پر یہ الفاظ درج ہیں.’’۲۱؍ جون کو ایک چھڑی پر یہ لکھا ہوا دکھایا گیا دُعَآءُکَ مُسْتَجَابٌ.‘‘ ۶ (ترجمہ از مرتّب) سوال کرنے والوں کے لئے نشانات.
۲۹ ؍جون۱۹۰۳ء ’’ رات کے وقت جو میرے خیال پر یہ کشش غالب ہوئی کہ یہ مقدمات جو کرم الدین کی طرف سے میرے پر ہیں یا بعض میری جماعت کے لوگوں کی طرف سے کرم الدین پر ہیں ان کا انجام کیا ہوگا.سو اس غلبہء ِ کشش کے وقت میری حالت وحیِ الٰہی کی طرف منتقل کی گئی اور خدا کا یہ کلام میرے پر نازل ہوا.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّـحْسِنُوْنَ.فِیْہِ اٰیَـاتٌ لِّلسَّآئِلِیْنَ اِس کے معنے یہ مجھے سمجھائے گئے کہ ان دونوں فریقوں میں سے خدا اس کے ساتھ ہوگا اور اس کو فتح اور نصرت نصیب کرے گا کہ جو پرہیز گار ہیں.یعنی جھوٹ نہیں بولتے، ظلم نہیں کرتے، تہمت نہیں لگاتے اور دَغااور فریب اور خیانت سے ناحق خدا کے بندوں کو نہیں ستاتے اور ہر ایک بدی سے بچتے اور راست بازی اور انصاف کو اختیار کرتے ہیں اور خدا سے ڈر کر اس کے بندوں کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی اور نیکی کے ساتھ پیش آتے ہیں اور بنی نوع کے وہ سچے خیر خواہ ہیں.ان میں درندگی اور ظلم اور بدی کا جوش نہیں بلکہ عام طور پر ہر ایک کے ساتھ وہ نیکی کرنے کے لئے تیار ہیں سو انجام یہ ہے کہ اُن کے حق میں فیصلہ ہوگا تب وہ لوگ جو پوچھا کرتے ہیں جو ان دونوں گروہوں میں سے حق پر کون ہے.اُن کے لئے نہ ایک نشان بلکہ کئی نشان ظاہر ہوں گے.‘‘ (البدر۱؎ جلد۲ نمبر۲۴ مورخہ۳ ؍جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۸۹) ۱۳؍ جولائی۱۹۰۳ء ’’ اِنِّیْ اَنَـرْتُکَ وَ اخْتَرْتُکَ‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۰) (ترجمہ) مَیں نے تجھے روشن کیا اور چُن لیا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۵) ۱۴؍ جولائی۱۹۰۳ء ’’ ۱.لَاتَیْئَسُوْا مِنْ خَزَآ.ئِنِ رَحْـمَۃِ اللّٰہِ.۲.اِنَّـآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَـرَ.۳.یَـاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ.۴.یَـاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ.۵.وَسِّعْ مَکَانَکَ.۶.اِنِّیْ اَنَـرْتُکَ وَاخْتَرْتُکَ.۷.اِنَّـا فَتَـحْنَا عَلَیْکَ اَبْوَابَ الدُّنْیَا.‘‘؎۲ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۱) ۱۸؍ جولائی۱۹۰۳ء الہام.’’جَآءَکَ الْفَتْحُ.ثُمَّ جَآءَکَ الْفَتْحُ ؎۳ پھر مَیں نے دیکھا کہ مبارک کو بہت سُرخ پگڑی پہنائی گئی ہے.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۲) ۱ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ۳۰؍ جون ۱۹۰۳ء صفحہ۱۱ میں بھی یہ الہامات مع تفصیل درج ہیں.۲ (ترجمہ از مرتّب) ۱.اللہ کی رحمت کے خزانوں سے نا اُمید مت ہو.۲.ہم نے تجھے خیرِ کثیر دیا.۳.دُور دُور سے تیرے پاس ہدیے آئیں گے.۴.لوگ دُور دُور سے تیرے پاس آئیں گے.۵.تُو اپنے مکان کو وسیع کر.۶.مَیں نے تجھے روشن کیا اور چُن لیا.۷.ہم نے تجھ پر دُنیا کے دروازے کھول دیئے.۳ (ترجمہ از مرتّب) تیرے پاس فتح آئی پھر تیرے پاس فتح آئی.
۲۱؍ جولائی۱۹۰۳ء ’’آج قریب صبح مَیں نے دیکھا کہ مرزا احمد بیگ رشتہ دار نظام الدین فوت ہوگیا ہے اور ایسا خیال گزرا کہ وہ سخت جان کندن میں ہے.پھر مَیں نے کہا کہ احمد بیگ اور امام الدین کے مرنے میں صرف چھ سات دن کا فاصلہ ہے.اسی کی تائید میں اسی تاریخ صاحبزادہ سراج الحق نے خواب میں دیکھا کہ ایک درخت نہایت سر سبز ہے اور نظام الدین کی ملکیت ہے اس کے نیچے ہم کھڑے ہیں.اتنے میں میر اسمٰعیل آئے اور کہا کہ اس کی ایک شاخ ہم کاٹ دیں گے.تب انہوں نے اس درخت کی ایک سرسبز شاخ کاٹ دی.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۲) ۲۱؍ جولائی۱۹۰۳ء الہام.’’ یَــوْمُ الْاِثْنَیْنِ وَ فَتْحُ الْـحُنَیْنِ.‘‘؎۱ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۲) ۲۳؍ جولائی۱۹۰۳ء ۱.’’خواب میں مَیں نے دیکھا کہ میں نے کچھ پھل پائے ہیں کسی نے مجھے پوچھا وہ کون سے پھل ہیں میں نے کہا کہ ایک طُو۱بیٰ ایک آم۲ ایک اور پھل۳.‘‘؎۲ ۲.’’دیکھا ظفر احمد میرے پاس آیا ہے.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۲) ۲۴؍ جولائی۱۹۰۳ء ’’ اَلْفِتْنَۃُ وَ الصَّدَ.قَاتُ.‘‘؎۳ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۲.البدر جلد ۲ نمبر ۲۹ مورخہ ۷؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۲۶) ۲۷؍ جولائی۱۹۰۳ء ’’خواب میں مَیں نے دیکھا کہ ایک شخص گویا چراغ یا فـجّا گورداسپور سے آیا ہے اور اس کے پاس کچھ روپے اور کچھ پیسے ہیں اور کہتا ہے کہ یہ بقیہ چندہ گورداسپور سے لایا ہوں.مَیں نے ایک خوان میں یعنی برتن میں وہ روپے جمع کرادیئے تو معلوم ہوا کہ بہت سے پیسے ہیں.مَیں نے چاہا کہ یہ چندہ کا روپیہ ہے اِس کو گِن لیں.جب مَیں گننے لگا تو وہ تمام پیسے کشمش کی شکل پر ہوگئے ہیں.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۳) ۱ (ترجمہ از مرتّب) سوموار کا دن اور حنین کی فتح.۲ (نوٹ از ناشر) البدر مورخہ ۷؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۲۶ پر یہ خواب یوں تحریر ہے.’’فرمایاکہ رات کو مَیں نے خواب میں دیکھا کہ میرے ہاتھ میں ایک آنب ہے جسے مَیں نے تھوڑاسا چوسا تو معلوم ہوا کہ وہ تین پھل ہیں.جب کسی نے پوچھا کہ کیا پھل ہیں تو کہا ایک آنب ہے،ایک طوبا اور ایک اور پھل ہے.‘‘ ۳ (ترجمہ از مرتّب) ایک خاص فتنہ آرہا ہے اور اس کا علاج صدقات ہیں.
۲۸؍ جولائی۱۹۰۳ء ’’ مَیں نے دیکھا کہ مَیں ایک پہاڑ پر ہوں اور میرے ساتھ کئی آدمی ہیں اور ہم مِدّل جو ایک قسم کا اناج ہوتا ہے اس کے دانے کھارہے ہیں اور زمین پر جب نظر کی تو بہت سے ڈیلے زمین پر پڑے ہیں.پھر مَیں وہاں سے اُٹھا اور ایک کنارہ پر گیا تو مجھے اندیشہ ہوا کہ اس کے کنارہ پر صدہا ہاتھ کا گڑھا ہے جس گڑھے سے خدا نے مجھ کو بچالیا اور پھر دوسری طرف مَیں آیا توسطح مستوی نہیں بلکہ ایک طرف سے بہت اُونچا اور دوسری طرف سے بہت نیچا ہے جس سے انسان بے اختیار پھسل سکتا ہے مگر خدا نے مجھے اس سے بچالیا.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۳) ۲۹؍ جولائی۱۹۰۳ء ’’ یَنْقَطِعُ اٰبَآءُکَ وَ یُبْدَ ءُ مِنْکَ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۲) (ترجمہ) تیرے باپ دادے کا ذکر منقطع ہو جائے گا اور تیرے بعد سلسلہ خاندان کا تجھ سے شروع ہوگا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۷۹) ۲۹؍ جولائی۱۹۰۳ء ’’.سَعٰی لَھَا سَعْیَـھَا‘‘ ؎۱ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۲) ۳۰؍ جولائی۱۹۰۳ء ’’الہام کسی کی نسبت یعنی حِکَایَۃً عَنِ الْغَیر کَـذَ.بْـتَ.‘‘ ؎۲ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۳) ۱۹۰۳ء ’’ایک دن یہ ذکر آگیا کہ دوزخ کے سات دروازے ہیں اور بہشت کے آٹھ ہیں تو مجھے خیال گزرا کہ ایک دروازہ بہشت کا کیوں زیادہ ہے.اس پر معاً خدا تعالیٰ نے دل میں ڈالا کہ ’’جرائم کے اصول بھی سات ہیں اور محاسن کے بھی سات.مگر ایک دروازہ رحمتِ الٰہی کا ہے جو کہ بہشت کے دروازوں میں زیادہ ہے.‘‘ (البدر جلد۲ نمبر۲۹ مورخہ۷ ؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ۲۲۷) ۱۱ ؍اگست۱۹۰۳ء الہام.’’اِنِّیْ اَرَی الرَّحْـمٰنَ حَلَّ غَضَبُہٗ عَلَی الْاَرْضِ.‘‘ ؎۳ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۵) ۱ (ترجمہ از مرتّب) اس نے اس کے لئے بڑی کوشش کی.۲ (ترجمہ از مرتّب) تونے جھوٹ بولا.۳ اس کی تشریح حضرت اقدس علیہ السلام نے یہ فرمائی ہے کہ ’’مَیں رحمٰن کو دیکھتا ہوں (یعنی) اگرچہ خدا رحمٰن ہے مگر گناہ حد سے بڑھ گیا ہے جس سے اس کا غضب نازل ہوگیا ہے.‘‘ (البدر مورخہ۲۸؍ اگست ۱۹۰۳ء صفحہ۲۵۳ و الحکم مورخہ۲۴ ؍ اگست ۱۹۰۳ء صفحہ۶)
۱۴؍ اگست۱۹۰۳ء ۱.’’ ۱.اَ.لَّا تَـخَافُوْا وَ لَا تَـحْزَنُوْا.لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِ.بِیْنَ.۲.لَا تَـخَافُوْا وَ لَا تَـحْزَنُوْا.لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِ.بِیْنَ.۳.اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَـبْدَہٗ.۴.یَـا جِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَ.۵.کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَـا وَ رُسُلِیْ.‘‘۱؎ ۲.’’۱.یٰسٓ.۲؎ اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ.عَلٰی صِـرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ.تَنْزِیْلَ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ.؎۳ ۲.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِ.یْنَ ھُمْ مُّـحْسِنُوْنَ.؎۴ ۳.لَا اِلٰہَ؎۵ اِلَّا اَنَـا فَاتَّـخِذْ.نِیْ وَکِـیْلًا.؎۶ ۴.اُکْرِمُکَ؎۷ بَعْدَ تَـوْھِیْنِکَ.۵.یَسْئَلُونَکَ عَنْ شَانِکَ.۶.قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ.؎۸ ۱ (ترجمہ از مرتّب) ۱.تم خوف نہ کرو اور غمگین نہ ہو.جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو.۲.تم خوف نہ کرو اور غمگین نہ ہو.جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو.۳.کیا اللہ اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں.۴.اے پہاڑو! اس کے ساتھ خدا کے حضور جھک جاؤ اور اے پرندو! تم بھی.۵.اللہ نے لکھ چھوڑا ہے کہ مَیں اور میرے رسول غالب رہیں گے.۲ (نوٹ از ناشر) البدرمورخہ ۲۸؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۵۳ اور الحکم مورخہ ۱۷؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۰ حاشیہ میں یٰسٓ کے بعد وَالْقُرْاٰنِ الْـحَکِیْمِ کے الفاظ بھی آئے ہیں.۳ (ترجمہ از مرتّب) ۱.اے سردار تُو خدا کا مُرسل ہے اور راہِ راست پر ہے.اس کا نزول اس خدا کی طرف سے ہے جو غالب اور رحم کرنے والا ہے.۴ (ترجمہ) ’’۲.خدا اُن کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور وہ جو نکو کار ہیں.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۵) ۵ (ترجمہ از مرتّب) ۳.میرے سوا کوئی معبود نہیں.پس تُو مجھے ہی اپنا کار ساز بنا.۶ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’جب یہ الہام مجھ کو ہوا تو میرے دل پر ایک لرزہ پڑا اور مجھے خیال آیا کہ میری جماعت ابھی اِس لائق نہیں کہ خدا تعالیٰ ان کا نام بھی لے اور مجھے اس سے زیادہ کوئی حسرت نہیں کہ مَیں فوت ہوجاؤں اور جماعت کو ایسی ناتمام اور خام حالت میں چھوڑ جاؤں.‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۳۲۴ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۷ (نوٹ از ناشر) البدر مورخہ ۲۸؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۵۳ اور الحکم مورخہ ۱۷؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۰ حاشیہ میں یہاں ’’اُکْرِمُکَ ‘‘ کی جگہ ’’سَاُکْرِمُکَ ‘‘ کے الفاظ درج ہیں.۸ (ترجمہ از مرتّب) ۴میں بعد اس کے جو مخالف تیری توہین کریں تجھے عزت دوں گا اور تیرا اِکرام کروں گا.۵تیری شان کے بارے میں وہ پوچھیں گے ۶تو کہہ وہ خدا ہے جس نے مجھے یہ مرتبہ بخشا ہے.پھر ان کو لہو و لعب کے خیالات میں چھوڑ دے.
۷.اِنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاھُمَا.۸.اَلَمْ تَـرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِـاَصْـحٰبِ الْفِیْلِ.اَلَمْ یَـجْعَلْ کَیْدَ ھُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ.۹.کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَـا وَ رُسُلِیْ.۱۰.جِئْتَ فَصْلَ الْفَتْحِ.‘‘ ۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۵) ۱۵؍ اگست۱۹۰۳ء ’’ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِ بِیْنَ.‘‘ ؎۲ (البدر جلد۲ نمبر۳۲ مورخہ۲۸؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ۲۵۳.الحکم جلد ۷نمبر۳۰ مورخہ۱۷؍ اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۰ حاشیہ) ۱۸؍ اگست۱۹۰۳ء ’’ ۱.سَاُکْرِمُکَ؎۳ اِکْـرَامًا حَسَنًا.۲.سَاُکْرِمُکَ اِکْـرَامًا عَـجَبًا.۳.اِنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ کَانَـتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰـھُمَا.۴.قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ.۵.یَسْئَلُوْنَکَ؎۴ عَنْ ۱ (بقیہ ترجمہ از مرتّب) ۷آسمان اور زمین ایک گٹھڑی کی طرح بندھے ہوئے تھے تب ہم نے ان دونوں کو کھول دیا.۸کیا تُو نے نہیں دیکھا کہ تیرے ربّ نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کِیا.کیا اس نے ان کی تدبیر کو ضائع نہ کردیا.۹اللہ نے لکھ چھوڑا ہے کہ مَیں اور میرے رسول غالب رہیں گے.۱۰تُو فتح کے موسم میں آیا ہے.۲ (ترجمہ از مرتّب)جھوٹو ں پر اللہ کی لعنت ۳ (ترجمہ از مرتّب) ۱مَیں تیرا بہت اچھا اِکرام کروں گا.۴ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’ایک دفعہ جب مَیں گورداسپور میں ایک فوجداری مقدمہ کی و جہ سے (جو کرم دین جہلمی نے میرے پر دائر کیا تھا) موجود تھا.مجھے الہام ہوا یَسْئَلُوْنَکَ الخ… بعد اس کے جب ہم کچہری میں گئے تو فریقِ ثانی کے وکیل نے مجھ سے یہی سوال کیا کہ کیا آپ کی شان اور آپ کا مرتبہ ایسا ہی ہے جیسا کہ تریاق القلوب میں لکھا ہے.مَیں نے جواب دیا کہ ہاں خدا کے فضل سے یہی مرتبہ ہے.اُسی نے یہ مرتبہ مجھے عطا کیا ہے.تب وہ الہام جو خدا کی طرف سے صبح کے وقت ہوا تھا قریباً عصر کے وقت پورا ہوگیا.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۷۷،۲۷۸) خاکسار مرتّب عرض کرتا ہے کہ وکیل فریق مخالف نے جس کتاب کے متعلق مذکورہ بالا سوال کیا تھا وہ دراصل تحفہ گولڑویہ تھی تریاق القلوب نہیں تھی، اور تحفہ گولڑویہ کے جو صفحات وکیل فریق مخالف نے پیش کرکے ان کے متعلق مذکورہ بالا سوال کیا تھا وہ صفحہ ۴۸ لغایت ۵۰ تھے چنانچہ اس مقدّمہ کی مسل جس میں وہ کتاب شامل کی گئی تھی اور جس پر مُہرِ عدالت ثبت شدہ ہے عدالت سے اس کی نقل حاصل کرلی گئی ہے اور وہ ہمارے پاس محفوظ ہے، اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیان حضور کے اپنے الفاظ میں اِس طرح پر درج ہے.’’ تحفہ گولڑویہ میری تصنیف ہے.یکم ستمبر۱۹۰۲ء کو شائع ہوا.پیر مہر علی کے مقابلہ پر لکھی ہے.یہ کتاب
شَاْنِکَ.قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ.۶.مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْـمٰنِ مِنْ تَفَاوُتٍ.‘‘ ؎۱ (البدر جلد۲ نمبر۳۲ مورخہ۲۸ ؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ۲۵۳.الحکم جلد ۷نمبر۳۱ مورخہ۲۴؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ۶) (ترجمہ)’’۲مَیں تجھے ایسی بزرگی دوں گا جس سے لوگ تعجب میں پڑیں گے ۳آسمان اور زمین ایک گٹھڑی کی طرح بندھے ہوئے تھے ہم نے ان دونوں کو کھول دیا.یعنی زمین نے اپنی پوری قوت ظاہر کی، اور آسمان نے بھی.۴ان کو کہہ کہ وہ خدا ہے جس نے یہ کلما ت نازل کئے ہیں.پھر ان کو لہو و لعب کے خیالات میں چھوڑ دے ۵یعنی تیری شان کے بارے میں پوچھیں گے کہ تیری شان اور کیا مرتبہ ہے.کہہ وہ خدا ہے جس نے مجھے یہ مرتبہ بخشا ہے.پھر ان کو اپنی لہو و لعب میں چھوڑ دے.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۳، ۷۳، ۱۱۰، ۲۷۷، ۲۷۸) ۱۸؍ اگست۱۹۰۳ء رؤیا.’’ ایک خوان میرے آگے پیش ہوا ہے.اس میں فالودہ معلوم ہوتا ہے اور کچھ فیرنی بھی رکابیوں میں ہے.مَیں نے کہا کہ چمچہ لاؤ.تو کسی نے کہا کہ ہر ایک کھانا عمدہ نہیں ہوتا سوائے فیرنی اور فالودہ کے.‘‘ (البدر جلد۲ نمبر۳۲ مورخہ۲۸؍ اگست ۱۹۰۳ء صفحہ۳۵۱) ۱۹؍ اگست۱۹۰۳ء ’’ اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْـحَابِ الْفِیْلِ.اَلَمْ یَـجْعَلْ کَیْدَ ھُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ.‘‘ (البدر جلد ۲ نمبر ۳۲ مورخہ ۲۸ ؍ اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۵۳.الحکم جلد ۷ نمبر ۳۱ مورخہ ۲۴؍ اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۶) (ترجمہ) ’’کیا تُونے نہیں دیکھا کہ تیرے ربّ نے اصحابِ فیل کے ساتھ کیا کِیا.کیا اس نے اُن کے مکر کو اُلٹا کر اُنہیں پر نہیں مارا.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۱۰۸) ۱۹؍ اگست۱۹۰۳ء ’’ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنَـا فَاتَّـخِذْ نِیْ وَکِیْلًا.‘‘ ؎۲ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۵) بقیہ حاشیہ.سیف چشتیائی کے جواب میں نہیں لکھی گئی.‘‘ سوال.جن لوگوں کا ذکر صفحہ ۴۸ لغایت صفحہ ۵۰اِس کتاب میں لکھا ہے آپ ہی اس کا مصداق ہیں؟ جواب.خدا کے فضل اور رحمت سے مَیں اس کا مصداق ہوں.‘‘ (دیکھیے سیرۃ المہدی جلد اوّل صفحہ ۳۵۳،۳۵۴ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) پس حقیقۃالوحی کے اِس حوالہ میں تحفہ گولڑویہ کے بجائے تریاق القلوب سہواً لکھا گیا ہے.(مرزا بشیر احمد) ۱ (ترجمہ از مرتّب) ۶.رحمٰن کی پیدائش میں تم کوئی کسر نہیں پاؤ گے.۲ (ترجمہ از مرتّب) میرے سوا اَور کوئی معبود نہیں.پس تو مجھے ہی اپنا کارساز بنا.
۲۰ ؍اگست۱۹۰۳ء ’’کَـتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَـا وَ رُسُلِیْ.‘‘ (البدر جلد۲ نمبر۳۲ مورخہ۲۸؍ اگست ۱۹۰۳ء صفحہ۲۵۳.الحکم جلد ۷نمبر۳۱ مورخہ۲۴ ؍ اگست ۱۹۰۳ء صفحہ۶) (ترجمہ) ’’خدا نے لکھ چھوڑا ہے کہ مَیں اور میرے رسول غالب رہیں گے.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۷۵، ۷۶) ۲۲ ؍اگست۱۹۰۳ء الہام.’’خدا کی پناہ میں عمر گذارو.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۵ البدر جلد ۲ نمبر ۳۲ مورخہ ۲۸؍ اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۵۳.الحکم جلد ۷ نمبر ۳۱ مورخہ ۲۴؍ اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۶) ۲۳؍ اگست۱۹۰۳ء ’’۲۳؍ اگست ۱۹۰۳ء کو بزبان انگریزی مَیں نے ڈوئی؎۱کے مقابل پر ایک اشتہار شائع کیا تھا اور خدا تعالیٰ سے الہام پاکر اس میں لکھا تھا کہ خواہ ڈوئی میرے ساتھ مباہلہ کرے یا نہ کرے وہ خدا کے عذاب سے نہیں بچے گا اور خدا جھوٹے اور سچے میں فیصلہ کرکے دکھلائے گا.‘‘ (تتمہ حقیقۃالوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۵۰۹ حاشیہ) ۲۴؍ اگست۱۹۰۳ء ’’۲۴؍اگست ۱۹۰۳ء کو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بلّی ہے گویا وہ میرے ایک کبوتر پر حملہ کرتی ہے.میں نے اس کی ناک کاٹ دی تب بھی وہ حملہ سے باز نہیں آئی تب میں نے گلے سے ۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) ’’یہ شخص امریکہ کا باشندہ تھا.اِسلام کا سخت دشمن اور عیسائیت کا پکا حامی تھا.اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور حضرت اقدس کے بار بار سمجھانے کے باوجود اس کے رویہ میں ذرا تغیر پیدا نہ ہوا بلکہ دن بدن تکبر، شوخی اور شرارت میں بڑھتا گیا.آخر حضرت اقدس اور اس کے درمیان مباہلہ ہوا جس کے مضمون کو یورپ و امریکہ کے متعدد اخباروں نے شائع کیا.(تفصیل کے لئے دیکھیے تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۰۶، ۵۰۷) پھر اس کا جو حشر ہوا اسے میں حضور ہی کے الفاظ میں بیان کرتا ہوں.’’اس (ڈوئی) کی زندگی کے ہر ایک پہلو پر آفت پڑی.اس کا خائن ہونا ثابت ہوا اور وہ شراب کو اپنی تعلیم میں حرام قرار دیتا تھا مگر اُس کا شراب خوار ہونا ثابت ہوگیا اور وہ اُس اپنے آباد کردہ شہر صیحون سے بڑی حسرت کے ساتھ نکالا گیا جس کو اُس نے کئی لاکھ روپیہ خرچ کرکے آباد کیا تھا اور نیز سات کروڑ نقد روپیہ سے جو اُس کے قبضہ میں تھا اس کو جواب دیا گیا اور اس کی بیوی اور اُس کا بیٹا اُس کے دشمن ہوگئے اور اُس کے باپ نے اشتہار دیا کہ وہ ولدالزنا ہے… آخر کار اُس پر فالج گِرا اور ایک تختہ کی طرح چند آدمی اُس کو اُٹھا کر لے جاتے رہے اور پھر بہت غموں کے باعث پاگل ہوگیا اور حواس بجا نہ رہے… آخر کار مارچ ۱۹۰۷ء کے پہلے ہفتہ میں ہی بڑی حسرت اور دَرد اور دُکھ کے ساتھ مر گیا.‘‘ (تتمہ حقیقۃالوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۵۱۲، ۵۱۳)
اس کو پکڑا اور زمین سے اس کو رگڑنا چاہا لیکن جب میں زمین سے اس کو لگانا چاہتا ہوں تو وہ زور کرکے اوپر کو آجاتی ہے مگر بہر حال اس کا گلا میرے ہاتھ میں ہے جب کسی طرح وہ زمین پر لگ سکے جیسا کہ میرا منشاء تھا تب میں نے کہا آؤ اس بلّی کو پھانسی دے دیں.اور پھر میں نے آئینہ خواب میں دیکھا اور رعب ناک اور چمکتا ہوا چہرہ نظر آیا.‘‘ (کاپی الہامات۱؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۵) یکم ستمبر۱۹۰۳ء ’’ فرمایا کہ آج خواب میں ایک فقرہ منہ سے یہ نکلا.فیر مین ‘‘؎۲ (البدر جلد۲ نمبر۲۴ مورخہ۱۱؍ستمبر ۱۹۰۳ء صفحہ۳۶۶) ۴ ؍ستمبر۱۹۰۳ء ’’دیکھا کہ دو فرشتے یا دو آدمی میرے پاس آتے ہیں ایک دہنے طرف ایک بائیں طرف اور دونوں کے پاس پستول ہیں اور میں لیٹا ہوا تھا.بعد اس کے الہام ہوا.فِیْ حِفَاظَۃِ اللّٰہِ.‘‘ ؎۳ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۶) ۵؍ستمبر۱۹۰۳ء ’’مَیں نے ایک کشفی نظر میں دیکھا کہ ایک درخت سرو کی ایک بڑی لمبی شاخ جو نہایت خوبصورت اور سرسبز تھی ہمارے باغ میں سے کاٹی گئی ہے اور وہ ایک شخص کے ہاتھ میں ہے تو کسی نے کہا کہ اِس شاخ کو اس زمین میں جو میرے مکان کے قریب ہے اس بیری؎۴ کے پاس لگا دو جو اس سے پہلے کاٹی گئی ۱ (نوٹ از ناشر) البدر مورخہ ۱۱؍ستمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۶۵ میں یہی رؤیا باختلاف الفاظ درج ہے.۲ (ترجمہ از مرتّب) اچھا آدمی (Fairman) ۳ (ترجمہ از مرتّب) اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں.(نوٹ از ناشر) البدر مورخہ ۱۸؍ستمبر۱۹۰۳ء صفحہ ۳۸۰ اور الحکم مورخہ ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵ میں یہ رؤیا باختلاف تاریخ و الفاظ درج ہے.۴ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری)حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے اِس کشف کو ۲دو شہید وں (صاحبزادہ سیّد عبداللطیف صاحب اور مولوی نعمت اللہ صاحب ) پر چسپاں فرماتے ہوئے فرمایا.’’ بیری جو پہلے کاٹی گئی تھی اس سے مراد سیّد عبداللطیف صاحب تھے.انہیں بیری قرار دے کر اس طرف اشارہ کیا گیا کہ وہ پھل دار یعنی صاحب ِ اولاد تھے اور سرو کی شاخ سے یہ مراد تھی کہ بیری کے بعد جو شاخ کاٹی جائے گی وہ پھلدار نہیں ہوگی چنانچہ مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی ابھی تک شادی بھی نہ ہوئی تھی کہ شہید کردیئے گئے.‘‘ (الفضل مورخہ ۱۱؍ دسمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۵)
تھی اور پھر دوبارہ اُگے گی اور ساتھ ہی مجھے یہ وحیِ الٰہی ہوئی کہ ’’کابل سے کاٹا گیا اور سیدھا ہماری طرف آیا‘‘ اس کی مَیں نے یہ تعبیر کی کہ تخم کی طرح شہید مرحوم کا خون زمین پر پڑا ہے اور وہ بہت بارور ہو کر ہماری جماعت کو بڑھاوے گا.‘‘ (تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۵۷) ۷ ؍ ستمبر۱؎۱۹۰۳ء ’’الہام.سَلَامٌ ؎۲عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ.یَـا حَفِیْظُ.یَـاعَـزِیْزُ.یَـا رَفِیْقُ.‘‘؎۳ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۶) ۱۰؍ ستمبر۱۹۰۳ء ’’خواب.مَیں نے دیکھا میرے ہاتھ میں ایک کتاب ہے کسی مخالف کی.مَیں اس کو پانی میں دھو رہا ہوں اور ایک شخص پانی ڈالتا ہے.جب مَیں نے نظر اُٹھا کر دیکھا تو وہ ساری کتاب دھوئی گئی ہے اور سفید کاغذ نکل کر آیا ہے صرف ٹائٹل پیج پر ایک نام یا اس کے مشابہ رہ گیا ہے.‘‘ ؎۴ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۷) ۲۱؍ ستمبر۱۹۰۳ء ’’رسول صلی اللہ علیہ وسلم پناہ گزیں ہوئے قلعۂ ہند میں.‘‘؎۵ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۷ و الحکم جلد ۷ نمبر ۴۶، ۴۷ مورخہ ۱۷و ۲۴؍دسمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵) ۱ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵ اورالبدر مورخہ ۱۸؍ستمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۸۰ میں ان الہامات کی تاریخ ۹؍ستمبر ۱۹۰۳ء مرقوم ہے.۲ (ترجمہ از مرتّب) تمہارے لئے سلامتی ہے خوش رہو.اے حفاظت کرنے والے.اے غالب.اے رفیق.۳ (نوٹ از البدر) فرمایا.’’ مجھے الہام ہوا.سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ.پھر چونکہ بیماری وبائی کا بھی خیال تھا.اس کا علاج خدا تعالیٰ نے یہ بتلایا کہ اس کے ان ناموں کا ورد کیا جاوے.یَـا حَفِیْظُ.یَـاعَـزِیْزُ.یَـا رَفِیْقُ.رفیق خدا تعالیٰ کا نیا نام ہے جو کہ اس سے پیشتر اسمائے باری تعالیٰ میں کبھی نہیں آیا.‘‘ (البدر مورخہ ۱۸؍ ستمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۸۰.الحکم مورخہ ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵ ) ۴ (نوٹ از ناشر) سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس خواب کو اپنے ان خطبات پر منطبق کیا جو آپ نے ان افتراءات کے ردّ میں ارشاد فرمائے تھے جو جنرل ضیاء الحق کے زمانہ میں حکومت نے اپنے ’’وائٹ پیپر‘‘ میں جماعت احمدیہ پر لگائے تھے.دیکھیے ’’ زَھَقَ الْبَاطِل‘‘ صفحہ ۵۸۱ تا ۵۸۳ طبع اوّل.۵ (نوٹ از ناشر) البدر مورخہ یکم جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۶ میں یہ الہام یوں درج ہے.’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پناہ گزیں ہوئے قلعۂ ہند میں.‘‘
۲۳؍ ستمبر۱۹۰۳ء ’’حضرت اقدس ؑ نے صبح کو اُٹھ کر ذیل کا رؤیا سنایا.مَیں نے ایک قلم لکھنے کے واسطے اُٹھائی ہے.دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اس کی زبان ٹوٹی ہوئی ہے.تو مَیں نے کہا کہ محمد افضل نے جو پَر (نِب) بھیجے ہیں اُن میں (سے) ایک لگادو.وہ پَر تلاش کئے جارہے ہیں کہ اس اثنائے میں میری آنکھ کُھل گئی… فرمایا کہ کوئی دنیا کا کاروبار چھوڑ کر ہمارے پاس بیٹھے تو ایک دریا پیشگوئیوں کا بہتا ہوا دیکھے جیسے کہ کل کی قلم والی پیشگوئی پوری ؎۱ہوئی ہے.‘‘ (البدر جلد۲ نمبر۳۷ مورخہ۲؍اکتوبر ۱۹۰۳ء صفحہ۳۹۰) ۲۳؍ ستمبر۱۹۰۳ء ’’خوش و خورم باش‘‘؎۲ (البدر جلد۲ نمبر۳۷ مورخہ۲ ؍اکتوبر ۱۹۰۳ء صفحہ۳۹۰) ۱۹۰۳ء ’’ ایک وحی میں خدا تعالیٰ نے مجھ کو مخاطب کرکے فرمایا تھا.یَـا اَحْـمَدُ جُعِلْتَ مُرْسَلًا اے احمد تُو مرسل بنایا گیا.یعنی جیسے کہ تُو بروزی رنگ میں احـمد کے نام کا مستحق ہوا حالانکہ تیرا نام غلام احـمدتھا.سو اسی طرح بروز کے رنگ میں نبی کے نام کا مستحق ہے کیونکہ احـمد نبی ہے نبوت اس سے مُنفک نہیں ہوسکتی.‘‘ (تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۴۵، ۴۶) ۱ (نوٹ از ایڈیٹر البدر) ’’ ۱۰بجے کے بعد مقدّمہ کرم دین صاحب بنام حضرت اقدس و حکیم فضل دین صاحب پیش ہوا.خوا جہ صاحب نے حکیم فضل دین صاحب کی طرف سے درخواست پیش کی کہ مولوی کرم دین صاحب نے جو استغاثہ کیا ہے وہ وہی امر ہے جس کی تحقیق کے لئے خود میری طرف سے کرم دین صاحب پر استغاثہ دائر ہوئے ہیں اِس لئے جب تک وہ مقدمات فیصل نہ ہوں اس وقت تک اس مقدّمہ کو ملتوی کیا جاوے.اس پر فریقین کے وکلاء کی بحث رہی اور عدالت نے دوسرے دن فیصلہ دینے کا حکم صادر فرمایا.شام کے وقت حضرت اقدس ؑ کو الہام ہوا.خوش و خورم باش.۲۴؍ کو مقدمہ شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم بنام مولوی کرم دین صاحب و ایڈیٹر سراج الاخبار جہلم تھا مگر چونکہ مستغیث کی شہادت موجود نہ تھی اِس لئے اس کی تاریخ ۲۱؍اکتوبر ۱۹۰۳ء پڑی.کل کی بحث پر چونکہ ابھی عدالت نے فیصلہ تحریر نہیں کیا تھا اِس لئے خواجہ صاحب نے کچھ اَور قانونی بحث کرنی چاہی جس کو سن کر عدالت نے ایک بجے کے بعد اسی دن یہ فیصلہ دیا کہ درخواست التواء ِ مقدمہ نامنظور ہے اور اِس طرح سے خدا کی وہ بات پوری ہوئی جو کہ اس نے ۲۲؍ کی رات کو اپنے فرستادہ کو دکھائی اور ۲۳؍ کی صبح کو اُس نے سنائی.‘‘ (البدر مورخہ۲ ؍اکتوبر ۱۹۰۳ء صفحہ۳۹۰) ۲ (ترجمہ از مرتّب) خوش و خرم ہو.(نوٹ از مرتّب) یہ الہام مقدّمہ کرم دین کے دوران میں ہوا.
۱۹۰۳ء ’’طاعون کے دنوں میں جبکہ قادیان میں طاعون زور پر تھا.میرا لڑکا شریف احمد بیمار ہوا اور ایک سخت تپ محرقہ کے رنگ میں چڑھا جس سے لڑکا بالکل بیہوش ہوگیا اور بیہوشی میں دونوں ہاتھ مارتا تھا.مجھے خیال آیا کہ اگرچہ انسان کو موت سے گریز نہیں مگر اگر لڑکا اِن دنوں میں جو طاعون کا زور ہے فوت ہوگیا تو تمام دشمن اس تپ کو طاعون ٹھیرائیں گے اور خدا تعالیٰ کی اُس پاک وحی کی تکذیب کریں گے کہ جو اُس نے فرمایا ہے اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ یعنی مَیں ہر ایک کو جو تیرے گھر کی چار دیوار کے اندر ہے طاعون سے بچاؤں گا.اِس خیال سے میرے دل پر وہ صدمہ وارد ہوا کہ مَیں بیان نہیں کرسکتا.قریباً رات کے بارہ بجے کا وقت تھا کہ جب لڑکے کی حالت اَبتر ہوگئی اور دل میں خوف پیدا ہوا کہ یہ معمولی تپ نہیں یہ اَور ہی بَلا ہے.تب مَیں کیا بیان کروں کہ میرے دل کی کیا حالت تھی کہ خدانخواستہ اگر لڑکا فوت ہوگیا تو ظالم طبع لوگوں کو حق پوشی کے لئے بہت کچھ سامان ہاتھ آجائے گا.اسی حالت میں مَیں نے وضو کیا اور نماز کے لئے کھڑا ہوگیا اور معاً کھڑا ہونے کے ساتھ ہی مجھے وہ حالت میسر آگئی جو استجابت ِ دعا کے لئے ایک کھلی کھلی نشانی ہے اور مَیں اُس خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ ابھی مَیں شاید تین رکعت پڑھ چکا تھا کہ میرے پر کشفی حالت طاری ہوگئی اور مَیں نے کشفی نظر سے دیکھا کہ لڑکا بالکل تندرست ہے.تب وہ کشفی حالت جاتی رہی اور مَیں نے دیکھا کہ لڑکا ہوش کے ساتھ چارپائی پر بیٹھا ہے اور پانی مانگتا ہے اور مَیں چار رکعت پوری کر چکا تھا.فی الفور اُس کو پانی دیا اور بدن پر ہاتھ لگا کر دیکھا کہ تپ کا نام و نشان نہیں اور ہذیان اور بیتا بی اور بیہوشی بالکل دُور ہوچکی تھی اور لڑکے کی حالت بالکل تندرستی کی تھی.مجھے اُس خدا کی قدرت کے نظارہ نے الٰہی طاقتوں اور دُعا قبول ہونے پر ایک تازہ ایمان بخشا.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۸۷، ۸۸ حاشیہ) ۱۹۰۳ء فرمایا.’’چند سا ل؎۱ہوئے ایک دفعہ ہم نے عالمِ کشف میں اسی لڑکے شریف احمد کے متعلق کہا تھا کہ اَب تُو ہماری جگہ بیٹھ اور ہم چلتے ہیں.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۱، ۲ مورخہ ۱۰ ؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۱ مورخہ ۱۰ جنوری ۱۹۰۷ صفحہ ۱) ۱ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) چونکہ سال کی تعیین نہیں ہوسکی اِس لئے پہلے کشف کی مناسبت سے اِسے یہاں درج کیا گیا.
۱۹۰۳ء ’’ ۱.اَتٰی اَمْرُ اللّٰہِ فَلَا تَسْتَعْــجِلُوْہُ.۲.بِشَارَۃٌ تَلَقَّاھَا النَّبِیُّونَ.۳.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّـحْسِنُوْنَ.۴.اِنَّہٗ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ.۵.وَ اِنَّہٗ غَالِبٌ عَلٰی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ.۶.اِنَّـمَا اَمْرُہٗ اِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ.۷.اَتَفِرُّوْنَ مِنِّیْ وَ اِنَّـا مِنَ الْمُجْرِمِیْنَ مُنْتَقِمُوْنَ.۸.یَقُوْلُوْنَ اِنْ ھٰذَا اِلَّا قَـوْلُ الْبَشَـرِ وَ اَعَانَہٗ عَلَیْہِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ.۹.جَاھِلٌ اَوْ مَـجْنُوْنٌ.۱۰.قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُـحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُـحْبِبْکُمُ اللّٰہُ.۱۱.اِنَّـا کَـفَیْنَاکَ الْمُسْتَـھْزِئِیْنَ.۱۲.اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ.۱۳.وَ اِنِّیْ مُعِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِعَانَتَکَ.۱۴.وَ اِنِّیْ لَا یَـخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَ.۱۵.اِذَا جَآءَ نَصْـرُاللّٰہِ وَ الْفَتْحُ وَ تَـمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ،ھٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْــجِلُوْنَ.۱۶.وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُ.وْا فِی الْاَرْضِ قَالُوْا اِنَّـمَا نَـحْنُ مُصْلِحُوْنَ.۱۷.اَلَا اِنَّـھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُ.وْنَ.۱۸.وَ اِنْ یَّـتَّخِذُ.وْنَکَ ترجمہ.۱.خدا کا اَمر آرہا ہے، پس تم جلدی مت کرو.۲.یہ خوشخبری ہے جو قدیم سے نبیوں کو ملتی رہی ہے.۳.خدا اُن کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں.یعنی اَدب اور حیا اور خوفِ الٰہی کی پابندی سے اُن ظنّی راہوں کو بھی چھوڑتے ہیں جن میں معصیت اور نافرمانی کا گمان ہوسکتا ہے اور دلیری سے کوئی قدم نہیں اُٹھاتے بلکہ ڈرتے ڈرتے کسی فعل یا قول کے بجالانے کا قصد کرتے ہیں اور خدا اُن کے ساتھ ہے جو اُس کے ساتھ اخلاص اور اُس کے بندوں سے نیکی بجالاتے ہیں.۴.وہ قوی اور غالب ہے.۵.وہ ہر ایک امر پر غالب ہے، مگر اکثر لوگ نہیں جانتے.۶.جب وہ ایک بات کو چاہتاہے تو کہتا ہے کہ ہو.پس وہ بات ہوجاتی ہے.۷.کیا تم مجھ سے بھاگ سکتے ہو اور ہم مجرموں سے انتقام لیں گے.۸.کہتے ہیں کہ یہ تو صرف انسان کا قول ہے اور ان باتوں میں دوسروں نے اس شخص کی مدد کی ہے.۹.یہ توجاہل ہے یا مجنون ہے.۱۰.ان کو کہہ دے کہ اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو آؤ میری پَیروی کرو تا خدا بھی تمہیں دوست رکھے.۱۱.اور جو لوگ تجھے ٹھٹھا کرتے ہیں ہم ان کے لئے کافی ہیں.۱۲.مَیں اُس شخص کی اہانت کروں گا جو تیری اہانت کے در پے ہے.۱۳.اور مَیں اُس شخص کی مدد کروں گا جو تیری مدد کرنا چاہتا ہے.۱۴.مَیں ہوں جو میرے پاس ہو کر میرے رسول ڈرا نہیں کرتے.۱۵.جب خدا کی مدد اور فتح آئے گی، اور تیرے رَبّ کا کلمہ پورا ہوجائے گا تو کہا جائے گا کہ یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی کرتے تھے.۱۶.اور جب اُن کو کہا جاتا ہے کہ زمین پر فساد مت کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرتے ہیں.۱۷.خبردار رہو کہ وہی مفسد ہیں اور تجھے انہوں نے ہنسی اور ٹھٹھے کی جگہ بنا رکھا ہے.۱۸.اور ٹھٹھا مار کر کہتے ہیں کہ
اِلَّا ھُزُوًا.اَھٰذَا الَّذِیْ بَعَثَ اللّٰہُ.بَلْ اٰتَیْنَاھُمْ بِالْـحَقِّ فَھُمْ لِلْـحَقِّ کَارِھُوْنَ.۱۹.وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ.۲۰.سُـبْحَانَہٗ وَ تَعَالٰی عَـمَّا یَصِفُوْنَ.۲۱.وَ یَقُوْلُوْنَ لَسْتَ مُرْسَلًا.۲۲.قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ تُـؤْمِنُوْنَ.۲۳.اَنْتَ وَجِیْہٌ فِیْ حَضْـرَتِیْ.اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ.۲۴.اِذَا غَضِبْتَ غَضِبْتُ.وَ کُلَّمَا اَحْبَبْتَ اَحْبَبْتُ.۲۵.یَـحْمَدُ.کَ اللّٰہُ مِنْ عَرْشِہٖ.۲۶.یَــحْمَدُ.کَ اللّٰہَ وَیَـمْشِیْٓ اِلَیْکَ.۲۷.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃٍ لَّا یَعْلَمُھَا الْـخَلْقُ.۲۸.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَتَفْرِیْدیْ.۲۹.اَنْتَ مِنْ مَّآءِنَا وَ ھُمْ مِّنْ فَشَلٍ.۳۰.اَلْـحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ.۳۱.وَ عَلَّمَکَ مَالَمْ تَعْلَمْ.۳۲.قَالُوْا اَنّٰی لَک ھٰذَا.۳۳.قُلْ ھُوَ اللّٰہُ عَـجِیْبٌ لَا رَآ دَّ لِفَضْلِہٖ.۳۴.لَا یُسْئَلُ عَـمَّا یَفْعَلُ وَ ھُمْ یُسْئَلُوْنَ.اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ.۳۵.خَلَقَ اٰدَمَ فَاَکْـرَمَہٗ.۳۶.اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَـخَلَقْتُ بقیہ ترجمہ.کیا یہ وہی شخص ہے کہ جو خدا نے مبعوث فرمایا.یہ تو اُن کی باتیں ہیں اور اصل بات یہ ہے کہ ہم نے اُن کے سامنے حق پیش کیا، پس وہ حق کے قبول کرنے سے کراہت کررہے ہیں.۱۹.اور جن لوگوں نے ظلم کیا ہے وہ عنقریب جان لیں گے کہ وہ کس طرف پھیرے جائیں گے.۲۰.خدا ان تہمتوں سے پاک اور برتر ہے جو اُس پر لگارہے ہیں.۲۱.اور کہتے ہیں کہ تُو خدا کی طرف سے بھیجا ہوا نہیں.۲۲.ان کو کہہ دے کہ خدا کی میرے پاس گواہی موجود ہے.پس کیا تم ایمان لاتے ہو.۲۳.تُو میری درگاہ میں وجیہ ہے.مَیں نے اپنے لئے تجھے چُن لیا.۲۴.جب تُو کِسی پر ناراض ہوتو مَیں اُس پر ناراض ہوتا ہوں اور ہر ایک چیز جس سے تُو پیار کرتا ہے مَیں بھی اُس سے پیار کرتا ہوں.۲۵.خدا اپنے عرش سے تیری تعریف کرتا ہے.۲۶.خدا تیری تعریف کرتا ہے اور تیری طرف چلا آتا ہے.۲۷.تُو مجھ سے اُس مرتبہ پر ہے جس کو دنیا نہیں جانتی.۲۸.تُو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید اور تفرید.۲۹.تُو ہمارے پانی سے ہے اور وہ لوگ فشل سے.۳۰.اُس خدا کو حمد ہے جس نے تجھے مسیح ابن ِ مریم بنایا ۳۱.اور تجھے وہ باتیں سکھلائیں جن کی تجھے خبر نہ تھی.۳۲.لوگوں نے کہا کہ یہ مرتبہ تجھے کہاں سے اور کیوں کر مل سکتا ہے.۳۳.ان کو کہہ دے کہ میرا خدا عجیب ہے.اُس کے فضل کو کوئی رَدّ نہیں کرسکتا.۳۴.جو کام وہ کرتا ہے اُس سے پوچھا نہیں جاتا کہ ایسا کیوں کیا مگر لوگ اپنے اپنے کاموں سے پوچھے جاتے ہیں.تیرا رَبّ جو چاہتا ہے کرتا ہے.۳۵.اُس نے اس آدم کو پیدا کرکے اس کو بزرگی دی.۳۶.مَیں نے اس زمانہ میں ارادہ کیا کہ اپنا ایک خلیفہ زمین پر قائم کروں، پس مَیں نے اس
اٰدَمَ.۳۷.وَ قَالُوْا اَتَـجْعَلُ فِیْـھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْـھَا، قَالَ اِنِّیْ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ.۳۸.یَقُوْلُوْنَ اِنْ ھٰذَا اِلَّا اخْتِلَاقٌ.۳۹.قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ.۴۰.وَ بِالْـحَقِّ اَنْـزَلْنَاہُ وَ بِالْـحَقِّ نَـزَلَ.۴۱.وَ مَا اَرْسَلْنَاکَ اِلَّا رَحْـمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ.۴۲.یَـا اَحْـمَدِیْٓ اَنْتَ مُرَادِیْ وَ مَعِیْ.۴۳.سِـرُّکَ سِـرِّیْ.۴۴.شَاْنُکَ عَـجِیْبٌ وَّ اَجْرُکَ قَرِیْبٌ.۴۵.اِنِّیْ اَنَـرْتُکَ وَاخْتَرْتُکَ.۴۶.یَـاْتِیْ عَلَیْکَ زَمَنٌ کَمِثْلِ زَمَنِ مُوْسٰی.۴۷.وَلَا تُـخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اِنَّـھُمْ مُّغْرَقُوْنَ.۴۸.وَ یَـمْکُرُوْنَ وَ یَـمْکُرُاللّٰہُ وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ.۴۹.اِنَّہٗ کَرِیْمٌ تَـمَشّٰی اَمَامَکَ وَ عَادٰی لَکَ مَنْ عَادٰی، وَ سَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی.۵۰.اِنَّـا نَـرِثُ الْاَرْضَ نَـاْکُلُھَا مِنْ اَطْرَافِھَا.لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا اُنْذِرَ اٰبَآ.ؤُھُمْ وَ لِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ.۵۱.قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ وَ اَنَـا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ.۵۲.قُلْ یُـوْحٰی اِلَیَّ اَنَّـمَا اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ.۵۳.وَالْـخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ.بقیہ ترجمہ.آدم کو پیدا کیا.۳۷.اور لوگوں نے کہا کہ کیا تُو ایسا شخص اپنا خلیفہ بناتا ہے جو زمین پر فساد کرتا ہے یعنی پھوٹ ڈالتا ہے.تو خدا نے اُنہیں کہا کہ جن باتوں کا مجھے علم ہے تمہیں وہ باتیں معلوم نہیں.۳۸.اور کہتے ہیں کہ یہ ایک بناوٹ ہے.کہہ خدا ہے جس نے یہ سلسلہ قائم کیا، ۳۹.پھر یہ کہہ کر اُن کو اپنے لہو ولعب میں چھوڑدے.۴۰.اور ہم نے حق کے ساتھ اس کو اُتارا اور ضرورتِ حقّہ کے موافق وہ اُترا.۴۱.اور ہم نے تجھے تمام دنیا کے لئے ایک عام رحمت کرکے بھیجا ہے.۴۲.اے میرے احمد ! تُو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے.۴۳.تیرا بھید میرا بھید ہے.۴۴.تیری شان عجیب ہے اور اجر قریب ہے.۴۵.مَیں نے تجھے روشن کیا اور مَیں نے تجھے چُنا.۴۶.تیرے پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جیسا کہ موسیٰ پر زمانہ آیا تھا.۴۷.اور تُو اُن لوگوں کے بارے میں میری جناب میں شفاعت مت کر جو ظالم ہیں کیونکہ وہ غرق کئے جائیں گے.۴۸.اور یہ لوگ مَکر کریں گے اور خدا بھی اُن سے مَکر کرے گا اور خدا تعالیٰ بہتر مَکر کرنے والا ہے.۴۹.وہ کریم ہے جو تیرے آگے آگے چلتا ہے اور اُس کو وہ اپنا دشمن قرار دیتا ہے جوتجھ سے دشمنی کرتا ہے اور وہ عنقریب تجھے وہ چیزیں دے گا جن سے تُو راضی ہوجائے گا.۵۰.ہم زمین کے وارث ہوں گے اور ہم اُس کو اُس کے طرفوں سے کھاتے جاتے ہیں تاکہ تُو اس قوم کو ڈراوے جن کے باپ دادے ڈرائے نہیں گئے اور تاکہ مجرموں کی راہ کُھل جائے.۵۱.کہہ مَیں مامور ہوں اور مَیں سب سے پہلے مومن ہوں.۵۲.کہہ میرے پر یہ وحی نازل ہوتی ہے کہ تمہارا خدا ایک خدا ہے.۵۳.اور تمام خیر قرآن میں ہے.
۵۴.لَا یَـمَسُّہٗ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ.۵۵.فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَہٗ تُـؤْمِنُوْنَ.۵۶.یُرِیْدُوْنَ اَنْ لَّا یَتِمَّ اَمْرُکَ، وَاللّٰہُ یَـاْبٰی اِلَّا اَنْ یُّتِمَّ اَمْرَکَ.۵۷.وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیَتْرُکَکَ حَتّٰی یَـمِیْزَ الْـخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ.۵۸.ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْـحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ.وَکَانَ وَعْدُاللّٰہِ مَفْعُوْلًا.۵۹.اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ اَتٰی.۶۰.وَ رَکَلَ وَ رَکٰی.۶۱.یَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنَ الْعِدَا، وَ یَسْطُوْ بِکُلِّ مَنْ سَطَا.حَلَّ غَضَبُہٗ عَلَی الْاَرْضِ.۶۲.ذَالِکَ بِـمَاعَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ.۶۳.اَلْاَمْرَاضُ تُشَاعُ وَالنُّفُوْسُ تُضَاعُ.۶۴.اَمْرٌ مِّنَ السَّمَآءِ.۶۵.اَمْرٌ مِّنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْاَکْـرَمِ.۶۶.اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّـرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ.۶۷.اِنَّہٗ اٰوَی الْقَرْیَۃَ.۶۸.لَا عَاصِـمَ الْیَوْمَ اِلَّا اللّٰہُ.۶۹.اِصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا.۷۰.اِنَّہٗ مَعَکَ وَمَعَ اَھْلِکَ.۷۱.اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ اِلَّا الَّذِیْنَ عَلَوْا مِنِ اسْتِکْبَارٍ.۷۲.وَ اُحَافِظُکَ خَآصَّۃً.بقیہ ترجمہ.۵۴.اس کے حقائق معارف تک وہی لوگ پہنچتے ہیں جو پاک کئے جاتے ہیں.۵۵.پس تم اُس کے بعد یعنی اس کو چھوڑ کر کس حدیث پر ایمان لاؤ گے.۵۶.یہ لوگ ارادہ کرتے ہیں کہ کچھ ایسی کوشش کریں کہ تیرا اَمر ناتمام رہ جائے لیکن خدا تو یہی چاہتا ہے کہ تیری بات کو کمال تک پہنچاوے.۵۷.اور خدا ایسا نہیں ہے کہ قبل اس کے جو پاک اور پلید میں فرق کرکے دکھلاوے.تجھے چھوڑ دے.۵۸.خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو (یعنی اِس عاجز کو )ہدایت اور دین ِ حق دے کر اِس غرض سے بھیجا ہے تا وہ اِس دین کو تمام دینوں پر غالب کرے اور خدا کا وعدہ ایک دن ہونا ہی تھا.۵۹.خدا کا وعدہ آگیا اور ایک پَیر اس نے زمین پر مارا اور خلل کی اصلاح کی.۶۰.خدا تجھے دشمنوں سے بچائے گا اور اُس شخص پر حملہ کرے گا کہ جو ظلم کی راہ سے تیرے پر حملہ کرے گا.۶۱.اُس کا غضب زمین پر اُتر آیا ۶۲.کیونکہ لوگوں نے معصیت پر کمر باندھی اور وہ حد سے گزر گئے.۶۳.بیماریاں مُلک میں پھیلائی جائیں گی اور طرح طرح کے اسباب سے جانیں تلف کی جائیں گی.۶۴.یہ امر آسمان پر قرار پاچکا ہے.۶۵.یہ اُس خدا کا امر ہے جو غالب اور بزرگ ہے.۶۶.جو کچھ قوم پر نازل ہوا خدا اُس کو نہیں بدلائے گا جب تک کہ وہ لوگ اپنے دلوں کی حالتیں نہ بدلالیں.۶۷.وہ اُس گاؤں کو جو قادیان ہے کسی قدر ابتلا کے بعد اپنی پناہ میں لے لے گا.۶۸.آج خدا کے سوا کوئی بچانے والا نہیں.۶۹.ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی سے کشتی بنا.۷۰.وہ قادر خدا تیرے ساتھ اور تیرے لوگوں کے ساتھ ہے.۷۱.مَیں ہر ایک کو جو تیرے گھر کے اندر ہے بچاؤں گا.مگر وہ لوگ جو میرے مقابل پر تکبر سے اپنے تئیں نافرمان اور اُونچا رکھتے ہیں.یعنی پورے طور پر اطاعت نہیں کرتے.۷۲.اور خاص کر میری حفاظت تیرے شاملِ حال رہے گی.
۷۳.سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبِّ رَّحِیْمٍ.۷۴.سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ ۷۵.وَامْتَازُوا الْیَوْمَ اَیُّـھَا الْمُجْرِمُوْنَ.۷۶.اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ وَاُفْطِرُ وَاَصُوْمُ.۷۷.وَ اَلُوْمُ مَنْ یَّلُوْمُ.۷۸.وَاُعْطِیْکَ مَا یَدُوْمُ.۷۹.وَاَجْعَلُ لَکَ اَنْـوَارَ الْقُدُوْمِ.۸۰.وَلَنْ اَبْـرَحَ الْاَرْضَ اِلَی الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ.۸۱.اِنِّیْ اَنَـا الصَّاعِقَۃُ وَاِنِّیْ اَنَـا الرَّحْـمٰنُ ذُو اللُّطْفِ وَ النَّدٰی.بقیہ ترجمہ.۷۳.خدائے رحیم کی طرف سے سلامتی ہے.۷۴.تم پر سلامتی ہے.تم پاک نفس ہو.۷۵.اور اے مجرمو! آج تم الگ ہوجاؤ.۷۶.مَیں اس رسول کے ساتھ کھڑا ہوں اور افطار کروں گا اور روزہ بھی رکھوں گا.۷۷.اور اُس کو ملامت کروں گا جو ملامت کرتا ہے.۷۸.اور تجھے وہ نعمت دوں گا جو ہمیشہ رہے گی.۷۹.اور اپنی تجلّی کے نور تجھ میں رکھ دوں گا.۸۰.اور مَیں اس زمین سے وقت ِ مقدّر تک علیحدہ نہیں ہوں گا.یعنی میری قہری تجلّی میں فرق نہ آئے گا.۸۱.مَیں صاعقہ ہوں اور مَیں رحمٰن ہوں صاحب ِ لُطف اور بخشش.‘‘ (تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۴ تا ۹) ۱۹۰۳ء ’’ اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا.وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلاوے گا اور حجّت اور بُرہان کے رُو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا ا س مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامراد رکھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی اور کوئی ان میں سے عیسیٰ بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا.یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اُترے گا.ہمارے سب مخالف جو اَب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے … اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور ان میں سے بھی کوئی آدمی عیسیٰ بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر اولاد کی اولاد مرے گی اور وہ بھی مریمؑ کے بیٹے کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گی.تب خدا اُن کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسیٰ اب تک آسمان سے نہ اُترا.تب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہوجائیں گے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسیٰ کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بد ظن ہوکر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دُنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک
ہی پیشوا.مَیں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.‘‘ (تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۶۶،۶۷) ۱۹۰۳ء ’’ اور یہ خیال مت کرو کہ آریہ یعنی ہندو دیا نندی والے کچھ چیز ہیں وہ صرف اس زنبور کی طرح ہیں جس میں بجز نیش زنی کے اور کچھ نہیں.وہ نہیں جانتے کہ توحید کیا چیز ہے اور روحانیت سے سراسر بے نصیب ہیں.عیب چینی کرنا اور خدا کے پاک رسولوں کو گالیاں دینا ان کا کام ہے اور بڑا کمال ان کا یہی ہے کہ شیطانی وساوس سے اعتراضات کے ذخیرے جمع کررہے ہیں اور تقویٰ اور طہارت کی روح ان میں نہیں.یاد رکھو کہ بغیر روحانیت کے کوئی مذہب چل نہیں سکتا اور مذہب بغیر روحانیت کے کچھ بھی چیز نہیں.جس مذہب میں روحانیت نہیں اور جس مذہب میں خدا کے ساتھ مکالمہ کا تعلق نہیں اور صدق و صفا کی روح نہیں اور آسمانی کشش اُس کے ساتھ نہیں اور فوق العادت تبدیلی کا نمونہ اس کے پاس نہیں وہ مذہب مردہ ہے.اس سے مت ڈرو.ابھی تم میں سے لاکھوں اور کروڑوں انسان زندہ ہوں گے کہ اس مذہب کو نابود ہوتے دیکھ لو گے.‘‘ (تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۶۷، ۶۸) ۱۹۰۳ء ’’ میرا ارادہ تھا کہ قبل اس کے جو ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۰۳ء کو بمقام گورداسپور ایک مقدّمہ پر جاؤں… یہ رسالہ تالیف کرلوں اور اس کو ساتھ لے جاؤں.تو ایسا اِتفاق ہوا کہ مجھے دردِ گُردہ سخت پیدا ہوا.مَیں نے خیال کیا کہ یہ کام ناتمام رہ گیا.صرف دو چار دن ہیں اگر مَیں اِسی طرح دردِ گردہ میں مبتلا رہا جو ایک مُہلک بیماری ہے تو یہ تالیف نہیں ہوسکے گا.تب خدا تعالیٰ نے مجھے دعا کی طرف توجہ دلائی.مَیں نے رات کے وقت میں جبکہ تین گھنٹے کے قریب بارہ بجے کے بعد رات گزر چکی تھی.اپنے گھر کے لوگوں سے کہا کہ اَب مَیں دُعا کرتا ہوں تم آمین کہو.سو مَیں نے اسی درد ناک حالت میں صاحبزادہ مولوی عبداللطیف کے تصورسے دعا کی کہ یا الٰہی اس مرحوم کے لئے مَیں اس کو لکھنا چاہتا تھا.تو ساتھ ہی مجھے غنودگی ہوئی اور الہام ہوا.سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ.یعنی سلامتی اور عافیت ہے، یہ خدائے رحیم کا کلام ہے.پس قسم ہے مجھے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ابھی صبح کے چھ نہیں بجے تھے کہ مَیں بالکل تندرست ہوگیا اور اسی روز نصف کے قریب کتاب کو لکھ لیا.فَالْـحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِک.‘‘ (تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۷۴،۷۵)
۱۳ ؍اکتوبر۱۹۰۳ء ’’سَـبَّحَکَ اللّٰہُ وَ رَافَاکَ.خدا ترا از عیوب منزّہ کرد و با تو موافقت کرد.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۸) (ترجمہ) خدا نے ہر ایک عیب سے تجھے پاک کیا اور تجھ سے موافقت کی.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۹) ۲۲؍ اکتوبر ۱۹۰۳ء ۱.یُسَبِّحُ۱؎ لِلہِ مَنْ فِی السَّمٰوَاتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ.مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّا بِاِذْنِہٖ.۲.وَاِنَّکَ اَنْتَ الْمُجَازُ.۲؎ ۳.اِنِّیْ مَلَکْتُ الشَّـرْقَ وَ الْغَـرْبَ.یہ الہام مذکورہ بالا نواب محمد علی صاحب کے پسر عبد الرحیم کے حق میں ہوا کہ پہلے مایوسی کی حالت ہوئی پھر شفاعت کی.خدا تعالیٰ نے چند یوم میں شفا بخشی… پھر بعد اس کے ۲۷؍اکتوبر ۱۹۰۳ء تک آثار صحت ۱ (ترجمہ از ناشر) ۱.آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتا ہے.کون ہے جو اس کے اذن کے بغیر اس کے حضور شفاعت کرے.۲.اور تجھے شفاعت کی اجازت دی جاتی ہے.۳.مَیں مشرق اور مغرب کا مالک ہوا.۲ ’’ہمارے مکرم خان صاحب محمد علی خان صاحب کا چھوٹا لڑکا عبدالرحیم سخت بیمار ہوگیا.چودہ روز ایک ہی تپ لازمِ حال (رہا) اور اس پر حواس میں فتور اور بیہوشی رہی آخر نوبت احتراق تک پہنچ گئی… حضرت خلیفۃ اللہ علیہ السلام کو ہر روز دعا کے لئے توجہ دلائی جاتی تھی اور وہ کرتے تھے.۲۵؍ اکتوبر کو حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں بڑی بے تابی سے عرض کی گئی کہ عبدالرحیم کی زندگی کے آثار اچھے نظر نہیں آتے.حضرت رؤف الرحیم تہجد میں اس کے لئے دعا کررہے تھے کہ اتنے میں خدا کی وحی سے آپ پر کھلا کہ تقدیر مبرم ہے اور ہلاکت مقدّر …فرمایا.جب خدا تعالیٰ کی یہ قہری وحی نازل ہوئی تو مجھ پر حد سے زیادہ حزن طاری ہوا.اُس وقت بے اختیار میرے منہ سے نکل گیا کہ یا الٰہی اگر یہ دعا کا موقع نہیں تو مَیں شفاعت کرتا ہوں.اس کا موقع تو ہے.اس پر معاً وحی نازل ہوئی.یُسَبِّحُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوَاتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ.مَنْ ذَ الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّا بِاِذْنِہٖ اس جلالی وحی سے میرا بدن کانپ گیا اور مجھ پر سخت خوف اور ہیبت وارد ہوئی کہ مَیں نے بلا اِذن شفاعت کی ہے ایک دو منٹ کے بعد پھر وحی ہوئی.اِنَّکَ اَنْتَ الْمُجَازُ یعنی تجھے اجازت ہے.اس کے بعد حالاً بعد حالٍ عبدالرحیم کی صحت ترقی کرنے لگی اور اَب ہر ایک جو دیکھتا اور پہچانتا تھا اسے دیکھ کر خدا تعالیٰ کے شکر سے بھر جاتا اور اعتراف کرتا ہے کہ لارَیب مُردہ زندہ ہوا ہے.‘‘ (مکتوب محررہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب ؓسیالکوٹی مطبوعہ البدر مورخہ ۲۹؍ اکتوبر، ۱۸؍ نومبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۲۱)
عبدالرحیم ظاہر ہوئے اور اگرچہ آج کی تاریخ سے ۲؍نومبر ۱۹۰۳ء تک بباعث شدّتِ احتراق بولنے پر قادر نہیں ہوا صرف ہاں ہوں کرتا ہے لیکن بیماری نے چھوڑ دیا.فَالْـحَمْدُ لِلہِ عَلٰی ذٰلِکَ.(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۸) ۲۵؍ اکتوبر۱۹۰۳ء ’’۱.اِنِّیْ اُنَوِّرُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ.۲.ظَفَرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَتْحٌ مُّبِیْنٌ.۳.ظَفَرٌ وَّفَتْحٌ مِّنَ اللّٰہِ.۴.فخر احمد.۵.اِنِّیْ نَذَ رْتُ لِلرَّحْـمٰنِ صَوْمًا.‘‘؎۱ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۸) ۱۹۰۳ء (قریبا ً) ’’عرصہ قریباً تین سال کا ہوا ہے کہ صبح کے وقت کشفی طور پر مجھے دکھایا گیا کہ مبارک احمد سخت مبہُوت اور بد حواس ہوکر میرے پاس دوڑا آیا ہے اور نہایت بے قرار ہے اور حواس اُڑے ہوئے ہیں اور کہتا ہے کہ ابّا پانی.یعنی مجھے پانی دو… اِس کے بعد اُسی وقت ہم باغ میں گئے.اور قریباً آٹھ بجے صبح کا وقت تھا اور مبارک احمد بھی ساتھ تھا اور مبارک احمد کئی دوسرے چھوٹے بچوں کے ساتھ باغ کے ایک گوشے میں کھیلتا تھا اور عمر قریباًچار برس کی تھی.اُس وقت مَیں ایک درخت کے نیچے کھڑا تھا.مَیں نے دیکھا کہ مبارک احمد زور سے میری طرف دوڑتا چلا آتا ہے اور سخت بدحواس ہورہا ہے.میرے سامنے آکر اتنا اُس کے منہ سے نکلا کہ ابّا پانی.بعد اس کے نیم بیہوش کی طرح ہوگیا اور وہاں سے کنواں قریباً پچاس قدم کے فاصلہ پر تھا.مَیں نے اُس کو گود میں اُٹھا لیا اور جہاں تک مجھ سے ہوسکا مَیں تیز قدم اُٹھا کر اور دَوڑ کر کنوئیں تک پہنچا اور اُس کے منہ میں پانی ڈالا.جب اُس کو ہوش آئی اور کچھ آرام آیا تو مَیں نے اُس سے اِس حادثہ کا سبب دریافت کیا تو اُس نے کہا کہ بعض بچوں کے کہنے سے مَیں نے بہت سا پِسا ہوا نمک پھانک لیا اور دماغ پر بخار چڑھ گئے اور سانس رُک گیا اور گلا گھونٹا گیا.پس اِس طرح پر خدا نے اُ س کو شفا دی اور کشفی پیشگوئی پوری کی.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۹۹، ۴۰۰) ۲۲؍ نومبر۱۹۰۳ء ’’یکم رمضان ۱۳۲۱ھ موافق ۲۲؍نومبر ۱۹۰۳ء خواب میں مَیں نے دیکھا کہ مَیں ایک قبر پر ہوں، صاحبِ قبر زندہ ہوگیا.مَیں اُس کو کہتا ہوں کہ تم آمین کرو مَیں دعا کرتا ہوں تب میںنے کئی دعائیں کیں اور سب کے آخر میں نے اُس کو کہا کہ دعا کرو کہ میری عمر پچانویں ۹۵ برس کی ہو تب اس نے آمین کرنے سے خاموشی اختیار کی اس پر میں نے بہت اصرار کیا اور اس کو پکڑ کر جھنجوڑا اور ہلایا بہت اصرار کے بعد اس نے ۱ (ترجمہ از مرتّب) ۱.مَیں روشن کروں گا ہر اس شخص کو جو اِس گھر میں ہے.۲.خدا کی طرف سے ظفر اور کھلی کھلی فتح.۳.خدا کی طرف سے ظفر اور فتح.۴.احمدؔ کا فخر.۵.مَیں نے خدائے رحمٰن کے لئے روزہ کی منت مانی.
آمین کہہ دیا.‘‘ (کاپی الہامات۱؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۹) ۲۲؍ نومبر۱۹۰۳ء ’’یکم رمضان ۱۳۲۱ھ مَا اَحْسَنَ شَانَکَ؎۲.سخت بیماری کے وقت دعا کی گئی تھی.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۹، ۲۰) ۲۳؍ نومبر۱۹۰۳ء ’’۲؍ رمضان میں مَیں نے دیکھا کہ سلطان احمد کی تائی مسماۃ حُرمت بی بی ایک مکان پر جو سِکھوں کے دھرم سالہ سے مشابہ ہے میرے پاس آئی اور لڑائی کا ارادہ رکھتی ہے اور کھڑی ہوکر میری طرف ایک سوٹا چلایا جو سیاہ رنگ کا تھا.مَیں نے اپنی سفید سوٹی سے اس کو روک دیا.بعد اس کے مَیں نے اس کو کہا کہ اگر مَیں نفسانی آدمی ہوں تو تم مجھے فنا کرسکتی ہو لیکن اگر مَیں نفسانی آدمی نہیں تو تم مجھے فنا نہیں کرسکتی.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۹) ۲۶؍ نومبر۱۹۰۳ء ۱.’’.میری فتح ہوئی میرا غلبہ ہوا.۲.۱..اِنِّیْ اُمِرْتُ لِلرَّحْـمٰنِ فَاْتُوْنِیْ اَجْـمَعِیْنَ.۲.اِنِّیْ اُمِّرْتُ مِنَ الرَّحْـمٰنِ فَاْتُوْنِیْ اَجْـمَعِیْنَ.۳.اِنِّیْ اُمِّرْتُ مِنَ الرَّحْـمٰنِ فَاْتُوْنِیْ اَجْـمَعِیْنَ.‘‘۳؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۹) ۱ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۱۷، ۲۴؍دسمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵ اور البدر مورخہ ۱۶؍دسمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۷۴ میں یہ رؤیا یوں درج ہے.’’مَیں ایک قبر پر بیٹھا ہوں.صاحب ِ قبر میرے سامنے بیٹھا ہے.میرے دل میں خیال آیا کہ آج بہت سی دعائیں امورِ ضروری کے متعلق مانگ لوں اور یہ شخص آمین کہتا جاوے.آخر مَیں نے دعائیں مانگنی شروع کیں جن میں سے بعض دعائیں یاد ہیں اور بعض بھول گئیں.ہر ایک دعا پر وہ شخص بڑی شرح صدر سے آمین کہتا تھا.ایک دعا یہ ہے کہ الٰہی ! میرے سلسلے کو ترقی ہو اور تیری نصرت اور تائید اس کے شاملِ حال ہو.اور بعض دعائیں اپنے دوستوں کے حق میں تھیں.اتنے میں خیال آیا کہ یہ دعا بھی مانگ لوں کہ میری عمر ۹۵سال ہوجاوے.مَیں نے دعا کی اُس نے آمین نہ کہی.مَیں نے وجہ پوچھی وہ خاموش ہورہا.پھر مَیں نے اُس سے سخت تکرار اور اصرار شروع کیا یہاں تک کہ اس سے ہاتھ پائی کرتا تھا.بہت عرصہ کے بعد اُس نے کہا اچھا دعا کرو مَیں آمین کہوں گا.چنانچہ مَیں نے دعا کی کہ الٰہی میری عمر ۹۵ برس کی ہوجاوے.اس نے آمین کہی.مَیں نے اس سے کہا کہ ہر ایک دعا پر تو شرح صَدر سے آمین کہتا تھا اِس دعا پر کیا ہوگیا.اُس نے ایک دفتر عُذروں کا بیان کیا کہ یہ وجہ تھی فلاں وجہ تھی جو میرے ذہن سے جاتا رہا مگر مفہوم بعض عُذروں کا یہ تھا کہ گویا وہ کہتا ہے کہ جب ہم کسی امر کی نسبت آمین کہتے ہیں تو ہماری ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے.‘‘ ۲ (ترجمہ از مرتّب) تیراحال کیسا اچھا ہے.۳ (ترجمہ از ناشر) ۱.مَیں خدائے رحمٰن کی طرف سے مامور ہوں پس تم سب میرے پاس آؤ.۲.مَیں خدائے رحمٰن کی طرف سے امیر بنایا گیا ہوں پس تم سب میرے پاس آؤ.۳.مَیں خدائے رحمٰن کی طرف سے امیر بنایا گیا ہوں پس تم سب میرے پاس آؤ.
۲۶؍ نومبر۱۹۰۳ء ’’ لَکَ الْفَتْحُ وَلَکَ الْغَلَبَۃُ.‘‘؎۱ (الاستفتاء ضمیمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۷۰۲) نومبر۱۹۰۳ء ’’۱.ہماری فتح۲؎، ہمارا غلبہ.۲.ظَفَرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَتْحٌ مُّبِیْنٌ.۳.ظَفَرٌ وَّفَتْحٌ مِّنَ اللّٰہِ.‘‘۳؎ (الحکم جلد ۷نمبر ۴۶، ۴۷ مورخہ ۱۷، ۲۴ دسمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵.البدر جلد ۳ نمبر ۱ مورخہ یکم جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۶) ۲؍ دسمبر۱۹۰۳ء روز چار شنبہ ’’ خواب میں مَیں نے دیکھا کہ گھر میں مَیں ایک جگہ بیٹھا ہوں یک دفعہ وہ چوبارہ جس میں اخی مولوی عبدالکریم صاحب رہتے ہیں گِرا اور تمام گِر کے نیچے آپڑا اور اس کے گرنے کا بہت صدمہ ہوا، اور بڑی آواز آئی.اسی وقت میرے خیال میں آیا کہ غلام قادر میرا بھائی چوبارہ میں تھا.شاید وہ دَب کر مرگیا.پھر دوبارہ دل میں ڈالا گیا کہ وہ اس چوبارہ میں نہیں تھا وہ بچ گیا ہے.یہ خواب ہے جو آج بارھویں روزہ کی رات میں بدھ کے دن کی رات کو مَیں نے دیکھی.مَیں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس کے بَداثر سے مجھے اور میرے تمام عیال اطفال اور میرے دوستوں کو بچاوے.آمین ثم آمین.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۰) ۴؍ دسمبر۱۹۰۳ء (الف) ’’ شب چار دسمبر۱۹۰۳ء مطابق ۱۴؍ رمضان المبارک.جب یہ توجہ کی گئی کہ حمل والدہ محمود نکالنا بہتر ہے یا نہیں تو اس وقت بوقت قریب اڑھائی بجے رات کے یہ الہام ہوا.۱ (ترجمہ از مرتّب) تیرے لئے فتح ہے اور تیرے لئے غلبہ.۲ ’’سعداللہ کی اِس پیشگوئی کے پُوراہونے کے متعلق ایک مجلس میں ذکر تھا… ایک… خادم نے عرض کیا کہ یہ امر شاید قبل از وقت ہو.اس پر حضرت اقدس نے بزور کہا کہ یہ پیشگوئی پوری ہوچکی ہے اورہمیں اس میں کوئی تامل نہیں ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری اِس بات کو جھوٹا نہیں کرے گا اور اس میں فتح ہماری ہے.اس پر حضرت کو الہام ہواجو الحکم میں ۳۰نومبر۱۹۰۶ء کو چھاپ دیا گیا.لَوْ اَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَاَبَرَّہٗ.اورابھی اِس الہام پر تھوڑاہی عرصہ گذرا تھا کہ ۴؍ جنوری کی شب کو لدھیانہ کے ایک تارنے خبردی کہ سعداللہ فوت ہوگیا.‘‘ (الحکم مورخہ ۱۰؍ جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۵) ۳ (ترجمہ از ناشر) ۲.خدا کی طرف سے ظفر اور کھلی کھلی فتح.۳.خدا کی طرف سے ظفر اور فتح.
۱.وَ اللّٰہُ۱؎ مُـخْرِجٌ مَّا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ.۲.بَلَآءٌ وَّ اَ نْوَارٌ.۳.اِنِّیْ اَنَـا الرَّحْـمٰنُ ثُمَّ اِنِّیْ اَنَـا الرَّحْـمٰنُ.۴.خوش باش کہ عاقبت نکو خواہد بود.خوش باش کہ عاقبت نکو خواہد بود.۵.بسترِ عیش.‘‘ (کاپی الہامات۲؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۰ ) (ب) الہام ’’ وَ اللّٰہُ مُـخْرِجٌ مَّا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ‘‘ کے بارہ میں فرمایا.’’آج ۲۵؍ جون ۱۹۰۴ء روز شنبہ کو یعنی اس رات کو جو جمعہ کا دن گزرنے کے بعد آتی ہے مطابق ۱۰؍ربیع الثانی ۱۳۲۲ھ اور دہم ہاڑ ۱۹۵۶ء میرے گھر میں لڑکی پیدا ہوئی اور اس کا نام امۃ الحفیظ رکھا گیا.یہ وہی لڑکی ہے جس کی نسبت الہام ہوا تھا.وَ اللّٰہُ مُـخْرِجٌ مَّا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۳۰) ۱۲ ؍دسمبر۱۹۰۳ء ’’ الہام.اِنِّیْ حِــمَی الرَّحْــمٰنِ.میں ہوں رحمٰن کی چراگاہ۳؎ وَ اللّٰہُ مُـخْرِجٌ مَّا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ.‘‘۴؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۱) ۱ (ترجمہ از مرتّب) ۱.اور اللہ تعالیٰ نکالنے والا ہے جو کچھ کہ تم چھپاتے ہو.۲.آزمائش اور انوار.۳.مَیں رحمٰن خدا ہوں.پھر(مَیں کہتا ہوں) مَیں رحمٰن خدا ہوں.۴.خوش ہو کہ انجام نیک ہوگا.خوش ہو کہ انجام نیک ہوگا.۲ (نوٹ از ناشر) البدر مورخہ یکم جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۶، الحکم مورخہ ۱۷، ۲۴؍دسمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵ میںالہام نمبر ۳ ’’اِنِّیْ اَنَـا الرَّحْـمٰنُ ثُمَّ اِنِّیْ اَنَـا الرَّحْـمٰنُ.‘‘ درج نہیں.۳ (نوٹ از ناشر) البدر مورخہ ۲۴ ؍دسمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۸۳ میں یہ الہام یوں درج ہے.’’ اِنِّیْ حِــمَی الرَّحْــمٰنِ (مَیں خدا کی باڑ ہوں).‘‘ فرمایا یہ خطاب میری طرف ہے.اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اعدا طرح طرح کے منصوبے کرتے ہوویں گے.ایک شعر بھی اِس مضمون کا ہے اے آنکہ سُوئے من بدو یدی بصد تبر از باغباں بترس کہ من شاخِ مثمرم۵؎ ۴ (ترجمہ از مرتّب) اور اللہ تعالیٰ نکالنے والا ہے جو کچھ کہ تم چھپاتے ہو.۵ (ترجمہ از ناشر) اے وہ جو میری طرف سینکڑوں کلہاڑے لے کر دوڑا ہے باغبان سے ڈر کیونکہ میں ایک پھل دار شاخ ہوں.
۱۷؍ دسمبر۱۹۰۳ء ’’رمضان شریف کی ۲۷؍شب کو جس پر لیلۃ القدر کا گمان کیا جاتاہے حضرت حجۃ اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بمقام گورداسپور اپنی جماعت کے موجود اور غیر موجود خدام کے لئے عام طور پر دعائیں کیں جو موجود تھے یا جن کے نام یاد آگئے ان کا نام لے کر اور کل جماعت کے لئے عام طور پر دعا کی جس پر الہام ہوا.فَبُشْـرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ.‘‘؎۱ (الحکم جلد۷ نمبر ۴۶، ۴۷ مورخہ ۱۷،۲۴ ؍دسمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵.البدر جلد ۳ نمبر ۱ مورخہ یکم جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۶ حاشیہ ) ۱۷؍ دسمبر۱۹۰۳ء خواب.’’ہمارے مکان کے متصل ایک بڑا چبوترہ ہے.ہم چاہتے ہیں کہ اِس جگہ ایک لمبا دالان مہمانوں کے واسطے بنایا جائے.پھر ہم نے دعا کی کہ بن جاوے.؎۲‘‘ (البدر جلد ۳ نمبر ۱ مورخہ یکم جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۶.الحکم جلد ۲ نمبر ۴۶، ۴۷ مورخہ ۱۷،۲۴ ؍دسمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵) ۱۷؍ دسمبر۱۹۰۳ء ’’ ۱.تَـرٰی نَصْـرًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ.۲.اَنْتَ مَعِیْ وَ اَنَـا مَعَکَ.۳.اُرِیْـحُکَ وَلَا اُجِیْحُکَ.۴.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ ھُمْ مُّـحْسِنُوْنَ.۵.غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِیْ اَدْنَی الْاَرْضِ وَ ھُمْ مِّنْ بَعْدِ غَلَبِـھِمْ سَیَغْلِبُوْنَ.۶.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّـقَوْا وَّ الَّذِیْنَ ھُمْ مُّـحْسِنُوْنَ.۷.اُرِیْـحُکَ وَ لَا اُجِیْحُکَ.۸.اَطَالَ اللّٰہُ بَقَآءَ کَ.۹.کَمَّلَ اللّٰہُ اِعْزَازَکَ.‘‘؎۳ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۱) ۱۸؍ دسمبر۱۹۰۳ء ’’ ۱.اِنِّیْ؎۴ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ ۲.اَقْصِدُکَ وَاَرُوْمُ.۳.وَ اُعْطِیْکَ مَا یَدُوْمُ ۱ (ترجمہ از مرتّب) پس مومنوں کے لئے خوشخبری ہے.۲ سو ایسا ہی ہوا.بجائے ایک دالان کے اس پلیٹ فارم پر قریباً سارا مہمان خانہ اور مدرسہ احمدیہ تعمیر ہوگیا.(مرتّب) ۳ (ترجمہ از مرتّب) ۱.تُو اللہ کی طرف سے نصرت دیکھے گا.۲.تُو میرے ساتھ ہے اور مَیں تیرے ساتھ ہوں.۳.مَیں تجھے راحت دوں گا اور تجھے نہ مٹاؤں گا.۴.یقیناً اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو متقی اور نیکو کار ہیں.۵.رومی قریب کی زمین میں مغلوب ہوگئے اور وہ مغلوب ہونے کے بعد جلد ہی غالب ہوجائیں گے.۶.یقیناً اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور وہ جو محسن ہیں.۷.مَیں تجھے راحت دوں گا اور تجھے نہیں مٹاؤں گا.۸.اللہ تعالیٰ تجھے لمبی عمر تک باقی رکھے.۹.اللہ تعالیٰ تیرا اعزاز مکمل فرمائے.۴ (ترجمہ از مرتّب) ۱.مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا.۲.مَیں تیری طرف توجہ اور ارادہ کروں گا.۳.اور تجھے وہ چیز
۴..ضرور کامیابی.۵.کُلُّکُمْ ذَاھِبٌ.۶.اَکْمَلَ اللّٰہُ کُلَّ مَقْصِدِیْ.۷.کُلُّ اَمْرِیْ کُمِّلَ.‘‘ (کاپی الہامات؎۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۱) ۱۹؍ دسمبر۱۹۰۳ء (الف) ’’ ۱.کَبُرَ عِنْدَ اللّٰہِ مَوْتُ ھٰذَا الرَّ۲؎جُلِ.۲.اولاد کے ساتھ ملائم سلوک کیا جائے گا.‘‘؎۳ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۱.البدر جلد ۳ نمبر ۱مورخہ یکم جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۶) بقیہ ترجمہ.دوں گا جو ہمیشہ رہے گی.۵.تم میں سے ہر ایک چل بسنے والا ہے.۶.اللہ تعالیٰ نے میرا تمام مقصد پورا کردیا.۷.میرا سارا کام مکمل ہوگیا.۱ (نوٹ از ناشر) البدر مورخہ یکم جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۶ میں یہ الہامات یوں درج ہیں.’’ کُلُّکُمْ ذَاھِبٌ.ضرور کامیابی.اَکْمَلَ اللّٰہُ کُلَّ مَقْصِدِیْ.کُلُّ اَمْرِیْ کُمِّلَ.اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ وَاَقْصِدُکَ وَاَرُوْمُ.اَنْتَ مَعِیْ وَ اَنَا مَعَکَ.اُرِیْـحُکَ وَلَا اُجِیْحُکَ.‘‘ اور الحکم مورخہ ۱۷، ۲۴؍دسمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵ میں الہامات ’’ضرور کامیابی‘‘ اور ’’اُرِیْـحُکَ وَ لَا اُجِیْحُکَ ‘‘ درج نہیں.۲ (ترجمہ از مرتّب) اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس شخص کی موت کا واقعہ بڑا بھاری ہے.۳ (نوٹ از سید عبد الحی) سیدنا حضرت مصلح موعود ؓ نے ۸ ؍ مارچ ۱۹۵۶ء کو اپنے بیٹے صاحبزادہ مرزا اظہر احمد صاحب کے نکاح کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا.’’خان محمد خان صاحبؓ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پرانے صحابی تھے اور آپ سلسلہ سے اتنی محبّت رکھتے تھے کہ جب وہ یکم جنوری ۱۹۰۴ء کو فوت ہوئے تو دوسرے دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں صبح کی نماز کے لئے تشریف لائے اور فرمایا آج مجھے الہام ہوا ہے کہ ’’ اہل بیت میں سے کسی شخص کی وفات ہوئی ہے.‘‘ حاضرین مجلس نے کہا کہ حضور کے اہل بیت تو خدا تعالیٰ کے فضل سے خیریت سے ہیں.پھر یہ الہا م کس شخص کے متعلق ہے.آپ نے فرمایا خان محمد خان صاحب کپورتھلوی کل فوت ہوگئے ہیں اور یہ الہام مجھے انہی کے متعلق ہوا ہے.گویا خدا تعالیٰ نے الہام میں انہیں اہل بیت میں سے قرار دیا ہے.پھر ان کے متعلق یہ الہام بھی ہوا کہ ’’ اولاد کے ساتھ نرم سلوک کیا جائے گا.‘‘ (الفضل ۲۳؍ نومبر ۱۹۶۰ء بحوالہ خطبات محمود جلد سوم صفحہ ۶۷۸) (نوٹ از حضرت عرفانی صاحبؓ) منشی محمد خان صاحبؓ افسربگی خانہ کپورتھلہ تھے.جب ان کی وفات ہوئی اِس جگہ کے لئے کپورتھلہ کے کئی شخص امیدوار تھے… اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بذریعہ وحی بتادیا تھا کہ
(ب) ۱.زلزلہ کا ایک دھکا.۲.اِنّ؎۱ اللّٰہَ لَا یَضُـرُّ.۳.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ ھُمْ مُّـحْسِنُوْنَ.۴.تَرٰی نَصْـرًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَ اِنَّـھُمْ یَعْمَھُوْنَ.‘‘ (کاپی الہامات۲؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۱) ۲ ؍جنوری۱۹۰۴ء ’’میری کھانسی کے لئے الہام.۱.اِنشاء اللہ خیرو عافیت.خوش باش کہ عاقبت نکو خواہد بود.؎۳ ۲.غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِیْ اَدْنَی الْاَرْضِ وَھُمْ مِّنْ بَعْدِ غَلَبِـھِمْ سَیَغْلِبُوْنَ.؎۴ ۳.اُس کوٹھہ نے دعا کی اور اِس کوٹھہ نے آمین کہی.فَضْلٌ یَسِیْرٌ.؎۵ ۴.ایک کتاب دیکھی جس نے اوّل سطر میں بہشت کا ذکر کیا ہے ا ور پھر نارنول کا.گویا جگہ اس کی نارنول ہے جو ایک شہر ہے.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۲) بقیہ حاشیہ.اولاد کے ساتھ نرم سلوک کیا جائے گا چنانچہ (حضرت منشی محمد خان صاحب ؓ کے فرزند ِ اکبر) منشی عبدالمجید خان صاحب افسربگی خانہ مقرر ہوئے اور بالآخر ترقی کرتے کرتے وہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ہوئے اور اسی عہدے سے پنشن پائی.(مکتوباتِ احمد جلد ۳ صفحہ ۶۷ مطبوعہ ۲۰۱۳ء) ۱ (ترجمہ از مرتّب) ۲.اللہ تعالیٰ ضرر نہیں پہنچائے گا.۳.اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کریں اور جو نیکو کار ہوں.۴.تُو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد دیکھے گا اور وہ بہکتے رہیں گے.۲ (نوٹ از ناشر) البدر مورخہ یکم جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۶ اور الحکم مورخہ ۱۷، ۲۴ ؍دسمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵ میں الہام نمبر۴ میں وَ اِنَّـھُمْ یَعْمَھُوْنَ کی بجائے وَ ھُمْ یَعْمَھُوْنَ کے الفاظ درج ہیں نیز درج بالا الہامات کے ساتھ ایک رؤیا باختلافِ الفاظ درج ہے جس کے البدر میں الفاظ یوں ہیں.’’ رؤیا میں دیکھا کہ کوئی کہتاہے زلزلہ کا ایک دھکا مگر میں نے کوئی زلزلہ محسوس نہیں کیانہ دیوار و مکان ہلتا دیکھا.‘‘ ۳ (ترجمہ از مرتّب) خوش ہو کہ انجام اچھا ہوگا.۴ (ترجمہ از مرتّب) ۲رومی قریب کی زمین میں مغلوب ہوگئے اور وہ مغلوب ہونے کے بعد جلد ہی غالب ہوجائیں گے.۵ (ترجمہ از مرتّب) آسان فضل.(نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۲ میں اس الہام کے ساتھ یہ رؤیا درج ہے.’’ ۱۳؍ جنوری کو حضرت اقدس ؑ نے فرمایا.چند روز ہوئے ہم نے دیکھا کہ اُس رُوڑی پر جو گلی کے سرے پر ہے ایک کوٹھا ہے.اُس کوٹھے نے دعا کی اور جس کوٹھے میں ہم رہتے ہیں اُس کوٹھے نے آمین کہی.دعا برکات وغیرہ کے لئے تھی.‘‘
۳ ؍جنوری۱۹۰۴ء ’’۱.اِنِّیْ سَاَ نْصُـرُکَ.۲.نصرت و فتح و ظفر تابست؎۱ سال.۳.اِنِّیْ اَجِدُ رِیْـحَ یُـوْسُفَ لَوْ لَا اَنْ تُفَنِّدُ وْنِ.‘‘؎۲ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۲) ۸؍ جنوری۱۹۰۴ء ’’۱.طَـوَّلَ اللّٰہُ عُـمُرَکَ.۲.اَطَالَ اللّٰہُ بَقَآءَکَ.۳.کَمَّلَ اللّٰہُ اِعْزَازَکَ.‘‘؎۳ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۲) ۱ (نوٹ از سید عبد الحی) یہ الہام ۴؍ جنوری اور ۲۷؍جنوری ۱۹۰۴ء کا ہے.۱۹۰۴ء میں بیس سال جمع کرنے سے… ۱۹۲۴ء بنتا ہے.مذکورہ الہام میں ۱۹۲۴ء کی طرف اشارہ ہے جب مسجد فضل لندن کا قیام عمل میں آیا تھا چنانچہ اب جو عظیم عالمی فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا ہے ان کا تعلق اسی مسجد سے ہے اور یہی سال طُلُوْعُ الشَّمْسِ مِنَ الْمَغْرِبِ کاآغاز اور عالمی فتح و ظفر کی ابتدا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اُس رؤیا کی تعبیر ہے جس کا ذکر کرتے ہوئے حضور تحریر فرماتے ہیں.’’ ایسا ہی طلوع شمس کا جو مغرب کی طرف سے ہوگا ہم اس پر بہرحال ایمان لاتے ہیں.لیکن اس عاجز پر جو ایک رؤیا میں ظاہر کیا گیا وہ یہ ہے جو مغرب کی طرف سے آفتاب کا چڑھنا یہ معنی رکھتا ہے کہ ممالک مغربی جو قدیم سے ظلمت کفرو ضلالت میں ہیں آفتابِ صداقت سے منور کئے جائیں گے اور ان کو اسلام سے حصّہ ملے گا اور میں نے دیکھا کہ میں شہر لنڈن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مدلل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کررہا ہوں.بعد اس کے مَیں نے بہت سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے رنگ سفید تھے اور شاید تیتر کے جسم کے موافق ان کا جسم ہوگا.سو میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ اگرچہ میں نہیں مگر میری تحریریں ان لوگوں میں پھیلیں گی اور بہت سے راست باز انگریز صداقت کے شکار ہوجائیں گے.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۳۷۶،۳۷۷) ۲ (ترجمہ از مرتّب) ۱.مَیں تجھے جلد ہی مدد دوں گا.۲.نصرت اور فتح اور ظفر بیس۲۰ سال تک.۳.مَیں یوسف کی خوشبو پاتا ہوں اگر تم مجھے بہکا ہوا نہ کہو.۳ (ترجمہ از مرتّب) ۱.اللہ تیری عمر دراز کرے.۲.اللہ تعالیٰ تجھے دیر تک باقی رکھے.۳.خدا تیرا اعزاز کامل کرے.
۹؍ جنوری۱۹۰۴ء ۱.’’ اِنِّیْ رَئَیْتُ فَــخِذَیْ شَاۃٍ مَـسْلُوْخَۃٍ طَـرِیَّـتَیْنِ.اَرَانِیْ اَحَدٌ وَ ھُمَا فِیْ یَدَیْہِ مَا اَعْلَمُ ذَ ھَبَ بِـھِمَا اَوْ بَقِیَ قَآئِـمًا.رَبِّ احْفَظْنِیْ وَ زَوْجِیْ وَ وُلْدِیْ وَاَحْبَابِیْ وَ اَوْلَادَ اَحْبَابِیْ مِنْ شَـرِّھٰذِ ہِ الرُّؤْیَـا.اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِ یْـرٌ.اٰمِیْن.؎۱ ۲.’’ لَا تَثَرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ فَاتُـوْنِیْ بِاَھْلِکُمْ اَجْـمَعِیْنَ.‘‘۲؎ ۳.’’.مَیں نے دیکھا کہ گویا مبارک کے بدن پر کچھ لرزہ ہے.مَیں اس کو گولی دینا چاہتا ہوں اور باہر قاضی ضیاء الدین کھڑا ہے مَیں چاہتا ہوں اس کو ایک روپیہ شیرینی لانے کے لئے دوں.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۲) ۱۳؍ جنوری۱۹۰۴ء ’’رؤیا.مولوی محمد علی صاحب نے مجھ سے کہا کہ آپ چلے جائیں.مَیں قادیان کو چلا گیا ہوں اور مَیں وضو کررہا ہوں اور فکر میں ہوں کہ ہم کیوں چلے آئے.مچلکہ دیا ہوا تھا خواجہ کمال الدین صاحب سے مشورہ کرلیتے.‘‘ (الحکم جلد ۸ نمبر ۲ مورخہ ۱۷؍ جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۲) ۱۴ ؍جنوری۱۹۰۴ء ۱.’’قریباً ۲دو بجے رات کے الہام ہوا.اَرَدْ تُّ اَنْ تَسْتَفْتِحَ.؎۳ ۲.’’رؤیا.فرمایا.ہم ایک جگہ جارہے ہیں.ایک ہاتھی دیکھا.اُس سے بھاگے اور ایک اَور کُوچہ میں چلے گئے.لوگ بھی بھاگے جاتے ہیں.مَیں نے پوچھا کہ ہاتھی کہاں ہے.لوگوں نے کہا کہ وہ کسی اَور کُوچہ میں چلا گیا ہے.ہمارے نزدیک نہیں آیا.پھر نظارہ بدل گیا.گویا گھر میں بیٹھے ہیں.قلم پر مَیں نے دو نوک لگائے ہیں جو ولایت سے آئے ہیں.پھر مَیں کہتا ہوں یہ بھی نامَرد ہی نکلا.اس کے بعد الہام ہوا.اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ ذُ و انْتِقَامٍ.‘‘؎۴ (الحکم جلد ۸ نمبر ۲ مورخہ ۱۷؍ جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۲) ۱ (ترجمہ از مرتّب).مَیں نے کھال اُتری بکری کی دو تازہ رانیں دیکھیں.کسی نے مجھے دکھائیں جو اس کے ہاتھ میں تھیں.مَیں نہیں جانتا کہ وہ ان کو لے گیا یا لئے کھڑا رہا.اے میرے رَبّ اس رؤیا کے شر سے میری حفاظت فرما اور میری بیوی کی اور میری اولاد کی اور میرے دوستوں اور دوستوں کی اولاد کی.یقیناً تُو ہر چیز پر قادر ہے.آمین ۲ (ترجمہ از مرتّب).آج تم پر کوئی ملامت نہیں.پس تم سب اپنے اہل سمیت میرے پاس آؤ.۳ (ترجمہ از مرتّب) مَیں چاہتا ہوں کہ آپ فتح کے لئے دعا کریں.۴ (ترجمہ از مرتّب) اللہ تعالیٰ یقیناً غالب ہے اور سزا دینے کی طاقت رکھتا ہے.
۲۷ جنوری۱۹۰۴ء ۱.’’ ۱.نصرت و فتح و ظفر تابست سال.۱؎ ۲.’’ رَأَیْتُ زَوْجَتِیْ مَـحْلُوْقَ الرَّأْسِ.مَا اَعْلَمُ تَعْبِیْرُہٗ اَللّٰھُمَّ اصْـرِفْ سُوْٓءَ ھٰذَا الرُّؤْیَا عَنِّیْ وَعَنْ زَوْجَتِیْ وَعَنْ وُلْدِیْ.اٰمِیْن.‘‘؎۲ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۳) ۸؍ فروری۱۹۰۴ء ’’ فرمایا کہ کھانسی کی شدت بہت ہوتی تھی اور بعض وقت حالت جان کندنی کی سی ہو جاتی تھی اور کوئی اُمید زندگی کی باقی نہ رہتی تھی کہ مجھے الہام ہوا.اِذَا جَآءَ نَصْـرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَ رَأَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِ یْنِ اللّٰہ اَفْوَاجًا.؎۳ اس کی تفہیم یہ ہوئی کہ موت کا جو خیال کرتے ہو وہ غلط ہے.یہ اُس وقت ہوگی جب خدا کی فتح اور نصرت ہوگی اور لوگ فوج دَر فوج اِس سلسلہ میں داخل ہوں گے.‘‘ (البدر۴؎ جلد ۳ نمبر ۸ مورخہ ۲۴؍ فروری ۱۹۰۴ء صفحہ ۲) ۱۵؍ فروری۱۹۰۴ء ’’رؤیا میں دیکھا کہ دو پیاز ہاتھ میں ہیں اور پھر آپ کو ایک کوٹھا پیازوں کا دکھایا گیا مگر اس کوٹھے کو کسی نے ایسی لات ماری کہ وہ اندر ہی اندر غرق ہوگیا اور ایک الہام ہوا.۱ (ترجمہ از ناشر) نصرت اور فتح اور ظفر بیس سال تک.۲ (ترجمہ از مرتّب) مَیں نے (رؤیا میں ) دیکھا کہ میری اہلیہ کا سر منڈھا ہوا ہے.مَیں اس کی تعبیر نہیں جانتا.اے اللہ ! اس رؤیا کے بد اثرات مجھ سے، میری اہلیہ سے اور میری اولاد سے دُور فرمادے.آمین.۳ (ترجمہ از مرتّب) جب اللہ تعالیٰ کی مدد اور فتح آئے گی اور لوگوں کو تم اللہ کے دین میں فوج دَر فوج داخل ہوتے دیکھو گے.۴ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۱۷؍ فروری ۱۹۰۴ء صفحہ ۶ میں اس الہام کی تفصیل یوں درج ہے.’’فرمایا کہ کھانسی جب شدت سے ہوتی ہے تو بعض وقت دم رکنے لگتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جان کندن کی سی حالت ہے چنانچہ اس شدت کھانسی میں مجھے اللہ تعالیٰ کی غناء ذاتی کا خیال گزرا اور میں سمجھتا تھا کہ اب گویا موت کا وقت قریب ہے اس وقت الہام ہوا.اِذَا جَآءَ نَصْـرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَ رَأَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِ یْنِ اللّٰہ اَفْوَاجًا.اس کے یہ معنی سمجھائے گئے کہ ایسا خیال اس وقت غلط ہے بلکہ اس وقت جب اِذَا جَآءَ نَصْـرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ کا نظارہ دیکھو اس وقت تو کوچ ضروری ہوجاتا ہے.‘‘
لَعَلِّیْ اٰتِیْکُمْ مِّنْـھَا بِقَبَسٍ اَوْ اَجِدُ عَلَی النَّارِ ھُدًی.‘‘؎۱ (البدر جلد ۳ نمبر۱۱ مورخہ ۱۶؍ مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۲.الحکم جلد۸ نمبر ۶ مورخہ ۱۷؍ فروری ۱۹۰۴ء صفحہ ۴) ۲۴؍ فروری۱۹۰۴ء ۱.’’ مَیں نے دیکھا کوئی کہتا ہے کہ فلاں شخص کی جگہ شیخ آیا.خیال گزرتا ہے کہ چندو لال کی جگہ آیا.وَاللہُ اَعْلَمُ.‘‘ ۲.’’ مَیں نے دیکھا کہ ایک سُرخ جوتا میرے سامنے رکھا گیا ہے اور ایک سنہری جوتا عمدہ کسی اَور کو بھیجا گیا ہے.خیال گزرتا ہے کہ وہ میری جماعت میں سے ہے.شاید خواجہ کمال الدین ہیں.ایسا ہی خیال گزرتا ہے.وَاللہُ اَعْلَمُ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۳) ۲۹؍ فروری۱۹۰۴ء ’’میدان میں فتح خدا تجھے دے گا.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۳.ضمیمہ البدر جلد ۳ نمبر ۱۱ مورخہ ۱۶؍ مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۰) یکم مارچ۱۹۰۴ء ’’تمہارا نام ہے علی باس‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۳) ۲ ؍مارچ۱۹۰۴ء ’’وقت صبح کے دیکھا کہ ایک کاغذ کا تھیلہ ہے جو روپیہ سے بھرا ہوا ہے وہ مجھ کو کسی نے دیا اور مَیں نے لے لیا اور رومال سفید میں اس کو باندھنے لگاہوں اور باندھتے وقت یہ دعا پڑھی.رَبِّ اجْعَلْ بَـرَکَۃً فِیْہِ۲؎ اور یہ کلمہ بطور الہام تھا اور غنودگی ہوگئی اور دیکھا کہ ایک ٹوکرا انگوروں کے ڈبوں کا بھرا ہوا آیا ہے.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۳) ۱۱؍ مارچ۱۹۰۴ء ’’ بُشْـرٰی لَکَ یَا غُلَا مَ اَحْـمَدَ‘‘؎۳ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۳) ۱ (ترجمہ از مرتّب) اُمید ہے کہ مَیں تمہارے پاس ا س میں سے کوئی انگارہ لے آؤں یا اس آگ کے پاس مجھے رہنمائی مل جائے.۲ (ترجمہ از ناشر) اے میرے ربّ اس میں برکت ڈال دے.۳ (ترجمہ از مرتّب) اے غلام احمد تجھے بشارت ہو.
۱۳؍ مارچ۱۹۰۴ء ’’ تیرہ۱۳ مارچ ۱۹۰۴ء کو مَیں نے دیکھا کہ گویا ہولیوں کے دن ہیں.بہت ہندو سیاہ کپڑے پہنے ہوئے ہولی میں مشغول ہیں.چند بڑی مسجد میں جہاں مَیں کھڑا ہوں آئے ہیں.پھر مَیں بازار کے اندر آیا ہوں اور غول کے غول ہندو سیاہ کپڑے پہنے ہوئے کھڑے ہیں.ایک گروہ کے پاس جو مَیں جاتا ہوں تو کہتا ہوں خبردار مَیں مسلمان ہوں.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۳) ۱۴؍مارچ ۱۹۰۴ء ’’ اِنَّ اللہَ مُعِیْنٌ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ.‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴۷) ۱۵ ؍مارچ۱۹۰۴ء ’’مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں نے اپنے مقدمہ میں دو معتبر آدمی حاکم کی طرف بھیجے ہیں اور پھر مَیں گیا ہوں اور جاکر پلنگ پر بیٹھ گیا ہوں اور اس وقت سلطان احمد میرے ساتھ ہے اور مَیں نے دیکھا کہ وہ دونوں فرستادہ میرے وہاں موجود ہیں اور ایک ہندو بیٹھا ہے جو مخالف ہے وہ دیکھتے ہی حاکم کو کہنے لگا کہ اَب مَیں جاتا ہوں.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۴) ۲۶؍ مارچ۱۹۰۴ء روز شنبہ ’’ مَیں نے عبدالرحمٰن خان خلف نواب محمد علی خان صاحب کے لئے دعا کی.صبح کے وقت بطور کشف مجھ پر ظاہر کیا گیا کہ رات کا وقت ہے اور کوئی کہتا ہے روشنی ہوگئی، روشنی ہوگئی.پھر کوئی کہتا ہے کہ آسمان پر روشنی ہے.جب مَیں نے آسمان پر نظر کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک یا دو لکیریں سُنہری رنگ کی آسمان پر شمالاً و جنوباًہیں پھر میری آنکھ کھل گئی.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۴ ۲) ۲۷؍ مارچ۱۹۰۴ء ۱.’’اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَ.بْتَرُ.‘‘؎۲ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۵ ۲.بدر جلد ۳ نمبر ۱۵ مورخہ ۱۶؍اپریل ۱۹۰۴ء صفحہ ۴) ۲.’’بادشاہِ وقت پر جو تِیر چلاوے.اُسی تِیر سے وہ آپ مارا جاوے.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۵ ۲.بدر جلد ۱ نمبر ۱۱ مورخہ۱۵؍جون ۱۹۰۵ء صفحہ ۲) ۳۱ ؍مارچ۱۹۰۴ء ’’خواب میں دیکھا کہ مَیں آگ کے پاس کھڑا ہوں اور دامن میرا آگ میں پڑگیا مگر آگ اس کو چھو بھی نہیں گئی.بعد اس کے الہام ہوا.خدا کا فضل خدا کی رحمت.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۵) ۱ (ترجمہ از ناشر) اللہ تعالیٰ ہر امر میں مددگار ہے.۲ (ترجمہ از ناشر) یقیناً تیرا دشمن ہی اَبتر رہے گا.
۲؍ اپریل۱۹۰۴ء ’’ عُلیا بیگم.پھر دیکھا کہ منشی جلال الدین آگئے.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۵) ۶؍ اپریل۱۹۰۴ء ’’مَیں نے دیکھا کہ ایک عورتوں میں سے عورت ہے.اس کے بھائی اور ایک بیٹا فوت ہوگیا ہے.کچھ خدا کی طرف سے تنبیہ ہے.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۵) ۱۲؍اپریل ۱۹۰۴ء ’’اے بسا خانہءِ دشمن کہ تو و یراں کردی‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۵) ۱۲؍ اپریل۱۹۰۴ء ’’۱.صحت اور تندرستی؎۱ ۲.اَجَرْتُ مِنَ النَّارِ.؎۲ ۳.اے بسا خانہءِ دشمن کہ تُو و یراں کردی ؎۳ ۴.جدھر دیکھتا ہوں اُدھر تُو ہی تُو ہے.‘‘؎۴ ( الحکم جلد۸ نمبر ۱۳ مورخہ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۴ء صفحہ ۱) ۱۶؍ اپریل۱۹۰۴ء ’’ فجر کے وقت فرمایا کہ ہم نے ایک خواب دیکھا ہے کہ ایک سڑک ہے جس پر کوئی کوئی درخت ہے اورایک مقام دارہ ( فقراء کے تکیہ وغیرہ) کی طرح ہے.مَیں وہاں پہنچا ہوں.مفتی محمد صادق میرے ساتھ تھے.دو چار اَور دوست بھی ہمراہ تھے لیکن اُن کے نام اور وہ حصّہ خواب کا بھول گیا ہوں.آخر سڑک کے کنارہ آیا تو ایک مکان دیکھا جو کہ میرا یہ (سکونتی) مقام معلوم ہوتا ہے لیکن چاروں طرف پھرتا ہوں، اُس کا دروازہ نہیں ملتا اور جہاں دروازہ تھا وہاں ایک پختہ عمارت کی دیوار معلوم ہوتی ہے.فـجّو (فضل النّساء) سفید کپڑے پہنے بیٹھی ہے اور اُس کے ساتھ فـجّاؔ (فضل) بھی ہے لیکن فجّے کی ایک اُنگلی پر خفیف سا زخم ہے جس سے وہ روتا ہے.فجّے نے آکر ایک ستون جیسی دیوار کو صرف ہاتھ ہی لگایا ہے کہ وہا ں ایک دروازہ بڑی پھاٹک کی طرح ایسے کھل گیا ہے جیسے ایک پینچ کے دبانے سے بعض کَل دار دروازے کھل جاتے ہیں.جب اُس دروازہ کے اندر داخل ہوا تو کسی نے کہا کہ یہ دروازہ فضل الرحمٰن نے کھول دیا ہے.‘‘ (البد۵؎ر جلد ۳ نمبر۱۶، ۱۷ مورخہ ۲۴؍ اپریل و یکم مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۶) ۱ الہام نمبر ۱ ’’صحت اور تندرستی‘‘ البدر مورخہ ۱۶؍اپریل ۱۹۰۴ء صفحہ ۴ میں نہیں ہے.(ناشر) ۲ (ترجمہ از مرتّب) ۲.مَیں نے آگ سے بچالیا.۳ (ترجمہ از ناشر ) دشمن کے کتنے ہی گھر ہیں جنہیں تو نے ویران کردیا ہے.۴ ’’یہ الہامات ۱۲ ؍اپریل کو ۱۰ بجے کے قریب جب آپ دعا کررہے تھے ہوئے طاعون کی کارروائی کے متعلق ہیں.‘‘ ( الحکم مورخہ ۲۴؍ اپریل ۱۹۰۴ء صفحہ ۱) ۵ (نوٹ از ناشر) کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۵ کی عبارت پورے طور پر پڑھی نہیں جاسکی اس وجہ سے البدر کے حوالہ سے اسے متن میں درج کردیا گیا ہے.
۱۷؍ اپریل۱۹۰۴ء ’’اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً.؎۱ کہنہ ۱.اَفَاتَّـخَذْ تُمْ عِنْدَ اللّٰہِ عَھْدًا فَلَنْ یُّـخْلِفَ اللّٰہُ مِیْعَادَہٗ.؎۲ ۲.مَاکَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَـمُوْتَ اِلَّابِـاِذْ نِ اللّٰہِ.؎۳ ۳.وَ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّـمَّا نَـزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِ نَـا فَاْتُوْا بِشِفَآءٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ.۴.یَـا وَلِیَّ اللہِ کُنْتُ لَا اَعْرِفُکَ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۶) (ترجمہ) ۳.یعنی اگر تمہیں اُس نشان میں شک ہو جو شفا دے کر ہم نے دکھلایا تو تم اس کی نظیر کوئی اَور شفا پیش کرو.(تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۰۹) (ترجمہ) ۴.یعنی اَے خدا کے ولی ! مَیں تجھ کو پہچانتی نہ تھی.(سراجِ منیر.روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۸۱) ۱۹؍ اپریل۱۹۰۴ء ’’ایک رؤیاکے بعد الہام ہوا.مَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا ؎۴ اِس الہام کو سناتے وقت حضور ؑ نے فرمایا کہ دیکھو اِس مسجد؎۵ پر بھی یہی الہام لکھا ہوا ہے جو پچیس برس کے قریب کا ہے.‘‘ (الحکم جلد ۸ نمبر ۱۳ مورخہ ۲۴؍ اپریل ۱۹۰۴ء صفحہ ۱) ۱۹؍اپریل ۱۹۰۴ء ۱.’’۱.فَسَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا.؎۶ ۲.زندگی کے فیشن سے دُور جاپڑے ہیں.۳.فَسَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا.۱ (ترجمہ از مرتّب) مَیں فوجوں کے ساتھ تیرے پاس اچانک آؤں گا.۲ (ترجمہ از مرتّب) ۱.کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لیا ہوا ہے جس پر وہ اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کرے گا.۳ (ترجمہ از مرتّب) ۲.کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے اِذن کے بغیر مر نہیں سکتا.۴ (ترجمہ از مرتّب) جو اس میں داخل ہوگا وہ خطرات سے محفوظ ہوجائے گا.۵ مسجد مبارک قادیان.(ناشر) ۶ (ترجمہ) ۱.پس پیس ڈال اُن کو خوب پیس ڈالنا.(الحکم مورخہ ۲۴؍ اپریل ۱۹۰۴ء صفحہ ۱) (نوٹ از ناشر) اس الہام کے متعلق الحکم میں تحریر ہے.’’فرمایا کہ مَیں اپنی جماعت کے لئے اور قادیان کے لئے دعا کررہا تھا تو یہ الہام ہوا.۱.زندگی کے فیشن سے دُور جاپڑے ہیں.۲.فَسَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا.‘‘ فرمایا.میرے دل میں آیا کہ اس پیس ڈالنے کو میری طرف کیوں منسوب کیا گیا ہے.اتنے میں میری نظر اس دعا پر پڑی
۲.’’در ایّامِ مقدمہ جہلم.رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُـرْنِیْ وَارْحَـمْنِیْ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۶) (ترجمہ) ’’اے میرے خدا ہر ایک چیز تیری خادم ہے.اے میرے خدا شریر کی شرارت سے مجھے نگہ رکھ.اور میری مدد کر اور مجھ پر رحم کر.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۱) ۱۹۰۴ء ’’رؤیا.ایک عورت قرآن پڑھ رہی تھی.اس سے اپنی جماعت کی نسبت تفاؤل کی نیت سے پوچھا کہ پہلی سطر پر اوّل کیا لفظ ہے تو اس نے کہا کہ غَفُوْرٌ الرَّحِیْمُ مَیں نے سمجھا کہ یہ جماعت کے لئےہے.‘‘ (البدر؎۱ جلد ۳ نمبر ۱۶، ۱۷مورخہ ۲۴؍ اپریل و یکم مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۶) ۲۱ ؍ اپریل۱۹۰۴ء ’’ اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ عَرْشِیْ.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃٍ لَّا یَعْلَمُھَا الْـخَلْقُ.‘‘ ؎۲ (کاپی الہامات۳؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۶) بقیہ حاشیہ.جو ایک سال ہوا بیت الدّ.عا پر لکھی ہوئی ہے اور وہ دعا یہ ہے یَـا رَبِّ فَاسْـمَعْ دُعَآئِیْ وَمَزِّقْ اَعْدَآءَکَ وَاَعْدَآئِیْ وَ اَنْـجِزْ وَعْدَ کَ وَ انْصُـرْعَبْدَ کَ وَ اَرِنَـا اَیَّـامَکَ وَ شَھِّرْلَنَا حُسَامَکَ وَ لَا تَذَ رْ مِنَ الْکَافِرِیْنَ شَـرِیْـرًا.؎۴ اِس دعا کو دیکھنے اور اس الہام کے ہونے سے معلوم ہوا کہ یہ میری دعا کی قبولیت کا وقت ہے.پھر فرمایا کہ ہمیشہ سے سنت اللہ اسی طرح پر چلی آتی ہے کہ اس کے ماموروں کی راہ میں جو لوگ روک ہوتے ہیں اُن کو ہٹادیا کرتا ہے.یہ خدا تعالیٰ کے بڑے فضل کے دن ہیں.ان کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایمان اور یقین بڑھتا ہے کہ وہ کس طرح ان اُمور کو ظاہر کررہا ہے.‘‘ (الحکم مورخہ ۲۴ ؍اپریل ۱۹۰۴ء صفحہ ۱) ۱ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۲۴؍ اپریل ۱۹۰۴ء صفحہ ۱ پر یہ رؤیا ان الفاظ میں درج ہے.’’ایک عورت قرآن پڑھنے لگی ہے میں نے اُس سے کہا کہ صفحہ کا پہلا لفظ کھول کر بتاؤ میں اس سے تفاؤل لینا چاہتا ہوں.اُس نے قرآن شریف کھولا تو صفحہ کے سر پر لکھا ہوا تھا غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ.فرمایا یہ بشارت ہے.‘‘ ۲ (ترجمہ از مرتّب) تُو میرے نزدیک بمنزلہ میرے عرش۵؎ کے ہے.تو میرے نزدیک وہ مقام رکھتا ہے جس سے تمام مخلوق ناواقف ہے.۳ (نوٹ از ناشر) البدر مورخہ ۲۴؍ اپریل و یکم مئی ۱۹۰۴ء صفحہ۸ اور الحکم مورخہ ۲۴؍ اپریل ۱۹۰۴ء صفحہ ۱ میں یہ الہامات باختلافِ ترتیب و تاریخ درج ہیں.۴ (ترجمہ از مرتّب) اے میرے ربّ! تو میری دعا سن اور اپنے دشمنوں اور میرے دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردے اور اپنا وعدہ پورا فرما اور اپنے بندے کی مدد فرما اور ہمیں اپنے دن دکھا اور ہمارے لئے اپنی تلوار سونت لے اور انکار کرنے والوں میں سے کسی شریر کو باقی نہ رکھ.۵ (نوٹ از البدر) ’’ عرش پر آپؑ نے فرمایا کہ یہ لفظ اِس لئے بیان کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی
۲۲ ؍اپریل۱۹۰۴ء ’’.اِنَّ اللّٰہَ حَافِظُ کُلِّ شَیْءٍ.اُذْکُرْ عَلَیْکَ نِعْمَتِیْ غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْـمَتِیْ وَ قُدْرَتِیْ ‘‘ ؎۱ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۸) ۲۸؍ اپریل۱۹۰۴ء (الف)’’۱.اِعْـمَلُوْا؎۲ مَا شِئْتُمْ.۲.اِنِّیْ غَـفَرْتُ لَکُمْ.۳.اِنْ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیْنَ.بقیہ حاشیہ.تجلّیات ِ جمالی و جلالی کا اتم مظہر عرش ہے اور مسیح موعود اتم مظہر صفات ِ جمالیہ کا ہے جو کہ اِس وقت ظاہر ہورہی ہیں اور اِس لئے کل انبیاء کے ناموں سے مجھے خطاب کیا گیا ہے تاکہ اُن کے کل صفات کا مظہرِ تام مَیں ہوجاؤں.خدا تعالیٰ کی صفات مُـحْیِی وَ مُـمِیْت برابر کام میں زور سے لگی ہوئی ہیں.ایک طرف تو لوگ زندہ ہورہے ہیں اور ایک طرف مَررہے ہیں.پس چونکہ ان ایام میں خدا کی صفات اپنی پوری تجلی سے کام کررہی ہیں اس مناسبت کے لحاظ سے عرش کہا گیا ہے.‘‘ (البدر مورخہ ۲۴؍ اپریل و یکم مئی ۱۹۰۴ء صفحہ۸) ۱ (ترجمہ از مرتّب) یقیناً اللہ ہر چیز کی حفاظت کرتا ہے.یاد کر میری نعمت کو جو تجھ پر کی.مَیں نے تیرے لئے اپنے ہاتھ سے اپنی رحمت اور اپنی قدرت کا درخت لگایا.(نوٹ از ناشر) البدر مورخہ ۲۴؍اپریل و یکم مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۸ اور الحکم پرچہ غیر معمولی مورخہ ۲۸؍اپریل ۱۹۰۴ء حاشیہ میں الہام ’’ اُذْکُرْ نِعْمَتِیْ.غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْـمَتِیْ وَ قُدْرَتِیْ‘‘ کو مورخہ ۲۸؍اپریل ۱۹۰۴ء کے تحت دیا ہے اور اُذْکُرْ کے بعد عَلَیْکَ کا لفظ نہیں.(نوٹ از مرتّب) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک انگوٹھی جو حضور ؑ کی وفات کے بعد قرعہ اندازی کے ذریعہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ کے حصّہ میں آئی تھی اس میں یہ عبارت کندہ ہے اُذْکُرْ نِعْمَتِیَ الَّتِیْ اَنْعَمْتُ عَلَیْکَ غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْـمَتِیْ وَ قُدْرَتِیْ اور تاریخ ۱۳۰۱ ہجری درج ہے.اس انگوٹھی کا عکس یہ ہے.ممکن ہے کہ یہ الہام نیا ہو یا ان ۲دو الہاموں کو جو کے صفحہ ۸۰ وصفحہ ۸۳ میں آچکے ہیں انگوٹھی میں کندہ کرادیا ہو.۲ (ترجمہ از مرتّب) ۱.کرو جو چاہو.۲.مَیں نے تمہیں گناہوں سے محفوظ کرلیا ہے.۳.انشاء اللہ تم محفوظ ہو.
۴.زَادَ اللّٰہُ عُـمُرَکَ.۵.اِعْـمَلُوْا مَا شِئْتُمْ.اِنِّیْ اَمَرْتُ لَکُمْ.اَیْ اَمَرْتُ الْمَلَآ.ئِکَۃَ لَکُمْ.‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۸) (ب) ’’ امن است درمکانِ محبّت سرائے ما اور ایک خواب میں معلوم ہوا کہ طاعون تو گئی مگر بخار رہ گیا.‘‘ (الحکم۲؎ پرچہغیر معمولی جلد ۸ نمبر ۱۳ مورخہ ۲۸؍ اپریل ۱۹۰۴ء) (ترجمہ) ہماری محبت کا گھر امن کا گھر ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۸) ۲۹؍ اپریل۱۹۰۴ء ’’۱.کوریہ خطرناک حالت میں ہے.مشرقی طاقت.؎۳ بقیہ ترجمہ.۴.اللہ تعالیٰ نے تیری عمر بڑھا دی..کرو جو تم چاہتے ہو.مَیں نے تمہارے لئے فرشتوں کو حکم دے دیا ہے.۱ (نوٹ از ناشر) البدر مورخہ ۲۴؍اپریل و یکم مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۸ اور الحکم پرچہ غیر معمولی مورخہ ۲۸؍اپریل ۱۹۰۴ء میں یہ الہامات ترتیب کے فرق سے دیئے گئے ہیں.نیز الہام اُذْکُرْ نِعْمَتِیْ.غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْـمَتِیْ وَقُدْرَتِیْ بھی درج ہے.۲ (نوٹ از ناشر) البدر مورخہ ۲۴؍ اپریل و یکم مئی ۱۹۰۴ء صفحہ۸ میں بھی یہ الہام درج ہے.۳ ایڈیٹر صاحب اخبار الحکم لکھتے ہیں.’’ جب جاپان اور روس کی لڑائی شروع ہوئی ہے اور ابھی کوئی میدان جاپان نے نہیں مارا تھا حضرت اقدسؑ کو ایک الہام ہوا تھا.’’ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت.‘‘ اِس الہام کو ہماری جماعت کا بہت بڑا حصّہ جانتا ہے خصوصاً وہ لوگ جو دارالامان میں رہتے ہیں.میری غفلت سے یہ اخبار میں پہلے شائع نہیں ہوسکا.اِس وقت میری غرض اِس الہام کے اندراج سے یہ ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ سلسلہ عالیہ کے ساتھ اس مشرقی طاقت کو کوئی مناسبت ہے.وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.‘‘ (الحکم مورخہ۱۰؍جولائی ۱۹۰۵ء صفحہ ۱۰) (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) روس اور جاپان کی جنگ سے پہلے کوریا پر روس کا اقتدار تھا.یہ جنگ ۲۷،۲۸؍مئی ۱۹۰۵ء کو ختم ہوئی اور معاہدہ صلح مرتّب کیا گیا.اس معاہدہ صلح میں سب سے پہلی شرط یہ تھی کہ کوریا میں جاپان کا پورا اقتدار رہے گا.گویا مشرقی طاقت (جاپان ) کے غلبہ اور کوریا کے مفتوح ہونے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی واضح رنگ میں پوری ہوگئی.نیز یہ بھی واضح رہے کہ پیشگوئیوں کے ظہو رتعدد و قوع میں مثانی کا حکم رکھتے ہیں اب جو اُفق ِ سیاست پر مشرقی طاقت کا نیا ستارہ طلوع ہورہا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ واقعاتِ آئندہ اس الہامی پیشگوئی کی ایک نئی تفسیر پیش کریں گے.اِنْ شَآءَ اللہُ تَعَالٰی.
۲.اِنَّنِیْ فِی الْکِتَابِ مَسْطُوْرٌ.۳.دُنیا بامید قائم.۴.فَتَحْنَا عَلَیْکَ اَبْوَابَ الدُّنْیَا.‘‘؎۱ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۸) ۳۰؍ اپریل۱۹۰۴ء ’’ اُعْطِیْتُمْ کُلَّ النَّعِیْمِ.تُـرْزَقُوْنَ مِنْ فَوْقِکُمْ وَ مِنْ تَـحْتِ اَرْجُلِکُمْ‘‘؎۲ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۸) ۹ ؍مئی۱۹۰۴ء (الف) فرمایا.رؤیامیں ’’ کسی نے بیروں کا ایک ڈھیر چارپائی پر لاکر رکھ دیا ہے.‘‘ (البدر جلد ۳ نمبر ۱۸، ۱۹مورخہ ۸و ۱۶؍ مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۰.الحکم جلد ۸ نمبر ۱۶ مورخہ ۱۷ ؍مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۵) (ب) ’’ فرمایا.رؤیامیں ایک جنت دکھائی گئی.پھر الہام ہوا.۱.مَثَلُ الْـجَنَّۃِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ.۲.لِیَزْ؎۳دَادُوْا حُسْنًا مَّعَ حُسْنِکَ.‘‘؎۴ (الحکم جلد ۸ نمبر ۱۶ مورخہ ۱۷ ؍مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۵) ۱۰؍ مئی۱۹۰۴ء ’’ دُختِ کرام‘‘ ؎۵ (الحکم جلد ۸ نمبر ۱۶ مورخہ ۱۷ ؍مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۵.البدر جلد ۳ نمبر ۱۸، ۱۹مورخہ ۸، ۱۶؍ مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۰ ) ۱ (ترجمہ از مرتّب) ۲.مَیں کتاب میں لکھا ہوا ہوں.یعنی میرا کتاب میں ذکر ہے.۳.دُنیا اُمید پر قائم ہے.۴.ہم نے تجھ پر دُنیا کے دروازے کھول دیئے.۲ (ترجمہ از مرتّب) تمہیں ہر قِسم کی نعمتیں دی گئیں.تمہیں اُوپر سے بھی رِزق ملے گا اور تمہارے پاؤں کے نیچے سے بھی.۳ البدر میں لِیَزْدَادُ وْا کی بجائے لفظ سَیَزْدَادُ وْا لکھا ہے.(البدر مورخہ ۸، ۱۶؍ مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۰ حاشیہ) (شمس) ۴ (ترجمہ از مرتّب) ۱.اس جنت کی مثال جس کا پرہیزگاروں کو وعدہ دیا گیا ہے.۲.تیرے حسن کے ساتھ انہیں بھی حسن میں بڑھنا چاہیے.۵ (ترجمہ از مرتّب) کریم آباء کی لڑکی.(نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) الہام دُخت ِ کرام کی مصداق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صاحبزادی امۃ الحفیظ بیگم صا حبہ ہیں جو ۲۵ ؍ جون ۱۹۰۴ء کو پیدا ہوئیں اور نواب محمد عبداللہ خان صاحب کے عقد میں آئیں.
۱۵ ؍مئی۱۹۰۴ء ’’۱.اَنْتَ مَعِیْ وَ اَنَـا مَعَکَ.۲.اِنِّیْ مَعَکَ یَـا اِمَامُ رَفِیْعَ الْقَدْرِ.۳.رَبِّ اجْزِہُ جَزَآءً اَوْفٰی.۴.شوخ و شنگ لڑکا پیدا ہوگا.۵.اِنَّہٗ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ.‘‘؎۱ ( الحکم جلد ۸ نمبر ۱۶ مورخہ ۱۷ ؍مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۵.البدر جلد ۳ نمبر ۱۸، ۱۹مورخہ ۸، ۱۶؍ مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۰ ) ۱۶؍ مئی۱۹۰۴ء ’’ ۱.اِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ.۲.کَمِثْلِکَ دُ رٌّ لَّا یُضَاعُ.‘‘ (الحکم جلد ۸ نمبر ۱۶ مورخہ ۱۷ ؍مئی ۱۹۰۴ءصفحہ ۵.البدر جلد ۳ نمبر ۱۸، ۱۹مورخہ ۸، ۱۶؍ مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۰) (ترجمہ) ۱.مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۹) (ترجمہ) ۲.تیرے جیسا موتی ضائع نہیں کیا جاتا.(اربعین نمبر ۳.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ۴۲۲) مئی۱۹۰۴ء (الف) ’’ اَ لَـنَّا لَکَ الْـحَدِ یْدَ.معنی دیگر نہ پسندیم ما.‘‘۲؎ (الحکم جلد ۸ نمبر۱۷ مورخہ۲۴ ؍مئی ۱۹۰۴ءصفحہ۲.البدر جلد ۳ نمبر۲۹مورخہ یکم اگست ۱۹۰۴ء صفحہ۴) (ب) ’’مولوی کرم دین کے مقدّمہ میں جو گورداسپور میں دائر تھا کرم دین مذکور اِس بات پرزور دیتا تھا کہ لَئِیم کے لفظ کے معنے ولدالزنا ہیں اور کذاب کے یہ معنی ہیں جو ہمیشہ جھوٹ بولتا ہو.یہی معنے پہلی عدالت نے قبول کئے.ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے الہام ہوا.معنی ٔ دیگر نہ پسند یم ما.جس سے یہ تفہیم ہوئی کہ دوسری عدالت میں یہ معنے قائم نہیں رہیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا، اور اپیل کی عدالت میں صاحب ڈویزنل جج نے ان تمام عذرات کو رَدّ کردیا اور یہ لکھا کہ کذّاب اور لئیم کے الفاظ کرم دین کے مناسب ِ حال ہیں بلکہ وہ اس سے بڑھ کر الفاظ کا بھی مستحق ہے.سو صاحب ڈویزنل جج نے وہ پُر تکلف معنے کرم دین کے پسند نہ کئے جو پہلی عدالت میں پسند کئے گئے تھے.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۹۴) مئی۱۹۰۴ء ’’۱.کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَـا وَ رُسُلِیْ.۲.لَا تُقْبَلُ مِنْـھُمْ شَھَادَۃٌ.؎۳ ۳.حسنِ بیان.‘‘ (الحکم جلد ۸ نمبر۱۷ مورخہ۲۴؍ مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۲) ۱ (ترجمہ از مرتّب) ۱.تُو میرے ساتھ ہے اور مَیں تیرے ساتھ ہوں.۲.اے عالی قدر امام مَیں تیرے ساتھ ہوں.۳.اے میرے رَبّ اسے پوری پوری جزا دے.۴.چُست اور ہوشیار لڑکا پیدا ہوگا.۵.یقیناً خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے.۲ (ترجمہ از مرتّب) ہم نے تمہارے لئے لوہا نرم کردیا.کسی اَور معنی کو ہم پسند نہیں کرتے.۳ (ترجمہ از مرتّب) ۱.خدا نے لکھ چھوڑا ہے کہ مَیں اور میرے رسول غالب رہیں گے.۲.ان لوگوں کی کوئی شہادت قبول نہیں کی جائے گی.
مئی۱۹۰۴ء ’’ سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْ بِـھِمُ الـرُّعْبَ.‘‘؎۱ (البدر جلد ۳ نمبر۲۹مورخہ یکم اگست ۱۹۰۴ء صفحہ ۴.الحکم جلد ۸ نمبر۱۷ مورخہ۲۴؍ مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۲) ۱۹۰۴ء ’’مجھے بارہا خدا تعالیٰ مخاطب کرکے فرما چکا ہے کہ جب تُو دعا کرے تو مَیں تیری سنوں گا.‘‘ ( الحکم جلد ۸ نمبر۱۷ مورخہ ۲۴ مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۴) ۳۱؍ مئی۱۹۰۴ء ’’اِنَّـا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا.‘‘ (الحکم جلد ۸ نمبر۱۸ مورخہ۳۱ ؍مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۹.البدر جلد ۳ نمبر۲۰، ۲۱مورخہ ۲۴ ؍مئی و یکم جون ۱۹۰۴ء صفحہ۱۵) (ترجمہ) ہم ایک کھلی کھلی فتح تجھ کو عطا کریں گے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۷۷) یکم جون۱۹۰۴ء ’’ ۱.اِنِّیْ اَنَـا الرَّحْـمٰنُ سَاَجْعَلُ لَکَ سُھُـوْلَۃً فِیْ اَمْرِکَ.۲.اِنِّیْ اَنَـا التَّوَّابُ مَنْجَآءَکَ جَآءَنِیْ.۳.وَلَقَدْ نَصَـرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْ رٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّۃٌ.۴.سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ.۵.عَفَتِ الدِّ.یَـارُ مَـحَلُّھَا وَ مُقَا مُھَا.‘‘؎۲ ( الحکم جلد ۸ نمبر۱۸ مورخہ۳۱؍ مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۹.البدر جلد ۳ نمبر۲۰، ۲۱مورخہ ۲۴ ؍مئی و یکم جون ۱۹۰۴ء صفحہ۱۵) یکم جون ۱۹۰۴ء (الف) ’’ ساتھ اس؎۳کے یہ بھی الہام تھا کہ زلزلہ کا دھکا.‘‘؎۴ (اشتہار ۱۸ ؍اپریل ۱۹۰۵ء.مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۳۵۸ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۱ (ترجمہ از مرتّب) ہم ان کے دلوں پر رُعب طاری کردیں گے.(نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یہ الہام گورداسپور سے واپس آتے وقت راستہ میں ہوا تھا جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام مقدمہ کرم دین کے تعلق میں تشریف لے گئے تھے.(دیکھیے الحکم مورخہ ۲۴ ؍مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۲) ۲ (ترجمہ از مرتّب) ۱.مَیں ہی رحمٰن ہوں.مَیں تیرے لئے تیرے کام میں سہولت پیدا کروں گا.۲.مَیں ہی ہوں توبہ قبول کرنے والا.جو تیرے پاس آیا وہ میرے پاس آیا.۳.اللہ تعالیٰ نے تم کو بدر میں مدد دی اس حالت میں کہ تم بہت کمزور تھے.۴.تمہارے لئے سلامتی ہے تم خوش رہو.۵.عارضی رہائش کے مکانات بھی مِٹ جائیں گے اور مستقل رہائش کے بھی.۳ یعنی الہام عَفَتِ الدِّیَارُ مَـحَلُّھَا وَ مُقَا مُھَا.(عبد اللطیف بہاولپوری) ۴ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) خاکسار مرتّب عرض کرتا ہے کہ اِس الہامِ الٰہی کے مطابق ۴ ؍ اپریل ۱۹۰۵ء کو شمالی ہندوستان میں ایک نہایت خطرناک زلزلہ آیا جس کا مرکز دھرم سالہ ضلع کانگڑ ہ تھا.اس زلزلہ سے ہزاروں مکانات اور جانیں تلف ہوئیں.
(ب) ’’ خدا نے مجھے خبردی کہ ایک زلزلہ کا دھکّا ظاہرہوگا جس سے جانوں اورعمارتوں کا نقصان ہوگا… چنانچہ ۴؍ اپریل ۱۹۰۵ء کو وہ زلزلہ آیا.‘‘ (اشتہار۲۹ ؍اپریل ۱۹۰۶ء مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۳۸۶ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۱۹۰۴ء ’’۱.اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنَـا مِنْکَ.۲.عَسٰی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ.‘‘ (الحکم جلد ۸ نمبر۱۸ مورخہ۳۱؍ مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۸.البدر جلد ۳ نمبر۲۰،۲۱مورخہ ۲۴ ؍مئی و یکم جون ۱۹۰۴ء صفحہ۱۵) (ترجمہ) ۱.تو مجھ میں سے ہے اور میں تجھ میں سے ہوں.(دافع البلاء.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۲۸) ۲.بہت ایسی باتیں ہیں کہ تم نہیں چاہتے اور وہ تمہارے لئے اچھی ہیں.(اربعین نمبر ۳.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ۴۱۸) ۱۹۰۴ء رؤیا.’’عطر کی شیشی ہاتھ میں ہے.ہاتھوں پر اور پگڑی پر عطر مَل رہے ہیں.‘‘ ( الحکم جلد ۸ نمبر۱۸؍ مورخہ۳۱؍ مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۹.البدر جلد ۳ نمبر ۲۰، ۲۱مورخہ ۲۴ ؍مئی و یکم جون ۱۹۰۴ء صفحہ۱۵) ۸ ؍جون۱۹۰۴ء ’’(ایک الہام کا خلاصہ) خدا تیرا دوست ہے.اسی کے صلاح و مشورہ پر چل.دوبارہ الہام ہوا.’’عَفَتِ الدِّ یَـارُ مَـحَلُّھَا وَ مُقَامُھَا.اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ.اَعْطَیْتُکَ کُلَّ النَّعِیْمِ.‘‘؎۱ ( الحکم جلد ۸ نمبر۱۹، ۲۰مورخہ ۱۰، ۱۷؍ جون ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۰) ۱۲؍ جون۱۹۰۴ء ’’کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَـا وَ رُسُلِیْ.کَمِثْلِکَ دُرٌّ لَّایُضَاعُ.لَا یَـاْتِیْ عَلَیْکَ یَـوْمُ الْـخُسْـرَانِ.‘‘؎۲ (الاستفتاء.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۷۰۲) ۱۲ ؍ جون ۱۹۰۴ء ’’اَعْطَیْتُکُمْ کُلَّ النَّعِیْمِ.اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّ رِزْقٌ کَرِیْمٌ.‘‘؎۳ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۸) ۱ (ترجمہ از مرتّب) عارضی رہائش کے بھی مکانات مِٹ جائیں گے اور مستقل رہاش کے بھی.مَیں تمام اُن لوگوں کی جو اِس گھر میں رہتے ہیں حفاظت کروں گا.مَیں نے تجھے سارے انعامات عطا کئے ہیں.۲ (ترجمہ از مرتّب) خدا نے لکھ چھوڑا ہے کہ مَیں اور میرے رسول غالب رہیں گے.تیرے جیسا موتی ضائع نہیں کیا جاتا.تجھ پر گھاٹے کا دن نہیں آئے گا.۳ (ترجمہ از مرتّب) مَیں نے تم کو ہر قِسم کی نعمتیں دیں.جن لوگوں نے تقویٰ اختیار کیا اور وہ جو ایمان لائے ان کے لئے بخشش اور باعزت رزق ہے.
۱۴؍ جون۱۹۰۴ء ’’ مَکَانٌ اَلِیْمٌ.‘‘؎۱ ’’۱۴؍جون ۱۹۰۴ء کو دیکھا کہ ہم ایک حاکم کی عدالت کے دروازہ کے قریب بیٹھے ہوئے ہیں اور بعض لوگ اس کی راہ پر بیٹھ گئے ہیں.اتنے میں وہ حاکم نکلا ہے.گھوڑے پر سوار ہے اور بہت ناراض ہے.کہتا ہے یہ لوگ میری راہ پر کیوں بیٹھ گئے.اتنی قید اور اتنے ضرب بَید لگاؤ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۹) ۱۸؍ جون۱۹۰۴ء ’’۱.رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گذشت.۲.اِنَّـمَا اَمْرُکَ اِذَا اَرَدْتَّ شَیْئًا اَنْ تَقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ.۳.کُلُّ بَـرَکَۃٍ فِیْ ھٰذَا.۴.کُلُّ اَمْرٍ مُّبَدَّ لٌ.۵.سَاَجْعَلُ لَکَ سُھُوْلَۃً فِیْ کُلِّ اَمْرٍ.‘‘؎۲ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۹) ۱۹؍جون۱۹۰۴ء ’’والدہ محمود کی طرف سے.اُرِیْدُ اَنْ اَتَـخَلَّصَ.؎۳ منجانب اللہ.اُرِیْدُ اَنْ اُخَلِّصَ.‘‘؎۴ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۹) ۲۱؍جون ۱۹۰۴ء روز سہ شنبہ ’’ اَنَـا الرَّحْـمٰنُ فَاطْلُبْنِیْ تَـجِدْ نِیْ.‘‘؎۵ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۹) ۲۲؍ جون۱۹۰۴ء ’’ ۱.اَحْسِنْ وِدَادَکَ.۲.سَاَجْعَلُ لَکَ سُھُوْلَۃً فِیْ اَمْرِکَ.۳.لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِـمَّا تُـحِبُّوْنَ.‘‘؎۶ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۹) ۱ (ترجمہ از مرتّب) دردناک گھر.۲ (ترجمہ از مرتّب) ۱.مصیبت آگئی تھی لیکن خیریت سے گزرگئی.۲.تیرا معاملہ یوں ہے کہ جب تُو کسی چیز کا ارادہ کرے اور اُسے کہے کہ ہو جا تو وہ ہوجاتی ہے.۳.تمام برکت اسی میں ہے.۴.ہر بات بدلی ہوئی ہے.۵.عنقریب مَیں تیرے لئے ہر اَمرمیں سہولت کردوں گا.۳ (ترجمہ از مرتّب) مَیں خلاص ہونا چاہتی ہوں.۴ (ترجمہ از مرتّب) مَیں خلاصی دینا چاہتا ہوں.۵ (ترجمہ از مرتّب) مَیں رحمٰن خدا ہوں تُو مجھے تلاش کرے گا تو پالے گا.۶ (ترجمہ از مرتّب) ۱.اپنی دوستی کو سنوار.۲.مَیں عنقریب تیرے معاملے میں سہولت پیدا کردوں گا.۳.تم نیکی ہر گز حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ تم اپنی پسندیدہ چیزوں کو خرچ نہ کرو.
۳۰؍جون۱۹۰۴ء ’’فرمایا کہ صبح کو یہ فقرہ الہام ہوا.خدا تیری ساری مرادیں پوری کردے گا.‘‘ (البدر جلد ۳ نمبر۲۷ مورخہ۱۶؍ جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ۴.الحکم جلد ۸ نمبر۲۲ مورخہ۱۰؍ جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۲) جون۱۹۰۴ء ’’مولوی محمد علی صاحب کورؤیامیں کہا.آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے آؤ ہمارے ساتھ بیٹھ جاؤ.‘‘ (البدر جلد ۳ نمبر۲۹مورخہ یکم اگست ۱۹۰۴ء صفحہ۴) ۲۶؍جولائی ۱۹۰۴ء رؤیا.’’بوقت فجر.دیکھا کہ ہم قادیان گئے ہیں.اپنے دروازے کے سامنے کھڑے ہیں.ایک عورت نے کہا.اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ.اور پوچھا کہ راضی خوشی آئے.خیرو عافیت سے آئے.‘‘ (الحکم جلد ۸ نمبر ۲۵، ۲۶ مورخہ ۳۱ ؍جولائی و ۱۰ ؍اگست ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۵) ۲۷؍جولائی۱۹۰۴ء ’’ایک نظارہ دکھایا گیا کہ کوئی اَمر پیش کیا گیا ہے.پھر الہام ہوا.اِنَّـا اَنْـزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْ رِ.اِنَّـا اَنْـزَلْنَاہُ لِلْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ.‘‘؎۱ (الحکم۲؎ جلد ۸ نمبر ۲۵، ۲۶ مورخہ ۳۱ ؍جولائی و ۱۰ ؍ اگست ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۵) ۲۹؍جولائی۱۹۰۴ء (الف) ’’دیکھا کہ بڑے؎۳ مرزا صاحب مرحوم نے ایک بڑی لوئی سیاہ رنگ کی بنوائی ہے جو کہ حاجی بافندہ لے کر آیا ہے اور گویا مرزا صاحب مرحوم کی طرف سے کہتا ہے کہ یہ اس کام ( یعنی کوئی نالش کرنی ہے یا ایسا ہی کوئی کام ہے) کے لئے بنوائی تھی لیکن اب آپ کا ارادہ اس کے لئے نہیں تو رکھ چھوڑو کسی اَور کام آئے گی.‘‘ (الحکم جلد ۸ نمبر ۲۵، ۲۶ مورخہ ۳۱؍جولائی، ۱۰؍ اگست ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۵) (ب) ’’مبارک سَو مبارک.آسمانی تائیدیں ہمارے ساتھ ہیں.اَجْرُکَ قَآئِمٌ وَّ ذِکْـرُکَ دَآئِمٌ.‘‘؎۴ (الحکم جلد ۸ نمبر ۲۵، ۲۶ مورخہ ۳۱ ؍جولائی، ۱۰ ؍ اگست ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۵.البدر جلد ۳ نمبر۲۹مورخہ یکم اگست ۱۹۰۴ء صفحہ۴) ۱ (ترجمہ از مرتّب) ہم نے اُسے لیلۃالقدر میں اُتارا ہے.ہم نے اُسے مسیح موعود کے لئے اُتارا ہے.۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یہ الہام البدر مورخہ یکم اگست ۱۹۰۴ء صفحہ ۴ میں بھی ہے مگر اس میں الہام کے متعلق وہ تشریح نہیں جو الحکم میں دی گئی ہے.۳ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے والد ماجد حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب.۴ (ترجمہ از مرتّب) تیرا اَجر ثابت ہے اور تیرا ذِکر دائم رہنے والا ہے.
(ج) ’’ ۱.مَیں تمہیں بھی ایک معجزہ دکھاؤں گا.۲.اَلَـنَّالَکَ الْـحَدِیْدَ.‘‘؎۱ (البدر جلد ۳ نمبر۲۹مورخہ یکم اگست ۱۹۰۴ء صفحہ۴) ۱۹۰۴ء ’’کرم دین نام ایک مولوی نے فوجداری مقدمہ گورداسپور میں میرے نام دائر کیا اور میرے مخالف مولویوں نے اس کی تائید میں آتمارام اکسٹرا اَسسٹنٹ کمشنر کی عدالت میں جاکر گواہیاں دیں اور ناخنوں تک زور لگایا اور ان کو بڑی امید ہوئی کہ اب کی دفعہ ضرور کامیاب ہوں گے اور ان کو جھوٹی خوشی پہنچانے کے لئے ایسا اتفاق ہوا کہ آتمارام نے اس مقدّمہ میں اپنی نافہمی کی وجہ سے پوری غور نہ کی اور مجھ کو سزائے قید دینے کے لئے مستعد ہوگیا.اُس وقت خدا نے میرے پر ظاہر کیا کہ وہ آتمارام کو اُس کی اولاد کے ماتم میں مبتلا کرے گا.چنانچہ یہ کشف مَیں نے اپنی جماعت کو سنادیا؎۲ اور پھر ایسا ہوا کہ قریباً بیس پچیس دن کے عرصہ میں دو بیٹے اُس کے مَر گئے اور آخر یہ اتفاق ہوا کہ آتمارام سزائے قید تو مجھ کو نہ دے سکا.اگرچہ فیصلہ لکھنے میں اُس نے قید کرنے کی بنیاد بھی باندھی مگر اَخیر پر خدا نے اُس کو اِس حرکت سے روک دیالیکن تاہم اُس نے سات سو روپیہ جرمانہ کیا.پھر ڈویژنل جج کی عدالت سے عزّت کے ساتھ مَیں بَری کیا گیا اور کرم دین پر سزا قائم رہی اور میرا جرمانہ واپس ہوا مگر آتمارام کے دو بیٹے واپس نہ آئے پس جس خوشی کے حاصل ہونے کی کرم دین کے مقدمہ میں ہمارے مخالف مولویوں کو تمنا تھی وہ پوری نہ ہوسکی اور خدا تعالیٰ کی اس پیشگوئی کے مطابق جو میری کتاب مواہب الرحمٰن میں پہلے سے چھپ کر شائع ہوچکی تھی، مَیں بَری کیاگیا اور میرا جرمانہ واپس کیا گیا اور حاکم مـجوّز کو منسوخی حکم کے ساتھ یہ تنبیہ ہوئی کہ یہ حکم اس نے بے جا دیا مگر کرم دین کو جیسا کہ مَیں مواہب الرحمٰن میں شائع کرچکا تھا سزا مل گئی اور عدالت کی رائے سے اُس ۱ (ترجمہ از مرتّب) ہم نے تیرے لئے لوہے کو نرم کردیا ہے.۲ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) قاضی محمد یوسف صاحبؓ امیر جماعت ِ احمدیہ سرحد اپنی ’’ سوانح ظہور احمد موعود‘‘ میں لکھتے ہیں.’’حضور نے رؤیا دیکھا کہ ایک شیر آتما رام کے دونوں لڑکے اُٹھا کر لے گیا.اِدھر حضرت صاحب نے رؤیا سنائی اُدھر آتمارام کو تار آگئی کہ آپ کے لڑکے کو طاعون ہوگیا.۲دو جوان لڑکے یکے بعد دیگرے طاعون سے مرگئے.‘‘ (ظہور احمد موعود صفحہ ۵۱،۵۲ شائع کردہ قاضی محمد یوسف صاحب فاروقی احمدی)
کے کذّاب ہونے پر مُہر لگ گئی.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۲۴، ۱۲۵) اگست ۱۹۰۴ء ’’ یَـا جِـبَالُ اسْـجُدِیْ مَعَہٗ وَ الطَّیْـرَ.‘‘؎۱ (البدر جلد ۳ نمبر۲۹مورخہ یکم اگست ۱۹۰۴ء صفحہ۴) ستمبر۱۹۰۴ء ’’۱.خواب میں دیکھا کہ کسی نے کھجوریں اور بیر پکے ہوئے پیش کئے ہیں.۲.نہایت خوشنما برفی ایک ڈَبّے میں دیکھی.۳.ایک اَسیر کے نظارہ کے بعد الہام ہوا.یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّ یَتِیْـمًا وَّاَسِیْـرًا.؎۲ ۴.کوئی کہتا ہے.ہماری قِسمت آیت وار.‘‘ (الحکم جلد ۸ نمبر۳۱ مورخہ۱۷؍ستمبر ۱۹۰۴ء صفحہ۸) ستمبر۱۹۰۴ء ’’اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ فَقَطْ.‘‘؎۳ (الحکم جلد ۸ نمبر۳۳ مورخہ۳۰؍ ستمبر ۱۹۰۴ء صفحہ۷) ۳ ؍اکتوبر ۱۹۰۴ء ’’ مورخہ ۳؍اکتوبر کو بوقت ساڑھے بارہ بجے الہام ہوا.قَدْ جَآءَ الدِّیْنُ مِنَ النُّصْـرَۃِ ثُمَّ سَیَعُوْدُ مِنَ النُّصْـرَۃِ.‘‘؎۴ (الحکم جلد ۸ نمبر۳۳ مورخہ۳۰؍ ستمبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۶ حاشیہ) ۱۹۰۴ء ’’بہت سے حادثات اور عجیب کاموں کے بعد تیرا حادثہ ہوگا.‘‘ (البدر جلد ۳ نمبر۳۹ مورخہ۱۶؍ اکتوبر۱۹۰۴ء صفحہ۸) ۲۰؍ اکتوبر ۱۹۰۴ء ۱.’’ مَیں نے خواب میں سراج الحق کو دیکھا اور مَیں انہیں کہتا ہوں کہ اِتنی مدّت تم کہاں رہے.پھر مَیں نے ارادہ کیا ہے کہ ایک الہام لکھوں اور وہ یہ ہے.اِشْـرَاقُ الْعَارِضِ بَعْدَ اِصْلَاحِ الْعَارِضِ.‘‘؎۵ ۲.’’ اور خواب آئی کہ ایک مُرغ میرے بستر (پر ) بیٹھاہے.مَیں نے اُس کی ٹانگ (پر)سوٹی ۱ (ترجمہ از مرتّب) اے پہاڑو! تم بھی اس کی معیّت اختیار کرکے سجدہ میں گِر جاؤ اور پرندے بھی گِرجائیں.۲ (ترجمہ از مرتّب) وہ خدا کی محبّت میں مسکینوں، یتیموں اور اَسیروں کو کھانا کھلاتے ہیں.۳ (ترجمہ از مرتّب) مَیں اپنے رسول کے ساتھ ہوں اور بس.۴ (ترجمہ از مرتّب) دین پہلے بھی نصرت ہی سے غالب آیا تھا اور اب دوبارہ بھی وہ نصرت ہی کے ذریعہ سے غالب آئے گا.۵ (ترجمہ از مرتّب) بیماری سے شفا پانے کے بعد رخسار کا چمکنا.
