Tadhkiratul-Mahdi

Tadhkiratul-Mahdi

تذکرۃ المہدی

Author: Other Authors

Language: UR

UR
حضرت مسیح موعود و مہدی معہود ؑ

Book Content

Page 1

تذكرة المهدى ) ہر دو حصے مکمل) الحق مؤلفہ اخویم پیر سراج الحق صاحب مهمانی های بانسوی رسای احمدی سماه جون 1910.صرف ٹائیٹل ضيلة الأسلام مش قادیان میں بافته من مطبع طبع گراک ایم قاسم علی سایت ایالتی با فناوری است شائع کیا.

Page 2

Page 3

تذكرة الهدى بسم الله الرحمن الرحیم 1 نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم سفرنامه پیر سراج الحق نعمانی (۱۹۱۳) دارلامان قادیان A سے میرے سفر کرنے کی یہ ضرورت پیش آئی کہ میرے بڑے بھائی شاہ محمد خلیل الرحمٰن صاحب نعمانی و جمالی نے مقام الور سے مجھے لکھا کہ مقام سند ہالہ ضلع کرنال میں ہمارا جدی بھائی پیر جی رحیم الدین مرگیا.اور اس کی جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کا کوئی وارث سوائے ہمارے نہیں رہا.مناسب ہے کہ جلد سر سادہ پہنچو اور سر سادہ سے شد ہالہ جاؤ اور اس کا انتظام کرو اور میں اس وقت بیمار ہوں مجھے وہاں پہنچنے میں دیر ہوگی.اگرچہ میں نے ایک چٹھی صاحب کمشنر کی خدمت میں اور ایک تحصیلدار صاحب کی خدمت میں بذریعہ ڈاک بھیج دی ہے چونکہ ہمارا قدیمی نوٹ : دارالامان لکھنے کی یہ ضرورت پیش آئی کہ فتح گڑھ : و بٹالہ کے قریب ایک قصبہ ہے وہاں ایک قاضی صاحب رہتے ہیں انہوں نے حضرت اقدس علیہ السلام کو سخت الفاظ میں گستاخانہ ایک کارڈ لکھا چونکہ ان دنوں میں ہی جواب لکھا کر تا تھا وہ کارڈ بھی مجھے جواب دینے کے لئے دیا اور فرمایا اس کا جواب نرم الفاظ میں لکھو جب میں نے جواب لکھ لیا تو کاتب کے نام کے ساتھ یہ پتہ لکھا تھا کہ از مقام فتح گڑھ دار الامان مجھے اس پر خیال ہوا کہ فتح گڑھ کا قافیہ بھی نہیں 2 اور فتح گڑھ کو دارامان ہونے کا فخر کہاں سے دارالامان تو قادیان کو ہونا چاہئے اور ہے بھی میں نے لکھارا تم خادم مسیح موعود حسب الحکم حضرت مسیح موعود علیہ السلام از قاریان دارالامان پھر میرے دل میں آیا کہ اپنی طرف سے لکھنا ٹھیک نہیں میں حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا.فرمایا کیسے آئے.اس وقت اکیلے تشریف رکھتے تھے اور صرف شملتے تھے میں نے یہ سارا حال بیان کیا اور عرض کیا کہ حضور دار الامان قادیان لکھنا چاہئے یا نہیں.فرمایا ضرور لکھدو یہ خدا کی طرف سے دارالامان ہے اب ضرور ہر خط پر لکھدیا کرو.

Page 4

تذكرة المهدي 2 اور جدی مسکن سند ہالہ ہے اس موقعہ کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہئے.مبادا کہ اور کاذب مدعی اور وارث کھڑے ہو جا ئیں میں نے اس کے جواب میں لکھا کہ چونکہ ہمارا کہیں آنا جانا اور نشست و برخاست حضرت اقدس امام موعود علیہ الصلوة والسلام " کے زیر فرمان اور اجازت پر ہے میں ان سے اجازت حاصل کر کے انشاء اللہ روانہ ہو جاؤں گا اور خدا تعالی آپ کو شفا بخشے.اور مجھکو سند ہالہ گئے ہوئے چودہ پندرہ برس ہو گئے اس واسطے میری اور ان کی غیروں کی سی حالت ہے.اور آپ وہاں ہمیشہ آتے جاتے رہتے ہیں میں اور کام تو سب کرلوں گا لیکن سند ہالہ کا کام آپ سے ہی ہو گا میں نے اس مقام پر نہ جانے کا یوں عذر کیا کہ ہمارے جدی اور نزدیکی بھائیوں میں سے ایک کی شادی تھی اس میں شریک ہونے کے لئے خط آیا سو میں اور میرے بڑے بھائی شاہ خلیل الرحمن صاحب اور سید علی حسن متوفی اور میاں جی شیخ عبد الرحمن متوفی اور دو چار اور شخص سر سادہ سے شادی میں شریک ہونے کے لئے چلے چونکہ سر سادہ سے یہ مقام سند ہالہ آٹھ نو کوس ہے.اور جمنا بیچ میں پڑتی ہے.برسات اور گرمیوں میں تو کشتی یعنی ناؤ لگتی ہے اور آٹھ نو کوس کا سفر گیارہ بارہ کوس کا سفر خطرناک ہو جاتا ہے کیونکہ برسات میں تین چار کوس میں جمنا کا پانی پھیل جاتا ہے اور بیسیوں اور سینکڑوں گاؤں ڈوب جاتے ہیں اور ہزاروں لاکھوں بیگہ زراعت کا نقصان ہو جاتا ہے اور ان گنت چار پائے اہلی و صحرائی بہہ جاتے ہیں اور آدمی بھی بہت مرجاتے ہیں.غرضیکہ ہم صبح سے چل کر عصر کے وقت سندہالہ پہنچے ابھی نوٹ : حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نام نامی پر علیہ الصلوۃ والسلام لکھا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب حضرت اقدس نے قیام لدھیانہ میں اپنے مسیح موعود ہونے کا اشتہار دیا جس کی سرخی یہ تھی لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَ يُحْيِي مَنْ حَى عَن بنت تو میں بمقام کوٹ پولی علاقہ جیپور تھا میں سب کام چھوڑ کر لدھیانہ حاضر ہوا تو مخالفت کا بہت زور تھا.مولومی محمود الحسن خان صاحب احمد می بھی جو دہلی کے قرب وجوار کے رہنے والے اور پٹیالہ میں درس ہیں آئے ہوئے تھے.عرض کیا کہ حضور اب ہم ہر جگہ اعلان کریں جو میٹی علیہ السلام آنے والے تھے آگئے اور علیہ السلام بھی ساتھ میں لکھیں حضور نے فرمایا کہ بیشک بھی کہو اور علیہ السلام بلکہ صلوۃ بھی کہو کیونکہ اللہ تعالی نے ہمارے نام کے ساتھ صلوۃ کا لفظ فرمایا ہے.

Page 5

تذكرة المهدي 3 ہم گاؤں کے اندر داخل نہیں ہوئے تھے جو میرے کان میں طوائف فواحش کے رقص و سرود کی آواز آئی تو میں گھوڑے پر سوار تھا وہیں ٹھہر گیا اور میرے ساتھ میرا ملازم رہا اور سب رقص میں بڑی خوشی سے جاکر شریک ہوئے.اہل شادی نے دریافت کیا کہ سراج الحق نہیں آئے میرے بھائی اور سب نے کہا ہاں آئے ہیں مگر وہ رقص و سرود کی آواز سن کر باہر ہی رک گئے پس وہ اہل شادی | میرے پاس آئے اور کہا سواری سے اثرو اور چلو میں نے یہ کہا کہ یہ رنڈی کا ناچ جو تمہاری شادی میں ہے بالکل بند کرو تو میں چلوں ورنہ میں ابھی سر سادہ کو واپس چلا جاؤں گا انہوں نے کہا کہ تم ناچ مت دیکھو اور گانامت سنو.مگر شریک شادی رہو.میں نے کہا یہ نہیں ہو سکتا اللہ تعالی قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ تم کسی ایسے جلسہ میں شریک نہ ہو جو اللہ و رسول کے خلاف ہو یا استہزا ہو تو تم اگر چہ وہ کام نہ کرو مگر تم بھی انہیں میں سے ہو.طوائف کو رخصت کرو الله و رسول کے حکم کے مطابق شادی کرو تو میں شریک ہو جاؤں اس میں بات بڑھ گئی.انہوں نے کہا ہم تم سے ملنا نہیں چاہتے میں نے کہا بہت اچھا ہم بھی تم سے ملنا نہیں چاہتے.میں یہ کہہ کر واپس سوار کا سوار چل دیا.اور میرے ساتھ میرا ملازم رہا.رات کے بارہ بجے ایک ہندوؤں کے گاؤں ”ٹا بر " نام میں آٹھرا صبح کو میں وہاں سے چل کر سر سادہ دس بجے پہنچ گیا.اس گاؤں میں سب واقف تھے سب نے خاطر و تواضع کی اب میں اکیس برس ہونے کو آئے میں اس گاؤں میں نہیں گیا.حالانکہ وہ لوگ ہمارے ہاں آتے ہیں اور ان کی خاطر تواضع جب میں ہوتا ہوں موافق شریعت کر دیتا ہوں.اس گاؤں میں شادیاں ہوں موتیں ہوں خواہ کچھ ہی ہو میں نہیں جاتا یہ وجہ ہے میرے وہاں نہ جانے کی.خلاف شریعت جلسوں سے بچنے کا حکم ایک دفعہ ہی ذکر حضرت اقدس امام موعود احمد قادیانی علیہ السلام سے بھی ہوا.فرمایا کہ مومن کو یہی چاہیئے اور فرمایا

Page 6

تذكرة المهدى دعاء قنوت میں جو و نخلع و نترك من يفجر کی آیا ہے کہ ہم علیحدگی اختیار کرتے ہیں اور ترک کرتے ہیں انکا ساتھ جو تیری نافرمانی کرتے ہیں اس کے یہی معنے ہیں.پھر فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب تمہارے اس بیان سے اور ان عادات سے جو ہمیں ہر روز مشاہدہ ہوتا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ تم میں نرمی بہت ہے اور کبھی غصہ نہیں آتا ہے اور بردباری بہت ہے.مگر یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ غضب بھی خطرناک ہو تا ہوگا.میں نے عرض کیا کہ حضرت سچ ہے اول تو مجھکو غصہ آتا نہیں اور جو آتا ہے تو پھر اس کا جانا محال فرمایا حدیث میں بھی آیا ہے آعوذ بالله من غضب الحليم الغرض مجھے دارالامان سے حضرت اقدس سے رخصت حاصل کرنے میں دیر ہو گئی اور کچھ خانگی انتظام کے باعث سے میرا جانا نہ ہوا لیکن بھائی صاحب مجھ سے پہلے مقام سند ہالہ پہنچ گئے میں نے خط میں لکھ دیا تھا کہ اگر کوئی حارج اور رفته اند از کھرانہ ہوا تو خیر اور جو کوئی مدعی کاذب کھڑا ہو جائے تو آشتی و نرمی سے صلح کر لینا.اور جو یہ نہ ہو تو عدالت موجود ہی ہے پہلے ہماری اپنا حق مت چھوڑو طرف سے عدالت میں جانا اچھا نہیں ہے.پس.بھائی صاحب نے ایسا ہی کیا جو جو دعویدار زمین و اسباب متد عویہ پر کھڑے ہوئے تھے سمجھایا اور سب نشیب و فراز نفع و نقصان ان کو دکھایا اور کئی گاؤں کے نمبرداروں ذیلداروں کو جمع کیا لیکن طمع راسه حرف است و هر سه تی؟ وہ نہ سمجھے اور خواہ مخواہ زمین اور اسباب پر قبضہ کر لیا آخر کار آخر العلاج الکئی بھائی صاحب نے عدالت میں مقدمہ پہنچادیا میں نے یہ سب کیفیت حضرت مولانا نورالدین صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش کی فرمایا اندر ہی بیٹھے بیٹھے خدا سے کیا کیا کچھ لے لیا.خدا مبارک کرے اپنا حق چھوڑنا نہیں چاہئے پھر میں نے حضرت اقدس امام ربانی احمد قادیانی علیہ السلام کی خدمت میں یہ ماجرا من و عن عرض

Page 7

تذكرة المهدى 5 کیا.حضرت اقدس یہ بات سن کر ہننے لگے اور بڑی دیر تک اس معالمہ میں بات چیت کرتے رہے اور حالات مقدمہ کے دریافت فرماتے رہے.آخر میں فرمایا کہ اپنے حق کو چھوڑنا نہیں چاہئے.پھر مجھ کو ملنے کی حضرت اقدس علیہ السلام سے فرصت نہ ملی اور میں نے ایک عریضہ کے ذریعہ سے اجازت چاہی آپ نے ایک عبارت اس عریضہ کی پشت پر تحریر فرمائی جس کے ذریعہ اجازت جانے اور اپنے حق کی طلب کی اجازت مل گئی.قادیان سے روانگی پیس میں مع اہل وعیال حسب الاجازت حضرت اقدس علیہ السلام و حضرت حکیم الامت دارلامان سے روانہ ہونے کو تھا تو اس سے ایک روز پہلے میرے بڑے برادر شاہ خلیل الرحمن صاحب جمالی کا خط آیا کہ میں ایک مقدمہ کی ضرورت کے لئے لدھیانہ آیا ہوا ہوں اور ایک صورت مقدمہ کی کامیابی کی نسبت غیب سے خدا نے پیدا کی ہے اور وہ بغیر تمہارے آئے بن نہیں سکتی لہذا تم سر سادہ مت پہنچنا سیدھے لدھیانہ آجاؤ پھر ہم تم ساتھ ساتھ سر سادہ چلیں گے.پس میں قادیان شریف سے لودھیانہ کو روانہ ہونے لگا تو زنانی سواریاں یکہ میں سوار ہو ئیں اور میں حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوا دروازہ پر دستک دی تو آپ نے فرمایا کون صاحب ہیں میں نے عرض کیا کہ سراج الحق ہے.فرمایا صاحبزادہ صاحب ہیں اچھا اندر آؤ میں اندر گیا فرمایا اب جاتے ہو میں نے عرض کی کہ ہاں فرمایا جلد آنے کی کوشش کرنا زندگی کا کچھ اعتبار نہیں ہے اور بلاؤں کے دن ہیں اور جب فرصت ملے تب ہی آجانا.آنے میں سستی نہ کرنا میں نے کہا حضور بھی دعا میں یاد رکھیں تاکہ اللہ تعالی کامیابی کے ساتھ واپس دار الامان میں لائے پھر میں حضرت حکیم الامت کی خدمت میں حاضر ہوا اور سب حالات عرض کئے آپ نے خوشی سے اجازت دی اور آنے کے لئے بار بار فرمایا اور دعا بھی کی.

Page 8

تذكرة المهدي سفر ریل 6 پس ہم دارالامان سے معہ اہل و عیال چل کر لدھیانہ پہنچ گئے تو برادر مکرم لدھیانہ میں ملے جب میں امرتسر سے ریل میں سوار ہوا تو اس گاڑی میں میں اور میرے ساتھ مرزا عنایت اللہ بیگ ہانسوی اور دو ہندو جن میں ایک سنار اور ایک شاید کھتری تھا اور باقی تمام سکھ صاحب تھے سنار نے آگ لگا کر چلم بھرنی چاہی اور کھتری نے آگ سلگانے میں مدد دی.کیونکہ دونوں حقہ پینے کی عادت رکھتے تھے اور سکھوں کو حقہ سے نفرت ہے انہوں نے کہا کہ چلم نہ بھرو سنار نے نہ مانا اور آگ طیار کر کے چلم بھرلی اور سکھوں کی طرف سے تکرار کی نوبت پہنچی.میں نے نرمی سے سکھوں کو کہا کہ تم تکرار کیوں کرتے ہو وہ بولے کہ ہم حقہ نہیں پیتے اور ان دونوں کو ہم حقہ نہ پینے دیں گے ہمارے گرو صاحب نے اس کو منع کیا ہے میں نے کہا کہ گرو صاحب نے تو شراب سے بھی منع کیا ہے.دونوں حکم ماننے ضروری ہیں یہ خوب بات ہے کہ ایک چیز چھوڑنی اور ایک پکڑنی بلکہ بخوشی اور بے خوف استعمال کرنی اور پھر فرو صاحب نے تو زناکاری رنڈی بازی سے بھی روکا ہے حالانکہ اس فحش حرکت سے بھی تم پر ہیز نہیں کرتے بڑی اور کبیرہ گندی چیزوں سے نہ بچنا اور ایک ادنی شے کے استعمال سے جو وہ بھی دوسرا شخص اس کو کرتا ہے جو تمہارے مذہب کا نہیں ہے چڑنا اور فساد کرنا اور تکرار کرنا اسی کا نام گرد صاحب کی تابعداری فرمانبرداری ہے.اور حقہ سے گرو صاحب نے تمکو منع کیا ہے نہ ان کو یہ لوگ تو گر و صاحب کو ہی نہیں مانتے ان کے حکم کو کیا مانیں گے اور تم لوگ خود ہی گرو صاحب کے حکم کی تعمیل نہیں کرتے اس چھوٹی سی بات پر فساد اور تکرار کرنا نا مناسب معلوم ہوتا ہے آئندہ تم کو اختیار ہے میری یہ بات سن کر دو تین بوڑھے بڑے سکھ صاحب تو خاموش ہو گئے اور شرمندہ ہو کر ان دونوں ہندؤں - سے منہ پھیر لیا اور کچھ نہ بولے اور دوسرے جو ان اور جوشیلے سکھوں کو بھی تکرار سے روک دیا.اور کہا دیکھو میاں مسلمان نے کیسی کچی بات کہی ہے یہ حقہ

Page 9

تذكرة المهدي حصہ اول پئیں تو ہمارا کیا بگڑتا ہے انجن میں سے بھی تو دھواں لکھتا ہے ہر قوم میں دانا اور عقلمند شریف الطبع لوگ بھی ہوتے ہیں جو اچھی بات کو قبول کرتے اور سمجھانے سے سمجھ جاتے ہیں مگر سمجھانے والا حسب تعلیم قرآن مجيد اُدْعُ إِلى سَبِيلِ ريك با ANNOTA KARNE KA TARKAN کے چاہئے پھر میں نے سنار اور کھتری سے کہا کہ حقہ ایسی چیز ہے کہ اگر تھوڑی دیر اس کو بخلاف افیون کے نہ پیا جائے پینے والا مرتا نہیں اور نہ کچھ بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہے سوائے اس کے کہ ایک طلب ہوتی ہے جو کچھ عرصہ گزرنے پر طبیعت مانگتی ہے اگر تم اس وقت چلم یا حقہ نہ ہو تو اس میں تمہارا کیا حرج ہے اس میں رفع شر بھی ہے اور ایک لغو کام سے بھی بچتے ہو.دیکھو ہمارے ایک دوست ڈاکٹر محمد اسمعیل خان صاحب ہیں حقہ بہت ہی کثرت سے پیتے تھے آخر انہوں نے ایک دم چھوڑ دیا ان کا کچھ بھی نہ بگڑا سکھوں میں لاکھوں آدمی ہیں جو حقہ نہیں پیتے ان کو کچھ بھی ضرر اور نقصان نہیں ہے بلکہ بر خلاف تم لوگوں کے زیادہ قوی اور تندرست ہیں حقہ تو حقہ میں نے ایسے افیون پینے والوں کو جو چھٹانک بھر روز کھاتے تھے دیکھا ہے کہ انہوں نے افیون کو ایک دم ترک کر دیا دہ اچھے بچھے ہیں چنانچہ جناب مولانا مولومی سید مجمد سرور شاہ صاحب جب قادیان حضرت امام حمام علیہ الصلوۃ و السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیعت سے مشرف ہوئے تو ایک دم افیون ترک کردی وہ افیون بھی معتاد سے زیادہ کھاتے تھے.ان کو کوئی نقصان نہ ہوا.بلکہ اور زیادہ تندرست اور قوی ہو گئے.وہ ہندو میری یہ بات سن کر حقہ پینے سے باز رہے اور آگ اور چلم پھینک دی.بات میں بات یاد آجاتی ہے یہ بھی لکھنا غیر مناسب نہ ہوگا.کہ حقہ نوشی جن دنوں میں حضرت اقدس امام ہمام علیہ السلام کی طرف سے خطوط کے جواب لکھا کرتا تھا تو من جملہ اور مسائل کے حقہ کی نسبت بھی ہماری جماعت کے احباب دریافت کرتے تھے کہ ہمیں حقہ پینے کی عادت ہے اس کی

Page 10

تذكرة المهدي 8 مه اول حضور کا کیا فتوی ہے حکم ہو تو ترک کر دیں.پس حضرت اقدس علیہ السلام نے مجھے یہ حکم دیا تھا کہ ہمارے پاس مختلف مضمون کے خط آتے ہیں بعض دعا کے لئے آتے ہیں سو اس میں ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ جس وقت کسی کا خط دعا کے لئے آتا ہے تو ہم اسی وقت دعا کر دیتے ہیں.اور جب وہ یاد آتا ہے تب بھی دعا کیا کرتے ہیں سو ایسے خطوط کا جواب یہ لکھ دیا کرو کہ ہم نے دعا کی ہے اور کرتے رہیں گے اور چاہئیے کہ دعا کے لئے یاد دلاتے رہو.اور بعض خطوط مسائل دریافت کرنے کے بارہ میں ہوتے ہیں پس جو مسئلہ ایک دفعہ تم کو کسی کے دریافت کرنے پر بتلایا جاوے تو ہمیشہ بے پوچھے لکھ دیا کرو.اور جو نیا مسئلہ ہو وہ دریافت کر لیا کرو.بعض خیریت دریافت کیا کرتے ہیں ان کو خیریت کی اطلاع دید یا کرو.اور بعض جواب نہیں چاہتے.وہ صرف اپنی یاد دہانی کے لئے خط لکھتے ہیں ان کو جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے.تاوقتیکہ وہ جواب طلب نکریں اور بعض خطوط ہمارے متعلق ہوتے ہیں.ہم پڑھ کر خود ہی جواب دیں گے اس بنا پر آپ نے فرمایا کہ حقہ کی نسبت ہمارا کوئی نیا فتویٰ نہیں ہے بہتر ہے کہ آہستہ آہستہ چھوڑ دو کہ جس میں تکلیف نہ ہو.تمہا کو کھانا ایک روز کا ذکر ہے کہ دارالامان میں کسی شخص نے ذکر کیا کہ تمباکو حضرت اقدس امام الائمہ مسیح موعود علیہ السلام نے آج تمباکو کے کھانے اور پینے کی حرمت کا فتویٰ دیا ہے چونکہ میں تمباکو یعنی زردہ پان میں بوجہ دانتوں کے درد کے کھاتا تھا.حرمت کا فتویٰ سن کر متفکر ہوا اور سوچا کہ اگر حضرت اقدس نے در حقیقت حرمت کا فتویٰ دیا ہے.تو چھوڑ دینا چاہئے.اس وقت میں سب کام چھوڑ کر حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت مبارک میں حاضر ہوا تو آپ نے میری آواز سن کر دروازہ کھول دیا.اور فرمایا صاحبزادہ صاحب کیسے آئے.میں نے عرض کیا کہ حضور نے تمباکو کی نسبت حرمت کا فتویٰ دیا ہے فرمایا نہیں.تم سے کس نے کہا.میں نے عرض کیا کہ فلاں شخص نے ابھی

Page 11

تذكرة المهدى 9 کہا ہے.حضرت اقدس علیہ السلام نے ان کو بلوایا اور دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ انہوں نے کسی عورت سے سنا ہے تب حضرت اقدس علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ سمجھنے میں غلطی رہی ہم نے تو کل یہ بیان کیا تھا کہ تمباکو پینے اور کھانے کی نسبت بہت آدمی دریافت کرتے ہیں کہ یہ حرام ہے یا مکروہ یا جائز سو ہماری جماعت کے لوگوں کو معلوم رہے کہ ہر ایک لغو چیز سے حتی الامکان بچتا اور پر ہیز کرنا لازم ہے ہم کوئی نئی شریعت نکالنا نہیں چاہتے.جو کسی چیز کی حلت و حرمت کا فتوئی بغیر ولا ئل اپنی طرف سے دیں.یہ تو ان دابتہ الارض مولویوں کا کام ہے کہ اپنی طرف سے نئی شریعت ایجاد کرتے ہیں.اور الٹا ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ گویا ہم مدعی نبوت ہیں وہ ذرا سوچیں تو معلوم ہو کہ مدعی نبوت در سالت کون ہے ہم یا وہ جس چیز کی حلت و حرمت کا ذکر شریعت میں نہ ہو اور آنحضرت سے ایک بات ثابت نہ ہو تو ہم خوامخواہ گھسیٹ گھساٹ کر شریعت میں لاڈالیں سوائے اس کے اور ہم کچھ نہیں کہتے کہ لغو کام ہے اگر یہ آنحضرت کے زمانہ میں ہوتا تو آپ ہی پیش از میں نسبت کہ اس کے لغو ہونے کا ہی حکم دیتے اور کچھ نہیں پھر فرمایا کہ تم کھاتے ہو میں نے کہا حضور قدر قلیل ایک یا دو رتی پان میں کھاتا ہوں فرمایا کہ کتنی مدت سے عرض کیا پانچ چھ سال سے فرمایا کیوں کھاتے ہو عرض کیا دانتوں کے درد کے سبب سے چونکہ کاپی لکھنے کے وقت منہ نیچے رہتا ہے تو نزلہ اور زکام کا زور ہو جاتا ہے یہ منہ میں رہتا ہے تو درد موقوف رہتا ہے.آپ نے ہنسکر فرمایا کہ چھوٹ نہیں سکتا میں نے عرض کیا کہ چھوٹ تو سکتا ہے لیکن دانتوں میں درد ہو جاتا ہے.فرمایا چند روز بیش کھاؤ (جس کو میٹھا تیلیا بھی کہتے ہیں) یہ بھی ایک زہر ہے جب ہر روز ہر مل جا دیں گے تو پھر یہ ہر دو خبیث مل کر چھوٹ جائیں گے میں نے پھر عرض کیا کہ چھوڑنے میں تو کوئی دقت نہیں صرف دانتوں کے درد کا خیال ہے حضور نے تو دیکھا ہے کہ رمضان شریف کے میں نے گیارہ روزے رکھے صرف دن کو زردہ نہیں کھایا

Page 12

تذكرة المهدى 10 اول رات کو کھایا جاتا تھا.کس قدر درد زور شور سے ہوا آپ نے فرمایا ہاں بیشک ہوا تھا.دست شفا ای رمضان شریف کا ذکر ہے کہ جب میرے دانتوں میں درد ہوا حضرت حکیم الامت مولانا نور الدین صاحب اور ڈاکٹر عبد اللہ صاحب نو مسلم نے بہت سی دوائیں لگائیں اور کھلا ئیں کچھ آرام نہ ہوا.جب سخت درد ہوا اور میری حالت درد سے متغیر ہوئی تو میں صبح ہی اٹھ کر حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا میرے درد کو دیکھ کر آپ بیتاب سے ہو گئے اور صندوق کھول کر کونین کی شیشی نکالی اپنے ہاتھ میں پانی ڈال کر جلدی جلدی گولی بنائی اور فرمایا منہ کھولو میں نے کھولا تو حضرت نے اپنے ہاتھ سے کونین کی گولی میرے منہ میں ڈالدی.فرمایا نگل جاؤ میں نگل گیا پھر پانی کا گلاس اپنے ہاتھ مبارک سے بھر کر لائے اور مجھے پلایا.پھر فرمایا کونین ہر ایک بیماری کے دورہ کو روکنے والی ہے خدا شفاء دے.پس دو منٹ کے بعد درد کو آرام ہو گیا پھر جو ایک دفعہ درد ہوا اور میں نے کو تین کھائی کچھ بھی فائدہ نہ ہوا تب میں نے جانا کہ حضرت اقدس علیہ السلام کے دست مبارک کی تاثیر تھی.پس خوردہ کا اثر ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مجھے نزلہ اور زکام کی بہت شکایت تھی چار برس یا کچھ کم و بیش میں اس مرض میں بتلا رہا.دودھ پینا خوشبو سونگھنا میرے لئے زہر تھا.ایک روز بعد نماز عشاء مسجد مبارک کی چھت کی شہ نشین پر حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام تشریف رکھتے تھے.اور سب احباب جیسے چاند کے چار طرف ستارے کوئی شہ نشین پر اور کوئی نیچے اور دائیں اور بائیں بیٹھے تھے آپ نے دودھ پینے کے لئے طلب کیا.اور ایک گھونٹ دودھ کا پی کر گلاس کو میرے ہاتھ دیدیا اور فرمایا پی لو میں نے عرض کیا کہ مجھ کو نزلہ اور زکام کی سخت شکایت ہے میں نہیں پی سکتا.اگر کسی وقت پی لیتا ہوں تو مجھے زہر ہو جاتا ہے.اور نزلہ بڑھ جاتا ہے فرمایا خیر پی بھی لوکا ہے کا زکام

Page 13

تذكرة المهدي حصہ اول و کام.میں نے ادب سے انکار نہ کیا اور گلاس پی لیا پھر مجھے اس کے بعد کبھی بھی نزلہ نہیں ہوا چاہے جتنا دودھ پیا اور جس وقت چاہا پیا اور اس سے پہلے یہ حالت رہتی تھی کہ اگر قدر قلیل بھی دودھ پی لیتا تھا تو پندرہ پندرہ ہیں بیس روز تک نزلہ رہتا تھا اور لکھنے پڑھنے سے بیکار ہو جاتا تھا.اور اب دودھ پی لیتا ہوں تو خدا کے فضل اور آپ کے پس خوردہ کی تاثیر سے کوئی شکایت نہیں ہوتی.یہ حضرت اقدس کے پس خوردہ کی تاثیر تھی جو اب تک اس کا اثر ہے.فیض روحانی اس پر مجھے ایک اور واقعہ اپنا ذاتی اور حضرت اقدس امام علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت کا اثر اور فیض روحانی یاد آگیا اور وہ یہ ہے کہ مجھ کو بدن کے دبانے کی بڑی عمدہ ترکیب یاد ہے میں نے ایک روز عرض کیا کہ مجھ کو بدن کا دبانا خوب یاد ہے فرمایا کہ تم کو تو ترکیب یاد ہوئی ہی ہے کہ مرید آپ کا بدن دباتے ہوں گے چونکہ آپ کو ملنے اور بدن مبارک دبوانے کی عادت تھی اور آپ اکثر سوتے کم تھے اور بہت کم لیٹتے تھے اور رات اور دن کا زیادہ حصہ مخالفوں کے رد اور اسلام کی خوبیاں اور آنحضرت ا کے ثبوت رسالت و نبوت اور قرآن شریف کے منجانب اللہ ہونے کے دلائل اور توحید باری تعالٰی اور ہستی باری تعالیٰ کے بارہ میں لکھنے میں گزرتا تھا اور اس سے جو وقت بچتا تو دعاؤں میں خرچ ہو تا.دعاؤں کی حالت میں نے آپ کی دیکھی ہے کہ ایسے اضطراب اور ایسی بیقراری سے دعا کرتے تھے کہ آپ کی حالت متغیر ہو جاتی.اور بعض وقت اسمال ہو جاتے اور دوران سر ہو جاتا.اس واسطے بعض وقت مجھ کو جسم مبارک دبانے کا عمدہ موقعہ مل جاتا اور میں بعض وقت دبانے کے بہانے سے کمر دبانے لگتا اور آپ کو گود میں لے لیتا.اس دبانے کی یہ تاثیر تھی کہ جب دبانے کا موقعہ مل جاتا تو آپ کی تاثیر ایسی غالب آتی کہ کئی کئی روز تک ایک لذت رہتی اور ماسوائے اللہ کے تمام شاخیں کٹ جاتیں اور اللہ تعالی کی محبت اور نمازوں میں ذوق شوق اور لذت اور سرور حاصل ہو جاتا میں

Page 14

تذكرة المهدي 12 نے عرض کیا کہ جس وقت حضور کے قدم مبارک وغیرہ دبانے کا موقعہ ملتا ہے تو یہ حالت ہو جاتی ہے مجھے ہر روز دبانے کی اجازت مل جائے ہنس کر فرمایا اچھا جب تم کو فرصت ہو دبایا کرو.اور ایک واقعہ اس وقت روحانی برکات اور آپ کی قوت اثر روحانی قدسی کے متعلق سناتا ہوں وہ یہ کہ میں حضرت اقدس امام ہمام علیہ الصلوۃ والسلام کے مکان کے اندر ایک طرف معہ اہل وعیال رہتا تھا.اور آپ نے وہ جگہ بتلا دی تھی اور اس سے اوپر کے چوبارہ میں آپ رہتے تھے دو ماه بعد سردی کا موسم شروع ہو گیا آپ عصر کے وقت اچانک میری جائے نشست میں رونق افروز ہوئے.اور پہلے ہی السلام علیکم فرمایا میں نے جواب وعلیکم السلام عرض کیا.فرمایا خیریت ہے اور کوئی تکلیف تو نہیں ہے اگر کوئی تکلیف ہو تو کہہ دیتا اگر نہ کہو گے تو تم تکلیف اٹھاؤ گے میں نے عرض کیا کہ جناب کی توجہ اور غریب نوازی سے کوئی بھی تکلیف نہیں ہے.اور حضرت اقدس علیہ السلام کا یہ دستور تھا کہ جب کوئی مہمان آتا تو دریافت فرماتے کہ کسی بات یا کسی شے کی تکلیف نہ اٹھانا اور بے تکلف کہ دینا زبانی موقع نہ ملے تو رقعہ تحریر کرلینا اور اگر تم نہیں کہو گے تو تم کو آپ تکلیف اٹھانی پڑے گی ہم تو بڑے بے تکلف ہیں پھر خاکسار سے فرمایا آج سے ہم بھی تمہاری ہمسائیگی میں آگئے ہیں چونکہ اب سردی کا موسم شروع ہو گیا ہے اوپر کے مکان سے اس نیچے کے مکان میں آگئے ہیں اور ہماری تمہاری چارپائی برابر برابر رہے گی صرف ایک دیوار بیچ میں ہے میں نے عرض کیا کہ حضور کی نوازش اور مہربانی ہے پھر فرمایا کہ اب بتلاؤ کتنے روز تمہارے ہاں بچہ پیدا ہونے کے ہیں میں نے عرض کیا کہ حضور نو ماہ پورے ہو کر دو روز زیادہ ہو گئے فرمایا جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو قمری مہینوں کے حساب ا سے ہوتا ہے اور نو مہینے سے جو دس دن او پر چلے جائیں یا جتنے روز زیادہ ہوں تو اس میں حکمت یہ ہے کہ مہینہ قمری کبھی ۲۹ دن کا اور کبھی ۳۰ دن کا ہوتا ہے تو جو

Page 15

تذكرة المهدى 13 ه اول دن زیادہ نو مہینے سے ہوتے ہیں تو وہ نو مہینے پورے ہو جاتے ہیں.ان دنوں میری چھوٹی لڑکی قانتہ نام پیٹ میں تھی اور اس کی نسبت ذکر تھا یہ بات فرما کر آپ تشریف لے گئے.دن بھر سے میرے خفیف سا بائیں مونڈھے سے لیکر نصف صدر میں درد تھا مجھے کچھ چنداں خیال نہ ہوا جب دس بجے تو وہ درد زیادہ بڑھنے لگا میں نے کچھ سینک کی درد کم نہ ہوا زیادہ ہی زیادہ بڑھتا گیا جب بارہ کے قریب رات گئی تو میں درد سے بے چین ہو گیا اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور میں دیوار سے کمر لگا کر بیٹھا اور درد شدت پکڑتا گیا اسی حالت میں مجھ پر ایک کشفی حالت طاری ہو گئی اور کشف میں میں نے دیکھا کہ پانچ فرشتے میری چارپائی پر میرے سامنے بیٹھے ہیں ایک فرشتہ نے کہا صاجزادہ کے درد بہت ہے دوسرے نے کہا ہاں درد بہت ہے.تیسرے نے کہا اس کا علاج کیا چوتھے نے کہا اس کا علاج یہ ہے کہ ہم سب تقسیم کرلیں پانچویں نے کہا اچھا پھر سب نے باہیں اوپر کی طرف کر کے انگڑائی لی اور مجھے بھی اشارہ سے کہا گویا تم بھی انگڑائی لو میں نے بھی اپنی باتیں اوپر کی طرف کر کے انگڑائی لی اور جس طرح انہوں نے اون مد کے ساتھ آواز نکالی) میں نے بھی دہی آواز نکالی.بس اس میں کوئی آدہا منٹ بھی نہیں لگا اور کشف جاتا رہا.اور وہ فرشتے غائب اور درد موقوف ہو گیا لیکن حصہ رسد درد کی کچھ کسک باقی رہ گئی اور آرام ہو گیا.میری بیوی جو میرے قریب دوسری چارپائی پر لیٹی پڑی تھی اور سوتی تھی میری آواز سن کر چونکی اور جاگ اٹھی کہنے لگی درد کا کیا حال ہے.اور یہ لمبی آواز کیسے نکالی.میں نے یہ سارا ماجرا سنایا پھر میں آرام سے سو گیا بعد نماز صبح حضرت اقدس پھر میرے مکان میں تشریف لائے دور سے "السلام علیکم" فرمایا اور حسب عادت میری صورت دیکھ کر ہننے لگے اور فرمایا کہ کیا حال ہے میں نے کہا رات کو میرے درد تھا اور اس قسم کا واقعہ گزرا فرمایا یہ کشف صحیح ہے ہم بھی اس وقت دیوار سے کر لگائے بیٹھے تھے اور ہمیں یہ الہام ہو ا وہ الہام مجھے یعنی خاکسار کو اس وقت یاد نہیں رہا.لیکن

Page 16

تذكرة المهدى 14 وہ الہام الہامات میں درج ہے.پھر میں نے حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب سے اس درد اور کشف اور صحت کا حال اور حضرت اقدس علیہ السلام کا تشریف لانا وغیرہ بیان کیا.تب حکیم الامت نے فرمایا کہ بے شک صحبت صالحین میں یہی برکت ہے.اور یہی مطلب حدیث جبرئیل سے صاف کھلتا ہے جو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ مسافر کی شکل میں جبریل کو دیکھا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت مجمع زیادہ ہو گا اور سب صحابہ رضی اللہ عنہم آپ سے مل کر بیٹھے ہونگے تو سب پر کشفی حالت طاری ہو گئی.اسی طرح تمہارے اور حضرت کے ایک دیوار بیچ میں تھی آپ کو بھی الہام ہو گیا اور تمکو بھی یہ برکت کشف و الهام حضرت کشف ہو گیا الحمد للہ علی ذالک غرض حضرت سید احسن امروہوی سلمہ کا اعلام الناس اقدس نے فرمایا کہ مولوی سید محمد احسن صاحب امرد ہی کو بلا لو دو چار قدم پر مولوی صاحب رہتے تھے میں مولوی صاحب کو بلا لایا تو ہنسکہ فرمایا حضرت مولوی صاحب آپ کا اس زردہ تمباکو کی نسبت کیا فتویٰ ہے.مولوی صاحب بہت ہے اور عرض کیا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب جو زردہ کھاتے ہیں انہوں نے سوال بنایا ہو گا فرمایا ہاں مولوی صاحب نے عرض کیا کہ اس تمباکو کی نسبت بہت فتوے علماء کے لکھے گئے ہیں اور کتابیں بھی لکھی ہیں کوئی حرام کہتا ہے کوئی مکروہ کوئی کچھ کوئی کچھ اور آج کل اس کا اسقدر زور ہے کہ کوئی بچا ہو گا.کوئی کھاتا ہے کوئی پتا ہے کوئی سونگھتا ہے اس کا رواج اس زمانہ میں بہت ہے.مولوی درویش بھی بچے ہوئے نہیں.اور حضور کے سامنے میری کیا مجال کہ اس کا فتوی بیان کروں آپ نے فرمایا کہ آپ کی تحقیق زبردست تحقیق ہے.مولوی صاحب نے عرض کیا کہ الامر فوق الادب تمباکو میری تحقیق میں مفطر ہے جیسے افیون مخدر ہے حرمت کی کوئی وجہ پائی نہیں جاتی شریعت میں اس کا کوئی ذکر نہیں سوائے اس کے کہ اس کو

Page 17

تذكرة المهدي 15 لغویات میں رکھا جاوے حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہاں ہمارا بھی یہی خیال ہے.مولوی سید محمد احسن صاحب کو آپ نے مفتی بنا دیا تھا جو فتویٰ حضرت اقدس علیہ السلام کے پاس آتا وہ مولوی صاحب کے پاس جواب کے لئے حضرت اقدس بھیج دیا کرتے تھے.مجھے یاد ہے کہ جب حضرت اقدس نے اپنے دعوے صحیح موعود میں صرف ایک اشتہار مختصر نکالا تھا وہ مولوی صاحب کے پاس بھوپال پہنچ گیا اور مولوی صاحب نے تصدیق کی اور ایک کتاب اعلام الناس حضرت اقدس کے دعوئی کے ثبوت میں لکھی اور چھپوا کر لدھیانہ حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت مبارک میں پہنچے تو حضرت اقدس نے مجھ سے فرمایا کہ پڑھ کر سناؤ چند ورق تو میں نے سنادے اور کچھ حصہ منشی ظفر احمد صاحب ساکن کپور تھلہ نے سنائے اور باقی حصہ مولوی محمود حسن صاحب دہلوی حال مدرس مدرسہ پٹیالہ نے سنایا حضرت اقدس علیہ السلام نے مضمون کو سن کر فرمایا کہ اس مضمون میں ہمارا اور مولوی صاحب کا توارد ہو گیا اور جو ہم نے لکھا ہے وہی مولوی صاحب نے لکھا دیکھو کیسی صحیح فراست ہے اور مولوی صاحب کیسے راسخ فی العلم ہیں کہ جو ہمیں خدا تعالی نے سمجھایا وہ مولوی صاحب بھی سمجھ گئے.حالانکہ نہ ابھی ہماری طرف سے کوئی کتاب شائع ہوئی اور نہ کوئی اشتہار ملل نکلا ہے اور نہ کوئی اس بارے میں ہماری تصنیف دیکھی ہے یہ صرف روح القدس کی تائید ہے مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضور میری عمر اتنی گذر گئی میں نے باوجود ہندوستان میں رہنے اور بھوپال جیسے شہر میں جو پانوں کی کان ہے اور کھانے والے شوقین ہیں کبھی پان نہیں کھایا صرف اس حالت میں کہ کہیں دعوت ہوئی اور داعی نے پان رکھدیا تو کھا لیا اور زردہ کا تو ذکر ہی کیا ہے حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے ہنس کر فرمایا کہ بڑا کمال کیا جو تم بچے رہے ہندوستان میں تو اس کا ایسا رواج ہے کہ تواضع ہی اس کی رہ گئی ہے علی ہذا القیاس ہمارا بھی یہی حال ہے کہ ہمارے گھر میں والدہ محمود ہندوستانی اور ہندوستانی کیسی دہلی کی اور دہلی کی بھی کیسی

Page 18

تذكرة المهدي 16.خاص قلعہ والوں میں جنکے تعلقات نوابوں شہزادوں سے ہیں اور وہ پان کھاتی ہیں اور بہت سے ہندوستانی مرد عورتیں مہمان آتے ہیں اور پان کا استعمال کرتے ہیں اور ہمیں ان کے لئے پان امر تسر لاہور سے منگانے پڑتے ہیں پان کھانے کا خیال بھی نہیں آتا ہاں دو چار ماہ میں کسی ایسی حالت میں اتفاق ہو جاتا ہے کہ جو کبھی بیماری سے منہ کا مزہ بگڑ جاتا ہے اور وہ بھی والدہ محمود دید یتی ہیں اور کہتی ہیں کہ پان کھالو منہ کا مزہ درست ہو جائے گا اور زردہ افیون کا تو کیا کام ہے ایک دفعہ بیماری میں ایک طبیب نے اور دوائیوں میں افیون شامل کر کے خفیف سی دیدی تھی سو ایک ہی دفع کھانے سے ہماری طبیعت ایسی جگڑی کہ قریب الموت حالت ہو گئی تھی.بات بیچ کی بیچ میں رہ گئی اور کچھ فیصلہ نہیں ہوا کس لئے کہ خواجہ کمال الدین صاحب لاہور سے آگئے مولوی محمد علی صاحب ایم.اے اور خواجہ کمال الدین صاحب نے ملاقات کی اور ان سے گفتگو ہونے لگی.جوش تبلیغ و تواضع ایک روز کا ذکر ہے کہ قصیدہ اعجاز احمدی آپ لکھ رہے تھے اور اس کی کاپی غلام محمد کاتب امرتسری لکھ رہا تھا مجھے بھی بلوایا اور فرمایا کہ تم کاپی لکھو تاکہ جلدی یہ قصیدہ چھپ جا.اور فرمایا کہ کاپی ہمارے پاس بیٹھ کر لکھو میں نے عرض کیا بہت اچھا آپ ایسا جلدی قصیدہ تصنیف کرتے تھے اور مجھے دیتے جاتے تھے کہ میں ابھی مضمون ختم نہیں کر سکتا تھا جو آپ اور مضمون دیدیتے تھے رات کے گیارہ بج گئے آپ کے لئے کھانا آیا فرمایا شام سے تو تم ہیں لکھ رہے ہو کھانا نہیں کھایا ہو گا آؤ ہم تم ساتھ کھائیں.ہمیں تو اسلام کی خوبیاں اور قرآن شریف کے منجانب اللہ ہونے کے دلائل دیتے اور ثبوت نبوت محمد اللہ میں یہاں تک استیلا اور غلبہ ہے کہ ہمیں نہ کھانا اچھا لگتا ہے نہ پانی نہ نیند جب بھوک اور نیند کا سخت غلبہ ہوتا ہے تو ہم کھاتے ہیں یا سوتے ہیں.پھر میں نے اور حضرت اقدس علیہ السلام نے ایک دستر خوان پر کھانا کھایا جب کھانا کھا چکے فرمایا یہ دن بڑے ثواب اور جہاد

Page 19

تذكرة المهدي 17 کے ہیں.اور اب تو لوگ مخالفت کرتے ہیں لیکن ایک زمانہ آئے گا کہ لوگ آج کے دن کو یاد کریں گے اور افسوس کریں گے اور پچھتائیں گے میں نے عرض کیا کہ حضور ہمیشہ یہی قاعدہ رہا ہے کہ اللہ والوں سے معاصرت کی وجہ سے لوگ مخالفت کیا ہی کرتے ہیں اور کرتے رہتے ہیں.آپ کی بھی مخالفت اس وقت بہت کرتے ہیں لوگ مردہ پرست ہیں آپ کی وفات کے بعد آپ کی قبر مبارک پر پھول اور مٹھائیاں اور غلاف چڑھائیں گے اور نذر نیاز لا ئیں گے فرمایا لا حول وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ وَاسْتَغْفِرُ الله رَبِّي مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وأتُوبُ اِلَیدِ ان نوں مجھے زکام کی وجہ سے کھانسی ہو رہی تھی بارہ بجے ہونگے بار بار کھانسی اٹھتی تھی فرمایا آج صاجزادہ صاحب آپ کو کھانسی ہو رہی ہے کیا سبب ہے میں نے عرض کیا کہ شام سے میں حضور اقدس کی خدمت میں حاضر ہوں پان نہیں کھایا مجھے حضور اجازت دیں تو میں گھر سے پان کھا بھی آؤں اور دو چار گلوریاں ساتھ لے آؤں فرمایا جاؤ نہیں لکھے جاؤ کاپی کی ضرورت ہے پریس میں چھاپ رہے ہیں دیر ہو جائے گی میں پان لاتا ہوں یہ فرما کر بالا خانہ سے نیچے کے مکان میں گئے مجھے آپ کے بولنے کی آواز آتی تھی فرماتے تھے جلد بتلاؤ محمود کی والدہ کہاں ہیں اتنے میں حضرت محمود صاحب کی والدہ جناب ام المومنین آگئیں حضور نے فرمایا صاحبزادہ صاحب کا پی لکھ رہے ہیں وہ گھر جائیں گے تو دیر ہو جائے گی آٹھ دس پان معہ مصالحہ لگا کر دو تو حضرت ام المومنین سلمها اللہ تعالی نے دس پان ثابت لگا کر دئے اور ایک تھائی میں رکھ کر لائے میں نے پان تو منہ میں ڈال لیا الانچی بھی کھالی اور چھالیہ بھی چونکہ زردہ نہیں تھا سوچنے لگا حضرت اقدس علیہ السلام ہے اور فرمایا سوچ میں کیوں پڑ گئے میں نے عرض کیا کہ زردہ نہیں ہے فرمایا زردہ کیا میں نے عرض کیا کہ تمباکو فرمایا تھا کو کو زردہ کیوں کہتے ہیں میں نے عرض کیا کہ چونکہ تمبا کو حقہ میں پیا جاتا ہے جو کھاتے ہیں پینے سے کراہت کرتے ہیں اس کا نام رفع کراہت کے لئے زردہ رکھ لیا ہے.اس

Page 20

تذكرة المهدى 18 نام میں ذرا تکلف اور نزاکت ہے اور اس کا رنگ بھی زرد ہوتا ہے اس لئے زردہ نام رکھ لیا.فرمایا ہندوستانی بھی تکلف اور نزاکت پر مرتے ہیں.ان کو معاد کا کوئی فکر نہیں ہے فرمایا اگر نہ کھاؤ تو کیا ہو میں نے عرض کیا کہ پہلے جب میں خالی بغیر زردہ کے پان کھاتا تھا تو زردہ ذرا سا بھی پان میں پڑ جاتا تھا یا چھالیہ میں مل جاتا تو چکر آجاتا تھا اور اب جو دانتوں کے درد کے واسطے کھانے لگا تو بغیر زردہ کے مزہ ہی نہیں آتا ہے پان پھیکا بد مزہ معلوم ہوتا ہے.فرمایا ہاں کھانے والے یہی کہا کرتے ہیں پھر دوبارہ حضور جلدی جلدی بالاخانہ سے نیچے زنانہ میں گئے اور حضرت ام المومنین سے فرمایا کہ پانوں میں زردہ تو نہیں ہے صاحبزادہ صاحب منہ میں پان لئے بیٹھے ہیں جلدی زرده در جلدی میں حضرت اقدس علیہ السلام ہاتھ ہی میں زردہ لے کر آئے اور فرمایا لو صاحبزادہ صاحب زردہ بھی لو کسی اور چیز کی ضرورت ہو تو وہ بھی کہو میں نے عرض کیا کہ روشنی کم ہے پھر حضور نیچے مکان میں تشریف لے گئے اور دس بارہ موم بتی لیکر آئے اور فرمایا تم لکھے جاؤ ہم روشن کردیں گے سو حضرت اقدس نے اپنے دست مبارک سے چار بھی یکدم روشن کر دیں اور باقی میرے پاس رکھ دیں اور آپ قصیدہ لکھنے میں مشغول ہو گئے.الغرض میرا چار روز تک لدھیانہ میں قیام رہا اور جہاں بھائی صاحب ٹھہرے ہوئے تھے وہیں میں بھی ٹہرا چار روز کے بعد ہم دونوں بھائی سرسادہ کو روانہ ہوئے اور جو مقدمہ کی نسبت بات نکلی تھی وہ بھی درست ہو گئی.راسخ دہلی سرسادہ سے سہارنپور سات کو س ہے وہاں گیا اسٹیشن پر ایک صاحب امیر کبیر کی عالیشان کو ٹھی اور باغیچہ ہے ان سے میرا تعارف تھا اور انہوں نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ جب سہارنپور آؤ تو مجھ سے ضرور ملنا.اور یہ وعدہ دار الامان میں ہوا تھا ایک دفعہ وہ دار الامان معه مولوی عبدالرحمن صاحب راسخ دہلوی متوفی گئے تھے ان مولوی عبد الرحمن صاحب سے

Page 21

تذكرة المري 19 بھی میرا اس وقت کا تعارف اور ملاقات تھی کہ جب میں بھی پڑھتا تھا اور یہ بھی پڑھتے تھے مولوی صاحب کے ہاتھ میں درد تھا یہ زیادہ بول نہیں سکتے تھے.اسی واسطے دوسرے صاحب حضرت اقدس کی خدمت میں بار بار حاضر ہوتے تھے اور حضرت اقدس علیہ السلام کے ساتھ حسن عقیدت رکھتے تھے.مگر مسیح موعود حضرت اقدس کو نہیں مانتے تھے اور نہ اب تک مانتے ہیں اور جب دہلی میں مولوی محمد بشیر متوفی سے مباحثہ تھا تب بھی برابر اس مخالفت میں حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے.ایک دفعہ جناب مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوئی رضی اللہ عنہ نے دہلی میں مباحثہ سے ایک روز پیشتر قصیده نعتیہ مندرجہ براہین احمدیہ پارسی لب و لہجہ میں سنایا تھا اس وقت سے ان کی حالت ذوق و شوق زیادہ بڑھ گئی اور پھر دوسری بار دوسرے روز حضرت مولوی صاحب رضی الله : درخواست کی کہ ایک دفعہ اور وہی قصیده ای طرز میں سنائیں مولوی صاحب نے پھر سنایا مولوی صاحب کا پڑھنا عجیب و غریب پڑھنا ہو تا تھا فارسی پڑھتے تو بالکل فارسیوں کے لب ولہجہ میں کہ گویا کوئی ایرانی یا شیخ سعدی و نظامی وغیرہ بول رہے ہیں.اور جو اردو پڑھتے تو اسی لب ولہجہ میں اور جو عربی پڑہتے تو بالکل عرب معلوم ہوتے تھے اور جو پنجابی نظم و نثر پڑہتے تو ہو بہو پنجابی ادا میں اور جو انگریزی پڑھتے تو عین انگریزی طرز میں پڑھتے تھے کہ گویا ایک یورپین انگریز بول رہا ہے اور جو قرآن شریف پڑھتے تو بالکل عرب معلوم ہوتے تھے اور جو وعظ یا خطبہ پڑھتے تو اس میں کمال تھا کہ سننے والے ذوق و شوق میں محو و مستغرق ہو جاتے تھے اور آپ کی تحریر تو بے نظیر تھی.وہ تو موجود ہی ہے اس کا بیان کیا ہو سکتا ہے.پڑھنے والوں پر خود ظاہر ہے دہلی کے مباحثہ کی بھی عجیب و غریب کیفیت ہے اس مضمون کو ختم کر کے لکھوں گا انشاء اللہ تعالٰی.جناب مفتی محمد صادق صاحب نے ایک عجیب و غریب تقریر دار الامان میں کی تھی جس کو سن کر مولوی راسخ بھی اور یہ صاحب بھی جن کا ذکر ہو رہا ہے عش

Page 22

تذكرة المهدي 20 " عش کر گئے.اور ان پر ایک عالم استغراق پیدا ہو گیا تھا.اور واہ واہ اور سبحان اللہ کے نعروں کا شور ہو گیا.اور حضرت اقدس علیہ السلام بھی ان سے بہت محبت شفقت سے ملتے تھے انہوں نے یہ سوال کیا تھا کہ آپ کا دعوئی امتی ہونے کا بھی ہے اور نبی ہونے کا بھی اور آنحضرت ا خاتم النبین ہیں میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی ذرا سمجھا دیں حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا یہ تو نهایت آسان ہے لوگوں نے بے سمجھی سے اس کو مشکل بنا لیا پھر وہ تقریر کی جو الوصیت میں طبع ہو چکی ہے اور اس کے سوا بہت سی باتیں ہوئیں.سہارنپور میں مباحثہ پس میں اس وعدہ کے مطابق سہارنپور گیا یہ صاحب نهایت بشاشت اور تواضع سے ملے ایک مولوی صاحب بھی سہارنپور کے آگئے.وہ تو مخالفت سلسلہ میں پر جوش تھے اگر چہ ان صاحب نے جنکا ذکر خیر ہو رہا ہے حضرت اقدس علیہ السلام کی بہت ہی تعریف کی.لیکن ان کی پیشانی کا بل نہ اترا.مجھے فرمانے لگے کہ مرزا صاحب کے مسیح موعود یا مہدی ہونے کا ثبوت کیا ہے؟ میں نے کہا کہ مولوی صاحب قاعدہ مناظرہ کا یہ ہے کہ بعض سوال جواب کا قائم مقام سمجھا جاتا ہے مولوی صاحب نے کہا ہاں پس میں نے کہا کہ اسی بنا پر آپ سے سوال ہے کہ آنحضرت محمد مصطفیٰ کی نبوت ورسالت کا آپ کے پاس کیا ثبوت ہے فرمانے لگے کہ قرآن شریف نازل ہوا قرآن شریف نے بتلایا ہے کہ آپ نبی و رسول ہیں.میں نے کہا مولوی صاحب آپ کو دلیل اور دعوئی میں فرق نہیں معلوم ہوتا کہ دعوی کیا ہوتا ہے اور دلیل اور ثبوت کیا ہوتا ہے آپ دعوئی کو بھی دلیل ہی جانتے ہینی میں نے دلیل پوچھی تھی اور ثبوت دریافت کیا تھا آپ نے اس کو چھوڑ کر ایک اور دعوئی پیش کر دیا جو محتاج ثبوت ہے اب آپ کو دو مشکل پیش آئیں گی.ایک آنحضرت ﷺ کی نبوت کی دلیل.اور دوسری قرآن شریف منجانب الله اور کلام الہی ہونے کا کیا ثبوت ہے.اور کس دلیل سے آپ اس کو کلام الہی

Page 23

تذكرة المهدي 21 جانتے ہیں.اور اگر یہی دعوئی آپ کے نزدیک دلیل ہے.تو آپ یاد رکھیں کہ حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے لئے بھی یہی ثبوت کافی ہے کہ آپ پر بھی کلام الہی نازل ہوا.مولوی صاحب اس وقت کچھ ایسے حیران ہوئے کہ ششدر رہ گئے اس کا جواب تو نہ بن پڑا کچھ صرف نحو میں گفتگو کرنے لگے.میں نے کہا مولوی صاحب بات ٹھکانہ کی چھوڑ کر آپ صرف دنحو میں جاپڑے آپ یا د ر کھیں کہ صرف و نحو اگرچہ ایک حد تک اچھا ہے لیکن اس سے استدلال پکڑنا صحیح نہیں ہے کس واسطہ کہ جتنے مذہب اسلام میں پیدا ہوئے وہ صرف و نحو کے ذریعہ سے ہی پیدا ہوئے ہیں اور صرف و نحو کی بناہی سماع پر زیادہ رکھی گئی ہے اور جہاں صرفی و نحوی رہ جاتا ہے تو مثلاً کہتا ہے اور اس کو قرآن شریف یا عرب کا کلام نظیر آیا شعر یا مصرع قدیم شعرا کالا نا پڑتا ہے پس بہتر ہے کہ میں آپ کے صرف و نحو کے جواب میں ایک آیت قرآن شریف کی اور ایک حدیث شریف پڑھ دیتا ہوں اس پر مولوی صاحب خفا ہو کر اٹھ کر چلے گئے.پھر کئی بار ملے لیکن کوئی بات چیت نہیں کی برابر سے ہو کر نکل گئے.دوسرا مباحثہ اور جھوٹی کرامتوں کے مدعی پھر میں شہر میں گیا ایک صاحب محمد شفیع سے شاہ ولایت کے محلہ میں ملاقات ہوئی اور یہ ہمارے رشتہ دار تھے.اور وکیل بھی اور مختار کاری کا پاس بھی کئے ہوئے مجھ سے السلام علیکم کی اور کہا کہ اب تو آپ قادیان میں ہی رہنے لگے اور سرسادہ سہارنپور چھوڑ دیا.میں نے کہا کہ سر سادہ سہارنپور چھوڑا تو نہیں یہاں آتا جاتا ہوں.ہاں سکونت مستقل قادیان میں ہے.کہا قادیان کا کیا حال ہے میں نے کہا اچھا حال ہے دن دونی رات چوگنی ترقی ہے.حضرت اقدس علیہ السلام کے مبائعین کا سلسلہ روز بروز تحریری اور دست بدست حاضری جاری ہے.ہر ملک کے لوگ جنکا ہم نے نام بھی نہیں سنا تھا وہاں آتے ہیں اور بیعت ہوتے ہیں اور بعض بد بخت ویسے کے ویسے ہی

Page 24

تذكرة المهدي 22 اول نا مراد چلے جاتے ہیں.کہا کرامت بھی دکھاتے ہیں میں نے کہا ہاں کرامت بھی منهاج النبوت پر دیکھنے والے دیکھتے ہیں مگر بد قسمت اس سے بھی فائدہ نہیں اٹھاتے اور قساوت قلبی بڑھ جاتی ہے.کہا ہم تو جب جانیں کہ جو کرامت ہم چاہیں وہ دکھا ئیں میں نے کہا اقتراحی کرامت اور نشان جائز نہیں ہیں اور جنہوں نے اقتراحی نشان مانگا وہ بے نصیب رہے.مجھے یاد ہے کہ حیدر آباد دکن - ایک مولوی شیعہ نے ایک خط حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا اور لکھا کہ کرامت دکھاؤ.اگر تم مسیح موعود ہو.حضرت اقدس علیہ السلام نے عاجزی سے فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب ان کو جواب لکھ دو کہ نشان اقتراحی جائز نہیں.ہاں نشان یا کرامت مانگنا تو درست ہے مگر اس طور سے نشان طلب کرنا کہ فلاں بات ہو اور فلاں نشان یہ درست نہیں ہے.اور نہ یہ کسی نبی کے وقت میں ہوا.قرآن شریف اقتراحی نشان مانگنے والوں کی تکذیب کرتا ہے اور جس نے اقتراحی نشان مانگا وہ مردود رہا.اقتراحی نشان اس واسطہ مکروہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مالک ہے مملوک نہیں ہے وہ جو چاہے اپنی قدرت کے متعلق یا اپنے رسول کے متعلق یا کسی اور کے متعلق نشان دکھلاوے.پس یہ اول الذکر سہارنپوری کہنے لگے کہ ہم تو جب ہی مانیں کہ جب ہماری مرضی اور ہمارے کہنے کے بموجب کرامت دکھا دیں میں نے کہا تم تو حافظ قرآن شریف ہو اور پڑھے لکھے بھی ہو کوئی آیت ایسی پیش کرو جس میں یہی مضمون اقتراحی نشان کا ہو اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ دیکھو حضرت شرف الدین بو علی قلند ر پانی پتی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس چند ایک عورتیں مسلمان اور ہندو آئیں انہوں نے کہا کہ حضرت ہمارے اولاد نہیں ہوتی ہے اولاد در - قلندر صاحب اس وقت حلوہ کھا رہے تھے.پنے آگے سے ایک لقمہ حلوہ کا سب کو دیا اور کہا لو تمہارے بیٹے ہی بیٹے ہوں گے.دختر نہیں ہوگی.ان سب عورتوں نے تو حلوہ کھالیا.لیکن ایک ہندو عورت نے حلوہ پس خوردہ نہیں کھایا اور واپس چلی گئی.اور ایک جھاڑ میں وہ لقمہ حلوہ کا

Page 25

تذكرة المهدي 23 حصہ اول ڈال دیا قلندر صاحب کی توجہ اور عطیہ سے نو مہینے میں ان سب عورتوں کے جنہوں نے حلوہ کھایا تھا لڑ کے ہو گئے.اور وہ عورت جس نے جھاڑ میں لقمہ ڈال دیا تھا فرزند نہ ہوا وہ عورت بہت پچھتائی جب وہ سب عورتیں اپنا اپنا بچہ لیکر قلندر صاحب کی خدمت میں چلیں وہ عورت بھی ان کے ہمراہ ہوئی اور جب اسی جھاڑ کے پاس آئی جہاں وہ لقمہ حلوہ پس خوردہ قلند ر صاحب ڈالدیا تھا.تو اس جھاڑ میں سے بچہ کے رونے یعنی چیاؤں چیاؤں کی آواز آئی سب عورتوں نے تعجب سے اس جھاڑ میں غور سے دیکھا تو ایک بچہ خوبصورت رو رہا ہے اور انگوٹھا چوس رہا ہے اس عورت نے کہ جس نے لقمہ حلوہ کا ڈالدیا تھا کہنے لگی کہ ہائے ہائے بڑا غضب ہوا.حضرت قلندر صاحب کا جھوٹا حلوہ تم نے تو کھا لیا تھا مگر میں نے چونکہ ہندو تھی یہ لقمہ ہاتھ میں لئے ہوئے چلی آئی اور اس جھاڑ میں ڈال گئی یہاں یہ اس جھاڑ میں ہی یہ بچہ پیدا ہو گیا اگر میں کھا لیتی تو تمہاری طرح میرے پیٹ سے بھی یہ بچہ پیدا ہو جاتا پس اس نے وہ بچہ گود میں اٹھا لیا اور چھاتی سے لگایا پس بچہ چھاتی سے لگانا تھا کہ دودھ پستان سے جاری ہو گیا.وہ عورت بھی خوش خوش سب عورتوں کے ساتھ قلندر صاحب کی خدمت میں نذر و نیاز لیکر حاضر ہوئی.میں نے کہا کہ ایسی لغو اور سراسر کذب افترا سے بھری ہوئی کرامتوں تمہارا ایمان ہے اچھا یہ بتلاؤ کہ وہ ہندو عورت مسلمان ہوئی یا نہیں.کہنے لگے کہ مسلمان تو نہیں ہوئی پھر میں نے کہا کہ کرامت کے دکھلانے کا فائدہ کیا ہوا.کرامت یا نشان تو اسی موقعہ پر خدا تعالی دکھلاتا ہے کہ جہاں اسلام کا فائدہ ہویا اللہ جل شانہ کے وجود اور اس کی ہستی پر ایمان لایا جاوے یا جس کے ہاتھ پر نشان ظاہر ہوا اس کی تصدیق متصور ہو پس ایسے نشان کا فائدہ کہ نہ اللہ تعالٰی اور اس کی ہستی اور ذات واجب الوجود اور توحید پر ایمان ہو اور نہ صاحب کرامت کی کوئی صداقت ظاہر ہو اور نہ اسلام لایا جاوے.جس پر مدار نجات ہے؟ وہاں سوائے نہیں نہیں کے اور کچھ جواب ہی نہیں تھا.میں نے دیکھا کہ سہارنپور کی

Page 26

تذكرة المهدي 24 کچھ ایسی سخت زمین اور قساوت قلبی میں بڑھی ہوئی ہے کہ جس نے یہودیوں کو بھی طاق میں بٹھایا.سهارنپور کی قساوت اور اہل سہارنپور آپ پہلے پرانے عقیدوں پر ایسے قدم جمائے ہوئے ہیں کہ کسی قسم کی تبدیلی ان میں نہیں ہوئی نہ یہ لوگ انبیا سے واقف نہ سنت اللہ سے واقف نہ منہاج نبوت سے خبردار کچھ کند ذہن اور ایسے نبی اور پلید ہیں کہ سوائے مجنونوں اور پاگلوں یا نفس پرست مولویوں کے اور کسی کو کچھ سمجھتے ہی نہیں.اگر ولی ہیں تو یہ ہیں اور جو کچھ ہیں تو یہ ہیں.رات اور دن خوردنوش یا مقدمات کا فکر ہے جو شخص ایک قدم اٹھالتا ہے وہ دوسرا بھی اٹھا کر آگے رکھ لیتا ہے یہاں کے مولویوں کا یہ حال ہے کہ دوسروں کو کافر بنانے کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں یہ لوگ ایسے دین کے معاملہ میں لنگڑے لولے ہیں کہ انہوں نے گھر کی چار دیواری سے باہر قدم نکالا ہی نہیں جوں اندھیری کو ٹھری میں بند ہوئے تادم مرگ وہیں رہے اور مرکے اندھیری گور میں جاپڑے یہاں ایک وکیل صاحب ہیں مولوی بھی ہیں اور منطقی اور فلسفی بھی ہیں وہ ایک دفعہ حضرت اقدس امام علیہ السلام کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے اور کچھ کسی قدر حسن عقیدت بھی ہوئی تھی.لیکن جب حضرت اقدس امام علیہ السلام نے کتاب نور الحق عربی میں لکھی اور تحدی کی کہ اس کی مثل کوئی پیش کرے اور پانچ ہزار روپیہ انعام لے تو ان کا عقیدہ جاتا رہا کیوں عقیدہ جاتا رہا اس واسطے کہ کتاب کے نظیر لانے میں تحدی کی بس قرآن شریف کی عزت گھٹا دی واہ واہ ہنر کو عیب جاننا اور بھلے کو برا سمجھنا سہارنپور والوں ہی کا کام ہے.اس وقت مجھے یہ آیت یاد آئی.مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَولَك ذَهَبَ اللهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لا يُبْصِرُونَ صُمٌّ بُكُمُ عُمَى فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ - مجھ سے ان کی اس طرح باتیں ہوئیں.

Page 27

تذكرة المهدي 25 تیسرا مباحثہ ایک وکیل سے وکیل صاحب : آپ کہاں سے دارالامان سے آرہا ہوں.آرہے ہیں.سراج الحق : میں وکیل صاحب : اب بھی آپ کا وہی عقیدہ ہے.سراج الحق : لاحول ولا قوة الا بالله - عقیدت روز بروز درست ہونے کا ہے اور زیارت کا خاص وقت ہے نہ عقیدہ جانے کا وہ کونسی بات ہے جس سے عقیدت وارادت میں فرق آئے.وکیل صاحب : ایک کتاب نور الحق مرزا صاحب نے جب سے لکھی ہے تب سے میں تو بے عقیدہ ہو رہا ہوں.سراج الحق : آپ کا پہلے عقیدہ کب تھا.وکیل صاحب : تھا تو سہی لیکن اب نہیں.سراج الحق : نہ پہلے تھا نہ اب ہے اگر تھا تو وہ ہونے میں شمار نہیں وہ نقش بر آب کا معاملہ ہے پھر میں نے وہ آیت جو ابھی لکھی گئی ہے پڑھ کر سنائی اور کہا کتاب نور الحق میں ایسی کیا بات ہے جس سے عقیدت میں فرق آگیا.وکیل صاحب : ہمارے پاس اسلام میں کچھ نہیں تھا.لے دیکے ایک قرآن شریف تھا جس کو ہم غیر مذہب والوں کے سامنے پیش کیا کرتے تھے اور جب سے نور الحق کتاب مرزا صاحب کی نکلی قرآن شریف بھی ہمارے ہاتھ سے جاتا رہا ہم اس کو بھی پیش نہیں کر سکتے نور الحق کی تحدی کے ساتھ قرآن شریف کی تحدی بھی خاک میں مل گئی.(معاذ اللہ ) سراج الحق : استغفر الله قرآن شریف نہ پہلے آپ کے ہاتھ میں تھا اور اب تو بقول آپ کے کیوں ہونے لگا نور الحق سے تو قرآن شریف کی عزت دو بالا ہو گئی اور جہاں جہاں قرآن سے لوگوں کی آنکھوں میں خیرگی اور تیرگی تھی وہ اب نور الحق قرآن شریف کے نور نے اٹھادی جس چشمہ سے محمد الرسول اللہ

Page 28

تذكرة المهدى 26 حصہ اول نے پانی پیا اسی چشمہ سے احمد مہدی احمد مسیح علیہ السلام نے پانی پیا.جب ایک تحدی ہمارے ہاتھ میں تھی اور اب دو تحدیاں ہو گئیں جو سردار ایک کام کرے اور اس کا غلام بھی کرے تو اس سردار کی عزت جاتی ہے یا بڑھتی ہے باپ بیٹے کا کام تو دو نہیں ہو سکتے بیٹے کے کام سے باپ خوش ہو گا یا ناراض آپ تو جانتے ہی ہیں کہ غلام در اصل بیٹے کو کہتے ہیں اور کسی کا مصرعہ ہے.اگر پر رنہ تواند پسر تمام کند سو یہاں تو بیٹے نے بھی کیا اور باپ نے بھی اس میں نقصان کیا ہوا.آپ تو تصوف میں بھی دم بھرتے ہیں کیا متصوفین کا خصوصاً اور عامہ مسلمین کا عموماً یہ عقیدہ نہیں ہے کہ كَرَامَةُ الْوَلِي مُعْجِزَةُ النَّبِيِّ - ولی کی کرامت نبي کا معجزہ ہے.اور جو معجزات اور خوارق عادات رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے ظہور میں نہیں آئے وہ آپ کے متبعین اولیاء اللہ سے صادر ہوئے اور ہو رہے ہیں اور ہوں گے.وکیل صاحب : نہیں صاحب نہیں یہ تو ایسی مثال سمجھئے کہ جیسے کوئی کسی کی پگڑی مین بازار میں اتار لے اور کہے کہ میں تو تیرا دوست ہوں.سراج الحق : نہیں صاحب نہیں یہ تو ایسی مثال ہوئی کہ باپ نے ایک محل بنایا اور بیٹا بعد از وفات کھڑا ہوا اور اس کو اور عمدہ جلا دی غور کیجئے کہ شاہ جهان بادشاہ نے جامع مسجد دہلی بنوائی اور مسجد تو تمام ہو گئی لیکن اس کے صحن کے دالان باقی رہ گئے تھے وہ اس کے بیٹے یا پوتے نے بنوادی اب آپ کہیں کہ مسجد خراب کردی برباد کر دی شاہ جہان کا نام ڈبو دیا مسجد دیکھنے کے قابل نہیں رہی.بدصورت ہو گئی اور اب تھوڑے روز کا ذکر ہے کہ نواب رامپور کلب ملیحان نے اس جامع مسجد کی مرمت کے لئے ایک لاکھ روپیہ کے قریب بھیجا اور مرمت کرائی اب آپ کہہ سکتے ہیں کہ مرمت نہیں ہوئی بلکہ ڈھائی پھوڑ دی فرش بگاڑ دیا.اور دیواروں میں جو اور عمدہ اور پہلے سے بھی خوشنما پتھر لگا دیئے یہ

Page 29

تذكرة المهدي 27 بھدے اور خراب لگا دیئے آپ اسی سمجھ پر وکالت کرتے ہونگے مولویت اور فلسفیت تو آپ کی خوب معلوم ہو گئی بنر بچشم عداوت بزرگتر عیب است وکیل صاحب.اچھا صاحب یہ تو فرمائیے کہ حسان بن ثابت اگر کوئی قصیدہ لکھتے اور تحدی کرتے تو نبوت آنحضرت ا میں کوئی فرق آتایا نہ آتا؟ سراج الحق: نقص کیوں آنے لگا تھا بلکہ خوبی ہی خوبی ہوتی دیکھو جہاد ہوئے اور آپ کے جان نثار صحابہ نے کیا کیا کمال دکھائے اور کفار کو تہ تیغ کیا اور آپ " نے ایک کو بھی قتل نہیں کیا تو کہئے کہ رسالت و نبوت آنحضرت ا میں نقص آیا ؟ پس اگر وہاں نقص نہیں تو یہاں بھی نہیں ہے نبی بھی معجزات دکھلاتے ہیں اور اس نبی کے متبعین ولی بھی کرامت دکھلاتے ہیں وہی اخلاق فاضلہ نبی سے بھی ظاہر ہوتے ہیں اور ویسے ہی اس نبی کے متبع ولی سے بھی.تو کیا اس سے نبوت میں نقصان آتا ہے یا نبوت اور نبی کی عزت دشان اور عظمت و جبروت بڑھتی ہے ؟ وکیل صاحب میں آپ سے جواب نہیں پوچھتا آپ مرزا صاحب سے دریافت کر کے بتلائیں.سراج الحق پہلے جناب مرزا صاحب کے خادم سے تو نبٹ لیں پھر وہاں سے جواب منگایا جائے گا.پھر جو میں اتفاق سے حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوا تو ذکر کیا حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں ہم اس کو خوب جانتے ہیں ایک بار وہ ہمارے پاس آئے تھے اور صرف دو گھنٹہ تک ٹھرے کوئی بات چیت ہم سے ان کی نہیں ہوئی ان کے نقائص طبیعت سے معلوم ہوتا تھا کہ ان کی طبیعت میں شرح وبسط نہیں اور ان کا دل نورانی نہیں ہے اگر ہماری کتاب نور الحق سے ان کے خیالات میں قرآن شریف کی عزت جاتی ہے تو ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ جتنے ولی امت

Page 30

28 تذكرة المهدي محمدیہ میں ہوئے اور ان سے کرامتیں ظاہر ہو ئیں سب معجزات آنحضرت کی بے عزتی ہوئی افسوس ہے کہ یہ لوگ نور سے ظلمت کی طرف جاتے ہیں اچھی چیز کو بری سمجھتے ہیں بات یہ ہے کہ جب کوئی بیمار ہوتا ہے تو اس کے منہ کا مزہ بگڑ جاتا ہے میٹھی اور مزہ دار شے کڑوی اور کسیلی معلوم ہوتی ہے اور وہ بیمار ہر ایک سے لڑتا ہے کہ یہ چیز اچھی نہیں پکائی خراب کر دی بد مزہ ہو گئی حالا نکہ وہ لوگ اوپر والے کیسی ہی سنوار کر پکائیں یہ لوگ بیمار ہیں اور اپنے آپ کو تندرست سمجھتے ہیں.ان کے ہاتھ میں ایک قشر (چھلکا) ہے نہ مغز یہ مغز کو پھینکتے اور قشر پر راضی ہوتے ہیں.مجھے ایک لطیفہ اس وقت یاد آگیا اور وہ یہ ہے کہ میں ہانسی میں تھا جو دو چار شخص مجھے ملنے کے لئے آئے اور ان میں کچھ مجھ سے واقف تھے اور وہ ایک شخص کے مرید تھے میں نے کہا خیریت ہے کیسے آئے وہ کہنے لگے کہ ہمارے پیرو مرشد آئے ہیں آپ بھی ان سے ملیں بڑے بزرگ ہیں.خدارسیدہ ہیں ولی اللہ ہیں بس ولی اللہ ایسے ہی ہوتے ہیں میں نے کہا کہ اچھا تم کو مبارک ہو ہمیں تو ملنے کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ جب امام زمان آگئے تو پھر دوسرے سے ملنا کیا.اور تم جو ان کے مرید ہوئے ہو تم نے ان میں ایسی کیا بات دیکھی کہ وہ ولی ہیں خدا رسیدہ ہیں کہنے لگے اور تو ہم کو سمجھ نہیں اتنی بات ضرور دیکھی ہے کہ ایسے سیدھے سادھے بزرگ ہیں کہ جس قسم کا کھانا ان کے آگے رکھ دو کھالیتے ہیں پھیکا ہو نمکت بد مزہ ہو کسیلا ہو کڑوا ہو کبھی بھی اپنی زبان سے نہیں کہتے میں نے کہا اس میں خدار سیدہ ہونے اور ولی ہونے کی کیا بات ہے.بلکہ اس سے تو معلوم ہوا کہ وہ مجنون یا دیوانہ ہے.یا وہ بیمار ہے جب اس کو کھانے کا مزہ ہی نہیں ہوتا تو مریض ہے اور سخت مریض ہے ان کا علاج کراؤ تاکہ وہ تندرست ہو جاوے.یہ تو ایسی مثال ہے کہ جس کو ادنی آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ کوئی یوں کہے کہ ہمارے پیرو مرشد ایسے ولی ہیں جن کو آنکھوں سے دکھائی نہیں معلوم

Page 31

تذكرة المهدي 29 دیتا یا کانوں سے سنائی نہیں دیتا یا پیروں سے چلا نہیں جاتا یا ہاتھ کام نہیں دے سکتے.پس یہ ولی ہونا تو درکنار اس کو ایک ادنی مومن بھی نہیں کہہ سکتے ان کو تو یوں کہو کہ وہ اندھا ہے وہ بیمار ہے ہو اس کو ہسپتال میں لے جاؤ اور علاج کراؤ یا میرے پاس لاؤ کہ میں اس کا علاج کروں تم جانتے ہو کہ میں طبیب ہوں یہ بات سن کر وہ ہننے لگے اور بعض نے برا مانا اور کچھ نہ کہا.بھر میں شہر سہارنپور میں پھرتا پھرتا محلہ چوتھا مباحثہ ایک حکیم حکیم سے شاه ولایت میں پہنچا یہ محلہ وسط شہر میں واقع ہے اس محلہ میں تمام شرفا اور اکثر امراء کے مکانات ہیں سنت جماعت زیادہ شیعہ کم لیکن یہ سب انصاری ہیں اور اس محلہ میں حکیم اور مولوی بہت رہتے ہیں.وکیل اور مختار اور اہل روزگار بھی ہیں اور زمیندار جن کی ملک میں کئی کئی گاؤں ہیں.اور اسی محلہ میں ہمارے نانا کا بھی مکان ہے اور اکثر ہمارے رشتہ دار ہیں.اس محلہ میں کئی مسجدیں ہیں لیکن ایک مسجد میں حضرت شاہ سید محمد اسحاق کا مزار ہے جو شاہ ولایت مشہور ہے اور ہماری نانی انہیں کی اولاد میں سے تھیں.اور حضرت مولانا احمد علی صاحب محدث سہارنپوری جو مولانا شاہ اسحاق صاحب کے شاگرد تھے اسی محلہ میں رہتے تھے پھر وہ محلہ قاضی میں رہنے لگے یہ بھی ہمارے نانا ہیں وہاں دس بارہ آدمی بیٹھے تھے ان میں ایک حکیم مگر ایسے حکیم کہ جن پر یہ مثل صادق آتی ہے کہ ایک حکیم کا گورستان میں گذر ہوا تو کپڑے سے منہ چھپالیا لوگوں نے پوچھا کہ حکیم صاحب آپ نے منہ ڈھک لیا.حکیم صاحب نے فرمایا مجھ کو ان مردوں سے شرم آتی ہے کہ میرے ہی یہ لوگ مارے ہوئے ہیں اور یہ صاحب مولویت میں بھی دم مارتے تھے.اور ان کا سر منڈا اور گھٹا ہوا تھا.وہ میری صورت دیکھ کر بہت بگڑے اور کہنے لگے کہ کدھر سے آئے عیسائی حضرت اقدس علیہ السلام بھی اس قسم کا ذکر یعنی یہی مثال بدعتی فقراء مصنوعی کے حق میں اکثر فرمایا کرتے

Page 32

تذكرة المهدي 30 صاحب میں نے کہا کہ میں قادیان سے آیا ہوں یہودی صاحب انہوں نے کہا ہم یہودی کیسے ہوئے میں نے کہا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے دشمن یہودی تھے.ای طرح اب تم مسیح موعود احمد قادیانی علیہ السلام کے دشمن ہو علاوہ یہودی ہونے کے تم میں نفاق کی بھی بو آتی ہے اس واسطے کہ مومن کی صورت دیکھ کر بگڑتے ہو اور غضب میں آتے ہو وہ کہنے لگے کہ تم مومن کد ھر سے آئے تم تو کافر ہو بے دین ہو اس کے جواب میں میں نے یہ کہا کہ مسیح اور مسیح کے حواریوں کو بھی بدبخت یہودی کا فرو بے دین کہا کرتے تھے اور آنحضرت ایتالیایی اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنم کو بھی ایسا ہی کہتے تھے اور آپ کے مذہب اسلام کو صابی مذہب بتایا کرتے تھے تم ان بد بختوں مذبوں اور مکمفروں کے مثیل ہو اور ہم اور ہمارے امام ہمام ماموروں صادقوں اور ان کے پیروؤں کے مثیل ہیں حکیم صاحب مولوی صاحب نیم حکیم خطرہ جان نیم ملا خطرہ ایمان - تم ہی کوئی مسلمانی کا جو ہر دکھلاؤ تم میں سوائے نفاق و شقاق اور کچھ بھی نہیں ہر چہ در دیگ باشد در چمچہ آید فرمایا ہم کیونکر منافق ہوئے ہیں ہم نماز پڑھتے ہیں روزہ رکھتے ہیں زکواۃ دیتے ہیں حج بھی کرنے کو بشرط وسعت طیار ہیں اور احکام بھی بجالاتے ہیں میں نے کہا سب کچھ سہی لیکن پھر بھی تم منافق ہو جیسے اللہ تعالی فرماتا ہے وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ - يُخْدِعُونَ اللهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَ مَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ.یعنی اور لوگوں میں سے ایسے بھی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ سے لیکر قیامت تک یعنی ملائکہ وغیرہ پر ایمان لاتے ہیں اور حال ان کا یہ ہے کہ یہ مومن نہیں ہیں اللہ کو دھوکا دیتے ہیں اور مومنوں کو بھی اللہ اور مومنوں کو تو کب دھوکا دے سکتے ہیں یہ خود ہی دھو کا خوردہ ہیں اور ان کو کچھ بھی شعور نہیں اور ایک جگہ فرماتا ہے.اِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا تَشْهَدُ إِنَّكَ رَسُولُ اللهِ وَالله يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُوله وَاللَّهُ يَشْهَدُ انَّ الْمُنَافِقِينَ

Page 33

تذكرة الهدى 31 لكَاذِبُونَ اے رسول ال تیرے پاس منافق آتے ہیں کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک تو اللہ کا رسول ہے اور اللہ تو جانتا ہے کہ تو ضرور رسول ہے.لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق انک رسول اللہ کہنے والے کا ذب ہیں.اب بتلائیے کہ یہ لوگ نماز نہیں پڑھتے تھے یا اور کام اسلامی ادا نہیں کرتے تھے.پھر کیوں منافق اور کاذب ان کا نام رکھا گیا اسی طرح ہم بھی تو اللہ اور رسول پر ایمان لاتے ہیں نماز پڑھتے ہیں روزہ رکھتے ہیں اور بشرط وسعت حج کے لئے بھی تیار ہیں پھر ہمیں کیوں بے دین اور کافر کہتے ہو یہود و نصاریٰ بھی تو روزه و نماز کرتے تھے انبیاء پر ایمان لاتے تھے وہ کافر کیوں ہوئے ابو جہل وغیرہ بھی تو حاجی تھے نماز روزہ کے پابند تھے لیکن وہ کافر کیوں ہوئے اس کا باعث یہ ہے کہ انہوں نے دل سے ایک مامور اعظم محمد مصطفی کو نہیں مانا.بعینہ اسی طرح تم نے ایک مامور معظم مثل مصطفیٰ صلی اللہ علیما و سلم کو نہیں مانا ہم میں اور تم میں یوں زمین اور آسمان کا فرق ہے.تم کذب ہم مصدق منافق کی نشانی علاوہ اس کے ایک اور تین نشان تم میں نفاق کا موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ تمہارا سر منڈا ہوا ہے اور سر اور داڑھی منڈانا منافق کی ایک علامت ہے اس کو سن کر وہ بڑے درہم برہم ہوئے اور کہنے لگے کہ سرمنڈانا تو سنت ہے میں نے کہا کہ یہی تو کھلم کھلا علامت منافق ہے کہ چوری اور سینہ زوری نفاق کی علامت کا نام سنت رکھنا.اس کے جواب میں انہوں نے یہ کہا کہ بہت مولوی عالم بلکہ مولوی رشید احمد گنگوہی بھی سرمنڈاتے ہیں میں نے کہا کہ مولویوں کا فعل سنت ہے یا آنحضرت ا کا فعل سنت ہے ایک ملا بول اٹھے اچھا صاحب تم ہی بتلاؤ کہ کس کتاب میں لکھا ہے کہ سرمنڈانا منافق کی علامت ہے.میں نے کہا کہ مشکوۃ شریف اور صحیح بخاری شریف میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ میری امت پر ایک وقت آنے والا ہے کہ لوگ دین سے نکل جائیں گے قرآن شریف پڑھیں گے مگر قرآن ان لکھا.

Page 34

تذكرة المهدي 32 کے حلق کے نیچے نہیں اترے گا.(یعنی اس پر عمل نہیں کریں گے نہ ان سے ملاقات کرنا چاہیے نہ ان کی صحبت اختیار کرنا چاہئے صحابہ نے عرض کیا یا رسول الله ال ان کی شناخت اور علامت فرمائیے تاکہ ہم ان سے بچیں تو آنحضرت نے فرمایا کہ سِيمَا هُمُ التَّحْلِيقُ أَوِ التَّسْبِيدُ ان کی شناخت یہ ہے کہ ان کے سر کے بال منڈے ہوئے ہونگے داڑھی بھی اسی میں شامل ہے.یہ حدیث در اصل حضرت اقدس امام علیہ السلام نے دارالامان میں بخاری شریف سے نکال کر دکھلائی تھی اور اس وقت بالوں کا ذکر تھا.اور کئی بار فرمایا تھا کہ سر اور داڑھی کے بال منڈانا منافق کی علامت ہے پھر فرمایا کہ ہم کو کبھی بال منڈانے کا اتفاق نہیں ہوا.ہمارے سر پر جو بال ہیں وہی ہیں جو عقیقہ کے دن اترے آپ کے بال نہایت نرم اور نازک مونڈھوں تک رہتے تھے جیسے حدیثوں میں مسیح موعود کی علامت ٹھراتی ہے.الغرض میری یہ بات سن کر حکیم صاحب اور مولوی صاحب مشکوۃ شریف اٹھا لائے اور کہا کہ میں اس میں سے کئی حدیثیں نکال دوں گا کہ سر کے بال منڈانا سنت ہیں میں نے کہا کہ تم ایک ہی حدیث نکالدو - مولوی صاحب نے ساری کتاب مشکوۃ سولی.مگر ایک بھی حدیث بال منڈانے کی نہیں نکلی.پھر ایک اور مولوی صاحب تشریف لائے اور بڑے دعوے سے کہا کہ میں نکال کر دکھلاؤں گا انہوں نے بڑی دیکھ بھال کے بعد حضرت عمر کا قول نکالا کہ حضرت عمر نے ایک میں یعنی بچہ کو دیکھا کہ کچھ بال اس کے سر کے منڈے ہوئے تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس بچہ کے باپ سے فرمایا کہ یا تو اس بچہ کے بال سر کے کل اثر دارد یا تمام سر کے بال رکھو.اس سے مولوی صاحب نے یہ استدلال کیا کہ تمام سرکا رکھنا یا تمام سر کا منڈانا سنت ہے میں نے کہا کہ مولوی صاحب یہ آنحضرت ﷺ کی حدیث نہیں ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے اور میں نے رسول اللہ ﷺ کی حدیث پڑھی اور طلب کی ہے اور ہم

Page 35

تذكرة المحمدي 33 حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول کو بھی مانتے ہیں لیکن اس میں یہ بات ہے کہ یہ قول حضرت عمر ا کا ایک بچہ کی نسبت ہے اور بچہ کے لئے اور حکم ہیں اور بڑے کے لئے اور حکم جیسے بعض وقت بچہ نگا بھی پھر لیتا ہے اور اس کا پائجامہ ایسا بنایا جاتا ہے کہ اس کے پاجامہ میں رومال نہیں ہوتا تاکہ بول و براز کے لئے آسانی رہے اور بچہ ماں کے ساتھ اور بہن کے ساتھ بھی سو رہتا ہے لیکن بڑے اور بالغ ہو کر تو یہ جائز نہیں اور میں نے جو حدیث پڑھی ہے وہ بڑے آدمیوں اور بالغوں کے واسطے ہے اور اس حدیث میں لوگوں کے لئے منافق ہونے کی پیشگوئی ہے اور یہودیت اور خروج عن الاسلام کا نشان ہے اتنے میں میرے بڑے بھائی شاہ خلیل الرحمان صاحب بھی سر سادہ سے آگئے.انہوں نے اور دو ایک اور شخصوں نے میرے کہنے کی تصدیق کی مولوی صاحب کھسیانے ہو کر بولے کہ اب میں بخاری لاتا ہوں میں نے کہا مولوی صاحب چاہے جو کتاب لاؤ سر منڈانا و داڑھی منڈانا کبھی بھی جائز نہ نکلے گا یہ منافق کا نشان ہے جو منافق کا نشان ہو تا ہے وہ ایک مومن راستباز کا نشان کیوں ہونے لگا ہے.جب یہ حدیث شریف جس میں بال سرد ریش منڈانے والوں کے لئے دعید ہے دکھلائی اور سنائی تو وہ حیران رہ گئے اور ہمارے سر سادہ میں بھی اس کا چرچا ہو گیا.سرسادہ میں بعض آدی سرمنڈے مولوی رشید احمد گنگوہی کا نفاق گنگوہی کے مرید تھے اور بعض معتقد اور بعض درمیانی.تو انہوں نے کہا کہ مولوی رشید احمد گنگوہی بھی تو سرمنڈاتے ہیں کیا وہ اس حدیث سے واقف نہیں ہیں میں نے کہا کہ وہ بھی منافق ہے.منافق کو اپنا نفاق کب سوجھتا ہے وہ تو ہمیشہ ایماندار ہونے کا ہی دعویٰ رکھتا ہے اس سے ناراض ہوئے میں نے کہا کہ تم ناراض کیوں ہوتے ہو ہاتھ کنگن کو آرسی کیا تم اس طرح جانچو کہ مولوی صاحب نے ایک اشتہار حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام اور

Page 36

تذكرة المهدي 34 آپ کے مبالکین کے کافر ہونے کا دیا ہے اور اس اشتہار میں یہ بھی لکھا ہے کہ مرزائیوں سے بات کرنا مصافحہ کرنا ملاقات کرنا اور السلام علیکم کرنا نہیں چاہئے اب تم میرے ساتھ چل کر دیکھو کہ مولوی صاحب مجھ سے مصافحہ اور السلام علیکم کرتے ہیں یا نہیں.اور مولوی صاحب کو خوب معلوم ہے کہ سراج الحق احمدی ہے قادیانی ہے اور بڑا پکا احمدی ہے اور علی وجہ البصیرت احمد ی ہے اگر مولوی صاحب نے مصافحہ اور سلام کر لیا تو وہ منافق ضرور ہے اور جو نہ کیا تو تم کچے ہو چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ جب ہم دونوں بھائی یعنی شاہ خلیل الرحمٰن صاحب اور میں گنگوہ گئے تو مولوی صاحب سے بھی ملنے گئے مولوی صاحب نے ہماری تعظیم کھڑے ہو کر کی.اور پہلے ہی السلام علیکم کیا اور مزاج پرسی کے بعد کہا کہ پیر صاحب آپ نے تو قادیان میں ہی سکونت اختیار کرلی.اور مولوی صاحب نے اسی روز سر منڈا یا تھا.اور ان مولوی صاحب سہارنپوری کا جو مشکوة ایک منافق مولوی شریف لائے تھے اور نفاق کی علامت کو سنت بتلاتے تھے نفاق کھل گیا اور وہ یوں کھلا کہ مولوی حافظ احمد اللہ خان صاحب احمدی ناگپوری جو صالح اور راستباز ہیں جب وہ احمدی ہوئے تو حافظ صاحب نے ان کو دارالامان اور حضرت اقدس علیہ السلام کی بہت سی باتیں آپ کے دعوی کی نسبت سنائیں اور بہت کوشش کی کہ یہ موافق ہو جائیں اور منافق نہ رہیں تو انمو ذراسی روشنی ہوئی اور ایک مدت کے بعد یہ مولوی صاحب دارالامان آگئے اور حافظ صاحب کی کوشش ٹھکانے لگی اور حضرت مولانا نور الدین صاحب وام فیفہ سے بھی تعارف رکھتے تھے حضرت اقدس علیہ السلام اور حضرت خلیفتہ اصحیح دام عنایتہ سے طلاقات ہوئی اس ملاقات کے بعد جب رات کو مولوی صاحب ہوئے اور صبح کی نماز باجماعت ہمارے ساتھ مسجد مبارک میں پڑھی تو مجھے مولوی صاحب نے کہا کہ آج رات کو میں نے آنحضرت ﷺ کی خواب میں

Page 37

تذكرة المهدى 35 زیارت کی اور رسول اللہ ﷺ میری طرف بڑے پیار کے ساتھ گوشہ چشم سے بار بار دیکھتے ہیں اس کے بعد ظہر کے وقت بعد نماز پھر حضرت اقدس علیہ السلام سے ملاقات کی.تو حضرت اقدس علیہ دلائل صداقت مسیح موعود علیہ السلام السلام نے موافق سنت الانبیاء علیہم السلام بہت کچھ حضرت مسیح موسوی علیہ السلام کی وفات اور عدم آمد اور آنحضرت ﷺ کی فضیلت و ختمیت اور اپنے دعوے مسیح موعود ہونے کی نسبت مدلل قرآن شریف اور توریت و احادیث و اجماع صحابہ اور علماء سلف کے اقوال سے تبلیغ کی اور پھر آپ نے بے شک مسیح موعود ہونے پر قسم بھی کھائی اور بتلایا کہ وہ موعود میں ہی ہوں جو چودھویں صدی کے سر پر خدا کی طرف سے آیا ہوں اور ساتویں ہزار کا سرا بھی میری شہادت دیتا ہے چاند اور سورج نے عین رمضان کے مہینہ میں میرے دعوے کی کچی گواہی دی اونٹوں کی سواری بیکار ہوئی ستارہ زوالسین نہ ایک بار بلکہ کئی بار میرے لئے ظاہر ہوا اور ہزاروں انسانوں کو ہزاروں نشان میرے ہاتھ پر اللہ تعالی نے دکھائے تو یہ مولوی صاحب خاموش ہو کر سنتے رہے اور کچھ بھی نہ بولے.جب حضرت اقدس علیہ السلام اپنے مکان پر مسجد سے تشریف لے گئے تو مولوی صاحب وہاں سے میرے ہمراہ میرے مکان پر آگئے اور کہنے لگے کہ میں نے جو رسول اللہ ﷺ کی رات زیارت کی تھی.اور جس طرح آنحضرت ا گوشه چشم سے میری طرف دیکھتے تھے ہو بہو حضرت اقدس علیہ السلام اس وقت کی تقریر کے وقت میری طرف دیکھتے جاتے تھے اور بعینہ رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک حضرت اقدس علیہ السلام کا ساتھا.جو سرمو فرق نہ تھا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقدس ضرور راست باز صادق ہیں؟

Page 38

تذكرة المهدي 36 ایک خواب کی تعبیر: جب مولوی صاحب قادیان سے رخصت ہو کر سہارنپور کی سرزمین میں گئے تو ایک خط مجھے لکھا کہ میں نے رات ایک خواب دیکھا ہے کہ مرزا صاحب کی شکل مجنونوں اور پاگلوں کی سی ہے میں نے وہ خط حضرت اقدس علیہ السلام کو پڑھ کر سنایا حضرت اقدس نے فرمایا کہ اس کی تعبیر یہ ہے کہ جو شخص راستباز نبی یا رسول امام یا ولی اللہ کو خواب میں بری صورت یا کسی عیب میں دیکھے یا بیمار تو یقیناً وہ خواب میں اپنی حالت دیکھتا ہے اور یہ حال اسی کا ہوتا ہے نہ راست باز کا کیونکہ وہ شخص ان کے جمال کے آئینہ میں اپنی اندرونی صفت کو جیسا وہ ہوتا ہے دیکھتا ہے مولوی صاحب نے خواب سچا دیکھا ہے لیکن انہوں نے اپنی حالت جنوں اور اپنی صفات اندرونی کو دیکھا ہے انبیاء اللہ اور اولیاء اللہ آئینہ ہوتے ہیں اور آئینہ میں جو شخص منہ دیکھتا ہے ویسا ہی دکھائی دیتا ہے جیسا دیکھنے والے کا ہوتا ہے گویا اس کی اندرونی صورت اس کو دکھائی جاتی ہے اور یہ ایک قسم کی اتمام حجت ہے پھر فرمایا کہ ایک بد شکل آدمی نے ایک شیشہ اٹھا کر دیکھا تو اس شیشہ کو اس نے یہ کہہ کر زمین پر پھینک دیا کہ یہ شیشہ بہت ہی برا ہے جس میں ایسی بدصورت دکھائی دیتی ہے.اس نے اپنا قصور اور اپنی شکل نہ دیکھی بلکہ شیشہ کو برا بتلایا.پھر فرمایا کہ یہی تعبیر مولوی صاحب کو لکھ بھیجو اور فرمایا کہ ان سے پوچھو کہ ہماری شکل تو آنحضرت ا کی شکل کے مشابہ دیکھی تھی تمہارا اس پر ایمان نہ رہا تو تمہاری بد بختی سے خدا نے یہ شکل تمہاری اصلی شکل دکھلائی ! میں نے عرض کیا کہ حضرت جب وہ دار الامان میں تھے تو مولوی صاحب کو آنحضرت ا کی شکل پر دکھائی دیئے.اور جب وہ سہارنپور کی سخت زمین میں گئے تو ان کو اس وجہ سے کہ آنحضرت ا پر ایمان نہ رہا.ان کی اصلی اور حقیقی صورت دکھائی گئی کیونکہ آپ کا چہرہ تو آنحضرت ﷺ کا چہرہ ہے اور سہارنپور پر مجھے ایک حکایت یاد آگئی.

