Language: UR
تذكرة الشهادتين اور پیغام صلح آسان زبان میں سوال جواب کی صورت میں یکی از مطبوعات
ہم مولوی صاحبزادہ عبداللطیف کی شہادت کا در زناک ذکر کرتے ہیں اور اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ اس قسم کا ایمان حاصل کرنے کے لئے دعا کرتے رہیں کیونکہ جب تک انسان کچھ خدا کا اور کچھ دنیا کا ہے تب تک آسمان پر اُس کا نام مومن نہیں.“ ( تذكرة الشهادتين (مم) شعبه استاعت محترمہ ثریا مقبول صاحبه حلقه محمد آباد قیادت تمبرا کا تہہ دل سے ممنون ہے جن کے مالی تعاون سے یہ کتاب شائع ہوئی.اور ان کے شوہر د بچوں کی صحت و تندرستی اور دینی و دنیاوی ترقیات کے لئے دعا کی درخواست کرتا ہے.فجزاها الله تعالیٰ احسن الجزاء
سمِ اللهِ الرَّحِمَنِ الرَّحِيم پیش لفظ اللہ تبارک تعالیٰ کا احسان عظیم ہے کہ اُس نے مجھ جیسی عاجہ اور ناکارہ کو صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر اس رنگ میں خدمت کا موقع دیا کہ حضرت سلطان القلم مسیح و مہدی زمان ) آپ پر آپ کی آل اور آپ کی جماعت پر سلامتی ہو) کی کچھ کتب آسان الفاظ میں سوال وجواب کے اندازہ میں پیش کروں.آپ کا علم کلام و سرر آگیں کے ہے جس کے لئے رہتی دنیا تک وضع وضع کے مینا د ساتر ڈھالے جائیں گے.مقصد یہی ہوگا کہ زیادہ سے زیادہ افراد اس سے روحانی لطف حاصل کر کے معبود اور عیب کے درمیان فاصلوں کو کم کرتے چلے جائیں.حضرت اقدس مسیح موعود فرماتے ہیں یہ میری زبان کی تائید میں ایک اور زبان بول رہی ہے اور میرے ہاتھ کی تقویت کے لئے ایک اور ہاتھ چل رہا ہے جس کو دنیا نہیں دیکھتی مگر میں دیکھ رہا ہوں میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے جو میر لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخشتی ہے دانزالہ اوہام (۳۰۳)
تذكرة الشهادتين سوال و تذکرۃ الشہادتین میں حضرت بانی سلسلہ آپ پر سلامتی ہوا نے اپنی تشریف آوری کی تعرض کیا بیان فرمائی ؟ جواب در تجدید دین یعنی ایمان کو تازہ کرنا اور خدا تعالیٰ سے قوت پا کر اسی کے ہاتھ سے کشش سے دنیا کو اپنی اصلاح خدا کے قوف اور سچائی کی طرف لانا.اعتقادات اور اعمال میں جو غلطیاں پیدا ہو گئی تھیں اُن کو دور کرنا.یہ سب فرائض مہدی کو بجالانے تھے.خدا تعالیٰ نے بتایا کہ مہدی اور مسیح آپ ہی ہیں.صدا سوال ، خدا تعالے کے کلام میں کیا خاص بات تھی میں نے آپ کے دل میں یہ یقین پیدا کیا کہ مہدی اور مسیح قرار دینے والا سچا خدائے واحد ہی ہے؟ جواب در خدا تعالیٰ نے بار بار صاف الفاظ میں آپ کو مہدی ومسیح ہونے کی خبر دی ہر وحی فولادی میخ کی طرح دل میں دھنستی تھی.اس وجی میں مستقبل کی خبریں ہوتی تھیں جو بڑی صفائی سے پوری ہوتی تھیں.معجزانہ جنگ میں پوری ہونے والی ان باتوں سے یقین ہو گیا کہ یہ دی اسی وحدہ لا شریک خدا کا کلام ہے جس کا کلام قرآن شریف ہے.اس پر یقین میں اضافہ اس
طرح ہوا کہ وہ قرآن پاک کے بین مطابق تھی.۲ سوال : موعود مہدی وسیح کے لئے کون سے نشانات نمایاں طور پر کر پیش ہوئے ؟ جواب ، دار سورج اور چاند گرہن کا نشان جس کی خبر قرآن پاک اور گذشتہ نبیوں نے دی تھی.۲، طاعون کا نشان جس کی خبر قرآن پاک میں موجود ہے اور گزشتہ نبیوں نے بھی دی تھی.سوال ، الیسے الہامات لکھئے جن میں خدا تعالیٰ نے خاص تائی کا وعدہ فرمایا تھا ؟ جواب دربار میں اس شخص کی اہانت کروں گا جو تیری اہانت کے دیئے ہے.میں اس شخص کی مدد کروں گا جو تیری مدد کرنا چاہتا ہے..جن لوگوں نے فلم کیا ہے وہ عنقریب جہان میں گے کہ وہ کس طرف پھیرے جائیں گے.-۴ تو میری درگاہ میں وجیہہ ہے میں نے اپنے لئے تجھے چن لیا.-: جب تو کسی پر ناراض ہو تو میں اس پر ناراض ہوتا ہوں اور ہر ایک چیز جس سے تو پیار کرتا ہے میں بھی اُس سے پیار کرتا ہوں.-4 خدا اپنے عرش سے تیری تعریف کرتا ہے.....اور تیری طرف چلا آتا ہے.تو مجھ سے اس مرتبہ پر ہے جس کو دنیا نہیں جانتی.تو مجھ سے ایسا ہے
جیسا کہ میری توحید اور تفرید A ہ.تو ہمارے پانی سے ہے.و.ہم نے تجھے دنیا کے لئے ایک عام رحمت بنا کر بھیجا ہے.10 اے احمد تو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے تیرا بھید میرا بھید ہے تیری شان عجیب ہے.میں نے تجھے روشن کیا اور میں نے تجھے چنا.وا.وہ کریم ہے جو تیرے آگے آگے چلتا ہے.۱۳ - خدا تجھے دشمنوں سے بچائے گا اور اس شخص پر حملہ کرے گا کہ جو ظلم کی راہ سے تیرے پر حملہ کرے گا.(ص) سوال در نافرمانوں کو سزا دینے کے لئے خدا تعالی کی کیا پیش گوئی تذکرۃ الشہاز مین میں بیان کی گئی ہے ؟ جواب 4 " اس کا غضب زمین پر اتر آیا کیونکہ لوگوں نے معصیت پر کمر باندھی اور وہ حد سے گزر گئے.بیماریاں ملک میں پھیلائی جائیں گی اور طرح طرح کے اسباب سے جانیں تلف کی جائیں گی.یہ امر آسمان پر قرار پاچکا ہے.یہ اُس خدا کا امر ہے ، جو غالب اور بزرگ ہے جو کچھ قوم پر نازل ہوا خدا اس کو نہیں بدلائے گا جب تک کہ وہ لوگ اپنے دلوں کی حالت نہ بل لا ئیں." (مت) سوال از صاحبزادہ عبداللطیف کہاں کے رہنے والے تھے حضور اقدس نے آپ کے تعارف کے لئے کیا الفاظ استعمال فرمائے ؟
A جواب و خوست (کابل) ده بزرگ نهایت پاک باطن اور اہل علم اور اہل فراست اور خدا تریسی اور تقویٰ شعار تھے." سوال یہ صاحبزادہ صاحب کا بانی سلسلہ احمدیہ سے کیسے تعارف ہوا؟ جواب در کتب حضرت ہائی سلسلہ کسی طرح دستیاب ہو ہیں.مطالعہ سے حق واضع ہوا اور حضرت ہائی سلسلہ کے لئے خاص محبت پیدا ہوئی.اسی کشش میں حج کی غرض سے چلے اور قادیان اگر حضرت بانی سلسلہ کی زیارت و صحبت سے فیضیاب ہوئے.حضرت اقدس اُن کی محبت سے متاثر ہو کہ فرماتے ہیں.میں نے ان کو اپنی پیروی اور اپنے دعوی کی تصدیق میں ایسا فنا شدہ پایا کہ جس سے بڑھ کر انسان کے لئے ممکن نہیں اور جیسا کہ ایک شیشہ عطر سے بھرا ہوا ہوتا ہے ایسا ہی میں نے ان کو اپنی محبت سے بھرا ہوا پایا." (مت) سوال : حضرت صاحبزادہ صاحب نے کن ولائل سے حضرت اقدس کو شناخت فرمایا.جواب ، قرآنی حقائق سے مسلمانوں کی روحانی حالت مردہ کی طرح ہو گئی تھی.خدا تعالیٰ مسلمانوں کو اس حالت میں نہیں چھوڑتا.اسی لئے انہیں یقین تھا کہ کسی مجدد دین کو خدا تعالیٰ ضرور بھیجے گا.پھر جب کتب پڑھیں تو وفات مسیح کے مسئلہ کو قرآن کے مطابق پایا.اور موسوی سلسلہ کے مقابل محمدی سلسلہ کے آخر میں مہدی مبعوث فرمائے جانے کا وعدہ بھی سامنے تھا اس
q طرح شناخت کیا.(مش) سوال ، موسوی سلسلہ سے محمد کی سلسلہ کی مشاہتیں بیان کریں.جواب یہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالی ہے.إِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولاً شَاهِدَ اعَلَيْكُمْ كَمَا الرُ سَلْنَا إِلَى فرعون رَسُولاً ہم نے ایک رسول کو جوتم پر گواہ ہے یعنی اس بات کا گوا، کہ تم کیسی خراب حالت میں ہو تمہاری طرف اسی رسول کی مانند بھیجا ہے جو فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا.فرعون کی قوم کی اصلاح کے لئے حضرت موسی مبعوث فرمائے.ابو جہل کی قوم کی اصلاح کے لئے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ابوجہل مبعوث فرمائے دونوں انبیاء کے سلسلہ خدمت میں بھی مشابہت رکھی.كما استَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم..ا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مثیل حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ تم کو ٹھرایا گیا.سلسلہ خلافت محمدیہ کو سلسلۂ خلافت موسویہ کا شمیل شہرایا گیا.*1 سلسلہ موسویہ کے اول میں حضرت موسیٰ تھے آخر میں حضرت عیسی سلسلہ محمدیہ کے اول میں تیل موسی آنحضور اور آخر میں حضرت مسیح موعود ۴.حضرت موسی کو فرعون نے دکھ دیئے اور آنحضور کو ابو جہل اور اس کی قوم نے.د.موسوی سلسلے کے آخری نبی حضرت علی کو یہود مغضور سے دُکھ
پہنچے اور حضرت مسیح موعود کو بہوری صفت علماء سے قرآن کریم میں دعا سکھا دی گئی تھی غیر المغضوب عليهم ولا الضالين -4 حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی کے درمیان چودہ سو سال کا فرق تھا.آنحضور اور حضرت مسیح موعود کے درمیان چودہ سو سال کا فرق تھا.- گمراہی کے دور میں یہود کے لئے قرآن نے کہا لِنَنْظُر كَيْفَ تَعْمَلُونَ اور گمراہی کے دور میں مسلمانوں کے لئے قرآن پاک میں الفاظ ہیں لننظر کیف تعملون دونوں آیتوں کے معنی ہیں خدا تمہیں خلافت اور حکومت عطا کر کے پھر دیکھے گا کہ تم راستبازی پر قائم رہتے ہو یا نہیں، دونوں سلسلے نیکی اور یدی میں مشابہت رکھتے ہیں..اسرائیلی یہودیوں میں سے ان کی اصلاح کے لئے حضرت عیسی آئے.اسی طرح اُمت محمدیہ کی اصلاح کے لئے انہیں میں سے مسیح کو آنا تھا.امامكم منكم - حضرت عیسی کی تکذیب کی سزا طاعون کی صورت میں دی گئی باقی طبطوس نامی رومی کے ہاتھوں سخت عذاب کے ساتھ ملک سے منتشر کئے گئے.میسیج محمدی کی تکذیب کی سزا بھی طاعون سے دی گئی.محمدتی سلسله موسوی سلسلہ کا کسی صورت محتاج نہیں نہ قرآن پاک توربیت کا محتاج ہے نہ یہ امت کسی اسرائیلی بنی کی محتاج ہے.سوال : خدا تعالیٰ نے بعض مسلمانوں کو یہود قرار دیا ہے.ثابت کیجئے، جواب : سب مفسرین متفق ہیں کہ مغضوب علیہم سے مراد یہود ہیں جن