ماری اور پھر پکڑ کر اپنی زوجہ کو دیا جس سے مراد لڑکا؎۱ کہتے ہیں.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳۰) ۴؍ نومبر۱۹۰۴ء ’’ ۲۵؍ شعبان ۱۳۲۲ھ ۴؍نومبر ۱۹۰۴ء بروز جمعہ مقام سرائے بٹالہ بوقت واپسی اَز سیالکوٹ.خواب میں مَیں نے دیکھا کہ راجہ گلاب سنگھ راجہ وفات (یافتہ) کشمیر میرے پَیر دبا رہا ہے اور پھر دیکھا کہ بہت سے زیورات سونے کے جمع ہورہے ہیں اور مولوی نور دین صاحب نے پوچھا ہے یہ کیسے زیورات ہیں.مَیں نے کہا گوالیار کے راجہ نے خیرات کے لئے بھیجے ہیں اور گوالیار کا راجہ بھی ملنے کے لئے آتا ہے.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۳۱) ۲۲؍ نومبر ۱۹۰۴ء ’’مطابق ۱۲؍رمضان ۱۳۲۲ھ.۱.روز نقصان بر تو نیاید.۲.کَمِثْلِکَ دُ.رٌّ لَّا یُضَاعُ.۳.لَا یَـاْتِیْ عَلَیْکَ یَــوْمُ الْـخُسْـرَانِ.‘‘؎۲ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۳۱) ۲۳ ؍نومبر۱۹۰۴ء (الف) ’’ آج خواب میں دیکھا کہ بہت سی کنجیاں میرے سامنے پڑی ہیں شاید ہزار دو ہزار کنجی ہے.یعنی مِفْتَاح.‘‘ (کاپی الہامات۳؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۳۱ ) (ب) ۲۳؍نومبر ۱۹۰۴ءوقت ۹ بجے شام.’’ مَیں نے دیکھا کہ میں ایک عورت کی چادر لے کر باہر نکلا ہوں اور ایک جگہ آتا ہوں جو مسجد سے مشابہہ ہے.شاید وقت شام ہے اور میں اندر سے ننگا ہوں یعنی کرتہ نہیں ہے زنانہ چادر اوپر ہے اور ایک رکعت پڑھ کر آیا ہوں کسی سبب سے باہر آگیا ہوں آگے مولوی نور دین صاحب نماز شام پڑھنے لگے ہیں.مَیں نے کہا آپ نماز پڑھاویں انہوں نے نماز میں اوّل اَلْـحَمْد پڑھا ہے.بعد اس کے یہ چند کلمے پڑھے ہیں جو اس وقت سمجھتا ہوں جو قرآن شریف میں سے ہیں اور وہ یہ ہیں.۱ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) اِس خواب کو لکھنے سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ دعا لکھی ہے.بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِیْمِ.اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ وَلَـدًا ذَکَـرًا خَامِسًا مَّعَ حَیَاۃِ نَفْسِیْ وَ زَوْجَتِیْ وَوُلْدِیْ اَجْـمَعِیْنَ.اٰمین.بسم اللہ الرحمن الرحیم.اے اللہ ! مجھے میری بیوی اور میری ساری اولاد کی زندگی کے ساتھ ایک پانچواں فرزند نرینہ عطا فرما.آمین ۲ (ترجمہ از مرتّب) ۱.نقصان کا دن تجھ پر نہ آئے.۲.تیرے جیسا موتی ضائع نہیں کیا جاتا.۳.تجھ پر گھاٹے کا دن نہیں آئے گا.(نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) الہام ’’روز نقصان بر تو نیاید‘‘ الحکم مورخہ ۲۴؍ نومبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۶ اور البدر مورخہ ۲۴ ؍ نومبر و یکم دسمبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۳ پر بھی شائع ہوا ہے.۳ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۲۴؍نومبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۶ میں یہ خواب ان الفاظ میں درج ہے.’’اپنے آگے بہت سی کنجیاں دیکھیں جو شاید دو ہزار کے قریب ہیں یا زیادہ.‘‘
اَلْفَارِقُ.وَ مَا اَدْ رَاکَ مَا الْفَارِقُ.؎۱ بعد اس کے آنکھ کھل گئی.‘‘ (کاپی الہامات۲؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳۲) (ج) ’’بیوی پھر گئی.اس کو مرتد ہونا کہتے ہیں.ہماری آخری گھڑی.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۳۳) نومبر ۱۹۰۴ء ’’رؤیا.حضرت صاحبزادہ مبارک احمد سَلَّمَہُ اللہُ الْاَحَد حضرت کو کچھ دیر تک نہیں ملا.حضرت کو تشویش اور فکر ہوئی.اس کی تلاش کررہے ہیں.تب حضرت اُمّ المؤمنین نے فرمایا کہ یہ مبارک موجود تو ہے.پھر حضرت نے تین سجدہ شکر کے کئے زمین پر.‘‘ (الحکم جلد ۸ نمبر ۴۰ مورخہ ۲۴ ؍ نومبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۶) ۲۵ ؍نومبر ۱۹۰۴ء ’’ الہام.غلام قادر؎۳ آگئے.گھر نُور اور برکت سے بھر گیا.رَدَّ اللّٰہُ اِلَـیَّ.‘‘؎۴ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۳۳ ) ۱ (ترجمہ از مرتّب) وہ عظیم الشان اَمر فارق آرہا ہے اور تم کیا سمجھتے ہو کہ وہ اَمر فارق کس شان کا ہوگا.۲ (نوٹ از ناشر) البدر مورخہ ۲۴؍نومبر و یکم دسمبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۳ و الحکم مورخہ ۲۴؍نومبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۶ میں یہ رؤیا ۲۴؍نومبر ۱۹۰۴ء کے حوالہ سے باختلافِ الفاظ درج ہے.البدر میں اس رؤیا کے الفاظ یوں ہیں.’’ مَیں نے ایک سفید تہ بند باندھا ہوا ہے مگر وہ بالکل سفید نہیں ہے کچھ کچھ میلا ہے کہ اس اثناء میں مولوی صاحب نماز پڑھانے لگے ہیں اور انہوں نے سورۂ الحمد جَہر سے پڑھی ہے اور اُس کے بعد انہوں نے یہ پڑھا.اَلْفَارِقُ وَمَا اَدْ رَاکَ مَا الْفَارِقُ.اس وقت مجھے یہی معلوم ہوا کہ یہ قرآن شریف میں سے ہی ہے.‘‘ ۳ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۲۴؍نومبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۶ میں یہ الہام یوں درج ہے.’’غلام قادر آئے گھر نُور اور برکت سے بھر گیا.رَدَّ اللّٰہُ اِلَـیَّ.‘‘ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ ۲۳؍اپریل ۱۹۹۹ء میں اس الہام کا اطلاق صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب کی شہادت پر ان الفاظ میں کیا.’’اب میں آپ کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام پڑھ کر سناتا ہوں جس کا اطلاق لازماً مرزا غلام قادر شہید کے اوپرہوتا ہے.اس کے سوا ہو نہیں سکتا.۱۹۰۴ء میں ۲۵؍ نومبر کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا.’’غلام قادر آگئے، گھر نور اور برکت سے بھر گیا.رَدَّ اللّٰہُ اِلَـیَّ.نیچے ترجمہ ہےاللہ تعالیٰ نے اسے میرے پاس پھر بھیج دیا.رَدَّ اللّٰہُ اِلَـیَّ.کا ترجمہ ہے اللہ تعالیٰ نے اسے میرے پاس بھیج دیا.اب غلطی سے اس سے پہلے اس الہام کو حضرت مرزا غلام قادر کے اوپر چسپاں کرنے کی کوشش کی گئی ہےحالانکہ حضرت مرزا غلام قادر تو اس الہام سے بہت پہلے وفات پاچکے تھے اور ان کے آنے سے مسیح موعود کا گھر کیسے برکت سے بھر گیا.’’گھر نور اور برکت سے بھر گیا.‘‘ ظاہر ہے کہ یہ ایک پیشگوئی تھی.ایک ایسا غلام قادر آنے والا ہے میری اولاد میں جس کے آنے سے جس گھر میں آئے گا وہ گھر برکت اور نور سے بھر جائے گا.‘‘ (شہدائے احمدیت صفحہ ۱۶.شائع کردہ طاہر فاؤنڈیشن ربوہ.مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۴ (ترجمہ از مرتّب) اللہ تعالیٰ نے اسے میرے پاس پھر بھیج دیا.
۸؍ دسمبر ۱۹۰۴ء (الف) ’’ رسید مُژدہ کہ ایّامِ نَو بہار آمد ؎۱ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۳۳.البدر جلد ۳ نمبر ۴۴، ۴۵ مورخہ ۲۴؍ نومبر و یکم دسمبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۸.ب) (ب) ۸؍دسمبر ۱۹۰۴ء روز عید روز جمعہ ’’اِنَّـا اَعْطَیْنَاکَ الْکَـوْثَـرَ.‘‘؎۲ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۳۳) ۱۲؍دسمبر۱۹۰۴ء ’’ ۱.لَا تَیْئَسُوْا مِنْ خَزَآئِنِ رَحْـمَۃِ رَبِّیْ.۲.اِنَّـا اَعْطَیْنَاکَ الْکَـوْثَرَ.‘‘۳؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳۳) ۶ ؍جنوری۱۹۰۵ء ’’ حضرت حکیم نورالدین صاحب کی طبیعت بہت علیل رہی چنانچہ اسی وجہ سے آپ کو درسِ قرآن ملتوی رکھنا پڑا.آپ کی طبیعت کی ناسازی دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کی صحت کے لئے کثرت سے دعا شروع کی تو ۶؍جنوری کو آپ نے تشریف لاکر فرمایا کہ مَیں دعا کررہا تھا کہ یہ الہام ہوا.اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّـمَّا نَـزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِ نَا فَاْتُوْا بِشِفَآءٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ.‘‘؎۴ (البدر جلد ۴ نمبر۲ مورخہ ۱۰؍ جنوری ۱۹۰۵صفحہ ۵) ۱۸؍ جنوری۱۹۰۵ء (الف) ’’۱۸؍ جنوری ۱۹۰۵ء روز چار شنبہ مطابق ۱۱ ذی قعد ۱۳۲۲ھ پہلے قریب صبح دیکھا کہ کسی نے بہت سے پیسے جس قدر ہاتھ میں آسکتے ہیں میرے ہاتھ میں دے دیئے.بعد اس کے الہام ہوا.اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُـوْمُ ؎۵بعداس کے آنکھ کھل گئی.پھر غنودگی ہو کر دیکھا کہ دو لفافے بند جن میں خط ہیں یا کوئی خبر ہے کسی کے ہاتھ میں ہیں.اس نے ان دونوں میں سے ایک لفافہ مجھے دے دیا.بعد اس کے الہام ہوا.چَونکا دینے والی خبر یہ وقت ِ صبح تھا.پانچ صبح کے بج چکے تھے کچھ منٹ اُوپر بھی.(۱۸؍ جنوری ۱۹۰۵ء روز چار شنبہ)‘‘ (کاپی الہامات۶؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳۴) ۱ (ترجمہ از مرتّب) خوشخبری آئی ہے کہ نئی بہار کے دن آگئے ہیں.۲ (ترجمہ از مرتّب) ہم نے تجھے خیرِ کثیر دیا.۳ (ترجمہ از مرتّب) ۱.میرے ربّ کی رحمت کے خزانوں سے تم نا امید مت ہو.۲.ہم نے تجھے خیرِ کثیر دیا.۴ (ترجمہ از مرتّب) جو کچھ ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے اگر تمہیں اس میں کوئی شک ہو تو اس شفا کی مثل کوئی شفا پیش کرو.۵ (ترجمہ از مرتّب) مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑاہوں گا.۶ نیز دیکھئے البدر مورخہ یکم فروری ۱۹۰۵ء صفحہ ۳ و الحکم مورخہ ۳۱؍جنوری ۱۹۰۵ء صفحہ ۸ (عبد اللطیف بہاولپوری)
(ب) ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۱.غُلِبَتِ؎۱ الرُّوْمُ فِیْٓ اَدْنَی الْاَرْضِ وَ ھُمْ مِنْۢ بَعْدِ غَلَبِـھِمْ سَیَغْلِبُوْنَ.۲.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّـحْسِنُوْنَ.۳.اَتٰی اَمْرُ اللّٰہِ فَلَا تَسْتَعْـجِلُوْہُ.۴.بِشَارَۃٌ تَلَقَّاھَا النَّبِیُّوْنَ.۵.تَرٰی نَصْـرًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَ اِنَّـھُمْ یَعْمَھُوْنَ.۶.اِنَّہٗ کَرِیْمٌ تَـمَشّٰی اَمَامَکَ وَعَادٰی لَکَ مَنْ عَادٰی.۷.ذٰلِکَ بِـمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُ وْنَ.۸.اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ وَاِنِّیْ مُعِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِعَانَتَکَ.۹.اِذَا غَضِبْتَ غَضِبْتُ وَ کُلَّمَا اَحْبَبْتَ اَحْبَبْتُ.۱۰.اَنْتَ وَجِیْہٌ فِیْ حَضْـرَتِیْ.۱۱.اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ.۱۲.یَـحْمَدُ کَ مِنْ عَرْشِہٖ.۱۳.یَـحْمَدُ.کَ اللّٰہُ وَ یَـمْشِیْ اِلَیْکَ.۱۴.اٰثَـرَکَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ.۱۵.سَنُنْجِیْکَ.سَنُعْلِیْکَ.۱۶.سَاُکْرِمُکَ اِکْـرَامًا عَـجَبًا.۱۷.اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً.۱۸.اٰیَـاتٌ لِّلسَّآ.ئِـلِیْنَ.۱۹.ظَفَرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ مُّبِیْنٌ.۲۰.اَنْتَ مَعِیْ وَ اَنَـا مَعَکَ.۲۱.اُرِیْـحُکَ وَلَا اُجِیْحُکَ.۲۲.اَطَالَ اللّٰہُ بَقَآءَکَ وَکَمَّلَ اللّٰہُ اِعْزَازَکَ.وَ طَوَّلَ اللّٰہُ عُـمُرَکَ.۲۳.نصرت و فتح و ظفر تا بست سال.۲۴.میدان میں فتح.۲۵.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ عَرْشِیْ.۲۶.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَتَفْرِیْدِیْ.۱ (ترجمہ از مرتّب) بسم اللہ الرحمٰن الرحیم.۱.رومی قریب کی زمین میں مغلوب ہوگئے اور وہ مغلوب ہوجانے کے بعد ہی غالب آئیں گے.۲.یقیناً اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور ان لوگوں کے ساتھ ہے جو نیکو کار ہیں.۳.اللہ کا حکم آگیا پس جلدی نہ چاہو.۴.یہ وہ خوشخبری ہے جو نبیوں کو ملی.۵.تُو اللہ کی طرف سے نصرت کو دیکھے گا اور وہ بہکتے رہیں گے.۶.وہ کریم ہے تیرے آگے آگے چلتا ہے اور اس کو اپنا دشمن قرار دیتا ہے جو تجھ سے دشمنی کرتا ہے.۷.یہ اِس وجہ سے کہ انہوں نے نافرمانی کی اور حد سے بڑھتے تھے.۸.مَیں اس کو ذلیل کروں گا جو تیری ذِلّت کا ارادہ کرے اور مَیں اس کا مدد گار ہوں گا جو تیری مدد کرے.۹.جب تُو غضبناک ہوتا ہے تو مَیں غضبناک ہوتا ہوں اور ہر وہ جس سے تُو محبّت کرتا ہے اس سے مَیں بھی محبّت کرتا ہوں.۱۰.تُو میری بارگاہ میں وجیہ ہے.۱۱.مَیں نے تجھ کو اپنے لئے چن لیا.۱۲.وہ اپنے عرش سے تیری تعریف کرتا ہے.۱۳.اللہ تیری تعریف کرتا ہے اور تیری طرف چل کر آتا ہے.۱۴.اللہ تعالیٰ نے تجھے ہر چیز پر ترجیح دی.۱۵.ہم جلد ہی تجھے نجات دیں گے.ہم تجھے جلد ہی غالب کریں گے.۱۶.عنقریب مَیں تجھے بزرگی دوں گا جس سے لوگ تعجب کریں گے.۱۷.مَیں اچانک فوجوں کے ساتھ تیرے پاس آؤں گا.۱۸.پوچھنے والوں کے لئے نشان ہیں.۱۹.اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظفر اور کھلی کھلی فتح.۲۰.تُو میرے ساتھ ہے اور مَیں تیرے ساتھ ہوں.۲۱.مَیں تجھے آرام دوں گا اور تیرا نام نہیں مٹاؤں گا.۲۲.اللہ تجھے دیر تک باقی رکھے اور تیرے اعزاز کو مکمل کرے اور تیری عمر کو لمبا کرے.۲۳.نصرت اور فتح اور ظفر بیس سال تک… ۲۵.تُو مجھ سے بمنزلہ میرے عرش کے ہے.۲۶.تُو مجھ سے بمنزلہ میری توحید اور تفرید کے ہے.
۲۷.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃٍ لَّا یَعْلَمُھَا الْـخَلْقُ.۲۸.یَعْصِمُکَ اللّٰہُ وَ لَوْ لَمْ یَعْصِمْکَ النَّاسُ.۲۹.اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَ ہٗ.۳۰.یَـا جِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَ.۳۱.اَلَمْ تَـرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِـاَصْـحٰبِ الْفِیْلِ.۳۲.اَلَمْ یَـجْعَلْ کَیدَ ھُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳۴، ۳۵) ۲۸؍ جنوری۱۹۰۵ء ’’الہام.۱.بِسْمِ الْکَافِیْ.۲.بِسْمِ اللّٰہِ الشَّافِیْ.۳.بِسْمِ اللّٰہِ الْغَفُوْرِ الرَّحِیْمِ.۴.بِسْمِ اللّٰہِ الْبَرِّ الرَّحِیْمِ.۵.یَـاحَفِیْظُ.یَـا عَزِیْزُ.یَـا رَفِیْقُ.۶.یَـا وَلِیُّ اشْفِنِیْ.‘‘۱؎ (کاپی الہامات۲؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۳۵) یکم فروری۱۹۰۵ء (الف) ’’ ۱.اِنِّیْ مَعَ الرُّوْحِ مَعَکَ وَمَعَ اَھْلِکَ.۲.اِنِّیْ لَاَجِدُ رِیْـحَ یُوْسُفَ لَوْ لَا اَنْ تُفَنِّدُ وْنِ.‘‘ ۳؎ (کاپی الہامات۴؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳۵) بقیہ ترجمہ.۲۷.تُو مجھ سے اس مرتبہ پر ہے جس کو مخلوق نہیں جانتی.۲۸.اللہ تجھے بچائے گا خواہ لوگ تجھے نہ بچائیں.۲۹.کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں.۳۰.اے پہاڑو! اس کے ساتھ جھک جاؤ اور اے پرندو تم بھی.۳۱.کیا تُو نے نہیں دیکھاکہ تیرے رَبّ نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیسا سلوک کِیا.۳۲.کیا اُن کی تدبیر کو ناکام نہ بنادیا.۱ (ترجمہ از مرتّب) ۱.مَیں اللہ کے نام سے مدد چاہتا ہوں جو کافی ہے.۲.مَیں اللہ کے نام سے مدد چاہتا ہوں جو شافی ہے.۳.مَیں اللہ کے نام سے مدد چاہتا ہوں جو غفور و رحیم ہے.۴.مَیں اللہ کے نام کے ساتھ مدد چاہتا ہوں جو احسان کرنے والا رحم کرنے والا ہے.۵.اے حفاظت کرنے والے.اے غالب.اے رفیق.اے ولی مجھے شفا دے.۲ (نوٹ از ناشر) البدر مورخہ یکم فروری ۱۹۰۵صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۳۱؍ جنوری ۱۹۰۵ء صفحہ ۸ پر یہ الہامات یوں درج ہیں.’’۲۷؍ جنوری ۱۹۰۵ء کو حضرت اقدسؑ کے دائیں رخسارہ مبارک پر ایک آماس سا نمودار ہوا جس سے بہت تکلیف ہوئی.حضورؑ نے دعا فرمائی تو ذیل کے فقرات الہام ہوئے.دَم کرنے سے فوراً صحت حاصل ہوگئی.بِسْمِ اللّٰہِ الْکَافِیْ.بِسْمِ اللّٰہِ الشَّافِیْ.بِسْمِ اللّٰہِ الْغَفُوْرِ الرَّحِیْمِ.بِسْمِ اللّٰہِ الْبَرِّ الْکَرِیْمِ.یَـا حَفِیْظُ یَـا عَزِیْزُ.یَـا رَفِیْقُ.یَـا وَلِیُّ اشْفِنِیْ.‘‘ ۳ (ترجمہ از مرتّب) ۱.مَیں مع جبریل کے تیرے ساتھ اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں.۲.اگر ایسا نہ ہو کہ تم همجھے جھٹلانے لگو تو مَیں ضرور کہوں گا کہ مجھے یقیناً یوسف کی خوشبو آرہی ہے.۴ (نوٹ از ناشر) البدر مورخہ ۸؍فروری ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ اورالحکم مورخہ ۱۰؍فروری ۱۹۰۵ء صفحہ ۱۲ میں یہ الہامات ترتیب کے اختلاف سے درج ہیں.
(ب) ۱..اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَ تَفْرِیْدِیْ.۲.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ عَرْشِیْ.۳.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ وَلَدِیْ.۴.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃٍ لَّا یَعْلَمُھَا الْـخَلْقُ.۵.اِنِّیْ مَعَ الرُّوْحِ مَعَکَ وَمَعَ اَھْلِکَ ۶.اٰثَـرْتُکَ وَاخْتَرْتُکَ.۷.اَنْتَ وَجِیْہٌ فِیْ حَضْـرَتِیْ.۸.اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ.‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۳۵) (ج) ’’رؤیا.ایک کاغذ دکھایا گیا جس میں کچھ سطور فارسی خط میں ہیں اور سب انگریزی لکھا ہوا ہے.مطلب جن کا یہ سمجھ میں آیا کہ جس قدر روپیہ نکلتا ہے سب دے دیا جاوے گا.‘‘ (البدر جلد ۴ نمبر۵مورخہ ۸؍ فروری ۱۹۰۵صفحہ ۲.الحکم جلد ۹ نمبر۵ مورخہ ۱۰؍ فروری ۱۹۰۵ء صفحہ ۱۲) (د) ’’ایک رؤیادیکھی کہ ایک کاغذ ہے جس کے اُوپر کی دو تین سطریں فارسی خط میں ہیں باقی سب انگریزی ہے.اس کا مطلب یہ سمجھ میں آیا کہ گویا کوئی میرا نام لے کر کہتا ہے کہ دو سو پچاس روپیہ انہیں دیا جائے.‘‘ (ریویو آف ریلیجنز جلد ۴ نمبر ۲؍ فروری ۱۹۰۵ء ٹائٹل صفحہ آخر) ۴ ؍فروری۱۹۰۵ء ’’ ۱.سَلَامٌ قَــوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ.۲.وَ امْتَازُوا الْیَوْمَ اَیُّـھَا الْمُجْرِمُوْنَ.۳.سَلَامٌ قَـوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ.۴.وَ امْتَازُوا الْیَوْمَ اَیُّـھَا الْمُجْرِمُوْنَ.‘‘؎۲ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۳۵) ۲۰؍ فروری۱۹۰۵ء (الف) ’’اِنَّـمَا اَمْرُکَ اِذَا اَرَدْتَّ شَیْئًا اَنْ تَقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ.‘‘ (البدر جلد ۴ نمبر ۷ مورخہ ۵؍ مارچ۱۹۰۵ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۹ نمبر ۷ مورخہ۲۴؍ فروری ۱۹۰۵ء صفحہ ۱۲.ریویو آف ریلیجنز ماہ مارچ ۱۹۰۵ء صفحہ ۱۳۰) (ترجمہ) تُو جس بات کا ارادہ کرتا ہے وہ تیرے حکم سے فی الفور ہوجاتی ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۸) (ب) ’’حضور ؑ کی طبیعت ناساز تھی.حالتِ کشفی میں ایک شیشی دکھائی گئی جس پر لکھا ہوا تھا.خاکسار پیپر منٹ.‘‘ ( الحکم جلد ۹ نمبر ۷ مورخہ۲۴؍ فروری ۱۹۰۵ء صفحہ ۱۲.ریویو آف ریلیجنز ماہ مارچ ۱۹۰۵ء صفحہ ۱۳۰) ۱ (ترجمہ از مرتّب) ۱.تُو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید اور تفرید.۲.تُو مجھ سے بمنزلہ عرش کے ہے.۳.تُو مجھ سے بمنزلہ بیٹے کے ہے.۴.تُو مجھ سے اس مرتبہ پر ہے جس کو دُنیا نہیں جانتی.۵.مَیں مع جبریل کے تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ.۶.مَیں نے تجھے ترجیح دی اور تجھ کو چن لیا.۷.تُو میری دَر گاہ میں وجیہ ہے.۸.مَیں نے تجھ کو اپنے لئے چن لیا.۲ (ترجمہ از مرتّب) ۱.سلامتی ہو ربّ ِ رحیم کی طرف سے یہ بات ہے.۲.اور اے مجرمو! آج تم علیحدہ ہوجاؤ.۳.سلامتی ہو ربّ ِ رحیم کی طرف سے یہ بات ہے.۴.اور اے مجرمو! آج تم علیحدہ ہوجاؤ..
۲۷ ؍فروری۱۹۰۵ء ’’میں نے بطور کشف دیکھا کہ درد ناک موتوں سے عجیب طرح پر شورِ قیامت؎۱ برپا ہے.میرے منہ پر یہ الہامِ الٰہی تھا کہ مَوتا مَوتی لگ رہی ہے اور مجھے دکھایا گیا کہ ملک عذاب ِ الٰہی سے مِٹ جانے کو ہے.نہ مستقل سکونت امن کی جگہ رہے گی نہ عارضی سکونت.مقاموں پر اور عارضی سکونت گاہوں پر آفت آئے گی اور پھر مارچ کے مہینہ میں خدا تعالیٰ نے اپنی پاک وحی سے میرے پر ظاہر کیا کہ مکذبوں کو ایک نشان دکھایا جائے گا.‘‘ (اشتہار الدعوت ۵ ؍اپریل ۱۹۰۵ء.مجموعہ اشتہارات۲؎ جلد ۳ صفحہ ۳۴۸، ۳۴۹ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یہ شورِ قیامت برپا کرنے والا نشان وہ زلزلہ تھا جو ۴ ؍ اپریل ۱۹۰۵ء کی صبح کو مختلف مقامات پر آیا اور متعدد اخباروں میں اسے نمونہء قیامت قرار دیا گیا.اخبار وکیل امرتسر نے لکھا.’’یہ زلزلہ اِس درجہ ہولناک اور مہیب تھا کہ اِسے قیامت ِ صغریٰ کہنا کچھ مبالغہ نہ ہوگا بلکہ جس وقت وہ اپنی پوری شدت پر خدائے قہار کا جلال ظاہر کررہا تھا.اُس وقت تو لوگوں کو عموماً یہی یقین آگیا تھا کہ بس قیامت آہی گئی ہے.‘‘ یہ تصدیق ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کی جو حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’ یہ ایک قیامت ہے.جو لوگ قیامت کے منکر ہیں وہ اب دیکھ لیں کہ کس طرح ایک ہی سیکنڈ میں ساری دنیا فنا ہوسکتی ہے …اور فرمایا.یہ قیامت ہمارے لئے نصرت الحق ہے.ہم صبح یہی مضمون لکھ رہے تھے اور اِس الہام پر پہنچے تھے جو براہین احمدیہ میں درج تھا کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی کو ظاہر کردے گا.‘‘ ہم یہ الفاظ لکھ ہی رہے تھے اور اس کے پورا ہونے کے ثبوت آگے درج کرنے کو تھے کہ یک دفعہ زلزلہ ہوا.یہ ایک زور آور حملہ ہے اور پیشگوئی میں حملوں کا لفظ جمع ہے جو عربی میں تین پر اطلاق پاتا ہے اِس واسطے خوف ہے کہ طاعون اور زلزلہ کے سوائے خدا جانے تیسرا حملہ کون سا ہے جو ہماری سچائی کے ثبوت کے واسطے خدا تعالیٰ نے ظاہر فرمانا ہے.‘‘ (بدر سلسلہ جدید۳؎ جلد ۱ نمبر ۱ مورخہ ۶؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۶) ۲ (نوٹ از ناشر) البدر مورخہ ۵؍مارچ ۱۹۰۵ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۲۴؍مارچ ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ کے تحت بھی یہ الہام مع کشف درج ہے.۳ (نوٹ از ناشر) البدر کے ایڈیٹر مکرم بابو محمد افضل صاحب ۲۱؍مارچ ۱۹۰۵ء کو وفات پاگئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بطور ایڈیٹر مکرم مفتی محمد صادقؓ کے تقرر کی توثیق فرمائی اور یہ خبر الحکم میں بڑے نمایاں طور پر شائع ہوئی.حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے ایڈیٹر بننے کے بعد اپریل ۱۹۰۵ء کے پہلے دو پرچے ’’البدر‘‘ کے ٹائٹل پر ہی شائع ہوئے.پھر ۲۰؍اپریل ۱۹۰۵ء کے پرچہ سے ’’البدر‘‘ کی بجائے ’’بدر‘‘ نمایاں طور پر اخبار کی پیشانی پر شائع ہوتا رہا.بعض احباب خود سے ایک عرصہ تک اسے ’’بدر سلسلہ جدید‘‘ لکھتے رہے.
۲ ؍مارچ۱۹۰۵ء ’’خدائے عزّوجلّ اس کی عزت رکھے.‘‘ ( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳۹) ۳ ؍مارچ۱۹۰۵ء ’’وہ رات جس کے بعد جمعہ ۳؍مارچ ۱۹۰۵ء ہے ایک بجنے کے بعد پینتیس ۳۵منٹ پر اس رات میں مَیں نے خواب دیکھا کہ کچھ روپیہ کی کمی اور سخت مشکلات پیش ہیں اور بہت فکر دامن گیر ہے.مَیں کسی کو کہتا ہوں کہ ایک کاغذ بناؤ جس میں لکھا ہو کہ جمع یہ تھا اور خرچ یہ ہوا.کوئی میری بات کی طرف توجہ نہیں کرتا اور سامنے ایک شخص کچھ حساب کے کاغذات لکھ رہا ہے.مَیں نے شناخت کیا کہ یہ تو لچھمنؔ داس جمع خرچ نویس ہے جو کِسی زمانہ میں خزانہ سیالکوٹ میں اسی عہدہ پر نوکر تھا.مَیں نے اس کو بلانا چاہا.وہ بھی نہ آیا.لاپروا رہا.اور مَیں نے دیکھا کہ روپیہ کی بہت کمی ہے.کسی طرح بات نہیں بنتی.اسی اثناء میں ایک صالح مرد سادہ طبع سادہ پوش آیا.اُس نے اپنی بھری ہوئی مٹھی روپیہ کی میری جھولی میں ڈال دی اور ایسے جلدی چلا گیا کہ مَیں اس کا نام بھی نہ پوچھ سکا مگر پھر بھی روپیہ کی کمی رہی.پھر ایک اَور صالح مرد آیا جو محض نورانی شکل سادہ طبع کوٹلہ کے ایک صوفی کی شکل کے مشابہ تھا جس کا نام غالباً کرم الٰہی یا فضل الٰہی ہے جس نے کُرتہ بیچ کر ہمیں روپیہ دیا تھا صورت انسان کی ہے مگر علیحدہ خلقت کا آدمی معلوم ہوتا ہے.اس نے د ونوں ہاتھ روپیہ سے بھر کر میری جھولی میں وہ روپیہ ڈال دیا اور وہ بہت سا روپیہ ہوگیا.مَیں نے پوچھا کہ آپ کا نام کیا ہے.اس نے کہا.نام کیا ہوتا ہے نام کچھ نہیں.مَیں نے کہا کچھ بتلاؤ.نام کیا ہے.اس نے کہا ٹیچی؎۱.اور مَیں اُس وقت چشم پُر آب ہوگیا کہ ہماری جماعت میں ایسے بھی ہیں جو اِس قدر روپیہ دیتے اور نام نہیں بتلاتے اور ساتھ ہی کہتا ہوں کہ یہ تو آدمی نہیں ہے یہ تو فرشتہ ہے.اور جب بہت سے مال کا نظارہ میرے سامنے آیا مَیں نے کہا مَیں اس میں سے منظور محمد کی بیوی کو دوں گا کہ وہ حاجت مند ہے اور جب مَیں نے یہ خواب دیکھا اس وقت رات کا ایک بج کر اس پر پینتیس۳۵ منٹ زیادہ گزر چکے تھے.‘‘ (کاپی الہامات۲؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳۹ ) ۱ ’’ٹیچی پنجابی زبان میں وقت ِ مقررہ کو کہتے ہیں.یعنی عین ضرورت کے وقت پر آنے والا.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۴۶) ۲ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۲۴؍ مارچ ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ اور ریویو آف ریلیجنز ماہ مارچ ۱۹۰۵ء ٹائٹل صفحہ آخر پر یہ خواب یوں درج ہے.’’کوئی شخص ہے اس سے میں کہتا ہوں کہ تم حساب کرلو مگر وہ نہیں کرتا اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے ایک مٹھی
۶ ؍مارچ۱۹۰۵ء ’’تھوڑی سی غنودگی ہوئی تو دیکھتا ہوں کہ یہ مکان؎۱جو اَب بن رہا ہے (جس کا اشتہار کشتی نوح میں دیا تھا) سامنے آگیا ہے.اس پر ایک معمار بیٹھاہے.اس نے کہا.مبارک.مَیں نے کہا خیر مبارک.‘‘ (الحکم جلد ۹ نمبر ۱۰ مورخہ ۲۴؍مارچ ۱۹۰۵ء صفحہ ۲.ریویو آف ریلیجنز جلد ۴ نمبر۳ بابت ماہ مارچ ۱۹۰۵ء ٹائٹل صفحہ آخر) تخمیناً ۱۷؍ مارچ۱۹۰۵ء ’’مَیں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی مجھے کہتا.سزائے موت.یعنی چالیس دن کے بعد موت کا حکم ہے.مَیں نے مولوی محمد علی صاحب سے پوچھا ہے اس حکم کا اپیل بھی ہوسکتا ہے؟ انہوں نے کہا اپیل ہوسکتا ہے بلکہ اپیل در اپیل بھی.پھر بعد اس کے مجھے ۱۸؍مارچ ۱۹۰۵ء کو بخار ہوا.پیشاب نہایت شدید درد سے آتا تھا اور پیشاب کی راہ خون آنا شروع ہوا یہاں تک کہ بہت سا خون نکلا.پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے ۱۸؍ مارچ ۱۹۰۵ء کے بعد شام کو الہام ہوا.سنتا ہے.دیکھتا ہے پھر الہام ہوا.لَا تَیْئَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ ؎۲ پھر ایک الہام عربی میں تھا جس کے یہ معنی تھے کہ مکذّبین کو نشان دکھلائے جائیں گے.پھر بعد اس کے مرض سے اس قدر تخفیف کہ مرض دُور ہوگئی صرف کسی قدر سوزش باقی ہے.‘‘ (کاپی الہامات۳؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴۰) ۲۰ ؍مارچ۱۹۰۵ء ’’آج ۲۰ ؍مارچ ۱۹۰۵ء کو مرض طاعون میں محمد افضل۴؎ بیمار ہوا اور اسی وقت کسی کی نسبت جو معلوم نہیں الہام ’’شکارِمرگ.‘‘ وَ اللہُ اَعْلَمُ کس کی نسبت ہے.(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴۰) بقیہ حاشیہ.بھر کر روپے مجھے دیئے ہیں اس کے بعد ایک اور شخص آیا جو الٰہی بخش کی طرح ہے مگر انسان نہیں بلکہ فرشتہ معلوم ہوتا ہے اس نے دونوں ہاتھ روپیوں کے بھر کر میری جھولی میں ڈال دیئے ہیں تو وہ اس قدر ہوگئے ہیں کہ میں ان کو گن نہیں سکتا پھر میں نے اس کا نام پوچھا تو اس نے کہا میرا کوئی نام نہیں دوبارہ دریافت کرنے پر کہا کہ میرا نام ہے ٹیچی.میں نے بہت سا مال دیکھ کر دل میں کہا کہ فلاں حاجت مند کو کچھ دے دوں گا اور ایک حاجت مند دکھایا گیا خستہ حال قابل رحم.‘‘ ۱ (نوٹ از حضرت مولانا جلال الدین شمسؓ) اِس سے وہ مکان مراد ہے جس میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ رہتے تھے.۲ (ترجمہ از مرتّب) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید مت ہو.۳ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۲۴؍مارچ ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ میں ۱۸ و ۱۹؍ مارچ ۱۹۰۵ء کے تحت یہ الہامات یوں درج ہیں.’’وہ سنتا ہے اور دیکھتا ہے.لَا تَیْئَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ.ایک عربی الہام تھا الفاظ مجھے یاد نہیں رہے حاصل مطلب یہ ہے (مکذبوں کو نشان دکھایا جاوے گا.)‘‘ ۴ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’محمد افضل مرحوم ۲۱ ؍مارچ ۱۹۰۵ء کو فوت ہوگیا.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴۰)
مارچ ۱۹۰۵ء ’’اُنْـزِلَ الرَّحْـمَۃُ عَلٰی ثَلَاثٍ.اَلْعَیْنِ وَ عَلَی الْاُخْرَیَیْنِ‘‘؎۱ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴۱) ۲۳ ؍مارچ۱۹۰۵ء (الف) ’’آج مَیں نے ایک لمبی خواب میں دیکھا کہ ایک جگہ مَیں ہوں اور آتما مجسٹریٹ گورداسپور میرے پاس ہے.ہم زمین پر بیٹھے ہیں اور بہت سی گفتگو مقدمہ کی بابت اس سے ہوئی ہے.مَیں کچھ ایسا ذکر کرتا ہوں کہ تُو نے تو مجھے ستایا، خدا نے مجھے بَری کیا.تو نے مجھے تکلیف دی.پھر مَیں کہتا ہوں کہ دراصل اس مقدمہ میں انصاف کرنا تیرے پر مشکل تھا کہ دو فریق کے ایک ہی وقت میں تیرے پاس مقدمے پیش ہوئے اور تیری انصافی قوت طعنِ خَلق یا حکام کی بد ظنی کا خیال کرکے اسی خیال کی مغلوب ہوگئی.تو نے خدا کا خوف نہیں کیا مگر افسوس ہے کہ ایک بدمعاش کے لئے تو نے مجھے بہت تکلیف دی اور مَیں نے تیری اولاد کی نسبت کچھ نہیں کہا صرف ایک خواب ان کی موت کی نسبت دیکھا تھا جو پورا ہوگیا.شاید اُسی خواب کی وجہ سے تجھ میں مخالفت کا جوش پیدا ہوا.اس نے آہ مار کر کہا کہ مجھ سے غلطی ہوئی اور دراصل اس دھوکہ دینے کا بانی چند ولعل ہے.پھر بعد اس کے نہایت غمناک دِل سے گویا اس پر کوئی مصیبت ہے عذر خواہ ہوکر اس نے اپنا سر میرے بازو پر رکھ دیا گویا سجدہ کرتا ہے اور میری پناہ مانگتا ہے؎۲.مَیں نے کہا اچھا.مَیں نے خدا کے لئے تیرا گناہ بخشا.یہ بات کہتے ہی آنکھ کھل گئی اور جب مَیں نے اس کے بیٹے کا ذکر کیا تو مَیں زمین پر الگ جا بیٹھا اور اس کو دکھایا کہ خواب میں جب تیرے بیٹے کی موت مجھ کو دکھائی گئی تو تم اس طرح زمین پر بیٹھے تھے.‘‘ (ب) ’’الہام.فَأَجَآءَہُ الْمَخَاضُ اِلٰی جِذْعِ النَّخْلَۃِ.قَالَ یٰلَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ھٰذَا وَکُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا.ھُزِّ اِلَیْکَ بِـجِذْعِ النَّخْلَۃِ تُسَاقِطْ عَلَیْکَ رُطَبًا جَنِیًّا.‘‘؎۳ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴۱، ۴۲) ۱ (ترجمہ از ناشر) تین اعضاء پر رحمت نازل کی گئی ایک آنکھ اور دو اور عضو.۲ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) یہ رؤیا حضرت امیر المؤ منین خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں پوری ہوئی.حضور فرماتے ہیں.’’ بعد میں اسی مجسٹریٹ کو ایسی سزا ملی کہ وہ ایک دفعہ لدھیانہ کے سٹیشن پر مجھے ملنے کے لئے آیا اور اُس نے روتے ہوئے مجھ سے معافی مانگی اور کہا مَیں سخت دُکھ میں ہوں.مَیں نے مرزا صاحب کے پاس معافی مانگنے کے لئے جانا تھا لیکن وہ تو اَب فوت ہوچکے ہیں اِس لئے مَیں آپ کے پاس آیا ہوں.آپ میرے لئے دعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے اس عذاب سے نکال لے.اگر یہ عذاب کچھ اَور عرصہ تک قائم رہا تو مَیں پاگل ہوجاؤں گا.‘‘ (الفضل مورخہ ۲۹ ؍نومبر ۱۹۵۷ء صفحہ ۵) ۳ (ترجمہ از مرتّب) پھر اس کو دردِ زِہ کھجور کے تنے کی طرف لے گئی.تب اس نے کہا کاش مَیں اس سے پہلے مرجاتا اور بھولا بسرا ہوجاتا.کھجور کے تنے کو ہلا تجھ پر تازہ بتازہ کھجوریں گِریں گی.
(ج) ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام جناب ِ باری میں دعا کررہے تھے کہ نزولِ وحی ہوا.’’سَلَامًا سَلَامًا.‘‘؎۱ (بدر جلد ۱ نمبر ۱ مورخہ ۶ ؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۳) ۲۶ ؍مارچ۱۹۰۵ء ’’چودھری رستم علی ‘‘ (الحکم جلد ۹ نمبر۱۲مورخہ۱۰ ؍ اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ۲ ۱) ۲۹ ؍مارچ۱۹۰۵ء ’’۲۹؍ مارچ ۱۹۰۵ء کو اعلیٰ حضرت کو جب کہ آپ دعا کررہے تھے الہام ہوا.سَلَامًا سَلَامًا.‘‘ (الحکم جلد ۹ نمبر ۱۱مورخہ۳۱ ؍مارچ ۱۹۰۵ء صفحہ ۱) یکم اپریل۱۹۰۵ء ’’رات کے وقت نزولِ وحی ہوا.مَـحَوْنَـا نَـارَ جَھَنَّمَ؎۲ فرمایا.اجتہادی طور پر ایسا خیال آتا ہے کہ شاید اللہ تعالیٰ اَب قریباً طاعون کو دُنیا سے اُٹھانے والا ہے.وَاللہُ اَعْلَمُ.یا یہ کہ اِس گاؤں سے اُٹھانے والا ہے.‘‘ (بدر جلد ۱ نمبر ۱ مورخہ ۶ ؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۳.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۲ مورخہ ۱۰؍ اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ۲ ۱) ۳ ؍اپریل۱۹۰۵ء ۱.’’موت دروازے پر کھڑی ہے.‘‘ ۲.’’رؤیا.دیکھا کہ مرزا نظام الدین کے مکان پر مرزا سلطان احمد کھڑا ہے اور سب لباس سرتاپا سیاہ ہے.ایسی گاڑھی سیاہی کہ دیکھی نہیں جاتی.اسی وقت معلوم ہوا کہ یہ ایک فرشتہ ہے جو سلطان احمد کا لباس پہن کر کھڑا ہے.اُس وقت مَیں نے گھر میں مخاطب ہوکر کہا کہ یہ میرا بیٹا ہے.تب دو فرشتے اور ظاہر ہوگئے اور تین کرسیاں معلوم ہوئیں اور تینوں پر وہ تین فرشتے بیٹھ گئے اور بہت تیز قلم سے کچھ لکھنا شروع کیا جس کی تیز آواز سنائی دیتی تھی.ان کے اس طرز کے لکھنے میں ایک رُعب تھا.مَیں پاس کھڑا ہوں ( کہ بیداری ہوگئی).اُسی وقت حضرت اقدس ؑ نے یہ خواب سنایا اور فرمایا کہ کوئی ہیبت ناک نشان ہونے والا ہے.اِس کی تعبیر یُوں ہے کہ سلطان احمد سے مراد ایسے دلائل اور براہین ہیں جو دلوں پر تسلط کرتے اور دلوں کو پکڑلیتے ہیں اور نظام الدین سے مراد ایسا نشان ہے جس سے دین اسلام کی صلاحیت ہوگی اور اُس کا نظام درست ہوجائے گا.۱ (ترجمہ از مرتّب) سلامتی سلامتی.۲ (ترجمہ) ہم نے جہنم کی آگ کو محو کیا.(بدر مورخہ ۶ ؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۳.الحکم مورخہ ۱۰؍ اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ۲ ۱)
سیاہ کپڑے ظاہر کرتے ہیں کہ اَب کوئی ڈرانے والا نشان ظاہر ہونے والا ہے اور یہ جو کہا کہ یہ میرا بیٹا ہے اِس سے یہ مراد ہے کہ یہ ہماری دعاؤں کا نتیجہ ہے کیونکہ نتیجہ بچے کو بھی کہتے ہیں.‘‘ (بدر جلد ۱ نمبر ۱ مورخہ ۶ ؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۳.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۲ مورخہ ۱۰؍ اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ۱۲) ۵؍ اپریل۱۹۰۵ء ’’ کَفَفْتُ عَنْ بَنِیْٓ اِسْـرَآءِیْلَ.؎۱ فرمایا.بنی اسرائیل سے مراد وہ قوم ہے جس پر اس قسم کے واقعاتِ تکلیف وارد ہوئے ہوں جیسے کہ بنی اسرائیل پر فرعون کے زمانہ میں ہوئے تھے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری جماعت بنی اسرائیل سے مشابہ ہے.وہ لوگ جو اُن پر بے جا ظالمانہ حملہ کرتے ہیں اُن کو خدا تعالیٰ نے فرعون سے مشابہت دی ہے اور پیشگوئی کا حاصل مطلب یہ ہے کہ ایسے بے جا حملہ کرنے والے روک دیئے جائیں گے اور ایسے نشان ظاہر ہوں گے کہ اُن کی باتوں کا لوگوں کے دلوں پر کچھ اثر نہیں ہوگا.‘‘ (بدر جلد ۱ نمبر ۱ مورخہ ۶؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ۳.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۲ مورخہ ۱۰؍ اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ۲ ۱) ۶؍ اپریل۱۹۰۵ء ’’کوئی رُوح کہتی ہے ہم نے وہ جہان؎۲ چھوڑ دیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی آدمی ہم سے تعلقِ دوستی یا دشمنی رکھنے والا اِس جہان سے گزر جائے گا.‘‘ (بدر جلد ۱ نمبر ۱ مورخہ ۶؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۳.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۲ مورخہ ۱۰؍ اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ۲ ۱) ۷؍ اپریل۱۹۰۵ء ’’۴؍ اپریل ۱۹۰۵ء کو جب زلزلہ آیا تھا اس دن لاہور سے کئی دوستوں کے خط آئے… کہ ہم کو خداوند تعالیٰ نے اس آفت سے بچالیا مگر میر محمد اسمٰعیل صاحب کا ایک خط بھی نہ آیا… پھر دوسرے روز بھی کوئی خط نہ آیا… پھر تیسرے روز بھی کوئی خط نہ آیا اور کسی دوست نے بھی نہ لکھا کہ میر محمد اسمٰعیل صاحب خیروعافیت سے ہیں.تب اُن دونوں؎۳ کی حالت مارے غم کے قریب موت کے ہوگئی اور حضرت کو دعا کے واسطے ۱ (ترجمہ از مرتّب) مَیں نے بنی اسرائیل سے (دشمن کا حملہ ) روک دیا.۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.’’ یہ میرے ساتھ عادت اللہ ہے کہ کشف میں اس دنیا کو ’’وہ جہان‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے.‘‘ (ریویو آف ریلیجنز جلد ۴ نمبر ۴ بابت ماہِ اپریل ۱۹۰۵ء ٹائٹل صفحہ آخر) ۳ یعنی حضرت اُمّ المؤمنینؓ ووالدہ صا حبہ حضرت اُمّ المؤمنینؓ.(شمس)
کہا حضرت نے ان کا سخت قلق اور رنج دیکھ کر بہت توجہ سے دعا کی تو جواب میں یہ الہام ہوا.اسسٹنٹ سرجن‘‘ ؎۱ (بدر جلد ۱ نمبر۶ ۱ مورخہ ۲۰؍ جولائی ۱۹۰۵ء صفحہ ۷) ۸ ؍اپریل۱۹۰۵ء ’’آج رات تین بجے کے قریب خدائے تعالیٰ کی پاک وحی مجھ پر نازل ہوئی جو ذیل میں لکھی جاتی ہے.تازہ نشان.تازہ نشان کا دھکہ.زَلْزَلَۃُ السَّاعَۃِ.قُوْا اَنْفُسَکُمْ.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الْاَ بْـرَارِ.دَنٰی مِنْکَ الْفَضْلُ.جَآءَ الْـحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ.(ترجمہ مع شرح) یعنی خدا ایک تازہ نشان دکھائے گا.مخلوق کو اس نشان کا ایک دھکہ لگے گا.وہ قیامت کا زلزلہ ہوگا.مجھے علم نہیں دیا گیا کہ زلزلہ سے مراد زلزلہ ہے یا کوئی اَور شدید آفت ہے جو دنیا پر آئے گی جس کو قیامت کہہ سکیں گے اور مجھے علم نہیں دیا گیا کہ ایسا حادثہ کب آئے گا اور مجھے علم نہیں کہ وہ چند دن یا چند ہفتوں تک ظاہر ہوگا یا خدائے تعالیٰ اس کو چند مہینوں یا چند سال کے بعد ظاہر فرمائے گا.بہرحال وہ حادثہ زلزلہ ہو یا کچھ اَور ہو.قریب ہو یا بعید ہو.پہلے سے بہت خطرناک ہے.سخت خطرناک ہے.اگر ہمدردی ٔ مخلوق مجھے مجبور نہ کرتی تو مَیں بیان نہ کرتا… بقیہ ترجمہ عربی وحی کا یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ نیکی کرکے اپنے تئیں بچالو قبل اس کے جو وہ ہولناک دن آوے جو ایک دَم میں تباہ کردے گا.اور فرماتا ہے کہ خدا اُن کے ساتھ ہے جو نیکی کرتے ہیں اور بدی سے بچتے ہیں اور پھر اُس نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ میرا فضل تیرے نزدیک آگیا.یعنی وہ وقت آگیا کہ تُو کامل طور پر شناخت کیا جاوے.حق آگیا اور باطل بھاگ گیا … دیکھو! آج مَیں نے بتلادیا.زمین بھی سنتی ہے اور آسمان بھی کہ ہرایک جو راستی کو چھوڑ کر شرارتوں پر آمادہ ہوگا اور ہرایک جو زمین کو اپنی بدیوں سے ناپاک کرے گا وہ پکڑا جائے گا.خدا فرماتا ہے کہ قریب ہے جو میرا قہر زمین پر اُترے کیونکہ زمین پاپ اور گناہ سے بھر گئی.پس اُٹھو اور ہوشیار ہوجاؤ کہ وہ آخری وقت ۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) چنانچہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب اسی سال میڈیکل کالج لاہور کے آخری امتحان میں تمام پنجاب میں اوّل نمبر پر پاس ہوکر اسسٹنٹ سرجن مقرر ہوئے اور ۱۹۲۸ء میں سول سرجن لگ کر ۱۹۳۶ء میں ریٹائر ہوئے.
قریب ہے جس کی پہلے نبیوں نے بھی خبر دی تھی.مجھے اُس ذات کی قسم ہے جس نے مجھے بھیجا کہ یہ سب باتیں اُس کی طرف سے ہیں میری طرف سے نہیں ہیں.کاش یہ باتیں نیک ظنی سے دیکھی جاویں.کاش مَیں اُن کی نظر میں کاذب نہ ٹھیرتا تا دنیا ہلاکت سے بچ جاتی… ورنہ وہ دِن آتا ہے کہ انسانوں کو دیوانہ کردے گا.نادان بدقسمت کہے گا کہ یہ باتیں جھوٹ ہیں.ہائے وہ کیوں اس قدر سوتا ہے.آفتاب تو نکلنے کو ہے.جب خدائے تعالیٰ اس وحی کے الفاظ میرے پر نازل کرچکا تو ایک رُوح کی آواز میرے کان میں پڑی جو کوئی ناپاک رُوح تھی اور مَیں نے اس کو یہ کہتے سنا کہ مَیں سوتے سوتے جہنّم میں پڑ گیا انسان کا کیا حَرج ہے اگر وہ فسق و فجور کو چھوڑ دے.کون سا اس میں اس کا نقصان ہے اگر وہ مخلوق پرستی نہ کرے.آگ لگ چکی ہے.اُٹھو اور اس آگ کو اپنے آنسوؤں سے بجھاؤ.‘‘ (اشتہار الانذار ۸؍اپریل ۱۹۰۵ء.مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۳۵۲ تا ۳۵۴ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۹؍ اپریل۱۹۰۵ء ’’۹؍اپریل ۱۹۰۵ء کو پھر خدا تعالیٰ نے مجھے ایک سخت زلزلہ کی خبر دی ہے جو نمونہ قیامت اور ہوش رُبا ہوگا.چونکہ ۲دو مرتبہ مکرر طور پر اس علیم مطلق نے اس آئندہ واقعہ پر مجھے مطّلع فرمایا ہے اِس لئے مَیں یقین رکھتا ہوں کہ یہ عظیم الشان حادثہ جو محشر کے حادثہ کو یاد دلادے گا.دُور؎۱ نہیں ہے.مجھے خدائے عزوجل نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ دونوں زلزلے تیری سچائی ظاہر کرنے کے لئے ۲دو نشان ہیں اُنہیں نشانوں کی طرح جو موسٰی نے فرعون کے سامنے دکھلائے تھے اور اُس نشان کی طرح جو نوح ؑنے اپنی قوم کو دکھلایا تھا.اور یاد رہے کہ ان نشانوں کے بعد ابھی بس نہیں ہے بلکہ کئی نشان ایک دوسرے کے بعد ظاہر ہوتے رہیں گے یہاں تک کہ انسان کی آنکھ کھلے گی اور حیرت زدہ ہوکر کہے گا کہ یہ کیا ہوا چاہتا ہے.ہر ایک دن سخت اور پہلے سے بد تر آئے گا.خدا فرماتا ہے کہ مَیں حیرت ناک کام دکھلاؤں گا اور بس نہیں کروں گا جب تک کہ لوگ اپنے دلوں کی اصلاح نہ کرلیں اور جس طرح یوسف ؑ نبی کے وقت میں ہوا کہ سخت کال پڑا یہاں تک کہ کھانے کے لئے درختوں کے پتے بھی نہ رہے.اسی طرح ایک آفت کا سامنا موجود ہوگا اور جیسا کہ یوسف ؑ نے اناج کے ذخیرے سے لوگوں کی جان بچائی اسی طرح جان بچانے کے لئے خدا نے اِس جگہ بھی مجھے ایک روحانی ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’اگر خدا تعالیٰ نے اُس آفت ِ شدیدہ کے ظہور میں بہت ہی تاخیر ڈال دی تو زیادہ سے زیادہ سولہ سال ہیں اِس سے زیادہ نہیں.‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصّہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۲۵۸)
غذا کا مہتمم بنایا ہے.جو شخص اس غذا کو سچّے دل سے پورے وزن کے ساتھ کھائے گا مَیں یقین رکھتا ہوں کہ ضرور اس پر رحم کیا جائے گا… ہاں خدا نے مجھے یہ خبر دے رکھی ہے کہ طاعون اِس جماعت کی تعداد کو بڑھائے گی اور دوسرے مسلمانوں کی تعداد کو گھٹائے گی… مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس آنے والے نشان کے بعد جو مجھ کو قبول کرے گا اس کا ایمان قابلِ عزت نہیں.جس کے کان ہیں سنے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا غضب زمین پر بھڑکا ہے کیونکہ زمین والوں نے میری طرف سے منہ پھیر لیا ہے.پس جب ایک انسانی سلطنت عدول حکمی سے ناراض ہوجاتی ہے اور ہولناک سزادیتی ہے پھر خدا کا غضب کیسا ہوگا.پس توبہ کرو کہ دن نزدیک ہیں.اور اس بارے میں جو عربی میں مجھے وحیِ الٰہی ہوئی اِس جگہ مَیں اُس کو معہ ترجمہ لکھ کر اس اشتہار کو ختم کرتا ہوں اور وہ یہ ہے.بخور آنچہ ترابخور انم.لَکَ دَرَجَۃٌ فِی السَّمَآءِ وَ فِی الَّذِ یْنَ ھُمْ یُبْصِـرُوْنَ.نَـزَلْتُ لَکَ.لَکَ نُرِیْ اٰیَـاتٍ وَّ نَـھْدِ.مُ مَا یَعْمُرُوْنَ.قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّـؤْمِنُوْنَ.کَـفَفْتُ عَنْ بَنِیْٓ اِسْـرَآءِیْلَ.اِنَّ فِرْعَـوْنَ وَھَامَانَ وَجُنُوْدَھُمَا کَانُوْا خَاطِئِیْنَ.اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً.یعنی جو کچھ مَیں تجھے کھلاتا ہوں وہ کھا.تیرا آسمان پر ایک درجہ ہے اور نیز ان میں درجہ ہے جو آنکھیں رکھتے ہیں اور دیکھتے ہیں اور مَیں تیرے لئے زمین پر اُتروں گا تا اپنے نشان دکھلاؤں.ہم تیرے لئے زلزلہ کا نشان دکھلائیں گے اور وہ عمارتیں جن کو غافل انسان بناتے ہیں یا آئندہ بنائیں؎۱ گے گرادیں گے.اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک زلزلہ نہیں بلکہ کئی زلزلے ہوں گے جو عمارتوں کو وقتاً وفوقتاً گرائیں؎۲ گے.اور پھر فرمایا کہ مَیں تیری جماعت کے لوگوں کو جو مخلص ہیں اور بیٹوں کا حکم رکھتے ہیں، بچاؤں گا.اِس وحی ۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) یہ پیشگوئی ۲۰؍ مئی ۱۹۰۵ء کو پوری ہوگئی.یعنی دھرم سالہ میں مورخہ ۲۰؍ مئی ۱۹۰۵ء کو پھر سخت زلزلہ آیا اور کئی نئے مکانات جو رہائش کے لئے بنائے گئے تھے گِر گئے.(دیکھیے سول اینڈ ملٹری گزٹ مورخہ ۲۴؍ مئی ۱۹۰۵ء ) ۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.’’یہ فقرہ روحانی اور ظاہری دونوں معنی رکھتا ہے.اس کے یہ بھی معنے ہیں کہ بد اَندیشیوں اور منصوبوں کی جو جو عمارتیں وہ بنائیں گے اُنہیں اللہ تعالیٰ مُنہدم کرتا رہے گا.‘‘ (الحکم مورخہ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۶ )
میں خدا تعالیٰ نے مجھے اسرائیل قرار دیا اور مخلص لوگوں کو میرے بیٹے.اِس طرح پر وہ بنی اسرائیل ٹھہرے.اور پھر فرمایا کہ مَیں آخر کو ظاہر کروں گا کہ فرعون یعنی وہ لوگ جو فرعون کی خصلت پر ہیں اور ہامان یعنی وہ لوگ جو ہامان کی خصلت پر ہیں اور ان کے ساتھ کے لوگ جو اُن کا لشکر ہیں.یہ سب خطا پر تھے اور پھر فرمایا کہ مَیں اپنی تمام فوجوں کے ساتھ یعنی فرشتوں کے ساتھ نشانوں کے دکھلانے کے لئے ناگہانی طور پر تیرے پاس آؤں گا.یعنی اُس وقت جب اکثر لوگ باور نہیں کریں گے اور ٹھٹھے اور ہنسی میں مشغول ہوں گے اور بالکل میرے کام سے بے خبر ہوں گے.تب مَیں اُس نشان کو ظاہر کردوں گا کہ جس سے زمین کانپ اُٹھے گی.تب وہ روز دُنیا کے لئے ایک ماتم کا دن ہوگا.مبارک وہ جوڈریں اور قبل اس کے جو خدا کے غضب کا دن آوے توبہ سے اس کو راضی کرلیں کیونکہ وہ حلیم اور کریم اور غفور اور تَوَّاب ہے جیسا کہ وہ شَدِیْدُ الْعِقَاب بھی ہے.‘‘ (اشتہار ۱۸ ؍اپریل ۱۹۰۵ء.مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۳۵۵ تا ۳۶۲ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۹؍اپر۱؎یل۱۹۰۵ء ’’خدا نے مجھ پر ظاہر فرمایا ہے کہ آخری حصّہ زندگی کا یہی ہے جو اَب گزر رہا ہے جیسا کہ عربی میں وحیِ الٰہی یہ ہے.قَـرُبَ اَجَلُکَ الْمُقَّدَّ رُ.وَ لَا نُبْقِیْ لَکَ مِنَ الْمُخْزِیَـاتِ ذِکْـرًا.یعنی تیری اجلِ مقدر اَب قریب ہے اور ہم تیری نسبت ایک بات بھی ایسی باقی نہیں چھوڑیں گے جو موجب ِ رسوائی اور طعن و تشنیع ہو.اسی بناء پر اس نے مجھے توفیق دی کہ پنجم حصّہ براہین ِ احمدیہ شائع کیاجائے.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۹۰ حاشیہ) ۱۴؍ اپریل۱۹۰۵ء ’’رؤیا میں دیکھا کہ مَیں قادیان کے بازار میں ہوں اور ایک گاڑی پر سوار ہوں جیسے کہ ریل گاڑی ہوتی ہے.آگے ایک مکان نظر آیا.اس وقت زلزلہ آیا مگر ہم کو کوئی نقصان اس زلزلہ سے نہیں ہوا.‘‘ (بدر۲؎ جلد ۱ نمبر ۳ مورخہ ۲۰ ؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ۱) ۱۹۰۵ء ’’مَیں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک ظاہری بیعت کرنے والے بہت ایسے ہیں کہ نیک ظنّی کا مادہ بھی ہنوز ان میں کامل نہیں اور ایک کمزور بچہ کی طرح ہر ایک ابتلاء کے وقت ٹھوکر کھاتے ہیں اور بعض بدقسمت ایسے ہیں کہ شریر لوگوں کی باتوں سے جلد متاثر ہوجاتے ہیں اور بَد گمانی کی طرف ایسے دوڑتے ہیں جیسے کتا مُردار کی طرف.۱ (نوٹ از ناشر) یہ تاریخ کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴۲ سے لی گئی ہے جہاں صرف الہام درج ہے.۲ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۱۷ ؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۱۲ میں یہ رؤیا باختلافِ الفاظ درج ہے.
پس مَیں کیوں کر کہوں کہ وہ حقیقی طور پر بیعت میں داخل ہیں.مجھے وقتاً فوقتاً ایسے آدمیوں کا علم بھی دیا جاتا ہے مگر اِذن نہیں دیا جاتا کہ اُن کو مطلع کروں.کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کئے جائیں گے اور کئی بڑے ہیں جو چھوٹے کئے جائیں گے.پس مقامِ خوف ہے.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۱۴) ۱۹۰۵ء ’’خدا تعالیٰ نے قرآن شریف کی ان آیتوں کی نسبت جو سورۃ کہف میں ذوالقرنین کے قصہ کے بارے میں ہیں میرے پر پیشگوئی کے رنگ میں معنے کھولے؎۱ ہیں.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ۱۱۹) ۱۹۰۵ء ’’خدا نے مجھے فرمایا کہ وہ تو تجھے رَدّ کرتے ہیں مگر مَیں تجھے خاتم الخلفاء بناؤں گا.‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصّہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ۲۶۷ حاشیہ) ۱۵؍ اپریل۱۹۰۵ء ’’قبل ظہر تھوڑی سی ربودگی اور غنودگی ہوکر یہ الہام ہوا.اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً.‘‘ ؎۲ (الحکم جلد ۹ نمبر ۱۳ مورخہ ۱۷ ؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۱۲) ۱۵؍ اپریل۱۹۰۵ء (الف)’’آج رات خواب میں دیکھا کہ سخت زلزلہ آیا ہے جو پہلے سے زیادہ معلوم ہوتا تھا.‘‘ (بدر جلد ۱ نمبر ۳ مورخہ ۲۰؍ اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ۱) (ب) ’’ اک نشاں ہے آنیوالا آج سے کچھ دن کے بعد تاریخ امروزہ ۱۵؍اپریل ۱۹۰۵ء جس سے گردش کھائیں گے دیہات و شہر اور مرغزار آئے گا قہرِ خدا سے خلق پر اِک انقلاب اِک برہنہ سے نہ یہ ہوگا کہ تا باندھے ازار یک بیک اِک زلزلہ سے سخت جُنبش کھائیں گے کیا بشر اور کیا شجر اور کیا حجر اور کیا بحار اِک جھپک میں یہ زمیں ہوجائے گی زیرو زبر نالیاں خوں کی چلیں گی جیسے آبِ رودبار رات جو رکھتے تھے پوشاکیں برنگِ یاسمن صبح کردے گی انہیں مثلِ درختانِ چنار ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یہ معنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے براہین احمدیہ حصّہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۱۹ تا ۱۲۶ پر بیان فرمائے ہیں.۲ (ترجمہ) مَیں فوجیں لے کر اچانک تیرے پاس آؤں گا.(بدر مورخہ ۲۰؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۱)
ہوش اُڑ جائیں گے انساں کے پرندوں کے حواس بھولیں گے نغموں کو اپنے سب کبوتر اور ہزار ہر مسافر پر وہ ساعت سخت ہے اور وہ گھڑی راہ کو بھولیں گے ہوکر مَست و بیخود راہوار (بلبل) خون سے مُردوں کے کوہستان کے آبِ رواں سُرخ ہوجائیں گے جیسے ہو شرابِ انجبار مضمحل ہوجائیں گے اس خوف سے سب جن و اِنس زار بھی ہوگا تو ہوگا اُس گھڑی باحالِ زار اِک نمونہ قہر کا ہوگا وہ ربّانی نشاں آسماں حملے کرے گا کھینچ کر اپنی کٹار ہاں نہ کر جلدی سے انکار اے سفیہِ ناشناس اِس پہ ہے میری سچائی کا سبھی دارومدار وحیِ حق کی بات ہے ہوکر رہے گی بے خطا کچھ دنوں کر صبر ہوکر متّقی اور بُردبار‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۵۱، ۱۵۲) (نوٹ) ’’خدا تعالیٰ کی وحی میں زلزلہ کا بار بار لفظ ہے اور فرمایا کہ ایسا زلزلہ ہوگا جو نمونہ قیامت ہوگا.بلکہ قیامت کا زلزلہ اس کو کہنا چاہیےجس کی طرف سورۃ اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا اشارہ کرتی ہے لیکن مَیں ابھی تک اِس زلزلہ کے لفظ کو قطعی یقین کے ساتھ ظاہر پر جما نہیں سکتا.ممکن ہے کہ یہ معمولی زلزلہ نہ ہو بلکہ کوئی اَور شدید آفت۱؎ ہو جو قیامت کا نمونہ دکھاوے جس کی نظیر کبھی اس زمانہ نے نہ دیکھی ہو اور جانوں اور عمارتوں پر سخت تباہی آوے.ہاں اگر ایسا فوق العادت نشان ظاہر نہ ہو اور لوگ کھلے طور پر اپنی اصلاح بھی نہ کریں تو اُس صورت میں مَیں کاذب ٹھہروں گا.‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۵۱ حاشیہ) ۱۸؍ اپریل۱۹۰۵ء (الف)’’دیکھا کہ زور سے اللہ اکبر اللہ اکبر (ساری اذان) کہہ رہا ہوں.ایک اُونچے درخت پر ایک آدمی بیٹھا ہے.وہ بھی یہی کلمات بول رہا ہے.اس کے بعد مَیں نے بآوازِ بلند درُود شریف پڑھنا شروع کیا اور اس کے بعد وہ آدمی نیچے اُتر آیا اور اُس نے کہا کہ سید محمد علی شاہ آگئے ہیں.اس کے بعد کیا دیکھتا ہوں کہ بڑے زور سے زلزلہ آیا ہے ا ور زمین اس طرح اُڑ رہی ہے جس طرح رُوئی دُھنی جاتی ہے.اس کے بعد یہ وحی نازل ہوئی.ہے سرِ راہ پر تمہارے وہ جو ہے مولا کریم.‘‘ (بدر جلد ۱ نمبر ۳ مورخہ ۲۰ ؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ۱.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۴ مورخہ ۲۴ ؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ۱) ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’اگر خدا تعالیٰ نے اس آفت ِ شدیدہ کے ظہور میں بہت ہی تاخیر ڈال دی تو زیادہ سے زیادہ سولہ سال ہیں اس سے زیادہ نہیں.‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۲۵۸)
’’سونے والو جلد جاگو یہ نہ وقت ِ خواب ہے جو خبر دی وحیِ حق نے اس سے دِل بیتاب ہے زلزلہ سے دیکھتا ہوں مَیں زمیں زیرو زبر وقت اَب نزدیک ہے آیا کھڑا سیلاب ہے ہے سرِ راہ پر کھڑا نیکوں کی وہ مَولیٰ کریم نیک کو کچھ غم نہیں ہے گو بڑا گرداب ہے کوئی کشتی اَب بچا سکتی نہیں اس سَیل سے حیلے سب جاتے رہے اِک حضرتِ تــوّاب ہے‘‘ (اشتہار النّداء من وحی السّماء.مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۳۵۵ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) (ج) ’’اِک ضیافت ہے بڑی اے غافلو کچھ دن کے بعد جس کی دیتا ہے خبر فرقاں میں رحماں بار بار فاسقوں اور فاجروں پر وہ گھڑی دُشوار ہے جس سے قیمہ بن کے پھر دیکھیں گے قیمہ کا بگھار خوب کُھل جائے گا لوگوں پر کہ دِیں کس کا ہے دیں پاک کر دینے کا تیرتھ کعبہ ہے یا ہردوار وحیِ حق کے ظاہری لفظوں میں ہے وہ زلزلہ لیک ممکن ہے کہ ہو کچھ اَور ہی قسموں کی مار وہ تباہی آئے گی شہروں پہ اور دیہات پر جس کی دُنیا میں نہیں ہے مثل کوئی زینہار ایک دَم میں غمکدے ہوجائیں گے عشرت کدے شادیاں کرتے تھے جو پیٹیں گے ہوکر سوگوار وہ جو تھے اُونچے محل اور وہ جو تھے قصربریں پَست ہوجائیں گے جیسے پَست ہو اِک جائے غار ایک ہی گردش سے گھر ہوجائیں گے مٹی کا ڈھیر جس قدر جانیں تلف ہوں گی نہیں اُن کا شمار کب یہ ہوگا یہ خدا کو علم ہے پر اس قدر دی خبر مجھ کو کہ وہ دِن ہوں گے ایامِ بہار پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی یہ خدا کی وحی ہے اب سوچ لو اے ہوشیار (منقول اَز نوٹ بُک حضرت مسیح موعود علیہ السلام بحوالہ دُرّثمین شائع کردہ مکرم محمد یامین صاحب مرحوم ۲۱؍ اپریل۱۹۰۵ء (الف) ’’ اَمن اَست دَر مکان محبّت سرائے ما‘‘ ؎۱ (بدر جلد ۱ نمبر ۳ مورخہ ۲۰؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۱.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۴ مورخہ ۲۴؍ اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۱) (ب) ’’ ۴؍ اپریل ۱۹۰۵ء کے زلزلہ کے وقت ہم مع اپنے تمام اہل و عیال کے باغ میں چلے گئے تھے اور ایک میدان ہماری زمین کا جس میں پانچ ہزار آدمی کی گنجائش ہوسکتی تھی ہم نے سونے کے لئے ۱ (ترجمہ از مرتّب) ہمارے مکان محبّت سرائے میں امن ہے.
پسند کیا اور اس میں دو خیمے لگائے اور اِردگرد قناتوں سے پَردہ کرادیا مگر پھر بھی چوروں کا خطرہ تھا کیونکہ جنگل تھا.اس کے قریب ہی بعض دیہات میں نامی چور رہتے ہیں جو کئی مرتبہ سزا پاچکے ہیں.ایک مرتبہ رات کو مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں پہرہ کے لئے پھرتا ہوں.جب مَیں چند قدم گیا تو ایک شخص مجھے ملا اور اُس نے کہا کہ آگے فرشتوں کا پہرہ ہے یعنی تمہارے پہرہ کی کچھ ضرورت نہیں تمہاری فرودگاہ کے اِرد گرد فرشتے پہرہ دے رہے ہیں.پھر بعد اس کے الہام ہوا.اَمن اَست دَر مقامِ محبّت سرائے ما پھر چند روز کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ اِرد گرد کے دیہات میں سے ایک گاؤں کا باشندہ جو نامی چور تھا چوری کے ارادہ سے ہمارے باغ میں آیا اور اس کا نام بشن سِنگھ تھا.رات کا پچھلا حصّہ تھا جب وہ اِس ارادہ سے باغ میں داخل ہوا مگر موقعہ نہ ملنے سے ایک پیاز کے کھیت میں بیٹھ گیا اور بہت سی پیاز اس نے توڑی اور ایک ڈھیر لگادیا اور پھر کسی نے دیکھ لیا تب وہاں سے دوڑا اور وہ اِس قدر قوی ہیکل تھا کہ اس کو دس آدمی بھی پکڑ نہ سکتے اگر خدا کی پیشگوئی نے پہلے سے اُس کو پکڑا ہوا نہ ہوتا.دَوڑنے کے وقت ایک گڑھے میں پَیر اس کا جاپڑا.پھر بھی وہ سنبھل کر اُٹھا.مگر آگے پیچھے سے لوگ پہنچ گئے اور اس طرح پر سردار بشن سِنگھ باوجود اپنی سخت کوشش کے پکڑے گئے اور عدالت میں جاتے ہی سزا یاب ہوگئے.بعد اس کے ہمارے سکونتی مکان میں سے جو باغ میں ہے جس میں ہم دن کے وقت رہتے تھے ایک بڑا سانپ نکلا جو ایک زہریلا سانپ تھا اور بڑا لمبا تھا وہ بھی اس چور کی طرح اپنی سزا کو پہنچا اور اِس طرح پر فرشتوں کی حفاظت کا ثبوت ہمیں دست بدست مِل گیا.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۱۵، ۳۱۶) ۲۲؍ اپریل۱۹۰۵ء ’’جَآءَ کَ الْفَتْحُ ‘‘ ؎۲ (بدر جلد ۱ نمبر ۴ مورخہ ۲۷ ؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ۱.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۴ مورخہ ۲۴ ؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ۱) ۲۴؍ اپریل۱۹۰۵ء ۱.’’تما م حوادِث اور عجائباتِ قدرت دِکھلانے کے بعد تیرا ۴؎حادثہ ہوگا.‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۹۰ حاشیہ ) ۱ (ترجمہ) تیرے پاس فتح آئی.(بدر مورخہ ۲۷؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۱) ۲ (نوٹ از ناشر) کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴۲ میں اس الہام کے الفاظ یوں مندرج ہیں.’’تمام حوادث اور عجائباتِ قدرت دکھلانے کے بعد تمہارا حادثہ آئے گا.‘‘
۲.’’بھونچال آیا اور بڑی شدت سے آیا.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴۲ بدر جلد ۱ نمبر ۴ مورخہ ۲۷؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۱.الحکم جلد ۹نمبر۱۴ مورخہ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ۱) ۲۵؍ اپریل۱۹۰۵ء ’’قُلْ مَا لَکَ حِیْلَۃٌ ‘‘ ؎۱ (بدر جلد ۱ نمبر ۴ مورخہ ۲۷ ؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ۱.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۴ مورخہ ۲۴ ؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ۱) ۲۸؍ اپریل۱۹۰۵ء ’’رؤیا میں دیکھا کہ ایک سفید کپڑا ہے اس پر کسی نے ایک انگشتری رکھ دی ہے.اس کے بعد الہاماتِ ذیل ہوئے.۱.فتح نمایاں.ہماری فتح.۲.صَدَّ قْتَ الرُّؤْیَـا.۳.اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً.‘‘۲؎ ( الحکم۳؎ جلد ۹ نمبر ۱۵ مورخہ ۳۰ ؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ۱) ۲۹؍ اپریل۱۹۰۵ء ’’رات دو بجنے میں سات منٹ باقی تھے کہ مَیں نے دیکھا کہ یکایک زمین ہلنی شروع ہوئی.پھر ایک زور کا دھکا لگا.مَیں نےرؤیاہی میں گھر والوں کو کہا کہ اُٹھو زلزلہ آیا ہے اور یہ بھی کہا ۱ (ترجمہ از مرتّب) کہو اَب تمہارا حیلہ کارگر نہیں ہوسکتا.۲ (ترجمہ) سچا کیا تو نے خواب کو.میں اپنے فرشتوں کی فوجوں کے ساتھ اس وقت آؤں گا کہ کسی کو گمان بھی نہ ہوگا کہ ایسا حادثہ ہونے والا ہے.(بدر مورخہ ۲۷؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۱) ۳ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲۷ ؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ۱ میں یہ رؤیا و الہامات مع تفصیل یوں درج ہیں.’’رؤیا میں دیکھا کہ ایک سفید سا کپڑا بچھا ہوا ہے اس پر کسی نے ایک انگشتری رکھ دی ہے.اس کے بعد یہ وحی نازل ہوئی.فتح نمایاں.ہماری فتح.یعنی واقعات آئندہ کے واسطے جو پیش گوئیاں کی ہوئی ہیں اور جن پر دشمن ہنسی کرتا ہے ان کو خدا تعالیٰ پورا کرکے ہماری صداقت دنیا پر ظاہر کردے گا اور لوگ نیک چلنی اختیار کریں گے اور خدا پر ایمان لائیں گے.صَدَّ قْتَ الرُّؤْیَـا.اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً.خدا تعالیٰ ہمیشہ انبیاء کی امداد فرشتوں کے ذریعہ سے کرتا ہے جو لوگوں کے دلوں میں نیکی کی ترغیب پیدا کرتے ہیں اور حق کی طرف راہ د کھاتے ہیں.اسی شب صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب نے خواب میں دیکھا تھا کہ حضرت کو اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً۴؎ الہام ہوا ہے.صبح اُٹھ کر ذکر کیا تو معلوم ہوا کہ بے شک یہ الہام ہوا ہے.‘‘ ۴ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو خواب میں یہ الہام بتائے جانے میں غالباً ایک بڑی حکمت یہ تھی کہ اس الہام کا آپ کے زمانہ خلافت میں ایک خاص ظہور مقدر تھا جیسا کہ مارچ ۱۹۵۳ء میں ہوا.
مبارک کو لے لو.اسی حالت ِرؤیامیں یہ بھی خیال آیا کہ شاستری کی پیشگوئی غلط نکلی.‘‘ ( الحکم۱؎ جلد ۹ نمبر ۱۵ مورخہ ۳۰ ؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ۱) ۲۹؍ اپریل۱۹۰۵ء ’’آج ۲۹؍ اپریل ۱۹۰۵ء کو پھر خدا تعالیٰ نے مجھے دوسری مرتبہ کے زلزلہ شدیدہ کی نسبت اطلاع دی ہے.سو مَیں محض ہمدردی ٔ مخلوق کے لئے عام طور پر تمام دُنیا کو اطلاع دیتا ہوں کہ یہ بات آسمان پر قرار پاچکی ہے کہ ایک شدید آفت سخت تباہی ڈالنے والی دُنیا؎۲پر آوے گی جس کا نام خدا تعالیٰ ۱ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲۷؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۱ پر یہ رؤیا یوں درج ہے.’’گزشتہ رات کو ۲ بجنے میں سات منٹ باقی تھے جب کہ ہم نے یہ رؤیا دیکھا کہ زمین ہلتی ہے.پہلے ہم نے خیال کیا کہ شاید ویسے ہی کچھ حرکت ہوئی ہے مگر پھر زور سے ایک دھکا لگا.تب یقین ہوا کہ زلزلہ ہے اور میں گھر کے آدمیوں کو جگاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اُٹھو.زلزلہ آیا.مبارک کو بھی اُٹھالو اور یہ بھی رؤیا میں کہتا ہوں کہ جوتشی کس قدر جھوٹے ہیں.پنڈت نے تو اخبار میں چھپوایا تھا کہ اب زلزلہ نہیں آئے گا اس کے بعد بیداری ہوئی.‘‘ ۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’مجھے خدا تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ وہ آفت جس کا نام اُس نے زلزلہ رکھا ہے نمونۂ قیامت ہوگا اور پہلے سے بڑھ کر اس کا ظہور ہوگا… اگر چہ بظاہر لفظ زلزلہ کا آیا ہے مگر ممکن ہے کہ وہ کوئی اَور آفت ہو جو زلزلہ کا رنگ اپنے اندر رکھتی ہو مگر نہایت شدید آفت ہو جو پہلے سے بھی زیادہ تباہی ڈالنے والی ہو جس کا سخت اثر مکانات پر بھی پڑے… جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ زلزلہ تیری ہی زندگی میں آئے گا اور اس زلزلہ کے آنے سے تیرے لئے فتح نمایاں ہوگی اور ایک مخلوقِ کثیر تیری جماعت میں داخل ہوجائے گی اور تیرے لئے وہ آسمانی نشان ہوگا.تیری تائید کے لئے خدا خود اُترے گا اور اپنے عجائب کام دکھلائے گا جو کبھی دُنیا نے نہیں دیکھے اور دُور دُور سے لوگ آئیں گے اور تیری جماعت میں داخل ہوں گے اور وہ زلزلہ پہلے زلزلہ سے بڑھ کر ہوگا اور اس میں قیامت کے آثار ظاہر ہوں گے اور دُنیا میں ایک انقلاب پیدا کرے گا اور خدا فرماتا ہے کہ مَیں اُس وقت آؤں گا کہ جب دل سخت ہوجائیں گے اور زلزلہ آنے کے خیال سے لوگ اطمینان حاصل کرلیں گے اور خدا فرماتا ہے کہ مَیں مخفی طور پر آؤں گا اور مَیں ایسے وقت میں آؤں گا کہ کسی کو بھی اطلاع نہیں ہوگی.یعنی لوگ اپنے دُنیا کے کاروبار میں سرگرمی اور اطمینان سے مشغول ہوں گے کہ یک دفعہ وہ آفت نازل ہوجائے گی اور اس سے پہلے لوگ تسلّی کر بیٹھے ہوں گے کہ زلزلہ نہیں آئے گا اور اپنے تئیں بے خطر اور امن میں سمجھ لیا ہوگا تب یک دفعہ یہ آفت ان کے سروں پر ٹوٹے گی مگر خدا فرماتا ہے کہ وہ بہار کے دن ہوں گے.آفتاب بہار کی صبح میں نمودار ہوگا اور خزاں کی شام میں غروب کرے گا تب کئی گھروں میں ماتم پڑے گا کیونکہ انہوں نے وقت کو شناخت نہ کیا.‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصّہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۲۵۳ تا ۲۵۵)
نے بار بار زلزلہ رکھا ہے.مَیں نہیں جانتا کہ وہ قریب ہے یا کچھ دنوں کے بعد خدا تعالیٰ اُس کو ظاہر فرمادے گا.مگر بار بار خبر دینے سے یہی سمجھاجاتا ہے کہ بہت دُور نہیں ہے.یہ خدا تعالیٰ کی خبر اور اُس کی خاص وحی ہے جو عالم الاسـرار ہے… خدا فرماتا ہے کہ مَیں چُھپ کر آؤں گا.مَیں اپنی فوجوں کے ساتھ اس وقت آؤں گا کہ کسی کو گمان بھی نہ ہوگا کہ ایسا حادثہ ہونے والا ہے.غالباً وہ صبح کا وقت ہوگا یا کچھ حصّہ رات میں سے، یا ایسا وقت ہوگا جو اس سے قریب ہے… اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُس روز مَیں اُن پر رحم کروں گا جن کے دل مجھ سے ترساں اور ہراساں ہیں جو نہ بدی کرتے ہیں اور نہ بدی کی مجلسوں میں بیٹھتے ہیں.اور خدا نے یہ بھی فرمایا کہ اس روز تیرے لئے فتحِ نمایاں ظاہر ہوگی.کیونکہ خدا اس روز وہ سب کچھ دکھلائے گا جو قبل از وقت دنیا کو سنایا گیا.خوش قسمت وہ جو اَب بھی سمجھ جائے… مجھے خدا تعالیٰ نے اطلاع دی ہے تا وہ جو خدا تعالیٰ کو شناخت نہیں کرتے اور نہ مجھ کو، اُن کو پتہ لگ جائے.مَیں محض ہمدردی کی راہ سے یہ بھی کہتا ہوں کہ اگر بڑے بڑے مکانوں سے جو دو منزلے سہ منزلے ہیں اجتناب کریں تو اس میں رعایت ظاہر ہے آئندہ ان کا اختیار.‘‘ ( اشتہار ۲۹؍ اپریل ۱۹۰۵ء بروز شنبہ مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۳۶۵،۳۶۶ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) اپریل۱۹۰۵ء ’’جب ہم بہار کے موسم میں ۱۹۰۵ء میں باغ میں تھے تو مجھے اپنی جماعت کے لوگوں میں سے جو باغ میں تھے کسی ایک کی نسبت یہ الہام ہوا تھا کہ خدا کا ارادہ ہی نہ تھا کہ اُس کو اچھا کرے مگر فضل سے اپنے ارادہ کو بدل دیا اِس الہام کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ سید مہدی حسین صاحب جو ہمارے باغ میں تھے اور ہماری جماعت میں داخل ہیں اُن کی بیوی سخت بیمار ہوگئی.وہ پہلے بھی تپ اور ورم سے جو منہ اور دونوں پَیروں اور تمام بدن پر تھی، بیمار تھی اور بہت کمزور تھی اور حاملہ تھی.پھر بعد وضع حمل جو باغ میں ہوا اُس کی حالت بہت نازک ہوگئی اور آثار نومیدی ظاہر ہوگئے اور مَیں اس کے لئے دعا کرتا رہا.آخر خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کو دوبارہ زندگی حاصل ہوئی …دوسرے روز سید مہدی حسین کی اہلیہ کی زبان پر یہ الہام مِن جانب اللہ جاری ہوا.تُو اچھی تو
نہ ہوتی مگر حضرت صاحب کی دعا کا سبب ہے کہ اَب تُو اچھی ہوجائے گی.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۷۸، ۳۷۹) یکم مئی۱۹۰۵ء ۱.’’عالم کشف میں ایک اشتہار دکھایا گیا.اس کے سر پر لکھا ہوا ہے.اَلْــــمُــبَارَکُ پھر بطور وحی کے زبان پر جاری ہوا.بَـرَکَۃٌ زَائِدَ ۃٌ عَلٰی ھٰذَا الرَّجُلِِ ؎۱ اِس کے بعد ایک رؤیاہوا کہ مَیں رات کو اُٹھا ہوں.پہلے بشیر احمد، شریف احمد ملے.پھر مَیں آگے جاتا ہوں کہ پہرے والوں کو دیکھوں تو مَیں کہتا ہوں یا کوئی کہتا ہے کہ اس کے آگے فرشتے پہرہ دے رہے ہیں.‘‘ ( بدر۲؎ جلد ۱ نمبر ۴ مورخہ ۲۷ ؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ۱) ۲.رؤیا.’’دیکھا کہ زلزلہ آیا ہے.‘‘ ( بدر جلد ۱ نمبر ۴ مورخہ ۲۷ ؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۱.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۶ مورخہ ۱۰؍مئی ۱۹۰۵ء صفحہ ۱) ۳؍ مئی۱۹۰۵ء ۱.’’ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی.؎۳ فرمایا.اِ س سے اشارہ اُن اشتہارات کی طرف معلوم ہوتا ہے جو حال میں شائع ہورہے ہیں.‘‘ ۲.رؤیا.صبح کے وقت لکھا ہوا دکھایا گیا.’’ آہ نادر شاہ کہاں گیا.‘‘؎۴ ( بدر جلد ۱ نمبر ۴ مورخہ ۲۷ ؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ۱ و الحکم جلد ۹ نمبر ۱۶ مورخہ۱۰ ؍مئی ۱۹۰۵ء صفحہ۱) ۱ (ترجمہ) یعنی ایک سے زیادہ برکت ہے اس مرد پر.( بدر مورخہ ۲۷ ؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ۱) ۲ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۳۰؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۱ میں بدر میں درج کشف باختلاف الفاظ موجود ہے جب کہ بعد والی رؤیا الحکم مورخہ ۱۰؍مئی ۱۹۰۵ء صفحہ ۱ میں درج ہے.۳ (ترجمہ از مرتّب) جو تیر تُو نے چلایا وہ تُو نے نہیں چلایا بلکہ خدا نے چلایا.۴ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) یہ پیشگوئی اِس طور پر پوری ہوئی کہ ۱۹۲۹ء میں جب امیر امان اللہ خاں والیء تخت افغانستان کی حکومت کا تختہ اللہ تعالیٰ نے حبیب اللہ خاں المعروف بچہ سقّہ کے ہاتھ سے اُلٹوایا تو افغانوں نے جلد ہی نادر خاں کو جو اُس وقت فرانس میں تھا، اپنی مدد کے لئے بلایا چنانچہ نادر خاں آیا اور ا س کے ہاتھ سے بچہ سقّہ گرفتار ہوکر مارا گیا اور نادر خاں افغانستان کا بادشاہ بن گیا.اس وقت ا س نے اپنے خاندانی اور ملکی لقب ’’خان‘‘ کو چھوڑ کر
۱۹۰۵ء ’’مجھے خدا نے اپنے الہام سے یہ بھی خبر دی ہے کہ جو شخص تیری طرف تِیر چلائے گا مَیں اُسی تِیر سے اس کا کام تمام کروں گا.‘‘ ( براہین احمدیہ حصّہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۰۲) ۵ ؍ مئی۱۹۰۵ء (کشف) فرمایا.’’آج باغ میں سے ایک جامن کا پتّہ مَیں نے غور سے دیکھا تو اس پر جدھر سے پڑھیں یہی لکھا ہوا نظر آتا تھا.لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ.‘‘ ( بدر جلد ۱ نمبر۵مورخہ ۴ ؍مئی ۱۹۰۵ء صفحہ۷) ۹؍مئی۱۹۰۵ء ’’۱.یَسْتَنْبِئُوْنَکَ اَحَقٌّ ھُوَ.قُلْ اِیْ وَ رَبِّیْ اِنَّہٗ لَـحَقٌّ.۱؎ ۲.پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی.۲؎ اس کے یہ معنے معلوم ہوتے ہیں کہ بہار کے دنوں میں زلزلہ ظاہرہوگا.۳.فتح نمایاں.‘‘ ( کاپی الہامات۳؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴۳) بقیہ حاشیہ.اُس کی بجائے ’’شاہ‘‘ کا لقب اختیار کیا اور ’’نادر شاہ‘‘ کہلانے لگا.اس کے بعد ۸ ؍ نومبر ۱۹۳۳ء کو عین دن کے وقت نادر شاہ کو ایک شخص عبدالخالق نے ایک بڑے مجمع میں قتل کردیا اور اس طرح پر نادر شاہ کی بے وقت اور اچانک موت نے نہ صرف افغانستان بلکہ تمام دُنیا کی زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ کہلوائے کہ ’’آہ نادر شاہ کہاں گیا.‘‘ ۱ (ترجمہ از مرتّب) ۱.اور تجھ سے اس اہم واقعہ کے متعلق پُوچھتے ہیں کہ کیا وہ واقعی ہونے والا ہے.کہو ہاں.مجھے اپنے ربّ کی قَسم ہے وہ یقیناً واقع ہوگا.۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’پھر خدا نے مجھے خبر دی کہ بہار کے زمانہ میں ایک اَور سخت زلزلہ آنے والا ہے.وہ بہار کے دن ہوں گے.نہ معلوم کہ وہ ابتداء بہار کا ہوگا جبکہ درختوں میں پتہ نکلتا ہے یا درمیان اُس کا یا اَخیر کے دن.جیسا کہ الفاظ وحی کے یہ ہیں ’’پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی.‘‘ چونکہ پہلا زلزلہ بھی بہار کے ایام میں آیا تھا اِس لئے خدا نے خبر دی کہ وہ دوسرا زلزلہ بھی بہار میں ہی آئے گا اور چونکہ آخر جنوری میں بعض درختوں کا پتہ نکلنا شروع ہوجاتا ہے اِس لئے اِسی مہینہ سے خوف کے دن شروع ہوں گے اور غالباً مئی کے اَخیر تک وہ دن رہیں گے.‘‘ (الوصیّت.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۱۴) ۳ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۱؍مئی ۱۹۰۵ء صفحہ ۱ اور الحکم مورخہ ۱۰؍ مئی ۱۹۰۵ء صفحہ ۱ میں یہ الہامات ترتیب کے اختلاف سے مندرج ہیں.
۱۰؍مئی۱۹۰۵ء ’’ کیا عذاب کا معاملہ درست ہے.اگر درست ہے تو کس حد تک.‘‘ ( بدر جلد ۱ نمبر۶ مورخہ ۱۱ ؍مئی ۱۹۰۵ء صفحہ۱.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۷ مورخہ۱۷ ؍مئی ۱۹۰۵ء صفحہ۱) ۱۳؍ مئی۱۹۰۵ء ’’خواب میں دیکھا کہ جیسا ہم ایک عدالت میں ہیں اور ایک مقدمہ ہے.شبہ گزرتا ہے کہ مجسٹریٹ ایک شخص ڈپٹی قائم علی ہے اور اس کا سر رشتہ دار ہمارے بھائی غلام قادر صاحب مرحوم ہیں اور ہم تینوں ایک ہی جگہ بیٹھے ہیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا ہم مدعی ہیں اور مدعا علیہ کو بلوانا ہے.مجسٹریٹ نے سررشتہ دار کے کان میں کچھ کہا جس کو ہم نے بھی سن لیا ہے.وہ کہتا ہے کہ یہ روپے طلبانہ داخل کردیں اور فریق ثانی کو بلایا جاوے.ہم نے جیب سے پچیس روپے دے دیئے اور فریق مخالف کو طلب کیا گیا.۱؎ فرمایا.قائم علی میں ’’علی‘‘ خدا کا نام ہے اور اس سے مراد علو مرتبہ اور غلام قادر سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے کچھ کام کرنا چاہتا ہے اور طلبانہ سے مراد کچھ ابتلاء اور تکلیف ہے.یعنی قدرت ِ خداوندی سے کامیابی ضرور ہماری ہے لیکن اُس میں کچھ درمیانی تکلیف مقدر ہے جیسا کہ ہمیشہ انبیاء اور اولیاء اللہ کے ساتھ ہوا کرتا ہے.‘‘ (بدر جلد ۱ نمبر۶ مورخہ ۱۱؍مئی ۱۹۰۵ء صفحہ۱) ۱۴؍ مئی۱۹۰۵ء ’’میاں محمد اسحٰق،۲؎حضرت میر ناصر نواب صاحب کا چھوٹا صاحبزادہ بیمار تھا.ڈاکٹر صاحب کی رائے میں حالت اچھی نہ تھی.فرمایا.مَیں نے دعا کی اور دعا کی اصل وجہ تو شماتت ِ اعدا تھی.ورنہ اولاد ہو یا کوئی اَور عزیز.موت فوت تو ساتھ ہی ہے.غرض جب مَیں دعا کررہا تھا تو یہ الہام ہوا.۱.سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ.؎۳ ۲.پر خدا کا رحم ہے، کوئی بھی اس سے ڈر نہیں.‘‘ (الحکم جلد ۹ نمبر ۱۷ مورخہ۱۷ ؍مئی ۱۹۰۵ء صفحہ۱) مئی۱۹۰۵ء ’’۲۴مئی کو بیان کیا کہ کئی روز ہوئے جب اسحٰق بیمار تھا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ بہت (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۱۷؍مئی ۱۹۰۵ء صفحہ ۱ میں معمولی لفظی تبدیلی سے خواب تو درج ہے مگر تعبیر درج نہیں.۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۱؍مئی ۱۹۰۵ء صفحہ ۱ میں ۱۷؍مئی ۱۹۰۵ء کے تحت اس الہام کے بارہ میں یہ الفاظ ہیں.’’فرمایا چند روز ہوئے ہم نے خواب میں دیکھا کہ میاں محمود احمد اور میاں محمد اسحٰق بیمار ہیں ان کے واسطے دعا کرتے تھے.الہام ہوا.‘‘ ۳ (ترجمہ) سلامتی ہے یہ ربّ رحیم نے فرمایا.(حقیقۃ المہدی.روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۴۴۶)
سے مُردار خوار جانور لَم ڈھینگ ہیں اور پاس ہی ایک مُردار پڑا ہوا ہے.اِس رؤیاکے بعد اس جگہ کو بدل دیا.وہ معاً اچھا ہوگیا.پہلے اس کے متعلق الہام ہوا تھا.سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ.‘‘ ؎۱ (الحکم ۲؎جلد ۹ نمبر۱۸ مورخہ۲۴؍ مئی ۱۹۰۵ء صفحہ۱) ۱۶؍مئی ۱۹۰۵ء ’’ ایک عورت کو دیکھا کہ میرے دروازہ کے آگے باہر آکر بیٹھ گئی ہے مِقراض سے تمام سر کے بال کٹے ہوئے ہیں اور ایک میلی سی پگڑی سر پر لپیٹی ہوئی ہے میں نے اس کے دیکھنے سے بہت کراہت کی اور میں اس مکان سے باہر کو بھاگا اور پگڑی ساتھ لے لی کہ نیچے جا کر پہن لوں گا اور جب میں اس کے مقابل پر ہو کر گزرنے لگا تو میں نے کہا.لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ.؎۳ اور نیچے جا کر پگڑی لپیٹتا تھا اور ڈرتا تھا کہ وہ آ نہ جاوے.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۴۴) ۲۰؍ مئی۱۹۰۵ء صَدَّ قْنَا الرُّؤْیَـا اِنَّـا کَذَالِکَ نَـجْزِی الْمُتَصَدِّ قِیْنَ.‘‘ ۴؎ (الحکم جلد ۹ نمبر ۱۱۸ مورخہ ۲۴؍مئی ۱۹۰۵ء صفحہ ۱) ۲۲؍ مئی۱۹۰۵ء ’’ اسی پیشگوئی کے متعلق جو زلزلہ ثانیہ کی نسبت شائع ہوچکی ہے.آج ۲۲؍مئی ۱۹۰۵ء کو بوقت پانچ بجے صبح خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ وحی ہوئی.۱ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) حضرت میر صاحب ؓ نے اس کے بعد ۳۹ سال حیات پاکر بتاریخ ۱۷ ؍ مارچ ۱۹۴۴ء وفات پائی اور عجیب قدرت ِ الٰہی ہے کہ آخری وقت میں جبکہ سُورۂ یٰسٓ آپ پر پڑھی جارہی تھی جب پڑھنے والے نے آیت’’سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبِّ رَّحِیْمٍ‘‘ کی تلاوت کی تو آپ کی رُوح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی گویا آخری لمحاتِ حیات میں اِس الہامِ رَبّانی کے سننے کی منتظر تھی.۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۸؍مئی ۱۹۰۶ء میں اس رؤیا کے درج ذیل الفاظ ہیں.’’ ایک جگہ مردار پڑے ہیں اور لم ڈھینگ مردار خور جانور بھی جمع ہیں.ہم وہاں سے چلے آئے.‘‘ ۳ (ترجمہ از مرتّب) جھوٹوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے.۴ (ترجمہ) یعنی زلزلہ کی نسبت تیرے دیکھے ہوئے کو سچا کرکے دکھلا دیا اور اسی طرح ہم صدقہ دینے والوں کو جزا دیتے ہیں.(بدر مورخہ ۱۸؍مئی ۱۹۰۵ء صفحہ ۵)
صَدَّ قْنَا الرُّؤْیَـا اِنَّـا کَذَالِکَ نَـجْزِی الْمُتَصَدِّقِیْنَ.‘‘ (بدر جلد ۱ نمبر۷ مورخہ۱۸؍ مئی ۱۹۰۵ء صفحہ۵) ۲۳؍ مئی۱۹۰۵ء ’’ ۱.زمین تہ و بالا کردی.۲.لنگر اُٹھا دو.۳.اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً.اُرِیْدُ مَا تُـرِیْدُ وْنَ.‘‘۱؎ (کاپی الہامات۲؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۴۳) ۲۴؍ مئی۱۹۰۵ء ’’رؤیامیں دیکھا کہ زینب نام ایک خادمہ لڑکی ساتھ ہے اور اس کنوئیں؎۳ کی طرف جو باغ کے جنوبی مغربی کونے پر ہے، میں گیا ہوں تو کہتا ہوں کہ ایسے کنوئیں سے دُور رہنا چاہیے.زلزلہ کے وقت ایسے کنوئیں خطرناک ہوتے ہیں.ایسا نہ ہو کہ زمین کے اندر یہ کنواں گر پڑے.گویا زلزلہ کے سبب کنوئیں کے زیروبالا ہونے کا بھی اندیشہ ہے.‘‘ (الحکم۴؎ جلد ۹ نمبر ۱۸ مورخہ۲۴ ؍مئی ۱۹۰۵ء صفحہ۱) ۲۶؍مئی ۱۹۰۵ء (الف) ’’الہام.۱.شَـرُّ الَّذِ یْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْـھِمْ.۵؎ ۲.میں ان کو سزا دوں گا.۳.میں اس عورت کو سزا دوں گا.‘‘ (کاپی الہامات۶؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴۴) ۱ (ترجمہ از مرتّب) ۳.مَیں اپنی فوجوں کے ساتھ تیرے پاس اچانک آؤں گا.میں وہی چاہتا ہوں جو تم چاہتے ہو.(نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۲۴؍ مئی ۱۹۰۵ء صفحہ ۱ اور بدر مورخہ ۲۵؍ مئی ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ پر الہام ’’ اُرِیْدُ مَا تُـرِیْدُ وْنَ‘‘ مورخہ ۲۵؍مئی ۱۹۰۵ء کے تحت مندرج ہے.۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۸؍مئی ۱۹۰۵ء صفحہ ۵ والحکم مورخہ ۲۴ ؍مئی ۱۹۰۵ء صفحہ ۱ میں یہ الہامات ترتیب کے اختلاف سے درج ہیں.نیز الہام ’’ اُرِیْدُ مَا تُـرِیْدُ وْنَ‘‘ درج نہیں.۳ یہ کنواں اب مٹی بھر کر بند کردیا گیا ہے.(شمس) ۴ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۸؍مئی ۱۹۰۵ء صفحہ ۱ میں یہی رؤیا الفاظ کی معمولی تبدیلی سے درج ہے.۵ (ترجمہ) ۱.شرارت ان لوگوں کی جن پر تُو نے انعام کیا.( بدر مورخہ۲۵؍ مئی ۱۹۰۵ء صفحہ۲) ۶ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲۵ مئی ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ میں ان الہامات سے متعلق تحریر ہے کہ ’’فرمایا.گھر میں طبیعت علیل تھی.بہت سر درد، بخار اور کھانسی بھی تھی.لوگوں کے لئے ابتلاء کا خوف ہوتا ہے.مَیں نے رات بہت دعا کی (شیخ رحمت اللہ صاحب کو مخاطب کرکے) آپ کے لئے بھی دعا کی تھی.پہلے تو ایک مشتبہ سا الہام ہوا.
(ب) ’’ گھر والوں کے متعلق یہ الہام ہوا.۱.رَدَّ اِلَیْـھَا رَوْحَھَا وَ رَیْـحَانَـھَا.۲.اِنِّیْ رَدَ دْ تُّ اِلَیْـھَا رَوْحَھَا وَ رَیْـحَانَـھَا.‘‘؎۱ (بدر۲؎ جلد ۱ نمبر۸ مورخہ۲۵؍ مئی ۱۹۰۵ء صفحہ۲) ۲۷؍ مئی۱۹۰۵ء (الف) ’’ ۱.عَبْدُ؎۳ الْقَادِ رِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ.۲.اَرٰی رِضْوَانَہٗ.۳.اَللّٰہُ اَکْبَرُ.؎۴ (ب) خواب میں مَیں نے سنا کہ آنے والے زلزلہ کی یہ نشانی ہے.پھر میں نے دیکھاکہ خیمہ نصب کردہ بقیہ حاشیہ.معلوم نہیں کس کے متعلق ہے اور وہ یہ ہے.شَـرُّالَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ.مَیں ان کو سزا دوں گا.مَیں اس عورت کو سزا دوں گا.معلوم نہیں یہ کس کے متعلق ہے.‘‘ ۱ (ترجمہ از مرتّب) ۱.اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف اس کی راحت اور خوش زندگی کو لَوٹایا.۲.مَیں نے اس کی راحت اور خوش زندگی کو لوٹادیا.۲ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۲۴؍ مئی ۱۹۰۵ء صفحہ ۱ میں بھی یہ الہامات درج ہیں.۳ (نوٹ از ناشر) بدر و الحکم میں الہامات ’’ عَبْدُ الْقَادِرِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ.اَرٰی رِضْوَانَہٗ.اَللّٰہُ اَکْبَرُ.کے بارہ میں تحریر ہے کہ ’’پہلی وحی کے متعلق فرمایا کہ خدا اپنی کچھ قدرتیں میرے واسطے ظاہر کرنے والا ہے اِس واسطے میرا نام عبدالقادر رکھا.رضوان کا لفظ دلالت کرتا ہے کہ کوئی فعل دنیا میں خدا کی طرف سے ایسا ظاہر ہونے والا ہے جس سے ثابت ہوجائے اور دُنیا پر روشن ہوجائے کہ خدا مجھ پر راضی ہے.دُنیا میں بھی جب بادشاہ کسی پر راضی ہوتا ہے تو فعلی رنگ میں بھی اس رضامندی کا کچھ اظہار ہوتا ہے.اِس کے معنے یہ ہیں کہ اس کی رضا پر دلالت کرنے والے افعال دیکھتا ہوں.مومن کو اللہ تعالیٰ کی رضا بہت پیاری ہے.ایک حدیث میں آیا ہے کہ مؤمنین جب بہشت میں داخل کئے جائیں گے تو اُن سے کہا جائے گا کہ اَب مانگو جو کچھ مانگنا چاہتے ہو.تو وہ عرض کریں گے کہ اَے رَبّ ! تُو ہم پر راضی ہوجا.جواب ملے گا اگر مَیں راضی نہ ہوتا تو تم کو بہشت میں کس طرح داخل کرتا.‘‘ ( بدر مورخہ۲۵ ؍مئی ۱۹۰۵ء صفحہ۲.الحکم مورخہ۳۱؍ مئی ۱۹۰۵ء صفحہ۱) ۴ (ترجمہ از مرتّب) ۱.قادر خدا کا بندہ.اللہ تعالیٰ اس پر راضی ہوا.۲.مَیں اس کی خوشنودی دیکھتا ہوں.۳.اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے.
میدان میں سے جو درحقیقت باغ کے قریب نصب کیا ہوا ہے ایک چیز گری ہے میں نے اس کو اُٹھا لیا جب غور سے دیکھا تو وہ ایک زیور ہے یعنی لونگ طلائی ہے گویا میری بیوی کا لونگ کھویا گیا تھا جو مل گیا.‘‘ (کاپی الہامات۱؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۴۳) ۲۸؍ مئی۱۹۰۵ء رؤیا.’’ شیخ رحمت اللہ صاحب کی ایک گھڑی میرے پاس ہے اور ایک ایسی چیز جیسے ترازو کے دو پلڑے ہوتے ہیں.مثل جھیوروں کی بینگھی کے.مَیں ایک ڈولی میں بیٹھا ہوا ہوں.پھر کسی نے میاں شریف احمد کو اس میں بٹھادیا اور اس کو چکر دینا شروع کیا.اِتنے میں گھڑی گِر گئی اور اس جگہ قریب ہی گری ہے.مَیں کہتا ہوں کہ اس کو تلاش کرو.ایسا نہ ہو کہ محمد حسین نالش کردے.فرمایا کہ خیال گزرتا ہے کہ شاید گھڑی سے مراد وہ ساعت ہے جو زلزلہ کی ساعت ہے جو معلوم نہیں.وَاللہُ اَعْلَمُ.اور وہ رحمت کی ساعت ہے یعنی یہ ساعت ہمارے واسطے رحمت ِ الٰہی کا موجب ہوگی.‘‘ ( بدر جلد ۱ نمبر۸ مورخہ۲۵؍ مئی ۱۹۰۵ء صفحہ۲.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۹ مورخہ۳۱؍ مئی ۱۹۰۵ء صفحہ۱) ۲۹؍ مئی۱۹۰۵ء ’’ یَـاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ وَیَـاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ.‘‘۲؎ (فرمایا) یہ الہام کوئی پچیس۲۵ سال کے بعد پھر ہوا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے کسی زبردست ۱ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ۲۵؍ مئی ۱۹۰۵ء صفحہ۲ اور الحکم مورخہ۳۱؍ مئی ۱۹۰۵ء صفحہ۱ میں یہ خواب ان الفاظ میں درج ہے.’’دیکھا کہ کسی نے کہا کہ آنے والے زلزلے کی یہ نشانی ہے.جب مَیں نے نظر اُٹھائی تو دیکھا کہ اس ہمارے خیمہ کے سر پر سے جو باغ کے قریب نصب کیا ہوا ہے، ایک چیز گِری ہے.خیمہ کی چوب کا اُوپر کا سِرا وہ چیز ہے.جب مَیں نے اُٹھایا تو وہ ایک لَونگ ہے جو عورتوں کے ناک میں ڈالنے کا ایک زیور ہے اور ایک کاغذ کے اندر لپٹا ہوا ہے.میرے دل میں خیال گذرا کہ یہ ہمارے ہی گھر کا مدت سے کھویا ہوا تھا اور اَب ملا ہے اور زمین کی بلندی سے ملا ہے اور یہی نشانی زلزلہ کی ہے.‘‘ ۲ (ترجمہ) اِس کثرت سے لوگ تیری طرف آئیں گے کہ جن راہوں پر وہ چلیں گے وہ عمیق ہوجائیں گے اور وہ مدد ہر ایک دُور کی راہ سے تجھے پہنچے گی اور ایسی راہوں سے پہنچے گی کہ وہ راہ لوگوں کے بہت چلنے سے جو تیری طرف آئیں گے گہرے ہوجائیں گے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۷۷)
اظہار کا پھر کوئی وقت قریب ہے.‘‘ ( بدر۱؎ جلد ۱ نمبر۹ مورخہ یکم جون ۱۹۰۵ء صفحہ۲) ۳۰ ؍مئی۱۹۰۵ء ’’ صَلٰوۃُ الْعَرْشِ اِلَی الْفَرْشِ‘‘۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۴۳) ۳۱؍ مئی۱۹۰۵ء (الف) ’’والدہ محمود کی مرض جو سخت تھی مشتبہ تھی.الہام ہوا.اِنَّ۳؎ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَـھْدِیْنِ‘‘۴؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۴۳) ۱ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ۳۱؍ مئی ۱۹۰۵ء صفحہ۱ میں بھی یہ الہام درج ہے.تفصیل یوں ہے.’’یہ پرانا الہام ہے جو براہین میں درج ہے مگر کل پھر اس کی تجدید ہوئی ہے.معلوم ہوتا ہے نئے رنگ میں اس کا ظہور ہونے والا ہے.‘‘ ۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ یکم جون ۱۹۰۵ء صفحہ۲ میں الہام ’’ صَلٰوۃُ الْعَرْشِ اِلَی الْفَرْشِ.‘‘ کے بارہ میں تحریر ہے.’’ یعنی رحمت ِ الٰہی جو تم پر ہے اس کی کیفیت یہ ہے کہ وہ عرش سے لے کر فرش تک ہے.فرمایا.اس میں کمّی کیفی مبالغہ ہے.گویا اللہ تعالیٰ کی رحمت نے فضا کو بھر دیا.یہ الہام آئندہ بشارت پر دلالت کرتا ہے.یہ لفظی ہی نہیں بلکہ عملی رنگ میں ظاہر ہونے والا ہے.اللہ تعالیٰ کی سُنّت ہے کہ جب وہ کسی پر خوش ہوتا ہے تو عملی رنگ میں اُس کا اظہار دُنیا پر کرتا ہے.‘‘ بدر کی اس تفصیل کے علاوہ الحکم مورخہ۳۱ مئی ۱۹۰۵ء صفحہ۱ میں اس الہام کے بارہ میں مزید تحریر ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ کی سنت اور ہے کہ جب وہ کسی پر خوش ہوتا ہے تو پھر انعام و اکرام بھی کرتا ہے برخلاف اہل دنیا کے کہ وہ جب کسی سے کوئی عطیہ نذرانہ وغیرہ لے لیتے تو صرف لفظوں میں کہہ دیتے ہیںہم تم پر بہت خوش ہیں.غرض یہ بڑا مبشر الہام ہے.عرش تو تجلّی گاہِ الٰہی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ زمین میں قبولیت پیدا کردے گا جیسا کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص گمنامی کی حالت میں ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ جب اس سے راضی ہوتا ہے تو جبرئیل کو حکم دیتا ہے کہ ملائکہ کو اس کی خبر کردو اسی طرح پر وہ دوسرے ملائکہ کو اور زمین میں اس کی قبولیت ڈالی جاتی ہے.‘‘ ۳ (ترجمہ) تحقیق میرے ساتھ میرا ربّ ہے مجھے راہ دکھائے گا اور کامیاب کرے گا.(بدر مورخہ یکم جون ۱۹۰۵ء صفحہ ۲) ۴ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ یکم جون ۱۹۰۵ء صفحہ۲ اور الحکم مورخہ ۱۰؍جون ۱۹۰۵ءصفحہ ۱ میں اس الہام کے بارہ میں تحریر ہے کہ ’’حضرت کے گھر میں بیمار تھیں اور سخت تکلیف تھی.کئی دوائیاں کیں کچھ فائدہ نہ ہوا آخر آپؑ دعا میں
(ب) ’’اِس الہام سے چند منٹ بعد ہی میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ بیماری بباعث حرارت ِ جگر ہے اور دل میں ڈالا گیا کہ کتاب شَفَاءُ الْاَسْقَام کا نسخہ اس کے لئے مفید ہوگا.سو وہ نسخہ بنایا گیا اور وہ قرص تھے.جب تین چار قُرص کھائے گئے تو ایک دن صبح کے وقت مَیں نے خواب میں دیکھا کہ عبدالرحمٰن نام ایک شخص ہمارے مکان میں آیا ہے اور وہ کھڑا ہوکر کہتا ہے کہ بخار ٹوٹ گیا اور یہ عجیب قدرتِ الٰہی ہے کہ ایک طرف یہ خواب دیکھی گئی اور دوسری طرف جب مَیں نے نبض دیکھی تو بخار کا نام و نشان نہ تھا.پھر یہ الہام ہوا.تو در منزلِ ماچو بار بار آئی خدا ابرِ رحمت ببار ید یانے.‘‘؎۱ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد۲۲صفحہ ۲۸۹، ۲۹۰ ) ۳؍ جون۱۹۰۵ء ’’ یُنَجِّی النَّاسَ مِنَ الْاَمْرَاضِ.؎۲ فرمایا.یہ میری طرف اشارہ تھا کہ بہتوں کو میرے ذریعہ سے امراضِ خطرناک سے نجات ہوگی.‘‘ ( بدر جلد ۱ نمبر۹ مورخہ یکم جون ۱۹۰۵ء صفحہ۲.الحکم جلد ۹ نمبر۲۰ مورخہ۱۰؍ جون ۱۹۰۵ء صفحہ۱) ۷؍ جون۱۹۰۵ء ’’والدہ محمود کو سخت موذی بخار تھا.رات مَیں نے دعا کی صبح ایک شخص خواب (میں) بقیہ حاشیہ.مشغول ہوئے.الہام ہوا.اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ.چنانچہ دو منٹ ابھی گذرے تھے کہ خدا نے مرض کی حقیقت کھول دی.مرض نہایت تکلیف دِہ تپ تھا.ساتھ اس کے اَور عوارض تھے.‘‘ علاوہ ازیں بدر مورخہ ۸؍جون ۱۹۰۵ء صفحہ ۳ پر اس الہام کے بارہ میں مزید تحریر ہے کہ ’’اِس الہام کے ہوتے ہی میرے دل میں پڑا کہ اَب تک علاج کا راستہ درست نہ تھا.اب اللہ تعالیٰ علاج کے واسطے صحیح راہ بتلادے گا.چنانچہ اسی وقت دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ جگر میں کچھ نقص معلوم ہوتا ہے اس طرف توجہ کرنی چاہیے.اس سے پہلے تشخیص درست نہیں ہوئی.چنانچہ مولوی صاحب (حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اوّل ؓ) کے ساتھ ذکر کیا گیا انہوں نے اسی وقت ایک نسخہ تجویز کیا.جگر پر ضماد کیا تو خدا تعالیٰ نے فوراً آرام دیا اور ایسی راحت ہوئی کہ پہلے کسی دوائی سے نہ ہوئی تھی.‘‘ ۱ (ترجمہ) اِس کے معنی دونوں طرح ہوسکتے ہیں.ایک تو یہ کہ کیا خدا نے ابر ِ رحمت برسایا یا نہ برسایا.یعنی ضرور برسایا اور دوسرا یہ لفظ ابر ِ رحمت خدا کا بدل ہو اور اِس طرح یہ معنے ہوں گے کہ خدا ہی خود ابر ِ رحمت ہے.کیا وہ برسا یا نہ برسا.اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو انسان بار بار دعا کرتا ہے گویا خدا کے گھر میں جاتا ہے اور آخر کار خدا اُس کی سنتا ہے.( بدرمورخہ ۸؍جون ۱۹۰۵ء صفحہ ۲) ۲ (ترجمہ از بدر) امراض سے لوگوں کو نجات دیتا ہے اور دے گا.(بدر مورخہ یکم جون ۱۹۰۵ء صفحہ۲)
آیا.گویا وہ کہتا ہے بخار ٹوٹ گیا.اسی دن بخار ٹوٹ گیا.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴۴) جون۱۹۰۵ء ’’۱۰؍ جون ۱۹۰۵ء کو قبل ظہر بیان کیا کہ دو تین دن ہوئے الہام ہوا تھا.مُضِرِّ صحت.‘‘ ( الحکم جلد ۹ نمبر۲۱ مورخہ۱۷؍ جون ۱۹۰۵ء صفحہ۱) ۹؍ جون۱۹۰۵ء ’’ ۱.اِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ وَ مَعَ کُلِّ مَنْ اَحَبَّکَ.۱؎ ۲.رَدَ دْتُّ اِلَیْـھَا رَوْحَھَا وَ رَیْـحَانَـھَا.۳.اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَـھْدِیْنِ.۴.امن است در مقامِ محبّت سرائے ما.‘‘۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۴۳) ۱۳؍ جون۱۹۰۵ء ’’خواب میں خدا تعالیٰ کی طرف سے پانچ شعر دکھلائے (گئے) جو بھول گئے.پانچواں شعر یاد رہا اور وہ یہ تھا تو در منزل ماچو بار بار آئی خدا اَبرِ رحمت ببارِ ید یانے ‘‘ (کاپی الہامات۳؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۴۴) ۱۵؍ جون۱۹۰۵ء ’’ اس کا غوث محمد نام رکھا گیا ‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۴۴) ۱۶؍ جون۱۹۰۵ء ’’رؤیا.قبل از نماز صبح.مَیں اپنے مکان میں کمرے کے اندر کھڑا ہوں.اس وقت ۱ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۱۰؍جون ۱۹۰۵ء صفحہ ۱ اور بدر مورخہ یکم جون ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ میں بھی یہ الہام درج ہے.۲ (ترجمہ از مرتّب) ۱.مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں اور ان تمام کے ساتھ جو تجھ سے محبّت رکھتے ہیں یا رکھیں گے.۲.مَیں نے اس کی طرف اس کی راحت اور خوش زندگی کو لَوٹا دیا.۳.یقیناً میرے ساتھ میرا رَبّ ہے جو میری رہنمائی کرے گا.۴.ہمارے محبّت بھرے مکان میں ہر طرح سے امن ہے.۳ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۸؍ جون ۱۹۰۵ء صفحہ۲ اور الحکم مورخہ۱۷؍ جون ۱۹۰۵ء صفحہ۱ میں یہ خواب باختلاف الفاظ درج ہے.بدر میں موجود تفصیل کے الفاظ یہ ہیں.’’ایک کاغذ دکھایا گیا جس پر پانچ سطریں لکھی ہوئی تھیں.ان کو نظم کہہ سکتے ہیں نہ نثر.کچھ مِلا جُلا سا تھا.وہ کاغذ میرے ہاتھ میں دیا گیا.مَیں نے پانچوں سطروں کو پڑھا مگر اُٹھتے اُٹھتے ایک سطر یاد رہی اور وہ اِس طرح تھی.تو در منزل ماچو بار بار آئی خدا اَبرِ رحمت ببارِ ید یانے ‘‘
دیکھا کہ باہر ایک عورت۱؎ زمین پر بیٹھی ہے جو مخالفانہ رنگ میں ہے.وہ بہت بُری حالت میں ہے اور اُس کے سر کے بال مقراض سے کٹے ہوئے ہیں.کوئی زیور نہیں اور نہایت ردّی اور مکروہ حالت میں ہے اور اُس کے سر پر ایک مَیلا سا کپڑا پگڑی کی طرح لپیٹا ہوا ہے.اُس کے ساتھ بات کرنے سے مجھے کراہت آتی ہے.نمازِ عصر کا وقت ہے مَیں جلدی سے اُٹھا ہوں کہ نماز کیلئے چلا جاؤں.کچھ کپڑے مَیں نے ساتھ لئے ہیں کہ نیچے جا کر پہن لُوں گا.یہ جلدی اِس لئے کی کہ اس عورت کو میرے ساتھ بات کرنے کا موقعہ نہ ملے.پس مَیں نے جلدی کے سبب پگڑی کو ہاتھ میں لیا اور پشمینہ کی سُرخ چادر اُوپر لے لی اور کمرے سے نکلا.جب مَیں اس کے برابر گذرا تو میرے منہ سے یا آسمان سے آواز آئی کہ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ.ساتھ ہی یہ الہام ہوا کہ اس پر آفت پڑی، آفت پڑی اور دیکھا کہ وہ عورت ایک نہایت ذلیل شکل میں کوڑھیوں کی طرح بیٹھی ہے.‘‘ (بدر جلد ۱ نمبر ۱۰ مورخہ ۸؍جون ۱۹۰۵ء صفحہ ۷.الحکم جلد ۹ نمبر ۲۲ مورخہ ۲۴؍ جون ۱۹۰۵ء صفحہ ۲) ۱۹؍ جون۱۹۰۵ء ۱.’’خواب میں کسی کی نسبت اپنے دوستوں میں سے الہام ہوا.اس کو اچھا کرنا ہی نہیں۲؎ تھا.بے نیازی کے کام ہیں.اعجاز المسیح یعنی اُس شخص کی تقدیر میں شفا نہیں تھی.خدا تعالیٰ کی بے نیازی نے ایسا ہی چاہا تھا پر یہ معجزہ مسیح ہے کہ وہ اچھا ہوگیا.‘‘ ۲.’’ یُنَجِّی النَّاسَ مِنَ الْاَمْرَاضِ.‘‘۳؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۴۵ ۱ (نوٹ از ایڈیٹر الحکم) ’’یہ وہی عورت معلوم ہوتی ہے جس کے متعلق اسی اخبار میں درج ہوا تھا کہ میں ان کو سزا دوں گا.مَیں اس عورت کو سزا دوں گا.‘‘ (الحکم مورخہ ۲۴؍ جون ۱۹۰۵ء صفحہ ۲) ۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۵؍جون ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ اور الحکم مورخہ ۲۴؍جون ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ میں اس الہام کے بارہ میں تحریر ہے کہ ’’ ہماری جماعت کے چار آدمیوں میں سے جو سخت بیمار ہوئے تھے اس جگہ باغ میں ان میں سے ایک۴؎ کے متعلق یہ الہام ہوا.خدا نے اس کو اچھا کرنا ہی نہیں تھا.بے نیازی کے کام ہیں.اعجاز المسیح.‘‘ ۳ (ترجمہ) (وہ) امراض سے لوگوں کو نجات دیتا ہے اور دے گا.(بدر مورخہ یکم جون ۱۹۰۵ء صفحہ ۲) ۴ چار بیماروں میں سے ایک میاں محمد اسحاق صاحبزادہ جناب میر ناصر نواب صاحب تھے جن کی مرض کی حالت ظاہری نظر میں واقعی مایوسی کی حد تک پہنچ چکی تھی.(ریویو آف ریلیجنز بابت ماہ جولائی ۱۹۰۵ء صفحہ ۲۹۰)
۲۰؍ جون۱۹۰۵ء ’’۱.عَـجِّلْ.عَـجِّلْ ۲.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ عَرْشِیْ.۳.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃٍ لَّا یَعْلَمُھَا الْـخَلْقُ.۴.صَلٰوۃُ الْعَرْشِ اِلَی الْفَرْشِ.۵.اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنَـا مِنْکَ.‘‘؎۱ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۴۵) ۲۶؍ جون۱۹۰۵ء ’’اِنِّیْ مَعَ الرَّحْـمٰنِ فِیْ کُلِّ حَالَۃٍ.حَالَۃِ الْمَوْتِ وَحَالَۃِ الْبَقَآءِ.‘‘؎۲ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۴۵) ۲؍ جولائی۱۹۰۵ء ’’رؤیا.دیکھا کہ ایک بڑا دریا ہے.اُس میں سے کوئی چیز نکلی جس میں سے شعلے نکلتے ہیں اور ہمارے سامنے ہوئی جیسا کہ دریا بطور تحفہ کے کوئی چیز ہمارے آگے پیش کش کرتا ہے.وہ چیز ہم نے لے لی.تو وہ ایک ٹوپی تھی جس کو ہم نے سر پر رکھ لیا.اُس کے بعد دریا نے ایک اَور چیز پیش کی جو ایک چغہ کی شکل میں تھی.وہ بھی ہم نے لے لی.فرمایا.دریا سے مراد کوئی بڑا بادشاہ یا اسی کی مانند کوئی اَور ذی شان آدمی یا کوئی بڑا اہلِ علم و فضل و کمال ہوتا ہے اور اُس کے تحفہ دینے سے مراد حلقہ خادموں میں داخل ہونا یا مُعتقد ہونا یا مالی خدمت کرنا.یا کسی غرض کے لئے رجوع لانا ہے.وَاللہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ.‘‘ ( بدر جلد ۱ نمبر۱۳ مورخہ۲۹؍ جون ۱۹۰۵ء صفحہ۲.الحکم جلد ۹ نمبر۲۴ مورخہ۱۰؍ جولائی ۱۹۰۵ء صفحہ۱۱) ۳؍جولائی ۱۹۰۵ء ’’تیرے لئے میرا نام چمکا اسی دن دیکھا ایک لفافہ میں سے کئی پیسے نکلے ہیں پھر دیکھا کہ پیسے میرے آگے رکھے ہیں.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۴۵) ۱۳؍۳؎جولائی ۱۹۰۵ء ’’روحانی عالم تیرے پر کھولا گیا.فَبَصَـرُکَ الْیَوْمَ حَدِ یْدٌ.۴؎ ۱ (ترجمہ از مرتّب) ۱.جلدی کر.جلدی کر.۲.تُو مجھ سے بمنزلہ میرے عرش کے ہے.۳.تُو مجھ سے اس مرتبہ پر ہے جس کو دنیا نہیں جانتی.۴.رحمت ِ الٰہی عرش سے فرش تک ہے.۵.تُو مجھ سے ہے اور مَیں تجھ سے ہوں.۲ (ترجمہ از مرتّب) مَیں ہر حالت میں رحمٰن خدا کے ساتھ ہوں خواہ موت کی حالت ہو خواہ بقاء کی.۳ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۳؍جولائی ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ میں ان الہامات کی تاریخ ۱۲؍جولائی ۱۹۰۵ء مندرج ہے.نیز ’’روحانی عالم تیرے پر کھولا گیا‘‘ کی بجائے ’’روحانی عالم کا دروازہ تیرے پر کھولا گیا.‘‘ مرقوم ہے.۴ (ترجمہ از مرتّب) پس آج تیری نگاہ تیز ہے.
روحانی عالم تیرے پر کھولا گیا.فَبَصَـرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۴۵) ۲۶؍ جولائی۱۹۰۵ء ’’ کُنْتُ کَنْزًا مَـخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ.‘‘؎۱ فرمایا.یہ صفاتِ الٰہیہ کا ظہور ہے.کسی زمانہ میں کوئی ایک صفت ظاہر ہوتی ہے اور کسی زمانہ میں پوشیدہ رہتی ہے.جب ایک اصلاح کا زمانہ دُو رپڑجاتا ہے اور لوگوں میں خدا شناسی نہیں رہتی تو اللہ تعالیٰ پھر اپنی معرفت کو ظاہر کرنے کے واسطے ایک ایسا آدمی پیدا کرتا ہے جس کے ذریعہ سے اس کی معرفت دُنیا میں پھیلتی ہے لیکن جس زمانہ میں وہ مخفی ہوتا ہے اس زمانہ میں عابدوں کی عبادت اور زاہدوں کے زُہد بھی ادھورے اور نکمّے رہ جاتے ہیں.یہ الہام براہین احمدیہ میں بھی درج ہے لیکن اب پھر اس کے خاص ظہور کا وقت معلوم ہوتا ہے اِس واسطے دوبارہ یہ الہام ہوا ہے.‘‘ (بدر جلد ۱ نمبر۱۷ مورخہ۲۷؍ جولائی ۱۹۰۵ء صفحہ۲.ریویو آف ریلیجنز جلد ۴ نمبر ۸ بابت ماہ؍ اگست ۱۹۰۵ء صفحہ ۳۳۰) ۲۹؍ جولائی۱۹۰۵ء ’’فرمایا آج اللہ تعالیٰ نے میرا ایک اور نام رکھا ہے جو پہلے کبھی سنا بھی نہیں.تھوڑی سی غنودگی ہوئی اور الہام ہوا.محمد مفلح.‘‘ (الحکم۲؎ جلد ۹ نمبر ۲۷ مورخہ ۳۱؍جولائی ۱۹۰۵ء صفحہ ۳) ۳۱؍ جولائی۱۹۰۵ء ’’ ۱.اِنِّیْ اَنَـا الرَّحْـمٰنُ.اُقَدِّ رُ مَا اَشَآءُ.؎۳ ۲.محمد مفلح‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۴۵) ۳؍اگست ۱۹۰۵ء ’’رؤیا میں دیکھا کہ ایک لفافہ ہے جس میں کچھ پیسے ہیں.کچھ پیسے اس میں سے نکل کر باہر سامنے بھی پڑے ہیں.اس کے بعد الہام ہوا.تیرے لئے میرا نام چمکا.فرمایا.اِس الہام سے پہلے اگرچہ خواب میں پیسے دیکھے گئے جو کسی جھگڑے یا غم پر دلالت کرتے ہیں مگر وحیِ الٰہی صریح لفظوں میں دلالت کرتی ہے کہ اس کے بعد کوئی نشان ظاہر ہوگا جس کے واقعہ سے خدا تعالیٰ اپنے ۱ (ترجمہ) مَیں مخفی خزانہ تھا پھر مَیں نے چاہا کہ مَیں پہچانا جاؤں.(بدر مورخہ ۲۷؍جولائی ۱۹۰۵ء صفحہ ۲) ۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲۷؍جولائی ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ میں صرف الہام درج ہے.۳ (ترجمہ از مرتّب) مَیں رحمٰن خدا ہوں جو چاہتا ہوں مقدر کرتا ہوں.
نام اور اپنی ہستی کو لوگوں پر ظاہر کرے گا.‘‘ (بدر جلد ۱ نمبر ۱۸ مورخہ۳؍ اگست ۱۹۰۵ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۹ نمبر ۲۸ مورخہ۱۰؍ اگست ۱۹۰۵ء صفحہ۳ ) ۲۰؍اگست ۱۹۰۵ء ’’ فَزِعَ عِیْسٰی وَمَنْ مَّعَہٗ.‘‘؎۱ (بدر جلد ۱ نمبر ۲۰ مورخہ ۱۷؍اگست ۱۹۰۵ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۹ نمبر ۳۰ مورخہ ۲۴؍ اگست ۱۹۰۵ء صفحہ ۱) ۲۲؍ اگست۱۹۰۵ء (الف) ’’ فَزِعَ عِیْسٰی وَمَنْ مَّعَہٗ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴۶) (ب) ’’چند آدمی سامنے ہیں.ایک چادر میں کوئی شَے ہے.ایک شخص نے کہا کہ یہ آپ لے لیں.دیکھا تو اُس میں چند مُرغ ہیں اور ایک بکرا ہے.مَیں اُن مرغوں کو اُٹھا کر اور سر سے اُونچا کرکے لے چلا تاکہ کوئی بلّی وغیرہ نہ پڑے.راستہ میں ایک بلّی ملی جس کے منہ میں کوئی شَے مِثل چوہا ہے مگر اس بلّی نے اس طرف توجہ نہیں کی اور مَیں ان مرغوں کو محفوظ لے کر گھر پہنچ گیا.‘‘ (بدر جلد ۱ نمبر۲۰ مورخہ۱۷؍ اگست ۱۹۰۵ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۹ نمبر۳۰ مورخہ۲۴؍ اگست ۱۹۰۵ء صفحہ۱) ۲۴؍ اگست۱۹۰۵ء ۱.’’پہاڑ گرا اور زلزلہ آیا.‘‘ ۲.رؤیا.’’ مَیں ایک جگہ کھڑا ہوں.آگے ایک پردہ ہے.پردہ کے پیچھے سے آواز آئی.تُو جانتا ہے مَیں کون ہوں.مَیں خدا ہوں.جس کو چاہتا ہوں عزت دیتا ہوں جس کو چاہتا ہوں ذِلّت دیتا ہوں.‘‘ (بدر جلد ۱ نمبر۲۱ مورخہ۲۴؍ اگست ۱۹۰۵ء صفحہ۲.الحکم جلد ۹ نمبر۳۰ مورخہ۲۴؍ اگست ۱۹۰۵ء صفحہ۱) ۲۶؍ اگست۱۹۰۵ء ’’دیکھا کہ ایک شخص سامنے کھڑا ہے.اس نے نہایت زور کے ساتھ قلم چلایا جیسا کہ کوئی دیا سلائی رگڑتا ہے اور اس کے قلم کے لکھنے کی آواز بھی آئی.اس نے لکھا.۱ (ترجمہ از مرتّب) عیسیٰ اور اس کے ساتھی گھبراگئے.(نوٹ) ’’جس دن یہ الہام سنایا گیا یعنی ۲۱؍ اگست ۱۹۰۵ء اسی دن حضرت مخدوم و مکرم مولوی عبدالکریم صاحب غَفَرَ اللہُ لَہٗ کی گردن کے نیچے ایک چھوٹی سی پھنسی نمودار ہوگئی.یہ مولوی صاحب مرحوم کی مرض کی ابتداء تھی اور ۵۱ دن کی مرض کے بعد ۱۱؍ اکتوبر بدھ کے روز ڑ۲ بجے دن کے حضرت مرحوم بموجب الہامِ الٰہی ’’سینتالیس سال کی عمر اِنَّـا لِلہِ وَ اِنَّـآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ‘‘ اِس دارِ ناپائیدار سے انتقال فرما کر حیاتِ ابدی میں جاداخل ہوئے.‘‘ (ریویو آف ریلیجنز ماہ؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء ٹائٹل پیج صفحہ ۲)
شَاھَتِ الْوُجُوْہُ فرمایا.اس کے معنے ہیں دشمنوں کے مونہہ کالے ہوگئے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی عظیم الشان نشان کے ذریعہ سے دشمنوں کو روسیاہ کرنا چاہتا ہے.‘‘ (بدر جلد ۱ نمبر۲۱ مورخہ۲۴؍ اگست ۱۹۰۵ء صفحہ۲) ۲۹؍ اگست۱۹۰۵ء ’’اے عمارت مفت میں تو تھک گئی.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴۶) ۳۰؍ اگست۱۹۰۵ء (الف) ’’ مولوی عبدالکریم صاحب کی گردن کے نیچے پُشت پر ایک پھوڑا ہے جس کو چیرا دیا گیا ہے.فرمایا.مَیں نے ان کے واسطے رات دعا کی تھی.رؤیامیں دیکھا کہ مولوی نورالدین صاحب ایک کپڑا اوڑھے بیٹھے ہیں اور رو رہے ہیں.فرمایا.ہمارا تجربہ ہے کہ خواب کے اندر رونا اچھا ہوتا ہے اور میری رائے میں طبیب کا رونا مولوی صاحب کی صحت کی بشارت ہے.‘‘ (بدر جلد ۱ نمبر۲۲ مورخہ۳۱؍ اگست ۱۹۰۵ء صفحہ۲.الحکم جلد ۹ نمبر۳۱ مورخہ۳۱؍ اگست ۱۹۰۵ء صفحہ۱۰) (ب) ’’ایک خواب میں اُن؎۱ کو دیکھا تھا کہ گویا وہ صحت یاب ہیں مگر خوابیں تعبیر طلب ہوتی ہیں … خوابوں کی تعبیر میں کبھی موت سے مراد صحت اور کبھی صحت سے مراد موت ہوتی ہے اور کئی مرتبہ خواب میں ایک شخص کی موت دیکھی جاتی ہے اور اس کی تعبیر زیادت ِعمر ہوتی ہے.‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۴۵۸، ۴۵۹) (ج) ’’رؤیا.دیکھا کہ میرے ہاتھ میں چابیاں ہیں.ایک صندوق کھولنے کا ارادہ ہے.فرمایا.اس میں اشارہ حل مشکلات کی طرف ہے.‘‘ (بدر جلد ۱ نمبر۲۲ مورخہ۳۱؍ اگست ۱۹۰۵ء صفحہ۲.الحکم جلد ۹ نمبر۳۱ مورخہ۳۱؍ اگست ۱۹۰۵ء صفحہ۱۰) ۳۱؍ اگست۱۹۰۵ء (الف) ’’ایک عورت مرگئی.اِنَّـا لِلّٰہِ وَ اِنَّـآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴۶) ۱ یعنی مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ.(شمس)
(ب) ’’ نماز پڑھ رہے تھے اور فاتحہ کے بعد سورۃ والعصر پڑھنا تھا.اتنے میں غنودگی ہوکر سورۃ والعصر کی جگہ بڑے زور سے زبان پر یہ سورۃ بطور الہام جاری ہوئی.اِذَا جَآءَ نَصْـرُاللّٰہِ وَالْفَتْحُ.‘‘۱؎ (بدر جلد ۱ نمبر۲۲ مورخہ۳۱؍ اگست ۱۹۰۵ء صفحہ۲.الحکم جلد ۹ نمبر۳۱ مورخہ۳۱؍ اگست ۱۹۰۵ء صفحہ۱۰) (ج) فرمایا.’’ نصف رات سے فجر تک مولوی عبدالکریم کے لئے دعا کی گئی.صبح (کی نماز) کے بعد جب سویا تو یہ خواب آئی… مَیں نے دیکھا کہ عبداللہ سنوری میرے پاس آیا ہے اور وہ ایک کاغذپیش کرکے کہتا ہے کہ اِس کاغذ پر مَیں نے حاکم سے دستخط کرانا ہے اور جلدی جانا ہے.میری عورت سخت بیمار ہے اور کوئی مجھے پوچھتا نہیں.دستخط نہیں ہوتے.اس وقت مَیں نے عبداللہ کے چہرہ کی طرف دیکھا تو زرد رنگ اور سخت گھبراہٹ اس کے چہرہ پر ٹپک رہی ہے.مَیں نے اُس کو کہا کہ یہ لوگ رُوکھے ہوتے ہیں.نہ کسی کی سپارش مانیں اور نہ کسی کی شفاعت.مَیں تیرا کاغذ لے جاتا ہوں.آگے جب کاغذ لے کر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص مٹھن لال نام جو کسی زمانہ میں بٹالہ میں اکسٹرا اسسٹنٹ تھا.کرسی پر بیٹھا ہوا کچھ کام کررہا ہے اور گرد اس کے عملہ کے لوگ ہیں.مَیں نے جاکر کاغذ اس کو دیا اور کہا کہ یہ ایک میرا دوست ہے اور پرانا دوست ہے اور واقف ہے اس پر دستخط کردو.اس نے بلا تامل اسی وقت لے کر دستخط کردیئے.پھر مَیں نے واپس آکروہ کاغذ ایک شخص کو دیا اور کہا خبردار ہوش سے پکڑو ابھی دستخط گِیلے ہیں اورپوچھا کہ عبداللہ کہاں ہے.اُنہوں نے کہا کہ کہیں باہر گیا ہے.بعد اس کے آنکھ کھل گئی اور ساتھ پھر غنودگی کی حالت ہوگئی.تب مَیں نے دیکھا کہ اس وقت مَیں کہتا ہوں مقبول کو بلاؤ اس کے کاغذ پر دستخط ہوگئے ہیں.یہ جو مٹھن لال دیکھا گیا ہے.ملائک طرح طرح کے تمثلات اختیار کرلیا کرتے ہیں.مٹھن لال سے مراد ایک فرشتہ تھا.سنوری سے یہ مراد ہے سِنّور عربی میں بلّی کو کہتے ہیں اور علمِ تعبیر کی رُو سے بلّی ایک بیماری کا نمونہ ہے.عبداللہ سنوری سے مراد ہوئی، وہ عبداللہ جو بیمار ہے.فرمایا طِبّ تو ظاہری محکمہ ہے ایک اس کے وراء محکمہ پردہ میں ہے جب تک وہاں دستخط نہ ہو کچھ نہیں ہوتا.‘‘ (بدر جلد ۱ نمبر۲۲ مورخہ۳۱؍ اگست ۱۹۰۵ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۹ نمبر۳۱ مورخہ۳۱؍ اگست ۱۹۰۵ء صفحہ۱۰) ۱ (ترجمہ از ناشر) جب اللہ کی مدد اور فتح آئے گی.
(د) فرمایا.’’ مولوی صاحب کی زیادہ علالت کے وقت مَیں بہت دعا کرتا تھا اور بعض نقشے میرے آگے ایسے آئے جن سے نا اُمیدی ظاہر ہوتی تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا موت کا وقت ہے…یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے بشارت نازل کی، اور عبداللہ سنوری والا خواب مَیں نے دیکھا جس سے نہایت درجہ غمناک دل کو تشفّی ہوئی… اِس دعا میں مَیں نے ایک شفاعت کی تھی جیسا کہ خواب کے الفاظ سے بھی ظاہر ہے کہ یہ شخص میرا دوست ہے.خدا کی قدرت اور اس کا عالم الغیب ہونا ظاہر ہونا تھا کہ مولوی صاحب بچ گئے.خدا کی کتب میں نبی کے ماتحت اُمّت کو عورت کہا جاتا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں ایک جگہ نیک بندوں کی تشبیہ فرعون کی عورت سے دی گئی ہے اور دوسری جگہ عمران کی بیوی سے مشابہت دی گئی ہے.اناجیل میں بھی مسیح کو دولہا اور اُمّت کو دُلہن قرار دیا ہے.اِس کی وجہ یہ ہے کہ اُمّت کے واسطے نبی کی ایسی ہی اطاعت لازم ہے جیسی کہ عورت کو مرد کی اطاعت کا حکم ہے.اِسی واسطے ہماری رؤیامیں عبداللہ نے کہا کہ میری بیوی بیمار ہے.عبداللہ نبی کا نام ہے.قرآن شریف میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام عبداللہ آیا ہے.مِٹّھن سے مراد وہ لذّت اور راحت صحت کی ہے جو بیماری کی تلخی کے بعد نصیب ہوتی ہے.مقبول سے مراد ہے کہ دعا قبول ہوگئی.یہ سب گہرے استعارات ہیں اور تمثلات ہیں.‘‘ (بدر جلد ۱ نمبر۲۳ مورخہ۷؍ ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲.الحکم جلد ۹ نمبر۳۲ مورخہ۱۰؍ ستمبر۱۹۰۵ء صفحہ۳) ۱۹۰۵ء ’’بہت؎۱ عرصہ پہلے یہ بھی دیکھا گیا تھا کہ جس چوبارہ میں مولوی صاحب رہتے ہیں وہ چوبارہ گرگیا.‘‘ ( الحکم جلد۱۰ نمبر۶ مورخہ۱۷؍ فروری۱۹۰۶ء صفحہ۱۱) ۳۱؍ اگست۱۹۰۵ء ’’بعد ظہر الہام ہوا.اَرِ نِیْ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ‘‘؎۲ ( الحکم جلد ۹ نمبر۳۱ مورخہ۳۱؍ اگست ۱۹۰۵ء صفحہ ۱۰.بدر جلد ۱ نمبر۲۲ مورخہ۳۱؍ اگست ۱۹۰۵ء صفحہ۲) ۲؍ستمبر۱۹۰۵ء ۱ چونکہ اِس رؤیا کی صحیح تاریخ معلوم نہیں ہوسکی اِس لئے اوپر کی مناسبت سے اسے یہاں درج کیا گیا.(شمس) ۲ (ترجمہ از مرتّب) مجھے موعودہ ساعت کا زلزلہ دکھا.(نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) اِس الہام یعنی اَرِنِیْ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ کے بعد ۹؍ مارچ ۱۹۰۶ء کو الہام ہوا رَبِّ لَا تُرِنِیْ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ.رَبِّ لَا تُرِنِیْ مَوْتَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ بظاہر یہ دونوں الہام متضاد معلوم ہوتےہیں لیکن دراصل ان میں کوئی تضاد نہیں.پہلے الہام سے رؤیت کشفی مراد ہے اور دوسرے الہام سے زلزلۃ السّاعۃ کی پیشگوئی
۲؍ستمبر۱۹۰۵ء (الف) ’’ سینتالیس؎۱ سال کی عمر.اِنَّـا لِلّٰہِ وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.( اس سے دوسرے دن ۳؍ ستمبر ۱۹۰۵ء کو ایک شخص کا خط آیا جس نے اپنی بدکاریوں اور غفلتوں پر نہایت افسوس کی تحریر کرکے لکھا.اب میری عمر سینتالیس سال کی ہے.اِنَّـا لِلّٰہِ وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.فرمایا.کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جو خط باہر سے آنے والا ہوتا ہے اس کے مضمون سے پہلے ہی سے اطلاع دی جاتی ہے.‘‘ ( بدر جلد ۱ نمبر۲۳ مورخہ۷؍ ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲.الحکم جلد ۹ نمبر۳۲ مورخہ۱۰؍ ستمبر۱۹۰۵ء صفحہ۳) (ب) ’’اس نے اچھا ہونا ہی نہیں تھا.‘‘؎۲ (تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۴۵۸) (ج) ’’ تُـؤْثِـرُوْنَ الْـحَیٰوۃَ الدُّ نْیَا وَ فِیْ الدِّ یْنِ تُقْصِـرُوْنَ.‘‘ ؎۳ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴۶ ) بقیہ حاشیہ.کا وقوع متاخر کیا جانا مراد ہے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں’’آج (۲۷ مارچ ۱۹۰۶ء) زلزلہ کے وقت کے لئے توجہ کی گئی تھی کہ کب آوے گا.اسی توجہ کی حالت میں زلزلہ کی صورت آنکھوں کے آگے آگئی اور پھر الہام ہوا رَبِّ اَخِّرْ وَقْتَ ھَذَا (الہام۲۷؍ مارچ ۱۹۰۶ء ) خاکسار مرتّب عرض کرتا ہے کہ یہ الہامی دعا اس دوسرے الہام کے مترداف ہے کہ رَبِّ لَا تُرِنِیْ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ.لَا تُرِنِیْ مَوْتَ اَحَدٍ مِّنْـھُمْ اور اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول بھی فرمالی.اَخَّرَہُ اللّٰہُ اِلٰی وَقْتٍ مُّسَمًّی (الہام ۲۸؍ مارچ ۱۹۰۶ء) اور پہلی الہامی دعا یوں قبول ہوئی کہ جب ۸، ۹ ؍ اپریل ۱۹۰۶ء کو پھر رَبِّ اَرِنِیْ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ کا الہام ہوا تو اللہ تعالیٰ نے آپ ؑکو ایک زلزلہ کا نظارہ دکھادیا اور اس کے ساتھ ہی الہام ہوا لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ.لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ (الہام ۱۱؍ جون ۱۹۰۶ء) اِس الہام کی ہیبت محتاجِ بیان نہیں.۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) خاکسار عرض کرتا ہے کہ بعد میں واقعات نے بتادیا کہ اِس الہام میں مولانا عبدالکریم صاحبؓ کی جو اس وقت کار بنکل سے بیمار تھے، وفات کی خبر دی گئی تھی کیونکہ وفات کے وقت اُن کی عمر سینتالیس سال کی تھی.۲ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ چونکہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ایک نہایت ہی مخلص بزرگ تھے جن کی وفات پر طبعاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور جماعت کو سخت صدمہ ہونے والا تھا اِس لئے اللہ تعالیٰ نے اِس الہام کے ذریعہ سے ہوشیار کردیا.۳ (ترجمہ از مرتّب) تم دُنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو اور دین میں کوتاہی کرتے ہو.(نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) بدر مورخہ ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ میں ’’وَ فِی الدِّیْنِ تُقْصِـرُوْنَ‘‘ کا فقرہ نہیں ہے.
۴؍ ستمبر۱۹۰۵ء ’’ مَاکَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَـمُوْتَ اِلَّا بِـاِذْ نِ اللّٰہِ.‘‘؎۱ ( بدر جلد ۱ نمبر۲۳ مورخہ۷؍ ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲.الحکم جلد ۹ نمبر۳۲ مورخہ۱۰؍ ستمبر۱۹۰۵ء صفحہ۳) ۷؍ ستمبر۱۹۰۵ء ۱.’’ ایک کاغذ دکھایا گیا جیساکہ منی آرڈر کا فارم ہوتا ہے اور سامنے اس کے پاس (پندرہ) رکھے ہوئے ہیں.(اِس کشف کے تھوڑی دیر بعد پندرہ کا ایک منی آرڈر آیا) ۲.ایک کاغذ دکھائی دیا اس پر لکھا ہوا تھا.’’آتش فشاں ‘‘ ۳.پھر ایک کاغذ دکھائی دیا اس پر لکھا تھا.’’ مَصَالِـحُ الْعَرَبِ.مَسِیْرُالْعَرَبِ ‘‘؎۲ ۴.پھر ایک کاغذ دکھائی دیا اس پر لکھا تھا.’’ بامُراد ‘‘ ۵.پھر ایک کاغذدکھائی دیا اس پر لکھا تھا.’’ رَدّ بَلا ‘‘؎۳ (الحکم جلد ۹ نمبر۳۲ مورخہ۱۰؍ ستمبر۱۹۰۵ء صفحہ۳.بدر جلد ۱ نمبر ۲۳ مورخہ ۷؍ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲) ۱ (ترجمہ از مرتّب) اِذنِ الٰہی کے بغیر کوئی نفس مَر نہیں سکتا.۲ (نوٹ از ایڈیٹر الحکم) آج کے الہام مَسِیْرُ الْعَرَبِ کا ذکر تھا.فرمایا.اِس کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ ’’عرب میں چلنا‘‘ شاید مقدّرہوکہ ہم عرب؎۴ میں جائیں.مدّت ہوئی کہ کوئی پچیس چھبیس سال کا عرصہ گزرا ہے ایک دفعہ مَیں نے خواب میں دیکھا تھا کہ ایک شخص میرا نام لکھ رہا ہے تو آدھا نام اُس نے عربی میں لکھا ہے اورآدھا انگریزی میں لکھا ہے.انبیاء کے ساتھ ہجرت بھی ہے لیکن بعض رؤیا نبی کے اپنے زمانہ میں پورے ہوتے ہیں اور بعض اولاد یا کسی متبع کے ذریعے سےپورے ہوتے ہیں.مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قیصروکسرٰی کی کنجیاں ملی تھیں تو وہ ممالک حضرت عمرؓ کے زمانہ میں فتح ہوئے.‘‘ (الحکم مورخہ ۱۰؍ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۳) ۳ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کا بیان ہے کہ یہ الہام ’’ردّبلا‘‘ ۴؍ ستمبر۱۹۰۵ء کو ہوا.یعنی جس روز کہ مولانا عبدالکریم صاحب کا بڑا اپریشن کیا گیا.دیکھیے الحکم مورخہ ۱۰؍ فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۴.(شمس) ۴ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یہ پیشگوئی حضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعہ پوری ہوئی چنانچہ حضور دو دفعہ عرب میں تشریف لے گئے.پہلے تو ۱۹۱۲ء میں حج ِ بَیت اللہ شریف کی غرض سے مکّہ معظمہ اورمدینہ منورہ اورجدّہ کا سفر کیا اور دوسری دفعہ ۱۹۲۴ء میں حضور بَیت المقدس اوردمشق تشریف لے گئے.