Page 39

تذكرة المهدى 37 فرمایا وہ حکایت سناؤ تم کو حکایتیں خوب یاد ہیں میں نے عرض ایک حکایت کیا کہ ایک شخص اپنی ضعیفہ والدہ کو حج کرانے کے لئے ملکہ شریف گیا اور تمام راستہ کمر پر اٹھا کر لے گیا اور کمر پر ہی چڑھا کر حج کیا.اور اسی طرح واپس آیا جب وہ سہارنپور کی سرحد پر پہنچا تو اپنی والدہ کو کرے او تار کر زمین میں پھینک دیا اور کہا کہ میں تجھے حج کرانے کیا لے گیا ایک سخت مصیبت میں پھنس گیا تو جہاں چاہے چلی جائیں تو اب تجھے نہیں لے جاتا.اس ضعیفہ نے جان لیا کہ یہ اس زمین کی تاثیر ہے ورنہ میرا بیٹا تو نیک ہے اس بڑھیا نے بہت منت کی اور کہا بیٹا میں تیری والدہ ہوں تو میرے ساتھ ایسی بد سلوکی کرتا ہے مجھے گھر تو پہنچا دے اس نے والدہ کو بہت ہی برا کہا اور کہا کہ تو میری ماں ہی نہیں ہے اور نہ میں تیرا بیٹا ہوں میں تھک گیا میری کمر ٹوٹ گئی.اب میں تجھ کو نہ لے جاؤں گا یہ کہہ کر چلدیا ؟ اس بڑھیا نے کہا کہ خیر جو ہوا وہ ہوا لیکن مجھے اس شہر کی سرحد سے باہر کر دے اور جو تو چاہے مجھ سے مزدوری لے لے خیر مزدوری پر وہ راضی ہوا اور بڑھیا کو اٹھا کر لے چلا جب سہارنپور کی سرحد سے باہر ہو گیا تو بڑھیا نے کہا کہ اب مجھے یہاں چھوڑ دے اور اپنی مزدوری لے لے میرا اللہ مالک ہے وہ شخص والدہ کی یہ بات سن کر رونے لگا اور کہنے لگا کہ تو تو میری ماں ہے میری جان تجھ پر سے قربان ہو جائے میں بھلا اس جگہ ایسی بے کسی میں اور ایسے جنگل میں تجھے جواب دے سکتا ہوں اور تجھ کو تنہا اور اکیلا چھوڑ سکتا ہوں.کس کی مزدوری میری جان میرا مال سب تیرا ہے.حضرت اقدس یہ حکایت سنکر ہے اور خاموش ہو رہے پھر میں نے حسب الارشاد ایک کارڈ مولوی صاحب کے پاس سہارنپور بھیج دیا.اور وہی تعبیر بھی لکھدی چونکہ مولوی صاحب کو علم اور خواب میں ہونے کا بھی دعوئی تھا.مولوی صاحب نے اس خط کے جواب میں کوئی معقول جواب تو نہیں دیا مگر ایسی ہی بکواس اور کردی؟

Page 40

تذكرة المهدى 38 اس مولوی صاحب مذکور کے منافق ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ جب یہ سہارنپور سے اور کسی شہر میں جہاں غیر مقلد ہوں جائیں تو بڑے پکے غیر مقلد اور مضبوط اہل حدیث بن جاتے ہیں اور نماز وغیرہ کا طریق غیر مقلدوں کی طرح رکھتے ہیں اور جب سہارنپور میں جاتے ہیں تو بڑے پختہ حنفی مقلد بنے رہتے ہیں اور نماز وغیرہ کا طریق بھی حنفیوں کا سار کھتے ہیں.پھر تھوڑی دیر میں دس بارہ آدی لکھے پڑھے غیر احمدی کے پیچھے نماز آگئے اور ایک مولوی حکیم محمد اسحق بھی آگئے.مجھ سے پوچھا کہ تم ہمارے ساتھ جماعت کی نماز کیوں نہیں پڑھتے میں نے کہا کہ آج کل ایک فتنہ برپا ہے اور وہ یہ ہے کہ تم میں بہت فریق ہو گئے.وہابی.سنی.رافضی - مقلد - غیر مقلد.اور ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں.اب معلوم نہیں کہ کون کافر ہے.اور کون مسلمان ہے اور حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو ایک مسلمان کو کافر کہتا ہے وہ کہنے والا خود کا فر ہو جاتا ہے جب ایک کو ایک کافر کہتا ہے تو مسلمان کوئی بھی نہ رہا.لہذا ہماری نماز کافر کے پیچھے نہیں ہوتی.اور تو یہ بات سن کر ڈر گئے اور خوف زدہ ہو کر کہنے لگے کہ یہ تو سچ ہے لیکن مولوی صاحب نے کہا کہ تم بھی تو اسی زمرہ میں ہو اور کفر سے نہیں بچے.تم مسلمان کیسے ہوئے میں نے کہا کہ مولوی صاحب ہم ہی ایک دنیا میں مسلمان ہیں اس وجہ سے کہ ہم کسی کو اپنی طرف سے کافر نہیں کہتے یہی نشان ہمارے مسلمان ہونے کا ہے.پھر سب نے پوچھا کہ ہم میں یعنی عام پانچواں مباحثہ وفات مسیح پر مسلمانوں میں اور تم میں کیا فرق ہے؟ میں نے کہا کہ فرق کچھ بھی نہیں اور غور سے دیکھا جائے تو بہت بڑا فرق ہے نہیں تو یہ ہے کہ ہم عام مسلمانوں کی طرح وہی عقیدہ اسلامی رکھتے ہیں خدا بھی رہی رسول بھی وہی قرآن بھی وہی نماز، روزہ، حج، زکوۃ ، کلمہ اور دیگر احکام وہی

Page 41

تذكرة المهدي 39 نصه اول اور جو فرق ہے تو یہ کہ بموجب حکم قرآن و حدیث اور اجماع صحابہ رضی اللہ عنم حضرت عیسی علیہ السلام کو وفات شدہ مانتے ہیں اور جس عیسی علیہ السلام کے آنے کی اس امت محمدیہ میں خبر تھی وہ ہم حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو جانتے ہیں.اور ایمان رکھتے ہیں کہ آنے والے عیسی علیہ السلام یہی ہیں.مولوی صاحب : مرزا صاحب عیسی علیہ السلام کیونکر ہو سکتے ہیں وہ تو آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں.میں : وہ زندہ نہیں ہیں مرگئے.مولوی صاحب یہ کہاں لکھا ہے کہ وہ مرگئے زندہ نہیں.میں: قرآن شریف کے چھٹے پارہ میں جو سورہ مائدہ ہے اس کا آخری رکوع پڑھ لو تمہیں یاد نہ ہو تو قرآن شریف لاؤ میں پڑھ دوں.مولوی صاحب قرآن شریف کی تفسیروں میں تو یہی لکھا ہے کہ عیسی علیہ السلام زندہ آسمان پر اٹھائے گئے.میں: تفسیروں میں یہ بھی لکھا ہے کہ عیسی علیہ السلام وفات پاگئے؟ مولوی صاحب: ہم تو مفتی بہ قول کو مانیں گے.میں: مفتی بہ قول تو کوئی ہے ہی نہیں اختلاف موجود ہے.مولوی صاحب مفتی بہ ہم تو یہی جانتے ہیں جو جمہور ہے اور جس پر اجماع ہو چکا ہے.میں : مولوی صاحب جمہور اور اجماع توحیات عیسی پر نہیں ہے اور اگر آپ اجماع پر ہی ایمان رکھتے ہیں تو صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع موجود ہے اور صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ایک بھی اس اجماع سے باہر نہیں ہے.مولوی صاحب : وہ کہاں ہے ؟ میں : بخاری شریف میں ہے اور وہ یہ ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کی

Page 42

تذكرة المهدى 40 وفات ہو گئی تو صحابہ کے تین گروہ ہو گئے ایک گروہ وفات پر اور ایک حیات پر جن میں حضرت عمر ال بھی تھے جو فرماتے تھے کہ جو شخص یہ کہے گا کہ رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی تو میں اس کو قتل کروں گا اور ایک گروہ اس پر تھا کہ رسول اللہ ﷺ فوت ہو گئے.لیکن پھر زندہ ہوں گے اور منافقوں کو سزا دیں گے حضرت ابو بکر صدیق می چین تشریف لائے اور آنحضرت ا کے جنازہ پر گئے اور حضرت کے چہرہ مبارک پر بوسہ دیا اور کہا کہ تجھ کو خدا تعالی دو موتیں نہیں دکھائے گا اور یہ آیت مجمع عام میں پڑھ کر سنائی مَا مُحَمَّدُ إِلَّا رَسُول قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ محمد ال کوئی خدا نہیں تھے جو ہمیشہ زندہ رہتے ہاں ایک رسول تھے اور آپ سے پہلے سب رسول فوت ہو گئے اس پر کا اتفاق ہو گیا اور حضرت عمر نے تلوار میان میں کرلی اور فیصلہ ہو گیا اگر حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہوتے تو کوئی تو بول اٹھا یہ پہلا اجماع تھا جو حضرت عیسی علیہ السلام کی موت پر ہوا اس اجماع صحابہ کو مان لیجئے اگر آپ کا اجماع پر یقین ہے؟ اصحاب رسول اللہ ا سے بڑھ کر اور کوئی اجماع نہیں ہے پس اس اجماع اور جمہور صحابہ رضی اللہ عنم کو چھوڑنا اور اپنی طرف سے دوسری قسم کا اجماع بنانا ٹھیک نہیں ہے خدا کے لئے سوچو سمجھو.اس میری تقریر کے بعد مولوی چھٹا مباحثہ ایک طالب علم سے صاحب کو سخت غصہ آگیا اور تکرار پر آمادہ ہو گئے اور کچھ جواب نہ بن پڑا پھر میں سٹیشن ریلوے پر آیا چونکہ ٹکٹ ملنے میں دیر تھی.اور ظہر کی نماز کا وقت آگیا تھا ایک چھوٹی سی مسجد چبوترہ نماٹیشن کے قریب اور چنگی کی چوکی کے متصل بنی ہوئی ہے جس میں مسافر اور شہر سے آنیوالے نماز پڑھتے ہیں.میں بھی نماز پڑھنے کے لئے آگیا وہاں پانچ چھ علم بیٹھے پائے وہ اختلاف مذہبی میں کچھ باتیں کرتے تھے اور کہتے تھے کہ

Page 43

تذكرة المهدي 41 دیکھو کیسے کیسے مذہب دنیا میں پھیل گئے اور اب ایک مذہب اور قادیانی نکلا ہے.جو سب سے بڑھ کر گمراہ ہے بھلا قادیان کا نام اور مذمت سن کر سراج الحق کو کہاں تاب تھی کہ چپ رہ جائے حدیث شریف میں آیا ہے کہ الساكت عن الحق شیطان اخرس یعنی جو حق گوئی سے خاموش رہے وہ گونگا شیطان ہے.میں : ( ان طلبہ سے مخاطب ہو کر) کیا قادیانی کوئی مذہب ہے.طالب علم: ایک مذہب ہے جو پنجاب میں نکلا ہے.میں : قادیانی کسی کا نام ہے یا مذہب کا نام طالب علم : یہ تو ہمیں خبر نہیں ہے.میں : جب تم کو خبر نہیں تو کیسے کہتے ہو کہ مذہب ہے اور گمراہ مذہب ہے تم نے حدیثوں میں پڑھا ہے کہ نہیں کہ آنحضرت ا کو معاذ اللہ صابی کہتے تھے.بہت سی پرانی باتیں ایسی ہیں کہ اگر اب بیان کی جاویں تو وہ نئی معلوم ہوتی ہیں.اسی طرح قادیانی طریق سمجھو.طالب علم : ہم نے تو اپنے استادوں مولویوں سے ایسا ہی سنا ہے میں تم بھی گمراہ تمہارے مولوی اور استاد بھی گمراہ.طالب علم : ہم اور ہمارے استاد کیوں گمراہ ہونے لگے تھے انہوں نے تو ایک یہ بھی بات بتلائی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام چوتھے آسمان پر زندہ موجود ہیں.اور قادیانی مذہب کے لوگ کہتے ہیں کہ وہ مر گئے.میں: تم نے اپنے استادوں سے پوچھا بھی کہ کہاں لکھا ہے حضرت عیسیٰ زندہ ہیں.طالب علم کہیں تو لکھا ہی ہو گا جو مولوی کہتے ہیں اگر نہیں ہے تو تم ہی بتلاؤ کہاں لکھا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات ہو چکی.میں : قرآن شریف میں ہے يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ اے عیسی میں تجھے وفات دینے والا ہوں اور دوسری جگہ فرماتا ہے فَلَمَّا تُوَفَّيْتَنِي اب تم بتلاؤ کہ متوفیک کی جگہ محنتی اور تو نشینی کی جگہ تھیتی ہے؟

Page 44

تذكرة المهدي 42 طالب علم : متوفیک اور تو فیتنی کے معنی ہی حیات کے مفسرین نے لکھے ہیں.میں : ایک معنی تو کسی آیت کے مفسرین کریں اور ایک معنی رسول ا اور آپ کے اصحاب کریں تو کون سے معنی معتبر مانے جاویں.طالب علم : وہی معنے صحیح اور معتبر مانے جائیں گے جو رسول اللہ ﷺ سے ثابت اور مروی ہوں میں : اس کتاب بخاری شریف جو صحیح الکتب بعد کتاب اللہ ہے اس کی کتاب التفسیر میں خاص رسول اللہ اللہ سے تو فیتنی کے معنی وفات اور عبداللہ ابن عباس سے اس مقام اور اس باب میں مُتَوَفِّيْكَ کے معنی مُبْتُک لکھے ہیں اب کہئے کہ کون سے صحیح ہوئے.طالب علم : ہم کیا کریں ادھر علماء کا گروہ بہت ہے کیا انہوں نے بخاری شریف نہیں پڑھی.میں: اس طرف بھی علماء ہیں اور انہوں نے بخاری شریف پڑھی اور تمہارے علما نے بخاری شریف نہیں پڑھی اگر وہ پڑھ لیتے تو اس قدر مغالطہ اور گمراہی میں نہ پڑتے.طالب علم : قادیانی کوئی مولوی نہیں.میں : (چونکہ وہ ہندوستانی تھے ان کو ہندوستان کا حوالہ دیتا تھا میں نے کہا کہ ایک عالم فاضل محدث مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی قادیانی ہیں اور ان کے سوا اور بھی بہت سے عالم و فاضل ہیں.طالب علم: تو به تو به مولانا صاحب ممدوح ہرگز قادیانی نہیں بلکہ وہ تو سخت مخالف ہیں اور میں تو خاص امرد ہہ کا ہوں.میں: اس میں تو بہ کی کیا بات ہے مولوی صاحب بفضلہ تعالی زندہ موجود ہیں اور ان کی کتاب اعلام الناس تین حصوں میں ان کی تصنیف اور مطبوعہ ہے جو قادیانی مذہب کی تائید اور ان کے مخالفوں کی تردید میں ہے دریافت کرلو.

Page 45

تذكرة المهدى 43 طالب علم: جی یہ کتابیں کسی اور نے مولانا کے نام سے لکھ دی ہوں گی.انہیں باتوں میں وقت گزر گیا اور ریل گاڑی آگئی میں ٹکٹ لینے چلا گیا اور طالب علموں کی اس بے ہودہ بات پر تعجب کرتا رہا کہ حضرت مولانا مولوی سید محمد احسن صاحب زندہ ہوں اور ان کے نام سے اور کوئی شخص کتاب تصنیف کر کے چھاپ کے مشتہر کر دے اور مولوی صاحب کو خبر نہ ہو آخر کار میں سر سادہ چلا آیا اور دو چار روز کے بعد سہارنپور جانے کا اتفاق ہوا.جب میں سرسادہ کے سٹیشن پر آیا تو ایک ہند و سٹیشن ماسٹر کا خیال سٹیشن ماسٹر سے ملاقات ہوئی وہ ہندو تھے چونکہ ریل گاڑی کے آنے میں وقفہ تھا دو چار شخص کچھ ہندو کچھ مسلمان آگئے سٹیشن ماسٹر صاحب نے مجھ سے کہا کہ کوئی اخبار قادیان سے آیا ہو میں نے کہا ہاں اخبار بدر قادیان سے حکیم مرزا عباد اللہ بیگ کے پاس آتا ہے ماسٹر صاحب نے بڑی منت سے کہا ضرور میرے پاس اخبار بھیج دیا کرو میں اس کو بڑے غور سے پڑھوں گا اور جو رسالہ یا اشتہار یا کتاب کسی مضمون کے متعلق حضرت مرزا صاحب کا ہو مجھے ضرور دکھا دیا کرو جب تک میں پنجاب میں رہا اکثر کتابیں اور اشتہارات حضرت مرزا صاحب کے دیکھتا رہتا تھا جب سے سر سادہ کے سٹیشن پر آیا ہوں کوئی کتاب دیکھنے میں نہیں آئی ایک کتاب نماز کے بارہ میں حضرت مرزا صاحب نے لکھی ہے اس کا ایک جملہ ایسا اعلیٰ درجہ کی فلاسفی سے پر ہے کہ جب تک کوئی انسان برگزیدہ اور مرسل نہ ہو ایسا جملہ اس کی زبان اور قلم سے نہیں نکل سکتا.اور وہ یہ کہ نماز در اصل تعلق باللہ عبادت کا نام ہے جس.سے انسان خدا سے تعلق پیدا کر لیتا ہے یہ کوئی فرض نہیں ڈیوٹی نہیں کہ چارو کا چار اس کے پورے کرنے کے لئے کھڑا ہو بلکہ نماز اس ذوق و شوق اور طلب سے پڑھی جاوے کہ جیسے انسان کو بھوک پیاس کے وقت کھانے اور پانی کی تلاش ہوتی ہے اور انسان ایسی حالت میں سب کام چھوڑ کر خورد و نوش کے لئے اٹھ

Page 46

تذكرة المهدي 44 کھڑا ہوتا ہے یہ اس ہندو سیشن ماسٹر نے اپنے الفاظ میں مطلب ادا کیا اور کہا کہ اس جملہ کے پڑھنے سے مجھے ایک لذت پیدا ہو گئی خیر اس ہندو کو تو صداقت سے پر جملہ سے لذت پیدا ہو گئی.لیکن اس را قم خاکسار کو تو از سر نو لطف آگیا؟ پھر میں ریل گاڑی میں سوار ہو کر ساتواں مباحثہ پیشگوئیوں پر سہارنپور پہنچا اور سٹیشن کے قریب ان امیر صاحب کی کوٹھی پر آیا تو وہاں ان امیر صاحب کی اور ایک مولوی صاحب سهارنپوری کی حضرت اقدس علیہ السلام کی پیشگوئیوں پر گفتگو تھی کہ بہت سہی پیشگوئیاں حضرت مرزا صاحب کی پوری نہیں ہو ئیں؟ امیر صاحب مجھ سے مخاطب ہو کر جناب یہ پیشگوئیاں جو حضرت مرزا صاحب کی پوری نہیں ہو ئیں ان کا کیا جواب ہے.میں: وہ کون سی پیشگوئی ہے جو پوری نہیں ہوئی.امیر صاحب بہت سی ہیں.میں : ایک ہی کا نام لیں اب وہ خاموش ہوئے اور جان گئے کہ پیر صاحب ضرور ثابت کر دیں گے پھر میں نے کہا کہ کتاب نور الحق کرامات الصادقین جو کتابیں تحدی کے ساتھ تمام ملکوں میں شائع ہو گئیں اور تحدی سے پیشگوئی کی گئی کہ ان کی نظیر کوئی بتا دے مسلمان عیسائی سب ان کی نظیر لانے سے عاجز رہے اور ایک کے ساتھ پانچ ہزار کا انعام اور دوسری کے ساتھ ایک ہزار روپیہ کا انعام ہے اور پھر یہ بھی لکھا ہے کہ وہ نطفہ حرام ہے جو نظیر لانے کے لئے کھڑا نہ ہو اور پھر ایک ہزار لعنت لکھی ہے ماسوائے اور ملکوں کے ہندوستان ہی میں تقریباً ایک لاکھ مولوی ہو گا اگر ایک ایک سطر بھی لکھتے تو نور الحق جیسی دس کتاب فصیح و بلیغ لکھی جاسکتی تھیں اور یہ کتاب نور الحق ایسی چھوٹی سی کتاب ہے کہ اگر متوسط قلم سے لکھی جائے تو کریما سے زیادہ نہیں ہو سکتی کس نے اس پیشگوئی کو غلط کر کے دکھایا یہ علمی نشان اور علمی پیشگوئی قیامت تک کے لئے ثابت ہوئی اور یوں تو

Page 47

تذكرة المهدي 45 حصہ اول عیسائیوں کی طرح خوامخواہ زبان سے فضول بات کہہ دینی که حضرت محمد ال سے کوئی معجزہ نہیں ہوا سو یہ آپ کا قول کہ حضرت امام موعود علیہ السلام کی کوئی پیشگوئی سچی نہیں نکلی عیسائیوں کے قول سے زیادہ وقعت رکھتا ہے ہرگز نہیں.بات نہیں رہی اور میں شہر میں چلا گیا.وجہ تصنیف نور الحق کتاب نور الحق جو حضرت اقدس علیہ السلام نے لکھی ہے اس کے لکھنے کی یہ وجہ پیش آئی کہ ایک دفعہ میں سر سادہ میں تھا کہ پادری عماد الدین امرتسری ہماری ملاقات کے لئے سر سادہ آیا اور تو زین الاقوال اور تعلیم محمدی اور دو ایک کتاب اپنی تصنیف لایا.مجھے یہ کتابیں اسلامی رد میں پڑھ کر سخت رنج ہوا میں نے تو زین الا قوال کتاب مذکورہ پلندہ کر کے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں روانہ کر دی پھر پندرہ سولہ روز کے بعد میں خود حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا حضرت اقدس علیہ السلام نے بعد سلام و مصافحہ فرمایا کہ پادری عماد الدین کی کتاب جو آپ نے بھیجی تھی رکھی ہے آپ کے آنے پر ملتوی کیا تھا ہاتھ میں کتاب لے اور باہر مکان کے تشریف لائے اور اس جگہ ملنے لگے جہاں اب مدرسہ ہے پہلے وہاں صرف پلیٹ فارم تھا اور وہ حضرت مولانا نورالدین خلیفہ المسیح نے کچی اینٹوں کا بنوایا تھا آپ شملتے تھے اور پادری عماد الدین کا ذکر فرماتے تھے کہ اتنے میں جناب چود ہری منشی رستم علی صاحب مرحوم کورٹ انسپکٹر یکہ میں آگئے.حضرت اقدس ان کو دیکھ کر بہت ہی خوش ہوئے اور اس کتاب عماد الدین کا ذکر فرمایا.منشی صاحب مرحوم مغفور نے عرض کیا کہ میں بھی وہ کتاب بلہ شاہ کا حال لایا ہوں کتاب کے دیکھنے اور پڑھنے سے مجھکو سخت رنج ہے که پادری عماد الدین نے وہ باتیں لکھی ہیں جو اسلام سے ان کو کوئی تعلق اور لگاؤ نہیں صرف افترا اور بہتان سے پر ہے میں نے عرض کیا کہ حضرت اسی کتاب

Page 48

تذكرة المهدي 46 میں عماد الدین نے لکھا ہے کہ مسلمانوں میں کوئی دلی نہیں ہوا.ہاں ایک شخص کو سنا ہے کہ بلہ شاہ قصور میں ہوا ہے.اس کی کافیاں سننے اور دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسلام کو کوئی چیز نہیں سمجھتا ہے اور برے لفظوں سے یاد کرتا ہے اور شراب اور اباحت کو پسند کرتا ہے اور اسلام کی جابجا کافیوں میں توہین کرتا ہے.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ ایسے ہی لوگوں نے اسلام کو بدنام کیا ہے یہ لوگ در حقیقت ننگ اسلام اور عار ایمان ہیں.ایسے لوگوں کا وجود بد نام کننده صلحاء ہے مسلمانوں کو ایسے لوگوں سے عبرت پکڑنی چاہئے کہ نہ ایسے لوگ ہوتے اور نہ اسلام پر دھبہ لگتا.اگر چہ اسلام تو ایسا منور ہے کہ اس پر کسی قسم کا داغ رجبہ نہیں لگ سکتا.لیکن ایسے لوگوں سے بجائے نفع کے نقصان پہنچا اور جن کے دلوں میں زیغ اور کجی ہے وہ ایسی ایسی باتیں پیش کر دیتے ہیں اور عمدہ پاک لوگوں کو چھوڑ کر ایسے بیہودہ لوگ چھانٹ لیتے ہیں ورنہ اسلام نے تو اپنی پاک تاثیرات سے ہزار درہزار اور کروڑور کروڑ انسانوں کو اس درجہ پر پہنچا دیا که ده درجہ مسیح کو بھی حاصل نہیں ہوا.پھر میں نے عرض کیا کہ پادری عماد الدین وحدت الوجود کا سخت دشمن ہے حضرت اقدس یہ بات سن کر ہنسے اور فرمایا کہ اس کو دشمن ہونا ہی تھا کیونکہ انھاں دیاں جڑاں پٹیاں جاندیاں نے پنجابی زبان میں جملہ فرمایا اس کا بیان شرح کے طور پر یہ فرمایا کہ ان کے مصنوعی اور وہی عقائد الوہیت اور امنیت اور کفارہ خاک میں مل جاتا ہے اور انھاندا لکھ نہیں رہندا یعنی ان کا ایک تنکا بھی باقی نہیں رہتا ہے جب ہر شے خدا ٹھری اور ذرہ ذرہ دہی ہوا تو تثلیث رہی نہ امنیت رہی نہ الوہیت رہی سب یک دم تہس نہس ہو گیا جیسے کو تیسا ایسوں کے مقابلہ پر اس قسم کے لوگ بھی کام دیجاتے ہیں جیسے شیعوں کے مقابلہ پر خوارج الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ آخر کار منشی صاحب مرحوم نے چند جگہ سے مضمون کتاب کا سنایا.اور کچھ

Page 49

47 تذكرة المهدي میں نے سنایا پھر فرمایا کہ ہم اس کو اول سے آخر تک پڑھ کر کافی جواب لکھیں گے پھر فرمایا کہ پادری عماد الدین جو کہتا ہے کہ اسلام میں ولی نہیں ہوا ہے اس کو خبر ہی کیا ہے کہ ولی کیسے ہوتے ہیں اور کن پر ولایت کا اطلاق آتا ہے اب پادری عمادالدین آنکھ کھول کر دیکھے اور نقد دیکھے کہ کیسے ولی ہوتے ہیں اور اب تو ولی الاولیا موجود ہے.مبائعين ایک روز کا ذکر ہے کہ حضرت امیر الضعفاء جناب میر ناصر نواب صاحب نے ہنس کر مجھے پیران پیر فرمایا میں نے میر صاحب سے عرض کیا کہ یہ جملہ تو صحیح نہیں ہے اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ ایک پیر کے بہت سے پیر ہاں پیر پیران درست ہے سو یہ دونوں جملے میرے لئے ٹھیک اور درست نہیں کیونکہ میرا تو ایک ہی پیر ہے جو پیر پیراں ہے اور پیر پیراں میں نہیں اس کے مصداق حضرت اقدس علیہ السلام ہیں.میں حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں گیا ہاں خوب یاد آگیا اس واسطہ گیا تھا کہ چونکہ خطوط کے جواب اس زمانہ میں میں لکھا کرتا تھا اور کا رجسٹر بھی میرے پاس تھا جو خطوں کے ذریعہ بیعت ہوتے وہ میں رجسٹر میں درج کر لیتا تھا اور جو حاضر ہو کر بیعت کر تا تو میں حاضر ہوتا اور جو کبھی حاضر نہ ہوتا تو آپ مجھ کو بلوا لیتے اور فرماتے کہ ان کا نام معہ پتہ سکونت وغیرہ درج رجسٹر کر لو اور بعض دفع خود بیعت کنندہ سے بعد بیعت فرماتے کہ تم اپنا نام صاحبزادہ صاحب کو لکھوا آؤ.پس میں حضرت اقدس کی خدمت میں بے تکلف تھا.حاضر ہوا فرمایا کیسے آئے ہو صاحب زادہ صاحب! میں نے عرض کیا کہ خطوط کے جواب کے لئے آتے ہوں تو عنایت فرما دیجئے فرمایا ہاں ہیں اور بیعت کنندوں کے بھی خطوط ہیں پھر فرمایا کہ پیراں پیر اور پیر پیراں پر کیا گفتگو تھی میں سمجھ گیا کہ شاید اس وقت حضور کو کشف سے معلوم ہو گیا ہو گا میں نے تمام گفتگو عرض کر کے کہا کہ حضور تو پیراں پیر ہیں فرمایا پیر پیراں جملہ صحیح ہے پھر فرمایا کہ ہم ایک روز صحن مکان میں لیٹ رہے تھے جو ہمیں کشف ملکوت ہوا اور کشف میں

Page 50

مذكرة المحمدي 48 بہت سے فرشتے دیکھے کہ بہت خوبصورت لباس فاخرہ اور مکلف پہنے ہوئے وجد کرتے اور گاتے ہیں اور ہماری طرف بار بار چکر لگاتے ہیں اور ہر چکر میں ہماری طرف کہا ہاتھ کر کے ایک غزل کا شعر پڑہتے ہیں اور اس مصرعہ کا آخری لفظ پیر پیراں ہے وہ تین ہمارے منہ کے سامنے ہاتھ کر کے ہماری طرف اشارہ کرتے ہیں پیر پیراں.اب اس پادری کو معلوم ہو جاوے گا کہ اسلام کیسا ہا برکت مہ جب ہے کہ جس سے ایک نہ دو نہ دس بلکہ لاکھوں کروڑوں دلی بن گئے محمد خاتم الانبیاء کی پیروی اور اتباع سے ایسے ولی کامل ہوئے کہ جن کا شمار نہیں اور بہت مسیح علیہ السلام سے بڑھ چڑھ کر ہوئے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ علَمَاهُ امَّتِي كَانَبِيَاءِ بَنِي إِسْرَ انِیل یہ اس کا ترجمہ ہے کہ قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله کاف تشبیہ کا ہے کبھی زیادتی اور ترقی کے لئے اور کبھی برابری کے لئے بھی آتا ہے اور تعداد میں بھی مستعمل ہوتا ہے اور انبیاء بنی اسرائیل میں مسیح بھی داخل ہیں جیسے آنحضرت مثیل موسیٰ ہیں یعنی موسی علیہ السلام سے بڑھ کر ہیں اسی طرح آنحضرت ﷺ کے علماء خلفاء موسیٰ علیہ السلام کے علاوہ خلفاء سے بڑھ چڑھ کر ہیں.پھر حضرت اقدس علیہ السلام نے اس کتاب کا جواب لکھنا شروع کیا جب دو صفحے کتاب کے لکھے تو باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ صاحب زادہ صاحب ہم نے اس کتاب کا نام تمہارے نام پر نور الحق رکھ دیا ہے ابھی پانچ چار صفحے کتاب کے لکھے گئے تھے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کو سخت تکلیف اور دوران سر لاحق ہوئی جس سے تین روز تک نماز کے لئے مسجد میں نہ آسکے چوتھے روز حضرت اقدس صبح کی نماز کے لئے تشریف لائے اور بمشکل بیٹھ کر نماز جماعت کے ساتھ ادا کی اور میں آپ کے ساتھ اول صف میں کھڑا تھا جو حضرت اقدس پینہ میں فرق تھے میں سمجھا کہ آج ضرور وحی کا دن ہے اور چہرہ ایسا منور ہوا کہ فوٹو

Page 51

تذكرة المودي 49 اتارنے کے قابل تھا اور ساتھ ہی ضعف بھی اس قدر تھا کہ بعد نماز حضرت اقدس بیٹھ نہ سکے.اور وہیں لیٹ گئے سردی کا موسم تھا اور حضرت مولانا و اولنا مولوی نور الدین صاحب اور جناب مولانا مولوی سید محمد احسن صاحب اور منشی رستم علی صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب اور دیگر احباب موجود تھے.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ ہمیں اس وقت تکلیف بہت ہے ذرا کمر دباؤ.پس میں بموجب ارشاد کمر دبانے لگا کوئی دس منٹ گزرے ہوں گے کہ حضرت اقدس علیہ السلام یکا یک اٹھ کر بیٹھ گئے اور تمام تکلیف جاتی رہی اور ! فرمایا اس وقت ہم کو اس کتاب نور الحق کی نسبت یہ الہام ہوا ہے کہ اِن کُنتُم فِي رَيْبٍ مِّمَّا أَيَّدْنَا عَبْدَنَا فَأْتُوا بِكِتَابِ مِنْ مِثْلِہ اگر تم کو یہ شک ہو کہ ہم نے اپنے بندہ کی تائید نہیں کی تو تم بھی اس کتاب کی مثل بنالاؤ اس الہام پر آپ کو ایسی خوشی ہوئی کہ جس کا بیان نہیں ہو سکتا اور بہت دیر تک اس کے متعلق گفتگو کرتے رہے.اور فرمایا کہ خدا نے ہم میں اور ہمارے مخالفوں میں فیصلہ کر دیا اب دیکھیں کون اس کے مقابلہ کے لئے مسلمانوں عیسائیوں سے کھڑا ہو کر ہمارے دعوے کو توڑتا ہے جب یہ کتاب قریب قریب ختم کے پہنچی تو فرمایا کہ ہمارا منشاء ہے کہ مثل نہ لانے والوں کے لئے ایک ہزار لعنت بھی ریں تاکہ وہ بر انگیختہ ہو کر ہی مقابلہ کے لئے کھڑے ہوں میں نے عرض کیا کہ حضور پوری شمار کر کے ایک ہزار لعنت لکھیں اگر چہ اس میں کئی صفح خرچ ہوں فرمایا یہ صلاح ٹھیک ہے اور علاوہ لعنتوں کے یہ بھی لکھا کہ جو شخص اب بھی اس کتاب کے بعد مقابل پر نہ آئے اور ہمارے الہام پر یقین نہ لائے اور گھر میں بیٹھ کر تکذیب کرے یا باتیں بنائے تو وہ حلال زادہ نہیں ہے اور ساتھ ہی پانچ ہزار روپیہ کا انعام بھی دینے کا وعدہ لکھ دیا.اب یہ راقم سفر نامہ کہتا ہے کہ جو شخص اقدس علیہ السلام کے دعوے کی تکذیب کرے اور اس کتاب نور الحق کا مقابلہ کر کے نہ دکھائے اور ایک ہزار

Page 52

كرة الحميدي راول لعنتوں کی وعید سے بھی نہ ڈرے وہ حلال زادہ نہیں گویا اس مکذب نے اس خباثت کو اپنے حق میں تسلیم کر لیا اور مان لیا کہ میری ہٹ دھرمی میرے لئے اس خطاب قبیحہ کی باعث ہوئی.بہت سے لوگوں اور مولویوں سے اس بارہ میں بات چیت ہوئی مگر واہ رے ہٹ دھرمی اور تعصب کسی نے بھی اس کا اقرار نہ کیا کہ ہم اس کتاب کی نظیر پیش کریں گے.ہزار لعنتیں لیں حلال زادگی میں پڑے اور اس خطاب کے درود سے نہ ڈرے صرف زبان سے کہتے رہے کہ ہم اگر چاہیں تو اس کی مثل بنا سکتے ہیں انہوں نے قرآن شریف میں نہیں پڑھا کہ یہی کنار عرب کہا کرتے تھے کہ لَوْ نَشَاء لَقَلْنَا مِثْلُ هذا اگر ہم چاہیں تو اس قرآن جیسی کتاب بنادیں.علما جال کے نام نور الحق کی روانگی جب یہ کتاب چھپ کر طیار ہو گئی تو حضرت اقدس علیہ السلام نے عاجز کو فرمایا کہ ہندوستان کے بڑے بڑے عالموں کی ایک فہرست طیار کردو اور جو عرب اور شام اور روم اور مسقط و ایران اور بعد او اور کربلا کے علماء ہیں ان سب کے نام یہ کتاب رجسٹری کرا کر بھیجو سو میں نے ایسا ہی کیا اور موافق فهرست حضرت اقدس علیہ السلام کو دکھا کر کتابیں روانہ کیں اور سب کی دستخطی رسید آگئی بعض علماء نے اس کو تسلیم کیا چنانچہ ان میں سے ایک مولوی عبد اللہ خراسانی ہیں انہوں نے لکھا کہ میں عجیب سے عجیب عمارت عربی لکھ سکتا ہوں لیکن میں اس کتاب نور الحق کا جو واقعی الحق ہے مقابلہ نہیں کر سکتا.کیونکہ یہ اسی چشمہ اور اسی نور سے نکلی ہے کہ جس چشمہ سے قرآن شریف نکلا ہے کذاب ہے وہ جو اس میں کلام کرے اور حلال زادگی میں فرق ہے اس کی جو واقعی نور کی طرف سے منہ پھیر لے اور صادق اور راست باز ہے جس کے منہ اور قلم سے یہ بے نظیر کلام نکلا اور نابینا ہے وہ کہ باوجود روشنی کے اس کو دکھائی نہ دے میں سخت مخالف تھا اور اندھا تھا اگر یہ بے مثل کلام میری نظر سے نہ گذر تا تو میں

Page 53

تذكرة المهدى 51 حصہ اول جہنمی ہو چکا تھا.اب عنقریب میں انشاء اللہ تعالٰی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں.منجملہ ان کے ایک جناب مولانا مولوی محمد بیٹی صاحب ہیں جب میں کتابیں روانہ کرتا تھا تو حضرت مولانا مولومی نور الدین اسم با سمی ( آپ کا نام نامی اور اسم گرامی میں کبھی لکھتا ہوں تو القاب کے لئے مجھ کو فکر ہوتا ہے آخر یہی دن شہادت دیتا ہے کہ آپ کے اس مقدس نام کے ساتھ کسی القاب وغیرہ کی ضرورت نہیں.کیونکہ آپ کا اسم ہی وہ مبارک ہے کہ کسی القاب کا محتاج نہیں بلکہ خود القاب کی خوش قسمتی ہے کہ آپ کے نام کے ساتھ ہو ایک دفعہ کسی بے ادب نے آپ کے نام کفر کا فتویٰ بھیجا.حضرت نور الدین صاحب نے فرمایا جو نور الدین ہو وہاں کفر چسپاں نہیں ہو سکتا) نے مجھ کو فرمایا کہ ایک کتاب مولوی محمد یٹی صاحب کے نام روانہ کروں.میں نے مولوی صاحب کے نام کا پلندہ باندھا تو اس پر میں نے ان کے نام کی بجائے یا یحْيى خُذِ الْكِتَابَ بِقُوةٍ لكھديا حضرت اقدس علیہ السلام نے اس پلندہ کو دیکھ کر فرمایا کہ تم ان کو جانتے ہو میں نے عرض کیا کہ حضور میں تو نہیں جانتا لیکن حضرت مولانا نور الدین صاحب نے فرمایا تھا کہ ایک کتاب ان مولوی صاحب کے نام بھی بھیج دو.فرمایا بہت اچھا پھر فرمایا کہ یہ آیت کس نے لکھی.میں نے عرض کیا کہ میں نے لکھی ہے اس پر فرمایا کہ خوب ہی کیا.اگر ہم اپنے ہاتھ سے یہ پلندہ لکھتے تو یہی آیت ضرور لکھتے و نکہ ہمارے قلب اور تمہارے قلب کا توارد ہو گیا.تمہارا لکھا ہمارا لکھا ہو گیا.اور ایسا ہوتا ہے کہ پیرو مرشد کا فیض مرید پر اور استاد کا شاگرد پر ایسا اثر پڑ جاتا ہے اب تم ہمارے منشاء کو خوب سمجھنے لگے ہو کتاب روانہ کردد اور کتاب کی روانگی کے وقت دعا کی جب مولوی محمد یحیٰی صاحب کے پاس یہ کتاب پہنچی تو اس پلندہ کو دیکھتے ہی باغ باغ ہو گئے اور بشرح صدر اس کتاب کو ایسا لیا اور ایسا پکڑا کہ جو حق پکڑنے کا ہوتا ہے.الحاصل جب کبھی حضرت اقدس علیہ السلام کو تکلیف ہوتی تھی تو میں سمجھ

Page 54

تذكرة المهدي 52 جایا کرتا تھا کہ حضرت اقدس مبط انوار رحمانی اور مصدر فیوض ربانی علیہ السلام پر آج کل میں وحی کا نزول ہونے والا ہے اور وحی و الہام کے نزول سے کئی روز پہلے بہار ہو جاتے تھے اور جس وقت وحی ہو چکتی تو فی الفور توانا و تندرست ہو جاتے تھے.یہ تکلیف دراصل ہماری نظر میں تکلیف تھی اور یہ ضعف ہماری سمجھ میں ضعف تھا مگر در حقیقت نہ وہ کوئی تکلیف تھی اور نہ ضعف تھا بلکہ وہ ہزار راحت اور لاکھوں تو انائی سے بہتر تھا الہی عظمت و جبروت کے سامنے خدائی بیبت وسطوت کے روبرو بشریت کیا چیز ہے اور کیا حقیقت رکھتی ہے جب انسان سورج کی تپش اور آتش کی سوزش کی تاب نہیں لاسکتا تو تجلی الہی کی کب تاب ہو سکتی ہے اس حقیقت کو وہی محسوس کرتے ہیں جنہوں نے اس نور سے حقیقی روشنی حاصل کی ہے.اور جنہوں نے اس جمال الہی سے اپنی آنکھوں کو منور کیا؟ حضرت اقدس نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ ایسے وقت میں ہمارے تمام قومی اور تمام حس ذہن قوت حافظہ باصرہ شامہ سب تیز ہو جاتے ہیں اور وہ حالت اس حالت کے مشابہ ہوتی ہے کہ جیسے کوئی اندھیرے مکان میں ہو اور کچھ بھی نظر نہ آتا ہو اور یکدم اس مکان میں روشنی ہو جائے تو اس کی نظر ہی نہیں.بلکہ ہر ایک قوت بڑھ جاتی ہے.ایک کشفی حالت کا بیان ایک روز کا ذکر ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کو دوران سر ہوامیان قطب الدین مرحوم ساکن کو ٹلہ فقیر کو بلوایا اور میں پاس بیٹھا ہوا تھا سرد بار ہا تھا فرمایا تیل لگا کر ہماری پنڈلیوں کی مالش کرو.سر میں درد بہت ہے سو ہم دونوں آپ کی پنڈلیوں کی مالش کرنے لگے.اس عرصہ میں شیخ نور احمد صاحب ضلع جالندھر کے رہنے والے آگئے ان کو خواب بہت آیا کرتے ہیں اکثر بچے ہوتے ہیں اور وہ بھی آپ کی پنڈلیوں کی مالش میں شامل ہو گئے میاں قطب الدین صاحب نے عرض کیا کہ حضور میں ریل میں جہلم سے آ رہا تھا ایک سٹیشن ریلوے پر میں نے حضور کو ٹہلتے

Page 55

تذكرة المهدى 53 ہوئے دیکھا اور میں نے گاڑی سے اتر کر آپ سے مصافحہ کیا اور آپ نے مصافحہ کر کے فرمایا جلد گاڑی میں سوار ہو جاؤ تو کیا آپ وہاں تشریف لے گئے تھے فرمایا یہ ایک قسم کا کشف ہوتا ہے اور بعض وقت کسی پر کشفی حالت طاری ہو جاتی ہے.اور اس کو مطلق خبر بھی نہیں ہوتی ہے پھر فرمایا کہ یہاں قادیان میں ایک شخص تھا اس نے ہم سے بیان کیا کہ آج میں قبرستان چلا گیا تو میں نے بعض آدمیوں کو دیکھا کہ اپنی اپنی قبر پر بیٹھے ہیں.انسان تو قبر میں نہیں رہتا لیکن روح کی ایک ایسی مجمول النہ کیفیت ہے کہ اس کو بجز صاحب کشف تجربہ کار کے دوسرا نہین سمجھ سکتا ہے.آریوں عیسائیوں اور دیگر مذہب والوں نے روح کے بارہ میں بڑی ٹھو کر کھائی ہے اور بہت سے لوگ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے ایک بزرگ کو فلاں مقام پر دیکھا.اور دوسرا کہتا ہے کہ میں نے فلاں مقام پر دیکھا اور یہ روئیت بزرگ بمقام مختلفہ ایک دقت واحد میں ہی ہوئی ہے سو یہ سب دیکھنے والے کی کشفی حالت ہے اور وہ بزرگ سب پر وقت واحد میں ہی ظاہر ہو جاتا ہے آنحضرت ﷺ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قبر میں دیکھا اور پھر چھٹے آسمان پر بھی دیکھا پھر میں نے عرض کیا کہ حضرت وفات یافتہ انسان کی روح خواب میں زندہ کے پاس آتی ہے یعنی ہم جو خواب میں متوفی کو دیکھتے ہیں کہ وہ ہمارے پاس آیا اور باتیں بھی ہو ئیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ نہیں روح نہیں آتی بلکہ اس زندہ خواب میں کی روح متوفی کی طرف جاتی ہے اور اس کی مثال اس طرح سمجھو کہ کوئی شخص کشتی میں بیٹھا ہو اور پر لے کنارہ پر آدمی کھڑے ہوئے ہوں تو کشتی کے بیٹھنے والوں کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو کنارے پر کھڑے ہیں ہماری طرف آرہے ہیں حالانکہ وہ ایک مقام پر کھڑے ہوئے ہیں اور ان کو کچھ بھی حرکت نہیں ہے ریل میں بیٹھنے والوں کو بھی یہ منظر پیش نظر ہوتا ہے پھر میاں قطب الدین نے عرض کیا کہ کیا حضور کو جب تکلیف ہوتی ہے تو الہام ہوتا ہے حضرت اقدس علیہ السلام مسکرائے اور کچھ جواب لا

Page 56

تذكرة المهدي 54 وم نہیں فرمایا پھر نور احمد صاحب متذکرہ بالا نے عرض کیا اور انکو اس واسطے عرض کرنے کا موقع ملا کہ یہ کسی کام کو چلے گئے تھے اور یہ سوال ان سے پہلے ہو چکا تھا.ان کے جواب میں فرمایا " ہاں ایسا ہی ہوتا ہے".خاکسار را قم سفر نامہ کو بھی کشف میں بہت کچھ تجربہ تھا لیکن کچھ اپنا حال حضرت اقدس علیہ السلام کے سامنے ہمارا کشفی تجربہ ایسا ہے جیسے کہ آفتاب کے رو برو ایک کرم شب تاب- اگر میں کشفی معاملات میں تجربہ نہ رکھتا ہو تا تو اس امام مامور مقدس مرسل اللہ کی شناخت میسر نہ ہوتی اول تو پیر زادگی اور صاحب زادگی ایسی میرے ساتھ لگی ہوئی تھی کہ سوائے اپنے منوانے کے دوسرے کا ماننا محال تھا دوسرے یہ کہ ہم عظیم الشان امام حضرت ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی نسل سے ہیں اور جب سے لیکر اب تک خدا کے فضل سے صاحب ارشاد اور صاحب علم و فضل ہوتے رہے.یہ بھی ایک حجاب تھا.سوم یہ کہ میرے ہاتھ پر ہزاروں آدمیوں نے جن میں شیخ سید مغل : پٹھان اور پیرزادے اور مولوی بیعت تھے اونی لوگوں میں یا جہلا میں بہت ہی کم تھے ورنہ سب پڑھے لکھے خواندہ جاگیردار بڑے بڑے عہدہ دار اور تاجر ہی تھے چهارم یہ کہ کشف میں بھی تجربہ تھا یہ ایسی باتیں تھیں کہ بڑی بھاری رکاوٹ تھی لیکن میں بار بار اللہ تعالی کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس نے مجھ کو محض اپنے فضل و کرم سے اس مامور اعظم و مرسل معظم کی شناخت اور شناخت سے زیادہ اتباع اور اتباع سے زیادہ معیت اور معیت بھی پچیس چھبیس برس کی لگاتار معیت اور اس سے زیادہ رات اور دن اور صبح و شام کی صحبت اور صحبت میں بھی شاگردی عطا فرمائی اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِي لَوْلَا أَنْ هَدَانَا الله - جب میں حضرت اقدس امام موعود خلیفہ محمود علیہ الصلوة منى ومن الله الودود کی صحبت میں رہا تو وہ میری پہلی حالت جاتی رہی اور میں سخت پریشان ہوا

Page 57

تذكرة المهدى 55 کہ یہ کیا بات ہوئی.ایک روز میں اتفاق سے تذکرۃ الاولیاء دیکھ رہا تھا کیونکہ حضرت اقدس علیہ السلام اس کتاب کی تعریف فرمایا کرتے تھے اور اپنی دوران تقریر میں کوئی حکایت کسی بزرگ کی فرماتے تو یہ فرمایا کرتے کہ تذکرۃ الاولیاء میں ایسا لکھا ہے پس میں نے اس کتاب میں ایک حکایت دیکھی کہ ایک بزرگ کے ملنے کے لئے اتفاق سے کوئی بزرگ آگئے.ان مقامی بزرگ نے ان مسافر بزرگ کی بڑی خاطر و مدارات کی اور فرمایا کہ چند روز ہمارے پاس آپ قیام فرما دیں پس انہوں نے منظور کیا ابھی دو چار روز ہی ان کو ہوئے تھے جو ان کی کیفیتیں اور کشف اور باطنی قوتیں سلب ہو گئیں وہ حیران ہوئے اور عرض کیا کہ آپ کی خدمت میں رہ کر اور ترقی ہوتی نہ کہ تنزل اور تنزل بھی چھوڑ ب کچھ سلب ہو گیا ان بزرگ عظیم القدر نے فرمایا کہ یہ حالت تمہاری سنت سے کچھ جدا نہیں اور شیطانی دخل اس میں ہو گیا تھا.میں نے یہ ناقص حالت تمہاری دیکھ کر تم پر رحم کیا اور یہی غرض تمہارے مہمان رکھنے کی تھی اب تم گھبراؤ مت انشاء اللہ تعالی چند روز میں اس پہلی حالت سے یہ حالت بدرجہا بہتر ہو جائے گی اور جو کچھ اس میں شیطانی لمونی تھی وہ رحمانی نور سے مصفا ہو کر پر ہو جائے گی.اس حکایت کو دیکھ کر میں بہت خوش ہوا اور خدا کا شکر کیا اور واقعی یہ حالت جب میسر ہوئی تو زیادہ موجب تسکین اور زیادتی ایمان ہوئی جو جو میں نے حضرت اقدس کی صحبت میں پایا وہ خدا نے چاہا اپنے اپنے مقام پر لکھوں گا.پھر میں دوبارہ اللہ جل شانہ کا شکر اور اس کی حمد بجالاتا ہوں کہ جس نے اس مامورو مرسل کی جو ہمارے زمانہ میں ہمارے ملک میں ہمارے قریب مبعوث ہو ا شناخت اور صحبت کی توفیق اپنے فضل سے نہ ہمارے کسی فعل کے بدلے میں عنایت فرمائی.دہلی میں جو مباحثہ حضرت اقدس علیہ السلام اور مولوی محمد بشیر بھوپالی اور لودھیانہ میں مولوی ابو سعید محمد حسین بٹالوی سے ہوا اسکی کیفیت بھی سننے کے

Page 58

تذكرة المهدى 56 قابل ہے اور وہ یہ ہے کہ جب رسالہ فتح اسلام اور اس کا دوسرا حصہ توضیح مرام اور تیرا حصہ ازالہ اوہام یعنی یہ تینوں حصے چھپیکر شائع ہو گئے تو حضرت اقدس علیہ السلام دہلی تشریف لائے اس کی ابتدا یوں ہوئی کہ جب حضرت اقدس علیہ السلام نے رسالہ فتح اسلام سے پہلے اور بیانہ میں ایک اشتہار دیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام فوت ہو گئے اور ان کی روح دو سرے آسمان پر معہ حضرت یحییٰ علیہ السلام ان کے خالہ زاد بھائی کے ساتھ موجود ہے اور جس صحیح کا اس امت میں آنے کا وعدہ تھا وہ میں ہوں اس اشتہار کا نکلنا تھا اول لودھیا نہ شہر میں اور پھر تمام پنجاب اور ہندوستان میں ایک طوفان بے تمیزی برپا ہو گیا.اور غل اور شور مخالفت و معاندت کا اٹھ کھڑا ہوا اور جس روز یه اشتهار چھپا اسی روز ایک اشتهار حضرت اقدس علیہ السلام نے میرے پاس مقام کوٹ پو تلی علاقہ جے پور بھیج دیا.کیونکہ میں اس زمانہ میں وہیں تھا اور مجھے یہاں چھ سات مہینے تک قیام کرنا پڑا تھا اس لئے کہ اس شہر کا ہر ایک شخص عورت و مرد سب میرا مرید تھا اور ان دنوں مولود شریف اور وعظ کا اسقدر چرچا تھا کہ ایک ایک دن چار چار پانچ پانچ جگہ مولود شریف کی مجلس ہوتی تھی اور اس عرصہ اس عرصہ تک یہ بھی ذکر ہوتا رہا کہ امام مہدی پیدا ہونگے.اور جیسا کہ مشہور ہے کہ سیح و مہدی کی نسبت عوام کا عقیدہ ان کا نام محمد ہو گا اور ان کی ماں کا نام آمنہ اور باپ کا نام عبد اللہ ہو گا.اور وہ نصاری سے لڑیں گے اور جنگ و جہاد ہوگا اور ان کے وقت میں رمضان کے مہینے میں چاند گرہن اور سورج گرہن ہو گا اور تمام روئے زمین پر نصاری کا راج ہو گا.قرآن شریف اٹھ جائے گا خیر و برکت محبت والفت جاتی رہے گی اولاد ماں باپ کی نافرمان ہو گی ماں باپ اولاد کی پرورش میں کو تاہی کریں گے جو رویں خاوندوں کی نافرمان اور خاوند عورتوں سے متنفر ہوں گے علم کم ہو جائے گا جہالت بڑھ جائے گی ہمدردی کا

Page 59

تذكرة المهدي 57 نام نہیں رہے گا مسجد میں بہت ہونگی لیکن نمازی کم ہوں گے اور جو ہونگے تو ان کے دلوں میں ایمان و اسلام نہیں ہوگا.ایمان و عرفان دنیا سے نیست و نابود ہو جائے گا.دنیا کے پیچھے لگ کے دین سے غافل ہو جائیں گے.اسلام کا محض نام اور نماز ایک رسم ہو جائے گی علما اس زمانہ کے خراب ہو نگے علم دین دنیا کے لئے سیکھیں اور سکھائیں گے اور پڑھیں اور پڑھائیں گے دہریت پھیل جائے گی اور یہود خصلت ہو جائیں گے زنابد کاری ریا بہت ہو جائے گی دنیا کی نمود اور نام کے لئے مال خرچ ہو گا.اسراف بیجا اور نام آوری میں لوگ گرفتار ہونگے صدقہ و خیرات بھی اگر کریں گے تو نام اور ناک کے لئے کریں گے.خدا تعالی کا کچھ خوف ہوگا نہ شریعت سے کوئی کام ہو گا طرح طرح کے باجے نکلیں گے عورتیں بے حجاب اور بے پردہ ہوں گی.صوفی درویش سجادہ نشین ہر قسم کے آدمی بدتر حالت میں ہونگے اور حضرت امام مہدی کے زمانہ اور دور خلافت میں حضرت عیسی علیہ السلام چوتھے آسمان سے نازل ہوں گے دو فرشتوں کے پروں پر ہاتھ رکھے زرد کپڑے پہنے مسجد کی چھت یا دمشق کے سفید منارہ پر اتریں گے اور سب آدمی آسمان سے اترتے ہوئے دیکھیں گے اور جب منارہ یا چھت پر اتریں گے تو زینہ طلب کریں گے پھر لوگ زینہ لگا کر صحن مسجد میں حضرت عیسی علیہ السلام کو اتاریں گے اور حضرت امام ہونگے پھر دجال آدے گا جو ایک آنکھ سے کانا اور گدھے پر سوار ہو گا.اور ستر ہزار یہودی اس کے ساتھ ہونگے اس کا گدھا ستر باغ یعنی ایک سو چالیس ہاتھ لمبا ہو گا.اور وہ خدائی کا دعوی کرے گا مسلمانوں کو چاہئے کہ ایسے وقت ایمان سلامت رکھیں اور سورہ کہف کی اول یا آخر کی آیتیں پڑھیں اور پھر حضرت امام مہدی اور حضرت عیسی دونوں رل مل کر دجال اور اس کے ہمراہیوں کو قتل کریں گے اور نصاریٰ سے جنگ ہو گا اور نصاری سے تین دفعہ شکست کھا ئیں گے غرض کہ ایسی ایسی باتیں بیان کرتا رہا ایک روز ایک شخص کے ہاں میری دعوت تھی جس وقت میں کھانا کھانے بیٹھا دو

Page 60

تذكرة المهدى 58 چار شخص اور بھی تھے اتنے میں چٹھی رساں آیا اور پانچ سات خط مجھ کو دیے اور ایک اشتہار حضرت اقدس علیہ السلام کا بھی تھا حضرت اقدس علیہ السلام کی یہ عادت تھی کہ جو اشتہار چھپتا یا کتاب وہ میرے نام جہاں میں ہوتا ضرور بھیج دیا.کرتے تھے پس میں نے وہ صحیفہ عظامی حضرت اقدس علیہ السلام کھولا تو اس میں یہ لکھا تھا.بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم مکرمی اخویم صاحبزادہ سراج الحق صاحب سلمہ اللہ تعالی السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ ایک اشتہار آپ کی خدمت میں روانہ کیا جاتا ہے آپ اس کو غور سے پڑھیں اور دوسروں کو بھی سنادیں.اور اشتہار کے متعلق ایک کتاب لکھی گئی ہے جو امر تسر چھپ رہی ہے وہ خدمت میں روانہ ہوگی انشاء اللہ تعالٰی خاکسار مرزا غلام احمد از مقام لودهیانه مکان شاہزادہ غلام حیدر خان پھر اشتہار حضرت اقدس کا دعویٰ مسیحیت اور میری تصدیق دیکھا تو اس اشتہار کی سرخی یہ تھی لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَ يُحْيِي مَنْ حَيَّى عن بنت اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے اور ان کے رنگ میں رنگین ہو کر اور صفات مسیحی لے کر روحانی طور سے میں آیا ہوں.جس مسیح کے آنے کا اس امت میں وعدہ تھا سو دہ موعود میں ہوں اس اشتہار کے پڑھتے ہی میری بھوک خوشی کے مارے جاتی رہی.اور شادی مرگ کی سی حالت مجھ پر طاری ہو گئی.ایک طرف تعجب اور ایک طرف خوشی کھانا کھانا تو جاتا رہا اس اشتہار کو بار بار پڑھتا رہا نور محمد اور اللہ بندہ ہانسوی اس دعوت میں شریک تھے انہوں نے جو میری یہ حالت دیکھی تو وہ بھی متعجب ہو گئے اور حال دریافت کیا اور نیز صاحب خانہ نے بھی پوچھا کہ اس اشتہار میں ایسی کیا بات ہے کہ جس سے کھانا چھوڑ دیا اور چہرہ پر آثار خوشی اور تعجب کے پائے جاتے ہیں میں نے وہ

Page 61

تذكرة المهدى 59 اول صحیفه گرامی اور اشتہار حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام ان کو پڑھ کر سنایا.انہوں نے کہا کہ کئی مہینے سے تو آپ یہ بیان کرتے تھے کہ حضرت مسیح آسمان پر زندہ ہیں اور پھر آخری زمانہ میں آسمان سے اتریں گے اور امام مہدی پہلے موجود ہونگے میں نے کہا کہ وہ پہلا بیان غلط تھا اور یہ صحیح ہے جو اس اشتہار میں ہے پہلے بے تحقیقی محض کہانی کے طور پر سنا سنایا تھا اور یہ حق ہے میرے پاس اس وقت اور کوئی دلیل نہیں صرف یہی دلیل کافی ہے کہ حضرت اقدس اپنے اس دعوئی میں صادق ہیں ایک مدت سے میں آپ کی خدمت مبارک میں حاضر ہو تا ہوں اور ۱۲۹۸ھ سے مجھ کو حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں باریابی ہے صادق انسان کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا.یہ منہ ہی جھوٹوں کا نہیں ہے جس کی صداقت اور صداقت کے نشان کئی سال سے دیکھے گئے اس کا خلاف واقعہ کوئی بیان نہیں سنا تو اب کیسے یکایک اس کا بیان کذب پر محتمل ہو سکے.اللہ تعالٰی کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس نے ہمیں بیہون دکھایا اور اس مبارک زمانہ اور ان پر شرف ایام میں ہمیں پیدا کیا.خیر کھانا تو خوشی کے مارے کس سے کھایا جاتا تھا تمام بدن رواں میرا وعظ رواں خوشی سے لذت و سرور میں بھر گیا رات کو وعظ تھا اس وعظ میں تخمینا پانسو سے زیادہ آدمی ہوں گے منجملہ ان کے سید محمد اکبر علی اور سیف الرحمن سجادہ نشین سید بهادر غازی رحمتہ اللہ علیہ سید منور علی شیخ محمد بخش محمد رمضان خان سرپنچ محمد نجف خان سرپیچ - محمد کالیخان سر پیچ - محمد ہوشدار خان سرپنچ محمد حمید خان سر پنچ محمد عنایت خان رئیس اعظم بهوره خان رئیس اعظم رسالدار نواب محمد عیسی خان محمد گلاب خان تھانہ دار محمد مشرف بیگ داعظم بیگ و عبد الصمد خان سرشتہ دار مولوی غلام محی الدین سجادہ نشین سید عبد الرحمن ملا غلام احمد خان - خدا بخش ملا عبد الوہاب شیخ محمد موسی پیر جی کمال الدین و پیر جی جمال الدین و ملا مستعان و مرزا محمد امین بیگ و مرزا حسن علی بیگ و عبد الواحد

Page 62

تذكرة المهدى 60 خان وغیرہ ہر قوم کے لوگ تھے میں نے بیٹھتے ہی پہلے اللہ تعالی کی حمد و ثنا بیان کی اور کہا کہ میں اس وقت حاضرین کو ایک عجیب بات سناتا ہوں اور اللہ تعالٰی کی نعمت اور اس کے فضل و احسان کا بیان کرتا ہوں جو اس نے ہم پر اور تم پر فضل فرمایا.اور سینکڑوں برس کی امید کو پورا کیا ہزاروں لاکھوں اور کروڑوں اولیاء ابدال غوث و قطب عابد زاہد امام علماء فضلاء اور بیشمار مومن اور مسلمان اس نعمت بے بہا اور فضل و احسان کے امیدوار گذر گئے کہ ہم اس نعمت کو پائیں اور ایک دوسرے کو یہ وصیت کرتا رہا کہ جس کو یہ نعمت ملے وہ اسکی قدر کرے وہ نعمت کیا ہے وہ یہ ہے کہ قرآن شریف اور حدیثوں میں آیا ہے کہ آخری زمانہ میں امام مہدی پیدا ہوں گے اور حضرت عیسی علیہ السلام آئیں گے جیسا کہ میں کئی مہینے سے تم سے بیان کر رہا ہوں اور تم نے اور جگہ بھی سنا ہو گا سو وہ آنے ولا مهدی امام آخر الزمان اور عیسی موعود آگیا مبارک ہو اور سعید ہے وہ جو اس کو مانے او بڑا ہی بد بخت اور بد قسمت ہے جو اس کا انکار یا اس سے روگردانی کرے وہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب ہیں جو قصبہ قادیان کے رئیس ہیں (علیہ الصلوة والسلام) پھر میں نے آپ کا اشتہار سب کو پڑھ کر سنایا کچھ لوگ یہ بیان سن کر تعجب میں پڑ گئے اور بعض نے انکار کیا اور بعض خاموش رہے اور بہتوں نے صریح تکذیب کی.بعد اس کے دوسرے روز یہ عریضہ حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں لکھا جس کا خلاصہ یہ ہے.بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم از خاکسار محمد سراج الحق نعمانی و جمالی- سرج اللہ وجہہ الرحمن بخدمت مبارک مسیح الزمان مهدی دوران حبیب الرحمٰن حضرت اقدس مرزا غلام احمد رئيس قادیان دام عنا يتهم - الصلوۃ والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاته حضور کا نامہ عنایت مکرمت معه اشتهار شرف صدور لایا خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہمارے زمانہ میں اور اس پر فتن زمانہ میں حضور منصب مہدویت اور درجہ

Page 63

تذكرة المهدى 61 مسیحیت لیکر مبعوث ہوئے لاکھوں کروڑوں پر موں علماء فضلا اولیاء ابدال غوث و قطب اسی تمنا اور اسی آرزو میں چل ہے کہ مہدی و مسیح ہمارے وقت اور ہمارے زمانہ میں ہو لیکن ان کی یہ آرزو یہ تمنا یہ امید پوری نہ ہوئی.اور وہ یہ خواہش دل کی دل میں ہی لے گئے یہاں تک کہ آنحضرت ا کو بھی انتظار رہا لیکن آپ اپنے صحابہ کو وصیت کر گئے کہ جو اس مبارک وجود مهدی معہود مسیح موعود کو پائے میرا اس کو سلام کہدے.سو حضور عالی میرا سلام تو ہمیشہ خط اور ملاقات کے ذریعہ پہنچ جاتا ہے.لیکن اب میں خاص طور پر اپنی طرف سے اور حضرت رسول اکرم ا کی طرف سے حسب الارشاد سلام پہنچاتا ہوں اللہ تعالٰی نے بموجب فرمودہ اور وعدہ معذره قرآن مجید كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةُ ہم نابکاروں گنہگاروں کے اوپر رحمت کی نظر فرمائی اور آپ کو ہماری رہنمائی کے لئے مبعوث فرمایا اور ہم لوگوں کو گرتے ہوئے تھام لیا الحَمْدُ للهِ ثُمَّ الْحَمْدُ لِلهِ اب میں بھی عنقریب خدمت والا میں حاضر ہوتا ہوں و السلام اس عریضہ کے ڈاک میں ڈالنے کے بعد ایک رسالہ فتح اسلام کا اور توضیح مرام بھی مرسل حضرت اقدس مجھے مل گیا ان دو رسالوں کے دیکھنے سے آنکھیں کھل گئیں اور میں لائق ہو گیا کہ مخالف کو کافی وشافی جواب دے سکوں دماغ کی قوت ذہن کی رسائی اور دل میں ایک روشنی پیدا ہو گئی اب تو زور شور سے کھلم کھلا یہی وعظ ہونے لگا مولوی غلام محی الدین سجادہ نشین جو کوٹ پوتلی میں ہمیشہ سے رہتے تھے ان کا اثر بھی سکناء کوٹ پوتلی پر بہت تھا وہ ایک روز علیحدگی میں مجھے ملے اور انہوں نے اشتہار اور دونو رسالے دیکھے اور پڑھے کہنے لگے صاحبزادہ صاحب یہ کوٹ پو تلی تمام شہر تمہارا مرید ہو گیا ہے گو ظاہر میں آپ کے دباؤ اور لحاظ سے کچھ نہیں بولتے لیکن دل میں مخالف ہیں یہ رسالے ہیں تو درست اور مدلل و مبرہن پر آپ کے یہ مرید برگشتہ ہو جائیں گے یہ بات دل

Page 64

تذكرة المهدي 62 میں رکھو اور ظاہر مت کرو میں نے کہا ایسا نہیں ہو سکتا کہ میں منافق بنوں اور جو فضل خدا نے ہم پر کیا اس کو اوروں کو نہ سناؤں مخالف ہوں تو ہوا کرو بندہ کو اس کا کچھ خوف ہے اور نہ غم اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ پس اس کا کفران نعمت کیونکر کیا جائے مجھ سے تو اس مولوی نے یہ باتیں کیں اور لوگوں سے کہا کہ سراج الحق نے نیا عقیدہ بنایا ہے اس کی پیری و مریدی نا جائز ہے بہتر ہے کہ اس سے الگ ہو جاؤ مولویوں کا یہی حال ہے کہ منہ پر کچھ اور پیٹھ پیچھے کچھ تب ہی تو اس عظیم الشان مصلح کی ضرورت پڑی کسی صادق مامور مرسل کی پہچان ضرورت زمانہ سے خود بخود ہو جاتی ہے ضرورت زمانہ مامور مرسل کے لئے بہت بڑی شہادت ہے.ان دونوں رسالوں مذکورہ میں یہ بھی حضرت اقدس علیہ السلام نے رقم فرمایا ہے کہ بعض لوگ بد بخت کاٹے جائیں گے اور وہ ہیزم جنم ہوں گے میں نے اس کے جواب میں حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں لکھا کہ حضور میرے لئے دعا کریں کہ میں ایسے لوگوں میں نہ ہوں اور مجھ کو اللہ تعالیٰ مستقل اور مستقیم رکھے کہ تادم واپسیس مرا ایمان آپ پر سلامت رہے اور دنیا و آخرت میں آپ کی معیت نصیب رہے ایسا نہ ہو کہ میں کاٹا جاؤں اور میں اللہ تعالی کی حفاظت اور پناہ چاہتا ہوں میں صدق دل اور صحیح ارادت سے آپ کو آپ کے دعوئی میں ایسا ہی سچا مانتا ہوں جیسے حضرت محمد رسول اللہ اللہ کو سجا مانتا ہوں اس کے جواب میں حضور علیہ السلام نے مجھے کو یہ تحریر فرمایا کہ خدا کا شکر ہے کہ تم کو کوئی ابتلا پیش نہیں آئی اور میں دل سے تمہارے لئے دعا کرتا ہوں کہ تم کو اللہ تعالیٰ ثابت قدم رکھے پھر جب یہ عاجز حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں لودھیا نہ حاضر ہوا اور اس کے سوا اور کئی بار اس کا ذکر فرمایا کہ خدا نے تمہاری دعا قبول کی اور محفوظ کر لیا اور فرمایا کہ الاقدم فاقدم ایک روز میں نے مشکوۃ کھول کر باب نزول عیسیٰ علیہ السلام دیکھا تو اس

Page 65

تذكرة المهدي 63 باب میں نزول عیسی بن مریم کی کئی حدیثیں دیکھیں میں نے جانا کہ شاید حدیثیں صحیح نہ ہوں لیکن نزول عیسی والی حدیث میں حَكَمًا عُدَلاً دیکھا تو یہ انشراح صدر سے دل نے مانا کہ وہ عیسی تو حکماً عدلا بالکل نہیں ہو سکتا اور اپنی عقل کے مطابق دیکھا کہ وہ مسیح مردوں کو زندہ کرتا تھا اور ان حدیثوں میں ہے کہ اس کے سانس سے زندہ مریں گے اور مرے ہوئے زندہ ہونگے اور پھر اس مسیح کا حلیہ اور ہے اور اس مسیح کا حلیہ اور اور باقی یہی دل نے فیصلہ کیا کہ اب اسی کی خدمت میں چلو یہ سب عقدے اسی حکم و عدل سے حل ہوں گے پھر میں کوٹ پوتلی سے روانہ ہو کر مقصد زیارت حضرت اقدس علیہ السلام دہلی آیا.لوگوں نے دریافت کیا کہاں جاتے ہو میں نے کہا لودھیا نہ حضرت عیسی موعود علیہ السلام کی زیارت کو جاتا ہوں اور جو مجھ سے ملتا میں اس کو یہی کہتا جو میرے منہ سے یہ بات سنتا تو حیرت سے میرا منہ تکنے لگتا اور کہتا کہ لودھیانہ اور حضرت عیسی علیہ السلام ؟ کیونکہ لوگوں کی نظروں میں تو دمشق یا مکہ معظمہ بسا ہوا تھا اور اس کے سوا مرزا غلام احمد علیہ السلام کا نام سن کر متعجب ہو تے مثل مشہور ہے که سوال از آسمان جواب از رسیمان ان کی نگاہ آسمان پر اور ہماری نظر زمین ہند پر اور وہ ادھار پر مرے ہوئے اور ہم نقد پر ندادہ مردہ پرستی میں غرق اور ہم زندہ کے خواستگار وہ سنی سنائی باتوں کے دلدادہ اور ہم حقیقت اور آنکھوں دیکھی کے آشنا ہم میں اور لوگوں میں بعد المشرقین ہو گیا اتنے میں ایک شخص نظر طفیل احمد برنی اور میرے بڑے برادر شاہ محمد خلیل الرحمان صاحب نعمانی | و جمالی سجادہ نشین بھی اسی روز دیلی آگئے حافظ صاحب سے بھی یہی باتیں ہوئیں لیکن انہوں نے سخت مخالفت کی.مرزا صاحب کیونکر عیسی علیہ آٹھواں مباحثہ ایک حافظ سے السلام ہو سکتے ہیں.سراج الحق: اسی طرح ہو سکتے ہیں جس طرح عیسی علیہ السلام ہو گئے.

Page 66

تذكرة المهدى 64 حافظ : وہ ابن مریم یہ ابن مرتضی.سراج الحق: یہی تو خوبی ہے اور اسی میں تو بھید ہے کہ خدا نے ابن غلام مرتضیٰ کو مسیح ابن مریم بنا دیا اسکی قدرتیں غیر محدود وہ مالک الملک جس کو جو چاہے بنادے.اور یہ تمہاری غلطی ہے کہ ابن مریم کے معنے مریم کے بیٹے کے سمجھتے ہو ابن مریم نام ہے حضرت مسیح کا چنانچہ قرآن شریف میں ہے إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكَ بِكَلِمَةٍ مِنْ اسْمُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ یعنی اللہ بشارت دیتا ہے تجھ کو اے مریم جو اس کی طرف سے کلمہ ہے اور نام اس کا مسیح عیسی بن مریم ہے اس ترجمہ کا خلاصہ تو یہی ہوا کہ اے مریم ہم تجھے ابن مریم کی بشارت دیتے ہیں کہنا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم تجھ کو بشارت دتے ہیں کہ ایک بیٹا عیسی نام دیا جاتا ہے مریم کو ابن مریم بیٹا دیا جاتا ہے.حافظ صاحب یہ تو میری سمجھ میں نہیں آتا.سراج الحق : جب کسی کی عقل ماری جاتی ہے تو سچی بات کبھی بھی سمجھ میں نہیں آئی تم تو اگر حضرت مسیح یا حضرت رسول کریم کے زمانہ میں ہوتے تو وہ بھی سمجھ میں نہ آتے حافظ صاحب تم تو صوفی ہو صوفیوں کی سمجھ میں تو یہ بات پہلے آنی چاہئے تھی.حافظ صاحب : مسیح اور مہدی دو شخص ہیں.سراج الحق : حافظ صاحب دو نہیں ایک ہی کے دو نام ہیں تم حافظ بھی ہو اور احمد بھی یہ دو نام تمہارے کیسے ہوئے حدیث شریف میں آیا ہے لا مُهْدِی لا : جو ترجمہ لا إله إلا الله ہے وہی ترجمہ اسی ترکیب سے لَا مُهْدِى لا عیسی کا ہے یوں سمجھو کہ دو ٹیسٹی ہیں ایک وہ ٹھیسٹی جو ہمارے نبی الی سے چھ سو سال پیشتر ہو چکے ہیں اور موسیٰ علیہ السلام سے چودہ سو برس بعد جن کا حلیہ آنحضرت ا نے یہ بتلایا کہ وہ سرخ رنگ اور گھنگریالے بالوں والا ہے اور دو سرا دہ عیسی ہے جو رسول اللہ اللہ سے چودہویں صدی میں آنے والا

Page 67

تذكرة المدى 65 ہے کہ گندم گوں اور سیدھے لٹکواں بالوں والا - وہ اس پہلے کا مثیل اور محمد مصطفیٰ کا مثیل ہے گویا یہ دو نبیوں کا مظہر اور دو رسولوں کے اوصاف سے متصف ہے اس واسطے مہدی بھی ہوا اور صحیح بھی جب دو ملئے الگ الگ بیان ہوئے اور پھر علاوہ اس کے اِمامُكُمْ مِنْكُمُ فرما دیا جو بخاری شریف میں موجود ہے تو پھر یہ دو نام ایک کے ہوئے یا دو کے اور ایک وفات بیان کر دی.حافظ صاحب : حدیث میں درمیانہ قد آیا ہے اور مرزا صاحب بخلاف اس کے طویل القامت ہیں.سراج الحق : بالکل غلط ہے حضرت کا درمیانہ قد ہے ایک اور شخص : حافظ صاحب تم نے مرزا صاحب کو دیکھا ہے حافظ صاحب : نہیں میں نے نہیں دیکھا پر سنا ہے.وہی شخص : سنی سنائی بات کا کیا اعتبار - اعتبار پیر صاحب کی بات کا ہونا چاہئے (مجھ سے مخاطب ہو کر کیوں حضرت پیر صاحب آپ نے مرزا صاحب کو دیکھا ہے؟ سراج الحق : میں نے دیکھا اور دیکھنا کیسا ۱۲۹۸ ہجری سے مجھ کو حضرت اقدس کی خدمت مبارک میں نیاز حاصل ہے.وہی شخص : بمقابلہ حافظ صاحب کے تمہارا کہنا سچا ہے.ہانسی میں تبلیغ پھر میں دہلی سے روانہ ہو کر پانی آیا اور اپنے جد امجد چار قطب کی خانقاہ شریف میں ٹھرا تمام شہر میں یہ صدا کہ حضرت عیسی امام مہدی موعود تشریف لے آئے پہنچائی گئی.چونکہ تمام لوگوں کی نظریں آسمان کی طرف یا مکہ معظمہ کی سرزمین میں تھیں ابن واسطہ لوگوں کو اس صدا سے حیرانی ہوئی سینکڑوں آدمی ملنے اور اس خبر کو سننے کے لئے آئے ان کو سمجھایا گیا کہ نہ کوئی آسمان پر گیا اور نہ آسمان سے آئے.تمام نبی رسول اور اولیاء اسی طرح پیدا ہوئے جو آتا ہے وہ یہیں سے آتا ہے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں حضرت خاتم الانبیاء افضل الرسل محمد مصطفی ا کی نسبت فرماتا

Page 68

تذكرة المهدي 66 ہے اَفَكُلَّمَا جَاءَ كُمْ رَسُولُ بِمَا لَا تَهْوَى أَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا - كَذَّبْتُمْ وَ فَرِيقًا تَقْتُلُونَ.جب آئے تمہارے پاس رسول وہ چیز ( کلام الہی شریعت معرفت اصلاح توحید وغیرہ لیکر مگر تمہاری خواہشوں کے برخلاف تو تم نے تکبر کیا اور باوجود تکبر کے ایک فرقہ کو جھٹلایا اور ایک فرقہ کے قتل کے در پئے ہوئے اس آیت شریف سے معلوم ہوا کہ جو رسول آتا ہے وہ بر خلاف لوگوں کی خواہشوں کے آتا ہے چنانچہ آنحضرت ا تمام لوگوں کی آرزو امیدوں سے علیحدہ ہی آئے نصاری اور یہود وغیرہ کیا کیا امیدیں باندھے بیٹھے ہوں گے اور اصل شریعت کو چھوڑ کر اپنے مفہوم اور سمجھ کے مطابق کیا کیا آرزو میں دل میں رکھتے ہونگے اپنی ناقص عقل اپنی ناکارہ سمجھ اپنے ناکارہ اور و ہمی اور مخدوش علم پر اترا اترا کر کیا کیا گھمنڈ رکھتے ہوں گے سواس خیرالمرسلین ال ل ل ا ن نے تشریف لا کر سب کی آرزؤں کو خاک میں ملا دیا یک طرف حیران از د شاہان وقت یکطرف مبہوت ہر دانشوری تمام عالموں اور درویشوں احبار رہبان تحسین امراء ورؤسا کی امیدوں پر یک لخت پانی پھیر دیا.بعینہ اس زمانہ کا بھی یہی حال تھا اور ہے کہ وہ شریعت اور وہ تقویٰ اور طهارت وہ معرفت اور بچے علوم سے دنیا غافل تھی صوفی عالم امیر غریب سب نے علیحدہ علیحدہ اپنی اپنی شریعت بنارکھی تھی اور وہ جو حضرت محمد مصطفی سید الانبیا سرور اولین و آخرین ا اللہ کی طرف سے نور لیکر آئے تھے اس کو سب نے بھلا دیا اور کم کر دیا تھا حق کو ناحق اور ناحق کو حق بنا رہے تھے رسوم لہ ہم پرستی مردہ پرستی کی حد نہ رہی تھی اور پھر یہ غضب کہ ہر فرقہ یہی سمجھتا تھا کہ نا میں سے ہی وہ امام آئے گا بلکہ بعض نے یہود کی طرح فقہ کی کتابیں بھی لکھدیں.کہ وہ امام اس پر عمل کرے گا سو دہ امام موعود خلیفه موعود علیہ الصلوة والسلام عین وقت پر آیا سب کی آنکھیں چوندھیا گئیں علم سلب ہو گئے قلم ٹوٹ گئے

Page 69

تذكرة المهدي 67 دوات کی سیاہی جہاں کی تہاں دھری دھری سوکھ گئی انگلیاں منہ میں لب خشک کسی نے خوب کہا ہے کہ قَدْ جَفٌ الْقَلَمُ بِمَا هُوَ كَائِن جو ہوتا تھا ہو گیا جو اللہ تعالی کو کرنا تھا کر دیا جس کو وقت پر بھیجا تھا بھیج دیا اور وہ دیکر بھیجا کہ جو سب کی فہم علم سمجھ ہر ایک شے سے بالا تر تھا کل دنیا اس کا مقابلہ نہ کر سکی.یہ بات ہو رہی تھی کہ ایک صوفی بھی تھے اور علم پر بہت ناز کرتے تھے آگئے فرمایا کہ ہم کو کسی امام یا مسیح کی کیا ضرورت ہے ہم کو قرآن شریف کافی ہے رسول بس ہے میں نے ان سے کہا کہ تمہاری اس بات اور اس کلمہ کفر کا جواب بھی اللہ تعالیٰ نے خود ہی قرآن مجید میں دیا ہے کہ جب کہ یہود اور نصاری کے علماء صوفیا نے یہ کہا کہ ہمارے پاس کتب آسمانی موجود ہیں اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کی شریعت سے واقف ہیں اور ہم مقدس و مطہر انسان ہیں وَقَالُوا تُلُوبُنَا خُلَفَ ہمارے دل غلافوں میں محفوظ ہیں جیسے ایک شے غلاف میں رکھی ہو تو گرد و خاک سے مصفی رہتی ہے اسی طرح ہمارے دل مصفی و مجلی ہیں ہم کو کسی رسول کی کیا حاجت ہے تو اللہ تعالیٰ ان کے اس قول کے جواب میں فرماتا ہے بَلْ لَعْنَهُمُ اللهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيْلاً مَّا يُؤْمِنُونَ بلکہ لعنت کی ان کو اللہ نے بسبب ان کے کفر کے پس یہ تھوڑا ہی ایمان لائیں گے یعنی ان کے دلوں پر لعنت الہی کے غلاف چڑھے ہوئے ہیں ایسے لوگ ہرگز ایمان نہیں لاتے جو رسول کی عدم ضرورت مانتے ہیں وہ لعنت اللہ کے نیچے ہوتے ہیں وہ سیاہ دل مسخ شدہ رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دور اور شیطان کے قریب ہوتے ہیں وہ فنانی اشیطان ہوتے ہیں آگے اس کے فرمایا وَلَمَّا جَاءَ هُمْ كِتَابٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ تصَدِّقُ لِمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا اور جب آئی ان کے پاس کتاب (قرآن) اللہ کی طرف سے تصدیق کرنے والی ان ! کتابوں کی جو ان کے پاس تھیں اور تھے وہ پہلے اس کتاب اور رسول کے آنے سے ایسے کہ فتح مانگا کرتے تھے کافروں پر فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوا بِه

Page 70

تذكرة المهدي 68 فَلَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَفِرِينَ پس جب وہ رسول ان کے پاس آیا انہوں نے اس کو نہ پہچانا اور اس کا انکار کیا پس لعنت کی اللہ نے انکار کرنے والوں پر اسی طرح حضرت امام مہدی کے انتظار میں تھے اور رات دن دعا ئیں مانگتے تھے اور خصوصاً شیعوں کا تو یہ ہر وقت وظیفہ تھا مگر جب امام الزمان آیا تو پہچانتا تو کیسا انکار اور کفر کر بیٹھے.پھر میں نے لوگوں سے کہا کہ انکار میں جلدی مت کرد جیسا کہ فی الحال تمہارے پاس ماننے اور اقرار کے وسائل اور دلائل نہیں اسی طرح انکار کا بھی.کوئی قرینہ اور ثبوت نہیں کم سے کم خاموشی اور کف لسان اختیار کرو اور اسوہ ) حسنہ انبیاء اور اولیاء سے تحقیق کرو تم پر تحقیق لازم ہے اگر تم بے تحقیق جلدی سے انکار کرو گے تو بعد حق کھل جانے کے اقرار مشکل ہو جائے گا اللہ تعالیٰ یہود سے خطاب فرماتا ہے و ا مِنُوا بِمَا أَنزَلتُ مُصَدِّ قَالمَا مَعَكُمْ وَلا تَكُونُوا - اَولَ كَافِر ہے.اور ایمان لاؤ اس پر جو نازل کیا ہے جو مصدق ہے تمہارے رسولوں اور کتابوں کا (اور اگر فی الحال ایمان نہ لاؤ تو یہی کرد ) کہ مت ہو جاؤ پہلے ہی منکر اس کے کیونکہ انکار کے بعد حق کے قبول کرنے اور اقرار میں سخت مشکل پیش آجاتی ہے.پھر میں دو تین روز کے بعد ہانسی سے سید ھالدھیانہ پہنچا اور قیام لدھیانہ نواب علی محمد خان صاحب مرحوم مجھجری کے مکان پر ٹھرا - بعد قیام نور محمد ہانسوی کو جو میرے ساتھ تھا حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت مبارک میں بھیجا اس غرض سے کہ وہ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھ آئے اور میرے حاضر ہونے کی اطلاع کر آئے اور وقت بھی دریافت کر آئے تو پھر اس مجتبی مثیل مصطفے ان کی شرف زیارت سے بہرہ اندوز سعادت ہوں نور محمد آپ کی خدمت میں آپ کے مکان پر جاکر جلد واپس چلا آیا اور کہا کہ حضرت اقدس مردانہ میں تشریف رکھتے ہیں اور پانچ سات آدمی اور بیٹھے مسیح

Page 71

تذكرة المهدى 69 علیہ السلام کی وفات کا ذکر کر رہے ہیں میں صرف دو منٹ حضور اقدس کی بارگاہ معلی میں بیٹھ کر چلا آیا اور رعب سے کچھ عرض نہ کر سکا پھر میں معہ نور محمد ہانسوی اور نواب اشرف علی خان اور عبد القادر شاہ عرف پھول شاہ اور ایک دو اور شخص حضرت اقدس حبیب الله الصمد مهدی موعود مسیح معہود علیہ السلام کی خدمت والا مرتبت میں حاضر ہوا تو حضرت اقدس علیه السلام فداهای والی و جانی ومالی) نے مجھے دور سے آتے ہوئے دیکھا اور ہے اور کھڑے ہو گئے اور دو چار قدم آگے بڑھے اور مصافحہ کیا اور فرمایا.اسباب کہاں ہے میں نے عرض کیا کہ نواب علی محمد خان صاحب مجھجری مرحوم کے مکان پر ہے فرمایا ساتھ کیوں نہ لائے میں نے عرض کیا کہ حضور علیک الصلوۃ والسلام لے آؤں گا فرمایا کب آئے میں نے عرض کیا کہ آج ہی حاضر ہوا ہوں فرمایا ٹھرو گے میں نے عرض کیا کہ آمدن بارادت و رفتن باجازت جب تک حضور کی خوشی ہوگی اور اجازت جانے کی نہیں ملے گی تب تک ٹھہروں گا.حضرت اقدس علیہ السلام یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور ہاتھ پکڑے پکڑے بیٹھ گئے اور احباب بھی موجود تھے وہ بیٹھ گئے قاضی خواجہ علی صاحب اور شاہزادہ عبد الحمید صاحب اور بھی احباب حاضر تھے الغرض بہت دیر تک باتیں ہوتی رہیں اور سفر کے حالات دریافت فرماتے رہے فرمایا الحمد للہ آپ کو کوئی ابتلا نہیں آیا اور آپ اس وقت میں ثابت قدم رہے یہ محص اللہ تعالٰی کا فضل ہے کہ خدا کے بھیجے کو اس کی آواز سنتے ہی قبول کر لیا.اور فرمایا مجھے ہمیشہ سے آپ سے محبت ہے اور میں دل سے تم کو دوست رکھتا ہوں عباس علی لدھیانوی بھی اس وقت تھا یہ شخص بڑا ہی پر غضب تھا ان دنوں یہ حضرت اقدس سے معتقد تھا لیکن میری طبیعت اس سے متنفر رہتی تھی اور جب میں ان کو دیکھتا تو خدا جانے مجھے کیوں نفرت ہو جاتی تھی میں آپ کی خدمت میں تین مہینے تک رہا اس زمانہ میں حضرت اقدس علیہ السلام سخت بیمار تھے اور نماز باجماعت کا اس حالت بیماری اور ضعف میں نہایت التزام رکھتے تھے.

Page 72

تذكرة المهدى 70 ۱۸۸۲ء سے حضرت اقدس علیہ السلام نماز با جماعت کی پابندی کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اس وقت کچھ کسی قدر ریش و بروت آیا تھا تب سے وفات کے کچھ ماہ پیشتر تک حاضر خدمت رہا ہمیشہ نماز با جماعت کا حضرت کو پابند پایا اور جب حضرت اقدس علیہ السلام نماز پڑھتے خواہ مسجد میں یا مکان میں یا جنگل میں اذان ضرور کہلواتے.حالانکہ لودھیانہ میں جس مکان میں حضرت کا قیام تھا اس کے قریب ہی مسجد تھی اور اس مسجد میں برابر اذان ہوتی تھی لیکن پھر بھی آپ اذان نماز کے وقت دلوا لیتے ایک نے عرض کیا کہ حضرت مسجد میں اذان ہوتی ہے اور اس کی برابر آواز یہاں اس مکان میں پہنچتی ہے وہی اذان کافی ہے حضرت اقدس علیہ السلام نے شخص فرمایا نہیں اذان ضرور دو.جہاں نماز وہاں اذان ضروری ہے.ایک شخص نے عرض کیا کہ اذان کے وقت کانوں میں انگلیاں کیوں دیتے ہیں فرمایا اس میں حکمت یہ ہے کہ کان میں انگلی دینے سے آواز کو قوت ہو جاتی ہے پہلے آنحضرت الی کے زمانہ میں اذان بغیر کانوں میں انگلی دئے دیا کرتے تھے.ایک روز حضرت بلال کی آواز میں آپ نے ضعف پایا تو فرمایا بلال کانوں میں انگلی دے کر اذان کہو سو بلال نے ایسا کیا تو آواز میں قوت پیدا ہو گئی اور ضعف جاتا رہا پھر یہ فعل حسب فرمودہ آنحضرت ا سنت ٹھر گیا.پھر فرمایا که اکثر گویوں اور کلامتوں کو دیکھا گیا ہو گا کہ وہ گانے کے وقت جو اونچی اور بلند آواز اٹھاتے ہیں تو کان پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں تاکہ آواز کی کمزوری جاتی رہے اور قوت پیدا ہو جائے یہ کہہ کر اور میری طرف دیکھ کر ہنسے شاید اس واسطہ ہے کہ میں اس زمانہ میں قوالی سنا کرتا تھا.ان دنوں جناب شاہزادہ عبدالمجید صاحب دو زرد چادروں کی تعبیر امامت کرایا کرتے تھے اور حضرت اقدس علیہ السلام نہایت کمزور نحیف اور ضعیف ہو رہے تھے رنگ آپ کا ایسا زرد تھا

Page 73

تذكرة المهدي 71.کہ جیسے ہلدی میں کپڑا رنگا ہوا ہوتا ہے اور دوران درد سر اور پیشاب کی کثرت تھی جب آپ پیشاب کرتے تو پانی کا لوٹا پاخانہ میں ساتھ لے جاتے اور پاخانہ سے باہر اگر کبھی تو اسی پانی سے جو استنجہ سے لوٹے میں بچتا اور کبھی اور پانی لیتے اور بایاں ہاتھ مٹی سے مل کر دھوتے تھے اور ان دنوں باعث ضعف و کمزوری بیٹھ کر اور گاؤ تکیہ پر سر اور بانسہ رکھ کر سجدہ کرتے تھے اس ضعف و ناتوانی اور شدت مرض میں بھی نماز باجماعت ادا کرتے اور جب مردانہ مکان سے زنانہ میں تشریف لے جاتے تو ایک آدمی ساتھ ہوتا تھا کہ کبھی راستہ میں باعث دوران درد سر چکر کھا کر نہ گر پڑیں اکثر ضعف سے پسینہ پسینہ ہو جاتے لیکن تقریر اور تحریر کے وقت خدا جانے کہاں سے طاقت آجاتی تھی اور دماغ میں قوت اور آنکھوں میں روشنی پیدا ہو جاتی تھی یہ سب روح القدس کی تائید تھی ایک اور بالا ہستی تھی جو یہ کام ایسے ضعیف اور ناتواں انسان سے لے رہی تھی حدیث دمشقی میں جو صحیح مسلم میں ہے آیا ہے کہ مسیح موعود زرد رنگ کپڑوں میں نزول فرمائے گا اور وہ جب نیچی گردن کرے گا تو قطرات موتی کے دانوں جیسے اس کے چہرہ سے گریں گے یعنی وہ بیمار ہو گا اور اس قدر نقیہ اور ضعیف ہو گا کہ پسینہ کے قطرے باعث ضعف اس کے چہرے سے ٹپکیں گے اور جب وہ منہ اوپر اٹھائے گا تو اس کے چہرہ سے نور نمایاں ہو گا اور کافر اس کے سانس سے مریں گے یعنی او پر منہ کرنے سے توجہ الی اللہ اور دعا کا مطلب ہے اور سانس سے کافروں کا مرنا اس کے کلمات طیبات ہیں کہ اسکی دلائل بینہ اور براہین ساطعہ سے مطلب ہے سوایسا ہی ہوا.کئی بار حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ اللہ کبھی وہ دن بھی آئے گا کہ ہم کھڑے ہو کر نماز ادا کریں گے سو وہ دن بھی خدا نے دکھایا کہ آپ کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تھے اور وعظ اور عید کا خطبہ کھڑے ہو کر پڑھتے اور بیان کرتے تھے چنانچہ متفق علیہ حدیث میں آیا ہے کہ رسول خدا ا نے مسیح

Page 74

تذكرة المهدي 72 موعود کو ایسے حال میں دیکھا کہ غسل کئے ہوئے ہے اور بالوں سے پانی ٹپکتا ہے اور بالوں میں شانہ ہوا ہے یہ صحت کی طرف اشارہ ہے.سو خدا نے ہمیں دونوں کے دیکھنے کا موقع دیا ہے.ایک روز عباس علی نے کہا کہ آپ زیادہ باتیں کرتے ہیں اور مخالفوں کی نسبت ایسے لفظ کہتے ہیں کہ جن سے ان کی پردہ دری ہوتی ہے حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ حق بات تو کسی جاتی ہے اس میں اگر کسی کی پردہ دری ہو تو ہم کیا کریں ہم پر اللہ تعالیٰ کی دو قسم کی وحی ہوتی ہے ایک خفی اور دوسری جلی.جلی وحی تو وہ ہے جو صاف صاف الفاظ میں ہوتی ہے اور دوسری وحی خفی وہ ہے جو ہر وقت ہوتی ہے جس سے ہمارا چلنا پھرنا بیٹھنا اٹھنا.بات کرنا ہے ہم ہر وقت اس کے بلائے بولتے ہیں اور اس کے چلائے چلتے ہیں اور اسی کے بٹھائے بیٹھتے ہیں غرض ہر ایک حرکت و سکون اسی سے اور اسی کے حکم سے ہے.بعد نماز مغرب میں نے اپنے جائے قیام پر جانے کی اجازت چاہی حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا اور نہایت اصرار سے فرمایا کہ وہاں جا کر کیا کرو گے تم تو صاحبزادہ صاحب ہمارے مہمان ہو ہم سے ملنے آئے ہو خاکسار نے عرض کیا کہ اب تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام اجازت دیدیں.حاضر خدمت ہر روز ہو تا رہوں گا حضور کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوا ہوں.اور یہی مقصد ہے دوسری جگہ ٹھرنے سے میری یہ غرض ہے کہ وہاں ہر ایک طرح کا شخص ملنے کے لئے آئے گا.بخلاف حضور کے در دولت کے تو وہاں حضور کی بعثت کا بیان اور جناب کے مقاصد کی تبلیغ بھی ہوتی رہے گی.پس آپ نے مجھ کو اجازت دے دی اور میں خدمت والا سے رخصت ہو کر نواب علی محمد خان صاحب مرحوم کی کوٹھی پر چلا گیا.نواب صاحب موصوف نواب علی محمد خان مرحوم لودھیانوی حکمت اور تصوف میں

Page 75

تذكرة المهدى 73 ال اور علوم شرعیہ میں ید طولیٰ رکھتے تھے اور خصوصاً تصوف میں ایسی معرفت رکھتے تھے کہ میں نے سینکڑوں درویش صوفی دیکھے مگر یہ معلومات اور یہ دستگاہ نہیں دیکھی.نواب صاحب اہل اللہ کے بڑے معتقد تھے اور آنحضرت ا کے عاشق جانباز تھے ہر وقت درود شریف پڑھتے رہتے.باوجود اس قدر وسیع معلومات اور تصوف میں ماہر ہونے کے حضرت اقدس علیہ السلام سے اعلیٰ درجہ کا عشق تھا اور پورا اعتقاد رکھتے تھے.نواب صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ جو بات میں نے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی میں دیکھی وہ کسی میں نہیں دیکھی.بعد آنحضرت ﷺ کے اگر کوئی شخص ہے تو یہی ہے اس کی تحریر میں نور اور ہدایت اس کے کلام میں اس کے چہرہ میں نور ہے ایک روز میں نے نواب صاحب سے اپنا کشف بیان کیا جو آگے آئے گا تو اس کو سن کر نہایت خوش ہوئے.اور وہ کشف لوگوں سے بیان کیا اور وہ کشف حضرت اقدس کی تصدیق میں تھا.حضرت اقدس علیہ السلام بھی کبھی کبھی نواب صاحب سے ملنے جایا کرتے تھے اور نواب صاحب کے انتقال کے وقت حضرت اقدس علیہ السلام لودھیانہ میں تشریف رکھتے تھے.بوقت انتقال نواب صاحب نے دعا سلامتی ایمان اور نجات آخرت کے لئے ایک آدمی حضرت اقدس کی خدمت میں بھیجا اور جوں جوں وقت آتا جاتا تھا آدھ گھنٹہ اور دس دس منٹ کے بعد آدمی بھیجتے رہے اور کہتے رہے کہ میں بڑا خوش ہوں کہ آپ میرے آخری وقت میں لودھیانہ تشریف رکھتے ہیں اور مجھے دعا کرانے کا موقع ملا.پھر بے ہوشی طاری ہو گئی لیکن جب ذرا بھی ہوش آتا تو کہتے کہ حضرت مرزا صاحب کی خدمت میں آدمی جائے اور عاقبت بخیر اور اچھے انجام کے لئے عرض کرے اور جب حالت نزع طاری ہوئی تو یہ وصیت کی کہ میرے جنازہ کی نماز حضرت مرزا صاحب پڑھا ئیں تاکہ میری نجات ہو.ادھر حضرت اقدس بھی نواب صاحب کے لئے بہت دعائیں کرتے رہے اور ہر بار آدمی سے بھی فرماتے رہے کہ ہاں ہاں تمہارے واسطے

Page 76

تذكرة المهدى 74 نصه اول.دعائیں کیں.اور کر رہا ہوں اور یہ وصیت نماز جنازہ بھی حضرت اقدس تک پہنچا وی اور نواب صاحب مرحوم کا انتقال ہو گیا جب نواب صاحب کا انتقال ہوا تو نواب صاحب کے اقربا انکی اولاد اور بھائی مولویوں کے زیر اثر اور مرعوب تھے.اور مولوی محمد اور مولوی عبد اللہ اور مولوی عبد العزیزیہ تینوں حضرت اقدس علیہ السلام کے کمفر اور کمفرین اولین میں سے تھے تینوں یہودی صفت بلکہ ان سے بھی بڑھ چڑھ کر تھے اور اس وقت سے کمفر اور سخت مخالف تھے کہ جب سے براہین احمدیہ شائع ہوئی تھی تمام مولوی خاموش یا موافق تھے مگر یہ بد قسمت اور ایک بد بخنت مولوی غلام دستگیر قصوری مخالف تکفیر کے علاوہ سب و شتم کرنے والے تھے اور ان مولویوں کی یہ عادت تھی کہ جو مولوی درویش لودھیانہ میں آئے اور ان سے مل لیا تو خیر اور جو نہ ملا تو بس اس کو کفر کا نشانہ بنایا یہ تینوں مثلث مولوی اس آیت کے مصداق تھے کہ اِنْطَلِقُوا إِلى ظِلّ ذِى ثَلْتِ شُعَبِ لا ظَلِيلٍ وَلَا يُغْنِي مِنَ اللَّهَبِ چلو اس تین رفے سایہ کی طرف جس میں نہ سایہ ہے نہ ٹھنڈک ہے اور نہ گرم لپیٹ سے بچاؤ کی کوئی صورت ہے.انہوں نے اس زمانہ میں حضرت اقدس علیہ السلام کی مخالفت میں ایک قیامت برپا کر رکھی تھی ان مولویوں کو بھی خبر نواب صاحب کی وصیت نماز جنازہ پہنچ چکی تھی.ان مولویوں اور معتقدوں نے نواب صاحب کے اقربا کو کہلا بھیجا کہ اگر مرزا (امام موعود علیہ السلام) جنازہ پر آیا تو ہم اور کوئی مسلمان جنازہ پر نہ آئیں گے اور تم پر کفر کا فتویٰ لگ جائے گا اور آئندہ تم میں سے جو مرے گا تو نماز جنازہ کوئی نہ پڑھے گا وہ بیچارے ڈر گئے اور یہ خیال نہ کیا کہ ان یہود صفت مولویوں کی کیا مجال ہے کہ ایسا کر سکیں کیا یہ ہمیشہ زندہ رہیں گے اور کیا اور کوئی بنده خدا کا نماز جنازہ پڑھانے والا نہ ملے گا اور حضرت اقدس علیہ السلام کے مرید لودھیانہ میں نہیں ہیں.ان کی کمزوری اور ضعف ایمانی نے ان کو ڈبو دیا.وہ مرحوم بھی ان سے متنفر تھا اور جب ان مولویوں کا ذکر کبھی مرحوم کے روبرو کوئی.

Page 77

تذكرة المهدي 75 کرتا تو مرحوم کی پیشانی پر بل پڑ جاتے تھے اور وہ انکو بدتر سے بد تر خیال کیا کرتا تھا.ان اثر الناس مولویوں کی نماز سے تو بے نماز ہی جنازہ رہتا تو بہتر تھا اس لئے که مسیح وقت علیہ السلام خود دعائیں کر چکا.اور مرحوم دعائیں کراچکا.اور نماز جنازہ بھی تو ایک دعا ہی ہے ایمان ایک ایسی شئے بے بہا ہے کہ کوئی شئے اس کو دور نہیں کر سکتی.حضرت اقدس علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی ایمان پر اس دنیا سے رخصت ہو تو کوئی اس کو بول و براز میں جیسکدے تو اس کا کچھ نہیں بگڑتا.اور اگر کوئی بے ایمان مرے تو کیسے ہی اس کو عطر و گلاب میں رکھے تو اس کو کچھ فائدہ نہیں پہنچتا.پھر یہ حدیث شریف پڑھتے اَلْقَبَرُ رُوضً رِيَاضِ الْجَنَّةِ وَحُفْرَةٌ مِّنْ حُفَرِ النيران اس پر مجھے ایک واقعہ یاد آگیا.حضرت مولانا عبد الحق محدث دہلوی نے اختصارا اپنی کتاب اخبار الاخیار میں اور حضرت خواجہ نظام الدین ولی الاولیاء محبوب الہی رحمتہ اللہ علیہ کے مرید نے آپ کی زبان مبارک سے سنکر سیر الاولیاء میں لکھا ہے کہ حضرت قطب الاقطاب قطب جمال الدین احمد ہانسوی (راقم کے جد امجد) تحصیل علوم میں مشغول ہوئے اور حدیث پڑھنی شروع کی تو جب یہ حدیث پڑھی کہ الْقَبَرُ رَوْضَةٌ مِنْ رياض الخ تو اس قدر روئے کہ رخسار آنسوؤں سے تر ہو گئے اور جب تک زندہ رہے اس حدیث کو پڑھتے اور روتے اور اللہ سے پناہ مانگتے جب ان کا انتقال ہوا تو مد فون کرنے کے بعد گنبد کی بنیاد کھودی گئی اور قبر کے قریب ایسی اور اس قدر خوشبو آئی کہ لوگ اس کی برداشت نہ کر سکے.الغرض حضرت اقدس نے نواب صاحب کے جنازہ کی نماز اپنے نماز جنازہ مکان پر پڑھی اور دعا مغفرت ورحمت بہت کی.جنازہ کی نماز جو حضرت اقدس علیہ السلام پڑھاتے تھے سبحان اللہ سبحان اللہ کیسی عمدہ اور باقاعدہ موافق سنت پڑھاتے تھے سینکڑوں دفعہ آپ کو نماز جنازہ حاضر و غائب پڑھانے اور آپ کے پیچھے پڑھنے کا اس خاکسار کو اتفاق ہوا ہے ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ

Page 78

تذكرة المهدى 76 میاں جان محمد مرحوم و مغفور قادیانی فوت ہو گئے تو حضرت اقدس علیہ السلام جنازہ کے ساتھ ساتھ تشریف لے گئے.یہ مرحوم آپ کے معتقدوں اور عاشقوں اور فدائیوں میں سے تھا.خوش گلو تھا اس پر بوجہ اعتقاد حضرت اقدس بڑی بڑی نا قابل برداشت ابتلا ئیں آئیں ماریں تک مخالفوں سے کھا ئیں وجوہ معاش تک بند ہو ئیں اور طرح طرح کی اذیتیں اور قسم قسم کی تکلیفیں مخالفوں کی طرف سے پہنچیں جو بیان سے باہر ہیں مگر اللہ اللہ مرحوم ایسا ثابت قدم رہا کہ جو حق ثابت قدمی کا ہوتا ہے وہ حضرت اقدس علیہ السلام کے ہم عمر تھا مجھ سے بڑی محبت رکھتا تھا اور عجیب عجیب باتیں حضرت اقدس کی سنایا کرتا تھا ایک دفعہ انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے ایک خواب اس زمانہ میں دیکھا تھا کہ جب براہین نہیں لکھی گئی تھی اور اس کا کوئی ذکر بھی نہیں تھا کہ ہمارے گھر میں یعنی میری والدہ کے حضرت عیسی علیہ السلام پیدا ہوئے ہیں اور ہمارے گھر میں بڑی خوشیاں کر رہے ہیں اس خواب سے جب آنکھ کھلی تو کچھ تعبیر سمجھ میں نہیں آئی.جب حضرت اقدس علیہ السلام نے براہین احمدیہ لکھی اور مجددیت کا دعوی کیا تو اس خواب کی یہ تعبیر معلوم ہوئی کہ حضرت عیسی کے پیدا ہونے سے مراد مجدد اور امام وقت سے ہے جو عیسوی قلب اور مسیحی صفات اپنے اندر رکھتا ہے اور وہ یہی حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام ہیں اور ہمارا گھر اور مرزا غلام مرتضیٰ کا گھر دو گھر نہیں ہیں اور میں حضرت اقدس علیہ السلام کی والدہ کو بچپن سے ماں کہا کرتا تھا یہ تعبیریوں پوری ہوئی یہ خواب بیان کر کے مرحوم بہت ہی خوش ہو جاتا اور خوشی سے پھولا نہ سماتا.بعض دفعہ میں نے دیکھا کہ یہ خواب بیان کر کے وجد میں آجاتا.جان محمد مرحوم قادیانی کا جنازہ حضرت اقدس امام موجود علیہ السلام بھی میاں جان محمد مرحوم سے بہت محبت رکھتے تھے حضرت اقدس علیہ السلام کیسے ہی عدیم الفرصت ہوتے

Page 79

تذكرة المهدي 77 ه اول ا مگر جب یہ مرحوم آتے تو آپ سب کام چھوڑ کر مرحوم سے ملتے.الغرض جب مرحوم کا جنازہ قبرستان میں گیا تو حضرت اقدس علیہ السلام نے نماز جنازہ پڑھائی اور خود امام ہوئے نماز میں اتنی دیر لگی کہ ہمارے مقتدیوں کے کھڑے کھڑے پیر دیکھنے لگے اور ہاتھ باندھے باندھے درد کرنے لگے اوروں کی تو میں کہتا نہیں کہ ان پر کیا گزری لیکن میں اپنی کہتا ہوں کہ میرا حال کھڑے کھڑے بگڑ گیا اور یوں بگڑا کہ کبھی ایسا موقع مجھے پیش نہیں آیا کیونکہ ہم نے تو دو منٹ میں نماز جنازہ ختم ہوتے دیکھی ہے پھر مجھے ہوش آیا تو سمجھا کہ نماز تو یہی نماز ہے پھر تو میں مستقل ہو گیا اور ایک لذت اور سرور پیدا ہونے لگا اور یہ جی چاہتا تھا کہ ابھی اور نماز لبی کریں در حقیقت یہ صادقوں کے صدق کے نشان ہوتے ہیں اور یہ بھی کرامت کا نشان ہوتا ہے اس واسطے اللہ تعالی نے فرمایا كونوا مع الصادقین معیت صادقین اگر کوئی شے نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ امر کے صیغہ سے نہ فرما تا صادق میں صدق دراستی کی طرف جذب و کشش کا ایک روحانی اثر ہوتا ہے جس کے اثر سے انسان یوں کھینچ جاتا ہے کہ جیسے لوہا مقناطیس کی طرف کھینچ جاتا ہے غرض کہ نماز میں اس قدر دیر لگی ہوگی کہ ایک آدمی ایک میل تک چلا جائے اور اگر اس کو مبالغہ نہ سمجھا جائے تو میں بلا خوف کہہ سکتا ہوں کہ جانیوالا ہے شک واپس آجائے جب نماز جنازہ سے فارغ ہوئے تو حضرت اقدس علیہ السلام مکان کو تشریف لے چلے.ایک صاحب نے عرض کیا کہ : حضور! (علیک الصلوۃ والسلام) اتنی دیر نماز میں لگی کہ تھک گئے.حضور کا کیا حال ہوا ہو گا.یعنی آپ بھی تھک گئے ہونگے.حضرت اقدس علیہ السلام: ہمیں تھکنے سے کیا تعلق ہم تو اللہ تعالٰی.دعائیں کرتے تھے اس سے اس مرحوم کے لئے مغفرت مانگتے تھے مانگنے والا بھی کبھی تھکا کرتا ہے جو مانگنے سے تھک جاتا ہے وہ رہ جاتا ہے ہم مانگنے والے اور وہ دینے والا پھر تھکنا کیسا جس سے ذراسی بھی امید ہوتی ہے وہاں سائل ڈٹ جاتا ہے

Page 80

تذكرة المعدي 78 اور بارگاہ احدیث میں تو ساری امیدیں ہیں وہ معلی ہے وہاب ہے رحمن ہے رحیم ہے اور پھر مالک ہے اور تس پر عزیز ہے.دوسرے صاحب : حضور نے کیا کیا دعائیں کیں دعاء ماثورہ تو چھوٹی سی دعا حضرت اقدس علیہ السلام: دعا ئیں جو حدیثوں میں آئی ہیں وہ دعاء کا طرز اور طریق سکھانے کے لئے ہیں یہ تو نہیں کہ بس یہی دعائیں کرو اور اس کے بعد جو ضرورتیں اور پیش آئیں ان کے لئے دعا نہ کرد- دعا کا سلسلہ قرآن شریف نے اور حدیث شریف نے چلا دیا.اب آگے داعی پر اس کی ضرورتوں کے لحاظ سے معاملہ رکھ دیا کہ جیسی ضرورتیں اور مطالب اور مقاصد پیش آئیں دعا کرے.ہم نے اس مرحوم کے لئے بہت دعائیں کیں اور ہمیں یہ خیال بندھ گیا کہ یہ شخص ہم سے محبت رکھتا تھا ہمارے ساتھ رہتا تھا ہمارے ہر ایک کام میں شریک رہتا تھا اور اب یہ ہمارے سامنے پڑا ہے اب ہمارا فرض ہے کہ اس وقت ہم شریک حال ہوں اور یہ وہ ہے کہ اس کے واسطے جناب باری میں دعا ئیں کی جائیں سو اس وقت جہاں تک ہم میں طاقت تھی دعائیں کیں.سراج الحق : ( را قم سفر نامہ) کچھ بولنا چاہتا تھا جو حضرت خلیفتہ المسیح علیہ السلام بول اٹھے.نور الدین بدیعنی خلیفتہ المسیح دام فیضہ) نے عرض کیا کہ جناب مجھے اس وقت یہ خیال آیا اور اس وقت بھی کہ جب مرحوم کا جنازہ پڑھا جارہا تھا کہ یہ جنازہ میں ہوتا.حضرت اقدس علیہ السلام نہس کر فرمایا آپ مولوی صاحب نیکیوں میں سابق بالخيرات ہیں إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ انسان کو نیت صحیح کے مطابق اجر مل جاتا ہے اور آپ تو نور الدین اسم بامسمٹی ہیں.پھر حضرت اقدس علیہ السلام نے اس مرحوم کی خدمت اور وفاداری کا ذکر

Page 81

تذكرة المهدى 79 کیا میں جو بولنا چاہتا تھا یہ بات بولنی چاہتا تھا کہ جو حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب دام فیضہ بول اٹھے پھر میں خاموش ہی رہا کہ بازی تو حضرت مولانا نور الدین لے گئے اب تیرا بولنا ٹھیک نہیں اور خلاف ادب بھی ہے.بات میں بات یاد آجاتی ہے ایک دفعہ حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب خلیفتہ امسیح رضی اللہ عنہ کا صاحبزادہ فوت ہو گیا اور اس کے جنازہ میں بہت احباب شریک تھے کہ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے نماز جنازہ پڑھائی اور بڑی دیر لگی بعد سلام کے آپ نے تمام مقتدیوں کی طرف منہ کر کے فرمایا کہ اس وقت ہم نے اس لڑکے کی نماز جنازہ ہی نہیں پڑھی بلکہ تم سب کی جو حاضر ہو اور ان کی جو ہمیں یاد آیا نماز جنازہ پڑھدی ہے ایک شخص نے عرض کیا کہ اب ہمارے جنازہ پڑہنے کی تو ضرورت نہیں رہی حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر تم میں سے کسی کو ایسا موقع نہ ملے تو یہی نماز کافی ہو گئی ہے اس پر تمام حاضرین احباب کو بڑی خوشی ہوئی اور حضرت علیہ السلام نے جو سب کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ ہم نے تم سب کی نماز جنازہ پڑھ دی ایسے پر شوکت اور یقین سے بھرے ہوئے الفاظ میں یہ فرمایا کہ جس سے آپ کے الفاظ اور چہرہ سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا ہم سب آپ کے سامنے جنازہ ہیں اور یقیناً ہماری مغفرت ہو گئی اور ہم جنت میں داخل ہو گئے اور آپ کی دعا ہمارے حق میں مغفرت کی قبول ہو گئی ہے اور اس میں کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہیں رہا.اللہ اکبر آپ کی ہم گنہگاروں پر کیسی شفقت تھی کہ ہر وقت ہمارے لئے بخشش اور مغفرت کے لئے بہانہ ڈھونڈھتے تھے اور ہر وقت اسی فکر میں لگے ہتے تھے کہ کوئی موقع ملے کسی قسم کا بہانہ ہاتھ لگے اور مغفرت کی دعا مانگی جائے.ایک اور شخص کا جنازہ حضرت ایک نوجوان مرحوم کی نجات اقدس علیہ السلام نے پڑھایا لیکن

Page 82

تذكرة المهدى 80 میں اس وقت نہیں تھا اس متوفی مرحوم کے رشتہ داروں نے اس واقعہ کا بیان کیا تھا کہ اٹھارہ میں برس کا ایک شخص نوجوان تھا وہ بیمار ہوا اور اس کو آپ کے حضور کسی گاؤں سے لے آئے اور وہ قادیان میں آپ کی خدمت میں آیا چند روز بیمار رہ کر وفات پاگیا صرف اس کی ضعیفہ والدہ ساتھ تھی حضرت اقدس علیہ السلام نے حسب عادت شریعہ اس مرحوم کی نماز جنازہ پڑھائی بعض کو بباعث ا لمبی لمبی دعاؤں کے نماز میں دیر لگنے کے چکر بھی آگیا اور بعض گھبرا اٹھے ( یہ گھبرانا اور چکرانا یا تھک جانا دراصل ابتدائی حالت ہے ورنہ بعد میں جو اس تعلیم حقہ اور صحبت کے یقینی رنگ میں رنگے گئے پھر تو ذوق وشوق کی حالت ہر ایک میں ایسی پیدا ہو گئی کہ دیر بھی عجبت معلوم ہوتی تھی اور ہر شخص یہی چاہتا تھا کہ ابھی اور لمبی نماز کی جائے اور نماز اور دعاؤں کو طول دیا جائے روز بروز ہر ایک کا قدم ترقی پر تھا اور وقتاً فوقتاً سلوک کی منازل طے کرتا تھا اور یقین کا درجہ حاصل کرتا تھا اور یہی كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ کا نتیجہ اور علت غائی ہے ) بعد سلام کے فرمایا کہ وہ شخص جس کے جنازہ کی ہم نے اس وقت نماز پڑھی اس کے لئے ہم نے اتنی دعائیں کی ہیں اور ہم نے دعاؤں میں بس نہیں کی جب تک اس کو بہشت میں داخل کرا کر چلتا پھرتا نہ دیکھ لیا یہ شخص بخشا گیا اس کو دفن کر دیا رات کو اس کی والدہ ضعیفہ نے خواب میں دیکھا کہ وہ بہشت میں بڑے آرام سے نمل رہا ہے اور اس نے کہا کہ حضرت کی دعا سے مجھے بخش دیا اور مجھ پر رحم فرمایا اور جنت میرا ٹھکانا کیا گو کہ اس کی والدہ کو اس کی موت سے سخت صدمہ تھا لیکن اس مبشر خواب کے دیکھتے ہی وہ ضعیفہ خوش ہو گئی اور تمام صدمہ اور رنج و غم بھول گئی اور یہ غم مبدل بہ راحت ہو گیا کاش کوئی شیعہ ہو اور اس سے سبق لے کہ اپک رضي حضرت امام حسین الله تمام عمر صاجزادہ رہے اور عیش و آرام سے عمر گزاری اور ایک دن تکلیف اٹھا کر یقیناً جنت میں داخل ہو گئے اب جو شخص پہلی پچھلی حالت آرام راحت سرور و فرحت کو بھلادے اور صرف ایک دن کی

Page 83

تذكرة لمهدی 81 تکلیف کو جو وہ بھی کوئی باخدا کے لئے تکلیف نہیں ہے کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ شہید فی سبیل اللہ کو اتنی تکلیف ہوتی ہے جتنی تکلیف کہ ایک چیونٹی کے کاٹنے کی ہوتی ہے یاد کر کے روتا رہے اور ماتم کرتا رہے تو اس جیسا دنیا میں کون بیوقوف ہو گا وہ تو ایک دشمن قرار پائے گا اور سمجھا جائے گا کہ یہ ہمیشہ کے دکھ سے راضی ہے اور سکھ نہیں چاہتا اس قدر رنج و غم دشمنی پر دلالت کرتا ہے.ایک مکالمہ ایسا ہی ایک اور واقعہ پیش آیا وہ یہ کہ شیخ یوسف علی نعمانی مرحوم ساکن قصبہ تو شام ضلع حصار کے رہنے والے تھے اور وہ ریاست جنیند میں ملازم تھے سترہ اٹھارہ برس کی ان کی عمر تھی جب وہ مجھ سے مرید ہوئے تھے اور وہ مجھ سے نہایت گرم اور پر جوش عقیدت و ارادت رکھتے تھے.جب میں حضرت اقدس علیہ السلام سے بیعت ہوا تو ان کو خبر ہوئی اور میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ حضرت پیر و مرشد آپ نے بڑا غضب کیا.کہ آپ نے آبائی سلسلہ اور پیری کو داغ اور دھبہ لگایا اور مرزا صاحب سے مرید ہو گئے اور اپنے اس خاندان کو جو حضرت امام اعظم اللہ سے شروع ہوا اور اب تک نسلاً بعد نسل و طناً بعد بطن بلا فصل چلا آرہا ہے اور ان میں امام غوث اور قطب اور اولیاء اور ابدال آپ کے خاندان میں ہوتے رہے کیوں چھوڑا.سراج : چھوڑا کیا.کیا ان اپنے بزرگوں کی بزرگی سے انکار کیا ان کی گستاخی وبے ادبی کی یا ان کی ولایت میں شک کیا یہ تو ہدایت اور تعلیم الہی ہے جہاں مل جائے انسان کو لے لینی چاہئے رسول اللہ ہی یہ فرماتے ہیں الْحِكمة ضالة الْمُؤْمِن یعنی حکمت جو ہدایت راه راست ایمان عرفان وغیرہ ہے مومن کی گم شدہ چیز ہے کیا مومن کا یہ کام ہے کہ اپنی گم ہوئی چیز کو اگر پاوے نہ لے دنیا کی چیز کو تو انسان چھوڑ تا ہی نہیں پھر ہدایت و ایمان و عرفان کی چیز مومن کیسے چھوڑ

Page 84

تذكرة المهدى 82 یوسف : اچھا مانا لیکن آپ کے خاندان میں کس شے کی کمی تھی.سراج : ہمارے خاندان میں تو کمی نہیں تھی.لیکن مجھ میں تو کمی تھی میں تو اس بات کا محتاج تھا اب تم یہ بتلاؤ کہ اب تم سو روپیہ ماہوار کے ملازم ہو اور تم کو پانسو روپیہ ملنے لگے تو تم پانسو لو گے یا سو پر ہی راضی رہو گے.یوسف : بیشک میں پانسو روپیہ ملتے سو پر کب راضی ہوں گا.سراج بس یہی مثال ہماری ہم تو ترقی کے خواہاں اور معرفت کے دلدادہ ہیں.جہاں سے ملے لے لیں گے جب دنیا کے لوگ دلداده دنیا ہیں تو ہم دین کے خواہاں اور خواہشمند کیوں نہ ہوں ترقی تو کسی نے نہیں چھوڑی نبی و رسول بھی چاہتے اللہ تعالٰی نے بھی رسول اللہ ا کو دعا اهْدِنَا الصِّرَاط الْمُسْتَقِيمَ سکھائی اور پھر تاکید فرمائی قُل رب زدنی علما کہ اے میرے رب میرا علم زیادہ کر وہ کہیں مکتب میں تو نہیں گئے یہ علم تو علم نبوت ورسالت ہی تھا پھر ماسوا اس کے اللہ تعالیٰ نے آپ کے پیروؤں کو حکم دیا کہ آپ کے لئے درود و سلام پڑھیں اور خود بھی آپ نے اپنی امت کو درود کا حکم دیا اور درود سبقاً سبقاً سکھائی.نماز پنجو مکہ میں جنازہ میں عیدین میں اور ہر ایک موقع میں درود پڑھنے کی تعلیم دی خود بھی پڑھی اور سب لوگوں سے بھی پڑھوائی یہ ترقی کی تعلیم ہے یا کیا ہے.ہمارے جد امجد حضرت قطب الاقطاب قطب جمال الدین احمد ہانسوی رحمتہ اللہ علیہ حضرت امام الائمہ ابو حنیفہ نعمان امام اعظم کی اولاد تھے وہ حضرت شیخ الاسلام فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ سے کیوں مرید ہو گئے حالانکہ فرید الدین گنج شکر حنفی اور مقلد امام اعظم تھے یہی مثال ہماری سمجھو صوفیائے کرام میں بہت سی ایسی نظریں ہیں کہ انہوں نے کئی کئی جگہ بیعت کی.یوسف : پھر مرزا صاحب سے کیوں بیعت کی اور کسی صوفی و درویش سے جو دنیا میں بہت ہیں بیعت کر لیتے.