پر حضرت عیسی کی تکذیب کی وجہ سے غضب الہی اسی دنیا ہیں نازل ہوا.قرآن گواہ ہے کہ یہود کو مغضوب علیہم ٹھہرانے کے لئے حضرت علی کی زبان پر لعنت جاری ہوئی مخفی.اب خدا تعالیٰ مسلمانوں کو یہ دعا سکھاتا ہے کہ ہم ایسے یہودی نہ بن جائیں جنہوں نے اپنے عیسی کو سولی پر چڑھا دیا تھا.اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امت محمدیہ میں ایک عیسٹی پیدا ہونے والا ہے.جس کی مخالفت میں بعض علماء بالکل یہود کے علماء کے مشابہ ہو جائیں گے.ور نہ اس دعا کی کیا ضرورت تھی.قرآن کریم کا محاورہ ہے کہ جب وہ کسی نیکی یا بدی سے منع کرتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اب کوئی انسان بدی نہیں کرے گا بعض ضرور اس کے مرتکب ہوتے ہیں.اسی لئے سورہ فاتحہ میں یہ دعا سکھائی کہ ہم یہودی نہ بن جائیں.خدا کے علم میں تھا کہ آئندہ الیسا واقعہ ہوگا.اس امت میں عیسی مسیح کے رنگ میں آخری زمانہ میں ایک شخص مبعوث ہوگا اس وقت بعض علمائے اسلام یہودی علماء کی طرح اُن کودکھے دیں گے ان کو بھی اسی طرح سزا ملے گی جیسے یہودیوں کو ملی.(ص ۱۲۰) سوال یہودیوں کا حضرت عیسی پر کیا اعتراض تھا.جواب در یہودی حضرت علی کے منکر اور سخت مخالف تھے.ان کی بے عزتی کرنے کے لئے چاہتے تھے کہ انہیں کسی نہ کسی طرح صلیب پر موت کی سزادی جائے ، توریت میں لکھا ہے کہ جو صلیب پر فوت ہوگا.اس کی نجات نہیں ہوگی.وہ لعنتی ہو گا اور وہ مرکز خدا تعالیٰ کی طرف نہیں
اُٹھایا جائے گا.اس لئے یہودیوں نے سر توڑ کوشش سے حضرت عیسی کو صلیب پر لٹکوا دیا.سوال : خدا تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی کا دفاع کس طرح کیا ؟ جواب : صلیب پر مرنے سے بچالیا.طبعی وفات دی اور درجات بلند کئے.قرآن پاک میں پہلے وفات اور پھر درجات کی بلندی کا ذکر ہے الفاظ میں ایل رفعہ اللہ الیہ اللہ تو مر جگہ موجود ہے پھر رفع الی اللہ سے دو کہ آسمان پر جانا کس طرح ثابت ہو سکتا ہے ) کامل واکمل نبی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی آسمان پر چڑھ جانے کا نشان کا مول لیہ کیا گیا.مگر آپ نے جواب دیا " میں تو ایک انسان رسول ہوں.جب انحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کی حدود زندہ آسمان پر چڑھ جاتے ہیں مانع تھیں تو حضرت عیدی بھی بشر رسول تھے وہ بھی خاکی جسم کے ساتھ آسمان پر نہیں چڑھ سکتے.یہودیوں کے سب اعتراض غلط ثابت کرنے کے لئے اور حضرت عیسی کو سنجات یافتہ مومن بندہ ثابت کرنے کے لئے قرآن نے شہادت دی ہے.حضرت عیسی کے لئے جس جگہ بھی توفی کا لفظ آیا ہے اگر اس کے معنی زندہ آسمان پر جانے کے کئے جائیں تو یہ کبھی بھی نہیں مریں گے اور یہ نامسکن ہے.(ت) سوال در یہودی حضرت عیسی پر ایمان نہ لانے کا کیا عذر پیش کرتے ہیں؟ جواب : حضرت عیسی کی صداقت کے نشانات شناخت کے لئے کافی" تھے مگر نجل اور شرارت کی وجہ سے وہ تکذیب کرتے رہے اور مطالبہ کرتے
ہے کہ پہلے (المبیا) یوحنا کی آسمان سے زندہ اتریں گے تو ہم قبول کریں گے اگر اللہ تعالیٰ کی سنت کسی کو زندہ اتارنا ہوتی تو اپنے نبی کی تائید ہیں یہ نشان دکھا دیتا انہیں اتنی تکلیف میں نہ ڈاتھا.(م) سوال ، آيت فَلَمَّا تَوَفَيْلى.......سے وفات مسیح کسی طرح ثابت کر سکتے ہیں.جواب ، قیامت کے دن خدا تعالیٰ حضرت عیسی سے پوچھے گا کیا تو نے اپنے ماننے والوں کو کہا تھا کہ میری ماں کو اور مجھے خدا ماننا ؟ حضرت عیسی جواب دیں گے یا الہی اگر میں نے ایسا کیا ہے تو تجھے معلوم ہوگا کیونکہ تیرے علم سے کوئی چیز با ہر نہیں میں نے تو صرف وہی کہا تھا جو تو نے فرمایا تھا پھر جبکہ تو نے مجھے وفات دے دی تو پھر صرف تو ہی ان کا نگہبان تھا مجھے ان کے حال کا کیا علم ) - اگر حضرت عیسی کا قیامت سے پہلے دنیا میں اگر اصلاح خلق کرنا مانا جائے تو یہ جواب ایک واضح جھوٹ ہو جائے گا.-۲- اگر حضرت عیسی قیامت سے پہلے دنیا میں اگر مفسد و مشرک عیسائیوں سے بحیثیت اُن کے عقیدہ کے ان کے خدا کی حیثیت میں آکر سزائیں دے کہ وفات پا کر خدا کے سامنے گئے ہوں تو خدا تعالیٰ جو علیم و خبیر ہے سب واقف ہوتا پھر یہ سوال کیوں پوچھتا.قرآن نے معاملہ کو مسلمانوں پر خوب کھول دیا ہے کہ میسی قوت ہو گئے دربارہ نہیں آئیں گے
سوال : قرآن پاک میں میٹی ابن مریم کے دوبارہ آنے کا ذکر کن معنوں میں ہے.جواب ، سورۂ تحریم میں اُمت کے بعض افراد کا نام عیسی با این مردم رکھا گیا ہے.بعض افراد کو مریم سے مشابہت دی پھر اس میں نفع روح کا ذکر کیا.جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میں طرح مریم میں پھونکی گئی روح عیسی تھے اس طرح امت محمدیہ میں کوئی شخص خدا کے فضل واحسان سے مریم بنے گا پھر عیسی ہو جائے گا.قرآن پاک سے ثابت ہو گیا کہ آنے والا وجود اسی دنیا میں پیدا ہو گا.(ص) سوال ، قرآن پاک کی آیت وَمَا مُحَمَّدُ إِلا رَسُول.....کسی طرح وفات مسیح ثابت کر سکتے ہیں.: بعد جواب : اسنصور کی وفات کے بعد صحابہ شدت غم سے اور فرد محبت در سے یہ ماننے کو تیار نہ تھے کہ آنحضور فوت ہو گئے ہیں.اس پر حضرت ابو کر نے مندرجہ بالا آیت تلاوت کر کے ثابت فرمایا کہ وہ ایک رسول تھے اور سب رسول پہلے فوت ہوتے آئے ہیں.کسی نے اعتراض نہ کیا کہ حضرت عیسی تو زندہ آسمان پر تشریف لے گئے تھے.جھے سوسال ان کی وفات کو ہو چکے تھے اگر یہ عقیدہ صحابہ کا ہوتا تو اس وقت ضرور ہیں کیا جاتا.(رضا) سواں ، حضرت عیسی کی زندگی کے حالات سے کوئی دلیل پیش کریں کہ وہ صلیب پر فوت نہیں ہو سکتے جواب : حضرت عیسی کو قبائل کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا تھا.دس قبائل
یہود کے دوسے ملکوں میں تھے خدا کا فرستادہ اپنے فرض کی ادائیگی سے پہلے نہیں جاسکتا.دور اُن کو نبوت ملے ساڑھنے نہیں سال ہوئے تھے یہ سال اپنے گاؤں میں ہی گزرے جبکہ اسلامی کتابوں میں انہیں سیاح بہبی لکھا ہے؟ سوال حضرت مسیح موعود کا دعوی ان کے الفاظ میں لکھے اور مختصر طور پر نشانات کا ذکر کیجئے ؟ سجواب ، آپ فرماتے ہیں : ڈر یاد ہے کہ جو شخص اتر نے والا تھا وہ اتر آیا اور آج تمام نوشتے پیسے ہو گئے.تمام نبیوں کی کتابیں اسی زمانہ کا حوالہ دیتی ہیں.“ کتابوں کے مطابق ا چھٹے ہزار کا آخر ہے ۲.دو الستين ستارہ نکلا ہے.سورج اور چاند کو ایک مہینہ میں گرین لگا ہے.۴ طاعون پھوٹی ہے.اونٹ بیکار ہو گئے.نئی سواری ریل گاڑی نکلی ہے.صدی کے سر پر دعوی کیا گیا ہے.حضرت عیسی ایک کمزور فانی انسان تھے.عیسائیوں کی تبلیغ اور امل اسلام کی کمزوری سے حضرت عیسی کے ساتھ مبالغہ آمیز باتوں پر اعتقاد ہو گیا ہے ے ان کے چار بھائی اور نہیں تھیں کسی طرح غیر حقیقی امتیازوں کے تحت نہیں انشا سوال یہ موسوی سلسلہ کے آخری خلیفہ حضرت عیسی اور محمد می سلسلہ کے
آخری خلیفہ حضرت مسیح موعود کی مشابہتوں کا ذکر کیجئے.جواب ، را، اسلام میں اولیاء اللہ حضرت مسیح ایک ہی موعود تھے اولیاء اللہ تو بہت گزرے مگر موعود ایک تھا.بہت گزرے تھے.۲.اسلامی سلطنت ہندوستان سے اسرائیلی سلطنت جھاتی رہی تھی.رومی ختم ہوئی اور انگریزا گئے تھے.آگئے تھے.مسلمان بہت سے فرقوں میں یہودی بہت سے فرقوں میں بٹ کر یٹ کر حکم کے منتظر نبرد حکم نہیں حکم کے مخارج تھے.مہدی کو جہاد بالسیف کا حضرت عیسی کو جہاد یا السیف کا حکم نہ تھا ۵ - علما د اور عام مسلمانوں کا علماء سب سے زیادہ بد چلن ہو گئے تھے.مہدی کے زمانے میں قیصر قبیصہ روم حکمران تھا.فلسطین ہیں.کردار بگڑ گیا ہے.کی عملداری تھی.کر رہی ہیں ستاره نکلا تھا A مغربی اقوام احمدیت قبول قید ی قوم نے عیسائیت قبول کرنی شروع کی.ستارہ نکلا تھا تکذیب کے وقت سورج گرہیں لگا صلیب کے قت سورج گرہن لگا ہوا تھا ا مسلمانوں میں طاعون پھیلی یہودیوں میں طاعون پھیلی مقدمات قائم کئے گئے حضرت مقدمات قائم کئے گئے.حضرت عیسی