۷؍ستمبر ۱۹۰۵ء ’’ وَ اَ مَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَـحَدِّ ثْ.‘‘؎۱ ( بدر جلد ۱ نمبر۲۳ مورخہ۷؍ ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲.الحکم جلد ۹ نمبر۳۲ مورخہ۱۰؍ ستمبر۱۹۰۵ء صفحہ۳) ۸؍ ستمبر ۱۹۰۵ء ۱.’’ الہام.۱.اِذَا جَآءَ اَفْوَاجٌ وَّ سَـمٌّ مِّنَ السَّمَآءِ.؎۲ ۲.کفن میں لپیٹا گیا.۳.اِذَا جَآءَ اَفْوَاجٌ وَّسَـمٌّ مِّنَ السَّمَآءِ.۴.کفن۳؎ میں لپیٹا گیا.۵.مَصَالِـحُ الْعَرَبِ.مَسِیْرُالْعَرَبِ.‘‘۴؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴۷) ۲.’’ مجھے اپنے بار بار پیشاب کرنے پر خیال آکے بہت دکھ ہوا اور میں نے اپنے دل میں خدا تعالیٰ کی (طرف) توجہ کرکے کہا کہ میری مرض مولوی عبد الکریم صاحب کی مرض سے کم نہیں ہے تو تھوڑی سی غنودگی ہو کر الہام ہوا.اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ.‘‘؎۵ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴۸) ۹ ؍ستمبر۱۹۰۵ء ’’ اِنَّ؎۶ الْمَنَایَـا لَا تَطِیْشُ سِھَامُھَا.‘‘؎۷ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴۷.الحکم جلد ۹ نمبر ۳۲ مورخہ ۱۰؍ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۳) ۱ (ترجمہ از مرتّب) اورجو تیرے ربّ کا احسان ہے اس کو بیان کر.۲ (ترجمہ از مرتّب) ۱.جب آسمان سے فوجیں اور زہر آئیں گے.۳.جب آسمان سے فوجیں اور زہر آئیں گے.۳ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) الحکم مورخہ ۱۰؍ ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۳ میں یہ الہام یوں ہے.’’کفن میں لپیٹا ہوا.‘‘ اس الہام میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحبؓ کی وفات کی اطلاع دی گئی ہے.۴ (ترجمہ از مرتّب) ۵.عرب لوگوں کے مصالح کے لئے عرب کے علاقوں کا سفر کرنا.۵ (ترجمہ از مرتّب) تم پر سلامتی ہو.(نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۴؍ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ میں اس الہام کی تاریخ ۱۰ ستمبر ۱۹۰۵ء ہے نیز لکھا ہے ’’دورہ پیشاب کی بڑی تکلیف تھی.دعا کی گئی.الہام ہوا.اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ.‘‘ ۶ (ترجمہ از مرتّب) بے شک موتوں کے تیر خطا نہیں جاتے.۷ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ۱۰؍ ستمبر۱۹۰۵ء صفحہ۱۲ میں مرقوم ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ’’حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کی بیماری کا ذکر کرتے ہوئے ۹؍ستمبر کو فرمایا کہ مجھے بہت ہی فکر تھا کہ بعض الہامات ان میں
۱۰؍ ستمبر۱۹۰۵ء ’’ صبح کے وقت یہ دیکھا کہ ایک مکان ہے اس کے دروازہ کی بڑی کرسی کہ آدمی سےزیادہ کرسی بلند ہے اور وہ دروازہ چبوترہ کی طرح آگے کچھ عمارت رکھتا ہے جس پر تین چار آدمی بیٹھ سکتے ہیں اور اس دروازہ میں مولوی عبدالکریم صاحب بیٹھے ہوئے ہیں اور میں اور چند دوست ہمارے اس دروازہ کے سامنے کھڑے ہیں تب میں نے مولوی عبدالکریم صاحب کو مخاطب کرکے کہا.مولوی صاحب میں آپ کو آپ کی صحت پر مبارک باد دیتا ہوں.‘‘ (کاپی الہامات۱؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴۷) بقیہ حاشیہ.متوحش ہیں.آج صبح بہت سوچنے کے بعدمیرے دِل میں یہ بات ڈالی گئی ہے کہ بعض وقت ترتیب کے لحاظ سے الہامات پہلے یا پیچھے ہوجاتے ہیں چنانچہ اِن الہامات کی ترتیب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ ڈالی کہ ایسے الہامات جیسے ’’ اِذَا جَآءَ اَفْوَاجٌ وَّسَـمٌّ مِّنَ السَّمَآءِ‘‘ اور ’’کفن میں لپیٹا گیا‘‘ اور’’ اِنَّ الْمَنَایَـا لَا تَطِیْشُ سِھَامُھَا ‘‘ یہ اِس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ قضاوقدر تو ایسی ہی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل و رحم سے رَدّ ِ بلاکردیا.‘‘ ۱ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ۲۲؍ ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲ اورالحکم مورخہ۱۰؍ ستمبر۱۹۰۵ء صفحہ۱۲میں یہ رؤیا ان الفاظ میں درج ہے.’’ایک جگہ ایک بڑی حویلی ہے.اس کے آگے ایک بڑا چبوترہ ہے جس کی کُرسی بہت بلند ہے.اس پر مولوی عبدالکریم صاحب سفید کپڑے پہنے ہوئے دروازہ پر بیٹھے ہیں.اسی جگہ مَیں ہوں اور پانچ چار اَور دوست ہیں جو ہر وقت اسی فکر میں رہتے ہیں.مَیں نے کہا مولوی صاحب مَیں آپ کو آپ کی صحت کی مبارکباد۲؎ دیتا ہوںاور پھر مَیں رو پڑا اور میرے ساتھ کے دوست بھی رو پڑے اور مولوی صاحب بھی رو پڑے.پھر مَیں نے کہا دعا کرو اور دعا میں تین دفعہ سورہ فاتحہ پڑھی.‘‘ ۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) خواب کے دو۲ حصّے ہیں ابتدائی حصّہ میں مولوی صاحب کی درمیانی حالت صحت طبع کی طرف اشارہ تھا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کاربنکل سے بالکل نجات دے دی اور آخری حصّہ میں آپ کی وفات کے متعلق خبر تھی.ابتدائی حصّہ کے متعلق ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب لکھتے ہیں کہ ’’ اپریشن کے بعد زخم کی حالت کئی روز تک خراب رہی اور انگور کا نام و نشان نظر نہ آتا تھا.حضرت نے دعا
۱۲؍ ستمبر۱۹۰۵ء الہام.’’دو شہتیر ٹوٹ گئے.اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَـتَکَ.‘‘؎۱ (کاپی الہامات؎۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴۸.بدر جلد ۱ نمبر ۲۴ مورخہ ۱۴؍ ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲) ۱۳؍ ستمبر۱۹۰۵ء ’’۱.الہام.عَفَتِ۳؎ الدِّ یَـارُ کَذِکْرِیْ.۲.الہام.عَفَتِ الدِّ یَـارُ کَذِکْرِیْ.۳.عَفَتِ الدِّ یَـارُ کَذِکْرِیْ.‘‘۴؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴۸) بقیہ حاشیہ.کی.صبح کو رؤیا سنایا…اُسی روز قریب دس بجے کے مَیں جو پٹّی لگانے کے لئے گیا تویہ دیکھ کر مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ قریباً تمام زخم پر انگور آگیا تھا.اِس سے پہلے روز انگور کا نام ونشان نہ تھا اور سڑا ہوا مواد اس کے اندر سے نکلتا تھا.یہ بالکل عجوبہ اور خارق عادت بات تھی کہ اتنے بڑے زخم پر جو اس وقت قریب ۸انچ لمبا اور ۶انچ چوڑا تھا، ایک دن میں انگو رآجائے.میرے اور ڈاکٹر رشید الدین صاحب کے خیال میں یہ قریباً آٹھ دس روز کا کام تھا جو ایک دن میں ظہور پذیر ہوا تھا اور یہ دعا کا نتیجہ تھا.‘‘ (الحکم مورخہ ۱۰ ؍ فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۴) ۱ (ترجمہ از مرتّب) مَیں ایسے شخص کو ذلیل کروں گا جو تیری اہانت چاہے گا.۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ۷؍ جون ۱۹۰۶ء صفحہ۴ میں اس الہام کی وضاحت یوں مندرج ہے.’’ فرمایا.جو الہامِ الٰہی نازل ہوا تھا کہ دو شہتیر ٹوٹ گئے ان میں سے ایک شہتیر تو مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم تھے دوسرے چودھری۵؎صاحب معلوم ہوتے ہیں.‘‘ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) الحکم مورخہ ۱۰ ؍ ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۱۲ میں ہے ’’دو ۲شہتیر ٹوٹ جائیں گے.‘‘ اس کے بعد زور سے الہام ہوا.’’ اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَـتَکَ.‘‘ ۳ (ترجمہ از مرتّب) دیار مِٹ جائیں گے جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں.دیار مِٹ جائیں گے جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں.دیار مِٹ جائیں گے جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں.۴ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۴؍ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ میں صرف الہام درج ہے جب کہ الحکم مورخہ ۱۰؍ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۱۲ میں ’’کَذِکْرِیْ‘‘ کی یہ وضاحت مرقوم ہے.’’ فرمایا.کَذِکْرِیْ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ پہلے پیش گوئی ہوچکی ہے.‘‘ ۵ یعنی چودھری الہ داد صاحب ہیڈ کلرک دفتر ریویو آف ریلیجنز قادیان جو ۲۷؍ مئی ۱۹۰۶ءکو فوت ہوئے.(شمس)
۱۶؍ ستمبر۱۹۰۵ء رؤیا.’’دیکھا کہ ایک شخص مسمّٰی شرمپت ساتھ ہے.ایک گہرے پانی میں جو جھیل کی طرح ہے ہم ہر دو۲ کنارہ کی طرف تیرتے جاتے ہیں.کنارہ بہت دُو رہے اور مَیں پانی پر لیٹا ہوا جارہا ہوں اور تیرتا چلاجاتا ہوں.اِسی طرح تیرتے ہوئے جب مَیں قریب نصف کے پہنچا تو معلوم ہوا کہ قریباً زانو تک پانی ہے.پھر کنارہ پر پہنچ گئے اور خیال آیا کہ میرا لڑکا مبارک اُسی کنارہ پر رہا ہے.پھر ہم اس کو لینے کے واسطے واپس آئے.تب دیکھا کہ پانی ایک طرف سے بالکل خشک ہے ایک طرف باقی ہے اور لوگ خشکی پر چلتے ہیں ہم بھی خشکی کی راہ پر چلنے لگے.فرمایا.بظاہر تو آج کل مولوی عبدالکریم صاحب کے واسطے دعا کی جاتی ہے اور غالباً ان کے متعلق یہ رؤیاہے.شاید یہ تعبیر ہو کہ ایک حصّہ زخم کا خشک ہوگیا ہے اور دوسرا حصّہ ابھی باقی ہے اور شرمپت کے لفظ سے انجام بخیر معلوم ہوتا ہے.وَ اللہُ اَعْلَمُ.‘‘ ( بدر جلد ۱ نمبر۲۵ مورخہ۲۲؍ ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲.الحکم جلد ۹ نمبر۳۳ مورخہ۲۴؍ ستمبر۱۹۰۵ء صفحہ۱) ۱۹؍ ستمبر۱۹۰۵ء رؤیا.’’ دیکھا کہ مرزا غلام قادر صاحب میرے بڑے بھائی نہایت سفید لباس پہنے ہوئے میرے ساتھ جارہے ہیں اور کچھ باتیں کرتے ہیں.ایک شخص ان کی باتیں سنکر کہتا ہے کہ یہ کیسی فصیح بلیغ گفتگو کرتے ہیں گویا پہلے سے حفظ کرکے آئے ہیں.فقط فرمایا.ہمارا تجربہ ہے کہ جب کبھی ہم اپنے بھائی صاحب کو خواب میں دیکھتے ہیں اس سے مراد کسی مشکل کام کا حل ہونا ہوتا ہے…غلام قادر سے خدائے قادر کی قدرت کی طرف اشارہ ہے.‘‘ ( بدر جلد ۱ نمبر۲۵ مورخہ۲۲؍ ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲.الحکم جلد ۹ نمبر۳۳ مورخہ۲۴؍ ستمبر۱۹۰۵ء صفحہ۱) ۲۰؍ ستمبر۱۹۰۵ء ’’خواب میں دیکھا کہ میں قصبہ بٹالہ میں ہوں.عصر کا وقت تنگ ہوتا جاتا ہے اور بازار میں جارہا ہوں ایک طرف دہنی طرف بازار کے دیکھا ایک چھوٹی سی مسجد ہے.میں نماز کے ارادہ سے مسجد میں گیا دور سے مرزا خدا بخش کی آواز آئی پھر میں مسجد میں داخل ہوا.مرزا خدا بخش تو کہیں چلا گیا مگر آگے مرزا رحمت اللہ بیگ مرحوم کھڑا ہے اور میاں منظور محمد بھی نظر آیا.اسحاق۱؎ نے کہا کہ مرزا صاحب نے رحمت اللہ کی روٹی ۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) حضرت میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہ سابق ہیڈ ماسٹر مدرسہ احمدیہ وناظر ضیافت.
بند کردی ہے اور نکال دیا ہے اُس کا ارادہ تھا کہ کہیں چلا جاؤں مگر منظور محمد نے روک لیا ہے اور کہا کہ ہم دونوں مل کر یہاں تجارت کریں گے بعد اس کے الہام ہوا.اِنِّیْ؎۱ اَنَـا الرَّحْـمٰنُ لَا یَـخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَ.قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَ رْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ.‘‘؎۲ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴۹) ۱ (ترجمہ) تحقیق مَیں رحمٰن خدا ہوں.مُرسل میرے پاس نہیں ڈرا کرتے کہ یہ خدا کے کام ہیں.پھر ان کو چھوڑ دے.جن کاموں میں لگے ہوئے ہیں ان میں لہو لعب کریں.(بدر مورخہ ۲۲؍ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۷) ۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’ دیکھا کہ مَیں بٹالہ کو جاتا ہوں.خیال آیا کہ نماز کا وقت تنگ ہے اس واسطے ایک مسجد میں گیا جو کہ چھوٹی سی مسجد ہے.مسجد کے زینوں پر سے چڑھتے ہوئے مرزا خدا بخش صاحب کی آواز آئی.وہ تو کہیں کو چلے گئے.پھر جب مَیں مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ بڑے مرزا صاحب یعنی والد صاحب کا ایک پرانا نوکر مرزا رحمت اللہ نام جو قریباً پچاس سال تک والد صاحب کی خدمت میں رہا تھا اور جس کو فوت ہوئے بھی قریباً چالیس سال ہوئے ہیں وہاں موجود ہے اور غمگین سا ہے اور مسجد کے کنوئیں کی منڈیر پر محمد اسحٰق بیٹھا ہے اور پیر منظور محمد بھی اس جگہ ہے.اسحٰق نے مرزا رحمت اللہ کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ بڑے مرزا صاحب نے اس کی روٹی بند کردی ہے اور یہ ارادہ کرتا تھا کہ چلا جائے اور خدا جانے کہاں جانا تھا مگر منظور محمد نے اس کو رکھ لیا ہے کہ تجارت کرکے گذارہ کرلیں گے.ہمارے دل میں خیال آیا کہ معلوم نہیں مرزا صاحب نے کیوں روٹی بند کردی ہے بزرگوں کے کام پر اعتراض نہیں ہوسکتا.پھر الہام ہوا.اِنِّیْٓ اَنَـا الرَّحْـمٰنُ لَا یَـخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَ.قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ.فرمایا کہ یہ ایک پُر معنی خواب ہے اور مولوی عبدالکریم صاحب کے متعلق معلوم ہوتی ہے.روٹی مدارِ حیات ہے کیونکہ خوراک کے ساتھ زندگی کا بقا ہے.روٹی کا بند ہونا اِس دُنیا سے فوت ہوجانا ہوتا ہے.سو بنظرِ اسباب ظاہری یہ سخت بیماری ایک موت کا پیغام ہے.لیکن روٹی پھر لگ گئی ہے کیونکہ منظور محمد نے رحمت اللہ کو رکھ لیا ہے.رحمت اللہ سے مراد خدا کی رحمت ہے اور منظور محمد سے مراد وہ امر ہے جو محمد کو منظور ہے.وحی ٔ الٰہی نے میرا نام محمد بھی رکھا ہے.پس اِس سے مراد مولوی صاحب کی صحت اور تندرستی ہے جس کے واسطے ہم دعائیں کرتے ہیں.تجارت سے مراد دعا کرنا، خدا پر ایمان رکھنا، اس پر بھروسہ کرنااور اعمالِ صالحہ کا بجالانا ہے.جیسا کہ قرآن شریف میں آیا ہے یٰٓـاَیُّـھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھَلْ اَدُلُّکُمْ
۲۳؍ ستمبر۱۹۰۵ء طَلَعَ۱؎ الْبَدْ رُ عَلَیْنَا مِنْ ثَنِیَّۃِ الْوَدَاعٖ وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا مَا دَعَا لِلہِ دَاعٖ۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴۹ ) ۲۴؍ ستمبر۱۹۰۵ء ’’۱.تَـاْتِیْ۳؎ نُصْـرَتِیْ.۲.یَـاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ.‘‘۴؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴۹ ) ۲۷؍ ستمبر۱۹۰۵ء ’’ حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا.؎۵ یعنی نیک ہے از رو قرار گاہ و مقام کے.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴۹) ۲۸؍ستمبر۱۹۰۵ء بقیہ حاشیہ.عَلٰی تِـجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ تُـؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَتُـجَاھِدُ وْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِـاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ۶؎… غرض معمولی زندگی جو بغیر کسی عوض کے تھی وہ تو بند ہوچکی ہے لیکن اَب تجارتی زندگی باقی ہے یعنی وہ زندگی جو دعاؤں کا نتیجہ ہے اسی نے رحمت اللہ کو جاتے جاتے روک لیا ہے.‘‘ ( بدر مورخہ۲۲؍ ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۷) ۱ (ترجمہ از مرتّب) ہم پر وداع کی گھاٹی سے بدر کا طلوع ہوا.ہم پر شکر کرنا لازم ہے جب تک کوئی دعا کرنے والا دعا کرسکتا ہے.۲ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ۲۴؍ ستمبر۱۹۰۵ء صفحہ۲ اور بدر مورخہ۲۹؍ ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۳ میں الہام کی تاریخ ۲۲؍ستمبر اور صرف مصرعہ اولیٰ درج ہے.یعنی طَلَعَ الْبَدْ رُ عَلَیْنَا مِنْ ثَنِیَّۃِ الْوَدَاعٖ.(نوٹ از شیخ یعقوب علی عرفانیؓ ایڈیٹر الحکم) ۲۱؍ستمبر کی رات کو اعلیٰ حضرت مولوی صاحب کے لئے بہت دعا کرتے رہے.اس پر (یہ) الہام ہوا.(الحکم مورخہ ۲۴؍ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲) ۳ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲ میں اس الہام کی تاریخ ۲۷؍ ستمبر درج ہے اور الفاظ یوں ہیں.’’ تَـاْتِیْکَ نُصْـرَتِیْ.‘‘ ۴ (ترجمہ از ناشر) ۱.میری نصرت آئے گی.۲.ہر ایک دُور کی راہ سے تیرے پاس تحائف آئیں گے.۵ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲ پر اس الہام کی تاریخ ۲۸؍ستمبر درج ہے.۶ (ترجمہ از ناشر) اے مومنو! میں تمہیں ایک تجارت کی خبر دیتا ہوں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچائے اور وہ یہ ہے کہ اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اپنے مال اور جان سے اللہ کی راہ میں کوشش کرو.(الصّف : ۱۱ ،۱۲)
۲۸؍ستمبر۱۹۰۵ء ’’ ۱.لَا۱؎ تَـخَفْ اِنِّیْ لَا یَـخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَ ۲.وَ قَالُوْا مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَ.ہٗ.ھَیْـھَاتَ ھَیْـھَاتَ لِمَا تُوْعَدُوْنَ.۳.قُلْ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ ذُوالْاِقْتِدَارِ اَفَلَا تُؤْمِنُوْنَ.۴.قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُؤْمِنُوْنَ.۵.وَ مَا۲؎ اَزِیْدُ لَکُمْ مِّنْ اَمْرِیْ.وَ الْـحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.۶.اَلَمْ تَـرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِـاَصْـحٰبِ الْفِیْلِ.اَ لَمْ یَـجْعَلْ کَیْدَ ھُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ.‘‘۳؎ ( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۱) ۲۹؍ستمبر ۱۹۰۵ء ’’اِنَّـآ۴؎ اَنْـزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْ رِ اِنَّـا کُنَّا مُنْزِلِیْنَ.‘‘۵؎ ( بدر جلد ۱ نمبر۲۷ مورخہ۶؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ۱.الحکم جلد ۹ نمبر۳۴ مورخہ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۱۲) یکم؍ اکتوبر۱۹۰۵ء رؤیا.’’ کسی شخص نے ہمارے ہاتھ پر سونف رکھ دی ہے.‘‘ ( بدر جلد ۱ نمبر۲۷ مورخہ۶؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ۱.الحکم جلد ۹ نمبر۳۵ مورخہ۱۰؍ اکتوبر۱۹۰۵ء صفحہ۱) ۲؍ اکتوبر۱۹۰۵ء ’’ دیکھا کہ ایک مکان ہے.اس پر چڑھنے کے لئے ایک زینہ لگا ہوا ہے جو لوہے کا ہے اور تختے پاؤں رکھنے کے بھی ہیں.اُوپر ایک دروازہ ہے.مَیں اس زینہ پر چڑھتا ہوں مگر چڑھ نہیں سکتا.اتنے میں اُوپر سے کسی نے دروازہ بند کردیا اور کہا کہ دوسرے راستہ سے آؤ.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ راستہ تو نزدیک ہے اور فوراً پہنچ سکتے ہیں مگر دوسرا راستہ دُور ہے.کوئی دو تین سَو گز کا فاصلہ ہے.پس ہم اُس دوسرے ۱ (ترجمہ) ۱.مت خوف کر.مجھ سے میری درگاہ میں رسول خوف نہیں کیا کرتے ۲.اور کہتے ہیں کون ہے جو اس کے پاس شفاعت کرے.وہ بات جس کا تم کو وعدہ دیا جاتا ہے بالکل انہونی ہے ۳.کہہ اللہ تعالیٰ غالب ہے قدرت رکھنے والا.پس کیا تم ایمان نہیں لاتے ۴.کہہ میرے پاس اللہ کی طرف سے گواہی ہے.پس کیا تم ایمان لاتے ہو؟ (بدر مورخہ ۶؍اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۱) ۲ (ترجمہ از ناشر) ۵.اورمَیں اپنی طرف سے کچھ نہیں بڑھاتا اور سب تعریف اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے.۶.کیا تُو نہیں جانتا کہ تیرے ربّ نے ہاتھی والوں سے کیا سلوک کیا؟ کیا اس نے ان کی تدبیروں کو رائیگاں نہیں کردیا؟ ۳ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۶؍اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ۱ اورالحکم مورخہ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۱۲ پر الہام نمبر ۴کے آخر پر مُؤْمِنُوْنَ کی بجائے تُـؤْمِنُوْنَ درج ہے.نیز الہام نمبر ۵ میں وَمَا کی بجائے قُلْ مَا کے الفاظ درج ہیں اور ان الہامات کی تاریخ نزول ۲۹؍ستمبر درج ہے.۴ (ترجمہ) ہم نے اس کو لیلۃ القدر میں اُتارا ہے.یقیناً ہم ہی اُتارنے والے ہیں.(بدر مورخہ۶؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ۱) ۵ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۶؍اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۱ اورالحکم مورخہ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۱۲ پر آنے والے تمام الہامات کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالہ سے ۲۸؍ستمبر ۱۹۰۵ء کے تحت آچکے ہیں اس لئے صرف ایک الہام جو کاپی میں نہیں آیا ۲۹؍ستمبر ۱۹۰۵ء کے تحت بدر و الحکم کے حوالہ سے درج کیا گیا ہے.
راستہ سے جانے لگے تو دیکھا کہ مَیں ایک مضبوط گھوڑے پر سوار ہوں اور آگے آگے ایک خدمتگار ہے جس کا نام غفّار ہے اور ایک اَور سوار بھی ساتھ ہے جو آگے آگے چلتا ہے.مَیں غفّار کو کہتا ہوں کہ آگے مت نکل ہمارے ساتھ ساتھ چل.تھوڑ راستہ طے کیا تھا کہ آنکھ کھل گئی.‘‘ ( بدر جلد ۱ نمبر۲۷ مورخہ۶؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ۱.الحکم جلد ۹ نمبر۳۵ مورخہ۱۰؍ اکتوبر۱۹۰۵ء صفحہ۱) ۵؍ اکتوبر۱۹۰۵ء ۱.’’ر ہا گو؎۱سپندان عالی جناب‘‘؎۲ ۲.’’ آہوئے مرگ ‘‘۳؎ ( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۱) ۷؍ اکتوبر۱۹۰۵ء ۱.’’دیکھا کہ مَیں گورداسپور سے آیا ہوں اور ایک مضبوط گوٹ گھوڑے پر سوار ہوں جو ککّے رنگ کا ہے.گھوڑے پر ہی نماز پڑھی ہے اور سجدہ بھی کیا ہے.مجھے خیال آیا کہ جب مَیں گورداسپور گیا تھا تو میرا بھائی بیمار تھا اور ان کے بچنے کی امید نہ تھی.معلوم نہیں اس کا اب کیا حال ہے.گھر کے پاس کوچہ میں میراں بخش حجام ملا.وہ بڑی خوش خوش باتیں کرتا ہے جس سے مَیں نے سمجھا کہ اب بھائی صاحب تندرست ہوں گے.۲.’’ رؤیا.دیکھا کہ ایک عورت قریباً تیس سال عمر فوت ہوگئی.‘‘ ( بدر۴؎ جلد ۱ نمبر۲۸ مورخہ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲) ۱۰؍اکتوبر ۱۹۰۵ء ’’ الہام.۱.وَاِذْکَفَفْتُ عَنْ بَنِیْ اِسْـرَآ ئِیلَ.۵؎ ۱ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۳؍اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ اور الحکم مورخہ ۱۰؍اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۱ میں ’’رہا گوسفندان عالی جناب‘‘ لکھا ہے اور فارسی میں گوسپندان اور گوسفندان دونوں طور سے استعمال ہوتے ہیں اور دونوں کا ترجمہ ایک ہی ہے.۲ (ترجمہ از مرتّب) عالی جناب کی بھیڑیں رِہا ہیں.۳ (ترجمہ از مرتّب) موت کے ہرن.۴ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۱۰؍اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۱ میں اس رؤیا کے بارہ میں تحریر ہے کہ ’’چنانچہ اس روزتابی ملازمہ حضرت اقدس کی پوتی جو عمر تیس سال تھی بچہ جننے کے بعد بعارضہ کزاز (یعنی ٹٹ نس) فوت ہوگئی.‘‘ ۵ (ترجمہ) جب مَیں نے بنی اسرائیل کو دشمنوں کے شر سے بچالیا.(بدر مورخہ ۱۳؍اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲) (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۱۰؍اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۱ وبدر مورخہ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲ میں یہ الہام تفصیل کے اختلاف سے درج ہے.بدر کی تفصیل یوں ہے.’’ دیکھا کہ مَیں کسی جگہ ہوں اور استنجا کے واسطے ایک جگہ سے ڈھیلا لیا ہے تو دیکھا کہ وہاں بہت سے آدمی جیسے مزدور
۲.یٰٓـاَیُّـھَا النَّاسُ اعْبُدُ.وْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ.‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۱) ۱۱؍ اکتوبر۱۹۰۵ء ۱.رؤیا.’’ دیکھا کہ قدرت اللہ کی بیوی روپو ٔں کی ایک ڈھیری میرے پیش کرتی ہے.اس میں ایک لکڑی بھی ہے.‘‘ ( بدر جلد ۱ نمبر۲۸ مورخہ ۱۳ ؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ و الحکم جلد ۹ نمبر۳۶ مورخہ ۱۷ ؍اکتوبر۱۹۰۵ء صفحہ ۱۰) ۲.’’الہام.۱.اُرِیْدُ۲؎ الْـخَیْرَ.۲.یٰٓـاَیُّـھَا النَّاسُ اعْبُدُ.وْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ.۳؎ ( الحکم جلد ۹ نمبر۳۶ مورخہ۱۷؍ اکتوبر۱۹۰۵ء صفحہ۱۰ ) ۱۲؍ اکتوبر۱۹۰۵ء ’’ اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ.‘‘۴؎ (بدر جلد ۱ نمبر۲۸ مورخہ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲) ۱۵؍ اکتوبر۱۹۰۵ء ’’ دیکھا کہ ایک شخص نے ٹِنڈ میں تھوڑا سا پانی مجھ کو دیا ہے.بقیہ حاشیہ.لنگوٹی پوش ہوتے ہیں، بیٹھے ہیں جن سے کراہت ہوئی.پھر مَیں نے شادی۵؎ خاں کو بلانا چاہا اور خیال آیا کہ اتنے آدمیوں میں سے اسے کس طرح شناخت کروں، مگر مَیں نے آواز دی تو شادی خاں فوراً کھڑا ہوگیا.اس کے ساتھ الہام ہوا.اِذْکَفَفْتُ عَنْ بَنِیْٓ اِسْـرَآءِیْلَ.‘‘ ۱ (ترجمہ از ناشر) ۲.اے لوگو! اپنے ربّ کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان لوگوں کو بھی جو تم سے پہلے تھے.۲ (ترجمہ از الحکم) ۱.مَیں خیر کا ارادہ کرتا ہوں.۲.اے لوگو! اپنے ربّ کی عبادت کرو جس نے تم کو پیدا کیا.(الحکم مورخہ ۱۷؍اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۱۰) ۳ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲ اور الحکم مورخہ ۱۷؍اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۱۰ میں یہ الہام تفصیل کے اختلاف سے درج ہے.الحکم کی تفصیل یوں ہے.’’فرمایا.مولوی عبدالکریم صاحب کی موت پر حد سے زیادہ غم کرنا اور اس کی نسبت یہ خیال کرلینا کہ اس کے بغیر اب فلاں حَرج ہوگا ایک قسم کی مخلوق کی عبادت ہے کیونکہ جس سے حد سے زیادہ محبّت کی جاتی ہے یا حد سے زیادہ اس کی جدائی کا غم کیا جاتا ہے وہ معبود کے حکم میں ہوجاتا ہے.خدا تعالیٰ ایک کو بُلا لیتا ہے دوسرا قائم مقام اس کے کردیتا ہے، قادر او ربے نیاز ہے.پہلے اس سے ایک یہ بھی الہام ہوا تھا جو ۴؍ستمبر کے قریب کا ہے.تُـؤْثِرُوْنَ الْـحَیٰوۃَ الدُّنْیَا یعنی تم دُنیا کی زندگی کو اختیار کرتے ہو.‘‘ ۴ (ترجمہ از مرتّب) مَیں اس شخص کی اہانت کروں گا جو تیری اہانت کا ارادہ کرے گا.۵ اِ س سے مراد میاں شادی خاں صاحبؓ مرحوم ہیں جو حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ مرحوم کے خسر تھے.(شمس)
پھر الہام ہوا.آبِ زندگی ۱؎ پھر الہام ہوا.قَلَّ مِیْعَادُ رَبِّکَ ۲؎ پھر الہام ہوا.اس دن خدا کی طرف سے سب پر اُداسی چھاجائےگی.‘‘۳؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۲) ۱۷؍ اکتوبر۱۹۰۵ء ’’ رسید مُژدہ کہ آں یارِ دل پسند آمد رسید مُژدہ کہ دیوار از میان برخاست‘‘۴؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۲ بدر جلد ۱ نمبر ۲۹ مورخہ ۲۰؍اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۳.الحکم جلد ۹نمبر ۳۷مورخہ ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۱) ۱۸؍ اکتوبر۱۹۰۵ء ۱.’’ اِنِّیْ ۵؎مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ وَاَلُوْمُ مَنْ۶؎ یَّلُوْمُ وَ اُعْطِیْکَ مَایَدُوْمُ.‘‘ ۲.’’ خواب میں دیکھا کہ ایک چُغہ ہے.وہ اُلٹا ہے مگر اس پر زَربَفت کاکام کیا ہوا ہے دھاگا نظر نہیں آتا.‘‘ ( بدر جلد ۱ نمبر۲۹ مورخہ۲۰؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ۳.الحکم جلد ۹ نمبر۳۷ مورخہ۲۴؍ اکتوبر۱۹۰۵ء صفحہ ۱) ۱ (ترجمہ از مرتّب) زندگی کا پانی.(نوٹ از ناشر) ریویو آف ریلیجنز ماہ دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۴۸۰ میں ۱۸؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء کے تحت اس الہام کی تفصیل یوں درج ہے.’’چند روز کارؤیاہے کہ ایک کوری ٹِنڈ میں کچھ پانی مجھے دیا گیا ہے.پانی صرف دو تین گھونٹ باقی اس میں رہ گیا ہے لیکن بہت مصفّٰی اور مقطّر پانی ہے.اِس کے ساتھ الہام تھا.آبِ زندگی.‘‘ ۲ (ترجمہ از مرتّب) تیرے رَبّ کی مقرر کردہ میعاد تھوڑی رہ گئی ہے.۳ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۲۴؍اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۱ اور بدر مورخہ ۲۰؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ۳ میں الہام کے الفاظ یہ ہیں.’’خدا کی طرف سے سب پر اُداسی چھا گئی.‘‘ نیز ان الہامات کی تاریخ ۱۸؍اکتوبر درج ہے.۴ (ترجمہ از مرتّب) خوشخبری ملی کہ وہ محبوب آگیا.خوشخبری ملی کہ پَردہ درمیان سے اُٹھ گیا.۵ (ترجمہ از مرتّب) مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا اور جو ملامت کرے گا مَیں اُسے ملامت کروں گا اور تجھے وہ کچھ عطا کروں گا جو ہمیشہ رہنے والا ہے.۶ الحکم ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۱ میں لفظ ’’ مَا یَلُوْمُ ‘‘ہے جو غالباً سہو کاتب ہے.(شمس)
۱۹؍ اکتوبر۱۹۰۵ء ۱.’’ لَا تَقُوْمُوْا وَ لَا تَقْعُدُ.وْا اِلَّا مَعَہٗ.لَا تَـرِدُوْا مَوْرِدًا اِلَّا مَعِیْ.اِنِّیْ مَعَکَ.وَ مَعَ اَھْلِکَ.‘‘ ۱؎ ( بدر جلد ۱ نمبر۲۹ مورخہ۲۰؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ۳.الحکم جلد ۹ نمبر۳۷ مورخہ۲۴؍ اکتوبر۱۹۰۵ء صفحہ ۱) ۲.’’ اِنِّیْ مَعَ الرَّحْـمٰنِ اَدُ.وْرُ‘‘ ۲؎ ( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۲) ۲۰؍ اکتوبر۱۹۰۵ء ’’یہ خدا کاکام ہے.اللہ اکبر.‘‘ ( بدر جلد ۱ نمبر۳۰ مورخہ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲) ۲۱؍اکتوبر۱۹۰۵ء ۱.’’ ۱.اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ وَ اَرُوْمُ مَا یَـرُوْمُ.‘‘۳؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۲.بدر جلد ۱ نمبر۳۰ مورخہ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲) ۲.’’.ہمارا حصہ دے دو.‘‘ ( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۲) ۳.’’ اِنِّیْ اَلُوْمُ مَنْ یَّلُوْمُ وَاُعْطِیْکَ مَا یَدُ.وْمُ.‘‘۴؎ ( بدر جلد ۱ نمبر۳۰ مورخہ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲) ۲۲ ؍اکتوبر۱۹۰۵ء (الف) ’’ رؤیا دیکھا کہ دہلی گئے ہیں تو تمام دروازے بند ہیں.پھر دیکھا کہ اُن پر قفل لگے ہوئے ہیں.پھر دیکھا کہ کوئی شخص کچھ تکلیف دینے والی شَے میرے کان میں ڈالتا ہے.مَیں نے کہا تم مجھے کیا دکھ دیتے ہو.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس سے زیادہ دکھ دیا گیا تھا.‘‘ (بدر جلد ۱ نمبر۳۰ مورخہ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲.الحکم جلد ۹ نمبر۳۸ مورخہ۳۱؍ اکتوبر۱۹۰۵ء صفحہ ۱) ۱ (ترجمہ از مرتّب) نہ کھڑے ہو اور نہ بیٹھو مگر اُس کے ساتھ.نہ اُترو کسی جگہ میں مگر میرے ساتھ.مَیں تیرے اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں.(نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) سفرِ دہلی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے استخارہ کیا اور اس پر الہام ہوا.( الحکم مورخہ ۲۴؍ نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۵) ۲ (ترجمہ از مرتّب) مَیں خدائے رحمٰن کے ساتھ چکر کھاتا ہوں.۳ (ترجمہ از ناشر) میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا اور جس بات کا وہ قصد کرے گا اس کا میں قصد کروں گا.۴ (ترجمہ از مرتّب) مَیں ملامت کرنے والے کو ملامت کروں گا اور تجھے وہ چیز عطا کروں گا جو ہمیشہ کے لئے ہوگی.
(ترجمہ) تیرا ہاتھ ہے اور تیری دعا اور خدا کی طرف سے رحم ہے.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۲) نومبر ۱۹۰۵ء ’’ اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۲) (ترجمہ) میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۷) ۹؍نومبر ۱۹۰۵ء خواب میں گنّا دکھائی دیا.فرمایا.اِس سے مراد کوئی مفسد ہ یا ہنگامہ ہوتا ہے.الہام جو اس کے ساتھ ہوا یہ ہے.اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ.۱؎ (بدر جلد ۱ نمبر ۳۵ مورخہ ۱۵؍نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۴ ) ۱۱؍ نومبر۱۹۰۵ء ۱.’’ اِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُ.ھُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ.‘‘۲؎ (الحکم جلد ۹ نمبر۴۰ مورخہ۱۷؍ نومبر۱۹۰۵ء صفحہ ۱) ۲.’’ لَا یُقْبَلُ عَـمَلٌ مِّثْقَالَ ذَرَّۃٍ مِّنْ غَیْرِ التَّقْوٰی.‘‘۳؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۲ الحکم جلد ۹ نمبر۴۰ مورخہ۱۷؍ نومبر۱۹۰۵ء صفحہ ۱.بدر جلد ۱ نمبر ۳۵ مورخہ ۱۳؍ نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۱) ۱۳؍نومبر۱۹۰۵ء ’’ اِنَّکَ بِـاَعْیُنِنَا سَـمَّیْتُکَ الْمُتَوَکِّلَ.‘‘۴؎ ( بدر جلد ۱ نمبر۳۶ مورخہ۱۷؍ نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲ ) ۱۴؍ نومبر۱۹۰۵ء ’’رؤیا.ایک کاغذ دکھایا گیا جس پر عربی عبارت میں ایمان کے اقسام لکھے ہیں.وہ عبارت یاد نہیں رہی مگر اُس کا مطلب غالباً یہ تھا کہ ایمان چار قِسم ہے.ایک روایتی ایمان، دوسرا وہ جو بصیرت سے حاصل ہوتا ہے.تیسرا حالی ایمان، چوتھا استغراقی جو محویّت سے حاصل ہوتا ہے.‘‘ ( بدر جلد ۱ نمبر۳۶ مورخہ۱۷؍ نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲.الحکم جلد ۹ نمبر۴۰ مورخہ۱۷؍ نومبر۱۹۰۵ء صفحہ ۱) ۱ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۱۷؍نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۱ میں بھی یہ رؤیا مع الہام درج ہے.مزید تحریر ہے کہ ’’یہ رؤیا اور الہام آپ نے (بمقام امرتسر) لیکچر سے پہلے سنا دیا تھا.لیکچر شروع کرنے کے آدھ گھنٹہ بعد پورا ہوگیا.کوتاہ اندیش مخالفوں اور مُفسدوں نے اِس قدر شورو شر پیدا کیا کہ اپنی طرف سے وہ اپنے منصوبے میں کامیاب ہوگئے.‘‘ ۲ (ترجمہ) یا تو وہ بعض باتیں ہم تجھے دکھائیں گے جن کا ان کو ہم نے وعدہ دیا ہے یا تجھے وفات دیں گے.(الحکم مورخہ ۱۷؍نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۱) ۳ (ترجمہ) تقویٰ کے بغیر کوئی عمل ذرہ برابر بھی قبول نہیں کیا جاتا.(الحکم مورخہ ۱۷؍نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۱) ۴ (ترجمہ از مرتّب) تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے مَیں نے تیرا نام متوکل رکھاہے.
نومبر۱۹۰۵ء ’’مجھے خدا نے بتلایا ہے کہ میرا انہی سے پَیوند ہے.یعنی وہی خدا کے دفتر میں مُرید ہیں جو اعانت اور نصرت میں مشغول ہیں.‘‘ ( الحکم جلد ۹ نمبر۴۰ مورخہ۱۷؍ نومبر۱۹۰۵ء صفحہ۵) ۱۵؍ نومبر۱۹۰۵ء وحی ہوئی.’’ زندگیوں کا خاتمہ.‘‘ ( بدر جلد ۱ نمبر۳۶ مورخہ۱۷؍ نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲.الحکم جلد ۹ نمبر۴۰ مورخہ۱۷؍ نومبر۱۹۰۵ء صفحہ ۱) ۱۹؍ نومبر۱۹۰۵ء ۱.’’کمبل میں لپیٹ کر صبح قبر میں رکھ دو.‘‘ ۲.’’ ایک رؤیامیں دیکھا کہ سانپ نے میری ایڑی پر کاٹا ہے مگر اس سے کوئی زخم اور درد نہیں ہوا خفیف سا خون نکلا ہے.والد صاحب مرحوم نے اسے دیکھا ہے تو علاج بھی بتایا ہے اور جو کچھ فرمایا ہےاس کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی فکر کی بات نہیں.‘‘ (الحکم جلد ۹ نمبر۴۱ مورخہ۲۴؍ نومبر۱۹۰۵ء صفحہ ۱) ۲۰؍ نومبر۱۹۰۵ء (الف) ’’ ۱.اِنِّیْ مَعَکَ یَـا ابْنَ رَسُوْلِ اللّٰہِ.‘‘۱؎ ’’ ۲.اَجْـمِعُوْا مَنْ فِی الْاَرْضِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ لِیَجْتَمِعُوْا عَلٰی دِ یْنٍ وَّاحِدٍ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۳) (ب) ’’ اِنِّیْ مَعَکَ یَـا ابْنَ رَسُوْلِ اللّٰہِ.سب مسلمانوں۲؎ کو جو رُوئے زمین پر ہیں جمع کرو عَلٰی دِیْنٍ وَّاحِدٍ.‘‘ (بدر جلد ۱ نمبر۳۷ مورخہ۲۴؍ نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲.الحکم جلد ۹ نمبر۴۱ مورخہ۲۴؍ نومبر۱۹۰۵ء صفحہ۱) ۱ (ترجمہ) مَیں تیرے ساتھ ہوں اے رسول اللہ کے بیٹے.(بدر مورخہ ۲۴؍نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲) ۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.’’ یہ امر جو ہے کہ سب مسلمانوں کو جو رُوئے زمین پر ہیں جمع کرو عَلٰی دِیْنٍ وَّاحِدٍ.یہ ایک خاص قسم کا امر ہے.احکام اور امر دو۲ قِسم کے ہوتے ہیں.ایک شرعی رنگ میں ہوتے ہیں جیسے نماز پڑھو، زکوٰۃ دو، خون نہ کرو وغیرہ.اِس قسم کے اوامر میں ایک پیشگوئی بھی ہوتی ہے کہ گویا بعض ایسے بھی ہوں گے جو اس کی خلاف ورزی کریں گے جیسے یہود کو کہا گیا کہ توریت کو محرف مبدّل نہ کرنا، یہ بتاتا تھا کہ بعض ان میں سے کریں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا.غرض یہ امر شرعی ہے اور یہ اصطلاح شریعت ہے.دوسرا امر کَونی ہوتا ہے اور یہ احکام اور امر قضا و قدر کے رنگ میں ہوتے ہیں جیسے قُلْنَا یَـا نَـارُ کُوْنِیْ بَـرْدًا (وَّ) سَلَامًا اور وہ پورے طور پر وقوع میں آگیا اور یہ امر جو میرے اِس الہام میں ہے یہ بھی اسی قسم کا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ مسلمانانِ رُوئے زمین عَلٰی دِ.یْنٍ وَّاحِدٍ جمع ہوں اور وہ ہوکر رہیں گے.ہاں اِس سے یہ مراد نہیں ہے کہ ان میں کوئی کسی قِسم کا بھی اختلاف نہ رہے.اختلاف بھی رہے گا مگر وہ ایسا ہوگا جو قابل ذکر اور قابلِ لحاظ نہیں.‘‘ ( الحکم مورخہ۳۰؍ نومبر۱۹۰۵ء صفحہ۲)
نومبر۱۹۰۵ء فرمایا.’’ چند روز ہوئے مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کورؤیامیں دیکھا.پہلے کچھ باتیں ہوئیں پھر خیال آیا کہ یہ تو فوت شدہ ہیں.آؤ اِن سے دعا کرائیں.تب مَیں نے اُن کو کہا کہ آپ میرے واسطے دُعا کریں کہ میری اتنی عمر ہو کہ سلسلہ کی تکمیل کے واسطے کافی وقت مِل جائے.اِس کے جواب میں اُنہوں نے کہا ’’تحصیلدار‘‘.مَیں نے کہایہ آپ غیر متعلق بات کرتے ہیں.جس امر کے واسطے مَیں نے آپ کو دُعا کے واسطے کہا ہے آپ وہ دُعا کریں.تب اُنہوں نے دعا کے واسطے سینے تک ہاتھ اُٹھائے مگر اُونچے نہ کئے اور کہا ’’اکیس۲۱‘‘.مَیں نے کہا کھول کر بیان کرو مگر انہوں نے کچھ کھول کر نہ بیان کیا اور بار بار اکیس اکیس۱؎ کہتے رہے اور پھر چلے گئے.فرمایا.تحصیلدار کے لفظ سے یہ مُراد معلوم ہوتی ہے کہ تحصیلدار کے دو کام ہوتے ہیں ایک رعایا سے سرکاری لگان وصول کرنا دوسرے رعایا کے باہمی حقوق کا تصفیہ کرنا اور ان میں باہم عدل قائم کرنا.اسی طرح مسیح موعود کا یہ کام ہے کہ خدا کے حق کا مطالبہ کرے اور توحید کو زمین پر پھیلاوے.دوسرے یہ کہ حَکَم عَدل ۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) مولوی صاحب کا اکیس.اکیس.اکیس کہنا ظاہر کرتا ہے کہ اکیس کا لفظ آپ کی تبلیغ کی عمر کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.کیونکہ آپ ؑ کا سوال مولوی صاحب سے یہ تھا کہ مجھ کو اتنی عمر ملے کہ سلسلہ کی تبلیغ کے لئے کافی ہو اور ا سکے جواب میں مولوی صاحب نے اکیس کا لفظ فرمایا ہے.یعنی تمہاری اِس تبلیغ کا وقت اکیس تک ہوگا چنانچہ واقعات کو دیکھنے سے اس خواب کی سچائی بڑے زور سے ثابت ہوتی ہے.کیونکہ حضرت اقدس ؑ کا اشتہاربیعت جمادی الاوّل ۱۳۰۶ھ میں ہوا ہے اور اکیسویں سال اسی مہینے میں آپ کا انتقال ہوا اور اسی طرح ۱۸۸۸ء میں اشتہار بیعت نکلا اور ۱۹۰۸ء میں وفات ہوئی جس سے اس خواب کی تعبیر واضح ہوگئی کہ اس خواب سے یہ مُراد تھی کہ اکیسویں سال آپ ؑ کی وفات ہوگی.‘‘ (رسالہ تشحیذ الاذہان بابت ماہ جون و؍ جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ ۸ ،۹ ) (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) حضرت امیر المؤ منین خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ بھی چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مثیل و بروز تھے اِس لئے آپ کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسی قِسم کا انکشاف ہوا اور اس انکشاف سے اکیس سال بعد آپ کی وفات ہوئی.چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ۲۳ ؍ اپریل ۱۹۴۴ء کو فرمایا ’’آج مَیں نے ویسا ہی ایک رؤیا دیکھا جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک رؤیا ہے…یہ ساری رؤیا تو نہیں مگر آج رات ایک لمبے عرصہ تک یہی رؤیا ذہن میں آکر بار بار یہ الفاظ جاری ہوتے رہے اکیس اکیس.‘‘ (الفضل مورخہ ۲۹؍ اپریل ۱۹۴۴ء صفحہ ۲) چنانچہ ۱۹۴۴ءسے ٹھیک اکیس سال بعد حضورؓ کا وصالِ مبارک ہوا اور لفظاً لفظاً خدا تعالیٰ کی بات پوری ہوئی.
ہوکر اُمّتِ محمدیہ کو باہمی عَدل پر قائم کرے.‘‘ ( بدر جلد ۱ نمبر۳۷ مورخہ۲۴؍ نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۹ نمبر۴۱ مورخہ۲۴؍ نومبر۱۹۰۵ء صفحہ۱) ۲۹؍ نومبر۱۹۰۵ء ’’۱.بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں.۲.قَلَّ۱؎ مِیْعَادُ رَبِّکَ.۳.اُس دن سب پراُداسی چھا جائے گی.۴.قَـرُبَ اَجَلُکَ الْمُقَدَّرُ.وَلَا نُبْقِیْ لَکَ مِنَ الْمُخْزِیَـاتِ ذِکْـرًا.‘‘۲؎ (الحکم۳؎ جلد ۹ نمبر۴۲ مورخہ ۳۰؍ نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ۱) ۱۹۰۵ء ’’ فرمایا.میرے ایک چچا صاحب فوت ہوگئے تھے.عرصہ ہوا.مَیں نے ایک مرتبہ اُن کو عالَمِ رؤیا میں دیکھا اور ان سے اس عالَم کے حالات پوچھے کہ کِس طرح انسان فوت ہوتا ہے اور کیا ہوتا ہے.انہوں نے کہا کہ اُس وقت عجیب نظارہ ہوتا ہے.جب انسان کا آخری وقت قریب آتا ہے تو دو فرشتے جو سفیدپوش ہوتے ہیں سامنے آتے ہیں اور وہ کہتے آتے ہیں مَولا بس۴؎.مَولا بس.(فرمایا.حقیقت میں ایسی حالت میں جب کوئی مفید وجود درمیان سے نکل جاتا ہے یہی لفظ مَولا بس موزوں ہوتا ہے).اور پھر وہ قریب آ کر دونوں اُنگلیاں ناک کے آگے رکھ دیتے ہیں.۱ (ترجمہ) ۲.تیرے رَبّ کی میعاد تھوڑی رہ گئی ہے.۴.قریب ہے تیری اجل مقدر اور تیرے ذلیل کرنے والے امور میں سے کسی کا ذکر ہم باقی نہ رکھیں گے.(بدر مورخہ ۸؍دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ ) ۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.اِن الہامات پر غور کرکے مَیں یہی سمجھتا ہوں کہ وہ زمانہ بہت ہی قریب ہے.پہلے بھی یہ الہام ہوا تھا.اس وقت اس کے ساتھ ایک رؤیا بھی تھی.(الحکم مورخہ ۱۰؍ دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲) ۳ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ۸؍ دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲ میںیہ الہامات ترتیب کے اختلاف سے درج ہیں نیز الہام نمبر۱ کے الفاظ یہ ہیں.بہت دن تھوڑے رہ گئے ہیں.۴ (نوٹ از سیّد عبد الحی) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تین انگوٹھیاں تھیں.ان میں سے ایک کے نگینہ پر مولیٰ بس اس انداز سے کندہ ہے. حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد یہ انگوٹھی حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کے حصہ میں آئی تھی.اب یہ انگوٹھی حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے پاس ہے.
اے رُوح ! جس راہ سے آئی تھی اسی راہ سے واپس نکل آ.فرمایا.طبعی اُمور سے ثابت ہوتا ہے کہ ناک کی راہ سے رُوح داخل ہوتی ہے اسی راہ سے معلوم ہوا نکلتی ہے.تو ریت سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ نتھنوں کے ذریعہ زندگی کی رُوح پھُونکی گئی.وہ عالَم عجیب اسرار کا عالَم ہے.جن کو اِس زندگی میں انسان پورے طور پر سمجھ بھی نہیں سکتا.‘‘ (الحکم جلد ۹ نمبر ۴۳ مورخہ ۱۰؍ دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۳) ۲؍ دسمبر۱۹۰۵ء ’’رؤیا.دیکھا کہ ایک دیوار پر ایک مُرغی ہے.وہ کچھ بولتی ہے.سب فقرات یاد نہیں رہے مگر آخری فقرہ جو یاد رہا یہ تھا.اِنْ کُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَ.۱؎ اس کے بعد بیداری ہوئی.یہ خیال تھا کہ مُرغی نے یہ کیا الفاظ بولے ہیں.پھر الہام ہوا.اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْل اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَ.۲؎ فرمایا کہ مُرغی کا خطاب اور الہام کا خطاب ہر دوجماعت کی طرف تھے.دونو فقروں میں ہماری جماعت مخاطب ہے.‘‘ ( بدر جلد ۱ نمبر۳۸ مورخہ۸؍ دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲.الحکم جلد ۹ نمبر۴۳ مورخہ۱۰؍ دسمبر۱۹۰۵ء صفحہ۱) ۴؍ دسمبر ۱۹۰۵ء ’’ ۱.قَرُبَ اَجَلُکَ الْمُقَدَّ.رُ وَ لَا نُبْقِیْ لَکَ مِنَ الْمُـخْزِیَـاتِ ذِکْـرًا.۲.قَرُبَ اَجَلُکَ الْمُقَدَّ.رُ وَ لَا نُبْقِیْ لَکَ مِنَ الْمُـخْزِیَـاتِ شَیْئًا.۳.قَلَّ مِیْعَادُ رَبِّکَ وَ لَا نُبْقِیْ لَکَ مِنَ الْمُخْزِیَـاتِ شَیْئًا.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۳) (ترجمہ) ’’تیری اجل قریب آگئی ہے اور ہم تیرے متعلق ایسی باتوں کا نام و نشان نہیں چھوڑیں گے جن کا ذکر تیری رُسوائی کا موجب ہو.۲.۳؎ ۳.تیری نسبت خدا کی میعادِ مقررہ تھوڑی رہ گئی ہے اور ہم ایسے تمام اعتراض دُور اور دفع کر دیں گے اور کچھ بھی ان میں سے باقی نہیں رکھیں گے جن کے بیان سے تیری رُسوائی مطلوب ہو.‘‘ (الوصیّت.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۱، ۳۰۲) ۱ (ترجمہ) اگر تم مسلمان ہو.(بدر مورخہ ۸؍دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۸) ۲ (ترجمہ) اللہ کی راہ میں خرچ کرو اگر تم مسلمان ہو.(بدر مورخہ ۸؍دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۸) ۳ (بقیہ ترجمہ از ناشر) قریب ہے تیری اجل مقدر اور تیرے ذلیل کرنے والے امور میں سے کسی کا ذکر ہم باقی نہ رکھیں گے.
۶؍ دسمبر۱۹۰۵ء (الف) ’’ قَرُبَ اَجَلُکَ الْمُقَدَّرُ.وَ لَا نُبْقِیْ لَکَ مِنَ الْمُـخْزِیَـاتِ ذِکْـرًا.قَلَّ مِیْعَادُ رَبِّکَ وَ لَا نُبْقِیْ لَکَ مِنَ الْمُخْزِیَـاتِ شَیْئًا.‘‘۱؎ ( بدر جلد ۱ نمبر۳۸ مورخہ۸؍ دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲.الحکم جلد ۹ نمبر۴۳ مورخہ۱۰؍ دسمبر۱۹۰۵ء صفحہ۱) (ترجمہ) ’’تیری اجل قریب آگئی ہے اور ہم تیرے متعلق ایسی باتوں کا نام و نشان نہیں چھوڑیں گے جن کا ذکر تیری رُسوائی کا موجب ہو.تیری نسبت خدا کی میعادِ مقررہ تھوڑی رہ گئی ہے اور ہم ایسے تمام اعتراض دُور اور دفع کر دیں گے اور کچھ بھی ان میں سے باقی نہیں رکھیں گے جن کے بیان سے تیری رُسوائی مطلوب ہو.‘‘ (الوصیّت.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۱، ۳۰۲) (ب) ’’ اَلْـحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ اَوْصَلَنِیْ صَـحِیْحًا.؎۲ ۱ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۱۰؍ دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲میں اس الہام سے متعلق مزید تفصیل یوں مندرج ہے.’’ وَلَا نُبْقِیْ لَکَ مِنَ الْمُخْزِیَـاتِ ذِکْرًا سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی رُسوا کرنے والا ذکر باقی نہ چھوڑیں گے.یہ بڑا مبشر الہام ہے.یعنی تیرے آنے کی جو علّتِ غائی ہے اُس کو ہم پورا کردیں گے.‘‘ ’’ فرمایا.ان فقرات کے ساتھ لگانے سے صاف منشاء الٰہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب پیغامِ رحلت دیا جاوے گا تو دِل میں یہ خیال پیدا ہوگا کہ ابھی ہمارے فلاں فلاں مقاصد باقی ہیں.اِس کے لئے فرمایا کہ ہم سب کی تکمیل کریں گے.فرمایا.لوگ اکثر غلطی کھاتے ہیں.وہ چاہتے ہیں کہ سب اُمور کی تکمیل مامور ہی کرجائے.وہ بڑی بڑی اُمیدیں باندھ رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سب کچھ مامور اپنی زندگی میں ہی کرکے اُٹھا ہے.صحابہؓ میں بھی ایسا خیال پیدا ہوگیا تھا کہ ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہونے کا وقت نہیں آیا کیونکہ دعویٰ تو تھا کہ کل دُنیا کی طرف رسول ہوئے اور ابھی عرب کا بھی بہت سا حصّہ یوں ہی پڑا تھا مگر اللہ تعالیٰ ان سب امور کی تکمیل آہستہ آہستہ کرتا رہتا ہے تاکہ جانشینوں کو بھی خدمت ِ دین کا ثواب ملتا رہے.‘‘ (از مکتوب بنام چوہدری رستم علی خان صاحب.مکتوبات احمد۳؎ جلد دوم صفحہ ۶۵۳ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۲ (ترجمہ از بدر) سب حمد اس اللہ کے لئے ہے جس نے مجھے صحیح سالم پہنچا دیا.(بدر مورخہ ۱۹؍جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ۶) ۳ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) یہ مکتوب مورخہ ۶؍دسمبر ۱۹۰۵ء مولوی محمد علی صاحب نے حضرت اقدسؑ کے حکم سے لکھا ہے اور دستخط مولوی صاحب کے ہیں.
گویا میں نے دیکھا تھا کہ میں دلّی سے بخیر و عافیت قادیان پہنچ گیا ہوں.‘‘؎۱ (کاپی الہامات؎۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۳) ۷؍ دسمبر ۱۹۰۵ء ۱.’’ قَرُبَ اَجَلُکَ الْمُقَدَّرُ وَلَا نُبْقِیْ لَکَ مِنَ الْمُخْزِیَـاتِ ذِکْرًا.قَلَّ مِیْعَادُ رَبِّکَ وَلَا نُبْقِیْ لَکَ مِنَ الْمُخْزِیَـاتِ شَیْئًا.وَاٰخِرُ دَعْوَانَـا اَنِ الْـحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.‘‘۳؎ (بدر جلد ۱ نمبر۳۸ مورخہ۸؍ دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲.الحکم جلد ۹ نمبر۴۳ مورخہ۱۰؍ دسمبر۱۹۰۵ء صفحہ۱) ۲.’’ قَلَّ مِیْعَادُ رَبِّکَ.وَاٰخِرُ دَ عْوَانَـا اَنِ الْـحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.خدایا زندگی بخش.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۳) ۱۰؍۴؎ دسمبر۱۹۰۵ء الہام.’’ ۱.اُنْـزِلَ فِیْـھَا کُلُّ رَحْـمَۃٍ.۲.اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَـھْدِیْنِ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۳) (ترجمہ) ۱.یعنی ہر ایک قِسم کی رحمت اِس قبرستان میں اُتاری گئی ہے.(الوصیّت.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۱۸) ۱ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) حضرت امیر المؤ منین خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں.’’اِس الہام کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام دہلی تشریف لے ہی نہیں گئے.آخری سفر جو آپ نے دہلی کی طرف کیا وہ ۱۹۰۵ء کا ہے.تو یہ ایک پیشگوئی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ آپ کا مثیل دہلی جائے گا.لوگ اس پر پتھراؤ کریں گے.یہ جو سنگباری کی گئی یہ دراصل مجھ پر تھی جسے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مسند پر بٹھایا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ آپ کو یعنی آپ کے مظہر کو صحیح و سالم قادیان لے آئے گا… یہ جو کہا گیا ہے کہ مجھے صحیح و سالم پہنچا دیا اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض دوسروں کو نقصان پہنچے گا.‘‘ (الفضل مورخہ ۳؍مئی ۱۹۴۴ء صفحہ ۵) ۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۹؍جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ اور الحکم مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ۳ میں اس الہام کی تفصیل میں معمولی لفظی اختلاف ہے.بدر کی تفصیل یوں ہے.’’رؤیا میں دیکھا کہ دہلی گئے اور بخیریت واپس آئے ہیں.پھر الہاماً یہ الفاظ زبان پر جاری ہوئے.اَلْـحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ اَوْصَلَنِیْ صَـحِیْحًا.‘‘ ۳ (ترجمہ از مرتّب) تیر ی مقدّر اجل قریب ہے اور ہم تیرے لئے کوئی رُسوا کن ذکر باقی نہیں چھوڑیں گے.تیرے رَبّ کی میعاد تھوڑی رہ گئی ہے اور ہم تیرے لئے کوئی رُسوا کن چیز نہیں چھوڑیں گے اور ہماری آخری بات یہ ہے کہ سب تعریف خدا کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے.۴ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۸؍دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲ اورالحکم مورخہ ۱۰؍ دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۱ میں الہام’’ اُنْـزِلَ فِیْـھَا کُلُّ رَحْـمَۃٍ.‘‘ کی تاریخ نزول ۹؍دسمبر ۱۹۰۵ء درج ہے.نیز تحریر ہے کہ ’’نئے قبرستان کی زمین کے متعلق الہام ہوا.‘‘
(ترجمہ) ۲.بہ تحقیق میرا ربّ میرے ساتھ ہے وہ مجھے راہ بتلائے گا.(براہین احمدیہ حصہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۶۳ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۴) ۱۳؍ دسمبر ۱۹۰۵ء ’’ کَــبُرَتْ فِتْنَۃٌ.‘‘ ؎۱ ( بدر جلد ۱ نمبر۳۹ مورخہ۱۵؍ دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲ و الحکم جلد ۹ نمبر۴۴ مورخہ۱۷؍ دسمبر۱۹۰۵ء صفحہ۴) ۱۴؍دسمبر ۱۹۰۵ء ’’ ۱.جَآءَ؎۲ وَقْتُکَ وَنُبْقِیْ لَکَ الْاٰیَـاتِ بَاھِرَاتٍ.۲.قَرُبَ وَقْتُکَ وَنُبْقِیْ لَکَ الْاٰیَـاتِ بَیِّنَاتٍ.‘‘؎۳ ( بدر جلد ۱ نمبر۳۹ مورخہ۱۵؍ دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲.الحکم جلد ۹ نمبر۴۴ مورخہ۱۷؍ دسمبر۱۹۰۵ء صفحہ۴) ۱۶؍ دسمبر۱۹۰۵ء ’’۱.قَالَ رَبُّکَ اِنَّہٗ نَـازِلٌ مِّنَ السَّمَآءِ مَا یُـرْضِیْکَ.۲.رَحْـمَۃً مِّنَّا وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا.قَـرُبَ مَا تُـوْعَدُ.وْنَ.اَمَرْتُ نَـافِذًا.‘‘۴؎ ( بدر جلد ۱ نمبر۳۹ مورخہ۱۵؍ دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲.الحکم جلد ۹ نمبر۴۴ مورخہ۱۷؍ دسمبر۱۹۰۵ء صفحہ۴) ۱ (ترجمہ) فتنہ بڑا ہوگیا.(بدر مورخہ۱۵؍ دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲) ۲ (ترجمہ) تیرا وقت آگیا اور ہم تیرے واسطے روشن نشان باقی رکھیں گے.تیرا وقت قریب آگیا اور ہم تیرے واسطے کھلے نشان باقی رکھیں گے.(بدر مورخہ۱۵؍ دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲) ۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.’’اِن الہامات میں الفاظ بَاھِرَات، بَیِّنَات صفت کے طور پر نہیں آئے بلکہ حال کے طور پر آئے ہیں اور دوام کا فائدہ دیتے ہیں جس سے ظاہر ہے کہ چمکتے ہوئے اور کھلے نشانات اِس سلسلہ کی صداقت کے واسطے ہمیشہ قائم رہیں گے.یہ خدا تعالیٰ کے لطف، مدارات اور احسان کا ایک بڑا نمونہ ہے اور اس میں بڑی خوشی ہے.اللہ تعالیٰ کے الفاظ شوکت کے ساتھ تسلّی دیتے ہیں کہ تم تردّد نہ کرو.اِس سلسلہ کے قیام کے اصل مقصد کو ہم پورا کردیں گے.ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ باہرات اور بیّنات کیا ہیں مگر ایک بڑے شکر اور سجدہ کا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسی ایک عظیم الشان بشارت نازل فرمائی.اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اِس سلسلہ کی تائید میں ایسے کام کرے گا جن سے بہت تبدیلی ہوگی اور دنیا پر ایک عظیم اثر پڑے گا.‘‘ ( بدر مورخہ۱۵؍ دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲.الحکم مورخہ۱۷؍ دسمبر۱۹۰۵ء صفحہ۴) ۴ (ترجمہ) ۱.کہا تیرے ربّ نے تحقیق وہ نازل کرنے والا ہے آسمان سے وہ امر جس سے تو خوش ہوجائے گا.یہ رحمت ہے ہماری طرف سے اور یہی ابتدا سے مقرر اور فیصلہ شدہ امر ہے.قریب ہے وہ شے جس کا تم وعدہ دیئے گئے ہو.۲.مَیں نے یہ حکم نافذ کردیا ہے یعنی اٹل ہے.(بدر مورخہ ۱۵؍دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲)
۱۷؍ دسمبر۱۹۰۵ء ’’۱.قَالَ رَبُّکَ.اِنَّہٗ نَـازِلٌ مِّنَ السَّمَآءِ مَا یُـرْضِیْکَ.۲.رَحْـمَۃً مِّنَّا وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا.۳.عَـرَفْتُ نَـافِذًا.‘‘؎۱ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۳) دسمبر ۱۹۰۵ء ۱.’’ قَـرُبَ اَجَلُکَ الْمُقَدَّ.رُ.وَ لَا نُبْقِیْ لَکَ مِنَ الْمُخْزِیَـاتِ ذِکْـرًا.قَلَّ مِیْعَادُ رَبِّکَ.وَ لَا نُبْقِیْ لَکَ مِنَ الْمُخْزِیَـاتِ شَیْئًا.وَ اِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُ.ھُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ.تَـمُوْتُ وَ اَنَـا راضٍ مِّنْکَ.جَآءَ وَقْتُکَ.وَنُبْقِیْ لَکَ الْاٰیَـاتِ بَـاھِرَاتٍ جَآءَ وَقْتُکَ وَنُبْقِیْ لَکَ الْاٰیَـاتِ بَیِّنَاتٍ.قَـرُبَ مَا تُـوْعَدُ.وْنَ.وَ اَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَـحَدِّ.ثْ.اِنَّہٗ مَنْ یَّـتَّقِ اللّٰہَ وَیَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ.‘‘ (ترجمہ) ’’ تیری اجل قریب آگئی ہے اور ہم تیرے متعلق ایسی باتوں کا نام و نشان نہیں چھوڑیں گے جن کا ذکر تیری رسوائی کا موجب ہو.تیری نسبت خدا کی میعاد مقررہ تھوڑی رہ گئی ہے اور ہم ایسے تمام اعتراض دُور اور دفع کردیں گے اور کچھ بھی اُن میں سے باقی نہیں رکھیں گے جن کے بیان سے تیری رُسوائی مطلو ب ہو.اور ہم اِس بات پر قادر ہیں کہ جو کچھ مخالفوں کی نسبت ہماری پیشگوئیاں ہیں ان میں سے تجھے کچھ دکھاویں یا تجھے وفات دیدیں.تُو اِس حالت میں فوت ہوگا جو مَیں تجھ سے راضی ہوں گا اور ہم کھلے کھلے نشان تیری تصدیق کے لئے ہمیشہ موجود رکھیں گے جو وعدہ کیا گیا وہ قریب ہے.اپنے رَبّ کی نعمت کا جو تیرے پر ہوئی لوگوں کے پاس بیان کر.جو شخص تقویٰ اختیار کرے اور صبر کرے تو خدا ایسے نیکوکاروں کا اَجر ضائع نہیں کرتا.‘‘ (الوصیّت.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۱ ،۳۰۲) ۲.’’ بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں اُس دن سب پر اُداسی چھا جائے گی.یہ ہوگا، یہ ہوگا، یہ ہوگا.بعد اس کے تمہارا واقعہ ہوگا.تمام حوادث اور عجائباتِ قدرت دکھلانے کے بعد تمہارا حادثہ آئے گا.‘‘ (الوصیّت.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۳۰۲) ۱ (ترجمہ از ناشر) ۱.تیرے ربّ نے فرمایا.یقیناً وہ چیز جو تجھے خوش کردے گی آسمان سے نازل ہونے والی ہے.۲.یہ ہماری طرف سے بطور رحمت ہوگا.اور یہ بات ہو کر رہنے والی ہے.۳.میں نے نافذ ہونے والے امر کو پہچان لیا.
۳.’’ حوادث کے بارے میں جو مجھے علم دیا گیا ہے وہ یہی ہے کہ ہر ایک طرف دُنیا میں موت اپنا دامن پھیلائے گی اور زلزلے آئیں گے اور شدّت سے آئیں گے اور قیامت کا نمونہ ہوں گے، اور زمین کو تہ و بالا کردیں گے اور بہتوں کی زندگی تلخ ہوجائے گی.پھر وہ جو توبہ کریں گے اور گناہوں سے دست کش ہوجائیں گے خدا اُن پر رحم کرے گا.‘‘ (الوصیّت.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۲ ،۳۰۳) ۴.’’ خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ تُو میری طرف سے نذیر ہے.مَیں نے تجھے بھیجا تا مجرم نیکوکاروں سے الگ کئے جائیں.‘‘ (الوصیّت.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۳۰۳) ۵.’’ خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ مَیں تیری جماعت کے لئے تیری ہی ذرّیت سے ایک شخص کو قائم کروں گا اور اس کو اپنے قرب اور وحی سے مخصوص کروں گا اور اُس کے ذریعہ سے حق ترقی کرے گا اور بہت سے لوگ سچائی کو قبول کریں گے.‘‘ (الوصیّت.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۳۰۶ حاشیہ) ۶.’’ خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ تقویٰ ایک ایسا درخت ہے جس کو دل میں لگانا چاہیے.‘‘ (الوصیّت.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۳۰۷ ) ۷.’’ خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ مَیں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے ایسا ایمان جو اُس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بزدلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں اور خدا فرماتا ہے کہ وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے.‘‘ (الوصیّت.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۳۰۹ ) ۸.’’ خدا نے فرمایا زَلْزَلَۃُ السَّاعَۃِ یعنی وہ زلزلہ قیامت کا نمونہ ہوگا اور پھر فرمایا لَکَ نُرِیْ اٰیٰتٍ وَّنَـھْدِ مُ مَایَعْمُرُوْنَ.یعنی تیرے لئے ہم نشان دکھلائیں گے اور جو عمارتیں بناتے جائیں گے ہم ان کو گراتے جائیں گے اور پھر فرمایا ’’بھونچال آیا اور شدّت سے آیا.زمین تہ و بالا کردی.‘‘ (الوصیّت.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۳۱۴ ، ۳۱۵ )
۹.’’مجھے ایک جگہ دکھلادی گئی کہ یہ تیری قبر کی جگہ ہوگی.ایک فرشتہ مَیں نے دیکھا کہ وہ زمین کو ناپ رہا ہے.تب ایک مقام پر اُس نے پہنچ کر مجھے کہا کہ یہ تیری قبر کی جگہ ہے.پھر ایک جگہ مجھے ایک قبر دکھلائی گئی کہ وہ چاندی سے زیادہ چمکتی تھی اور اُس کی تمام مٹّی چاندی کی تھی.تب مجھے کہا گیا کہ یہ تیری قبر ہے اور ایک جگہ مجھے دکھلائی گئی اور اس کا نام بہشتی مقبرہ رکھا گیا اور ظاہر کیا گیا کہ وہ اُن برگزیدہ جماعت کے لوگوں کی قبریں ہیں جو بہشتی ہیں.‘‘ (الوصیّت.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۱۶) ۱۰.’’ ۱.اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ وَ اَلُوْمُ مَنْ یَّلُوْمُ وَ اُعْطِیْکَ مَا یَدُ.وْمُ ۲.لَکَ دَ رَجَۃٌ فِی السَّمَآءِ وَ فِی الَّذِیْنَ ھُمْ یُبْصِرُوْنَ.۳.وَ لَکَ نُرِیْ اٰیَـاتٍ وَّ نَـھْدِ.مُ مَایَعْمُرُوْنَ.۴.وَ قَالُوْا اَتَـجْعَلُ فِیْـھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْـھَا.قَالَ اِنِّیْ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ.۵.اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ.۶.لَا تَـخَفْ اِنِّیْ لَا یَـخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَ.۷.اَتٰی اَمْرُ اللّٰہِ فَلَا تَسْتَعْـجِلُوْہُ.۸.بِشَارَۃٌ تَلَقَّاھَا النَّبِیُّوْنَ.۹.یَـا اَحْـمَدِیْ اَنْتَ مُرَادِیْ وَ مَعِیْ.۱۰.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ تَـوْحِیْدِیْ وَ تَفْرِیْدِیْ.۱۱.وَ اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃٍ لَّا یَعْلَمُھَا الْـخَلْقُ.۱۲.وَ اَنْتَ وَجِیْہٌ فِیْ حَضْـرَتِیْ.۱۳.اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ.۱۴.اِذَا غَضِبْتَ غَضِبْتُ وَ کُلَّمَا اَحْبَبْتَ اَحْبَبْتُ.۱۵.اٰثَـرَکَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ.۱۶.اَلْـحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ جَعَلَکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ.۱۷.لَا یُسْئَلُ عَـمَّا یَفْعَلُ وَ ھُمْ یُسْئَلُوْنَ.۱۸.وَ کَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا.۱۹.یَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنَ الْعِدَا وَیَسْطُوْ ۱ ترجمہ.۱.مَیں اس رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا اور اس شخص کو ملامت کروں گا جو اس کو ملامت کرے اور تجھے وہ چیز دوں گا جو ہمیشہ رہے گی.۲.تیرا آسمان پر ایک درجہ اور ایک مرتبہ ہے اور نیز ان لوگوں کی نگاہ میں جو دیکھتے ہیں.۳.اور تیرے لئے ہم نشان دکھلائیں گے اور جو عمارتیں بناتے جائیں گے ہم ان کو گراتے جائیں گے.۴.اور انہوں نے کہا کہ کیا تُو ایسے شخص کو خلیفہ بناتا ہے جو زمین پر فساد کرتا ہے.اُس نے کہا کہ اس کی نسبت جو کچھ مَیں جانتا ہوں تم نہیں جانتے.۵.مَیں اس شخص کی اہانت کروں گا جو تیری اہانت کا ارادہ کرے گا.۶.کچھ خوف مت کرکہ میرے رسول میرے قرب میں کسی سے نہیں ڈرتے.۷.خدا کا امر آرہا ہے پس تم جلدی مت کرو.۸.یہ خوشخبری ہے جو قدیم سے نبیوں کو ملتی رہی ہے.۹.اے میرے احمد ؐ تو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے.۱۰.تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید اور تفرید.(اور) ۱۱.تو مجھ سے بمنزلہ اس انتہائی قرب کے ہے جس کو دُنیا نہیں جان سکتی.۱۲.تو میری درگاہ میں وجیہ ہے.۱۳.مَیں نے تجھے اپنے لئے چنا.۱۴.جس پر تو غضبناک ہو مَیں غضبناک ہوتا ہوں اور جن سے تو محبّت کرتا ہے مَیں بھی محبّت کرتا ہوں.۱۵.خدا نے تجھے ہر ایک چیز میں سے چن لیا.۱۶.اس خدا کی تعریف ہے جس نے تجھے مسیح بن مریم بنایا.۱۷.وہ اپنے کاموں سے پوچھا نہیں جاتا اور لوگ پوچھے جاتے ہیں.۱۸.اور وعدہ پورا ہونا ہی تھا.۱۹.خدا تجھے دشمنوں کے شر سے بچائے گا اور اس شخص
بِکُلِّ مَنْ سَطَا.۲۰.ذَالِکَ بِـمَا عَصَوْا وَ کَانُوْا یَعْتَدُ.وْنَ.۲۱.اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَ.ہٗ.۲۲.یَـا جِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَ.۲۳.کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَـا وَ رُسُلِیْ.۲۴.وَ ھُمْ مِّنْ بَعْدِ غَلَبِـھِمْ سَیَغْلِبُوْنَ.۲۵.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَالَّذِیْنَ ھُمْ مُّـحْسِنُوْنَ.۲۶.اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنَّ لَھُمْ قَدَ مَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّـھِمْ.۲۷.سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ.۲۸.وَ امْتَازُوا الْیَوْمَ اَیُّـھَا الْمُجْرِمُوْنَ.‘‘ (الوصیّت.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۱۷حاشیہ) ۱۱.’’خدا نے میرا دل اپنی وحیِ خفی سے اِس طرف مائل کیا کہ ایسے قبرستان کے لئے ایسے شرائط لگادیئے جائیں کہ وہی لوگ اس میں داخل ہوسکیں جو اپنے صدق اور کامل راستبازی کی وجہ سے اُن شرائط کے پابند ہوں.سو وہ تین شرطیں ہیں اور سب کو بجالانا ہوگا.…پہلی شرط یہ ہے کہ ہر ایک شخص جو اِس قبرستان میں مدفون ہونا چاہتا ہے وہ اپنی حیثیت کے لحاظ سے ان مصارف کے لئے چندہ داخل کرے… دوسری شرط یہ ہے کہ تمام جماعت میں سے اِس قبرستان میں وہی مدفون ہوگا جو یہ وصیّت کرے جو اس کی موت کے بعد دسواں حصّہ اُس کے تمام ترکہ کا حسب ِ ہدایت اِس سلسلہ کے اشاعت ِ اسلام اور تبلیغِ احکامِ قرآن میں خرچ ہوگا اور ہر ایک صادق کامل الایمان کو اختیار ہوگا کہ اپنی وصیّت میں اِس سے بھی زیادہ لکھ دے لیکن اِس سے کم نہیں ہوگا … تیسری شرط یہ ہے کہ اِس قبرستان میں دفن ہونے والا متّقی ہو اور محرمات سے پرہیز کرتا اور کوئی شِرک اور بدعت کاکام نہ کرتا ہو.سچا اور صاف مسلمان ہو.‘‘ (الوصیّت.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۱۸تا۳۲۰) ۱۲.’’میری نسبت اور میرے اہل و عیال کی نسبت خدا نے استثناء رکھا ہے باقی ہر ایک مَرد ہو یا عورت اُن کو شرائط کی پابندی لازم ہوگی اور شکایت کرنے والا منافق ہوگا.‘‘ (ضمیمہ متعلقہ رسالہ الوصیّت.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۲۷) بقیہ ترجمہ.پر حملہ کرے گا جو تیرے پر حملہ کرتا ہے.۲۰.کیونکہ وہ لوگ حد سے نکل گئے اور نافرمانی کی راہوں پر قدم رکھا ہے.۲۱.کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں.۲۲.اے پہاڑو اور اے پرندو! میرے اِس بندہ کے ساتھ وجد اور رِقّت سے میری یاد کرو.۲۳.خدا نے لکھ چھوڑا ہے کہ مَیں اور میرے رسول غالب رہیں گے ۲۴.اور وہ مغلوب ہونے کے بعد جلد غالب ہوجائیں گے.۲۵.خدا اُن کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور وہ جو نیکوکار ہیں.۲۶.وہ لوگ جو ایمان لائے اُ ن کے قدم اُن کے رَبّ کے نزدیک صداقت پر ہیں.۲۷.تم سب پر اُس خدا کا سلام ہے جو رحیم ہے ۲۸.اور اے مجرمو! آج تم الگ ہوجاؤ.(ترجمہ ماخوذ از حقیقۃ الوحی و تذکرۃ الشہادتین و الوصیّت.شمس)
۲۳؍ دسمبر ۱۹۰۵ء ’’وَ اَ مَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَـحَدِّ ثْ.‘‘ ۱؎ ( بدر جلد ۱ نمبر۴۰ مورخہ۲۲؍ دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۹.الحکم جلد ۹ نمبر۴۵ مورخہ۲۴؍ دسمبر۱۹۰۵ء صفحہ۱) ۲۶؍ دسمبر ۱۹۰۵ء ’’۱.یَـا۲؎ قَـمَرُ یَـا شَـمْسُ اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنَـا مِنْکَ.۳؎ ۲.اِنَّـا نُبَشِّـرُکَ بِغُلَامٍ نَّـافِلَۃً لَّکَ.نَـافِلَۃً مِّنْ عِنْدِیْ.‘‘ ( بدر جلد ۱ نمبر۴۱ مورخہ۲۹؍ دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر۱ مورخہ۱۰؍ جنوری۱۹۰۶ء صفحہ۱) ۳۱؍ دسمبر ۱۹۰۵ء (الف) ’’ رؤیا.دیکھا کہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی قبر کے پاس تین اَور قبریں ہیں اور ایک قبر پر لال کپڑا۴؎ ڈالا ہے.‘‘ ( بدر جلد ۲ نمبر۱ مورخہ۵؍ جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر۱ مورخہ۱۰؍ جنوری۱۹۰۶ء صفحہ۱) ۱ (ترجمہ) اور اپنے رَبّ کی نعمت کا ذکر کر.(بدر مورخہ ۲۲؍دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۹) ۲ (ترجمہ) ۱.اے چاند اے سورج تو مجھ سے ہے اور مَیں تجھ سے ہوں.۲.ہم تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں.وہ تیرے لئے نافلہ ہے.وہ ہماری طرف سے نافلہ ہے.(بدر مورخہ ۲۹؍دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲) ۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’ یَـا قَـمَرُ یَـا شَـمْسُ اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنَـامِنْکَ یعنی اے چاند اور اے سورج تو مجھ سے ہے اور مَیں تجھ سے ہوں.اِس وحیِ الٰہی میں ایک دفعہ خدا تعالیٰ نے مجھے چاند قرار دیا اور اپنا نام سورج رکھا.اِس سے یہ مطلب ہے کہ جس طرح چاند کا نور سورج سے فیض یاب اور مستفاد ہوتا ہے اسی طرح میرا نور خدا تعالیٰ سے فیض یاب اور مستفاد ہے.پھر دوسری دفعہ خدا تعالیٰ نے اپنا نام چاند رکھا اور مجھے سورج کر کے پکارا.اِس سے یہ مطلب ہے کہ وہ اپنی جلالی روشنی میرے ذریعہ سے ظاہر کرے گا.وہ پوشیدہ تھا اب میرے ہاتھ سے ظاہر ہوجائے گااور اس کی چمک سے دُنیا بے خبر تھی مگر اَب میرے ذریعہ سے اس کی جلالی چمک دنیا کی ہر ایک طرف پھیل جائے گی.‘‘ (تجلّیاتِ الٰہیہ.روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۳۹۷) ۴ (نوٹ از ناشر) حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ ایڈیٹر الحکم تحریر کرتے ہیں.’’لال کپڑے والی قبر کا نشان پورا ہوگیا.‘‘ دیر ہوئی الحکم میں رؤیا حضرت حجۃ اللہ کا شائع ہوچکا ہوا ہے کہ آپ نے بہشتی مقبرے میں تیسری قبر پر لال کپڑا دیکھا جس سے مراد یہ تھی کہ تیسری قبر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ کی قبر کے علاوہ عورت کی ہوگی.چنانچہ میاں مدد خان ملازم نواب محمد علی خان صاحب کی اہلیہ نے اس رؤیا کو پورا کردیا جو ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۶ء کو فوت ہوئی اور بہشتی مقبرہ میں جگہ پائی.خدا مغفرت کرے.‘‘ (الحکم مورخہ ۲۴؍ستمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۶)
(ب) ’’ فرمایا.یہ جورؤیادیکھا گیا تھا کہ مولوی عبدالکریم صاحب کی قبر کے پاس دو ۲ اَور قبریں ہیں، وہ بھی پورا ہوا.ایک قبر الٰہی بخش صاحب ساکن مالیر کوٹلہ کی بنی اور دوسری چودھری۱؎ صاحب مرحوم کی بنی.‘‘ ( بدر جلد۲نمبر۲۳ مورخہ۷؍ جون۱۹۰۶ء صفحہ۴) یکم جنوری۱۹۰۶ء ’’تین۲؎ بکرے ذبح کئے جائیں گے.فرمایا.ظاہر پر حمل کرکے آج ہم نے تین بکرے ذبح کرادیئے ہیں.‘‘ ( بدر جلد۲ نمبر۱ مورخہ۵؍ جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ۲.الحکم جلد۱۰ نمبر۱ مورخہ۱۰؍ جنوری۱۹۰۶ء صفحہ۱) ۳ ؍جنوری ۱۹۰۶ء ’’ اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً.حَرَامٌ عَلٰی قَرْیَۃٍ اَھْلَکْنَاھَا اَنَّـھُمْ لَا یَـرْجِعُوْنَ.وَوَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِیْ اَنْقَضَ ظَھْرَکَ.‘‘۳؎ ( بدر جلد۲ نمبر۱ مورخہ۵؍ جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ۲.الحکم جلد۱۰ نمبر۱ مورخہ۱۰؍ جنوری۱۹۰۶ء صفحہ۱) ۵ ؍جنوری ۱۹۰۶ء ’’ وَ ضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِیْ اَنْقَضَ ظَھْرَکَ.وَ قُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ.۴؎ اِس سے پہلے دیکھا کہ کوئی کہتا ہے کہ محمد حسین بٹالوی کو الہام ہوا ہے کہ قُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ.مَیں نے خیال کیا ۱ یعنی چودھری الہ داد صاحب ؓ ہیڈ کلرک دفتر ریویو آف ریلیجنز قادیان (شمس) ۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یہ الہام بھی ایک دوسرے الہام ’’شَاتَـانِ تُذْ بَـحَانِ‘‘ (براہین احمدیہ حصّہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۱۰ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳) کی طرح بدقسمت افغانستان کی خونی زمین میں پورا ہوا.امیر امان اللہ خان نے اپنے عہد ِ حکومت میں باوجود کامل مذہبی آزادی کا اعلان کرنے اور احمدیوں کی حفاظت کا ذمہ لینے کے تین احمدیوں کو سنگسار کردیا چنانچہ مولوی نعمت اللہ خان صاحب ؓ ۳۱ ؍ اگست ۱۹۲۴ء میں شہید ہوئے اور مولوی عبدالحلیم صاحبؓ اور قاری نور علی صاحبؓ ۱۲؍ فروری ۱۹۲۵ء میں شہید کئے گئے.(الفضل ۲۱ ؍ فروری ۱۹۲۵ء صفحہ ۱ ) ۳ (ترجمہ) مَیں فوجوں کے ساتھ تیرے پاس اچانک آؤں گا.جس گاؤں کو ہم نے ہلاک کردیا اُن پر پھر واپس آنا حرام ہے اور ہم نے تجھ سے وہ بوجھ اُتار دیئے جنہوں نے تیری پیٹھ توڑی.(بدر مورخہ ۵؍جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ۲) ۴ (ترجمہ از مرتّب) ہم نے تجھ سے وہ بوجھ اُتار دیا جس نے تیری کمر توڑ دی اور اس قوم کی جَڑ کاٹی گئی جو ایمان نہیں لاتے.
کیا کہ اس نے ہمارے مخالف ہماری جماعت کے متفرق ہونے کے بارے میں شائع کیا ہے بعد اس کے کچھ غنودگی ہوگئی.پھر الہام ہوا.قُطِـعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ لَا یُـؤْمِنُوْنَ.یَـا قَـمَرُ یَـا شَـمْسُ اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنَـا مِنْکَ.‘‘۱؎ ( کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۴) ۱۰؍جنوری۱۹۰۶ء ۱.’’ اَللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ.یُنَجِّیْکَ مِنْ کَرْ بِکَ.‘‘۲؎ ۲.’’ایک رؤیامیں دیکھا کہ بہت سے ہندو آئے ہیں اور ایک کاغذ پیش کیا کہ اس پر دستخط کردو.مَیں نے کہا کہ مَیں نہیں کرتا.انہوں نے کہا کہ پبلک نے کردیئے ہیں.مَیں نے کہا کہ مَیں پبلک میں نہیں یا کہا کہ پبلک سے باہر ہوں.ایک اَور بات بھی کہنے کو تھا کہ کیا خدا نے اِس پر دستخط کردیئے ہیں.مگر یہ بات نہیں کی تھی کہ بیداری ہوگئی.‘‘ ( بدر جلد۲ نمبر۲مورخہ۱۲؍ جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ۲.الحکم جلد۱۰ نمبر۲مورخہ۱۷؍ جنوری۱۹۰۶ء صفحہ۳) ۱۳؍جنوری ۱۹۰۶ء ۱.’’۱.قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَ رْکُلَّ شَیْءٍ.۳؎ ۲.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ ھُمْ یَتَّقُوْنَ.‘‘۴؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۴.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ۳ بدر جلد۲ نمبر ۳ مورخہ۱۹؍ جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ۲) ۲.۱.لَا یُقْبَلُ عَـمَلٌ مِثْقَالَ ذَ.رَّۃٍ مِّنْ غَیْرِ التَّقْوٰی.۲.زَلْزَلَۃُ السَّاعَۃِ وَ نَـھْدِ.مُ مَا یَعْمُرُوْنَ.۳.عَـفَتِ الدِّ.یَـارُ کَذِکْرِیْ ۴.قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْ لَا دُعَآ ؤُکُمْ.‘‘۵؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۴ ) ۱ (ترجمہ از مرتّب) اُس قوم کی جڑ کاٹی گئی جو ایمان نہیں لاتے.اے چاند اے سورج تو مجھ سے ہے اور مَیں تجھ سے ہوں.۲ (ترجمہ) خدا ہر شے پر غالب ہے.تجھے تیرے کرب سے نجات دے گا.(بدر مورخہ ۱۲؍جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ۲) ۳ (ترجمہ) ۱.تو کہہ دے اللہ.پھر سب چیزوں کو چھوڑ دے.یعنی اللہ تعالیٰ پر پورا بھروسہ کر اور دوسرے کسی کی پرواہ نہ کر.(بدر مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ۳) ۴ (ترجمہ از مرتّب) ۲.اللہ تعالیٰ متقیوں کے ساتھ ہے.۵ (ترجمہ از مرتّب) ۱.کوئی عمل تقویٰ کے بغیر ذرّہ بھر قبول نہیں کیا جائے گا.۲.قیامت والا زلزلہ اور جو عمارتیں بناتے جائیں گے ہم ان کو گراتے جائیں گے.۳.گھر مٹ جائیں گے جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں.۴.کہہ دے کہ میرے رَبّ کو تمہاری پرواہ ہی کیا ہے اگر تم دعا نہیں کروگے.
۱۴؍ جنوری ۱۹۰۶ء ’’۱.کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَـا وَ رُسُلِیْ.۲.سَلَامٌ قَـوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ.۳.ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں.یعنی یا تو قہری غلبہ کے وقت ہماری موت ہوگی جیسا کہ قہری غلبہ مکہ میں ہوا اور یا اس وقت ہماری موت ہوگی جبکہ طبعی جوش سے لوگ ہمارے تابع ہوجائیں گے گویا مدینہ کی سی حالت اس ملک کی ہوجائے گی اور اس طرح گویا ہم مدینہ میں مریں گے.‘‘ (کاپی الہامات۱؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۵۵) ۱۵؍ جنوری ۱۹۰۶ء (الف) ’’ تزلزل در ایوانِ کسریٰ فتاد‘‘ ۲؎ ( بدر جلد۲ نمبر۳مورخہ۱۹؍ جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ۲.الحکم جلد۱۰ نمبر۳مورخہ۲۴؍ جنوری۱۹۰۶ء صفحہ۱) (ب) ’’ صبح پیر کا دن ۱۵؍ جنوری ۱۹۰۶ء کو میں نے خواب میں دیکھا کہ امام الدین کی کنچنی بیوی گر پڑی ہوئی ہے.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۶۲) ۱ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ۱۷؍ جنوری۱۹۰۶ء صفحہ۳ اور بدر مورخہ ۱۹؍جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ میں یہ الہامات مع تفصیل درج ہیں.بدر کی تحریر یوں ہے.’’خدا نے ابتداء سے مقدّر کر چھوڑا ہے کہ وہ اور اس کے رسول غالب رہیں گے.خدائے رحیم کہتا ہے کہ سلامتی ہے.یعنی خائب و خاسر کی طرح تیری موت نہیں ہے.اور یہ کلمہ کہ ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں، اس کے یہ معنی ہیں کہ قبل از موت مکی فتح نصیب ہوگی.جیسا کہ وہاں دشمنوں کو قہر کے ساتھ مغلوب کیا گیا تھا اسی طرح یہاں بھی دشمن قہری نشانوں سے مغلوب کئے جائیں گے.دوسرے یہ معنے ہیں کہ قبل از موت مدنی فتح نصیب ہوگی.خودبخود لوگوں کے دل ہماری طرف مائل ہوجائیں گے.فقرہ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَـا وَ رُسُلِیْ مکہ کی طرف اشارہ کرتا ہے اور فقرہ سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ مدینہ کی طرف.‘‘ ۲ (ترجمہ از مرتّب) شاہِ ایران کے محل میں تزلزل پڑگیا.(نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) چنانچہ اِس الہام کے بعد بالکل خلافِ توقع ایران میں جلد ہی شورِ بغاوت برپا ہوا اور مرزا محمد علی شاہِ ایران نے مجبوراً بتاریخ ۱۵؍ جولائی ۱۹۰۹ء روس کے سفارت خانہ میں پناہ لی.آخر وہ تخت سے معزول کیا گیا اور پارلیمنٹ بنائی گئی.مفصّل دیکھیے ’’دعوۃ الامیر ‘‘تصنیف حضرت سیّدنا امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز.انوار العلوم جلد ۷ صفحہ ۵۲۳ تا ۵۲۵ شائع کردہ فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ.
۲۰؍ جنوری ۱۹۰۶ء (الف) ’’ یَـوْمَ۱؎ تَـاْتِی السَّمَآءُ بِدُ خَانٍ مُّبِیْنٍ.وَ تَـرَی الْاَرْضَ خَامِدَ ۃً مُّصْفَرَّۃً.‘‘۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۵) (ب) ’’وَ قَالُوْا لَسْتَ مُرْسَلًا.قُلْ کَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًا بَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ وَ مَنْ عِنْدَ ہٗ عِلْمُ الْکِتَابِ.‘‘ ( الاستفتاء ضمیمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۷۰۲) (ترجمہ) ’’اور کہیں گے کہ یہ خدا کا فرستادہ نہیں.کہہ میری سچائی پر خدا گواہی دے رہا ہے اور وہ لوگ گواہی دیتے ہیں جو کتاب اللہ کا علم رکھتے ہیں.‘‘ ( حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۴) ۲۵ ؍جنوری ۱۹۰۶ء ’’۱.تَـاْتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ.۲.یَـوْمَ تَـاْتِی السَّمَآءُ بِدُ.خَانٍ مُّبِیْنٍ.‘‘۳؎ ( بدر جلد۲ نمبر۴ مورخہ۲۶؍ جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ۲.الحکم جلد۱۰ نمبر۴مورخہ۳۱؍ جنوری۱۹۰۶ء صفحہ۳) ۱ (ترجمہ) اس دن آسمان ایک کھلا کھلا دُھواں لائے گا.یعنی آسمان ایک دُخانی صورت کا عذاب زمین پر نازل کرے گا اور تو زمین کو دیکھے گا کہ ایک مردہ سی ہوگئی ہے اور راکھ کی طرح بن گئی ہے اور اس پر بجائے سر سبزی کے زردی چھاگئی ہے.(بدر مورخہ۲۶؍ جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ۲) ۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲۶؍جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ اورالحکم مورخہ ۲۴؍جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ میں یہ الہام یوں درج ہے.وَ تَـرَی الْاَرْضَ یَـوْمَئِذٍ خَامِدَ ۃً مُّصْفَرَّۃً.۳ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) علاوہ دیگر معانی کے ظاہری رنگ میں بھی یہ الہام پورا ہوا چنانچہ بابو نصیر احمد صاحب کمسٹریٹ ایجنٹ توپ خانہ بازار کیمپ انبالہ نے جو اپنی چشم دید شہادت الحکم میں شائع کرائی اس میں لکھتے ہیں کہ ’’۲۲؍فروری ۱۹۰۶ء کو بوقت ڑ۴ بجے شام (چھاؤنی انبالہ میں ) پلیگ کارنٹین کے پاس سے دُھواں نکلنا شروع ہوا اور آسمان کی جانب روانہ ہوا.اس دُھوئیں میں اِس قدر روشنی تھی جیسے کہ بجلی کی روشنی ہوتی ہے اور ایسی گڑگڑاہٹ تھی کہ جیسے توپیں سر ہوتی ہیں.یہ دُھواں شمال سے اُٹھ کر جانب ِ جنوب روانہ ہوا.اس کے راستہ میں ایک پختہ عمارت تھی جہاں چیچک کا ٹیکہ لگایا جاتا تھا اس کی چھت کو صاف اُڑادیا.بس اسی پر خیر نہیں ہوئی وہاں سے یہ خدا کا زبردست نشان گورنمنٹ بوچری پر جابِراجا.جو اس جگہ سے قریباً دو ۲ فرلانگ تھی اور اس پختہ عمارت کی چھت کو بالکل اُڑا دیا اور احاطہ کی ایک دیوار کو گرادیا اور دو تین آدمیوں کو خفیف سی چوٹیں بھی آئیں.یہاں پر چار بیل گاڑی کھڑی تھیں جس میں تین کو اُلٹ دیا اور ایک عظیم الشان کیکر کو جَڑ سے اُکھیڑ کر پھینک دیا اور سات آٹھ کیکروں کے تنے توڑدیئے.ترازو جو اس جگہ گڑا ہوا تھا اس کا ایک پلڑا قریب ایک فرلانگ باہر کھیت میں گرا.اس کے بعد پولیس کی چوکی کے برآمدہ کو گرا کر یہ دُھواں غائب ہوگیا.‘‘ (خط نصیر احمد صاحب محررہ مورخہ ۲۴ ؍ فروری ۱۹۰۶ء.الحکم مورخہ ۱۰؍ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۳)
۲۵ ؍جنوری ۱۹۰۶ء ’’سَفِیْنَۃٌ وَّسَکِیْنَۃٌ.‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۵) ۲۶؍ جنوری ۱۹۰۶ء ’’دیکھا کہ ایک مربع شکل کا صندوق ہے جس میں دو خانے ہیں.ایک خانہ میں موت ایک عورت کی شکل میں بیٹھی اور دوسرے خانہ میں اس کی لڑکی ہے.وہ عورت مجھے تلاش کرتی ہے اور وہ صندوق گاڑی کی طرح چلتا ہے.مَیں نے اس کو اشارے سے کہا کہ کچھ تاخیر کرو.تب وہ مَتامّل سی رہ گئی.‘‘ ( بدر جلد۲ نمبر۵مورخہ۲؍ فروری ۱۹۰۶ء صفحہ۲) ۲۷؍ جنوری ۱۹۰۶ء (الف) ’’میں نے دیکھا مولوی محمد علی صاحب انگریزی میں انگریزوں کے لہجہ میں کچھ پڑھ رہے ہیں اور بار بار پڑھتے ہیں اور وہ یہ ہے.اے وَرڈ اینڈ ٹو گرلز۲؎.ترجمہ.ایک کلام اور دو لڑکیاں.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۵) (ب) ’’ ایک کتاب دکھلائی گئی اس پر لکھا تھا.لائف.‘‘۳؎ ( بدر جلد۲ نمبر۵مورخہ۲؍ فروری ۱۹۰۶ء صفحہ۲) ۲۸؍ جنوری ۱۹۰۶ء الہام.’’ ۲۵؍ فروری کے بعد جانا ہوگا.‘‘ ۱؎ ۱ (ترجمہ) کشتی اور سکینت (بدر مورخہ ۲؍فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۲) (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲؍فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ اورالحکم مورخہ ۳۱؍جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ۳ میں اس الہام کی تاریخ ۲۶؍ جنوری ۱۹۰۶ء درج ہے.علاوہ ازیں بدر میں مزید تحریر ہے کہ ’’فرمایا: دل میں ان مشکلات کا خیال تھا جو سلسلہ حقہ کی راہ میں ہیں تو یہ الہام ہوا.‘‘ ۲ A word and two girls (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲؍فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ اور الحکم مورخہ ۳۱؍ جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ۳ میں یہ الہام مع خواب الفاظ کے اختلاف سے درج ہے.بدر کی تحریر یوں ہے.۱.’’ الہام ہوا.وَرڈ اینڈ ٹُو گرلز ۲.خواب میں دیکھا کہ گویا ایک انگریز مذکورہ بالا الفاظ باربار بولتا ہے.پھر جب غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ انگریز نہیں بلکہ وہ مولوی محمد علی صاحب ایم.اے ہیں جو وہ الفاظ بول رہے ہیں.اور پھر یہی الہام انگریزی میں ہوا اور ساتھ ہی اس کا ترجمہ بھی.یعنی یہ کہ ایک کلام اور دو لڑکیاں‘‘ ۳ Life ترجمہ.زندگی (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ۳۱؍ جنوری۱۹۰۶ء صفحہ۳ میںخواب کے الفاظ یہ ہیں.’’رؤیا میں دیکھا کہ ایک کتاب ہے میں نے چاہا کہ اس کا نام پڑھوں تو لکھا ہوا تھا.لائف.اس کے اندر نقشہ وغیرہ ہے.‘‘
۲۸؍ جنوری ۱۹۰۶ء الہام.’’ ۲۵؍ فروری کے بعد جانا ہوگا.‘‘ ۱؎ (بدر جلد ۲ نمبر ۵ مورخہ ۲؍فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخہ ۳۱؍جنوری ۱۹۰۶ء صفحہ ۳ ) ۲۹؍ جنوری ۱۹۰۶ء ’’خواب میں دیکھا کہ زلزلہ آیا ہے اور زلزلہ شدید ہے لیکن نقصان کچھ نہیں ہوا اور ہم اُٹھ کر ایک طرف کو چلے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ بیداری ہے.اس کے بعد بیداری ہوئی.تب مَیں نے کہا کہ یہ خواب تھی.‘‘ ( بدر۲؎ جلد۲ نمبر۵مورخہ۲؍ فروری ۱۹۰۶ء صفحہ۲) یکم فروری ۱۹۰۶ء ۱.’’ تَتْبَعُھَا الرَّادِفَۃُ.۳؎ ۲.پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی.۳.وَ اَ مَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ.۴؎ ۴.۲۵؍ فروری ۱۹۰۶ء کے بعد جانا ہوگا.(کاپی الہامات۵؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۶) ۱ (نوٹ) حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے اس الہام کو حضرت سیّدہ اُمِّ طاہر احمد پر چسپاں فرماتے ہوئے فرمایا.’’اُمّ طاہر کی بیماری اور وفات کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض الہامات میں بھی ذکر آتا ہے.مَیں جب ہوشیار پور گیا تو رستہ میں میرا ذہن اس الہام کی طرف منتقل ہوا کہ ’’۲۵ ؍ فروری کے بعد جانا ہوگا.‘‘ ہم نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح جلدی انہیں دوسرے ہسپتال میں منتقل کردیا جائے.مَیں نے کرایہ پر کوٹھی لینے کی بھی بڑی کوشش کی مگر کسی دوسری جگہ منتقل ہونے کے سامان میسر نہ آسکے.آخر ۲۵ ؍ فروری کو سر گنگا رام ہسپتال میں اُن کے داخلہ کا انتظام ہوا اور ۲۶؍ فروری کو ہم انہیں لے گئے.‘‘ (الفضل مورخہ ۹؍ اپریل ۱۹۴۴ء صفحہ ۳) ۲ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ۳۱؍ جنوری۱۹۰۶ء صفحہ۳ میں بھی یہ خواب باختلافِ الفاظ درج ہے.۳ (ترجمہ) اس کے پیچھے آئے گی پیچھے آنے والی.یعنی ایک زلزلہ آیا اس کے بعد ایک اَور آنے والا ہے.(بدر مورخہ ۹؍فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۲) ۴ (ترجمہ) اور جو چیز لوگوں کو نفع دینے والی ہے وہی زمین میں ٹھیرے گی.یعنی جو انسان خلقت کو فائدہ پہنچانے والے ہیں ان کو زندگی عطا کی جاوے گی.(بدر مورخہ ۹؍فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۲) ۵ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۹؍فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ اور الحکم مورخہ ۱۰؍فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۱۱ پر الہامات نمبر ۱ و ۲ و۳ مندرج ہیں جبکہ الہام ’’۲۵؍فروری ۱۹۰۶ء کے بعد جانا ہوگا ‘‘درج نہیں.
۳ ؍فروری ۱۹۰۶ء ’’اُٹھو نمازیں پڑھیں اور قیامت کا نمونہ دیکھیں.‘‘ (کاپی الہامات۱؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۶) ۵ ؍فروری ۱۹۰۶ء روز دو شنبہ عید اضحٰی حضرت اقدس نےرؤیادیکھا کہ ’’میاں محمد اسحٰق پسر حضرت میر ناصر نواب صاحب اور صالحہ بی بنت صاحبزادہ منظور محمد کے باہمی۲؎ تعلق نکاح کی طیاری ہورہی ہے.‘‘ ( بدر جلد۲ نمبر۶مورخہ۹؍ فروری ۱۹۰۶ء صفحہ۵ زیرِ عنوان ’’ بَـارَکَ اللّٰہ ‘‘) ۷ ؍ فروری ۱۹۰۶ء ’’ ۱.اِک دانہ کس کس نے کھانا.۲.یُـخْرِجُ ھَمُّہٗ وَ غَـمُّہٗ دَوْحَۃَ اِسْـمٰعِیْلَ.۳؎ ۳.یَـا نَبِیَّ اللّٰہِ کُنْتُ لَا اَعْرِفُکَ.اے نبی اللہ میں تم کو پہچانتی نہیں تھی.‘‘ (کاپی الہامات۴؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۶) ۸ ؍ فروری ۱۹۰۶ء ’’ خواب میں دیکھا گیا تھا کہ ہمارے باغ کے قریب ایک نہر رواں ہے.مَیں کہتا ہوں کہ اب با غ جلد چند روز میں پرورش پا جائے گا اور اگر پانی بھی نہ ملے گا تب بھی سرسبز ہوجاوے گا.میرے نزدیک اس کی تعبیر یہ ہے کہ باغ سے مراد اپنی جماعت ہے اور نہر سے مراد نصرت اور تائید ِ الٰہی ہے ۱ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۹؍فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ اور الحکم مورخہ ۱۰؍فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۱۱ میں اس الہام کی تفصیل میں تحریر ہے.’’رات کے ۳بجے کے قریب جبکہ بادل نہایت زور سے گرج رہا تھا.الہام ہوا.اٹھو نمازیں پڑھیں اور قیامت کا نمونہ دیکھیں.فرمایا.اس وقت ہمارا شغل یہی ہوگا کہ نمازیں پڑھیں اور خدا کی عبرت کا نظارہ دیکھیں.‘‘ ۲ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) چنانچہ اسی روز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی موجودگی میں حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ نے مسجد ِ اقصیٰ میں اس نکاح کا اعلان فرمایا.( بدر مورخہ۹؍ فروری ۱۹۰۶ء صفحہ۵) ۳ (ترجمہ از بدر) ۲.اس کا ہم ّ اور غم باہر نکال دے گا.اسمٰعیل کے درخت کو.۴ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۱۰؍فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۱۱ اور بدر مورخہ ۱۶؍فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ میں یہ الہامات ترتیب کے اختلاف سے درج ہیں.الحکم میں الہام نمبر ۲ کے بعد ’’فَاَخْفِھَا حَتّٰی تَـخْرُجَ‘‘ کے الفاظ بھی ہیں (یعنی اس کو پوشیدہ رکھ یہاں تک کہ وہ ظاہر ہوجاوے) جبکہ بدر میں یہی جملہ یوں درج ہے.’’فَاَخْفِھَا حَتّٰی یَـخْرُجَ.‘‘ (بدر میں ’’یَـخْرُجَ‘‘لکھا ہے جو سہو کاتب معلوم ہوتا ہے.شمس) نیز الہام نمبر ۳ کے الفاظ بدر و الحکم میں یوں ہیں.’’زمین کہتی ہے یَـا نَبِیَّ اللّٰہِ کُنْتُ لَا اَعْرِفُکَ.‘‘
جو شاخوں کے رنگ میں ظاہر ہوگی.‘‘ ( بدر جلد۲ نمبر۷مورخہ۱۶؍ فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد۱۰ نمبر۶مورخہ۱۷؍ فروری۱۹۰۶ء صفحہ۱) ۹ ؍فروری ۱۹۰۶ء ۱.’’ وحی الٰہی.زلزلہ آنے کو ہے.رَبِّ لَا تُرِنِیْ مَوْتَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ.۱؎بعد اس کے الہام ہوا.جس سے تو بہت پیار کرتا ہے میں اُس سے بہت پیار کروں گا اور جس سے تو ناراض ہے میں اُس سے ناراض ہوں گا.یعنی تیرا کسی سے محبت کرنا اس کو ایسی آفت سے بچائے گا اور تیرا کسی سے ناراض ہونا اس کو ایسی آفت میں مبتلا کرے گا.پھر الہام ہوا.اَیْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ.یعنی جس طرف تیرا مونہہ ہوگا اسی طرف خدا بھی مونہہ کرے گا یعنی جس سے تجھے محبت ہوگی خدا بھی اس سے محبت کرے گا اور اسے بچائے گا.پھر الہام ہوا.خدا نے تیری ساری باتیں پوری کردیں.یعنی خدا تمام کام تیری مراد کے موافق کرے گا.اور پھر الہام ہوا وَ اِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ اَوْنَـتَوَفَّیَنَّکَ۲؎.اور پھر الہام ہوا.قُلْ اِنَّ صَلوٰتِیْ وَنُسُکِیْ وَ مَـحْیَایَ وَ مَـمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.۳؎ اور پھر زلزلہ کی طرف اشارہ کرکے الہام ہوا.اِکْرَامٌ مَعَ الْاِنْعَامِ.‘‘۴؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۸) ۲.’’در کلامِ توچیزی ست کہ شعراء را دران دخلی نیست.کَلَامٌ اُفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنْ رَبٍّ کَرِیْمٍ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۶۲) (ترجمہ) تیرے کلام میں ایک چیز ہے جس میں شاعروں کو دخل نہیں.تیرا کلام خدا کی طرف سے فصیح کیا گیا ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۵، ۱۰۶) ۱۰؍ فروری ۱۹۰۶ء ’’دیکھا کہ ایک جماعت ِ کثیر میرے پاس کھڑی ہے.ایک حاکم آیا اور اس نے کھڑے ہوکر کہا کہ کیوں اس جماعت کو منتشر نہ کیا جاوے ؟ مَیں نے کہا کہ اس جماعت میں کوئی مخالفت نہیں ۱ (ترجمہ) اے میرے ربّ ان میں سے کسی کی موت مجھے نہ دکھلا.(بدر مورخہ ۱۶؍ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۲) ۲ (ترجمہ ازمرتّب) اور یا تو ہم بعض وہ عذاب کی پیشگوئیاں تیری زندگی میں پوری کرکے دکھلا دیں گے جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے اور یا تجھے وفات دے دیں گے اور بعد میں سب کچھ پورا کردیں گے.۳ (ترجمہ از ناشر) تو کہہ دے کہ میری عبادت اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لئےہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے.۴ (ترجمہ) خدا ایک عزت دے گا جس کے ساتھ ایک انعام ہوگا.(بدر مورخہ ۱۶؍مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۲)
صرف تعلیم پاتے ہیں.پھر اس حاکم نے کہ گویا وہ ایک فرشتہ تھا آسمان کی طرف منہ کرکے ایک دو باتیں کیں جو سمجھ میں نہیں آئیں.پھر اُس نے مجھے مخاطب کرکے کہا کہ سلام، اور چلا گیا.‘‘ ( بدر جلد۲ نمبر۷مورخہ۱۶؍ فروری ۱۹۰۶ء صفحہ۲.الحکم جلد۱۰ نمبر۶مورخہ۱۷؍ فروری۱۹۰۶ء صفحہ۱) ۱۱؍فروری ۱۹۰۶ء ’’ الہام.۱.پہلے بنگالہ۱؎ میں جو کچھ حکم جاری کیا گیا تھا.اب اُن کی دلجوئی ہوگی.‘‘۲؎ ۲.کرنسی نوٹ.اوّل ایک کتاب۳؎ دکھلائی گئی پھر الہام ہوا.دیکھو میرے دوستو! اخبار شائع ہوگیا.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۶) ۱۹۰۶ء ’’ اَ مْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْـحَابَ الْکَھْفِ وَ الرَّقِیْمِ کَانُـوْا مِنْ اٰیَـاتِنَا عَــجَبًا.‘‘۴؎ (الحکم جلد ۱۰ نمبر ۶ مورخہ ۱۷؍ فروری ۱۹۰۶ء صفحہ۳) ۱۳؍ فروری ۱۹۰۶ء ۵؎روز سہ شنبہ ’’ رَبِّ اشْفِ زَوْجَتِیْ وَاجْعَلْ لَّھَا بَـرَکَاتٍ فِی السَّمَآءِ ۱ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ۱۷؍ فروری۱۹۰۶ء صفحہ۱ اور بدر مورخہ ۱۶؍ فروری ۱۹۰۶ء صفحہ۲ میں ’’بنگالہ میں‘‘کی بجائے ’’بنگالہ کی نسبت‘‘ کے الفاظ درج ہیں.۲ (نوٹ از سید عبد الحی) ۱۹۰۵ء میں بنگالہ کی جو تقسیم ہوئی تھی وہ اس کی دلآزاری کا باعث بنی.آخر جارج پنجم نے اس الہام سے پانچ سال بعد وہ تقسیم منسوخ کردی جو بنگالیوں کی دلجوئی کا باعث بنی.۳ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۶؍ فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ پر تحریر ہے.’’پھر ایک کتاب مجھے دی گئی گویا وہ کرنسی نوٹ تھے.اور پھر الہاماً میری زبان پر جاری ہوا.’’دیکھو میرے دوستو! اخبار شائع ہوگیا.‘‘ فرمایا.اخبار سے مراد خبر ہے.‘‘ ۴ (ترجمہ از مرتّب) کیا تیر اخیال ہے کہ کہف اور رقیم والے ہمارے عجیب نشانات میں سے تھے.(نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) چونکہ اِس الہام کے سَن کی تعیین نہیں ہوسکی اِس لئے سنِ اشاعت کے لحاظ سے اِسے یہاں درج کیا گیا.۵ (نوٹ از ناشر) البدر مورخہ ۲۳؍فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ اور الحکم مورخہ ۲۴؍ فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ میں اس الہام کی تاریخ ۱۶ فروری درج ہے نیز الہام کے الفاظ یہ ہیں.رَبِّ اشْفِ زَوْجَتِیْ ھٰذِہٖ وَاجْعَلْ لَّھَا بَـرَکَاتٍ فِی السَّمَآءِ وَ بَـرَکَاتٍ فِی الْاَرْضِ.
وَ فِی الْاَرْضِ.‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۶) ۱۶؍فروری ۱۹۰۶ء ’’ تَکْفِیْکَ ھٰذِہِ الْاِمْرَأَ ۃُ.‘‘۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۶) ۱۸؍فروری ۱۹۰۶ء ’’اِنِّیْ مَعَ الَّذِ یْنَ ھُمْ یَـھْتَدُ.وْنَ.اَیْ یَـاْتُـوْنَ اِلَی اللّٰہِ حَنِیْفًا کَمَا قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی.قُلْ بَلْ مِلَّۃَ اِبْـرَاھِیْمَ حَنِیْفًا.‘‘۳؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۶) ۱۹؍فروری ۱۹۰۶ء ’’دیکھا کہ منظور محمد صاحب کے ہاں لڑکا پیدا ہوا ہے اور دریافت کرتے ہیں کہ اس لڑکے کا کیا نام رکھا جائے.تب خواب سے حالت الہام کی طرف چلی گئی اور یہ معلوم ہوا.’’ بشیرُ الدَّولہ ‘‘ فرمایا.کئی آدمیوں کے واسطے دعا کی جاتی ہے معلوم نہیں کہ منظور محمد کے لفظ سے کِس کی طرف اشارہ ہے.ممکن ہے کہ بشیر الدَّولہ کے لفظ سے یہ مراد ہو کہ ایسا لڑکا میاں منظور محمد کے پیدا ہوگا جس کا پیدا ہونا موجب ِ خوشحالی اور دولتمندی ہوجائے اور یہ بھی قرین ِ قیاس ہے کہ وہ لڑکا خود اقبا ل مند اور صاحب ِ دولت ہو لیکن ہم نہیں کہہ سکتے کہ کب اور کِس وقت یہ لڑکا پیدا ہوگا.خدا نے کوئی وقت ظاہر نہیں فرمایا.ممکن ہے کہ جلد ہو یا خدا اِس میں کئی برس کی تاخیر ڈال دے.‘‘ ( بدر جلد۲ نمبر۸مورخہ۲۳؍ فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد۱۰ نمبر۷مورخہ۲۴؍ فروری۱۹۰۶ء صفحہ۱) ۲۰؍فروری ۱۹۰۶ء روز دو شنبہ ’’ ۱.عورت۴؎ کی چال.۱ (ترجمہ از مرتّب) اے میرے ربّ میری بیوی کو شفا بخش اور اسے آسمانی برکتیں اور زمینی برکتیں عطا فرما.۲ (ترجمہ از مرتّب) یہ عورت تجھے کافی ہے.۳ (ترجمہ از مرتّب) مَیں ان لوگوں کے ساتھ ہوں جو ہدایت پاتے ہیں.یعنی خدا کی طرف یکسر ہوکر آتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.تُو کہہ دے (نہیں) بلکہ ابراہیمِ حنیف کی امّت ہو جاؤ (یہی ہدایت کا موجب ہے) ۴ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ۲۴؍ فروری۱۹۰۶ء صفحہ۱ اوربدر مورخہ ۲۳؍ فروری ۱۹۰۶ء صفحہ۲ میں اس الہام کی تاریخ ۱۹؍فروری ۱۹۰۶ء درج ہے.علاوہ ازیں تحریر ہے کہ ’’یہ خیال گزرتا ہے.واللہ اَعلم کہ کو ئی شخص زنانہ طور پر مَکر کرے.یعنی مردِ میدان بن کر کارروائی نہ کرے بلکہ چھپ کر عورتوں کی طرح کوئی نقصان پہنچانا چاہے جس کا نتیجہ آخر بریّت ہو.مگر یہ صرف اجتہادی رائے ہے.اللہ تعالیٰ
ایلی ایلی لما سبقتنی.۳.بریّت.۴.اِذْ کَفَفْتُ عَنْ بَنِیْ اِسْـرَآءِیْلَ.۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۷) بقیہ حاشیہ.بہتر جانتا ہے اس کے کیا معنے ہیں.ایک مَردوں کی چال ہوتی ہے اور ایک زنانہ چال ہوتی ہے جو گمنام ہوکر کوئی بدی کرتا ہے یا عورت کی طرح چھپ کر کوئی حملہ کرتا ہے اور آخری فقرے کے یہ معنے ہیں کہ فرعون کے شر سے ہم نے بنی اسرائیل کو بچالیا.‘‘ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) اِس الہام کی پیشگوئی کا ایک ظہور جو واقعات کے رنگ میں آنکھوں کے سامنے آیا وہ بھی ہے جو حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک مکتوب سے معلوم ہوتا ہے.چراغدین جمونی کی وفات پر حضرت مفتی صاحبؓ نے قاضی صاحبؓ کو بعض امور تحقیق طلب کے متعلق تفصیلات دریافت کرنے کے لئے لکھا.انہوں نے بعد تحقیق مفصل خط بھیج دیا جس میں چراغدین کی بیوی کے متعلق بھی الفاظ ِ ذیل لکھ دیئے.’’اس کی عورت پر لوگ یاری آشنائی کے الزام لگاتے تھے.ممکن ہے کہ وہ اس کی زندگی میں ہی خراب ہو.‘‘ یہ خط بدر ۱۹؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۳ میں شائع ہوگیا.اِس خط کے شائع ہونے پر معاندین نے قاضی صاحب ؓ کے خلاف بھی ہتک عزت کا مقدمہ کھڑا کرنا چاہا اور پَیروی مقدمہ کے لئے ایک بڑی کمیٹی مقرر ہوئی.اس پر قاضی صاحبؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں تفصیل دیتے ہوئے دعا کے لئے لکھا اور اس میں یہ بھی لکھا کہ ۱۹ ؍ فروری کا الہام ’’عورت کی چال.ایلی ایلی لما سبقتانی‘‘ شاید یہی چال نہ ہو.حضور اقدس ؑ نے اس خط پر اپنے دست ِ مبارک سے رقم فرمایا.’’اِس خط کو بہت محفوظ رکھا جائے اور اس کا جواب لکھ دیا جاوے کہ اب صبر سے خدا تعالیٰ پر توکل کریں.دعا کی جائے گی.‘‘ (پھر) اس مقدمہ کے متعلق یوں ہوا کہ عین اس تاریخ کو جس دن دعویٰ ہونا تھا اور سب تیاری ہر طرح سے مکمل ہوچکی تھی اس دن علی الصبح پتہ لگا کہ وہ عورت اپنے آشنا کے ساتھ غائب ہوگئی اور اس طرح ان مخالفوں کی ساری کارستانی پر پانی پھر گیا اور میرے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبولیت ِ دعا اور حضور ؑ کی توجہ کی برکت کا ایک روشن نشان ظاہر ہوا.( تفصیلی حالات کے لئے دیکھیے اصحابِ احمد جلد ۶ صفحہ ۱۴۱ تا ۱۴۶.طبع اوّل مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے) ۱ (ترجمہ از مرتّب) ۲.اے خدا ! اے خدا ! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.۳.بریّت.۴.اور یاد کرو جب مَیں نے بنی اسرائیل سے (دشمن کو ) باز رکھا.
۲۳؍ فروری ۱۹۰۶ء (الف) ’’درد ناک دُکھ اور درد ناک واقعہ.اس کی تشریح میں خواب میں دیکھا کہ کوئی عورت کہتی ہے کہ میری بیوی ناگہانی طور پر فوت ہوگئی.‘‘ (کاپی الہامات۱؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۸) (ب) ’’ نواب محمد علی خان صاحب رئیس کوٹلہ مالیر کی نسبت میرے پر خدا تعالیٰ نے یہ ظاہر کیا کہ اُن کی بیوی عنقریب فوت ہوجائے گی اور موت کی خبر دے کر یہ بھی فرمایا کہ درد ناک دُکھ اور درد ناک واقعہ … اور یہ اُس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی تھی جبکہ نواب صاحب موصوف کی بیوی بہر طرح تندرست اور صحیح و سالم تھی.پھر تخمیناً چھ ماہ کے بعد نواب محمد علی خان صاحب کی بیوی کو سِل کی مرض ہوگئی…آخر رمضان ۱۳۲۴ھ میں وہ مرحومہ اُسی مرض سے اِس ناپائیدار دُنیا سے گزر گئیں.اِس پیشگوئی سے نواب صاحب کو بھی قبل از وقت خبر دی گئی تھی.‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۴۳۴، ۴۳۵) ۲۴؍فروری ۱۹۰۶ء ’’ شُد جہانِ عشق بَروَے آشکار‘‘۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۸) ۲۵ ؍فروری۱۹۰۶ء ’’اس الہام۳؎کے علاوہ مرحومہ۴؎کے متعلق حضرت اقدسؑ کو ایک الہام یہ بھی ہوا تھا کہ امۃ الحفیظ اور اس پر آپ نے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اِس الہام میں حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے اور خدا کے وعدے ۱ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۲۴؍فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ اور بدر مورخہ ۲؍مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ میں اس الہام کی تاریخ ۲۵؍فروری درج ہے.بدر کی تفصیل الحکم کی نسبت قدرے مختلف ہے جو یہ ہے.’’رؤیامیں دیکھا کہ کوئی خادمہ عورت جو اپنے تعلق والوں میں سے کسی گھر کی ہے، آئی ہے اور کہتی ہے کہ میری بیوی یکایک مَر گئی.یہ سُن کر مَیں اُٹھا ہوں کہ اپنے گھر میں اطلاع کروں کہ پہلا الہام پورا ہوگیا اور پگڑی اور عَصَا ہاتھ میں لیا اور چلنے کو تھا کہ بیداری ہوگئی.‘‘ ۲ (ترجمہ از مرتّب) عشق کا جہان اس پر ظاہر ہوا.۳ یعنی الہام’’ درد ناک دُکھ اور درد ناک واقعہ ‘‘ (شمس) ۴ یعنی نواب محمد علی خان صاحبؓ کی بیوی.(شمس)
سچے ہیں.مگر اِس جگہ یہ نہیں ظاہر ہوتا کہ حفاظت سے مراد حفاظت ِ جسم ہے یا حفاظت ِ روح.‘‘ ( بدر جلد۲ نمبر۴۴مورخہ یکم؍ نومبر۱۹۰۶ء صفحہ۴) ۱۹۰۶ء؎۱ ’’پھر خدا نے مجھے خبر دی کہ موسمِ بہار میں ایک اَور غیر معمولی زلزلہ آئے گا اور ۲۵ ؍ فروری ۱۹۰۶ء کے بعد آئے گا چنانچہ ۲۷ ؍ فروری ۱۹۰۶ء کا دن گزرنے کے بعد رات کو بوقت ڈیڑھ بجے وہ زلزلہ آیا جس سے بہت سے گھر مسمار ہوئے اور بہت سی جانیں ضائع ہوئیں.‘‘ ( اشتہار ۲۹؍ اپریل ۱۹۰۶ء مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۳۸۶، ۳۸۷ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) یکم مارچ ۱۹۰۶ء ’’ خدا نے یہ وحی میرے پر نازل کی جس کے یہ الفاظ ہیں.زلزلہ آنے کو۲؎ ہے.اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ وہ زلزلہ جو قیامت کا نمونہ ہے وہ ابھی آیا نہیں بلکہ آنے کو ہے اور یہ زلزلہ اُس کا پیش خیمہ ہے جو پیشگوئی کے مطابق پورا ہوا.‘‘ ( اشتہارزلزلہ کی پیشگوئی ۲؍ مارچ ۱۹۰۶ء مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۳۷۸مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۷ ؍مارچ ۱۹۰۶ء ’’ ھَا اِنِّیْ اٰثَـرْتُکَ.‘‘۳؎ ( بدر جلد۲ نمبر۱۰مورخہ۹؍ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ۲.الحکم جلد۱۰ نمبر۸مورخہ۱۰؍ مارچ۱۹۰۶ء صفحہ۱) ۸؍مارچ ۱۹۰۶ء (الف) ’’زلزلہ کے متعلق دعا کی گئی تھی کہ کب آوے گا.الہام ہوا.عَلٰی اُصُوْلِہِ الْقَدِ یْمِ.پھر الہام ہوا.رَبِّ لَا تُرِنِیْ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ.‘‘۴؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۸) ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) چونکہ اِس الہام کی تاریخ نزول معلوم نہیں ہوسکی اِس لئے ۲۵ ؍ فروری ۱۹۰۶ء کے ذِکر کی مناسبت سے اسے یہاں رکھا گیا.۲ اس الہام کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.’’اِس کے معنے یہ ہیں کہ اِسی زلزلہ کو جوہوا، اصل زلزلہ نہ سمجھو بلکہ سخت زلزلہ آنے کو ہے.‘‘ ( بدر مورخہ۲؍ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ۲.الحکم مورخہ۱۰؍ مارچ۱۹۰۶ء صفحہ۱) ۳ (ترجمہ) خبردار ہو! مَیں نے تجھے چن لیا.(بدر مورخہ ۹؍ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ۲) ۴ (ترجمہ از مرتّب) اس کے قدیم دستور کے مطابق.اے میرے ربّ مجھے قیامت کا زلزلہ نہ دکھلا.
(ب) ’’ ۱.یُرِیْکُمُ۱؎ اللّٰہُ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ.۲.اُرِیْکَ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ.۳.وَ یَسْئَلُوْنَکَ اَحَقٌّ ھُوَ قُلْ اِیْ وَ رَبِّیْ اِنَّہٗ لَـحَقٌّ.وَلَا یُرَدُّ عَنْ قَوْمٍ یُّعْرِضُوْنَ.۴.نَصْـرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ مُّبِیْنٌ.۵.وَیَسْئَلُوْنَکَ اَحَقٌّ ھُوَ قُلْ اِیْ وَ رَبِّیْ اِنَّہٗ لَـحَقٌّ.۶.نَصْـرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ مُّبِیْنٌ.۷.وَلَا یُرَدُّ عَنْ قَوْمٍ یُّعْرِضُوْنَ.۸.اَرَادَ اللّٰہُ اَنْ یَّـبْعَثَکَ مُقَامًا مَّـحْمُوْدًا.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳۰۶، ۳۰۵) ۹؍ مارچ ۱۹۰۶ء ’’ ۱.زلزلہ آنے کو ہے.ہمارے لئے عید کا دن.۲.رَبِّ لَا تُرِنِیْ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ.رَبِّ لَا تُرِنِیْ مَوْتَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ.‘‘۲؎ ۳.جس سے تو بہت پیار کرتا ہے مَیں اس سے بہت پیار کروں گا اور جس سے تو ناراض ہے مَیں اس سے ناراض ہوں گا.یعنی تیرا کِسی سے محبّت کرنا اس کو ایسی آفت سے بچائے گا.تیرا کسی سے ناراض ہونا اس کو ایسی آفت میں مبتلا کرے گا.۴.اَیْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ.۳؎ یعنی جس سے تجھے محبّت ہوگی خدا بھی اس سے محبّت کرے گا اور اُسے بچائے گا.۱ (ترجمہ از مرتّب) ۱.اللہ تمہیں وہ زلزلہ دکھائے گا جو قیامت کا نمونہ ہوگا.۲.مَیں تجھے وہ زلزلہ دکھائوں گا جو اپنی شدت کی وجہ سے نمونہ قیامت ہوگا.۳.اور وہ تجھ سے پوچھتے ہیں کیا وہ بات سچ ہے.کہہ ہاں میرے رَبّ کی قَسم یہ یقیناً سچ ہے اور اِعراض کرنے والی قوم سے وہ عذاب نہیں ٹلے گا.۴.خدا سے مدد اور کھلی فتح.۵.اور وہ تجھ سے پوچھتے ہیں کیا وہ بات سچ ہے.کہہ ہاں میرے رَبّ کی قسم یہ یقیناً سچ ہے اور اِعراض کرنے والی قوم سے وہ عذاب نہیں ٹلے گا.۶.خدا سے مدد اور کھلی فتح.۷.اور اِعراض کرنے والی قوم سے وہ عذاب نہیں ٹلے گا.۸.اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ تجھے مقامِ محمود پر مبعوث کرے.۲ (ترجمہ) اے میرے ربّ مجھے قیامت کا زلزلہ نہ دکھلا.اے میرے ربّ ان میں سے کسی کی موت مجھ کو نہ دکھلا.(بدر مورخہ۱۶؍ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ۲) ۳ (ترجمہ) جس طرف تمہارا منہ ہوگا اسی طرف خدا بھی منہ کرے گا.(بدر مورخہ۱۶؍ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ۲)
۵.خدا نے تیری ساری باتیں پوری کردیں.یعنی خدا تمام کام تیری مراد کے موافق کرے گا.۶.وَاِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُ ھُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ.۱؎ یاد رہے کہ قرآن کریم کے طرزِ بیان کے موافق اِس آیت کے یہ معنے ہیں کہ میری زندگی میں مخالفین کو بشرط نہ کرنے توبہ کے ان کی زبان درازیوں اور شوخیوں کی کچھ سزا دے گا کیونکہ انہوں نے تقویٰ سے کام نہ کیا.۷.قُلْ اِنَّ صَلوٰتِیْ وَنُسُکِیْ وَ مَـحْیَایَ وَ مَـمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.۲؎ اور پھر زلزلہ کی طرف اشارہ کرکے یہ الہام ہوا.۸.رَبِّ اَرِنِیْ اٰیَۃً مِّنَ السَّمَآءِ.اِکْـرَامٌ مَّعَ الْاِنْعَامِ.‘‘۳؎ ( بدر جلد۲ نمبر۱۱مورخہ۱۶؍ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ۲.الحکم ضمیمہ مورخہ ۱۰؍ مارچ۱۹۰۶ء) ۱۹۰۶ء ’’وہ فرماتا ہے کہ مَیں چوروں کی طرح پوشیدہ آؤں گا.یعنی کسی جوتشی یا مُلہم یا خواب بین کو اُس وقت کی خبر نہیں دی جائے گی بجز اس قدر خبر کے جو اُس نے اپنے مسیح موعود کو دے دی یا آئندہ اس پر کچھ زیادہ کرے.ان نشانون کے بعد دنیا میں ایک تبدیلی پیدا ہوگی اور اکثر دل خدا کی طرف کھینچے جائیں گے اور اکثر سعید دلوں پر دنیا کی محبّت ٹھنڈی ہوجائے گی اور غفلت کے پردے درمیان سے اُٹھا دیئے جائیں گے اور حقیقی اسلام کا شربت اُنہیں پلایا جائے گا.‘‘ (تجلّیاتِ الٰہیہ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۹۶) ۱ (ترجمہ) اور وہ تمام عذاب کہ مخالفین، منکرین، ظالمین کے لئے خدا کا وعدہ ہے.خدا یا تو ان میں سے کچھ تجھے دکھلا دے گا اور یا تجھے وفات دے گا.اور بعد میں وہ سب کچھ پورا کرے گا.(بدر مورخہ۱۶؍ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ۲) ۲ (ترجمہ) کہو کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا محض خدا کے لئے ہے جو ربّ العالمین ہے نہ کسی اَور کام کے لئے.(بدر مورخہ۱۶؍ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ۲) ۳ (ترجمہ) اے میرے ربّ ! مجھے آسمان سے ایک نشان دکھلا.اس نشان کے ظہور کے وقت خدا ایک عزت دے گا جس کے ساتھ ایک انعام ہوگا.(بدر مورخہ۱۶؍ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ۲)
۱۱؍ مارچ۱۹۰۶ء ’’ چُو دَورِ خسروی آغاز کردند مسلماں را مسلماں باز کردند۱؎ دَورِ خسروی سے مراد اِس عاجز کا عہد ِ دعوت ہے مگر اِس جگہ دنیا کی بادشاہت مراد نہیں بلکہ آسمانی بادشاہت مراد ہے جو مجھ کو دی گئی.خلاصہ معنے اِس الہام کا یہ ہے کہ جب دَورِ خسروی یعنی دَورِ مسیحی جو خدا کے نزدیک آسمانی بادشاہت کہلاتی ہے ششم ہزار کے آخر میں شروع ہوا جیسا کہ خدا کے پاک نبیوں نے پیشگوئی کی تھی تو اُس کا یہ اثر ہوا کہ وہ جو صرف ظاہری مسلمان تھے وہ حقیقی مسلمان بننے لگے جیسا کہ اَب تک چار لاکھ کے قریب بن چکے ہیں.‘‘ (تجلّیاتِ الٰہیہ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۹۶ ،۳۹۷) ۱۲؍ مارچ۱۹۰۶ء ۱.اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً.۲.وَلِنَجْعَلَ لَکَ سُھُوْلَۃً فِیْ کُلِّ اَمْرٍ ۳.اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَایُرِ۲؎یْدُ.۴.فِیْ کُلِّ حَالٍ مِّنَ الصَّالِـحِیْنَ.‘‘۳؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۹) ۱۳؍ مارچ ۱۹۰۶ء ’’۱.مردوں کو جتنے چاہو ساتھ لے جاؤ مگر عورتیں نہ جائیں.۲.اِنَّـا اَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ.فَصَلِّ لِرَ بِّکَ وَانْـحَرْ.اِنَّ شَاْنِئَکَ ھُوَالْاَ بْتَرُ.۳.وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْـرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ.۴.سَوَآءٌ عَلَیْـھِمْ ءَ اَنْذَ رْتَـھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِ رْھُمْ لَا یُـؤْمِنُوْنَ.‘‘۴؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۹ بدر جلد ۲ نمبر ۱۱ مورخہ ۱۶ ؍ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۹ مورخہ ۱۷؍ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ۱ ) ۱ (ترجمہ از ناشر) جب (ہمارا) شاہی زمانہ شروع ہوا تو مسلمانوں کو دوبارہ مسلمان کیا گیا.(نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۶؍مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ و الحکم مورخہ ۱۷؍ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ اور کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۹ پر بھی یہ شعر درج ہے.کاپی الہامات میں اس الہامی شعر کے بعد درج ہے کہ ’’اگر تمام دنیا ایک طرف ہوجائے اور میں ایک طرف ہوجاؤں تب بھی میں اپنے زندہ خدا کا دامن نہیں چھوڑوں گا.‘‘ ۲ (ترجمہ) ۱.مَیں اپنی فوجوں کے ساتھ اچانک تیرے پاس آؤں گا.۲.اور تاکہ ہر بات میں تیرے واسطے ہم آسانی کردیں.۳.تحقیق تیرا ربّ کرنے والا ہے جو کچھ کہ چاہے.(بدر مورخہ ۱۶؍مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۲) ۳ (ترجمہ از مرتّب) ۴.وہ ہر حال میں صالحین میں سے ہے.(نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۶ ؍ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ اور الحکم مورخہ ۱۷؍ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ۱ میں الہام ’’فِیْ کُلِّ حَالٍ مِّنَ الصَّالِـحِیْنَ.‘‘ درج نہیں.۴ (ترجمہ) ۲.تحقیق ہم نے تجھے کوثر عطا کیا.پس نماز پڑھ اپنے ربّ کے لئے اور قربانی کر.تحقیق تیرا دشمن بے نسل ہے.۳.اگر مشرکین میں سے کوئی تیری پناہ چاہے تو اُسے پناہ دے ۴.ان کے لئے برابر ہے کہ تو انہیں ڈرائے یا نہ ڈرائے.وہ نہیں ایمان لائیں گے.(بدر مورخہ ۱۶؍مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۲)
۱۳؍ مارچ ۱۹۰۶ء ’’ خواب میں دیکھا کہ میر ناصر نواب صاحب اپنے ہاتھ پر ایک درخت رکھ کر لائے ہیں جو پھل دار ہے اور جب مجھ کو دیا تو وہ ایک بڑا درخت ہوگیا جو بیدا نہ تُوت کے درخت کے مشابہ تھا اور نہایت سبز تھا اور پھلوں اور پھولوں سے بھرا ہوا تھا اور پھل اس کے نہایت شیریں تھے اور عجیب تر یہ کہ پھول بھی شیریں تھے مگر معمولی درختوں میں سے نہیں تھا.ایک ایسا درخت تھا کہ کبھی دُنیا میں دیکھا نہیں گیا.مَیں اُس درخت کے پھل اور پھول کھارہا تھا کہ آنکھ کھل گئی.میری دانست میں میر ناصر سے مراد خدائے ناصر ہے کہ وہ ایک ایسے عجیب طور سے مدد کرے گا جو فوق العادت ہوگی.‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر ۱۱ مورخہ ۱۶ ؍ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۹ مورخہ ۱۷؍ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ۱) ۱۹۰۶ء ’’ تھوڑی غنودگی کی حالت میں خدا تعالیٰ نے ایک کاغذ پر لکھا ہوا مجھے یہ دکھلایا کہ تِلْکَ اٰیَـاتُ الْکِتَابِ الْمُبِیْنِ یعنی قرآن شریف کی سچائی پر یہ۱؎ نشان ہوں گے.‘‘ (تجلیاتِ الٰہیہ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۹۶حاشیہ) ۱۴؍ مارچ ۱۹۰۶ ء (الف) ’’ اَنْتَ سَلْمَانُ وَ مِنِّیْ یَـا ذَا الْبَرَکَاتِ.‘‘۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۹) (ب) ’’چمک دکھلاؤں گا تم کو اس نشان کی پنج بار.‘‘ (تجلّیاتِ الٰہیہ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۹۵.کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۹) (ترجمہ) مَیں اس زلزلہ کے نشان کی پنج مرتبہ تم کو چمک دکھلائوں گا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۶) ۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) یعنی موجودہ زلزلے.۲ (ترجمہ) تو سلمان ہے اور مجھ سے اے صاحب ِ برکات.(بدر مورخہ ۱۶؍مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۲) (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۶؍مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ اور الحکم مورخہ ۱۷؍مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ میں اس الہام کے بعد تحریر ہے کہ ’’فرمایا.یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے جو کہ آپ نے اصحابؓ میں سے ایک فارسی شخص سلمان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا تھا.‘‘ ریویو آف ریلیجنز ماہ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۱۶۲ میں اس الہام کے بارہ میں تحریر ہے کہ ’’رؤیا میں معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.اَنْتَ سَلْمَانُ وَ مِنِّیْ یَـا ذَا الْبَرَکَاتِ.‘‘
(ج) فرمایا.’’مَیں کَل کے دن چند دفعہ اِس الہام۱؎ الٰہی کو پڑھ رہا تھا کہ یک دفعہ میری رُوح میں یہ عبارت پھونکی گئی جو پہلے الہام کے بعد میں ہے.مقامِ اُو مبیں ازراہِ تحقیر بدو رانش رسولاں ناز کردند‘‘ ۲؎ ( تجلّیاتِ الٰہیہ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۹۷) ۱۵؍ مارچ۱۹۰۶ء ’’ آج پھر ۱۵؍ مارچ ۱۹۰۶ء کو بروز پنجشنبہ وقت ِ صبح یہ الہام ہوا.’’خدا نکلنے کو ہے.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ بُـرُوْزِیْ.وَعْدَ اللّٰہِ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ لَا یُبَدَّ لُ.یعنی خدا ان پانچ زلزلوں کولانے سے اپنا چہرہ ظاہر کرے گا اور اپنے وجود کو دکھلا دے گا.اور تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ مَیں ہی ظاہر ہوگیا یعنی تیرا ظہور بعینہٖ میرا ظہور ہوگا.یہ خدا کا وعدہ ہے کہ پانچ زلزلوں کے ساتھ خدا اپنے تئیں ظاہر کرے گا اور خدا کا وعدہ نہیں ٹلے گا اور وہ ضرور ہوکر رہے گا.‘‘ (تجلیاتِ الٰہیہ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۰۴.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۹ مورخہ ۱۷؍ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۱) مارچ۱۹۰۶ء ’’یسوع مریم کا بیٹا اِس عظمت کو پہنچا کہ اب چالیس کروڑ انسان اُس کو سجدہ کرتے ہیں اور بادشاہوں کی گردنیں اُس کے نام کے آگے جھکتی ہیں.سو مَیں نے اگرچہ یہ دُعا کی ہے کہ یسوع ابن ِ مریم کی طرح شرک کی ترقی کا مَیں ذریعہ نہ ٹھہرایا جاؤں اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ایسا ہی کرے گا لیکن خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبّت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اِس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ وہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا منہ بند کردیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہوجاوے گا.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلاء آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اُٹھادے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) چو دَورِ خسروی آغاز کردند.۲ (ترجمہ از مرتّب) اس کے مقام کو تحقیر کی نظر سے نہ دیکھ.اس کے عہد پر تو رسولوں کو بھی ناز ہے.(نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲۹؍مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ اور الحکم مورخہ ۱۷؍مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ میں بھی یہ الہام درج ہے.
اور خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.سو اے سننے والو ! ان باتوں کو یاد رکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا.‘‘ (تجلّیاتِ الٰہیہ.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۰۹) ۱۶؍مارچ۱۹۰۶ء ’’ اَوْحٰی اِلَـیَّ رَبِّیْ وَ قَالَ.اُسْتُجِیْبَ فِیْ ھٰذِہِ اللَّیْلَۃِ کُلُّ مَا دَعَوْتَ وَمِنْـھَا قُوَّۃُ الْاِسْلَامِ وَ شَوْکَتُہٗ.‘‘ ۱؎ (الاستفتاء ضمیمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۶۷۸ حاشیہ) ۱۸؍ مارچ۱۹۰۶ء ’’آج بروز یکشنبہ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں اپنے گھر کے مکان میں بیٹھا ہوں اور ایک خربوزہ کی شکل پر کوئی پھل میرے ہاتھ میں ہے اس کو چھیل کر کھانا چاہتا ہوں.اتنے میں مَیں نے محمود احمد کو دیکھا.اس کے ساتھ ایک انگریز ہے.وہ ہمارے گھر میں داخل ہوگیا.پہلے اس جگہ کھڑا ہوا جہاں پانی کے گھڑے رکھے جاتے ہیں پھر اُس چوبارے کی طرف آگے بڑھا جہاں بیٹھ کر مَیں کام کرتا ہوں.گویا اُس کے اندر جا کر تلاشی کرنا چاہتا ہے.اُس وقت مَیں نے دیکھا کہ میر ناصر نواب کی شکل پر ایک شخص میرے سامنے کھڑاہے.اُس نے بطور اشارہ کے مجھ کو کہا کہ آپ بھی اُس چوبارہ میں جائیں انگریز تلاشی کرے گا اور میرے دل میں گزرا کہ اُس میں صرف وہ کاغذات پڑے ہیں جو نَو تالیف کتاب کا مسودہ ہے وہی دیکھے گا.اتنے میں آنکھ کھل گئی.معلوم نہیں اِس واقعہ کی کیا تعبیر ہے.اس سے پہلے تھوڑے دن ہوئے ہیں یہ دیکھا تھا یعنی یہ الہام ہوا تھا کہ ’’عورت کی چال.ایلی ایلی لما سبقتانی.بریّت.اِذْکَفَفْتُ عَنْ بَنِیْٓ اِسْـرَآءِیْلَ.‘‘ مَیں نے اپنے اجتہاد سے ا س کے یہ معنے سمجھے تھے کہ کوئی شخص عورتوں کی طرح پوشیدہ مَکر کرے گا جس سے ممکن ہے کہ ہم پر اس کی دھوکہ دہی سے کوئی مقدّمہ ہو مگر آخر بریّت ہوگی مگر یہ میرے اجتہادی معنے ہیں اور ممکن ہے کہ جو کچھ مَیں نے پہلے دیکھا اور جو مَیں نے اَب دیکھا اس کے کوئی اَور معنے ہوں لیکن ظاہری معنے یہی ہیں.وَاللہُ اَعْلَمُ.۱ (ترجمہ از ناشر) میرے ربّ نے مجھے وحی کی اور فرمایا.آج رات وہ سب دعائیں جو تونے کی ہیں قبول کی گئیں.اُن دعائوں میں سے اسلام کی قوت و شوکت کے لئے دعا بھی تھی.
اِس خواب میں محمود کا دیکھنا اور پھر میر ناصر نواب کا دیکھنا نیک انجام پر دلالت کرتا ہے کیونکہ محمود کا لفظ خاتمہ محمود کی طرف اشارہ ہے.یعنی اس اِبتلا کا خاتمہ اچھا ہوگا اور ناصر نواب کا دیکھنا اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا تعالیٰ ناصر ہوگا اور اپنی نصرت سے ابتلاء سے رہائی دے گا اور آخر یہ ابتلاء نشان کی صورت میں ہوجائے گا.‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر۱۲ مورخہ ۲۲ ؍ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۱۰ مورخہ ۲۴؍ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ۱) ۲۰؍ مارچ۱۹۰۶ء اُوْحِیَ اِلَـیَّ فِیْ ۲۰؍مارچ سنہ ۱۹۰۶ء ’’ اَلْمُرَادُ حَاصِلٌ.‘‘۱؎ (الاستفتاء ضمیمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۷۰۲.کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۹) ۲۴؍ مارچ۱۹۰۶ء ’’ ۱.رفیقوں کو کہہ دو کہ اب عجائب در عجائب باتوں کے دکھلانے کا وقت آگیا ہے.۲؎ ۲.قَالَ رَبُّکَ اِنَّہٗ نَـازِلٌ مِّنَ السَّمَآءِ مَا یُـرْضِیْکَ.‘‘ ۳؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۶۱) ۲۶؍ مارچ۱۹۰۶ء ’’دربارہ زلزلہ.الہام.رَبِّ اَخِّرْ وَقْتَ ھٰذَا.رَبِّ سَلِّطْنِیْ عَلَی النَّارِ.‘‘ (کاپی الہامات۴؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۶۱) ۱ (ترجمہ از ناشر) ۲۰؍ مارچ ۱۹۰۶ء کو مجھے وحی کی گئی کہ مرا د بَر آنے والی ہے.۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲۹؍ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ اور الحکم مورخہ ۲۴؍ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ میں ان الہامات کی تاریخ ۲۴؍ مارچ ۱۹۰۶ء درج ہے نیز اردو الہام کے الفاظ یوں ہیں.’’رفیقوں کو کہہ دیں کہ عجائب در عجائب کام دکھلانے کا وقت آگیا ہے.‘‘ ۳ (ترجمہ از مرتّب) ۲.تیرے رَبّ نے کہا کہ آسمان سے وہ چیز اُترنے والی ہے جو تجھے خوش کرے گی.۴ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲۹؍مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ اور الحکم مورخہ ۳۱؍مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ میں یہ الہامات مع تفصیل ۲۷؍ مارچ ۱۹۰۷ء کے تحت درج ہیں اور اندراج یوں کیا گیا ہے.’’فرمایا.آج زلزلہ کے وقت کے لئے توجہ کی گئی تھی کہ کب آوے گا.اِسی توجہ کی حالت میں زلزلہ کی صورت آنکھوں کے آگے آگئی اور پھر الہام ہوا.رَبِّ اَخِّرْ وَقْتَ ھٰذَا.یعنی اَے میرے خدا ! یہ زلزلہ جو نظر کے سامنے ہے اس کا وقت کچھ پیچھے ڈال دے.قاعدہ نحو کے مطابق ھٰذَا کی جگہ ھٰذِ ہٖ چاہیےتھا مگر اِس جگہ ھٰذَا سے مراد ھٰذَا الْعَذَاب ہے کیونکہ اصل غرض تو
۲۷؍ مارچ۱۹۰۶ء ’’ مقام او مبین از راہِ تحقیر بدورانش رسولاں ناز کردند.‘‘۱؎ (بدر جلد ۲ نمبر ۱۳ مورخہ ۲۹؍ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۱) ۲۹؍ مارچ ۱۹۰۶ء ’’۱.اِنَّہٗ۲؎ نَـازِلٌ مِّنَ السَّمَآءِ مَا یُـرْضِیْکَ.۲.اَخَّرَہُ اللّٰہُ اِلٰی وَقْتٍ مُّسَمًّی.‘‘۳؎ یہ جواب اس دعا کا ہے.رَبِّ اَخِّرْ وَقْتَ ھٰذَ ا.۳.پچاس یا ساٹھ نشان ظاہر ہوں گے.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۶۱) ۳۱ ؍مارچ۱۹۰۶ء ’’مَیں پچاس یا ساٹھ اَور نشان دکھلاؤں گا.‘‘۴؎ (بدر جلد ۲ نمبر۱۴ مورخہ۵ ؍ اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۲) مارچ۱۹۰۶ء ’’چند روز ہوئے یہ الہام ہوا تھا.اِنَّـا نُبَشِّـرُکَ بِغُلَامٍ نَّـافِلَۃً لَّکَ.۵؎ بقیہ حاشیہ.عذاب سے ہے ورنہ زلزلے تو پہلے بھی آچکے ہیں.پھر بعد اس کے ساتھ ہی یہ الہام ہوا.رَبِّ سَلِّطْنِیْ عَلَی النَّارِ.یعنی اے میرے خدا ! مجھے آگ پر مسلّط کردے.یعنی ایسا کر کہ عذاب کی آگ میرے حکم میں ہوجاوے.جس کو مَیں عذاب دینا چاہوں وہ عذاب میں گرفتار ہو اور جس کو مَیں چھوڑنا چاہوں وہ عذاب سے محفوظ رہے.‘‘ ۱ (ترجمہ از مرتّب) اس کے مقام کو تحقیر کی نظر سے نہ دیکھ.اس کے عہد پر تو رسولوں کو بھی ناز ہے.۲ (ترجمہ از مرتّب) ۱.آسمان سے وہ چیز اترنے والی ہے جو تجھے خوش کردے گی.۲.اللہ تعالیٰ نے اس میں تاخیر ڈال دی ہے وقت مقررہ تک.۳ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۳۱ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ اور بدر مورخہ ۵؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ میں بھی یہ الہام درج ہے.بدر میں اس الہام کی تاریخ ۲۸؍مارچ ۱۹۰۶ء مندرج ہے نیز تحریر ہے.’’فرمایا.چھوٹے زلزلے تو آتے ہی رہتے ہیں لیکن سخت زلزلہ جو آنے والا ہے اس کے وقت میں تاخیر ڈالی گئی ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ تاخیر کتنی ہے.‘‘ ۴ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ۱۰؍ اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ۱ میں اس الہام کے یہ الفاظ ہیں.’’ مَیں پچاس یا ساٹھ نشان اَور دکھاؤں گا.‘‘ ۵ (ترجمہ) ’’ ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں جو تیرا پوتا ہوگا.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۹)
ممکن ہے کہ اس کی یہ تعبیر ہو کہ محمود کے ہاں لڑکا ہو کیونکہ نافلہ پوتے کو بھی کہتے ہیں یا بشارت کسی اور وقت تک موقوف ہو.‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر۱۴ مورخہ۵ ؍ اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر۱۲ مورخہ۱۰؍ اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ۱)۱؎ ۳ ؍اپریل۱۹۰۶ء (الف) ’’ ۱.ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْـحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ.۲.اِنَّ اللّٰہَ قَدْ مَنَّ عَلَیْنَا.‘‘۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۶۴ بدر جلد ۲ نمبر ۱۴ مورخہ ۵؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۱۲ مورخہ ۱۰؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۱) (ب) ’’ کل مولوی عبدالکریم صاحب کو خواب میں دیکھا کہ ایک بڑے کمرے میں پھر رہے ہیں.مَیں نے کہا کہ آؤ مصافحہ کرلیں اور پھر مصافحہ کیا اور مَیں نے کہا کہ تم دعا کرو کہ ہم اپنے دشمنوں پر غالب آویں.‘‘ (الحکم۳؎ جلد ۱۰ نمبر۱۲ مورخہ۱۰؍ اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ۱) ۴؍ اپریل۱۹۰۶ء (الف) ’’آج پھر مولوی صاحب مرحوم کو دیکھا کہ ایک کمرے میں پھرتے ہیں.بہت جوش میں اور سخت ناراض ہیں اور کہتے ہیں کہ کیوں لوگ مخالفت کرتے ہیں اور کیوں اطاعت نہیں کرتے.‘‘ (الحکم۴؎ جلد ۱۰ نمبر۱۲ مورخہ۱۰؍ اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ۱ ) ۱ (نوٹ از ناشر) کے گزشتہ ایڈیشنز میں اس حوالہ کے بعد عبد الحکیم مرتد کے مکتوبات کے حوالہ سے ایک حوالہ یہاں دیا گیا تھا لیکن اصل مکتوب میسر نہ ہونے کی وجہ سے نیز روایت و درایت کے غیر تسلی بخش ہونے کی بنا پر اس حوالہ کو یہاں سے حذف کردیا گیا ہے.۲ (ترجمہ از مرتّب) ۱.اللہ وہ ذات ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اُسے تمام ادیان پر غالب کردے.۲.بے شک اللہ تعالیٰ نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے.۳ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۵؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ میں یہ خواب ان الفاظ میں درج ہے.’’کل خواب میں مولوی عبد الکریم صاحب کو دیکھا اور میں انہیں کہتا ہوں دعا کرو دشمنوں پر خدا مجھے غلبہ دے.‘‘ ۴ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ۵ ؍ اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ میں مولوی عبد الکریم صاحب کے حوالہ سے یہ رؤیا ان الفاظ میں درج ہے.’’آج دیکھا کہ وہ میرا نام لے کر کہتے ہیں کہ کیوں لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں اور کیوں نہیں مانتے اور بڑے جوش اور غضب سے کہہ رہے ہیں.‘‘
(ب) ’’۱.اِنِّیْ مَعَ الْاَکْرَامِ.۲.لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ.۳.لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ.‘‘۱؎ واضح رہے کہ یہ لفظ متعین الظاہر اور مطلق المعنیٰ ہیں.اصل حقیقت یہ ہے کہ جب انسان تبتّل اور انقطاع میں کمال درجہ تک پہنچ جاتا ہے اور تعلق باللہ کے مراتب میں سے کوئی مرتبہ باقی نہیں رہتا تو اس دعا کے لائق ہوجاتا ہے.۴.یہ میری کتاب ہے اس کو کوئی ہاتھ نہ لگاوے مگر وہی لوگ جو میرے خدمت گار ہیں.۵.اَللّٰہُ یُعْلِیْنَا وَلَا نُعْلٰی.۲؎ غالب آنے کا فیصلہ.۶.اس کا وقت آگیا ہے نوکر رکھا جاوے.۷.کلیسیا کی طاقت کا نسخہ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۷۹، ۲۷۸، ۲۷۷) (ج) ’’ یَـاْتِیْکَ الْفَرَجُ ‘‘۳؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۶۴ بدر جلد ۲ نمبر ۱۵ مورخہ ۱۲؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۱۲ مورخہ ۱۰؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ ) (ترجمہ) کشائش تجھے ملے گی.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۰) ۸؍ اپریل۱۹۰۶ء ’’ رَبِّ اَرِ.نِیْ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ.‘‘۴؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳۰۶) ۹؍ اپریل۱۹۰۶ء ’’ ۱.رَبِّ۵؎ اَرِنِیْ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ.۲.یُـرِیْکُمُ اللّٰہُ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ.۶؎ ۱ (ترجمہ ازناشر) ۱.تحقیق مَیں بزرگوں کے ساتھ ہوں.۲.اگر تو نہ ہوتا تو مَیں آسمان کو پیدا نہ کرتا.۳.اگر تو نہ ہوتا تو مَیں آسمان کو پیدا نہ کرتا.۲ (ترجمہ) ۵.اللہ تعالیٰ ہمیں اُونچا کرے گا ہم نیچے نہیں کئے جائیں گے.(بدر مورخہ۱۰ مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۲) ۳ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) الحکم میں اس الہام کی تاریخ ۷؍ اپریل لکھی ہے.۴ (ترجمہ) خدا یا مجھے وہ زلزلہ دکھا جو اپنی شدّت کی وجہ سے نمونہ ٔ قیامت ہے.(بدر مورخہ ۱۲؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۲) ۵ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۲؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ و الحکم مورخہ ۱۰؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ میں ان الہامات کی تاریخ ۸؍اپریل ۱۹۰۶ء درج ہے نیز تحریر ہے کہ ’’یعنی اس میں بہت جانوں کا نقصان ہوگا یہ نہیں کہ حقیقت میں قیامت آجائے گی بلکہ یہ معنی ہیں کہ دنیا پر سخت صدمہ ہوگا اور بہت جانیں تلف ہوں گی.‘‘ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یہ پیشگوئی حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز کے زمانہ میں پوری ہوئی چنانچہ حضور فرماتے ہیں.’’ یہ زلزلہ بھی میرے زمانہ میں آیا.‘‘ (الفضل مورخہ ۲۰؍ جولائی ۱۹۴۴ء صفحہ ۳) ۶ (ترجمہ) ۱.خدایا مجھے وہ زلزلہ دکھا جو اپنی شدت کی وجہ سے نمونہ ٔ قیامت ہے.۲.خدا تعالیٰ تمہیں وہ زلزلہ دکھائے گا جو اپنی شدت کی وجہ سے نمونہ ٔ قیامت ہوگا.