Page 85

تذكرة المهدى 83 سراج : یہ سوال تمہارا پھر بھی قائم رہتا کہ اس سے کیوں مرید ہوئے اس کو جانے دو مجھے یہ بتلاؤ کہ اگر وہ امام مہدی جو تمہارے ذہن اور خیال میں ہیں ان سے ہر ایک کو خواہ ولی ہو غوث ہو پیر زادہ صوفی ہو عالم و فاضل ہو بادشاہ ہو مرید ہونا پڑے گا یا نہیں.اور میرے تمہارے زمانہ میں وہ امام آجاوے تو بتاؤ مرید ہونا چاہئے یا نہیں ؟ يوسف: بے شک اس امام کا مرید ہونا چاہئے اس امام کے ہوتے پھرتے کسی کی بیعت اور مریدی جائز نہیں آب آمد تیم برخاست- سراج - مَا هُوَ جوا بُكُمْ فَهُوَ جَوَابُنَا - حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب علیہ السلام وہی امام مہدی ہیں اور سچ سچ وہی امام موعود ہیں تو اب آپ سے میرا بیعت کرنا ٹھیک ہوا یا نہیں.یوسف : یہ تو درست ہے اگر یہ در حقیقت امام مہدی ہیں تو عیسی علیہ السلام کب آدیں گے یہ تو لکھا ہے کہ جب امام مہدی آئیں گے تو عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتریں گے.:سراج: اگر کیا ہوتا ہے در حقیقت یہی وہ امام مہدی ہیں اور عیسی علیہ السلام بھی یہی ہیں وہ عیسی علیہ السلام بن مریم فوت ہو گئے نہ وہ آسمان پر گئے اور نہ آسمان سے اتریں گے اور نہ تو کلام مجید میں نہ مدیث میں ہے کہ مہدی اور عیسی علیہ السلام ایک زمانہ میں ہوں بلکہ بخاری اور مسلم میں تو ایک بھی حدیث امام مہدی کی نہیں عیسیٰ اور مہدی ایک ہی شخص کے دو نام ہیں چنانچہ صحاح ستہ کی حدیث ابن ماجہ میں ہے کہ لَا مَهْدِيُّ إِلَّا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ یوسف یہ بات خوب ہوئی کہ امام مہدی بھی مرزا صاحب اور عیسی بھی مجدد بھی سب کچھ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی.سراج : سمجھو تو سمجھ میں یہ بات آسکتی ہے دیکھو آنحضرت ا نبی تھے اور رسول بھی تھے اور مجدد تھے اور پھر آپ نا تم النبین بھی ہوئے حضرت ابو بکر

Page 86

تذكرة المحمدي 84 صدیق صدیق پھر امیر المومنین بھی ہوئے علی ہذالقیاس حضرت سید عبد القادر جیلانی قطب ہوئے اور پھر غوث بنے جیسا جیسا کام ویسا نام اس کی بہت سی مثالیں ہیں اس پر آشوب اور آخری زمانہ میں امام کی ضرورت تو تھی ہی کیونکہ بوجہ تفرقہ ہونے کے اور اور گروہ گروہ بن جانے کے ایک امام چاہئے تھا تا کہ اس کے پیچھے سب لوگ چلیں اور تفرقہ سے بچیں اور امام بھی ایسا ہوتا کہ جو مہدی ہدایت یافتہ ہو یعنی منہاج نبوت پر اس کا قدم ہو اور براہ راست اللہ تعالیٰ سے ہدایت پائے ہوئے ہو تاکہ تفرقہ اور اختلاف سے لوگوں کو الگ کر کے ایک راہ پر لگادے.یہ اندرونی تفرقوں اختلافوں کی اصلاح کے لحاظ سے ہے پھر وہ صحیح ہو جن کا علم براہ راست خدا سے مسح کئے ہوئے ہو یعنی اس کا علم زمینی نہ ہو بلکہ آسمانی اور رہبی اور لانی ہو نہ کسی اور اس وجہ سے بھی مسح ہو کہ جب ایک مسیح عاجز انسان خدا بنایا گیا اور خالق السموات والارض مانا گیا اور زندہ جی قیوم عالم الغیب میجی ممیت سمجھا گیا تو ضرور تھا کہ اس کے مقابلہ میں وہی صفات مسیحی رکھتا ہو بلکہ اس سے بڑھ چڑھ کر ہو آدے کیونکہ جب تک کہ اس مسیح سے بڑھ کر قوت قدسیہ میں علم میں تاثیرات میں معجزات و نشانات میں نہ آئے تب تک وہ غلط فہمیاں اور غلطیاں جو پھیلی ہوئی ہیں دور نہیں ہو سکتی ہیں مسیح موسوی ایک قوم کی اصلاح اور دہ بھی گفتی کی چند باتوں کی اصلاح کے لئے آیا جیسا کہ اس کا مرشد یکی اور حضرت موسیٰ علیہما السلام اور یہ مہدی اور مسیح تمام دنیا کے مفاسد دور کرنے کے لئے آیا جیسا کہ اس کا پیشوا اور رہنما افضل الرسل خاتم النبین کل دنیا اور اسود احمد کالے اور گوروں کے لئے آیا تھا مسیح موسوی نے حضرت بیٹی سے اصطباغ لیا اور اس مسیح محمدی نے خود اپنے رہنما سے بلا واسطہ غیرے اصطباغ پایا چنانچہ آپ کی وحی اس پر شہادت دیتی ہے کہ من علم و تعلم اور اس کا نام محمد د احمد اور اس کا نام غلام احمد وہ حمد کئے گئے اور یہ حمد کرنے والا اور پھر غلام یعنی پسر پس غلام کا ترجمہ ہو ا ولد احمد یا ابن احمد

Page 87

تذكرة المهدي 85 اول یوسف : غلام احمد کیوں نام ہو ا ولد احمد یا ابن احمد کیوں نام نہ ہوا سراج : غلام احمد نام رکھنے میں یہ خوبی ہے کہ ولد کی نسبت غلام زیادہ مناسبت رکھتا ہے ولد تو نا فرمان بھی ہو جائے اور ہوتا ہے مگر غلام فرمانبردار اور مطیع اور باپ کے نقش و نگار اپنے اندر رکھتا ہے اور باپ کے رنگ میں رنگین ہوتا ہے حضرت ابراہیم ذکر یا حضرت مریم وغیرہ ہم علیہم السلام کو بشار میں اولاد کی دی گئیں سب جگہ غلام ہی فرمایا اور وہ مطیع بھی ہوئے.مسکینی ہے یوسف : خیر یہ تو جو ہوا سو ہوا مگر ہمارا تماشا جو ایک سال خوش کن تھیٹر اور عجیب منظر تھا اور تمام لوگوں کا حضرت مرزا صاحب نے اور آپ نے خاک میں ملادیا کیسا سماں نظروں میں سمایا ہوا تھا کہ پہلے امام مہدی آویں اور خزانے بانٹیں روپیہ دیں اشرفیاں لٹائیں لشکر جرار اور سپاہ بے شمار تیار کریں اور ادھر آسمان سے دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ ہتھلیاں رکھے لٹکتے ہوئے اور زرد کپڑے پہنے ہوئے مسیح آرہے ہیں اور مسجد کی چھت پر آبیٹھتے ہیں پھر سیڑھی منگوا کر اس کے ذریعہ سے نیچے اترتے ہیں مہدی ومسیح گلے ملکر باتیں کرتے ہیں ادھر سے نصاری ادھر سے دجال جنگی باجے بجاتے ہوئے معہ خدم و حشم لڑنے کے لئے آرہے ہیں اور جنگ ہو رہے ہیں اب نہ جنگ ہے نہ تیر و تفنگ ہے - فقیری ہے در دیشی ہے ہماری تمام امیدوں آرزووں پر پانی پھیر دیا ہے.سراج: یہ تو سب ادہام باطلہ کا ایک تو وہ طوفان ہے حضرت مسیح علیہ السلام نے پہلے رومیوں کی ایک چھوٹی سی سلطنت اور تھوڑے سے یہودیوں کے مقابلہ پر کچھ نہ کر کے دکھایا پکڑے گئے ماریں کھائیں سولی پر چڑھائے گئے ملک در ملک بھاگے پھرے اور وہ جوانی کے دن تھے اور اب پیر فرتوت ہو کر نہ منہ میں دانت اور نہ پیٹ میں آنت کیا کرلیں گے کسی نے یا علی مدد یا علی مدد کے نعرے لگائے ایک شخص نے کہا کہ آپ ابن حجم کے مقابلہ میں اپنی مدد نہ کر سکے کربلا میں مکانا و زماناً جو واقعہ گذرا مدد نہ کر سکے اب تیرہ سو برس بعد تیری کیا مدد کریں گے بات

Page 88

تذكرة المهدي 86 یہ ہے کہ مذہبی جنگ تو اب بھی ہے اور رات دن جنگ ہو رہا ہے صورت جنگ بدلی ہوئی ہے سیف و سنان کی جگہ نیزہ (قلم) ولسان ہے.یوسف : اب بتلائیں میں کیا کروں سراج : تم بھی میری طرح ان سے بیعت ہو جاؤ پہلے پیری و مریدی کا ہمارا تمہارا تعلق تھا اب پیر بھائی کا رشتہ ہو جائے گا لیکن یہ یاد رہے کہ میری تقلید سے حضرت اقدس علیہ السلام کی بیعت نہ کرنا بلکہ تحقیقی بیعت کرنا کہ جو پختہ ہوتی ہے اور کسی قسم کی اس میں خامی نہیں رہتی تقلید کام ظنی ہوتا ہے اور تحقیقی یقینی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِى مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا جیسی اور جس قین کے ساتھ تمہارے پیر بھائی مرزا محمد امین بیگ صاحب مرحوم مغفور ساکن موضع بھالوجی علاقہ کوٹ پوتلی ریاست کمیتری متعلقہ ریاست سوای جے پور نے بیعت کی تھی.اس مرحوم نے جب میری زبانی سنا کہ امام مہدی اور مسیح موعود حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہیں اور وہ مسیح ابن مریم صاحب انجیل وفات پاگئے چونکہ مجھ سے عقیدت راسخہ رکھتے تھے وہ حضرت اقدس علیہ السلام کے مصدق ہو گئے اور خود قادیان حاضر ہوئے اور حضرت اقدس علیہ السلام سے بیعت کی اور ایک مہینہ کامل دار الامان میں رہے حضرت اقدس علیہ السلام بھی ان سے بہت محبت رکھتے تھے اور وہ ایک ظریف اور بزلہ صبح آدمی تھے بات بات ان کی ظرافت تھی وہ دن فرصت کے تھے اس زمانہ میں مرزا خدا بخش کتاب عسل مصفی بھی وہاں تھے گھنٹوں تک حضرت اقدس علیہ السلام مرزا امین بیگ مرحوم سے باتیں کرتے اور ان کی ظرافت آمیز باتوں پر ہنستے ایک ماہ کی صحبت حضرت اقدس علیہ السلام کی اس میں یہ تاثیر ہوئی اور ایسا انشراح صدر ہوا کہ وہ بے پڑھ تھا لیکن کوئی مولوی گفتگو میں اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا تھا اور ہر وقت حضرت اقدس علیہ السلام کی صداقت کا ہی ذکر کر تا رہتا تھا گویا

Page 89

تذكرة المهدي 87 اس کی زندگی حضرت اقدس کی صداقت کے ساتھ تھی ایک روز میں نے ایک مجلس میں یہ نعت پڑھی کہ.دن بھلے ہوتے تو کاہے کو جدائی ہوتی وہ نہ آئے تھے اگر موت ہی آئی ہوتی بخت ناساز ہے ہوتا جو مقدر اچھا میری قسمت میں مدینہ کی گدائی ہوتی کیا کروں مانع ہجرت ہے شمابار عصیاں ورنه در پر ترے دھونی ہی رہائی ہوتی گر جمالی کے مقدر میں نہ ہوتا تھاوسال خواب ہی میں کبھی صورت تو دکھائی ہوتی جب میں یہ نعت خوش الحانی سے پڑھنے لگا تو مرزا صاحب مرحوم کو خوش نہ پایا حالانکہ حضرت اقدس علیہ السلام کی بیعت سے پہلے اس نعت کو بڑے شوق سے سنا کرتے تھے جس وقت یہ نعت ختم ہوئی تو اچانک مرزا صاحب مرحوم کھڑے ہو گئے اور بآواز بلند اس مجلس میں مجھ سے کہا کہ حضرت پیرو مرشد اس نعت کو پھر کبھی آپ نہ پڑھیں اب ہجر کیسا اور جدائی کے کیا معنی جب بروز و مثیل محمد مصطفی مدنی الله احمد مجتبی قادیانی تشریف لے آئے (علیہ السلام) تو پھر ہجر میں موت مانگنا فضول ہے یہ تو وصل کے اور خوشی کے دن ہیں.اب آپ ہمیں وصل کی باتیں وصل کی غزلیں وصل کی نعتیں سنایا کریں.اللہ اکبر اس مرحوم کا کیسا زبردست ایمان تھا کہ ایک ماہ کی صحبت حضرت اقدس علیہ السلام نے کیا سے کیا اس کو بنا دیا کسی نے خوب کہا ہے مکاں سے مجھے لامکاں لے گئی یہ الفت کہاں سے کہاں لے گئی یہ حضرت اقدس علیہ السلام کی معجزانہ صحبت کا اثر تھا اور وہ شخص مرتے دم تک اس ملک اور اس گاؤں میں کہ جہاں کوئی احمدی نہیں جس طرف نظر ڈالو سوائے مخالفوں کے اپنے ہوں یا پرائے دکھائی نہیں دیتے ثابت قدم رہا اور وہ ثبوت اپنی ثابت قدمی کا دکھلایا کہ کسی ابتلا پیش آمدہ تزلزل نہیں ہوا اور روز بروز آگے ہی آگے قدم بڑھتا رہا.جب کوئی مولوی واعظ مخالفت میں کچھ بولا تو

Page 90

تذكرة المهدى 88 مرزا صاحب مرحوم نے اس وقت مجلس ہو یا غیر مجلس فورا جواب معقول دیا جس سے اس واعظ کا ناطقہ بند ہو جاتا چونکہ اس گاؤں میں مغل رہتے ہیں اور مرحوم کے سب رشتہ دار یک جدی ہیں سب پر اس مرحوم کا اثر تھا.اور اگر یہ مرحوم کبھی کسی وقت اس گاؤں میں نہ ہوتا اور کوئی مخالف مولوی آجاتا اور مخالفت میں وعظ یا کلام کرتا تو تمام مغل کہدیتے کہ جناب ہم کو قادیان اور مرزا صاحب قادیانی سے واقفیت پوری نہیں لیکن ہم میں ایک مولوی مرزا محمد امین بیگ قادیانی ہیں اس سے دو دو بات کر لو.پھر ہم صدق و کذب کا فیصلہ کریں گے ہم نادان نہیں ہیں بات کو خوب سمجھتے ہیں اور ہم میں بہت سے لوگ وکیل ریاست اور خواندہ بھی ہیں بس مولوی نے مرزا صاحب مرحوم کا نام سنا اور بھاگا یا مخالفت کا کلام اور وفظ چھوڑ دیا.مولویوں نے مرحوم کی زندگی میں اس گاؤں کا آنا چھوڑ دیا تھا بات دور نکل گئی اس مرحوم نے یہاں تک ترقی کی اور احمدیت کے رنگ میں اندر باہر سے رنگا گیا کہ ایک روز کسی شخص نے کہا کہ مرزا امین بیگ تمہارا مرشد اول سراج الحق تو قادیان سے پھر گیا اور حضرت اقدس سے روگردان ہو گیا.اب تم بتاؤ کیا کرو گے تو مرزا صاحب مرحوم مغفور نے کیسا لطیف اور حق وصواب سے پر جواب دیا کہ ایک اعلیٰ سے اعلیٰ مومن اور عبد رحمن کا یہی ہو سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ سراج الحق پھر گیا میں تو نہیں پھرا یہ جملہ لطیف اور ایسا پیارا اس کے منہ سے نکلا کہ اس جملہ کی قدر میرے دل اور اہل دل سے پوچھئے.سو یوسف علی صاحب اس قسم کی بیعت اور ایسی عقیدت و ارادت ہونی چاہئے.شیخ یوسف علی مرحوم کا بیعت کرنا حضرت اقدس علیہ السلام سے بیعت منہاج نبوت کی بیعت

Page 91

تذكرة المهدى 89 اور آپ کی بعثت انبیاء والی بعثت ہے ولیوں مشائخوں کی سی بیعت نہیں ہے.آپ سے روگردانی خدا سے روگردانی اور آپ سے بیعت خدا سے بیعت کرنی ہے یہ ایمان کا معاملہ ہے شیخ یوسف علی مرحوم میرا بیان سن کر خاموش ہو گئے اور چار پانچ ماہ کے بعد معہ تحائف دار الامان حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت سراپا برکت میں حاضر ہوئے اور پندرہ سولہ روز رہ کر اور شرف زیارت حاصل کر کے وطن کو چلے گئے اور پھر دوبارہ آکر حضرت اقدس علیہ السلام سے بڑی پختگی کے ساتھ بیعت کی چونکہ خواندہ اور زیرک اور ذہین وخیم شخص تھے اس سرگرمی سے بیعت کی کہ بلا خوف لومتہ لائم تبلیغ سلسلہ حقہ میں رات دن مشغول رہے نہ کسی اعلیٰ افسر سے خوف کھایا نہ کسی مولوی پیر و فقیر سے دبے نہ تقریر میں ہارے اور نہ تحریر میں پسپا ہوئے.مخالفتیں بھی ہو ئیں عداوتیں بھی ہو ئیں لیکن یہ ہر وقت اور مرتے دم تک صادق الیقین رہے اور ایسے مستقل اور مستقیم رہے کہ جو ایک مومن صالح صادق کے مناسب حال ہونا چاہیئے ان کے ایک دختر اور تین فرزند ہیں دختر کے رشتہ کے پیغام ان کی برادری میں سے آئے لیکن مرحوم نے غیر احمدیوں میں رشتہ کرنا پسند نہ کیا ایک شخص ان کی برادری میں سے احمدی ہو گیا تب انہوں نے اپنی دوختر دی مگر افسوس وہ بد قسمت بعد وفات مرحوم مرتد ہو گیا لیکن وہ نیک بخت لڑکی اب تک احمدی ہے اور اپنے شوہر پر افسوس کرتی رہتی ہے سنگرور - جیند - سفیدون- ہانسی - تو شام دادری چرخی رہتک یا اور جہاں جہاں تک ان کے رشته برادری یا ملازمت کا تعلق تھا تبلیغ سلسلہ احمدیہ کرتے رہے اور بہت لوگ ان کی وجہ سے داخل سلسلہ احمدیہ ہوئے یہ بار بار دار الامان آتے رہتے تھے.سیح موعود کی دعا کا اثر یہ مرحوم اپنے روزگار کی ترقی کی جو مخالفوں کی طرف سے روک پڑگئی تھی دعا حضرت اقدس علیہ السلام سے کراتے اور عریضہ بھی لکھتے رہے اور ایک عریضہ حضرت

Page 92

تذكرة المهدى 90 مولانا عبد الکریم سیالکوئی مرحوم مغفور کی خدمت میں اور ایک میرے پاس دعا کے لئے لکھتے رہے پھر تیسرے روز لکھتے رہے اور حضرت اقدس علیہ السلام جواب میں فرما دیتے تھے کہ ہاں دعا کی ہے اور کریں گے مطمئن رہو اور یاد دلاتے رہو اور فرمایا کہ جو یار ولاتا رہتا ہے اور تھکتا اور مایوس نہیں ہوتا وہ کامیاب ہو جاتا ہے.اور جو تھک کر رہ جاتا ہے وہ اپنے مطلب میں رہ جاتا ہے یی ارشاد عالی میں نے یوسف علی مرحوم کو لکھ دیا اس مرحوم نے ایسی یاد دہانی کی که هر روز ایک خط حضرت اقدس علیہ السلام اور ایک مولانا عبد ا کریم رضی اللہ عنہ اور ایک میرے نام روانہ کرنے لگے ایک مہینہ برابر اسی طرح لگاتار ہر روز خط آتے رہے مولانا عبد الکریم رضی اللہ عنہ ایک روز مجھ سے فرمانے لگے کہ پیر صاحب تمہارے یوسف نے تو حد کر دی ہر روز ایک خط بلا ناغہ آتا ہے میں تو پڑھتے پڑھتے تھک گیا جب چار ماہ برابر اسی طرح گذرے تو ایک روز مولانا عبد الکریم مرحوم نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ جناب یوسف علی نے تو خط کیا لکھے کھپ پاری ڈاک میں خطوں کا تار باندھ دیا خدا کے لئے اب تو اس کے لئے خاص دعا کر دیجئے کہ وہ اپنے مطلب و مقصد کو پہنچ جاوے حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا ہاں روزانہ خط ہمارے پاس بھی آتے ہیں اور پرسوں سے ہمیں بھی خیال ہے آج ہم دعائے خاص کریں گے دوسرے روز حضرت علیہ السلام نے فرمایا لو مولوی صاحب اور صاحبزادہ صاحب ہم نے دعا کر دی ان کو لکھ دو کہ دعا کی گئی اور قبول ہو گئی اب انشاء اللہ جلد تم اپنے مقصد کو پہنچ جاؤ گے یاد دہانی ہو چکی اب سوائے خیریت کے اسقدر خطوط کی ضرورت نہیں ہے حضرت مولوی عبد الکریم مرحوم اور میں نے یہی لکھ دیا ابھی تین روز نہ گذرے ہوں گے کہ امید سے زیادہ ترقی روز گار ہو گئی اور کوئی صورت ترقی کی نہیں تھی چاروں طرف سے روک تھی مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت علیہ السلام کی دعاء سے سب رد کیں دور کر دیں الحمد للہ

Page 93

تذكرة المهدي 91 اس ترقی کے بعد مرحوم دار الامان آئے اور جس وقت یہ آئے تو حسن اتفاق سے حسب عادت شریف خاکسار کو حضرت اقدس نے بلوایا اور فرمایا جلد آؤ ہم لکھتے لکھتے تھک گئے کچھ مضمون لکھوانا ہے میں نے یہ موقعہ مرحوم کے حضرت اقدس کی خدمت بابرکت میں باریاب کرانے کا غنیمت جانا اور مرحوم کو ساتھ لیکر حاضر ہوا حضرت اقدس علیہ السلام مرحوم کی صورت دیکھ کر ہنسے اور مصافحہ کیا بعد مصافحہ مرحوم نے آپ کے قدم پکڑ کر منہ سے چوم لئے حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا ایسا نہیں چاہئے صرف مصافحہ کافی ہے جو مسنون طریق ہے پھر فرمایا کب آئے مرحوم نے عرض کیا ابھی حاضر ہوا ہوں.فرمایا اچھا وقت اور فرصت کا وقت ملاقات کے لئے ملے گا.صاحبزادہ صاحب کو بلوایا تھا آپ سے بھی دیر تک ملاقات کا وقت نکل آیا ایسے وقت کم ہی ملتے ہیں.حضرت اقدس دو گھنٹہ تک مضمون عربی کا لکھواتے رہے اور شملتے رہے.اور اس وقت جو زبان مبارک سے حضرت اقدس فرماتے تھے میں لکھتا جا تا تھا.ایک ہفتہ مرحوم دار الامان میں رہ کر واپس ملازمت پر مقام سنگرور چلے گئے کوئی تین مہینے کے بعد مرحوم کا خط میرے پاس آیا کہ میں سخت بیمار ہوں.اور میری زندگی کی کوئی صورت نہیں یہاں کے طبیبوں سے علاج کرالیا کچھ فائدہ نہیں ہوا اور میرا ارادہ ہے کہ میں دارالامان حاضر ہوں اور حضرت مولانا نور الدین سے علاج کراؤں اور حضرت سے دعا اس خط کے دو تین روز بعد اچانک آدھی رات کو مرحوم معہ فیض اللہ صاحب خالدی ہمشیرہ زادہ اور حاجی حکیم اللہ جیندی اور خسرہ پورہ اودھ سپاہی سرکاری ریاست سنگرور کے ڈولی میں سوار آگئے اس وقت میں نے ان کو مہمان خانہ میں ٹھرایا اور صبح کو حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں خاکسار نے عرض کیا کہ شیخ یوسف علی نعمانی سخت بیمار ہو کر آئے ہیں چل پھر نہیں سکتے فرمایا اللہ تعالیٰ رحم کرے کہاں ٹھہرایا میں نے عرض کیا فی الحال مہمان خانہ میں برلب تالاب ٹھہرا دیا ہے فرمایا ٹھہرو ہم بھی ان.

Page 94

تذكرة المهدى 92 حصہ اول ملنے کے لئے چلتے ہیں وہ بیمار ہیں عیادت بھی ہو جائے گی پھر حضرت اقدس علیہ السلام معہ چند احباب جو اس وقت حاضر تھے مہمان خانہ میں مرحوم کے پاس تشریف لے گئے اور ان کو دیکھا اور مرض کا حال دریافت فرما کر خاکسار کی طرف مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا کہ ہمارے پاس کے مکان میں لے جاؤ تاکہ ہم ان کو ہر روز دیکھتے رہیں یہ جگہ دور ہے اور فرمایا کہ کھانے کے واسطے اطلاع دیتے رہو جیسا کھانا چاہیں وہ تیار ہو جایا کرے اور کسی چیز کی تکلیف نہ ہو.مرحوم نے عرض کیا کہ غریب نواز میں حضور کے قدموں میں اس واسطے حاضر ہوا ہوں کہ یہاں دعا اور دوا دونوں ہیں اور یہ ارادہ کر کے آیا ہوں کہ اگر شفا ہو تو حضور کے روبرو ہو اور جو موت مقدر ہے تو حضور کے قدموں میں ہو جمال یار گرپیش نظر ہو کسی کا کس طرح داں پر گزر ہو مزه آجائے مرنے میں بھی ہم کو قدم ہوں یار کے اور اپنا سر ہو پس مرحوم کو حسب الارشاد قریب کے مکان میں ٹھرایا گیا اس زمانہ میں حضرت اقدس مسیر کے لئے ہر روز ایک دو میل بعد طلوع آفتاب تشریف لے جایا کرتے تھے اور بعد واپسی اگر چہ تکان بھی ہو تا.تب بھی یوسف مرحوم کے پاس جاتے اور حضرت مولانا نور الدین صاحب خلیفتہ المسیح رام اللہ فیضہ کا علاج ہونے لگا.اور روز بروز فائدہ کی صورت نظر آنے لگی اور جناب ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب حسب الارشاد علیہ السلام معالجہ میں مشورہ دیتے رہے اور مولوی قطب الدین صاحب اور مفتی فضل الرحمان صاحب نے بھی جزا ہم اللہ خیر الجزاء بڑی مدد دی.اور وقت پر ادویات پہنچاتے رہے.ایک روز بارہ بجے رات کے مرحوم کا شیخ یوسف علی کی صحت یابی اتفاقا تنگ حال ہو گیا اور قضاء وقدر کے ماتحت موت کے آثار ہو کر جان کندن شروع ہو گئی میرے مکان پر شیخ فیض الله احمدی ہمشیرہ زاده مرحوم آئے اور یہ حالت بیان کی میں سن کر حیران ہو گیا

Page 95

تذكرة المهدى 93 اور ششدر رہ گیا اور دل میں کہا کہ یا الہی یہ کیا ماجرا ہے رات دس بجے کے وقت میں اچھی طرح چھوڑ کر آیا ہوں خیر میں مرحوم کے پاس گیا دیکھا تو حالت غیر ہے اور جان کندن شروع ہے.موت کے آثار نبض کا چھوٹ جانا.غیر منظم ہوتا کا ٹھنڈا ہونا.منہ کھلا رہنا وغیرہ سب موجود ہیں.میں سیدھا حضرت اقدس علیہ السلام کے مکان پر گیا.اب ساڑھے بارہ بجے ہیں ادھر مریض کا تنگ حال ادھر مکان کے دروازے بند اور سب سوتے ہیں میں ادھر کے حصہ مکان کی طرف گیا جس طرف حضرت اقدس علیہ السلام سویا کرتے یا لکھا کرتے ہیں میں نے ایک آواز بڑے زور سے گھبراہٹ میں دی تو پہلے جو بولے تو حضرت بولے کہ صاحبزادہ صاحب ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں حضور سراج الحق ہے.فرمایا : اس وقت کیسے آئے ہے.سراج نے عرض کیا کہ یوسف علی کی حالت غیر اور قریب الموت ہے اور جان کندن شروع ہے.تمام جسم سرد اور نبض غیر منظم کوئی صورت اچھی نہیں.زندگی سے قطعی مایوسی ہے.حضور کے اخلاق کا ایک نمونہ فرمایا شام تک تو ہم نے خبر منگائی اچھے تھے اندر آؤ اور اندر ایک خادمہ سے فرمایا کہ جلدی دروازہ کھول دو ثواب ہو گا اور ایک لالٹین ساتھ لے جاؤ خادمہ سے یہ کہنا کہ دروازہ کھول دو ثواب ہو گا ایسے پیارے لب ولہجہ سے فرمایا کہ میرے جیسے انسان کا کام نہیں کہ اس کا اندازہ کر سکے.حالانکہ آپ آقا ہیں اور وہ خادمہ ہے اور ہر طرح سے تابعدار اور فرمانبردار ہے آپ چاہتے تو امرار و ساوالی شان سے اس کو خادمہ سمجھ کر یا دھمکا کر یا کڑی اور سخت آواز سے حکم کر سکتے تھے لیکن اس لب ولہجہ اور دھیمی اور مسکینی طریق سے فرمانا دروازہ کھول دو ثواب ہو گا" کیسا دل کو لبھانیوالا جملہ ہے کہ دباؤ نہیں سختی نہیں یہ اوصاف حمیدہ اور خصائل پسندیدہ اس امام موعود کے تھے علیہ الصلوۃ "

Page 96

تذكرة الميدى 94 السلام یہ اس رسول ہاشمی قرشی افضل الرسل سید المرسلین محمد مصطفے نمونہ ہے جسنے ولکم فی رسول الله اسوة الحسنة کا نقشہ کھینچ کر دکھایا اور سچ فرمایا آپ نے کا بخدا دل سے مرے مٹ گئے سب غیروں کے نقش یب سے نقشہ ہے ترا دل پہ جمایا ہم نے وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَا انْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ رات کے ایک بجنے کے قریب ہے نیند کا آرام کا وقت ہے خاکسار کا سخت آواز سے پکارتا ہے.اور نرمی سے دریافت حال فرمانا اور ایک خادمہ اور ادنی عورت کو جو اسی کام اور خدمت کے لئے بے عذر رہتی ہے اس کو فرماتے ہیں کہ دروازہ کھول دو ثواب ہوگا ہم جیسے ہزاروں خادم اور آپ ایک مرشد اور مرشد ہی نہیں صحیح موعود اور مسیح ہی نہیں بلکہ جُدِی الله فِي حُلل الانبیاء اور ماسوا اس کے آپ رئیس ابن رئیس اور امیر ابن امیر اور دونوں حیثیتیں ایک سے ایک بڑھی ہوئی پھر نرمی اور عاجزی اور مسکینی سے فرماتے ہیں کون ہے صاحبزادہ صاحب ہیں اور پھر کسی قسم کا مال طبیعت پر نہیں اے احمد قادیانی مثیل محمد مدنی تجھ پر اور تیرے متبوع پر ہزاروں لاکھوں کروڑوں بے انتہا درود سلام و صلے اللہ عَلَيْكَ وَ عَلَى مُحَمَّدٍ يَحْمَدُكَ اللهُ مِنْ عَرشِهِ وَ سُبْحَنَكَ الله ادھر آپ کی یہ حالت ادھر حضرت ام المومنین * علیھا السلام جاگ اٹھیں اور کہنے لگیں (حضرت اقدس کی زوج مطہرہ مقدسہ کی نسبت ام المومنین علیها السلام لکھنے کی یہ وجہ پیش آئی کہ اس مرحوم نے ایک دفعہ تحفہ بھیجا اور خط میں مجھے لکھا کہ مادر مومنان کی خدمت میں پیش کر دیتا.چونکہ خاکسار کو بھی اکثر بیٹا فرمایا کرتی تھیں اس واسطے میں نے یہ حضرت اقدس کی خدمت میں لکھ دیا کہ حضرت ام المومنین علیہما السلام کی خدمت میں یہ تحفہ پیش کردیں حضرت اقدس نے تحریر فرمایا کہ وہ تحفہ جو یوسف علی صاحب نے بھیجا ہے وہ ام المومنین کے پاس پہنچا دیا.جب اکثر آپ کو ام المومنین کہنے اور پھر لکھنے لگے ایک دفعہ بہت سے مخالفوں نے اعتراض بھی کیا حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ ان معترضوں کو معلوم نہیں کہ اگر ان کے ذہنی صحیح آدیں اور وہ شادی کریں تو ان کی بیوی کو یہ ام المومنین کہیں گے یا نہیں.مَا هُوَ جَوَابُكُمْ فَهُوَ جَوَابُنَا پھر فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے ہمیں نبی رسول کر کے بھی فرمایا ہے اور جری اللہ فی حل الانبیا فرمایا جب ہم رسول ہوئے نبی ہوئے اور تمام انبیا کے حلوں میں سے ہوئے تو ہماری بیوی ام المومنین ہو ئیں یا نہیں جیسے اور انبیا کی ازواج مطہرات مومنوں کی مائیں تھیں.

Page 97

تذكرة المهدي 95 خیر ہے اس وقت پیر صاحب کیسے آئے حضرت اقدس نے وہی حال بیان کیا تو حضرت قدسی دست بدعا ہو گئیں اور کچھ نہیں بولیں یہ دوسرا نمونہ ہے حضرت اقدس کی قوت قدسیہ اور اثر صحبت کا عموماً عورتوں کی طبیعت نازک ہوتی ہے ایسی آرام اور چین اور خواب استراحت کی حالت میں اور پھر آدھی رات کو خفا ہو جانا یا زبان سے اضطراری اور نیند کے وقت کوئی کلمہ سخت نکل جانا کچھ بات نہیں لیکن اللہ اللہ وہ خلق وہ رحم کہ سن کر دعا میں لگ جاتا اور دل پر ذرہ بھی میل نہ آنا یہ آپ ہی کا کام تھا دنیا میں پیر زادے دیکھے مشائخ دیکھے صوفی مولوی با خدا اور خدارسیدہ ہونے کا دم بھرنے والے دیکھے امیر ا مرا نواب شاہزادہ تک دیکھے مگر یہ خلق کہاں یہ محبت اور یہ انس اور یہ ہمدردی کہاں ذرا ذراسی بات میں بگڑنا.اپنے آرام کے لئے اور سروں کی کچھ پرواہ نہ کرنا چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض ہو جانا خفا ہو کر نکال دیتا.میں خود پیر زادہ ہوں اور قریباً کئی ہزار کا رہنما اور پیشوا مانا گیا ہوں لاکھوں معتقد ہیں سب کچھ ہے مجھ سے زیادہ دوکاندار اور اس کام کا راز دار اور جانے والا کون ہو گا کہ حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ سے میرے تک نسلاً بعد نسل پیر ہوتے چلے آئے ہیں پھر کوئی بات تو ہے جو میرے جیسے انسان کو اس عالیشان اور جلیل القدر انسان با خدا انسان کی طرف کھینچ کر لائی.جب میں حسب الحکم اندر مکان میں گیا حضرت اقدس علیہ الصلواۃ السلام نے تمام کیفیت دریافت فرمائی اور دو تین دوائیاں قیمتی جلدی جلدی لاکر اور ایک گلاس میں ڈال کر عنایت فرمائی جس میں عنبر اشب خالص بھی تھا اور فرمایا کہ جلدی جاؤ اور پلاؤ اللہ تعالیٰ شفا دے اور جلد ہمیں اطلاع دیتا ادھر ہم دعا کرتے ہیں دوا کا تو در حقیقت ایک تسلی آمیز سبب تھا مگر جو بات تھی وہ دعا تھی حضرت اقدس فرمایا کرتے تھے کہ کہ الدعاء سیف المومن مومن کا ہتھیار دعا ہے پس میں دوا حضرت سے لیکر چلا اور یوسف مرحوم کو اس حالت نزع میں پائی اور

Page 98

تذكرة المهدى 96 پلاتے ہی اس مرحوم نے آنکھیں کھول دیں اور کچھ ہوش و حواس درست ہوئے تو میں نے سارا قصہ سنایا مرحوم بہت خوش ہوا پھر میں اپنے مکان پر چلا گیا صبح کو قبل از نماز صبح حضرت اقدس علیہ السلام نے مجھ کو مکان پر بلوایا اور فرمایا یوسف علی صاحب کا کیا حال ہے صاحبزادہ صاحب تم نے ہمیں اطلاع نہ دی.سراج: حضور اطلاع کیا دیتا ادھر آپ نے روادی اور ادھر دعا شروع کی دوا کا پلانا تھا اور شفا کا ہونا تھا اب اللہ تعالی کا فضل ہے پوری تندرستی عود کر آئی.فرمایا : صاحبزادہ صاحب جب وہ دوا لے کر تم روانہ ہوئے تو ہم کو نیند نہ آئی دعاؤں میں لگ گئے اور تمہارا خیال رہا کہ اب خبر لاتے ہو گے اور ہمارے کان آدمیوں کی طرف لگے رہے کہ کون خبر لاتا ہے عین دعا کے وقت ذراسی غنودگی میں ایک خواب دیکھا اور ایک الہام مبشر ہوا جو خاص یوسف علی صاحب کی نسبت ہے اور فرمایا بعد نماز سیر کو چلیں گے اس وقت وہ خواب اور الہام نائیں گے.بعد نماز حضرت اقدس علیہ السلام میر کو تشریف لے چلے حضرت مولانا سید محمد احسن صاحب امروہی اور جناب ڈاکٹر رشید الدین صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب تراب وغیر ہم بہت سے اصحاب ساتھ تھے راستہ میں وہ خواب اور الہام سنایا اور یہی ذکر بار بار بڑے وثوق سے فرماتے رہے اور فرمایا اس بیماری میں یوسف علی صاحب نہیں مریں گے اور پورے شفایاب ہو جائیں گے میر سے واپسی کے وقت معہ تمام اصحاب یوسف علی صاحب کے پاس تشریف لے گئے اور اپنی زبان مبارک سے وہ خواب اور الهام یوسف علی صاحب کو سنایا اس وقت خاکسار کو وہ خواب اور الہام یاد نہیں رہا شیخ یعقوب علی صاحب تراب نے اپنے اخبار الحکم میں چھاپ دیا ہے.میں نے ایک روز حضرت اقدس علیہ السلام سے عرض کیا کہ وہ کیا بات ہے

Page 99

تذكرة المهدي 97 کہ جس پر بڑے زور اور تحدی سے آپ ایک ان ہونی بات کا دعوی کر بیٹھتے ہیں اور ذرا سی دل پر جھجک نہیں ہوتی ہے فرمایا جیسا کہ محدثین کی اصطلاح میں حدیثوں کے بارہ میں تواتر ہوتا ہے ایسا ہی صوفیائے کرام اور انبیاء عظام کے ہاں تواتر ہوتا ہے جس کے بعد کوئی ظن ریب وغیرہ نہیں رہتا اور وہ یہ ہے کہ خواب- ردیا- کشف - وحی سب کے سب بلکہ بار بار وحی کا آنا ہوتا ہے تو یہ تو اتر کہلاتا ہے اس کے بعد کل حجاب درمیانی اٹھ جاتے ہیں اور سوائے یقین کے اور کچھ درمیان نہیں رہتا تو پھر ہم لوگ اس پر نہایت صدق سے جم جاتے ہیں اور تحدی کر بیٹھتے ہیں کیونکہ تو اتر یقین سے بڑھا ہوا ہوتا ہے.اور مجھے فرمایا کہ ہر روز بعد نماز صبح یہ دوا یوسف علی صاحب کو ہم سے لا کر کھلانا چاہئے اور یہ بھی فرمایا کہ بعد تمہارے دوالانے کے ایک دوا ہمیں الہام سے اور معلوم ہوئی ہے وہ بھی اس دوا میں شامل کر دیں گے.خاکسار راقم الحروف کو بے تکلف جب چاہتا حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہو جایا کرتا تھا لیکن پھر بھی حاضری کی تمنا رہتی تھی دوا ہر روز لانا ایک اور سبب حضوری کامل گیا.اس کے بعد یو ما نیوم وساعته بساعتہ یوسف علی کامل صحت کی طرف آنے لگا اور حضرت اقدس علیہ السلام بھی ہر روز مسیر سے واپس تشریف لاتے ہوئے یوسف علی صاحب کے پاس ضرور تشریف لاتے تھے ایک روز یوسف علی صاحب نے غسل صحت کیا اور اصلاح بنوائی اور پچاس ساٹھ قدم تک نہلے.آج اس حالت کو دیکھ کر یقین ہو گیا کہ اللہ تعالٰی نے برکت دعا حضرت اقدس علیہ السلام صحت عطا فرمائی اور حضرت اقدس علیہ السلام کو اطلاع دی گئی آپ نہایت خوش ہوئے اور حمد و ثنا الہی زبان پر جاری ہوئی رات کے دس بجے کھانے اور نماز سے فارغ ہو کر شیخ محمد اسماعیل سرسادی اور شیخ محمد فیض اور ہمشیرہ زادہ مرحوم اور سید محمد رشید شاہ صاحب سیالکوٹی اور پانچ چار اور صاحب بیٹھے ہوئے مرحوم کے

Page 100

تذكرة الحميدعي 98 پاس باتیں کرتے تھے.اور اللہ تعالیٰ کا شکر کرتے تھے کہ اب تم کو اللہ تعالٰی نے دوباره زندگی مرحمت فرمائی تم مردہ تھے از سر نو زندگی بخشی.محمد اسمعیل نے کہا کہ یوسف علی صاحب اب تم کو دوبارہ زندگی برکت دعا امام علیہ السلام حاصل ہوئی ہے اور یہ زندگی بھی ایک معجزانہ زندگی ہے اس کو مشکورانہ اور منتقیانہ طور سے گزارنا چاہئے دیکھو قیامت کے دن مجرم کہیں گے کہ اب اگر دوبارہ ہم زندہ کئے جائیں تو ہم تیری فرمانبرداری کریں گے اور ذرہ بھی خلاف ورزی اور عدول حکمی نہ کریں گے اور اعمال صالحہ بجالائیں گے اب ہم یقین لاچکے اور آنکھوں سے جو دیکھنا تھا دیکھ چکے ہیں سو اب تم کو یہ موقع اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہیں دکھلا دیا کہ اب تم کو موت کے منہ سے نکال لیا.اور از سر نو زندگی بخشی کوئی آثار تمہاری زندگی کے نہ تھے اب تم کو چاہئے کہ پاک وصاف زندگی مومنانہ الٹی رضامندی کے ماتحت ختم کرو ایسا نہ ہو کہ یہ انعام الہی تم سے واپس لیا جائے اور دو چند عذاب کے مستحق ہو جاؤ لوگ ہمیشہ انبیاء سے معجزات مانگتے رہے اور دیکھتے رہے مگر ایمان کی توفیق نہ ملی مگر تم نے کوئی معجزہ طلب نہیں کیا اور بغیر طلب اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے طفیل اپنے مامور کے تم کو عظیم الشان نشان احیاء موتی خود تمہاری ذات پر دکھلا دیا اب تمہارے دل میں اللہ ہو تمہارے بال بال رگ رگ میں اللہ تعالٰی بس جاوے.اب تمہارا غیر اللہ کوئی مقصود محبوب مطلوب معبود نہ رہے اس پر مرحوم یوسف علی نے کہا کہ ہاں بے شک اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے اپنے فضل و کرم سے ہمارے وقت میں مامور بھیجا اور مسیح موعود اور مہدی موعود کا منصب عطا کر کے مبعوث فرمایا جسکی تمنا میں اولیاء صلحاء علماء غوث و قطب ہزاروں ہزار بے شمار گذر گئے اور یہ وقت کسی کے ہاتھ نہ آیا.اور پھر ہمارے ملک میں اور اس پر یہ فضل فرمایا کہ ہم کو اس مرسل و مامور کی شناخت کی توفیق دی.اور اس سے بڑھ کر یہ اور فضل د رحمت ہمارے شامل حال ہوئی کہ اس کے مبائعین اور انصار میں داخل فرمایا - 1

Page 101

تذكرة المهدي 99 اون اور پھر بار بار آنے کی توفیق رفیق بخشی اور پھر ایسی سخت بیماری کی حالت میں بھی اس کے قدموں میں لا ڈالا اور پھر میں مر چکا تھا اور اس کی دعا سے زندہ ہوا.اب میری تمنا اور آرزو یہ ہے شیخ یوسف علی مرحوم کی وفات کہ اللہ تعالی جل شانہ مجھ پر ایسا کہ.فضل فرمائے کہ مجھ کو اپنا کر لے.اور اپنی اطاعت اور فرمانبرداری میں رکھے اور اس مامور و مرسل سے زیادہ محبت بڑھا دے اور پھر دونوں ہاتھ اٹھا کر جناب باری میں دعا کی کہ اے میرے اللہ میں تیری درگاہ میں التجا کرتا ہوں کہ میری باقی زندگی کو معصیت سے پاک رکھ اور مجھے اپنے اور اپنے ما مورد موعود علیہ السلام کی نافرمانی سے محفوظ رکھ اور جو میری بقیہ زندگی اے علام الغیوب تیرے علم اور تیری نظر میں اچھی نہ ہو یا میں نافرمانی کی طرف جھکوں یا اور کسی قسم کا شعبہ حیات برائی کا ہو تو الٹی مجھے زندگی پیاری نہیں مجھے معصیت اور نافرمانی اور گناہ کی زندگی کی تمنا نہیں ہے یہی ذکر ہوتے ہوتے مرحوم کو ذرا غفلت ہوئی یہ دعا چونکہ آخری دعا تھی بارگاہ الہی میں قبول ہو گئی اور اسی حالت بین النوم و این قفلی میں چونک اٹھا اور کہا کہ میں نے اس وقت دیکھا کہ ایک دیوار ریت میرے سامنے ہے اور اچانک خود بخود بیٹھ گئی اس نظارہ کے دیکھنے اور سننے سے میرا دل تو پکڑا گیا کہ اللہ تعالٰی عالم الغیب اور دانا پینا ہے.مرحوم کی زندگی چونکہ اللہ کی نظر اور علم میں بہتر نہیں ہے اور اب یہ پاک کیا گیا ہے یہ دعا قبول ہو چکی.اب یوسف کی زندگی کا خاتمہ ہے ایک صاحب نے فرمایا کہ یہ دیوار مرض ہے وہ گر گئی گویا مرض جاتا رہا اور تم خدا کے فضل سے تندرست ہو گئے میں نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی مگر مرحوم سمجھ گیا کہ میری دعاء قبول ہو چکی ہے خداتعالی نے چاہا کہ اب اس بندہ کو پاک وصاف اپنے حضور بلا دے اور اپنے اور ہمارے پیارے مسیح موعود علیہ السلام کے دروازہ سے گناہوں میں مبتلا ہونے سے بچا کر پاک زندگی بخشے گا.°

Page 102

تذكرة المهدي 100 سب نے ہر طرح کی تسلی دی ایک صاحب نے کہا اچھا جی ہم تو اب جاتے ہیں رات بہت گئی.ان خیالات کو چھوڑو.اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھو وہ بہتر جانے والا ہے ہم سب چلائے اور صبح کی نماز با جماعت حضرت اقدس علیہ السلام کے ساتھ پڑھی بعد نماز حضرت اقدس نے حسب معمول مسجد میں تشریف رکھی یہ حضرت اقدس کا اکثر معمول تھا کہ بعد نماز صبح گھنٹہ دو گھنٹہ تک تشریف رکھا کرتے تھے اور ہر ایک قسم کی باتیں کیا کرتے تھے اور حاضرین کو تعلیم و تلقین فرمایا کرتے تھے.اس عاجز سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ یوسف علی صاحب کیسے ہیں.میں نے تمام ماجرا جو رات کو گزرا تھا سنایا اور مرحوم کا دعا کرنا اور دعا کے بعد ایک خواب یا کشف کا دیکھنا عرض کیا حضرت اقدس علیہ السلام کا ایسی دعا کو سن کر مسکراتا اور خواب کے دیکھنے سے آپ کا متحیر رہ جانا چہرہ مبارک سے ظاہر ہوتا تھا فرمایا خدا تعالٰی خیر کرے اور وہی ہر ایک حال سے خوب واقف ہے کچھ دیر کے بعد حضرت اقدس اندر مکان میں تشریف لے گئے اور حاضرین بھی چل دیئے اور میں اپنے گھر چلا گیا اس نیت سے کہ گھر جا کر پھر واپس یوسف علی مرحوم کے پاس جاؤں گا میں گھر جا کر کھڑا ہی ہوا تھا جو شیخ فیض اللہ خالدی ہمشیرہ زادہ مرحوم نے مجھ کو آواز دی کہ جلدی چلو ماموں یوسف علی صاحب کا حال دیکھو میں ان کے ساتھ آیا اور یوسف علی کی حالت غیر دیکھی کہ آنکھیں بے طور کھلی ہیں اور کچھ ہوش نہیں حضرت خلیفتہ اصبح مولانا نورالدین صاحب دام ظلہ کو اطلاع دینا آپ تشریف لائے اور نبض اور شکل دیکھ کر تشریف لے گئے اور چہرہ اور بشرہ سے گویا فرما گئے کہ آخری نتیجہ اب موت ہے اور دوائی بھیجی دوامنہ میں ڈالی تو ادھر ادھر باچھوں میں سے نکل گئی میں نے بھی جان لیا کہ رات کی دعا چونکہ قبول ہو چکی ہے اب زندگی کا خاتمہ ہے.اس کے بعد میں حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت مبارک میں حاضر ہوا اور اس وقت کی حالت عرض کی آپ نے فرمایا کہ نماز کے وقت تو تم نے اچھی

Page 103

تذكرة المهدي 101 حالت بیان کی تھی اچھا ٹھرو ہم بھی چلتے ہیں حسب معمول ہاتھ میں عصا لے کر اکیلے میرے ساتھ ہو لئے اور یوسف علی کو دیکھا کوئی دس منٹ تک سامنے کھڑے ہو کر دیکھتے رہے اتنے میں ڈاکٹر رشید الدین صاحب اور مولوی قطب الدین صاحب اور مفتی فضل الرحمٰن صاحب بھی آگئے.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ کیا تشخیص کی سب نے اپنی اپنی رائے ظاہر کی لیکن پوری اس مرض کی تشخیص نہ ہوئی حضرت اقدس مکان کو تشریف لے گئے اور فرما گئے کہ پایه شو یا کر ذ سب کچھ کیا مگر حالت متغیر ہوتی گئی اور خرخره بولنے لگا حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب بھی تشریف لائے اور کرسی پر بالمقابل بیٹھ کر دو اڑھائی گھنٹہ تک یہ حالت نازک دیکھتے رہے اور مجھ سے فرمایا کہ دیکھو یہ ایسی نازک اور با عبرت حالت ہے کہ ایسی حالت میں بادشاہ یا بڑے سے بڑا متکبر انسان یا کوئی پر زور طاقتور پہلوان اور بہادر ہو وہ بھی بے بس اور لاچار ہو جاتا ہے کسی کی کچھ پیش نہیں جاتی.ایسی حالت میں خدا یار ہے اس حالت کو دیکھ کر عظیم ال بادشاہ بھی کانپ اٹھتا ہے غرض صبح سے لیکر عصر کے وقت تک یہی حالت رہی.عصر کے وقت مرحوم فوت ہو گیا.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ وَإِنَّا بِفِرَاقِ لمَحْزُونُونَ الشان مغرب سے پہلے پہلے کفنا کے جنازہ تیار کیا گیا بعد مغرب حضرت اقدس علیہ السلام نے نماز جنازہ پڑھائی کئی سو نماز میں تھے یہ نماز جنازہ بھی پر کیفیت تھی وہ سوزد گر از تھا کہ اللہ اکبر بیان سے باہر ہے حضرت اقدس علیه السلام نهایت درد سے بھری ہوئی آواز سے اللہ اکبر کہتے تھے اتنی دیر نماز پڑھائی کہ عشاء کی نماز کا وقت قریب آگیا بعد نماز اس مرحوم کو دفن کیا گیا.ای رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک عالی مسجد میں ایک مکان پر تکلف بنا ہوا ہے مرحوم اس مکان پر بڑی شان وشوکت سے لباس فاخرہ پہنے ہوئے بیٹھا ہے صبح کو یہ رویا حضرت اقدس سے بیان کی.

Page 104

تذكرة المهدي 102 فرمایا مسجد بهشت ہے اور نزول رحمت کا مقام ہے اللہ تعالی نے اس کو بخش دیا پھر حضرت اقدس علیہ السلام میر کو تشریف لے گئے اور اس مرحوم کے متعلق پر افسوس ذکر فرمایا اور اس کے متعلقین کو جو ساتھ تھے بہت کچھ تسلی و تشفی فرمائی تیسرے روز شیخ فیض اللہ وغیرہ چلنے لگے اور اجازت طلب کی فرمایا ذرا ٹھرو آج ہم بھی اسی طرف سیر کو چلیں گے جس طرف سے کہ تم کو جاتا ہے پس حضرت امام علیہ السلام اور آپ کے بہت سے خدام بٹالہ کے راستہ سے سیر کو چلے اور دو میل سے زیادہ تک تشریف لے گئے یہ حضرت اقدس کا خلق عظیم تھا اور یہ اپنے خدام کے ساتھ برتاؤ تھا کہ ہر ایک کے ساتھ محبت رکھتے تھے ادنیٰ و اعلی پر نظر نہیں تھی اور ہر ایک شخص جو دامن مبارک سے وابستہ تھا اور حضور سے ذرہ سا بھی تعلق اور سچا خلوص رکھتا تھا حضور اقدس اس کو ایسا عزیز رکھتے تھے کہ ہر ایک شخص یہی سمجھتا تھا کہ جو محبت و شفقت میرے ساتھ ہے دو سرے سے نہیں ایک ادنیٰ سے ادنیٰ بھی آپ کو راستہ میں ٹھرا لیتا تو آپ وہاں سے نہیں ہتے تھے صَلَّى اللهُ عَلَيْكَ وَ عَلَى مُحَمَّدٍ یہ ہے آپ کی دعا اور صحبت معیار کا اثر.اور آپ پر سچا ایمان لانے کا ثبوت.حضرت مولانا مولوی عبد الکریم مرحوم سیالکوٹی نے ایکبار مجھے فرمایا کہ پیر صاحب جو ہماری جماعت احمدیہ کا فرد گزر جاتا ہے اس کے گزرنے اور فوت ہونے سے ہمیں رنج بھی ہوتا ہے اور خوشی بھی ہوتی ہے خوشی تو یوں ہوتی ہے کہ وہ ابتلاؤں سے بچ گیا اور خاتمہ بالخیر ہو گیا اور اپنا ایمان ثابت اس جہان سے لے گیا اور رنج کا باعث یہ ہے کہ ہمارا ایک بھائی ہم سے جدا ہو گیا.رو سرا دلچسپ مکالمہ اب میں پھر اصل مطلب کی طرف آتا ہوں نواب علی محمد خان صاحب مرحوم کی کوٹھی پر حضرت اقدس علیہ السلام سے اجازت لے کر آیا تو آتے ہی لوگوں کا میرے پاس مجمع ہو گیا جس میں نواب زادے اور بعض سید اور پیرزادے اور مشائخ اور کچھ

Page 105

تذكرة المهدي 103 عام لوگ بھی تھے اس وقت سب نے کہا کہ حضرت آپ نے بڑا غضب کیا کہ آپ مرزا سے ملنے گئے (چونکہ ان کو معلوم نہ تھا کہ اس نے حضرت اقدس علیہ السلام سے بیعت کی ہوئی ہے مگر جن کو معلوم تھا ان میں سے اکثر اس مجمع میں نہ تھے.لیکن الہ دین جلد ساز حاتک لدھیانوی اور عباس علی متوفی لدھیانوی اور نواب اشرف علی خان میرے سے واقف تھے) ان پر اور ان کے مریدوں پر تو کفر کا فتوی ہے میں نے کہا کہ کفر کا فتویٰ لگانے والے کون ہیں.لوگ : مولوی عالم فاضل ہیں.سراج : پہلے ان کا ایمان تو ثابت کر لو کہ یہ لوگ مومن اور مسلمان ہیں.لوگ : یہ کیا بات کہی کیا یہ مسلمان نہیں.مراج: بے شک نہیں.لوگ : اس کی کیا وجہ - فرمائیے کہ یہ کیوں مسلمان نہیں.سراج : جو شخص ایک مرد مومن اور مسلمان شخص کو کافر کہے تو کہنے والا خود کافر ہو جاتا ہے.لوگ: یہ سچ ہے.سراج : اب بتلاؤ کہ یہ کافر کہنے والے کافر ہوئے کہ نہیں.دوسرا جواب یہ ہے کہ مقلد مولویوں نے غیر مقلدوں پر اور غیر مقلدوں نے مقلدوں کو کافر کہا اور فتوے مشتہر ہوئے ان میں کو نسا فرقہ مومن رہا یا دونوں کافر ہوئے.لوگ : اس سے تو یہ معلوم ہوا کہ ان میں کوئی بھی مومن اور مسلمان نہیں.سراج : تو اب کافروں کے کہنے سے حضرت اقدس مرزا صاحب کیونکر کافر ہو سکتے ہیں.اگر گنگا اس دھوتی پر شاد جیون مل سکھ لال آکر اس وقت ہم کو اور تم کو کافر کہیں تو ہم تم ان کے کہنے سے کافر ہو جائیں گے.لوگ : ہرگز نہیں سراج: مَا هُوَ جَوَابُكُمْ فَهُوَ جَوَابُنَا بات یہ ہے کہ کفر کا فتویٰ لگنا ہی

Page 106

تذكرة المهدى 104 مه اول السلام عین ایمان کا نشان اور ولایت کا ثبوت ہے اور جس قدر زیادہ کفر کے فتوے لگیں ای قدر زیادہ زیادتی ایمان کی دلیل ہے جیسے زیادہ دشمن ہونا کسی کی عزت وجاہت رعب کا باعث ہے چور وہیں نقب لگاتا ہے جہاں مال اور دولت ہے بھو کے پاس تو چور بھی نہیں جاتا آنحضرت ا ان کی فضیلت اور آپ کا سید مرسلین اور خاتم انسین ہونا اسی معنی کر کے ہے کہ بہ نسبت اور انبیاء کے آپ کے دشمن زیادہ تھے اور زیادہ ہیں تمام نبی اور رسول مختص الزمان اور مختص القوم تھے ان کی ہی قوم اور ان کے زمانہ کے محدود لوگ دشمن ہوئے لیکن حضرت سرور کائنات فخر موجودات تمام عالموں اور کافتہ للناس کے لئے رسول تھے تو تمام دنیا نے آپ کے ساتھ عداوت کی اصحاب رسول حضرت ابو بکر اور حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے ، بخلاف حضرت علی کے زیادہ دشمن ہیں اس واسطے ان کا زیادہ مرتبہ اور فضیلت ہے.ایک روز حضرت مولانا و بالفضل اولانا مولوی حاجی حافظ نور الدین قریشی فاروقی دام ظله خلیفتہ المسیح والمهدی علیه السلام نے حضرت اقدس علیہ السلام سے فضیلت صحابہ کے بارہ میں عرض کیا تو حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ تو اللہ تعالی کو خبر ہے کہ تعلق باللہ یا انس باللہ کتنا تھا لیکن ہم تو ظاہر کو جانتے ہیں کہ جس نے زیادہ اسلام کی خدمت کی اسی کا مرتبہ زیادہ ہے جتنی مزدوری اتنے دام صحابہ کے کارنامے اور خدمت اسلام دیکھ لو کہ کس نے کس قدر خدمت اسلام کی ہے.ہر دلعزیز منافق ہوتا ہے ایک روز حضرت اقدس علیہ السلام نے اسی معنی میں ایک حکایت بیان فرمائی.فرمایا حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ نے سفر کیا اور چند ایک اہل ! ارادت آپ کے ساتھ تھے ایک جنازہ پر بہت لوگوں کا ہجوم دیکھا.حضرت بایزید نے دریافت فرمایا کہ یہ لوگ اس قدر بکثرت کس لئے جمع ہیں تو لوگوں نے کہا کہ

Page 107

تذكرة المهدى 105 ایک ولی اللہ کا انتقال ہو گیا ہے اس کے جنازہ پر ہر مذہب وملت کے آدمی آئے ہیں حضرت بایزید رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ کس نشان سے معلوم کیا کہ یہ فوت شده ولی اللہ تھا انہوں نے جواب دیا کہ بزرگ متوفی بڑے صلح کل تھے کہ کوئی شخص کسی مذہب کا ہو کسی فریق کا ہو ہندو ہو مسلمان ہو یہودی یا عیسائی ہور ہر یہ ہو آپ سے ناراض نہیں تھا سب خوش تھے اور آپ بھی سب سے راضی تھے کسی کی بھی دل شکنی نہ کرتے تھے تمام فرقوں کے لوگ آپ کے معتقد تھے حضرت بایزید رحمتہ اللہ علیہ نے ان کی یہ بات سن کر فرمایا کہ یہ شخص بڑا ہی منافق تھا.حضرت بایزید رحمتہ اللہ علیہ کی زبان سے منافق کا لفظ سن کر درہم برہم ہوئے اور طیش میں آکر حضرت بایزید اور ان کے ہمراہیوں کو مارنے کو تیار ہو گئے تو یہ وہاں سے چل دئے حضرت بایزید کے متعقدین نے جو ساتھ تھے پوچھا کہ آپ نے اس متوفی بزرگ کو منافق کیوں فرمایا بایزید نے فرمایا کہ وہ شخص منافق ہوتا ہے جس کو تمام لوگ علی العموم اچھا کہیں اور مخالف کوئی نہ ہو.وجہ یہ که منافق کے منہ سے حق بات کبھی نہیں نکلتی اسی واسطے تمام لوگ اس سے راضی اور خوش رہتے ہیں کیونکہ اس کو سب کی ہاں میں ہاں اور نا میں نا ملانی پڑتی ہے وہ اگر حق بات منہ سے نکالے تو اس کا سب پر وہ کھل جائے اور معتقد ناراض ہو جائیں اور وجوہ معاش اور آمدنی جس کے واسطے اس نے قریب کیا ہے بند ہو جائے الحق مربہت صحیح ہے اہل اللہ حق بات کہا کرتے ہیں اور کسی کے خوش یا ناخوش ہونے سے ان کو سرد کار نہیں ہو تا منافق اور خدا سے دور پڑا ہوا کبھی بھی کلمتہ الحق زبان پر نہیں لاتا وہ سب کی خوشی اور رضامندی کو مقدم رکھتا ہے اور حق کہنے والے کے دشمن ہو جاتے ہیں انبیاء علیهم السلام اور اولیاء کرام کے حالات پر نظر ڈالو کہ کیسے حق بات کہنے سے دشمن اور خون کے پیاسے ہو گئے حضرت سید عبد القادر جیلانی اور حضرت شیخ احمد سرہندی اور امام غزالی وغیرہ ہم رحمتہ اللہ علیم کے کیسے دشمن ہوئے جان لینے اور بے عزت بے آبرو کرنے

Page 108

تذكرة المهدي 106 حصہ اول کے درپے ہوئے کفر کے فتوے لکھے گئے ان کی کتابوں کو جلایا گیا اپنے پرائے سب کی نظروں میں حقیر اور ذلیل ہوئے لیکن بحکم العاقبتہ متقین وہ حق کو حق جو ہی غالب اور مظفر و منصور ہوئے کیا آنحضرت ا یہ طریق صلح کل جس کو لفظوں میں منافقت کہتے ہیں نہیں جانتے تھے یا اور اولیاء اللہ یہ رنگ آمیزیاں نہیں جانتے تھے کہ بات حق منہ سے نکال کر اپنے پرائے یار دوست عزیز اقارب اہل شہر و محلہ کو دشمن بنا لیا اور اسی کلمتہ الحق سے خون کی ندی اور نہر چل نکلی.اگر معاذ اللہ آنحضرت لالا ہے ایسا کرتے تو عرب کے لوگ جو مردانگی اور شجاعت اور ہمت میں یکتا تھے وہ سب آپ کے قدموں میں آپڑتے اور بازو آپ کے قدموں کے نیچے بچھا دیتے.اولیاء الرحمن اور اولیاء الشیطان 1 میں صرف کلمتہ الحق کا بین نشان ہے.پھر میں نے اس جلسہ میں یہ کہا کہ منصور اور شمس تبریز" جن کو بچہ بچہ بھی جانتا ہے ولی اللہ تھے یا عدو اللہ تھے.لوگ : بلاشک ولی اللہ تھے.سراج : منصور کو دار پر کھینچا اور شمس تبریز کی کھال اتاری گئی.یا نہیں ؟ لوگ : ہاں ایسا ہی ہوا.سراج : یہ لوگ دار کھینچنے اور کھال اتارنے والے کون تھے.لوگ : مولوی عالم تھے.راج : ان مولویوں نے اچھا کیا یا برا.لوگ : برا کیا.سراج : تو برے مولوی ہوئے یا ولی اللہ.لوگ : ولی اللہ بھی کہیں برے ہوئے یہی بد نصیب مولوی برے ہوئے جنہوں نے خدا کے ولیوں سے عداوت کر کے برائی کی.سراج الحق : على هذا القياس - کفر کا فتوی دینے والے اس وقت کس کے قائم

Page 109

تذكرة المهدى 107 مقام ہوئے اور حضرت مرزا صاحب کس گروہ میں ہوئے.اب یہاں سوائے خاموشی کے کیا بنتا تھا انالحق کہنے والے صادق راست باز دلی مانے گئے اور انا المسیح کہنے والے معاذ اللہ کافر ٹھہرائے جاویں.دیکھو تم اپنی عاقبت خراب مت کرو خدا کے لئے سوچو اور سمجھو اور مانو تمہارے سامنے ہزاروں نظیریں انبیاء اللہ اور اولیاء اللہ کی موجود ہیں ان کے ساتھ ہوا کیا یہ کوئی نئی بات نہیں.جب میں نواب صاحب مرحوم کی کوٹھی سے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں جاتا تھا تو راستہ بمشکل تمام ختم ہو تا تھا.راستہ میں ہزاروں گالیاں ہم کو اور حضرت اقدس علیہ السلام کو دیتے تھے مجھ سے ضبط نہ ہو تا تھا اور یہ حال حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں عرض کرتا آپ ہنس کر فرماتے صاحبزادگی کو اس وقت رہنے دو.صبر کرو الصَّبْرُ مِفْتَاحُ الفَرَج ہماری تمہاری - اس وقت کی زندگی کا نمونہ ہے خدا کا شکر بھیجو کہ اس وقت انگریزوں کی سلطنت میں سوائے گالیوں کے کوئی اور طرح پیش نہیں آتا.اگر اس وقت گورنمنٹ برطانیہ کا سایہ عاطفت نہ ہو تا تو یہ لوگ خدا جانے ہمارے تمہارے ساتھ کیا کیا سلوک کرتے صبر کرو - صبر کرو اللہ تعالیٰ کبھی تو ان کی آنکھیں کھولے گا.مولوی سعد اللہ نو مسلم کی تو ہماری مخالفت میں یہ حالت تھی کہ ہر روز کبھی دوسرے روز ایک اشتہار مخالفت میں گالیوں سے بھرا ہوا مطبوعہ شائع کرتا تھا کبھی چوری کا الزام کبھی بغاوت کا الزام ہو تا بعض نیک ظن اور مبالکیین تو خدمت اقدس میں حاضر ہوتے تھے لیکن گاہ بگاہ مخالف بھی آجاتے اور بات بات میں جھگڑا کرتے تھے اور بعض امتحان اور آزمائش کے لئے اور بعض صرف دیکھنے کے ئے آتے تھے ایک روز مخالفوں نے پانچ ولایتی کابلی آدمیوں کو بہکا کے بھیجا اور کہا کہ یہاں اس مکان میں ایک شخص ہے وہ تمام نبیوں کو گالیاں دیتا ہے اور قرآن اور رسول کو نہیں مانتا.وہ ولایتی افغان سخت غضب میں بھرے ہوئے یک

Page 110

تذكرة المهدي 108 دم مکان میں چلے آئے اس وقت ایک شخص احمدی حضرت اقدس سے قرآن شریف کھولے ہوئے معنی پوچھتا تھا کہ اِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ حي الموتى الا یہ حضرت اقدس علیہ السلام اس کی تفسیر کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام مردوں کے زندہ ہونے کا تو سوال نہیں کرتے تھے کیونکہ مرنا زندہ ہونا یہ دونوں کیفیتیں ہر وقت انسان مشاہدہ کرتا ہے.اور حضرت ابراہیم بھی ہمیشہ دیکھتے تھے کہ بارش سے زمین ہر سال اور زمینی اشیاء زندہ ہو جاتی ہیں انسان میں سے انسان حیوان میں سے حیوان پیدا ہوتا ہے انڈے میں سے بچہ نکل آتا ہے نطفہ سے کیا کیا شکل بنجاتی ہے بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام زندگی کی وہ کیفیت دریافت کرتے تھے کہ جس سے حیات ہوتی ہے اور زندگی وابستہ ہے اور کیونکر زندہ کر دیتا ہے پھر فرمایا کہ اس کی مثال یوں سمجھو کہ ایک بازی گر ہتھ پھیر کر کے روپیہ منگا دیتا ہے دیکھنے والا یہ تو دیکھتا ہے کہ اس نے روپیہ منگا دیا مگر جو کہتا ہے کہ مجھے بتلاؤ کیونکر منگایا وہ سائل اس خاص کیفیت کو دیکھنا چاہتا ہے اور دریافت کرنا چاہتا ہے بس اتنی ہی گفتگو ہونے پائی تھی جو وہ کابلی آگئے اور سرخ غصہ سے چہرے ہو رہے تھے وہ بیٹھ گئے اور قرآن شریف کی تفسیر سننے لگے.بہت دیر تک چپ چاپ بیٹھے رہے جب قرآن تفسیر کے بعد اٹھایا گیا تو ان ولایتیوں نے حضرت اقدس علیہ السلام.مصافحہ کیا اور ہاتھوں کو آپ کے بوسہ دیا.اور عرض کیا کہ لوگوں نے ہمیں دھوکا دیا.جو آپ کو کافر کہتے ہیں وہ خود کافر ہیں اور جو تم مسلمان نہیں تو کوئی بھی مسلمان نہیں پھر وہ باہر جا کے لوگوں سے لڑے لوگوں نے کہا کہ مرزا جادو گر ہے جو اس کے پاس جاتا ہے وہ اس کا ہو رہتا ہے اس کے پاس کوئی مت جاؤ.ایک روز لاہور سے ایک کسی شخص کا خط آیا اس میں یہ لکھا تھا کہ اگر آپ مسیح کو زندہ مان لیتے تو آپ کا کیا بگڑ جاتا.حضرت اقدس علیہ السلام نے اس خط کو پڑھ کر فرمایا کہ اس خط کا جواب صاحبزادہ صاحب یہ لکھدو کہ اگر تم مسیح کو وفات

Page 111

تذكرة المهدي 109 یافتہ مان لیتے تو اس میں تمہارا کیا بگڑتا تھا زندہ ماننے سے تو قرآن شریف کا انکار خدا تعالی کا نا فرمان بنتا پڑتا ہے اور آنحضرت ﷺ کی نافرمانی اور آپ کی ہتک اور ختم نبوت کا انکار لازم آتا ہے او وفات شدہ ماننے سے اللہ تعالی جل شانہ راضی آنحضرت و خوش اور قرآن شریف کی تصدیق ہے اور یہ بات تو ٹھیک نہیں کہ ہم سے صحیح زندہ منوایا جائے پہلے تم آنحضرت ﷺ کی نبوت ور ختم نبوت کا انکار کرو پھر ہم سے مسیح کو زندہ مواد کچھ تم کفر کی طرف آؤ کچھ ہمیں لاؤ.میں نے یہ جواب لکھ کر بھیج دیا ایک مدت کے بعد یہ جواب آیا کہ میں آپ کے جواب آنے سے تحقیق میں لگ رہا ہوں کہ آیا مسیح در حقیقت فوت ہو گئے یا کوئی صورت زندگی کی نکل آتی ہے.ایک شخص اشرف علی خان ساکن شهر ایک مخالف کا انجام بد لودھیانہ مجھ سے عقیدت رکھتا تھا اور ہر روز بلا ناغہ میرے سے ملنے آیا کرتا تھا اور دوسرے تیسرے روز یہ جبر و اکراہ میرے ہمراہ حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں جایا کرتا تھا لیکن جب تک وہاں بیٹھتا کبیدہ خاطر اور منقبض الحال میری خاطر سے بیٹھا رہتا اور جب کبھی میرے ہے حضرت اقدس کی نسبت بات کرتا تو مخالفت کی کرتا لیکن دبی زبان سے اور بعض دفعہ مجھ کو بھی نصیحت کرتا کہ آپ حضرت مرزا صاحب کے پاس نہ جایا کریں کہ اس میں آپ کی ہتک ہے اور لوگ ہمیں طعن دتے ہیں کہ جن کے پاس تم جاتے ہو وہ عقیدہ ٹھیک نہیں رکھتے میں جواب دیتا کہ حضرت مرزا صاحب حق پر ہیں بچے ہیں امام ہیں صدی ہیں مسیح میں ولی الاولیاء ہیں میں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی ہے.ایک روز کہا کہ آپ اور آپ کے خاندان کے لاکھوں مرید ہیں آپ امام اعظم کے اور چار قطب کے ہوتے ہیں آپ نے کیوں مرزا صاحب سے بیعت کی.

Page 112

تذكرة المهدي 110 مرزا صاحب تو کسی کے مرید نہیں ہیں کسی سلسلہ میں نہیں ہیں.میں نے بطور سوال کے جواب دیا کہ یہ بتلاؤ جو تمہارے ذہن میں امام مہدی ہیں اگر وہ آجائیں تو وہ کس سلسلہ میں اور کس کے مرید ہوں گے اور ان کے آنے پر ان سے بیعت کرنا ضروری ہو گا یا نہیں اس شخص نے کہا کہ امام مہدی کو کسی سلسلہ میں داخل ہونے یا کسی سے مرید ہونے کی کیا ضرورت ہے وہ تو خود امام ہیں ان سے تو سب کو بیعت کرنا ضروری کیا فرض ہو گا بس اس کے جواب میں میں نے کہا کہ وہ امام مهدی حضرت اقدس مرزا صاحب ہی ہیں جب یہ امام مہدی ہوئے تو ان کو کسی سے بیعت یا کسی سلسلہ میں داخل ہونے کی کیا ضرورت ہے بلکہ سلسلہ والوں کو چاہئے کہ ان سے بیعت کریں اور یہ سلسلہ والے کیا حقیقت رکھتے ہیں.اگر خود صاحب سلسلہ شخص موجود ہوتے تو وہ بھی دور دراز ملکوں سے ہاتھوں کے بل چل کر آتے.اور اس امام موعود علیہ السلام سے بیعت کرتے اور چار قطب امام اعظم اور حضرت معین الدین چشتی اور حضرت محی الدین عبد القادر جیلانی وغیرہ ہوتے تو ان کو بھی سوائے بیعت کے کچھ بن نہ پڑتا اس شخص نے کہا ہے.چڑ کر کیا مرزا صاحب کا رتبہ ان بزرگوں سے بڑا ہے میں نے کہا سچائی - در حقیقت مرزا صاحب کا رتبہ ان سب سے بڑا ہے (اس وقت عاجز کی معلومات وسیع نہیں تھی.یہیں تک بات رہنے دی درنہ آج کی معلومات کے مطابق میں بڑے زور اور نہایت مشرح صدر سے کہتا ہوں کہ هُوَ أَفْضَلُ مِنْ الانبیا، چنانچہ حدیث شریف میرے اس بیان کی تصدیق کرتی ہے جیسا کہ فرمایا علَمَاءُ أُمَّتِي كَانَبِيَاء بَنِي إِسْرَائِيل كاف تشبیہ مماثلت کبھی زیادتی کیلئے آتا ہے یعنی ترقی مراتب کیلئے اور امام مہدی کو مثیل مصطفی و مظهر محمد علیهما الصلوة والسلام تمام امت نے مانا ہے تو اس لحاظ سے بھی حضرت مرزا صاحب کے رتبہ کا جانتا اور ماننا ضروری ہے در حقیقت ہر ایک انسان کیلئے ترقی ہر آن ہوتی ہے.مجھے یاد ہے کہ حافظ روشن علی صاحب نئے نئے قادیان شریف میں طالب

Page 113

تذكرة المحمدي 111 حصہ اول علمی کے زمانہ میں آئے تو کسی سے میری یہی گفتگو تھی تو بیچ میں جناب حافظ صاحب نے دخل دے دیا اور کہا ہم مرزا صاحب کو ولی مانتے ہیں اس سے زیادہ اور کچھ نہیں مانتے.میں حافظ صاحب کی اس بات کو سن کر خاموش ہو رہا اور میں نے سمجھا کہ یہ وہی مانیں گے جو کہہ رہا ہوں لیکن بتدریج.اب کوئی حافظ صاحب | سے دریافت کرے تو شاید مجھ سے بھی دو چار ہاتھ آگے ہی ہوں گے اس بات کا جواب اس نے یہی دیا کہ مرزا صاحب تو امام مہدی نہیں ہیں.اور مسیح نہیں ہیں.میں نے کہا کہ جب حضرت مسیح علیہ السلام دنیا میں پیدا ہوئے تھے تو یہودیوں نے انکار کیا تھا.اور آنحضرت ا اللہ کا انکار مکہ کے قریش نے کیا یہودیوں نے کہا کہ یہ وہ مسیح نہیں ہے جس کی آمد کی خبر ہے کہ وہ کسی آئندہ زمانہ میں آئے گا بلکہ یہود تو ایک مسیح کے انتظار میں ہیں.اس شخص نے کہا کہ کیا ہم یہودی ہیں میں نے کہا کہ تم اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھو کہ تمھارے قول و فعل کس سے ملتے جلتے ہیں اس بات پر وہ شخص سخت محضبناک ہو کر کہنے لگا دیکھو جی مرزا کردیتا ہے کہ مجھے یہ الہام ہوا اور وہ الہام ہوا میں مہدی ہوں مسیح ہوں.مجھ جیسا انسان غیرت مند کب روا رکھ سکتا تھا کہ حضرت اقدس علیه السلام فداه جانی و روحی و نفسی دای والی) کی نسبت ایسا گندہ جملہ سن سکے.بس میں نے اس کے ایک ایسا تھپڑ مارا کہ اس کی ٹوپی پگڑی سر پر سے اتر کر دور جا پڑی اور کها او مردود دشمن مقبول الی تو ایسا جملہ نا پاک ایسے صادق مصروق طاہر و مظہر انسان کی نسبت اور میرے سامنے بکتا ہے اور نہیں جانتا کہ میں انکا خادم اور مرید ہوں اور وہ میرے آقا اور مرشد اور رہنما ہیں.خبردار جو آج سے میرے پاس آیا.اوریا مجھ سے ملا میں نے اس کو نکال دیا.آٹھ دس روز تک وہ میرے مکان جائے فروکش تک

Page 114

تذكرة المهدى 112 چکر لگاتا رہا اور ڈرسے میرے سے ملاقات نہیں کی.یہ بات رفتہ رفتہ نواب صاحب مرحوم تک پہنچی نواب صاحب بھی چونکہ حضرت اقدس سے نہایت اعتقاد رکھتے تھے اس کو ملامت کی اور رسم پیران کے مطابق حال اس کو میرے قدموں میں لاڈالا.اور توبہ کرائی کہ آئندہ پھر ایسا کلمہ خبیث منہ سے نہ نکالے.؟ یہ واقعہ میں نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت عالی میں عرض کیا تو فرمایا مارتا تو نہیں چاہئے تھا لیکن غیرت اسلامی اور حسن ارادت کا یہی تقاضا ہوتا چاہیے کہ ایسے بے ادب گستاخ لوگوں سے ترک ملاقات ہو اور اب جو معاف کر دیا اور اس نے توبہ کرلی تو خوب ہوا لیکن ایسے لوگوں کی تو بہ کا کیا اعتبار ہے در حقیقت وہ خراب اندردن ظاہر میں تو کچھ نہ بولتا ہاں اندر ہی اندر وہ سلگتا اور آتش حسد سے جلتا تھا.ایک مدت کے بعد جو سال بھر سے زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ وہ آتشک کے مرض میں گرفتار ہوا اور اس کے آلہ تناسل میں لمبے لبے کپڑے کالے منہ کے جو لمبائی میں آدھ انچ کے ہوں گے پڑے اور کسی نے اس کو نہ پوچھا اور ایسی کس میری کی حالت میں لعنتی موت سے مرا کہ اس کی موت کا وقت یاد آکر دل کانپ اٹھتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کے لئے سخت غیور ہے جو اس نے کہا اسی مرض میں اس کو بلکہ اس سے زیادہ مبتلا کیا اللهم احفظنا ! حضرت خلیفتہ المسیح رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص کسی پر ناحق عیب لگاتا ہے وہ ضرور اس میں گرفتار ہو جاتا ہے بہر حال اللہ تعالیٰ جل شانہ نے چاہا کہ یہ شخص ہمارے محبوب موعود مقبول ہمارے مسیح و مہدی ہادی کی نسبت ایسا گندہ لفظ بولے اور پھر سلامت رہے اور اسی گندگی میں گرفتار نہ ہو آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ مَنْ عَاذَا لِي وَلِيًّا فَقَدْ أَذَنْتُه لِلْحَرْبِ.قرآن شریف میں بھی اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ وَ ذَرْنِي وَ الْمُكَذِّبِينَ حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر آنحضرت ا تک اور آنحضرت

Page 115

تذكرة المهدي 113 سے لے کر اب تک لاکھوں کروڑوں نظیریں مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں کہ جس نے مقبولان الہی اور محبوبان ربانی سے نفرت کی یا ایزا دی اور مخالفت پر آمادگی ظاہر کی تو خدا تعالی خود اس کے مقابل آکھڑا ہوا اور اس کو دم کی دم میں نیست ونابود کر ڈالا.ایک بڑے جلسہ پر جس میں تین سو تیرہ تین سو تیرہ صحابہ کا جلسہ احباب علاوہ مخالفوں کے یا ان کے جو حسن ظن رکھتے تھے دارالامان قادیان میں حاضر ہوئے تھے ایک اونچا تخت چوبی حضرت اقدس علیہ السلام کے لئے بچھایا گیا اور اس پر ایک قالین کا فرش کرایا گیا اور آپ اس پر جلوہ افروز ہوئے اور چاروں طرف احباب فرش پر بیٹھے چاند کے گرو تارے سامنے حضرت خلیفتہ المسیح یعنی شمال کی طرف اور مغرب کی طرف حضرت مولانا مولوی برہان الدین علمی رضی اللہ تعالی عنہ اور تخت کے قریب گوشه مغرب و جنوب میں یہ عاجز اور اس عاجز کے داہنی طرف حضرت مخدوم مولانا مولوی سید محمد احسن صاحب فاضل امروہی تشریف رکھتے تھے اور حضرت اقدس علیہ السلام نے توضیح مرام کتاب کا وہ مقام نکالا کہ جس پر مولویوں نے ملائکہ کی بحث پر نادانی سے اعتراض کیا تھا اور تقریر شرح وبسط سے فرمائی حضرت فاضل امروہی پر ایک رقت اس وقت ایسی طاری ہوئی کہ جس سے حاضرین کے دل بھی پگھل گئے اور سب پر عجیب و غریب کیفیت طاری ہوئی اس تقریر پر تاثیر سے بعض کے دلوں میں جو شک وشبہ تھے وہ نکل گئے.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ دیکھو میرا دعوئی مهدی و مسیح موعود ہونے کا میری طرف سے نہیں ہے جیسا کہ تمام انبیاء اللہ علیهم السلام کا دعویٰ نبوت ورسالت اپنی طرف سے نہیں تھا ان کو خدا نے فرمایا تھا اور مجھ کو بھی اپنی ای سنت کے موافق علیٰ منہاج النبوت اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے میں نے حسب الارشاد خداوندی دعوی کیا ہے میری اس میں کوئی خواہش یا بناوٹ نہیں ہے

Page 116

تذكرة المهدى 114 مخالف لوگ اگر غور کریں اور اپنے بستروں پر لیٹ کر اور تخلیوں میں بیٹھ کر سوچیں تو ان کو معلوم ہو جائے گا کہ جیسا انبیاء میہم الصلوۃ والسلام کا دعوی الله تعالی کے حکم اور فرمودہ سے تھا بعینہ اسی طرح میرا دعوئی عین وقت پر اللہ جل شانہ کے فرمودہ سے ہے اور لوگوں کے سامنے اتنی نظیریں متقدمین کی موجود ہیں کہ اگر سب ایک جگہ لکھی جائیں تو لکھ نہیں سکتے ہم تھک جائیں مگر وہ ختم نہ ہوں پس ان کو ان نظائر پر غور کرنے سے صاف صاف کھل جاوے اور ظاہر و با ہر ہو جاوے کہ میں اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے اپنے دعوئی میں کاذب نہیں مفتری نہیں ہوں.بلکہ صادق ہوں راست باز ہوں.فرمایا ایک جنگل میں ایک بھیڑیا ایک گیدڑ اور ایک نتیجہ خیز حکایت ایک شیر رہا کرتے تھے شیر جب شکار کرتا تو گیدڑ اور بھیڑیا بھی کھا لیا کرتے بھیڑئے کے دل میں ایک دن شرارت آئی اور شیر سے کہا کہ شکار کے تین حصے کیجئے ایک حصہ تو آپ کا اور ایک گیدڑ کا.اور ایک میرا شیر کو اس تقسیم مساوی سے سخت غصہ آیا اور کہا مردود ناہنجار تو تقسیم کرنے والا کون ہے میں سردار ہوں بادشاہ ہوں میرا اختیار ہے جس کو جتنا چاہوں دوں یہ کہہ کر ایک تھپڑر شیر نے بھیڑیے کے مارا وہ چکر کھا کر گرا اور مرگیا پھر شیر نے گیدڑ سے پوچھا کہ ہم تم اس وقت دونوں ہیں کیا کرنا چاہئے آیا تقسیم کر کے یا موافق دستور سابق.گیدڑ نے عرض کیا کہ حضور غریب نواز آپ سردار ہیں اور ہمارے آقا ہیں مالک ہیں.بادشاہ ہیں حضور کے سامنے بولنا گستاخی دبے ادبی ہے.لیکن حضور کے ارشاد کے نیچے یہ عرض ہے کہ ہم خادم ہیں رعیت ہیں اور غلام ہیں تقسیم کی کیا ضرورت ہے پہلے جتنا حضور کی خواہش ہو نوش فرمالیں اور کچھ رکھ دیویں پھر دوسرے وقت پر حضور مقاول فرما دیں اور جس وقت حضور کو رغبت نہ ہو اور بیچ رہے تو خادموں کو عنایت ہو جائے کہ شاہوں کا پس خوردہ مبارک اور عزت کا باعث ہے یہ بھی حضور کی مرضی مبارک پر منحصر ہے ہم

Page 117

تذكرة المحمدي 115 سب طرح راضی اور خوش ہیں.شیر نے کہا واہ رے دانشمند گید ڈیہ حکمت اور سراسر ادب کی بات تجھے کس نے سکھائی یہ تو تو نے بہت ہی اچھی بات سنائی گیدڑ نے دست بستہ عرض کی کہ یہ حکمت بھیڑکے نے سکھائی ہے اس کی جان بیہودہ اور خلاف مرضی حضور بات کرنے سے گئی اور مجھ کو سمجھ پیدا ہو گئی.یہ حکایت حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمائی اور پھر فرمایا کہ دیکھو بھیڑیوں کی طرح کتنی قو میں کتنے قبلے کتنے شہر کتنے گاؤں شیروں یعنی انبیا کے مقابلہ میں گستاخ اور بے ادب بن کر ان کی دشمنی میں ہلاک ہوئے تباہ ہوئے.برباد ہوئے دنیا بھی گئی اور دین بھی گیا سب کچھ کھو بیٹھے پھر یہ آیت تلاوت فرمائی اولم يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِى مَسَاكِيهِمْ إِنَّ في ذَلِكَ لَآيَاتٍ أَفَلَا يَسْمَعُونَ اب ہمارے زمانہ کے لوگوں کو جو سب کے بعد ہوئے کچھ تو آنکھیں کھولنی چاہئیں تھیں کچھ تو سمجھ پیدا کرنی چاہئے تھی ان کے واسطہ یہ وقت بہت اچھا تھا کہ گیدڑ کی طرح نصیحت پکڑتے عبرت حاصل کرتے مگریہ اور بھی عداوت میں مخالفت میں شرارت میں ایڈا دہی میں سب وشتم کرنے میں قتل وغارت کے منصوبے کرنے میں کئی پہلوؤں سے اگلے لوگوں سے بھی زیادہ قدم بڑھایا.خدا تعالی ہماری نیت اور صفائی قلب دیکھ رہا ہے اور ان لوگوں کی بدظنی اور بدنیتی اور شرارت بھی اس کی نظر میں ہے.پھر حضرت خلیفتہ المسیح نے حسب الحکم وعظ فرمایا اس میں اکثر حضرت اقدس کی تائید میں اور باقی آریوں اور نصاری کے رد اور ان اعتراضوں کے جواب میں جو انہوں نے نادانی سے اسلام اور قرآن اور آنحضرت ا پر کئے ہیں تقریر فرمائی.جناب مولوی برہان الدین صاحب علمی بیمار تھے اور ان کے کئی شاگردان.

Page 118

تذكرة المهدى 116 کے ساتھ تھے لیٹ کر سب کچھ سنتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ میں بوڑھا ہو گیا اور ضعیف ہو گیا اور ایک زمانہ دیکھا ارے مرزا سچا ہے.اس کی سچائی صداقت میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے میرے گور میں پیر لٹک رہے ہیں میں کیا اب جھوٹی گواہی دے سکتا ہوں.ایک روز میں نے حضرت اقدس سے پوچھا وتر کی کتنی رکعت و تر کیا ہے ہیں اور کس طرح پڑھنا چاہئے فرمایا وتر تو ایک ہی رکعت ہے دتر ایک کو کہتے ہیں لیکن ایک رکعت جائز نہیں ہے اس لئے دو رکعت نفل اور اس کے ساتھ لگادی گئی ہیں اور دو طریق سے پڑہنے چاہئیں ایک طریق کہ جس طرح حنفی پڑھتے ہیں اور دوسرا طریق یہ ہے کہ دو رکعت پڑھ کے سلام پھیر دے اور ایک رکعت چپکے سے اٹھکر پڑھ لے.پھر میں نے عرض کیا کہ قنوت پڑھنی چاہئے فرمایا ہاں ضرور پڑھنی چاہئے.پھر میں نے عرض کیا کہ بعض مولوی اس دعائے قنوت کو کہتے ہیں کہ آنحضرت سے ثابت نہیں فرمایا وہ بڑی غلطی کرتے ہیں یہ دعا قنوت اللهم إِنَّا نَسْتَعِيْنُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ وَنُؤْمِنُ بِكَ وَنَتَوَكَّلْ عَلَيْكَ وَنُثْنِي علَيْكَ الْخَيْرِ وَنَشْكُرُوكَ وَلَا تَكْفُرُكَ وَنَخْلُعُ وَنَتْرُكَ مَنْ يَفْجُرُكَ اللهُم إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَلَكَ نُصَلَّى وَنَسْجُدُ وَ إِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ وَنَرْجُوْرٌ حُمَتِكَ وَنَخْشَى عَذَا بَكَ إِنَّ عَذَا بَكَ بِالْكَفَارِ مُلْحِقٍ بڑی عجیب اور توحید کی بھری ہوئی دعا ہے ایسے الفاظ توحید کے سوائے اس سید المرسلین سید الموحدین ان کے دوسرے سے ادا نہیں ہو سکتے ہیں اور یہ خاص الھی تعلیم ہے ان پاک الفاظ کے بھی قربان اور اس منہ کے بھی قربان جس منہ سے یہ الفاظ نکلے.نماز قصر کا فتویٰ پھر میں نے عرض کیا کہ نماز قصر کتنی دور کے لئے کرنی چاہئے فرمایا ایک تو سفر ہوتا ہے اور ایک سیر ہوتی ہے سفر

Page 119

تذكرة المهدي 117 حصہ اول کی نیت سے اگر تین کوس جانا ہو جیسے لودھیانہ سے پھور تو نماز قصر کرنی چاہئے یی حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کا معمول تھا اور بعض ضعیف پیر فرتوت اور حامله عورتیں ہیں ان کے لئے تو کوس بھر ہی سفر ہو جاتا ہے ہاں میر کے لئے تو چاہے آٹھ کو س چلا جائے تو نماز قصر نہیں ہے.یہی باتیں ہوا کرتی تھیں ایک روز میں نے عرض کیا کہ حضرت لوگ بہت تنگ کرتے ہیں فرمایا کہ ایک روز زمانہ آتا ہے یہ خود ہی تنگ آجائیں گے ابھی صبر اختیار کرد - صبر بڑی نعمت ہے صابر کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہوتا ہے.مخالف علماء وقت کا مقابلہ سے گریز اسی بھا بھٹی اور رات دن مناظرات میں تھے جو مولوی ابو سعید محمد حسین بٹالوی شملہ سے لودھیانہ میں آگئے اور آتے ہی انہوں نے هَلْ مِنْ تُبَارَز بحث کے لئے حضرت اقدس علیہ السلام سے ٹھہرائی اور شہر لودھیانہ میں دھوم مچادی کہ میرا شکار بھاگا ہوا اب لودھیا نہ میں ہاتھ آیا ہے اب مرزا کو چاہئے کہ مجھ سے مباحثہ کرے.ادھر حضرت اقدس علیہ السلام بھی مباحثہ کے لئے تیار ہو گئے اور آپ چاہتے تھے کہ کوئی مباحثہ کرے لودھیانہ کے تین مولوی ڈی ٹکٹ شعب جو لودھیانہ کے لوگوں میں یسوع صاحب کی تثلیث کی طرح مانے جاتے تھے ایک مولوی عبد اللہ اور دوم مولوی عبد العزیز اور سوم مولوی محمد مقابل پر حضرت اقدس کے نہیں آئے حالانکہ ایک دو اشتہار حضرت اقدس علیہ السلام نے ان ذی ثلث شعب مسطور اور دوسرے مولویوں کے نام چھپوا کر شائع کر چکے تھے اور مولوی شاہ دین جو مولوی رشید احمد گنگوہی کا مرید اور نیز قوت بازد تھا وہ بھی مباحثہ کے لئے نہ کھڑا ہوا حالانکہ اس نے بھی بہت شور وغل مچایا تھا کہ میں بحث کروں گا جب بحث کا اشتہار حضرت اقدس علیہ السلام نے دیا تو یہ دبک گئے اور بحث کا نام تک نہ لیا.اور جو لوگوں.کہا اور میں نے بھی کہلا کر بھیجا تو یہ جواب دیا کہ مرزا صاحب بے علم میں میری شان سے دور ہے

Page 120

تذكرة المهدى 118 کہ ایک بے علم آدمی سے مباحثہ کروں مجھے خوب یاد ہے کہ مولوی شاہ دین نے اپنے مرشد مولوی رشید احمد صاحب کو لکھا کہ میں مرزا صاحب سے مباحثہ کروں تو کس طرح کروں اور کس مسئلہ میں کروں.تو جواب آیا کہ تمہارا کام نہیں ہے مرزا صاحب سے بحث کرنا اول تو ٹالدینا اور جو بات نہ ملے اور مباحثہ ہو ہی جائے تو وفات وحیات مسیح علیہ السلام میں ہرگز بحث نہ کرنا کہ اس میں تمہارا یا کسی کا ہاتھ نہیں پڑے گا ہاں نزول میں بحث کر لینا اس مسئلہ میں ہماری کچھ جیت ہو سکتی ہے اسی طرح مولوی مشتاق احمد صاحب سے گذری ملا کی دوڑ مسیت انہوں نے بھی مولوی رشید احمد صاحب کو لکھا اور خود بھی گنگوہ گئے ان کو بھی وہاں سے وہی جواب ملا جو مولوی شاہ دین کو ملا تھا غرضیکہ لودھیانہ دیوبند سهارنپور گنگوه میں بہت سی اسبارہ میں کمیٹیاں ہوئی کہ کیا کرنا چاہئیے ؟ سب نے بحث سے کانوں پر ہاتھ رکھے اور بظاہر مخالفت اور مباحثہ پر جھوٹ موٹ لوگوں کے دکھاوے کے واسطے آمادہ رہے.مولوی مشتاق احمد انبیٹھوی مولوی مشتاق احمد صاحب انیموری جو لودھیانہ میں ملازم تھے اگر چہ حدیث وانی اور علم کا بہت گھمنڈ رکھتے تھے مگر جہاں تک مجھے معلوم ہے یہ اور مولویوں سے بھی گرے ہوئے ہیں اور ایسے اوندھی کھوپڑی کے انسان ہیں کہ ان کو روز مرہ کے مسائل سے بھی واقفیت نہیں ہے میں ان کو ہمیشہ گستاخ احمد ہی اسی لحاظ سے کہا کرتا ہوں چونکہ انسیٹھ اور گنگوہ اور سہارنپور قریب قریب ہیں اور ہماری اور ان مولویوں کی قرابت داری اور برادرانہ برتاؤ ہے میں ان کے تمام حالات اندرونی اور بیرونی سے خوب واقف ہوں اور مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی اور میں تو علاوہ اور رشتہ داری کے ہمزلف بھی ہیں مولوی مشتاق - احمد صاحب کی اگر شہادتیں لکھوں تو ایک دفتر چاہئے مگر ان کی قابلیت اور علمیت کی ایک بات من جملہ اور باتوں کے لکھتا ہوں جس سے ناظرین خود مولوی

Page 121

تذكرة المهدي 119 صاحب کی علمیت کی خوب جانچ پڑتال کرلیں گے اور معلوم کرلیں گے کہ کہاں تک مولوی صاحب کی مبلغ علم کا کمال ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ نے ایک رسالہ کا نام اس وقت مجھے یاد نہیں رہا انشاء اللہ تعالٰی آگے اس رسالہ کی عبارت اور نام لکھوں گا آپ بڑے وثوق سے لکھتے ہیں کہ جب کلیر میں نماز جمعہ ادا ہو چکی اور امام نمبر پر خطبہ پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا تو صابر صاحب نے ان نمازیوں کے لئے بددعا کی اور کہا اے مسجد گر جاوہ مسجد گر گئی اور سب عالم و فاضل جو پانسو تھے.اور سب نمازی امیر و غریب دب کر مرگئے اب سوچنے کا مقام ہے کہ علاوہ مسائل شرعیہ کے تاریخ دانی میں بھی ماشاء اللہ آپ کی وسعت معلومات بہت بڑھی ہوئی ہے ایک ادنیٰ سے ادنی مسلمان بھی جانتا ہے کہ خطبہ جمعہ نماز جمعہ سے پہلے پڑھا جاتا ہے اور مسلمانوں کے کسی ایک فرقہ میں بھی ایسا نہیں پایا جاتا کہ جمعہ کی نماز کے بعد خطبہ جمعہ پڑھا جائے اور پھر حضرت علاء الدین علی احمد صابر کا بد دعا کرنا صرف اتنی بات کے لئے کہ مجھے اول صف میں کیوں نہ بٹھایا تمام علماء کا اور عام و خاص اور امیر و غریب کا خون کرنا اور مسجد کو گرانا اول تو کلیر کی تاریخ کی کسی کتاب میں ذکر نہیں اور نہ کسی بزرگ کا اتنا لمبا چوڑا نام پایا جاتا ہے مولوی مشتاق احمد صاحب تو اس قابل ہیں کہ سکھ صاحبان کی صحبت میں رہیں تو وہاں ان کے علم کی خوب قدر ہو کیونکہ سکھ بھی فن تاریخ میں خوب ماہر ہیں یہ ایسی بات ہے کہ سکھ صاحب لکھتے ہیں کہ جب بابا نانک صاحب مکہ گئے تو ملکہ ان کے پیروں کی طرف پھر گیا اور مکہ میں امام اعظم اور ابراہیم خلیل اللہ کی بحث ہوئی ان کو یہ خبر نہیں کہ بابا نانک صاحب کب ہوئے حالانکہ بابا نانک رحمتہ اللہ علیہ کو چار - سال کے قریب زمانہ ہوا اور حضرت امام اعظم کو بارہ سو برس اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کو چار ہزار برس کا زمانہ ہونے کو آیا.مجھے ایک عجیب بات اسی مضمون کے متعلق یاد آگئی الور میں ایک صاحب مشہور ہیں اور نام بھی ان کا سید امیر حسن ہے میں نے برسبیل تذکرہ ان سے

Page 122

تذكرة المهدى 120 دریافت کیا کہ تم کون سے سید ہو اور بارہ اماموں میں سے کسی امام کی اولاد ہو وہ صاحب فرمانے لگے کہ ہم مدنی سید ہیں اور امام اعظم علیہ السلام کی اولاد ہیں.میں نے کہا کہ حضرت امام اعظم تو ایرانی کیانی فارسی النسل ہیں ان کا نکاس تو مدینہ سے نہیں ہے اور خود امام اعظم رحمتہ اللہ علیہ بھی سید نہیں ہیں تم کیسے سید ہو گئے یہ بات سن کر وہ صاحب ناراض ہو کر چلے گئے اور پھر مجھ سے نہیں ملے پس مولوی مشتاق احمد بھی انہیں اور ایسے ہی سادہ لوح آدمیوں میں سے ہیں یہ ان کی مولویت اور علمیت ہے اور باوجود اس کے ان کے فرقہ کے تمام مولوی اسی قسم کے ہیں کہ کسی مولوی نے آج تک یہ نہ کہا کہ بندہ خدا یہ تم نے کیا لکھ دیا کہ جمعہ کی نماز کے بعد خطبہ امام نے پڑھا.ایک مولوی عبدالکریم صاحب ساکن رام پور ضلع سہارنپور سے جو رشتہ میں میرے دور کے خسر پورہ ہوتے ہیں جو مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کے رشتہ دار اور شاگرد اور مرید اور خلیفہ بھی ہیں یہ ذکر آیا کہ مولوی مشتاق احمد صاحب نے یہ کیا لکھا کہ جمعہ کی نماز کے بعد خطبہ پڑھا گیا تو فرمانے لگے کہ غلط لکھا ہے میں نے کہا کہ اس غلطی کا ازالہ کرنا تھا فرمایا ہمارے فرقہ کے مولویوں کی بدنامی ہوتی ہے کون ان باتوں کو دیکھتا ہے جو لکھا گیا سو لکھا گیا.میں نے کہا کہ بس ایسے ہی مولویوں نے مہدی اور مسیح کے بارہ میں لکھ کر لوگوں کو خراب کیا ایسی ہی ایسی غلط فہمیوں نے دنیا کو برباد کیا یقینا پہلے بھی ایسے ہی بے وقوف مولویوں نے غلط فہمی کی اور مسیح کی بابت کچھ کا کچھ سمجھ لیا اور پچھلوں کو پریشان اور تباہ کیا.گنگوہی غرض کہ تمام ان مذکورہ بالا مولویوں نے مولوی رشید احمد صاحب سے کہا کہ تم محدث ہو عالم ہو فاضل ہو اور ہمارے پیرو مرشد ہو مفتی ہو مرزا صاحب سے مباحثہ کر لو.لیکن محدث گنگوہی مباحثہ سے پہلو تہی کرتے رہے اور اپنی جان بچاتے رہے اور اپنے علم کی پردہ دری سے ڈرتے رہے.