16 مسیح موعود علیہ السلام پر علیہ السلام کے ۱۲.خون کے مقدمہ میں عدالت میں صلیب پر چڑھائے گئے تو ساتھ ایک پیش ہوئے تو ایک عیسائی چور بھی تھا پور بھی منھا.۱۲ کپتان ڈگاس نے کہا میں کوئی پیلاطوس گورنر نے کہا میں کوئی الزام نہیں لگاتا جرم نہیں پاتا.-۱۴ خاندان قریش میں سے نہیں ہیں بنی اسرائیل میں سے نہیں تھے.۱۵.اس زمانہ میں بھی جدید زمانہ ایجادات ہو رہی ہیں دنیا کی وضع حدید ہو گئی تھی.۱۹ - توام پیدا ہونے کی وجہ سے بغیر باپ کے ہونے کی وجہ سے حضرت آدم سے مائل ہیں - حضرت آدم سے مائل تھے.(ص) سوال راللہ تعالیٰ نے حضرت میسج زباں کی صداقت میں کتنے نشان ظاہر فرمائے.جواب ، دو لاکھ سے زیادہ دس ہزار کے قریب لوگوں نے آنحضور کو خواب میں دیکھا کہ تائید فرما رہے ہیں.بعض ایسے اہل کشف بھی تھے جن کے تین تین چار چار لاکھ مرید تھے.ایک بزرگ گلاب شاہ ضلع لدھیانہ میں تھے جو نہیں سال پہلے فوت ہو گئے تھے گھر بتا گئے تھے کہ علی قادیان میں پیدا ہو گا اور لومیا آئے گا.(۳) سوال ، ثابت کیجئے کہ خدا تعالیٰ کی پیش گوئیوں میں امتحان بھی ہوتا ہے.جواب ، خدا تعالی چاہتا تو توریت میں لکھ دنیا کہ آنے والے بنی کا نام " محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہو گا.باپ کا نام عبداللہ اور دادا کا نام عبدالمطلب ہو
JA گا مکہ میں پیدا ہو گا اور مدینہ ہجرت کرے گا.اسی طرح حضرت عیسی اور حضرت مہدی کے متعلق وضاحت فرما دیتا مگر اس طرح نہیں ہوا کیونکہ وہ نیک طبع لوگوں اور بدفطرت لوگوں میں انباز کرنا چاہتا ہے اور اس طرح امتحان لینا ہے.تائید الہیہ میں کو سچا ثابت کریں اس کو مان لیا جائے اور زمانہ گزرنے کے ساتھ اپنی بنائی ہوئی یارائچ نشانیوں اور کمز ور حدیثوں کو چھوڑ کر سچی شہادتوں کو مانا جائے.سوال در نزول یا آسمان سے اترنے سے کیا مراد ہے ؟؟ جواب در حق الیقین کا درجہ حاصل ہونا اس قدر دلائل تجمع ہونا کہ گویا خود آسمان سے اُترتے دیکھا ہے.چنانچہ صاحبزادہ عبد الطیف شہید نے جو استعفات دکھائی ظاہر کرتی ہے کہ انہیں یقین تھا گویا آپ آسمان سے اترے ہیں.(ص۳) سوال، تذکرۃ الشہادتین کی تحریر کے وقت کتنے افراد بیعت کر سکے تھے.جواب در دو لاکھ کے قریب تھے.سوال ، اس اعتراض کا کیا جواب ہو گا کہ بعض پیش گوئیاں پور کی نہیں ہوتیں.جواب را کئی لاکھ پیش گوئیاں روز روشن کی طرح پوری ہوئیں.دو تین اگر ایسی ہیں جن کو سمجھنے میں تعصب اور علم نے پڑے ڈال دیئے تو یہ کہا نہں جا سکتا کہ بعض پیش گوئیاں پوری نہ ہوئیں.کوئی نبی اب نہیں آیا میں کی پیش گوئیوں کے پورا ہونے کی نسبت انکار نہیں کیا گیا.اور یہ بوجہ لفظوں کے ظاہری معانی لینے کے ہوتا ہے.
14 ملا کی نبی کی پیش گوئی کہ الیاس نبی مسیح سے پہلے آئے گا.پطرس کے ہاتھوں میں آسمان کی کنجیاں ہیں.بارہ حواری تختوں پر بیٹھیں گے: ظاہراً پوری نہیں ہوئیں..انعم کے متعلق کہا گیا تھا کہ جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرے گا اور پندرہ ماہ میں مرے گا کے ساتھ یہ شرط تھی کہ اگر حق کی طرف رجوع نہ کرے جب بہت سے گواہوں کے سامنے اس نے ندامت کا اظہار کیا تھا اس لئے اس مدت میں بچا لیا گیا.اس کے مقابل پر لیکھرام نے تو یہ نہ کی تھی.اس لئے وہ اسی مدت میں مارا گیا.۴ احمد بیگ والی پیش گوئی بھی انھم کی طرح مشروط تھی.اس کا آدھا حصہ پورا ہوا.مگر اس کے داماد کے خوف کی وجہ سے اُسے مہلت دی گئی جہلا کو دس لاکھ نشان نظر نہیں آتے یہ دو مشروط پیش گوئیاں نظر آتی ہیں جضور نے تحریر فرمایا : اگر کوئی مخالف خواہ عیسائی ہو خواہ گفتن مسلمان میری پیش گوئیوں کے مقابل پر اس شخص کی پیش گوئیوں کو جس کا آسمان سے اترنا خیال کرتے ہیں.صفائی اور یقین اور ہدایت کے مرتبہ پر زیادہ ثابت کر سکے تو میں اس کو نقد ایک ہزار روپیہ دینے کو تیار ہوں." صدام) سوال ، وعید کی پیش گوئی کسے کہتے ہیں اس کے ملنے کی مثالیں دیجئے ؟ جواب ، وعید کی پیش گوئی سے مراد ہے کہ عذاب یا مرزا کی خبر دی گئی ہو مگر خوف صدقہ یا دعا سے مل جانے کا وعدہ بھی ہو.انعام اکرام کی تثبت
پیش گوئیاں کسی طرح نہیں ملتیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ان اللہ لا يُخلف الميعاد وہ نہیں کہنا إِنَّ اللهَ لا تُخْلِفُ الوعيد حضرت یونس نے قطعی بغیر کسی شرط کے پیش گوئی کی تھی کہ مینوں پر پیش چالیس دن کے اندر عذاب نازل ہوگا مگر عذاب نازل نہ ہوا.خدا تعالیٰ عذاب دینے میں جلدی نہیں کرتا.(ص) سوال پر جس حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وستم مثیل موسی ہیں اور آپ کے خلفاء مثیل انبیاء بنی اسرائیل میں تو پھر کیا وجہ ہے کہ مسیح موعود کا نام احادیث میں نبی کہہ کے پکارا گیا ہے ؟ جواب در آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم خاتم الانبیار تھے آپ کے معانید کوئی بنی نہیں تھا.اس لئے اگر تمام خلفاء کو نبی کے نام سے پکارا جاتا تو امر ختم نبوت مشتبہ ہو جاتا اور اگر کسی ایک فرد کو بھی نبی کے نام سے نہ پکارا جاتا تو عدم مشابہت کا اعتراض باقی رہ بیا تا کیونکہ موسیٰ کے خلفاء نبی ہیں اس لئے حکمت الہی نے تقاضا کیا کہ پہلے بہت سے خلفاء کو برعایت ختم نبوت بھیجا جائے اور ان کا نام نبی نہ رکھا جائے اور یہ مرتبدان کو نہ دیا جائے تاختم نبوت پر یہ نشان ہو پھر آخری خلیفہ یعنی مسیح موجود کو نبی کے نام سے پکارا جائے تا خلافت کے امر میں دونوں سلسلوں کی مشابہت ثابت ہو جائے میسج موعور کی نبوت خلقی طور پر ہے کیونکہ وہ آنحضرت کا بروز کامل ہونے کی وجہ سے نفس ہی سے متنفیض ہو کر نبی کہلانے کا مستحق ہو گیا ہے.(ص)
۲۱ سوال در احادیث میں ہے کہ مسیح موعود دوزر و چادروں میں اترے گا.ایک چادر بدن کے اوپر کے حصہ میں ہو گی اور دوسری چادر بدن کے نیچے کے حصہ میں ، اس سے کیا مراد ہے.جواب به اس طرف اشارہ تھا کہ مسیح موعود دو بیماریوں کے ساتھ ظاہر ہو گا کیونکہ تعبیر کے علم میں زرد کپڑے سے مراد ہماری ہے اور حضرت اقدس کو دو بیماریاں تھیں ایک سر کی بیماری اور دوسری کثرت پیشاب اور دستوں کی بیماری.( ص ۴۷) سوالی در حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف شہید کی ذاتی وجاہت کا ذکر حضرت اقدس کے الفاظ میں تحریر کیجئے.جواب را به بزرگ معمولی انسان نہیں تھا بلکہ ریاست کابل میں کئی لاکھ کی ان کی اپنی جاگیر تھی اور انگریزی عملداری میں بھی بہت سی زمین تھی اور طاقت علمی اس درجہ تک تھی کہ ریاست نے تمام مولویوں کا ان کو سردار قرار دیا تھا وہ سب سے زیادہ عالم علم قرآن اور حدیث اور فقہ میں مجھے جاتے تھے اور نئے امیر کی دستار بندی کی رسم بھی انہیں کے ہاتھ سے ہوئی تھی اور اگر امیر فوت ہو جائے تو اس کے جنازہ پڑھنے کے لئے بھی ویسی مقرر تھے.......ریاست کابل میں پچاس ہزار کے قریب ان کے معتقد اور ارادتمند تھے......علاوہ مولوی کے خطاب کے صاحب زادہ اور اخوان زادہ اور شاہزادہ کے لقب سے اس ملک میں مشہور تھے اور شہید مرحوم ایک بڑا کتب خانہ حدیث اور تغیر اور فقہ اور تاریخ کا اپنے پاس رکھتے تھے اور
۲۲ نئی کتابوں کے خریدنے کے لئے ہمیشہ حریص تھے اور ہمیشہ درس دندرمیں کا شعل جاری تھا اور صد با آدمی ان کی شاگردی کا فخر حاصل کر کے مولویت الالله کا خطاب پاتے تھے.“ ص ۲۲) سوال ، براہین احمدیہ کی پیشین گوئی رجود قوعہ سے تمہیں سال پہلے کی گئی تھی میں پہلے کس کی شہادت کا ذکر ہے اور کیا واقعہ پیش آیا ہے جواب : پہلی شہادت میاں عبد الرحمن مولوی صاحب موصوف کے شاگرد کی تھی.میاں صاحب دو تین مرتبہ قادیان آئے اور دلائل وبراہین سے متاثر ہو کر الیسا ایمان لائے جو شہداء کا رنگ پکڑ گیا.جہاد کی مانعت کے ذکر پر کابل میں مخالفت شروع ہوئی.امیر کابل نے قید کر وا دیا اور جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ میاں صاحب مسیح موعود کے مریدا اور مسئلہ جہاد کے مخالف ہیں تو گردن میں کپڑا ڈال کر دم بند کر کے شہید کر دیا گیا.سوال حضرت صاحبزادہ صاحب حج کی نیت سے نکلے تو جج کیوں نہ کیا.؟ جواب ، قرآن پاک کا ارشاد ہے اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول تیرہ سو برس سے جس موعود کی انتظار ہو رہی تھی اُسے پاکر اور ایمان لاکر اُس کی محبت میں رہنا مقدم رکھا.قادیان میں قیام فرمایا اور یہ قیام کی کی رخصت سے طویل ہو گیا.سوال و امیر کابل کو کیسے علم ہوا کہ آپ کو قادیان میں قیام کی وجہ سے