۳.اُرِیْکَ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ.۴.یَسْئَلُوْنَکَ اَحَقٌّ ھُوَ.قُلْ اِیْ وَ رَبِّیْ اِنَّہٗ لَـحَقٌّ.وَلَا یُـرَدُّ عَنْ قَوْمٍ یُّعْرِضُوْنَ.۵.نَصْـرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَتْحٌ مُّبِیْنٌ.۱؎ ۶.ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِـالْھُدیٰ وَ دِیْنِ الْـحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ.۲؎ ۷.اَ.لْاَمْرَاضُ تُـشَاعُ وَالنُّفُوْسُ تُضَا۳؎عُ.۸.نَـحْنُ اَوْلِیَآءُکُمْ فِی الْـحَیٰوۃِ الدُّ نْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ.۹.سَلَامٌ قَـوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ.۴؎ ۱۰.وَ یَسْئَلُوْ۵؎نَکَ اَحَقٌّ ھُوَ قُلْ اِیْ وَرَبِّیْ اِنَّہٗ لَـحَقٌّ.وَ لَا یُـرَدُّ عَنْ قَوْمٍ یُّعْرِضُوْنَ.۶؎ ۱۱.اَرَادَ اللّٰہُ اَنْ یَّـبْعَثَکَ مَقَامًا مَّـحْمُوْدًا.۱۲.تَـاللّٰہِ لَقَدْ اٰثَـرَکَ اللّٰہُ عَلَیْنَا وَ اِنْ کُنَّا لَـخَاطِئِیْنَ.‘‘ (کاپی الہامات۷؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۶۴) بقیہ ترجمہ.۳.میں تجھے وہ زلزلہ دکھاؤں گا جو اپنی شدت کی وجہ سے نمونہ ٔ قیامت ہوگا.۴.تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا وہ بات سچ ہے کہہ کہ ہاں.میرے ربّ کی قسم ہے اور اعراض کرنے والی قوم سے وہ عذاب نہیں ٹلے گا.(بدر مورخہ ۱۲؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۲) ۱ (ترجمہ) ۵.یہ دن خدا کی مدد اور فتح کے ہوں گے.(دافع البلاء.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۲۸) ۲ (ترجمہ) ۶.خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو (یعنی اس عاجز کو) ہدایت اور دین حق دے کر اس غرض سے بھیجا ہے تا وہ اس دین کو تمام دینوں پر غالب کرے.(تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۸) ۳ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۲؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ اور الحکم مورخہ ۱۰؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ میں اس الہام کے بارہ میں تحریر ہے کہ ’’فرمایا.یہ الہام پہلے بھی ہوچکا ہے اب پھر ہوا ہے اور خوف ہے کہ اس سے کیا مطلب ہے.معلوم نہیں کہ قادیان کے متعلق ہے یا پنجاب کے متعلق ہے.‘‘ ۴ (ترجمہ) ۷.ملک میں بیماریاں پھیلیں گی اور بہت جانیں ضائع ہوں گی.۸.ہم تمہارے متولّی اور متکفل دنیا اور آخرت میں ہیں.۹.تم سب پر اس خدا کا سلام جو رحیم ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۸۹، ۹۰، ۹۴ ، ۹۷) ۵ (ترجمہ) ۱۰.اور تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا ایسے زلزلہ کا آنا سچ ہے؟ کہہ کہ خدا کی قسم اُس زلزلہ کا آنا سچ ہے اور خدا سے برگشتہ ہونے والے کسی مقام میں اس سے بچ نہیں سکتے.۱۱.خدا نے ارادہ کیا ہے جو تجھے وہ مقام بخشے جس میں تو تعریف کیا جائے گا.۱۲.خدا کی قَسم خدا نے ہم سب میں سے تجھے چن لیا اور ہماری خطا تھی جو ہم برگشتہ رہے.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۹۳، ۹۵، ۹۶، ۱۰۵) ۶ الاستفتاء.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۷۰۲ میں یہ الہام یوں درج ہے ’’ وَلَا یُرَدُّ بَاْسُہٗ عَنْ قَوْمٍ یُّعْرِضُوْنَ.(شمس) ۷ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۲؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ و الحکم مورخہ ۱۰؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ میں بھی یہ الہامات ترتیب کے اختلاف سے درج ہیں.علاوہ ازیں تحریر ہے کہ ان میں سے بعض الہامات مکرر ہیں یعنی پہلے بھی ہوچکے ہیں اور آج پھر بھی ہوئے.
۱۲؍ اپریل۱۹۰۶ء ’’۱.وَیْلٌ۱؎ لِّھٰذِ ہِ الْاِمْرَأَۃِ وَ بَعْلِھَا.۲.تَـا للّٰہِ لَقَدْ اٰثَـرَکَ اللّٰہُ عَلَیْنَا وَ اِنْ کُنَّا لَـخَاطِئِیْنَ.‘‘۲؎ (کاپی الہامات۳؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳۰۳) ۱۴؍ اپریل۱۹۰۶ء ۱.’’ اِنَّـا اَرْسَلْنَا اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا شَاھِدًا عَلَیْکُمْ کَمَا اَرْسَلْنَا اِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا.‘‘۴؎ ۲.(رؤیا) ’’پھر دیکھا کہ ایک زلزلہ آیا اس سے معلوم ہوتاہے کہ کوئی زلزلہ عنقریب آنے کو ہے اور الہام کے رنگ میں یہی زبان پر جاری ہوا کہ ’’ زلزلہ آیا.زلزلہ آیا.‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ زلزلہ پہلے زلزلہ کا بقیہ نہیں ہے بلکہ ایک نیا زلزلہ ہے.پھر خدا فرماتا ہے کہ جیسا کہ موسیٰ کے وقت میں ہوا کہ اوّل چھوٹے چھوٹے دکھائے گئے اور پھر بعد ان کے ایک بڑا نشان ظاہر کیا گیا، ایسا ہی ان دنوں میں ہوگا.سو ہوشیار ہوجاؤ اور جس زور سے یہ بلائیں نازل ہورہی ہیں اسی زور سے توبہ اور استغفار کرو.۱ (ترجمہ) ۱.اس عورت کے لئے عذاب مقدر ہے اور اس کے خاوند کے لئے بھی.(بدر مورخہ ۲۶؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۲) ۲ (ترجمہ) ۲.اللہ کی قسم.بے شک خدا نے تجھے ہم پر برگزیدہ کیا ہے اور ضرور ہم خطاکار تھے.(بدر مورخہ ۱۹؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۲) ۳ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲۶؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ اور الحکم مورخہ ۲۴؍ اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ میں الہام نمبر۱ کے بارہ میں تحریر ہے.’’فرمایا.چند روز ہوئے کہ کشفی نظر میں ایک عورت مجھے دکھلائی گئی اور پھر الہام ہوا.وَیْلٌ لِّھٰذِ ہِ الْاِ مْرَأَۃِ وَ بَعْلِھَا.‘‘ نیز بدر مورخہ ۱۹؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ اور الحکم مورخہ ۱۷؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ میں الہام’’ تَـاللّٰہِ لَقَدْ اٰثَـرَکَ اللّٰہُ عَلَیْنَا وَ اِنْ کُنَّا لَـخَاطِئِیْنَ.‘‘ کی تاریخ ۱۳؍اپریل ۱۹۰۶ء درج ہے.۴ (ترجمہ) ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا جو تم پر شاہد ہے جیسا کہ ہم نے فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا.(بدر مورخہ ۱۹؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۲)
اور خدا فرماتا ہے.اِنَّـا اَرْسَلْنَا رَسُوْلًا شَاھِدًا عَلَیْکُمْ کَمَا اَرْسَلْنَا اِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا.‘‘۱؎ (کاپی الہامات۲؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۹۴، ۲۹۳، ۲۹۲) ۱۴؍اپریل ۱۹۰۶ء ’’رؤیا.دیکھا کہ طاعون ترقی کررہی ہے.‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر ۱۲ مورخہ ۱۹؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۱۳ مورخہ ۱۷؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۱) ۱۵؍ اپریل۱۹۰۶ء ’’میں نے خواب میں ایک سانپ دیکھا.مرغابی کلاں کی شکل پہ سفید رنگ، وہ میرےپیچھے دَوڑا.میں کہتا ہوں میں نے اتنے سانپ مارے ہیں کوئی اس کو تو مارے.پھر میں نے اس سانپ کو مخاطب کرکے کہا کہ خدا قاتل تو باد.مرا از دست تو محفوظ دارد.۳؎ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ اس سانپ کی گردن میرے ہاتھ میں ہے.اس نے گردن کو پھیر کر مجھے کاٹنا چاہا مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ اس ارادہ میں نامراد رہا اور میں نے سر کے قریب کرکے گردن کو پکڑ لیا.فَالْـحَمْدُ لِلہِ عَلٰی ذٰلِکَ.اور یہ صبح کا وقت تھا اور ۱۵؍اپریل ۱۹۰۶ء روز یک شنبہ.‘‘ (کاپی الہامات۴؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۶۵) ۱ (ترجمہ از ناشر) یقیناً ہم نے ایک رسول بھیجا ہے جو تم پر نگران ہے جیسا کہ ہم نے فرعون کی طرف بھی ایک رسول بھیجا تھا.۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۹؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ اور الحکم مورخہ ۱۷؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ میں اس الہام و خواب کے الفاظ یہ ہیں.’’۱.دو مرتبہ الہام ہوا.زلزلہ آیا.زلزلہ آیا.۲.عالم خوا ب میں ایسا محسوس ہوا کہ زلزلہ آرہا ہے.۳.الہام ہوا.اِنَّـا اَرْسَلْنَا اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا شَاھِدًا عَلَیْکُمْ کَمَا اَرْسَلْنَا اِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا.۳ (ترجمہ از مرتّب) خدا تجھے ہلاک کرے اور مجھے تیرے شر سے محفوظ رکھے.۴ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۹؍ اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ اور الحکم مورخہ ۱۷؍ اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ۱ میں یہ رؤیا باختلافِ الفاظ درج ہے.بدر کے الفاظ یوں ہیں.’’رؤیا.دیکھا کہ ایک بڑا سانپ ہے جس کی گردن مَگھ (مرغابی) کی طرح بڑی ہے.وہ میرے پیچھے دَوڑا.
۱۶؍ اپریل۱۹۰۶ء (الف) ’’اِنِّیْ حَفِیْظُکَ‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۸۶ بدر جلد ۲ نمبر ۱۶ مورخہ ۱۹؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۱۳ مورخہ ۱۷؍ اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۱) (ب) ’’رؤیا میں مولوی عبدالکریم صاحب کو دیکھا.گویا زندہ ہوگئے ہیں.مَیں نے پوچھا زخموں کا کیا حال ہے تو کہا کہ سب اچھے ہوگئے.اِس پر خواب میں بڑا تعجب ہورہا ہے کہ یہ اِحْیَاءِ مَوْتٰی ہے.پھر خواب ہی میں خیال گزررہا ہے کہ خواب نہ ہو مگر بہت سے لوگ جمع ہیں اور سب جاگتے ہیں.‘‘ فرمایا.’’خدا کوئی عجیب کام دکھائے گا اور کسی مردہ کام کو زندہ کرے گا.‘‘۲؎ (الحکم جلد ۱۰ نمبر۱۳ مورخہ۱۷؍ اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ۱) اپریل ۱۹۰۶ء ’’الہام.نَـزَلَتِ الرَّحْـمَۃُ عَلٰی ثَلٰثٍ اَلْعَیْنِ وَ۳؎الْاُخْرَیَیْنِ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۸۹) (ترجمہ) رحمت تین اعضاء پر نازل ہوگی.ایک تو آنکھ اور دو اَور عضو.(نزول المسیح.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۵۹۲) بقیہ حاشیہ.مَیں ایک اُونچی جگہ دیوار پر چڑھ گیا اور اس کو مخاطب کرکے کہا.خدا قاتل تو باد.مرا از دست تو محفوظ دارد.اس کے بعد یہ نظارہ دیکھا کہ گویا مَیں اُس سانپ پر سوار ہوں اور اُس سانپ کی گردن میرے ہاتھ میں ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اُلٹ کر مجھے کاٹے.تب مَیں نے زیادہ تر سر کے قریب سے اُس کو پکڑا تاکہ وہ کاٹ نہ سکے.فقط.فرمایا.اِس رؤیامیں کسی فتنہ کی خبر دی گئی ہے.کوئی مخفی دشمن ہے جو کسی رنگ میں نیش زنی کرے گا مگر نامراد رہے گا.‘‘ ۱ (ترجمہ) مَیں تیری نگہبانی کروں گا.(بدر مورخہ ۱۹؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۲) ۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲۶؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ میں اس رؤیا کے بارہ میں مزید تحریر ہے کہ ’’فرمایا.اِس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے کوئی ایسا نشان دکھائے گا جس سے دین اسلام کی زندگی مخلوق پر ثابت ہوجائے.‘‘ ۳ (نوٹ از ناشر) نزول المسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۹۳ میں یہاں ’’ وَالْاُخْرَیَیْنِ‘‘ کی بجائے ’’وَعَلَی الْاُخْرَیَیْنِ‘‘ کے الفاظ درج ہیں.
۱۸؍ اپریل۱۹۰۶ء ’’ اَنّٰی لَکَ ھٰذَا.اَنّٰی لَکَ ھٰذَا.‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۸۶) ۲۰؍ اپریل۱۹۰۶ء ’’الہام.اَنّٰی لَکَ ھٰذَا.اَنّٰی لَکَ ھٰذَا.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۸۹) ۲۳؍ اپریل ۱۹۰۶ء ’’ رَبِّ لَاتُضَیِّعْ عُـمُرِیْ وَ عُـمُرَھَا.‘‘۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۸۶) ۲۴؍ اپریل۱۹۰۶ء ’’فرمایا.آج رات بیماری کی حالت میں الہام ہوا تھا.اِشْفِنِیْ مِنْ لَّدُ نْکَ وَارْحَـمْنِیْ.‘‘ ۳؎ (بدر جلد ۲ نمبر۱۷ مورخہ۲۶ ؍ اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر۱۴ مورخہ۲۴؍ اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ۱) ۲۵؍ اپریل۱۹۰۶ء ’’الہام.وَ إِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْـرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ.‘‘۴؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۸۶) ۲۶؍ اپریل۱۹۰۶ء ’’ ۱.حقِّ اولاد دَر اولاد ۵؎ ۱ (ترجمہ از مرتّب) یہ مقام تجھے کہاں سے حاصل ہوا.یہ مقام تجھے کہاں سے حاصل ہوا.۲ (ترجمہ از مرتّب) اے میرے ربّ میری او ر اس کی عمر کو ضائع نہ کریو.۳ (ترجمہ) مجھے اپنی طرف سے شفا بخش اور رحم کر.(بدر مورخہ ۲۶؍اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ ۲) ۴ (ترجمہ از ناشر) اور مشرکوں میں سے اگر کوئی تجھ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے.۵ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ میں فرمایا.(الف) ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے جو پہلے کبھی شائع نہیں ہوا کہ حق اَولاد در اَولاد یعنی اَولاد کا حق اس کے اندر موجود ہے.یہ ضرور ی نہیں کہ اِس جگہ اَولاد سے مراد صرف جسمانی اَولاد مراد ہو بلکہ ہر احمدی جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کیا وہ آپ ؑ کی روحانی اَولاد میں شامل ہے.‘‘ (الفضل لاہور مورخہ۲۶؍ نومبر ۱۹۴۷ء صفحہ ۴) (ب) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام وفات پاگئے.آپ ؑ کی وفات کے بعد والدہ مجھے بَیت الدُّعا میں لے گئیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہاموں والی کاپی میرے سامنے رکھ دی اور کہا مَیں سمجھتی ہوں یہی تمہارا
۲.تَـأْتِیْ عَلَیْھِمْ اَیَّـامٌ مُّبَارَکَۃٌ ثُمَّ تَکْثُرُ ذُنُـوْبُـھُمْ وَ تَکْثُرُ دُنْیَاھُمْ.…۱؎… ۳.تَنْزِلُ عَلَیْـھِمُ الْمَصَآئِبَ.۴.وَلَا یَضُـرُّھُمُ اللہُ اِلٰی حَیٰوتِکُمْ.۵.اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍقَدِیْرٌ.۶.وَاحْفَظْنِیْ مِنْ کُلِّ اٰفَۃٍ یُرْسَلُ اِلَـیَّ.۷.عِنْدِیْ حَسَنَۃٌ ھِیَ خَیْرٌ مِّنْ جَبَلٍ.۸.اَعْلَمُ مِنَ اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ.۹.اِنِّیْ اَعْلَمُ مِنَ اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ.۱۰.کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْأَہٗ.۲؎ ۱۱.آسمان سے بہت دودھ اترا ہے محفوظ رکھو.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۸۵، ۲۸۴) ۲۷؍ اپریل۱۹۰۶ء (الف) ’’۱.رَبِّ لَاتُضَیِّعْ عُـمُرِیْ وَعُـمُرَھَا وَاحْفَظْنِیْ مِنْ کُلِّ اٰفَۃٍ تُرْسَلُ اِلَـیَّ ۲.اِنَّہٗ نَـازِلٌ مِّنَ السَّمَآءِ مَا یُغْنِیْکَ.۳.اُرِیْکَ مَا یُـرْضِیْکَ.۴.عِنْدِیْ حَسَنَۃٌ ھِیَ خَیْرٌ مِّنْ جَبَلٍ.۵.اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍقَدِیْرٌ.۳؎ ۶.آسمان سے دُودھ اُترا ہے، محفوظ رکھو.‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر۱۸ مورخہ۳ ؍ مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر۱۵ مورخہ۳۰؍ اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ۱) بقیہ حاشیہ.سب سے بڑا ورثہ ہے.مَیں نے ان الہامات کو دیکھا تو ان میں ایک الہام آپ ؑ کی اَولاد کے متعلق یہ درج تھا حق اَولاد در اَولاد … حق اَولاد در اَولاد کے معنی درحقیقت یہی تھے کہ یہ حق جو باہر سے تعلق رکھتا ہے.یعنی زمینوں اور جائدادوں وغیرہ میں حصہ یہ کوئی زیادہ قیمتی نہیں.زیادہ قیمتی یہ چیز ہے کہ مَیں نے تمہاری اَولاد کے دماغوں میں وہ قابلیت رکھ دی ہے کہ جب بھی یہ اس قابلیت سے کام لیں گے دُنیا کے لیڈر ہی بنیں گے… اور یہ وہ ورثہ ہے جو ہم نے تمہاری اَولاد کے دماغوں میں مستقل طور پر رکھ دیا ہے.‘‘ (الفضل مورخہ۲۲؍ اکتوبر ۱۹۵۵ء صفحہ ۵.خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۳؍ ستمبر ۱۹۴۷ء) ۱ یہ حصہ پڑھا نہیں جاسکا.(ناشر) ۲ (ترجمہ از ناشر) ۲.ان پر بابرکت دن آئیں گے.پھر ان کے گناہ بڑھ جائیں گے اور ان کی دینا کی حرص بھی بڑھ جائے گی.۳.ان پر مصیبتیں نازل ہوں گی.۴.اور تمہاری زندگی میں اللہ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچائے گا.۵.کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے.۶.اور مجھے ان تمام آفات سے محفوظ فرمائیو جو میری طرف بھیجی جاویں.۷.میرے پاس بھلائی ہے جو پہاڑ سے بہتر ہے.۸.میں اللہ سے وہ کچھ جان چکا ہوںجس کا تم علم تک نہیں رکھتے.۹.یقیناً میں اللہ سے وہ کچھ جان چکاہوں جس کا تم علم تک نہیں رکھتے.۱۰ اس کھیتی کی طرح جس نے اپنی کونپل نکالی.۳ (ترجمہ از مرتّب) ۱.اے ربّ میری او ر اس کی عمر کو ضائع نہ کریو اور مجھے ان تمام آفات سے محفوظ فرمائیو جو میری طرف بھیجی جاویں ۲.تحقیق آسمان سے وہ چیز نازل ہونے والی ہے جو تجھے غنی کر دے گی ۳.تجھے وہ چیز دکھلائوں گا جو تجھے خوش کردے گی ۴.میرے پاس بھلائی ہے جو پہاڑ سے بہتر ہے ۵.کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے.
(ب) ’’ اِنَّـا اَرْسَلْنَا اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا شَاھِدًا عَلَیْکُمْ کَمَا اَرْسَلْنَا اِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا.۱؎ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۵.بدر جلد ۲ نمبر ۱۸ مورخہ۳؍مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۲) ۲۸؍ اپریل۱۹۰۶ء ’’۱.تیری خوش زندگی کا سامان ہوگیا ہے.۲.اَللّٰہُ خَیْرٌ مِّنْ کُلِّ شَیْءٍ.‘‘۲؎ (بدر جلد ۲ نمبر۱۸ مورخہ۳ ؍ مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر۱۵ مورخہ۳۰؍ اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ۱) ۲۹؍ اپریل۱۹۰۶ء ’’ ۱.دشمن کا بھی ایک وار نکلا.۲.وَ تِلْکَ الْاَ یَّـامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ.‘‘۳؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۸۱ بدر جلد ۲ نمبر۱۸ مورخہ۳ ؍ مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر۱۵ مورخہ۳۰؍ اپریل ۱۹۰۶ء صفحہ۱) ۴؍ مئی۱۹۰۶ء ’’اِنِّیْ مَعَ الْاَکْـرَامِ.لَوْ لَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ.‘‘۴؎ (بدر جلد ۲ نمبر۱۹ مورخہ۱۰ ؍ مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر۱۶ مورخہ۱۰؍ مئی ۱۹۰۶ء صفحہ۱) ۵؍ مئی۱۹۰۶ء ’’رؤیا.ایک شخص نے ایک دوائی کو لاوائن کی ایک بوتل دی جو سُرخ رنگ کی دوائی ہے اور بوتل بند کی ہوئی ہے اور اس پر رسّیاں لپیٹی ہوئی ہیں.ظاہر دیکھنے میں تو بوتل ہی نظر آتی ہے مگر جس شخص نے دی ہے وہ کہتا ہے کہ یہ کتاب دیتا ہوں.دیکھنے میں تو بوتل ہی نظر آتی تھی لیکن کہنے میں وہ شخص اس کانام کتاب رکھتا ہے.اس وقت مَیں کہتا ہوں کہ اس کا وقت آگیا ہے.اس کو نوکر رکھا جائے.اور مَیں نے اس کتاب پر دستخط کردیئے ہیں.پھر الہام ہوا.یہ میری کتاب ہے اس کو کوئی ہاتھ نہ لگاوے مگر وہی جو میرے خاص خدمت گار ہیں.۱ (ترجمہ از ناشر) یقیناً ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے جو تم پر نگران ہے جیسا کہ ہم نے فرعون کی طرف بھی ایک رسول بھیجا تھا.۲ (ترجمہ) ۲.اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز سے بہتر ہے.(بدر مورخہ ۳؍مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۲) ۳ (ترجمہ) ۲.یہ دن (خوشی و غم یا فتح و شکست کے ) ہم (نوبت بہ نوبت) لوگوں میں پھیرا کرتے ہیں.(بدر مورخہ ۳؍مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۲) ۴ (ترجمہ) تحقیق مَیں بزرگوں کے ساتھ ہوں.اگر تو نہ ہوتا تو مَیں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا.(بدر مورخہ ۱۰؍مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۲)
پھر الہام ہوا.اَللّٰہُ یُعْلِیْنَا وَلَا نُعْلٰی ۱؎ فرمایا.اس سے مطلب یہ ہے کہ ہم دشمنوں پر غالب ہوں گے اور دشمن سے مغلوب نہ ہوں گے.‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر۱۹ مورخہ۱۰ ؍ مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر۱۶ مورخہ۱۰؍ مئی ۱۹۰۶ء صفحہ۱) ۵؍ مئی۱۹۰۶ء ’’پھر بہار آئی تو آئے ثلج۲؎ آنے کے دن (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۷۶) ۱ (ترجمہ) اللہ تعالیٰ ہمیں اُونچا کرے گا ہم نیچے نہیں کئے جاویں گے.(بدر مورخہ ۱۰؍مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۲) ۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۰؍مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ اور الحکم مورخہ ۱۰؍مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ میں اس پیشگوئی کے الفاظ یہ ہیں.’’پھر بہار آئی تو آئے ثلج کے آنے کے دن.‘‘ نیزتحریر ہے کہ ’’ ثلج کا لفظ عربی ہے.اِس کے ایک تو یہ معنے ہیں کہ وہ برف جو آسمان سے پڑتی ہے اور شدتِ سردی کا موجب ہوجاتی ہے اور بارش اس کے لوازم سے ہوتی ہے.اس کو عربی میں ثلج کہتے ہیں.اِن معنوں کی بناء پر اِس پیشگوئی کے یہ معنے معلوم ہوتے ہیں کہ بہار کے دنوں میں آسمان سے ہمارے ملک میں خدا تعالیٰ غیر معمولی طور پر یہ آفتیں نازل کرے گا اور برف اور اس کے لوازم سے شدتِ سردی اور کثرتِ بارش ظہور میں آئے گی.اور دوسرے معنے اس کے عربی میں اطمینانِ قلب حاصل کرنا ہے.یعنی انسان کو کسی امر پر ایسے دلائل اور شواہد میسر آجاویں جن سے اس کا دِل مطمئن ہوجائے.اِسی وجہ سے کہتے ہیں کہ فلاں تقریر موجب ِ ثلجِ قلب ہوگئی.یعنی ایسے دلائلِ قاطعہ بیان کئے گئے کہ جن سے کُلّی اطمینان ہوگئی اور یہ لفظ کبھی خوشی اور راحت پر بھی استعمال کیا جاتا ہے جو اطمینانِ قلب کے بعد پیدا ہوتی ہے.یہ تو ظاہر ہے کہ جب انسان کا دِل کسی امر میں پوری تسلّی اور سکینت پالیتا ہے تو اس کے لوازم میں سے ہے کہ خوشی اور راحت ضرور ہوتی ہے.غرض یہ پیشگوئی ان پہلوؤں پر مشتمل ہے.اِس پیشگوئی پر غور کرنے سے ذہن ضروری طور پر اِس بات کو محسوس کرتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کے نزدیک اس جگہ ثلج کے دوسرے معنے ہیں یعنی یہ کہ ہر ایک شبہ و شک کو دور کرنا اور پوری تسلّی بخشنا.تو اِس جگہ اس فقرہ سے یہ بھی مراد ہوگی کہ چونکہ گذشتہ دونوں زلزلوں کی نسبت کج طبع لوگوں نے شبہات بھی پیدا کئے تھے اور ثلجِ قلب یعنی کُلّی اطمینان سے محروم رہ گئے تھے مگر بہار کے موسم میں ایک ایسا نشان ظاہر ہوگا جس سے ثلجِ قلب ہوجائے گی اور گذشتہ شکوک و شبہات بکلّی دُور ہوجائیں گے اور حجّت پوری ہوجائے گی.اِس الہام پر زیادہ غور کرنے سے یہ بھی قرین ِ قیاس معلوم ہوتا ہے کہ بہار کے دنوں تک نہ صرف ایک نشان بلکہ کئی نشان ظاہر ہوجائیں گے اور جب بہار کا موسم آئے گا تو اس قدر تواتر نشانوں کی وجہ سے دلوں پر اثر ہوگا کہ
۶؍ مئی۱۹۰۶ء روز یک شنبہ ’’ وَ لَا تُکَلِّمْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اِنَّـھُمْ مُّغْرَقُـوْنَ.وَعْدٌ عَلَیْنَا حَقٌّ.‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۷۶) بقیہ حاشیہ.مخالفین کے منہ بند۲؎ ہو جائیں گے اور حق کے طالبوں کے دل پوری تسلّی پائیں گے اور یہ بیان اس بنا پر ہے کہ جب ثلج کے معنے تسلّی پانا اور شکوک اور شبہات سے رہائی ہوجانا سمجھے جائیں لیکن اگر برف اور بارش کے معنے ہوئے تو خدا تعالیٰ کوئی اَور سماوی آفت نازل کرے گا.وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.‘‘ ۱ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۰؍مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ اور الحکم مورخہ ۱۰؍مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ میں اس پیشگوئی کے بارہ میں تحریر ہے کہ ’’ان لوگوں کے بارہ میں میرے ساتھ بات نہ کر جو ظالم ہیں.یعنی دنیا کو دین پر مقدّم رکھتے ہیں اور دنیا کے ہموم و غموم میں لگ کر دین کے پہلو سے لاپروا ہیں.مَیں ان کو ضرور غرق کروں گا اور ناکامی میں مریں گے.یہ خدا کا سچا وعدہ ہے جو نہیں ٹلے گا.میرے خیال میں یہ الہام ہماری جماعت کے بعض افراد کی نسبت ہے جو دُنیا کے ہموم و غموم میں حد سے بڑھ گئے ہیں اور دین کی فکر اور غم سے لاپروا ہیں.گویا خدا تعالیٰ مجھے ہدایت فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے دعا مت کر.ان کی شفاعت مت کر کیونکہ جیسا کہ ان کا دین مَرگیا ان کی دُنیا بھی مرے گی.ظاہر ہے کہ دعا اور شفاعت دوستوں کے لئے ہوتی ہے نہ دشمنوں کے لئے.پس اسی قرینہ سے مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ الہام خاص دوستوں کے لئے ہے اور ایک بڑے عذاب سے ان کو ڈرایا گیا ہے اور ممکن ہے کہ وہ عذاب دوسروں کے لئے بھی ہو مگر ایسے لوگوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ بظاہر اس جماعت میں داخل ہیں مگر ان کی حالت دُنیا پرستی کی ہمارے اصول کے مخالف ہے.‘‘ ۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ دیکھو ثلج کے آنے کے دن والی پیشگوئی کس طرح پوری ہوگئی اور مَیں نے اس کے دو پہلو لئے تھے.ایک تو یہ کہ خدا کچھ ایسے نشان دکھائے جن کی وجہ سے لوگوں پر حجّت قائم ہوجائے اور دل تسکین پکڑ جائے اور دوسرا یہ کہ سخت بارش اور سردی اور ژالہ باری ہو جو ایک زمانہ دراز سے کبھی نہ ہوئی ہو تو خدا تعالیٰ نے یہ دونوں پہلو پورے کردیئے.یہ نشان اِس طرح متواتر ظہور میں آئے کہ نہ صرف پنجاب بلکہ یورپ اور امریکہ پر بھی حجّت قائم ہوگئی.یعنی ڈوئی کی موت سے …بس یہ ایک نشان تھا جس نے تمام یورپ اور امریکہ پر اور سعد اللہ کی موت نے ہندوستان پر حجّت قائم کردی ہے…پس اِن دو نشانوں اور دوسرے کئی نشانوں نے مل کر دنیا پر ثلج کی پیشگوئی کا پورا ہونا ثابت کردیا اور پھر یہی نہیں اصل الفاظ میں بھی یہ پیشگوئی کھلے طور سے پوری ہوگئی.یعنی اس بہار کے موسم میں جیسا کہ لکھا گیا تھا کہ بہار کے موسم میں ایسا ہوگا.ایسی سخت سردی اور بارش اور ژالہ باری ہوئی ہے کہ دنیا چیخ اُٹھی ہے.‘‘ (بدر مورخہ ۲۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۶)
۶؍ مئی۱۹۰۶ء ’’ اَلْـخِیَانَۃُ الْمُسْتَأْ نَـسَۃُ.‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۷۵) ۷؍ مئی۱۹۰۶ء (الف) ’’ اس وقت ۷؍مئی ۱۹۰۶ء کو ایک نہایت سرخ پوش عورت ہماری سرپرستی میں دی گئی.‘‘ ه(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۷۵) (ب) ’’ کلیسیا کی طاقت کا نسخہ‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر۱۹ مورخہ۱۰ ؍ مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر۱۶ مورخہ۱۰؍ مئی ۱۹۰۶ء صفحہ۱) ۱۰؍مئی ۱۹۰۶ء ’’ نَصَـرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْ رٍ‘‘ ۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۶۲) ۱۱؍مئی ۱۹۰۶ء ۱.’’کَشتیاں چلتی ہیں تا ہوں کُشتیاں‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۷۳ بدر جلد ۲ نمبر۲۰ مورخہ۱۷ ؍ مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر۱۷ مورخہ۱۷؍ مئی ۱۹۰۶ء صفحہ۱ ) ۲.۱.بہت سے سلام میرے تیرے پر ہوں.۲.ھَلْ اَتَـاکَ حَدِیْثُ الزَّلْزَلَۃِ مِنْ طُلُوْعِ الشَّمْسِ.۳؎ ۳.پوری کامیابی.۴.اِنَّـا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ.۴؎ ۵.عَرَفْتُ رَبِّیْ بِفَسْخِ الْعَزَائِمِ.۵؎ ۶.زندگی کے آثار.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۷۱، ۲۷۰) ۱۴؍ مئی۶؎۱۹۰۶ء ’’ ھَلْ اَتَـاکَ حَدِ یْثُ الزَّلْزَلَۃِ.مِنْ طُلُوْعِ الشَّمْسِ.اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا.وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَھَا.وَ قَالَ الْاِنْسَانُ مَا لَھَا.یَـوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَھَا.بِـاَنَّ رَبَّکَ اَوْحٰی لَھَا.‘‘ کیا تجھے زلزلہ کی پیشگوئی خدا تعالیٰ سے نہیں پہنچی جو طلوع شمس سے شروع ہوگا یا طلوع شمس سے اس کے غلبہ اور شدت کا ظہور ہوگا.یہ وہ وقت ہوگا جب زمین کو سخت دھکے سے ہلایا جائے گا اور زمین جو کچھ اس کے ۱ (ترجمہ از ناشر) دیکھی بھالی خیانت.۲ (ترجمہ از ناشر) اللہ تعالیٰ بدر میں تمہاری مدد کرچکا ہے.۳ (ترجمہ) ۲.کیا تجھے زلزلہ کی پیشگوئی خدا تعالیٰ سے نہیں پہنچی جو طلوع شمس سے شروع ہوگا یا طلوع شمس سے اس کے غلبہ اور شدت کا ظہور ہوگا.(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۶۸) ۴ (ترجمہ) ۴.ہم نے کثرت سے تجھے دیا ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۵) ۵ (ترجمہ از ناشر) ۵.میں نے اپنے ربّ کو عزائم کے ٹوٹنے سے پہچانا.۶ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۷؍مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ اور الحکم مورخہ ۱۷؍مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ میں اس الہام کی تاریخ ۱۴؍ مئی ۱۹۰۶ء مندرج ہے.
اندر ہے باہر پھینک دے گی یعنی اکثر مقامات میں ایسا ہوگا تو ہر جگہ اُس دن وہ انسان جو طبعی اور طبقات الارض کے علم پر ناز کرتے ہیں کہیں گے کہ آج زمین کو یہ کیا ہوگیا.یہ بات تو ہمارے علوم سے باہر چلی گئی.اس دن زمین اپنا قصہ بیان کرے گی کہ اس کو کیا ہوا اور کس سبب سے اس پر ایسی آفت آئی جو غیر معمولی اور خارق عادت.کیونکہ میرا خدا اس دن اپنے رسول کو زمین کا ترجمان بنائے گا اور اس رسول کی طرف وحی کرے گا کہ یہ غیر معمولی آفت اس وجہ سے آئی.اور خدا فرماتا ہے کہ یہ سب نشان میں تیرے لئے ظاہر کروں گا.‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۶۹، ۲۶۸، ۲۶۷،۲۶۶) ۱۸؍ مئی۱۹۰۶ء (الف) ’’رؤیا میں دیکھا کہ کوئی شخص طاعون کے متعلق کہتا ہے اَب تک پیچھا نہیں چھوڑتی‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر۲۱ مورخہ۲۴ ؍ مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر۱۸ مورخہ۲۴؍ مئی ۱۹۰۶ء صفحہ۱) (ب) ’’میرے ایک صادق دوست اور نہایت مخلص جن کا نام ہے سیٹھ عبدالرحمٰن تاجر مدراس اُن کی طرف سے ایک تار آیا کہ وہ کاربنکل یعنی سرطان کی بیماری سے جو ایک مہلک پھوڑا ہوتا ہے بیمار ہیں.چونکہ سیٹھ صاحب موصوف اوّل درجہ کے مخلصین میں سے ہیں اِس لئے اُن کی بیماری کی وجہ سے بڑا فکر اور بڑا تردّد ہوا قریباً نَو بجے دن کا وقت تھا کہ مَیں غم اور فکر میں بیٹھا ہوا تھا کہ یک دفعہ غنودگی ہوکر میرا سر نیچے کی طرف جھک گیا اور معاً خدائے عزّوجلّ کی طرف سے وحی ہوئی کہ آثارِ زندگی۲؎ ۱ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۱۷؍مئی ۱۹۰۶ء صفحہ۱ اور بدر مورخہ ۱۷؍مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ میں یہ جملہ یوں ہے.’’یہ سب نشان تیرے لئے زمین پر ظاہر کئے جائیں گے تا زمین کے لوگ تجھے شناخت کرلیں.‘‘ ۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ۲۴ ؍ مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ اور الحکم مورخہ۲۴؍ مئی ۱۹۰۶ء صفحہ۱ میں اس الہام کی تاریخ ۱۸؍مئی ۱۹۰۶ء درج ہے نیز تحریر ہے کہ الہام ہوا.’’زندگی کے آثار‘‘ اِس وحیِ الٰہی کے تھوڑی دیر کے بعد سیٹھ عبدالرحمٰن صاحب کا مدراس سے تار آیا جس میں سیٹھ صاحب کی بیماری میں افاقہ کی خبر تھی.اِس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.پہلے خدا کا تار پہنچا اور پیچھے بندوں کا.اِس الہامی خبر سے صرف یہ سمجھا گیا کہ جس مضمون کا تار روانہ کیا گیا تھا اُسی مضمون سے خدا نے اطلاع دے دی.‘‘
بعد اِس کے ایک اَور تار مدراس سے آیا کہ حالت اچھی ہے، کوئی گھبراہٹ نہیں.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۳۳۸) ۲۰؍ مئی۱۹۰۶ء ’’۱.اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً.۲.اُرِیْکَ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ.اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ.‘‘ ۱؎ (بدر جلد ۲ نمبر۲۱ مورخہ۲۴ ؍ مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر۱۸ مورخہ۲۴؍ مئی ۱۹۰۶ء صفحہ۱) مئی ۱۹۰۶ء ’’ ۱.جنہوں نے ایسے کام کئے وہ سب مقبول کے دائرہ کے اندر ہیں.۲.اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً.۳.اُنَـوِّرُ قَلْبَکَ.‘‘۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۶۳) ۲۱؍ مئی۱۹۰۶ء ’’ سَتَأْتِیْ عَلَیْکَ اَ نْوَارُ الشَّبَابِ.یُظْھِرُکَ اللّٰہُ وَ یُثْنِیْ عَلَیْکَ.رُدَّ اِلَیْـھَا رَوْحُھَا وَ رَیْـحَانُـھَا.یُـرَدُّ اِلَیْکَ اَنْـوَارُ الشَّبَابِ.‘‘۳؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۵۷) ۲۲؍ مئی۱۹۰۶ء (الف) ’’ تُـرَدُّ عَلَیْکَ اَ نْوَارُ الشَّبَابِ.سَیَاْتِیْ عَلَیْکَ زَمَنُ الشَّبَابِ.وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِـمَّا نَـزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِ.نَـا فَاْتُوْا بِشِفَآءٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ.رُدَّ عَلَیْـھَا رَوْحُھَا وَرَیْـحَانُـھَا.‘‘۴؎ ۱ (ترجمہ از بدر) ۱.مَیں فوجوں کے ساتھ تیرے پاس اچانک آؤں گا.۲.مَیں تجھے وہ زلزلہ دکھائوں گا جو قیامت کا نمونہ ہوگا.مَیں اُن سب کی حفاظت کروں گا جو اِس گھر میں ہیں.(بدر مورخہ ۲۴؍مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۲) ۲ (ترجمہ از ناشر) ۲.مَیں افواج کے ساتھ اچانک تیرے پاس آئوں گا.۳.میں تیرے دل کو روشن کروں گا.۳ (ترجمہ از ناشر) عنقریب جوانی کی قوتیں تیرے پاس آئیں گی.خدا تجھے غالب کرے گا اور تیری تعریف لوگوں میں شائع کردے گا.اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف اس کی راحت اور خوش زندگی کو لوٹایا.جوانی کے نور یعنی قوتیں تیرے پاس لوٹائی جائیں گی.۴ (ترجمہ) یعنی تیری طرف نور جوانی کے یعنی قوتیں جوانی کی ردّ کی جائیں گی اور تیرے پر زمانہ جوانی کا آئے گا.یعنی جوانی کی قوتیں دی جائیں گی تا خدمت ِ دین میں حَرج نہ ہو اور اگر تم اے لوگو ہمارے اِس نشان سے شک میں ہو تو اس (شفا) کی نظیر پیش کرو اور تیری بیوی کی طرف بھی صحت اور تازگی ردّ کی جائے گی.(بدر مورخہ ۲۴؍ مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۲)
اِن الہامات کا باعث یہ ہے کہ عرصہ تین چار ماہ سے میری طبیعت نہایت ضعیف ہوگئی ہے.بجُز دو وقت ظہر اور عصر کی نماز کے لئے بھی (مسجد میں ) نہیں جاسکتااور اکثر بیٹھ کر نماز پڑھتا ہوں اور اگر ایک سطر بھی کچھ لکھوں یا فکر کروں تو خطرناک دَورانِ سر شروع ہوجاتا ہے اور دل ڈوبنے لگتا ہے.جسم بالکل بیکار ہورہا ہے اور جسمانی قویٰ ایسے مضمحل ہوگئے ہیں کہ خطرناک حالت ہے.گویا مسلوب القویٰ ہوں اور آخری وقت ہے.ایسا ہی میری بیوی دائم المرض ہے.امراضِ رحم و جگر دامنگیر ہیں.پس مَیں نے دُعا کی تھی کہ خدا تعالیٰ مجھے وہ پہلی قوت جوانی کے عالَم کی عطا کرے تا مَیں کچھ خدمت ِ دین کرسکوں اور اپنی بیوی کی صحت کے لئے بھی دُعا کی تھی.اُس دُعا پر یہ الہام ہوئے ہیں جو اُوپر ذکر کئے گئے.خدا تعالیٰ ان کے بہتر معنے جانتا ہے.صرف اِس قدر معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیں صحت عطا فرمائے گا اور مجھے وہ قوتیں عطا کرے گا جن سے مَیں خدمت ِ دین کرسکوں.وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ اور اِس میں یہ بھی خوشخبری ہے کہ اللہ تعالیٰ میری بیوی کو بھی صحت اور تندرستی عطا کرے گا.‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر۲۱ مورخہ۲۴ ؍ مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر۱۸ مورخہ۲۴؍ مئی ۱۹۰۶ء صفحہ۱) (ب) ’’مجھے دماغی کمزوری اور دَورانِ سر کی وجہ سے بہت سی ناطاقتی ہوگئی تھی یہاں تک کہ مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ اَب میری حالت بالکل تالیف تصنیف کے لائق نہیں رہی اور ایسی کمزوری تھی کہ گویا بدن میں رُوح نہیں تھی.اِس حالت میں مجھے الہام ہوا.تُـرَدُّ عَلَیْکَ اَ نْوَارُ الشَّبَابِ یعنی جوانی کے نور تیری طرف واپس کئے.بعد اس کے چند روز میں ہی مجھے محسوس ہوا کہ میری گمشدہ قوتیں پھر واپس آتی جاتی ہیں اور تھوڑے دنوں کے بعدمجھ میں اِس قدر طاقت ہوگئی کہ مَیں ہر روز دو ۲ دو ۲ جُز نَو تالیف کتاب کو اپنے ہاتھ سے لکھ سکتا ہوں اور نہ صرف لکھنا بلکہ سوچنا اور فکر کرنا جو نئی تالیف کے لئے ضروری ہے پورے طور پر میسر آگیا.ہاں دو مرض میرے لاحقِ حال ہیں ایک بدن کے اُوپر کے حصّہ میں اور دوسری بدن کے نیچے کے حصّہ میں.اُوپر کے حصّہ میں دَورانِ سر ہے اور نیچے کے حصّہ میں کثرتِ پیشاب ہے اور یہ دونوں مرضیں اُسی زمانہ سے ہیں جس زمانہ سے مَیں نے اپنا دعویٰ مامور مِن اللہ ہونے کا شائع کیا ہے.مَیں نے ان کے لئے دعائیں بھی کیں مگر منع میں جواب پایااور میرے دل میں القا کیا گیا کہ ابتداء سے مسیح موعود کے لئے یہ نشان مقرر ہے کہ وہ دو زرد چادروں کے ساتھ دو۲ فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے اُترے گا.سو یہ
وہی دو زرد چادریں ہیں جو میری جسمانی حالت کے ساتھ شامل کی گئیں.انبیاء علیہم السلام کے اتفاق سے زرد چادر کی تعبیر بیماری ہے اور دو زرد چادریں دو بیماریاں ہیں جو دو حصّہ بدن پر مشتمل ہیں اور میرے پر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے یہی کھولا گیا ہے کہ دو زرد چادروں سے مراد دو بیماریاں ہیں اور ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ کا فرمودہ پورا ہوتا.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۱۹، ۳۲۰) ۲۵؍ مئی۱۹۰۶ء ’’ھَلْ اَتَـاکَ حَدِیْثُ الزَّلْزَلَۃِ.بَلْ یَاْتِیْـھِمْ بَغْتَۃً.۱؎ اگر چاہوں تو اُس دن خاتمہ اِس کے بعد ایک علیحدہ الہام ہوا.دو چار ماہ.‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر۲۲ مورخہ۳۱ ؍ مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر۱۹ مورخہ۳۱؍ مئی ۱۹۰۶ء صفحہ۱) ۲۷؍ مئی۱۹۰۶ء (الف) ’’ اُرِیْـحُکَ وَلَا اُجِیْحُکَ وَاُخْرِجُ مِنْکَ قَوْمًا.۲؎ اِس کے ساتھ ہی دل میں ایک تفہیم ہوئی جس کا یہ مطلب تھا جیسا کہ مَیں نے ابراہیم کو قوم بنایا.‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر۲۲ مورخہ۳۱ ؍ مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر۱۹ مورخہ۳۱؍ مئی ۱۹۰۶ء صفحہ۱) (ب) ’’آفتوں اور مصیبتوں کے دن ہیں.ایک دوست کا ذکر تھا جس پر بہت سی دُنیوی مشکلات گررہی ہیں.فرمایا.یہ الہام اُسی کے متعلق معلوم ہوتا ہے.‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر۲۲ مورخہ۳۱ ؍ مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر۱۹ مورخہ۳۱؍ مئی ۱۹۰۶ء صفحہ۱) (ج) ’’کل مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک الہام مندرجہ ذیل الفاظ میں یا کِسی قدر تغیر لفظ سے ہوا تھا کہ ۱ (ترجمہ) کیا تجھے زلزلہ کی بات پہنچی ہے.بلکہ اُن کے پاس وہ اچانک آئے گا.(بدر مورخہ ۳۱؍ مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۲) ۲ (ترجمہ ) مَیں تجھے آرام دوں گا اور تیرا نام نہیں مٹاؤں گا اور تجھ سے ایک بڑی قوم پیدا کروں گا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۳)
’’کئی آفتیں اور مصیبتیں ہم پر نازل ہوگئی ہیں.‘‘ ۱؎ (از مکتوب بنام نواب محمد علی خاں صاحبؓ آف مالیر کوٹلہ.مکتوباتِ احمد جلد دوم صفحہ ۲۹۷ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۲۹؍مئی ۱۹۰۶ء ’’۱.یُلْقِی الرُّوْحَ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ.۲؎ ۲.برہمن اوتار سے مقابلہ کرنا اچھا نہیں.۳.خدا کے مقبولوں میں قبولیت کی علامتیں اور نمونے ہوتے ہیں اور وہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۵۳) ۳۰؍ مئی۱۹۰۶ء ’’۱.خدا کے مقبولوں میں قبولیت کے نمونے اور علامتیں ہوتی ہیں اور وہ سلامتی۳؎ کے شہزادے کہلاتے ہیں.ان پر کوئی غالب نہیں آسکتا.فرشتوں۴؎ کی کھنچی ہوئی تلوار تیرے آگے ہے پر تونے وقت کو نہ پہچانا۵؎ نہ دیکھا نہ جانا.۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اِسی خط میں تحریر فرماتے ہیں.’’مَیں تمام دن اِس الہام کے بعد غمگین رہا کہ یہ کیسا بھید ہے.آج خط پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ آپ کا پیغام خدا تعالیٰ نے پہنچایا تھا.‘‘ (از مکتوب بنام نواب محمد علی خاں صاحب آف مالیر کوٹلہ.مکتوباتِ احمدجلد ۲صفحہ ۲۹۷ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۲ (ترجمہ) ۱.خدا اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے نبوت کی روح اس پر ڈالتا ہے.(بدر مورخہ ۷؍ جون ۱۹۰۶ء صفحہ ۲) ۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے عبدالحکیم خاں کے اس فقرہ کا رَدّ ہے کہ جو مجھے کاذب اور شریر قرار دے کر کہتا ہے کہ صادق کے سامنے شریر فنا ہوجائے گا.گویا مَیں کاذب ہوں اور وہ صادق اور وہ مرد صالح ہے اور مَیں شریر اور خدا تعالیٰ اس کے رَدّ میں فرماتا ہے کہ جو خدا کے خاص لوگ ہیں وہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں.ذِلّت کی موت اور ذِلّت کا عذاب ان کو نصیب نہیں ہوگا.اگر ایسا ہو تو دُنیا تباہ ہوجائے اور صادق اور کاذب میں کوئی امر فارق نہ رہے.‘‘ (اشتہار ۱۶ ؍ اگست ۱۹۰۶ء مشمولہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۴۱۱ حاشیہ ) ۴ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’فرشتوں کی کھنچی ہوئی تلوار سے آسمانی عذاب مراد ہے کہ جو بغیر ذریعہ انسانی ہاتھوں کے ظاہر ہوگا.‘‘ (اشتہار ۱۶؍ اگست ۱۹۰۶ء مشمولہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۴۱۱ حاشیہ ) ۵ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’یعنی تُو نے یہ غور نہ کی کہ کیا اس زمانہ میں اور اس نازک وقت میں اُمّتِ محمدیہ کے لئے کسی دجّال کی ضرورت ہے یا کسی مصلح اور مجدّد کی.‘‘ (اشتہار ۱۶؍ اگست ۱۹۰۶ء مشمولہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۴۱۱ حاشیہ )
۲.برہمن اوتار سے مقابلہ کرنا اچھا نہیں.۳.رَبِّ فَرِّقْ بَیْنَ صَادِقٍ وَّ کَاذِبٍ.۴.اَنْتَ تَرٰی کُلَّ مُصْلِحٍ وَّ صَادِقٍ.‘‘۱؎ (بدر جلد ۲ نمبر۲۲ مورخہ۳۱ ؍ مئی ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر۱۹ مورخہ۳۱؍ مئی ۱۹۰۶ء صفحہ۱) ۳۱؍ مئی۱۹۰۶ء روز یک شنبہ ’’ ۱.اَللہُ یَعْلَمُ فَـمَنْ ھٰذَا.۲.روز محشر.۳.اِنَّـا اَخَذْ نَـاکَ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ.۲؎ خدا کی پاک وحی ایک نئے مخالف شدہ کے بارے میں ہے.پڑھنے والے سمجھ لیں.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۵۰) مئی۱۹۰۶ء ’’ فرمایا.چند روز ہوئے مَیں نے دیکھا تھا (رؤیا کہ ) بہت سے زنبور ہیں اور مَیں ان کو کپڑے میں پکڑ کر ماررہا ہوں.‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر۲۳ مورخہ۷؍جون ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر۲۰ مورخہ۱۰؍ جون۱۹۰۶ء صفحہ۱) مئی۱۹۰۶ء ’’۱.وَ سَیَجْزِی اللہُ الشَّاکِرِیْنَ.۲.یُلْقِی الرُّوْحَ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ مِنْ عِنْدِ ہٖ.۳؎۳.دنیا کی بھی کامیابی ہوجائے گی اور آخرت کی بھی کامیابی ہوجائے گی.۴.مونہہ کی زردی جاتی رہی ہے.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۵۴، ۲۵۳) ۴؍ جون۱۹۰۶ء (الف) ’’رؤیا.دیکھا کہ مَیں ایک جگہ ہوں اور وہاں ایک چادر ایک اُونچی جگہ پر رکھی ہوئی ہے.اتنے میں ایک چِڑا آیا اور اس چادر پر بیٹھ گیا.تب مَیں نے اس کو پکڑ لیا اور کہا کہ جس طرح بنی اسرائیل کے واسطے آسمان سے پرند اُترتے تھے اسی طرح ہمارے واسطے ہے.‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر۲۳ مورخہ۷ ؍ جون ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر۲۰ مورخہ۱۰؍ جون۱۹۰۶ء صفحہ۱) ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’یعنی اے میرے خدا صادق اور کاذب میں فرق کرکے دکھلا.تُو جانتا ہے کہ صادق اور مصلح کون ہے.اِس فقرہ الہامیہ میں عبدالحکیم خاں کے اس قول کا رَدّ ہے جو وہ کہتا ہے کہ صادق کے سامنے شریر فنا ہوجائے گا.پس چونکہ وہ اپنے تئیں صادق ٹھیراتا ہے.خدا فرماتا ہے کہ تُو صادق نہیں ہے مَیں صادق اور کاذب میں فرق کرکے دکھلائوں گا.‘‘ (اشتہار ۱۶ ؍ اگست ۱۹۰۶ء مشمولہ کتاب حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۴۱۱ حاشیہ) ۲ (ترجمہ از ناشر) ۱.اللہ حقیقت سے واقف ہےیہ کون ہے؟ ۳.ہم نے تجھے دردناک عذاب کے ساتھ پکڑا.۳ (ترجمہ از ناشر) ۱.اور اللہ تعالیٰ شکر گزار بندوں کو ضرور جزا دے گا.۲.وہ (خدا) اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اس پر اپنی جناب سے نبوت کی روح ڈال دیتا ہے.
(ب) ’’مجھے یاد ہے کہ جب نظام الدین۱؎ کے لئے مَیں نے دعا کی تب خوا ب میں دیکھا کہ ایک چِڑا اُڑتا ہوا میرے ہاتھ میں آگیا اور اُس نے اپنے تئیں میرے حوالہ کردیا اور مَیں نے کہا کہ یہ ہمارا آسمانی رزق ہے جیسا کہ بنی اسرائیل پر آسمان سے رزق اُترا کرتا تھا.‘‘ (از مکتوب بنام نواب محمد علی خان صاحبؓ.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۳۰۰ مطبوعہ ۲۰۰۸ء ) ۵؍ جون۱۹۰۶ء ’’۱.مَا اُرْ سِلَ نَبِیٌّ اِلَّا اَخْزٰی بِہِ اللّٰہُ قَوْمًا لَّا یُؤْمِنُوْنَ.۲.یُلْقِی الرُّوْحَ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ.۲؎ ۳.خدا۳؎ کی فیلنگ۴؎ اور خدا کی مُہر نے کتنا بڑا کام کیا.‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر۲۳ مورخہ۷ ؍ جون ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر۲۰ مورخہ۱۰؍ جون۱۹۰۶ء صفحہ۱) ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’نظام الدین نام سیالکوٹ میں ایک مستری ہے.چند روز ہوئے اس کا ایک خط میرے نام آیا…اس کا مضمون یہ تھا کہ مَیں فوجداری جُرم میں گرفتار ہوگیا ہوں اور کوئی صورت رہائی کی نظر نہیں آتی.اس بے قراری میں مَیں نے یہ نذر مانی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ اِس خوفناک مقدّمہ سے رہا کردے تو مَیں مبلغ پچاس روپیہ نقد آپ کی خدمت میں بلا توقف ادا کردوں گا.اِتفاق ایسا ہوا کہ جب اس کا خط پہنچا تو مجھے خود روپیہ کی ضرورت تھی.تب مَیں نے دعا کی کہ اے خدا ئے قادر و کریم ! اگر تُو اس شخص کو اس مقدّمہ سے رہائی بخشے تو تین طور کا فضل تیرا ہوگا.اوّل یہ کہ یہ مضطر آدمی اس بَلا سے رہائی پا جائے گا.دوم مجھے جو اِس وقت روپیہ کی ضرورت ہے میرا مطلب کسی قدر پُورا ہوگا.سوم تیرا ایک نشان ظاہر ہوجائے گا.دُعا کرنے سے چند روز بعد نظام الدین کا خط آیا… اور دوسرے روز پچاس روپے آگئے.‘‘ (از مکتوب بنام نواب محمد علی خان صاحبؓ.مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ ۲۹۹ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۲ (ترجمہ) ۱.کوئی نبی نہیں بھیجا گیا مگر خدا نے اس کی وجہ سے ایک قوم کو رُسوا کیا جو ایمان نہیں لاتے تھے.۲.خدا اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے نبوت کی رُوح اس پر ڈالتا ہے.(بدر مورخہ ۷؍جون ۱۹۰۶ء صفحہ ۲) ۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’اِس کے یہ معنے ہیں کہ خدا نے اس زمانہ میں محسوس کیا کہ یہ ایسا فاسد زمانہ آگیا ہے جس میں ایک عظیم الشان مصلح کی ضرورت ہے اور خدا کی مُہر نے یہ کام کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پَیروی کرنے والا اِس درجہ کو پہنچا کہ ایک پہلو سے وہ اُمّتی ہے اور ایک پہلو سے نبی.کیونکہ اللہ جل شانہٗ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحب ِ خاتَم بنایا یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لئے مُہر دی جو کسی اَور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی.اِسی وجہ سے آپ ؐ کا نام خاتم النّبییّن ٹھہرا.یعنی آپ ؐ کی پَیروی کمالاتِ نبوّت بخشتی ہے اور آپ ؐ کی توجہ ء ِروحانی نبی تراش ہے اور یہ قو ت ِ قدسیہ کسی اَور نبی کو نہیں ملی.‘‘ ( حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۹۹ ، ۱۰۰ حاشیہ ) ۴ FEELING
۷؍ جون۱۹۰۶ء (الف) ۱.’’بذریعہ الہامِ الٰہی معلوم ہوا کہ میاں منظور محمد صاحب کے گھر میں، یعنی محمدی بیگم کا ایک لڑکا پیدا ہوگا جس کے دو۲ نام ہوں گے.۱.بشیر الدّولہ ۲.عَالَمْ کباب یہ ہر دونام بذریعہ الہامِ الٰہی معلوم ہوئے اور اِن کی تعبیر اور تفہیم یہ ہے.۱.بشیر الدَّولہ سے یہ مُراد ہے کہ وہ ہماری دولت اور اقبال کے لئے بشارت دینے والا ہوگا.اُس کے پیدا ہونے کے بعد (یا اس کے ہوش سنبھالنے کے بعد ) زلزلہ عظیمہ کی پیشگوئی اور دوسری پیشگوئیاں ظہور میں آئیں گی اور گروہِ کثیر مخلوقات کا ہماری طرف رجوع کرے گا اور عظیم الشان فتح ظہور میں آئے گی.۲.عالَم کباب سے یہ مُراد ہے کہ اُس کے پیدا ہونے کے بعد چند ماہ تک یا جب تک کہ وہ اپنی بُرائی بھلائی شناخت کرے دنیا پر ایک سخت تباہی آئے گی.گویا دنیا کا خاتمہ ہوجائے گا.اِس وجہ سے اس لڑکے کا نام عالَم کباب رکھا گیا.غرض وہ لڑکا اِس لحاظ سے کہ ہماری دولت اور اقبال کی ترقی کے لئے ایک نشان ہوگا بشیر الدّولہ کہلائے گا اور اِس لحاظ سے کہ مخالفوں کے لئے قیامت کا نمونہ ہوگا عالَم کباب کے نام سے موسوم ہوگا.‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر۲۴ مورخہ۱۴ ؍ جون ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر۲۰ مورخہ۱۰؍ جون۱۹۰۶ء صفحہ۱) (ب) ۲.’’اِس کے بعد معلوم ہوا کہ اس لڑکے کے دو نام اَور ہیں.۱.ایک شادی خان کیونکہ وہ اس جماعت کے لئے شادی کا موجب ہوگا.۲.دوسرے کلمۃ اللہ خان کیونکہ وہ خدا کا کلمہ ہوگا جو ابتداء سے مقرر تھا اس زمانہ میں پورا ہوجائے گا اور ضرور ہے کہ خدا اس لڑکے کی والدہ کو زندہ رکھے جب تک یہ پیشگوئی پُوری ہو اور گذشتہ الہام اے وارڈ اَینڈ ٹو گرل اِسی پیشگوئی کو بیان کرتا ہے جس کے معنے ہیں ایک کلمہ اور دو لڑکیاں.کیونکہ میاں منظور محمد کی دو لڑکیاں ہیں اور جب کلمۃ اللہ پیدا ہوگا تب یہ بات پُوری ہوجائے گی ایک کلمہ اور دو لڑکیاں.‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر۲۴ مورخہ۱۴ ؍ جون ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ حاشیہ) (ج) ’’۱.اللہ تعالیٰ اُس کو سلامت رکھنا نہیں چاہتا.خدا تمہیں سلامت رکھے.۲.یَنْصُـرُکَ۱؎ رِجَالٌ نُّـوْحِیْ اِلَیْـھِمْ مِّنَ السَّمَآءِ.۳.یَـاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ.۴.یَـاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ ۱ (ترجمہ از مرتّب) ۲.وہ لوگ تیری مدد کریں گے جن کو ہم آسمان سے وحی کریں گے.۳.ہر ایک دُور کی راہ سے آئیں گے ۴.ہر ایک دُور
فَـجٍّ عَـمِیْقٍ.۵.سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ ۶.یَسَّـرْنَـا لَکَ الْاُمُوْرَ.۷.وَلَاتُصَعِّرْ لِـخَلْقِ اللّٰہِ وَلَا تَسْئَمْ مِّنَ النَّاسِ.۸.نَعُوْذُ بِـاللہِ مِنْ غَـضَبِ الْـحَلِیْمِ.۹.وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُ.وْا فِی الْاَرْضِ قَالُوْا اِنَّـمَا نَـحْنُ مُصْلِحُوْنَ.۱۰.رَبِّ اَرِنَـا اَ.نْـوَارَکَ الْکُلِّیَّۃَ.۱۱.اِنَّہٗ نَـازِلٌ مِّنَ السَّمَآءِ مَا یُرْضِیْکَ.۱۲.رَبِّ اَرِنِیْ اَنْوَارَکَ الْکُلِّیَّۃَ.۱۳.اِنِّیْ اَنَـرْتُکَ وَاخْتَرْتُکَ.۱۴.وَ اِنَّہٗ نَـازِلٌ مِّنَ السَّمَآءِ مَا یُـرْضِیْکَ.۱۵.دو نشان۱؎ ظاہر ہوں گے.۱۶.محمدی کے بیٹے کے دو نام ظاہر کئے گئے.بشیر۱ الدولہ اور عالم کبا۲ب ۱۷.وَ قَدْ کَانَ فِیْـھَا اَنْـزَلَ رَحْـمَۃً.۱۸.تُـرْزَقُـوْنَ فِیْـھَا.‘‘۲؎ (کاپی الہامات۳؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۴۱، ۲۴۰، ۲۳۹، ۲۳۸) (د) اِنَّـا اَخَذْنَـاہُ بِعَذَ ابٍ اَلِیْمٍ۴؎.(بدر جلد ۲ نمبر ۲۴ مورخہ ۱۴؍ جون ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲۰ مورخہ ۱۰؍جون ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ ) بقیہ ترجمہ.کی راہ سے تیرے پاس تحائف لائیں گے.۵.تم پر سلام ہو.تم پاک ہو.۶.تیری خاطر ہم نے امور کو آسان کردیا.۷.اور جو لوگ تیرے پاس آئیں گے، تجھے چاہیےکہ اُن سے بد خلقی نہ کرے اور ان کی کثرت کو دیکھ کر تھک نہ جائے.۸.ہم حلیم کے غضب سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں.۹.اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو محض اصلاح کرنے والے ہیں.۱۰.اے میرے ربّ ہمیں اپنے تمام اَنوار دکھا.۱۱.اور آسمان سے ایک ایسا اَمر اُترنے والا ہے جو تجھے خوش کردے گا.۱۲.اے میرے ربّ مجھے اپنے تمام اَنوار دکھا.۱۳.مَیں نے تجھے روشن کیا اور تجھے برگزیدہ کیا.۱۴.آسمان سے ایک ایسا اَمر اُترنے والا ہے جو تجھے خوش کردے گا.۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) اس میں سعد اللہ لدھیانوی اور ڈاکٹر ڈوئی امریکن کی ہلاکت کی طرف اشارہ ہے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں.’’ممالک مشرقیہ میں تو سعداللہ لدھیانوی میری پیشگوئی اور مباہلہ کے بعد جنوری کے پہلے ہفتہ میں ہی نمونیا پلیگ سے مَرگیا.یہ تو پہلا نشان تھا اور دوسرا نشان اس سے بہت ہی بڑا ہوگا جس میں فتح عظیم ہوگی.سو وہ ڈوئی کی موت ہے جو ممالک ِ مغربیہ میں ظہور میں آئی … اِس سے خدا تعالیٰ کا وہ الہام پُورا ہوا کہ مَیں دو۲ نشان دکھاؤں گا.‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۵۱۰) ۲ (ترجمہ از مرتّب) ۱۷.اور یقیناً اس نے اس میں رحمت نازل کی.۱۸.اس میں تم رزق دیئے جاؤ گے.۳ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۴؍ جون ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ اور الحکم مورخہ ۱۰؍جون ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ میں الہام نمبر ۶ ، ۸ تا ۱۱ و۱۶ تا ۱۸ کے علاوہ باقی الہامات ترتیب کے اختلاف سے درج ہیں.۴ (ترجمہ) ہم دردناک عذاب کے ساتھ اس کو پکڑیں گے.(بدر مورخہ ۱۴؍جون ۱۹۰۶ء صفحہ ۲)
(ھ) ’’ اِنِّیْ اُرِیْکَ مَا یُرْضِیْکَ.‘‘۱؎ (الاستفتاء ملحقہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۷۰۲) ۸؍ جون۱۹۰۶ء (رؤیا) ’’اس رات مولوی عبدالکریم دیکھے ان کے ہاتھ میں …۲؎ پھر الہام ہوا.آپ کی برکت نے ان کا مونہہ بند کردیا.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۵۲) ۱۱؍ جون۱۹۰۶ء ۱.’’ رؤیا.دیکھا کہ پندرہ سولہ نوجوان عورتیں خوبصورت اور نہایت خوش لباس پہنے ہوئے میرے سامنے آئی ہیں.مَیں نے اِس خیال سے کہ یہ جوان عورتیں ہیں مُنہ اُن سے پھیر لیا اور اُن سے پوچھا کہ تم کیسے آئی ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم تو آپ کے پاس ہی آئی ہیں.پھر انہوں نے وہیں ہمارے دالان میں ڈیرے لگادیئے.فرمایا.رؤیامیں عورت سے مُراد اقبال اور فتح مندی اور تائید ِ الٰہی ہوتی ہے.اِس رؤیامیں یہ بھی معلوم ہوا کہ انہیں عورتوں میں وہ بھی ایک عورت تھی جو پہلے کبھی آئی تھی.فرمایا اس میں اشارہ ایک پُرا۳؎نےر ؤیا کی طرف تھا جو حضرت والد صاحب کی وفات کے چند یَوم بعد مَیں نے دیکھا کہ مَیں ایک پِیڑھی پر بیٹھا ہوں تو ایک عورت نوجوان عمدہ لباس پہنے ہوئے تیس ۳۰ بتیس ۳۲ سال کی میرے سامنے آئی اور اس نے کہا کہ میرا ارادہ اب اِس گھر سے چلے جانے کا تھا مگر تمہارے لئے رہ گئی ہوں.‘‘ ۲.’’ایک زلزلہ کا نظارہ دکھائی دیا اور ساتھ ہی اس کے الہام ہوا.لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ.لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَھَارِ.‘‘۴؎ ۱ (ترجمہ از مرتّب) مَیں تجھے وہ دکھاؤں گا جو تجھے راضی کردے گا.۲ یہ حصہ پڑھا نہ جاسکا.(ناشر) ۳ (نوٹ ازسید عبد الحی) دیکھیے رؤیا ۱۸۷۶ء بحوالہ ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۲۰۵، ۲۰۶ ۴ (ترجمہ) آج ملک کس کا ہے.اللہ تعالیٰ واحد قہار کا ہے.(بدر مورخہ ۱۴؍جون ۱۹۰۶ء صفحہ ۲)
۳.’’مقبولوں میں قبولیت کے نمونے اور علامتیں ہوتی ہیں اور ان کی تعظیم ملوک اور ذوی الجبروت کرتے ہیں اور اُن پر کوئی غالب نہیں ہوسکتا اور سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں.فرشتوں کی کھنچی ہوئی تلوار تیرے۱؎آگے ہے.اِنَّـا اَخَذْنَـاکَ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ.۲؎ پر تُو نے وقت کو نہ پہچانا نہ دیکھا نہ جانا.‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر۲۴ مورخہ۱۴ ؍ جون ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر۲۱ مورخہ۱۷؍ جون۱۹۰۶ء صفحہ۱) ۱۲؍ جون۱۹۰۶ء ’’۱.ھر کجا باشی، خوش باشی.۳؎ ۲.یَکَا دُ الْبَرْقُ یَـخْطَفُ اَبْصَارَھُمْ.‘‘۴؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۳۶) ۱۴؍ جون۱۹۰۶ء ’’ وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُ وْا فِی الْاَرْضِ قَالُوْا اِنَّـمَا نَـحْنُ مُصْلِحُوْنَ.‘‘۵؎ (بدر جلد ۲ نمبر۲۵ مورخہ۲۱ ؍ جون ۱۹۰۶ء صفحہ۳.الحکم جلد ۱۰ نمبر۲۱ مورخہ۱۷؍ جون۱۹۰۶ء صفحہ۱) ۱۶؍ جون۱۹۰۶ء ’’زلزلہ آنے کو ہے ‘‘ ۶؎ (بدر جلد ۲ نمبر۲۵ مورخہ۲۱ ؍ جون ۱۹۰۶ء صفحہ۳.الحکم جلد ۱۰ نمبر۲۱ مورخہ۱۷؍ جون۱۹۰۶ء صفحہ۱) جون۷؎۱۹۰۶ء ۱.’’۱.ناصر الدین.۲.فاتح الدین.۳.ھٰذَا یَــوْمٌ مُّبَارَکٌ.‘‘۸؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۲۰) ۱ متعلق ڈاکٹر عبدالحکیم مُرتد.(مرزا بشیر احمد) ۲ (ترجمہ از مرتّب) ہم نے تجھے درد ناک عذاب کے ساتھ پکڑا.۳ (ترجمہ از مرتّب) ۱.جہاں رہو خوش رہو.۲.بجلی ان کی آنکھیں اُچک لینے کو ہے.۴ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۴؍ جون ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ میں یہ دونوں الہامات ترتیب کے فرق سے مندرج ہیں نیز ان کی تاریخ نزول ۱۳؍جون ۱۹۰۶ء ہے.۵ (ترجمہ) اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ زمین پر فساد مت مچائو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرتے ہیں.۶ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ ) یہ زلزلہ ۲۱ ؍ جولائی ۱۹۰۶ء کو رات کے قریباً دو بجے آیا.(بدر مورخہ ۲۶ ؍ جولائی ۱۹۰۶ء ) ۷ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲۱؍جون ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ اور الحکم مورخہ ۱۰؍جولائی ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ میں ان الہامات کی تاریخ ۱۹؍جون ۱۹۰۶ء درج ہے.۸ (ترجمہ از مرتّب) ۳.یہ مبارک دن ہے.
۲.’’اسمائے پسرِ محمدی ۱.بشیر الدّولہ ۲.عالَم کباب ۳.شادی خاں ۴.کلمۃ اللہ خان.۵.کلمۃ العزیز ۶.وارڈ۱؎ ۷.ناصر الدین ۸.فاتح الدین.‘‘۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۱۹) ۲۰؍جون ۱۹۰۶ء ’’ ۱.شیطان پر بہر حال تم نے تسلط پالیا.۲.وَقَالُوْا لَسْتَ مُرْسَلًا.قُلْ کَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًا بَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ وَمَنْ عِنْدَ ہٗ عِلْمُ الْکِتَابِ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۱۸) (ترجمہ) اور کہیں گے کہ یہ خدا کا فرستادہ نہیں.کہہ میری سچائی پر خدا گواہی دے رہا ہے اور وہ لوگ گواہی دیتے ہیں جو کتاب اللہ کا علم رکھتے ہیں.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۹۴) ۲۱؍جون ۱۹۰۶ء روز پنج شنبہ ۱.’’ الہام.یَنْصُـرُکُمُ اللّٰہُ فِیْ وَقْتٍ عَزِیْزٍ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۱۷) (ترجمہ) خدا ایک عزیز وقت میں تمہاری مدد کرے گا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۴) ۲.(خواب) ’’اس وقت جو قریب نو بجے دن کے ہوگا روز پنج شنبہ ۲۱؍جون ۱۹۰۶ء میں نے خواب میں دیکھا کہ ملّا شمس الدین میاں فضل الٰہی ایک بڑا خوان انگور کا لایا ہے جس میں بہت سے انگور کے خوشے ہیں اور بعض ان میں سے موتیوں کی طرح کھڑے ہیں اور بعض الگ الگ دانے ہیں جن کا ایک ڈھیر خوان میں لگا ہوا ہے اور سفید اور چمکدار اور خوبصورت معلوم ہوتے ہیں اور میں ایک چارپائی پر لیٹا ہوں میں دیکھ کر کھڑا ہوگیا یعنی چارپائی پر ہی کھڑا ہوگیا اور میرے دل میں خیال آیا کہ مرزا افضل بیگ نے یہ انگور بھیجا ہے اور کبھی خیال آتا تھا کہ کچھ اس نے اپنے پاس بھی رکھ لیا ہے اور کبھی خیال آتا تھا کہ سب کا سب ہی بھیج دیا ہے.انگور بہت ہیں اور جیسا کہ میں کھڑا ہوں ایسا ہی شمس الدین میرے دکھلانے کے لئے کھڑا ہے اور داہنے ہاتھ میں اس کے خوانِ انگور ہے وقت قریب دس بجے دن کے معلوم ہوتا ہے اور دروازے کے پاس میری چارپائی ہے.۱ Word (کلمہ) ۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲۱؍جون ۱۹۰۶ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۲۴؍جون ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ میں یہ اسماء ترتیب کے اختلاف سے درج ہیں نیز ان سے قبل یہ تحریر ہے.’’میاں منظور محمد صاحب کے اُس بیٹے کے نام جو بطور نشان ہوگا بذریعہ الہام الٰہی مفصلہ ذیل معلوم ہوئے.‘‘
تعطیر الانام میں تعبیر یہ لکھی ہے کہ دائمی رزق اور وسیع رزق اور ذخیرہ خور رزق اور دنیا کی تازگی ہے.اور ایک خوشہ اس کا ہزار درم تک ہے.اور نیز اس کی تعبیر مرض سے شفا اور بہتری ہے کیونکہ حضرت نوح کو سِل ہوگئی تھی اور خدا تعالیٰ کا ان کو حکم ہوا تھا کہ انگور کھاؤ.پس انگور سے سِل جاتی رہی تھی.اور انگور سے مراد وہ منافع ہیں جو عورتوں سے یا عورتوں کے سبب سے حاصل ہوتے ہیں اور وہ رزق پاک ہے اور اُلفت اور محبت پر دلالت کرتا ہے یعنی ایسے شخص سے لوگ محبت کرتے ہیں اور کریم لوگوں کی طر ف سے رزق پہنچتا ہے.۲۱؍جون ۱۹۰۶ء روز پنج شنبہ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۱۷، ۲۱۶، ۲۱۵، ۲۱۴، ۲۱۳، ۲۱۲، ۲۱۱) ۲۳؍جون ۱۹۰۶ء ’’ ۱.خوش قسمتی سے میرا بیڑا پار ہوگیا.۲.رَبِّ اِنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۵۱) (ترجمہ) اے میرے خدا مَیں مغلوب ہوں میرا انتقام دشمنوں سے لے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۱۰۷) ۲۸؍جون ۱۹۰۶ء ’’۱.آج ۲۸؍ جون ۱۹۰۶ء کو معلوم ہوا اس لڑکے کا نام کلمۃ اللہ خان بھی ہوگا اور شادی خان بھی نام ہوگا.۲.اُس کی تعظیم ملوک اور ذو الجبروت کرتے ہیں.۳.لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۳۷) (ترجمہ) اُس دن کہا جائے گا آج کس کا ملک ہے کیا اس خدا کا ملک نہیں جو سب پر غالب ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۹۶) جون ۱۹۰۶ء ’’۱.اِنِّیْ مَعَ الْکُفَّارِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً..۲.مَا اُرْسِلَ نَبِیٌّ اِلَّا اَخْزٰی بِہِ اللّٰہُ قَوْمًا لَّا یُـؤْمِنُوْنَ.۱؎ ۳.اللہ تعالیٰ اُس کو سلامت رکھنا نہیں چاہتا.۴.خدا تمہیں سلامت رکھے ۱ (ترجمہ از ناشر) ۱.میں مسلح لوگوں۲؎ کے ساتھ اچانک تیری مدد کو آؤں گا.۲.کوئی نبی نہیں بھیجا گیا مگر خدا نے اس کی وجہ سے اس قوم کو رسوا کیا جو ایمان نہیں لاتے.۲ (نوٹ از ناشر) ان معنوں کے لئے دیکھئے لسان العرب زیر لفظ ’’کفر‘‘
۵.یَـاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ.۶.یَـاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَـجِّ عَـمِیْقٍ.۷.یَنْصُـرُکُمْ رِجَالٌ نُّـوْحِیْ اِلَیْـھِمْ مِّنَ السَّمَآءِ.۸.سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ.۹.یَـسَّـرْنَـا لَکَ الْاُمُوْرَ.‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۴۵، ۲۴۴، ۲۴۳) ۱۹۰۶ء ’’ ۱.وہ کام جو تم نے کیا خدا کی مرضی کے موافق نہیں ہوگا.۲.اِنَّـا عَفَوْنَـا عَنْکَ.۳.اِنَّـا عَفَوْنَـا عَنْکَ.۴.اَنْتَ لَیِّنٌ وَ اَرْضُکَ لَیِّنَۃٌ.۵.یَـا رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُـرْنِیْ وَارْحَـمْنِیْ.۶.اِنِّیْ حَافِظُکَ.۷.اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلَیْھِمْ.۸.مَاکَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَـمُوْتَ اِلَّا بِـاِذْ نِ اللّٰہِ.‘‘۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۰۹، ۲۰۸) جولائی۱۹۰۶ء ’’۱.اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ.۲.اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً.‘‘۳؎ (بدر جلد ۲ نمبر۲۶.۲۸ مورخہ۱۲ ؍ جولائی ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر۲۴ مورخہ۱۰؍ جولائی۱۹۰۶ء صفحہ۱) ۸؍ جولائی۱۹۰۶ء ’’میرا لڑکا مبارک احمد خسرہ کی بیماری سے سخت گھبراہٹ اور اضطراب میں تھا.ایک رات تو شام سے صبح تک تڑپ تڑپ کر اُس نے بسر کی اور ایک دَم نیند نہ آئی اور دوسری رات میں اُس سے سخت تر آثار ظاہر ہوئے اور بیہوشی میں اپنی بوٹیاں توڑتا تھا اور ہذیان کرتا تھا اور ایک سخت خارش بدن میں تھی.اس وقت میرا دِل دَرد مند ہوا اور الہام ہوا.اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ۴؎ ۱ (ترجمہ از ناشر) ۵.ہر دور کی راہ سے تیرے پاس مدد پہنچے گی.۶.اور تیرے پا س اس کثرت سے لوگ آئیں گے کہ جن راہوں سے وہ آئیں گے وہ گہری ہوجائیں گی.۷.تمہاری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں پر ہم آسمان سے وحی کریں گے.۸.تم پر سلام ہو.تم شرک سے پاک ہوگئے.۹.ہم نے تمام امور کو تیرے لئے آسان کردیا.۲ (ترجمہ از ناشر) ۲.ہم نے تجھے معاف کیا.۳.ہم نے تجھے معاف کیا.۴.تو نرم دل ہے اور تیری زمین (یعنی طینت) بھی نرم ہے.۵.اے میرے ربّ! ہر ایک چیز تیری خدمت گزار ہے..اے میرے ربّ! پس میری حفاظت فرما اور میری مدد فرما اور مجھ پر رحم فرما.۶.میں تیری حفاظت کروں گا.۷.میں ان پر نگران ہوں.۹.کوئی نفس اذن الٰہی کے بغیر مر نہیں سکتا.۳ (ترجمہ) ۱.مجھ سے دعا مانگ مَیں قبول کروں گا.۲.مَیں فوجوں سمیت تیرے پاس اچانک آؤں گا.(بدر مورخہ۱۲ ؍ جولائی ۱۹۰۶ء صفحہ ۲) ۴ (ترجمہ از مرتّب) میرے حضور دعا کرو مَیں تمہاری دعا قبول کروں گا.
تب معاً دعا کے بعد مجھے کشفی حالت میں معلوم ہوا کہ اس کے بستر پر چوہوں کی شکل پر بہت سے جانور پڑے ہیں اور وہ اُس کو کاٹ رہے ہیں اور ایک شخص اُٹھا اور اُس نے تمام وہ جانور اکٹھے کرکے ایک چادر میں باندھ دیئے اور کہا اِس کو باہر پھینک آؤ اور پھر وہ کشفی حالت جاتی رہی اور مَیں نہیں جانتا کہ پہلے وہ کشفی حالت دُور ہوئی یا پہلے مرض دُور ہوگئی اور لڑکا آرام سے فجر تک سویا رہا.‘‘ (حقیقۃ الوحی۱؎.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۰، ۹۱ حاشیہ) ۱۰؍جولائی ۱۹۰۶ء ’’۱.دیکھ مَیں آسمان سے تیرے لئے برساؤں گا اور زمین سے نکالوں گا پر وہ جو تیرے مخالف ہیں پکڑے جائیں گے.۲.صحن میں ندیاں چلیں گی اور سخت زلزلے آئیں گے.۳.یَـاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ.۴.یَـاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ.۵.وَ اُلْقِیَ بِہِ الرُّعْبُ الْعَظِیْمُ.۶.وَیْلٌ لِّکُلِّ ھُمَزَۃٍ لُّمَزَۃٍ.۷.سَاُکْرِمُکَ اِکْرَامًا عَـجَبًا.۸.دنیاکی بھی کامیابی ہوجائے گی اور آخرت بھی کی کامیابی ہوجائے گی.۹.ھَلْ اَتَـاکَ حَدِیْثُ الزَّلْزَلَۃِ مِنْ طُلُوْعِ الشَّمْسِ.۱۰.تَـأْتِیْ عَلَیْـھِمْ اَیَّـامٌ مُّبَارَکٌ.ثُمَّ یَکْنِزُوْنَ لَھُمْ وَ یَکْثُرُ دُنْیَاھُمْ وَ مَا عَلَیْـھَا فَتَنْزِلُ عَلَیْـھِمُ الْمَصَآئِبُ وَلَا یَضُـرُّھُمُ اللہُ اِلٰی حَیَاتِکُمْ.‘‘۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۰۵، ۲۰۴) ۱ (نوٹ از سید عبد الحی) بدر مورخہ ۱۲ ؍ جولائی ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ والحکم مورخہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ پر یہ الہام مورخہ ۸؍ جون ۱۹۰۶ء کا لکھا گیا ہے جو درست نہیں.صحیح تاریخ ۸؍ جولائی ۱۹۰۶ء ہے جو حقیقۃ الوحی میں درج ہے.۲ (ترجمہ از ناشر) ۳.لوگ دور دراز سے تیرے پاس آئیں گے.۴.تیرے پاس دور دور سے ھدایا آئیں گے.۵.اور اس کے ذریعہ ان کے دلوںمیں رعب عظیم ڈال دیا گیا.۶.ہلاکت ہو ہر غیبت کرنے والے سخت عیب جُو کے لئے.۷.میں تجھے ایسی بزرگی دوں گا جس سے لوگ تعجب میں پڑیں گے.۹.کیا تجھے زلزلہ کی پیشگوئی خدا تعالیٰ سے نہیں پہنچی جو طلوع شمس سے شروع ہوگا یا طلوع شمس سے اس کے غلبہ اور شدت کا ظہور ہوگا.۱۰.ان پر بابرکت ایام آئیں گے جن میں وہ اپنے لئے غلّہ جمع کریں گے اور ان کے لئے اور جو کچھ دنیا میں ہے اس کے لئے دنیوی مال و منال بہت ہوجائے گا پھر ان پر مصائب نازل ہوں گے مگر تمہاری ہوتے ہوئے یعنی تمہاری زندگی میں خدا انہیں ضرر نہیں پہنچائے گا.
۱۹۰۶ء ’’ یَـا اَحْـمَدُ بَـارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی اے احمد خدا نے تجھ میں برکت رکھ دی ہے.جو کچھ تُو نے چلایا وہ تُونے نہیں چلایا بلکہ خدا نے چلایا.اَلرَّحْـمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ.لِتُنْذِ رَ قَوْمًا مَّآ اُ نْذِ رَ اٰبَـآؤُھُمْ وَ لِتَسْتَبِیْنَ خدا نے تجھے قرآن سکھلایا یعنی اس کے صحیح معنے تجھ پر ظاہر کئے تاکہ تُو اُن لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے ڈرائے نہیں گئے اور تاکہ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ.قُلْ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ وَاَنَـا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ.مجرموں کی راہ کھل جائے یعنی معلوم ہوجائے کہ کون تجھ سے برگشتہ ہوتا ہے.کہہ مَیں خدا کی طرف سے مامور ہوں اور مَیں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں.قُلْ جَآءَ الْـحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ.اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا.کُلُّ بَرَکَۃٍ مِّنْ مُّـحَمَّدٍ کہہ حق آیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل بھاگنے والا ہی تھا.ہر ایک برکت محمد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ.فَتَبَارَکَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ.وَقَالُوْا اِنْ ھٰذَا صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے.پس بڑا مبارک وہ ہے جس نے تعلیم دی اور جس نے تعلیم پائی.اور کہیں گے کہ یہ اِلَّا اخْتِلَاقٌ.قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ.قُلْ وحی نہیں ہے یہ کلمات تو اپنی طرف سے بنائے ہیں.اُن کو کہہ وہ خدا ہے جس نے یہ کلمات نازل کئے پھر ان کو لہو و لعب کے خیالات میں چھوڑ دے.ان کو کہہ اِنِ افْتَرَیْتُہٗ فَعَلَـیَّ اِجْرَامٌ شَدِیْدٌ.وَ مَنْ اَظْلَمُ مِـمَّنِ افْتَرٰی اگر یہ کلمات میرا اِفترا ہے اور خدا کا کلام نہیں تو پھر مَیں سخت سزا کے لائق ہُوں اور اُس انسان سے زیادہ تر کون ظالم ہے عَلَی اللّٰہِ کَذِ.بًـا.ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِـالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْـحَقِّ جس نے خدا پر افترا کیا اور جھوٹ باندھا.خدا وہ خدا ہے جس نے اپنا رسول اور اپنا فرستادہ اپنی ہدایت اور سچّے دین کے ساتھ بھیجا.لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِہٖ.لَا مُبَدِّ.لَ لِکَلِمٰتِہٖ.یَقُوْلُوْنَ اَنّٰی لَکَ تا اُس دین کو ہر قسم کے دین پر غالب کرے.خدا کی باتیں پُوری ہوکر رہتی ہیں کوئی اُن کو بدل نہیں سکتا.اور لوگ کہیں گے کہ ھٰذَا اِنْ ھٰذَا اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ.وَاَعَانَہٗ عَلَیْہِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ.یہ مقام تجھے کہاں سے حاصل ہوا ؟ یہ جو الہام کرکے بیان کیا جاتا ہے یہ تو انسان کا قول ہے اور دوسروں کی مدد سے بنایا گیا ہے.اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِـرُوْنَ.ھَیْـھَاتَ ھَیْـھَاتَ لِمَا تُوْعَدُ.وْنَ.اے لوگو! کیا تم ایک فریب میں دیدہ و دانستہ پھنستے ہو؟ جو کچھ تمہیں یہ شخص وعدہ دیتا ہے اس کا ہونا کب ممکن ہے.
مِنْ ھٰذَا الَّذِیْ ھُـوَ مَــھِیْنٌ جَـاھِـلٌ اَوْ مَـجْنُوْنٌ.قُــلْ عِــنْدِیْ پھر ایسے شخص کا وعدہ جو حقیر اور ذلیل ہے یہ تو جاہل ہے یا دیوانہ ہے جو بے ٹھکانے باتیں کرتا ہے ان کو کہہ کہ میرے پاس شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ.قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ خدا کی گواہی ہے پس کیا قبول کرو گے یا نہیں ؟ پھر ان کو کہہ کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے.فَھَلْ اَنْتُمْ مُّؤْمِنُوْنَ.وَ لَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُـمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ.ھٰذَا پس کیا تم ایمان لاؤ گے یا نہیں ؟ اور مَیں پہلے اس سے ایک مدت تک تم میں ہی رہتا تھا کیا تم سمجھتے نہیں ؟ یہ مِنْ رَّحْـمَۃِ رَبِّکَ یُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ.فَبَشِّـرْ.وَ مَا اَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ مرتبہ تیرے رَبّ کی رحمت سے ہے وہ اپنی نعمت تیرے پر پُوری کرے گا.پس تُو خوشخبری دے اور خدا کے فضل سے تُو بِـمَجْنُوْنٍ.لَکَ دَرَجَۃٌ فِی السَّمَآءِ وَ فِی الَّذِیْنَ ھُمْ یُبْصِـرُوْنَ.وَ لَکَ دیوانہ نہیں ہے.تیرا آسمان پر ایک درجہ اور ایک مرتبہ ہے اور نیز اُن لوگوں کی نگاہ میں جو دیکھتے ہیں.اور تیرے لئے نُرِیْ اٰیَـاتٍ وَّ نَـھْدِ.مُ مَا یَعْمُرُوْنَ.اَلْـحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ جَعَلَکَ الْمَسِیْحَ ہم نشان دکھائیں گے اور جو عمارتیں بناتے ہیں ہم ڈھادیں گے.اُس خدا کی تعریف ہے جس نے تجھے مسیح ابْـنَ مَرْیَمَ.لَا یُسْئَلُ عَـمَّا یَفْعَلُ وَ ھُمْ یُسْئَلُوْنَ.۱؎.وَ قَالُوْا اَ تَـجْعَلُ ابنِ مریم بنایا.وہ اُن کاموں سے پوچھا نہیں جاتا جو کرتا ہے اور لوگ اپنے کاموں سے پوچھے جاتے ہیں اور انہوں نے کہا کہ کیا تُو ایسے ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’ خدا تعالیٰ کا پاک کلام جو میری کتاب براہین احمدیہ۲؎ کے بعض مقامات میں لکھا گیا ہے، اس میں خدا تعالیٰ نے تبصریح ذکر کر دیا ہے کہ کِس طرح اُس نے مجھے عیسیٰ بن مریم ٹھہرایا.اِس کتاب میں پہلے خدا نے میرا نام مریم رکھا اور بعد اس کے ظاہر کیا کہ اس مریم میں خدا کی طرف سے رُوح پھونکی گئی اور پھر فرمایا کہ رُوح پھونکنے کے بعد مریمی مرتبہ عیسوی مرتبہ کی طرف منتقل ہوگیا اور اِس طرح مریم سے عیسیٰ پیدا ہوکر ابنِ مریم کہلایا.پھر دوسرے مقام میں اِسی مرتبہ کے متعلق فرمایا.فَاَجَآءَہُ الْمَخَاضُ اِلٰی جِذْعِ النَّخْلَۃِ قَالَ یَالَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ھٰذَا وَکُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا.اِس جگہ خدا تعالیٰ ایک استعارہ کے رنگ میں فرماتا ہے کہ جب اس مامور میں مریمی مرتبہ سے عیسوی مرتبہ کا تولّد ہوا اور اس لحاظ سے یہ مامور ابنِ مریم بننے لگا.تو تبلیغ کی ضرورت جو دَردِزِہ سے مشابہت رکھتی ہے ۲ یعنی براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۹۰، ۵۹۱ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳ اور صفحہ ۶۶۴، ۶۶۵ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۴.(ناشر)
فِیْـھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْـھَا قَالَ اِنِّیْ اَعْلَمُ مَا لَاتَعْلَمُوْنَ.اِنِّیْ مُھِیْنٌ شخص کو خلیفہ بناتا ہے جو زمین پر فساد کرتا ہے.اُس نے کہا کہ اس کی نسبت جو کچھ مَیں جانتا ہوں تم نہیں جانتے.مَیں اُس شخص کی اہانت مَّنْ اَرَادَ اِھَانَـتَکَ.اِنِّیْ لَا یَـخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَ.کَتَبَ اللّٰہُ کروں گا جو تیری اِہانت کا ارادہ کرے گا.میرے قُرب میں میرے رسول کسی دشمن سے نہیں ڈرا کرتے.خدا نے لکھ چھوڑا ہے لَاَغْلِبَنَّ اَنَـا وَ رُسُلِیْ.۱؎ وَ ھُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِـھِمْ سَیَغْلِبُوْنَ.اِنَّ اللّٰہَ کہ مَیں اور میرے رسول غالب رہیں گے اور وہ مغلوب ہونے کے بعد جلد غالب ہوجائیں گے.خدا اُن کے مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ ھُمْ مُّـحْسِنُوْنَ.اُرِیْکَ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ.ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور وہ جو نکو کار ہیں.قیامت کے مشابہ ایک زلزلہ آنے والا ہے جو تمہیں دکھاؤں گا اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ وَ امْتَازُوا الْیَوْمَ اَیُّـھَا الْمُجْرِمُوْنَ.جَآءَ الْـحَقُّ اور مَیں ہر ایک کو جو اِس گھر میں ہے نگہ رکھوں گا.اے مجرمو! آج تم الگ ہوجاؤ.حق آیا وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ ھٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْـجِلُوْنَ.بِشَارَۃٌ تَلَقَّاھَا النَّبِیُّونَ.اور باطل بھاگ گیا.یہ وہی ہے جس کے بارے میں تم جلدی کرتے تھے.یہ وہ بشارت ہے جو نبیوں کو ملی تھی.اَنْتَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّکَ.کَفَیْنَاکَ الْمُسْتَھْزِئِیْنَ.ھَلْ اُنَبِّئُکُمْ تُو خدا کی طرف سے کھلی کھلی دلیل کے ساتھ ظاہر ہوا ہے.وہ لوگ جو تیرے پر ہنسی ٹھٹھا کرتے ہیں اُن کے لئے ہم کافی ہیں.کیا مَیں تمہیں بقیہ حاشیہ.اس کو اُمّت کی خشک جڑھ کے سامنے لائی.جس میں فہم اور تقویٰ کا پھل نہیں تھا اور وہ تیار تھے کہ ایسا دعویٰ سن کر اِفتراء کی تہمتیں لگاویں اور دُکھ دیں اور طرح طرح کی باتیں اُس کے حق میں کریں.تب اُس نے اپنے دِل میں کہا کہ کاش مَیں پہلے اس سے مَر جاتا اور ایسا بھولا بسرا ہوجاتا کہ کوئی میرے نام سے واقف نہ ہوتا.منہ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۷۵ حاشیہ) ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’اِس وحیِ الٰہی میں خدا نے میرا نام رُسُل رکھا کیونکہ جیسا کہ براہین احمدیہ میں لکھا گیا ہے خدا تعالیٰ نے مجھے تمام انبیاء علیہم السلام کا مظہر ٹھہرایا ہے اور تمام نبیوں کے نام میری طرف منسوب کئے ہیں.مَیں آدم ہوں.مَیں شیث ہوں.مَیں نوح ہوں.مَیں ابراہیم ہوں.مَیں اسحٰق ہوں.مَیں اسمٰعیل ہوں.مَیں یعقوب ہوں.مَیں یوسف ہوں.مَیں موسیٰ ہوں.مَیں داؤد ہوں.مَیں عیسیٰ ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کا مَیں مظہرِ اَتم ہوں.یعنی ظِلّی طور پر محمّدؐ اور احمد ؐ ہوں.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۷۶حاشیہ
عَلٰی مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰطِیْنُ.تَنَـزَّلُ عَلٰی کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍ.وَلَا تَیْئَسْ بتلاؤں کہ کن لوگوں پر شیطان اُترا کرتے ہیں.ہر ایک کذّاب بدکار پر شیطان اُترتے ہیں.اور تُو خدا کی رحمت سے مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ.اَ لَا اِنَّ رَوْحَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ.اَ لَا اِنَّ نَصْـرَاللّٰہِ قَرِیْبٌ.یَـاْتِیْکَ نو مید مت ہو.خبردار ہو کہ خدا کی رحمت قریب ہے.خبردار ہو کہ خدا کی مدد قریب ہے.وہ مدد ہر ایک دُور مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ.یَـاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ.یَنْصُـرُکَ اللّٰہُ مِنْ عِنْدِ.ہٖ.کی راہ سے تجھے پہنچے گی اور ایسی راہوں سے پہنچے گی کہ وہ راہ لوگوں کے بہت چلنے سے جو تیری طرف آئیں گے گہرے ہوجائیں گے.اِس کثرت سے یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُّـوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآءِ.لَا مُبَدِّ لَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ.لوگ تیری طرف آئیں گے کہ جن راہوں پر وہ چلیں گے وہ عمیق ہوجائیں گے.خدا اپنی طرف سے تیری مدد کرے گا.تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں قَالَ رَبُّکَ اِنَّہٗ نَـازِلٌ مِّنَ السَّمَآءِ مَا یُـرْضِیْکَ.اِنَّـا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے.خدا کی باتیں ٹل نہیں سکتیں.تیرا ربّ فرماتا ہے کہ ایک ایسا امر آسمان سے نازل ہوگا جس سے تُو خوش ہوجائے گا.ہم مُّبِیْنًا.فَتْحُ الْوَلِیِّ فَتْحٌ وَّ قَـرَّبْنَاہُ نَـجِّیًّا.اَشْـجَـعُ النَّاسِ.وَ لَوْ کَانَ ایک کُھلی کُھلی فتح تجھ کو عطا کریں گے ولی کی فتح ایک بڑی فتح ہے اور ہم نے اس کو ایک ایسا قُرب بخشا کہ ہمراز اپنا بنادیا.وہ تمام لوگوں سے زیادہ الْاِیْـمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّـرَیَّـا لَنَالَہٗ.اَنَـارَ اللّٰہُ بُرْھَانَہٗ.کُنْتُ کَنْزًا بہادر ہے.اور اگر ایمان ثریّا سے معلّق ہوتا تو وہ وہیں جاکر اُس کو لے لیتا.خدا اُس کی حجّت روشن کرے گا.مَیں ایک خزانہ مَّـخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ.یَـا قَـمَرُ یَا شَـمْسُ اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَـا پوشیدہ تھا پس مَیں نے چاہا کہ ظاہر کیا جاؤں.اے چانداور اے سورج ! تُو مجھ سے ظاہر ہوا اور میں مِنْکَ.اِذَا جَآءَ نَصْـرُ اللّٰہِ وَانْتَھٰی اَمْرُ الزَّمَانِ اِلَیْنَا وَ تَـمَّتْ کَلِمَۃُ تجھ سے.جب خدا کی مدد آئے گی اور زمانہ ہماری طرف رجوع کرے گا تب کہا جائے گا کہ کیا یہ شخص جو بھیجا رَبِّکَ۱؎.اَلَیْسَ ھٰذَا بِـالْـحَقِّ.وَ لَا تُصَعِّرْ لِـخَلْقِ اللّٰہِ وَ لَا تَـسْئَمْ گیا حق پر نہ تھا ؟ اور چاہیےکہ تُو مخلوقِ الٰہی کے ملنے کے وقت چیں بر جبیں نہ ہو، اور چاہیےکہ تُو لوگوں کی کثرتِ ملاقات سے تھک ۱ (ترجمہ از مرتّب) ’’ وَ تَـمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ.اور خدا کا وعدہ پورا ہوگا.‘‘
مِّنَ النَّاسِ.وَ وَسِّعْ مَکَانَکَ وَ بَشِّـرِالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنَّ لَھُمْ قَدَ.مَ نہ جائے اور تجھے لازم ہے کہ اپنے مکانوں کو وسیع کرے تا لوگ جو کثرت سے آئیں گے ان کو اُترنے کے لئے کافی گنجائش ہو اور ایمان والوں کو صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّـھِمْ وَاتْلُ عَلَیْـھِمْ مَّا اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ.خوشخبری دے کہ خدا کے حضور میں ان کا قدم صدق پر ہے اور جو کچھ تیرے ربّ کی طرف سے تیرے پر وحی نازل کی گئی ہے وہ اُن لوگوں کو سنا جو اَصْـحَابُ الصُّفَّۃِ.وَ مَا اَدْرٰىكَ مَا اَصْـحٰبُ الصُّفَّۃِ.تَرٰی اَعْیُنَـھُمْ تیری جماعت میں داخل ہوں گے.صُفّہ کے رہنے والے اور تُو کیا جانتا ہے کہ کیا ہیں صُفّہ کے رہنے والے.تُو دیکھے گا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ.یُصَلُّوْنَ عَلَیْکَ.رَبَّنَا اِنَّنَا سَـمِعْنَا مُنَادِیًـا جاری ہوں گے.وہ تیرے پر درُود بھجیں گے اور کہیں گے کہ اے ہمارے خدا ہم نے ایک منادی کرنے والے یُّنَادِیْ لِلْاِیْـمَانِ.وَ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ وَ سِـرَاجًا مُّنِیْرًا.یَـا اَحْـمَدُ کی آواز سنی ہے جو ایمان کی طرف بُلاتا ہے اور خدا کی طرف بُلاتا ہے اور ایک چمکتا ہوا چراغ ہے.اے احمد! فَاضَتِ الرَّحْـمَۃُ عَلٰی شَفَتَیْکَ.اِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا.سَـمَّیْتُکَ الْمُتَوَکِّلَ.تیرے لبوں پر رحمت جاری کی گئی.تُو میری آنکھوں کے سامنے ہے.مَیں نے تیرا نام متوکل رکھا.یَـرْفَعُ اللّٰہُ ذِکْرَکَ.وَیُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ.بُـوْرِکْتَ خدا تیرا ذکر بلند کرے گا اور اپنی نعمت دُنیا اور آخرت میں تیرے پر پُوری کرے گا.اے احمد ! تُو یَـا اَحْـمَدُ.وَکَانَ مَا بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ حَقًّا فِیْکَ.شَاْنُکَ عَـجِیْبٌ وَّ اَجْرُکَ برکت دیا گیا اور جو کچھ تجھے برکت دی گئی وہ تیر اہی حق تھا.تیری شان عجیب ہے اور تیرا اَجر قَرِیْبٌ.اَ.لْاَرْضُ وَ السَّمَآءُ مَعَکَ کَمَا ھُوَ مَعِیْ.اَنْتَ وَجِیْہٌ فِیْ حَضْـرَتِیْ قریب ہے.آسمان اور زمین تیرے ساتھ ہیں جیسے کہ وہ میرے ساتھ ہیں.تُو میری درگاہ میں وجیہ ہے.اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ.سُـبْحَانَ اللّٰہِ تَـبَارَکَ وَ تَعَالٰی زَادَ مَـجْدَ.کَ.مَیں نے تجھے اپنے لئے چُنا.خدائے پاک بڑا برکتوں والا اور بڑا بزرگ ہے وہ تیری بزرگی کو زیادہ کرے گا.
یَنْقَطِعُ اٰبَآءُکَ وَ یُـبْدَءُ مِنْکَ.۱؎ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیَتْرُکَـکَ حَتّٰی تیرے باپ دادوں کا ذکر منقطع ہوجائے گا اور تیرے بعد سلسلہ خاندان کا تجھ سے شروع ہوگا.اور خدا ایسا نہیں کہ تجھ کو چھوڑ دے ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’یاد رہے کہ ظاہری بزرگی اور وجاہت کے لحاظ سے اِس خاکسار کا خاندان بہت شہرت رکھتا تھا بلکہ اِس زمانہ تک بھی اس خاندان کی دُنیوی شوکت زوال کے قریب قریب تھی.میرے دادا صاحب کے اِس نواح میں بیاسی گائوں اپنی ملکیت کے تھے اور پہلے اِس سے وہ والیانِ ملک کے رنگ میں بسر کرتے تھے اور کسی سلطنت کے ماتحت نہ تھے اور پھر رفتہ رفتہ حِکمت اور مشیّتِ ایزدی سے سکھوں کے زمانہ میں چند لڑائیوں کے بعد سب کچھ کھو بیٹھے اور صرف چھ۶ گاؤں ان کے قبضہ میں رہے اور پھر دو گاؤں اَور ہاتھ سے جاتے رہے اور صرف چار گاؤں رہ گئے اور اِس طرح پر دُنیوی شوکت جو کسی کے ساتھ وفا نہیں کرتی زوال پذیر ہوگئی.بہر حال یہ خاندان اِس نواح میں بہت شہرت رکھتا تھا مگر خدا تعالیٰ نے نہ چاہا کہ یہ عزت صرف دنیوی حیثیت تک محدود رہے کیونکہ دُنیا کی عزتوں کا بجز بے جا مشیخت اور تکبر اور غرور کے اور کوئی ماحصل نہیں اِس لئے اب خدا تعالیٰ اپنی پاک وحی میں وعدہ دیتا ہے اور مجھے مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ اَب یہ خاندان اپنا رنگ بدل لے گا اور اِس خاندان کا سلسلہ تم سے شروع ہوگا اور پہلا ذکر منقطع ہوجائے گا اور اِس وحیِ الٰہی میں کثرتِ نسل کی طرف بھی اشارہ ہے یعنی نسل بہت ہوجائے گی اور جیسا کہ بظاہر سمجھا گیا ہے یہ خاندان مغلیہ خاندان کے نام سے شہرت رکھتا ہے لیکن خدائے عالم الغیب نے جو دانائے حقیقت ِ حال ہے بار بار اپنی وحیِ مقدّس میں ظاہر فرمایا ہے جو یہ فارسی خاندان ہے اور مجھ کو ابناءِ فارس کرکے پکارا ہے جیسا کہ وہ میری نسبت فرماتا ہے اِنَّ الَّذِیْنَ کَـفَرُوْا وَ صَدُّ وْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ رَدَّ عَلَیْھِمْ رَجُلٌ مِّنْ فَارِسَ شَکَرَاللّٰہُ سَعْیَہٗ.یعنی جو لوگ کافر ہوکر خدا تعالیٰ کی راہ سے روکتے ہیں ایک فارسی الاصل نے ان کا رَدّ لکھا ہے خدا اس کی اس کوشش کا شکر گذار ہے.پھر وہ ایک اَور وحی میں میری نسبت فرماتا ہے لَوْکَانَ الْاِیْـمَانُ مُعَلَّقًا بِـالثُّـرَیَّـا لَنَالَہٗ رَجُلٌ مِّنْ فَارِسَ.یعنی اگر ایمان ثریّا کے ساتھ معلّق ہوتا تو ایک فارسی الاصل انسان وہاں بھی اُس کو پالیتا.پھر اپنی ایک اَور وحی میں مجھ کو مخاطب کرکے فرماتا ہے خُذُ وا التَّوْحِیْدَ التَّوْحِیْدَ یَـا اَبْنَآءَ الْفَارِسِ.یعنی توحید کو پکڑو.توحید کو پکڑو اے فارس کے بیٹو.اِن تمام کلماتِ الٰہیہ سے ثابت ہے کہ اِس عاجز کا خاندان دراصل فارسی ہے نہ مُغلیہ.نہ معلوم کِس غلطی سے مغلیہ خاندان کے ساتھ مشہور ہوگیا اور جیسا کہ ہمیں اطلاع دی گئی ہے میرے خاندان کا شجرہ نَسب اِس طرح پر ہے کہ میرے والد کا نام میرزا غلام مرتضیٰ تھا اور اُن کے والد کا نام میرزا عطا محمد.میرزا عطا محمد کے والد کا نام میرزا گل محمد.میرزا گل محمد کے والد میرزا فیض محمد اور میرزا فیض محمد کے والد میرزا محمد قائم.میرزا محمد قائم کے والد میرزا محمد اسلم.میرزا محمد اسلم کے والد میرزا دلاور.میرزا دلاور کے والد میرزا الہ دین.میرزا الہ دین کے والد میرزا جعفر بیگ.میرزا جعفر بیگ کے والد
یَـمِیْـزَ الْـخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ.اِذَا جَآءَ نَصْـرُاللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَتَـمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ جب تک کہ پاک اور پلید میں فرق کرکے نہ دکھلاوے.اور جب خدا تعالیٰ کی مدد اور فتح آئے گی اور خدا کا وعدہ پُورا ہوگا ھٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ.اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَـخَلَقْتُ تب کہا جائے گا کہ یہ وہی امر ہے جس کے لئے تم جلدی کرتے تھے.مَیں نے ارادہ کیا کہ اپنا خلیفہ بناؤں سو مَیں نے اِس آدم کو اٰدَمَ.دَنٰی فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی.یُـحْیِ الدِّیْنَ وَ پیدا کیا.وہ خدا سے نزدیک ہوا پھر مخلوق کی طرف جھُکا اور خدا اور مخلوق کے درمیان ایسا ہوگیا جیسا کہ دو قوسوں کے درمیان کا خط ہوتا ہے.یُقِیْمُ الشَّـرِیْعَۃ.یَـا اٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْـجَنَّۃَ.یَـا مَرْیَمُ دین کو زندہ کرے گا اور شریعت کو قائم کرے گا.اے آدم تُو اور تیرے دوست بہشت میں داخل ہو.اے مریم اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْـجَنَّۃَ.یَا اَحْـمَدُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْـجَنَّۃَ.تُو اور تیرے دوست بہشت میں داخل ہو.اے احمد! تُو اور تیرے دوست بہشت میں داخل ہو.نُصِـرْتَ وَ قَالُوْا لَاتَ حِیْنَ مَنَاصٍ.اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ صَدُّوْا عَنْ تجھے مدد دی جائے گی اور مخالف کہیں گے کہ اب گریز کی جگہ نہیں.وہ لوگ جو کافر ہوئے اور خدا کے بقیہ حاشیہ.میرزا محمد بیگ.میرزا محمدبیگ کے والد میرزا عبدالباقی.میرزا عبدالباقی کے والد میرزا محمد سلطان.میرزا محمد سلطان کے والد میرزا ہادی بیگ.معلوم ہوتا ہے کہ میرزا اور بیگ کا لفظ کسی زمانہ میں بطور خطاب کے ان کو ملا تھا جس طرح خان کا نام بطور خطاب دیا جاتا ہے.بہرحال جو کچھ خدا نے ظاہر فرمایا ہے وہی درست ہے.انسان ایک ادنیٰ سی لغزش سے غلطی میں پڑ سکتا ہے مگر خدا سہو اور غلطی سے پاک ہے.۱؎ منہ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۷۹ تا ۸۱ حاشیہ) ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’میرے خاندان کی نسبت ایک اَور وحیِ الٰہی ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا میری نسبت فرماتا ہے سَلْمَانُ مِنَّا اَھْلَ الْبَیْتِ (ترجمہ) سلمان یعنی یہ عاجز جو دو صلح کی بنیاد ڈالتا ہے ہم میں سے ہے جو اہلِ بَیت ہیں.یہ وحیِ الٰہی اس مشہور واقعہ کی تصدیق کرتی ہے جو بعض دادیاں اِس عاجز کی سادات میں سے تھیں اور دو صلح سے مراد یہ ہے کہ خدا نے ارادہ کیا ہے کہ ایک صلح میرے ہاتھ سے اور میرے ذریعہ سے اسلام کی اندرونی فرقوں میں ہوگی اور بہت کچھ تفرقہ اُٹھ جائے گا اور دوسری صلح اسلام کے بیرونی دشمنوں کے ساتھ ہوگی کہ بہتوں کو اسلام کی حقانیت کی سمجھ دی جائے گی اور وہ اسلام میں داخل ہوجائیں گے تب خاتمہ ہوگا.منہ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۸۱حاشیہ در حاشیہ)
سَبِیْلِ اللّٰہِ رَدَّ عَلَیْھِمْ رَجُلٌ مِّنْ فَارِسَ.شَکَرَ اللّٰہُ سَعْیَہٗ.اَمْ راہ کے مانع ہوئے ان کا ایک فارسی الاصل آدمی نے رَدّ کیا.خدا اس کی کوشش کا شکر گذار ہے.کیا یَقُوْلُوْنَ نَـحْنُ جَـمِیْعٌ مُّنْتَصِـرٌ.سَیُــھْزَمُ الْـجَمْعُ وَ یُـوَلُّوْنَ الدُّ.بُـرَ.یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایک زبردست جماعت تباہ کرنے والے ہیں.یہ سب لوگ بھاگ جائیں گے اور پیٹھ پھیر لیں گے.اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ.وَ اِنَّ عَلَیْکَ رَحْـمَتِیْ فِی الدُّنْیَا وَالدِّیْنِ.تُو ہمارے نزدیک آج صاحب ِ مرتبہ امین ہے اور تیرے پر میری رحمت دُنیا اور دین میں ہے.وَ اِنَّکَ مِنَ الْمَنْصُوْرِیْنَ.یَحْمَدُکَ اللّٰہُ وَ یَـمْشِیْ اِلَیْکَ.سُـبْحَانَ الَّذِیْ اور تُو اُن لوگوں میں سے ہے جن کے شامل نصرتِ الٰہی ہوتی ہے.خدا تیری تعریف کرتا ہے اور تیری طرف چل رہا ہے.وہ پاک ذات وہی خدا ہے اَسْـرٰی بَعَبْدِہٖ لَیْلًا.خَلَقَ اٰدَمَ فَاَکْرَمَہٗ.جَرِیُّ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ ۱؎ جس نے ایک رات میں تجھے سیر کرادیا.اُس نے اِس آدم کو پَیدا کیا اور پھر اُس کو عزت دی.یہ رسولِ خدا ہے تمام نبیوں کے پیرایہ میں یعنی ہر ایک الْاَ.نْبِیَآءِ.بُشْـرٰی لَکَ یَآ اَحْـمَدِیْ اَنْتَ مُرَادِیْ وَ مَعِیْ.سِـرُّکَ نبی کی ایک خاص صفت اِس میں موجود ہے.تجھے بشارت ہو اے میرے احمد ! تُو میری مُراد اور میرے ساتھ ہے.تیرا بھید سِـرِّیْ.اِنِّیْ نَاصِـرُکَ.اِنِّیْ حَافِظُکَ.اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا.میرا بھید ہے.مَیں تیری مدد کروں گا.مَیں تیرا نگہبان رہوں گا.مَیں لوگوں کے لئے تجھے امام بناؤں گا تُو ان کا رہبر ہوگا اور وہ تیرے اَ کَانَ لِلنَّاسِ عَـجَبًا.قُلْ ھُوَ اللّٰہُ عَـجِیْبٌ.لَایُسْئَلُ عَـمَّا یَفْعَلُ پَیرو ہوں گے.کیا ان لوگوں کو تعجب آیا؟ کہہ خدا ذو العجائب ہے.وہ اپنے کاموں سے پُوچھا نہیں جاتا وَ ھُمْ یُسْئَلُوْنَ.وَ تِلْکَ الْاَیَّـامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ.وَ قَالُوْا اِنْ ھٰذَا اور لوگ پُوچھے جاتے ہیں اور یہ دن ہم لوگوں میں پھیرتے رہتے ہیں.اور کہیں گے کہ یہ تو صرف ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’اِس وحیِ الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ آدم سے لے کر اَخِیرتک جس قدر انبیاء علیہم السلام خدا تعالیٰ کی طرف سے دُنیا میں آئے ہیں خواہ وہ اسرائیلی ہیں یا غیر اسرائیلی اُن سب کے خاص واقعات یا خاص صفات میں سے اِس عاجز کو کچھ حصّہ دیا گیا ہے اور ایک بھی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے خواص یا واقعات میں سے اِس عاجز کو حصّہ نہیں دیا گیا.ہر ایک نبی کی فطرت کا نقش میری فطرت میں ہے.اسی پر خدا نے مجھے اطلاع دی.‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ ۱۱۶)
اِلَّا اخْتِلَاقٌ.قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُـحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُـحْبِبْکُمُ اللّٰہُ.ایک بناوٹ ہے.کہہ اگر تم خدا سے محبّت رکھتے ہو تو آؤ میری پَیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبّت رکھے.اِذَا نَصَـرَ اللّٰہُ الْمُؤْمِنَ جَعَلَ لَہُ الْـحَاسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ.وَلَا رَآ.دَّ جب خدا تعالیٰ مومن کی مدد کرتا ہے تو زمین پر اس کے کئی حاسد مقرر کردیتا ہے اور اُس کے فضل کو کوئی رَدّ لِفَضْلِہٖ.فَالنَّارُ مَوْعِدُ.ھُمْ.قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ نہیں کرسکتا.پس جہنّم اُن کے وعدہ کی جگہ ہے.کہہ خدا نے یہ کلام اُتارا ہے.پھر ان کولہو و لعب کے خیالات یَلْعَبُوْنَ.وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا کَمَا اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْا اَنُـؤْمِنُ کَمَا میں چھوڑدے اور جب اُن کو کہا جائے کہ ایمان لاؤ جیسا کہ لوگ ایمان لائے کہتے ہیں کیا ہم بیوقوفوں کی اٰمَنَ السُّفَھَآءُ.اَ لَا اِنَّـھُمْ ھُمُ السُّفَھَآءُ وَلٰکِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ.وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ طرح ایمان لائیں.خبردار ہو کہ درحقیقت وہی لوگ بیوقوف ہیں مگر اپنی نادانی پر مطّلع نہیں.اور جب اُن کو کہا جائے لَا تُفْسِدُ وْا فِی الْاَرْضِ.قَالُوْا اِنَّـمَا نَـحْنُ مُصْلِحُوْنَ.قُلْ جَآءَکُمْ نُـوْرٌ مِّنَ اللّٰہِ کہ زمین پر فساد مت کرو کہتے ہیں کہ بلکہ ہم اصلاح کرنے والے ہیں.کہہ تمہارے پاس خدا کا نور آیا ہے.فَلَا تَکْفُرُوْا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ.اَمْ تَسْئَلُھُمْ مِّنْ خَرْجٍ فَھُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ پس اگر مومن ہو تو انکار مت کرو.کیا تُو ان سے کچھ خراج مانگتا ہے پس وہ اس چَٹّی کی وجہ سے ایمان لانے کا بوجھ مُّثْقَلُوْنَ.بَلْ اَتَیْنٰھُمْ بِالْـحَقِّ فَھُمْ لِلْـحَقِّ کَارِھُوْنَ.تَلَـطَّفْ بِالنَّاسِ اُٹھا نہیں سکتے بلکہ ہم نے اُن کو حق دیا اور وہ حق لینے سے کراہت کرتے ہیں.لوگوں کے ساتھ لُطف وَ تَـرَحَّـمْ عَلَیْھِمْ.اَنْتَ فِیْھِمْ بِـمَنْزِلَۃِ مُوْسٰی.وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ.اور رحم کے ساتھ پیش آ.تُو ان میں بمنزلہ موسیٰ کے ہے اور ان کی باتوں پر صبر کر.لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَ لَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ.لَا تَقْفُ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ.کیا تُو اِس لئے اپنے تئیں ہلاک کرے گا کہ وہ کیوں ایمان نہیں لاتے.اُس بات کے پیچھے مت پڑ جس کا تجھے علم نہیں.وَ لَا تُـخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اِنَّـھُمْ مُّغْرَقُوْنَ.وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا اور ان لوگوں کے بارہ میں جو ظالم ہیں مجھ سے گفتگو مت کر کیونکہ وہ سب غرق کئے جائیں گے.اور ہماری آنکھوں کے روبرو کشتی تیار کر
وَ وَحِیْنَا.اِنَّ الَّذِیْنَ یُـبَایِعُوْنَکَ اِنَّـمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ.یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِ یْـھِمْ.اور ہمارے اشارے سے.وہ لوگ جو تیرے ہاتھ میں ہاتھ دیتے ہیں وہ خدا کے ہاتھ میں ہاتھ دیتے ہیں.یہ خدا کا ہاتھ ہے جو ان کے ہاتھوں وَ اِذْ یَـمْکُرُ بِکَ الَّذِیْ کَـفَّرَ۱؎.اَوْقِدْ لِیْ یَـا ھَامَانُ لَعَلِّیْ اَطَّلِعُ عَلٰی پر ہے اور یاد کر وہ وقت جب تجھ سے وہ شخص مَکر کرنے لگا جس نے تیری تکفیر کی اور تجھے کافر ٹھیرایا اور کہا کہ اے ہامان میرے لئے آگ بھڑکا تا مَیں اِلٰہِ مُوْسٰی.وَ اِنِّیْ لَاَظُنُّہٗ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ.تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَھَبٍ موسیٰ کے خدا پر اطلاع پاؤں.اور مَیں اُس کو جھوٹا سمجھتا ہوں.ہلاک ہوگئے دونوں ہاتھ ابی لہب کے وَّ تَبَّ۲؎.مَا کَانَ لَہٗ اَنْ یَّدْخُلَ فِیْـھَا اِلَّا خَآئِفًا.وَ مَا اَصَا بَکَ فَـمِنَ اللّٰہِ.اور وہ آپ بھی ہلاک ہوگیا اُس کو نہیں چاہیےتھا کہ اس معاملہ میں دخل دیتا مگر ڈرتے ڈرتے.اور جو کچھ تجھے رنج پہنچے گا وہ تو خدا کی اَلْفِتْنَۃُ ھٰھُنَا.فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ.اَلَا اِنَّـھَا فِتْنَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ.طرف سے ہے.اس جگہ ایک فتنہ برپا ہوگا.پس صبر کر جیسا کہ اولو العزم نبیوں نے صبر کیا.وہ فتنہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوگا.لِیُحِبَّ حُبًّا جَـمًّا.حُبًّا مِّنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْاَکْرَمِ.شَاتَانِ تُذْ بَـحَانِ.وَکُلُّ مَنْ تا وہ تجھ سے محبّت کرے.وہ اس خدا کی محبّت ہے جو بہت غالب اور بزرگ ہے.دو بکریاں ذبح کی جائیں گی.اور ہر ایک عَلَیْھَا فَانٍ.وَ لَا تَـھِنُوْا وَ لَا تَـحْزَنُوْا.اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ.اَلَمْ تَعْلَمْ جو زمین پر ہے آخر وہ فنا ہوگا.تم کچھ غم مت کرو اور اندوہ گیں مت ہو.کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ؟ کیا تُو نہیں جانتا اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍقَدِ.یْرٌ.وَ اِنْ یَّتَّخِذُ.وْنَکَ اِلَّا ھُزُوًا.اَھٰذَا الَّذِیْ کہ خدا ہر ایک چیز پر قادر ہے.اور تجھے اُنہوں نے ٹھٹھے کی جگہ بنا رکھا ہے.وہ ہنسی کی راہ سے کہتے ہیں کیا یہی ہے ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’ مکفّر سے مراد مولوی ابو سعید محمد حسین بٹالوی ہے.کیونکہ اس نے استفتاء لکھ کر نذیر حسین کے سامنے پیش کیا اور اس ملک میں تکفیر کی آگ بھڑکانے والا نذیر حسین ہی تھا.عَلَیْہِ مَا یَسْتَحِقُّہٗ.منہ‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۸۳) ۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’اِس جگہ ابو لہب سے مرا دایک دہلوی مولوی ہے جو فوت ہوچکا ہے اور یہ پیشگوئی ۲۵ برس کی ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے اور یہ اُس زمانہ میں شائع ہوچکی ہے جب میری نسبت تکفیر کا فتویٰ بھی ان مولویوں کی طرف سے نکلا تھا.تکفیر کے فتویٰ کا بانی بھی وہی دہلی کا مولوی تھا جس کا نام خدا تعالیٰ نے ابو لہب رکھا اور تکفیر سے ایک مدّت دراز پہلے یہ خبر دے دی جو براہین احمدیہ میں درج ہے.منہ ‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۸۴ حاشیہ)
بَعَثَ اللّٰہُ.قُلْ اِنَّـمَآ اَنَـا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰی اِلَیَّ اَنَّـمَا اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ.جس کو خدا نے مبعوث فرمایا؟ ان کو کہہ کہ مَیں تو ایک انسان ہوں.میری طرف یہ وحی ہوئی ہے کہ تمہارا ایک خدا ہے.وَ الْـخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ.لَا یَـمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ.قُلْ اِنَّ ھُدَی اللّٰہِ اور تمام بھلائی اور نیکی قرآن میں ہے کسی دوسری کتاب میں نہیں.اس کے اسرار تک وہی پہنچتے ہیں جو پاک دل ہیں.کہہ ہدایت ھُوَ الْھُدٰی.وَ قَالُوْا لَوْ لَا نُـزِّلَ عَلٰی رَجُلٍ مِّنْ قَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ.۱؎ دراصل خدا کی ہدایت ہی ہے.اور کہیں گے کہ یہ وحیِ الٰہی کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہیں ہوئی جو دو شہروں میں سے کسی ایک شہر کا باشندہ وَ قَالُوْا اَنّٰی لَکَ ھٰذَا.اِنَّ ھٰذَا لَمَکْرٌ مَّکَرْتُـمُوْہُ فِی الْمَدِیْنَۃِ.یَنْظُرُوْنَ ہے.اور کہیں گے کہ تجھے یہ مرتبہ کہاں سے حاصل ہوگیا.یہ تو ایک مَکر ہے جو تم لوگوں نے مل کر بنایا.یہ لوگ تیری طرف دیکھتے ہیں اِلَیْکَ وَھُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ.قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُـحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُـحْبِبْکُمُ اللّٰہُ.مگر تُو انہیں دکھائی نہیں دیتا.ان کو کہہ کہ اگر تم خدا سے محبّت کرتے ہو تو آؤ میری پَیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبّت کرے.عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یَّـرْحَـمَکُمْ.وَاِنْ عُدْ تُّمْ عُدْ نَا.وَ جَعَلْنَا جَھَنَّمَ لِلْکَافِرِیْنَ خدا آیا ہے تا تم پر رحم کرے اور اگر تم پھر شرارت کی طرف عود کروگے تو ہم بھی عذاب دینے کی طرف عود کریں گے اور ہم نے جہنّم کو حَصِیْرًا.وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْـمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ.قُلِ اعْـمَلُوْا عَلٰی مَکَانَتِکُمْ کافروں کے لئے قید خانہ بنایا ہے.اور ہم نے تجھے تمام دُنیا پر رحمت کرنے کے لئے بھیجا ہے ان کو کہہ کہ تم اپنے مکانوں پر اپنے طور پر عمل کرو اِنِّیْ عَامِلٌ.فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ.لَا یُقْبَلُ عَـمَلٌ مِّثْقَالَ ذَ.رَّۃٍ مِّنْ اور مَیں اپنے طور پر عمل کررہا ہوں پھر تھوڑی دیر کے بعد تم دیکھ لو گے کہ کس کی خدا مدد کرتا ہے کوئی عمل بغیر تقویٰ کے ایک ذرّہ غَیْرِ التَّقْوٰی.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ ھُمْ مُّـحْسِنُوْنَ.قبول نہیں ہوسکتا.خدا ان کے ساتھ ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور ان کے ساتھ جو نیک کاموں میں مشغول ہیں ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’یعنی اِس شخص کو مہدی موعود ہونے کا دعویٰ ہے جو پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں قادیان کا رہنے والا ہے.کیوں مہدی معہود مکہ یا مدینہ میں مبعوث نہ ہوا جو سرزمینِ اسلام ہے.منہ ‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۸۵ حاشیہ)
قُلْ اِنِ افْتَـرَیْتُہٗ فَعَلَـیَّ اِجْرَامِیْ.وَ لَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُـمُرًا مِّنْ کہہ اگر مَیں نے اِفترا کیا ہے تو میری گردن پر میرا گناہ ہے.اور مَیں پہلے اِس سے ایک مدّت تک تم ہی میں رہتا قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ.اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَـبْدَ.ہٗ.وَ لِنَجْعَلَہٗ اٰیَۃً تھا کیا تم کو سمجھ نہیں؟ کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے.اور ہم اس کو لوگوں کے لئے لِّلنَّاسِ وَ رَحْـمَۃً مِّنَّا.وَ کَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا.قَوْلَ الْـحَقِّ الَّذِیْ فِیْہِ ایک نشان اور ایک نمونہءِ رحمت بنائیں گے اور یہ ابتداء سے مقدّر تھا.یہ وہی اَمر ہے جس میں تم تَـمْتَرُوْنَ.سَلَامٌ عَلَیْکَ.جُعِلْتَ مُبَارَکًا.اَنْتَ مُبَارَکٌ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ.شک کرتے تھے.تیرے پر سلام.تُو مبارک کیا گیا.تُو دُنیا اور آخرت میں مبارک ہے اَمْرَاضُ النَّاسِ وَ بَرَکَاتُہٗ.۱؎ بخرام کہ وقتِ تو نزدیک رسید و پائے مـحمدیاں تیرے ذریعہ سے مریضوں پر برکت نازل ہوگی.بر مَنار بلند تر محکم افتاد۲؎.پاک محمد مصطفیٰ نبیوں کا سردار.خدا تیرے سب کام درست کردے گا اور تیری ساری مُرادیں تجھے دے گا.ربّ الافواج اِس طرف توجہ کرے گا.اِس نشان کا مدّعا یہ ہے کہ قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے مُنہ کی باتیں ہیں.۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’یہ خدا کا قول کہ تیرے ذریعہ سے مریضوں پر برکت نازل ہوگی.روحانی اور جسمانی دونوں قِسم کے مریضوں پر مشتمل ہے.روحانی طور پر اِ س لئے کہ مَیں دیکھتا ہوں کہ میرے ہاتھ پر ہزار ہا لوگ بیعت کرنے والے ایسے ہیں کہ پہلے ان کی عملی حالتیں خراب تھیں اور پھر بیعت کرنے کے بعد اُن کے عملی حالات درست ہوگئے اور طرح طرح کے معاصی سے انہوں نے توبہ کی اور نماز کی پابندی اختیار کی اور مَیں صد ہا ایسے لوگ اپنی جماعت میں پاتا ہوں کہ جن کے دلوں میں یہ سوزش اور تپش پیدا ہوگئی ہے کہ کس طرح وہ جذباتِ نفسانیہ سے پاک ہوں اور جسمانی امراض کی نسبت مَیں نے بارہا مشاہدہ کیا ہے کہ اکثر خطرناک امراض والے میری دعا اور توجہ سے شفایاب ہوئے ہیں.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۸۶ ،۸۷ حاشیہ) ۲ (ترجمہ از مرتّب) خوش خوش چل کہ تیرا وقت نزدیک آپہنچا ہے اور محمدی گروہ کا پاؤں ایک بہت اُونچے مینار پر مضبوطی سے قائم ہوگیا ہے.