Page 123

تذكرة المهدى 121 مولوی رشید احمد گنگوہی کا مباحثہ سے انکار میں نے ایک بار حضرت اقدس علیہ السلام سے عرض کیا کہ یہ مولوی رہ گئے اور سب کی نظر مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کی طرف لگ رہی ہے اگر حکم ہو تو مولوی رشید احمد صاحب کو لکھوں کہ وہ مباحثہ کے لئے آمادہ ہوں فرمایا اگر تمہارے لکھنے سے مولوی صاحب مباحثہ کے لئے آمادہ ہوں تو ضرور لکھ دو اور یہ لکھ دو کہ مرزا غلام احمد قادیانی آج کل لودھیانہ میں ہیں انہوں نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا اور کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات ہو گئی ہے وہ اب نہیں آدیں گے اور جس عینی کے اس امت میں آنے کی خبر تھی وہ میں ہوں.اور مولوی تو مباحثہ نہیں کرتے ہیں چونکہ آپ بہت سے مولویوں اور گروہ اہل سنت والجماعت کے پیشوا اور مقتدا مانے گئے ہیں اور کثیر جماعت کی آپ پر نظر ہے آپ مرزا صاحب سے اس بارہ میں مباحثہ کرلیں چونکہ آپ کو محدث اور صوفی ہونے کا بھی دعوتی ہے اور ماسوا اس کے آپ مدعی الہام بھی ہیں ) مدعی الهام اس واسطہ کر کے کہ مولوی شاہدین اور مولوی مشتاق احمد اور مولوی عبد القادر صاحب نے گنگوہ مولوی رشید احمد صاحب متوفی کے پاس جا کر حضرت اقدس علیہ السلام کے الہامات جو براہین احمدیہ میں درج ہیں سنائے تھے مولوی رشید احمد صاحب نے چند الہام سن کر جواب دیا کہ الہام کا ہونا کیا بڑی بات ہے ایسے ایسے الہام تو ہمارے مریدوں کو بھی ہوتے ہیں اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ آپ کے مریدوں کو اگر ایسے الہام ہوتے ہیں تو وہ الہام ہمارے سامنے پیش کرنے چاہئیں تاکہ ان الہاموں کا یا کہ آپ کے الہاموں کا کیونکہ مریدوں کو جب الہام ہوں تو مرشد کو تو ان سے اعلیٰ الہام ہوتے ہوں گے موازنہ اور مقابلہ کریں اور لَوْ تَقَوَّلُ عَلَيْنَا بَعْضَ الْآفَاوِیل کی وعید سے ڈریں مولوی صاحب نے کہنے کو کہدیا مگر کوئی الہام اپنا یا کسی اپنے مرید کا پیش نہیں کیا

Page 124

تذكرة المهدى 122 کہ یہ الہام ہمارے ہیں اور یہ ہمارے مریدوں کے ہیں) غرض کہ اب آپ کے حق ہے کہ اس بحث میں پڑیں اور مباحثہ کریں اور کسی طرح سے پہلوتہی نہ کریں کس لئے کہ ادھر تو حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کا زور شور سے بیان کرنا وفات کا دلیلوں یعنی نصوص صریحہ قر آنیہ اور عدلیہ سے ثابت کرنا اور علما اور آئمہ سلف کی شہادت پیش کرنا اور پھر مدعی مسیحیت کا کھڑا ہونا اور لوگوں کا رجوع کرنا اور آپ جیسے اور آپ سے بڑھ کر علماء * کے مرید ہونے سے دنیا میں ہل چل مچ رہی ہے اور بحث اصل مسئلہ میں ہونی چاہئے یعنی عیسی علیہ السلام کی حیات دوفات میں بس میں نے یہ خط لکھا اور حضرت اقدس علیہ السلام کو ملاحظہ کرا کے روانہ کر دیا.اور آپ نے اس پر دستخط کر دیئے اور راقم سراج الحق نعمانی و جمالی سرساوی لکھا گیا مجھے یہ خط مولوی رشید احمد صاحب کو لکھنا اس واسطے ضروری ہوا تھا کہ میں اور مولوی صاحب ہم زلف ہیں اور باوجود اس رشتہ ہم زلف ہونے کے تعارف اور ملاقات بھی تھی اور قصبہ کر سادہ اور قصبہ گنگوہ ضلع سہارنپور میں ہیں اور ان دونوں قصبوں میں پندرہ کوس کا فاصلہ ہے اور ویسے برادرانہ تعلق بھی ہیں اور میری خوشدامن اور سرال کے لوگ ان سے بعض مرید بھی ہیں بس یہ میرا خط مولوی صاحب کے پاس گنگوہ جانا تھا اور مولوی صاحب اور ان کے معتقدین اور شاگردوں میں ایک شور برپا ہو نا تھا اور لوگوں کو ٹال دیتا تو آسان تھا لیکن اس خاکسار کو کیسے ٹالتے اور کیا بات بتاتے بجز اس کے کہ مباحثہ قبول کرتے.مولوی رشید احمد صاحب نے اس خط کے جواب میں لکھا کہ مخدوم مکرم پیر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب تم جانتے ہو کہ علما کا رجوع کرنا اور ہمارے ساتھ ہونا غلط نہیں ہے ایک تو حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب ہیں جو ان سے کم نہیں بلکہ اللہ تعالی کے فضل سے بڑھ کر ہیں اور ایسا ہی مولانا مولوی سید محمد احسن صاحب ہیں جنہوں نے رسالہ اعلام الناس چھپوا کر ہمارے دعوے کی تصدیق میں بھیجا ہے حالانکہ ان کی اور ہماری ابھی تک ملاقات بھی نہیں ہوئی ہے اور یہ کیسا عجیب رسالہ ہے کہ اس میں ہمارا مانی انصیر لکھدیا اور اسمیں ہمارا اور مولوی صاحب کا توارد ہو گیا ہے اور دو ایک اور مولویوں کے نام بھی لئے تھے جو مجھے اس وقت یاد نہیں ہیں

Page 125

تذكرة المهدى 123 سراج الحق صاحب پہلے میں اس بات کا افسوس کرتا ہوں کہ تم مرزا کے پاس کہاں پھنس گئے تمہارے خاندان گھرانے میں کس چیز کی کمی تھی اور میں بحث کو مرزا سے منظور کرتا ہوں لیکن تقریری اور صرف زبانی تحریری مجھ کو ہرگز ہرگز منظور نہیں ہے اور عام جلسہ میں بحث ہوگی اور وفات رحیات مسیح میں کہ یہ فرع ہے بحث نہیں ہوگی بلکہ بحث نزول مسیح میں ہوگی جو اصل ہے کتبہ رشید احمد گنگوہی یہ خط مولوی صاحب کا حضرت اقدس علیہ السلام کو دکھلایا فرمایا خیر شکر ہے.کہ اتنا تو تمہارے لکھنے سے اقرار کیا کہ مباحثہ کے لئے تیار ہوں کو تقریری سہی درنہ اتنا بھی نہیں کرتے تھے اب اس کے جواب میں یہ لکھ دو کہ مباحثہ میں خلط مبحث کرنا درست نہیں بحث تحریری ہونی چاہئے تاکہ جانبین کو بھی سوائے حاضرین کے پورا پورا حال معلوم ہو جائے اور تحریر میں خلط مبحث نہیں ہوتا اور زبانی تقریر میں ہو جاتا ہے تقریر کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا اور نہ اس کا اثر کسی پر پڑتا ہے اور نہ پورے طور سے یاد رہ سکتی ہے اور تقریر میں ایسا ہونا ممکن ہے کہ ایک بات کہہ کر اور زبان سے نکالکر پھر جانے اور مکر جانے کا موقع مل سکتا ہے اور بعد بحث کے کوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا اور ہر ایک کے معقد کچھ کا کچھ بنالیتے ہیں التباس ہو جاتا ہے اور تحریر میں یہ فائدہ ہے کہ اس کہ جس سے حق و باس غلط بات مشہور کرنے کی گنجائش نہیں رہتی ہے اور میں کسی کو کمی بیشی یا آپ جو فرماتے ہیں کہ مباحثہ اصل میں جو نزول مسیح ہے ہونا چاہئے سو اس میں یہ التماس ہے کہ نزول مسیح اصل کیونکر ہے اور وفات وحیات مسیح فرع کس طرح سے ہوئی اصل مسئلہ تو وفات وحیات مسیح ہے اگر حیات مسیح کی ثابت ہو گئی تو نزول بھی ثابت ہو گیا اور جو وفات ہو گئی تو نزول خود بخود باطل ہو گیا جب ایک عمدہ خالی ہو تو دوسرا اس عہدہ پر مامور ہو ہمارے دعوی کی بناہی وفات مسیح پر ہے اگر مسیح کی زندگی ثابت ہو جائے تو ہمارے دعوے میں کلام کرنا فضول ہے

Page 126

تذكرة المهدى 124 مہربانی فرما کر آپ سوچیں اور مباحثہ کے لئے تیار ہو جا ئیں کہ بہت لوگوں اور نیز مولویوں کی آپ کی طرف نظر لگ رہی ہے حضرت اقدس علیہ السلام نے اس پر دستخط کردئے اور میں نے اپنے نام سے یہ خط مولوی صاحب کے پاس گنگوہ بھیج دیا.مولوی رشید احمد صاحب نے اس خط کے جواب میں یہ لکھا کہ افسوس ہے مرزا صاحب اصل کو فرع اور فرع کو اصل قرار دیتے ہیں اور مباحثہ بجائے تقریری کے تحریری مباحثہ میں نہیں کرتا اور ہمیں کیا غرض ہے کہ ہم اس مباحثہ میں پڑیں.یہ خط بھی میں نے حضرت اقدس علیہ الصلوۃ السلام کو سنا دیا آپ نے یہ فرمایا کہ ہمیں افسوس کرنا چاہئے نہ مولوی صاحب کو کیونکہ ہم نے تو ان کے گھر یعنی عقائد میں ہاتھ مارا ہے اور ان کی جائیداد دبالی ہے اور حضرت عیسی علیہ السلام کو جن پر ان کی بڑی بڑی امیدیں وابستہ تھیں اور ان کے آسمان سے اترنے کی آرزو رکھتے تھے مار ڈالا ہے جس کو وہ آسمان میں بٹھائے ہوئے تھے اس کو ہم نے زمین میں دفن کر دیا ہے اور ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے اور بقول ان مولویوں کے اسلام میں رخنہ ڈال دیا ہے اور لوگوں کو گھیر گھار کر اپنی طرف کر لیا ہے جس کا نقصان ہوتا ہے وہی روتا ہے اور چلاتا ہے یہ مولوی.حامیان دین اور محافظ اسلام کہلا کر اتنا نہیں سمجھتے کہ اگر کوئی ان کی جائداد زبالے اور مکان اور اسباب پر قبضہ کرلے تو یہ لوگ عدالت میں جا کھڑے ہوں اور لڑنے مرنے سے بھی نہ ہیں اور نہ ملیں جب تک کہ عدالت فیصلہ نہ کرے اور اب یہ بہانے بناتے ہیں کہ ہمیں کیا غرض ہے گویا یوں سمجھو کہ ان کو دین اسلام اور ایمان سے کچھ غرض نہیں رہی اور اب یہ حیلہ وبہانہ کرتے ہیں کہ ہمیں کیا غرض ہے اگر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں اور ان کے ہاتھ پلے کچھ نہیں ہے اور در حقیقت کچھ نہیں ہے ان کے باطل اعتقاد کا خرمن جل کر راکھ ہو گیا اگر اس بحث میں پڑیں تو ان کی مولویت کو بٹہ لگتا ہے ان کی پیری پر آفت آتی ہے ان کو

Page 127

تذكرة المهدى 125 اور ان کے علم و فضل کو سیاہ دھبہ لگتا ہے ان کو لکھو کہ مولوی صاحب آپ تو علم لدنی اور باطنی کے بھی مدعی ہیں اگر ظاہری علم آپ کا آپ کو مدد نہ دے باطنی اور لدنی علم سے ہی کام لیں یہ کس دن کے واسطے رکھا ہوا ہے.پس میں نے یہ تقریر حضرت اقدس علیہ السلام کی اور کچھ اور تیز الفاظ نمک مرچ لگا کر قلم بند کر کے مولوی صاحب کے پاس بھیج دی.اس کے جواب میں مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی نے یہ لکھا میں تقریری بحث کرنے کو طیار ہوں اور اگر مرزا صاحب تحریری بحث کرنا چاہیں تو ان کا اختیار ہے میں تحریری بحث نہیں کرتا لاہور سے بھی بہت لوگوں کی طرف سے ایک خط مباحثہ کے لئے آیا ہے مرزا چا ہے تقریری بحث کرلے.جب کسی طرح مولوی صاحب کو مفر کی جگہ نہ رہی اور سراج الحق سے مخلصی نہ ہوئی اور لاہور کی ایک بڑی جماعت کا خط پہنچا اور ادھر حضرت اقدس کی خدمت میں بھی اس لاہور کی جماعت کی طرف سے مولوی رشید احمد کے مباحثہ کے لئے درخواست آگئی اور اس جماعت نے یہ بھی لکھا کہ مکان مباحثہ کے لئے اور خورونوش کا سامان ہمارے ذمہ ہے اور میں نے بھی مولوی صاحب کو یہ لکھا کہ اگر آپ مباحثہ نہ کریں گے اور ٹال مثال بتا ئیں گے اور کچے پکے عذروں سے جان چھڑا دیں گے تو تمام اخبارات میں آپ کے اور ہمارے خط چھپ کر شائع ہو جائیں گے پڑھنے والے آپ نتیجہ نکال کر کے مطلب و مقصد اصلی حاصل کرلیں گے ادھر یہ خط و کتابت اور ادھر مولوی محمد حسین بٹالوی کی آمد اور ) شہر لودھیانہ میں شور و شر اور نور افشاں کے ایڈیٹر اور اس کے حامیوں کی جان آفت میں اللہ اللہ یہ نظارہ بھی قابل دید اور قیامت کا نمونہ تھا آنحضرت ا الله کی کمی اور طائفی زندگی نظر آجاتی تھی اور وہی نقشہ ہر وقت پیش نظر تھا.اگر گورنمنٹ برطانیہ مدظلہ ودام اقبالہ کا سایہ اقبال نہ ہو تا تو ہم لوگوں کو جو چند ایک تھے جبشہ کے مہاجرین کی طرح خدا جانے کہاں ہجرت کرنی پڑتی اور یا

Page 128

تذكرة المهدى 126 اصحاب کہف کے چند گفتی کے جوانوں کی طرح کس کس کوہ قاف میں پناہ لینی پڑتی یا بعض صحابہ کی طرح بڑی سختیوں سے جان دینی ہوتی.مولوی محمد حسین بٹالوی کے پیغام مباحثہ کے لئے آرہے ہیں اور اندرونی طور سے گورنمنٹ کو بدظن کیا جا رہا ہے اور اپنے دوستوں کے کانوں میں کہا جاتا ہے کہ مرزا سے زبانی نہیں کچھ ہاتھ سے بھی کام لینا چاہئے.دو سجادہ نشینوں کو دعوت ای کثا بحثی اور شورا شوری اور افرا تفری میں میں نے ایک خط میاں صاحب میاں اللہ بخش صاحب تونسوی سنگھڑی اور شاہ نظام الدین صاحب بریلوی نیازی کی خدمت میں لکھا اس کا یہ مضمون تھا.یاران طریقت و برادران معرفت خواجہ اللہ بخش صاحب تونسوی و خواجه شاه نظام الدین حسین صاحب بریلوی چشتی دام عنا یتیم السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبركاته التماس ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی آج کل لودھیانہ میں تشریف لائے ہوئے ہیں اور انہوں نے دعوی کیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام پر انجیل نازل ہوئی تھی اور آنحضرت ا سے چھہ سو برس پیشتر ہوئے ہیں ان کی وفات ہو چکی جیسے اور انبیاء علیہم السلام کی وفات ہو چکی نہ وہ زندہ ہیں اور نہ وہ آسمان پر اس جسم خاکی و عصری سے موجود ہیں.اور نہ وہ پھر دوبارہ بعد آنحضرت کے قیامت کے قریب آئیں گے اور جس عیسی علیہ السلام کے آنے کی خبر تھی وہ اس امت میں سے ایک امتی کی تھی کہ وہ امتی عیسوی رنگ میں رنگین ہو کر اور اس کی خوبو اور اس کی صفات سے متصف ہو کر اس زمانہ میں کہ جس زمانہ میں نصاری کا غلبہ اور تثلیت پرستی کا زور شور ہو گا وہ کسر صلیب اور بطلان تثلیث کے لئے آئے گا سو وہ عیسی موعود یا مسیح موعود میں ہوں اور عین وقت پر خدا نے اپنے وعدہ کے مطابق تثلیث کے توڑنے اور الوہیت اور تثلیث کے مٹانے کے لئے مجھے بھیجا ہے اور روح القدس سے مجھے

Page 129

تذكرة المهدي 127 مدد دی ہے علم میں روحانیت میں خوارق میں کرامت میں تحریر میں تقریر میں میرا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا اور جو ان امور میں میرے مقابل کھڑا ہو گا وہ ہزیمت اٹھائے گا اور خدا اس کی مدد نہیں کرے گا اور میری مدد کرے گا مولوی تو اس کے مقابلہ سے عاجز آگئے ان کے پاس سوائے کفر کے اور کچھ نہیں اور لوگ دور نزدیک سے آتے ہیں * اور آپ کو وہی مسیح موعود مان کر بیعت کرتے ہیں اب ) میں اور نہ ایک میں بلکہ اور بہت لوگ میرے ساتھ ہیں کہ جناب خواہ علمی طور سے خواہ روحانی یعنی باطنی طور سے مرزا صاحب کا مقابلہ کریں اگر مرزا صاحب جھوٹ پر ہیں تو ہم کو معلوم ہو جائے جو وہ سچ پر ہیں اور میرے نزدیک سچ پر ہیں کیونکہ کشفی رنگ میں خدا تعالیٰ نے مجھ پر آپ کی صداقت منکشف کر دی ہے.یه کشف عنقریب لکھا جائے گا مولوی محمد حسین بٹالوی کے مباحثہ کے ذکر میں) تو ان کا صدق کھل جاوے.والسلام یہ خط میں نے حضرت اقدس علیہ السلام کو دکھایا آپ نے پسند فرمایا اور اپنے دستخط کر کے یہ لکھا کہ میں روحانی اور باطنی علمی طور سے مقابلہ کے واسطے تیار ہوں اور جو کچھ صاحبزادہ سراج الحق شاہ صاحب نے لکھا وہ درست ہے اور میں مسیح موعود ہوں اور میں امام مہدی ہوں صحیح بے شک فوت ہو چکے وہ اب نہیں آئیں گے جو میرے ہاتھ پر مجھے مانکر خواہ مولوی ہو خواہ کوئی سجادہ نشین گدی نشین ہو یا امیر یا غریب عام ہو یا خاص بیعت کرے گا وہ سلامت رہے گا ور نہ کاٹا جائے گا اور خدا تعالیٰ کے غضب اور ناراضگی سے حصہ لے گا.ہ لے گا چونکہ آپ گدی نشین سجادہ نشین صوفی اور پیر ہیں اس معاملہ میں خواہ تحریری خواہ واقعی بات یہ ہے کہ ادھر کے فتوے شائع ہو رہے ہیں اور ادھر گالیاں اور سب کو ختم ہو رہا ہے اور چاروں طرف اخباروں اور رسالوں میں مخالفت ہو رہی ہے خدا کی قدرت کے قربان کہ یہاں سلسلہ بیعت جاری ہو رہا ہے لوگ آتے ہیں اور بیعت کرتے ہیں انہیں ایام شورش میں میاں کریم بخش صاحب مرحوم با حضرت گلاب شاہ صاحب کی شہادت لے کر آگئے جس کا مفصل بیان ازالہ اوہام میں درج ہے مولوی محمد حسن متوفی رئیس لودھیانہ نے میاں کریم بخش کو بہت روکا اور سمجھایا کہ یہ شہادت گلاب شاہ کی نہ بیان کرے لیکن وہ باخدا اور خداترس متقی نه و کابینه

Page 130

تذكرة المهدي 128 باطنی قوت قلبی یا دعا سے مقابلہ کریں تاکہ حق ظاہر ہو اور باطل مٹ جاوے خاکسار مرزا غلام احمد قادیانی از لودھیانه اس کے بعد فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب رجسٹری کرا کر یہ خط بھیج دو میں نے یہ خط رجسٹری کرا کر تونسہ اور بریلی بھیج دیئے.تونسہ یعنی سنگھ سے سے تو کچھ جواب نہ آیا ایک دفعہ پہلے بھی ایسا ہوا تھا کہ جب براہین احمدیہ کی چاروں جلدیں چھپیں تھیں تو بعض آدمیوں کے کہنے سے حضرت اقدس علیہ السلام نے کتاب براہین احمدیہ تونسہ میں اللہ بخش صاحب کے نام روانہ کی تھی انہوں نے کتاب پھاڑ کے واپس ڈاک میں بھیج دی تھی اور اس کتاب کے کسی گوشہ پر یہ لکھا تھا کہ ہمیں کسی مجدد اور کسی کتاب کی ضرورت نہیں ہے ہمیں ہمارے بزرگوں کی ملفوظات کافی ہیں اس متکبرانہ حالت کو دیکھ کر حضرت اقدس علیہ السلام نے افسوس ظاہر فرمایا تھا اور فرمایا تھا کہ جب ان کو کسی مجدد اور مامور الہی کی ضرورت نہیں تو اللہ تعالیٰ کو بھی ایسے لوگوں کی ضرورت اور پروا نہیں ہے آنحضرت ا کے بھی مبارک وقت میں اس قسم کے راہب اور درویش تھے جنہوں نے اپنی متکبرانہ حالت سے اس وجود باجود سے انکار کر کے وبال دنکال اور غضب الہی سر پر لیا اور اس کے بعد ان کا نام نشان مٹ گیا لیکن بریلی سے بواپسی ڈاک یہ جواب آیا.حقائق و معارف آگاه مکرم حضرت صاحبزادہ شاہ محمد سراج الحق صاحب نعمانی و جمالی دام عنایہ بعد حیات صوفیانہ و سلام مسنون عرض یہ ہے کہ فقیر میں تو اتنی قوت نہیں ہے کہ جو مقابلہ کر سکے یا اس باطنی و روحانی طور سے مقابل پر کھڑا ہو سکے یہ کام مولویوں اور علماء کا ہے آپ بھی تو صوفی اور درویش اور چار قطب ہانسوی اور امام اعظم رحمتہ اللہ علیہم اجمعین کے پوتے ہیں ہمیں آپ پر حسن ظن ہے اور جیسا کچھ اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا وہ ہو رہے گا مجھے آپ معاف فرمائیں راقم فقیر نظام الدین حسین نیازی چشتی از مقام بریلی یہ خط میں نے

Page 131

تذكرة ادری 129.حضرت اقدس علیہ السلام کے سامنے رکھ دیا آپ نے پڑھا اور فرمایا دیکھو ایک تونسوی متکبر اور یہ کیسے منکسر المزاج خدا کی قدرت ہے خیر جانے دو لیکن مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کو ضرور لکھو اور حجت پوری کرو اور یہ لکھو کہ اچھا ہم بطریق تنزل تقریری مباحثہ ہی منظور کرتے ہیں مگر اس شرط سے کہ آپ تقریر کرتے جائیں اور دوسرا شخص آپ کی تقریر کو لکھتا جاوے اور جب ہم تقریر کریں تو ہماری جوابی تقریر کو بھی دوسرا شخص لکھتا جارے اور جب تک ایک کی تقریر ختم نہ ہو دے تو دوسرا فریق بالمقابل یا اور کوئی دوران تقریر میں نہ بولے پھر وہ دونوں تقریریں چھپ کر شائع ہو جائیں لیکن بحث مقام لاہور ہونی چاہئے کیوں کہ لاہور دار العلوم ہے اور ہر علم کا آدی وہاں پر موجود ہے.میں نے یہی تقریر حضرت اقدس امام ہمام علیہ السلام کی مولوی صاحب کے پاس بھیج دی مولوی صاحب نے لکھا کہ تقریر صرف زبانی ہوگی لکھنے یا کوئی جملہ نوٹ کرنے کی کسی کو اجازت نہ ہوگی اور جو جس کے جی میں آئے گا حاضرین میں رفع اعتراض دشک کے لئے بولے گا میں لاہور نہیں جاتا مرزا بھی سہارنپور آجائے اور میں بھی سہارنپور آجاؤ نگا حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ کیا بودا پن ہے اور کیسی پست ہمتی ہے کہ اپنی تحریر نہ دی جائے تحریر میں بڑے بڑے فائدے ہیں.کہ حاضرین دعائین اور نزدیک و دور کے آدمی بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور فیصلہ کر سکتے ہیں زبانی تقریر محدود ہوتی ہے جو حاضرین اور سامعین تک ہی رہ جاتی ہے اور حاضرین و سامعین بھی زبانی تقریر سے پورا فائدہ اور کامل فیصلہ نہیں کر سکتے مولوی صاحب کیوں تحریر دینے سے ڈرتے ہیں ہم بھی تو اپنی تحریر دیتے ہیں گویا ان کا منشا یہ ہے کہ بات بیچ بیچ میں خلط مبحث ہو کر رہ جارے اور گڑیڑ پڑ جاوے اور سہارنپور میں مباحثہ کا ہونا مناسب نہیں ہے سہارنپور والوں میں فیصلہ کرنے یا حق و باطل کی سمجھ نہیں ہے.لاہور آج دار العلوم اور مخزن علم ہے اور ہر ایک ملک اور شہر کے لوگ اور ہر مذ ہب وملت

Page 132

تذكرة المهدي 130 کے اشخاص وہاں موجود ہیں آپ لاہور چلیں اور میں بھی لاہور چلا چلتا ہوں اور آپ کا خرچ آمد و رفت اور قیام لاہو ر ایام بحث تک اور مکان کا کرایہ اور خرچ میرے ذمہ ہو گا سہارنپور اہل علم کی بستی نہیں ہے سہارنپور میں سوائے شور و شر اور فساد کے کچھ نہیں ہے یہ مضمون میں نے لکھ کر اور حضرت اقدس علیہ السلام کے دستخط کرا کر گنگوہ بھیج دیا.مولوی رشید احمد صاحب نے اس کے جواب میں پھر یہی لکھا کہ میں لاہور نہیں جاتا صرف سہارنپور تک آسکتا ہوں اور بحث تحریری مجھے منظور نہیں نہ میں خود لکھوں اور نہ کسی دوسرے شخص کو لکھنے کی اجازت ہی دے سکتا ہوں.حضرت اقدس نے اس خط کو پڑھ کر فرمایا کہ ان لوگوں میں کیوں قوت فیصلہ اور حق و باطل کی تمیز نہیں رہی اور ان کی سمجھ بوجھ جاتی رہی یہ حدیث پڑھاتے ہیں اور محدث کہلاتے ہیں مگر فہم وفراست سے انکو کچھ حصہ نہیں ملا صاجزادہ صاحب ان کو یہ لکھ دو کہ ہم مباحثہ کے لئے سہارنپور ہی آجا ئیں گے آپ سرکاری انتظام کرلیں جس میں کوئی اور چین افسر ہو اور ہندوستانیوں پر پورا اطمینان نہیں ہے بعد انتظام سرکاری ہمیں لکھ بھیجیں اور کاغذ سرکاری بھیج دیں میں تاریخ مقرر پر آجاؤں گا اور ایک اشتہار اس مباحثہ کی اطلاع کے لئے شائع کر دیا جائے گا تاکہ لاہور وغیرہ مقامات سے صاحب علم اور مباحثہ سے دلچسپی رکھنے والے صاحب سہارنپور آجادیں گے.ورنہ ہم لاہور میں سرکاری انتظام کر سکتے ہیں اور پورے طور سے کر سکتے ہیں رہا تقریری اور تحریری مباحثہ وہ اس وقت پر رکھیں تو بہتر ہے جیسی حاضرین جلسہ کی رائے ہوگی.کثرت رائے پر ہم تم کار بند ہوں خواہ تحریری خواہ تقریری جو مناسب سمجھا جاوے گا وہ ہو جاوے گا آپ مباحثہ ضرور کریں کہ لوگوں کی نظریں آپ کی طرف لگ رہی ہیں.یہ تقریر میں نے مولوی صاحب کو لکھ بھیجی.مولوی صاحب نے کچھ جواب

Page 133

تذكرة المهدي 131 اول نہ دیا صرف اس قدر لکھا کہ انتظام کا میں ذمہ دار نہیں ہو سکتا ہوں پھر میں نے دو تین خط بھیجے جواب ندارد ایک طرف مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی اور نسوی اور بریلوی صاحبوں سے خط و کتابت اور دو سری طرف مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے مباحثہ کی تیاری تھی جو اتفاق سے مولوی غلام نبی صاحب ! ساکن خوشاب علاقہ پنجاب سے لودھیانہ میں آگئے اور لاہور سے ایک مولوی رحیم بخش صاحب بھی آگئے یہ تو آتے ہی مصدق ہو گئے اور بڑی عمدہ عمدہ میٹھی میٹھی باتیں کیا کرتے تھے.انہوں نے بیعت کی اور کہا کہ مجھے ایک بات آپ کی طرف کھینچ کر لائی اور وہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں علاوہ فسق و فجور اور کثرت معاصی کے یہ واقعہ بھی گزرا کہ ایک گاؤں میں ایک مسلمان نمازی اور حاجی تھا اس کے ایک لڑکی تھی میں برس کی عمر تک پہنچ گئی اس کی شادی نہیں کی اور اس کے باپ نے بیٹی سے خود تعلق پیدا کر لیا.ایک روز وہ لڑکی رو رہی تھی عورتیں اس سے (کیونکہ یہ راز محلہ والوں پر کھل چکا تھا) پوچھ رہی تھیں کہ آج کیوں روتی ہے کیا تیرے یار نے (باپ نے مارا ہے اور میں بھی اس وقت اس جگہ آنکلا تب مجھے یہ حدیث کچی معلوم ہوئی کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میری امت یہود خصلت ہو جائے گی اور جو کام یہود نے کئے تھے یہ بھی طابق النعل بالنعل کرے گی اگر وہ گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئی ہوگی تو میری امت بھی مجھے گی اور جو ماں سے زنا کیا تو یہ بھی کرے گی.سو یہ پیشینگوئی میں نے اپنی آنکھوں سے پوری ہوتی دیکھ لی.میں اس انتظار میں تھا کہ امت تو یہودی بن چکی ہے اب اس کے مقابل پر مسیح کب بنے گی سو الْحَمْدُ لِللہ آپ کا اشتہار جس کی یہ سرخی تھی کہ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَ يُحْيِي مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ پنچا تو میں آپ کی تصدیق اور آپ سے بیعت کے لئے حاضر ہوا اب یہاں اگر معلوم ہوا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی آپ سے مباحثہ کے لئے آئے ہیں وہ زمینی اور آپ آسمانی وہ کہاں مباحثہ کی طاقت رکھتا ہے.اور جو مقابل پر آئے گا پسپا ہوگا

Page 134

تذكرة المهدي 132 اور شکست کھائے گا مولوی رحیم بخش صاحب مرحوم کے بیان کے مطابق دو باتیں اپنی چشم دید یہ خاکسار بھی لکھتا ہے اور وہ یہ ہیں.شخص آنحضرت ا کی پیش گوئی کی تصدیق ایک منفی ضلع ہانی حصار کا باشندہ تھا اس کے تین لڑکیاں تھیں اور دو جوان اور ایک چھوٹی مگر تینوں خوبصورت حسین تھیں اس شخص کی طبیعت اپنی خاص دونوں لڑکیوں پر آگئی اور اس کی نیت بد ہو گئی اس کی بیوی کو جب یہ معلوم ہوا کہ میرے خاوند کی نیت بد نیت ہے تو مجھے کہلا کر بھیجا کہ تم اسے سمجھاؤ کہ کسی طرح میرا خاوند اس بد اور خبیث ارادہ سے باز آجائے چونکہ وہ شخص دوسرے تیسرے روز مجھے ملا کرتا تھا.میں نے یہ بات تو کہنی مناسب نہ سمجھی لیکن میں نے ترکیب کی میں نے سفر کی تیاری کی اور اس سے کہا کہ آؤ چند شہروں کی میر کر آئیں سفر میں بڑی بڑی عمدہ باتیں حاصل ہوتی ہیں پس وہ اور میں چھ سات ماہ تک سفر میں رہے مگر اس کی نیت صاف نہ ہوئی میں نے ہر چند کہا کہ لڑکیوں کی شادی کر دے اس نے نہ مانا ایک روز کہنے لگا کہ میں تو پاری اور آتش پرست مذہب اختیار کروں گا جس میں بیٹی سے شادی کرنا جائز ہے یہ بات سن کر میرا دل کانپ اٹھا اور لرز گیا پھر میں نے یہ تدبیر سوچی کہ حضرت اقدس کی خدمت میں اس کو حاضر کروں پھر میں حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں لے گیا اور تین مہینے تک برابر خدمت عالی میں رکھا خدا کی قدرت آپ کی فیض اور صحبت اثر سے وہ اس بد ارادہ سے باز آیا پھر اس نے بیعت کی اور لڑکیوں کی شادی بھی کر دی اب اس کا انتقال ہو گیا.دوسرا واقعہ یہ ہے کہ کھیتڑی کی ریاست میں ایک مقام جیلو پائن قصبہ ہے وہاں ایک بزرگ کے سجادہ نشین اور امام جامع مسجد اور عیدین بھی ہیں اور ذات کے سید ہیں اس نے اپنی حقیقی خالہ سے ناجائز تعلق کر لیا اور اس سے ایک لڑکا پیدا ہوا وہ لڑکا میں نے آنکھوں سے دیکھا ہے اور اس علاقہ میں یہ بات مشہور

Page 135

تذكرة المهدي 133 مه اول ہے لیکن چونکہ لوگ یہود خصلت ہو گئے ہیں اس خبیث آدمی کے پیچھے نماز بھی پڑھتے ہیں اور اس سے مرید بھی ہو جاتے ہیں اور جو کہا جاتا ہے تو وہ یہ جواب دیتے ہیں کہ پیر کی پیری سے کام اس کے فعلوں سے کیا کام ہے یہ امر جائز ہی ہو گا جو انہوں نے کیا ہے الخبيقاتُ لِلْخَبِيثِينَ جیسے پیرویے مرید المدعاء مولوی غلام نبی صاحب نے لود بیاند میں آتے ہی حضرت اقدس علیہ السلام کی مخالفت کی اور شہر میں جابجاد عظ ہونے لگے.ان ہی دنوں میں ایک مولوی صاحب پنجاب کے رہنے والے گنگوہ سے لودھیانہ میں آئے اور حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے.تھے تو مخالف تھے مگر حضرت اقدس علیہ السلام کی بھولی بھالی نورانی شکل دیکھ کر کہنے لگے کہ یہ شخص ایک نور ہے اور واقعی صادق ہے مولوی رشید احمد کی کیا حقیقت ہے کہ آپ کے مقابل ہو سکے نور اور ظلمت مقابل ہوں تو کب ہو سکتے ہیں پھر کہنے لگے کہ مولوی رشید احمد نے اپنے مریدوں اور شاگردوں سے مشورہ کیا کہ آؤ پوشیدہ طور سے مرزا کو دیکھ آئیں آنحضرت ا بھی تو ابن صیاد کو پوشیدہ دیکھنے گئے تجھے حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ ان مولویوں کے علم تو سلب ہو گئے تھے پر عقل بھی جاتی رہی آنحضرت ا مولوی صاحب خود بخود بنے اور ہمیں ابن صیاد بنایا.کیسی بات بنائی جب ایک شخص محمد مصطفی بن سکتا ہے اور دوسرے کو ابن صیاد اپنی رائے سے بناتا ہے تو کیا خدا تعالٰی قادر خالق حکیم وعلیم کسی اپنے بندہ کو مسیح ابن مریم نہیں بنا سکتا.اور کیا کسی کو یہود نہیں ٹھہرا سکتا اور ان کو یہ خبر نہیں کہ مامور ہونے کا ہمارا دعومی ہے ہم آنحضرت ﷺ کے مثیل ہیں.جیسا کہ امام مہدی کو خود آنحضرت ا نے اپنا مثیل فرمایا ہے اور اس امت کے آخری زمانہ کے علماء کو مثیل یہود فرمایا ہمارا حق تھا کہ ہم مولوی رشید احمد کو ابن صیاد سمجھتے کس لئے کہ وہ بھی الہام کے مدعی ہیں جیسا کہ انہوں نے ہمارے الہام سن کر کہا تھا کہ ایسے الہام یا ان سے بڑھ کر

Page 136

تذكرة المحمدي 134 ہمارے مریدوں کو الہام ہوتے ہیں اور جب ان کو کہا گیا کہ اپنا کوئی ایسا مرید پیش کرو جو ہمارے الہاموں کے مقابل پر اپنا الہام پیش کرے تو کوئی اپنا مرید پیش نہ کر سکے.ہمیں چاہیے تھا کہ مولوی رشید احمد کے الہام سننے کے لئے پوشیدہ ابن صیاد سمجھ کر جاتے ہم مامور ہیں وہ مامور نہیں.پھر اس پر بہت دیر تک افسوس فرماتے رہے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ منشی ظفر احمد صاحب ساکن کپور تھلہ اور ایک شاگرد یا مرید مولوی رشید احمد گنگوہی میں حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام کی وفات وحیات کے متعلق گفتگو ہوئی وہ اس گفتگو میں تو مولوی صاحب کا مرید ناکام رہا کہ حیات مسیح علیہ السلام ثابت کر سکے مگر گفتگو اس پر آٹھری کہ اتنی لمبی عمر کسی انسان کی پہلے ہوئی ہے اور اب ہو سکتی ہے کہ نہیں اس میں بھی وہ لاجواب رہا.آخر کار اس نے ایک خط مولوی رشید احمد صاحب کو لکھا.مولوی صاحب نے اس کے جواب میں لکھا کہ ہاں اتنی لمبی عمر یہ تو دو ہزار برس ہی ہوئے زیادہ عمر بھی ہو سکتی ہے دیکھو حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے شیطان اب تک زندہ چلا آتا ہے کتنے ہزار برس ہوئے اس کے جواب میں منشی ظفر احمد صاحب نے فرمایا کہ ذکر تو انسانوں کی عمر کا تھا نہ کہ شیطان کا کیا نعوذ باللہ حضرت مسیح علیہ السلام شیطانوں میں سے تھے جو شیطان کی عمر کی مثال دی.اور یہ بھی ایک دعوئی ہے مولوی رشید احمد صاحب دعوئی اور دلیل میں فرق نہیں سمجھتے دعوئی اور چیز ہے اور دلیل اور چیز ہے اس پر کیا دلیل ہے کہ وہ ہی شیطان آدم والا اب تک زندہ ہے اور اس کی اتنی بڑی لمبی عمر ہے.نشی صاحب موصوف کے اس جواب کو سن کر پھر ایک خط مولوی صاحب کو ان کے مرید نے لکھا مولوی صاحب نے یہ جواب دیا کہ تمہارا مقابل مرزائی ہے اس سے کہدو کہ ہم مرزائیوں سے کلام کرنا نہیں چاہتے.اور تم بھی مت ملو.یہ حال اور یہ علم اور یہ طرز عمل ہے ان مولویوں کا اگر یہ لوگ یہود صفت نہیں

Page 137

تذكرة المحمدي 135 ہیں تو کیا یہودیوں کے سر پر سینگ ہوتے ہیں درخت تو اپنے پھل سے ہی پہچانا جاتا ہے.مولوی غلام نبی صاحب کا بیعت کرنا الغرض بود میانہ شہر میں مولوی غلام نبي صاحب خوشابی کی دہوم مچ گئی اور جابجا ان کے علم و فضل کا چرچا ہونے لگا اور مولوی نوری غلام نبی صاحب نے بھی حضرت اقدس علیہ السلام کی مخالفت میں کوئی بات اٹھا نہیں رکھی اور آیتوں پر آیتیں اور حدیثوں پر حدیثیں ہر وعظ میں مسیح علیہ السلام کی حیات کی نسبت پڑھنے لگے.خدا کی قدرت کے قربان حضرت عمر انه آنحضرت ﷺ کے قتل کے لئے چلے آپ ہی قتل ہو گئے.اور پھر آپ کا وجود باجود آیت اللہ ٹھہرا اور فاروق اعظم کہلائے اور الشَّيْطَانُ يُفِرُّ مِنْ ظِلَّ عُمَرَ اللہ کے پیارے نے فرمایا اور خود اللہ نے فرمایا ایک روز اتفاق سے اسی محلہ میں کہ جس محلہ میں حضرت اقدس علیہ السلام تشریف فرما تھے مولوی صاحب کا وعظ تھا ہزاروں آدمی جمع تھے اور اس وعظ میں جتنا علم تھا وہ سب ختم کر دیا اور لوگوں کے تحسین و آفرین کے نعرے لگنے لگے اور مرحبا و صل علی چاروں طرف سے شور اٹھا.اس وعظ میں لودھیانہ کے تمام مولوی موجود تھے اور ان کے حسن بیان اور علم کی بار بار داد دیتے تھے اور مولوی محمد حسن اور مولوی شاہ دین اور مولوی عبد العزیز اور مولوی محمد اور مولوی عبداللہ اور دو چار اور مولوی جو بیرد نجات سے مولوی غلام نبی صاحب کے علم کی شہرت اور علمی لیاقت اور خداداد قابلیت کے شوق میں آئے ہوئے تھے حاضر تھے کیونکہ یہ خاص وعظ تھا یہ سب نعرے اور شور مرحبا ہمارے کانوں تک پہنچ رہا تھا اور ہم پانچ چار آدمی چپکے چکے بیٹھے تھے اور دل اندر سے کڑھتا تھا اور کچھ ہمارا بس نہ چلتا تھا.حضرت اقدس علیہ السلام زنانہ میں تھے اور کتاب ازالہ اوہام کا مسودہ تیار کر رہے تھے مولوی صاحب وعظ کہہ کر اور پوری مخالفت کا زور لگا کر چلے اور ساتھ ساتھ

Page 138

تذكرة المهدي 136 ایک جم غفیر اور مولوی صاحبان تھے اور ادھر سے حضرت اقدس علیہ السلام زنانہ مکان سے باہر مردانہ مکان میں جانے کے لئے نکلے تو مولوی صاحب سے مٹھ بھیٹر ہو گئی اور خود حضرت اقدس علیہ السلام نے السلام علیکم کہہ کر مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا اور مولوی صاحب نے وعلیکم السلام جواب میں کہہ کر مصافحہ کیا خدا جانے اس مصافحہ میں کیا برقی قوت تھی اور کیسی مقناطیسی طاقت اور کیا روحانی شش تھی کہ ید اللہ سے ہاتھ ملاتے ہی مولوی صاحب ایسے از خود فتہ ہوئے کہ کچھ چون وچرانہ کر سکے اور سیدھے ہاتھ میں ہاتھ دیئے ہوئے حضرت اقدس علیہ السلام کے ساتھ مردانہ مکان میں چلے آئے اور حضرت اقدس علیہ السلام کے سامنے دو زانو بیٹھ گئے اور یا ہر مولوی اور تمام حاضرین وعظ حیرت میں کھڑے رہ گئے اور آپس میں یہ گفتگو ہونے لگی.ایک : ارے میاں یہ کیا ہوا.اور مولوی صاحب نے یہ کیا حماقت کی کہ مرزا صاحب کے ساتھ ساتھ چلے گئے.دو سرا : مرزا جادو گر ہے خبر نہیں کیا جادو کر دیا ہو گا ساتھ جانا مناسب نہیں تھا.تیسرا مولوی صاحب دب گئے مرزا کا رعب بڑا ہے رعب میں آگیا.چوتھا : اجی مرزا نے جو اتنا بڑا دعویٰ کیا ہے.مرزا خالی نہیں ہے کیا یہ دعوی ایسے ویسے کا ہے؟ پانچواں : بات تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ مرزا روپیہ والا ہے اور مولوی لالچی طامع ہوتے ہیں مرزا نے کچھ لالچ دے دیا ہو گا.بعض مولوی صاحب عالم فاضل ہیں مرزا کو سمجھانے اور نصیحت کرنے گئے ہیں مرزا کو سمجھا کے اور توبہ کراکے آئیں گے.اور دوسرے : یہ بات ٹھیک ہے ایسا موقعہ ملاقات اور نصیحت کا بار بار نہیں ملتا اب یہ موقع مل گیا مرزا کو تو بہ کرا کے ہی چھوڑیں گے.اور عام لوگ : مولوی پھنس گیا اور پھنس گیا.خواہ طمع میں خواہ علم میں خواہ اور

Page 139

تذكرة المهدى 137 راول کسی صورت سے مرزا بڑا چالاک اور علم والا ہے وہ مولویوں کے گنڈوں پر نہیں ہے.مولوی.ایک زبان ہو کر مولوی صاحب مرزا کی خبر لینے کو گئے ہیں دیکھنا تو سہی مرزا کی کیسی گت بنتی ہے مولوی مرزا سے علم میں کم نہیں ہے طامع نہیں ہے صاحب روزگار ہے خدا اور رسول کو پہچانتا ہے فاضل ہے مرزا کو نیچا دکھا کے آئے گا اور سوائے ان کے جو کچھ کسی کے منہ میں آتا تھا وہ کہتا تھا اور ادھر خدا کی قدرت کا تماشا اور ارادہ الہی میں کیا تھا جب مولوی غلام نبی صاحب اندر مکان کے گئے تو چپ چاپ بیٹھے تھے.مولوی صاحب حضرت! آپ نے وفات مسیح کا مسئلہ کہاں سے لیا.حضرت اقدس: قرآن شریف سے حدیث شریف سے اور علماء ربانیین کے اقوال سے.مولوی صاحب کوئی آیت قرآن مجید میں وفات مسیح کے بارہ میں ہو تو بتلائیے.حضرت اقدس لو یہ قرآن شریف رکھا ہے آپ نے قرآن شریف دو جگہ سے کھول کر اور نشان کاغذ رکھ کر مولوی صاحب کے ہاتھ میں دیا ایک مقام تو سورہ آل عمران یعنی تیسرے پارہ کا تیرا پاؤ اور دوسرا مقام سورہ مائدہ کا آخری کوع جو ساتویں پارہ میں ہے اول میں آیت یا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ اور دوسرے میں فَلَمَّا تُوَفَّيْتَنِي كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيبٌ عَلَيْهِمْ تھا.مولوی صاحب دونوں مقاموں کی دونوں آیتیں دیکھ کر حیران اور ششدر رہ گئے اور کہنے لگے يُوَ فی اُجُورَهُم بھی تو قرآن شریف میں ہے اس کے کیا معنی ہونگے.حضرت اقدس : ان آیتوں کے جو ہم نے پیش کی ہیں اور معنی ہیں اور جو آیتیں تم نے پیش کی ہیں ان کے اور معنی ہیں بات یہ ہے کہ یہ اور باب ہے اور وہ اور

Page 140

تذكرة المهدي باب ہے ذرا غور کریں اور سوچیں.138 مولوی صاحب دو چار منٹ سوچ کر کہنے لگے : معاف فرمائیے میری غلطی تھی جو آپ نے فرمایا وہ صحیح ہے قرآن مجید آپ کے ساتھ ہے.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا جب قرآن مجید ہمارے ساتھ ہے تو آپ کس کے ساتھ ہیں.مولوی صاحب رو پڑے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور آچکی بندھ گئی اور عرض کی کہ یہ خطا کار گنہ گار بھی حضور کے ساتھ ہے اس کے بعد مولوی صاحب روتے رہے اور سامنے منسوب بیٹھے رہے.بیرون در اور باہر مکان کے جو کئی ہزار آدمی کھڑے تھے اور اپنی اپنی رائے ظاہر کر رہے تھے وہ اس انتظار میں خوش ہو رہے تھے اور تالیاں بجا بجا کر کہتے تھے کہ آج مرزا قابو آیا آج مرزا تو بہ کر کے رہے گا مولوی صاحب مرزا کو تو بہ کرا کے چھوڑیں گے ان کو کیا خبر تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ والا معالمہ ہو گا.مولوی صاحب خود ہی توبہ کریں گے بعض کی رائے تھی کہ خاموش رہو خدا ہی جانے کیا پیش آوے.جب بہت دیر ہو گئی تو لوگوں نے فریاد کرنی شروع کی اور لگے آواز پر آواز دینے کہ جناب مولوی صاحب باہر تشریف لائیے مولوی صاحب نے ان کی ایک بات کا جواب نہ دیا جب وہ بہت زیادہ چلائے تو مولوی صاحب نے کہلا بھیجا کہ جاؤ میں نے حق دیکھ لیا اور حق پالیا.اب میرا تم سے کچھ کام نہیں ہے تم اگر چاہو اور اپنا ایمان سلامت رکھنا چاہتے ہو تو آجاؤ اور تائب ہو کر اللہ تعالٰی سے سرخرو ہو جاؤ اور اس امام کو مان لو میں اس امام صادق سے کس طرح الگ ہو سکتا ہوں جو اللہ تعالٰی کا موعود اور آنحضرت الله کا موعود جس کو آنحضرت لا نے سلام بھیجا چنانچہ وہ حدیث شریف یہ ہے کہ مَنْ أَدْرَكَ مِنْكُمْ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ فَلْيَقْرَهُ مِنِّي السَّلَامُ مولوی صاحب یہ حدیث پڑھ کر حضرت

Page 141

تذكرة المهدى 139 اقدس علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ کے سامنے یہ حدیث شریف دوبارہ بڑے زور سے پڑھی اور عرض کیا کہ میں اس وقت بموجب حکم آنحضرت آنحضرت کا سلام کہتا ہوں اور میں بھی اپنی طرف سے اسی حیثیت کا جو سلام کہنے والے نے سلام کہا اور جس کو جس حیثیت سے کہا گیا سلام کہتا ہوں.حضرت اقدس علیہ السلام نے اس وقت ایک عجیب لہجہ اور عجیب آواز سے وعلیکم السلام فرمایا کہ دل سننے کی تاب نہ لائے اور مولوی صاحب مرغ بل کی طرح تڑپنے لگے.اس وقت حضرت اقدس علیہ السلام کے چہرہ مبارک کا بھی اور ہی نقشہ تھا جس کو میں پورے طور سے تحریر میں نہیں بیان کر سکتا.حاضرین و سامعین کا بھی ایک عجیب سرور سے پر حال تھا پھر مولوی صاحب نے کہا که اولیاء علما امت نے سلام کہلا بھیجا اور اس کے انتظار میں چل بسے آج اللہ ، تعالیٰ کا نوشتہ اور وعدہ پورا ہوا.یہ غلام نبی اس کو کیسے چھوڑے یہ مسیح موعود ہیں اور یہی امام مہدی موعود ہیں یہی ہیں وہ یہی ہیں وہ اور مسیح ابن مریم موسوی مر گئے مرگئے مرگئے بلاشک مر گئے.وہ نہیں آئیں گے آنیوالے آگئے آگئے آگئے بے شک وشبہ آگئے تم جاؤ یا میری طرح سے آپ کے مبارک قدموں میں گرو تاکہ نجات پاؤ اللہ تعالیٰ تم سے راضی اور رسول تم سے خوش.منتظرین بیرون در کو جب یہ پیغام مولوی صاحب کا پہنچا تو کیا مولوی ملا اور کیا خاص اور عام سب کی زبان سے کافر کافر کافر کا شور بلند ہوا.اور گالیوں کی بوچھاڑ پڑنے لگی اور سب لوگ تقریر منتشر ہو گئے اور بُرا برا کہتے ہوئے ادھر ادھر گلیوں میں بھاگ گئے جو کہتے تھے کہ مرزا صاحب جادو گر ہے ان کی چڑھ بنی.مولوی صاحبان شرم کے مارے گردن نیچی کئے ہوئے کہتے چلے جاتے تھے کہ غلام نبی ایک طالب علم تھا اور تھا کیا؟ ہم سے مقابل ہو تو پھر دیکھنا.مرزا کو جواب نہ بن پڑے.اتفاقاً ہمارے بھائی ماسٹر صاحب احمدی ادھر سے آتے تھے جب یہ بات انہوں نے مولویوں سے سنی تو کہنے لگے کہ چلو مرزا صاحب تو موجود ہیں.

Page 142

تذكرة المهدى 140 حصہ اول کیوں نہیں مقابلہ کرتے تو مولویوں نے کھسیانے ہو کر کہا کہ مرزا کا مقابل ہونا اس کو عزت دیتا ہے کہنے کو تو یہ بات کہدی لیکن شرم کے مارے کچھ بن نہ سکتا تھا آسمان دور اور زمین سخت کریں تو کیا کریں.اس کے بعد مولویوں کی طرف سے مولوی غلام نبی صاحب کے پاس مباحثہ کے پیغام آنے لگے.اور بعض کی طرف سے پھسلانے کے لئے کہ ہماری ایک دو بات سن جاؤ اس کے جواب میں مولوی صاحب نے یہ شعر پڑھا.حضرت ناصح جو آئیں دیدہ و دل فرش راہ کوئی مجھ کو یہ تو سمجھائے کہ سمجھائیں گے کیا بعد از پیام سلام و مباحثہ مولوی صاحب موصوف نے مباحثہ کرنا منظور کر لیا لیکن باتیں ہی باتیں تھیں مباحثہ کے لئے کوئی نہ آیا مولوی غلام نبی صاحب نے بھی اشتہار مباحثہ کے لئے شائع کیا کہ میں مباحثہ کے لئے تیار ہوں جس کو علم کا دعوئی ہو وہ مجھے سے مباحثہ کرلے.ای عرصہ میں امر تسر سے یا لاہور سے خط آیا وہ خط مولوی صاحب کے نام تھا لکھا تھا کہ خواہ تم یا مرزا یا اور کوئی ہو ایک آیت عیسی علیہ السلام کی وفات میں پیش کرے تو میں پچاس روپے انعام دوں گا بلکہ جتنی آیتیں ہونگی فی آیت پچاس روپیہ انعام دیئے جائیں گے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں مولوی غلام نبی صاحب نے یہ خط پیش کیا حضرت اقدس علیہ السلام نے اس خط کو پڑھ کر فرمایا کہ اس شخص کو لکھ دو کہ ہم تمہیں آیتیں قرآن شریف کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات میں دیں گے تم کو مناسب ہے کہ اپنے اقرار کے بموجب پچاس روپے فی آیت کے حساب سے پندرہ سو روپیہ لاہور کے بنک میں جمع کرا کر سرکاری رسید بھیج دو.اب جھوٹے کی کہاں طاقت تھی جواب ندارد پھر مولوی غلام نبی صاحب نے ایک اشتہار شائع کیا کہ جو شخص حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات میں قرآن شریف کی آیت صریح اور حدیث صحیح پیش کرے تو فی آیت اور فی حدیث دس

Page 143

تذكرة المحمدي 141 اول روپے انعام دیتے جاویں گے اور روپے پہلے بنک میں جمع کر دیئے جائیں گے اس اشتہار کو بھی سن کر خاموش ہو رہے اور کوئی نہ اٹھا خدا جانے مولویوں کو زمین نگل گئی یا سانپ سونگھ گیا صدائے برنخاست مولوی غلام نبی صاحب تو بس حضرت اقدس علیہ السلام کے ہو رہے اور ان کا ایسا ہر وہ اور بحر کھلا کہ جو کوئی مولوی یا اور شخص آتا اس سے بات کرنے اور مباحثہ کے لئے آمادہ ہو جاتے اور حضرت اقدس کا چہرہ ہی دیکھتے رہتے اور خوشی کے مارے پھولے نہ سماتے اور حضور کا کلام سنے کے سوا اور کوئی کام نہ تھا.ایک روز زمین و آسمان کی گردش کے متعلق ذکر آیا حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ زمین کی گردش بھی قرآن شریف سے ثابت ہے اور پھر یہ آیت پڑھی إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا یہ آیت سن کر مولوی صاحب وجد میں آگئے اور کہنے لگے کہ یہ ہے قرآن کی سمجھ ہم نے قرآن مجید پڑھا لیکن اس طرف نظر نہ گئی اور نہ اس پر غور کیا قرآن شریف سمجھنے کا حق حضرت اقدس علیہ السلام کا ہی ہے جو خدا کی طرف سے آتا ہے وہی قرآنی نکات اور اسرار و معارف سے واقف ہوتا ہے کیا خوب فرمایا حضرت اقدس علیہ السلام نے.خود بخود فهمیدن قرآن گمان باطل است هر که از خود آورد او نحس و سردار آورد الله تعالیٰ فرماتا ہے لَا يَمَسُّةً إِلا الْمُطَهَّرُونَ اب تو مولوی صاحب کو حضرت اقدس سے عشقیہ حالت میں ترقی ہونے لگی جب حضرت اقدس علیہ السلام زنانہ مکان میں تشریف لیجاتے تو مولوی صاحب بے قرار دیوانہ وار ہو جاتے تھے اور کبھی ملتے اور کبھی بیٹھے بیٹھے رویا کرتے تھے اور کسی پہلو چین نہ پڑتا اور بار رکھتے کہ اتنے روز جو میری طرف سے مخالفت ہوئی یا میری زبان سے الفاظ گستاخانہ نکلے قیامت کے روز اللہ تعالٰی کو کیا جواب دوں گا پھر استغفار کرتے اور سخت بے قراری اور ندامت سے روتے جب حضرت اقدس علیہ السلام تشریف بار -

Page 144

تذكرة المهدي 142 حصہ اول لاتے تب مولوی صاحب کو چین ہوتا اور دل کو تسلی ہوتی.مولوی صاحب کہیں ملازم تھے وہاں سے خط آیا کہ جلد آؤ ورنہ نام کٹ جائے گا اور ملازمت جاتی رہے گی مولوی صاحب نے ملازمت کی کچھ بھی پرواہ نہ کی اور کہا کہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی بیعت میں شرط لی ہے مجھے نوکری کی کوئی پرواہ نہیں ہے حضرت اقدس علیہ السلام کی صحبت کو غنیمت سمجھا ایک روز یہ ذکر آگیا حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ خود ملازمت کو چھوڑنا نہیں چاہئے اس میں اللہ تعالی کی ناشکری ہے ہاں خود بخود ہی اللہ تعالی اپنی کسی خاص مصلحت سے علیحدہ کر دے تو بات دوسری ہے ضرور ملازمت پر چلے جانا چاہئے پھر رخصت لے کر آجانا کوئی اور راہ اللہ تعالٰی نکال دے گا حضرت اقدس علیہ السلام کا یہ ارشاد سن کر مولوی صاحب پاکراہ و جبر چلنے کے لئے تیار ہو گئے اور دوبارہ بیعت کی تجدید کی کیونکہ ایک دو روز پیشتر ایک شخص نے سوال کیا تھا.کہ حضور ایک بار تو ہم نے بیعت کرلی کیا دوبارہ سہ بارہ بھی بیعت کر سکتے ہیں فرمایا ہاں سنت ہے.جب وہ رخصت ہو کر چلنے لگے تو حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب کا دل جانے کو نہیں چاہتا دیکھو دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے یہ معنی ہیں.پس مولوی صاحب چلائے اور کچھ دیر کے بعد دیکھیں تو مولوی صاحب مسکراتے ہوئے خوش خوش بغل میں گٹھڑی دبائے ہوئے چلے آتے ہیں ہم سب حیران ہوئے اور حضرت اقدس بھی دیکھ کر ہننے لگے مولوی صاحب نے کہا میرے جاتے جاتے ریل چلدی بعض لوگوں نے کہا بھی کہ اسٹیشن پر ٹی دوسرے وقت چلے جانا میں نے کہا جتنی دیر اسٹیشن پر لگے اتنی دیر حضرت کی صحبت میں رہوں تو بہتر ہے اسٹیشن پر ٹھرنے سے کیا فائدہ اور جب اللہ تعالٰی نے ہی جانا پسند نہ فرمایا تو میں کیسے خلاف مرضی خدا پسند کروں حضرت اقدس کی صحبت کہاں میتر

Page 145

تذكرة المهدي 143 حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا جزاک اللہ یہ خیال بہت اچھا ہے اللہ تعالی کسی کے اجر کو ضائع نہیں کرتا وہ اپنے بندوں کے حال سے خوب واقف ہے اس میں کچھ حکمت الہی ہے یہ باتیں ہورہی تھیں کہ دوسرا خط آیا کہ تم اپنی ملازمت پر حاضر ہو جاؤ اور جو کسی وجہ سے نہ آیا جائے تو ایک درخواست بھیج دو رخصت کی تاکہ رخصت مل جائے اور میں کوشش کر کے رخصت دلوادوں گا.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا ریل کے نہ ملنے میں یہ حکمت الہی تھی اب رخصت کی درخواست بھیج دو مولوی صاحب نے حسب الارشاد ایک درخواست رخصت کی بھیج دی اور وہ منظور ہو کر آگئی.مولوی صاحب کو بہت روز حضرت کی خدمت میں رہنے اور فیض صحبت حاصل کرنے کا موقع مل گیا.میں نے بھی مولوی صاحب سے بہت سی حدیثیں پڑھیں جو مخالف آتا پہلے مولوی صاحب گفتگو کرتے.ایک روز غزنویوں میں سے کئی شخص آئے ایک ان میں سے شاید مولوی عبد الجبار غزنوی امرتسری کا بیٹا یا بھتیجا تھا اس نے کچھ باتیں شروع کیں جب حضرت اقدس علیہ السلام نے جواب دیا تو وہ ہکا بکا سا رہ گیا پھر جب وہ چلنے لگا تو آپ نے ان کے لئے چائے بسکٹ منگوائے اور خود زنانہ مکان میں گئے اور خود ہی لے کر آئے ان بد قسمتوں نے انکار کر دیا اور حضرت اقدس نے اصرار کیا کہ پیو چائے کے پینے میں کیا حرج ہے لیکن وہ چین بر جبین ہو رہے تھے انکار ہی کئے گئے تو حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ حلال چیز سے انکار کیوں مگر انہوں نے ایک بات نہ مانی اور اٹھ کر چلائیے.ایک بات یہ تھی کہ ان غزنویوں نے یہ کہا کہ حدیثوں میں ابن مریم لکھا ہے کہ نازل ہو گا ہم ان حدیثوں کو کیسے چھوڑ دیں.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ قرآن شریف میں مُتَوَفِّیک اور فَلَمَّا توقيتني مسیح کی نسبت موجود ہے اور بعد تو فی رفع الی اللہ کا

Page 146

تذكرة المهدى 144 ذکر ہے اور دوبارہ آنے کا کہیں ذکر نہیں اور وفات کے علاوہ حیات کی کوئی آیت نہیں اور حدیثوں میں بھی حیات کا کوئی لفظ نہیں تو ہم قرآن اور حدیثوں کو کیسے چھوڑ دیں.اور یہ حدیثیں نزول مسیح کی بمقابلہ آیات اللہ اور حدیث رسول تاویل طلب ہیں اب صریح اور قطعی آیات اور احادیث کے مطابق قرآن کو موول کر کے مقابلہ میں کیونکر ترک کردیں.غزنوی بولے کہ قرآن کے مطلب کو حدیث ہی بیان کرتی ہے پس حدیث کے مقابلہ میں آیات قرآن کی تاویل کرنی چاہئے حدیث مصرح و مفصل ہے اور قرآن مجمل اور مختصر ہے ان کی اس بات پر ہم اور حضرت اقدس علیہ السلام ہنس پڑے.اور فرمایا کہ قرآن شریف میں تو تاویل کو جائز سمجھتے ہو جو یقینی اور قطعی ہے اور حدیث میں بمقابلہ قرآن شریف تادیل جائز نہیں سمجھتے جو ظنی ہے اور کئی مونہوں سے نکل کر ہم تک پہنچتی ہیں اور اللہ تعالٰی فرماتا ہے إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا جب وہ چلے گئے تو حضرت اقدس علیہ السلام نے ان کے جانے پر اور قرآن شریف کی گستاخی اور بے ادبی پر بہت ہی افسوس کیا اور فرمایا کہ دیکھو ان لوگوں کو کیا ہو گیا قرآن شریف میں تاویل کرنا ان کے نزدیک کوئی بات ہی نہیں لیکن حدیثیں جو احاد اور غایت مافی الباب ظن کا درجہ رکھتی ہیں اور ان کو قرآن مجید پر مقدم کرتے ہیں.جو الہی کلام قطع اور یقین تک پہنچا ہوا ہے جس کی شان لاریب فیہ ہے ان لوگوں میں بالکل یہودیت آگئی ہے اللہ تعالی کے کلام پاک کی دلوں میں کوئی کسی پہلو سے وقعت نہیں رہی اور نہ یہ حدیثوں کو ہی سمجھ سکتے ہیں ان کے سینوں سے کلام الہی اٹھ گیا ان کی سمجھ بوجھ نہم و فراست عقل سب جاتی رہی.اس عرصہ میں بہت سے احمدی احباب آتے جاتے رہتے تھے ایک بار مولوی عبد الکریم صاحب اور مٹی غلام قادر سیالکوٹ سے اور نشی ظفر احمد صاحب وغیرہ کپورتھلہ سے اور مرزا خدا بخش صاحب مصنف کتاب عسل

Page 147

تذكرة المهدي 145 مصفی لاہور سے آگئے اور سب جگہ مولوی محمد حسین بٹالوی اور حضرت اقدس علیہ السلام کے مباحثہ کی خبر مشہور ہو چکی تھی.نواب محمد علی خان صاحب کے مالیر کو ٹلہ سے آنے کی خبر گرم تھی لیکن کسی وجہ سے نہ آسکے.احمدی نام رکھنا ایک روز ہم سب میں مشہور ہوا کہ پہلے تو ہم فرقہ محمدی کہلاتے تھے اور اب ہم کو مرزائی کہتے ہیں ہمارا بھی کوئی نام ہونا چاہئے اور بہتر تو یہ ہے کہ حضرت محمد مصطفی کے نام نامی کے ساتھ محمدی تھے اور اب احمد علیہ الصلوۃ والسلام کے نام مبارک کے ساتھ کہ آپ بروز و ظهور محمد مصطفی ا ہیں.احمدی نام ہونا چاہئے یہی گفتگو تھی کہ حضرت اقدس علیہ السلام اس وقت اندر زنانہ مکان میں تھے مردانہ میں تشریف لے آئے اور عصر کی نماز کی تیاری ہوئی اور بعد نماز میں نے بموجب مشورہ مسلمان حضرت کی خدمت میں عرض کیا فرمایا ہاں تمیزی نام ہونا چاہئے ہم اپنا نام " رکھیں یا خالص مسلمان رکھیں لیکن اس سے لوگ چڑیں گے پھر فرمایا ابھی ٹھہر جاؤ جو اللہ تعالیٰ چاہے گاوہ نام مقرر کر دے گا ہمارے تو سب کار و بار اللہ تعالیٰ پر ہیں صبر کرو اس زمانہ میں ابتدائی حالت میں ہم کو یہ بصیرت کہاں تھی کہ جواب ہے یہ بات سچ ہے کہ بتدریج سب کام ہوتے ہیں اس وقت ہم تو یہی سمجھتے تھے کہ جیسے اوروں نے اپنے فرقہ کے نام تجویز کرلئے ہیں کسی نے محمدی کسی نے اہلحدیث کسی نے موحد کسی نے مقلد کسی نے حنفی شافعی مالکی خیلی کسی نے چشتی قادری اور نقشبندی سهروردی کسی نے کچھ کسی نے کچھ اسی طرح ہم بھی اپنا نام اپنی مرضی سے تجویز کرلیں یہ سمجھ نہ تھی کہ الہی سلسلہ ہے اللہ تعالٰی نے اس کو قائم کیا ہے اللہ تعالٰی ہی اس کا متولی ہے اللہ تعالی ہی کی مرضی پر اس کا نام ہے آنحضرت ﷺ کے اصحاب رضی اللہ تعالٰی عنہم نے بھی بتدریج ترقی اور معرفت حاصل کی تھی ایک مدت کے بعد جب ہم اور ہمارا موعود امام علیہ السلام قادیان میں تھے اور مردم شماری ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ اس سلسلہ کا نام

Page 148

تذكرة المحمدي 146 رکھا جائے تو چاروں طرف سے عرائض آنے لگے کہ ہم اپنا نام مردیم شماری میں کیا لکھوائیں اس ارادہ الہی کے ماتحت حضرت اقدس علیہ السلام کو تحریک ہوئی خود کنی و خود کتانی کار را خود وی رونق تو آن بازار را حضرت اقدس علیہ السلام نے ایک روز بوقت نماز عشاء جو بہت سے احباب موجود تھے فرمایا کہ بہت سے لوگوں کے ہر شہر و دیار سے خط آرہے ہیں کہ مردم شماری ہو رہی ہے ہم اپنا کیا نام لکھوائیں چونکہ اس وقت میں مکان پر چلا گیا تھا مجھے مکان سے حضرت اقدس علیہ السلام نے بلوایا اور فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب تم کو اس وقت یوں بلوایا ہے کہ چاروں طرف سے خط آرہے ہیں کہ اپنی جماعت اور سلسلہ کا نام بھی ہونا چاہیئے ہم نے سب سے مشورہ طلب کیا ہے کہ کیا نام رکھنا چاہئے.اس وقت حضرت مولانا نور الدین صاحب خلیفتہ المسیح اور حضرت مولانا سید محمد احسن صاحب فاضل امروھی اور حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی اور مولوی قطب الدین صاحب اور مرزا خدا بخش صاحب مصنف عسل مصفی موجود تھے اب تم اور یہ سب حاضرین سوچ کر ایک دن.دو دن تین دن میں جواب دیں.میں نے عرض کیا (صلی اللہ علیک و علی محمد) * اوروں کا تو اختیار ہے کہ جب چاہیں مشورہ دیں میں تو اپنی طرف سے جو میری سمجھ میں آیا ہے ابھی عرض کر دیتا ہوں.فرمایا کہ تم بیان کرو.میں نے عرض کیا کہ شاید حضور کو یاد ہو کہ ایک بار لودھیانہ میں میں نے مولوی عبدالکریم صاحب جو اس وقت موجود ہیں.اور منشی غلام قادر فصیح سیالکوٹی اور مرزا خدا بخش صاحب اور قاضی خواجہ علی صاحب اور پیر افتخار احمد ایہ الہام ہے جو عین نماز میں مغرب کی حضرت اقدس علیہ السلام کو مسجد مبارک میں التحیات پڑھتے ہوئے ہوا تھا اور خاکسار پاس تھا آپ نے سب کو سنادیا تھا)

Page 149

تذكرة المهاي 147 حصہ اول صاحب اور عباس علی صاحب لودھیانوی و غیر ہم بھی تھے میں نے مشورہ کہا تھا کہ اچھا ہو کہ ہمارا نام پہلے محمدی تھا.اب احمدی رکھا جاوے اور محمد و احمد آنحضرت کے نام ہیں تو گویا ہم دونوں پہلوؤں سے محمدی احمدی ہو جاویں اور میں نے حضور سے بھی لودھیانہ میں عرض کیا تھا اور حضور نے فرمایا تھا کہ جو نام اللہ تعالی چاہے گا رکھ دے گا وقت آنے دو سو وہ وقت آگیا ہے سب فرقوں کے نام ہیں اور وہ نام حکمت اور سنت کے مطابق نہیں ہیں بہتر ہے کہ احمدی نام ہو جاوے فرمایا درست ہے احمدی فرقہ دنیا میں کوئی نہیں ہے اور احمد کی نام پر بہت بزرگوں کے نام ہیں مگر کسی فرقہ یا کسی سلسلہ کا نام احمدی نہیں ہے.اس وقت سب خاموش رہے الخاموشی نیم رضا لیکن مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ بول اٹھے کہ بے شک میری بھی یہی رائے ہے حضرت اندس علیہ السلام اٹھ کر چل دیئے اور دوسرے روز ایک اشتہار لکھ کر لائے جس میں اپنی جماعت کا نام مسلمان فرقہ احمدی رکھا.ایک دفعہ میں نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیک و علی محمد اپنی جماعت کے احباب کے لوگ شناخت نہیں ہوتے ان کی پہچان کے لئے ایسا نشان ہونا چاہیئے کہ ایک احمدی دوسرے احمدی کو ترت دیکھتے ہی پہچان جائے کسی نے عرض کیا کہ بازو پر لکھا ہوا ہو اور کسی نے عرض کیا کہ ٹوپی یا عمامہ پر لکھا ہوا موٹے حرفوں میں احمدی ہو.کسی نے کہا کہ انگوٹھی خاص قسم کی ہاتھ میں ہو میں نے عرض کیا کچھ بھی ہو یہی باتیں ہو رہی که مہمان آگئے ان میں احمدی اور غیر احمدی بھی تھے بات بیچ کی بیچ میں گئی.ره المدعاء ابھی میں حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں تھا کہ سر سادہ سے خط آیا کہ جلد آؤ تمہاری بیوی کو ہیضہ ہو گیا ہے میں نے حضرت اقدس علیہ السلام سے اجازت چاہی کہ دو چار روز کے لئے انجازت دید یجئے اور یہ خط آیا

Page 150

تذكرة المهدي 148 ہے فرمایا کوئی شخص گھر پر ہے جو علاج کرا دے گا میں نے کہا کہ ہاں میرے ماموں ثار علی ہیں وہ علاج کروا دیں گے فرمایا وہ علاج کرالیں گے اور ہم دعا کریں گے مت جاؤ تم کیا جا کر زندہ کر لو گے ابھی ہمارا دل تم سے لگ رہا ہے اور شہر میں ایک فتنہ برپا ہے میں خاموش ہو رہا تیرے چوتھے روز خط آیا کہ تمہاری بیوی کو آرام ہو گیا ہے لیکن تم ایک دو روز کے لئے ہو جاؤ میں نے پھر عرض کیا اور خط ملاحظہ کرایا.فرمایا اب تو آرام ہو گیا ہے چلے جانا ابھی مت جاؤ میں پھر خاموش ہو گیا ایک روز میں آپ کے ساتھ ساتھ زمانہ مکان میں چلا گیا وہاں آپ کی ایک مردانه نشست گاہ تھی اس میں آپ بیٹھ گئے اور باتیں مجھ سے کرنے لگے.میں نے یہ موقعہ علیحدگی کا غنیمت جانا عرض کیا کہ حضور اب جوانی کا وقت ہے کوئی وظیفہ ایسا بتلادیں کہ جس سے اللہ تعالی راضی ہو جائے.فرمایا ہاں بے شک اب وقت ہے اور جوان ہو بڑھاپے میں تو کچھ بھی نہیں ہوتا ہے ہم تم کو ایسی ترکیب بتلا دیں گے کہ وصل الہی اور لقاء الہی حاصل ہو جائے گا اور اس طرح حاصل ہو جاوے کہ تم تم نہ رہو تمہاری یہ ہستی نہ رہے صرف تم میں اللہ ہی اللہ ہو جائے اور یہاں تک حاصل ہو جاوے کہ تم بھی نئے اور تمہارا اللہ بھی نیا اور تمہاری ہستی بھی نئی اور رسول اور یہ زمین و آسمان بھی نیا ہو جاوے تم نیست ہو جاؤ اور خدا میں مل جاؤ.اور کھانا پینا تمہارا ایسا کم ہو جاوے کہ نصف یا چہارم روٹی پر آجاؤ اور پھر طاقت ویسی کی دیسی بنی رہے چنانچہ ہم نے بحکم الہی ایسا ہی کیا کہ ہماری خوراک چهارم روٹی پر آرہی تھی اور پھر یہ بھی تیرے چوتھے روز خوراک تھی اب قادیان میں ہم جاویں گے تم بھی دہاں چلنا وہاں چل کر ہم اپنے سامنے کرا دیں گے اور مرتبہ لقاء اللہ اور بقا باللہ تک رسائی کرا دیں گے جو ماسوائے اللہ کے تمام شاخیں کٹ جائیں گی صرف اللہ ہی اللہ رہ جائے گا دیکھو رسول اللہ ﷺ بھی اپنے اصحاب کی نسبت فرماتے ہیں الله الله فی أصْحَابِی یعنی اب میرے اصحاب میں اللہ ہی اللہ رہ گیا ہے سوائے اللہ تعالٰی

Page 151

تذكرة المهدى 149 کے اور کچھ ان کے وجود میں خیال میں ذہن میں دھیان میں بات میں ہر ایک اغراض میں نہیں رہا ہے یہی مرتبہ تم کو حاصل ہو جاوے گا اب تم بعد نماز کے دس بار درود شریف اور دس بار ایک وظیفہ اسْتَغْفِرُ اللهِ رَبِّي مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَاتُوبُ إلَيدِ اور التيس بار لا حَولَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِیم کے معنی سوچ سمجھ کر پڑھا کرو اور جو کسی وقت اکتیس مرتبہ لاحول نہ ہو سکے تو اکیس بار اور جو اکیس بار نہ ہو سکے تو گیارہ بار ضرور پڑھ لیتا.میں نے دل میں سوچا تھا کہ خدا جانے آپ دریا میں کھڑا ہو کر ہزاروں بار کار ظیفہ بتلا دیں گے یا ساری ساری رات کا وظیفہ مہینوں کا بتلا دیں گے میں نے پھر عرض کیا کہ مجھے بڑے بڑے مجاہدے کرنے پڑے تھے اور میں وظائف کا بہت عادی ہوں.آپ کوئی اور وظیفہ فرما دیں آپ نے پھر یہی فرمایا.جو میں نے ابھی لکھا میں نے پھر عرض کیا کہ حضور میں نے اسم اللہ تین لاکھ ساٹھ ہزار بار روز ایک سال تک پڑھا ہے اور سوکرہ مزتل تین سو ساٹھ بار ہر روز چھ ماہ یا آٹھ ماہ تک پڑھی ہے اور آیت کریمہ لا إله إلا أنتَ سُبْحْنَكَ إِلى كُنتُ مِنَ الظَّالِمِینَ کئی چلہ تک ۴۵ ہزار بار ہر روز پڑھا کرتا تھا.کوئی اور وظیفہ لمبا بتلا دیں اس بات کو سن کر آپ ہنسے اور بہت ہے فرمایا صاحب زادہ صاحب وہ دن گئے اب تم اس قدر پڑھ لو تو مرد جائیں گے یہ وظائف بدعت ہیں اور یہ مجاہدے بناوٹی غیر مسنون ہیں کی پڑھو جو میں نے بتلایا اور جب قادیان آؤ گے تو وہ بتلا دیں گے جو ابھی بیان ہوا پھر میں خاموش ہو رہا اور فرمایا جتنی دیر وظیفہ میں لگے وہ نماز میں خرچ کرو نماز میں اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ بکثرت پڑھو اور رکوع اور سجدے میں بعد تسبیح یا حی یا قَيُّومُ بِرَ حُمَتِكَ اَسْتَغِيْثُ زیادہ پڑھو اور اپنی زبان میں نماز کے اندر دعا ئیں کرو اسی میں منازل سلوک طے ہو جاویں گی مومن کا ہتھیار دعا ہے انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام کا درود وظائف سب دعا تھا اور دعا ہی سے وہ سب پر غالب آتے

Page 152

تذكرة المهدي 150 رہے اور مقاصد دینی و دنیوی حاصل کرتے رہے.قرض سے نجات کی دعا جب میں پہلی دفعہ حضرت اقدس کی خدمت میں قادیان گیا تھا تو ایک شخص نے عرض کیا کہ میں قرضدار ہوں آپ دعا کریں اور کچھ پڑہنے کو بتلا دیں آپ اس کو علیحدہ مسجد مبارک کی چھت پر لے گئے اور فرمایا تین سو ساٹھ بار یائی یا قیوم پر متمتیک استغیث پڑھو اور ایک روز فرمایا کہ استغفار درود لا حول حل مشکلات کی کنجی ہے.اس سے صفائی قلب اور خوشنودی الہی حاصل ہوتی ہے.نماز میں حضور قلب ایک روز میں نے عرض کیا کہ حضرت صلی اللہ علیک و علی محمد نماز میں حضور اور لذت اور ذوق و شوق تضرع کیونکر پیدا ہو وے فرمایا کبھی مکتب میں پڑھے ہو.عرض کیا ہاں پڑھا ہوں.فرمایا کبھی استاد نے کان پکڑائے ہیں.عرض کیا ہاں پکڑائے ہیں.فرمایا پھر کیا حال ہوا.عرض کیا کہ میں پہلے تو برداشت کرتا رہا اور جب تھک گیا اور ہاتھ میرے رکھ گئے اور درد ہو گیا اور پسینہ پسینہ ہو گیا تو رو پڑا اور آنسو جاری ہو گئے فرمایا پھر کیا ہوا عرض کیا پھر استاد کو رحم آگیا اور کان چھڑا دئیے.اور خطا معاف کردی پھر پیار کر لیا.اور کہا جاؤ پڑھو فرمایا یہی حالت نماز میں پیدا کرو جس قدر دیر لگے اتنی دیر نماز میں لگاؤ اور اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ زیادہ پڑھو اور اس قدر پڑھو کہ ہاتھ پیر اور تمام بدن دکھ جاوے تو کچھ اپنی جان پر رحم آوے گا اور کچھ تکان ہوگا اور پھر خدا تعالیٰ کے رحم پر نظر ہوگی اس کے بعد خدا بھی رجوع بر حمت ہوگا اور دریائے رحمت الہی جوش مارے گا پھر حضور اور خشوع و خضوع اور لذت اور ذوق و شوق پیدا ہو جاوے گا لوگ نماز تو جلدی ادا کر لیتے ہیں اور بعد میں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے ہیں اور دیر لگاتے ہیں نظر کہیں ہوتی ہے ہاتھ کہیں ہوتے ہیں.دل کسی اور طرف لگا ہوا ہوتا ہے حضور کہاں سے ہو حضور اور ذوق جس کو حلاوت ایمانی کہتے ہیں وہ تو نماز میں ہونی چاہئے بعض راگ اور سروں

Page 153

تذكرة المهدى 151 سے حضور و تضرع اور ذوق حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ فضول ہے وہ ایک آنی اور عارضی ذوق ہوتا ہے جو پاکدار نہیں ہوتا جس کو ایک بار سچا اور حقیقی ذوق اور تفرع حاصل ہو جائے قیام رکوع سجدہ میں بہت دیر لگانی چاہیئے اور تہجد کی نماز ضرور پڑھنی چاہئے میں نے عرض کیا کہ سستی کا بھی کوئی علاج ہے فرمایا اس وقت غسل کر لیا کرو ستی دفع ہو جائے گی ہم بھی غسل کر لیا کرتے ہیں نماز تہجد سے انسان مقام محمود تک پہنچ جاتا ہے مقام محمود وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالی انسان کی حمد کرتا ہے پھر فرمایا قوالی تو سنی ہوگی میں نے عرض کیا کہ ہاں سنی ہے فرمایا وجد آیا عرض کیا کہ ہاں آیا فرمایا دیکھو عین قوالی کے وقت وجد آتا ہے قوالی کے بعد وجد نہیں آتا اسی طرح نماز کے اندر انسان کو وجد آنا چاہئے جو حقیقی وجد ہے اور قوالی کے وقت عارضی وجد ہے جو آنا فانا سب ذوق جاتا رہتا ہے اور نماز کا ذوق شوق و وجد حقیقی ہے جو ہمیشہ رہتا ہے ایک دفعہ فرمایا کہ حقیقی رونا آجاوے تو ہنسنا کیا.لوگ قوالی میں روتے ہیں وجد کرتے ہیں لیکن تھوڑی دیر کے بعد وہ کیفیت جاتی رہتی ہے جو عارضی ہوتی ہے اور بعد میں سب منہیات اور معاصی کے اسی طرح پابند رہتے ہیں اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے حقیقی لذت و وجد کو قرآن شریف میں فرمایا کہ اِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَ الْمُنْكَرِ یہ بات قوالی - کے سننے والوں کو نصیب نہیں ہوتی ہے کیونکہ وہ عارضی ہے ذوق حقیقی سے A ذوق عارضی کو کیا نسبت ہے.ایک دفعہ ایک شخص نے عرض کیا کہ نماز میں لذت و سرور اور ذوق و شوق کیونکر حاصل ہو.فرمایا تم نے کبھی شراب پینے والوں کو دیکھا ہے.عرض کیا کہ ہاں دیکھا ہے.فرمایا اگر ایک پیالی شراب میں نشہ نہ ہو تو شرابی کیا کرے گا عرض کیا اور پیئے گا.فرمایا تب بھی نشہ نہ ہو تو پھر عرض کیا اور پی لیوے گا.فرمایا کب تک عرض کیا جب تک نشہ نہ ہو.فرمایا یہی حال نماز میں پیدا کرد نماز کا ذوق اور حضور نماز سے ہی ملے گا جب تک لذت و سرور حاصل نہ ہو نماز کو زیادہ دیر تک پڑھو لذت

Page 154

تذكرة المهدي 152 حصہ اول و سرور سب کچھ حاصل ہو جاوے گا فرمایا انسان کی حالت زمین کی حالت ہی ہے بعض جگہ پانچ سات ہاتھ پر پانی نکل آتا ہے بعض مقام پر دس میں ہاتھ پر اور بعض مقام پر پچاس سو ہاتھ پر پانی نکلتا ہے سو انسان جس قدر جد و جہد کرے گا اسی قدر جلد پانی نکلے گا انسان کو دعاؤں اور نمازوں میں تھکتا اور ماندہ ہونا اور ست ہونا نہیں چاہئے جیسے کنواں کھودنے والے نا امید نہیں ہوتے ایک روز ایسا ہوتا ہے کہ پانی نکل آتا ہے سو نماز پڑھنے والا کبھی نہ کبھی رحمت الہی کے چشمہ کو پالیتا ہے اور ذوق و شوق کما حقہ حاصل کر لیتا ہے اور یہی انسان کی سعادت اور اس کی خلقت کی علت غائی ہے.در حقیقت جیسا حضرت اقدس نے فرمایا تھا کہ اسی قدر وظیفہ پڑھو گے تو مرد بن جاؤ گے یہ وظیفہ اور نماز ہی ایسی نکلی کہ بہت مشکل اس کا ادا کرنا ہو گیا اور جب ادا ہوا تو خدا کے فضل سے وہ لذت و سرور اور ذوق و شوق اور کشف حقائق ہوا کہ جو بیان سے باہر ہے.انشاء اللہ تعالیٰ اس کو آگے بیان کروں گا.ہاں پھر میں نے عرض کیا کہ درود شریف کو نسا پڑھا جاوے فرمایا جو درود یاد ہو میں نے عرض کیا کہ آپ اپنی زبان سے فرما دیں تو فرمایا کہ جو نماز میں التحیات کے بعد پڑھا جاتا ہے اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ - اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى أَلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ - پھر میں نے ایک روز موقعہ پاکر عرض کیا کہ حضور اجازت دیں تو میں سر سادہ ہو آؤں.سر سادہ قریب ہے فرمایا کتنی دور ہے عرض کیا کہ سو کوس ہے فرمایا یہ نزدیک ہے ؟ میں نے عرض کیا صبح کی نماز لدھیا نے پڑھی جاوے تو ظہر کی نماز سر مادہ پڑھی جاوے.سر سادہ میں اسٹیشن ہے فرمایا تم جاتے ہو ہمارا دل نہیں لگنے کا میں نے عرض کیا کہ جلد حاضر ہو جاؤں گا فرمایا ایک ہفتہ سے زیادہ

Page 155

تذكرة المهدي 153 مت لگانا عرض کیا کہ بہت اچھا فرمایا کل صبح کو چلے جانا فرمایا آج کیا دن ہے عرض کیا اتوار ہے فرمایا پیروں کا سفر پیر کو ہی بہتر ہے اور پیر کو ہی واپس آجانا سو میں پیر کو موافق حکم روانہ ہوا اور پیر کو ہی واپس آگیا اگر چہ سب نے تقاضا ٹھرنے کے لئے تو بہت کیا لیکن میری بیوی نے کہا کہ حکم امام علیہ السلام اور عہد کے خلاف نہیں کرنا چاہئے جب پیر کے روز حاضر ہوا دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے فرمایا.آپ تو ہماری مجلس کی رونق ہی لے گئے تھے نور محمد ہانسوی لودھیا نہ رہا اور اس عرصہ میں اللہ بندہ ہانسوی بھی ہانسی سے حضور کی خدمت میں حاضر ہو گیا تھا میں تین چار ماہ تک آپ کی خدمت میں رہا.ایک روز میں نے عرض کیا کہ حضرت جب سے آپ سے بیعت کی ہے تب سے سلسلہ بیعت تو جاتا رہا اور لوگ بیعت کے لئے بہت چاہتے ہیں اب کیا حکم ہے آیا بیعت کروں یا نہ کروں فرمایا نیک صالح آدمی دیکھ کر بیعت کر لیا کر و بیعت تو عمدہ چیز ہے پھر اس پر ایک بزرگ کی حکایت فرمائی کہ ایک بزرگ تھے ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے بھی کوئی نجات کا سامان تیار کیا ہے اس بزرگ نے فرمایا کہ ہاں بہت بڑا سامان تیار کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ میں نے ستر آدمی بیعت کئے ہیں جن کو توبہ کرائی ہے اس شخص نے کہا کہ یہ کیا نجات ہوئی یہ تو اور گلے میں بار بوجھ ڈال لیا فرمایا بوجھ بار والوں کے واسطے بوجھ بار ہے لیکن ہمارے واسطے نجات کا سامان ہے کیونکہ میں نے بیعت تو بہ لی ہے انہوں نے میرے ہاتھ پر توبہ کی ہے سو ہم بھی تو بہ میں شریک ہو گئے اگر چہ مجھے حضرت اقدس علیہ السلام نے بیعت لینے کی اجازت تو دیدی تھی لیکن میں نے بیعت لینی مناسب نہیں سمجھی جب امام وقت موجود ہے تو ہماری کیا حاجت ہے اور پھر نیک صالح کی قید لگاوی نہ کوئی نیک صالح ملا نہ کسی کو بیعت کیا.اب پھر اسی مضمون کو لکھتا ہوں کہ مولوی واقعات مباحثہ لدھیانہ ابو سعید محمد حسین لدھیانہ آئے اور پیام

Page 156

تذكرة المهدى 154 و سلام مباحثہ کے پہنچائے رات کے وقت اللہ دین واعظ لدھیانوی اور مولوی عبد الله محمد مرحوم اور مولوی رحیم بخش لاہوری اور مولوی نظام الدین آئے اور ایک میں اور ایک حضرت اقدس بیٹھے تھے ان تینوں نے عرض کیا کہ حضرت آپ تو اللہ والے ہیں اور مولوی محمد حسین کالا ناگ ہے اور حنفیوں سے بہت موقعوں پر مباحثہ میں فتح پائے ہوئے ہے.اور بہت چلتا پرزہ آدمی ہے آپ اس سے بحث نہ کریں آپ کا کام بحث کا نہیں ہے فرمایا اس کو کوئی اللہ والا نہیں لما - انشاء اللہ بحث ہونے دو اس کی علمیت کی پوری حقیقت کھولدی جاوے گی اور یہ جان جائے گا کہ بحث اس کا نام ہے بیچارے ملانوں سے اس کا پالا پڑا ہے اللہ والے اور صاحب بصیرت سے کبھی کام نہیں پڑا.پھر فرمایا کہ اس کے دماغ میں تکبر کا کیڑا ہے وہ جب تک نہیں نکلے گا تب تک ٹھنڈک نہیں پڑے گی.پھر مولوی عبداللہ مرحوم نے عرض کیا کہ بحث کس مسئلہ میں ہوگی فرمایا وفات مسیح میں بحث ہوگی اور یہی اصل ہے عرض کیا کہ اگر وہ وفات مسیح میں بحث نہ کرے کیونکہ میں نے سنا ہے کہ وہ وفات مسیح کے مسئلہ کو نہیں چھیڑے گا وہ تو نزول مسیح کے مسئلہ میں گفتگو کرے گا فرمایا نزول مسیح کی بحث سے کیا تعلق ہے نزول مسیح تو ہم خود مانتے ہیں اگر نزول مسیح ہم نہ مانتے تو ہمارا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا کب چل سکتا تھا پھر تو ہمارا دعوئی اور بنائے دعوئی ہی غلط تھا اور جو اس نے نہ مانا اور وفات مسیح کی بحث ترک کی اور نزول مسیح پر ہی زور دیا تو لا محالہ وفات مسیح کی بحث تو ضرور آوے گی پھر اس پر ایک مثال فرمائی کہ ایک زمیندار کسی کے کھیت میں چلا گیا اور کچھ بالیں توڑلیں مالک آگیا اور کہا کہ میرے کھیت میں سے بالیں کیوں توڑیں اس نے جواب دیا کہ کل تو نے اپنے بیٹے کی شادی کی میرے پاس کوئی آدمی بلانے کے لئے اور مشورہ کے لئے کیوں نہ پہنچا اس نے کہا کہ ذکر تو بالوں کے توڑنے کا ہے اور تو شادی کا ذکر لے بیٹھا اس نے جواب دیا کہ گلاں وچوں گلاں نکل آوندیاں نیں.پنجابی الفاظ میں یہ جملہ اس وقت حضرت اقدس

Page 157

تذكرة المهدى 155 السلام نے فرمایا تھا اس کا اردو ترجمہ یہ ہوا کہ باتوں میں سے باتیں نکل آتی ہیں پھر آپ نے ہنس کر فرمایا کہ وفات میں کھینچ کر لے آنا تو سل ہے پھر فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا جب مباحثہ نمرود بادشاہ سے ہوا تو آپ نے دلیل پیش کی کہ خدا دہ ہے جو مارتا اور زندہ کرتا ہے اس نے کہا کہ میں بھی مارتا ہوں اور زندہ کرتا ہوں جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دیکھا کہ یہ عقل میں کمزور اور سمجھ میں ناقص ہے تو جھٹ پٹ اس دلیل سے پھر کر فرمایا کہ میرا رب وہ ہے کہ جو آفتاب کو مشرق سے لاتا ہے تو اگر سچا ہے تو مغرب سے لے آ.اس پر وہ مبہوت ہو گیا مولوی محمد حسین صاحب سے بحث تو ہونے دو دیکھا جائے گا.مولوی نظام الدین کا بحث کو دوسرے روز صبح کو آٹھ نو بجے مولوی نظام الدین اور مولوی آنا اور بیعت کرکے جانا محمد حسین اور دو تین اور شخص تھے مولوی محمد حسن کے مکان پر آپس میں گفتگو ہوئی.مولوی نظام الدین نے کہا کہ حضرت مسیح کی زندگی پر بھی قرآن شریف میں کوئی آیت ہے.مرزا تو آیت پر اڑ رہا ہے تو مولوی محمد حسین نے کہا میں آیتیں قرآن شریف میں موجود ہیں.مولوی نظام الدین مرحوم و مغفور نے کہا تو میں اب مرزا صاحب کے پاس جاؤں اور گفتگو کروں انہوں نے کہا کہ ہاں جاؤ پس مولوی نظام الدین مرحوم جلدی جلدی حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت مولوی عبد الکریم اور نشی غلام قادر صاحب فصیح اور فضل شاہ صاحب اور شہزادہ عبد المجید صاحب اور مولوی تاج محمد صاحب اور مولوی عبد القادر صاحب جمال پوری اور قاضی خواجہ علی صاحب مرحوم و مغفور اور عباس علی مرتد اور نور محمد ہانسوی مرحوم اور اللہ بندہ ہانسوی اور منشی ظفر احمد صاحب اور دیگر اور صاحب اور خاکسار حاضر تھے آتے ہی کہا کہ مرزا جی تمہارے پاس کیا دلیل ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام مر گئے حضرت اقدس نے فرمایا کہ قرآن شریف ہے مولوی نظام الدین مرحوم نے کہا کہ

Page 158

تذكرة المهدى 156 اگر قرآن شریف میں حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات کی آیت موجود ہو تو آپ مان لیں گے حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں ہم مان لیں گے مولوی نظام الدین نے کہا کہ میں ایک دو نہیں ہیں آیتیں قرآن شریف کی حضرت عیسی کی زندگی پر لادوں گا حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا میں آیت کیا اگر تم ایک ہی آیت لارو گے تو میں قبول اور تسلیم کرلوں گا اور اپنا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا چھوڑ دوں گا اور توبہ کرلوں گا.فرمایا.مولوی صاحب یاد رہے تم کو یا کسی کو ایک آیت بھی حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی میں نہیں ملے گی مولوی نظام الدین نے کہا دیکھنا پکے رہنا تم ایک ہی کہتے ہو میں میں آیتیں ابھی لا کر دیتا ہوں حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا اگر تم نے ایک آیت بھی لادی تو میں ہار گیا اور تم جیت گئے اب عباس علی کو کھٹکا ہوا.اور مجھ سے چپکے سے کہنے لگا کہ مرزا صاحب کیوں اڑتے ہیں ادھر بھی تو مولوی ہیں وہ کیا جھوٹ بولتے ہیں اگر آیت مسیح کی زندگی میں نکل آئی تو ہمیں منہ دکھانے کی جگہ نہ ہوگی میں نے کہا عباس علی صاحب ہرگز بھی حضرت مسیح کی زندگی کی کوئی آیت نہیں ہے.کیا یہ تحدی حضرت اقدس کی یوں ہی ہے اگر حضرت مسیح کی زندگی کی کوئی آیت قرآن شریف میں ہوتی تو اتنے مولوی دنیا میں موجود ہیں اور خاص کر لدھیانہ میں مولوی ہیں وہ کبھی کے پیش کر دیتے ان کا پیش نہ کرنا اور زبانی باتیں کرنا اور دعوی کرنا ہی بتلاتا ہے کہ ایک بھی آیت حیات مسیح کے بارہ میں نہیں ہے بس مولوی نظام الدین چادر اور جو تہ اور دوپٹہ وہیں چھوڑ کر برہنہ پا دوڑتے ہوئے ان مولویوں کے پاس گئے اور کہا کہ میں مرزا صاحب کو ہرا آیا ہوں اور توبہ کرا آیا ہوں مولوی صاحبان اس بات کو سن کر خوش ہوئے اور کہا کس طرح سے مولوی صاحب مرزا کو ہرا آئے شاباش شاباش تم نے اس وقت بڑا کام کیا ہے مولوی نظام الدین نے کہا کہ میں میں آیتوں کا وعدہ کر آیا ہوں کہ قرآن شریف کی حضرت عیسی کی زندگی میں لادوں گا اب اول

Page 159

تذكرة المهدى 157 مجھے میں آیتیں قرآن شریف سے نکال کر دو مولوی محمد حسین بولے کہ حدیثیں نہیں پیش کیں کہا کہ حدیثوں کا تو ذکر ہی نہیں مقدم قرآن شریف ہے مولوی محمد حسین نے کھڑے ہو کر اور گھبرا کر دوپٹہ یعنی عمامہ سر سے پھینک دیا اور کہا کہ تو مرزا کو ہرا کے نہیں آیا ہمیں ہرا آیا اور ہمیں شرمندہ کیا میں مدت سے مرزا کو حدیث کی طرف لا رہا ہوں اور وہ قرآن شریف کی طرف مجھے کھینچتا ہے قرآن شریف میں اگر کوئی آیت مسیح کی زندگی میں ہوتی تو ہم کبھی کی پیش کر دیتے ہم تو حدیثوں پر زور دے رہے ہیں قرآن شریف سے ہم سرسبز نہیں ہو سکتے اور قرآن شریف مرزا کے دعوے کو سر سبز کرتا ہے تب " تو مولوی نظام الدین کی آنکھیں کھل گئیں اور کہا کہ جب قرآن شریف تمہارے ساتھ نہیں ہے تو اتنا دعومی تم نے کیوں کیا تھا اور کیوں میں آیتوں کے دینے کا مجھ سے وعدہ کیا تھا اب میں کیا منہ لیکے مرزا کے پاس جاؤں گا اگر قرآن شریف تمہارے ساتھ نہیں.تمہارا ساتھ نہیں دیتا اور مرزا کے ساتھ ہے اور مرزا کا ساتھ دیتا ہے تو میں بھی مرزا کے ساتھ ہوں تمہارے ساتھ نہیں یہ دنیا کا معاملہ نہیں ہے جو شرم کرنی چاہئے یہ دین کا معاملہ ہے جدھر قرآن شریف ادھر میں اس پر مولوی محمد حسین نے کہا کہ مولوی صاحب یہ مولوی نظام الدین تو کم عقل آدمی ہے اس کو ابو ہریرہ والی آیت نکال کر دکھا دو.مولوی نظام الدین نے کہا کہ میں تو خالص اللہ تعالیٰ کی آیت لوں گا ابو ہریرہ کی آیت نہیں لینے کا دونوں مولوی بولے ارے بیوقوف آیت تو اللہ تعالیٰ ہی کی ہے لیکن ابو ہریرہ نے نقل کی ہے اب مولوی نظام الدین وہاں سے چلنے لگے....مولوی محمد حسین نے جب دیکھا کہ مولوی نظام الدین ہاتھ سے گیا اور تو کوئی بات نہ سوجھی کہنے لگا کہ مولوی محمد حسن صاحب تم اس کی روٹی بند کردو آئندہ اس کو روٹی مت دینا بات یہ ہے کہ مولوی نظام الدین ہمیشہ کھانا مولوی محمد حسن صاحب کے ہاں کھایا کرتے ام اللہ تعالی جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مولوی محمد حسین نے یہ باتیں کیں اس میں ذرا بھی جھوٹ نہیں ہے ) سراج الحق)

Page 160

تذكرة المهدي 158 حصہ اول تھے اس وقت روٹی کا دباؤ دیا مگر مولوی نظام الدین خدا کے فضل سے ایسا بو دا اور ضعیف الایمان تھوڑا ہی تھا کہ روٹی کے احسان میں دب جاتا ہاتھ جوڑ کر ظرافت سے مولوی نظام الدین کہنے لگے کہ مولوی صاحب میں نے قرآن شریف چھوڑا روٹی مت چھوڑ داؤ اس بات کے کہنے سے محمد حسین شرمندہ ہوا اور کہا جابیٹھ جا مرزا کے پاس مت جانا حضرت اقدس علیہ السلام مولوی نظام الدین مرحوم کی اس ظرافت اور لطیفہ کو اکثر بیان کرتے تھے اور حضرت اقدس کا ہاتھ جوڑ کر مولوی نظام الدین کی نقل بیان کرنا ایسا پیارا معلوم ہو تا تھا کہ دل کو لبھا لیتا تھا.اور جب مولوی نظام الدین حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتے تو آپ ضرور ان سے یہ بیان کرواتے کہ مولوی صاحب کیوں کر یہ معاملہ گزرا اور مولوی نظام الدین اسی طرح سے ہاتھ جوڑ کر بیان کرتے اور ہنستے اور حضرت اقدس علیہ السلام بھی ہنستے بالآخر مولوی نظام الدین وہاں سے چلے اور حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں آکر اور شرمندہ سے ہو کر رہ گئے حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا مولوی صاحب ہیں آیت انیس آیت دس پانچ دو چار ایک آیت لائے مولوی نظام الدین صاحب مرحوم خاموش دو چار بار کے دریافت کرنے سے رد کر عرض کیا کہ حضرت وہاں تو یہ معاملہ گزرا میری روٹی ہی بند کر دی اب تو جد ہر قرآن شریف ادھر میں پھر مولوی صاحب نے بیعت کر لی ان کا بیعت کرنا تھا اور مولویوں میں ایک شور مچا تھا.عباس علی کہنے لگے کہ سچ تو یہ ہے کہ اور مولویوں کے پاس تو حیات مسیح کی کوئی دلیل نہیں اور حضرت مرزا صاحب کے پاس اپنے دعوی کی کوئی دلیل نہیں ہے میں نے کہا کہ عباس علی تم تو بہت روز سے حضرت اقدس کی صحبت میں ہو اور مجھ سے بھی پہلے کے ہو تم کو اتنی بدظنی کیوں ہے اس روز سے کچھ بد ظنی کا مادہ عباس علی میں پیدا ہونے لگا عباس علی کو کیمیا کی بھی دھت تھی اور مسوسی کا بھی شوق تھا ایک روز نواب صاحب کی کوٹھی پر صبح ہی صبح عباس علی آئے اور کہنے

Page 161

تذكرة المهدي 159 لگے کہ سونا چاندی بن سکتا ہے کہ نہیں اس کا کوئی نسخہ یاد ہو تو بتلاؤ میں نے کہا سونا چاندی ہرگز نہیں بن سکتا کیونکہ میں نے صدہا فقیروں اور مہوسوں کو دیکھا ہے ان کو بناتے نہیں دیکھا ایک انچ کی کسر ضرور رہ جاتی ہے اور میرا بچپن سے یہ اعتقاد تھا کہ کیمیا کوئی شے نہیں ہے عباس علی بولے کہ کیا کرامت سے کیا معجزہ سے بھی نہیں بن سکتی.میں نے کہا ہرگز نہیں بن سکتی ہے اس واسطے صوفیائے کرام نے لکھا ہے کہ قلب ماہیت حقیقی جائز نہیں ہے کو عارضی ہو جاوے جیسے سفید کپڑا رنگا جاتا ہے لیکن بعد مدت کے وہ پھر اصلیت پر آجاتا ہے آپ معجزہ کرامت کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں.یہ میرا کہنا تھا اور عباس علی کا بگڑنا تھا.پھر ہم دونوں حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں گئے اور میں نے عرض کیا کہ میرا عقیدہ ہے کہ سونا چاندی معجزات سے کرامات سے یا جڑی بوٹی سے اور یا اور طرح سے نہیں بن سکتا.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا سچ ہے معجزہ کی حقیقت یہی ہے کہ آئندہ کے واقعات بتلائے جاتے ہیں اور امور مستقبلہ پیش ؟ آمدہ سے اطلاع دیجاتی ہے اسی واسطہ نبی کو نبی یعنی مستقبل کا خبر دہندہ کہا گیا ہے.اور رسول کے معنی بھی یہی ہیں کہ وہ ہدایت اور نور کی رسالت کرتا ہے اور آئندہ کے لئے جو عذاب الہی نافرمانی سے آتا ہے اسکی پیغامبری کرتا ہے خواہ وہ عذاب دنیا میں آوے خواہ قیامت کے روز- الحمد للہ کہ خاکسار کو بچپن سے جب سے کہ میں نے ہوش سنبھالا ہے چار چیزوں پر کبھی یقین نہیں ہوا ایک کیمیا پر دوسرے دیوانوں کے ولی اللہ سمجھنے پر تیسرے دست غیب پر جو لوگ وظیفے پڑھتے ہیں کہ روپیہ روز یا پانچ روپیہ روز بستر کے نیچے سے یا مصلے کے نیچے سے غیب سے مل جایا کریں چوتھے اسبات سے مرا دل کراہت کرتا رہا کہ انگریزوں کی بادشاہت جاتی رہے.لوگ تو ہمیشہ یہی چاہتے رہے کہ سلطنت برطانیہ جاتی رہے انگریزوں کا راج جاتا رہے.اور مسلمان بادشاہ آجاوے جو یہ کہتا میرے تن بدن میں آگ کا شعلہ بھڑک جاتا تھا اور اس

Page 162

تذكرة المعدي 160 بات پر لڑائی بھی ہو جاتی تھی اور میرے دل سے یہ بات پیدا ہوتی کہ خدا کرے انگریزی سلطنت قائم رہے ان کا بول بالا رہے.مسلمان بادشاہ آکر ہمیں کیا دے گا یہ چاروں باتیں حضرت اقدس علیہ السلام نے بھی بیان کی تھیں اور میری بات اور میرے یقین کی تصدیق کی تھی اور فرمایا کہ آج اگر مسلمانوں کی بادشاہت ہوتی تو اس طرح سے ہم کب تبلیغ و اشاعت دین اور مقاصد سلسلہ احمدیہ کر سکتے تھے یہ خدا کا فضل اور رحم ہوا کہ مسیح موعود علیہ السلام کے آنے سے پہلے انگریزوں کی سلطنت کو اللہ تعالٰی نے بھیج دیا.پھر مولوی محمد حسین سے مباحثہ قرار پایا اور بٹالوی سے آغاز مباحثہ دن مباحثہ کا مقرر ہو کر مباحثہ کے لئے مولوی محمد حسین حضرت اقدس علیہ السلام کے مکان پر آئے اور ساتھ مولوی محمد حسن اور سعد اللہ نو مسلم اور پانچ سات اور شخص بھی آئے اور ایک سوال لکھ کر حضرت اقدس علیہ السلام کے آگے رکھ دیا حضرت اقدس علیہ السلام نے اس کا جواب لکھ دیا اور مجھ سے فرمایا کہ کئی قلم بنا کر میرے پاس رکھ دو اور جو ہم جائیں اس کی نقل کرتے جاؤ چنانچہ میں نقل کرنے لگا اور آپ لکھنے لگے سوال وجواب اسدن کے لکھ لئے گئے تو مولوی محمد حسین نے خلاف عہد زبانی وعظ شروع کر دیا اور بیان کیا کہ مرزا صاحب کا جو یہ عقیدہ ہے کہ قرآن شریف حدیث پر مقدم ہے یہ عقیدہ صحیح نہیں ہے بلکہ عقیدہ یہ چاہئے کہ حدیث قرآن شریف پر مقدم ہے اور قرآن شریف کے متعلق مسائل کو حدیث کھولتی ہے اور وہی فیصلہ کن ہے خلاصہ مولوی صاحب کی تقریر کا یہی تھا پھر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ پہلے چونکہ یہ معاہدہ ہو چکا تھا کہ زبانی تقریر کوئی نہ کرے مولوی صاحب نے اس معاہدہ کے خلاف تقریر کی ہے سو میرا بھی حق ہے حضرت اقدس علیہ السلام کی یہ عادت تھی کہ ہر روز کئی کئی فلم مجھ سے بنوا کر رکھ لیتے اور جو میں نہ ہو تا تو جیسا قلم ہاتھ میں آجاتا ٹوٹا پھوٹا ویسے سے ہی لکھ لیا کرتے تھے بعض وقت سیاہی نہ ہوتی تو قلم کو سب لگا کر لکھ لیتے تھے.مشر

Page 163

تذكرة الندى 161 کہ میں بھی کچھ تقریر زبانی کروں پھر حضرت اقدس علیہ الصلوۃ السلام نے فرمایا که مولوی صاحب کا یہ عقیدہ کسی طرح بھی صحیح اور درست نہیں ہے کہ حدیث قرآن شریف پر مقدم ہے ناظرین سننے کے لائق یہ بات ہے کہ چونکہ قرآن شریف وحی متلو ہے اور تمام کلام مجید رسول اللہ اللی کے زمانہ میں جمع ہو چکا تھا اور یہ کلام الہی تھا اور حدیث شریف کا ایسا انتظام نہیں تھا اور نہ یہ آنحضرت اے کے زمانہ میں لکھی گئی تھیں اور وہ مرتبہ اور درجہ جو قرآن شریف کو حاصل ہے وہ حدیث کو نہیں ہے.کیونکہ یہ روایت در روایت پہنچی ہیں اگر کوئی شخص اس بات کی قسم کھاوے کہ قرآن شریف کا حرف حرف کلام الہی ہے.اور جو یہ کلام الہی نہیں ہے تو میری بیوی پر طلاق ہے تو شرعاً اس کی بیوی پر طلاق وارد نہیں ہو سکتا.اور جو حدیث کی نسبت قسم کھالے اور کہے کہ لفظ لفظ حرف حرف حدیث کا وہی ہے جو رسول اللہ ان کے منہ سے نکلا ہے اگر نہیں ہے تو میری جورد پر طلاق ہے تو بے شک وشبہ اس کی بیوی پر طلاق پڑ جاوے گا یہ حضرت اقدس کی زبانی تقریر کا خلاصہ ہے اس بیان اور تقریر پر اور نیز اس پرچہ تحریری پر جو حضرت اقدس علیہ السلام سناتے تھے چاروں طرف سے واہ واہ کے اور سبحان اللہ کے نعرے بلند ہوتے تھے.اور یہاں تک ہوتا تھا کہ سوائے سعد اللہ اور مولوی صاحب کے ان کی طرف کے لوگ بھی سبحان اللہ بے اختیار بول اٹھتے تھے دو تین شخصوں نے کہا کہ ہمارا خیال تھا کہ مرزا صاحب جو زبانی بحث نہیں کرتے اور تحریری کرتے ہیں وہ تقریر نہیں کر سکتے.مگر آج معلوم ہوا کہ مرزا صاحب کو زبانی تقریر بھی اعلیٰ درجہ کی آتی ہے اور ملکہ تقریر کرنے کا بھی اول درجہ کا ہے اور آپ جو تحریر کو پسند کرتے ہیں اس لئے نہیں کہ آپ تقریر کرنے میں عاجز ہیں بلکہ اس واسطے کہ تحریر سے حق و باطل کا خوب فیصلہ ہو جاوے اور ر ایک پوری طرح احقاق حق اور ابطال باطل میں تمیز کرلے اور حاضر و غائب پر پورا پورا سچ اور جھوٹ کھل جاوے.مولوی صاحب اس پر خفا ہوتے اور کہتے

Page 164

تذكرة المهدي 162 کہ لوگو تم سننے کو آئے ہو یا واہ واہ اور سبحان اللہ کہنے کو آئے ہو اور جو دونوں طرف کی تحریریں ہیں وہ طبع ہو چکی ہیں ان کے لکھنے کی ضرورت نہیں ہے اس مباحثہ میں حضرت اقدس علیہ السلام نے حدیث اور قرآن شریف پر سیر کن بحث کی ہے اور آئندہ کے لئے تمام بحثوں کا خاتمہ کردیا ہے چھ سات روز تک یہ مباحث حضرت اقدس علیہ اسلام کے مکان پر ہوا اب مولوی صاحب نے پیر پھیلائے اور چاہا کہ کسی طرح سے پیچھا چھوٹے.بہانہ یہ بنایا کہ اتنے روز تو آپ کے مکان پر مباحثہ رہا اب میری جائے فرودگاہ یعنی مولوی محمد حسن غیر مقلد کے مکان پر مباحثہ ہونا چاہئے.حضرت اقدس علیہ السلام نے یہ بھی منظور فرمالیا اور باقی دنوں تک مولوی محمد حسن کے مکان پر مباحثہ رہا جب حضرت اقدس علیہ السلام وہاں تشریف لے جاتے تو میں حاضر ہو جاتا ورنہ مجھے بلوا لیتے اور جب تک میں حاضر نہ ہو لیتا تو آپ تشریف نہ لے جاتے آخر کار یہ ہوا کہ چالاکیاں تو مولوی محمد حسین نے بہت کیں مگر کوئی چالا کی نہ چلی لیکن ایک پرچہ پھر بھی چرالیا جس کا مباحثہ میں حوالہ دیا گیا.مولوی محمد حسن کے مکان پر دو چار ہی لوگ ہوتے تھے تیرہ روز تک یہ مباحثہ رہا اور لوگ بہت سے تنگ آگئے اور چاروں طرف سے خطوط آنے لگے.اور خاص کر لودھیانہ کے لوگوں نے غل مچایا کہ کہاں تک اصول موضوعہ میں مباحثہ رہے گا اصل مطلب جو وفات وحیات مسیح کا قرار پایا ہے وہ ہونا چاہئے خدا کرے ان اصول موضوعہ مولوی صاحب کا ستیا ناس ہو دے اور حضرت اقدس علیہ السلام نے بھی بار بار فرمایا کہ مباحثہ تو وفات وحیات مسیح میں ہونا ضروری ہے تاکہ سب مسائل کا یکدم فیصلہ ہو جاوے.........مگر مولوی صاحب اس اصل مسئلہ کی طرف نہ آئے پر نہ آئے مولوی صاحب کے پاس چونکہ دلائل حیات مسیح کے نہ تھے اس واسطہ اس بحث کو ٹالتے رہے شہر میں یہ چرچا ہوا کہ دو شخص بحث کر رہے ہیں ایک خود مذہب ایک لامذہب خود مذہب حضرت اقدس

Page 165

تذكرة المهدى 163 علیہ السلام کو کہتے تھے اور لامذ ہب مولوی محمد حسین کو کہتے تھے.ایک دن عباس علی نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت اس مولوی محمد حسین نے جو چوری کی ہے اس چوری کا حال بھی آپ جتلا دیں فرمایا ہاں ہاں موقعہ آنے دو.جتلا دیں گے اور وہ چوری یہ ہوئی کہ کتاب ازالہ اوہام جو امر تسر میں شیخ نور احمد صاحب کے اہتمام میں چھپتی تھی اس کا ایک پروف روزانه حضرت مولانا نور الدین صاحب کی خدمت میں جموں جایا کرتا تھا اور غزنویوں میں سے ایک حضرت مولانا کا داماد بھی تھا اس نے کچھ ورق ازالہ اوہام کے چرا کر مولوی محمد حسین کے پاس بھیج دیئے تھے جن کا حوالہ مولوی محمد حسین نے اپنے مباحثہ کے تحریری پرچہ میں دیا ہے.غزنوی مولوی ثم امرتسری کا یہ فتویٰ ہے کہ غیر مذہب والے کی چوری جائز ہے خواہ حنفی ہو یا شافعی یا وہابی یا شیعہ یا خارجی اور دیگر مذاہب کے ہاں چوری بالاوٹی جائز ہے اور اس میں کوئی گناہ نہیں ہے اور حضرت اقدس علیہ السلام اور آپ کی جماعت کو تو کافر ہی جانتے ہیں.اس واسطہ اس سرقہ کے مرتکب ہوئے.ایک دن حضرت خلیفتہ اصبح نے فرمایا تھا کہ ایک آدمی غزنویوں کا ہمارے پاس رہا کرتا تھا جب سودا منگواتے تو وہ دونی چونی ہر روز لے آتا.ہم نے ایک روز دریافت کیا کہ تو یہ کہان سے لے آتا ہے اس نے کہا کہ ہمارے مولویوں کا یہ فتویٰ ہے کہ سوائے اہل حدیث کے اور کوئی مسلمان نہیں ہے سب کی چوری کرو.اور ان کا مال حلال ہے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو.پھر مجھے یاد نہیں کہ اس کو حضرت خلیفتہ اسیح مدظلہ العالی نے اپنے پاس سے نکال دیا یا کیا کیا.ایک پشوری شخص حضرت اقدس علیہ السلام کا مرید ہوا اور وہ نانبائی تھا.لنگر میں روٹی پکایا کرتا تھا وہ کہا کرتا تھا کہ میں نے کتنے ہی حنفیوں کا مال چرا لیا.اسباب چرا لیا.روپیہ پیسہ چرالیا اور میں نے یہ فتویٰ امرتسری غزنویوں سے سنا تھا کہ چوری کرنی غیر مذہب والوں کی خواہ وہ حنفی ہوں مقلد ہوں یا کوئی ہوں جائز ہے.