تاخیر ہوئی ہے ؟ جواب ، آپ نے بریگیڈیئر محمد حسین کو توال کو خط لکھا جس میں تاخیر کی سب وجہ بیان کر کے کھا کہ کسی مناسب موقع پر امیر کابل کو سب معاملہ نیتا دیں.وہ خط محمد حسین صاحب کے ایک نائب نے جو مخالف اور شریر تھا نکال لیا اور امیر کابل کودے دیا کچھ عرصہ جواب کا انتظار کر کے حضرت صاحبزادہ صاحب نے دوسرا خط تحریر فرمایا وہ خط افسر ڈاکخانہ نے کھول کر امیر کو دے دیا.امیر نے یہ چال چلی اور لکھوایا کہ بے خطر چلے آئیں.دعوئی کہ سچا ہو گا تو وہ بھی مرید ہو جائے گا.(ح) سوال حضرت صاحبزادہ صاحب کو کسی قسم کی قید میں رکھا گیا.اور کتنا عرصہ ؟ جواب در کابل پر عملاً مولویوں اور علماء کا بہت اثر و رسوخ تھا.ان کے فتوے امیر کو بھڑکا رہے تھے.صاحبزادہ صاحب کی حیثیت حکومت کے ایک بازو کی تھی.ہزاروں ان کے مرید و معتقد اور علمی فضیلت کے قائل تھے.امیر کا خیال تھا کہ شاید قید سخت کی صعوبتوں سے تو بہ کر لیں.اس لئے اُس نے اپنے محل میں قید کرنے کا حکم دیا اور ڈیڑھ من وزنی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنا کر ایسی اذیت دی جس کے سامنے موت بھی ابھی تھی مگر ایمان میں پکے صاحبزادہ صاحب نے بڑے صبر سے یہ اذیت برداشت کر لی اور مسیح موعود آپ پر سلامتی ہو) کو شناخت کرنے کے بعد جان کی قربانی دے دی (سنه) سوال راس مخالفت اور قید سے جماعت کو کیا فائدہ پہنچا ؟
جواب ، کروڑ روپے خرچ کر کے بھی کابل میں جماعت کا انشا تعارف نہ کر وایا جاسکتا تھا حضور تحریر فرماتے ہیں.کابل کی سرزمین پر یہ خون اس تخم کی مانند پڑا ہے جو تھوڑے عرصہ میں بڑا درخت بن جاتا ہے اور ہزار ہا پرندے اس پر اپنا بسیرا لیتے ہیں.امیر کابل نے سامنے بلوا کر تو یہ کی ترغیب دی.صاحبزادہ صاحب نے فرمایا میں سچائی پر ہوں.آپ اپنے مولویوں کو بلا کر بحث کرائیں.چنانچہ شاہی مسجد میں خان ملا خان اور آٹھ مفتی بحث کے لئے منتخب کئے گئے شدید مخالف پنجابی ڈاکٹر ثالت تھا مباحثہ تحریری ہوا جس کا کوئی بھی حقیقہ عوام کو بتائے بغیر کفر کا فتوی لگا دیا اور امیر نے یہ ظلم کیا کہ مباحثہ دیکھے بغیر فیصلہ کی توثیق کردی - (۵۲) سوال ، فیصلہ کی توثیق اور بار بار توبہ کرنے کی ترغیب کے باوجود فیصلہ نہ بدلنے کے دوران کیا خدائی بشارت بیان فرمائی ؟ جواب دہ زندگی جوا اولیاء اور ابدال کو دی جاتی ہے چھ روز تک مجھے مل جائے گی اور قبل اس کے جو خدا کا دن آئے یعنی ساتواں دن میں زندہ ہو جاؤں گا یہ قرآن پاک میں ہے.وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ الله امواتا بل احیاء یعنی تم ان کو مردے مت خیال کرو جواللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں.(ص) سوال و اس موقع پر حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کو کیا کشف
۲۵ ہوا ؟ اور کیا وحی ہوئی ؟ جواب : " ایک درخت سرو کی ایک بڑی لمبی شاخ......جو نہایت خوبصورت اور سرسبز تھی ہمارے باغ سے کائی گئی ہے اور وہ ایک شخص کے ہاتھ میں ہے کسی نے کہا کہ اس شاخ کو اس زمین میں جو میرے مکان کے قریب ہے اُس بیری کے پاس لگا دو جو اس سے پہلے کائی گئی تھی اور پھر دوبارہ اُگے گی.وجی ہوئی " کابل سے کاٹا گیا اور سیدھا ہماری طرف آیا “ اس کی تعبیر ہے و تخم کی طرح شہید مرحوم کا خون زمین پر پڑا ہے اور وہ بہت بار اور ہو کر ہماری جماعت کو بڑھا دے گا.(سرده) سوال پرسنگسار سے پہلے آپ کو کس طرح اذیتیں دی گئیں ؟ جواب ، فتوی آپ کے گلے میں لٹکا دیا گیا اور امیر کے حکم سے ناک میں چھید کر کے رسی ڈالی گئی اور اسی رسی سے گھسیٹتے ہوئے گالیاں دیتے اور مذاق اڑاتے ہوئے مقتل تک لے کر گئے.(م) سوال درسنگار کرنے کے لئے زمین میں آدھا دھڑ گاڑ دینے کے بعد تو یہ کرنے کو کہا گیا تو آپ نے کیا جواب دیا ؟ جواب ، نفوذ باللہ سچائی سے کیونکہ انکار ہوسکتا ہے اور جان کی کیا حقیقت ہے اور خیال وافعال کیا چیز ہیں جن کے لئے میں ایمان چھوڑ دوں مجھ سے ایسا ہرگز نہیں ہوگا اور میں حق کے لئے مروں گا." (ص) سوال ، صاحبزادہ صاحب پر پہلا پتھر کس نے چلایا ؟
جواب ، ہزار ہا لوگوں کی موجودگی میں امیر نے قاضی عبدالاحد کمیدان کو پہلا پتھر مارنے کو کہا اس نے کہا کہ آپ بادشاہ میں پہلا پتھر آپ ماریں تب امیر نے کہا شریعیت کے تم ہی بادشاہ ہو اور تمہارا ہی فقومی ہے اس میں میرا کوئی دخل نہیں تب قاضی نے گھوڑے سے اتر کر پتھر مارا اس کے بعد امیر نے اور اس کے بعد ہزار ہا حاضرین نے پتھر مارے کوئی بھی حاضر فر د ایسا نہ تھا جس نے پتھر نہ مارا ہو.وہاں پتھروں کا چھوٹا سا پہاڑ بن گیا یہ واقعہ ۱۴ جولائی 19 کا ہے.(ص) سوال ، اپنی جماعت کے لئے نصائح" کے عنوان سے جو نصائح رقم فرمانی ہیں.ان میں سے کچھ نصایح لکھئے ؟ جواب نہ دنیا کچھ چیز نہیں ہے امتی ہے وہ زندگی ہو عن دنیا کے لئے جھے اور بد قسمت ہے وہ جس کا تمام جہنم وغم دنیا کے لئے ہے.ایسا انسان اگر میری جماعت میں ہے تو وہ عیث طور پر میری جماعت میں اپنے تئیں داخل کرتا ہے کیونکہ وہ اس خشک ٹہنی کی طرح ہے جو سھیل نہیں لائے گی.(ص) تم خدا کو وحمد فلا شریک سمجھو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک است کرو نہ آسمان میں سے نہ زمین ہیں سے خدا اسباب کے استعمال سے تمہیں منع نہیں کرتا لیکن جو شخص خدا کو چھوڑ کر اسباب یہ ہی بھروسہ کرتا ہے وہ مشرک ہے.(ما) قدیم سے خدا کہتا چلا آیا ہے کہ پاک دل بننے کے سوا نجات نہیں سو تم پاک دل بن جاؤ اور نفسانی کینوں اور حصوں سے الگ ہو جاؤ.(صلا)
انسان کے نفس امارہ میں کسی قسم کی پلیدیاں ہوتی ہیں.مگر سب سے زیادہ تکبر کی پلیدی ہے.اگر نکیر نہ ہوتا تو کوئی شخص کافر نہ رہتا.(ص) تم دل کے مسکین بن جاؤ عام طور پر بنی نوع کی ہمدردی کرو.(صدا) خدا تعالی کے فرائض کو دلی خوف سے سجالا ؤ کہ تم ان سے پوچھے جاؤ گے.(صاف) نمازوں میں بہت دعا کرو کہ تا خدا تمہیں اپنی طرف کھینچے اور تمہارے دلوں کو صاف کرے کیونکہ انسان کمز ور ہے ہر ایک بدی جو دور ہوتی ہے وہ خدا تعالیٰ کی قوت سے دور ہوتی ہے.(ص) جب تک انسان خدا سے قوت نہ پائے کسی بدی کے دور کرنے پر قادر نہیں ہوسکتا.اسلام صرف یہ نہیں ہے کہ رسم کے طور پر اپنے تئیں کلمہ گو کھلاؤ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تمہاری رد میں خدا تعالیٰ کے آستانہ پر گر جائیں اور خدا اور اس کے احکام ہر ایک پہلو کے رو سے تمہاری دنیا پر تمہیں مقدم ہو جائیں قرآن کریم کو اپنا پیشوا پکڑو اور سرا ایک بات میں اس سے یہی حال کرا دو سے روشنی قرآن شریف کو بڑی حفاظت سے خدا تعالیٰ نے تمہارے تک پہنچایا ہے سو تم اس پاک کلام کی قدر کرو.اس پر کسی چیز کو مقدم نہ مجھو کہ نام داست وی اور راستبازی اسی پر موقوف ہے.(ص ۶) کسی شخص کی باتیں لوگوں کے دلوں میں اسی مدتک موثر ہوتی ہیں میں حد جک اس شخص کی معرفت اور تقوی پر لوگوں کو یقین ہوتا ہے.(ص)
۲۸ مدیوں کو بھی رومی کی طرح مت چھینکو کہ وہ بڑی کام کی ہیں اور بڑی محنت سے ان کا ذخیرہ تیار ہوا ہے.(ص) سوال حضرت مسیح موعود آپ پر سلامتی ہو) کی صداقت کے نشانوں میں سے ایک نشان ان کی سوانح عمری ہے.کیسے ؟ جواب، دھوئی پر ہزار یا دلائل قائم ہونے سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ دعمومی کرنے والا کس پائے کا آدمی ہے.کوئی عیب افترا جھوٹ یا دغا زندگی میں نظر نہیں آتا جس سے یہ خیال کیا جاسکے کہ شخص پہلے سے جھوٹ یا افتراء کا عادی تھا.پوری سوانح عمری دعوے سے پہلے کی اور بعد کی بے داغ ہے جو صداقت کا بہت بڑا نشان ہے.معرفت کے مقام پر کوئی شخص خدا پر جھوٹ نہیں بول سکتا.(ص) سوال ، خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کو کیا خاص تائیدی نشانات دیئے ؟ جواب: ۱- چاند سورج گرین ۱۲ صدی کے سر پر مبعوث کرنا ۳ جلیبی غلبہ کے مقابل کا سر صلیب کو بھیجا ۴.دس لاکھ سے زیادہ نشانات کے ساتھ دنیا میں عزت اور زمین پر قبولیت پھیلانا - ہ مسیح موعود کے ظہور کے لئے مقرر دنوں میں بھیجنا.4.دعائیں قبول کرنا...بیان میں تاثیر ڈالنا.الیس کرم کا معاملہ جھوٹوں سے نہیں ہوتا.(ص۶۳) سوال، آیت تغیر المغضوب علیان میں کی پیش گوئی نیا واخرت مسیح زماں کی مخالفت سے پوری ہو گئی ؟
۲۹ جواب.اس آیت میں یہ پیش گوئی ہے کہ مسیح موعود (آپ پر سلامتی ہو اس اُمت میں آنے والا ہے اس لئے امت میں یہود کے رنگ کے لوگ بھی پیدا کئے جائیں گے جو اپنے زعم میں علماء کہلائیں گے.مگر جاہل ہوں گے جیسے حضرت عیسی کے زمانے کے علماء تھے.علماء کہلانے والے یہودی صفت لوگوں کی مخالفت حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کو سچا ثابت کرتی ہے ، آپ فرماتے ہیں ، اگر یہ علمار نہ ہوتے تو اب تک تمام باشندے اس ملک کے جو مسلمان کہلاتے ہیں مجھے قبول کر لیتے ہیں تمام منکروں کا گناہ ان لوگوں کی گردن پر ہے.(ص۶۲) سوال احمدیت کی ترقی کے متعلق حضرت مسیح پاک آپ پر سراہتی ہو) کے پر شوکت الفاظ لکھئے ؟ جواب رہی نے زمین و آسمان بنایا وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حقیقت اور برہان کی رو سے سب پر ان کو غلبہ نیجے گا.وہ دن آتے ہیں.بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا جو عرفت کے ساتھ یاد کیا جائے گا خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت در جمہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا.اور ہر ایک جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامراد ہے گا اور یہ غلیہ ہمیشہ رہے گا.یہاں تک کہ قیامت آجائے گی.(ت) سوال یہ عیسی ابن مریم کے معیم خاکی آسمان سے اترنے کے عقیدہ کے