یَا عِیْسٰی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ.وَ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ اے عیسیٰ مَیں تجھے وفات دوں گا اور تجھے اپنی طرف اُٹھاؤں گا اور مَیں تیرے تابعین کو تیرے منکروں کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقَیٰمَۃِ.ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ.پر قیامت تک غالب رکھوں گا.ان میں سے ایک پہلا گروہ ہو اور ایک پچھلا.مَیں اپنی چمکار دکھلاؤں گا.اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اُٹھاؤں گا.دُنیا میں ایک نذیر آیا پر دُنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کردے گا.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَ تَفْرِیْدِیْ.فَـحَانَ تُو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید اور تفرید.پس وہ وقت آتا ہے اَنْ تُعَانَ وَ تُعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ عَرْشِیْ.اَنْتَ کہ تُو مدد دیا جائے گا اور دُنیا میں مشہور کیا جائے گا.تُو مجھ سے بمنزلہ میرے عرش کے ہے.تُو مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ وَلَدِیْ.۱؎ اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃٍ لَّا یَعْلَمُھَا الْـخَلْقُ.نَـحْنُ مجھ سے بمنزلہ میرے فرزند کے ہے.تُو مجھ سے بمنزلہ اُس انتہائی قُرب کے ہے جس کو دُنیا نہیں جان سکتی.ہم اَوْلِیَآءُکُمْ فِی الْـحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ.اِذَا غَضِبْتَ غَضِبْتُ.وَکُلَّمَا اَحْبَبْتَ تمہارے متولّی اور متکفّل دُنیا اور آخرت میں ہیں.جس پر تُو غضبناک ہو مَیں غضبناک ہوتا ہوں اور جن سے تُو محبّت کرے اَحْبَبْتُ.مَنْ عَادٰی وَلِیًّا لِّیْ فَقَدْ اٰذَنْتُہٗ لِلْـحَرْبِ.اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ.مَیں بھی محبّت کرتا ہوں.اور جو شخص میرے ولی سے دشمنی رکھے مَیں لڑنے کے لئے اُس کو متنبہ کرتا ہوں.مَیں اِس رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا.۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’خدا تعالیٰ بیٹوں سے پاک ہے اور یہ کلمہ بطور استعارہ کے ہے.چونکہ اس زمانہ میں ایسے ایسے الفاظ سے نادان عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ کو خدا ٹھہرا رکھا ہے اِس لئے مصلحت ِ الٰہی نے یہ چاہا کہ اِس سے بڑھ کر الفاظ اِس عاجز کے لئے استعمال کرے تا عیسائیوں کی آنکھیں کھلیں اور وہ سمجھیں کہ وہ الفاظ جن سے مسیح کو وہ خدا بناتے ہیں اِس اُمّت میں بھی ایک ہے جس کی نسبت اُس سے بڑھ کر ایسے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں.منہ ‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۸۹ حاشیہ )
وَ اَلُوْمُ مَنْ یَّلُوْمُ.وَ اُعْطِیْکَ مَا یَدُ وْمُ.یَاْتِیْکَ الْفَرَجُ.سَلَامٌ عَلٰٓی اور اس شخص کو ملامت کروں گا جو اس کو ملامت کرے.اور تجھے وہ چیز دوں گا جو ہمیشہ رہے گی.کشایش تجھے ملی گی.اِس اِبْـرَاھِیْمَ.صَافَیْنَاہُ وَ نَـجَّیْنَاہُ مِنَ الْغَمِّ.تَفَرَّدْنَـا بِذٰ.لِکَ.فَاتَّـخِذُ.وْا مِنْ ابراہیم پر سلام.ہم نے اس سے صاف دوستی کی اور غم سے نجات دی.ہم اِس امر میں اکیلے ہیں.سو تم اِس ابراہیم مَّقَامِ اِبْـرَاھِیْمَ مُصَلًّی.اِنَّـا اَنْـزَلْنَاہُ قَرِیْبًا مِّنَ الْقَادِیَانِ.وَ بِـالْـحَقِّ کے مقام سے عبادت کی جگہ بناؤ یعنی اِس نمونہ پر چلو.ہم نے اُس کو قادیان کے قریب اُتارا ہے اور عین ضرورت کے وقت اَنْزَلْنَاہُ وَ بِالْـحَقِّ نَـزَلَ.صَدَقَ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ.وَ کَانَ اَمْرُ اللّٰہِ مَفْعُوْلًا.اُتارا ہے اور ضرورت کے وقت اُترا ہے.خدا اور اس کے رسول کی پیشگوئی پوری ہوئی اور خدا کا ارادہ پُورا ہونا ہی تھا.اَلْـحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ.لَایُسْئَلُ عَـمَّا یَفْعَلُ اس خدا کی تعریف ہے جس نے تجھے مسیح ابنِ مریم بنایا ہے.وہ اپنے کاموں سے پُوچھا نہیں جاتا اور وَ ھُمْ یُسْئَلُوْنَ.اٰثَـرَکَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ.آسمان سے کئی تخت اُترے پر تیرا لوگ پوچھے جاتے ہیں.خدا نے تجھے ہر ایک چیز میں سے چُن لیا.دُنیا میں کئی تخت اُترے پر تیرا تخت سب سے اُوپر بچھایا گیا.یُرِیْدُ.وْنَ اَنْ یُّـــطْفِئُوْا نُـوْرَاللّٰہِ.اَلَا اِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ تخت سب سے اُوپر بچھایا گیا.ارادہ کریں گے کہ خدا کے نو رکو بجھادیں.خبردار ہو کہ انجام کار خدا کی جماعت ہی ھُمُ الْغٰلِبُوْنَ.لَا تَـخَفْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی.لَا تَـخَفْ اِنِّیْ لَا یَـخَافُ لَدَیَّ غالب ہوگی.کچھ خوف مت کر تُو ہی غالب ہوگا.کچھ خوف مت کر کہ میرے رسول میرے قُرب میں کسی الْمُرْسَلُوْنَ.یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّــطْفِئُوْا نُـوْرَ اللّٰہِ بِـاَ.فْوَاھِھِمْ.وَ اللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ سے نہیں ڈرتے.دشمن ارادہ کریں گے کہ اپنے مُنہ کی پھُونکوں سے خدا کے نور کو بجھادیں اور خد اپنے نور کو پُورا کرے گا وَ لَوْکَرِہَ الْکَافِرُوْنَ.نُنَزِّلُ عَلَیْکَ اَسْـرَارًا مِّنَ السَّمَآءِ.وَ نُـمَزِّقُ الْاَعْدَآءَ اگرچہ کافر کراہت ہی کریں.ہم آسمان سے تیرے پر کئی پوشیدہ باتیں نازل کریں گے اور دشمنوں کے منصوبوں کو کُلَّ مُـمَزَّقٍ.وَ نُرِیْ فِرْعَوْنَ وَ ھَامَانَ وَ جُنُوْدَ ھُمَا مَا کَانُوْا یَحْذَرُوْنَ.فَلَا ٹکڑے ٹکڑے کردیں گے.اور فرعون اور ہامان اور اُن کے لشکر کو وہ ہاتھ دکھاویں گے جس سے وہ ڈرتے ہیں.پس
تَـحْزَنْ عَلَی الَّذِیْ قَالُوْا اِنَّ رَبَّکَ لَبِا لْمِرْصَادِ.مَا اُرْسِلَ نَبِیٌّ اِلَّا اَخْزٰی ان کی باتوں سے کچھ غم مت کر کہ تیرا خدا ان کی تاک میں ہے.کوئی نبی نہیں بھیجا گیا جس کے آنے کے ساتھ خدا نے اُن بِہِ اللّٰہُ قَوْمًا لَّا یُؤْمِنُوْنَ.سَنُنْجِیْکَ.سَنُعْلِیْکَ.سَاُکْرِمُکَ اِکْرَامًا عَـجَبًا.لوگوں کو رُسوا نہیں کیا جو اس پر ایمان نہیں لائے تھے.ہم تجھے نجات دیں گے.ہم تجھے غالب کریں گے.اور مَیں تجھے ایسی بزرگی دوں گا جس سے اُرِیْـحُکَ وَ لَا اُجِیْحُکَ وَ اُخْرِجُ مِنْکَ قَوْمًا.وَ لَکَ نُرِیْ اٰیَـاتٍ وَّ نَـھْدِ.مُ مَا لوگ تعجب میں پڑیں گے.مَیں تجھے آرام دوں گا اور تیرا نام نہیں مٹاؤں گا اور تجھ سے ایک بڑی قوم پیدا کروں گا.اور تیرے لئے ہم بڑے بڑے یَعْمُرُوْنَ.اَنْتَ الشَّیْخُ الْمَسِیْحُ الَّذِیْ لَا یُضَاعُ وَ قْتُہٗ.کَمِثْلِکَ دُرٌّ نشان دکھاویں گے.اور ہم اُن عمارتوں کو ڈھادیں گے جو بنائی جاتی ہیں.تُو وہ بزرگ مسیح ہے جس کا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا اور تیرے جیسا لَّا یُضَاعُ.لَکَ دَ.رَجَۃٌ فِی السَّمَآءِ وَ فِی الَّذِیْنَ ھُمْ یُبْصِرُوْنَ.یُبْدِیْ لَکَ الرَّحْـمٰنُ موتی ضائع نہیں ہوسکتا.آسمان پر تیرا بڑا درجہ ہے اور نیز اُن لوگوں کی نگاہ میں جن کو آنکھیں دی گئی ہیں.خدا ایک کرشمہء قدرت تیرے شَیْئًا.یَـخِرُّوْنَ عَلَی الْمَسَاجِدِ.یَـخِرُّوْنَ عَلَی الْاَذْقَانِ.رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا لئے ظاہر کرے گا.اس سے مُنکر لوگ سجدہ گاہوں میں گِر پڑیں گے اور اپنی ٹھوڑیوں پر گِر پڑیں گے یہ کہتے ہوئے کہ اے ہمارے خدا ہمارے اِنَّا کُنَّا خَاطِئِیْنَ.تَا للّٰہِ اٰثَرَکَ اللّٰہُ عَلَیْنَا وَ اِنْ کُنَّا لَـخَاطِئِیْنَ.لَاتَثْرِیْبَ گناہ بخش ہم خطا پر تھے اور پھر تجھے مخاطب کرکے کہیں گے کہ خدا کی قَسم خدا نے ہم سب میں سے تجھے چُن لیا اور ہماری خطا تھی جو ہم برگشتہ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ.یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَ ھُوَ اَرْحَـمُ الرَّاحِـمِیْنَ.یَعْصِمُکَ اللّٰہُ رہے.تب کہا جائے گا کہ آج جو تم ایمان لائے تم پر کچھ سرزنش نہیں.خدا نے تمہارے گناہ بخش دیئے اور وہ ارحم الراحمین ہے.خدا تجھے مِنَ الْعِدَا وَ یَسْطُوْ بِکُلِّ مَنْ سَطَا.ذٰلِکَ بِـمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ.دشمنوں کے شر سے بچائے گا اور اس شخص پر حملہ کرے گا جو تیرے پر حملہ کرتا ہے کیونکہ وہ لوگ حد سے نکل گئے ہیں اور نافرمانی کی راہوں اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ.یَا جِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَ الطَّیْرَ.سَلَامٌ قَوْلًا پر قدم رکھا ہے.کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے.اے پہاڑو اور اے پرندو میرے اِس بندہ کے ساتھ وَجد اور رِقّت سے میری یاد کرو.مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ.وَامْتَازُوا الْیَوْمَ اَیُّھَاالْمُجْرِمُوْنَ.اِنِّیْ مَعَ الرُّوْحِ مَعَکَ تم سب پر اُس خدا کا سلام جو رحیم ہے.اور اے مجرمو! آج تم الگ ہوجاؤ.مَیں اور رُوح القدس تیرے ساتھ ہیں
وَ مَعَ اَھْلِکَ.لَا تَـخَفْ اِنِّیْ لَا یَـخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَ.اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ اَتٰی.اور تیرے اہل کے ساتھ.مت ڈر میرے قُرب میں میرے رسول نہیں ڈرتے.خدا کا وعدہ آیا وَ رَکَلَ وَرَکٰی فَطُوبٰی لِمَنْ وَّجَدَ وَ رَاٰی.اُ.مَمٌ یَّسَّـرْنَا لَھُمُ الْھُدٰی اور زمین پر ایک پاؤں مارا اور خلل کی اصلاح کی.پس مبارک وہ جس نے پایا اور دیکھا.بعض نے ہدایت پائی وَ اُ.مَمٌ حَقَّ عَلَیْھِمُ الْعَذَابُ.وَ قَالُوْا لَسْتَ مُرْسَلًا قُلْ کَفٰی بِا للّٰہِ شَهِيْدًۢا اور بعض مستوجب عذاب ہوگئے.اور کہیں گے کہ یہ خدا کا فرستادہ نہیں.کہہ میری سچائی پر خدا گواہی دے بَیْنِیْ وَ بَیْنَکُمْ وَ مَنْ عِنْدَہٗ عِلْمُ الْکِتٰبِ.یَنْصُـرُکُمُ اللّٰہُ فِیْ وَقْتٍ عَزِیْزٍ.رہا ہے اور وہ لوگ گواہی دیتے ہیں جو کتاب اللہ کا علم رکھتے ہیں.خدا ایک عزیز وقت میں تمہاری مدد کرے گا.حُکْمُ اللّٰہِ الرَّحْـمٰنِ لِـخَلِیفَۃِ اللّٰہِ السُّلْطَانِ.یُـؤْتٰی لَہُ الْمُلْکُ الْعَظِیْمُ وَ تُفْتَحُ خدائے رحمٰن کا حکم ہے اس کے خلیفہ کے لئے جس کی آسمانی بادشاہت ہے.اس کو ملک ِ عظیم دیا جائے گا اور خزینے عَلٰی یَدِہِ۱؎ الْخَزَآ.ئِنُ.ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ وَ فِیْ اَعْیُنِکُمْ عَـجِیْبٌ.قُلْ اس کے لئے کھولے جائیں گے.یہ خدا کا فضل ہے اور تمہاری آنکھوں میں عجیب.کہہ یَـا اَیُّـھَا الکُفَّارُ اِنِّیْ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ.فَانْتَظِرُوْا اٰیَـاتِیْ حَتّٰی حِیْنٍ.سَنُرِیـھِمْ اے مُنکرو! مَیں صادقوں میں سے ہوں.پس تم میرے نشانوں کا ایک وقت تک انتظار کرو.ہم عنقریب ان کو اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْ اَنْفُسِھِمْ.حُـجَّۃٌ قَآئِمَۃٌ وَّ فَتْحٌ مُّبِیْنٌ.اِنَّ اللّٰہَ اپنے نشان ان کے اردگرد اور ان کی ذاتوں میں دکھائیں گے.اُس دن حجّت قائم ہوگی اور کھلی کھلی فتح ہوجائے گی.خدا اُس یَفْصِلُ بَیْنَکُمْ.اِنَّ اللّٰہَ لَا یَـھْدِیْ مَنْ ھُوَ مُسْـرِفٌ کَذَّابٌ.دن تم میں فیصلہ کردے گا.خدا اُس شخص کو کامیاب نہیں کرتا جو حد سے نکلا ہوا اور کذّاب ہے.اور ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’کسی آئندہ زمانہ کی نسبت یہ پیشگوئی ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کشفی رنگ میں کنجیاں دی گئی تھیں مگر ان کنجیوں کا ظہور حضرت عمر فاروقؓ کے ذریعہ سے ہوا.خدا جب اپنے ہاتھ سے ایک قوم بناتا ہے تو پسند نہیں کرتا کہ ہمیشہ اُن کو لوگ پائوں کے نیچے کچلتے رہیں.آخر بعض بادشاہ اُن کی جماعت میں داخل ہوجاتے ہیںاور اِس طرح پر وہ ظالموں کے ہاتھ سے نجات پاتے ہیں جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے ہوا.منہ‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۴ حاشیہ)
وَ وَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِیْ اَنْقَضَ ظَھْرَکَ.وَ قُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ہم وہ بھار تیرا اُٹھا لیں گے جس نے تیری کمر توڑ دی اور ہم اس قوم کو جڑھ سے کاٹ دیں گے جو ایک حق الامر پر لَا یُؤْمِنُوْنَ.۱؎ قُلِ اعْـمَلُوْا عَلٰی مَکَانَتِکُمْ اِنِّیْ عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ.ایمان نہیں لاتے.ان کو کہہ کہ تم اپنے طور پر اپنی کامیابی کے لئے عمل میں مشغول رہو اور مَیں بھی عمل میں مشغول ہوں پھر دیکھو گے کہ کس کے اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّـحْسِنُوْنَ.ھَلْ اَتَـاکَ عمل میں قبولیت پیدا ہوتی ہے.خدا ان کے ساتھ ہوگا جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور ان کے ساتھ جو نیک کاموں میں مشغول ہیں.کیا تجھے حَدِیْثُ الزَّلْزَلَۃِ.اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا.وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ آنے والے زلزلہ کی خبر نہیں ملی؟ یاد کر جبکہ سخت طور پر زمین ہلائی جائے گی اور زمین جو کچھ اُس کے اندر ہے باہر اَثْقَالَھَا وَقَالَ الْاِنْسَانُ مَالَھَا یَـوْمَئِذٍ تُـحَدِّ..ثُ اَخْبَارَھَا بِـاَنَّ رَبَّکَ پھینک دیگی اور انسان کہے گا کہ زمین کو کیا ہوگیا کہ یہ غیر معمولی بَلا اس میں پیدا ہوگئی.اُس دن زمین اپنی باتیں بیان کرے گی کہ کیا اس پر اَوْحٰی لَھَا.اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُـوْا.وَ مَا یَـاْتِیْـھِمْ اِلَّا بَغْتَۃً.گزرا.خدا اس کے لئے اپنے رسول پر وحی نازل کرے گا کہ یہ مصیبت پیش آئی ہے.کیا لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ زلزلہ نہیں آئے گا؟ ضرور آئے گا یَسْئَلُوْنَکَ اَحَقٌّ ھُوَ.قُلْ اِیْ وَ رَبِّیْ اِنَّہٗ لَـحَقٌّ.وَ لَا یُـرَدُّ عَنْ اور ایسے وقت آئے گا کہ وہ بالکل غفلت میں ہوں گے.اور ہر ایک اپنے دُنیا کے کام میں مشغول ہوگا کہ زلزلہ ان کو پکڑ لے گا.تجھ سے پوچھتے ہیں کہ قَـوْمٍ یُّعْرِضُوْنَ.اَلرَّحٰی یَدُ.وْرُ وَ یَنْزِلُ الْقَضَآءُ.لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کیا ایسے زلزلہ کا آنا سچ ہے؟ کہہ کہ خدا کی قَسم اِس زلزلہ کا آنا سچ ہے اور خدا سے برگشتہ ہونے والے کسی مقام میں اس سے بچ نہیں سکتے یعنی کوئی مقام کَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ وَ الْمُشْـرِکِیْنَ مُنْفَکِّیْنَ حَتّٰی تَاْتِیَـھُمُ ان کو پناہ نہیں دے سکتا بلکہ اگر گھر کے دروازہ میں بھی کھڑے ہیں تو توفیق نہ پائیں گے جو اس سے باہر ہوجائیں مگر اپنے عمل سے.ایک چکی گردش میں آئے گی اور قضا الْبَیِّنَۃُ.اگر خدا ایسا نہ کرتا تو دُنیا میں اندھیر پڑجاتا.اُرِیْکَ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ.نازل ہوگی.جو لوگ اہلِ کتاب اور مُشرکوں میں سے حق کے مُنکر ہوگئے وہ بجُز اِس نشانِ عظیم کے باز آنے والے نہ تھے.اگر خدا ایسا نہ کرتا تو دُنیا میں اندھیر پڑ ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’یہ اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ وقت آتا ہے کہ حق کھل جائے گا اور تمام جھگڑے طے ہوجائیں گے اور یہ فیصلہ آسمانی نشانوں کے ساتھ ہوگا.زمین بگڑ گئی ہے اب آسمان اس کے ساتھ جنگ کرے گا.منہ ‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۵ حاشیہ)
یُرِیْکُمُ اللّٰہُ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ.لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ.لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ.جاتا.مَیں تجھے قیامت والا زلزلہ دکھاؤں گا.خدا تجھے قیامت والا زلزلہ دکھائے گا.اُس دن کہا جائے گا آج کس کا ملک ہے.کیا اُس خدا کا ملک چمک دکھلاؤں گا تم کو اِس نشان کی پنج بار۱؎.اگر چاہوں تو اس دن خاتمہ.اِنِّیْ اُحَافِظُ نہیں جو سب پر غالب ہے.اور مَیں اِس زلزلہ کے نشان کی پنج مرتبہ تم کو چمک دکھلاؤں گا.اگر چاہوں تو اُس دن دُنیا کا خاتمہ کردوں.مَیں ہر ایک کو کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ.اُرِیْکَ مَا یُرْضِیْکَ.رفیقوں کو کہہ دو کہ عجائب در عجائب کام جو تیرے گھر میں ہوگا اس کی حفاظت کروں گا.اور مَیں تجھے وہ کرشمۂ قدرت دکھلاؤں گا جس سے تُو خوش ہوجائے گا.رفیقوں کو کہہ دو کہ عجائب در عجائب کام دکھلانے کا وقت آگیا ہے.اِنَّـا فَتَحْنَالَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا لِّیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّ.مَ دکھلانے کا وقت آگیا ہے.مَیں ایک عظیم فتح تجھ کو عطا کروں گا جو کھلی کھلی فتح ہوگی تاکہ تیرا خدا تیرے تمام مِنْ ذَنْبِکَ وَ مَا تَـاَخَّرَ.۲؎ اِنِّیْ اَنَـا التَّوَّابُ.مَنْ جَآءَکَ جَآءَنِیْ.سَلَامٌ عَلَیْکُمْ گناہ بخش دے جو پہلے ہیں اور پچھلے ہیں.مَیں توبہ قبول کرنے والا ہوں.جو شخص تیرے پاس آئے گا وہ گویا میرے پاس آئے گا ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’اِس وحیِ الٰہی سے معلوم ہوتا ہے کہ پانچ زلزلے آئیں گے اور پہلے چار زلزلے کسی قدر ہلکے اور خفیف ہوں گے اور دُنیا اُن کو معمولی سمجھے گی اور پھر پانچواں زلزلہ قیامت کا نمونہ ہوگاکہ لوگوں کو سَودائی اور دیوانہ کردے گا یہاں تک کہ وہ تمنّا کریں گے کہ وہ اس دن سے پہلے مر جاتے.اب یاد رہے کہ اس وحیِ الٰہی کے بعد اس وقت تک جو ۲۲ ؍ جولائی ۱۹۰۶ء ہے اِس ملک میں تین زلزلے آچکے ہیں یعنی ۲۸؍ فروری ۱۹۰۶ء اور ۲۰؍ مئی ۱۹۰۶ء اور ۲۱؍ جولائی ۱۹۰۶ء.مگر غالباً خدا کے نزدیک یہ زلزلوں میں داخل نہیں ہیں کیونکہ بہت ہی خفیف ہیں.شاید چار زلزلے پہلے ایسے ہوں گے جیسا کہ ۴؍ اپریل ۱۹۰۵ء کا زلزلہ تھا اور پانچواں قیامت کا نمونہ ہوگا.وَاللّٰہُ اَعْلَمُ.منہ‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۶ حاشیہ) ۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’ظالم انسان کا قاعدہ ہے کہ وہ خدا کے رسولوں اور نبیوں پر ہزار ہا نکتہ چینیاں کرتا ہے اور طرح طرح کے عیب اُن میں نکالتا ہے.گویا دُنیا کے تمام عیبوں اور خرابیوں اور جرائم اور معاصی اور خیانتوں کا وہی مجموعہ ہیں.اب ان وساوس کا کہاں تک جواب دیا جائے جو نفس کی شرارت کے ساتھ مخلوط ہیں.اِس لئے یہ سُنّت اللہ ہے کہ آخر اِن تمام جھگڑوں کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور کوئی ایسا عظیم الشّان نشان ظاہر کرتا ہے جس سے اُس نبی کی بریّت ظاہرہوتی ہے.پس لِیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ کے یہی معنے ہیں.منہ‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۷ حاشیہ)
طِبْتُمْ.نَـحْمَدُ.کَ وَ نُصَلِّیْ.صَلوٰۃُ الْعَرْشِ اِلَی الْفَرْشِ.نَـزَلْتُ لَکَ تم پر سلام تم پاک ہو.ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور تیرے پر درود بھیجتے ہیں.عر ش سے فرش تک تیرے پر درود ہے.مَیں تیرے لئے وَ لَکَ نُرِیْٓ اٰیَـاتٍ.اَ.لْاَمْرَاضُ تُشَاعُ.وَالنُّفُوْسُ تُضَاعُ.وَمَا کَانَ اللّٰہُ اُترا ہوں اور تیرے لئے اپنے نشان دکھلاؤں گا.ملک میں بیماریاں پھیلیں گی اور بہت جانیں ضائع ہوں گی اور خدا ایسا نہیں ہے لِیُغَیِّرَ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ.اِنَّہٗٓ اٰوَی۱؎ الْقَرْیَۃَ.جو اپنی تقدیر کو بدل دے جو ایک قوم پر نازل کی جب تک وہ قوم اپنے دلوں کے خیالات کو نہ بدل ڈالیں.وہ اس قادیان کو کسی قدر بلا کے بعد لَوْلَا الْاِکْرَامُ لَھَلَکَ الْمُقَامُ.اِنِّیْٓ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ.مَا کَانَ اللّٰہُ اپنی پناہ میں لے گا.اگر مجھے تیری عزت کا پاس نہ ہوتا تو اِس تمام گاؤں کو مَیں ہلاک کردیتا.مَیں ہر ایک کو جو اِس گھر کی چاردیوار کے اندر ہے لِیُعَذِّ بَـھُمْ وَ اَنْتَ فِیْـھِمْ.امن است در مکانِ محبّت سرائے ما.بھونچال بچالوں گا.کوئی ان میں سے طاعون یا بھونچال سے نہیں مرے گا.خدا ایسا نہیں ہے کہ جن میں تُو ہے اُن کو عذاب کرے.ہماری محبّت کا گھر امن کا گھر ہے.آیا اور شدت سے آیا زمین تہ و بالا کردی.یَـوْمَ تَاْتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ۲؎.ایک زلزلہ آئے گا اور بڑی سختی سے آئے گا اور زمین کو زیر و زبر کردے گا.اُس دن آسمان سے ایک کُھلا کُھلادُھواں نازل ہوگا وَ تَرَی الْاَرْضَ یَـوْمَئِذٍ خَامِدَۃً مُّصْفَرَّۃً.اُکْرِمُکَ بَعْدَ تَـوْھِیْنِکَ.۳؎ اور اُس دن زمین زرد پڑجائے گی یعنی سخت قحط کے آثار ظاہر ہوں گے.مَیں بعد اس کے جو مخالف تیری توہین کریں تجھے عزت دوں گا اور تیرا اکرام ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’ اٰوٰی کا لفظ عرب کی زبان میں اس موقعہ پر استعمال پاتا ہے جبکہ کسی قدر تکلیف کے بعد کسی شخص کو اپنی پناہ میں لیا جائے جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے اَ لَمْ یَجِدْکَ یَتِیْـمًا فَاٰوٰی اور جیسا کہ فرماتا ہے اٰوَیْنٰـھُمَا اِلٰی رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیْنٍ.منہ ‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۷ حاشیہ) ۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’یعنی اُس زلزلہ کے لئے جو قیامت کا نمونہ ہوگا یہ علامتیں ہیں کہ کچھ دن پہلے اُس سے قحط پڑے گا اور زمین خشک رہ جائے گی.نہ معلوم کہ معاً اُس کے بعد یا کچھ دیر کے بعد زلزلہ آئے گا.منہ‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۸ حاشیہ) ۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’یعنی وہ بڑے نشان جو دُنیا میں ظاہر ہوں گے ضرور ہے جو پہلے اُن سے توہین کی جائے اور طرح طرح کی بُری باتیں کہی جائیں اور الزام لگائے جائیں تب بعد اس کے آسمان سے خوفناک نشان ظاہر ہوں گے.یہی سُنّت اللہ ہے کہ پہلی نوبت مُنکروں کی ہوتی ہے اور دوسری خدا کی.منہ ‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۸ حاشیہ)
یُرِیْدُ.وْنَ اَنْ لَّا یَتِمَّ اَمْرُکَ.وَ اللّٰہُ یَـاْبٰی اِلَّآ اَنْ یُّتِمَّ اَمْرَکَ.اِنِّیْٓ کروں گا.وہ ارادہ کریں گے جو تیر اکام ناتمام رہے اور خدا نہیں چاہتا جو تجھے چھوڑدے جب تک تیرے تمام کام پورے نہ کرے.مَیں اَنَـا الرَّحْـمٰنُ.سَاَجْعَلُ لَکَ سُھُوْلَۃً فِیْ کُلِّ اَمْرٍ.اُرِیْکَ بَـرَکَاتٍ مِّنْ کُلِّ رحمان ہوں.ہر ایک اَمر میں تجھے سہولت دوں گا.ہر ایک طرف سے تجھے برکتیں طَرَفٍ.نَـزَلَتِ الرَّحْـمَۃُ عَلٰی ثَلَاثٍ اَلْعَیْنِ وَ عَلَی الْاُخْرَیَیْنِ.تُرَدُّ دکھلاؤں گا.میری رحمت تیرے تین عضو پر نازل ہے ایک آنکھیں اور دو اَور عضو ہیں یعنی اُن کو سلامت رکھوں گا.اِلَیْکَ اَنْـوَارُ الشَّبَابِ.تَـرٰی نَسْلًا بَعِیْدًا.۱؎ اِنَّـا نُبَشِّـرُکَ بغُلَامٍ مَّظْھَرِ الْـحَقِّ اور جوانی کے نور تیری طرف عَود کریں گے.اور تُو اپنی ایک دُو رکی نسل کو دیکھ لے گا.ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں جس کے ساتھ حق وَالْعُلٰی کَاَنَّ اللّٰہَ نَـزَلَ مِنَ السَّمَآءِ.اِنَّـا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ نَّافِلَۃً لَّکَ.کا ظہور ہوگا.گویا آسمان سے خدا اُترے گا.ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں جو تیرا پوتا ہوگا.سَـبَّحَکَ اللّٰہُ وَ رَافَاکَ.وَ عَلَّمَکَ مَالَمْ تَعْلَمْ.اِنَّہٗ کَرِیْمٌ تَـمَشّٰی خدا نے ہر ایک عیب سے تجھے پاک کیا اور تجھ سے موافقت کی.اور وہ معارف تجھے سکھلائے جن کا تجھے علم نہ تھا.وہ کریم ہے وہ تیرے اَمَامَکَ وَ عَادٰی لَکَ مَنْ عَادٰی.وَقَالُوْا اِنْ ھٰذَا اِلَّا اخْتِلَاقٌ.اَ لَمْ آگے آگے چلا اور تیرے دشمنوں کا وہ دشمن ہوا.اور کہیں گے کہ یہ تو ایک بناوٹ ہے.اے مُعترض کیا تو تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍقَدِیْرٌ.یُلْقِی الرُّوْ.حَ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ نہیں جانتا کہ خدا ہر ایک بات پر قادر ہے.جس پر اپنے بندوں میں سے چاہتا ہے اپنی رُوح ڈالتا ہے یعنی منصبِ نبوت مِنْ عِبَادِہٖ.کُلُّ بَـرَکَۃٍ مِّنْ مُّـحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَکَ اُس کو بخشتا ہے.اور یہ تو تمام برکت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے.پس بہت برکتوں والا ہے جس نے اس بندہ کو ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’یہ خدا تعالیٰ کی وحی یعنی تَـرٰی نَسْلًا بَعِیْدًا قریباً تیس سال کی ہے.منہ‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۸ حاشیہ)
مَنْ عَلَّمَ وَ تَعَلَّمَ.خدا کی۱؎ فِیلنگ۲؎ اور خدا کی مُہر نے کِتنا بڑا کام کِیا.تعلیم دی اور بہت برکتوں والا ہے جس نے تعلیم پائی.خدا نے وقت کی ضرورت محسوس کی اور اس کے محسوس کرنے اور نبوّت کی مُہر نے جس میں بشدّت قوّت کا فیضان ہے بڑا کام کیا یعنی تیرے مبعو ث ہونے کے دو باعث ہیں (۱) خدا کا ضرورت کو محسوس کرنا اور (۲) آنحضرت ؐ کی مُہر کا فیضان.اِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ کُلِّ مَنْ اَحَبَّکَ.تیرے لئے میرا نام چمکا.رُوحانی مَیں تیرے ساتھ ہوں او ر تیرے اہل کے ساتھ اور ہر ایک کے ساتھ جو تجھ سے پیار کرتا ہے.تیرے لئے میرے نام نے اپنی چمک دکھلائی.عالَم تیرے پر کھولا گیا.فَبَصَـرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ.اَطَالَ اللّٰہُ بَقَآءَکَ.اسّی یا اس پر روحانی عالَم تیرے پر کھولا گیا.پس آج نظر تیری تیز ہے.خدا تیری عمر دراز کرے گا.اسّی برس یا ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’یہ وحیِ الٰہی کہ خدا کی فِیلنگ اور خدا کی مُہر نے کتنا بڑا کام کیا.اِس کے یہ معنے ہیں کہ خدا نے اِس زمانہ میں محسوس کیا کہ یہ ایسا فاسد زمانہ آگیا ہے جس میں ایک عظیم الشان مصلح کی ضرورت ہے اور خدا کی مُہر نے یہ کام کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلمکی پَیروی کرنے والا اِس درجہ کو پہنچا کہ ایک پہلو سے وہ اُمّتی ہے اور ایک پہلو سے نبی.کیونکہ اللہ جَلَّشانہ ٗ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحب ِ خاتم بنایا.یعنی آپ کو افاضۂ کمال کے لئے مُہر دی جو کسی اَور نبی کو ہر گز نہیں دی گئی.اِسی وجہ سے آپؐ کا نام خاتم النّبیین ٹھیرا.یعنی آپ کی پیروی کمالاتِ نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوتِ قدسیہ کسی اَور نبی کو نہیں ملی.یہی معنے اِس حدیث کے ہیں کہ عُلَمَآءُ اُمَّتِیْ کَاَ.نْبِیَآءِ بَنِیْٓ اِسْـرَآءِیْلَ یعنی میری اُمّت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہوں گے اور بنی اسرائیل میں اگرچہ بہت نبی آئے مگر ان کی نبوت موسیٰ کی پیروی کا نتیجہ نہ تھا بلکہ وہ نبوّتیں براہِ راست خدا کی ایک موہبت تھیں حضرت موسٰی کی پیروی کا اس میں ایک ذرّہ کچھ دخل نہ تھا.اسی وجہ سے میری طرح ان کا یہ نام نہ ہوا کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمّتی، بلکہ وہ انبیاء مستقل نبی کہلائے اور براہِ راست ان کو منصب ِ نبوت ملا اور ان کو چھوڑ کر جب اَور بنی اسرائیل کا حال دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان لوگوں کو رُشد اور صلاح اور تقویٰ سے بہت ہی کم حصہ ملا تھا اور حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کی اُمّت اولیاء اللہ کے وجود سے عموماً محروم رہی تھی اور کوئی شاذو نادر اُن میں ہوا تو وہ حکم معدوم کا رکھتا ہے.منہ ‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۹ تا ۱۰۱حاشیہ) ۲ Feeling
پانچ چار زیادہ یا پانچ چار کم.مَیں تجھے بہت برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے پانچ چار زیادہ یا پانچ چار کم.کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.تیرے لئے میرا نام چمکا.پچاس یا ساٹھ نشان اَور دکھاؤں گا.خدا کے مقبولوں میں قبولیّت کے نمونے اور علامتیں ہوتی ہیں اور ان کی تعظیم ملوک اور ذوی الجبروت کرتے ہیں اور وہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں.فرشتوں کی کھنچی ہوئی تلوار تیرے آگے ہے۱؎.پر تُو نے وقت کو نہ پہچانا نہ دیکھا نہ جانا.برہمن اوتار سے مقابلہ کرنا اچھا نہیں.رَبِّ فَرِّقْ بَیْنَ صَادِقٍ وَّکَاذِبٍ.اَنْتَ اے خدا سچّے اور جھوٹے میں فرق کرکے دکھلا.تُو ہر ایک تَریٰ کُلَّ مُصْلِحٍ وَّ صَادِقٍ.رَبِّ کُلُّ شَیْءٍخَادِمُکَ.رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ.وَانْصُرْنِیْ مصلح اور صادق کو جانتا ہے.اے میرے خدا ہر ایک چیز تیری خادم ہے.اے میرے خدا شریر کی شرارت سے مجھے نگہ رکھ اور میری مدد وَارْحَـمْنِیْ.خدا قاتلِ توباد.و مرا از شر تو محفوظ دارد.زلزلہ آیا اُٹھو نمازیں پڑھیں کر اور مجھ پر رحم کر.اے دشمن تُو جو تباہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے خدا تجھے تباہ کرے اور تیرے شر سے مجھے نگہ رکھے.یعنی وہ بھونچال اور قیامت کا نمونہ دیکھیں.یُظْھِرُکَ اللّٰہُ وَیُثْنِیْ عَلَیْکَ.لَوْلَاکَ لَمَا جو وعدہ دیا گیا ہے جلد آنے والا ہے.اس وقت خد اکے بندے قیامت کا نمونہ دیکھ کر نمازیں پڑھیں گے.خدا تجھے غالب کرے گااور تیری تعریف خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ۲؎.اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ.دستِ تو دُعائے تو لوگوں میں شائع کردے گا.اگر مَیں تجھے پَیدا نہ کرتا تو آسمانوں کو پیدا نہ کرتا.مجھ سے مانگو مَیں تمہیں دوں گا.تیرا ہاتھ ہے اور تیری دُعا ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’یہ پیشگوئی ایک ایسے شخص کے بارہ میں ہے جو مُرید بن کر پھر مُرتد ہوگیا اور بہت شوخیاں دکھلائیں اور گالیاں دیں اور زبان درازی میں آگے سے آگے بڑھا.پس خدا فرماتا ہے کہ کیوں آگے بڑھتا ہے کیا تُو فرشتوں کی تلواریں نہیں دیکھتا؟.منہ ‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۱حاشیہ) ۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’ہر ایک عظیم الشان مصلح کے وقت میں روحانی طور پر نیا آسمان اور نئی زمین بنائی جاتی ہے.یعنی ملائک کو اس کے مقاصد کی خدمت میں لگایا جاتا ہے اور زمین پر مُستعد طبیعتیں پیدا کی جاتی ہیں.پس یہ اسی کی طرف اشارہ ہے.منہ‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۲حاشیہ)
ترحم زِ خدا.زلزلہ کا دھکا.عَفَتِ الدِّیَـارُ مَـحَلُّھَا وَ مُقَامُھَا.تَتْبَعُھَا اور خدا کی طرف سے رحم ہے.زلزلہ کا دھکا جس سے ایک حصّہ عمارت کا مٹ جائے گا مستقل سکونت کی جگہ اور عارضی سکونت کی جگہ سب مِٹ الرَّادِفَۃُ.پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی.پھر بہار آئی تو آئے جائیں گی.اُس کے بعد ایک اَور زلزلہ آئے گا.بہار جب دوبارہ آئے گی تو پھر ایک اَور زلزلہ آئے گا.پھر بہار جب بار سوم آئے گی تو اس وقت ثلج کے آنے کے دن.رَبِّ اَخِّـرْ وَقْتَ ھٰذَا.اَخَّرَہُ اللّٰہُ اِلٰی وَقْـتٍ اطمینان کے دن آجائیں گے اور اس وقت تک خدا کئی نشان ظاہر کرے گا.اے خدا بزرگ زلزلہ کے ظہور میں کسی قدر تاخیر کردے.خدا نمونۂ قیامت مُّسَمًّی۱؎.تَـرٰی نَصْـرًا عَــــجِــیْــبًا.وَ یَـخِرُّوْنَ عَلَی الْاَذْقَانِ.کے زلزلہ کے ظہور میں ایک وقت ِ مقرر تک تاخیر کردے گا.تب تو ایک عجیب مدد دیکھے گا اور تیرے مخالف ٹھوڑیوں پر گریں گے یہ کہتے ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’پہلے یہ وحیِ الٰہی ہوئی تھی کہ وہ زلزلہ جو نمونہ ٔ قیامت ہوگا بہت جلد آنے والا ہے اور اُس کے لئے یہ نشان دیا گیا تھا کہ پیر منظور محمد لُدھانوی کی بیوی محمدی بیگم کو لڑکا پیدا ہوگا اور وہ لڑکا اُس زلزلہ کے ظہور کے لئے ایک نشان ہوگااِس لئے اس کا نام بشیر الدّولہ ہوگا.کیونکہ وہ ہماری ترقیء ِ سلسلہ کے لئے بشارت دے گا.اِسی طرح اُس کا نام عالم کباب ہوگا.کیونکہ اگر لوگ توبہ نہیں کریں گے تو بڑی بڑی آفتیں دُنیا میں آئیں گی.ایسا ہی اس کا نام کلمۃ اللہ اور کلمۃ العزیز ہوگا.کیونکہ وہ خدا کا کلمہ ہوگا جو وقت پر ظاہر ہوگااور اس کے لئے اَور نام بھی ہوں گے مگر بعد اس کے مَیں نے دعا کی کہ اُس زلزلہ نمونہ ٔ قیامت میں کچھ تاخیر ڈال دی جائے.اس دعا کا اللہ تعالیٰ نے اس وحی میں خود ذکر فرمایا اور جواب بھی دیا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے رَبِّ اَخِّرْ وَقْتَ ھٰذَا.اَخَّرَہُ اللّٰہُ اِلٰی وَقْتٍ مُّسَمًّی.یعنی خدا نے دعا قبول کرکے اس زلزلہ کو کسی اَور وقت پر ڈال دیا ہے اور یہ وحیِ الٰہی قریباً چار ماہ سے اخبار بدر اور الحکم میں چھپ کر شائع ہوچکی ہے اور چونکہ زلزلہ نمونہ ٔ قیامت آنے میں تاخیر ہوگئی اِس لئے ضرور تھا کہ لڑکا پیدا ہونے میں بھی تاخیر ہوتی.لہٰذا پیر منظور محمد کے گھرمیں ۱۷؍ جولائی ۱۹۰۶ء میں بروز سہ شنبہ لڑکی پیدا ہوئی اور یہ دعا کی قبولیت کا ایک نشان ہے اور نیز وحیِ الٰہی کی سچائی کا ایک نشان ہے جو لڑکی پیدا ہونے سے قریباً چار ماہ پہلے شائع ہوچکی تھی.مگر یہ ضرور ہوگا کہ کم درجہ کے زلزلے آتے رہیں گے اور ضرور ہے کہ زمین نمونہ ٔ قیامت زلزلہ سے رُکی رہے جب تک وہ موعود لڑکا پیدا ہو.یاد رہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی بڑی رحمت کی نشانی ہے کہ لڑکی پیدا کرکے آئندہ بَلا یعنی زلزلہ نمونہ ٔ قیامت کی نسبت تسلی دے دی کہ اس میں بموجب وعدہ اَخَّرَہُ اللّٰہُ اِلٰی وَقْتٍ مُّسَمًّی ابھی تاخیر ہے اور اگر لڑکا پیدا ہوجاتا تو ہر ایک زلزلہ
رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا اِنَّـا کُنَّا خَاطِئِیْنَ.یَـا نَبِیَّ اللّٰہِ کُنْتُ لَا اَعْرِفُکَ.ہوئے کہ اے خدا ہمیں بخش اور ہمارے گناہ معاف کر ہم خطا پر تھے.اور زمین کہے گی کہ اے خدا کے نبی مَیں تجھے شناخت نہیں لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَ ھُوَ اَرْحَـمُ الرَّاحِـمِیْنَ.کرتی تھی.اے خطا کارو! آج تم پر کوئی ملامت نہیں خدا تمہارے گناہ بخش دے گا وہ اَرحم الراحمین ہے.تَلَــطَّفْ بِـالنَّاسِ وَ تَرَحَّـمْ عَلَیْـھِمْ.اَنْتَ فِیْـھِمْ بِـمَنْزِلَۃِ موسٰی.یَـاْتِیْ لوگوں کے ساتھ لُطف اور مدارات سے پیش آ.تُو مجھ سے۱؎ بمنزلہ موسیٰ کے ہے.تیرے پر عَلَیْکَ زَمَنٌ کَمِثْلِ زَمَنِ مُوْسٰی.اِنَّـا اَرْسَلْنَا اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا شَاھِدًا موسیٰ کے زمانہ کی طرح ایک زمانہ آئے گا.ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے اُسی رسول عَلَیْکُمْ کَمَآ اَرْسَلْنَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا.آسمان سے بہت دُودھ اُترا ہے محفوظ رکھو.کی مانند جو فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا.آسمان سے بہت دُودھ اُترا ہے یعنی معارف اور حقائق کا دُودھ.اِنِّیْ اَنَـرْتُکَ وَاخْتَرْتُکَ.تیری خوش زندگی کا سامان ہوگیا ہے.وَاللّٰہُ خَیْرٌ مَیں نے تجھے روشن کیا اور چُن لیا اور تیری خوش زندگی کا سامان ہوگیا ہے.خدا ہر چیز سے مِّنْ کُلِّ شَیْءٍ.عِنْدِیْ حَسَنَۃٌ ھِیَ خَیْرٌ مِّنْ جَبَلٍ.بہت سے سلام میرے بہتر ہے.میرے قُرب میں ایک نیکی ہے جو وہ ایک پہاڑ سے زیادہ ہے.تیرے پر بہ کثرت میرے تیرے پر ہوں.اِنَّـآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَـوْثَـرَ.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اھْتَدَ وْا وَالَّذِیْنَ سلام ہیں.ہم نے کثرت سے تجھے دیا ہے.خدا اُن کے ساتھ ہے جو راہِ راست اختیار کرتے ہیں اور جو ھُمْ صَادِقُوْنَ.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّـحْسِنُوْنَ.صادق ہیں.خدا اُن کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور نیکو کار ہیں.بقیہ حاشیہ.اور ہر ایک آفت کے وقت سخت غم اور اندیشہ دامنگیر ہوتا کہ شاید وہ وقت آگیا اور تاخیر کا کچھ اعتبار نہ ہوتا.اور اَب تو تاخیر ایک شرط کے ساتھ مشروط ہوکر معیّن ہوگئی.منہ ‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۳حاشیہ) ۱ نقل مطابق اصل (سیّد عبد الحی ٔ)
اَرَادَ اللّٰہُ اَنْ یَّبْعَثَکَ مَقَامًا مَّـحْمُوْدًا.دو نشان ظاہر ہوں گے.وَامْتَازُوا خدا نے ارادہ کیا ہے جو تجھے وہ مقام بخشے جس میں تُو تعریف کیا جائے گا.دو نشان ظاہر ہوں گے.اور اے الْیَوْمَ اَیُّـھَا الْمُجْرِمُوْنَ.یَکَادُ الْبَرْقُ یَـخْطَفُ اَبْصَارَھُمْ.ھٰذَا الَّذِیْ مجرمو آج تم الگ ہوجاؤ.خدا کے نشانوں کی برق اُن کی آنکھیں اُچک کر لے جائے گی.یہ وہی بات ہے کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ.یَـا اَحْـمَدُ فَاضَتِ الرَّحْـمَۃُ عَلٰی شَفَتَیْکَ.کَلَامٌ جس کے لئے جلدی کرتے تھے.اے احمد تیرے لبوں پر رحمت جاری ہے.تیرا کلام اُفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنْ رَبٍّ کَرِیْمِ.در کلامِ تو چیزے ست کہ شعرا را دراں دخلے خدا کی طرف سے فصیح کیا گیا ہے.تیرے کلام میں ایک چیز ہے جس میں شاعروں کو دخل نیست.رَبِّ عَلِّمْنِیْ مَا ھُوَ خَیْرٌ عِنْدَکَ.یَعْـصِمُکَ اللّٰہُ مِنَ الْعِدَا نہیں ہے.اے میرے خدا مجھے وہ سکھلا جو تیرے نزدیک بہتر ہے.تجھے خدا دشمنوں سے بچائے گا وَ یَسْطُوْ بِکُلِّ مَنْ سَطَا.بَـرَّزَ مَا عِنْدَ ھُمْ مِّنَ الرِّمَاحِ.اِنِّیْ سَاُخْبِرُہٗ اور حملہ کرنے والوں پر حملہ کردے گا.انہوں نے جو کچھ ان کے پاس ہتھیار تھے سب ظاہر کردیئے.مَیں مولوی محمد حسین بٹالوی کو فِیْ اٰخِرِ الْوَقْتِ اَنَّکَ لَسْتَ عَلَی الْـحَقِّ.اِنَّ اللّٰہَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ.اِنَّـا اَلَنَّا لَکَ آخر وقت میں خبر دے دوں گا کہ تُو حق پر نہیں ہے.خدا رؤف و رحیم ہے.ہم نے تیرے لئے الْـحَدِیْدَ.اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً.اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اُجِیْبُ.لوہے کو نرم کردیا.مَیں فوجوں کے ساتھ ناگہانی طور پر آؤں گا.مَیں رسول کے ساتھ ہوکر جواب دوں گا.اُخْطِیْ وَ اُصِیْبُ۱؎.وَ قَالُوْا اَنّٰی لَکَ ھٰذَا.قُلْ ھُوَ اللّٰہُ عَـجِیْبٌ.اپنے ارادہ کو کبھی چھوڑ بھی دوں گا اور کبھی ارادہ پورا کروں گا.اور کہیں گے کہ تجھے یہ مرتبہ کہاں سے حاصل ہوا؟ کہہ خدا ذوالعجائب ہے.۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’اِس وحیِ الٰہی کے ظاہری الفاظ یہ معنے رکھتے ہیں کہ مَیں خطا بھی کروں گا اور صواب بھی.یعنی جو مَیں چاہوں گا کبھی کروں گا اور کبھی نہیں.اور کبھی میرا ارادہ پورا ہوگا اور کبھی نہیں.ایسے الفاظ خدا تعالیٰ کی کلام میں آجاتے ہیں.جیسا کہ احادیث میں لکھا ہے کہ مَیں مومن کی قبضِ روح کے وقت تردّد میں پڑتا ہوں حالانکہ خدا تردّد سے پاک ہے.اِسی طرح یہ وحیِ الٰہی ہے کہ کبھی میرا ارادہ خطا جاتا ہے اور کبھی پُورا ہوجاتا ہے.اس کے یہ
جَآءَنِیْ اٰیِلٌ۱؎ وَّ اخْتَارَ.وَ اَدَارَ اِصْبَعَہٗ وَ اَشَارَ.اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ اَتٰی.فَطُوْبٰی میرے پاس آیل آیا اور اُس نے مجھے چُن لیا اور اپنی اُنگلی کو گردش دی اور یہ اشارہ کیا کہ خدا کا وعدہ آگیا.پس مبارک لِمَنْ وَّجَدَ وَ رَاٰی.اَ.لْاَمْرَاضُ تُشَاعُ وَ النُّفُوْسُ تُضَاعُ.اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ وہ جو اس کو پاوے اور دیکھے.طرح طرح کی بیماریاں پھیلائی جائیں گی اور کئی آفتوں سے جانوں کا نقصان ہوگا.مَیں اپنے رسول اَقُوْمُ وَ اُفْطِرُ وَ اَصُوْمُ.۲؎ وَ لَنْ اَبْرَحَ الْاَرْضَ اِلَی الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ.کے ساتھ کھڑا ہوں گا اور مَیں افطار کروں گا اور روزہ بھی رکھوں گا.اور ایک وقت ِ مقرر تک مَیں اِس زمین سے علیحدہ نہیں ہوں گا وَ اَجْعَلُ لَکَ اَ.نْـوَارَ الْقُدُ.وْمِ.وَ اَقْصِدُ.کَ وَ اَرُوْمُ.وَ اُعْطِیْکَ مَا اور تیرے لئے اپنے آنے کے نور عطا کروں گا اور تیری طرف قصد کروں گا.اور وہ چیز تجھے دوں گا جو یَدُ.وْمُ.اِنَّـا نَـرِثُ الْاَرْضَ نَـاْکُلُھَا مِنْ اَطْرَافِھَا.نُقِلُوْا اِلَی تیرے ساتھ ہمیشہ رہے گی.ہم زمین کے وارث ہوں گے اور اطراف سے اس کو کھاتے آئیں گے.کئی لوگ قبروں الْمَقَابِـرِ.ظَفَرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَتْحٌ مُّبِیْنٌ.اِنَّ رَبِّیْ قَوِیٌّ قَدِیْرٌ.اِنَّہٗ کی طرف نقل کریں گے.اُس دن خدا کی طرف سے کھلی کھلی فتح ہوگی.میرا ربّ زبردست قدرت والا ہے.اور وہ بقیہ حاشیہ.معنی ہیں کہ کبھی مَیں اپنی تقدیر اور ارادہ کو منسوخ کر دیتا ہوں اور کبھی وہ ارادہ جیسا کہ چاہا ہوتا ہے.منہ‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۶حاشیہ) ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’اِس جگہ آیل خدا تعالیٰ نے جبرئیل کا نام رکھا ہے اِس لئے کہ بار بار رجوع کرتا ہے.منہ‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۶حاشیہ) ۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’ ظاہر ہے کہ خدا روزہ رکھنے اور افطار سے پاک ہے اور یہ الفاظ اپنے اصلی معنوں کی رُو سے اُس کی طرف منسوب نہیں ہوسکتے.پس یہ صرف ایک اِستعارہ ہے.اِس کا مطلب یہ ہے کہ کبھی مَیں اپنا قہر نازل کروں گا اور کبھی کچھ مہلت دوں گا اس شخص کی مانند جو کبھی کھاتا ہے اور کبھی روزہ رکھ لیتا ہے اور اپنے تئیں کھانے سے روکتا ہے، اور اِس قِسم کے استعارات خدا کی کتابوں میں بہت ہیں جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کو خدا کہے گا کہ مَیں بیمار تھا.مَیں بھوکا تھا.مَیں ننگا تھا.منہ‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۷حاشیہ)
قَوِیٌّ عَزِیْزٌ.حَلَّ غَضَبُہٗ عَلَی الْاَرْضِ.اِنِّیْ صَادِقٌ اِنِّیْ صَادِقٌ قوی اور غالب ہے.اس کا غضب زمین پر نازل ہوگا.مَیں صادق ہوں مَیں صادق ہوں اور وَّ یَشْھَدُ اللّٰہُ لِیْ.اے اَزلی اَبدی خدا بیڑیوں کو پکڑ کے آ.ضَاقَتِ الْاَرْضُ خدا میری گواہی دے گا.اے اَزلی اَبدی خدا میری مدد کے لئے آ.زمین باجود فراخی کے مجھ پر تنگ بِـمَا رَحُبَتْ.رَبِّ اِنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِـرْ.فَسَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا.زندگی کے ہوگئی ہے.اے میرے خدا مَیں مغلوب ہوں میرا انتقام دشمنوں سے لے.پس ان کو پِیس ڈال کہ وہ زندگی کی فیشن سے دُور جا پڑے ہیں.اِنَّـمَا اَمْرُکَ اِذَا اَرَدْتَّ شَیْئًا اَنْ تَقُوْلَ لَہٗ وضع سے دُور جاپڑے ہیں.تُو جس بات کا ارادہ کرتا ہے وہ تیرے حکم سے فی الفور کُنْ فَیَکُوْنَ.تو در منزلِ ما چو بار بار آئی.خدا ابر رحمت ببارید یانے.اِنَّـا اَمَتْنَا ہوجاتی ہے.اے میرے بندے چونکہ تُو میری فرودگاہ میں بار بار آتا ہے اِس لئے اب تُو خو دیکھ لے کہ تیرے اَرْبَعَۃَ عَشَـرَ دَ.وَابًّـا.ذٰلِکَ بِـمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُ.وْنَ.پر رحمت کی بارش ہوئی یا نہ.ہم نے چودہ ۱؎چارپایوں کو ہلاک کردیا کیونکہ وہ نافرمانی میں حد سے گزر گئے تھے.سرانجامِ جاہل جہنّم بود.کہ جاہل نکو عاقبت کم بود.میری فتح ہوئی میرا غلبہ ہوا.اِنِّیْ اُمِّرْتُ جاہل کا انجام جہنّم ہے.جاہل کا خاتمہ بالخیر کم ہوتا ہے.میری فتح ہوئی میرا غلبہ ہوا.مَیں خدا کی طرف سے مِنَ الرَّحْـمٰنِ فَاْتُوْنِیْ.اِنِّیْ حِـمَی الرَّحْـمٰنِ.اِنِّیْ لَاَجِدُ رِیْـحَ یُوْسُفَ خلیفہ کیا گیا ہوں پس تم میری طرف آجاؤ.مَیں خدا کا چراگاہ ہوں اور مجھے گُم گشتہ یوسف کی خوشبو لائی ہے لَوْلَآ اَنْ تُفَنِّدُوْنَ.اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْـحَابِ الْفِیْلِ.اَ.لَمْ اگر تم یہ نہ کہو کہ یہ شخص بہک رہا ہے.کیا تُو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رَبّ نے اصحاب ِ فِیل کے ساتھ کیا کِیا.کیا اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’بابو الٰہی بخش صاحب گیارہ چارپایوں کے ہلاک ہونے کے بعدطاعون کے ساتھ ہلاک کئے گئے جیسا کہ اِس الہامی شعر میں ہے.برمقام فلک شدہ یاربّ گر امیدے دہم مدار عجب بعد گیاراں.اِس سے معلوم ہوا کہ بابو صاحب کا بارھواں نمبر تھا اور ان کے بعد دو اَور ہیں تا چودہ پورے ہوجاویں.منہ‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۸۹حاشیہ)
یَـجْعَلْ کَیْدَ ھُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ.وہ کام جو تم نے کِیا خدا کی مرضی کے موافق نہیں اُن کے مَکر کو اُلٹا کر اُنہی پر نہیں مارا.وہ کام جو تم نے کِیا خدا کی مرضی کے موافق نہیں ہوگا۱؎.اِنَّـا عَفَوْنَـا عَنْکَ.لَقَدْ نَصَـرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْ.رٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّۃٌ.ہوگا.ہم نے تجھے معاف کیا.خدا نے بدر میں یعنی اِس چودھویں صدی میں تمہیں ذِلّت میں پاکر تمہاری مدد کی.وَ قَالُوْا اِنْ ھٰذَا اِلَّا اخْتِلَاقٌ.قُلْ لَّوْکَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدْتُّمْ اور کہیں گے کہ یہ تو ایک بناوٹ ہے.ان کو کہہ کہ اگر یہ کاروبار بجُز خدا کے کسی اَور کا ہوتا تو اِس میں فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا.قُلْ عِنْدِیْ شَھَادَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّؤْمِنُوْنَ.بہت اختلاف تم دیکھتے.ان کو کہہ کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے پس کیا تم ایمان لاؤگے یا نہیں.یَاْتِیْ قَـمَرُ الْاَ.نْبِیَآءِ.وَ اَمْرُکَ یَتَاَتّٰی.وَامْتَازُوا الْیَوْمَ اَیُّـھَا الْمُجْرِمُوْنَ.نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام پُورا ہوجائے گا.اور آج اے مجرمو ! تم الگ ہوجاؤ.بھونچال آیا اوربشدت آیا.زمین تہ و بالا کردی۲؎.ھٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ.بڑی شدّت سے زلزلہ آئے گا اور اُوپر کی زمین نیچے کردے گا.یہ وہی وعدہ ہے جس کی تم جلدی کرتے تھے.۱ اس کی تصریح نہیں کی گئی وَاللہُ اَعْلَمُ.منہ (تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۸ حاشیہ ) ۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’اِس بارہ میں خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے.جیسا کہ یسعیاہ نبی کے زمانہ میں ہوا کہ اس نبی کی پیشگوئی کے مطابق پہلے ایک عورت مسمات علمہ کو لڑکا پیدا ہوا.پھر بعد اس کے حزقیاہ بادشاہ نے فقہ۳؎ پر فتح پائی.اسی طرح اس زلزلہ سے پیر منظور محمد لُدھانوی کی بیوی کو جس کا نام محمدی بیگم ہے لڑکا پیدا ہوگا اور وہ لڑکا اس بڑے زلزلہ کے لئے نشان ہوگا جو قیامت کا نمونہ ہوگا مگر ضروری ہے کہ اس سے پہلے اَور زلزلے بھی آویں.اس لڑکے کے مفصّلہ ذیل نام ہوں گے: بشیر الدولہ.کیونکہ وہ ہماری فتح کے لئے نشان ہوگا.کلمۃ اللہ خان.یعنی خدا کا کلمہ.عالم کباب.وارڈ.شادی خان.کلمۃ العزیز وغیرہ.کیونکہ وہ خدا کا کلمہ ہوگا جس سے حق کا غلبہ ہوگا.تمام دُنیا خدا کے ہی کلمے ہیں اِس لئے اس کا نام کلمۃ اللہ رکھنا غیر معمولی بات نہیں ہے.وہ لڑکا، اَب کی دفعہ وہ لڑکا پیدا نہیں ہوا.کیونکہ خدا نے فرمایا اَخَّرَہُ اللہُ اِلٰی وَقْتٍ مُّسَمًّی یعنی وہ زَلْزَلَۃُ السَّاعَۃ جس کے لئے وہ لڑکا نشانی ہوگا ہم نے اُس کو ایک اَور وقت پر ڈال دیا.منہ‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۹ حاشیہ) ۳ ایڈیشن اوّل میں فقہ لکھا تھا لیکن یسعیاہ باب ۷ کے مطابق یہ لفظ فِقح ہے جو ایک بادشاہ کا نام ہے.(سید عبد الحی)
اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ.سَفِیْنَۃٌ وَّ سَکِیْنَۃٌ.اِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ مَیں ہر ایک کو جو اِس گھر میں ہے اس زلزلہ سے بچالُوں گا.کشتی ہے اور آرام ہے.مَیں تیرے ساتھ اور تیرے اَھْلِکَ.اُرِیْدُ مَا تُرِیْدُوْنَ.پہلے بنگالہ کی نسبت جو کچھ حکم جاری کیا گیا تھا اہل کے ساتھ ہوں.مَیں وہی ارادہ کروں گا جو تمہارا ارادہ ہے.بنگالہ کی نسبت پیشگوئی ہے جو تقسیمِ بنگالہ سے اہل بنگالہ کی دِلآزاری کی گئی اَب ان کی دِلجوئی ہوگی.اَلْـحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ جَعَلَ خدا فرماتا ہے کہ پھر وہ وقت آتا ہے کہ پھر کسی پَیرایہ میں اہلِ بنگالہ کی دِلجوئی کی جائے گی.اُس خدا کو تعریف ہے جس نے لَکُمُ الصِّھْرَ وَ النَّسَبَ.۱؎ اَلْـحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ اَذْھَبَ عَنِّی الْـحَزَنَ.وَ اٰتَـانِیْ دامادی اور نسب کی رُو سے تیرے پر احسان کیا.اُس خدا کو تعریف ہے جس نے میرا غم دُور کیا اور مجھ کو وہ چیز دی مَا لَمْ یُـؤْتَ اَحَدٌ مِّنَ الْعَالَمِیْنَ.یٰسٓ.اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ.عَلٰی جو اِس زمانہ کے لوگوں میں سے کسی کو نہیں دی گئی.اے سردار ! تُو خدا کا مُرسل ہے.راہِ راست صِـرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ.تَنْزِیْلَ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ.اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ پر.اُس خدا کی طرف سے جو غالب اور رحم کرنیوالا ہے.مَیں نے ارادہ کیا کہ اس زمانہ میں اپنا خلیفہ مقرر کروں فَـخَلَقْتُ اٰدَمَ.یُـحْیِ الدِّیْنَ وَ یُقِیْمُ الشَّـرِیْعَۃَ.چو دَورِ خسروی۲؎ آغاز کردند.سو مَیں نے اس آدم کو پَیدا کیا.وہ دین کو زندہ کرے گا اور شریعت کو قائم کرے گا.جب مسیح السلطان کا دَور شروع کیا گیا مسلماں را مسلماں باز کردند.اِنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ کَانَـتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰـھُمَا.تو مسلمانوں کو جو صرف رسمی مسلمان تھے نئے سِرے سے مسلمان بنانے لگے.آسمان اور زمین ایک گٹھڑی کی طرح بندھے ہوئے تھے ہم نے ان دونوں کو ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’یعنی خدا نے تجھ پر یہ اِحسان کیا کہ ایک شریف اور معزز اور شہرت یافتہ اور باوجاہت خاندان سے تجھے پیدا کیا اور دوسرے یہ احسان کیا کہ ایک معزز دہلی کے سادات کے خاندان سے تیری بیوی آئی.منہ‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۱۰حاشیہ) ۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’ خدا تعالیٰ کی کتابو ں میں مسیح آخرالزماں کو بادشاہ کے نام سے یاد کیا گیا ہے.اِس سے مُراد آسمانی بادشاہی ہے.یعنی وہ آئندہ سلسلہ کا ایک بادشاہ ہوگا اور بڑے بڑے اکابر اس کے پَیرو ہوں گے.منہ‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۱۰حاشیہ)
قَـرُبَ اَجَلُکَ الْمُقَدَّرُ.اِنَّ ذَا الْعَرْشِ یَدْعُوْکَ.وَ لَا نُبْقِیْ لَکَ مِنَ کھول دیا یعنی زمین نے اپنی پوری قوت ظاہر کی اور آسمان نے بھی.اَب تیرا وقت ِ موت قریب آگیا.ذوالعرش تجھے بُلاتا ہے اور ہم تیرے لئے کوئی الْمُخْزِیَاتِ ذِکْرًا.قَلَّ مِیْعَادُ رَبِّکَ.وَ لَا نُبْقِیْ لَکَ مِنَ الْمُخْزِیَاتِ رُسوا کنندہ اَمر نہیں چھوڑیں گے.تیرے ربّ کا وعدہ کم رہ گیا ہے.اور ہم تیرے لئے کوئی امر رُسوا کنندہ باقی نہیں شَیْئًا.بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں.اُس دن خدا کی طرف سے سب پر اُداسی چھوڑیں گے.زندگی کے دن بہت تھوڑے رہ گئے ہیں.اُس دن سب جماعت دِل برداشتہ اور اُداس چھاجائے گی.یہ ہوگا.یہ ہوگا.یہ ہوگا.پھر تیرا واقعہ ہوگا.تمام عجائباتِ قدرت دکھلانے ہوجائے گی.کئی واقعات کے ظہور کے بعد پھر تیرا واقعہ ظہور میں آئے گا.قدرتِ الٰہی کے کئی عجائب کام پہلے دکھلائے کے بعد تمہارا حادثہ آئے گا.جَآءَ وَقْتُکَ وَ نُبْقِیْ لَکَ الْاٰیٰتِ بَاھِرَاتٍ.جَآءَ جائیں گے پھر تمہاری موت کا واقعہ ظہور میں آئے گا.تیرا وقت آگیا ہے.اور ہم تیرے لئے روشن نشان چھوڑیں گے.تیرا وَقْتُکَ وَ نُبْقِیْ لَکَ الْاٰیٰتِ بَیِّنَاتٍ.رَبِّ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّ اَلْـحِقْنِیْ وقت آگیا ہے اور ہم تیرے لئے کھلے نشان باقی رکھیں گے.اے میرے خدا اِسلام پر مجھے وفات دے اور بِـالصَّالِـحِیْنَ.اٰمین.نیکوکاروں کے ساتھ مجھے ملادے.آمین.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۷۳تا ۱۱۱) ۳۰؍ جولائی۱۹۰۶ء ’’فرمایا.آج مجھے ایک الہام ہوا.اُس کے پُورے الفاظ یاد نہیں رہے اور جس قدر یاد رہا وہ یقینی ہے مگر معلوم۱؎نہیں کس کے حق میں ہے لیکن خطرناک ہے اور وہ یہ ہے.ایک دَم میں دَم رخصت ہوا یہ الہام ایک موزوں عبارت میں ہے مگر ایک لفظ درمیان میں سے بھول گیا ہے.‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر ۳۱ مورخہ ۲ ؍ اگست ۱۹۰۶صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲۷ مورخہ ۳۱ ؍ جولائی ۱۹۰۶صفحہ ۱) ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) الہام پورا ہونے پر حضورؑ کو اس کا علم دیا گیا کہ یہ میاں صاحب نور مہاجر کے متعلق تھا.(دیکھیے تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۴۳۵)
یکم اگست۱۹۰۶ء ’’دیکھا کہ زلزلہ آیا ہے.پھر الہام ہوا.۱.اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ.۲.اَرَدْتُّ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَـخَلَقْتُ اٰدَمَ.‘‘۱؎ (بدر جلد ۲ نمبر ۳۲ مورخہ ۹ ؍ اگست ۱۹۰۶صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲۸ مورخہ ۱۰ ؍ اگست۱۹۰۶صفحہ ۱) ۵؍ اگست۱۹۰۶ء ’’۵؍اگست ۱۹۰۶ء کو ایک دفعہ نصف حصّہ اسفل بدن کا میرا بے حِس ہوگیا اور ایک قدم چلنے کی طاقت نہ رہی… مجھے خیال گزرا کہ یہ فالج کی علامات ہیں.ساتھ ہی سخت درد تھی.دِل میں گھبراہٹ تھی.کروٹ بدلنا مشکل تھا.رات کو جب مَیں بہت تکلیف میں تھا تو مجھے شماتت ِ اعدا کا خیال آیا مگر محض دین کے لئے نہ کِسی اَور امر کے لئے.تب مَیں نے جنابِ الٰہی میں دعا کی…تب مجھے تھوڑی سی غنودگی کے ساتھ الہام ہوا.اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِ یْـرٌ.اِنَّ اللّٰہَ لَا یُـخْزِی الْمُؤْمِنِیْنَ.یعنی خدا ہر چیز پر قادر ہے اور خدا مومنوں کو رُسوا نہیں کیا کرتا.پس اُسی خدائے کریم کی مجھے قَسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جو اِس وقت بھی دیکھ رہا ہے کہ مَیں اس پر اِفترا کرتا ہوں یا سچ بولتا ہوں کہ اِس الہام کے ساتھ ہی شاید آدھ گھنٹہ تک مجھے نیند آگئی اور پھر یک دفعہ جب آنکھ کھلی تو مَیں نے دیکھا کہ مرض کا نام و نشان نہیں رہا.تمام لوگ سوئے ہوئے تھے اور مَیں اُٹھا اور امتحان کے لئے چلنا شروع کیا تو ثابت ہوا کہ مَیں بالکل تندرست ہوں.‘‘ ( حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۳۴.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۲۴۵ ،۲۴۶) ۵؍اگست ۱۹۰۶ء ’’ لِیَقْضِیَ اللہُ بَیْنَنَا.‘‘۳؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۹۱) ۱۳؍اگست۱۹۰۶ء اور اس سے ما قبل دو چار روز کے الہامات یہ ہیں.’’۱.دیکھ مَیں آسمان سے تیرے لئے برساؤں گا اور زمین سے نکالوں گا پر وہ جو تیرے مخالف ہیں پکڑے جائیں گے.(یہ فقرہ کہ پکڑے جائیں گے اس سے مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے کھلے کھلے ۱ (ترجمہ) ۱.مَیں حفاظت کرنے والا ہوں ان سب کی جو دار میں ہیں.۲.مَیں نے چاہا کہ خلیفہ بناؤں پس مَیں نے آدم کو خلیفہ بنایا.(بدر مورخہ ۹؍ اگست ۱۹۰۶ء صفحہ ۲) ۳ (ترجمہ از ناشر) تا اللہ تعالیٰ ہمارے درمیان فیصلہ فرمائے.
نشانوں کے سامنے ملزم اور لاجواب اور ساکت ہوجائیں گے.) ۲.صحن میں ندیاں چلیں گی اور سخت زلزلے۱؎آئیں گے.۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.(الف) ’’ خدا تعالیٰ نے مجھے صرف یہی خبر نہیں دی کہ پنجاب میں زلزلے وغیرہ آفات آئیں گی کیونکہ مَیں صرف پنجاب کے لئے مبعوث نہیں ہوا بلکہ جہاں تک دُنیا کی آبادی ہے ان سب کی اِصلاح کے لئے مامور ہوں.پس مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ آفتیں اور یہ زلزلے صرف پنجاب سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ تمام دُنیا ان آفات سے حصّہ لے گی اور جیسا کہ امریکہ وغیرہ کے بہت حصّے تباہ ہوچکے ہیں.یہی گھڑی کسی دن یورپ کے لئے درپیش ہے اور پھر یہ ہولناک دن پنجاب اور ہندوستان اور ہر ایک حصّہ ایشیا کے لئے مقدّر ہے.جو شخص زندہ رہے گا وہ دیکھ لے گا.‘‘ ( حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۲۰۰ حاشیہ) (ب) ’’ یاد رہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے.پس یقیناً سمجھو کہ جیسا کہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے ایسا ہی یورپ میں بھی آئے اور نیز ایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے اور بعض اُن میں قیامت کا نمونہ ہوں گے اور اِس قدر موت ہوگی کہ خون کی نہریں چلیں گی.اِس موت سے پرند چرند بھی باہر نہیں ہوں گے اور زمین پر اِس قدر سخت تباہی آئے گی کہ اس روز سے کہ انسان پَیدا ہوا ایسی تباہی کبھی نہیں آئی ہوگی اور اکثر مقامات زیر و زبر ہو جائیں گے کہ گویا اُن میں کبھی آبادی نہ تھی اور اُس کے ساتھ اَور بھی آفات زمین اور آسمان میں ہولناک صورت میں پیدا ہوں گی یہاں تک کہ ہر ایک عقلمند کی نظر میں وہ باتیں غیر معمولی ہوجائیں گی اور ہیئت اور فلسفہ کی کتابوں کے کسی صفحہ میں اُن کا پتہ نہیں ملے گا.تب انسانوں میں اضطراب پیدا ہوگا کہ یہ کیا ہونے والا ہے اور بہتیرے نجات پائیں گے اور بہتیرے ہلاک ہوجائیں گے.وہ دن نزدیک ہیں بلکہ مَیں دیکھتا ہوں کہ دروازے پر ہیں کہ دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی اور نہ صرف زلزلے بلکہ اَور بھی ڈرانے والی آفتیں ظاہر ہوں گی.کچھ آسمان سے اور کچھ زمین سے.یہ اِس لئے کہ نوعِ انسان نے اپنے خدا کی پرستش چھوڑ دی ہے اور تمام دل اور تمام ہمّت اور تمام خیالات سے دنیا پر ہی گِر گئے ہیں.اگر مَیں نہ آیا ہوتا تو ان بَلاؤں میں کچھ تاخیر ہوجاتی پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدّت سے مخفی تھے ظاہر ہوگئے …یہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہارا ملک اُن سے محفوظ ہے.مَیں تو دیکھتا ہوں کہ شاید اُن سے زیادہ مصیبت کا منہ دیکھو گے.اے یورپ تُو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تُو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو ! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا.مَیں شہروں کو گِرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۲۶۸ ، ۲۶۹)
۳.وَیْلٌ لِّکُلِّ ھُمَزَۃٍ لُّمَزَۃٍ.۴.سَاُکْرِمُکَ اِکْـرَامًا عَـجَبًا.وَ اُلْقِیْ بِہِ الرُّعْبَ الْعَظِیْمَ.۵.یَـاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ.یَـاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ.‘‘۱؎ (بدر جلد ۲ نمبر ۳۳ مورخہ ۱۶ ؍ اگست ۱۹۰۶صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲۹ مورخہ ۱۷ ؍ اگست۱۹۰۶صفحہ ۱) ۱۹؍اگست ۱۹۰۶ء ’’ اس تاریخ میں خواب میں دیکھا کہ ایک نہایت چمکتا ہوا ٹکڑا سونے کا سہ پہلو تھا میری بیوی نے مجھ کو دیا پھر آنکھ کھل گئی.میں ڈرا کہ سونے میں غم اور کوئی مکروہ امر ہوتا ہے پھر غنودگی ہو کر یہ الہام ہوا.اِنَّ ھٰذَا إِمْرَأَ ۃٌ جَـمِیْلَۃٌ.۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۹۳) ۲۰؍اگست ۱۹۰۶ء ’’ صبر کر خدا تیرے دشمن کو ہلاک کرے گا.نُصِـرْتَ بِـالرُّعْـبِ وَقَالُوْا لَاتَ حِیْنَ مَنَاصٍ.۳؎ اِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ.‘‘ ۴؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۹۲) ۱ (ترجمہ) ۳.ہر ایک چغل خور، عیب گیر پر سخت لعنت ہے.۴.مَیں تجھے ایک عجیب طور پر عزت دوں گا اور اس کے ساتھ سے دُنیا پر بڑا رُعب ڈالوں گا.۵.لوگ دُور دراز سے تیرے پاس آئیں گے اور دُور دُور سے ہدیئے آئیں گے.(بدر مورخہ ۱۶؍اگست ۱۹۰۶ء صفحہ ۲) ۲ (ترجمہ از ناشر) یقیناً یہ ایک خوبصورت عورت ہے.۳ (ترجمہ) رعب کے ساتھ تیری نصرت کی گئی اور مخالفوں نے کہا اب کوئی جائے پناہ نہیں.(بدر مورخہ ۲۳؍اگست ۱۹۰۶ء صفحہ ۲) ۴ (ترجمہ از مرتّب ) جب تم کسی کو پکڑتے ہو تو جابر ہوکر پکڑتے ہو.(نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲۳؍اگست ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ اور الحکم مورخہ ۲۴؍اگست ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ میں ان الہامات کی تاریخ ۲۱؍ اگست درج ہے نیز تحریر ہے.۱.’’شب گذشتہ کو مَیں نے خواب میں دیکھا کہ اِس قدر زنبور ہیں ( جن سے مراد کمینہ دشمن ہیں) کہ تمام سطح زمین اُن سے پُر ہے اور ٹڈی دَل سے زیادہ ان کی کثرت ہے.اِس قدر ہیں کہ زمین کو قریباً ڈھانک دیا ہے اور تھوڑے ان میں سے پَرواز بھی کررہے ہیں جو نیش زنی کا ارادہ رکھتے ہیں مگر نامُراد رہے اور مَیں اپنے لڑکوں شریف اور بشیر کو کہتا ہوں کہ قرآن شریف کی یہ آیت پڑھو اور بدن پر پھونک لو کچھ نقصان نہیں کریں گے اور وہ آیت
۲۳؍ اگست۱۹۰۶ء ’’آج کل کوئی نشان ظاہر ہوگا.۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۹۱ بد ر جلد ۲ نمبر ۳۵ مورخہ ۳۰ ؍ اگست ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۱ مورخہ ۱۰ ؍ ستمبر۱۹۰۶صفحہ ۱) ۲۵؍ اگست۱۹۰۶ء ’’ شَفِیْعُ اللّٰہِ فرمایا.اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی کے یہ میرا نام رکھا ہے اور اس کے معنی ہیں.اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کا شفیع.‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر ۳۵ مورخہ ۳۰ ؍ اگست ۱۹۰۶ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۱ مورخہ ۱۰ ؍ ستمبر۱۹۰۶صفحہ ۱) ۴؍ ستمبر۱۹۰۶ء (الف) ’’اِنِّیْ مَعَ الرُّوْحِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً ‘‘ ۲؎ (بدر جلد ۲ نمبر ۳۶ مورخہ ۶ ؍ ستمبر ۱۹۰۶صفحہ ۳.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۱مورخہ ۱۰ ؍ ستمبر۱۹۰۶صفحہ ۱) (ب) ’’فرمایا.آج ہی ایک خواب میں دیکھا کہ ایک چوغہ زرّیں جس پر بہت سنہری کام کیا ہوا ہے مجھے غیب سے دیا گیا ہے.ایک چور اُس چوغہ کو لے کر بھاگا.اُس چور کے پیچھے کوئی آدمی بھاگا جس نے چور کو پکڑ لیا اور چوغہ واپس لے لیا.بعد اس کے وہ چوغہ ایک کتاب کی شکل میں ہوگیا جس کو تفسیر کبیر کہتے ہیں اور معلوم ہوا کہ چور اُس کو اِس غرض سے لے کر بھاگا تھا کہ اِس تفسیر کو نابُود کردے.فرمایا.اِس کشف کی تعبیر یہ ہے کہ چور سے مراد شیطان ہے.شیطان چاہتا ہے کہ ہمارے ملفوظات لوگوں کی نظر سے غائب کردے مگر ایسا نہیں ہوگا اور تفسیر کبیر جو چوغہ کے رنگ میں دکھائی گئی اس کی تعبیر یہ ہے کہ وہ ہمارے لئے موجب ِ عزّت اور زینت ہوگی.وَاللہُ اَعْلَمُ.‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر ۳۶ مورخہ ۶ ؍ ستمبر ۱۹۰۶صفحہ ۳.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۱مورخہ ۱۰ ؍ ستمبر۱۹۰۶صفحہ ۱) بقیہ حاشیہ.یہ ہے.وَ اِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ.پھر بعد اس کے آنکھ کھل گئی.۲.اِلہام ہوا.نُصِـرْتَ بِالرُّعْبِ وَقَالُوْا لَاتَ حِیْنَ مَنَاصٍ.۳.قریباً نصف رات کے بعد الہام ہوا.صبر کر خدا تیرے دشمن کو ہلاک کرے گا.‘‘ ۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) ۶ ؍ ستمبر ۱۹۰۶ء کو خدا تعالیٰ نے یہ نشان ظاہر فرما دیا.تفصیل کے لئے دیکھیے رؤیا ۵؍ستمبر ۱۹۰۶ء اور اس کا حاشیہ.۲ (ترجمہ) مَیں رُوح کے ساتھ اچانک تیرے پاس آؤں گا.(بدر مورخہ ۶؍ستمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳)
۵؍ ستمبر۱۹۰۶ء ’’ دیکھا کہ عبد الحکیم خان۱؎ چوبارہ کے دروازے پر ہے اور کوئی کہتا ہے کہ اسحاق کی والدہ نے اس کو بلایا ہے میں نے کہا ہم نہیں آنے دیتے اس میں ہماری بے عزتی ہے.‘‘۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۸۲) ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.’’اِن دنوں کتاب حقیقۃ الوحی میں نشانات جمع کررہا ہوں تو میرے دل میں خیال آیا کہ پچھلے نشانات کے ساتھ کوئی تازہ نشان بھی ہونا چاہیے.خدا تعالیٰ نے اِس خیال کو بھی جلد پورا کردیا.فرمایا.عبدالحکیم خان چونکہ ایک دشمن ہے اِس واسطے وہ دکھایا گیا.دشمن کے خواب میں گھر کے اندر داخل ہوجانے کی تعبیر کسی دُکھ اور موت سے ہوتی ہے.سو مَیں نے خواب میں کہا کہ مَیں اُس کو نہیں آنے دوں گا.یعنی میری دُعا نے اُس مصیبت کو ٹال دیا.فرمایا.اِنِّیْ اُحَافِظُ والا الہام جو اس خواب کے ساتھ تھا ظاہر کرتا تھا کہ کوئی واقعہ طاعون کا ہونے والا ہے.‘‘ (بدر مورخہ ۱۳ ؍ ستمبر۱۹۰۶صفحہ ۳) ۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۳؍ستمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۱۷؍ستمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ میں یہ رؤیا یوں درج ہے.’’رؤیا.مَیں نے دیکھا کہ ڈاکٹر عبدالحکیم خاں (مرتد دشمن) ہمارے مکان کے پاس کھڑا ہے اور والدہ محمد اسحاق (زوجہ میر ناصر نواب صاحب ) اُس کو اپنے گھر میں بلاتی ہیں مگر مَیں نے اُسے اندر نہیں آنے دیا اور مَیں نے کہا کہ مَیں نہیں آنے دیتا.اِس میں ہماری بے عزتی ہے.دشمن کے گھر میں داخل ہونے سے مراد کوئی مصیبت یا موت ہوتی ہے اور وہ اندر نہیں آسکا یعنی خدا نے اُس بَلا کو ٹال دیا.پھر الہام ہوا.اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ.ترجمہ.مَیں اُن سب کی حفاظت کروں گا جو اِس گھر میں ہیں.علاوہ اس کے ایک گوشت کا ٹکڑا خواب میں دکھایا گیا جو کِسی غم کی طرف دلالت کرتا تھا اور یہ بھی دیکھا کہ ایک انڈا میرے ہاتھ میں ہے جو کہ ٹوٹ گیا۳؎ ہے.یہ بھی کِسی کی موت کی طرف اشارہ تھا لیکن خواب کے تمام امور معلق ہوتے ہیں اور دعا سے ٹل سکتے ہیں.قطعی حکم نہیں ہوتا.‘‘ ۳ (نوٹ از ایڈیٹر بدر) ’’اِن خوابوں کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میر ( ناصر نواب ) صاحب (مرحوم) کو جو لاہور جانے کو طیار تھے روک دیا کہ ابھی نہ جاویں اور ان کو کہہ دیا کہ مَیں نے دیکھا ہے کہ آپ کے اہل و عیال کے متعلق ایک بَلا آنے والی ہے مَیں ڈرتا ہوں کہ وہ بَلا سفر میں نازل ہو اور موجب ِ شماتت ِ اعدا ہوجائے.اِس کے گواہ خود میر صاحب اورگھر کے لوگ ہیں چنانچہ یہ بات سن کر میر صاحب نے مع اہل و عیال لاہور میں جانا ملتوی کردیا اور جب صبح ہوئی تو
ستمبر۱۹۰۶ء ۱.الہام.’’ یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْـرَ وَلَا یُـرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْـرَ.‘‘۱؎ ۲.باغ میں نمونیا اسحٰق کو ہوگیا تھا چونکہ طاعون کے دن تھے بعض ڈاکٹروں کا یہ بھی خیال تھا کہ طاعون ہے.اس وقت الہام ہوا.سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ.‘‘۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۷۹) ۸؍ستمبر ۱۹۰۶ء (الف) ’’الہام.۱.امینِ ملک جے سنگھ بہادر.۲.لوگ آئے اور مقابلہ کر بیٹھے.شیرِ خدا نے ان کو پکڑا.شیرِ خدا نے فتح پائی.۳.امینِ ملک جے سنگھ بہادر.۴.رَبِّ لَا تُـبْقِ لِیْ مِنَ الْمُخْزِیَـاتِ ذِکْـرًا.۳؎ ۵.پیٹ پھٹ۴؎ گیا.‘‘ (کاپی الہامات۵؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۷۶، ۱۷۵) بقیہ حاشیہ در حاشیہ.پیشگوئی کے مطابق عزیز محمد اسحٰق کو سخت بخار ہوگیا اور اُس بخار کے ساتھ رانوں میں دو گلٹیاں نکل آئیں جس سے قطعی طور پر یہ معلوم ہوگیا کہ طاعون ہے اور ایک نہایت خوفناک امر پیش آگیا اور گھر میں سب پر ایک دہشت طاری ہوئی اور حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب معالج تھے مگر ہر دو بُنِ ران میں دو گلٹیوں کے نکلنے سے وہ بھی دہشت زدہ ہوگئے.تب حضرت مسیح موعود نے دُعا کرنا شروع کیا اور نہایت اِضطراب سے توجہ کی.تب خدا کے فضل سے اس دُعا کا یہ نتیجہ ہوا کہ ابھی دو یا تین گھنٹے سے زیادہ نہیں گزرا ہوگا کہ بخار بالکل ٹوٹ گیا اور پھر گلٹیاں بھی گُم ہوگئیں.گویا مرض کا نام و نشان نہ تھا اور تمام آثار طاعون کے جاتے رہے اور اَب میاں محمد اسحٰق بخیرو عافیت باہر پھرتے ہیں.‘‘ (بدر مورخہ ۱۳ ؍ ستمبر ۱۹۰۶صفحہ ۳ نیز تفصیل کے لئے دیکھیے حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۴۱، ۳۴۲.نشان نمبر ۱۴۳) ۱ (ترجمہ از ناشر) اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا.۲ (ترجمہ) تجھے سلامتی ہے یہ ربّ رحیم نے فرمایا.(حقیقۃ المہدی.روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۴۴۶) ۳ (ترجمہ ) ۴.اے میرے رَبّ ( میرے لئے) رُسوا کرنے والی چیزوں میں سے کوئی باقی نہ رکھ.(بدر مورخہ ۱۰؍ستمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۱) ۴ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’ اِس پیشگوئی کے مطابق شعبان ۱۳۲۴ھ میں میاں صاحب نور مہاجر جو صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی جماعت میں سے تھا یک دفعہ ایک دَم پیٹ پھٹنے کے ساتھ مَر گیا اور معلوم ہوا کہ اس کے پیٹ میں کچھ مدّت سے رسَولی تھی لیکن کچھ محسوس نہیں کرتا تھا اور جوان، مضبوط و توانا تھا.یک دفعہ پیٹ میں دَرد ہوا اور آخری کلمہ اُس کا یہ تھا کہ اُس نے تین مرتبہ کہا کہ میرا پیٹ پھٹ گیا.بعد اُس کے مَر گیا.‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۴۳۵) ۵ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۳ ستمبر ۱۹۰۶صفحہ ۳ میں ان الہامات کے الفاظ یہ ہیں.’’ ۱.لوگ آئے اور دعویٰ کر بیٹھے.شیرِ خدا نے ان کو پکڑا اور شیرِ خدا نے فتح پائی.۲.امین الملک جے سنگھ بہادر.
(ب) ’’ ۳۰؍ جولائی ۱۹۰۶ء میں اور بعد اس کے اَور کئی تاریخوں میں وحیِ الٰہی کے ذریعہ سے بتلایا گیا کہ ایک شخص اِس جماعت میں سے ایک دم میں دُنیا سے رخصت ہوجائے گا اور پیٹ پھٹ جائے گا اور شعبان کے مہینہ میں وہ فوت ہوگا.‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۴۳۵) (ج) ’’میں نے دیکھا کہ مولوی نور دین صاحب نے ایک پروف بھیجا ہے اور لانے والے نے مجھ کو کہا کہ مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ حاشیہ کو دیکھ لیں.جب میں نے حاشیہ کی عبارت دیکھی تو اس میں لکھا ہوا (تھا).دشمن نہایت اضطراب میں ہے.‘‘ (کاپی الہامات۱؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۷۵) ۱۳؍ستمبر ۱۹۰۶ء ۱.’’ پنج بار خدا اس کو ہلاکت سے بچائے گا.‘‘ ۲.’’ يٰۤاَ.يُّهَا الْعَزِيْزُ مَسَّنَا وَ اَهْلَنَا الضُّرُّ وَ جِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُّزْجَاةٍ فَاَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَ تَصَدَّقْ عَلَيْنَا اِنَّ اللّٰهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِيْنَ.‘‘ ۲؎ ۳.(رؤیا) ’’ ۱۳؍ستمبر ۱۹۰۶ء کو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک فراخ اور نہایت خوبصورت چوغہ پہنے ہوئے میں کسی طرف جارہا ہوں.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۷۴، ۱۷۳) ۱۵؍ ستمبر۱۹۰۶ء ’’فرمایا.گھر میں ایک چوکھٹ کے اندر ایک قطعہ لگا ہوا ہے جس پر لکھا ہے.رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ۳؎ بقیہ حاشیہ.۳.رَبِّ لَا تُبْقِ لِیْ مِنَ الْمُخْزِیَاتِ ذِکْرًا.۴.پیٹ پھٹ گیا.(معلوم نہیں کہ یہ کس کے متعلق الہام ہے)‘‘ جبکہ الحکم مورخہ ۱۰ ستمبر۱۹۰۶صفحہ ۱ میں الہام نمبر ۲ و ۵ درج ہے اور الحکم مورخہ ۱۷ ستمبر۱۹۰۶صفحہ ۱ میں الہام نمبر ۳ و۴ درج ہیں.۱ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۳ ستمبر ۱۹۰۶صفحہ ۲ اور الحکم مورخہ ۱۷ ستمبر۱۹۰۶صفحہ ۱ میں یہ رؤیا ان الفاظ میں درج ہے.’’رؤیا.دیکھا کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب نے ایک کاغذ بھیجا ہے جو پروف کی طرح ہے.جو لڑکا لے کر آیا ہے وہ کہتا ہے کہ اس کے حاشیہ پر سطر ہے ذرا پڑھ لینا.اُس کاغذ کے دائیں طرف کے حاشیہ پر لکھا ہے.دشمن نہایت اضطراب میں ہے.‘‘ ۲ (ترجمہ از ناشر) اے صاحب اختیار! ہمیں اور ہمارے گھر والوں کو بہت تکلیف پہنچی ہے اور ہم تھوڑی سی پونجی لائے ہیں.پس ہمیں بھرپور تو عطا کر اور ہم پر صدقہ کر.یقیناً اللہ صدقہ خیرات کرنے والوں کو جزا دیتا ہے.۳ (ترجمہ از ناشر) اے میرے ربّ ہر چیز تیری خادم ہے.
ہم نے آج کشفی نگاہ میں دیکھا کہ وہ الفاظ مٹے ہوئے ہیں مگر اس پر لکھا ہے.خیر.‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر ۳۸ مورخہ ۲۰ ؍ ستمبر ۱۹۰۶صفحہ ۳.الحکم جلد ۱۰ نمبر۳۳مورخہ ۲۴ ؍ ستمبر۱۹۰۶صفحہ ۱) ۱۷؍ ستمبر۱۹۰۶ء ’’ ۱.قَالَ رَبُّکَ اِنَّہٗ نَـازِلٌ مِّنَ السَّمَآءِ مَا یُـرْضِیْکَ وَ مَا نَتَنَـزَّلُ اِلَّا بِـاَمْرِ رَبِّکَ.۲.قَدْ سَـمِعَ اللّٰہُ.اُجِیْبَتْ دَّعْوَتُکَ.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّـحْسِنُوْنَ.۳.بَـارَکَ اللّٰہُ فِیْ اِلْھَامِکَ وَ وَحْیِکَ وَرُؤْیَـاکَ.۴کَتَبْتُ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَحْـمَۃً وَّ کَتَبْتُ لَکَ رَحْـمَۃً فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ.۵.نَزِیْدُ فِیْ رَحْـمَتِکَ وَوَفَآءِکَ وَصِدْ.قِکَ.۱؎ ۶.کُلُّ مُکَذِّ.بٍ جَآءَ.یَـا اَیُّـھَا الْعَزِیْزُ مَسَّنَا وَاَھْلَنَا الضُّـرُّ وَ جِئْنَا بِبِضَاعَۃٍ مُّزْجَاۃٍ فَاَوْفِ لَنَا الْکَیْلَ وَ تَصَدَّ قْ عَلَیْنَا اِنَّ اللّٰہَ یَـجْزِی الْمُتَصَدِّ.قِیْنَ.۷.مَا اَنَـا اِلَّا کَالْقُرْاٰنِ وَ سَیَظْھَرُ عَلٰی یَدَیَّ مَا ظَھَرَ مِنَ الْفُرْقَانِ.‘‘۲؎ (رؤیا) ’’میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک فراخ اور خوبصورت چوغہ جو نہایت چمکدار تھا پہنے ہوئے جو پیروں تک پڑتا ہے چند لوگوں کے ساتھ ایک طرف جارہا ہوں.۱ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲۰؍ستمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۲۴؍ ستمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ میں یہ الہام مع تفہیم یوں درج ہے.’’ نَزِیْدُ فِیْ رَحْـمَتِکَ وَ صِدْقِکَ وَوَفَآءِکَ.( اَیْ نَزِیْدُ بَـرَکَاتٍ.یہ خدا کی طرف سے نہیں صرف تفہیم ہے میرے لفظوں میں.)‘‘ ۲ (ترجمہ) ۱.تیرے رَبّ نے فرمایا ہے کہ وہ تیرے لئے آسمان سے وہ چیز اتارنے والا ہے جو تجھے خوش کردے گی اور ہم تیرے رَبّ کے حکم کے سوائے کبھی نازل نہیں ہوتے.۲.اللہ تعالیٰ نے تیری دُعا سُن لی.تیری دُعا قبول کی گئی.اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور وہ جو نیکی کرتے ہیں.۳.برکت دی اللہ تعالیٰ نے تیرے الہام میں اور تیری وحی میں اور تیری خوابوں میں.۴.تجھ پر ایمان لانے والوں کے لئے مَیں نے رحمت لکھ دی ہے اور تیرے لئے دُنیا اور آخرت میں مَیں نے رحمت لکھ دی ہے.۵.تیری رحمت اور وفا اور صدق میں ہم زیادتی کریں گے.۶.سب مکذب آئے اور کہنے لگے.اے عزیز ہم اور ہمارے اہل و عیال تکلیف میں ہیں اور ہم تھوڑی سی پونجی لائے ہیں.پس ہمیں پورا ناپ تول دے اور ہم پر صدقہ کر.تحقیق اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والوں کو جزائے خیر دیتا ہے.۷.مَیں تو بس قرآن ہی کی طرح ہوں اور قریب ہے کہ میرے ہاتھ پر ظاہر ہوگا جو کچھ کہ فرقان سے ظاہر ہوا.(بدر مورخہ ۲۰؍ستمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳)
اور یہ بھی الہام ہوا.خدا پنج بار اس کو ہلاکت سے بچائے گا.(نامعلوم کس کے حق میں ہے).اور دیکھا کہ بھونچال آیا ہے اور ہم چھت کے نیچے سے نکل آئے اور مبارک میرے ساتھ ہے.‘‘ (کاپی الہامات۱؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۷۳، ۱۷۲، ۱۷۱، ۱۷۰) ستمبر ۱۹۰۶ء ’’ میں نے دیکھا ایک کتاب ہے.اس کا نام نَـہْجُ الْمُصَلِّی ہے پھر یہ الہام ہوا.فَوْقٌ حَـمِیْدٌ.‘‘۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۶۹) ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۶ء ’’دل مضطر اطمینان یافت.‘‘۳؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۶۷) ۲۴؍ستمبر۱۹۰۶ء (الف) ’’موت ، تیراں ۱۳ماہ حال کو غالباًتیراں ماہ حال سے مُراد تیراںماہ شعبان ہے.وَاللہُ اَعْلَمُ.اور مَیں نہیں جانتا کہ تیراں ماہ حال سے یہی شعبان ہے یا کِسی اَور شعبان کی تیراں تاریخ اور مَیں قطعی طور پر نہیں جانتا کہ کِس کے حق میں ہے اِس لئے طبیعت غمگین ہے.خدائے تعالیٰ فضل کرے.آمین.‘‘ (بدر۴؎ جلد ۲ نمبر ۳۹ مورخہ ۲۷ ؍ ستمبر ۱۹۰۶صفحہ ۳) ۱ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲۰؍ستمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۲۴؍ ستمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۲ میں ان الہامات کے الفاظ قدرے ترتیب کے فرق سے مذکور ہیں اور مزید یوں درج ہے.’’ ۱.رؤیا.دیکھا کہ مَیں ایک فراخ اور خوبصورت اور چمک دار چوغہ پہنے ہوئے چند آدمیوں کے ساتھ ایک طرف جارہا ہوں اور وہ چوغہ میرے پاؤں تک لٹک رہا ہے اور چمک کی شعاعیں اس میں سے نکل رہی ہیں.۲.خدا اُس کو پنج بار ہلاکت سے بچائے گا.( نامعلوم کِس کے متعلق یہ الہام ہے).۳.رؤیا.دیکھا کہ ایک بھونچال آیا.کچھ دہشت ناک معلوم ہوا اور ہم چھت کے نیچے سے باہر آگئے مبارک میرے ساتھ تھا اور خفیف خفیف بارش کے قطرے خوشنما برس رہے تھے.‘‘ ۲ (ترجمہ از مرتّب) قابلِ تعریف غلبہ.۳ (ترجمہ از ناشر) بے قرار دل اطمینان پاگیا.۴ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۲۴ ؍ ستمبر۱۹۰۶صفحہ ۱ میں یہ الہام مع تفصیل یوں درج ہے.’’ موت.تیران ماہ حال کو.یہ فقرہ مذکورہ بالا وحی الٰہی کا زبان پر جاری ہوا.غالباً وَاللہُ اَعْلَم ماہ حال سے مراد شعبان ہے.میں نہیں سمجھ سکتا کہ معین طور پر یہی شعبان مراد ہے یا آئندہ کا کوئی اور ماہ شعبان ہے اور نہ میں قطعی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ کس کی موت مراد ہے.وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.‘‘
(ب) فرمایا کہ ’’ سُرعت ِ الہام کے سبب بعض دفعہ ٹھیک الفاظ یاد نہیں رہتے.اِس واسطے تیراں کا لفظ تھا یا تیئیس۲۳ کا یا تیس۱؎ کا.‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر۴۳ مورخہ ۲۵ ؍ اکتوبر ۱۹۰۶صفحہ ۴) ۲۷؍ ستمبر۱۹۰۶ء (الف ) ’’ اے مظفر تجھ پر سلام.خدا نے تیری سُن لی.میں تیرے لئے لڑکا پیدا کروں گا.‘‘۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۶۷) (ب) ’’ بَلَجَتْ۳؎ اٰیَـاتِیْ.وَ بَشِّـرِالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِـاَنَّ۴؎ لَھُمُ الْفَتْحَ.‘‘ ( الاستفتاء ضمیمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۷۰۲.کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۶۷) ۲؍ اکتوبر۱۹۰۶ء (الف) ’’کاذب کا خدا دشمن ہے واقعی وہ اس کو جہنّم میں پہنچائے گا.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۶۶) (ب) ’’ مَیں نے دیکھا کہ ایک کتاب ہے.گویا وہ میری کتاب ہے.اس کا نام نَہْجُ الْمُصَلِّی ہے.پھر الہام ہوا.فَوْقٌ حَـمِیْدٌ.۵؎ کاذب کا خدا دشمن ہے وہ اس کو جہنّم میں پہنچائے گا.‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر ۴۰ مورخہ ۴؍اکتوبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۴ مورخہ ۳۰؍ستمبر۶؎ ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ ) ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) اگر تیس کا لفظ تھا تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ الہام بھی میاں صاحب نور افغان مہاجر مرحوم کے متعلق تھا چنانچہ مرحوم ۳۰؍ شعبان ۱۳۲۴ھ مطابق ۱۹؍ اکتوبر ۱۹۰۶ء کو فوت ہوئے.دیکھیے بدر پرچہ مذکور.۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲۷؍ستمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳ میں اس الہام کی تاریخ ۲۶؍ستمبر درج ہے اور الفاظ یوں ہیں.’’ اے مظفر تجھ پر سلام ہو کہ خدا نے تیری بات سن لی.خدا تیرے لئے لڑکا دے گا.‘‘ ۳ (ترجمہ) ظاہر ہوگئیں میری نشانیاں اور خوشخبری دے اُن لوگوں کو جو ایمان لائے.بے شک ان کے واسطے فتح ہے.(بدر مورخہ ۴؍اکتوبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳) ۴ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۴؍اکتوبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ میں یہ الفاظ یوں درج ہیں.’’ اَنَّ لَھُمُ الْفَتْحَ.‘‘ ۵ (ترجمہ از مرتّب) قابل تعریف غلبہ.۶ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) آپ تعجب نہ کریں کہ ۲؍ اکتوبرکا الہام ۳۰؍ستمبر کے پرچہ میں کیونکر شائع ہوگیا.حقیقت یہ ہے کہ الحکم دیر سے شائع ہوا مگر تاریخ پچھلی ڈالی گئی.چنانچہ الحکم مورخہ ۳۰؍ ستمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۱میں بھی یہ نوٹ دیا گیا.
(ج) ’’لَنَبْلُوَنَّکُمْ ‘‘ ۱؎ (بدر جلد ۲ نمبر ۴۰ مورخہ ۴ ؍ اکتوبر ۱۹۰۶صفحہ ۳.الحکم جلد ۱۰ نمبر۳۴ مورخہ ۳۰ ؍ ستمبر۱۹۰۶صفحہ ۱ ) ۹؍اکتوبر ۱۹۰۶ء ’’ الہام.اے عبد الحکیم! خدا تجھے ضرر سے بچاوے اور اندھا ہونے اور مفلوج ہونے اور مجذوم ہونے سے.‘‘ ۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۶۶) ۱۰؍اکتوبر ۱۹۰۶ء ’’ دیکھا کہ کسی کی موت کی نسبت خدا تعالیٰ کا ارادہ ہے اور الہام ہوا.اِنَّ الْمَنَایَـا لَا تَطِیْشُ سِھَامُھَا۳؎ میں نے دعا کی کہ یا الٰہی تو ہر چیز پر قادر ہے تب الہام ہوا.۱ (ترجمہ) البتہ ہم تم کو آزمائیں گے.(بدر مورخہ ۴؍اکتوبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳ ) ۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۱ ؍اکتوبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۱ اور الحکم مورخہ ۱۰؍اکتوبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ میں اس الہام سے قبل ایک خواب بدیں الفاظ درج ہے.’’ مَیں نے آج رات خواب میں دیکھا کہ میرا بھائی مرزا غلام قادر مرحوم ایک مضبوط گھوڑے پر سوار ہے اور مَیں نے خیال کیا کہ یہ فرشتہ ہے اور لفظ قادر کی مناسبت سے اُس شکل پر ظاہر ہوا ہے اور مَیں اُس کے آگے اِس قدر دوڑتا ہوں کہ گھوڑا پیچھے رہ جاتا ہے.اس کے بعد ہم شہر میں داخل ہوگئے اور وہ فرشتہ جو میرے بھائی کی شکل پر تھا گھوڑے پر سے اُتر آیا اور اس کے ہاتھ میں ایک تازیانہ ہے اور ایک مضبوط سپاہی قوی ہیکل شکل میں ہے اور ہم نے شہر میں ایک طرف جانے کا ارادہ کیا.گویا کوئی کام ہے یا کوئی خدمت ہے جو اس فرشتہ نے بجا لانی ہے.بعد اس کے الہام ہوا.اَے عبدالحکیم ! خدا تعالیٰ تجھے ہر ایک ضرر سے بچاوے.اندھا ہونے اور مفلوج ہونے اور مجذوم ہونے سے.اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ عبدالحکیم میرا نام رکھا گیا ہے.خلاصہ مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت نہیں چاہتی کہ ان بیماریوں میں سے کوئی بیماری میرے لاحقِ حال ہو کیونکہ اس میں شماتت ِ اعداء ہے.‘‘ (بدر مورخہ ۱۱ ؍ اکتوبر ۱۹۰۶صفحہ ۱.الحکم مورخہ ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۰۶صفحہ ۱ ) ۳ (ترجمہ) یعنی موتوں کے تیر خطا نہیں جاتے.(بدر مورخہ ۱۸؍اکتوبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳)
اِنَّ الْمَنَایَـا قَدْ تَطِیْشُ سِھَامُھَا ‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۶۵) ۱۲؍اکتوبر ۱۹۰۶ء روز جمعہ ’’ اس وقت جب کہ میری طبیعت نہایت خراب ہوگئی.پٹھوں پر کچھ ایسی رقت ظاہر ہوگئی کہ فالج کا خطرہ تھا.دو گھنٹے کے قریب ایسی حالت رہی.پھر قریب ساڑھے چار بجے کے یہ الہام ہوا.جو کہ رقیمہ ۱۲؍ اکتوبر ۱۹۰۶ء ہے.رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گذشت.‘‘ ۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۶۴) اکتوبر ۱۹۰۶ء ’’ عِلْمُ الدَّرْمَان‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۶۲) ۱۵؍ اکتوبر۱۹۰۶ء ’’ خواب میں دیکھا کہ مَیں کچھ لکھ رہا ہوں اور لکھتے لکھتے یہ الفاظ دیکھے.عِلْمُ۳؎ الدَّرْمَان۲۲۳ ۱ (ترجمہ از ناشر) یعنی موتوں کے تیر کبھی خطا بھی چلے جاتے ہیں.۲ (ترجمہ از مرتّب) بلا سر پر آئی ہوئی تھی لیکن خدا کے فضل سے ٹل گئی.۳ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں.’’عِلم عربی لفظ ہے جس کے معنی ہیں.جاننا اور درمان ایک فارسی لفظ ہے جس کے معنی ہیں.علاج.یعنی علاج کا علم ۱۵؍اکتوبر سے ۲۲۳دن بعد ہوجائے گا.اب دیکھنا چاہیےکہ ۱۵؍ اکتوبر سے دو سو تئیسواں دن کون سا ہے.سو حساب لگا کر دیکھو کہ وہ دن ۲۵؍ مئی ۱۹۰۷ء ہے چنانچہ اِس الہام کے مطابق حضرت اقدس ؑ ۲۶؍ مئی کو فوت ہوئے.اَب ایک اَور غور طلب امر ہے جس کا شاید مخالف کم فہمی سے انکار کردے اور وہ یہ کہ الہام تو ہوا ہے ۱۹۰۶ء کو اور فوت ہوئے ۱۹۰۸ء میں.تو یہ ایک سال اور ۲۲۳ دن ہوئے.سویاد رہے کہ اس کی دو وجوہات ہیں.اوّل تو یہ کہ اس کے ساتھ ہی الہام ہے کہ اِنَّ الْمَنَایَا لَا تَطِیْشُ سِھَامُھَا یعنی مَوتوں کے تِیر خطا نہیں جاتے (اِس سے بھی ثابت ہے کہ یہ ۲۲۳ والا الہام مَوت کے متعلق ہے) اور پھر بعد اس کے الہام ہوا اِنَّـا۴؎ نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُ ھُمْ نَزِیْدُ عُـمُرَکَ (دیکھیے ریویو آف ریلیجنز مورخہ ۲۰ ؍ نومبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۲) یعنی تیری وفات تو ۱۹۰۷ء میں ہی تھی مگر ہم نے اس عمر کو بڑھا دیا چنانچہ پورے ایک سال تک عمر میں ترقّی دی گئی اور ایک ۴ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) سہو ِ کاتب سے تشحیذ الاذہان جلد ۲ نمبر ۵ مورخہ ۱۰ ؍ مئی ۱۹۰۷ء صفحہ ۲۳ میں لفظ’’اِمَّا‘‘ لکھا گیا ہے.
علم عربی لفظ ہے اور درماؔن فارسی ہے.اس کے آ گے ۲۲۳ کا ہندسہ ہے معلوم نہیں کہ اس سے کیا مراد ہے.‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر ۴۲ مورخہ ۱۸ ؍ اکتوبر ۱۹۰۶صفحہ ۳.الحکم جلد ۱۰ نمبر۳۶مورخہ ۱۷ ؍ اکتوبر۱۹۰۶صفحہ ۱) ۱۶؍ اکتوبر۱۹۰۶ء ’’مَیں نے دیکھا کہ کسی کی موت قریب ہے.یہ متعین نہ ہوا کہ کِس کی مَوت آئی ہے.تب اس کشفی حالت میں ہی مَیں نے دُعا کی.الہام ہوا.اِنَّ الْمَنَایَا لَا تَطِیْشُ سِھَامُھَا یعنی مَوتوں کے تِیر خطا نہیں جاتے تب مَیں نے اسی کشفی حالت میں ہی پھر دُعا کی کہ اے خدا ! تُو ہر چیز پر قادر ہے.تب الہام ہوا.اِنَّ الْمَنَایَـا قَدْ تَطِیْشُ سِھَامُھَا۱؎ اِس کے بعد یہ بھی الہام تھا.رسیدہ بود بلائے وَلے بخیر گذشت.۲؎ مَیں نہیں کہہ سکتا کہ ہم سب میں سے یہ کس کے حق میں ہے.وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر ۴۲ مورخہ ۱۸ ؍ اکتوبر ۱۹۰۶صفحہ ۳.الحکم جلد ۱۰ نمبر۳۶مورخہ ۱۷ ؍ اکتوبر۱۹۰۶صفحہ ۱ ) بقیہ حاشیہ.سال کے بعد وہ حساب شروع ہوا.اور دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت ؑ کی وفات ۲۶؍ مئی کو تھی اور اگر آپ ۱۹۰۷ء میں فوت ہوجاتے تو ایک تو چند معاندین ِ سلسلہ شور مچادیتے کہ ہماری پیشگوئی کی میعاد کے اندر فوت ہوئے اور ایک یہ کہ اس وقت ۲۷ تاریخ کو آپ کی وفات ٹھہرتی اِس لئے ضروری تھا کہ آپ کی وفات لِیپ اِیئر ( یعنی جس سال میں فروری کے ۲۹ دن ہوں) میں ہوتی تاکہ پورے ۲۲۳ دن کے بعد ۲۶؍ مئی کو فوت ہوں.پس صاف ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی وفات ۱۹۰۸ء میں ہونی چاہیےتھی جو کہ لِیپ اِیئر ہے نہ کہ ۱۹۰۷ء میں جس میں فروری کے ۲۸ دن ہوتے ہیں اور ۲۲۳ دن ۲۶؍ مئی تک ختم نہیں ہوتے بلکہ ۲۷ کو ختم ہوتے ہیں.‘‘ (رسالہ تشحیذالاذہان پرچہ ماہ جون و؍ جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ ۲۱۶) ۱ (ترجمہ از ناشر) موتوں کے تیر کبھی خطا بھی چلے جاتے ہیں.۲ (ترجمہ از مرتّب) بَلا سر پر آئی ہوئی تھی لیکن خدا کے فضل سے ٹل گئی.
۲۰؍ اکتوبر۱۹۰۶ء ’’ ۱.اَللّٰہُ عَدُ وُّ الْکَاذِبِ وَ اِنَّہٗ یُوْصِلُہٗ اِلٰی جَھَنَّمَ.۲.اُغْرِقَتْ سَفِیْنَۃُ الْاَذَلِّ.۱؎ ۳.اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِ یْدٌ.‘‘۲؎ (الاستفتاء ضمیمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۷۰۲) ۲۳؍ اکتوبر۱۹۰۶ء ’’ اِنَّـا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُ ھُمْ.نَـزِیْدُ عُـمُرَکَ.‘‘۳؎ (بدر جلد ۲ نمبر۴۳ مورخہ ۲۵ ؍ اکتوبر ۱۹۰۶صفحہ ۳.الحکم جلد ۱۰ نمبر۳۷مورخہ ۲۴ ؍ اکتوبر۱۹۰۶صفحہ ۱ ) ۳۰؍ اکتوبر۱۹۰۶ء ’’کتاب حقیقۃ الوحی کے انطباع اور تیاری میں جو بہت سا خرچ ہوا ہے اور ہونے والا ہے اس کے متعلق خیال تھا تو الہام ہوا.یَـاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ.یَـاْتُوْنَ مِن کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ.یَـاْتِیْکَ رِجَالٌ نُّـوْحِیْ اِلَیْـھِمْ مِّنَ السَّمَآءِ.‘‘ ۴؎ (بدر جلد ۲ نمبر۴۴ مورخہ یکم نومبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳.الحکم جلد ۱۰ نمبر۳۷مورخہ ۲۴؍۵؎ اکتوبر ۱۹۰۶ءصفحہ ۱ ) ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ الہامات اُردو سے عربی میں ترجمہ کر کے الاستفتاء ضمیمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۷۰۲ میں درج فرمائے ہیں.الہام نمبر ۱ جو ۲؍اکتوبر کو بھی نازل ہوا اس کے الفاظ اُردو میں یہ ہیں.’’کاذب کا خدا دشمن ہے.واقعی وہ اس کو جہنّم میں پہنچائے گا‘‘ اور الہام نمبر ۲ جو ۱۵؍ نومبر کو دوبارہ ہوا ا س کے اُردو میں یہ الفاظ ہیں.’’کمترین کا بیڑا غرق ہوگیا.‘‘ ۲ (ترجمہ از مرتّب) ۳.تیرے ربّ کی گرفت بہت سخت ہے.۳ (ترجمہ) ہم تجھے بعض وہ امور دکھلاویں گے جو مخالفوں کی نسبت ہمارا وعدہ ہے اور تیری عمر زیادہ کریں گے.(بدر مورخہ ۲۵؍اکتوبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳) ۴ (ترجمہ) ہر ایک دُور کی راہ سے لوگ تیرے پاس آئیں گے.اور ہر ایک دُور کی راہ سے تیرے پاس تحائف لائیں گے.تیرے پاس وہ لوگ تحائف لائیں گے جن کو ہم آسمان سے وحی کریں گے.(بدر مورخہ یکم نومبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳) ۵ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) چونکہ اخبار دیر سے شائع ہوا ہے اِس لئے بعض واقعات ۲۴؍ اکتوبر کے بعد کے درج ہیں.(ایڈیٹر الحکم )
۳۱؍ اکتوبر۱۹۰۶ء ’’ یَنْصُـرُ۱؎کُمُ فِیْ دِیْنِہٖ.‘‘۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۵۹) ۲؍ نومبر۱۹۰۶ء ’’ خواب میں مَیں نے دیکھا کہ مَیں ایک جگہ بیٹھا ہوں اور رات کا وقت ہے.آسمان کی طرف میں نے دیکھا تو بہت ستارے جمع ہیں.تب میں نے کہا کہ آسمانی بادشاہت۳؎ یعنی ستاروں کی طرف نظر کرکے میں نے کہا کہ آسمان کی بادشاہت پھر دروازہ پر کھٹکا ہوا جا کر مَیں نے دروازہ کھولا تو میراں بخش بولا مَیںدروازہ پر تھا اور ساتھ اس کے ایک اور تھا.میراں بخش سے میں نے مصافحہ کیا اور اس کو اندر بلالیا.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۵۸، ۱۵۷) ۳؍نومبر ۱۹۰۶ء تیری دعا قبول ہوگئی.(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۵۱) ۴؍نومبر ۱۹۰۶ء ’’ لَا تَـخَفْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۵۶) ۱ (ترجمہ از ناشر) وہ (خدا) اپنے دین میں تمہاری مدد کرے گا.۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۸؍نومبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳ اورالحکم مورخہ ۱۰؍نومبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ میں الہام کے الفاظ یہ ہیں.’’.یَنْصُـرُکُمُ اللہُ فِیْ دِیْنِہٖ.‘‘ ۳ (نوٹ از ناشر) حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کی تعبیر میں فرماتے ہیں.’’ مَیں نے دیکھا کہ رات کے وقت مَیں ایک جگہ بیٹھا ہوں اور ایک اَور شخص میرے پاس ہے تب مَیں نے آسمان کی طرف دیکھا تو مجھے نظر آیا کہ بہت سے ستارے آسمان پر ایک جگہ جمع ہیں.تب مَیں نے اُن ستاروں کو دیکھ کر اور اُنہیں کی طرف اشارہ کرکے کہا.آسمانی بادشاہت پھر معلوم ہوا کہ کوئی شخص دروازہ پر ہے اور کھٹکھٹاتا ہے.جب مَیں نے دروازہ کھولا تو معلوم ہوا کہ ایک سودائی ہے جس کا نام میراں بخش ہے.اُس نے مجھ سے مصافحہ کیا اور اندر آگیا.اس کے ساتھ بھی ایک شخص ہے مگر اُس نے مصافحہ نہیں کیا اور نہ وہ اندر آیا.اِس کی تعبیر مَیں نے یہ کی کہ آسمانی بادشاہت سے مراد ہمارے سلسلہ کے برگزیدہ لوگ ہیں جن کو خدا زمین پر پھیلادے گا اور اس دیوانہ سے مُراد کوئی متکبر، مغرور، متموّل یا تعصّب کی وجہ سے کوئی دیوانہ ہے.خدا اس کو توفیق بیعت دے گا.اور پھر الہام ہوا.لَاتَـخَفْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا گویا مَیں کسی دوسرے کو تسلّی دیتا ہوں کہ تُو مت ڈر.بے شک خدا ہمارے ساتھ ہے.‘‘ (بدر مورخہ ۸ ؍ نومبر ۱۹۰۶صفحہ ۳.الحکم مورخہ ۱۰ ؍ نومبر۱۹۰۶صفحہ ۱)
۷؍ نومبر۱۹۰۶ء ’’ أَتَقْنَطُ۱؎ مِنْ رَّحْـمَۃِ اللّٰہِ الَّذِیْ یُـرَ بِّیْکُمْ فِی الْاَرْحَامِ.‘‘۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۵۶) نومبر۱۹۰۶ء ’’ رؤیا.دیکھا کہ مَیں ایک گھوڑے پر سوار ہوں اور کسی طرف جارہا ہوں.جاتے ہوئے آگے بالکل تاریکی ہوگئی تو مَیں واپس آگیا اور میرے ساتھ کچھ عورتیں بھی ہیں.واپس آتے ہوئے بھی راستہ میں گردو غبار کے سبب بہت سی تاریکی ہوگئی اور گھوڑے کی باگ کو مَیں نے ٹٹول کر ہاتھ میں پکڑا ہوا ہے.چند قدم چل کر روشنی ہوگئی.آگے دیکھا کہ ایک بڑا چبوترہ ہے.اُس پر اُتر پڑا.وہاں چند ایک لڑکے ہیں.انہوں نے شور مچایا کہ مولوی عبدالکریم آگئے.پھر مَیں نے دیکھا کہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم آرہے ہیں.اُن کے ساتھ مَیں نے مصَافحہ کیا اور السلام علیکم کہا.مولوی صاحب مرحوم نے ایک چیز نکال کر مجھے بطور تحفہ دی ہے اور کہا کہ بشپ جو پادریوں کا افسر ہے وہ بھی اسی سے کام چلاتا ہے.وہ چیز اِس طرح سے ہے جیسا کہ خرگوش ہوتا ہے.بادامی رنگ.اس کے آگے ایک بڑی نالی لگی ہوئی ہے اور نالی کے آگے ایک قلم لگا ہوا ہے.اس نالی کے اندر ہَوا بھر جاتی ہے جس سے وہ قلم بغیر محنت کے بآسانی چلنے لگتا ہے.مَیں نے کہا کہ مَیں نے تو یہ قلم نہیں منگوایا.مولوی صاحب نے فرمایا کہ مولوی محمد علی صاحب نے منگوایا ہوگا.مَیں نے کہا.اچھا مَیں مولوی صاحب کو دے دوں گا.اِس کے بعد بیداری ہوگئی.۱ (ترجمہ) کیا تُو خدا کی رحمت سے نا اُمید ہوتا ہے.وہ خدا جو تمہیں رِحموں میں پرورش کرتا ہے.(بدر مورخہ ۸؍نومبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳) ۲ (نوٹ از ناشر) اس الہام کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.’’ آج رات لنگر خانہ کے اخراجات کی نسبت مَیں قریباً ۱۲ بجے رات کے اپنے گھر کے لوگوں سے بات کررہا تھا کہ اَب خرچ ماہوار ی لنگر خانہ کا پندرہ سَو سے بھی بڑھ گیا ہے.کیا قرضہ لے لیں؟ پھر خیال آیا کہ قرضہ لینے سے کیا فائدہ.کیونکہ دو ہزار روپیہ بھی لے لیں تو ایک ماہ میں خرچ ہوجائیں گے.اس کے بعد مَیں سو گیا.صُبح نماز کے بعد الہام ہوا.أَ تَقْنَطُ مِنْ رَّحْـمَۃِ اللّٰہِ الَّذِیْ یُـرَ بِّیْکُمْ فِی الْاَرْحَامِ.‘‘ (بدر مورخہ ۸؍نومبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳.الحکم مورخہ ۱۰؍نومبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۱)
تعبیر.عورتوں سے مراد کمزور لوگ ہوسکتے ہیں اور خدا نے قرآن شریف میں اس اُمّت کے نیک بندوں کو بھی فرعون کی عورت اور مریم سے تشبیہ دی ہے اور قلم سے مُراد یہ معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ مولوی محمد علی صاحب کے دِل میں ایسی طاقت پیدا کردے کہ وہ مخالفوں کے َردّ میں اعلیٰ مضامین لکھیں.وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر۴۶ مورخہ ۱۵ ؍ نومبر ۱۹۰۶صفحہ ۳.الحکم جلد ۱۰ نمبر۳۹مورخہ ۱۷ ؍ نومبر۱۹۰۶صفحہ ۱ ) نومبر۱۹۰۶ء ’’ رَبِّ لَا تَذَ رْعَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکَافِرِیْنَ دَ یَّـارًا.‘‘ ۱؎ (بدر جلد ۲ نمبر۴۶ مورخہ ۱۵ ؍ نومبر ۱۹۰۶صفحہ ۳.الحکم جلد ۱۰ نمبر۳۹مورخہ ۱۷ ؍ نومبر۱۹۰۶صفحہ ۱ ) ۱۳؍ نومبر۱۹۰۶ء ’’ مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِھَا نَـاْتِ بِـخَیْرٍ مِّنْـھَا اَوْ مِثْلِھَا.اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِ یْـرٌ.۲؎ اور گویا مَیں کسی کو کہتا ہوں.لَا تَـخَفْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا.‘‘ ۳؎ (بدر جلد ۲ نمبر۴۶ مورخہ ۱۵ ؍ نومبر ۱۹۰۶صفحہ ۳.الحکم جلد ۱۰ نمبر۳۹مورخہ ۱۷ ؍ نومبر۱۹۰۶صفحہ ۱ ) ۱۹۰۶ء ’’نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ مع اپنے بھائیوں کے سخت مشکلات میں پھنس گئے تھے.منجملہ ان کے یہ کہ وہ ولی عہد کے ماتحت رعایا کی طرح قرار دیئے گئے تھے اور اُنہوں نے بہت کچھ کوشش کی مگر ناکام رہے.اور صرف آخری کوشش یہ باقی رہی تھی کہ وہ نواب گورنر جنرل بہادر بالقا بہ سے اپنی داد رسی چاہیں اوراس میں بھی کچھ اُمید نہ تھی کیونکہ اُن کے برخلاف قطعی طور پر حکامِ ماتحت نے فیصلہ کردیا تھا.اس طوفانِ غم وہم میں جیسا کہ انسان کی فطرت میں داخل ہے اُنہوں نے صرف مجھ سے دُعا کی ہی درخواست نہ کی بلکہ یہ بھی وعدہ کیا کہ اگر خدا تعالیٰ اُن پر رحم کرے اور اس عذاب سے نجات دے تو وہ تین ہزار نقد روپیہ بعد کامیابی کے بِلا توقف ۱ (ترجمہ از مرتّب) اے میرے ربّ زمین پر کافروں میں سے کوئی باشندہ نہ چھوڑ.۲ (ترجمہ) کسی نشان کو ہم منسوخ نہیں کرتے یا فراموش نہیں کراتے مگر اس سے بہتر یا اس جیسا نشان عطا کرتے ہیں.کیا تُو نہیں جانتا کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے.(بدر مورخہ ۱۵؍نومبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳) ۳ (ترجمہ از مرتّب) مت ڈر اللہ ہمارے ساتھ ہے.
اور صرف آخری کوشش یہ باقی رہی تھی کہ وہ نواب گورنر جنرل بہادر بالقا بہ سے اپنی داد رسی چاہیں اوراس میں بھی کچھ اُمید نہ تھی کیونکہ اُن کے برخلاف قطعی طور پر حکامِ ماتحت نے فیصلہ کردیا تھا.اس طوفانِ غم وہم میں جیسا کہ انسان کی فطرت میں داخل ہے اُنہوں نے صرف مجھ سے دُعا کی ہی درخواست نہ کی بلکہ یہ بھی وعدہ کیا کہ اگر خدا تعالیٰ اُن پر رحم کرے اور اس عذاب سے نجات دے تو وہ تین ہزار نقد روپیہ بعد کامیابی کے بِلا توقف لنگر خانہ کی مدد کے لئے ادا کریں گے چنانچہ بہت سی دُعاؤں کے بعد مجھے یہ الہام ہواکہ.اے سیف اپنا رُخ اِس طرف پھیر لے ۱؎ تب مَیں نے نواب محمد علی خان صاحب کو اِس وحیِ الٰہی سے اطلاع دی.بعد اس کے خدا تعالیٰ نے اُن پر رحم کیا.‘‘ (چشمہ ء ِمعرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۳۳۹ ) ۱۵؍ نومبر۱۹۰۶ء (الف) ’’ ۱.قادر ہے وہ بارگاہ ٹوٹا کام بناوے بنا بنایا توڑ دے کوئی اس کا بھید نہ پاوے ۲.کمترین کا بیڑا غرق ہوگیا.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۵۲، ۱۵۱) (ب) ’’آج رات ستائیسویں رمضان المبارک تھی اور اِس پر یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ یہ رات شب ِ قدر کی ہوتی ہے.مَیں نے سوچا کہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں شاید پھر یہ رات نصیب ہو یا نہ ہو.پس مَیں اُٹھا اور مَیں نے نماز پڑھ کر دعا۲؎ کی.بعد میں مفصّلہ ذیل الہامات ہوئے.۱.قادر ہے وہ بارگاہ ٹوٹا کام بناوے بنا بنایا توڑ دے کوئی اس کا بھید نہ پاوے ۲.کمترین۳؎ کا بیڑا غرق ہوگیا (یعنی کسی کے قول کی طرف اشارہ ہے) اور یا شاید کمترین سے مراد کوئی شدید مخالف ہے.۳.تیری دعا قبول کی گئی.۱ (نوٹ از ناشر) کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۵۲ اور بدر مورخہ ۱۵ ؍ نومبر ۱۹۰۶صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۱۷؍نومبر ۱۹۰۶صفحہ ۱ پر اس الہام کے الفاظ یہ ہیں.’’ اے سیف اپنا رُخ پھیر لے‘‘ ۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یعنی دعا کرنے کے لئے نماز پڑھی اور اُس میں دعا کی.۳ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) الاستفتاء مشمولہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۷۰۲ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ الہام حضور ؑ کو ۲۰؍ اکتوبر ۱۹۰۶ء میں بھی ہوا تھا.
اصل میں یہ ہرسہ الہام پیشگوئیاں ہیں خواہ ایک شخص کے لئے ہوں اور خواہ تین جدا شخصوں کے حق میں ہوں.‘‘ (بدر۱؎ جلد ۲ نمبر۴۷ مورخہ ۲۲ ؍ نومبر ۱۹۰۶صفحہ ۳) ۱۶؍نومبر ۱۹۰۶ء ’’ ۱.مَا۲؎ وَقَفْتُ مَوْقِفًا اَغْیَظَ مِنْ ھٰذَا.۲.اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِ یْدٌ.۳؎ ۳.طُوْبٰی لِمَنْ وَافَقَ.‘‘۴؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۵۰) ۱۸؍ نومبر۱۹۰۶ء روز عید ’’خواب میں دیکھا کہ ایک جڑھ ہمارے باغ میں لگارہے ہیں جب وہ لگ گئی تو غیب سے آواز آئی کہ.مبارک.‘‘ (کاپی الہامات۵؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۴۹) ۲۲؍ نومبر۱۹۰۶ء ’’ رَبِّ۶؎ احْفَظْنِیْ فَاِنَّ الْقَوْمَ یَأْخُذُ وْنَنِیْ۷؎ سُـخْرَۃً.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۴۸) ۱ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۱۷ ؍ نومبر۱۹۰۶ء صفحہ ۲ میں ان الہامات کی تفصیل اور الفاظ میں معمولی اختلاف ہے.۲ (ترجمہ) ۱.اس سے زیادہ غضبناک کسی موقع پر میں کھڑا نہیں ہوا.۲.تحقیق پکڑ تیرے ربّ کی سخت ہے.(بدر مورخہ ۲۹؍نومبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳) ۳ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲۹؍نومبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۲۴؍ نومبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ میں ان الہامات کی تاریخ ۱۸؍نومبر ۱۹۰۶ء درج ہے نیز ان الہامات سے قبل یہ تحریر ہے کہ ’’پھر ایک نظارہ آنکھوں کے سامنے پھر گیا اور اس کے بعد الہام ہوا.‘‘ ۴ (ترجمہ از ناشر) مبارک ہو اس کے لئے جس نے موافقت کی.۵ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲۹؍نومبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۲۴؍ نومبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ میں یہ رؤیا باختلاف الفاظ درج ہے.۶ (ترجمہ) اے میرے ربّ! میری حفاظت کر کیونکہ قوم نے تو مجھے ٹھٹھے کی جگہ ٹھہرالیا.(بدر مورخہ ۲۹؍نومبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳) ۷ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲۹؍نومبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۲۴؍ نومبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ میں اس الہام کے الفاظ یوں ہیں.’’ رَبِّ احْفَظْنِیْ فَاِنَّ الْقَوْمَ یَتَّخِذُ وْنَنِیْ سُـخْرَۃً.‘‘
نومبر ۱۹۰۶ء ’’ ۱.اولیاء اللہ سے مخالفت کرنا اس کا نتیجہ اچھا نہیں.۲.مَنَّ۱؎ عَلَیْکُمْ رَبُّکُمْ.۳.اُعْطِیْکَ مَا اُعْطِیْکَ.۴.مَنَّ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ.۵.اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یَلْتَفِتُوْنَ اِلَیْکَ لَا یَلْتَفِتُوْنَ اِلَی اللّٰہِ.۶.اولیاء اللہ سے مخالفت کرنا نتیجہ اچھا نہیں رکھتا.۷.مَنَّ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ.۸.اُعْطِیْکَ مَا اُعْطِیْکَ.۹.اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یَلْتَفِتُوْنَ اِلَیْکَ لَا یَلْتَفِتُوْنَ اِلَی اللّٰہِ.۱۰.خوش قسمتی سے میرا بیڑا پار ہوگیا.۱۱.رَبِّ اِنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِـرْ.۱۲.اِنَّ رَبِّیْ سَیَـھْدِیْنِ.۱۳.اَسْـمَعُ وَاَرٰی.‘‘ (کاپی الہامات۲؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۴۵، ۱۴۴) ۲۸؍نومبر ۱۹۰۶ء ۱.’’میری نسبت.لَوْ۳؎ اَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَاَ بَـرَّہٗ.‘‘۴؎ ۱ (ترجمہ از ناشر) ۲.تم پر تمہارے ربّ نے احسان کیا.۳.مَیں تجھے دوں گا جو چیز دوں گا.۴.تمہارے ربّ نے تم پر احسان کیا.۵.جو لوگ تیری طرف اِلتفات نہیں کرتے یعنی نظرِ انکار سے دیکھتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی طرف بھی اِلتفات نہیں کرتے.۷.خدا نے تم پر احسان کیا.۸.مَیں تجھے دوں گا جو چیز دوں گا.۹.جو لوگ تیری طرف اِلتفات نہیں کرتے یعنی نظرِ انکار سے دیکھتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی طرف بھی اِلتفات نہیں کرتے.۱۱.اے میرے ربّ میں مغلوب ہوں پس میری مدد کر.۱۲.میرا ربّ عنقریب میری راہ کھول دے گا.۱۳.میں سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں.۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲۹؍نومبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۲۴؍نومبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۱ میں ۲۳؍نومبر ۱۹۰۶ء کے تحت یہ الہامات یوں درج ہیں.’’اِنَّ اللہَ مَنَّ عَلَیْکُمْ وَاُعْطِیْکَ مَا اُعْطِیْکَ.اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یَلْتَفِتُوْنَ اِلَیْکَ لَا یَلْتَفِتُوْنَ اِلَی اللّٰہِ.پھر بعد اس کے الہام ہوا.اولیاء اللہ سے مخالفت رکھنا اس کا نتیجہ اچھا نہیں.‘‘ ۳ (ترجمہ از مرتّب) اگر وہ اللہ تعالیٰ کی قسم کھا بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اس قسم کو ضرور پُورا کردے گا.۴ (نوٹ از ناشر) ۱.الحکم اور بدر میں یہ الہام یوں درج ہے.’’ایک امر کے متعلق مزید تحقیقات کی حاجت تھی اس پر الہام ہوا.لَوْ اَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَاَ بَـرَّہٗ (الحکم مورخہ ۳۰؍نومبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۱.بدر مورخہ ۶؍ دسمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳) ۲.’’سعداللہ کی اِس پیشگوئی کے پُورا ہونے کے متعلق ایک مجلس میں ذکر تھا… ایک… خادم نے عرض کیا کہ یہ امر شاید قبل از وقت ہو.اس پر حضرت اقدس نے بزور کہا کہ یہ پیشگوئی پوری ہوچکی ہے اورہمیں اس میں کوئی تامل نہیں.ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری اِس بات کو جھوٹا نہیں کرے گا اور اس میں فتح ہماری ہے.اس پر حضرت کو الہام ہوا جو الحکم میں مورخہ ۳۰؍نومبر ۱۹۰۶ء کو چھاپ دیا گیا.لَوْ اَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَاَ بَـرَّہٗ اورابھی اِس الہام پر تھوڑاہی عرصہ گزرا تھا کہ ۴؍جنوری کی شب کو لدہانہ کے ایک تارنے خبردی کہ سعداللہ فوت ہوگیا.‘‘ (الحکم مورخہ ۱۰ ؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۵)
۲.(رؤیا) ’’اور دیکھا کہ میں حاکم ہوں اور مقدمات کو فیصلہ کرتا ہوں ایک شخص کا میں نےمقدمہ کرنا چاہا ہے.اُس نے کہا کہ اس کا نمبر چوتھا ہے.بہر حال میں نے اس مقدمہ کو لکھنا شروع کردیا.‘‘ ۳.’’۱.نِلْتَ خَیْرًا وَّ رُشْدًا.۲.یُکْرِمُ اللہُ اِکْرَامًا عَـجَبًا.‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۴۳، ۱۴۲) ۱۹۰۶ء ’’عبدالکریم۲؎ نام ولد عبدالرحمٰن ساکن حیدر آباد دکھن ہمارے مدرسہ میں ایک لڑکا طالب العلم ہے.قضاء قدر سے اس کو سگِ دیوانہ کاٹ گیا.ہم نے اس کو معالجہ کے لئے کسولی بھیج دیا.چند روز تک اُس کا کسولی میں علاج ہوتا رہا پھر وہ قادیان میں واپس آیا.تھوڑے دن گزرنے کے بعد اس میں وہ آثار دیوانگی کے ظاہر ہوئے جو دیوانہ کُتّے کے کاٹنے کے بعد ظاہر ہوا کرتے ہیںاور پانی سے ڈرنے لگا اور خوفناک حالت پیدا ہوگئی.تب اُس غریب الوطن عاجز کے لئے میرا دل سخت بے قرار ہوا اور دُعا کے لئے ایک خاص توجہ پیدا ہوگئی.ہر ایک شخص سمجھتا تھا کہ وہ غریب چند گھنٹہ کے بعد مَرجائے گا.ناچار اُس کو بورڈنگ سے باہر نکال کر ایک الگ مکان میں دوسروں سے علیحدہ ہر ایک احتیاط سے رکھا گیا اور کسولی کے انگریز ڈاکٹروں کی طرف تار بھیج دی اور پوچھا گیا کہ اِس حالت میں اس کا کوئی علاج بھی ہے.اُس طرف سے بذریعہ تار جواب آیا کہ اَب اس کا کوئی علاج نہیں.مگر اُس غریب اور بے وطن لڑکے کے لئے میرے دل میں بہت توجہ پیدا ہوگئی اور میرے دوستوں نے بھی اس کے لئے دعا کرنے کے لئے بہت ہی اصرار کیا کیونکہ اس غربت کی حالت میں وہ لڑکا قابلِ رحم تھا اور نیز دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ اگر وہ مَر گیا تو ایک بُرے رنگ میں اُس کی موت شماتت ِ اعدا کا موجب ہوگی.تب میرا دل اس کے لئے سخت درد اور بے قراری میں مبتلا ہوا اور خارق عادت توجہ پیدا ہوئی جو اپنے اختیار سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ محض خدا تعالیٰ کی طرف سے پیدا ہوتی ہے.اور اگر پیدا ہوجائے تو خدا تعالیٰ کے اِذن سے وہ اثر دکھاتی ہے کہ قریب ہے کہ اس سے مُردہ زندہ ہوجائے.غرض اُس کے لئے اِقبال علی اللہ کی حالت میسّر آگئی اور جب وہ توجہ انتہا تک پہنچ گئی اور درد نے اپنا پورا تسلّط میرے دل پر کرلیا تب اِس بیمار پر جو درحقیقت مُردہ تھا اِس توجہ کے آثار ظاہر ہونے شروع ہوگئے اور یا تو وہ پانی سے ڈرتا اور روشنی سے بھاگتا تھا اور ۱ (ترجمہ از ناشر) ۱.تو نے بھلائی اور ہدایت پائی.۲.اللہ عجیب طور پر بزرگی ظاہر کرے گا.۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) میاں عبدالکریم صاحبؓ یاد گیر ضلع گلبرگہ ریاست حیدرآباد دکن کے رہنے والے تھے.آپ اِس واقعہ کے بعد ۲۸ سال تک زندہ رہے اور آخر؍ دسمبر ۱۹۳۴ء میں وفات پائی.
یا یک دفعہ طبیعت نے صحت کی طرف رُخ کیا اور اُس نے کہا کہ اَب مجھے پانی سے ڈر نہیں آتا.تب اُس کو پانی دیا گیا تو اس نے بغیر کسی خوف کے پی لیا بلکہ پانی سے وضو کرکے نماز بھی پڑھ لی اور تمام رات سوتا رہا اور خوفناک اور وحشیانہ حالت جاتی رہی یہاں تک کہ چند روز تک بکُلّی صحت یاب ہوگیا.میرے دل میں فی الفور ڈالا گیا کہ یہ دیوانگی کی حالت جو اس میں پیدا ہوگئی یہ اِس لئے نہیں تھی کہ وہ دیوانگی اُس کو ہلاک کرے بلکہ اِس لئے تھی کہ تا خدا کا نشان ظاہر ہو اور تجربہ کار لوگ کہتے ہیں کہ کبھی دُنیا میں ایسا دیکھنے میں نہیں آیا کہ ایسی حالت میں کہ جب کسی کو دیوانہ کتے نے کاٹا ہو اور دیوانگی کے آثار ظاہر ہوگئے ہوں پھر کوئی شخص اس حالت سے جانبر ہوسکے اور اِس سے زیادہ اِس بات کا اَور کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ جو ماہر اِس فن کے کسولی میں گورنمنٹ کی طرف سے سگ گزیدہ کے علاج کے لئے ڈاکٹر مقرر ہیں اُنہوں نے ہمارے تار کے جواب میں صاف لکھ دیا ہے کہ اَب کوئی علاج نہیں ہوسکتا.۱؎ اِس جگہ اِس قدر لکھنا رہ گیا کہ جب مَیں نے اس لڑکے کے لئے دُعا کی تو خدا نے میرے دل میں القا کیا کہ فلاں دوا دینی چاہیے چنانچہ مَیں نے چند دفعہ وہ دَوا بیمار کو دی آخر بیمار اچھا ہوگیا یا یُوں کہو کہ مُردہ زندہ ہوگیا.‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۴۸۰، ۴۸۱) نومبر ۱۹۰۶ء ’’ ’’ وَ۲؎رُبَّ مُوْذٍ مَا اٰذَوْنِیْ اِلَّا لِیُظْھِرَاللّٰہُ بِـھِمْ بَعْضَ الْاٰ یَاتِ وَ قَدْ قَصَصْنَا قِصَصَھُمْ فِیْ حَقِیْقَۃِ الْوَحْیِ لِتَکُوْنَ تَـبْصِـرَۃً لِّلطَّالِبِیْنَ وَ الطَّالِبَاتِ.وَاَقْرَبُ الْقِصَصِ مِنْ Station Batala Kasauli To Person From Person Sherali Kadian Pasteur Sorry nothing can be done for Abdul Karim (ترجمہ) مقام بٹالہ از مقام کسولی بنام شیر علی قادیان از جانب پیسٹیؤر افسوس ہے کہ عبد الکریم کے واسطے کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا.(تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۴۸۱، ۴۸۲) ۲ (ترجمہ از مرتّب) کئی ایذا رسانوں کی ایذا کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ سے بعض نشانات دکھائے.ایسے لوگوں کا ذکر ہم نے طالبانِ حق کی بصیرت کی غرض سے حقیقۃ الوحی میں کیا ہے اور ایک اِس قِسم کا تازہ
ھٰذَا الْوَقْتِ قِصَّۃُ رَجُلٍ مَّاتَ فِیْ ذِی الْقَعْدَ.ۃِ.وَکَانَ یَلْعَنُنِیْ وَیَسُبُّنِیْ.وَکَانَ اسْـمُہٗ سَعْدَ اللّٰہِ.وَکَانَ سَبُّہٗ کَالصَّعْدَ ۃِ.وَاِذَا بَلَغَ شَتْمُہٗ اِلٰی مُنْتَـھَاہُ وَ سَبَقَ فِی الْاِیْذَآءِ کُلَّ مَنْ سِوَاہُ اَوْحٰٓی اِلَیَّ رَبِّیْ فِیْٓ اَمْرِ مَوْتِہٖ وَخِزْیِہٖ وَقَطْعِ نَسْلِہٖ بِـمَا قَضَاہُ وَقَالَ اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَالْاَ.بْتَرُ.فَاَشَعْتُ بَیْنَ النَّاسِ مَآ اَوْحٰی رَبِّیَ الْاَکبَرُ.ثُمَّ بَعْدَ ذٰلِکَ صَدَّ.قَ اللّٰہُ اِلْھَامِیْ.فَاَرَدْتُّ اَنْ اُفَصِّلَہٗ فِیْ کَلَامِیْ.وَاُشِیْعَ مَا صَنَعَ اللّٰہُ بِذَ.الِکَ الْفَتَّانِ.وَعَدُ.وِّ عِبَادِاللّٰہِ الرَّحْـمٰنِ.فَـمَنَعَنِیْ مِنْ ذٰلِکَ وَکِیْلٌ کَانَ مِنْ جَـمَاعَتِیْ وَخَوَّفَنِیْ مِنْ اِرَادَۃِ اِشَاعَتِیْ.وَقَالَ لَوْاَشَعْتَھَا لَا تَـاْ مَنُ جَـمَاعَتِیْ وَخَوَّفَنِیْ مِنْ اِرَادَۃِ اِشَاعَتِیْ.وَقَالَ لَوْ اَشَعْتَھَا لَا تَـاْ مَنُ مَقْتَ الْـحُکَّامِ، وَ یَـجُرُّکَ الْقَانُوْنُ اِلَی الْاَثَامِ، وَ لَا سَبِیْلَ اِلَی الْـخَلَاصِ.وَلَاتَ حِیْنَ مَنَاصٍ، وَ تَلْزَمُکَ الْمَصَآئِبُ مُلَازَمَۃَ الْغَرِیْمِ.وَالْمَآلُ مَعْلُوْمٌ بَعْدَ التَّعَبِ الْعَظِیْمِ.وَلَیْسَتِ الْـحُکُوْمَۃُ تَـارِکَ الْمُجْرِمِیْنَ.فَالْـخَیْرُ فِیْ اِخْفَآءِ ھٰذَا الْوَحْیِ کَالْمُحْتَاطِیْنَ.فَقُلْتُ اِنِّیْ اَرَی الصَّوَابَ فِیْ تَعْظِیْمِ الْاِلْھَامِ.وَ اِنَّ الْاِخْفَآءَ مَعْصِیَۃٌ عِنْدِ.یْ وَ مِنْ سِیَرِاللِّئَامِ.وَ مَا کَانَ لِاَحَدٍ اَنْ بقیہ ترجمہ.واقعہ ایک شخص (کی ہلاکت) کا ہے جو ابھی ماہِ ذی قعدہ ۱۳۲۴ھ میں واقع ہوا ہے.یہ شخص میرے متعلق سخت بدزبانی سے کام لیا کرتا تھا اور مجھ پر لعنتیں بھیجا کرتا تھا.اس کانام سعد اللہ (لدھیانوی) تھا.یہ شخص اپنی بد زبانی سے نیزہ کی طرح سخت زخم پیدا کرتا تھا.جب اس شخص کی بَد زبانی اپنی اِنتہا کو پہنچ گئی اور وہ ایذارسانی میں سب سے آگے بڑھ گیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کے جلد ہلاک ہونے اور ذلیل و رُسوا اور اَبتر ہونے کے متعلق اپنی قضا و قدر سے آگاہی بخشی اور اس کے متعلق فرمایا اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَالْاَ بْتَـرُ یعنی تیرا یہ دشمن مُنْقَطِعُ النَّسل اور ناکام و نامُراد رہے گا چنانچہ مَیں نے اِس وحیِ الٰہی کو لوگوں میں شائع کردیا اور ا س کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی اس وحی کی سچائی کو جو اُس نے مجھے الہام کی تھی ظاہر کردیااور اپنے فرمودہ کو پورا کردیا اِس لئے مَیں نے چاہا کہ اسے تفصیل سے بیان کرکے لوگوں میں اس کی اشاعت کروں.لیکن ایک وکیل نے جو میری جماعت میں شامل تھا مجھے اس کی اشاعت سے روکا اور اس کے متعلق بہت خوف اور خطرہ کا اظہار کیا اور کہا کہ اس کی اشاعت کی صورت میں یہ معاملہ ضرور حکام تک پہنچے گااور اس وقت قانون کی زد اور سزا سے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی اور مصائب کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا اور مقدّمہ کی سخت مصیبت اُٹھانے کے بعداس کا جو نتیجہ ہوگا وہ ظاہر ہے اور ایسی صورت میں حکومت ضرور سزا دے گی اِس لئے بہتری اسی میں ہے کہ احتیاط سے کام لے کر اس وحی کا اخفاء کیا جائے.مَیں نے اُسے کہا کہ میرے نزدیک تو راہِ صواب یہی ہے کہ الہامِ الٰہی کی تعظیم کو مقدّم کیا جائے اور اس کا اخفاء میرے نزدیک اللہ تعالیٰ کی معصیت میں داخل اور ایک کمینہ فعل ہے اور خدا تعالیٰ
یَّضُـرَّ مِنْ دُ.وْنِ بَارِیَ الْاَنَـامِ.وَ لَا اُبَـالِیْ بَعْدَ.ہٗ تَـھْدِیْدَ الْـحُکَّامِ.وَنَدْعُوْ رَبَّنَا الَّذِیْ ھُوَ مَنْبَتُ الْفَضْلِ وَ اِنْ لَّمْ یُسْتَجَبْ فَنَرْضٰی بِالْعَیْشِ الرَّذْلِ وَ وَاللّٰہِ اِنَّہٗ لَا یُسَلِّطُ عَلَیَّ ھٰذَا الشَّـرِیْـرَ.وَ یُنَزِّلُ عَلَیْہِ اٰفَۃً وَ یُنْجِیْ عَبْدَ.ہُ الْمُسْتَجِیْرَ.فَـسَـمِــعَ کَلَامِیْ بَعْضُ زُبْدَۃِ الْمُخْلِصِیْنَ الْفَاضِلُ الْـجَلِیْلُ فِیْ عِلْمِ الدِّیْنِ.اَعْنِیْ مُـحِبَّنَا الْمَوْلَوِیَّ الْـحَکِیْمَ نُـوْرُالدِّ.یْنِ فَـجَرٰی عَلٰی لِسَانِہٖ حَدِ.یْثُ رُبَّ اَشْعَثَ اَغْبَـرَ.وَاطْـمَئَنَّ الْقُلُوْبُ بِقَوْلِیْ وَ قَوْلِہٖ.وَخَطَّأُوا الْمُحَذِّ.رَ.وَاسْتَضْعَفُوْا بِنَآءَ ھَوْلِہٖ.ثُمَّ دَعَوْتُ عَلٰی سَعْدِ اللّٰہِ اِلٰی ثَلَاثَۃِ اَیَّـامٍ وَ تَـمَنَّیْتُ مَوْتَہٗ مِنْ رَّبٍّ عَلَّامٍ.فَاَوْحٰی اِلَـیَّ رُبَّ اَشْعَثَ اَغْبَرَ لَوْاَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَاَ بَـرَّہٗ یَعْنِیْ اَنَّہٗ تَعَالٰی یُدَافِعُ عَنْکَ شَـرَّہٗ.فَوَاللّٰہِ مَا مَضٰی عَلَـیَّ اِلَّا لَیَالِیْ حَتّٰی جَآءَنِیْ نَعْیُ مَوْتِہٖ.فَالْـحَمْدُ لِلہِ عَلٰی مَا ضَـرَبَ الْعَدُ.وَّ بِسَوْطِہٖ.‘‘ (الاستفتاء ضمیمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۶۵۷ ، ۶۵۸) بقیہ ترجمہ.کے سوا کسی کی طاقت نہیں کہ ضَرر پہنچا سکے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے بعد مَیں حکام کی تہدید سے نہیں ڈرتا.ہاں ہم اللہ تعالیٰ کی جناب میں جو فضل و کرم کا منبع ہے دُعا کریں گے کہ وہ ہمیں ہر ایک مصیبت اور فتنہ سے محفوظ رکھے اور اگر قضاء و قدر میں یہی لکھا ہے کہ یہ مصیبت ہم پر آئے تو ہم اِس ذِلّت والی زندگی پر ہی راضی ہیں اور مَیں اللہ تعالیٰ کی قَسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ اُس شریر انسان کو مجھ پر مسلّط نہیں کرے گااور اُسے کسی آفت میں مبتلا کرکے اپنے اِس بندہ کو جو اس کے حضور پناہ کا طالب ہے اس کے شر سے محفوظ رکھے گا.جب میری یہ بات میرے یکتا مخلص فاضل ماہر علومِ دین مولوی حکیم نورالدین صاحب نے سُنی تو اُن کی زبان پر حدیث رُبَّ اَشْعَثَ اَغْبَرَ جاری ہوئی اور میرے جواب کو سُن کر اور نیز مولوی صاحب سے یہ حدیث سُن کر جماعت کے لوگوں کو اطمینان حاصل ہوگیا اور انہوں نے اس وکیل کو جس نے مجھے ڈرایا تھا غلطی خوردہ قرار دیا اور اس کی تخویف کو ہیچ سمجھا.اس کے بعد مَیں نے تین روز تک سعد اللہ کی موت کے لئے خدا تعالیٰ کی جناب میں دعائیں کیں جس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ وحی نازل کی رُبَّ اَشْعَثَ اَغْبَرَ لَوْ اَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَاَ بَـرَّہٗ یعنی بعض لوگ جو عوام کی نظروں میں پراگندہ مُو اور غبار آلود ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کے حضور وہ مقام رکھتے ہیں کہ اگر وہ کسی بات کے متعلق قَسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قَسم کو ضرور پورا کردیتا ہے اور اس سے مُراد یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کے شر سے تمہیں محفوظ کرے گا.سو مجھے اللہ تعالیٰ کی قَسم ہے کہ ابھی چند ہی روز گزرے تھے کہ اس کی ہلاکت کی خبر آگئی.سو اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اُس نے اس دشمن کو اپنے کوڑے کا نشانہ بنایا.(نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) یہ وکیل خواجہ کمال الدین صاحب تھے چنانچہ الحکم جلد ۳۸ نمبر ۷
۴؍ دسمبر۱۹۰۶ء (الف) ’’ اَ کْـرَمَ اللّٰہُ اِکْـرَامًا عَـــجَـبًا.۱؎ دیکھا کہ میری بیوی نے انگشتری اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَ ہٗ مجھ کو دی ہے.اور پھر الہام ہوا.مبارک باد.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۴۲) (ب) ’’ یُکْـرِمُکَ اللّٰہُ اِکْـرَامًا عَـــجِیْبًا.۲؎ پھر مجھے ایک مہر دی گئی جو میری ہے.اس میں لکھا ہے.اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَ ہٗ.پھر الہام ہوا.اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَ ہٗ.۳؎ پھر الہام ہوا.مبارک باد.‘‘ (بدر جلد ۲ نمبر ۴۹ مورخہ ۶؍دسمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۴۲ مورخہ ۱۰؍دسمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۱) ۱۶؍ دسمبر۱۹۰۶ء ’’ بَشِّـرْھُمْ بِـاَ یَّـامِ اللّٰہِ وَ ذَکِّرْھُمْ تَذْکِیْرًا.‘‘۱؎ بقیہ حاشیہ.مورخہ ۲۸؍فروری ۱۹۳۵ء صفحہ ۳،۴ میں جہاں مولوی محمد ابراہیم صاحبؓ بقا پوری کی چشم دید روایات درج ہیں ان میں بھی یہ واقعہ تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے.ذیل میں اس کا خلاصہ درج کیا جاتا ہے.واقعہ یوں ہے کہ جب حضرت اقدس ؑ نے حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۷۸ کے حاشیہ میں سعداللہ لدھیانوی کے بیٹے کو نامَرد لکھا تو خواجہ صاحب چونکہ وکیل تھے اِس لئے بہت گھبرائے کہ اگر سعداللہ نے مقدمہ کردیا تو اس کے بیٹے کو نامَرد ثابت کرنا مشکل ہوجائے گا اِس لئے حضور ؑ کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور اِس حاشیہ کو کاٹ ڈالیں.حضورؑ نے فرمایا ’’مَیں نے خدا تعالیٰ کی مرضی سے لکھا ہے مَیں اس کو نہیں کاٹوں گا.‘‘ خواجہ صاحب نے پھر کہا کہ حضور مجھے تو بہت گھبراہٹ رہے گی.فرمایا ’’ اگر سعداللہ مقدمہ کرے گا تو ہم اقرار کرتے ہیں کہ ہم آپ کو وکیل نہیں بنائیں گے.‘‘ اِس پر وہ خاموش ہوگئے اور لاہور جاکر مولوی محمد علی صاحب کو خط لکھا کہ رات مجھے نیند نہیں آئی کہ اگر سعداللہ نے دعویٰ کردیا تو اس کو ثابت کرنا مشکل ہے.چَین کی دو ہی صورتیں ہیں یا حضرت صاحب حاشیہ کاٹ ڈالیں یا سعداللہ مرجائے.چنانچہ مولوی محمد علی صاحب نے جب حضور ؑ کی خدمت میں عرض کیا تو حضور ؑ نے سُن کر فرمایا ’’ کوئی تعجب نہیں کہ سعد اللہ جلد ہی مَر جائے.‘‘ چنانچہ بعد میں حضورؑ کو ’’ رُبَّ اَشْعَثَ اَغْبَرَ الخ ‘‘ الہام ہوا اور پھر چند روز کے بعد سعد اللہ کی مَوت کی نسبت تار آگئی اور حضرت نے تتمہ حقیقۃ الوحی میں مندرجہ بالا واقعہ لکھا.۱ (ترجمہ از ناشر) اللہ تعالیٰ نے عجب تکریم فرمائی.۲ (ترجمہ) خدا عجیب طور پر تیری بزرگی ظاہر کرے گا.(بدر مورخہ ۶؍دسمبر ۱۹۰۶ء صفحہ۳) ۳ (ترجمہ) کیا اللہ اپنے بندے کے واسطے کافی نہیں.(بدر مورخہ ۶؍دسمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳)
۱۶؍ دسمبر۱۹۰۶ء ’’ بَشِّـرْھُمْ بِـاَ یَّـامِ اللّٰہِ وَ ذَکِّرْھُمْ تَذْکِیْرًا.‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۳۷.بدر جلد ۲ نمبر ۵۱ مورخہ ۲۰؍دسمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۴۲ مورخہ ۱۰؍دسمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۱) ۱۹۰۶ء ۲؎ ’’برتر گمان و وہم سے احمد ؐ کی شان ہے جس کا غلام دیکھو مسیح الزمان ہے‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۸۶ حاشیہ) ۱۹۰۶ء ’’مجھے دو بیماریاں مدّت دراز سے تھیں.ایک شدید دردِ سر.جس سے مَیں نہایت بے تاب ہوجاتا تھا اور ہَولناک عوارض پیدا ہوجاتے تھے اور یہ مرض قریباً پچیس برس تک دامنگیر رہی اور اس کے ساتھ دَورانِ سر بھی لاحق ہوگیا اور طبیبوں نے لکھا ہے کہ ان عوارض کا آخری نتیجہ مِرگی ہوتی ہے … مَیں دُعا کرتا رہا کہ خدا تعالیٰ اِن امراض سے مجھے محفوظ رکھے.ایک دفعہ عالَم کشف۳؎ میں مجھے دکھائی دیا کہ ایک بَلا سیاہ رنگ چارپائے کی شکل پر جو بھیڑ کے قد کی مانند اس کا قدتھا اور بڑے بڑے بال تھے اور بڑے بڑے پنجے تھے میرے پر حملہ کرنے لگی اور میرے دِل میں ڈالا گیا کہ یہی صرع ہے تب مَیں نے اپنا دہنا ہاتھ زور سے اس کے سینہ پر مارا اور کہا کہ دُور ہو تیرا مجھ میں حصّہ نہیں.تب خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ بعد اس کے وہ خطرناک عوارض جاتے رہے اور وہ دردِ شدید بالکل جاتی رہی صرف دَورانِ سر کبھی کبھی ہوتا ہے تا دو زرد رنگ چادروں کی پیشگوئی میں خلل نہ آوے.دوسری مرض ذیابیطس تخمیناً بیس برس سے ہے جو مجھے لاحق ہے…اور ابھی تک بیس دفعہ کے قریب ہر روز پیشاب آتا ہے اور امتحان سے بول میں شکّر پائی گئی.ایک دن مجھے خیال آیا کہ ڈاکٹروں کے تجربہ کے رُو سے انجام ذیابیطس کا یا تو نزول الماء ہوتا ہے اور یا کاربنکل یعنی سرطان کا پھوڑا نکلتا ہے جو مُہلک ہوتا ہے.سو اسی وقت نزول الماء کی نسبت مجھے الہام ہوا.۱ (ترجمہ) ان کو خوشخبری دے اللہ تعالیٰ کے دنوں کی اور ان کو نصیحت کر نصیحت کرنا.(بدر مورخہ ۲۰؍دسمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳) ۲ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) اِس الہام کی تاریخ نزول کا معیّن طور پر پتہ نہیں لگ سکا.۳ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) چونکہ اِس کشف اور اِن الہامات کے وقت ِ نزول کا معیّن طور پر کوئی پتہ نہیں لگ سکا اِس لئے وقت ِ ذکر کی رعایت سے انہیں حقیقۃ الوحی کے زمانہ میں ہی ذکر کیا جاتا ہے.
نَزَلَتِ الرَّحْـمَۃُ عَلٰی ثَلَاثٍ اَلْعَیْنِ وَ عَلَی الْاُخْرَیَیْنِ یعنی تین عضو پر رحمت نازل کی گئی آنکھ اور دو اَور عضو پر اور پھر جب کاربنکل کا خیال میرے دل میں آیا تو الہام ہوا.اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ سو ایک عمر گزری کہ مَیں اِن بَلاؤں سے محفوظ ہوں.فَالْـحَمْدُ لِلہِ.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۷۶، ۳۷۷) جنوری ۱۹۰۷ء ’’ حضور نے تین چار روز کے الہام اور خواب سنایا.۱.سَاُکْرِمُکَ اِکْـرَامًا عَـجَبًا وَّ کَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِ رًا.۱؎ ۲.رؤیا.شریف احمد کو خواب میں دیکھا کہ اُس نے پگڑی باندھی ہوئی ہے اور دو آدمی پاس کھڑے ہیں.ایک نے شریف احمد کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ وہ باد۲؎شاہ آیا دوسرے نے کہا کہ ابھی تو اِس نے قاضی بننا ہے.فقط فرمایا.قاضی حَکَم کو بھی کہتے ہیں.قاضی وہ ہے جو تائید حق کرے اور باطل کو رَدّ کرے.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر۱، ۲ مورخہ ۱۰ ؍ جنوری۱۹۰۷ءصفحہ ۳.الحکم جلد ۱۱ نمبر۱مورخہ ۱۰ ؍ جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱) ۱۶؍جنوری ۱۹۰۷ء ’’ نَفْتَحُ عَلَیْکَ اَبْوَابَ کُلِّ شَیْءٍ مِّنْ غَیْرِ تَقْصِیْرٍ فَھَلْ فِیْ ذَالِکَ مِنْ نَّظِیْرٍ.‘‘۳؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۳۷) ۲۲؍ جنوری۱۹۰۷ء ’’ اِنَّـمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْ ھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا.‘‘۴؎ ۱ (ترجمہ) عنقریب مَیں تیری عجیب عزت ظاہر کروں گا اور اللہ تعالیٰ ہر شَے پر قادر ہے.(بدر مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۲ (نوٹ از ناشر) تفصیل کے لئے دیکھیں حاشیہ بر الہام ۲۸؍ مئی ۱۹۰۷ء ’’عَـمَّرَہُ اللّٰہُ عَلٰی خِلَافِ التَّوَقُّعِ‘‘ ۳ (ترجمہ از ناشر) ہم تجھ پر بغیر کوئی کمی کئے ہر چیز کے دروازے کھولیں گے کیا اس کی کوئی نظیر ہے.۴ (ترجمہ) بے شک اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ اے اہلِ بَیت تم میں سے ناپاکی کو دُور کردے اور تمہیں پاک کرے اور مُطَہَّر بنائے.(بدر مورخہ ۲۴ ؍ جنوری۱۹۰۷صفحہ ۳)
اِس وحی کے بعد مَیں کسی کو آواز مار کر اِس طرح سے پکارتا ہوں.فتح.فتح گویا اُس کا نام فتح ہے.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر۴ مورخہ ۲۴ ؍ جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳.الحکم جلد ۱۱ نمبر۳مورخہ ۲۴ ؍ جنوری۱۹۰۷ء صفحہ ۱) ۲۳جنوری۱۹۰۷ء ’’ اِنِّیْ اَنَـا الرَّحْـمٰنُ.اَصْـرِفُ عَنْکَ سُوْٓءَ الْاَقْدَارِ.‘‘۱؎ (بدر جلد ۶ نمبر۴ مورخہ ۲۴ ؍ جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) یکم فروری۱۹۰۷ء ’’روشن نشان اور ہماری فتح ‘‘۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۳۶) ۳؍ فروری۱۹۰۷ء ’’ یکم فروری کے بعد کی رات کا الہام بوقت تین بجے بعد آدھی رات.اِنَّـمَا یُـرِیْدُ اللّٰہُ لَکُمُ الْیُسْـرَ.اُلْـحِقَ بِشِیْعَۃِ مُوْسٰی.وَ رَضِـیَ اللّٰہُ بِہٖ قَوْلًا.یعنی خدا تمہارے لئے آرام اور سہولت کا ارادہ کرتا ہے اور اس شخص کو یا ان اشخاص کوموسیٰ کے خاص گروہ میں داخل کردیا گیا اور خدا اس کام کے ساتھ راضی ہوا.پھر ساتھ اس کے الہام.اِنَّـمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا.یعنی اے گھر کے لوگو یہ کام اس کےلئے ہے تا خدا تمہارے دلوں کی پلیدی اپنے امتحان کےساتھ دور کرے اور تمہیں پاک کرے جیسا کہ شرط ہے پاک کرنے کی.‘‘ (کاپی الہامات۳؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۳۶، ۱۳۵) ۱ (ترجمہ) تحقیق مَیں رحمٰن ہوں.مَیں بُری قضاء و قدر تجھ سے پھیر دوں گا.یعنی بعض بلائیں جو مقدّر ہیں وہ ظہور میں نہیں آئیں گی.(بدر مورخہ ۲۴ ؍ جنوری۱۹۰۷صفحہ ۳) ۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۷؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ۳ اور الحکم مورخہ ۱۰؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ میں یہ الہام بایں الفاظ درج ہے.۱.روشن نشان.۲.ہماری فتح ہوئی جبکہ بدر مورخہ۴؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ پر جب یہ الہام دوبارہ چھپا ہے تو وہاں یہ الفاظ ہیں ’’ روشن نشان اور ہماری فتح.‘‘ ممکن ہےکہ یہ دوسری قراءت ہو.وَاللہُ اَعْلَمُ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو اِس الہام کا عربی میں ترجمہ فرمایا ہے اس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے.وہ عربی ترجمہ یہ ہے.’’ اَ لْاٰیَۃُ الْمُنِیْرَۃُ وَ فَتْحُنَا.‘‘ (الاستفتاء ضمیمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۷۰۲) ۳ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۷؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۱۰؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ میں صرف الہامات درج ہیں.
۷؍ فروری۱۹۰۷ء ۱.’’الہام.اَلْعِیْدُ الْاٰخَرُ تَنَالُ مِنْہُ فَتْحًا عَـظِیْـمًا.‘‘۱؎ ۲.اسی تاریخ یعنی ۷؍ فروری۱۹۰۷ء کو میں نے خواب۲؎ میں دیکھا کہ قبر جیسا ایک گڑھا ہے اس میں ایک سانپ ہے پھر ایسا وہم ہوا کہ گویا سانپ چلا گیا ہے پھر مبارک نے اس گڑھے میں قدم رکھا تو یہ معلوم ہوا کہ سانپ اسی میں ہے.پھر سانپ باہر کو دوڑنے لگا تب والدہ محمود نے چاقو سے اس کی ایک ٹانگ کاٹ دی پھر بعد اس کے مَیں نے اس کی دوسری ٹانگ کاٹ دی اور وہ سانپ کچھووں کی طرح سے قدم بقدم …۳؎ تو ڈاکٹر عبد اللہ مسکراتا ہوا آیا اور کہا کہ تار آئی ہے کہ دو پُل ٹوٹ گئے ہیں.خواب میں مَیں نے کہا کہ کون کون سے.اس نے جواب دیا کہ یہ تو معلوم نہیں پر وہ دونوں پُل پنجاب کے ہیں.پھر آنکھ کھل گئی.۱ (ترجمہ) ایک اَور عید ہے جس میں تُو ایک بڑی فتح پائے گا.(بدر مورخہ ۱۴؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ۱۴؍فروری ۱۹۰۷ءصفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۱۷؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ میں یہ خواب ۹؍فروری ۱۹۰۷ء کے حوالہ سےبایں الفاظ درج ہے.’’ اور میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک گڑھاقبر کے اندازہ کی مانند ہے اور ہمیں معلوم ہوا کہ اُس میں ایک سانپ ہے اور پھر ایسا خیال آیا کہ وہ سانپ گڑھے میں سے نکل کر کسی طرف بھاگ گیا ہے.اِس خیال کے بعد مبارک احمد نے اس گڑھے میں قدم رکھا تو اس کے قدم رکھنے کے وقت محسوس ہوا کہ وہ سانپ ابھی گڑھے میں ہے اور اس سانپ نے حرکت کی اور پھر ساتھ ہی اس سانپ نے باہر کی طرف نکلنا شروع کیا.جب باہر کی طرف بھاگنے لگا تب ایسا دکھائی دیا کہ گویا وہ ایک اژدہا ہے اور اس کی دو ٹانگیں ہیں.ایک ٹانگ تو کسی قدر پتلی ہے اور دوسری ٹانگ اِس قدر موٹی ہے جیسی کسی بھینس کی ٹانگ یا ہاتھی کی ٹانگ.مبارک احمد کی والدہ اُس سانپ کی طرف دوڑی اور ایک چاقو سے اس کی پتلی ٹانگ کاٹ دی.پھر وہ اژدہا مکان کی دوسری طرف آگیا اور مَیں اُس کی طرف گیا اور میرے ہاتھ میں ایک چاقو تھا مَیں نے بڑی ٹانگ اس اژدہا کی اُس چاقو سے کاٹ دی.بہت آسانی سے کٹ گئی جیسے مُولی یا گاجر اور بہت کچھ پانی زہریلا اس سانپ کا چاقو کے ساتھ آلُودہ رہا.مَیں نے اس چاقو کو ایک آگ میں جو قریب ہی سُلگ رہی تھی، ڈال دیا اور اُس سے بڑی بدبو آئی.مجھے اندیشہ ہوا کہ اس کے زہر سے مجھے کوئی نقصان نہ پہنچے مگر کوئی نقصان نہ پہنچا بہرحال اس اژدہا کا کام تمام کردیا اور پھر ہم تینوں اس مکان سے جب باہر آئے تو ڈاکٹر عبداللہ سامنے آتے نظر آئے.جب قریب پہنچے تو مُسکرا کر مجھے کہنے لگے کہ تار آئی ہے کہ دو پُل ٹوٹ گئے.مَیں نے دریافت کیا کہ کون کون سا پُل اور کس کس مقام کا پُل ٹوٹا ہے.انہوں نے جواب دیا کہ یہ تو معلوم نہیں مگر یہ معلوم ہے کہ دو پُل جو ٹوٹے ہیں وہ پنجاب کے پُل ہیں.پھر اس کے بعد الہام ہوا.اَلْعِیْدُ الْاٰخَرُ تَنَالُ مِنْہُ فَتْحًا عَظِیْـمًا.زندگی بآرام ہوجانا پہلی زندگی سے.‘‘ ۳ (نوٹ از ناشر) یہ حصہ پڑھا نہیں جاسکا.