Page 166

تذكرة المهدي 164 اول یہ چوری چوری نہیں ہوتی اب حضرت اقدس علیہ السلام سے بیعت کر کے تو بہ کی اور حضرت اقدس علیہ السلام کی تعلیم سے معلوم ہوا کہ کسی کی بھی چوری جائز نہیں ہے خواہ وہ ہندو ہو عیسائی ہو یہود ہو شافعی ہو.مقلد ہو وہابی ہو موحد ہو.وہ اپنے واقعات سرقہ کے بہت سنایا کرتا تھا اور پھر روتا اور خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا یہ ہے ان مولویوں کی مولویت اور علم و عمل اور فتوی.یہ آیت ان ہی لوگوں اور ایسے ہی لوگوں کے واسطے ہے فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَبَ بِأَيْدِيْهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا - قَلِيْلاً فَوَيْلٌ لَّهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِّمَّا يَكْسِبُونَ قاعدہ کی بات ہے کہ جب دنیا میں عالم فاضل اور خاص عام بگڑ جاتے ہیں اور اپنے نزدیک وہ ملائکہ اللہ بنے ہوئے ہوتے ہیں لیکن خدا کی نظر میں وہ ابلیس ہو جاتے ہیں تو خدا تعالیٰ اپنا مامورو مرسل بھیج کر انکی تلبیس کھولتا ہے تب وہ چیختے چلاتے ہیں اور فریاد و شور کرتے ہیں اور مصلح کو مفسد اور صادق کو کاذب اور نامور مرسل کو مفتری کہنے لگتے ہیں.غرض جب تیرہواں روز مباحثہ کا ہوا تو عیسائی مسلمان ہندو وغیرہ کا بہت ہجوم ہو گیا میں نواب صاحب مرحوم موصوف کی کوٹھی پر تھا اور روانگی کا ارادہ کر رہا تھا.حضرت اقدس معہ مولوی عبد ا کریم صاحب مرحوم اور خشی غلام قادر صاحب فصیح اور قاضی خواجہ علی صاحب اور الہ دین صاحب واعظ و غیر هم مولوی محمد حسن کے مکان پر تشریف لے گئے اور میرے پاس مولوی نظام الدین مرحوم اور مولوی عبداللہ مجد مرحوم کو بھیجا کہ جلد صاحبزادہ سراج الحق صاحب کو لے آؤ پس میں چلا اور مکان کا دروازہ مولوی محمد حسن نے باشارہ مولوی محمد حسین بند کرا دیا تھا کہ آدمی مرزا صاحب وغیرہ کا مضمون سننے کے لئے نہ آوے.چونکہ مضمون میرے پاس تھا اور رات بھر میں میں نے اصل سے نقل دینے کے واسطے کرلی تھی اس واسطے اور بھی حضرت اقدس کو میرا انتظار ہوا جب میں آیا تو

Page 167

تذكرة المهدي 165 دروازه بند پایا اور دروزہ پر اور سینکڑوں آدمی تھے بمشکل تمام درازه مولوی نظام الدین صاحب مرحوم نے کھلوایا میرے ساتھ سب آدمی اندر گھس گئے اور مولوی محمد حسن اور مولوی محمد حسین کا چہرہ زرد ہو گیا.مجھے مولوی محمد حسن نے کہا کہ تم کیوں آگئے میں نے کہا ہم کیسے نہ آویں مباحثہ تو گویا ہمارے ساتھ ہے اور کاتب مباحثہ میں ہوں حضرت اقدس علیہ السلام نے مضمون سنانے سے پہلے فرمایا که مولوی صاحب اب یہ مباحثہ طول پکڑ گیا ہے اس کی اب کوئی ضرورت نہیں ہے اصل مطلب وفات وحیات مسیح علیہ السلام میں بحث ہونی مناسب ہے مگر مولوی صاحب کب ماننے والے تھے ان کے ہاتھ میں حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات میں کیا دھرا تھا جب حضرت اقدس علیہ السلام نے پرچہ سنانا شروع کیا تو مولوی صاحب کا چہرہ سیاہ پڑ گیا اور ایسی گھبراہٹ ہوئی اور اس قدر ہوش و حواس باختہ ہوئے کہ نوٹ کرنے کے لئے جب قلم اٹھایا تو زمین پر قلم مارنے لگے دوات جوں کی توں رکھی رہ گئی اور قلم چند بار زمین پر مارنے سے ٹوٹ گیا اور جب یہ حدیث آئی کہ بخاری میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو حدیث میری معارض قرآن ہو وہ چھوڑ دی جائے اور قرآن کو لے لیا جائے اس پر مولوی محمد حسین کو نہایت غصہ آیا اور کہا یہ حدیث بخاری میں نہیں ہے.اور جو یہ حدیث بخاری میں ہو تو میری دونوں بیویوں پر طلاق ہے اس طلاق کے لفظ سے تمام لوگ ہنس پڑے اور مولوی صاحب کو مارے شرم کے کچھ نہ بن پڑا اور بعد میں کئی روز تک لوگوں سے مولوی صاحب کہتے رہے کہ نہیں نہیں میری دونوں بیویوں پر طلاق نہیں ہوا اور نہ میں نے طلاق کا نام لیا ہے اب جو دس ہیں سو دو سو کو خبر تھی تو مولوی صاحب نے ہزاروں کو خبر دیدی مولوی صاحب پر غضب اور مغلوب الغضب تو تھے ہی غصہ میں خدا جانے کیا کیا زبان سے نکلا.عباس علی کا ارتداد مباحثہ تو ختم ہو گیا اور مولوی صاحب کا غصہ اور بھی بھڑک گیا عباس علی مباحثہ کے ایام میں مولوی

Page 168

تذكرة المهدي 166 محمد حسین کے مکان پر جانے لگے اور جانے کی یہ ضرورت ہوئی کہ ایام مباحثہ میں جو پرچہ مولوی محمد حسین کا نقل کے بعد منگوایا جاتا تو عباس علی کو بھیجا جاتا.پس یہ جانا عباس علی کا غضب ہو گیا اور یہ پھنس گیا مولوی محمد حسین اور محمد حسن ان کو کھانا کھلانے لگے اور جب یہ جاتے تو سر وقد تعظیم کو کھڑے ہو جاتے اور کہتے میر عباس علی صاحب تم تو سید ہو آل رسول ہو تمہارا تو وہ مرتبہ ہے کہ لوگ تم سے بیعت ہوں اور تم افسوس مرزا کے مرید ہو گئے جو دین سے پھر گیا بر گشتہ ہو گیا امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا.امام مہدی تو سیدوں میں سے ہو گا.یہ مغل چغل کہاں سے بن گیا نعوذ باللہ منہا.اور یہ دونوں مولوی عباس علی کے ہاتھ چومتے اور دو ایک روپیہ بھی نذرانہ کا دیتے اور کہتے کہ تمہاری شان اعلیٰ وارفع وہ ہے کہ تم درود میں شریک ہو اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وسلم تم اس رتبہ کے آدمی ہو کر افسوس کہاں اور کس مرتد کے مرید ہو گئے عباس علی تھے کہ پھول کے کیا ہو گئے اور ان کے اعتقاد میں تزلزل واقع ہو گیا سید تو تھے نہیں خوامخواہ سید بن گئے تھے اب تو ان دونوں دابتہ الارض مولویوں نے سید ہونے پر مہر لگادی.ایک روز یہ مخالف ہو کر حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں آئے اور کہا کہ میں تو تمہارا مرید ہو کر شرمندہ ہوا.اور تم نے ایسا دعویٰ کر لیا کہ جس سے ہم کو شرمندہ ہونا پڑتا ہے حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ میر صاحب میں نے جھوٹا دعوئی نہیں کیا.اللہ تعالیٰ میری بات پر گواہ ہے کہ خدا تعالٰی نے مجھ کو مسیح موعود اور مہدی موعود کہا اور بنایا اور میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اور قسم کھا کر کہ اس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہتا ہوں کہ میں خدا کی طرف سے ہوں اور سچا ہوں اور راست گو ہوں کیا اتنے روز سے تم نے میرا کوئی جھوٹ سنایا مجھ کو جھوٹ بولتے دیکھایا میں نے کوئی افترا کیا یا کوئی منصوبہ باندھا میں مسیح موعود ہوں اور مہدی موعود ہوں.اس تقریر کو سن کر خلیفتہ المسیح مولانا نور

Page 169

تذكرة المهدى 167 حصہ الدین سلمہ اللہ تعالی کو ایسا وجد ہوا کہ وجد کی حالت میں کھڑے ہو گئے.اور ایک چکر لگایا لیکن اس بد قسمت ترش رو عباس علی نے انکار ہی کیا اور حضرت اقدس علیہ السلام نے بڑی مدلل اور مبسوط تقریر فرما کر سمجھایا جب مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے دیکھا کہ حضرت اقدس علیہ السلام اس قدر شفقت سے سمجھاتے تھے اور اپنے صدق پر اللہ تعالیٰ کو گواہ کرتے ہیں اور قسم کھاتے ہیں تو انہوں نے اٹھ کر کہا کہ بس حضرت جانے دیجئے یہ مردود ہو چکا.پھر عباس علی کو بڑے غصہ سے کہا کہ اوگستاخ را ئیں بچے تیری یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالی کا مرسل اور مامور اور مسیح تو محبت سے بولتا ہے اور تیری گستاخی بڑھتی ہے چل بد معاش اور نکل بہت تیری ایسی تیسی کریں.بہت سرچڑھ گیا ہے محمد حسن و محمد حسین ہی دابتہ الارض تیرے ہاتھ چومیں گے اور رائیں بچہ کو سید بنادیں گے بس عباس علی تو اس دھمکی سے کافور ہو گیا.اور اٹھ کر چلدیا اور حضرت اقدس علیہ السلام خاموش ہو گئے پھر عباس علی روز بروز قسی القلب ہو تا گیا.یہاں تک کہ اس نے مخالفت کا اشتہار دیا اور ذلت کی موت سے مرا اور ایسا ہی مولوی شاہدین مجنون اور محتل الحواس ہو کر مرا.اور وہ تینوں مولوی ذی ثلث شعب بھی بری حالت میں اور مقدمات میں گرفتار ہو کر ذلت کی موت سے مرے ان پر مقدمات قائم ہوئے اور گرفتار ہوئے یہ ہے ذلت جو خدا کے مرسل کے ساتھ مخالفت کرنے سے ہوا کرتی ہے اور ادھر حضرت اقدس علیہ السلام کی دن دونی رات چوگنی عزت و حرمت بڑھتی رہی روز بروز جماعت بڑھتی گئی وَ اللَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ ایک روز مولوی محمد حسین نے جب عباس علی پر قابو پالیا اور وہ مذبذب گیا.میری طرف بھی متوجہ ہوئے یہاں تو اِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ مسلطان کانوں میں پڑی ہوئی تھی کہ فرمودہ الہی صادق ہے مجھے کہلا کر بھیجا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب مجھے آپ کی خدمت میں کچھ علیحدہ تخلیہ میں عرض کرنا

Page 170

تذكرة المهدي 168 ہے مہربانی فرما کر تخلیہ کا وقت بتلادیں تاکہ میں خدمت شریف میں حاضر ہوں اور جو آپ تشریف لاویں تو ہماری کہاں ایسی قسمت کہ آپ جیسے بزرگ اور بزرگ زادہ کے قدم مبارک آدیں ابھی تک مجھے عباس علی کے حال سے اطلاع نہیں تھی میں نے کہلا کر جواب میں بھیجا کہ مولوی صاحب علیحدہ تخلیہ میں ملنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے جیسے اور لوگ آتے ہیں آپ بھی آدیں اور تخلیہ میں بات چیت کریں میں موجود ہوں اور مجھے ہر وقت فرصت ہے.اور یہ مکان تو نواب علی محمد صاحب کا مکان ہے یہاں کسی کی بندی نہیں ہے یہ جواب میرا سن کر مولوی صاحب خاموش ہو گئے.اور کچھ صدائے برنخاست کا مضمون ہوا اور إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانُ سچ ہوا.ہاں یہ بات قابل نوشت اور ناظرین کی دلچسپی کے لئے ضروری ہے کہ جس روز مولوی محمد حسین صاحب معہ اپنے خدم و حشم کے حضرت اقدس علیہ السلام کے دعوئی رسالت پر بحث کے لئے آئے تو میں نے کبھی مولوی صاحب کو نہیں دیکھا تھا میری زبان سے زور سے اللہ اکبر کا نعرہ دو تین بار بلند ہوا مولوی عبد الکریم صاحب اور منشی غلام قادر صاحب فصیح نے دریافت کیا کہ یہ نعرہ اللہ اکبر اس وقت کیسا کیا بات دیکھی اور حضرت اقدس علیہ السلام نے بھی حیرت زدہ ہے ہو کر دریافت کیا تب میں نے کہا کہ میرا رویا میرا کشف آج خدا تعالٰی نے پورا کر کے دکھلا دیا ان سب نے پوچھا وہ کیا کشف و رویا تھا پھر وہ کشف میں نے بیان کیا اگر چہ وہ کشف مختصر ازالہ اوہام میں حضرت اقدس علیہ السلام نے میرے نام کے ساتھ ارقام فرمایا ہے اور میں نے بھی ایک رسالہ میں جس کا نام (کشف صحیح بتصديق مثیل مسیح) ہے لکھدیا ہے اور چھپ گیا ہے لیکن وہ رسالہ اب نہیں ہما ہے ایک بار ہی چھپا ہے اس لئے اب دوبارہ بوضاحت تمام پھر لکھ دیتا ہوں.تاکہ ناظرین کی دلچسپی کا زیادہ باعث ہو اور بعض کی ہدایت کا سبب ہو اور تاکہ یہ بھی معلوم ہو جاوے کہ میں حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت مبارک میں کیونکر

Page 171

تذكرة المهدي حاضر ہوا اور وہ یہ ہے.169 اپنی سابقہ حالت کا نقشہ مجھے بچپن سے قرآن شریف کے پڑھنے کا بہت شوق تھا یہاں تک کہ ایک پارہ روز کی بجائے ایک منزل ہر روز پڑھتا تھا پھر ایک مدت کے بعد ایک قرآن شریف ہر روز کئی سال تک پڑھا اور ساتھ ہی نماز اشراق اور چاشت اور زوال اور اوابین اور تجد بھی پڑھتا تھا.پھر ایک دفعہ شوق وظائف جو ہوا تو کئی مہینے تک سوالاکھ بار ہر روز یا و باب پڑھا اور کئی مہینے تک اللهُ الصَّمَدُ سوا لاکھ بار پڑھتا رہا پھر ایک بار ایک سال تک اسم ذات یا اللہ تین لاکھ ساٹھ ہزار بار پڑھتا رہا ایک دفعہ ایک سو دن تک ہر روز لا اله الا انت سُبْحَنَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ.پنتالیس ہزار بار روز پڑھتا رہا جن دنوں میں یہ پڑھا کرتا تھا ایک درویش ولایتی بھی وہاں رہتے تھے وہ مجھے دیکھ کر ہنستے اور کہتے شمار میکنی اسم باری تعالٰی نمی خوانی یک بار بخوان و از دل بخوان ایک دفعہ میں بارہ ہزار مرتبہ یا بدیع الْعَجَائِبِ بِالْخَيْرِ يَا بَدِيعُ پڑھتا تھا پھر مہینوں اللہ ھو کی ہیں میں ہزار بار ضر میں لگاتا اور لا الہ الا اللہ کی بھی بارہ بارہ ہزار ضربیں لگاتا اور درویشوں فقیروں علما کی صحبت میں بھی بہت جاتا.ایک دفعہ میں نے ارادہ کیا کہ صلواۃ المعکوس ھنی چاہئے.اور سنا تھا کہ حضرت شیخ فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ نے باره برس تک کنویں میں الٹے لٹک کر پڑھی ہے لیکن اتفاق سے کتاب سیرة الاولیاء جو حضرت شیخ نظام الدین محبوب الہی رحمتہ اللہ علیہ کے ملفوظات میں ہے مل گئی.اس کو میں نے اول سے آخر تک پڑھا تو ایک مقام پر یہ لکھا ہوا دیکھا کہ حضرت فرید الدین گنج شکر نے اپنے پیر حضرت قطب الدین بختیار کاکی دہلوی سے عرض کیا کہ مجھے صلوٰۃ المعکوس پڑھنے کی اجازت مل جائے انہوں نے فرمایا کہ فرید الدین اس میں کیا دھرا ہے.آخر کار بار بار کے عرض کرنے سے اجازت دیدی تو انہوں نے ایک چلہ تک معکوس نماز پڑھی اور دو چار منٹ کے لئے الٹے

Page 172

تذكرة المهدي 170 کنویں میں لٹکتے جب چلہ ہو چکا تو کوئی فائدہ اور نتیجہ بہتر مترتب نہ ہوا شیخ فرید الدین بہت پچھتائے اور تمام عمر افسوس کرتے رہے کہ پیر کے خلاف بھی ہوا اور کوئی فائدہ حاصل نہ ہوا اس روایت کو میں نے دیکھ کر اس کا ارادہ ترک کر دیا اور پھر معلوم ہوا کہ خدا نے تو ہمیں سیدھا پیدا کیا اور ہم الٹے ہو کر نماز پڑہیں.اور قرآن شریف کی یہ آیت بھی ایک روز تلاوت کرتے ہوئے نکل آئی أَفَمَنْ يَمْشِي مُكِلًّا عَلَى وَجْهَةٍ اَهْدَى أَمَّنْ يَمْشِي سَوِيًّا عَلَى صِرَاطٍ یعنی کیا وہ شخص کہ جو الٹا منہ کے بل چلتا ہے ہدایت پر ہے یا وہ شخص کہ جو سیدھا صراط مستقیم پر چلتا ہے غرض میں بھی اکثر جاتا کہ شاید یہیں کوئی با خدا اہل دل مل جاوے چونکہ ہمارے ہاں حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ سے لیکر نسلاً بعد نسل در دیشی اور پیری و مریدی بلا انفصال چلی آتی ہے مگر میں کبھی خاندانی فخر اور تکبر میں گرفتار نہیں ہوا لیکن کلام مجید کا ورد بھی اس میں رہا اور یہ ترک نہیں ہوا اور پھر ترجمہ بھی لکھا ہوا پڑھتا تھا.اور کچھ کچھ زبانی بھی یاد کرتا تھا فاری بھی کچھ پڑھی لیکن گلستان بوستاں تک یا کریما وغیرہ چھوٹی کتابیں الا مجاہدوں کی طرف بہت رغبت تھی اور بہت سے چلے گئے لیکن یہ ضرور ہے کہ اسماء الہی پڑھتا بزرگوں کے نام جیسے صوفی پڑھتے ہیں چنانچہ یا شیخ عبد القادر جیلانی شیئا اللہ نہیں پڑھے اور جو کبھی پڑھنے کی رغبت بھی ہوئی تو خود بخود غیب سے کوئی روک پڑگئی.سورہ الم ترکیف بھی بارہ ہزار بار روز پڑھتا تھا.دریاؤں پر بیٹھ کر چلے گئے.اور جنگلوں میں اور خانقاہوں میں چلے گئے لیکن نماز کا سب سے زیادہ التزام رہا اور کتابوں میں وعظوں میں یہ دیکھ کر اور سنکر کہ حضرت امام مہدی پیدا ہوں گے اور عیسی علیہ السلام آسمان سے نازل ہونگے نہایت شوق تھا.اور خدا سے دعائیں کرتا کہ الہی ہمارے زمانہ میں بھی امام مہدی اور حضرت عیسی ہونگے اور ہمیں بھی کبھی زیارت ہوگی.پھر خیال آتا کہ امام مهدی و عیسی کہاں اور ہم کہاں پھر خیال ہو تا کہ اگر ٹیسٹی ہوئے بھی تو ہم جیسوں کو زیارت کب

Page 173

تذكرة المهدى 171 نصیب ہوگی وہاں تو عالم فاضل غوث قطب ابدال - امیر کبیر بادشاہ نواب تمام دنیا کے جمع ہونگے تیرے جیسوں کی رسائی اس دربار میں کب ہو سکے گی پھر میں نے درخت پر چڑھنے کی مشق کی کہ اگر حضرت امام مہدی اور عیسی علیہ السلام ہمارے زمانہ میں ہو بھی جاویں اور ان کے دربار میں باریابی نہ ہو تو وہ لڑائی کو جنگ کو یا کوئی اور صورت سے سواری نکلے گی تو درخت پر بیٹھ کر ہی زیارت کرلیں گے پھر دعا میں کرتا اور رو رو کر دعائیں کرتا کہ الہی ان کی زیارت نصیب ہو جوانی میں ہو ضعیفی میں ہو خواہ کسی طرح سے ہو ایک دفعہ میرے دوست ولی محمد سر سادی نے ایک قصیدہ شاہ نعمت اللہ ولی کا پرانا بوسیدہ کرم خوردہ لا کر دیا اور کہا کہ تم کو بڑا شوق ہے کہ حضرت امام مہدی کی زیارت ہو سو تم کو مبارک ہو اس قصیدہ کے حساب سے معلوم ہوتا ہے کہ امام مہدی پیدا ہو لئے مجھے یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی اور ہر روز اس قصیدہ کو پڑھتا اور چومتا کبھی اس کو پڑھتا اور کبھی اور کتابوں کے موافق زمانہ کے حالات خراب پر نظر ڈالتا تو معلوم ہوتا کہ ضرور یہ زمانه امام مہدی و مسیح کا ہے پھر جو دل میں سماتا کہ لاکھوں آدمیوں میں حضرت امام مہدی کی زیارت کیسے نصیب ہوگی تو اس نا امیدی سے چیخ مار کر رو دیا کرتا تھا.میرے دیکھا دیکھی ہمارے جدی بھائیوں سے برکت علی بھی وظیفے پڑہنے لگا اس کو خواب میں ممانعت ہو جاتی لیکن بخلاف اس کے مجھے بڑی عجیب عجیب رویا ہوتی اور کشف بہت ہو تا فرشتوں ولیوں اور نبیوں کی زیارت خواب میں ہوتی اور بعض باتیں آئندہ کی کسی کے متعلق موت و زندگی کی معلوم ہو جاتی تھیں اور وہ کشف اور وہ اخبار صحیح ہوتے دعا ئیں بہت قبول ہوتی تھیں تسخیر خلق اس قدر وتی کہ میں ملاقات سے گھبرا جاتا ایک بار میں نے دو سال تک گوشت نہیں کھایا اور قسم قسم کے وظیفے پڑھے سفر میں بھی روزے رکھتا اگر چہ یہ وظائف اور او راد بدعت تھے چونکہ بے خبری تھی اور خدا تعالیٰ کسی کی محنت و مشقت کو ضائع نہیں کرتا اس لئے مجھے ضائع نہیں کیا کیونکہ حضرت امام مهدی و مسیح علیه السلام

Page 174

تذكرة المهدي 172 کی خدمت کے لئے مجھے چن رکھا تھا اور اسی لئے پیدا کیا تھا.اور میرا نام بھی میرے والد نے نصیر الدین رکھا تھا پھر سراج الحق رکھ دیا اور صغرسنی میں میرے والد مجھے جنگلوں میں لے جاتے.اور مجاہدے کراتے اور بارہا فرماتے کہ سراج الحق تیری قسمت میں ایک ایسی نعمت ہے کہ جو ہمیں نصیب نہیں ہوگی اور ہم اس سے محروم رہیں گے وہ اپنے نور فراست سے دیکھتے تھے کہ امام وقت کا زمانہ اس کو نصیب ہو گا.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ اِتَّقُوا مِنَ فِرَاسَتِ الْمُؤْمِنِ فَانَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللهِ یعنی مومن کی فراست سے ڈرنا چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نور کی خوردبین سے دیکھتا ہے پس ایک دفعہ میں بمقام جیند آیا اور درود شریف اور استغفار میں مشغول رہا یہ زمانہ ۹۶ ہجری کا زمانہ تھا.مسیح ایک روز بعد نماز عشاء مجھے کشفی حالت کشف صحیح بتصدیق مسیح طاری ہوئی اور میں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ ایک مکان کے اندر سے ہندو اور عیسائی اور مسلمان آتے ہیں اور میں مسجد میں وضو کر رہا ہوں.میں نے ان لوگوں سے جو ہندو تھے دریافت کیا کہ تم کہاں سے آرہے ہو.انہوں نے کہا کہ ہم رسول مقبول اللہ کی خدمت میں گئے تھے وہاں سے آرہے ہیں پھر میں نے یہ سوچا کہ مسلمانوں سے کیا دریافت کرنا یہ تو مانتے ہی ہیں ہندوؤں اور عیسائیوں سے آپ کی تعریف پو چھنی چاہئے پس میں نے ان سے پوچھا کہ تم نے حضرت رسول کریم اے کو کیسا پایا تو انہوں نے کہا سبحان اللہ جیسا سنتے تھے ویسا ہی پاک اور مقدس رسول پایا تب میں بھی اٹھ کر اسی طرف چلدیا اور مکان کے اندر گیا دیکھا تو آنحضرت ا تشریف رکھتے ہیں اور آپ کے سامنے فرش پر کچھ لوگ بڑے بڑے عمامہ والے پنجابی شکل و لباس کے آدمی بیٹھے ہیں اور سامنے رسول اللہ ﷺ کے ایک شخص سفید پوش بیٹھا ہے اور آپ کے بائیں جانب ایک شخص برہنہ بدن برہنہ سر کانوں تک بال چیچک رو برہنہ پا صرف ایک میلا سا تھ باندھے بیٹھا ہے اور آنحضرت الیا کو

Page 175

تذكرة المهدي 173 پشت دیکر بیٹھا ہے اور آنحضرت اللہ کے بھی سفید کپڑے ہیں اور چادر سفید اوڑھے ہوئے چار زانوں تشریف رکھتے ہیں آنکھوں میں سرمہ ہے......مگر فرش پر تکلف نہیں ہے پس میں وہاں جا کر سب کے پیچھے ادب سے بیٹھ گیا اور یہ دل میں خیال آیا کہ یہ مجلس مبارک آنحضرت ا کی ہے.جہاں جگہ ملے وہیں پر بیٹھنا چاہتے پس میں وہیں بیٹھ گیا ان دنوں میری اور محمد یوسف جیندی اور نیم حاجی عبداللہ کی بحث رہا کرتی تھی ان کو مجھ سے عداوت تھی کیونکہ تمام شہر کے بڑے بڑے لوگ مجھ سے مرید تھے جیسے قاضی صاحبوں کا خاندان جو عثمانی ہے اور یہ خاندان قدیم سے ہمارے خاندان کا مرید ہے ہمارے بزرگوں کے ہاتھ کے لکھے ہوئے فرمان کا غذات ان کے یہاں موجود ہیں کیونکہ ہمارے جد اعلیٰ حضرت قطب الاقطاب قطب جمال الدین ہانسوی رحمتہ اللہ بادشاہی وقت میں عہدہ قضا پر مامور تھے.اور جو کہیں قاضی ہو تا تھاوہ آپ کی رائے اور تحریر پر قاضی ہو تا تھا اور سوا اس کے حضرت شیخ الاسلام بابا فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ جن کے بھائی ولی کامل کی اولاد سے حضرت مولانا د اولنا نور الدین خلیفتہ المسیح ہیں ان کا دستور تھا کہ جب کسی کو خلافت دیتے تو فرماتے کہ مولانا جمال الدین احمد کی خدمت میں جاؤ اگر وہ خلافت منظور کر لیں تو درست ورنہ نہیں سو ایسا ہی ہوتا رہا کہ جس کی خلافت حضرت قطب جمال الدین منظور کر لیتے حضرت بابا صاحب بھی منظور فرمالیتے اور جو قطب صاحب نامنظور کرتے تو بابا صاحب بھی نا منظور کرتے اور اہے کہ بعض کے خلافت نامے قطب صاحب نے منظور نہیں کئے اور پھاڑ ڈالے اور انہوں نے حضرت بابا صاحب کی خدمت میں عرض کیا تو بابا صاحب نے فرمایا که دریدہ جمال را فرید نتواند دوخت اور پھر اس کو خلافت نہیں ملی چنانچہ جن کے خلافت نامے قطب صاحب نے چاک کئے ان کے یہ نام ہیں نظام الدین اور شیخ صابر یہ سب حال میر الاولیاء سبع سنابل اقتباس الانوار چشتیه بهشتیه آئین اکبری تاریخ فرشتہ وغیرہ میں لکھا ہے.لکھا.

Page 176

في تذكرة المهدى 174 عظم اب مجھے خلیفتہ المسیح کی بارگاہ میں کئی قسم کا مناقب نور الدین اح شرف ہے ایک تو یہ کہ آپ ہمارے مرشدوں کی اولاد سے ہیں اور دوسرا اس سے زیادہ شرف یہ کہ آپ حضرت اقدس مسیح موعود مهدی محمود امام زمان عالی جناب مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوة والسلام الی یوم القیام کے خلیفہ اور جانشین ہیں اور ایک یہ شرف کہ حضرت اقدس علیہ السلام بار بار مجھے فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب کی تفسیر قرآن آسمانی تفسیر ہے صاجزادہ صاحب ان سے قرآن پڑھا کرو اور ان کے درس قرآن میں بہت بیٹھا کرو اور سنا کرو اگر تم نے دو تین سیپارہ بھی حضرت مولوی صاحب سے سنے یا پڑھے تو تم کو قرآن شریف سمجھنے کا مادہ اور تفسیر کرنے کا ملکہ ہو جاوے گا یہ بات مجھ سے حضرت اقدس علیہ السلام نے شاید پچاس مرتبہ کسی ہوگی اور در حقیقت میں اسرار قرآنی اور تفسیر کلام رحمانی سے نا آشنا اور ناواقف تھا پس میں حضرت اقدس علیہ السلام کے فرمانے سے درس میں بیٹھنے لگا اور قرآن شریف سننے لگا اور پھر ایک لطف ایسا آنے لگا کہ جس کا بیان میری خیز تحریر سے باہر ہے اور آپ کی بھی برکت سے مجھے قرآن شریف کی تقسیم ہوتی گئی اور خود حضرت اقدس علیہ السلام بھی مجھے پڑھایا کرتے تھے اور مطالب قرآن شریف سمجھایا کرتے تھے اور ایک شرف مجھے آپ سے یہ ہے کہ میں نے بخاری شریف کا کچھ حصہ آپ سے پڑھا ہے اور تھوڑے سے حصہ میں حضرت میرناصر نواب صاحب مدظلہ العالی بھی میرے شریک اور ہم سبق رہے در حقیقت قرآن شریف اور بخاری شریف کے سمجھنے کا حق بعد حضرت اقدس علیہ السلام نور الدین ہی کا ہے جس کا نام ہی نور دین ہو وہ نور قرآن سے حصہ نہ لے تو اور کون لے حضرت خلیفتہ المسیح کو قرآن شریف کا یہاں تک عشق و محبت ہے کہ کوئی وقت آپ کا قرآن شریف سے خالی نہیں ہے اور اندر زنانہ مکان میں جابجا قرآن شریف رکھے ہوئے ہیں تاکہ دیکھنے میں دیر نہ لگے اور سستی

Page 177

تذكرة المهدي 175 د کسل برپا نہ ہو.جہاں ہوں وہیں قرآن شریف دیکھ لیں ایک دفعہ آپ فرماتے تھے کہ خدا تعالی جو مجھے بہشت میں اور حشر میں نعمتیں دے تو میں سب سے پہلے قرآن شریف مانگوں اور طلب کروں تاکہ حشر کے میدان میں بھی اور بہشت میں بھی قرآن شریف پڑھوں پڑھاؤں سناؤں.میں پیر زادہ ہوں صاحبزادہ ہوں صاحبزادوں میں اکثر تکبر اور غرور پیر زادگی بہت ہوا کرتی ہے اور حضرت اقدس علیہ السلام اس کو محسوس کر لیتے تھے حضرت خلیفتہ المسیح ہے بعض اوقات جو پیر زادگی کا خیال آجاتا تو مروڑ سے ہی رہتا.اور حضرت خلیفتہ المسیح مجھ پر مہربانی فرماتے رہتے اور کبھی بھی اپنی زبان سے از روئے الطاف مربیانہ کچھ نہ فرماتے اور تعظیم و تکریم ہی کرتے رہتے اور حضرت اقدس علیہ السلام جو آپ کی تعظیم و تکریم و توقیر کرتے تو لامحالہ مجھے بھی کرنی پڑتی اور دل سے آپ جانتے کہ یہ صاحب زادہ ہے اس کو قرآن شریف سے خبر نہیں ہے اور در حقیقت مجھے کچھ بھی اس وقت تک خبر نہیں تھی اور کبھی کبھی زبان - فرما دیتے کہ آئیے ذرا ہمارے درس میں بھی بیٹھا کیجئے اور خود حضرت خلیفتہ المسیح سلمہ اللہ تعالیٰ میری جگہ پر مجھ جیسے گنہگار کے پاس تشریف لے آیا کرتے تھے اور بعض وقت جو میں اپنی نشست گاہ پر اشعار عاشقانہ خوش الحانی سے پڑھتا اور چپ ہو جاتا تو فرماتے کہ پیر صاحب اور پڑھئے ہم تو آپ کے پڑھنے کے مشتاق ہی رہ گئے ہمیں اشتیاق میں چھوڑ کے چپ ہو گئے ایک روز میں مسجد مبارک سے زینہ کی راہ سے اترتا تھا اور کچھ عاشقانہ اشعار خوش الحانی سے پڑھتا تھا اور حضرت خلیفتہ المسیح زینہ کے نیچے کھڑے سن رہے تھے جب میں آپ کو دیکھ کر خاموش ہو گیا تو فرمایا پیر صاحب کیوں چپ ہو گئے ہمیں تو وجد ہی آگیا تھا.حضرت اقدس علیہ السلام بھی کبھی بیمار ہو جاتے تھے یا لکھتے لکھتے تھک جاتے تو فرماتے کہ صاحبزادہ صاحب کو بلاؤ ان سے کوئی غزل سنیں گے اور میں سنا دیتا تو آپ کو تکلیف میں تسکین ہو جاتی ایک روز فرمانے لگے کہ صاحبزادہ صاحب کوئی

Page 178

تذكرة المهدى 176 غزل سناؤ کہ تمہاری آواز بہت پیاری معلوم ہوتی ہے ہم میں بھی چشتیت ہے ایک روز جہاں چھاپہ خانہ ضیاء الاسلام ہے رہاں رہتا تھا اور میرے گھر کے آدمی سر سادہ تھے صرف میں اکیلا تھا حضرت اقدس علیہ السلام کے سر میں درد شدت سے تھا وہاں حضرت اقدس علیہ السلام میرے پاس آکر لیٹ گئے اور فرمایا ہماری پنڈلیاں دباؤ میں دبانے لگا پھر فرمایا صاحب زادہ صاحب کوئی غزل پڑھو میں نے یہ غزل نظیر کی خوش الحانی سے سنائی.فرمایا قوالی طرز میں پڑھو پھر میں نے پڑھی.غزل کیا کہیں دنیا میں ہم انسان یا حیوان تھے خاک تھے کیا تھے غرض اک اُن کے مہمان تھے غیر کی چیزیں دبا رکھنی بڑی سمجھے تھے عقل چھین لی جب اسنے تب جانا کہ ہم نادان تھے ایک دن ایک استخواں پر پڑ گیا جو میرا پیر کیا کہوں اسلام مجھے غفلت میں کیا کیا دھیان تھے پیر پڑتے ہی غرض اس استخواں نے آہ کی اور کہا ہم بھی کبھی دنیا میں صاحب جان تھے دست و پا کام و زباں گردن شکم پشت و کمر دیکھنے کو آنکھیں اور سننے کی خاطر کان تھے رات کے سونے کو کیا کیا نرم و نازک تھے پلنگ بیٹھنے کو دن کے کیا کیا تخت اور ایوان تھے لگ رہے تھے دل کئی چنچل پری زادوں کے ساتھ کچھ نکالی تھی ہوس کچھ اور بھی ارمان تھے ایک ہی تھپڑ اجل نے آنکر ایسا دیا پھر نہ ہم تھے اور نہ وہ سب عیش کے سامان تھے ایسی بیدردی سے مجھ پر پاؤں مت رکھو نظیر او میاں ہم بھی کبھی تیری طرح انسان تھے جب میں اس مصرعہ پر کچھ نکالی تھی ہوس الخ پہونچا فرمایا پھر کہو پھر پڑھا پھر فرمایا پھر پڑھو پھر فرمایا یہ مصرعہ بہت اچھا ہے اور یہی مصرعہ اس منزل کی جان ہے تمام غزل سننے کے بعد آپ تشریف لے گئے.ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مولانا نور الدین کی شکل

Page 179

تذكرة المهدى 177 حضرت اقدس کی ہو گئی ہے یہ خواب میں نے حضرت اقدس علیہ السلام کو سنایا فرمایا مولوی صاحب واقعی عقیدت وارادت میں یکتا ہیں اور ہم میں فنا ہیں.اور ایسا ہی ہونا چاہئے صاحبزادہ صاحب مولوی صاحب کی پیروی اور اتباع کرد مولوی صاحب اس لائق ہیں جی چاہتا ہے کہ نور الدین جیسی صلاحیت تقویٰ سب میں ہو.ایک روز حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ آنحضرت نے فرمایا کہ خوش الحان اور خوش آواز پر اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوتی ہے.فونوگراف سے تبلیغ تبلیغ ایک دفعہ حضرت اقدس علیہ السلام نے جو فونوگراف جناب نواب محمد علی خان صاحب نے منگوایا تھا فرمایا ہمارے پاس بھی لاؤ ہم بھی سنیں گے پھر نواب صاحب لائے اور آپ بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ یہ آلہ بھی خدا نے ہمارے لئے اور ہمارے مقاصد کے پورا کرنے کے لئے ایجاد کرایا ہے اس میں ہم آواز اپنی بھر کر دو آدمیون کو غیر بلاد میں بھیجیں گے تاکہ تبلیغ احکام الہی پوری ہو جائے اس کے ذریعہ سے ہر ایک سن لے گا.اور یوں وعظوں کی مجالس میں یورپینوں کو شامل ہونا موت کا سامنا ہوتا ہے لیکن اس ذریعہ سے وہ سن لیں گے اور فرمایا ہم ایک نظم لکھتے ہیں وہ صاحبزادہ صاحب کی آواز سے بھر والو ان کی آواز اچھی ہے مگر مولوی عبد الکریم صاحب نے عرض کیا کہ میں اپنی آواز بھر دوں گا آپ نے فرمایا اچھا اور فرمایا کہ دوسرے بلاد میں ہماری آواز چاہیے کس واسطے کہ خدا نے ہمیں مبعوث کیا ہے اور مبعوث من اللہ کی آواز میں برکت ہوتی ہے یہ اس پر فرمایا کہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم چاہتے تھے کہ میں اپنی آواز بھروں گا پھر قادیان شریف کے آریوں شرمیت وغیرہ نے فونوگراف سننا چاہا ان کے لئے تبلیغ اسلام کی ایک نظم لکھی تاکہ وہ اس ذریعہ سے اللہ تعالی کا حکم سن لیں پھر ہندو عورتیں آگئیں آپ نے اسی ذریعہ سے ان کو بھی اللہ تعالی کے احکام سنوائے اور اسلام

Page 180

تذكرة المهدي 178 کی خوبی ان کے کان میں ڈالی اور آپ اس سے نہایت خوش ہوئے.حضرت اقدس علیہ السلام ہے جو عرض کرتا کہ میں نے وسعت اخلاق نظم لکھی ہے وہ سنانی چاہتا ہوں خواہ وہ پنجابی زبان میں ہو خواہ فارسی میں خواہ عربی میں آپ بے تکلف فرماتے کہ اچھا سناؤ اور آپ شوق سے سنتے خواہ وہ کیسی ژولیدہ طور سے ہوتی کسی کا دل نہیں توڑتے اور جزاک اللہ فرماتے لیکن میں نے خوب غور سے دیکھا کہ آپ کے جسم یا کسی عضو کو غزل قصیدہ نظم سننے کے وقت کسی قسم کی حرکت نہ ہوتی تھی اور آپ چپ چاپ بیٹھے سنا کرتے تھے اور بات چیت کرتے وقت یا وعظ کے وقت کبھی آپ کا عضو حرکت نہ کرتا تھا نہ آنکھ نہ رخسار نہ ہاتھ جیسے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ باتیں کرتے وقت ہاتھوں سے آنکھوں سے چہروں سے حرکت کیا کرتے ہیں اور جسم کی بوٹی ہوئی پھڑ کا کرتی ہے اور جو اس طرح سے بات کرتا آپ نا پسند کیا کرتے تھے مولوی عبد الله مجتهد لودھیانوی پر خدا تعالیٰ کی رحمت نازل ہو وہ کہا کرتے تھے کہ تم صاجزادہ صاحب غور کر کے دیکھنا اور میں نے تو خوب غور کیا ہے کہ حضرت اقدس باتیں کرتے ہیں اور ہنستے ہنساتے ہیں اور باتیں لوگوں کی سنتے ہیں اور لوگوں میں بیٹھتے ہیں لیکن آپ کے چہرہ اور بشرہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کسی کے انتظار میں بیٹھے ہیں اور وہ آیا اور کھڑے ہوئے گویا جیسے کسی عاشق کو اپنے معشوق کا انتظار ہوتا ہے سو واقعہ میں یہی حالت حضرت اقدس علیہ السلام کی دیکھی کہ حضرت رب العزت سے وہ کو لگ رہی تھی اور آپ ذات باری تعالی میں ایسے محود مستغرق معلوم ہوتے تھے کہ کسی چیز کی کوئی پروا نہیں تھی.اور ذات احدیت میں فنا ہیں.میں نے ایک دفعہ حضرت اقدس علیہ السلام سے وطن کے جانے کی اجازت چاہی فرمایا ابھی جا کے کیا کرو گے میں نے عرض کی کہ حضور ایک کام ضروری ہے فرمایا کیا کہیں عرس میں جانا ہے اور قوالی سننے کو جی چاہتا ہو گا پھر آپ ہنسنے لگے میں

Page 181

تذکرة ابوری 179 نے عرض کیا کہ عرس میں تو نہیں جاتا ہے جب سے حضور کی خدمت میں آنا ہوا ہے عرس و قوالی تو ہم سے رخصت ہوئی آپ کی صحبت میسر ہو اور پھر قوالی کو جی چا ہے ایسا کہیں ہو سکتا ہے.بعض وقت میں کوئی لطیفہ سنادیتا تو ہنستے اور فرماتے کہ صاحب زادہ صاحب اتنے لطیفے تم نے کہاں سے یاد کر لئے ایک شخص نماز نہیں پڑھا کرتا تھا وہ اتفاق سے ایک کام کیلئے مسجد مبارک میں گیا مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے کہا آج تم کیسے مسجد میں آگئے نماز تو پڑھتے نہیں.حضرت اقدس علیہ السلام نے کچھ فرمایا میں نے کہا کہ حضرت اس کی ایسی مثال ہے کہ ایک مراثی کا گھوڑا چھوٹ کر مسجد میں گھس گیا لوگوں نے اس کو دھمکایا اور کہا کہ مراثی تیرے گھوڑے نے مسجد کی بے ادبی کی مراثی نے جواب دیا کہ جناب گھوڑا حیوان تھا اس نے مسجد کی بے ادبی کی اور مسجد میں گھس گیا کبھی مجھے بھی دیکھا کہ میں نے کبھی مسجد کی بے ادبی کی ہو اور مجھے کبھی مسجد میں گھستے اور بے ادبی کرتے ہوئے دیکھا ہے حضرت اقدس علیہ السلام بننے لگے اور فرمایا اس شخص پر یہ مثال خوب صادق آئی ہے شک یہ آج بھولے سے مسجد میں آگیا ہے وہ شخص ایسا خفیف اور شرمندہ ہوا کہ اسی روز سے نماز پڑہنے لگا.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم ایک دفعہ فاتحہ خلف الامام فرماتے تھے کہ ایک شخص سیالکوٹ یا اس کے گردو نواح کا رہنے والا تھا اور ہر روز ہم اس کو امام کے پیچھے نماز میں الحمد پڑھنے کو کہتے تھے اور ہم اپنی دانست میں تمام دلیلیں اس بارہ میں دے چکے مگر اس نے نہیں مانا.اور الحمد للہ امام کے پیچھے نہ پڑھی اور یوں نماز ہمارے ساتھ پڑھ لیتا ایک دفعہ حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں قادیان شریف آگیا ایک روز اسی قسم کی باتیں ہونے لگی صرف حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ نماز میں الحمد شریف امام کے پیچھے پڑھنی چاہئے اور کوئی دلیل قرآن شریف یا حدیث

Page 182

تذكرة المهدي 180 شریف سے بیان نہیں کی وہ شخص اتنی بات سن کر امام کے پیچھے نماز میں الحمد شریف پڑہنے لگا.اور کوئی حجت نہیں کی.ایک شخص نے سوال کیا کہ حضرت صلی اللہ علیک و علی محمد جو شخص نماز میں الحمد امام کے پیچھے نہ پڑھے اس کی نماز ہوتی ہے یا نہیں حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ سوال نہیں کرنا چاہئے کہ نماز ہوتی ہے یا نہیں یہ سوال کرنا اور دریافت کرنا چاہئے کہ نماز میں الحمد امام کے پیچھے پڑھنا چاہئے کہ نہیں ہم کہتے ہیں کہ ضرور پڑھنی چاہئے ہونا نہ ہونا تو خدا تعالیٰ کو معلوم ہے خفی نہیں پڑھتے اور ہزاروں اولیاء حنفی طریق کے پابند تھے.اور خلف امام الحمد نہیں پڑھتے تھے جب ان کی نماز نہ ہوتی تو وہ اولیاء اللہ کیسے ہو گئے چونکہ ہمیں امام اعظم سے ایک طرح کی مناسبت ہے اور ہمیں امام اعظم کا بہت ادب ہے ہم یہ فتویٰ نہیں دے سکتے کہ نماز نہیں ہوتی.اس زمانہ میں تمام ! حدیثیں مدون و مرتب نہیں ہوئی تھیں اور یہ بھید جو کہ اب کھلا ہے نہیں کھلا تھا.اس واسطہ وہ معذور تھے اور اب یہ مسئلہ حل ہو گیا اب اگر نہیں پڑھے گا تو بے شک اس کی نماز درجہ قبولیت کو نہیں پہنچے گی ہم میں بار بار اس سوال کے جواب میں کہیں گے کہ الحمد نماز میں خلف امام پڑھی چاہئے.ایک روز میں نے دریافت کیا کہ حضرت صلی اللہ علیک و علی محمد الحمد کس موقعہ پر پڑھنی چاہئے فرمایا جہاں موقعہ پڑھنے کا لگ جاوے میں نے عرض کیا کہ امام کے سکوت میں فرمایا.جہاں موقعہ ہو پڑھنا ضرور چاہیئے.رکوع سے رکعت ایک شخص نے سوال کیا کہ اگر جماعت ہو رہی ہے اور مقتدی کو رکوع میں ملنے کا موقعہ ملا اب اس نے الحمد نہیں پڑھی وہ رکعت اس کی ہو جاوے گی.مولوی عبد الکریم صاحب ہوئے کہ وہ رکعت اس کی نہیں ہوگی حضرت اقدس نے فرمایا کہ وہ رکعت اس کی ہو گئی.نہیں کیسے ہوگی.بھلا ہم پوچھتے ہیں کہ اگر اس کو موقعہ ملتا کہ وہ الحمد پڑھ لیتا تو کیا وہ الحمد نہ پڑھتا مولوی صاحب نے عرض کیا کہ پڑھتا کیوں نہیں اس

Page 183

تذكرة المهدي 181 کا اعتقاد تو یہی ہے کہ الحمد پڑھ لوں فرمایا نیت کے ساتھ اِنَّمَا الْأَعْمَالُ بالنيات دارو مدار ہے اس کو اتنی مہلت نہیں ملی دل میں تو اس کا اعتقاد ہے وہ رکعت اس کی ضرور ہو گئی.ایک دیوانہ کا قصہ ایک روز دارلامان میں پلیٹ فارم پر جہاں اب مدرسہ اور مہمان خانہ ہے میں تہجد کی نماز پڑھتا تھا اور ایک شخص میراں بخش نام مجنون آگیا اور وہ بھی نیت باندھ کر میرے ساتھ کھڑا ہو گیا اور زور زور سے الحمد پڑھنے لگا پھر جو اس کو جنون اٹھا تو بجائے الحمد کے پنوں سی گانے لگا میں نے دو رکعت بمشکل تمام پوری کی اور بعد سلام میں نے کہا دور ہو کمبخت میری نماز میں تو نے خلل ڈالا.وہ بولا کہ میں نہیں جاتا تو اکیلا نماز پڑھتا تھا میں نے نماز جماعت کی پڑھوائی اور میں تو نماز ہی پڑھتا تھا.میں نے کہا نماز تو خیر پڑھتا تھا لیکن یہ بنوں سی کیوں گانے لگا اس نے میری بات کا جواب نہ دیا جنون میں اور کچھ کو اس کرنے لگا میں نے کہا جا یہاں سے چلا جا.اس نے کہا میں نہیں جاتا میں نے کہا یا تو یہاں سے چلا جا نہیں تو میں تجھے ماروں گا اور کچے کو کھا جاؤں گا وہ تب بھی نہ گیا پھر میں نے اس کو دھکہ دیگر وہاں سے دفع کیا حضرت اقدس علیہ السلام اس وقت مسجد مبارک کی چھت پر نماز تہجد کی پڑھ کر ٹلتے تھے اور یہ ہماری باتیں سب سن رہے تھے اور خدا جانے اس روز کس طرح ہماری باتیں سن لیں ورنہ حضرت اقدس کی یہ عادت تھی کہ کوئی کچھ باتیں کرتا ہو آپ دھیان نہیں کرتے بلکہ آپ سے مخاطب ہو کر کوئی بات کرتا تب بھی آپ بات تو سن لیتے اور جواب بھی دیدیتے مگر سنتے بھی نہ تھے اور آپ متوجہ بھی ہوتے اور توجہ بھی نہ کرتے اور کسی طرف دیکھتے بھی نہیں تھے حالانکہ دیکھتے بھی உ الغرض ہماری تمرار دونوں کی سن رہے تھے جب صبح ہوئی تو میں مسجد مبارک

Page 184

تذكرة المهدي 182 " میں گیا کہ میں ہی اذان کہوں گا اور مجھے حضرت اقدس علیہ السلام کی کچھ خبر نہ تھی کہ آپ مل رہے ہیں اور ہماری باتیں اور تکرار من رہے ہیں جب میں مسجد مبارک کی چھت پر گیا تو دیکھا حضرت اقدس علیہ السلام مل رہے ہیں.اور سبحان اللہ سبحان اللہ پڑھتے ہیں میں نے السلام علیکم کہا فرمایا وعلیکم السلام - آگئے میں نے عرض کیا کہ اذان دینے کے واسطے آیا ہوں فرمایا اذان کا وقت ہو گیا میں نے عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیک و علی محمد سفیدی ظاہر ہو گئی فرمایا اذان دو میں نے اذان دی بعد اذان کے آپ نے فرمایا آج تمہارا اور میراں بخش سودائی کا کیا جھگڑا ہو رہا تھا میں ڈر گیا کہ خدا جانے حضرت اقدس کیا فرما دیں گے ہماری ساری باتیں سنی ہونگی میں نے ڈرتے ڈرتے سب حال سنایا فرمایا یہ سودائی مجنون مرفوع القلم ہوتے ہیں یہ ایسی حالت میں جو کچھ کہیں یا جو کریں تو ان کی کچھ بھی پکڑ نہیں ہے ایسے لوگوں کو دنیا مخروب ولی اللہ اور قطب صاحب خدمت کیا کرتی ہے لیکن دراصل یہ لوگ مخروب اور ولی اللہ نہیں ہوتے یہ لوگ محروم ہوتے ہیں یعنی تمام نعماء اللہ سے محروم رہتے ہیں چنانچہ عقل سے ذہن سے لباس سے کھانے پینے کی لذت بیوی بچوں کی اور ان کی پرورش کی نعمتوں اور ثواب سے محروم اللہ تعالیٰ کی شناخت اور معرفت سے محروم اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے علوم سے محروم رسول نبی کی شناخت اور ان کی اتباع اور پیروی سے محروم قرآن شریف کی تلاوت اور اس کے معانی اور اسرار اور معارف اور نکات سے محروم شریعت و طریقت سے محروم پھر نماز جو معراج المومنین ہے اور روزہ جس کی خاص اللہ تعالیٰ ہی جزا ہے اور حج کے طریقوں اور زکوۃ اور پھر ان کے حصول ثواب اور درجات سے محروم ہیں تم کو ایسے شخصوں کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کا شکر کرنا چاہئے.کہ تم کو تمام نعمتوں اور فیوضوں سے متمتع فرمایا اور محروم نہیں کیا عقل دی ذہن دیا قرآن شریف کی تلاوت اور اس کا علم اور اسرار و معارف و نکات سے بہرہ ور کیا ہر ایک چیز حلال و حرام کی تمیز دی.رسولوں کی شناخت کی

Page 185

تذكرة المهدي 183 توفیق دی اپنی ذات اور صفات کا علم دیا.ولی اللہ اس کو کہتے ہیں جو اوامر و نواہی کا پابند ہو اس کے کرنے سے جو نتیجہ ہوتا ہے اس کا نام کشف و الہام اور دیدار الہی یا لقاء اللہ کہتے ہیں انسان کا فرض یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی اختیار کرے پھر جو اس پر اس کا نتیجہ ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے وہ عنائیت فرما دے گا ایسے محروموں اور مجنونوں سے الگ رہنا مناسب ہے اگر چہ پاس ہو تو سوال کرنے پر دیدے ورنہ الگ رہے اور خدا تعالیٰ کا شکر کرے کہ ہمیں محروم نہیں کیا اور بے نصیب نہیں کیا نماز ایسی چیز ہے کہ سب مراتب ولایت اور قرب اللی کے مدارج اس میں طے ہو جاتے ہیں افسوس لوگوں نے نماز کو تو چھوڑ دیا اور بے ہودہ وظائف کے پیچھے پڑگئے نماز ہی سے انسان خدا سے ملتا ہے اس کو بہت سنوار کر پڑھنا اور زیادہ اہتمام کرنا چاہئے نماز کو جس قدر درستی اور آہستگی سے پڑھو گے اتنا ہی خدا تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرو گے اور خداتعالی کو نزدیک پاؤ گے دعاء سیفی حزب البحر قصیدہ غوطیہ وغیرہ سے جو وظائف لوگوں نے نکالے ہیں وہ سب اختراع بدعت ہے جتنی دیر وظیفوں میں صرف ہو اتنی دیر نماز میں لگانی چاہئے خشوع و خضوع سے نماز پڑھنا اور قرآن شریف ترتیل سے اسی قدر زیادہ فائدہ مترتب ہو گا.ایک روز ایک دلائل الخیرات کا ورد شخص نے سوال کیا کہ دلائل الخیرات کا درد اور پڑھنا کیسا ہے فرمایا ولائل الخیرات میں جتنا وقت خرچ ہو اگر نماز اور قرآن شریف کی تلاوت میں خرچ ہو تو کتنا فائدہ ہوتا ہے یہ کتابیں قرآن شریف اور نماز سے روک دیتی ہیں.یہ خدا تعالیٰ کا کلام اور حکم ہے.اور انسانوں کا بناوٹی وظیفہ ہے فرمایا قرآن شریف کی آیتوں اور سورتوں کا بھی لوگ وظیفہ کرتے ہیں اور یہ بدعت ہے اور نا کبھی سے ایسا کرتے ہیں.قرآن شریف وظیفہ کے لئے نہیں ہے یہ عمل کرنے کے لئے اور اخلاق کو درست کرنے کے لئے ہے اگر آنحضرت ا صحابہ کو تسبیح ہاتھ

Page 186

تذكرة المهدي 184 میں دیگر مجروں میں بٹھا دیتے تو دین ہم تک کب تک پہنتا وہاں تو تلوار تھی اور جہاد تھا اور آپ بار بار فرماتے تھے کہ الْجَنَّةُ تَحْتَ ظِلالِ السُّيُوفِ یعنی جنت تلواروں کے سایہ میں ہے ہمارا زمانہ بھی منہاج نبوت کا زمانہ اور ہمارا طریق بھی منہاج نبوت کا طریق ہے اب لوگوں کو چاہئے کہ حجروں میں آگ لگادیں تسبیح ہاتھ سے پھینک دیں رنگے کپڑوں کو جلا کر راکھ کر دیں اور جہاد کے لئے اور دین کی حمایت کے لئے مال سے جان سے ہاتھ سے جس طرح سے ہو سکے کریں جب جهاد سیفی جہاد تھا اور اب جہاد لسانی و قلمی ہے جہاو جب بھی تھا اور اب بھی ہے لیکن صورت جہاد بدل گئی ہے مومن کبھی قشر پر راضی نہیں ہوتا وہ مغز چاہتا ہے لفظ پرستی کفر ہے نرے لفظوں کے پڑھنے سے کچھ نہیں ہوتا اس پر عمل کرنے سے اس کے مطابق چلنے سے کام چلتا ہے.حضرت اقدس کبھی تعویز آج کل کے تعویذ گنڈہ اور اعجاز مسیحا درویشوں فقیروں مولویوں کی طرح.نہیں لکھتے تھے پانچ چار دفعہ آپ کو تعویذ لکھنے کا کام پڑا ہے اور وہ یوں پڑا ہے کہ خلیفہ نور الدین صاحب ساکن جموں کے اولاد نہیں ہوتی تھی انہوں نے اولاد کے بارہ میں دعا کرائی آپ نے فرمایا ہاں ہم دعا کریں گے خلیفہ صاحب نے عرض کی کہ ایک تعویذ مرحمت ہو جائے فرمایا لکھدیں گے پھر ایک دفعہ عرض کی فرمایا ہاں یاد دلا دیتا لکھ دیں گے اب خلیفہ صاحب نے ادب سے تعویز کے لئے خود عرض کرنا مناسب نہ جانا اور جناب حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ چھوٹے سے تھے ان سے کہا کہ تم تعویذ حضرت اقدس سے لا دو ان کو حضرت اقدس علیہ السلام کے پیچھے لگا دیا.یہ جب جاتے تو کہتے ابا خلیفہ جی کے واسطے تعویذ لکھد و دو چار دفعہ تو ٹالا لیکن یہ پیچھے لگ گئے ایک دن انہوں نے کہا ا با تعویذ لکھد و حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ ہمیں تو تعویذ لکھنا نہیں آتا محمود کو جس بات کی ضد پڑ جاتی ہے مانتا نہیں تعویذ لکھ کر دیدیا.آپ نے معہ بسم

Page 187

تذكرة المحمدى 185 ه اول اللہ تمام الحمد للہ لکھ کر تعویز محمود احمد صاحب کو دیدیا یہ لے کر خلیفہ جی کو دے آئے بس تعویذ کا باندھنا تھا کہ خدا تعالٰی کے فضل سے بہ طفیل دعاء مسیح ان کی بیوی حاملہ ہوئی اور لڑکا پیدا ہوا.ایک شخص کا حیدر آباد کی طرف سے خط آیا اور وہ غیر احمدی تھا لکھا کہ ایک تعویذ اپنے دست مبارک سے لکھ کر مجھے بھیج دو.حضرت اقدس نے مجھے فرمایا صاحبزادہ صاحب ہمیں تو تعویذ لکھنا نہیں آتا لاؤ الحمد شریف لکھ دیں اسی میں ساری برکتیں ہیں آپ نے الحمد لکھ کر مجھ کو دیدی اور فرمایا خط میں بھیج دو - ایک شخص کا خط مارواڑ سے آیا اور لکھا کہ ہمارے گھر میں آگ لگ جاتی ہے اور خود بخود لگ جاتی ہے اور طرح طرح کی ہیتاک آوازیں آتی ہیں اور ہمارے بال بچے اکثر اور ہم بھی بیمار رہتے ہیں کوئی تعویذ اپنے ہاتھ سے لکھ کر مرحمت فرمائیے تاکہ اس آسیب سے کوئی جن ہے یا خبیث ہے نجات ملے فرمایا تم ہی کچھ لکھ دو ہم آسیب واسیب کچھ نہیں جانتے میں نے حضرت اقدس علیہ السلام کے کہنے کے مطابق یہ لکھ دیا کہ مکان کے چاروں کونوں میں رات کو ہر روز اذان کہہ دیا کرو.پھر میں نے یہ خط حضرت اقدس علیہ السلام کو دکھایا فرمایا بہتر ہے یہ خط بھیج دو.دو تین ہفتہ کے بعد اس کا خط آیا کہ اب آگ بھی نہیں لگتی اور خواب پریشان بھی نہیں آتے اور خدا تعالیٰ نے ہم سب کو تندرست کر دیا.پھر میں نے تعویذ کے لئے عرض کیا تو فرمایا ہاں لکھ دیں گے پھر ایک روز الحمد لکھ دی اور فرمایا بھیج دو.قادیان کی بعض عورتیں اور گاؤں کی عورتیں آجاتیں کہ مرزا جی ہمیں اپنے ہاتھ کا تعویذ دو- آپ فرما دیتے صاحب زادہ صاحب کے پاس جاؤ وہ تعویذ لکھ دیں گے تم جانتی ہو کہ صاحبزادہ صاحب کون ہیں وہ لمبے قد والے پیر صاحب وہ کہدیتی کہ ہاں ہم جانتے ہیں قادیان اور نواح قادیان میں سب مرد و عورت مجھ سے واقف ہیں کوئی پیر صاحب کوئی بڑا پیر کہتے تھے.پھر وہ عورتیں میرے پاس

Page 188

تذكرة المهدى 186 آتیں اور کہتیں کہ مرزا صاحب نے آپ کے پاس بھیجا ہے تعویذ لکھ دو میں بھی حضرت اقدس علیہ السلام کے دیکھا دیکھی الحمد شریف ہی لکھ دیا کرتا تھا.سورہ فاتحہ کا عمل ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں سر سادہ سے چل کر قادیان شریف حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت مولانا مرشد نانورالدین صاحب خلیفتہ اسیح علیہ السلام بھی آئے ہوئے تھے اور صبح کی نماز پڑھ کر بیٹھے تھے اور حضرت اقدس علیہ السلام بھی تشریف رکھتے تھے حضرت خلیفتہ المسیح علیہ السلام نے فرمایا کہ پیر صاحب بہت سے پیر دیکھے کہ وہ عملیات اور تعویذ کرتے ہیں کوئی عمل آپ کے بھی یاد ہے جس کو دیکھ کر ہمیں بھی یقین آجائے کہ عمل ہوتا ہے میں نے عرض کیا کہ ہاں یاد ہے فرمایا دکھاؤ اور میں نے عرض کی کہ ہاں وقت آنے دیجئے.دکھلا دوں گا.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ ضرور صاحبزادہ صاحب کو یاد ہو گا ان کے بزرگوں سے عمل چلے آتے ہیں کوئی دو گھنٹہ کے بعد ایک شخص آیا جس کو ذات الجنب یعنی پہلی کا درد شدت سے تھا میں نے عرض کی کہ دیکھئے اس پر عمل کرتا ہوں حضرت خلیفتہ المسیح نے فرمایا کہ ہاں عمل کرو.حضرت اقدس علیہ السلام نے بھی فرمایا کہ ہاں عمل کرو میں نے اسی شخص پر دم کیا اس کو درد سے بالکل خدا تعالی نے آرام کر دیا اور شفادی.جب اس کو آرام ہو گیا تو حضرت خلیفتہ المسیح علیہ السلام نے فرمایا کہ مسمیریزم ہے میں نے اس زمانہ میں مسمیریزم کا نام بھی نہیں سنا تھا.اور نہ میں جانتا تھا کہ مسمیریزم کیا چیز ہوتا ہے حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا صاحبزادہ صاحب تم نے کیا پڑھا تھا میں نے عرض کیا کہ حضرت صلی اللہ علیک ودعلی محمد میں نے الحمد شریف پڑھی تھی.القصہ جب میں حضرت ﷺ کی مجلس میں بحالت کشف ادب سے بیٹھ گیا تو میں نے جو میرے پاس ایک صاحب بیٹھے ہوئے تھے ان سے کہا کہ تم آنحضرت سے یہ مسئلہ دریافت کر دو کہ مرشد کے قدم چومنے جائز ہیں کہ ناجائز

Page 189

تذكرة المهدي 187 حصہ اول ہیں سو انہوں نے عرض کیا کہ حضرت! سراج الحق دریافت کرتا ہے کہ مرشد کے قدم چومنے جائز ہیں کہ ناجائز ہیں وہ شخص جو آنحضرت ا کے سامنے سفید پوش بیٹھے تھے لمبا ہاتھ کر کے اور ہلا کر زور سے کہا کہ نہیں نہیں مجھے اس وقت یہ خیال ہوا کہ آنحضرت ا سے میں نے دریافت کیا تھا نہ کہ اس سے یہ کون ہیں جو خود بخود بول اٹھے پس میں اس خیال کے آتے ہی اس جگہ سے اٹھا اور سیدھا جہاں کو نمبر دار پاس چھوٹے چھوٹے نقطہ دیئے ہوئے ہیں جا کر حضرت رسول کریم اللہ کے پاس چپکے سے جا بیٹھا میں نے دریافت کرنا چاہا تو آنحضرت ﷺ نے میری طرف نیچی نگاہ سے دیکھا اور ایک پیر مبارک میری طرف یعنی واہنا پیر پھیلا دیا.میں نے دیکھا تو آپ کے پائے مبارک میں سوتی جراب سفید تھی پس میں نے قدم مبارک دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر چوم لیا.اور آنکھوں سے لگایا پھر آپ ﷺ نے پائے مبارک اکٹھا کر کے سکیٹر لیا اور سوتی جراب قدم مبارک سے اتار کر مجھ کو عنایت فرمائی میں نے وہ جراب بڑے ادب سے لے لی اور جب میں پہلی جگہ سے اٹھ کر آپ ا کے پاس گیا تو جاتے ہوئے بائیں طرف پانچ چار آدمی میلے کپڑے پہنے ہوئے اور اکڑو بیٹھے ہوئے دیکھے اور ان کے آگے پیالیاں بھنگ وغیرہ کی رکھی ہیں.اور دو تارہ ڈھولک بجارہے ہیں اور کچھ گا رہے ہیں جو سمجھ میں نہیں آیا اس وقت میں نے خیال کیا کہ اللہ اللہ آنحضرت الا لو تو تشریف رکھتے ہیں.اور یہ گانے بجانے والے بھی ایک طرف موجود ہیں اور پھر دل میں کہا کہ آنحضرت ا کی طرف جو شخص پشت دے کر برہنہ بدن اور سر بیٹھا ہے یہ کون بے ادب اور گستاخ ہے جو آنحضرت سید کائنات سید المرسلین کو پشت دیئے ہوئے بیٹھا ہے اور کوئی اس گستاخ کو منع نہیں کرتا اور وہ لوگ جو حضرت رسول کریم کی زیارت کو ہندو مسلمان عیسائی وغیرہ جاتے تھے وہ یہ بھی کہتے جاتے تھے کہ حضرت رسول کریم اللہ عرب سے ہجرت کر کے اب ہند میں آگئے

Page 190

تذكرة المهدي 188 اس کے بعد یہ کشفی حالت جاتی رہی اور ایک لذت باقی اس نظارہ عجیب کی رہ گئی اور دو تین روز وہ ذوق و شوق رہا کہ بیان سے باہر ہے پھر میں نے یہ کشف شیخ یوسف علی نعمانی مرحوم مذکور الصدر سے جو وہ بھی اس وقت موجود تھا بیان کیا اور شیخ عباس علی صاحب بخشی فوج ریاست جیند اور قاضی غلام نبی صاحب رئیس جیند سے اور شیخ برکات علی جمعدار وغیرہ سے یہ کشف بیان کیا پھر ایک روز مجلس مولود تھی اور میں ہی پڑھنے والا تھا اس وقت بھی یہ کشف دوبارہ ہوا چونکہ کشف میں بھی ایک قسم کی ربودگی ہوتی ہے اور قوائے مدرکہ اس عالم سے ٹوٹ کر دوسرے عالم کی طرف مصروف ہو جاتے ہیں تو لوگوں نے سمجھا کہ یہ ہوتا ہے کیونکہ بیان بند ہوا اور زبان میں جو ایک قسم کی تیزی اور سرعت ہوتی ہے اور کبھی لڑکھڑا جاتی ہے پس ایک صاحب جو اس وقت شاید ناظم تھے مجلس میں حاضر تھے کہنے لگے کہ حضرت میاں صاحب یہ وقت سونے کا ہے یا پڑھنے کا ہے جب انہوں نے مکر رسہ کرر یہ کہا تو میری کشفی حالت بند ہوئی اور میں نے کہا کہ میں سوتا نہیں ہوں بلکہ ایک نظارہ عجیب دیکھ رہا ہوں.وہ جو میں نے دیکھا تھا پھر بیان کیا اسوقت دو تین سو آدمی تھے اس نظارہ کشفی کے دو سال کے بعد میں لدھیانہ گیا کسی شخص نے کہا کہ کوئی گاؤں قادیان ہے وہاں ایک مرزا غلام احمد بڑے نیک اور ولی اللہ سنے جاتے ہیں میں نے کہا کہ ہاں ہونگے ولیوں سے تو کوئی زمانہ خالی نہیں ہو تا خدا جانے دنیا میں سینکڑوں ولی اللہ ہونگے پھر دو تین روز کے بعد بھی یہی ذکر ہماری مجلس میں ہوا میں نے ان کو کہا کہ تم نے کیوں کر جاتا کہ ولی اللہ ہیں اور انہوں نے کہا کہ ان کی تعریف دو چار شخصوں کی زبانی معلوم ہوئی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم مجدد اس صدی کے ہیں اور فرماتے ہیں کہ پچھلے زمانہ کے اولیاء اللہ جیسے سید عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ اور بایزید بسطامی اور سید معین الدین حسن اجمیری اور شیخ اکبر محی الدین ابن العربی رحمتہ اللہ علیم وغیرہ تو واقعی طریقہ رسول اللہ ﷺ پر تھے اور وہ سب اہل اللہ اور برگزیدہ الہی تھے

Page 191

تذكرة المهدي 189 حصہ اول اور اب کے صوفیوں کی راہ اور طریق جادہ مستقیم سے گر گئی اور انہوں نے نئے نئے طریقے ایجاد کرلئے یہ دو باتیں سن کر میرے دل کو ایک لگاؤ حضرت اقدس علیہ السلام کی طرف ہو گیا.اور خواہشن ملاقات دل میں پیدا ہوئی کہ ایسے شخص سے ملنا چاہئے جو پہلوں کا حوالہ دیتا ہے اور اپنے آپ کو مجدد کہتا ہے بے شک وہ مجد دان بزرگوں میں سے ہی ہو گا اور چودہویں صدی شروع ہونے والی ہے خدا کی قدرت سے کیا بعید ہے کہ وہ مجدد ہوں اور مجدد کا ہونا ضروری ہے جو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ إِنَّ اللهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مَا نَةٍ سَنَةٍ مَنْ تُجدِ دُلَهَا دِينَهَا یعنی بے شک اللہ تعالٰی اس امت کے لئے ہر ایک صدی کے سر پر ایک مجدد بھیجتا رہے گا جو دین کی تجدید کرتا رہے گا اور اب نکڑوں فرقے نکل آئے علما میں اختلاف صوفیاء میں اختلاف امراء میں حالت خراب غرباء وضعفاء کی عادات خراب چاروں طرف فتنہ برپا ہے اللہ تعالٰی کا بڑا احسان اور فضل ہے جو ہمارے زمانہ میں مجدد ہو اور مجھے زیادہ تر یوں انتظار تھا کہ ہمارے بہنوئی حافظ رونق علی عرف محمد جان ساکن رامپور ضلع سہارنپور نے بھی یہ دعوی کر رکھا تھا کہ اس صدی چار دہم کا میں مجدد ہوں گا اس سے بھی دل کو ایک خوشی تھی کہ ہمارے ہی خاندان میں مجددیت ہوگی اور پھر ایک مولوی امیر علی اجمیری کا بھی دعوئی تھا کہ اس چودھویں صدی کا مجدد میں ہوں گا آخر کار ان مولوی صاحب نے تو چودہویں صدی لگتے ہی توبہ کرلی کہ مجھ کو غلطی لگی میں مجدد نہیں ہوں لیکن حافظ صاحب موصوف کا تو ابتک کہ تمہیں برس چودہویں صدی کے گذر گئے مجددیت کا دعویٰ ہے اور اس تیسویں سال کا تو یقیناً ان کا اعتقاد ہے اور در شخص ان کے معتقد ہیں اور وہ دونوں بھی یہی اعتقاد رکھتے ہیں اور ایک درویش اجمیر میں تھا اس کا بھی دعوی تھا کہ میں چودھویں صدی کا مجدد ہوں.

Page 192

تذكرة المهدى " 190 مجدد الوقت کون ہے؟ جب میں اول دفعہ حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت مبارک میں حاضر ہوا تھا تو میں نے یہ عرض کی تھی کہ آپ نے بھی دعوئی مجددیت کیا ہے اور دوسرے لوگ بھی ہیں جو دعوئی مجددیت کا کرتے ہیں منجملہ اوروں کے (۱) ایک سوڈانی مہدی ہے جس پر لوگوں کا خیال ہے کہ وہ مہدی اور مجدد ہے اب ہم آپ کو مسجد وما نہیں یا ان میں سے کسی ایک کو.فرمایا جس کے پاس دلیل ہو دعوئی بلا دلیل تو تسلیم نہیں ہو تا دلیل یہی ہے کہ مکالمہ و مخاطبہ الیہ ہو اور وحی کا نزول ہو اور منہاج نبوت پر ان کا طریق ہو درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اور یہی شناخت ولی نبی رسول کی ہے جس کے ساتھی ہمراہ مرید صحابی اچھے اور نیک صالح ہوں اور ان میں تبدیلی فوق العادت پیدا ہو جاوے اور وہ اپنے اندر ایک نور نمایاں تاباں دیکھ لیں تب جانو کہ وہ اچھا ہے اور ولی ہے اور خدا تعالیٰ سے اس کا کامل تعلق اور پیوند ہے اور قوت روحانی اور کشش ربانی موجود ہے اور جس کے پیرو اور ہم صحبت خراب ہوں اور کوئی تبدیلی کسی قسم کی نہ پاویں اور گندی زیست اپنے اندر رکھتے ہوں تو معلوم کر لو کہ وہ خود بھی گندہ ہے اور اس میں خدا کا انوار اور نعمت روحانی نہیں ہے اور نہ اس میں خدا ہے اور نہ خدا کے انوار وفیض سے کچھ بہرہ ہے دیکھو جب برسات ہوتی ہے تو سینکڑوں بوٹیاں جنگل میں خراب بھی پیدا ہوتی ہیں اور گل بوٹے بھی عمدہ پیدا ہو جاتے ہیں مگر جو فائدہ مند ہیں وہ باقی رہتے ہیں اور جو لکھے اور کار آمد نہیں ہوتے وہ جل بھن کر نیست ونابود جاتے ہیں تم دیکھو گے کہ جس کو خدا نے بھیجا ہے اور جو خدا کی طرف سے منصب مجددیت لے کر آیا ہے وہ باقی رہ جاوے گا اور سر سبز ہو گا اور جو خدا کی طرف سے نہیں ہیں وہ تمام تباہ اور ہلاک ہو جاویں گے.آنحضرت ﷺ کے وقت مبارک میں بھی بہت سے مدعیان نبوت کھڑے ہو گئے تھے اور مسیح علیہ السلام کے وقت میں بھی تو کیا وہ رہ گئے اور وہ مر سبز ہوئے ہرگز نہیں ہوئے.

Page 193

تذكرة المهدى 191 ان کا نام ونشان مٹ گیا اور وہ ایسے ہلاک ہوئے کہ چند روز میں ہی نیست و نابود ہو گئے سو حقیقت میں جیسا کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا تھا وہ جوں کا توں ہوا سوائے آپ کی ذات مبارک اور وجود باجود کے تمام ناکام و نامراد رہ کر نیست و نابود ہو گئے.(۲) چنانچہ حافظ محمد جان تو دیوانہ دیگر مدعیان مجددیت کا انجام ہو گئے اور ان پر ایسی خدا کی مار پڑی کہ نماز روزہ عبادت سب چھوٹ گیا عیش و آرام سب گیا اللہ تعالی کا نام بھی منہ سے نہیں نکلتا ہے ایک بازاری عورت فلسفہ رنڈی ان کی مرید ہوئی تھی سو وہ بھی مرکھپ گئی اس کا دنیا سے نام مٹ گیا اور اب وہ اندھے ہو گئے اور محلہ میں سے جو روٹی مل جاتی ہے وہ کھا لیتے ہیں بس اسی پر گزارہ ہے حافظ قرآن تھے ده قرآن شریف بھی بھول گئے بات یہ سچ ہے کہ جو شخص مرسل الہی رو گردانی میں ہے وہ طرح طرح کی آفات و مصیبتوں میں مبتلا ہو جاتا ہے اور خير الدنيا و الأخيرة اسی جہاں میں ہو جاتا ہے ان کے علاوہ.(۳) ایک مولوی ابو القاسم ساکن امرد ہہ ہیں انہوں نے بھی مجددیت کا اور مہددیت کا دعویٰ کیا تھا وہ بھی دیوانے اور مجنون ہوئے اور اب خدا جانے زندہ ہیں یا مردہ.یہ حضرت فاضل امرد ہی مولانا سید محمد احسن صاحب کے رشتہ دار بھی ہیں.(۴) ایک ارکاٹ میں مولوی عبد العزیز تھے انہوں نے دعوئی مہدویت کیا اور اپنا طریقہ عزیزیہ نکالا ایک رسالہ ان کا میں نے دیکھا ہے اس میں انہوں نے اپنی مہدویت کا اعلان کیا اور معراج لکھی کہ مجھے معراج ہوئی وہ بعینہ ترجمہ حدیث بخاری کا ہے کہ جس میں آنحضرت نے اپنا حال معراج کا بیان کیا ہے صرف فرق اس قدر ہے کہ اس میں نام محمد ا اور اس میں نام ہر جگہ عبد العزیز مهدی ہے یہ رسالہ میں نے حضرت اقدس علیہ السلام کو سنایا فرمایا یہ

Page 194

تذكرة المهدی 192 لوگ خدا سے نہیں ڈرتے اور اللہ تعالی پر افترا کرتے ہیں صاحبزادہ صاحب کیا خدا تعالی کے ہاں اندھیر ہے یا اس کی خدائی کمزور اور ضعیف ہے دنیا کی گورنمنٹ میں اندھیر نہیں جو ذرا بھی سراٹھا دے اور اپنے آپ کو ملازم بتا دے تو وہ پکڑا جاتا ہے اور وہ تو احکم الحاکمین اور شہنشاہ اور مالک و خالق و قادر توانا ہے.وہ نہیں گرفتار کرے گا ور ہی سال کے بعد معلوم ہوا کہ وہ مولوی عبد العزیز دیوانہ ہو گیا اور برہنہ پھرنے لگا اور خورونوش کی بھی تمیز نہیں رہی.اور یہاں تک حالت گزری کہ بعض دفعہ گوہ اور گوبر بھی کھا لیتا تھا اسی حالت خراب میں مر گیا.ـى (۵) ایک شخص لاہور میں تھا کہ جو گلی کوچوں میں لا إلہ إلا أنَا مَهْدِی رَسُولُ اللہ کا نعرہ لگاتا پھرتا تھا اور کوئی اس کو نہیں پوچھتا تھا اور نہ کسی نے اس پر کفر کا فتویٰ لگایا اور نہ کسی نے باز پرس کی ایک دفعہ حضرت اقدس علیہ السلام جو لاہور تشریف لے گئے اور مسجد شاہی میں جاتے تھے اور ہزاروں آدمی ساتھ تھے یہ دیوانہ مہدی بھی آگیا.اور دوڑ کے حضرت اقدس علیہ السلام کے گلے میں کپڑا ڈال لیا بمشکل تمام لوگوں نے ہٹایا اور کپڑا آپ کی گردن سے نکالا وہ بھی اسی جنون کی حالت میں مرگیا اور کچھ خبر نہیں ہے کہ اس کو کس نے وقتا یا کس نے کفنایا کہاں گاڑا.(4) ایک شخص لاہوری الور میں گیا اور دو شخص اس کے ساتھ تھے وہ بھی مہدی ہونے کا دعویٰ کرتا تھا اور سب سے جہاد کا طالب تھا ایک ہمارے دوست وزیر محمد صاحب صباغ موحد کے مکان پر بھی دو تین روز تک رہا ان کا بیان ہے کہ یہ کبھی کبھی رو تا اور چلاتا اور کہتا کہ ہائے مجھے کوئی نہیں پوچھتا اور کبھی کہتا کہ خدا ہی جانے میں مسیح علیہ السلام ہوں یا مہدی علیہ السلام ہوں اور کبھی کہتا کہ میں ہی مسیح بھی ہوں اور میں ہی مہدی بھی ہوں اور اس کو مالیخولیا بھی تھا.صرف اردو پڑھا ہوا تھا لیکن قرآن شریف نہیں پڑھ سکتا تھا اور کبھی کہتا کہ وزیر محمد تم میرے

Page 195

تذكرة المهدي 193 حصہ اول ساتھ ہوتا کہ انگریزوں سے جہاد کریں وزیر محمد نے کہا کہ ہم کو جہاد کی کون سی ضرورت پیش آئی ہمارے احکام اسلام یا تبلیغ اسلام میں کوئی روک ہے یا ہم اپنے دین کو پھیلا نہیں سکتے ہمیں کس چیز کی دقت اور مشکل ہے خدا کے فضل سے بہ نسبت بادشاہ اسلام ہمیں ہزار درجہ اس انگریز راج میں آرام ہے اگر جہاد کا وقت ہوتا اور خدا تم کو سچا مہدی بناتا تو خود بخود سامان جہاد بھی ہو جاتا تم کوئی دیوانے ہو جو ہمیں جہاد کی اشتعالک دیتے ہو جو خدا و رسول کے خلاف ہے اور اب جہاد وہاد کچھ نہیں امن چین آرام کے دن ہیں پھر وہ چلا گیا اور اس کا پھر پتہ نہیں لگا کہ کہاں گیا زمین نگل گئی شیر بھیڑیا کھا گئے مر گیا.کیا ہوا.() ایک شخص سید اصغر علی نام ریواڑی میں تھا.وہ میرا دوست تھا اور وہ رافضیوں کی صحبت میں رہ کر تفضیلیہ ہو گیا تھا اور رفتہ رفتہ والضی بن گیا تھا اس کو ابتدا سے فطرت مانیہ تھا پھر اس کو خون مالیھو لیا ہو گیا میں جب ریواڑی گیا تو مجھ سے کہنے لگا کہ اب کے سال امام مہدی ظاہر ہو جا دیں گے اور اسی سال میں ان کا ظہور ہو گا.اور وہ حج بھی کریں گے اور گھیعص سے عجیب عجیب قسم سے عدد نکال کر تاریخ اور سال مہدی بتلایا کرتا تھا اور وہی سن و سال بتلایا کہ جن میں حضرت اقدس علیہ السلام نے دعوئی مہدویت اور مسیحیت کا کیا میں نے کہا ابھی ایک سال تک تو مہدی مسیح نہیں آسکتے اور یہ میرا خیال جب پیدا ہوا کہ جب حضرت اقدس علیہ السلام نے دعوئی مجددیت کیا کیونکہ ایک مجدد کو جب سو برس گزر جاویں تو تب اور مجدد ہو جب چودہویں صدی کے مجدد حضرت اقدس علیہ السلام ہو گئے تو اب مہدی و مسیح کا ہوتا تو محال ہوا.اور ان کی ضرورت نہیں ہے پندرھویں صدی پر بات جاپڑی میں نے کہا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مجدد چودہویں صدی ہو گئے اگر مہدی و صحیح آئے بھی تو پندرہویں صدی پر آومیں گے اس نے کہا کہ مرزا صاحب ہرگز مجدد نہیں ہیں مہدی و صحیح اسی چودہویں صدی میں اسی سال میں جو چودھویں صدی کا چہارم سال ہے آجادیں

Page 196

تذكرة المهدى 194 گے خدا کی قدرت اسی سال میں حضرت اقدس علیه السلام کا اشتہار مهدی و صحیح موعود ہونے کا نکلا ہے میں نے اس کو خط بھی لکھا اور ملاقات کے وقت کہا کہ دیکھو تمہارا حساب ٹھیک نکلا مہدی بھی موجود ہو گیا اور عیسی بھی آگیا.یعنی حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی (علیہ الصلوۃ السلام) ہیں وہ مجھ سے لڑنے مرنے کو تیار ہو گیا اور کہا کہ میں نے مرزا صاحب کا اشتہار دیکھا ہے وہ جھوٹا ہے کذاب ہے پہلی کتابوں سے چرا چرا کر مضمون لکھ لیتا ہے پھر اس نے خود مہدی کا نائب اپنے آپ کو بیان کیا اور مجھ سے کہا کہ جہاد کی تیاری کرو اب امام مہدی آدیں گے اور ہم تم ان کے ساتھ ملکر جہاد کریں گے میں نے کہا اب جہاد کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ جو مہدی آیا اور مسیح ہوا ، اس نے ایسے جہاد کے حرام ہونے کا فتویٰ دیدیا ہے اور حدیث شریف میں مضع الحرب بخاری میں موجود ہے کہ صحیح کے وقت جہاد و حرب رکھ دیا جائے گا یعنی جہاد سیفی و شمشیری نہیں ہو گا.اس پر بھی وہ جھلایا اور دہلی میں آیا.دہلی کی جامع مسجد میں بیان کیا اور لوگوں سے کہا کہ لوگو تم ہمارے ساتھ ہو اور تلوار و بندوق توپ جو کچھ تم سے مہیا ہو سکے درست کر لو جہاد کرو.لوگوں نے جواب دے دیا پھر اس نے خود مہدی ہونے کا دعوی کیا اور کہا کہ میں امام مہدی موعود ہوں.اس حالت میں بھی اس نے میرے سے ملاقات کی اور اس کا جنون دن بدن ترقی کرتا گیا میں نے کہا کہ پہلے تو تم کہتے تھے کہ مہدی آدیں گے عیسی آدیں گے پھر نائب مہدی بنے اب تم خود مہدی بن گئے اس بات پر میری اور اس کی لڑائی ہو گئی.بارہ ہزاری سید ابراہیم رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر جو ریواڑی کے وسط شہر میں واقع ہے سخت تکرار ہوئی اور میں نے اس کو مارا دوسرے روز پھر وہ آیا اور منت سماجت کرنے لگا اور مجھ سے معافی مانگی اور دعوئی مہدویت پیش کیا ایک رات کو سوتے سوتے جو اس کو دیوانگی ہوئی تو ہاتھ میں برہنہ شمشیرے کر اور ایک جھنڈا پرانے کپڑے کا بوسیدہ بانس پر باندھ کر گھر سے نکلا اور کہا کہ میں مہدی ہوں یہ نشان اور یہ تلوار

Page 197

تذكرة المهدي 195 حضرت جبرئیل علیہ السلام نے مجھے آسمان سے لاکر دی اور کہا اللہ تعالی نے یہ شمشیر و نشان تمہیں عطا کیا ہے تم جاکر اس سے جہاد کرو جب یہ بازار میں نکلے ایک ہاتھ میں تلوار ایک ہاتھ میں نشان تھا پولیس کو خبر ہو گئی پکڑ لیا اور قید کیا گیا اور بعد تھوڑے روز کے ان کو گوالیار میں بھیجدیا ان کے بیوی بچے ریواڑی رہے کئی سال کے بعد پوشیدہ طور پر پھر ریواڑی آگئے کیونکہ ان کے ہاں میت ہو گئی تھی لیکن گھر سے باہر پھر نہیں نکلے پھر سرکار کو خبر ہو گئی تو پھر ان کو گوالیار بھیج دیا جب ان کا جنون ذرا کم ہوا تو یہ ریواڑی آگئے اور سرکار نے اپنی رحم ولی سے معافی دیدی انہوں نے حضرت اقدس علیہ السلام پر ایک مقدمہ بھی دائر کیا تھا اس کی پیروی کے لئے جناب مولوی محمد علی صاحب اور جناب مرزا خدا بخش صاحب مصنف عسل مصفی گوڑ گانوں آئے تھے بہر حال وہ مقدمہ حضرت اقدس علیہ السلام کے حق میں ہوا.ایک دفعہ انہوں نے اعلان کیا کہ وَلَا أَصْغَرُ وَلَا أَكْبَرُ إِلَّا فِي كِتَابٍ مبین جو قرآن شریف ہے وہ میرے حق میں ہے.چونکہ ان کا نام اصغر علی تھا آیت میں بھی اصغر علی ہے ایک روز ایک پادری سے ان کی تکرار ہوئی اصغر علی نے بھی مکہ چلایا اور پادری صاحب یورپین تھے انہوں نے بھی تھپڑ اٹھایا اصغر علی ڈر کر بھاگ آیا اور دو تین روز تک گھر میں چھپا بیٹھا رہا.اب وہ فاقے اٹھا کر اور طرح طرح کے مصائب و شدائد میں گرفتار ہو کر مر گیا اب اس کا ایک بھائی اور مجنون اس کا جانشین کھڑا ہوا ہے اس کا دعوی فی الحال قطبیت کا ہے اور کچھ نہیں ہے ایک دفعہ مولوی سلطان الدین احمد صاحب مبین جمالی ریواڑی گئے تھے یہ صاحب ثانی الذکر ان کے مکان پر بھی آئے لیکن باہر دروازہ کے کھڑے رہے کسی نے کہا مولوی صاحب سید صاحب آئے ہیں جو اپنے آپ کو قطب وقت اور غوث زمان کہتے ہیں مولوی صاحب نے کچھ جواب نہ دیا.وہاں سے جاکر بازاروں میں گلیوں میں کہتے پھرے کہ

Page 198

تذكرة الهدى 196 مولوی صاحب نرے مولوی ہیں کچھ انمو باطنی مس نہیں ہے دوسرے روز پھر وہ آئے تو مولوی صاحب نے ان کو بلایا اور آٹھ آنہ انکو دے دیئے.بس یہ آٹھ آنے دینے تھے کہ سید صاحب زریر سر فولاد تھمی نرم شود معتقد ہو گئے اور کہنے لگے کہ اب آپ نے مولوی صاحب ہماری شان پہچانی مولوی صاحب نے کہا ہاں ، به صاحب اب معلوم ہوا کہ آپ بھی کچھ ہیں سید صاحب کہنے لگے کہ کچھ کیا بہت کچھ ہیں.مولوی صاحب نے کہا ہاں میں بھول گیا تھا آپ بہت کچھ ہیں.اب سید صاحب مولوی صاحب کی تعریف گلی کوچوں میں کرتے پھرتے ہیں کہ مولوی صاحب بڑے صاحب نسبت ہیں.یہ حال ہے ان لوگوں کی قطبیت اور غوثیت اور مہددیت کا.رشید احمد گنگوہی کا حال (۸) منجملہ ان مدعیان مجددیت کے ایک مولوی رشید احمد گنگوہی تھے ان کو ان کے مرید مجدد دقت لکھا کرتے تھے اور خاص کر مولوی محمد حسین فقیر بنی دہلوی کا تو یہی عقیدہ تھا مولوی صاحب نے کبھی نہیں کہا کہ مجھ کو مجدد مت لکھو میں مجدد نہیں ہوں گویا ان کی مرضی تھی کہ میں بھی مجدد ہوں مولوی رشید احمد گنگوہی نے بھی کفر میں حد کردی اشتہار دیا کہ علانیہ سب وشتم کرد مرزا مسیلمہ ہے سود عنسی ہے.کذاب ہے.مفتری ہے.وجال ہے نعوذ باللہ منہا.مولوی صاحب پر ایک تو یہ وبال پڑا.اور دو سرا و بال یہ پڑا کہ مجدد کہلایا.اس وبال و نکال کا نتیجہ یہ ہوا کہ بیوی مری بیٹا مرا دو بیٹوں کی بیویاں مریں صرف اکیلا رہ گیا پھر نا بینا ہو گیا اور حدیث جو پڑہایا کرتا تھا وہ پڑھانا جاتا رہا کئی ایک مرید جو اس کے تھے اور بڑے تھے مر گئے اور سارا کارخانہ درہم برہم ہو گیا.اور مولوی عبد القادر صاحب جو مرید اور خلیفہ تھے وہ حضرت اقدس علیہ السلام کے مرید ہو گئے اس ان کے مولوی گنگوہی کو سخت ہم د غم ہوا.حضرت اقدس علیہ السلام نے مباہلہ کے لئے بھی بہت مولوی رشید احمد

Page 199

تذكرة المهدى 197 متوفی سے تحریری اور زبانی کہا لیکن مباہلہ نہ کیا اور ایک وبال مولوی صاحب پر یہ پڑا کہ بار بار ان کی زبان سے نکلا کہ جیسے الہام میرزا غلام احمد قادیانی کو (عليه الصلوۃ والسلام) ہوتے ہیں اس سے بڑھ کر ہمارے مریدوں کو بھی ہوا کرتے ہیں گویا مفتری علی اللہ بھی بنا.حضرت اقدس علیہ السلام نے اشتہار دیا تھا کہ مولوی رشید احمد گنگوہی اور احمد اللہ امرتسری اور رسل بابا د غیر ہم مجھ سے مباہلہ کرلیں گیارہ عذابوں میں سے ایک یہ عذاب ضرور ان پر اگر یہ مقابلہ مباہلہ نکریں گے پڑے گا منعملہ ان عذابوں کے ایک یہ عذاب تھا کہ سانپ کاٹے اور پھر وہ جانبر نہ ہو سکے.سو مولوی رشید احمد گنگوہی متوفی کو سانپ نے کاٹا.حالانکہ مولوی صاحب کو سانپ کے کاٹے کا علاج دعوئی سے تھا.اور سینکڑوں کو س تک ان کا پڑھا پانی جاتا تھا لیکن یہ عذاب الہی تھا اور سانپ نہیں تھا بلکہ غلاظ شداد فرشتوں سے ایک فرشتہ تھا اور سانپ کے ڈسنے کے بعد تین چار روز تک زندہ بھی رہا لیکن اسی زہر سے مرگیا خدا تعالیٰ نے دکھا دیا کہ اب یہ مامور د مرسل کی مخالفت کا عذاب ٹل نہیں سکتا.ان کے مرنے سے تین ماہ یا دو ماہ پیشتر مجھے ایک کشفی نظارہ میں دکھائی دیا کہ راستہ میں ایک مکان کو چھوڑ کر برے کپڑے پہنے ہوئے مولوی رشید احمد زمین پر لیٹ گئے میں نے یہ اپنا کشف حضرت اقدس علیہ السلام سے بیان کیا اور اس وقت حضرت فاضل امروہی بھی تشریف رکھتے تھے حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب کی موت آگئی سو ایسا ہی واقعہ ہوا الحمد للہ علی ذلک - (9) منجملہ ان کاذب مدعیان مہدویت کے ایک شخص شیخ محمد یوسف سہارنپور کا تھا اس کو کچھ علم عربی تھا سیاہ فام پستہ قد ایک قسم کا اس کو قطرب مانیا تھا اس نے بھی دعوئی مہدویت کیا تھا اتفاق سے وہ قادیان بھی آیا تھا میں اور جناب محترم سید السادات میر ناصر نواب صاحب ابو الضعفاء سلمہ اللہ تعالٰی ہم اس سے ملنے کے لئے گئے تھے اور وہ ایک مسجد میں ارائیوں کی ٹھرا تھا وہ ہمارے.