رد میں آپ نے دو ٹوک فیصلہ فرمایا.آپ کے الفاظ لکھئے ؟ جواب ، یاد رکھو کہ کوئی آسمان نہیں اترے گا سب مخالف جو اب زندہ ہو جو ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی ان میں سے علی بن مریم کو آسمان سے اتر تے نہیں دیکھے گا.اور پھر ان کی اولا د جو ہاتی رہے گی وہ بھی مرے گی اور ان میں سے بھی کوئی آدمی عیسی بن مریمہ کو آسمان سے اتر تے نہیں دیکھے گی.تب خدا اُن کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے تعلیہ کا بھی وقت گزر گیا اور دنیا در رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسی اب تک آسمان سے نہ دوسر مگر ا تراتب دانش مند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسی کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سوی کے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھوٹے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.( ص ) سوال : آریوں یعنی سهند و دریا نندی مذہب والوں کے لئے حضوراقدس نے کیا پیش گوئی فرمائی.جواب مہ وہ روحانیت سے عاری ہیں اور کوئی مذہب بغیر روحانیت کے نہیں چل سکتا مستقبل قریب میں ختم ہو جائے گا.بے روح ہے مردہ جھوٹ پر سارا کاروبار ہے.(ص) سوال : احمدیوں کو حضرت اقدس نے مستقبل کے لئے کیا خوشخبریاں دیں ؟
جواب تم خوش ہوا اور خوشی سے اچھلو کہ خدا تمہارے ساتھ ہے اگر تم صدق اور ایمان پر قائم رہے تو فرشتے تمہیں تعلیم دیں گے اور اسمانی سکینت تم پر اترے گی اور روح القدس سے مدد دیئے جاؤ گے اور خداہر ایک قدم میں تمہارے ساتھ ہوگا اور کوئی تم پر غالب نہیں ہو سکے گا ؟ ص ۲۶) سوال حضور کی پیاری تعلیم کے کچھ جملے لکھئے.جواب در و حتی المقدور بدی کے مقابلے سے پر پرہیز کرو تا آسمان پر تا تمہاری قبولیت لکھی جائے.یا درکھو جو لوگ خدا سے ڈرتے ہیں اور دل ان کے خوف سے پگھل جاتے ہیں انہیں کے ساتھ خدا ہوتا ہے.وہ ان کے دشمنوں کا دشمن ہو جاتا ہے دنیا صادق کو نہیں دیکھتی پر خدا بو علیم وخبیر ہے وہ صادق کو دیکھ لینا 簿 ہے پس اپنے ہاتھ سے اس کو بچانا ہے.* ✔ جبکہ تم انسان ہو کر پیار کے بدلہ میں پیار کرتے ہو پھر کیونکر خدا نہ کرے گا خدا خوب جانتا ہے کہ واقعی اس کا وفادار دوست کون اور کون غدار اور دنیا کو مقدم رکھنے والا ہے سوتم اگر ایسے وفادار ہو جاؤ گے تو تم میں اور تمہارے غیروں میں خدا کا ہاتھ ایک فرق قائم کر کے دکھلائے گا.(ص ) سوال : براہین احمدیہ کے صفحہ اہ اور اان پر مندرج پیشگوئی بعد یک الله..کا کیا مطلب ہے اور کس طرح پوری ہوئی ؟ جواب در خدا تمہیں قتل ہونے سے بچائے گا.خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ اپنے دو طرح کے مامور وں کو قتل ہونے سے بچا لیتا ہے.ایک دوینی جو
سلسلہ کے شروع میں آئیں اور ایک وہ جوس اسلہ کے آخر میں آئیں.اگر کسی سلسلہ کا بانی ہی قتل ہو تو لوگ اُسے جھوٹا کھیں گے سلسلہ ختم ہو جائے گا.جبکہ سلسلہ کو کامیابی سے چلانا خدا تعالی کا خاص منشاء ہوتا ہے اور اگر آخری مرسل قتل ہو جائے تو انجام نا کافی ہو گا.جبکہ خدا اپنے ہاتھ سے قائم کردہ سلسلہ کو دشمنوں کی خوشی کا باعث نہیں بننے دنیا.حضرت عیسی کو صلیبی موت سے محفوظ رکھا حضرت سوسی کو کمتر جاننے والی سلیم اپنے نمبر سے ہلاک ہوا.کیونکہ صادقوں کا مقابلہ کرنے والے خدا سے لڑر سے ہوتے ہیں.دنیا کثرت کو دیکھتی ہے.اور خیال کرتی ہے کہ لکھو کھا لوگ ایک طرف ہیں غلط نہیں.دسکتے مگر خدا کثرت کو نہیں دیکھتا وہ دلوں کو دیکھتا ہے.خدا کے خاص بندوں میں محبت الہی اور صدق اور وفا کا ایک خاص نور ہوتا ہے.خدا انہیں ضائع نہیں کرتا.( ص) سوال پیش گوئی شانان تذبحان کا کیا مطلب ہے اور یہ کس طرح پوری ہوئی ؟ جواب، دو بکریاں ذبح کی گئیں.بکری نافع الناس جانور ہے اس کا دودھ اور گوشت انسان کے کام آتا ہے.وہ انسان کے فائدہ کے لئے جان قربان کہ دیتی ہے.یہ پیش گوئی سیکس سال کے بعد حضرت میاں عبد الرحمن اور حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید کی شہادت کی شکل میں پوری ہوئی.(صدا) سوال ، خدا تعالیٰ نے اس پیشگوئی کے بعد کن الفاظ میں تسلی دی.جواب در اس مصیبت اور اس سخت صدمہ سے تم غمگین اور اداس مت ہو.کیونکہ اگر د درآدمی تم میں سے مارے گئے تو خدا تمہارے ساتھ ہے وہ دو کے
۳۳ عوض ایک قوم تمہارے پاس لائے گا اور وہ اپنے بندہ کے لئے کافی ہے کیا تم نہیں جانتے کہ خدا ہر ایک چیز پر قادر ہے اور یہ لوگ جوان دو مظلوموں کو شہید کریں گے ہم تجھ کو ان پر قیامت میں گواہ لائیں گے اور ک کسی گناہ سے انہوں نے شہید کیا تھا اور خدا تیرا اجر دے گا اور تجھ سے راضی ہو گا اور تیرے نام کو پورا کرے گا یعنی احمد کے نام کو رجس کے یہ معنی ہیں کہ خدا کی بہت تعریف کرنے والا اور وہی شخص خدا کی بہت تعریف کرتا ہے میں پر خدا کے انعام اکرام بہت بہت نازل ہوتے ہیں.پس مطلب یہ ہے کہ خدا الجود پر انعام اکرام کی بارش کرے گا اس لئے تو سب سے زیادہ انس کا ثنا خواں ہو گا تب تیرا نام جو احمد ہے پورا ہو جائے گا).....ان شہیدوں کے مارے جانے سے غم مت کردان کی شہادت میں حکمت الہی ہے اور بہت باتیں ہیں جو تم چاہتے ہو کہ وقوع میں آویں حالانکہ ان کا واقع ہوتا تمہارے لئے اچھا نہیں ہوتا اور بہت امور میں جو تم چاہتے ہو کہ واقع نہ ہوں حالانکران کا واقع ہونا تمہارے لئے اچھا ہوتا ہے.اور خدا خوب جانتا ہے کہ تمہارے لئے کیا بہتر ہے مگر تم نہیں جانتے.(ص) سے سوال اہل کابل کو اس ظلم کی فوری طور پر کیا سزا ملی ؟ جواب سخت سیفیہ پھوٹا امیر کے رشتہ دار عزیز اور بڑے بڑے مشہور آدمی اس کا شکار ہو گئے.(صدا) سوال اس موقع پر حضور اقدس نے کابل کی زمین کے متعلق کیا فرمایا ؟ جواب مراے کابل کی زمین تو گواہ رہ کہ تیرے پر سخت جرم کا ارتکاب کیا گیا
اسے بد قسمت زمین تو خدا کی نظر سے گر گئی کہ تو اس ظلم عظیم کی جنگ ہے.(ت) سوال در درد گردہ کی شدت (جو کتاب تذکرۃ الشہادتین لکھنے میں مال تھی) میں دعا کا جواب اللہ تعالیٰ نے کن الفاظ میں دیا ؟ جواب : سلام قولا من رب رحیم یعنی سلامتی اور عافیت ہے یہ خدائے رحیم کا کلام ہے.تین چار گھنٹے کے بعد در ختم ہوگئی.(ص) سوال : حضرت صاحبزادہ صاحب کی شہادت کے متعلق دوسری پیش گوئی کیا تھی ؟ کب ہوئی تھی ؟ جواب قتل غيبةٌ وَرِيدَهَبة یعنی ایسی حالت میں مارا گیا کہ اس کی بات کو کسی نے پیشنما اور اس کا مارا جانا ایک بیعت نک امر تھا - ریویو آف ریلیجنز 9 فروری ۱۹۰۳ ، الحکم ، جنوری ۱۹۰۳ م البدر ۱۶ جنوری ١٩٠٣ ( م )) سوال : اس واقعہ شہادت سے جماعت کی آئندہ ترقی کی بشارت کس طرح ملتی ہے ؟ جواب جماعت کے بہت سے افراد مال وجان کی قربانی پیش کریں گے حضرت اقدس روحانیت کا نیا پودا ہیں.خدا تعالیٰ بہت سے ایسے افراد پیدا کرے گا جو اس روحانی پودے کی شاخ ہوں گے اور جہاں جہاں نصب ہو گی بڑھے گی پھلے پھولے گی.(ص) سوال و حضور اپنی جماعت کو کیسا دیکھنا چاہتے تھے.آپ ہی کے الفاظ میں لکھئے ہو
۳۵ جواب میں تو بہت دعا کرتا ہوں کہ میری سب جماعت ان لوگوں میں ہو جائے جو خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور نماز پر قائم رہتے ہیں اور رات کو اٹھ کر زمین پر گرتے ہیں اور روتے ہیں اور خدا کے فرائض کو ضائع نہیں کرتے اور نیل اور ممسک اور غافل اور دنیا کے کپڑے نہیں ہیں." (ص) فرمایا ؟ سوال مهد بیعت باندھ کر کمزوری دکھانے والوں کو حضور نے کیا انتباہ جواب ،سب سے پہلے تو تعلق رکھنے کی اہمیت بتائی صحبت میں رہنا 1 پھر خط لکھ کر تعلق رکھنا جس سے دعا کی طرف توجہ ہوتی ہے اور محبت بڑھتی ہے.دنیا کی دلچسپیوں سے تعلق توڑ کر خدا کی طرف متوجہ ہونا کیونکہ خدا کی نظر دلوں پر ہے.مال و متاع کی حرص کرنا جو بیوی بچوں کے لئے خیر کا باعث ہونے کی بجائے شہر کا باعث بنتا ہے.دنیا پر دین کو مقدم نہ کرنا.یہ سب پر کام ایسے لوگ کرتے ہیں جو بیعت تو کر لیتے ہیں مگر سچی بیعت نہ ہونے کی وجہ سے خدا کے نزدیک جماعت میں شمار نہیں ہوتے.یہ لوگ چوہوں اور کتوں کی طرح ہیں.ایسے انسان کوئی عزت حاصل نہیں کر سکتے.(ص) سوال ، خدا تعالی کی غیر معمولی تائید و نصرت کے بارے میں رقم فرمودہ حضور کے الفاظ میں تحریر کیجئے.جواب میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر تمام لوگ مجھے چھوڑ دیں اور ایک بھی میرے ساتھ نہ رہے تو میرا خدا میرے لئے ایک اور قوم پیدا کرے گا جو صدق اور صفا میں اس سے بہتر ہوگی." ( ص )