۳.’’ الہام.زندگی با آرام ہو جانا پہلی زندگی سے.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ الْاَ بْـرَارِ.‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۳۴، ۱۳۳، ۱۳۲) ۹؍ فروری۱۹۰۷ء (الف) ’’۱.خدا نے تیرے پر رحم کیا ہے.۲.اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی.۳.رَحِـمَکَ اللّٰہُ.۴.اُمید بھاری.۵.ایک مکان سے خیر دُعا ہے.۲؎ ۶.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الْاَبْرَارِ.۷.اَنْتَ مِنَ الْاَبْرَارِ.۳؎ ۸.تمام دُنیا کےلئےایک۴؎.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۳۱، ۱۳۰) (ب) ’’۹؍ فروری ۱۹۰۷ء کو مجھے یہ الہام ہوا کہ اِنَّکَ اَنتَ الْاَعْلٰی.یعنی غلبہ تجھی کو ہوگا اور پھر اسی تاریخ مجھے یہ الہام ہوا.اَلْعِیْدُ الْاٰخَرُ تَنَالُ مِنْہُ فَتْحًا عَظِیْـمًا.یعنی ایک اَور خوشی کا نشان تجھ کو ملے گا جس سے ایک بڑی فتح تیری ہوگی.جس میں یہ تفہیم ہوئی کہ ممالک ِ مشرقیہ میں تو سعداللہ لدھانوی میری پیشگوئی اور مباہلہ کے بعد جنوری کے پہلے ہفتہ میں ہی نمونیا پلیگ سے مَر گیا.یہ تو پہلا نشان تھا اور دوسرا نشان اس سے بہت ہی بڑا ہوگا جس میں فتحِ عظیم ہوگی.سو وہ ڈوئی کی موت ہے جو ممالک ِ مغربیہ میں ظہور میں آئی.دیکھیے پرچہ اخبار بدر ۱۴؍ فروری ۱۹۰۷ء.اِس سے خدا تعالیٰ کا وہ ۱ (ترجمہ از ناشر) تو مجھ سے بمنزلہ ابرار کے ہے.۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۴؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۱۰؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ میں یہ الہامات ترتیب کے اختلاف سے درج ہیں نیز الہام ’’ ایک مکان سے خیر دعا ہے ‘‘ کی بجائے ’’ہر ایک مکان سے خیر دُعا ہے.‘‘ مندرج ہے.۳ (ترجمہ) ۲.بے شک تُو ہی بلند ہے.۳.خدا نے تجھ پر رحم کیا ہے.۶.بے شک خدا نیکوں کے ساتھ ہے.۷.تُو نیکوں میں سے ہے.( بدر مورخہ ۱۴؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۴ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۴؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ و بدر مورخہ ۱۴ ؍ فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۱۰؍ فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ میں الہام کے یہی الفاظ ہیں لیکن بدر مورخہ ۱۴؍ فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ میں یہ الہام اِن الفاظ میں شائع ہوا.’’تمام دُنیا میں سے ایک.‘‘ فرمایا.’’یہ فقرہ اللہ تعالیٰ کے نہایت فضل و احسان اور رحمت کو ظاہر کرتا ہے.توریت میں ایسا ہی ایک فقرہ حضرت موسیٰ کے متعلق ہے.‘‘
الہام پورا ہوا کہ ’’مَیں دو۱؎ نشان دکھاؤں گا.‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۱۰ حاشیہ) ۱۰؍ فروری۱۹۰۷ء ’’ ۱.وَ ۲؎ضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِیْ اَنْقَضَ ظَھْرَکَ.وَ۳؎رَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ.۲.دَ عْنِیْ اَقْتُلْ مَنْ اٰذَاکَ.۳.لَکَ رَحْـمَۃٌ.۴.یَـرْجُوْ۴؎ خَیْرًا.۵.اِنَّ الْعَذَابَ مُرَبَّعٌ وَّ مُدَ وَّ رٌ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۳۱، ۱۳۰، ۱۲۹) ۱۱؍ فروری۱۹۰۷ء ’’۱.ایک اَور خوشخبری.۲.نُثْنِیْ عَلَیْکَ الْـخَیْرَ وَالْبَرَکَۃَ.۵؎ ۳.تُرْجٰی اِلَیْہِ خَیْرٌ.۶؎ ۴.آسمان ٹوٹ گیا سارا.کچھ معلوم نہیں کہ کیا ہونے والا ہے.۵.اُولٰٓئِکَ قَوْمٌ لَا یَشْقٰی جَلِیْسُھُمْ.‘‘۷؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۲۸، ۱۲۷) ۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) یہ الہام ۷؍جون ۱۹۰۶ء کو ہوا جس کے الفاظ یہ ہیں.’’دو۲ نشان ظاہر ہوں گے.‘‘ (دیکھیے ھٰذا صفحہ ۵۹۵.الہام ۷؍جون ۱۹۰۶ء) ۲ (ترجمہ از ناشر) ۱.ہم نے تیرا وہ بوجھ اُتار دیا جس نے تیری کمر توڑ دی تھی.اور ہم نے تیری خاطر تیرے ذکر کو بلند کیا.۲.مجھے چھوڑ تا مَیں اُس شخص کو قتل کروں جو تجھے ایذا دیتا ہے.۳.تیرے لئے ایک رحمت ہے.۴.وہ بھلائی کی امید رکھتا ہے.۵..دشمنوں کے لئے عذاب ہر چہار طرف سے ہے اور اِردگرد سے گھیرے ہوئے ہے.۳ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۴؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۱۷؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ میں فقرہ ’’.وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ.‘‘ درج نہیں مگر یہی الہام بدر مورخہ ۴؍اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ میں دوبارہ شائع ہوا تو اس میں یہ فقرہ درج تھا.۴ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۴؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۱۷؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ میں الہام ’’ یَـرْجُوْ خَیْرًا‘‘ کے علاوہ باقی تمام الہامات ترتیب کے اختلاف سے درج ہیں.۵ (ترجمہ از مرتّب) ۲.ہم تیرے اس خیر اور برکت کے گُن گاتے ہیں.۶ (ترجمہ از ناشر) ۳.خیر اور بھلائی کی امید اُسی سے کی جاتی ہے.۷ (ترجمہ) ۵.یہ ایک ایسی قوم ہے کہ ان کا ہم نشین خدا کی رحمت سے محروم نہیں رہ سکتا.(بدر مورخہ ۱۴؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۴؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ والحکم مورخہ ۱۷؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱میں ان الہامات کی ترتیب میں اختلاف ہے نیز ان کی تاریخ نزول ۱۲؍فروری ۱۹۰۷ء درج ہے اور تحریر ہے کہ ’’الہام.آسمان ٹوٹ پڑا سارا.کچھ معلوم نہیں کیا ہونے والا ہے.(یہ انسان کا مقولہ ہے گویا اللہ تعالیٰ
۱۴؍ فروری۱۹۰۷ء ’’ مَنْ ذَا الَّذِیْ ھُوَ اَسْعَدُ مِنْکَ.‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۲۷ ۱۵؍ فروری۱۹۰۷ء ’’ ایک ہفتہ تک ایک بھی باقی نہیں رہے گا.۲؎ وَیْلٌ لِّکُلِّ ھُمَزَۃٍ لُّمَزَۃٍ.‘‘ ۳؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۲۷، ۱۲۶.بدر جلد ۶ نمبر ۸ مورخہ ۲۱؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۷مورخہ ۲۴؍ فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱) ۱۸؍ فروری۱۹۰۷ء (الف) ’’ مَظْھَرُ۴؎ الْـحَقِّ وَالْعُلٰی۵؎ کَاَنَّ اللّٰہَ نَـزَلَ مِنَ السَّمَآءِ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۲۶) بقیہ حاشیہ.انسان کی طرف سے فرماتا ہے کہ کچھ معلوم نہیں کہ کیا ہونے والا ہے.) فرمایا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی دہشت ناک آسمانی امر ہے.اور محاورہ عرب میں آسمان سے مراد وبال بھی ہوتا ہے مگر ہم کسی خاص پہلو پر زور نہیں دے سکتے کہ کیا مراد ہے.‘‘ ۱ (ترجمہ) وہ کون ہے جو تجھ سے زیادہ سعادت مند ہے.(بدر مورخہ ۲۱؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲۱؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۲۴؍ فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ میں بھی یہ الہام مندرج ہے اور وہاں اس الہام کی تاریخ نزول ۱۵؍فروری ۱۹۰۷ء درج ہے.۲ (نوٹ) حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے فرمایا.’’ اِس کی تشریح نہیں ہوئی.اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ ہفتہ سے مراد کتنی مدّت ہے.‘‘ (الحکم مورخہ ۱۷ ؍ فروری۱۹۰۷صفحہ ۱) ’’ذکر ہوا کہ ا خبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ طاعون روز بروز ترقّی پکڑتی جاتی ہے.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا.شاید وہ جو ہمارا الہام ہے’’ ایک ہفتہ تک ایک بھی باقی نہ رہے گا‘‘ یہ خاص اشخاص کے متعلق ہو اور اس کا ظہور اس شکل میں ہو.کل دہلی سے خط آیا ہے کہ مولوی عبدالمجید دہلوی جو ہمارا سخت معاند تھا یکایک مر گیا.ایسا ہی ایک اَور بڑے معاند کی مرگِ مفاجات کا ذکر تھا.‘‘ (الحکم مورخہ۱۰ ؍ مارچ۱۹۰۷صفحہ ۱۵) ۳ (ترجمہ) ہر ایک چغل خور اور عیب گیر پر لعنت ہے.(بدر مورخہ ۲۱؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۴ (ترجمہ) وہ حق اور غلبہ کا مظہر ہوگا.گویا خدا آسمان سے اُترے گا.(بدر مورخہ ۲۱؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۵ حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے اِس الہام کی تشریح کے ضمن میں فرمایا.’’۱۸؍فروری کا الہام مَظْھَرُ الْـحَقِّ وَالْعَلَآءِ وہ الہام ہے جو اس سے پہلے پسر موعود کے متعلق ہوچکا تھا.جب مَیں نے یہ الہام پڑھا تو میرے ذہن میں آیا کہ یہ پیشگوئی دوبارہ بیان کی گئی ہے اور عجیب بات یہ نظر آئی کہ پہلی پیشگوئی بھی فروری میں کی گئی تھی اور یہ الہام بھی فروری کا ہے.پس معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا یعنی آپ کی وفات سے قریباً سوا سال قبل اللہ تعالیٰ نے پھر اس پیشگوئی کو دُہرادیا تا ایک لمبا عرصہ گزر
(ب) ’’ کُلُّ الْفَتْحِ بَعْدَہٗ.‘‘۱؎ (بدر جلد ۶ نمبر ۸ مورخہ ۲۱؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۷ مورخہ ۲۴؍ فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱) ۱۹؍ فروری۱۹۰۷ء ’’۱.افسوسناک خبر آئی.۲.ہم خدا کے بندے ہیں جیسے بنایا بن گئے.۳.اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ.۲؎ ۴.پسپاشد ہجوم.۵.اور بہتر ہوگا کہ اَور شادی کرلیں.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۲۶، ۱۲۵) بقیہ حاشیہ.جانے کی وجہ سے لوگ یہ نہ سمجھیں کہ یہ منسوخ ہوگئی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ کُلُّ الْفَتْحِ بَعْدَہٗ کہ اِس نشان کے بعد اصل فتوحات ہوں گی.پھر آگے اسی سلسلہ میں یہ الہام ہے کہ اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ وَ اَلُوْمُ مَنْ یَّلُوْمُ.اِس میں بتایا گیا ہے کہ جب اِس پیشگوئی کا ظہور ہوگا تو چاروں طرف سے دشمن حملہ کرے گا چنانچہ اس طرف مجھ پر اِس پیشگوئی کا انکشاف ہوا اور اُدھر پیغامیوںنے مخالفت کی آگ پورے زور کے ساتھ بھڑکا دی اور طرح طرح کے اتہامات، جھوٹ اور کذب بیانیوں سے کام لینا شروع کردیا مگر ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتادیا تھا کہ ’’پسپاشُدہ ہجوم.‘‘ اس کامفہوم وہی ہے جو قرآن کریم کی آیت سَیُھْزَمُ الْـجَمْعُ وَ یُـوَلُّوْنَ الدُّ.بُـرَ.(القمر:۴۶) کا ہے.یعنی سب دشمن جمع ہو کر حملہ کریں گے مگر اللہ تعالیٰ ان کو ذلیل و رُسوا کرے گا اور وہ شکست کھاجائیں گے.یہ الہام اس دوسرے الہام سے جو پسر موعود کے متعلق ہے بہت ملتا ہے کہ جَآءَ الْـحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا.یعنی جب پسرموعود ظاہر ہوگا تو حق آجائے گا اور باطل بھاگ جائے گا.باطل تو بھاگنے ہی کی اہلیت رکھتا ہے.‘‘ (الفضل مورخہ یکم اگست۱۹۴۴صفحہ۳، ۴) ۱ (ترجمہ ) سب فتح اس کے بعد ہے.(بدر مورخہ ۲۱؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ ) (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲۱؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۲۴؍ فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ میں الہامات مع تفصیل یوں درج ہیں.’’ کُلُّ الْفَتْحِ بَعْدَ ہٗ.مَظْھَرُ الْـحَقِّ وَالْعَلٰی کَاَنَّ اللّٰہَ نَـزَلَ مِنَ السَّمَآء.‘‘ یعنی ایک نشان ظاہر ہوگا جو تمام فتوحات کا مجموعہ ہوگا اور اس وقت حق ظاہر ہوجائے گا اور حق کا غلبہ ہوگا گویا خدا آسمان سے اترے گا.۲ (ترجمہ ) ۳.مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑاہوں گا.(بدر مورخہ ۲۱؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳)
۲۰؍ فروری۱۹۰۷ء (الف) ’’ مِنَ النَّاسِ وَالْعَامَّۃِ‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۲۵) (ب) ’’ ۱.اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ وَ اَلُوْمُ مَنْ یَّلُوْمُ.۲؎ ۲.پسپاشدہ ہجوم.۳.افسوسناک خبر آئی ہے.فرمایا.اِس الہام پر ذہن کا اِنتقال بعض لاہور کے دوستوں کی طرف ہوا مگر یہ اِنتقالِ ذہن بعد بیداری ہوا.الہام بھی شاید اس کے متعلق ہو.۴.بہتر ہوگا کہ اَور شادی کرلیں.فرمایا.معلوم نہیں کہ کس کی نسبت یہ الہام ہے.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر۸ مورخہ۲۱ ؍ فروری۱۹۰۷ء صفحہ ۳.الحکم جلد ۱۱ نمبر۷مورخہ ۲۴ ؍ فروری۱۹۰۷ء صفحہ ۱) (ج) ’’ خدا فرماتا ہے کہ.مَیں ایک تازہ نشان۳؎ ظاہر کروں گا جس میں فتحِ عظیم ہوگی.وہ عام دنیا کے لئے ایک نشان ہوگا ۱ (ترجمہ از ناشر) خواص الناس اور عوام الناس میں سے.۲ (ترجمہ) ۱.مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑاہوں گا اور اس کے ملامت کنندہ کو ملامت کروں گا.(بدر مورخہ ۲۱؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.(الف) ’’ڈوئی اِس پیشگوئی کے بعد اِس قدر جلد مَر گیا کہ ابھی پندرہ دن ہی اس کی اشاعت پر گزرے تھے کہ ڈوئی کا خاتمہ ہوگیا.پس ایک طالب ِ حق کے لئے یہ ایک قطعی دلیل ہے کہ یہ پیشگوئی خاص ڈوئی کے بارے میں تھی کیونکہ اوّل تو اس پیشگوئی میں یہ لکھا ہے کہ وہ فتحِ عظیم کا نشان تمام دُنیا کے لئے ہوگا اور دوسرے یہ لکھا ہے کہ وہ عنقریب ظاہر ہونے والا ہے.پس اِس سے زیادہ عنقریب اَور کیا ہوگا کہ اِس پیشگوئی کے بعد بد قسمت ڈوئی اپنی زندگی کے بیس دن بھی پورے نہ کرسکا اور خاک میں جا ملا.جن پادری صاحبان نے آتھم کے بارے میں شور مچایا تھا اب اُن کو ڈوئی کی موت پر ضرور غور کرنی چاہیے.منہ ‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۱۱حاشیہ) (ب) ’’اب ظاہر ہے کہ اِس سے بڑھ کر اَور کیا معجزہ ہوگا.چونکہ میرا اصل کام کسرِ صلیب ہے سو اُس کے مَرنے سے ایک بڑا حصّہ صلیب کا ٹوٹ گیا کیونکہ وہ تمام دنیا سے اوّل درجہ پر حامیِ صلیب تھا جو پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرتا تھا اور کہتا تھا کہ میری دعا سے تمام مسلمان ہلاک ہوجائیں گے اور اسلام نابود ہوجائے گااور خانہ کعبہ ویران ہوجائے گا.سو خدا تعالیٰ نے میرے ہاتھ پر اُس کو ہلاک کیا…پس مَیں قسم کھاسکتا ہوں کہ یہ وہی خنزیر تھا جس کے قتل کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ مسیح موعود کے ہاتھ پر مارا جائے گا.‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۱۳)
اور خدا کے ہاتھوں سے اور آسمان سے ہوگا.چاہیےکہ ہر ایک آنکھ اُس کی منتظر رہے کیونکہ خدا اس کو عنقریب ظاہر کرے گا تا وہ یہ گواہی دے کہ یہ عاجز جس کو تمام قومیں گالیاں دے رہی ہیں اُس کی طرف سے ہے.مبارک وہ جو اس سے فائدہ اُٹھاوے.‘‘ (اشتہار ۲۰؍ فروری ۱۹۰۷ء مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۴۰۰ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۲۲؍ فروری۱۹۰۷ء ’’الہام.۱.لَا تَـحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا.۱؎ ۲.وَقَعَتْ تَعْذِ یْبُـھَا.‘‘ ۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۲۴) ۲۳؍ فروری۱۹۰۷ء (الف) ’’۱.لَا۳؎ تَـحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا.۲.سَیُـھْزَمُ الْـجَمْعُ وَ یُـوَلُّوْنَ الدُّبُرَ.۳.وَ اِنْ یَّرَوْا اٰیَۃً یُّعْرِضُوْا وَ یَقُوْلُوْا سِـحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ.۴؎ ۴.اِنِّیْ اَنَـا الْـحَقُّ وَ الْبَاقِیْ بَـاطِلٌ.‘‘۵؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۲۳) (ب) ’’رؤیا میں گویا مَیں کہتا ہوں یا کسی نے کہا ہے کہ.اَب جنازہ جاکر پڑھیں گے گویا کسی کا جنازہ ہے جو پڑھا جاوے گا.لَا تَـحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا.کسی دوست کو اس میں تسلّی دی گئی ہے گویا مَیں تسلّی دوں گا.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر۹مورخہ۲۸ ؍ فروری ۱۹۰۷ءصفحہ ۳) ۱ (ترجمہ) ۱.غم نہ کر خدا ہمارے ساتھ ہے.(بدر مورخہ ۲۸؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۲ (ترجمہ از ناشر) ۲.اس کی سزا واقع ہوگئی.۳ (ترجمہ) ۱.غم نہ کر خدا ہمارے ساتھ ہے.۲.عنقریب یہ لوگ بھاگ جائیں گے اور پیٹھیں پھیر لیں گے.۳.جب کوئی نشان دیکھیں گے تو کہیں گے کہ یہ معمولی بات ہے کوئی خارق عادت امر نہیں یا کوئی فریب ہے.(بدر مورخہ ۲۸؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۴ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ۲۸؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ میں ان الہامات کے بارہ میں تحریر ہے کہ ’’یہ اس طرف اشارہ ہے کہ وہ وقت آتا ہے کہ خدا کے نشانوں سے انکار کی گنجائش نہیں رہے گی اور نشان ایسے طور سے کھلیں گے کہ منہ بند ہوجائیں گے.‘‘ ۵ (ترجمہ از ناشر) ۴.یقیناً میں ہی حق ہوں اور باقی سب باطل ہے.
۲۵؍ فروری۱۹۰۷ء ’’ ۱.مِنَ النَّاسِ وَ الْعَامَّۃِ.یعنی مِنْ خَوَاصِّ النَّاسِ وَ الْعَآمَّۃِ.یہ طاعون کی طرف اشارہ ہے کہ اِس مرتبہ طاعون کے حملہ سے کچھ خاص لوگ بھی مَریں گے جو معزز ہوتے ہیں یا سفید پوش ہوتے ہیں اور عام لوگوں میں بھی مَری پڑے گی.۲.لَوْ لَا الْاِکْرَامُ لَھَلَکَ الْمُقَامُ.۱؎ اِ س الہام سے معلوم ہوتا ہے کہ قادیان میں سے بھی کچھ لوگ طاعون سے مَریں گے اور یہ مرنا الہام اِنَّہٗ اٰوَی الْقَرْیَۃَ کے مخالف نہیں کیونکہ اٰوٰی سے مراد الہامِ الٰہی میں یہ ہے کہ آخر قادیان کے لوگ بچائے جائیں گے.بکُلّی استیصال نہیں ہوگا.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر۹مورخہ۲۸ ؍ فروری ۱۹۰۷ءصفحہ ۳) ۲۶؍ فروری۱۹۰۷ء ’’ تُحْفَۃ ُ الْمُلُوْکِ‘‘ اِس کے معنی ابھی نہیں کھلے.بہرحال ملوک سے اس کو کچھ نسبت ہے.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر۹مورخہ۲۸ ؍ فروری۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۲۸؍ فروری۱۹۰۷ء ’’۱.سخت زلزلہ آیا اور آج بارش بھی ہوگی.۲؎ ۲.خوش آمدی.نیک آمدی.۳؎‘‘ (کاپی الہامات۴؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۲۲) ۲؍ مارچ۱۹۰۷ء ’’ دوئم مارچ ۱۹۰۷ء روز شنبہ ۱.اِنَّـمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْ ھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا.۵؎ تفہیم یہ ہوئی کہ خدا تمہارا امتحان کرنا چاہتا ہے تا معلوم ہو کہ تم اس کے ارادوں پر ایمان رکھتے ہو یا نہیں اور تا وہ اے اہل بیت تمہیں پاک کرے جیسا کہ حق ہے پاک کرنے کا.۱ (ترجمہ) ۲.اگر تیری عزت کا پاس نہ ہوتا تو مَیں تمام قادیان کو ہلاک کردیتا.(بدر مورخہ ۲۸؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۲ (نوٹ) چنانچہ اُسی دن بارش ہوگئی اور ۲؍ مارچ کے بعد کی رات کو سخت زلزلہ آیا.(بدر مورخہ ۷؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱.الحکم مورخہ ۱۰ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱) ۳ (ترجمہ از مرتّب) ۲.تم خوش آئے ہو اور اچھے آئے ہو.۴ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۷؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱.بدر مورخہ ۱۴؍ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۱۰؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ میں بھی یہ الہامات درج ہیں.۵ (ترجمہ از مرتّب) ۱.اے اہل بیت! خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی دور کرے اور تا تمہیں پاک کرے جیسا کہ پاک کرنے کا حق ہے.
اور پھر الہام ہوا.۲.ہے تو بھاری مگر خدائی امتحان کو قبول کر.اور پھر الہام ہوا.۳.یَا اَ یُّـھَا النَّاسُ اعْبُدُ وْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ.۱؎ یعنی اے لوگو اپنے اس خدا کو اپنا رازق سمجھو جس نے تمہیں پیدا کیا.اس جگہ عبادت سے مراد رازق سمجھنا ہے.اور پھر الہام ہوا.۴.یَا اَ یُّـھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ.یعنی اے لوگو تم اپنے اس خدا سے ڈرو جس نے تمہیں پیدا کیا.یعنی اس کے احکام سے باہر مت ہو اور اس کی رضا کے موافق زندگی کرو.اور پھر میری طرف سے بطور حکایت الہام ہوا.۵.اے میرے اہلِ بَیت خدا تمہیں شر سے محفوظ رکھے.اور پھر مجھے مخاطب کرکے الہام ہوا.۶.اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنَـا مِنْکَ.اَنْتَ الَّذِیْ طَارَ اِلَیَّ رُوْحُہٗ.تُو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے.تو وہ ہے جس کی رُوح نے میری طرف پرواز کیا.۷.اور پھر ایک الہام میں خدا نے میرا نام سعد اللہ خان مبارک رکھا.‘‘ (کاپی الہامات۲؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۱۹، ۱۱۸، ۱۱۷، ۱۱۶) ۱ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۷؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۱۰؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ میں اس الہام کے بارہ میں یہ تحریر ہے.’’اس میں تفہیم یہ ہوئی کہ اے اہل بیت! کسی دوسرے کو تکیہ گاہ مت بنا.وہی خدا تیرا مکفّل اور رازق ہے جس نے تجھے پیدا کیا.‘‘ ۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۷؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۱۰؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ میں تمام الہامات یوں درج ہیں.’’ ۱.اِنَّـمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْ ھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا.تفہیم یہ ہوئی ہے کہ اے اہلِ خانہ خدا تمہارا امتحان کرنا چاہتا ہے تا معلوم ہو کہ تم اس کے ارادوں پر ایمان رکھتے ہو یا نہیں اور تا وہ اے اہلِ بَیت تمہیں پاک کرے جیسا کہ حق ہے پاک کرنے کا اور پھر انہیں کی طرف اشارہ کرکے الہام ہوا.۲.ہے تو بھاری مگر خدائی امتحان کو قبول کر.
۳؍ مارچ۱۹۰۷ء الہام.’’مباش در پئے آزار ھر چـــہ خواہی کن کہ در طریقت ما غیر زیں گنا ہے نیست‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۱۵) ۶؍ مارچ۱۹۰۷ء ’’ ۱.رَ بَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَھُمْ.۲؎ ۲.اُن کی لاش کفن میں لپیٹ کر لائے ہیں.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۱۵) ۷؍ مارچ۱۹۰۷ء (الف) ’’ ۱.رَبِّ افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَھُمْ.۲.أَعَــجِبْتُمْ اَنْ تَـمُوْتُوْا.۳؎ ۳.ان کی بقیہ حاشیہ.اور پھر الہام ہوا.۳.یٰٓـاَیُّـھَاالنَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ.اے لوگو! تم اپنے ربّ کی پرستش کرو.وہ خدا جس نے تمہیں پیدا کیا.اِس میں تفہیم یہ ہوئی کہ اے اہلِ بَیت کسی دوسرے کو تکیہ گاہ مت بناؤ.وہی خدا تیرا متکفّل اور رازق ہے جس نے تجھے پیدا کیا.اور پھر الہام ہوا.۴.یٰٓـاَیُّـھَاالنَّاسُ اتَّقُوْا رَ بَّکُمُ اللّٰہَ خَلَقَکُمْ.ترجمہ یہ ہے کہ اے اہلِ بَیت خدا سے ڈرو اور اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہ کرو اور نہ کوئی بات منہ سے نکالو.وہی خدا ہے جس نے تمہیں پیدا کیا.اور پھر میری طرف سے بطور حکایت الہام ہوا.۵.اے میرے اہلِ بَیت ! خدا تمہیں شر سے محفوظ رکھے.اور پھر مجھے مخاطب کرکے الہام ہوا.۶.اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنَـا مِنْکَ.اَنْتَ الَّذِیْ طَارَ اِلَیَّ رُوْحُہٗ.یعنی تُو مجھ سے ظاہر ہوا اور مَیں اس زمانہ میں تجھ سے ظاہر ہونے والا ہوں.تُو وہ ہے جس کی رُوح نے میری طرف پرواز کیا.‘‘ ۳ (ترجمہ از ناشر) جو چاہے کر مگر تو کسی کے در پئے آزار نہ ہو کہ ہماری طریقت میں اس سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں ہے.۱ (ترجمہ ) ۱.اے خدا ! ہم میں اور ہمارے دشمنوں میں فیصلہ کر.(بدر مورخہ ۱۴؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۲ (ترجمہ) ۱.اے خدا ! ہم میں اور ہمارے دشمنوں میں فیصلہ کر.۲.کیا تم تعجب کرتے ہو کہ تم موت کا شکار ہوجاؤ.(بدر مورخہ ۱۴؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۳)
لاش کفن میں لپیٹ کر لائے ہیں.۱؎ ۴.پچیس۲۵ دن تک یا یہ کہ پچیس۲۵ دن.۵.مِنَ النَّاسِ وَالْعَآمَّۃِ.‘‘۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۱۱) (ب) ’’پچیس دن یا یہ کہ پچیس دن تک۳؎…… ۱ بدر مورخہ ۱۴؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۱۷؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ میں اس الہام کے بارہ میں تحریر ہے.’’ معلوم نہیں کہ یہ کن لوگوں کی طرف یا کس کی طرف اشارہ ہے.‘‘ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) واقعات نے بتا دیا کہ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کی طرف اشارہ تھا چنانچہ لاہور میں حضورؑ کی وفات ہوئی باوجود یہ کہ وہاں ہی صندوق تیار کیا گیا تھا اور بٹالہ تک آپ کو صندوق میں رکھا گیا مگر پھر کسی مصلحت کے ماتحت جنازہ صندوق سے نکال کر صرف کفن میں لپیٹے ہوئے قادیان میں چارپائی پر اٹھا کر لایا گیا.۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۴؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۱۷؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ میں اس الہام کے بارہ میں درج ہے.’’ اَیْ مِنْ خَوَاصِّ النَّاسِ وَالْعَآمَّۃِ یعنی طاعون خاص لوگوں میں بھی پڑے گی اور عام لوگوں میں بھی.‘‘ ۳ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۴؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۱۷؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ میں اس الہام کے بارہ میں تحریر ہے کہ ’’پچیس دن (یا یہ کہ پچیس دن تک.) اور پچیس دن کے الہام میں یہ اشارہ ہے کہ ۷؍ مارچ سے پچیس دن پورے ہونے کے سر پر یا ۷؍ مارچ ۱۹۰۷ء سے پچیس دن تک کوئی نیا واقعہ ظاہر ہوگا اور ضرور ہے کہ تقدیرِ الٰہی اِس واقعہ کو روک رکھے جب تک کہ ۷؍ مارچ ۱۹۰۷ء سے پچیس دن گزر نہ جاویں یا یہ کہ ۷؍ مارچ ۱۹۰۷ء سے پچیس دن تک یہ واقعہ ظہور میں آجائے گا.اگر صرف پچیس دن کے لحاظ سے معنے کئے جاویں تو اس طور سے ضرور ہے کہ اِس واقعہ کے ظہور کی یکم اپریل سے اُمید رکھی جائے کیونکہ الہامِ الٰہی کے رُو سے ساتویں مارچ پچیس دن کے شمار میں داخل ہے.اِس صورت میں پچیس دن مارچ کے اکتیس ۳۱ تاریخ تک پورے ہوجاتے ہیں.تو اِس طور پر پیشگوئی کے ظہو رکا مہینہ اپریل ٹھہرتا ہے مگر یہ سوال کہ وہ واقعہ کیا ہے جس کی پیشگوئی کی گئی ہے؟ اس کا ہم اِس وقت کچھ بھی جواب نہیں دے سکتے بجز اِس کے کہ یہ کہیں کہ کوئی ہولناک یا تعجب انگیز واقعہ ہے کہ ظہور کے بعد پیشگوئی کے رنگ میں ثابت ہوجائے گا اور ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ واقعہ ہماری ذات کے متعلق ہے یا ہمارے دوستوں کے متعلق یا دشمنوں کے متعلق.جس امر کو خدا نے پوشیدہ کیا ہے ہم ظاہر نہیں کرسکتے.‘‘
جس رنگ میں یہ پیشگوئی ظہور میں آئی وہ یہ ہے کہ ٹھیک ٹھیک ۳۱؍ مارچ ۱۹۰۷ء کو جس پر ۷؍ مارچ سے ۲۵ دن ختم ہوتے ہیں ایک بڑا شعلہ آگ کا جس سے دل کانپ اُٹھے آسمان پر ظاہر ہوا اور ایک ہولناک چمک کے ساتھ قریباً سات سو میل کے فاصلہ تک (جو اَب تک معلوم ہوچکا ہے یا اس سے بھی زیادہ) جابجا زمین پر گرتا دیکھا گیا اور ایسے ہولناک طور پر گرا کہ ہزار ہا مخلوقِ خدا اُس کے نظارہ سے حیران ہوگئی اور بعض بیہوش ہوکر زمین پر گر پڑے اور جب اُن کے منہ میں پانی ڈالا گیا تب اُن کو ہوش آئی.اکثر لوگوں کا یہی بیان ہے کہ وہ آگ کا ایک آتشی گولہ تھا جو نہایت مہیب اور غیر معمولی صورت میں نمودار ہوا اور ایسا دکھائی دیتا تھا کہ وہ زمین پر گرا اور پھر دھواں ہوکر آسمان پر چڑھ گیا.‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۱۷، ۵۱۸) (ج) ’’ نَعَیْتُ۱؎… اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّادِقِیْنَ.‘‘۲؎ (الاستفتاء ضمیمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۷۰۲) مارچ۱۹۰۷ء ۱.’’ قہری تجلّی ہوگی.‘‘ ۲.’’وقت کو پالے.قہرِ الٰہی کی تجلّی ہے.دشمن ہلاک ہوگیا.آج مبارک دن ہے.‘‘ ۳.’’ ذلیل انسا ن کا بیڑا۳؎ غرق ہوگیا.تیری دُعا قبول کی گئی.جو لوگ تیری طرف توجہ نہیں کرتے وہ خدا کی طرف بھی توجہ نہیں کرتے.‘‘ ۴.’’خدا تجھے ایک غیر معمولی عزت دے گا اور ہر ایک نعمت کے دروازے تیرے پر کھولے جاویں گے.خدا کا یہ ارادہ نہیں کہ تجھے مشکلات میں ڈالے بلکہ وہ ہر ایک بات میں تیرے لئے سہولت پیدا کرے گا.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر۱۴ مورخہ۴ ؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۱ یہ پیشگوئی ڈوئی کے متعلق تھی جو پوری ہوگئی.(تشحیذالاذہان مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۴۰ /۴) ۲ (ترجمہ) مَیں تجھے ایک کاذب کی موت کی خبر دیتا ہوں.خدا سچوں کے ساتھ ہے.(بدر مورخہ۴ ؍ اپریل۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۳ (نوٹ از ناشر) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس الہام کی وضاحت میں فرمایا ہے کہ یہ ڈوئی کی ہلاکت کی طرف اشارہ کرتا ہے.(الاستفتاء روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۷۰۲)
۹؍ مارچ ۱۹۰۷ء ۱.’’ الہام.سپردم بہ تو مایۂ خو یش را تو دانی حسابِ کم و بیش را‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۰۱) ۲.’’ ۱.اَنْتَ الَّذِ.یْ طَارَ اِلَـیَّ رُوْحُہٗ.۲؎ ۲.ہزاروں آدمی تیرے پَروں کے نیچے ہیں.۳؎ ۳.خدا نے ایسا کیا تا بعض آدمی پکڑے جائیں اور بعض چھوڑے جائیں.‘‘۴؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۰۰، ۹۹) ۱۱؍ مارچ ۱۹۰۷ء ۱.’’ اے خدا سیہ کن چشم دشمن سیہ.۵؎ ۲..آج مبارک کو خواب میں دیکھا تازہ فربہ اور خوبصورت جسم ہے برہنہ.۳.۱.لاہورمیں ایک بے شرم ہے.۲.وَیْـلٌ لَّکَ وَ لِاِفْکِکَ۶؎ ۳.اِنِّیْ اَنَـا اللّٰہُ ذُو الْـجُوْدِ وَالْعَطَآءِ.۴.اُنْـزِلُ الرَّحْـمَۃَ عَلٰی مَنْ اَشَآءُ.‘‘۷؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۹۹، ۹۸) ۱ (ترجمہ از ناشر) میں نے اپنی پونجی تیرے سپرد کی.کم و بیش کا حساب تو جانتا ہے.۲ (ترجمہ) ۱.تو وہ ہے جس کی روح نے میری طرف پرواز کیا.(بدر مورخہ۱۴ ؍ مارچ۱۹۰۷ءصفحہ ۳) ۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو رسول آتا ہے اس کے ذریعہ سے ایک باطنی پرورش انسانوں کی ہوتی ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے اوّل نزولِ فیضان اس پر ہوتا ہے پھر اس کے ذریعہ سے دوسروں کو بھی حاصل ہوتا ہے.‘‘ (بدر مورخہ۱۴ ؍ مارچ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۴ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ۱۴ ؍ مارچ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۱۷؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ میں یہ الہام ۱۳؍مارچ کے تحت یوں درج ہے.’’ایک امتحان ہے بعض اس میں پکڑے جائیں گے اور بعض چھوڑ دیئے جائیں گے.‘‘ ۵ (ترجمہ از ناشر) اے خدا سیاہ بخت دشمن کی آنکھ کو تاریک کر.۶ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۴ ؍ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۱۷؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ میں ان دونوں الہامات کی تاریخ نزول ۱۳؍مارچ ۱۹۰۷ء درج ہے.۷ (ترجمہ) ۲.اے مخالف تیرے پر لعنت اور تیرے جھوٹ پر.۳.مَیں خدا ہوں صاحب ِ جُود اور بخشش.۴.جس پر چاہتا ہوں رحمت نازل کرتا ہوں.(بدر مورخہ ۱۴ ؍ مارچ۱۹۰۷ء صفحہ ۳)
؍ مارچ۱۹۰۷ء ’’۱.یٰعِیْسٰی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ.۲.اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنَـامِنْکَ.۳.ظُھُوْرُکَ ظُھُوْرِیْ.۴.اَنْتَ الَّذِیْ طَارَ اِلَیَّ رُوْحُہٗ.۵.اِنِّیْ اَنَـا اللّٰہُ ذُو الْـجُوْدِ وَالْعَطَا.۶.اُنْـزِلُ الرَّحْـمَۃَ عَلٰی مَنْ اَشَآءُ.۱؎ ۷.وَ اسْتَوَتْ عَلَی الْجُوْدِیِّ۲؎.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۹۷) ۱۳؍ مارچ۱۹۰۷ء ’’۱.اِنِّیْ نَعَیْتُ۳؎ فِیْـھَا.میں نے کسی موت کی خبر دی.۲.اِنَّـمَا یُـرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْ ھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا.۴؎ ۳.یورپ اور دوسرے عیسائی ملکوں میں ایک قسم کی طاعون پھیلے گی جو بہت ہی سخت ہے.۵؎ ۴.ریاست کابل میں ہزار کے قریب آدمی فوت ہوگا.۶؎ ۱ (ترجمہ) ۱.اے عیسیٰ ! مَیں تجھے تیری طبعی موت سے وفات دوں گا اور اپنی طرف اُٹھالوں گا.۲.تُو مجھ سے ہے اور مَیں تجھ سے.۳.تیرا ظہور میرا ظہور ہے.۴.تُو وہ ہے جس کے رُوح نے میری طرف پرواز کیا.۵.مَیں خدا ہوں صاحب ِ جُود اور بخشش.۶.جس پر چاہتا ہوں رحمت نازل کرتا ہوں.(بدر مورخہ ۱۴ ؍ مارچ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۲ (ترجمہ از ناشر) ۷.وہ (کشتی) جودی (پہاڑ) پر جا ٹھہری.(نوٹ از ناشر) بدر مورخہ۱۴ ؍ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۱۷ ؍ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ میں یہ الہام ۱۳؍مارچ ۱۹۰۷ء کے تحت درج ہے.نیز تحریر ہے کہ ’’یہ اِس آیت کی طرف اشارہ ہے.وَ غِیْضَ الْمَآءُ وَقُضِیَ الْاَمْرُ وَ اسْتَوَتْ عَلَی الْجُوْدِیِّ.‘‘۷؎ (ہود:۴۵) ۳ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ۱۴ ؍ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۱۷ ؍ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ میں یہاں ’’اِنِّیْ نَعَیْتُ‘‘ کے الفاظ درج ہیں جس کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ’’یہ پیشگوئی آج پوری ہوگئی کہ آج ہی سِول میں خبر آئی ہے کہ ڈوئی جس کے عذاب کے بارے میں مَیں نے خبر دی تھی وہ مر گیا.یہ وہ ڈوئی ہے جس کو مباہلہ کے لئے بلایا گیا تھا.‘‘ ۴ (ترجمہ) ۲.خدا نے ارادہ کیا ہے اے اہلِ خانہ کہ تمہاری پلیدی کو دُور کرے اور تمہیں پاک کرے جیسا کہ حق ہے پاک کرنے کا.(بدر مورخہ۱۴؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۵، ۶ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ۱۴ ؍ مارچ۱۹۰۷ءصفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۱۷ ؍ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ میں یہ الہامات یوں درج ہیں.’’یورپ اور دوسرے عیسائی ملکوں میں ایک قسم کی طاعون پھیلے گی جو بہت ہی سخت ہوگی.ریاست کابل میں ۸۵ہزار کے قریب آدمی مریں گے.‘‘ ۷ (ترجمہ از مرتّب) اور پانی خشک کردیا گیا اور فیصلہ صادر کردیا گیا اور وہ (کشتی ) جودی (پہاڑ) پر ٹھہر گئی.
۵.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّادِقِیْنَ.۶.اَعْـجَبَنِیْ مَـوْتُکُمْ.۷.اِنِّیْ اَنَـا اللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنَـا.۱؎ ۸.ایک موسیٰ ہے میں اس کو ظاہر کروں گا اور لوگوں کےسامنے اس کو عزت دوں گا.۹.بَلَجَتْ اٰیَـاتِیْ.۱۰.تِلْکَ اٰیَـاتٌ ظَھَرَتْ بَعْضُھَا خَلْفَ بَعْضٍ.۱۱.اَجُرُّ الْاَثِیْمَ۲؎.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۹۶، ۹۵، ۹۴) ۱۵؍ مارچ ۱۹۰۷ء (الف) ’’.بَلَجَتْ اٰیَـاتِیْ.تِلْکَ اٰیَـاتٌ ظَھَرَتْ بَعْضُھَا خَلْفَ بَعْضٍ.اَجُرُّ الْاَثِیْمَ وَ اُرِیْہِ الْـجَــحِیْمَ.اِنِّیْ اٰثَـرْتُکَ وَ اخْتَرْتُکَ.(ترجمہ) میرے نشان روشن ہوں گے.بعض نشان بعض کے بعد ظہور میں آئیں گے تا اِس موسیٰ کی عزت ظاہر کی جائے.پر جس نے میرا گناہ کیا ہے مَیں اس کو گھسیٹوں گا اور اس کو دوزخ دکھلاؤں گا.مَیں نے تجھ کو چُن لیا اور اختیار کیا.تیری عاجزانہ راہیں مجھے پسند آئیں.میرا دشمن ہلاک ہوگیا.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّادِقِیْنَ.خدا سچوں کے ساتھ ہے.‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۲۰ حاشیہ) (ب) ’’ایک موسیٰ ہے میں اس کو ظاہر کروں گا اور لوگوں کےسامنے اس کو عزت دوں گا.اَجُرُّ الْاَثِیْمَ وَ اُرِیْہِ الْـجَــحِیْمَ.اور جس نے میرا گناہ کیا ہے میں اس کو گھسیٹوں گا اور اس کو دوزخ دکھلاؤں گا.بَلَجَتْ اٰیَـاتِیْ.میرے نشان روشن ہوجائیں گے.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۹۳) ۱۶؍ مارچ۱۹۰۷ء ’’۱.فَتَنَّا بَعْضَھُمْ مِّنْ بَعْضٍ.۳؎ ۲.نیکی یہی ہے کہ خدا کے احکام کو پورا کرنا.۳.تیرے لئے یہ مبارک ہے.یہ ہے جس سے بعض لوگ چھوڑ دیئے جائیں گے بعض پکڑے جائیں گے.۱ (ترجمہ) ۵.خدا سچوں کے ساتھ ہوتاہے.۶.تمہاری موت نے مجھے تعجب میں ڈالا.۷.مَیں ہی خدا ہوں میرے سوا اَور کوئی خدا نہیں.(بدر مورخہ۱۴؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۲ (ترجمہ) ۹.میرے نشان روشن ہوں گے.۱۰.بعض نشان بعض کے بعد ظہور میں آئیں گے.۱۱.جس نے میرا گناہ کیا ہے مَیں اس کو گھسیٹوں گا.(تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۲۰ حاشیہ) ۳ (ترجمہ از ناشر) اور اسی طرح ہم ان میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ آزمائش میں ڈالتے ہیں.
۳.تیرے لئے یہ مبارک ہے.یہ ہے جس سے بعض لوگ چھوڑ دیئے جائیں گے بعض پکڑے جائیں گے.۴.قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ.کہہ یہ کام خدا نے کیا ہے پھر ان کو تو چھوڑ دے جو چاہیں خیال کریں.۵.تیری عاجزانہ راہیں اُس کو پسند آئیں.۶.اِنِّیْ اَنَـرْتُکَ وَ اٰثَـرْتُکَ.میں نے تجھے روشن کیا اور میں نے ہی تجھے چُن لیا.۷.جو دعائیں آج قبول ہوئیں ان میں قوت اور شوکت ِ اسلام بھی ہے.۸.یا اللہ ! اب شہر کی بَلائیں بھی ٹال دے.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۹۱، ۸۹، ۸۸) ۱۷؍ مارچ۱۹۰۷ء ’’۱.کُلٌّ لَّکَ وَ لِاَمْرِکَ.۱؎ ۲.تیرے لئے ایک خزانہ مخفی تھا.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۸۷) ۱۸؍ مارچ۱۹۰۷ء ’’ ۱.قدرت کے دروازے کھلے ہیں.۲.نیکی یہی ہے کہ خدا کے احکام کو پورا کرنا.۳.تیری عاجزانہ راہیں اُس کو پسند آئیں.۴.اِنِّیْ اَنَـرْتُکَ وَ اٰثَـرْتُکَ.۲؎ ۵.جو دعائیں آج قبول ہوئیں ان میں قوت اور شوکت ِ اسلام بھی ہے.۳؎ ۶.تیرے لئے ایک خزانہ مخفی تھا.۷.کُلٌّ لَّکَ وَلِاَمْرِکَ.۱؎ ۸.یا اللہ ! اب شہر کی بَلائیں بھی ٹال دے.۲؎ ۹.ایک موسیٰ۳؎ ہے مَیں اس کو ظاہر کروں گا اور لوگوں کے سامنے اس کو عزت دوں گا.۱۰.اَجُرُّ الْاَثِیْمَ وَ اُرِیْہِ الْـجَــحِیْمَ.(ترجمہ حسب ِتفہیم) اور جس نے میرا گناہ کیا ہے مَیں اس کو گھسیٹوں گا اور اس کو دوزخ دکھلاؤں گا.۱۱.بَـلَجَــتْ اٰیَـاتِیْ.۱۲.قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ.‘‘۴؎ ۱ (ترجمہ) ۱.سب تیرے لئے اور تیرے حکم کے لئے ہے.(بدر ۲۱؍ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۲ (ترجمہ) ۴.مَیں نے تجھے روشن کیااور تجھے برگزیدہ کیا.(بدر مورخہ ۲۱؍ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.’’میرے ایک دوست سیّدناصر شاہ اور سیئر اِس گردش اور تشویش میں مبتلا ہوگئے تھے کہ وہ گلگت میں تبدیل کئے گئے تھے اور وہ سفر شدید اور تکالیف ِ شاقہ کا تحمل نہیں کرسکتے تھے آخر وہ رخصت لے کر دعا کرانے کے لئے میرے پاس آئے تا وہ جموں میں متعین ہوں اور گلگت میں نہ جائیں اور یہ اَمر بظاہر محال تھا کیونکہ گلگت میں ان کی تبدیلی ہوچکی تھی اِس لئے وہ نہایت مضطرب تھے.مَیں نے ایک رات ان کے لئے اور نیز کئی اور دعائیں کیں اور شوکت ِ اسلام کے لئے بھی دعا کی اور نمازِ تہجد میں دعائیں کرتا رہا تب تھوڑی سی غنودگی کے ساتھ خدا نے مجھے خبر دی کہ تمام دعائیں قبول ہوگئیں جن میں قوت اور شوکتِ اسلام بھی ہے.اِس پیرایہ میں مجھے اطلاع دی گئی کہ سیّدناصر شاہ کی تبدیلی ملتوی کی گئی.مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ خدا نے اُن کے بارے میں میری دعا قبول کی… فی الفور مَیں نے اُن کو اطلاع دے دی کہ تمہاری نسبت میری دعا قبول ہوگئی.پھر بعد اس کے شاید تیسرے دن یا چوتھے دن ریاست کے کسی اہلکار کا اُن کو خط آگیا کہ آپ کی تبدیلی ملتوی کی گئی.‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۵۹۶)
۷.کُلٌّ لَّکَ وَلِاَمْرِکَ.۱؎ ۸.یا اللہ ! اب شہر کی بَلائیں بھی ٹال دے.۲؎ ۹.ایک موسیٰ۳؎ ہے مَیں اس کو ظاہر کروں گا اور لوگوں کے سامنے اس کو عزت دوں گا.۱۰.اَجُرُّ الْاَثِیْمَ وَ اُرِیْہِ الْـجَــحِیْمَ.(ترجمہ حسب ِتفہیم) اور جس نے میرا گناہ کیا ہے مَیں اس کو گھسیٹوں گا اور اس کو دوزخ دکھلاؤں گا.۱۱.بَـلَجَــتْ اٰیَـاتِیْ.۱۲.قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ.‘‘۴؎ (بدر جلد ۶ نمبر۱۲ مورخہ۲۱ ؍ مارچ۱۹۰۷ء صفحہ ۳.الحکم جلد ۱۱ نمبر۱۰مورخہ ۲۴ ؍ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱) ۱۹؍ مارچ۱۹۰۷ء ’’ ۱.اَرَدْتُّ۵؎ زَمَانَ الزَّلْزَلَۃِ.۶؎ ۱ (ترجمہ ) سب تیرے لئے اور تیرے حکم کے لئے ہے.(بدر ۲۱؍ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ’’یہ جو الہام تھا کہ یا اللہ اب شہر کی بلائیں بھی ٹال دے.گو اس کے معنے اور بھی ہوں مگر ایک معنی اِس کے یہ بھی ہیں کہ یہ سخت بدزبان آریہ سوم راج اور اچھر جوہر ہفتہ گندی گالیوں کے بھرے ہوئے اخبار چھاپتے تھے یہ بھی اس شہر کی بَلائیں تھیں.خدا تعالیٰ نے ان کو ٹال دیا اور جہنّم واصل کردیا.‘‘ (بدر مورخہ۲۵ ؍ اپریل۱۹۰۷ء صفحہ ۷) فرمایا.’’ جب سے کہ یہ الہام ہوا ہے کہ یا اللہ اب شہر کی بلائیں بھی ٹال دے تب سے قادیان میں گویا امن ہے یہ بھی ایک تازہ نشان ہے.‘‘ (بدر مورخہ۲۸ ؍ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۳ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) الحمد للہ یہ پیشگوئی روز اشاعت کے سترھویں دن پوری ہوگئی.حضرت اقدس کا نام خدا تعالیٰ نے اپنے الہام میں موسیٰ رکھا ہے.حضور کے مقابل پر بابو الٰہی بخش اکونٹنٹ نے بھی موسیٰ ہونے کا دعویٰ کیا.خدا تعالیٰ نے حضور کو فرمایا کہ موسیٰ تو ہی ہے اور کوئی موسیٰ نہیں.چنانچہ اپریل ۱۹۰۷ء کے پہلے ہفتہ میں بروز اتوار بابو الٰہی بخش طاعون سے ہلاک ہوگیا.الہام نمبر ۱۰ کے قبل از وقت بتانے سے اس کی ذلّت اور نمایاں ہو جاتی ہے.وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.(مزید دیکھئے بدر مورخہ ۱۱؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۵) ۴ (ترجمہ) ۱۱.میرے نشان ظاہر ہوجائیں گے.۱۲.کہہ دے اللہ ہے اورپھر ان کو چھوڑدے اپنی بےہودگی میں لعب کریں.( بدر مورخہ ۲۱؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۵ (ترجمہ) مَیں نے ارادہ کیا ہے کہ زلزلہ کا زمانہ آجاوے.( بدر مورخہ ۲۱؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۶ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ۲۸ ؍ مارچ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۳۱؍ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ۱ میں اس الہام کے بارہ میں تحریر ہے کہ ’’اِس سے کسی معمولی زلزلہ کی طرف اشارہ نہیں معلوم ہوتا بلکہ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو
۲.(رؤیا) میری بیوی نے خواب میں مجھے کہا کہ ’’مَیں نے خدا کی مرضی کے لئے اپنی مرضی چھوڑ دی ہے.میں نے جواب دیا کہ اسی سے تو تم پر حُسن چڑھا ہے.‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۸۵) ۲۱؍ مارچ۱۹۰۷ء ’’ ۱.لا ولد.۲.قہر الٰہی کی تجلّی.۳.اَدْ رِکِ الْوَقْتَ.‘‘۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۸۴) ۲۴؍ مارچ۱۹۰۷ء ’’ ۱.وَ لَدَارُ الْاٰخِرَۃِ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی.۳؎ ۲.وَ لَكُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِيْ اَنْفُسُكُمْ وَ لَكُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَ.۴؎ ۳.لاکھوں آدمی تہہ و بالا کردوں گا.۵؎ ۴.وَ اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ۶؎ ۵.اَخَذْ تُ الشَّوْکَ.۷؎ ۶.اَرَدْتُّ زَمَانَ الزَّلْزَلَۃِ.۸؎ لاکھوں آدمی تہہ و بالا کردوں گا.وَ اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ ‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۸۳، ۸۲) بقیہ حاشیہ.بڑے زلازل کا ارادہ کیا ہے یہ ان میں سے ایک ہے جس کا وقت قریب۹؎ آگیا ہوا معلوم ہوتا ہے.‘‘ ۱ (نوٹ از بدر) بدر مورخہ۲۸ ؍ مارچ۱۹۰۷ءصفحہ ۳ والحکم مورخہ ۳۱؍ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ۱ میں اس فقرہ کے ضمن میں تحریر ہے کہ ’’ یہ فقرہ اس فقرہ سے مشابہ ہے جو زبور میں ہے کہ تو حسن میں بنی آدم سے کہیں زیادہ ہے.‘‘ ۲ (ترجمہ از ناشر) وقت کو پالے.۳ (ترجمہ) ۱.اور البتہ آخرت کا گھر تیرے لئے اس دُنیا کی نسبت بہت بہتر ہے.(بدر مورخہ ۲۸؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۴ (ترجمہ از ناشر) ۲.اور اس میں تمہارے لئے وہ سب کچھ ہوگا جس کی تمہارے نفس خواہش کرتے ہیں اور اس میں تمہارے لئے وہ سب کچھ ہوگا جو تم طلب کرتے ہو.۵ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲۸؍ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۳۱؍ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ میں یہ الہامات یوں درج ہیں.’’لاکھوں انسانوں کو تہ و بالا کردوں گا.اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ.‘‘ ۶ (ترجمہ) ۴.مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۷) ۷ (ترجمہ از ناشر) ۵.میں مسلح ہوگیا ہوں.۸ (ترجمہ) ۶.مَیں نے ارادہ کیا ہے کہ زلزلہ کا زمانہ آجاوے.( بدر مورخہ ۲۱؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۹ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) چنانچہ ’’۱۲ اور۱۳؍ اپریل کی درمیانی شب کو ۱۲بجے کے قریب پنجاب کے اکثر مقامات میں زلزلہ آیا … ۱۴؍اپریل ۱۹۰۷ء کو میکسیکو میں خطرناک زلزلہ آیا.چلپان، سنگو اور جلاپہ کے شہر برباد ہوگئے.‘‘ (الحکم مورخہ۲۴؍ اپریل۱۹۰۷ءصفحہ۶)
مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ ‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۸۳، ۸۲) مارچ ۱۹۰۷ء پورانے الہام.’’ ۱.کیا اپریل میں مَیں دنیا میں ہوں گا.۲.قَدْ مَاتَ.۳.بُشْـرٰی لَکَ الْیَوْمَ.۲؎ ۴.وہ دن بڑا مبارک ہوگا.۵.میں ہوں تیرا عاجز بندہ اے مالک اے والی جو توں چاہیں سو توں کردا درگہہ قدرت والی‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۸۲) ۲۵؍ مارچ۱۹۰۷ء ’’ ۱.وَ وَ۳؎اللّٰہِ لَوْ لَا الْاِکْرَامُ لَھَلَکَ الْمُقَامُ.۲.وَ الضُّحٰی وَ الَّیْلِ۴؎ مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَ مَا قَلٰی.۳.وَ لَدَارُ الْاٰخِرَۃِ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی.۴.وَ وَ اللّٰہِ لَوْ لَا الْاِکْرَامُ لَھَلَکَ الْمُقَامُ.۵.اِکْرَامٌ تُسْمِعُ بِہِ الْمَوْتٰی.۶.عِلْمُہٗ عِنْدَ رَبِّیْ لَایَضِلُّ رَبِّیْ وَ لَا یَنْسٰی.۵؎ ۷.مُقَامُ طُفَیْلِـیٍّ مُقَامُ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.‘‘۶؎ (کاپی الہامات۷؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۸۱، ۸۰) ۱ (ترجمہ) مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۷) ۲ (ترجمہ از ناشر) ۲.یقیناً وہ فوت ہوگیا.۳.آج کے دن تمہارے لئے خوشخبری ہے.۳ (ترجمہ) ۱.اور قَسم ہے اللہ کی کہ اگر تمہارا اِکرام ہم کو منظور نہ ہوتا تو یہ مقام ہلاک ہوجاتا.(بدر مورخہ ۲۸؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۴ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲۸؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۳۱؍ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ میں ’’.وَالَّیْلِ‘‘ کے بعد ’’ اِذَا سَـجٰی‘‘ کے الفاظ بھی درج ہیں.۵ (ترجمہ) ۲.ہم قسم کھاتے ہیں وقت ِ چاشت کی اور رات کی.تیرے پروردگار نے تجھے چھوڑ نہیں دیا اور نہ تجھ سے ناخوش ہوا ہے ۳.اور البتہ آخرت کا گھر تیرے لئے اس دنیا کی نسبت بہت بہتر ہے.۴..اور قَسم ہے اللہ کی کہ اگر تمہارا اِکرام ہم کو منظور نہ ہوتا تو یہ مقام ہلاک ہوجاتا.۵.تیرا ایسا اِکرام کروں گا کہ اس کے ذریعہ سے تو مُردوں کو سنائے گا.۶.اِس کا علم میرے ربّ کو ہے.میرا ربّ نہ بے راہ ہوتا ہے اور نہ بھولتا ہے.( بدر مورخہ ۲۸؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۶ (ترجمہ از ناشر) ۷.ربّ العالمین سے فیض پانے والے کے کھڑے ہونےکی جگہ ربّ العالمین کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے.۷ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲۸؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۳۱؍ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ میں الہام نمبر ۶ کے علاوہ باقی الہامات ترتیب کے اختلاف سے درج ہیں.
۲۶؍ مارچ۱۹۰۷ء ’’ ۱.لَا تَطَأُ قَدَ مُ الْعَآمَّۃِ قَدَ مَ النَّبِیِّ.۱؎ ۲.وَ نُـزِّلَ عَلٰی منظور مـحمد.اِنِّیْ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍقَدِ یْرٌ.۳.بَلَغْتُ قَدَ مَ الرَّسُوْلِ.‘‘۲؎ ۜ (کاپی الہامات۳؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۷۷) ۲۷؍ مارچ۱۹۰۷ء ’’۱.کُلُّ وَ احِدٍ مِّنْـھُمْ ثَلَجَ.۲.یَنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ.۳.لَقَدْ اٰثَـرَکَ اللّٰہُ عَلَیْنَا.‘‘۴؎ (کاپی الہامات۵؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۷۶) ۲۸؍ مارچ۱۹۰۷ء ’’ ۱.میرا دشمن ہلاک ہوگیا.۲.ہُن اُس دا لیکھا خدا نال جاپیا ہے.۶؎ ۳.میرے دشمن ہلاک ہوگئے.۷؎ ۴.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الْاَ بْرَارِ.۸؎ ۵.کوئی درباری میرے حلقہء ِ اطاعت سے ۱ (ترجمہ) ۱.عام لوگوں کا قدم نبی کے قدم کو پامال نہیں کرسکتا.( بدر مورخہ ۲۸؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۲ (ترجمہ از ناشر) ۲محمد کے محبوب پر یہ الہام نازل کیا گیا کہ میں ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہوں.۳.مَیں رسول کے قدم پر پہنچ گیا ہوں.۳ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲۸؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۳۱؍ مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ میں ۲۵؍مارچ ۱۹۰۷ء کے تحت یہ الہامات ترتیب کے اختلاف سے درج ہیں.۴ (ترجمہ از ناشر) ۱.ان میں سے ہر ایک کی دِلجمعی ہوگئی.۲.وہ اپنی ایڑیوں کے بَل پھر جائے گا.۳.بے شک تجھے اللہ نے ہم پر ترجیح دی.۵ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲۸؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۳۱ ؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ میں یہ تمام الہامات درج ہیں نیز الہام نمبر ۲ میں لفظ ’’ یَنْقَلِبُ‘‘ کی بجائے ’’اِنْقَلَبَ‘‘ درج ہے.۶ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ۴ ؍ اپریل۱۹۰۷ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۳۱ ؍ مارچ۱۹۰۷ء صفحہ ۲ میں بعض الہامات کے ساتھ تشریح بھی درج ہے اور وہ یہ ہے ۱.ہُن اُس دا لیکھا خدا نال جاپیا اے یعنی عنقریب میرا دشمن ہلاک ہوجائے گا اور پھر اس کا خدا سے معاملہ پڑے گا.۷ ۳.میرے دشمن ہلاک ہوگئے.یعنی آئندہ عنقریب ہلاک ہوں گے.۸ (ترجمہ) ۴.خدا نیکوں کے ساتھ ہے.(بدر مورخہ ۴؍اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۳)
گزرنے نہ پاوے.یعنی جو شخص خدا سے تعلق رکھنے والا ہے اس کا تعلق قائم نہیں رہ سکتا جب تک وہ مجھے قبول نہ کرے.۶.کوئی درباری اس جرم پر سزاسے محفوظ نہیں رہے گا.۷.سلطان عبدالقادر.۱؎ ۸.اُحِلَّ لَہُ الطَّیِّبَاتُ.۹.قُلْ مَا فَعَلْتُ اِلَّا مَا اَمَرَنِیَ اللّٰہُ.۲؎ پھر وہ مقبرہ کشفی رنگ میں مجھے دکھلایا گیا جس کا نام خدا نے بہشتی مقبرہ رکھا ہے.بعد اس کے الہام ہوا.کُلُّ مَقَابِـرِ الْاَرْضِ لَا تُقَابِلُ ھٰذِ ہِ الْاَرْضَ.یعنی زمین ِ ہند کے ہر یک قبرستان اِس زمین کا مقابلہ نہیں کرسکتے.‘‘۳؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۷۲، ۷۱) ۲۸؍مارچ ۱۹۰۷ء (رؤیا) ’’مَیں نے دیکھا کہ ایک راہ پر چل رہا ہوں اور میرے ساتھ میرا لڑکا مبارک احمد اور اُس کی والدہ ہے اور مجھے خیال گزرتا ہے کہ میرزا غلام قادر مرحوم بھی (جو میرے بھائی ہیں) میرے ساتھ ہیں اور راہ میں اِس قدر زنبور ہیں کہ ٹِڈّی دَل کی طرح زمین پر پھیل رہے ہیں اور ایک میری ناف کے اندر بیٹھ گیا ہے اور پھر اُڑ گیا مگر کسی نے ضرر نہیں پہنچایا اور پھر ہم سب ایک مسجد میں داخل ہوگئے ہیں اور مسجد ۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.’’ اِس الہام میں میرا نام سلطان عبدالقادر رکھا گیا کیونکہ جس طرح سلطان دوسروں پر حکمران اور افسر ہوتا ہے.اسی طرح مجھ کو تمام روحانی درباریوں پر افسری عطا کی گئی ہے.یعنی جو لوگ خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے ہیں ان کا تعلق نہیں رہے گا جب تک وہ میری اطاعت نہ کریں اور میری اطاعت کا جوآ اپنی گردن پر نہ اُٹھائیں.یہ اسی قسم کا فقرہ ہے جیسا کہ یہ فقرہ کہ قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَ لِیِّ اللّٰہِ.یہ فقرہ سیّد عبدالقادر رضی اللہ عنہ کا ہے جس کے معنی ہیں کہ ہر ایک ولی کی گردن پر میرا قدم ہے.‘‘ (بدر مورخہ ۴؍اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۳.الحکم مورخہ ۳۱؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۲) ۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.’’اِس سلطان عبدالقادر کے لئے وہ تمام چیزیں حلال کی گئیں جو پاک ہیں.کہہ مَیں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا جو خدا کے حکم کے برخلاف ہو بلکہ وہی کیا جو خدا نے مجھے فرمایا.‘‘ (بدر مورخہ ۴؍اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۳.الحکم مورخہ ۳۱؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۲) ۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.یعنی اِس زمین کو جو برکتیں دی گئیں وہ برکتیں تمام پنجاب اور ہندوستان میں کسی اور قبرستان کو نہیں دی گئیں.(بدر مورخہ ۴؍اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۳.الحکم مورخہ ۳۱؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۲)
میں بھی کروڑ ہا زنبور ہیں مگر ہم ان کے شر سے محفوظ رہے ہیں.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر۱۴ مورخہ۴ ؍ اپریل۱۹۰۷صفحہ ۳.الحکم جلد ۱۱ نمبر۱۱مورخہ ۳۱ ؍ مارچ۱۹۰۷صفحہ ۲) مارچ۱۹۰۷ء ’’ اے اَزلی اَبدی خدا مجھے زندگی کا شربت پلا.‘‘ (کاپی الہامات۱؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۶۹) ۳۱؍ مارچ۱۹۰۷ء ’’ ۱.حَقَّ اللّٰہُ اَمْرِیْ.وَ لَا تَنْفَکَّا مِنْ ھٰذِ ہِ الْمَرْحَلَۃِ.۲؎ محمود کی والدہ کی نسبت.۲.بہشتی کمرہ میں نزول ہوگا.دولت ِ اعلام بذریعہ الہام۳؎.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۶۸، ۶۷) یکم اپریل ۱۹۰۷ء ’’ لَوْ۴؎ لَا الْاِکْرَامُ لَھَلَکَ الْمُقَامُ.‘‘۵؎ (بدر جلد ۶ نمبر۱۴ مورخہ۴ ؍ اپریل۱۹۰۷ء صفحہ ۳.الحکم جلد ۱۱ نمبر۱۲مورخہ ۱۰ ؍ اپریل ۱۹۰۷ءصفحہ۱) ۱ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ۴ ؍ اپریل۱۹۰۷ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۱۰ ؍ اپریل ۱۹۰۷صفحہ۱ میں اس الہام کی تاریخ نزول ۲۹؍مارچ ۱۹۰۷ء درج ہے.۲ (ترجمہ) خدا نے میری بات کو سچا کردیا اور تم دونوں اس مرحلہ سے نہیں چھوٹو گے.(بدر مورخہ ۴؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) الحمد للہ یہ پیشگوئی اخبار شبھ چنتک کے مینجر اچھر چند اور ایڈیٹر سوم راج کے طاعون سے ہلاک ہونے سے پوری ہوگئی.یہ دونوں اشخاص اپنی گندہ دہانی اور بد زبانی میں قادیان کے آریوں کے لیڈر تھے اور قادیان میں رہ کر نہایت ناپاکی کے ساتھ سلسلہ حقّہ کے برخلاف بولتے اور لکھتے رہتے تھے.وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.(دیکھیے بدر ۱۱؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۵) ۳ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ۴ ؍ اپریل۱۹۰۷ءصفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۱۰ ؍ اپریل ۱۹۰۷صفحہ۱ میں یہ الہامات ۲۹؍مارچ ۱۹۰۷ء کے تحت درج ہیں اور الہام نمبر ۲ کے الفاظ یہ ہیں.’’دولت ِ اعلام بذریعہ الہام بہشتی کمرہ میں نزول ہوگا.‘‘ ۴ (ترجمہ) اگر میں تمہاری عزت کا پاس نہ کرتا تو میں اِس تمام گاؤں کو ہلاک کر دیتا اور ان میں سے ایک بھی نہ چھوڑتا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۴۳) ۵ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ۴ ؍ اپریل۱۹۰۷ء صفحہ ۳ اورالحکم مورخہ ۱۰؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ میں اس الہام کے بارہ میں تحریر ہے کہ ’’اِس میں ابتدائی حروف کچھ اَور تھے جو یاد نہیں رہے مگر مفہوم یہی تھا.‘‘ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) بدر مورخہ ۱۱؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۴ پر جو یہ الہام دوبارہ چھپا ہے.اس میں یہ الفاظ ہیں.’’ لَوْ لَا الْاِکْرَامُ لَھَلَکَ الْمُقَامُ یا یہ کہا لَوْ لَا خَیْرُ الْاَنَـامِ لَھَلَکَ الْمُقَامُ.‘‘ (ترجمہ) اگر تمام مخلوق سے بہتر شخص نہ ہوتا تو یہ مقام تباہ ہوجاتا.‘‘
۲؍ اپریل۱۹۰۷ء (الف) ’’ ھَلْ نَرٰی جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانَ.‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۶۶) (ب) ’’ ۱.اِنَّـا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا.۲؎ ۲.سَنَسِمُہٗ عَلَی الْـخُرْطُوْمِ.۳.اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ.۴.سَنَسِمُہٗ عَلَی الْـخُرْطُوْمِ.۵.رَبِّ اِنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ.۶.اِنَّـا اَنْـزَلْنَاہُ عَلٰی رَقِیْمَۃٍ مِّنْ مُّوْسٰی.‘‘۳؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳۵، ۳۴) ۳؍ اپریل۱۹۰۷ء ’’ ۱.فَضَّلْنَاکَ۴؎ عَلٰی مَا سِوَاکَ.۲.وَ اللّٰہِ لَوْ لَا الْاِکْرَامُ لَھَلَکَ الْمُقَامُ.۵؎ ۳.سَلَامٌ عَلَیْکُمْ.۶؎ ۴.حَقَّ اللّٰہُ اَمْرِیْ ۵.وَلَا تَنْفَکَّا مِنْ ھٰذِ ہِ الْمَرْحَلَۃِ.۷؎ ۶.دولت ِ اعلام بذریعہ الہام.۷.اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ وَ اَلُوْمُ مَنْ یَّلُوْمُ.۸.وَ اُعْطِیْکَ مَایَدُ وْمُ.۸؎ ۱ (ترجمہ) نہیں دیکھتے ہم احسان کی جزا بجز احسان کے.(بدر مورخہ ۴؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ۴ ؍ اپریل۱۹۰۷ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۱۰؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ میں اس الہام کی تاریخ نزول ۲۹؍مارچ ۱۹۰۷ء درج ہے.۲ (ترجمہ از ناشر) ۱.ہم ایک بڑی فتح تجھ کو عطا کریں گے.۳ (ترجمہ) ۲.اس کی ناک پر یامنہ پر ہم آگ کا داغ لگائیں گے.۳.مَیں اس شخص کی اہانت کروں گا جو تیری اہانت کرتا ہے.۴.اس کی ناک پر یامنہ پر ہم آگ کا داغ لگائیں گے.۵.اے میرے خدا ! مَیں مغلوب ہوں تُو انتقام لے.۶.ہم نے اس ارادہ کو موسیٰ کی تحریر پر اُتارا ہے یعنی موسیٰ نے ایسا ہی ارادہ بذریعہ تحریر ظاہر کیا سو ہم نے اس سے اتفاقِ رائے کیا.(بدر مورخہ ۹؍مئی ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۴ (ترجمہ) ۱.تیرے سوائے جتنے ہیں ان سب پر ہم نے تجھے بزرگی دی.(بدر مورخہ ۱۱؍اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ۴) ۵ (ترجمہ) ۲.قسم ہے اللہ کی کہ اگر تمہارا اِکرام ہم کو منظور نہ ہوتا تو یہ مقام ہلاک ہوجاتا.(بدر مورخہ ۲۸؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۶ (ترجمہ ازمرتّب) ۳.تمہارے لئے سلامتی ہے.۷ (ترجمہ از ناشر) ۴.اللہ تعالیٰ نے میرے معاملہ کو حق کر دکھایا.۵.اور تم دونوں اس مرحلہ سے نہیں چھوٹو گے.۸ (ترجمہ) ۷.مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا اور جو اُسے ملامت کرتا ہے اسے ملامت کروں گا.۸.اور تجھے وہ چیز دوں گا جو ہمیشہ رہے.(بدر مورخہ ۱۱؍اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۴)
دَوْلَۃُ الْاِعْلَامِ بِذَ رِیْعَۃِ الْاِلْہَامِ.‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۶۶، ۶۴) ۴؍ اپریل۱۹۰۷ء الہام.’’۱.لائف آف پین۲؎.۲.یا اللہ رحم کر.یا اللہ رحم کر.۳.اِنَّ عِیْسٰی وُقِفَ عَلَیْـھَا.۳؎ ۴.اِنِّیْ مَعَ اللّٰہِ فِیْ کُلِّ حَالٍ.اِنِّیْ مَعَ اللّٰہِ فِیْ کُلِّ حَالٍ ۵.اِخْتَرَطْنَا سَیْفَہٗ.۶.خدا کے نکو کار بندے سات ہر جگہ پر بیٹھے ہوئے ہیں۴؎.۷.اَلَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْکُمْ فِی السَّبْتِ.۵؎ ۸.اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَامًا وَّقُعُوْدًا.۹.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا.۱۰.رَحِـمَ اللّٰہُ.۱۱.مُتْ۶؎ اَیُّـھَا الْـخَوَّانُ.۷؎ ۱۲.تَـمَّتْ کَلِمَۃُ اللّٰہِ.یعنی پوری ہوگئی خدا کی بات.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۶۳، ۶۰، ۵۹) ۱ (ترجمہ از ناشر) دولت اعلام بذریعہ الہام ۲ Life of pain (ترجمہ) تلخ زندگی.۳ (ترجمہ از ناشر) ۳.یقیناً عیسیٰ اسی موقف پر قائم رکھا گیا.۴ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۱؍اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۴ اور الحکم مورخہ ۱۰؍اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۲ میں یہ الہام یوں درج ہے.’’خدا کے سات نکوکار بندے ہر جگہ پر بیٹھے ہیں.‘‘ ۵ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۱؍اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۴ اور الحکم مورخہ ۱۰؍اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۲ میں الہام نمبر۷تا ۱۲ مورخہ ۵؍اپریل ۱۹۰۷ء کے تحت ترتیب کے اختلاف سے درج ہیں نیز الہام ’’ اَ لَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْکُمْ فِی السَّبْتِ‘‘کے تحت تحریر ہے کہ ’’یہ قوم مخالف کی طرف اشارہ ہے.ساتھ کا فقرہ بھول گیا.وَاللہُ اَعْلَمُ.‘‘ ۶ (ترجمہ) ۴.مَیں ہر حال میں اللہ کے ساتھ ہوں.مَیں ہر حال میں اللہ کے ساتھ ہوں.۵.ہم نے اس کی تلوار کو کھینچا.۷.وہ لوگ جنہوں نے (تم میں سے ) سبت کے معاملہ میں زیادتی کی.۸.وہ جو اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے اور بیٹھے.۹.اللہ تعالیٰ اُن کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کریں.۱۰.اللہ نے رحم کیا.۱۱.مر اے خیانت کرنے والے.(بدر مورخہ ۱۱؍اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۷ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی ؓ کی روایت ہے کہ یہ الہام ایڈیٹر اخبار شُبھ چنتک قادیان کے متعلق تھا.لکھتے ہیں کہ ’’آریوں میں طاعون پھوٹی.جس کو طاعون ہوتی مَیں اور شیخ یعقوب علی صاحب اسے دیکھنے جاتے اور سب آریہ کارکن اخبار مذکور کے جو تھے مَر گئے صرف مالک اخبار بچ رہا.پھر اُسے بھی طاعون ہوئی… پھر وہ ذرا اچھا ہوگیا…(حضورؑ کو جب اس کا علم ہوا تو فرمایا) اَب جا کر دیکھو.مَیں اور شیخ صاحب اس وقت گئے تو چیخ پکار ہورہی تھی اور وہ مر چکا تھا.‘‘ (رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۱۳ صفحہ ۳۴۹)
۵؍ اپریل۱۹۰۷ء (الف) ’’۱.حٰـمٓ.تِلْکَ اٰیَـاتُ الْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ۱؎.۲.راز کھل گیا.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۹.بدر جلد ۶ نمبر۱۵ مورخہ۱۱ ؍ اپریل۱۹۰۷ءصفحہ ۴.الحکم جلد ۱۱ نمبر۱۲مورخہ ۱۰ ؍ اپریل۱۹۰۷ءصفحہ۲) (ب) ’’ فَضَّلْنَاکَ عَلٰی مَا سِوَاکَ.‘‘۲؎ (بدر جلد ۶ نمبر۱۵ مورخہ۱۱ ؍ اپریل۱۹۰۷ء صفحہ ۴.الحکم جلد ۱۱ نمبر۱۲مورخہ ۱۰ ؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۲) ۶؍اپریل۱۹۰۷ء ’’ اعزاز ‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۸) اپریل۱۹۰۷ء ’’بابو۳؎ صاحب کی موت کے بعد مجھ کو یہ الہام ہوا تھا فَتَنَّا بَعْضَھُمْ مِّنْ بَعْضٍ یعنی ہم نے الٰہی بخش کی موت سے اُن کے دوستوں کا امتحان کرنا چاہا ہے کہ کیا وہ اب بھی سمجھتے ہیں یا نہیں.‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۶۱) ۷؍ اپریل۱۹۰۷ء (الف) ۱.’’۱.وَاللّٰہِ اِنِّیْ غَالِبٌ وَ سَیَظْھَرُ شَوْکَتِیْ.۲.وَ کُلٌّ ھَالِکٌ اِلَّا مَنْ قَعَدَ فِیْ سَفِیْنَتِیْ۴؎.۳.اعزاز.۲.الہام کے الفاظ یاد نہیں رہے اور معنی یہ ہیں کہ فلاں کو پکڑو اور فلاں کو چھوڑ دے۵؎.۱ (ترجمہ از مرتّب) ۱.حٰـمٓ.یہ کھول کر بیان کرنے والی کتاب کے نشان ہیں.(نوٹ از ناشر) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس الہام کی تفہیم ہوئی جو بدر مورخہ ۱۱؍اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۴ اور الحکم مورخہ ۱۰؍اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۲ پر ان الفاظ میں مذکور ہے.’’تفہیم.وہ جو حٰـمٓ ہے.اس میں خدا کے نوشتہ کے کئی نشان ہیں جو ظاہر ہونے والے ہیں.حٰـمٓ مقطعات میں کسی کا نام ہے.یہی تفہیم ہے.‘‘ ۲ (ترجمہ) تیرے سوائے جتنے ہیں ان سب پر ہم نے تجھے بزرگی دی.(بدر مورخہ ۱۱؍اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ۴) ۳ (نوٹ از ناشر) یعنی بابو الٰہی بخش.حضرت مسیح موعود ؑ نے بابو الٰہی بخش کی موت کی تاریخ حقیقۃ الوحی میں ۷؍اپریل ۱۹۰۷ء تحریر فرمائی ہے.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۴۰ و ۵۴۴) ۴ (ترجمہ) ۱.بخدا مَیں غالب ہوں اور عنقریب میری شوکت ظاہر ہوجائے گی.۲.اور ہر ایک مَرے گا مگر وہی (بچے گا) جو میری کشتی میں بیٹھ گیا.(بدر مورخہ ۱۱؍اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۵ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۱۰ ؍ اپریل۱۹۰۷صفحہ۲ میںتمام الہامات درج ہیں البتہ یہ فقرہ یوں درج ہے.’’فلاں کو پکڑو.فلاں کو چھوڑو‘‘
(یہ فرشتوں کو حکمِ الٰہی ہے).‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر۱۵ مورخہ ۱۱؍اپریل۱۹۰۷ءصفحہ ۴) (ب) ’’ایک اَور قیامت برپا ہوئی.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر۱۵ مورخہ۱۱ ؍ اپریل۱۹۰۷صفحہ ۴.الحکم جلد ۱۱ نمبر۱۲مورخہ ۱۰ ؍ اپریل۱۹۰۷ءصفحہ ۱) ۸؍ اپریل۱۹۰۷ء ’’ ۱.بلائے دمشق.۲.سِـرُّکَ سِـرِّیْ.‘‘۱؎ (کاپی الہامات۲؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۰) ۹؍اپریل۱۹۰۷ء ’’ایک اَور بَلا برپا ہوئی.‘‘ (الحکم جلد ۱۱ نمبر۱۲مورخہ ۱۰ ؍ اپریل۱۹۰۷ءصفحہ ۲) اپریل ۱۹۰۷ء ’’(شرمپت کی نسبت) ۱.اتنے میں طاقت بالا اس کو کھینچ کر لے گئی.۲.فَارْتَدَّا عَلٰی اٰثَـارِھِمَا وَ وُھِبَ لَہُ الْـجَنَّۃُ۲؎.۳.مسلمان تو نہیں ہوگا پر مصدق ہوجائے گا.۴.یَا نَبِیَّ اللہِ کُنْتُ لَا اَعْرِفُکَ.‘‘۳؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴۹) ۱۱؍ اپریل۱۹۰۷ء ’’واصل خان دہلی میں واصلِ جہنّم فوت ہوگیا.‘‘ (کاپی الہامات۴؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴۶ ) ۱۲؍ اپریل۱۹۰۷ء ۱.’’ ۱.شَدِّ۵؎دْ لِیْ.۲.اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ.‘‘۶؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۴۷) ۱ (ترجمہ) ۲.تیرا بھید میرا بھید ہے.(بدر مورخہ ۱۱؍اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ۱۱ اپریل۱۹۰۷صفحہ ۴ اور الحکم مورخہ ۱۰ اپریل۱۹۰۷صفحہ ۲ میں ان الہامات کی تاریخ نزول ۹؍اپریل ۱۹۰۷ء درج ہے.۲ (ترجمہ از مرتّب) ۲.پھر وہ دونوں پچھلے پاؤں واپس لوٹ گئے اور اس کو جنّت عطا کی گئی.۳ (ترجمہ) ۴.اے اللہ کے نبی میں تم کو نہیں پہچانتی تھی.(بدر مورخہ ۱۶؍فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۲) ۴ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۸ ؍ اپریل۱۹۰۷ءصفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۱۷ ؍ اپریل۱۹۰۷ء صفحہ ۲ میں یہ الہام یوں مندرج ہے.’’دہلی میں واصلِ جہنم واصل خان فوت ہوگیا.‘‘ اوراس کی تشریح میں تحریر ہے کہ ’’حکیم واصل خان دہلی کا تو فوت ہوچکا ہواہے.تفہیم یہ تھی کہ واصل خان نام ایک شخص کے عزیزوں میں سے کوئی طاعون سے مرجائے گا کیونکہ جہنّم کا لفظ دوسرے الہامات میں بھی طاعون کے لئے استعمال ہوا ہے.یہ نشان بھی اپنے وقت پر پورا ہوکر ترقی ایمان کا موجب ہوگا.‘‘ ۵ (ترجمہ از ناشر) ۱.میری خاطر سختی کر.۲.مَیں دعا کرنے والے کی دُعا کو قبول کرتا ہوں.۶ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۸ ؍ اپریل۱۹۰۷ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۱۷ ؍ اپریل۱۹۰۷ءصفحہ ۲ میں اس الہام کی تاریخ نزول ۱۴؍اپریل ۱۹۰۷ء درج ہے.
۲ ثناءاللہ کی نسبت.یہ مقدمہ دائر ہے ورنہ ثناء اللہ جہنم میں پڑ جاتا یعنی طاعون میں گرفتار ہوجاتا.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴۳) ۱۶؍ اپریل ۱۹۰۷ء ’’ ۱.فتح ہے تمہاری.تمہارے نام کی.۲.اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَ بْتَرُ.۳.ایک کاغذ دکھلایا گیا اس پر لکھا تھا احمد غزنوی.۴.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ مُوْسٰی.۵.حَدُّ ظُبَاۃٍ.۶.سَلَامٌ قَـوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ.۱؎ یہ قرآن شریف کی جلد پر لکھا ہوا دیکھا.‘‘ (کاپی الہامات۲؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴۲، ۴۱) ۱۷؍ اپریل ۱۹۰۷ء (الف) ’’ ۱.خدا دو مسلمان فریق میں سے ایک کا ہوگا.پس یہ پھوٹ کا ثمرہ ہے.۲.اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً.۳.اِنِّیْ مَعَ اللّٰہِ الْکَرِیْمِ.۳؎ ۴.طوفان آیا وہی طوفان.شر آئی.‘‘ (کاپی الہامات۴؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴۱، ۴۰) (ب) ’’جَزَاءُہٗ اَوْفٰی.‘‘۵؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳۹) ۱۸ ؍ اپریل ۱۹۰۷ء ’’ اَرْجُوْ مِنْکَ کُلَّ خَیْرٍ‘‘۶؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳۹) ۱۹؍ اپریل ۱۹۰۷ء ’’۱.وَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِیْ اَنْقَضَ ظَھْرَکَ.۲.سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ.۷؎ ۳.اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ.‘‘۸؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳۸) ۱ (ترجمہ از ناشر) ۲.یقیناً تیرا دشمن ہی ابتر ہے.۴.تُو مجھ سے مانند موسیٰ کے ہے.۵.تلوار کی تیز دھار.۶.سلامتی ہے.یہ بات ربِّ رحیم کی طرف سے کہی گئی ہے.۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۸ ؍ اپریل۱۹۰۷صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۱۷ ؍ اپریل۱۹۰۷ء صفحہ۲ میں تمام الہامات ترتیب کے اختلاف سے درج ہیں اور ان کی تاریخ نزول ۱۵؍اپریل ۱۹۰۷ء درج ہے نیز الہام نمبر ۳ یوں درج ہے.’’ایک کاغذ دکھلایا گیا اس پر لکھا تھا.احمد غزنوی‘‘ اور الہام نمبر ۶ کے بارہ میں تحریر ہے کہ ’’پھر قرآن مجلّد دیکھا اس کی جلد پر شیرازہ کے قریب لکھا ہوا تھا.سَلَامٌ قَـوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ‘‘.۳ (ترجمہ از مرتّب) ۲.مَیں افواج کے ساتھ اچانک تیرے پاس آئوں گا.۳.میں خدائے کریم کے ساتھ ہوں.۴ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۸؍اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۲۴؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ میں بھی یہ الہام شائع ہوئے.۵ (ترجمہ از ناشر) ۶.اس کی کامل جزا.۶ (ترجمہ از ناشر) میں تجھ سے ہر بھلائی کی امید رکھتا ہوں.۷ (ترجمہ از مرتّب) ۱.ہم نے تجھ سے وہ بوجھ اتار دیا جس نے تیری کمر توڑ دی.۲.تمہارے لئے سلامتی ہے خوش رہو.۸ (ترجمہ) ۳.میں ہر ایک جو تیرے گھر میں ہوگا اس کی حفاظت کروں گا.(حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۶)
۲۰؍ اپریل ۱۹۰۷ء (الف) ’’میں نے دیکھا کہ گویا میں اپنی بڑی مسجد میں ہوں اور میرے پاس بشیر ہے اور وہ مجھے کہتا ہے کہ زلزلہ اس طرف گیا ہے اور مشرق اور گوشہ ٔ شمال کی طرف اشارہ کرتا ہے.اور پھر کچھ الفاظ زبان پر جاری ہوئے.شاید یہ ہیں.یَـوْمَئِذٍ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ.‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۹۱) (ب) ’’صبح کے وقت الہام ہوا.اوّل خواب میں دیکھا کہ گویا مَیں بڑی مسجد (میں ) ہوں.بشیر احمد میرا لڑکا میرے پاس ہے.وہ مشرق اور کچھ شمال کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے.اس طرف زلزلہ گیا۲؎ ہے اور مجھے زلزلہ آنے سے پہلے الہام ہوا.اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ۳؎ اور پھر الہام ہوا.مَظْھَرُالْـحَقِّ وَ الْعَلٰی یعنی وہ ایسا امر ہوگا جس سے حق کھلے گا اور حق ظاہر ہوگا.‘‘ ( مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بنام چوہدری مولا بخش صاحب ؓ.غیر مطبوعہ۴؎) ۲۱؍ اپریل ۱۹۰۷ء ’’۱.سَاُرِیْکُمْ اٰیَـاتِیْ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ.۵؎ ۲.یہ دو گھرہی مَر گئے.۶؎ ۱ (ترجمہ از ناشر) اس دن میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا.۲ (نوٹ از مرتّب) یہ زلزلہ ۱۵ ؍ جنوری ۱۹۳۴ء کو صوبہ بہار میں آیا.تفصیل کے لئے دیکھئے ٹریکٹ ’’ ایک اَور تازہ نشان‘‘ صفحہ ۲۴.نوشتہ حضرت صاحبزادہ میرزا بشیر احمد صاحب ؓ ایم.اے.ناشر چوہدری اللہ بخش مطبع اللہ بخش سٹیم پریس قادیان.مارچ ۱۹۳۴ء.۳ (ترجمہ) میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا.(بدر مورخہ ۱۱؍اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۴ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یہ مکتوب میجر ڈاکٹر شاہ نواز صاحب کے پاس ہے جو خاکسار نے دیکھا.ڈاکٹر صاحب کا بیان ہے کہ یہ مکتوب انہیں اپنے والد چودھری مولا بخش صاحبؓ سے ملا.(نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲؍مئی ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ اور الحکم مورخہ ۳۰؍اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۴ میں یہ رؤیا بایں الفاظ درج ہے.’’ رؤیامیں دیکھا کہ بشیر احمد کھڑا ہے.وہ ہاتھ سے شمال مشرق کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے کہ زلزلہ اس طرف چلا گیا.‘‘ ۵ (ترجمہ) ۱.قریب ہے میں تمہیں اپنے نشان دکھلاؤں گا پس تم جلدی نہ کرو.(بدر مورخہ ۲۵ ؍ اپریل۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۶ (نوٹ از بدر) اس میں خاص دو گھروںکی طرف اشارہ ہے.(بدر مورخہ ۲۵ ؍ اپریل۱۹۰۷ء صفحہ ۴ )
سَلَامٌ۱؎ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ.۴.اَصْلِحْ بَیْنِیْ وَ بَیْنَ اِخْوَانِیْ.‘‘۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳۷) ۲۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء ’’ عَسٰی اَنْ یَّـھْدِ یَــــنِیْ رَبِّیْ صِـرَاطًا مُّسْتَقِیْـمًا.‘‘۳؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳۶) ۲۷؍ اپریل ۱۹۰۷ء (الف) ’’ میرے خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ بعد اس کے اور نشان ہیں جو قیامت کا نمونہ ہیں.کاش لوگ سمجھتے اور آنے والے قہر سے بچ جاتے.خدا نے فرمایا کہ ایک اور قیامت برپا ہوئی یعنی ہوگی.۲۷؍اپریل ۱۹۰۷ء تھی جب یہ الہام ہوا.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۹۵) ۱ (ترجمہ) ۳.تم سب پر اس خدا کا سلام جو رحیم ہے.(بدر مورخہ ۲۵ ؍ اپریل۱۹۰۷ء صفحہ ۴ ) ۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲۵ ؍ اپریل۱۹۰۷ء صفحہ ۴ اور الحکم مورخہ ۲۴ ؍ اپریل۱۹۰۷ء صفحہ ۳ میں یہاں لفظ ’’اِخْوَتِیْ‘‘ درج ہے نیز الہام ۳، ۴ کی تاریخ نزول ۲۳؍اپریل درج کرتے ہوئے اس کی وضاحت میں تحریر ہے کہ ’’ الہام کہ اَصْلِحْ بَیْنِیْ وَ بَیْنَ اِخْوَتِیْ.اِس کے یہ معنی ہیں کہ اے میرے خدا ! مجھ میں اور میرے بھائیوں میں اصلاح کر.یہ الہام درحقیقت تتمہ ان الہامات کا معلوم ہوتا ہے جن میں خدا تعالیٰ نے اس مخالفت کا انجام بتلایا ہے اور وہ یہ الہام ہیں.خَرُّوْا عَلَی الْاَذْقَانِ سُـجَّدًا.رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا اِنَّـا کُنَّا خَاطِئِیْنَ.تَا للّٰہِ لَقَدْ اٰثَرَکَ اللّٰہُ عَلَیْنَا وَاِنْ کُنَّا لَـخَاطِئِیْنَ.لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ.یَغْفِرُاللّٰہُ لَکُمْ وَ ھُوَ اَرْحَـمُ الرَّاحِـمِیْنَ.یعنی بعض سخت مخالفوں کا انجام یہ ہوگا کہ وہ بعض نشان دیکھ کر خدا تعالیٰ کے سامنے سجدہ میں گریں گے کہ اے ہمارے خدا! ہمارے گناہ بخش.ہم خطا پر تھے اور مجھے مخاطب کرکے کہیں گے کہ بخدا خدا نے ہم پر تجھے فضیلت دی اور تجھے چُن لیا اور ہم غلطی پر تھے کہ تیری مخالفت کی.اِس کا یہ جواب ہوگا کہ آج تم پر کوئی سرزنش نہیں.خدا تمہیں بخش دے گا.وہ اَرحم الراحمین ہے.یہ اُس وقت ہوگا کہ جب بڑے بڑے نشان ظاہر ہوں گے.آخر سعید لوگوں کے دل کھل جائیں گے اور وہ دل میں کہیں گے کہ کیا کوئی سچا مسیح اس سے زیادہ نشان دکھلاسکتا ہے یا اِس سے زیادہ اس کی نصرت اور تائید ہوسکتی تھی.تب یک دفعہ غیب سے قبول کے لئے ان میں طاقت پیدا ہوجائے گی اور وہ حق کو قبول کرلیں گے.‘‘ ۳ (ترجمہ از ناشر) قریب ہے کہ میرا ربّ مجھے صراطِ مستقیم کی آخری منزل تک پہنچائے.
(ب) ’’ ۱.ایک اور قیامت برپا ہوئی.۲.وَاللّٰہِ اِنِّیْ غَالِبٌ وَ سَیَظْھَرُ شَوْکَتِیْ.۳.وَکُلٌّ ھَالِکٌ اِلَّا مَنْ قَعَدَ فِیْ سَفِیْنَتِیْ.‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۵۸، ۵۷) ۳۰؍ اپریل۱۹۰۷ء ’’ سَلَامٌ عَلَیْکَ.‘‘۲؎ (بدر جلد ۶ نمبر۱۵ مورخہ۲ ؍ مئی۱۹۰۷ء صفحہ ۱.الحکم جلد ۱۱ نمبر۱۵مورخہ ۳۰ ؍ اپریل۱۹۰۷ء صفحہ۴) یکم مئی۱۹۰۷ء (الف) ’’۱.پوری ہوگئی.۲.فَلْیَدْعُ زَبَانِیَۃَ۳؎.۳.اے بسا خانۂ دشمن کہ تو و یراں کردی.۴.اے بسا خانۂ دشمن کہ تو و یراں کردی.‘‘۴؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳۵، ۳۶) (ب) ’’.یَـاْ تِیْکَ تَـحَآئِفُ کَثِیْرَۃٌ.‘‘ ۵؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳۵ بدر جلد۶ نمبر ۲۰ مورخہ ۱۶؍مئی ۱۹۰۷ء صفحہ ۴.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۱۵ مورخہ ۳۰؍اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) (ج) ’’وَ اِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَ نَّکُمْ.‘‘۶؎ (بدر جلد ۶ نمبر۱۸ مورخہ۲ ؍ مئی۱۹۰۷ء صفحہ ۱.الحکم جلد ۱۱ نمبر۱۵مورخہ ۳۰ ؍ اپریل۱۹۰۷ء صفحہ۴) ۱ (ترجمہ) ۲.بخدا میں غالب ہوں اور عنقریب میری شوکت ظاہر ہوجائے گی.۳.اور ہر ایک مرے گا مگر وہی (بچے گا) جو میری کشتی میں بیٹھ گیا.(بدر مورخہ ۱۱؍اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۲ (ترجمہ از ناشر) تجھ پر سلامتی ہو.۳ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲؍ مئی ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ اور الحکم مورخہ ۳۰؍اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۴ بھی یہ الہامات درج ہیں البتہ ’’ فَلْیَدْعُ زَ بَانِیَۃَ ‘‘ کی بجائے’’فَلْیَدْعُ الزَّ بَـانِیَۃَ ‘‘ کے الفاظ درج ہیں.۴ (ترجمہ) ۲.پس چاہیےکہ اپنے حمایتیوں کو بلالے تا پورا زور لگالیں.۳.تُو نے کئی دشمنوں کے گھر ویران کئے.۴.تُو نے کئی دشمنوں کے گھر ویران کئے.(بدر مورخہ ۲؍مئی ۱۹۰۷ء صفحہ ۱) ۵ (ترجمہ) ۴.تیرے پاس بہت سے تحفے آئیں گے.(بدر مورخہ ۱۶؍مئی ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۶ (ترجمہ ) اگر تم شکر کرو تو مَیں زیادہ دوں گا.(بدر مورخہ ۲؍مئی ۱۹۰۷ء صفحہ ۱)
۲؍ مئی۱۹۰۷ء ’’ ۱.عنقریب ہے کہ تو اس جگہ سے بھاگ جائے.عنقریب ہے کہ تو اس جگہ سے بھاگ جائے.۲.اللہ رحم کرے گا.اللہ رحم کرے گا.۳.ان شہروں کو دیکھ کر رونا آتا ہے.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳۱) ۳؍ مئی۱۹۰۷ء ’’ ۱.جان تو قربان ہوئی ہے اس کی راہ میں اور کیا کریں.۲.وہ دنیا کو چھوڑ جائے گی.۳.غَارَبَتِ الشَّبَابُ.‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳۳) ۶؍ مئی۱۹۰۷ء ’’۱.وَ اِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُ ھُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ.۲؎ ۲.اَمَّا السَّآىِٕلَ فَلَا تَنْهَرْ.۳؎ ۳.زبردست نشانوں کے ساتھ ترقی ہوگی.‘‘ (کاپی الہامات۴؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳۲) ۲ تا ۷ ؍ مئی۱۹۰۷ء ’’ ۱.اَنْـزَلْنَاہُ عَلٰی رَقِیْمَۃٍ مِّنْ مُّوْسٰی.۲.اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ.۳.سَنَسِمُہٗ عَلَی الْـخُرْطُوْمِ.۴.رَبِّ اِنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِـرْ.۵.سَاُرِیْکُمْ اٰیَـاتِیْ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ.‘‘۵؎ (بدر جلد ۶ نمبر۱۹ مورخہ۹ ؍ مئی۱۹۰۷ء صفحہ ۳.الحکم جلد ۱۱ نمبر۱۶مورخہ ۱۰ ؍ مئی۱۹۰۷ء صفحہ۱) ۸ ؍ مئی۱۹۰۷ء ’’روز حشر‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳۲) ۱۱ ؍ مئی۱۹۰۷ء ’’رؤیا.مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی کو دیکھا کہ وہ ہمارے مکان میں ایک جگہ ۱ (ترجمہ از ناشر) ۳.جوان چل بسے.۲ (ترجمہ) ۱.یا تو ہم بعض وہ اپنی پیشگوئیاں جو وعید کے طور پر کفار کے حق میں ہیں تجھ کو دکھلا دیں گے اور یا تجھ کو وفات دے دیں گے.( بدرمورخہ۹ ؍ مئی۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۳ (ترجمہ از ناشر) ۲.جہاں تک سوالی کا تعلق ہے تُو اسے مت جھڑک.۴ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ۹ ؍ مئی۱۹۰۷ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۱۰ ؍ مئی۱۹۰۷ء صفحہ۱ میں الہام نمبر ۱و۳ کی تاریخ نزول ۲تا ۷؍مئی ۱۹۰۷ء درج ہے.۵ (ترجمہ) ۱.ہم نے اس ارادہ کو موسیٰ کی تحریر پر اُتارا ہے یعنی موسیٰ نے ایسا ہی ارادہ بذریعہ تحریر ظاہر کیا.سو ہم نے اس سے اتفاقِ رائے کیا.۲.مَیں اس شخص کی اہانت کروں گا جو تیری اہانت کرتا ہے.۳.اس کے ناک پر یامنہ پر ہم آگ کا داغ لگائیں گے.۴.اے میرےخدا ! مَیں مغلوب ہوں تُو انتقام لے.۵.مَیں تمہیں اپنے معجزات دکھلائوں گا.مجھ سے جلدی مت کرو.( بدرمورخہ۹ ؍ مئی۱۹۰۷ء صفحہ ۳)
۱۱ ؍ مئی۱۹۰۷ء ’’رؤیا.مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی کو دیکھا کہ وہ ہمارے مکان میں ایک جگہ بیٹھے ہوئے ہیں.مَیں نے اپنے کسی آدمی کو کہا کہ مولوی صاحب کو خاطر داری سے کھانا کھلانا چاہیےان کو کوئی تکلیف نہ ہو.اِس رؤیاسے معلوم ہوتا ہے.واللہ اَعلم کہ وہ دن نزدیک ہے کہ خدا تعالیٰ مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب کو خود رہنمائی کرے کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے.یہ بھی ایک الہام سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ آخر وقت میں اُن کو سمجھا دے گا کہ انکار کرنا ان کی غلطی تھی اور یہ کہ مَیں اپنے دعویٰ مسیح موعود میں حق پر ہوں مگر معلوم نہیں کہ آخر وقت کے کیا معنی ہیں۱؎.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر۲۰ مورخہ۱۶ ؍ مئی۱۹۰۷ء صفحہ ۴.الحکم جلد ۱۱ نمبر۱۷مورخہ ۱۷ ؍ مئی۱۹۰۷ء صفحہ ۷) ۱۲؍مئی۱۹۰۷ء (الف) ’’ ۱.بدی کا بدلہ بدی ہے اُس کو پلیگ ہوگئی.۲.اس کا نتیجہ سخت طاعون ہے جو ملک میں پھیلے گی.۳.کئی نشان ظاہر ہوں گے.۴.اے بسا خانۂ دشمن کہ تو و یراں کردی.ان شہروں کو دیکھ کر رونا آتا ہے روز حشر ہے.۵.اَعْیَیْنَاکَ.۲؎ ۶.ایک ہولناک نشان.۷.میری رحمت تجھ کو لگ جائے گی.۸.اللہ رحم کرے گا.۹.زبردست نشانوں کےساتھ ترقی ہوگی.۱۰.غَارَبَتِ الشَّبَابُ.‘‘۳؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۸، ۲۹) (ب) ’’کشف.آج ایک شخص مجھے کشفی طور پر دکھلایا گیا مگر مَیں اُس کی شکل بھول گیا صرف یہ یاد رہا کہ وہ ایک سخت دشمن ہے جو اپنی تقریروں اور تحریروں میں گالیاں دیتا ہے اور سخت بد زبانی ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں.’’میرے نزدیک اِس کی ایک تعبیر یہ بھی ہے کہ مولوی محمد حسین بٹالوی کے دو لڑکے قادیان آئے.انہوں نے مدرسہ میں تعلیم حاصل کی اور میری بیعت میں شامل ہوئے.بعد میں گو انہوں نے کمزوری دکھائی مگر وہ اخلاقی کمزوری تھی مذہبی کمزوری نہیں تھی… پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ پیشگوئی درحقیقت میرے ہاتھ پر پوری ہوئی.اِس طرح وہ رؤیا بھی پورا ہوا جو کبڈی کے میچ کے متعلق مَیں نے دیکھا تھا اور جس میں مجھے بتایا گیا تھا کہ آخر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی اِس طرف آجائیں گے.‘‘ (الفضل مورخہ ۱۲؍ مئی ۱۹۴۴ء صفحہ ۲) ۲ (ترجمہ) ۵.یعنی ہم اِس قدر نشان دکھلائیں گے کہ تو دیکھتے دیکھتے تھک جائے گا.(بدر ۱۶؍مئی ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۳ (ترجمہ از ناشر).۱۰.جوان چل بسے.
کرتا ہے.بعد اس کے الہام ہوا.بدی کا بدلہ بدی ہے.اُس کو پلیگ ہوگئی.یہ پیشگوئی ہے یعنی اُس کو پلیگ ہوجائے گی.پس مَیں یقین کرتا ہوں کہ جلد یا کچھ دیر کے بعد تم سن لو گے کہ کوئی ایسا سخت دشمن پلیگ کا شکار ہوجائے گا.اگر ایسا کوئی دشمن جس پر تمہارے دل بول اٹھیں کہ یہ الہام کا مستحق ہوسکتا ہے طاعون میں مبتلا نہ ہوا تو تمہارا حق ہے کہ تم تکذیب کرو.بعد اِس کے مجھے دکھلایا گیا کہ ’’ملک میں بہت غفلت اور گناہ اور شوخی پھیل گئی ہے اور لوگ تکذیب سے باز آنے والے نہیں جب تک خدا اپنا قوی ہاتھ نہ دکھلا دے.‘‘ بعد اِس کے الہام ہوا.۱.اس کا نتیجہ سخت طاعون ہے جو ملک میں پھیلے گی وَیْلٌ یَّـوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّ.بِیْنَ.۱؎ ۲کئی نشان ظاہر ہوں گے.۳.کئی بھاری دشمنوں کے گھر ویران ہوجائیں گے.وہ دُنیا کو چھوڑ جائیں گے.۴.ان شہروں کو دیکھ کر رونا آئے گا.۵.وہ قیامت کے دن ہوں گے.۶.زبردست نشانوں کے ساتھ ترقی ہوگی.۷.ایک ہولناک نشان.یعنی ان میں سے ایک ہولناک نشان ہوگا.شاید وہی زلزلہ ہو جس کا وعدہ ہے یا آسمان سے کوئی اَور نشان ظاہر ہو.یا طاعون قیامت کا نمونہ دکھلاوے.پھر خدا تعالیٰ مجھے مخاطب کرکے فرماتا ہے.کہ ۸.میری رحمت تجھ کو لگ جائے گی.اللہ رحم کرے گا.وَاللّٰہُ خَیْرٌ حَافِظًا وَّ ھُوَ اَرْحَـمُ الرَّاحِـمِیْنَ.۲؎ ۹.اَعْیَیْنَاکَ.‘‘۳؎ (بدر جلد ۶ نمبر۲۰ مورخہ۱۶ ؍ مئی۱۹۰۷ء صفحہ ۴.الحکم جلد ۱۱ نمبر۱۷مورخہ ۱۷ ؍ مئی۱۹۰۷ء صفحہ ۷) ۱۳ ؍ مئی۱۹۰۷ء (الف) ’’۱.سَنُنْجِیْکَ.۲.سَنُکْرِمُکَ اِکْرَامًا عَـجَبًا.۴؎ ۱ (ترجمہ از مرتّب) اس دن جھٹلانے والوں کے لئے تباہی ہوگی.۲ (ترجمہ از ناشر) ۸.اور اللہ تعالیٰ نہایت ہی اچھا سب سے بڑھ کر محافظ ہے.اور وہ ارحم الراحمین ہے.۳ (ترجمہ) ۹.یعنی ہم اِس قدر نشان دکھلائیں گے کہ تو دیکھتے دیکھتے تھک جائے گا.(بدر ۱۶؍مئی ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۴ (ترجمہ) ۱.ہم عنقریب تجھ کو دشمنوں کے شر سے نجات دیں گے.۲.اور ہم تجھے ایک عجیب طور پر بزرگی دیں گے.(بدر مورخہ۱۶ ؍ مئی۱۹۰۷ء صفحہ ۵)
۳.سَاُنْـجِیْکَ.۴.سَنُکْرِمُکَ اِکْرَامًا عَـجَبًا.۵.فَوَیْلٌ یَّـوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّ بِیْنَ.۶.اَللّٰہُ خَیْرٌ حَافِظًا وَھُوَ اَرْحَـمُ الرَّاحِـمِیْنَ.‘‘۱؎ (کاپی الہامات۲؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۶، ۲۵) (ب) ’’ سَنُعْلِیْکَ‘‘ ۳؎ (بدر جلد ۶ نمبر۲۰ مورخہ۱۶ ؍ مئی۱۹۰۷ء صفحہ ۵.الحکم جلد ۱۱ نمبر۱۷مورخہ ۱۷ ؍ مئی۱۹۰۷ء صفحہ۷) مئی۱۹۰۷ء ’’ ۱.عنقریب تو اس جگہ نہیں رہے گا.۲.غَارَبَتِ الشَّبَابُ.‘‘ ۴؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۸) ۱۸ ؍ مئی۱۹۰۷ء (الف) ’’ ۱.خبر بد بیوم شُوم گزار.۵؎ ۲.بیویوں کی بادشاہ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۴) (ب) ’’ فرمایا.مَیں نے خواب میں دیکھا تھا کہ بادل چڑھا ہے.مَیں ڈرا ہوں مگر کسی نے کہا کہ تمہارے لئے مبارک ہے.قرآن کریم سے بھی ثابت ہے کہ عذاب کو بادل کے رنگ میں دکھایا جاتا ہے.‘‘ (الحکم جلد ۱۱ نمبر۱۸مورخہ ۲۴ ؍ مئی ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۰.بدر جلد ۶ نمبر۲۱ مورخہ ۲۳ ؍ مئی۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۲۵؍ مئی۱۹۰۷ء ’’ ۱.عَـمَّرَہُ اللّٰہُ عَلٰی خِلَافِ التَّوَقُّعِ.۲.اَمَّرَہُ اللّٰہُ عَلٰی خِلَافِ التَّوَقُّعِ.۳.اَءَنْتِ لَاتَعْرِفِیْنَ الْقَدِیْرَ.۴.لُطف کن لُطف کہ بیگانہ شودحلقہ بدوش.‘‘۶؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۵) ۱ (ترجمہ از ناشر) ۳.عنقریب میں تجھے نجات دوں گا.۴.ہم تجھے ایک عجیب طور پر بزرگی عطا کریں گے.۵.پس اس دن جھٹلانے والوں کے لئے تباہی ہوگی.۶.اللہ تعالیٰ سب سے اچھا محافظ ہے اور وہ رحم کرنے والوں میں سے سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے.۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ۱۶ ؍ مئی۱۹۰۷ء صفحہ ۵ اور الحکم مورخہ ۱۷ ؍ مئی۱۹۰۷ء صفحہ۷ میں الہام نمبر ۱ و ۲ درج ہیں.۳ (ترجمہ از ناشر ) عنقریب ہم تجھے غالب کردیں گے.۴ (ترجمہ از ناشر) ۲.جوان چل بسے.۵ (ترجمہ از ناشر) ۱.بُری خبر کو بُرے وقت کے لئے چھوڑ دے.۶ (ترجمہ از ناشر) ۱..اس کو خدا تعالیٰ امید سے بڑھ کر عمر دے گا.۲.اس کو خدا تعالیٰ امید سے بڑھ کر امیر کرے گا.۳.کیا تُو قادر کو نہیں پہچانتی.۴لطف و مہربانی کر کہ غیر بھی اپنا ہوجائے.
۲۸؍ مئی۱۹۰۷ء ’’ شریف احمد کی نسبت اُس کی بیماری کی حالت میں الہامات ہوئے.۱.عَـمَّرَہُ۱؎ اللّٰہُ عَلٰی خِلَافِ التَّوَقُّعِ.۲.اَمَّرَہُ اللّٰہُ عَلٰی خِلَافِ التَّوَقُّعِ.۳.اَءَنْتِ لَاتَعْرِفِیْنَ الْقَدِیْرَ.۴.مُرَادُکَ حَاصِلٌ.۵.اَللّٰہُ خَیْرٌ حَافِظًا وَّ ھُوَ اَرْحَـمُ الرَّاحِـمِیْنَ.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر۲۲ مورخہ۳۰ ؍ مئی ۱۹۰۷ء صفحہ ۴.الحکم جلد ۱۱ نمبر۱۹مورخہ ۳۱ ؍ مئی۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۱ (ترجمہ) ۱.اس کو یعنی شریف احمد کو خدا تعالیٰ امید سے بڑھ کر عمر دے گا.(یہ الہام اس کی خطرناک بیماری کی حالت میں ہوا.) ۲.اس کو یعنی شریف احمد کو خدا تعالیٰ امید سے بڑھ کر امیر کرے گا.۳.کیا تُو قادر کو نہیں پہچانتی.(یہ اس کی والدہ کی نسبت الہام ہے).۴.تیری مراد حاصل ہوجائے گی.۵.خدا سب سے بہتر حفاظت کرنے والا ہے اور وہ اَرحم الراحمین ہے.(بدر مورخہ ۳۰؍مئی ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) (نوٹ از سید عبد الحی) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات عَـمَّرَہُ اللّٰہُ عَلٰی خِلَافِ التَّوَقُّعِ اور اَمَّرَہُ اللّٰہُ عَلٰی خِلَافِ التَّوَقُّعِ کی تشریح میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲؍ دسمبر ۱۹۹۷ء میں فرمایا.’’آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کچھ الہامات تھے جو حضرت مرزا شریف احمد صاحب ؓ پر چسپاں کئے گئے اور مَیں وہ فرد واحد ہوں یا اور بھی شاید ہوں، جو شروع ہی سے یہ یقین رکھتا تھا کہ یہ الہامات اصل میں آپ کے صاحبزادہ حضرت مرزا منصور احمد صاحب سے متعلق ہیں.یہ امر واقعہ ہے کہ بعض پیشگوئیاں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ایسا واقعہ ہوچکا ہے، ایک شخص کے متعلق کی جاتی ہیں لیکن بیٹا مراد ہوتا ہے.وہ الہامات جیسا کہ میں اب آپ کے سامنے کھول کر بیان کروں گا بلاشبہ ایک ذرّہ بھی شک نہیں حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ؓ کے بیٹے کی صورت میں پورے ہونے تھے اور آپ ہی پر ان کا اطلاق ہوتا ہے.وہ الہامات سنیے.شریف احمد کی نسبت اس کی بیماری کی حالت میں (یہ ۱۹۰۷ء کا واقعہ ہے) الہامات ہوئے ’’عَـمَّرَہُ اللّٰہُ عَلٰی خِلَافِ التَّوَقُّعِ‘‘ اللہ نے اس کو لمبی عمر دی خلاف توقع.پھر فرمایا.’’ اَمَّرَہُ اللّٰہُ عَلٰی خِلَافِ التَّوَقُّعِ‘‘ اللہ نے اسے صاحب امر بنایا یعنی امیر اور اس کا یہ امیر بننا خلاف توقع تھا.یعنی توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ یہ شخص اتنے لمبے عرصے تک امیر بنایا جائے.’’اَمَّرَہُ اللّٰہُ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اسے امیر بنایا جائے گا.یعنی صاحب امر بنائے گا اور ایک دوسرے الہام سے بعینہٖ یہی بات ثابت ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ ’’وہ بادشاہ آیا‘‘ اور اس کی تشریح میں (حضرت مسیح موعود ؑ)فرماتے ہیں کہ
۱۹۰۷ء چند دن ہوئے مجھ کو الہام ہوا تھا کہ ’’لاہور سے ایک افسوسناک خبر آئی‘‘ بقیہ حاشیہ.قاضی کے متعلق یہ الہام ہوا ہے وہ قاضی یعنی صاحب امر بنایا جائے گا.…حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی عمر تو لمبی نہیں تھی.اپنے بھائیوں سے چھوٹی عمر میں فوت ہوگئے اور خلاف توقع لمبی عمر کہنا یہ ایک قسم کا خواہش کا اظہار تو ہے لیکن واقعات کا اظہار نہیں اور آپ کے سپرد امارت کبھی نہیں کی گئی.مجھے نہیں یا دشاید ہی کبھی آپ کو امیر بنایا گیا ہو ورنہ آپ امیر نہیں بنائے جاتے تھے.یہ وجہ تھی کہ ہمیشہ ان دونوں الہامات کو حضرت مرزا منصور احمد صاحب کے متعلق سمجھتا تھا اور آپ کی زندگی اس کی گواہ ہے، اس کثرت سے آپ کو شدید دل کے حملے ہوئے ہیں کہ ہر حملے پر ڈاکٹر کہتے تھے کہ اب یہ ہاتھ سے گئے اور پھر اللہ تعالیٰ خلاف توقع آپ کو ٹھیک کردیتا تھا اور سب ڈاکٹر حیرت سے دیکھتے تھے کہ ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے… اس لئے ان کے متعلق یہ الہامات لازماً پورے اُترتے ہیں کہ ’’ عَـمَّرَہُ اللّٰہُ عَلٰی خِلَافِ التَّوَقُّعِ‘‘ بغیر توقع کے لمبی عمر اور بغیر توقع کے بارہا عمر پانا یہ آپ کی ذات میں دونوں باتیں بعینہٖ صادق آتی ہیں.پھر ’’ اَمَّرَہُ اللّٰہُ عَلٰی خِلَافِ التَّوَقُّعِ ‘‘ یعنی ان کو امارت بھی ایسی دی جائے گی کہ اس کے متعلق توقع نہیں کی جاسکتی.مَیں نے حساب لگایا ان کی امارت کا تو آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے زمانے میں ان کو امیر بنانا شروع کیا گیا ہے اور اس سے پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؒ کی باون سالہ خلافت میں اتنا عرصہ کبھی کسی کو امیر نہیں بنایا گیا جتنا ان کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ اور میرے دور میں امیر بنایا گیا.پینتالیس بار آپ امیر مقامی مقرر ہوئے ہیں اور اس ہجرت کے دور میں تقریباً چودہ سال مسلسل امیر مقامی بنے رہے ہیں.یہ ہے خلاف توقع.سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ خلیفہ کی موجودگی میں کوئی شخص اتنا لمبا عرصہ امیر بنارہے.وہ امارت مقامی جو خود خلیفہ کے اپنے قبضے میں ہوا کرتی ہے اور اس کی وہاں موجودگی میں صدر عمومی ہے جو عمومی انتظام چلاتا ہے.مگر خلیفہ کی موجودگی میں امیر مقامی وہی ہوتا ہے.پس آپ عملاً میری جگہ بیٹھ گئے یعنی جس کرسی پر مَیں بیٹھا کرتا تھا اس پر میرے کہنے کے مطابق آپ براجمان ہوئے اور آپ نے تمام امور کو نہایت بہادری سے انجام دیا.’’وہ بادشاہ آیا‘‘ کے الہام کے متعلق (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) فرماتے ہیں.فرمایا! دوسرے نے کہا ابھی تو اس نے قاضی بننا ہے.یعنی اس الہام کے ساتھ یہ آواز بھی آئی.قاضی حَکَم کو بھی کہتے ہیں.قاضی وہ ہے جو تائید حق کرے اور باطل کو رد کردے.یہ خوبی بھی حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب میں غیر معمولی طور پر پائی جاتی تھی.باطل کو رد کرنے کے معاملے میں اتنا بہادر انسان میں نے اور شاذ ہی دیکھا ہو.یہ صورت حال ایک اور الہام کو بھی یاد کرارہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام مرزا شریف احمد صاحب کو مخاطب
اِس الہام کی وجہ سے ہم نے ایک آدمی لاہور بھیج کر پچھوایا بھی تھا کہ وہاں کے دوستوں کا کیا حال ہے مگر کیا معلوم تھا کہ یہ چند دن کے بعد پورا ہوگا.۱؎ (بدر جلد ۶ نمبر۲۷ مورخہ۴ ؍ جولائی۱۹۰۷ء صفحہ ۷) ۱۲؍جون ۱۹۰۷ء الہام.’’ رَبِّ اَرِنِیْ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ ‘‘۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۴) ۱۹۰۷ء ’’ اُرِیْکَ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ.‘‘۳؎ (بدر جلد ۶ نمبر۲۷ مورخہ۴ ؍ جولائی۱۹۰۷ء صفحہ ۴) بقیہ حاشیہ.کرکے کشف میں کہتے ہیں کہ ’’ اب تو ہماری جگہ بیٹھ اور ہم چلتے ہیں‘‘ اب ظاہر بات ہے کہ یہ الہام حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے متعلق پورا نہیں ہوا.… یہ بات بعینہٖ آپ کی ذات پر پوری ہوئی ہے.وہ امارت مقامی جس میں مَیں بیٹھا کرتا تھا اب ظاہر ہے کہ مَیں اِس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نمائندہ ہوں، اِس وقت میاں شریف احمد صاحب موجود نہیں ہیں.اگر کوئی شخص موجود ہے تو یہ آپ کا بیٹاہے جس کے متعلق بعینہٖ یہ الفاظ پورے ہوتے ہیں ’’اب تو ہماری جگہ بیٹھ اور ہم چلتے ہیں ‘‘ یقینا آپ کا ایک مقام تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں سے وہ مقام بنا ہے اور اُبھرا ہے اور آئندہ آنے والی تاریخ نے ثابت کردیا ہے کہ آپ کا وجود ایک مبارک وجود تھا جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا روحانی بیٹا ہونے کا شرف بھی حاصل ہے.جو کچھ بھی اپنے بیٹے کے متعلق دیکھا وہ ان کے بیٹے کے متعلق پورا ہوا.اب جبکہ مَیں نے ان کی جگہ ناظر اعلیٰ اور امیر مقامی ان کے صاحبزادے مرزا مسرور احمد کو بنایا ہے تو میرا اس الہام کی طرف بھی دھیان پھرا کہ گویا آپ اب یہ کہہ رہے ہیں کہ میری جگہ بیٹھ.یہ ساری باتیں ہمیں یقین دلاتی ہیں کہ حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی روح ایک پاک روح تھی، بہت دلیر انسان، خلافت کے حق میں ایک سونتی ہوئی تلوار تھے… اب میں ساری جماعت کو حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کے لئے دعا کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور میں مرزا مسرور احمد صاحب کے متعلق بھی کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی صحیح جانشین بنائے.’’تو ہماری جگہ بیٹھ جا ‘‘ کا مضمون پوری طرح ان پر صادق آئے اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ خود ان کی حفاظت فرمائے اور ان کی اعانت فرمائے.‘‘ (الفضل انٹرنیشنل لندن ۳۰؍ جنوری تا ۵؍ فروری ۱۹۹۸ء) ۱ چنانچہ چند رو زکے بعد خبر آئی کہ مریض فوت ہوگیا ہے (جو) ایک معصوم بچہ تھا.(ایڈیٹر بدر.پرچہ مذکورہ بالا) ۲ (ترجمہ از مرتّب) اے میرے ربّ مجھے وہ زلزلہ دکھا جو قیامت کا نمونہ ہوگا.۳ (ترجمہ) یعنی مَیں تجھے وہ زلزلہ دکھاؤں گا جو قیامت کا نمونہ ہوگا.(بدر مورخہ۴ ؍ جولائی۱۹۰۷ء صفحہ ۴)
۴؍ جولائی۱۹۰۷ء ’’۴؍جولائی ۱۹۰۷ء روز پنج شنبہ بوقت چار بجے دن کے دیکھا کہ کچھ چنے پسے ہوئے ہیں یعنی چنوں کی دال بریاں ہے اس میں میوہ یعنی کشمش ملی ہے.مَیں چنوں میں سے کشمش کے دانے کھاتا ہوں.پھر الہام ہوا.خَیْرٌ لَّھُمْ.خَیْرٌ لَّھُمْ.پھر اسی طرح چند پیسے دیکھے.(والدہ محمود کی طرف خیال تھا خدا خیر کرے.) یہ خواب اور الہام اس طرح پورے۱؎ ہوگئےکہ شام کو میرا آدمی والدہ محمود اور سب کو گاڑی میں سوار کراکر واپس آیا اور اس نے بیان کیا کہ ریزرو گاڑی کا بندوبست نہیں ہوا تھا اس لئے معمولی گاڑی میں سوار ہونا پڑا اور یہی رنج کا باعث ہوگیا.مگر اس کے ساتھ پھر اور مجھے خیال آتا ہے کہ رنج دِہ دو چیزیں دکھلائی گئی ہیں یعنی چنے اور پیسے ایسا ہی خیر و عافیت کی بابت دو الہام ہیں.خَیْرٌ لَّھُمْ.خَیْرٌ لَّھُمْ.اس لئے خطرہ ہے کہ اور رنج پیش نہ آیا ہو.وَاللہُ اَعْلَمُ.‘‘ (کاپی الہامات۲؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۳، ۲۲، ۲۱) ۱ (نوٹ از ایڈیٹر الحکم) ’’اِس الہام اور خواب کی جبکہ اچھی طرح اشاعت ہوگئی تو قریب شام کے اپنا ایک آدمی جو سب قافلہ کو ریل پر سوار کرکے واپس آیا تھا اُس کی زبانی معلوم ہوا کہ عین دوپہر کی گرمی میں ریل کے اندر مسافروں کی کشاکش سے بچنے کے واسطے جو انتظام ریزرو کا کیا گیا تھا وہ نہ ہوسکا کیونکہ لاہور سے کوئی الگ گاڑی اِس مطلب کے واسطے نہ پہنچ سکی تھی اور اِس سبب سے تشویش ہوئی.اِس طرح خواب کا حصّہ پورا ہوا مگر پھر بھی بموجب بشارت الہام کے خیریت رہی اور معمولی گاڑی میں آرام سے بیٹھ کر چلے گئے.‘‘ (الحکم مورخہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۲.بدر مورخہ ۱۱؍ جولائی ۱۹۰۷ء صفحہ ۴ ) ۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ۱۱ جولائی۱۹۰۷صفحہ ۴ اور الحکم مورخہ ۱۰ جولائی ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۲ میںیہ خواب ان الفاظ میں درج ہے.’’ فرمایا کہ آج دو بجے دن کے مجھے خیال آیا کہ ہمارے گھر کے آدمی اَب شاید امرتسر پہنچ گئے ہوں گے اور یہ بھی خیال تھا کہ امن و امان سے لاہور میں پہنچ جائیں.تب اِس خیال کے ساتھ ہی کچھ غنودگی ہوئی تو کیا دیکھتا ہوں کہ نخود کی دال ( جو رنج اور ناخوشی پر دلالت کرتی ہے) میرے سامنے پڑی ہے اور اس میں کشمش کے دانے قریباً اسی قدر ہیں اور مَیں اُس میں سے کشمش کے دانے کھا رہا ہوں اور میرے دل میں خیال گذر رہا ہے کہ یہ ان کی حالت کا نمونہ ہے اور دال سے مراد کچھ رنج اور ناخوشی ہے کہ سفر میں ان کو پیش آئی ہے یا آنے والی ہے.پھر اسی حالت میں میری طبیعت الہامِ الٰہی کی طرف منتقل ہوگئی اور اِس بارے میں الہام ہوا.خَیْرٌ لَّھُمْ.خَیْرٌ لَّھُمْ یعنی ان کے لئے بہتر ہے.ان کے لئے
۱۹۰۷ء ’’ایک ۱؎دفعہ ہم کو سخت دردِ گردہ تھا.کسی دوا سے آرام نہ ہوتا تھا.الہام ہوا.اَلْوَدَاع اس کے بعد دَرد بالکل یک دفعہ بند ہوگیا تب معلوم ہوا کہ یہ الوداع دَرد کا تھا.‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر۲۸ مورخہ۱۱ ؍ جولائی۱۹۰۷ء صفحہ ۶) ۷؍جولائی ۱۹۰۷ء ’’حالیا مصلحتِ وقت دراں می بینم ‘‘۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۰) ۱۲؍ جولائی۱۹۰۷ء ’’ رَبِّ اَخْرِجْنِیْ مِنَ النَّارِ.اَلْـحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ اَخْرَجَنِیْ مِنَ النَّارِ.اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ وَ اَلُوْمُ مَنْ یَّلُوْمُ.وَ اُعْطِیْکَ مَا یَدُ وْمُ.وَ لَنْ اَبْرَحَ الْاَرْضَ اِلَی الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ.۳؎ پھر الہام ہوا.حالیا مصلحتِ وقت دراں می بینم.بقیہ حاشیہ.بہتر ہے.بعد اس کے اسی نظارۂِ خواب میں چند پیسے دیکھے کہ وہ غم او ر تشویش پر دلالت کرتے ہیں جیسا کہ چنے کی دال بھی ایک ناگوار اور رنج کے امر پر دلالت کرتی ہے.فقط… اس کے بعد حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ خواب اور الہام تو ایک طرح پورا ہوگیا ہے.مگر ایک خیال مجھے باقی ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ چیزیں جو رَنج اور خوشی پر دلالت کرتی ہیں وہ دوبارہ دکھلائی گئی ہیں.یعنی اوّل چنے کی دال دکھلائی گئی اور پھر چند پیسے دکھلائے گئے.ایسا ہی الہام بھی دو دفعہ ہوا کہ خَیْرٌ لَّھُمْ.خَیْرٌ لَّھُمْ.اِس لئے دل میں ایک یہ خیال ہے کہ خدانخواستہ کوئی اَور امرِ مکروہ پیش نہ آیا ہو جس کیلئے دو دفعہ ایسی چیزیں دکھلائیں گئیں کہ علمِ تعبیر کی رُو سے رنج اور تشویش پر دلالت کرتی ہیں اور ایسا ہی اُن سے محفوظ رکھنے کیلئے دو دفعہ یہ الہام ہواکہ خَیْرٌ لَّھُمْ.خَیْرٌ لَّھُم.یہ میرا خیال ہے.خدا تعالیٰ ہر ایک رنج سے محفوظ رکھے.آمین.‘‘ ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) چونکہ اِس الہام کی تاریخ کا پتہ نہیں لگ سکا اِس لئے اسے اشاعت کی تاریخ میں درج کیا گیا.۲ (ترجمہ از مرتّب) ابھی مَیں اسی میں مصلحت ِ وقت دیکھتا ہوں.۳ (ترجمہ) اے میرے ربّ مجھے آگ سے نکال.سب تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے مجھے آگ سے نکالا.مَیں رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا اس کو ملامت کروں گا جو اُسے ملامت کرے.اور تجھے وہ چیز عطا کروں گا جو ہمیشہ رہے.اور وقت ِمعلوم تک مَیں زمین پر رہوں گا.(بدر مورخہ ۱۸؍جولائی ۱۹۰۷ء صفحہ ۴)
پھر دیکھا کہ گویا کسی نے میرے مقابل پتنگ چڑھائی ہے یا یہ کہ کئی لوگوں نے چڑھائی ہیں وہ پتنگ ٹوٹ گئے اور میں نے ان کو نیچے کی طرف گرتے دیکھا تب کسی نے کہا.غلام احمد کی جَے.‘‘۱؎ (کاپی الہامات۲؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۰، ۱۹) ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فتنۂ احرار کے دَوران میں ۱۴؍ جون ۱۹۳۵ء میں خطبہ جمعہ کے دَوران میں فرمایا’’ اِن الہامات کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں کوئی خاص مصائب نہیں آئے جس سے ثابت ہے کہ یہ الہامات آئندہ زمانہ کے متعلق ہیں… دیکھو ان الہامات میں کِس طرح بتایا گیا ہے کہ آپ کے متبّعین کے لئے ایک جہنّم تیار کی جائے گی.یہ جہنّم چونکہ آپ کے زمانہ میں نہیں اِس لئے لازماً آپ کے بعد کے زمانہ کے لئے ماننی پڑے گی مگر اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھیوں کو اس سے بچالے گا.کثرت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دی جائیں گی جن کا جواب خود خدا دے گااور اُس وقت تک تائید ِ الٰہی ختم نہ ہوگی جب تک احمدیت کی فتح نہ ہو اور دُنیا میں غلام احمد کی جے َ کے نعرے بلند نہ ہوں.جے کا لفظ بتاتا ہے کہ اِس مخالفت میں ہندو بھی مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوں گے لیکن بتادیا ہے کہ آخر وہ جے َ کہنے پر مجبور ہوں گے.پس اللہ تعالیٰ کے کلام میں خبریں ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد ابتلاء آئیں گے اور سخت آئیں گے.گالیاں دی جائیں گی.ہندو بھی مخالفت میں مسلمانوں کے ساتھ شامل ہوجائیں گے مگر اللہ تعالیٰ احمدیت کو فتح دے گا حتی کہ مخالف بھی پکار اُٹھیں گے کہ غلام احمد کی جے َ.‘‘ (الفضل مورخہ ۱۷ ؍ جون ۱۹۳۵ء صفحہ ۴) ۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ۱۸ ؍ جولائی۱۹۰۷ء صفحہ ۴ اور الحکم مورخہ ۱۷ ؍ جولائی ۱۹۰۷ء صفحہ ۲ میں ان الہامات و رؤیا کے بارہ میں تحریر ہے کہ ’’یہ اشتہار۳؎ مَیں نے پڑھا اور ان لوگوں کی سخت زبانی پر افسوس ہوا مگر یہ الہام ہوا.حالیا مصلحتِ وقت دراں می بینم اور یہ بات سچ ہے کہ کوئی نبی یا رسول ایسا نہیں جو اس کو ستایا نہیں گیا اور عجیب بات یہ ہے کہ جھوٹوں کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں ہوتا… پھر دیکھا کہ میرے مقابل پر کسی آدمی نے یا چند آدمیوں نے پتنگ چڑھائی ہے اور وہ پتنگ ٹوٹ گئی اور میں نے اس کو زمین کی طرف گرتے دیکھا.پھر کسی نے کہا.غلام احمد کی جے.یعنی فتح.‘‘ ۳ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) یعنی ’’ فتویٰ علماء روہیل کھنڈ بابت میرزا قادیانی مدعی نبوت.‘‘ محررہ صفر ۱۳۲۴ھ بمطابق اپریل ۱۹۰۶ء.(دیکھیے بدر مورخہ ۱۸؍ جولائی ۱۹۰۷ء صفحہ ۴.الحکم مورخہ ۱۷؍ جولائی ۱۹۰۷ء صفحہ ۲)
۱۹؍ جولائی۱؎۱۹۰۷ء ۱.’’ اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ وَ اَرُوْمُ مَا یَرُوْمُ.‘‘۲؎ ۲.(رؤیا) ’’ اور مَیں نے دیکھا کہ بہت سی بادام کی گریاں یعنی مغز میرے پاس ہیں مَیں نے چاہا کہ کچھ کھالوں تب معلوم ہوا کہ یہ تو صرف کشف ہے.پہلےتو یہی محسوس ہوا کہ درحقیقت بادام کے مغز میرے پاس ہیں اور پھر کھانے کے لئے اٹھا تو معلوم ہوا کہ محض کشف تھا.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۸، ۱۷) ۲۰؍ جولائی۱۹۰۷ء ’’ ۱.رَبِّ اَرِنِیْ حَقَآئِقَ الْاَشْیَآءِ.۳؎ ۲.ایسوسی ایشن.‘‘۴؎ ( بدر جلد۶ نمبر ۳۰مورخہ ۲۵؍ جولائی ۱۹۰۷ء صفحہ ۴.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخہ ۲۴؍ جولائی ۱۹۰۷ء صفحہ ۶) ۲۰؍ جولائی۱۹۰۷ء ’’ حضرت نے ایک خواب میں دیکھا کہ ہمارے مکان میں ایک بکرا ذبح۵؎کیا گیا ہے.ان ایام میں حضرت مولوی نورالدین صاحب علیل تھے چنانچہ اسی واسطے مولوی صاحب کو دوسرے مکان پر رکھا گیا.‘‘ ( بدر جلد۶ نمبر ۳۸مورخہ ۱۹؍ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۵.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۳ مورخہ ۱۷؍ ستمبر۱۹۰۷ء ضمیمہ ’’ب‘‘ ) ۲۸؍جولائی ۱۹۰۷ء روز شنبہ ’’ ۱.اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ.۲.اِنِّیْ مُعِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِعَانَــتَکَ.۶؎ ۳.ہیضہ کی آمدن ہونے والی ہے.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۶) ۱ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲۵؍ جولائی ۱۹۰۷ء صفحہ ۴ اور الحکم مورخہ ۲۴؍ جولائی ۱۹۰۷ء صفحہ ۶ میں ان الہامات کی تاریخ نزول ۲۰؍جولائی ۱۹۰۷ء درج ہے.۲ (ترجمہ) مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا اور اس بات کا قصد کروں گا جس کا وہ قصد کرے.(بدر مورخہ ۲۵؍ جولائی ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۳ (ترجمہ) اے میرے رَبّ ! مجھے اشیاء کے حقائق دکھلا.(بدر مورخہ ۲۵؍جولائی ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۴ Association ۵ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) دراصل اس سے صاحبزادہ مبارک احمد کی وفات مراد تھی جو ۱۶؍ ستمبر ۱۹۰۷ء کو وقوع میں آئی.۶ (ترجمہ) ۱.جو تیری اہانت چاہے گا مَیں اُسے ذلیل کروں گا.۲.جو تیری مدد کا ارادہ کرے گا مَیں اس کا مددگار ہوجاؤں گا.(بدر مورخہ یکم اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ یکم اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۴ اور الحکم مورخہ ۳۱؍جولائی ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ میں یہ الہامات ترتیب کے اختلاف سے درج ہیں.
۲۹؍جولائی ۱۹۰۷ء ’’ ۲۹؍جولائی ۱۹۰۷ء روز دو شنبہ میں میں نے خواب۱؎ میں دیکھا کہ مَیں نے محمدی کو تین روپیہ دیئے ہیں گویا قبر وغیرہ سامان کے لئے اور میں نے اس کو (کہا ) کہ کفن مَیں اپنی طرف سے دوں گا.ذہن میں ہے کہ ایک شخص فوت ہوگیا ہے وَاللہُ اَعْلَمُ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۵) ۱۹۰۷ء ۲؎ ’’ لَا تَنْقَطِعُ الْاَعْدَآءُ اِلَّا بِـمَوْتِ اَحَدٍ مِّنْـھُمْ.‘‘۳؎ ( بدر جلد۶ نمبر ۳۱مورخہ یکم؍ اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۶.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۲۸ مورخہ ۱۰؍ اگست۱۹۰۷ء صفحہ ۵) یکم اگست ۱۹۰۷ء (الف) ’’۱.رَبِّ اجْعَلْنِیْ غَالِبًا عَلٰی غَیْرِیْ.۴؎ ۲.میری فتح.۳.اَیُّـھَا الْکُفَّارُ اقْتُلُوا الْفُجَّارَ.‘‘۵؎ (کاپی الہامات۶؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۴) (ب) ’’ اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً.‘‘ ۷؎ ( بدر جلد۶ نمبر ۳۲ مورخہ ۸ اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۴.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۲۸ مورخہ ۱۰؍ اگست۱۹۰۷ء صفحہ ۲) ۸ ؍ اگست ۱۹۰۷ء ’’ ۱.سَلَامٌ.۲.اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا.۳.اِنِّیْ مَعَ اللّٰہِ.‘‘۸؎ ( بدر جلد۶ نمبر ۳۳مورخہ ۱۵؍ اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۴.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۲۹ مورخہ ۱۷؍ اگست۱۹۰۷ء صفحہ ۵) ۹ ؍ اگست ۱۹۰۷ء (الف) ’’ ۱.شَـرَّفْنَا بِکَلَامٍ مِّنَّا.۲.شَـرَّفْنَا بِـاِکْـرَامٍ مِّنَّا.۳.اِنِّیْ مُبَشِّـرٌ.‘‘۹؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۴ و۳.بدر جلد۶ نمبر ۳۳مورخہ ۱۵؍ اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۴.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۲۹ مورخہ ۱۷؍ اگست۱۹۰۷ء صفحہ ۵) ۱ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ یکم اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۴ اور الحکم مورخہ ۳۱؍جولائی ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ میں خواب کے الفاظ یوں ہیں.’’ اور خواب میں دیکھا کہ میں نے ایک عورت کو تین روپیہ دیئے ہیں اور اسے کہتا ہوں کہ کفن کے لئے میں آپ دوں گا.گویا کوئی مرگیا ہے اُس کی تجہیز و تکفین کے لئے طیاری کی ہے.‘‘ ۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یہ الہام دراصل پرانا ہے مگر تاریخ کی تعیین نہ ہوسکنے کی وجہ سے سالِ اشاعت میں درج کیا گیا ہے.۳ (ترجمہ) دشمن نہیں منقطع ہوں گے مگر ان میں سے ایک کی موت کے ساتھ.(بدر مورخہ یکم اگست۱۹۰۷ء صفحہ ۶) ۴ (ترجمہ) اے میرے ربّ مجھے میرے غیر پر غالب کر.(بدر مورخہ ۸ ؍اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۵ (ترجمہ از ناشر) اے کافرو فاجروں کو قتل کرو.۶ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۸ ؍ اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۴ اور الحکم مورخہ ۱۰؍ اگست۱۹۰۷ء صفحہ ۲ میں الہام نمبر ۳ درج نہیں.۷ (ترجمہ) مَیں اپنی فوجوں سمیت تیرے پاس اچانک آؤں گا.(بدر مورخہ ۸؍ اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۸ (ترجمہ) ۱.سلامتی.۲.خدا ہمارے ساتھ ہے ۳.مَیں خدا کے ساتھ ہوں.(بدر مورخہ ۱۵؍ اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۹ (ترجمہ) ۱.ہم نے اپنے کلام سے مشرف کیا ۲.ہم نے اپنے اکرام سے مشرف کیا ۳.مَیں بشارت دینے والا ہوں.(بدر مورخہ ۱۵؍ اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۴)
(ب).فیصلہ نامنظور کردو.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳) ۱۰؍ اگست۱۹۰۷ء ۱.’’ ۱.اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا.۲.اِنِّیْ مَعَ اللّٰہِ.۱؎ ۲.رؤیا.دیکھا محمدی نے کچھ گوشت قربانی کا دیا ہے.۳.۱.عبرت بخش سزائیں دی گئیں.۲.عبرت بخش سزائیں دی گئیں.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳) ۱۳؍ اگست۱۹۰۷ء ’’ ۱.عبرت بخش سزائیں دی گئیں.۲.اِنِّیْ مِنَ النَّاظِرِیْنَ.۳.اِنِّیْ اَنْـزَلْتُ مَعَکَ الْـجَنَّۃَ.‘‘۲؎ ( بدر جلد۶ نمبر ۳۳ مورخہ ۱۵؍ اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۴.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۲۹ مورخہ ۱۷؍ اگست۱۹۰۷ء صفحہ ۵) ۱۴ ؍ اگست ۱۹۰۷ء ’’آج ہمارے گھر میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم آئے، آگئے، عزت اور سلامتی.‘‘ ( بدر جلد۶ نمبر ۳۳مورخہ ۱۵؍ اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۴.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۲۹ مورخہ ۱۷؍ اگست۱۹۰۷ء صفحہ ۵) ۱۷ ؍ اگست ۱۹۰۷ء ’’ اِنَّ خَبَرَ رَسُوْلِ اللّٰہِ وَاقِعٌ.۳؎ فرمایا.معلوم ہوتا ہے کہ کسی پیشگوئی کے ظہور کا وقت قریب آگیا ہے.‘‘ ( بدر جلد۶ نمبر ۳۴ مورخہ ۲۲؍ اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۷.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۰ مورخہ ۲۴؍ اگست۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۱۸ ؍ اگست ۱۹۰۷ء ’’صبح نماز سے پہلے کشف۴؎ میں دیکھا کہ ایک بڑا ستارہ ٹوٹا ہے جو خوب زور سے چمکتا ہوا شمال مشرق کی جانب سے سیدھا سر تک آکر گم ہوگیا ہے.۱ (ترجمہ) ۱.خدا ہمارے ساتھ ہے ۲.مَیں خدا کے ساتھ ہوں.(بدر مورخہ ۱۵؍ اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۲ (ترجمہ) ۱.مَیں دیکھنے والوں میں سے ہوں.۲.مَیں نے تیرے ساتھ بہشت کو اُتارا ہے.(بدر مورخہ ۱۵؍ اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۳ (ترجمہ) رسول اللہ نے جو خبر بتلائی تھی وہ واقع ہونے والی ہے.(بدر مورخہ ۲۲؍ اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۷) ۴ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یہ کشف ظاہری رنگ میں بھی پورا ہوا چنانچہ ۶؍ ستمبر ۱۹۰۷ء کو بوقت صبح صادق ایک ستارہ ٹوٹا.شمال سے ظاہر ہوکر جنوب کو گیا.جو پہلے سُرخ رنگ تھا بعد میں سبز رنگ ہوگیا.روشنی میں دسویں رات کے چاند سے کم نہ تھا.غائب ہونے پر دہشت ناک آواز گولے کی سنی گئی.دیکھیے بدر جلد ۶ نمبر ۳۸مورخہ ۱۹؍ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۷.
فرمایا.آج ہی ہماری لڑکی۱؎ نے بھی رؤیامیں دیکھا ہے کہ آسمان پر ستارے ٹوٹتے ہیں اور دھواں ہوکر چلے جاتے ہیں.ایک فرشتہ پاس کھڑا ہے جو کہتا ہے کہ یہ دشمن مرتے ہیں.فرمایا.یہ خواب شاید ہماری خواب کی تعبیر ہے.ہماری لڑکی کو خواب بہت آتے ہیں اور اکثر سچے ہوتے ہیں.‘‘ ( بدر جلد۶ نمبر ۳۴ مورخہ ۲۲؍ اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۷.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۰ مورخہ ۲۴؍ اگست۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۱۹؍ اگست۱۹۰۷ء ’’ آید آں روزے کہ مستخلص شود‘‘۲؎ ( بدر جلد۶ نمبر ۳۴ مورخہ ۲۲؍ اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۷.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۰ مورخہ ۲۴؍ اگست۱۹۰۷ء صفحہ ۳) اگست ۱۹۰۷ء ’’ اِنِّیْ مَعَکَ یَـا اِبْرَاھِیْمُ.لَا تَـخَفْ صَدَّ قْتُ قَوْلِیْ.‘‘۳؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۴) ۲۳ ؍ اگست ۱۹۰۷ء (الف) ’’ اِنَّ۴؎ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ صَدُّ وْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ سَیَنَا لُھُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّـھِمْ یَـوْمَ تَـاْتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ.اِنَّ خَبَرَ رَسُوْلِ اللّٰہِ وَاقِعٌ.لَا تَـحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا اِنَّ رَبِّیْ کَرِیْمٌ قَرِیْنٌ.اِنَّہٗ فَضْلُ رَبِّیْ اِنَّہٗ کَانَ بِیْ حَفِیًّا.اِنِّیْ مَعَکَ یَـا اِبْـرَاھِیْمُ.لَا تَـخَفْ صَدَّ قْتُ قَوْلِیْ.‘‘ ( بدر جلد۶ نمبر ۳۵مورخہ ۲۹؍ اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۴.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۱ مورخہ ۳۱؍ اگست۱۹۰۷ء صفحہ ۱) (ب) ’’ سَیَنَالُھُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّـھِمْ.‘‘۵؎ ( بدر جلد۶ نمبر ۳۷مورخہ ۱۲؍ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۲۳مورخہ ۱۷؍ ستمبر۱۹۰۷ء صفحہ ۱) ۱ مراد حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ.(مرزا بشیر احمد) ۲ (ترجمہ از مرتّب) وہ دن آرہا ہے کہ وہ تکلیف سے رہائی پائے.۳ (ترجمہ) مَیں تیرے ساتھ ہوں اے ابراہیم.تو کچھ خوف نہ کر.مَیں نے اپنی بات کو سچا کر دکھایا.(بدر مورخہ ۲۹؍ اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۴ (ترجمہ) تحقیق وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور خدا تعالیٰ کی راہ سے روکا ان کو ان کے ربّ سے غضب پہنچے گا جس دن آسمان کھلے طور پر دھواں لائے گا اللہ کے رسول نے جو خبر دی تھی وہ واقع ہونے والی ہے غم نہ کر تحقیق اللہ ہمارے ساتھ ہے تحقیق میرا ربّ سخی ہے اور نزدیک ہے میرے ربّ نے فضل کیا وہ مجھ پر مہربان ہے مَیں تیرے ساتھ ہوں اے ابراہیم.تو کچھ خوف نہ کر.مَیں نے اپنی بات کو سچا کر دکھایا.یعنی سچی کرکے دکھاؤں گا.(بدر مورخہ ۲۹؍ اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۵ (ترجمہ) قریب ہے کہ ان کو اُن کے ربّ کا غضب پہنچے گا.(بدر مورخہ ۲۹؍ اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۴)
۲۷؍اگست ۱۹۰۷ء ’’ قبول ہوگئی.نو دن کا بخار ٹوٹ گیا.‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴) ۱ (نوٹ) بدر مورخہ ۲۹؍ اگست ۱۹۰۷ء صفحہ ۴ اور الحکم مورخہ ۳۱؍ اگست۱۹۰۷ء صفحہ ۱ میں ان الہامات کے بارہ میں تحریر ہے کہ ’’صاحبزادہ میاں مبارک احمد صاحب جو سخت تپ سے بیمار ہیں اور بعض دفعہ بے ہوشی تک نوبت پہنچ جاتی ہے اور ابھی تک بیمار ہیں، اُن کی نسبت آج الہام ہوا.’’قبول ہوگئی.نو دن کا بخار ٹوٹ گیا‘‘ (فرمایا) یعنی یہ دعا قبول ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ میاں صاحب موصوف کو شفا دے.یہ پختہ طور پر یاد نہیں رہا کہ کس دن بخار شروع ہوا تھا لیکن خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے میاں کی صحت کی بشارت دی اور نویں دن تپ کے ٹوٹ جانے کی خوشخبری پیش از وقت عطا کی ہے.نویں دن کی تصریح نہیں کی اور نہ ہوسکتی ہے لیکن یہ معلوم ہوتا ہے کہ تپ کی شدید حالت جس دن سے شروع ہوئی وہ ابتدا مرض کا ہوگا.وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.‘‘۲؎ ۲ (نوٹ از ایڈیٹر بدر) ’’اگست گذشتہ میں مبارک احمد تپ شدید سے سخت بیمار ہوگیا تھا یہاں تک کہ بار بار غشی تک نوبت پہنچتی تھی اور تپ ایک سَو پانچ درجہ تک پہنچ گیا اور سرمارنے کی ایسی حالت تھی کہ سرسام کا خوف ہوکر نومیدی کی حالت ہوچکی تھی.ایسی حالت میں الہام ہوا کہ ’’نو دن کا بخار ٹوٹ گیا.‘‘ یہ الہام اخبار بدر مورخہ ۲۹ ؍ اگست میں قبل از وقت چھپ گیا تھا.چنانچہ اس کے مطابق ۳۰ ؍ اگست ۱۹۰۷ء کو بخار بالکل ٹوٹ گیا اور مبارک احمد تندرست ہوکر باغ سَیر کرنے کے لئے چلا گیا اور پھر چند روز بخار رہ کر ۱۴؍ ستمبر ۱۹۰۷ء کو ٹوٹ گیا اور لڑکا بالکل صحت یاب ہوگیا اور لڑکے نے خود کہا کہ مَیں بالکل تندرست ہوں اور کھیلنا شروع کیا.اس بیماری سے تو شفا ہوئی لیکن خدا تعالیٰ کا ایک پرانا فرمودہ پورا ہونا تھا اِس واسطے ایک دوسرے مرض سے مبارک احمد پھر بیمار ہوا کیونکہ ضرور تھا کہ خدا کے منہ کی باتیں ساری پوری ہوجاتیں اور اس الہام کی تفصیل یہ ہے کہ مبارک احمد کی پیدائش سے صرف ایک روز پہلے بذریعہ وحیِ الٰہی مسیح موعود کو جتلایا گیا کہ یہ لڑکا جلد فوت ہوکر خدا تعالیٰ سے جاملے گا.چنانچہ اِس کی تشریح صاف الفاظ میں حضرت مسیح موعود نے اپنی کتاب تریاق القلوب مطبوعہ ۱۹۰۲ء کے صفحہ۴۰.(روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۱۳) میں کردی تھی چنانچہ اِس جگہ ہم اصل عبار ت نقل کرتے ہیں اور وہ یہ ہے.’’مجھے خدا تعالیٰ نے خبر دی کہ مَیں تجھے ایک اَور لڑکا دوں گا اور یہ وہی چوتھا لڑکا ہے جو اَب پیدا ہوا جس کا نام مبارک احمد رکھا گیا اور اس کے پیدا ہونے کی خبر قریباً دو برس پہلے مجھے دی گئی اور پھر اُس وقت دی گئی کہ جب اس کے پیدا ہونے میں قریباً دو مہینے باقی رہتے تھے اور پھر جب یہ پیدا ہونے کو تھا تو یہ الہام ہوا اِنِّیْ اَسْقُطُ مِنَ اللّٰہِ
۲۸؍اگست ۱۹۰۷ء ’’ مُفَتَّحَۃً لَّھُمُ الْاَسْبَابُ.‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴) اگست۱۹۰۷ء (الف) ’’ تخمیناً؍ اگست میں حضرت نے خواب میں دیکھا تھا کہ آپ مقبرہ بہشتی میں ہیں.قبرکھدواتے ہیں.‘‘ ۲؎ ( بدر جلد۶ نمبر ۳۸مورخہ ۱۹؍ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۵.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۳ مورخہ ۱۷؍ ستمبر۱۹۰۷ء ضمیمہ صفحہ ب) (ب) ’’ فرمایا.بعض اَوقات اگر باپ خواب دیکھے تو اس سے مراد بیٹا ہوتا ہے اور اگر بیٹا خواب دیکھے تو اس سے باپ مراد ہوتا ہے.ایک دفعہ مَیں خواب میں یہاں (بہشتی مقبرہ) آیا اور قبر کھودنے والوں کو کہا کہ میری قبر دوسروں سے جدا چاہیے.دیکھو جو میری نسبت تھا وہ میرے۲؎بیٹےکی نسبت پورا ہوگیا.‘‘ ( الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۴ مورخہ ۲۴؍ ستمبر۱۹۰۷ء صفحہ ۶) ۲ ؍ ستمبر ۱۹۰۷ء ’’ اَفَـمَنْ یُّـجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ.قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَ.‘‘۳؎ ( بدر جلد۶ نمبر ۳۷مورخہ ۱۲؍ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۳ مورخہ ۱۷؍ ستمبر۱۹۰۷ء صفحہ ۱) ۳؍ ستمبر۱۹۰۷ء ’’ ۱.ایک بکرا مسلوخ اپنے مکان میں لٹکا ہوا دیکھا.۲.زلزلہ دیکھا جس سے ہماری دیواریں بقیہ حاشیہ در حاشیہ.وَاُصِیْبُہٗ.یعنی میں خدا کے ہاتھ سے زمین پر گرتا ہوں اور خدا ہی کی طرف جائوں گا.مَیں نے اپنے اجتہاد سے اس کی یہ تاویل کی کہ یہ لڑکا نیک ہوگا اور رُو بخدا ہوگا اور خدا کی طرف اِس کی حرکت ہوگی اور یا یہ کہ جلد فوت ہوجائے گا.اِس بات کا علم خدا تعالیٰ کو ہے کہ ان دونوں باتوں میں سے کونسی بات اس کے ارادہ کے موافق ہے.‘‘ چنانچہ اسی ارادہ ٔ الٰہی کے موافق مبارک احمد ۱۶؍ ستمبر ۱۹۰۷ء روز دوشنبہ کی صبح کو اپنے خدا سے جا ملا اور مقبرہ بہشتی میں دفن کیا گیا.اِنَّـا لِلّٰہِ وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.‘‘ ( بدر مورخہ ۱۹؍ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۱ (ترجمہ از ناشر) ان کی خاطر اسباب اچھی طرح کھلے رکھے جائیں گے.۲ سو ایسا ہی ظہور میں آیا.۲ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) یعنی صاحبزادہ مبارک احمد صاحب.چنانچہ صاحبزادہ صاحب کی قبر دوسری قبروں سے کسی قدر فاصلہ پر ہے.۳ (ترجمہ از مرتّب) کیاجو ہستی ایک بے قرار ،لاچار کی پکار سننے والی ہے اُسے چھوڑ کر کسی اَور کو پکارا جائے کہہ اللہ ہے.پھر انہیں ان کی بے ہودہ گوئی میں چھوڑ.