Page 200

تذكرة المهدي 198 حصہ اول ساتھ ساتھ حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اس روز تو کوئی تھوڑی سی باتیں غیر متعلق ہوتی رہیں.دوسرے روز وہ پھر آیا اور مغرب کی نماز مسجد مبارک میں اس نے پڑھی اور بعد نماز شام اس نے اپنا دعوئی مہدویت پیش کیا اور ایک حدیث اپنے دعوئی مہدویت میں بیان کی لیکن اس کا ترجمہ اور جب اصل مانگی گئی تو کہا کہ مشکوۃ شریف میں ہے مشکوۃ شریف منگوائی گئی اس نے بہت سی ورق گردانی کر کے کہا کہ تم نکال دو یہ یاد نہیں رہا کہ حضرت فاضل امرد ہی سلمہ یا حضرت خلیفتہ المسیح علیہ السلام نے مشکوۃ شریف ہاتھ میں لے کر کھولی اور حدیث نکالنی چاہی لیکن حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے منع کردیا اور فرمایا ہمیں تمہیں کیا غرض ہے جو حدیث نکالیں ان کو خود ہی نکالنی چاہئے جو مدعی ہے تاکہ ہم اس کا علم بھی دیکھ لیں اور حدیث دائی معلوم کرلیں پھر کتاب بند کر کے اس کے ہاتھ میں دیدی اس کے ہاتھ کانپ گئے اور زبان میں لکنت پیدا ہو گئی حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنے دعوئی کے ثبوت پیش کئے اور بڑے زور سے تقریر کی اس تقریر اور ثبوت کو سن کر ایک سید صاحب جو پہلے عیسائی تھے اور عیسائیت میں شاید شادی بھی کرلی تھی وہ معہ بیوی کے حضرت اقدس علیہ السلام کے ہاتھ پر مسلمان اور بیعت ہوئے تھے اور وہ شاید جہلم کی ظرف کے رہنے والے تھے ایک ایسا وجد آیا کہ جیسے صوفی قوالی میں لوٹتے ہیں اور ان پر اس لذت میں اپنی بے ہوشی ہوئی کہ کچھ کسی کی خبر نہ رہی اس مدعی کاذب نے اس تقریر اور ثبوت کی جو حضرت اقدس علیہ السلام نے بیان کئے تھے تکذیب کی اور اس کی زبان سے یہ لفظ نکلا کہ تو جھوٹ بولتا ہے اور تیرا دعویٰ جھوٹا ہے پس اس سید نے اٹھ کر ایک ایسی دو ہنٹر ا سکی کمر میں ماری کہ وہ دہرا ہو گیا.اور چلا اٹھا.پھر لوگوں نے اس کو پکڑ لیا اور میں نے اس مدعی کاذب کو اپنی طرف کھینچ لیا پس اس نے گھبرا کر لڑکھڑائی ہوئی زبان سے کہا کہ حضرت مجھ کو میرے جائے فرد گاہ تک پہنچا دو حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ دو آدی

Page 201

تذكرة المهدى 199 اول ان کو بحفاظت تمام پہنچا دو اس نے کہا کہ کسی پر مجھ کو اطمینان نہیں ہے میرے ساتھ صاحبزادہ سراج الحق صاحب کو جو میرے ہموطن بھی ہیں اور جناب میر ناصر نواب ماسب کو بھیج دو ان پر مجھے اطمینان ہے پس حضرت اقدس علیہ السلام نے ہم دونوں کو حکم دیا کہ جاؤ ان کو ان کی جائے فرودگاہ پر چھوڑ آؤ پھر ہم دونوں اس کے ساتھ ہوئے اور وہ لرزتا اور کانپتا آگے پیچھے دیکھتا ہوا چلا کہ کوئی اور آکے میری خبر نہ لے لے میں نے اور حضرت میر صاحب نے کہا کہ ڈرو مت ہم تمہارے ساتھ ہیں اب تم کو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا مگر تم نے بڑا غضب کیا کہ منہ پر ایسے گندے الفاظ بولے اس نے کہا میری غلطی ہوئی اور میں تو رات کو ہی یہاں سے چلا جاؤں گا ہم اس کو اس کی جگہ مسجد میں چھوڑ آئے اور حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ ان کے واسطے کھانا تو بھجوا دو پھر کھانا لے کر گیا اور کھانا کھلا کر واپس آیا اور میں نے کہا کچھ اور ضرورت ہے کہا کہ میرے پاس خرچ نہیں ہے میں نے حضرت اقدس علیہ السلام سے عرض کیا کہ ان کو خرچ کی ضرورت ہے حضرت اقدس علیہ السلام نے جیب سے ہوا نکالا اور چار روپے مجھے وئے کہ دے آؤ میں وہ چار روپیہ لے کر اس مدعی کاذب کے پاس گیا اور روپیہ وئے کہا کہ مرزا صاحب تو بڑے خوبیوں کے آدمی ہیں میرا سلام کہہ دیتا اور یہ کہ دینا کہ میری خطا معاف فرما دیں پس وہ اسی وقت ایک چھوٹا سا بقچہ جو لپٹا ہوا اور میلا تھا اور شاید ایک جوڑا کپڑوں کا وہ بغل میں لے کر چلدیا میں نے بہت کہا اور ٹھہر دکھانے کا تو کوئی فکر ہی نہیں ہے لنگر سے آتا رہے گا اور جس قسم کا کھانا تم کھاؤ گے وہ بھی تیار کرادوں گا اس نے نہ مانا اور چلدیا خدا جانے وہ کہاں جا کر ٹھرا ہو گا اور کہاں گیا ہو گا پھر اس کا کوئی پتہ ہمیں نہیں ملا.نواب صدیق حسن خان کا حال (۰) ایک شخص مدعی مجددیت نواب صدیق حسن خان مرحوم بھی تھے گو کھلم کھلا دعوئی نہیں کیا لیکن اپنی تحریروں میں اس قسم سے اپنا دعویٰ

Page 202

تذكرة المهدى 200 لکھا ہے کہ ان کی کتابیں پڑھنے والے خوب جانتے ہیں مگر انہوں نے صدی کو نہیں پایا بجائے دعوئی مجددیت کے اپنی عزت و ثروت اور نوابی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے حضرت فاضل امروہی دام فیفہ ان کی قوت بازو اور مدد گار تھے بعض کتابیں جو دو سروں کی غیر مشہور تھیں کاٹ تراش کر اور مقدم و موخر مضامین کر کے اپنے نام سے مشہور کر دیں.حضرت اقدس علیہ السلام نے براہین احمدیہ لکھی تو ایک جلد نواب صاحب کے پاس بھی بھیج دی نواب صاحب نے کتاب چاک کر کے واپس بھیج دی.اور کہا کہ ہم کو ایسی کتابوں کی کوئی ضرورت نہیں ان کتابوں کے پاس رکھنے سے گورنمنٹ برطانیہ کی ناراضگی ہے حضرت اقدس علیہ السلام نے ایک مضمون جو براہین احمدیہ کے پرچہ منظمہ میں لکھا ہے وہ انہیں کی نسبت ہے اس میں ایک جملہ ایسا حضرت اقدس علیہ السلام نے لکھا ہے کہ : بظاہر تو علم پر دلالت کرتا ہے مگر جو دیکھا جاوے تو نواب صاحب کی بے عزتی اور تباہی اور امراض ملکہ کی خبر دے رہا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ گورنمنٹ آپ پر مہربان رہے اصل الفاظ حضرت صاحب کے ذیل میں درج ہیں.تھوڑا عرصہ گزرا ہے کہ اس خاکسار نے ایک نواب صاحب کی خدمت میں کہ جو بہت پار سا طبع اور متقی اور فضائل علمیہ سے متصف اور قال اللہ اور قال الرسول سے بدرجہ نمایت خبر رکھتے ہیں کتاب براہین احمدیہ کی اعانت کیلئے لکھا تھا سو اگر نواب صاحب ممدوح اس کے جواب میں یہ لکھتے کہ ہماری رائے میں کتاب ایسی عمدہ نہیں جس کیلئے کچھ مدد کی جائے تو کچھ جائے افسوس نہ تھا مگر صاحب موصوف نے پہلے تو یہ لکھا کہ پندرہ میں کتابیں ضرور خریدیں گے اور پھر دوبارہ یاد دہانی پر یہ جواب آیا کہ دینی مباحثات کی کتابوں کا خریدنا یا ان میں مدد دیتا خلاف منشا گورنمنٹ انگریزی ہے.اس لئے اس ریاست سے خرید وغیرہ کی کچھ امید نہ رکھیں سو ہم بھی نواب صاحب کو امید

Page 203

تذكرة المهدى 201 حصہ اول گاہ نہیں بناتے.بلکہ امید گاہ خداوند کریم ہی ہے اور وہی کافی ہے خدا کرے گورنمنٹ انگریزی نواب صاحب پر بہت راضی رہے * اس کے بعد نواب صاحب معزول کئے گئے اور طرح طرح کے مصائب میں گرفتار ہوئے اور ایسی بیماری ان کو ہوئی کہ جس سے وہ جانبر نہ ہوئے آخر الامر وہ سمجھ گئے کہ یہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کی بے ادبی کا نتیجہ ہے اور دو شخص معافی کے لئے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں بھیجے اور حضرت اقدس علیہ السلام نے اس گستاخی کی معافی دی اور دعا دی اور شاید آپ کو الہام بھی ہوا کہ ان کا خطاب نوابی مل جاوے گا اور دعا حضرت اقدس علیہ السلام کی قبول ہو گئی چونکہ خطا چھوٹی خطا نہیں تھی اس واسطے زندگی ا میں انکو عمدہ نہ ملا اور وہ خطاب اور عمدہ اس وقت ان کو پہنچا کہ جب نواب صاحب انتقال کر گئے تھے اس حقیقت سے حضرت فاضل امروہی خوب واقف ہیں اور تفصیل اس کی آپ کو خوب معلوم ہے نواب صاحب کو مولوی محمد حسین بٹالوی اور دوسرے غیر مقلدوں نے مجددمان لیا تھا.(۱۱) ایک شخص انبالہ اور تھانیسر میں تھا اس نے بھی امام اور مجدد ہونے کا دعوی کیا تھا.اور بہت سے الہام شائع کئے تھے مگر وہ بھی ناکام و نامراد اور خراب دختہ ہو کر نیست و نابود ہو گیا اور اس کا کچھ بھی پتہ نہیں ہے.(۱۲) ایک الہی بخش اکار ٹسٹ لاہوری تھا جس نے اپنے دعوئی اور الہام میں حد کردی اور ایک کتاب عصاء موسیٰ لکھی اور شائع کی اور وہ خیر الدنيا والاخرة - دنیا سے گیا اور ابدی لعنت اپنے ساتھ لے گیا.(۱۳) ایک صوفی درویش اجمیر میں تھا جس کا دعویٰ تھا کہ چودھویں صدی کا مجدد میں ہوں گا وہ نماز نہیں پڑھتا تھا جب اس سے دریافت کیا گیا کہ نماز کیوں نہیں پڑہتے ہو اور احکام شرعی کیوں نہیں بجالاتے ہو تو اس کا جواب یہ تھا کہ میں براہین احمدیہ : روحانی خزائن جلد اول صفحه ۳۲۰

Page 204

تذكرة المهدي 202 حصہ اول مکلف نہیں ہوں ابھی نا بالغ ہوں نا بالغ پر نماز کب جائز ہے شرعی بالغ پندرہ سولہ برس میں ہو جاتا ہے اور روحانی بالغ چالیس سال میں ہوتا ہے ابھی میری پینتیس سال کی عمر ہے جب میں چالیس برس کا ہو جاؤں گا تب احکام شرعی و روحانی کا پابند ہوں گا اور اپنے دعوئی میں یہ کریما کا شعر پڑھا کرتا تھا کہ چهل سال عمر عزیزت گذشت مزاج تو از حال طفلی نگشت بس ان کے دعوئی اور دلائل کا کریماہی انتہا تھا قرآن شریف سے ناواقف تھا صوفیائے کرام کی کتابوں سے بھی ناواقف تھا اور دعوے ایسے تھے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اور حضرت سید عبد القادر جیلانی اور بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہم اجمعین بھی اس کے نزدیک گویا ایک طفل مکتب تھے نعوذ باللہ منہا.اب اس کا پتہ نہیں چلتا کہ وہ مر گیا گل گیا.کیا ہوا.(۱۳) منیجمله مدعیان امامت و مجددیت وغیرہ کے ایک مولوی فضل الرحمان گنج مراد آبادی بھی تھے وہ تو نہیں لیکن ان کے مرید پیران نے پرند بلکہ مریدان مے پرانند و مدعی ست گواہ چست بیان کرتے تھے کہ مولوی فضل الرحمان شاہ صاحب ہی اس چودھویں صدی کے مجدد ہیں بہر حال مولوی صاحب نے دعوئی نہیں کیا لیکن جب تک کوئی شخص اپنے پیر کی زبان سے اشارہ یا کنایتاً تھوڑی بہت بات نہ سنے تو ایسی عظیم الشان بات منہ سے نہیں نکال سکتا.سو دہ بھی اس دنیا سے رحلت کر گئے.اور چودھویں صدی کا کچھ کسی قدر بھی کافی حصہ نہیں لیا.(۱۵) منجملہ مدعیان کے ایک چراغ الدین ساکن جموں تھا اس کا بیان لکھنے کی ضرورت نہیں ہے بہت کچھ حضرت اقدس علیہ السلام نے لکھ دیا ہے ہماری طرف سے اتنا ہی لکھ دیتا کافی ہے کہ مرگئے مردود جن کی فاتحہ نہ درود- (۱۷) ایک مرزا امام الدین بیگ ساکن قادیان مرزا امام الدین کا حال تھا اس نے بھی بھنگیوں خاکروبوں کا پیشوا ہونے کا دعویٰ کیا تھا لیکن تھاد ہر یہ اس کا سارا جلسہ ساری کارروائی شروع سے

Page 205

تذكرة المهدي 203 اول عین موت کے وقت تک کی میں نے بھی دیکھی ہے اور میری اس سے ملاقات تھی خدا کو نہیں مانتا تھا رسول کا تو کیا ذکر ہے شروع بات یہ ہوئی کہ جب حضرت اندس علیہ السلام کا دعویٰ مجددیت کا اعلان ہوا اور لوگ دور دور سے آنے لگے تو اس کے بھی جی میں آئی کہ ہم بھی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنا ئیں جیسے کہ حضرت اقدس مشہور و معروف ہو گئے ہم بھی ہو جاویں گویا خدائی میں اندھیر سمجھا کہ اندھا راجہ پھوٹی نگری بس اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی.اور سوچا کہ ہندو مسلمان عیسائی تو اہل علم ہیں عظمند ہیں رہے چہار سو وہ بھی ہندؤں میں شامل ہیں ایک قوم خاکروبوں کی ہے شاید ان میں پٹری جم جائے بس اس نے جھٹ پٹ ایک اشتہار دیدیا جس میں اپنے آپ کو لال گرو کا پیرو بتایا خاکر دب بیچارے بے عقل تو تھے ہی وہ معتقد ہو گئے اور نذر نیاز آنے لگی ان کو دس احکام کی تعلیم دی جو توریت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ملے تھے اس وقت کھلم کھلادہر یہ نہیں تھا کہ بلکہ وجودی تھا ایک درویش ضعیف العمر جس کو میں نے دیکھا ہے وہ سخت وجودی تھا اور ایک پستہ قد چگی ڈاڑھی پتلا دبلا بے علم تھا اس کی صحبت اس نے اختیار کی رفتہ رفتہ وہر یہ ہو گیا چنانچہ اس کے آخری رسالوں سے ثابت ہے.ایک روز مولوی امام علی صاحب علمی اکسٹرا اسٹنٹ نے ایک خاکروب سے دریافت کیا کہ تم خاکروب ہو خاکروبوں میں سے تمہارا پیشوا ہونا چاہئے تھا اس نے کہا نہیں جی پہلے بھی لال بیگ مغل تھا اور اب مغل ہونا چاہئے جو یہ امام الدین بیگ ہے یہ تو مغلوں کا ہی حق ہے جب خاکروب زیادہ آنے لگے مردار خواری ان سے چھڑانی چاہی چند مخصوں نے چند روز کے لئے چھوڑ دی تھی جب کام نہ چلا تو پھر کھانے لگے پھر اس نے گول چبوترہ بنایا وہ مسجد لال بیگیان قرار پائی اور یہ حکم دیا کہ دو وقت عبادت کے طلوع و غروب آفتاب ہیں پس دو بار انہی وقتوں میں نماز پڑھنی چاہئے اس گول چبوترہ کے بیچ میں ایک جھنڈا نصب کیا اس کے پاس امام کھڑا ہوتا تھا اور چاروں طرف گول حلقہ باندھ کر

Page 206

تذكرة المهدي 204 مقتدی کھڑے ہوتے تھے امام کا منہ پہلے جانب شرق ہو تا اور امام کا نام ناقوس رکھا پس وہ ناقوس پہلے زور سے کہتا کہ یا ہو یا من ہو.پھر سب مقتدی اس لفظ کو کہتے پھر وہ ناقوس جانب شمال منہ کرتا اور کہتا چار دن طرف د سیند اڈ ہول میندا یعنی چاروں طرف دکھائی دیتا ہے معشوق ہمارا ڈھول دولہ کا بگاڑا ہوا لفظ پنجابی ہے پھر مغرب کی طرف منہ کر کے کہتا وہ پنجابی جملہ ہے میرے یاد نہیں رہا.پھر دکن کی طرف منہ کر کے کوئی جملہ ادا کرتا.بس یہ نماز تھی اسلام سے سخت نفرت دلاتا تھا کئی شہروں گاؤں میں دورہ کرتا تھا بہت خاکروب جمع ہوتے ایک دفعہ میں فیروز پور میں تھا اور یہ امام الدین بیگ بھی وہاں بھنگیوں کے مجمع میں بیٹھا ہوا تھا پھر اس کی سواری چلی آگے آگے ڈھول ڈھپڑی تاشے بجتے تھے لیکن اپنا پکوا کر کھاتا صرف ان سے نقد لے لیتا مجھے اس نے دیکھ لیا کہنے لگا او پیر قادیانی چلائیں مرزا غلام احمد کول.میں نے کہا کہ میں ابھی تو آیا ہوں ایک مہینہ کے بعد جاؤں گا باقی اس کا حال آئیندہ کہیں موقعہ پر لکھا جائے گا.مجدد امام رسول نبی بننا اور نرا زبان سے دعوی کر دینا تو آسان ہے لیکن وہ کام کر کے دکھاتا کہ جو اس کے منصب امامت کے لائق ہے اور جس کام کے لئے وہ مبعوث ہوا.ذرا کاری دارد - یہ کام اسی شخص کا تھا جو کہہ گیا اور کر کے دکھا گیا جتنا گیا بتلا گیا سوتی دنیا کو اپنے علم خدا داد سے تقریر سے تحریر سے نشانات سے کرامات سے حال سے قال سے رفتار سے کردار سے ہلا ہلا کر جگا کے بیوقوفوں کو و قوف دلا کے اپنی صداقت کے بین نشان دکھلا کے ظاہر کر گیا کہ در حقیقت میں خدا کا بھیجا ہوا مامور ہوں چنانچہ فرمایا یونسی غفلت کے لحافوں میں پڑے سوتے ہیں وہ نہیں جاگتے سو بار جگایا ہم نے مصطفیٰ پر ترا بیحد ہو سلام اور رحمت اس سے یہ نور لیا بار خدایا ہم نے ربط ہے جان محمد سے میری جاں کو مدام دل کو یہ جام لبالب ہے پلایا ہم نے

Page 207

تذكرة المهدى 205 ر اول ترے منہ کی ہی تم میرے پیارے احمد تری خاطر سے یہ سب بار اٹھایا ہم نے تجھ سا بہتر نظر آیا نہ کوئی عالم میں لا جرم درپہ ترے سر کو جھکایا ہم نے ہم ہوئے خیر اہم تجھ سے ہی اے خیر رسل تیرے بڑہنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے کا فرد محدود جال ہمیں کہتے ہیں نام کیا کیا غم ملت میں رکھایا ہم نے ہر میدان میں فتح ہر موقع پر منصور ہر ایک مقام پر مظفر وہ کون تھا وہ وہی تھا.جس کا نام نامی و اسم گرامی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی تھا علیہ الصلوۃ والسلام اک خمسه جس نے دیکھے نین متوالے ترے مست و بے خود ہو نہ وہ تو کیا کرے نظر جس پر پڑے کہتا پھرے من ندیدم چون تو ہرگز دلیرے کر کتنے عاشق کے غار تکرے وہ متجلی ہے تمہاری اے جناب دونوں عالم جس نے کرڈالے خراب آدمی ہوں کس طرح لاؤں میں تاب زمین پنہاں بماند آفتاب گر برائے ما بیداد از منظرے وہ بھی دن ہوگا کبھی عالی ہم میرے گھر تک آپ کے آئیں قدم میں پکاروں شوق یه دمیدم من سرے دارم که در پایت تو کہ ور خوبی نداری ہم سرے در حقیقت مامورین و مرسلین کی من جملہ اور شناختوں کے یہ بھی ایک اعلیٰ درجہ کی شناخت ہے کہ وہ خدا کے فضل سے دنیا میں آکر ایک عالم کو حیران کر دیتے ہیں اور اپنی فتح اور دوسروں کی شکست اپنا وقار دوسروں کا ادبار اپنی نصرت دوسروں کی ہزیمت کا موجب ہوتے ہیں ورنہ یوں تو رمالی جفری بھی کچھ نہ

Page 208

تذكرة المهدى 206 کچھ علم غیب کا دعویٰ کر بیٹھتے ہیں لیکن وہ لوگ کیسے ہوتے ہیں اور انکا کیا کام ہوتا ہے بخلاف مامورین و مرسلین اپنا ادبار اور دوسروں کا وقار اپنی ہزیمت دو سروں کی نصرت اپنا افلاس و نکبت اور دوسروں کی عزت و حرمت آپ ایک ایک پیسہ کے واسطے دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلاتے اور زائچہ نکاتے اور پانسہ پھینکتے ہیں دوسروں کو عزت کی روپیہ کی دولت وغیرہ کی بشارتیں دیتے ہیں لیکن آپ ذلت و خواری و افلاس میں رہتے ہیں دوسروں کے دروں پر جاتے ہیں ان کو ان سے کیا نسبت بڑے جاہل اور کو دن اور احمق ہیں وہ لوگ جو پیشگوئیوں کو رمالوں اور نجومیوں کے زائچہ سے ملاتے ہیں اور نسبت دیتے ہیں یہ لوگ کبھی عزت نہیں پاتے ہمیشہ ذلت وخواری کے گڑھے میں پڑے رہتے ہیں خدا تعالیٰ سے انکا کوئی تعلق نہیں ہوتا یہ لوگ ذرای ابتلا میں گھبرا جاتے ہیں جان دیدیتے ہیں اور اول تو انہیں ایمان نہیں ہوتا اور جو ذرہ برابر ایمان ہو وہ بھی کھو بیٹھتے ہیں نہ انہیں تقویٰ نہ طہارت نہ خشیت صرف اپنی امانی و خواہشوں کے پیرو ہوتے ہیں بات بات میں جھوٹ قدم قدم پر لغزش اور خدا کے فرستادے ابتلاؤں میں قدم آگے بڑہاتے ہیں کیسے ہی ہولناک نظارے پیش آدیں کسی قسم کے پہاڑ سر پر کریں یہ پیسے جاویں رگڑے جاویں مگر نتیجہ میں کامیاب انجام میں بہرہ مند برہ در اور بار در ہوتے ہیں گھر میں بیٹھے ہیں تو بادشاہ ہیں خدا سے تعلق خدا سے ہم کلام خدا سے راز و نیاز دنیا و مافیہا سے بے تعلق دریائے رحمت الہی کی بارش برستی ہے گھر سے باہر جاویں تو دریائے رحمت الہی ساتھ ہے ان کی آنکھ میں برکت ان کی نظر میں سب کچھ ان کے قدموں میں برکت ان کے ہاتھوں میں برکت ان کی ہر ایک چیز میں رحمت و برکت ان کے ساتھیوں میں وَ لَهُمْ أَزْ وَلا تُمطَهَّرَةٌ برکت و رحمت پاکیزگی خود پاک دوسروں کو پاک بنانے والے اور خود نور کے پہلے منور اور ساتھ ہی منور غرضیکہ ان لوگوں کے علاوہ اور بھی لوگ تھے جنہوں نے دعویٰ مجددیت کیا تھا اور وہ ناکام و نا مراد دنیا سے اٹھ گئے اور حضرت

Page 209

تذكرة المهدى 207 اقدس علیہ السلام کا فرمانا صحیح و درست ہوا.جب میں حضرت اقدس سے مل کر اور شرف صحبت حاصل کر کے واپس سر سادہ آیا تو میں نے لوگوں سے بیان کیا کچھ مصدق ہوئے اور بہت سے حیرت زدہ اور بہت سے مکذب ہو گئے لیکن میری بیوی نے صدق دل سے تصدیق کی.ایک ہفتہ کے بعد میری بیوی کہنے لگی کہ آج رات میں نے ایک خواب ایک خواب دیکھا ہے کہ ایک بزرگ جن کے سرد ریش میں مهندی لگی ہوئی ہے اور بال سفید ہیں مونڈ ہوں تک لٹکتے ہیں اور درمیانہ قد اور دہرا بدن ہے گندمی رنگ ہے وہ ایک مکان میں کھڑے ہیں اور دنیا میں چاروں طرف قتل عام ہو رہا ہے اور کہیں آگ لگ رہی ہے اور کسی جگہ طوفان آرہا ہے اور کسی طرف تلواریں اور نیزے چل رہے ہیں.اور روئے زمین پر کہیں امن کی جگہ نہیں لوگ غل مچارہے ہیں روتے ہیں اور چلاتے ہیں بچے عورتیں بڑے چھوٹے حیران و پریشان اور مضطرب ہیں اور میں بھی حیران کھڑی ہوں اور دل میں کہتی ہوں کہ الہی کدھر جاؤں کوئی جگہ امن کی نہیں ملتی میری نظر اس مکان کے بالاخانہ پر پڑی وہ بزرگ مجھے دیکھنے لگے اور فرمانے لگے کہ بیٹی اوپر آجاؤ میں یہ غنیمت سمجھ کر کہ کچھ تو امن کا مکان ملا او پر بالا خانہ پر اس بزرگ کے پاس گئی انہوں نے فرمایا کہ بہت اچھا ہوا کہ تم یہاں آگئیں دنیا میں سوائے ہمارے اب کوئی جگہ امن کی نہیں ہے تم بھی رہو میں نے یہ بات اس بزرگ کی زبانی سنی خدا کا شکر کیا پھر میری آنکھ کھل گئی بتلاؤ وہ کون بزرگ تھے اور یہ کیا بات ہے میں نے کہا یہ حلیہ یہ صورت یہ لباس اور یہ جیت جو تم نے بیان کی ہے حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی کی ہے اور یہ مکان بھی وہی ہے جو میں دیکھ کر آیا ہوں کہنے لگی شاید وہی ہوں اور شاید دنیا میں پھر غد ر پڑ جاوے اور بے امنی ہو جاوے اور قادیان میں ہی امن ملے چلو وہیں چلے چلیں میں نے کہا کہ تم عورت ہو عورتوں کے ایسے ہی چھوٹے چھوٹے خیال ہوا کرتے ہیں اب غدر

Page 210

تذكرة المحمدي > 208 کہاں اور ایسی بے امنی کیسی یہ بے امنی روحانیت اور عذاب الہی کی معلوم دتی ہے کیونکہ میں جواب قادیان شریف گیا تھا تو حضرت اقدس علیہ السلام کے سامنے ایک شخص نے جو ہندوستان کا تھا اور شاید وہ اس ضلع گورداسپور میں ملازم تھا اتفاق سے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ ایک شخص نے آپ کے دعوئی مجددیت پر اعتراض کیا اور پھر اس نے استخارہ کیا اور اس کو استخارہ میں یہ آیت معلوم ہوئی آیت تو یاد رہی نہیں لیکن ں کا مطلب یہ تھا کہ جو اس کو نہیں مانے گا وہ ہمیشہ کی جنم میں ڈالا جاوے گا سو ایسی ہی بات معلوم ہوئی ہے کہ لوگ انکار کریں اور اس انکار کی نوبت دور تک پہنچے اور لوگوں پر طرح طرح کے عذاب آدیں جب ہم کئی برس کے بعد قادیان گئے تو میری بیوی ساتھ تھی جب اس نے حضرت اقدس علیہ السلام کی شکل دیکھی تو دیکھتے ہی پہچان گئی کہ وہ جو میں نے خواب میں دیکھا تھا ہو بہو یہ وہی بزرگ ہیں اور دوڑی آئی اور مجھ سے کہنے لگی کہ خدا کی قسم جن کو میں نے خواب میں دیکھا تھا وہ یہی حضرت اقدس ہیں اور وہی مکان ہے یہ خواب میری بیوی نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں بیان کیا حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ خواب تمہارا سچا ہے پھر میری بیوی نے بیعت کی.اور صدق دل سے بیعت کی پھر ایک مدت کے بعد یہ خواب یوں سچا نکلا کہ دنیا نے حضرت اقدس علیہ السلام کی تکذیب کی اور دنیا پر عذاب کبھی زلزلہ کی شکل میں کبھی طاعون کی شکل میں کبھی طوفان کی شکل میں کبھی اور رنگ میں غرض کہ روحانی و جسمانی عذاب دنیا پر نازل ہوا اور لوگوں میں پریشانی پھیلی اور سوائے قادیان کے جیسا کہ حضور علیہ السلام نے خواب میں میری بیوی سے فرمایا تھا کہیں امن و امان نہ رہا اور دار الامن ہوا تو قادیان ہی ہوا.ایسا ہی ایک خواب میرے بھانجے حضرت احمد نے ایک روز دوسرا خواب دیکھا صبح کو اٹھ کر کہنے لگا کہ ماموں صاحب تم مرزا صاحب

Page 211

تذكرة المهدي 209 کی بیعت توڑ دو.اب بھی کچھ نہیں گیا ہے.میں نے کہا کیوں کہنے لگا رات کو میں نے ایک خطر ناک پر وحشت خواب مرزا صاحب کی نسبت دیکھا ہے چونکہ وہ نوجوان بچہ تھا وہ اپنی ناسمجھی سے مبشر خواب کو منذر سمجھ گیا علم رویا ایک عجیب علم ہے خدا کے پاکیزہ علوم اور اسرار سے ہے اس کو وہی سمجھ سکتے ہیں جن کو حضرت باری تعالیٰ عزاسمہ سکھلاتا اور بتلاتا ہے میں نے کہا اچھا وہ خواب بیان کرو اس نے بیان کیا کہ ایک بڑا وسیع مکان ہے اس میں مرزا صاحب بیٹھے ہیں اور سامنے ایک لاٹھی رکھی ہوئی ہے اور چاروں طرف بت پتھر کے رکھے ہیں سب کا منہ مرزا صاحب کی طرف ہے اور میرزا صاحب ان کو دیکھ رہے ہیں.اور وہ تمام بت ہاتھ جوڑ رہے ہیں اور تمام کے تمام بت ناقص ہیں کسی کا ایک ہاتھ نہیں کسی کے دونوں ہاتھ نہیں کسی کی ایک ٹانگ نہیں ہے اور کسی کے دونوں نہیں کسی کے ایک آنکھ نہیں اور کسی کے دونوں نہیں کسی کا ایک کان نہیں اور کسی کے دونوں نہیں غرضیکہ کوئی لولا کوئی لنگڑا کوئی کانا کوئی اندھا اور تھوڑے سے آدمی بھی بیٹھے ہیں اور منجملہ ان آدمیوں کے ماموں صاحب تم مرزا صاحب کے سامنے بیٹھے ہو تم اور سب لوگ اور تمام بت مرزا صاحب کے آگے ہاتھ جوڑ کر بیٹھے ہیں کسی کا ایک ہاتھ ہے تو وہ ایک ہاتھ ہی لمبا کر رہا ہے یعنی جوڑ رہا ہے کسی کا ہاتھ نہیں صرف مونڈھا ہے وہ مونڈھے کو ہی آگے کئے ہوئے ہے گویا وہ بھی ایک طریق سے ہاتھ جوڑ رہا ہے اور ایک بت سب سے بڑا ہے وہ بھی ہاتھ جوڑ رہا ہے اور اس کے جسم ہی جسم ہے اور کوئی عضو سلامت نہیں بس یہ خواب میں نے سن کر سجدہ شکر اللہ جل شانہ کی بارگاہ میں کیا اور پھر میں نے کہا اے بھائی یہ خواب تو عجیب طرح سے خدا کی قدرتوں کو ظاہر کر رہا ہے اور حضرت اقدس علیہ السلام کے دعوی کی تصدیق کرتا ہے گویا آپ سردار ہیں مقتداء میں پیشوا ہیں اور تمام عالم کے لوگ یعنی اہل علم اور بے علم عاجز ہو کر حضرت اقدس کے آگے ہاتھ جوڑ رہے ہیں اور اپنی عاجزی کا اقرار کر رہے ہیں

Page 212

تذكرة المهدى 210 اور سب سے بڑا بت حضرت اقدس کا پہلا مفر اول مکذب اگیتا ایذارساں مولوی محمد حسین بٹالوی ہے اس خواب سے مجھ کو تو خدا نے نصیحت اور عبرت دی لیکن وہ خواب میں حضرت اقدس علیہ السلام پر ایمان نہیں لایا اور بدبخت مكذب ہی ذلت کی موت سے مرا.اہل علم تو یوں عاجز ہوئے کہ عربی میں الہی تائید سے حضرت اقدس علیہ السلام نے کتابیں لکھیں کوئی انکا مقابلہ نہ کر سکا.اور عام یوں عاجز ولا چار ہوئے کہ طاعون زلزله طوفان دنیا میں آیا اور محمد حسین بٹالوی بڑا بت اور یہودا اسکر یونٹی یوں عاجز اور ذلیل ہوا کہ عربی کتابوں کا مقابلہ نہ کیا جلسہ مہوتسومین کچھ پیش نہ کر سکا اور اپنی اولاد وغیرہ کے ہاتھوں ذلیل وخوار ہوا.کسی نجی پر سد کہ بھیا کون ہو تین ہو یا ڈیڑھ ہو یا پون ہو اللهُمَّ مَالِكِ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَئ قَدِير یہ میری حاضری کا حضرت اقدس کی خدمت میں پہلا موقعہ تھا جو ایک معجزہ ۱۸۸۲ء اور ۱۲۹۸ھ تھی ایک روز فرمایا چلو سیر کو چلیں وہ وقت عصر کی نماز کے بعد کا تھا بارش برس کر تھی تھی تھوڑا سا آفتاب او پر تھا پس حضرت اقدس علیہ السلام اور میں اور دو یا تین آدمی اور تھے جن کا نام مجھے یاد نہیں میر کو موضع بوٹ کی طرف چلے ہر جگہ پانی راستہ میں بھرا ہوا اور کیچڑ بہت تھی جس سے چلنا دشوار تھا پس حضرت اقدس علیہ السلام بے تکلف چلتے تھے اور ہم سب تکلف سے قدم دیکھ دیکھ کر اٹھاتے تھے کوئی دو میل کے فاصلے پر نکل گئے.آپ نے فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب نماز مغرب کا وقت قریب آگیا چلو واپس چلیں میں نے عرض کیا کہ حضور کی جیسے مرضی مجھے اس اللہ کی قسم ہے کہ جس؟ کے قبضہ قدرت میں میری اور تمام مخلوق کی جان ہے اور روسیاہ ہے وہ اور لعنتی

Page 213

تذكرة المهدى 211 ہے وہ جو بات بنا کر جھوٹ بولے ہم واپس مکان پر آگئے اور سورج کچھ اوپر ہی تھا اور ہمیں بالکل امید نہ تھی کہ سورج اوپر رہے اور ہم مکان پر پہنچ کر نماز مغرب ادا کریں یہ اس وقت عجیب نظارہ تھا اور یہ ایک معجزہ تھا جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا جب مکان پر آئے تو با فراغت وضو کیا اور نماز مغرب ادا کی ہمیں گمان تھا کہ ہم عشاء کی نماز کے وقت مکان پر پہنچیں گے ایک مادی شخص اور اللہ تعالیٰ کی عجیب در عجیب قدرتوں پر ایمان نہ لانے والا شخص جو چاہے سو کے لیکن اللہ تعالی جو قادر مطلق ہے اور جو چاہتا ہے سو کرتا ہے اس نے اپنی قدرت دکھلائی میں نہیں جانتا کہ سورج کھڑا رہا یا زمین چھوٹی ہو گئی یا کیا وجہ ہوئی کہ لمبے عرصہ کی راہ کو چند منٹ میں ہم نے طے کر لیا اور معلوم بھی نہیں ہوا.اس قادر مطلق کی طاقتوں اور قوتوں اور قدرتوں میں عجیب اسرار پنہانی ہیں کہ جو نہ لکھنے میں آسکتے ہیں نہ بیان میں نہ تحریر میں وہ ذات پاک اور اس کے بھیجے ہوئے ایسی ہی قوت اور قدرت سے پہچانے جاتے ہیں ہم نے آپ کی ۲۵ سالہ صحبت میں تقلیدی خدا نہیں مانا نہیں پہچانا نہیں جاتا بلکہ حقیقی اور تحقیقی خدا مانا اور دیکھا اور معلوم ہو گیا کہ خدا ہے اور بے شک ہے وہ جو چاہتا ہے سو کر سکتا ہے اور جو چاہا سو کیا اور جو چاہے گا سو کرے گا بد بخت ہیں وہ انسان اور بڑے محروم اور بد قسمت ہیں وہ آدمی کہ خدا ظاہر ہوا اور اپنے مرسل کو بھیجا اور پھر انہوں نے نہیں مانا قادیان کی زمین قادیان کی گلیوں قادیان کے صحرا جنگل میں پنجاب میں ہندوستان میں کابل میں امریکہ میں عرب میں یورپ میں ہزاروں نہیں لاکھوں کروڑوں نشان الہی ظاہر ہوئے مگر اندھی آنکھوں نے نہ دیکھا اور مردار جسموں نے نہ مانا اور مردہ روحوں نے نہ محسوس کیا.ایک روز حضرت اقدس علیہ السلام کو الہام ہوا تھا کہ یہودا اسکریوطی بود اسکریوطی یہ الہام کیا یا ہوا وہ یوں ہوا کہ جیسے میں نے اپنے کشف میں آنحضرت ﷺ کی زیارت کی اور مولوی محمد حسین

Page 214

تذكرة المهدي 212 نصه اول بٹالوی کو اس کشف میں دیکھا تھا کہ مجلس مبارک میں آنحضرت ا کو پشت دیگر بیٹھا ہے سو دنیا ہی اس الہام نے ظاہر کر دیا کہ یہودا اسکریوطی مولوی محمد حسین بٹالوی ہے اگر چہ بعض آدمیوں نے ملا وامل ساکن قادیان آریہ پر چسپاں کیا اور ملاوامل نے یہ سنکر حضرت اقدس سے عرض بھی کیا کیونکہ یہ مذکورہ بالا شخص حضرت اقدس کا اس زمانہ میں بہت معتقد تھا کہ خدا کرے میری نسبت یہ الہام نہ ہو.اور میں اس کا مورد نہ بنوں اور جو ویسا زمانہ میرے برگشتہ بخت کا آئے تو ا اس سے پہلے میں مرجاؤں لیکن جہاں تک میری سمجھ ہے وہ یہ ہے گو ملا وامل آریہ مخالف ہو گیا مگر اس مخالفت سے وہ یہودا اسکر یوطی نہیں ٹھہر سکتا جب تک کوئی اس کا پورا مثل عملی طور سے نہ ہو جاوے یہ عملی نمونہ یہودا اسکر یوطی کا محمد حسین نے دکھلایا اور عملی طور سے ظاہر کر دیا کہ یہودا اسکر یوطی فی الواقع محمد حسین بٹالوی ہے اول اول یہ حضرت اقدس کا معتقد تھا اور یہاں تک اس کو اعتقاد تھا کہ حضرت اقدس علیہ السلام کی جوتیاں اٹھا کر چلتا تھا اور پھر اپنے رسالہ اشاعت السنہ میں بڑی تعریف حضرت اقدس کی لکھی اور آپ کو وضو بھی کرایا کرتا تھا اور آپ کے الہامات اور دعوئی کا مصدق رہا لیکن جب یہ مخالف ہوا تو ہو را اسکر یوطی کے سارے کام کر کے دکھلائے تحریر سے تقریر سے پوری مخالفت کی فتوی کفر اس سے شروع ہوا ابو لہب اور فرعون اسی کا نام حضرت اقدس کے الہام میں ہے اور گورنمنٹ برطانیہ میں اس نے مخبری اور گرفتاری جاسوسی کا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا.عیسائیوں کے مقدمہ میں جو اقدام قتل کا تھا گواہ بن کر عیسائیوں کی طرف سے عدالت میں گیا جیسے کہ یہودا اسکر یوطی نے حضرت مسیح علیہ السلام ناصری کے ساتھ کیا تھا ویسا ہی اس نے اپنے آپ کو اپنے فعل سے قول سے یہودا اسکریوطی بن کے ایک عالم کو دکھلایا اور یہودا اسکر یوطی کی طرح خذلان میں پڑا ذلت اٹھائی بے عزت ہوا دنیا سے.اولاد سے بیوی سے دامادوں محلہ والوں سے شہر والوں سے اور سب سے اور آخر کار عقل و علم.سے

Page 215

تذكرة المهدي 213 سلب ہو کر مورد غضب الہی ہوا.مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَ مَنْ يُضْلِلْهُ فَلا هَادِيَ له مولوی صاحب کے یہودا اسکر یوطی ہونے اور میرے کشف کی تصدیق میں کہ حضرت اقدس کو میں نے آنحضرت سید المرسلین کی شکل میں دیکھا اور مولوی صاحب کو آنحضرت لال کی طرف پشت پھیرے دیکھا کشف مولوی عبدالله صاحب غزنوی امرتسری مرحوم مغفور کا بھی ہے جو چھپ چکا ہے خلاصہ اس کا یہ ہے کہ حضرت مولوی عبد اللہ صاحب مرحوم نے دیکھا کہ مولوی محمد حسین کا جامہ چاک ہو گیا اور سر سے پیر تک پھٹ گیا اور بار بار فرماتے تھے کہ مولوی محمد حسین سے کوئی کہے کہ تو بہ کرے اس کا تکبر اس کو لے ڈوبا.اور علم کا جامہ چاک ہو گیا کیا دیکھنے والوں اور عقلمندوں کے لئے یہ تھوڑا نشان ہے؟ در حقیقت بہت بڑا نشان ہے اور اب تک موجود ہے وہ معترض جو اعتراض کیا کرتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب سے کوئی نشان ظاہر نہیں ہوا آپ کی کوئی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی وہ اس پیشگوئی اور نشان میں غور کریں حضرت اقدس علیہ السلام کو یہ بھی الہام ہوا کہ إِنِّي مُهِينٌ مَّنْ اَرَادَاهَا نَتَكَ یہ الهام یہ پیشگوئی یہ نشان کیسا ہو بہو ظاہر ہوا اور ان سب الہامات سے اور واقعات سے میرے کشف کی تصدیق ہوتی ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام مثیل مصطفى ال ہیں اور مولوی محمد حسین بٹالوی مثیل یہودا اسکریوطی ہے.والْعِلْمُ عِنْدَ الله.ایک روز حضرت غیر مقلدین کی نسبت حضرت اقدس کا خیال اقدس علیہ السلام سے عرض کیا کہ حضور یہ وہابی غیر مقلد نا پاک فرقہ (میں اس وقت سخت متعصب حنفی تھا جو ہے اس کی نسبت آپ کیا فرماتے ہیں آپ سنکر اور ہنسکر خاموش ہو گئے اور کچھ جواب نہ دیا دوسرے روز پھر میں نے ذکر کیا فرمایا کہ یہ فرقہ بھی خدا کی طرف سے ہے برا نہیں ہے.جب لوگوں نے تقلید اور منفیت پر یہاں

Page 216

تذكرة المهدي 214 تک زور دیا کہ ائمہ اربعہ کو منصب نبوت دے دیا تو خدا نے اپنی مصلحت سے اس فرقہ کو پیدا کیا تاکہ مقلد لوگ راہ راست اور درمیانی صورت میں رہیں صرف اتنی بات ان میں ضرور بری ہے کہ ہر ایک شخص بجائے خود مجتہد اور امام بن بیٹھا اور ائمہ اربعہ کو برا کہنے لگا میں نے عرض کیا کہ اس فرقہ کے بانی اور پیشوا مولوی نذیر حسین صاحب کی نسبت آپ کیا فرماتے ہیں فرمایا کہ ہمار ا مولوی نذیر حسین صاحب پر نیک گمان ہے وہ بھی ولی اللہ ہے میں نے عرض کیا کہ حضور میں نے مولوی نذیر حسین صاحب کی نسبت بہت کچھ برا کہا ہے فرمایا معاف کرانا چاہئے وہ شخص برا نہیں جیسا کہ لوگ گمان کرتے ہیں ویسا نہیں ہے پھر میں جب حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت سے رخصت ہوا تو دہلی میں آکر مولوی نذیر حسین صاحب کے مکان پر گیا اور آواز دی مولوی صاحب نے ایک لڑکا اندر بھیجا کہ دریافت کرے کہ کون ہے میں نے کہا کہ ایک مسافر ہوں.آپ باہر آدیں کچھ کام ہے مولوی صاحب باہر آئے اور السلام علیکم کیا اور کہا کیا کام ہے؟ میں نے کہا آرام سے بیٹھ کر پوچھئے کوئی چار پائی منگوائیے مولوی صاحب نے چار پائی منگوائی ہم دونوں بیٹھ گئے فرمایا آپ کہاں رہتے ہیں.میں نے کہا میں رہتا تو سر سادہ ضلع سہارن پور میں ہوں لیکن اب قادیان سے آرہا ہوں.کہا حضرت مرزا غلام احمد صاحب سے بھی ملے میں نے کہا ہاں ان کے پاس سے ہی آرہا ہوں کہا کہ بہت اچھا ہوا جو آپ وہاں گئے اور ملے اور وہ ان مقدس لوگوں میں سے ہے جو پہلے مقدس ہو گزرے ہیں.سر سادہ میں وھو من شاہ صاحب بھی تھے نام ان کا مخدوم احمد صاحب تھا اور وہ مولوی فضل حق خیر آبادی کے مرشد تھے میں نے کہا کہ میں ان کا ہی ہوتا ہوں پھر کہا کہ آپ کے والد کا کیا نام ہے ؟ میں نے کہا کہ شاہ حبیب الرحمن صاحب پھر دوبارہ مولوی صاحب نے مصافحہ کیا اور کہا کہ ہم شاہ حبیب الرحمن صاحب سے ملے ہیں آپ صاحب زادہ ہیں آپ تشریف لائے ہیں میں نے تمام سرگذشت قادیان کی بیان کی اور کہا کہ اب میں

Page 217

تذكرة المهدي 215 حسب الارشاد آپ کے پاس آیا ہوں کہ جو میں نے آپ کی نسبت گستاخی کی یا کلمات بیجا کہے ہیں ان کی معافی چاہتا ہوں مولوی صاحب نے کہا کہ میں نے اللہ کے واسطے معاف کیا.اب جو قادیان جاؤ تو حضرت مرزا صاحب سے میرا سلام مسنون کردیتا.پھر میں چلا آیا.ایک شبہ کا ازالہ اس بات سے کوئی شش و پنج میں نہ پڑے کہ مولوی صاحب جو ولی اللہ تھے اور خدا کے مامور مرسل نے بھی ولی اللہ کہا اور وہ حسن ظن رکھتے تھے تو پھر مخالفت کیسی اور وہ ہامان کیوں ہوا.اور دنیا سے وہ بغیر تصدیق مسیح موعود کیوں گیا بات یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور الوالعزم نبی صاحب شریعت کے وقت میں بلعم بن باعور ایک ولی اللہ تھا لکھا ہے کہ اس کے ستر ہزار ابدال مرید تھے مگر خدا کے مرسل حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تکذیب یا مقابلہ کرنے سے وہ کافر ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو کتا کہا اسی طرح سے یہ معاملہ ہوا بلغم اپنی عورت کے بہکانے اور بادشاہ کے لالچ دینے سے حضرت موسیٰ کا مقابلہ کر بیٹھا اسی طرح مولوی نذیر حسین مولوی محمد حسین بٹالوی وغیرہ کے بہکانے اور ورغلانے سے زیانکاروں میں ہوا اس سے بھی ثابت ہوا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی یقینا یقینا یہودا اسکر یوطی ہے.میں نے قادیان میں بہت سی بوڑھی عورتوں سے اور ہندوؤں سے اور مسلمانوں سے آپ کا چال چلن پوچھا اور حالات ابتدائی اور درمیانی عمر کے دریافت کئے کسی نے آپ کی نسبت سوائے خیر اور تعریف کے ایسی بات نہ بیان کی کہ جس سے آپ پر کوئی وصبہ آئے.میں ایک ہفتہ حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں رہا.پھر بمشکل تمام رخصت لے کر چلدیا.آمدم بر سر مطلب میں لدھیانہ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت به میں دو تین ماہ رہا اور پھر رخصت ہو کر ہانسی آیا اور ہانسی سے کوٹ پو تلی علاقہ جے پور پہنچ گیا کوئی ایک ماہ کا عرصہ گزرا ہو گا کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے

Page 218

تذكرة المهدي 216 داول کتاب ازالہ اوہام میرے نام روانہ کی پھر میں قصبہ پراگ پورہ جو قصبہ کوٹ پوتلی سے چھ سات کو س ہے وہاں چلا گیا وہاں کے باشندوں نے میری بڑی عزت کی اور بہت سے وعظ ہوئے اور ہندو مسلمان سب شریک ہوتے تھے سب باشندگان قصبہ نے دو ہزار روپیہ کی فہرست بنائی کہ یہ روپیہ جمع کر کے اس عاجز راقم کو دیں ابھی یہ فہرست طیار ہوئی تھی جو حضرت اقدس علیہ السلام کا ایک کارڈ دہلی سے میرے نام آیا جو خاص حضرت اقدس علیہ السلام کے دست.مبارک کا لکھا ہوا تھا.اور وہ یہ ہے کہ بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی.مکرمی السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ.میں دہلی میں ہوں تجویز بحث ہو رہی ہے آپ اگر پہنچ سکتے تو تشریف لاویں لیکن ۱۷ اکتوبر 91 ء تک آنا چاہئے و السلام خاکسار غلام احمد از دیلی بازار بیمار ان کو بھی نواب لوہارو ".یہ صحیفہ عظامی کوٹ پو تلی آیا اور کوٹ پوتلی سے واقعات مباحثہ دہلی دو سرے روز میرے پاس ایک شخص کے ہاتھ پراگ پورہ پہنچا عصر کا وقت تھا میں اسی وقت بارادہ دہلی کوٹ پوتلی چلد یا بہت کچھ لوگوں نے ٹھرنے پر اصرار کیا اور روپیہ کا لالچ دیا مگر میں نے کسی کی نہ سنی اور روانہ ہوا کوٹ پوتلی ایک گھنٹہ آرام کر کے روانہ ہوا رات کو اسٹیشن ریلوے اجیرہ کا پر پہنچا چونکہ اونٹ عمدہ سواری کا تھا اس کے راہ میں تکان نہ ہوا اجیرہ کا سے ٹکٹ دہلی کالیا دہلی سے بگھی کرایہ پر کر کے بازار بلی ماراں میں گیا تو لوگوں کا ہجوم پایا جو مخالفت میں شور کر رہے تھے میں نے مکان پوچھا تو کسی نے نہ بنایا اور سب لوگ میری طرف متوجہ ہو کر میرے پاس آگئے چونکہ میرا لباس اس وقت صوفیانہ تھا اور ایک چونہ اور دوپٹہ شریتی رنگ کا تھا اس واسطے لوگوں کو اور بھی تعجب ہوا اور کہنے لگے کہ مرزا تو کافر ہے (نعوذ باللہ ) آپ بزرگ ہو کر ایسے شخص کے پاس جاتے ہیں میں نے کہا تمہارے لئے یہی بات اس وقت مرزا

Page 219

تذكرة المهدى 217 صاحب کی صداقت کے لئے کافی ہے کہ مجھ جیسا بزرگ ان کو مانتا ہے کچھ لوگ ہمارے مریدوں میں سے تھے انہوں نے دوڑ کر مصافحہ کیا اور کہا کہ حضرت آپ مرزا صاحب کے پاس جاتے ہیں ان پہ تو کفر کا فتویٰ لگ رہا ہے اور لوگ قتل کے درپے ہو رہے ہیں میں نے کہا کہ میں بھی قتل ہونے کے لئے آیا ہوں اور نیز کافر بننے کے لئے.یاد رکھو جب تک کسی پر متفقہ کفر کا فتویٰ نہیں لگتا وہ مومن بھی نہیں ہو سکتا خبردار تم اس معالمہ میں نہ بولو اور میرے ساتھ چلو حضرت مرزا صاحب کا مکان بتلا دو کہ وہ کہاں ٹھرے ہیں پس دو شخص ایک نصیر الدین اور دوسرا محمد عاشق میرے ساتھ ہوئے اور مجھے کو حضرت اقدس علیہ السلام کے مکان پر یعنی نواب لوہارو کی کوٹھی پر لے گئے منشی ظفر احمد صاحب اور محمد خان صاحب کپور تھلوی موجود تھے انہوں نے مجھے کو دیکھ کر کہا کہ ہم آتے ہیں سو دہ دونوں صاحب نیچے آئے اور اوپر مکان میں لے گئے وہاں دیکھا تو جناب حکیم فضل الدین صاحب بھیروی اور مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنما تشریف رکھتے ہیں.حکیم صاحب سے یہ نئی ملاقات تھی.پھر حضرت اقدس علیہ السلام کو خبر ہوئی اس کے بالا خانہ پر مجھے بلوایا.کچھ لوگ وہاں بھی تھے من جملہ ان کے ایک جناب سید امیر علی شاہ صاحب سیالکوٹی اور غلام قادر صاحب فصیح سیالکوٹی تھے اور ایک اشتہار چھپوانے کی تجویز کرتے تھے خاکسار کو دیکھ کر کھڑے ہو گئے اور مصافحہ کیا فرمایا خوب ہوا جو تم آگئے ہمارا مولوی سید نذیر حسین سے مباحثہ ہے.لدھیانہ والا مباحثہ جو مولوی محمد حسین صاحب سے ہوا وہ بھی تم نے لکھا تھا اور اب یہ مباحثہ بھی تم لکھنا.اتنے میں مکان کے نیچے بازار میں بہت لوگ جمع ہو گئے اور عجیب عجیب حیوانوں کی طرح بولیاں بولنے لگے اور بڑھے بڑھے لوگ سفید ڈاڑھی والے صرف ٹوپی سر پر تالیاں بجا بجا کر بکواس کرتے تھے.اور حضرت اقدس علیہ السلام کو گالیاں دیتے تھے حضرت اقدس علیہ السلام نے سن کر فرمایا کہ دیکھو دہلی والوں پر شہدہ پن ختم ہو گیا ہے سفید ریش ہیں اور پھر تالیاں بجا بجا

Page 220

تذكرة المهدی 218 کر گالیاں دیتے ہیں اور کچھ شرم و حیا نہیں رکھتے لباس دیکھو تو انکا خلاف تہذیب بازاری لوگوں سے گیا گزرا ہوا دیکھو ایک یہ صاحبزادہ صاحب سراج الحق ہیں جو اس وقت موجود ہیں کیسا اچھا لباس شریفانہ ہے اور بعد عصر کی نماز کے جو توجہ الی اللہ کا وقت ہے ان کی کبوتر بازی کا وقت ہے بوڑھے بزرگ خضر صورت سفید ریش اور دیکھو تو کبوتر اڑا رہے ہیں اور قسم قسم کی بولیاں خلاف انسانیت بولتے ہیں بات بات میں گالی بات بات میں شہدہ پن پھر بہت دیر تک خاکسار سے باتیں کرتے رہے اور حالات سفر دریافت فرماتے رہے کوٹ پو تلی میں جو میرا مباحثہ ہوا تھا میں نے اس کا ذکر کیا فرمایا ہاں ہاں تمہارا خط پہنچا تھا ہمیں خوب معلوم ہے اور ہم نے بھی خط لکھا تھا میں نے عرض کیا کہ ہاں حضرت کئی عنایت نامے پہنچے وہ سب میرے پاس موجود اور محفوظ رکھے ہیں.غرضیکہ دہلی ولوں نے وہ فتنہ اٹھایا اور شور د شر بر پا کیا کہ جو حضرت آدم کے ساتھ ابلیس نے اور حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ آپ کی قوم نے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ان کی قوم نے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ فرعون اور آل فرعون نے اور حضرت مسیح کے ساتھ ان کی قوم بنی اسرائیل نے وغیرہ وغیرہ کہ تمام حال لکھنے اور بیان کرنے سے بالا تر ہے مگر - تصر بیان کیا جاتا ہے.یاد رکھنا چاہئے کہ وہ جو حدیث و مشقی صحیح مسلم اور مشکوۃ دہلی دمشق ہے میں آیا ہے جس کو حدیث نواس بن سمعان کہتے ہیں کہ مسیح موعود کا نزول دمشقی منارہ سفید کے قریب ہو گا اس کے معنی گوادر بھی ہوں لیکن اس عاجز کو جو راقم سفرنامہ ہے خدا وند کریم نے یہی سمجھائے ہیں کہ وہ دمشق دہلی ہے اور منارہ جامع مسجد دہلی ہے کیونکہ جامع مسجد آج کل وہلی نے شرقی جانب ہے چونکہ دمشق پایہ تخت قریش تھا اور دہلی پایہ تخت خاندان مغلیہ تھا اس کے بعد یہ پایہ تخت نصاری کا ہوا اور مسیح موعود کا نزول بھی نصاری اور فتن

Page 221

تذكرة المهدي 219 و جال یعنی پادریوں کے وقت میں لکھا ہے پس جو کام مسیح موعود کا لکھا ہے وہ اس جگہ اکثر حصہ اس کا پورا ہوا اور وہ جو لکھا ہے کہ ستر ہزار یہود ستر ہزار سے مراد اکثر ہے) وجال کے ساتھ ہو جاویں گے سو دہلی کے یہودیوں نے اس پیشگوئی کو پورا کر دکھایا کہ تمام مسلمان یہود سیرت مقلد و غیر مقلد شیعہ وہابی پادری سب ایک ہو گئے اور دمشق میں ہی جنگ مسیح لکھا ہے سو وہ جنگ بھی یہاں ہو ا یعنی مولوی بشیر سہسوانی و بھوپالی سے مباحثہ ہوا اور سب نے مل کر اگرچہ غیر مقلدوں کا تو مولوی نذیر حسین امیر تھا ہی لیکن مقلدوں اور شیعوں نے بھی مولوی نذیر حسین دہلوی کو اپنا امیر و پیشوا بنایا اور یہاں تک یہ ایک جان اور ایک دل اور ایک خیال ہوئے کہ ان میں کوئی تمیز نہ رہی کہ کوئی فرقہ بھی ان میں ہے اور جو حدیث میں آیا ہے کہ مسیح موعود کے وقت میں ایک فرقہ ہو جاوے گا اور - مل جل کر ہم خیال ہو جاویں گے سو وہ بھی اسی کی طرف اشارہ ہے کہ جتنے فرقے تھے سب ایک خیال میں شیر و شکر ہو گئے اور آپس کے قصے اور جھگڑے اور جنگ سب وجدال اور بحث مباحثے چھوڑ دیئے اور آپس میں ایک جان دو قالب بن گئے.مخالفوں کی طرف سے اشتہار پر اشتہار حشرات الارض برساتی کیڑوں مکوڑوں کی طرح نکلنے لگے اور تمام نے جھوٹ پر کمر باندھ لی اور مخالفت کا کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا.اور حضرت اقدس علیہ السلام کے اشتہار چھاپنے بھی بند کز دیئے.ہندوؤں کو حالانکہ اس بات سے تعلق نہ تھا لیکن ہندوؤں نے بھی ان یہودیوں اور پادریوں کا ساتھ دیا کوئی کتاب دیکھنے کے واسطے اگر دیکھنی پڑتی تو کتاب بھی نہیں دیتے تھے حضرت اقدس علیہ السلام نے چاہا کہ کچھ کتابیں یوں تو ملتی نہیں خرید لی جاویں سوکتب فروشوں نے کتابیں فروخت کرنی بند کر دیں.قیمتا بھی نہ دیں حالانکہ ہم چوگنی اور پچگنی قیمت دینے کو تیار تھے جب مولوی بشیر سے اگلے روز مباحثہ ٹھرا تو کتابوں کی سخت ضرورت ہوئی پر نہ ملی حضرت اقدس علیہ السلام نے خاکسار کو زنانہ مکان میں بلوایا اور فرمایا.صاحبزادہ صاحب تمہارے والد

Page 222

تذكرة المهدي 220 اور تمہارے بھائی اور خود تمہارے مرید دہلی میں ہیں کسی سے یا کسی کی معرفت کتابیں تو لاؤ میں نے عرض کیا کہ میں حضور کے ساتھ ہوں کتابوں کا ملنا محال ہے یہ عصر کا وقت تھا.فرمایا اللہ کے نام پر جاؤ تو سی بیش از یں نیست - لوگ گالیاں دیں گے ماریں گے سودین کے کام میں مار کھانا گالیاں سننا تو سنت انبیاء و اولیاء ہے.اور جو مار بھی ڈالیں گے تو شہادت پاؤ گے آخر کتنے روز جینا ہے ایک روز مرتا ہے.فرمایا صحابہ رضی اللہ عنہم کی حالت کو نہیں دیکھتے.نہ انہوں نے جان کو عزیز رکھا اور نہ مال و دولت سے پیار کیا نہ عزیز و اقارب سے رشتہ رکھا اور نہ گھر بار کی طرف رخ کیا.صرف اللہ تعالٰی سے رشتہ تعلق رکھا.نہ اولاد پیاری ہوئی اپنے نبی اپنے پیشوا محمد مصطفی اللہ کا وہ ساتھ دیا اور وہ حق اطاعت و فرمانبرداری بجالائے کہ جو حق تھا اور آجکل تو گورنمنٹ برطانیہ کی وہ پر شوکت وسطوت سلطنت ہے کہ کسی چیز کا خطرہ نہیں دین کو دنیا پر مقدم رکھنا چاہئے یہ زندگی کیا چیز ہے کچھ بھی چیز نہیں.اکمل صاحب نے خوب فرمایا خدا ان کو جزائے خیر دے.ایک وہ دن تھے کہ جان قربان کرنی پڑتی تھی ابتو دین حق میں ایسا امتحاں کچھ بھی نہیں زندگی وہ زندگی ہے جو ہمیشہ اور ابدی زندگی ہے اس کا فکر کرنا چاہئے یہ زندگی خواب کی مثال ہے اور وہ دوسری زندگی واقعی اور حقیقی زندگی ہے جو ابدی ہے اور اس زندگی کی مثال بیداری کی مثال ہے اس عالم سے مرنا کیا ہے بس یہ ہے کہ آنکھ کھل گئی دیکھو ایک شخص ہوتا ہے اور خواب میں اپنے محبوب یا دینار و درہم کو دیکھ رہا ہے یہ دیکھنا کچھ حقیقت نہیں رکھتا حقیقت وہ ہے کہ آنکھ کھل گئی اور واقعی دنیار دور ہم کو بھی پالیا اور معشوق سے بغلگیر ہو گیا.اس عالم میں انسان خواب کی سی حقیقت رکھتا ہے اور وہ عالم عالم بیداری ہے کہ جو کچھ غیب میں بتلایا گیا تھا اور غیب پر ایمان لایا تھا وہ اب مشاہدہ میں آگیا ان دونوں

Page 223

تذكرة المحمدي 221 زندگیوں کا ایک درمیانی مقام ہے اور ہر ایک دو چیزوں میں ایک برزخ ہوتا ہے.جیسا انسان وحیوان میں بندر برزخ ہے کہ کچھ حصہ انسانیت کا رکھتا ہے اور کچھ حیوانیت کا سو وہ مرسلوں کی صحبت و بیعت سے حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ اس عالم میں ہی اس عالم کو مشاہدہ کرلیتا ہے اور اس عالم کے حالات اس پر منکشف ہو جاتے ہیں.پھر فرمایا یاد رکھو ایک حالت ایمانی ہے اور دوسری عرفانی حالت ہے مردان خدا و مقبولان خدا کی بیعت سے یہی فائدہ حاصل و مترتب ہوتا ہے کہ بیعت کننده ایمانی حالت سے عرفانی حالت میں پہنچ جاتا ہے.پھر ہاتھ اٹھا کر میرے لئے دعا کی اور فرمایا جاؤ میں نے عرض کیا کسی کو میرے ساتھ کردیجئے.سو حضرت اقدس علیہ السلام نے برادرم جناب منشی ظفر احمد کپور تھلوی کو میرے ساتھ کردیا.اتنے میں مغرب کی نماز کا وقت آگیا اور حضرت اقدس کے ساتھ باجماعت نماز ادا کی بعد نماز مغرب میں اور منشی صاحب چلے راستہ میں ہم دونوں نے مشورہ کیا کہ کہاں چلیں اور کس سے کتابیں طلب کریں.نشی صاحب نے فرمایا کہ ہمارے دوست مولوی محمد حسین نصری کے بیٹے ہیں ان کے پاس چلیں وہ ضرور کتا بیں دے دیں گے.نعمانی : مشی صاحب آجکل مولویوں کی الا ماشاء الله عجیب حالت ہے كَلْمَسِ أَفْعَى نَاعِمَّ فِي النَّوَاظِر یہ ہمارے سخت دشمن ہیں ان کی دوستی کا کچھ اعتبار نہیں ہے میرا دل گواہی نہیں دیتا.نشی صاحب : چلو جی وہ ہمارے دوست جان پہچان مدت کے ہیں وہ ضرور کتابیں دے دیں گے.نعمانی : اچھا چلو.میں بھی ان کو خوب جانتا ہوں اور وہ مجھ سے پورے واقف ہیں لیکن

Page 224

تذكرة المهدي 222 فَتَرْجِعُ مِنْ حُبِّ الشَّرِيْرِ كَخَاسِرٍ آزموده را آزمودن جهل است انکو بھی دیکھ بھال لو.منشی صاحب : ایک بات خوب یاد آئی.آؤ پہلے امام جامع مسجد کے پاس چلیں انہوں نے مجھ سے چند روز ہوئے کہا تھا کہ اگر کسی کتاب کی ضرورت ہو تو میں دے دوں گا مجھ سے لے لیتا اور کسی کو خبر نہ کرنا.نعمانی اچھا صاحب چلو ان کا وعدہ بھی دیکھ لو.ہم دونوں امام صاحب کے پاس گئے چونکہ مجھ سے امام صاحب واقف تھے اور میرے بڑے بھائی شاہ خلیل الرحمن صاحب جو دہلی میں آتے تو باپ بیٹے بڑے ادب سے ارادتمندانہ آیا کرتے تھے.اس سبب سے میرا بھی ان سے تعارف تھا لیکن دل میں کھنکا تھا کہ ان کی ارادت اور واقفیت کوئی چیز نہیں اس میں لثیت نہیں تھی.حضرت اقدس علیہ السلام فرمایا کرتے تھے اور بارہا فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو چاہئے کہ اپنے دل سے فتوئی پوچھے کیونکہ دل بھی خدا نے ایک عجیب چیز بنایا ہے اور اس میں اپنی تجلی کی شعاعیں رکھی ہیں.خیر منشی صاحب کے فرمانے سے ہم امام صاحب کے گھر پر گئے آواز دی تو باہر آئے اور ہماری شکل دیکھ کر سہم گئے کانپ گئے اور چہرہ پھیکا ہو گیا اور منہ پر ہوائیاں اڑنے لگیں اور بولے.فرمائیے اس وقت رات کو کیا کام ہے؟ نشی صاحب بولے : کتابوں کی ضرورت ہے آپ نے وعدہ فرمایا تھا الْكَرِيمُ إِذَا وَعَدَ وَفَا اب دے دیجئے دو تین روز میں انشاء اللہ آپ کی کتابیں آپ کے پاس آجا ئیں گی.امام صاحب : بھئی اب کیا کروں اب تو کل علماء اور عوام کا یہ مشورہ اور پختہ عمد ہو چکا ہے کہ مرزا صاحب کو کتابیں نہ دیجاویں.اور ان کا کوئی اشتہار نہ چھایا جاوے مجھے معاف فرمائیے میں ان سے الگ نہیں ہو سکتا اور کتابیں بھی نہیں دے

Page 225

تذكرة المهدى 223 سکتا ہوں.مجبور ہوں معذور ہوں.آپ اس وقت چلے جائیے یہاں ٹھہرنا بھی مناسب نہیں بات کرنی تو کیسی.نعمانی: بندہ خدا یہاں اس وقت کون دیکھ رہا ہے پوشیدہ دیدو اور پوشیدہ ہی تمہاری کتابیں تمہارے پاس پہنچ جائیں گی.امام صاحب نے لرزتے ہانپتے کانپتے کہا کہ پوشیدہ اور چوری سے کام کرنا جائز ہے.نعمانی: اس میں چوری اور سرقہ کا کیا کام ہے یہ مسئلہ تو آپ منبر پر رونق افروز ہو کر بیان کریں.کتابیں دینی ہوں تو دے دیجئے کتابوں کا بگڑتا کیا ہے.امام صاحب تو بھر گئے اور بے ہودہ باتوں پر آگئے.پھر ہم دونوں وہاں سے چل دیئے.نعمانی : منشی صاحب دیکھا.نشی صاحب : ہاں دیکھ لیا یہ تو امام ہیں اور ڈرپوک ہیں انکو اپنی امامت کا خطرہ ہے اس واسطے انہوں نے یہ روکھا پن کیا اور بد عہدی کی چلو مولوی محمد حسین کے بیٹے ایسا نہیں کریں گے.وہ میرے دوست ہیں ان سے پوری امید ہے.نعمانی: اچھا صاحب چلئے.پھر ہم دونوں مولوی صاحب مذکور کے مکان پر گئے منشی صاحب نے آواز وی وہ باہر آئے اور آتے ہی کہا کہ منشی صاحب اس وقت رات کو کیسے آئے ہم تو تمہاری صورت سے بھی نفرت کرتے ہیں.نشی صاحب: کچھ کتابوں کی ضرورت ہے آپ دے دیں بڑی مہربانی ہوگی.مولوی صاحب کل کو مرزا کا جناب مولانا مولوی محمد بشیر صاحب سے مباحثہ ہے ہم کتابیں نہیں دے سکتے کل شہر میں اتفاق ہو کر عہد ہو گیا ہے کہ مرزا کو کوئی کتاب مستعار یا قیمت سے نہ دینی چاہئے اور مرزا کو کتابوں کی ضرورت کیا ہے

Page 226

تذكرة المهدى 224 وہ الہام سے کتابوں کی عبارت معلوم کر سکتا ہے.نعمانی : سب کام الهام پر نہیں رکھے گئے دیکھو آنحضرت ا سے یہودیوں کا اونٹ کی حلت و حرمت میں مباحثہ ہوا تو اللہ تعالٰی نے کوئی عبارت ان کی کتاب کی الہانا نہیں جتلائی.بلکہ یہ فرمایا کہ ان سے کہو فاتوا بالتَّوْرمةِ فَاتْلُوهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ توریت لاؤ اور پڑھ کر سناؤ کہاں اونٹ حرام ہے اگر تم سچے ہو.الهام بجائے خود ہے اور کتابیں بجائے خود ہیں الہام الہی نے تو ظاہر کر دیا بتلا دیا کہ تم لوگ خائن ہو کاذب ہو محرف ہو یہود خصلت ہو مسیح زندہ نہیں مر چکا اب تمہاری اڑ پر تمہاری کتابیں تمہارے سامنے رکھی جاتی ہیں اور تمہاری خیانت دکھائی جاتی ہے وہاں کتاب توریت منگائی گئی اور پڑھنے کا حکم دیا ہے یہ نہیں فرمایا کہ اے رسول ا وحی سے خبر دیدو اور وحی سے انکی کتاب کی عبارت پڑھ دو مسلمات خصم سے خصم ساکت ہو سکتا ہے چونکہ جو کتابیں تمہارے مسلمات سے ہیں انہیں مسلمات سے بحث کی جائے گی اور سند میں پیش کر کے تمہارے افترا اور کذب اور خیانت سے تم کو مطلع کیا جاوے گا مولوی صاحب کو سخت غصہ آیا اور گالیاں دینے لگے اور بڑا شور و غل مچایا اور کہا ارے کوئی محلہ میں ہے جو ان دو شخص مرتد اور محمد مرزائیوں کی خبر لے میں تو وہاں سے چلدیا اور منشی صاحب تو بحث کے لئے وہیں ڈٹ گئے.نعمانی منشی صاحب آؤ چلو ان لوگوں کے تیور بدلے ہوئے ہیں یہ وقت گفتگو کا نہیں ہے جانے دو مگر جب دو چار آدمی اور گالیاں دیتے ہوئے آئے تب نشی صاحب وہاں سے چلے.جامع مسجد (منارہ و مشقی شرقی) کے نیچے کھڑے ہو کر ہم نے مشورہ کیا کہ اب کہاں جائیں پھر میں اور نشی ظفر احمد ان مولویوں کی یہودانہ حرکات پر افسوس کرتے ہوئے ایک فشی احمد حسین صاحب بنتی جامع مسجد کے قریب رہتے تھے ان

Page 227

تذکرة انوری 225 حصہ اول کے پاس گئے یہ صاحب میرے والد کے مرید اور وظیفہ خوان تھے میں نے کہا منشی صاحب تم میرے والد کے مرید ہو اور ہمیشہ ان کی محبت اور اپنی ارادت کا خلوص ظاہر کیا کرتے تھے ہمیں کتابوں کی ضرورت ہے تم کسی سے اپنی معرفت لے دو نشی صاحب نے کہا مجھے خوب معلوم ہے کہ آپ مرزا صاحب کے ارادتمند ہیں مرزا صاحب کے واسطے کتابوں کی ضرورت ہو گی.کتابوں کا ملنا محال ہے اس شہر میں یہ عہد ہو چکا ہے کہ مرزا صاحب کو کوئی کتاب نہ دی جائے میں اس میں مجبور ہوں بس اتنا ہی اس وقت ادب کافی ہے کہ آپ تشریف لے جائیں اور زیادہ نہ ٹھہریں.پھر ہم دونوں حیران و پریشان شرقی منارہ کے نیچے کھڑے ہو گئے اور ہم آپس میں کہنے لگے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کا یہ ارشاد ہے اور لوگوں کا یہ حال ہے اب کریں تو کیا کریں.جو کام اللہ تعالٰی کو کرنا ہوتا ہے اس کے اسباب و سامان بھی وہ اپنی قدرت سے بہم پہنچا دیتا ہے.کنی و خود کنانی کار را خود وہی رونق تو آں بازار را یکا یک اللہ تعالٰی نے میرے دل میں یہ ڈالا کہ بہرام خان کے ترا ہے کے قریب کوچه سعد اللہ خان میں ایک صاحب نقشبندی حاجی علیم اللہ صاحب رہتے ہیں اور وہ میرے والد سے اور نیز مجھ سے بھی بڑے عقیدت مند اور بوڑھے جہاں دیدہ ہیں آؤ انکے پاس چلیں.شاید ان سے یا انکی معرفت کسی اور سے کتابیں مل جائیں مگروں میں دھڑ کا اور خوف کہ مبادا وہاں بھی ایسے ہی یا اس سے زیادہ کوئی واقعہ پیش نہ آجائے خیر تن به تقدیر ہم دونوں انکے مکان پر پہنچے اور ڈرتے ڈرتے دودھ کا جلا چھاچھ کو بھی پھونک مارتا ہے ایک آواز دی دو آواز وی تیسری آواز پر حاجی صاحب تشریف لائے اور فرمایا میں عشاء کی نماز پڑھ رہا تھا اس واسطے دیر لگی بڑے شریفانہ طور سے خاطر سے تواضع سے حسب دستور :

Page 228

تذكرة المهدي 226 سابق پیش آئے پان منگوایا.حاجی صاحب : کیسے تشریف لائے اور پھر رات کے وقت بہت روز میں ملاقات ہوئی آپ تشریف رکھیں چارپائی منگا تا ہوں.نعمانی چونکہ ان سے بے تکلفی تھی : عرض کیا کہ بیٹھنے کا تو یہ موقع نہیں ہے اس وقت کتابوں کی ضرورت ہے کوئی تغییر یا حدیث کی آپ کے پاس ہو تو دے ادیجئے تیرے روز آپ کے پاس آپ کی کتابیں واپس آجائیں گی انشاء اللہ تعالٰی.حاجی صاحب : کتاب تو کوئی میرے پاس نہیں ہے لیکن میں آپ کو ایک راہ بتلاتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ مولوی سلیم الدین خان صاحب کوچه بیماران کے قریب رہتے ہیں اور وہ آپ کے والد حضرت شاہ حبیب الرحمن صاحب رحمتہ اللہ علیہ اور آپ کے دادا حضرت مخدوم احمد شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے واقف ہیں اور ان سے اعتقاد رکھتے ہیں ان کے پاس ہر قسم کی کتابیں ہزاروں کتابیں مطبوعہ اور قلمی قدیم وجدید موجود ہیں اور وہ فروخت بھی کرتے ہیں آپ ان کے پاس چلے جائیں میں ان کو ایک رقعہ لکھ دیتا ہوں وہ کتابیں ضرور دے دیں گے لیکن اتنا کام کریں کہ حضرت مرزا صاحب کا وہاں کوئی ذکر نہ آئے آجکل طوفان بے تمیزی اور شور و شر بر پا ہے.حضرت مرزا صاحب کے ذکر خیر آنے پر کتابیں نہیں دیں گے.حاجی صاحب نے فورا مجھے ایک یہ رقعہ لکھ کر دیا ” مخدوم و مکرم جناب مولانا مولوی سلیم الدین خان صاحب دام عنا تیکم آپ کے پاس صاحبزادہ سراج الحق صاحب ابن حضرت شاہ حبیب الرحمن رحمتہ اللہ علیہ نعمانی و جمالی د سر سادی تشریف لاتے ہیں آپ کو اس وقت کچھ کتابوں کی ضرورت ہے جو کتاب طلب کریں مہربانی فرما کر دے دیں.واپسی کا میں ذمہ دار ہوں آپ مطمئن رہیں.

Page 229

تذكرة المحمدي 227 والسلام - الراقم - حاجی علیم اللہ عرف حاجی احمد جان نقشبندی - دیلی ترا با بهرام خان کو چہ سعد اللہ خان".ہم دونوں اس رقعہ کو خوش خوش لے کر چلے اور مولوی صاحب کے مکان پر پہنچے دیکھا تو ایک عظیم الشان کتب خانہ ہے الماریاں صندوق - طاق فرش زمین سے چھت تک مکان بھرا پڑا ہے اور کچھ لوگ اور بھی کتابیں لے رہے ہیں اور مولوی صاحب عشاء کی نماز ادا کر کے وظیفہ پڑھ رہے ہیں.نعمانی : السلام علیکم مولوی صاحب وعلیکم السلام- کہ کر اشارہ سے کہا کہ بیٹھ جائیے.نعمانی.ہم دونوں بیٹھ گئے.مولوی صاحب : اشارہ سے تھوڑا ساوظیفہ ہے اس کو ختم کرلوں.نعمانی دل میں خوف اور دھڑ کا پیدا تھا کہ مبادا ایسے آدمی بھی آجا ئیں جو ہم کو پہچان لیں اور غل مچادیں کہ یہ تو مرزائی ہیں اور اس پر کتابیں نہ ملیں.مولوی صاحب کا خدا خدا کر کے وظیفہ ختم ہوا.نعمانی.جھٹ پٹ وہ رقعہ حاجی صاحب کا دیا.مولوی صاحب حاجی صاحب کا رقعہ پڑھ کر آپ کب سے صاحبزاہ صاحب تشریف لائے آپ کے والد اور دادا رحمتہ اللہ علیما تو اکثر دہلی میں تشریف رکھا کرتے تھے آپ تو دہلی میں کم آتے ہیں.نعمانی : دو چار روز سے دہلی میں آیا ہوں.مولوی صاحب کیا آپ کو بھی بحث مباحثہ کا شوق ہے.نعمانی : ہاں خوب شوق ہے.مولوی صاحب مرزا صاحب بھی تو قادیان سے آئے ہوئے ہیں کل کو مرزا صاحب اور مولوی محمد بشیر میں مباحثہ ہے.شاید مولوی سلیم الدین خان صاحب اس وقت یہ سمجھے کہ یہ (یعنی راقم) بھی مرزا صاحب کے خلاف بحث کرے گا.

Page 230

تذكرة المهدي 228 مه اول والله اعلم نعمانی : ہاں کل دونوں صاحبوں کا مباحثہ ہے.مولوی صاحب: کچی بات تو یہ ہے کہ مولوی محمد بشیر مولوی ہیں مگر جناب مرزا صاحب کے مقابلہ کے نہیں ہیں.زمین و آسمان کا فرق ہے مرزا صاحب کی تحریر میں نے دیکھی ہے بڑی زبردست تحریر ہے.صاحب زادہ صاحب تم ابھی صاحبزادہ ہو مرزا صاحب سے ہرگز ہرگز مباحثہ نہ کر بیٹھنا تم کیا اور مولوی محمد بشیر کیا کوئی عالم آج میرے ذہن میں ان کا مقابل نہیں ہے.نعمانی : دل میں کہا کہ واقعی بات تو سچ کہتے ہیں ایک زمینی اور کہاں آسمانی بر کے چون مہربانی می کند بہت اچھا مجھے کتابیں عنایت کیجئے.از زمینی آسمانی می کند مولوی صاحب : کون کون سی کتابیں چاہئیے.نعمانی : جن کتابوں کے نام حضرت اقدس علیہ السلام نے مجھے لکھ کر دیئے تھے وہ میں نے مولوی صاحب کو بتلا دیئے.مولوی صاحب نے ایک شخص سے کہا کہ یہ کتابیں سب دے دو پھر مجھے کہا کہ آپ تکلیف نہ کریں میں اپنے آدمی کے ہاتھ آپ کے مکان پر پہنچوا دیتا ہوں.نعمانی مولوی صاحب کی یہ بات سن کر گھبرایا کہ ان کا آدمی کتابیں لے کر جائے گا تو حضرت اقدس علیہ السلام کے مکان پر جائے گا تو یہ بھید کھل جائے گا.میں نے کہا کہ آپ تکلیف نہ کریں ہم دو آدمی ہیں کتابیں لے جائیں گے اور راستہ میں سے ایک مزدور کرلیں گے.مولوی صاحب : اچھا آپ کو اختیار ہے.پس ہم دونوں بمشکل تمام کتابیں لے کر چلے راہ میں قلی چار پیسے دیکر لیا.جب وہ کتابیں حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں پیش کر دیں تو حضرت

Page 231

تذكرة المهدي 229 اقدس ہے اور فرمایا کتابیں کیونکر ہاتھ آئیں ہم دونوں نے سارا واقعہ سنایا.آپ نے تعجب فرمایا.اور خاموش ہو گئے.صبح کو دوسرے دن مولوی محمد بشیر معہ چند بشیر سوانی سے مباحثہ آدمیوں کے آگئے پہلے مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی سے سلام مسنون کے بعد مصافحہ کیا اور پوچھا کہ جناب مرزا صاحب کہاں تشریف رکھتے ہیں.کریم سیالکوٹی : حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اوپر بالا خانہ پر رونق افروز ہیں.بشیر: آپ کو اطلاع کر دیجئے.امیر سیالکوٹ نے حضرت اقدس علیہ السلام کو اوپر بالا خانہ پر جاکر اطلاع دی کہ حضرت صلی اللہ علیک و علی محمد مولوی بشیر صاحب بھوپالی آئے ہیں.حضرت اقدس علیہ السلام تشریف لائے مولوی محمد بشیر صاحب نے السلام علیکم کہہ کر حضرت سے مصافحہ کیا اور حضرت اقدس نے السلام علیکم کا جواب و علیکم السلام دیا.بشیر نے مصافحہ کے بعد معانقہ کیا چونکہ حضرت اقدس علیہ السلام کو معانقہ کی عادت نہیں تھی اور نہ پچیس برس کے عرصہ کی صحبت میں کسی کے ساتھ معانقہ کرتے دیکھا مولوی صاحب خود حضرت اقدس سے لپٹ گئے چونکہ بشیر صاحب کا بہت ہی چھوٹا قد تھا کمر تک رہے اور آپ ہی علیحدہ ہو گئے.حضرت اقدس علیہ السلام نے معانقہ نہیں کیا سیدھے کھڑے رہے اور دونوں ہاتھ بھی سیدھے لٹکائے رکھے پھر حضرت اقدس علیہ السلام اور مولوی محمد بشیر صاحب دونوں بیٹھ گئے اور ہم سب اور مولوی صاحب کے ہمراہی بھی بیٹھ گئے.جمیع سید امیر علی شاہ صاحب

Page 232

تذكرة المهدي 230 حضرت اقدس علیہ السلام نے مولوی محمد بشیر اور ان کے ہمراہیوں سے مخاطب ہو کر فرمایا : مولوی صاحب مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ میرا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا کچا ہے جیسا کہ اور انبیاء کا دعویٰ نبوت در سالت سچا ہو تا تھا اس دعوے کی بنا یہ ہے کہ کئی ماہ تک مجھے متواتر الہام ہوتے رہے کہ مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو گئے اور جس مسیح موعود کا آنا مقدر تھا وہ تو ہے مجھ کو الہام سے کشف سے رویا سے بتواتر جتلایا گیا سمجھایا گیا تب بھی میں اس کو یقینی نہیں سمجھا لیکن کئی ماہ کے بعد جب یہ امر تو اتر اور پورے یقین اور حق الیقین کے مرتبہ تک پہنچ گیا تو میں نے قرآن شریف کھولا اور خیال کیا کہ اس اپنے الہام وغیرہ کو کتاب اللہ پر عرض کرنا چاہئے قرآن شریف کھولتے ہی سورہ مائدہ کی آیت فَلَمَّا تُوَ فَيْتَنِی نکل آئی میں نے اس پر غور و فکر کیا تو اپنے الہامات اور کشوف و رویا کو صحیح پایا اور مجھے پر کھل گیا اور ثابت ہو گیا کہ بے شک مسیح ابن مریم علیہ السلام فوت ہو گئے پھر میں نے اول سے آخر تک قرآن شریف کو خوب تدبر اور غور سے پڑھا تو سوائے وفات مسیح کے حیات کا پتہ مسیح علیہ السلام کی نسبت کچھ نہ نکلا.پھر میں نے صحیح بخاری کھولی خدا کی قدرت کھولتے ہی کتاب التفسیر میں یہ دو آیتیں ایک إِنِّي مُتَوَفِّيْك اور دوسری فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی نکل آئیں ایک کا ترجمہ نمیشک ابن عباس ال سے اور دوسری کا ترجمہ خود آنحضرت ا سے موجود تھا گویا بخاری نے دونوں آیتوں کو جو دو مختلف مقام پر ہیں ایک جگہ جمع کر کے اپنا مذ ہب ظاہر کر دیا کہ ان دونوں آیتوں سے مسیح کی موت ثابت ہے اور کچھ نہیں پھر تمام صحیح بخاری کو اول سے آخر تک ایک ایک لفظ کر کے پڑھا اس میں بھی سوائے موت کے حیات کا کوئی لفظ اشارہ یا کنا ینہ نہ نکلا پھر میں نے صحیح مسلم وغیرہ کل کتب احادیث لفظا دیکھیں اور خوب غور سے ایک ایک سطر اور ایک ایک حرف پڑھا لیکن کہیں بھی مسیح کی حیات نہ نکلی سوائے موت

Page 233

تذكرة المهدى 231 کے.رہی نزول کی حدیثیں ان میں کہیں نزول من السماء نہیں ہے نزول سے حیات کو کیا تعلق جب حیات و رفع الی السماء ہی ثابت نہیں تو پھر کیسا نزول نزیل مسافر کو بھی کہتے ہیں جیسا میں نے اب دہلی میں نزول کیا.ممکن ہے کہ مسیح موعود کا نزول دمشق میں ہو جاوے یا اس کے علم کی اشاعت ہو جاوے یا اس کی طرف سے اس کا کوئی جانشین نزول کرے.اور دمشق سے مراد دمشق نہ ہو کوئی اور شہر ہو.(بے شک ومشق دہلی ہی ہے) یہ سب حدیثیں مسیح کے نزول کے بارے میں کشفی ہیں اور کشف رویا تعبیر طلب ہے.(نوٹ حضرت امام غزالی کیمیائے سعادت میں لکھتے ہیں کہ کشف میں تعبیر ضرور ہوتی ہے کس لئے کہ ایک پہلوان واقعات کا جو کشف میں دکھایا جاتا ہے.مخفی ہوتا ہے پھر ایک جملہ بڑا ہی لطیف لکھتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ مردوں کے چوتڑوں میں چھالے پڑ گئے.اور نامردوں کے پیروں کے چھالے پڑ گئے.مطلب اس جملہ کا یہ ہے کہ باخدا اپنے جائے نشست پر دور دراز کے واقعات اور ماضی و مستقبل کے حالات بیٹھے ہوئے دیکھ لیتے ہیں اور نامرد چل پھر کر وہ نہیں دیکھ سکتے.اور ان کی حقیقت کو نہیں پہنچتے ہیں جیسا کہ آگے بیان ہو گا انشاء اللہ تعالی) اور وہ مسیح کیونکر اس امت میں آسکتے ہیں وہ مختص الزمان اور مختص القوم رسول تھے اور آنحضرت ا کافتہ للناس عام رسول تھے.ابھی آپ کی تقریر ختم نہ ہوئی کہ مولوی محمد بشیر گھبرا کر بول اٹھے کہ آپ اجازت دیں تو میں اس دالان کے پرلے کو نہ میں بیٹھوں اور وہاں کچھ لکھوں حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ بہت اچھا آپ جہاں چاہیں بیٹھیں پس مولوی صاحب پر لے کونے میں جابیٹھے.اور مجدد علی خان سے مضمون لکھوانے لگے.حضرت اقدس علیہ الصلوۃ السلام نے فرمایا کہ شرط اس بات پر ٹھری تھی کہ قریب بیٹھ کر خود اپنے اپنے قلم سے اسی وقت سوال وجواب کے طور پر لکھیں گے لیکن مولوی صاحب

Page 234

تذكرة المهدى 232 حصہ اول دور جاکر کسی اور سے لکھوانے لگے میں نے عرض کیا کہ میں مولوی صاحب سے کہہ دوں.آپ نے فرمایا خیر جانے دو.اور لکھنے دو.یا لکھوانے دو حضرت محترم ملک رب ذوالمنن مولانا مولوی سید محمد احسن صاحب فاضل امروہی کا خط بھوپال سے حضرت اقدس علیہ السلام کے نام اسی روز آیا اس میں من جملہ اور باتوں کے یہ بھی لکھا تھا کہ مولوی محمد بشیر چھ مہینے سے مضمون لکھ رہے ہیں.ان کی کل کمائی بس یہی ہے.جو وہ لکھ کر لائے ہیں اور مصالحہ ان کے پاس نہیں ہے.در حقیقت یہ حضرت فاضل امرد ہی نے سچ لکھا تھا.اور یہ سچ ہوں معلوم ہوا کہ مولوی محمد بشیر صاحب نے جو مضمون مجدد علی خان سے لکھوانا شروع کیا وہ لکھا ہوا تھا.اور شرط یہ تھی کہ کوئی اپنا پہلا مضمون نہ لکھا جائے گا.بلکہ جو کچھ لکھتا ہو گا وہ اسی وقت جلسہ میں بالمواجہ لکھنا ہو گا.مولوی عبد الکریم صاحب نے کہا کہ یہ تو خلاف شرط کیا ہے میں نے عرض کیا کہ حضور اجازت دیں تو میں مولوی صاحب سے کہدوں کہ لکھا ہوا تو آپ لائے ہی ہیں یہی دے دیجئے تاکہ اس کا جواب لکھا جائے حضرت اقدس نے بکراہت اجازت دیدی میں نے کھڑے ہو کر کہا کہ مولوی صاحب لکھے ہوئے مضمون کی نقل کرانے کی کیا ضرورت ہے دیر ہوتی ہے لکھا ہوا مضمون دے دیجئے تاکہ جلد جواب ادھر سے لکھا جائے مولوی صاحب میری اس بات کو سن کر بھونچکا سے رہ گئے اور لڑکھڑائی ہوئی زبان سے کہا کہ نہیں نہیں میں تو لکھ کر نہیں لایا.صرف نوٹ تھے ان کو مشرح و مفصل لکھوا رہا ہوں میں نے پھر اس کے جواب میں کچھ کہنا چاہا تو حضرت اقدس نے روک دیا.اور فرمایا جو عمد آ جھوٹ بول رہا ہے وہ کب ماننے لگا ہے مجھے تعجب ہوتا ہے کہ مولوی ہو کر جھوٹ بولنا اور پھر مامور الہی کے مقابلہ پر بحث کے لئے کھڑے ہو جانا.یہ ان کے ایمان کا نمونہ ہے.اور پھر تعجب اور بلکہ افسوس ان لوگوں پر کہ جو جھوٹوں کا ساتھ دیتے ہیں حضرت اقدس علیہ السلام سے اگر کوئی ایسی بات سرزد ہوتی تو مخالف تو خدا جانے کیا کیا اور عمر جاتے تو یقین دھم

Page 235

تذكرة المهدى" 233 جن لوگوں نے آپ کو مسیح و مامور مانا ہوا ہے اور حسن ظن سے کام لیا ہے.وہ بدظن ہو جاتے اور بھاگ جاتے اور خاکسا راقم الحروف تو سب سے پہلے فرار ہو تا، اور کبھی بھی پاس نہ پھٹکتا.آپ وہ لائے اور اسی کا نمونہ بن کر دکھا دیا جو اگلے پیغمبر و رسول مامور اولیاء لائے تھے.ناظرین اس بات کو بھی یاد رکھیں کہ پہلے تو یہ بات ہوئی تھی کہ دہلی (دمشق) والوں سے عام جلسہ میں مباحثہ تقریری کی درخواست تھی حضرت اقدس علیہ السلام نے تحریر پر زور دیا اور عام جلسہ منظور نہیں فرمایا کہ عام لوگ فساد کر بیٹھتے ہیں.تحریری مباحثہ منظور ہوا مگر دوسو آدمی دہلی والوں نے چاہے تھے لیکن حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ اہل شہریوں تو غل شور مچانے میں اور فساد کرنے میں دلیر ہیں اور بحث کے وقت خدا جانے یہ کیا فتور اٹھا دیں گے یہ مباحثہ تحریری ہے جب تحریرمیں طرفین کی چھپ جائیں گی تو سب پڑھ لیں گے صرف دس آدمی مولوی محمد بشیر کے ساتھ ہوں اور دس آدمی ہمارے ہوں.اور یہ دس آدمی چیدہ سنجیدہ اہل علم ہوں.نوبت با نیچار سید کہ سو سو آدمیوں پر و مشقی لوگ آگئے حضرت اقدس علیہ السلام نے نہ مانا پھر پچاس پچاس آدمیوں پر اڑ گئے حضرت اقدس نے یہ بھی نہ مانا میں نے عرض کیا کہ میری بھی عرض ہے.فرمایا کیا میں نے عرض کیا کہ حضور پچاس پچاس آدمی رہنے دیجئے.ہماری طرف سے تو دس بارہ ہی آدمی ہیں.ان کی طرف سے پچاس ہو جائیں گے تو کچھ مضائقہ نہیں کیونکہ بحث تحریری ہے اور تحریر میں دیر لگتی ہے بولنے کا کچھ کام نہیں دہلی والوں کو بولنے کا شوق ہے اور جب تک یہ نہ بولیں تو ان کو چین نہیں پڑتا.ان کے پاس صرف ایک زبان ہی ہے یہ کوڑی کے بھی مول کی نہیں ہے حضور کا یہ شعر ہے.جز یک زبان شان که نیرزد بیکدرم یہ بیٹھے بیٹھے گھبرا جا دیں گے کوئی ست ہو جاوے گا کوئی بے لطفی سے کوئی

Page 236

تذكرة المهدى 234 مه اول سمتی سے کوئی نیند سے اونگھنے سے چلے جاویں گے صرف دس بارہ ہی آدمی رہ جاویں گے ایک روز تو پچاس آدمی آجاویں گے لیکن دوسرے روز آپ ہی گھبرا کر اکتا کر نہیں آویں گے.فرمایا کہ اچھا پچاس آدمیوں کی اجازت دے دو خدا کی قدرت ایسا ہی ہوا ایک روز تو پچاس آدمی آگئے اور ایک گھنٹہ میں ہی لوگ چپ چاپ بیٹھے بیٹھے گھبرا گئے یہ چوتڑ چل آدمی کیونکر خاموش بیٹھ سکتے ہیں کوئی اونگھنے لگا کوئی جمائیاں لینے لگا ایک آدھ گھنٹہ میں ہی اٹھ اٹھ کر چلائیے.مرزا حیرت صاحب بھی تشریف لائے تو انگریزی مرزا حیرت کا حال لباس پہنے اور الٹی مانگ بائیں آنکھ کی طرف انگریزی فیشن کی نکالے ہوئے سر برہنہ تھے یہ بھی خاموش بیٹھ نہ سکے آدھ گھنٹے سے پہلے ہی اٹھ کر چل دیئے ایک روز یا دو روز پیشتر مرزا حیرت صاحب نے یہ کام کیا تھا کہ ایک اشتہار چھپوایا جس کے ایک کالم میں عربی عبارت تھی اور دوسرے کالم میں اردو عبارت تھی.یعنی عربی کا ترجمہ اور آپ ان اشتہاروں کو لے کر فتح گڑھ کے مینار پر چڑھ بیٹھے اور وہاں سے وہ اشتہار پھینکنے لگے.اس اشتہار کا خلاصہ مضمون یہ تھا کہ کہ میں اصل مسیح آسمان سے اترا ہوں اور دہلی میں دجال آیا ہوا ہے (نعوذ باللہ منہا) میں اس کے قتل کے لئے آیا ہوں.میرزا حیرت صاحب نے بھی دہلی کو دمشق بنا دیا کہ آپ اصل مسیح بنے اور معاذ اللہ حضرت اقدس کو دجال بنایا دہلی دمشق آپ ہی ہوئی نہ اصل مسیح نہ اصل دمشق یونکہ یہ مضمون اشتہار سب مولویوں وغیرہ کے مشورہ سے تھا تو کسی نے بھی یہ نہ کہا کہ میرزا حیرت کفر کہتا ہے اور کسی نے کفر کا فتویٰ تو کیا فسق کا فتویٰ نہ دیا.الكفرُ مِلَّةَ وَاحِدَةً ميرزا حیرت مذکور ایک روز مصنوعی انسپکٹر بنے اور حضرت اقدس علیہ السلام سے کہا کہ میں انسپکٹر ہوں سرکار سے حکم ہوا ہے کہ یہاں سے ، جاؤ ورنہ تمہارے حق میں اچھا نہ ہو گا.حضرت اقدس علیہ السلام نے اُن کے کہنے پر بالکل خیال تک بھی نہ کیا.اور بات تک بھی نہیں کی.صرف سید امیر

Page 237

تذکرة الحمد کی 235 علی شاہ صاحب نے جو کہ المکار پولیس تھے ایک بات کی تو مرزا حیرت صاحب حیرت میں ہو گئے اور چل دیئے.ایک دم ٹھہر نہ سکے سچ ہے چور کے پاؤں نہیں ہوتے دہلی میں لوگوں نے حضرت اقدس علیہ السلام کے ساتھ وہ وہ حرکتیں کیں کہ اگر میں تمام و کمال مفصل لکھوں تو سفرنامہ رہ جاوے اور یہ بیان مشکل سے ختم ہو دے ایک اشتہار مولویوں کی طرف سے نکلا اس میں منجملہ اور مضامین کے ایک بات یہ بھی تھی کہ دہلی کا بچہ بچہ صحیح ہے اللہ اکبر کیسا بڑا بول ہے.كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِنْ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا بچه بچه خود بخود صبیح جاوے مگر خد اتعالیٰ کا بنایا ہوا مسیح نہ بنے اللہ اکبر حضرت اقدس علیہ السلام کا حوصلہ دیکھو کہ ان باتوں پر کوئی فکر نہیں کوئی غم نہیں.صدمہ نہیں.لوگ ٹھٹھا کرتے ہیں تمسخر اڑاتے ہیں اس مامور کی ہر ایک بات کو ذلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.ذلت کے درپے ہیں.مگر اس مامورو مرسل کو ان کی ذرہ بھی پروا نہیں خیال تک نہیں کہ یہ کیا بلا ہیں اور کیا بکتے ہیں اور کیا کر رہے ہیں ؟ مفسر حقانی کی کہانی شمس العلماء مولوی عبدالحق صاحب دہلوی کو دیکھو کہ زبان پر کچھ اور دل میں کچھ یہ حضرت اقدس کی خدمت میں ایک روز آئے اور آئے یوں کہ حضرت اقدس نے ایک اشتہار مباحثہ کے لئے دیا تھا.چونکہ اس میں نام ان کا بھی تھا ان کو فکر پڑا اور گھبرائے ہوئے آئے کہنے لگے حضرت میں تو آپ کا بچہ ہوں.آپ میرے بزرگ ہیں.آپ کا مقابلہ بھلا مجھے جیسا نا چیز آدمی کیا کر سکتا ہے.ایسی ایسی باتیں منافقانہ بنا کر کہنے لگے کہ میرا نام اشتہار مباحثہ سے کاٹ دیں.میں ایک فقیر گوشہ نشین اور ایک درویش زاد یہ گزین ہوں.اور ان مباحثات سے مجھے کوئی سروکار نہیں ہے.آپ نے فرمایا کہ اچھا تم ہی مولوی صاحب اپنا نام اپنے ہاتھ سے کاٹ دو.پس مولوی صاحب شمس العلماء نے اپنا نام اپنے ہاتھ سے کاٹ دیا.ایک بات یاد آئی کہ مولوی عبدالحق صاحب شمس العلماء نے وفات مسیح پر کچھ کلام کر کے

Page 238

تذكرة المهدي 236 ایک مصرع عربی زبان کا پڑھا جو وہ مصرع مجھے یاد تھا مگر اس وقت ذہن سے اتر گیا اس میں ایک لفظ تھا تُو فى كُلِّ نَفس اور کہا کہ دیکھئے یہ شاعر قدیم عرب جاہلیت کا کیا کہتا ہے حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب یہ کس باب سے ہے حضرت اقدس علیہ السلام کا یہ فرمانا اور شمس العلماء کو کسوف لگ جاتا ہوا.مولوی صاحب ایسے غروب ہوئے کہ سر نہ اٹھایا پھر بہت دیر کے بعد کہنے لگے کہ ہاں ہاں حضرت میں غلطی پر تھا آپ سچ فرماتے ہیں معاف فرمائیے از خوردان خطار از بزرگان عطاء اللہ اللہ باتیں یہ لیکن باہر جاکر اور گھر پر لوگوں سے یہ کہا کہ مرزا بھلا مجھ سے مقابلہ کر سکتا ہے مجھ سے بمنت و سماجت مرزا نے یہ کہا کہ حضرت مولوی صاحب میں آپ سے مباحثہ نہیں کر سکتا.آپ سے مقابلہ کرنے کی تاب مجھ میں نہیں ہے میں نے غلطی سے آپ کا نام لکھ دیا تھا میں نے مرزا کو ایک ہی سوال میں لے ڈالا.جب ایسے مولوی ہوں اور ایسے ان کے پیرو ہوں تو لٹیا کیوں نہ ڈوبے - اور دین کیسے تباہ نہ ہو ان کی ایسی کرتوتوں نے اس امام معصوم کو مبعوث کرایا مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللهُ بِنُورِ هِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لا يُبْصِرُونَ صُمٌّ بُكُم عُنى فَهُمْ ٥ لا يَرْجِعُونَ حالانکہ اس وقت میں بچیں آدمی ان کے ساتھ کے بھی تھے انہوں نے بھی جھوٹ بولا.درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے.اگر یہ ایسے نہ ہوتے تو مسیح موعود حکم و عدل کے بھیجنے کی خدا کو کیا ضرورت پڑی تھی بیماریوں کے لئے ہی طبیب کی ضرورت پڑتی ہے دل زبان جسم ان کے سب بگڑ گئے واقعی یہ لوگ دابتہ الارض ہیں صورت تو ان کی انسانوں کی مگر اعضا اور دل ان کے حیوانوں کے مشابہ ہیں حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن العربی اپنا مشاہدہ اپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں کہ ایک صوفی صافی ہمارے دوست تھے انہوں نے کہا کہ خدا نے مجھ پر یہ عنایت کی اور یہ فضل فرمایا ہے کہ میں اپنی باطنی آنکھ سے شیعہ یعنی

Page 239

تذكرة المهدي 237 اول رافضی کو فورا شناخت کرلیتا ہوں.یہ بات شدہ شعرہ بادشاہ وقت کے کانوں میں پہنچی.بادشاہ نے دربار میں شیخ اکبر اور ان صوفی صاحب کو بلوایا اور فرمایا کہ ہمارے دربار میں کوئی رافضی ہو تو بتلاؤ.ان صوفی صاحب نے سب کو ایک نظر دیکھ کر جو قاضی القضاء تھے جن کے ذمہ عدالت کا اور فتویٰ کا کام سپرد تھا اور وہ بڑے متقی صالح ولی اور عادل اور نیک سمجھے جاتے تھے.ان کو کہا کہ یہ رافضی | ہے.بادشاہ اور تمام دربار صوفی صاحب کی یہ بات سن کر حیران و پریشان ہوئے چونکہ وہ قاضی واقعی رافضی تھا اور بظاہر سنت والجماعت تھا رعب میں آگیا جھوٹا بچے کے سامنے کب ٹھر سکتا ہے اقرار کر بیٹھا کہ میں واقعی شیعہ ہوں تقیہ سے سنی تھا کس لئے کہ وہ سمجھ گیا کہ جس نے میرے اندرون حال کو دریافت کر لیا مبادا یہ کوئی ایسی بات کہے کہ جس کا میں جواب نہ دے سکوں.یا کوئی غضب الہی آجاوے جس کی میں برداشت نہ کر سکوں اقرار ہی کرتے بن آئی اور اقرار کے بعد سب کے روبرو اپنے رفض سے توبہ کی اور سب کو تو بہ کا گواہ کیا اس کے بعد صوفی صاحب نے فرمایا کہ اس کی تو بہ منافقانہ تو یہ ہے اور اس نے جھوٹی تو بہ کی ہے یہ اب بھی رافضی ہے تب وہ قاضی یقینی طور پر جان گیا کہ یہ شخص صوفی ہے شک سچا اور ولی اللہ ہے اب اگر بچی تو بہ نہ کی جاوے گی تو دیکھئے میرا کیا حشر ہو اگر یہ بد دعا کر بیٹھا تو بیڑا غرق ہو جائے گا تب اس قاضی نے کھڑے ہو کر سب کے رو برو کہا کہ در حقیقت میں نے جھوٹی منافقانہ توبہ کی تھی اور میں آزماتا تھا اب میں نے جان لیا کہ یہ ولی اللہ ہیں اور میں جھوٹا ہوں.اب میں نے بدل اور کچی رفض سے توبہ کی اور خالص دل سے مسلمان اور سچاسنت جماعت ہوتا ہوں تب اس بزرگ نے دیکھ کر کہا کہ ہاں اب یہ سنی ہے.اور اس وقت یہ شیعہ نہیں رہا.بادشاہ نے کہا تم کیونکر اور کس صورت سے رافضی کو پہچان لیتے ہو.ان صوفی صاحب نے کہا کہ مجھے خدا نے باطنی آنکھ عطا کی ہے.اس آنکھ سے انسان کی اندرونی روحانی حالت کو دیکھ لیتا ہوں کہ جو اس کی اصلی صورت ہوتی ہے.