سوال دکن مخلص دوستوں کی مالی قربانی کا حضور نے خاص طور پر ذکر فرمایا ؟ جواب، محترم سیٹھ عبد الرحمن صاحب تاجر مداس (م) محترم نواب محمد علی خاں صاحب آف مالیر کومله (ص) فرمائی ؛ سوال در کن خاص امور کی انجام دہی کے لئے حضور نے مالی امداد کی اپیل جواب در سنگر خانه، ریویو آف ریلیجنز ، مدرسه قادیان (ص) سوال : تذکرۃ الشہاد زمین کب لکھی گئی.جواب ۰، ۱۲۰ اکتوبر ۰۳ ۱۹ در سوال براس کے بعد ۳۸ صفحات عربی کے ہیں جن میں علامات المقربین شامل ہیں اور پھر حضرت میاں احمد نور کا بلی صاحب کے بتائے ہوئے حالات ہیں ؟ سوال ، حضرت صاحبزادہ صاحب کا جنازہ کس طرح پڑھا گیا ؟ جواب : چالیس دن تک لاش پتھروں میں پڑی رہی پھر چند دوستوں نے مل کہ پتھروں سے نکالا.قبرستان لے گئے اور جنازہ پڑھ کر دفن کر دیا.کلاش میں سے کستوری کی خوشبو آرہی تھی.(ص) سوال حضرت صاحبزادہ نے کیا وصیت فرمائی ؟ جواب ، خدا تعالیٰ نے ان کو شہادت کی خبر دے دی شخصی گرفتاری کے دن اپنے ہاتھوں کو مخاطب کر کے فرمایا : اے میرے ہاتھو کیا تم ہتھکڑیوں کو برداشت کر لو گے.گھر والوں نے پوچھا کہ آپ کے منہ سے یہ کیا بات نکلی فرمایا نماز عصر کے بعد نہیں معلوم ہو گا.اس موقع پر نصیحت فرمائی." میں جاتا ہوں
اور دیکھو البیا نہ ہوکہ تم کوئی دوسری راہ اختیار کر وحسن ایمان اور عقیدہ پر میں مول چاہیے کہ وہی تمہارا ایمان اور عقیدہ ہوں (ص) سوال در شکاری کی دھمکی پر آپ نے کیا آیت تلاوت فرمائی ؟ جواب : رَبَّنَا لا تزغ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنتَ الوهاب اسے ہمارے خدا ہمارے دل کو لغزش سے بچا اور اعد اس کے تو تونے ہدایت دی ہیں پھیلنے سے محفوظ ر کھ اور اپنے پاس سے نہیں رحمت عنایت کر کیونکہ سر ایک رحمت کو توسی بخشتا ہے.سوال نگاری کے وقت آپ نے کون سی آیت پڑھی ؟ جواب ، اَنتَ وَلِي في الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَالْحِقْنِي بِالصَّالحين اے میرے خدا تو دنیا اور آخرت میں میرا متولی ہے.مجھے اسلام پر وفات دے اور نیک بندوں کے ساتھ ملا دے.سوال ، حضرت صاحبزادہ صاحب کے کچھ الہام لکھئے.جواب : اِذْهَبُ إِلى فِرعَونَ إِلَى مَعَكَ أَسْمَعُ وَأَرَى وَانتَ محمد معتبر معطر - آسمان شور کر رہا ہے اور زمین اس شخص کی طرح کانپ رہی ہے جو تپ مرزہ میں گرفتار ہو دنیا اس کو نہیں مانتی یہ امر ہونے والا ہے.اس راہ میں اپنا سرے دے اور دریغ نہ کر خدا نے کابل کی زمین کی بھلائی کے لئے یہی چاہا ہے (ص )
..۳۹ پیغام صلح تعارف من حضرت مسیح موعود آپ پر لامتی ہو) نے قیام لاہور کے دوران میں صرف تقاریر کے ذریعہ ہی اتمام حجت نہیں فرمائی بلکہ ان دنوں ایک عظیم الشان رسالہ پیغام صلح بھی لکھا جو حضور کی آخری تصنیف تھی.حضور کے لکھے ہوئے مسودہ کو ساتھ ہی ساتھ کاتب لکھنا بھی جاتا تھا.ایک مرتبہ نماز عصر کے بعد حسب معمول تشریف فرما تھے اور احباب جھرمٹ ڈالے بیٹھے تھے خواجہ کمال الدین صاحب بھی موجو دتھے.کاتب مضمون لکھ رہا تھا اور خواجہ صاحب اپنی نگرانی میں لکھوا رہے تھے.حضور نے پوچھا.و خواجہ صاحب مضمون کا کیا حال ہے " ور خواجہ صاحب نے عرض کیا ”حضور کاتب لکھ رہا ہے ؟
حضور نے فرمایا.خواجہ صاحب جلدی کیجئے کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہماری صحت کا کیا حال ہے بہر حال مشیت الہی میں جتنا حصہ لکھا جانا مقدر تھا وہ جب تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا حضور کی وفات نہیں ہوئی لیے حضور کا یہ آخری پیغام عوام تک پہنچانے کے لئے ۲۱ جون کو پنجاب یونیورسٹی ہال لاہور میں رائے پر تول چند صاحب ج چیف کورٹ کی زیر صدارت ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا جس میں خواجہ کمال الدین صاحب نے پیغام صلح " کا مطبوعہ مضمون نہایت بلند آواز اور موثر ہجے میں پڑھا جسے حاضرین نے بہت سراہا.اندرون ملک پیغام صلح کی مقبولیت اور پسندیدگی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ خود ہندوؤں نے اس کی تائید کی اور اس پر عمدہ رائے کا اظہار کیا چنانچہ انبالہ ہند و پیریٹ مدراس نے لکھا ”وہ عظیم الشان طاقت اور اعلیٰ درجے کی ہمدردی جو قادیان کے بزرگ کے اس آخری پیغام صلح سے ظاہر ہوتی ہے یقیناً ایک خاص امتیاز کے ساتھ اسے ایک عظیم الشان انسان ثابت کرتی ہے...ایسی ایل ایسے عظیم الشان انسان کی طرف سے یونہی ضائع نہیں جانی چاہیئے اور ہر ایک محب وطن سے تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۵۴۷۷
ہندوستانی کا مدعا ہونا چاہیے کہ وہ مجوزہ صلح کو عملی رنگ پہنانے کی کوشش کرے (بحوالہ سے یویو آف ریلیجنز اُردو ۱۹۰۸ صفحه ۴۴۰ ۴۴۴۷) ایک غیر مسلم دوست پی پی سنگھ نے سکھا کتاب "پیغام صلح نے مجھ پر حیرت انگیز اثر کیا ہے ہمیں اسلام کو اچھا مذہب خیال نہیں کرتا تھا اسلام کے متعلق مسلمانوں کا جو تھوڑا بہت لٹریچر میں نے مطالعہ کیا ہے اس سے بھی مجھ پر ہی اثر ہوا تھا کہ اسلام جارحانہ مذہب ہے میں اسے کبھی رواداری کا مذہب نہیں سمجھتا تھا جیسا کہ اب سمجھتا ہوں؟ (بحواله الفضل ۲۹ مارچ ۱۹۴۰ء صفحه ۲ کالم ۲) مسربه هم دست ڈیرہ دون نے لکھا یہ چالیس برس پیشتر یعنی اس وقت جبکہ مہاتما گاندھی بھی ہندوستان کے افق سیاست پر نمودار نہ ہوئے تھے (حضرت) مرزا غلام احمد قادیانی ر آپ پر سلامتی ہو نے ۱۸۹۱ ء میں دعوتی سیحیت فرما کہ اپنی تجاویز رسالہ پیغام صلح کی شکل میں ظاہر فرمائیں جن پر عمل کرنے سے ملک کی مختلف قوموں کے درمیان اتحاد واتفاق اور محبت و مفاہمت پیدا ہوتی ہے.آپ کی یہ شدید خواہش تھی کہ لوگوں میں رواداری اخوت اور محبت کی روح پیدا ہو بے شک آپ کی شخصیت لائق تحسین اور قابل قدر ہے کہ آپ کی نگاہ نے مستقبل بعید کے کثیف پر دے میں سے دیکھا اور صحیح ) راستہ کی طرف رہنمائی فرمائی راخبار فرنٹیئر میل ۲۲ دسمبر ۱۹۴۸ء بحوالہ تحریک احمد میت صفحه ۱۲، ۱۳، مؤلفہ جناب مولوی برکات احمد صاحب
را جیکی قادیان ، پیغام صلح کو مغربی ممالک میں بھی خاص عظمت رفعت کی نگاہ سے دیکھا گیا چنانچہ مشہور انگریزی رساله ریویو آف دی ریویوز نے اس پر تبصرہ لکھا کہ یہ پیغام ایک سنہری پل کا کام دے سکتا ہے جس پر سے ہو کر مسلمانان ہند قانون اساسی کے خیمہ میں پہنچ سکتے ہیں پیغام صلح " شروع سے ہی تمام ہندوستانیوں کے ایک ہونے کو تسلیم کرتا ہے...وہ بات جس سے اس کی خواہش کی سچائی ثابت ہوتی ہے کہ تمام نبیوں کو خدا کی طرف سے مان کر مذہبی اتفاق اتحاد کی بنیاد رکھی جائے اس پیغمبر صلح کی یہ نرالی تجویز ہے ؟ ( بحوالہ ریویو آف ریلیجنز اردو ۱۹۰۸ ، صفحه ۱۴۳۸ ام بی سے حضرت سیدہ خواب مبار کہ بیگم صاحبہ (خدا آپ راضی ہو ) کا بیان ہے کہ آپ (سیدنا حضرت مسیح موعود) وسط صحن میں بستر پر بیٹھ کہ آخری شام دیر تک مضمون لکھتے رہے تھے (پیغام صلح کا.ناقل) آپ کے چہرہ مبارک پر ایک خاص جوش اور ایک خاص سُرخی تھی اور قلم معمول سے زیادہ تر تیز تھا مجھے اس وقت آپ کے بیٹھ کر اس انہماک اور تیزی سے لکھنے پر اپنا خواب یاد آیا تھا جو ہیں آپ کو سنا چکی تھی اور دو ہم آیا جس کو بار بار دل سے دور کرنے کی کوشش کی تھی یہی خیال آتا تھا کہ اس خواب میں آپ اسی طرح بستر پر بیٹھے اس رنگ میں لکھ رہے تھے.میں نے لاہور آنے سے - لے تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۵۴۸
کچھ عرصہ ہی پہلے خواب دیکھا تھا کہ میں نیچے اپنے صحن میں ہوں اور گول کمرہ کی طرف جاتی ہوں تو وہاں بہت سے لوگ ہیں جیسے کوئی خاص مجلس ہو مولوی عبدالکریم صاحب دروازے کے پاس آئے اور مجھے کہا بی بی جاؤ ابا سے کہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ تشریف لائے ہیں.آپ کو بلاتے ہیں.ئیں اوپر گئی اور دیکھا پلنگ پر بیٹھے ہوئے ہیں.حضرت مسیح موعود (آپ پر سلامتی ہو بہت تیزی سے لکھ رہے ہیں اور ایک خاص کیفیت آپ کے چہرہ پر ہے پر نور اور پر جوش میں نے کہا " ابا مولوی عبدالکریم کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ تشریف لائے ہیں اور آپ کو بلاد ہے؟ آپ نے لکھتے لکھتے نظر اٹھائی اور مجھے کہا.جاؤ کہو یہ مضمون بختم ہوا اور میں آیا ہے ٹھیک یہی الفاظ تھے اور وہی نظارا میری آنکھوں میں اس آخری شام کو پھر گیا.ہے ۲۰ مئی کو جب کہ حضرت اقدس پیغام صلح “ کی تصنیف میں مصرف تھے آخری الہام ہوا کہ الرحيل ثُمَّ الرَّحِيلُ وَالمَوتُ قَرِيب لے تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۵۵۶