جنبش کرگئیں.۳.گوشت کچا دیکھا جس کو ترازو میں تولتے ہیں.۴.دیکھا کہ گھر میں ایک میّت پڑی ہے.۵.دو لڑکیاں ہیں میں کہتا ہوں میں بیمار ہوں.۶.مبارک باد.دفن کردو.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۹) ۵؍ ستمبر۱۹۰۷ء (الف) ’’ ۱.بِسَلَامٍ مِّنَّا.۱؎ ۲.تو ہر یک بلا سے بچایا جائے گا.‘‘ (کاپی الہامات۲؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۶) (ب) خواب میں والدہ مبارک نے کہا کہ مبارک اپنے گھر کو چلا ہے.میں نے کہا مبارک کا یہی گھر ہے اور یہ اس کا پلنگ ہے.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۶) (ج) ’’ تَـوَکَّلُوْا عَلَیْہِ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ.‘‘۳؎ ( بدر جلد۶ نمبر ۳۷ مورخہ ۱۲؍ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۳ مورخہ ۱۷؍ ستمبر۱۹۰۷ء صفحہ ۱) ۶؍ ستمبر۱۹۰۷ء ’’ مَنْ کَانَ فِیْ نُصْـرَۃِ اللّٰہِ کَانَ اللّٰہُ فِیْ نُصْـرَتِہٖ.‘‘۴؎ ( بدر جلد۶ نمبر ۳۷مورخہ ۱۲؍ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۳ مورخہ ۱۷؍ ستمبر۱۹۰۷ء صفحہ ۱) ستمبر ۵؎۱۹۰۷ء (الف) ’’ لَکُم الْبُشْـرٰی فِی الْـحَیٰوۃِ الدُّنْیَا.‘‘۶؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲) (ب) ’’خواب میں دیکھا کہ ایک پانی کا گڑھا ہے.میاں مبارک احمد اس میں داخل ہوا اور غرق ہوگیا.بہت تلاش کیا گیا مگر کچھ پتہ نہیں ملا.پھر آگے چلے گئے تو اس کی بجائے ایک اَور لڑکا بیٹھا ہوا ہے.‘‘ ( بدر جلد۶ نمبر ۳۸مورخہ ۱۹؍ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۵.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۳ مورخہ ۱۷؍ ستمبر۱۹۰۷ء ضمیمہ صفحہ ب) ۱ (ترجمہ از مرتّب) ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ.۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۲؍ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴ اور الحکم مورخہ ۱۷؍ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ پر بھی یہ الہام مندرج ہیں.۳ (ترجمہ از مرتّب) اس پر توکل کرو اگر تم مومن ہو.۴ (ترجمہ از مرتّب) جو شخص خدا کے دین کی مدد میں لگ جاتا ہے خدا اُس کی مدد میں لگ جاتا ہے.۵ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۱۷؍ ستمبر۱۹۰۷ء صفحہ ۱ اور بدر مورخہ ۱۲؍ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴ میں اس الہام کی تاریخ نزول ۱۰؍ستمبر ۱۹۰۷ء درج ہے.۶ (ترجمہ) تمہارے لئے اس دنیا کی زندگی میں خوشخبری ہے.(بدر مورخہ ۱۲؍ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴)
۱۴؍ ستمبر۱۹۰۷ء ’’ لَا عِلَاجَ وَ لَا یُـحْفَظُ.‘‘۱؎ ( بدر جلد۶ نمبر ۳۸مورخہ ۱۹؍ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۵.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۳ مورخہ ۱۷؍ ستمبر۱۹۰۷ء صفحہ ۲) ۱۶؍ ستمبر ۱۹۰۷ء ۱.’’ یَــوْمَ تَـاْتِی السَّمَآءُ بِدُ خَانٍ مُّبِیْنٍ.‘‘ ۲؎ ( بدر جلد۶ نمبر ۳۸مورخہ ۱۹؍ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۵) ۲.’’ اِنَّـا نُبَشِّـرُکَ بِغُلَامٍ حَلِیْمٍ.‘‘۳؎ ( بدر جلد۶ نمبر ۳۸ مورخہ ۱۹؍ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۵.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۳ مورخہ ۱۷؍ ستمبر۱۹۰۷ء صفحہ ۱) ۱۸؍ ستمبر۱۹۰۷ء ’’ رؤیا.فرمایا.چند روز ہوئے مَیں نے خواب میں ایک شخص کو دیکھا تھا کہ وہ مُرتدین میں داخل ہوگیا ہے.مَیں اُس کے پاس گیا.وہ ایک سنجیدہ آدمی ہے.مَیں نے اُس سے پوچھا کہ یہ کیا ہوا.اُس نے کہا کہ مصلحت ِ وقت ہے.‘‘ ( بدر جلد۶ نمبر ۳۸مورخہ ۱۹؍ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۵) ۱۹؍ ستمبر۱۹۰۷ء ’’ ۱.خدا خوش ہوگیا.‘‘۴؎ ۲.پھر مجھے ایک بڑا کاغذ دکھایا گیا اس میں بہت کچھ لکھا تھا مگر میں نے صرف اس قدر پڑھا.اور پھر آنکھ کھل گئی.۱ (ترجمہ از ناشر) نہ کوئی علاج ہوسکے گا اور نہ اس کو کسی طرح سے بچایا جاسکے گا.(نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) یہ الہام بھی صاحبزادہ مبارک احمد کے متعلق ہے جو دو دن بعد پورا ہوگیا.(بدر مورخہ ۱۹؍ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۵) ۲ (ترجمہ از مرتّب) اس دن کو یاد کرو جب آسمان نمایاں طور پر دھواں لائے گا.۳ (ترجمہ) ہم تجھے ایک حِلم والے لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں.(بدر مورخہ ۱۹؍ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۵) ۴ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۳؍اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ میں صرف الہام نمبر ۱ و ۳ درج ہیں جبکہ الحکم مورخہ ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۲ میں ان الہامات کی تفصیل بھی درج ہے جو یہ ہے.’’کئی دنوں سے اِبتلاؤں کا سامنا تھا.بیس پچیس دن رات تو مَیں سویا بھی نہیں.آج ذرا سی میری آنکھ لگ گئی تو یہ فقرہ الہام ہوا.’’خدا خوش ہوگیا.‘‘ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کریم اِس بات سے بہت خوش ہوا ہے کہ اِس ابتلا میں مَیں پورا اُترا ہوں اور اِس الہام کا یہی مطلب ہے کہ اس ابتلا میں تُو پورا اُترا.اس کے بعد پھر آنکھ لگ گئی تو مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نہایت خوشخط خوبصورت کا غذ میرے ہاتھ میں ہے جس پر کوئی پچاس ساٹھ سطریں لکھیں ہوئی ہیں.مَیں نے اس کو پڑھا ہے مگر اس میں سے یہ فقرہ مجھے یاد رہا ہے کہ ’’ یَـا عَبْدَ اللّٰہِ اِنِّیْ مَعَکَ.‘‘ یعنی اے خدا کے بندے میں تیرے ساتھ ہوں.اور اس کو پڑھ کر مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ گویا خدا کو دیکھ لیا.‘‘
۲.پھر مجھے ایک بڑا کاغذ دکھایا گیا اس میں بہت کچھ لکھا تھا مگر میں نے صرف اس قدر پڑھا.اور پھر آنکھ کھل گئی.۳.یَـا عَبْدَ اللّٰہِ اِنِّیْ مَعَکَ.۱؎ ۴.خدا نامہ ئت از گنہ کرد پاک.‘‘۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱) ۲۰؍ ستمبر۱۹۰۷ء ’’۱.لائف آف پین۳؎.۲.اِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ.۳.اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ.۴.وَالضُّحٰی وَ الَّیْلِ اِذَا سَـجٰی.مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَ مَا قَلٰی.۴؎ ۵.اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنَـا مِنْکَ.۵؎ ۶.لَکُمُ الْبُشْـرٰی فِی الْـحَیٰوۃِ الدُّ نْیَا.‘‘ ۶؎ (کاپی الہامات۷؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲) ۲۱؍ ستمبر۱۹۰۷ء (الف) ’’ مَا بَقِیَ لِیْ ھَمٌّ بَعْدَ ذَالِکَ.۸؎ اِنِّیْ مُبَارَکٌ.۹؎ ‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲) ۱ (ترجمہ) اے خدا کے بندے میں تیرے ساتھ ہوں.(الحکم مورخہ ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۲) ۲ (ترجمہ از ناشر) خدا نے تمہارا نامہ اعمال گناہ سے پاک کردیا.۳ (ترجمہ) تلخ زندگی (Life of Pain) (بدر مورخہ ۳؍ اکتوبر۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۴ (ترجمہ) ۲.مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں.۳.مَیں ان سب کی حفاظت کروں گا جو اِس دار میں ہیں.۴.چاشت کا وقت اور رات جبکہ وہ ڈھانپ لے شاہد ہے کہ تیرے ربّ نے تجھے نہیں چھوڑا اور نہ تیرا دشمن ہوا.(بدر مورخہ ۲۶؍ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۵ (ترجمہ از ناشر) ۵.تو مجھ سے ہے اور مَیں تجھ سے ہوں.۶ (ترجمہ ) ۶.تمہاری اِس دُنیا کی زندگانی میں خوش خبری ہے (بدر مورخہ ۲۶؍ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۷ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲۶؍ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴ اور الحکم مورخہ ۲۴؍ ستمبر۱۹۰۷ء صفحہ ۲ میں الہام نمبر ۲، ۳ و۶ مورخہ ۲۰؍ستمبر ۱۹۰۷ء کے حوالہ سے درج ہیں جبکہ الہام نمبر ۴و ۵ کی تاریخ نزول ۲۱؍ ستمبر ۱۹۰۷ء درج ہے.۸ (ترجمہ ) اس کے بعد میرے واسطے کوئی غم باقی نہ رہا.(بدر مورخہ ۳؍اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۹ (ترجمہ از ناشر) مَیں تمام برکتوں والا ہوں.(نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۳۰؍ ستمبر۱۹۰۷ء صفحہ ۳ میں الہام ’’ اِنِّیْ مُبَارَکٌ ‘‘ کے بارہ میں درج ہے کہ فرمایا.’’ ذرا سی مجھے غنودگی ہوئی تو الہام ہوا جس کا اتنا حصہ یاد رہا اِنِّیْ مُبَارَکٌ.اس کے معنے بہت ہیں جیسے اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَ بْتَرُ ہے ویسے ہی یہ ہے.‘‘
(ب) ’’.اِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ.اِنِّیْ مَعَکَ یَـا اِبْرَاھِیْمُ.‘‘۱؎ ( بدر جلد۶ نمبر ۳۹مورخہ ۲۶؍ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۴ مورخہ ۲۴؍ ستمبر۱۹۰۷ء صفحہ ۲) ۲۵؍ ستمبر۱۹۰۷ء ’’ الہام.اَ لَمْ تَـرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِـاَصْـحَابِ الْفِیْلِ.اَلَمْ یَـجْعَلْ کَیْدَ ھُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ.وَ اَرْسَلَ عَلَیْـھِمْ طَیْـرًا اَبَابِیْلَ.‘‘۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳) ۲۶؍ ستمبر۱۹۰۷ء ’’ اِنَّ اللّٰہَ مَعِیْ فِیْ کُلِّ حَالٍ.ہر یک حال میں تمہارے ساتھ موافق ہوں تیری منشاء کے مطابق.یَـا رَبِّ ارْحَـمْنِیْ اِنَّ فَضْلَکَ وَ رَحْـمَتَکَ یُنْجِیْ مِنَ الْعَذَابِ.‘‘۳؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۳) ۲۹؍ ستمبر۱۹۰۷ء ’’ ۱.اِنِّیْ اَنَـا الرَّسُوْلُ وَ لِلہِ اَقُوْلُ۴؎.۲.اِنِّیْ مُبَارَکٌ۵؎.۳.اَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ.۴.اِنَّکَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ رَحَی الْاِسْلَامِ.اِنَّکَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ رَحَی الْاِسْلَامِ.۵.تَعَلَّقْتُ بِـالْاَھْدَابِ.۶.اَنَـرْتُکَ وَاخْتَرْتُکَ۶؎.۷.اَنْتَ مِنِّیْ یَـا اُمَّۃَ الرَّحْـمٰنِ.۸.اَنْتَ مِنِّیْ یَـا اُمَّۃَ الرَّحْـمٰنِ.۹.اَرَدْتُّ لَکَ فَضْلًا کَثِیْرًا وَّاِحْسَانًـا عَلَی الْاِحْسَانِ.۱۰.اَلْیَوْمَ یَــوْمُ الْبَرَکَاتِ.۱۱.اَنْتَ مِنِّیْ یَـا اُمَّۃَ الرَّحْـمٰنِ۷؎.۱ (ترجمہ ) مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں..میں تیرے ساتھ ہوں اے ابراہیم.(بدر مورخہ ۲۶؍ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۲ (ترجمہ از ناشر) کیا تُو نہیں جانتا کہ تیرے ربّ نے ہاتھی والوں سے کیا سلوک کیا؟ کیا اُس نے اُن کی تدبیر کو رائیگاں نہیں کردیا؟ اور اُن پر غول در غول پرندے (نہیں) بھیجے؟ ۳ (ترجمہ) خدا ہر حال میں میرے ساتھ ہے.اے میرے ربّ ! مجھ پر رحم فرما.تحقیق تیرا فضل اور تیری رحمت عذاب سے نجات دیتے ہیں.یعنی تیرا فضل اور تیری رحمت عذاب سے بچاتے ہیں.(بدر مورخہ ۳؍اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۴ (ترجمہ از ناشر) ۱.یقیناً میں ہی رسول ہوں اور اللہ کے لئے ہی کہتا ہوں.۵ (ترجمہ از ناشر) ۲.مَیں تمام برکتوں والا ہوں.۶ (ترجمہ) ۳.مَیں نے چاہا کہ مَیں پہچانا جاؤں.۴.یقیناً تو مجھ سے بمنزلہ اسلام کی چکی کے ہے.یقیناً تو مجھ سے بمنزلہ اسلام کی چکی کے ہے.۵.مَیں نے دامن سے تعلق کیا یعنی اس کا دامن پکڑا.۶.مَیں نے تجھے روشن کیا اور تجھے پسند کیا.(بدر مورخہ ۳؍ اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۷ (ترجمہ از ناشر) ۷.اے رحمان خدا کی امت !تو مجھ سے ہے.۸.اے رحمان خدا کی امت !تو مجھ سے ہے.۹.میں نے تم پر فضل کثیر اور احسان پر احسان کا ارادہ کیا.۱۰.یہ دن برکتوں کے دن ہیں.۱۱.اے رحمان خدا کی امت !تو مجھ سے ہے.
۱۲.اَرَدْتُّ لَکَ فَضْلًا کَثِیْرًا وَّ اِحْسَانًا عَلَی الْاِحْسَانِ.۱۳.مخالفوں کا اخزاء اور افناء تیرے ہاتھ سےہی مقدر تھا.۱۴.مخالفوں کا اخزاء اور افناء تیرے ہاتھ سےہی مقدر تھا.۱۵.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ ھَارُوْنَ.۱۶.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ ھَارُوْنَ۱؎.۱۷.اِنِّیْ اَنَـا رَبُّکَ الرَّحْـمٰنُ ذُوالْعِزِّ وَالسُّلْطَانِ.۱۸.اِنِّیْ اَنَـا رَبُّکَ الرَّحْـمٰنُ ذُوالْعِزِّ وَالسُّلْطَانِ.۱۹.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ رَحَی الْاِسْلَامِ.۲۰.اَنَـرْتُکَ وَاخْتَرْتُکَ.۲۱.مخالفوں کا اخزاء اور افناء تیرے ہی ہاتھ سے مقدر تھا.۲۲.اِنَّ اللّٰہَ مَعِیْ فِیْ کُلِّ حَالٍ۲؎.۲۳.ہر یک حال میں تمہارے ساتھ موافق ہوں تیرے منشا کے مطابق.۲۴.کُلَّ یَــوْمٍ ھُـوَ فِیْ شَاْنٍ۳؎.۲۵.اَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ۴؎.۲۶.اِنِّیْ اَنَـا الرَّحْـمٰنُ ذُوالْعِزِّ وَالسُّلْطَانِ.‘‘۵؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۴ تا ۷) ۳۰؍ ستمبر۱۹۰۷ء ’’۱.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ رَحَی الْاِسْلَامِ ۲.اَنَرْتُکَ وَاخْتَرْتُکَ.۳.اِنَّ اللّٰہَ مَعِیْ فِیْ کُلِّ حَالٍ.۶؎ ۴.ہر ایک حال میں تمہارے ساتھ مَیں ہوں، تیری منشاء کے مطابق.۵.کُلَّ یَـوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ.۷؎ (یعنی ہمیشہ موافقت کرنا لازمی امر نہیں.ابتلاء بھی درمیان ہیں) ۶.اَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ.۷.اِنِّیْ اَنَـا رَبُّکَ الرَّحْـمٰنُ ذُوالْعِزِّ وَالسُّلْطَانِ.۸؎ ۸.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ عَرْشِیْ.۹اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ ھَارُوْنَ.۹؎ (یعنی تو میرے دین کی نصرت کرتا ہے جیسے ہارون موسیٰ کی نصرت کرتا تھا).۱ (ترجمہ از ناشر) ۱۲.میں نے تم پر فضل کثیر اور احسان پر احسان کا ارادہ کیا.۱۵.تو میرے نزدیک بمنزلہ ہارون کے ہے.۱۶.تو میرے نزدیک بمنزلہ ہارون کے ہے.۲ (ترجمہ ) ۱۷.مَیں تیرا ربّ رحمٰن ہوں صاحب عزت کا اور صاحب غلبہ کا.۱۸.مَیں تیرا ربّ رحمٰن ہوں صاحب عزت کا اور صاحب غلبہ کا.۱۹.تو مجھ سے بمنزلہ اسلام کی چکی کے ہے.۲۰.مَیں نے تجھے روشن کیا اور تجھے پسند کیا.۲۲.خدا ہر حال میں میرے ساتھ ہے.(بدر مورخہ ۳؍ اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۳ (ترجمہ از مرتّب) ۲۴.ہر روز وہ ایک نئی شان میں ہوتا ہے.۴ (ترجمہ) ۲۵.مَیں نے چاہا کہ مَیں پہچانا جاؤں.(بدر مورخہ ۳؍ اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۵ (ترجمہ از ناشر) ۲۶.مَیں رحمٰن ہوں صاحب عزت کا اور صاحب غلبہ کا.۶ (ترجمہ) ۱.تو مجھ سے بمنزلہ اسلام کی چکی کے ہے.۲.مَیں نے تجھے روشن کیا اور تجھے پسند کیا.۳.خدا ہر حال میں میرے ساتھ ہے.۷ (ترجمہ از ناشر) ۵.ہر روز وہ ایک نئی شان میں ہوتا ہے.۸ (ترجمہ ) ۶.مَیں نے چاہا کہ مَیں پہچانا جاؤں.۷.مَیں تیرا ربّ رحمٰن ہوں صاحب عزت کا اور صاحب غلبہ کا.(بدر مورخہ ۳؍اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۹ (ترجمہ از ناشر) ۸.تُو میرے نزدیک بمنزلہ میرے عرش کے ہے.۹.تو میرے نزدیک بمنزلہ ہارون کے ہے.
۱۰.اَ لَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِـاَصْـحَابِ الْفِیْلِ.اَلَمْ یَـجْعَلْ کَیْدَھُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ.وَ اَرْسَلَ عَلَیْھِمْ طَیْرًا اَبَابِیْلَ.۱۱.لائف آف پین.۱۲.رَبِّ ارْحـَمْنِیْ اِنَّ فَضْلَکَ وَرَحْـمَتَکَ یُنْجِیْ مِنَ الْعَذَابِ.۱۳.تَعَلَّقْتُ بِالْاَھْدَابِ.‘‘۱؎ ( بدر جلد۶ نمبر ۴۰مورخہ ۳؍ اکتوبر۱۹۰۷ء صفحہ ۳.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۶ مورخہ ۱۰؍ اکتوبر۱۹۰۷ء صفحہ ۱) ۲؍ اکتوبر۱۹۰۷ء ۱.الہام.’’ ۱.حَسُنَ مَالُکَ۲؎.۲.پاک.‘‘ ۲.رؤیا.’’.خواب میں مَیں نے دیکھا کسی (نے) ایک خط کھولا ہے اس میں میرا نام لکھا ہے.مرزا حمید بیگ.اور مجھ کو بہت سے باداموں میں سے مٹھی بھر کر بادام دیئے ہیں اور اسی قدر دوسرے کو دیئے ہیں…‘‘۳؎ ۳.الہام.’’۱.وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا.۲.قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا.‘‘۴؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۷، ۸) ۴؍ اکتوبر۱۹۰۷ء ’’ ۱.قَالَسَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّيْ اِنَّهٗ كَانَ بِيْ حَفِيًّا.۲.مَوْتٌ قَرِیْبٌ.‘‘۵؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۰) ۸؍ اکتوبر۱۹۰۷ء رؤیا.’’ ایک کاغذ دکھایا گیا اس میں لکھا تھا خدا کے تمام کلمے.موٹی قلم سے لکھا تھا.دوسرے کاغذ میں یہ میرا نام لکھا تھا (حنیف مسیح).۱ (ترجمہ از مرتّب) ۱۰.کیا تونے نہیں دیکھا کہ تیرے رَبّ نے اصحابِ فیل کے ساتھ کیا معاملہ کیا تھا.کیا ان کی تدبیر کو رائیگاں نہیں کردیا اور ان پر پرندے بھیجے تھے جھنڈ کے جھنڈ.۱۱.تلخ زندگی.(Life of Pain) ۱۲.اے میرے ربّ ! مجھ پر رحم فرما.تحقیق تیرا فضل اور تیری رحمت عذاب سے نجات دیتے ہیں.یعنی تیرا فضل اور تیری رحمت عذاب سے بچاتے ہیں.۱۳.مَیں نے دامن سے تعلق کیا.یعنی اس کا دامن پکڑا.۲ (ترجمہ از ناشر) ۱.کیا ہی اچھا تیرا مال ہے.۳ یہ حصہ پڑھا نہیں گیا.(ناشر) ۴ (ترجمہ از ناشر) ۱.اور ہم ہرگز عذاب نہیں دیتے یہاں تک کہ کوئی رسول بھیج دیں (اور حجت تمام کردیں) ۲.یقیناً وہ کامیاب ہوگیا جس نے اس (تقویٰ) کو پروان چڑھایا، اور نامراد ہوگیا جس نے اسے مٹی میں گاڑ دیا.۵ (ترجمہ از ناشر) اس نے کہا میں ضرور اپنے ربّ سے تیرے لئے مغفرت طلب کروں گا.یقیناً وہ مجھ پر بہت مہربان ہے.موت قریب ہے.
قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ لَکُمْ فَافْعَلُوْا مَا تُؤْمَرُوْنَ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۰، ۱۱) (ترجمہ) ان کو کہہ دے کہ میں تمہارے لئے مامور ہو کر آیا ہوں پس وہی کرو جو میں حکم کرتا ہوں.(مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۴۶۶ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۸؍ اکتوبر۱۹۰۷ء ’’ ۱.خیر اور نصرت اور فتح انشاء اللہ تعالیٰ.۲.وَ مَا مِنَّا اِلَّا لَہٗ مَقَامٌ مَّعْلُوْمٌ۱؎.۳.یَنْصُـرُکَ رِجَالٌ نُّـوْحِیْ اِلَیْـھِمْ مِّنَ السَّمَآءِ.۴.قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا.۵.وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا۲؎.حنیف مسیح.‘‘ ( بدر جلد۶ نمبر ۴۲مورخہ ۱۷؍ اکتوبر۱۹۰۷ء صفحہ ۴.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۷ مورخہ ۱۷؍ اکتوبر۱۹۰۷ء صفحہ ۵) ۹؍ اکتوبر۱۹۰۷ء ’’ ۱.خیر اور نصرت انشاء اللہ تعالیٰ.۲.رُدَّ اِلَیَّ صِـحَّتِیْ۳؎.۳.خیر اور نصرت اور فتح انشاء اللہ تعالیٰ.۴.وَ مَا مِنَّا اِلَّا لَہٗ مَقَامٌ مَّعْلُوْمٌ‘‘۴؎.(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۲) ۱۳؍ اکتوبر۱۹۰۷ء ’’ ۱.غَـرَّتْہُ الْـحَیٰوۃُ الدُّ نْیَا.۲.اُ مَمٌ سَنُمَتِّعُھُمْ.‘‘ ۵؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۲) ۱۴؍ اکتوبر۱۹۰۷ء ’’ ۱.یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُّـوْحِیْ اِلَیْـھِمْ مِّنَ السَّمَآءِ۶؎.۲.خلاصہ الہام فراموش۷؎ شدہ.ہم نے اس پر ایک دنی الطبع کو مہربان کردیا.۳.ساقیا آمدنِ عید مبارک بادت.‘‘۸؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۲، ۱۳) ۱ (ترجمہ ) ۲.اور ہم میں سے ہر ایک کے واسطے ایک مقام معلوم ہے.(بدر مورخہ ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۲ (ترجمہ) ۳.تجھے وہ لوگ مدد دیں گے جن کو ہم آسمان سے وحی کریں گے.۴.اس نے نجات پائی جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا اور وہ نامراد ہوا جس نے اس کو گاڑ دیا.۵.اور ہم کسی بستی پر عذاب نہیں لاتے جب تک کہ اس میں رسول نہ بھیج لیں.(بدر مورخہ ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۳ (ترجمہ از ناشر) میری صحت بحال کردی گئی.۴ (ترجمہ) ۴.اور ہم میں سے ہر ایک کے واسطے ایک مقام معلوم ہے.(بدر مورخہ ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۵ (ترجمہ از ناشر) ۱.اسے دنیاوی زندگی نے بہکا دیا.۲.بعض قوموں کوہم فائدہ پہنچائیں گے.۶ (ترجمہ) ۱.تجھے وہ لوگ مدد دیں گے جن کو ہم آسمان سے وحی کریں گے.(بدر مورخہ ۱۷؍اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۷ (ترجمہ از ناشر) ۲.بھول جانے والے الہام کا خلاصہ.۸ (ترجمہ) ۳.اے ساقی عید کا آنا تجھے مبارک ہو.(بدر مورخہ ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴)
۱۶؍ اکتوبر۱۹۰۷ء ’’ ۱.اِنِّیْ اَنَـا الرَّحْـمٰنُ.۲.لَا یُـخْزٰی عَبْدِ یْ وَ لَا یُـھَانُ.۳.عِشْقُکَ قَائِمٌ وَّ وَصْلُکَ دَآئِمٌ.‘‘۱؎ (بدر جلد ۶ نمبر ۴۲ مورخہ ۱۷؍اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۷ مورخہ ۱۷؍ اکتوبر۱۹۰۷ء صفحہ ۵) ۱۷؍ اکتوبر۱۹۰۷ء ’’ الہام.۱.اِنَّـا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ حَلِیْمٍ.۲.یَنْزِلُ مَنْزِلَ الْمُبَارَکِ.‘‘۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۳) ۲۰؍ اکتوبر۱۹۰۷ء ’’ ۱.اِنِّیْ مَوْجُوْدٌ فَانْتَظِرْ۳؎.۲.اِنِّیْ اَنَـا الْمَوْجُوْدُ فَاطْلُبْنِیْ تَـجِدْ.نِیْ۴؎.۳.لَا تُـھَدُّ۵؎ بِنَآؤُکَ وَ تُـؤْتٰی مِنْ رَّبٍّ کَرِیْمٍ۶؎.۴.وَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِیْ اَنْقَضَ ظَھْرَکَ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ.‘‘۷؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۳، ۱۴) ۲۱؍ اکتوبر۱۹۰۷ء ’’۱.مَنْ۸؎ عَادَا وَ لِیًّالِّیْ فَکَاَ نَّـمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ.۲.اِنِّیْ مَوْجُوْدٌ فَانْتَظِرْ.‘‘۹؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۳) ۱ (ترجمہ از مرتّب) ۱.مَیں ہی رحمٰن ہوں.۲.میرا بندہ رُسوانہیں کیا جاتا اورنہ اسے ذلیل کیا جاتا ہے.۳.تیرا عِشق قائم ہے اور تیرا تعلق ہمیشہ رہنے والا ہے.۲ (ترجمہ) ۱.ہم تجھے ایک حلیم لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں.۲.وہ مبارک احمد کی شبیہ ہوگا.(بدر مورخہ ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۳ (ترجمہ) ۱.میں موجود ہوں انتظار کر.(بدر مورخہ ۲۴؍اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۴ (ترجمہ از ناشر) ۲.میں موجود ہوں مجھے تلاش کر تو مجھے پا لے گا.۵ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۲۴؍اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ اور بدر مورخہ ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴ میں یہاں ’’لَا تُـھَدُّ‘‘ کی بجائے ’’لَا یُـھَدُّ‘‘ تحریر ہے نیز الہام نمبر ۳ و ۴ کی تاریخ نزول ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۰۷ء درج ہے.۶ (ترجمہ) تیری بنا توڑی نہ جائے گی اور تو ربّ کریم سے دیا جائے گا.(بدر مورخہ ۲۴؍اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۷ (ترجمہ از مرتّب) ۴.ہم نے تجھ سے تیرا بوجھ اُتار دیا جس نے تیری پیٹھ توڑ دی تھی اور تیرے ذکر کو بلند کردیا.۸ (ترجمہ).۱.جس نے میرے ولی کے ساتھ دشمنی کی گویا آسمان سے گرا.۲.میں موجود ہوں انتظار کر.(بدر مورخہ ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۹ (نوٹ از ناشر) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.’’اِنِّیْ مَوْجُوْدٌ کا الہام اُن لوگوں کے جواب میں معلوم ہوتا ہے جو خدا کے مُرسل کے مقابل پر ایسی شوخی اور تکذیب سے پیش آتے ہیں کہ گویا خیال کرتے ہیں کہ خدا موجود نہیں.
۲۷؍ اکتوبر۱۹۰۷ء ’’ ۱.آپ کے لڑکا پیدا ہوا۱؎.۲.وَ اِمَّا تَـرَیَنَّ اَحَدًا مِّنْھُمْ.‘‘۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۴) اکتوبر۱۹۰۷ء (الف) ’’ اُرِیْکَ مَا اُرِیْکَ وَ مِنْ عَجَآئِبِ مَا یُـرْضِیْکَ.رُدَّ اِلَیْھَا رَوْحُھَا وَ رَیْـحَانُـھَا.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّـحْسِنُوْنَ.۳؎ فرمایا.بعض متوحش خوابیں بھی ہیں جیساکہ بعض کو قبرستان میں دفن کیا.ایک گوسپند مسلوخ دیکھا.معلوم نہیں اس کی حقیقت کیا ہے اور کون سا محل ہے.‘‘ ( بدر جلد۶ نمبر ۴۴مورخہ ۳۱؍ اکتوبر۱۹۰۷ء صفحہ ۴.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۹ مورخہ ۳۱؍ اکتوبر۱۹۰۷ء صفحہ ۱) (ب) ’’یہ بھی دیکھا کہ گھر میں ہمارے ایک بکرا ذبح کیا ہوا کھال اُتاری ہوئی ایک جگہ لٹک رہا ہے.پھر دیکھا کہ ایک ران لٹک رہی ہے.یہ سب بعض موتوں کی طرف اشارات ہیں.‘‘ ( مکتوب بنام نواب محمد علی خان صاحبؓ.مکتوباتِ احمد جلد دوم صفحہ ۳۱۸ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۹۰۷ء (الف) ’’وَ یَنْصُـرُکَ رِجَالٌ نُّوْحِیْ اِلَیْـھِمْ مِّنَ السَّمَآءِ.یَـاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ.یعنی تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم الہام کریں گے.وہ دُور دراز جگہوں سے تیرے پاس آویں گے.بقیہ حاشیہ.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں موجود ہوں.معلوم ہوتا ہے کہ آسمان پر کچھ ہورہا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ کس قدر بے جا حملے اور حد سے زیادہ زبان درازیاں ہورہی ہیں.‘‘ (بدر مورخہ ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۱ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴ اور الحکم مورخہ ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ میں اس کی وضاحت میں لکھا ہے.’’ یعنی آئندہ کسی وقت لڑکا پیدا ہوگا.‘‘ ۲ (ترجمہ ) ۲.اور اگر مخالفین یا معترضین میں سے تیرے پاس کوئی آوے ( تَـرَیَـنَّ کے اِس جگہ یہی معنے ہیں).(بدر مورخہ ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۳ (ترجمہ) مَیں تجھے دکھاؤں گا جو کچھ دکھاؤں گا اور نیز وہ باتیں دکھاؤں گا جن سے تو خوش ہوگا.یعنی تمہاری بیوی کی طرف تازگی اور تازہ زندگی واپس کی گئی.تحقیق اللہ اُن لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور نیکی کرتے ہیں.(بدر مورخہ ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴)
اِس جگہ استعارہ کے رنگ میں خدا تعالیٰ نے مجھے بیت اللہ سے مشابہت دی کیونکہ آیت یَـاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ خانہ کعبہ کے حق میں ہے.‘‘ (اشتہار ۵؍ نومبر ۱۹۰۷ء زیر عنوان ’’تبصرہ‘‘ مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۴۶۵ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) (ب) اور پھر فرمایا.’’تیرے مخالفوں کا اخزاء اور افناء تیرے ہی ہاتھ سے مقدر تھا یعنی جو لوگ تجھے رسوا اور ہلاک کرنا چاہتے ہیں وہ آپ ہی رسوا اور ہلاک ہوں گے.‘‘ ( اشتہار ۵؍ نومبر ۱۹۰۷ء مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۴۶۵ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) (ج) ’’اور پھر فرمایا.اِنِّیْ اَنَـا رَبُّکَ الرَّحْـمٰنُ ذُوالْعِزِّ وَ السُّلْطَانِ.مَنْ عَادٰی وَ لِیًّالِّیْ فَکَاَنَّـمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ.اِنِّیْ مَوْجُوْدٌ فَانْتَظِرْ.سَیَنَالُھُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّـھِمْ.وَ مَا کُنَّا مُعَذِّ بِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا.قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکَّاھَا وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاھَا.قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ لَکُمْ فَافْعَلُوْا مَاتُؤْمَرُوْنَ.اَلْیَوْمَ یَـوْمُ الْبَرَکَاتِ.یَا عَبْدَ اللّٰہِ اِنِّیْ مَعَکَ.وَ الضُّحٰی وَ الَّیْلِ اِذَا سَـجٰی مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَ مَا قَلٰی.یعنی مَیں رحمٰن ہوں صاحب عزت اور سلطنت.جو میرے ولی سے دشمنی کرے گویا وہ آسمان سے گرگیا.مَیں موجود ہوں پس میرے فیصلہ کا تو منتظر رہ.جو لوگ عداوت سے باز نہیں آتے عنقریب ان پر غضب ِ الٰہی نازل ہوگا.ہم عذاب نازل نہیں کرتے مگر اس حالت میں کہ جب پہلے رسول آجاوے.یعنی دُنیا پر عذاب ِ شدید نازل ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ رسول آگیا ہے اور پھر فرمایا کہ عذاب سے وہ لوگ نجات پائیں گے جنہوں نے دلوں کو پاک کیا اور وہ لوگ سزا پائیں گے جنہوں نے اپنے نفسوں کو گندہ کیا… ان کو کہہ دے کہ مَیں تمہارے لئے مامور ہوکر آیا ہوں.پس وہی کرو جو مَیں حکم کرتا ہوں.یہ برکت کے دن ہیں ان کا قدرکرو.اے خدا کے بندے مَیں تیرے ساتھ ہوں.مجھے روزِ روشن کی قسم ہے اور اس رات کی جو تاریک ہو.جوتیرے رَبّ نے تجھے دشمن نہیں پکڑا.‘‘ ( اشتہار مورخہ ۵؍ نومبر ۱۹۰۷ء مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۴۶۵ ، ۴۶۶ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) (د) اور پھر فرمایا.’’ مَیں تیری نسل کو جڑ سے معدوم نہیں کروں گا بلکہ جو کچھ کھویا گیا وہ تجھے
خدائے کریم واپس دے گا.‘‘ ( اشتہار ۵؍ نومبر ۱۹۰۷ء مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۴۶۶ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) (ھ) ’’اور پھر اُردو میں فرمایا کہ.’’ہر ایک حال میں تمہارے ساتھ موافق ہوں اور تیرے منشاء کے مطابق.‘‘ ( اشتہار ۵؍ نومبر ۱۹۰۷ء مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۴۶۶ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) (و) ’’اور پھر فرمایا.لَکُمُ الْبُشْرٰی فِی الْـحَیٰوۃِ الدُّنْیَا.خیر و نصرت و فتح انشاء اللہ تعالیٰ.وَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِیْ اَنْقَضَ ظَھَرَکَ وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکَ.اِنِّیْ مَعَکَ ذَکَرْتُکَ فَاذْکُرْنِیْ.وَسِّعْ مَکَانَکَ.حَانَ اَنْ تُعَانَ وَتُرْفَعَ بَیْنَ النَّاسِ.اِنِّیْ مَعَکَ یَـا اِبْـرَاھِیْمُ.اِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ.اِنَّکَ مَعِیْ وَ اَھْلُکَ.اِنِّیْ اَنَـا الرَّحْـمٰنُ فَانْتَظِرْ.قُلْ یَـاْخُذُ کَ اللّٰہُ.یعنی تمہارے لئے دُنیا اور آخرت میں بشارت ہے.تیرا انجام نیک ہے.خیر ہے اور نصرت اور فتح انشاء اللہ تعالیٰ.ہم تیرا بوجھ اُتار دیں گے جس نے تیری کمر توڑ دی اور تیرے ذکر کو اُونچا کردیں گے.مَیں تیرے ساتھ ہوں.مَیں نے تجھے یاد کیا ہے سو تو مجھے بھی یاد کر اور اپنے مکان کو وسیع کردے.وہ وقت آتا ہے کہ تو مدد دیا جاوے گا اور لوگوں میں تیرا نام عزت اور بلندی سے لیا جائے گا.مَیں تیرے ساتھ ہوں اے ابراہیم.مَیں تیرے ساتھ ہوں اور ایسا ہی تیرے اہل کے ساتھ.اور تومیرے ساتھ ہے اور ایسا ہی تیرے اہل.مَیں رحمٰن ہوں میری مدد کا منتظر رہ اور اپنے دشمن کو کہہ دے کہ خدا تجھ سے مواخذہ لے گا.اور پھر آخر میں اُردو میں فرمایا کہ مَیں تیری عمر کو بھی بڑھا دوں گا۱؎ ۱ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) یہ پیشگوئی ڈاکٹر عبدالحکیم خان مرتد کی پیشگوئی کے مقابل پر ہے جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے متعلق کی تھی اور حضور ؑ کی یہ پیشگوئی اس طور پر پوری ہوئی کہ جب تک ڈاکٹر عبدالحکیم خان نے اپنی پیشگوئی کو جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کی ایک میعاد بیان کی تھی، منسوخ نہ کردیا اُس وقت تک اللہ تعالیٰ آپ کی عمر کو بڑھاتا گیا اور جب اُس نے ایک معین دن کے ساتھ اپنی پیشگوئی کو وابستہ کردیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے دوسرے رنگ میں جھوٹا ثابت کیا.تفصیل اس کی یہ ہے کہ پہلے اس نے ۱۲ ؍ جولائی ۱۹۰۶ء کو
یعنی دشمن جو کہتا ہے کہ صرف جولائی ۱۹۰۷ء سے (لے کر) ۱۴ مہینے تک تیری عمر کے دن رہ گئے ہیں یا ایسا ہی جو دوسرے دشمن پیشگوئی کرتے ہیں ان سب کو مَیں جھوٹاکروں گا اور تیری عمر کو بڑھادوں گا تا معلوم ہو کہ مَیں بقیہ حاشیہ.یہ پیشگوئی شائع کی کہ ’’مرزا مُسرِف ہے، کذاب ہے اور عیّار ہے.صادق کے سامنے شریر فنا ہوجائے گا اور اس کی میعاد تین سال بتلائی گئی ہے.‘‘ (کانا دجّال صفحہ ۵۰) اس کے جواب میں حضرت اقدس ؑ پر بذریعہ وحی یہ دعا نازل ہوئی.رَبِّ فَرِّقْ بَیْنَ صَادِقٍ وَّ کَاذِبٍ اس کے بعد یکم جولائی ۱۹۰۷ء کو اُس نے لکھا.’’اللہ نے اِس (مرزا) کی شوخیوں اور نافرمانیوں کی سزا میں سہ سالہ میعاد میں سے جو ۱۱؍ جولائی ۱۹۰۹ء کو پوری ہونی تھی دس ۱۰ مہینے اور گیارہ دن کم کردیئے اورمجھے یکم؍ جولائی ۱۹۰۷ء کو الہاماً فرمایا کہ مرزا آج سے چودہ ماہ تک بسزائے موت ہاویہ میں گرایا جائے گا.‘‘ (اعلان الحق و اتمام الحجۃ و تکملہ صفحہ ۶مؤلفہ مرتد مذکور) اِس کے مقابل پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اشتہار ۵؍ نومبر ۱۹۰۷ء (مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۴۶۷ مطبوعہ ۲۰۱۸ء) میں اس کے متعلق مذکورہ بالا وحی الٰہی یعنی ’’ مَیں تیری عمر کو بھی بڑھادوں گا.‘‘ شائع فرمائی.اس کے بعد مرتد مذکور نے ۱۶ ؍ فروری کو یہ اعلان کیا کہ.’’مرزا ۲۱؍ ساون (مطابق ۴؍ اگست ۱۹۰۸ء)تک ہلاک ہوجائے گا.‘‘ (دیکھیے اعلان الحق و اتمام الـحجۃ صفحہ ۲۶) اِس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کے متعلق فرمایا کہ.’’خدا نے اُس کی پیشگوئی کے مقابل پر مجھے خبر دی کہ وہ خود عذاب میں مبتلا کیا جائے گااور خدا اُس کو ہلاک کرے گا اور مَیں اُس کے شر سے محفوظ رہوں گا.‘‘ (چشمہ ء ِ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۳۳۷) اِس کے بعد مرتد مذکور نے ۸؍ مئی ۱۹۰۸ء کے خط کے ذریعہ سے اخبارات میں اعلان کیا کہ.’’مرزا ۲۱ ساون (۴؍ اگست ۱۹۰۸ء) کو مرضِ مہلک میں مبتلا ہوکر ہلاک ہوجائے گا.‘‘ (پیسہ اخبار مورخہ ۱۵؍ مئی ۱۹۰۸ء و اہلحدیث ۱۵؍ مئی ۱۹۰۸ء) اِس کے جواب میں حضور ؑ نے فرمایا.’’اللہ تعالیٰ ظاہر کردے گا کہ راستباز کون ہے.‘‘ ( بدر جلد۷نمبر ۱۹ ،۲۰مورخہ ۲۴؍ مئی۱۹۰۸ء صفحہ ۷) سو اللہ تعالیٰ نے مرتد مذکور کی پہلی تینوں پیشگوئیوں کی منسوخی کا اعلان خود اس کے قلم سے کرواکر اس کی آخری پیشگوئی کو جھوٹا
خدا ہوں، اور ہر ایک امر میرے اختیار میں ہے… اِس پیشگوئی کے ساتھ یہ پیشگوئی بھی ہے ایک سخت طاعون اِس ملک میں اور دوسرے ممالک میں بھی آنے والی ہے جس کی نظیر پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی.وہ لوگوں کو دیوانہ کی طرح کردے گی.معلوم نہیں کہ اِس سال یا آئندہ سال میں ظاہر ہوگی.مگر خدا مجھے مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ مَیں تجھے اور تمام اُن لوگوں کو جو تیری چار دیواری کے اند ر ہیں بچاؤں گا.گویا اس دن یہ گھر نوح کی کشتی ہوگا جو شخص اس گھر میں داخل ہوجائے گا وہ بچایا جائے گا.‘‘ ( اشتہار ۵؍ نومبر ۱۹۰۷ء.مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۴۶۶، ۴۶۷مطبوعہ ۲۰۱۸ء) ۲؍ نومبر۱۹۰۷ء ’’ اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ النَّجْمِ الثَّاقِبِ.‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۸) ۵؍ نومبر۱۹۰۷ء ’’ ۱.سَاَھَبُ۲؎ لَکَ غُلَامًا زَکِیًّا.۲.رَبِّ ھَبْ لِیْ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً.۳.اِنَّـا نُبَشِّـرُکَ بِغُلَامِ سْـمُہٗ یَـحْیٰ.۴.اَخَذَ ھُمُ اللّٰہُ.بَقِیَ وَحْدَ ہٗ لَا شَـرِیْکَ مَعَہٗ.۵.قُلْ جَآءَ الْـحَقُّ وَ زَھَقَ بقیہ حاشیہ.ثابت کردیااور وہ اِس طرح پر کہ حضور کی وفات ۴؍ اگست ۱۹۰۸ء کو نہیں بلکہ ۲۶؍ مئی ۱۹۰۸ء کو ہوئی.صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَ کَانَ اَمْرُ اللّٰہِ مَفْعُوْلًا.اور مرتد ڈاکٹر پر اس کی تمام پیشگوئیاں اُلٹ پڑیں.اُسے ۳۰؍ اکتوبر ۱۹۰۶ء کو الہام ہوا تھا کہ ’’مرزا پھیپھڑے کے مرض سے ہلاک ہوگیا‘‘ مگر وہ خود پھیپھڑے کے مرض سے ہلاک ہوا.اُس نے پیشگوئی کی تھی کی ’’مرزا کی جڑ بنیاد اُکھڑ جائے گی.‘‘ (اعلان الحق صفحہ ۷) اور اپنے متعلق لکھا تھا.'You will succeed' یعنی تم کامیاب ہوجاؤ گے (اعلان الحق صفحہ ۷) سو اس کی اپنی جڑ بنیاد اُکھڑ گئی اور ایسی اُکھڑی کہ نام و نشان تک مِٹ گیا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کام میں اللہ تعالیٰ نے اِس قدر برکت دی کہ آج رُوئے زمین کا کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں آپ کے شیدائی نہ پائے جاتے ہوں.فَالْـحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِک.۱ (ترجمہ) تو مجھ سے بمنزلہ اس ستارے کے ہے جو قوت اور روشنی کے ساتھ شیطان پر حملہ کرتا ہے.(بدر مورخہ ۱۲؍ دسمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۳) ۲ (ترجمہ) ۱.مَیں ایک پاک اور پاکیزہ لڑکے کی خوش خبری دیتا ہوں.۲.اے میرے خدا پاک اولاد مجھے بخش.۳.مَیں تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتا ہوں جس کا نام یحییٰ ہے (معلوم ہوتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ زندہ رہنے والا) ۴.خدا ان کو پکڑے گا اور یہ خدا کا بندہ اکیلا رہے گا اس کے ساتھ کوئی شریک نہ ہوگا.۵.حق آگیا اور باطل
الْبَاطِلُ.۶.مَوْتٌ قَرِیْبٌ.۷.اِنَّ اللّٰہَ یَـحْمِلُ کُلَّ حِـمْلٍ.۸.مَنْ خَدَ مَکَ خَدَ مَ النَّاسَ کُلَّھُمْ.وَ مَنْ اٰذَاکَ اٰذَی النَّاسَ جَـمِیْعًا.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۱۶) ۷؍ نومبر۱۹۰۷ء ’’ ۱.اَ لَمْ۱؎ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِـاَصْـحَابِ الْفِیْلِ.۲.آمدنِ عید مبارک بادت۲؎.۳.عید تو ہے چاہے کرو یا نہ کرو.‘‘۳؎ بقیہ ترجمہ.بھاگ گیا.یعنی باطل بھاگ جائے گا.۶.ایک شخص کی موت قریب ہے.۷.خدا ہر ایک بوجھ کو آپ اُٹھائے گا(اس کے معنی اَب تک معلوم نہیں ہوئے.آئندہ خدا قادر ہے کہ تفصیل ظاہر کردے) ۸.جو شخص تیری خدمت کرتا ہے اس نے ایسا کام کیا کہ گویا سارے جہان کی خدمت کی اور جو شخص تجھے دُکھ دیتا ہے اُس نے ایسا کام کیا کہ گویا ساری دُنیا کو دکھ دیا.(بدر مورخہ ۱۰؍نومبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۲) ۱ (ترجمہ) ۱.تو دیکھے گا کہ تیرا رَبّ اُن مخالفوں سے کیا کرے گا جو تیرے معدوم کرنے کے لئے حملے کرتے ہیں.(بدر مورخہ ۱۰؍نومبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۲) ۲ (ترجمہ از مرتّب) عید کا آنا تیرے لئے مبارک ہو.۳ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک خطبہ عید الفطر کے دَوران میں اِس الہام کی تفسیر و تشریح فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا.’’ایک تو اِس الہام کے وقتی معنی تھے کہ اُس دن شبہ تھا آیا عید ہے یا نہیں.اللہ تعالیٰ نے اس شبہ کو دُور فرما دیا اور بتایا ’’عید تو ہے چاہے کرو یا نہ کرو.‘‘ لیکن میرے نزدیک اِس وحی کا صرف یہی مفہوم نہیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ’’چاہے کرو یا نہ کرو.‘‘ اور جس کام کے متعلق خود اللہ تعالیٰ فرمائے ’’چاہے کرو یا نہ کرو‘‘ صرف اس کے لئے خصوصیت سے الہام کرنا کوئی وجہ نہیں رکھتا.میرے نزدیک علاوہ اِس مفہوم کے ایک اَور لطیف نکتہ بھی اِس میں بیان فرمایا گیا ہے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کی طرف اشارہ ہے.انبیاء کی بعثت بھی ایک عید ہوا کرتی ہے.یعنی ان کی بعثت سے اللہ تعالیٰ کے فضل پھر دنیا پر نازل ہوتے ہیں اور دنیا میں ترقیات کا بیج ان کے ذریعہ بویا جاتا ہے.وہ ایک ایسا بیج ہوتے ہیں جو آہستہ آہستہ ترقی کرکے ایک اِتنا بڑا درخت بن جاتا ہے جس کے پھلوں اور سایہ سے اہل ِ دنیا مستفید ہوتے ہیں لیکن اکثر لوگوں کو وہ عید نظر نہیں آیا کرتی.لوگ عام طور پر اس سے منہ پھیر لیتے ہیں…یہ فقرہ کہ ’’عید تو ہے چاہے کرو یا نہ کرو‘‘ اس میں اس عید کی طرف اشارہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کی عید ہے، اور ا س کا یہ مطلب نہیں کہ چاہے یہ کرو یا نہ کرو ایک ہی بات ہے بلکہ یہ اسی طرح کہا گیا ہے جیسے کہتے ہیں
اِس کے بعد ایک اَور الہام ہے جس کے اظہار کی اجازت نہیں شاید بعد میں اجاز ت ہوجائے.اس کا پہلا فقرہ یہ ہے.’’دیکھ مَیں ایک نہایت چھپی ہوئی بات پیش کرتا ہوں.‘‘ ( بدر جلد۶ نمبر ۴۶مورخہ ۱۰؍ نومبر۱۹۰۷ء صفحہ ۲) (اسی الہام کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہ کو اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں) ’’نہایت خوفناک امر جو ہر وقت دل کو غمناک کرتا رہتا ہے ایک پیشگوئی ہے جو چند دفعہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوچکی ہے.مَیں نے بجز گھر کے لوگوں کے کسی پر اس کو ظاہر نہیں کیا.اس پیشگوئی کے ایک حصّہ کا حادثہ ہم میں اور آپ میں مشترک ہے.بہت دُعا کرتا ہوں کہ خدا اس کو ٹال دے اور دوسرے حصّہ کا حادثہ خاص ہم سے اور ہمارے گھر کے کسی شخص سے متعلق ہے.‘‘ ( مکتوب بنام نواب محمد علی خان صاحبؓ.مکتوباتِ احمد جلد ۲ صفحہ ۳۱۸ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۰؍ نومبر۱۹۰۷ء ه’’ ایک وَبا پڑے گی.(فرمایا) معلوم نہیں یہ کس قسم کی وَبا ہوگی.‘‘ ( بدر جلد۶ نمبر ۴۶مورخہ ۱۰؍ نومبر۱۹۰۷ء صفحہ ۲.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۴۰ مورخہ ۱۰؍ نومبر۱۹۰۷ء صفحہ ۲) نومبر۱۹۰۷ء ’’ ۱.قَذَ فَ فِیْ قُلُوْ بِـھِمُ الرُّعْبَ.۲.وَعْدٌ غَیْرُ مَکْذُ وْبٍ.‘‘۱؎ ( بدر جلد۶ نمبر ۴۷مورخہ ۲۱؍ نومبر۱۹۰۷ء صفحہ۴.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۴۲ مورخہ ۲۴؍ نومبر۱۹۰۷ء صفحہ ۳) نومبر۱۹۰۷ء ’’ ۱.اِنِّیْ۲؎ مَعَکَ ذَکَرْتُکَ فَاذْکُرْنِیْ.۲.وَسِّعْ مَکَانَکَ.۳.حَانَ اَنْ تُعَانَ وَ تُرْفَعَ بقیہ حاشیہ.’’ہے تو سچا چاہے مانو یا نہ مانو‘‘.یعنی اس سے فائدہ اُٹھانا نہ اُٹھانا تمہارا کام ہے ہم نے چیز مہیا کردی ہے…اِس الہام میں اللہ تعالیٰ نے علم النفس کا ایک عجیب نکتہ بیان فرمایا ہے یعنی عید کرنا یا نہ کرنا انسان کے اندر کے احساسات پر منحصر ہے‘ صرف سامان کا موجود ہونا عید منانے کے لئے کافی نہیں ہوتا بلکہ ان کا اختیار کرنا بھی ضروری ہوتا ہے.‘‘ ( الفضل مورخہ ۱۹؍ مارچ۱۹۲۹ء صفحہ۵.خطبہ عید الفطر فرمودہ ۱۳؍ مارچ۱۹۲۹ء) ۱ (ترجمہ) ۱.خدا تعالیٰ نے اُن کے دلوں میں رُعب ڈال دیا.۲.یہ ایسا وعدہ ہے جو جھوٹا نہ ہوگا.یعنی ضرور پورا ہو کر رہے گا.(بدر مورخہ ۲۱؍نومبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۲ (ترجمہ) ۱.مَیں تیرے ساتھ ہوں.مَیں نے تجھے یاد کیا ہے سو تو مجھے بھی یاد کر.۲.اور اپنے مکان کو وسیع کردے.۳.وہ وقت آتا ہے کہ تو مدد دیا جاوے گا اور لوگوں میں تیرا نام عزت اور بلندی سے
بَیْنَ النَّاسِ.۴.اِنِّیْ مَعَکَ یَـا اِبْرَاھِیْمُ.۵.اِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ.۶.اِنَّکَ مَعِیْ وَ اَھْلُکَ.۷.قُلْ یَـاْخُذُ کَ اللّٰہُ.۸.اِنِّیْ اَنَـا الرَّحْـمٰنُ فَانْتَظِرْ.۹.میں نے تیری عمر کو بھی بڑھا دیا ہے.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۵) ۱۳؍ نومبر۱۹۰۷ء ’’۱.عَسٰی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَعَسٰی اَنْ تُـحِبُّوْا شَیْئًا وَّھُوَ شَـرٌّ لَّکُمْ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ.۲.سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ.۳.اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیءٍ قَدِیْرٌ.۴.اِعْدِ لُوْا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی.‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۷) ۲۱؍ نومبر۱۹۰۷ء ’’ الہام.۱.دَخَلْتُمُ الْـجَنَّۃَ وَمَا عَلِمْتُمْ مَا الْـجَنَّۃُ.ذَالِکَ الْیَوْمُ الْاٰخِرُ۲؎.۲.بلاء ِ ناگہانی.۳.یا ربّ فتح.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۷) ۲۶؍ نومبر۱۹۰۷ء ’’۱.بلاء ِ ناگہانی.۲.ایک عربی لفظ نَـجْرٰی الہام ہوا جس کے معنی ہیں تو اُن کی چیخیں سنے گا.۳.یا اللہ فتح.‘‘ (الحکم جلد ۱۱ نمبر ۴۳ مورخہ ۳۰؍ نومبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۱.بدر جلد۶ نمبر ۴۸مورخہ ۲۸؍ نومبر۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۲۹؍ نومبر۱۹۰۷ء ’’ اِنَّـمَا صَنَعُوْا کَیْدُ سَاحِرٍ.وَلَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اَتٰی.۳؎ (فرمایا) اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی قوم یا گروہ اپنے دقیق مَکر سے مَیدانِ مقابلہ میں سلسلہ کی عظمت بقیہ ترجمہ.لیا جائے گا.۴.مَیں تیرے ساتھ ہوں اے ابراہیم.۵.مَیں تیرے ساتھ ہوں اور ایسا ہی تیرے اہل کے ساتھ.۶.اور تومیرے ساتھ ہے اور ایسا ہی تیرے اہل.۷.اور اپنے دشمن کو کہہ دے کہ خدا تجھ سے مواخذہ لے گا.۸.مَیں رحمٰن ہوں میری مدد کا منتظر رہ.(الحکم مورخہ ۱۰؍ نومبر۱۹۰۷ء صفحہ ۶) ۱ (ترجمہ از ناشر) ۱.بعید نہیں کہ تم ایک چیز ناپسند کرو اور وہ تمہارے لئے بہتر ہو.اور ممکن ہے کہ ایک چیز تم پسند کرو لیکن وہ تمہارے لئے شرانگیز ہو.اور اللہ سب سے زیادہ جانتا ہے جبکہ تم نہیں جانتے.۲.سلام کہا جائے گا ربّ رحیم کی طرف سے.۳.یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے.۴.انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے.۲ (ترجمہ از مرتّب) ۱.تم داخل ہوگے بہشت میں اور تم جانتے ہو کہ کیا چیز ہے بہشت، یہ آخری دن ہے.۳ (ترجمہ از مرتّب) تحقیق جو کچھ انہوں نے بنایا ہے ایک دھوکے کا منصوبہ ہے اور دھوکہ باز کامیاب نہیں ہوسکتا جس راہ سے بھی وہ آئے.
کو مٹانا چاہتی ہے مگر خدا تعالیٰ اسے بامراد نہیں کرے گا بلکہ حق کی عظمت ظاہر ہوگی.‘‘ ( الحکم جلد ۱۱ نمبر ۴۳ مورخہ ۳۰؍ نومبر۱۹۰۷ء صفحہ ۱۱) ۲؍ دسمبر۱۹۰۷ء (الف) ’’ الہام.۱.اِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ.۲.اَحْـمِلُ اَوْزَارَکَ۱؎.۳.مَیں تیرے ساتھ اور تیرے تمام پیاروں کے ساتھ ہوں.۴.اِنَّ اللّٰہَ یَـحْمِلُ کُلَّ حِـمْلٍ.‘‘۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۸) (ب) ’’ جب مَیں مضمو۳؎نختم کرچکا تو ساتھ ہی مجھ کو یہ الہام خدا کی طرف سے ہوا تھا.اِنَّـھُمْ مَّا صَنَعُوْا ھُوَ کَیْدُ سَاحِرٍ وَ لَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اَتٰی.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ النَّجْمِ الثَّاقِبِ.(ترجمہ) آریہ لوگوں نے جو یہ جلسہ تجویز کیا ہے یہ مکّار لوگوں کی طرح ایک مکر ہے اور اس کے نیچے ایک شرارت اور بَد نیتی مخفی ہے مگر فریب کرنے والا میرے ہاتھ سے کہاں بھاگے گا.جہاں جائے گا مَیں اس کو پکڑوں گا اور میرے ہاتھ سے چھٹکارا نہیں پائے گا.تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ وہ ستارہ جو شیطان پر گِرتا ہے.‘‘ (اشتہار ۱۵؍ مئی ۱۹۰۸ء بعنوان باعث تالیف کتاب ہٰذا مندرجہ چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۷) (ج) ’’ اِنَّـھُمْ مَّا صَنَعُوْا ھُوَ کَیْدُ سَاحِرٍ وَ لَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اَتٰی.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ رُوْحِیْ.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ النَّجْمِ الثَّاقِبِ.جَآءَ الْـحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ.‘‘۴؎ ( ضمیمہ چشمہ ء ِ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۴۳۶) ۱ (ترجمہ) ۱.مَیں تیرے ساتھ اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں.۲.مَیں تیرے بوجھ اُٹھائوں گا.(بدر مورخہ ۱۹؍ نومبر۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۲ (ترجمہ) ۴.خدا ہر ایک بوجھ کو آپ اُٹھائے گا.(بدر مورخہ ۱۰؍ نومبر۱۹۰۷ء صفحہ ۲) ۳ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) یعنی وہ مضمون جو قادیان میں آریوں کے مذہبی جلسہ میں سنا نے کے لئے لکھا گیا تھا اور یہ مضمون چشمہ ٔ معرفت کے آخر میں بطور ضمیمہ شامل ہے.۴ (ترجمہ) جو کچھ انہوں نے بنایا ہے وہ ساحر کی تدبیر ہے اور ساحر کسی راہ سے آئے وہ کامیاب نہیں ہوگا.تو مجھ سے بمنزلہ میری رُوح کے ہے.تو مجھ سے بمنزلہ اُس ستارے کے ہے جو قوت اور روشنی کے ساتھ شیطان پر حملہ کرتا ہے.حق آگیا اور باطل بھاگ گیا.( بدر ۱۲؍دسمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۳) (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یہ الہامات اُس لیکچر کی تصنیف کے وقت ہوئے جو ۳؍ دسمبر ۱۹۰۷ء کو لاہور میں پڑھا گیا.
۴؍ دسمبر۱۹۰۷ء ’’ ۱.اِنِّیْ مَعَکَ یَا مَسْـرُوْرُ.۲.وَقَعَ وَاقِعٌ وَّ ھَلَکَ ھَالِکٌ.۳.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَتِیْ.۴.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ رُوْحِیْ.۵.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ وَلَدِیْ.۶.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ عَرْشِیْ.۷.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَ تَفْرِیْدِیْ.۸.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ النَّجْمِ الثَّاقِبِ.۹.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ الرُّحیٰ.۱۰.وَضَعْنَا النَّاسَ تَـحْتَ اَقْدَامِکَ.۱۱.وَ وَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِیْ اَنْقَضَ ظَھْرَکَ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ.۱۲.اِنِّیْ مَعَکَ یَا مَسْـرُوْرُ.۱۳.وَقَعَ وَاقِعٌ.وَ ھَلَکَ ھَالِکٌ.۱۴.اِنَّ اللّٰہَ یُؤَخِّرُ اَجَلًا مُسَمّٰی.۱۵.اِنَّـمَا هُمْ فِيْ شِقَاقٍ.۱۶.فَسَيَكْفِيْكَهُمُ اللّٰه.۱۷.اُجِیْبُ دَعْوَتَکَ.۱۸.سَنُرِیْـھِمْ اٰیَـاتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْ اَنْفُسِھِمْ.۱۹.اُجِیْبُ دَعْوَتَکُمَا.۲۰.اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ.۲۱.اِنِّیْ اَنَـا رَبُّکَ الْاَعْلٰی.۲۲.اِخْتَرْتُ لَکَ مَا اخْتَرْتَ.۲۳.سَاُرِیْـھِمْ اٰیَاتِیْ فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْ اَنْفُسِھِمْ.‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۱۸ تا ۲۰) دسمبر۱۹۰۷ء ’’ ۱.اِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ.اَحْـمِلُ اَوْزَارَکَ۲؎.۲.مَیں تیرے ساتھ ۱ (ترجمہ از ناشر) ۱.اے مسرور مَیں تیرے ساتھ ہوں.۲.ایک واقعہ وقوع میں آئے گا اور ایک ہلاک ہونے والا ہلاک ہوگا.۳.تو میرے نزدیک بمنزلہ میری ذات کے ہے.۴.تو مجھ سے بمنزلہ میری روح کے ہے.۵.تو مجھ سے بمنزلہ میرے بیٹے کے ہے.۶.تو مجھ سے بمنزلہ میرے عرش کے ہے.۷.تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید اور تفرید.۸.تو مجھ سے بمنزلہ اس ستارے کے ہے جو قوت اور روشنی کے ساتھ شیطان پر حملہ کرتا ہے.۹.تو مجھ سے بمنزلہ چکی کے ہے.۱۰.ہم نے لوگوں کو تیرے قدموں کے نیچے رکھ دیا.۱۱.ہم نے تجھ سے وہ بوجھ اٹھا دیا جس نے تیری پیٹھ توڑ دی تھی اور تیرے ذکر کو بلند کیا.۱۲.اے مسرور میں تیرے ساتھ ہوں.۱۳.ایک واقعہ وقوع میں آئے گا اور ایک ہلاک ہونے والا ہلاک ہوگا.۱۴.یقیناً اللہ تعالیٰ مقرر مدت کو مؤخر کردے گا.۱۵.وہ تو صرف اختلاف کا شکار ہیں.۱۶.خدا تعالیٰ (دشمنوں کے مقابل پر ) تجھے کافی ہے.۱۷.میری تیری دعا قبول کروں گا.۱۸.عنقریب ہم ان کو گردونواح میں ان کی ذات میں اپنے نشانات دکھائیں گے.۱۹.میں تم دونوں کی دعا قبول کروں گا.۲۰.یقیناً اللہ تعالیٰ ہر شے پر قادر ہے.۲۱.میں تیرا ربّ اعلیٰ ہوں.۲۲.میں نے تیرے لئے وہ امر پسند کیا جو تو پسند کرتا ہے.۲۳.عنقریب میں ان کو ان کے گردونواح میں اور ان کی ذات میں اپنے نشان دکھاؤں گا.۲ (ترجمہ) ۱.مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں.مَیں تیرے بوجھ اُٹھائوں گا.
اور تیرے تمام پیاروں کے ساتھ ہوں.۳.اِنِّیْ ۱؎مَعَکَ یَـا مَسْـرُوْرُ.۴.وَقَعَ وَاقِعٌ وَّ ھَلَکَ ھَالِکٌ.۵.وَضَعْنَا النَّاسَ تَـحْتَ اَقْدَامِکَ.۶.وَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِیْ اَنْقَضَ ظَھْرَکَ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ.۷.اُجِیْبَتْ دَعْوَتُکَ.۸.سَنُرِیْـھِمْ اٰیَـاتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْ اَنْفُسِھِمْ.۹.اُجِیْبَتْ دَعْوَتُکُمَا.۱۰.اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍقَدِ یْرٌ.۱۱.اِنِّیْ مَعَکَ یَـا اِبْرَاھِیْمُ.۱۲.اِنِّیْ اَنَـا رَبُّکَ الْاَعْلٰی.۱۳.اِخْتَرْتُ لَکَ مَا اخْتَرْتَ.۱۴.بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید۲؎.۱۵.ستائیس کو ایک واقعہ۳؎ (ہمارے متعلق) ۱ (ترجمہ) ۳.اے مسرور مَیں تیرے ساتھ ہوں.۴.ایک واقع وقوع میں آئے گا اور ہلاک ہونے والا ہلاک ہوگا.۵.ہم نے لوگوں کو تیرے قدموں کے نیچے رکھ دیا.۶.ہم نے تجھ سے وہ بوجھ اُٹھا دیا جس نے تیری پیٹھ توڑ دی تھی اور تیرے ذکر کو بلند کیا.۷.تیری دُعا قبول کی گئی.۸.عنقریب ہم ان کو نشانات دکھلائیں گے گردونواح میں اور خود اُن میں.۹.تم دونوں کی دُعا قبول کی گئی.۱۰.تحقیق اللہ تعالیٰ ہر بات پر قادر ہے.۱۱.مَیں تیرے ساتھ ہوں اے ابراہیم! ۱۲.مَیں تیرا رَبِّ اعلٰی ہوں.۱۳.مَیں نے تیرے لئے وہ امر پسند کیا جو تونے اپنے لئے پسند کیا.(بدر مورخہ ۱۹؍دسمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴، ۵) ۲ (ترجمہ از مرتّب) ۱۴.خوشی و خرمی سے چل کہ تیرا وقت قریب آگیا.۳ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مکتوب میں بھی جو نواب محمد علی خان صاحبؓ آف مالیر کوٹلہ کو بھیجا تحریر فرمایا.’’دوسرے نہایت خوفناک امر جو ہر وقت دِل کو غمناک کرتا رہتا ہے ایک پیشگوئی ہے جو چند دفعہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوچکی ہے.مَیں نے بجز گھر کے لوگوں کے کسی پر اس کو ظاہر نہیں کیا.اِس پیشگوئی کے ایک حصہ کا حادثہ ہم میں اور آپ میں مشترک ہے.بہت دُعا کرتا ہوں کہ خدا اس کو ٹال دے اور دوسرے حصہ کا حادثہ خاص ہم سے اور ہمارے گھر کے کسی شخص سے متعلق ہے.یہ بھی الہام کسی حصہ کی نسبت ہے کہ ۲۷ تاریخ کو وہ واقعہ ہوگا.نہیں معلوم کس مہینہ کی تاریخ اور کون سا سَن ہے.‘‘ (مکتوب بنام نواب محمد علی خان صاحبؓ.مکتوباتِ احمد جلد ۲ صفحہ ۳۱۸ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) واقعات نے بتادیاکہ یہ تاریخ ۲۷؍ مئی ۱۹۰۸ء کی تھی جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جنازہ قادیان میں پڑھایا گیا.
۱۶.اَللّٰہُ خَیْرٌ وَّ اَ.بْقٰی.۱۷.خوشیاں منائیں گے.۱۸.بَعْدَ سَنَۃٍ وَّاحِدَۃٍ.۱۹.صَلٰوتُکَ خَیْرٌ وَّ اَ بْقٰی۱؎.۲۰.اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ.۲۱.دَخَلْتُمُ الْـجَنَّۃَ وَمَا عَلِمْتُمْ مَا الْـجَنَّۃُ ذَالِکَ الْیَوْمُ الْاٰخِرُ.‘‘۲؎ ( بدر جلد۶ نمبر ۵۱ مورخہ ۱۹؍ دسمبر۱۹۰۷ء صفحہ ۴ ،۵.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۴۶ مورخہ ۲۴؍ دسمبر۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۱۱؍ دسمبر۱۹۰۷ء ’’ بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید.‘‘۳؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۰) ۱۵؍ دسمبر۱۹۰۷ء ’’ خوشیاں منائیں گے.بَعْدَ سَنَۃٍ وَّاحِدَۃٍ.ستائیس کو ایک واقعہ ہمارے متعلق.صَلٰوتُکَ خَیْرٌوَّاَبْقٰی.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۰) ۲۰؍ دسمبر۱۹۰۷ء (الف) ’’ آج ہماری بخت بیداری.اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَالْاَ بْتَرُ۴؎.خدا نے اُسے لیا.وَ اللہ! وَ اللہ خدا نے سیدھا کیا اَوَ لَّا.‘‘۵؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۰) (ب) ’’وقت رسید.‘‘۶؎ ( بدر جلد۶ نمبر ۵۲مورخہ ۲۶؍ دسمبر۱۹۰۷ء صفحہ۴.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۴۶ مورخہ ۲۴؍ دسمبر۱۹۰۷ء صفحہ ۴) ۱ (ترجمہ از مرتّب) ۱۶.اللہ تعالیٰ بہتر ہے اور باقی رہنے والا ہے.۱۸.ایک سال کے بعد.۱۹.تیری عبادت بہتر اور باقی رہنے والی ہے.۲ (ترجمہ) ۲۰.تیری دعا اُن کے لئے آرام کا موجب ہے.۲۱.تم داخل ہوگے بہشت میں اور تم جانتے ہو کہ کیا چیز ہے بہشت، یہ آخری دن ہے.(بدر مورخہ ۱۹؍ دسمبر۱۹۰۷ء صفحہ ۴ ،۵) ۳ (ترجمہ از مرتّب) خوشی و خرمی سے چل کہ تیرا وقت قریب آگیا.۴ (ترجمہ) تحقیق تیرا دشمن جو ہے وہی اَبتر ہے.(بدر مورخہ ۲۶؍ دسمبر۱۹۰۷ء صفحہ۴) ۵ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲۶؍ دسمبر۱۹۰۷ء صفحہ۴ اور الحکم مورخہ ۲۴؍ دسمبر۱۹۰۷ء صفحہ ۴ میں اس الہام کے الفاظ یوں درج ہیں.’’وَ اللہ! وَ اللہ! سِدّھا ہو یا اَوَ لَّا.‘‘ (یہ پنجابی فقرہ ہے جس کا مطلب یہ ہےکہ کج طبع آدمی درست ہوگیاہے.) ۶ (ترجمہ) وقت آگیا.(بدر مورخہ ۲۶؍ دسمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۴)
ایّامِ جلسہ۱۹۰۷ء ’’یَـا اَیُّـھَا۱؎ النَّبِیُّ اَطْعِمُوا الْجَآئِعَ وَالْمُعْتَرَّ.‘‘۲؎ ( بدر جلد۷ نمبر ۱ مورخہ ۹؍ جنوری۱۹۰۸ء صفحہ ۱.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱ مورخہ ۲؍ جنوری۱۹۰۸ء صفحہ ۳) ۱ (ترجمہ) یعنی اے نبی ! بھوکوں اور سوالیوں کو کھانا کھلاؤ.( بدر مورخہ ۹؍ جنوری۱۹۰۸ء صفحہ ۱) ۲ (نوٹ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ) ’’ بعض مہمانوں کو (سالانہ جلسہ ۱۹۰۷ء کے موقعہ پر.مرتّب) ایک دن کھانا بہت دیر میں ملا.روٹی کافی تیار تھی مگر جگہ تنگ تھی اور تھوڑے آدمی ایک وقت میں کھاسکتے تھے اِس واسطے بہت دیر ہوگئی اور بعض مہمان بغیر کھانا کھانے کے سونے کے کمروں میں چلے گئے …تو ان کو یہ انعام ملا کہ خود خداوند ِ عالَم نے ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور براہِ راست آسمان سے اللہ کے رسول کے پاس رات کو پیغام پہنچا کہ اَطْعِمُوا الْـجَآئِعَ وَالْمُعْتَرَّ بھوکے اور مُضطر کو کھانا کھلا.صبح سویرے حضور ؑنے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ رات بعض مہمان بھوکے رہے.اُسی وقت آپ نے ناظمانِ لنگر کو بلایا اور بہت تاکید کی کہ مہمانوں کی ہر طرح سے خاطر داری کی جاوے اور ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو.‘‘ ( بدر مورخہ ۹؍ جنوری۱۹۰۸ء صفحہ۳) حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ اسی الہام کے متعلق فرماتے ہیں.’’۲۸ ؍ دسمبر ۱۹۰۷ء کا واقعہ ہے کہ صبح کے آٹھ بجے کھانا کھانے کے بعد یہ عاجز جلسہ میں تقریروں کے سننے میں لگ گیا.اسی روز مسیحِ پاک کی تقریر بھی سنی اور خوب سیری حاصل ہوئی.نماز مغرب و عشاء ( جمع کردہ) ادا کی اور مسجد مبارک میں حسب الارشاد مجلس معتمدین صدر انجمن کے جنرل اجلاس میں شامل ہونے کی غرض سے بیٹھ گیا کہ اجلاس کے بعد کھانا کھالوں گا.اعلان کے مطابق اس میں جماعتوں کے صدر صاحبان اور سیکرٹریوں کی شمولیت ضروری تھی.میں اس وقت کمزور تھا.بھوکا تھا کہ صبح آٹھ بجے کا کھانا کھایا ہوا تھا.دن میں اور کچھ کھانے کو میسر نہ آیا تھا.بیس سالہ جوان تھا.شاید ایک آدھ کے سوا باقی تمام احباب سنتوں وغیرہ سے فارغ ہوکر مسجد سے چلے گئے تھے.اس حال کے پیش نظر نفس تقاضا کرتا تھا کہ اٹھ کر چلا جا کہ غالباً اراکین صدر انجمن احمدیہ کھانا کھانے کے لئے چلے گئے ہیں اور سب لوگ لنگر میں کھانا کھارہے ہیں تو بھی جاکر کھانا کھا کر چلا آ.لیکن غریب دل ڈرا کہ مباداغیر حاضر ہوجائوں.بیٹھا رہا.بیٹھا رہا.پورے دو گھنٹے انتظار میں گزر گئے.بھوک نے بہت ستایا.قریباً پونے نو بجے معزز اراکین صدر انجمن اور چند احباب جماعت ہائے بیرون تشریف لے آئے.اجلاس شروع ہوکر پونے بارہ بجے رات ختم ہوا.خواہش خوراک از خود ختم ہوگئی کہ بھڑک کی طاقت ہی باقی نہ رہی تھی.مسجد سے نیچے اترا اور طوعاً و کرہاً لنگر کا رخ کیا جسے بند پایا.ناچار اپنی جائے قیام پر جو بیت المال کے کمروں میں تھی واپس آکر سونے کو تھا کہ کسی نے دروازہ پر دستک دی کہ جس مہمان بھائی نے کھانا نہیں کھایا وہ لنگر خانہ میں جاکر کھانا کھالے.چنانچہ بندہ گیا اور جو کچھ ملا شکر کرکے کھا کر چلا آیا.
یکم جنوری۱۹۰۸ء ’’ دبدبۂ خسرو یم شد بلند زلزلہ در گورِ نظامی فگند۱؎ اِنِّیْ مَعَکَ اَیْنَـمَا تَذْھَبُ وَ تَسِیْرُ.‘‘۲؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۱ بدر جلد۷نمبر ۳مورخہ ۲۳؍ جنوری۱۹۰۸ء صفحہ۴.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۶ مورخہ ۲۲؍ جنوری۱۹۰۸ء صفحہ ۱۰) ۲ ؍ جنوری۱۹۰۸ء (الف) ’’۱.اِنِّیْ۳؎ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ.۲.اِنِّیْ مَعَکَ۴؎ فِیْ کُلِّ حَالٍ وَ عِنْدَ کُلِّ مَقَالٍ.۳.اِنِّیْ مَعَکَ فِیْ کُلِّ مَوْطِنٍ.۴.نَصْـرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَتْحٌ قَرِیْبٌ.۵.وَ ھُمْ مِنْۢ بَعْدِ غَلَبِـھِمْ سَیُغْلَبُوْنَ.۶.وَ اِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُ ھُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ.۵؎ بقیہ حاشیہ.اگلی صبح کے نو دس بجے میں دیکھتا ہوں کہ پیارا مسیح پاک چھوٹی مسجد کے دروازہ میں گلی رخ کھڑا ہوا ہے اور کئی ایک عشاق سامنے کھڑے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ مولوی صاحب کو بلائیں.چنانچہ حضرت مولوی نورالدین صاحب ؓ سامنے حاضر ہوئے تو فرماتے ہیں معلوم ہوتا ہے آج رات کے کھانے کا انتظام اچھا نہ تھا کہ بعض مہمان بھوکے رہ گئے.کسی کی بھوک عرش تک پہنچی ہے اور مجھے بشدت الہام کیا گیا.یَـا اَیُّـھَا النَّبِیُّ اَطْعِمُوا الْـجَآئِعَ وَالْمُعْتَرَّ.یہ الہام رات کے دس بجے کے قریب ہوا تھا جس پر حضور والا نے باہر منتظمین کو کہلا بھیجا تھا کہ جن مہمانوں کو کھانا نہیں ملا ان کو کھانا کھلایا جائے.اسی واسطے منتظمین میں سے کسی نے میرے دروازہ پر دستک دی تھی.‘‘ (اصحاب احمد جلد ۸ صفحہ ۹۱ ،۹۲ مطبوعہ دسمبر ۱۹۶۰ء) ۱ (ترجمہ از ناشر) ہماری بادشاہت کا دبدبہ بلند ہوا.نظامی کی قبر میں زلزلہ پڑا.۲ (ترجمہ) مَیں تیرے ساتھ ہوں جہاں تو جائے اور سیر کرے.(بدر مورخہ ۲۳؍ جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۴) ۳ (ترجمہ) ۱.مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں.(بدر مورخہ ۲۳؍ جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۴) ۴ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں.’’ مَیں نے خود حضرت صاحب سے سنا ہے، فرماتے تھے کہ ’’اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ‘‘ اور ’’اِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ‘‘ یہ دونوں الہام ایک ایک رات میں ہزار ہا دفعہ ہوئے ہیں اور فرمایا اکثر ایسا ہوتا ہے کہ تکیہ پر سر رکھا اور ان الہامات کا سلسلہ شروع ہوگیا اور صبح کو نماز کے لئے اُٹھے تو سلسلہ جاری تھا.‘‘ (الفضل مورخہ ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۲۱ء صفحہ ۵ زیر عنوان حضرت خلیفۃ المسیح کی ڈائری مورخہ ۲۰؍ اکتوبر ۱۹۲۱ء) ۵ (ترجمہ) ۲.مَیں تیرے ساتھ ہوں ہر حال میں اور ہر ایک گفتگو میں.۳.مَیں تیرے ساتھ ہوں ہر ایک میدان میں.۴.اللہ کی طرف سے نصرت اور فتح قریب ہے.۵.اور وہ غلبہ کے بعد عنقریب مغلوب ہوں گے.۶.اور یا تو ہم تجھے بعض وہ باتیں دکھادیں گے جو وعدہ کی گئی ہیں یا تجھے وفات دیں گے.(بدر مورخہ ۲۳؍ جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۴)
۷.لَوْ رُفِعَ الْـحِـجَابُ لَمَا ازْدَدْتُّ یَقِیْنًا.۸.صَنَعَ اللہُ صَنَائِعَ وَ اٰخِرُھَا الْاِنْسَانُ۱؎.۹.نَصَـرَکُمُ اللّٰہُ نَصْـرًا مُّؤَزَّرًا.۲؎ ۱۰.یَـااَیُّـھَا النَّبِیُّ اَطْعِمُوا الْجَآئِعَ وَالْمُعْتَرَّ.‘‘۳؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۱، ۲۲) (ب) ’’ اِنِّیْ مَعَکَ یَا اِبْرَاھِیْمُ.‘‘۴؎ ( بدر جلد۷نمبر ۳مورخہ ۲۳؍ جنوری۱۹۰۸ء صفحہ۴.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۶ مورخہ ۲۲؍ جنوری۱۹۰۸ء صفحہ ۱۰) ۵؍ جنوری۱۹۰۸ء ’’مرحوم امیر خاں کی بیوہ جس دن اُس کا خاوند فوت ہوا، مَیں نے دیکھا کہ اُس بیوہ کی پیشانی پر ۵ یا ۶ یا ۷ کا عدد لکھا ہوا ہے مَیں نے وہ مٹادیا اور اس کی جگہ اس کی پیشانی پر۶ کا عدد لکھ دیا ہے.‘‘۵؎ ( بدر جلد۷نمبر ۳ مورخہ ۲۳؍ جنوری۱۹۰۸ء صفحہ۴.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۶ مورخہ ۲۲؍ جنوری۱۹۰۸ء صفحہ ۱۰) ۱ (ترجمہ از ناشر) ۷.اگر حجاب اٹھا بھی دیا جاتا تو میرے یقین میں کوئی خاص اضافہ نہ ہوتا.۸.اللہ تعالیٰ نے بہت سے مصنوعات بنائیں اور ان میں سے سب سے اعلیٰ صنعت انسان ہے.۲ (ترجمہ) ۹.مدد کی اللہ تعالیٰ نے تمہاری مؤیّدانہ مدد (بدر مورخہ ۲۳؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۴) ۳ (ترجمہ از مرتّب) ۱۰.اے نبی! بھوکوں اور محتاجوں کو کھانا کھلاؤ ۴ (ترجمہ) میں تیرے ساتھ ہوں اے ابراہیم! (بدر مورخہ ۲۳؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۴) ۵ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) امیر خاں صاحب مرحوم پیر منظور محمد صاحب موجد قاعدہ یسر نا القرآن کی بیوی کے رشتہ میں بھائی تھے جن کے ساتھ محمد اکبر خان صاحب مرحوم کی دختراصغری بیگم صاحبہ بیاہی گئی تھیں.اُن کی وفات کے بعد اصغری بیگم صاحبہ میاں مدد خاں صاحب کے عقد میں آئیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اِس بشارت کے ماتحت اُن کے چھ بچے ہوئے جن کے نام حسب ِ ذیل ہیں.راجہ محمد عبداللہ خان صاحب، راجہ محمد یعقوب خان صاحب (کارکن صدر انجمن احمدیہ)، محمد داؤد صاحب، محمد الیاس صاحب، زینب اور عائشہ.اصغری بیگم صاحبہ اپنے والدین کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کے ایک حصّہ میں رہتی تھیں اور اُن کی والدہ مرحومہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت کرتی تھیں.
۱۸؍ جنوری۱۹۰۸ء (الف) ’’ ۱.اِنِّیْ مَعَکَ یَا اِبْرَاھِیْمُ۱؎.۲.یہ پیشگوئی کی آخری حد ہے.۳.اِنَّ رَبِّیْ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ۲؎.۴.وہ وعدہ ٹلے گا نہیں جب تک خون کی ندیاں چاروں طرف سے بہہ نہ جائیں.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۲) (ب) ’’یہ پیشگوئی کی آخری حد ہے.اِنَّ رَبِّیْ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ.یہ پیشگوئی کی آخری حد ہے.اِنَّ رَبِّیْ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ.وہ وعدہ ٹلے گا نہیں جب تک خون کی ندیاں چاروں طرف سے بہہ نہ جائیں.‘‘ (تحریر فرمودہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بر اَوراق منسلکہ کتاب تعطیر الانام۳؎) ۱۹؍جنوری۱۹۰۸ء ’’ اِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ ھٰذِہٖ.‘‘ ۴؎ ( بدر جلد۷نمبر ۳مورخہ ۲۳؍ جنوری۱۹۰۸ء صفحہ۴.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۶ مورخہ ۲۲؍ جنوری۱۹۰۸ء صفحہ ۱۰) ۲۰؍جنوری۱۹۰۸ء ’’ مَلْعُوْنِیْنَ اَیْنَـمَا ثُقِفُوْا اُخِذُوْا وَ قُتِّلُوْا تَقْتِيْلًا.اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ.‘‘۵؎ (کاپی الہامات۶؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۳) ۲۵؍جنوری۱۹۰۸ء ’’ یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُّوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآءِ.نَصْـرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ.اَنْتَ مِنِّیْ بِـمَنْزِلَۃِ سَـمْعِیْ.‘‘۷؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۳) ۲۶؍جنوری۱۹۰۸ء ’’ حَرَّقَھُمَا اللّٰہُ.قَتَلَھُمَااللّٰہُ.میری فتح ہوئی.۱ (ترجمہ) ۱.میں تیرے ساتھ ہوں اے ابراہیم! (بدر مورخہ ۲۳؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۴) ۲ (ترجمہ از مرتّب) ۳.یقیناً میرا ربّ قدرت رکھنے والا اور غالب ہے.۳ یہ کتاب جماعتی ریکارڈ میں موجود ہے.(ناشر) ۴ (ترجمہ) مَیں تیرے ساتھ اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں جو یہ ہے.(بدر مورخہ ۲۳؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۴) ۵ (ترجمہ از ناشر) یہ دھتکارےہوئے.جہاں کہیں بھی پائے جائیں پکڑے جائیں اور اچھی طرح قتل کئے جائیں.یقیناً صفا اور مروہ شعائر اللہ میں سے ہیں.۶ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲۳؍ جنوری۱۹۰۸ء صفحہ۴ اور الحکم مورخہ ۲۲؍ جنوری۱۹۰۸ء صفحہ ۱۰ میں ان الہامات کی تاریخ نزول ۲۱؍جنوری ۱۹۰۸ء درج ہے.۷ (ترجمہ از ناشر) تیری مدد وہ لوگ کریں گے جنہیں ہم آسمان سے وحی کریں گے.اللہ تعالیٰ کی نصرت اور فتح قریب ہے.تو میرے نزدیک بمنزلہ میرے کانوں کے ہے.
یعنی خدا نے دونوں کو جلا دیا.دونوں کو قتل کیا اور میری فتح ہوگئی.اِنَّـا رَآ دُّ وْہُ اِلَیْکَ۱؎.ہم اس کو تیری طرف واپس کریں گے.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۳، ۲۴) ۲۸؍جنور۲؎ی۱۹۰۸ء ’’ اِنِّیْ مَعَکَ یَـا اِبْـرَاھِیْمُ.از خدا یا بند مردانِ خدا.‘‘۳؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۴) ۲۹؍جنوری۱۹۰۸ء ’’۱.شکر کر خدا نے تجھے بلا سے بچا لیا.۲.خدا نے تجھے دشمنوں سے چھوڑایا.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۴) ۵؍ فروری۱۹۰۸ء ’’ ۱.ہمارے گھر میں خدا ظاہر ہوا.۲.خواب میں دیکھا کہ سؤر مارا ہے.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۴) ۷؍ فروری۱۹۰۸ء ’’ ۱.اِنِّیْ مَعَکَ یَا اِبْـرَاھِیْمُ.۲.حٰمٓ.تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ.۳.راز کھل گیا.۴.تمام اسرار کھل گئے.۵.اِنِّیْ مَعَکَ یَا اِبْـرَاھِیْمُ.‘‘۴؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۴، ۲۵) ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) اِس الہام اِنَّا رَآدُّوْہُ اِلَیْکَ کے بعد الحکم کے اسی پرچہ میں حضرت اُمّ المؤمنین (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کی رؤیا بھی درج ہے جس سے الہام کی تعیین، مطلب اور تشریح میں مدد لی جاسکتی ہے اور وہ یہ ہے.’’اِس کے ساتھ ہی حضرت اُمّ المؤمنین علیہا السلام نے رؤیا میں دیکھا کہ ایک ہمارا پالتو شیر ہے.ا س کے سامنے ایک کتا آیا ہے اُس نے کتے کو پکڑ کر لٹادیا اور کہاچُپ.‘‘ ( الحکم مورخہ ۲۶؍ جنوری۱۹۰۸ء صفحہ ۵حاشیہ) ۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۳۰؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۳ اور الحکم مورخہ ۳۰؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۲ میں ان الہامات کی تاریخ نزول ۲۶؍جنوری ۱۹۰۸ء درج ہے.۳ (ترجمہ از مرتّب) مَیں تیرے ساتھ ہوں اے ابراہیم ! خدا کے بندے خدا سے پاتے ہیں.۴ (ترجمہ از ناشر) ۱.میں تیرے ساتھ ہوں اے ابراہیم!.۲.صاحب ِ حمد اور صاحب ِ مجدخدا (کی طرف سے ) یہ ایک کھلی کھلی کتاب کی آیات ہیں.۵.میں تیرے ساتھ ہوں اے ابراہیم!.
۹؍ فروری۱۹۰۸ء (الف) ’’ ۱.آسمان مٹھی بھر رہ گیا.۲.اَنْتَ۱؎ اِمَامٌ مُّبَارَکٌ.۳.لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلٰی الَّذِیْکَفَرَ۲؎.۴.بُوْرِکَ مَنْ مَّعَکَ وَ مَنْ حَوْلَکَ۳؎.۵.اِنِّیْ مَعَکَ فِی الْاَرْضِ وَ فِی السَّمَآءِ.۶.اِنِّیْ مَعَکَ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ.۷.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّـحْسِنُوْنَ.۸.لَا تَقْتُلُوْا زَیْنَبَ.‘‘۴؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۵، ۲۶) (ب) ’’ آسمان مُٹھی بھر رہ گیا.آسمان مُٹھی بھر رہ گیا.لَا۵؎ تَقْتُلُوْا زَیْنَبَ.لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الَّذِیْ کَفَرَ.اَنْتَ اِمَامٌ مُّبَارَکٌ.لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الَّذِیْ کَفَرَ.اَنْتَ اِمَامٌ مُّبَارَکٌ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الَّذِیْ کَفَرَ.اَنْتَ اِمَامٌ مُّبَارَکٌ.لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الَّذِیْ کَفَرَ.بُـوْرِکَ مَنْ مَّعَکَ وَمَنْ حَوْلَکَ.‘‘ (تحریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام برورق منسلکہ کتاب تعطیر الانام) (ج) ’’ اَیْنَـمَا ثُقِفُوْا اُخِذُوْا وَ قُتِّلُوْا تَقْتِیْلًا.‘‘۶؎ ( بدر جلد۷نمبر ۶مورخہ ۱۳؍ فروری۱۹۰۸ء صفحہ۲.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۲مورخہ ۱۴؍ فروری۱۹۰۸ء صفحہ ۱) ۱۱؍فروری۱۹۰۸ء ’’ یَـا مَسِیْحَ اللّٰہِ عَدْ وَانَـا.‘‘۷؎ (بدر جلد۷نمبر ۶مورخہ ۱۳؍ فروری۱۹۰۸ء صفحہ۲.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۲مورخہ ۱۴؍ فروری۱۹۰۸ء صفحہ ۱) ۱ (ترجمہ) ۲.تو امامِ مبارک ہے.۳.اللہ کی لعنت اُس پر جس نے انکار کیا.(بدر مورخہ ۱۳؍فروری ۱۹۰۸ء صفحہ ۲) ۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۳؍فروی ۱۹۰۸ء صفحہ ۲ اور الحکم مورخہ ۱۴؍ فروری ۱۹۰۸ء صفحہ ۱ میں یہ الہام یوں درج ہیں.’’آسمان ایک مٹھی بھر رہ گیا.لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلٰی مَنْ کَفَرَ.‘‘ ۳ (ترجمہ از مرتّب) ۴.برکت دیا گیا وہ جو تیرے ساتھ ہے اور وہ جو تیرے گرد ہے.۴ (ترجمہ) ۵.مَیں تیرے ساتھ ہوں آسمان اور زمین میں.۶.مَیں دُنیا اور آخرت میں تیرے ساتھ ہوں.۷.اللہ ساتھ ہے اُن کے جو تقویٰ اختیار کریں اور جو نیکوکار ہیں.۸.زینب کو قتل نہ کرو.(بدر مورخہ ۱۳؍فروری ۱۹۰۸ء صفحہ ۲) ۵ (ترجمہ از مرتّب) زینب کو قتل نہ کرو.اللہ کی لعنت اُس پر جس نے انکار کیا.تومبارک امام ہے اللہ کی لعنت اُس پر جس نے انکار کیا.تومبارک امام ہے اللہ کی لعنت اُس پر جس نے انکار کیا.تومبارک امام ہے اللہ کی لعنت اُس پر جس نے انکار کیا.برکت دیا گیا وہ جو تیرے ساتھ ہے اور وہ جو تیرے گِرد ہے.۶ (ترجمہ) جہاں کہیں پائے گئے پکڑے جائیں گے اور ہلاک کئے جاویں گے.(بدر مورخہ ۱۳؍فروری ۱۹۰۸ء صفحہ ۲) ۷ (ترجمہ) اے اللہ کے مسیح ہماری شفاعت کر.(بدر مورخہ ۱۳؍فروری ۱۹۰۸ء صفحہ ۲) (نوٹ از سیّد عبد الحی ٔ) اس الہام کی مزید وضاحت کیلئے دیکھیے ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۳۴۶ و۴۰۳ اور دافع البلاء.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۲۸ حاشیہ.
فروری۱۹۰۸ء ’’کل ایک دوائی مَیں استعمال کرنے لگا تو الہام ہوا.خطرناک‘‘ ( بدر جلد۷نمبر ۶مورخہ ۱۳؍ فروری۱۹۰۸ء صفحہ۴) ۱۲؍ فروری ۱۹۰۸ء ’’ ظَفَّرَکُمُ اللّٰہُ ظَفَرًا مُّبِیْنًا.‘‘ ۱؎ (کاپی الہامات۲؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۶) ۲۱؍ فروری۱۹۰۸ء ’’ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ.اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ.وَ اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ وَ اِنَّهَا لَكَبِيْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْـخَاشِعِيْنَ.‘‘۳؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۶) ۳؍مارچ۱۹۰۸ء ’’ بیمار بہت ہی چیخیں مارتی ہے.اِنِّیْ مَعَکَ یَـا اِبْـرَاھِیْمُ.سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبِّ رَّحِیْمٍ.‘‘۴؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۶) ۷؍مارچ۱۹۰۸ء ’’ماتم کدہ.۵؎ ایک جنازہ آتا دیکھا.قُلْ جَآءَکُمُ الْفَتْحُ.‘‘۶؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۶) ۱۹۰۸ء ’’ امام حسین کو مَیں نے دو مرتبہ دیکھا ہے.ایک مرتبہ مَیں نے دیکھا کہ دُور سے ایک شخص چلا آرہا ہے اور میری زبان سے یہ لفظ نکلا.ابو عبداللہ حُسین.پھر دوبارہ دیکھا.‘‘ ( بدر جلد۷نمبر ۱۰ مورخہ ۱۲؍ مارچ۱۹۰۸ء صفحہ۴) ۱ (ترجمہ از مرتّب) اللہ نے تم کو کھلی فتح دی.۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲۰؍فروری ۱۹۰۸ء صفحہ ۱ میں اس الہام کی تاریخ نزول ۲۰؍فروری ۱۹۰۸ء درج ہے.۳ (ترجمہ ازناشر) ہم اس سے ( اس کی) رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں.یقیناً اللہ کسی خیانت کرنے والے ناشکرے کو پسند نہیں کرتا.اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد مانگو اور یقیناً یہ عاجزی کرنے والوں کے سوا سب پر بوجھل ہے.۴ (ترجمہ از ناشر) اے ابراہیم!میں تیرے ساتھ ہوں.ربّ رحیم فرماتا ہے کہ تم پر سلامتی ہو.۵ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۲؍ مارچ۱۹۰۸ءصفحہ ۲ اور الحکم مورخہ ۱۰؍مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ ۶ میں اس ضمن میں تحریر ہےکہ ’’ ماتم کدہ.فرمایا.اس کے متعلق کوئی تفہیم نہیں ہے.پھر غنودگی میں دیکھا کہ ایک جنازہ آتا ہے.‘‘ ۶ (ترجمہ ازناشر) کہہ تمہارے پاس فتح آگئی ہے.
۲۵؍مارچ۱۹۰۸ء ’’ اَمْثَالُ الرَّحْـمَۃِ.اَوَّلُ الذِّکْرِ وَ اٰخِرُ الذِّکْرِ.حٰـمٓ.تِلْکَ اٰیَـاتُ الْکِتَابِ الْمُبِیْنِ۱؎.لَا تَذْ رُوْہُ جَارِیَۃٌ.۲؎ کبھی معدے کے خلل سے بھی وَرم ہوجاتی ہے.‘‘ ( بدر جلد۷نمبر ۱۳مورخہ ۲؍ اپریل۱۹۰۸ء صفحہ۲.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۲مورخہ ۲۶؍ مارچ۱۹۰۸ء صفحہ ۸) ۲۸؍مارچ۱۹۰۸ء ’’ الہام.۱.اَحْسَنَ اللّٰہُ اَمْرِیْ.۲.اَحْسَنَ اللّٰہُ اَمْرَکَ.۳.یَـاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ۳؎.۴.اُمید سے بڑھ کر.۵.رعایا میں سے ایک شخص کی موت.۶.اَحْسَنَ اللّٰہُ اَمْرَکَ.۷.اَحْسَنَ اللّٰہُ اَمْرِیْ.۸.یَاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ.۹.امید سے بڑھ کر…… اور پھر الہام ہوا.۱۰.امید سے بڑھ کر فائدہ ہوا.‘‘ (کاپی الہامات۴؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۷) ۳۰؍مارچ۱۹۰۸ء ’’ حَدَّ ثْتُکَ فِی الْـحَضْـرَۃِ۵؎.فتح.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۸) ۳۱؍ مارچ۱۹۰۸ء ’’ اِ.نِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ.مِنْ ھٰذِ.ہِ الْمَرَضِ الَّذِیْ ھُوَ سَارِیْ.یعنی مِنْ ھٰذِ.ہِ الْاٰفَۃِ.وَ الْمَرْضُ بَدَ.لٌ مِّنْہُ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۸) (ترجمہ) میں تمام گھر والوں کو اس بیماری سے بچاؤں گا.ایسی بیماری جو متعدی ہے یعنی اس آفت سے.اور مرض اس کا بدل ہے.(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام موصولہ صفحات از فیملی ڈاکٹر شاہ نواز صاحب پسر حضرت چوہدری مولا بخشؓ) مارچ ۱۹۰۸ء ’’ رحمت اور فضل کا مقام.شکر کاکلام۶؎.اَمْثَالُ الرَّحْـمَۃِ فِیْ اَوَّلِ الذِّکْرِ ۱ (ترجمہ) رحمت کی مثالیں.پہلے ذکر والا اور آخر ذکر والا.حٰمٓ کھول کر بیان کرنے والی کتاب کے یہ نشانات ہیں.(بدر مورخہ ۲؍اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۲) ۲ (ترجمہ از مرتّب) کوئی واقعہ اس کا شیرازہ نہیں بکھیر سکے گا.۳ (ترجمہ) اللہ تعالیٰ نے میرا کام اچھا کردیا.اللہ تعالیٰ نے تیرا کام اچھا کردیا.میرے پاس تحائف آئیں گے ہر دُور کی راہ سے.(بدر مورخہ ۲؍اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۲) ۴ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲؍ اپریل۱۹۰۸ء صفحہ۲ اور الحکم مورخہ ۳۰؍ مارچ۱۹۰۸ء صفحہ ۱ میں الہام نمبر ۱ تا ۵ ترتیب کے اختلاف سے درج ہیں اور ان کی تاریخ نزول ۲۹؍مارچ ۱۹۰۸ء ہے.۵ (ترجمہ از ناشر) میں خدا کے بارہ میں تجھے بتا چکا ہوں.۶ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۱۴؍ اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۳ میں یہ الہام یوں درج ہے.’’رحمت اور فضل کا کلام.شکر کا کلام.‘‘
وَ اٰخِرِ الذِّکْرِ.‘‘۱؎ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۹) اپریل۱۹۰۸ء ’’ میاں منظور محمد کے گھر کی نسبت۲؎ جو سِل کی بیماری سے بیمار ہیں اور ہمارے ہی گھر میں رہتے ہیں.حٰـمٓ.تِلْکَ اٰیَـاتُ الْکِتَابِ الْمُبِیْنِ.لفظ حٰمٓ میں بیمار کا نام بطور اختصار ہے اور باقی الفاظ کے یہ معنی ہیں کہ اِس میں نشان ہیں جو خدا کی کتاب میں مقرر ہیں.بیمار بہت ہی چیخیں مارتا ہے۳؎.ماتم کدہ.اِ نِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ.مِنْ ھٰذِ ہِ الْمَرَضِ الَّذِیْ ھُوَ سَارِیْ.۴؎ یعنی مِنْ ھٰذِہِ الْاٰفَۃِ.اور مرض اس کا بدل ہے.ترجمہ.میں تمام گھر والوں کو اس بیماری سے بچاؤں گا ایسی بیماری جو متعدی ہے.اور پھر الہام ہوا کہ ’’امید سے بڑھ کر فائدہ ہوا.پھرالہام ہوا.دوبارہ زندگی.منسوخ شدہ زندگی.۱ (ترجمہ از ناشر) رحمت کی مثالیں ذکر کے شروع میں اور ذکر کے آخر میں.۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) ان کا نام محمدی بیگم تھا جو بالآخر ۹؍ اکتوبر ۱۹۰۸ء کو فوت ہوگئیں اور الہام ’بیمار بہت ہی چیخیں مارتا ہے‘ ظاہری رنگ میں پورا چنانچہ ایڈیٹر صاحب بدر لکھتے ہیں.’’یہ بھی ہم نے سنا کہ بعینہٖ یہی حالت تھی.آخر وہی ہوا جو میرے سَیّد و مولیٰ مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجنے والا مولیٰ فرماچکا ہے وہ یہ کہ ’’ ماتم کدہ.‘‘ یعنی یہ بیمار فوت ہوجائے گا.پھر چونکہ سِل کا مرض ایک متعدی مرض ہے اِس لئے بشارت کے لئے فرمایا کہ اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ.مِنْ ھٰذِہِ الْمَرَضِ الَّذِیْ ھُوَ سَارِیْ.پھر کچھ دوائیں بتائیں گئیں تاکہ باقی ماندہ دن زیادہ تکلیف سے نہ گزریں اور حسب ِ الہام ’’اُمید سے بڑھ کر فائدہ ہوا.‘‘ بلکہ ’’دوبارہ زندگی ‘‘ عطا ہوئی.گو زندگی منسوخ شدہ تھی.‘‘ ( بدر مورخہ ۱۵؍ اکتوبر۱۹۰۸ء صفحہ۱ ،۲) ۳ (نوٹ از ناشر) کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ ۲۶ میں ۳؍ مارچ ۱۹۰۸ء کے تحت یہ الہام یوں درج ہے.’’بیمار بہت ہی چیخیں مارتی ہے.‘‘ ۴ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۲۳؍اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۸ اور الحکم مورخہ ۱۴؍اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۳ میں اس الہام کے ضمن میں تحریر ہے.’’فرمایا کہ اگرچہ اس میں بظاہر عبارت میں غلطی معلوم ہوتی ہے مگر خدا تعالیٰ اس صرف نحو کا ماتحت نہیں اور ایسی مثالیں قرآن شریف میں بھی موجود ہیں.پھر حضرت کو بیمارکے واسطے بعض دوائیں دکھائی گئیں.‘‘
اِنِّیْ بَرَآءٌ مِّنْ ذَالِکَ۱؎.(یہ کسی کا مقولہ ہے) اور پھر الہام ہوا کَتَبَ اللّٰہُ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْـمَۃَ.حَقٌّ عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ.اور پھر الہام ہوا اَمْثَالُ الرَّحْـمَۃِ فِیْ اَوَّلِ الذِّکْرِوَاٰخِرِالذِّکْرِ۲؎.یعنی دو شخص کی نسبت جو بیمار تھے دعا کی گئی ان کی نسبت رحمت کا نمونہ ہے.اور پھر الہام ہوا.رحمت اور فضل کا مقام.شکر کا مقام۳؎.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام موصولہ صفحات از فیملی ڈاکٹر شاہ نواز صاحب پسر حضرت چوہدری مولیٰ بخشؓ) ۱۰؍ اپریل۱۹۰۸ء ’’ ۱.کَتَبَ اللّٰہُ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْـمَۃَ.۲.حَقٌّ عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ۴؎.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۸) ۱۱؍ اپریل۱۹۰۸ء ’’ دوبارہ زندگی ‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۸) ۱۲؍ اپریل۱۹۰۸ء ’’ ۱.منسوخ شدہ زندگی.۲.اِنِّیْ بَرَآءٌ مِّنْ ذَالِکَ.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۸) ۱۸؍ اپریل۱۹۰۸ء ’’ ۱.اِنَّـا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا.۲.فَـحَقَّ الْعَذَابُ وَ تَدَ لّٰی.۳.زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ ۴.فَـحَقَّ الْعَذَابُ وَ تَدَ لّٰی.‘‘۵؎ (کاپی الہامات۶؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۹) ۱ (ترجمہ از ناشر) یقیناً مَیں اِس سے بیزار ہوں.۲ (ترجمہ از ناشر) اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر رحمت کرنا فرض کرلیا ہے.مومنوں کی مدد کرنا ہم نے اپنے اوپر فرض کرلیا ہے.رحمت کے نمونے ذکر کے اوّل میں اور ذکر کے آخر میں.۳ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۱۶؍اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۲ اور البشریٰ قلمی نسخہ مرتّبہ حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ صفحہ ۱۴۶ پر بھی الہام ’’رحمت اور فضل کا مقام.شکر کا مقام‘‘ درج ہے.۴ (ترجمہ از ناشر) ۱.اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر رحمت کرنا فرض کرلیا ہے.۲.مومنوں کی مدد کرنا ہم نے اپنے اوپر فرض کیا ہوا ہے.۵ (ترجمہ از مرتّب) ۱.ہم نے تجھے کھلی فتح دی ہے.۲.پس عذاب واقع ہوگا اور اتر آئے گا.۳.زمین پر زلزلہ آئے گا.۴.پس عذاب واقع ہوگا اور اُتر آئے گا.۶ (نوٹ از ناشر) الحکم مورخہ ۲۲؍اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۱ میں بھی یہ الہامات ترتیب کے اختلاف سے درج ہیں.
۲۰؍ اپریل۱۹۰۸ء الہام.’’۱.بُشْرٰی.۲.پھر چلے آتے ہیں یارو زندہ ہوجانے کے دن.‘‘ (کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۲۹) ۲۲؍ اپریل۱۹۰۸ء ’’ نُثْنِیْ عَلَیْکَ الْـخَیْرَ۱؎.میری مراد پوری ہوئی.میرے لئے آسمان پر نشان ظاہر ہوا.خیر و خوبی کا نشان.‘‘ (کاپی الہامات۲؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ۳۰) ۲۶؍ اپریل۱۹۰۸ء ’’ مباش ایمن از بازیء روزگار.‘‘۳؎ ( بدر جلد۷نمبر ۱۷ مورخہ ۳۰؍ اپریل۱۹۰۸ء صفحہ۷.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۰مورخہ ۲۶؍ اپریل۱۹۰۸ء صفحہ ۱) ۲۹؍ اپریل۱۹۰۸ء ’’ اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ.‘‘ ۴؎ ( بدر جلد۷نمبر ۱۸مورخہ ۷؍ مئی۱۹۰۸ء صفحہ۵.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۱مورخہ ۶؍ مئی۱۹۰۸ء صفحہ ۱) ۱۹۰۸ء ’’جو کچھ خدا نے مجھے خبردی ہے وہ بھی یہی ہے کہ اگر دُنیا اپنی بد عملی سے باز نہیں آئے گی اور بُرے کاموں سے توبہ نہیں کرے گی تو دُنیا پر سخت سخت بلائیں آئیں گی اور ایک بَلا ابھی بَس نہیں کرے گی کہ دوسری بَلا ظاہر ہوجائے گی.آخر انسان نہایت تنگ ہوجائیں گے کہ یہ کیا ہونے والا ہے اور بہتیرے مصیبتوں کے بیچ میں آکر دیوانوں کی طرح ہوجائیں گے.‘‘ ( پیغامِ صلح.رُوحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۴۴۴) ۹؍ مئی۱۹۰۸ء ’’ سُرنگ.اَلرَّحِیْلُ ثُمَّ الرَّحِیْلُ.‘‘۵؎ ( بدر جلد۷نمبر ۲۱مورخہ ۲۶؍ مئی۱۹۰۸ء صفحہ۷.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۵مورخہ ۳۰؍ مئی۱۹۰۸ء صفحہ ۱) ۱ (ترجمہ از ناشر) ہم تیری ثناء کرتے ہیں اچھائی کے ساتھ.۲ (نوٹ از ناشر) بدر مورخہ ۳۰؍اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۷ اور الحکم مورخہ ۲۲؍اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۱ میں یہ الہامات یوں درج ہیں.’’ میرے لئے ایک نشان آسمان پر ظاہر ہوا.خیر وخوبی.میری مرادیں پوری ہوئیں.‘‘ ۳ (ترجمہ از مرتّب) زمانے کے کھیل سے بے خوف نہ رہ.۴ (ترجمہ از مرتّب) مَیں ان تمام لوگوں کی حفاظت کروں گا جو اِس دار میں ہیں.۵ (ترجمہ از مرتّب) کوچ کا وقت آگیا ہے ہاں کوچ کا وقت آگیا.
۱۰؍ مئی۱۹۰۸ء ’’ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَـمِلُوا الصَّالِـحَاتِ لَھُمْ جَنّٰتٌ تَـجْرِیْ مِنْ تَـحْتِـھَا الْاَنْـھَارُ.‘‘۱؎ ( الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۶ مورخہ ۲؍ جون۱۹۰۸ء صفحہ ۵) ۱۵؍ مئی۱۹۰۸ء (الف) ’’ ایک۲؎ دفعہ مجھے بعض محقق اور حاذق طبیبوں کی بعض کتابیں کشفی رنگ میں دکھلائی گئیں جو طبِّ جسمانی کے قواعدِ کُلّیہ اور اصولِ علمیّہ اور سِتَّہ ضروریہ وغیرہ کی بحث پر مشتمل اور متضمّن تھیں جن میں طبیب حاذق قرشی کی کتاب بھی تھی اور اشارہ کیا گیا کہ یہی تفسیر قرآن ہے اس سے معلوم ہوا کہ عِلْمُ الْاَبدَان اور عِلْمُ الْاَدیَان میں نہایت گہرے اور عمیق تعلقات ہیں اور ایک دوسرے کے مصدّق ہیں.اور جب مَیں نے اُن کتابوں کو پیشِ نظر رکھ کر جو طِبِّ جسمانی کی کتابیں تھیں قرآن شریف پر نظر ڈالی تو وہ عمیق در عمیق طبِّ جسمانی کے قواعد کُلّیہ کی باتیں نہایت بلیغ پَیرایہ میں قرآن شریف میں موجود پائیں.‘‘ ( چشمہ معرفت.روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۱۰۳) (ب) ’’ ڈرو مت مومنو.‘‘ ( بدر جلد۷نمبر ۲۱مورخہ ۲۶؍ مئی۱۹۰۸ء صفحہ۷.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۵مورخہ ۳۰؍ مئی۱۹۰۸ء صفحہ ۱) ۱۷؍ مئی۱۹۰۸ء (الف) ’’ اِ نِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ.‘‘۳؎ ( بدر جلد۷نمبر ۲۱مورخہ ۲۶؍ مئی۱۹۰۸ء صفحہ۷.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۵مورخہ ۳۰؍ مئی۱۹۰۸ء صفحہ ۱) ۱ (ترجمہ از مرتّب) جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کئے بلاشبہ ان کے لئے جَنّات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں.۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) چونکہ نزولِ الہام کی صحیح تاریخ معلوم نہیں ہوسکی اِس لئے اسے سن تصنیف کتاب چشمۂ معرفت ۱۵؍ مئی ۱۹۰۸ء کے ماتحت درج کیا گیا.۳ (ترجمہ از مرتّب) مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا.(نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) حضرت مہتہ عبدالرحمٰن صاحب قادیانی ؓ اِس الہام کے شانِ نزول پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں.’’۱۷ ؍ مئی کی صبح کو مکرمی جناب خواجہ کمال الدین صاحب نے چند معزز تعلیم یافتہ رؤساءِ لاہور کی دعوت کی تھی اور حضرت اقدس ؑسے اس موقع پر کچھ تقریر کرنے کی بھی درخواست کی تھی چنانچہ حضرت اقدس ؑ نے اس
(ب) ’’ مکن تکیہ بر عمرِ ناپائیدار.‘‘ ( بدر جلد۷نمبر ۲۲مورخہ ۲؍ جون۱۹۰۸ء صفحہ۳) ۲۰؍ مئی۱۹۰۸ء ’’ اَلرَّحِیْلُ ثُمَّ الرَّحِیْلُ.اَ لْمَوْتُ قَرِیْبٌ.‘‘۲؎ ( بدر جلد۷نمبر ۲۲مورخہ ۲؍ جون۱۹۰۸ء صفحہ۳) تَــــــــــــــــــمَّ ظظظظظ بقیہ حاشیہ.کو منظور بھی فرمالیا تھا.۱۶ کی رات کو حضرت اقدس ؑ کی طبیعت ناساز ہوگئی ا ور متواتر چند دَست آجانے کی وجہ سے بہت ضعف ہوگیا چنانچہ ۱۷ کی صبح کو جب حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام بیدار ہوئے تو یہ الہام ہوا اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ چنانچہ اس وعدۂ الٰہی سے طاقت پاکر حضرت اقدس ؑ نے اِس موقع پر قریباً اڑھائی گھنٹہ تک کھڑے ہوکر بڑی پُر زور تقریر فرمائی.‘‘ ( الحکم مورخہ ۳۰؍ مئی۱۹۰۸ء صفحہ ۱) ۱ (ترجمہ از مرتّب) ناپائیدار عمر پر بھروسہ مت کر.(نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) اِس الہام میں سنِ وفات بھی بتایا گیا ہے چنانچہ اس کے اعداد ۱۳۲۶ ہیں.۲ (ترجمہ) اب کوچ کا وقت آگیا.ہاں کوچ کا وقت آگیا اور موت قریب ہے.(بدر مورخہ ۲؍جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۳)
ضمیمہ ضمیمہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وہ الہامات، رؤیااور کشوف جمع کئے گئے ہیں جو حضور کی زندگی میں شائع نہیں ہوئے یا جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہؓ نے بعد میں اپنی روایات میں بیان کیا ہے.(مرتّب)
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۱۸۷۶ء یا اس سے قبل صوفی نبی بخش صاحبؓ ابن مکرم عبد الصمد صاحب ملازم دفتر ایگزامینر صاحب بہادر آف لاہور نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا.’’بڑے مرزا صاحب۱؎ پر ایک مقدّمہ تھا.مَیں نے دُعا کی تو ایک فرشتہ مجھے خواب میں ملا جو چھوٹے لڑکے کی شکل میں تھا.مَیں نے پوچھا تمہارا کیا نام ہے؟ وہ کہنے لگا میرا نام حفیظ ہے.پھر وہ مقدّمہ رفع دفع ہوگیا.‘‘ ( الحکم جلد ۳۸ نمبر ۱۴مورخہ ۲۱؍ اپریل۱۹۳۵ء صفحہ ۴) ۱۸۷۶ء (تقریباً) میاں امام الدین صاحب ؓ سیکھوانی نے بیان کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو نوماہ کے روزے رکھے، اس دَوران میں جورؤیاو کشوف ہوئے، اُن کا ذکر فرماتے ہوئے حضور ؑ نے ایک دفعہ فرمایا.’’جب مَیں تین ماہ کے قریب پہنچا تو ایک شخص بڑا قد آور، جسیم، رنگ سرخ میرے سامنے یہ الفاظ کہتا تھا قرت، قرت، قرت.‘‘ ( رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۵ صفحہ ۶۶.الحکم ۲؎ جلد۳۸ نمبر ۳۰مورخہ ۲۱؍ اگست۱۹۳۵ء صفحہ ۶) ۱۸۸۲ء میاں عبداللہ صاحب سنوریؓ نے بیان کیا.’’جب مَیں ۱۸۸۲ء میں پہلے پہل قادیان آیا تو اُس وقت …میری ایک شادی ہوچکی تھی اور دوسری کا خیال تھا جس کے متعلق مَیں نے بعض خوابیں بھی دیکھی تھیں.مَیں نے ایک دن حضرت صاحب کے ساتھ ذکر کیا … آپ نے میرے ماموں محمد یوسف صاحب مرحوم کو …خط لکھا اور اس میں اسمٰعیل کے نام بھی ایک خط ڈالا (جس کی لڑکی کا رشتہ مطلوب تھا)…حضرت صاحب نے اِدھر یہ خطوط لکھے اور اُدھر میرے واسطے دعا شروع ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد ماجد حضرت میرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم و مغفور.۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) الحکم پرچہ مذکورہ بالا میں اِس الہام کا ترجمہ بھی ساتھ ہی درج ہے جو یہ ہے.’’تجھ کو قدر والا کیا.تجھ کو قدر والا کیا.تجھ کو قدر والا کیا.‘‘ آگے یہ لکھا ہے.’’یہ بھی ایک کشف تھا.‘‘ ممکن ہے کہ راوی کو سننے میں غلطی لگی ہو اور دراصل لفظ وَقَرْتَ ہوجیسا کہ ترجمہ سے معلوم ہوتا ہے اور حرف و سہواً حذف ہوگیا ہے.وقار کے معنی قدر و عظمت کے ہیں.
فرمائی… (ابھی) دعا میں مصروف تھے کہ عین دعا کرتے کرتے حضرت صاحب کو الہام ہوا.’’ناکامی‘‘ پھر دعا کی تو الہام ہوا.’’ اَے بسا آرزُو که خاک شُدہ ‘‘۱؎ پھر اس کے بعد ایک اَور الہام ہوا.’’ فَصَبْرٌ جَـمِیْلٌ ‘‘۲؎ …فرمایا کہ معلوم نہیں میاں عبداللہ صاحب کا ہمارے ساتھ کیسا تعلق ہے کہ اِدھر دعا کرتا ہوں اور اُدھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب مل جاتا ہے.چند دنوں کے بعد میاں محمد یوسف صاحب کا جواب آگیا کہ میاں عبداللہ کے والد اور دادا اور خسر تو راضی ہوگئے ہیں مگر اسمٰعیل انکار کرتا ہے.اِس پر حضرت نے فرمایا کہ اَب ہم اسمٰعیل کو خود کہیں گے …ممکن ہے اللہ تعالیٰ کے الہامات کا یہ منشا ہو کہ جس طریق پر کوشش کی گئی ہے اِس میں ناکامی ہے اور کسی اَور طریق پر کامیابی مقدر ہو…پھر حضرت صاحب نے اسمٰعیل کو میرے متعلق کہا مگر اُس نے انکار کیا اور کئی عذر کردیئے.‘‘ (سیرت المہدی مؤلفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم.اے، جلد ۱.روایت نمبر ۱۰۱ صفحہ ۷۷ تا ۷۹ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸۸۲ء میاں عبداللہ صاحب سنوریؓ نے بیان کیا.’’حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ابھی مَیں نے اسمٰعیل سے بات شروع نہیں کی تھی کہ مجھے کشف ہوا تھا کہ اُس نے میرے بائیں ہاتھ پر دَست پھر دیا ہے.نیز مَیں نے کشف میں دیکھا تھا کہ اُس کی شہادت کی اُنگلی کٹی ہوئی ہے.اِس پر مَیں سمجھ گیا تھا کہ یہ اِس معاملہ میں مجھے نہایت گندے جواب دے گا… اس کے بعد اسمٰعیل نے اپنی لڑکی کی دوسری جگہ شادی کردی…مگر اِس شادی کے بعد اسمٰعیل پر بڑی مصیبت آئی.‘‘ ( سیرت المہدی مؤلفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم.اے، جلد ۱ روایت نمبر ۱۰۱ صفحہ۷۹ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸۸۳ء مرزا دین محمد صاحبؓ سکنہ لنگروال ضلع گورداسپور نے بیان کیا.’’ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے صبح کے قریب جگایا اور فرمایا کہ.’’…مَیں نے دیکھا ہے کہ میرے تخت پوش کے چاروں طرف نمک چُنا ہوا ہے.‘‘ ۱ (ترجمہ از مرتّب) ہائے بہت سی آرزوئیں ہیں جو خاک میں مل گئیں.۲ (ترجمہ از مرتّب) پس صبر اچھا ہے.
…فرمایا کہ کہیں سے بہت سا روپیہ آئے گا.اس کے بعد مَیں چار دن یہاں رہا.میرے سامنے ایک منی آرڈر آیا.جس میں ہزار سے زائد روپیہ تھا.‘‘ ( سیرت المہدی مؤلفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم.اے، جلد ۱ روایت نمبر ۶۳۶ صفحہ۶۰۴ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸۸۳ء (الف) حافظ محمد ابراہیم صاحبؓ ولد میاں نادر علی صاحب سکنہ مکووال ضلع انبالہ نے بیان کیا.’’۸۳ ء میں جب شہب گرے تو فرمایا.اس وقت مَیں دیکھ رہا تھا کہ مَیں اور سیّد عبدالقادر برابر برابر کھڑے ہیں.پھر مَیں نے دیکھا کہ شیخ سعدی اور سیّد عبدالقادر ایک باغ میں سیر کر رہے ہیں.انہی ایام میں آپ کو الہام ہوا ’’ یَـا عَبْدَ الْقَادِرِ.‘‘ فرمایا کہ اولیاء کو عبدالقادر کا خطاب اُس وقت دیا جاتا ہے جب اُن کے لئے قادرانہ نشان دکھانے مقصود ہوں.‘‘ ( الحکم جلد ۳۹ نمبر ۱۰ مورخہ ۲۱ ؍ مارچ ۱۹۳۶ء صفحہ ۵) (ب) حافظ نور محمد صاحبؓ سکنہ فیض اللہ چک ضلع گورداسپور نے بیان کیا.’’ایک دفعہ حضور ؑ نے فرمایا کہ مَیں نے خواب میں ایک مرتبہ دیکھا کہ سیّد عبدالقادر ؒ صاحب جیلانی آئے ہیں اور آپ نے پانی گرم کراکر مجھے غسل دیا ہے اور نئی پوشاک پہنائی ہے اور گول کمرہ کی سیڑھیوں کے پاس کھڑے ہوکر فرمانے لگے کہ آؤ ہم اور تم برابر برابر کھڑے ہوکر قد ناپیں.پھر انہوں نے میرے بائیں۱؎ طرف کھڑے ہوکر کندھے سے کندھا ملایا تو اُس وقت دونوں برابر برابر رہے.‘‘ ( سیرت المہدی مؤلفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم.اے، جلد ۱ روایت ۴۸۱ صفحہ ۵۰۹ مطبوعہ ۲۰۰۸ء.الحکم جلد ۳۷ نمبر ۳۳مورخہ ۱۴؍ ستمبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۴) مولوی رحیم بخش صاحبؓ سکنہ تلونڈی جُھنگلاں ضلع گورداسپور نے بیان کیا.’’حضرت صاحب ؑ نے فرمایا کہ مجھے الہام ہوا ہے.’’ یُنَجِّیْکَ مِنَ الْغَمِّ وَ کَانَ رَبُّکَ قَدِ یْرًا‘‘۲؎ اور آپ ؑ نے فرمایا کہ ’’ ہمیں خدا کے فضل سے غم تو کوئی نہیں ہے شاید آئندہ کوئی غم پیش آئے.جب مکان پر آئے تو ایک شخص امرتسر سے یہ خبر لایا کہ آپ کا وہ نگینہ جو ’’ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ ‘‘ لکھنے کے واسطے ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) الحکم میں دائیں طرف کا ذکر ہے.(الحکم مورخہ ۱۴؍ ستمبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۴) ۲ (ترجمہ از مرتّب) خدا تجھے غم سے نجات دے گا اور تیرا ربّ قادر ہے.(نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) الحکم مورخہ ۱۴؍ اگست ۱۹۳۴ء صفحہ ۳ میں متعلقہ حوالہ میں ’’ نُنَجِّیْکَ‘‘ چھپا ہے.
حکیم محمد شریف صاحب کے پاس امرتسر بھیجا ہوا تھا، وہ گم ہوگیا ہے، اور نیز ایک ورق براہین احمدیہ کا لایا جو بہت خراب تھا او رپڑھا نہیں جاتا تھا.یہ معلوم کرکے آپ کو بہت تشویش ہوئی… حضرت صاحب اور یہ خاکسار بٹالہ سے گاڑی میں سوار ہوکر امرتسر پہنچے.جب حکیم صاحب کے مکان پر پہنچے تو حکیم صاحب نے بہت خوش ہوکر کہا کہ یہ آپ ؑ کا نگینہ گم ہوگیا تھا مگر ابھی مل گیا ہے اور جب مطبع میں جاکر کتاب دیکھی تو وہ اچھی چھپ رہی تھی.جس پر آپ ؑ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو پہلے سے بشارت دے دی تھی کہ ہم تجھے غم سے نجات دیں گے سو وہ یہی غم تھا.‘‘ (سیرت المہدی مؤلفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم.اے، جلد ۱ روایت نمبر ۴۵۳ صفحہ ۴۳۱، ۴۳۲ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸۸۴ء حضرت اُمّ المؤ منین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا.’’میری شادی سے پہلے حضرت صاحب کو معلوم ہوا تھا کہ آپ ؑ کی دوسری شادی دِلّی میں ہوگی.‘‘ ( سیرت المہدی مؤلفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم.اے، جلد ۱ روایت نمبر ۶۹ صفحہ ۵۱ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸۸۴ء ’’حافظ حامد علی صاحبؓ مرحوم خادم حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان کرتے تھے کہ جب حضرت صاحب نے دوسری شادی کی تو ایک عمر تک تجرد میں رہنے اور مجاہدات کرنے کی وجہ سے آپ ؑ نے اپنے قویٰ میں ضعف محسوس کیا.اس پر وہ الہامی نسخہ جو ’’زدجامِ عشق ‘‘ کے نام سے مشہور ہے بنواکر استعمال کیا چنانچہ وہ نسخہ نہایت ہی بابرکت ثابت ہوا … نسخہ زدجامِ عشق یہ ہے جس میں ہر حرف دوا کے نام کا پہلا حرف مراد ہے.زعفران، دارچینی، جائفل، افیون، مُشک، عقرقرحا، شنگرف، قرنفل یعنی لَونگ.اِن سب کو ہم وزن کُوٹ کر گولیاں بناتے ہیں اور روغن سَـمُّ الْفَار میں چرب کرکے رکھتے ہیں اور روزانہ ایک گولی استعمال کرتے ہیں.الہامی ہونے کے متعلق دو باتیں سنی گئی ہیں.ایک یہ کہ یہ نسخہ ہی الہام ہوا تھا.دوسرے یہ کہ کسی نے یہ نسخہ حضور ؑ کو بتایا اور پھر الہام نے اِسے استعمال کرنے کا حکم دیا.وَاللہُ اَعْلَمُ.‘‘ ( سیرت المہدی مؤلفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم.اے، جلد ۱ حصّہ سوم روایت نمبر ۵۶۹ صفحہ۵۴۸ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸۸۴ء حضرت اُمّ المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا.’’جب میری شادی ہوئی اور مَیں ایک مہینہ قادیان ٹھہر کر پھر واپس دہلی گئی تو اُن ایام میں حضرت مسیح موعود ؑ
نے مجھے ایک خط لکھا کہ مَیں نے خواب میں تمہارے تین جوان لڑکے دیکھے ہیں.‘‘ (سیرت المہدی مؤلفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم.اے، جلد ۱ حصّہ اوّل روایت نمبر ۹۱صفحہ ۶۶ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸۸۴ء میر عنایت علی شاہ صاحبؓ لدھیانوی نے بیان کیا.’’حضرت اقدس ؑ دہلی سے واپس ہوئے.سرہند ریلوے سٹیشن پر حضرت اقدس ؑ کو الہام ہوا.اِنَّـا لِلہِ وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ …حضور ؑ نے فرمایا کہ اِس الہام میں کسی دوست کے گِرنے کی خبر ہے.مجھے ڈر ہے کہ میر صاحب۱؎ہی نہ ہوں.‘‘ ( رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۱ صفحہ ۱۱۹) ۱۸۸۵ء شیخ یعقوب علی صاحبؓ عرفانی ایڈیٹر الحکم نے لکھا.’’اللہ تعالیٰ کی ایک تحریک خفی کے ماتحت کچھ عرصہ کے لئے ضلع گورداسپور کے پہاڑی علاقہ (سوجان پور) کی طرف جاکر عبادت کرنا چاہتے تھے لیکن پھر خدا تعالیٰ کی صاف صاف وحی نے آپ ؑ کو ہوشیار پور جانے کا ایماء فرمایا اور اس شہر کا نام بتایا.‘‘ (الحکم جلد ۳۹ نمبر ۱۳ مورخہ ۱۴؍ اپریل ۱۹۳۶ء صفحہ۴) ۱۸۸۶ء میاں عبداللہ صاحب سنوریؓ نے بیان کیا کہ ایام چِلّہ ہوشیار پور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا.’’ بُـوْرِکَ مَنْ فِیْـھَا وَ مَنْ حَوْلَھَا ‘‘۲؎ اور حضور ؑ نے تشریح فرمائی کہ مَنْ فِیْـھَا سے مَیں مُراد ہوں اور مَنْ حَوْلَھَا سے تم لوگ مراد ہو.( سیرت المہدی مؤلفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم.اے، جلد۱ روایت نمبر ۸۸ صفحہ ۶۵ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱ یعنی میر عباس علی شاہ صاحب لدھیانوی.(شمس) ۲ (ترجمہ از مرتّب) برکت والا ہے وہ جو اس میں ہے اور جو اس کے اِردگرد ہیں.(نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یہ الہام حضور ؑ کو ہوشیار پور کے چِلّہ کے دَوران ہوا.میاں عبداللہ صاحبؓ سنوری کا بیان ہے کہ آپ ؑ اُوپر بالاخانہ میں رہتے تھے …ایک دن جب مَیں کھانا رکھنے اُوپر گیا تو حضور ؑ نے فرمایا کہ مجھے الہام ہوا ہے.( سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر ۸۸ صفحہ ۶۵)
۱۸۸۶ء میاں عبداللہ صاحبؓ سنوری نے بیان کیا.’’ہوشیار پور سے پانچ چھ میل کے فاصلہ پر ایک بزرگ کی قبر ہے…حضور ؑ قبر کی طرف تشریف لے گئے … اور تھوڑی دیر تک دعا فرماتے رہے.پھر …فرمایا.جب مَیں نے دُعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے تو جس بزرگ کی یہ قبر ہے وہ قبر سے نکل کر دو زانو ہوکر میرے سامنے بیٹھ گئے اور اگر آپ۱؎ ساتھ نہ ہوتے تو مَیں اُن سے باتیں بھی کرلیتا.ان کی آنکھیں موٹی موٹی ہیں اور رنگ سانولا ہے.پھر کہا کہ دیکھو اگر یہاں کوئی مجاور ہے تو اُس سے ان کے حالات پوچھیں چنانچہ حضور ؑ نے مجاور سے دریافت کیا.اُس نے کہا مَیں نے ان کو خود نہیں دیکھا کیونکہ ان کی وفات کو قریباً ایک سو سال گزر گیا ہے.ہاں اپنے باپ یا دادا سے سنا ہے کہ یہ اِس علاقہ کے بڑے بزرگ تھے اور اِس علاقہ میں ان کا بہت اثر تھا.حضور ؑنے پوچھا، ان کا حلیہ کیا تھا؟ وہ کہنے لگا کہ سنا ہے سانولہ رنگ تھا اور موٹی موٹی آنکھیں تھی.‘‘ ( سیرت المہدی مؤلفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم.اے، جلد ۱ روایت نمبر ۸۸ صفحہ۶۴، ۶۵ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸۸۶ء میاں عبداللہ صاحبؓ سنوری نے بیان کیا.’’پسرِ موعود کی پیشگوئی کے بعد حضرت صاحب ؑ ہم سے کبھی کبھی کہا کرتے تھے کہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہم کو جلد وہ موعود لڑکا عطا کرے.اُن دنوں میں حضرت کے گھر اُمید واری تھی.ایک دن بارش ہوئی تو مَیں نے مسجد مبارک کے اُوپر صحن میں جاکر بڑی دُعا کی…پھر مجھے دُعاکرتے کرتے خیال آیا کہ باہر جنگل میں جاکر دُعا کروں…چنانچہ مَیں قادیان سے مشرق کی طرف چلا گیا اور باہر جنگل میں بارش کے اندر بڑی دیر تک سجدہ میں دُعا کرتا رہا… اُسی دن شام یا دوسرے دن صبح کو حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ ’’اُن کو کہہ دو اُنہوں نے رنج بہت اُٹھایا ہے ثواب بہت ہوگا.‘‘ ( سیرت المہدی مؤلفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم.اے، جلد ۱ روایت نمبر ۱۱۰ صفحہ ۸۹ مطبوعہ ۲۰۰۸ء ) مئی۱۸۸۶ء ’’ لَیْسَ الذَّکَرُ کَا لْاُنْثٰی‘‘۲؎ (البشریٰ قلمی نسخہ مرتبہ پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ صفحہ ۷۱.مکتوب از صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دست ِمبارک کے لکھے ہوئے الہامات میں سے ) ۱ اِس سے مراد میاں عبداللہ صاحب سنوری ؓ ہیں.(شمس) ۲ (ترجمہ) اس لڑکی کے جیسے بعض مرد بھی نہیں.(نوٹ) یہ الہام صاحبزادی عصمت کی پیدائش پر ہوا تھا.( البشریٰ قلمی نسخہ مرتبہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓصفحہ ۷۱ حاشیہ نمبر ۴)
۶؍ جنوری۱۸۹۱ء (الف) ’’خواب میں دیکھا کہ میرے پاس مرزا غلام قادر میرے بھائی کھڑے ہیں اور مَیں یہ آیت قرآن شریف کی پڑھتا ہوں غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِیْ اَدْنَی الْاَرْضِ وَ ھُمْ مِّنْ بَعْدِ غَلَبِھِمْ سَیَغْلِبُوْنَ ۱؎ اور کہتا ہوں کہ اَدْنَی الْاَرْضِ سے قادیان مراد ہے اور مَیں کہتا ہوں کہ قرآن شریف میں قادیان کا نام درج ہے.‘‘ (مکتوب از پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دست ِمبارک کے لکھے ہوئے الہامات میں سے ) (ب) ’’ ایک دفعہ ہمیں یہ الہام ہوا کہ ’’غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِیْٓ اَدْنَی الْاَرْضِ وَ ھُمْ مِّنْ بَعْدِ غَلَبِھِمْ سَیَغْلِبُوْنَ اور مجھے دکھایا گیا کہ اِس وعدہ کی آخری آیت تک جس قدر حروف ہیں ان میں اکمل اور اخلص موافقین کے نام بھی مخفی ہیں اور جو اشد انکار و عناد و مخالفت میں اپنی قوم میں سے ہیں ان کے نام بھی اس میں پوشیدہ ہیں.‘‘ پھر فرمایا.’’اور مَیں نے دیکھا کہ ایک شخص نے اَدْنَی الْاَرْض پر قرآن شریف میں ہاتھ رکھا ہوا ہے اور کہتا ہے کہ یہ قادیان کا نام ہے.‘‘ ( تذکرۃ المہدی مصنفہ پیر سراج الحق صاحبؓ نعمانی حصّہ دوم صفحہ ۴۵ مطبوعہ دسمبر ۱۹۲۱ء و مکتوب پیر سراج الحق صاحبؓ نعمانی) ۲۷؍ فروری۱۸۹۱ء ’’ فَـجِٓـیْءَ بِـالْکِتَابِ فَھُزِمُوْا.‘‘۲؎ ( مکتوب پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓو البشریٰ قلمی نسخہ مرتبہ پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ صفحہ ۵۵) ۱۸۹۱ء خواجہ حسن نظامی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک خط شائع کیا ہے جس کا اِقتباس درج ذیل ہے.’’ہم نے آپ کی صحت کے لئے خدا سے دعا مانگی اور ہم کو الہام ہوا کہ خواجہ حسن نظامی ابھی بہت دن زندہ رہیں گے اور مسلمانوں کے بڑے بڑے کام کریں گے.‘‘ ( الفضل مورخہ ۱۱؍ اکتوبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۲ بحوالہ اخبار منادی دہلی بابت ماہ؍ ستمبر ۱۹۵۲ء صفحہ ۴ تا ۷) ۱ (ترجمہ از ناشر) اہل روم مغلوب کئے گئے.قریب کی زمین میں.اور وہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد پھر ضرور غالب آجائیں گے.(الرّوم: ۳، ۴) ۲ (ترجمہ از مرتّب) پھر کتاب لائی گئی.تب انہیں شکست ہوئی.(نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) پیر صاحبؓ لکھتے ہیں.یہ الہام حضرت اقدس علیہ السلام کے دست ِ مبارک کے لکھے ہوئے سے نقل کئے گئے.
فروری۱۸۹۲ء حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول رضی اللہ عنہ بیان فرماتے تھے کہ.’’ایک دفعہ کسی بحث۱؎ کے دَوران میں حضرت مسیح موعود ؑ سے کسی مخالف نے کوئی حوالہ طلب کیا…حضرت صاحب ؑ نے بخاری کا ایک نسخہ منگایا اور یونہی اس کی ورق گردانی شروع کردی اور جلد جلد ایک ایک ورق اُس کا اُلٹانے لگ گئے اور آخر ایک جگہ پہنچ کر آپ ٹھہر گئے اور کہا لو یہ لکھ لو.دیکھنے والے سب حیران تھے کہ یہ کیا ماجرا ہے اور کسی نے حضرت صاحب سے دریافت بھی کیا جس پر حضرت صاحب نے فرمایا کہ ’’جب مَیں نے کتاب ہاتھ میں لے کر ورق اُلٹانے شروع کئے تو مجھے کتاب کے صفحات ایسے نظر آتے تھے کہ گویا وہ خالی ہیں اور اُن پر کچھ نہیں لکھا ہوا اِسی لئے مَیں ان کو جلد جلد اُلٹا تا گیا.آخر مجھے ایک صفحہ ملا جس پر کچھ لکھا ہوا تھا اور مجھے یقین ہوا کہ یہ وہی حوالہ ہے جس کی مجھے ضرورت ہے.‘‘ (سیرت المہدی مؤلفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم.اے، جلد ۱ روایت نمبر ۳۰۶ صفحہ ۲۸۲ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸۹۲ء (الف) حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے خطبہ جمعہ میں فرمایا.’’ملکہ وکٹوریہ کے زمانہ میں خدا تعالیٰ نے خبر دے دی.’’سلطنتِ برطانیه تا ھشت سال بعد ازاں ضعف و فساد و اِختلال‘‘ اور یہ آٹھ سال جاکر ملکہ وکٹوریہ کی وفات۲؎ پر پورے ہوگئے.‘‘ (الفضل جلد ۱۶ نمبر ۷۸ مورخہ ۵؍ اپریل ۱۹۲۹ءصفحہ ۵) ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) مکرم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ لکھتے ہیں.’’ جہاں تک میری یاد مساعدت کرتی ہے …یہ واقعہ لاہور میں ہوا تھا.مولوی عبدالحکیم صاحب کلانوری سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ’’محدثیت اور نبوت ‘‘ پر بحث ہوئی تھی …حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے محدثیت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے بخاری کی اس حدیث کا حوالہ دیا جس میں حضرت عمر ؓ کی محدثیت پر استدلال تھا.مولوی عبدالحکیم صاحب کے مددگار وں میں سے مولوی احمد علی صاحب نے حوالہ کا مطالبہ کیا اور بخاری خود بھیج دی.مولوی محمد احسن صاحب نے حوالہ نکالنے کی کوشش کی مگر نہ نکلا.آخر حضرت مسیح موعود ؑ نے خود نکال کر پیش کیا … جب حضرت صاحب نے یہ حدیث نکال کر دکھا دی تو فریقِ مخالف پر گویا ایک موت وارد ہوگئی…اسی پر مباحثہ ختم کردیا.‘‘ (سیرت المہدی مؤلفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم.اے، جلد ۱ روایت نمبر ۴۷۲ صفحہ ۴۹۶ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۲ ملکہ وکٹوریہ کا انتقال ۲۲؍ جنوری ۱۹۰۱ء میں ہوا.(شمس)
(ب) حافظ حامد علی صاحبؓ نے مجھ سے کہا کہ آج رات یا شاید کہا ان دنوں میں حضرت صاحب کو الہام ہوا ہے.’’سلطنتِ برطانیہ تا ھشت سال بعد ازاں ایام ضعف و اختلال‘‘ (سیر ت المہدی مؤلفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم.اے، جلد ۱ روایت نمبر ۹۶ صفحہ ۶۸ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) (ج) میاں عبداللہ صاحب سنوریؓ نے بیان کیا کہ.’’مجھے (یہ) الہام اِس طرح پر یاد ہے.’’سلطنتِ برطانیہ تا ھفت سال بعد ازاں باشد خلاف و اِختلال‘‘ (سیر ت المہدی مؤلفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم.اے، جلد ۱ روایت نمبر ۹۶ صفحہ ۶۸ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) (د) صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓ نے بیان کیا.’’مَیں نے حضرت سے یہ الہام اِس طرح پر سنا ہے.’’قوتِ برطانیہ تا ھشت سال بعد ازاں ایام ضعف و اِختلال‘‘ (سیرت المہدی مؤلفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم.اے، جلد ۱ روایت نمبر ۳۱۴ صفحہ ۲۹۱ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) غالباً ۱۲؍ جولائی ۱۸۹۲ء (خواب میں) ’’ لَہٗ تَبٌّ وَّ سَبٌّ وَّ افْتِضَاحٌ.‘‘۱؎ (جیبی۲؎بیاض حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ۱۲؍ اکتوبر ۱۸۹۲ء ’’ یُصْلِحُ اللّٰہُ جَـمَاعَتِیْ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ تَعَالٰی.‘‘۳؎ (جیبی بیاض حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ۲۱؍ مارچ ۱۸۹۳ء ’’کل شب کو ایک خواب اور کچھ تحریری طور پر لکھا ہوا پیش ہوا.لکھا ہوا تو سوائے ن و ض کے اَور کچھ پڑھا نہ گیا اور خواب بھی سارا یاد نہیں رہا اخیری فقرہ یاد رہا وہ یہ تھا.۱ (ترجمہ از مرتّب) اس کے لئے ہلاکت اور گا لیاں اور ذلت ہے.۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یہ جیبی بیاض عبدالرحمٰن صاحب شاکر کارکن صدر انجمن احمدیہ ربوہ کے پاس موجود ہے جو ان کے والد مرحوم ماسٹر نعمت اللہ صاحب گوؔہرؓ کو مرزا محمود بیگ صاحبؓ آف پٹی نے دی تھی اور ان کا بیان ہے یہ بیاض انہیں حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عطا فرمائی تھی.۳ (ترجمہ از مرتّب) اللہ تعالیٰ میری جماعت کی اصلاح کردے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.
’’اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ.‘‘۱؎ (از مکتوب مرزا خدا بخش صاحبؓ مندرجہ ’’ اصحابِ احمد‘‘ مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب حصّہ دوم صفحہ ۱۱۶ حاشیہ مطبوعہ ۱۹۵۲ء) مارچ ۱۸۹۳ء ’’نور الدین۲؎کو دو گلاس دُودھ کے پلائے.ایک ہم نے خود دیا اور دوسرا اُس نے مانگ کر لیا اورکہا سرد ہے.پھر دُودھ کی ندی بن گئی اورہم اُس میں نبات کی ڈلی ہلاتے جاتے ہیں.‘‘ (جیبی بیاض حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ۲ ؍۳؎اپریل ۱۸۹۳ء (الف) ’’مولوی عبدالکریم صاحبؓ سے ایک دن ذکر کیا کہ مجھے الہام ہواہے.لَا تَصْبُوَنَّ اِلَی الْوَطَنْ فِیْہِ تُـھَانُ وَ تُـمْتَحَنْ۴؎ یہ الہام نورالدین کے متعلق معلوم ہوتا ہے.‘‘ (ضمیمہ اخبار بدر جلد ۸ نمبر۴۰ مورخہ ۲۹جولائی ۱۹۰۹ ء صفحہ ۷۷.مرقاۃ الیقین فی حیاۃ نور الدین صفحہ ۱۶۹ طبع اوّل) ۱ (ترجمہ از مرتّب) یقیناً اللہ تعالیٰ علیم حکیم ہے.۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ.۳ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) یہ تاریخ حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ کی جیبی بیاض میں درج ہے مگر وہاں سن درج نہیں.تعیین سال چونکہ بدلائل ۱۸۹۳ء ثابت ہے(دیکھیے تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ ۴۹۴ مولانا نورالدینؓ کی ہجرت کا ایمان افروز واقعہ) اِس لئے ہم نے یہی سن درج کردیا.۴ (ترجمہ از مرتّب) تُو وطن کی طرف ہرگز توجہ نہ کر.اس میں تیری اہانت ہوگی اور تکلیفیں اُٹھانی پڑیں گی.(نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) یہ الہام حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ کی بیاض جیبی صفحہ ۱۴۹ میں یوں درج ہے.لَاتَصْبُوَنَّ اِلَی الْوَطَنْ فِیْہِ تُضَامُ وَ تُـمْتَـھَنْ اور اس کے ساتھ ہی حریریؔ کا دوسرا شعربھی درج ہے.فَاعْلَمْ بِـاَنَّ الْـحُرَّ فِیْ اَوْطَانِہٖ یَلْقَی الْغَبَنْ (ترجمہ) اپنے وطن کی طرف راغب مت ہو اس میں تجھ پر ظلم کیا جائے گا اورذلیل کیا جائے گا.اوریاد رکھ کہ آزاد انسان اپنے وطن میں خسارہ پاتا ہے.
(ب) ’’ واِنْ ھٰذَانِ لَسَاحِرَانِ یُرِیْدَانِ اَنْ یُـخْرِجَاکُمْ.‘‘۱؎ (جیبی بیاض حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ صفحہ ۱۴۹) ’’کشف میں دیکھا.تفسیر حسینی ۵۰اور۵۱صفحہ پر وَ لِنَجْعَلَکَ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَانْظُرْاِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِـزُھَا ثُمَّ نَکْسُوْھَا لَـحْمًا.فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِ یْرٌ.فَسَّـرَہٗ نُـوْرُ الدِّ یْنِ بِالْمَعَارِفِ الْغَرِیْبَۃِ.‘‘۲؎ (جیبی بیاض حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ صفحہ ۱۴۹) ۵؍ اپریل۱۸۹۳ء ۱.قاضی سلیمان پٹیالوی کی نسبت الہام.’’پشت بر قبلہ مے کنند نماز‘‘۳؎ ۲.بعد ظہر کے فرمایا یا بعد دعا بہ نسبت خاکسار راقم۴؎ الہام.’’ اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ‘‘ ۵؎ (جیبی بیاض حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ صفحہ ۱۵۷) ۷؍۶؎اپر یل ۱۸۹۳ء پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.۱ (ترجمہ ازمرتّب) یہ دونوں بڑے ہوشیار اورچالاک ہیں تمہیں نکالنا چاہتے ہیں.(نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) اِس الہام کے متعلق جیبی بیاض میں کوئی تاریخ درج نہیں اورنہ کوئی تشریح ہے.لیکن یہ الہام اسی صفحہ پر درج ہے جہاں الہام لَا تَصْبُوَنَّ لکھا ہے.۲ (ترجمہ از مرتّب) اور تاکہ ہم تجھے لوگوں کے لئے نشان بنائیں اوراُن ہڈیوں کی طرف دیکھ.ہم انہیں کیسے اُبھارتے، پھر انہیں گوشت پہناتے ہیں.پھر جب اس پر واضح ہوگیا تو کہا مَیں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے.نورالدین نے اس کی عجیب و غریب معارف کے ساتھ تفسیر کی.۳ (ترجمہ از مرتّب) قبلہ کو پیٹھ دے کر نماز ادا کرتے ہیں.۴ یعنی حضرت مولانا نورالدین صاحب خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ.(عبد اللطیف بہاولپوری) ۵ (ترجمہ از مرتّب) یقینا صفا اور مروہ شعائر اللہ میں سے ہیں.۶ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) اِس الہام اور اگلے چار الہاموں کی جیبی بیاض میں صرف تاریخیں لکھی ہوئی ہیں مگر سنہ درج نہیں غالباً ۱۸۹۳ء ہی ہوگا.