Page 240

تذكرة المهدى 238 مجھے رافضی کی خنزیر کی شکل معلوم ہو جایا کرتی ہے.یہ بات در حقیقت سچ ہے اللہ تعالی نے بھی قرآن شریف میں کُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِینَ یہود کی نسبت فرمایا کہ تم بندر بن جاؤ.اور ذلیل بندر بننے سے یہ بات نہیں کہ وہ سچ مچ بندر بن گئے.جیسے یہ بندر جو درختوں پر چڑھے پھرتے ہیں مکانوں پر کو دتے پھرتے ہیں بلکہ ان کی اس صفت کا اظہار ہے جو بندروں میں لڑنا بھڑنا لوگوں کا نقصان کرنا.لوگوں کی چیزوں کا برباد کرتا ہے.اسی طرح یہ علماء بندر کی صفات سے متصف ہو کر انبیاء کی تبلیغ کو پھیلنے نہیں دیتے.اور رات دن شریعت حقہ کی بگاڑ میں رہتے ہیں.ہر ایک یہی چاہتا ہے کہ جو کچھ ہوں میں ہوں.عقل ہے تو مجھ میں ذہن ہے تو مجھ میں علم ہے تو مجھ میں سمجھ ہے تو مجھ میں اور دیکھو تو کچھ بھی نہیں بندر بھی ہوشیاری جتاتا ہے.لیکن حیوانیت کا زیادہ حصہ رکھنے کے باعث حیوانیت سے بھی گرے کام کر دکھاتا ہے.1 جب مولوی محمد بشیر کو اہل دہلی (دمشق) نے بلوایا تو مولویوں نے یہ کہا کہ تمہارے پاس وہ کونسی آیت حیات مسیح علیہ السلام میں قطعی و یقینی الدلالہ ہے جس کو تم مرزا صاحب کے مقابلہ میں پیش کرو گے.ہم کو بھی سناؤ.اس جلسہ میں تمام مولوی مقلد غیر مقلد شامل تھے.مولوی محمد بشیر نے یہ آیت پڑھی کہ واِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ تو مولویوں نے کہا کہ اس آیت سے تو قطعی الدلالتہ تو الگ اشارہ کنایہ کے ساتھ بھی حیات مسیح نہیں نکلتی.مولوی بشیر نے کہا کہ میں تو یہی آیت پیش کروں گا.تمام مولویوں نے کہا کہ ہم تمہارے ساتھ نہیں ہیں.تمہاری فتح و شکست کا اثر ہم پر نہیں ہے تب تمام مولوی عالم مولوی محمد بشیر سے علیحدہ ہو گئے اور مباحثہ کے وقت سوائے دو چار طالب علموں کے اور کچھ عام لوگوں کے اور کوئی بھی مولوی بشیر کے ساتھ نہ تھا ایک مولوی محمد احمد پینوہ تھا شاید علی جان والوں میں سے تھا وہ متعصب حضرت اقدس علیہ السلام کا سخت منکر تھا ایک روز کہنے لگا کہ مرزا صاحب نے یقینی نبوت

Page 241

تذكرة المهدي 239 کا دعویٰ کیا ہے.میں نے کہا کہ تم غلط کہتے ہو اس نے کہا کہ مرزا صاحب نے لکھا ہے المحدث نبی میں نے کہا کہ ہاں لکھا ہے - محدث کا لفظ ہی ثابت کرتا ہے کہ دعوی نبی نہیں ہے کیونکہ آگے اس عبارت میں فرماتے ہیں کہ امناً با نقِطَا بها ساری عبارت پڑھئے تو خاموش ہو گیا میں نے یہ واقعہ حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا آپ نے فرمایا کہ صحیح جواب اس کا یہی تھا کہ أمَنَّا بِاِ نُقِطَا عِهَا یہ لوگ نبوت کے معنی ہی نہیں سمجھے ، صرف ایک حروف کو لے رکھا ہے بخاری شریف کو یہ لوگ پڑھتے ہیں مگر تدبر نہیں کرتے اسی میں لکھا ہے کہ لَمْ يُبْقى مِنَ النُّبُوَّةِ الخ یہ بات دراصل یہ ہے کہ جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دہلی تشریف لائے تو آتے ہی مولوی نذیر حسین سے مباحثہ کرنا چاہا اور آپ سے ایک روز پیشتر مولوی محمد حسین بٹالوی دہلی آ گیا تھا.اس نے آتے ہی مولوی نذیر حسین کو بہکایا اور تمام عام و خاص مولویوں وغیرہ سے کہا کہ تم مرزا سے تقریر میں تحریر میں ہرگز نہیں جیت سکتے ہاں ٹھٹھے نہیں.تمسخر سب و شتم اور پر افترا اشتہاروں سے فتح پا سکو گے وجہ یہ کہ مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی شاء اللہ امرتسری وغیرہ میں تقویٰ امانت دیانت نہیں ہے اور ان کا اللہ تعالی پر اور جزا و سزا کے دن پر ایمان ہے میں اللہ تعالی جل شانہ کو حاضر ناظر جانکر اور اس کی ذات کی قسم کھا کر ہر جگہ بلکہ بیت اللہ میں کھڑے ہو کر قسم کے ساتھ حلف اٹھا کر کہہ سکتا ہوں کہ انکا یقینا یقین اللہ تعالی پر ایمان نہیں ہے.تب ہی تو یہ ہر ایک فریب مکر ٹھٹھے تمسخر کذب کو روا ر کھتے ہیں.مولوی محمد حسین نے لدھیانہ میں مباحثہ کے ایام میں یہ کہا تھا کہ اگر مرزا کا قرآن سے دعوئی ثابت ہو جاوے تو میں ہرگز نہیں ماننے کا بلکہ قرآن کو چھوڑ دوں گا.جو مرزا کے دعوے کو سچا کرے.اللہ اللہ بڑا بول منہ سے بولا.اب تم اے ناظرین اس کے رسالے اشاعت السنہ کی وہ جلدیں جو بعد دعویٰ حضرت اقدس علیہ السلام نکلتی رہی ہیں.پڑھ کر غور کر کے دیکھ لو کہ اس شخص یہودا اسکریوطی نے قرآن

Page 242

تذكرة المهدى 240 کو چھوڑا.یہاں تک کہ آنحضرت ﷺ کی پنہانی تکذیب کی ہے اگر میرا کہنا فضول ہے تو اس کی جلدیں ایک ایک کر کے دیکھ لو کہ اس سے کیا ثابت ہوتا ہے پس اس یہودا اسکریوطی کے کہنے کے مطابق سب اہل دلی (دمشق) نے کر کے دکھایا پہلے پہلے مولوی بشیر نے بھی نرمی برقی تو مولویوں نے اور نیز محمد حسین بٹالوی نے کہا کہ مولوی صاحب تم نے غضب کیا کہ نرمی اختیار کی ہے.جس قدر سختی و درشتی کرد گے اس قدر فتح پاؤ گے ورنہ تم شکست کھاؤ گے ہزیمت اٹھاؤ گے مولوی بشیر نے اس بات کو نہ مانا مگر کیا کرے مجبورا اس نے بھی پچھلے دنوں میں بختی اور درشتی کا برتاؤ کیا ت ہم سنگ جاناں کو سمجھے تھے ہم پنچ اگر علی کہیں علی سی جب حضرت اقدس علیہ میاں نذیر حسین کا مباحثہ سے گریز السلام نے مولوی نذیر.حسین سے مباحثہ چاہا تو مولوی نذیر حسین نے بمشورہ بٹالوی وغیرہ یہ کہا کہ میرے شاگردوں سے مباحثہ کر لو یعنی انا خَيْرٌ مِّنْهُ (دہلوی (دمشقی) ہوں اور تم ایک گاؤں کے رہنے والے ہو.دیہاتی آدمی کو شہر پر کیا فوقیت ہے.خَلَقْتَنِی مِنْ نار کے مضمون کو ادا کر دیا.شاباش اے نذیر حسین مردوں کا یہی کام ہے کہ کہہ جائے سو کر جائے بہت مولویوں نے یہ بھی اشتہاروں میں لکھا اور زبان سے بھی کہا کہ اگر مسیح موعود ہونا چاہئے تھا تو دہلی والوں سے ہونا چاہئے.یہ پنجابی ڈھگا مسیح موعود کیوں پتا.بہت سے آدمی حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں تمسخر سے آتے بعضے غصہ سے لال پیلے ہوئے آتے.اور کھڑے کھڑے ہاتھ لمبا کر کے بڑھا کے حضرت اقدس علیہ السلام کی ریش مبارک تک ہاتھ لے جاکر کہتے ارے تو پنجابی ارے اور پنجابی ڈھگے تو مسیح بن گیا.خدا نے تجھے ہی ہم کو چھوڑ کر مسیح بنانا تھا اس

Page 243

تذكرة المهدي 241 حصہ اول کے حق دار ہم تھے.حضرت اقدس علیہ السلام ہر ایک کی خاموشی سے بات سنتے اور علم و تحمل کو کام میں لاتے.آخر کار مجھ سے نہ رہا گیا جب ایک مولوی نے ہاتھ بڑھایا کہ ریش مبارک تک حضرت اقدس کی ہاتھ لے جاکر یہ کلمہ خبیثہ مونہہ سے نکالا تو میرا حق تھا کہ بولوں جس طرح اللہ تعالٰی نے فرمایا الله يَسْتَهْزِئُ بِهِمُ ان کے پاس قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِرُونَ کہنے پر تو میں بے تکلف بول پڑا کہ دور ہو کتے تجھے کیا خبر ہے اور بے تحاشا میری زبان سے نکل گیا کہ میرے ---- کو ہاتھ لگا.حضرت اقدس علیہ السلام کی طرف ہاتھ کیوں بڑھاتا ہے اس وقت تو حضرت اقدس خاموش ہو رہے اور بڑی بردباری دکھلائی.اور میں نے چاہا کہ اس کے تھپڑ ماروں وہ مجھے غضبناک دیکھ کر الگ ہو گیا اور دور جا کر کھڑا ہوا.لیکن بعد میں جب مخالف کوئی نہ رہا تو فرمایا کہ صاجزادہ صاحب ایسا لفظ بولنا زیبا نہیں میں شرمندہ ہو کر چپ ہو گیا اور استغفار جناب باری میں ول میں کرنے لگا.پھر حضرت اقدس علیہ السلام آپ ہی ہنس پڑے اور فرمایا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی ایک موقعہ پر حدیبیہ پر کفار کے جواب میں جو اس قسم کی حرکت کر بیٹھے تھے جو میرے ساتھ دہلی والوں نے کی تو ان کی زبان سے بھی امصص بظر للات نکل گیا تھا اللہ تعالی معاف فرمائے.مطلب ان لوگوں کا یہ ہے کہ مسیح تو فوت ہو گیا اور صحیح اس امت سے ہی ہو گا اگر مسیح ہو تا تو دہلی والوں میں سے ہو تا تو ہم مان لیتے گویا اپنے میں مسیح ہونا کر لیتے.مگر اللہ جل شانہ جہاں اور جس کو بنائے وہ منظور نہیں کرتے ہیں اسی طرح کفار مکہ نے آنحضرت ﷺ سے کہا کہ مکہ طائف کے کسی رئیس مالدار یا عالم کے پاس رسالت آنی چاہئیے تھی اور ہم میں سے کسی کو رسول بنتا تھا یہ محمد ( ﷺ) کیوں رسول بن گیا چنانچہ اللہ تعالٰی نے فرمایا قَالُو الوَلا نُزِّلَ هذَا الْقُرْآنُ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ O آگے پھر اللہ تعالٰی اس کا جواب آپ ہی دیتا ہے کہ اُهُمْ يَقْسِمُونَ

Page 244

تذكرة المهدي رَحْمَتَ رَبِّكَ 242 کیا ان کے اختیار میں رحمت ربی یعنی نبوت و رسالت رکھی ہے کہ ان کے مشورہ سے دی جاوے.پس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی نذیر حسین محدث دہلوی کے جواب میں یہ فرمایا کہ مولوی صاحب تمہارے سینکڑوں ہزاروں شاگرد ہیں.کس کس سے بحث کی جاوے.ایک شکست کھا جاوے دوسرے کو کھڑا کر دو گے.دوسرا ہزیمت پا جاوے تیسرے کو کھڑا کر دو گے.علی ہے القاس چوتھا پانچواں بہتر یہ ہے کہ اس معاملہ میں تم خود ہی بحث کرلو.تم جڑ کی طرح اور تمہارے شاگرد شاخوں کی طرح سے ہیں جڑ سالم رہی تو شاخیں بھی برقرار رہیں گی.اور جو جڑ ہی اکھڑ گئی تو پھر شاخیں آپ ہی گر کر سوکھ جاویں گی اور جو یہ منظور نہیں تو ایسا کرو کہ اپنے شاگردوں میں سے جس کے علم و فضل پر بھروسہ ہو اور کامل اطمینان ہو ایک شاگرد میرے مقابلہ پر کرد اور یہ لکھ دو کہ اس کی فتح ہماری فتح اور اس کی شکست ہماری شکست پس یہ بھی مولوی نذیر حسین صاحب کو منظور نہ ہوا.اور وہی مرغ کی ایک ٹانگ کے گئے.اور کہتے کس طرح نہیں.یہودا اسکریوٹی کہلوا رہا تھا.دابتہ الارض چیونٹیوں کی طرح یا بھڑوں کی طرح پیچھے پڑے ہوئے تھے مولوی نذیر حسین نے ایک دفعہ تو کہا بھی اوے محمد حسین کیوں بڑہاپے میں میری مٹی پلید کراتا ہے اور کیوں مجھے خدا کے رو برو روسیاہ بناتا ہے جانے دے.مسیح کی حیات کا کہیں بھی اتہ پتہ نہیں کیا تم قیامت کو میری طرف سے جوابدہی کرو گے اس نے خم ٹھونک کر کہا ہاں خدا کے سامنے تمہاری طرف سے جواب دے لیں گے اور یاد رکھنا اگر اس کے بعد ایسا کلمہ پھر منہ پر لائے تو تمہاری زندگی خراب ہو جاوے گی اور سب تم سے پھر جا دیں گے.کدھر جاؤ گے.کہاں رہو گے مولوی نذیر حسین پیر فرتوت کا ٹھ کی پتلی کیا کر سکتا تھا اتنا ہوش نہ آیا کہ راستباز کبھی ضائع نہیں ہوتے صادق کبھی ذلیل نہیں ہوتے حضرت مرزا

Page 245

تذكرة المهدى 243 صاحب کے ساتھ ہو لیتے اس کے واسطے کیا کمی تھی مجھے اس پر ایک بات یاد آگئی حضرت اقدس کے روبرو کسی نے یہ کہا کہ اگر محمد حسین بٹالوی رجوع کرلے اور مان جاوے تو وہ عزت تو اس کی اب ہو نہیں سکتی جو پہلے تھی اس پر حضرت مولانا نور الدین محبوب رب العالمین خلیفتہ المسیح نے فرمایا کہ یہ غلط بات ہے.اس کی عزت پہلے سے بھی زیادہ ہم لوگ اور حضرت صاحب کریں گے سبحان اللہ کیا راستی اور صداقت کا کلام خلیفتہ اسی کا تھا.حضرت اقدس علیہ السلام نے المسیح فرمایا کہ بے شک حضرت مولوی صاحب نے سچ فرمایا.کیا جب دنیا حضرت اقدس علیہ السلام سے پھر گئی پھر نا کیسا د شمن جان ہو گئی.آپ کا کیا بگاڑ لیا.اس دشمنی و عداوت سے حضرت اقدس علیہ السلام کی دن دونی رات چوگنی عزت و عظمت جبروت بڑھتی گئی.مریدوں کی روز بروز کثرت روپیہ کی زیادتی تحائف کی بے شمار آمد مخلوق کا رجوع بے حدد بے شمار اسی طرح مولوی نذیر حسین کا بھی اگر مان لیتا یہی حال ہوتا ایک مادی ایک ناواقف آدمی حضرت مسیح موعود کی ابتدائی حالت کو دیکھ کر کہہ سکتا تھا اور ایک خشک ملا آپ کی پہلی حالت پر نظر کر کے دعوئی کر سکتا تھا.اور کیا ہے کہ یہ اب گرا کل گرا.اب بچھڑا اب نیست نابود ہوا بس کچھ دیر نہیں لگتی کہ یہ جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا کچھ دن جاتے ہیں کہ اس کا نام و نشان مٹ جاوے گا ایک صوفی مشرب آپ کا آغاز دیکھنے والا کہہ سکتا ہے کہ عنقریب اس کا انجام اچھا نہیں ہو گا.دنیا سے مٹ جاوے گا تباہ ہو جاوے گا اس کا نام لیوا پانی دیوا کوئی باقی نہ رہے گا اور نہ یہ خود رہے گا بلکہ بٹالوی یہودا اسکر یوطی نے تو سیالکوٹ میں عام مجمع میں یہ بات زبان سے کہدی.اور پھر اشاعۃ السنہ میں چھاپ بھی دی کہ میں نے ہی اس کو چڑھایا تھا اور میں ہی اس کو گراؤں گا جھوٹے کا منہ کالا نیلے ہاتھ پاؤں.ارے تو نے اشاعت السنہ میں لکھ کر سمجھ لیا کہ میرے لکھے سے یہ اس عروج کو پہنچا یہ خدا کا چڑھایا چڑہا.خدا کا بلایا بولا خدا کا بنایا ہوا بنا.اب کس کی مجال کہ اس کی طرف

Page 246

تذكرة المهدى 244 آنکھ اٹھا کر دیکھ لے.حضرت اقدس نے فرمایا اے آنکہ سوئے من بددیدی بعد تمر از باغبان بترس که من شاخ مشمرم خود گر گیا حقیر ہو گیا.ذلیل ہو گیا.آسمان کا تھو کا منہ پر آیا.مگر اللہ تعالی پر ایمان لانے والا شخص صدق دل سے یقین رکھنے والا ہزار جان سے بول اٹھتا ہے کہ یہ بارور شجر عظیم الشان درخت ہو گا پھلے گا پھولے گا لاکھوں اس کے سایہ میں آرام پاویں گے.جو اس کے کاٹنے کی فکر میں ہو گا وہ خود کاٹا جاوے گا دیکھو آنحضرت ﷺ کی کمی حالت کو آپ کے زمانہ میں آپ کو کس میری بے کسی کی حالت میں دیکھنے والا کب کہہ سکتا تھا اور کب اس کو یقین آسکتا تھا کہ یہ عظیم الشان انسان اولو العزم رسول مانا جاوے گا مگر واہ رے ابو بکر صدیق تجھ پر ہزاروں صلوۃ والسلام اور واہ رے بلال حبشی تجھ پر بے شمار رحمت جو معراج کی رات کو آنحضرت اللہ پر ایمان لا کر جنت میں آپ سے پہلے پھرتا پایا انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے جن کو اللہ تعالی نے رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ فرمایا کیا دیکھا تھا.یہی دیکھا تھا کہ ماریں پڑ رہی ہیں چاروں طرف سے دشمنوں کے نرغہ میں ہے نہ کھانے کا آرام نہ لباس کا مزہ نہ مکان میں رہنا نصیب نہ جنگل میں ٹھکانا.روپیہ نہیں دولت نہیں لشکر نہیں سپاہ نہیں کہ جس پر کچھ امید وابستہ ہو ایسی حالت میں صادق کو پہچان لینا اور ہر آفت میں ہر ایک رنج و راحت میں ساتھ دینا کیونکر تھا بس اس طرح تھا کہ خدا پر ایمان تھا پہلے انبیاء کی نظیریں موجود تھیں آپ کی سلامت روی پیش نظر تھی کسی نے خوب کہا ہے.مرد حقانی کی پیشانی کا نور کب چھپا رہتا ہے پیش ذی شعور سيمَا هُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ تو خود اللہ تعالی ہی فرماتا ہے مگر نذیر حسین خشک ملا تھا.نابینا تھا بد قسمت نہ سمجھا نہ سوچا اور اپنے شاگردوں معتقدوں کے دباؤ میں آگیا.آپ بھی ڈوبا ان کو بھی ڈبویا.مولوی صاحب کو تو ساری عمر میں لا نسلم نہیں نہیں یاد تھی اور سب کچھ بھول گئے.

Page 247

تذكرة المهدي 245 " جو لکھا پڑھا تھا نذیر نے سودہ ایک پل میں بھلا دیا.مجھے زیادہ تر ان تمام خبروں کے ملنے کا یہ ذریعہ تھا کہ میرے دو مرید اللہ تعالٰی ان پر رحمت کرے فوت ہو گئے ہیں اس وقت ساتھ رہے دن کو رات کو ان مولویوں کی مجلسوں میں شامل رہتے اور ان کے مشوروں میں شریک ہوتے.اور رات کو خفیہ طور سے یہ سب حال مجھ سے کہہ جاتے تھے جب یہ حضرت اقدس علیہ السلام کی بات کا جواب نہ دے سکے تو انہوں نے یہ چالا کی اختیار کی کہ سب نے مل کر اشتہار دیدیا کہ کل مولوی نذیر حسین صاحب کی مرزا صاحب سے بحث ہوگی اس بحث کی حضرت اقدس کو اطلاع نہ دی لیکن عین وقت پر کہلا بھیجا کہ آؤ مباحثہ کے لئے مولوی نذیر حسین صاحب موجود ہیں حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ پہلے مجھ سے مشورہ لینا تھا.تاریخ مجھ سے پوچھ کر مقرر سرکاری انتظام کرنا تھا ایک طرفہ تاریخ مباحث کرنا یہ تو خلاف عقل ہے تم سب ایک طرف ہو میں اکیلا ہوں مسافر ہوں.اتنے میں حکیم عبد المجید خان بگھی میں بیٹھ کر آگئے اور حضرت اقدس سے عرض کیا کہ آپ مباحثہ کے لئے چلئے.مولوی نذیر حسین صاحب بھی چلتے ہیں اس مولوی کو بھی خبر نہیں خواہ مخواہ لوگوں نے اپنی طرف سے ایک جلسہ قرار دے لیا تھا وہ بھی فساد کی نیت سے.حضرت اقدس علیہ السلام نے وہی جواب ان کو دیا جو اوروں کو بھیجے تھے اور اسی مضمون کا ایک اشتہار بھی دیا حکیم عبدالمجید خان اس جواب کے سننے سے ناراض ہوئے اور کہا کہ آپ کو کیا جو میں آپ کے ساتھ ہوں میں نے کہا کہ حکیم صاحب تم ایک حکیم ہو کوئی بادشاہ نہیں صوبہ دار نہیں اگر فساد ہو جائے تو تمہارا ہم کیا کرلیں گے تم علیحدہ ہو جاؤ گے یا تم بھی بیچ میں پٹوگے اور رات کو وہی دونوں شخص مجھے اس مباحثہ کی اور طوفان بے تمیزی اور مجادلہ کی خبر دے چکے تھے کہ ہر گز مت جانا.لوگوں کے تیور بدلے ہوئے ہیں اور وہ فساد پر آمادہ ہیں بحث ہونے کا بہانہ ہے وہ پھر چھریاں لے کر مارنے کے لئے آمادہ ہیں

Page 248

تذكرة المهدى 246 اور میں حضرت اقدس علیہ السلام سے عرض کرچکا تھا کہ ان لوگوں کا ایسا منصوبہ اور یہ ارادہ ہے آپ ہر گز تشریف نہ لے جاویں سید امیر علی شاہ صاحب سیالکوٹی بھی میرے ہمزبان تھے آخر کار حضرت اقدس علیہ السلام تشریف نہ لے گئے اور حکیم عبدالمجید خان صاحب اٹھ کر چلائے جن کے یہ ارادے ہوں اور حق کو سنتا اور سمجھنا نہ چاہیں تو اس کا کیا علاج گلی گلی کوچہ کوچہ میں فساد اور قتل حضرت اقدس علیہ السلام کے مشورے تھے اور سب کی ایک زبان تھی کہ مرزا کی ایک نہ سنو اور یہ سب کارروائی ہورا اسکریوطی کی تھی کہ جس کا میں ذکر کر چکا ہوں حضرت شیخ محی الدین اکبر رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب میں ایک حدیث لکھی جس کو حضرت اقدس علیہ السلام نے معہ حوالہ کتاب اپنی کتاب میں نقل کیا ہے.اور وہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جب مسیح موعود آوے گا تو ایک عظیم الشان مجمع ہو گا.اس مجمع سے ایک شخص یعنی ایک مولوی اٹھ کر کہے گا کہ اس شخص نے دین کو خراب کر دیا.اور شریعت کو بدل دیا اور وہ کفر کا فتوی دے.گا.سو یہ حدیث آنحضرت ﷺ کی الحمد للہ اس طور سے بچی ہوئی کہ دہلی میں عام مجمع میں اس محمد حسین بٹالوی نے علی الاعلان کہا کہ مرزا جھوٹا ہے اور اس نے دین کو برباد کر دیا اور کافر ہے.اس حدیث سے بھی باشارۃ النص بٹالوی یہودا اسکر یوطی ٹھرا اور مجمع سے مراد دمشق کا مجمع ہے اس طور سے صاف اور صریح دیلی شهر دمشق ٹھہرا گھر گھر کتا بیں کھلیں.قرآن شریف کھلے کہ کسی طرح کوئی بات ایسی مل جادے کہ مسیح کی حیات ثابت ہو جاوے کوئی آخر کت کوئی احوال الاخرة کوئی ہزار مسئلہ پڑھ رہا ہے کوئی آثار محشر لوگوں کو دکھاتا پھرتا ہے مولوی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں اور شاباش دے رہے ہیں اور لوگوں کو حضرت اقدس علیہ السلام کی مخالفت پر برانگیختہ کہ فت پر برانگیختہ کر رہے ہیں ان کو یہ خبر نہیں کہ یہاں قرآن شریف اللہ تعالیٰ کا کلام ہے بخاری و مسلم جیسی عظیم الشان کتابوں کی چھان بین اور تنقید ہو رہی ہے.بیچاری آخرگت اور ہزار مسئلہ کتاب کو کون پوچھتا ہے.کوئی تفسیر

Page 249

تذكرة المهدي 247 حسینی کو سناتا پھرتا ہے یہ ان کو خبر نہیں کہ یہاں تفسیر کبیر وغیرہ کو کوئی نہیں دیکھتا لیکن سوائے پانچ سات راویوں کے کوئی ثقہ صادق عادل ایسا رادی نہیں جو مسیح کی حیات کو بیان کرتا ہے.لوگوں کو یہ بڑا دھوکا لگا ہوا ہے کہ ہر ایک کتاب میں جو پانچ سات رادیوں کی روایت مکررسہ کر ر ہیر پھیر کر کے مسیح کی حیات میں بیان کی گئی ہیں ان کو بڑے وثوق سے بیان کیا کہ بے شک جمہور اسی پر ہیں اور اجماع امت اسی پر ہے کہ مسیح زندہ آسمان پر ہے حالانکہ ان کل کتابوں میں یہی پانچ سات راوی ہیں جو ادنی درجہ کے ہیں اور جو اعلیٰ درجہ اور عظیم الشان طبقہ کے علماء و فضلع ہیں ان میں سے ایک راوی حیات مسیح میں نہیں وہ سب وفات کی طرف گئے ہیں جیسے کل صحابہ کا اجماع آنحضرت ﷺ کی وفات کے وقت مسیح کی وفات پر ہوا اور پھر ائمہ اربعہ حضرت امام مالک اور حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور امام شافعی اور امام احمد جنبل اور ائمہ ستہ حدیث مثلاً بخاری و مسلم وغیرہ یہاں تک کہ صاحب مشکوۃ نے بھی کوئی حدیث صحیح تو الگ ضعیف بھی مسیح کی حیات میں نہیں لکھی اور جو بڑے عالم ہوئے انہوں نے بھی حیات کا انکار اور وفات کا اقرار کیا ہے چنانچہ میں اپنے رسالہ مسمی سراج الحق حصہ سوم چهارم پنجم میں اس بات کو خوب مفصل ثابت کر چکا ہوں.پس حضرت اقدس علیہ السلام کا مجمع جہلا میں نہ جانا ان کی جھوٹی فتح کا نقارہ بج گیا ان کے پر افترا کار روائی کی نوبت گونج اٹھی لیکن پھر بھی حضرت اقدس علیہ السلام نے اہل دہلی کا پیچھا نہ چھوڑا اور دو تین اشتہار شائع کئے اہل دہلی نے جب مشورہ کیا کہ ہمارا کیا کرایا منصوبہ جاتا رہے گا اور ہمارا سب کام بگڑ جاوے گا مرزا کے اشتہار چھپوانے بند کردو.تب سب کے مشورہ سے مطبع والوں نے حضرت اقدس علیہ السلام کا اشتہار چھاپنا بالکل بند کر دیا.اب بڑی مشکل پڑی.اور حضرت اقدس علیہ السلام دعاؤں میں لگ گئے.-

Page 250

تذكرة المهدى 248 چو مردی از غیب برون آید و کاری بکند ایک مولوی وہابی کی طرف سے ایک اشتہار اس مضمون کا نکلا کہ غلام احمد غلام نبی غلام محمد غلام رسول وغیرہ نام رکھنا شرک میں داخل ہے فتح پور کے علما یونکہ حنفی تھے ان کو یہ برا معلوم ہوا اور ان کا ایک بڑا مولوی محمد عثمان نام کو اس سے بہت رنج پہنچا.اور اس نے ایک اشتہار اس اشتہار کے جواب میں شائع کیا کہ علماء اہلحدیث نے مرزا غلام احمد پر حملہ کیا ہے اور دراصل ہم سب مقلدین اور سنت جماعت پر حملہ کیا ہے کیونکہ ہمارے نام اس قسم کے ہیں اور ہم ان ناموں کو جائز رکھتے ہیں پھر مولوی محمد عثمان خفیہ طور سے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ایک لمبا رقعہ لکھا منجملہ اس مضمون کے جو اس رقعہ میں تھا یہ بھی مضمون تھا کہ اللہ تعالی کی قسم میں آپ سے ایسی محبت رکھتا ہوں جیسی اپنی جان سے محبت رکھتا ہوں ان وہابی مولویوں نے بڑی شرارت کی ہے میں ان کے شریک نہیں ہوں.گو میں آپ کو مسیح موعود نہیں مانتا.مگر میں آپ کی طرف ہوں آپ جو اشتہار وغیرہ چھوانا چاہیں میری معرفت چھوائیں میرا شاگرد کاپی نویس ہے اور عمدہ کاپی نویس ہے اس سے کاپی لکھوا دوں گا اور ایک اہل مطبع میرا شاگرد ہے میں اس مطبع میں چھپوا دوں گا سو آپ نے ایسا ہی کیا جب حضرت اقدس علیہ السلام کا اشتہار نکلا تو مولویوں کے کپڑوں میں پسو پڑ گئے دن کو چین نہ رات کو نیند اور یہ شعر ان کے مطابق ہوا الایا ایھا لکھیٹا کہ خون چوسید کھٹملیا کہ خواب آسان نمود اول ولے افتاد مشکل با اور مشورہ کیا ہمارا ساختہ سب جاتا رہا پھر اشتہار مرزا کی طرف سے نکلنے لگا تو مولویوں نے وہ اشتہار جس میں غلام رسول غلام محمد نام ناجائز بتلائے تھے واپس لیا اور کہا کہ ہمارا قصور معاف کردو لیکن مرزا کا اشتہار نہ نکلنے دو.اب کیا تھا گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں پھر تو مولویوں میں پھوٹ پڑ گئی

Page 251

تذكرة المهدى 249 ایک دن حضرت اقدس علیہ السلام نے جب دیکھا کہ یہ لوگ یوں تو باز نہیں آئیں گے نذیر حسین محدث دہلوی کو مقابلہ کے لئے نہیں نکلے دیتے ایک اشتہار لکھا.اور شائع کیا منجملہ اور مضامین ایک یہ بھی مضمون تھا کہ فلاں روز ہم جامع مسجد دہلی (دمشق) میں بوقت عصر جاویں گے.مولوی نذیر حسین صاحب کو چاہئے کہ وہ بھی جامع مسجد میں آجا دیں اگر بحث نہیں کرتے صرف اتنا کام تھوڑا ساکریں کہ میں پہلے آیات قرآنیہ و احادیث نبویہ سے اپنے دعوے مسیح موعود اور صحیح ابن مریم کی نسبت بطور اتمام حجت سناؤں گا تاکہ کوئی یونہی ہلاک نہ ہو جائے اور جب میں سارا بیان سنا چکوں تو مولوی نذیر حسین مجمع عام میں کھڑے ہو کر اللہ تعالٰی کی قسم کھا جاویں اور قسم کی رو سے لکھ دیں کہ جو کچھ مرز غلام احمد قادیانی نے احادیث نبویہ اور آیات قرآنیہ سے مسیح علیہ السلام کی نسبت استدلال کیا ہے یہ سب غلط ہے اور وفات مسیح اس سے ثابت نہیں ہوتی.اس تم کے بعد ایک سال کا انتظار کریں اگر ایک سال میں مولوی نذیر حسین صاحب پر عذاب الہی نازل نہ ہوا تو میں اپنی کتابوں کو تلف کردوں گا.جلاووں گا اور اپنے مسیح موعود کے دعوے سے رجوع کرلوں گا اور دست بردار ہو جاؤں گا اور جو مولوی نذیر حسین صاحب پر عذاب الہی نازل ہوا جو کا زبوں اور مفتریوں پر ہمیشہ آیا کرتا ہے تو میری صداقت عالم پر آشکارا ہو جاوے گی اور جو اس تاریخ کو جامع مسجد میں حاضر نہ ہوا اس پر اللہ تعالی کی لعنت ہو.اللہ اللہ کیا یہ تحدی یہ مردمی یہ اولوالعزمی جھوٹے کو بارگاہ ایزدی سے مل سکتی ہے.ہرگز نہیں ہرگز نہیں.اس اشتہار کے شائع ہوتے ہی دہلی والوں میں کھل بلی مچ گئی اور ایک شور برپا ہو گیا اور مولوی نذیر حسین اور اس کے شاگردوں کے ہوش اڑ گئے کہ اب کیا کریں اور کس طرح اس سرخ موت کے پیالہ کو ٹلادیں.آخر کار یہ بات بنائی کہ مولوی نذیر حسین صاحب بڑھے ضعیف ہیں.مرزا صاحب نے دیکھ لیا کہ اب مرنے والے تو ہیں ہی چلو ایسا اشتہار دید و یہ

Page 252

تذكرة المهدى 250 به اون مرجاویں گے ہماری بات بن جاوے گی ہمارا دعوئی سر سبز ہو جاوے گا ہم ہر گز اس بات کو تسلیم نہیں کرتے ہیں اور نہ مولوی نذیر حسین صاحب یہ بات مان سکتے ہیں جہاں لوگ جھوٹے ہوتے ہیں وہاں بچے بھی تھوڑے بہت اور حق پسند نکل ہی آتے ہیں انہوں نے زور دیا کہ بے شک مولوی نذیر حسین صاحب تم کھاویں سچ اور جھوٹ میں واقعی تمیز ہو جاوے گی.صدق و کذب میں یہ معیار بہت ہی عمدہ ہے اب اس بات کو کون روک سکے اب تو یہ بات لوگوں میں پھیل گئی اور لوگوں کو اس دن کا خیال ہو گیا لیکن جو اس بات کے مخالف تھے انہوں نے یہ التزام کیا کہ " مرزا کو مسجد میں ہی مار ڈالو - بلوہ عام میں کون پوچھتا ہے." جب وہ دن اور وہ وقت موعود آیا تو لوگ جوق در جوق جامع مسجد میں آنے لگے.یہاں تک کہ جامع مسجد لوگوں سے بھر گئی اور مخلوق کا ایک تار لگ گیا.اس روز صبح سے لوگ حضرت اقدس علیہ السلام کے پاس یہ پیغام وقتا فوقتا لانے لگے کہ حضرت آپ جامع مسجد میں ہرگز نہ جاویں فساد ہو جاوے گا تکرار ہو گا خدانخواستہ آپ کو تکلیف پہنچے یا جان جائے کیا فائدہ وہاں جانے سے یہ لوگ پلول ملا کے آئے ہیں کہ مرزا جامع مسجد میں نہ جاوے تو بہت ہی اچھا ہو ے حافظ محمد اکبر ایک شخص واعظ اس زمانہ میں خوش الحان تھا وہ بھی آیا اور کہنے لگا کہ حضرت آپ جانے کو جائیں مگر میں سچ کہتا ہوں کہ لوگ دیلی کے آپ کے قتل کے درپے ہیں کسی کے ہاتھ میں چھریاں چاقو اور کسی کے ہاتھ اور دامن اور جیب میں نوکدار پتھر ہیں پتھر ایکدم برسیں گے اور پھر چھریاں چلیں گی.یہ بات حافظ محمد اکبر نے بچی اور نیک نیتی سے کسی تھی مگر حضرت اقدس علیہ السلام بار بار فرماتے تھے کہ کوئی پرواہ نہیں اللہ تعالی ہمارے ساتھ ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے والله يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ اللہ تعالی کی حفاظت کافی ہے اللہ حافظنا و ناصر نا اب جانے سے رک نہیں سکتے کیونکہ ہم نے جو غیر حاضر پر لعنت لکھی ہے اس لعنت کے مورد ہم نہیں ہو سکتے.-

Page 253

تذكرة المهدي 251 پس ظہر عصر کی نماز ظہر کے وقت جمع جامع مسجد دہلی اور ہجوم یہود کی تھی اور دو یا تین تجھیاں کرایہ کی منگائی گئیں ایک بگھی میں حضرت اقدس علیہ السلام اور سید امیر علی شاہ صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب اور ایک صاحب اور ایک بگھی میں میں اور غلام فصیح اور محمد خان صاحب کپور تھلوی اور ایک شخص اور تیسری میں حکیم فضل الدین صاحب اور کئی صاحب اور بیٹھ گئے اس وقت ہم بارہ شخص تھے جب ہم جامع مسجد کے دروازہ پر جنوب کی جانب پہنچے تو دیکھا کہ مسجد اور مسجد کی سیڑھیاں ڈٹاؤٹ لوگوں سے بھری ہوئی ہیں اور جیسا کہ اکثر اشخاص نے اور نیز حافظ محمد اکبر واعظ مرحوم نے بیان کیا تھا وہ مشاہدہ میں آگیا حضرت اقدس علیہ السلام آگے بلا خوف و خطر اور داہنی جانب میں اور مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم مغفور دونوں ہاتھ میں ہاتھ لئے اوپر چڑھے اور کوئی راہنے اور کوئی بائیں اور کوئی پیچھے بھلا ہم بارہ آدمیوں کی اتنے لوگوں میں کیا حقیقت تھی اور ایک مزدور کتابیں لئے ہمارے ساتھ جو حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام لائے تھے لوگوں کے تیور بدلے ہوئے آنکھیں سرخ و زرد جوشیلی چہروں پر خون گویا چھڑکا ہوا ہم سب جامع مسجد (مناره شرقی دمشق) پر بیچ کی محراب میں جابیٹھے حضرت اقدس علیہ السلام کی جیسی عادت خلوت میں جلوت میں ہمیشہ تھی جیسے کوئی نئی دلہن بیٹھی ہوتی ہے آنکھوں میں شرم جیسے کنواری نوجوان کی آنکھ میں حیا ہوتی ہے نہ آپ کسی طرف دیکھتے ہیں نہ کسی طرف متوجہ ہوتے نظر بر پشت پا دوخته اور پاس مولوی عبد الکریم صاحب بیٹھے اور آگے کتابوں کا ڈھیر لگا ہوا اور سامنے کی جانب یہ خاکسار اتنے عرصہ میں قریباً ایک سو سے زیادہ پولیس کے نوجوان اور ساتھ یورپین آفیسر یکا یک آگئے اور ہمارا محاصرہ کر لیا.اور ہم کو اپنے حلقہ میں لے لیا میرے پاس اس وقت لباس فاخرہ چونه رنگین اور عمامہ رنگین شرقی تھا اور غرارہ کا پاجامہ - میرا قد چونکہ لمبا تھا اور لباس فاخرہ تھا راستہ میں بھی اور جامع

Page 254

تذكرة المهدى 252 - مسجد میں بھی یہی لوگ کہتے تھے کہ یہ شخص مسیح موعود ہے.غلام قادر فصیح اور محمد خان صاحب اس بات کو سن کر بہت ہنستے اور میں بھی خوش ہو تاکہ کاش اگر یہ لوگ حملہ کریں تو مجھ پر کریں.اور آج میں حضرت اقدس علیہ السلام کے اوپر سے قربان ہو جاؤں اور شہادت کبری کا درجہ پالوں.مگر حضرت اقدس علیہ السلام کو کوئی آسیب کوئی آزار کوئی تکلیف نہ پہنچے میں نے بعض لوگوں کے دامنوں میں پتھر دیکھے اور یقین کامل ہو گیا کہ آج مسیح ناصری والا دن ہے اور مولوی بڑے بڑے جیسے اور عمامے باندھے اور لباس فاخرہ پہنے فریسیوں فقیہوں کی طرح اکٹر اکٹر کے چلتے پھرتے تھے.اور حضرت اقدس کا لباس سادہ ایک پاجامہ پنجابی سادی سوی یا چار خانہ کا نیم ساق اور سادہ جو تازری کا وہ بھی مدت کا پہنا ہوا پرانا سفید عمامہ سر پر ایک چونہ ایک کرتہ بس اللہ اللہ خیر صلہ اس سادگی پر بھی طرحداری اور نزاکت وغیرہ کوئے سبقت لے گئی تھی.اتفاق سے بہت لوگوں میں یہ چرچا ہوا کہ یہ لوگ کلمہ نہیں پڑھتے اور منکر کلمہ ہیں.اور بعض نے کہا نہیں ایسا نہیں ہے اگر یہ کلمہ نہیں پڑھتے تو مسجد میں کیوں آتے اور قرآن شریف اور حدیثوں اور تفسیروں کی کتابیں ان کے پاس کیوں ہو تیں آخر ایک ضعیف العمر پیر صاحب آگے بڑھے اور کہنے لگے کہ میاں صاحبزادہ صاحب وہ مجھ سے پہلے سے واقف تھے کہنے لگے تم لوگ کون ہو میں نے کیا ہم مسلمان ہیں پھر کہا کہ تمہارا مذہب کیا ہے میں نے کہا اسلام ہے پھر پوچھا کہ تمہارا طریق کیا ہے اس سے مطلب انکا شاید خفی شافعی وغیره یا چشتی قادری و غیره ليا مقلد غیر مقلد ہو گا میں نے کہا اسلام پھر دریافت کیا کہ تم کلمہ نہیں پڑھتے ہو میں نے کہا ہاں پڑھتے ہیں انہوں نے کہا اگر کلمہ پڑھتے ہو تو پڑھ کر سناؤ میں نے پڑھا لا إله إلا الله محمد رسول اللہ اب وہ پیر صاحب لوگوں کی طرف مخاطب ہوئے جنہوں نے یہ کہا تھا کہ یہ تو کلمہ طیب پڑھتے ہیں تم تو کہتے تھے نہیں پڑھتے بعض نے کہا ہم نے تو ایسا ہی سنا تھا اب کانوں سے سن لیا کہ پڑھتے ہیں

Page 255

تذكرة المهدى 253 مولویوں کے بہکائے ہوئے تھے کہا نہیں جی اس وقت زبان سے ڈر کے مارے کلمہ پڑھ دیا ہے ورنہ یہ لوگ نہیں پڑھتے پیر جی صاحب نے کہا دل چیر کر تم نے دیکھا ہو گا ہم تو ظاہری طور پر دیکھتے ہیں.پھر پوچھا کہ تم نبیوں رسولوں ولیوں کو مانتے ہو میں نے کہا ہاں اگر نبیوں رسولوں اور ولیوں کو نہ مانتے تو حضرت اقدس علیہ السلام کو ولی اللہ اور صحیح موعود کیوں مانتے اس کے بعد ان سب میں نا اتفاقی ہو گئی اور لڑنے جھگڑنے لگے لیکن جوانان پولیس نے جو وردی پہنے ہوئے کھڑے تھے انکو ہٹا دیا.اس عرصہ میں مولوی نذیر حسین صاحب اور ساتھ ان کے مولوی محمد حسین اور مولوی عبدالمجید وغیرہ علما آگئے اور مولوی نذیر حسین صاحب کو الگ ایک دالان میں جا بٹھایا اور حضرت اقدس علیہ السلام کے سامنے نہ لائے یہ ان کو خوف تھا کہ مبادا حق غالب آجاوے اور حضرت اقدس کا روئے منور دیکھ کر کوئی ایسی بات نہ کہدیں کہ جس سے ہمارا سارا کیا کرایا برباد ہو جاوے پھر عصر کی نماز ہوئی اور عصر کی جماعت کھڑی ہوئی.چونکہ ہم باجماعت نماز جمع کر کے پڑھ کے آئے تھے ہمیں کیا غرض تھی کہ شریک ہوں ان لوگوں نے چاہا کہ یہ نماز میں شریک ہوں تکبیر ہو چکی اور ہمارے شامل ہونے کا انتظار کیا کسی نے کہا آئیے نماز پڑھ لیجئے مولوی عبد الکریم صاحب نے فرمایا کہ ہم نماز جمع کر کے آئے ہیں؟ غیر مقلد چونکہ جمع کرنے کو جائز رکھتے ہیں لیکن عام لوگ حنفی زیادہ تھے کہنے لگے کہ نماز جمع کرنے کے کیا معنے یہ کوئی رافضی ہیں اتنے میں ایک مولوی صاحب آئے اور حضرت اقدس علیہ السلام کے سامنے چیکے آکر جھک کر کہا کہ اگر چہ آپ نماز پڑھ کر آئے ہو.پھر بھی شامل ہونا حدیثوں سے ثابت ہے.مولوی عبد الکر صاحب نے فرمایا کہ ہم خوب جانتے ہیں ہم باجماعت نماز پڑھ کر آئے ہیں پس ان سب لوگوں نے باجماعت نماز ادا کی لیکن مولوی نذیر حسین کو نماز میں بھی دور کھڑا کیا.

Page 256

تذكرة الهدى 254 ہیبت حق است صاحب دلق نیست جب نماز ہو چکی پھر مولوی نذیر حسین کو مولویوں نے محاصرہ میں لے کر دالان میں جو دروازہ شمالی کی جانب تھا جہاں پہلے بٹھایا تھا جا بٹھایا مولوی محمد حسین بٹالوی تو استاد کے پاس حفاظت میں رہا لیکن مولوی عبد المجید وغیرہ کئی مولوی آگئے اور افسر پولیس سے باتیں کرنے لگے ادھر سے غلام قادر نے خوب سوال وجواب کئے اور یہاں تک بولے کہ جہاں تک بولنے کا حق تھا.مولوی عبد المجید نے افسر پولیس سے کہا کہ یہ شخص مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور ہم تم کو ناحق پر جانتا ہے اور حضرت مسیح بن مریم کو جو ہم تم دونوں زندہ آسمان پر یقین کرتے ہیں یہ مردوں میں اور وفات شدوں میں جانتا ہے.یہ کہتا ہے کہ مسیح کی حیات و وفات میں مولوی نذیر حسین گفتگو کریں اور ہم کہتے ہیں کہ خاص ان کے دعوے مسیح موعود ہونے میں بحث کریں غلام قادر فصیح صاحب نے من جملہ اور باتوں کے افسر پولیس سے یہ کہا دیکھئے حضور جب تک عمدہ خالی نہ ہو تب تک کوئی اس کا ہرگز مستحق نہیں ہوتا.جب پہلے مسیح کی وفات و حیات پر گفتگو ہولے تب آپ کے مسیح موعود ہونے میں گفتگو ہو.ابھی تو یہ لوگ مسیح کو زندہ سمجھتے ہیں.اگر حیات مسیح ثابت ہو گئی تو آپ کے دعوئی مسیح موعود میں کلام کرنا عبث ہے.یہ دعویٰ خود باطل اور رو ہو جاوے گا اور جو مسیح کی وفات ثابت ہو گئی تو پھر آپ کے مسیح موعود میں بحث کرنا ضروری ہے کہ وہ آنے والا مسیح یہی ہے یا کوئی اور اس امت میں سے.افسر پولیس نے کہا کہ بے شک یہ بات صحیح ہے تم لوگ کیوں اس میں گفتگو اور بحث نہیں کر لیتے.وہ افسر تو اس بات پر جم گیا پھر قسم کے بارہ میں گفتگو ہوئی اس سے بھی ان لوگوں نے انکار کیا اور کہا مولوی صاحب بڑھے ہیں ضعیف ہیں عمر رسیدہ ہیں ہم نہ قسم کھاویں اور نہ کھانے پر مولوی صاحب کو آمادہ کریں پھر محمد یوسف صاحب آنریری مجسٹریٹ نے کہا کہ آپ حضرت اپنا عقیدہ لکھ دیں لوگوں کو گمان ہے کہ آپ کا عقیدہ خلاف اسلام ہے.

Page 257

مه اول تذكرة المهدي 255 لکھ چکے وہ آپ کا لکھا ہوا میں سب کو سنادوں گا چنانچہ حضرت اقدس علیہ السلام نے لکھ دیا جو چھپا ہے.اس کا خلاصہ یہ ہے کہ میں مسلمان ہوں اور آنحضرت الله ایمان رکھتا ہوں اور مجھے کسی اسلامی عقیدہ میں انکار نہیں لیکن مسیح علیہ السلام کی وفات پر یقین اور ایمان رکھتا ہوں جب حضرت اقدس علیہ السلام یہ تو محمد یوسف صاحب نے چاہا کہ اس کو سنادیں مگر مولویوں نے جن کی نیت بد اور فساد کی تھی عبدالمجید وغیرہ نے سنانے نہ دیا اور لوگ زیادہ اشتعال میں آگئے اور لوگوں کی حالت غصہ اور مولویوں کے بہکانے سے دگرگوں ہو گئی اور غصہ سے لال پیلے ہو گئے افسر پولیس نے دیکھا کہ اب فساد ہوا چاہتا ہے اپنے ماتحت افسر سے انگریزی میں کہا کہ لوگوں کو منتشر کرد - لوگوں میں سخت اشتعال ہے تیور بدلے ہوئے ہیں پس افسر پولیس صاحب بہادر اور محمد یوسف صاحب نے پکار کر کہدیا کہ کوئی مباحثہ نہیں ہو گا سب صاحب چلے جاویں.حافظ محمد اکبر مرحوم ہمارے چاروں طرف حفاظت کے لئے پھرتے تھے پس سب لوگ تتر بتر منتشر ہو گئے اور مولوی نذیر حسین سب سے پہلے مع شاگردوں اور مولویوں کے چلائیے کیونکہ وہ دروازہ کے قریب دالان میں بیٹھے تھے.انہوں نے اس بات کو غنیمت جانا جان بچی لاکھوں پائے اور پھر حضرت اقدس علیہ السلام تشریف لے چلے اور تمام سپاہی نوجوان ہمارے ساتھ ساتھ حلقہ کئے ہوئے اور افسر پولیس حضرت اقدس علیہ السلام کے ہمراہ تھے جب ہم دروازہ شمالی پر آئے تو سمجھیاں تلاش کیں کہ وہ کہاں ہیں.یعنی ان سے آنے جانے کا دو طرفہ کرایہ کیا گیا تھا اور کرایہ دے بھی دیا تھا لیکن لوگوں نے بگھی والوں کو خدا جانے کہاں چھپا دیا تھا.یا چلا دیا تھا یہ بھی ایک طریق ایزا کا نکالا اور سوائے ان بگھیوں کے کوئی یکہ اور بگھی تانگہ بھی نظر نہ پڑا.ان لوگوں نے اپنی کوشش سے تمام سواریاں مسجد کے قریب بھی نہ آنے دیں.پندرہ سولہ یا زیادہ منٹ ہم دروازہ پر سواری کے انتظار میں کھڑے رہے اور یکدم لوگوں نے بلوہ کا ارادہ کیا.افسر پولیس ہو شیار تھا اس

Page 258

تذكرة المهدى.256 نے کہا کہ حضرت آپ میری بگھی میں بیٹھ کر جلدی مکان پر جائیں ان لوگوں کا ارادہ پر ہے پس حضرت اقدس علیہ السلام اور مولوی عبد الکریم صاحب دونوں اس بگھی میں بیٹھ کر تشریف لے گئے اور ہم سب پیدل بعد میں مکان پر گئے اور افسر پولیس نے کوچوان سے کہدیا تھا.کہ جہاں تک ممکن ہو جلد بگھی کو پہنچانا جب حضرت اقدس علیہ السلام تشریف لے گئے.تو ہم باقی ماندہ لوگوں سے بہت سے اشخاص نے بھنا بھی شروع کر کے چھیڑ چھاڑ کرنی چاہی چونکہ وہ موقعہ بولنے کا نہ تھا اس لئے ہم خاموش ہو گئے جب تک حضرت اقدس علیہ السلام کو چھوڑ کر نگھی آئی تب تک افسر پولیس مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑے رہے اور جب ہم سب بخیر و عافیت روانہ ہوئے تو افسر کھڑے رہے اور لوگوں کو منتشر کرتے رہے ایک بات یہ بھی خیال کرنے کے قابل ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے اشتہار شائع کیا کہ ہم جامع مسجد میں فلاں روز جائیں گے تو راستہ میں کئی بد بخت لوگ گھات میں بیٹھ گئے کہ بندوق کے غیر سے حضرت اقدس علیہ السلام پر وار کریں لیکن خدا کی قدرت یہ ہوئی کہ جس راہ سے ہم کو جانا تھا بگھی والوں نے کہا کہ ہم اس راہ کو نہ جاویں گے گویا خدا تعالیٰ نے اپنی حکمت سے بگھی والوں کے دل میں ہماری مخالفت ڈالدی اور جب ہم بخیر و عافیت جامع مسجد میں جاپہنچے تو وہ اشخاص جو قتل کی نیت سے کمین گاہ میں کسی کوٹھے پر بیٹھے تھے اپنی ناکامی سے ہاتھ ملتے رہ گئے وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللهُ وَ اللهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ الله تعالی کا قانون سچا نکلا - دشمن چه کند چو مهربان باشد دوست ایک روز مولوی محمد احمد وغیرہ کئی مولویوں کو ساتھ لے کر آیا اور کہنے لگا کہ آپ کا دعوئی اگر ولی اللہ ہونے کا ہوتا تو میں اول آمنا و صدقنا کہتا لیکن مسیح موعود کا دعومی کھٹکتا ہے یہ آپ چھوڑ دیں تو بس ساری دیلی آپ کے تابع ہے میں نے ایک کتاب ایک یورپین کی دیکھی اس میں لکھا تھا کہ آنحضرت ا ہے

Page 259

تذكرة المهدي 257 نے مستقل دعوئی رسالت کا کیا اس واسطہ عیسائی آپ پر ایمان لانے سے رک گئے.اگر بالواسطہ رسول بنتے اور مسیح کے تابعداروں میں سے ہوتے تو میں کیا کل عیسائی آپ پر ایمان لاتے بس اسی کے مطابق قول محمد احمد کا تھا اس محمد احمد نے جو جو شرارتیں اور جو جو فساد کئے وہ محمد حسین بٹالوی کے شر و فساد سے کم نہ! تھے.حضرت اقدس علیہ السلام کے ساتھ والوں کو یہاں تک بھی مشکل تھی کہ بازار سے کوئی چیز خرید کر لانا دشوار تھا ہر وقت آپ کے مکان کے سامنے بہت سے آدمیوں کا مجمع رہتا تھا اور ان کو نہیں اور ٹھٹھے کے سوا اور کچھ کام نہ تھا.ایک روز ایک شخص سفید ریش حضرت اقدس علیہ السلام کے مکان پر آئے چونکہ آپ اوپر کے کمرہ میں تھے اور میں نیچے درمیانہ کمرہ میں تھا اول مجھ سے ملاقات ہوئی کہنے لگے کہ کیا آپ لوگ قیامت کے منکر ہیں میں نے کہا نہیں کون کہتا ہے اور ہمارے میں سے کس سے سنا ہے وہ بزرگ فرمانے لگے کہ یہ اشتہار کہتا ہے جو موجود ہے اس میں کتاب کا نام صفحہ سطر کا پتہ لکھا ہے کہ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ قیامت کوئی چیز نہیں میں نے کہا یہ اشتہار مخالفوں کا ہے اس کو سوائے ایسے بہتانوں کے کچھ اور کام ہی نہیں یہ اشتہار جھوٹا ہے اور سراسر افترا ہے وہ بزرگ بولے کہ اس اشتہار میں ازالہ اوہام کا نام لکھا ہے وہ منگواؤ دیکھیں تو سہی بھلا یہ مولوی ہیں ایسا صریح اور کھلم کھلا جھوٹ کیوں بولنے لگے میرے پاس ازالہ اوہام کتاب تھی اٹھا کر دیدی کہ اس اشتہار کے پتہ کے موافق آپ دیکھ لیں جہاں قیامت کا انکار لکھا ہے ان بزرگ نے وہ کتاب دیکھی.اس پتہ و نشان پر جو اشتہار میں درج تھا دیکھا تو کہیں وہاں قیامت کا ذکر بھی نہیں تھا پھر وہ بزرگ کہنے لگے کہ شاید صفحہ و سطر میں کاتب کی غلطی ہو میں نے کہا اگر اس پر آپ کو شبہ ہو تو ساری کتاب کو دیکھ جائیے سو انہوں نے نصف کتاب تو اسی وقت دیکھ لی اور پھر کہا کہ مجھ کو یہ کتاب دید میں میں گھر پر دیکھوں گا مجھے تو یہ خواہش

Page 260

تذكرة المهدي 258 حصہ اول تھی کہ کسی طرح یہ تمام کتاب پڑھ لے بس وہ کتاب لے گئے اور دوسرے دن مشتہر کو گالیاں دیتے ہوئے آئے اور کہا کہ اب مجھ کو یقین ہو گیا کہ یہ مولوی جھوٹے ہیں.ایک روز دہلی والے شرارت کی راہ سے حضرت اقدس علیہ السلام پر یورش کر کے کئی سو آدمی آگئے چونکہ دروازہ زینہ کا تنگ تھا اس لئے ایک ایک کر کے پڑھنے لگے اتنے میں سید امیر علی شاہ صاحب آگئے انہوں نے نہ آنے دیا وہ لوگ زور سے گھنے لگے مگر شاہ صاحب ایک قومی الحبشہ تھے ان کے زور کو ان دہلی والوں کا زور کب پہنچ سکتا ہے ایک ہی دھکے میں سب ایک دوسرے پر گر پڑے اور فرار ہو گئے اور سوائے گالیاں دینے اور ٹھٹھا بازی کرنے کے اور کچھ نہ کر سکے.ایک روز ایک نا مراد بد بخت بیره شاه مرحوم کا بیٹا رحیم بخش فقیر آگیا چونکہ میں ہیرہ شاہ کو جانتا تھا کہ وہ نہایت نیک بخت اور صالح آدمی تھا مگر وہ حضرت اقدس علیہ السلام کے دعوے سے پیشتر گذر چکا تھا اور یہ رحیم بخش بھی مجھے کو ا جانتا تھا میرے پاس آگیا اور کہنے لگا اجی حضرت آپ کہاں میں نے کہا میں نہیں ہوں کہنے لگا تم بزرگ بزرگوں کی اولاد مرزا جی سے کیسے معتقد ہو گئے میں نے کہا بزرگ را بزرگ و دلی راولی سے شناسد کہنے لگا کہ آپ نے مرزا صاحب کو کیسے بزرگ جانا میں نے کہا اسی طرح جانا کہ جس طرح تم نے مجھے بزرگ اور میرے آباء و اجداد کو بزرگ مانا کہنے لگا آپ کے بزرگوں نے تو کرامتیں دکھاتی ہیں میں نے کہا حضرت اقدس علیہ السلام نے بھی کرامتیں دکھلائی ہیں کہنے لگا ایسی کرامتیں تو میں بھی دکھا سکتا ہوں میں نے کہا دکھاؤ یہ کہہ کر میں نے ایک زور سے اس کے منہ پر طمانچہ مارا کہ اس کا منہ پھر گیا میں نے کہا اب کرامت دکھاؤ پھر میں نے دوسرا تھپڑ اٹھایا بس پناہ مانگنے لگا اور توبہ کرنے لگا بعض طبائع ایسی ہی ہوتی ہیں کہ وہ بغیر زدو کوب مانتی نہیں یہی فلاسفی آنحضرت ا کے جہاد کی تھی فائم.

Page 261

تذكرة المهدى 259 المدعاء مولوی محمد بشیر سے شاید پانچ پانچ پرچوں کی شرط ٹھری تھی کہ طرفین کے پانچ پانچ پر چے ہو جاویں لیکن حضرت اقدس علیہ السلام نے تین پرچوں پر بحث ختم کر دی.اس واسطے کہ جب حضرت اقدس علیہ السلام نے دیکھا کہ نئی کوئی دلیل مولوی صاحب کے پاس نہیں ہے بار بار اسی ایک بات کا اعادہ ہوتا ہے سوائے تضیع اوقات اور کچھ نتیجہ نہ تھا مولوی محمد بشیر اور مجدد علی خان نے بڑا غل مچایا کہ خلاف معاہدہ ہے آپ نے فرمایا کہ جب تمہارے پاس کوئی دلیل ہی نہیں رہی تو پھر خواہ مخواہ تحریر بڑھانا کیا فائدہ دیتا ہے لوگوں کو حق وباطل کے سمجھنے میں یہی تحریر میں کافی ہیں.دہلی میں ایک جلسہ ہوا اور بہت سے مولویوں نے محمد حسین بٹالوی کو دبایا کہ تم نے جو مرزا صاحب سے لدھیانہ میں مباحثہ کیا ہے اس میں تم نے کیا کیا اور کیا کر کے دکھایا.اصل بحث تو کچھ بھی نہ ہوئی بٹالوی نے جواب دیا کہ اصل بحث کس طرح کرتا اس کا پتہ ہی نہیں قرآن شریف میں مسیح کی حیات رفع علی السماء کا کوئی ذکر نہیں حدیثوں سے صرف نزول ثابت ہوتا ہے میں حدیثوں پر مرزا صاحب کو لاتا ہوں اور وہ مجھے قرآن کی طرف لے جاتے تھے پھر ان مولویوں نے کہا کہ مرزا صاحب نے تو بحث چھاپ دی تم نے اب تک کیوں نہ چھاپی.بٹالوی نے کہا کہ اشاعت السنہ میں چھاپوں گا مولویوں نے کہا کہ تیرا اشاعت السنہ پڑے بھاڑ میں الگ اس بحث کو مکمل کر کے چھپوانا تھا تو شور تو اتنا کرتا ہے اور ہو تا تجھ سے کچھ نہیں.مولویوں نے اس کو بہت ہی شرمندہ کیا لیکن کسی کا مقولہ ہے.شرم چه کنی مست که پیش مرداں بباید اس مباحثہ کے بعد حضرت اقدس علیہ السلام نے چلنے کی تیاری کی اور تجھیاں منگوا میں اور اسٹیشن پر تشریف لے گئے سوار ہوتے ہوئے حضرت اقدس علیہ السلام نے خلاف عادت مجھے سینہ سے لگایا اور فرمایا کہ اب تم جاؤ پھر

Page 262

تذكرة المهدي 260 جلدی قادیان آنا.ہمارا جی نہیں چاہتا کہ تم کو چھوڑ کر ہم چلے جائیں اللہ کے حوالے فی امان الله - جس وقت حضرت اقدس علیہ السلام نے قادیان شریف جانے کی تیاری کی اور نماز عشاء کی پڑھنے لگے تو ابھی ہم نے نیت نہیں باندھی تھی کہ حاجی حکیم اللہ بندہ جیند سے آگئے اور وہ نماز میں شامل ہو گئے بعد سلام کے کہا کہ آج مجھے تین روز دہلی آئے ہوئے ہو گئے مجھے یہاں آنے کا موقعہ نہ ملا اور نہ لوگوں نے آنے دیا اور کہا کہ وہ تو کافر ہے تو بھی کافر ہو گا.آج اتفاق سے میں نے آپ کو دیکھ لیا تو میں دوڑ کر آگیا مجھے حضرت اقدس علیہ السلام سے بیعت کزارو میں نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت یہ حاجی حکیم اللہ بندہ ساٹھ کوس جیند سے آیا ہے اور لوگوں نے آنے نہ دیا.یہ میرا واقف کار ہے اس کے بیوی اور بچے مجھ سے مرید ہیں لیکن یہ اور شخص سے مرید تھا اب آپ سے بیعت کرنی چاہتا ہے آپ نے فرمایا اب تو ہم چلتے ہیں پھر میں نے عرض کیا کہ چلتے بھی دیر لگے گی آپ ان کو بیعت ہی کر لیجئے (اور یہ وہی شخص حکیم اللہ بندہ حاجی ہے جس کا ذکر یوسف علی مرحوم کے ذکر کے ساتھ آچکا ہے حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا اچھا بلاؤ میں نے کہا کہ حکیم صاحب آؤ اور بیعت کرد حکیم جی آئے اور حضرت اقدس علیہ السلام نے ہاتھ بڑھا دیا تو حاجی حکیم اللہ بندہ نے ہاتھ نہ بڑھایا اور عرض کیا کہ حضرت پہلے میری عرض سن لیں فرمایا کہو عرض کیا کہ شہر چیند سکھوں کی ریاست اور ملک ہے وہاں کئی صدیوں سے اذان نہیں ہوتی.اور جو کوئی اذان اتفاق سے کہہ دے تو پچیس روپیہ جرمانہ ہوتا ہے آپ یہ دعا کریں کہ وہاں اذان ہونے لگے یہ آپ کا بڑا بھاری نشان ہے تب تو میں بیعت کرلوں ورنہ نہیں سبحان اللہ وہ کیا وقت مبارک تھا فرمایا کہ انشاء اللہ تعالٰی اذان ہوگی اور خوب ہوگی آؤ بیعت کر لو.حاجی صاحب نے ہاتھ بڑھا کر اورہاتھ دیگر بیعت کی اور بہت رویا اور کہنے لگا کہ مجھ سے گستاخی تو ہوئی لیکن دین کے

Page 263

تذكرة المهدي 261 کام میں اس نفس کا اس میں کوئی دخل نہ تھا خدا کی قدرت کے قربان خدا جانے آپ نے کس درد سے یا الهام روحی سے فرمایا تھا کہ خدا تعالیٰ نے چند سال کے بعد ریل جاری کرائی اور ریل والے اذان کہنے لگے اور اب خود رئیس نے عام اجازت دیدی کہ مسلمان کھلم کھلا اذان مسجدوں میں کہیں کوئی روک ٹوک نہیں اس پر ہندو اور برہمنوں نے غل مچایا کہ یہ پوتر اور دہرم دھرتی ہے اس میں کبھی اذان ہوئی ہی نہیں آپ کیوں اجازت دیتے ہیں مگر رئیس نے ان کا کہنا نہ مانا اور عام اجازت اذان کی دے دی سو دے دی بلکہ دفتر میں بھی لکھا گیا.شیر مسوانی کا نشان اب میں مولوی محمد بشیر کا حال ک لکھتا ہوں اور یہ خدا تعالی کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے اور وہ یہ ہے کہ دوران بحث میں شیخ نصیر الدین دہلوی مرحوم مولوی محمد بشیر صاحب ہے ملنے گیا تو وہ حضرت اقدس علیہ السلام کے پرچے کا جواب لکھ رہے تھے شیخ صاحب نے کہا کہ مولانا صاحب مرزا صاحب کا جواب سنبھل کر لکھتا وہ بھی فاضل عالم میں مولوی محمد بشیر نے کہا کہ در حقیقت مرزا صاحب کا جواب لکھنا بہت ہی مشکل ہے لوگوں نے مجھ کو پھنسا دیا مجھے تو جواب لکھنا مشکل ہو رہا ہے.جب بحث مولوی صاحب اور حضرت اقدس علیہ السلام میں ختم ہو چکی تو بھوپال میں جاکر مولوی صاحب نے بڑا غل مچایا کہ میں فتح کر کے آیا ہوں اور خاص کر حضرت مولانا سید محمد احسن صاحب فاضل امرد ہی سے بیان کیا کیونکہ اس وقت تک حضرت فاضل امرد ہی بھوپال میں ہی تشریف رکھتے تھے اور وہیں ملازم تھے.اللہ تعالٰی ذوالجلال والاکرام کی قدرت کا یہاں اب جلوہ دیکھنا چاہئے ابھی اس بحث پر چند روز گزرے تھے کہ ایک شخص شاید احمد علی نام تھا وہ بھوپال میں آیا کچھ لوگ اس کے معتقد ہوئے اور مولوی محمد بشیر بھی تقدیر الہی سے ایک روز اس کے پاس گئے اور جاتے ہی معتقد ہو گئے.اور ذلت کے سامان مہیا ہونے لگے.اور اس شخص کی بیعت اختیار کی اور گئے دنوں میں بیعت کے بعد ایک اشتہار اس

Page 264

تذكرة المهدى 262 مضمون کا شائع کیا.کہ اس چودہویں صدی کا مجدد یہی شخص ہے اور بزرگ اور باخدا ایسے ہوا کرتے ہیں میں نے صدق دل کے ساتھ اس بزرگ خدار سیدہ سے بیعت کی ہے میں بڑے زور سے اعلان کرتا ہوں کہ لوگوں کو چاہئے ان سے مرید ہوں اور میں نے ان کے پیچھے نماز پڑھی بڑی لذت حاصل ہوئی.تمام عمر میں یہ لذت اور سرور حاصل نہ ہوا تھا ہزاروں اشتہار جابجا تمام ہندو پنجاب میں تقسیم کئے اور قریباً تین سو چار سو اشتہار حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں بھیجے کہ آپ ان کو اپنے مریدین میں تقسیم کریں اور ساتھ ہی ایک خط بھی لکھا کہ آپ اس بزرگ سے تعلق پیدا کریں اور مرید بھی ہوں تاکہ آپ کو معرفت ولذت و سردر حاصل ہو اور تا آپ کو معلوم ہو جاوے کہ ولی اللہ اور مجدد کی یہ شان ہوتی ہے اور وہ ایسے ہوا کرتے ہیں مولوی صاحب کا مطلب اس سے یہ تھا کہ مدعی ست گواہ چست- آپ تو وہ شخص نہیں نہیں کرے.اور مرید اس کو جو چاہیں سو کہیں وہ خدار سیدہ نہیں ہوتے جو آپ اپنی زبان سے کہیں مولوی صاحب سنت اللہ سے نا واقف وہ منہاج نبوت کو کیا جائیں.اب اللہ تعالی جل شانہ کی دوسری قدرت کا تماشہ دیکھنا چاہئے.محتل يَوْمٍ هُوَنِي شَانٍ ابھی تھوڑا ہی عرصہ گذرا تھا جو یعنی ایک ماہ کے پورا ہونے کی نوبت نہ پہنچی تھی کہ مولوی محمد بشیر صاحب کا دوسرا اشتہار نکلا اس میں یہ لکھا تھا کہ یہ شخص جس سے میں نے بیعت کی تھی بڑا بد معاش زانی اور اغلام باز ہے میں دھوکے میں آگیا اور اب میں نے اس کی بیعت توڑ دی ہے کیونکہ یہ شریر اور دھوکہ باز ہے اس کے پھندے اور واؤ میں کوئی نہ آوے اور یہ دوسرا اشتہار پہلے اشتہار سے بھی زیادہ شائع کیا اور یہاں تک نوبت پہنچائی کہ جہاں جہاں وہ احمد علی جاتا تھا وہیں وہیں مولوی بشیر کے آدمی بھی اشتہار تقسیم کرتے پھرتے تھے اور کئی سو اشتہار حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں بھی ڈاک میں تقسیم کے لئے بھیجے یوں اپنے

Page 265

تذكرة المهدى 263 ہاتھ سے اپنی ذلت کے سامان بہم پہنچائے میں نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ بھی اپنی کتاب میں اس نشان کو جو مولوی بشیر کی ذلت اور آپ کی عزت کا باعث ہوا لکھ دیں.ہیں.فرمایا : اس سے زیادہ ہم کیا لکھیں گے جو وہ آپ مولوی صاحب لکھ رہے اب اللہ تعالی جل جلالہ کی تیسری قدرت کا ظہور دیکھنا چاہئے کچھ سال نہیں گذرے تھے جو مولوی محمد بشیر مفتی بھوپال رئیس بھوپال کی طرف سے تھا اس عہدے سے برطرف ہو کر ذلیل و خوار ہوا اور بھوپال سے نکالا گیا عتاب سرکار میں جو دراصل سخت عتاب الہی تھا گرفتار ہوا سو روپیہ ماہوار کی تنخواہ تھی وہ ضبط ہوئی اور پنشن بھی ساتھ ہی گئی.اس کا کوئی استحقاق نہ رہا.مولوی بشیر با بدست دگری دست بدست دگرے فرار ہو کر دہلی آئے دہلی میں کچھ غیر مقلدوں نے چندہ کے طور پر ۴۰-۵۰ روپیہ دیا.اب اللہ عزوجل کی چوتھی قدرت کی جلوہ نمائی کے قربان تھوڑی مدت دہلی میں رہے اور طاعون سے مرگئے.ان کی بیوی نے ایک شخص سے نکاح کر لیا مگر وہ دکھ درد رنج و غم میں رہی کسی نوع کا آرام و چین نہ دیکھا پھر اس کے بعد خود نکلی یا نکالی گئی اور کسی نے اس پر رحم و ترس نہ کھایا.عزیزی که از در گش سرتافت بهر جا کہ شد هیچ عزت نیافت اب اللہ تعالٰی منتقم حقیقی کے قہر و غضب کا پانچواں نشان دیکھو کہ مولوی بشیر کے ایک لڑکا تھا وہ دیوانہ پاگل ہوا وہ بھی خدائی خوار کس مپرسی کی حالت میں کہاں سے کہاں نکل کر بے نام و نشان مرگيا صَدَقَ اللهُ تَعَالَى وَلَا يُخَافُ عقبها الله تعالیٰ بدبخت شقی کی ذلت و خواری ہی نہیں کرتا بلکہ اس کی اولاد اور بیوی وغیرہ کی بھی پرواہ نہیں کرتا اور ان کو ذلیل و خوار کر دیتا ہے کیوں اس لئے كه نَكَا لَا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَ مَوْعِظَةٌ لِلْمُتَّقِينَ یہ پانچ نشان الله اول

Page 266

تذكرة المهدي 264 تعالیٰ نے حضرت اقدس علیہ السلام کے مد مقابل مولوی بشیر کو دکھلائے جو ظاہر میں اور اندرونی طور سے جو اس نے ذلت دیکھی ہوگی وہی خوب جانتا ہو گا.یہ واقعہ پورا حضرت فاضل امرد ہی مولانا سید محمد احسن صاحب کو اور ماورا آپ کے ہزاروں آدمیوں کو خوب معلوم ہے اور یہ کوئی پوشیدہ امر نہیں ہے افسوس ہے کہ وہ دونوں اشتہار مولوی بشیر کے مجھ سے گم ہو گئے اگر کسی صاحب کو مل سکیں تو ضرور تلاش کریں.انشاء اللہ تعالیٰ کسی موقع پر درج سفر نامہ کئے جائیں گے میں نے جو کچھ لکھا ہے دونوں اشتہاروں کا خلاصہ لکھا ہے.پھر یہ خاکسار سر سادہ سے کرنال کو مقدمہ کی پیروی کے لئے روانہ ہوا بیچ میں انبالہ پڑتا تھا جناب چودھری رستم علی خان ان کے مکان پر پہنچا چونکہ وہ وہاں بعدہ کورٹ انسپکٹر مامور تھے میری خبر سن کر احباب انبالہ تشریف لائے اور غیر احمدیوں سے بھی ملاقات ہوئی بہت سے لوگوں نے وعظ کے لئے جن میں غیر احمدی زیادہ تھے فرمایا میں نے منظور کر لیا، شہر میں باقاعدہ محفل وعظ کی تیاری کی.رات کو دو تین گھنٹے وعظ کہا گیا.سب محظوظ و مسرور ہوئے.بعد وعظ سب نے کہا کہ وعظ تو ٹھیک ہوا اور جو اللہ ورسول کا فرمودہ ہے.اس کے مطابق ہوا لیکن جو ہمارا مقصد و مطلب تھا اور جس غرض کے لئے ہم سب جمع ہوئے وہ بیان نہیں ہوا اور وہ یہ کہ حضرت مرزا صاحب کا ذکر نہیں کیا کہ وہ کیا کہتے ہیں میں نے کہا کہ حضرت مرزا صاحب نہیں کہتے ہیں جو اس وقت میں نے بیان کیا.انہوں نے کہا کہ یہ تو ٹھیک ہے مگر حضرت مرزا صاحب کا نام لے کر بیان کرو کہ وہ یہ کہتے ہیں.میں نے کہا پھر کل اور مجلس وعظ مقرر کرو تو یہ بھی حسب منشا تمہارے بیان کیا جاوے.دوسرے روز انہوں نے پھر مجلس وعظ کا اعلان کیا تو لوگ اول دن سے زیادہ جمع ہوئے ، یقیناً پانسو چھ سو آدمیوں سے زیادہ لوگ ہوں گے.میں نے مختصر مختصر اور بعض جگہ تفصیل سے بیان کیا تو بعد وعظ دو

Page 267

تذكرة المهدي 265 ضعیف العمر کھڑے ہو گئے اور کہا کہ بس ہم نے خوب معلوم کر لیا کہ حضرت مرزا صاحب حق کہتے ہیں صرف نام کا فرق ہے جیسے کوئی چشتی یا کوئی قادری کوئی سهروردی اب کوئی احمدی قادیانی کہہ لے.پھر میں کرنال پہنچا کر نال ہمارے مقدمہ کی تاریخ تھی رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت اقدس علیہ السلام کے ساتھ ہزاروں لاکھوں آدمی ہیں اور عید کی نماز کے وسطے عید گاہ میں جاتے ہیں پس عید کی نماز آپ نے پڑھائی میں بھی اس میں شامل ہوں بعد نماز عید حضرت اقدس علیہ السلام معہ چند مخصوص کے ہمارے مکان پر آئے پھر آنکھ کھل گئی یہ خواب میں نے اپنے بڑے برادر شاہ خلیل الرحمن صاحب نعمانی جمالی کو سنایا تو انہوں نے کہا کہ انشاء اللہ تعالٰی ہم مقدمہ ضرور جیت جائیں گے سو ایسا ہی ہوا کہ خدا نے ہم کو فتح دی اور مقدمہ ہمارے حق میں ہوا.پھر میں سرسادہ آیا تو میرا لڑکا فرقان الرحمن بیمار ہو گیا اور ایسا بیمار ہوا کہ اسکی زندگی کے آثار باقی نہ رہے اور وہ اسی حالت میں فوت ہو گیا چونکہ سرسبادہ ایک ایسی کو ردہ بستی ہے اور جاہلوں کی کہ سوائے دنیا کے دین کا کوئی ذکر ہی نہیں جنازہ پر بھی کوئی ساتھ نہ گیا اور جو ایک دو آدمی لحاظ میں گئے بھی نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوئے.اور وہ خود ہی نماز نہیں پڑھتے جنازہ کی کیا نماز پڑھیں گے اس سے پہلے ایک واقعہ ایسا گذرا ہمارے محلہ میں ایک غیر احمدی مرگیا اور نمبردار تھا مگر وہ بے نماز تھا میں بھی اس کے جنازہ پر گیا اس کے رشتہ دار چونکہ نماز نہیں پڑھتے تھے وہ الگ کھڑے ہو گئے اور مجھے کہا کہ تم نماز پڑھاؤ میں نے نماز پڑھانے سے انکار کیا اور کہا کہ یہ خود بے نماز تھا جب یہ نماز کو پسند نہ کرتا تھا اور خود نہیں پڑھتا تھا تو ہم کیوں ایسا کام کریں کہ اس کے ناپسند کام کو اس کے جنازہ پر کریں علاوہ اس کے یہ احمدی نہیں تھا.تیسری بات یہ کہ تم لوگ جو اس کے خاص رشتہ دار ہو تم تو الگ ہو گئے.اور نہیں کہتے ہو کہ نماز پڑھاؤ ہم کوئی مزدور

Page 268

تذكرة المهدى 266 ہیں تم کو غرض ہے تو خود پڑھ لو اس پر وہ چڑ گئے اور اپنے امام کو مسجد میں سے بلا لائے اس نے صرف دو آدمیوں سے نماز پڑھائی شاید کوئی ایک منٹ میں ختم کر دی تھی.اس پر وہ اشخاص مجھ سے بہت ناراض ہوئے مگر وہ کر کیا سکتے تھے.بس ان کا اتنا بس چلا کہ وہ میرے لڑکے کی نماز جنازہ میں شریک نہ ہوئے اور میں نے بھی کہدیا کہ اگر کسی کا ارادہ نماز کا ہو تو وہ تکلیف نہ کرے کیونکہ ہم اپنے احمدیوں کے جنازہ پر سوائے احمدی کے دوسرے کو پسند نہیں کرتے خواہ وہ امام خواہ وہ ہمارا مقتدی کیوں نہ ہو.پھر میں نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں عریضہ لکھا کہ آپ ہمارے لئے صبر کی دعا کریں اور جنازہ غائب پڑھیں کہ میرا لڑ کا فرقان الرحمن فوت ہو گیا حضرت اقدس علیہ السلام نے اس کے جواب میں یہ صحیفہ مبارک لکھا اور وہ یہ ہے ۱۳ اگست ۷ ۶ - بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ.آپ کا عنایت نامہ جو غم اور مصیبت کے صدمہ سے بھرا ہوا تھا مجھ کو ملا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ چونکہ خدا تعالیٰ جبکہ کوئی مصیبت نازل کرتا ہے تو بعد اس کے کوئی راحت بھی پہنچاتا ہے اس لئے اس کے رحم اور کرم سے کسی حالت میں نومید نہیں ہونا چاہئے اور ساتھ ہی توبہ اور استغفار بہت کرنا چاہئے کیونکہ بعض مصائب بعض گناہوں کے سبب سے بھی ظہور میں آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ تو ہر چیز پر قادر ہے چاہے تو ایک بیٹے کی جگہ دس بیٹے دیدے وہ سب کچھ کر سکتا ہے آپ کی نومیدی کی عمر نہیں ہے ہم نے بچشم خود دیکھا ہے کہ نوے برس تک جن کی عمر تھی ان کے لڑکے پیدا ہو گئے اور ساتھ ہی پینسٹھ برس تک عورتوں کے بھی اولاد ہو سکتی ہے.ہاں جب یہ خیال آتا ہے کہ کس قدر فرقان الرحمن کی پرورش

Page 269

تذكرة المهدی 267 کے لئے آپ نے محنت اٹھائی تھی اور کیا کچھ امنگ اور آرزو میں تھیں تو دل پر صدمہ پہنچتا ہے لیکن ایسی مصیبتیں ہر ایک کے ساتھ لگی ہوئی ہیں خداتعالی پر توکل کرنے والے آخر میں راہ کو پالیتے ہیں میرے ہمیشہ خیال میں رہا ہے کہ یہ سفرہی منحوس تھا آپ کو ایسے لوگوں سے تعلقات کرنے پڑے جو سچائی اور راستبازی کے دشمن ہیں اور ہر ایک مکر اور فریب کو حلال سمجھتے ہیں انسان کا قاعدہ ہے کہ تعلق ہونے کے بعد کئی ٹھوکروں میں مبتلا ہو جاتا ہے سو میں اسی لئے ڈرتا ہوں کہ یہ خدا کی طرف سے ایک سرزنش نہ ہو پاکوں اور مقدسوں کو بھی کبھی مصیبت آجاتی ہے.جیسا لکھا ہے کہ آنحضرت ا کے گیارہ لڑکے مر گئے مگر ساتھ اس کے صبر جمیل تھا کوئی جزع فزع نہ تھا اسی واسطہ لکھا ہے کہ مصیبت دو قسم کی ہے (۱) ایک ترقی درجات کی مصیبت جو نبیوں اور تمام راستبازوں پر آتی ہے.(۲) اور دوسری جزاء ستیات کی مصیبت جو انسان پر گناہ اور غفلت کی حالت میں آتی ہے.اور غم کے ساتھ دیوانہ بنادیتی ہے.بہر حال تو بہ اور استغفار کے ساتھ وہ مصیبت جاتی رہتی ہے اور خدا تعالیٰ نعم البدل عطا کرتا ہے خدا تعالیٰ تو بہ کرنے والوں سے پیار کرتا ہے بجز خدا کی طرف جھکنے کے کوئی چارہ نہیں دنیا کی زندگی کئی قسم کی تلخیوں سے بھری ہوئی ہے مگر جو شخص کچی تو بہ کرتا ہے اور مکر اور فریب کی تمام شاخیں اپنے اندر سے باہر نکال دیتا ہے خدا کی رحمت کا اس پر سایہ ہوتا ہے اور خداتعالی آگ میں سے اس کو نکال لیتا ہے بجز خدا کے کوئی کسی کا ساتھی نہیں جو خدا کی طرف آتے ہیں وہ اس کی رحمتوں کے امیدوار ہو جاتے ہیں اس کی دلوں پر نظر ہے نہ زبانوں پر ہمیں آپ کے فرزند کی وفات کی خبر پڑھ کر بہت

Page 270

تذكرة المهدي 268 صدمہ ہوا خد تعالی اس کا بدل عطا کرے آمین گھر میں میرے اور ان کی والدہ بھی یہ خبر سن کر نہایت غمگین ہو ئیں اور ان کو بہت صدمہ پہنچا اور روتی رہیں مگر قضاء قد رالی سے کیا چارہ ہے ہمارا تو یہی تجربہ ہے کہ کچھ اپنا ہی گناہ ہوتا ہے جب فوق الطاقت قہر الہی نازل ہو جاتا ہے ورنہ وہ تو بڑا کریم و رحیم ہے اس کی رحمتیں بے انتہا ہیں وہ جو اس کی طرف کچے دل سے جھکتے ہیں وہ فوق الطاقت صدموں سے انہیں بچا لیتا ہے و السلام خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان میری بیوی نے لڑکے کے مرنے پر صبر دکھلایا کہ سوائے دو چار آنسو نکالنے اور انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنے کے کسی قسم کا جزع فزع یا عورتوں کی سی کسی قسم کی حرکت خلاف شرع شریف اور تعلیم حضرت اقدس علیہ السلام نہیں کی.میری دونوں لڑکیاں ساجدہ اور قانتہ صرف آنسوؤں سے روتی رہیں بعض عورتیں اس قسم کی آئیں کہ انہوں نے چلانا شروع کیا اور جاہلیت کی رسموں کو ادا کرنا چاہا تو میری بیوی نے روک دیا تو وہ نہایت ناراض ہو ئیں اور کہنے لگیں ہم تمہارے ہاں کبھی نہیں آئیں گے تم قادیانی ہو کر بگڑ گئے اسی واسطہ لڑکا مر گیا پس چلی گئیں بعض ان میں ہمارے خاص رشتہ دار سیدانیاں اور شیخ زادیاں بھی تھیں ہاں یہ بات لکھنے کے قابل ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے اس نامہ مبارک میں یہ جملہ کہا ہے.کہ میرے ہمیشہ خیال میں رہا ہے کہ یہ سفربہی منحوس تھا.آپ کو ایسے لوگوں سے تعلقات کرنے پڑے جو سچائی اور راستبازی کے دشمن ہیں اور ہر ایک مکر اور فریب کو حلال سمجھتے ہیں انسان کا قاعدہ ہے کہ تعلق ہونے کے بعد کئی ٹھوکروں میں مبتلا ہو جاتا ہے سو میں اس لئے ڈرتا ہوں کہ یہ خدا کی طرف سے ایک سرزنش نہ ہو".یہ واقعی حضرت اقدس علیہ السلام نے بہت ہی درست لکھا ہے معلوم ہو تا

Page 271

تذكرة المهدى 269 ہے کہ آپ کو کشفی رنگ میں معلوم ہو گیا یا اللہ تعالیٰ جل شانہ نے آپ کو بتلا دیا ہو گا.بات دراصل یہ ہوئی کہ میں جو سر سادہ آیا تھا تو چند روز کے بعد ہمارے والد ماجد حضرت شاہ حبیب الرحمٰن صاحب کے عرس آگئے اور یہ عرس میرے بڑے بھائی شاہ خلیل الرحمن صاحب کیا کرتے ہیں اس عرس میں علاوہ اور باتوں کے ایک یہ بھی ہوتی ہے کہ مریدین حاضرین عرس اپنے امور حل مشکلات کے لئے ایک نذر مانا کرتے ہیں اور وہ نذر یہ ہوتی ہے کہ جو ہمارا یہ کام ہو گیا تو ہم اب کے غلاف چڑھا ئیں گے.پس اس سال کئی آدمیوں نے غلاف چڑھائے اور غلاف کے لئے الگ غزلیں مقرر ہوتی ہیں وہ ہمارے برادر کے مکان سے غلاف اٹھتا ہے اور اس وقت بڑی دھوم ہوتی ہے اور باری باری سب لوگ اس کو ایک طشت میں رکھ کر خانقاہ پر لے جاتے ہیں اور راستہ میں قوالی ہوتی جاتی ہے اور صوفیوں کو حال ہوتا ہے اسی طرح سے خانقاہ تک جو دو فرلانگ کا میدان ہے لے جا کر قبر پر غلاف چڑھاتے ہیں اور شیرینی اور روپیہ بھی ہوتے ہیں میں تو اس روز بیمار تھا اور میری بیوی ہمارے بھائی کے رعب میں آکر خاموش ہو گئی.ہمارے بھائی نے میرے لڑکے فرقان الرحمن کے سر پر وہ غلاف رکھا اور پھر لے گئے یہ بات تھی جس کو حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنے خط مبارک میں یاد دلایا ہے.حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ بہت ریجھ تھی اور اس بات کی بہت خواہش رکھتے تھے کہ لوگ تمام بدعات و خرافات اور منہیات سے پر ہیز کریں گو کسی سے زبان سے نہ کہتے لیکن دعا ئیں بہت کیا کرتے تھے اور ہر ایک کے حال کو دیکھتے رہتے تھے.حضرت اقدس کی دعاؤں کی برکت سے مقدمہ تو فتح ہو گیا اور لڑکا میرا فوت ہو گیا پھر میں سرسادہ سے قادیان کو چل دیا.اور اس طرح سے چلا کہ سر سادہ سے

Page 272

تذكرة المهدي 270 میرٹھ اور میرٹھ سے دہلی اور دہلی سے جیند ہو کر پھر بھٹنڈہ لاہور کو ہوتا ہوا دار الامان پہنچ جاؤں گا ادھر میری بیوی چونکہ کمزور تھی اور پھر لڑکے کا غم اور اس پر صبر و استقلال کچھ جنون کے آثار نمودار ہوئے میں نے سمجھا کہ سفر میں طبیعت بہل جائے گی اور درست ہو جائے گی پس میں میرٹھ آیا اور جناب بر اور مکرم شیخ عبدالرشید صاحب زمیندار احمدی کے مکان پر فروکش ہوا.انہوں نے بہت کچھ خاطر تواضع کی.اور انکی عورتوں نے عورتوں کی خاطر کری پھر چار روز ٹھہر کر میں دہلی آیا.اور دہلی میں ایک رات ٹھر کر جیند کو چل دیا.جیند میں دو تین روز ٹھرنے کا ارادہ کیا تھا مگر وہاں ایک مہینہ لگ گیا یہاں کے اکثر لوگ ہمارے خاندان کے خاص کر مجھ سے مرید ہیں وہ مجھ سے تو ہمیشہ ملتے رہتے ہیں لیکن حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام سے منکر ہیں سامنے کچھ نہیں بول سکتے.پیچھے سب کچھ جو ان کے جی میں آتا ہے کہہ لیتے ہیں.یہاں ایک مولوی محمد یوسف آہنگر ہے وہ مجھ سے ہمیشہ سے عداوت رکھتا ہے اور اب بھی عداوت رکھتا ہے جب سامنے آتا ہے تو کچھ نہیں بولتا.لیکن ہمیشہ کفر کا فتویٰ ہی دیتا رہتا ہے اور کہیں دہلی سے اور کہیں لاہور سے خواہ مخواہ جھوٹ بول کر اور الزام لگا کر کفر کا فتویٰ منگا تا رہتا ہے.بخشی فوج ریاست جیند شیخ عباس علی صاحب مجھ سے مرید ہوئے تو وہ دب گیا.اس کی چلتی کچھ نہیں مگر دل ہی دل میں کڑھتا رہتا ہے اور جلا بھنا کرتا ہے میں نے بہت کچھ سمجھایا اور نصیحت کی کہ بندہ خدا میں کبھی سال میں دو سال میں یا چار پانچ سال میں آتا ہوں.اور تو یہاں ہمیشہ رہتا ہے تو مجھ سے کیوں خفا رہتا ہے کیا مسلمان وہی ہوتا ہے جو دل میں حسد کپٹ کینہ رکھے میں تیری دعوتوں میں یا کسی کام میں حارج نہیں ہوں بلکہ اپنے مریدوں کو بھی کہتا ہوں کہ مولونی صاحب کی دعوت کرد مگر اس کی جبلی عادت کہاں جائے.باقی دوسرے حصہ میں انشاء اللہ 1

Page 273

تذكرة المحمدي 271 عرض حال تذكرة المهدى حصہ اول جس کی ضخامت 375 صفحہ کی اسی تقطیع پر ہے ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گیا.چونکہ دوسرے حصہ کا ارادہ اسی قدر صفحوں پر تھا کاغذ وغیرہ کی گرانی سے میں چھپوا نہ سکا اور میرے پاس اس قدر سرمایہ بھی نہ تھا بعض دوستوں نے روپیہ سے امداد دینے کا وعدہ کیا مگر وہ کسی وجہ سے مدد نہ دے سکے اور ادھر بہت سے دوستوں کا دوسرے حصہ کے لئے تقاضا تھا اور حضرت امام واجب الاتباع خلیفہ ثانی مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ دوسرا حصہ چھپنا چاہئے اور پھر یہ بھی خیال تھا کہ جتنے حالات آپ کے مجھے معلوم ہیں وہ دوستوں کو پہنچا دوں گا کہ میرے ذمہ باز پرس نہ ہو اور میں سبکدوش ہو جاؤں اس خیال سے سوچ سوچ کر یہ طریق اختیار کیا کہ دوسرے حصہ کے کئی کئی حصے کر کے شائع کردوں درنہ دوسرا 375 صفحہ کا ہے اس حساب سے یہ رسالہ 48 صفحہ کا دوسرے حصے کا ساتواں حصہ ہے جب یہ حصہ خواہ جلد خواہ دیر سے فروخت ہو جائے گا تو اس کے منافع سے دوسرے حصہ کا دوسرا شائع ہو گا اسی واسطے چہار آنے قیمت رکھی گئی ہے تاکہ کسی کو خریداری میں مشکل واقع نہ ہو.تیسرے حصہ کے لئے بھی جو دوسرے حصہ کا دوسرا جزو ہے شائقین منتظر رہیں.مسودہ اور نوٹ تو میرے پاس پانچ حصہ تک کے موجود ہیں.والسلام مع الاحترام خاکسار محمد سراج الحق نعمانی رئیس بسر ساده حال قادیان

Page 274

تذكرة البدي 272 تذكرة المهدی کا دوسرا حصہ بسم الله الرحمن الرحیم الحمدُ لِلَّهِ وَ سَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَى حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف رکھتے تھے.اور حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول اور مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوئی اور مولوی برہان الدین صاحب علمی اور مولوی محمد افضل صاحب و غیره رضی اللہ عنہم اجمعین اور مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی اور میں بچیں اور صاحب بھی موجود تھے اور خاکسار را قم حضرت اقدس علیہ السلام کے قریب بالکل ملا ہوا بیٹا تھا مختلف باتیں ہوتی رہیں تو اسی کتاب میں درج کی جائیں گی من جملہ ان کے ایک یہ تھی مولوی برہان الدین صاحب علمی نے حضرت اقدس سے عرض کیا کہ حضور یہ الہام جرى اللهِ فِي حُلُ الْأَنْبِيَاءِ میں جو لفظ جری ہے اس کے معنی پہلوان کے ہیں تو اس کا ترجمہ یہ ہوا کہ خدا تعالی کا پہلوان نبیوں کے لباس میں حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ معنے درست نہیں اس کے معنی ہی ہیں کہ اللہ کا رسول عجمیوں کے لباس یعنی صفات میں سب احباب نے بھی دوسرے معنی کی تصدیق کی.پھر فرمایا ابھی تو ہم زندہ موجود ہیں ہمارے سامنے تو معنوں میں تصرف کرنا درست نہیں پھر مولانا جعلمی نے عرض کیا کہ آپ نے جو من نیستم رسول دنیاورده ام کتاب فرمایا ہے اس لئے میں نے مطابقت دینے کے لئے جری اللہ کے معنی جری اللہ عرض کئے تھے حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ خدا تعالی کا کلام ہے اور وہ میرا خدا کے کلام کو مقدم کرنا

Page 275

تذكرة المحمدنا 273 حصہ دوم چاہئے اور میرے کلام کا مفہوم اور منشاء یہی ہے کہ میں صاحب شریعت یا صاحب کتاب جدید نبی اور رسول نہیں ہوں پھر جب تمام الہامات میں اللہ تعالٰی نے ہمیں نبی در سول کھول کر فرمایا تو اس طرف توجہ چاہئے خدا تعالیٰ کے کلام کو ہر حال میں مقدم کرنا مناسب ہے.جب حضرت اقدس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمودہ الہی ایک لڑکے کا اشتہار دیا اور اس کی بہت صفت دثنا لکھی گئی تو کچھ معترضین نے اعتراض کئے ان اعتراضوں میں سے ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ لڑکے ہوا ہی کرتے ہیں اس کی پیدائش کی میعاد بتلائی جائے پس حضرت اقدس علیہ السلام نے اللہ تعالی کے حکم سے نو سال کی میعاد مقرر کی غیر تو یونہی سے باتیں بنا بنا کے چپ ہو گئے مگر ہمیں اور تمام احمدیوں کو ایسا شوق ہوا کہ ایک ایک دن گنتے رہے اور بعض ہم میں سے زبانی اور خطوں کے ذریعہ سے حضرت اقدس علیہ السلام سے دریافت کرتے رہے اور جب آٹھ سال ان نو سال سے گذر گئے تو بہت اشتیاق بڑھ گیا.دیده لبریزم سراپا انتظاری کسیتیم ذوق دیداری که دارم بے قراری کسیتیم مختصر یہ کہ جب ساڑھے آٹھ سال گذر کر چھ مہینے نو سال کی میعاد میں باقی رہ گئے اور کئی لڑکے اور لڑکیاں پیدا ہو گئے تو چاروں طرف سے احباب کے خط آنے لگے کچھ میرے پاس اور کچھ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم اور کچھ حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں.اور جو صاحب دارالامان میں آتے وہ دریافت کرتے حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے کہ ابھی ہم پر خدا تعالی نے پورے طور پر اس امر کو نہیں کھولا اور جتنا جتنا آپ پر انکشاف ہو تا تھا.وہ فرما دیا.کرتے تھے لیکن تھوڑی میعاد رہنے اور لوگوں کے سوال کرنے پر اور نیز موادی صاحب کے اصرار پر کہ لوگوں کے خطوط آتے ہیں ہم کیا جواب دیں اور میں نے بہت سا عرض کیا تو فرمایا کہ ہاں اب توجہ الی اللہ کریں گے اور دعاء کریں گے

Page 276

تذكرة المحمدي 274 تا که این موجودہ لڑکوں میں سے موعود لڑکے کی تعیین ہو جاوے یا اور ہو تو وہ معلوم ہو جاوے جب کئی روز ہو گئے تو صبح کی نماز کے لئے حضرت تشریف لائے اور کھڑے کھڑے فرمایا کہ ایک گھنٹہ ہوا ہو گا ہم نے دیکھا کہ والدہ محمود قرآن شریف آگے رکھے ہوئے پڑھتی ہیں جب یہ آیت پڑھی وَمَنْ تُطِيع الله وَالرَّسُولَ فَأُوليِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّنَ والصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِيْنَ وَحَسُنَ أُولَيكَ رَفِيقًا جب اولیک پڑھا تو محمود سامنے آکھڑا ہوا پھر دوبارہ پڑھا تو بشیر آکھڑا ہوا پھر شریف آگیا.پھر فرمایا جو پہلے ہے وہ پہلے ہے پھر کچھ دنوں کے بعد مولوی عبد الکریم صاحب سے بہت تفصیلی باتیں کیں اور بہت سے واقعات جو آپ کے بعد ہونے والے تھے وہ بیان کر رہے تھے جو میں بھی پہنچ گیا اور سلسلہ کلام جاری رہا فرمایا خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ ہمارے سلسلہ میں بھی سخت تفرقہ پڑے گا اور فتنہ انداز اور ہوا و ہوس کے بندے جدا ہو جائیں گے پھر خدا تعالی اس تفرقہ کو مٹادے گا باقی جو کٹنے کے لائق اور راستی سے تعلق نہیں رکھتے اور فتنہ پرواز ہیں دہ کٹ جائیں گے اور دنیا میں ایک حشر برپا ہو گا وہ اول الحشر ہوگا.اور تمام بادشاہ آپس میں ایک دوسرے پر چڑھائی کریں گے اور ایسا کشت و خون ہو گا کہ زمین خون سے بھر جائے گی اور ہر ایک بادشاہ کی رعایا بھی آپس میں خوفناک لڑائی کرے گی.ایک عالمگیر تباہی آوے گی اور اس تمام واقعات کا مرکز ملک شام ہوگا صاحبزادہ صاحب (خاکسار راقم کو فرمایا) اس وقت میرا لڑ کا موعود ہو گا خدا نے اس کے ساتھ ان حالات کو مقدر کر رکھا ہے.ان واقعات کے بعد ہمارے سلسلہ کو ترقی ہوگی.اور سلاطین ہمارے سلسلہ میں داخل ہوں گے تم اس موعود کو پہچان لیتا.یہ ایک بہت بڑا نشان پسر موعود کی شناخت کا ہے.مولوی صاحب موصوف مرحوم نے باہر نکل کر حضرت اقدس کی اسبات کو دہرایا اور مجھے فرمایا پیر صاحب تم کو مبارک ہو.میں نے کہا کیسی مبارک باد فرمایا.

Page 277

تذكرة المهدي 275 تمنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فرمان نہیں سنا کہ خاص تم سے مخاطب ہو کے فرمایا کہ تم اس ولد موعود کو پہچان لینا مجھے نہیں فرمایا وہ ہنگامہ محشر تم دیکھو گے اور موعود کو بھی سو الحمد للہ وہ ہنگامہ محشر اور پسر موعود میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا اور مولود مسعود کو پہچانا.ایک دفعہ ایک مولوی صاحب پٹنہ عظیم آباد کے رہنے والے جن کا نام مجھے اس وقت یاد نہیں رہا ساٹھ سال کی عمر میں اچھے مضبوط تھے قادیان شریف میں پنجاب کی سیر کرتے کرتے آگئے اور حضرت اقدس کی خدمت میں ارادت سے دو مہینہ تک رہے بڑے ظریف اور خوش طبع ہنس مکھ تھے ان دنوں میں وہ ایک کتاب لکھ رہے تھے وہ عربی اور اردو کے الفاظ ہم معنی اپنے خیال میں جمع کرتے تھے بہت سے الفاظ انہوں نے حضرت اقدس علیہ السلام کو سنائے اور زبان سے بہت کچھ بیان کیا کرتے تھے حضرت اقدس علیہ السلام ان کی باتوں کو سنکر ہنستے لیکن مولوی سید محمد احسن صاحب کو ان کی باتیں سن کر تعجب ہوتا اور ہنسا کرتے اس کتاب میں کچھ قواعد استاد و شاگرد کے بھی دیکھے اور سنے وہ کتاب میں نے بھی دیکھی ہے اچھی ضخیم کتاب تھی ان کا بیان تھا کہ عربی سے ہندی الفاظ بدلے یا ہندی سے عربی اور وہ ہمارے بزرگوں سے خوب واقف تھے چنانچہ ایک روز حقیقی داد! حضرت محمد رمضان شاہ صاحب اور ان کے چھوٹے بھائی حضرت مخدوم احمد عرف دھو من شاہ صاحب کا ذکر بھی کیا ان کے طرز کلام.معلوم ہوتا تھا کہ ہمارے بزرگوں سے خاص ارادت رکھتے تھے اور انکی کرامت بھی بیان کیا کرتے تھے.حضرت اقدس علیہ السلام کے ساتھ پنج وقتہ نماز پڑھا کرتے تھے اور دلی ارادت سے آپ کی باتیں سنتے تھے اور کہتے تھے کہ ملک پنجاب میں قادیان ایک ایسی بستی ہے کہ جہاں علم اور صنعت و حرفت یا کوئی تجارت گاہ نہیں دینی تو دینی دنیاوی حیثیت بھی کسی قسم کی نہیں اور پھر حضرت صاحب کی یہ حالت ہے کہ تحصیل علم کے لئے کسی شہر میں تشریف نہیں لے گئے میرے

Page 278

تذكرة المهدي 276 اور گھر پر بھی کسی نامی گرامی مشہور و معروف عالم و فاضل سے تعلیم نہیں پائی اور قادیان کے لوگ بھی ایسے جاہل اور بے علم ہیں کہ ان کی صحبت اچھے بھلے آدمی کو خراب کر دیتی ہے ایسی حالت ایسی صحبت ایسا کو ردہ گاؤں اور پھر ایسا شخص یہاں پیدا ہو کہ تمام ہندوستان و پنجاب میں جس کا نظیر نہیں دیکھا.یہ حقائق یہ نکات یہ اسرار یہ معرفت کے کلمات جو اس کے منہ سے نکلتے ہیں وہ کہیں دیکھے نہ سنے.پھر کہتے خدا نے ہی پڑھایا خدا نے ہی سمجھایا یہ سب اس کی قدرت کے کرشمے اور منظر ہیں خدا بھی عجیب خدا ہے اس نے تمام عالی شان پہاڑوں میں سے ایک بے حیثیت پہاڑی طور کو پسند کیا.تمام ملکوں میں سے عرب جیسے ، ملک اور تمام شہروں میں سے مکہ جیسے اجاڑ نگر کو چن لیا.اور اب دلی لکھنو بمبئی کلکتہ و غیرہ لندن کو چھوڑ کر قادیان گمنام گاؤں کو چنا جہاں بولنا تک نہیں آتا قادیان کو کاری ہی کہتے ہیں وہ خدا بادشاہ کو فقیر اور گدا کو بادشاہ بنادے وہ اپنے کاموں کو آپ خوب جانتا ہے جَلَّ جَلا له وَ عَمِّ نَوًا لَهُ مولوی صاحب نے ایک روز مسجد مبارک میں حضرت اقدس علیہ السلام سے دریافت کیا کہ حضرت میمیریزم جو آج کل بہت مشہور ہے یہ کیا چیز ہے آیا اس میں کسی قسم کا اثر بھی ہے یا یوں ہی ایک بچوں کا کھیل تماشا اور وہم اور بے نتیجہ شے ہے حضرت اقدس علیہ الصلوۃ السلام نے فرمایا مولوی صاحب مسمیریزم بہت عمدہ کار آمد چیز اور نتیجہ خیز بات ہے یوں تو کوئی شے بھی خدا نے عبث اور بے فائدہ نہیں بنائی رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً لیکن یہ مسمیریزم تو بڑی کار آمد شے اور خاص اثر رکھتی ہے اور جیسا کہ اسلام نے اس کو لیا اور برتا اور فائدہ اٹھایا ہے اور کسی مذہب یا کسی فرقہ نے فائدہ نہیں اٹھایا حقیقت اور مغز اسلام کو میسر آیا اور قشر اور پوست دوسروں کے حصے میں گیا کہتے ہیں مسمر ایک انگریز کا نام ہے جس نے اس کو پھیلایا اور مشہور کیا ہے سو اس واسطے اس کے نام پر مسمیریزم نام شهرت پکڑ گیا ورنہ در اصل اس کا نام تربی علم ہے ترب مٹی کو

Page 279

تذكرة المهدى 277 کہتے ہیں اور مٹی سے انسان کی پیدائش ہے خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَه كُن فيكون میرا لڑکا سلطان احمد بھی ایک میز کہیں سے لے آیا تھا وہ بھی ہاتھ رکھنے سے حرکت کرتی تھی.اللہ تعالٰی نے ہمیں الہاماً فرمایا کہ یہ عمل الترب ہے صحیح میں بھی یہ قوت تربی اچھی خاصی تھی ہمارے الہام میں ہے هَذَا هُوَ التَّرْبُ الَّذِي لَا يَعْلَمُها الخَلْقُ یہ وہ عمل ترب ہے کہ مخلوق اس کی شناخت سے بے خبر ہے پہلے زمانہ میں فقراء کے پاس تھا وہ اس کو پوشیدہ راز سمجھ کر کسی کو نہیں جتلایا کرتے تھے سوائے خاص لوگوں کے صرف ان میں یہی تھا کہ دوسرے شخص کو بے ہوش کر دیتے یہ ان کی کرامت ہوتی تھی مگر اب مسمیریزم کے نام سے لوگ گھبراتے ہیں فقراء صوفیہ کی اصطلاح میں اس کا نام توجہ اور تصور ہے اگر کسی کو مسمیریزم نام اچھا نہ معلوم ہو تو اس کو توجہ اور تصور کہہ سکتے ہیں غرض اسلام نے اس کو اس طرح سے لیا ہے کہ پہلے مصافحہ اور معانقہ کی صورت میں اگر چہ اوروں میں بھی مصافحہ اور معانقہ ہے لیکن بے اصل یوں ہی دل لگی کے طور سے.پھر نماز با جماعت میں.رسول الله لا لا لا لال نے فرمایا کہ نماز با جماعت میں مونڈھے سے مونڈھا اور پاؤں سے پاؤں ملا کر کھڑے ہو اور اپنے درمیان کچھ فاصلہ نہ رکھو کہ خالی جگہ شیطان داخل ہو جائے گا یہ اس بات کو ظاہر کیا کہ ایک شخص کی توجہ جسمانی اور روحانی دوسرے شخص میں سرایت کر جاوے جماعت میں جیسے جسمانی رنگ میں کوئی ضعیف اور کوئی قوی ہوتا ہے ایسا ہی روحانی اور باطنی کیفیات میں بھی ضعف و قوت کا فرق ہوتا ہے تو جب اس میں ایک دوسرے کے ملنے سے ایک دیوار کی طرح ہو جائیں گے اور مل کر کھڑے ہونے سے ایک دوسرے کی تاثیر اور فیوض اور جذب روحانی پھیل کر سب میں پہنچ جاوے گی.جب پہلی صف اپنی قوت اور جذب روحانی سے پر ہو جائے گی تو پھر اس صف کا اثر دو دوسری صف پر پڑے گا اور پھر ان دونوں صفوں کا اثر تیسری پر پہنچے گا اس کے سمجھنے کے لئے بجلی کی مشین کی سی ہے جو آج کل نکلی ہے اگر اس بجلی کی

Page 280

تذكرة المحمدي 278 حصہ دوم مشین یا کل کو کوئی شخص ہاتھ میں پکڑے تو اس کا ہاتھ سن ہو جائے گا اور چھوٹ نہیں سکے گا ایسا ہی اگر دوسرا شخص اس کا ہاتھ پکڑلے تو اس پر بھی برقی اثر ہو جائے گا یہاں تک کہ اگر دس اور ہیں اور پچاس سو تک ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑتے جائیں تو وہ برقی اثر سب پر یکساں اثر کرتا چلا جائے گا اگر درمیان میں کچھ بھی فصل رہے گا تو وہ برقی طاقت رک جائے گی اور اس کی قوت جذب کام نہیں دے گی اور وہ جدائی جو واقعہ ہوئی ہے وہ اس برقی طاقت کو آگے نہیں چلنے دیگی اور روک ہو جائے گی.اسی طرح اگر نماز کی صف میں کچھ فصل مل کر کھڑے ہونے میں ہو گا تو قوت روحانی یا اثر باطنی ایک دوسرے میں سے ہو کر آ رہا تھا وہ رہ جائے گا اس کا نام اصطلاح شریعت میں شیطان رکھا ہے.پس اب یوں خیال کرو کہ اب جو ظہر کی نماز ہماری اس مسجد میں ادا ہوئی تو دوسری مساجد میں بھی جماعتیں ہو ئیں اور دوسرے گاؤں اور شہروں میں یہاں تک کہ تمام جہان میں جماعتیں ہو ئیں تو خانہ کعبہ کے چاروں طرف جماعتیں ہوئیں تو تمام جماعتوں اور صفوں کا گول حلقہ بیت اللہ کے ارد گرد ہو گیا اور وہ اپنی مد در شکل میں جسمانی حلقہ بندھ کر روحانی طور سے بھی سب کا ایک حلقہ بن گیا.اس کی مثال بنٹی کی سی ہے کہ ایک بانس کی لمبی لکڑی کے دونوں سروں پر تیل میں تر کر کے آگ لگادی جاتی ہے اور ایک مشاق اس کو گھماتا اور چکر دیتا ہے تو اگرچہ وہ دو جگہ علیحدہ علیحدہ آگ روشن ہے مگر گھمانے اور چکر دینے سے اس کا ایک گول حلقہ دکھائی دیتا ہے کہ ایک ذرہ بھی فرق معلوم نہیں ہوتا ہے.ای طرح تمام جماعتیں اور صفیں اگر چہ دیکھنے سے الگ الگ مسجدوں میں قائم ہیں مگر حقیقت میں بنٹی کے حلقہ کی طرح ایک ہی جماعت کے حکم میں روحانی طور پر ہو جاتی ہیں اور وہ سب صفیں جو دست بستہ اپنے اپنے مقام پر کھڑی ہیں اپنے جسمانی اتصال اور روحانی اثر سے موثر ہو کر بیت اللہ سے فیضیاب ہوتی اور رحمت و فضل الہی کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہیں کیونکہ بیت اللہ وہ مقام ہے

Page 281

تذكرة المهدى 279 جو إِنَّ اوَّلُ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آنحضرت الل کے لئے کامل تجلی الہی کا مقام ہے اور کلام الہی کے نزول کی جگہ ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی حکم ہوا کہ یہاں آنے کے لئے اعلان کردو اور آنحضرت ا کو بھی حکم ہوا اور آپ کے ذریعہ سے تمام لوگوں کو حکم پہنچا اور بڑے بڑے وعدے یہاں سے ہوئے.مولوی صاحب خیال کرو کہ جماعتوں میں ہر زمانہ میں اولیاء ابدال اقطاب صلحاء اتقیا غوث مجدد محدث محدث ہوتے ہیں اور عام مومنین بھی وہ تمام مل کر بیت اللہ یعنی مجلی گاہ اعظم اللہ تعالٰی سے فیض رحمت برکت کھینچتے ہیں اور اپنے اندر جذب کرتے ہیں اللہ تعالٰی نے فرمایا وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ ملنا ہی سر اور رمز ہے جو سب کے سب بیت اللہ کی طرف منہ کر کے کھڑے ہوتے ہیں تاکہ توجہ الی اللہ پورے طور سے ہو اگر ایک طرف منہ نہ کیا جاوے اور متفرق طور پر اپنی اپنی مرضی سے جدھر چاہیں منہ کر لیں تو کس طرح فساد لازم نہ آجاوے اور کیونکر وحدت ہو سکتی ہے اگر ایک واعظ کھڑا ہو کر وعظ کرے اور سننے والے وعظ کو چھوڑ کر دوسری طرف جدھر جس کا دل چاہے منہ کر کے بیٹھ جاوے یا کھڑا ہو جاوے تو کیسی ابتری اور بیہودگی ہوگی نہ سننے میں اثر ہو گا اور نہ واعظ کی توجہ پوری پوری ان کی طرف ہوگی اور نہ کوئی اس سے فائدہ اٹھائے گا بلکہ الٹا اثر ہو گا.یمی راز بیعت کی حقیقت کو آشکارہ کرتا ہے ظاہری بیعت باطنی بیعت پر اثر انداز ہوتی ہے آجکل جو فرقہ بندیاں ہو رہی ہیں اور ایک امام کے تابع نہیں اور ایک دو سرے کو کافر و مرتد کہتے ہیں اور جس منصب کے وہ مستحق نہیں خود بنتا چاہتے ہیں ہر شخص انا نیت کا دم مارتا ہے اور وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جميعًا کو چھوڑتا جاتا ہے جو مسمریزم کی طرف اشارہ ہے تو وحدت کیونکر پیدا نہو سب کے سب متفرق ہو کر یک دم محروم ہو گئے اور کیونکر وصول الی اللہ کی

Page 282

تذكرة المهدي 280 A حصہ دوم راہیں کھل سکتی ہیں.اور کس طرح وہ اولیاء الرحمن میں داخل ہو سکتے.فرقوں کے مٹانے کے لئے اور متفرق لوگوں کو ایک جگہ اور ایک طریق پسندیدہ پر اکٹھا کرنے کے لئے خدا نے اپنے وعدہ کے مطابق مجھے عین ضرورت پر بھیجا.مجھ سے منہ موڑ کر کیا پھل پائیں گے آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ صبیح ناصری جو ان کی نظر میں زندہ ہے وہ ہی آئے مگر وہ فوت ہو گیا اس کی زندگی اور آنا ایک موہوم اور نرا خیال باطل ہے نہ کوئی اس طرح پہلے گیا اور نہ آیا اور نہ اتنی مدت زندہ رہا اب کس طرح خدا کی سنت کے خلاف یہ ان کی امید بر آسکتی ہے.اس مسیح سے انکار کر کے کیا لیا جو میرا انکار کر کے لیں گے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا جو سانپ بن جاتا تھا وہ بھی ان کی توجہ اور قوت قلبی کا اثر تھا انہیں کے ہاتھ سے سانپ ہو جاتا تھا.دوسرے کے ہاتھ میں نہیں.موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد بھی وہ سوتا رہا مگر کبھی سانپ نہ بنا اور ان سے پہلے بھی تھا اور کبھی وہ سانپ نہ ہوا سوٹا کا سوٹا ہی رہا اس سے معلوم ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام کی قدی قوت اور توجہ کا اثر تھا اور یہ ثابت نہیں ہو تا کہ موسیٰ علیہ السلام سانپ بنانے کے وقت دعا کرتے تھے یا اس پر کوئی آیت توریت کی پڑھ کر دم کرتے تھے مسیح علیہ السلام بھی اپنی چڑیوں میں اپنی توجہ سے کام لیتے تھے.ان میں خدا نے یہ قوت قدی یہ تاثیر پیدا کر دی تھی.اس سے بڑھ چڑھ کر اللہ تعالیٰ نے سید الانبیاء اس میں یہ قوت قدسی اور خاص توجہ رکھی تھی.یہ الہی قوت تھی جو آپ کو عطا کی گئی تھی جس کا اثر یہ تھا کہ ہاتھوں کی انگلیوں سے اس قدر پانی فوارہ کے طور پر نکلا کہ لشکر سیراب ہو گیا اور چند روٹیوں پر ہاتھ رکھنے سے بہتوں کا پیٹ بھر گیا اور پھر بھی وہ روٹیاں جتنی تھیں بچ رہیں اور آپ کے لعاب دہن مبارک سے کنوئیں کا پانی میٹھا ہو گیا اور ایک شخص کی لڑائی میں آنکھ نکل پڑی تھی آپ کے دست مبارک رکھنے سے وہ آنکھ اچھی خاصی ہو گئی اسی طرح سینکڑوں آپ کے اقتداری نشان ہیں اور ان سے

Page 283

تذكرة المهدى 281 ه دوم زیادہ یہ ہے کہ جب چند لوگوں نے آپ سے نشان طلب کیا رات کا وقت تھا.آپ نے فرمایا وہ دیکھو آسمان پر نشان ظاہر ہوا اور آپ نے اپنی انگشت شہادت اٹھائی دیکھا تو چاند کے دو ٹکڑے ہو گئے اور آپ نے ایک مٹھی کنکریوں کی کفار پر پھینکی تو وہ سب اندھے اور بدحواس ہو گئے کون کہہ سکتا ہے کہ آپ نے ان نشانوں کے وقت دعا کی تھی یا کلام الہی پڑھ کر دم کیا تھا یہ توجہ باطنی اور قوت الہی کا کرشمہ قدرت تھا جو ان میں پہلے ہی رویعت رکھا تھا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مارٌ ميْتَ إِذْرَ مَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَمى - اس سے ہمیں انکار نہیں کہ تھوڑی بہت یہ قوت ہر ایک میں ہے مگر پھر سب میں برابر نہیں اور یہ جو لوگ مسمیریزم یعنی توجہ کرتے ہیں یہ کسی ہے اور اس کو بھی انہوں نے صحیح طور پر استعمال نہیں کیا ایک کھیل تماشہ کے طور پر برتا جو سفلی حالت میں رہ گئے مگر خدا کے ماموروں مقبولوں کی یہ کشش یہ توجہ یہ جذب رہی تھا ایک شخص کسب اور مشق کر کے برسوں میں حاصل کرتا ہے اور اخدا تعالیٰ اپنے برگزیدوں میں وہی طور سے عطا کرتا ہے جس کا کسی مقابلہ نہیں کر سکتے.ذرہ جگنو یعنی کرم شب تاب آفتاب کا کیا مقابلہ کر سکتا ہے.فرمایا بیعت میں بھی یہی راز مضمر ہے کہ مرشد کے ہاتھ میں ہاتھ دیکر جو شخص بیعت کرتا ہے تو اس بیعت کنندہ میں وہ قوت باطنی اور طاقت ایمان پیدا ہو جاتی ہے کہ جو برسوں کی عبادت میں وہ لذت اور قوت باطنی حاصل نہیں ہوتی ہے.روی صاحب فرماتے ہیں.یک زمانے مجھتے با اولیا بیشتر از صید ساله طاعت بیریا دیکھو ایک درخت ہوتا ہے اس کی جڑ میں پانی دیا جاتا ہے تو تمام پتوں اور شاخوں میں وہ پانی پہنچ جاتا ہے جتنی جتنی جس میں طاقت ہوتی ہے وہ اپنی طاقت کے موافق اس پانی کو اپنے اندر جذب کر کے حصہ رسد لے لیتا ہے اور جب اس درخت سے کوئی شاخ یا پتہ اپنی نافرمانی کی وجہ سے علیحدہ ہو جاتا ہے تو وہ اس پانی

Page 284

تذكرة المهدى 282 نہیں لے سکتا.یہی حال پیرو مرشد کا ہوتا ہے کہ جس قدر رحمت و فضل کا پانی مرشد کو ملتا ہے تو اسی قدر علی حسب الاخلاص مریدوں کو اس رحمت سے حصہ ملتا ہے خواہ مرشد اور مرید میں کتنا ہی مقامی و سکونت کے لحاظ سے فاصلہ ہو مگر جب تک وہ عقیدت وارادت میں مضبوط اور پختہ ہو اور چاہے مرشد کو معلوم بھی نہ ہو کہ مرید کہاں ہے اور کس جگہ ہے کیسا ہے مگر خدا خوب جانتا ہے تب بھی وہ اس فیض اور رحمت الہی سے محروم نہیں رہ سکتا ضرور ہی اپنا حصہ لے لیتا ہے اور جو اپنی بد بختی و بد نصیبی سے مرشد سے الگ ہو جائے تو وہ خشک شاخ کی طرح کاٹا جاتا اور محروم رہ جاتا ہے جو اس کو ملنا چاہئے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ منشی فتح محمد صاحب ساکن کلیانہ جو میرے بڑے بھائی شاه خلیل الرحمن صاحب جمالی و نعمانی و چشتی سے بیعت ہیں سیالکوٹ کمسریٹ میں ملازم تھے اور مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی سے ان کی بڑی ملاقات تھی میرے ملنے کے لئے قادیان میں آئے اور حضرت اقدس علیہ السلام کی زیارت بھی کرنی تھی حضرت اقدس علیہ السلام کے لئے شیرینی اور کچھ نقد بھی ساتھ لائے میرے مکان میں ٹھرے جو تحفہ وہ میرے لئے لائے تھے وہ تو میں نے رکھ لیا اور جو حضرت اقدس علیہ السلام کے لئے لائے تھے وہ میں لے کر حضرت اندس علیہ السلام کی خدمت میں لے گیا آپ اندر مکان میں جو مسجد مبارک کے پاس ہے تشریف رکھتے تھے.میں نے دروازہ کی زنجیر ہلائی فرمایا کون ہے میں نے عرض کیا کہ سراج الحق ہے.یہ سنتے ہی باہر تشریف لائے فرمایا کچھ کام ہے میں نے وہ تحفہ جو مشی صاحب لائے تھے پیش کیا فرمایا کہاں سے آیا میں نے تمام حال عرض کر دیا.آپ وہ تحفہ لے کر اندر گئے اور فرمایا کھڑے رہو میں کھڑا رہا اس تحفہ میں سے میرے واسطے بھی کچھ لائے میں نے عرض کیا کہ وہ میرے واسطے بھی لائے تھے وہ میں نے رکھ لیا یہ سب آپ کے لئے ہے حضور ہی رکھیں پھر ان کا حال دریافت کیا میں نے یہ سب سنا دیا پھر میں چلا آیا اور آپ اندر تشریف لے

Page 285

تذكرة المهدي 283 گئے.اور منشی صاحب سے سب حال بیان کر دیا.منشی صاحب نے مجھ سے کہا کہ میں اتنا تو سمجھ گیا ہوں کہ حضرت صاحب باخدا اور خدارسیدہ ہیں اور مسیح علیہ السلام کی وفات کا مسئلہ بھی ایسا ٹیڑھا نہیں صاف اور سیدھا ہے سب انبیاء مرتے ہی آئے ہیں یہ بھی ان میں داخل ہیں.ایک لمبی نرالی زندگی نرالی ہی بات ہے جس کا کوئی ثبوت کسی کے پاس نہیں ایک وقت اور مشکل میں ڈالنے والی بات نبوت کی ہے جو مسیح کے نام کے ساتھ لگی ہوئی اور وابستہ ہے مسیح موعود سن کر فورا طبیعت اور ذہن نبوت کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں ادھر مَا كَانَ مُحَمَّد اَبا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللهِ وخَاتَمَ النَّبِيِّن قرآن شریف میں آچکا ہے تو حضرت صاحب مسیح موعود یعنی نبی کیسے ہو سکتے ہیں اور اس امت میں نبی کیونکر ہو سکتا ہے.میں نے اس وقت ان کی سمجھ کے موافق یہ کہا کہ یہ امت خیر الامم اور درمیانی امت ہے خدا تعالی فرماتا ہے کُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ لوم امة وسطاً خدا نے فرمایا ہے اس امت مرحومہ میں نبی کا نہ ہونا تعجب ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت میں خود انہیں کی زندگی سے لے کر چودہ سو برس کے بعد تک یعنی حضرت مسیح سے پیچھے تک صدہا نبی رسول ہو چکے پھر یہ امت کیسے محروم رہے.قیامت کے روز موسی.ابراہیم - نوح علیهم السلام رب العالمین کے حضور اپنی اپنی امت کے صلحاء ابدال اقطاب امام انبیاء کو پیش کریں گے سرور کائنات سید الانبیاء ای ی ک ن ک کو پیش کریں گے اولیا صلحاء ائمه مجدد تو پہلے ہی کافر ٹھہرائے گئے اور کافر قرار پاچکے اور نبوت کا خانہ خالی تو مکفرین - مکذبین متردّدین کو باری تعالیٰ کے حضور پیش کر کے کہیں گے یہ امت مرحومه امت وسط اور خیرامم ہے ہرگز نہیں خیر امم اور مرحوم اور وسط الفاظ چاہتے ہیں کہ نبوت کے درجہ سے یہ امت خالی نہ رہے بلکہ سب سے بڑھ چڑھ کے رہے خاتم النبین کے معنے دراصل یہ ہیں کہ آنحضرت ا کو نہ مانکر اور

Page 286

تذكرة المهدى 284 آپ کی مہر تصدیق اپنی نبوت کے سرٹیفکیٹ پر نہ کرا کر نبی بنجائے یہ نہیں ہو سکتا ایک ہندو یا عیسائی یا موسائی یا زردشتی یا اور کوئی غیر مسلم نبی نہیں ہو سکتا تا وقتے کہ آنحضرت اللہ کے دربار سے سند حاصل نہ کرلے.اور آپ کو مان کر آپ کی تربیت سے آپ کے زیر اثر رہ کر آپ کی گود میں بیٹھ کر آپ میں فنا ہو کر آپ کا خادم یا مقبول و محبوب بن کر آپ کی چادر اوڑھ کر نبی بن سکتا ہے.دیکھو اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ سوره فاتحه کی آیت اور أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ والصَّلِحِينَ نساء کی آیت ملا کر پڑھو تو اس سے کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے علاوہ اس کے تم تو صوفی مشرب ہو صوفی کہتے ہیں کہ اللہ میں فنا ہو کر اللہ ہی بن جاتا ہے تو فنافی الرسول ہو کے رسول ہی بنا.فنافی المرشد ہو کر مرشد ہی بنجاتا ہے تو بیچ کا درجہ گو اس میں کامل فنا بھی ہو تب بھی نبی نہیں ہو سکتا کیا یہ آیتیں جو میں نے ابھی پڑھی ہیں یوں ہی اس امت کے آنسو پونچھنے کے واسطے ہیں اور حقیقت کچھ نہیں.منشی صاحب غور کرو ترقی کی طرف قدم اٹھاؤ تنزل کی طرف مت جھکو.اللہ تعالی بخیل نہیں ممسک نہیں کمزور نہیں.کسی چیز کی اس کے یہاں کمی نہیں.وہ قادر ہے.سب چیز کا مالک ہے وہ خالق ہے سُبحَا نَه وَتَعَالَى عَمَّا تَصِفُونَ اس کے سوا اور بھی باتیں ہوتی رہیں کچھ وہ اپنے شبہات پیش کرتے رہے میں جواب دیتا رہا.دوسرے روز میں حضرت اقدس کی خدمت میں لے گیا.حضرت اقدس علیہ السلام نے وسمہ اور مہندی دونو ملا کر لگایا ہوا تھا آپ نے منشی صاحب سے ملاقات کی اور بیٹھ گئے میں نے اس اپنی تقریر کو دہرا کر عرض کیا کہ منشی صاحب کو نبوت کے بارہ میں کچھ شکوک ایسے ہیں کہ ان کو مانے میں عذر انکار کے درجہ تک ہے اور میں نے اس طرح سے بیان کیا حضرت اقدس نے فرمایا کہ یہ صحیح ہے

Page 287

تذكرة المهدي جوی 285 سید جو صاحبزادہ صاحب نے بیان کیا اور بات یہ ہے کہ آنحضرت کی یہ بڑی گستاخی اور بے ادبی ہے اور نہایت ہتک ہے اور اس میں آپ کی کسر شان ہے سمجھا جاوے کہ آپ کا تمام دفتر فیضان گاؤ خورد ہو گیا.اور آپ سب کچھ پیٹ پیٹ کر اور اپنی بغل میں دبا کر اپنی قبر میں لے گئے اور امت مرحومہ کے واسطے کچھ نہ چھوڑ گئے.معاذ اللہ ایک مومن کیونکر گوارہ کر سکتا ہے کہ - المرسلین ناکام گئے ایک گھنٹہ تک آپ تقریر فرماتے رہے مگر افسوس کہ نشی صاحب کچھ نہ سمجھے دو روز قیام کر کے واپس چلے گئے اور کچھ بھی اثر نہ ہوا.جناب فضل شاہ صاحب جو پرانے مخلص احمدی ہیں فرماتے ہیں کہ میں اور حضرت اقدس علیہ السلام دونوں مکان میں بیٹھے تھے اور کوئی نہیں تھا اس وقت آپ نے اپنا ایک خواب سنایا کہ میں ایک زینہ پر چڑھتا ہوں مگر اس طرح سے کہ مجھے خطرہ ہوتا ہے کہ میں گر نہ پڑوں اور چھال مار کر یعنی قلایخ لگا کر دوسرے پر قدم رکھتا ہوں.جب میں اوپر چڑھا تو میری ناک سے خون آیا.شاہ | صاحب کہتے ہیں کہ میں یہ خواب سن کر گھبرایا اور آپ کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھا تو آپ میری اس گھبراہٹ کو سمجھ گئے فرمایا شاہ صاحب تعبیر بہت اچھی ہے.کہنے والا خون آیا کہے تو اچھا ہے اگر بنایا جانا کہے تو برا ہو تا ہے اس میں نقصان ہے اس لئے آنا کہنا چاہئے اب معلوم ہوتا ہے کہ آمدن روپیہ کی ہوگی اور خدا تعالٰی ہمارے ہاتھ کشادہ کر دے گا شاہ صاحب کہتے ہیں کہ ان دنوں آپ پر تنگی تھی اور آپ نے تحریک کی تھی اس پر یہ خواب دکھایا گیا.اس سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بڑی تنگ دستی کا زمانہ آیا شاہ صاحب تو اس زمانہ میں آئے کہ سلسلہ چمک اٹھا تھا اور بہت لوگ داخل بیعت ہو چکے تھے مگر میں نے اس زمانہ میں سے کچھ زمانہ دیکھا ہے ایک روز آپ سیر کو تشریف لے گئے جب لوٹے تو دس بارہ برس کا ایک ہندو کالڑ کا ملا اور اس نے کہا کہ دس روپیہ دو میرا باپ مانگتا ہے بہت دن ہو گئے اور یہ کہا کہ لیکر آنا سو میں

Page 288

تذكرة الحمدى 286 اب ساتھ چلتا ہوں مجھے دس روپیہ دو میں لے کر جاؤں گا بار بار کہا کہ میں لے کر جاؤں گا آپ نے فرمایا نہ اب اس وقت میرے پاس روپیہ نہیں اور نہ گھر پر ہیں خدا تعالیٰ بھیج دے گا ہم فورا دیدیں گے بمشکل تمام اس لڑکے کو ٹالا - ایک دفعہ کسی نے ایک پارسل حضرت اقدس کی خدمت میں بھیجا جب پارسل کھولا تو اس میں ایک ٹوپی خوبصورت اور قیمتی تھی دو ہندو نوجوان بھی بیٹھے تھے ایک نے اس ٹوپی کی بہت تعریف کی اور ہاتھ میں لے کر بار بار دیکھتا رہا آخر حضرت اقدس علیہ السلام نے وہ ٹوپی اس کو ہی دیدی وہ لے کر خوش خوش چلا گیا.مجھ سے مخاطب ہو کر آپ نے فرمایا صاحبزادہ صاحب یہ ٹوپی اس کو پسند آگئی تھی جبھی تو یہ بار بار تعریف کرتا رہا ہمارے دل نے یہ گوارا نہ کیا کہ اس کو تکلیف پہنچے اس لئے ہم نے بشرح صدر ٹوپی دیدی خدا نے ہمارے پاس ٹوپی بھیجی اور بھیج دے گا اگر ہم اس کو یہ ٹوپی نہ دیتے تو اس کو رنج پہنچتا تالیف قلوب بھی تو ایک چیز ہے.بروز دو شنبه بعد از نماز ظهر حضرت مسیح موعود مهدی معہود علیہ السلام کو یہ الهام هوا ا مِدُّ وَ اليْلَةُ أَزْهَى اليَا لِی یعنی اس رات کو عبادت تسبیح تعلیل نمیر اور درود و استغفار غیرہ میں شاغل رہو کیونکہ یہ رات تمام راتوں سے افضل اور خوبصورت تر ہے سو اس الہام کے مطابق جو احباب موجود تھے بعض ان میں سے رات کو جاگے اور عبادت الہی کی یعنی وہ رات جو شام سے دو شنبہ کی شروع ہوئی یعنی شب سه شنبه ۲۷ محرم الحرام ۱۳۱۲ھ مطابق ۳۱ جولائی ۱۸۹۴ء و مطابق ۱۵ سادن ۱۹۵۱ بکرمی حضور مسیح موعود علیہ السلام کے حکم سے لکھا گیا جو فرمایا تھا کہ کہیں یاداشت لکھ رکھو فقط خاکسار نے یہ رجسٹر میں حسب الارشاد لکھ لیا تھا جو کہ اب میں نے لکھ دیا.ایک روز حضرت اقدس علیہ السلام سیر کے لئے تشریف لے چلے ابھی تھوڑا دن چڑھا تھا سردی کا موسم تھا پندرہ سولہ احباب ساتھ تھے پھر پیچھے سے اور بہت

Page 289

تذكرة المهدى 287 سے آملے حضرت خلیفہ ثانی دام فیضہ اور حضرت بشیر احمد صاحب بھی آگئے اور ا ایک دو لڑکے اور بھی ان کے ساتھ تھے چھوٹی عمر تھی ننگے پاؤں اور ننگے سرمیاں بشیر احمد صاحب تھے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے تبسم فرما کر فرمایا کہ میاں بشیر احمد جو تا ٹوپی کہاں ہے کہاں پھینک آئے میاں بشیر احمد صاحب نے کچھ جواب نہ دیا اور ہنس کر بچوں سے کھیلتے کھیلتے آگے بڑھ گئے اور کچھ فاصلہ پر روڑ گئے یہ بات چیت یہاں ہوئی جہاں اب میاں نظام الدین صاحب احمدی کی پختہ کپڑے وغیرہ کی دوکان ہے آپ نے فرمایا بچوں کی بھی عجیب حالت ہوتی ہے جب جوتا نہ ہو تو روتے ہیں کہ جو تالا کے دو اور جب جو تا منگا دیا جاتا ہے تو پھر اس کی پرواہ نہیں کرتے اور نہیں پہنتے یوں ہی سوکھ سوکھ کر خراب ہو جاتا ہے یا تم ہو جاتا ہے کچھ بچوں کی جبلت ہی ایسی ہوتی ہے کہ کچھ کسی چیز کی پرواہ نہیں ہوتی عجیب بے فکری کی عمر ہوتی ہے اور اکثر اپنے آپ کو پا برہنہ رکھنا ہی پسند کرتے ہیں ابھی دو چار دن کا ذکر ہے کہ جو تا کا تقاضا تھا جب منگا کر دیا تو اس کی پروا نہیں میں نے عرض کیا کہ کسی نے کہا ہے کہ در طفلی پستی و در جوانی مستی و در پیری ستی پس خدارا کے پرستی یہ سن کر ہنسے تو پھر میں نے عرض کیا کہ حافظ حامد علی کو بھیج دیا جائے وہ جو ماٹو پی لے آئیں گے فرمایا جانے دو خدا جانے کہاں ہونگے.خیر آپ چل پڑے دو ہی قدم چلے ہوں گے اسی ذکر میں فرمایا کہ حدیث شریف میں آیا ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ پا برہنہ شخص خدا کو دیکھ لیتا ہے شاید اس میں بھید یہ ہے کہ بچوں کی معصومیت کی مشابہت سے یہ عمل خدا تعالیٰ کو پسند ہو پھر فرمایا کہ ایک بزرگ تھے انہوں نے جوتا پہننا چھوڑ دیا تھا یہ خیال کر کے کہ جب امیروں کے فرش پر لوگ جو تا نہیں پہنتے تو امیر الامراء خدا تعالیٰ کے فرش زمین پر کیوں جو تا پنوں وہ بڑے کامل گزرے ہیں.فرمایا فقراء صوفیاء کے بھی عجیب حال گزرے ہیں وہ خدا میں محو ہوتے تھے اور خدا میں ہو کر رہ سب کام کرتے تھے ایک بزرگ کا ذکر ہے کہ ان کے مرید نے توجہ الی اللہ کا

Page 290

تذكرة الميدنى 288 سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ فلاں مقام پر ایک بزرگ ہیں ان کے پاس جاؤ یہ بات وہاں حل ہوگی.اس نے عرض کیا کہ جناب راستہ میں ایک دریا ہے اس سے کس طرح پار ہوں گا انہوں نے کہا کہ دریا سے یہ کہنا کہ میرے مرشد نے کبھی کھانا نہیں کھایا یہ سچ ہے تو اے دریا مجھے راستہ دے دے وہ شخص چل پڑا لیکن خیال کیا کہ ہر روز میرے سامنے یہ کھاتے پیتے ہیں میں کیونکر دریا سے جھوٹ بات کہوں اسی خیال میں کئی منزلیں طے کر کے دریا کے اوپر پہنچا اور دریا کو یہ پیغام اپنے مرشد کا سنادیا دریا کا پانی کم ہو گیا اور وہ اس میں سے آسانی سے پار ہو گیا جب ان بزرگ کے پاس پہنچا تو ان سے یہ سب کیفیت توجہ الی اللہ کے سوال اور دریا اور مرشد کے جواب کی سنائی تو ان بزرگ نے چند روز کے بعد جواب دیا کہ اپنے مرشد سے ہمارا سلام کہو اور پھر یہ کہو کہ ہم نے یہ سوال حل کر دیا اس نے کہا کہ دریا سے میں کس طرح پار ہو نگا میرے مرشد نے تو یہ کہا تھا ان بزرگ نے کہا کہ میری طرف سے دریا کو کہدیتا کہ جس کے پاس سے میں آیا ہوں وہ کہتے ہیں کہ میں نے تمام عمر میں اپنی بیوی سے صحبت نہیں کی.یہ سن کردہ شخص اور بھی حیران ہو گیا اور دل ہی دل میں خیال کرتا ہوا چلا کہ ان کے ایک چھوڑ دو بیویاں ہیں اور لڑکے لڑکیاں ہیں پھر یہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی بیوی سے ہم بستر نہیں ہوئے.آخر دریا کے پاس آکر وہی انکا ارشاد دریا سے کہدیا دریا یہ سن کر پایاب ہو گیا اور یہ شخص آسانی سے پار ہو گیا اور سفر طے کر کے مرشد کے پاس آیا اور سب حال بیان کیا اور کہا کہ وہ سوال وصول الی اللہ اور توجہ باللہ کا تو الگ رہا مجھے آپ کی اور ان کی ان باتوں پر بڑا تعجب ہے ان باتوں میں کیا بھید ہے انہوں نے جواب دیا کہ ہم جو کام کرتے ہیں خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اور ابتغاء لو مجھے کرتے ہیں ہمارا اپنا ارادہ کوئی نہیں ہو تا پس وہ شخص اپنے سوال کا جواب پاکر سمجھ گیا.میں نے اسی روز سے حضرت اقدس علیہ السلام کی یہ بات سن کر جوتا پہننا

Page 291

تذكرة المهدي 289 چھوڑ دیا اور ایک سال تک نہ پہنا یہ مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ اب میں جو تا نہ پہنوں گا بعض احباب نے مجھ سے یہ سوال بھی کیا کہ جو تا کیوں نہیں پہنتے ننگے پاؤں کیوں رہتے ہو بعض نے کسی تکلیف کا سبب سمجھا بعض نے تنگدستی پر خیال کر کے مجھے اپنے پاس سے جو تا خرید کر دیا میں نے ان کو کچھ جواب نہ دیا اور نہ کسی سے جو تا لیا.جب ایک سال مجھے نگے پاؤں رہتے رہتے گذر گیا تو ایک روز میں صبح کی نماز سے پہلے درود شریف پڑھ رہا تھا جو دو شخص خوبصورت جوان موٹے تازے لمبے قد کے سفید کپڑے پہنے ہوئے آئے اور میرے دونوں بازو پکڑ کر کہا اٹھو چلو تمہیں فری میسن بنا ئیں گے میں یہ سن کر ان کے ساتھ ہو لیا اور دل میں خیال کرتا تھا کہ فری میسن کا نام سنتے سنتے ایک مدت گزر گئی اور اس کی نسبت مختلف باتیں بھی سنی ہیں شنیدہ کے بود ماند دیدہ اب خود ہی دیکھ بھال لوں گا.وہ دونوں آدمی مجھے ایک عالی شان پخته چونہ هیچ خوبصورت مکان کی طرف لے گئے ایک بہت بڑا عظیم الشان دروازہ دکھائی دیا اور اس کے اندر ایک فراخ کشادہ صحن پختہ بنا ہوا ہے مگر انہوں نے ابھی تک میرے دونوں بازو نہیں چھوڑے اور میرے دل میں انبساط سرور اور ازحد خوشی تھی میں نے بہت سے مکان بادشاہوں راجوں اور نوابوں کے دیکھے مگر یہ خوبصورتی اور عمدگی کسی میں نہیں دیکھی روشنی کا یہ عالم تھا کہ سورج کی روشنی اسکے آگے کچھ حقیقت نہیں رکھتی تھی پھر با ایں ہمہ خوبی و نورانی ہونے کے آنکھوں میں خیرگی یا تاریکی یا چکا چوند نہ تھی بلکہ آنکھوں میں ٹھنڈک اور زیادتی روشنی چشم تھی اور اس فرش کے اوپر ایک اور سر بفلک اس سے بھی زیادہ خوبصورت ایک عظیم الشان دروازه مگربند اس کے اوپر بالا خانہ کی صورت مکان اور اس کے تین یا پانچ دروازے درمیانی تھے اور ان دروازوں پر نورانی سرخ سرخ چلمنیں پڑی تھیں اور اندر بہت کثرت سے روشنی تھی ان دو شخصوں نے مجھے اس دروازہ کے سامنے چلمنوں والے.

Page 292

تذكرة المهدى 290 حصد بالا خانہ کے نیچے کھڑا کر دیا اس جھل مل جھل مل روشنی دنور کی شعاعوں میں معلوم ہوا کہ یہ دو شخص دو فرشتے اور اس مکان میں اللہ تعالیٰ جل شانہ و عم نوالہ ہے اور یہ سب اسی کی تجلی ہے میں مؤدب دست بستہ کھڑا ہو گیا اور نیچے کی طرف نگاہ رکھی ہاں کبھی کبھی اس تجلی اٹھی کی طرف کچھ یوں ہی سی نظر اٹھا کر دیکھ لیتا تھا.میں اور وہ دو نو فرشتے وہاں کھڑے رہے اندر سے آواز آئی کہو ا شْهَدُ اَنْ ANTAL ANWALA N اللہ میں نے کہا اشهَدُ أَنْ لا إله إلا الله پھر فرمایا تو حید کو میری قائم کرو.توحید مجھے محبوب ہے غرض اسی طرح ایک لمبے عرصہ تک یہ وعظ فرمایا ہر جملہ کے ساتھ توحید کا لفظ تھا میرے پیر نہیں تھکے اور نہ میں گھبرایا ایک لذت ایک سرور اور انشراح مجھے حاصل تھا اور میں ذوق و شوق اور طمانیت قلب اور روح سے یہ سب سنتا رہا پھر یہ نظارہ غائب ہو گیا.وہ تمام وعظ لفظ بلفظ مجھے یاد تھا میں نے اپنی یادداشت اور حافظہ پر بھروسہ کر کے یہ خیال کیا کہ اب اذان تو ہو گئی ہے بعد نماز کے سب لکھ لوں گا مگر افسوس مجھے یاد نہ رہا.اگر میں اسی وقت لکھ لیتا تو لکھ ہی لیتا.خیر جو اللہ تعالٰی کو منظور تھا وہی ہوا اور میرا حافظہ اور ذہن کام نہ.آیا پھر میں تازہ وضو کر کے مسجد میں گیا ابھی دو سنت ہی پڑھی تھیں جو حضرت اقدس علیہ السلام تشریف لے آئے نماز پڑھ کے بیٹھ گئے آپ کی اکثر عادت تھی که بعد نماز فجر دن نکلنے تک بیٹھے رہتے اور دینی باتیں جن میں تعلیم وہدایت اور معرفت و رشد کے متعلق ہوتی تھیں اور اپنے الہام اور رویاء بھی سناتے اور لوگوں کے خواب سنتے میں نے بھی یہ واقعہ آپ کو سنایا غور سے سنتے رہے اور فرمایا بہت ہی اچھا ہے خدا تعالی مبارک کرے اور بیش از بیش انعام عطا فرمائے.فرمایا کیا اچھا ہو تا کہ اسی وقت لکھ لیتے ہمیں بھی ایک دو دفعہ ایسا ہی ہوا کہ بعض باتیں ہمیں خدا کی طرف سے معلوم ہو ئیں ہم نے اپنی یاد اور حافظہ پر بہت بھروسہ کر کے خیال کیا کہ دن کو لکھ لیں گے مگر وہ باتیں یاد سے اتر گئیں اب ہم

Page 293

تذكرة المهدي 291 حصہ دوم نے یہ التزام کیا ہوا ہے کہ روات و قلم یا پنسل پاس رکھ کے سوتے ہیں اور جو کچھ امر معلوم ہوتا ہے اس وقت لکھ لیا جاتا ہے اس واقعہ کے کئی روز بعد آپ نے خود محسوس کیا یا واللہ اعلم حافظ حامد علی صاحب نے آپ سے ذکر کیا ہو کہ صاحبزادہ صاحب کے پاس جو تا نہیں ہے.حضرت اقدس علیہ السلام نے ایک جوڑا جو تا کا نیا نکور سرخ زری کا شاید فضل النساء بی بی کے ہاتھ یا امام بی بی کے ہاتھ میرے پاس بھیجا اور فرمایا یہ پہن لو میرا اور تمہارا پیر ایک ہی ہے.میں نے پہن لیا کیونکہ میرا جو مقصد تھا وہ حاصل ہو گیا یہ سب کچھ برکات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت با برکت کا اثر تھا.الحمد للہ علی ذالک.کسی شخص نے مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم سیالکوٹی سے کہا کہ حضرت اقدس صحیح موعود علیہ السلام میر کو تشریف لے جاتے ہیں تو بہت سے احباب ساتھ ہوتے ہیں گردو غبار اڑ کر حضرت صاحب پر پڑتا ہے جس سے آپ کو تکلیف ہوتی ہے اور لوگ آگے پیچھے دائیں بائیں ہو لیتے ہیں اور حضرت کا سر اور چہرہ مبارک گرد آلود ہو جاتا ہے.جب حضرت اقدس علیہ السلام بعد نماز مغرب حسب معمول شہ نشین پر مسجد مبارک میں بیٹھے سب احباب مثل ستاروں کے پروانہ دار کوئی چھت پر اور کوئی شہ نشین پر بیٹھ گئے آپ چودھویں رات کے چاند کی طرح معلوم ہوتے تھے سبیل گفتگو مولوی صاحب مرحوم نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ جب میر کو تشریف لے جاتے ہیں آپ کو گردو غبار کے اڑنے سے بہت تکلیف پہنچتی ہے اور آپ کا چہرہ اور کپڑے سب گرد آلود ہو جاتے ہیں آپ ان لوگوں کو منع فرما دیں کہ ساتھ نہ چلا کریں صرف آپ ایک دو آدمی کو ہمراہ لے جایا کریں.حضرت اقدس علیہ السلام نے ایک آیت * قرآن شریف پڑھی جو مجھے اس وقت یاد نہیں رہی اور خدا کا شکر ہے کہ مولانا شیخ عبدالرحمان فاضل مصری نے وہ آیت مجھے بہاری اور وہ یہ ہے جو سورہ رعد میں ہے کہ معقمت من بَيْنِ يَدَ بُرَ وَ مِنْ خَلْفِ يَحْفَظُمْ لَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ

Page 294

تذكرة المحمدي 292 فرمایا کہ اس آیت میں مراد فرشتوں سے آنحضرت ا کے اصحاب ہیں جو آپ کے دائیں بائیں آگے پیچھے آپ کے پاک کلمات سننے کے شوق میں دوڑتے چلتے تھے اسی طرح سے میرے اصحاب فرشتے ہیں جنہوں نے مجھے صدق دل سے قبول کیا ہے اور میری باتوں کو بڑے شوق سے کان لگا کر میرے آگے دائیں بائیں دوڑ دوڑ کر سنتے ہیں ہدایت پاتے ہیں.مجھے اس میں کوئی تکلیف نہیں بلکہ بہت بڑی خوشی ہے میں ان کو اس بات سے روک نہیں سکتا.یہ خدا کا فعل ہے خدا نے ہمیں بھی فرمایا ہے وَلَا تَسَهُمْ مِنَ النَّاسِ لوگوں کی ملاقات سے ہرگز نہ تھک جانا.محمد اسمعیل سرساوی جو ہمارا ہم وطن اور ہم محلہ ہیں اور کچھ شاگرد بھی پہلے تو مجھ سے بڑی محبت تھی جب قادیان کا ذکر سنا تو مجھ سے متنفر ہو گئے چونکہ تخم سعادت دل میں تھا اس نفرت میں دعائیں کرتے رہے کہ الہی اگر پیر صاحب راہ راست اور حق پر ہیں تو مجھے انکے رنگ میں رنگین کر اور مجھے توفیق دے کہ میں بھی یہی راہ اختیار کروں اور جو الہی تیرے نزدیک راہ راست اور حق پر نہیں تو ان کو اس سے ہٹا دے اور ہدایت کر در حقیقت یہی بچے دل سے دعا نکلی ہوئی کارگر ہو گئی اور خدا نے راہ راست دکھادی اور حق کے قبول کرنے کی توفیق رفیق عطا کی.ایک روز ایسا ہوا کہ سورہ کافرون کی آیت لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دین کے انہوں نے وہ معنے کئے جو غیر احمدی کیا کرتے ہیں جو منافقت کا رنگ پایا جاتا ہے کہ تمہارا دین تمہیں نصیب رہے اور ہمارا دین ہمیں نصیب رہے تم اپنے دین پر قائم رہو ہم اپنے دین پر رہیں اور پھر یہی نہیں بلکہ بد نصیبی اور سمجھی سے منسوخ بھی بتلاتے ہیں اور یہ ایسے معنے ہیں کہ جس سے اسلام اور قرآن اور آنحضرت لال کی تعلیم پر پانی پھر جاتا ہے تمام مقاصد درہم برہم ہو جاتے ہیں اور ناسخ و منسوخ کے مسئلہ سے معاذ اللہ خدا کی بے علمی ثابت ہوتی ہے اور اس کی صفت علم پر بد نما دھبہ لگتا ہے.خیر میں نے وہ سنے کئے جو اللہ

Page 295

تذكرة المهدى 293 تعالی کی شایان شان اور اسلامی تعلیم اور آنحضرت ﷺ کی منشا اور مقاصد کے مطابق تھے جیسا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اور حضرت مولانا نور الدین خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سے سنے تھے.میں ان دونوں کو مختصر طور سے جہاں تک مجھے سمجھ اور میرے قلم میں طاقت ہے لکھتا ہوں تاکہ کسی اہل دل اور سعید در شید روح کو فائدہ پہنچ جائے.پہلے میں مولانا ممدوح و مرحوم کے معنے لکھتا ہوں جو لف و نشر مرتب کے طور پر موزوں ہیں.فرمایا اس آیت کو منسوخ بتانا خدا کی شان اور اس کی علم صفت کے منافی ہے قرآن شریف میں کوئی آیت نہ منسوخ ہے اور نہ اس کی ناسخ ہے شاہ ولی اللہ محدث دہلی نے کئی سو آیتوں میں سے صرف پانچ آیتوں کو منسوخ مانا ہے ہم کہتے ہیں کہ جس دلیل سے وہ کئی سو آیتیں منسوخ نہیں مانی جاسکتیں اسی دلیل سے یہ پانچ بھی منسوخ نہیں ٹھر سکتیں.من جملہ ان پانچ آیتوں کے ایک یہ بھی آیت ہے جو سورۂ بقرہ میں ہے وَالَّذِينَ يُتَوَفَوْنَ منكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةٌ لاَزْوَاجِهِمْ مَّتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إخراج اور اس آیت کی تاریخ اس آیت کو بتایا ہے جو اس سورہ کے اس رکوع کے ساتھ ہی کے پہلے رکوع میں ہے وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةٌ أَشْهُرٍ وَعَشْراً ان دونوں آیتوں کو تاسخ و منسوخ کی یہ وجہ بتائی ہے کہ چونکہ پہلی آیت میں ایک سال کی بیوہ کے واسطے عدت ٹھہرائی تھی اس دوسری آیت سے ایک سال کو منسوخ کر کے صرف چار مہینے دس دن کی میعاد عدت کی مقرر کی اگر ایک آیت کو دوسری آیت کی تاریخ نہ مانی جائے تو تناقض لازم آتا ہے اور تناقض اور اختلاف قرآن میں جائز نہیں.بات یہ ہے کہ ان دونوں آیتوں کو ناسخ و منسوخ سے کوئی تعلق نہیں دوسری آیت میں چار مہینے دس دن عدت کے مقرر کئے ہیں اور پہلی آیت ایک سال کی رخصت دی گئی ہے کہ اگر کسی مجبوری کی وجہ سے ایک سال تک ٹھرنا پڑے تو

Page 296

تذكرة المهدي 294 کوئی حرج نہیں بلکہ رخصت اور اجازت ہے.اسی طرح لَكُمْ دِينَكُمْ وَلِى دِینِ کے یہ معنی ہیں کہ تمہارے کرتوت اور اعمال کی سزا تم کو بھگتنی پڑے گی اور ہمارے اعمال کی ہم کو جزا ملے گی اور ہم فتح یاب اور کامیاب ہوں گے اور تم ناکام و نامراد ہو گے چنانچہ تمام قرآن شریف مومنوں کی فلاح و کامیابی اور کافروں اور مشرکوں کی ہزیمت اور ناکامی و نامرادی سے بھرا پڑا ہے.سورۃ إِذَا جَاءَ نفراته اور سورۃ تبت یدا میں بھی یہی بیان کیا یہاں رَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَنْوَا جا میں ولی دین کی تشریح کی اور تبت یدا میں مخالفوں کی حالت کی پیشگوئی کی کہ ہر ایک شخص جو ابو لہب کی خاصیت اور صفت رکھتا ہے وہ ابو لہب ہے اور وہ مومنوں کے مقابل نیست و نابود اور خوار و ذلیل کیا جائے گا پھر اس کے بعد قل ہو اللہ احد یعنی سورہ اخلاص رکھی اور فرمایا کہ آخری زمانہ میں ولد اللہ کہنے والے لم يلد ولم يُولدہی پکاریں گے یہ ایک پیشگوئی عظیم الشان ہے جو اس آخری زمانہ میں پوری ہو گی اس کے مطابق وہ حدیث ہے کہ آخری زمانہ میں طلوع الشمس من المغرب ہو گا یعنی توحید الہی کا ڈوبا ہوا سورج مغرب کی طرف سے نکلے گا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا کہ قرآن شریف میں ناسخ و منسوخ ہرگز جائز نہیں لَكُمْ دِينَكُمْ وَلِی دِین کو جو لوگ منسوخ بتاتے ہیں وہ سمجھتے نہیں چونکہ اس سورۃ کا نام سورۃ التفریق بھی ہے کہ یہ مومنوں اور کافروں میں فرق بتانے والی اور امتیاز پیدا کرنے والی سورہ ہے کہ اب ہم میں اور تم میں یہ کھلا اور بین امتیاز اور فرق ہے کہ جس خدا کے ہم پوجنے والے اور عابد ہیں تم اس کے نہیں اور جنگی تم عبادت کرتے ہو ہم انکی عبادت نہیں کرتے اور یہ ہمیشہ کے واسطے تفرقہ ہو گیا ہے.ہمارے اعمال توحید اور تفرید الہی سے ہمارا جسم اور روح بھر پور ہو گیا ہے اور تم میں شرک اور غیر خدا کی عبادت رچ گئی ہے پھر کیونکر ہمارا تمہارا ریل میل اور صفائی ہو سکتی ہے ہمارا خدا ہمارا معبود

Page 297

تذكرة المهدى 295 وہ ہے کہ سب کچھ کر سکتا ہے قدرت اس میں خالقیت اس میں رحمانیت رحیمیت اس میں قدوسیت اس میں اپنے پیاروں اور برگزیدوں سے کلام کرنے کی صفت اس میں غرض ہمہ صفت موصوف ہے اور تمہارے معبود باطل اور کسی صفت سے بھی متصف نہیں ان سے تو انسان ہی بہتر اور اوٹی تر ہے وہ اس سے بھی گئے گذرے ہیں لکم دینکم تم اس نظارہ کو اس حقیقت کو چند روز میں دیکھ لو گے اور اپنے کئے کا نتیجہ بھگتو گے یہ بت وغیرہ تمہاری کوئی مدد کوئی نصرت نہیں کر سکتے فرمایا جس خدا کو آنحضرت ا پیش کرتے تھے کفار مکہ اس خدا کو نہیں مانتے تھے اگر چہ وہ خدا کو مانتے تھے مگر بے کار کو اسی وجہ سے وہ شرک میں گرفتار ہو گئے انہیں کے مقابلہ اور بطلان پر یہ سورۃ نازل ہوئی اور سورۃ الفیل نے بتا دیا کہ آنحضرت ا کا وجود باجود بیت اللہ ہے اور تم لوگ اصحاب فیل کی طرح ہو اور تمہارے معبود نیل اور اور اصحاب فیل سے بھی کمزور.خدا تعالٰی نے لَكُمْ دِينَكُمْ وَلِی دِيْنِ سے واضح کر دیا کہ تم اور وہ جن کی تم پرستش کرتے ہو بیچ اور ناکارہ ہیں.رہی ناسخ و منسوخ ان لوگوں نے اپنی نا کبھی سے بنا لیا.قومی یا وقتی ناسخ و منسوخ تو جائز ہے.جیسے ایک بچہ ہے اس کے کپڑے جوانی میں منسوخ ہو جاتے ہیں.ایک پاجامہ جس کا رومال نہیں ہوتا اور آگے پیچھے سے کھلا پیشاب پاخانہ کے واسطے ہوتا ہے بڑے ہو کر اس کی شکل تبدیل ہو جاتی ہے اور جو ان آدمی ایسا پاجامہ نہیں پسند کرتا اور پہنتا.اسی طرح گرمیوں کے کپڑے سردیوں میں اور سردیوں کے کپڑے گرمیوں میں منسوخ ہو جاتے ہیں اس سے سمجھ لو کہ آنحضرت ال سے پہلے جتنی تعلیمیں تھیں وہ وقتی اور زمانی تھیں.آنحضرت ا اور آپ کی تعلیم کل عالم اور قیامت تک کے لئے ہے اس صورت میں ناسخ و منسوخ کو کیا تعلق ہے.لَكُمْ دِينَكُمْ وَلِی دِینِ میں مومن و مشرک کا کھلا فرق بتایا ہے.اسی طرح اور بعینہ اسی طرح خدا نے ہمیں بھیجا

Page 298

تذكرة المهدى 296 تاکہ بچے خدا کو پیش کیا جائے سو ہم جس خدا کو منواتے ہیں آجکل لوگ اس خدا کو نہیں ماننا چاہتے ہیں.میں نے عرض کیا حضرت ہندوؤں نے تو کروڑوں خدا بنالئے اور آریوں نے توحید کا بظا ہر دم مار کر خدا نکما ثابت کر کے ذرہ ذرہ کو خدا بنالیا.اور مسلمانوں میں جو مقلد ہیں انہوں نے بھی بزرگوں کو خدا بنالیا اور جو اہل حدیث یا موحد کہلاتے ہیں انہوں نے بجائے تثلیث کے تربیع بنالی یعنی چار خدا ایک تو خدا دوسرا خدا و جال تیرا خدا صحیح چو تھا خدا شیطان.اس تربیع میں مقلد غیر مقلد یکساں ہم عقیدہ ہیں.مولوی غوث علی صاحب پانی پتی اور ان کے مرید شیطان کو سلطان الموحدین کہتے تھے اور کفر و اسلام میں کوئی فرق ہی نہیں رکھتے.میں نے ان کو دیکھا ہے انہوں نے جو گیوں سنیاسیوں سے تعلیم پائی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نفرت سے فرمایا ان لوگوں کا کیا حال سچ یہ ہے کہ ان کے دل مسخ ہو گئے اور ان کی روح مرگئی یہ اسلام کو سمجھتے ہی نہیں ان کو اسلام کی تعلیم کی کچھ خبر ہی نہیں.یہ باتیں سن کر اسمعیل کی آنکھیں کھل گئی اور یکدم اس میں تبدیلی ہو گئی میں جو سینہ پر ہاتھ باندھتا تھا ایک دن مجھ سے پوچھا کہ حضرت صاحب یعنی مسیح موعود علیہ السلام کہاں ہاتھ باندھتے تھے میں نے کہا سینہ پر پس اسی روز سے میاں اسمعیل نے بھی سینہ پر بلا خوف ہاتھ باندھنے شروع کئے دل چلا اور ذہین تو تھا ہی حضرت اقدس علیہ السلام کی باتیں اور کلمات طیبات شوق سے سننا شروع کر دیا اور تبلیغ بھی شروع کر دی جو ملتا اس کو تبلیغ کرنی اپنے اوپر لازم کرلی لوگ کچھ مخالفت کرتے اور کچھ ہنتے.پھر میرے ساتھ قادیان آپہنچا اور اکثر آپ کے پس پشت بیٹھ کر مونڈھے اور گردن اور بازو دبایا کرتا تھا.مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی نے ایک روز کہا کہ ایسا مت کیا کرو حضرت صاحب کو تکلیف پہنچتی ہے.آپ شفقت و مہربانی سے منع نہیں کرتے ہوں گے مولوی صاحب موصوف نے از خود منع نہیں کیا بلکہ یہ تحریک مولوی برہان الدین صاحب جعلمی مرحوم نے کی

Page 299

تذكرة المهدي 297 حضرت اقدس علیہ السلام جب بعد نماز مغرب حسب معمول مسجد مبارک کے اوپر کے حصہ کی شہ نشین پر رونق افروز ہوئے تو میاں اسمعیل اپنی عادت کے موافق آپ کے پیچھے بیٹھ کر مونڈھے بازو گردن دبانے شروع کئے اور عرض کیا کہ حضرت آپ کو میرے یہاں آپ کے پیچھے بیٹھنے اور دبانے سے تکلیف ہوتی ہے اگر تکلیف ہوتی ہے تو نہ بیٹھا کروں.فرمایا کیوں نہیں بیٹھا کرو ہمیں تکلیف نہیں ہوتی پھر عرض کیا کہ حضرت بعض دوستوں کو خیال ہے کہ حضور کو تکلیف ہوتی ہے فرمایا کہ انکو خیال تکلیف کا ہوتا ہے ہمیں تکلیف نہیں ہوتی ہمیں تمہارے اخلاص اور عقیدت سے دبانے سے آرام پہنچتا ہے.عزیز مذکور کو یہ خیال ہوا کہ نماز میں حضرت اقدس علیہ السلام کے پاس جماعت میں کھڑا ہوں اور بالالتزام ایسا ہی کیا کہ حضرت اقدس کے پاس ہی کھڑا ہو تا ایک دن بعد نماز دوران گفتگو میں حضرت اقدس نے فرمایا کہ بعض دوستوں کے حالات ہمیں کشف سے اللہ تعالٰی معلوم کرا دیتا ہے اس روز سے میاں اسمعیل آپ سے علیحدہ کھڑے ہونے لگے کہ خدا جانے بشری کمزوری سے کیا کیا حالات اور خیالات پیدا ہو جائیں اور حضرت صاحب کو معلوم ہو جائے تو خواہ مخواه شرمندگی ہو یہ اس عزیز کا نرا خیال تھا یہ لوگ بڑے پردہ پوش ہوتے ہیں اور ان کو تو اپنے آپ کی بھی خبر نہیں رہتی بلکہ کسی کیلئے خطرہ معلوم کرنے پر اس کے لئے دعا ئیں اور توجہ کرتے ہیں پاس کھڑے ہونے سے بیٹھنے سے بڑے ہی فوائد ہیں اور میں خود اس میں صاحب تجربہ ہوں.حضرت اقدس کی صحبت اور پاس بیٹھنے ساتھ چلنے پاس کھڑے ہونے سے بڑے فوائد پہنچے اور خطرات دفع ہوئے جنکو میں لکھوں گا اور کچھ اول حصہ اور کچھ اس میں لکھ چکا ہوں.ای عزیز مذکور نے ایک روز حضرت اقدس علیہ السلام سے پوچھا کہ حضور امام کے پیچھے نماز میں الحمد کے بعد اگر کوئی سورۃ یا آیت پڑھ لیا کریں تو کچھ حرج تو نہیں فرمایا کوئی حرج نہیں.

Page 300

تذكرة المهدي 298 ڈاکٹر میر اسمعیل صاحب صاحبزادہ حضرت مخدومنا میر ناصر نواب صاحب اور عزیز مذکور میاں اسمعیل سرساوی دونوں مل کر اکثر حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں جاتے آپ دیکھ کر فرماتے اسمعیلین پھر یہ دونوں آپ کے پائے مبارک دبانے بیٹھ جاتے.میاں جان محمد صاحب مرحوم اور گلاب نجار یہ پرانے اور حضرت اقدس ) علیہ السلام کے ہم عمر یا غالبا کچھ بڑے تھے وہ بیان کیا کرتے تھے اب وہ فوت ہو گئے اور ایک ضعیف العمر ہندو جاٹ جو حضرت اقدس علیہ السلام سے ہیں برس بڑا تھا اور قادیان سے دو کوس کے فاصلہ پر ایک گاؤں کا رہنے والا تھا جو وہ بھی مدت ہوئے فوت ہو گیا میں نے اس کو بہت ضعیف اور سفید ریش دیکھا ہے وہ اپنے گاؤں کا نمبردار بھی تھا یہ تینوں حضرت میرزا غلام مرتضی صاحب اور میرزا غلام قادر صاحب مرحومین کی خدمت میں بچپن سے بہت رہے ہیں تاوقتیکہ ان دونوں صاحبان نے وفات پائی سوائے ان کے اور لوگوں سے اور بڑھیا عورتوں سے میں نے یوں سنا ہے اور مجھے سننے اور آپکے حالات دریافت کرنے کا شوق بھی تھا.ان سب کا متفق الفظ یہ بیان ہے کہ مرزا غلام احمد" اپنے بچپن کے زمانہ سے اب تک جو چالیس سے زیادہ ہو گئے نیک بخت اور صالح تھے اکثر گوشہ نشین رہتے تھے سوائے یا دالی اور کتب بینی کے آپ کو کسی سے کوئی کام نہ تھا کھانا بھیج دیا تو کھا لیا کپڑا بنا کے دیدیا تو پہن لیا اور اپنے والدین کے دنیاوی معاملات و امور میں فرماں بردار اور انکے ادب اور احترام میں فرد گزاشت نہیں کرتے تھے بچپن میں جو کبھی بچوں میں کھیلتے تو کوئی شرارت یا جھوٹ یا فریب نہ کرتے نہ مار پیٹ اور شور کرتے ہاں کئی بار ایسا ہوا کہ کسی لڑکے کی بھوک محسوس کرتے تو والدہ سے روٹی لا کر دے دیتے خود حضرت اقدس نے ایک بار اپنی زبان مبارک سے یہ فرمایا...ایک لڑکا بھوک سے مضطرب تھا اور روٹی کا وقت بھی گذر چکا تھا.والدہ صاحبہ گھر نہیں تھیں.ہم نے چپکے سے میر بھر کے قریب دانے (غلہ) نکال کر اس کو دے دیئے تا کہ وہ بھنا کر اپنا پیٹ بھر لے.پھر آپ

Page 301

تذكرة الهدى 299 بات بیان کر کے بنتے رہے ایک دفعہ ذکر میں ذکر آیا تو فرمایا کہ آج تک ہم نے کسی کو تھپڑ تک نہ مارا ہے اور نہ کوئی کہہ سکتا ہے.ان لوگوں کا بیان ہے کہ جب مرزا غلام مرتضی صاحب سے کوئی رئیس یا حاکم ملنے کے لئے آتا تو وہ دریافت کرنا کہ مرزا صاحب آپ کے بڑے صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب سے تو ملاقات ہو جاتی ہے اور وہ ملتے جلتے رہتے ہیں لیکن سنتے ہیں کہ آپ کے اور بھی ایک صاجزادہ ہے ان سے کبھی ملاقات ہوئی اور نہ دیکھے ان کو بلواؤ تو سہی دیکھ ہی لیں جناب میرزا صاحب فرماتے کہ ہاں میرا دو سرا لڑکا غلام قادر سے چھوٹا ہے تو سہی پر وہ تو الگ ہی رہتا ہے وہ ایک دلہن ہے لڑکا نہیں لڑکی ہے شرم سے کسی سے ملاقات نہیں کرتا میں بلواتا ہوں اُن میں سے جنکا ذکر اوپر لکھ چکا ہوں جو حاضر ہو تا بلوانے کے لئے بھیجتے ہیں آپ نظر بر پشت پا دوختہ والد کے پاس ذرا فاصلہ سے آکر آنکھیں نیچی کر کے بیٹھ جاتے اور یہ عادت تھی کہ بایاں ہاتھ اکثر منہ پر رکھ لیا کرتے تھے اور کچھ نہ بولتے اور نہ کسی کی طرف دیکھتے مرزا غلام مرتضی صاحب فرماتے کہ آپ نے اس دلہن کو دیکھ لیا.خاکسار ایک لمبے عرصہ تک حضرت اقدس علیہ السلام کی صحبت میں رہا اور خلوت و جلوت میں آپکے پاس رہنے کا بالالتزام اتفاق رہا یہی آپکی عادت شریف دیکھی کہ بایاں ہاتھ اپنے چہرہ مبارک پر رکھ کر بیٹھتے کبھی آنکھ ملا کر کسی سے بات نہ کرتے اگر ہمارا منہ کسی اور طرف یا نیچے اوپر ہو تا تو آپ ہماری طرف دیکھتے اور جب ہم آپکی طرف دیکھتے تو فورا آنکھ نیچی کر لیتے آپ میں ایسی شرم تھی جیسے کنواری لڑکیوں میں ہوتی ہے کسی کی بات کاٹ کر بات نہ کرتے تھے.وہ معمر ہندو جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے ایک روز قادیان میں آیا ہم بہت سے آدمی گول کمرہ میں کھانا کھا رہے تھے محمد اسمعیل سر سادی کھانا کھلاتے تھے ہم سے اس نے کہا کہ مرزا جی یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کہاں ہیں ہم نے کہا وہ اندر ہیں اس نے کہا بلادو - اسمعیل نے کہ ہم اب غیر وقت نہیں بلا سکتے آپ

Page 302

تذكرة المحمدى 300 کسی کام میں مشغول ہیں جب وہ اپنے وقت پر تشریف لائیں گے دیکھ لینا یا مل لینا جب اس نے معلوم کیا کہ یہ نہیں بلائیں گے تو خود ہی بیدھڑک آواز دی کہ مرزا جی کہاں ہو باہر آؤ.حضرت اقدس علیہ السلام برہنہ سمر اسکی آواز سن کر باہر تشریف لائے اور اس کی صورت دیکھ کر تبسم فرمایا اور پوچھا سردار صاحب اچھے ہو راضی ہو خوش ہو بہت روز میں ملے اس نے کہا ہاں میں خوش ہوں بڑھاپے نے ستارکھا ہے چلنا پھرنا دشوار ہے اور پھر کھیت کیا ر کا کام ہے اس سے فرصت نہیں ملتی ہے مرزا جی تمہیں وہ باتیں پہلی بھی یاد ہیں کہ تمہارے والد تم کو کہا کرتے تھے کہ میرا بیٹا غلام احمد متیر ہے (مسجد کا ملا اور ہندوستان میں بہت نماز پڑھنے والے کو مسجد کا مینڈھا حقارت سے کہا کرتے ہیں) نہ نوکری کرتا ہے نہ کماتا ہے چل تجھے کسی گاؤں کی مسجد میں مقرر کرا دوں دس من دانے (اناج) تو خوردنوش کے لئے کما لیا کرنا.دیکھو میں تمہیں بلا کر آپ کے والد کے حکم سے لایا کرتا تھا اور آپ کو افسوس کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے.اور سب کام چھوڑ چھاڑ کر چلے آتے آج وہ زندہ ہوتے یہ موج یہ لہر بھر دیکھتے کہ یہ وہی ہے جس پر ہم افسوس کیا کرتے تھے کیسا بادشاہ بنا بیٹھا ہے اور سینکڑوں آدمی دور دور سے آتے ہیں اور تمہارے در کے غلام اور سلامی یہ خدا کی قدرت کے نشان ہیں ہر طرح کے سامان ہیں جو لوگوں کی نظروں میں حقیر تھا آج وہ معزز اور عظیم الشان ہے حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا ہاں ہمیں سب باتیں یاد ہیں یہ سب کچھ خدا کا فعل ہے ہمارا اس میں کوئی دخل نہیں ہے اور اس کی باتوں کو سن کر ہنستے رہے اور فرمایا ٹھہرو تمہارے کھانے کا انتظام کرتا ہوں.آپ اندر مکان میں تشریف لے گئے اور میں اس کو اپنے قیام کی جگہ لے گیا اور آرام سے بٹھا کر کہا کہ یہ باتیں تو تمہاری میں نے سن لیں کچھ اور باتیں حضرت اقدس علیہ السلام کی سناؤ تم پرانے آدمی ہو.اس نے کہا میں کیا کیا باتیں مرزا جی کی سناؤں ایک دفتر لکھنے کو چاہئے میں ان

Page 303

تذكرة المهدي 301 کی پیدائش کے زمانہ سے پہلے کا ہوں اور میں نے ان کو گود میں کھلایا ہے.جب ے اس نے ہوش سنبھالا ہے بڑا ہی نیک رہا دنیا کے کسی کام میں نہیں لگا بچوں کی طرح کھیل کود میں مشغول نہیں ہوا شرارت فساد جھوٹ گالی کبھی اس میں نہیں ہم اور ہمارے ہم عمر اس کو ست اور سادہ لوح اور بے عقل سمجھا کرتے تھے کہ یہ کس طرح گھر بسائے گا سوائے الگ مکان میں رہنے کے اور کچھ کام ہی نہیں تھا نہ کسی کو مارا نہ آپ مار کھائی.نہ کسی کو برا کہانہ آپ کو کہلوایا ایک عجیب پاک زندگی تھی مگر ہماری نظروں میں اچھی نہیں تھی.نہ کہیں آنا نہ جانا نہ کسی سے سوائے معمولی بات کے بات کرنا اگر ہم نے کبھی کوئی بات کہی کہ میاں دنیا میں کیا ہو رہا ہے تم بھی ایسے رہو اور کچھ نہیں تو کھیل تماشہ کے طور پر ہی باہر آیا کرو تو کچھ نہ کہتے ہنس کے چپ ہو رہتے تم عقل پکڑو کھاؤ کماؤ کچھ تو کیا کرو یہ سن کر خاموش ہو رہتے آپ کے والد مجھے کہتے نمبردار جا غلام احمد کو بلا لاؤ اسے کچھ سمجھا دیں گے میں جاتا بلا لا تا والد کا حکم سن کر اسی وقت آجاتے اور چپ چاپ بیٹھ جاتے اور نیچی نگاہ رکھتے.آپ کے والد فرماتے بیٹا غلام احمد ہمیں تمہارا بڑا فکر اور اندیشہ رہتا ہے تم کیا کر کے کھاؤ اس طرح سے زندگی کب تک گزارو گے تم روزگار کرد کب تک دلہن بنے رہو گے خوردنوش کا فکر چاہئے دیکھو دنیا کماتی کھاتی پیتی ہے کام کاج کرتی ہے.تمہارا بیاہ ہو گا بیوی آوے بالک بچے ہوں گے وہ کھانے پینے پہننے کے لئے طلب کریں گے ان کا تعمد تمہارے ذمہ ہو گا.اس حالت میں تو تمہارا بیاہ کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے کچھ ہوش کرو اس غفلت اور اس سادگی کو چھوڑ دو.میں کب تک بیٹھا رہوں گا بڑے بڑے انگریزوں افسروں حاکموں سے میری ملاقات ہے وہ ہمار الحاظ کرتے ہیں میں تم کو چٹھی لکھ دیتا ہوں تم تیار ہو جاؤیا کہو تو میں خود جاکر سفارش کروں تو مرزا غلام احمد کچھ جواب نہ دیتے وہ بار بار اسی طرح کہتے آخر جواب دیتے تو یہ دیتے کہ ابا بھلا بتلاؤ تو سہی کہ افسروں کے افسر اور مالک الملک احکم الحاکمین کا ملازم ہو اور اپنے رب

Page 304

تذكرة المهدى 302 العالمین کا فرمانبردار ہو اس کو کسی کی ملازمت کی کیا پرواہ ہے ویسے میں آپ کے حکم سے بھی باہر نہیں مرزا غلام مرتضی صاحب یہ جواب سن کر خاموش ہو جاتے اور فرماتے اچھا بیٹا جاؤ اپنا خلوت خانہ سنبھالو.جب یہ چلے جاتے تو ہم سے کہتے کہ یہ میرا بیٹا ملا ہی رہے گا.میں اس کے واسطے کوئی مسجد ہی تلاش کر دوں جو دس میں من دانے ہی کمالیتا مگر میں کیا کروں یہ تو ملا گری کے بھی کام کا نہیں ہمارے بعد یہ کس طرح زندگی بسر کرے گا.ہے تو یہ نیک صالح مگر اب زمانہ ایسوں کا نہیں چالاک آدمیوں کا ہے.پھر آب دیدہ ہو کر کہتے کہ جو حال پاکیزہ غلام احمد کا ہے وہ ہمارا کہاں ہے یہ شخص زمینی نہیں آسمانی ، یہ آدمی نہیں فرشتہ ہے یہ بات کہہ کے وہ بڑھا ہندو بھی چشم پر آب ہو کر کہنے لگا کہ اب مرزا غلام مرتضیٰ زندہ ہوتا اور اس کا یہ عروج اور ترقی کا دیکھتا کہ دنیا کے عقلمند اور مولوی ملا اس کے در کے محتاج ہیں اور خدا نے وہ مرتبہ اس کو دیا اور اپنا وہ جلوہ قدرت دکھایا کہ سب کی عقل اور علم اس کے آگے پیچ ہیں.خاکسار کہتا ہے کہ میں نے اپنی طرف سے نہ گھٹایا نہ بڑھایا صرف اس کی زبان پنجابی کا ترجمہ کیا ہے.مفہوم بعینہ وہی ہے جو اس نے بیان کیا.بعض آدمیوں کی زبانی میں نے یہ بھی سنا ہے کہ مرزا غلام مرتضی صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے خاندان میں یہ روایت مشہور چلی آتی ہے کہ کوئی عالی شان انسان ہمارے خاندان میں پیدا ہو گا شاید وہ یہی ہو یعنی مرزا غلام احمد (علیہ السلام).میں دارالامان سے بٹالہ کسی کام کو گیا اور حضرت اقدس علیہ السلام سے اجازت طلب کی فرمایا جاؤ اور بیس روپیہ دوئے کہ اس کا سودا لیتے آنا.میں نے تمام سودا خریدا شاید دو روپیہ بچ گئے واپس قادیان کو آتے ہوئے یکہ میں ایک ہندو بھی سوار ہو لیا وہ بھی قادیان کو آتا تھا لیکن اس کو کسی دوسرے گاؤں آگے جانا تھا.میں نے اس سے پوچھا کہ تم حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو جانتے ہو

Page 305

تذكرة المهدي 303 اس نے کہا میں خوب جانتا ہوں اور تم سے زیادہ واقف ہوں میں نے کہا کہ کوئی ایسی بات آپ کو معلوم ہو کہ جس سے اچھا برا جو کچھ بھی حال ہو معلوم ہو جائے اس نے کہا کہ میں نے بچپن سے مرزا غلام احمد کو دیکھا ہے (علیہ السلام) میں اور وہ ہم عمر ہیں اور قادیان میرا آنا جانا ہمیشہ رہتا ہے اور اب بھی دیکھتا ہوں جیسی عمدہ عادات اب ہیں ایسی نیک خصلتیں اور عادات پہلے تھیں اب بھی وہی ہیں.سچا.امانت دار - نیک - میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ پر میشور مرزا صاحب کی شکل اختیار کر کے زمین پر اتر آیا ہے اور پر میشور اپنے جلوے آپ دکھا رہا ہے اگر ایسے ہی لوگوں میں پر میشور او تار نہ لے تو پھر کس میں اپنا روپ دھار کر اپنے آپ کو ظاہر نہ کرنے.یہ الفاظ اس کی زبان کے ہیں میں نے نوٹ کر لئے تھے.میں جب قادیان آیا اور آپ کو دہ سودا دے کر جو آپ نے منگایا تھا دو روپیہ بھی دیدئے فرمایا یہ کیسے میں نے عرض کیا کہ سودا میں سے بچ گئے ہنس کر فرمایا تم نے صاحبزادہ صاحب کیوں نہ خرچ کرلئے.میں نے عرض کیا کہ میرے پاس خرچ تھا.پھر میں نے حساب دینا چاہا فرمایا حساب دوستان در دل ہم دوستوں سے حساب نہیں لیا کرتے اور نہ یہ ہمارا کام ہے.میں نے پھر اس ہندو کا واقعہ سنایا فرمایا.ہاں ہم خوب اس سے واقف ہیں.جب خاکسار پہلے پہل حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کو مجدد ہونے کا دعویٰ تھا میں آپ کو مجدد لکھتا اور غوث و قطب بھی جب آپ کی زبان مبارک سے محدث کا لفظ سنا تو مجدد اور محدث لکھنے لگا اور جب مسیح موعود کا دعویٰ آپ نے کیا تو وہ دونوں لفظ چھوڑ کر مسیح موعود اور نبی اللہ یا رسول اللہ لکھنے لگا خواہ میں جے پور دہلی ہانسی حصار الور - شملہ - لدھیانہ وغیرہ میں ہوا یا قادیان میں یا کہیں اور یا اپنے وطن میں غرض کہیں ہوتا.اندر کا القاب ہمیشہ میرا یہ ہوتا تھا الصَّلوةُ وَالسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا نَبِ الله اور یا اس طرح الصَّلوةُ وَالسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللہ اور لفافہ پر اس طرح لکھتا بشرف -

Page 306

تذكرة المهدي 304 ملاحظہ حضرت اقدس مسیح موعود نبی اللہ اور یا اس طرح خدمت مبارک حضرت اقدس صحیح موعود رسول اللہ علیہ الصلوۃ والسلام قادیان شریف پنجاب.میں نے کبھی آپ کا نام عریضہ میں یا لفافہ پر کبھی نہیں لکھا یہ میں خلاف ادب سمجھتا تھا.بعض ہمارے مریدوں اور رشتہ داروں نے اعتراض بھی کیا کہ نبی اللہ رسول اللہ نہیں لکھنا چاہئے بلکہ بعض نے یہ بھی کہا کہ مجدد مت لکھو چونکہ تم دو لاکھ آدمیوں کے پیشوا اور مرشد ہو مرزا صاحب کو یہ سند ہاتھ آجائے گی میں نے یہی جواب دیا کہ تم بیوقوف ہو جب خدا تعالٰی نے یہ منصب آپ کو عطا کیا ہے تو ہم کیا چیز ہیں اور ہمارا لکھنا کیا حقیقت رکھتا ہے یہ تمہارا خیال خام اور ناقص ہے.ایک دفعہ میں نے آپ کو محبت کے پیرایہ میں یہ خمسہ لکھا.یوں تو جو چاہو مجھے کہہ لو نہیں کچھ اس کا غم پوچھتے کیا ہو مرا مذہب حریفان حرم میں نہ کافر ہوں نہ مشرک ہوں محمد کی قسم رند مشرب کیشم واحمد زاہداں معذور داریدم که انیم مشرب است پرستی اس کے لکھنے کا سبب یہ ہوا تھا کہ ایک مولوی صوفی مشرب نے مجھے لکھا تھا کہ تمہارا مشرب کیا ہے لوگ تمہیں کافر اور مشرک کہتے ہیں میں نے اس کے جواب میں یہی خمسہ لکھا تھا پھر میں نے حضرت کی خدمت میں یہی خمسہ لکھا میں اس زمانہ میں اپنے وطن سر سادہ تھا.میں نے ڈیڑھ ہزار کے قریب چھوٹے بڑے خط لکھے سب میں یہی القار لکھا کرتا تھا الصَّلوةُ وَالسَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ يا اَلصَّلوة وَالسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا نَبِيَّ اللهِ - ڈیڑھ ہزار خطوں کا لکھا جانا شاید کسی کو جھوٹ معلوم ہو سو جاننا چاہئے کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے مجھے یہ حکم دیا تھا کہ جب سیر کا وقت ہو ہمیں یاد دلا دیا کرو تو ایک رقعہ روزانہ تو یہ ہو گیا 11ھ سے کہ جب خسوف و کسوف رمضان کے مہینہ میں ہوا اور ایک سال قبل وفات تک.

Page 307

تذكرة المهدي 305 میں 9ھ میں قادیان بالکل ہی آگیا اور اس سے پہلے میں جہاں رہا آٹھویں دسویں دن عریضہ لکھتا رہا اور حضرت اقدس علیہ السلام کی کتابوں کا میں مہتمم تھا روزانہ دو دو تین تین عریضے لکھتا رہا اور حضرت اقدس علیہ السلام کے خطوں کا جواب بھی میں لکھتا رہا کبھی مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم آتے وہ جواب دیتے درنہ میں ہی ڈاک کا منتظم اور جواب دینے پر مامور رہا دن میں کئی کئی رقعے لکھنے پڑتے تھے سب میں الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ یا یا نبی اللہ لکھا کرتا تھا او رجو مهمان آتا اس کی اطلاع بھی بذریعہ رقعہ دی جاتی اور آپ کبھی باہر تشریف لے آتے اور کبھی مہمان کو اندر بلا لیتے غرض جیسا موقع ہو تا ویسا کرتے.ایک شخص بمبئی سے میمن سیٹھ آیا اور پانچ سو روپیہ نقد لایا اور آتے ہی مجھے سے کہا کہ میں حضرت کی زیارت کی غرض سے آیا ہوں اور ابھی واپس جاؤں گا زیادہ مجھے فرصت نہیں ابھی اطلاع کردو کہ آپ باہر تشریف لاویں اور میں زیارت کرلوں.میں نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں رقعہ لکھا اور سارا حال اس شخص کا لکھ دیا آپ نے یہ تحریر فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب ان کو کہہ دو کہ ہمیں اس وقت دینی کام ہے ہم اس وقت نہیں مل سکتے ظہر کی نماز کے وقت انشاء اللہ ملاقات ہو گی.اس سیٹھ نے کہا کہ مجھے اتنی فرصت نہیں کہ میں ظہر تک ٹھہروں میں نے پھر لکھا کہ وہ یوں کہتا ہے پھر آپ نے جواب نہ دیا اور چلا گیا ظہر کے وقت جب حضرت اقدس علیہ السلام مسجد مبارک میں رونق افروز ہوئے بعد نماز ایک شخص نے ذکر کیا کہ ایک میمن سیٹھ بمبئی سے حضور کی زیارت کے لئے آیا تھا اور پانچ سو روپیہ نذرانہ لایا تھا.فرمایا ہمیں اس کے روپیہ کی کیا غرض جب اس کو فرصت نہیں تو ہمیں کب فرصت ہے جب اس کو خدا کی غرض نہیں تو ہمیں دنیا کی کیا غرض ہے.میرا مطلب اس جگہ رقعوں کی تعداد کی طرف ناظرین کو توجہ دلانے کا ہے اور نیز یہ مقصد ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے کبھی بھی اشارہ یا کنا معتہ یا ره

Page 308

تذكرة المهدي 306 حصہ دوم طول کر یہ نہیں فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب نبی اور رسول ہمیں مت لکھا کرو.شیخ یوسف علی تشامی مرحوم و مغفور نے ایک دفعہ آپ کے قدموں کو مسجد مبارک میں بوسہ دیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ منع ہے ایسا نہیں چاہتے تو اس ایک فعل کو آپ نے ناجائز سمجھ کر منع فرمایا اور میں بار بار برسوں یا نبی اللہ یا رسول اللہ آپ کو لکھتا رہا کبھی بھی منع نہ فرمایا..ایک شخص ضعیف العمر جواب وہ بہشتی مقبرہ میں مدفون ہے اپنی موت سے چند روز پہلے گول کمرہ کے سامنے کچھ دن کے لئے اپنے وطن مالیر کوٹلہ جانے کی اجازت طلب کر رہا تھا شیخ غلام احمد صاحب واعظ مولوی محمد علی صاحب مولوی عبد الكريم صاحب مرحوم میاں غلام حسین صاحب رہتای حال قادیان اور خاکسار اور اور احباب بھی تھے.آپ نے فرمایا اب تم ضعیف ہو گئے اور بیمار بھی ہو مت جاؤ زندگی کا اعتبار نہیں اس نے کہا تو خدا کا رسول ہے تو سچا رسول ہے تو بے شک خدا کا رسول ہے میں تجھ پر ایمان لایا ہوں اور صدق دل سے تجھے خدا کا رسول مانا ہے میں تیری نافرمانی اور حکم عدولی کو کفر سمجھتا ہوں بار بار یہ کہتا تھا اور دایاں ہاتھ اٹھا کے اور انگلی سے آپ کی طرف اشارہ کر کے بڑے جوش سے کہتا تھا اور آپ اس کی باتوں کو سن کر بار بار ہنتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ بس اب آرام کرو اور یہیں رہو جانے کا نام مت لو.اس کی آنکھوں سے پانی جاری تھا.یہ کہتا ہو ا مہمان خانہ کو لوٹا کہ اللہ کے رسول کا فرمانا بچشم منظور ہے.ایک صوفی سجادہ نشین نے مجھے خط لکھا کہ مجھے کشف میں بڑا تجربہ ہے اگر مرزا صاحب کو یہ طاقت ہے کہ وہ اہل قبور سے باتیں کرا سکیں تو وہ جس قبر کو میں کہوں اس سے باتیں کر کے اس کا حال دریافت کریں اور بتادیں ورنہ میں بتلادوں گا میں نے حضرت اقدس علیہ السلام سے عرض کیا اور وہ خط دکھایا آپ اس خط کو ہاتھ میں لے کر بہت ہے اور فرمایا جو حیسی و قیوم خدا سے رو ز باتیں کرتا ہے اس کو مردوں سے باتیں کرنے کی کیا غرض ہے یا یہ فرمایا کہ کیا مطلب

Page 309

تذكرة المهدي 307 ہے مردوں سے مردے باتیں کریں اور زندوں سے زندے ہم زندہ ہیں ہمارا مذہب اسلام زندہ ہے ہمارا خدا حیسی و قیوم زندہ خدا ہے.ایک بڑے مشہور و معروف سجادہ نشین صوفی نے مجھے لکھا کہ قادیان میں تم نے جا کر کیا لیا.کبھی آنحضرت ﷺ کی زیارت بھی خواب میں کی ہے یا مرزا صاحب نے کبھی زیارت کرائی ہے مجھ میں اتنی طاقت ہے کہ ایک رات میں آنحضرت ﷺ کی زیارت کرا دیتا ہوں آؤ میرے پاس آؤ میں نے یہ خط حضرت اقدس علیہ السلام کو دیا.اور یہ عرض کیا کہ میں نے اس کا یہ جواب لکھا ہے کہ تم تو خواب میں آنحضرت ﷺ کی زیارت کرانے کے مدعی ہو.ہم پانچ وقت تو بلاناغہ رسول اللہ کی زیارت بچشم سر کرتے ہیں جس میں کوئی شک وشبہ نہیں اور خواب میں تو شک کی بہت گنجائش ہے چونکہ ہمیں آپ کی پانچ وقت نماز میں اور اس کے دوسرے وقتوں میں زیارت ہوتی ہے یہ جواب ٹھیک ہے ؟ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے اور سچ ہے بے شک صاحبزادہ صاحب لکھدو اور قطعی طور پر لکھدو - ہمارا وجود آنحضرت ﷺ کا وجود ہے اور خدا نے خود ہمیں رسول فرمایا ہے اور یہ بھی لکھ دو کہ خواب میں تو شیطان کا بھی دخل ہوتا ہے پھر فرمایا یہ سچ ہے کہ آنحضرت ا کی صورت مبارک پر شیطان نہیں بن سکتا مگر یہ ان لوگوں کے لئے ہے جنہوں نے آپ کو دیکھا اور جنہوں نے نہیں دیکھا شیطان ان کو دھوکا دے سکتا ہے اور یہ بھی لکھو کہ تمام قرآن شریف پڑھ کر.دیکھ لو یہ ذکر کہیں نہیں پاؤ گے کہ کسی نبی ورسول کی خواب میں زیارت کرنی چاہیئے اور نہ یہ ضروری ہے ہاں قرآن شریف ایمان اور تقویٰ اور عبادت سے بھرا پڑا ہے کہ ایمان لاؤ تقویٰ اختیار کرو اوامر کے پابند رہو اور مناہی سے رکے اور بچتے رہو کوئی آیت قرآن شریف میں ایسی نہیں جس میں فرمایا گیا ہو کہ آنحضرت الله کی یا پیغمبروں کی خواب میں زیارت کرو.یہ اور بات ہے کہ اللہ برکت متابعت آنحضرت ﷺ آپ کی یا کسی اور رسول کی زیارت کر او ہے اصل طورة

Page 310

تذكرة المهدي 308 غرض تو اوامر و نواہی کی پابندی اور متابعت سے ہے فرمایا ان لوگوں کو کیا ہوا کہ انہوں نے اصل مقصد کو بھلا دیا انہوں نے اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں رکھا.میں نے یہ سب باتیں لکھ کر ایک خط میں بھیج دیں.ایک واقعہ اور سناتا ہوں جو صادق کاذب کے پرکھنے کا ہر ایک کو معیار مل جاتا ہے ایک شخص سراج الدین نام ساکن دہلی مدرس گورنمنٹ سکول شہر انبالہ نے حضرت اقدس علیہ السلام کے مقابلہ میں وزیر و ندیم امام مہدی ہونے کا دعوی کیا کہ اب امام مہدی آنے والے ہیں اور میں ان کا وزیر و ندیم ہوں جیسا کہ خواجہ حسن نظامی نے بھی لکھا تھا کہ امام مہدی ۳۰ھ میں ظاہر ہو جائیں گے جب ۳۰ھ گزر لئے اور لوگوں نے پوچھا کہ اب بتاؤ تو خواجہ صاحب نے کہا کہ ۳۵ھ میں ہوں گے جب ۳۵ھ بھی چلے گئے تو ۴۰ھ کا وعدہ کیا اب ۴۰ھ میں بھی آٹھ مہینے رہ گئے ہیں دیکھنا چاہئے ان کے مزعوم مہدی کب آتے ہیں.شیخ سعدی نے فرمایا عزیزی که از در گیش سریافت بہتر جا کہ شد هیچ عزت نیافت جو شخص صادق کو چھوڑتا ہے وہ ضرور جھوٹے کے پیچھے دوڑتا ہے میں یہاں سراج الدین کا اشتہار درج کر دینا مناسب سمجھتا ہوں تاکہ اس واقعہ پر پوری روشنی پڑے.اور وہ اشتہار خود اسی کا چھپوایا ہوا میرے پاس موجود ہے.میں نے احتیاط سے رکھا ہوا تھا وہ یہ ہے.

Page 311

تذكرة المهدي 309 نقل بمطابق اصل اشتهار الهامات سراجیہ بسم الله الرحمن الرحيم اے گروہ میرزا ہوشیار ہو خواب غفلت ی زرا بیدار ہو مهددی شمس عرفان سراج دہلوی غیبی ندیم ان کی خدمت میں چلو تو بہ کرد ورنہ خسران میں ہیں تم پڑو سر صدی کا تیں ایک سب نے لکھا اس سے بڑھنے کا نہیں ہرگز ذرا تیں میں باقی رہے اب سات سال تمھیں c پہلے جو ہووے مدعی ہو ظهور مهدیے دیں باکمال جان لو اس کو رہ ہے گا غوی مرزا صاحب کا دعویٰ ہے کہ وہ تقرب الہی میں اپنی آپ نظیر ہیں لیکن ان کا یہ دعویٰ محض لفاظی ہے.اگر وہ حقائق اور معرفت میں کچھ دسترس رکھتے ہیں تو ہمارے مقابلہ میں آویں.اور ہم نقارہ کی چوٹ سے اعلان کرتے ہیں.کہ وہ طبل تھی ہیں ہرگز ہمارے مقابلہ کو نہیں آدیں گے.اگر وہ ہمارے مقابلہ میں آکر اسرار معرفت میں ہم سے سبقت لے جائیں تو ہم ان کو ایک ہزار روپیہ نقد دینے کو تیار ہیں.چونکہ مرزا صاحب ملہم ہونے کے مدعی ہیں اس لئے ان کے مقابلہ میں ہم اپنے الہام شائع کرتے ہیں جو شب و روز ہم پر مثل باران کثیر القا ہوتے ہیں.ہم نے آج تک بمصداق الکرامتہ اولی ان مخفی اپنے الہامات سیوطی وغیرہ نے ۳۰ تک لکھا ہے.

Page 312

تذكرة المهدي 310 کو ظاہر نہیں کیا لیکن ہم بحکم ضرورت اور مصلحت ان کا شائع کرنا اب ضروری سمجھا.اور اخفا کیونکر ہو سکتا ہے کہ عشق و مشک را نتوان نیفتن من انا معک اینما تكون انا امشى معک اینما تمشی.انک المتقين انك من الواصلين انت قمر الاولياء - انت فخر الاولياء انت سراج منير جعلناک سراج و باجا - انك من اولادافخم انک من ولد فاروق اعظم انک تعلوا ولا تعلی.انک تغلب ولا تغلب انا و بینالک ازواجا صالحات ونساء - - قانتات ابکار اوثيبات انا بشر ناک بغلام اسم لطيف انا أمطرنا علیک انوارا اکلون سرشف ربیناک نتبرته الجمالي والجلالي - انك من الذين لا تلهيهم تجارة ولا بيع عن ذكر الله نزلنا علیک انوارا ولایته عیسی و موسی و آدم تمطر علیک فیضان الشمس من الرحمن عند تلاوة الفرقان - انا انا من حسن خاتمته بعض الناس يبرق علیک انوار كقرص الشمس عند ذكر الله الصمد - کشفنا لك عالم الارواح مناما والملكوت کشفا - سنجعلک سراج البند والفنجاب نطلعک و مرجع کل شیخ و شاب فى بن مهدی الموعود الذي بورئيس الاقطاب و وببنا لك من الصحة والعافيه حظا عظيما وفي هذالک فوزا عظيما - اعطیناک جذب الاحسانيه عند الصلوة على نبي الرحمة انا عمون لک فی کل حین و آن انا عصمناک من شر مسيح الدجال انا ارسلنا المبدى الموعود في منامک و شرفناک بلقائد ادخلنا روح في مرتبته نبينا محمد المصطفى الذي هو شمس الضحى وبدر الدجى ونور الهدى خير التقی انک علماء ، غير مرائين و من الفقراء الصابرين من

Page 313

تذكرة المهدى 311 الشاكرين يفوح عنك ريح المسك بعد الوضوء قد خاب من المدينه وخسر خسرانا مبينا ستلبغ ذکرک و اسمک فی اقطار الارض انا اخلصناک سرک و فوادک من شرک - الخفى والجلى نجيناك من المهديين الكاذبين الذين لا دنيا لهم ولادین و تنزل علیک انوار القمريته عند الصلوة على نبي الرحمة - انا عصمناك من الفقر المكب- انا ارسلنا روح رسولنا في منامک مرارا ایک سیلاقی مہدی العربی الفاطمي وتزوره انک تنادم و تصاحب مبدى الموعود العربي جعلناک من اصحاب المبدى الموعود - تكون في زمنه في عيشته راضيته - يمطر على قبرك انوار ولایتہ محمدیہ الانوار يمطر عليك وانت نائم سيكون ولدك - في جيش المبدى الموعود انا جعلناک جواد ارحيما - انا خلقناک علی خلق وجود عظيم انا وضعنافی قلبك نار العشق حريقا اعطیناک جذبه من جذبات الرحمانیہ - يا ايا المرزائیون انكم قوم خصمون - انكم فى الحق يرتابون انكم الى الباطل مائلون قدراغت قلوبكم فلماز الموازاغ قلوبكم الله انا جعلناک نائب المهدى الموعود العربي جعلناک من معاونه واحبائه - يا ايبالمرزائیون انكم تزعمون ان مسیح ابن مریم قدمات کشمیر - بیبات بیبات ان لحی علی السموات عند ربه القدير فتوبوا الى الله من هذا والا عذاب السعير و تصليکم نا ر ا و هو بئس المصير - قد يبلغ ذکرک و اسمک فی اقطار الارض - يبلغ اسمك في اقطار الارض و تشیع ذکرک في اقصاء با يا ايبا المرزائیون انكم قوم عادون أنكم قوم

Page 314

تذكرة المهدي 312 - خصمون انكم من الحق راغبون والى الباطل ماثلون انكم في الحق ترتابون وعن صراط السمتقيم لنا كبون یا ایها المرزائیون انكم تزعمون ان مسيح ابن مریم مات في الكشمير بيبيات بيات انه حی علی السموات عندر به القدير - فتوبوا الى الله والا نذيقكم عذاب السعير - ونصليكم نارا انا بئس المصير - يخرج المبدى الموعود من مدينه و يظهر في مك و يقوم و يعدل في دمشق - ويظبر نائبه عباسی من خراسان بكذا مروى فى احاديث حبیب الرحمن فلا تنكر و لا تول ببا ولا تكن من حزب الشيطان و كن من حزب الرحمن الا ان حزب الله هم الغالبون و حزب الشيطان هم الخاسرون.المشتره خاکسار سراج الدین ندیم مهدی و بشیر مهدی موعود مدرس گورنمنٹ سکول انباله شهر دست بھوشن پریس انباله شهر اس اشتہار کے خاص مشتہر کے قلم کی یہ عبارت لکھی ہوئی تھی (حافظ مرزا صاحب سے کہے کہ مباحثہ یا مقابلہ کرنے) میں نے یہ اشتہار حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سنایا فرمایا صبر کرو خدا تعالیٰ آپ صادق و کاذب میں فیصلہ کر دے گا جب برسات ہوتی ہے بے انتہا کیڑے مکوڑے حشرات الارض پیدا ہو جاتے ہیں اور مٹ جاتے ہیں درخت ثمردار اور پھولوں کے مقابلہ میں گھاس پھونس اگتا ہے مگر باغبان اس کو اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے آنحضرت ا کے مقابلہ میں کئی مدعی نبوۃ اٹھے اس کی عربی سے تو مسلیمہ کذاب ہی اچھا تھا.عیب را ہنر باید.سراج الدین کے دعوے اور الہامات پر کچھ حاشیہ چڑھانے کی ضرورت نہیں.اس اشتہار کے بعد وہ ملازمت سے گیا اور ایسا گمنام ہوا کہ اس کا کہیں پتہ نہ لگا.خدا نے ایسا مخذول کیا کہ اس کا کہیں نشان نہیں چھ سات برس سے اوپر

Page 315

تذكرة المهدي 313 ہوئے میں نے دہلی میں سنا تھا کہ آیا ہوا ہے میں ملنے کو گیا یہ تھا نہیں لوگوں نے کہا کہ شاہ صاحب وہ تو پاگل اور لغو آدمی ہے آپ نے اس کے ملنے کا کیوں ارادہ کیا اور کیوں یہاں آنے کی تکلیف کی.خیر میرا مقصد ملنے سے اور تھا.پھر میں نے کئی بار تلاش کیا کچھ اتا پتہ نہ چلا.ایک دفعہ میں نے قادیان سے کئی سال ہوئے ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ سکول انبالہ کے نام خط لکھا کہ شاید وہاں سے کچھ نشان ملے سو ہیڈ ماسٹر صاحب نے مجھے لکھا کہ ایک دفعہ وہ یہاں آئے تھے پھر معلوم نہیں وہ کہاں ہیں سنا تھا کہ وہ دہلی میں کسی مسجد کی ملاگری و جاروب کشی کرتے ہیں.یہ ہیڈ ماسٹر صاحب ہندو تھے جنہوں نے یہ مجھے لکھا یہ ہوتا ہے ایسوں کا انجام الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ.ایک دفعہ بہت سے احباب دور دور سے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ایک اچھا خاصہ مجمع ہو گیا منجملہ ان کے منشی ظفر احمد صاحب د محمد خاں صاحب و منشی محمد اوڑا صاحب مرحومین مولوی سید محمد احسن صاحب اور خلیفہ اول اور مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنما خواجہ کمال الدین صاحب مولومی محمد علی صاحب ایم اے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب مولوی عبد القادر صاحب رضی اللہ عنہ شیخ غلام احمد صاحب اور لاہور ولودھیانہ کے احباب وغیرہ ہم تھے اس بات پر ذکر چلا کہ بعض اولیاء کرام کو مکاشفہ میں بہت کچھ حالات منکشف ہو جاتے ہیں اور اکثر لوگوں کی نیتوں کا حال بھی معلوم ہو جاتا ہے.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں یہ سچ ہے ہمیں بھی ایک بار حج کے روز کشف میں حج کا نظارہ دکھایا گیا یہاں تک کہ سب کی باتیں اور لبیک اور تسبیح و تحلیل ہم سنتے تھے اگر ہم چاہتے تو لوگوں کی باتیں لکھ لیتے.ایک دفعہ ہمیں یہ الہام ہوا کہ مُملبت الروم فِى أَدْنَى الْأَرْضِ وَ هُم مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ اور مجھے دکھایا گیا کہ اس دعدہ کی آخری آیت تک جس قدر حروف ہیں ان میں اکمل اور اخلص موافقین کے نام بھی مخفی ہیں اور جو اشد

Page 316

تذكرة المحمدي 314 انکار و عناد و مخالفت میں اپنی قوم میں سے ہیں ان کے نام بھی اس میں پوشیدہ ہیں.(یہ سب الفاظ بعينها حضرت اقدس عليه الصلوۃ السلام کے ہیں میرا اس میں ایک بھی حرف نہیں) پھر فرمایا اور میں نے دیکھا کہ ایک شخص نے ادنی الارض پر قرآن شریف میں ہاتھ رکھا ہوا ہے اور کہتا ہے کہ یہ قادیان کا نام ہے ( یہ الفاظ بھی حضرت اقدس علیہ السلام کے ہیں) پھر فرمایا آج ہمیں دکھایا گیا ہے کہ ان موجود اور حاضر لوگوں میں کچھ ہم سے پیٹھ دئے بیٹھے ہیں اور ہم سے روگرداں ہیں اور کراہت کے ساتھ ہم سے دوسری طرف پھیر رکھا ہوا ہے یہ باتیں حضرت اقدس علیہ السلام کی سن کر میں اور دوسرے اکثر احباب ڈر کر خوف زدہ ہو گئے اور استغفار پڑھنے لگے.خیر حضرت اقدس علیہ السلام جب اندر مکان میں تشریف لے گئے اور اندر سے کنڈی لگالی سید فضل شاہ صاحب بہت ہی گھبرائے اور چہرہ فق ہو گیا اور جلدی سے آپ کے دروازہ کی کنڈی ہلائی حضرت اقدس علیہ السلام واپس تشریف لائے مسکرا کر فرمایا شاہ صاحب کیا ہے کیا کام ہے شاہ صاحب نے عرض کیا کہ میں حضور کو حلف تو دے نہیں سکتا کہ ادب کی جگہ ہے اور نہ میں اوروں کا حال دریافت کرتا ہوں صرف میں اپنا حال پوچھتا ہوں کہ روگرداں لوگوں میں میں ہوں یا نہیں.حضرت اقدس علیہ السلام شاہ صاحب کی بات سن کر بہت ہے اور اپنا دایاں ہاتھ اٹھا کر اور ہلا کر فرمایا شاہ صاحب تم ان میں نہیں.شاہ صاحب تم روگردان لوگوں میں نہیں ہو اور پھر ہنستے ہنستے یہ فرما کر دروازہ بند کر لیا.تب فضل شاہ صاحب کی جان میں جان آئی اور تسلی ہوئی اور گھبراہٹ دور ہوئی.شاہ صاحب نے خدا کا شکر کیا.صاحبزادہ پیر منظور محمد صاحب " فرماتے ہیں کہ ایک روز میں اور حضرت اقدس علیہ السلام مسجد مبارک میں بیٹھے تھے میں آپ کے سامنے تھا اور ہم دونوں چپ چاپ بیٹھے تھے آپ کی اس وقت عجیب حالت تھی ایک رنگ آتا تھا اور ایک جاتا تھا بہت دیر تک آپ کی یہ کیفیت رہی پھر آپ نے سر مبارک اٹھایا مصنف قائده سیسرنا القرآن

Page 317

تذكرة المهدى اور فرمایا 315 اب ہمیں اس وقت یہ الہام ہوا.حق خاکسار محمد سراج الحق نعمانی - قادیان ه دوم

Page 317