موم دیعینی کوچ کا وقت آگیا ہے ہاں کوچ کا وقت آگیا ہے اور موت قریب) حضرت اماں جان نے گھبرا کر حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) سے کہا کہ اب قادیان واپس چلیں.حضور نے فرمایا اب تو ہم اسی وقت جائیں گے جب خدا لے جائے گا.اور آپ بدستور پیغام صلح کا مضران لکھنے میں مصروف رہے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ شرعت اور توجہ کے ساتھ لکھنا شروع کر دیا یا آخر ۲۵ مٹی کی شام کو آپ نے اس مضمون کو قریبا مکمل کر کے کاتب کے سپرد کر دیا.اے لے تاریخ احمدیت جلد سوم ۵۵۱
سوال پیغام صلح میں حضرت اقدس کے مخاطبین کون تھے اور ان میں کیا اقدار مشترک تھے ؟ جواب.مسلمان اور ہندو مخاطب تھے اور ان میں دو اقدار مشترک تھیں.سب انسان کہلاتے تھے.ا.ایک ہی ملک کے باشندہ ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے پڑوسی تھے.سوال.ثابت کیجیے کہ خدا کے اخلاق کا پیرو ہونا انسانی بقاء کے لئے آب حیات ہے ؟ ؟ جواب.خالق کائنات نے اپنی نعمتیں سب انسانوں کے لئے یکساں پیدا کی ہیں.کوئی انسان کسی بھی ملک سے تعلق رکھتا ہو کیسی بھی مذہب کو مانتا ہو سب کے لئے خدا کی زمین فرش کا کام دیتی ہے سب کے لئے سورج چاند ستارے یہاں روشنی دیتے ہیں ہوا، پانی، آگ اور خاک دوسری فائدہ دینے والی چیزوں مثلاً اناج اور پھل سے سب انسان بیکساں فائدہ اٹھاتے ہیں.خدا کا اخلاق یہ ہے کہ وہ سب سے ایک سا سلوک کرتا ہے جو قوم خدا کے اخلاق کے مطابق عمل کرے گی اس کو خدا کی تائید اور برکت حاصل ہوگی اور جو قوم اس کے خلاف کرے گی زندہ نہیں رہ سکے گی کیونکہ زندہ رہنے کا طریق وہی ہوتا ہے جو زندہ خدا کا طریق ہے.اس سے ثابت ہوا کہ خدا کے اخلاق کا پیرو ہونا انسانی بقاء کے لئے ایک آب حیات ہے اور انسانوں کی جسمانی اور روحانی زندگی اسی امر سے وابستہ ہے
کہ وہ خدا کے مقدس اخلاق کی پیروی کرے جو سلامتی کا سرچشمہ ہے.سوال - 1 " خدا تعالیٰ تمام عالموں کا رب ہے" الفاظ معالم اور رب کی تشریق کے پیکیجئے ؟ رب العالمین کی نشر یکے میں خدا کے اخلاق بیان کیجئے؟ الحمد لله رب العلمین کا ترجمہ اور تغیر کیجیئے.جواب.سورہ فاتحہ کی پہلی آیت کا مطلب ہے.تمام کامل اور پاک صفات خدا سے خاص ہیں جو تمام عالموں کا رب ہے.عالم کے مطالب بہت وسیع ہیں اس میں مختلف قومیں، مختلف زمانے اور مختلف ملک بھی شامل ہیں.اور کرب کا مطلب پالنے والا ترقی کے مناسب حال سامان مہیا کرنے والا ہے.رب العالمین کا مطلب ہے انسان کی جسمانی اور روحانی ترقی کے اسباب ہر قوم ہر زمانے اور ہر ملک کے لئے بہتا کرنے والا.یہود اور عیسائی نبوت اور الہام کو اپنے خاندانوں تک محدود سمجھتے ہیں اسی طرح آہ یہ بھی خدا کی وحی اور الہام کو اپنے مذہب تک محمد سمجھتے ہیں.جب کہ وہ کب ہی کیا جو صرف یہود عیسائیوں یا آریوں کا رب ہو.رب تو وہ ہے جس نے ہر انسان کو جسمانی اور روحانی تربیت سے فیضیاب کیا.قرآن شریف میں ہے.وَإِن مِنْ أُمَّةٍ الأخلا فيهان زیر کہ کوئی ایسی قوم نہیں جس میں کوئی نبی یا رسول نہ بھیجا گیا ہو.خدا کا فیض عام ہے.وہ کسی قوم ملک یا نہ مانہ کے انسانوں کی حق تلفی نہیں کرتا.وہ ایسے وسیع اخلاق کا مالک ہے کہ کسی قوم کو اپنے جھانی اور
م روحانی فیضوں سے بے نصیب نہیں رکھتا.سوال.مسلمانوں اور ہندوؤں میں اتفاق کی ضرورت اور اہمیت پر نوٹ لیکھیئے ؟ جواب.اتفاق میں برکت ہے جس سے مشکلات حل ہوتی ہیں اور بلائیں دور ہوتی ہیں.ایک ملک میں سالہا سال اکٹھے رہنے کی وجہ سے دونوں کا وجود دونوں کی بقاء کے لئے ضروری ہے اگر ایک قوم دوسری کی تباہی کی فکر کرے گی تو اس کی مثال اُس شخص کی ہے جو ایک شاخ پر بیٹو گرای کو کاٹنا ہے.اس لئے کہنے اور بغض کو چھوٹہ کہ ایک دوسرے کی ہمدردی اور باہمی اتفاق سے دنیا کی مشکلات کو کم کیا جاسکتا ہے.دنیا پر طرح طرح کے عذاب نازل ہو رہے ہیں.زلزلئے تقحط، طاعون دوسری بلائیں ہر وقت مسلط ہیں.ان سے بچنے کا ایک ہی طریق ہے یا ہم صلح ہو جائے اور ظلم و زیادتی چھوڑ دیں ورنہ ظالم قوم کی گردن پر باہمی عداوت کا گناہ ہوگا.سوال: ثابت کیجیے ک گور د بابا نانک ہندوؤں اور مسلمانوں میں مسلح کرانے آئے تھے ؟ سوال ، قرآن پاک اور دید کی تعلیم میں کون سی قدر مشترک ہے ؟ جواب قرآن پاک میں خدا تعالیٰ کی ایک صفت کلیم بیان کی گئی ہے یعنی وہ کلام کرتا ہے اور خدا تعالی کی کوئی صفت معطل نہیں ہو سکتی وہ پہلے بھی کلام کرتا تھا اب بھی کرتا ہے اور آئندہ بھی کرے گا.دید کے متعلق ہندوؤں میں ایسے مبزرگ اوتار پیدا ہوئے ہیں.جن پریدوں
۴۸ کے بعد بھی الہام ہورہے ہیں.سری کرشن ملہم ہونے کا دعوی کرتے ہیں.ان کے پیرو نہ صرف ان کو ملہم بلکہ پرمیشر (خدا) مانتے ہیں مگر اس میں شک نہیں کہ سری کرشن اپنے وقت کا نبی اور اوتار تھا اور خدا اس سے ہم کلام ہوتا تھا.گور د بابا نانک جن کے پیرو کار چوبیس لاکھ سے زیادہ ہیں.لکھتے ہیں کہ مجھے خدا کی طرف سے الہام ہو ا ہے کہ اسلام سچا ہے.اس بات میں کچھ شک نہیں ہوسکتا کہ بادا نانک ایک نیک اور برگزیدہ انسان تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جن کو خدائے عزوجل اپنی محبت کا شربت پلاتا ہے.انہوں نے الہام کا دعوی کر کے نشان اور کرامات دکھا کے ہندوؤں کا یہ دعوی رقہ کردیا کہ خدا دید کے بعد کلام نہیں کرتا.وہ ہندوں کے لئے خدا کی طرف سے ایک رحمت تھے وہ ہندو مذہب کے آخری اوتار تھے.وہ ہندو مذہب اور اسلام میں صلح کرانے آئے تھے.(حضور فرماتے ہیں، خدا کی دھی اور الہام کا سلسلہ جاری ہے وہ خدا پہلے بولتا تھا.اب بھی بولتا ہے.اس کا ثبوت میں خود ہوں تیس برس سے خدا کے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف ہوں اور صد با نشانات دکھا چکا ہوں.وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم اب بھی اس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار
۴۹ سوال: الہامی کتب کے مفہوم میں بگاڑ کیسے پیدا ہوتے ہیں ؟ سوال : خدا تعالیٰ نے انسان کی روحانی تربیت کے کیا سامان پیدا فرمائے ہیں ؟ جواب (1) الہامی کتب.خدا کی ذات عمیق در عمیق اور نہاں در نہاں ہے.وہ اپنے وجود کو ثابت کرنے اور انسان کی روحانی تربیت کے لئے کسی ایک کتاب پر کفایت نہیں کرنا بلکہ مختلف ملکوں میں سے بنی منتخب کر کے اپنا کلام نازل فرماتا ہے.وہ گھلے خزانوں کا مالک ہے جو سورج سے مشرق و مغرب کو روشن کرتا اور بارش سے ہر ملک کو ضرورت کے مطابق سیراب کرتا ہے وہ انسان کے حق میں اتنا بخیل نہیں ہو سکتا کہ کسی ایک ملک قوم یا نہ بان تک محدود رہے.حقیقت حال یہ ہے کہ الہامی کتابوں پر جب زمانہ گزرتا ہے تو لوگ نادانی اور ذاتی اعراض سے کتاب پر اپنی طرف سے حاشیے چڑھاتے ہیں.جس سے ایک ہی مذہبی کتاب سے کئی مذہب جنم لے لیتے ہیں.پہلے زمانے میں ذرائع آمد و رفت و رسل وسائل محدود ہونے کی وجہ سے قوموں کا آپس میں ربط کم ہونے کی وجہ سے یہ سمجھ لیا گیا کہ الہامی کتاب صرف اُنہیں کا نصیب ہے.خدا کا صدر مقام ہمیشہ انہیں کے ملک میں رہا ہے.مگر رب العالمین الہامی کتب کو اصلاح و تربیت کے لئے کل عالم کے لئے نازل فرمانا کہ ہا ہے.دازم الهام و كلام النبي میشد و اصلاح کے لئے برگزیدہ بندوں سے کلام کا سلسلہ ہر ملک
ہر قوم اور ہر زمانہ میں جاری ہے.جس کی مثالیں سری کرشن گور وبا با تانک اور خود حضرت مرزا غلام احمد سیح و مہدی موعود ہیں.انبیاء اوتاره مصلح و بزرگ لوگ دنیا میں روحانی تربیت کے لئے آتے ہیں.اور اس نعمت میں بھی کسی قوم ملک یا نہ مانے کی تخصیص نہیں.سوال : مذاہب میں اختلافات کیوں پیدا ہوئے ؟ جواب: پہلے نہ مانے دنیا میں ایسے گزرے ہیں کہ ایک قوم دوسری م کے حالات سے اور ایک ملک دوسرے ملک کے وجود سے بے خبر تھے.ایسے میں جب کسی قوم کو خدا کی طرف سے کتاب ملی یا کوئی خدا کا رسول اور نبی آیا تو اس قوم نے یہی خیال کیا کہ دنیا میں یہ نعمتیں صرف اُسی کا نصیب ہیں.پھر جب قوموں کا آپس میں میل جول ممکن ہوا تو اپنی قوم کی برتری دلوں میں راسخ ہو چکی تھی.اور کوئی قوم دوسری قوم کی برتری تسلیم کرنے کی بجائے طاقت کے استعمال سے اپنا مقام قائم رکھنا چاہتی تھی.اس طرح مذہب میں اختلاف بڑھتے گئے.ان اختلاف میں صلح کرانے والوں پر بھی الزام رکھے گئے مثلا گو تم بدھ اور حضرت عیسی علیہ السلام.دُنیا کے قریب آنے سے اپنے مذہب کے علاوہ ہر مذہب کی تکذیب شروع ہوگئی.پیغمبری کی ژند واتنا والوں نے کو اپنے خاندان تک محدود بنایا.عبرانیوں نے ثابت کیا کہ خدا کی تخت گاہ صرف ملک شام ہے.اگرچہ یہ اصلاح بنی اسرائیل تک محدود رہی اور انہیں کے خاندان پر الہام اور خدا کی وحی کی مہر لگ گئی.
اد آریہ ورت کی رُو سے پر مینٹر صرف آمر یہ ورت کا ہی راجہ ہے.وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ خدا کبھی اُن بیچاروں کو بھی یاد کر سکتا ہے کہ جنہیں وہ ان کے خیال میں پیدا کر کے بھول گیا ہے.کہ نتیجہ یہ نکلا کہ اپنے مذہب کے علاوہ دوسرے ہر مذہب کی تکذیب ہتک اور بے عزتی کی گئی.اور ان کی کتابوں ہیولوں کی توہین ہوئی.سوال : مسلمانوں کے نزدیک رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا مقام ہے ؟ جواب : مسلمان اپنے بنی کو خدا یا خدا کا بیٹا نہیں بناتے مگر آنجناب کو تمام برگزیدہ انسانوں سے بزرگ تر جانتے ہیں.ہر سچا مسلمان کسی سے صرف اسی صورت میں ضلع کر سکتا ہے جب اُن کے پاک نبئی کی نیست گفتگو ہو تو عزت و احترام سے پاک لفظوں میں انہیں یاد کیا جائے مسلمان دوسرے مذاہب کی توہین نہیں کرتے.اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ دید انسان کا افتراء نہیں اس کی تشریحیں انسانی سوچ کا نتیجہ ہیں.سوال : حضرت اقدس نے ہندوؤں کے سامنے صلح کیلئے کیا تجویز رکھی ؟ جواب حضور فرماتے ہیں.ہنڈ اور آریہ صاحبان ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا سیجانی مان لیں اور آئندہ توہین اور تکذیب چھوڑ دیں تو میں سب سے پہلے اس اقرار نامہ پر دستخط کرنے پہ تیار ہوں کہ ہم احمدی سلسلہ کے لوگ ہمیشہ وید کے مصدق ہوں گے اور دید اور اس کے رشیوں کی تعظیم اور محبت سے نام لیں گے اور اگر ایسا نہ کریں گے تو ایک بڑی رقم تاوان کی جو تین لاکھ روپیہ سے کم نہ ہوگی ہند و صاحبان کی خدمت
۵۲ میں ادا کریں گے اور اگر ہند و صاحبان دل سے ہمارے ساتھ صفائی کرنا چاہتے ہیں تو وہ بھی ایسا ہی اقرار لکھ کر دیں؟ سوال : اقرار نامے کے لئے آپ نے کیا مضمون تجویز فرمایا ہے جواب : " ہم حضرت محمد مصطفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور نبوت پر ایمان لاتے ہیں اور آپ کو سچا نبی اور رسول سمجھتے ہیں اور آئندہ آپ کو ادب اور تعظیم کے ساتھ یاد کریں گے جیسا کہ ایک ماننے والے کے مناسب حال ہے.اور اگر ہم ایسا نہ کریں تو ایک بڑی رقم تادان کی جو تین لاکھ روپے سے کم نہیں احمدی سلسہ کے پیش رو کی خدمت میں پیش کریں گے“ سوال: ہندووں اور مسلمانوں میں دیر پا صلح کس طرح ممکن ہے ؟ جواب: ہندو اور مسلمان میں ایک اختلاف سیاسی ہے کہ وہ حکومت کے معاملات میں زیادہ سے زیادہ حصہ دار بننا چاہتے ہیں مسلمان اُن کا اس لئے ساتھ نہیں دیتا کہ اس طرح فائدہ صرف ہندوؤں کو ہوگا ان کی کوششوں میں سد راہ بن کر رنجش میں اضافہ ہوا.مگر یا اصل اختلاف نہیں ہے.اصل اختلاف مذہبی ہے.اگر دونوں کا مذہب ایک ہو جائے تو کوئی اختلاف نہ رہے.دیر پا صلح صرف اس طرح ممکن ہے کہ مسلمان دید اور دید کے رشیوں کو پیچھے دل سے خدا کی طرف سے قبول کرلیں اور ہندو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کریں.اس کے لئے کچھ ہمدردی اور خیر خواہی ضروری ہے.ہم یہ بھی
کر سکتے ہیں کہ گائے جو اگرچہ حلال ہے مگر ہم بعض حلال چیزیں بھی استعمال نہیں کرتے ہم گائے کا ذبیحہ نہ کریں دلجوئی کرنا ہمارے مذہب میں شامل ہے ان سب باتوں کے ساتھ یہ ہے کہ ہمارے پیارے رسول کی کما حقہ تعظیم کی جائے کیونکہ ہم شورہ زمین کے سانوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کر سکتے ہیں لیکن اُن لوگوں سے ہم صلح نہیں کر سکتے جو ہمارے پیارے بنی پر جو ہمیں اپنی جہان اور ماں باپ سے بھی پیایدا ہے ناپاک حملے کرتے ہیں " دیر پا صلح کے لئے اسلامی تعلیمات یہ ہیں کہ تم مشرکوں کے توں کو بھی گالی مت دو کہ وہ پھر تمہارے خدا کو گالیاں دیں گے کیونکہ وہ اس خدا کو جانتے نہیں" (سورہ الانعام) سوال : آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور بعثت کے مقاصد پر بحث کیجئے ؟ جواب: آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم برگزیدہ رسول ہیں جن کی درگاہ پر خدا نے ہیں کروڑ انسانوں کا سرچھ کا رکھا ہے.عظیم الشان بادشاہ اُس کی غلامی پر فخر محسوس کرتے ہیں.جب ہمارے رسول صلی اللہ علی وسلم نے مستند رسالت کو اپنے وجود سے عزت دی جہالت کی تاریخی کسی سورج کی متلاشی تھی بیمار انسانیت کسی طبیب کی متمنی تھی.قرآنی الفاظ میں ظور الفساد فی البر والبحر یعنی جنگل بھی بگڑ گئے تھے !
۵۴ دریا بھی بگڑ گئے تھے مشرقی اور مغربی آریہ اور عرب ریگستان اور جزیروں میں رہنے والے سب بگڑ گئے تھے.اُس وقت پیارے خدا نے پیارا جیب بھیجا.عرب نا قابل بیان ذلیل جرائم میں مبتلا تھے آنحضور نے اپنی باطنی توجہ سے وحشیانہ حالت سے انسان اور پھر مہذب انسان بنایا.پھران کو باخدا انسان بنایا آخر وہ خدا کی محبت میں ایسے محو ہوئے کہ ہر قسم کا ظلم برداشت کیا مگر اسی کے دامن سے وابستہ رہے.یہ فوق العادت تبدیلی پیدا کرنا ان کے پیچھے اور خدا کی طرف سے ہونے کی نریمہ دست دلیل ہے.سوال اس الزام کو غلط ثابت بیٹھے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ؟ جواب: آنحضور نے جب اسلام کا پیغام دینا شروع کیا تو وہ ایک بادشاہ کی حیثیت سے ظہور فرما نہیں ہوئے تھے.بلکہ عریبی مسکینی اور تنہائی کی حالت میں تھے.اس وقت کس تلوار کے خوف سے لوگ آپ پر ایمان لائے.تو پھر جبر کرنے کے لئے کسی بادشاہ سے کوئی شکر مانگا گیا تھا اور مدد طلب کی گئی تھی.آپ تو قیم تھے خدا کے سوا کوئی مشکل تھا آپ نے بکریاں چرائیں.آپ آئی تھے حرفہ اور پیشہ نہیں جانتے تھے.چالیس برس کی عمر میں رسول بنائے گئے تو مخالفین نے جینا دوبھر کر دیا.چھپ چھپ کر ہجرت کرنی پڑی جب بے رحم کافروں کا ظلم اس حد تک پہنچ گیا تو خدا نے جو اپنے بندوں پر رحم کرتا
ہے اپنے رسول کو جہاد کی اجازت دی بے شک خدا علیم ہے مگر جب کسی قوم کی شرارت حد سے گزر جاتی ہے تو وہ ظالم کو بے سزا نہیں چھوٹہ تا اور آپ ان کے لئے تباہی کے سامان پیدا کر دیتا ہے.اس جہاد کو تلوار کے زور سے اسلام پھیلانا نہیں کہتے قرآنی تعلیم ہے لا اکراہ فی الدین.دین میں جبر نہیں اور آنحضور قرآنی تعلیم کے پاسدار تھے.مسلمان ہو کہ لوگوں کو کیا ملتا تھا ظلم ابتلا امتحان اور سزائیں.جبیر سے مسلمان ہونے والے اتنا صدق اور ایمان نہیں رکھتے کہ لا إله الا اللہ کا پیغام دینے کے لئے سر کٹاتے پھریں.سوال: اسلام کی تعلیم کیا ہے ؟ جواب : اسلام کا بڑا بھاری مقصد خدا کی توحید اور جلال زمین پر قائم کرنا اور شرک کا بکلی استیصال کرنا اور تمام متفرق فرقوں کو ایک کلمہ پر قائم کر کے اُن کو ایک قوم بنا دنیا ہے.قرآن شریف میں ہے قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِلى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم جَمِيعًا یعنی لوگوں سے کہہ دے کہ میں تمام دنیا کے لئے بھیجا گیا ہوں.حضرت عیسی بھی سچے تھے اور حضرت موسی بھی.ان کی تعلیمات میں اُس کے زمانے کا لحاظ رکھا گیا تھا.اسلام نے افراط اور تفریط کو ختم کر کے مناسب حال تعلیم دی یعنی بدی کا بدلہ اسی قدر بدی ہے جو کی جائے ؟ باید