’’یہ باغِ اسلام ہم تم کو دیتے ہیں.‘‘ (کشف) پھر الہام ہوا.’’شُد تُرا ایں برگ و بار و شیخ و شاب‘‘۱؎ اور تفہیم ہوئی.ایک جماعت اِس سلسلہ میں داخل ہوگی.‘‘ (جیبی بیاض حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ صفحہ ۱۵۸) ۱۵؍ مئی۱۸۹۳ء ’’ اَلَمْ تَـرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْـحَابِ الْفِیْلِ۲؎ الہام ہے.پھر ملخ دیکھے.مشرق سے مغرب کو جاتے ہیں اور اس کی بڑی گونج ہے.‘‘ (جیبی بیاض حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ صفحہ ۱۶۵) ۲۵؍ جون۱۸۹۳ء (خواب میں) ’’سانپ نے ذراع پر کاٹا.ڈاکٹر کی جستجو کی تو مرزا غلام مرتضیٰ تھے.انہوں نے سینہ کاٹنا شروع کیا تاکہ زہر نکل جاوے.اس کے بعد الہام ہوا.نَـرُدُّھَا عَلَی النَّصَارٰی.‘‘۳؎ (جیبی بیاض حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ صفحہ ۱۶۴) ۱۱؍ جولائی ۱۸۹۳ء ’’یہ کشف کہ سفید کاغذ پر (عبداللہ ) (سلطان محمد) لکھا ہے.پھر الہام ہوا.بُشْـرٰی لَکَ فِی النِّکَاحِ۴؎ اور تفہیم ہوئی کہ یہ آتھم اور لڑکا معہود ہے.‘‘ (جیبی بیاض حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ صفحہ ۱۴۴) ۳؍ ستمبر ۱۸۹۳ء رات کو الہام ہوا.’’کَـرَامَۃٌ جَلِیْلَۃٌ قَدْ جَآءَ وَقْتُـھَا‘‘۵؎ ( از مکتوب بنام میر عباس علی صاحب ورق نمبر ۱۲.جیبی بیاض حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ صفحہ ۱۴۹) ۱ (ترجمہ ا ز مرتّب) یہ پھل پھول اور بوڑھے اور جوان سب آپ کے ہی ہوئے.۲ (ترجمہ از مرتّب) کیا تو نہیں جانتا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں سے کیا سلوک کیا.۳ (ترجمہ از مرتّب) ہم اسے نصاریٰ پرلوٹا دیں گے.(نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) ایک الہام صفحہ ۲۵۶ پر اِن الفاظ میں ہے.’’ اِنَّ النَّصَارٰی حَوَّلُوا الْاَمْرَ.سَنَـرُدُّ ھَا عَلَی النَّصَارٰی.‘‘ ممکن ہے یہ الہام وہی ہو یا دوسرا ہو.۴ (ترجمہ از مرتّب) اِس نکاح کے بارہ میں آپ کو خوشخبری ہو.۵ (ترجمہ از مرتّب) ایک بڑی کرامت ہے جس کا وقت آچکا ہے.
۱۲؍ دسمبر۱۸۹۳ء ’’ لَا یُرَی اللّٰہُ اِلَّا مِنْ نَّفْیٍ عَنْ اِرَادَاتِ الدُّ نْیَا کُلِّھَا.مَا ضَلَّ الشَّیْخُ وَمَا غَوٰی.یَـا اَیُّـھَا الْعَوَآ مُّ اتَّبِعُوا الْاِمَامَ.‘‘۱؎ (جیبی بیاض حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ صفحہ ۱۷۲) ۱۸۹۳ء حکیم محمد حسین صاحبؓ مرہم عیسیٰ لکھتے ہیں.’’سیّدنا واما منا مسیح موعود علیہ صَلَوَاتٌ مِّنْ رَّبِّہٖ وَ رَحْـمَتَہٗ نےمجھے ہائی کورٹ کے فیصلے سے پہلے ہی بتادیا تھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے الہاماً اطلاع دی ہے کہ.’’حسین کو ٹیپوؤں کے شَر سے بچایا گیا ہے‘‘ سو خدا تعالیٰ نے اپنے خاص فضل و رحم سے مجھے ہر قسم کے فتنہ اور مصیبت اور بلا سے بچایا.‘‘ (دیباچہ طِبّی مِائَۃُ عَامِل صفحہ ۲۹ مصنفہ حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسیٰ بیرون دہلی دروازہ لاہور مطبوعہ ۲۹؍ مارچ ۱۹۵۰ء) ۱۸۹۳ء مکرم میاں محمد عبد الرحمٰن خان صاحبؓ و مکرم میاں محمد عبداللہ خان صاحبؓ۲؎ بیان کرتے ہیں کہ ہماری پھوپھیوں کے ہاں اولاد نہ تھی.اُنہوں نے والد صاحب سے کہا کہ حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کریں.نواب صاحب نے عرض کیا.بعد ازاں حضور ؑ نے فرمایا کہ.’’مَیں نے دیکھا کہ مجھے گولیاں ملی ہیں.کچھ مَیں نے (حضرت) مولوی نورالدین صاحب کو دے دیں کچھ آ پ۳؎ کو.لیکن مَیں نے نواب عنایت علی خان صاحب۴؎ کو تلاش کیا لیکن وہ نہ ملے.‘‘ (اصحابِ احمد مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے.حصّہ دوم صفحہ ۱۹۷ مطبوعہ اگست ۱۹۵۲ء) ۱ (ترجمہ ا ز مرتّب) خدا تعالیٰ دُنیا کے تمام ارادوں کو ترک کئے بغیر دکھائی نہیں دیتا.بزرگ شخص نہ ہی گمراہ ہوا اور نہ ہی ناکام اور ہلاک ہوا.اے عوام امام کی اتباع کرو.۲ (نوٹ از ناشر) پسران حضرت حجۃ اللہ نواب محمد علی خان صاحبؓ.۳ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یعنی نواب محمد علی خان صاحبؓ، چنانچہ نواب صاحبؓ کے ہاں اِس رؤیا کے بعد نرینہ اولاد ہوئی.اِس سے پہلے دو لڑکیاں ہی تھیں اِسی طرح حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ خلیفہ اوّل کے ہاں بھی اُس وقت تک کئی لڑکے ہوکر فوت ہوچکے تھے اَب اس کے بعد آپ کو زندگی پانے والی نرینہ اولاد عطا ہوئی لیکن نواب عنایت علی خان صاحب کے ہاں ایک بیوی سے تو کوئی اولاد نہ ہوئی البتہ ایک دوسری بیگم کے بطن سے دو لڑکیاں ہوئیں.۴ (نوٹ از ناشر) آپ حضرت حجۃ اللہ نواب محمد علی خان صاحبؓ کی ہمشیرہ مکرمہ فاطمہ بیگم صاحبہ کے خاوند تھے.
۶؍ اپریل۱۸۹۴ء مرزا ایوب بیگ صا۱؎حبؓ بیان کرتے ہیں کہ (جب رمضان شریف میں ) ۶؍ اپریل ۱۸۹۴ء کو گرہن لگنا تھا …کئی دوستوں نے شیشے پر سیاہی لگائی ہوئی تھی جس میں سے وہ گرہن دیکھنے میں مشغول تھے.ابھی خفیف سی سیاہی شیشے پر شروع ہوئی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کسی نے کہا کہ سورج کو گرہن لگ گیا ہے آپ ؑ نے اس شیشہ میں سے دیکھا تو نہایت ہی خفیف سی سیاہی معلوم ہوئی.حضور ؑ نے اظہارِ افسوس کرتے ہوئے فرمایا کہ اِس گرہن کو ہم نے تو دیکھ لیا مگر یہ ایسا خفیف ہے کہ عوام کی نظر سے اوجھل رہ جائے گا اور اِس طرح ایک عظیم الشان پیشگوئی کا نشان مشتبہ ہوجائے گا…تھوڑی دیر بعد سیاہی بڑھنی شروع ہوئی.حتی کہ آفتاب کا زیادہ حصّہ تاریک ہوگیا.تب حضور ؑ نے فرمایا کہ.’’ہم نے آج خواب میں پیاز دیکھا تھا.اس کی تعبیر غم ہوتی ہے.سو شروع میں سیاہی کے خفیف رہنے سے یہ غم ظہور میں آیا.‘‘ (اصحابِ احمد مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے.جلد ۱ صفحہ ۸۰،۸۱ مطبوعہ ۱۹۵۱ء ) ۳۱؍ جولائی۱۸۹۴ء ’’بروز دو شنبہ بعد از نماز ظہر حضرت مسیح موعود مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ الہام۲؎ہوا.اَمِدُّ وْا لَیْلَۃً اَ زْھَی اللَّیَالِیْ یعنی اس رات کو عبادت ، تسبیح ، تہلیل ، تکبیر اور درُود و استغفار وغیرہ میں شاغل رہو کیونکہ یہ رات۳؎تمام راتوں سے افضل اور خوبصورت تر ہے.‘‘ (تذکرۃ المہدی مصنفہ پیر سراج الحق صاحبؓ نعمانی حصّہ دوم صفحہ ۱۶ مطبوعہ دسمبر ۱۹۲۱ء.البشریٰ قلمی نسخہ مرتبہ پیر سراج الحق صاحب ؓ نعمانی صفحہ ۶۶) ۱۶؍ مارچ۱۸۹۵ء ’’احمد ِ زمان اس زمانہ کا احمد ‘‘ (تحریر حکیم مولوی قطب الدین صاحبؓ بواسطہ حکیم عبداللطیف۴؎ صاحب گجراتی) ۱ (نوٹ از ناشر) برادر مکرم ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحبؓ ابن مرزا نیاز بیگ صاحبؓ کلانوری.۲ پیر سراج الحق صاحب ؓ لکھتے ہیں.’’حضور مسیح موعود علیہ السلام کے حکم سے لکھا گیا جو فرمایا تھا کہ کہیں یادداشت لکھ رکھو.‘‘ (تذکرۃ المہدی حصّہ دوم صفحہ ۱۶ ) ۳ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یعنی شب سہ شنبہ ۲۷ محرم الحرام ۱۳۱۲ھ مطابق ۳۱ ؍ جولائی ۱۸۹۴ء.تقویم عمری ۱۷۸۳ء تا ۱۹۰۷ء صفحہ ۲۲۸.البشریٰ صفحہ ۶۶ حاشیہ نمبر ۳.تذکرۃ المہدی حصہ دوم صفحہ ۱۶.۴ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) حکیم عبداللطیف صاحب گجراتی نے خاکسار سے بیان کیا کہ یہ اور اس سے اگلے پانچ الہامات مَیں نے حکیم مولوی قطب الدین صاحب ؓ کے قرآن مجید سے نقل کئے ہیں.ان کا بیان ہے کہ ’’یہ حضرت مسیح موعود ؑ نے لکھوائے تھے.‘‘
۳۱؍ مارچ۱؎۱۸۹۵ء ’’ اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ عُرِضَ عَلٰی اَقْوَامٍ فَـمَا دَخَلَ فِیْھمْ وَمَا دَخَلُوْافِیْہِ اِلَّا قَوْمٌ مُنْقَطِعُوْنَ.‘‘۲؎ (ضمیمہ اخبار بدر ۴؍ جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۳۲۲.درس القرآن حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ تقطیع خورد صفحہ ۶۸۱.البشریٰ قلمی نسخہ مرتبہ پیر سراج۳؎ ا لحق صاحب ؓ نعمانی صفحہ ۶۴.تحریر حکیم مولوی قطب الدین صاحبؓ) ۱۳؍ اپریل۱۸۹۵ء ’’ نَـزَلَ مَلَکٌ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ وَ ھُوَ اَعْلَی الْمَلٰٓئِکَۃِ.اِنَّ الْقَوْمَ یَقْتُلُوْ نَنِیْ.اَیْ اَرَادُوْا قَتْلِیْ.وَاَنّٰی لَھُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَّکَانٍ بَعِیْدٍ.‘‘۴؎ (تحریر حکیم مولوی قطب الدین صاحبؓ بواسطہ حکیم عبداللطیف صاحب گجراتی) ۱۷؍ اپریل۱۸۹۵ء ’’ ھُوَ مُؤْمَنٌ امن دیا گیا.تھوڑی دیر کے بعد ھُوَ مُؤْتَـمَنٌ۵؎.اِن دونوں کی نسبت تفہیم نہیں ہوئی کہ کس کی نسبت ہیں.‘‘ (تحریر حکیم مولوی قطب الدین صاحبؓ ) ۱۸۹۵ء ۶؎ ’’ بَلَغَ الْاَمْرُ اِلٰی حَدِّ ہٖ.‘‘۷؎ (تحریر حکیم مولوی قطب الدین صاحبؓ ) ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) حکیم عبداللطیف صاحب گجراتی بیان کرتے ہیں کہ یہ تاریخ حکیم مولوی قطب الدین صاحب ؓ کے قرآن مجید پر درج تھی.۲ (ترجمہ از مرتّب) یقینا یہ قرآن قوموں پر پیش کیا گیا مگر ان پر اس کا کچھ اثر نہ ہوا اور اُنہوں نے اُسے قبول نہ کیا ، ہاں اس قوم نے اسے قبول کرلیا جو دنیا سے منقطع تھے.۳ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) پیر صاحب موصوف حاشیہ البشریٰ صفحہ ۶۴ میں لکھتے ہیں کہ ’’یہ الہام حضرت مولوی حافظ احمد اللہ صاحبؓ ناگپوری… (نے ) بتلایا ہے جو فرماتے ہیں کہ میرے قرآ ن شریف میں یہ بطور یادداشت لکھا ہوا ہے… حضرت اقدس علیہ السلام نے مسجد مبارک میں بیان فرمایا تھا.‘‘ ۴ (ترجمہ از مرتّب) فرشتوں میں سے ایک فرشتہ جو سب سے بڑا تھا اُترا.قوم مجھے قتل کرنا چاہتی ہے مگر ان کو دور کی جگہ سے پکڑنے کی کیسے توفیق ملے گی.۵ (ترجمہ از مرتّب) وہ امن پایا ہوا ہے.۶ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) حکیم مولوی عبداللطیف صاحب گجراتی کے نوٹوں میں ۱۳ محرم ۱۸۹۵ء درج ہے.یعنی مہینہ قمری اور سال شمسی ہے.وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.۷ (ترجمہ از مرتّب) معاملہ اپنی حد تک پہنچ گیا.
۱۴ ؍ مئی۱۸۹۵ء ’’ اِنِّیْ لَاَجِدُ رِیْـحَ یُوْسُفَ لَوْ لَا اَنْ تُفَنِّدُ وْنِ.قِیْلَ ارْجِعْ اِلٰی مَکَانِکَ.وَ فَضَّلَہٗ قَـوْمٌ مُّتَشَاکِسُوْنَ.اِنَّـھُمْ قَـوْمٌ وَرِثُوْہُ.اِنْ تَوَلّٰی تُوَلّٰی.اِنِّیْ اَرٰی.‘‘۱؎ (تحریر حکیم مولوی قطب الدین صاحبؓ ) ۱۶؍ نومبر۱۸۹۵ء ’’زمین پر ایک ہی نام بخشا گیا.تفہیم.جس پر یَغْفِرُلَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّ مَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ ۲؎.بولا گیا.‘‘ (جیبی بیاض حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ) ۱۸۹۶ء/۱۸۹۷ء حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ بیان کرتے ہیں.’’۱۳۱۴ھ کا ذکر ہے جب میرے ہاں لڑکی ساجدہ پیدا ہونے والی تھی.جمعہ اور پنجگانہ نماز کے پڑھانے کا مجھے حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حکم تھا.مَیں جمعہ کا خطبہ پڑھ رہا تھا اور سورۃ مومنون کا رکوع اَنْشَانَاہُ خَلْقًا اٰخَرَ تک پڑھا.دوسرے روز آپ ؑ نے مجھے فرمایا کہ سورۃ مومنون کی آیات جس قدر تم نے خطبہ میں پڑھیں وہ ساتھ کے ساتھ ہم پر الہام ہوتی رہیں۳؎.یہ تمہارا خطبہ مقبول ہوگیا.‘‘ (البشریٰ قلمی نسخہ مرتبہ پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ صفحہ ۷۶حاشیہ) ۱ (ترجمہ از مرتّب) مَیں تو یوسف کی خوشبو پاتا ہوں، اگر تم مجھے بہکا ہوا نہ سمجھو.کہا جائے گا اپنی جگہ پر واپس جا اور اسے مخالف قوم نے فضیلت دی.یہ وہ قوم ہیں جو اس کے وارث ہوئے ہیں اگر اس نے دوستی رکھی تو دوستی رکھی جائے گی.یقینا مَیں دیکھتا ہوں.۲ (ترجمہ از مرتّب) اللہ تیری ہر سابقہ اور آئندہ ہونے والی لغزش بخش دے گا.۳ ’’ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ.قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ.الَّذِيْنَ هُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ.وَ الَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ.وَ الَّذِيْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَ.وَ الَّذِيْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَ.اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُوْمِيْنَ.فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَ.وَ الَّذِيْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَ.وَ الَّذِيْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ يُحَافِظُوْنَ.اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَ.الَّذِيْنَ يَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ١ؕ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ.وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِيْنٍ.ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍ.ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا١ۗ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ.‘‘ (المؤمنون: ۱ تا ۱۵)
۲؍ مارچ۱۸۹۷ء میاں خیر الدین صاحب سیکھوانیؓ نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.’’آج شب گھر میں دردِ زِہ۱؎کی تکلیف تھی.دُعا کرتے کرتے لیکھرام سامنے آگیا.اس کے معاملہ میں بھی دعا کی گئی اور فرمایا کہ جو کام خدا کے منشاء میں جلد ہوجانے والا ہو اس کے متعلق دعا میں یاد کرایا جاتا ہے چنانچہ اس کے چوتھے روز لیکھرام مارا گیا.‘‘ (سیرت المہدی مؤلفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم.اے، جلد ۱ روایت نمبر ۶۴۰.صفحہ ۶۰۶ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸۹۷ء ’’ حسین کامی ترکی سفیر (کے متعلق) حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’ رات کو خواب دیکھا اور معلوم ہوا کہ وہ منافق طبع ہے.‘‘ (اصحابِ احمد مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب جلد ۷ صفحہ ۱۲۸ مطبوعہ اگست ۱۹۶۰ء روایت سردارماسٹر عبدالرحمٰن صاحب ؓ جالندھری سابق مہر سنگھ) ۲۸؍ جولائی۱۸۹۷ء ’’الہام ہوا.تو پہ یا طو پہ.فرمایا عبرانی لغت میں تلاش کرو شاید کہ یہ عبرانی لفظ ہو.‘‘ (ذکر حبیب مؤلفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓصفحہ ۲۲۲ مطبوعہ دسمبر ۱۹۳۶ء) ۲۱؍ اگست۱۸۹۷ء ’’اِ نِّیْ مَعَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْاَکْبَرِ.اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنَـا مِنْکَ.‘‘۲؎ (ذکر حبیب مؤلفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓصفحہ ۲۲۱ مطبوعہ دسمبر ۱۹۳۶ء) ۱۸۹۷ء ’’ خواب میں دکھائے گئے.۱.تین اُسترے ۲.عطر کی شیشی.‘‘ (ذکر حبیب مؤلفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓصفحہ ۲۲۱ مطبوعہ دسمبر ۱۹۳۶ء) ۱۸۹۷ء ’’تین میں سے ایک پر عذاب نازل ہوگا.‘‘ (ذکر حبیب مؤلفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓصفحہ ۲۲۱ مطبوعہ دسمبر ۱۹۳۶ء) دسمبر۱۸۹۷ء ’’کل حضرت اقدس ؑ کو چار پانچ مریدوں کی قسمت دکھلائی گئی جن کو وہ خوب جانتے ہیں اور ایک کی عمر صرف چار سال باقی ہے.اِس سے زیادہ بیان کرنا مناسب نہیں سمجھا.‘‘ (اصحابِ احمد مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب حصہ ۲ صفحہ ۱۲۰ حاشیہ.مکتوب مرزا خدا بخش صاحبؓ بنام نواب محمد علی خان صاحبؓ مطبوعہ اگست ۱۹۵۲ء.رجسٹر روایاتِ صحابہؓ غیر مطبوعہ نمبر ۵صفحہ ۶۲ روایت میاں امام الدین۳؎صاحبؓ سیکھوانی) ۱۸۹۷ء ’’ اور ایک الہام یہ بھی ہوا.۱ چنانچہ سیّدہ مبارکہ بیگم صاحبہ اسی شب پیدا ہوئیں.(شمس) ۲ (ترجمہ از مرتّب) مَیں خدائے عزیز و اکبر کے ساتھ ہوں.تو مجھ سے ہے اور مَیں تجھ سے ہوں.۳ میاں امام الدین صاحبؓ کی روایت کی رُو سے اِس رؤیا کی تاریخ فروری ۱۹۰۰ء ہے.وَاللہُ اَعْلَمُ.(شمس)
۱۸۹۷ء ’’ اور ایک الہام یہ بھی ہوا.’’ وَ قَادِرٌ عَلَی الْاِجْتِـمَاعِ وَ الْاِجْـمَاعِ وَ الْـجَمْعِ.‘‘۱؎ (اصحابِ احمد مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب جلد ۲ صفحہ ۱۲۰ حاشیہ مطبوعہ اگست ۱۹۵۲ء مکتوب مرزا خدا بخش صاحبؓ) ۱۳یا ۱۴؍ جنوری۱۸۹۸ء حضرت حجۃ اللہ نواب محمد علی خان صاحبؓ نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.’’ہم کو خواب ہوا کہ ہماری جماعت کے ایک شخص کو ہم نے دیکھا.لیکن ہم اس کو اُس وقت پہچانتا تھا اَب یاد نہیں.ایک سونے کا کنٹھا پہنایا گیا ہے.مَیں نے کہا کہ ایک رُومال بھی باندھ دو اور وہ رومال بھی باندھا گیا.‘‘ (اصحابِ احمد مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب جلد ۲ صفحہ ۵۲۵، ۵۲۶ مطبوعہ اگست ۱۹۵۲ء ) مارچ۱۸۹۸ء ’’ خواب میں دیکھا کہ سیّد احمد صاحب کا ستارہ قریب۲؎غروب ہے.‘‘ (مکتوب سراج الحق صاحب ؓ نعمانی صفحہ ۶) ۱۲؍ اپریل۱۸۹۸ء ’’لاہور سے ایک بی.اے نوجوان بنّوں کا رہنے والا بڑا تیز طبع ہمارے حضرت ؑ کو دیکھنے کے لئے (آیا) … حضرت ؑ کے دل میں القاء ہوا کہ اس کے لئے دعا کرو.دعا کی.معاً اس کا قلب تبدیل کیا گیا اور بیعت کی درخواست کی.‘‘ (اصحابِ احمد مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب حصّہ دوم صفحہ ۱۱۷ حاشیہ مطبوعہ اگست ۱۹۵۲ء.مکتوب حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ؓ بنام نواب محمد علی خان صاحبؓ) ۱۸۹۸ء میاں عبدالعزیز صاحب ؓ سکنہ لاہور المعروف مغل بیان کرتے ہیں کہ.’’ایک دفعہ جبکہ حضور تریاقِ الٰہی بنا رہے تھے …حضرت خلیفہ اوّل ؓ کے مطب میں…حضرت صاحب ؑ … تشریف لائے اور فرمایا کہ مولوی صاحب مجھے الہاماً بتایا گیا ہے کہ یہ دَوائی گرم خشک ہے میری منشاء ہے کہ اِسے لَسّی سے کھلایا کروں.‘‘ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۹ صفحہ ۲۰ ) ۱۱؍ اگست۱۸۹۸ء ’’ ھُوَ الَّذِیْ اَخْرَجَ مُرْغِـمِیْکَ فَـخَضَّـرَ دَعْوَاکَ۱؎.‘‘ ۱ (ترجمہ از مرتّب) وہ جمع ہونے اور جمع کرنے اور جماعت بنانے پر قادر ہے.۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) سر سیّد احمد خان صاحب کی وفات ۲۷ ؍ مارچ ۱۸۹۸ء کو ہوئی.دیکھیے حیاتِ جاوید مؤلّفہ مولانا الطاف حسین حالی چھٹا باب ۱۸۷۸ء تا ۱۸۹۸ء صفحہ ۳۰۴.
۱۱؍ اگست۱۸۹۸ء ’’ ھُوَ الَّذِیْ اَخْرَجَ مُرْغِـمِیْکَ فَـخَضَّـرَ دَعْوَاکَ۱؎.‘‘ (ذکر حبیب مؤلّفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓصفحہ ۲۱۶ مطبوعہ دسمبر ۱۹۳۶ء) ۶؍ مئی۱۸۹۹ء ’’رات عشاء کی نماز میں حضرت اقدس ؑ کی زبان پر الہاماً جاری ہوا.وَاجْعَلْ اَفْئِدَ ۃً کَثِیْرَۃً مِّنَ النَّاسِ تَـھْوِیْ اِلَـیَّ یعنی انسانوں کے بہت سے دلوں کو میری طرف جھکادے.یہ ایک بشارت ہے سلسلہ کی ترقی کے متعلق.‘‘ (خط نمبر ۱۲ از مولوی عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی ۶؍ مئی ۱۸۹۹ء.مندرجہ تشحیذ الاذہان جلد ۷ نمبر ۶.جون ۱۹۱۲ء صفحہ ۲۴۷) ۱۲؍ جون۱۸۹۹ء ’’ ۱۲ ؍ جون ۱۸۹۹ء کو الہام ہوا.سَیُـھْزَمُ الْـجَمْعُ وَ یُـوَلُّوْنَ الدُّ بُـرَ.‘‘ (خط نمبر ۱۳ از مولوی عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی مندرجہ تشحیذ الاذہان جلد ۷ نمبر ۶.جون ۱۹۱۲ءصفحہ ۲۴۸) (ترجمہ) عنقریب یہ ساری جماعت بھاگ جائے گی اور پیٹھ پھیر لیں گے.(براہین احمدیہ حصہ چہارم.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۹۲) ۱۸؍ اکتوبر ۱۸۹۹ء ’’بِالفِعل خدا تعالیٰ نے میرے دل میں یہی ڈالا ہے کہ بیعت کرنے والے دو قسم میں رکھے جائیں گے ، ایک جو اعلیٰ اور صاف تر زندگی کے خواہشمند اور خدا تعالیٰ کے منشاء کی اطاعت کے لئے حاضر ہیں اور ایک وہ جو کسی قدر کمزور ہیں.‘‘ (اقتباس مکتوب نمبر ۴ از مولوی عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی مورخہ ۱۸؍ اکتوبر ۱۸۹۹ء مندرجہ تشحیذ الاذہان جلد ۷ نمبر ۶.جون ۱۹۱۲ءصفحہ ۲۴۳،۲۴۴) ۱۸۹۹ء ’’حضرت اقدس ؑ کو رؤیاہوئی کہ حامد علی آکر کہتا ہے کہ باہر ایک ہندو کھڑا ہے اور دعا کے لئے درخواست کرتا ہے.حضور اقدس ؑ اسے کہتے ہیں کہ بے نذر لئے ہم دعا کرنے کے نہیں.پھر حامد علی دوبارہ واپس آتا ہے تو ایک چھوٹا بَیگ اور دو چادریں ہیں اُن میں روپیہ بھر کر لاتا ہے.فرمایا.ہندو سے مراد ایسا شخص ہوا کرتا ہے جو دنیا کے غم ھَم میں مبتلا ہو اور چاہے کہ کسی طرح دُنیوی ۱ (ترجمہ از مرتّب) وہی ہے جس نے تیرے بدخواہوں کو نکالا.پھر تیرے دعویٰ کو سر سبز کیا.
ابتلاؤں سے نجات ہو.‘‘ (مکتوب۱؎ از حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی مندرجہ تشحیذ الاذہان جلد ۷ نمبر ۶ ؍ جون ۱۹۱۲ء صفحہ۲۴۷) ۵؍ جنوری ۱۹۰۰ء (الف) ’’۷؍ جنوری ۱۹۰۰ء کو صبح کی نماز کے وقت حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ پرسوں کی نماز میں جب مَیں التّحیّات کے لئے بیٹھا تو بجائے التّحیّات کے یہ دعا پڑھنے لگ گیا صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُـحَمَّدٍ وَّ عَلَیْکَ وَ یُـرَدُّ دُعَآءُ اَعْدَآءِکَ عَلَیْـھِمْ۲؎.حضرت صاحب ؑفرماتے تھے کہ مَیں نے خیال کیا کہ یہ کیا پڑھ رہا ہوں ، تو معلوم ہوا کہ الہام ہے.‘‘ (روایت منشی محمد الدین صاحب ؓ واصل باقی نویس.رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۱۱ صفحہ ۱۰۴ و رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۱۴ صفحہ ۱۴۲) (ب) صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحبؓ جمالی نعمانی نے بیان کیا کہ.’’ ایک روز مغرب کی نماز پڑھی گئی اور مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس کھڑا تھا.جب نماز کا سلام پھیرا گیا تو آپ ؑ نے بایا ں ہاتھ میری دائیں ران پر رکھ کر فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب ! اِس وقت مَیں اَلتَّحِیَّات پڑھتا تھا الہاماً میری زبان پر جاری ہوا کہ.صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْکَ وَ عَلٰی مُـحَمَّدٍ.‘‘ (الحکم جلد ۲۶ نمبر ۱۹، ۲۰ مورخہ ۲۱، ۲۸ ؍ مئی ۱۹۲۴ء صفحہ ۵) ۷؍ جنوری ۱۹۰۰ء منشی محمد الدین صاحب ؓ واصل باقی نویس ولد میاں نورالدین صاحب ضلع گجرات نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کو نمازِ عصر اَلتَّحِیَّات میں الہام ہوا.’’وَاجْعَلْ لِّی غَلَبَۃً فِی الدُّ نْیَا وَالدِّیْنِ.‘‘۳؎ ( رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۱۱ صفحہ ۱۰۴ ،۱۰۵.رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۱۴ صفحہ ۱۴۲) ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یہ مکتوب حضرت مولانا نے افریقہ کے ایک شخص کو لکھا کہ ’’آپ کا وعدہ ارسال روپیہ آنے سے ایک ہفتہ قبل حضور اقدس ؑ کو رؤیا ہوئی… پھر جب نام بنام فہرست چندہ پر مشتمل خط آیا تو تاویل وتصدیق واضح ہوگئی.‘‘ (از مکتوب مذکور) ۲ (ترجمہ از مرتّب) اللہ تعالیٰ محمد ؐ پر صلوٰۃ بھیجے اور تجھ پر بھی ، اور تیرے دشمنوں کی بد دُعا اُن پر لوٹا دی جائے گی.۳ (ترجمہ از مرتّب) اور دنیا اور دین میں مجھے غلبہ دے.
۱۳؍ جنوری۱۹۰۰ء منشی محمد الدین صاحب ؓ واصل باقی نویس نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کو ظہر کی نماز میں سُنّت بعد از فرض کے التحیات میں یہ الہام ہوا.’’وَاجْعَلْ لِّی نَافِعًا ھٰذِہِ التِّجَارَۃَ.‘‘۱؎ ( رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۱۱ صفحہ ۱۰۶.رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۱۴ صفحہ ۱۴۳) ۱۷؍ جنوری۱۹۰۰ء منشی محمد الدین صاحب ؓ واصل باقی نویس نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کو الہام ہوا.’’اِنِّیْ اَعْزَزْتُ وَ اَکْرَمْتُ وَ یَسُرُّنِیْ قَوْلُکَ اِنِّیْ عَلَّمْتُ.‘‘۲؎ ( رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۱۱ صفحہ ۱۰۹حاشیہ.رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۱۴ صفحہ ۱۴۶) ۱۷؍ جنوری۱۹۰۰ء منشی محمد الدین صاحب ؓ واصل باقی نویس ساکن کھاریاں نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کو الہام ہوا.’’ لَھُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ بِـھَا.اَنَرْتُ مَکَانَکَ.‘‘۳؎ ( رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۱۴ صفحہ ۱۴۵) یکم فروری ۱۹۰۰ء منشی محمد الدین صاحب ؓ واصل باقی نویس نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کو الہام ہوا.اَمِتْنِیْ فِی الْمَحَبَّۃِ وَالْوِدَادِ وَکُنْ فِیْ ھٰذِ ہٖ لِیْ وَالْمَعَادٖ وَلَمْ یَبْقَ الْھُمُوْمُ لَنَا فَاِنَّا تَوَکَّلْنَا عَلٰی رَبِّ الْعِبَادٖ۴؎ ( رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۱۱ صفحہ ۱۰۹حاشیہ.رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۱۴ صفحہ ۱۴۶) ۱ (ترجمہ از مرتّب) اور میرے لئے یہ تجارت نفع والی بنا.(نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) اشارہ ’’ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِـجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ.(الصّف:۱۱) والی تجارت کی طرف معلوم ہوتا ہے.میاں محمد الدین صاحب ؓ کی روایت مندرجہ رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۱۴ صفحہ ۱۴۳ میں ’’لِیْ‘‘ نہیں ہے.۲ (ترجمہ از مرتّب) مَیں نے عزت دی اور آپ کی بات مجھے پسند آتی ہے.مَیں نے اسے تعلیم دی.(نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) ان ہی کی روایت میں الہام کا آخری فقرہ ’’ فَا‘‘ کی زیادتی کے ساتھ ’’فَاِنِّیْ عَلَّمْتُ ‘‘ لکھا ہے.۳ (ترجمہ از مرتّب) ان کے دل تو ہیں پر سمجھتے نہیں.مَیں نے تیری جگہ روشن کی.۴ (ترجمہ از مرتّب) مجھے اپنی محبّت میں ہی وفات دے اور اِس دُنیا اور آخرت میں تُو میرا ہوجا اور ہمیں کوئی غم نہیں رہے.کیونکہ ہم نے ربّ العباد پر توکل کیا.
۱۸؍ فروری۱۹۰۰ء مرزا خدا بخش صا۱؎حبؓ نے تحریر کیا کہ.’’پانچ روز ہوئے حضرت اقدس ؑ نے دیکھا ہے کہ ایک آدمی قتل ہوگیا ہے اور کل اس کا وقوعہ ہوگیا.یہاں کے زمیندار باہم لڑپڑے اور ایک آدمی مارا گیا.‘‘ (اصحابِ احمد مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے حصّہ دوم صفحہ۱۲۰ حاشیہ از مکتوب مرزا خدا بخش صاحبؓ مورخہ ۲۳؍ فروری ۱۹۰۰ء.مطبوعہ اگست ۱۹۵۲ء) مارچ۱۹۰۰ء حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ؓسیالکوٹی نے تحریر کیاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام ہوا.’’ کُلُّ الْعَقْلِ فِیْ لُبْسِ النَّظِیْفِ وَ اَکْلِ اللَّطِیْفِ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اِس کی بہت (لطیف) تفسیر فرمائی.خلاصہ یہ ہے کہ اکلِ حلال اور لباسِ نظیف نشان ہے اِنسان کی دانش کا.‘‘ ( اصحابِ احمد مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے حصّہ دوم صفحہ ۴۴۴ مطبوعہ اگست ۱۹۵۲ء) ۱۱؍ اپریل۱۹۰۰ء عزیز دین صاحبؓ ولد بھاگ صاحب ساکن قادیان نے بواسطہ عیدا صاحب سکنہ موضع کنڈیلا بیان کیا کہ (مسجد اقصٰے میں نمازِ عید ادا کرنے کے بعد ) حضور ؑ نے اُٹھ کر کاغذ پر نقشہ منار کھینچا اور فرمایا کہ ’’ مجھے خدا نے فرمایا ہے کہ اِس قسم کا مینار تم تیار کراؤ.‘‘ (رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۷ صفحہ ۳۴۵) ۱۹۰۰ء شیخ نور احمد صاحب ڈاکٹر کا بیٹا سخت بیمار ہوگیا.اُمّ الصبیان کا دَور ہ ہوگیا.حالت یاس کی پیدا ہوگئی.حضرت ؑ نے دُعا کی.الہام ہوا.’’ اَنَـا اللّٰہُ ذُو الْمِنَن.‘‘۲؎ (چنانچہ ) لڑکا اچھا ہوگیا.(ذکر حبیب مؤلفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓصفحہ ۲۳۸ مطبوعہ دسمبر ۱۹۳۶ء) ۱۹۰۰ء فرمایا.’’ تھوڑی سی غنودگی کے ساتھ الہام ہوا.’’ اِنَّـا لِلہِ ہمارا بھائی اِس دُنیا سے چل دیا‘‘ مصداق ذہن میں نہیں آیا.اللہ تعالیٰ عزا پُرسی کرتا ہے اور اظہارِ ہمدردی کرتا ہے.‘‘ (ذکر حبیب مؤلفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓصفحہ ۲۳۹ مطبوعہ دسمبر ۱۹۳۶ء) ۱ (نوٹ از ناشر) ملازم حضرت حجۃ اللہ نواب محمد علی خان صاحبؓ.۲ (ترجمہ از مرتّب) مَیں خدا ہوں بہت احسانوں والا.
۶؍ جون۱۹۰۰ء ’’عِنْدَ ذٰلِکَ اَوْ شَکَ الرَّدٰی.اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِ یْـرٌ.ایسے وقت میں موت نزدیک ہوجاتی ہے.یقینا اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے.‘‘ (ذکر حبیب مؤلفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓصفحہ ۲۳۹ مطبوعہ دسمبر ۱۹۳۶ء) ۷؍ جون۱۹۰۰ء ’’اِنَّـا کَذٰ لِکَ نَـجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ.جو ہماری طرف آتے ہیں ہم ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتے ہیں.‘‘ (ذکر حبیب مؤلفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓصفحہ ۲۴۰ مطبوعہ دسمبر ۱۹۳۶ء) ۱۸؍ جون۱۹۰۰ء پرسوں حضرت ؑ کو سر دَرد ہوا.اِس اثناء میں ایک اشتہار کشفاً دکھایا گیا.اس میں غزنویوں کا تھا.آخر ایک سطر میں تھوڑا سا لکھا ہوا یاد رہا.’’ مُنہ کالے‘‘ پھر الہام ہوا.’’شَاھَتِ الْوُجُوْہُ.‘‘۱؎ (از مکتوب حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ؓ بنام میر حامد شاہ صاحب ؓ مندرجہ الحکم جلد ۳۷ نمبر ۱۰ مورخہ ۲۱ ؍ مارچ ۱۹۳۴ءصفحہ ۱۰) نومبر۱۹۰۰ء ’’ مَیں کئی روز بہت بیمار رہا.صحت خراب ہوگئی ہے.تین روز ہوئے بشیر محمود کو سخت بخار ہوا.فرمایا مَیں نے دُعا کرنے کا ارادہ کیا تو میرے دل میں آیا کہ آپ۲؎ (مجھے مخاطب کرکے فرمایا)بیمار ہیں اور مولوی نورالدین صاحب ؓ بھی بیمار ہیں.پھر تینوں کے لئے دُعا کی.الہام ہوا.’’لِلْاَ تْبَاعِ وَالْاَوْلَادِ ‘‘ یعنی تیری اولاد اور تیرے پیروؤں کے حق میں تیری دُعا سنی گئی.‘‘ (ذکر حبیب مؤلفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓصفحہ ۲۳۸ مطبوعہ دسمبر ۱۹۳۶ء) ۱۹۰۰ء پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓ کا بیان ہے کہ ایک روز صبح کی نماز کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ آج تھوڑی دیر ہوئی عجیب الہام ہوا کہ جو سمجھ میں نہیں آیا.پہلے الہام۳؎ ہوا.۱ (ترجمہ از الحکم) ’’منہ کالے ہوگئے.‘‘ (یہ مخالفین کی طرف اشارہ ہے) (الحکم مورخہ ۲۱؍ مارچ ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۰) ۲ یعنی حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ؓ.(عبد اللطیف بہاولپوری) ۳ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) ’’اِس الہام میں دراصل تین پیشگوئیاں ہیں.اوّل یہ کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی
’’تائی آئی ‘‘ ہمارے تو کوئی تائی ہے نہیں نہ نزدیک نہ دُور، ہاں ہمارے لڑکوں کی تائی ہے جو وہ ہماری دشمن ہے.پھر الہام ہوا.’’تار آئی ‘‘ (البشریٰ قلمی نسخہ مرتبہ پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ صفحہ ۱۱۳ حاشیہ) ۲۵؍ فروری۱۹۰۱ء ’’ کَشَابٍ مَّسْلُوْخَۃٍ عِنْدَ وَعْظٍ مُّعَطَّلٍ.‘‘۱؎ (الحکم جلد ۲۶ نمبر۱۹ ، ۲۰مورخہ۲۸/۲۱مئی ۱۹۲۴ءصفحہ ۱۸) ۱۹۰۱ء حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا.(الف) ’’جب قادیان کی زندگی احمدیوں کے لئے اِس قدر تکلیف دِہ تھی کہ مسجد میں خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے آنے سے روکا جاتا.راستہ میں کِیلے گاڑدیئے جاتے تاکہ گزرنے والے گریں.اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بتایا مجھے دکھایا گیا ہے (کہ) یہ علاقہ اِس قدر آباد ہوگا کہ دریائے بیاس تک آبادی پہنچ جائے گی.( الفضل جلد ۱۶ نمبر ۱۳ مورخہ ۱۴؍ اگست۱۹۲۸ء صفحہ ۶ ) بقیہ حاشیہ.اولاد میں سے خلیفہ ہوگا.دوم یہ کہ اس وقت (حضور ؑ کی اولاد کی ) تائی صا حبہ جماعت میں شامل ہوں گی.تیسرے تائی صاحبہ کی عمر کے متعلق پیشگوئی تھی …کہ وہ زندہ رہے گی اور آپ ؑ کی اولاد سے ایک خلیفہ ہوگا جس کی بیعت میں (وہ) شامل ہوگی.‘‘ (خطبات محمود جلد ۱۱ صفحہ ۲۵۱ تا ۲۵۳ شائع کردہ فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ) (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) تائی صاحبہ کا نام حُرمت بی بی تھا اور آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کی زوجیت میں تھیں.آپ نے ۱۹۱۶ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہاتھ پر بیعت کی.(دیکھیے الفضل مورخہ ۴؍ مارچ ۱۹۱۶ء) اور یکم؍ دسمبر ۱۹۲۷ءمیں ۹۷ سال کی عمر میں وفات پائی.آپ موصیہ تھیں اور بہشتی مقبرہ کے قطعہ خاص میں مدفون ہوئیں.( الفضل مورخہ ۹؍ دسمبر ۱۹۲۷صفحہ ۵ تا ۸ ) اور تار آئی سے یہ مراد تھی کہ یہ خبر گویا خدا تعالیٰ آسمانی تار کے ذریعہ دے رہا ہے.(ایضاً) ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) غالباً یہ لفظ کَشَاۃٍ ہے جو کاتب کی غلطی سے کَشَابٍ لکھا گیا.وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.جس کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ اس میں ایک شخص کی حالت کا بیان ہے کہ اس کا حال ایک بے کار وعظ کے وقت بھی رِقّت سے ایسا ہوجاتا ہے، گویا کھال اُتری ہوئی بکری ہے.
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا.(ب) ’’مجھے یاد ہے اِسی میدان سے جاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنا ایک رؤیاسنایا تھا کہ قادیان بیاس تک پھیلا ہوا ہے اور مشرق کی طرف بھی بہت دُور تک اس کی آبادی چلی گئی ہے.اُس وقت یہاں صرف آٹھ دس گھر احمدیوں کے تھے اور وہ بھی بہت تنگ دست، باقی سب بطور مہمان آتے تھے.‘‘ (فرمودہ ۲۳؍ جنوری ۱۹۳۲ء بر موقع دعوت باعزاز مولانا جلال الدین شمسؓ.الفضل جلد ۱۹ نمبر ۹۵مورخہ ۹؍ فروری۱۹۳۲ء صفحہ ۶ ) اگست۱۹۰۱ء حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ (مقدّمہء دیوار میں) ’’عدالت نے فیصلہ کیا کہ خرچ کا کچھ حصّہ ہمارے چچاؤں پر ڈالا جائے…جب اس ڈگری کے اجراء کا وقت آیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور میں تھے.آپ ؑ کو عشاء کے قریب رؤیا یا الہام کے ذریعہ بتایا گیا کہ یہ بار اُن پر بہت زیادہ ہے اور اِس کی وجہ سے وہ (مخالف رشتہ دار) تکلیف میں ہیں چنانچہ آپ ؑ نے فرمایا کہ مجھے رات نیند نہیں آئے گی اِسی وقت آدمی بھیجا جائے جو جاکر کہہ دے کہ ہم نے یہ خرچ تمہیں معاف کردیا ہے.‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ۲۴؍ جولائی ۱۹۳۶ء.الفضل جلد ۲۴ نمبر ۲۹مورخہ ۲؍ اگست ۱۹۳۶ء صفحہ ۸ ) ۱۷؍ دسمبر۱۹۰۱ء منشی محمد الدین صاحبؓ واصل باقی نویس نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کو الہام ہوا.’’ لَا یَـاْ تُوْنَ بِـمِثْلِہٖ وَ لَوْ کَانَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَھِیْرًا.‘‘۱؎ ( رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۱۱ صفحہ ۱۱۶حاشیہ.رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۱۴ صفحہ ۱۵۱) ۲۲؍ دسمبر۱۹۰۱ء نور محمد صاحبؓ پنشنر تحصیلدار موضع موچی پورہ ضلع ملتان نے بیان کیا کہ (مَیں جبکہ) ۲۲ ؍ دسمبر ۱۹۰۱ء کو دار الامان میں آیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اُس روز الہام ہوا تھا کہ.’’قدیمانِ خود را بیفزائے قدر‘‘۲؎ (رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر۵ صفحہ ۷۶ ) ۱ (ترجمہ از مرتّب) وہ اس کی مانند نہیں لاسکیں گے خواہ ایک دوسرے کے مددگار ہوں.۲ (ترجمہ از مرتّب) اپنے قدیمی تعلق والوں کی قدر بڑھا.
جنوری ۱۹۰۲ء ڪ’’ لِیَحْمِلْہُ رَجُلٌ.‘‘۱؎ (تحریر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ۱۹۰۲ء (الف) مرز اقدرت اللہ صاحبؓ ساکن محلہ چابک سواراں لاہور نے بیان کیا کہ.’’ غالباً ۱۹۰۲ء کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صبح سَیر کے لئے تشریف لے گئے…جب ہم اُس گاؤں کے بیچ میں پہنچے جو نواں پِنڈ کے نام سے مشہور ہے…خلیفہ رجب الدین صاحب نے (مجھے کہا)… کہ حضرت صاحب نے اس مقام پر جہاں سے کہ ریلوے لائن گزرے گی، اپنے سوٹا سے نشان کردیا ہے چنانچہ کئی سالوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے مسیح موعود علیہ السلام کی زبانِ مبارک سے نکلی ہوئی باتوں کو پورا کیا.‘‘ (رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۴صفحہ ۱۷۷) (ب) مکرم شاہ محمد صاحبؓ ولد غلام قادر صاحب سکنہ قادیان بیان کرتے ہیں.’’ آپ ؑ فرماتے تھے کہ یہاں پر ریل بھی آئے گی.‘‘ (رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۵ صفحہ ۸۱.رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۶ صفحہ۷ روایت نتھو صاحب سکنہ قادیان) (ج) سردار بیگم صاحبہؓ زوجہ چوہدری محمد حسین صاحبؓ تلونڈی عنایت خاں بیان کرتی ہیں.(بٹالہ والی سڑک کے خراب اور تکلیف دِہ ہونے کی شکایت پر) حضرت صاحب ؑ نے فرمایا کہ ’’گھبراؤ نہیں.کوئی دن وہ ہوگا جب یہاںگاڑی آجائے گی.‘‘ (رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۱۰ صفحہ ۲۱۲روایت سردار بیگم صاحبہؓ زوجہ چودھری محمد حسین صاحبؓ تلونڈی عنایت خاں) ۱ (ترجمہ از مرتّب) یعنی یہ کمزور ہے اس کے سہارا کے لئے اس کے ساتھ کوئی آدمی جانا چاہیے.(نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یہ الہام حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے متعلق ہے.جب آپ بچپن میں بٹالہ میں مڈل کا امتحان دینے جارہے تھے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام ہوا.اِس کے متعلق الحکم مورخہ ۱۷؍ جنوری ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۵ میں اِن الفاظ میں اشارہ ملتا ہے.’’صاحبزادہ محمود صاحب بھی شامل امتحان ہوئے.حضرت اقدس ؑ کو جو الہام اس کے متعلق ہوا ہے اگلی اشاعت میں درج کریں گے.‘‘ مگر افسوس کہ پھر اس کی اشاعت نہ کی جاسکی.خاکسار مرتّب نے جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں اِس الہام کی تصدیق کے متعلق درخواست کی تو حضور نے تحریر فرمایا کہ ’’یہ الہام درست ہے.مَیں تو چھوٹا تھا مولوی شیر علی صاحب ؓ نے مجلس سے آکر ہمیں سنایا تھا.‘‘ (تحریر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز)
۱۹۰۲ء (سردار ماسٹر عبدالرحمٰن صاحب ؓ جالندھری ) بیان کرتے ہیں.’’جن ایام میں پیر مہر علی گولڑوی کو حضور ؑ نے مقابلۃً تفسیر نویسی لکھنے کا چیلنج دیا ہوا تھا حضرت مسیح موعودؑ کو الہام ہوا کہ بعض لوگ حضور ؑ کی جان پر حملہ کرنے کو آئیں گے.چونکہ مَیں حضرت اقدس ؑ کے مکانات کے پہرہ کا انتظام کیا کرتا تھا مجھے پتہ لگا کہ ضلع راولپنڈی کے دو تین اشخاص جو پیر مہر علی شاہ کے فرستادہ معلوم ہوتے تھے، لوگوں سے حضرت مسیح موعود ؑ کی بود و باش، رہائش مکان اور اندر باہر آنے جانے کی جستجو کرتے تھے.مَیں نے حضرت اقدس ؑ کو اطلاع کردی.حضور ؑ نے حاکم علی سپاہی کے ذریعہ ان لوگوں کو بٹالہ پہنچا دیا.‘‘ (اصحابِ احمد مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب جلد ۷ صفحہ ۱۵۳ مطبوعہ اگست ۱۹۶۰ء) ۱۹۰۳ء (الف) ’’اگست ۱۹۰۳ء میں بنّوں کا ایک عیسائی گل محمد نام قادیان آیا.بہت گستاخی سے جھگڑتا اور بحث کرتا رہا اور اسی حالت میں چلاگیا.اُس کے چلا جانے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک رؤیا دیکھا کہ گل محمد آنکھوں میں سُرمہ لگارہا ہے.فرمایا.معلوم ہوتا ہے کہ اُسے ہدایت ہوجائے گی چنانچہ بہت سالوں کے بعد سنا گیا تھا کہ اُس نے پھر اسلام قبول کیا تھا.بنّوں کے مشہور ڈاکٹر پینل۱؎ کی بیوہ نے بھی مجھے اپنے کارڈ میں لکھا ہے کہ گل محمد نے عیسائیت کو ترک کردیا تھا اور اپنے پہلے مذہب میں داخل ہوگیا تھا.‘‘ (ذکر حبیب مؤلفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓصفحہ ۱۱۱ مطبوعہ دسمبر ۱۹۳۶ء) (ب) ’’مولوی محمد دین صاحبؓ ناظر تعلیم و تربیت صدر انجمن احمدیہ ربوہ نے یوں بیان کیا کہ ’’ اُس کے چلے جانے کے بعد دوسرے دن یا چند روز بعد ایک دن آپ ؑ نے فرمایا مَیں نے اس شخص کورؤیامیں دیکھا کہ مجھ سے سُرمہ دانی یا سُرمہ کی سلائی مانگتا ہے.فرمایا کہ اس کے معنی ہیں کہ وہ مجھ سے نُور و ہدایت کا طلب گار ہے.‘‘ (الفضل جلد ۲۹ نمبر ۲۷۶ مورخہ ۵؍ دسمبر ۱۹۴۱ء صفحہ ۱۰) جنوری ۱۹۰۴ء فرمایا ۱۵ یا ۲۰ دن یا شاید ایک ماہ کا عرصہ ہوا ہے مجھے الہام ہوا تھا.’’ایک وارث احمدی فوت ہوگیا.‘‘ (ضمیمہ اخبار بدر جلد ۳ نمبر ۶ مورخہ ۸؍فروری ۱۹۰۴ء صفحہ ۴، ۵) ۱ Dr.Pennell
۱۷؍ فروری۱۹۰۴ء قاضی عبدالرحیم صاحب ؓبھٹی آف قاضی کوٹ ۱۷ ؍ فروری ۱۹۰۴ء کی ڈائری میں لکھتے ہیں.’’آج رات حضرت ؑ نے خواب بیان فرمایا.کسی نے کہا کہ جنگ ِ بدر کا قصہ مت بھولو.‘‘ (اصحابِ احمد مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب جلد ۶ صفحہ ۱۳۳ مطبوعہ ۱۹۶۰ء) ۱۹۰۴ء شیخ خیرالدین۱؎صاحبؓ نے بیان کیا کہ ایک دفعہ چندولال مجسٹریٹ کے متعلق حضور ؑ نے فرمایا جبکہ کرم دین کا مقدّمہ پیش تھا کہ ’’ مَیں تو چندو لال۲؎کو عدالت کی کرسی پر نہیں دیکھتا.‘‘ (الحکم جلد ۳۸ نمبر ۲۵ مورخہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۳۵ء صفحہ ۴.رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ ۹ صفحہ ۵۸، ۵۹) مئی ۱۹۰۴ء حضرت مولوی شیر علی صاحب ؓ کی ایک روایت بوساطت مولوی محمد عبداللہ صاحب بوتالوی لکھی ہے ’’قاضی ضیاء الدین صاحبؓ ساکن کوٹ قاضی …نے حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں ایک عریضہ نہایت انکساری کے الفاظ میں دعا کی درخواست کرتے ہوئے لکھا …حضرت اقدس علیہ السلام نے خط پہنچنے کے بعد دعا کی اور آپ کو رات کے وقت جواب ملا.’’وہ بیچارہ فوت ہوگیا ہے‘‘ آپ نے صبح حاضرین سے کہا کہ مَیں نے اِس طرح سے دعا کی تھی اور یہ جواب ملا ہے.تھوڑی دیر بعد ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یہ صاحب اصل میں باشندہ لدھیانہ کے تھے او رموچی کا کام کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جوتی بناکردیا کرتے تھے ان کا بیان ہے کہ مَیں گورداسپور میں کرم دین کے مقدّمہ میں حضور ؑ کے ساتھ رہا.۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) ایک دفعہ چند ایک غیر احمدیوں نے کہا کہ حضور چند و لال مجسٹریٹ کا ارادہ آپؑ کو قید کرنے کا ہے.آپ ؑ دری پر لیٹے تھے ‘اُٹھ بیٹھے اور فرمایا کہ مَیں تو چندو لال کو عدالت کی کرسی پر نہیں دیکھتا چنانچہ آخر وہ اس عہدہ سے تنزل ہوکر ملتان تبدیل ہوگیا اور پھر پنشن پاکر لدھیانہ آیا اور آخر پاگل ہو کر مرا.(الحکم مورخہ ۱۴؍ جولائی۱۹۳۵ء صفحہ ۴) اس کے تنزل کی نسبت پیشگوئی کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۲۶ نشان نمبر ۲۹ میں بھی فرمایا ہے.
ڈاک میں خط آیا کہ قاضی صاحب۱؎فوت ہوگئے ہیں.‘‘ (الحکم جلد ۴۲نمبر ۵، ۶مورخہ ۱۴ ،۲۱؍ فروری ۱۹۳۹ءصفحہ ۳ ) ۱۹۰۴ء میاں عبدالعزیز صاحبؓ سکنہ لاہو رالمعروف مغل نے بیان کیا کہ.’’ایک دفعہ گورداسپور میں حضور ؑ نے صاحبزادہ مبارک احمد کو بوسہ دیا تو حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے مجھے کہا ہے کہ اس کو چُومو.‘‘ (رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۹ صفحہ ۴۵) ۷؍ اکتوبر۱۹۰۴ء چودھری محمد علی خان صاحبؓ اشرف ہیڈ ماسٹر بیرم پور نے بیان کیا کہ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ) اسی مقدّمہ کرم دین کی آخری پیشی پر تاریخ فیصلہ سے ایک دن قبل بوقت نماز عصر … فرمایا کہ ہم نے رؤیا دیکھی ہے کہ ہم سفید گھوڑے پر سوار باہر سے گھر کو آرہے ہیں.(مفہوم) اور ہمارے گھر والے یہ الفاظ کہہ رہے ہیں کہ ہمارا نقصان ہوگیا ہے (غالباً روپوں کا) تو مَیں نے کہا کہ کچھ مضائقہ نہیں.مَیں تو سلامت آگیا ہوں.اِس رؤیاکی تعبیر آپ ؑ نے یہ فرمائی کہ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ منصف ( جو بے حد متعصب آریہ ہے اور آنحضور ؑ کے خلاف فیصلہ دینے پر تلا ہوا ہے )ہمیں جرمانہ وغیرہ کی سزا دے گا اور دوسری قِسم کی سزا نہ دے سکے گا.بالآخر عدالت ِ عالیہ سے ہم بَری ثابت ہوں گے اور اس کی شرارتوں سے ہم بچ کر سلامت رہیں گے چنانچہ دوسرے دن یہی وقوعہ پیش آیا کہ منصف نے آپ ؑ کے خلاف جرمانہ کا حکم سنایا جو اُسی وقت ادا کیا گیا …اور اپیل کرنے پر جرمانہ بھی معاف ہوگیا.‘‘ (الحکم جلد ۳۸ نمبر ۳ مورخہ ۲۸؍ جنوری ۱۹۳۵ء صفحہ ۴ ) ۸؍ اکتوبر۱۹۰۴ء شکر الٰہی صاحب موضع نبی پور ضلع گورداسپور نے بیان کیا کہ.’’مولوی کرم دین کے مقدمہ کے فیصلہ …کے (دن) عصر کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام درختوں کے نیچے …ٹہل رہے تھے …ٹہلتے ٹہلتے آپ ٹھہر گئے.مولوی صاحب ( یعنی حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو کچھ فرمایا اور اُسی وقت (عدالت سے) آواز پڑگئی.شیڈ میں آیا تھا کہ آپ ؑ نے مولوی صاحب کو مخاطب ہوکر فرمایا کہ مولوی صاحب ! کیا دیکھتا ہوں کہ میرا رُومال تالاب میں گر گیا ہے.ٹٹولنے سے مل گیا ہے.فرمانے لگے کہ کچھ جرمانہ ہوگا مگر معاف ہوجاوے گا.سو ایسا ہی ہوا.‘‘ (رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۳صفحہ ۱۱۴) ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) قاضی صاحب مرحوم کے فرزند قاضی محمد عبداللہ صاحب سابق ناظر ضیافت سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اُن کے والد صاحب موصوف کی وفات ۱۵؍ مئی ۱۹۰۴ء کو ہوئی تھی.
۱۰؍ اکتوبر۱۹۰۴ء میاں اللہ یار صاحب ؓ ٹھیکے دار بٹالوی نے بواسطہ مولوی غلام نبی صاحب مصری بیان کیا کہ مقدمہ گورداسپور کی کارروائی سے فارغ ہونے کے بعد جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام واپس ہونے لگے تو حضور ؑ کو کشف یا الہام ہوا کہ.’’راستہ بٹالہ والا خطرناک ہے‘‘ اِس لئے حضور ؑ نے حکم دیا کہ یکّے لاؤ تو اُسی وقت تین یکّے لائے گئے ( اور راستہ بدل کر چل پڑے) تو اُس وقت حضور ؑ نے فرمایا کہ یہ وجہ راستہ بدلنے کی ہے.تو حضور ؑ کچی سڑک پر قادیان پہنچے اور اِدھر ایک رَتھ حضور ؑ کی خاطر بٹالہ بھیجا گیا تھا تو بجائے حضور ؑ کے سوار ہونے کے اَور لوگ رَتھ میں سوار ہوئے.ان میں ایک شیخ یعقوب علی صاحبؓ تھے.جب پُلپر پہنچے تو پُل پر ایک بناوٹی میلہ مخالفوں نے بنارکھا تھا جس میں مسانیاں اور بٹالہ کے مخالف تھے یہ مشورہ کیا کہ جب مرزا صاحب ؑ پُل پر پہنچ گئے تو پُل کے مغربی سمت کے لوگ اور مشرقی سمت کے (لوگ) پُل پر ہی پکڑ لیں گے اور نہر میں ہی پھینک دیں گے …جب بٹالہ سے رَتھ روانہ ہوکر پُل کے قریب آیا تو مخالف حسب ِ مشورہ دَوڑ کر رَتھ پر پڑگئے… حملہ کیا.جب دیکھا کہ رَتھ مرزا صاحب ؑ سے خالی ہے اور سوار اَور لوگ ہیں تو انہوں نے ابتدائی حملہ کی ضربوں پر افسوس کیا.(رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۱۰صفحہ ۲۸۰، ۲۸۱) ۱۹۰۵ء (تقریباً) حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے تحریر فرمایا.’’عرصہ قریباً پانچ سال یا اِس سے زیادہ عرصہ گزرا کہ حضرت صاحب ؑ نے اپنا ایک خواب شائع کیا تھا کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب گھوڑے پر سے گرے ہیں جو کہ ۱۸ ؍ نومبر ۱۹۱۰ء کو بعینہٖ پوری۱؎ہوگئی.‘‘ (تشحیذ الاذہان جلد ۵نمبر ۱۱ ماہ؍ نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۳۹۹) ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جبکہ حضور اُن دنوں تشحیذ الاذہان کے ایڈیٹر تھے اِس پیشگوئی کے متعلق لکھا.’’پیشگوئی کا ایسے وقت میں ہونا جب آپ کے پاس کیا، قادیان کے احمدیوں میں سے کسی کے پاس بھی گھوڑا نہ تھا.پھر اس عرصہ میں حضرت مسیح موعود ؑ کا فوت بھی ہوجانا اور اس پیشین گوئی کا بالکل ظہور نہ ہونا.پھر کسی شخص کا عزیزم عبدالحی سلّمہ اللہ تعالیٰ کو گھوڑا ہدیۃً پیش کرنا اور خریدا ہوا نہ ہونا.نواب صاحب کے خود آکر ملنے کے باوجود حضرت مولوی صاحب کا وہاں تشریف لے جانا.رکابوں کا چھوٹا ہونا اور باوجود کہنے کے آپ کا بچوں کی تکلیف کے خیال سے اُن کے لمبے کرنے
۴؍ اپریل۱۹۰۵ء میاں امام الدین صاحبؓ سیکھوانی نے بیان کیا کہ حضرت صاحب ؑ نے فرمایا کہ ’’مجھے خدا نے فرمایا ہے جو شریر ہوگا اُس کو مَیں دنیا میں بھی عذاب دوں گا اور آخرت میں بھی.اگر شرافت سے وقت گذارلے خواہ بت پرستی کرے تو اس کے متعلق خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ اُس کو مَیں حشر کو عذاب دوں گا.‘‘ (الحکم جلد ۳۸ نمبر ۳۵، ۳۶ مورخہ ۷، ۱۴؍ اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۵) ۱۹۰۵ء ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب ؓ پیر منظور محمد صاحب ؓ سے بیان کرتے تھے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام بڑے زلزلہ کے بعد باغ میں مقیم تھے تو ایک دن آپ کو الہام ہوا تھا کہ.’’تین بڑے آدمیوں میں سے ایک کی موت‘‘ …کچھ دن میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی بیمار ہوگئے اور چند روز میں فوت ہوگئے.(سیرت المہدی مؤلفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم.اے، جلد ۱ روایت نمبر ۴۹۷ صفحہ ۵۱۵، ۵۱۶ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۹۰۵ء قاضی حبیب اللہ صاحبؓ لاہوری بیان کرتے ہیں کہ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) جب مولوی عبدالکریم صاحبؓ کی قبر پر دعا فرماکر واپس تشریف لارہے تھے تو… فرمانے لگے.’’آج رات مجھے الہام ہوا ہے.حَرَامٌ عَلٰی قَرْیَۃٍ اَھْلَکْنَاھَا اَنَّـھُمْ لَا یَـرْجِعُوْنَ.۱؎ اور اس کی بار بار تکرار ہوئی.فرمایا یہ پہلے بھی کئی مرتبہ الہام ہوا ہے مگر رات اِس کے عجیب معنی سمجھا ئے گئے وہ یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں نے یہ فیصلہ کر چھوڑا ہے کہ آئندہ لیکھرام جیسے.عبداللہ آتھم جیسے.پادری فنڈل۲؎ جیسے.عماد الدین جیسے پیدا ہی نہیں کروں گا.‘‘ (الحکم جلد ۳۹ نمبر ۲۲ مورخہ ۱۴ ؍ اکتوبر ۱۹۳۶ء صفحہ ۴) دسمبر۱۹۰۵ء حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا.’’مجھے خوب یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ باغ میں گئے اور فرمایا مجھے یہاں چاندی کی بقیہ حاشیہ.سے منع کرنا.احباب کا ساتھ چلنے کی خواہش کرنا اور آ پ کا روک دینا.گھوڑے کا بِدک کر تیز ہوجانا اور دونوں ساتھیوں کا پیچھے رہ جانا اور پھر آپ کا خاص اُس جگہ پر گرنا جہاں پتھر تھے، ایسے عجیب واقعات ہیں کہ سوائے اِس کے کہ یقین کیا جائے کہ خدا تعالیٰ کے خاص ارادے کے ماتحت حضرت صاحبؑ کی پیشین گوئی کو پورا کرنے کے لئے ہوئے ہیں اَور کوئی صورت نظر نہیں آتی.‘‘ (تشحیذ الاذہان نومبر ۱۹۱۰ءصفحہ ۴۰۴) ۱ (ترجمہ از ناشر) قطعاً لازم ہے کسی بستی کے لئے جسے ہم نے ہلاک کردیا ہو کہ وہ لوگ پھر لوٹ کر نہیں آئیں گے.۲ Pfander
بنی ہوئی قبریں دکھلائی گئی ہیں اور ایک فرشتہ مجھے کہتا ہے کہ یہ تیری اور تیرے اہل و عیال کی قبریں ہیں اور اِسی وجہ سے وہ قطعہ آپ کے خاندان کے لئے مخصوص کیا گیا ہے.گو یہ خواب اِس طرح چھپی ہوئی نہیں لیکن مجھے یاد ہے کہ آپ نے اِسی طرح ذکر فرمایا.‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۸؍ جون ۱۹۳۷ء.الفضل جلد ۲۵ نمبر ۱۵۱ مورخہ ۲ ؍ جولائی ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۱) ۱۹۰۷ء حافظ محمد ابراہیم صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ اُن ہی۱؎ دنوں میں حضور ؑ کو الہام ہوا جس کا مفہوم یہ تھا کہ.’’مَیں تیرے صبر سے خوش ہوا ہوں اور تیرا صبر مجھے پسند ہے‘‘ (الحکم جلد ۳۷ نمبر ۴۴ مورخہ ۷؍ دسمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۴) ۱۶؍ ستمبر۱۹۰۷ء ’’مبارک احمد کی وفات کے وقت بھی یہی الہام ہوا کہ.اِنَّ الْمَنَا یَـا لَا تَطِیْشُ سِھَامُھَا ‘‘۲؎ اور پھر الہام ہوا کہ.’’ یَـا اَیُّـھَا النَّاسُ اعْبُدُ وْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ‘‘۳؎ (تشحیذ الاذہان جلد ۳نمبر ۸پرچہ؍ اگست ۱۹۰۸ء صفحہ ۳۴۹) ۱۹۰۷ء حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ میں فرمایا.’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو شدید کھانسی ہوئی …۱۹۰۷ء کا واقعہ ہے …اور بعض اَوقات ایسا لمبا اُوچھو آتا تھا کہ معلوم ہوتا تھا کہ سانس رُک جائے گا.ایسی حالت میں باہرسے کوئی دوست آئے اور تحفہ کے طور پر پھل لائے.مَیں نے وہ حضور ؑکے سامنے پیش کردیئے.آپ نے انہیں دیکھا اور فرمایا.کہہ دو ’’جَزَاکَ اللہ‘‘ اور پھر اُن میں سے کوئی چیز جو غالباً کیلا تھا اُٹھایا اور …فرمایا کہ یہ کھانسی میں کیسا ہوتا ہے.مَیں نے کہا اچھا تو نہیں ہوتا مگر آپ مسکرا پڑے اور چھیل کر کھانے لگے.مَیں نے پھر عرض کیا کہ کھانسی بہت سخت ہے اور یہ چیز ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یعنی جب کہ الہام ’’سخت زلزلہ آیا اور آج بارش بھی ہوگی‘‘ ہوا تھا اور یہ الہام ۲۸؍فروری ۱۹۰۷ء کو ہوا.دیکھیے صفحہ ۶۶۷.۲ (ترجمہ از مرتّب) موتوں کے تیر خطا نہیں جاتے.۳ (ترجمہ از مرتّب) اے لوگو! اپنے ربّ کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے.
کھانسی میں اچھی نہیں.آپ پھر مسکرائے اور کھاتے رہے.مَیں نے اپنی نادانی سے پھر اصرار کیا کہ نہیں کھانا چاہیے.اس پر آپ پھر مسکرائے اور فرمایا مجھے ابھی الہام ہوا ہے کہ.’’ کھانسی دُور ہوگئی‘‘ چنانچہ کھانسی اُسی وقت سے جاتی رہی.‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۴۲ء.الفضل جلد ۳۰ نمبر ۱۶۴ مورخہ ۱۷؍ جولائی ۱۹۴۲ء صفحہ ۳ کالم نمبر ۲ و ۳) ۱۹۰۸ء حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا کہ ’’ حضرت صاحبؑ کو الہام ہوا تھا.سپُردَم بَتُومایهءِ خویش را تُو دانی حسابِ کم و بیش را ‘‘ ۱؎ (منصب ِ خلافت.انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۵۵ و برکاتِ خلافت.انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۱۷۳ شائع کردہ فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ پاکستان) ۱۹۰۸ء حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا کہ حضرت صاحبؑ نے فرمایا.’’خدا نے مجھے بتلایا ہے کہ لنگر جب تک تمہارے ہاتھ میں ہے چلتا رہے گا.اگر مَیں اسے ان کے ہاتھ میں دے دوں تو یہ چند دنوں میں ہی بند ہوجاوے۲؎.‘‘ (از خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲؍ فروری ۱۹۱۵ء.خطبات محمود (خطبات جمعہ) جلد ۴ صفحہ ۲۷۱ شائع کردہ فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ پاکستان) ۱ (ترجمہ از مرتّب) مَیں نے اپنی پونجی تیرے سپرد کی.کم و بیش کا حساب تو جانتا ہے.۲ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) یعنی وہ لوگ جو لنگر خانہ کے خرچ پر اعتراض کرتے تھے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا.جب حضور علیہ السلام لاہور میں تھے تو ان میں سے ایک نے اپنے دوست کے نام لاہور ان دنوں قادیان سے ایک خط لکھا تھا اور اس میں ظاہر یہ کیا تھا کہ لنگر خانہ کا خرچ آمد سے بہت کم ہے اور جو روپیہ حضرت صاحب ؑ کے پاس آتا ہے وہ سب لنگر خانہ میں نہیں بلکہ اپنے گھر میں او ر اپنے لوگوںپر نامناسب طور پر خرچ ہوتا ہے …یہ خط وفات سے کچھ روز ہی پہلے لاہور بھیجا گیا اور اس کا علم حضرت اقدس علیہ السلام مغفور کو بھی ہوگیا تو آپ ؑ کو بہت رنج ہوا.(ا لفضل مورخہ ۲۷ ؍ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۲۱) اور فرمایا کہ ’’ایسا لکھنے والا احمق ہے وہ بیوقوف ہے.وہ نہیں دیکھتا کہ مہمان تو یہاں آرہے ہیں قادیان میں اَب جاتا کون ہے.اسے چاہیےتھا کہ وہ لاہور اور قادیان کا خرچ جمع کرکے دیکھتا کہ کتنا ہے.‘‘ (ا لفضل مورخہ ۲۵ ؍ فروری۱۹۱۵ء صفحہ ۶)
الہامات، کشوف و رؤیا بلا تاریخ ۱.اوائل کا واقعہ ہے کہ حضرت اقدس سیّدنا مسیح موعود علیہ السلام کو ایک دفعہ مسجد اقصیٰ میں کشفاً دکھایا گیا کہ ’’ایک باغ لگایا جارہا ہے اور مَیں اس کا مالی مقرر کیا گیا ہوں.‘‘ (حیات احمد جلد اوّل حصہ دوم صفحہ ۳۰۵ ایڈیشن دوم مرتبہ مکرم شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ؓ) ۲.حضرت اُمّ المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیا ن فرمایا کہ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’مجھے معلوم ہوا ہے یا فرمایا کہ بتایا گیا ہے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہ سُـبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِـحَمْدِ ہٖ سُـبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ۱؎ بہت پڑھنا چاہیے.‘‘ (سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر۱ صفحہ ۳ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۳.(حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ نے فرمایا) ’’ہمارے امام علیہ السلام نے ان۲؎ کو خاتم النّبیّین رسول رَبّ العالمین نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتّسلیم کی شکل پررؤیامیں دیکھا ہے اور یہ بسبب ان کی کمال اتباع سنت کے تھا.‘‘ (مقدّمہ مرقاۃ الیقین فی حیاۃ نورالدین زیر عنوان مذہب و عقائد صفحہ۹ ۳) ۴.(الف) حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ نے بیان کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ایک صاحب جو غالباً ریاست جیند کے رہنے والے تھے بیمار ہوکر علاج کے واسطے قادیان آئے اور پیر سراج الحق صاحب ؓ کے مکان پر اُنہوں نے قیام کیا.پیر صاحب نے اُن کی سفارش حضرت صاحب ؑ سے کی کہ یہ بیمار رہتے ہیں حضور ؑ اِن کی صحت کے لئے دعا کریں.حضور ؑ نے دعا کی تو حضور ؑ کو الہام ہوا.’’کچلہ کونین فولاد.یہ ہے دوائے ہمزاد.‘‘ (اخبار ’’ المصلح‘‘ کراچی جلد ۷ نمبر۶مورخہ ۸؍ جنوری ۱۹۵۴ء صفحہ ۳) (ب) ’’ حَبّ کچلا کونین فولاد مساوی نِصف سرخ.الہامی ہے.‘‘ (جیبی بیاض حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ صفحہ ۱۴.بیاض نورالدین مرتبہ مفتی فضل الرحمٰن صاحب جلد ۱ صفحہ ۶۱ طبع اوّل) ۱ (ترجمہ از ناشر) اللہ پاک ہے اپنی حمد کے ساتھ.اللہ پاک ہے بڑی عظمت والا ہے.۲ یعنی مولوی عبداللہ صاحب غزنوی.(عبد اللطیف بہاولپوری)
۵.(الف) حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا.’’حضرت مسیح موعود ؑ کو الہام ہوا اور دکھایا گیا کہ یہ جو مسجد مبارک کے پاس مکان۱؎ہے اِس میں ہم کچھ حَسنی طریق سے داخل ہوں گے اور کچھ حُسینی طریق سے …معلوم نہیں اِس الہام کا کیا مطلب۲؎ہے.‘‘ (الفضل جلد ۷ نمبر ۲۸ مورخہ ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۱۹ء صفحہ ۸) (ب) حضرت امّ المؤمنین رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا کہ ’’ حضرت مسیح موعود ؑ کا یہ الہام کہ ہم اِس گھر میں کچھ حَسنی طریق پر داخل ہوں گے اور کچھ حُسینی طریق پر، اپنی پوری شان میں پورا ہوا ہے.‘‘ (سیر ت المہدی مؤلفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم.اے، جلد ۱ روایت نمبر ۳۷ صفحہ ۲۸.مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۶.(رؤیا) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مندرجہ ذیل رؤیااپنی تقریر میں بیان فرمائی.’’چھوٹی مسجد کے اُوپر تخت بِچھا ہوا ہے اور مَیں اُس پر بیٹھا ہوا ہوں اور میرے ساتھ ہی مولوی نورالدین صاحبؓ بھی بیٹھے ہوئے ہیں.ایک شخص۳؎(اس کا نام ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں)دیوانہ وار ہم پر حملہ کرنے لگا.مَیں نے ایک آدمی کو کہا کہ اس کو پکڑ کر مسجد سے نکال دو اور اس کو سیڑھیوں سے نیچے اُتار دیا.وہ بھاگتا ہوا چلا ۱ یعنی مرزا نظام الدین صاحب کا مکان.(شمس) ۲ (نوٹ) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں.’’لیکن وقت پر معنے کھلتے ہیں…(اس کے معنے یہی ہیں) …کہ حضرت حسن ؓ و حسین ؓ…کا رویہ اختیار کرکے ہم داخل ہوں گے…جو طریق اُن کا تھا وہی ہمارا ہوگا کہ کچھ تو صلح کے ذریعہ اور کچھ لڑائی کے ذریعہ ہم اس مکان میں داخل ہوں گے چنانچہ یہ دونوں صورتیں پوری ہوگئیں.لڑائی یعنی جلالی رنگ تو ایسا پورا ہوا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے اِس الہام کے مطابق کہ ’’اِس مکان میں بیوائیں ہی رہ جائیں گی‘‘ یہی حالت ہوگئی.پھر جمال کا اظہار ہوا تو ایسا کہ اس خاندان میں سے جو ایک بچہ رہ گیا تھا اُس کو کھینچ کر سلسلہ میں داخل کردیا.‘‘ (الفضل مورخہ۱۷؍ اکتوبر۱۹۱۹ءصفحہ ۸) ۳ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) حضرت مولوی سیّد محمد سرور شاہ صاحب ؓ نے اپنی تصنیف ’’کشف الاختلاف‘‘ صفحہ ۱۲ شائع شدہ فروری ۱۹۲۰ء میں یہ رؤیا درج کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ خواجہ کمال الدین صاحب تھے اور ان کے متعلق ان ایام میں جبکہ وہ وطن اخبار کے ساتھ ایک معاہدہ کی تجویز کررہے تھے حضرت مسیح موعود ؑفرمایا کرتے تھے کہ میں نے خواجہ صاحب کی نسبت منذر خوابیں دیکھی ہیں.(ملخص)
گیا اور یاد رہے کہ مسجد سے مراد جماعت ہوتی ہے.‘‘ (برکاتِ خلافت.انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۱۷۸ شائع کردہ فضل عمر فاؤنڈیشن پاکستان) ۷.حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا.’’تھوڑے ہی دن ہوئے مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ الہام دیکھا کہ.’’بہت لوگ خیال کرتے ہیں کہ عورتیں ان کی کنیز کیں ہیں.کنیزکیں نہیں بلکہ ان کی ساتھی ہیں.‘‘ (الفضل جلد ۴نمبر۸۹مورخہ۱۲؍ مئی ۱۹۱۷ء صفحہ ۵مضمون ’’تعدد ازدواج اور جماعت ِ احمدیہ‘‘) ۸.حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا.’’ایک دفعہ جب حضرت مسیح موعود بیماری کے سخت دَورہ میں تہجد کے لئے اُٹھے اور غش کھاکر گِر گئے اور نماز نہ پڑھ سکے تو الہام ہوا کہ ’’ایسی حالت میں تہجد کی بجائے لیٹے لیٹے یہی۱؎ پڑھ لیا کرو.‘‘ (ذکر ِ الٰہی.انوار العلوم جلد ۳ صفحہ ۵۰۴ شائع کردہ فضل عمر فاؤنڈیشن پاکستان) ۹.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورۃ الغاشیۃ آیت ۴ تا ۷ کا درس دیتے ہوئے فرمایا کہ.’’ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک دفعہ طاعون کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.’’ابھی کیا ہے.ابھی وہ دن آئیں گے جب کہ لوگ کہیں گے کہ لاہور بھی کوئی شہر۲؎ہوتا تھا.‘‘ (ضمیمہ اخبار الفضل جلد ۲ نمبر ۵۰ مورخہ ۱۱؍ اکتوبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۹، ۱۰) ۱ (نوٹ از ناشر) یعنی سُـبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِـحَمْدِہٖ سُـبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ.کہ اللہ پاک ہے اپنی حمد کے ساتھ.اللہ پاک ہے بڑی عظمت والا ہے.۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) لاہور کی تباہی کی پیشگوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں شائع ہوچکی تھی وہ یہ ہے.’’لاہور کی نسبت کہا جاتا تھا کہ اس کی سرزمین میں ایسے اجزاء ہیں کہ اس میں طاعونی کیڑے زندہ نہیں رہ سکتے لیکن وہاں بھی طاعون نے آن ڈیرہ ڈالا ہے.ابھی لوگوں کو معلوم نہیں ہے لیکن سالہاسال کے بعد لوگ دیکھیں گے کہ کیا ہوگا.کئی لوگ اور دیہات بالکل تباہ ہوجائیں گے.دنیا سے اُن کا نام و نشان مِٹ جائے گا اور اُن کے آثار تک باقی نہ رہیں گے.لیکن یہ حالت کبھی قادیان پر وارد نہ ہوگی.‘‘ (الحکم مورخہ ۱۷، ۲۴؍ جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۲) لیکن لاہور کے متعلق خاص لفظوں میں الہام، یہ نہ تو پہلے شائع ہوا ہے اور نہ ہی ان شہادتوں سے پتہ ملتا ہے جو اس
۱۰.حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحریر۱؎ فرمایا.’’مَیں تو چھوٹا تھا.مولوی شیر علی صاحب ؓ نے مجلس۲؎سے آکر سنایا تھا…کہ محمود ایک تیز روشنی والا لیمپ لے کر سڑک پر کھڑا ہے اور سڑک پر اس کی تیز روشنی پڑ رہی ہے.‘‘ (تحریر حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) ۱۱.حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا.’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ناموں میں سے ایک نام خدا تعالیٰ نے سلامتی کا شہزادہ رکھا ہے.‘‘ (اخبار الفضل جلد ۲۳نمبر۲۲۹مورخہ۴؍ اپریل ۱۹۳۶ء صفحہ ۱.خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۷؍ مارچ ۱۹۳۶ء) ۱۲.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مشاورت ۱۹۳۶ء میں فرمایا.’’(مَیں) اِس لئے خلیفہ ہوں کہ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کی خلافت سے بھی پہلے حضرت مسیح موعود بقیہ حاشیہ.پیشگوئی کے متعلق شائع ہوچکی ہیں ہاں مفہوم الہام ان میں ہے چنانچہ علاوہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ستائیس مزید شہادتیں اصحابِ ذیل کی اِس بارہ میں اخبار الفضل میں شائع ہوچکی ہیں.حکیم محمد حسین صاحب قریشی.بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانی.سردار عبدالرحمٰن صاحب (سابق مہر سنگھ).مفتی محمد صادق صاحب.منشی غلام محمد صاحب.مولوی فخرالدین صاحب.بابو ابراہیم صاحب سیالکوٹی.خواجہ کرم داد صاحب جمونی.ڈاکٹر عبدالرحیم صاحب دہلوی.مولوی عبدالرحیم صاحب نیّر.رضیہ بیگم بنت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب.شیخ عبدالحمید صاحب آڈیٹر لاہور.مبارک علی شاہ صاحب.حافظ محمد ابراہیم صاحب.عبدالحمید صاحب مورو سندھ.مرزا عبدالعزیز صاحب گلیانہ ضلع گجرات.عبدالواحد خان صاحب میرٹھ.مولوی سیّد احمد علی صاحب.شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی.چودھری محمد شریف صاحب قادیان.سیّد ناظر حسین صاحب کالو والی.مبارک احمد صاحب پنڈی چَری.غلام محمد صاحب لویریوالہ.عبدالرحمٰن صاحب نائب تحصیلدار ریاست کپورتھلہ.ملک اللہ رکھا صاحب.فضل کریم صاحب اور سیئر لودی ننگل ضلع گورداسپور.غلام محمد صاحب امیر جماعت ِ احمدیہ سیّدوالہ ضلع شیخوپورہ.(حوالہ کے لئے دیکھیے پرچہ جات اخبار الفضل مورخہ ۳۰ ؍ جون ۱۹۴۷ء.یکم؍ جولائی و ۴ ،۱۲ ،۱۸، ۲۸،۳۰ ؍ جولائی ۱۹۴۷ءو ۹؍ اگست، ۱۴ ؍ اگست ۱۹۴۷ء وغیرہ ) ۱ خاکسار عبداللطیف بہاولپوری نے حضور اقدسؑ کی خدمت میں بعض الہامات کی تصدیق کے متعلق عریضہ مورخہ ۷؍فروری ۱۹۵۳ء لکھا.اس پر حضور ؓ نے یہ تحریر فرمایا.۲ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس سے.(شمس)
علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کے الہام سے فرمایا تھا کہ مَیں خلیفہ ہوں گا.پس مَیں خلیفہ نہیں بلکہ موعود خلیفہ ہوں.‘‘ (رپورٹ مجلس مشاورت (اجلاس؍ اپریل) ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۷) ۱۳.حافظ صوفی غلام محمد صاحبؓ آف ماریشس نے بیان کیا کہ.’’حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ ایک بار میرے جی میں آیا کہ اللہ نے جو انعام مجھ پر کئے ہیں اُن پر ایک کتاب لکھوں.فرمایا.اِس ارادے کی تکمیل جب میں کرنے لگا تو کشف میں دیکھا زور سے بارش ہورہی ہے اور اللہ مجھے فرماتا ہے کہ اگر یہ قطرے گن سکتے ہو تو میرے احسان بھی گن سکو گے.تب مَیں نے یہ ارادہ چھوڑ دیا.‘‘ (تشحیذ الاذہان جلد ۸ نمبر ۱۰ ماہِ؍ اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۵۳۳.رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۷ صفحہ ۳۱۰) ۱۴.’’حافظ نور محمد صاحبؓ ساکن فیض اللہ چک نے مجھ۱؎سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت صاحب ؑ نے بہت مرتبہ زبانِ مبارک سے فرمایا کہ مَیں نے بارہا بیداری میں ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی ہے اور کئی حدیثوں کی تصدیق آپ سے براہِ راست حاصل کی ہے خواہ وہ لوگوں کے نزدیک کمزور یا کم درجہ کی ہوں.‘‘ (سیرت المہدی مؤلفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم.اے، جلد ۱ روایت نمبر ۵۷۲ صفحہ ۵۵۰ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۵.ڈاکٹر سیّد عبدالستار شاہ صاحب ؓ نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.’’اس مینار کے سامنے دو فرشتے میرے سامنے آئے جن کے پاس دو شیریں روٹیاں تھیں اور وہ روٹیا ں اُنہوں نے مجھے دیں اور کہا کہ ایک تمہارے لئے ہے اور دوسری تمہارے مریدوں کے لئے ہے۲؎.‘‘ (سیرت المہدی مؤلفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم.اے، جلد ۱ روایت نمبر ۸۸۵صفحہ ۷۷۹ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۶.میر عنایت علی شاہ صاحبؓ نے بیان کیا کہ اوائلِ زمانہ میں قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا ایک رؤیامیر عباس علی صاحب سے بیان کیا تھا جو یہ تھا کہ.’’ہم کسی شہر میں گئے اور وہاں کے لوگ ہم سے برگشتہ ہیں اور انہوں نے کچھ اپنے شکوک دریافت کئے ۱ یعنی قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ.(عبد اللطیف بہاولپوری) ۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یہ رؤیا میں صفحہ ۱۵،۱۶ پر بھی آچکا ہے.اس میں ایک فرشتہ اور ایک نان کا ذکر ہے اور مریدوں کی بجائے درویشوں کا لفظ ہے.اگر یہ وہی رؤیا ہے تو راوی کے حافظہ کی غلطی ہوگی یا ممکن ہے کہ یہ کوئی دوسرا کشف ہو.وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.
جن کا جواب دیا گیا لیکن وہ ہمارے خلاف ہی رہے.نماز کے لئے کہا کہ آؤ تم کو نماز پڑھائیں تو جواب دیا کہ ہم نے پڑھی ہوئی ہے اور خواب میں یہ واقعہ ایک ایسی جگہ پیش آیا تھا جہاں ہماری دعوت تھی.اُس وقت ہم کو ایک کھلے کمرہ میں بٹھایا گیا لیکن اس میں کھانا نہ کھلایا گیا.پھر بعد میں ایک تنگ کمرہ میں بٹھلایا گیا اور اُس میں بڑی دِقّت سے کھانا کھایا گیا.آپ نے یہ رؤیابیان کرکے فرمایا کہ شاید وہ تمہارا لُدھیانہ ہی نہ ہو.‘‘ پھر یہ رؤیالُدھیانہ میں ہی منشی رحیم بخش صاحب کے مکان پر پورا ہوا.‘‘ (سیرت المہدی مؤلفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم.اے، جلد ۱ روایت نمبر ۹۲۵ صفحہ ۷۹۶ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۷.ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب ؓ نے بیان کیا کہ.’’حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ؓ ایک دفعہ کسی شخص کا ذکر سنانے لگے کہ وہ عورت پر سخت عاشق ہو گیا اور باوجود ہزار کوشش کے وہ اس عشق کو دل سے نہ نکال سکا.آخر حضرت صاحب ؑ کے پاس آیا اور طالبِ دعا ہوا.حضرت صاحب ؑ نے مولوی صاحب ؓ سے فرمایا کہ ’’مجھے خدا کی طرف سے معلوم ہوا ہے کہ یہ شخص اُس عورت سے ضرور بدکاری کرے گا مگر مَیں بھی پورے زور سے اس کے لئے دعا کروں گا.‘‘ چنانچہ وہ شخص قادیان ٹھہرا رہا اور حضور ؑ دعا کرتے رہے یہاں تک کہ اُس نے ایک روز مولوی صاحب ؓ سے کہا کہ آج رات خواب میں مَیں نے اُس عورت کو دیکھا اور خواب میں ہی اُس سے مباشرت کی اور مَیں نے اِس دَوران میں اس کی شرمگاہ کو جہنّم کے گڑھے کی طرح دیکھا جس سے مجھے اس سے اِس قدر خوف اور نفرت پیدا ہوئی کہ یکدم وہ آتشِ عشق ٹھنڈی ہوگئی اور وہ محبّت کی بے قراری سب دل سے نکل گئی بلکہ دل میں دُوری پیدا ہوگئی اور خدا کے فضل اور حضور ؑ کی دعا کی برکت سے مَیں بدکاری سے بھی محفوظ رہا اور وہ جنون بھی جاتا رہا.‘‘ (سیرت المہدی مؤلفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم.اے، جلد ۱ روایت نمبر۹۵۶ صفحہ ۸۱۶ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) ۱۸.صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب ؓ نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ ہم ایک روز صحن مکان میں لیٹ رہے تھے جو ہمیں کشف ِ ملکوت ہوا اور کشف میں بہت سے فرشتے دیکھے کہ بہت خوبصورت لباسِ فاخرہ اور مکلّف پہنے ہوئے وَجد کرتے اور گاتے ہیں اور ہماری طرف بار بار چکر لگاتے ہیں اور ہر چکر میں ہماری طرف ہاتھ لمبا کرکے ایک غزل کا شعر پڑھتے ہیں اور اس مصرعہ کا آخر لفظ
’’پیر پیراں‘‘ ہے.وہ عین ہمارے منہ کے سامنے ہاتھ کرکے ہماری طرف اشارہ کرتے ہیں ’’ پیر پیراں‘‘.(تذکرۃ المہدی مصنّفہ پیر سراج الحق صاحبؓ نعمانی حصّہ اوّل صفحہ ۷۰ مطبوعہ جون ۱۹۱۵ء) ۱۹.’’صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب ؓ نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.ایک گھنٹہ ہوا ہوگا ہم نے دیکھا کہ والدہ محمود قرآن شریف آگے رکھے ہوئے پڑھتی ہیں.جب یہ آیت پڑھی.’’وَ مَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَ الصِّدِّيْقِيْنَ۠ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِيْنَ١ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓىِٕكَ رَفِيْقًا.‘‘۱؎ جب اُولٰٓىِٕكَ پڑھا تو محمود سامنے آکھڑا ہوا.پھر دوبارہ اُولٰٓىِٕكَ پڑھا تو بشیر آکھڑا ہوا.پھر شریف آگیا.پھر فرمایا جو پہلے ہے وہ پہلے ہے.‘‘ (تذکرۃ المہدی مصنّفہ پیر سراج الحق صاحبؓ نعمانی حصّہ دوم صفحہ ۳ مطبوعہ دسمبر ۱۹۲۱ء ) ۲۰.صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.’’خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ ہمارے سلسلہ میں بھی سخت تفرقہ پڑے گا اور فتنہ انداز اور ہوا و ہوس کے بندے جدا ہوجائیں گے.پھر خدا تعالیٰ اس تفرقہ کو مٹادے گا.باقی جو کٹنے کے لائق اور راستی سے تعلق نہیں رکھتے اور فتنہ پرداز ہیں وہ کٹ جائیں گے اور دُنیا میں ایک حشر برپا ہوگا.وہ اوّل الحشر ہوگا اور تمام بادشاہ آپس میں ایک دوسرے پر چڑھائی کریں گے اور ایسا کُشت و خون ہوگا کہ زمین خون سے بھر جائے گی اور ہر ایک بادشاہ کی رعایا بھی آپس میں خوفناک لڑائی کرے گی.ایک عالمگیر تباہی آوے گی اور اس تمام واقعات کا مرکز ملک ِ شام ہوگا.صاحبزادہ۲؎ صاحب! اُس وقت میرا لڑکا موعود ہوگا.خدا نے اُس کے ساتھ ان حالات کو مقدر کررکھا ہے.ان واقعات کے بعد ہمارے سلسلہ کو ترقی ہوگی اور سلاطین ہمارے سلسلہ میں داخل ہوں گے.تم اس موعود کو پہچان لینا.‘‘ (تذکرۃ المہدی مصنفہ پیر سراج الحق صاحبؓ نعمانی حصّہ دوم صفحہ ۳ مطبوعہ دسمبر ۱۹۲۱ء) ۱ (ترجمہ از مرتّب) اور جو بھی اللہ کی اور اس رسول کی اطاعت کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی نبیوں میں سے، صدیقوں میں سے، شہیدوں میں سے اور صالحین میں سے اور یہ بہت ہی اچھے ساتھی ہیں.(النّسآء : ۷۰) ۲ یعنی صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓ.(شمس)
۲۱.(رؤیا) فرمایا.’’ مَیں ایک زینہ پر چڑھتا ہوں مگر اِس طرح سے کہ مجھے خطرہ ہوتا ہے کہ مَیں گر نہ پڑوں اور چھال مارکر یعنی قلانچ لگا کر دوسرے قدمچہ پر قدم رکھتا ہوں.جب مَیں اُوپر چڑھا تو میری ناک سے خون آیا… فرمایا … تعبیر بہت اچھی ہے.کہنے والا خون آیا کہے تو اچھا ہے اگر بہنا یا جانا کہے تو بُرا ہوتا ہے.اس میں نقصان ہے.اِس لئے آنا کہنا چاہیے.اب معلوم ہوتا ہے کہ آمدن روپیہ کی ہوگی اور خدا تعالیٰ ہمارے ہاتھ کشادہ کردے گا.‘‘ (تذکرۃ المہدی مصنّفہ پیر سراج الحق صاحب ؓ حصّہ دوم صفحہ ۱۵ مطبوعہ دسمبر ۱۹۲۱ء) ۲۲.فرمایا.’’ ہمیں بھی ایک بار حج کے روز کشف میں حج کا نظارہ دکھایا گیا یہاں تک کہ سب کی باتیں اور لبیک اور تسبیح و تہلیل ہم سنتے تھے.اگر ہم چاہتے تو لوگوں کی باتیں لکھ لیتے.‘‘ (تذکرۃ المہدی مصنفہ پیر سراج الحق صاحبؓ نعمانی حصّہ دوم صفحہ ۴۵ مطبوعہ دسمبر ۱۹۲۱ء.الحکم جلد ۴۰ نمبر ۲ مورخہ ۲۱ ؍ جنوری ۱۹۳۷ء صفحہ ۳) ۲۳.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقع پر فرمایا.’’آج ہمیں دکھایا گیا ہے کہ ان موجود اور حاضر لوگوں میں کچھ ہم سے پیٹھ دیئے بیٹھے ہیں اور ہم سے رُو گردان ہیں اور کراہت کے ساتھ ہم سے دوسری طرف (منہ ) پھیر رکھا ہوا ہے.‘‘ (تذکرۃ المہدی مصنفہ پیر سراج الحق صاحبؓ نعمانی حصّہ دوم صفحہ ۴۵ مطبوعہ دسمبر ۱۹۲۱ء ) ۲۴.’’ایک روز مَیں۱؎اور حضرت اقدس علیہ السلام مسجد مبارک میں بیٹھے تھے …آپ ؑ نے سرِ مبارک اُٹھایا اور فرمایا اَب ہمیں اِس وقت یہ الہام ہوا.حَقّ‘‘ (تذکرۃ المہدی مصنفہ پیر سراج الحق صاحبؓ نعمانی حصّہ دوم صفحہ ۴۶ مطبوعہ دسمبر ۱۹۲۱ء) ۲۵.’’ایک دفعہ مسجد مبارک میں حضرت اقدس سیّدنا مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف رکھتے تھے … سبع مثانی کی تحقیق کا ذکر ہوا.کسی نے الحمد کا نام بتلایا اور کسی نے دوسری آیتوں کا، اور کسی نے کہا کہ الحمد مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں نازل ہوئی اِس لئے دونوں مقام پر نازل ہونے کے باعث اِس کا نام سبع مثانی ہوا.حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ممکن ہے کہ ایسا ہو لیکن ہمارے نزدیک اِس سورۃ کا ایک بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونا اور دوسری بار مہدی و مسیح موعود پر نازل ہونا ہے جس کے سبب سے اِس ۱ یعنی صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓ.(شمس)
کا نام سبع مثانی ہوا.‘‘ (مکتوب۱؎صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓ) ۲۶.فرمایا.’’ آج رات کو ہمیں الہام ہوا ہے.اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ.نَحْنُ اَوْلِيَآؤُ.كُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْاٰخِرَةِ.‘‘۲؎ (مکتوب صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ.البشریٰ قلمی نسخہ مرتّبہ پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ صفحہ ۶۴.الحکم جلد ۲۳ نمبر ۱۲ مورخہ ۲۸ ؍ مارچ ۱۹۲۰ءصفحہ ۱) ۲۷.اس کے بعد پھر الہام ہوا.’’ نُوْرُالدِّیْن‘‘ (مکتوب صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓ.البشریٰ قلمی نسخہ مرتّبہ پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ صفحہ ۶۴) ۲۸.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ الہام سنایا کہ.’’ پَٹی پُٹی گئی‘‘ ۳؎ (مکتوب پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓ.البشریٰ قلمی نسخہ مرتّبہ پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ صفحہ ۸۱) ۲۹.(الف) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ آیت پڑھی.’’ لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهٖ يَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ.‘‘۴؎ ۱ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) یہ مکتوب قلمی دفتر تالیف و تصنیف صدر انجمن احمدیہ ربوہ میں بوقت تیاری طبع دوم موجود تھا جس سے خاکسار نے نقل کیا مگر اَب کہیں غائب ہے.۲ (ترجمہ از مرتّب) یقیناً وہ لو گ جنہوں نے کہا ہمارا ربّ اللہ ہے.پھر اس پر مضبوطی سے قائم رہے ان پر فرشتے اُترتے ہیں.یہ بشارت دیتے ہوئے کہ خوف نہ کھاؤ اور نہ غمگین ہو اور بشارت حاصل کرو اُس جنت کی جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا تھا.ہم تمہارے دوست و مددگار ہیں اِس دُنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی.(نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) الحکم پرچہ مذکورہ بالا اور البشریٰ صفحہ ۶۴ میں یہ فقرہ ’’ نَحْنُ اَوْلِیَآءُ کُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّ نْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ‘‘ نہیں ہے اور الحکم پرچہ مذکورہ بالا میں اس کی جگہ نُـوْرُالدِّیْن کے الفاظ ہیں.۳ (نوٹ از سیّد عبد الحی) پَٹّی ایک قصبہ کا نام ہے جو ضلع لاہور میں ہوتا تھا مگر ملکی تقسیم کے وقت ضلع امرتسر میں چلا گیا.۴ (ترجمہ از مرتّب) اس (رسول ) کے لئے اس کے آگے اور پیچھے چلنے والے (محافظ) مقرر ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں.(الرعد: ۱۲)
اور فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ؓ کو بھی جو اِس طرح آگے پیچھے دائیں بائیں چلتے دوڑتے تھے اور جنگوں میں بھی یہی حال تھا اِس آیت میں صحابہ ؓ مراد ہیں یہاں فرشتے مراد نہیں.اسی طرح یہ آیت ہم پر نازل ہوچکی ہے.(مکتوب صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓ) (ب) (شیخ محمد اسمٰعیل صاحب سرساویؓ نے بیان کیا کہ ) ’’حضور ؑ نے فرمایا …قرآن کریم میں جو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ ہم تیرے آگے پیچھے، دائیں اور بائیں فرشتے مقرر کریں گے یہی الہام مجھ پر نازل ہوا ہے اور وہ فرشتے یہی ہیں جو میری باتیں سننے کے لئے آگے پیچھے بھاگتے ہیں.‘‘ (رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۱۰ صفحہ ۳۴۶، ۳۴۷) ۳۰.’’ وَ۱؎ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّـمَّا نَـزَّلْنَا فَاْتُوْا بِـاٰیَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ سَیُؤْتٰی لَہُ الْمُلْکُ الْعَظِیْمُ وَیُفْتَحُ عَلٰی یَدِ ہِ الْخَزَآ ئِنُ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ وَ فِیْ اَعْیُنِکُمْ عَـجِیْبٌ۲؎.حُکْمُ اللّٰہِ الرَّحْـمٰنِ لِـخَلِیْفَۃِ اللّٰہِ الْمُغْلِ السُّلْطَانِ.اِنْ یَّکُ کَاذِبًـا فَعَلَیْہِ کَذِ بُہٗ وَ اِنْ یَّکُ صَادِقًا یُّصِبْکُمْ بَعْضُ الَّذِیْ یَعِدُکُمْ.‘‘۳؎ (مکتوب صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) الہام ’’وَ اِنْ کُنْتُمْ فِی رَیْبٍ‘‘ سے لے کر الہام ’’زِدرگاہِ خدا مردے بصد اعزاز مے آید‘‘ الخ کے متعلق صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب ؓ اپنے مکتوب میں لکھتے ہیں کہ ’’یہ الہامات حضرت اقدس ؑ کے دست ِ مبارک کے لکھے ہوئے مَیں نے ایک صاحب سے لے کر نقل کئے تھے.‘‘ ۲ (ترجمہ) ’’اور اگر تم شک میں ہو اس سے جو ہم نے اُتارا تو اس کی مانند کوئی ایک آیت لاؤ.عنقریب اس کو ایک ملک ِ عظیم دیا جائے گااور خزائن علوم و معارف اس کے ہاتھ پر کھولے جائیں گے…یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور تمہاری آنکھوں میں عجیب.‘‘ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۵۶۶) (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) الہام ’’وَ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ‘‘ سے لے کر الہام ’’زِ درگاہِ خدا مَردے بصد اعزاز مے آید‘‘ الخ کے متعلق صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب ؓ اپنے مکتوب میں لکھتے ہیں کہ ’’یہ الہامات حضرت اقدس ؑ کے دست ِ مبارک کے لکھے ہوئے مَیں نے ایک صاحب سے لے کر نقل کئے تھے.‘‘ ۲ (ترجمہ ازمرتب ) خدا ئے رحمٰن کا حکم ہے اپنے خلیفہ مغل سلطان کے لئے.اگر یہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اس پر ہوگا اور اگر سچا ہے تو بعض وہ وعید جو تمہیں سناتا ہے تمہیں پہنچیں گے.(نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) الہام ’’ حُکْمُ اللّٰہِ الرَّحْـمٰنِ لِـخَلِیْفَۃِ اللّٰہِ السُّلْطَانِ‘‘ کے صفحاتِ ذیل ۱۶۵، ۲۱۴، ۳۵۲ اور ۶۱۷ میں موجود ہے مگر وہاں مغل کا لفظ نہیں.
۳۱.’’ غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِیْ اَدْنَی الْاَرْضِ وَھُمْ مِنْۢ بَعْدِ غَلَبِھِمْ سَیَغْلِبُوْنَ.لِلّٰہِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْۢ بَعْدُ وَ یَـوْمَئِذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ.وَیَقُوْلُوْنَ اِنَّـا سَـمِعْنَا بِـھٰذَا مِنَ الْاَوَّلِیْنَ.قُلِ اللّٰہُ اَعْلَمُ وَمَا اُوْتِیْتُمْ مِّنْ عِلْمِہٖ اِلَّا قَلِیْلًا.وَ یَقْنَعُوْنَ بِظَاھِرِ اللَّفْظِ وَ اِبْـھَامِہٖ وَ یَسْتَکْشِفُوْنَ.قُلْ اِنِّیْ جِئْتُ عَلٰی قَدَ مِ عِیْسٰی.قُلْ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَـھْدِ یْنِ.‘‘۱؎ (مکتوب پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓصفحہ ۵) ۳۲.’’ اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ.‘‘ ۲؎ (مکتوب پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓصفحہ ۵) ۳۳.’’ اَلْـحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ اَیَّــدَ الْـحَقَّ بِـاٰیَـاتِہٖ.‘‘۳؎ (مکتوب پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓصفحہ ۵) ۳۴.’’ سَیَقُوْلُ السُّفَھَآءُ مَا وَلّٰىهُمْ.قُلِ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِتَاْوِیْلِہٖ.سَیُؤَیِّدُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا.وَمَنْ عَادٰی وَ لِیًّا فَقَدْ بَـارَزْتُہٗ لِلْـحَرْبِ.‘‘۴؎ (مکتوب پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓصفحہ ۶) ۳۵.’’ وَ اِنَّـا اَعْتَدْ نَـا لِلْکَافِرِیْنَ سَلَاسِلَ وَ اَغْلَالًا وَّ سَعِیْرًا.‘‘ ۵؎ (مکتوب پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓصفحہ ۶) ۱ (ترجمہ از مرتّب) رومی قریب کی زمین میں مغلوب ہوں گئے اور وہ مغلوب ہوجانے کے بعد جلدی غالب آئیں گے.یہ کام اللہ تعالیٰ کے لئے ہوگا.پہلا بھی اور بعد کا بھی، اور اُس دن مومن خوش ہوں گے اور کہیں گے کہ ہم نے یقیناً یہ پہلوں سے سنا تھا.کہہ اللہ بہتر جانتا ہے اور تمہیں اس کے متعلق تھوڑا علم دیا گیا ہے.وہ ظاہر لفظ اور ابہام پر قناعت کرتے اور حقیقت کا انکشاف چاہتے ہیں.کہہ کہ مَیں عیسیٰ کے قدم پر آیا ہوں.کہہ یقیناً میرے ساتھ میرا ربّ ہے جو جلد ی ہی میری رہبری کرے گا.۲ (ترجمہ از مرتّب) یقینا عیسیٰ کی حالت اللہ کے نزدیک آدم کی حالت کی طرح ہے.۳ (ترجمہ از مرتّب) سب تعریف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جس نے اپنے نشانات سے حق کی تائید کی.۴ (ترجمہ از مرتّب) عنقریب بیوقوف لوگ کہیں گے کس چیز نے ان کو پھیرا.کہہ اللہ تعالیٰ اس کی تاویل کو بہتر جانتا ہے.عنقریب اللہ تعالیٰ مومنوں کی تائید کرے گا اور جو کوئی (میرے ) ولی سے دشمنی کرتا ہے تو مَیں اُس سے لڑائی کے لئے نکلتا ہوں.۵ (ترجمہ از مرتّب) اور یقیناً ہم نے کافروں کے لئے زنجیریں اور طَوق اور شعلے آگ کے تیار کر رکھے ہیں.
۳۶.’’ اِحْرَامُ الدُّعَآءِ.کَثُـرَ الدُّعَآءُ لِبَقَآءِکَ.فَاَحْیَیْنَاہُ بِـرَحْـمَۃٍ مِّنَّا.وَ اَحِبَّآءُکَ کَاَ.نْبِیَآءِ بَنِیْٓ اِسْـرَآ ئِیْلَ.خدا تعالیٰ کا ارادہ ہے کہ تیری توحید تیری عظمت تیری کمالیّت پھیلادے.اِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَ اِمَّا فِدَآءً.اِنَّ اللّٰہَ یُدَافِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا.‘‘۱؎ (مکتوب پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓصفحہ ۶) ۳۷.’’ اِنَّ اللّٰہَ یُدَ افِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا.۲؎ اے منکر پا مارا بالا بالا.۳؎ مُعَمَّرُاللّٰہِ.نُـوْرٌ.مُنَوَّرُ اللّٰہِ.‘‘۴؎ (مکتوب پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓصفحہ ۶) ۳۸.’’خدا تعالیٰ تجلّی ٔ خاص سے اُترا ‘‘.(مکتوب پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓصفحہ ۶) ۳۹.’’ مَثْنٰی وَ ثُلَاثَ وَ رُبَـاعَ۵؎.(اب )تُو اَمن اور برکت کے ساتھ اپنے گاؤں میں جائے گا اور مَیں تجھے پھر بھی یہاں لاؤں گا.‘‘ (مکتوب پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓصفحہ ۶.البشریٰ قلمی نسخہ مرتّبہ پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ صفحہ ۵۷ ) ۴۰.؎ ’’زِ درگاہِ خدا مَردے بصد اعزاز مے آید مبارک بادت اے مریم کہ عیسٰی باز مے آید‘‘۶؎ (مکتوب پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓصفحہ ۶.البشریٰ قلمی نسخہ مرتّبہ پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ صفحہ ۵۷ ) ۱ (ترجمہ از مرتّب) دعا کا احرام.تیری بقاء کے لئے کثرت سے دُعاہوئی.پھر ہم نے اُسے اپنی رحمت سے زندہ کیا اور تیرے خاص دوست بنی اسرائیل کے نبیوں کی مانند ہیں.اس کے بعد یا تو احسان کرو یا فدیہ لے لو.یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں کی طرف سے مدافعت کرے گا.۲ (ترجمہ از مرتّب) یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں کی طرف سے مدافعت کرے گا.۳ (نوٹ از ناشر) ہمیں اس الہام کی سمجھ نہیں آئی.۴ (ترجمہ از مرتّب) اللہ تعالیٰ کی طرف سے عمر دیا ہوا.نور.اللہ کا روشن کیا ہوا.۵ (ترجمہ از مرتّب) دو دو اور تین تین اور چار چار.۶ (ترجمہ از مرتّب) خدا کی درگاہ سے ایک مرد بڑے اعزاز کے ساتھ آتا ہے.اے مریم تجھے مبارک ہو کہ عیسیٰ دوبارہ آتا ہے.
۴۱.’’ فِی النَّارِ مَوْعِدُ ھُمْ.‘‘۱؎ (البشریٰ قلمی نسخہ مرتبہ صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓ صفحہ ۱۸) ۴۲.’’ وَ اَنْۢبَتْنَا فِیْـھَا مِنْ کُلِّ زَوْجٍۭ بَهِيْجٍ.‘‘ ۲؎ ( البشریٰ قلمی نسخہ مرتّبہ پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ صفحہ ۵۳) ۴۳.’’ رَبَّنَا لَا تَـجْعَلْنَا طُعْمَۃً لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ.‘‘۳؎ (البشریٰ قلمی نسخہ مرتّبہ پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ صفحہ ۵۳) ۴۴.’’ اَشْـرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِـھَا.‘‘۴؎ ( البشریٰ قلمی نسخہ مرتّبہ پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ صفحہ ۵۵) ۴۵.’’دختر نیک آ گاہی شاں خورد تر چندیں سال.‘‘۵؎ (البشریٰ قلمی نسخہ مرتّبہ پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ صفحہ ۵۷ ،۶۳) ۴۶.’’اے خدا اِس پیالہ کو ٹال دے.‘‘ ( البشریٰ قلمی نسخہ مرتّبہ پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ صفحہ ۸۹) ۴۷.’’ نزول در قادیان.‘‘۶؎ ( البشریٰ قلمی نسخہ مرتّبہ پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ صفحہ ۹۶) ۴۸.’’ تیری نمازوں سے تیرے کام افضل ہیں.‘‘۷؎ ( البشریٰ قلمی نسخہ مرتّبہ پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ صفحہ ۹۹) ۴۹.مولانا جلال الدین صاحب شمس رضی اللہ عنہ شرح قصیدہ ’’یَا عَیْنَ فَیْضِ اللّٰہِ‘‘ میں لکھتے ہیں.’’اِسی قصیدہ کے متعلق ایک اَور روایت مرحوم و مغفور حضرت پیر سراج الحق رضی اللہ عنہ کی ہے کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب یہ قصیدہ تصنیف فرماچکے تو آپ ؑ کا چہرہ مبارک خوشی سے چمکنے لگا اور فرمایا کہ یہ قصیدہ جنابِ الٰہی میں قبول ہوگیا اور خدا نے مجھ سے فرمایا جو اِس قصیدہ کو حِفظ کرے گا اور ہمیشہ پڑھے گا مَیں اس کے دِل میں اپنی اور اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی محبّت کوٹ کوٹ کر بھر دوں گا اور اپنا قرب عطا کروں گا.‘‘ (شرح القصیدہ مؤلفہ مولانا جلال الدین شمسؓ صفحہ۱ ،۲.مطبوعہ ۲۹؍ جون ۱۹۵۶ء) ۱ (ترجمہ از مرتّب) ان کے متعلق آگ میں ڈالنے کا وعدہ ہے.۲ (ترجمہ از مرتّب) اور ہم نے اس میں ہر قسم کی خوبصورت چیزیں اُگائیں.۳ (ترجمہ از مرتّب) اے ہمارے رَبّ ہمیں ظالم قوم کی خوراک نہ بنا.۴ (ترجمہ از مرتّب) زمین اپنے رَبّ کے نور سے جگمگا اُٹھی.۵ (ترجمہ از مرتّب) ان کی نیک لڑکی سب سے چھوٹی چند سال کی ہے.(نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) اِس الہام کے متعلق پیر صاحبؓ نے البشریٰ صفحہ۶۳ پر لکھا ہے.’’الہام منقول از بیاض حضرت ؑ آپ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی.‘‘ ۶ (ترجمہ از مرتّب) قادیان میں نزول.۷ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یعنی جو عظیم الشان خدمات تو اسلام کی تائید میں بجا لا رہا ہے.
۵۰.حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی ؓ نے بیان کیا کہ.’’ایک مرتبہ حضرت اقدس ؑ کو خارش کی بہت سخت شکایت ہوگئی.تمام ہاتھ بھرے ہوئے تھے.لکھنا یا دوسری ضروریات کا سرانجام دینا مشکل تھا.علاج بھی برابر کرتے تھے مگر خارش دُور نہ ہوئی تھی …ایک دن (مَیں ) حضرت ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا.عصر کے قریب وقت تھا.کیا دیکھتا ہوں کہ آپ ؑ کے ہاتھ بالکل صاف ہیں مگر آپ ؑ کے آنسو بہہ رہے ہیں… مَیں نے جرأت کرکے پوچھا کہ حضور آج خلافِ معمول آنسو کیوں بہہ رہے ہیں.حضور ؑ نے فرمایا کہ میرے دِل میں ایک معصیت کا خیال گزرا کہ اللہ تعالیٰ نے کام تو اِتنا بڑا میرے سپرد کیا ہے اور اِدھر صحت کا یہ حال ہے کہ آئے دن کوئی نہ کوئی شکایت رہتی ہے.اِس پر مجھے الہام ۱؎ہوا کہ ’’ہم نے تیری صحت کا ٹھیکہ لیا ہے‘‘ اِس سے میرے قلب پر بے حد رِقت اور ہیبت طاری ہے کہ مَیں نے ایسا خیال کیوں کیا.اِدھر تو یہ الہام ہوا مگر جب اُٹھا تو ہاتھ بالکل صاف ہوگئے اور خارش کا نام و نشان نہ رہا.ایک طرف اِس پُر شوکت الہام کو دیکھتا ہوں دوسری طرف اُس فضل اور رحم کو تو میرے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال اور اس کے رحم و کرم کو دیکھ کر انتہائی جوش پید اہوگیا اور بے اختیار آنسو جاری ہوگئے.‘‘ (الحکم جلد ۳۷ نمبر ۱۲ مورخہ ۷؍ اپریل ۱۹۳۴ء صفحہ ۴) ۵۱.حافظ نور محمد صاحبؓ ساکن فیض اللہ چک بیان کرتے ہیں کہ.’’ایک دفعہ مَیں نے اجازت چاہی کہ مَیں جانا چاہتا ہوں تو آپ ؑ نے فرمایا کہ نہیں آج رہو.حضورؑ کو الہام ہوا تھا کہ ’’ وَ لَوْ اَلْقٰی مَعَاذِ یْرَہٗ ‘‘ یعنی اگر عُذر بھی کریں آج اجازت نہیں ملتی.‘‘ (الحکم جلد ۳۷ نمبر ۳۲مورخہ ۷؍ ستمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۴) ۱ (نوٹ از مولانا عبد اللطیف بہاولپوری) یہ الہام غالباً۱۸۹۱ء یا ۱۸۹۲ء کا ہے.حضرت قمر الانبیاء مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے خارش کی تکلیف کا واقعہ ۱۸۹۱ء بتلایا.(سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر ۲۶۲ صفحہ ۲۳۸ مطبوعہ ۲۰۰۸ء) اور حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب رضی اللہ عنہ نے اسے ۱۸۹۲ء کا.(دیکھیے سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر ۵۷۴ صفحہ ۵۵۰، ۵۵۱ مطبوعہ ۲۰۰۸ء)
۵۲.(الف) میاں فضل محمد صاحب ہرسیاں والے حافظ حامد علی صاحب ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ.’’ ایک دفعہ مجھے۱؎حضرت اقدس ؑنے ایک کام کے لئے ایک غیر ملک میں بھیجا.ایک مقررہ جہاز پر روانہ ہوا.جب جہاز نصف سفر طے کرچکا تو سمندر میں طوفان کے آثار دکھائی دیئے اور ایسا معلوم ہوا کہ جہاز غرق ہونے لگا ہے.لوگ چِلّانے لگے اور جہاز میں شورِ قیامت برپا ہوگیا.لوگ روتے اور آہ و بُکا کرتے تھے.مَیں نے بڑے زور اور دعویٰ سے کہا کہ مَیں پنجاب سے آیا ہوں اور مَیں ایسے شخص کے کام کو جارہا ہوں جسے خدا نے اِس زمانہ کا نبی بناکر بھیجا ہے اِس لئے جب تک مَیں اِس جہاز میں سوار ہوں خدا تعالیٰ اِس جہاز کو غرق نہیں کرے گا چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس حالت کو بدل دیا اور جہاز طوفانی حالت سے نکل کر خیریت سے کنارے جا لگا اور مَیں اپنی جگہ پر اُتر گیا اور جہاز آگے روانہ ہوگیا.مگر تھوڑی دُور ہی گیا تھا کہ غرق ہوگیا… ہندوستان میں جب اِس جہاز کے غرق ہونے کی اطلاع آئی تو میرے عزیز روتے ہوئے حضرت ؑ کے پاس گئے اور کہا جس جہاز پر حامد علی سوار تھا وہ غرق ہوگیا ہے.حضور ؑ نے فرمایا کہ ہاں سنا تو ہے کہ جس جہاز پر حامد علی سوار تھا وہ فلاں تاریخ غرق ہوگیا ہے.یہ کہہ کر حضور ؑ خاموش ہوگئے لیکن تھوڑی دیر کے بعد فرمایا مگر حامد علی اپنا کام کر رہا ہے،وہ غرق نہیں ہوا.بعد کے واقعات نے حضور ؑ کے اِس ارشاد کی تائید کی.معلوم ایسا ہوتا ہے کہ حضورؑ کو کشفی طور پر سارا واقعہ دکھا یا گیا.‘‘ (الحکم جلد ۳۸ نمبر ۲مورخہ ۲۱؍ جنوری ۱۹۳۵ء صفحہ ۵) (ب) شیخ زین العابدین صاحب ؓ برادر حافظ حامد علی صاحب ؓنے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’حافظ حامد علی کی نسبت تو مجھے الہام بھی ہوچکا ہے کہ یہ زندہ آئے گا اور فائدہ حاصل کرکے آئے گا.‘‘ (رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۱۱صفحہ ۵۴) ۵۳.شیخ فضل الٰہی صاحبؓ چٹھی رساں نے بیان کیا کہ.’’ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ مَیں ڈاک لے کر حضور ؑ ( کی خدمت ) میں جارہا تھا.جب ڈپٹی شنکرداس کے مکان۲؎ کے آگے سے گزرا تو مکان کے آگے چبوترہ پر ڈپٹی مذکور چارپائی پر بیٹھا تھا.مجھے (اوشیخ) پکار کر کہا کہ ۱ یعنی حافظ حامد علی صاحبؓ کو.(عبد اللطیف بہاولپوری) ۲ (نوٹ از سیّد عبد الحی ٔ) یہ گھر جماعت نے ستمبر ۱۹۳۱ء کے لگ بھگ خریدا تھا.خرید کے وقت نہ تو پلستر شدہ تھا
غلام احمد کو کہہ دو کہ لڑکے جب مسجد میں آتے ہیں تو شور ڈالتے ہیں اور باتوں سے بھی کھڑاک کرتے ہیں ہم کو تکلیف ہوتی ہے.ان کو منع کردے کہ وہ آرام سے گذارہ کریں.مَیں نے حضرت صاحب ؑ سے ایسا ہی جاکر عرض کردیا تو حضور ؑ نے فرمایا کہ.’’یہ مکان تو ہمارے قبضہ میں آنے والا ہے.خدا نے ہم کو اِس مکان کا وعدہ فرمایا ہے.‘‘ (الحکم جلد ۳۸ نمبر ۹مورخہ ۱۴؍ مارچ ۱۹۳۵ء صفحہ ۴) ۵۴.حکیم محمد قاسم صاحبؓ ساکن لالہ موسیٰ نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ’’ مجھے خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ.’’یہ زمین تیری اور تیرے مریدوں کی ہے.‘‘ (الحکم جلد ۳۸ نمبر ۲۵مورخہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۳۵ء صفحہ ۴) ۵۵.ماسٹر اللہ دِتّا صاحبؓ مہاجر قادیان نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ایک دفعہ مفتی۱؎صاحب کو فرمایا کہ.’’مَیں نے دیکھا ہے کہ منظور۲؎ کی طرف چیل جھپٹی ہے.آپ ایک مسکین کو کھانا کھلایا کریں.حضرت مفتی صاحب سلّمہ اللہ نے عرض کی کہ حضور مقرر کردیا ہے.‘‘ (الحکم جلد ۳۸ نمبر ۲۵مورخہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۳۵ء صفحہ ۱۰) ۵۶.حضرت مولوی شیر علی صاحب ؓ نے ذکر ِ حبیب ؑ کی ایک مجلس میں فرمایا کہ ’’میرے چچا صاحب … کو حُقّہ کی بہت عادت تھی.انہوں نے سنایا کہ مَیں قادیان گیا تو ہم دو آدمی بقیہ حاشیہ.نہ سفیدی ہوئی تھی اور فرش بھی کچے تھے.اس کے علاوہ بالائی منزل میں دو کمرے اور برآمدہ کی تعمیر ہوئی تھی.بنیادی تعمیرات اور مرمت کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپریل ۱۹۳۲ء میں از سر نو تعمیر شدہ عمارت کا افتتاح کیا.(تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں الفضل مورخہ ۳؍مئی ۱۹۳۲ء صفحہ ۵ کالم ۱ و ۲ و تاریخ احمدیت جلد ۵ صفحہ ۲۹۸) چونکہ مسجد اقصیٰ کی توسیع کا منصوبہ کافی عرصہ سے زیر غور تھا کیونکہ عمارت شکستہ حال ہوچکی تھی اس لئے بعد از منظوری حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اکتوبر ۲۰۰۷ء میں اسے گرادیا گیا.اب اس جگہ کو مسجد اقصیٰ کی توسیع میں شامل کرلیا گیا ہے.۱ یعنی مفتی محمد صادق صاحب ؓ.(شمس) ۲ یہ مفتی صاحب ؓ کے صاحبزادے منظور احمد کی طرف اشارہ ہے.(شمس)
تھے.مسجد مبارک میں ہم سو گئے.صبح حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے تو آپ ؑ نے فرمایا.’’مَیں نے آج خواب میں دیکھا کہ مسجد میں دو حُقّے پڑے ہوئے ہیں.‘‘ (الحکم جلد ۳۸ نمبر ۲۷مورخہ۲۸؍ جولائی ۱۹۳۵ء صفحہ ۴) ۵۷.میاں امام الدین صاحبؓ سیکھوانی کی پاکٹ بک میں (درج ) ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.’’ایک روز مَیں نے خواب میں دیکھا کہ ہمارا جو باہر کا مکان ہے اُس کے آگے دو گھوڑے خوب موٹے تازےبندھے ہوئے ہیں اور عربی گھوڑے معلوم ہوتے ہیں.پھر ایک گھوڑے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے ہیں اور ایک گھوڑے پر مَیں سوار ہوں اور ہم دونوں بہادروں کی طرح تیز رفتار چلتے ہیں اور چلنے (میں) کوئی کمی نہیں.بعد (میں) میری آنکھ کھل گئی.‘‘ (الحکم جلد ۳۸ نمبر ۳۰مورخہ ۲۱؍ اگست ۱۹۳۵ء صفحہ ۶) ۵۸.مولوی رحیم بخش صاحبؓ ساکن موضع بہادر حسین تحصیل بٹالہ کا تحریری بیان ہے کہ.’’ ایک مرتبہ عاجز اور شرمپت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد اقصیٰ میں تھے.آپ ؑ اِدھر اُدھر ٹہل رہے تھے.ساتھ ساتھ ہم بھی پھرتے تھے.شرمپت کو حضور ؑ نے مخاطب کرکے فرمایا کہ شرمپت مجھ کو الہام ہوا ہے کہ ملاوا یہودا اسکریوطی ہے اور یہودا اسکریوطی وہ تھا جس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پکڑوایا تھا.یہ ہمارا دوست ہے اس کو نہ بتانا شاید یہ الفاظ کہہ کر رنجیدہ ہوگیا لیکن یہ فرمایا کہ تاریخ اور الہام لکھ رکھو.اس کے ایک مدت کے بعد ملاوا آپ ؑ کا سخت مخالف ہوگیا تھا.‘‘ (الحکم جلد ۳۹ نمبر ۱۵ مورخہ ۱۴ ؍ جون ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۰) ۵۹.حافظ عبدالعلی صاحبؓ برادر مولوی شیر علی صاحب ؓ نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.’’ جو لوگ میرے پاؤں دباتے ہیں، اُن کے روحانی حالات مجھے رات بوقت دعا معلوم ہوتے ہیں.مَیں اُن کے لئے دعا کرتا ہوں.‘‘ (الحکم جلد۴۴ نمبر ۲۰ تا ۲۳ مورخہ ۷، ۱۴، ۲۱، ۲۸ ؍ اگست ۱۹۴۲ء صفحہ ۳.رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر۳ صفحہ ۱۴۵) ۶۰.مٹھہ ٹوانا ضلع شاہ پور سے ایک سِکّھ معہ اپنے لڑکے کے آیا.اُس کے لڑکے کو غالباً تپ دِق کا مرض تھا.حضرت مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے علاج کرانے آیا تھا.اس لڑکے کا باپ دُعا کے لئے حاضر ہوتا.آپ ؑ دُعا فرماتے آپ ؑ کو الہاماً ایک نسخہ معلوم ہوا جو اس پر حضرت مولوی صاحبؓ کی معرفت استعمال کرایا گیا اور وہ لڑکا شفایاب ہوگیا.(الفضل جلد۳۰ نمبر ۱۴۴مورخہ۲۴ ؍ جون۱۹۴۲ء صفحہ ۳)
۶۱.فرمایا.’’مَیں نے کشف میں دیکھا ہے کہ اِس سال ہمارے تین چار دوست داغِ مفارقت دے جائیں گے.مَیں۱؎نے عرض کیا حضور ! وہ قادیان میں سے تو نہیں.فرمایا نہیں.پھر مَیں نے عرض کیا کہ حضور وہ کپورتھلہ کے تو نہیں؟فرمایا نہیں کپورتھلہ تو قادیان کا ایک محلّہ ہے.‘‘ (الفضل جلد۲۶ نمبر۷۵مورخہ یکم اپریل ۱۹۳۸ء صفحہ ۴) ۶۲.’’خدا نے مجھے آپ کے بارہ میں علم دیا ہے کہ آپ جن ہموم۲؎و غموم میں مبتلا ہیں اُن کو خدا تعالیٰ میری دعا سے ٹال دے گا بشرطیکہ آپ خدا کے مامور پر ایمان لے آئیں.‘‘ (الفضل جلد۳۱ نمبر۲۵۱مورخہ ۲۶؍ اکتوبر ۱۹۴۳ءصفحہ ۳ خط بنام نواب صاحب رام پور) ۶۳.(الف) مکرم میاں اللہ دِتّا صاحبؓ سہرانی سکنہ بستی رنداں ضلع ڈیرہ غازی خان روایت کرتے ہیں کہ حضرت اقدسؑ نے فرمایا.’’ رات۳؎اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی کہ … لنگر خانہ میں رات کو رِیا کیا گیا ہے.‘‘ (فرمایا).’’اب جو لنگر خانہ میں کام کررہے ہیں ان کو علیحدہ کرکے قادیان سے چھ ماہ تک نکال دیں اور ایسے شخص مقرر کئے جائیں جو نیک فطرت ہوں اور صالح ہوں.‘‘ (رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۳ صفحہ ۱۹۴) (ب) مکرم میاں اللہ دِتّا صاحبؓ سہرانی سکنہ بستی رنداں ضلع ڈیرہ غازی خاں روایت کرتے ہیں کہ حضرت اقدسؑ نے فرمایا.’’ رات خدا تعالیٰ کی طرف سے جھڑک آئی ہے میرا لنگر ذرا بھی منظور نہیں ہوا کیونکہ اس میں رِیا کیا گیا ہے.مسکین محروم رہ گئے ہیں اور اُمراء کو اچھا کھانا کھلایا گیا ہے.پھر کھانے کا اِنتظام حضرت صاحب ؑ نے اپنے سامنے کروایا اور سب کو ایک قسم کا کھانا کھلایا.‘‘ ( رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۳ ۱صفحہ ۱۰۹) ۶۴.مولوی عبد العزیز صاحبؓ آف بھینی شرقپور ضلع شیخوپورہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ایک صاحب ایران ۱ یعنی منشی ظفر احمد صاحبؓ کپورتھلوی.(عبد اللطیف بہاولپوری) ۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) نواب صاحب ان ایام میں بہت رنجیدہ تھے جس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی ایک چہیتی بیوی مرضِ سِل میں مبتلا تھی اور اس کے علاج و معالجہ میں بہت کوشش کی گئی لیکن وہ جانبر نہ ہوسکی.اس رنج و غم کی اطلاع خدا نے آپ کو دی.(الفضل مورخہ ۲۶؍ اکتوبر ۱۹۴۳ء صفحہ ۳) ۳ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) میاں اللہ دِتّا صاحب بتاتے ہیں کہ یہ عید کا موقعہ تھا.لنگر خانہ میں خاص و عام کی تمیز کی گئی.میرے دل میں بد گمانی پیدا ہوئی.صبح جب حضور ؑ نے یہ الہام سنایا تو وسوسہ جاتا رہا.(ملخص از روایات مذکورہ بالا رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ نمبر ۳ صفحہ۱۹۴، و نمبر۱۳ صفحہ ۱۰۹)
کے رہنے والے جو خدا رسیدہ اور ملہم انسان تھے، ان کو خدا کی طرف سے الہام ہوا کہ ’’ مقصودِ تو از قادیان حاصل مے شود‘‘۱؎ …(وہ) قادیان شریف تشریف لائے … حضرت مسیح موعود علیہ السلام سَیر کے لئے گھر سے باہر تشریف لائے اور احباب منتظرین آپ ؑ کے ساتھ چل دیئے.جب حضور ؑ چند قدم باہر کو تشریف لے گئے تو خدا کی طرف سے آپ کو الہام ہوا.’’آپ کی تلاش میں ایک شخص بازار میں پِھر رہا ہے اور آپ باہر جارہے ہیں.‘‘ حضور ؑ پیچھے کو لَوٹ پڑے اور فرمایا.حکم ہوا کہ بازار کو چلو… جب بڑے بازار میں چوک کے پاس پہنچے تو وہ صاحب مِل گئے.‘‘ ( رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۴صفحہ ۱۷ ،۱۸) ۶۵.سیّد محمود عالم شاہ صاحبؓ ( محاسب صدر انجمن احمدیہ) حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ.’’ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے … (فرمایا) کہ مجھے بتلایا گیا ہے کہ ایک شخص نے رات دس مرتبہ زنا کیا ہے چنانچہ حضرت مولوی صاحب ؓ فرماتے تھے کہ ایک شخص نے مجھ سے اقرار کیا کہ وہ مَیں ہوں.رات مجھے دس مرتبہ اِس قسم کے خیالات پیدا ہوئے.‘‘ ( رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۴صفحہ ۳۷) ۶۶.میاں چراغ الدین صاحبؓ ولد میاں صدرالدین صاحبؓ قادیان نے بیان کیاکہ.’’ایک دفعہ حضور ؑ میاں صاحب (حضرت مرزا محمود احمدصاحب خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) کی اُنگلی پکڑ کر سَیر کے لئے بسراواں تشریف لے گئے جہاں پر آج کل چھپڑ ہے.وہاں پہنچ کر فرمایا کہ ’’دیکھو میاں! گاڑی کی آواز آرہی ہے.‘‘ پھر آپؑ یہ کہہ کر چل پڑے.خدا کے فضل سے آج کل گاڑی کی آواز سنائی دیتی ہے.‘‘ ( رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۴صفحہ ۵۶) ۶۷.سردار ماسٹر عبدالرحمٰن صاحبؓ جالندھری لکھتے ہیں کہ میاں چراغ دین صاحبؓ چپڑاسی بیان کرتے ہیں کہ ’’اِس سے پیشتر حضور ؑ نے اپنی رؤیابیان فرمائی تھی کہ مَیں ریل گاڑی میں سوار ہوکر قادیان آیا ہوں ۱ (ترجمہ از مرتّب) تیرا مقصود تجھے قادیان میں حاصل ہوگا.
اور گاڑی بازار قادیان میں کھڑی ہوگئی.‘‘ ۱؎ ( اصحاب احمد مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب جلد ہفتم صفحہ ۱۳۱ مطبوعہ اگست ۱۹۶۰ء) ۶۸.مکرم میاں امام الدین صاحبؓ سیکھوانی ضلع گورداسپور بیان کرتے ہیں.’’ اَرْضُ اللّٰہِ لَیِّنَۃٌ وَ مُلْکٌ لَّیِّنٌ.‘‘۲؎ (رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر۵ صفحہ ۶۲ ) ۶۹.مکرم بدر الدین صاحبؓ ولد گل محمد صاحب سابق مالیر کوٹلہ حال قادیان بیان کرتے ہیں.’’رات کو نو بج چکے تھے … حضور ؑ اپنے ہاتھ میں ایک پیالہ، جس میں دُودھ اور ڈبل روٹی پڑی تھی، اُٹھائے کنویں پر آگئے اور آکر میرے والد صاحب سے فرمانے لگے ’’ باباجی کوئی مہمان بھوکا ہے‘‘ …جب مہمان خانہ میں جاکر مہمانوں سے معلوم کیا تو کوئی نہ ملا.تو پھر ہم شیر محمد صاحب دکاندار والی دکان جو اس وقت کھلی تھی کے پاس پہنچے تو وہاں سے ایک صاحب نے کہا کہ حضور مَیں نے دُودھ ڈبل روٹی کھانی ہے.اِس پر حضور ؑ نے وہ پیالہ اُس صاحب کو دے دیا.‘‘ (رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۷ صفحہ ۱۷۰ ) ۷۰.(الف) مکرم میاں فضل الدین عبداللہ صاحبؓ ولد محمد بخش صاحب قادیان روایت کرتے ہیں.حضور ؑ نے فرمایا.’’ مخالف ہماری تبلیغ کو روکنا چاہتے ہیں، مجھے تو اللہ تعالیٰ نے میری جماعت ریت کے ذرّوں کی طرح دکھائی ہے.‘‘ (رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۸ صفحہ ۲۰۳ ) (ب) شیخ عبدالکریم صاحبؓ جلد ساز کراچی روایت کرتے ہیں کہ ایک روز سیر کے موقع پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.’’ مَیں اپنی جماعت کو رشیا کے علاقہ میں ریت کی مانند دیکھتا ہوں.‘‘ (رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۱۲ صفحہ ۱۱۴ ) ۷۱.بابو غلام محمد صاحبؓ ریٹائرڈ ڈرافٹسمین لاہور بیان کرتے ہیں کہ ’’حضورؑ نےفرمایا کہ مجھے ابھی غنودگی سی ہوگئی اور مَیں نے دیکھا کہ میرے دائیں بائیں رحمت اللہ کے بچے ہیں اور … فرمایا رحمت اللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے.‘‘ (رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۹صفحہ ۶۹) ۷۲.میاں عبدالعزیز صاحبؓ المعروف مغل سکنہ لاہور روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ بہت قحط پڑگیا اور آٹا ۱ (نوٹ از سید عبد الحی) یہ پیشگوئی بعینہٖ ۱۹۲۸ء میں پوری ہوئی اور ریل گاڑی قادیان تک پہنچی اور وہی اس کا آخری سٹیشن تھا.۲ (ترجمہ از مرتّب) خدا کی زمین نرم ہے اور حکومت بھی نرم ہے.
روپیہ کا پانچ سیر ہوگیا.حضرت مسیح موعود (علیہ السلام ) کو لنگر کے خرچ کی نسبت فکر پڑی تو آپ ؑ کو الہام ہوا.’’ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَا فٍ عَبْدَ ہٗ.‘‘ ۱؎ (رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۹صفحہ ۱۰۵) ۷۳.قاضی محبوب عالم صاحبؓ ولد میاں غلام قادر صاحبؓ سکنہ لاہور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں دعا کا خط لکھا جس کے جواب میں مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹیؓ کا کارڈ موصول ہوا جس میں درج تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.’’ آج رات مَیں محبوب عالم کے لئے دعا کررہا تھا کہ مجھے الہام ہوا.’’دِل پھیر دیا گیا ‘‘ ۲؎ (رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۹صفحہ ۱۳۲ مکتوب مولوی عبد الکریم صاحبؓ بنام محبوب عالم صاحبؓ) ۷۴.بابو غلام محمد صاحبؓ ریٹائرڈ ڈرافٹسمین لاہور بیان کرتے ہیں کہ ’’حضرت صاحب ؑ کا الہام ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ کچھ آگ کی چنگاریاں مجھ پر پڑیں جو میرے تک آتے ہوئے بھسم ہوگئیں.‘‘ (رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۹صفحہ ۲۱۳) ۷۵.شیخ زَین العابدین صاحبؓ ولد شیخ فتح محمد صاحب سکنہ تھہ غلام نبی ضلع گورداسپور نے بیان کیا کہ ’’میری بیوی کو اٹھرا کی بیماری تھی …مَیں حضرت صاحب ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا ( اور دعا کے لئے درخواست کی)فرمایا.آپ بھی دعا کریں اور مَیں بھی دعا کرتا ہوں.ظہر کی نماز کے بعد سے لے کر عصر کی اذان تک حضور ؑنے دعا کی … حضور ؑ نے دُعا ختم کی اور فرمایا تمہاری دعا قبول ہوگئی اور اٹھرا کی بیماری دُور ہوگئی ہے.اِس حمل میں لڑکا ہوگا.آپ کی بیوی کی شکل اور بچہ کی شکل بھی مجھے دکھائی گئی ہے … خدا تعالیٰ کے فضل سے دعا کے بعد اَب تک میرا کوئی بچہ فوت نہیں ہوا.چار لڑکے اور تین لڑکیاں زندہ موجود ہیں.‘‘ (رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۱۱صفحہ ۶۱ تا ۶۳) ۱ (ترجمہ از مرتّب) کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں.۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) منشی محبوب عالم صاحبؓ سکنہ لاہور نے حضور ؑ کی خدمت میں بار بار ایک عورت سے رشتہ کے متعلق دعا کے لئے لکھا اور پھر ایک دفعہ یہ لکھا کہ ’’حضور اگر وہ عورت مجھے نہیں دلا سکتے تو اس جہنّم سے جس میں مَیں پڑا ہوا ہوں، مجھے نکالیں اور میرا دل اس سے پھِر جائے.‘‘ اِس پر حضور ؑ کو مذکورہ بالا الہام ہوا اور فرمایا ’’ یا تو یہ عورت آپ کو مل جائے گی یا پھر آپ کو اس کا خیال ہی نہیں آئے گا.‘‘ (رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۹صفحہ ۱۳۲.مکتوب مولوی عبدالکریم صاحب ؓ بنام محبوب عالم صاحب
۷۶.شیخ زَین العابدین صاحبؓ ولد شیخ فتح محمد صاحب سکنہ تھہ غلام نبی ضلع گورداسپور روایت کرتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ ہمارے بڑے بھائی برکت علی صاحب شدید بیمار ہوگئے اور جسم پنجر کی طرح رہ گیا.یہاں (قادیان) لے آئے.حضرت صاحب ؑ دو ماہ تک علاج کرتے رہے.آخر … حضور ؑ نے بھائی حامد علی صاحب کو فرمایا کہ اَب تم اپنے بھائی کو واپس لے جاؤ اس کا بچنا محال ہے …آدمی (کہار کو بلانے کے لئے ) گاؤں کو چل پڑا.ابھی غالباً رجاوہ۱؎ہی پہنچا ہوگا کہ پیچھے سے حضرت صاحب ؑ کو الہام ہوگیا کہ.’’برکت علی صحت یاب ہوجائے گا‘‘ حضور ؑ نے اُسی وقت حامد علی کو بلا کر فرمایا کہ جس آدمی کو آپ نے بھیجا ہے واپس بلالو …آدمی واپس آگیا اور دوسرے دن بخار ٹوٹ گیا.‘‘ (رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۱۱صفحہ ۶۵) ۷۷.شیخ زین العابدین صاحب ؓ نے بیان کیا کہ.’’مہر علی۲؎ کو یہاں۳؎ لایا گیا تو حضور ؑ نے اس کا مہینہ ڈیڑھ مہینہ علاج کیا.مروڑہَٹ گئے مگر حضور ؑ کو الہام ہوا کہ یہ بچہ بچ نہیں سکے گا…مگر یہ خیال رکھنا کہ یہ چلتا پھرتا مرے گا لیٹا ہوا نہیں مرے گا.جس دن اس نے مرنا تھا بازار چلا گیا اور سیر دُودھ پیا اور شام کے قریب گھر آیا…والدہ نے اُسے کھڑے کھڑے چھاتی سے لگایا مگر اسی حالت میں اس کی جان نکل گئی.حضرت صاحب ؑ نے جنازہ پڑھایا اور یہیں دفن کیا.‘‘ (رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۱۱ صفحہ ۶۶، ۶۷) ۷۸.ملک غلام حسین صاحبؓ رہتاسی مہاجر خادم المسیح محلہ دار الرحمت قادیان کا بیان ہے کہ حضرت صاحب ؑ شام کی نماز پڑھ کر مسجد میں لیٹ جایا کرتے تھے اور بچے حضور ؑ کو دبایا کرتے تھے.میرا بچہ محمد حسین بھی دبا رہا تھا.حضرت اقدس ؑ کی آنکھیں بند تھیں.ایک اَو ر لڑکا جلال جو ’’پٹّی‘‘ کا تھا اور مغل تھا وہ بھی دبا رہا تھا.حضرت اُمّ المؤمنین (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)بھی پاس بیٹھے تھے.یک دم حضرت صاحب ؑ نے جو آنکھ کھولی تو فرمایا کہ ۱ قادیان کے قریب ایک گائوں.(شمس) ۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یعنی راوی شیخ زین العابدین صاحبؓ کا بھائی جو سخت بیمار تھا.جسے چھ ماہ سے دست آرہے تھے.۳ یعنی قادیان میں.(شمس)
’’محمد حسین ڈپٹی کمشنر بنے گا۱؎ اور جلال اس کے گھوڑے کو چارہ ڈالا کرے گا.‘‘ حضرت اُمّ المؤمنین نے جب یہ الفاظ سنے تو فوراً اُٹھ کر اندر گئیں اور میری بیوی کو جاکر مبارکباد دی.‘‘ (رجسٹر روایاتِ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۱۱صفحہ ۹۲) ۷۹.منشی ظفر احمدصاحبؓ کپورتھلوی نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلا م نے فرمایا.’’ رات مَیں نےرؤیادیکھا کہ میرے خدا کو کوئی گالیاں دیتا ہے.مجھے اس کا بڑا صدمہ ہوا.جب آپ ؑ نےرؤیا ذکر فرمایا تو اس سے اگلے روز چودھری۲؎صاحب کا لڑکا فوت ہوگیا.کیونکہ ایک ہی لڑکا تھا اس کی والدہ نے بہت جزع فزع کی اور اس حالت میں اس کے منہ سے ( یہ کلمہ) نکلا.ارے ظالم تو نے مجھ پر بڑا ظلم کیا.‘‘ (رجسٹر روایاتِ۳؎ صحابہ غیر مطبوعہ نمبر ۱۳صفحہ ۳۶۱) ۸۰.مولوی صدرالدین صاحب سابق مبلّغ ایران نے خاکسار عبداللطیف بہاولپوری مرتّب کو اپنی روایات کی کاپی میں سے ایک یہ روایت سنائی کہ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک خادم فضل الدین صاحب المعروف فجّا نے انہیں ایک روایت سنائی کہ ’’ایک دفعہ اتفاقاًایک لیمپ میں تیل ڈالتے ہوئے میرے کپڑوں میں آگ لگ گئی… میرا بہت سا جسم جَل گیا اور ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحبؓ کہنے لگے کہ یہ بیس منٹ سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا.حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ فرمانے لگے کہ ایک گھنٹہ بمشکل زندہ رہے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمانے لگے کہ ’’ مَیں نے ابھی رؤیادیکھا ہے اور اس کو باغ میں دیکھا ہے.‘‘ ۱ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) چنانچہ آخری عمر میں جبکہ وہ افریقہ میں تھے نیروبی کا ڈپٹی کمشنر جب چار ماہ کی رخصت پر گیا تو اُس کا عارضی قائم مقام محمد حسین کو مقرر کیا گیا.(رجسٹر روایاتِ صحابہ نمبر ۱۱ صفحہ ۹۵) ۲ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) یعنی چودھری رستم علی خاں صاحبؓ مرحوم انسپکٹر ریلوے، جو اُن دنوں قادیان میں دارِ مسیح میں قیام پذیر تھے.۳ (نوٹ از مولانا جلال الدین شمسؓ) منشی عبدالرحمٰن صاحبؓ کی روایت جو الحکم پرچہ ۷؍نومبر۱۹۳۴ء صفحہ ۶ پر شائع ہوئی ہے.اس میں اس واقعہ بے اَدبی کا تو ذکر ہے مگر ابتدائی حصّہ یعنی رؤیا کا ذکر نہیں.(نوٹ از مولانا عبد اللطیف صاحب بہاولپوری) حضور ؑ کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو سخت ناراض ہوئے اور اُسے گھر سے نکل جانے کا حکم فرمایا.(رجسٹر مذکور
مطلب یہ کہ اولاد والا ہوگا …پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے میرے لئے ساری رات دُعا کی اور حضرت اُمّ المؤمنین (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) اور دو اَور عورتوں کو پاس باری باری بٹھا یا اور ساری رات میرے لئے دُعا کی اور آخر اللہ تعالیٰ نے مجھے موت سے نجات بخشی اور شفا عطا فرمائی.‘‘ (کاپی مولوی صدرالدین صاحب) ۸۱.مولوی محمد اسمٰعیل صاحبؓ فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ مرحوم و مغفور فرماتے تھے کہ مَیں نے متعدد مرتبہ حضرت میاں عبداللہ صاحبؓ سنوری مرحوم سے سنا تھا کہ مجھ پر جس قدر حالات (میری زندگی میں) آنے والے تھے وہ سب مجھے حضور ؑ نے پہلے سے بتادیئے ہوئے تھے اور اس کے مطابق وہ سب مجھ پر گزرے اور حضور ؑ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ تمہاری وفات جمعہ کے روز ہوگی.آپ کی وفات (۷؍ اکتوبر ۱۹۲۷ءکو جمعہ کے روز) قادیان میں ہوئی اور بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے.‘‘ ( طبع اوّل میں یہ روایت صفحہ ۱۳۴ کے حاشیہ میں دی گئی ہے.جبکہ طبع ثانی میں اسے ضمیمہ کے متن میں دیا گیا ہے) ۸۲.قاضی محمد یوسف صاحب ؓ امیر جماعت ِ احمدیہ سرحد اپنی تصنیف ’’ سوانح ظہورِ احمد ِ موعود ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ.’’حضرت احمد ؑ نے جماعت کے بارہ میں کوئی شکایت کی تو یہ الہام ہوا.بھمیں مَردماں بباید ساخت یعنی انہیں لوگوں کے ساتھ گذارہ کرنا ہے.‘‘ (ظہورِ احمد ِ موعود ؑ صفحہ ۵۱ مطبوعہ ۳۰ ؍ جنوری ۱۹۵۵ء) ۸۳.مولوی عبداللہ صاحب ؓ بوتالوی تحریر فرماتے ہیں.’’خاکسار جب قادیان آیا تو میرے ایّامِ قیام میں ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام گھر سے مسجد مبارک میں تشریف لائے …حضور ؑ نے کھڑے کھڑے فرمایا کہ شاید کسی دوست کو یاد ہو ہم نے ایک دفعہ پہلے بھی بتایا تھا کہ ہمیں دکھلایا گیا ہے کہ اِس چھوٹی مسجد (مبارک) سے لے کر بڑی مسجد (اقصیٰ) تک مسجد ہی مسجد ہے …اس کے بعد حضور ؑ نے فرمایا کہ اَب مجھے پھر یہی دکھایا گیا ہے کہ اِس چھوٹی مسجد سے لے کر بڑی مسجد تک مسجد ہی مسجد ہے.‘‘ (اصحابِ احمد مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب جلد ۷صفحہ ۲۰۷ مطبوعہ اگست ۱۹۶۰ء) ۸۴.محترمہ صالحہ بی بی صاحبہ ؓ اہلیہ قاضی عبدالرحیم صاحب ؓ فرماتی ہیں کہ ’’ہندوؤں والے بازار میں سے جو اَب بڑا بازار کہلاتا ہے اور اُس وقت چھوٹا سا تھا ایک دفعہ حضور ؑ ( وہاں سے ) گزر کر سَیر کے لئے شمال کی طرف جہاں اَب حضرت مولوی شیر علی صاحب ؓ کا گھر۱؎ ہے، تشریف لے گئے.۱ آپؓ محلہ دار العلوم قادیان میں رہتے تھے.(ناشر)
ہم دس پندرہ عورتیں حضور ؑ کے ہمراہ ہوں گی.واپسی پر اسی بازار میں سے گزرتے ہوئے چوک میں جو مسجد اقصیٰ کے متّصل شمال میں ہے کنوئیں کے پاس ٹھہر گئے اور سوٹی کی نوک زمین میں لگا کر فرمایا کہ یہ عنقریب احمدی بازار کہلائے گا اور یہاں احمدی ہی احمدی ہوں گے.‘‘ (اصحابِ احمد مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب جلد۶صفحہ ۱۲۳ ،۱۲۴ طبع اوّل) ۸۵.مرزا غلام اللہ صاحبؓ انصار ساکن قادیان فرماتے ہیں.’’میرے بھائی نظام الدین صاحبؓ نے ذکر کیا کہ جن دنوں حضرت صاحب ؑ سیالکوٹ میں نوکر تھے مَیں بھی آپ کے ساتھ تھا.مجھے حضرت صاحب ؑ پڑھایا بھی کرتے تھے.آپ ؑ وہاں بھیم سین وکیل کو جو ہندو تھا، قرآن شریف پڑھایا کرتے تھے اور اس نے تقریباً چودہ پارہ تک قرآن حضرت صاحب ؑ سے پڑھا تھا.ایک دن حضرت صاحب ؑ نے صبح اُٹھ کر بھیم سین کو مخاطب کرکے یہ خواب سنایا کہ آج رات مَیں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا.آپ ؐ مجھ کو بارگاہِ ایزدی میں لے گئے اور وہاں سے مجھے ایک چیز ملی جس کے متعلق ارشاد ہوا کہ یہ سارے جہان کو تقسیم کردو.‘‘ (سیرتِ احمد ؑ مصنّفہ مولوی قدرت اللہ صاحب ؓ سنوری صفحہ ۱۸۲ ، ۱۸۳ روایت نمبر ۶۶) ۸۶.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا.’’ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت مولوی صاحب خلیفہ اوّلؓ نے مسجد مبارک کے پاس کے کمرہ میں جہاں اُس وقت مولوی محمد علی صاحب رہتے تھے اجلاس صدر انجمن احمدیہ کے دوران میں آ کر فرمایا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے کہ ’’آپ کے خاندان کو اڑھائی سو روپیہ ماہوار خرچ کے لئے دیا جائے.‘‘ (پیغام صُلح کے چند الزامات کی تردید.تقریر فرمودہ ۱۰؍ ستمبر ۱۹۱۶ء.انوار العلوم جلد ۳ صفحہ ۳۹۰ شائع کردہ فضل عمر فاؤنڈیشن پاکستان) ۸۷.حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ بیان فرماتی ہیں کہ حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا کہ ’’جب میں بڑی ہوئی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کوٹھے پر ایک کمرہ جو بیت العافیت کہلاتا تھا میرے لئے الگ کردیا کہ یہ تمہارا کمرہ ہے …… میں اپنی چیزیں وہاں رکھتی تھی.اپنا کام وغیرہ وہیں کیا کرتی
تھی لیکن رات کو نیچے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کمرہ میں ہی سویا کرتی تھی.اس کمرہ کے ایک دروازہ پر حضرت اماں جان نے ’’مبارک‘‘ لکھ دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کاٹ کر ’’مبارکہ‘‘ کردیا.بہت زمانہ تک وہ نام لکھا رہا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا.’’کوٹھے پر ایک حادثہ‘‘ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے فرمایا زیادہ اوپر نہ جایا کرو.‘‘ (روایت حضرت سیّدہ ام متین صاحبہ) ۸۸.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں.’’خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر الہام کرکے کہا.اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاہ دار کآخر کنند دعوٰیءِ حبّ پیغمبرم ‘‘۱؎ (الفضل مورخہ ۱۸؍اکتوبر ۱۹۳۷ءصفحہ۹) تــــــــــمّـــــــت خخخخخ ۱ (ترجمہ از ناشر) اے دل تو ان لوگوں کا خیال رکھ کیونکہ آخر میرے پیغمبرؐ کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں